2014

جنوری ۲۰۱۴ء

شیخ الہند عالمی امن کانفرنسمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
پاکستانی جامعات میں قرآنیات کا مطالعہپروفیسر ڈاکٹر حافظ محمود اختر
نواب صدیق حسن خاں بھوپالی اور ان کی علمی خدماتڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی
امارت اسلامیہ کا قیام اور سقوط ۔ افغان طالبان کا نقطہ نظرادارہ
اسلامی جمہوریت کا فلسفہ ۔ شریعت اور مقاصد شریعت کی روشنی میں (۲)مولانا سمیع اللہ سعدی
دینی رسالے ہائیڈ پارک نہیں بن سکتےفصیح احمد
نیلسن منڈیلا کا انتقالمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مکاتیبادارہ
تعارف و تبصرہادارہ
کھانسی سے وابستہ امراض اور ان سے حفاظتحکیم محمد عمران مغل

شیخ الہند عالمی امن کانفرنس

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

جمعیۃ علماء ہند کی دعوت پر مولانا فضل الرحمن امیرجمعیۃ علماء اسلام پاکستان کی سربراہی میں بھارت جانے والے تیس رکنی وفد کے ساتھ راقم الحروف کو بھارت جانے اور کم وبیش ایک ہفتہ وہاں رہنے کا موقع ملا۔ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی قدس اللہ سرہ العزیز کی زیر قیادت ایک صدی قبل منظم کی جانے والی ’’تحریک ریشمی رومال‘‘ کے حوالے سے جمعیۃ علماء ہند نے صد سالہ تقریبات کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور اسی پروگرام کے تحت ’’شیخ الہند ایجوکیشنل چیرٹی ٹرسٹ‘‘ کے زیر اہتمام ۱۳، ۱۴ دسمبر کو دیوبند میں اور ۱۵ دسمبر کو رام لیلا میدان دہلی میں مختلف نشستوں کا اہتمام کیا گیا جس میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، برما، نیپال، سری لنکا، مالدیپ، ماریشش اور خطے کے دیگر ممالک کے علماء کرام کے علاوہ برطانیہ سے بھی جمعیۃ علماء برطانیہ کے وفد نے شرکت کی۔ سیکڑوں علماء کرام سہ روزہ ’’شیخ الہند امن عالم کانفرنس‘‘ کی خصوصی نشستوں میں شریک ہوئے جبکہ ہزاروں افراد نے عیدگاہ گراؤنڈ دیوبند اور رام لیلا میدان دہلی میں پبلک جلسہ کی صورت میں منعقد ہونے والی عمومی نشستوں میں شرکت کی۔
دار العلوم دیوبند کے مہتمم مولانا ابو القاسم نعمانی، جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا قاری محمد عثمان منصور پوری، جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمن اور دیگر سرکردہ علماء کرام نے کانفرنس کی مختلف نشستوں کی صدارت کی جبکہ خطاب کرنے والے سرکردہ علماء کرام میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، جمعیۃ علماء ہند کے سیکرٹری جنرل مولانا سید محمود اسعد مدنی، اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی اور جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے سیکرٹری جنرل مولانا عبد الغفور حیدری کے علاوہ مولانا مفتی عبد الرؤف (بنگلہ دیش)، مولانا مفتی نور محمد (برما)، مولانا مفتی محمد رضوی (سری لنکا) اور مولانا حافظ محمد اکرام (برطانیہ) بھیشامل ہیں۔ بھارت کے مختلف علاقوں کے ممتاز علماء کرام نے بھی کانفرنس سے خطاب کیا۔
اس موقع پر ’’امن عالم کانفرنس‘‘ کی طرف سے ایک متفقہ اعلامیہ کی منظوری دی گئی جس کی ترتیب و تدوین میں دیگر حضرات کے ساتھ مجھے بھی شریک ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔ جمعیۃ علماء ہند کے سیکرٹری جنرل مولانا سید محمود اسعد مدنی نے یہ اعلامیہ پڑھ کر سنایا جسے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ اعلامیہ درج ذیل ہے:
’’ہند و بیرون ہند کے ممتاز علمائے کرام، دانشوران اور رہنمایانِ ملک و ملت کا یہ عالمی اجلاس برصغیر ہند کی آزادی میں شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ ، ان کے رفقاء اور تمام مجاہدین آزادی کی سنہری خدمات و بے مثال قربانیوں کو یاد کرتے ہوئے اور حضرت شیخ الہند کے عطا کردہ رہنما خطوط کی روشنی میں اپنے اس عہد کا اعلان کرتا ہے کہ:
۱۔ ہم انسانیت کی فلاح و بہبود اور عالمی امن کے قیام کے لیے ہر سطح پر دوستانہ تعلقات اور صلح و آشتی کی راہ ہموار کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہیں گے۔ 
۲۔ اپنے اپنے ملک کی سا لمیت اور وقار کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک دوسرے کی خوشحالی اور خیر سگالی کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ 
۳۔ ہر قسم کے تنازعات کا پر امن ذرائع سے حل تلاش کرنے کے لیے ذہن سازی اور کوشش کریں گے۔
۴۔ اسلام کی نظر میں ہر طرح کا فتنہ و فساد، بد اَمنی و خوں ریزی اور بے قصوروں کو قتل و غارت گری کا نشانہ بنانا، بد ترین انسانیت سوز جرم ہے، اس لیے ہم ہر قسم کی دہشت گردی کی پر زور مذمت کرتے ہیں۔ اور اس بارے میں دارالعلوم دیوبند کے فتوے کی بھرپور تائید کرتے ہیں۔ اور تمام انصاف پسندوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ نہ صرف دہشت گردی سے برأت کریں، بلکہ ان اسباب و محرکات کو بھی ختم کرنے کی فکر کریں، جن کی وجہ سے دنیا میں دہشت گردی پنپتی ہے۔
۵۔ اقلیتوں، ناداروں، کمزور طبقات اور خواتین کے حقوق کی پاسداری کے بغیر خوشحالی، ترقی اور امن کا تصور ناممکن ہے۔ اس لیے ہم انہیں ان کے حقوق دلانے اور سماجی انصاف کی فراہمی کے لیے ہر ممکن جدوجہد کریں گے۔ 
۶۔ اخلاق سوز رسم و رواج، فضول خرچی اور جرائم سے پاک معاشرہ کی تشکیل; خاص کر شراب نوشی، منشیات، عیش پرستی، فحاشی، عریانیت اور جنین کشی کے خلاف تحریک چلانے کے لیے ہم تمام مذاہب کے رہنماؤں اور مصلحانہ تنظیموں کو اشتراک اور تعاون کی دعوت دیتے ہیں۔
۷۔ ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ مسلکی تنازعات میں تشدد اور خوں ریزی اسلامی تعلیمات کے قطعاً خلاف ہیں۔ ہم اس معاملے میں تشدد کی سخت مذمت کرتے ہوئے عہد کرتے ہیں کہ مسلکی تشدد کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
۸۔ حضرت شیخ الہندؒ نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام کے موقع پر جو وقیع خطبہ ارشاد فرمایا تھا، اس کی روشنی میں ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ ملت سے دینی و دنیوی جہالت دور کرنے کے لیے ہر ممکن جدوجہد کریں گے; خاص طور پر اسلامی ماحول میں عصری تعلیم کے ادارے قائم کرنے کی ہر ممکن جدوجہد کریں گے، جیسا کہ جمعیۃ علماء ہند کے سابق صدر محترم امیر الہند حضرت مولانا سید اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ اس موضوع کو مشن بنا کر پورے عالم میں پھیلاتے رہے۔ 
۹۔ ہم یہ بھی عہد کرتے ہیں کہ اہل حق کے تمام دینی اداروں اور تحریکات میں ایک دوسرے کے معاون بن کر رہیں گے۔‘‘
کانفرنس میں اس پروگرام کے پس منظر کے طور پر شیخ الہندؒ کے ایک خطاب کا اہم اقتباس اوردہشت گردی کے بارے میں دار العلوم دیوبند کا ایک فتویٰ پیش کیا گیا جو درج ذیل ہے:
جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے تاسیسی اجلاس منعقدہ ۲۹؍ اکتوبر ۱۹۲۰ء (علی گڑھ) کے خطبہ صدارت میں حضرت شیخ الہندؒ نے فرمایا کہ:
’’میں خیال کرتا ہوں کہ میری قوم اس وقت فصاحت و بلاغت کی بھوکی نہیں ہے۔ اور نہ اس قسم کی عارضی مسرتوں سے اس کے درد کا اصلی داماں ہو سکتا ہے؛ اس لیے ضرورت ہے ایک قائم و دائم جوش کی، نہایت صابرانہ ثبات قدمی کی، دلیرانہ مگر عاقلانہ طریق عمل کی، اپنے نفس پر قابو پانے کی غرض سے ایک پختہ کار بلند خیال اور ذی ہوش محمدی بننے کی۔ 
اے فرزندان توحید! میں چاہتا ہوں کہ آپ انبیاء و مرسلین اور ان کے وارثوں کے راستے پر چلیں اور جو لڑائی اس وقت شیطان کی ذریت اور خدائے قدوس کے لشکروں میں ہو رہی ہے اس میں ہمت نہ ہاریں اور یاد رکھیں کہ شیطان کے مضبوط سے مضبوط آہنی قلعے خداوند قدیر کی امداد کے سامنے تار عنکبوت سے زیادہ کمزور ہیں۔ کامیابی کا آفتاب ہمیشہ مصائب و آلام کی گھٹاؤں کو پھاڑ کر نکلا ہے۔ 
الم، أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ یُّتْرَکُوا أَنْ یَّقُولُوا آمَنَّا وَہُمْ لَا یُفْتَنُونَ، وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکَاذِبِیْنَ o (عنکبوت : ۲۔۳)
ترجمہ: ’’کیا یہ سمجھتے ہیں لوگ کہ چھوٹ جائیں گے اتنا کہہ کر کہ ہم یقین لائے، اور ان کو جانچ نہ لیں گے۔ اور ہم نے جانچا ہے ان کو جو ان سے پہلے تھے، سو البتہ معلوم کرے گا اللہ جو لوگ سچے ہیں اور البتہ معلوم کرے گا جھوٹوں کو۔‘‘
خوف کھانے کے قابل اگر کوئی چیز ہے تو خدا کا غضب اور قاہرانہ انتقام ہے، اور دنیا کی متاع قلیل خدا تعالیٰ کی رحمتوں اور اس کے انعامات کے مقابلے میں کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ 
قُلْ مَتَاعُ الدَّنْیَا قَلِیْلٌ وَالآخِرَۃُ خَیْْرٌ لِّمَنِ اتَّقَی وَلاَ تُظْلَمُونَ فَتِیْلاً (سورہ نساء : ۷۷) 
ترجمہ: ’’کہہ دے کہ فائدہ دنیا کا تھوڑا ہے اور آخرت بہتر ہے پرہیزگار کو اور تمہارا حق نہ رہے گا ایک تاگے کے برابر۔‘‘
مطلق تعلیم کے فضائل بیان کرنے کی ضرورت اب میری قوم کو نہ رہی، کیوں کے زمانے نے خوب بتلا دیا ہے کہ تعلیم سے ہی بلند خیالی اور تدبر اور ہوش مندی کے پودے نشو و نما پاتے ہیں اور اسی کی روشنی میں آدمی نجات و فلاح کے راستے پر چل سکتا ہے، ہاں ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ تعلیم مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو اور اغیار کے اثر سے بالکل آزاد ہو۔ کیا باعتبار عقائد و کیا خیالات کے اور کیا باعتبار اخلاق و اعمال کے اور کیا باعتبار اوضاع و اطوار کے اثرات سے پاک ہو۔ ہمارے کالج نمونے ہونے چاہئیں، بغداد اور قرطبہ کی یونیورسٹیوں کے اور ان عظیم الشان مدارس کے جنہوں نے یورپ کو اپنا شاگرد بنایا اس سے پیشتر کہ ہم ان کو اپنا استاذ بناتے۔‘‘

دہشت گردی سے متعلق دار العلوم دیوبند سے کیا جانے والا ایک استفسار اور اس کا جواب حسب ذیل ہے:

استفتاء:
’’آج کل منصوبہ بند طریقہ پر مذہب اسلام، قرآن پاک اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو دہشت گردی سے جوڑ کر بدنام کیا جا رہا ہے اور قرآنی آیات اور احادیث شریف کو غلط معانی میں ڈھال کر عوام وخواص کو مذہب اسلام سے بدظن کرنے کی مہم پوری شدت سے جاری ہے۔ اس لیے وضاحت فرمائیں کہ امن عالم کے سلسلہ میں اسلام کا واضح موقف کیا ہے؟ اور قرآن وحدیث میں اس بارے میں انسانیت کو کیا ہدایتیں دی گئی ہیں؟
محمود اسعد مدنی

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ

الجواب وباللہ التوفیق:اسلام امن وسلامتی کا مذہب ہے، اس کی نظر میں روئے زمین کے کسی بھی خطہ پر فتنہ وفساد، بدامنی اور خوں ریزی اور بے قصوروں کے ساتھ قتل وغارت گری بد ترین انسانیت سوز جرم ہے۔ قرآن پاک میں کئی جگہ دنیا میں بدامنی پھیلانے سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے: وَلاَ تُفْسِدُواْ فِیْ الأَرْضِ بَعْدَ إِصْلاَحِہَا (الاعراف ۵۶) (اور روئے زمین میں بعد اس کے کہ اس کی درستی کر دی گئی، فساد مت پھیلاؤ) اور ایک جگہ فساد کی مذمت کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا گیا: وَإِذَا تَوَلَّی سَعَی فِیْ الأَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیِہَا وَیُہْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللّٰہُ لاَ یُحِبُّ الفَسَادَ (البقرۃ ۲۰۵) (اور جب وہ (فسادی) پیٹھ پھیرتا ہے تو اس دوڑ دھوپ میں رہتا ہے کہ دنیا میں فساد مچائے اور کسی کے کھیت یا جانوروں کو تلف کر دے اور اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں فرماتے) اور ایک جگہ فرمایا: وَلاَ تَعْثَوْا فِی الأَرْضِ مُفْسِدِیْنَ (البقرۃ ۶۰) (اور دنیا میں فساد نہ مچاتے پھرو)۔ قرآن اور اسلام کی نظر میں ایک قتل ناحق پوری انسانیت کے قتل کے مرادف ہے، کیونکہ یہ دروازہ جب کھل جاتا ہے تو پھر کسی کے قابو میں نہیں رہتا، جبکہ ایک آدمی کی جان بچانا پوری انسانیت کو بچانے کے قائم مقام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: مِنْ أَجْلِ ذَلِکَ کَتَبْنَا عَلَی بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ أَنَّہُ مَن قَتَلَ نَفْساً بِغَیْْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِیْ الأَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعاً وَمَنْ أَحْیَاہَا فَکَأَنَّمَا أَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعاًَّ (المائدہ ۳۲) (اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جو شخص کسی شخص کو بلامعاوضہ کسی دوسرے شخص کے یا بغیر فساد کے جو زمین میں اس سے پھیلا ہو، قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام آدمیوں کو قتل کر ڈالا اور جو شخص کسی شخص کو بچا لیوے تو گویا اس نے تمام آدمیوں کو بچا لیا)۔ اور ایک جگہ واضح طور پر یہ حکم دیا: وَلاَ تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ إِلاَّ بِالحَقِّ (بنی اسرائیل ۳۳) (اور جس شخص کے قتل کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے، اس کو قتل مت کرو، ہاں مگر حق پر)۔

اسلام کی امن پسندی کی انتہا یہ ہے کہ وہ اگرچہ مظلوم کو اپنے دفاع کی اجازت دیتا ہے، لیکن ساتھ میں یہ ہدایت بھی کرتا ہے کہ مظلوم بدلہ لینے میں اپنے حدود سے تجاوز نہ کرے اور بے قصوروں کو نشانہ نہ بنائے۔ چنانچہ ارشاد خداوندی ہے: وَقَاتِلُوا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُونَکُمْ وَلاَ تَعْتَدُوا إِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبِّ الْمُعْتَدِیْنَ (البقرۃ ۱۹۰) (اور جو لوگ تم سے لڑنے کو آئیں، تم بھی ان سے اللہ کے راستے میں لڑو اور حد سے تجاوز مت کرو، بے شک اللہ تعالیٰ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں فرماتے)۔ 
چنانچہ احادیث شریف میں جنگی حالات میں بھی انسانی حقوق کی پوری رعایت رکھنے کی تلقین کی گئی ہے جس کی تفصیلات احادیث میں موجود ہیں۔ علاوہ ازیں اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ خدا کی مخلوق بمنزلہ ایک کنبہ کے ہے۔ جو شخص اللہ کے کنبے پر احسان کرے گا، وہ خدا کے یہاں سب سے زیادہ محبوب ہوگا۔ (بیہقی) ہمارے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو لوگ دوسروں پر رحم کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرتا ہے۔ تم لوگ زمین پر بسنے والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔ (ترمذی، ابوداود)
الغرض اسلام ہر طرح کے بے جا تشدد، بد امنی، خوں ریزی اور قتل وغارت گری کی قطعاً نفی کرتا ہے اور کسی بھی شکل میں اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام کا یہ اصول ہے کہ اچھی اور نیک باتوں میں ایک دوسرے کا تعاون کیا جائے اور گناہ اور ظلم میں کسی کا ساتھ نہ دیا جائے۔ ارشاد خداوندی ہے: وَتَعَاوَنُوا عَلَی الْبرِّ وَالتَّقْوَی وَلاَ تَعَاوَنُوا عَلَی الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (المائدہ ۲) (آپس میں مدد کرو نیک کام پر اور پرہیزگاری پر اور مدد نہ کرو گناہ پر اور ظلم پر)۔
قرآن پاک کی ان واضح ہدایات سے یہ معلوم ہو گیا کہ اسلام جیسے امن عالم کے ضامن مذہب پر دہشت گردی کا الزام لگانا قطعاً جھوٹ ہے، بلکہ مذہب اسلام تو دنیا سے ہر قسم کی دہشت گردی کو مٹانے اور پورے عالم میں امن کو پھیلانے کے لیے آیا ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم‘‘
یہ فتویٰ پانچ سال قبل جاری ہوا تھا۔ اس پر دار العلوم دیوبند کی مہر کے ساتھ مولانا مفتی حبیب الرحمن، مولانا مفتی زین الاسلام قاسمی، مولانا مفتی وقار علی اور مولانا مفتی محمود حسن بلند شہری کے دستخط ثبت ہیں، جبکہ مولانا مفتی حبیب الرحمن کے دستخط کے ساتھ اس کے اجراء کی تاریخ ۲۳؍ جمادی الاولیٰ ۱۴۲۹ھ درج ہے۔
’’شیخ الہند عالمی امن کانفرنس‘‘ کی مختلف نشستوں میں جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا قاری سید محمد عثمان منصور پوری نے اظہار خیال کیا اور رام لیلا میدان کے کھلے جلسے میں خطبۂ صدارت بھی پیش فرمایا۔ راقم الحروف کے خیال میں ان کی گفتگو سب سے زیادہ فکر انگیز تھی۔ انہوں نے اپنے مختلف خطابات میں نہ صرف علماء کرام کو حضرت شیخ الہندؒ کے مشن اور پروگرام سے متعارف کرایا بلکہ عمل کی طرف بھی توجہ دلائی۔ مولانا قاری محمد عثمان کے خطبۂ صدارت کے بعض اہم حصے یہاں افادۂ عام کے لیے نقل کیے جا رہے ہیں:
’’آج اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ علماء آگے بڑھ کر اپنے حصے کا کردار ادا کریں، تاکہ ملک و ملت کی صحیح رہ نمائی ہو سکے۔ ایک متحرک عالم دین کے لیے عوام تک رسائی، دوسروں کے مقابلے زیادہ آسان ہے۔ وہ مختلف حیثیتوں سے عوام کے رابطے میں رہتے ہیں۔ سماج میں عوام کو درپیش مسائل میں مثبت رہ نمائی، وقت کی بڑی ضرورت ہے۔ 
  • ان کی ایک بڑی اہم ذمہ داری اسلام کی بہتر و مثبت شبیہ کو پیش کرنا بھی ہے۔ دہشت گردی مٹانے کے نام پر؛ خصوصاً 9/11 کے بعد سے اسلام کی منفی، دہشت گردانہ اور جارحانہ تصویر پیش کر کے یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اسلام کی موجودگی میں مختلف مذاہب اور فرقے کے لوگ پر امن زندگی نہیں گزار سکتے۔ اس کے ماننے والے عدم برداشت اور علاحدگی و نفرت کے جذبے کے ساتھ رہتے ہیں۔ رہی سہی کسر اس کے جہاد کے تصور و تعلیم نے پوری کر دی ہے۔ اس پروپیگنڈا سے وہ لوگ بھی متاثر ہو جاتے ہیں، جو بالکل خالی الذہن ہوتے ہیں۔ ٹوپی داڑھی والے آدمی کو ایک خاص نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ بچے تک اشارہ کر رہے ہیں کہ اس کا اس خاص گروہ سے تعلق ہے جو دہشت گردی کی کاروائیوں میں لگا ہوا ہے۔ ایسی صورت حال میں اسلام کے تصور امن اور دہشت گردی کی مذمت پر مبنی تعلیمات کو سامنے لانے کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ اہل علم کو یہ بار بار بتانا ہوگا کہ اسلامی شریعت میں ایک بے قصور انسان کا قتل تمام انسانوں کے قتل کے ہم معنٰی ہے۔ اللہ رب العزت زمین پر فساد کو پسند نہیں کرتا ہے۔ فسادی کبھی جہادی نہیں ہو سکتے۔ اس کو دارالعلوم دیوبند اور دیگر تعلیمی و ثقافتی اداروں اور علمائے کرام کی بڑی تعداد نے موقع بہ موقع ظاہر بھی کیا ہے، لیکن اپنی باتوں کو تسلسل کے ساتھ کہنے کی ضرورت ہے۔ 
  • یہ آپ سے مخفی نہیں ہے کہ مخالفین اپنے پروپیگنڈے کو تقویت دینے کے لیے، اقلیتوں کو درپیش مسائل و واقعات کا بھی حوالہ دیتے ہیں کہ مسلم اکثریت والے ممالک میں غیر مسلم اقلیتوں کا جان و مال محفوظ نہیں ہے۔ اس تشہیری مہم کا صحیح توڑ اور مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر ملک کی اقلیتوں کے ساتھ کچھ نہ کچھ مسائل اور مشکلات ہوتی ہیں اور اکثریت جو بذات خود طاقت ہوتی ہے، کی طرف سے نا انصافی و زیادتی ہوتی ہے؛ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ملک میں انصاف اور انسانی حقوق اور کمزوروں کی مدد کے سلسلے میں عمومی رجحان کیا ہے۔ گرچہ علماء کا طبقہ براہ راست اقتدار و حکومت میں عموماً دخیل نہیں ہے، تائم وہ اقلیتوں اور دیگر امور سے متعلق اسلامی تعلیمات کو پیش کرنے کی پوزیشن میں یقیناًہے۔ غیر مذاہب اور اقلیتوں کے حقوق کی رعایت کے سلسلے میں اسلام کے متعلق بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں؛ بلکہ یہ کہا جائے کہ غلط فہمیاں عملاً پیدا کی گئی ہیں۔ بہت سے ممالک جیسے ہندوستان میں مسلمان اقلیت میں ہیں۔ اقلیت کا مسئلہ کسی ایک مذہبی اکائی کا نہیں ہے؛ بلکہ یہ عالمی نوعیت کا مسئلہ ہے، کوئی کہیں اقلیت میں ہے، کوئی کہیں، ہندوستانی مسلمان آئین ہند کے تحت، بحیثیت اقلیت کے اپنے حقوق و اختیارات کے حصول کے لیے برابر جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ اگر عالمی طور پر اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ و رعایت کے سلسلے میں ماحول تیار ہو جاتا ہے تو سب جگہوں کی اقلیتوں کے لیے جدوجہد اور اپنے حقوق حاصل کرنے کی راہ آسان ہو جائے گی۔
  • سماج میں امن کے قیام اور ایک اچھے معاشرے کی تشکیل میں پڑوسی؛ خصوصاً غیر مسلم پڑوسی کے حقوق کی پاسداری و رعایت بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اسلامی شریعت میں ہر قسم کے پڑوسی کا خیال رکھنے کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ حتیٰ کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا لگتا تھا کہ پڑوسی کو وراثت میں شامل کر دیا جائے گا۔ پڑوسی کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ جس طرح پڑوسی، گھر، محلہ اور سفر کا ہوتا ہے، اسی طرح ہر شہر، ضلع، ریاست اور ملک کے لحاظ سے بھی پڑوسی ہوتا ہے۔ اگر شریعت کے مطابق تمام قسم کے پڑوسیوں سے بہتر تعلقات بنا کر اور حقوق کی رعایت کرتے ہوئے زندگی گزاری جائے تو سماج سے فساد، تخریبی کاری اور بد امنی ختم ہو سکتی ہے۔ آج ایک دوسرے کے پڑوسی ممالک میں بہتر تعلقات نہ ہونے کے سبب فوج اور اسلحہ جات کی خریداری پر حد سے زیادہ مالی صرفہ آرہا ہے اور نتیجے میں بہت سے اقتصادی، تعلیمی و تعمیری کام مطلوبہ سطح پر نہیں ہو پاتے۔ پڑوسیوں کے معاملے میں مسلم، غیر مسلم کے درمیان شرعی و اخلاقی لحاظ سے امتیاز کرنا صحیح نہیں ہے۔ بلکہ پڑوسی ہونے اور انسانیت کے ناتے بہتر تعلقات اور حسن سلوک ضروری ہے۔ فرقہ وارانہ فساد اور فرقہ پرستی، باہمی تعلقات کی خرابی اور نفرت و تعصب سے پیداوار فروغ پاتی ہے۔ فرقہ وارانہ فساد اور فرقہ پرستی پر کانفرنس کے عنوان کے مد نظر زیادہ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس لیے ہماری کوشش ان اسباب کو دور کرنے کی ہونی چاہیے، جو فرقہ وارانہ نفرت و تشدد، فساد اور فرقہ پرستی کو جنم اور بڑھاوا دیتے ہیں۔
  • اس سلسلے میں مسلکی تشدد کو بھی ان اسباب سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ فسادات جہاں مذہب و فرقہ کے نام پر کیے جاتے ہیں، وہیں ایک ہی مذہب کے افراد کی طرف سے مسلکی اختلافات کو حد سے باہر لے جانے کے سبب بھی فسادات ہوتے ہیں۔ بے شک مختلف مکاتب فکر والے اپنا موقف دلائل کے ساتھ پیش کر سکتے ہیں، لیکن سماج کے امن میں خلل ڈالنے والے پر تشدد مسلکی اختلافات کا کوئی جواز نہیں ہے۔ مزید یہ کہ مشترک مسائل میں مسلکی اختلافات کے باوجود متحدہ جدوجہد کی پوری گنجائش ہے۔ اس لیے مل جل کر مشترک امور کے لیے اتحاد و اتفاق کے نکات نکالنے کی ضرورت ہے۔
  • ہم اس اہم کانفرنس کے موقع پر ایک دو اور ایسی ضروری باتوں پر بھی شرکاء کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں جو بہتر معاشرہ کی تشکیل میں اہم رول ادا کرتی ہیں۔ موجودہ دور میں ایسے بین مذاہبی مکالمات و مذاکرات بہت ہو رہے ہیں جن میں ایسے امور بھی زیر بحث آتے ہیں جو اختلافات کے کئی پہلو رکھتے ہیں؛ لیکن کچھ مشترک مسائل ایسے بھی ہیں جن پر اتفاق پایا جاتا ہے، صالح معاشرہ کی تشکیل میں تعاون و اشتراک اور عورتوں، بچوں کے حقوق کی حفاظت و رعایت بھی انہیں متفق علیہ اور مشترک باتوں میں سے ہیں۔ مغربی تہذیب و تمدن کے غلبے، جنسی آزادی اور بے راہ روی کی وجہ سے عورتوں، بچوں کی زندگی اور عزت بھیانک طریقے سے پامال ہو رہی ہے۔ سماج میں فحاشی کے سیلاب نے ان کو آزادی دینے کے بجائے غیر محفوظ بنا دیا ہے اور مختلف طریقوں سے جنسی اور جسمانی استحصال ہو رہا ہے۔ شراب سے اس میں مزید شدت پیدا ہوگئی ہے۔ پوری دنیا میں یوم اطفال اور یوم خواتین منائے جاتے ہیں اور ان کو سماج میں طاقت ور بنانے کے لیے مختلف عنوانات سے تحریکات بھی چلتی رہتی ہیں، تاہم ان کی توقیر و تحفظ یقینی ہونے کے بجائے معرض خطر میں ہے۔ یہ ایک حد تک صحیح ہے کہ قانون، جنسی جرائم کو روکنے اور صالح معاشرہ کی تشکیل میں معاون ہوتا ہے، لیکن وہ پوری طرح آدمی کو جرم کے ارتکاب سے روکنے اور صالح معاشرہ کے قیام کے لیے ذہن و دل سے تیار نہیں کر سکتا ہے، اس کے لیے کسی ایسی ہستی کا خوف و تصور ضروری ہے جس سے آدمی کا باطنی رشتہ اور جواب دہی کا احساس وابستہ ہوتا ہے۔ اور یہ کام مذہب کے تصور اور احساس کا ہے۔ مذہب اسلام نے خالق کائنات کے سامنے جزا و سزا کے حوالے سے جواب دہی کے تصور سے اسی طرف توجہ دلائی ہے۔ دیگر مذاہب اور اصلاحی تحریکات سے وابستہ افراد بھی جنسی استحصال، شراب نوشی، تعیش پرستی اور فحاشی کے مضر اثرات کو شدت سے محسوس کرتے ہوئے ان کے خاتمہ اور انسداد میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ کچھ تحریکیں نشہ سے پاک سماج بنانے کے لیے بھی چل رہی ہیں۔ 
ہم اس کانفرنس کے توسط سے جملہ مذاہب اور مصلحانہ تحریکات سے وابستگان کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ سماجی و جنسی جرائم کے خلاف ہمارے ساتھ آئیں۔ ہم اس سلسلے کی چلائی جانے والی تمام تحریکات کی حمایت کرتے ہوئے ہر ممکن تعاون دینے کا یقین دلاتے ہیں، ہم نے چند امور کی طرف، بلا امتیاز مذہب و فرقہ تمام لوگوں کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی ہے۔ وقتاً فوقتاً سامنے آنے والے دیگر ضروری مشترک مسائل میں بھی تعاون لینے دینے کا عمل جاری رہے گا۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہماری کوششوں کے بہتر نتائج مرتب کرے اور عزم و خلوص سے کام کی توفیق مرحمت فرمائے۔‘‘
ہم سمجھتے ہیں کہ دار العلوم دیوبند اور جمعیۃ علماء ہند کے زیر اہتمام شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے حوالے سے ان تقریبات کا انعقاد اور مذکورہ بالا اعلامیہ کی منظوری وقت کی اہم ضرورت تھی جس کے اہتمام پر جمعیۃ اور دار العلوم دونوں مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ ’’شیخ الہند عالمی امن فورم‘‘ مذکورہ بالا اعلامیہ کے عزائم کی تکمیل کے لیے موثر اور مثبت پیش رفت کرے گا جس سے اہم مسائل پر عالم اسلام بالخصوص جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی علمی وفکری راہ نمائی کا مناسب اہتمام ہو سکے گا۔

پاکستانی جامعات میں قرآنیات کا مطالعہ

پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمود اختر

(گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ میں ایم فل علوم اسلامیہ کے طلبہ سے گفتگو۔)

میرے لیے یہ اعزاز کی بات ہے کہ مجھے آپ حضرات سے مخاطب ہونے کا موقع ملا ہے۔ مجھے جو موضوع دیا گیا ہے، وہ ہے ’’پاکستانی جامعات میں قرآنیات کا مطالعہ‘‘۔ یعنی پاکستان کی یونیورسٹیوں کے اندر اس وقت قرآن کریم کے مطالعہ کے حوالے سے جو نصابات موجود ہیں اور جو اس مطالعے کے نتائج ہیں، میں نے ان پر اظہار خیال کرنا ہے۔ لیکن موضوع پر گفتگو سے قبل ایک دو باتیں میں چاہوں گا کہ آپ کے سامنے عرض کر دوں۔ 
ما شاء اللہ آپ لوگ ایم فل کی سطح پر آ گئے ہیں۔ آپ شعوری طور پر اس چیز کا ادراک کریں اور اپنے دل میں یہ احساس پیدا کریں کہ اب آپ بی اے، ایم اے سے اوپر ایک ایسی اسٹیج پر پہنچ گئے ہیں جہاں زمین و آسمان کا فرق پڑ جاتا ہے۔ اب آپ ہائیر اسٹڈی میں آگئے ہیں۔ اب آپ کا مطالعہ اور علمی ذخیرہ اس سے پہلے کا جو دور تھا، اس سے کہیں بہتر ہونا چاہیے اور کہیں زیادہ بلند ہونا چاہیے، آپ کی سوچ کا معیار پہلے سے کہیں بہتر ہونا چاہیے۔ اب آپ اپنے مطالعے اور اپنی سوچ کے اندر اور سوچ کی نہج کے اندر تبدیلی لائیں۔ پہلے آپ ایک چیز سنتے تھے اور سن کر اپنے ذہن میں محفوظ کر لیتے تھے، لیکن اب آپ کے اندر یہ رجحان طبع پیدا ہونا چاہیے، اپنی طبیعت میں یہ رجحان پیدا کریں کہ اب آپ نے محض سنی ہوئی اور پڑھی ہوئی باتوں کو اپنے حافظے کے اندر محفوظ نہیں کرنا، بلکہ جو چیز بھی پڑھیں اور سنیں، اس کے متعلق کیا، کیوں اور کیسے، یہ سوالات بھی اٹھائیں۔ پہلے آپ کی نظر کسی بات کے استناد کا حوالہ یہ تھا کہ یہ فلاں کتاب میں لکھی ہوئی ہے، اب آپ کی نگاہ فوری طور پر اس بات پر آنی چاہیے کہ اس کتاب کا مصنف کون ہے؟ اس نے یہ روایت کس سے لی ہے؟ جس سے یہ روایت لی ہے، اس کا مقام و مرتبہ کیا ہے اور جو بات یہ کر رہا ہے، یہ عقل میں بھی آتی ہے کہ نہیں؟ جو بات یہ کر رہا ہے، وہ ممکن بھی ہے کہ نہیں؟ اگر آپ کے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہوا ہے کہ یہ چیز صحیح بھی ہے یا نہیں تو آپ اس کے صحیح ہونے کا کھوج لگائیں گے۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو کن بنیادوں پر صحیح ہے اور اگر غلط ہے تو کس بنیاد پر غلط ہے۔ اگر آپ کہیں پڑھیں کہ فلاں بزرگ نے ایک رات میں تین مرتبہ قرآن پاک ختم کر لیا تو آپ کے ذہن میں یہ چیز پیدا ہونی چاہیے کہ کیا عملاً اور عقلاً ایسا ممکن ہے؟ آپ کو غور و فکر کرنا ہے۔ تو اپنے اندر یہ تبدیلی پیدا کریں۔ اگر آپ اسی ذہنی لحاظ سے اسی اسٹیج پر رہے جس پر آپ اس سے پہلے ایم اے کے درجے میں تھے تو پھر آپ نے کچھ بھی نہیں پایا، پھر آپ کی شخصیت اور علم کے اندر اور ذہن میں کوئی ارتقا اور improvement نہیں ہوئی۔ 
میں وضاحت کے لیے ایک مثال دیتا ہوں۔ حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ کی اہلیہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! میرے خاوند جو کہ تنگ دست ہیں، کیا میں ان کو زکوٰۃ دے سکتی ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، دے دیا کرو۔ یہ بات ہم سنتے اور پڑھتے آئے ہیں۔ اب آپ کے ذہن میں اس روایت کو پڑھ کر کئی طرح کے سوالات پیدا ہونے چاہییں۔ مثلاً یہ کہ کیا بیوی اپنے خاوند کو زکوٰۃ دے سکتی ہے؟ اگر دے سکتی ہے تو کیوں دے سکتی ہے؟ اور کیا خاوند اپنی بیوی کو زکوٰۃ دے سکتا ہے؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں دے سکتا؟ وہ اسے زکوٰۃ دے سکتی ہے تو یہ کیوں نہیں دے سکتا؟ یہ سوال اٹھائیں۔ پھر اس کے جواب آئیں گے۔ پھر یہ بات ذہن میں آئے گی کہ عورت بھی مال کی ملکیت کا حق رکھتی ہے۔ یہ نہیں کہ وہ عبد اللہ ابن مسعودؓ کی بیوی ہے تو ان کی دولت بیوی کی ہوگئی اور بیوی کی دولت خاوند کی ہوگئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام نے عورت کے معاشی حقوق کو تسلیم کیا ہے۔ جب اس کے حقوق کو تسلیم کیا ہے تو ظاہر بات ہے، اس پر زکوٰۃ بھی آئے گی۔ آپ کے ذہن میں یہ بات بھی آنی چاہیے کہ اس دور میں معاشی تفاوت موجود تھا۔ کوئی امیر تھا، کوئی غریب تھا۔ اور آپ کے ذہن میں یہ سوال بھی آنا چاہیے کہ حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ غربت کا کیوں شکار تھے؟ بیوی کے پاس جو دولت آئی، وہ کہاں سے آئی؟ کیا ان کو جہیز میں ملی؟ کیا کسی نے ہبہ کر دی؟ یا ان کا کوئی کاروبار تھا؟ تو ان ساری باتوں کا جواب آپ تلاش کریں گے تو آپ کے ذہن کا ارتقا ہوگا اور آپ کی سوچ پختہ اور گہری ہوگی۔ 
ہمارے نظام تعلیم کی ایک بہت بڑی کمی ہے کہ ہم اپنے بچوں کے اندر تخلیقی استعداد پیدا نہیں کرتے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم چیزیں رٹتے اور یاد کرتے جاتے ہیں۔ بہرحال اب آپ تخلیقی رجحان پیدا کریں اور جس اسٹیج پر آپ آئے ہیں، اس کے تقاضوں کا ادراک اپنے اندر پیدا کریں اور مطالعے کا شوق پیدا کریں۔ ایک مطالعہ ہوتا ہے بندش کا یعنی مجبوری کا مطالعہ۔ وہ اتنے اثرات مرتب نہیں کرتا جتنا شوق سے کیا گیا مطالعہ اثرات کرتا ہے۔ دیکھیں، مکان بنانے کے لیے بہت سی چیزیں پہلے ضروری ہوتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ زمین ہموار ہو۔ ایسا نہیں کہ کسی جوہڑ میں آپ مٹی ڈال کر اس کو ہموار کر لیں اور اس پر مکان بنانا شروع کر دیں۔ اگر ایسی زمین پر مکان بنائیں گے تو اس کی دیواریں بہت جلد بیٹھ جائیں گی، اس کا فرش بیٹھ جائے گا۔ عمارت کے لیے پہلے بنیاد ضروری ہے۔ اور بھی بہت سی ضروریات پوری کریں گے، ورنہ اس کے اندر سے سیم نکل آئے گی اور وہ مکان کو لے ڈوبے گی۔ اس مثال کا مقصد یہ ہے کہ آپ نے اعلیٰ تعلیم کی عمارت تعمیر کرنی ہے تو اس کے لیے زمین ہموار کرنی ہوگی۔ اپنا مطالعہ وسیع کریں، اپنے اساتذہ سے پوچھیں۔ اگر آپ کا محدود مطالعہ ہے اور آپ کسی سے معلوم نہ کریں تو یہ جہالت کی ایک شکل ہے۔ اس لیے پوچھنے میں کوئی شرم نہیں۔ ہمارے دین میں تو یہ ہے کہ ’’ماں کی گود سے لے کر قبر تک پڑھتے رہیں‘‘۔ تو پوچھنے میں بالکل بھی جھجھک نہیں ہونی چاہیے۔ 
اس سلسلے میں سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ آپ قرآن مجید کی طرف رجوع کریں۔ اگر تلاوت صحیح نہیں کر سکتے تو کسی سے پڑھ لیجیے۔ اس کی تلاوت صحیح کریں۔ پھر اگر آپ کو قرآن مجید کا ترجمہ نہیں آتا تو کسی کے پاس بیٹھ کر ترجمہ پڑھیے۔ اگر آپ خود پڑھیں گے تو اس کا اتنا زیادہ اچھا امپیکٹ نہیں ہوگا۔ یہ باتیں جو میں کر رہا ہوں، ضروری بنیادی باتیں ہیں جن کا لحاظ کرنا بہت ضروری ہے۔ ہمارا اپنا یہ تجزیہ ہے کہ دینی علوم مثلاً قرآن، حدیث اور فقہ اور سیرت طیبہ، ان کا اپنا ایک مزاج ہے۔ کسی نے مجھے کہا تھا کہ یہ قرآن و حدیث اور عربی کرسیوں پر بیٹھ کر نہیں آتی اور انگریزی صفوں پر بیٹھ کر نہیں آتی۔ اس کے لیے ماحول اپنانا پڑتا ہے۔ تو دینی علوم کی خاصیت یہ ہے کہ جب تک استاد کے سامنے بیٹھ کر نہ پڑھے جائیں، یہ دل میں نہیں اترتے۔ بنیادی ضرورت عربی جاننا اور اس پر دسترس حاصل کرنا ہے اور یہ ناگزیر ہے۔ آج تک جو وقت گزر گیا، سو گزر گیا۔ جن کو گزارے کی عربی آتی تھی، ان کا کام چل رہا تھا۔ اب اگلا دور بہت کمپی ٹیشن کا دور ہے۔ اب جس کو عربی نہیں آتی، وہ سمجھے کہ وہ بالکل خالی خالی ہے اور اردو مآخذ سے اسلامیات پڑھنے کے بعد وہ اسلامیات کا اسکالر نہیں کہلا سکتا۔ آپ ایم فل میں آئے ہیں اور ایم فل کی بنیادیں تبھی مضبوط ہوں گی جب آپ عربی زبان میں مہارت پیدا کریں گے۔ اگر عربی نہیں آتی تو کوئی بات نہیں، اس کو ابھی سے سیکھنا شروع کر دیں۔ قرآن حکیم کا ترجمہ اور عربی زبان کو ملا کر اپنے آپ کو تیار کریں۔ کچھ محنت کرنے سے جب آپ کو عربی آنا شروع ہو جائے گی تو آپ کے اندر ایک کانفیڈنس ابھرے گا، انشاء اللہ۔ جن کو عربی آتی ہے، ان میں کانفیڈنس ڈیولپ ہو جاتا ہے، اعتماد پیدا ہو جاتا ہے۔ اللہ کرے جو عربی نہیں جانتے، وہ عربی سیکھ جائیں۔ بعد میں ذرا اپنا جائزہ لیں کہ اگر مجھے عربی نہ آتی ہوتی تو کیا میں عربی کے ان مآخذ سے فیض یاب ہو سکتا تھا؟ 
مجھے بقدر ضرورت عربی آتی ہے، میں اتنا ماہر نہیں ہوں لیکن میں کہا کرتا ہوں کہ مجھے دو چیزوں کی بڑی حسرت ہے۔ ایک یہ کہ میں نے کسی استاد کے سامنے بیٹھ کر حدیث نہیں پڑھی اور دوسرا مجھے ’’فتح الباری‘‘ (شرح صحیح البخاری) کا بہت اشتیاق ہے کہ مجھے یہ ایسے پڑھنی آجائے جیسے میرے ذہن میں ہر چیز مستحضر ہو۔ آپ جب بنیادی مآخذ سے علوم کو پڑھیں گے تو اعتماد پیدا ہوگا۔ قرآن مجید، عربی کے ساتھ ساتھ حدیث کا مطالعہ بھی شروع کریں، اگرچہ آپ ’’معارف الحدیث‘‘ سے ہی آغاز کر لیں۔ ’’بلوغ المرام‘‘ اور ’’الترغیب والترہیب‘‘ سے شروع کردیں۔ ’’مشکوٰۃ‘‘ سے شروع کردیں۔ ان کتابوں کے تراجم موجود ہیں۔ اب تو ان غیر معروف کتابوں کے بھی تراجم موجود ہیں جو پہلے اردو میں دستیاب نہیں تھیں۔ ایک وقت مختص کر لیں کہ کچھ وقت میں نے قرآن مجید اور حدیث نبوی کے مطالعے پر صرف کرنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نصاب بھی رکھ لیں۔ کیونکہ سیرت قرآن و حدیث کا مجموعہ ہے، اس میں صاحب قرآن کی زندگی ہے۔ ان تین چیزوں کو سامنے رکھ کر ابھی سے مطالعہ شروع کر دیں تو انشاء اللہ العزیز آپ کو کوئی دقت پیدا نہیں ہوگی اور اگر اس کے بغیر چلیں گے تو پھر خالی خالی ہی رہیں گے اور اعتماد، کانفیڈنس ڈویلپ نہیں ہوگا۔
اب میں اصل موضوع کی طرف آتا ہوں کہ ’’پاکستان کی یونیورسٹیوں میں قرآنیات کا مطالعہ‘‘ کس انداز میں ہو رہا ہے۔ اس وقت ہماری جامعات میں قرآن کا جو مطالعہ کیا جا رہا ہے، عموماً ہر یونیورسٹی کے اندر نصاب یکساں ہے اور اس کے نصاب میں اصول تفسیر اور قرآنیات یا تفسیر اور متن تفسیر شامل ہیں۔ اصول تفسیر میں جو مرکزی کتاب پڑھائی جاتی ہے، وہ شاہ ولی اللہؒ کی ’’الفوز الکبیر‘‘ ہے۔ یہ ایسی کتاب ہے کہ اس کے بغیر اصول تفسیر کا حصہ cover ہی نہیں ہوتا۔ کتاب ایسی ہے کہ لوگ کہتے ہیں دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ شاہ ولی اللہ نے سمندر کو کوزے میں بند کیا ہوا ہے۔ یہ مبالغہ آرائی نہیں ہے۔ شاہ ولی اللہؒ نے بڑی جامعیت کے ساتھ اس رسالے میں اصول تفسیر کو جمع کیا ہے اور بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو دوسرے علماء نے بیان نہیں کیں، انہوں نے اس رسالہ میں جمع کر دی ہیں۔ ایک جامع کتاب اور اصول تفسیر میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ لیکن ہمارا جو طریقہ تدریس ہے، اس میں کہیں بھی ایسا نہیں کہ ’’الفوز الکبیر‘‘ کو سبقًا سبقًاپڑھا جاتا ہو یا پڑھایا جاتا ہو۔ کتاب اتنی اہم ہے، لیکن ہمارے ہاں تدریس کا جو دورانیہ ہے، اس کے مختصر ہونے کی وجہ سے ’’الفوز الکبیر‘‘ سبقًا سبقًا نہیں پڑھائی جاتی۔ آخر میں طلبہ اس کے نوٹس کی مدد سے تیاری کر کے ایم اے پاس کر جاتے ہیں۔ ہمارا اصول تفسیر کا نصاب الفوز الکبیر کے گرد ہی گھومتا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں چند سالوں سے ہم نے اس کے ساتھ امام ابن تیمیہؒ کا رسالہ اصول تفسیر بھی شامل کیا ہے۔ اسی طرح علوم القرآن پر مولانا گوہر رحمن کی کتاب بھی شامل کر دی ہے تاکہ الفوز الکبیر کے مباحث سمجھنے میں آسانی ہو۔ 
تاریخ تفسیر میں بھی جامعات کا نصاب تقریباً ایک جیسا ہے اور اس میں ہم آہنگی اور مماثلت پائی جاتی ہے۔ پنجاب کے علاوہ بلوچستان اور پشاور یونیورسٹیز کا نصاب ایسا ہی ہے۔ جن کتب تفاسیر کا تعارف کروایا جاتا ہے، وہ بھی ایک ہی ہیں۔ یونیورسٹیوں میں چونکہ دورانیہ تھوڑا ہوتا ہے، اس لیے تاریخ تفسیر کے ضمن میں تفصیل کے ساتھ اصولی باتیں پڑھا دی جاتی ہیں اور باقی چیزیں طلبہ خود ہی تیار کرتے ہیں۔ ان کو نوٹس دے دیے جاتے ہیں یا طلبہ کہیں سے نوٹس حاصل کر لیتے ہیں۔ گویا ان دونوں دائروں، اصول تفسیر اور تاریخ تفسیر کی تدریس میں یونیورسٹیز کے نصاب اور طریقہ تدریس میں زیادہ گہرائی نہیں ہے۔ ابھی چند دن پہلے ہمارے اسلامیات کے پیپرز کے انچارج کہہ رہے تھے کہ طلبہ کے اصول تفسیر اور تاریخ تفسیر کے حصے بہت کمزور ہیں۔ اس لیے کمزور ہیں کہ سارا وقت متن میں گزر جاتا ہے اور معاملہ مطالعے کے لحاظ سے اتنا گہرائی تک نہیں پہنچتا۔ 
متن قرآن مجید کی تدریس کے سلسلے میں، میں معافی چاہتے ہوئے تھوڑا سا تقابل کرنا چاہوں گا۔ دینی مدارس کے ساتھ اگر موازنہ کیا جائے تو دیکھنے میں یہ بات آتی ہے کہ یونیورسٹیز میں جو اسٹڈی ہوتی ہے، اس میں مطالعہ متن کے ساتھ قرآن مجید کا موضوعاتی مطالعہ بھی ہوتا ہے۔ یہ بہرحال تسلی اور اطمینان کی بات ہے کہ ہمارے ہاں آیت کی تشریح مانگی جائے یا ٹاپیکل اسٹڈی کی جائے تو دونوں صورتوں میں مطالعہ گہرا ہوتا ہے اور کوشش یہ کی جاتی ہے کہ اس میں قدیم اور جدید تمام مکاتب فکر سے طلبہ کو واقفیت حاصل ہو۔ یہاں بنیادی طور پر یہ بات آڑے آجاتی ہے کہ ہمارے اکثر طلبہ کو عربی نہیں آتی۔ اب ہم نے پنجاب یونیورسٹی میں اس بات کا اہتمام کیا ہے کہ ساتھ ہی عربی کا ڈپلومہ بھی شروع کر دیا ہے اور طلبہ کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ عربی سیکھیں۔ ایم کے سال اول میں سو نمبر کا ایک پرچہ عربی کا پہلے ہی موجود ہے۔ یہ دونوں چیزیں مل جائیں گی تو امید ہے کہ اس حوالے سے کچھ بہتری آئے گی۔
پنجاب یونیورسٹی میں ہم نے یہ کوشش کی ہے کہ تدریج کے ساتھ ہم بچوں میں عربی پڑھنے کی صلاحیت پیدا کریں اور عربی پڑھنے کی عادت ڈالیں۔ عادت ڈالنے کا ایک طریقہ ہم نے یہ اختیار کیا ہے کہ امتحانی پرچہ اس انداز سے سیٹ کیا جائے کہ بچوں کو مجبورًا عربی پڑھنی پڑے۔ اس سے پہلے زیادہ سے زیادہ یہ تھا کہ خط کشیدہ الفاظ کی تشریح دے دی جاتی تھی۔ اس میں مضمون کے اعتبار سے خط کشیدہ حصے کی تشریح تو ہو جاتی تھی لیکن عربی گریمر میں مہارت نہیں جانچی جاتی تھی۔ پنجاب یونیورسٹی نے اب یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ اگر بیس نمبر کا سوال ہے تو اس میں پانچ نمبر خط کشیدہ حصوں کی صرف ونحو کے اعتبار سے تشریح کے لیے مختص ہیں۔ مثلاً اس لفظ کا باب کون سا ہے، کون سا صیغہ اور مادہ ہے۔ ماضی، مضارع، امر یا نہی ہے۔ طالب علم نے یہ سب کچھ بیان کرنا ہے۔ گویا ایم اے میں اگر ساٹھ نمبر کا پرچہ ہے اور چار سوال ہیں تو ہر سوال میں عربی گریمر کے پانچ نمبر ہیں اور یہ لازم ہوگیا ہے۔ اگر بچے نے عربی گریمر کو حل نہیں کیا تو اس نے پانچ نمبر ضائع کر دیے۔ باقی پندرہ نمبروں میں ا س کی مارکنگ ہوگی۔ اس کے ساتھ ہم نے پنجاب یونیورسٹی میں یہ کیا ہے کہ علامہ وہبہ الزحیلی کی ’’التفسیر المنیر‘‘ کا منتخب متن (دو رکوع) ایم اے کے نصاب میں شامل کر دیا ہے۔ دو رکوع کے تقریباً ساٹھ ستر صفحات بن جاتے ہیں۔ اسی طرح حدیث کے پرچہ میں فتح الملہم (شرح صحیح مسلم) کی کتاب الایمان اور فتح الباری (شرح صحیح بخاری) کا منتخب حصہ بھی شامل کر دیا ہے جنھیں طلبہ عربی میں ہی پڑھیں گے اور عربی ہی میں جواب دیں گے۔ تو یہ ہم نے ایک قدم اٹھایا ہے تاکہ بچوں کو عربی پڑھنے کی طرف متوجہ کیا جائے۔ 
ڈاکٹر حمید اللہؒ عالم اسلام کے بہت بڑے اسکالر تھے۔ میرے علم کے مطابق وہ سات آٹھ زبانوں کے ماہر تھے۔ وہ فرماتے تھے کہ ایک اسلامی اسکالر کو کم از کم بنیادی طور پر عربی اور اس کے ساتھ کم از کم ایک یورپین لینگویج آنی چاہیے۔ اس حوالے سے ہمارے پاس انگریزی ہی بچتی ہے۔ لاہور میں تو چینی زبان سیکھنے کا رجحان بھی کافی ہے۔ لوگ چینی سیکھنے کی طرف بہت جا رہے ہیں۔ ہمارے وزیر اعلیٰ نے جرمنی میں جا کر جرمن زبان میں تقریر کی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں جرمن زبان کا ایک چھوٹا سا شعبہ ہے۔ وہاں سے ہمارے استاد وزیر اعلیٰ صاحب کو پڑھانے آتے ہیں۔ ان میں اتنی استعداد پیدا ہوگئی ہے کہ انہوں نے جرمن میں گفتگو کی ہے، یہ اچھی بات ہے۔ تو انگریزی آنی چاہیے اور جب ہم انگریزی پڑھاتے ہیں یا پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ادھر سے جواب آتا ہے کہ مومنوں کو انگریزی نہیں آتی۔ یہ آنی چاہیے، اس کے بغیر ہم نہیں چل سکتے۔ ہم نے اس حوالے سے بندوبست کیا ہے اور پنجاب یونیورسٹی میں انگریزی کا بھی کچھ حصہ شامل کر دیا ہے جس کا امتحان پاس کرنا طلبہ کے لیے ضروری ہوگا، لیکن ہوگا نان کریڈٹ، یعنی رزلٹ میں شامل نہیں ہوگا۔ 
ہماری یونیورسٹیز میں قرآنیات کا جو مطالعہ ہو رہا ہے، وہ ایک حوالے سے ہمارے لیے اطمینان بخش ہے اور ایک اعتبار سے پریشان کن ہے۔ اطمینان بخش پہلو یہ ہے کہ ہمارا ٹیچر جب کلاس کے اندر لیکچر دیتا ہے تو وہ پانچ سات تفسیریں پڑھ کر آتا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ عربی گریمر کا حصہ ہم نے ہر سوال کے اندر لازم کر دیا ہے۔ اسی طرح پہلے ہمارے ہاں موضوعاتی مطالعے پر مبنی سوالات ہوتے تھے۔ اب ہم نے لازم کر دیا ہے کہ ٹاپیکل اسٹڈی والا سوال نہیں آیا کرے گا۔ مثلاً ’’سورہ نحل کی روشنی میں توحید کے دلائل بیان کیجیے‘‘، یہ سوال نہیں آئے گا بلکہ آیت دی جائے گی اور طالب علم نے یہ تلاش کرنا ہے کہ اس آیت کے اندر کون کون سے سوال ہیں؟ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک آیت میں ایک سے زیادہ موضوعات ہوں۔ بہرحال ہمارے سسٹم میں بظاہر جو اطمینان کا پہلو ہے، وہ یہ ہے کہ ہمارا استاد اگر ایک آیت کی تفسیر کرتا ہے تو پانچ چھ تفسیریں اس نے پڑھی ہوتی ہیں اور اس کے مطابق وہ طلبہ کو پڑھاتا ہے۔ بچوں سے نوٹس بھی تیار کرواتا ہے اور بعض اوقات بچوں کے پاس پہلے سے نوٹس موجود ہوتے ہیں۔ تو اس حوالے سے متن والا سوال خاصا وزنی ہو جاتا ہے۔ اگر میں موازنہ کروں دینی مدارس سے تو ان کا اپنا ایک انداز ہے، ہمارا اپنا انداز ہے۔ یہاں طالب علم کو چار پانچ تفسیروں کا بہرحال علم ہوجاتا ہے کہ مولانا مودودیؒ نے آیت کے بارے میں کیا لکھا ہے؟ بلکہ جب پیپر مارکنگ ہوتی ہے تو اس کے اندر ایک طالب علم جو ترجیحی نمبر حاصل کرتا ہے تو اس میں ایک پوائنٹ یہ بھی ہوتا ہے کہ طالب علم نے کتنی تفاسیر کے ریفرنس دیے ہیں۔ مثلاً مولانا مودودیؒ اس آیت کے بارے میں یہ لکھتے ہیں۔ مفتی محمد شفیعؒ (مصنف معارف القرآن) یہ لکھتے ہیں۔ پیر کرم شاہ (مصنف تفسیر ضیاء القرآن) یہ لکھتے ہیں۔
میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ تقریباً تمام جامعات کے اندر یہ بات موجود ہے اور مجھے اس بات کا مشاہدہ ہے کہ مطالعہ قرآن میں کسی مسلکی رجحان کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا۔ ہمارے ایسے ساتھی موجود ہیں جو پنجاب یونیورسٹی میں پڑھ کر آئے۔ وہ جہاں مولانا مودودیؒ کے حوالے دیتے ہیں، وہاں وہ مفتی محمد شفیعؒ کے حوالے بھی دیتے ہیں۔ جہاں پیر کرم شاہ صاحبؒ کے حوالے ہوتے ہیں، وہاں مولانا امین احسن اصلاحیؒ کے حوالے بھی ہوتے ہیں۔ تو ہمارے ہاں مسلکی رجحانات سے بالاتر ہو کر جو چیز جہاں سے بھی ملتی ہے اور جس صحیح لٹریچر میں سے ہمیں کوئی چیز ملتی ہے، ہم طلبہ کو اس کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ یونیورسٹیز میں متن قرآن کے حوالے سے یہ بڑی حوصلہ افزا چیز ہے کہ اللہ کے فضل سے بڑی مفید اسٹڈی ہوتی ہے۔ اگرچہ وہاں بحث و تمحیص تو نہیں ہوتی، مثلاً یہ مسئلہ کیسے پیدا ہوا، فلاں نے کیا کہا، فلاں نے کیا کہا، اور ان کے کیا دلائل ہیں۔ ایم اے کی سطح پر یہ بات نہیں ہو پاتی، بلکہ کسی کی رائے کا حوالہ دینے اور بیان کرنے پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔ دلائل کی سطح پر تقابل کرنا، یہ ایم اے کی سطح پر نہیں ہو پاتا۔ اس حوالے سے یہ ہمارے مطالعہ قرآن کا بہت مثبت پہلو ہے۔ وسیع المشربی کا مطلب ہے کہ جہاں کہیں بھی کوئی مفید بات ملتی ہے، ہر ایک سے استفادہ کرنا۔ آپ دیکھیے کہ بظاہر کتنا فرق ہے کہ ایک طرف پیر کرم شاہ بریلوی مکتبہ فکر کے ہیں، مولانا مفتی شفیع دیوبندی مسلک کے ہیں، مولانا امین احسن اصلاحی، ان کا الگ تفسیری مکتبہ فکر ہے، لیکن ہمارے ہاں ان سب سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ 
ایک دفعہ میں نے کلاس میں طلبہ کو ’’تدبر قرآن‘‘ پڑھنے سے منع کیا کہ ان کو نہ پڑھنا۔ فوراً ایک طالب علم بولا کہ آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ میں نے کہا کہ پہلے میری وضاحت سن لیں۔ مولانا امین احسن اصلاحی کا تفسیر کا اپنا ایک انداز ہے اور ان کا اپنا تفسیری مسلک ہے۔ میں کہتا ہوں کہ پہلے اپنے اسلاف کا نقطہ نگاہ پڑھ لیجیے! کوئی بندہ عالم نہیں بن سکتا جب تک ’’تدبر قرآن‘‘ نہ پڑھ لے، لیکن ’’تدبر قرآن‘‘ پڑھنے کے لیے ایک علمی سطح چاہیے۔ اگر ہر بندہ اسے براہ راست پڑھے گا تو ہو سکتا ہے، کئی چیزیں اس کے ذہن میں نہ آسکیں۔ لیکن جب آپ تھوڑا سا علمی سطح پر اوپر چلے جائیں گے تو پھر آپ کہیں گے کہ اس تفسیر کے بغیر میں عالم بن ہی نہیں سکتا۔ اس تفسیر کا اپنا ایک مقام ہے۔ تو یونیورسٹی میں ان تمام مکاتب فکر کی تفسیر سے استفادہ کیا جاتا ہے اور کھلے دل سے لوگوں کو سب کچھ سمجھایا جاتا ہے، بشرطیکہ راست فکر کاحامل ہو۔ 
بہرحال ہم نے یہ کیا ہے کہ کچھ تفسیریں مختص کر دی ہیں کہ فلاں سورت اس تفسیر کی روشنی میں اور فلاں اس تفسیر کی روشنی میں پڑھنی ہے اور کوشش کر رہے ہیں کہ بچے کو سوال دیا جائے کہ فلاں آیت کی تفسیر ’’التفسیر المنیر‘‘ کی روشنی میں یا معارف القرآن کی روشنی میں کرو۔ اس طرح طالب علم متعلقہ تفسیر پڑھنے پر مجبور ہوگا۔ ایک قدم ہم نے یہ اٹھایا ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کے اندر چار شعبے اسپیشلائزیشن کے رکھے ہیں۔ ان میں قرآن میں سپیشلائزیشن کا شعبہ ہے۔ اسی طرح فقہ، مطالعہ مذاہب عالم اور حدیث اور سیرت کے شعبے ہیں۔ ایم اے کے دس پرچے ہیں۔ طالب علم کو مذکورہ مضامین میں سے کسی ایک مضمون میں اسپیشلائزیشن کے تین پرچے پڑھنے پڑیں گے۔ اس طرح ہماری یونیورسٹیز میں قرآنیات کی تعلیم مزید پروموٹ ہوگی اور مزید بہتری آئے گی۔ اسی طرح کئی اور پہلووں سے بھی مزید بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ حال ہی میں ہم نے چھ دن کی ورکشاپ کی ہے اور اس میں بہت ساری چیزیں سامنے آئی ہیں۔ اساتذہ مل بیٹھ کر قرآن مجید کے نصابات میں جو عصری تقاضے ہیں، سب سے پہلے ان کا تعین کریں کہ ہم نے بچوں کے سامنے کیا کیا چیزیں لانی ہیں، کن کن چیزوں سے بچوں کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔ یہ اساتذہ پہلے بیٹھیں، نکات متعین کریں، پھر اس پر ڈسکس کریں کہ بچوں کو ان موضوعات پر کیسے علم دینا ہے اور اس پر فیڈ بیک دیں اور جب تک ہم فیڈ بیک کا نظام نہیں بنائیں گے تو اس وقت تک یہ ممکن نہیں کہ ہم اچھے نتائج حاصل کر سکیں۔ 
مثبت پہلووں کے ساتھ ہمیںیونیورسٹیز میں کچھ مسائل کا بھی سامنا ہے۔ مثلاً ایک بہت بڑا مسئلہ طلبہ کے اندر علمی استعداد و صلاحیت پیدا کرنے اور جو وہ پڑھیں، اسے ان کے دماغ میں محفوظ کرنے کا ہے۔ یہ سب کچھ پڑھنے کے بعد ایم اے پاس طالب علم کی لیاقت میں کیا اضافہ ہوتا ہے؟ یہ ہمارے لیے ایک سوال ہے کہ آخر وہ علم جو ہم یونیورسٹیز کے اندر انہیں پڑھاتے ہیں، ان کے ذہنوں میں محفوظ کیوں نہیں ہوتا؟ دینی مدارس میں ایک خاص ماحول ہوتا ہے۔ اس ماحول میں بچے پہلے سے مطالعہ کر کے جاتے ہیں۔ پھر استاد سبق دیتا ہے، پھر وہ سبق کا آپس میں مذاکرہ یعنی تکرار کرتے ہیں تو اس سے چیزیں ذہن نشین ہو جاتی ہیں۔ طلبہ ایک دوسرے سے سنتے ہیں، میں پڑھ رہا ہوں باقی سن رہے ہیں تو اس سے بھی ذہنوں میں چیز محفوظ ہوتی ہے۔ کالجز اور یونیورسٹیز کے اندر یہ چیز موجود نہیں۔ اگر قرآن مجید پکڑا ہے تو وضو کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ اگر وضو کے چکر میں پڑے تو کلاس رہ جائے گی۔ ادب و احترام ملحوظ نہیں۔ میں نے پہلے بھی کہا کہ صفوں پر بیٹھ کر دین آتا ہے اور دین سیکھنے کے کچھ ضروری آداب بھی ہیں۔ یہ سب چیزیں ہوں گی، تب دین کا علم آئے گا ورنہ یہ ساری باتیں اوپر سے گزر جائیں گی۔ یونیورسٹی میں وہ ماحول ہی نہیں ہوتا جو دین کا علم سیکھنے کے لیے ضروری ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے ذہن میں مطالعہ کا مقصد صرف یہی ہے کہ امتحان میں نمبر کیسے لینے ہیں۔ ہم ہدایت لینے یا علم کے حصول کے لیے نہیں پڑھتے۔ ایک چیز ادھر سے سنی اور ادھر سے نکال دی۔ تو نہ ماحول ہوتا ہے اور نہ ہی اعلیٰ مقاصد ہوتے ہیں۔ طلبہ میں قرآنیات اور دیگر علوم کے حوالے سے خود مطالعہ کرنے کا ذوق نہیں ہوتا۔ نوٹس نہیں بنا سکتے، پرانے نوٹس سالہا سال سے چل رہے ہیں۔ ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے پاس کس سال کے نوٹس ہیں؟ چونکہ طلبہ کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا اور انہیں بہت سے کام ہوتے ہیں، لہٰذا زیادہ تر طالبات کے تیار کردہ نوٹس ہی چلتے ہیں۔ ہم اندازہ کر لیتے ہیں کہ ان نوٹس کی کتنے سال عمر ہوگئی ہے، وہی چلتے رہتے ہیں۔ اصل کتابوں اور مآخذ سے پڑھنا مشکل ہے۔ 
ایم فل، پی ایچ ڈی میں یوں سمجھنا چاہیے کہ طالب علموں کے پاس موضوع سے متعلق علم موجود ہے اور اب انھوں نے اس علم کا عملی انطباق کرنا ہے۔ میں ایم فل کو علوم القرآن پڑھاتا ہوں اور میرا اپنا پڑھانے کا طریقہ یہ ہے کہ میں ’’الفوز الکبیر‘‘ کو بنیاد بنا لیتا ہوں۔ ایک تو یہ بڑی بنیادی کتاب ہے، دوسرا ان بچوں نے ایم اے میں اس کو پڑھا بھی ہوا ہے۔ اسی طرح مولانا گوہر الرحمن کی کتاب علوم القرآن بھی آگئی ہے، اس کے اندر بہت زیادہ معلومات ہیں۔ اسی طرح علوم القران پر مولانا مالک کاندھلویؒ اور مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب کی کتابیں ہیں تو میں نے ان کتابوں کو سامنے رکھ کر تیاری کرتا ہوں۔ مثال کے طور پر اسباب نزول کی جو بحث ہے، اس میں ایک تو روایتی انداز ہے کہ ان لوگوں نے اسباب نزول بیان کیے ہیں۔ اسباب نزول کی اہمیت کیا ہے؟ ان کی اہمیت تفسیر قرآن میں کیا ہے؟ یہ تو ایک روایتی سوال ہے۔ میں اس میں یوں سوال کرتا ہوں کہ مولانا اصلاحی فرماتے ہیں کہ بہت سارے تفسیری اختلافات محض اس لیے پیدا ہوگئے ہیں کہ لوگوں نے اسباب نزول کا التزام کیا، لہٰذا کمزور اور ضعیف روایتیں لے لیں۔ مفسرین نے ہر آیت کی تفسیر میں اس کے شان نزول کی روایتیں لانا شروع کر دیں، لہٰذا کمزور روایتیں بھی شان نزول میں شامل ہوگئیں۔ تو میں طلبہ کو یہ اسائنمنٹ دیتا ہوں کہ آپ وہ مقامات تلاش کریں جہاں کمزور روایتیں داخل ہونے کی وجہ سے تفسیری اختلافات پیدا ہوگئے۔ ساتھ ہی مولانا اصلاحیؒ یہ فرماتے ہیں اور بہت سے مقامات پر مولانا نے صحیح فرمایا ہے کہ اگر نظم قرآن کو بنیاد بنایا جائے تو بہت سے تفسیری اختلافات ختم ہو سکتے ہیں۔ میں طلبہ میں یہ کام تقسیم کر دیتا ہوں کہ پانچ، پانچ مقامات تلاش کر کے لائیں جہاں تفسیری اختلافات تھے اور نظم قرآن کی وجہ سے وہ اختلافات ختم ہوگئے۔ 
اسی طرح نسخ کی بحث ہے۔ طلبہ نے اس پر بہت کچھ پڑھ رکھا ہے۔ اس کو بھی مستحضر رکھیں، لیکن اس سطح پر اپنے مطالعہ میں نئے پہلووں کو بھی شامل کریں۔ نئی بات یہ ہے کہ قرآن مجید کے موجودہ نسخہ میں کوئی ناسخ ہے، نہ منسوخ ہے، یہ قرآن مجید بالکل سُچا ہے۔ یہ کس کا نقطہ نگاہ ہے اور اس کے دلائل کیا ہیں؟ میں نے ایک جگہ یہ بات کی کہ اس موجودہ قرآن میں نہ کوئی ناسخ ہے اور نہ ہی منسوخ ہے تو مجھے کہا گیا کہ یہ تو معتزلہ کا نظریہ ہے۔ پوری امت میں واحد شخص ابو مسلم اصفہانی ہے جس نے یہ نقطہ نگاہ اختیار کیا۔ میں نے کہا کہ مجھے معتزلی نہ بنا دینا، میں اپنی بات کی وضاحت کردوں گا۔ تو علمی مباحث میں یہ بھی ڈر ہوتا ہے کہ اگر میں نے فلاں موقف اختیار کیا تو مجھ پر کوئی فتویٰ نہ لگ جائے۔ میں نے طلبہ کو مولانا سعید احمد اکبر آبادی کی کتاب فہم قرآن اور اسی طرح دوسری کتابیں پڑھائیں تو ان کا ذہن کھلا اور وہ اس سوال کو وسعت نظری کے ساتھ سمجھنے کے قابل ہوئے۔ بہرحال طلبہ کو اپنا مطالعہ وسیع کرنے پر مجبور کیا جائے۔ جب تک آپ خود مطالعہ نہیں کریں گے، کوئی قابل سے قابل استاد بھی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ 
آخر میں، میں آپ کا پھر شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے مجھے اپنی معروضات پیش کرنے کا موقع اور اعزاز دیا۔

نواب صدیق حسن خاں بھوپالی اور ان کی علمی خدمات

ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

(خود نوشت ’ابقاء المنن بالقاء المحن‘ کے خصوصی حوالے سے)
نواب صدیق حسن خان سادات قنوج سے تعلق رکھتے ہیں، وہ حسینی سید ہیں (۱) اور ان کے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیچ 33نفوس کا واسطہ ہے۔(۲) یہ خاندان بلادعرب سے ایران کے راستہ ملتان آیا اور وہاں سے اس کی شاخیں دہلی، حیدرآباد اور اودھ منتقل ہوئیں۔ اس خاندان میں متعدد لوگ ائمہ، صلحاء، اولیاء ہونے کے علاوہ دنیوی ثروت ووجاہت سے مالامال ہوئے ہیں۔ (۳) صدیق حسن خان کے والد ماجد سیداولادحسن تھے، جو شیعیت سے تائب ہوکر سنی ہوئے، اور دہلی آکر شاہ رفیع الدین اور شاہ عبدالعزیز سے اکتساب فیض کیا۔ انہوں نے شاہ عبدالعزیز کے ممتاز خلیفہ اور مجاہد کبیرسیداحمدشہید ؒ کے ہاتھ پر بیعت کی اور قنوج اور اس کے اطراف میں ہزارہا آدمی ان کی تبلیغی و اصلاحی کوششوں سے مشرف بہ اسلام ہوئے۔ 
نواب صدیق حسن خان 19جمادی الاولیٰ 1248ھ مطابق 1832ء کو اپنے نانیہال بانس بریلی میں پیداہوئے، پھر ان کی والدہ انہیں قنوج لے کر آئیں۔ صدیق حسن خان ابھی چار پانچ برس کے ہی تھے کہ 1253ھ میں ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ والدہ محترمہ اور والد کے بعض مریدوں کی سرپرستی میں صدیق حسن نے تعلیم وتربیت اور نشوونما پائی۔ والدہ نے ایک معلم کا انتظام گھر میں کیا۔ والد کا کتب خانہ موجودتھا۔ ان کے بڑے بھائی احمد حسن عرشی بھی بڑے لائق فائق اور ذہین تھے۔ صدیق حسن نے ان سے بھی چند کتابیں پڑھیں۔ اس کے بعد فرخ آباد کانپور اور بریلی میں مختلف علماء سے استفادہ کیا اور مواعظ واصلاحی مجالس میں شریک رہنے لگے۔ اس کے بعد دہلی گئے جہاں مختلف علماء سے اخذ علم کیا، بطور خاص صدرالافاضل مفتی محمد صدرالدین آزردہ سے علوم آلیہ کے علاوہ تفسیر وفقہ کی کتابیں پڑھیں۔ دہلی کے علماء ومشاہیر کی زیارت کی اور زیادہ تر اوقات علماء، عقلاء، امراء اور صلحاء کی تربیت میں گزرے۔ نوجوان صدیق حسن کھیل کود، لہوولعب وغیرہ میں کبھی وقت ضائع نہیں کرتے تھے،کیونکہ ان کی والدہ محترمہ ننے بچپن میں بہت ہی اہتمام کے ساتھ ان کی دینی واخلاقی تربیت کی تھی۔(۴)
مفتی صدرالدین آزردہ نے انہیں فراغت کی سند دی، وہاں سے بھوپال آئے، جہاں فقہ الحدیث اور صحاح ستہ کی سند شیخ زین العارفین بن محسن یمانی اور شیخ محمدحسین سے پائی۔ انہوں نے تلمیذشوکانی مولانا عبدالحق نیوتنوی سے بھی اجازت حدیث لی۔ اسی طرح خانوادہ ولی اللٰہی کی سند (بذریعہ مراسلت) مولانا محمدیعقوب نواسہ شاہ عبدالعزیز سے حاصل کی ۔جوانی میں ہی صدیق حسن کو تفسیر وحدیث سے خصوصی شغف پیداہوگیا جو تاحیات برقرار رہا۔

کارگاہ حیات میں

1850ء میں نوجوان صدیق حسن تلاش معاش میں بھوپال آئے۔ وہاں کے مدارالمہام منشی جمال الدین کے ذریعہ تاریخ بھوپال کی تدوین کے لیے آپ کا تقرر ہوا، تاہم جلد ہی اس ملازمت کو چھوڑنا پڑگیا۔ اب وہاں سے ٹونک گئے اور کافی عرصہ وہاں گزرا مگر وہاں کی فضا بھی زیادہ راس نہ آئی۔ اسی اثناء میں نواب بھوپال کا دعوت نامہ پھرملا، اور اب کی اچھے منصب پر تقرر ہوا۔ حتی کہ مدارالمہام نے ، جو صدیق حسن خاں کے ہم مشرب بھی تھے، اپنی صاحبزادی ذکیہ بیگم کا نکاح بھی آپ سے کردیا۔ 1285ھ میں صدیق حسن خان حج بیت کے سفرپر روانہ ہوئے۔ آٹھ مہینے کا یہ سفر ان کے لیے علمی لحاظ سے بڑا مبارک ثابت ہوا۔ حجاز کے علماء سے استفادہ کے علاوہ صاحب سبل السلام علامہ محمد بن اسماعیل الصنعانی کے 25رسالے اپنے ہاتھ سے نقل کرلیے اور متعدد بلند پایہ علمی کتابیں خریدیں۔ صدیق حسن اپنی گراں قدر خدمات کے باعث ارباب حکومت کی نظرمیں پسندیدہ ٹھہرے۔وہ ملکہ بھوپال شاہ جہاں بیگم کے دفتر خاص میں کاغذات وغیرہ پیش کرنے کے سلسلہ میں برابر آتے جاتے رہتے تھے۔ اللہ نے ملکہ کے دل میں آپ کی محبت ڈال دی۔ چونکہ وہ بیوہ تھیں، ان کے شوہر نواب باقی محمد خان کا چندسال پہلے ہی انتقال ہواتھا، اس لیے برطانوی حکومت کی تجویز پر انہوں نے عقدثانی کا ارادہ کرلیا۔ صدیق حسن خان کے علمی مرتبہ، علونسب اور استقامت کردار پر پورے بھروسہ کے بعد انہوں نے 1871ء میں ان سے نکاح کرلیا ،بعد ازاں بیگم صاحبہ کی جانب سے انہیں پچاس ہزار روپے سالانہ آمدنی والی جائداد عطاہوئی۔(۵)
نواب صدیق حسن خان نے ملکہ کے تعاون سے مملکت میں اہم اصلاحات کیں، نفاذ شریعت، علوم کی نشرواشاعت اور بدعات کے خاتمہ کے لیے اہم اقدامات کیے۔پورے 15سال نواب صاحب نے مملکت اور عوام کی دل وجان اور پورے اخلاص کے ساتھ خدمت کی مگر ’’المعاصرۃ اصل المنافرہ‘‘ کے تحت ان کے بہت سے دشمن اور حاسدین بھی پیداہوگئے۔ خاص قرابت داروں میں بھی بعض نے سخت مخالفت کی مثلاً ان کی سوتیلی بیٹی اور ولیۂ عہد سلطان جہاں بیگم بھی ان کے خلاف ہوگئیں، حالانکہ نواب صدیق حسن تاحیات ان سے حقیقی باپ جیسا مشفقانہ برتاؤ کرتے رہے۔ ان کی شکایات انگریز سرکارتک بھی پہنچائی گئیں۔ چنانچہ دشمنوں کی ان ریشہ دوانیوں اور سازشوں کے باعث نواب صاحب کے اختیارات، اعزازات اور القاب واپس لے لیے گئے اور تین سال تک سخت تکلیف اور کوفت کے عالم میں گزرے۔ (۶) تاہم علمی انہماک اور مطالعہ وغیرہ اس مدت میں بھی جاری رکھا۔ البتہ ان کی اہلیہ محترمہ رئیسہ بھوپال شاہجہاں بیگم نے ان کاپورا ساتھ دیا اور پوری وفاشعاری کا ثبوت دیا۔ اسی عالم میں 1307ھ مطابق 1890ء کو نواب صاحب نے دنیا کو خیربادکہا۔ وفات کے کچھ ہی دن بعد ان پر لگے الزامات غلط ثابت ہوئے اور ان کے القاب واعزازات بھی پسِ مرگ واپس کردیے گئے۔

علمی خدمات

علامہ نواب صدیق حسن خان بھوپالی ہندوستان کے ان چند علماء کبار میں سے ہیں، جن سے پورا عالم اسلام واقف ہے۔ وہ ایک نابغۂ روزگار تھے جنہیں جملہ علوم اسلامیہ میں کامل عبور حاصل تھا، لیکن ان کے تخصص کے موضوعات قرآن، علوم القرآن، سنت، فقہ الحدیث اور تصوف تھے۔ انہوں نے کم وبیش 200سے زائد چھوٹے بڑے رسائل اور اصلاحی وعلمی اور تحقیقی کتابیں تالیف کیں جن میں ان کی طبع زاد کم اور تلخیص، تدوین ایڈیٹنگ اور Compilation زیادہ ہے۔ ان میں سے متعدد کتابیں اب مختلف عرب ممالک بطور خاص مملکت قطرسے نہایت آب وتاب کے ساتھ شائع ہوگئی ہیں۔ نواب صدیق حسن کی علمی جلالتِ قدر کے لیے یہ بات کافی ہے کہ علامہ شوکانی کے رسالہ دُرَرِ بہیہ کی ان کی شرح الروضۃ الندیۃ کا محدث عصر علامہ ناصرالدین البانیؒ منجملہ دوسری کتب کے، درس دیا کرتے تھے۔ (۷) متاخرین میں برصغیر کے جن چند بڑے علماء سے عالم عرب بخوبی واقف ہے، نواب صاحب کا شمار انہیں علماء میں ہوتاہے۔ 
عربی زبان میں ان کی حیات و خدمات پر پروفیسر اجتباء ندوی مرحوم نے ایک وقیع کام کیاہے جنہیں اس کام کی تحریک شیخ البانیؒ کے درس میں شرکت سے ملی تھی۔ (۸) نواب صاحب کا بہت بڑا امتیاز یہ ہے کہ برصغیر راست رجوع الی القرآن والسنۃ کی جس فکروتحریک کے اصول ومبادی حضرت امام ولی اللہ الدہلویؒ نے وضع کیے تھے (اپنی متعدد تالیفات خاص کر حجۃ اللہ البالغۃ، القول الجمیل اور الانصاف فی بیان سبب الاختلاف میں)مذاہب فقہ اربعہ میں سے کسی مذہب کی پابندی نہ کرنے اور ائمہ فقہ میں کسی معین امام کی تقلید جامد کے غیرضروری ہونے کے نظریات کی اشاعت میں نواب صدیق حسن نے خوب حصہ لیا اور اس راہ کی تمام پریشانیوں اور فتنوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔
صدیق حسن خان کو بچپن سے ہی پڑھنے اور مطالعہ کا شوق دامن گیرتھا، چنانچہ عربی واسلامی کتب متداولہ اور اسلامی علوم وفنون کی اساتذہ سے باقاعدہ تحصیل کے ساتھ ہی خارجی مطالعہ جاری رکھا۔ اپنی طالب علمی کے زمانہ کے بارے میں رقم طراز ہیں: 
’’اس زمانہ میں ہرکتاب کے دیکھنے اور سمجھنے کا شوق دامن گیررہتاتھا، حتیٰ کہ شعروداستان کی بھی کوئی کتاب خواہ نظم ہو یا نثر ایسی نہیں جس کا ایک بار اول سے آخرتک مطالعہ نہ کیاہو، حتیٰ کہ فسانہ عجائب، مثنوی، میرتقی میر، شعراء ہند کے دواوین، شعراء فارسی کے متداول فارسی دواوین، مثنوی غنیمت زلیخا، سکندر نامہ ابوالفضل، توقیعات اور سہ نثرظہوری وغیرہ کا بھی مطالعہ کیا‘‘۔ (۹)
اسی خارجی مطالعہ کے شوق نے نواب صاحب کو امام محمد بن علی الشوکانی، (جوان کے سب سے محبوب مصنف ہیں) شاہ ولی اللہ الدہلویؒ ،محمد بن اسماعیل الامیر الصنعانیؒ ، امام ابن تیمیہؒ اور ابن القیم الجوزیہ وغیرہ کی کتب اور علوم سے استفادہ تک پہنچادیا۔ اس چیز کی اہمیت اس وقت معلوم ہوگی جب یہ ذہن میں رہے کہ یہ متاخرین علماء صاحب نظر اور مجتہد علماء ہیں۔ ان میں کوئی بھی مقلد جامد نہیں، اور برصغیر میں اس وقت ان علماء کے علوم غیرمتداول، کتابیں نایاب اور ان کے اجتہادات وتحقیقات سے عدم اعتنائی وتغافل کیشی کا رویہ تھا۔ علامہ ابن تیمیہؒ اور ان کے علوم سے استفادہ بھی اولاً شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے شروع کیاتھا اور ان سے برصغیر کو روشناس کرایاتھا۔ پھر نواب صدیق حسن نے اس فکرکوعام کیا۔
نواب صدیق حسن خان کا سب سے بڑا کارنامہ علوم کتاب وسنت کی اشاعت ہے۔ چنانچہ جب بھوپال میں انہوں نے کاروبار سلطنت سنبھالا تو دوسرے صیغوں میں اصلاحات کے ساتھ ہی اس شعبہ پر بھی بہت توجہ کی ۔ممتاز ائمہ اور علماء اسلام کی کتابیں بیرونی ممالک سے منگوائیں، انہیں شائع کیا۔ خود لکھتے ہیں: 
’’میرااکثرمال علوم کتاب وسنت کی اشاعت میں صرف ہواہے۔ میں نے ہرکتاب کو ایک ہزار کی تعداد میں طبع کراکر قریب وبعید کے تمام ممالک میں تقسیم کرایاہے۔ اگرچہ ان پر ہزاروں روپے صرف ہوئے ہیں تاہم کبھی کسی کتاب کی قیمت وصول نہیں کی‘‘۔ (۱۰)
فتح الباری (مکمل) ہندمیں دستیاب نہ تھی، نواب صاحب نے جدہ سے 600روپے میں ابن علان کا قلمی نسخہ خریدلیا اور پھر اس کو مطبع بولاق مصر سے شائع کرادیا، جس پر 50ہزار روپے کا صرفہ آیا۔ اسی طرح انہوں نے تفسیر ابن کثیر کو فتح البیان کے ساتھ شائع کرایا۔ (۱۱)
نواب صاحب نے علامہ ابن حجرعسقلانیؒ ، علامہ ذہبیؒ ، امام شعرانیؒ ، امام منذریؒ ، سفارینیؒ ، حافظ ابن تیمیہؒ ان کے تلمیذ رشید حافظ ابن القیمؒ ، ابن رجب حنبلیؒ ، ابن الجوزیؒ ، سیوطیؒ ، سید محمدبن اسماعیل الامیر الصنعانیؒ ، قاضی محمدبن علی الشوکانیؒ کی تالیفات لاکھوں روپے صرف کرکے منگوائیں، ان کی اشاعت کی اور ان سے استفادہ کو عام کیا، حالانکہ ان میں سے اکثر برصغیر میں متداول نہ تھیں بلکہ عنقائے مغرب کی طرح نایاب ومفقود تھیں۔ (۱۲)
اس کے علاوہ نواب صدیق حسن نے ان میں سے بہت سی کتابوں کے قلمی نسخے یاخود مصنف کے قلم سے لکھے گئے مخطوطے جمع کرلیے خاص کر ابن حجرؒ ، شوکانیؒ اور امیر الصنعانیؒ کی کتابیں، بعض ایسی کتابیں بھی نواب صاحب کے کتب خانہ کی زینت بنیں جن کے سو، دوسو، تین سو، چار سو حتی کہ چھ سات سو اور آٹھ سو برس کے قدیم نسخے بھی تھے۔ ان کے کتب خانہ میں ہزاروں کتابیں جمع ہوگئی تھیں اور ان کا فیض عام ہورہاتھا۔(۱۳)
عرب ممالک میں نواب صاحب کے بہت سے معاونین اسی مقصد پرمامور ومتعین تھے، ان کا کام یہ تھاکہ وہ دیارعرب کے کونہ کونہ کتابیں تلاش کرکے ان کی خدمت میں بھیجتے رہتے تھے۔ (۱۴)
اپنی خودنوشت سوانح عمری ’ابقاء المنن بالقاء المحن‘ میں نواب صاحب نے علوم کی مختلف شاخوں اور فروع میں اپنی پسندیدہ کتابوں کی مختصر سی فہرست بھی دی ہے، جس سے ان کے بلند علمی ذوق، وسعتِ مطالعہ، دراکی، سرعت فہم، قوت اخذ اور تجزیہ کی قوت کا پتہ چلتاہے۔ اس فہرست میں انہوں نے بالترتیب مواعظ میں احیاء علوم الدین للغزالی کو، شروح حدیث میں فتح الباری لحافظ ابن حجرکو، فقہ السنۃ میں قاضی محمد بن علی الشوکانیؒ کی نیل الاوطار، السیل الجرار، وبل الغمام اور اپنی کتاب مسک الختام کو نیز فتح العلام (ان کے صاحب زادہ نور الحسن کی تصنیف) اور اپنی کتاب الروضۃ الندیۃ کو، تفسیرمیں ابن کثیر، فتح القدیر اپنی کتابوں فتح البیان اور ترجمان القرآن کو ،تذکرہ میں طبقات الصوفیۃ شعرانیؒ کو، نیز شعرانی ہی کی لطائف المنن کو اور تراجم میں ابن حجرکی الدررالکامنۃ، شوکانی کی البدر الطالع اور اپنی کتاب التاج المکلل کو بہترین کتاب قراردیاہے۔ (۱۵)

مسلک وفکری منہج

کسی باوثوق ذریعہ سے یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ عبادات وغیرہ میں نواب صاحب مسلک محدثین پر عمل پیراتھے یا فقہ حنفی کے مطابق عمل کیاکرتے تھے۔ تاہم اپنے فکری منہج کے بارے میں نواب صدیق حسن کا ذہن بالکل صاف تھا، انہوں نے صراحت سے لکھاہے کہ ’’میں تو مشہوراہل الحدیث ہوں اور تقویۃ الایمان ورسائل توحید کا پابندہوں‘‘۔ (۱۶)
مسئلہ تقلید کے سلسلہ میں انہوں نے بہت کچھ لکھاہے اور کبھی بھی جادۂ اعتدال نہیں چھوڑا۔ ان کے نزدیک کتاب وسنت مذمت تقلید جامد سے بھرے پڑے ہیں، تاہم ایک عامی اور مقلد جاہل تقلید کرسکتاہے۔جو قرآن وحدیث کے دلائل نہ جاننے کی بناپر ان پر براہ راست عمل نہیں کرسکتا اور کتب فقہ سے بھی منتفع نہیں ہوسکتا بشرط یہ کہ وہ کسی امام کے مذہب پر بالکل اس طرح نہ جم جائے کہ بس اسی کو حق سمجھے کیوں کہ اس طرح کی تقلید سلف سے ثابت نہیں..... تمام دنیا بھی دلیل کے خلاف کہتی رہے تو کہتی رہے معترض پر اس کا جواب واجب نہیں ہوگا۔ (۱۷)
نواب صاحب نے میزان شعرانی کا قول نقل کرکے لکھاکہ ’’فقہاء کا مسائل میں اختلاف تشدید وتخفیف پرمحمول ہے اور سوئے ظن کی بنسبت سب کے ساتھ حسنِ ظن رکھنا سلامتی کا راستہ ہے۔ (۱۸)
مزید لکھتے ہیں: 
’’میں صرف اہل سنت کو فرقہ ناجیہ سمجھتاہوں، شافعی، مالکی، حنبلی، ظاہری اہل الحدیث اور اہل سلوک میں سے کسی کے متعلق گمان بدنہیں رکھتا۔ مجھے معلوم ہے کہ ان میں سے ہر گروہ کے کچھ مسائل خلاف دلائل ہیں اور کچھ موافق نصوص، ان کے بعض فتاویٰ صحیح اور بعض ضعیف ومردود ہیں لیکن حکم اکثر کے مطابق ہوتاہے اقل کے مطابق نہیں۔‘‘ (۱۹)
نواب صدیق حسن خاں کے نزدیک ائمہ سلف پر مخالفت سنت کا طعن کرنا انصاف کا خون بہانا ہے، البتہ ان کے جو مقلد کتاب وسنت کے دلائل واضح ہوجانے کے بعد بھی ان کی محض رائے کی تقلید پر جمے ہوئے ہیں وہ ان کوغلطی پر توسمجھتے ہیں گمراہ نہیں۔ (۲۰)
ان کے نزدیک عبادات ومعاملات میں اہل علم کا اختلاف کفرواسلام کا اختلاف نہیں زیادہ سے زیادہ اسے اجتہاد یا فہم کی غلطی سے تعبیر کیاجاسکتاہے، البتہ اصول دین میں ان کا اختلاف غالباً کفرتک لے جاتاہے اور اسلام میں متعدد گمراہ فرقے اصول وعقائد میں اختلاف کے سبب ہی ہوتے ہیں۔ (۲۱) وہ لکھتے ہیں:
’’میں نے کسی کتاب میں بھی مقلدین مذاہب کے حق میں طعن وتشنیع کا کوئی لفظ نہیں نکالا چہ جائے کہ حضرات ائمہ اربعہ کے حق میں کوئی نازیبا لفظ استعمال کروں.... میرا چاروں ائمہ فقہ، جمیع محدثین جملہ علماء پاک دین کے حق میں اسی طرح کا اعتقاد ہے، جیساکہ صحابہؓ تابعین تبع تابعینؒ اور تمام سلف صالحین کے حق میں ہے ..... بے شک میں اس وقت تک کسی کی مجرد رائے اور اجتہاد کو نہیں مانتا جب تک اسے دلیل سنت کے موافق نہ پاؤں خواہ اس کا تعلق علم ظاہر سے ہو یا علم باطن سے ...... میں معانی آیات واحادیث میں جملہ علماء اکابر، صلحاء اور ائمہ سلف کے اقوال واحوال پر اعتماد کرتاہوں خواہ حنفیہ ہوں یا شافعیہ، حنابلہ ہوں یامالکیہ ،علماء صوفیہ ہوں یا مشائخ طریقت....... رہی بات کہ رد تقلید یا ذم مقلدین سے سوئے ادب لازم آتاہے جو اس کا جواب یہ ہے کہ لازم مذہب کسی کے نزدیک بھی مذہب نہیں۔ طعن تقلید ائمہ دین پر نہیں ہوتا اس لیے کہ وہ تو تقلید کی دعوت نہیں دیتے تھے بلکہ اس سے منع کرتے تھے ..... میں نے فعل تقلید کی تردید کی ہے متعین مقلدین کی نہیں۔۔۔۔ (۲۲) امت مسلمہ میں سے کسی شخص کا اتباع بجز اللہ ورسول کے واجب نہیں ہے اسی وجہ سے سارے سلف تقلید رجال سے منع کرتے آئے ہیں۔‘‘ (۲۳)
مسئلہ تقلید پر نواب صاحب کے زمانہ میں بھی خوب بحثا بحثی جاری تھی، انہوں ننے بھی مخصوص انداز میں اس پر تبصرہ کیا، ان کے مطابق یہ مسئلہ اس لائق نہیں کہ اس پر بحث تضلیل وتکفیرتک پہنچ جائے لکھتے ہیں: 
’’یہ علم اصول فقہ کا ایک جزوی مسئلہ ہے، اور نہایت واضح ہے کہ تقلید اس کو کہتے ہیں کہ آدمی دوسرے شخص کی بات کو حلت وحرمت کے سلسلہ میں بلادلیل ونص شارع قبول کرلے۔ سو یہ بات ظاہرہے کہ سب مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں اور کسی شئی کی حلت وحرمت آپ کے بتائے بغیرمعلوم نہیں ہوسکتی۔ تو اتباع آپؐ ہی کا چاہیے کسی اور شخص کا نہیں، ورنہ اسے پیغمبرماننا پڑے گا۔ اگر کسی مجتہد نے کسی شیے پر اپنے اجتہاد،رائے یا قیاس سے حکم لگایا اور بعد میں کسی دوسرے شخص پر قرآن و حدیث سے دلیل واضح ہوگئی تو وہ مجتہد معذور ہے، لیکن اسے جہدوسعی کا ایک اجر ضرور ملے گا،مگر وہ شخص جسے قرآن یا سنت صحیحہ پہنچ گئی، ہرگز معذورنہ ہوگا اور اگر دیدہ ودانستہ نص کی مخالفت کرے گا تو خدا ورسول کا مخالف ٹھہرے گا... ہم نے فقہ مذاہب اربعہ کی ساری کتابیں دیکھی ہیں۔ کسی امام مجتہد سے یہ بات منقول نہیں کہ ہمارے اجتہاد کے آگے تم قرآن وحدیث کوْ چھوڑ دینا۔۔۔اس صورت میں ظاہر ہے کہ ان کامقلد صحیح وصادق وہی مسلمان ہے جو اس قول حق میں ان کی پیروی کرے، نہ کہ وہ جو ان کے اس قول کی مخالفت کرے ۔۔۔علاوہ ازیں ائمہ اربعہ سے فقہ کے جتنے مسائل منقول ہیں ۔۔۔ وہ سارے احکام قرآن و حدیث کے خلاف نہیں بلکہ سنت صحیحہ سے جتنے مسائل ثابت ہیں، وہ ان چاروں مذاہب کے اندر منتشر اور موجود ہیں۔‘‘ (۲۴)
اتباع ایسی چیز ہے جو شرعاً مامور بہ ہے اور تقلید نصاً منہی عنہ ہے.....
نواب صدیق حسن خاں اہل سنت کے تمام مکاتبِ فکر کو صحیح سمجھتے ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ: 
’’ائمہ اربعہ کے اصول ایک ہیں اور فروعی اختلاف ضلالت وکفر کا موجب نہیں ہوتا...... امت کو ظاہری اور باطنی اعتبار سے کتاب وسنت کی اتباع کا حکم دیاگیاہے اور اللہ ورسول کے سوا کوئی متبوع نہیں، امت کے جس قدر علماء ومشائخ ہیں ان کے اقوال مقبول بھی ہیں اور مردود بھی۔‘‘ (۲۵)
حق مذاہب اربعہ میں دائر ہے منحصر نہیں اس لیے اہل الحدیث، ظاہریہ اور صوفیہ بھی حق پر ہیں بلکہ یہ لوگ حق میں سب سے افضل ہیں۔ (۲۶)
نواب صدیق حسن خاں مسلکی تحزب اور فرقہ بندی سے دورتھے، وہ شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے مسلک اعتدال کے قائل تھے (بعض اختلافات کے ساتھ) کیسے یہ انہیں کی زبانی دیکھتے ہیں:
’’ائمہ اربعہ کے مذاہب پر عبور حاصل کرنے کے بعد میں نے اپنے لیے دلیل کے اتباع کو پسند کیاہے، یعنی دلیل کے اعتبار سے جو مذہب قوی اور صحیح تر ہو، میں اسے اختیار کرتاہوں،خواہ وہ مذہب حنفی ہو یاشافعی، مالکی ہو یا حنبلی۔ میں کسی مذہب کو محض تعصب کے پیش نظر رد نہیں کرتا اور نہ کسی مذہب کو محض خواہش کے مطابق اختیار کرتا ہوں۔ مثلاً مسئلۂ آب میں مذہب مالکؒ زیادہ قوی ہے، تشہد کے صیغوں کے بارے میں امام ابوحنیفہؒ کامذہب زیادہ قوی ہے اور مسئلۂ صفات میں امام احمد بن حنبلؒ کا مسلک سب سے صحیح ہے، لہٰذا میں نے انہیں اختیار کیاہے۔ علی ہذا القیاس میں نے اپنی تمام تالیفات میں اسی قاعدہ کو پیش نظررکھاہے۔ اس اعتبار سے میں اپنے آپ کو حنفی کہوں یا شافعی، مالکی کہوں یا حنبلی تو کذب لازم نہیں آئے گا اور اگر محض سنی کہوں تو بھی بالکل سچ ہے۔ ائمہ اربعہ اور دیگر مجتہدین کا محب اور خادم ہونے کی حیثیت سے اگر میں اپنے آپ کو ان میں سے کسی امام کی طرف منسوب کروں تو بھی درست ہے، چنانچہ سلف امت کی طرف اہل علم کی اکثر نسبتیں اسی قبیل سے ہیں۔‘‘ (۲۷)

سلف سے اختلاف

نواب صدیق حسن خاں چونکہ صاحب رائے اور وسیع النظر عالم تھے، اس لیے علماء سلف سے بعض مسائل میں اختلاف بھی کیاہے۔ لکھتے ہیں:
’’دنیا میں کوئی مؤلف اور مصنف ایسا نہیں ہوا کہ اس پر کسی معاصر یا متأخرنے تنقیدنہ کی ہو۔ ہرفقیہ اور ہرمحدث کی ہرکتاب پر تنقید کی گئی ہے، مثلاً شروح حدیث میں فتح الباری بے مثال ہے، کہاگیا ہے ’’لا ہجرۃ بعد الفتح‘‘ (یعنی فتح الباری کے بعداب اسے چھوڑکرکسی اورکتاب کارخ نہیں کیاجائے گا)۔ اس کے باوجود علامہ شوکانی نے اس کے بعض مقامات پر سخت تنقید کی ہے۔ سید محمد بن اسماعیل صنعانی نے ’’احالات فتح‘‘ میں مؤلف کا نسیان ثابت کیاہے۔‘‘
خود نواب صدیق حسن خاں نے بھی شوکانی کے بعض مسائل پر تنقید کی ہے اور بعض جگہ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ ا ور حافظ ابن قیمؒ کی بعض تقریرات کو بھی تسلیم نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے بارے میں بھی اہل علم سے یہی اپیل کی کہ:
’’میری کتاب کا جومسئلہ کتاب وسنت کی صحیح نص کے خلاف ہو اسے اٹھاکر دیوار پر ماردیں اور جو قرآن وحدیث کے موافق ہو اسے قبول کریں۔‘‘(۲۸)
نواب صدیق حسن خاں کا کہناہے کہ وہ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کا یہ قول تسلیم نہیں کرتے ’’ایک دن نار بھی فنا ہوجائے گی‘‘ شیخ ابن عربی کا یہ قول قبول نہیں کرتے کہ فرعون حالت ایمان میں ہے، البتہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی یہ بات قبول کرتاہوں کہ بدعت اگرچہ حسنہ ہو اس سے ظلمت پیداہوتی ہے اور سنت اگرچہ چھوٹی ہو تو اس سے دل میں نور ہی نور پیدا ہوتا ہے۔(۲۹)
نواب صاحب نے مسک الختام  اور شروح تجریدالصحیحین  میں بہت جگہوں پر مذہب امام عالی مقام امام ابوحنیفہؒ کو راجح لکھاہے اور دوسرے مذاہب کو مذہب مرجوح، ضعیف یا مردود لکھاہے۔ (۳۰) البتہ نواب صاحب کو اپنے علم پر اعتماد کامل حاصل ہوگیاتھا چنانچہ بعض جگہوں پر تحدیث نعمت کے بطور اس کا اظہار بھی کردیا :
’’معاصرین میں سے کسی کو بھی ائمہ اسلام کی کتابوں پر اس قدرعبورحاصل نہیں جتنامجھ کو ہے، کیوں کہ میں نے ہزارہا کتابوں کا مطالعہ کیاہے اور ہرموضوع کی اکثرکتابوں کو از اول تاآخر پڑھاہے، فقہ السنۃ، اصول فقہ اور علم تفسیر میں جو دستگاہ مجھے حاصل ہے وہ کسی اور کو نہیں۔‘‘(۳۱)
’’ایسی کوئی کتاب نہیں جو تالیف ہوئی یا طبع ہوئی یا عرب وعجم کے شہروں میں دستیاب ہوتی ہو اور میرے مطالعے میں نہ آئی ہو، اگرچہ میں اسے اپنے پاس نہ رکھ سکاہوں گا۔‘‘ (۳۲)
یہ بیان کیا جا چکا ہے کہ نواب صاحب طباع مصنف نہیں بلکہ ملخص ہیں۔ ان کی کتابیں علم تفسیر، حدیث، فقہ الحدیث سلوک واحسان، ادب اور تاریخ سے متعلق ہیں،تاہم ان کی بہت سی کتابوں میں متقدمین کے منتخب اقتباسات واقوال ہیں اور بعض میں علماء سلف میں سے کسی مؤلف کی تلخیص البتہ ان میں اپنے بعض فوائد کا اضافہ کیاہے۔ مثلا ان کی تفسیر فتح البیان اصلاً فتح القدیر للشوکانی کی تلخیص ہے، البتہ جابجا دوسری کتب تفسیر سے اضافے کیے ہیں۔ حصول المأمول، ارشاد الفحول شوکانی کی تلخیص ہے۔ مثیر ساکن الغرام الی روضات دارالسلام  ابن قیمؒ کی حادی الارواح کی تلخیص ہے۔ بعض کتابوں کے اردو یا فارسی ترجمے بھی کیے ہیں، ان کی طبع زادتصنیفیں بہت کم ہیں۔ (۳۳) 
نواب صاحب کے پاس چونکہ موہبت خداوندی سے وسعتِ علمی کے ساتھ وجاہت ریاست بھی جمع ہوگئی تھی، اس لیے کتابوں کی نشرواشاعت کا زبردست کام ان کے ذریعہ انجام پایا۔ ہندوستانی علماء میں وہ اس لحاظ سے بہت ممتاز ہیں کہ ان کے حین حیات ہی ان کی تصنیفات بلاد عرب وعجم میں مشہور ہوگئیں، چنانچہ عدن، یمن، صنعاء، زبید، حدیدہ، بغداد، حرمین شریفین، مصر، القدس، دمشق، بیروت، قسطنطنیہ اور فارس تک ان کی کتابیں پہنچیں اور ہر جگہ اہل علم نے ان کو پسندکیا، ان پر تقاریظ لکھیں۔ (۳۴) نواب صاحب نے یہ بھی لکھاہے کہ انہوں نے ائمہ سلف اور علماء سابقین کی کتب سے زیادہ استفادہ کیاہے، کتب خلف سے بہت کم اخذ کیاہے اور بالخصوص معاصرین کی کتب کے مطالعہ کا توبہت کم اتفاق ہواہے۔ (۳۵) لیکن راقم کے خیال میں ان کے اس بیان میں تسامح ہواہے، اس لیے کہ خود انہی کی تصریح کے مطابق محمد بن اسماعیل الامیرالصنعانیؒ اور علامہ قاضی محمدبن علی شوکانیؒ سے انہوں نے زیادہ استفادہ کیاہے جبکہ یہ دونوں ان کے معاصر نہ سہی، لیکن ان سے ذراسا پہلے ہی ہوگزرے ہیں، اور ان دونوں فضلاء کو علمی لحاظ سے انہوں نے شیخ محمد بن عبدالوہابؒ پر ترجیح دی ہے۔ (۳۶)
نواب صاحب نے فکر اسلامی کی خدمات انجام دی ہیں، لیکن انہیں مجتہد یا مجدد ہونے کا ہرگز دعویٰ نہیں تھا، وہ اپنے آپ کو متبع کتاب وسنت کہلانا پسند کرتے تھے۔ بعض لوگ انہیں مجتہدیا مجدد کہدیتے تھے، لیکن نواب صاحب اس قسم کے الفاظ سے سخت پریشان خاطر ہوتے وہ کہتے ہیں :
’’مجھ میں کوئی شرط اجتہاد اور کوئی صورت تجدید نہیں ہے میں مروجہ وظائف علم سے بالکل علیحدہ رہتاہوں، نہ کبھی درس وتدریس کرتاہوں، نہ کسی کو شاگرد بناتاہوں، نہ آج تک کسی فتویٰ پر دستخط کیے، نہ کسی کا مرید ہوں اور نہ کسی کو مرید ومعتقد کرنا چاہتا ہوں، بلکہ خادم کتاب وسنت ہوں۔‘‘ (۳۷)
خلاصہ یہ ہے کہ نواب صدیق صاحب قنوجی بھوپالی ان بڑے علماء میں سے ہیں، جنہوں نے جملہ علوم اسلامیہ کے مطالعہ میں بڑی وسعت پیداکی اور تدوین، تلخیص اور ترتیب وتالیف کے ذریعہ اسلاف کرام کے علوم سے ایک جہاں کو متعارف کرایا، خاص کر برصغیر میں فقہاء محدثین، متاخرین مجتہدین امت اور مشاہیر اسلام کے فکروتجدید کی روشنی پھیلائی، علم اسلامیہ کی اس نشرواشاعت میں ان کا کوئی ثانی اور شریک وسہیم نہیں ہے۔ (۳۷)اس لیے بعض علماء نے ان کو کبار مصلحین ومجددین اسلام میں شمار کیاہے، علامہ عبدالحی الکتانی الجزائری نواب صاحب کے بارے یں لکھتے ہیں: 
وبالجملۃ فہو من کبارمن لہم الید الطولیٰ فی احیاء کثیر من کتب الحدیث وعلومہ بالھند وغیرہا جزاہ اللہ خیراً (ابقاء المنن، صفحہ 362)
پروفیسراجتبا ء ندوی مرحوم نے لکھا ہے:
’’ان کے تمام کارناموں میں ان کا اپنا رنگ وآہنگ، خداداد صلاحیت، گہرامطالعہ اور فکر سلیم اپنی جھلکیاں دکھائے بغیر نہیں رہتا‘‘۔ (۳۹)
نواب صاحب کی فکر کا خلاصہ یہ ہے کہ دلائل کے اعتبار سے زیادہ صحیح، قوی اور احوط طریقہ اختیار کیاجائے اور اہل علم کے اقوال کے مقابلہ میں کتاب وسنت کے دلائل کو ہر حال میں ترجیح دی جائے، اختلافی مسائل میں حتی الامکان مختلف مذاہب فقہیہ کے درمیان جمع وتطبیق کی راہ کو تلاش کیا جائے۔ (۴۰) یہی اصل میں حقیقی فکر اسلامی ہے، اور اس کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔یہ وضاحت بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ فرقہ اہل حدیث میں جوجمودفکرپایاجاتاہے اوروہ ائمہ اربعہ خاص کرامام ابو حنیفہ ؒ کی جوتنقیص کررہے ہیں ا، س کے پیشِ نظران کا اپنے آپ کونواب صدیق حسن خاں کی طر ف منسوب کرناحقیقت سے دورمعلوم ہوتاہے۔ نواب صاحب کی فکر اور علمی خدمات پر کام ابھی کم ہواہے۔ ضرورت ہے کہ ان کے سرمایہ فکر کے مختلف پہلوؤں کو جائزہ وتحقیق کا موضوع بنایاجائے۔

مصادرومراجع

۱۔ نواب صدیق حسن خاں سیادت وشرافت نسب کے تصور کو تو درست سمجھتے ہیں اور کفائت کے لیے اسے ضروری جانتے ہیں، تاہم اپنی خودنوشت میں جابجا اس بات کا واضح اظہار کیاہے کہ ’’تقویٰ کے بغیر یہ شرف قطعا نفع بخش نہیں‘‘ یہ فخرکی نہیں ذمہ داری کی بات ہے، اور باعمل غیرسید بے عمل سید سے افضل ہے‘‘ اسی طرح انہوں نے بے عملی کے ساتھ سیادت کے غرور وتعلی کو سخت ناپسند کیاہے اور اس بارے میں سخت الفاظ لکھے ہیں۔ دیکھیے ابقاء المنن صفحہ 43تا 47(بڑی عمدہ بحث ہے)اور صفحات70,195۔
۲۔ پوراشجرۃ نسب ملاحظہ ہو ابقاء المنن، صفحہ 32
۳۔  نفس المصدر، صفحہ 33۔
۴۔ نواب صاحب نے والدہ محترمہ کی بڑی تعریف کی ہے۔ ان کے طریق تربیت کے بارے میں لکھاہے: میں سات برس کاتھا، میرے گھرکے دروازے پر مسجد تھی۔ مجھے خوب یاد ہے کہ صبح کے وقت اذان ہوتے ہی والدہ مرحومہ مجھے بیدار کردیتیں اور وضوکراکے مسجد میں بھیج دیتی تھیں اور گھر میں کبھی نماز پڑھنے دیتی تھیں۔ اگرنیند کی سستی کی وجہ سے نہ اٹھتا تو منہ پر پانی ڈال دیتی تھیں۔ اس وجہ سے بچپن ہی سے نماز کی عادت پڑگئی۔ شاید دس برس کی عمر میں والدہ نے روزہ رکھوایا اور اس وقت سے روزہ رکھنے کی عادت پڑگئی۔ (ابقاء المنن بالقاء المحن نواب صدیق حسن قنوجی اسلامک اکیڈمی لکھنؤ، طبع ثانی 2004، صفحہ52)۔
۵۔ مولاناحکیم سیدعبدالحی الحسنیؒ رائے بریلوی، نزہۃ الخواطر:ج8،صفحہ189,90
۶۔ اس سلسلہ میں ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ نواب کے خاندان کے افراد خاص کر ولیہ عہدسلطان جہاں بیگم اپنی والدہ رئیسۂ بھوپال اور نواب صدیق حسن سے اس لیے ناراض تھیں کہ انہوں نے خاندان سے باہرشادی کرلی۔ لیکن یہ کوئی قوی بات معلوم نہیں ہوتی۔ ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ انہیں یہ غلط فہمی ہوگئی تھی کہ صدیق حسن اپنے بیٹوں کو تخت کا وارث بناناچاہتے ہیں۔ لیکن آخر میں یہ بات بھی غلط ثابت ہوگئی۔ نواب صاحب نے خود اپنی خودنوشت میں متعددجگہ اس کا تذکرہ کیا ہے کہ ریاست وامارت سے طبعاً انہیں کوئی رغبت ودلچسپی نہیں ہے۔ وہ تو اسے عطائے خداوندی سمجھتے تھے اور ایک آزمائش بھی۔ 
بعض اہل علم نے نواب صاحب کی مخالفت کی توجیہ اختلاف مسلک میں تلاش کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سلطان جہاں بیگم نہ صرف کٹرحنفیہ تھیں بلکہ اکابرعلماء دیوبند سے ارادت کا تعلق بھی رکھتی تھیں۔ علامہ شبلیؒ نے جب ’’سیرت‘‘ کے لیے مالی امداد کی اپیل کی تھی توانہوں نے پہلے سیرت النبی کا مسودہ منگوایا اور اسے اپنے شیخ، شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندیؒ کی خدمت میں ملاحظہ کے لیے بھیجا۔ جب شیخ الہند کے تلمیذخاص مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے اس کے بارے میں بلند کلمات کہے تب سیرت کے لیے امداد منظور ہوئی۔ نواب صاحب کے حاسدوں نے ان کے بارے میں بہت سی افواہیں اڑائی تھیں۔ مثلاً یہ کہ وہ تقلید کے مخالف ہیں۔ ائمہ اربعہ کو برا بھلاکہتے ہیں، کرامات اولیا کے منکر ہیں وغیرہ۔ حالانکہ ان تمام الزامات کی تردید اور وضاحت نواب صاحب نے اپنی خودنوشت ابقاء المنن میں کردی ہے۔ پھربھی معاندانہ پروپیگنڈہ سے ولیہ عہدکا متاثر ہوجانا بعید ازقیاس نہیں ہے۔
۷۔ ملاحظہ ہو ابراہم محمدالعلی، محمد ناصرالدین الالبانی محدث لعصر ناصرالسنۃ، ص:29، دارالعلم دمشق، الطبعۃ الثانیۃ، 2003۔
۸۔ جیساکہ پروفیسرمحمداجتباء ندوی مرحوم نے نواب صدیق حسن پر عربی میں اپنی کتاب کے مقدمہ میں تحریرکیاہے۔
۹۔ ملاحظہ ہو ابقاء المنن بالقاء المحن خودنوشت سوانح نواب صدیق حسن خان، تسہیل محمد خالدسیف تصحیح ونظرثانی قاری نعیم الحق، ناشر نواب صدیق حسن قنوجی اسلامک اکیڈمی لکھنؤ، ص:60۔
۱۰۔ نفس مصدر صفحہ78
۱۱۔  نفس مصدر صفحہ 73
۱۲۔  نفس مصدر 73
۱۳۔ نفس مصدر 69
۱۴۔ پروفیسراجتباء ندوی تاریخ فکراسلامی، المرکز العلمی، نئی دہلی، صفحہ 180 طبع 1998ء۔
۱۵۔ ابقاء المنن بالقاء المحن، صفحہ:69
۱۶۔ صفحہ:300
۱۷۔ صفحہ:83
۱۸۔ صفحہ:159
۱۹۔ صفحہ:83
۲۰۔ صفحہ:83
۲۱۔ صفحہ:84
۲۲۔ صفحہ:269-268
۲۳۔ صفحہ:267
۲۴۔ صفحہ:161-160
۲۵۔ صفحہ:90
۲۶۔ ملاحظہ ہو ابقاء المنن بالقاء المحن خودنوشت سوانح عمری (اردو) نواب صدیق حسن خاں بھوپالی، صفحہ:91
۲۷۔ صفحہ:93-92
۲۸۔ صفحہ:183 ۔ ایک جگہ انہوں نے لکھا: ’’میری اکثرتالیفات نہایت تحقیق سے لکھی گئی ہیں.... میں نہیں کہتا کہ میں نے جو کچھ لکھاپڑھاہے، اس میں کوئی نسیان نہیں ہواہوگا،بلکہ ہرتالیف میں ضرور خطائیں ہوں گی (صفحہ 81) نیز اسی طرح کی بات اس کتاب کے صفحہ 284پر لکھی ہے۔
۲۹۔ یہی کتاب، صفحہ 183-182
۳۰۔ صفحہ:268
۳۱۔ صفحہ:96
۳۲۔ صفحہ:331
۳۳۔  اسی بات کا اعتراف نواب صدیق صاحب نے خود بھی کیاہے۔ ایک جگہ لکھا: میری اکثر تالیفیں آثارسلف وعلماء راسخین کی مؤلفات کے تراجم (ترجموں) پر مشتمل ہیں۔ (صفحہ 184 وہی کتاب) وہ اپنے آپ کو ائمہ سابقین اور علماء امت کا حمال ونقال بتاتے ہیں۔ (ایضاً)
۳۴۔ وہی کتاب صفحہ:75
۳۵۔ صفحہ:65
۳۶۔ صفحہ:271
۳۷۔ صفحہ:167
۳۸۔ نواب صاحب نے اپنے مصارف سے جوعلمی کتابیں اور رسائل چھپواکر اہل علم اور طالبان حق کو مرحمت کیں ان کی تعداد تقریباً 5ہزار تک پہنچتی ہے۔ ملاحظہ ہو ابقاء المنن، صفحہ337
۳۹۔ پروفیسراجتباء ندوی، تاریخ اسلامی، صفحہ175، المرکز العلمی، نئی دہلی۔
۴۰۔ ابقاء المنن بالقاء المحن، نواب صدیق حسن خاں (اردو) صفحہ:88

امارت اسلامیہ کا قیام اور سقوط ۔ افغان طالبان کا نقطہ نظر

ادارہ

(زیر نظر سطور امارت اسلامیہ افغانستان کے سرکاری ترجمان ماہنامہ ’’شریعت‘‘ کے شمارہ نومبر/ دسمبر ۲۰۱۳ء میں ’’۱۵؍محرم: افغان عوام کی فتح کا دن‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے ایک مضمون سے ماخوذ ہیں۔ امارت اسلامیہ اور القاعدہ کے مابین تعلق کی نوعیت کے ضمن میں افغان طالبان کے موقف کے حوالے سے اہمیت کے پیش نظر اس حصے کو یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔ اہل دانش کی طرف سے اس موضوع پر سنجیدہ تجزیاتی تحریروں کو خوش آمدید کہا جائے گا۔ مدیر)

طالبان تحریک کا ظہور وقت اور حالات کا ایک مثبت رد عمل تھا۔ یہ ایک مسلح تحریک تھی جس نے افغانستان کو ٹوٹنے، بکھرنے، فسادات سے تباہ ہونے اور طوائف الملوکی کا شکار ہونے سے بچا لیا او رمسلمانوں کو صدر اسلام کی ایک حقیقی خوب صورت تصویر دکھا دی۔ یہی اسباب وعوامل تھے جو تحریک کے آغاز کا باعث بنے۔

طالبان کو کون لایا؟ 

یہ وہ سوال ہے جس کا جواب بہت آسان اور بہت واضح ہے۔ وہ یہ کہ طالبان ایک اسلامی اور قومی احساس کی بنیاد پر سامنے آئے ہیں۔ نہ انھیں کسی نے ورغلایا ہے اور نہ یہ باہر کا کوئی وارداتی گروہ ہے، بلکہ یہ حالات کا وہ فوری رد عمل تھا جس کے ریشے بہت کم وقت میں عوام کے بھرپور تعاون کی بدولت سپین بولدک سے اسلام قلعہ، تورخم اور شیر خان بندرہ تک پھیل گئے، جس نے اپنے ہم وطنوں کو قوم پرستی کی بجائے اخوت، بھائی چارے اور امن کا پیغام دیا۔
نہ کسی بیرونی جنرل نے اسے منظم کیا، نہ لندن کے سفارت خانے یا کسی اور بیرونی محور کے اشارے، دولت یا اسلحوں سے اس تحریک کی تنظیم سازی کی گئی۔ اگر کچھ مزید تحقیق میں جائیں تو تحریک اسلامی طالبان بہت پہلے سے ’’جمعیت طلبہ اہل السنت والجماعت‘‘ کے نام سے موجود تھی۔ اس تنظیم کی صوبائی، ضلعی اور علاقائی شوریٰ بھی فعال تھی۔ روس کے خلاف لوگوں کے جہادی جذبات بہت گرم تھے۔ ایک عینی شاہد کے طور پر وہ رکنیت فیس یا ماہانہ چندہ اب بھی مجھے یاد ہے جس کی ادائیگی زمانہ طالب علمی میں تہی دستی اور کس مپرسی کے باوجود صرف اس تحریک کو مضبوط کرنے کے لیے ہم کرتے تھے۔ اسی دور میں جنوبی علاقوں میں طلبہ کے بڑے بڑے جہادی محاذ پہلے سے موجود تھے جو کمیونسٹوں کی شکست کے بعد غفلت اور لاپرواہی کا شکار ہو کر غیر منظم ہو گئے تھے اور کسی نئی تحریک اور بیداری کے منتظر تھے۔ دینی مدارس اور جامعات میں جمعیت طلبہ اہل السنت والجماعت کی تحریک اور طلبہ کے سابقہ جہادی محاذ ساتھ ساتھ کام کر رہے تھے۔ ایک اسلامی امارت کے قیام نے ان جماعتوں اور محاذوں کو ایک نتیجے پر منتج کر دیا، اس لیے طالبان تحریک کی اٹھان کے اسباب اجنبی نہیں، داخلی تھے جس نے ایسی روشن تحریک کی شکل اختیار کر لی۔

طالبان کے مالی اور عسکری مآخذ 

امریکی جارحیت کے خلاف جاری حالیہ جہاد کے دوران امارت اسلامیہ کے مجاہدین کے جتنے مالی منابع اور مآخذ کام کر رہے ہیں، پہلے اس سے بھی زیادہ تھے، اس لیے کہ ملک کے مخلص صاحب حیثیت اور عسکری حضرات کے پاس جو اسلحہ اور رقم تھا، وہ انھوں نے طالبان تحریک کے حوالے کر دیا، اس لیے کہ وہ جنگجو فسادیوں سے تنگ آ چکے تھے۔ وہ جن کی جان، مال، عزت اور ناموس کو غیر قانونی شدت پسند جنگجووں سے خطرہ تھا، انھوں نے طالبان کے ساتھ کسی قسم کا تعاون کرنے سے گریز نہیں کیا۔

طالبان اور شیخ اسامہ بن لادن شہید رحمہ اللہ 

اس میں شک نہیں کہ شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ ایک عالمی مجاہد اور تمام اسلامی ممالک کی آزادی کے قائل تھے۔ ان کا خیال تھا کہ فلسطینیوں کو اپنا حق دیا جانا چاہیے۔ جزیرۂ عرب سے خارجی افواج کو نکالا جائے اور افغانستان میں بھی ایک اسلامی نظام کا قیام ہونا چاہیے۔ مگر یہ بات کسی کو بھولنی نہیں چاہیے کہ شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ طالبان سے پہلے بھی افغانستان میں موجود تھے۔ عبد اللہ عزام شہید رحمہ اللہ کے ہمراہ روسیوں کے خلاف سالہا سال تک بے دریغ قربانیاں دیں اور اسی وقت سے کچھ جہادی تنظیموں کے ان کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے۔ طالبان نے اگر پوری جواں مردی اور بہادری سے آخری سانسوں تک ان کی حفاظت کی اوربالآخر اپنی سلطنت بھی اس پر قربان کر دی تو اس کی وجہ صرف اور صرف دین اسلام کا حکم اور افغانی روایات تھیں، طالبان نے آخری سانس تک جس کی لاج رکھی اور ہر طرح کے سیاسی اور فوجی دباؤ کو مسترد کیا۔ ایسی بات کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ طالبان نے شیخ اسامہ کو عالمی تحریکوں اور کارروائیوں کے حوالے سے کوئی ہدایات دی ہوں۔ وہ یہاں ایک مہمان تھے اور عالمی مسائل میںآزاد تھے۔ وہ یہاں تھے تو اپنے عالمی جہادی منصوبے وہ خود ترتیب دیتے تھے۔ طالبان نے کبھی اس میں دخل نہیں دیا اور نہ طالبان کو اس حوالے سے کوئی اطلاع ہوتی تھی۔

نیو یارک کا واقعہ اور طالبان کی بے خبری 

جب عالمی تجارتی مرکز اور پینٹاگون پر حملہ ہوا تو طالبان نے اس سے بے خبری ظاہر کی۔ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح انھیں بھی حیرت تھی کہ یہ واقعہ کس نے ترتیب دیا تھا؟ بلکہ اس حوالے سے امارت اسلامیہ نے ایک مذمتی اعلامیہ بھی نشر کر دیا۔ جارج ڈبلیو بش جو پہلے سے امارت اسلامیہ کو برداشت نہیں کر پا رہا تھا، اسے اچھا موقع ہاتھ آ گیا۔ اس نے عالمی دنیا میں اعلان کر دیا کہ یا تو ہمارے ساتھ ہو جاؤ یا القاعدہ کے ساتھ۔ ایک پریس کانفرنس میں تو اس نے صلیبی جنگ کے آغاز کے الفاظ بھی استعمال کیے جس پر بعد میں شدید تنقید بھی کی گئی۔ امارت اسلامیہ افغانستان پر حملہ کیا گیا۔ یہ اس دور کی اپنے طرز کی ایک انتہائی غیر متوازن جنگ تھی، مگر طالبان نے اس جنگ کو بھی پیٹھ نہیں دکھائی۔ آج یہ اپنی شکست کا خواب دیکھ رہے ہیں، انھیں رسوائی کا سامنا ہے۔ افغانستان پر حملہ ایسے حالات میں کیا گیا کہ انھیں نہ گیارہ ستمبر کی خبر تھی اور نہ وہ اس میں ملوث رہے تھے۔

اسلامی جمہوریت کا فلسفہ ۔ شریعت اور مقاصد شریعت کی روشنی میں (۲)

مولانا سمیع اللہ سعدی

مساواتِ عامہ اور آزادی

لبرل جمہوریت میں ریاست کے تمام باشندے جنسی،مذہبی،سیاسی اور معاشرتی ہر اعتبار سے مساوی سمجھے جاتے ہیں اور ہر ایک کو ہر قسم کے افعال،اعمال اور نظریات اختیار کرنے کی آزادی حاصل ہوتی ہے ،بشرطیکہ یہ آزادی امنِ عامہ اور ریاست کے نظم و نسق میں رکاوٹ نہ بنے۔جمہوریت کی اسلام کاری میں اس اصول میں درج ذیل ترامیم کرنی ہوں گی:
1۔اسلامی تعلیمات کی رو سے بھی علاقہ،رنگ و نسل اور زبان کے اعتبار سے انسان مساوی حیثیت رکھتے ہیں،البتہ اسلام انسانوں کو مومن اور کافر دو بڑے گروہوں میں تقسیم کرتا ہے ۔اسلامی ریاست میں کفاراور غیر مسلموں کو بنیادی حقوق ملتے ہیں اور دنیا کا کوئی نظام اقلیتوں کو اس طرح کے حقوق فراہم نہیں کرتا ،جیسا کہ اسلام نے فراہم کیے۔البتہ اسلامی ریاست کے بنیادی مقاصد میں سے دین اسلام کی حفاظت،اشاعت اور اس کا دفاع ہے ، اس لیے جمہوریت کی اسلام کاری میں ریاست کی نظر میں تمام مذاہب برابر نہیں ہوں گے ،بلکہ اسلامی اقدارکازیادہ سے زیادہ فروغ اور غیر اسلامی تہذیب و ثقافت سے اسلامی معاشرے کو پاک کرنا ریاست کی بنیادی ذمہ دریوں میں شامل ہوگا۔
2۔دوسرے مذاہب والوں کو تو انفرادی طور پر اپنے مذہب پر عمل کی مکمل اجازت ہو گی ،لیکن اپنے مذہب کی تشہیر،تبلیغ اور معاشرے میں اپنی ثقافت کی ترویج ممنوع ہوگی۔اسلامی ریاست میں مذاہبِ باطلہ کی ترویج کا کوئی تصور نہیں ہے اور نہ ہی اسلامی تعلیمات کی رو سے ایک مسلم معاشرے میں مذاہبِ باطلہ کو تبلیغ کی اجازت ہے۔
3۔لبرل مغربی جمہوریت میں جنسی مساوات یعنی مرد و زن کو ہر طرح سے مساوی درجہ دیا گیا ہے ،جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عورت ووٹ دینے ،رکنِ پارلیمنٹ بننے ،کرسی اقتدار پر بیٹھنے اور سیاسی جماعت کی سربراہ بننے میں مر د کے بالکل مساوی ہے ،اسی طرح زندگی کے دوسرے شعبوں اور کاموں میں عورت اور مرد برابر ہیں ،جو کام مرد کر سکتاہے، جمہوری نظام میں مساوات کی خاطر عورت بھی اسے سرانجام دے سکتی ہے ۔جبکہ اسلام مردو زن میں مساوات کی بجائے حفظِ مراتب اور دائرہ کار کی تقسیم پر زور دیتا ہے اس لیے اسلامی جمہوریت میں عورتوں کے لیے ایسا مناصب قطعاً ممنوع ہوں گے ،جو شریعت کی رو سے صرف مرد کے ساتھ خاص ہیں ۔اسی طرح عورت کو ایسے کاموں کی بھی اجازت نہیں ہو گی جو اسلامی تعلیمات اور مقاصدِ شریعت سے ہم آہنگ نہ ہوں ۔
4۔لبرل مغربی جمہوریت میں ملکی باشندے ہر فعل،قول،نظریہ اور رائے کے اظہار میں مکمل آزاد ہوتے ہیں ،لہذا جمہوریت کی اسلام کاری کرتے وقت مطلق آزادی کے حدود طے کرنے ہوں گے۔حدود و قیود کی تعیین قابلِ بحث ہو سکتی ہے ،لیکن مکمل آزادی اسلامی تعلیمات سے کسی طرح سے بھی ہم آہنگ نہیں ہے۔

اختیارات کی تقسیم اور حکومت کی مدت

اسلامی نظامِ خلافت میں اگرچہ اختیارات کا منبع اور مرکز خلیفہ کی ذات ہوتی ہے ،لیکن اختیارات کی تقسیم کے خلاف بھی نص نہیں ہے ،اس لیے اباحتِ اصلیہ کے اصول پر اس کے جواز کی گنجائش نکل سکتی ہے کہ اختیارات انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ میں تقسیم ہوں ،کیونکہ اختیارات کا منبع ایک ذات ہو یا الگ الگ ،مقاصدِ شریعت پر خاص فرق نہیں پڑتا ،اس میں اصل مسئلہ اختیارات کا شریعت کی روشنی میں صحیح استعمال ہے ،خواہ سارے اختیارات ایک شخص کے پاس ہوں یا اشخاص اور اداروں میں تقسیم ہوں۔
البتہ حکومت کی خاص مدت مقرر کرنا قابلِ بحث ہے۔ اس سلسلہ میں درجہ ذیل گزارشات پیشِ خدمت ہیں۔
1۔ سیاستِ شرعیہ اور اسلامی ریاست پر لکھنے والے فقھاء اور سیاسی مفکرین مثلاً علامہ ماوردی ،قاضی ابو یعلیٰ ،امام جوینی،امام ابن تیمیہ،شاہ ولی اللہ اور دیگر فقھاء نے عزل الامام کے ممکنہ طریقوں پرتفصیل سے بحث کی،لیکن کسی ایک مفکر اور فقیہ نے اختتامِ مدت کوعزل کے طرق میں شمار نہیں کیا۔اور نہ ہی پوری اسلامی تاریخ میں کبھی خلیفہ کی مدتِ حکومت مقرر ہوئی ہے ،کہ اس کے بعد امام خود بخود معزول ہو،گویا حکومت کی مدت کا تقرر ایسا مسئلہ ہے ،جس کی نظیر ہماری علمی،فکری اور سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی۔اس لیے اس کے جواز کے لیے شاید محض اتنی بات کا فی نہ ہو کہ نصوص اس بارے میں ساکت ہیں،کیونکہ پوری اسلامی تاریخ اور قدیم فقہی ذخیرے کو یکسر نظر انداز کرنا دقیق غور وفکر اور طویل سوچ بچار کا متقاضی ہے۔اگر مقاصدِ شریعت کی روشنی میں اس مسئلہ کا جائز لیا جائے تو درج ذیل باتیں سامنے آتی ہیں۔
۱۔جب ایک امیر اصولوں کے مطابق نظامِ حکومت چلا رہا ہے، تو صرف مخصوص مدت کے گزرنے پر اسے معزول کرنا محلِ نظر ہے ،خصوصاً جب اس کے عزل کی صورت میں اثارتِ فتنہ اور نا اہل افراد کی امارت کا خدشہ ہو۔
2۔حکومت کی مدت مقرر کرنے کی صورت میں ریاست میں ایک قسم کا اضطراب سا رہتا ہے ،کیونکہ سازشی عناصر، کرپٹ طبقہ اور غیروں کے آلہ کار کسی نہ کسی طریقے سے اگلی مدت میں برسرِ اقتدار آنا چاہتے ہیں جس کے لیے خفیہ منصوبے اور موجودہ حکومت کے خلاف رائے عامہ کی ہمواری کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔لیکن جب حکومت کی باقاعدہ مدت مقرر نہیں ہو گی تو یہ طبقہ مایوس ہو گا اور اسلامی ریاست میں حصولِ حکومت کی خاطر انارکی پھیلانے سے گریز کرے گا۔
3۔حکومت کی مدت مقرر کرنے میں یہ مسئلہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ملک کے سرکردہ افراد اور کسی نہ کسی حوالے سے حکومت کے اہل اشخاص کے دوران اندرونِ خانہ رسہ کشی اور سرد جنگ جاری رہتی ہے اور ہر کوئی اگلی مدت میں حکومت کے حصول کے لیے سرگرم رہتا ہے اور معاشرے کے بگاڑ کی صورت میں رسہ کشی کھلم کھلا نفرت اور عداوت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ لہٰذا حکومت کی مدت کا تقرر ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا موجودہ حالات ،عالمی تناظر، اسلامی ریاست کی مخصوص ساخت اور مقاصدِ شریعت کی روشنی میں دقت اور باریک بینی سے جائزہ لینا ہوگا۔ جمہوریت کی اسلام کاری میں لبرل مغربی جمہوریت کی اتباع میں تمام خدشات و عواقب سے بے پرواہ ہو کر حکومت کی چاریا پانچ سال کی مدت کا تقرر نہیں ہوگا،بلکہ نفسِ مدت کے تقرر اور تحدیدِ مدت دونوں مسئلوں کے بارے میں مقاصدِ شریعت کو سامنے رکھ کر کوئی نیا لائحہ عمل اختیار کرنا ہو گا۔

جمہوریت کی اسلام کاری کی بحث کا خلاصہ

اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ لبرل مغربی جمہوریت کے تقریبا تمام اصول اسلامی تعلیمات سے یا تو کلی طور پر متصادم ہیں یا مقاصدِ شریعت، اسلامی ریاست اور اسلامی معاشرے کی ساخت اور مزاج سے بالکل ہم آہنگ نہیں ہیں ،اس لیے جمہوریت کی اسلام کاری میں تمام اصولوں پر نظرثانی کرنی ہو گی اور اس کے تمام اصولوں میں اسلامی تعلیمات کے مطابق ترمیم کرنی ہو گی۔ پیچھے ذکر کردہ ترمیمات و اصلاحات کا مقصد ان کی حتمیت بتانا نہیں ،کہ اس کے علاوہ اور طریقے سے تبدیلی نہیں کر سکتے، بلکہ صرف لبرل مغربی جمہوریت کے اصولوں کا قابلِ ترمیم و تبدیل دکھانا مقصود تھا۔ اب چاہے ان ترمیمات سے لبرل جمہوریت کا اصل چہرہ ہی کیوں نہ مسخ ہو جائے جیسا کہ مذکورہ ترامیم سے واضح ہو تا ہے۔جو لوگ جمہوریت کی اسلام کاری کو ناممکن کہتے ہیں، ان کا مقصد و مدعا بھی شاید یہی ہے کہ لبرل مغربی جمہوریت کی اساسی اور بنیادی اصولوں کو باقی رکھتے ہوئے اسے اسلامی تعلیمات کے مطابق بنانا اور مقاصدِ شریعت سے ہم آہنگ کرنا ناممکن ہے۔

اسلامی ممالک خصوصا پاکستان میں رائج جمہوریت

جمہوریت کی اسلام کاری پر بحث کے بعد کے یہ اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ اسلامی ممالک نے لبرل مغربی جمہوریت کو کن تبدیلیوں اور ترمیمات کے ساتھ قبول کیا؟اور ان ترمیمات سے کیا لبرل مغربی جمہوریت’’ اسلامی‘‘ بن گئی؟ کیاسلامی ممالک میں رائج جمہوری نظام مقاصدِ شریعت سے ہم آہنگ ہے؟ خصوصا پاکستان کے حوالے سے اس کا ایک جائزہ لینا مقصود ہے۔

امتِ مسلمہ کا المیہ

امتِ مسلمہ کو عصرِ حاضر میں جو بڑے دہچکے لگے، ان میں ایک بہت بڑا دھچکہ ادارہ خلافت کا غیروں کی عیاری اور اپنوں کی سادگی سے شکست و ریخت کا شکارہوناہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خلافتکا ادارہ اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجودمسلم امت کے سر پر ایک سائبان کا کردار ادا کر رہا تھا،جس سے امت مجموعی طور پر زوال کے تھپیڑوں سے کافی حد تک محفوظ تھی۔اور اسلامی تعلیمات اپنی اجتماعی شکل میں بڑی حد تک نافذ تھیں ۔خلافت کے ختم ہونے سے دیگر نقصانات کے علاوہ امت نے ایک بڑا خسارہ یہ اٹھایاکہ تقریبا تمام اسلامی ممالک بشمول پاکستان نے لبرل مغربی جمہوریت کو اس کے بنیادی اصولوں میں ترمیم کیے بغیر نظامِ حکومت کے طور پر قبول کیا ۔اگر کسی جگہ اسلام پسندوں اور علماء کی کوششوں سے اربابِ اقتدار ترمیم پر آمادہ ہوئے تو اتنی معمولی ترمیم کی کہ اس سے لبرل مغربی جمہوریت کے بنیادی اصول ،ڈھانچہ اور طریقہ کار با لکل متاثر نہیں ہوااور اس پر مستزاد یہ کہ جدت پسند اور مغرب سے انتہائی مرعوب مفکرین نے اسلامی ممالک میں رائج جمہوری نظام کو اسلامی جمہوریت کے نام سے موسوم کیا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ ایک تو اسلامی ممالک میں رائج جمہوریت پر شرعی حیثیت سے گفتگو کا دروازہ تقریبا بند ہوااور دوسرا یہ کہ اسلام کا آئیڈیل نظامِ حکومت ’خلافت ‘کے قیام کے لیے کما حقہ کوششیں نہیں ہو سکیں اورنظامِِ خلافت علمی،فکری اور عملی طور پر معدوم ہوتا گیا۔اور آج اسلامی ممالک کا منظر نامہ یہ ہے کہ لبرل مغربی جمہوریت اپنے تمام آثارِ سیۂ کے ساتھ قائم ہے اور دردمندانِ ملت اور غمخوارانِ امت اصلاحِ نظام کی بجائے تبدیلی افراد کے لیے تگ و دو کررہے ہیں۔

رائج جمہوری نظام پر بحث کے دو مرحلے 

پاکستان میں رائج جمہوریت پر بحث کے دو مرحلے ہیں : ایک یہ کہ رائج جمہوری نظام اور لبرل مغربی جمہوریت میں کتنی چیزوں میں اشتراک و موافقت ہے ؟ دوسرا یہ کہ اس نظام کو اسلامی بنانے کے لیے اس میں کیا کیا ترمیم ہوئی ہے ا ور کیا یہ ترمیمات اس کی اسلامکاری کے لیے کافی ہیں؟ اور ان ترمیمات سے یہ ’’اسلامی جمہوریت‘‘ شریعت اور مقاصدِ شریعت سے ہم آہنگ ہو گئی؟

لبرل مغربی جمہوریت اور رائج جمہوری نظام میں اشتراکات

لبرل مغربی جمہوریت اور پاکستان میں رائج ’’اسلامی جمہوریت‘‘ میں درج ذیل باتوں اور اصولوں میں اشتراک و موافقت ہے۔

پارلیمنٹ کے اختیارات

لبرل مغربی جمہوریت میں پارلیمنٹ دو تھائی اکثریت سے کوئی بھی قانون پاس کر سکتی ہے اور پارلیمنٹ کی قانون سازی پر کوئی بھی پابندی و تحدید نہیں ہوتی ۔ ہمارے ہاں رائج جمہوریت میں بھی پارلیمنٹ کو قانون سازی کے بلا کسی تحدید کے مکمل اختیارات حاصل ہیں۔ چنانچہ آئین کے آرٹیکل 70 میں قانون سازی کا جو طریقہ بیان کیا گیا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی جب بل دو تہائی اکثریت سے پاس کرے تو اسے دوسرے ایوان میں منظوری کے لیے پیش کیا جائیگا،سینٹ نے بھی اگر اسے اکثریت سے منظور کیا تو قانون کو صدر کے پاس منظوری کے لیے بھیجا جائیگا ۔ صدر کی منظوری کے بعد وہ ملک کا قانون بن جائیگا۔( یہ صرف خلاصہ ہے اس میں ایوانوں اور صدر کے اشکالات اور دیگرضمنی مباحث کاذکر نہیں ہے) اب قانون سازی کے عمل پر نہ کوئی پابندی لگائی گئی ہے اور نہ تحدید۔جو بھی بل مذکورہ طریقے سے منظور ہوجائیگا وہ ملک کا قانون بن جائیگا۔خواہ شریعت کے موافق ہو یا مخالف۔
البتہ اگر اس پر یہ اشکال ہو کہ قردادِ مقاصد اور آرٹیکل 270 کے تحت تو یہ صراحت کی گئی ہے کہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائیگا،تو اس کا جواب یہ ہے کہ دستور کی ترمیم سے متعلق آرٹیکل 239 کے دفعات کے الفاظ یہ ہیں:
’’ دستور میں ترمیم پر کسی عدالت میں کسی بھی بنیاد پر چاہے جو کچھ ہو اعتراض نہیں کیا جائیگا ۔ ازالہ شک کے لیے بذریعہ ہذا قرار دیا جاتا ہے کہ دستور کے احکام میں سے کسی میں ترمیم کرنے کے مجلسِ شوری کے اختیارات پر کسی بھی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے‘‘(آئینِ پاکستان صفحہ155)
لہٰذا اب اگر پارلیمان کی دوتہائی اکثریت قران و سنت کے خلاف قانون نہ بنانے کی شق ختم کرے ،پھر اس کے بعد کثرت سے جو قانون بنائے تو ان کی یہ ساری کاروائی آئین و قانون کے بالکل مطابق ہو گی۔ خلاصہ یہ نکلا کہ پارلیمنٹ ہر حال میں سپریم قرار پائی کہ پہلے پارلیمنٹ نے یہ پابندی لگائی ، پھر خود یہ پابندی ختم کی ۔ قران و سنت کے خلاف قانون نہ بنانے کی وجہ اس کی تقدیس و بالادستی نہیں ،بلکہ اس کے آئینی شق ہو نے کی وجہ سے ہے ۔ جب دو تہائی اکثریت نے یہ شق ختم کر دی تو اس کی بالادستی خود بخود ختم ہوگئی۔ اس کو شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے ان الفاظ میں بیان کیا:
’’ سیکولر جمہوریت میں پارلیمنٹ پرقا نون سازی کے سلسلے میں کوئی پابندی نہیں ہوتی سوائے اس پابندی کے جو دستور یا آئین نے خود اس پر لگائی ہو اور یہ دستوری پابندی بھی کسی پارلیمنٹ یا دستور ساز ادارے نے عائد کی ہو تی ہے اور پارلیمنٹ جب چاہے اس پابندی کو دستوری ترمیم کے ذریعے اٹھا بھی سکتی ہے ،لہذا مالِ کار پارلیمنٹ پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہوتی‘‘(272)
اسی طرح یہ اشکال نہ کیاجائے کہ وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل اس قسم کی ترمیمات کے روک تھام کے لیے قائم کئے گئے ہیں ، کیونکہ دستور کے قوانین وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں ،چناچہ آرٹیکل 203 کے تحت اس قانون کی تشریح کی گئی ہے جو وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔
’’قانون میں کوئی رسم یا رواج شامل ہے جو قانون کااثر رکھتا ہو، مگر اس میں دستور ،مسلم شخصی قانون ، کسی عدالت یا ٹربیونل کے ضابطہ کار سے متعلق کوئی قانون یا اس بات کے آغازِ نفاذ سے دس سال مدت گزرنے تک کوئی مالی قانون محصولات یا فیسوں کے عائد کرنے ، بنکاری یا بیمہ کے تعامل اور طریقہ سے متعلق کوئی قانون شامل نہیں ہے‘‘(آئین پاکستان صفحہ116 )
اسلامی نظریاتی کونسل بھی محض سفارش اور مشورہ تک محدود ہے اور وہ بھی اس وقت جب صدر یا اسمبلی از خود کسی قانون کے شرعی یا غیر شرعی ہونے کے بارے میں استفسار کرے ۔اسلامی نظریاتی کونسل کو از خود نوٹس لینے کا اختیار نہیں ہے۔( ملاحظہ فرمائیے آرٹیکل 229 ،230 کے دفعات) 
الغرض ایسا طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ اس ’’اسلامی جمہوریت‘‘ میں پارلیمنٹ کی بالادستی اور اس کو قانون سازی کے مکمل اختیارات کسی طرح بھی متاثر نہیں ہیں ۔

آئین و دستور کی بالا دستی اور تقدس

لبرل مغربی جمہوریت میں آئین و دستور ہر صورت میں بالا دست اور مقدس ہو تا ہے ۔پاکستان میں رائج جمہوری نظام میں بھی آئین و دستور کوہر صورت میں تقدس اور بالا دستی حاصل ہے۔ چناچہ آئین کی ابتدا ئیہ میں بنیادوں اصولوں کے تحت درج ہے۔
’’دستور اور قانون کی اطاعت ہر شخص خوہ جو بھی ہو اور ہر اس شخص کی جو فی الوقت پاکستان میں ہو واجب التعمیل ذمہ داری ہے‘‘
کیا اس کے اندر یہ قید ہے کہ دستور اور قانون اسی وقت تک بالادست اور واجب التعمیل رہے گا ،جب تک وہ قران و سنت کے خلاف نہ ہو۔نیز تمام مناصب کے لیے جو حلف آئین میں درج ہیں ،ان سب میں علی الاطلاق دستور کی ہر صورت میں اطاعت اور اس کادفاع شامل ہے ۔ پاکستان کی تمام عدالتیں بھی دستور کے مطابق فیصلہ کرنے کی پابند ہیں ،خواہ دستور شریعت سے متعارض ہی کیوں نہ ہو ، کیونکہ ملک کے تمام افراد ، تمام ادارے، آئین کی رو سے صرف دستور اور قانون کی پابند ہیں ۔ دستور اور قانون کی بالا دستی کی یہی شکل لبرل مغربی جمہوریت میں ہوتی ہے ۔اس اصول میں مغربی جمہوریت اور رائج’’اسلامی جمہوریت‘‘ میں کوئی فرق نہیں ہے۔

بالغ رائے دہی کا تصور اور سیاسی مساوت

لبرل مغربی جمہوریت کی طرح ہمارے ہاں رائج جمہوری نظام میں بھی ملک کے تما م افرادوو ٹنگ کے عمل میں حصہ لے سکتے ہیں اور ان کا فیصلہ صرف کثرت کی بنیاد پر ہو تا ہے۔اسی طرح ملک کا ہر فرد پارلیمنٹ کا ممبر بن سکتا ہے ۔ اگرچہ آرٹیکل 62,63 کے تحت کچھ شرائط لگائی گئیں ہیں ، لیکن جیسا کہ پہلے اس پر بحث ہو چکی ہے کہ جب پارلیمنٹ ایک قانون ساز ادارہ ہے، تو اس کی رکنیت کے لیے اسلامی علوم سے مکمل واقفیت کی شرط لگانا ہو گی اور ہر خاص عام پارلیمان کا ممبر بننے کا اہل نہیں ہو گا ۔ لیکن ہمارا دستور اس قسم کی کوئی شرط نہیں لگاتا۔ چناچہ مشاہدہ ہے کہ اس قسم کے لوگ بھی پارلیمنٹ کے ممبر بن جاتے ہیں جو شاید کلمہ طیبہ کے درست تلفظ اور ترجمہ پر قادر نہ ہو،چناچہ اس قسم کے لوگ ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان ‘‘ کے مسلم عوام کے لیے قانون سازی کرتے ہیں۔نتیجہ یہ نکلا کہ اس اصول میں بھی لبرل مغربی جمہوریت اور رائج ’’اسلامی جمہوریت ‘‘ میں موافقت ہے ۔

کثرتِ رائے کی حتمیت

کثرتِ رائے چونکہ جمہوریت کا بنیادی اور اساسی اصول ہے ، اس لیے اس اصول کو بھی ہماری ’’اسلامی جمہوریت‘‘ میں جوں کا توں رکھا گیا ہے اور کثرتِ راے آئینی و قانونی طور پر لازمی و حتمی ہے۔ ووٹنگ کا عمل ہو یا پارلیمنٹ میں قانون سازی کا معاملہ ، ہر مسئلے میں کثرتِ راے کو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے۔

سیاسی جماعتیں اور حزبِ اختلاف

لبرل مغربی جمہوریت کی طرح رائج جمہوری نظام میں رنگ، نسل ،علاقہ،زبان،ثقافت غرض ہر اعتبار سیا سی جماعتیں بنانے کی مکمل اجازت ہے اور ان سیاسی جماعتوں کو اپنا منشور طے کرنے کے کلی اختیارات حاصل ہیں ،خواہ وہ منشور سیکولر ہو یا اسلامی ، صرف ایک شرط اور قید ہے کہ کہ منشور آئین و دستور نامی ’’مقدس صحیفے‘‘ کے خلاف نہ ہو ۔اس اجازت اور آزادی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان سمیت دیگر’’ اسلامی جمہوری‘‘ ملکوں میں ایک اللہ اور رسول کو ماننے والے رنگ ، نسل ،قومیت ، زبان اور طبقات کے اعتبارسے سیاسی جماعتوں کی صورت میں آپس میں دست و گریباں ہیں ۔ اسی طرح حزبِ اختلاف کا ادارہ مکمل مغربی تصور کے ساتھ قائم ہے ۔ اس مخالف شریعت اصول کے ہوتے ہوئے بھی ہمارے ہا ں رائج جمہوریت کی ’’اسلامیت‘‘ مکمل طور پر برقرار ہے۔

مساواتِ عامہ اور آزادی

ہمارے ہاں رائج جمہوریت میں دینی طبقات کے پر زور اسرار اور طویل اور صبر آزما جدوجہد کے بعد جو ’’اسلامیت ‘‘ کی کچھ جھلک موجود ہے ، اس میں مساوات اور آزادی کے حوالے سے تمہید میں یہ جملہ شامل ہے :
’’جمہوریت ، آزادی ،مساوات ،رواداری اور عدلِ عمرانی کے اصولوں پر جس طرح اسلام نے ان کی تشریح کی ہے پوری طرح عمل کیا جائے گا‘‘
اس سے قطع نظر کہ اسلام نے واقعی جمہوریت کی کوئی تشریح کی ہے یا نہیں؟ یہ جملہ امید افزا ہے ،لیکن آگے دستور کی دفعات خود اس تمہید کی مخالف ہیں کہ اس میں آزادی اور مساوات کی اسلام مخالف تشریح شامل ہے۔
۱ ۔اس تمہید کے ساتھ ایک دو جملوں کے بعد یہ جملہ شامل ہے:
’’جس میں قرارِ واقعی انتظام کیا جائے گا کہ اقلیتیں آزادی سے اپنے مذہب و عقیدہ رکھ سکیں اور ان پر عمل کر سکیں اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دے سکیں‘‘ 
کیا شریعت کی رو سے دیگر مذاہب کو اسلامی ریاست میں اپنی ثقافتوں کو ترقی دینے ،اسے بڑھانے کی اجازت ہے ؟کیا ثقافت کے لفظ میں خاص طور پر ان کے دینی شعائر نہیں آتے ؟ تو ایک اسلامی ریاست میں اہلِ کفر کے شعائر کے اظہار ہی نہیں بلکہ ترقی شرعی طور پر درست ہے؟ثقافت اور دینی شعائر کے اظہار اور اس کی حدود میں یقیناًفقہاء کے مختلف اقوال ہو سکتے ہیں لیکن ہر حد اور پابندی سے عاری اہل کفرکی کھلی آزادی کسی فقیہ کا قول نہیں ہے۔
2۔اقلیتوں کو مذہب کی نشر واشاعت ، تبلیغ اور مذہب کے نام پر انجمن سازی کی مکمل آزادی دستور میں فراہم کی گئی ہے ۔چنانچہ آرٹیکل 20 کے تحت دفعہ یوں ہے:
’’ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے ،اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کاحق ہو گا‘‘
کیا یہ شق اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ ہے؟ یہاں تبلیغ کے جواز و عدمِ جواز کا فتوی دینا مقصود نہیں ،بلکہ اصل اس بات کی نشاندہی کرنا مقصد ہے کہ اقلیتوں سے متعلق اسلام نے جتنے حقوق دیے ہیں، سب میں حدود ، قیود اور مخصوص شرائط لگائی ہیں ۔ ان حدود اور شرائط میں فقہاء کااختلاف ہے ،لیکن بغیر کسی قید کے مکمل آزادی کسی طرح سے بھی اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ خلاصہ یہ کہ مساواتِ عامہ اور آزادی جو لبرل جمہوریت کے بنیادی اصولوں میں سے ہے ، ہماری ’’اسلامی جمہوریت‘‘ میں تقریبا وہی ہے ۔ اس اصول میں اگرچہ کچھ ترمیم کی گئی ہے ،لیکن وہ اسلامی تعلیمات کے مکمل مطابق نہیں ہے۔گویا اس اصول میں بھی رائج جمہوریت لبرل مغربی جمہوریت کے تقریبا مماثل ہے۔

اختیارات کی تقسیم اور حکومت کی مدت

ہم یہ بحث پہلے کر چکے ہیں کہ اختیارات کی تقسیم اسلامی تعلیمات اور مقاصدِ شریعت کے منافی معلوم نہیں ہوتی۔ البتہ حکومت کی مدت پر نظر ثانی کی ضرورت ہے اور مقاصدِ شریعت سے ہم آہنگ اس مسئلے کا از سرنو جائزہ لینا ہوگا ،لیکن ہما رے جمہوری نظام میں محض لبرل جمہوریت کی اتباع میں حکومت کی مدت پانچ سال مقرر کی گئی ہے۔ 

رائج جمہوریت میں ’’اسلامیت‘‘ کا عنصر

اب بحث یہ رہ جاتی ہے کہ وہ کونسی ترمیمات ہیں ؟جن کی بنیاد پر اسلامی ممالک خصوصاً پاکستان کے جمہوری نظام کو اسلامی کہا جاتا ہے اور ان ترمیمات سے یہ رائج نظام واقعی اسلامی بن گیا ہے؟ ان ترمیمات پر بحث سے پہلے یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ پچھلے ذکر کردہ تمام اصولوں میں ہمارا جمہوری نظام لبرل مغربی جمہوریت کے بالکل موافق و مماثل ہے اور وہ اصول اکثر اسلامی تعلیمات اور مقاصدِ شریعت سے ہم آہنگ نہیں ہیں ،اس لیے ان ذکر کردہ اصولوں میں موافقت رائج نظام کی ’’اسلامیت ‘‘ کو ختم کرنے کے لیے کا فی ہے، کیونکہ ایک بھی غیر اسلامی اور شریعت سے متصادم اصول کی شمولیت کسی کسی نظام کو غیر اسلامی بنا دیتی ہے ،خصوصاً جبکہ وہ اصول اس نظام کے ان اساسی اور بنیادی اصولوں اور تصورات میں سے ہوجس پر اس کی پوری عمارت کھڑی ہو۔لیکن اس کے باوجود جمہوریت کی اسلام کاری کے حوالے سے کی گئی ترمیمات اور تبدیلیوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں تا کہ ’’اسلامی جمہوریت‘‘ کی حقیقت مزید منقح اور واضح ہو جائے۔
لبرل مغربی جمہوریت میں اسلام کی پیوند کاری درجہ ذیل نکات کی شکل میں کی گئی ہے:
1۔آئین و دستور میں قراردادِ مقاصد کو شامل کیا گیا ہے ، جس میں حاکمیتِ اعلی اور اقتدارِ اعلی کواللہ تعا لی کے لیے تسلیم کیا گیا ہے۔
2۔آئین و دستور میں اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنا یاجائیگااور شریعت سے متصادم قوانین کو اسلامیانے کی کوشش کی جائیگی اور اس مقصد کے لیے وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل جیسے ادارے بنائے گئے ہیں۔
3۔اسلام کو مملکتی مذہب قرار دیا گیا ہے۔
4۔ملک کے کلیدی عہدے جیسے صدر اور وزیر اعظم کے لیے مسلمان ہونے کی شرط لگائی گئی ہے ۔
5۔وزارتِ مذہبی امور کا باقا عدہ محکمہ بنا یا گیا ہے جو اوقاف ، حج ،زکوۃ ، روئیتِ ہلال اور دیگر مذہبی معاملات سر انجام دیتا ہے۔

کیا ان نکا ت سے جمہوریت اسلامی بن سکتی ہے؟

ان پانچ نکات میں سے آخری دو نکات تو کسی نظام کے اسلامی بنانے کے لیے کافی نہیں ہے ۔ کیونکہ کسی نظام کے سربراہ کا مسلمان اور بات ہے اور اس نظام کا اسلامی اصولوں کے مطابق ہونا ایک الگ بحث ہے۔اسی طرح وزارتِ مذہبی امور بنانے سے بھی کوئی نظام اسلامی نہیں بن سکتا ، کیونکہ مذہب سے متعلق معاملات کو چلانے کے لیے تو لبرل جمہوری ملکوں میں بھی وزارتیں اور محکمے بنے ہوئے ہیں۔ یہ بات چونکہ ایک قسم کی بدیہی ہے اس لیے پر مزید تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے ۔ اب بقیہ تین نکات کے بارے میں چند باتیں پیشِ خدمت ہیں۔

حاکمیتِ اعلیٰ اور اس کا مفہوم

ہمارے ہاں عمومی طور پر جمہوریت کے بارے میں یہ غلط فہمی عام ہے کہ جمہوریت عوام کی حاکمیت اور اقتدارِ اعلی کا نام ہے ،جبکہ اسلامی ممالک خصوصاً پاکستان میں آئینی طور پر اقتدارِ اعلی اللہ تعالی کے لیے مانا گیا ہے ،اس لیے رائج جمہوریت آئینی و قانونی طور پر ’’اسلامی ‘‘ہے اور مقتدر اور ذی فہم حلقے بھی عام طور پر یہ بات دہراتے ہیں کہ پاکستان کا نظام اور قانون تو اسلامی ہے ، افراد ٹھیک نہیں ہے ،اس لیے جدو جہد کا نکتہ تبدیلی نظام کی بجائے تبدیلی افراد ہو تا ہے اور عمومی طور پر دینی قوتوں کی پوری طاقت افراد کے بدلنے اور صالح سے صالح قیادت لانے پر صرف ہو تی ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ لبرل جمہوریت میں عوام کی حاکمیت کا مطلب یہ ہے کہ لبرل مغربی جمہوریت کا پورا ڈھانچہ اور اس کے بنیادی اصول عوام کی حاکمیت اور کلی اختیار کو فرض کر کے طے کئے گئے ہیں۔مغربی جمہوریت کا ایک ایک اصول ،پورا طریقہ کار، ووٹنگ کے عمل سے لیکر حکومت تک پہنچنے کے تمام مراحل اور حکومتی نظم و نسق چلانے کے جملہ طریقے ،سب میں عوام کی حاکمیتِ اعلی کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے ۔عوام کی حاکمیت محض خالی نظریہ اور مفرو ضہ نہیں ہے ،جس کا جمہوریت کے بنیادی اصولوں اور ڈھانچے سے تعلق نہ ہو۔بلکہ جمہوریت کا پورا نقشہ عوم کی حاکمیت کا مظہر اتم ہے،اس لیے جب یہ کہا جائے کہ ہم عوم کی حاکمیت کی بجائے اللہ کی حاکمیت کے قائل ہیں، تو لبرل مغربی جمہوریت کے اس پورے ڈھانچے میں ترمیم کرنی ہو گی، وہ تمام طریقے تبدیل کرنے ہو ں گے ،جو عوام کی حاکمیت کے غماز ہیں ۔اگر صرف آئین میں یہ جملہ درج ہو کہ حاکمیت اللہ کے لیے ہے ،جبکہ ڈھانچہ اور بنیادی اصول لبرل جمہوریت کے باقی رکھے گئے، جیسا کہ ہمارے ہاں رائج جمہوریت میں لبرل جمہوریت کا بنیادی ڈھانچہ ،اساسی اصول اور پورا طریقہ کار جوں کا توں ہے،تو اس نظام کو عوام کی حاکمیت پر بنی نظام ہی کہا جائیگا، کیونکہ صرف نام کے بدلنے سے شئی کی حقیقت اور ماہیت نہیں تبدیل نہیں ہو جاتی۔
شریعت کی اصطلاح میں منافق اسی کو تو کہتے ہیں جو اللہ کی وحدانیت کا اقرار زبان سے کرنے کے باوجود اپنی سوچ، بنیادی تصورات اور ان بنیادی افعال کو ترک نہیں کرتا جس سے ا س کے موحد ہونے کی بجائے مشرک ہونے کا اظہار ہو تا ہے۔تو شریعت زبان پر حکم لگانے کی بجائے اس کی حقیقت پر حکم لگا کر اسے کلمہ طیبہ پڑھنے کے باوجود کافر قرار دیتی ہے۔ لہذا شرعی اصطلاح میں ہمارے ہاں رائج جمہوریت کومنافق جمہوریت کہا جائے ،تو شاید تقریبِ فہم کے لیے یہ تعبیر مناسب ہو گی ،کہ اللہ کی حاکمیت کا اقرار کرنے کے باوجود اس کا بنیادی ڈھانچہ بالکل لبرل مغربی جمہوریت کی طرح ہے۔
اس کو دوسرے لفظوں میں یو ں بھی تعبیر کر سکتے ہیں کہ جمہوریت میں عوام کی حاکمیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ لبرل جمہوری ملکوں میں آئین و دستور میں عوام کو ہر قسم کی حاکمیت کا سرچشمہ لفظا تسلیم کیا گیا ہے ، لہذا جمہوریت کی اسلام کاری میں آئین و دستور میں عوام کی حاکمیت کے الفاظ کی بجائے اللہ کی حاکمیت کے الفاظ لکھ لیے جائیں ۔بلکہ عوام کی حاکمیت کا مطلب یہ ہے کہ لبرل مغربی جمہوریت کے بنیادی اصول اور پورا ڈھانچہ عوام کی حاکمیت پر مشتمل ہے ،اس لیے اس پورے ڈھانچے کو مختصراً عوام کی حا کمیت سے تعبیر کیا جاتا ہے ا ور
یوں کہہ دیا جاتا ہے کہ جمہوریت عوام کی کلی حاکمیت کا نام ہے ۔اگر وہی اصول اور ڈھانچہ ہمارے ہاں بھی برقررار ہے، تو محض نام کے بدلنے یا آئین میں کچھ الفاظ بڑھانے سے عوام کی حاکمیت کا عنصر تبدیل نہیں ہو گا۔اور نام خواہ جو بھی رکھ لیں اس کی ماھیت اور حقیقت جب لبرل جمہوریت والی ہے ،تو اس پر حکم بھی لبرل جمہوریت کا لگے گا۔اور یہ کہنا صحیح ہو گا کہ ہماری ’’اسلامی جمہوریت‘‘ عوام کی حا کمیت کا نام ہے۔
خلاصہ یہ نکلا کہ جب اس کی حقیقت، ماہیت، بنیادی اصول ، طریقہ کار لبرل مغربی جمہوریت کی طرح ہے ،تو صرف آئین میں قرار دادِ مقاصد یا اللہ کی حاکمیت کے الفاظ بڑہا دینے سے یہ نظام اسلامی نہیں بنے گا،خصوصاً جبکہ وہ الفاظ بھی عوامی نمائندوں نے دو تہائی اکثریت سے پاس کئے ہوں اور انہیں اسے تبدیل کرنے کا مکمل اختیاربھی ہو۔

قرآن و سنت کے خلاف قانون نہ بنانے کی شق

رائج جمہوریت کو اسلامی کہنے کے لیے دوسرا استدلال اس سے کیا جاتا ہے کہ چونکہ آئین میں اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنیا جائیگااور موجودہ غیر اسلامی قونین کو بھی جلد از جلد اسلامی قالب میں ڈھالا جائیگا۔لہذا جب دستور میں قانون سازی اور پارلیمنٹ کے اختیارات کی حدود طے کی گئی ہیں، تو لبرل اور رائج جمہوری نظام میں خود بخود فرق ہو گیاکہ لبرل جمہوریت میں اس طرح کی کوئی قید و پابندی نہیں ہوتی۔
اس نکتے اور استدلال کے بارے میں چند گزارشات پیشِ خدمت ہیں:
1۔قرآن و سنت کے خلاف قانون نہ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ شریعت کے مامورات قانوناً لاگو ہو نگے اور منہیات قانوناً ممنوع ہو ں گے ۔جبکہ مباحات اور انتظامی امور میں مقاصدِ شریعت سے ہم آہنگ قانون سازی کی جائی گی۔تو کیا ہمارے آئین کی رو سے شریعت کے مامورات قانونا نافذ ہیں ؟کیا شریعت کی منہیات قانوناً ممنوع ہیں؟کیا ہماری عدالتیں محض اس وجہ سے ایک کام پر پابندی لگانے کی مجاز ہیں کہ وہ شریعت میں ممنوع ہیں ،خواہ دستور میں اسے صراحۃً منع نہ کیا گیا ہو۔کیا قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایسی چیز لاگو اور ناافذ کرنے کا اختیار ہے جس کونافذ کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے؟اگر ان کو آئینی شقوں کے علاوہ باقی کسی قسم کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہے تو گویا قرآن وسنت کے خلاف قانون نہ بنانے کی شق کے باوجود ملک میں قرآن وسنت کے خلاف قونین موجود ہیں۔اور ملک میں عملاً قرآن و سنت کی بجائے آئین و دستور کو بالادستی حاصل ہے۔
2۔قرآن و سنت کے خلاف قانون نہ بنانے کی شق کی خود کیا حیثیت ہے؟کیا پارلیمنٹ اسے اکثریت سے تبدیل کر سکتی ہے یا نہیں ؟ اگر ارکانِ پارلیمنٹ کو اسے تبدیل کرنے کا مکمل اختیار ہے ،تو انجامِ کار کے اعتبار سے عوامی نمائندوں کی بالادستی ہوئی ،نہ کہ قرآن وسنت کی بالادستی ۔
3۔قرآن و سنت کے خلاف اگر پارلیمنٹ کوئی قانون پاس کر لے، تو اس قانون کی آئینی حیثیت کیا ہو گی؟کیا صرف اس وجہ سے کہ شریعت کے خلاف ہے ،وہ آئینی شق خود بخود کالعدم ہوجائے گی ؟ یا کیا پارلیمنٹ سے بالادست ملک میں ایسا ادارہ موجود ہے جس کے پاس پارلیمنٹ کی غیر اسلامی قانون سازی کو منسوخ کرنے کا مکمل اختیار ہو؟اگر ایسی بات نہیں ہے تو کیا صرف آئین میں اس قسم کے الفاظ لکھنے سے یہ جمہوریت’’ اسلامی ‘‘بن جائی گی ؟ جبکہ عملاً پارلیمنٹ اسی طرح ملک کا سپریم ادارہ ہے ،جس طرح لبرل جمہوریت میں پارلیمنٹ ملک کا خود مختار ادارہ ہوتا ہے۔
4۔قرآن و سنت کو بالا دست رکھنے کا اصل طریقہ تو یوں تھا، کہ آئین میں دفعہ کی عبارت اس قسم کی ہوتی:
’’تمام قوانین دلائلِ شریعہ یعنی قرآن وسنت ، اجماع قیاس اور دیگر ماخذِ شریعہ سے اخذ کیے جائیں گے ۔اگر کوئی قانون غیر شرعی ماخذ سے لیا گیا اور وہ شریعت کے منافی ہو تو وہ کالعدم شمار ہو گا ،اس کا کوئی اعتبار نہیں ہو گا اور آئین کی یہ شق ان بنیادی شقوں میں شامل ہے جو ہر صورت میں لاگوں ہوں گے اور ناقابلِ تبدیل ہیں‘‘ یا پارلیمنٹ سے اوپر ایک ایک ایسا سپریم ادارہ ہوتا ،جس کو پارلیمنٹ کے خلافِ شریعت قانون کا لعدم قرار دینے کا مکمل اختیار ہوتا۔ لہٰذا محض ایک بے جان قسم کی دفعہ شامل کرنے سے یہ پورانظام کیسے اسلامی بن سکتا ہے۔
5۔ اگر با لفرض مان بھی لیں کہ یہ دفعہ اپنی تمام تر ابہامات اور ضعف کے باوجود دستور کو ’’اسلامی‘‘ بنانے کے لیے کا فی ہے تو کیا پاکستان کا دستور اسلامی ہے؟تعجب کی بات یہ کہ دستور میں صرف ایک حصہ (نہم) چند اسلامی احکام کے لیے مختص کیا گیا ہے، اس کے علاوہ باقی پورے دستور کی دفعات میں اسلامی تعلیمات اور مقاصدِ شریعت سے ہم آہنگی سرے سے مفقود ہے۔ دستور کی ساری دفعات دنیا میں رائج پارلیمانی نظام کو سامنے رکھ کر طے کی گئی ہیں ۔ اگر یہ اشکال ہو کہ وہ دفعات مباحات اور انتظامی امور کے ذیل میں آتی ہیں، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اولاً تو یہ تسلیم ہی نہیں ہے کہ وہ سارے قوانین اس دائرے سے متعلق ہیں، کیونکہ اس میں حکمرانوں کے انتخاب، عزل ،رکنیت کی شرائط، مالیاتی امور اور دیگر بے شمار ایسے احکامات ہیں، جن میں قدم قدم پر شریعت کی رہنمائی کی ضرورت ہے ،لیکن ان تمام امور میں اسلامی تعلیمات کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔اور اگر تسلیم کر لیں کہ یہ ساری دفعات مباحات اور انتظامی امور سے متعلق ہیں تو سوال یہ ہے کہ پھر شریعت کی منصوصات اور متفقہ مسائل کے بارے میں دستور کیو ں خاموش ہے ؟ اس کی خاموشی اگر اجازت ہے تو گویا شریعت کی منہیات قانوناً جائز ہیں؟ اور اگر خاموشی منع کے زمرے میں آتی ہے تو مامورات قانوناً ممنوع ہیں؟ کیا ہماری عدالتیں فیصلہ کرتے وقت صرف دستور کو سامنے رکھتی ہیں یا شریعت کو؟کیا عدالتوں کا دائرہ اختیار ، طریقہ کار اور فیصلہ کرنے کے اصول دستور میں درج نہیں ہیں ؟ کیا ہماری عدالتیں آج بھی ہندوستانی عدالتوں کے لیے برطانیہ کے جاری کردہ ایکٹ کے تحت کام نہیں کر ہی ہیں ؟کیا عدالتوں کا سارا نظام شریعت کے مطابق ہے؟ کیا ان سب غیر شرعی امور کے باوجود ہمارا دستور ’’اسلامی‘‘ ہے؟
6۔آخر میں اگر مان بھی لیں کہ دستور با لکل’’ اسلامی ‘‘ہے تو دستور جمہوریت کے اجزا ء میں سے ایک جز ہے، تو صرف اس جز کے اسلامی بننے سے رائج پورا جمہوری نظام اسلامی بن جائیگا ؟جبکہ بقیہ اکثر اصولوں اور ڈھانچے میں یہ ’’اسلامی جمہوریت‘‘لبرل مغربی جمہوریت کے بالکل مطابق ہے اور لبرل جمہوریت کے ان اصولوں کا غیر اسلامی ہونا بالکل واضح ہے۔

اسلام مملکتی مذہب ہوگا

اس جملے کا مطلب اگر یہ ہے کہ حکومت کے افراد مسلمان ہو ں گے تو ظاہر ہے کہ محض افراد کے اسلام سے نظام اسلامی نہیں بنتا۔اور اگر یہ ہے کہ اسلام کو بالادستی حاصل ہو گی تو وہی سوالات اور ابحاث لوٹ کر آئیں گے جو دوسرے نکتے کے ذیل میں گزر چکے۔خلاصہ یہ کہ یہ جملہ بھی رائج جمہوریت کو اسلامی بنانے کے لیے کافی نہیں ہے۔

آخری گزارش: کرنے کا اصل کام

موجودہ نظام میں شامل ہو کر اس کے اصولوں کے اند ر رہتے ہوئے اس میں بہتری کی کوشش کرنا ، کثرتِ رائے سے زیادہ سے زیادہ اسلامی شقوں کا دستور میں اضافہ کرنا اور صالح سے صالح قیادت لانے کی جدو جہد کرنا یقیناًایک عظیم کام ہے اور اس میں ہر دینی ، مذہبی جماعت نے اپنی بساط کے مطابق، اثر و رسوخ اور اپنی حکمتِ عملی کے تحت بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور آج جو اس ملک کے نظام میں اسلام کی کچھ’’ آمیزش ‘‘نظر آرہی ہے ،وہ انہی رجالِ باصفا کی انتھک کو ششوں کا نتیجہ ہے ،لیکن ہمیں اس پہلو پر بھی غور و فکر اور سوچ و بچار کرنا ہو گا کہ کہیں یہ کوششیں ، یہ جدو جہد اور تگ و دو اس لحا ظ سے عا رضی تو نہیں ہے کہ اگر کہیں (اللہ نہ کرے)سیکولر اور دین بیزار قسم کے لو گوں کو کثرت اور قوت حاصل ہو اوروہ ایک قررارداد سے ان ساری اسلامی شقوں کو یکسر ختم کر دے ،تو ان کا یہ عمل موجودہ نظام اور آئین کے بالکل مطابق ہو گا، کیونکہ موجودہ نظام انہیں اس بات کا مکمل اختیار دیتا ہے ۔ نیز جب اس نظام کی بنیادیں اور اساسی اصول لبرل مغربی جمہوریت کے تقریباً مطابق ہیں اور یہ نظام اسی لبرل مغربی جمہوریت ہی کا دوسرا رخ ہے ،تو کہیں اہلِ دین کی شرکت اور اصلاحِ نظام کی بجائے تبدیلی افراد کی یہ کو شش اس نظام کی ’’اسلامیت ‘‘ پر مہر نہ ثبت کر دے اور یہ شرکت اہلِ دین کی خاموش موافقت اور تائید نہ سمجھی جائے اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مقتدر حلقوں کی خاموشی ااور اس نظام کا شریعت کی روشنی میں جائزہ لینے کی کوششوں کے فقدان سے اب عمومی طور پر یہ تاثر عام ہوتا جارہا ہے کہ ہمارا ملک آئینی اور قانونی طور پر ایک مکمل اسلامی ریاست ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس ملک کو صحیح صالح قیادت میسر نہیں آسکی جو اس ’’اسلامی ‘‘ دستور کو نافذ کرے۔ خدا نخواستہ اگر یہ فکر و سوچ عمومی طور پر راسخ ہوگئی تو اس سے اس ملک کے نظام کی اسلام کاری کا باب مکمل بند ہو جائیگا اور اس نظام کو اسلامی سمجھنے کی وجہ سے خلافت کے احیا کی کوششیں بھی رفتہ رفتہ معدوم ہو جائیں گی۔ حالانکہ خلافت کے فریضے کو ترک کرنے کی پاداش میں در در کی ٹھو کریں امت کا مقدر ہیں اور اسلامی تحریکوں کی بے پناہ قربانیوں کے باوجود امتِ مسلمہ دینی، اخلاقی ،سیاسی ،عسکری ، علمی اور فکری غرض ہر اعتبار جانبِ زوال ہی گامزن ہے اور خلافت کی صورت میں ایک مرکز نہ ہونے کی وجہ سے ان کوششوں اور قربانیوں کے کما حقہ اثرات ظاہر نہیں ہو رہے ۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صحیح سمجھ عطا فرمائے اور دینِ اسلام کی تعلیمات کو ہر سطح پر مکمل طور پر نافذ کرنے کی قوت اور حکمت و بصیرت سے نوازے۔آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و سلم۔

دینی رسالے ہائیڈ پارک نہیں بن سکتے

فصیح احمد

محترم مکرم و معظم جناب زاہد الراشدی صاحب نے نومبر ۲۰۱۳ء کے الشریعہ میں ’’الشریعہ اور ہائیڈیارک‘‘ کے عنوان سے ادارتی کلمات میں راقم کے البرہان ستمبر ۲۰۱۳ء کے شمارے میں شائع ہونے والے مضمون ’’تار عنکبوت‘‘ کو اپنے موقف کو موکد کرنے کے لیے پیش کیا ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ حضرت والا نے میری تحریر سے وہ نتائج اخذ فرمائے جو راقم کی تحریر کے منشاء، مدعا، مقصد، سے کوئی مطابقت ہی نہیں رکھتے۔ اس التباس ذہنی یا انتشار فکری کا سبب سوائے اس کے کچھ نہیں کہ حضرت والا ہر دینی رسالے کو ہائیڈیارک کی صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں جہاں ہر رنگ کا پھول کھلا ہو ، ہر پرندہ چہچہا رہا ہو اور ہر شخص کو سب کچھ کہنے کی آزادی ہو۔ مطلق اصول صرف یہ ہو کہ تم جو کہنا چاہتے ہو آزاد ہو، ہم بھی اس کے رد عمل میں جو کچھ لکھنا چاہیں گے، وہ لکھیں گے۔ اس عمل کو محترم راشدی صاحب تلاش حق اور خیر کی جستجو کا نام دیتے ہیں اور ان کاخیال ہے کہ اس مکالمے، مباحثے، تبادلے سے خیر کی شناخت آسان اور حق تک رسائی ممکن ہو جاتی ہے۔ اس صدی کے سب سے بڑے فلسفی ہیبر ماس کا خیال بھی یہی ہے اس باطل عمل کو وہ Intersubjective Communication کہتا ہے۔ ہیبر ماس کے خیال میں ہر مکتب فکر ، ہر گروہ، ہر مفکر کو تبادلہ خیالات کے عمل میں شریک کیا جائے ۔اس کے نتیجے میں ایسا خیر بر آمد ہوجائے گا جس پر سب کا اتفاق ہوگا۔ جناب راشدی صاحب نے ہیبر ماس کو پڑھے بغیر ہی اس کے فلسفے کو طائرانہ تعقل کے ذریعے ایک دینی امر بنادیا ہے۔
ہماری جس تحریر سے راشدی صاحب نے اپنے غلط موقف کی اصولی تائید دریافت کی ہے، وہ تحریر ہم دوبارہ ان کی خدمت میں پیش کرتے ہیں:
’’ایک بات ہم مدیر البرہان ڈاکٹر محمد امین صاحب کی خدمت میں بصد احترام عرض کرنا چاہتے ہیں کہ البرہان ایک نظریاتی، تحقیقی اور علمی رسالہ ہے لہٰذا اس رسالے میں مضامین کا چناؤ اور مضامین کی اشاعت کے حوالہ سے بھی علمی تحقیقی رویہ اپنانا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ قارئین کو علمی و فکری انتشار سے بچایا جائے۔ انتشار ذہنی سے بچنے کے لیے اس بات کی کوشش کی جائے کہ ایسے گمراہ کن اور غیر علمی مضمون کو رسالے میں چھاپنے کی ضرورت ہی نہیں اور اگر کسی مصلحت کے تحت کبھی شائع کرنا ضروری ہو تو پہلے کسی اہل علم کو وہ مضمون بھجوادیا جائے اور ان سے جواب لکھوایا جائے۔ مضمون کا جواب ملنے کے بعد ا س مضمون کے ساتھ اس جواب کو بھی شائع کردیا جائے تاکہ قارئین دونوں کے موقف کو سامنے رکھ کر رائے قائم رسکیں، کیونکہ بسا اوقات قاری ایک ماہ کا رسالہ پڑھنے کے بعد دوسرے ماہ اس کا جواب کسی وجہ سے نہیں پڑھ سکا تو اس قاری کے فکری انتشار یا گمراہی کا ذمہ دار کون ہوگا؟ ہم سمجھتے ہیں کہ قارئین البرہان کو علمی و فکری انتشار سے بچانے کا اس سے بہتر اور مناسب کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔ ہماری عاجزانہ رائے یہ ہے کہ البرہان کو ہائیڈیارک نہیں بننا چاہیے‘‘۔ [ماہنامہ الشریعہ، کلمہ حق، ص۲،نومبر ۲۰۱۳ء]
اس تحریر سے درج ذیل اصول ثابت ہوتے ہیں:
(ا) دینی رسالے کے لیے مضامین کا چناؤ اور اشاعت کا مقصد قارئین کو علمی و فکری انتشار سے بچانا ہو۔
(ب) قارئین کو انتشار ذہنی سے بچانے کی کوشش کی جائے اور وحید الدین خان جیسے گمراہ فرد اوران کے غیر علمی مضمون کو چھاپنے کی ضرورت ہی نہیں۔جو اغلاط کا دفتر ہے۔
(پ) اگر جناب وحید الدین خان صاحب جیسے گمراہ شخص کی تحریر کو مصلحت کے تحت کبھی شائع کرنا ضروری ہو تو پہلے کسی اہل علم کو وہ مضمون بھجوادیا جائے اور ان سے جواب لکھوایا جائے مضمون کا جواب ملنے کے بعد اس گمراہ مضمون کے ساتھ اس کا جواب بھی شائع کردیا جائے تاکہ قارئین دونوں کے موقف کو سامنے رکھ کر رائے قائم کرسکیں۔ یہاں ہم نے خاص طور پر وضاحت کی ہے کہ اگر کسی مصلحت کے تحت کسی گمراہ کن ، غیر علمی مضمون کو شائع کرنا ضروری ہو تب اس حفاظتی طریقے کے ساتھ مضمون کی مجبوراً اشاعت کی جائے اس اشاعت کا مقصد لوگوں کو گمراہ مضمون کی گمراہیوں سے آگاہ کرنا ہے نہ کہ گم راہ مصنف کے خیالات کی اشاعت کرنا ۔
(ت) گمراہ مضمون اور اس کا جواب ایک ساتھ شائع کیا جائے تاکہ اس مضمون کی گمراہی واضح کردی جائے، اس کا ازالہ وامالہ بھی ہو جائے تاکہ دین کے نام پر پھیلائی جانے والی دینی گمراہیوں کو عوام پر واضح کردیا جائے۔ یہ کا م بھی مصلحت عامہ کے تحت مجبوراً ہی کیا جائے گا او راس کی حکمت یہ ہے کہ اگر گمراہ مضمون پہلے شائع کردیا جائے اور اس کا جواب بعد میں تو اس سے گمراہی کا ازالہ نہیں ہوسکے گا۔ اکثر اوقات ایک قاری ایک ماہ کا رسالہ پڑھنے کے بعد کسی مصروفیت یا کسی بھی دوسرے سبب سے اس کا جواب نہیں پڑھتا اور گمراہ مضمون کے سحر کا شکار ہو سکتا ہے اس صورت میں قاری کی گمراہی کا ذمہ دار کون ہوگا کیونکہ دینی رسالے کا مقصد انتشار اور خلفشار ذہنی عام کرنا نہیں، اسے ختم کرنا ہے۔ لہٰذا دینی رسالے کے قارئین کو فکری انتشار سے بچانے کا بہترین طریقہ یہی ہے۔
(ٹ) لہٰذا ہماری عاجزانہ رائے یہ ہے کہ دینی رسالے (البرہان) کو ہائیڈیارک نہیں بننا چاہیے کیونکہ ہائیڈپارک وہ جگہ ہے جہاں جس کا جو دل چاہے کہہ سکتاہے۔ اس آزادی اظہار رائے کا کوئی اصول طے شدہ نہیں ہوتا، ہر بات اور دعویٰ الحق ہوتا ہے۔ ہائیڈیارک میں ہر طوطی آواز لگاسکتا ہے۔ وہ متفرق ، متنوع، رنگا رنگ، آوازوں کا دبستان ہوتا ہے جہاں ہر پرندے کو پرواز کی اور ہر بلبل کو گریبان چاک کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ 
دینی رسالہ ہائیڈپارک نہیں بن سکتا۔ وہاں مکالمے، مباحثے، تبادلۂ خیال کے اصول پہلے سے طے شدہ ہوتے ہیں۔ ان اصولوں کے تحت کسی سے بھی مکالمہ ہوسکتا ہے۔ مکالمے کا بنیادی اصول یہ ہے کہ دونوں فریقین کی ما بعد الطبیعیاتی اساسات [Metaphysical Foundations] ایک ہوں۔ اس اصول کو طے کیے بغیر مکالمہ مکالمہ نہیں رہتا۔ مناظرے کا بھی اصول یہی ہے کہ فریقین پہلے کسی اصول پر متفق ہو جاتے ہیں جو دونوں کے لیے حجت ہوتا ہے۔ رسالت مآب نے اسی لیے کفار اور مشرکین کو مکالمے کی دعوت نہیں دی کیونکہ دونوں کے مابین مکالمے کی مشترکہ بنیاد نہیں تھی۔ دونوں کی ما بعد الطبیعیاتی اساسات یکسر مختلف تھیں۔ ان کو صرف دعوت دی گئی۔ لیکن اہل کتاب کو دعوت بھی دی گئی اور ساتھ ہی ساتھ مکالمے کی بھی دعوت دی گئی کیونکہ اہل کتاب کی ما بعد الطبیعیاتی اساسات اہل ایمان سے مماثل تھیں۔ ان میں تحریف ہوگئی تھی۔ توحید وہ بھی تسلیم کرتے تھے، لیکن ان کی توحید خالص نہیں تھی۔ اس کے باوجود ان کو دعوت ’’خالص توحید‘‘ کی بنیاد پر دی گئی کیونکہ وہ التوحید ، الکتاب اور الرسول کو اس طرح پہچانتے تھے جس طرح ایک ماں اپنے بیٹے کو پہچانتی ہے۔ مکالمے، مباحثے کی طرح مباہلہ کا اصول بھی یہی ہے کہ دونوں فریقین میں کوئی مشترک اساس ہو۔ جب ایک فریق دلیل برہان فرقان کے باوجود ایمان لانے پر تیار نہ ہو تو اسے مباہلے کی دعوت دی جاتی ہے کیونکہ دونوں فریق ایک ہی خدا پر یقین رکھتے ہیں اور دونوں کا خیال یہی ہوتا ہے کہ خدا ہمارے ساتھ ہے۔ لہٰذا مباہلہ کی دعوت اسے دی جاتی ہے جو خدا کے وجود کو تسلیم کرتا ہو۔ کسی ملحد کو مباہلے کی دعوت نہیں دی جاسکتی کیونکہ وہ خدا کو تسلیم نہیں کرتا، آپ کی دعوت کو قبول نہیں کرے گا۔ باطل فریق اہل کتاب خدا کو اپنا رب مانتے تھے لہٰذا اہل نجران کو دعوت مباہلہ دی گئی۔ 
اہل نجران کو معلوم تھا کہ رسالت مآب سچے ہیں قران اللہ کا کلام ہے لہٰذا وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اللہ کی نصرت رسالت مآبؐ کے ساتھ ہے۔ اگر مباہلہ ہوا تو اللہ کی لعنت ہم پر پڑے گی اور ہمارے گھر والے ہلاک ہو جائیں گے لہٰذا وہ بھاگ گئے۔ قرآن نے واضح کردیا کہ اہل کتاب قرآن کو اور اس کے لانے والے کو خوب پہچانتے تھے اور جب وہ آگیا تو اس سے منکر ہوگئے پس ان منکرین پر اللہ کی لعنت ہے قرآن حکیم نے کفار، مشرکین ،اہل کتاب سب سے مناظرے، مکالمے، مباحثے، کے آداب طے کردیے ہیں کہ یہ مشترکہ اساس کی بنیاد پر ہوگا۔ اساسات طے شدہ ہیں۔ اگر کوئی ان اساسات، بنیادی مقدمات، ایمانیات، بنیادی اصولوں کو تسلیم نہیں کرتا تو اس سے مکالمے و مباحثے و مناظرے کے بجائے اس کو دعوت دی جائے گی۔
الشریعہ پر ہمارا اعتراض یہی ہے کہ الشریعہ قرآن ، سنت اوراسلامی علمیت کی روشنی میں مکالمے مباحثے کے طے شدہ اصولوں کو اچھی طرح جاننے کے باوجود ان مکاتب فکر سے مکالمہ و مباحثہ کررہا ہے جن کے بنیادی اصول، مبادیات، منہج ہی مختلف ہے۔ مثلاً اہل السنت والجماعت کی مبادیات پر یقین رکھنے والے گروہ کو اہل سنت میں ہی شمار کیا جائے گا اور اس گروہ یا فرد سے مذاکرہ، مباحثہ ، مکالمہ جاری رہے گا لیکن اگر ایک گروہ اور ایک فرد ایک مکتب فکر اہل السنت و الجماعت کے بنیادی اصولوں قرآن سنت اجماع قیاس کو تسلیم ہی نہیں کرتا، صطلاحات اہل السنت کی استعمال کرتا ہے، لیکن ان کے مفاہیم میں تحریف، تغیر، تبدل کرکے مکالمہ کرنا چاہتا ہے تو اس سے مکالمہ نہیں ہوسکتا، لیکن اس گروہ کو دعوت ضرور دی جاسکتی ہے۔ الشریعہ کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ ان گمراہ فرقوں، مکاتب، اشخاص کی آرا نہایت کرو فر سے آزادی اظہار کے نام پر شائع کررہا ہے جو گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ اس طرح گمراہی کی تبلیغ، ترسیل، اشاعت میں نادانستہ طور پرشرکت کرکے وہ دینی حلقوں میں ذہنی انتشار اور فکری خلفشار پھیلا رہا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ان گمراہ افکار کا مسکت جواب لکھنے کے بجائے الشریعہ ان افکار کا دانستہ یا نادانستہ اتنا کم زور جواب دیتا ہے کہ گمراہ فکر کی قبولیت کا دریچہ کشادہ ہوتا جارہا ہے ہم نے اپنی تحریر میں اسی طرف توجہ دلاتے ہوئے لکھا تھا:
’’دینی علمی رسالوں کو ہائیڈیارک میں تبدیل کرنے کا کام مولانا زاہد الراشدی صاحب نے الشریعہ کے ذریعہ بخوبی انجام دیا ہے۔ دنیا بھر کی غلط سلط تحریریں نہایت کرو فر کے ساتھ الشریعہ میں شائع ہوتی ہیں ۔ انتشار پھیلانے کے اس عمل کو وہ آزادانہ رائے اور علمی ترقی کہتے ہیں۔ موصوف جاوید غامدی صاحب کے نظریات اپنے صاحبزادے کے سائے میں پھیلانے کا کام کررہے ہیں ، تجدید دین کے نام پر تجدد عام ہورہا ہے‘‘۔ [ماہنامہ الشریعہ، کلمہ حق، ص۲،نومبر ۲۰۱۳ء]
اس تمہید کے بعداب حضرت والا محترم حضرت مولانا راشدی صاحب کا موقف پڑھیے:
’’الشریعہ‘‘ کے بارے میں جناب فصیح احمد کے ارشادات پر کچھ معروضات پیش کرنے سے پہلے ہم ان کا تہہ دل سے شکریہ اداکرتے ہیں کہ انہوں نے علمی وفکری مسائل پر باہمی تبادلۂ خیالات اور مباحثہ و مکالمہ کی اہمیت و افادیت کے ساتھ ساتھ دونوں طرف کے مضامین کو ایک ہی فورم پر شائع کرنے کی ضرورت بیان کرکے ہمارے اس موقف کی اصولی طور پر تائید فرمادی ہے کہ علمی و فکری مسائل پر مکالمہ و مباحثہ ہونا چاہیے اور کوئی ایسا فورم بھی ضرور موجود ہونا چاہیے جہاں کسی مسئلہ پر مختلف موقف رکھنے ولے دو یا دو سے زائد فریقوں کا موقف یک جا شائع ہوتا کہ قارئین کو سب لوگوں کا موقف سامنے رکھ کر رائے قائم کرنے میں آسانی رہے۔ الشریعہ گزشتہ ربع صدی سے یہی خدمت سر انجام دے رہا ہے اور ہمیں خوشی ہے کہ ہماری پالیسی پر ناقدانہ نظر رکھنے والے علمی حلقوں میں بھی اس کی اہمیت و ضرورت کا احساس پیدا ہورہا ہے، فالحمداللہ علی ذلک۔ ہمیں اعتراف ہے کہ ’’الشریعہ میں گزشتہ ربع صدی کے دوران شائع ہونے والے بہت سے مضامین کی زبان ’’ہائیڈپارک‘‘ اور ’’موچی دروازہ‘‘ سے مختلف نہیں ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ زبان کس نے استعمال کی ہے؟‘‘ [ماہنامہ الشریعہ، کلمہ حق، ص۲،۳،نومبر ۲۰۱۳ء]
حضرت والا نے ہماری عبارت سے جو معانی اخذ کیے ہیں متن کے فہم سے وہ معانی کسی صورت نہیں پھوٹتے ہم نے درج بالا سطور میں اپنے متن کا فہم دلا ئل سے واضح کردیا ہے تاکہ ہمارے متن سے گمراہی اخذ کرنے کا کوئی قرینہ باقی نہ رہے کوئی دریچہ نہ کھل سکے اور ہر امکان مسدود ہو جائے ۔ ہمارا موقف صرف یہ ہے کہ دینی رسالو ں میں بحث و مباحثہ ان مکاتب فکر کے افکار پر ہونا چاہیے جو اہل السنت و الجماعت کے اصولوں کو تسلیم کرتے ہوں اور ان مسلمہ اصولوں کے دائرے میں رہ کر اپنے خیالات افکار پیش کررہے ہوں اگر وہ ان مسلمات کو ہی تسلیم نہیں کرتے اور دین کی تعبیر و تشریح کے نئے اصول تخلیق کرکے اہل السنت و الجماعت کی پندرہ سو سالہ قدیم علمیت کے مقابلے پر نئی متوازی علمیت پیش کرتے ہیں تو ان سے مکالمہ نہیں ہوسکتا ان کو دعوت دی جاسکتی ہے یا ان کو مباہلے کا پیغام دیا جاسکتا ہے۔
اپنے اس موقف کی تائید میں ہم خودحضرت والا مولانا زاہد الراشدی صاحب کی ایک تحریر پیش کررہے ہیں محترم عمار ناصر صاحب کی کتاب’’حدود تعزیرات چند اہم مباحث ‘‘کے ’’دیباچے‘ ‘ میں وہ لکھتے ہیں:
۱۔ راقم الحروف کے نزدیک اسلامی قوانین و احکام کی تعبیر و تشریح کے لیے صحیح قابل عمل اور متوازن راستہ یہ ہے کہ امت مسلمہ کے اجماعی تعامل اور اہل السنۃ والجماعۃ کے علمی مسلمات کے دائرہ کی بہر حال پابندی کی جائے [عمار ناصر، حدود و تعزیرات ، ص ۹، المورد لاہور طبع اول ۲۰۰۸ء] 
۲۔ جن تقاضوں کو ہم قرآن و سنت کی تعلیمات اہل سنت کے علمی اور اجتہاد شرعی کے دائرے میں قبول کرسکتے ہیں انہیں کھلے دل سے قبول کرلیں ۔[ص ۱۰، محولہ بالا]
۳۔ جوامور قرآن و سنت کی نصوص صریحہ، اور اجتہاد شرعی کے مسلمہ اصولوں سے متصادم ہوں ان کے بارے میں کسی قسم کا معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیے بغیر پوری دل جمعی کے ساتھ ان پر قائم رہیں (ص ۱۰ محولہ بالا) 
۴۔ سنت رسول سے مراد وہی ہے جو امت مسلمہ چودہ سو سال سے اس کا مفہوم سمجھتی آرہی ہے اور اس سے ہٹ کر سنت کا کوئی نیا مفہوم طے کرنا اور جمہور امت میں اب تک سنت کے متوارث طور پر چلے آنے والے مفہوم کو مسترد کردینا بھی عملًا سنت کو اسلامی قانون سازی کا ماخذ تسلیم نہ کرنے کے مترادف ہے (ص ۱۰، محولہ بالا ) 
۵۔ صرف قرآن کریم کو قانون سازی کی بنیاد بنانا اور سنت رسول کو قانون سازی کا ماخذ تسلیم کرنا قطعی طور پر ناقابل قبول ہے اور خود قرآنی تعلیمات کے منافی ہے (ص ۱۰، محولہ بالا )
۶۔ ایک رجحان آج کل عام طور پر یہ بھی پایا جاتاہے کہ سنت مستقل ماخذ قانون نہیں ہے (ص ۱۰ محولہ بالا)
۷۔ سنت کو اسلامی قانون سازی کا مستقل ماخذ اور قران و سنت کی تعبیر و تشریح کا حتمی معیار تسلیم کیا جائے جیسا کہ حضرات صحابہ کرام کے دور میں ہوتا تھا اور اسی پر امت مسلمہ کا اجماعی تعامل چلا آرہا ہے [ص ۱۱، محولہ بالا )
۸۔ قرآن و سنت دونوں کو قانون سازی کی بنیاد کے طور پر تسلیم کیا جائے ۔ (ص ۱۲ محولہ بالا )
۹۔ قدیم و جدید میں تطبیق کی کوشش ( احسن کام ہے ) صرف ایک شرط کے ساتھ کہ امت کے اجماعی تعامل اور اہل السنۃ و الجماعۃ کے علمی مسلمات کا دائرہ کراس نہ ہو کیونکہ اس دائرے سے آگے بہر حال گمراہی کی سلطنت شروع ہو جاتی ہے ( ص ۱۳، محولہ بالا )
راشدی صاحب کے ان دلائل سے ہمیں صد فی صد اتفاق ہے ہمارا منشاء بھی یہی ہے کہ الشریعہ اور تمام دینی رسالوں میں انہی اصولوں کے مطابق مباحثے، مکالمے اور مناظرے کا اہتمام ہونا چاہیے تمام علمی تحریریں ، اختلافی گفتگو ، تنقیدی آراء اگر قرآن و سنت کی نصوص صریحہ، امت کے اجماعی تعامل، اہل السنت و الجماعت کے علمی مسلمات کے دائرے کے اندر پیش کی جائیں تو ان پر بحث و مباحثے اور گفتگو کا دروازہ کھلا رکھا جائے لیکن الشریعہ اور راشدی صاحب پر ہمارا بنیادی اعتراض یہی ہے کہ انہوں نے ان طے شدہ اصولوں کے بر خلاف گمراہ مکاتب فکر کے خیالات کی ترسیل کو آزادی اظہار رائے کا نام دے کر الشریعہ کو ہائیڈ پارک میں تبدیل کردیا ہے۔
ان اصولی مباحث پر گفتگو کے بعدجو ہمارے اور راشدی صاحب کے مابین مشترک متفق علیہ ہیں اب ہم غامدی صاحب کے مکتب فکر کے افکار کی الشریعہ میں تشہیر ، تبلیغ ، تدریس ، ترسیل کے حوالے سے جناب محترم راشدی صاحب کے عذر کا جائزہ لیتے ہیں راشدی صاحب غامدی صاحب کے مکتب فکر کے افکار کی اشاعت کی دلیل دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’محترم فصیح احمد صاحب نے جناب جاوید احمد غامدی اور ان کے حلقۂ فکر کے بعض احباب کے مضامین کی ’’الشریعہ‘‘ میں اشاعت کا ’’طعنہ‘‘بھی دیا ہے، حالانکہ ہم نے غامدی صاحب پر تنقیدات بھی الشریعہ میں شائع کی ہیں۔ فصیح صاحب نے اسے نظر انداز کردیا۔‘‘ [ماہنامہ الشریعہ، کلمہ حق، ص۵،نومبر ۲۰۱۳ء]
لیکن راشدی صاحب کا یہ عذر، یہ دلیل ان کے طے شدہ اصولوں کے منافی ہے۔ غامدی صاحب کے مکتب فکر سے اہل سنت و الجماعت کا مکالمہ ممکن نہیں ہے، کیونکہ جناب غامدی صاحب کا مکتب فکر اہل السنت والجماعت کے اصولوں کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتا۔ وہ سنت کو ماخذ قانون تسلیم نہیں کرتا، وہ اجماع کو ماخذ قانو ن تسلیم نہیں کرتا، وہ عقل و فطرت کو ماخذات دین کے طور پر قبول کرتا ہے۔ وہ نصوص کی تعبیر و تشریح میں تنوع، رنگا رنگی، تغیرات کا قائل ہے۔ ہمارا سوال صرف یہ ہے کہ ایک مکتب فکر جب سنت کو ماخذ قانون ہی تسلیم نہیں کرتا تو اس مکتب فکر سے مذاکرے مباحثے کی بنیاد کیا ہو؟ ایک مکتب فکر خدا اور رسول کو تسلیم کرنے سے انکار کردے یا قرآن کو کتاب اللہ تسلیم نہ کرے تو کیا تب بھی ہم اس مکتب فکر کے خیالات علم کی نئی روش، جدید جہت ،منفرد سطح کے طور پر پیش کرکے مکالمہ شروع کردیں گے؟ ظاہر ہے ہم اس مکتب فکر کو دعوت دیں گے۔ مکالمہ مباحثہ ان سے ممکن نہیں کیونکہ وہ ہمارے بنیادی مسلمات کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔ 
غامدی صاحب نے ’’میزان‘‘ میں صاف لفظو ں میں لکھ دیا ہے:
۱۔ سنت دین ابراہیمی کی روایت ہے سنت عبادات، معاشرت، خور و نوش رسوم و آداب تک محدود ہے سنت محض نماز، روزہ، اعتکاف، زکوٰۃ، صدقہ فطرہ، حج و عمرہ، قربانی تشریق کی تکبیروں ، نکاح و طلاق ، حیض و نفاس، سور یا خون، مردار، خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیے گئے جانور کی حرمت، جانروں کے تزکیہ، بسم اللہ سے دائیں ہاتھ سے کھانے پینے، السلام علیکم کہنے اور جواب دینے، چھینک پر الحمدللہ جواب میں یرحمک اللہ کہنے، مونچھیں پست رکھنے، زیر ناف کے بال کاٹنے، بغل کے بال اکھاڑنے ، ناخن کاٹنے، ختنہ، ناک منہ دانت صاف کرنے، استنجا، حیض و نفاس کے بعد غسل، غسل جنابت، میت کے غسل ، تجہیز و تکفین ،تدفین، عید الفطر اور عیدالاضحی کا نام ہے ان سنتوں کی کل تعداد ۱۶ ہے [غامدی میزان ، ص ۱۴، طبع پنجم ۲۰۱۰ء المور لاہور ] 
۲۔ سنت صرف وہی چیز ہوسکتی ہے جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے دین ہو (اور سنت میں مخفی دین صرف ۱۶ سنتوں میں محصور ہے ) سنت کا تمام تر تعلق عملی زندگی سے ہے علم و عقیدہ ، تاریخ، شان نزول ، اور اس طرح کی چیزوں کا سنت سے کوئی تعلق نہیں سنت کا لفظ ہی اس سے ابا کرتا ہے کہ ایمانیات کی قسم کی کسی چیز پر اس کا اطلاق کیا جائے لہٰذا علمی نوعیت کی کوئی بھی چیز سنت نہیں ہے اس کا دائرہ صرف کرنے کے کام ہیں اس دائرے سے باہر کی چیزیں اس میں کسی طرح شامل نہیں کی جاسکتیں عملی نوعیت کی وہ چیزیں بھی سنت نہیں ہوسکتیں جن کی ابتداء پیغمبر کے بجائے قرآن سے ہوئی ہے سنت قرآن کے کسی حکم پر عمل یا اس کی تفہیم و تبتین کو قرار نہیں دیا جاسکتا۔ نفل نماز ،روزے ،قربانی بھی سنت نہیں فطرت بھی سنت نہیں ہے۔ فطرت سنت سے الگ ہے نماز میں قعدے کے اذکار بھی سنت نہیں ہیں سنت خبر واحد سے ثابت نہیں ہوتی سنت قرآن کی طرح صحابہ کے اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے لہٰذا سنت بھی قرآن ہی کی طرح پوری قطعیت کے ساتھ متعین ہو جاتی ہے [میزان ص ۵۷، ۵۸، ۵۹، ۶۰، ۶۱ محولہ بالا] دوسرے معنوں میں جس طرح قرآن کی آیات کی تعداد متعین ہے سنتوں کی تعداد بھی متعین ہے ۔
میزان کے مقدمے میں پہلے صفحے پر ’’اصول و مبادی‘‘ کے تحت غامدی صاحب لکھتے ہیں کہ دین کا تنہا ماخذ اس زمین پر اب محمدؐ کی ذات ہے (ص ۱۳ میزان ۲۰۱۰) قانون و حکمت دین حق ہے اور دو صورتوں میں ہم تک پہنچا ہے ۱۔ قرآن مجید، ۲۔سنت(ص ۱۳ محولہ بالا)صفحہ ۴۷ پر غامدی صاحب لکھتے ہیں’’ سنت قرآن کے بعد نہیں بلکہ قرآن سے مقدم ہے [ص ۴۷ محولہ بالا] سنت دین ابراہیمی کی روایت ہے (ص ۱۴ محولہ بالا ) ان متضاد بیانات میں ترتیب قائم کی جائے تو ماخذات دین کی فہرست جو غامدی صاحب نے مرتب کی ہے خود ان کے اصول کی روشنی میں اس طرح مرتب ہوگی۔ ۱۔ سنت (کیونکہ سنت حضرت ابراہیم سے شروع ہورہی ہے معلوم نہیں دیگر انبیاء جو حضرت ابراہیم سے پہلے تھے کیا کرتے تھے ان کو توسنت کا علم ہی نہیں تھا ) ۲۔ رسالت مآبؐ ، ۳۔قرآن مجید لیکن غامدی صاحب نے اس ترتیب کو سہواً پیش نظر نہیں رکھا۔
راشدی صاحب کا اصول ہے کہ سنت ماخذ قانون ہے غامدی صاحب کے مکتب کا اصول ہے کہ وہ ماخذ قانون نہیں ہوسکتی۔ اس بنیادی اختلاف کی صورت میں غامدی صاحب کے مکتب فکر اور برادرِ مکرم عمار خان ناصرصاحب کے خیالات پر مکالمہ کیسے ممکن ہے جب بنیادی مقدمات ہی مختلف ہیں۔ ایک جانب غامدی صاحب کا دعویٰ ہے کہ سنت قرآن کی طرح قطعی الدلالہ ہے اور صحابہ کے اجماع و عملی تواتر سے متعین ہے لیکن اس تعین، اجماع، عملی تواتر کا حال یہ ہے کہ( ۱) میزان حصہ اول ۱۹۸۵ء میں سنتوں کی تعداد متعین نہیں تھی اس وقت اہل سنت کی تعریفِ سنت سے غامدی صاحب متفق تھے۔ (۲) محاضرات کراچی ۱۹ تا ۲۸ مارچ ۱۹۹۸ء میں غامدی صاحب نے سنتوں کی تعداد چالیس بیان کی ۔ (۳)اصول و مبادی تالیف جاوید احمد غامدی دانش سرا ۱۲۳ بی ماڈل ٹاؤن لاہور طبع اول ۲۰۰۰ء، کے مطابق سنتوں کی تعداد چالیس تھی ۔(۴)میزان طبع دوم اپریل ۲۰۰۲ء دارالاشراق ۱۲۳ بی ماڈل ٹاون لاہور میں ص ۱۰ پر اصول و مبادی کے تحت سنتوں کی تعداد صرف ۲۷ رہ گئی ۔(۵) میزان طبع اول ۲۰۰۸ء میں سنتوں کی تعداد صرف صرف اٹھارہ رہ گئی۔( ۶)میزان طبع پنجم فروری ۲۰۱۰ء میں سنتوں کی تعداد صحابہ کے اجماع و عملی تواتر سے صرف ۱۷ رہ گئی۔ (۷) میزان طبع اول ۲۰۰۸ء اور میزان ۲۰۰۹ء میں سنتوں کی تعداد ۱۸ تھی۔ ایک سنت جو ۲۰۰۸ء ، ۲۰۰۹ء تک صحابہ کے اجماع اور عملی تواتر سے قرآن کی طرح ہی امت کو منتقل ہوئی تھی، اچانک ۲۰۱۰ء میں کہاں غائب ہوگئی؟ وہ سنت تھی نومولود کے کان میں اذان ۔ ۲۰۱۰ء میں غامدی صاحب کو خبر ہوگئی کہ اس سنت پر صحابہ کا اجماع نہیں تھا نہ تواتر عملی تھا۔ لہٰذا یہ سنت خارج کردی گئی۔ غامدی صاحب لکھتے ہیں ثبوت کے اعتبار سے سنت اور قرآن مجید میں کوئی فرق نہیں وہ جس طرح صحابہ کے اجماع اور قولی تواتر سے ملا ہے سنت اسی طرح ان کے اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے اور قرآن ہی کی طرح ہر دور میں مسلمانوں کے اجماع سے ثابت قرار پائی ہے لہٰذا اس کے بارے میں اب کسی بحث و نزاع کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ [میزان ص ۱۴، طبع پنجم ۲۰۱۰ء] تو سوال یہ ہے کہ سنت اتنی قطعی، واضح، قرآن کی طرح مستحکم تھی تو ۲۰۱۰ء میں وہ کیسے منسوخ ہوگئی؟ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ صحابہ کا اجماع عملی تواتر بھی منسوخ ہوسکتا ہے اور قرآن کی آیت کی تعداد بھی کم و بیش ہوسکتی ہے جس طرح سنت کی تعداد کم زیادہ ہو رہی ہے ماخذ ناقابل تغیر ہوتا ہے۔ اگر سنت ماخذ ہے تو یہ کیسا ماخذ ہے جو مسلسل تغیر و تبدل سے گزر رہا ہے۔
۳۔ غامدی صاحب دین کے صرف دو ماخذ تسلیم کرتے ہیں: قرآن، سنت۔ وہ قیاس، اجماع کو ماخذ تسلیم نہیں کرتے۔ ان کی نظر میں سنتوں کی تعداد صرف ۱۷ ہے۔ قرآن کی تشریح و تفسیر کے ضمن میں وہ سنت کو ماخذ، ذریعہ تسلیم نہیں کرتے کہ سنت تو صرف اعمال کا نام ہے۔ علم، قانون، اصول، تشریح و تفسیر کا نام نہیں۔ اصلاً غامدی صاحب کا ماخذ دین صرف اور صرف قرآن ہے، وہ سنت کو ماخذ قانون و ماخذ تفسیر قرآن تسلیم نہیں کرتے۔ منکر سنت کے بارے میں خود راشدی صاحب کی رائے یہ ہے کہ’’ صرف قرآن کریم کو قانون سازی کی بنیاد بنانا اور سنت کو قانون سازی کا ماخذ تسلیم نہ کرنا قطعی طو ر پر ناقابل قبول اور خود قرآنی تعلیمات کے منافی ہے۔‘‘ [ص ۱۰ دیباچہ حدود و تعزیرات عمار ناصر طبع اول جولائی ۲۰۰۸ء ] غامدی صاحب اوران کا مکتب فکر بشمول محترم عمار ناصر صاحب جب سنت کو ماخذ قانون ہی نہیں مانتے تو قرآنی تعلیمات کے خلاف غلط نقطۂ نظر بھی رکھتے ہیں تو ان کی تحریروں کی الشریعہ میں اشاعت کا کیا جواز ہے؟ 
الشریعہ پر ہمارا اعتراض یہی ہے کہ وہ ہائیڈپارک نہ بنے، قرآن و سنت اجماع قیاس کے اصولوں کا محافظ بنے۔ جدیدیت پسندوں، منکرین سنت کے افکار کو اپنے رسالے کی زینت بنا کر ان کو اعتبار وقار اور اعتماد مہیا نہ کرے۔ یہ دین کے ساتھ مذا ق ہے اور اپنے طے شدہ اصولوں کا انکار۔ قرآن نے یہی بات واضح کی ہے کہ اے ایمان والو، تم وہ باتیں کیوں کہتے ہو جن پر خود عمل نہیں کرتے۔

نیلسن منڈیلا کا انتقال

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

نیلسن منڈیلا تحریک آزادی کے عالمی لیڈروں میں سے تھے جنہوں نے نہ صرف جنوبی افریقہ کی آزادی کے لیے طویل جنگ لڑی بلکہ دنیا کے نقشے پر دکھائی دینے والی نسلی امتیاز کی دو آخری نشانیوں میں سے ایک کے خاتمہ کی راہ ہموار کی۔ نیلسن منڈیلا سے قبل جنوبی افریقہ سفید فام، سیاہ فام اور انڈین کہلانے والے باشندوں کے درمیان تقسیم تھا۔ تینوں کی آبادیاں الگ الگ تھیں، رہن سہن الگ الگ تھا اور حقوق و مفادات کے معیارات الگ الگ تھے۔ گوروں کی حکومت تھی اور سیاہ فام اکثریت غلاموں جیسی زندگی بسر کر رہی تھی۔ انڈین کہلانے والی آبادی جو مسلمانوں، ہندوؤں اور دیگر مذاہب کے لوگوں پر مشتمل تھی اور جس میں انڈونیشیا وغیرہ سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی شامل تھے، اپنی الگ شناخت رکھتی تھی۔ انڈین کمیونٹی تجارت و سیاست میں قدرے بیدار و متحرک ہونے کی وجہ سے سیاہ فاموں سے کسی حد تک مختلف معیار کی حامل تھی۔ اس نسلی تفریق و امتیاز اور گوروں کی اقلیتی حکومت کے خلاف نیلسن منڈیلا نے آزادی کا پرچم بلند کیا، زندگی کے کم و بیش تین عشرے جیل میں گزارے اور عدم تشدد پر مبنی پر اَمن جدوجہد کے نتیجے میں اپنی قوم کو آزادی کی منزل سے ہمکنار کرنے میں بالآخر کامیاب ہوگئے۔ 
میں جنوبی افریقہ کے حالیہ سفر کے دوران اس جیل کے سامنے سے گزرا ہوں جس کے بارے میں بتایا گیا کہ نیلسن منڈیلا نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ اس کی سلاخوں کے پیچھے بسر کیا ہے۔ نسلی امتیاز کے خاتمہ کے لیے گزشتہ صدی کے دو بڑے لیڈروں کا نام تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ امریکہ کے مارٹن لوتھر کنگ اور جنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلا۔ دونوں کی جدوجہد میں یہ بات قدرِ مشترک تھی کہ انہوں نے سیاہ فام لوگوں کو سفید فام لوگوں کی بالاتری اور بالادستی سے نجات دلانے کے لیے جدوجہد کی اور دونوں کی جدوجہد تشدد سے ہٹ کر خالصتاً پر اَمن سیاسی تحریک پر مبنی تھی۔ البتہ مارٹن لوتھر کنگ نے امریکی دستور اور حکومت کے تحت رہتے ہوئے سیاہ فام باشندوں کے لیے برابر کے سیاسی و شہری حقوق کے لیے کامیاب جدوجہد کی، جبکہ نیلسن منڈیلا گوری اقلیت کی حکومت کے خاتمہ اور جمہوری بنیادوں پر ملک میں اکثریتی حکومت کے قیام کے لیے سرگرم عمل رہے، دونوں نے نسلی امتیاز کے خاتمہ میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ دونوں کے ملکوں میں ان کی جدوجہد سے پہلے دور کے نسلی امتیاز کی نشانیاں اور آثار کچھ نہ کچھ اب بھی پائے جاتے ہیں، میں نے امریکہ اور جنوبی افریقہ دونوں جگہ گھوم پھر کر ان آثار کا مشاہدہ کیا ہے جو ماضی کی تلخ یادوں کی غمازی کرتے ہیں، اور انہیں دیکھ کر ان دونوں لیڈروں کی عزیمت و استقامت اور صبر و حوصلہ کی بے ساختہ داد دینا پڑتی ہے۔ 
میں 5 دسمبر جمعرات کو جوہانسبرگ سے سعودیہ ایئر لائن کے ذریعہ جدہ کی طرف روانہ ہوا تو اس وقت تک مجھے کوئی خبر نہیں تھی، مگر ایک رات جدہ ایئرپورٹ پر گزارنے کے بعد جمعہ کی شام کو لاہور پہنچا تو معلوم ہوا کہ نیلسن منڈیلا اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے ہیں۔ ایک عظیم حریت پسند راہ نما اور عوام دوست لیڈر کی وفات پر صدمہ ہوا اور دل جنوبی افریقہ کے عوام کے غم میں شریک ہوگیا۔ 

مکاتیب

ادارہ

محترم ابو عمار زاہد الراشدی صاحب 
السلام علیکم ۔ امید ہے آپ، محترم عمار صاحب اور دیگر احباب ادارہ خیریت سے ہوں گے۔ 
چند ماہ قبل ’’الشریعہ‘‘ کے ایک شمارے میں مفتی ابولبابہ صاحب کا ایک مضمون جو امیر عبد القادر الجزائری صاحب کے متعلق تھا، پڑھ کر قلب بے تاب تو ہوا کہ ایسی زبان جو کسی ان پڑھ آدمی کو بھی زیب نہیں دیتی، ایک مفتی کے قلم سے کیسے صفحۂ قرطاس پر آگئی؟ تاہم کچھ گھریلو کچھ سیاسی اور کچھ پیشہ وارانہ مصروفیات آڑے آتی ہیں اور قبلہ و کعبہ مفتی صاحب کی زبانِ قلم پر قلم نہ اٹھ سکا۔ 
ایک مدت سے سوچ رہا تھا کہ لکھے ہوئے عرصہ بیت گیا، کچھ لکھا جائے۔ محترم مجید نظامی صاحب کا بھی اصرار رہا کہ نوائے وقت کے سنڈے میگزین میں ’’جیل کے دن۔ جیل کی راتیں‘‘ لگ بھگ دس ماہ تک لکھنے کے بعد مزید کچھ لکھوں، مگر نہ جانے طبیعت اس طرف کیوں مائل نہ ہو سکی۔ اب حال ہی میں جماعت اسلامی کے سابق امیر ضلع گوجرانوالہ چوہدری محمد اسلم صاحب (اللہ ان کی عمر دراز کرے اور صحت مند رکھے) کی یادداشتیں جو کتابی شکل میں آئی ہیں، مجھ تک منور ہاشمی صاحب ایڈووکیٹ کے ذریعے پہنچیں جس کے لیے میں ان کا مشکور ہوں۔ چوہدری صاحب کی یادداشتیں پڑھیں تو ایک گزرا ہوا دور یاد آگیا۔ کتاب ’’میری تحریکی یادداستیں‘‘ کے نام سے چھپی ہے۔ خوشی ہوئی کہ نوے سال کے لگ بھگ عمر ہونے کے باوجود چوہدری اسلم صاحب کی صحت اور یادداشت دونوں اللہ کے فضل سے درست ہیں۔ اس لیے کتاب میں بیان کردہ واقعات عمر کے عذر سے نادرست نہیں ہو سکتے۔
چوہدری صاحب کی یادداشتوں کو کئی حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ذاتی، خاندانی، جماعتی، سماجی اور تحریکی حصوں میں۔ مگر فکری لحاظ سے کتاب بڑی بانجھ ہے۔ شاید چوہدری صاحب بھی صرف تحریکی یادداشتیں ہی لکھنا چاہتے تھے، کوئی فکری کام کرنے کا ان کا کوئی ارادہ ہی نہ ہو۔ لیکن اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ہر بڑا آدمی اپنی یادداشتیں یا سوانح عمریاں لکھتا آیا ہے جس میں قاری کی دلچسپی بھی فکری معاملات سے زیادہ واقعاتی معاملات میں ہوتی ہے۔ اپنے تئیں چوہدری اسلم صاحب نے جو کچھ لکھا، دیانتداری سے لکھا مگر افسوس کہ کچھ واقعات میں انہوں نے اندھی محبت اور کچھ میں اندھی نفرت کا برملا اظہار کیا ہے۔ اور یہ دونوں رویے انسان کو اعتدال سے دور کر دیتے ہیں اور یوں جو کچھ کہا یا لکھا جاتا ہے، یقیناًبے اعتدالی کے زمرے میں آتا ہے۔ ’’میری تحریکی یادداشتیں‘‘ کے کچھ واقعات پر عرض کرنا چاہوں گا۔ 
صفحہ 106 پر جن چوہدری اسماعیل ایڈووکیٹ کا ذکر کیا گیا ہے، وہ لاہور ہائی کورٹ بارے میں ’’اسماعیل پھڈا‘‘ کے نام سے جانے جاتے تھے۔ فوجداری مقدمات کا اچھا وکیل ہونے کے باوجود ذہنی طور پر بے اعتدالی ان کی شخصیت کا حصہ مرتے دم تک رہی۔ ویسے میرے 34 سالہ پیشہ وکالت کے تجربے میں کراچی سے پشاور تک ہر بار میں جماعت اسلامی کے اکثر وکلاء صاحبان انہی ’’خوبیوں‘‘ کے حامل ملے۔ چوہدری صاحب نے اگر ان کی ضمانت کے لیے سفارش کی تھی جو چوہدری صاحب کے بھائی نے منظور بھی کر لی تو اس واقعہ کا ذکر اگر وہ نہ بھی کرتے تو بہتر تھا۔ کیونکہ اس مظلوم عورت جو چوہدری اسماعیل کی بیوی تھی پر جو گزری، وہ بات چوہدری صاحب گول کر گئے۔ یاد رہے کہ ازاں بعد وہ خاتون پاگل ہوگئی تھی۔ کتاب میں صفحہ 135 پر جس ملت ہائی سکول گوجرانوالہ کا ذکر کیا گیا ہے، بے شک اس سکول نے اچھے طلبہ پیدا کیے مگر اخلاقی طور پر اس کا انجام بھی بد دیانتی پر ہوا۔ 
سکولوں کو قومیانے کے بعد جب ملت ہائی سکول کی بلڈنگ خالی کرالی گئی تو جماعت اسلامی کے یونس گھمن صاحب ایڈووکیٹ تب ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن گوجرانوالہ کے صدر تھے۔ نیشنل سٹیڈیم کے صدر دروازے کے باہری طرف وکلاء کا ایک کلب تھا جہاں وہ اِن ڈور گیم اور ٹینس وغیرہ کھیلتے تھے۔ اس کلب کا نام گوجرانوالہ بار کے ایک صاحب ثروت ممبر لبھو رام ایڈووکیٹ کے نام پر ’’لبھو رام کلب‘‘ رکھا گیا تھا جنہوں نے یہ عظیم الشان بلڈنگ بار کو عنایت کر دی تھی۔ ادھر جونہی ملت ہائی سکول کی بلڈنگ خالی ہوئی، یونس گھمن صاحب نے بطور صدر بار فورًا لبھو رام کلب کی جگہ بلا اجازت بار ایسوسی ایشن کا کوئی اجلاس طلب کیے بغیر علامتی کرائے پر سکول انتظامیہ کے حوالے کر دی۔ اکثر وکلاء صاحبان نے اعتراض بھی کیا مگر چونکہ جماعت کے لوگ ’’پر عزم‘‘ ہوتے ہیں، اس لیے بات آگے نہ بڑھ سکی۔ بعد میں وکلاء کلب کے لیے مخصوص یہ جگہ کرکٹ سٹیڈیم میں شامل کر لی گئی اور یوں ایک بد دیانتی کی قیمت بار کو ادا کرنا پڑی اور بار ایک ارب کی قیمتی جائیداد سے محروم ہوگئی۔ 
صفحہ نمبر 162 پر چوہدری اسلم صاحب نے خواتین ارکان جماعت کے باب میں محترمہ کنیز فاطمہ کے شوہر ملک محمد رفیق صاحب اور ان کی گرانقدر مالی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کچھ ایسا انداز اپنایا ہے کہ گویا ملک رفیق مرحوم آخر دم تک جماعت کے ساتھ چلے۔ ایسا ہرگز نہیں۔ ملک محمد رفیق صاحب مرحوم نے جماعت اسلامی سے علیحدگی اختیار کر کے ’’تحریک استقلال‘‘ میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ 1979ء کے انتخابات میں (جو ضیاء الحق نے ملتوی کر دیے تھے) ملک صاحب تحریک استقلال کے ٹکٹ پر گوجرانوالہ شہر کے صوبائی حلقے سے انتخابات میں حصہ لینے کے خواہشمند تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میاں محمود علی قصوری ایڈووکیٹ اس پارلیمانی بورڈ کے سربراہ اور میں ایک ممبر تھا جس نے ٹکٹوں کی تقسیم کا فیصلہ کرنا تھا۔ دیگر ممبران، ملک حامد سرفراز، ملک وزیر علی اور غالبًا ممتاز تارڑ نے جب ملک رفیق صاحب کا انٹرویو شروع کیا تو مرحوم نے اپنی بیگم صاحبہ کی خدمات گنوانا شروع کر دیں اور تحریک نظام مصطفی میں بیگم صاحبہ کے دلیرانہ کردار کو وضاحت سے پیش کیا تو میاں محمود علی قصوری صاحب نے اپنی روایتی گرجدار آواز میں اپنے مخصوص تکیہ کلام کو استعمال کرتے ہوئے سوال کیا کہ ’’اوئے بیبا کجھ تویں کیتا کہ نئیں‘‘ (اے بھلے آدمی! تو نے بھی کچھ کیا ہے کہ نہیں؟)۔ معلوم نہیں کہ جماعت اسلامی چھوڑ کر جانے والوں کی واپسی کے لیے جماعت کا دستور کیا کہتا ہے، چوہدری صاحب نے وضاحت نہیں کی۔
بارے ذکر رفیق تارڑ صاحب کا ہو جائے۔ صفحہ نمبر189، 190، 191 پر چوہدری صاحب نے سابق صدر پاکستان کو سمارٹ، محنتی، دیانتدار، مستعد دیانت دار، منتہائے مقصود، خدمت اسلام اور صاحب عظمت کے ’’معدودے چند‘‘ لفظوں سے یاد کیا ہے۔ شاید چوہدری اسلم صاحب کی زنبیل میں ان کے لیے اس سے زائد الفاظ نہ تھے، ورنہ یہ صفحات کھولتے ہی خوشامد کی بو آنے لگتی ہے۔
رفیق تارڑ صاحب ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے انتخابات میں ایک پولنگ سٹیشن پر ایوب خان کے پولنگ ایجنٹ تھے۔ گوجرانوالہ بار کے ممبر ہونے کے ناطے پرانے وکلاء کو اب بھی وہ ناگفتنی الفاظ یاد ہیں جو وہ قائد اعظم کے بارے میں ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ پولنگ کا ’’ایجنٹ‘‘ ہونے کا انعام سپیکر ویسٹ پاکستان اسمبلی چوہدری محمد انور بھنڈر صاحب کے والد خان بہادر محمد حسین مرحوم نے گورنر مغربی پاکستان نواب کالا باغ سے یوں دلوایا کہ تارڑ صاحب کو ایڈیشنل سیشن جج بھرتی کر لیا گیا اور تمام قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انہیں پہلے دن سے ہی کنفرم کر دیا گیا۔ ضیاء الحق نے 5 جولائی 77ء کو اقتدار سنبھالا تو حضرت نے داڑھی بھی بڑھالی اور ضیاء الحق کے PCO کے تحت حلف بھی اٹھا لیا۔ جب سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ سجاد علی شاہ صاحب نے وزیر اعظم نواز شریف کو سپریم کورٹ میں طلب کیا تو یہ تارڑ صاحب ہی تھے جو ایک روایت کے مطابق ’’بریف کیس‘‘ لے کر کوئٹہ گئے اور بلوچستان ہائی کورٹ کے جج صاحبان کو اپنے ہی چیف جسٹس کے خلاف بغاوت پر آمادہ کیا۔ سنا ہے کہ تارڑ صاحب بڑی بذلہ سنج اور ’’مخولیہ‘‘ طبیعت کے مالک ہیں۔ عدلیہ سے فراغت کے بعد ان کا زیادہ وقت میاں شریف مرحوم کی صحبت میں گزرتا۔ تارڑ صاحب انہیں بہت سے گفتنی و نا گفتنی لطائف سے محظوظ کرتے اور یوں میاں صاحب مرحوم کا وقت بھی اچھا کٹ جاتا۔ یہ لطائف پھر پاکستان کی صدارت میں تبدیل ہوگئے۔ اللہ عمر دراز کرے عطاء الحق قاسمی صاحب کی کہ پہلے یہی کام کر کے لطائف و ’’مخولیہ پن‘‘ کی بنا پر وہ میاں نواز شریف سے ناروے اور تھائی لینڈ کی سفارت حاصل کر چکے تھے۔ تارڑ صاحب کے اوصاف حمیدہ میں سازش، خوشامد اور جمہوریت دشمنی شامل ہو تو ہو، جو اوصاف چوہدری صاحب نے گنوائے ہیں، دور دور تک نہیں ہیں۔ 
جب کوئی بھی چھوٹا بڑا آدمی اپنی یادداشتوں کو کتابی شکل دیتا ہے تو اس میں لکھا ہوا سچ یا جھوٹ ایک دستاویز بن جاتا ہے۔ اس خدشے کا اظہار میں اس لیے کر رہا ہوں کہ چوہدری اسلم صاحب کی ’’میری تحریکی یادداشتیں‘‘ کے کچھ واقعات جو ذاتی یا بالواسطہ طور پر مجھے معلوم ہیں، ایک قاری کے لیے ان کی تصحیح کر سکوں، ورنہ چوہدری صاحب نے تو زندگی بھر کا توشہ سامنے رکھ دیا ہے۔ مثلاً کتاب کے صفحہ نمبر 227 پر چوہدری صاحب نے بیان کیا کہ وہ 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بننے والے ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ کے صدر تھے۔ اس امر کی تصحیح ضروری ہے۔ گوجرانوالہ میں اس اتحاد کے صدر مسلم لیگ کے چوہدری فقیر اللہ ایڈووکیٹ تھے جو اس وقت ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن گوجرانوالہ کے بھی صدر تھے۔ 
جہاں تک کتاب کے فکری اور سیاسی پہلو کا تعلق ہے تو اس پر آئندہ وقت ملا تو قلم اٹھاؤں گا۔ یہاں ایک امر کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں ذاتی طور پر ہمیشہ چوہدری اسلم صاحب کی سیاسی و انتظامی صلاحیتوں کا معترف رہا ہوں۔ آج بھی پورے گوجرانوالہ میں میرا شمار یقیناًان لوگوں میں ہوگا جو چوہدری صاحب کی ذات پر لگنے والے ایک داغ کا دفاع کرتے آئے ہیں، ایک ایسا داغ جس سے چوہدری صاحب کی ذات قطعاً معصوم ہے۔ اللہ انہیں صحت مند رکھے اور ان کے سایۂ شفقت کو دراز کرے۔ آمین
محمد سلیمان کھوکھر ایڈووکیٹ، گوجرانوالہ 

تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’خامہ بہ جوش‘‘

’’خامہ بہ جوش‘‘ برادرِ عزیز فصیح الدین اشرف کے کالموں پر مشتمل رشحاتِ قلم کا شاہکار ہے۔ مصنف پولیس سروسز آف پاکستان سے وابستہ ہیں اور علم و ادب کا طالب علمانہ ذوق رکھتے ہیں۔ ان کے مطالعات کا کینوس بڑا وسیع ہے۔ دنیائے علم کے تقریباً ہر موضوع پر وسیع معلومات رکھتے ہیں۔ اردو بازار میں ملازمت کے دوران ان کے پختہ علمی ذوق کے پیش نظر ان سے شناسائی ہوئی اور یہ تعلق خط و کتابت اور فون کے ذریعے تا دمِ ایں جاری ہے۔ گزشتہ دنوں انہوں نے گوشہ ادب کوئٹہ سے شائع ہونے والی اپنی نادرِ روزگار تالیف ’’خامہ بہ جوش‘‘ ارسال فرمائی اور ساتھ ہی اس پر تبصرہ لکھنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔ بڑے سائز کے 410 صفحات پر مشتمل یہ کتاب اگرچہ مجھ ایسے بے بضاعت اور کم علم کے تبصرے کی محتاج نہیں جس کو ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب اور احمد زین الدین صاحب مدیر روشنائی (کراچی) اور پروفیسر اسحاق وردگ صاحب جیسے اساطینِ علم و ادب نے خراجِ تحسین پیش کیا ہو۔ عجیب حُسنِ اتفاق کہیے یا پھر حُسنِ توارد سمجھیے کہ ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب نے لاہور میں بیٹھ کر اس پر ’’حرفِ چند‘‘ لکھا جبکہ زین الدین صاحب نے کراچی میں بیٹھ کر ’’علم کا جویا۔ فصیح الدین اشرف‘‘ کے عنوان سے لکھا اور دونوں نے اپنی اپنی تحریروں کا خاتمہ شاعر مشرق حکیمِ الامت علامہ اقبال کے اس شہرہ آفاق مصرع پر کہا۔ 
؂ ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی
فکاہیہ کالم نگاری کے گل سرسید مشفق خواجہ مرحوم کے فکاہیہ کالموں کا مستقل عنوان ’’خامہ بہ گوش‘‘ ہوا کرتا تھا۔ فصیح الدین اشرف نے انہی سے اپنے کالموں کا عنوان مستعار لیا ہے جو ان کے کالموں پر ’’خامہ بہ جوش‘‘ کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ اتنی بڑی اور قد آور شخصیت کے اختیار کردہ نام کی خوشہ چینی کو مصنف موصوف نے بڑی خوبصورتی سے نبھایا ہے اور ان کے وقار کو قطعاً داغدار نہیں ہونے دیا۔ ’’خامہ بہ جوش‘‘ کا روپ دھار کر جب وہ اس وادئ پر خار میں نکلے ہیں تو ان کے سوزِ دروں، سیماب فطرتی اور علم کے ابلتے جوش نے نتیجتاً انہیں ’’خانہ بردوش‘‘ کر ہی چھوڑا۔ میری ان سے آخری بالمشافہ ملاقات پشاور میں ہوئی تھی، اس وقت سے لے کر تادمِ تحریر وہ ’’خانہ بردوش‘‘ ہی ہیں اور اگر ان کی فکر و نظر کے تیور یہی رہے تو ممکن نہیں کہ وہ کبھی اس ’’خانہ بردوشی‘‘ کی بساط لپیٹ پائیں گے اور اس آبلہ پا کالم نگار کی دیگر انفرادیتوں میں سے ایک انفرادیت بھی یہی ہے۔ وہ اس وقت آتشِ نمرود میں کودے ہیں جب گل و گلزار کی رنگینیوں سے متمتع ہونے کا سنہری وقت ہوتا ہے لیکن انہوں نے اس گنگا میں اشنان کو اپنی شان سے فروتر سمجھا اور قلندرانہ بانکپن کے ساتھ نعرۂ مستانہ لیے ہوئے صدائے جرس دینے لگے۔ 
انہوں نے اپنی کتاب کا انتساب جناب رسالت مآبؐ کی ذات بابرکات کے حضور نذرانۂ عقیدت کے طور پر پیش کیے جانے والے پرواز جالندھری کے ان اشعار سے کیا ہے:
لیتا ہوں تیرا نامؐ ہر اک جام سے پہلے
آتا ہی نہیں کیف تیرے نامؐ سے پہلے
ہر رنگ سے قرطاسِ عقیدت پہ نظر کی
ابھرا نہ کوئی نام تیرے نامؐ سے پہلے
دنیا تیری نسبت سے ہمیں جان رہی ہے
ورنہ یونہی پھرتے رہے بے نام سے پہلے
’’عرض کالم نگار‘‘، ڈاکٹر تحسین فراقی کے ’’حرفے چند‘‘ ، احمد زین الدین کے ’’علم کا جویا ۔ فصیح الدین اشرف‘‘ ، پروفیسر اسحاق وردگ کے فصیح الکالم اور آغا گل کے "Fasihuddin - A Regular Trajan" اور خود صاحب کتاب کے اپنے چشم کشا تعارف ’’میں کون ہوں‘‘ کے بعد کتاب کو مندرجہ ذیل جلی عنوانات کے تحت ترتیب دیا گیا ہے:
  • سلوک و تصوف (اس میں چھ کالم ہیں)
  • فوج اور قومی سلامتی (اس میں پانچ کالم ہیں)
  • ہم، مغرب، امریکہ اور اسلام (اس میں تیرہ کالم ہیں)
  • پولیس، علم الجرائم (کریمنالوجی) کرپشن اور امن عامہ (اس میں دس کالم ہیں)
  • صحافت اور شعر و ادب (اس میں آٹھ کالم ہیں)
  • چند سوالات (اس میں پانچ کالم ہیں)
  • سیاست، قومی و سماجی مسائل اور نظریات و افکار (اس میں بیس کالم ہیں)
  • عظیم پسندیدہ شخصیات (دو شخصیات پر کالم)
  • عظیم زندہ شخصیات (اس میں چھ کالم ہیں)
  • سیر و سیاحت اور بیرون ملک تقریریں (اس میں پانچ کالم ہیں)
  • اسلامی مدارس اور امن و تحفظ (اس میں تین کالم ہیں)
  • یادِ رفتگان (اس میں چار کالم ہیں)
  • گوشۂ بلوچستان (اس میں سات کالم ہیں)
  • قارئین کے تبصرے اور نقد و حرف (اس میں تین کالم ہیں)
  • قندر مکرر (اس میں تین کالم ہیں)
  • نقد و تاثرات (پروفیسر ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی مدظلہ کی تحریر)
اس طرح یہ کتاب سولہ جلی عنوانات اور بے شمار ذیلی عنوانات پر مشتمل کالموں کا ایک بصیرت افروز مرقع ہے۔ گویا کہ آسمانِ عبرت و بصیرت پر بکھری ہوئی کہکشاں ہے۔ اس میں نہ صرف وطن عزیز پاکستان کے سلگتے ہوئے مسائل کو موضوع بحث بنایا گیا ہے بلکہ عالمی سطح پر ان کے زوال و ادبار اور نکبت و بدحالی کے اسباب و علل کی دل لگتی ہوئی نشاندہی کی گئی ہے۔ مصنف بعض مقامات پر اپنے جذبات و احساسات کی ترجمانی کے نقطۂ عروج پر دکھائی دیتے ہیں۔ ہر کالم اس لائق ہے کہ اس پر ایک بسیط تبصرہ لکھا جا سکتا ہے۔ جب صریر نامہ کی وقعت کا یہ عالم ہو تو پھر جمیع کالموں پر ایک مختصر تبصرے میں قلم کشائی کا ر دارد ہے۔ مصنف کے استاد گرامی علی اصغر باواجی ان کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اِک گونج بن کے پھیل رہے ہیں افق افق
ہم روحِ عصرِ نوا کی صدا کے سفیر ہیں
فصیح کے اندر ایک آفاقی اور تخلیقی صلاحیت موجود ہے جو ہر وقت ان کی معاونت کے لیے تیار رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ زندگی میں وہ جس شعبے میں بھی داخل ہوئے وہاں انہوں نے کوئی اجنبیت محسوس نہیں کی۔ اپنی انفرادیت اور شناخت کو برقرار رکھا اور اس کی سر بلندی پر جا ٹھہرے۔ ایک بار کہنے لگے کہ باواجی! میری زندگی صرف ظاہری شکل و صورت پر مشتمل ایک وجود نہیں ہے بلکہ اس میں فطرت نے سوچنے اور محسوس کرنے کی بے پناہ صلاحیت رکھ دی ہے۔ میں نے قدرت کے دیے گئے ان عطیات کو بروئے کار لانا ہے اور اپنے تخلیقی عمل سے ایک جہانِ نو تخلیق کرنا ہے۔ ایسا نظام تعلیم رائج کرنا چاہتا ہوں جس سے انسانیت میں ایک وحدت پیدا ہو جائے اور یہ مذہبی، نسلی اور قبائلی تفاوت ختم ہو جائے۔ ایسے عمل ہی کو خیر کہتے ہیں ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ فصیح اپنے اندر ایک تڑپ رکھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ عالمی معیار کے مطابق ان کے اپنے ملک میں ایک یونیورسٹی (انسٹیٹیوٹ آف کریمنالوجی) کا قیام ہو جہاں سے طالب علم ایم ایس سی اور پی ایچ ڈی کر کے ملک و قوم کی خدمت کریں۔‘‘ (بیک فلیپ)‘‘
فصیح الدین کے جذبات و احساسات کا ایک خوبصورت آئینہ خانہ ان کی یہ کتاب ہے جس کے مندرجات سے کماحقہ استفادہ کرنے کے لیے کتاب کا براہِ راست مطالعہ ناگزیر ہے۔ اس گنجینۂ معانی کو صوری و معنوی خوبیوں سے آراستہ کر کے اربابِ علم و دانش کی بارگاہ میں پیش کرنے کا سہرا جناب زعیم بخاری کے سر بندھتا ہے جنہوں نے خوبصورت گیٹ اپ، عمدہ طباعت اور حسین پیشکش کے باوجود قیمت قارئین کی دسترس سے ماورا نہیں ہونے دی۔ 
(مبصر : محمد شبیر قمر)

کھانسی سے وابستہ امراض اور ان سے حفاظت

حکیم محمد عمران مغل

قدیم اطباء عظام نے اپنے تجربات کی روشنی میں فرمایا کہ جس طرح زمین کو سیم برباد کر دیتی ہے، اسی طرح کھانسی نزلہ زکام جس مرد عورت کو لگ جائیں تو وہ بھی اپنے آپ کو سیم زدہ ہی سمجھے۔ یہ بیماریاں انسانی ہڈیوں کو کھوکھلا کر دیتی ہیں، کیونکہ آنے والی زندگی میں ان سے دمہ، دق، ٹی بی سیل اور لاتعداد دوسرے جان لیوا امراض لاحق ہو جاتے ہیں۔ گزرے زمانہ میں تشویش پریشانی اس کا باعث ہوا کرتی تھی مگر آج خوراک کی کمی اور بے اعتدالی بھی اس کا بڑا باعث بن گئی ہے۔ اگر ڈالڈا سے بچیں اور ڈبے کا دودھ بھی نہ پئیں تو پھر مذکورہ امراض سے چھٹکارا قطعی ممکن ہے۔ 
ایک نہایت کم قیمت مگر مجرب ترین نسخہ پیش کرتا ہوں۔ کسی بھی قسم کی کھانسی نزلہ زکام یا دمہ دق ٹی بی یا سل کو پکڑے تو اجمل دواخانہ کی لعوق سپستان اور لعوق خیار شنبر دونوں کو یک جا کر کے صبح دوپہر شام بڑا چمچ چاٹ لیا کریں۔ نہایت خوش مزہ دلکش اور مفرح دوا ہے۔ ساتھ ہی حب کبدنو شادری ہمدرد کی دو دو گولیاں صبح شام کھانے کے بعد پانی سے پی لیا کریں۔ اگر فوری افاقہ چاہیں اور دیگر خطرناک کھانسی کی اقسام سے بھی بچنا چاہیں تو قرشی دواخانہ کی خمیرہ ابریشم حکیم ارشد والا استعمال کریں۔ صبح شام خالی پیٹ چھوٹا چمچہ لے لیں۔ اس سے خشک کھانسی اور سانس پھولنا آناً فاناً ختم ہو جائے گا۔ سینہ کی کھڑکھڑاہٹ اور آنے والے اوقات میں دمہ کا خطرے سے بھی ان شاء اللہ محفوظ رہیں گے۔ 
کھانسی شدت پکڑے اور لمبا عرصہ تک رہ جائے تو دمہ یا سل لازمی لگ جاتی ہے اور خدا نہ کرے پھیپھڑے کے مزمن امراض لگ سکتے ہیں۔ سینہ میں درد اور تنگی کے ساتھ عام جسمانی کمزوری شروع ہو جاتی ہے۔ ایسی صورت میں اجمل دواخانہ کا شربت سیکو سونے پر سہاگہ ثابت ہوگا، ان شاء اللہ۔ مریض کو مکمل آرام سے رکھیں، مقوی اور زود ہضم اغذیہ دیں۔ دیسی چوزہ کی یخنی نہایت ضروری ہے۔ انڈہ اور گندم کا دلیہ بھی بے حد ضروری ہے۔ کبھی کبھی مونگ کی دال کی کھچڑی اور کھٹے پھلوں کے علاوہ ہر قسم کا پھل جو مریض پسند کرے دیں، لیکن بند پیکٹ کا دودھ اور جوس اور بوتلیں بالکل نہ دیں۔ آلو گوبھی، دال ماش اور چاول سے بھی مریض کو بچائیں۔ اگر سرد پانی سے غسل کر لیا تو تمام جسم میں درد پیدا ہو کر چلنا مشکل ہو جائے گا۔ ٹھنڈا پانی، برف، اے سی، کھلی ہوا میں چہل قدمی بھی نہ کریں۔ سرد ہوا کے جھونکے بڑے زیادہ خطرناک ہیں۔ جتنا ہو سکے جسم کو گرم رکھیں اور بادی اشیاء سے پرہیز کریں۔ 

فروری ۲۰۱۴ء

موجودہ صورتحال اور افغان طالبان کا موقفمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
شیعہ سنی کشیدگی اور فریقین کی قیادت کی ذمہ داریمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ترجمہ قرآنی ۔اور۔ میری کہانیمولانا سید سلمان الحسینی الندوی
غزالی اور ابنِ رشد کا قضیہ ۔ اصل عربی متون کی روشنی میں (۱)مولانا محمد عبد اللہ شارق
فکرِ مغرب : بعض معاصر مسلم ناقدین کے افکار کا تجزیہ (۱)ڈاکٹر محمد شہباز منج
مسلمان عورت کا غیر مسلم مرد سے نکاح ۔ ڈاکٹر محمد شکیل اوج کے استدلال کا تنقیدی جائزہمولانا سید متین احمد شاہ
مکاتیبادارہ

موجودہ صورتحال اور افغان طالبان کا موقف

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امارت اسلامی افغانستان کی اعلیٰ سطحی قیادت ان دنوں پاکستان کے سرکردہ علماء کرام اور دینی راہ نماؤں کو اپنے موقف اور پالیسیوں کے حوالہ سے بریف کرنے کے لیے ان سے رابطوں میں مصروف ہے جو ایک خوشگوار امر ہے اور اس کی ضرورت ایک عرصہ سے محسوس کی جا رہی تھی۔ افغان طالبان کے بارے میں عالمی اور علاقائی میڈیا طرح طرح کی خبروں اور تبصروں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے جو عموماً منفی اور کردار کشی پر مبنی ہوتا ہے، جبکہ خود افغان طالبان کا میڈیا محاذ اس حوالہ سے بہت کمزور ہے اور ان کے پاس اس کے وسائل بھی نظر نہیں آتے۔ اس خلا کو کسی حد تک باہمی رابطوں اور میل جول سے پر کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے امارت اسلامی افغانستان کی اس تازہ مہم سے ہمیں اطمینان حاصل ہوا ہے اور ہم اس کے جاری رہنے کی امید رکھتے ہیں۔
امارت اسلامی افغانستان کے چند سینیئر راہ نماؤں کے ساتھ ان رابطوں کے دوران راقم الحروف کو بھی گفتگو کا موقع ملا ہے جس کی کچھ تفصیل درج ذیل ہے۔ 
افغان راہ نماؤں کا کہنا ہے کہ انہوں نے بیرونی عسکری جارحیت کے خلاف جو کامیابیاں حاصل کی ہیں اس کا اعتراف اب عالمی سطح پر بھی ہونے لگا ہے اور یہ رائے عام ہوتی جا رہی ہے کہ نیٹو اتحاد افغانستان میں طالبان کے خلاف اس جنگ میں اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکا اور اب وہ با عزت واپسی کے راستے تلاش کر رہا ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے اور اس میں کسی طرح کا کوئی مبالغہ نہیں ہے لیکن اب امارت اسلامیہ افغانستان کو ڈپلومیسی اور میڈیا کے محاذ پر جن مشکلات کا سامنا ہے اس کے لیے پاکستان کے دینی حلقوں کی توجہ اور سرپرستی ضروری ہے۔ مثلاً وسائل کی کمی ان کے لیے اپنی پوزیشن کی وضاحت اور بہی خواہوں کے ساتھ رابطوں میں بڑی رکاوٹ ہے۔ خصوصاً میڈیا کے شعبہ میں غلط پروپیگنڈے کا جواب جس قدر زیادہ ضروری محسوس ہوتا ہے اس سے زیادہ مشکل دکھائی دیتا ہے۔
ڈپلومیسی کے محاذ پر ان کا کہنا ہے کہ اب امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سب سے بڑی خواہش اور کوشش یہ ہے کہ جانے سے پہلے کسی نہ کسی طرح حامد کرزئی کو افغانستان کے ایک جائز حکمران کے طور پر تسلیم کرا لیا جائے۔ اس کے لیے لوئی جرگہ اور بین الاقوامی کانفرنسوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کی دینی قیادت کی اہم شخصیات کو مصالحت کے نام پر حامد کرزئی اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ بٹھا کر کٹھ پتلی حکومت کے امیج کو بہتر بنانے کی کوشش ہو رہی ہیں جو حامد کرزئی کو جائز حکمران کی حیثیت دینے کی چال سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ گزشتہ سال کابل میں علماء کرام کی ایک بین الاقوامی کانفرنس اسی مقصد کے لیے منعقد ہوئی تھی جس میں شرکت سے انکار کر کے پاکستان کے سرکردہ علماء کرام نے اس چال کو ناکام بنا دیا تھا۔ اب پھر اسی طرح کا جال پھیلایا جا رہا ہے، اس لیے امارت اسلامی افغانستان کی علماء کرام سے یہ اپیل ہے کہ وہ اس سے ہوشیار رہیں۔ طالبان راہ نماؤں کا یہ بھی کہنا ہے کہ افغان طالبان نے یہ جنگ مظلوموں کے سب سے بڑے ہتھیار ’’فدائی حملہ‘‘ کے ذریعہ لڑی ہے اور اس میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس ہتھیار کی علی الاطلاق مخالفت اور اسے مطلقاً حرام قرار دینے کے فتوے پر ان کے تحفظات ہیں اور وہ اس میں اپنا نقصان محسوس کر رہے ہیں۔
اسی دوران طالبان راہ نماؤں کی طرف سے ایک مفصل تحریری موقف تقسیم کیا گیا ہے جس کے بارے میں ہمارا خیال ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی ضرورت ہے۔ جبکہ کالم کا دامن تنگ ہونے کی وجہ سے اس کا صرف ایک حصہ ہم اس میں پیش کر رہے ہیں، مگر اس سے قبل میں اپنی گفتگو کا مختصر خلاصہ بھی پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ 
راقم الحروف نے عرض کیا کہ جہاں تک افغانستان میں ہونے والے جہاد کا تعلق ہے ہم اسے افغانستان کی قومی آزادی کی جنگ اور شرعی جہاد سمجھتے ہیں۔ روسی استعمار کے خلاف ان کی جنگ بھی شرعی جہاد تھا اور امریکی استعمار کی عسکری یلغار کے خلاف ان کی مزاحمت اور جنگ بھی شرعی جہاد ہے۔ اسی طرح امارت اسلامی افغانستان نے اپنے پانچ سالہ دورِ اقتدار میں خلفاء راشدینؓ کی روایات کو جس طرح زندہ کیا ہے اسے سامنے رکھتے ہوئے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ دنیا میں نفاذِ اسلام کے نئے دور کا نقطۂ آغاز ہے اور ہم اس کی کامیابی کے لیے پر خلوص خواہش کے ساتھ دعا گو بھی ہیں۔ 
حامد کرزئی کو ہم افغانستان کا جائز حکمران تصور نہیں کرتے اور ہمارا موقف یہ ہے کہ غیر ملکی فوجوں کے مکمل انخلاء کے بعد افغان عوام اپنی آزادانہ رائے کے ساتھ جو حکومت قائم کریں گے وہی جائز حکومت ہوگی، اس لیے حامد کرزئی یا اس کے نمائندوں کے ساتھ ان معاملات میں کسی بھی درجہ کی یک طرفہ شرکت غیر اصولی بات ہوگی۔ 
فدائی حملوں کے بارے میں ہمارا شروع سے یہ موقف ہے جس کا ہم کئی بار اظہار کر چکے ہیں کہ یہ مظلوم اور بے بس قوموں کا آخری جنگی ہتھیار ہوتا ہے جو ہر دور میں استعمال ہوتا آرہا ہے اور آج بھی بے بس مظلوموں کے لیے یہ آخری ہتھیار کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے کسی بھی شرعی جہاد یا جائز جنگ میں اس کے استعمال پر ہمیں کوئی اشکال نہیں ہے۔ البتہ پاکستان کے مختلف حصوں میں عام آبادیوں، مساجد، امام بارگاہوں، گرجا گھروں اور مارکیٹوں میں ان خود کش حملوں کے ذریعہ جو تباہی پھیلائی جا رہی ہے، اسے ہم شرعاً درست نہیں سمجھتے اور یہ کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہیں۔ اس لیے پاکستان کا امن و استحکام صرف پاکستانیوں کی ضرورت نہیں بلکہ اسلام اور عالم اسلام کے بھی مفاد میں ہے اور اس میں بدامنی کا فروغ ملت اسلامیہ کے لیے باعث نقصان ہے۔ ہم ان حملوں کے بارے میں واضح تحفظات رکھتے ہیں اور جائز فدائی حملوں اور ناجائز خود کش حملوں کے درمیان فرق قائم رکھنے اور اسے واضح کرنے کو ضروری سمجھتے ہیں۔ 
ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان کے اندر ہونے والی اس قسم کی کاروائیوں میں افغان طالبان کا کسی درجہ میں بھی کوئی حصہ نہیں ہے اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ امارت اسلامی افغانستان ایسی کاروائیوں کی کسی طرح بھی حمایت نہیں کر رہی، لیکن میڈیا کے یک طرفہ پراپیگنڈے کی وجہ سے اور ناموں کی مشابہت کی وجہ سے جو غلط فہمیاں پھیلتی جا رہی ہیں ان سے نجات حاصل کرنے کے لیے اس فرق کو واضح کرتے رہنا از حد ضروری ہے۔ 
اس سلسلہ میں امارت اسلامی افغانستان کے تحریری موقف میں جو وضاحت کی گئی ہے وہ اطمینان بخش اور خوش آئند ہے، قارئین کرام اسے بھی ملاحظہ فرمالیں:
’’آخر میں امارت اسلامیہ کی پالیسی اور طریقہ کار سے اچھی طرح آگاہ کرنے کے لیے یہ چند وضاحتیں ضروری سمجھتے ہیں۔ وہ یہ کہ ہمارے پاس کام کے طریقہ کار کے لیے جید علماء کی جانب سے تائید شدہ مرتب اصول اور لائحہ عمل موجود ہے۔ ہر طرح کے مسائل میں تجربہ کار شیوخ اور علماء کرام سے فتوے طلب کیے جاتے ہیں۔ آپس کے مشورے اور اطاعت کے جذبے سے ہر کام انجام دیا جاتا ہے۔ ہمارے فیصلے ہمارے جذبات کے نہیں اصولوں کے تابع ہیں۔ ہم دشمنوں کی سازشوں کی طرف متوجہ ہیں۔ دنیا کے حالات سے خود کو باخبر رکھتے ہیں۔ داخلی و خارجی سیاست میں امور کے بہتر نظم و ضبط کے لیے الگ الگ کمیٹیاں متعین کی گئی ہیں۔ ایک دوسرے کے کاموں میں بے جا مداخلت نہیں کی جاتی۔ اپنی بساط کے مطابق ہم نے کوشش کی ہے کہ کام اہل کار افراد کے سپرد کیا جائے۔ علماء کرام اور صاحب نظر لوگوں کے مشورے اور نقطہ ہائے نظر بڑی وسعت قلبی اور دل کی خوشی سے سنتے اور ضرورت کے وقت ان سے استفادہ بھی کرتے ہیں۔ ہمارے طریقۂ کار میں ہر معاملے میں بلا ضروری اور بے وقت دست اندازی اور لوگوں کو بے جا تنگ کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ نہ کسی کو دھمکانے اور نہ تاوان کی غرض سے لوگوں کو اغوا کرنے کو قانونی سمجھتے ہیں۔ اور نہ شک کی بناء پر کسی کے جان و مال کی جانب دست درازی کو جائز سمجھتے ہیں۔ مجاہد کے نام پر بھتہ خوری مجاہد کی شان نہیں سمجھتے۔ بے گناہ انسانوں کا قتل، کثیر آبادی اور مقدس مقامات پر ہدف کی تعیین کے بغیر حملے ہمارا کام نہیں اور نہ ہم کسی اور کو ایسا کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ عزت، ذلت، کامیابی اور ناکامی اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت ہمارے ساتھ اس وقت شامل ہوگی جب ہم اللہ کے دین کو مضبوطی سے پکڑے رکھیں گے۔ اور اس کے احکام پر عمل کریں گے۔ اللہ کی مخلوق کو اذیت نہ دیں۔ لہٰذا تمام علماء کرام، صاحب نظر لوگوں اور اہل خیر سے ہماری توقع ہے کہ کچھ خود سر یا دشمن کے انٹیلی جنس اداروں کے پنجوں میں جکڑے ہوئے نام نہاد مجاہدین کی نازیبا حرکتوں کو امارت اسلامیہ کی جانب منسوب نہ کریں۔ تمام وہ اعمال جو شریعت کے اصولوں سے متصادم ہیں ہماری جانب سے اس کی تردید کی جاتی ہے اور اگر ہماری صف میں کوئی ایسا کرے گا تو اسے شرعی سزا کا سامنا کرنا ہوگا۔ الحمد للہ ثم الحمد للہ ہمارے مجاہدین کو اللہ تعالیٰ نے ان ناپاک امراض سے محفوظ رکھا ہوا ہے۔ ایسے نا مناسب اور ناجائز امور کی انجام دہی کے بعد اگر کوئی شخص اپنی نسبت امارت اسلامیہ کی جانب کرتا ہے یا محترم امیر المومنین کو اپنا قائد کہتا ہے تو یہ محض نام کا ناجائز استعمال ہے۔ ایسے لوگ امارت اسلامیہ کے مبارک نام سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جو لوگ امارت اسلامیہ سے مربوط ہوتے ہیں وہ امارت اسلامیہ کی اطاعت بھی کرتے ہیں۔ اور امارت اسلامیہ کی پالیسی یہی ہے جو ہم نے اوپر ذکر کی ہے۔ اگر کوئی اس سے سرتابی کرتا ہے تو اس کا امارت اسلامیہ سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی امارت اسلامیہ ایسے شخص کو مجاہد کہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم اور آپ کو تمام بے اطاعت، جاہ طلب اور نا اہل لوگوں کے شر سے محفوظ فرمائے۔ آمین ثم آمین۔‘‘ (2013/12/30)

شیعہ سنی کشیدگی اور فریقین کی قیادت کی ذمہ داری

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

گزشتہ محرم الحرام میں راولپنڈی میں رونما ہونے دردناک سانحہ کے تناظر میں ہم راولپنڈی کی ایک درد مند دل رکھنے والی خاتون غزالہ یاسمین کا ایک خط قارئین کی نذر کر رہے ہیں جس میں انہوں نے اس مسئلہ پر اپنا دردِ دل پیش کیا ہے اور اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ملک کے عام شہریوں کے جذبات اس معاملہ میں کیا ہیں اور وہ اپنی مذہبی قیادتوں سے کیا توقع رکھتے ہیں؟ محترمہ غزالہ یاسمین صاحبہ اپنے اس خط کی اشاعت کی فرمائش کے ساتھ لکھتی ہیں کہ:
’’پاکستان کبھی امن و آشتی اور یگانگت کا مظہر تھا۔ اسی قوت کے باعث اس ملک کا قیام عمل میں آیا تھا۔ لیکن نہ جانے اس ملک کو کس کی نظر لگ گئی کہ اب یہ اختلافات خصوصًا فرقہ وارانہ نوعیت کے اختلافات کی زد میں ہے۔ ذرائع ابلاغ ان اختلافات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور یوں پوری دنیا میں اسلام اور پاکستان کی سبکی کے سامان فراہم کرتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اختلافات کو کم کرنے کو اپنا مشن بنا لیا ہے۔ یہ لوگ خاموش انداز میں اپنے وسائل استعمال کرتے ہیں اور ان مؤثر شخصیات کو جو اختلافات کو کم کرنے میں کسی طرح بھی اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں، مسلسل قائل کرتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ ان سے روابط رکھتے ہیں اور ان روابط کو اس کارِ خیر کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
قارئین، ناظرین اور سامعین کو مژدہ ہو کہ آج کی اس تحریر میں ایسے ہی تین اشخاص کے ایک مجموعے کو متعارف کرایا جا رہا ہے جنہوں نے 10 محرم کو راجہ بازار راولپنڈی کے سانحے کے بعد یہ قسم کھائی کہ وہ اللہ کی رضا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی کے لیے ملک بھر کے علمائے کرام، دانشوروں اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے روابط کو بڑھائیں گے اور جو کچھ نقصان راولپنڈی کے سانحے کی وجہ سے اسلام اور پاکستان کی ساکھ کو پہنچا ہے، اسے کم کرنے کی مقدور بھر کوشش کریں گے۔ بڑی مشکل سے ان حضرات نے اس بات کی اجازت دی کہ ان کے ناموں سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے۔ ان تینوں شخصیات کا تعلق کشمیر کے مختلف علاقوں سے ہے۔ ان میں قدر مشترک پاکستان سے ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی محبت ہے۔ وہ اس لیے بھی پاکستان کے دکھ کو برداشت نہیں کر سکتے کہ ان کا اپنا وطن غلام ہے اور وہ آزادی کی قدر و قیمت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ یہ شخصیات محمد حنیف خان آف راولا کوٹ آزاد کشمیر، سردار محمد ایوب خان آف باغ آزا دکشمیر اور راجہ محمد امجد خان آف اسکردو گلگت بلتستان حال مقیم راولپنڈی ہیں۔
مختلف مواقع پر ان تین حضرات سے جو ملاقاتیں ہوئیں، ان کی تلخیص کچھ یوں ہے:
محمد حنیف خان آف راولا کوٹ: میں نے سانحہ راولپنڈی کے فورًا بعد متعلقہ علمائے کرام کو فردًا فردًا خطوط لکھے اور ان کے معاملات کو صحیح نہج پر لانے کے ضمن میں ادا کیے گئے کردار کو سراہا۔ یہ خطوط ایک عقیدت مند کے خطوط تھے جو ہر طرح کے اختلافات سے بلند ہو کر لکھے گئے تھے۔ میری رائے میں علمائے کرام نے مثالی کردار ادا کیا تھا، اس لیے میں نے اپنے خطوط میں انہیں اولیائے کہتے ہوئے بھی باک محسوس نہیں کیا تھا۔ میں نے اپنے خطوط میں علمائے کرام سے یہ بھی کہا تھا کہ ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں کئی طرح کے لوگ رہتے ہیں۔ ہندو، سکھ اور عیسائی بھی رہتے ہیں۔ شیعہ بھی رہتے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ہزاروں بندے مار کر بھی آخر کار بات چیت کریں گے۔ مولانا صاحب! کچھ کیجیے۔ کسی دن کسی شیعہ لیڈر کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کر لیں۔ یقیناًقتل و غارت بند ہو جائے گی۔ روزِ محشر اگر بلند مقام نہ پایا تو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مجھے شرمندہ کر دینا۔ 
سردار محمد ایوب خان: اپنے ملک کے تمام علمائے کرام اور ان کے عقیدت مندوں سے التماس کرتا ہوں کہ مخالفین کو پیار و محبت سے سیدھی راہ پر لایا جائے۔ ہم تو انہیں اپنی ضد پر پکا کر رہے ہیں۔ کیا ہمارے اکابرین اسی طرح تبلیغ کیا کرتے تھے؟ ہمارے اکابرین کون ہیں؟ یقیناًحضرت شاہ ولی اللہ ہیں۔ یقیناًحضرت مہاجر مکی ہیں۔ یقیناًقاری محمد طیب ہیں۔ یقیناًمولانا اشرف علی تھانوی ہیں۔ یقیناًمولانا احمد علی لاہوری ہیں۔ قریب کے زمانے میں مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا عبد الحق، حضرت مفتی محمود اور حضرت قاضی حسین احمد آخر ہمارے ہی اکابرین میں سے ہیں۔ کیا وہ بھی یوں ہی کیا کرتے تھے جیسے آج کل ہو رہا ہے؟
راجہ محمد امجد خان: 24 دسمبر 2013کو پورا ملک راولپنڈی پر کان دھرے ہوئے تھا کہ 10 محرم کے المناک سانحے کے بعد راولپنڈی میں چہلم کا جلوس نکلنا تھا۔ ہر طرف خدشات تھے کہ نہ معلوم کیا ہوگا؟ ہر آدمی سوچ رہا تھا کہ کشت و خون ہوگا۔ لیکن 24 دسمبر کو صورت حال بالکل مختلف نظر آئی۔ ہر طرف امن و امان تھا۔ لوگ پر سکون تھے۔ لاکھوں افراد کا جلوس تھا جو راجہ بازار سے گزرا۔ کہیں گملا نہ ٹوٹا۔ راجہ بازار کے تاجر سب سے زیادہ مطمئن تھے کہ ان کا سکون بحال ہو رہا تھا۔ میں بھی سروے کرنے نکلا۔ نماز مغرب مرکزی جامع مسجد اہل حدیث میں ادا کی۔ وہاں یہ دیکھ کر حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جلوس میں شامل شیعہ حضرات کی بڑی تعداد نماز ادا کر رہی تھی۔ جامع مسجد اہل حدیث کے منتظمین انہیں ہر طرح سے خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ مسجد کے باہر شیعہ خواتین نماز ادا کر رہی تھیں۔ مسجد پر کوئی پہرہ نہ تھا۔ اندر آنے کی اجازت عام تھی، بالکل عام دنوں کی طرح۔ دیگر مساجد اور مختلف مقامات پر بھی ایسا ہی دیکھا، کوئی تفریق کہیں نظر نہ آئی۔ دل بہت خوش ہوا۔ گزشتہ 10 محرم کو ہونے والا سانحہ بھی نہ ہوتا اگر دونوں طرف کے علماء باہم روابط استوار رکھتے۔ کہیں نہ کہیں روابط کی کمی کے باعث افسوسناک سانحہ ہوا، لیکن بعد میں چہلم کے موقع پر راولپنڈی خصوصاً راجہ بازار کے لوگوں کے مثالی طرز عمل کے بارے میں آگاہ کرنا چاہتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ آئندہ بھی ہمیشہ ایسی ہی یک جہتی کا مظاہرہ کیا جائے گا۔‘‘

ترجمہ قرآنی ۔اور۔ میری کہانی

مولانا سید سلمان الحسینی الندوی

ستمبر ۱۹۵۴ء میں میری پیدائش ہوئی۔ والد صاحب مظاہر علوم سے فارغ ہوکر حضرت مولانا علی میاںؒ کی خدمت میں ۱۹۵۰ء میں حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے بھیجے گئے تھے۔ وہ حضرت مولاناؒ کے ۱۹۵۰ء کے سفرِحجاز میں دیگر چند حضرات کے ساتھ شریک تھے۔ سفر تبلیغی ودعوتی تھا۔ والد صاحب دوسال کے لیے حجاز میں رہ گئے۔اس دوران عراق ،شام وفلسطین کے تبلیغی اسفار کا موقع ملا۔ حجاز کے دورانِ قیام امامِ حرمِ مکی شیخ عبد المہیمن مصری سے قراء ت کی مشق کی۔ قرآن پاک کا حفظ بھی شروع کیا۔ وہ ان کے لہجہ سے متاثر ہوئے۔ حفظ مکمل تو نہیں ہوسکا تھا لیکن اچھا خاصا حصہ یاد تھا۔ مجھے یاد ہے کہ وہ میرے بچپن میں محلہ کی مسجد میں فجر کی نماز پڑھاتے تھے اور بڑی اچھی حجازی قراء ت فرماتے تھے۔
وہ مرکز تبلیغ، لکھنؤ میں ندوہ کے مکتب میں پڑھاتے تھے جب میری مکتبی تعلیم ان کے پاس شروع ہوئی۔ پھر وہ مددگار ناظم ندوہ بنادیے گئے اور میری مکتبی تعلیم جاری رہی۔ غالباً ۱۹۶۱ء سے مجھے منصور پور ضلع مظفر نگر کے درجہ حفظ میں دو پارے حافظ یامین صاحبؒ کے پاس پڑھنے کا موقع ملا جو بہت اچھے قاری تھے۔ پھر دوبارہ انہی پاروں کا اعادہ مظفر نگر کی حوض والی مسجد میں حافظ ساجد صاحبؒ کے پاس کرنے کی نوبت آئی جہاں ہمارے اباجی سید محمدیوسف صاحب رحمۃ اللہ علیہ رہتے تھے جو حضرت مدنی ؒ کے مرید با اختصاص اور جمعیت العلماء کے مظفر نگر میں ذمہ دار تھے۔ پھر ۶۲۔۱۹۶۳ء میں باقاعدہ میرا داخلہ دار العلوم ندوۃ العلماء کے درجۂ حفظ میں حافظ محمد اقبال صاحب ؒ کے پاس ہوا۔ پھر ایک سال بعد ۱۹۶۸ء میں حافظ حشمت صاحب ؒ کے سیکشن کی طرف منتقل کردیا گیا جہاں ۱۹۶۷ء میں میرا حفظ قرآن مکمل ہوا۔
دورانِ حفظ قاری رشید الحسن صاحبؒ سے گھر پر قراء ت کی مشق کرتا رہا۔ وہ نواب سید صدیق حسن قنوجی کے پرپوتے تھے جو بعد میں میرے خالو بھی ہوگئے۔ پھر پاکستان منتقل ہوگئے۔ ان کے صاحبزادگان ماشاء اللہ حافظ، قاری اور عالم ہیں اور تعلیمی میدان میں اچھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ مجھے ان کی قراء ت اور بالخصوص ان کا ’’مد‘‘ اور اس میں ان کی آواز کا تموج بہت پسند تھا۔ درجہ حفظ میں ہمارے دورمیں طلباء کو قاری عبدالباسط عبد الصمد کی قراء ت سنانے کے لیے گراموفون کا انتظام کیا گیاتھا۔ ہم طلباء ان کی قراء ت کے سحر سے مسحور تھے۔ کبھی کبھی فجر بعد کسی ہوٹل میں ان کی تلاوت لگادی جاتی اور سڑک پر لوگ ٹھٹھک کر کھڑے ہوجاتے۔ قرآن پاک سے یہ میرا حفظ وقراء ت، تراویح کی امامت، اور اس کی تلاوت کی نغمگی سے ذوقی اور وجدانی تعلق کا دور تھا۔
۱۹۶۹ء سے عربی کے درجۂ سوم میں داخلہ ہوا اور عربی کی شد بد سے قرآنی الفاظ کے ابتدائی مطالب سے مناسبت شروع ہوئی جو درجہ کی کتابوں کے اہتمام اور مطالعہ کے چسکہ کی بنیاد پر ۱۹۷۰ء میں خوب پروان چڑھی۔
۷۰۔۱۹۷۱ء میں کلیۃ الشریعہ کے پہلے سال ۔جسے عربی پنجم کہتے تھے۔ کا ترجمہ وتفسیرِقرآن کا گھنٹہ مولانا برہان الدین سنبھلی ۔دام ظلہ۔ کا لگایا گیا۔ مکی دور کی سو رتیں اعراف، یونس، ہود وغیرہ نصاب میں تھیں۔ مولانا کی زبان کی چاشنی، لطیف اشارات، عمدہ محاورات، اور افہام وتفہیم پر استادانہ قدرت ومہارت نے اس موضوع سے بڑا انس پیدا کردیا۔ درجہ میں توجہ سے سنتا اور گھر پر آکر ظہر بعد اپنے حافظہ سے درسِ تفسیر لکھ لیتا۔ ہر کام کی چیز کو حفاظت سے رکھنے کا ذوق تھا۔ سب سے زیادہ اہتمام سے قرآن کے ان دروس کو محفوظ رکھا۔ دھاگہ سے سی کر اس کی جلد بنائی اور اس کے صفحہ اول پر ’’عنوان کتاب‘‘ کے طرز کی معلومات درج کیں۔ تقریباً ۴۰؍ سال بعد خیال آیا کہ مولانا برہان الدین سنبھلی ۔دام ظلہ۔ جو فالج کے بعد معذور چل رہے ہیں۔ اللہ ان کو شفائے کامل عطا فرمائے۔ سے چند سطریں بطور تبرک لکھواکر اس مجموعۂ دروس کو شائع کردوں۔ ایک پیش لفظ کے ساتھ الحمد للہ ’’درسِ قرآنِ کریم‘‘ کے نام سے شائع کردیا۔
یہ جملہ معترضہ تھا۔ قرآن کچھ سمجھ میں آنے لگا اور تروایح میں اب ایک خاص کیف کے ساتھ پڑھنے لگا۔ ۷۳۔۱۹۷۴ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کے شیخ ا لتفسیر حضرت مولانا محمد اویس نگرامی ندویؒ سے مدنی سورتوں ۔البقرۃ، آل عمران۔ وغیرہ کی تفسیر پڑھنے کا موقع ملا اور اس کے منتخب اجزا کو عربی میں قلمبند کرتارہا۔ اسی دوران حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی ’’الفوز الکبیر‘‘ درجۂ ہفتم میں پڑھی۔ مولانا نگرامیؒ ،شاہ ولی اللہ، ابن تیمیہ، ابن القیم کے عاشق ودلدادہ تھے۔ شاید ہی کوئی دن ان کے حوالوں، ان کی تحقیقات اور علمی نکات اور بلند مقام کے تذکرہ کے بغیر گذرتا ہو۔ آگے چل کر فضیلت دوم میں حجۃ اللہ البالغۃ کے درس نے تو میرے ذہن پر ان کے فکری نقوش ایسے مرتسم کردیے کہ پھر انہی کی فقہی تحقیقات اور اختلافاتِ فقہاء کے اسباب، اور اجتہاد وتقلید پر ان کے نظریات کو اپنے مقالۂ فضیلت کا عنوان بنایا۔ ان موضوعات پر میرے رسائل شائع ہوچکے ہیں۔
یہی وہ زمانہ تھا کہ مرکز تبلیغ لکھنؤ میں ہر اتوار کو مغرب بعد مولانامحمد منظور نعمانیؒ کا درس قرآن پاک ہوتا تھا جس میں لکھنؤ کے خواص اور باذوق حضرات شریک ہوتے تھے۔ میں بھی طالبعلمانہ حاضری دیتا تھا اور مولانا کے سادہ، پرمغز اور موثر درس سے مستفید ہوتا تھا۔
۱۹۷۴ء میں اپنے درجہ کے ساتھیوں کو لے کر میں نے ’’انجمن شباب الاسلام‘‘ قائم کی جس کے مقاصد میں درس قرآن پاک کے حلقوں کا قیام بڑی اہمیت کا حامل تھا، لیکن ۷۵۔۱۹۷۶ء میں فضیلت کے دوسال کی تعلیم اور ۱۹۷۷ء سے ۱۹۸۰ء کے اواخر تک جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیۃ (ریاض) میں کلیۃ اصول الدین  میں ایک سال کی تعلیم اور د و سال مقالۂ ایم اے کی مشغولی نے عملی طور پر انجمن کے کاموں اور درسِ قرآن پاک کے حلقوں کو موخر رکھا۔
ریاض میں کلیۃ اصول الدین میں ۱۹۷۷ء میں میرا داخلہ ہوا۔ وہاں نصاب کا ایک نیا تجربہ ہوا۔ تفسیر کے دوگھنٹے ہوتے تھے۔ ایک تفسیر تحلیلی کے عنوان سے ہمارے ہاں رائج طرز کے مطابق، یہ گھنٹہ ڈاکٹر مصطفی سوری کا تھا۔ وہ بڑے فصیح اللسان اور پختہ صاحبِ علم تھے۔ دوسرا گھنٹہ ’’تفسیر موضوعی‘‘ کے نام سے تھا۔ یہ تفسیر کے معروضی مطالعہ کا نیا طرز تھا جس کے ہم لوگ ہندوستان میں عادی نہیں۔ یہ موضوع ڈاکٹر احمد حسن فرحات سے متعلق تھا۔ وہ بھی شامی ہیں۔ حسن اتفاق یہ کہ میرے اصل موضوع، علوم حدیث کے استاد بھی شام کے معروف عالم ومحدثِ جلیل، شیخ عبدالفتاح ابوغدۃؒ تھے جو ہمارے مقالۂ( ایم، اے) کے نگراں بھی تھے۔ تیسرا موضوع علوم القرآن کا تھا جس میں شیخ مناع القطان کی ’’مباحث فی علوم القرآن‘‘ ہم طلباء نے پڑھی تھی اور ڈاکٹر صبحی الصالح کی ’’مباحث فی علوم القرآن‘‘ بھی مطالعہ میں رہی۔
ڈاکٹراحمد حسن فرحات سے سید قطب کی ’’التصویر الفنی فی القرآن ‘‘ پڑھی جس سے ایک نیا پہلو قرآنیات کا سامنے آیا۔ سید قطب کی ’’مشاہد القیامۃ فی القرآن‘‘ اور ان کی عظیم الشان تفسیر ’’فی ظلال القرآن‘‘ کے مطالعہ کا بھی خوب موقع ملا، بلکہ کہنا چاہیے کہ اس تفسیر میں سید قطب کے جگر کا خون اس طرح شامل ہے اور زبان وبیان کے ساحرانہ ملکہ کی ایسی بلاکی تاثیر اس میں پیدا ہوگئی ہے کہ اس کا قاری صرف علمی اور تحقیقی ٹھنڈی تفسیر نہیں پڑھتا، بلکہ مضامین قرآن کے ساتھ، پہاڑوں پر چڑھتا، وادیوں میں اترتا، گھاٹیوں کو عبور کرتا، فتوحات قرآن سے سرشار ہوتاجاتا ہے۔ یہ حق ہے کہ اس دور میں اتنی طاقتور تفسیر نہیں لکھی گئی۔
ڈاکٹر احمد حسن فرحات کی طرف سے قرآن کے معروضی مطالعہ کے موضوعات طلباء کو دیے گئے تو میں نے ’’الأمانۃ فی القرآن‘‘ اپنے لیے اختیار کیا۔ پھر’’ الأمانۃ‘‘ کو قرآن پاک سے کھنگالا اور کوئی قابل ذکر تفسیر نہ چھوڑی جس سے ’’امانت‘‘ کی تشریحات اکٹھی نہ کی ہوں۔
ندوہ کے دورِ طالبعلمی میں تفسیر قرطبی، تفسیر رازی،تفسیر ابن کثیر، تفسیر مظہری، تفسیر بیان القرآن کے علاوہ تفسیر معارف القرآن، تفسیر ماجدی، مولانا ابوالکلام آزاد کی ترجمان القرآن اور مولانا امین أحسن اصلاحی کی تدبر قرآن، سب ہی پڑھی تھیں، لیکن حضر ت تھانویؒ کے دقیق نکتوں، اور مولانا اصلاحی کی لغوی بحثوں اور سورتوں اور آیتوں کے ربط کے مختلف پہلوؤں اور تفسیر ماجدی کے تقابلی مطالعوں، اور عصری تحقیقی بحثوں سے ذہن متاثر تھا، لیکن مولانا شبیر احمد عثمانی کے حواشی سے زیادہ اشتغال نے ان کا شائق بنارکھا تھا، اور ’’إنا عرضنا الأمانۃ‘‘ کی تشریح میں اس شعر نے 
آسماں بار امانت نتوانست کشید
قرعۂ فال بنام من دیوانہ زدند
لوح دماغ پر ایک تصویر مرتسم کردی تھی، اور یہی ’’ الأمانۃ فی ضوء القرآن‘‘ کے موضوع کا محرک بنی۔ الحمد للہ ایم اے سال اول کا وہ مقالہ طبع ہوچکا ہے اور اس کا اردو ترجمہ بھی شائع ہوچکا ہے۔
ڈاکٹر احمد حسن فرحات، مولانا حمید الدین فراہی کے بہت قائل تھے۔ ان کا تذکرہ ندوہ کے ماحول میں ،میں سنتارہا تھا اور ان کے رسالے پڑھتارہا تھا، لیکن ڈاکٹر فرحات کا اصرار تھا کہ میں ایم اے کا اپنا تھیسس ان ہی کی تحقیقات پر لکھوں اور تفسیر کو ہی اپنا موضوع بناؤں، لیکن موضوع کے انتخاب میں شیخ عبدالفتاح ابوغدۃ سے خصوصی تعلق غالب آیا، اور موضوع مقالہ ’’ألفاظ الجرح والتعدیل‘‘ علوم حدیث کا طے پایا۔ میں بطور تحدیث نعمت یہ بھی ذکر کردوں کہ جامعہ محمد بن سعود ریاض میں ’’مسابقۃ الحدیث‘‘ (حدیث کا انعامی مقابلہ) ۱۹۷۸ء منعقد ہوا۔ اس میں پوری جامعہ میں میرا اول نمبر آیا اور پھر ۱۹۷۹ء میں قرآن کا انعامی مقابلہ منعقد ہوا، اس میں حفظ میں بعض مقامات پر بھول جانے کی وجہ سے پوری جامعہ میں دوسرا نمبر آیا۔
جامعہ کے ایک مصری استاد جو شعبۂ تفسیر کے صدر تھے،شیخ’’ محمد الراوی‘‘ تھے۔ ان کا طرزِ قراء ت اور اندازِ تفسیر بڑا موثر ہوتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ دل پر دستک کی چوٹ لگارہے ہیں، ان کا نقش بھی دل ودماغ پر رہا۔
جامعہ محمد بن سعود ۔ریاض ۔سے فارغ ہوکر میں دار العلوم ندوۃ العلماء ۱۴۰۱ھ کے جمادی الثانی اور ۱۹۸۱ء کے ماہ اپریل میں حاضر ہوا اور باوجود تعلیمی سال کے اختتام کے میرے گھنٹے بیرونی طلبا کے لیے سنن ترمذی اور تفسیر کے لگا دیے گئے تھے۔ پھر باقاعدہ ۱۴۰۲ھ مطابق ۱۹۸۲ء سے میں نے سورۃ الفاتحہ، سورۃ البقرۃ، سورۃ آل عمران کا عا لمیت کے سندی سال میں درس دینا شروع کیا اور پہلی مرتبہ سورۃ البقرۃ کے درس کے دوران مجھے پوری سورۃ البقرۃ کی منظم فصلوں اور ان کے عنوانات کا انکشاف ہوا۔
تین انسانی طبقات ۔تین بنیادی عقائد۔ قصۂ آدم وابلیس۔بنی اسرائیل کی تاریخ عروج وزوال۔ امامت ابراہیمی۔ ملت ابراہیمی۔ کعبہ کی مرکزیت۔ یہود ونصاریٰ کی معزولی۔ قبلہ کی تبدیلی۔ امت کا موحدانہ نظام۔ نماز اور زکوۃ کا مکی سورتوں میں بیان گذرنے کے بعد، روزوں کابیان۔ حج کا نظام۔ سماجی مسائل اور اصلاحات۔ خاندانی اور عائلی نظام۔ معرکۂ حق وباطل۔ فلسفۂ موت وحیات۔ انفاق فی سبیل اللہ۔اسلام کا غیر سودی نظام۔ مالیاتی اور معاملاتی مسائل۔ حلفیہ بیانات۔ پھردعاؤں پر اختتام۔
مجھے سورۂ بقرہ ایک جامع اسلامی نظام کے ابتدائی خاکہ کی شکل میں نظرآئی اور میں نے طلبا کو اسی ترتیب سے پڑھایا۔
۱۹۸۲ء سے انجمن شباب الاسلام کی تحریک پھر سے ایک نئے و لولہ اور جوش کے ساتھ شروع کی گئی۔ ہفتہ واری، ماہانہ اور سالانہ پروگراموں کے علاوہ ایک اہم پروگرام شہر کی مساجد میں درس قرآن پاک کے حلقوں کا تھا۔ ندوہ کے متعدد مدرسین کے حلقہ ہائے درسِ قرآن، مختلف مساجد میں شروع کرائے گئے۔
اسی دوران ’’الفوز الکبیر فی اصول التفسیر‘‘ کو معاصر عربی اسلوب کے قالب میں ڈھالنے کے لیے میں نے فارسی اصل کا از سرنو عربی ترجمہ کیا۔ ارادہ اس کی تشریحات اور جامع حواشی کا تھا، لیکن تحریکی مصروفیات نے یہ کام نہ ہونے دیا۔ الفوز الکبیر  کا فارسی سے میرا عربی ترجمہ ذی القعدہ ۱۴۰۴ھ میں شائع ہوا۔
درس قرآن کے حلقوں کی مہم ۱۴۰۳ھ کے ماہ رمضان میں، میں نے بڑے زور وشو رسے چلائی اور شہر کی مختلف مساجد میں ختم قرآن کے موقع پر پوری قوت سے عوام کو ترجمہ وتفسیر قرآن پڑھنے کی دعوت دی۔ میرے ذہن میں حضرت شیخ الہند کی یہ بات دوارن مطالعہ نقش ہوگئی تھی کہ حضرت نے مالٹا کے جیل میں خوب غوروخوض کے بعد امت کے مسائل کا حل دونکتوں میں بیان فرمایا تھا، ایک اتحاد ملی کی کوشش، دوسرے قرآن کے مطالب ومعانی کی نشرواشاعت، اور ہماری تحریک کے یہ دونوں بنیادی عناصر تھے۔
میرا ہفتہ واری درسِ قرآن مولوی گنج کی دھنیا مہری مسجد میں بروز چہار شنبہ بتاریخ ۳؍ صفر ۱۴۰۴ ؁ھ مطابق ۹؍نومبر ۱۹۸۳ ؁ء بعد مغرب شروع ہوا جو مولوی گنج کی مسجد خواص کی تعمیر کی تکمیل کے بعد وہاں منتقل ہوگیا۔ پھر مسجد کے لب سڑک ہونے اور ٹریفک کے شوروغل کی وجہ سے ایک عرصہ بعد ہمارے اپنے محلہ کی مسجد ’’قبر ماموں بھانجہ‘‘ میں منتقل ہوا، پہلے یہ درس ہر چہار شنبہ کو بعد مغرب ہوتا تھا، پھر ہر دوشنبہ کو بعد مغرب ہونے لگا۔
لکھنؤ کے مرکز تبلیغ میں بھی مولانا سجاد نعمانی کے لمبے سفرِ تبلیغ کے دوران رمضان وشوال ۱۴۰۳ھ مطابق۱۹۸۳ء میں چند ہفتے پابندی سے درس دینے کا موقع ملا۔ پھر جنوری ۱۹۸۴ء سے نشاط گنج بالدہ روڈ کی جامع مسجد میں وہاں کے حضرات کے اصرار پر پندرہ روزہ درس قرآن شروع کیا، لیکن اپنی شدید مصروفیات کی بنا پر بعد میں اسے دوسرے ساتھیوں کے حوالہ کردیا۔
میرا ہفتہ واری درسِ قرآن۔ حسن اتفاق ہی کہیے کہ۔ نزولِ قرآنی کی مدت ۲۳؍ سال میں پورا ہوا۔ ہر ہفتہ ایک رکوع دور کوع کا درس مغرب سے عشاء تک ہوتا تھا جس کے ٹیپ کرنے کا بھی اہتمام تھا۔ اس کے ساڑھے تین سو، چار سو کیسٹ تیار ہوگئے تھے۔ غالباً ۱۴۲۷ھ ؁ مطابق ۲۰۰۶ ؁ء میں یہ درس مکمل ہوا اور اس موقع پر ایک بڑا اجلاسِ قرآنی منعقد کیا گیا۔
اسی دوران اپنے محلہ کی مسجدمیں، میں نے فجر کی نماز کے بعد مختصر درسِ قرآن کا سلسلہ شروع کیا جو ۱۵؍ سے ۲۰؍ منٹ تک ہوتا تھا جس میں، میں ایک رکوع کی تلاوت کرتا تھااور پھر آیات کا رواں ترجمہ کرتا تھا۔ پھر مختصر سی تفسیر ۔مصلیان مسجد کی رعایت کے ساتھ۔ بیان کرتا تھا۔ الحمد للہ اس یومیہ درس کے ریکارڈ کا بھی اہتمام کیا گیا۔ فجر بعداس مجلس میں الحمد للہ دو مرتبہ پورے قرآن پاک کی تفسیر کا موقع ملا۔
ان دروس کے دوران میں نے مولانا مودودی کی تفہیم القرآن سے بھی بہت استفادہ کیا۔ تفسیر ماجدی اور مولانا مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندیؒ کی معارف القرآن بھی زیر نظر رہتی تھی، لیکن یہ احساس ہوتا تھا کہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے لیے تفہیم القرآن زیادہ مفید ہے۔ میں نے مولانا مودودی کے ترجمۂ قرآن میں کہیں کہیں عربیت کے صاف اور بلند ذوق کی کمی دیکھی۔ چاہتا تھا کہ ان مقامات کی نشاندہی کردوں لیکن نوبت نہ آسکی۔
قرآن پاک کی تحریک شروع کرنے سے قرآن اور موضوعات قرآنی، میری تقریروں کا عنوان اور موضوع بنتے گئے۔ میں نے اپنے نانا حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کو اپنی تقاریر قرآنی آیات سے شروع کرتے دیکھا تھا۔ قاری کی تلاوت سے مولانا کسی آیت کا انتخاب فرمالیتے تھے، اور اسے ہی تقریر کا عنوان بنالیتے تھے۔ میں نے اسی طرز کو اختیار کیا اور بسااوقات جلسوں میں خطاب سے پہلے کوئی موضوع ذہن میں نہ ہوتا اور کبھی کبھی حمد وثناء وصلاۃ وسلام کے تمہیدی الفاظ ادا کرتے کرتے کوئی آیت کریمہ ذہن میں آتی اور اسی کو موضوع بناکر جلسہ کی مناسبت سے مربوط کرتا۔ اس سلسلہ میں قرآن پاک کی فیاضی، دادرسی اور حکمتوں کے خزانے خوب خوب سامنے آتے رہے۔ 
مجھے قرآن پاک کے معجزانہ پہلو سے ہمیشہ دلچسپی رہی اور اس سلسلہ میں مصطفی صادق الرافعی کی’’اعجاز القرآن‘‘، علامہ رشید رضا مصری کی ’’الوحی المحمدی‘‘، اور سیدقطب اور محمد قطب کے مضامین کے علاوہ قرآن کے سائنسی اعجاز کے لیے علامہ جوہری طنطاوی کی تفسیر پر بھی نگاہ ڈالی، اوراپنے محترم ومرحوم دوست ۔جن سے عمر کے بڑے فرق کے باوجود تعلق محبانہ اور دوستانہ تھا۔ مولانا شہاب الدین ندویؒ کی ’’چاند کی تسخیر‘‘ سے لے کر تقریباً تمام کتابیں پڑھیں۔ پھر رابطہ عالم اسلامی کے شعبہ ’’الإعجاز العلمی فی القرآن‘‘ کے صدر شیخ عبد المجید زندانی کی ’’إنہ الحق‘‘ اور بعض دیگر کتابیں نظر سے گذریں،اور ان سے متعدد ملاقاتوں میں بھی ان کی تحقیقات سننے کا موقع ملا۔ ہارون یحییٰ کی سی ڈیز دیکھنے اوران کی بعض کتابوں کے مطالعہ سے بھی بہت سے گوشے سامنے آئے۔ قرآن اور سائنس کے موضوع پر موریس بوکائی کی کتاب ’’بائیل قرآن اور سائنس‘‘ بھی غور سے پڑھی۔ اس موضوع پر متعدد متخصص شخصیات کے بیانات سنے جن میں ڈاکٹر زغلول نجار مصری معروف ہیں اور یہ بات کھل کرسامنے آئی کہ آج کے دور میں قرآن کے معجزانہ پہلوؤں میں سب سے زیادہ موثر پہلو، قرآن کے سائنسی اعجاز کا ہے۔ قرآن کے بلاغی، بیانی، لغوی اعجاز کے سمجھنے والے، افسوس ہے کہ مدارس میں بھی برائے نام ہی ہوں گے، لیکن قرآن کے سائنسی اعجاز کا دل ودماغ پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ قرآنی علوم سے متعلق ارض القرآن۔ اعلام قرآنی۔ حیوانات قرآنی۔ اور علوم القرآن کی تمام متداول کتابیں الحمد للہ نظر سے گذریں۔
اسی دوران حضرت مولانا علی میاںؒ کے ۱۹۵۰ء کے قرآنی لکچرز جو انہوں نے دار العلوم ندوۃ العلماء میں بحیثیت استاد تفسیر دیے تھے اور مولاناؒ کے پاس اس کی اصل بھی محفوظ نہیں رہی تھی، والد مرحوم حضرت مولانا سید محمد طاہر صاحبؒ کے محفوظ کاغذات میں ملے۔ انہوں نے مولانا سے وہ لکچرز سنے تھے اور نوٹ کیے تھے۔ میں نے حضرت مولاناؒ کے سامنے انہیں پیش کیا۔ مولانا باغ باغ ہوئے اور پھر ’’مطالعہ قرآن کے اصول ومبادی‘‘ کے عنوان سے نظرثانی اور اضافوں کے بعد اسے شائع کیا۔ پھر حضرت مولاناؒ کی متعدد اردو اور عربی کتابوں کے عربی اور اردو تراجم کی طرح مجھے اس کتاب کو عربی میں منتقل کرنے کی توفیق ملی، اور ’’المدخل إلی الدراسات القرآنیۃ‘‘ کے عنوان سے حضرت والا ؒ نے اپنے مقدمہ کے ساتھ اسے شائع فرمایا۔

اس سیاحتِ قرآنی، تذکیر بالقرآن، جہاد بالقرآن اور تحریکِ قرآنی کی مصروفیتوں کے درمیان متعدد احباب نے ’’اپنا رواں ترجمہ‘‘ پیش کرنے کامجھ سے مطالبہ کیا۔ گذشتہ سالوں میں، میں نے کام شروع بھی کیا، لیکن ایک پارہ سے کام آگے نہ بڑھ سکا۔
ادھر ایک عرصہ سے صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ سال بھر تدریس اور دعوتی مصروفیات کے دوران صرف ہلکے پھلکے مضامین یارسالوں کی نوبت ہی آتی ہے۔ ہاں رمضان المبارک میں سکون سے وقت ملتا ہے۔ چند سالوں سے جامعہ سید احمد شہید میں ماہِ رمضان المبارک گذارنے اور آخری عشرہ کے اعتکاف سے جو یکسوئی نصیب ہوئی، اس میں مسلسل تین سال کے ماہِ رمضان المبارک میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی کتاب ’’مصفی شرح موطأ‘‘ کے عربی ترجمہ میں مشغول رہا۔ عہدولی اللہی سے ملت اسلامیہ ہندیہ کے علماء پریہ قرض چلا آرہا تھا اور ایامِ طالب علمی سے میری تمنا اس کے ترجمہ کی تھی۔ شاہ ولی اللہ دہلوی کی شخصیت میرے فکری اور فقہی تانے بانے کا اصل مرجع تھی۔
گذشتہ رمضان المبارک ۱۴۳۳ھ میں، میں الحمد للہ’’ مصفی‘‘ کے ترجمہ سے فارغ ہوا اور جوں جوں رمضان المبارک ۱۴۳۴ھ قریب آتا گیا، ترجمۂ قرآن پاک کی پرانی تمنا، دیرینہ مطالبہ اور دلی جذبہ اور پختہ ارادہ عود کرتا گیا۔ ماہ جون ۲۰۱۳ء کے رمضان کوموسم کے اعتبار سے کسی معتدل مقام پر گذارنے اور اس عظیم کام کے لیے یکسو ہونے کا ارادہ کررہا تھا اور خیال تھا کہ جناب ضیاء اللہ شریف صاحب کی قائم کردہ خانقاہ سید احمد شہید میسور ۔ میں ماہِ رمضان المبارک گذارو ں گا اور ترجمہ کا کام انشاء اللہ ایک ماہ میں مکمل کرلوں گا۔ ہمت کہتی تھی کہ روزانہ ایک پارہ کا ترجمہ انشاء اللہ ہوجائے گا، جبکہ رمضان المبارک میں یہ معمول رہتا ہے کہ روزانہ ظہر بعد درس قرآن ہوتاہے، اور پھرروزانہ تراویح کے بعد تراویح میں پڑھے ہوئے حصہ کی مختصر تفسیر ہوتی ہے۔
میں اسی فکر ورابطہ میں تھا کہ رمضان المبارک سے ۲۰؍۲۵؍ روز پہلے کٹھمنڈو ۔نیپال ۔ سے حافظ محمد حسین ندوی مجھ سے ملنے لکھنؤ آئے۔ کٹھمنڈو میں میرے مشورہ سے انہوں نے برادرم سعید قاضی، مولوی عامر ظفر ندوی اور بعض دیگر احباب کے تعاون کے ساتھ ’’مدرسۃ الحرمین‘‘ ۱۹۹۸ء میں قائم کیا تھا۔ پھر ہمارے اصرار پر اس کے لیے چاروں طرف سے پہاڑوں کے بیچ میں ایک خوبصورت وادی میں اراضی خرید کر مسجد، ہوسٹل، اور درجات کی تعمیر کی تھی۔ میری حاضری مدرسہ کے معاینہ اور مدرسہ کے جلسوں میں شرکت کے لیے متعدد بار ہوچکی تھی۔
میں نے حافظ محمد حسین سے رمضان کسی ٹھنڈے مقام پر گذارنے کی اپنی خواہش کا ذکر کیا۔ انہوں نے شدت سے اصرار کیا کہ آپ مدرسۃ الحرمین ۔ کٹھمنڈو ۔ میں رمضان گذاریں۔ وہاں نیپالی، چینی، تبتی اور پاکستانی احباب دروسِ قرآن اور رمضان کے پروگرام سے مستفید بھی ہوں گے اور آپ اپنا کام سکون سے کرسکیں گے۔ میں نے اس پیشکش پر چند شرائط کے ساتھ سنجیدگی سے غور کرنا شروع کردیا اور حافظ حسین نے نیپال میں اس کا اعلان کردیا اور ضروری انتظامات میں کوئی کسرنہ چھوڑی۔
رمضان المبارک ۱۴۳۴ھ کا چاند ہوا۔ مبارک رات سے ابتداہوئی۔ میں نے رمضان المبارک کے پہلے دن، پہلے روزہ کی صبح ۹؍بجے، دو رکعت صلاۃ الحاجۃ اور بارگاہ الٰہی میں مقبول اور پسندیدہ ومفید ترجمہ کی دعاؤں کے ساتھ ۔سورۃ الفاتحہ کے ترجمہ سے’’مقدمۂ قرآن عظیم‘‘ کے عنوان سے ترجمہ کا آغاز کردیا۔ اب روز کا یہی معمول ہوتا۔ ظہر کی اذان تک تقریباً یہ سلسلہ جاری رہتا۔ ظہر بعد مسجد میں درس قرآن ہوتا۔ تراویح کے بعد حسب معمول جتنا حصہ پڑھا جاتا،اس کا مختصر بیان ہوتا اور کبھی تراویح کے بعد احباب کی مجلس کے اختتام پر پھر ترجمہ کی مشغولیت رہتی۔ آخر آخر میں عصر کے بعد مسجد میں کتاب خوانی ودعا کے بعد اپنی قیام گاہ پرمیں پھر ترجمہ میں مشغول ہوجاتا۔

میں نے طے یہ کیا تھا کہ ترجمہ حرفی نہیں ہوگا، معنی خیز ہوگا۔ ضروری وضاحتیں بین القوسین مربوط طریقہ پر ہوتی چلی جائیں گی، تاکہ قاری کو بغیر تفسیر کی حاجت کے، رواں ترجمہ سے ہی مطالب قرآنی سمجھ میں آتے چلے جائیں۔
قرآن کی نزولی ترتیب وقتی ضرورت سے تھی، لیکن حقیقی ازلی اور ابدی ترتیب یہی ہے جو ہمارے سامنے ہے جس کی بنا پر مصحف صدیقی مرتب کیا گیا اور پھر اس کے نسخے مصاحف عثمانی کی شکل میں عالم اسلامی میں پھیلا دیے گئے۔ ظاہر ہے کہ یہ ازلی ترتیب اللہ کی حکمتوں سے لبریز ہے۔ جو عرب اپنی شاعری اور نثاری میں کسی تصنیفی ترتیب سے واقف نہیں تھے اور وہ دور جزیرۃ العرب میں تصنیف وتالیف کا تھابھی نہیں،سورتوں کے ذریعہ مضامین کو اور آیتوں کے ذریعہ مفردات اور جملوں کو پیش کیا گیاتھا۔ زیادہ تر سورتوں کے نام عربی ذوق کے مطابق علامتی رکھے گئے۔ زبان وبیان کے معجزہ سے عرب مبہوت تھے اور ان کے دور کے اسلوب کی اس کلام ربانی میں ایسی نادر اور حیرت انگیز رعایت رکھی گئی تھی کہ وہ فطرت انسانی کو اپیل کرتی تھی، اس لیے وہ نہ ان کے لیے اجنبی تھی، نہ کسی دور میں اجنبی رہی، لیکن ہردور کے انسانوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ’’لتبین للناس‘‘ (تا کہ آپ لوگوں کے لیے کھول کھول کر بیان کردیں) کا فریضہ انجام اسی وقت دیا جاسکتا تھا جب ہردور کی زبان اور اصطلاحات میں اس فطری ترتیب کی ترجمانی ہو۔
حق یہ ہے کہ ترجمہ کا یہ کام، رمضان المبارک کے دنوں میں ، صلاۃ الحاجت کے بعد، روزہ کی حالت میں، ایسا مسرت آگیں، سکینت آمیز، اور بارگاہ الہی میں حاضری اور ہم کلامی ومناجات کی روحانی لذتوں کے کیف اور قرب کے وجدانی اثرات سے معمور تھا کہ ایسا لگتا تھا کہ قلب وذہن پر ایک خاص طراوٹ ہورہی ہے اور قلم کو غیبی سہارا دیا جارہا ہے۔ القاء والہام کا دعویٰ تو بڑوں کی بات ہے، لیکن دل جابجا تایید ایزدی اور توفیق ربانی کی گواہی دیتا تھا۔
انہی کیفیات میں ایک دن پورا قرآن ’’ترجمانی کے عصری قالب میں‘‘ ایسا مرتب ہوتا نظر آیا کہ مقدمہ ،ابواب ، فصلیں، ذیلی عنوانات سب ہی مرتب ہوتے چلے گئے۔ نظم وترتیب قرآنی پر تاریخ تفسیر میں معدودے چند عظیم مفسرین نے روشنی ڈالی ہے، لیکن عوام تو عوام، خواص بلکہ اخص الخواص، طلباء اور مدرسین مدارس کی گرفت میں وہ کم ہی آسکی۔ علامتی ناموں سے سورتوں کے حوالہ اور آیتوں کے نمبرات کے ذریعہ جوباتیں کہی جاتی ہیں، ان کے حوالے اس طرح دیے جاتے ہیں کہ ہر مضمون گویاایک مستقل مضمون ہے۔ میرے لیے بہرحال ایک مربوط ترتیب سامنے آتی چلی گئی اور ایک دو مجلس میں قرآن کی ۱۱۴۔ سورتوں کے پندرہ ابواب اور دسیوں فصلوں کے عنوانات طے پاگئے اور پوری فہرست ابواب اور فصلوں کے ساتھ بحمد اللہ مرتب ہوگئی۔ یہ میرے لیے سب سے بڑی دریافت اور سب سے بڑی معنوی فتح تھی۔
قریبی عرصہ میں مولانا تقی عثمانی کا ’’آسان ترجمۂ قرآن‘‘ ضروری تشریحات کے ساتھ تین جلدوں میں چھپ کر آیا ہے۔ انہوں نے رمضان المبارک ۱۹۲۹ء مطابق ستمبر ۲۰۰۸ء میں اس کو مکمل کیا۔ دوسرا ’’آسان ترجمہ وتشریح قرآن مجید‘‘ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کے قلم سے رمضان ۱۴۱۹ھ سے درمیان کے لمبے وقفوں کی وجہ سے ربیع الاول ۱۴۳۲ھ مطابق فروی ۲۰۱۱ء میں سورۂ اعراف تک ایک جلد میں شائع ہوا۔ دوسری، تیسری جلد کا انتظار ہے۔ میرا احساس ہے کہ ان دونوں ترجموں سے یہ ترجمہ زیادہ آسان، سہل اور رواں ہے۔ پھر کیونکہ میں نے تفسیر نہیں لکھی، ترجمہ میں ہی ضروری توضیحات مربوط طور پر کر دی ہیں کہ تسلسل کے ساتھ قاری پڑھتا چلاجائے اور اسے بار بار نمبرات دیکھ دیکھ کر نیچے حاشیے نہ دیکھنے پڑیں، اس لیے مجھے امید ہے کہ اس ترجمہ بلکہ ترجمانی سے مستفید ہونے والے قاری کو جس کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے، مزید تشریحات کے بغیر مطالب قرآنی سمجھ میں آتے چلے جائیں گے۔

غزالی اور ابنِ رشد کا قضیہ ۔ اصل عربی متون کی روشنی میں (۱)

مولانا محمد عبد اللہ شارق

(نوٹ: بعض عربی عبارات کا ترجمہ نہیں کیا گیا، کیونکہ عربی عبارت نقل کرنے سے قبل ہی ان کا مفہوم، اپنے الفاظ میں بیان کر دیا گیا ہے۔)

غزالی نے اپنے دور میں خود کو مسلم کہنے والے بعض فلسفیوں کی کچھ آراء پر سخت علمی تنقید کی جو ان کی کتاب ’’تہافت الفلاسفۃ‘‘ کی صورت میں آج تک موجود ہے، جبکہ ایک مشہور فلسفی ’’ابنِ رشد‘‘ نے ’’تہافت التہافت‘‘ کے نام سے اس نقد کا جواب لکھا۔ غزالی اور ابنِ رشد کی اس آویزش کو غزالی اور ابنِ رشد کا قضیہ کہا جاتا ہے۔ زیرِ نظر مضمون میں اس علمی آویزش اور بحث کے تمام پہلوؤں کو زیرِ بحث لانا مقصود نہیں، نہ یہ مفید ہے اور نہ ہی آج کے جدید ذہن کے لئے یہ سب پہلو قابلِ فہم ہوں گے۔ موجودہ دور میں بہت سے لوگ غزالی کے مقابلہ میں ابنِ رشد کو اپنا راہ نما قرار دیتے ہیں اور قرائن یہ بتاتے ہیں کہ ان کی اکثریت نے غزالی اور ابن رشد کے عربی متون کو تو درکنار، ان کے تراجم کو بھی نہیں پڑھا۔ کہیں کسی تحقیقی مجلہ میں اس موضوع پر دو، ایک مقالے پڑھ کر وہ اس معاملہ میں ثالثی کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ ہمارے قومی اخبارات کے بہت سے کالم نگاروں کا یہ پسندیدہ موضوع ہے اور وہ وقفہ وقفہ سے اِس موضوع پر رائے زنی کرتے ہوئے غزالی کے موقف پر ابن رشد کے موقف کو ترجیح دیتے رہتے ہیں۔ غزالی کے حوالہ سے یہ حضرات کچھ سنگین قسم کی غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگر عالمِ اسلام‘ غزالی کی بجائے ابنِ رشد کو اپنا راہ نما بناتا تو آج ذلت کے یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ ان کا خیال ہے کہ ابن رشد سائنس اور اسلام کے درمیان ہم آہنگی کا قائل تھا، جبکہ غزالی سائنس کے مخالف ومنکر تھے اور گیارہویں صدی عیسوی میں مسلمانوں کے درمیان آنے والا سائنسی وفکری انحطاط غزالی کی مخالفت ہی کی وجہ سے پیدا ہوا۔ زیرِ نظر مضمون میں دراصل انہی ’’مغالطوں‘‘ کا ازالہ مقصود ہے۔ ان حضرات پر میری تنقید غزالی سے اندھی عقیدت کا نتیجہ نہیں، بلکہ یہ سوچی سمجھی رائے ہے جو غزالی اور ابن رشد کے اصل عربی متون کو براہِ راست پڑھنے کے بعد میرے اندر پیدا ہوئی ہے۔ 

امام غزالی رحمہ اللہ کا موقف

غزالی نے فلسفیوں پر کوئی ایسا جبر نہیں کیا کہ وہ فلسفہ نہ پڑھیں یا سائنسی تحقیقات کرنا چھوڑ دیں اور نہ ہی کبھی انہوں نے یہ کہا کہ اسلام اور سائنس ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ غزالی کے پیروکاروں نے ایسے فلسفیوں اور سائنس دانوں پر کبھی تنقید نہیں کی جنہوں نے خود کو سائنسی تجربات اور ریاضی وطب جیسے مفید، کارآمد اور اوریجنل سائنسی علوم تک محدود رکھا۔ چنانچہ ہمارے علم کے مطابق الخوارزمی (الجبرا کے بانی)، ابن الہیثم (ماہرِ طب)، حکیم یحییٰ بن ابی منصور، ابو ریحان البیرونی (ماہرین جیومٹری)، مسلم بن فراس (پہلا ہوا باز)، عباس بن سعید جوہری اور سند بن علی (آلاتِ رصد بنانے کے ماہر)، بنو موسیٰ بن شاکر (گھڑی جیسے متحرک آلات بنانے کے ماہر)، محمد بن زکریا رازی (ماہر کیمیا)، حکیم ابو محمد العدلی القائنی، ابو سہل ویجن بن رستم کوہی اور حکیم ابو الوفاء بوزجانی (ماہرین ریاضی) جیسے لوگوں کو کبھی بھی کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلم حکماء اور سائنس دانوں میں اکثر لوگ ایسے ہی تھے جنہوں نے خالصتاً ریاضی وطب جیسے حقیقی اور تجرباتی علوم تک اپنے آپ کو محدود رکھا اور اس میدان میں خدمات انجام دیں، لیکن ان کی زیادہ شہرت نہیں۔
مولانا عبدالسلام ندوی کے بقول’’ صرف مامون الرشید کے زمانہ تک مسلمانوں میں متعدد ریاضی دان پیدا ہوئے اور مشہور ہوئے، مگر فلسفی صرف کندی پیدا ہوا۔ ‘‘ (حکمائے اسلام۔ جلد۱، صفحہ۱۰۵)لیکن ان ریاضی دانوں اور جینوئن سائنس دانوں کے نہ تو آج نام زیادہ معروف ہیں اور نہ ہی تاریخ میں ان کے احوال زیادہ محفوظ ہیں، وجہ وہی کہ ان کی تعداد بہت زیادہ تھی اور یہ لوگ اپنا سا کام کرتے رہتے تھے، متنازعہ امور میں یا مذہب کے معاملہ میں ٹانگ اڑا کر انہوں نے کبھی مشہور ہونے کی کوشش نہیں کی۔ دیکھئے، بنو موسیٰ بن شاکر، حکیم یحییٰ بن منصور ، عباس بن سعید وغیرہ کے نام سے کون واقف ہے؟ صرف الخوارزمی کا نام جانا پہچانا ہے، مگر اس کے حالات بھی آدھے صفحہ سے زیادہ نہیں ملتے۔ ایسے لوگوں کو بھی اگرچہ بعض اوقات فلسفی کہا جاتا ہے کیونکہ اس دور میں ریاضی وطب جیسے علوم بھی فلسفہ کا ایک شعبہ سمجھے جاتے تھے، لیکن فی الجملہ ان کو فلسفی کی بجائے ’’حکیم‘‘ کہا جاتا ہے۔ فلسفی کا لفظ اس کے مقابلہ میں ان لوگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، جنہوں نے خود کو ان جینوئن علوم تک محدود نہیں رکھا، بلکہ مذہبیات اور مابعد الطبیعیات میں ٹانگ اڑا کر اس میں بھی نئی نئی ’’ایجادات‘‘ پیش کرنے کی کوشش کی یا دوسروں کی ’’ایجادات‘‘ کو رد کیا۔ یہی وجہ ہے کہ لطفی جمعہ کی ’’تاریخ فلاسفۃ الاسلام‘‘ میں صرف ایسے ہی لوگوں کا تذکرہ ملتا ہے، جینوئن حکماء اور سائنس دانوں کا نہیں۔ 
غزالی کی تنقید کا رخ انہی ’’مسلم‘‘ فلسفیوں کی طرف ہے جنہوں نے اپنے متنازعہ ’’کارناموں‘‘ کی وجہ سے شہرت حاصل کی اور ان میں سے بعض نے اپنی الہیات اور مابعد الطبیعیات (Metaphysics)کو اسلام میں داخل کرنے کی سعی کی۔ان فلسفیوں نے اپنے علمِ الہیات میں خداوند تعالی کے بارہ میں یہ عجیب وغریب دعوی کیا کہ وہ اپنی مخلوق کی کلیات کو اور ان پر طاری ہونے والے جزوی حالات کو جانتا ہے یعنی یہ کہ میری مخلوق میں انسان ہے، چرند ہے، پرند ہے،ان میں کس نے کب پیدا ہونا اور کب مرنا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن وہ ان جزئیات میں آنے والے موقع بموقع تغیر سے بے خبر اور غافل ہے، یعنی انسانوں میں اس وقت کتنے انسان موجود ہیں ، کون پیدا ہورہا ہے؟ کون مررہا ہے؟کون سا درخت پھل رہا ہے اور کون سا درخت سوکھ رہا ہے؟ کونسا ہوچکا ہے اور کس نے ہونا ہے؟ اگر کسی کو یہ ’’منطق‘‘ ناقابلِ فہم اور عجیب وغریب محسوس ہوتی ہے تو وہ فلسفیوں کا سر پیٹے، ہمارا نہیں۔ یہ حرف بحرف انہی کا عقیدہ ہے۔ فلسفہ کے مشور و متداول متن ’’ہدایۃ الحکمۃ‘ ‘ کے مصنف اثیر الدین ابہری کے الفاظ ہیں: ’’الواجب لذاتہ عالم بالجزئیات المتغیرۃ علی وجہ کلی۔۔۔ لکن لا یدرکہا مع تغیرہا‘‘ (ہدایۃ الحکمۃ۔ صفحہ۷۲) اہل سنت کے ہاں مشہور یہ رہا ہے کہ فلسفی سرے سے یہ ہی نہیں مانتے کہ اللہ کی ذات کو جزئیات کا علم حاصل ہے، لیکن یہ بات درست نہیں۔ علامہ شبلی نے بھی یہ وضاحت کی ہے۔ (علم الکلام۔ جلد اول،صفحہ۱۲۹) صحیح بات یہی ہے کہ وہ اسے مانتے بھی ہیں اور نہیں بھی، یعنی مانتے ہیں لیکن اپنی عجیب وغریب منطق کے ساتھ۔ تہافت التہافت کے محقق ڈاکٹر سلیمان دنیا نے بوعلی کی سینا کی تصنیف ’’الشفاء‘‘ سے عبارت نقل کرکے دعوی کیا ہے کہ وہ باری تعالیٰ کے بارہ میں جزئیات سے بالکل ناواقف ہونے کا قائل تھا۔ (تہافت التہافت۔ صفحہ۵۸)لیکن میری سمجھ سے یہ بالا تر ہے کیونکہ اس کی محولہ عبارت میں ہی الفاظ یہ ہیں: ’’لایجوز ان یکون عاقلا لہذہ المتغیرات مع تغیرہا من حیث ہی متغیرۃ عقلا زمانیا مشخصا (بل علی نحو آخر نبینہ) ۔۔۔واجب الوجود انما یعقل کل شیء علی نحو کلی۔۔۔‘‘ (تہافت التہافت۔صفحہ۵۰) مزید سنئے، اسی طرح ان فلسفیوں نے یہ دعوی کیا کہ خدا ایک بے دست وپا قسم کی قوت (جسے وہ ’’عقل ‘‘ کہتے ہیں) کا نام ہے جس سے ایک اور قوت نے جنم لیا، اس سے پھر ایک اور قوت نے، یہاں تک کہ یہ سلسلہ دسویں قوت اور ’’عقل‘‘ تک پہنچا۔ اس دسویں عقل اور قوت سے یہ سارا جہان نمودار ہوا۔ اثیر الدین ابہری کے الفاظ ہیں: ’’الصادر من المبدء الاول انما ہو الواحد لانہ بسیط والبسیط لا یصدر عنہ الا الواحد کمامر‘‘ (ہدایۃ الحکمۃ۔ صفحہ۷۵) 
یہ باتیں دلیل کی رو سے کتنی بے سروپا اور احمقانہ ہیں، اس بحث میں پڑے بغیر فی الحال صرف یہ دیکھئے کہ ایک آدمی یہ سب باتیں خود کو مسلمان کہتے ہوئے اسلام ہی کے نام پر کرتا ہے تو کیا اسے اس بات کا حق پہنچتا ہے اور اگر کوئی غزالی اس پہ تنقید کرے تو کیا یہ بلاجواز ہے؟ بات بڑی واضح ہے کہ ان ہفوات کو فلسفی بے شک اپنے ’’علم الہیات‘‘ کا جزو بنائیں کیونکہ دین میں جبر نہیں، مگر انہیں اس بات کاکوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ یہ سب باتیں خود کو مسلمان کہتے ہوئے بھی کریں اور یوں مسلمانوں کے لئے تشویش، انتشار اور افتراق کا باعث بنیں۔ طرہ یہ کہ ’’مسلم‘‘ فلسفی اپنی الہیات کو ریاضی اور منطق کی طرح حتمی اور شبہات سے پاک بھی سمجھتے تھے، مگر ان کا دعوی تھا کہ اس کے دلائل کو سمجھنا صرف فلسفیوں کے لیے ممکن ہے۔ 
غزالی یہ چاہتے ہیں کہ مسلمان فلسفہ اور سائنس کے صرف کارآمد علوم کو اختیار کریں اور مذہب کے دائرہ سے ان کو الگ رکھتے ہوئے ان کی بنیاد پر اسلام کو بدلنے کی کوئی کوشش نہ کریں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے نزدیک حکمت وفلسفہ اور سائنس کے تمام اجزاء قابلِ اعتراض نہیں، بلکہ صرف وہ حصہ جو اسلام کی تعلیمات سے صریحاً متصادم ہے ۔غزالی کے اپنے الفاظ ہیں:
 ’’ہذا الفن ونظائرہ ہو الذی ینبغی ان یظہر فساد مذہبہم فیہ دون ما عداہ‘‘ (تہافت الفلاسفۃ۔صفحہ۸۱) 
یعنی ’’فن الہیات اور اس کی امثال ہی فلسفہ کا وہ شعبہ ہیں جہاں ان کے مذہب کی تردید مقصود ہے،فلسفہ کے کسی اور فن یا شعبہ (ریاضی، طب، منطق، سوشل سائنسز وغیرہ) پر تنقید کرنا ہمیں مطلوب نہیں۔‘‘
اس سے بھی زیادہ واضح الفاظ دیکھیں:
 ’’علومہم اربعۃ اقسام: الریاضیات والالہیات والمنطقیات والطبیعیات، اما الریاضیات۔۔۔ فلا غرض لنا فی الاشتغال بایرادہ، واما الالہیات فاکثر عقائدہم فیہا علی خلاف الحق والصواب نادر فیہا، واما المنطقیات ۔۔۔ فیخالفون اہل الحق فیہا بالاصطلاحات والایرادات دون المعانی والمقاصد اذ غرضہا تہذیب طرق الاستدلالات، واما الطبیعیات فالحق فیہا مشوب بالباطل‘‘ (مقاصد الفلاسفہ صفحہ۱۰،۱۱) 
یعنی ’’فلسفیوں کے نظریاتی علوم کے چار بنیادی شعبے ہیں، ایک تو ریاضی ہے جس کو موضوعِ بحث بنانا مطلوب نہیں، دوسرا الہیات ہے ، اس میں ان کے اکثر عقائد راہِ راست سے ہٹے ہوئے ہیں، تیسرا منطق ہے جس میں اہلِ حق کے ساتھ ان کا اختلاف صرف اصطلاح میں ہے، اصل مفاہیم میں نہیں ، چوتھا طبیعیات ہے جس میں الٹی سیدھی، دونوں طرح کی باتیں پائی جاتی ہیں۔‘‘
تہافت التہافت کی فہرست پر ایک نظر ڈال کر بھی یہ بات بآسانی معلوم کی جاسکتی ہے کہ غزالی کی گفتگو کا محور یا تو الٰہیات کے ان مسائل کی نشان دہی ہے جو دین کی تعلیمات سے صریحاً متصادم ہیں، یا پھر وہ فلسفیوں کے اس زعم کو رد کرنا چاہتے ہیں کہ ان کی الہیات ریاضی اور منطق کی طرح شک وشبہ سے پاک ہے۔اپنی کتاب میں ان کے صرف یہی دو اہداف ہیں۔ دوسروں کی بنائی ہوئی فہرستوں کو بھی چھوڑ دیجئے، وہ خود ’’تہافت الفلاسفۃ‘‘ کے مقدمہ میں ایک عنوان قائم کرتے ہیں:
 ’’فہرست المسائل التی اظہرنا تناقض مذہبہم فیہا فی ہذا الکتاب‘‘ (صفحہ۸۶) 
یعنی ’’ان مسائل کی فہرست جن کے اندر فلسفیوں فلسفیوں کے مذہب کے ضعف کو ہم نے اس کتاب میں بیان کیا ہے۔‘‘
 اس کے بعد انہوں نے خودبیس مسائل کی فہرست دی ہے۔ ان مسائل پہ ایک سرسری نظر بھی ڈال لی جائے تو اندازاہ ہوجائے گا کہ ان کے اہداف صرف یہی دو ہیں۔ وہ الٰہیات کے ان مسائل کی نشان دہی کرتے ہیں جو دین کی تعلیمات سے صریحاً متصادم ہیں یا پھر وہ فلسفیوں کے اس زعم کو رد کرتے ہیں کہ ان کی الٰہیات ریاضی اور منطق کی طرح شک وشبہ سے پاک ہے۔
اب خود بتائیے کہ کیا غزالی سائنس کے منکر ہیں؟ اسلام کی حقانیت دو اور دو ، چار کی طرح واضح ہے کیونکہ اللہ کا وجود اس کائنات کا سب سے بدیہی سچ ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت وراست گوئی کو آج کے غیر متعصب ’’نان مسلم‘‘ بھی تسلیم کرتے ہیں۔ اس کے بعد اسلام کے اثبات کے لئے کسی فلسفیانہ دلیل کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی فلسفیانہ دلیل کی بنا پر ایسے بدیہی سچ پہ تنقید روا ہے۔ کجا یہ کہ اسلام پہ یہ تنقید خود کو مسلمان کہتے ہوئے (یعنی اسلام کے نام پر) ہی کی جائے۔ 
ان واضح تصریحات کے بعد کسی کے لئے یہ کہنے کی گنجائش نہ تھی کہ غزالی سائنس کے منکرہیں یا مذہب اور سائنس کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے خلاف ہیں۔ لیکن پروپیگنڈے کاتو کام ہی یہی ہے کہ حقائق کو تروڑا مروڑا جائے۔ بہتر ہوگا کہ یہاں پر ڈاکٹر سلیمان دنیا کی رائے بھی نقل کردی جائے۔ ڈاکٹر سلیمان دنیاجامعۃ الازہر، مصر میں فلسفہ کے استاد اور المرکز الثقافی الاسلامی، نیویارک کے مدیر رہے۔ وہ امام غزالی کی ’’تہافت الفلاسفۃ‘‘اور ابن رشد کی ’’تہافت التہافت‘‘ دونوں کے بیک وقت محقق، حاشیہ نگار اور مقدمہ نگار ہیں۔ انہوں نے دونوں کتابوں کے حرف حرف کو پڑھا، سمجھا، ان پہ اپنے وقیع علمی حواشی تحریر کیے، موقع بموقع غزالی اور ابن رشد دونوں پہ بے لاگ نقد کیا، دونوں کتابوں کے شروع میں گراں قدر تحقیقی مقدمے تحریر کیے اور مختلف قلمی نسخوں کو سامنے رکھتے ہوئے الفاظ کے معمولی اختلاف تک کو بھی جابجا واضح کیا۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ غزالی اور ابن رشد کے قضیہ کے بارہ میں ان کی رائے کسی بھی دوسرے آدمی کے مقابلہ میں کس پائے کی ہوگی؟غزالی کے بارہ میں وہ لکھتے ہیں: 
’’غفل قوم عن ذالک فی القدیم والحدیث، وظنوا ان الغزالی یحمل علی التفکیر العقلی جملۃ ویکرہہ ویحاربہ ویریدہ ان لایکون، ومن ہنا قالوا ما قالوا من ان الغزالی قد ضرب الفلسفۃ ۔یعنون کلہا۔ ضربۃ لم تقم لہا بعد الشرق قائمۃ، ومن الغریب انہ حتی فی عصرنا ہذا ، بعد ما تیسر طبع کثیر من الکتب وتیسر تبعا لذالک الاطلاع علی کثیر من کتب الغزالی، مایزال بعض المنتسبین الی العلم والواضعین انفسہم بین اہلہ فی مقام الصدارۃ یجہلون ہذہ الحقیقۃ‘‘ (تہافت التہافت بہ تحقیق سلیمان دنیا۔ صفحہ۱۶) 
’’قدیم اور جدید، دونوں ادوار میں لوگوں کے ایک گروہ کا یہ خیال رہا ہے کہ غزالی پوری عقلی وفکری روایت پر حملہ آور ہیں، فکری کاوشوں کو ناپسند کرتے ہیں، ان کے خلاف بر سرِ پیکار ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس پوری روایت کا خاتمہ ہو۔ اسی بناء پر ان لوگوں نے غزالی کے بارہ میں وہ سب کہا جو ان کے منہ میں آیا۔ ان لوگوں کے مطابق غزالی نے پورے فلسفہ اور سائنس کی ایسی بیخ کنی کی ہے کہ اس کے بعد وہ مشرق میں پیروں پہ کھڑا نہیں ہوسکا۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ہمارے زمانہ میں جبکہ کتابیں آسانی سے دستیاب ہیں اور غزالی کی کتابوں سے مراجعت کرنا کوئی مشکل کام نہیں رہا، اب بھی خود کو علم سے منسوب کرنے والے اور اہلِ علم میں خود کو صدر نشینی کا اہل سمجھنے والے لوگ اس حقیقت سے جاہل ہیں۔‘‘ 
ڈاکٹر سلیمان دنیا کا تعجب بجا، مگر مسئلہ یہ ہے کہ روشن خیال اپنی روشن خیالی کو مصدقہ کروانے کے چکر میں ہر وہ کام کرتے ہیں جس میں انہیں کوئی حرج محسوس نہیں ہوتا۔ غزالی کو پڑھے بغیر ، غزالی کی طرف غلط موقف منسوب کرنا اور پھر ان پہ نقد کرنا بھی شاید اسی غرض سے ہے ۔ خالص عربی زبان میں بپا ہونے والے اس قضیہ کے بارہ میں بھی ان حضرات کا خیال ہے کہ عربی متون کے حوالے ثانوی درجہ رکھتے ہیں اور انگریزی مقالات کے حوالے ان سے زیادہ معتبر ہیں۔ 
ْ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ فلسفیوں کے علمِ الہیات پر تنقید کرنے میں غزالی تنہا نہیں، فخر الدین رازی اور ابنِ تیمیہ جیسے کئی علماء نے بھی ان پر سخت تنقید کی ہے۔ یہ سب حضرات (فقہی مسائل میں مختلف الخیال ہونے کے باوجود) فلسفیوں پر تنقید کرنے میں یک زبان ہیں۔ اور تو اور، خود ’’سلسلہ فلسفیہ‘‘ میں ایک بڑا نام ابو البرکات بغدادی کا آتا ہے۔ یہ مذہبا یہودی تھا اور بعد میں اس نے اسلام قبول کیا۔ اس نے بھی خود اپنی کتاب ’’المعتبر‘‘ میں فلسفیوں کی الہیات پر شدید اور بھر پور تنقید کی ہے۔ بعض حضرات کے بقول، بعد میں رازی اور ابنِ تیمیہ کی فلسفہ پر تنقید اکثرو بیشتر اسی ’’المعتبر‘‘ سے ماخوذ ہوتی ہے جو سلسلہ فلسفیہ کے ہی ایک عظیم رکن کی تصنیف ہے۔(حکمائے اسلام۔ جلد۱، صفحہ۴۵۰، ۴۵۱)
علامہ اقبال کے درجِ ذیل مشہورِ زمانہ شعر سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بھی فلسفہ کے ناروا پہلوؤں پر غزالی کی تنقید کو درست اور قابلِ رشک سمجھتے تھے۔
رسمِ اذاں رہ گئی ، روحِ بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا ، تلقینِ غزالی نہ رہی

ابن رشد کی تنقید

ابن رشد نے اگر چہ غزالی کی ’’تہافت الفلاسفۃ‘‘ پر تنقید لکھی ہے، مگر جنہوں نے دونوں کو پڑھا ہے، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ابن رشد اپنی تمام تر تنقید کے باوصف غزالی کی کتاب کا قد کاٹھ گھٹا نہیں سکے۔ابنِ رشد کا مقصد ’’تہافت التہافت‘‘ میں کیا ہے اور وہ ثابت کیا کرنا چاہتے ہیں؟ یہ بات اگر میں ابن رشد کے حامیوں سے پوچھوں تو مجھے یقین ہے کہ بغلیں جھانکنے کے سوا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا یا پھر ان میں سے جو لوگ ذرا زبان آور ہیں، وہ اندھیرے میں تیر چلاتے ہوئے کوئی نہ کوئی بات بنا لیں گے۔ اس قضیہ سے ان لوگوں کی واقفیت کا عالم تو یہ ہے کہ یہ غزالی کو سائنس ومذہب کی ہم آہنگی کے خلاف سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ لوگ نہیں جانتے کہ خود ابن رشد نے بھی ’’تہافت التہافت‘‘ میں کہیں غزالی پرکم از کم یہ الزام عائد نہیں کیا۔ غزالی کے مقابلہ میں ابن رشد کو راہ نما بنانے کے شوقین جانتے ہی نہیں کہ ابن رشد نے خود لکھا کیا ہے اور غزالی نے ایسا کیا لکھا تھا جس سے ابن رشد نے اختلاف کیا ہے۔
(۱)
غزالی کا مقصود(جیساکہ گذشتہ عنوان کے تحت بھی تفصیل سے بیان ہوچکا ہے) ایک تو فلاسفہ کی الٰہیات کے ان مسائل کی نشان دہی ہے جو دین کی تعلیمات سے صریحا متصادم ہیں۔ ان میں سے دو مثالوں کا ذکر ہم بھی گذشتہ سطور میں کرچکے ہیں: 
ا۔ مخلوق کے جزئی احوال سے نا واقفیت والی بات۔ 
۲۔ یہ سارا جہان اللہ نے پیدا نہیں کیا۔ وہ ایک قوت ہے جسے وہ ’’عقل‘‘ کا نام دیتے ہیں، اس سے ایک قوت اور عقل نے جنم لیا، اس سے ایک اور عقل نے، یہاں تک کہ یہ سلسلہ دسویں عقل تک پہنچا اور اسی سے یہ سارا جہان نمودار ہوا۔
باقی مسائل جو غزالی نے فلاسفہ کی الہیات کی طرف منسوب کئے ہیں، ان سے ہم صرفِ نظر کرتے ہیں، صرف انہی دو مثالوں پر اکتفا کیجیے۔ ابن رشد کے ’’دیسی پیروؤں‘‘ کا خیال ہوگا کہ شاید ابن رشد نے فلاسفہ کی طرف ان مسائل کی نسبت کو غلط ثابت کیا ہوگا اور اس نسبت سے انکار کیا ہوگا، حالانکہ فی الواقع ایسا نہیں۔ پہلا مسئلہ ابن سینا کی تصانیف ’’الاشارات‘‘ اور ’’الشفاء‘‘میں موجود ہے اور ابنِ رشد نے بھی ابن سینا سے اس کی نسبت کو قطع نہیں کیا۔ ڈاکٹر سلیمان دنیا نے ’’الشفاء‘‘ کی طویل عبارت حرف بحرف نقل کی ہے۔ (تہافت التہافت۔ صفحہ۵۸)جبکہ دوسرے مسئلہ کی نسبت کو ابن رشد نے فلاسفہ سے قطع ضرور کیا ہے مگر یونانی فلاسفہ سے، بوعلی سینا اور اس کے ہم نواؤں سے نہیں، انہیں وہ الٹا دوہرا مجرم نام زد کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے خانہ ساز اس عقیدہ کی نسبت غلط طور پر یونانیوں کی طرف کی ہے۔ (تہافت التہافت۔ صفحہ۳۰۹، ۳۰۱) اور غزالی کا مقدمہ خود غزالی ہی کے بقول بوعلی سینا اور اس کے ہم نواؤں کے خلاف ہے۔ (تہافت الفلاسفۃ، صفحہ۷۶، ۷۸۔غزالی کی اصل عبارت بھی آگے ہم نقل کردیں گے۔) سبحان اللہ! اب خود بتائیے کہ اس سے زیادہ سے زیادہ یونانی فلسفیوں کی جان تو چھوٹ گئی کہ ابنِ رشد کے بقول ان کی طرف اس مسئلہ اور عقیدہ کی نسبت درست نہیں، لیکن کیا اس کے ساتھ ہی ساتھ بوعلی سینا وغیرہ کے خلاف غزالی کی ’’چارج شیٹ‘‘ زیادہ مضبوط نہیں ہوگئی (جن کی تردید کرنا غزالی کو مطلوب تھا)؟ کیونکہ ابنِ رشد ہی کے دعوی کے مطابق اس مسئلہ میں بوعلی سینا وغیرہ ناقل نہیں، بلکہ خود ان کے موجد ہیں۔
بوعلی سینا وغیرہ نے اپنی تصانیف میں کئی ایسے مسائل نقل کئے ہیں، جن کے بارہ میں ابنِ رشد کہتا ہے کہ بوعلی سینا نے یونانی فلاسفہ کی طرف ان کی نسبت غلط طور پر کی ہے اور درحقیقت یہ اس کے اپنے ذاتی افکار ہیں۔مثلا دیکھئے: تہافت التہافت، صفحہ۸۹، ۱۲۱۔ ایسے مسائل کی ایک فہرست علامہ شبلی نے ’’علم الکلام‘‘ میں ترتیب بھی دی ہے۔ (علم الکلام۔ جلد۱، صفحہ۱۲۴)انہی میں سے وہ دوسرا مسئلہ بھی ہے جو ہم نے ابھی ذکر کیا ہے۔
(۲)
جیساکہ ہم نے عرض کیا،غزالی کا مقصود ایک تو ’’الہیات‘‘ کے ان مسائل کی نشان دہی ہے جو دین کی تعلیمات سے صریحا متصادم ہیں۔دوسرا جب وہ فلسفہ کے الہیاتی مسائل پر تنقید کرتے ہیں اور فلسفیوں کے دلائل کے مقابلہ میں مخالف عقلی والزامی دلائل پیش کرتے ہیں تو ان کا مقصود فقط یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ فلاسفہ کی الہیات ریاضی اور منطق کے اصولوں کی طرح قطعی نہیں اور اس میں دلیل کے اعتبار سے اشتباہ اور اختلاف کی گنجائش موجود ہے۔ ان کے الفاظ ہیں:
 ’’یستدلون علی صدق علومہم الالہیۃ بظہور العلوم الحسابیۃ والمنطقیۃ ویستدرجون بہ ضعفاء العقول ولوکانت علومہم الالہیۃ متقنۃ البراہین نقیۃ عن التخمین کعلومہم الحسابیۃ لما اختلفوا فیہا کما لم یختلفوا فی الحسابیۃ‘‘ (تہافت الفلاسفۃ۔ صفحہ ۷۶،۷۷)
یعنی ’’ارسطو کے سحر میں مبتلا ’’مسلم‘‘ فلسفی علم الہیات کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے یہ حیلہ سازی کرتے ہیں کہ جس طرح یونانی فلاسفہ کے وضع کردہ علمِ ریاضی اور علمِ منطق شک وشبہ سے پاک ہیں، اسی طرح ان کا وضع کردہ علم الہیات بھی قطعی اور حتمی ہے، یوں وہ کم عقلوں کو اپنی الہیات سے مرعوب کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ اگر ان کا علمِ الہیات علومِ حسابیہ کی طرح مدلل اور شبہات سے پاک ہوتا تو کم ازکم ان کے پیش رو یونانیوں کا اس میں کوئی اختلاف نہ ہوتا جیساکہ علومِ حسابیہ میں ان کا کوئی اختلاف نہیں ہوتا۔‘‘(جبکہ ان کا اس میں شدید اختلاف منقول ہے اور خود غزالی نے وہ نقل کیا ہے۔)
فلاسفہ کے استدلال کے جواب میں ان کا عقلی اور الزامی استدلال محض یہی بات ثابت کرنے کے لئے ہوتا ہے کہ الہیات کے اندر فلاسفہ کے دلائل اس طرح قطعی نہیں جس طرح کہ ریاضی اور منطق کے مسائل ہیں اور جس طرح کہ ارسطو سے زیادہ ارسطو کے وفادار ’’مسلم‘‘ فلسفی سمجھتے ہیں۔مثال کے طور پر فلسفیوں کا عقیدہ تھا کہ افلاک ذی روح ہیں اور وہ خدا تعالی(جسے وہ ’’عقلِ اول‘‘ کہتے ہیں) کے برعکس مخلوقات کے افعال اور جزئیات میں آنے والے تغیر سے بھی لمحہ بہ لمحہ واقف رہتے ہیں۔ اب اگر کوئی اسے ثابت کرنے کا کہتا تو بتایا جاتا کہ یہ آسان کام نہیں اور اس کے لئے بہت ہی عالی قسم کا دماغ درکار ہے۔ میرا نہیں خیال کہ آج کا کوئی روشن خیال مسلمان بھی فلسفیوں کے اس رویہ کی حمایت کرے یا یہ خیال کرے کہ الہیات کے حوالہ سے ’’مسلم فلسفیو ں‘‘ کی اندھی عقیدت بجا تھی اور غزالی نے جس طرح الہیات کو موضوع بحث بنایا ہے، الہیات کے مسائل کو جس طرح قطعی کی بجائے ظن وتخمین کا مجموعہ بتایا ہے اور ان پر قطعی دلائل کا مطالبہ کیا ہے، یہ ناجائز تھا۔ اگر کوئی ایسا سوچتا ہے تو اسے چاہئے کہ کم از کم ایک دفعہ ضرور فلسفیوں کی الہیات کا مطالعہ کرلے۔
فلسفیوں کا علمِ الہیات حماقتوں کا ایک پلندہ تھا۔ ابنِ خلدون کے بقول، سمجھ نہ آنے کے باوجود لوگ اس سے چمٹے رہتے تھے کیونکہ ان کے خیال میں یہ سمجھ آجائے تو انسان کو ایک خاص قسم کی غیبی قوت حاصل ہوجاتی ہے۔ (مقدمہ ابنِ خلدون۔ صفحہ۵۶۱) چنانچہ عام لوگ تو رہے ایک طرف، ارسطو کے بعد فلسفہ کے تیسرے بڑے استاد بو علی سینا کے بارہ میں منقول ہے کہ اس نے ’’الہیات‘‘ کے موضوع پر فلسفہ کے دوسرے استاد الفارابی کی ’’مابعد الطبیعہ‘‘ نامی ایک کتاب پڑھی، مگر کچھ پلے نہ پڑا۔ جذبہ ایسا قوی تھا کہ یکے بعد دیگرے اسے چالیس دفعہ پڑھ ڈالا، کتاب لفظ بہ لفظ یاد ہوگئی مگر پلے پھر بھی کچھ نہ پڑا۔یہاں تک کہ اس علم سے مایوس ہوگیااور جوش ٹھنڈا پڑ گیا، لیکن دل میں خلش تھی۔ ایک دفعہ پھر کسی موقع پر اسے پڑھا تو محسوس ہوا کہ اب مجھے سمجھ آنے لگی ہے۔ (حکمائے اسلام۔ جلد۱۔ صفحہ۲۹۵) اور یہ کوئی ہوائی بات نہیں۔ ’’مسلم‘‘ فلسفیوں کا علمِ الہیات آج بھی دستیاب ہے، خود اس کے اس کا مطالعہ کرکے اس کی ’’بے سرو سامانی ‘‘ کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ایسے بے سروپا علم کے مسائل کو اگر کوئی فلسفی اپنا عقیدہ بنائے ، خود کو مسلمان کہتے ہوئے بنائے اور اوپر سے یہ دعوی بھی کرے کہ ہمارا علمِ الہیات ریاضی کی طرح شک وشبہ سے پاک ہے، مگر اس کا سمجھنا ہر کس وناکس کے بس کی بات نہیں تو کیا وہ اب بھی قابل تنقید نہیں، قابلِ تعریف ہے؟ غزالی کا قصور یہی ہے کہ انہوں اس رویہ پر تنقید کی ہے۔الہیاتی مسائل کو ثابت کرنے کے لئے فلسفی جو استدلال کرتے ہیں، غزالی نے اس کے برخلاف استدلال کرکے محض یہ بتایا کہ اس کی گنجائش بھی موجود ہے اور الہیات میں فلسفیوں کا استدلال دواور دو، چار کی طرح شک وشبہ سے پاک نہیں، بلکہ وہ محض امکانات ہیں جنہیں ان لوگوں نے عقائد کا درجہ دے رکھاہے۔
اب ’’تہافت الفلاسفۃ‘‘ میں جگہ جگہ بکھری ہوئی غزالی کی اس تنقید کے جواب میں ابن رشد کیا کہتے ہیں؟ یہ بھی سمجھنے کی چیز ہے۔ اس کے جواب میں ابن رشد نے دیگر فلسفیوں کی طرح ایک تو یہی مضحکہ خیز ’’اندازِ استدلال‘‘ اختیار کیا ہے کہ چونکہ ان دلائل کا سمجھنا عالی دماغ ’’خواص‘‘ کا کام ہے اور عوام کے سامنے ان کی حقیقت کو بیان کرنا درست نہیں، لہذا ان دلائل کی حقیقت‘ میں اپنی اس کتاب ’’تہافت التہافت‘‘ میں کھول نہیں سکتاکیونکہ یہ کتاب میں نے عوام کے لئے لکھی ہے اور ان دلائل کا ان کی رسائی سے دور رہنا ضروری ہے۔ مثلاً ایک جگہ وہ لکھتے ہیں:
’’ہذا العلم لاسبیل الی افشاء ہ فی ہذا الموضع‘‘ (صفحہ۹۲)یعنی ’’اس کتاب میں اس علم کو بے نقاب کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔‘‘ ایک اور جگہ لکھتے ہیں: ’’لا یقف علی مذاہبہم فی ہذہ الاشیاء الا من نظر فی کتبہم مع الشروط التی وضعوہا مع فطرۃ فائقۃ ومعلم عارف‘‘ (صفحہ ۱۹۵) 
اسی طرح کا نادر اندازِ استدلال صفحہ۱۱۳، ۱۱۷، ۱۲۹، ۱۷۳، ۳۱۱و ۴۱۷ پر بھی نظر آتا ہے۔ ایک جگہ فلاسفہ کے موقف کے علمی اثبات کو مشکل کہہ کر اس سے جان چھڑا لیتے ہیں۔ ان کے الفاظ ہیں: ’’القدیم لایتغیر بضرب من ضروب التغیر، وہذا کلہ عسیر البیان‘‘ (صفحہ۶۵)
ان کے اسی طرزِ استدلال پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر سلیمان دنیا لکھتے ہیں: ’’الاولی بابن رشد اثبات دعواہ، لاالتہرب منہا بدعوی عسر بیانہا، ثم مہاجمۃ دعوی خصمہ‘‘ (تہافت التہافت۔ صفحہ۶۵) یعنی ’’ ابن رشد کو اپنا دعویٰ ثابت کرنا چاہیے تھا، دعویٰ کے اثبات کو مشکل کہہ کر جان چھڑا لینااور پھر مخالف سے جھگڑا بھی کرنا ‘ یہ کوئی طریقہ نہیں۔‘‘ ابن رشد کے مرید بھی ابن رشد کے اس اندازِ استدلال سے بخوبی واقف ہیں اور وہ اس کے اس قول کی کوئی توجیہ نہیں کرپاتے کہ ’’عوام کو علم وحکمت کی باتوں سے دور رکھنا چاہیے۔‘‘ درج ذیل لنک پر ابن رشد کے مریدوں کا اس موضوع پر مکالمہ دیکھا جاسکتا ہے۔ 
http://www.mukalma.com/?dialogue=11361
دوسرا ابن رشد کو غزالی کے اس اسلوبِ نقد کو سمجھنے میں ہی سرے سے مغالطہ ہوا ہے۔ فلاسفہ کے استدلال کے مقابلہ میں غزالی جو مخالف استدلال کرتے ہیں، وہ اس کی قطعیت کا دعوی نہیں کرتے، اس سے مقصود محض فلسفیوں کے استدلال میں تشکیک کو اجاگر کرنا اور یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ ایسے مسائل میں اشتباہ اور اختلاف کی گنجائش موجود ہے، لہٰذا فلسفیوں کا عوام کو یہ کہہ کر الو بنانا غلط ہے کہ ان کا سمجھنا آسان نہیں، ورنہ یہ بھی ریاضی کی طرح قطعی اور حتمی ہیں۔ مثلاً افلاک کو جان دار ثابت کرنے کے لئے فلسفی ’’اٹکل نما‘‘ جو استدلال کرتے ہیں، غزالی نے اس کے مخالف استدلال کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی کہ افلاک ضرور بے جان ہی ہیں، بلکہ محض یہ بتایا کہ فلسفی اپنے جس تصور کو حتمی اور قطعی سمجھتے ہیں، اس کے لئے کوئی قطعی دلیل موجود نہیں ہے۔ مثلا وہ اپنے مقدمہ میں ہی وضاحت کرتے ہیں:
 ’’لا ادخل فی الاعتراض علیہم الا دخول مطالب منکر، لا دخول مدع مثبت‘‘ (تہافت التہافت۔ صفحہ۸۲)
 یعنی ’’ان پر میرے اعتراض سے مقصودجانبِ مخالف کا دعویٰ اور اس کا اثبات نہیں ہوتا ، بلکہ صرف یہ کھانا ہوتا ہے کہ ان کا موقف غیر قطعی ہے اور دوسرے امکان کی گنجائش بھی موجود ہے۔‘‘ 
ابن رشد نے ایسے موقعوں پر یہ سمجھا ہے کہ وہ شاید اپنے مخالف استدلال کو قطعی بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اس لئے وہ اپنی تصنیف میں جابجا بس یہی ثابت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ یہاں پر غزالی کا مخالف استدلال بھی قطعی نہیں، حالانکہ یہ چیز غزالی کے موقف کو کم زور کرنے کی بجائے الٹا اسے تقویت دیتی ہے کیونکہ جب وہ غزالی کے موقف کو غیر حتمی کہتے ہیں تو اس کا بالواسطہ یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ فلاسفہ کا استدلال بھی اس کے مقابلہ میں حتمی اور قطعی نہیں(اور یہی ثابت کرنا غزالی کا مقصود ہے) ، ورنہ ظاہر ہے کہ اگر ان کا استدلال حتمی اور قطعی ہوتا تو غزالی کے استدلال کو وہ غیر حتمی کی بجائے باطل اور غلطِ محض کہتے۔ 
’’تہافت التہافت‘‘ کے دو سطری مقدمہ میں ’’تہافت التہافت‘‘ تحریر کرنے کا مقصد خود ابن رشد ہی کے الفاظ میں یہ ہے:
 ’’فان الغرض فی ہذا القول ان نبین مراتب الاقاویل المثبتۃ فی کتاب التہافت لابی حامدفی التصدیق والاقناع وقصور اکثرہا عن رتبۃ الیقین‘‘ (تہافت التہافت۔ صفحہ۵۵) 
یعنی ’’اس کتاب میں ہمارا مقصود یہ بتانا ہے کہ ابو حامد الغزالی کی کتاب ’’تہافت الفلاسفہ‘‘ میں جو بیانات اور دلائل مذکور ہیں، استدلال کی رو سے ان کا کیا درجہ ہے اور یہ کہ ان میں سے زیادہ تر ایسے ہیں جو یقین کے رتبہ سے فروتر ہیں۔‘‘
بعینہ اسی طرح کا مضمون لفظوں کے ذرا اختلاف کے ساتھ صفحہ ۸۲ پر بھی موجود ہے۔
’’ فقد تبین لک انہ لیس فی الادلۃ التی حکاہا عن المتکلمین فی حدوث العالم کفایۃ فی ان تبلغ مرتبۃ الیقین، وانہا لیست تلحق بمراتب البرہان، ولا الادلۃ التی ادخلہا عن الفلاسفۃ فی ہذاالکتاب لاحقۃ بمراتب البرہان۔ وہو الذی قصدنا بیانہ فی ہذا الکتاب‘‘ ۔
ڈاکٹر سلیمان دنیا اس پہ تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
 ’’الغزالی لیس بصدد ان یثبت عقیدۃ فی کتاب تہافت الفلاسفۃ، وانما ہدفہ ہو التشکیک فی ادلۃ الفلاسفۃ تلک الادلۃ التی یزعم الفلاسفۃ انہا بلغت حد الیقین والریاضی ۔۔۔فلیس اذن من حق ابن رشد ان ینتظر من الغزالی فی کتابہ تہافت الفلاسفۃ ان یکون مثبتا ولیس من حقہ کذلک ان یتصید من کلامہ ما یسمیہ ادلۃ لم تبلغ مرتبۃ الیقین‘‘ (تہافت التہافت۔ صفحہ۸۲) 
یعنی ’’غزالی اپنی کتاب ’’تہافت الفلاسفۃ‘‘ میں اپنے عقیدہ کو قطعی دلائل کے ساتھ ثابت کرنے کے در پے نہیں ہیں (یہ کام غالبا انہوں نے اپنی ایک اور کتاب قواعد العقائد میں کیا ہے جو احیاء العلوم کا حصہ ہے) اس کتاب میں ان کا مقصود محض فلاسفہ کے دلائل میں اشتباہ کی گنجائش نکال کر دکھانا ہے جنہیں فلسفی ریاضی کی طرح قطعی سمجھتے ہیں اور بس،لہذا ابن رشد کے لیے مناسب نہیں کہ وہ غزالی سے اس کتاب میں قطعی دلائل کی توقع رکھے اور نہ ہی اس کے لئے یہ مناسب ہے کہ ان کے غیر یقینی استدلالات کو غیر یقینی کہہ کر ان کا شکار کھیلے۔‘‘ 
(جاری)

فکرِ مغرب : بعض معاصر مسلم ناقدین کے افکار کا تجزیہ (۱)

ڈاکٹر محمد شہباز منج

مغربی فکر سے متعلق ہمارے یہاں کے علمی حلقوں میں بالعموم دو رویے پائے جاتے ہیں۔ایک یہ کہ مغربی فکر معیارِ حق ہے،اس کے حاصلات کو نہ صرف یہ کہ رد نہیں کرنا چاہیے بلکہ نعمتِ غیر مترقبہ سمجھتے ہوئے قبول کر لینا چاہیے۔اس رویے کے حامل مذہبی عقائد و نظریات کے مغربی نتائجِ فکر سے تطابق کومعراجِ علم خیال کرتے ہیں۔ان کے نزدیک مذہب کی اس دور میں سب سے بڑی خدمت اس کے ذریعے یہ ثابت کر دینا ہے کہ اے مغرب:مستند ہے’’تیرا‘‘ فرمایا ہوا۔ یہاں تک کہ وہ اس کوشش میں مسلمات و بدیہیاتِ دین کو بھی تاویل کی سان پر چڑھا دیتے ہیں۔ دوسرا رویہ یہ ہے کہ مغربی فکر اور اس کے حاصلات لغو،لایعنی اورباطلِ محض ہیں۔یہ اہلِ اسلام کے لیے شجرِ ممنوعہ کا حکم رکھتے ہیں۔مغرب کی کسی بھی چیز کو اپنالینا یا اسے درست سمجھنا نادانی اور دین سے عدمِ واقفیت کی دلیل ہے۔اس رویے کے حامل مغرب کے ہر تصورو نظریہ کے ردکو دین کی بہت بڑی خدمت سمجھتے ہیں ۔ راقم الحروف کے نزدیک یہ دونوں رویے افراط و تفریط اوردو انتہاوں سے عبارت ہیں۔ اول الذکر سے متعلق ہمارے ہاں بہت کچھ لکھا گیا ہے اور ایک تسلسل کے ساتھ لکھا جا رہا ہے ۔(۱)لیکن ثانی الذکر سے متعلق کوئی قابلِ ذکر تنقید سامنے نہیں آئی ۔شاید اس وجہ سے کہ یہ رویہ اور اس کے فکری اثرات نسبتاً محدود ہیں۔تاہم گذشتہ کچھ عرصے سے اس رویے کے حاملین کے مختلف رسائل و جرائد میں کثرت اور تکرار کے ساتھ مضامین شائع ہو رہے ہیں۔بلکہ بعض ایسے رسائل بھی سامنے آ چکے ہیں جو باقاعدہ اس رویے کے ترجمان ہیں ۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس کو سنجیدہ بحث و تجزیے کا موضوع بنایا جائے۔ ہماری یہ گزارشات اسی ضمن میں ایک کوشش ہیں۔ہم ان دانشوروں کے افکار ونظریات کے اہم اور نمایاں نکات ذکر کر کے ان کا جائزہ لیتے ہیں۔ 
سائنس و ٹیکنالوجی اور مذہب :یہ دانشور اپنی تنقیدِ مغرب میں جو نتائج سامنے لاتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ مغربی سائنس وٹیکنالوجی مغرب اور نظامِ سرمایہ داری کا ایک جال ہے جواس نے دنیا کو اپنے دام میں پھنسانے کے لیے بچھا رکھا ہے۔سا ئنس مذہب کی دشمن ہے۔اس کی اپنی مخصوص اقدار ہیں ،جو مذہبی اقدار سے متصادم ہیں ۔چنانچہ سائنس مذہبی جوش و جذبے کو تباہ کرتی اور آدمی کو مذہب بیزار بناتی ہے۔یہ سمجھنا کہ اسلام یا اسلامی فکر و تہذیب کا موجودہ سائنس کی ترقی میں کوئی کردار ہے ،ایک بے سند مفروضہ ہے۔سائنس مقاصدِ اسلام کے حصول میں مدد گار کیا ہوگی وہ توالٹا اس کے مقاصد میں سدِّ راہ ہے۔مسلمان اگر واقعی اسلامی معاشرہ تشکیل دینے کے خواہاں ہیں تو انہیں موجودہ سائنس وٹیکنالوجی اور اس کے مظاہر کورد کرنا ہو گا۔اس کے ساتھ ساتھ ان لو گوں کا کہنا یہ بھی ہے کہ سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر کسی اخلاقی قدرکا اثبات نہیں ہو سکتا۔اس لیے کہ سائنسی تجربات کا دائرہ ’کیاہے‘ اور’ کس طرح ‘ہے سے عبارت ہے، جبکہ اخلاقیات کا’کیا بہتر ہے‘اور ’کیا ہونا چاہیے ‘ہے۔ لہٰذا اخلاقیات میں سائنس کا حوالہ محض جہالت و نادانی ہے۔
سائنس وٹیکنالوجی اور مذہب کے حوالے سے ہمارے ممدوح دانشوروں کے یہ خیالات اپنی کلیت میں بدیہی اسلامی تعلیمات اور نصوصِ شرعیہ سے متصادم ہیں اور ان میں صریح تضاد و تناقض پایا جاتا ہے ۔ان کے نصوصِ شرعیہ کی روشنی میں محاکمے سے پہلے ان کے اند موجود تضاد وتخالف پر ایک نظر ڈال لینا مناسب ہوگا۔ان حضرات کا ایک طرف موقف یہ ہے کہ سائنس کو غیر اقداری سمجھنا غلط ہے،اس کی اپنی مخصوص اقدار ہیں۔یہ اپنی ان اقدار کی بقا چاہتی اور اس کے لیے مسلسل کار فرما رہتی ہے۔ لیکن دوسری طرف کہتے ہیں کہ سائنس کا اقدار سے کچھ علاقہ ہی نہیں ۔’کیا اچھا ہے‘،’ کیوں ہے‘،’کیا ہونا چاہیے‘ اس کے دائرہ کار سے باہر کی چیزیں ہیں ،اسے محض ’کیا ہے‘ اور ’کس طرح ہے‘سے بحث ہے۔ یہ واضح تضاد و تناقض ہے ۔ہم ان حضرات سے عرض کرتے ہیں کی جناب آپ کے خیالات سے تین باتیں نکل سکتی ہیں؛ ایک یہ کہ آپ کے خیال میں سائنس فی نفسہ اقداری ہے؛ دوسری یہ کہ سائنس نفس الامر میں غیر اقدای ہے؛اور تیسری یہ کہ سائنس خود تو غیر اقداری ہے، البتہ مرورِ ایام سے کچھ لوگوں یا کسی خاص قوم نے اس میں کچھ مخصوص اقدار داخل کردی ہیں۔اگر آپ پہلی بات کے قائل ہیں تو آپ اس استدلال میں حق بجانب نہیں کہ اقدار واخلاقیات سائنس کے دائرے کی باتیں نہیں۔(واضح رہے کہ بات صرف اقدار کی موجودگی کے قائل ہونے کی ہو رہی ہے ،یہ بحث غیر متعلق ہوگی کہ سائنسی اقدار مذہب کی اقدار سے مختلف ہیں)اور اگر آپ دوسری یاتیسری بات کو درست سمجھتے ہیں توآپ کی یہ ساری بحث لا یعنی ہو جاتی ہے کہ سائنس اقداری ہے۔تیسری بات کی صورت میںآپ کے لیے بحث کا میدان صرف سائنس میں اقدار کا دخول یا اس کے جسمِ ناتواں پر ایک نامناسب بوجھ لادنے کا ذمہ دار طبقہ رہ جاتا ہے کہ اس نے اس بے چاری کو کیوں تکلیفِ مالا یطاق دی ہے۔اقدار کے حوالے سے ہمارے کے نزدیک سائنس کی حیثیت کیاہے؟اس کا تعین ہماری اگلی بحث سے خود بخود ہو جائے گا۔
سائنس وٹیکنالوجی کے مذہب دشمن اور مذہب بیزاری کا ذریعہ ہونے کا نظریہ فی الواقع مغرب کے نشأۃ ثانیہ سے پہلے کے مسیحی اہلِ مذہب کے علم وسائنس دشمن رویے کا تسلسل ہے، اہلِ اسلام کو یہ کسی صورت زیب نہیں دیتا۔علمی تحقیقات اور سائنس و ٹیکنالوجی سے متعلق اپروچ اور رویے کے باب میں مسیحیت اور اسلام میں قطعاً مغائرت ہے۔ہمارے سائنس مخالف دانشور اس بدیہی حقیقت کو ماننے سے نہ صرف اعراض کرتے بلکہ اس کے خلاف طول طویل لا یعنی دلائل پیش کرتے ہیں ،جسے خود عام مغربی اہلِ علم ہی نہیں اہلِ سائنس واضح طور پر محسوس کرتے ہیں۔مغربی اہلِ سائنس تسلیم کرتے ہیں کہ مغرب کے مذہب مخالف مادہ پرست سائنسدان مذہب و سائنس پر گفتگو کرتے ہوئے یہودیت و عیسائیت ہی کو سامنے رکھتے ہیں اور یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ کوئی مذہب ایسا بھی ہو سکتا ہے جس کا سائنس سے متعلق رویہ یہودیت و عیسائیت سے مختلف ہو۔ اسلام سے متعلق غیرصحیح معلومات نے ان کو اس مذہب کے خلاف مذکورہ مذاہب سے بھی زیادہ متعصب بنادیا ہے۔بہ الفاظِ دیگر ان کے خیال میں اسلام یہودیت و عیسائیت سے بڑھ کر اوہام و خرافات پر مبنی، غیر صحیح اور سائنس سے متصادم ہے۔(۲) کیا اس حقیقت کی روشنی میں اسلام اور سائنس کے باب میں مغرب کے ملحدین اورہمارے زیر نظر حامیانِ اسلام دونوں کے نتائج فکر یکساں قرار نہیں پاتے ؟کیا دونوں ہی کی رائے یہ نہیں بنتی کہ اسلام اور سائنس کا باہم کوئی ناتا نہیں،ایک دوسرے کا دشمن اور اس کی راہ میں رکاوٹ ہے؟بایں ہمہ ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ مغرب کے ملحد اسلام دشمن ہیں اورہمارے دانشور اسلام کے تنہا خیر خواہ !یعنی: 
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو مرے نامۂ سیاہ میں تھی
ہماری رائے میں زیر بحث تناظر میں مغرب کے مذہب دشمن ملحدین اور اہلِ سائنس،سائنس کے حق اور مذہب کے خلاف تعصب میں مبتلامسلم مقلدینِ مغرب اور مذہب کے حق اور سائنس کے خلاف تعصب کا شکار مسلم اہلِ قلم تینوں ایک ہی زمرے میں شمار کیے جانے کے لائق ہیں ۔اس لیے کے تینوں میں یہ قدر مشترک ہے کہ مذہب اور سائنس باہم مغائر و مخالف ہیں۔اگر اس بات کے ثبوت فراہم ہو جائیں کہ مذہب اور سائنس یا(مغرب میں یہودیت و مسیحیت ہی کے مذہب کے نمائندہ ہو نے کی غلطی فہمی کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے کہنا چاہیے کہ )اسلام اور سائنس میں کوئی دشمنی نہیں تو تینوں کے تصورات کا بیک وقت ابطال ہو جاتا ہے ۔اور اس کے ثبوت نہایت بدیہی ہیں ۔چند ایک مختصراً ملاحظہ فرمائیے:

سائنس کسے کہتے ہیں؟

 اس سوال کے ماہرین کی طرف سے دیے گئے چند جوابات یہ ہیں: یہ طبیعی کائنات کاغیر جانبدارانہ مشاہدہ اور اس سے متعلق بنیادی حقائق کا مطالعہ ہے۔(۳)اس کے معنی جاننے اور سیکھنے کے ہیں۔ (۴)اس کامطلب علم ہے۔(۵) یہ مشاہدے سے دریافت ہونے والے نتائج یا علمی حقائق کو مرتب اور منظم کر نے کا نام ہے۔(۶) یہ تجرباتی علوم و حکمت یا فطری و طبیعی مظہر کا باقاعدہ علم یا ایسی سچائی ہے، جو مشاہدہ، تجربہ یا استقرائی منطق سے معلوم کی گئی ہو،یا طبیعی حقائق کو وہ علم ہے، جو مشاہدے اور تجربے سے حاصل ہو۔(۷) اس کے معنی غیر جانبداری سے حقیقت کے کسی پہلو کا باقاعدہ مطالعہ کرنا ہیں۔(۸)خلاصہ یہ کہ سائنس عبارت ہے علم ،معلومات ،مشاہدے وتجربے ،حقائق کے غیر جانبدارانہ مطالعے ،استقرائی منطق سے حقیقتِ واقعہ تک رسائی سے ۔اب دیکھیے مذہب کو بھی ان چیزوں سے کوئی سروکار ہے یا نہیں۔
قرآن کا مطالعہ کرنے والا ایک عام قاری بھی محسوس کر سکتا ہے کہ قرآن جگہ جگہ ان چیزوں پر زور دیتا ہے۔وہ اپنے قاری سے کثرت اور تکرارکے ساتھ علم،مشاہدے ،تدبر وتفکر اورحقائق کے غیر جانبدارانہ مطالعے کامطالبہ کرتا ہے ۔ جاننے ،سیکھنے اور علم حاصل کرنے کے حوالے سے قرآن کے مثبت رویے کا اندازہ اس سے لگائیے کہ اس کے مطابق انسان کو اس کی تخلیق کے بعد سب سے پہلے علم الاشیا دیا گیا اوراسی بنا پر اسے فرشتوں پر فضیلت بخشی گئی ۔(البقرہ۲:۳۰۔۳۳)قرآن نے سب سے پہلے علم و تعلم کی اہمیت اجاگر کی۔ اس کے نزول کی ابتدا ہی علم و تعلیم سے متعلق آیات سے ہوئی ۔(العلق ۹۶:۱۔۵)اس نے واضح کیا کہ علم والے اور بے علم برابر نہیں ہو سکتے۔ ( الزمر۳۹:۹)علم والے اللہ کے ہاں صاحبانِ فضل و کمال ہیں۔(المجادلہ۵۸:۱۱)اللہ تعالی سے وہی لوگ ڈرتے ہیں جو اہل علم ہیں۔(الفاطر۳۵:۲۸) اہلِ علم ہی اللہ کی پیش فرمودہ مثالوں کو سمجھتے ہیں ۔(ا لعنکبوت۲۹:۴۳) نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا ایک اہم اور بنیادی مقصدہی تعلیم دینا ہے۔( الجمعہ۶۲:۲)چنانچہ اس نے تعلیم دی کہ پروردگارِ عالم سے اپنے علم میں پیہم اضافے کی استدعا کرتے رہو۔(طہ۲۰:۱۱۴)جہاں تک مشاہدے، تجربے ، تدبر فی الخلق کے ذریعے حقیقت تک رسائی کا تعلق ہے توقرآن حکیم نے اس پر اس قدر زور دیا ہے کہ اس کے مقدس اوراق میں سے کم ہی اس سے خالی ہوں گے ۔قرآن کے نقطۂ نظر سے ذکرِ خداوندی کی ترجیحی اہمیت محتاجِ دلیل نہیں، لیکن اس کے نزدیک اس کے ساتھ بھی تدبر لازم ہے۔وہ اصل اہلِ ذکر انہی کو مانتا ہے جو ذکرِ الٰہی کے ساتھ ساتھ تخلیقِ ارض و سما میں غور وفکرجاری رکھتے ہیں۔ (آل عمران۳:۱۹۱)ایک عام آدمی بھی جانتا ہے کہ سائنسدان جانووں، زمین و آسمان اور پہاڑوں وغیرہ کی ساخت پر اور ان سے متعلق دیگر امور پر تحقیقات پیش کرتے ہیں۔قرآن پکا ر پکار کا کہہ رہا ہے کہ ان چیزوں میں بلا شبہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں اور انسانوں کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ اس سلسلہ میں مشاہدہ اور تفکر و تدبر سے کام لیں۔(الغاشیہ۸۸:۱۸۔۲۰؛ قٓ ۵۰:۶) مشاہدہ اور تدبرفی الخلق کی اہمیت کے پیش نظر قرآن نے ان لوگوں کو حیوانوں سے بھی بدتر اور جہنمی قرار دیا ہے، جو اپنے قوائے حسی کو مشاہدۂ فطرت اور ذہنوں کو تفکر و تدبر کے لیے استعمال نہیں کرتے۔(ا لاعراف ۷:۱۷۹)
قرآن کی دعوتِ فکر وتدبر کے ضمن میں یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قرآن کریم نے کسی مظہرِ فطرت کو دیکھ کر اس پر غور و فکر کیے بغیر آگے گزر جانے کو نافرمانوں کی نشانی بتایا ہے (وَ کَاَیِّنْ مِّنْ اٰیَۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ یَمُرُّوْنَ عَلَیْھَا وَ ھُمْ عَنْھَا مُعْرِضُوْنَ۔ یوسف ۱۲:۱۰۵)اور اہلِ علم کے مطابق کسی مظہرِ قدرت یا ایۃ اللّٰہ پر غور و فکر ترک کر دینا ،اس سے پہلے کہ اس کی حقیقت پوری طرح منکشف ہو ، اس سے اعراض کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ مسلمان کو یہ حکم ہے کہ جب موجوداتِ قدرت میں سے کوئی چیز اس کے نوٹس میں آئے تو اسے نظر انداز نہ کرے، بلکہ اس کے مشاہدے اور مطالعے کا حق ادا کرے ، اس کی حقیقت اور اصلیت کو پوری طرح سمجھے، اور خدا کی حکمتیں ،جو اس کے اندر پوشیدہ ہیں ،ان سے پوری طرح واقف ہونے کی کوشش کرے ۔ گویا جب تک کسی چیز کی حقیقت پوری طرح واضح نہ ہو جائے، مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ اپنی تحقیق و تجسس کو جاری رکھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے امت کو سکھائی گئی یہ دعا بھی اس مطلب کی تائید کرتی ہے: اللّٰہم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ اللّٰہم ارنا الاشیاء کماہی۔’’ اے خدا! ہم کو صداقت بطور صداقت کے دکھا دے اور اس کی پیروی کرنے کی توفیق دے اور جھوٹ بطور جھوٹ کے دکھادے اور اس سے بچنے کی توفیق عطا فرما۔ اے خدا! ہمیں اشیا کواس طرح سے دکھا دے جیسی وہ درحقیقت ہیں۔ ‘‘نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا گویا سائنسی طریقِ تحقیق کی حمایت کرتی ہے ،کیونکہ سائنسی طریقِ تحقیق ،جو اس بات پر زور دیتا ہے کہ مشاہدہ کے نتائج کو کامل احتیاط سے اخذ کیا جائے اور انتہائی طور پر درست کرنے کی کوشش کی جائے ،اس کا مقصد یہی ہے کہ اشیا ایسی ہی نظر آئیں جیسی کہ وہ درحقیقت ہیں۔(۹)
اشیا کو ان کی اصلی حالت میں دیکھنے اور مشاہدے کے نتائج میں غلطی سے بچنے کے لیے قرآن بہ تکرار صحیفۂ فطرت کے مطالعہ کی دعوت دیتا ہے۔مثلاً ایک جگہ ارشاد ہے: الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا مَا تَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ فَارْجِعْ الْبَصَرَ ہَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍ ۔ ثُمَّ ارْجِعِ لْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِءًا وَّہُوَ حَسِیْرٌ۔(الملک ۶۷:۳۔۴ )یہاں قرآن بار بار نگاہ ڈالنے اور غو رو فکر کرنے پر زور دے رہا ہے۔ سائنسی زبان میں یہی چیز مشاہدہ (Observation)اور تجربہ (Experiment)کہلاتی ہے ۔کسی چیز کا بار بار مشاہدہ کرنے اور حالات بدل بدل کریعنی تجربہ کر کے مطالعہ کرنے اور غورو فکر کر کے گہرے نتائج اخذ کرنے کو سائنسی تحقیق (Scientific Research)کہا جاتا ہے۔ 
تجربہ او رمشاہدہ کی انتہائی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ پر ایمان مضبوط ہوتا اور اطمینانِ قلب نصیب ہوتا ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کے اپنے خاص بندوں کو،ان کے اطمینانِ قلب کی خاطر کرائے گئے مشاہدات مذکور ہیں۔مثلاًیک واقعہ حضرت ابراہیم سے متعلق ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی مردوں کو زندہ کرنے کی قدرتِ کاملہ پر ایمان تھا تا ہم انہوں نے اطمینانِ قلب کے لیے مشاہدہ کرنا چاہا تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے چار پرندے لے کر انہیں سدھایا اور پھر ان کو ذبح کر کے ان کا گوشت باہم ملا کر چار پہاڑوں کی چوٹیوں پر رکھ دیا۔ پھر ان کو ایک ایک کر کے آواز دی تو وہ ان کی نگاہوں کے سامنے زندہ ہو گئے۔(البقرہ ۲:۲۶۰)دوسرا واقعہ حضرت عزیر علیہ السلام سے متعلق ہے۔انہیں بھی اللہ کی قدرتِ کاملہ پر یقین تھاِ تاہم جب انہوں نے ایک بستی کو عجیب و غریب حالت میں تباہ شدہ دیکھا تو یہ جاننا چاہا کہ اللہ تعالیٰ اس بستی کو کس کیفیت سے زندہ کرے گا ؟تو اللہ تعالیٰ نے انہیں مشاہدہ کرانے کے لیے سو برس تک مردہ رکھا۔ پھر ان کو زندہ کر کے پوچھا کتنی مدت تک اس حالت میں رہے ہو؟ وہ بولے: دن یا آدھا دن۔ اللہ نے فرمایا: نہیں ،بلکہ سو برس تک اس حالت میں رہے ہو۔ کھانے کو دیکھو وہ بالکل نہیں گلا سٹرا اور دیکھو گدھے کی ہڈیوں کو ہم کیسے ترکیب دیتے ہیں؟ اور تمہارے دیکھتے ہی دیکھتے ان پر گوشت چڑھاتے ہیں۔ یہ سب کچھ ہوتا دیکھ کر حضرت عزیز علیہ السلام کو اللہ کی قدرتِ کاملہ پر اطمینانِ قلبی حاصل ہو گیا۔(البقرہ۲ :۲۵۹)ان واقعات سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاں مشاہدہ اور مطالعہ کائنات پر زور دیا اور بھرپور طریقے سے اس کی دعوت و ترغیب دی وہاں اپنے بندوں کو مشاہدات بھی کرائے۔ چنانچہ مشاہدہ تجربہ اور تدبرفی الخلق کے اعتبار سے بھی قرآن اور سائنس میں ایک واضح تعلق نظر آتا ہے۔ 
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ قرآن سائنس کی کتاب نہیں،اس کا اصل اور بنیادی کام انسان کی ہدایت ہے۔(۱۰)تاہم وہ جہاں انسان کو اللہ کی معرفت کا درس دیتا ہے، وہاں اللہ کی کبریائی، خلاقیت اور علم و قدرت وغیرہ کے اظہار کے لیے اور اپنے دعوؤں کی حقانیت کے ثبوت میں کائنات اور اس میں کار فرما قوانینِ طبیعی سے تعرض کرتے ہوئے ان کے کسی نہ کسی پہلو کو بطورِدلیل پیش کرتا ہے، اور ساتھ ہی ساتھ کائنات اور اس کے مظاہر کے مشاہدے اور مطالعے کی دعوت دیتا ہے ۔گویا حقیقت تک رسائی کے لیے جن چیزوں پر سائنس کا انحصار ہے قرآ ن بھی سچائی تک پہنچنے کی غرض سے انہی چیزوں کو ذریعہ بنانے کو کہتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ فلاسفہ ، علماے دین اور اہلِ سائنس کے نمایاں اور بڑے بڑے افراد نے مذہب اور سائنس کے تصادم کے تصورکارد کیااوران کی قربت کا اثبات کیا ہے۔مثلاً معرکہ آرا سائنسی نظریہ ’اضافیت‘ (Relativity)پیش کرنے والا ،بیسویں صدی کا سب سے بڑا سائنسدان آئن سٹائن کہتا ہے:’’سائنسی تحقیق آدمی میں ایک خاص قسم کے مذہبی احساسات پیدا کرتی ہے،یہ ایک طرح کی عبادت ہے ۔(۱۱) میرے لیے راسخ ایمان کے بغیر اصلی سائنسدان کا تصور محال ہے۔‘‘(۱۲) معروف فرانسیسی سائنسدان، فزیشن،ماہرِ امراضِ قلب اور فرانس کی میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق صدرڈاکٹر موریس بکائی لکھتے ہیں:
"It comes as no surprise, Therefore, to learn that religion and science have always been considered to be twin sisters by Islam and that today, at a time when science has taken such great strides, they still continue to be associated. " (13) 
’’اس میں کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ اسلام نے مذہب اور سائنس کو ہمیشہ جڑواں بہنیں تصور کیا ہے۔آج بھی، جب کہ سائنس ترقی کی انتہاؤں کو چھو رہی ہے،وہ ایک دوسرے کے قدم بقدم ہیں ۔‘‘
سائنس کے تناظر میں اسلام کی حقانیت پر بات کرنے میں موریس بکائی چونکہ بہت مشہور ہیں اور ان کا عام حوالہ دیا جاتا ہے اس لیے میرے بعض سائنس مخالف دوست اسے ہنسی میں اڑانے کی کوشش کرتے ہیں کہ آپ لوگوں کے پاس آ جا کہ یہی حوالہ ہے،میں ان دوستوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ان کا یہ خیال قلتِ مطالعہ یا سائنس سے تعصب کا نتیجہ ہے۔ اگر وہ تحقیق کی تھوڑی سی زحمت بھی گوارا کریں اور تعصب کی عینک اتار کر دیکھیں تو انہیں معلوم ہوگا کہ مذہب اور سائنس کی قربت کا قائل صر ف بکائی نہیں دنیا کے اکثر سائنسدان ہیں۔حتی کہ آپ کو شائد ہی کوئی ایسا معتبر سائنسدان ملے جو مذہبی ذہن نہ رکھتا ہو۔آئزک نیوٹن جسے دنیائے سائنس کا سب سے بڑا نام سمجھا جاتا ہے ،دہریت کی مخالفت اور مذہب کے دفاع میں زوردار مضامین لکھتا رہا ہے۔(۱۴) اس نے اپنی متعدد تحریروں میں ببانگ دہل اقرار کیا ہے کہ یہ کائنات اللہ کے وجود کی ناطق شہادت ہے ۔(۱۵)فرانسس بیکن،جو سائنسی طریقِ تحقیق کے بانیوں میں سے ہے، سائنس اور مطالعہ فطرت کو کلامِ خدا کے بعد ایمان کا سب سے ثقہ ثبوت قرار دیتا ہے۔(۱۶)مشاہدۂ فلک کے لیے پہلے پہل ٹیلی سکوپ استعمال کرنے والامشہور سائنسدان گلیلیو کہتا ہے کہ یہ کائنات اور اس کے سارے حقائق خدا کے تخلیق کردہ ہیں ،کائنات اللہ کی تحریر کردہ دوسری کتاب ہے ،لہذا سائنس اورعقیدہ و مذہب کبھی ایک دوسرے سے متصادم نہیں ہو سکتے۔(۱۷)جدید علم فلکیا ت کا بانی کیپلرسائنس کی طرف آیا ہی اپنے مذہبی رجحانات کی بنا پر تھا ،اس نے واضح کیا ہے کہ اس نے اپنی سائنسی دریافتوں سے خدا کو پایا ہے۔(۱۸)
یہ تو سائنسدانوں کے خیالات تھے ۔جہاں تک علمائے اسلام کا تعلق ہے ان کے حوالے اس سے بھی زیادہ پیش کیے جا سکتے ہیں لیکن مضمون کی شکایتِ تنگئ داماں کو ملحوظ رکھتے ہوئے میں صرف دو حوالوں پر اکتفا کروں گا؛ایک علامہ اقبا ل کا، جو فلسفہ اور علم دین دونوں میں مسلمہ حیثیت رکھتے ہیں اور جدید مغربی تہذیب کے بہت بڑے ناقد ہیں اور دوسرا مولانا مودودی کا،جو بیسویں صدی کے دوران مسلمانانِ برصغیر میں مغربی تہذیب واقدار کے مقابلہ میں اسلامی تہذیب اقدار پر اعتمادپیدا کرنے اور احیاے اسلام کے حوالے سے ایک اہم اور نمایاں مصنف اور جانے پہچانے عالمِ دین ہیں۔موخر الذکر رقمطراز ہیں:’’حقیقت یہ ہے کہ سائنس کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو انسانوں کے دل میں ایمان کو گہری جڑوں سے رائج کرنے والا نہ ہو۔ فزکس، کیمسٹری، بیالوجی، اناٹومی، اسٹرانومی غرض جس علم کو بھی دیکھیں اس میں ایسے حقائق سامنے آتے ہیں جو انسان کو پکا اور سچا مومن بنا دینے کے لیے کافی ہیں۔ سائنس کے حقائق سے بڑھ کر آدمی کے دل میں ایمان پیدا کرنے والی کوئی دوسری چیز نہیں ہے۔ یہی تو وہ آیاتِ الٰہی ہیں جن کی طرف قرآن بار بار توجہ دلاتا ہے۔‘‘ (۱۹)مقدم الذکر کہتے ہیں:
"The truth is that the religious and scientific processes, though involving different methods, are identical in their final aim at reaching the most real." (20) 
’’واقعہ یہ ہے کہ مذہب اور سائنس،مختلف طریقِ کار اپنانے کے باوجود، اس اعتبار سے بالکل ایک ہیں کہ دونوں کا مطمأ نظر حقیقتِ واقعہ تک رسائی ہے۔‘‘
جب یہ بات واضح ہوگئی کہ قرآن کی دعوتِ مطالعۂ فطرت اور انفس وآفاق سائنس کی ترقی میں بنیادی اور اہم کردار ادا کرنے والی چیزیں ہیں؛مذہب سائنس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بلکہ اس کو مہمیز لگاتا ہے اور اس حقیقت کا اعتراف دنیا کے عظیم سائنسدانوں اور مفکرین نے واضح الفاظ میں کیا ہے تو اس خیال کی بھی آپ سے آپ تردید ہو گئی کہ اسلامی فکر وتہذیب کا سائنس کی ترقی میں کوئی کردار نہیں ۔لہذا اس پر مزید تفصیلی دلائل کی حاجت نہیں۔البتہ اس تصور کا بودا پن متحقق کرنے کی غرض سے اس پر بطورِ خاص چند سطور صرف کر نا ضروری معلوم ہوتا ہے:
یہ حقیقت مسلم اور غیر مسلم محققین نے عام تسلیم کر لی ہے کہ قرونِ وسطی کے مسلمانوں کی سائنسی ترقی قرآن و حدیث کے مشاہداتی و تجرباتی اندازِ نظر کو اپنانے پر زور دینے کی بنا پر تھی،(۲۱)اور متعددسائنسی دریافتیں مختلف شرعی احکام اور تقاضوں کا نتیجہ تھیں؛مثلاً الجبرا کواسلامی قانونِ وراثت اور فلکیات،جغرافیہ،جیومیٹری اور ٹرگنومیٹری کوسمتِ قبلہ اور اوقاتِ نمازمعلوم کرنے کی اسلامی تقاضوں کے تحت ترقی ملی۔(۲۲)ابن النفیس نے بخاری کی حدیث ’’اللہ نے کوئی مرض ایسا پیدا نہیں کیا جس کی دوا پیدا نہ کی ہو۔‘‘کو اپنی عظیم سائنسی دریافتوں کی بنیاد بنایا تھا۔اس نے خون کی دل سے پھیپھروں کی طرف حرکت(Pulmonary Circulation )کو دریافت کیا اور اپنی اس تحقیق کو حشرِ اجساد کے روایتی اسلامی تصور کی تائید میں پیش کیا۔(۲۳)مسلم کیمیا گری ،کیمسٹری اور علم نجوم کے محرکات بھی مذہبی تھے۔ (۲۴)قرآن وحدیث کے ساتھ ساتھ ان اسلامی ذرائع علم کے مستند ماہرین(علماے دینیات) کے افکار و تحریرات نے بھی مختلف سائنسی علوم کی تحریک پیدا کی۔ مثال کے طور پرطبِ اسلامی میں سرجری اورعلمِ تشریح الاعضا پر امام غزالی کی تصنیفات کے اثرات ہیں،جنہوں نے ان علوم کوتخلیقاتِ خداوندی کے ادراک کے لیے استعمال کرنے پر زور دیا۔ (۲۵)پندرہویں صدی کے مسلم ماہرِکونیات علی القوشجی نے ارسطاطالیسی تصورِ سکونِ زمین کو غزالی وغیرہ ایسے عظیم مسلم ماہرینِ علومِ دین کی تنقیدِارسطو سے تحریک پاکر رد کیا تھا۔(۲۶)امام غزالی نے خود ارسطو کے تصور کائنات کو رد کرتے ہوئے تعددِ عوالم کا تصور پیش کیا۔(۲۷)اسلام ،اسلامی تہذیب اور اہلِ اسلام کے دنیائے سائنس میں غیر معمولی کردار کو مغربی اہل علم وقلم۔جو بالعموم اسے ماننے میں تعصب میں مبتلا ہوتے ہیں۔ نے بھی نہایت واضح لفظوں میں تسلیم کیا ہے۔ مثلارابرٹ بریفالٹ لکھتا ہے: مسلمانوں نے یونانیوں سے کہیں بڑھ کر تجربات پر زور دیا۔(۲۸)ول ڈیوراں اقرار کرتا ہے کہ مسلم کیمیا دان علمِ کیمسٹری کے بانی ہیں۔(۲۹)یورپ کو سائنسی طریقِ تحقیق سے متعارف کرانے والا مشہور مغربی سائنسدان راجر بیکن بھی مسلم سائنسدانوں سے متاثر تھا ۔(۳۰)یہ اور اس نوع کے دیگر لاتعداد واضح شواہد کی ہوتے ہوئے سائنسی ترقی میں اسلامی فکر وتہذیب کے کردار کا انکار حق کا منہ چڑانے کے مترادف ہے۔

حوالہ جات و حواشی

۱۔ میں خود اس رویے اور اس کے حاملین کا سخت ناقد ہوں۔اس ضمن میں مختلف رسائل و جرائد میں راقم کے متعدد مضامین بھی شائع ہو چکے ہیں۔مثال کے طور پر ’’ تحقیقاتِ اسلامی ‘‘علی گڑھ ، انڈیا، شمارہ جنوری۔مارچ ۲۰۱۱ء میں پرویز کی قرآ نی فکر اور ’’الشریعہ‘‘دسمبر۲۰۱۱، فروری۲۰۱۲ء میں دنیائے اسلام پر استشراقی و مغربی فکر کے اثرات پر شائع ہونے والے راقم کے تفصیلی مضامین ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔
2. See for details: Maurice Bucaille,The Bible, The Quran and Science,trans. ALastair D. Pannel and Author (ND),102. 
3. United States of America, Encyclopaedia Britannica ( U.S.A: Fifteenth Edition, 1986) 10/552; Gould.J.Kolb, A Dictionary of Social Sciences( London:Tavistock Publications, 1964),620.
4. Thomas Arnold,The legacy of Islam (London: Oxford University Press, 1983) ,11. 
۵۔ ڈاکٹرعبدالقادر، تاریخ سائنس(لاہور:ادارہ تالیف و ترجمہ، پنجاب یونیورسٹی ،۱۹۸۳ء) ، ۱۔
۶۔ ڈاکٹررفیع الدین، اسلام اور سائنس) لاہور:اقبال اکادمی ،میکلورڈ روڈ،۱۹۸۲ء(،۱۔
۷۔ ڈاکٹرفضل کریم، قرآن اور جدید سائنس(لاہور:فیروز سنز ، ۱۹۹۹ء)،۳۵۔
۸۔ پروفیسرمحمود انور، جدید طبیعات کا تعارف( لاہور :مجلس ترقی ادب ،۲کلب روڈ ، ۱۹۶۵ء)،۱۔
۹۔ ڈاکٹررفیع الدین، اسلام اور سائنس، ۱۷۔
۱۰۔ جو لوگ سائنس کی حمایت میں غلو کر کے قرآن سے خواہ مخواہ اس کی جزئیات نکالنے اور ہر کچے پکے سائنسی تصور کو قرآن سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ ہمارے نزدیک اسی طرح قابلِ گرفت ہیں جیسے اس وقت زیرِ تنقیدعلما و دانشور۔ایک مسلمان کو نہ سائنس کے ہر نظریے و فرضیے سے مرعوب ہوکر قرآن کو اس کے مطابق کرنے کی فکر چاہیے اور نہ ہی اس کے ہرتصور کو بلاوجہ اسلام مخالف سمجھ لینا چاہیے۔گویا اسیخَیْرُ الْاُمُوْرِ اَوْسَطُھَا کے پیش نظر معتدل رویہ اپنانا چاہیے ۔راقم نے اس سلسلے میں اپنے ایک مضمون میں تفصیلی بحث کی ہے۔دیکھیے: ڈاکٹر محمد شہباز منج،’’مذہب اور سائنس۔باہمی تعلق کی صحیح نوعیت۔‘‘القلم۱۶،شمارہ۔۲ (۲۰۱۱ء):۱۶۱۔۱۸۴۔
11. http://www.einsteinandreligion.com/religioncomments.html
12. http://scienceandthemedia.weebly.com/uploads/6/9/6/2/6962884/ei nstein_science_philosophy_and_religion
13. Maurice Bucaille, The Quran and Modern Science, (Karachi: Ashraf Publication,ND),3. 
14. Henry M. Morris, Men of Sciencs Men of God(U.S.A: Master Books, 2012),31-32. 
15. See for example: Sir Isaac Newton, Mathematical Principles of Natural Philosophy, trans. Andrew Motte, (Chicago:William Benton, 1952),273-7 
16. http://www.christianity.co.nz/ science4.htm 
17. http://home.columbus.rr.com/ sciences/enlightened_belief_ history.htm 
18. J.H. Tiner, Johannes Kepler-Giant of Faith and Science ( Michigan: Mott Media, 1977),197. 
۱۹۔ مولانا بوالاعلی مودودی، ترجمان القرآن( لاہور:پاکستان پرنٹنگ پریس، ۱۹۶۵ء)،۲۸۵۔۲۸۶۔
20. Dr Allama Muhammad Iqbal, The Reconstruction of Religious Thought in Islam (Lahore: Hafeez Press,1965),195-96. 
21. See: Laurence Bettany, "Ibn al-Haytham: an answer to multicultural science teaching.", Physics Education 30, no.4 (1995): 247150252;I. A. Ahmad, "The impact of the Qur'anic conception of astronomical phenomena on Islamic civilization", Vistas in Astronomy 39,no. 4 (1995): 395150403
22 . Owen Gingerich, "Islamic astronomy." Scientific American 254 ,no.10 (April 1986):74;Solomon Gandz, "The Algebra of Inheritance: A Rehabilitation of Al-Khuwarizmi." Osiris 5, (1938): 319150391 
23. Nahyan A. G.Fancy, "Pulmonary Transit and Bodily Resurrection: The Interaction of Medicine, Philosophy and Religion in the Works of Ibn al-Nafis (d. 1288)."( Electronic Theses and Dissertations ,University of Notre Dame,2006), 2321503 
24. George Saliba, A History of Arabic Astronomy: Planetary Theories During the Golden Age of Islam (New York: New York University Press,1994),60, 6715069 
25. Emilie Savage-Smith, "Attitudes Toward Dissection in Medieval Islam." Journal of the History of Medicine and Allied Sciences 50, no.1:(1995): 67150110.
26 F. Jamil Ragep, "Tusi and Copernicus: The Earth's Motion in Context." Science in Context 14, no.11502(2001):145150163 
27. Taneli Kukkonen, "Possible Worlds in the Tahafut al-Falasifa: Al-Ghazali on Creation and Contingency." Journal of the History of Philosophy 38,no.4 (2000): 479150502 . 
28. Robert Briffault,The Making of Humanity (London:G. Allen & Unwin,1928), 190-202. 
29. Will Durant, The Age of Faith (New York: Simon & Schuster,1980),4/162-86.
30. David C.Lindberg, "Alhazen's Theory of Vision and Its Reception in the West." Isis 58, no.3 (1967): 321150341 . 
(جاری)

مسلمان عورت کا غیر مسلم مرد سے نکاح ۔ ڈاکٹر محمد شکیل اوج کے استدلال کا تنقیدی جائزہ

مولانا سید متین احمد شاہ

(راقم نے یہ مقالہ رائے کے لیے مشفق مکرم جناب عمار خان ناصر صاحب کی خدمت میں پیش کیا۔ انھوں نے اس پر ایک تفصیلی رائے مرحمت فرمائی جس پر بعض مقامات پر اسلوبِ خطاب میں تبدیلیاں کی گئیں۔ اس میں بیان کردہ نکات کو مقالے میں مندرج کرنے کے بجائے بلفظہ مستقلاً شامل کرنا مناسب معلوم ہوا جس کی وجہ ان کی علمی قدر وقیمت ہے، اس لیے اسے بحث کے مزید پہلووں کی توضیح کے لیے آخر میں درج کر دیا گیا ہے۔ متین احمد)

جامعہ کراچی کے شعبہ اسلامی علوم کے سربراہ ڈاکٹر محمد شکیل اوج نے اپنی سرپرستی میں شائع ہونے والے مجلے شش ماہی ’’التفسیر‘‘ میں اس کے جواز کے بارے میں ایک مضمون لکھا تھا جو اب ان کے مجموعہ مضامین ’’نسائیات‘‘ میں شامل ہے۔یوں تواس مجموعے کے مختلف مندرجات پر گفتگو کی جاسکتی ہے تاہم اس وقت پیش نظر اسی مضمون ’’محصنین اہلِ کتاب سے مسلم عورتوں کا نکاح‘‘پر اپنی ناچیز معروضات پیش کرنا مقصود ہے۔
عہد جدید کے تہذیبی و تمدنی ارتقا اورمشرق و مغرب کے فکری تصادم کے نتیجے میں کئی ایسے مسائل اہلِ علم کے سامنے آئے جن سے گزشتہ دور کے اہلِ علم کو واسطہ پیش نہیں آیا تھا۔ان مسائل کا تعلق زندگی کے کسی ایک پہلو سے نہیں بلکہ تقریبا تمام پہلوؤں سے ہے۔عقیدہ، عبادت، معاملات، معیشت ، سیاست۔۔۔ تمام میدانوں میں فکر کا ایک مستقل دھارا ہے جس کا سامنا امت کے اہلِ علم وفکرنے کیا ہے۔مغرب کی اس تہذیبی یلغار کے اثرات میڈیا کے ذریعے ہر سوچنے والے انسان تک رسائی حاصل کر چکے ہیں اور وہ ان سوالات کی چبھن اپنے اندر محسوس کرتا ہے۔اس سنگینی کے اثرات کا سامنا ان مسلمانوں کو زیادہ ہے جو دیارِ غیر میں رہ رہے ہیں۔انھی مسائل میں سے ایک افسوس ناک مسئلہ مسلمان عورتوں کے غیر مسلم مردوں سے شادی کرنے کا بھی ہے۔ہمارے ملک میں تو شاید اس مسئلے کی اہمیت اتنی زیادہ نہیں ہے، لیکن امریکا، کینیڈا ، افریقہ، ہندوستان وغیرہ میں مسلمان اس صورتِ حال سے دوچار ہو رہے ہیں۔ ایمانی کم زوری اور مادی چکا چوند نے نئی نسل کو اقبال کے بقول ہربند سے آزاد کر کے کعبے سے صنم خانے میں لا آباد کیا ہے۔ اس طرح کے واقعات پیش آ رہے ہیں کہ کوئی مسلمان لڑکی کسی کافر آشنا کے ساتھ چلی گئی اور شادی منعقد کر لی؛ اس لیے یہ سوال سوچنے والے اہل علم کے لیے تردد کا باعث ہے۔ 
غیر مسلموں سے نکاح کے سلسلے میں قرآنِ کریم کے تین مقامات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔سورۂ بقرہ میں مومن مردوں کو اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ وہ مشرک عورتوں سے نکاح کریں، اسی طرح مسلمان مردوں کو اس بات سے بھی منع کیا گیا ہے کہ وہ مسلمان عورتوں کا نکاح مشرک مردوں سے کروائیں۔ ارشادِ خداوندی ہے:
وَلاَ تَنکِحُوا الْمُشْرِکَاتِ حَتَّی یُؤْمِنَّ، وَلأَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ خَیْْرٌ مِّن مُّشْرِکَۃٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْکُمْ، وَلاَ تُنکِحُوا الْمُشِرِکِیْنَ حَتَّی یُؤْمِنُوا، وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْْرٌ مِّن مُّشْرِکٍ وَلَوْ أَعْجَبَکُمْ، أُوْلَءِکَ یَدْعُونَ إِلَی النَّارِ، وَاللّٰہُ یَدْعُوَ إِلَی الْجَنَّۃِ وَالْمَغْفِرَۃِ بِإِذْنِہِ، وَیُبَیِّنُ آیَاتِہِ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُونَ (۱) 
’’اور (مومنو!) مشرک عورتوں سے جب تک ایمان نہ لائیں نکاح نہ کرنا کیونکہ مشرک عورت خواہ تم کو کیسی ہی بھلی لگے، اس سے مومن لونڈی بہتر ہے اور (اسی طرح) مشرک مرد جب تک ایمان نہ لائیں، مومن عورتوں کو ان کی زوجیت میں نہ دینا کیوں کہ مشرک (مرد) سے خواہ تم کو کیسا بھلا لگے، مومن غلام بہتر ہے۔ یہ (مشرک لوگوں کو) دوزخ کی طرف بلاتے ہیں اور خدا اپنی مہربانی سے بہشت اور بخشش کی طرف بلاتا ہے اور اپنے حکم لوگوں سے کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ نصیحت حاصل کریں۔‘‘
اسی طرح سورۂ مائدہ میں مسلمان مردوں کے لیے حلال چیزوں کے بیان میں نکاح کا ذکر بھی ہے۔وہاں ان کو اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ اہل کتاب میں سے محصن عورتوں سے نکاح ان کے لیے حلال ہے۔ ارشاد ہے:
وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِیْنَ أُوتُوا الْکِتَابَ مِن قَبْلِکُمْ (۲) 
’’اہل کتاب میں سے محصن عورتیں تمہارے لیے حلال ہیں۔‘‘
مشرک کے معاملے میں مسلمان مرد اور عورت دونوں کو نہی ہے، لیکن اس آیت میں مسلمان مرد کو کتابی عورت سے نکاح کی اجازت تو دی گئی جبکہ مسلمان عورت کے کتابی مرد سے نکاح کے بارے میں سکوت اختیار کیا گیا ہے۔
سورۂ ممتحنہ میں ارشادہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِذَا جَاءَ کُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُہَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوہُنَّ، اللّٰہُ أَعْلَمُ بِإِیْمَانِہِنَّ، فَإِنْ عَلِمْتُمُوہُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوہُنَّ إِلَی الْکُفَّارِ، لَا ہُنَّ حِلٌّ لَّہُمْ وَلَا ہُمْ یَحِلُّونَ لَہُنَّ (۳)
’’مومنو! جب تمہارے پاس مومن عورتیں وطن چھوڑ کر آئیں تو ان کی آزمائش کر لو۔ (اور) خدا تو ان کے ایمان کو خوب جانتا ہے۔ سو اگر تم کو معلوم ہو کہ مومن ہیں تو ان کو کفار کے پاس واپس نہ بھیجو کہ نہ یہ ان کو حلال ہیں اور نہ وہ ان کو جائز۔‘‘
ڈاکٹر محمد شکیل اوج کے استدلال کی طرف آنے سے پہلے یہ دیکھنا مناسب ہے کہ امت کے مفسرین اور فقہا اس حوالے سے کیا رائے رکھتے ہیں۔ تفاسیر اور کتبِ فقہ کی مراجعت سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان عورت کے غیر مسلم مرد سے نکاح کا قائل کوئی بھی قابلِ ذکر مفسر اور فقیہ نہیں رہا ہے اور اس کی حرمت پر چودہ سو سال میں امت کا اجماع رہا ہے۔ سورۂ بقرہ کی آیت میں صراحتاً مسلمان عورتوں کو مشرک مردوں کے ساتھ نکاح کرنے سے منع کیا گیا ہے اور اس پر ایک مسلمان غلام کو ترجیح دی گئی ہے خواہ مشرک بظاہر متاثر کن ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شریعت میں سب سے بنیادی اور قابلِ ترجیح چیز دین اور ایمان کا مسئلہ ہے۔ چناں چہ سورۂ بقرہ میں اس حکم کے ساتھ فرمایا گیا: أُوْلَئِکَ یَدْعُونَ إِلَی النَّارِ (یہ مشرک لوگ جہنم کی طرف بلانے والے ہیں)۔ سورۂ مائدہ میں بھی اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا گیا : وَمَن یَکْفُرْ بِالإِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہُ وَہُوَ فِی الآخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ (۴) (جو کوئی ایمان کا منکر ہو تو اس کا عمل برباد ہو گیا اوروہ آخرت میں خسارے میں چلا گیا۔)
نکاح کے سلسلے میں ایک حدیث شریعت کے اسی مزاج کو واضح کرتی ہے جس میں یہ بات کہی گئی ہے کہ عورت سے نکاح اس کے جمال، مال، حسب ونسب اور دین کی وجہ سے کیا جا سکتاہے، لہٰذا انتخاب کرنے میں دین کو پیش نظر رکھا جائے۔ (۵) احکامِ شرعی کے پہلو بہ پہلو اس ایمانی اور دینی تذکیر کا مقصد یقیناًیہی ہے کہ یہ نکاح محض قضائے شہوت کا ایک ذریعہ نہیں بلکہ اس کے ساتھ تہذیب و تمدن کے عمیق رشتے مربوط ہیں اور شریعت جن مقاصد کے حصول کے لیے آئی ہے، ان میں نسل اور دین کی حفاظت کا گہرا تعلق اس نکاح کے ساتھ ہے۔اس وجہ سے مسلمان عورت کا نکاح کسی کافر سے جائز نہیں ہے۔علامہ ابن جریر طبری سورۂ بقرہ کی آیت کے تحت بعض سلف کا یہ قول نقل کرتے ہیں:
یعنی تعالی ذکرہ بذلک ان اللہ قد حرم علی المومنات ان ینکحن مشرکا کائنا من کان المشرک ومن ای اصناف الشرک کان، فلا تنکحوہن ایہا المومنون منہم فان ذلک حرام علیکم ولان تزوجوہن من عبد مومن مصدق باللہ وبرسولہ وبما جاء بہ من عند اللہ خیر لکم من ان تزوجوہن من حر مشرک ولو شرف نسبہ وکرم اصلہ وان اعجبکم حسبہ ونسبہ (۶)
’’اللہ تعالیٰ کا مقصود اس سے یہ ہے کہ اس نے مومن عورتوں پر یہ بات حرام کر دی ہے کہ وہ کسی مشرک سے نکاح کریں، خواہ وہ کیسا ہی کیوں نہ ہو اور اس میں جس نوعیت کا شرک بھی پایا جاتا ہو، اس لیے اے جماعتِ مومنین! تم ان عورتوں کا نکاح ان مشرک مردوں سے نہ کرو، کیوں کہ ایسا کرنا تم پر حرام ہے۔ان کا نکاح تم اللہ ، اس کے رسول اور اس کی طرف سے لائی گئی وحی پر ایمان رکھنے والے مومن غلام سے کرو، یہ اس سے بہتر ہے کہ تم ان کا نکاح کسی آزاد مشرک سے کر ڈالو؛اگرچہ اس کا حسب و نسب اعلیٰ ہی کیوں نہ ہو اور اس کی خاندانی نسبت اور حسن وجمال تم کو متاثر ہی کیوں نہ کرے۔‘‘
اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں شرک اپنے عموم پر ہے اوراس عموم کی وجہ بظاہر اس حکم کی علت ہے۔ جملہ أُوْلَئِکَ یَدْعُونَ إِلَی النَّارِ ماقبل کے ساتھ بغیر عطف کے واقع ہوا ہے اور اس کی حیثیت یہاں استینافِ بیانی کی ہے جو ماقبل کلام سے پیدا ہونے سوال کا جواب ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس ممانعت کی وجہ اور علت کیا ہے؟ اس کا جواب اس جملے میں دیا گیا ہے کہ یہ لوگ جہنم کے داعی ہیں، اس لیے ان کے ساتھ یہ نکاح منع ہے۔اگرچہ قرآن مجید میں مشرکین سے براہ راست مراد عام طور پر اس عہد کے مشرکین ہوتے ہیں، لیکن احکام کا تعلق ان کی علتوں کے ساتھ ہوتا ہے ، الا یہ کہ کوئی واضح دلیل آ کر یہ بتا دے کہ یہ حکم انہی افراد کے ساتھ خاص ہے۔ چناں چہ شرک کی یہ علت جہاں بھی پائی جائے گی، وہ دعوتِ جہنم کو مستلزم ہونے کی وجہ سے اس امتناع کا سبب قرار پائے گی اور اس کے دینی اور ایمانی نقصانات سے بچنا جہاں ممکن نہ ہو، وہاں اس کی بنیاد پر حکم کا ترتب ہو گا۔اصول ہے کہ اذا علق الشارع حکما علی علۃ فانہ یوجد حیث وجدت. (۷) (شارع نے کوئی حکم کسی علت کے ساتھ مربوط کیا ہو تو جہاں بھی وہ علت پائی جائے گی، وہ حکم بھی پایا جائے گا۔)
سورۂ ممتحنہ میں بھی مسلمان عورتوں کو کافروں کی طرف لوٹانے کی نہی ہے اور کہا گیا ہے کہ وہ ایک دوسرے پر جانبین سے حلال نہیں ہیں۔ یہاں بھی کفار سے مراعد سیاق وسباق کی روشنی میں مشرکین ہی ہیں۔اس لیے مسئلے کا نقطہ ارتکاز سورۂ مائدہ کی آیت ہے جس میں مومن مردوں کو مومن مسلمان عورتوں اور اہلِ کتاب کی پاک باز عورتوں سے نکاح کے حلال ہونے کو بیان کیا گیا۔اس آیت میں مسلمان عورت کو کتابی مرد سے نکاح کرنے کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا، لیکن آیا اس سکوت کی وجہ سے یہ مقام مجتہد فیہ بن گیا ہے اور حالات اور ظروف کے مطابق اس کا معاملہ مسلمانوں کی مرضی کے سپرد کر دیا گیا ہے؟ اس بات کو جاننے کے لیے اس آیت کو اس کے سیاق میں دیکھنا ضروری ہے۔ اصل میں یہ آیت سابقہ آیت سے مربوط ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ’’لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کیا چیز حلال کی گئی ہے؟ آپ ان سے کہہ دیجیے کہ تمہارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئی ہیں۔‘‘ (۸) پھر اس آیت میں کچھ چیزوں کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ تمھارے لیے حلال ہیں۔ آگے زیر بحث آیت اصل میں اسی سوال کے جواب کا تسلسل ہے۔ شیخ محی الدین الدرویش نے اس کی نحوی تالیف اس طرح ذکر کی ہے۔ 
کلام مستانف مسوق لتکریر ذکر الطیبات التی احلت لکم یوم السوال عنہا او الیوم الذی اکملت لکم دینکم (۹) 
’’یہ کلام استینافی ہے جس کو انھی پاکیزہ چیزوں کے بیان کو تقویت بخشنے کے لیے لایا گیا ہے جن کو ان کے بارے میں سوال کے یا تکمیلِ دین کے زمانے میں حلال کیاگیا۔‘‘
گویا آیت اور ماقبل آیت کے درمیان حرفِ عطف کا نہ آنا اس بات کا قرینہ ہے کہ یہاں کلام میں بلاغت کی اصطلاح میں فصل بصورت اتحاد تام ہے، اور کلام کی جہت ایک ہی ہے۔جب یہ مقام حلال اور حرام جیسے نہایت نازک امورکی (نئے سرے سے یا تکریرِ سابق کے طور پر)تشریع کاہے تو پہلے اللہ تعالیٰ نے دونوں آیات میں عمومی انداز میں طیبات کا حلال ہونا بتایا، لیکن انسانی عقل یا فطرت کو اس سلسلے میں فیصل اور قطعی قرار نہیں دیا جا سکتا اور ان کے بارے میں ہر وقت یہ احتمال ہے کہ وہ اس معاملے میں غلطی کا ارتکاب کر دیں ، اس لیے حلال امور کو واضح طور پر بتا دیا گیا۔ ایک نازک معاملے میں سوال کا بدیہی تقاضا یہ ہے کہ وہاں جن امور کی حلت یا حرمت بیان کرنا مقصود ہے تو ان کے کسی فرد کے بارے میں کوئی احتمال یا گنجلک کو باقی نہ رہنے دیا جائے اور بات کو واضح کر کے بیان کر دیا جائے ، ورنہ یہ بات ایک حکیمانہ جواب کی عظمت کے منافی ہے۔اگر یہ مقام سوال کے جواب کا نہ ہوتا۔جہاں ایک کلامِ بلیغ کے مناسب وضاحت اصل ہے اور ابہام اس کی بلاغت کے منافی ہے۔ اور متکلم از خود کوئی تشریعی امور کو بیان کر رہا ہوتا تو یہ احتمال تھا کہ یہ مقام مجتہد فیہ ہو جائے، کیوں کہ بہ ہر حال حلال اور حرام کا دائرہ بہت وسیع ہے اور اس میں اصل طیب ہونا ہے، لیکن ان طیبات کے مخصوص افراد میں مسلمان مرد کے کتابی عورت سے نکاح کے حلال ہونے کو بیان کر دینا اور اس کے برعکس صورت کو بیان نہ کرنا اس بات کا واضح قرینہ ہے کہ یہاں اس طیب کا دائرہ مخصوص ہے؛ اس لیے کسی مسلمان عورت کا غیر مسلم کتابی سے نکاح درست نہیں ہو گا ’’کیوں کہ آیت میں صرف اہل کتاب عورتوں کے متعلق بتایا گیا ہے۔‘‘ (۱۰)
2۔ استدلال کے اس علمی پہلو کے علاوہ مسلمان عورت کے غیر مسلم کے ساتھ نکاح کے ناجائز ہونے کا دوسرا اہم پہلو مقاصدی ہے اور سورۂ بقرہ کی آیت کے ضمن میں مشرکوں کے ساتھ نکاح کے عدمِ جواز کی علت کے بیان میں، جیسا کہ ذکر ہوا، یہ بات ذکر کی گئی ہے کہ اس کا تعلق دین اور ایمان کی حفاظت کے ساتھ ہے۔ سورۂ مائدہ کی مذکورہ بالا آیت کے ساتھ بھی وَمَن یَکْفُرْ بِالإِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہُ وَہُوَ فِی الآخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ (اور جو کوئی ایمان کے ساتھ کفر اختیار کرے گا تو اس کا عمل اکارت جاے گا اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہو گا)۔ مسلمان مرد کو کتابی عورت کے ساتھ نکاح کرنے کو جائز کہنے کے باوجود قرآنِ کریم نے اصل مقصدی پہلو کو سامنے رکھا ہے اور وہ ہے ایمان اور دین کا پہلو۔ یہ جملہ معترضہ بتا رہا ہے کہ یہاں یہ اجازت ان کے تزکیہ حال کے لیے نہیں بلکہ تیسیر مسلمین کے لیے ہے۔(۱۱)
3۔ یہاں یہ بات غور طلب ہے جس کی طرف مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے اشارہ کیا ہے کہ یہاں یہ حکم اور اجازت اس دور میں دی گئی ہے جب اسلام کو مکمل غلبہ حاصل ہو چکا ہے، چناں چہ کہتے ہیں:
’’اس دور میں کفار کا دبدبہ ختم ہو چکا تھا اور مسلمان ایک ناقابل شکست طاقت بن چکے تھے۔ یہ اندیشہ نہیں تھا کہ ان کو کتابیات سے نکاح کی اجازت دی گئی تو وہ کسی احساس کمتری میں مبتلا ہو کر تہذیب اور معاشرت اور اعمال و اخلاق میں ان سے متاثر ہوں گے۔ بلکہ توقع تھی کہ مسلمان ان سے نکاح کریں گے تو ان کو متاثر کریں گے اور اس راہ سے ان کتابیات کے عقائد و اعمال میں خوشگوارتبدیلی ہو گی اور عجب نہیں کہ ان میں بہت سی ایمان و اسلام سے مشرف ہو جائیں۔ علاوہ ازیں یہ پہلو بھی قابل لحاظ ہے کہ کتابیات سے نکاح کی اجازت بہرحال علیٰ سبیل التنزل دی گئی ہے۔ اس میں آدمی کے خود اپنے اور اس کے آل و اولاد اور خاندان کے دین و ایمان کے لیے جو خطرہ ہے، وہ مخفی نہیں ہے۔‘‘ (۱۲)
جناب جاوید احمد غامدی نے یہی بات بڑی جامعیت اور اختصار کے ساتھ بیان کی ہے، لکھتے ہیں:
’’آیت کے سیاق سے واضح ہے کہ یہ اجازت اس وقت دی گئی جب حلال و حرام اور شرک و توحید کے معاملے میں کوئی ابہام باقی نہیں رہا۔اس کے لیے آیت کے شروع میں لفظ ’’الیومَ‘ بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس اجازت میں شرک وتوحید کے وضوح اور شرک پر توحید کے غلبے کو بھی یقیناًدخل تھا۔لہٰذا اس بات کی پوری توقع تھی کہ مسلمان ان عورتوں سے نکاح کریں گے تو یہ ان سے لازماً متاثر ہوں گی اور شرک وتوحید کے مابین کوئی تصادم نہ صرف یہ کہ پیدا نہیں ہو گا، بلکہ ہو سکتا ہے کہ ان میں بہت سی ایمان و اسلام سے مشرف ہو جائیں۔ یہ اس اجازت سے فائدہ اٹھاتے وقت اس زمانے میں بھی ملحوظ رہنی چاہیے۔‘‘ (۱۳) 
یہ بات بہت معنی خیز ہے کہ جب یہ غلبے کے دور کی بات ہے اور اس میں نکاح کی اجازت بھی صراحتاً مسلمان مرد کو دی گئی ہے جس کو بیوی پر ولایت کاملہ حاصل ہوتی ہے تو آخر اس غلبے کے عہد میں کسی مسلمان عورت کو یہ اجازت کیوں نہیں دی گئی؟ اس عہد میں اسلام کی دعوت اپنے شباب پر تھی اور داعی اعظم کا وجودِمسعود خود امت میں موجود تھا جنھوں نے کفار کی تالیفِ قلب اور ان کو مسلم معاشرے میں جذب کرنے کے لیے ناقابلِ فراموش اقدامات کیے۔ کیا ان کو اس بات کی حرص نہیں ہو سکتی تھی کہ اس نکاح کو جائز قرا ر دیتے اور صحابہ کرام کو بھی اس کی ترغیب دیتے؟جب کہ صورتِ حال یہ ہے کہ اس وقت کا کوئی ایک واقعہ بھی اس نظریے کی تائید نہیں کرتا۔ مرد کو اجازت دے کر یہ مقصود بھی اسلام نے حاصل کر لیا اور یہاں تک گنجائش بھی تھی جس کو نظر انداز نہیں کیا گیا، لیکن عورت کے معاملے میں یہ مقصد حاصل ہونے کے بجائے اس اقدام کے Counter Productive ہونے کاغالب اور واضح امکان موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ عورت عام طور پرتاثر پذیر ہوتی ہے اور مرد کی قوامیت میں ہوتے ہوئے یہ غالب امکان بلکہ امر واقعہ ہے کہ وہ مرد کی پسند اور ناپسندکے تابع ہوتی ہے، اس لیے یہ عین ممکن ہے کہ وہ (جس کو حدیث میں ناقصات العقل والدین کہا گہا ہے)مرد کے کافرانہ عقائد اور اعمال کو اختیار کر لے۔ عورت کی یہی انفعالیت اور تاثر پذیری ہے جس کی وجہ سے اسے شریعت اسلامی میں حکم و امامت کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔
اسی بات کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ مسلمان کے کافر عورت سے نکاح کرنے کے جواز اور برعکس صورت کے عدمِ جواز کے درمیان ایک فارق موجود ہے جس کی وجہ سے دونوں صورتوں کو ایک دوسرے پر قیاس نہیں کیا جاسکتا، اور وہ یہ کہ مسلمان یُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَیْْکَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِکَ کے تحت سابقہ انبیاء اور ادیان کے، نسخ سے پہلے صحیح ہونے پر ایمان رکھتا ہے۔یہ بات اس کے اسلام کی طرف آنے کا ایک مثبت باعث ہو سکتی ہے، جب کہ ایک نصرانی یا یہودی نہ مسلمانوں کے دین کو صحیح مانتا ہے اور نہ آپ کی نبوت پر ایمان رکھتا ہے۔ ان کا توحید بھی تثلیث جیسے شرک کی بدترین آلودگی میں ملوث ہے؛اس لیے مسلمان عورت کے لیے غالب امکان ہے کہ کافر اس کو اپنے دین کی طرف کھینچ لے۔ (۱۴)
علامہ عبداللہ یوسف علی کہتے ہیں:
A Muslim woman may not marry a non-Muslim, because her Muslim status would be affected: the wife ordinarily takes the nationality and status given by her husband's law. A non-Muslim woman marrying a Muslim husband would be expected eventually to accept Islam. (15) 
’’ایک مسلمان عورت ایک غیرمسلم مرد سے شادی نہیں کر سکتی، کیوں اس سے اس کے مسلمان ہونے کی حیثیت متاثر ہو گی۔ بیوی عام طورپر خاوند کے قانون کی طرف سے دی گئی قومیت اور حیثیت کو اختیار کرتی ہے۔ اس کے بر عکس ایک مسلمان سے شادی کرنے والی غیر مسلم عورت آخر کار اسلام قبول کر لے گی۔‘‘
وہبہ زحیلی اس حکمت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وسبب تحریم زواج المسلم بالمشرکۃ والمسلمۃ بالکافر مطلقا کتابیا کان او مشرکا ہو ان اولئک المشرکین والمشرکات یدعون الی الکفر والعمل بکل ما ہو شر یودی الی النار، اذ لیس لہم دین صحیح یرشدہم ولا کتاب سماوی یہدیہم الی الحق مع تنافر الطبائع بین قلب فیہ نور وایمان وبین قلب فیہ ظلام وضلال، فلا تخالطوہم ولا تصاہروہم اذ المصاہرۃ توجب المداخلۃ والنصیحۃ والالفۃ والمحبۃ والتاثر بہم وانتقال الافکار الضالۃ والتقلید فی الافعال والعادات غیر الشرعیۃ، فہولاء لا یقصرون فی الترغیب بالضلال مع تربیۃ النسل او الاولاد علی وفق الاہواء والضلالات (۱۶)
’’مسلمان مرد کے مشرک عورت کے ساتھ اور مسلمان عورت کے علی الاطلاق کافر مرد، خواہ وہ کتابی ہو یا مشرک، کے ساتھ نکاح کے ناجائز ہونے کی وجہ یہ ہے کہ مشرک مرد اور عورتیں، کفر اور واصل جہنم کرنے والے اعمالِ شرکے داعی ہوتے ہیں، کیوں کہ ان کے پاس باعث ہدایت کوئی صحیح دین اور حق کی طرف رہ نمائی کرنے والی کوئی آسمانی کتاب نہیں ہے، نیز نور وایمان اور ظلمت و ضلال کے دلوں کے فرق کے لحاظ سے ان کی طبیعتوں میں تضاد ہے، اس لیے نہ تو ان کے ساتھ اختلاط کرو اور نہ ان کے ساتھ رشتہ داریاں قائم کرو؛ کیوں کہ رشتے داریاں، تعلق باہمی، خیر خواہی، محبت و الفت، ان سے متاثر ہونے، گمراہ کن افکار کے منتقل ہونے اور غیر شرعی عادات و اعمال کی تقلید کا باعث ہوتی ہیں؛ اس لیے کہ یہ لوگ گم راہی کی ترغیب کے ساتھ ساتھ اپنی خواہشات اور گم راہیوں کے مطابق نسل کی تربیت میں کوتاہی نہیں کرتے۔‘‘ 
ایمان اور دین کا یہی وہ لازمی پہلو ہے جس کی وجہ سے امت کے متعدد فقہا نے دارالحرب اور دارالکفر میں کتابیات سے نکاح کو مکروہ قرار دیا ہے۔ 
یہاں عہد صحابہ کے ایک واقعے کا ذکر مناسب ہوگا۔ حضرت حذیفہ بن یمانؓ نے ایک یہودی عورت سے شادی کی تو حضرت عمرؓ نے ان کو لکھا کہ اس کو طلاق دے دیں۔ حذیفہ نے ان کولکھا کہ اگر یہ حرام ہے تو طلاق دے دیتا ہوں۔ حضرت عمر نے جواباً تحریر فرمایا کہ میں نہیں کہتا کہ حرام ہے، لیکن مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ تم ان کی بیسواؤں کے چکر میں پڑ جاؤ گے۔ (۱۷) 
یہ نصیحت اس صحابی کو کی جا رہی ہے جس کا مزاج یہ تھا کہ لوگ حضور سے خیر کے سوالات پوچھتے تھے اور یہ شر کے سوالات دریافت کرتے تھے کہ کہیں فتنے میں نہ پڑ جائیں اور نصیحت کرنے والی شخصیت فاروقِ اعظم کی ہے جن کی ایمانی دوربینی اور بصیرت محتاجِ تعارف نہیں ہے۔ اس بات سے واضح ہوتا ہے کہ اس معاملے میں صحابہ کا مزاج کیا تھا اور وہ ان امورمیں دینی مصالح کو کس طرح ترجیح دیتے تھے۔ اسی بات کے پیشِ نظر امام مالک کے نزدیک کتابیہ عورت سے نکاح مکروہ ہے۔ (۱۸)
مسلمان مرد کے غیر مسلم عورت سے نکاح کے بارے میں اس طویل عرض کا مقصود یہ تھا کہ اس اجازت میں شریعت اسلامی کا مزاج واضح ہو جائے کہ یہ اجازت کوئی اتنی پسندیدہ چیز نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں عورت کو کسی کے نکاح میں دینا مرد کے نکاح کے مقابلے میں زیادہ نزاکت کا حامل ہو تا ہے جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ عورت پر مرد کو کامل ولایت حاصل ہو تی ہے اور وہ اس کے عادات واطوار کے اپنانے میں منفعل مزاج ہوتی ہے۔کافر کے نکاح میں دینا یقینی اور بدیہی طورپر اس کے دین کی تباہی کے باعث ہو گا ، اس لیے اس سے نکاح کو شریعت بہ طریقِ اولیٰ نادرست قرار دے گی۔
بعض کتبِ تفسیر میں ایک روایت ان الفاظ میں ملتی ہے:
عن جابر بن عبد اللہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ’’نتزوج نساء اہل الکتاب ولا یتزوجون نساء نا‘‘. (۱۹)
’’حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کر سکتے ہیں، لیکن وہ ہماری عورتوں سے نکاح نہیں کر سکتے۔‘‘
علامہ ابن کثیر یہ روایت نقل کرنے کے بعد ابن جریر طبری کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ اگرچہ اس روایت کی سند میں وجوہِ ضعف موجود ہیں، لیکن امت کے اجماع کی وجہ سے اس کو درست تسلیم کیا جائے گا۔ (۲۰)
اس بحث کے بعد ڈاکٹر شکیل اوج کے موقف سے تعرض کیا جا تا ہے۔ ڈاکٹر اوج نے اس مسئلے کے بیان کرنے سے پہلے ایک تمہید ذکر کی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قرآنِ کریم نے مشرکین سے دو طرفہ نکاح کی ممانعت کی ہے اور اہلِ کتاب سے یک طرفہ نکاح کی۔ مشرکین سے قرآنی اصطلاح کے مطابق صرف عہد نبی کے مشرکین مراد ہیں اور یہ ممانعت انہی کے ساتھ خاص ہے۔ اہل کتاب سے نکاح کے معاملے میں یک طرفہ جواز کو بیان کیا گیا ہے اور جانب ثانی (مسلمان عورت کے کتابی مرد سے نکاح) کے بارے میں سکوت اختیار کیا گیا ہے جس کی وجہ سے یہ مسئلہ مجتہد فیہ بن گیا ہے اور حالات اور ضرورت کے تحت کسی بھی صورت کو اختیار کیا جا سکتا ہے۔ نیز اہل کتاب کا خاص اطلاق یہود ونصاریٰ پر ہے؛ لیکن تحقیق کے بعد دنیا کی بیش تر اقوام کو اہل کتاب قرار دیا جا سکتا ہے۔ (۲۱)
قرآنِ کریم کی مخصوص اصطلاحات ’مشرکین‘ اور ’اہل کتاب ‘ کے اطلاق میں یہ تخصیص اور تعمیم بظاہر درست نہیں ہے۔ مشرکین سے اگر قرآن کی مراد اس وقت کے مشرکین ہیں تو اہل کتاب سے بھی مراد یہود و نصاریٰ ہی ہیں اور اس دائرے کو پھیلا کر دنیا کی بیشتر اقوام کو اس کے تحت داخل کرنا تکلف محض ہے۔ لفظ مشرک کو اصطلاح پر باقی رکھنا اور لفظ اہ کتاب کو لغوی پہلو سے عام کرنا دعویٰ بلا دلیل ہے۔ قرآن پاک نے جن اکتیس مقامات پر اہل کتاب کا لفظ اور سولہ مقامات پر اوتوا الکتب کے الفاظ استعمال کیے ہیں (جیسا کہ ڈاکٹر اوج بھی ذکر کرتے ہیں)، ان کا سیاق و سباق واضح طور پر بتاتا ہے کہ مراد یہود ونصاریٰ ہیں اور ان سے کسی اور قوم کو مراد نہیں لیا جا سکتا جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے کتاب نازل کی ہو۔ اگر کتاب کے لفظ کی عمومیت سے (جیسا کہ البقرہ ۲۱۳ کا حوالہ دیا گیا ہے) دیگر اقوام بھی مراد لی جائیں اور تحقیق کے بعد ان کو اہلِ کتاب قرار دیا جاسکتا ہے تو لفظِ شرک اور اس کے مشتقات کو سامنے رکھ کر یہ دعویٰ کرنا کیوں درست نہیں ہے کہ شرک کی علت جہاں بھی موجود ہو، وہاں مشرک کے لفظ کا اطلاق درست ہے؟آخر مجوسی، صابی، ستارہ پرست، کنفیوشس کے پیروکار بدھ اس عموم میں کیوں نہیں آ سکتے؟ڈاکٹر اوج کا پہلا اطلاق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مکمل طور پر غلط ہے، بلکہ اس کی حیثیت ایسے ہی جیسے ہمارے عرف میں علما کا اطلاق ایک خاص طبقے پر ہوتا ہے لیکن اس سے کسی دوسرے سے علم کی نفی نہیں ہوتی؛ لیکن اسی اسلوب کی گنجائش دوسری جگہ پر اختیار کرنا بھی تو ممکن ہے اور مشرکین کے اطلاق عرفی کے علاوہ شرک کا وجود دوسری جگہ بھی تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ 
علامہ رشید رضا کا کہنا ہے کہ قرآنِ کریم کی دونوں اصطلاحوں ’مشرکین‘اور ’اہلِ کتاب‘میں اس اجتہاد کی گنجائش موجود ہے کہ ان کو اپنے خاص اطلاق سے ہٹ کر بھی استعمال کیا جائے۔ (۲۲) چناں چہ سلف میں بعض افراد سے یہ بات مروی ہے کہ انھوں نے مشرکین سے نکاح کی ممانعت والی آیت میں حکم کا مدار مخصوص اصطلاح پر نہیں رکھا بلکہ اس علت پر رکھا ہے جس کی وجہ سے یہ حکم دیا گیا اور وہ علت شرک ہے۔ پہلے ابن جریر طبری کے حوالے سے یہ بات گزری ہے اور صحابہ میں حضرت ابن عمرکی طرف یہ بات منسوب ہے کہ وہ مشرکین سے نکاح کی نہی میں یہود ونصاریٰ کو بھی داخل سمجھتے تھے اور ان کی یہ دلیل تھی کہ جب یہود حضرت عزیر کو اور نصاریٰ حضرت عیسیٰ کو اللہ کا بیٹا قرار دیتے ہیں تو پھر اس شرک سے بدترین شرک اور کون سا ہو سکتا ہے جس کے بعد ان سے مناکحت کے معاملات جائز ہوں؟ جن مفسرین نے اس قول کو اختیار کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ آیت اپنے نزول کے وقت تمام غیرمسلموں، خواہ وہ کتابی ہوں یا غیر کتابی ، کو شامل تھی، لیکن یہ حکم سورۂ مائدہ کی آیت سے جزوی طور پر منسوخ ہے۔(۲۳) تاہم یہ مذہب کم زور ہے اور جمہور کا موقف یہی ہے کہ یہ نکاح جائز ہے البتہ ایسا کرنا،جیسا کہ گزرا، ضرورت کے تحت ہی ہے اور شریعت کی نظر میں زیادہ پسندیدہ عمل نہیں ہے۔
اس تمہید کے بعد ڈاکٹر اوج کہتے ہیں کہ مسلمان عورت کے کتابی مرد سے نکاح کا معاملہ مجتہد فیہ ہے اور ضروریاتِ زمانہ کے اقتضا سے کوئی صورت اختیار کی جا سکتی ہے اور ہمیں اس سکوت میں اثبات کا پہلو زیادہ قرین صواب لگتا ہے، کیوں کہ مثبت معنی کے متعدد قرائن خود قرآن میں موجود ہیں۔اس کے بعد انھوں نے اپنے دعوے کی تائید میں چار قرائن پیش کیے ہیں۔ 
پہلا قرینہ یہ ہے کہ سورۂ بقرہ کی آیت 221 اور سورۂ ممتحنہ کی آیت ۱۰ میں مشرکین سے نکاح کے معاملے میں نہی دو طرفہ ہے، لیکن سورۂ مائدہ میں حلت کا یک طرفہ بیان ہے؛ اس لیے اگر’’مسلمان عورت کا نکاح اہلِ کتاب مرد سے ناجائز ہوتا تو ضرور اس مقام پر اس کی صراحت کر دی جاتی، جیسا کہ مشرک مردوں کے معاملے میں کی گئی۔‘‘(۲۴)
اثباتی پہلو کے لیے پیش کیا گیا یہ قرینہ کم زور معلوم ہوتا ہے۔ یہاں اسی بات کو دلیل مثبِت بنانے کے بجائے اگر یہ کہا جائے کہ سورۂ بقرہ اور ممتحنہ میں جب دو طرفہ نہی ہے تواس سے معلوم ہوا کہ یہ حرمت دونوں طرف سے ہے۔ اگر اہلِ کتاب کے معاملے میں بھی حلت دو طرفہ ہوتی تو اس کو واضح طور پر بیان کر دیا جاتا ، لیکن یہاں چوں کہ یک طرفہ حلت کا بیان ہے، اس لیے مسئلہ مجتہد فیہ نہیں رہا ، بلکہ یہ بات بالبداہت ثابت ہو گئی کہ کتابی عورت سے تو مسلمان مرد کا نکاح تو جائز ہے، لیکن برعکس جائز نہیں، کیوں کہ اگر دوسری صورت بھی جائز ہوتی تو اس کو صراحت کے ساتھ بیان کر دیا جاتا جس طرح مشرکین کے معاملے میں بیان کیا گیا۔ اگر اس زاویے سے دیکھا جائے جائے تو یہی بات دلیل مثبِت نظر آنے کے بجائے دلیل نافی نظر آنے لگتی ہے اور اس کی تردید کا بظاہر کوئی قرینہ نہیں ہے۔
یہاں اگر دونوں آیات کے سیاق وسباق پر غور کیا جائے تو اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ سورۂ بقرہ کی آیت سے پہلے مصالحت یتامیٰ کا مضمون ہے اور اس کے تناظر میں کہا گیا ہے کہ اس مصلحت کی اہمیت اپنی جگہ لیکن ایمان بہ ہر حال مقدم ہے اور اس کے لیے نکاح اہل ایمان ہی سے مناسب ہے۔بعد میں بھی یہی کہا گیا کہ مشرکین داعی جہنم ہیں۔ گویا مقام شرح و توضیح کا تھا، اس لیے اس کو واضح کر کے بیان کر دیا گیا۔ سورۂ مائدہ میں بھی۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے ۔یہ مقام اصل میں سوال کے جواب کا مقام ہے اور ایسے مقام پر کلامِ بلیغ کا تقاضا ہے کہ بات میں ایجاز نہ ہو ، بلکہ وہ اطناب اور شرح کے ساتھ ہو کہ سائل کی تشفی ہو جائے اور جواب ملنے کے بعد بھی وہ تشنگی کا احساس نہ کرے۔ چناں چہ یہاں جو جواب شارع کے ہاں مقصود تھا، وہی بیان کر دیا گیا ۔ اگر جانب ثانی اس کی نظر میں حلال ہوتی تو اس کو ضرور بیان کیا جاتا اورسوال کا جواب ہونے نیز تشریع کا مقام ہونے کا تقاضا بھی یہی تھا۔ شرح و توضیح کے مقام پر کلامِ بلیغ کا تقاضا اطناب ہے نہ کہ ایجاز اور پھر مقام اگر نکاح جیسے نازک ترین مسائل کی حلت وحرمت سے متعلق ہو تو وہاں اس کی حساسیت اور بڑھ جاتی ہے اور اس کی حلت و حرمت کا مسئلہ انسانی عقل کے حوالے کرنا کلامِ حکیم کے شایانِ شان نہیں ہے۔ سورۂ نساء میں قرآن نے جہاں محرمات کا بیان کیا ہے، وہاں بھی اطناب اور تفصیل کا اسلوب اختیار کیا ہے۔
دوسرا قرینہ ڈاکٹر شکیل اوج نے اپنے موقف کی تائید میں یہ ذکر کیا ہے کہ سورۂ مائدہ کی اس آیت سے پہلے طیبات کی حلت کا اصول بیان کیا گیا ہے اور پھر طعام کی دوطرفہ حلت کے بیان کے ساتھ ایجاز واختصار کے پیش نظر نکاح میں بہ ظاہر یک طرفہ حلت کو بیان کیا گیا ، لیکن یہ اجازت اصلاً دو طرفہ حلت ہی کو متضمن ہے، کیوں کہ اہلِ کتاب کے مرد بھی محصن ہونے کہ وجہ سے طیب ہو سکتے ہیں۔(۲۵)
یہ قرینہ بھی ایک کم زور قرینہ معلوم ہوتا ہے۔ یہاں بنیادی سوال اہمیت کا ہے۔ کیا شارع کے بلیغ کلام کا یہ نقص نہیں تصور ہوگا کہ طعام کے معاملے میں تو وہ اطناب اور شرح کے ساتھ بتائے کہ وہ دونوں طرف سے حلال ہے ، جب کہ اصول ہے کہ اشیا میں اصل اباحت ہے اور نکاح کے معاملے میں وہ ایجاز سے کام لے جو حلت اور حرمت کے پہلو سے کھانے کے مقابلے میں ایک بہت نازک مسئلہ ہے؟ نکاح کا معاملہ یہاں اگر دوطرفہ حلال ہوتا تو یقیناًاس میں بھی یہاں طعام کی طرح اطناب ہی سے کام لیا جاتا۔ طیبات کو یقیناًشارع نے اصولاً حلال ٹھہرایا ہے ،لیکن اس کے ساتھ بعض حلال چیزوں کو بیان کرنا اسی مقصد کے لیے ہے کہ یہاں انسانی عقل خود ہی طیب کا تعین کرنے میں نہ ٹھوکر کھائے، چناں چہ یہاں طیبات کا دائرہ بیان کر دیا۔ باقی جن طیبات کا ذکر نہیں ہے تو ان میں شریعت کے اس اصول پر عمل کیا جائے گاکہ اشیا میں اصل اباحت ہے اور ابضاع میں اصل تحریم ہے۔ علامہ ابن نجیم فرماتے ہیں: لا یجوز التحری فی الفروج. (۲۶) (فروج کے معاملے میں تحری اور اجتہاد جائز نہیں ہے۔) اس اصل کی حکمت یہی ہے کہ اگر اس میں انسانی عقل کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو انسانی دین اور تمدن پر جو افتاد آئے گی وہ محتاجِ وضاحت نہیں ہے۔اہلِ کتاب عورتوں کے ساتھ مسلمان مردوں کا نکاح غلبہ اسلام کے عہد میں جائز قرار دینا خدمتِ اسلام کی مصلحت کے تحت ہے تاہم شریعت کی نظر میں یہ کوئی بہت پسندیدہ عمل نہیں ہے اور عہد صحابہ میں اس کی چند ایک مثالیں ہی ملتی ہیں،جیسا کہ پہلے گزرا، لیکن مسلمان عورت کو ایک کافر کے نکاح میں دینا اس مصلحت کے حق میں قطعا نہیں ہے۔ اگر یہ کوئی پسندیدہ صورت ہوتی تو یقیناًصحابہ کرام بھی اپنے ذہن رسا سے یہ اجتہاد فرما سکتے تھے اوراہل کتاب کے ’’محصنینِ طیبین‘‘کو تلاش کر کیاس عہد کی نہایت مضبوط ایمان والی صحابیات اس مقصد کو بخوبی پورا کر سکتی تھیں کہ اس کے نکاح میں آ کر اس سے متاثر ہونے کے بجائے اس کی سیرت و کردار کو بدل لیتیں، لیکن اس عہد مبارک کی کوئی ایک مثال بھی اس اجتہاد کی نہیں ملتی۔یہاں تو قرآن کی واضح طور پر اجازت کو بھی دین کے وہ متوالے زیادہ پسندیدہ نہیں سمجھ رہے اور دینی مصلحت کو زیادہ پیشِ نظر رکھ رہے ہیں، جب کہ ان کے مضبوط ایمان کے بارے میں یہی گمان کیا جا سکتا ہے کہ اس طرح کے نکاح ان کے لیے زیادہ مضر بھی نہیں ثابت ہو سکتے تھے۔ڈاکٹر شکیل اوج کے نزدیک ’’جب’’ باعمل کتابیہ ‘‘ مسلم خاندان میں جذب کی جا سکتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ کسی ’’باعمل کتابی‘‘کو جذب نہیں کیا جا سکتا؟باکردار کتابی مردوں کو مسلم معاشرہ یا خاندان میں جذب نہ کرنا غیر مساویانہ طرزِ عمل اختیار کرنا ہے، یا ایک ہی طرح کے مقدمہ میں دو طرح کے فیصلے کرنا ہے۔‘‘ (۲۷) ڈاکٹر اوج کی یہ رائے عالم گیریت کے تناظر میں درست سہی، لیکن اس میں کچھ معذرت خواہی کا انداز نظر آتا ہے۔پہلے یہ بات گزری کہ غلبہ اسلام کے عہد میں اہلِ کتاب سے قرب و موانست کے پیش نظر ان کے ساتھ معاملہ مناکحت کی جس حد تک گنجائش تھی، وہ دے دی گئی۔ اگر اس عہدِ مسعود میں جانب ثانی کی کوئی گنجائش ہو تی تو اس کو ضرور ذکر کیا جاتا اور عملاً اس کا کا کوئی نمونہ سامنے آتا، لیکن ظاہر ہے کہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔
تیسرا قرینہ یہ پیش کیا گیا ہے کہ اہلِ کتاب کی محصنات سے پہلے مومن محصنات کا ذکر ہے،اور مومن مردوں کا ذکر نہیں ہے، لیکن وہاں دو طرفہ صورت جائز ہے تو اہلِ کتاب کے محصن مردوں کے معاملے میں یہی دوطرفہ صورت اختیار کی جائے گی۔ (۲۸)
یہ قرینہ تقریباً پہلے قرینے کی مانند ہی ہے اور اس پر گفتگو سے اس کا جواب واضح ہے کہ یہاں مقام تشریع کا ہے اور اگر شارع کے پیش نظر یہ بات ہوتی تو اسے ضرور واضح کر دیا جاتا۔
چوتھا قرینہ یہ پیش کیا گیا ہے کہ قرآن میں غیر شادی شدہ مسلمان عورتوں کو کہیں بھی مسلمان مردوں سے شادی کا حکم نہیں دیا گیاجو کہ ان کے ہم مذہب ہیں تو ان کو غیر مسلم مردوں سے نکاح کاکیسے حکم دیا جاتا، اور اس عدمِ ذکر سے یہ کیسے لازم آیا کہ اہل کتاب مردوں سے مسلمان عورتیں نکاح نہیں کر سکتیں۔(۲۹)
یہ دلیل تقریباً اسی طرح کی ہے جو میلاد شریف کے جواز کے لیے پیش کی جاتی ہے کہ جب قرآن وحدیث میں اس کی نہی وارد نہیں ہے تو اس سے خود بہ خود ثابت ہوا کہ وہ جائز ہے۔اگر اس سے نہی نہیں ہے تو اس کا ناجائز ہونا کہاں سے ثابت ہوتا ہے؟ قرآن کریم نے مشرکین سے نکاح کے معاملے میں جب دو طرفہ حکم دیا ہے تو وہاں ظاہر ہے خطاب مسلمان مرد اور عورتوں دونوں کو ہے۔ یہاں دلالۃ النص سے خود یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ اہل ایمان کا آپس میں نکاح جائز ہے، مسلمان مرد کا مسلمان عورت سے اور برعکس بھی،لیکن جب اہل کتاب کا معاملہ آتا ہے تو وہاں صرف یک طرفہ صورت ہی بیان کی جاتی ہے۔ یہاں آخر شارع کو کیا امر مانع تھا کہ اس نے دوسری طرف کو بیان نہیں کیا؟ اگر یہ صورت جائز ہوتی تو ضرور اس کو بھی ذکر کر دیا جاتا۔
ڈاکٹر شکیل اوج کی بحث کے بارے میں یہی کچھ عرض کرنا مقصود تھا۔ یہاں اس سوال کا جواب جاننا ضروری ہے کہ موجودہ حالات میں اس بحث کی ضرورت کیا تھی؟شروع میں یہ ذکر کیا گیا کہ بعض جگہوں پر یہ صورتِ حال پیش آ رہی ہے کہ مسلمان عورتیں غیر مسلموں کو ترجیح دے رہی ہیں، اس لیے اہل علم کو یہ سوچنے کی ضرورت پڑ رہی ہے۔ اس سلسلے میں درست طرز تو یہ تھا کہ ایمان وعمل سے دور بد نصیب مسلمانوں کو یہ تنبیہ کی جا تی اور ان کے والدین کو یہ احساس دلایا جاتا کہ اپنی اولاد کی احسن اسلامی خطوط پر تربیت کریں جس کے نتیجے میں یہ مسائل پیدا نہ ہوں۔لیکن نام نہاد مسلمانوں کی گم راہی ، بد عملی اور تہذیبِ مغرب کی کورانہ تقلید کو تہذیب و تمدن کے ارتقا کا نتیجہ یا مظہر سمجھ کراس طرح کی راہ نمائی یقیناًان کی مزید بے راہ روی کا باعث بن سکتی ہے۔خاندان کا ادارہ شاید وہ واحد ادارہ ہے جس میں مشرق اور مغرب کے درمیان ابھی بہت کچھ امتیاز باقی ہے اور یہاں کی عفت اور تقدس کا کافی گہرا نقش آج زندگیوں میں موجود ہے۔ اگر اس کو بھی ’’قانونِ انجذاب‘‘کے تحت اہلِ مغرب کی زندگیوں کے تابع کر دیا جائے تو پھر شاید ہماری تہذیبی شناخت کے لیے یہ زہرِ ہلاہل سے کم نہیں ہو گا۔بعض مغل شاہنشاہوں نے یہی طرزِ عمل اختیار کیا تو خاندان کے ادارے میں وہ تمام مفاسد در آئے جو ہندو تہذیب کا امتیاز تھے اور’’آج بھی جو لوگ قوموں اور مذہبوں کے امتیازی نشانات ونظریات کو ختم کرنے کے درپے ہیں، وہ اس کا سب سے زیادہ کارگر نسخہ آپس کی شادیوں ہی کو سمجھتے ہیں۔اس وجہ سے ایک مسلمان کو اس معاملے میں بے پرواہ اور سہل انگار نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ (۳۰)
آج سے چودہ سو سال پہلے تو شاید ممکن تھا کہ اْس ماحول میں کوئی محصن مل جائے اور اس سے بھی یک طرفہ اجازتِ نکاح دی جائے، لیکن آج کے جس منظر نامے میں یہ بحث چھیڑی گئی ہے، اس میں ’’اہل کتاب‘‘(جن کے دائرے میں ڈاکٹر شکیل اوج کے اجتہاد کی رو سے روئے زمین کے تمام غیر مسلموں کو تحقیق کے بعد داخل کیا جا سکتا ہے)میں صفت احصان کو تلاش کرنا شاید ایک نا ممکن کام ہو گا۔جہاں جنسی آزادی کو ایک فلسفہ حیات اور انسانی حق کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے اور اس کے برا ہونے کو سرے سے برا سمجھا ہی نہیں جارہا ، وہاں سے ’’محصنینِ طیبین‘‘ کو تلاش کرکے مسلمان عورتیں ان کے حوالے کرنے کا نقطہ نظر بہ ظاہر درست معلوم نہیں ہوتا۔اس طرح کا کوئی جواز اسلامی شریعت میں ہوتا تو خیرالقرون کا عہد اس کے لیے بہ ترین دور تھا، لیکن ظاہر ہے کہ اس عہد میں اس صورتِ حال کی کوئی ایک مثال بھی نہیں ملتی۔ پھر آج کے یہود ونصاریٰ میں کثیر تعداد ان لوگوں کی ہے جو سرے سے خدا کے وجود ہی کے قائل نہیں۔ مسلمان مرد کو اس عہد میں تثلیث کے پرستاروں سے یک طرفہ نکاح کی اجازت اس لیے دی گئی تھی کہ کم از کم بد ترین شرک کی آمیزش کے باوجود بہ ہر حال وہ لوگ خدا کے قائل ضرور تھے اور مسلمانوں اور ان میں وحدت کی بعض بنیادیں مشترک تھیں۔ آج یہ صورتِ حال بدل چکی ہے اور جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں شرک ایک شاکلہ تھا ،آج یہود ونصاریٰ کی زندگیوں میں الحاد ایک غالب شاکلے کی حیثیت رکھتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ علامہ شبیر احمد عثمانی آج کے اکثر اہل کتاب سے اْس تعامل کی نفی کرتے ہیں جو اْس عہد کے اہلِ کتاب کے ساتھ روا تھا، بلکہ ان کو تو سرے سے انہیں اہلِ کتاب کہنے ہی سے انکار ہے۔ فرماتے ہیں:
’’یہ یاد رہے کہ ہمارے زمانہ کے ’’نصاریٰ‘‘عموماً برائے نام نصاریٰ ہیں۔ان میں بہ کثرت وہ ہیں جو نہ کسی کتابِ آسمانی کے قائل ہیں ، نہ مذہب کے، نہ خدا کے۔ ان پر اہل کتاب کا اطلاق نہیں ہو سکتا، لہٰذا ان کے ذبیحہ او ر نساء کا حکم اہلِ کتاب کا سا نہ ہوگا۔‘‘ (۳۱)
مولانامفتی محمد تقی عثمانی نے بھی یہی بات فرمائی ہے۔(۳۲)اصل وجہ وہی ہے کہ اس قسم کے نکاح کی حلت و حرمت کا مدار کسی کے یہودی یا نصرانی ہونے کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ صیانت دین وایمان کی علت پر ہے۔آج کے اہلِ کتاب میں تو کسی مسلمان کو شاید ہی ایسی محصن عورت مل سکے اور برعکس صورتِ حال بھی اسی طرح ہے، اس لیے کسی مسلمان مرد کابھی اس طرح کامنصوص نکاح حرام لغیرہ ہوگا ، چہ جائے کہ مسلمان عورت کے نکاح کو جائز قرار جائے جس کی اجازت قرآنی فحواے کلام سے بہ آسانی مستنبط نہیں کی جاسکتی۔


جناب عمار خان ناصر کا مکتوب

برادرِ گرامی جناب سید متین شاہ صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
کتابی مرد کے ساتھ مسلمان عورت کے نکاح کے حوالے سے آپ کا مقالہ نظر نواز ہوا۔ ما شاء اللہ عمدہ استدلال پر مبنی ہے، اگرچہ بعض جگہ تبصرے ذرا سخت لہجے میں آ گئے ہیں۔
میرے طالب علمانہ فہم کے مطابق اس مسئلے کے جو قابل غور پہلو بنتے ہیں، ان کے حوالے سے اپنی معروضات پیش کر رہا ہوں:
سب سے بنیادی نکتہ اس بات کی تعیین ہے کہ مائدہ کی آیت میں محصنات اہل کتاب کے تصریحاً ذکر کیے جانے جب کہ محصنین سے سکوت کی وجہ ازروئے بلاغت کیا ہو سکتی ہے؟ آیا یہ سکوت اس پر دلالت کرتا ہے کہ اجازت صرف محصنات کے نکاح کی دینا مقصود ہے یا اس کے علاوہ کچھ دوسرے پہلو ؤں کا بھی احتمال ہے؟
پہلے نکتے کے حق میں یہ دلیل دی جا سکتی ہے (جو جصاص نے بیان کی ہے اور آپ نے بھی ا س کا ذکر کیا ہے) کہ مائدہ کی آیت دراصل سورۂ بقرہ میں مشرکین (یعنی ہر قسم کے اہل کفر) کے ساتھ حرمت نکاح کے عمومی حکم کے بعد ایک استثنایا تخصیص کو بیان کرنے کے لیے آئی ہے اور اس اعتبار سے یہاں محصنات اہل کتاب کے ذکر پر اکتفا اس بات کی دلیل ہے کہ محصنین اہل کتاب سے مسلمان عورتوں کے نکاح کے حوالے سے حرمت کا سابقہ حکم علیٰ حالہ برقرار ہے۔
اگر اس استدلال کا بنیادی مقدمہ درست ہو تو ظاہر ہے کہ نتیجہ بھی بہت محکم ہے، تاہم میری طالب علمانہ رائے میں بقرہ کی آیت: ولا تنکحوا المشرکین کی تعمیم کو قرآن مجید کی مخصوص اصطلاح اور استعمال قبول نہیں کرتا۔ اہل کتاب میں سے نصاریٰ میں یقیناًشرک پایا جاتا ہے، لیکن بطور ایک گروہ کے المشرکین کا لقب قرآن نے خاص طور پر اہل کتاب سے الگ، صرف مشرکین عرب کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس لحاظ سے صحیح صورت حال یہ بنتی ہے کہ قرآن نے بقرہ میں مشرکین سے نکاح کی تو ممانعت کر دی تھی، جبکہ کفار کے دیگر گروہوں کا حکم مسکوت عنہ رہا تا آنکہ مائدہ کی آیت میں اسے ایک مستقل ہدایت کے طور پر، نہ کہ بقرہ کی آیت کی تخصیص کے طور پر، بیان کیا گیا۔ 
الیوم احل لکم کے الفاظ سے بظاہر یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ یہاں ان چیزوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جنھیں پہلے حرام قرار دیا گیا تھا، لیکن بدیہی طور پر یہ شبہ درست نہیں، کیونکہ یہ اسلوب قرآن کی زبان میں مسکوت عنہ اور مبہم چیزوں کی حلت کے واضح بیان کے لیے بھی اتنا ہی موزوں ہے۔ پہلے مفہوم پر اس لیے بھی انھیں محمول نہیں کیا جا سکتا کہ احل لکم الطیبت  اور المحصنت من المؤمنات  میں طیبات اور محصنات کو یہاں پہلی مرتبہ حلال نہیں کیا گیا، بلکہ ان کی پہلے سے معلوم حلت کو ایک خاص بلاغی فائدے کے لیے (جس کا ذکر آگے آتا ہے) دہرایا گیا ہے۔
میرے خیال میں قرآن مجید کے مجموعی اسالیب کو سامنے رکھتے ہوئے مذکورہ احتمال کے علاوہ کم سے کم دو مزید احتمالات قابل غور ہیں: 
ایک یہ کہ قرآن مجید میں مناکحات کے بیان میں عمومی طور پر مردوں کو ہی مخاطب کیا گیا ہے اور اصلاً انھی کے تعلق سے احکام بیان کیے گئے ہیں، جبکہ خواتین کے احکام ان سے بالتبع اخذ کیے جاتے ہیں۔ مثلاً نساء میں محرمات کے بیان میں کہا گیا ہے کہ جو لوگ آزاد عورتوں سے نکاح نہ کر سکتے ہوں، وہ لونڈیوں سے نکاح کر لیں: فمن لم یستطع منکم طولا ان ینکح المحصنت المومنت فمن ما ملکت ایمانکم من فتیاتکم المومنت۔ یہاں آزاد عورتوں کے، غلاموں سے نکاح کا تصریحاً ذکر نہیں، لیکن ظاہر ہے کہ بالتبع اخذ کیا جا سکتا ہے۔ اسی اصول پر مائدہ کی آیت میں یہ احتمال ہو سکتا ہے کہ چونکہ مناکحات میں اصلاً مرد ہی مخاطب ہوتے ہیں، اس لیے انھی کے زاویے سے محصنات اہل کتاب کا ذکر کیا گیا ہے اور محصنین اہل کتاب کا حکم اس سے بالتبع اخذ کیا جائے گا۔ گویا مسلمان عورتوں کے لیے محصنین اہل کتاب کی حلت کا عدم ذکر کوئی قطعی دلیل اس بات کی نہیں بنتی کہ ان کے ساتھ نکاح کو ممنوع سمجھا جائے۔
بقرہ کی آیت ولا تنکحوا  میں صنفین کے نکاح کی ممانعت کا ذکر کیا گیا ہے، لیکن غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ وہاں سادہ طور پر صرف نکاح کے احکام کا بیان پیش نظر نہیں، بلکہ بحیثیت مجموعی مسلمان سوسائٹی کے مشرک سوسائٹی کے ساتھ تعلقات کی تحدید مقصود ہے۔ دونوں کے مابین خاندانی رشتے ناتے پہلے سے چلے آ رہے تھے اور قرآن اب اس پر پابندی عائد کرنا چاہتا تھا، اس لیے تصریحاً یہ کہنے کی ضرورت تھی کہ مشرکین کے ساتھ ازدواجی تعلق کی کوئی بھی صورت اختیار نہ کی جائے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ یہاں نئے رشتے قائم کرنے کی ممانعت بتائی گئی ہے، جبکہ سابقہ رشتوں سے متعلق کوئی واضح ہدایت نہیں دی گئی۔ سابقہ رشتوں سے متعلق واضح ہدایت بہت بعد میں سورۂ ممتحنہ میں معاہدۂ حدیبیہ کی ایک شق کے تناظر میں دی گئی اور یہ کہا گیا کہ نہ مسلمان مرد، مشرک عورتوں کو اپنے نکاح میں روکے رکھیں اور نہ مسلمان عورتوں کو، ان کے مشرک خاوندوں کے پاس واپس بھیجا جائے۔
دوسرا احتمال جو قابل غور ہے، وہ یہ کہ قرآن مجید عام طور پر حکم کے بیان میں مخاطبین کے ذہنی حالات اور زمانہ نزول کی معروضی صورت حال کو بھی مد نظر رکھتا ہے اور اس کی بیان کردہ قیود اور شرائط کا صحیح رخ سمجھنے کے لیے اس پہلو کو ملحوظ رکھنا ضروری ہوتا ہے، جیسے مثال کے طور پر من اصلابکم  کی قید کا مقصد سمجھنے کے لیے متبنیٰ سے متعلق عرب روایت کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔ مائدہ کی آیت میں صرف محصنات کے حکم پر اکتفا کی ایک ممکنہ وجہ، اس اسلوب کی رو سے، یہ ہو سکتی ہے کہ اس ماحول میں مسلمانوں کے ہاں اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کا رجحان اور رغبت تو موجود تھی اور غالباً یہی چیز یسئلونک ماذا احل لہم  کا محرک بنی تھی، لیکن خواتین کو ان کے نکاح میں دینے کی کوئی خاص روایت یا رجحان موجود نہیں تھا۔ اس لحاظ سے قرآن نے اگر سائلین کے ذہنی رجحان کے تناظر میں اسی پہلو کے بیان پر اکتفا کی (اور دوسرے پہلو کے، سرے سے زیر بحث ہی نہ ہونے کی وجہ سے صرف نظر کیا) تو اسے کوئی قطعی قرینہ اس بات کا نہیں کہا جا سکتا کہ وہ محصنین سے نکاح کو ممنوع قرار دینا چاہتا ہے۔
مذکورہ وجوہ سے میری طالب علمانہ رائے کے مطابق محصنین اہل کتاب کے ساتھ نکاح کی ممانعت کو قطعی طور پر منصوص کہنا ازروئے اصول فقہ کافی مشکل ہے۔ البتہ چند قرائن سے شارع کا یہ رجحان یقیناًمعلوم ہوتا ہے کہ ایسا نکاح اس کی نظر میں ناپسندیدہ ہے۔ مثلاً مائدہ کی آیت میں قرآن نے اہل کتاب کے ساتھ معاملات کے حوالے سے دو امور کا ذکر کیا ہے: ایک طعام اور دوسرا نکاح۔ طعام کے ذکر میں صریحاً دو طرفہ حلت بیان کی گئی ہے، یعنی طعام الذین اوتوا الکتاب حل لکم وطعامکم حل لہم، جبکہ نکاح کے بیان میں صرف یک طرفہ حلت کا ذکر ہے۔ ایک ہی سیاق میں اسلوب کی یہ تبدیلی قطعی دلیل نہ سہی، ایک بہت مضبوط قرینہ اس بات کا ضرور ہے کہ شارع نکاح کی اجازت کو یک طرفہ ہی رکھنا چاہتا ہے۔
قرآن کے دیگر بیانات سے بھی واضح ہوتا ہے کہ وہ مناکحت کے تعلق کو اصلاً اہل ایمان ہی کے مابین پسند کرتا ہے۔ چنانچہ مائدہ کی زیر بحث آیت میں اصولی طور پر المحصنات من المؤمنات کے ذکر کی کوئی ضرورت نہیں تھی، اس لیے کہ ان کی حلت پہلے سے واضح تھی، تاہم قرآن نے اس کو یہاں دہرایا ہے اور اس کے بعد بالتبع محصنات اہل کتاب کا ذکر کیا ہے تاکہ نکاح کے معاملے میں شارع کی ترجیحات واضح رہیں۔ سورۂ نساء میں لونڈیوں کے ساتھ نکاح کی اجازت میں من فتیاتکم المؤمنات کی قید بھی اسی ترجیح کو واضح کرتی ہے۔
مزید برآں شریعت کے عمومی مقاصد اور پیش نظر مصالح بھی اس رجحان کی تائید کرتے ہیں۔ رشتہ نکاح میں عورت کا مرد کے تابع ہونا ایک بدیہی امر ہے اور ظاہر ہے کہ اسلام کا مجموعی مزاج اس کو ناپسند ہی کرے گا کہ ایک مسلمان عورت کسی غیر مسلم مرد کے فراش پر ہو۔ فی نفسہ ایک ناگوار امر ہونے کے ساتھ ساتھ اگر عورت اور اس کی اولاد کے، شوہر کے دین اور کافرانہ ماحول سے متاثر ہونے کا خطرہ بھی ہو تو ظاہر ہے کہ اس رشتے کی قباحتیں شریعت کی نظر میں مزید بڑھ جاتی ہیں۔
مذکورہ ساری بحث کے تناظر میں، میری رائے یہ ہے کہ اہل کتاب کے مردوں او رمسلمان عورتوں کے مابین نکاح کو عمومی اباحت کے طور پر پیش کرنا اور خاص طور پر یہود ونصاریٰ کے علاوہ دوسرے غیر مسلم گروہوں کو بھی ’’اہل کتاب‘‘ میں شمار کرتے ہوئے باہمی مناکحت کے رجحان کی حوصلہ افزائی کرنا شریعت کے مزاج اور ترجیحات کی درست ترجمانی نہیں۔ البتہ ایک خاص صورت میں عملی مصالح کے تناظر میں اہل کتاب مرد اور مسلمان عورت کے نکاح کو گوارا کیا جا سکتا ہے، یعنی جب میاں بیوی میں سے صرف عورت مسلمان ہو جائے اور اس کے لیے عملی حالات کے لحاظ سے اپنے شوہر اور بچوں سے علیحدگی اختیار کرنا بوجوہ مشکل ہو جائے۔ یہ صورت اس وقت یورپ میں کثرت سے پیش آ رہی ہے اور عالم اسلام کے بعض جید اہل علم نے اس پر اجتہادی زاویہ نظر اختیار کرنے کی دعوت دی ہے۔ (یورپی مجلس افتاء کا رجحان بھی اس حوالے سے تیسیر کی طرف ہے، جبکہ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب نے ’’مقاصد شریعت‘‘ میں اس کی تائید کی ہے)۔ میرا طالب علمانہ رجحان بھی اسی طرف ہے اور اپنی کتاب ’’حدود وتعزیرات:چند اہم مباحث‘‘ میں، میں اس پر اپنی رائے ان الفاظ میں بیان کر چکا ہوں:
’’نصوص کے فہم کا ایک بے حد اہم پہلو یہ ہوتا ہے کہ اس دائرۂ اطلاق کو متعین کیا جائے جس میں نص قطعی طور پر موثر ہے اور جس سے باہر ایک مجتہد اپنی مجتہدانہ بصیرت کو بروے کار لانے کے لیے پوری طرح آزاد ہے۔ اس فہم میں ظاہر ہے کہ اختلاف بھی واقع ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر قرآن مجید کی رو سے ایک مسلمان خاتون کو کسی غیرمسلم مرد سے نکاح کرنے کی اجازت نہیں۔ یہ حکم کوئی نیا رشتہ نکاح قائم کرنے کی حد تک تو بالکل واضح ہے، لیکن میاں بیوی اگر پہلے سے غیرمسلم ہوں اور بیوی اسلام قبول کر لے تو کیا ان کے مابین تفریق بھی لازم ہوگی؟ حکم کا اس صورت کو شامل ہونا قطعی نہیں۔ عقلی اعتبار سے حالت اسلام میں کسی غیر مسلم شوہر کا ارادی انتخاب کرنے اور پہلے سے چلے آنے والے رشتہ نکاح کو نبھانے میں ایک نوعیت کا فرق پایا جاتا ہے اور سیدنا عمر کی رائے یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ اس صورت میں تفریق کو ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ چنانچہ بعض مقدمات میں انھوں نے میاں بیوی کے مابین تفریق کر دی ،جبکہ بعض مقدمات میں بیوی کو اختیار دے دیا کہ وہ چاہے تو خاوند سے الگ ہو جائے اور چاہے تو اسی کے نکاح میں رہے۔ (مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۸۰۰۱، ۳۸۰۰۱) یقیناًاس فیصلے میں انھوں نے بیوی کو درپیش عملی مسائل ومشکلات کا لحاظ رکھا ہوگا اور آج کے دور میں بالخصوص غیرمسلم ممالک میں پیش آنے والے اس طرح کے واقعات میں سیدنا عمر کا یہ اجتہاد رہنمائی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔‘‘ (ص ۲۵۳، ۳۵۳)
امید ہے کہ زیر بحث مسئلے کے حوالے سے یہ معروضات غور وفکر میں کسی حد تک آپ کی مدد کر سکیں گی۔ 
دعاؤں کی درخواست کے ساتھ
محمد عمار خان ناصر
۱۷؍ اکتوبر ۲۰۱۳ء

حوالہ جات

۱۔ البقرۃ ۲۲۱
۲۔ المائدہ ۵
۳۔ الممتحنہ ۱۰
۴۔ المائدہ ۵
۵۔ بخاری، صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب الاکفاء فی الدین، رقم ۵۰۹۰
۶۔ محمد بن جریر الطبری، جامع البیان فی تاویل القرآن، ت: احمد محمد شاکر، بیروت، موسسۃ الرسالۃ، ط ۱، ۱۴۲۰ھ۔۲۰۰۰م، ج ۴، ص ۳۷۰
۷۔ محمد بن علی شوکانی، ارشاد الفحول الیٰ تحقیق الحق من علم الاصول، بیروت، دار الکتاب العربی، ط ۱، ۱۴۱۹ھ۔۱۹۹۹ء، ج ۱، ص ۳۳۷
۸۔ المائدہ ۴
۹۔ محی الدین درویش، اعراب القرآن الکریم، بیروت، دار الارشاد، ط ۴، ۱۳۸۳ھ۔۱۹۶۴م، ج ۱، ص ۱۲۶
۱۰۔ عمر احمد عثمانی، فقہ القرآن (خاندانی معاملات نکاح وطلاق وغیرہ)، کراچی، ادارۂ فکر اسلامی، ط ۲، ۲۰۰۰ء، ص ۶۳
۱۱۔ طاہر بن عاشور، التحریر والتنویر، تیونس، دار التونسیۃ، ۱۹۸۴ء، ج ۶، ص ۱۲۴
۱۲۔ امین احسن اصلاحی، تدبر قرآن، لاہور، فاران فاؤنڈیشن، ۲۰۰۹ء، ج ۲، ص ۴۶۵
۱۳۔ جاوید احمد غامدی، البیان، لاہور، المورد، ط ۱، ۲۰۱۰ء، ج ۱، ص ۶۰۰
۱۴۔ ابن عاشور، مرجع سابق، ج ۲، ص ۳۶۳
15- Abdullah Yusuf Ali, The Holy Qur'an: Translation and Commentary (Islamabad: Da'wah Academy, 2004) p. 280 
۱۶۔ وہبہ زحیلی، التفسیر المنیر فی العقیدۃ والشریعۃ والمنہج، دمشق، دار الفکر المعاصر، ط ۲، ۱۴۱۸ھ، ج ۲، ص ۲۹۲
۱۷۔ ابن ابی شیبہ، المصنف فی الاحادیث والآثار، کتاب النکاح، من کان یکرہ النکاح فی اہل الکتاب، رقم حدیث ۱۶۱۶۳
۱۸۔ محمد بن یوسف مواق مالکی، التاج والاکلیل لمختصر خلیل، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، ۱۹۹۴ء، ج ۵، ص ۱۳۳
۱۹۔ عماد الدین ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، ط ۱، ۱۴۱۹ھ، ج ۱، ص ۴۳۷
۲۰۔ نفس مصدر وصفحہ
۲۱۔ ڈاکٹر شکیل اوج، نسائیات (چند فکری ونظری مباحث) ، کراچی، کلیہ معارف اسلامیہ، جامعہ کراچی، جون ۲۰۱۲ء، ط ۱، ص ۹۵۔۱۰۰
۲۲۔ رشید رضا، تفسیر المنار، مصر، الہیءۃ العامۃ المصریۃ للکتاب، ۱۹۹۰ء، ج ۶، ص ۱۵۷
۲۳۔ محمد عزت دروَزہ، التفسیر الحدیث (مرتب حسب ترتیب النزول)، قاہرہ، دار احیاء الکتب العربیۃ، ج ۶، ص ۳۹۳
۲۴۔ شکیل اوج، مرجع سابق، ص ۱۰۰
۲۵۔ شکیل اوج، مرجع سابق، ص ۱۰۲
۲۶۔ زین الدین ابن نجیم، الاشباء والنظائر، حواشی وتخریج: زکریا عمیرات، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، ط ۱، ۱۴۱۹ھ۔۱۹۹۹ء، ج ۱، ص ۵۷
۲۷۔ شکیل اوج، مرجع سابق، ص ۱۰۴
۲۸۔ نفس مرجع، ص ۱۰۳
۲۹۔ نفس مرجع وصفحہ
۳۰۔ امین احسن اصلاحی، تدبر قرآن، ج ۱، ص ۵۲۰
۳۱۔ شبیر احمد عثمانی، تفسیر عثمانی، مجمع الملک فہد، ص 
۳۲۔ محمد تقی عثمانی، آسان ترجمہ قرآن، کراچی، مکتبۃ المعارف، ۲۰۱۰ء، ص ۲۳۹

مکاتیب

ادارہ

(۱)
جناب مولانا عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
دسمبر کے الشریعہ میں ایک مضمون ’’ پاکستانی جامعات میں قرآنیات کا مطالعہ‘‘ نظر سے گزرا۔عنوان پڑھ کر دل باغ باغ ہو گیا اور اس امید کے ساتھ پڑھنا شروع کیا کہ اس میں پاکستانی جامعات کے نصابِ تفسیر وعلومِ تفسیر کے حوالے سے ایک جامع استقرا سے کام لیا گیا ہو گا اور اس کے محاسن و معائب کو نمایاں کیا گیا ہوگا، لیکن افسوس ہے کہ ’’پاکستانی جامعات ‘‘ کے عنوان کے اعتبار سے موضوع جس وسعت کا متقاضی تھا، وہ زیرِ نظر مضمون میں نظر نہیں آیا۔
اصولِ تفسیر کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں:’’اس وقت ہماری جامعات میں قرآن کا جو مطالعہ کیا جا رہا ہے، عموما ہر یونیورسٹی کے اندر نصاب یکساں ہے اور اس کے نصاب میں اصولِ تفسیر اور قرآنیات یا تفسیر اور متن تفسیر شامل ہیں۔اصولِ تفسیر میں جو مرکزی کتاب پڑھائی جاتی ہے، وہ شاہ ولی اللہ کی ’’الفوز الکبیر‘‘ ہے۔‘‘ اس کے بعد انھوں نے اس کتاب کی اصولِ تفسیر کے پہلو سے اہمیت بیان کی ہے اور کہا ہے کہ اس کی تدریس ہماری جامعات میں اس طرح نہیں ہوتی جیسی اس کتاب کا حق ہے۔پنجاب یونیورسٹی کے حوالے سے کہا ہے کہ ہم نے گذشتہ سالوں میں امام ابن تیمیہ کا رسالہ بھی شامل کیا ہے۔ 
ڈاکٹر صاحب کا یہ ارشاد 1980ء سے اسلام آباد میں قائم، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی کے حوالے سے سخت مغالطہ پیدا کرنے والا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ پاکستان میں یونیورسٹیوں میں علومِ اسلامی کے نصاب کے حوالے سے اسلامی یونیورسٹی ایک بالکل منفرد تجربہ ہے جس کی نظیر اگر پیش کی جا سکتی ہے تو عرب جامعات کی صورت میں پیش کی جا سکتی ہے، جن کے تعلیمی منہج اور اسلوب کی گہری چھاپ اس یونی ورسٹی کے علومِ اسلامی کے نصاب پر نظر آتی ہے۔زیرِ بحث اس وقت چوں کہ قرآنیات سے متعلقہ علوم ہیں، اس لیے مذکورہ اقتباسات کے حوالے سے عرض ہے کہ اصولِ تفسیر کے سلسلے میں اسلامی یونی ورسٹی کے نصاب میں اس سلسلے میں اب تک ہونے والی جملہ کاوشوں سے طالب علم کو نہ صرف روشناس کروایا جاتا ہے، بلکہ عملاً اس کو ان سے استفادہ بھی کروایا جاتا ہے۔چناں چہ اس سلسلے میں جدید عرب علما نے جو کام کیا ہے، اس سے ہماری یونی ورسٹیوں میں عمومی شناسائی نہیں ہے۔مثال کے طور پر شیخ عبدالرحمان حسن حبنکہ المیدانی کی ’’قواعد التدبر الامثل لکتاب اللہ عز و جل‘‘، خالد بن عثمان السبت کی ’’قواعد التفسیر‘‘، خالد عبدالرحمان العک کی کتاب ’’اصول التفسیر و قواعدہ‘‘ اور مساعد بن سلیمان الطیار کی ’’فصول فی اصول التفسیر‘‘اس سلسلے کی نہایت اہم اور جامع کتابیں ہیں جس سے ایک طالب علم پہلی بار اصولِ تفسیر اور علوم القرآن کی ابحاث میں واضع امتیازات سے واقف ہوتا ہے۔اسلامی یونی ورسٹی میں اصول تفسیر کا استاد ان کتابوں کے منتخب ابواب طلبا میں تقسیم کرتا ہے جس سے اس کو موضوع پر خاطر خواہ واقفیت ہو جاتی ہے۔ مذکورہ بالا کتابوں میں سے کوئی کتاب (مثلا’’ فصول فی اصول التفسیر‘‘)بہ طور نصاب کے طے کر دی جاتی ہیاور اس کے ساتھ باقی کتابوں سے معاون کتب کے طور پر استفادہ کیا جاتا ہے، اس طرح اس میں مدارس کا قدیم کتابی طرز اور جدید موضوعی طرز خوب صورتی کے ساتھ جمع ہو جاتے ہیں۔شاہ ولی اللہ کی ’’الفوز الکبیر‘‘ یقیناًایک علمی کتاب ہے لیکن اگر گستاخی نہ ہو تو یہ عرض کرنے کی جسارت کروں گا کہ وہ اصولِ تفسیر سے زیادہ علوم القران کی کتاب ہے۔اصولِ تفسیر کے حوالے سے اس کو دریا بہ کوزہ کا مصداق قرار دینا شاید مبالغہ ہو۔ شاید دیگر جامعات میں اصولِ تفسیر کے نام پر علوم القرآن ہی کی تدریس ہو رہی ہے۔ 
یہاں ضمناً اس بات کا ذکر غالبا غیر مناسب نہیں ہو گا کہ اصولِ تفسیر وہ مضمون ہے جس کے لیے ہمارے علما عام طور پر اصولِ فقہ ہی کو کافی سمجھتے رہے ہیں، کیوں کہ ان میں کتاب اللہ کے فہم کے اصولوں ہی سے بحث ہوتی ہے، جس کی وجہ سے عام طور پر امت میں اس فن کی تدوین کی طرف توجہ نہیں دی گئی، لیکن متاخرین میں اس ضرورت کا پوری قوت کے ساتھ احساس ترجمان القرآن علامہ حمیدالدین فراہی کو ہوا اور پھر انھوں نے عملاً اس فن کی طرف توجہ بھی کی۔ان کے افکار سے اختلاف کی پوری گنجائش کے ساتھ اس حقیقت کا اعتراف ناانصافی ہو گی کہ ان کے کام میں قرآن کے اسالیب، اس کی بلاغت ،تفسیر کے اصول، ترجیح کے اصول وغیرہ مباحث بے حد قیمتی ہیں۔آج عرب علما نے اس کی طرف توجہ کی ہے تو اس کام سے استفادے کی بہت ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
تاریخ تفسیر کے حوالے سے بھی ہمیں اسلامی یونی ورسٹی کے نصاب میں باقی جامعات کے نصاب سے بہت اختلاف دیکھنے کو ملتا ہے۔چناں چہ یہاں ’’مناہج المفسرین و تاریخ التفسیر‘‘ کے نام سے مستقل مادہ پڑھایا جاتا ہے جس میں اصل بنیاد کی حیثیت محمدحسین الذہبی کی کتاب ’’التفسیر و المفسرون‘‘ کو یا مناہج مفسرین پر لکھی کسی جدید عربی کتاب کو حاصل ہوتی ہے اور معاون کے طور پر دیگر کتابوں کو پیشِ نظر رکھا جاتا ہے۔اس نصاب میں طالب مشہور مدارسِ تفسیر، تاریخ کے بڑے بڑے مفسرین،تفسیرِ ماثور اور تفسیر بالراے کے رجحانات کے تحت لکھی گئی نمائندہ تفاسیر، تفسیر کے منحرف رجحانات وغیرہ امور سے کافی واقفیت حاصل کر لیتا ہے۔باقی یونی ورسٹیوں میں عام طور پر ذہبی کی کتاب کے ترجموں اور تلخیصوں (جیسے غلام احمد حریری کی ’’تاریخ تفسیر اور مفسرین‘‘) پر ہی نصاب کا مدار ہوتا ہے۔
مذکورہ دو امور کے علاوہ تفسیر میں دخیل (یعنی ماثور میں موضوعات اور اسرائیلیات اور تفسیر بالرائے میں غلط اصولوں کے تحت کی گئی تفسیر )، علوم القرآن ، اعجازِ قرآن وغیرہ مستقل مادوں کی حیثیت سے پڑھائے جاتے ہیں، جس سے ایک طالب علم پہلی بار قرآنیات کے ایک وسیع تنوع سے آشنا ہوتا ہے۔برصغیر میں تفسیر اور علومِ قرآن ایک مستقل موضوع ہے جو یہاں پڑھایا جاتا ہے۔ متن تفسیر کے حوالے سے بھی اسلامی یونی ورسٹی کا نصاب موضوعاتی نوعیت کا ہے۔مثلا تفسیر بیانی میں علامہ طاہر ابن عاشور کی ’’التحریر و التنویر‘‘، تفسیر کلامی میں ’’تفسیرِ رازی‘‘، ماثور میں ’’تفسیر نسفی‘‘ وغیرہ تفاسیر کے منتخب حصے داخل نصاب کیے جاتے ہیں جن سے طالب علم تفسیر کی نمائندہ کتابوں کا ذوق آشنا ضرور ہو جاتا ہے۔
نصاب کی اس جامعیت کے علاوہ یہ سب کچھ علومِ اسلامیہ کی اصل زبان عربی میں ہوتا ہے۔طلبہ کو مشقی کام کی تفویض ، پریزنٹیشن، تھیسس وغیرہ سب امور عربی میں کرنا پڑتا ہے۔اس سے معیار اور استعداد کا جو بین فرق سامنے آتا ہے وہ محتاجِ وضاحت نہیں، جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے عام جامعات میں طلبا کی استعداد کی غریب الحالی کو خود واضح فرمایا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلامی یونی ورسٹی کا علومِ اسلامیہ (تفسیر وعلومِ تفسیر، حدیث و علومِ حدیث، فقہ و شریعہ، عقیدہ و کلام، سیرت، تقابلِ ادیان وغیرہ) کا نصاب ایک مستقل تجزیاتی بحث اور نقد کا متقاضی ہے اور پاکستان کی کسی بھی جامعہ کے نصاب کے مقابلے میں زیادہ جامعیت، وسعت، گہرائی اور گیرائی کا حامل ہے۔
محمد وقاص، ایم فل اسکالر (شعبہ تفسیر)
اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد
(۲)
مولانا ابو عمار زاہد الراشدی ، رئیس التحریر ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ گوجرانوالہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
’’الشریعہ‘‘ باقاعدہ مل رہا ہے جس سے جامعہ کے اساتذہ اور طلبہ مستفید ہوتے ہیں۔ اس عنایت پر ازحد شکریہ۔ جزاکم اللہ
ماہ جنوری ۲۰۱۴ء کا شمارہ موصول ہوا جس میں جناب ڈاکٹر غطریف شہباز ندوی کا نواب صدیق حسن خان پر تفصیلی مضمون نظر سے گزرا۔ انھوں نے بہت خوب لکھا۔ اللہ تعالیٰ جزا عطا فرمائے، آمین۔ البتہ مضمون میں دو باتیں ایسی ہیں جن کی وضاحت ازحد ضروری ہے۔ امید ہے ڈاکٹر صاحب تک نیک خواہشات کے ساتھ یہ وضاحت بھی پہنچا دیں گے۔
(۱) ڈاکٹر صاحب رقم طراز ہیں: ’’باوثوق ذریعہ سے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ عبادات وغیرہ میں نواب صاحب مسلک محدثین پر عمل پیرا تھا یا فقہ حنفی کے مطابق عمل کیا کرتے تھے۔ تاہم اپنے فکری منہج کے بارے میں نواب صدیق حسن کا ذہن بالکل صاف تھا۔ انھوں نے صراحت سے لکھا ہے: میں تو مشہور اہل الحدیث ہوں اور تقویۃ الایمان اور رسائل توحید کا پابند ہوں۔‘‘
عبادات میں نواب صاحب کا مسلک مذکورہ پیرا گراف سے ہی واضح ہو جاتا ہے۔ جو شخص اتنی صراحت کے ساتھ اہل الحدیث ہونے کا دعویٰ کرے، وہ کیونکر محدثین کا مسلک چھوڑ کر کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرے گا؟ یقیناًنواب صاحب کا فکری منہج کی طرح عبادات اور سلوک میں محدثین والا مسلک تھا۔ بفرض محال اگر پھر بھی وثوق حاصل نہ ہو تو ان کا تحریر کردہ کتابچہ ’’تعلیم الصلوٰۃ‘‘ دیکھ لینا چاہیے۔ اس کے بعد تو ذرا بھی گنجائش نہیں رہتی کہ جاہ والا کس مسلک کے مطابق نماز ادا کرتے تھے۔ اس میں انھوں نے وہی موقف اختیار کیا ہے جو محدثین کا ہے۔ نماز میں ہل حدیث اور احناف کے درمیان جو اختلافی مسائل ہیں، انھی کا تذکرہ کر کے اپنا موقف واضح کیا ہے۔

(۲) مضمون کے آخر میں ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں: ’’یہ وضاحت بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ فرقہ اہل حدیث میں جو جمود فکر پایا جاتا ہے اور ائمہ اربعہ خاص کر امام ابوحنیفہ کی جو تنقیص کر رہے ہیں، اس کے پیش نظر ان کا اپنے آپ کو نواب صدیق حسن خان کی طرف منسوب کرنا حقیقت سے دور معلوم ہوتا ہے۔‘‘
ہم ڈاکٹر صاحب کے بارے میں حسن ظن رکھتے ہیں، لیکن یہ پڑھ کر افسوس ہوا کہ انھوں نے رواجی جملے تحریر فرما دیے جو زبان زد عام ہیں اور ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اہل حدیث کوئی فرقہ نہیں، بلکہ محدثین اور اسلاف کے اعلیٰ افکار اور منہج پر کاربند جماعت ہے جو اس عظیم الشان ورثے کی محافظ ہے جو اسلاف نے بے پناہ قربانیوں کے بعد امت کے لیے چھوڑا ہے۔ رہی بات ائمہ اربعہ اور خاص کر امام ابو حنیفہ رحمہم اللہ کی تنقیص کی تو عرض ہے کہ ہذا بہتان عظیم۔ ہم واشگاف الفاظ میں اعلان کرتے ہیں کہ اہل حدیث کا ہرگز ہرگز یہ منہج نہیں ہے کہ وہ متقدمین یا متاخرین میں سے کسی کی توہین یا تنقیص کریں۔ اس ضمن میں ہماری وہی فکر ہے جو نواب صدیق حسن خان کی ہے جس کا تذکرۂ جمیل ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون میں فرمایا ہے۔ ہم تمام ائمہ اور فقہاء کرام کادل وجان سے احترام کرتے ہیں اور ان کی آرا کو قدر کی نظر سے دیکھتے ہیں اور انھیں ہر دو حالت میں ماجور سمجھتے ہیں۔ امت محمدیہ کے لیے ان کی بے پناہ خدمات کا اعتراف کرتے ہیں۔ جیسے مجھے یہ حق نہیں کہ میں دیگر ائمہ کرام کے بارے میں احناف کا موقف بیان کروں کہ ان کا طرز عمل کیا ہے، اسی طرح کسی کو بھی یہ حق نہیں کہ وہ اہل حدیث کے موقف کو اپنی خواہش کے مطابق بیان کرے۔ ہم اپنا دوٹوک موقف اوپر بیان کر آئے ہیں۔ اس پر کسی کو تعلیق لگانے کی ضرورت نہیں۔
رہی بات فکری جمود کی تو امر واقعہ یہ ہے کہ موجودہ دور میں اگر کوئی گروہ، جماعت یا مسلک فکری جمود سے خالی ہے تو صرف اور صرف اہل حدیث ہے، وللہ الحمد۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ دین مکمل ہو چکا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہو گئی اور اسلام قیامت تک کے لیے آفاقی دین ہے جو آنے والوں کی مکمل راہنمائی کرے گا۔ جدید مسائل کے بارے میں اجتہاد کیا جا سکتا ہے۔ قرآن وسنت کی روشنی میں اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے اور یہ کام علماء امت کرتے رہے اور آئندہ بھی کریں گے۔ اس واضح موقف پر فکری جمود کا الزام بیمار ذہن ہی لگا سکتا ہے۔
اس سے بڑی حقیقت اور کیا ہوگی کہ تما م اہل حدیث مدارس میں رائج نصاب میں فقہ حنفی کی معتبر کتاب ہدایہ بالاستیعاب پڑھائی جاتی ہے اور ا س کے بعد فقہ مقارن مستقل مضمون ہے جو وفاق المدارس السلفیہ کے آخری تین سالوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ کیا حنفی مدارس یہ جرات کریں گے کہ وہ فقہ مقارن کی تعلیم اپنے طلبہ کو دیں؟ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ان کے اول اور آخر ہیں۔ فکری جمود تو ان کے ہاں ہے جو صرف امام ابوحنیفہ پرانحصار کرتے ہیں۔ یہ فکری جمود ان کے ہاں کیسے ہو گیا جو نہ صرف ائمہ اربعہ بلکہ دیگر ائمہ اور فقہاء کے فقہی نقطہ نظر کو پڑھتے پڑھاتے اور ان پر عمل کرتے ہیں؟ 
اہل حدیث کایہ امتیاز ہے کہ وہ اپنے ہاں بڑی وسعت رکھتے ہیں۔ تمام ائمہ اور فقہاء کی آرا کاباریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں اور جو رائے اقرب الی الکتاب والسنۃ ہو، اسے قبول کرتے ہیں۔ اصل اساس اور بنیاد بہرحال قرآن وحدیث کی ہے۔ ان کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے کی رائے کی کیا اہمیت ہے؟ خود امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مشہور قول ہے ’’جب میں کوئی ایسی بات کہوں جو قرآن وحدیث کے خلاف ہو تو میری بات چھوڑ دو۔‘‘ اس تناظر میں اہل حدیث کا موقف اظہر من الشمس ہے۔ ان پر فکری جمود محض الزام ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
اس لیے ڈاکٹر صاحب کی خدمت اقدس میں مودبانہ التماس کروں گا کہ وہ دوبارہ بنظر غائر اس کا جائزہ لیں اور جو لوگ حقیقت میں فکری جمود، تقلید جامد کے شکار ہیں، ان کی اصلاح کریں اور کوئی نسخہ تجویز فرمائیں۔
محمد یاسین ظفر
ناظم اعلیٰ وفاق المدارس السلفیہ پاکستان
پرنسپل جامعہ سلفیہ فیصل آباد

مارچ ۲۰۱۴ء

سودی نظام کے خلاف دینی حلقوں کی مشترکہ مہممولانا ابوعمار زاہد الراشدی
شریعت کی تعبیر اور دستور کی اسلامیت اور کی بحثعمران احسن خان نیازی
دیسی سیکولروں کی مغالطہ انگیزیاں (۱)محمد زاہد صدیق مغل
فرانس کے ایک مختصر دورے کے تاثراتمحمد عمار خان ناصر
فکرِ مغرب: بعض معاصر مسلم ناقدین کے افکار کا تجزیہ (۲)ڈاکٹر محمد شہباز منج
غزالی اور ابن رشد کا قضیہ ۔ اصل عربی متون کی روشنی میں (۲)مولانا محمد عبد اللہ شارق
مکاتیبادارہ
’’کہانی کی دنیا‘‘ نئی ڈائری کی متقاضیپروفیسر شیخ عبد الرشید
گنٹھیا یا بڑے جوڑوں کا دردحکیم محمد عمران مغل
حکومت طالبان مذاکرات اور دستور کا مسئلہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی

سودی نظام کے خلاف دینی حلقوں کی مشترکہ مہم

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

قائد اعظم محمد علیؒ جناح نے ۱۵ جولائی ۱۹۴۸ء کو کراچی میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر اپنے خطاب میں کہا تھا کہ:
’’میں نہایت اشتیاق کے ساتھ آپ کی ریسرچ فاؤنڈیشن کے تحت موجود بینکنگ نظام کو اسلامی معاشی اور معاشرتی افکار کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی سعی و کوشش کو دیکھنا چاہوں گا۔ مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیے کچھ ناقابل حل مسائل پیدا کیے ہیں اور بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ کوئی معجزہ ہی اسے تباہی سے بچا سکتا ہے۔ یہ نظام انسانوں کے مابین معاشی عدل قائم کرنے اور عالمی سطح پر ہونے والی کشمکش کے تدارک میں ناکام ہو چکا ہے۔ اس کے برخلاف یہی نظام ماضی میں ہونے والی دو عالمی جنگوں کا سبب بنا ہے۔ دنیائے مغرب اپنی صنعتی ترقی اور مشینی ایجادات و اختراعات کے باوجود بدترین انتشار میں مبتلا ہے جو تاریخ میں اپنی نوعیت کا ایک منفرد معاملہ ہے۔ مغربی معاشی نظریے اور عمل کو اختیار کرنا ہمیں اس آسودہ معاشرے تک پہنچانے کا باعث نہیں ہو سکتا جو ہماری منزل ہے۔ ہمیں اپنی تقدیر خود اپنے ظروف و احوال کے مطابق لکھنی ہوگی اور اسلام کے معاشرتی عدل اور انصاف پر مبنی ایک معاشی نظام کو دنیا کے سامنے پیش کرنا ہوگا جس کے ذریعہ ہم بحیثیت مسلمان اپنا فرض ادا کر سکیں اور انسانیت کے سامنے پیغام امن پیش کر سکیں جو اس کی فلاح و بہبود، انبساط اور ترقی کا ضامن ہوگا۔‘‘
مگر بانی پاکستان کی اس واضح ہدایت کے باوجود ملک کا معاشی نظام ابھی تک مغرب کے معاشی نظریات اور اصول و ضوابط کے مطابق چل رہا ہے اور اس میں اصلاح کی کوئی کوشش کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم قومی معیشت میں سودی نظام اور مغرب کے معاشی اصولوں کے تمام تر تلخ نتائج، نحوستوں اور تباہ کاریوں کو دیکھتے بلکہ بھگتتے ہوئے بھی میر تقی میر مرحوم کے اس شعر کا مصداق بنے ہوئے ہیں کہ:
میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
جس معاشی نظام نے ہماری قومی معیشت کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے اور جو ہمارے ایمان و عقیدہ سے متصادم ہونے کے ساتھ ساتھ قومی مفادات کے بھی منافی ہے، بدستور ہم پر مسلط ہے اور رولنگ کلاس قوم کو اس دلدل سے نجات دلانے کے لیے کوئی راستہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ 
پاکستان میں نافذ ہونے والے ہر دستور میں اس کا وعدہ کیا گیا کہ قوم کو سودی نظام سے جلد از جلد نجات دلائی جائے گی۔ حتیٰ کہ 1973ء کے دستور کے آرٹیکل 380 کی ذیلی دفعہ F میں کہا گیا ہے کہ ’’حکومت جس قدر جلد ممکن ہو سکے ربا کو ختم کرے گی۔‘‘
قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لیے دستوری طور پر قائم ہونے والے ادارہ اسلامی نظریاتی کونسل نے 3 دسمبر 1969ء میں قرار دیا تھا کہ:
’’موجودہ بینکاری نظام کے تحت افراد، اداروں اور حکومتوں کے درمیان قرضوں اور کاروباری لین دین میں اصل رقم پر جو اضافہ یا بڑھوتری کی جاتی ہے وہ ربا کی تعریف میں آتی ہے، سیونگ سرٹیفیکیٹ میں جو اضافہ دیا جاتا ہے وہ بھی سود میں شامل ہے، پراویڈنٹ فنڈ اور پوسٹل بیمہ زندگی میں جو سود دیا جاتا ہے وہ بھی ربا میں شامل ہے اور اس کے ساتھ ساتھ صوبوں، مقامی اداروں اور سرکاری ملازمین کو دیے گئے قرضوں پر اضافہ بھی سود ہی کی ایک قسم ہے لہٰذا یہ تمام صورتیں حرام اور ممنوع ہیں۔‘‘
اسلامی نظریاتی کونسل نے اس کے بعد سودی نظام کے خاتمے اور متبادل معاشی نظام کے حوالہ سے ایک جامع رپورٹ 25 جون 1980ء کو حکومت کے سامنے پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ ان تجاویز پر عمل کی صورت میں دو سال کے اندر پاکستان کی معیشت کو سود سے پاک کیا جا سکتا ہے۔ 
وفاقی شرعی عدالت نے 1990ء میں اس سلسلہ میں ایک واضح فیصلہ صادر کیا جس میں تمام مروّجہ سودی قوانین کا جائزہ لے کر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی کہ وہ 30 جون 1992ء تک ان قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق تبدیل کر لیں ورنہ یہ سب قوانین یکم جولائی 1992ء تک خود بخود کالعدم ہو جائیں گے۔
وفاقی شرعی عدالت کے اس تاریخی فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل دائر کی گئی جس کی سماعت میں سات سال کی مسلسل تاخیر کے بعد 1999 میں اس کے لیے بینچ تشکیل دیا گیا اور سپریم کورٹ نے وفاقی شرعی عدالت کی توثیق کرتے ہوئے کہ وہ جون 2001ء تک وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر عمل مکمل کر کے ملک کو سود سے پاک کر دے۔ مگر یہ فیصلہ بھی اب اپیل در اپیل کے مراحل میں ہے اور حکومت نے اس پر عمل کرنے کی بجائے تاخیری حربوں کا سہارا لے رکھا ہے۔
اس پس منظر میں ’’ملی مجلس شرعی‘‘ کی تحریک پر گزشتہ دو تین ماہ کے دوران مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ راہ نماؤں کے درمیان مرکز جماعت الدعوۃ، دفتر جماعت اسلامی، دفتر تنظیم اسلامی اور مسجد خضراء لاہور میں باہمی مشاورت کی متعدد نشستیں ہوئی ہیں جن میں یہ طے پایا ہے کہ وفاقی شرعی عدالت میں زیر سماعت اپیل کے حوالہ سے ’’ملی مجلس شرعی پاکستان‘‘ جماعت اسلامی اور تنظیم اسلامی کے تعاون سے علمی و فکری جدوجہد جاری رکھے گی جبکہ ملک کے دینی حلقوں میں اس مقصد کے لیے باہمی ربط و تعاون کے فروغ اور عوام میں بیداری و آگہی پیدا کرنے کی غرض سے ایک مستقل فورم ’’تحریک انسداد سود پاکستان‘‘ کے نام سے قائم کیا گیا ہے اور اس کی رابطہ کمیٹی کے کنوینر کی ذمہ داری راقم الحروف کو سونپی گئی ہے۔
رابطہ کمیٹی میں مولانا عبد المالک خان، مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا امیر حمزہ، علامہ خلیل الرحمن قادری، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، ڈاکٹر محمد امین، مولانا عبد الرؤف ملک، سردار محمد خان لغاری، قاری محمد یعقوب شیخ، مولانا حافظ عبد الغفار روپڑی، جناب حافظ عاکف سعید، مولانا مجیب الرحمن انقلابی، میاں محمد اویس، مولانا حافظ محمد نعمان، مولانا قاری جمیل الرحمن اختر، اور سید جواد حسین نقوی کے علاوہ ممتاز دانش ور جناب اوریا مقبول جان بھی شامل ہیں، جبکہ جن حضرات نے خطوط اور زبانی پیغامات کے ذریعہ تائید و حمایت کی ہے، ان میں مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی، مولانا محمد اویس نورانی، مولانا قاری زوار بہادر، ڈاکٹر زاہد اشرف، مولانا عبد القیوم حقانی اور مولانا پیر عبد الرحیم نقشبندی بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ اس مہم کے آغاز کے طور پر 21 فروری کو ’’یوم انسداد سود‘‘ کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس موقع پر مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام اور خطباء نے جمعۃ المبارک کے خطبات میں سودی نظام کی نحوست و حرمت کے ساتھ ساتھ مقتدر طبقات کے تاخیری حربوں کا ذکر کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ملک کو سودی نظام کی لعنت سے نجات دلا کر بابرکت اسلامی معاشی نظام کے نفاذ کی راہ ہموار کرے۔
ملک بھر میں تمام مکاتب فکر اور طبقات کے علماء کرام، ارباب دانش، راہ نماؤں اور کارکنوں سے گزارش ہے کہ اس کار خیر میں ہمارے ساتھ شریک ہو کر ملکی نظام معیشت کو سود کی لعنت سے نجات دلانے میں کردار ادا کریں۔

شریعت کی تعبیر اور دستور کی اسلامیت اور کی بحث

عمران احسن خان نیازی

مترجم : محمد مشتاق احمد

ان دنوں مختلف حلقوں کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ کون سی شریعت پاکستان میں نافذ کی جائے گی ؟ اعتراض کیا جاتا ہے کہ بہت سے فرقوں اور شریعت کی بہت سی تعبیرات کی موجودگی میں کس کی تعبیر نافذ کی جائے گی ، بالخصوص اب جبکہ بعض لوگوں نے شریعت کے نفاذ کے لیے ہتھیار بھی اٹھالیے ہیں ؟ اس سوال کا آسان جواب یہ ہے کہ پاکستان کے دستور اور قانون کی رو سے پاکستان میں "عدلیہ کی شریعت " نافذ کی جائے گی۔ اس بات کی مختصر توضیح ذیل میں پیش کی جاتی ہے۔ 
دستور کی دفعہ 227 ( ا) دو ذمہ داریاں عائد کرتی ہے : 
اولاً یہ کہ ’’تمام موجودہ قوانین کو قرآن و سنت میں مذکور احکامِ اسلام سے ہم آہنگ کیا جائے گا۔ ‘‘
ثانیاً یہ کہ’’ ان احکام سے متصادم قانون سازی نہیں کی جائے گی۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی غیر اسلامی قانون نہیں بنایا جائے گا۔ 
پہلی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل نے دستوری تقاضوں کے مطابق اپنی رپورٹیں تیار کی ہیں۔ نیز جن بعض قوانین کی جزئیات احکامِ اسلام سے متصادم نظر آتی ہیں انھیں کالعدم قرار دینے کے لیے وقتاً فوقتاً وفاقی شرعی عدالت میں بھی کا رخ کیا جاتا ہے۔ 
نئی یا مجوزہ قانون سازی کے متعلق دوسری دستوری ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے دستور کی دفعہ 229 میں جو طریق کار طے کیا گیا ہے اس کی رو سے مجوزہ قانون کے مسودے کی احکامِ اسلام سے ہم آہنگ بنانے کے لیے کونسل کی رہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ تاہم اگر مفادِ عامہ کا تقاضا ہو تو کونسل کا جواب موصول ہونے سے قبل بھی پارلیمنٹ مجوزہ قانون کا مسودہ منظور کرسکتی ہے۔ (دفعہ (3) 229) وفاقی یا صوبائی مجلس ہاے قانون ساز اس بات کی پابند نہیں ہیں کہ وہ کسی مجوزہ قانون کا مسودہ لازماً کونسل کو بھیجیں ، اور بالعموم وہ ایسا کرتی بھی نہیں ہیں۔ مقننہ عام طور پر قانون سازی کے امور کونسل کی مشاورت کے بغیر ہی انجام دیتی ہے۔ اس وقت ہمارے لیے موضوعِ بحث یہی قوانین ہیں جو کونسل کی مشاورت کے بغیر بنائے جاتے ہیں۔ 
چونکہ اسلام سے متصادم کوئی قانون نہیں بنایاجاسکتا اس لیے اس دستوری امر کی پابندی کرتے ہوئے مقننہ قانون ایسا بناتی ہے جو اسلام سے ہم آہنگ ہو۔ پس مفروضہ یہ ہے کہ مقننہ کے بنائے ہوئے تمام قوانین اسلامی ہیں ، خواہ انھیں وضع کرنے کے دوران میں کونسل سے مشورہ لیا گیا ہو یا نہیں۔ پس پاکستان میں تمام قوانین اسلامی ہیں۔ اگر ہم ان قوانین کو غیر اسلامی کہیں گے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ مقننہ دستور کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر اسلامی قوانین وضع کررہی ہے۔ ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کی مقننہ کے متعلق یہ کہنا مناسب نہیں ہوگا۔ پس یہ مفروضہ ماننا پڑے گا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ملک میں موجود تمام عدالتیں اس مفروضے کا ’’عدالتی نوٹس‘‘ لیں گی کہ مقننہ کے وضع کردہ تمام قوانین اسلامی ہیں۔ 
ذرا ترمیم شدہ شکل میں یہ مفروضہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے قبل انگریزوں کی جانب سے بنائے گئے قوانین پر بھی منطبق ہوتا ہے۔کونسل اور شرعی عدالت نے تقریباً ان تمام قوانین کا جائزہ لیا ہے اور ربا جیسے معدودے چند مسائل کے سوا رائج الوقت تقریباً تمام قوانین کو اسلام کے مطابق قرار دیا گیا ہے۔ جن چند قوانین کو غیر اسلامی قرار دیا گیا ہے ان کو بھی بتدریج اسلامی قانون کے سانچے میں ڈھال دیا جائے گا جب ان کے متعلق کونسل کی رپورٹ آجائے گی ، یا جب شرعی عدالت ان کے متعلق فیصلہ کرلے گی۔ قوانین کی غالب اکثریت کے متعلق کونسل اور شرعی عدالت ، یا بہ الفاظِ دیگر پاکستان کے عوام ، کا مفروضہ یہ ہے کہ یہ اسلامی ہیں۔ پس عدالتیں ان قوانین کے متعلق بھی عدالتی نوٹس لیں گی کہ انھیں اسلامی فرض کرتے ہوئے ان کی تعبیر کی جائے۔ 
نئی قانون سازی اور پہلے سے رائج قوانین کے متعلق ان دو مفروضوں کا مجموعی نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان میں موجود تمام قوانین اسلام سے ہم آہنگ کیے جاچکے ہیں۔ مستقبل میں بھی جو قوانین بنائے جائیں گے وہ اسلام سے ہم آہنگ ہوں گے۔ پس قوانین کو اسلامیانے کا عمل تکمیل کو پہنچ چکا ہے اور ہمارے تمام قوانین اسلامی ہیں۔ یہ حقیقت ہماری عدالتوں کے لیے نہایت اہم ہے۔ اب اس بات کی توضیح ضروری ہے کہ جب ہم کہتے ہیں کہ عدالتیں ان مفروضوں کا اور اس اہم حقیقت کا عدالتی نوٹس لیں تو اس سے ہماری مراد کیا ہے ؟ اس مقصد کے لیے ہم امریکی جج جسٹس کارڈوزو پر انحصار کریں گے جو ہمارے لیے عدالتی طرز عمل کی توضیح کرتے ہیں۔ 
جسٹس کارڈوزو کہتے ہیں : 
’’پس ہمارے لیے پہلا سوال یہ ہونا چاہیے کہ : جج جس قانون کا اظہار اپنے فیصلے کے ذریعے کرتا ہے وہ اسے کہاں سے حاصل کرتا ہے ؟ بعض اوقات یہ مآخذ بالکل واضح ہوتے ہیں ؛ [جیسے مثال کے طور پر کسی] جزئیے سے متعلق حکم دستور یا قانون فراہم کردیتا ہے۔ اگر ایسا ہو تو جج کسی اور چیز کی طرف نہیں دیکھتا۔ جب متعلقہ حکم معلوم ہوجائے تو اس پر عمل پیرا ہوناہی اس کا کام ہے۔ دستور قانون پر بالادست ہوتا ہے ؛ لیکن قانون اگر دستور سے ہم آہنگ ہو تو جج کے وضع کردہ قانون پر بالادست ہوتا ہے۔ اس مفہوم میں جج کا وضع کردہ قانون مقننہ کے وضع کردہ قانون کی بہ نسبت ثانوی حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔ [تاہم] یہ [بھی] صحیح ہے کہ ضوابط اور قوانین جج کو غیر ضروری نہیں بنادیتے ؛ نہ ہی اس کے کام کو لگا بندھا اور مشینی بنادیتے ہیں؛ [بلکہ] قانون میں موجود خلاؤں کا پر کرنا ضروری ہوتا ہے ؛ [اور اسی طرح] اشکالات اور احتمالات کا خاتمہ کرنا پڑتا ہے۔‘‘ (The Nature of Judicial Process)
قانون میں جن خلاؤں، اشکالات یا احتمالات کا جسٹس کارڈوزو ذکر کررہے ہیں وہ عام آدمی کی سوچ سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ جج کو ہر قانون کی تعبیر کرنی پڑتی ہے اور تمام خلاؤں ، اشکالات اور احتمالات کو دور کرکے قانون کو شکل دینا اور معانی پہنانا ہوتا ہے جس کے بعد ہی وہ لوگوں کے مسائل کو منصفانہ اور متوازن حل دیتا ہے۔ 
یہ خلا ، اشکال اور احتمال جن کا ذکر جسٹس کارڈوزو کررہے ہیں ، اور بھی بڑھ جاتے ہیں جب ہم یہ فرض کرتے ہیں کہ تمام قوانین اب اسلامی ہوچکے ہیں۔ کیا یہ اشکالات دور کرنے میں ہمارے ملک کا قانون ہماری کچھ مدد کرتا ہے ؟ یقیناً ، کرتا ہے۔ اس مسئلے پر جس قانون کا اطلاق ہوتا ہے ، لیکن جس پر بوجوہ عمل نہیں کیا جارہا ، "قانونِ نفاذِ شریعت 1991ء" کی دفعہ 4 میں مذکور ہے۔ اس دفعہ کا متن حسبِ ذیل ہے : 
’’قوانین کی تعبیر شریعت کی روشنی میں کی جائے گی : اس قانون کے مقصد کے لیے ( الف ) جب کسی قانون کی دو تعبیرات ممکن ہوں تو عدالت وہ تعبیر اختیار کرے گی جو اسلامی اصولوں اور نظری? قانون سے ہم آہنگ ہو ؛ ( ب ) جب دو یا زائد برابر کی تعبیرات ممکن ہوں تو عدالت وہ تعبیر اختیار کرے گی جو دستور میں مذکور پالیسی کے رہنما اصول اور اسلامی دفعات سے ہم آہنگ ہو۔ ‘‘
ان دونوں ذیلی دفعات میں لفظ shall آیا ہے ، نہ کہ may ، اور اسی لیے اس حکم پر عمل لازمی ہے ، نہ کہ اختیاری۔ " اس قانون کے مقصد کے لیے " سے بالبداہت مراد یہ ہے کہ " نفاذِ شریعت کے مقصد کے لیے ، جیسا کہ اس قانون اور دستور کا تقاضا ہے۔ " باقی رہا یہ سوال کہ اس لازمی تعبیر کی شکل عدالتی اصطلاح میں کیا ہوگی ، تو اس کا جواب دینا خود عدالتوں پر ہی لازم ہے۔ قانون دان حضرات پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس دفعہ کی رو سے لازم ہونے والی تعبیر کے متعلق عدالتوں کے سامنے سوال اٹھائیں۔ 
اگر اس دفعہ کی روشنی میں قانون کی تعبیر شریعت کی روشنی میں کی جائے تو ملک کا پورا قانون اسلامی عدل اور انصاف کے رنگ میں رنگ جائے گا اور یہ رنگ چار پانچ سال میں واضح طور پر سامنے آجائے گا۔ بعض اوقات عدالتیں شریعت کی طرف اشارہ کرتی ہیں لیکن ایسا ہر معاملے میں نہیں ہوتا۔ ضروری ہے کہ تمام قوانین کی تعبیر شریعت کے مطابق کی جائے۔ اس سے مراد ہر طرح کے قوانین ہیں ، جیسے ٹیکس کا قانون ، کمپنی کا قانون، معاہدے کا قانون ، تلافی کا قانون وغیرہ۔ ہر قانونی تصور کو اسلام کے سانچے میں ڈھالا جائے گا۔ قانونی تصور کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کا مفہوم یہ ہے کہ خلاؤں کو پر اور اشکالات کو دور کرنے کا کام شریعت کی روشنی میں کیا جائے گا۔ اگر یہ قانونی لحاظ سے لازمی کام 1991ء میں شروع کیا جاچکا ہوتا تو آج ہم اس صورت حال سے دوچار نہ ہوتے کہ قانونی نظام کے اسلامی ہونے سے ہی انکار کیا جارہا ہے۔ آخر میں اس بات کا بھی اضافہ کروں کہ شریعت کے بامعنی نفاذ کا یہی واحد طریقہ ہے۔ اس کے نتیجے میں شریعت کا نفاذ تدریج اور سہولت کے ساتھ ہوجائے گا۔ آج جو لوگ شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کررہے ہیں انھیں نفاذ کے اسی طریقے پر اصرار کرنا چاہیے۔ ’’کس کی شریعت کا نفاذ کیا جائے گا ؟ ‘‘ اس سوال کا جواب عدالتوں کو یہ کہہ کر دینا چاہیے کہ کسی فرقے کی شریعت نہیں ، بلکہ شریعت کی دستوری شکل کا نفاذ کیا جائے گا۔ 

کیا ہمارا دستور اسلامی ہے؟

وفاقی حکومت نے ایک ممتاز عالم دین سے فتوی حاصل کیا ہے جس کی رو سے ہمارا دستور مکمل طور پر اسلامی ہے کیونکہ اس میں وہ 22 ’’اسلامی‘‘ دفعات شامل ہیں جو اس ملک کے ممتاز علماے کرام نے متفقہ طور پر تجویز کیے تھے۔(ایکسپریس ٹربیون، ۹ فروری) سابقہ سطور میں ہم نے تجویز کیا ہے کہ محض قوانین وضع کرنے سے وہ اسلامی نہیں ہوجاتے ؛ بلکہ یہ تبھی اسلامی ہوں گے جب عدالتیں ان کی اسلامی تعبیر کریں گی۔ زیر نظر سطور میں یہ واضح کیا جارہا ہے کہ ان 22 نکات کی شمولیت سے دستور اسلامی نہیں ہوجاتا؛ دستور تبھی اسلامی ہوگا جب عدالتیں صرف ان 22 نکات کی ہی نہیں بلکہ دستور کی ہر ہر دفعہ کی اسلامی تعبیر کریں گی۔ 
سوال یہ ہے کہ عدالتیں کیوں دستور کی اسلامی تعبیر نہیں کررہیں؟ ہمارے علماے کرام اور صحافی حضرات کو ، جو اس موضوع پر لکھ رہے ہیں ، معلوم ہونا چاہیے کہ اگر عدالتیں دستور کی ہر شق کی اسلامی تعبیر نہیں کرپارہیں تو اس کی وجہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب عدالت عظمی نے حاکم خان بنام حکومتِ پاکستان میں دیا ہے۔ (PLD 1992 SC 559) اس مقدمے میں یہ مسئلہ زیر بحث تھا کہ قصاص کے مقدمات میں قاتل کی معافی کا اختیار صرف مقتول کے ورثا کے پاس ہے یا ورثا کی مرضی کے بغیر بھی صدر قاتل کو معاف کرسکتا ہے ؟دستوری اصطلاح میں بظاہر دفعہ2۔ الف ، جو دستور کو اسلامی بنانے کی کوشش کرتی ہے ، اور دفعہ 45 ، جو صدر کو ہر سزا کی معافی کا اختیار دیتی ہے ، کے درمیان تصادم تھا۔ 
اگر یہ فرض کرتے ہوئے کہ دستور اسلامی ہے ، دفعہ 45 کی بھی اسلامی تعبیر کی گئی ہوتی تو معزز عدالت نے قرار دیا ہوتا کہ دفعہ 45 کا اطلاق قصاص کی سزا پر نہیں ہوتا۔ تاہم عدالت نے یہ نہیں کہا۔ اس کے برعکس اس نے قرار دیا کہ دفعہ 2150 الف "دستور پر حاوی " نہیں ہے اور دفعہ 2150 الف دستور کی کسی دوسری شق کی تخصیص یا تقیید نہیں کرسکتی۔ بہ الفاظ دیگر ،صرف وہ "22 نکات" ہی اسلامی ہیں ؛ باقی ہر شق اپنا انفرادی مفہوم رکھتی ہے۔ 
پورے دستور کو اسلامی بنانے کا طریقہ پھر کیا ہے ؟ معزز عدالت نے اس کے لیے یہ طریقہ سجھایا ہے : 
پس اگر دستور کی موجودہ شقوں میں سے کسی کے متعلق یہ سوال اٹھایا جائے کہ اللہ تعالیٰ کی مقررکردہ جن حدود کے اندر لوگوں کو قانون سازی کا اختیار ہے یہ شق ان حدود سے تجاوز کی بنا پر ناجائز ہے ، تو اس مسئلے کا حل صرف مجلس شوری ( پارلیمنٹ ) کے پاس ہے جو اگر اس رائے سے متفق ہو تو متعلقہ شق کو ٹھیک کرکے اسے واپس اللہ تعالیٰ کی مقررکردہ حدود کے اندر لانے کے لیے مناسب ترمیم کرسکتی ہے۔ (PLD 1992 SC 559, 621)
یہ موقف دستوری لحاظ سے انتہائی دوررس نتائج کا حامل ہے اور اس کا تفصیلی تجزیہ ضروری ہے۔ 
برطانیہ میں دستور عام قوانین کی صورت میں بکھرا پڑا ہے جس کی وجہ سے عام طور پر کہا جاتا ہے کہ وہاں [یکجا صورت میں] تحریری دستور موجود نہیں ہے۔ دستور کی جگہ وہاں پارلیمنٹ کا فیصلہ بالادست حیثیت رکھتا ہے۔ اس بنا پر وہاں جج کہا کرتے تھے کہ : " ہم ملکہ عظمیٰ اور پارلیمنٹ کے معزز اراکین کے خادم ہیں۔ " چنانچہ کسی قانون میں ترمیم کی ضرورت ہوتی تھی تو جج اسے واپس پارلیمنٹ بھیجا کرتے تھے۔ تعبیر قانون کے لیے وہ لفظ کے ظاہری مفہوم پر اصرار کرتے تھے اور قانون میں اپنی جانب سے کسی مفہوم یا پہلو کا اضافہ نہیں کرتے تھے۔ تمام فیصلے پارلیمنٹ سادہ اکثریت کے ذریعے کرتی تھی۔ جہاں تحریری دستور ہو ، جیسا کہ امریکا میں ہے ، وہاں ایسا نہیں کیا جاتا۔ برطانیہ میں بھی اب یہ موقف بتدریج تبدیل ہوتا جارہا ہے اور وہاں بھی جج بعض اوقات مدون دستور کے مفروضے پر عمل کرتے ہیں۔ 
غیر مدون دستور کے برعکس تحریری طور پر مدون دستور قانون کے مآخذ کے درمیان ترتیب مقرر کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس صورت میں تحریری دستور کو بالادستی حاصل ہوتی ہے۔ دستور کو عام قانون پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ اسی بالادستی کے مفروضے کی بنا پر عدالتوں کے لیے یہ اختیار تسلیم کیا جاتا ہے کہ وہ دستور سے تصادم کی بنیاد پر قوانین کو کالعدم قرار دیں۔ پاکستان میں بھی ماضیِ قریب میں عدالت عظمیٰ نے اس قاعدے کا کاکثرت سے استعمال کیا ہے۔ چونکہ برطانیہ میں قوانین کے درمیان اس نوعیت کی ترتیب کا عنصر مفقود ہے ، اس لیے وہاں عدالتوں کے پاس اس طرح کا اختیار موجود نہیں جس طرح امریکا میں ماربری بنام میڈی سن کے مشہور مقدمے سے عدالتِ عظمیٰ نے حاصل کیا۔ برطانیہ میں یہ عدالتی اختیار صرف انتظامی فیصلوں کے جائزے تک ہی محدود ہے۔ اگر ہم اپنے دستور کی شقوں کے مفہوم کے تعین اور اسلام کے ساتھ ان کی ہم آہنگی کا فیصلہ کرنے کے لیے اسی طرح پارلیمنٹ کی طرف بھیجیں گے تو اس سے قوانین کے درمیان اس ترتیب اور عدالتوں کے اس اختیار کی نفی ہوتی ہے جسے ہمارے دستور نے تسلیم کیا ہے۔ 
یہ امر قابل ذکر ہے کہ حاکم خان کیس میں معاملہ پارلیمنٹ کی طرف بھیجنے کے بجاے اگر عدالتِ عظمیٰ نے اپنے اس اختیار کا استعمال کیا ہوتا تو وہ یہ فیصلہ بھی سنا سکتی تھی کہ مقتول کے ورثا کے پاس قاتل کو معاف کرنے کا حق دستور کی دفعہ 45 سے متصادم ہے ! عدالت نے ایسا نہیں کیا اور پورا معاملہ پارلیمنٹ کی طرف بھیج دیا۔ پارلیمنٹ نے دستور میں ترمیم کرنے کے بجاے مجموعہ تعزیراتِ پاکستان میں ایک نئی شق کا اضافہ کیا۔ چنانچہ 1997ء میں اس مجموعے کی دفعہ 54 میں ، جو سزاوں کی معافی کے بارے میں حکومت کے اختیار کے بارے میں ہے ، حسبِ ذیل ترمیم کی گئی : "البتہ اگر مجرم کو قتل کے کسی جرم میں سزاے موت سنائی جاتی ، تو مقتول کے ورثا کی مرضی کے بغیر ایسی سزا میں تخفیف نہیں کی جائے گی۔ " اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو کام عدالت نہیں کرسکی وہ عدالت نے ایک عام قانون کے ذریعے کردیا کہ اس نے دستور کی دفعہ 45 کی تخصیص ایک عام قانون کے ذریعے کی۔ گویا دستور میں ترمیم سادہ اکثریت کے ذریعے کی گئی ! 
دفعہ 45 کی تخصیص اس طریقے سے ، یعنی ایک عام قانون کے ذریعے ،کی گئی حالانکہ اس کے الفاظ عام ہیں اور اس میں ’’قانون کے تحت‘‘ جیسی کوئی ترکیب بھی استعمال نہیں کی گئی۔ اگر اس کے باوجود پارلیمنٹ یہاں یہ کرسکتی ہے تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ بنیادی حقوق سے متعلق دفعات کے ساتھ وہ کیا کچھ کرسکے گی کیونکہ ان دفعات میں تو یہ ترکیب بھی استعمال کی گئی ہے ! مثال کے طور پر ’’مفاد عامہ کی خاطر قانون کے تحت عائد کی گئی مناسب قید کے اندر‘‘ (دفعہ 15)، ’’نظم اجتماعی کے مفاد کی خاطر قانون کے تحت عائد کی گئی مناسب قیود کے اندر‘‘ (دفعہ 16)، ’’ قانون کے تحت عائد کی گئی مناسب قیود کے اندر‘‘۔ (دفعہ 17) چنانچہ پارلیمنٹ قانون سازی کے ذریعے بنیادی حقوق پر کئی قیود عائد کرسکتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان دفعات میں پنکچر لگے ہوئے ہیں۔ ( پنکچر میں کسی اور بات کی طرف تلمیح نہ سمجھی جائے) ۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر صدارتی اور دیگر نوعیتوں کی استثنا سے متعلق دفعہ 248 کا جائزہ اسلامی قانون کی روشنی میں لیا گیا تو اس کی تعبیر کیسی ہوگی ؟ افسوس کی بات یہ ہے کہ ماضیِ قریب میں جب عدالت میں اس دفعہ پر بحث ہورہی تھی تو اس پہلو کو نظر انداز کیا گیا۔ تاہم دفعہ 6 تو اس وقت بھی عدالتوں میں زیر غور ہے۔ ہمارے دستور کی اسلامیت جانچنے کا یہ ایک اور موقع ہے۔ ہمیں انتظار ہے اس بات کا کہ اسلامی اصولوں کی روشنی میں عدالت " غداری " کا کیا مفہوم متعین کرتی ہے ؟ 
پس بنیادی نکتہ یہ ہے کہ محض قانون سازی کافی نہیں ہے ؛ نہ ہی قوانین میں محض یہ تصریح کرنے سے کہ یہ اسلامی ہیں ، کام چل سکتا ہے۔ دستور یا قانون میں اسلامی دفعات کی شمولیت سے صرف آدھا کام ہی ہوا ہے۔ اصل میں اہمیت اس امر کی ہے کہ عدالتیں دستور اور قوانین کی تعبیر کس طرح کرتی ہیں ۔ شاید حاکم خان کیس کا فیصلہ اب بھی نافذ ہے۔ تاہم اسلامی قانون کی روشنی میں دستور کی عدالتی تعبیر کی راہ میں یہ فیصلہ رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ 
1898ء کے ایک فیصلے کی بنا پر 1966ء تک انگلستان میں برطانوی دار الامراء پر خود اس کے اپنے فیصلوں کی پابندی لازم تھی۔ یہ اصول پہلی دفعہ لندن سٹریٹ ٹرام ویز بنام لندن سٹی کونسل کے مقدمے میں طے کیا گیا۔ دار الامراء نے قرار دیا کہ ’’کسی قانونی امر کے متعلق اس ایوان کا فیصلہ حتمی ہے اور۔۔۔ پارلیمنٹ کے قانون کے سوا کوئی چیز بھی اس ایوان کے فیصلے میں موجود کسی مزعومہ غلطی کی تصحیح نہیں کرسکتی۔‘‘ 1966ء میں دار الامراء نے ایک ’’تعامل کی دستاویز‘‘ کے ذریعے یہ موقف تبدیل کرلیا اور قرار دیا کہ ’’ایوان کے سابقہ فیصلوں کو عام طور پر لازمی ماننے کے باوجود ایوان ان سے انحراف کرسکتا ہے اگر اسے یہ انحراف صحیح معلوم ہو۔‘‘ پس اس وقت زیادہ سے زیادہ جو کچھ چاہیے وہ صرف عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے جاری کردی ایک ’’تعامل کی دستاویز‘‘ ہے جس میں یہ قرار دیا جائے کہ آج سے پاکستان کے دستور اور قوانین کی تعبیر اسلامی قانون کی روشنی میں کی جائے گی۔ اس کے بعد کوئی یہ سوال نہیں کرسکے گا کہ کیا پاکستان کا دستور اسلامی ہے؟ 

دیسی سیکولروں کی مغالطہ انگیزیاں (۱)

محمد زاہد صدیق مغل

(۱) کون سا اسلام جناب، کیونکہ مولویوں کا اسلامی احکامات کی تشریح میں اختلاف ہے، لہٰذا جب تک یہ اختلافات ختم نہیں ہوجاتے اسلام کو اجتماعی نظم سے باہر رکھو ۔
(۲) ٹھیک ہے اختلافات ہمارے درمیان بھی ہیں، مگر ہم لڑتے تو نہیں نا ، مولوی تو لڑتے ہیں ایک دوسرے کو کافر و گمراہ کہتے ہیں ۔
(۳) عقل پر مبنی نظام مذہب کی طرح ڈاگمیٹک نہیں ہوتا ۔
(۴) عقلی نظام تبدیل ہوسکتا ہے، لہٰذا یہ اختلافا ت رفع کا بہتر فریم ورک فراہم کرتا ہے ۔
(۵) سیکولر ریاست خیر کے معاملے میں غیر جانبدار ہوتی ہے ۔
(۶) چونکہ سیکولر ریاست کا کوئی اخلاقی ایجنڈا نہیں ہوتا، لہٰذا یہ کسی تصور خیر کی بیخ کنی نہیں کرتی ۔
(۷) سیکولر ریاست تمام مذاہب کا فروغ ممکن بناتی ہے ۔
(۸) سیکولر ریاست مذہبی اختلافات کا خاتمہ کرکے پر امن بقائے باہمی ممکن بناتی ہے ۔
(۹) سیکولر ریاست فرد کی پرائیویٹ لائف میں مداخلت نہیں کرتی ۔
(۱۰) لبرل سیکولر ریاست غیر استعماری اور پر امن ہوتی ہے ۔
یہ اور اسی قبیل کے چند مزید نکات ہمارے دیسی سیکولر حضرات مذہبی طبقے کے خلاف بطور ’علمی دلیل‘ پیش کرکے رعب جماتے ہیں ۔ درحقیقت سیکولرازم کے بارے میں اس قسم کے دعوے یا تو سیکولرازم سے جہالت کا غماز ہوتے ہیں اور یا پھر جانتے بوجھتے کذب بیانی۔ پہلی صورت میں ان کی حیثیت علمی دلائل نہیں بلکہ ’مغالطہ انگیزیوں’ کی ہے جبکہ دوسری صورت میں فریب کاری کی۔ البتہ ہمارے یہاں کے دیسی سیکولر لوگوں کی علمی کم مائیگی کو سامنے رکھتے ہوئے انہیں مغالطہ انگیزیوں پر محمول کرنا قرین قیاس ہے کیونکہ یہ تو ’مقلدین محض ‘ ہیں، ان بچاروں کو تو اتنی بھی خبر نہیں کہ سیکولرازم کی بڑائی ثابت کرنے والے جن دعووں پر یہ تکیہ کیے بیٹھے ہیں آج خود مغربی اہل علم کے ہاں ان کی کوئی مسلمہ علمی و عقلی توجیہ باقی نہیں رہی۔ اس سلسلہ مضمون میں ہم چند ایسی ہی غلط العام مغالطہ انگیزیوں کا مختصر جائزہ پیش کریں گے۔ دھیان رہے ان میں سے اکثر و بیشتر عذر ایسے ہیں جو ہمارے دیسی سیکولر لوگ مذہب کو اجتماعی زندگی سے برطرف کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، مگر ہم یہ دکھائیں گے کہ وہ تمام عذر جو یہ لوگ مذہب سے برات کے لیے استعمال کرتے ہیں خود ان کے اپنے تراشیدہ عقلی نظریات میں بدرجہ اتم بلکہ زیادہ بھیانک صورت میں موجود ہیں، لہٰذا دیانت کا تقاضا تو یہ ہے کہ یہ لوگ فورا سے قبل اپنے ان تراشیدہ نظریات سے بھی توبہ کرلیں۔ وما توفیقی الا باللہ 

(۱) کون سا اسلام جناب؟

ایک زمانہ تھا جب دنیا میں لبرل طبقے تخلیقی صلاحیتوں کا مظہر سمجھے جاتے تھے، مگر نجانے ہمارے یہاں کے لبرل طبقے فکری طور پر اسقدر بانجھ کیوں ہو گئے ہیں کہ آج تک ہر اسلامی شق ، اصلاح یا ترمیم کے خلاف پچاس سال پرانی ایک ہی دلیل پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں: ’ کون سا اسلام جناب، کیونکہ مولویوں کا اسلامی احکامات کی تشریح میں اختلاف ہے لہٰذاجب تک یہ اختلافات ختم نہیں ہوجاتے اسلام کو ایک طرف کرو اور اجتماعی نظام عقل کی روشنی میں طے کیا جائے گا نہ کہ مذہب کی‘۔ مگر یہ لوگ غور نہیں کرتے کہ اسلامی احکامات کی تشریح میں اختلاف کوئی ایسی شے نہیں جس کا ظہور آج پہلی دفعہ ہوگیا ہے، یہ تو قرون اولیٰ سے لے کر آج تک چلتا رہا ہے، تو اگر ان تمام تر اختلافات کے باوجود مسلمان تیرہ سو سال تک حکومتیں چلاتے رہے ہیں تو آج یہ یکا یک کیوں ناممکن نظر آنے لگا ہے؟ ان داعیان عقل و فکر کا مفروضہ یہ ہے کہ جس امر اور اصول میں اختلاف ہو اجتماعی زندگی میں نا صرف یہ کہ وہ قابل عمل نہیں بلکہ اس سے باہر رکھنا بھی ضروری ہے، جب تک کہ متعلقہ ماہرین علم کا اس پر اجماع نہ ہوجائے۔ درحقیقت یہ علمی دلیل نہیں بلکہ دین پر عمل نہ کرنے کا بہانہ ہے کیونکہ اگر یہ اصول زندگی کے ہر پہلو اور شعبے پر لاگو کردیا جائے تو یقین مانئے زندگی کا وجود صفحہ ہستی سے ہمیشہ کے لیے مٹ جائے گا۔ مثلاً اسی منطق کی بنیاد پرکہا جاسکتاہے کہ: 
  • چونکہ ماہرین معاشیات کا اس امر میں اختلاف ہے کہ زری و مالیاتی پالیسی کس طرح بنائی جانی چاہیے، لہٰذا اسٹیٹ بینک، پلاننگ کمیشن، ایف بی آراور فنانس منسٹری وغیرہ کو اس وقت تک تالا لگا دیا جائے جب تک تمام ماہرین معاشیات کا اجماع نہ ہوجائے۔ 
  • چونکہ ماہرین معاشیات کا غربت کی تعریف، اس کے اسباب و وجوہات اور اس کا سدباب کرنے کے طریقوں کے بارے میں اختلاف ہے، لہٰذا ساری دنیا میں غربت مٹانے والے پروگرام فی الفور بند کر دئیے جائیں جب تک کہ اجماع نہ ہوجائے ۔
  • چونکہ ماہرین معاشیات کا اس امر میں اختلاف ہے کہ ملکیت کا کون سا نظام (نجی یا پبلک) اجتماعی ترقی کا ضامن ہے لہٰذا دنیا میں ملکیتوں کے تمام نظام معطل کر دیے جائیں جب تک کہ اجماع نہ ہوجائے ۔
  • چونکہ ماہرین طب (ایلوپیتھ، ہومیوپیتھ، حکمت) کا بیماریوں کی تشخیص اور ان کے علاج کے درست طریقہ کار کے بارے میں اختلاف ہے، لہٰذا تمام ماہرین طب کو فی الفور علاج سے روک دیا جائے جب تک کہ اس پر اجماع نہ ہوجائے۔
  • چونکہ ماہرین سیاسیات کا اس امر میں اختلاف ہے کہ ریاست کی تعمیر و تشکیل کے لیے کون سا نظام ریاست (آمریت، جمہوریت، اور اگر جمہوریت تو اس کی کون سی شکل ) درست ہے لہٰذا دنیا میں ریاست کاری کے عمل کو اس وقت تک معطل رکھا جائے جب تک کہ اجماع نہ ہوجائے ۔
  • چونکہ ماہرین قانون کا آئین کی بہت سی بنیادی شقوں کی تشریح میں اختلاف ہے، لہٰذا آئین کو ایک طرف کردیا جائے ۔
یہ لسٹ درحقیقت نہ ختم ہونے والی کڑی ہے۔ ذرا تصور تو کیجئے یہ تمام امور کس قدر اہم شعبہ جات زندگی سے متعلق ہیں۔ انسانی زندگی و صحت کی قدر وقیمت سے کون انکاری ہوسکتا ہے اور ان اطباء کی آئے دن کی فاش علمی غلطیوں سے لوگ اپنی زندگی و مال و دولت سے محروم ہورہے ہیں، اسی طرح غربت کا خاتمہ، نظام ملکیت کی بنیاد، ریاستی زری و مالیاتی پالیسی کا انتظام و انصرام اور سب سے بڑھ کر خود نظم ریاست کی بنیاد میں سے کون سا امر غیر ضروری ہے؟ اب سوچئے کہ اگر ان شعبہ جات و علوم کے یہ ’بنیادی اختلافات‘ ہمیں دنیا بھر میں ان کی معاشرتی و ریاستی ادارتی صف بندی (institutionalization) سے نہیں روک رہے تو دینی طبقے کے اختلافات کیوں ہمیں اس عمل سے روکتے ہیں؟ اصل بات نیت کی ہے اور سچ ہے کہ جب ایک عمل کرنے کے لیے انسان کی نیت نہ ہو تو اسے بہانہ بھی دلیل نظر آتا ہے۔ 

(۲) مولوی تو لڑتے ہیں، ہم نہیں لڑتے 

اس مقام پر سیکولر لوگ تمام مذاہب (یا تمام مذہبی گروہوں) کو ’ایک گروہ ‘ بنا کر پینترا بدل کر بڑی چالاکی سے اہل مذہب کویہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ’ٹھیک ہے اختلافات ہمارے درمیان بھی ہیں مگر ہم تم لوگوں کی طرح ایک دوسرے کو کافر نہیں کہتے اور نہ ہی لڑتے ہیں‘۔ گویا یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ عقلی نظامہائے زندگی کے اختلافات کے نتیجے میں اس طرح جنگ و جدل کی کیفیت برپا نہیں ہوتی جس طرح مذہبی اختلافات سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر امر واقعی ایساہی ہے تو ہم پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ جب سب عقل پرست (درحقیقت مذہب مخالفین) ’فروغِ آزادی کا ہی نعرہ لگاتے ہیں‘ (جس طرح اہل مذہب فروغِ عبدیت کا نعرہ لگاتے ہیں) تو یہ نہ صرف آپس میں بلکہ دوسروں سے بھی جنگ و جدل کی کیفیت میں کیوں مبتلا رہے ہیں اور آج بھی یہ سلسلہ تھمنے کا نام کیوں نہیں لے ر ہا؟ مثلاً لبرلز نے فرقہ مارکسزم کے بانی مارکس کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا؟ انہی لبرلز نے نطشے کو یہودی اور پاگل کیوں کہا تھا (جب اس نے ان کی یہ پول کھولی تھی کہ تم عقل کے نام پر نئی قسم کی امپیرئیل ازم کو فروغ دے رہے ہو) ؟ لینن اور ماؤ نے روس اور چائنہ میں لبرلز اور قوم پرستوں کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا؟ جرمنی کے نسل پرستوں نے ان دونوں کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا؟ پھر ان دونوں نے نسل پرستوں کے ساتھ کیاسلوک کیا تھا؟ آج تک ان آپسی جنگوں میں جو کروڑوں انسان قتل کردیے گئے، ان نظریات کے فروغ کے لیے جن قوموں کی نسل کشی کردی گئی (مثلا ریڈ انڈین اور ابورجینز) وہ کس کھاتے میں گئے؟ آج بھی یہ تمام فرقے ایک دوسرے کے ساتھ کیا معاملہ کررہے ہیں؟ کیا یہ سب ایک دوسرے کو ’اپنا بھائی‘ سمجھ کر ایک دوسرے کی ’خیر خواہی کے لیے ‘ کوشاں ہیں؟ تو پھر یہ کس منہ سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’ہم نہ تو آپس میں کسی کو کافر کہتے ہیں اور نہ ہی لڑتے ہیں‘ نیز ’مذہب کی تاریخ خونی تاریخ ہے‘؟ 
پھر کوئی ان سے پوچھے کہ اچھا یہ تو بتاؤ کہ ’آزادی‘ کا جو نعرہ تم بلند کررہے ہو کیا اس کے فروغ کا کوئی ’ایک اجماعی طریقہ‘ ہے تمہارے پاس؟ چنانچہ معاملہ یہ ہے کہ جب ان سے یہ پوچھا جائے کہ ’آزادی کیسے حاصل ہوتی ہے‘، تو اس امر میں ہر کسی کا ’اپنا اپنا فرقہ ‘ ہے، مثلا انارکزم، لبرٹیرنزم، لبرلزم،ڈیموکریٹک سوشل ازم ، کمیونزم، نیشنل ازم، نسل پرستی، فیمینزم، پوسٹ ما ڈرنزم وغیرہم ہر ایک کی فروغ آزادی کی اپنی ایک تشریح ہے اور ان میں یہ طے کرنے کا کوئی اصول موجود نہیں کہ ’آزادی کی درست تشریح ‘ کون سی ہے۔ تو جب ان لوگوں میں اس امر میں کوئی اجماع ہی نہیں (اور نہ ہی ہوسکتا ہے) کہ ’آزادی کس طرح حاصل ہوتی ہے‘ اور جب حصول آزادی کا درست طریقہ ہی ان کے درمیان نزاعی امر ہے تو پھر کس بنیاد پر یہ لوگ ریاست کو کسی ’ایک طریقے ‘ کا پابند بنانے کی بات کرتے ہیں؟ اگر مذہبی اختلافات ریاست کو کسی ایک طریقے کا پابندبنانے میں مانع ہیں تو یہ اختلافات کیوں نہیں؟ (یہاں علم معاشیات و سیاسیات کی درج بالا مثالیں پھر عود آتی ہیں کہ ان سب کا مقصد بھی فروغ آزادی ہی ہے)۔ 
اس مقام پر سیکولر لوگ بڑی ہوشیاری سے اہل مذہب کو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ’ہم ہر ملک کی عوام کو حق دیتے ہیں کہ وہ اپنے لیے جو بھی طرز حکومت اختیار کرنا چاہیں کرلیں‘۔ لیکن اگر یہ بات واقعی درست ہے تو پھر یہ سب آج تک ایک دوسرے کی ریاستوں میں نقب زنی کیوں کرتے چلے آرہے ہیں؟ کبھی کمیونزم کے توسیع پسندانہ عزائم کے ساتھ تو کبھی ہیومن رائٹس و جمہوریت کے دفاع کے نام پر تم لوگ دنیا بھر میں استعمارانہ دھماچوکڑی کیوں مچا رکھتے ہو؟ آخر پوری دنیا کی معیشت و ذرائع پر گرفت مضبوط رکھنے کے لیے عالمی نگران ایجنسیوں کا دائرہ کیوں بڑھاتے جارہے ہو؟ گلوبلائزیشن کے نام پر قومی ریاستوں کو کمزور کرنے کا سلسلہ کیوں چلا رکھا ہے تم نے؟ 

(۳) عقل پر مبنی اجتماعی نظم ڈاگمیٹک نہیں ہوتا 

جب ان باتوں کا جواب نہیں بنتا تو عقل پرست و سیکولر لوگ ایک نئے قسم کا داؤ پیچ کھیلتے ہیں اور وہ یہ کہ ’مذہبی عقیدہ چونکہ معین، غیر متبدل و آفاقی ہونے کا مدعی ہوتا ہے لہٰذا یہ اپنے ماننے والوں میں ڈاگمیٹک (متشدد) رویے کو فروغ دیتا ہے جو بالآخر نزاع و جنگ وجدل کی کیفیت اختیار کرجاتا ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ ہم اجتماعی نظم مذہبی عقیدے کے بجائے عقل پر استوار کریں کیونکہ عقلی نظریات مذہب کی طرح ڈاگمیٹک نہیں ہوتے‘۔ اگر واقعی اسی بنیاد پر یہ لوگ مذہب کو رد کرتے ہیں تو لازم ہے کہ فورا سے قبل عقلی تراشیدہ نظریات (بشمول غالب لبرل سیکولرازم) کو بھی رد کردیں کیونکہ عقلی نظریات بھی انتہائی متشدد اور کنزرویٹوہوتے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آزادی کی نیلم پری کے پرستار اسے اپنی اخلاقی ذمہ داری سمجھتے ہیں کہ ’پوری انسانیت‘ کو ’اس مقدس خیر و سچ‘ سے بہراور کرائیں۔ یہی وجہ ہے کہ اشتراکیت کا چمپئن روس ہو یا ہیومن رائٹس کا داعی امریکہ، ہر ایک ’انسانیت کی بھلائی‘ کے نام پر (In the name of people) اپنے نظریات کے فروغ کے لیے لازما ’علم جہاد ‘ بلند کرتا ہے۔ ان عقلی تراشیدہ نظریات کی تین سو سالہ تاریخ بتاتی ہے کہ عقل کے نام پر جتنے انسانوں کا قتل عام کیا گیا، جس منظم طریقے سے پوری پوری اقوام کی نسل کشی کردی گئی، جس استحصال اور لوٹ کھسوٹ سے کام لیکر پورے پورے براعظم ہڑپ کر لیے گئے، جس طرح خود اپنی تراشیدہ اخلاقی اقدار کی دھجیاں بکھیری گئیں اس کی نظیر پوری انسانی تاریخ مل کر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ آخر یہ ڈاگمیٹزم نہیں تو اور کیا ہے ؟ 
پھر یہ ڈاگمیٹزم کوئی اتفاقی امر یا کسی انسانی اخلاقی کمزوری کا اظہار نہیں بلکہ اس کی خالص علمی بنیادیں موجود ہیں۔ درحقیقت عقل کا نعرہ لگانے والا خود کو ’عقل کے جبر‘ کا شکار پاتا ہے۔ ’عقل کے ہر مخصوص تصور‘ پر یقین رکھنے کے نتیجے میں وہ تمام لوگ جو اس مخصوص تصور پر ’یقین نہیں رکھتے ‘ خود بخود ’غیر عقلی‘ (irrational) ٹھرتے ہیں، یعنی وہ ’دائرہ عقل سے باہر ‘ اور عقل کے دشمن ‘ قرار پاتے ہیں، اور چونکہ اس فریم ورک میں ’انسانیت‘ (civilization) ’فروغ عقلیت کے مخصوص تصور‘ کا ہم معنی ہوتا ہے لہٰذا ’عقل کے دشمن‘ ’انسانیت کے دشمن‘ قرار پاتے ہیں (چنانچہ یہی وجہ ہے کہ عقل کے نام لیوا انتہائی ڈاگمیٹک اور کنزرویٹو ہوتے ہیں، اپنے علاوہ ہر کسی کو جاہل اور بے وقوف سمجھتے ہیں)۔ مثلا جو لوگ ہیومن رائٹس پر ایمان نہیں لاتے لبرل سیکولرز کے نزدیک وہ غیر عقلی، جاہل اور وحشی لوگ ہیں، اسی طرح جو لوگ مادی طبقاتی کشمکش کے قائل نہیں اشتراکی سیکولروں کے نزدیک وہ عقل کے دشمن ہیں وغیرہ۔ ہر ’عقلی نظریہ ‘ ایک مخصوص انفرادی و اجتماعی رویے کو فروغ دیتا ہے اور دنیا کا کوئی نظریہ ’عقلی‘ (civilized) اور غیر عقلی (barbaric) رویے کو کبھی مساوی اقداری حیثیت نہیں دیتا۔ ’عقل ‘ تقاضا کرتی ہے کہ ’غیر عقلی‘ کو مغلوب کرکے چھوڑا جائے کیونکہ وہ تو ہے ہی غیر عقلی، اس کے غالب وجود کا کیا مطلب، ایسا غالب وجود تو ’عقل اور انسانیت ‘ کے لیے خطرہ ہے، لہٰذا ’تحفظ عقل‘ کے لیے ’غیر عقلی‘ کی مغلوبیت ناگزیر ہے ۔ جب تک ’غیر‘ (the others) کا غالب وجود باقی ہے ’عقل‘ کو خطرہ لاحق رہتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہیومن رائٹس کی چمپئن یورپی اقوام نے ریڈ انڈینز کا قتل عام اسی بنیاد پر روا رکھا کہ (جان لاک اور جیفرسن کے الفاظ میں) یہ ہیومن نہیں بھینسے اوربھیڑیے ہیں۔ اسی طرح آج امریکہ مجاہدین اور اس کے حواریوں کو نان ہیومن سمجھ کر مارتا ہے۔ 
یہ دلیل دیتے وقت عقل پرست پس پردہ یہ جھانسا دینے کی کوشش کرتے ہیں گویا دنیا میں عقل کا کوئی ایک ہی تصور ہے جس پر ساری دنیا ایمان رکھتی ہے لہٰذا اس کی بنیاد پر کوئی اختلاف نہیں ہوگا ، ظاہر بات ہے یہ تو صرف ایک سفید جھوٹ ہے کیونکہ اس دنیا میں عقل کے اتنے ہی تصورات ممکن ہیں جتنی انسانی عقلیں موجود ہیں۔ اب چونکہ عقل کا کوئی آفاقی تصور ممکن ہی نہیں اور نہ ہی کسی مخصوص تصور عقلیت کی کوئی آفاقی عقلی توجیہ پیش کی جاسکتی ہے لہٰذا عقلیت کے مختلف و متضاد تصورات ہمیشہ اور لازما کشاکش کا شکار رہتے ہیں اور عقل کے فریم ورک میں اس نزاع کا کوئی حل ممکن نہیں۔ گویا یہاں ’الجہاد ماض الی یوم القیامۃ‘ (جہاد تو روز قیامت تک جاری رہے گا) والی کیفیت برپا رہتی ہے۔ 

(۴) عقل پر مبنی نظام رفع اختلاف کا بہتر انتظام ہے 

اس ضمن میں عقل پرست اور سیکولر لوگ ایک دوسری قسم کی توجیہ بھی پیش کرتے ہیں، وہ یہ کہ ’چونکہ عقلی تراشیدہ نظام تجربات کی روشنی میں متبدل ہوتے ہیں لہٰذا یہ رفع نزاع کا بہتر فریم ورک فراہم کرتے ہیں‘۔ مگر یہ محض لفاظی ہے کیونکہ اگر امر واقعی ایسا ہی ہے تو تین سو سال میں ان کے آپسی اختلافات کیوں رفع نہ ہوگئے؟ کیا یہ سیکولر لوگ دوسو سال قبل ’دریافت ہونے والے ‘ ہیومن رائٹس سے دستبردار ہونے کے لیے تیار ہیں؟ دستبردار ہونا تو درکنار ان ہیومن رائٹس کے حوالے سے ان کی ڈاگمیٹزم کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اگرچہ آج ان کے اکابرین فلاسفہ خود مانتے ہیں کہ ہیومن رائٹس اور جمہوریت وغیرہ کسی شے کی کوئی آفاقی عقلی توجیہ پیش کرنا ممکن نہیں البتہ یہ ہمیں جمالیاتی طور پر اچھے لگتے ہیں لہٰذا یہ جاری و ساری رہنا چاہیے۔ مثلاٍ مشہور پوسٹ ماڈرن فلسفی چارلس ٹیلر (Charles Taylor)کہتا ہے کہ آزادی، مساوات وترقی کا فروغ ہماری لبرل معاشرت کے ارتقا کی تاریخ ہے لہٰذا، ان کا فروغ ہماری شناخت کے ہم معنی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ان قدار سے میرا لگاؤ ایسا ہی ہے جیسے کلاسیکی موسیقی، آرٹ، ادب اور رقص سے لگاؤ ہے، یہ لگاؤ ہی ٹیلر کو ٹیلر بناتے ہیں اور ان اقدار سے غداری اپنی تاریخ اور تہذیب سے غداری ہے۔ رارٹی (Rorty) کہتا ہے کہ اگرچہ میں آزادی کی کوئی آفاقی عقلی توجیہ نہیں دے سکتا البتہ یہ مجھے جمالیاتی سطح پر اچھی لگتی ہے۔ تو جناب ’اصول ‘ (مابعدالطبیعیاتی ایمان) تو آپ کے یہاں بھی نہیں بدلتے تو پھر فوقیت کی وجہ جواز کیا رہی؟ 
پھر معاملہ اتنا ہی نہیں جتنا اوپر بیان کیا گیا بلکہ یہ پہلو بھی غور طلب ہے کہ اہل اسلام کے پاس کوئی ’ایسی بنیاد‘ (قرآن وسنت) تو موجود ہے جس کے آگے وہ سب سر نگوں ہونے کے لیے تیار ہیں، جس کی بات ثابت و متحقق ہوجانے کے بعد اس کے آگے کوئی لب کشائی کی اور ’اپنی رائے دینے‘ کی جرات بھی نہیں کرتا (یہی وجہ ہے کہ اس کاایک بڑا حصہ قطعی الدلات ہونے کی بنا پر متفق علیہ ہے جبکہ دوسرا حصہ مجتہد فیہ امور پر مبنی ہونے کی وجہ سے اختلافات کا دائرہ رہا ہے )۔ اس کے مقابلے میں ان عقل پرستوں کے پاس تو ’سرے سے رفع نزاع کی کوئی بنیاد ہے ہی نہیں‘، ہم پھر کہے دیتے ہیں ’سرے سے کوئی بنیاد ہے ہی نہیں‘۔ یہاں عقلی لم ٹٹول ہے اور بس، اور چونکہ عقلی تصورات بے شمار ہیں نیز ان میں تمیز و ترجیح کا پیمانہ نا ممکن ہے، لہٰذا یہاں ’تمام تر‘ اختلافات ابدی ہیں کہ یہاں کچھ بھی قطعی طور پر طے کرنا ممکن نہیں ۔ ’وقت اور مطلب‘ پڑنے پر یہ لوگ خود اپنی ہی گھڑی ہوئی ہر بات اور اصول کو اپنے ہی پیروں تلے روند کر آگے بڑھ جانے میں کوئی مضائقہ محسوس نہیں کرتے کہ آج ’ان کی عقل میں ارتقاء ہوگیا‘۔ اور چونکہ یہ اپنے نفس کے سوا کسی کے آگے جوابدہ نہیں ہوتے (اور نفس بھی وہ جو شہوت و غضب سے مغلوب ہے) لہٰذا یہ خود کو ہر اخلاقی خلاف ورزی کے لیے معاف کردینے میں حق بجانب سمجھتے ہیں (رارٹی کہتا ہے کہ یہ درست ہے کہ ہم نے ریڈ انڈینز کا قتل عام کیا لیکن چونکہ ہم خود مختار ہیں اور کسی کو جوابدہ نہیں لہٰذا یہ ہمارا حق ہے کہ خود کو معاف کردیں)۔ 
درحقیقت ہر نظام زندگی میں اپنے داخلی اختلافات کو سمونے اور حل کرنے کی ایک حد تک لچک اور صلاحیت موجود ہوتی ہے اور اسلامی تاریخ اس کابین منہ بولتا ثبوت ہے جہاں بے شمار کلامی، فقہی و صوفی گروہ و سلسلے اپنے اپنے طرز پر کام کرتے رہے اور آج بھی کرتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں خلافت اسلامیہ میں ذمی بھی اسلام کے عطا کردہ حقوق کے تحت موج سے زندگی گزارتے رہے ہیں (یہی وجہ ہے کہ اندلس میں خلافت اسلامی کے سقوط کے بعد ذمیوں نے پوری دنیا چھوڑ کر خلافت عثمانیہ کے زیر سایہ رہنے کو ترجیح دی)۔ یقیناًاسلام کی قائم کردہ ایمپائر میں بھر پور رحمت اور وسیع الظرفی موجود ہے، لیکن اسلام اس وسیع الظرفی کو کسی خارجی پیمانے (مثلا ہیومن رائٹس) پر نہیں قرآن وسنت پر تول کر پرکھتا ہے۔ اگر یہ سوال پوچھا جائے کہ ’پھر یہ اسلامی گروہ آپس میں لڑتے ہوئے کیوں پائے جاتے ہیں‘ تو اس کاجواب ’فی الحال ایک پختہ (mature) اسلامی خلافت (ایسی ریاست جو رسول اللہ کی سیاسی نیابت سر انجام دے) کا وجود نہ ہونا ہے‘۔ جب ریاستی نظم نہ ہو تو انفرادیت و معاشرت دونوں انتشار کا شکار ہونے لگتی ہیں، خلیفہ کو انہی معنی میں ظل اللہ کہا جاتا ہے کہ وہ تمام دینی کام کو سمو دیتا ہے نیز انتشار پھیلانے والی قوتوں کو ریگولیٹ کرتا ہے۔ اگر آج لبرل سیکولر سرمایہ دارانہ ریاست لبرل معاشرتی و معاشی تنظیم (سول سوسائٹی و مارکیٹ) کی پشت پناہی اور ریگولریشن سے ہاتھ کھینچ لے تو یہ زمین بوس ہوجائے، مثلاٍ اگر یہ ڈاکٹری ، وکالت، تعلیم، بینکوں، کمپنیوں وغیرہ پر نظر نہ رکھے تو آپ دیکھ لیں گے کہ کس طرح ڈاکٹر، وکیل، سکول کالج و یونیورسٹیاں نیز مالیاتی ادارے عوام کا مال لوٹتے ہیں نیز کس طرح یہ کرپشن کا شکارا ور باہمی طور پر دست و گریبان ہوتے ہیں (ان کے نظارے تو آئے دن ہم اس قدر سخت ریگولیشن کے باوجود بھی دیکھتے رہتے ہیں)۔ پس جب پختہ اسلامی خلافت قائم ہوجائے گی تو یہ چھوٹے چھوٹے گروہ خود بخود ڈسپلن اور سیدھے (align) ہو جائیں گے۔ (جاری)

فرانس کے ایک مختصر دورے کے تاثرات

محمد عمار خان ناصر

(یہ تاثرات الشریعہ اکادمی میں منعقدہ ایک مجلس میں بیان کیے گئے جنھیں ٹیپ ریکارڈر سے مولانا محمد کامران نے منتقل کیا اور ایڈیٹنگ کے بعد انھیں یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔)

۱۲ سے ۱۴ دسمبر ۲۰۱۴ء، مجھے تین دن کے لیے فرانس کے شہر Lyon میں امیر عبد القادر الجزائریؒ کے حوالے سے منعقد ہونے والے ایک سلسلہ تقریبات میں شرکت کا موقع ملا۔ یہ پروگرام مختلف قسم کی سرگرمیوں پر مشتمل تھا اور اس کا اہتمام بنیادی طور پر فرانس میں مقیم الجزائری مسلمانوں کی ایک مقامی تنظیم نے کیا تھا، جبکہ امیر عبد القادر الجزائری کی شخصیت اور تاریخی کردار سے مختلف حوالوں سے دلچسپی رکھنے والی بعض دوسری تنظیموں نے اس میں معاونت کی تھی۔ الجزائر میں، جو امیر عبد القادر کا اصل وطن ہے، کئی فورمز پر اور کئی حوالوں سے مختلف سطحوں پر امیر عبد القادر کی شخصیت پر کام ہو رہا ہے۔ ان میں سے ایک تنظیم موسسۃ الامیر عبد القادر ہے، وہ بھی اس پروگرام کی ترتیب اور انتظام میں شریک تھی۔ اسی طرح امریکہ کی ریاست آئیووا (Iowa) میں ایک چھوٹا سا قصبہ Elkader امیر عبد القادر کے دور میں ہی ان کے نام سے موسوم کیا گیا تھا۔ وہاں ایک تنظیم ’’عبد القادر ایجوکیشن پروجیکٹ‘‘ کے عنوان سے امریکی اسکولوں اور کالجوں میں طلبہ کو امیر عبد القادر کی شخصیت اور کردار سے متعارف کروانے کے لیے کام کر رہی ہے۔ اس تنظیم کے سرکردہ افراد بھی اس پروگرام میں شرکت کے لیے خصوصی طور پر آئے تھے۔ اس کے علاوہ دعوت نامے پر کئی اور تنظیموں کا نام بھی لکھا ہوا تھا، لیکن بنیادی طور پر اس کی منتظم فرانس میں الجزائری مسلمانوں کی مذکورہ تنظیم ہی تھی۔
Lyon ، یہ پیرس کے بعد فرانس کا دوسر ابڑا شہر ہے، آبادی کے لحاظ سے بھی اور تاریخی اہمیت کے لحاظ سے بھی۔ کئی صدیاں پہلے یہ علاقہ فرانس کے نام سے معروف نہیں تھا، بلکہ تاریخی طور پر اس خطے کو Gaul کہا جاتا تھا۔ قرون وسطیٰ میں فرانکس کی ایک خاص نسل یہاں آ کر آباد ہوئی تو اس کے بعد اس نے کسی مرحلے پر فرانس کا نام اختیار کر لیا۔ رومی سلطنت کے دور میں Lyon کو گال کا دار الحکومت قرار دیا گیا۔ بعد میں پھر دار الحکومت پیرس میں منتقل ہو گیا۔ اس لحاظ سے اس شہر کی تاریخی لحاظ سے بھی اور بعض دوسرے حوالوں سے بھی بڑی اہمیت ہے۔ امیر عبد القادر الجزائری کو فرانسیسی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دینے کے بعد ترکی کی طرف جلاوطن کرنے سے پہلے جب کچھ عرصے کے لیے فرانس میں نظر بند رکھا گیا اور پھر رہا کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو رہائی کے بعد فرانس سے رخصت ہونے سے پہلے وہ ۱۸۵۲ء میں دسمبر کی ۱۲ اور ۱۳ تاریخ کو اس شہر میں آئے تھے۔ اسی مناسبت سے انھی تاریخوں میں ان کی یاد میں Lyon میں یہ تقریبات منعقد کی گئیں جن میں شرکت کی غرض سے میرا یہ سفر ہوا۔
مجھے جب اس پروگرام میں شرکت کی دعوت دی گئی تو میں نے فوراً قبول کر لی۔ مجھے پچھلے چند سالوں سے عبد القادر الجزائری کی شخصیت میں خاص دلچسپی رہی ہے اور پاکستان میں ان کی شخصیت کو عمومی طور پر متعارف کروانے کے لیے ایک امریکی مصنف جان کائزر کی کتاب کا اردو ترجمہ یہاں چھپوانے میں بھی میرا کردار رہا ہے۔ چنانچہ میں نے اس پروگرام میں شرکت کی پیش کش کو فوراً قبول کر لیا۔ الجزائری کی شخصیت سے دلچسپی کے علاوہ خاص طور پر اس پروگرام میں شرکت کے بھی کئی محرکات تھے۔ مجھے دلچسپی تھی کہ یہ دیکھا جائے کہ آج دنیا میں مختلف سطحوں پر مختلف ذہنی پس منظر رکھنے والے لوگ عبد القادر کی شخصیت کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں تو وہ کون سے مختلف پہلو ہیں جو ان کے لیے دلچسپی کا باعث ہیں اور جن کی وجہ سے آج عبد القادر کی شخصیت کو یوں کہہ لیں کہ نئے سرے سے دریافت کیا جا رہا ہے۔ اپنے دور میں تو عبد القادر عالمی شہرت یافتہ شخصیات میں شامل تھے۔ ۱۸۳۲ء سے ۱۸۴۸ء تک کا دور وہ ہے جس میں وہ الجزائر میں فرانس کے خلاف جنگ آزادی لڑ رہے تھے۔ تقریباً اسی دور میں ہمارے ہاں برصغیر میں سید احمد شہید نے تحریک مجاہدین برپا کی تھی اور وسط ایشیا میں اسی زمانے میں امام شامل روسی افواج کے خلاف برسر پیکار تھے۔ امام شامل کا عرصہ جہاد ذرا لمبا ہے اور وہ تیس سال تک روس کے خلاف جہاد کرتے رہے ہیں۔ ان دونوں راہ نماؤں کے آپس میں قریبی روابط بھی تھے۔ 
اپنے دور میں امیر عبد القادر دنیا کی ایک قدر آور شخصیت تھے جس کی وجہ ایک تو فرانس کے خلاف جدوجہد آزادی تھی۔ پھر انھوں نے جلاوطنی کے دور میں ۱۸۶۰ء میں دمشق میں مسلم مسیحی فسادات میں غیر معمولی کردار ادا کیا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ہزاروں بے گناہ مسیحیوں کو شر پسندوں کے ہاتھ قتل ہونے سے بچایا اور اپنی حویلی میں لا کر انھیں پناہ دی۔ جو گروہ شر وفساد پھیلانے اور مسیحیوں کا قتل عام کرنے کے لیے نکلے ہوئے تھے، انھیں اپنے مقاصد میں کامیابی سے روکنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ اس وقت مڈل ایسٹ میں مغربی طاقتوں کی سیاست خاص طور پر اس نکتے پر مرکوز تھی کہ یہاں مقیم مختلف مسیحی گروہوں کی حفاظت کون سی طاقت کرے گی۔ برطانیہ اور فرانس میں خاص طو رپر اس کے لیے سیاسی مسابقت چل رہی تھی اور مسیحیوں کے تحفظ کے دعوے کے ساتھ یہ طاقتیں اس مسئلے کو سلطنت عثمانیہ کے ساتھ مذاکرات میں بھی اٹھاتی تھیں۔ اس ضمن میں بعض اہم معاہدے بھی ہوئے اور یہ مغربی طاقتیں اس مسئلے کو سلطنت عثمانیہ کے خلاف ایک سیاسی دباؤ کے طور پر استعمال کر رہی تھیں۔ ۱۸۶۰ء کے واقعے سے قبل الجزائری کا تعارف مسلمان دنیا، خاص طور پر عرب دنیا میں تو تھا ہی اور مغربی دنیا بھی عمومی طور پر ان کے نام سے واقف تھی، لیکن دمشق کے اس کردار کی وجہ سے مغربی پریس نے انھیں بہت زیادہ کوریج دی اور بڑے بڑے عالمی لیڈروں نے ان کے اس اقدام کو سراہا اور تحسین کے کلمات کہے۔ اسی دور میں امریکہ کی ریاست آئیووا (Iowa) میں آباد کاری ہو رہی تھی تو ایک قصبے کا نقشہ بنانے والے انجینئر کو پریس میں خبروں اور مضامین کے ذریعے سے عبد القادر کا تعارف ہوا اور وہ ان کے کردار سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے اس قصبے کا نام Elkader رکھ دیا۔ 
اپنے دور میں امیر عبد القادر کا سیاسی اثر ورسوخ بھی کافی تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ اس دور میں جب اس امکان پر باقاعدہ گفتگو چل رہی تھی کہ شام کا علاقہ سلطنت عثمانیہ سے الگ ہو کر ایک آزاد عرب ریاست کی شکل اختیار کر لے تو مختلف سطحوں پر شام کے گورنر کے طور پر امیر عبد القادر کا نام لیا جانے لگا۔ گویا انھیں ایک ایسی شخصیت تصور کیا جا رہا تھا جن کی قیادت کو شام کے مختلف سیاسی گروہ اپنے داخلی اختلافات سے بالاتر ہو کر قبول کرنے کے لیے تیار ہو سکتے تھے۔ تاہم عبد القادر نے یہ ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا، کیونکہ وہ آخری عمر میں سیاست کے دھندوں سے الگ ہو کر تعلیم وتدریس، تصنیف اور روحانی مشاغل کی طرف یکسو ہو چکے تھے۔
میں عرض کر رہا تھا کہ عبد القادر اپنے دور کی ایک عالمی شہرت یافتہ اور قابل احترام شخصیت تھے۔ اگر آپ امیر عبدالقادر کے حالات پر اور زندگی کے مختلف پہلوؤں پر مواد تلاش کرنا چاہیں تو سب سے زیادہ لٹریچر فرانسیسی زبان میں ملے گا، کیونکہ عبد القادر نے جلاوطنی سے پہلے کچھ عرصہ فرانس میں نظر بندی کی حالت میں گزارا ہے۔ اس عرصے میں ان کے فرانس کے مذہبی راہ نماؤں ، کیتھولک چرچ کے پادریوں اور فرانس کے سیاسی لیڈروں سے بڑے اچھے ذاتی روابط قائم ہو گئے۔ انھوں نے اپنے مسیحی حلقہ احباب کے لوگوں سے مذہبی مسائل پر گفتگو اور تبادلہ خیال بھی کیا اور خطوط کا تبادلہ بھی کرتے رہے۔ انھوں نے عربی میں تنبیہ العاقل وذکری الغافل کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی ہے جس میں ایک کیتھولک بشپ کے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے جو اس نے عقلی لحاظ سے اسلام کی تعلیمات پر کیے تھے اور کہا تھا کہ اسلام کی تعلیمات عقلی لحاظ سے محل نظر ہیں۔ یعنی فرانس کے علمی اور مذہبی حلقوں میں ان کا خاصا تعارف ہے اور فرانس میں کافی لوگ عبد القادر کی شخصیت اور افکار پر تحقیقی وتصنیفی کام کرتے رہتے ہیں۔ ابھی اسی سفر میں میری ملاقات وہاں کے ایک کیتھولک بشپ Christian Delorme سے ہوئی جنھوں نے حال ہی میں امیر عبد القادر پر فرانسیسی زبان میں L'Emir Abd El-Kader a Lyon (امیر عبد القادر لے آن میں) کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے۔ اس کا ایک نسخہ انھوں نے میری فرمائش پر مجھے بھی دیا۔ مجھے اگرچہ فرانسیسی نہیں آتی، لیکن میں نے ان سے اس کتاب کا نسخہ لے لیا۔ تو الجزائری پر سب سے زیادہ کام فرانسیسی زبان میں ہوا ہے۔ اس کے بعد دوسرے نمبر پر عربی زبان میں کام ہوا ہے جو زیادہ تر علمی حلقوں تک محدود ہے۔ 
بہرحال ۱۸۸۳ء میں ان کی وفات کے بعد یوں لگتا ہے کہ تاریخ انھیں بھول گئی ہے۔ گویا انھیں فراموش کر دیا گیا ہے، لیکن اب پچھلے چند سالوں سے دوبارہ ان کی شخصیت کا احیا ہوا ہے۔ الجزائر کی حکومت، الجزائر کی سول سوسائٹی کے مختلف طبقات ان کی شخصیت اور کردار کے تعارف میں خاصی دلچسپی لے رہے ہیں۔ باقی عرب دنیا میں بھی ان کا ازسر نو تعارف ہو رہا ہے اور عرب سے جو لوگ امریکہ اور برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں گئے ہیں، وہ بھی اس طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ گویا آپ کہہ سکتے ہیں کہ مختلف سطحوں پرامیر کی شخصیت دوبارہ توجہ کا مرکز بن رہی ہے اور یہی چیز میرے لیے اس سفر میں دلچسپی کی ایک خاص وجہ تھی۔ مجھے اندازہ تھا کہ مختلف پس منظر کے لوگ وہاں آئے ہوں گے اور ان کے ساتھ تبادلہ خیال سے یہ سمجھنے کا موقع ملے گا کہ الجزائری میں کس کس حوالے سے دلچسپی لی جا رہی ہے اور ان کی شخصیت کے کون کون سے پہلو موضوع مطالعہ ہیں۔ الحمد للہ کافی لوگوں سے ملاقات ہوئی اور تبادلہ خیال کا موقع بھی ملا اور بہت سے اہم پہلو سمجھنے میں مدد ملی۔
یہ تین دن کا پروگرام تھا جس میں مختلف طبقات کے ذوق اور مزاج کے لحاظ سے دو تین الگ الگ انداز کی مجالس اور سرگرمیاں منظم کی گئی تھیں۔ پہلے دن جب میں پہنچا تو ایئر پورٹ سے مجھے سیدھا ایک ہال میں لے جایا گیا جہاں ابتدائی تعارفی تقریب منعقد کی جا رہی تھی۔ یہ تقریب فرانس کی عام کمیونٹی کے لیے تھی جس میں مسلمان، غیر مسلم، مرد، عورتیں، طلبہ اور عام لوگ شریک تھے۔ دو تین مقررین نے امیر عبد القادر کی شخصیت اور آج کے دور کے حوالے سے ان کی اہمیت پر مختصر بات کی۔ اگلے دن اس پروگرام کے آرگنائزر فواد چرغی نے اپنے گھر میں الجزائری مسلمانوں کے مختلف گھرانوں اور فرانس کی بعض مقامی فیملیوں کو جمع کیا ہوا تھا۔ یہ ایک طرح کا Social get-together تھا، ایک بہت ہی غیر رسمی قسم کا اکٹھ تھا جس میں فیملیاں آپس میں بیٹھ کر گپ شپ اور تبادلہ خیال بھی کرتی ہیں۔ کھانے پینے کا بھی بندوبست تھا اور مہمانوں کو عربوں کی مشہور ڈش ’’کس کس‘‘ پیش کی گئی جو بالکل پھیکی تھی اور مجھے تو بہت ہی بدذائقہ لگی۔ اس میل جول کی تقریب کو ہلکا سا touch امیر عبد القادر کے تعارف کا دے دیا گیا تھا۔ مختلف فلیکس آویزاں کیے گئے تھے جن میں امیر عبد القادر کی تصویر کے ساتھ چھوٹے چھوٹے اقتباسات درج تھے۔ مکان کے باہر دو تین منزلہ عمارت کی دیوار پر الجزائری کی ایک بہت بڑی تصویر لگائی گئی تھی جس کی باقاعدہ نقاب کشائی کی گئی۔
پروگرام کے تیسرے اور آخری دن Lyon کی ژاں ملاں یونیورسٹی (Jean-Mullen University) میں اساتذہ اور طلبہ اور پڑھے لکھے طبقات کے لیے ایک علمی نوعیت کی نشست رکھی گئی تھی۔ مجھے اس آخری نشست میں آخری گفتگو کے لیے کہا گیا۔ اس گفتگو کا عنوان تھا: امیر عبد القادر الجزائری کا تصور جہاد۔ میں نے اپنی مختصر گفتگو میں عبد القادر کے تصور جہاد اور اس وقت ہمیں پاکستان اور افغانستان میں جہاد کا جو تصور اور نمونہ دیکھنے کو مل رہا ہے، ان کے مابین تقابل کیا اور یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ ان میں سے کون سا تصور جہاد فقہی وشرعی اصولوں کی درست نمائندگی کرتا ہے۔ امیر نے سولہ سال تک جن اصولوں کے تحت جہاد کیا، اس سے ہمارے سامنے جہاد کا جو نقشہ آتا ہے اور جہاد کی جو شکل ہم اس وقت اپنے خطے میں دیکھ رہے ہیں، دونوں کے مابین تضاد کی نسبت ہے۔ عبد القادر کے بعض فیصلوں سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے، لیکن میری رائے میں ان کا تصور جہاد بڑی حد فقہی اور شرعی اصولوں کی نمائندگی کرتا ہے، جبکہ ہم اس وقت جو نقشہ دیکھ رہے ہیں، وہ ان اصولوں کی کسی بھی درجے میں نمائندگی نہیں کرتا۔ میں نے اسی پہلو سے گفتگو کے لیے یہ عنوان منتخب کیا کہ جہادکے ان دونوں تصورات میں ہم کن کن پہلووں سے تقابل کر سکتے ہیں اور یہ دیکھ سکتے ہیں کہ اگر شرعی اصولوں کی روشنی میں جہاد کیا جائے تو اس کا عملی نقشہ کیا ہوگا۔ میں نے اپنی تقریر انگریزی میں لکھی ہوئی تھی، لیکن فرانس میں انگریزی سمجھنے والے لوگ بہت کم ملیں گے۔ ایک مقامی خاتون نے، جن کی اپنی انگریزی اتنی اچھی نہیں تھی، میری تقریر کا فرانسیسی میں ترجمہ کیا اور بحیثیت مجموعی میرا تاثر یہ ہے کہ میں جو کچھ کہنا چاہ رہا تھا، وہ لوگوں تک پہنچ گیا۔ تقریر کے بعد انفرادی ملاقاتوں میں میری گفتگو کے حوالے سے پسندیدگی ظاہر کی گئی اور کہا گیا کہ اس تقریر میں بہت مختصر اور ٹو دی پوائنٹ یعنی بالکل متعین طریقے سے اسلام کے تصور جہاد کے ضمن میں پانچ چھ اہم اصول بیان کر دیے ہیں جن کا لحاظ الجزائری کے ہاں نظر آتا ہے، جبکہ موجودہ تصور جہاد میں انھیں پامال کیا جا رہا ہے۔
میں نے اپنی گفتگو میں اسلام کے تصور جہاد کے ضمن میں جو نکات واضح کیے، ان میں سے نکتہ یہ تھا کہ جہاد کے حقیقی تصور کی روح یہ ہے کہ جہاد کو ذاتی اقتدار یا دولت یا اثر ورسوخ کے حصول کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔ یہ تو ایک فریضہ ہے جو مسلمانوں کو مخصوص حالات میں ایک ذمہ داری کے طور پر ادا کرنا ہوتا ہے۔ اگر اس میں personal ambitions اور دولت واقتدار کی خواہش شامل ہو جائے تو اللہ کی نظر میں وہ جہدوجہد اپنی روح کے لحاظ سے بے وقعت قرار پاتی ہے۔ امیر کے ہاں جہاد کی یہ اسپرٹ بہت نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ انھوں نے دو مرحلوں پر اس وقت جب کہ وہ باقاعدہ امیر المومنین بن چکے تھے اور الجزائر کا ایک پورا علاقہ ان کے زیر تصرف تھا جس پر ان کی حکومت قائم تھی، مراکش کے بادشاہ کو یہ درخواست کی کہ یہ علاقے جو ہمارے زیر نگیں ہیں، آپ ان کو اپنی قلمرو میں شامل کر لیں اور یہاں اپنا کوئی نمائندہ مقرر کر دیں جو معاملات کا انتظام وانصرام کرے۔ امیر نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ واپس اپنی خانقاہی زندگی اور تعلیم وتدریس کی مشغولیت کی طرف لوٹ جاؤں۔ اس حوالے سے شاہ مراکش کے نام امیر کے جو خطوط ہیں، وہ ہنری چرچل نے اپنی کتاب میں نقل کیے ہیں۔ ہنری چرچل ایک برطانوی مصنف تھا جس نے امیر کے قیام دمشق کے زمانے میں مسلسل کئی مہینے تک امیر عبد القادر سے ملاقاتیں کر کے ان کی یادداشتیں قلم بند کیں اور انھیں ایک کتاب کی صورت میں مرتب کر دیا۔ یہ کتاب انگریزی میں ہے، جبکہ اس کا عربی ترجمہ حیاۃ الامیر عبد القادر  کے نام سے انٹر نیٹ پر دستیاب ہے اور عبد القادر کے حالات سے متعلق ایک بنیادی ماخذ کا درجہ رکھتی ہے۔ اس میں ہنری چرچل نے امیر کے وہ خطوط نقل کیے ہوئے ہیں جو انھوں نے شاہِ مراکش کو لکھے تھے۔ امیر کا یہ اقدام یقینی طور پر جہاد کی صحیح اسپرٹ کی عکاسی کرتا ہے، جبکہ اس وقت ہم خاص طور پر اپنے خطے میں جہاد کے نام پر جو سرگرمیاں دیکھ رہے ہیں، اس میں حقیقی جہادی روح کا واضح فقدان دکھائی دیتا ہے اور واقفان حال جانتے ہیں کہ اب تو اس نے دولت اور اقتدار کے ایک گھناؤنے کاروبار کی شکل اختیار کر لی ہے۔ 
دوسری چیز جو میں نے اپنی گفتگو میں واضح کی، یہ تھی کہ جہاد چند اخلاقی اصولوں کی پابندی کا تقاضا کرتا ہے۔ اگر ان اصولوں کی پابندی ہوگی تو شریعت کی نظر میں وہ جہاد ہے، ورنہ نرا فساد ہے۔ان میں سے ایک یہ ہے کہ آپ جنگ کے دوران میں بے گناہوں پر اور ان لوگوں پر جو جنگ میں شریک نہیں، ہاتھ نہیں اٹھائیں گے۔ قیدیوں کے ساتھ آپ کا برتاؤ اخلاقی اصولوں کے دائرے میں ہونا چاہیے اور آپ دشمن کے ساتھ جو بھی معاہدہ کریں، اس کی لفظ ومعنی کے اعتبار سے آپ نے پابندی کرنی ہے۔ عبد القادر الجزائری کے ہاں ان اصولوں کی بڑی غیر معمولی پاس داری دکھائی دیتی ہے۔ جنگی قیدیوں کے حوالے سے تو ان کا کردار اتنا غیر معمولی ہے کہ اس وقت دنیا میں جنگی قیدیوں کے حوالے سے جو بین الاقوامی قانون ہے، اس کے بارے میں اب یہ بات بین الاقوامی سطح پر تسلیم کی جانے لگی ہے اور اقوام متحدہ کے زیر اہتمام بعض کانفرنسیں اس موضوع پر منعقد ہوئی ہیں کہ قیدیوں کے حقوق سے متعلق اخلاقی تصورات کو بین الاقوامی سطح پر معاہداتی شکل دینے میں اور جدید بین الاقوامی قانون کی بنیاد رکھنے میں عبد القادر الجزائری کی کوششوں کو جنیوا کنونشنز پر سبقت حاصل ہے اور عبد القادر نے اس ضمن میں فرانسیسی حکومت کے ساتھ جو معاہدات کیے، وہ دور جدید میں اس نوعیت کی پہلی کوشش کا درجہ رکھتے ہیں۔ عبد القادر نے اپنی قید میں آنے والے فرانسیسی فوجیوں کی نہ صرف جسمانی دیکھ بھال اور حفاظت کا بندوبست کیا، بلکہ ان کی مذہبی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے فرانسیسی حکومت سے پادریوں کو بھیجنے کی درخواست کی اور فرانس کے ساتھ قیدیوں کے حقوق کے حوالے سے باقاعدہ معاہدات کیے۔ اس موضوع پر اسی سفر میں مجھے ایک عرب مصنف کی لکھی ہوئی ضخیم کتاب بھی دستیاب ہوئی جو الجزائر کی موسسۃ الامیر عبدالقادر کی ایک اعلیٰ عہدیدار خاتون زہور بو طالب نے دی جو امیر عبد القادر کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں اور تیسری چوتھی پشت میں ان کا رشتہ عبد القادر کے ننھیال سے جا ملتا ہے۔ کم وبیش چھ سو صفحات پر مشتمل یہ ضخیم کتاب مصطفی خیاطی نے لکھی ہے اور فرانسیسی زبان میں L'Emir Abd El Kader: Fondateur du Droit Humanitaire International (امیر عبد القادر: بین الاقوامی قانون انسانیت کا بانی) کے عنوان سے دو سال قبل الجزائر میں منعقد ہونے والی ’’امیر عبد القادر اور جدید بین الاقوامی قانون انسانیت‘‘ کے موضوع پر منعقد ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس کے موقع پر شائع کی گئی ہے۔ مصنف نے اس میں تفصیل کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ عبد القادر الجزائری جدید بین الاقوامی انسانی قانون کے بانی ہیں۔ 

میرے لیے اس سفر میں دلچسپی کا ایک خاص پہلو یہ بھی تھاکہ اس میں جان ڈبلیو کائزر شریک ہو رہے تھے۔ یہ وہی مصنف ہیں جنھوں نے الجزائری کی داستان حیات پر چند سال قبل انگریزی میں Commander of the Faithful کے عنوان سے ایک مقبول اور دلچسپ کتاب لکھی ہے۔ میں نے اس کتاب کا اردو ترجمہ ایڈٹ کر کے اسے پاکستان میں چھپوانے میں کافی کام کیا تھا۔ کائزر امریکہ کی ریاست ورجینیا میں شہری ماحول سے دور اپنے ایک فارم پر الگ تھلگ زندگی بسر کرتے ہیں۔ ان کی عمر ستر سال سے زیادہ ہے، لیکن صحت اور جوش وجذبہ کے لحاظ سے بالکل جوان ہیں۔ ان کی کتاب کے مسودہ پر نظر ثانی اور پھر اردو ترجمہ کی ایڈیٹنگ اور اشاعت کے اس سارے عرصے میں میری ان سے ملاقات نہیں ہو سکی، جبکہ ایک خاص تناظر میں مجھے کائزر سے ملاقات کی خواہش تھی۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے کائزر کی کتاب کے حوالے سے ہمارے ہاں بعض مذہبی اخبارات میں امیر عبد القادر کی شخصیت کے متعلق ایک بحث چھیڑی گئی اور امیر کے کردار کے مختلف پہلوؤں پر کئی سوالات اٹھائے گئے۔ اردو میں چونکہ الجزائری کی شخصیت کے متعلق کوئی تفصیلی ماخذ ابھی تک دستیاب نہیں، اس لیے بحث میں سارا حوالہ کائزر کی کتاب ہی کا تھا۔ میں نے جب اس کتاب پر کام کیا تو میرے ذہن میں بھی بہت سے سوالات آئے تھے، تاہم کائزر سے براہ راست ملاقات نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر سوالات ذہن میں ہی رہے۔ میں نے کتاب کے مندرجات کے حوالے سے اور یہ کہ کائزر نے یہ کیسے مرتب کی اور کن کن مآخذ سے فائدہ اٹھایا اور خاص طور پر یہ کہ انھیں الجزائری کی شخصیت سے کیسے دلچسپی پیدا ہوئی، کئی سوالات کی فہرست اپنے پاس لکھی ہوئی تھی تاکہ کائزر سے ملاقات کے موقع پر تو ان سوالات کے حوالے سے ان سے گفتگو کر سکوں۔ اس سفر میں یہ مقصد کافی حد تک پورا ہوا۔ ہمارا قیام چونکہ ایک ہی ہوٹل میں تھا، اس لیے مختلف نشستوں میں کائزر سے تفصیلی تبادلہ خیال کا موقع ملا اور جو سوالات میرے ذہن میں تھے، تقریباً ان سب پر بات ہوئی۔
ایک بڑا اہم سوال یہ تھا کہ کائزر نے یہ کتاب تاریخی تحقیق کے اسلوب میں نہیں لکھی، بلکہ ایک کہانی یا داستان کے انداز میں لکھی ہے اور جو شخص بھی اس کو پڑھے گا، اس کو نظر آئے گا کہ اس کا تاریخی پس منظر اور بیان کردہ واقعات کی تفصیلات بنیادی طور پر تاریخی ہیں یعنی افسانوی نہیں ہیں، لیکن ظاہر ہے کہ جب آپ تاریخی واقعات کو کہانی کی شکل دیتے ہیں تو اس میں آپ کو کچھ فکشن بھی شامل کرنا پڑتا ہے۔ میرے سامنے سوال یہ تھا کہ کائزر نے واقعات کی تحقیق میں کتنا کام کیا ہے۔ میں نے جب کائزر کے سامنے یہ سوال رکھا تو اور بعض اہم واقعات جو انھوں نے کتاب میں درج کیے ہیں، ان کے اصل مآخذ سے متعلق دریافت کیا تاکہ ان سے رجوع کر کے تحقیق کی جا سکے تو کائزر نے کہا کہ میں نے اس کتاب میں محقق کا کام نہیں کیا، یعنی میں نے عبد القادر کے حالات کی کوئی تاریخی تحقیق نہیں کی، اس لیے کہ تحقیقی نوعیت کی کتابیں بہت سے لوگوں نے لکھی ہوئی ہیں اور خاص طور پر فرانسیسی زبان میں ا س حوالے سے کافی بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ 
کائزر نے کہا کہ مجھے یہ کتاب لکھنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ اگرچہ فرانسیسی زبان میں امیر عبدالقادر کی شخصیت پر کافی کام ہوا ہے، لیکن ایک تو فرانسیسیوں کا جو اسلوب کلام ہے، وہ condescending tone میں لکھتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں فرانسیسیوں کا احساس برتری جھلکتا ہے۔ چونکہ امیر کو فرانسیسیوں کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی اور پھر انھیں فرانس میں لا کر محبوس رکھا گیا اور پھر جلا وطن کیا گیا تو قدرتی طور پر فرانسیسی جب عبدالقادر کے بارے میں لکھتے ہیں تو اگرچہ اس میں کوئی تحقیر یا تضحیک نہیں ہوتی، لیکن condescending toneبہرحال ہوتی ہے۔ اس وجہ سے فرانسیسی میں لکھی گئی کوئی کتاب مجھے ایسی نہیں ملی جسے امیر عبد القادر کی شخصیت کے غیر جانب دارانہ تعارف کے لیے پیش کیا جا سکے اور خاص طور پر عرب دنیا میں جس کا کوئی اچھا تاثر ہو۔ کائزر نے کہا کہ اس وجہ سے مجھے یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ غیر جانب دارانہ انداز میں امیر کی داستان حیات تحریر کی جائے۔
کائزر نے دوسری بات یہ کہی کہ امیر پر لکھی گئی بیشتر کتابوں کا انداز تحقیقی کتاب کا ہے جس میں حوالہ جات اور تحقیق کے دیگر لوازمات شامل ہونے کی وجہ سے وہ ایک عام آدمی کی دلچسپی کی نہیں رہتی۔ میں نے یہ چاہا کہ ایک عام آدمی کے لیے جسے تاریخی تحقیق میں کوئی دلچسپی نہیں، لیکن اس کے سامنے امیر کی شخصیت اور کردار کا ایک نقشہ آنا چاہیے، ایک کتاب لکھی جائے۔ چنانچہ میں نے اس کتاب میں ایک محقق کی ذمہ داری انجام نہیں دی اور نہ بہت زیادہ اصل مآخذ سے رجوع کیا ہے۔ میرا انحصار ثانوی مآخذ پر رہا ہے اور میں نے واقعات کی تاریخی تحقیق پر اتنی توجہ نہیں دی جتنا اس بات پر دی ہے کہ اسے ایک عام آدمی کے لیے قابل فہم، آسان اور دلچسپ بنایا جائے۔ اس تناظر میں، میں نے جب کائزر سے کتاب میں درج بعض بڑے اہم واقعات کے ماخذ سے متعلق پوچھا تو انھوں نے کہا کہ میں نے مآخذ تو نوٹ نہیں کیے۔ جب میں مطالعہ کر رہا تھا تو جو چیزیں مجھے اپنے مقصد کے لحاظ سے دلچسپ اور مفید لگیں، وہ میں نے لے لیں، لیکن اب میرے ذہن میں بالکل نہیں ہے کہ میں نے کون سی بات کہاں سے لی ہے۔ البتہ کتاب کے انگریزی نسخے کے آخر میں کائزر نے فرانسیسی اور انگریزی کے ان مآخذ کی ایک عمومی فہرست دے دی ہے جن سے انھوں نے اس کام کے دوران میں استفادہ کیا۔
میں جن واقعات کی تحقیق کے لیے ان کے اصل تاریخی ماخذ سے متعلق جاننا چاہ رہا تھا، وہ کم وبیش وہی تھے جن کا ذکر کچھ عرصہ قبل ہمارے ہاں امیر کی شخصیت پر کیچڑ اچھالنے کے لیے ایک ناگوار اور سطحی قسم کی صحافیانہ مہم میں کیا گیا اور انھیں بطور اعتراض نمایاں کیا گیا۔ مثلاً کائزر نے اپنی کتاب میں بعض لوگوں کے بیانات نقل کیے ہیں کہ انھوں نے امیر کے گھر میں ان کی پانچ بیویاں دیکھیں۔ کائزر نے اگرچہ اس پر حاشیے میں یہ وضاحت کی ہوئی ہے کہ اس بیان کی تصدیق کا اس کے علاوہ کوئی اور ذریعہ ہمارے پاس نہیں، لیکن بہرحال ایک بیان تو آ گیا اور اس کی بنیاد پر کوئی شخص پیالی میں طوفان اٹھانا چاہے تو اٹھا سکتا ہے۔ کائزر نے کہا کہ میرا اپنا خیال بھی یہ ہے کہ امیر کی بیویاں چار ہی تھیں، جبکہ پانچویں شاید ان کی کوئی باندی ہوگی، کیونکہ عربوں میں اس وقت تک لونڈیوں کا سلسلہ موجود تھا۔ ظاہر ہے کہ جس خاتون نے بتایا کہ اس نے امیر کے گھر میں پانچ بیویاں دیکھیں، اس نے محض ایک مشاہدہ بیان کیا ہے۔ یہ تو نہیں بتایا کہ اس نے باقاعدہ اس کی تحقیق کی تھی اور امیر کے اہل خانہ سے یہ پوچھا تھا کہ گھر کے افراد میں سے فلاں کون ہے اور فلاں کون۔ عین ممکن ہے کہ اس نے قیاس سے کام لیتے ہوئے یہ سمجھا ہو کہ یہ پانچوں امیر کی بیویاں ہیں، اس لیے یہ بات قرین قیاس نہیں لگتی کہ امیر نے (شریعت کے واضح اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے) بیک وقت پانچ بیویاں اپنے نکاح میں رکھی ہوں گی۔
کائزر سے دوسرا سوال میں نے یہ پوچھا کہ انھوں نے کتاب کے آخری حصے میں ایک آزاد خیال برطانوی خاتون جین ڈگبی کے امیر عبد القادر کی مجالس میں آنے جانے اور ان کے باہمی روابط کا ذکر کیا ہے۔ ان کی درج کردہ تفصیلات سے بعض بیمار ذہنوں نے یہ اخذ کرنے کی کوشش کی ہے کہ امیر کے اس خاتون کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے۔ میں نے کائزر سے پوچھا کہ کیا واقعتا تاریخی لحاظ سے ان کے تعلقات اس نوعیت کے تھے یا کیا خود کائزر نے ان دونوں کے باہمی تعلقات کے متعلق کتاب میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے۔ کائزر یہ سوال سن کر بے ساختہ مسکرائے اور فوراً نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہنے لگے کہ نہیں، یہ تاثر بالکل درست نہیں۔ میں نے تو ان دونوں کی باہمی ملاقاتوں کا ذکر اس پہلو سے کیا ہے کہ میرے خیال میں یہ دونوں شخصیات اپنے ماحول سے باغی شخصیات تھیں اور میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ خود ایک جرات مند اور حریت فکر رکھنے والی شخصیت ہونے کی وجہ سے امیر کے حلقہ احباب میں بھی بعض ایسے افراد شامل تھے جو اپنی اپنی ثقافت او رماحول سے باغی تھے۔
ایک اور اہم سوال امیر عبد القادر کی فری میسنری میں شمولیت سے متعلق تھا۔ فری میسنری مغرب میں کئی صدیوں سے قائم ایک تنظیم ہے جس کے فکری رجحانات وقتاً فوقتاً تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ عبد القادر کی شخصیت کے متعلق تاریخی طور پر جو متنازع فیہ سوالات ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ آیا انھوں نے فری میسنری میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی تھی یا نہیں۔ عبد القادر کے خاندان کے لوگ اس کو تسلیم نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ فری میسنری میں ان کی شمولیت تاریخی طور پر ثابت نہیں۔ اس حوالے سے عربی زبان میں بعض تفصیلی تحریریں انٹرنیٹ پر بھی موجود ہیں۔ تاہم بعض دیگر مورخین امیر کی اس تنظیم میں شمولیت کے قائل ہیں۔ کائزر کا اپنا رجحان یہ تھا کہ چونکہ فری میسنری کی اپنی بعض کتابوں اور فہرستوں میں امیر عبد القادر کی شمولیت کا ذکر ملتا ہے، اس لیے غالب گمان یہی ہے کہ انھوں نے فری میسنری کی طرف سے شمولیت کی دعوت قبول کی ہوگی اور اس میں کوئی اچنبھے کی بات اس لیے نہیں ہے کہ اس وقت یعنی آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے فری میسنری کے متعلق وہ تصور عام نہیں تھا جو آج مسلم دنیا میں پایا جاتا ہے۔ اس کے متعلق یہ تصور موجود نہیں تھا کہ یہ کوئی صہیونی ایجنڈے پر بنائی گئی تنظیم ہے یا اس کا مقصد کچھ خفیہ مقاصد کی تکمیل ہے۔ اس وقت یوں سمجھ لیں کہ اسے دانش وروں کا ایک فورم سمجھا جاتا تھا۔ دنیا بھر کے بڑے بڑے سیاسی، مذہبی، سماجی اور فکری راہ نما جنھیں علمی وفکری بحثوں میں دلچسپی ہوتی تھی، وہ ان کا حصہ ہوتے تھے اور اپنی مجا لس میں مذہب اور معاشرے سے متعلق ایسے سوالات پر آزادانہ بحث ومباحثہ کرتے تھے جو عمومی سطح پر زیر بحث نہیں لائے جا سکتے تھے۔ ہر مذہب اور ہر نقطہ خیال کے لوگ ان مجلسوں میں بیٹھ کر اس طرح کے مسائل پر باہم تبادلہ خیال کرتے تھے۔ کائزر کا خیال یہ تھا کہ عبد القادر چونکہ خود ایک بہت بڑے مفکر تھے او ر فلسفہ اور مذہب سے متعلق بڑے اہم او رنازک سوالات پر مخصوص آرا رکھتے تھے، اس لیے یہ کوئی بعید بات نہیں لگتی کہ انھوں نے فری میسنری کی طرف سے اس تنظیم میں شمولیت کی دعوت قبول کی ہو اور ان کی مجالس میں شریک ہوتے رہے ہوں، کیونکہ فری میسنری کے بارے میں اس وقت کوئی منفی تصور نہیں پایا جاتا تھا۔ البتہ کائزر نے کہا کہ میں اس کے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا کہ یہ تعلق باقاعدہ فری میسنری کا رکن بننے کی صورت میں قائم ہوا یا عبد القادر کی رہائش پر ان کی بعض مجالس میں شرکت تک محدود رہا، لیکن بہرحال ایک نوعیت کا تعلق ضرور رہا ہے۔
اس بحث سے متعلق ایک اہم نکتہ یہ تھا کہ کائزر کی کتاب کے اردو ترجمہ کا جو مسودہ مجھے بھیجا گیا، اس میں اس مقام پر یہ لکھا ہوا ہے کہ ۱۸۷۷ء میں عبدالقادر نے میسونی تنظیم سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ ’’جب اس سوسائٹی میں الحاد پرستوں کو بھی شامل کر لیا گیا تو عبد القادر کے نزدیک یہ اس تنظیم کا ناقابل قبول اقدام تھا جس کے ارکان نے عیسائیت سے الگ ہو کر محض توحید پرستی کی راہ اپنائی تھی اور اب سوسائٹی بے خدا انسان پرستی کو قبول کرنے کے راستے پر چل نکلی تھی، چنانچہ عبد القادر نے اس سے علیحدگی اختیار کر لی۔‘‘ (ص ۴۴۱) یہ پیراگراف کتاب کے انگریزی نسخے میں یہ شامل نہیں ہے۔ میں نے کائزر سے اس کے متعلق پوچھا تو وہ تھوڑی دیر اپنی کتاب کے انگریزی متن اور پھر کتاب کے آخر میں درج تعلیقات کو دیکھتے رہے۔ پھر وہ کچھ کنفیوز سے ہو گئے اور کہنے لگے کہ مجھے یاد نہیں آ رہا کہ یہ بات میں نے لکھی ہے اور یہ کہ اگر یہ نوٹ میرا لکھا ہوا ہے تو انگریزی متن میں کیوں شامل نہیں۔ یوں اس نکتے پر کائزر کے ساتھ گفتگو سے بات واضح ہونے کے بجائے الجھ سی گئی۔ میں نے پوچھا کہ ان تمام باتوں کا تاریخی ماخذ کیا ہے اور یہ تفصیلات کہاں مل سکتی ہیں تو کائزر نے کہا کہ یہ چیزیں اب مجھے مستحضر نہیں۔ 
کائزر کے ساتھ گفتگو میں ایک اور بڑی اہم بات سامنے آئی جو کتاب کے انگریزی متن میں تو شامل ہے، لیکن افسوس ہے کہ اردو ترجمے میں شامل نہیں ہو سکی اور اس کی وجہ سے ہمارے ہاں ہونے والی صحافیانہ بحث میں ایک بڑا سوال اٹھا دیا گیا اور یہ کہا گیا کہ چونکہ عبد القادر نے شکست قبول کرنے کے بعد جلا وطنی کے دور میں فرانسیسی حکومت سے وظیفہ لینا شروع کردیا تھا، اس لیے ان کی ساری جہادی جدوجہد ہی مشکوک ہو جاتی ہے۔ تاریخی طور پر یہ ایک حقیقت ہے کہ جلا وطنی کے بعد امیر کی زندگی میں اور اس کے بعد ۱۹۵۴ء تک فرانسیسی حکومت امیر کے خاندان کو سالانہ ایک متعین رقم ادا کرتی رہی ہے۔ میرے ذہن میں بھی اس کی حقیقی نوعیت پوری طرح واضح نہیں تھی، لیکن اس سفر کے دوران میں مجھے کائزر کی کتاب کے انگریزی نسخے کو دوبارہ دیکھنے کا موقع ملا تو معلوم ہوا کہ ایک بڑا اہم حاشیہ کائزر نے لکھا ہوا ہے جس کی انھوں نے زبانی تصدیق بھی کی اور کچھ مزید معلومات بھی فراہم کیں۔ وہ یہ کہ یہ رقم جو امیر کو اور ان کے خاندان کو دی جاتی رہی، درحقیقت الجزائر میں امیر کے خاندان کی ملکیت ان زمینوں کا معاوضہ تھی جو فرانسیسی حکومت نے ضبط کر لی تھیں۔ ان کی جلاوطنی کے موقع پر فرانسیسی حکومت نے یہ فیصلہ کیا، جس میں بہرحال فرانسیسی حکومت کی good willبھی جھلکتی ہے، کہ چونکہ ہم نے امیر کی خاندانی زمینیں ضبط کر لی ہیں، اس لیے امیر کے خاندان کو اپنے خرچ اخراجات کے لیے اس کے معاوضے کے طور پر سالانہ ایک متعین رقم دی جائے گی تاکہ وہ جہاں بھی رہیں، اسے اپنے اخراجات پر صرف کر سکیں۔ 
کائزر نے بتایا کہ امیر کی وفات کے بعد ایک موقع پر فرانس میں یہ بات زیر بحث آئی کہ جب عبد القادر وفات پا چکے ہیں تو کیا اس رقم کی ادائیگی ان کی زندگی تک محدود تھی یا ان کے بعد ان کے خاندان کو بھی دی جائے گی؟ اس پر فرانس کی عدالت میں ایک مقدمہ چلا اور عدالت نے یہ قرار دیا کہ چونکہ یہ عبد القادر کی ذاتی زمینیں نہیں تھیں، بلکہ ان کے خاندان کی مشترکہ ملکیت تھیں اور یہ رقم بھی عبد القادر کو ذاتی حیثیت میں، بلکہ خاندان کے سربراہ کی حیثیت سے دی جا رہی تھی، اس لیے یہ ان کے بعد ان کے خاندان کو بھی بدستور ادا کی جاتی رہے گی۔ چنانچہ اس فیصلے کے مطابق ۱۹۵۴ء تک فرانسیسی حکومت امیر کے خاندان کویہ رقم ادا کرتی رہی۔ پھر ۱۹۵۴ء میں فرانس کی سینیٹ نے یہ فیصلہ کیا کہ اب یہ سلسلہ ختم ہو جانا چاہیے۔ میری خواہش تھی کہ اس مقدمے سے متعلق کچھ مزید تفصیلات دستاویزی صورت میں مل جائیں، تاہم کائزر اس ضمن میں کوئی مدد نہیں کر سکے۔ ان کے حافظے میں بس اتنی ہی بات محفوظ تھی۔

سوالات وجوابات

سوال: کیا جان کائزر مسلمان ہیں؟
جواب: نہیں، وہ مسلمان نہیں۔ البتہ وہ مسیحی ہیں یا نہیں اور مسیحی تعلیمات پر کس حد تک عمل پیرا ہیں، یہ میں ان سے نہیں پوچھ سکا۔ میرا اپنا اندازہ یہ ہے کہ وہ مسیحی ہیں۔ بنیادی طور پر کائزر جو سوچ رکھتے ہیں، وہ یہ ہے کہ مغرب نے جس رخ پر ترقی کی ہے، اس میں مادیت پر بہت زور ہے اور روحانی قدروں کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ اس اندھا دھند ترقی کے نتیجے میں انسانی زندگی میں سکون اور اطمینان ناپید ہو گیا ہے اور ماحولیاتی آلودگی بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ سوچ رکھنے والے تعداد میں محدود ہیں، لیکن اس کے ترجمان آپ کو مغربی معاشروں میں مل جائیں گے۔ کائزر بھی اسی طرز فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ انھوں نے موبائل فون نہیں رکھا ہوا اور وہ ریاست ورجینیا میں شہر سے دور اپنے ایک فارم پر رہتے ہیں۔ وہ جدید طرز معاشرت کے سخت ناقد ہیں جس میں اخلاقی قدریں مفقود ہوتی جا رہی ہیں اور انسانی زندگی کو ایک مشینی زندگی بنا دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ جو سرمایہ دارانہ نظام ہے اور اندھا دھند ترقی کا جو رجحان ہے، یہ انسانیت کو بالکل تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔ کائزر نے ایک دلچسپ بات یہ کہی، جس سے ان کے انداز فکر کا کسی حد تک اندازہ کیا جا سکتا ہے، کہ طالبان کا جو انصاف فراہم کرنے کا طریقہ ہے، وہ مجھے اچھا لگتا ہے، کیونکہ ایک تو وہ فوری انصاف پر یقین رکھتے ہیں اور دوسرے ان کا سزا دینے کا طریقہ جرائم کو روکنے میں موثر ہے۔ مثلاً کائزر نے کہا کہ اگر عورت کے ساتھ زیادتی کرنے والے مجرم کو خصی کر دیا جائے تو یہ سزا اس جرم کو روکنے میں بہت موثر ثابت ہوگی۔
سوال: عبد القادر نے جب خلافت عثمانیہ سے الگ ہو کر قائم ہونے والی مجوزہ عرب ریاست کی قیادت قبول کرنے سے انکار کیا تو اس کی وجہ کیا تھی؟ کیا ان کی مصروفیات ا س میں رکاوٹ تھیں یا وہ مسلمانوں کے سیاسی اتحاد میں دراڑ نہیں ڈالنا چاہتے تھے؟
جواب: نہیں۔ انھوں نے اس سے متعلق سوال کے جواب میں یہ کہا تھاکہ ’’مجھے اب دنیاوی جاہ وجلال کی کوئی تمنا نہیں ہے۔ میں اب صرف خاندان کے ساتھ رہنے، عبادت کرنے اور سکون سے وقت گزارنے جیسے خوشیاں حاصل کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ امیر طبعاً ایک سیاسی اور ہنگامہ خیز زندگی کو پسند نہیں کرتے تھے۔ اس سے پہلے انھوں نے الجزائر میں جو کردار ادا کیا، وہ بھی اس لیے تھا کہ اس صورت حال میں اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے کوئی متبادل میسر نہیں تھا۔ طبعاً وہ خلوت کی زندگی کو پسند کرتے تھے۔ وہ ابن عربی کے فلسفے سے متاثر بھی تھے اور اس کے بہت بڑے شارح بھی۔ ابن عربی کی فلسفیانہ تعلیمات کی تشریح میں عبد القادر نے اپنی مشہور اور ضخیم کتاب ’’المواقف‘‘ تصنیف کی ہے۔ جلاوطنی کے بعد انھوں نے اپنے آپ کو مطالعہ اور روحانی مشاغل میں مصروف کر لیا تھا اور اب دوبارہ وہ سیاسی میدان میں قدم نہیں رکھنا چاہتے تھے۔ میرے خیال تو انکار کی بنیادی وجہ یہی ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ یہ محسوس کرتے ہوں کہ انھیں پیش کش کرنے والے جو یہ سمجھ رہے ہیں کہ عرب ان کی قیادت قبول کرنے پر متفق ہو جائیں گے، وہ اتنا قابل عمل خیال نہیں ہے۔ 
بہرحال آپ نے سوال میں جو وجہ ذکر کی ہے، وہ قرین قیاس نہیں لگتی، کیونکہ عبد القادر ان لوگوں میں سے تھے جو ترکوں اور ترک حکام کے طرز حکومت سے سخت نالاں تھے ۔ ہمارے ہاں تو عام طور پر اس مسئلے کو اس حوالے سے دیکھا جاتا ہے کہ انگریزوں نے عربوں میں قومیت کا جذبہ بیدار کر کے انھیں ترکی خلافت کے خلاف ابھارا، لیکن عربوں کے زاویہ نظر سے آپ دیکھیں تو ان کے لیے آخری دور میں ترکوں کی حکومت اسی طرح کی ایک imperialist حکومت بن چکی تھی جس طرح ہم ہندوستان میں برطانوی حکومت کو سمجھتے تھے۔ ترک عربوں اور اپنے زیر نگیں دوسری قوموں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ ترک حکام میں بدعنوانی اور کرپشن عام ہو چکی تھی اور بدانتظامی پھیلی ہوئی تھی۔ انگریزوں نے یقیناًاپنے مقاصد کے تحت عربوں میں اس احساس کو بڑھاوا دیا اور منافرت کو تقویت پہنچائی، لیکن بہرحال ترکوں سے عربوں کو بہت سی جینوئن شکایات بھی تھیں۔ عبد القادر کا ذہنی رجحان بھی یہی تھا کہ ترک حکام متکبر اور نااہل ہیں اور ہمیں گڈ گورننس نہیں دے رہے۔ اس لحاظ سے مجھے نہیں لگتا کہ عبد القادر نے اسلامی اتحاد جیسے مفروضے کے زیر اثر مجوزہ عرب ریاست کی قیادت قبول کرنے سے انکار کیا ہو۔
سوال: ترکوں کا رویہ اور طرز حکومت کیا تھا جس سے ان لوگوں کو شکایت تھی؟
جواب: دیکھیں، جیسے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ برطانوی باہر سے آ کر ہندوستان پر مسلط ہو گئے ہیں، اگرچہ انھوں نے یہاں کافی انتظامی سہولتیں بھی فراہم کیں، لیکن ہم انھیں ذہنی طور پر قبول نہیں کرتے۔ اسی طرح خلافت عثمانیہ کے آخری دور میں عربوں کے احساسات ترکوں کے متعلق اسی طرح کے ہو چکے تھے۔ اس کی بڑی وجہ خود ترکوں میں ایک نخوت کا رویہ تھا جو پیدا ہو چکا تھا۔ قومی مفاخرت کا احساس ترکوں، عربوں اور ایرانیوں، ان تینوں قوموں میں بڑی شدت سے موجود ہے۔ عرب سمجھتے ہیں کہ ہم اسلام کے اصل وارث ہیں۔ ایرانی یہ کہتے ہیں کہ اسلام میں جتنی تہذیبی، علمی اور فکری ترقی ہے، اس میں تو عربوں کا کوئی کردار ہی نہیں۔ کتب حدیث کے مدونین بیشتر عجمی ہیں، تمام نامور مسلمان فلسفی سرزمین ایران سے تعلق رکھتے ہیں، حتیٰ کہ عربی زبان سے متعلق علوم کو مرتب اور مدون کرنے والے اہل علم بھی زیادہ تر عجمی ہیں۔ ہمارے دوست میر احمد علی ایرانیوں کا یہ مقولہ سناتے ہیں کہ عربوں نے تو دنیا کو صرف نبی دیا ہے، اسلام کے لیے باقی سارا کام تو ہم نے کیا ہے۔ اسی طرح کی قومی نخوت ترکوں میں بھی تھی جس کا اظہار ترک حکام کے رویے اور انداز حکومت میں بھی ہوتا تھا اور عرب آخری دور میں اس سے سخت نالاں ہو چکے تھے۔
سوال: اس کی کیا وجہ ہے کہ امیر عبد القادر الجزائری اتنا اہم آدمی ہے، لیکن اس کو دنیا کے سامنے ہم نے متعارف نہیں کرایا، بلکہ ایک مغربی مصنف نے اس کو دوبارہ دریافت کیا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہم اس کی طرف متوجہ نہیں ہوئے؟ اگر اہل مغرب اس کے تعارف میں دلچسپی محسوس کر رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ امیر عبد القادر کا تصور جہاد انھیں اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے زیادہ موزوں لگتا ہے اور انھیں اس میں کم خطرہ نظر آتا ہے، جبکہ طالبان کو جو تصور جہاد ہے، وہ ان کے لیے زیادہ خطرناک ہے؟ جیسے وہ صوفی ازم کو فروغ دینا چاہتے ہیں، کیا اسی طرح کا معاملہ امیر عبد القادر کے حوالے سے تو نہیں؟
جواب: دیکھیں، اس وقت امیر عبد القادرکی شخصیت میں بہت سے حلقے دلچسپی لے رہے ہیں جس میں مغرب کے بعض حلقے بھی شامل ہیں، لیکن یہ بات صحیح نہیں کہ ان کے تعارف کی ابتدا اہل مغرب نے کی ہے۔ کائزر کی کتاب تو کوئی تین چار سال قبل لکھی گئی ہے۔ ان کی شخصیت کو دوبارہ دریافت کرنے کا آغاز الجزائر سے ہوا ہے اور الجزائری حکومت اور خود امیر عبد القادر کے خاندان کے لوگ اس میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ الجزائر کے لوگ امیر عبد القادر کو جدید الجزائر کا بانی سمجھتے ہیں، یعنی قدیم قبائلی طرز زندگی کی جگہ الجزائر کو جدید خطوط پر ایک منظم ریاست بنانے کا آغاز عبد القادر کے دور حکومت میں کیا گیا تھا۔ عبد القادر صرف ایک مجاہد نہیں تھے، بلکہ بہت زبردست منتظم بھی تھے۔ اس کی تفصیلات پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں کہ انھوں نے الجزائر کی قبائلی معاشرت کوبالکل جدید طرز پر استوار کرنے کے لیے کیا کیا اقدامات کیے۔ اس لحاظ سے الجزائری قوم امیر عبد القادر کو وہی حیثیت دیتی ہے جو ہم اپنی تاریخ میں سرسید احمد خان، علامہ اقبال یا قائد اعظم کو دیتے ہیں۔ سو ان کی شخصیت کے تعارف میں اس وقت initiative اہل مغرب نے نہیں لیا، البتہ اہل مغرب کی دلچسپی یقیناًاس میں ہے اور ظاہر ہے کہ اس میں ان کا اپنا مفاد بھی شامل ہے۔ انھیں جہاد کے صحیح یا غلط تصور سے دلچسپی نہیں ہے۔ ان کا مطمح نظر یہ ہے کہ مسلمانوں میں اس وقت جو انتہا پسندی کی ایک سوچ ہے، اس میں کمی آئے۔ 
تو اہل مغرب کو اس لحاظ سے عبد القادر کے تصور جہاد سے دلچسپی ہو سکتی ہے کہ وہ کم سے کم ایسا تصور جہاد نہیں ہے جس میں عام شہریوں کو مارنا بھی درست سمجھا جاتا ہو اور جس میں ہر حال میں لڑنے مرنے ہی کو منتہائے مقصود قرار دیا گیا ہو۔ پھر یہ کہ عبد القادر کا جو طرز فکر ہے دوسرے مذاہب، خاص طور پر مسیحیت کے بارے میں، وہ بھی اہل مغرب کے لیے دلچسپی کا باعث ہے۔ مثال کے طو رپر کائزر نے مجھے الجزائری کی شخصیت میں دلچسپی کی دو وجوہ بتائیں۔ ایک یہ کہ عبد القادر یہ کہتے ہیں کہ یہودیت، مسیحیت اور اسلام، ان تینوں کا آپس میں بڑا گہرا رشتہ ہے، کیونکہ یہ ایک ہی ماخذ سے پھوٹے ہیں اور انبیاء کے ایک ہی سلسلے پر یقین رکھتے ہیں۔ اس لحاظ سے آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے مابین کزنز کا رشتہ ہے۔ میں نے کائزر سے کہا کہ یہ عبد القادر کا کوئی منفرد خیال نہیں ہے۔ سارے مسلمان یہی مانتے اور سمجھتے ہیں، البتہ اس کا عملی اثر ان مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ آپ کے رویے اور طرز عمل میں کس طرح دکھائی دیتا ہے، اس میں عبد القادر کسی حد تک مختلف جگہ کھڑے ہیں اور وہ چیز ہمیں عام مذہبی رویے میں دکھائی نہیں دیتی۔ بہرحال اصولی طور پر یہ تصور عبد القادر کا کوئی منفرد تصور نہیں ہے۔
کائزر نے دوسری وجہ یہ بتائی، جو زیادہ دلچسپ ہے، کہ میرے لیے یہ بات بڑی حیران کن تھی کہ عبد القادر یہ کہتے ہیں وہ جو ایک مسیحا نے آنا ہے جس نے آ کر مسلمانوں کو غلبہ دلانا ہے، وہ وہی یسوع مسیح ہے جس پر مسیحی ایمان رکھتے ہیں۔ میں نے کائزر سے کہا کہ یہ بھی عبد القادر کا کوئی منفرد خیال نہیں۔ سارے مسلمان یہی مانتے ہیں کہ آخری زمانے میں آنے والے مسیح، وہی یسوع مسیح یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہوں گے جو بنی اسرائیل کے آخری نبی تھے۔ کائزر نے حیران ہو کر پوچھا کہ کیا سارے مسلمان، چاہے وہ عوام ہوں یا پڑھے لکھے لوگ، یہی مانتے ہیں؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ یہ بات کائزر کے لیے مزید حیران کن تھی۔
سو عبد القادر کی شخصیت میں دلچسپی کے مختلف پہلو ہیں اور مختلف حلقے مختلف حوالوں سے ان میں دلچسپی محسوس کر رہے ہیں۔ مثال کے طو ر پر فرانس میں الجزائری کمیونٹی جس نے اس تین روزہ پروگرام کے انتظامات کیے، ان کی دلچسپی الجزائری میں نہ اس حوالے سے ہے کہ وہ ایک بہت بڑے عالم تھے، نہ اس حوالے سے ہے کہ وہ ایک بڑے مجاہد تھے۔ ان کی دلچسپی ایک دوسرے پہلو سے ہے۔ فرانس میں الجزائری کمیونٹی بہت زیادہ احساس محرومی کا شکار ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں نہ تو الجزائری حکومت اپنا سمجھتی ہے اور نہ فرانس کے لوگ اپناتے ہیں۔ الجزائر کے لوگ کہتے ہیں کہ تم لوگ فرانس میں رہتے ہو اور فرانسیسی ہو، جبکہ فرانس کے لوگ ہمیں اس طرح دیکھتے ہیں کہ ہم الجزائر سے آئے ہیں اور الجزائری ہیں۔ یوں الجزائری مسلمانوں کی نئی نسل بے حد احساس محرومی کا شکار ہے۔ اب یہ لوگ عبد القادر میں اس وجہ سے دلچسپی محسوس کرتے ہیں کہ اگر ہماری نئی نسل کو یہ معلوم ہوگا کہ ہماری ماضی قریب کی تاریخ میں ایک ایسی شخصیت تھی جسے بین الاقوامی سطح پر اتنا احترام حاصل تھا تو اس سے ان کے اندر ایک خود اعتمادی پیدا ہوگی اور اگر ہم اس شخصیت کا آج کی فرانسیسی کمیونٹی کے سامنے تعارف کروائیں گے تو اس سے دونوں کمیونٹیوں کے مابین جو ایک فاصلہ ہے، اس کو پاٹنے میں مدد ملے گی۔
اب آپ دیکھیں کہ شخصیت ایک ہے، لیکن اس میں مختلف حلقوں کے لیے دلچسپی کے مختلف پہلو موجود ہیں۔ اگر اہل مغرب یا امریکہ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں میں الجزائری کے تصور جہاد کو عام کرنا انھیں زیادہ suit کرتا ہے تو ضرور وہ ایسا سمجھتے ہوں گے، لیکن اگر یہ تصور جہاد خود فقہ وشریعت کے معیارات کے لحاظ سے ایک درست تصور ہے تو ہم صرف اس وجہ سے تو اس کو رد نہیں کر سکتے کہ اہل مغرب بھی اس کا فروغ چاہتے ہیں۔ اگر وہ جہاد کا صحیح تصور ہے اور شرعی اصولوں کی درست نمائندگی کرتا ہے اور اس وقت ہم جس مسخ شدہ تصور جہاد کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں، ا س کے مقابلے میں ایک متبادل تصور اور نمونہ ہمیں دیتا ہے تو ہم کیوں نہ اس کو قبول کریں اور لوگوں کو اس سے متعارف کروائیں؟ اگر امریکہ کی تائید سے عملاً جہاد کا فریضہ انجام دیا جا سکتا ہے اور اس سے اس کے استناد پر کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا تو جہاد کے ایک صحیح تصور اور نمونے کو محض اس بنیاد پر کیسے مسترد کیا جا سکتا ہے کہ اسے فروغ دینے میں، اپنے مقاصد کے تحت، اہل مغرب کو بھی دلچسپی ہے؟
سوال: امام شامل اور امیر عبد القادر، ان دونوں کے آپس میں کس نوعیت کے تعلقات تھے؟ اگر ہم ان کی جدوجہد کے حوالے سے دیکھیں تو دونوں کا طرز عمل ایک جیسا نظر آتا ہے، یعنی امام شامل نے بھی بعد میں جہادی سرگرمیاں ترک کر دیں۔ 
جواب: امام شامل اور امیر عبد القادر نے اپنی جدوجہد کے آخری مرحلے میں ہتھیار ڈال دیے اور دونوں نے اپنی قوم کو یہ مشورہ دیا کہ وہ یہ راستہ چھوڑ دیں، کیونکہ مزید جانیں گنوانے کے علاوہ اس کا کوئی نتیجہ نکلتا دکھائی نہیں دیتا اور کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔ اس وجہ سے بعض انتہا پسند چیچن گروہ امام شامل کو بھی ’’غدار‘‘ شمار کرتے ہیں کہ انھوں نے جدوجہد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے بجائے درمیان میں چھوڑ دیا۔ بہرحال ان دونوں ہم عصر لیڈروں کے مابین ذاتی دوستی کا تعلق تھا اور دونوں کے مابین خطوط کا تبادلہ بھی ہوتا رہا ہے۔ کائزر نے بتایا کہ فرانسیسی زبان میں ایک پوری کتاب لکھی گئی ہے جس میں تاریخی دستاویزات کی روشنی میں امام شامل اور امیر عبد القادر کے باہمی تعلقات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ کائزر نے اس کتاب کا نام اپنی کتاب کے انگریزی نسخے کے آخر میں مراجع ومصادر میں درج کیا ہوا ہے۔ میں کوشش کروں گا کہ اس کتاب کو حاصل کیا جائے اور کسی فرانسیسی جاننے والے کی مدد سے اس استفادہ کیا جائے۔ 
کائزر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جب نہر سویز کا افتتاح ہوا تو افتتاحی تقریب میں امیر عبدالقادر کے ساتھ امام شامل بھی موجود تھے۔ امام شامل ان دنوں روسی حکومت کی اجازت سے حج کے لیے آئے ہوئے تھے او ر سعودی عرب میں مقیم تھے۔ مدینہ میں ان کی وفات ہوئی اور وہ جنت البقیع میں مدفون ہیں۔ انھیں نہر سویز کے افتتاح کے موقع پر دعوت دی گئی اور امیر عبد القادر کے ساتھ ان کی ایک تصویر بھی موجود ہے۔ ہمارے ہاں امیر عبدالقادر کے خلاف جو طوفان بدتمیزی اٹھایا گیا، اس میں ان کے خلاف یہ نکتہ بھی پیش کیا گیا کہ چونکہ وہ نہر سویز کی افتتاحی تقریب میں شریک ہوئے تھے اور نہر سویز کا سارا منصوبہ ہی یہودی اور صہیونی سازش تھا، اس لیے اس موقع پر جو لوگ بھی موجود تھے، ان کی موجودگی ان کے یہودی ایجنٹ ہونے کا ثبوت ہے۔ اگر اس سطحی طرز استدلال کو مانا جائے تو صرف عبد القادر کو نہیں، بلکہ امام شامل کو بھی صہیونی ویہودی ایجنٹ باور کرنا پڑے گا۔
سوال: مسلمان جو مزاحمت کر رہے ہیں اور جہاد کے نام پر جو کچھ بھی کر رہے ہیں، ان کو بتانے کے لیے تو ہمارے پاس اصول موجود ہیں کہ شریعت یہ کہتی ہے۔ لیکن جو ان کی مخالف قوتیں ہیں، ان کے لیے کیا معیار ہے؟ کیا بین الاقوامی انسانی حقوق کے چارٹر کو ہم بنیاد بنائیں گے یا عیسائیت جو راہنما اصول دیتی ہے، وہ بتا کر ان سے یہ کہیں گے کہ جنگ کے یہ اصول ہیں جن کی تم خلاف ورزی کر رہے ہو؟
جواب: دیکھیں، یہاں دو باتیں ہیں۔ ایک بات یہ کہ اگر آپ یہ گمان کرتے ہیں کہ دنیا میں اس وقت یا کبھی بھی قانون یا اصول کی حکمرانی رہی ہے یا کبھی ہوگی تو یہ بڑی سادگی کی بات ہے۔ دنیا میں اصلاً طاقت کی حکمرانی ہے اور طاقت اپنے طرز عمل کا جواز اخلاقیات سے نہیں، بلکہ اپنی طاقت سے ہی اخذ کیا کرتی ہے۔ تو پہلا کام جو اس وقت ہمیں کرنا ہے، وہ یہ ہے کہ ہم کوئی ایسی حماقت نہ کریں جس کے نتیجے میں ہم دشمن کو، جس کے ساتھ ہمارا طاقت کا کوئی توازن ہی نہیں ہے، موقع دیں کہ وہ ہم پر چڑھ دوڑے۔ مخالف قوتوں کے پاس کوئی واقعی جواز ہو یا محض ایک بہانہ، ہمارے کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم اپنی کسی حماقت سے دشمن کو طاقت کے استعمال کا موقع نہ دیں جس کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ حماقتیں کیے بغیر، اس وقت دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ جہاں جہاں ظلم اور زیادتی ہو رہی ہے، ان کی داد رسی کے لیے دنیا میں جو نظم بنا ہوا ہے، ہم اس کا جتنا بہتر سے بہتر استعمال کر کے مسلمانوں کے مسائل کا حل نکال سکتے ہیں، نکالنے کی کوشش کریں۔ مثلاً اقوام متحدہ کی سطح پر دنیا میں بعض اصول مان لیے گئے ہیں۔ جمہوریت کا اصول ہے، قوموں کے لیے حق خود ارادیت کا اصول ہے۔ اب یہ ہماری صلاحیت پر ہے کہ ہم اپنے لوگوں کو مشکلات سے نکالنے کے لیے ان سے کتنا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
ہمارا مسئلہ اس وقت یہ نہیں ہے کہ قانون میں یا نظام کے دائرے میں سرے سے کوئی راستے ہی موجود نہیں۔ راستے موجود ہیں اور راستے نکالے جا سکتے ہیں۔ یہ ہماری حکومتوں کی مفاد پرستیاں اور سیاسی ترجیحات ہیں جو آڑے آ جاتی ہیں۔ مثلاً فلسطین کا جو مسئلہ ہے، آپ کا کیا خیال ہے کہ ا س کو بگاڑنے میں ارد گرد کی عرب حکومتوں کا اور خود فلسطینیوں کا تھوڑا ہاتھ ہے؟ اسرائیل کو تو ہم سامنے رکھ لیتے ہیں کوسنے اور اپنی کمزوریوں سے توجہ ہٹانے کے لیے۔ فلسطین کا مسئلہ پیدا کرنے میں، اس کو بگاڑنے میں اور مشکلات میں اضافہ کرنے میں اسی نوے فی صد کردار ارد گرد کی عرب حکومتوں کا اور خود فلسطینیوں کے داخلی افتراق وانتشار اور باہمی لڑائیوں کا ہے۔ تو یہ ہماری داخلی کمزوریاں ہیں، ورنہ اس وقت دنیا میں جو بھی نظام بنا ہوا ہے، اس کے تحت پر امن طریقے سے مشکلات کے حل کے لیے راستے نکالے جا سکتے ہیں۔ ہم خود اس سے فائدہ اٹھانے اور راستے نکالنے کے لیے ذہنی طور پر آمادہ نہیں ہے اور اس کے لیے جو ضروری کوشش ہے، خود کو اس کا اہل ثابت نہیں کرپا رہے۔
سوال: عبد القادر فرانس کے خلاف لڑتے رہے، اس کے باوجود فرانس میں ان کی یاد میں تقریبات منعقد ہو رہی ہیں۔ تو کیا فرانسیسی حکومت اس کی اجازت دے رہی ہے؟
جواب: دیکھیں، مغربی ملکوں میں جو آزادئ رائے کا تصور ہے، وہ ہمارے یہاں سے کافی مختلف ہے۔ یورپی ملکوں میں سے فرانس میں شہری آزادیوں کا دائرہ نسبتاً محدود ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کا معاملہ کافی مختلف ہے۔ فرانس کو سارے یورپی ملکوں میں ایک الگ نمونے کے طور پر دیکھا جا تا ہے۔ وہ اپنے سیکولرزم میں اور جو فرانسیسی قومیت کا تصور ہے، اس میں کافی سخت ہے۔ لیکن بہرحال فرانس تاریخی طو رپر انقلاب فرانس جیسے سیاسی واقعات اور روشن خیالی جیسی فکری تحریکات کا مرکز رہا ہے اور اس روایت کے اپنے کچھ مسلمات اور تقاضے ہیں جس کے مظاہر آپ کو فرانس میں بھی ملیں گے۔ مثلاً امیر عبد القادر کی یاد میں جو یہ تقریبات منعقد ہوئیں، ان کا انتظام تو فرانسیسی حکومت نے نہیں کیا، لیکن مقامی انتظامیہ نے منتظمین کو اتنی سہولت ضرور بہم پہنچائی کہ مجھے کانفرنس میں شرکت کی غرض سے ویزا کے حصول میں مدد دینے کے لیے جو دعوت نامہ آیا، وہ Lyon کے ڈپٹی میئر کی طرف سے بھیجا گیا تھا۔ 
ایک اور حوالے سے بھی عبد القادر کی داستان سے دنیا کو متعارف کروانا فرانس کے لوگوں کے لیے باعث دلچسپی ہو سکتا ہے۔ ایک دن کائزر اور تقریبات کے مقامی منتظمین کا وفد ایک فرانسیسی بزنس مین سے ملاقات کے لیے گیا تو یہ لوگ مجھے بھی ساتھ لے گئے۔ اس ملاقات کامقصد یہ تھا کہ فرانس میں عبد القادر کے تعارف کے لیے جو کام ان کے پیش نظر ہے، اس کے لیے الجزائری حکومت سے تعاون طلب کرنے کے بجائے فرانس کی مقامی کمیونٹی وسائل مہیا کرے۔ میں نے دیکھا کہ کافی دیر تک، تقریباً گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ وہ اس سے بات کرتے رہے، لیکن اس نے کوئی خاص دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ پھر کائزر نے اس سے کہا کہ یہ جو داستان ہے، اس میں فرانسیسی قوم کے لیے بھی دلچسپی کا ایک بڑا اہم پہلو ہے اور وہ یہ کہ فرانس نے اپنے ایک دشمن کو جس نے اس سے شکست کھائی تھی، یہاں فرانس میں لا کر کسی جیل میں نہیں، بلکہ ایک بڑے تاریخی قلعے میں رکھا۔ پھر اس سے بات چیت کے لیے بہترین نمائندے بھیجے جو عبد القادر کے لیے ہمدردی اور احترام کے جذبات رکھتے تھے۔ پھر جب عبد القادر کو رخصت کیا تو ان کے اور ان کے خاندان کے لیے سالانہ وظیفہ مقرر کیا جو اس کی وفات کے بعد بھی فرانسیسی حکومت ۱۹۵۴ء تک انھیں ادا کرتی رہی۔ کائزر نے کہا کہ آپ لوگ اس داستان کے ذریعے سے دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ ہم اپنے دشمنوں کے ساتھ کم سے کم وہ معاملہ نہیں کرتے جو (دہشت گردی کے خلاف حالیہ جنگ میں) امریکیوں نے کیا ہے۔ کائزر کی اس بات سے وہ بزنس مین ایک دم بڑا پرجوش ہو گیا اور اس نے فوراً یہ تجویز پیش کی کہ جن فرانسیسی طلبہ نے عبد القادر کے حوالے سے انعامی تحریری مقابلے میں حصہ لیا ہے، اگلے سال انھیں قلعہ آمبواز کی سیر کے لیے لے جایا جائے جہاں عبد القادر کو نظر بند کیا گیا تھا اور اس دورے کے اخراجات میرے ذمے ہوں گے۔
سوال: عبد القادر کی شخصیت بہرحال بعض حلقوں کے نزدیک ایک متنازعہ شخصیت ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ جو لوگ اس وقت جہاد کے نام سے غلط حکمت عملی اختیار کیے ہوئے ہیں، انھیں راہ راست پر لانے کے لیے اس کے علاوہ دوسری شخصیات کو حوالہ بنایا جائے جو متنازعہ نہیں ہیں؟
جواب: دیکھیں، کسی بھی معاملے کو دیکھنے کے ایک سے زیادہ زاویے ہو سکتے ہیں۔ جب ہم جہاد کے تناظر میں عبدالقادر کی بات کرتے ہیں تو دراصل ہم جہاد کے صحیح تصور کا ایک نمونہ پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جو لوگ جہاد کے اس تصور سے اختلاف رکھتے ہیں، انھیں عبد القادر کی شخصیت سے بھی چڑ ہوگی۔ لیکن اس بحث کا فریق صرف وہی ایک حلقہ تو نہیں جسے مخاطب بنانے کی ضرورت ہے۔ آپ کی سوسائٹی میں اور دنیا میں اور بھی بہت سے لوگ ہیں۔ اگر عبدالقادر ایک مخصوص حلقے کے لیے ناقابل قبول ہے یا اس کے ساتھ گفتگو میں ہمیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتا تو نہ سہی۔ وہ آج کی دنیا کو اور آپ کی نئی نسل کو بہت سی باتیں سمجھانے اور بہت سی غلط فہمیاں دور کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ ایک مخصوص حلقہ جو عبد القادر کے تصور جہاد سے سے نفور ہے، اس کے ساتھ بات کرتے ہوئے آپ بے شک عبد القادر کا حوالہ نہ دیں۔ ان سے آپ اصولوں کے حوالے سے بات کریں کہ جہاد کے یہ اصول ہیں جو قرآن، حدیث اور فقہ اسلامی میں بیان ہوئے ہیں۔ آئیے، ان اصولوں پر بات کرتے ہیں۔ تو ان لوگوں کے سامنے آپ بے شک عبد القادر کا حوالہ پیش نہ کریں، لیکن باقی سارے لوگ تو اس طرح کے تعصب میں مبتلا نہیں۔ ان کے سامنے عبد القادر کا نمونہ پیش کرنا کئی پہلوؤں سے مفید ہو سکتا ہے۔ 
مقصد یہ کہ کوئی ضروری نہیں کہ ایک ہی بات یکساں طور پر سب کے لیے مفید ہو۔ عبد القادر پر جو کتاب لکھی گئی ہے، وہ القاعدہ کے ساتھ مکالمے کے لیے نہیں لکھی گئی اور نہ اس آئیڈیالوجی کے متاثرین کے لیے مفید ہے۔ یہ کتاب تو آج کی نئی نسل کے لیے لکھی گئی ہے جسے اس وقت جہاد کا ایک ہی یک طرفہ تصور اور نمونہ دنیا میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس کو یہ سمجھانے کے لیے اور دنیا کو یہ بتانے کے لیے کہ جہاد کا صحیح تصور اس سے مختلف ہے، ہمیں دوسرے نمونے پیش کرنے ہوں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس خاص پہلو سے امیر عبد القادر کی شخصیت ہمارے لیے ایک بہت بڑا اثاثہ ہے کہ جدید دنیا میں ایک ایسا آدمی، ایسا عالمی شہرت یافتہ شخص جس کا مغرب میں تعارف بھی ہے اور احترام بھی، وہ اسلام کی جنگی اخلاقیات کی صحیح ترجمانی کرتا ہے۔ دور جدید میں جہاد کے حوالے سے جو غلط تصورات دنیا میں پھیلے ہیں، اور ان میں سے بہت سوں کا تعلق خود ہمارے بعض طبقات کی حماقتوں سے بھی ہے، ان کو دور کرنے کے لیے ہمارے پاس قریبی تاریخ میں ایک ایسا نمونہ موجود ہے جس کو دنیا کے سامنے لا کر ہم اسلام کے تصور جہاد کے حوالے سے شکوک وشبہات اور غلط فہمیوں کا ازالہ کر سکتے ہیں۔

فکرِ مغرب: بعض معاصر مسلم ناقدین کے افکار کا تجزیہ (۲)

ڈاکٹر محمد شہباز منج

جہاں تک سائنس اور اخلاقی اقدار کے باہمی تعلق کا سوال ہے تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایسی چیز جو حقیقتِ مطلقہ کے عرفان کااہم ذریعہ ہواسے لازماً اعلی اخلاقی اقدار کے حصول کا ذریعہ بھی ہونا چاہیے۔لیکن حادثہ یہ ہوا کہ مغرب میں نشأۃِ ثانیہ کے دور میں جب مذہب اور سائنس میں جدائی واقع ہوئی تو اہلِ سائنس نے ردعمل میں جہاں مذہب کو سائنس کی راہ میں رکاوٹ خیال کرتے ہوئے رد کردیا وہاں مذہبی اخلاقی اقدار سے بھی کنارہ کشی اختیار کر لی ۔جب سائنس کا مذہبی اخلاقیات سے کوئی علاقہ نہ رہا تو ظاہر ہے اس میں وہی اخلاقیات داخل ہونا تھیں جو اس سے متعلق لوگوں کی اخلاقیات تھیں ،یعنی غیر مذہبی اور آزادانہ اخلاقیات۔اب چونکہ سائنس پر غیر مذہبی لوگوں کا قبضہ تھا تو لامحالہ سائنس کو انہی کی اخلاقیات کا حامل ہونا تھا۔مگراس سے یہ کیسے طے ہو گیا کہ سائنس فی نفسہ غیر مذہبی اخلاقیات کی حامل ہے،جیسا کہ ہمارے سائنس مخالف دانشور ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔واقعہ یہ ہے کہ سائنس میں غیر مذہبی اخلاقی اقدار اکے دخول کے اصل ذمہ دار اہلِ کلیسا ہیں۔کیا ہمارے سائنس مخالف دانشور بھی انہی کی روش اپنانے کے درپے ہیں۔اگر اہلِ مذہب سائنس کی زمامِ کار ملحددین ہی کے ہاتھوں میں دینے پر مصر ہوں تو انہیں کس طرح یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ سائنس اور اہلِ سائنس کی غیر مذہبی اخلاقیات کی شکایت کریں !
بلاشبہ عصر حاضر کی ایک نہایت اہم ضرورت سائنس کو مذہب و اخلاق سے مربوط کرنا ہے۔دورِ جدید کے بڑے بڑے مفکرین اس کا گہرا احساس رکھتے ہیں۔میں اس ضمن میں یہاں ڈاکٹر رفیع الدین کے توسط سے دو مفکرین کی آرا پیش کروں گا:پروفیسر سوادکن ۔ہارورڈ یونیورسٹی کے شعبہ عمرانیات کا سابق صدر۔ لکھتا ہے:’’ مذہب اور سائنس کا موجودہ تضاد خطرناک ہی نہیں بلکہ غیر ضروری بھی ہے۔ اگر خدا اور اخلاقی اقدار کا صحیح تصور میسر آ جائے تو اس کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جائے گی کہ مذہب اور سائنس دونوں ایک ہیں اور ایک ہی مقصد کی پیش برد کے لیے اپنا وجود رکھتے ہیں ۔یعنی یہ کہ تجربات کی اس قریبی دنیا میں خدائے مطلق کی قدرتوں کو بے نقاب کیا جائے تاکہ انسان کی شرافت اور خدا کی عظمت دونوں کا اثبات عمل میں آئے۔‘‘؛ فیلڈ مارشل سمٹس۔ فلسفہ کی بلند پایہ کتاب ہولزم Holismکا مصنف ۔کہتا ہے:’’ صداقت کی مخلصانہ جستجو اور نظم او رحسن کے ذوق کے اعتبار سے سائنس مذہب اور فن کے اوصاف سے حصہ لیتی ہے ... اصل بات یہ ہے کہ یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ شائد سائنس ہمارے اس عہد کے لیے خدا کی ہستی کی واضح ترین نقاب کشائی ہے... سچی بات تو یہ ہے کہ نوعِ انسانی کو جو کارہائے نمایاں سر انجام دینے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہو گا کہ وہ سائنس کو اخلاقی قدروں کے ساتھ ملحق کرے گی اور اس طرح سے اس بڑے خطرے کا ازالہ کرے گی جو ہمارے مستقبل کو درپیش ہے۔‘‘ (۳۱)
راقم کی رائے میں آج کے دور میں سائنس کے مذہب اور اخلاق سے ربط کے سلسلے میں عامۃ الناس کی نفسیات کے تحت، غیر شعوری طور پر ہی سہی ، بہت کچھ کام جاری ہے۔وہ وقت ضرورآئے گاجب سائنس مذہبی اخلاقیات سے مربوط ہو کر کل شی یرجع الی اصلہ  کے مصداق اپنی اصل کی طرف لوٹ آئے گی ۔
اگر ہم اپنی عملی زندگی میں سائنس اور سائنسی ایجادات و اکتشافات کے ناقابلِ انکار کردار اور ہمارے ممدوح دانشوروں کے اس سے متعلق عملی رویے کے تناظر میں دیکھیں تو ان کے نقطہ نظر کی غلطی اور سطحیت اور نمایاں ہوتی ہے اور وہ مذاق بن کر رہ جا تے ہیں۔ یہ اپنی تحریروں میں شد ومدسے سائنس اور سائنسی مظاہر کی برائیاں گنواتے اور مسلمانوں کو ان سے کنارہ کشی اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں،لیکن خود ان میں بری طرح ملوث ہوتے ہیں۔کیایہ تبلیغ و اصلاح کے تناظر میں اتنی سی بات سے بھی ناواقف ہیں کہ مبلغ کو پہلے خود اپنی دعوت پر عمل کر کے دکھانا چاہیے۔یہ موبائل فون اور انٹر نیٹ وغیرہ کو اہلِ اسلام کے لیے زہرِ قاتل بتاتے اور ان کے استعمال کو مغرب کی مادی تہذیب و اقدار کے فروغ میں حصہ ڈالنے کے مترادف قرار دیتے ہیں، لیکن خود ان چیزوں کو اس طرح بے دریغ استعمال کرتے ہیں ،جیسے انہیں اس معاملے میں کوئی خصوصی استثنا حاصل ہے۔بندہ پوچھے یہ پریس ،یہ چھاپہ خانے،یہ کمپیوٹراور اس کے ذریعے اپنے مافی الضمیر کی نشر واشاعت،یہ بڑی بڑی بلڈنگزاورٹاورز،یہ یونیورسٹیاں اور ان کے ادراوں میں خدمات،یہ کانفرنسز اور اور ان کے لوازمات،یہ ائر کنڈیشنڈ آفس،یہ کاروں اور ہوائی جہازوں کے سفر و علی ہذ القیاس اس ’’منحوس ‘‘سائنس کی کوئی ایک چیز بھی ہے جس سے جناب بے نیاز ہوں !ستم ظریفی دیکھیے کہ ہمارے یہ ممدوح سائنس اور اس کے مظاہر کی برائیاں سائنس اور اس کے مظاہر ہی کے ذریعے بیان کرتے ہیں،لیکن پھر بھی انہیں برا کہتے ہیں۔کیا ان احباب نے کبھی غور کیا کہ موبائل انٹر نیٹ اور ٹی وی وغیرہ چیزیں فی نفسہ بری ہیں توان کا انہی اشیا کو استعمال کرتے ہوئے ان کے خلاف واویلا کیسے نیکی و بھلائی قرار پاتا ہے۔انہیں دو میں سے ایک بات ماننی ہو گی ؛یا یہ کہ یہ چیزیں نفس الامر میں بری نہیں، اور یا یہ کہ ان چیزوں کو استعمال کرکے وہ بھی دوسروں کی طرح برائی کے فروغ کا ذریعہ بن رہے ہیں۔(بلکہ ان کا جرم اس وجہ سے شدید تر ہو جاتا ہے کہ دوسرے ان کو برائی سمجھ کر استعمال نہیں کر رہے جبکہ یہ انہیں برائی یقین کرکے استعمال کر رہے ہیں) اوروہ جس بات کو بھی مانیں گے ان کا مقدمہ باطل ہو جائے گا۔

تاریخ ،فطرت اور عقل بطور ماخذ اخلاق

تاریخ، فطرت اورعقل سے متعلق ہمارے زیر نظر دانشوروں کا دعویٰ ہے کہ یہ اخلاقیات کی بنیاد نہیں بن سکتے۔ان میں سے کسی میں بھی یہ اہلیت نہیں کہ وہ یہ بتا سکے کہ خیر کیا ہے اور شر کیا؟حق کس چیز کا نام ہے اور باطل کس چیزکا؟کون سا کام آدمی کو کرنا چاہیے اور کون سا نہیں کرنا چاہیے؟ایسا ثابت کرنے کی کوشش کے پیچھے یہ مفروضہ کارفرما ہے کہ ان تمام چیزوں کو اخلاقیات کی بنیاداہلِ مغرب اور ان سے متاثر مسلمان بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن نہ یہ مفروضہ کلی طور پرصحیح ہے اور نہ اس کی بنیاد پر حاصل کردہ مذکورہ نتیجہ،ہاں اس میں جزوی صداقت موجود ہے۔مفروضہ میں جزوی صداقت یہ ہے کہ عقل وفطرت وغیرہ سے درسِ اخلاق کے دہریہ اور مذہب بیزاراہلِ مغرب اور مغرب سے مرعوب مسلمان بھی قائل ہیں ۔لیکن اس میں غلطی یہ تسلیم نہ کرنا ہے کہ ان سے اخلاقی اسباق کے صرف یہی لوگ قائل نہیں بلکہ مذہبی لوگ حتی کہ خود مذہب بھی اس کا قائل ہے۔ اور نتیجے میں جزوی صداقت یہ ہے کہ مذکورہ اشیا یا ان میں سے بعض اخلاقیات کی تنہا بنیاد نہیں ۔لیکن اس میں غلطی یہ خیال کرنا ہے کہ ان میں سے کسی کااخلاق سے کچھ علاقہ ہی نہیں۔یہ حقیقت درج ذیل نکات سے نمایاں ہو کر سامنے آ جائے گی :

تاریخ اور اخلاق

ہمارے ان دوستوں کا کہنا ہے کہ تاریخ انسان کو اخلاقی سبق سکھانے سے قاصر ہے ۔ تاریخی عمل سے نتائج اخذ کرنے کا کوئی منہج متعین کرنا ناممکن ہے ۔مختلف فلسفی مطالعۂ تاریخ سے مختلف نتائج اخذ کرتے ہیں۔لیکن یہ نتیجہ بھی مذہباً اورعقلاً ہر دو لحاظ سے نادرست ہے۔مذہب باربار مطالعۂ تاریخ اور اس سے اخلاقی نتائج اخذ کرنے پر زور دیتا ہے۔قرآن کی بیسیوں آیا ت اس پر شاہد ہیں ۔تذکیر بایامِ اللہ قرآن کا ایک نہایت اہم مضمون ہے ۔ارشاد ہے : وَ ذَکِّرْھُمْ بِاَیَّامِ اللّٰہِ (ابراہیم۱۴:۵)’’اور انہیں اللہ کے ایام یاد کراو۔‘‘اور یہ اقوامِ سابقہ کے حشر کے مطالعے اور اس سے عبرت حاصل کرنے کی ترغیب ہی تو ہے۔ قرآن حکیم نے جس واحد تاریخی واقعہ کو سب سے زیادہ تفصیل کے ساتھ ایک ہی جگہ بیان کیا ہے وہ قصۂ یوسف علیہ السلام ہے ۔لیکن اس سے اس کا جو مقصود ہے وہ سورہ یوسف کی آخری آیت کہ ان الفاظ میں ملاحظہ فرمایے: لَقَدْ کَانَ فِیْ قَصَصِھِمْ عِبْرَۃٌ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ۔ (یوسف۱۲:۱۱۱) ’’ان کے قصے میں اہلِ عقل کے لیے(سامانِ)عبرت ہے۔‘‘ زمین میں چل پھر کر پہلوں کے انجام سے سبق سیکھنے کی تاکیداتنی زیادہ آیات میں کی گئی ہے کہ ان کا استقصا اس مضمون کی بساط سے باہر ہے۔چند آیات دیکھ لیجیے:
قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلُ۔ (الروم۳۰:۴۲)’’کہو:زمین میں چلو پھرو اور دیکھو کے پہلے لوگوں کا کیاانجام ہوا۔‘‘؛ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ سُنَنٌ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ۔(آل عمران۳:۱۳۷)’’تم سے پہلے لوگوں کے طور طریقے گزر چکے ہیں، سو زمین میں چل پھر کر دیکھ لوکہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا۔‘‘؛ فَھَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا سُنَّتَ الْاَوَّلِیْنَ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحْوِیْلًا۔ اَوَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ وَکَانُوْٓا اَشَدَّ مِنْھُمْ قُوَّۃً وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعْجِزَہٗ مِنْ شَیْءٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِی الْاَرْضِ اِنَّہٗ کَانَ عَلِیْمًا قَدِیْرًا۔ (فاطر۳۵:۴۳۔۴۴)’’کیا یہ اس چیز کے انتظار میں ہیں کہ ان کے ساتھ وہی کیا جائے جو پہلوں کے معاملے میں کیا گیا ؟سو تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پاو گے،اور اس کی سنت کو بدلتا نہ دیکھو گے ۔کیا یہ لوگ زمین میں چلتے پھرتے نہیں کہ دیکھتے ان لوگوں کا کیا انجام ہوا جو ان سے پہلے تھے !حالانکہ وہ ان سے زیادہ طاقتور تھے،اللہ ایسا نہیں کہ زمین وآسمان کی کوئی چیز اسے عاجز کر سکے،وہ علم والا،قدرت والا ہے۔‘‘
مطالعۂ تاریخ ہی آپ کو بتاتا ہے کی مذہب کی فراہم کردہ اخلاقیات کا نتیجہ(Out put)کیا رہا۔اسی سے آپ غیر مذہبی اقدار پر مذہبی اقدار کی فوقیت ثابت کرتے ہیں ۔قرآن واضح طور پر کہہ رہا ہے کہ جھوٹ ،فریب اور دغا چھوڑ دو اس لیے کہ اس کانتیجہ تباہی ہے اور یہ نتیجہ قرطاسِ تاریخ پر رقم ہے۔کیا اس میں کوئی ابہام ہے کہ قرآن کے نزدیک نہ صرف تاریخ سے اخلاقی سبق حاصل ہوتا ہے ، بلکہ اس سے اخلاقی سبق کا حصول قرآ ن کا نہایت اہم تقاضا ہے ۔آخر قرآن نے یہ کہنا کیوں کافی نہیں سمجھا کہ جھوٹ اور بد اخلاقی اس لیے چھوڑ دو کے اللہ نے اسے چھوڑنے کا حکم دیا ہے اور اس کے نتیجے میں تمہیں جنت حاصل ہو گی۔اس کا سادہ سا جواب یہی ہے کہ یوں کہنا اہلِ ایمان ہی کے لیے فائدہ مند ہوسکتا ہے ۔اس سے ان لوگوں کو کچھ نفع حا صل نہیں ہو سکتا جو ذاتِ باری کو جانتے اور مانتے ہی نہیں ۔انہیں تو آپ کو انہی چیزوں سے اخلاقیات نکال کر دکھانی پڑے گی،جنہیں وہ جانتے اور مانتے ہیں،اور ان میں سے ایک نہایت اہم چیز تاریخ ہے۔

فطرت اور اخلاقیات

ہمارے ممدوح سکالریہ نظریہ بھی پیش کرتے ہیں کہ فطرت بھی اخلاق کا ماخذ نہیں بن سکتی۔ دلیل وہی تاریخ والی دلیل جیسی ہے کہ یہ متعین ہی نہیں کیا جاسکتا کہ انسانی فطرت کیا ہے۔مختلف ادوار اور حالات سے گزرنے والے انسانوں کی فطرت مختلف ہوتی اور مختلف نتائج دیتی ہے۔لیکن یہ نظریہ بھی مذہب واخلاق کی کسوٹی پر پرکھنے سے باطل قرار پاتا ہے۔اولاً اس لے کہ قرآن میں فطرت کے خیر و شر معلوم کرنے کا پیمانہ ہونے کے واضح شواہد ہیں۔ ارشاد ہے : فَاَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ۔ (الروم۳۰:۳۰)’’پس اپنا رخ پورے طور پر دینِ حنیف کی طرف رکھیے۔خدا کی فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پید کیا۔ اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہو سکتی ،یہی صحیح دین ہے۔‘‘ایک اور جگہ فرمایا: وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰہَا۔ فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰہَا۔(الشمس۹۱:۸)’’اور نفس کی اور اس ذات کی قسم جس نے اس کی تکمیل کی۔پھر اسے اس کی نیکی و بدی سمجھادی۔‘‘حدیث میں بھی واضح طور پر کہا گیا کہ : کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الُفِطْرَۃِ فَاَبَوَاہٗ یُھَوِّدَانِہ اَوْ یُنَصِّرَانَہِ اَوْ یُمَجِّسَانِہِ ۔ (۳۲)’’ ہر بچہ فطرت پر پیداہوتا ہے،پھر اس کے والدین اس کو یہودی،نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔‘‘ان نصوص سے اس دعوے کی واضح تردید ہو رہی ہے کہ انسان کی’ اصلی حالت‘کے تعین کا کوئی پیمانہ نہیں،اور اس حقیقت کو واشگاف کر رہے ہیں کہ انسان کی اصلی حالت کا مسئلہ محض فلاسفہ اور مغربی مفکرین کا ڈھکوسلہ نہیں بلکہ خالص مذہبی تصور ہے۔مذکورہ نصوص کی شرح میں بہت سے شارحین نے لکھا ہے کہ اگر آدمی کو اس کی اصلی حالت پر چھوڑ دیا جائے تو وہ مشرک وکافر نہیں بلکہ موحد گاجبکہ ہمارے دانشور انسان کو سوسائٹی سے کاٹ کر دیکھنے کوسیکولر مفکرین کی’’لامتصور شے کو متصور کرنے کی لا حاصل کوشش‘‘سے تعبیر کرتے ہیں۔
اگر ہمارے ممدوح دانشوروں کو فطرت سے اس لیےَ بیر ہے کہ مختلف ماحول کے لوگوں کی فطرتیں مختلف ہوتی ہیں اورانسان کی فطرت مسخ ہوسکتی ہے، تو ہم ان کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ ہمیں کوئی ایسی چیز بتائیے جو مختلف فیہ نہ ہو اور مسخ نہ ہو سکتی ہو۔مسخ کرنے پر آئیں تو سیکولر ولبرل ہی نہیں خود اہلِ مذہب اللہ کی آخری کتاب کو اس کی تعبیر وتشریح کے نام پر مسخ کر ڈالیں۔اقبال نے اس کا جگہ جگہ رونا رویا ہے۔کہیں وہ کہتے ہیں:
احکام ترے حق ہیں مگر اپنے مفسر
تاویل سے قرآں کو بنا سکتے ہیں پاژند 
کہیں شکوہ سنج ہیں:
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
اور کہیں نوحہ کناں ہیں:
زمن بر صوفی وُ ملا سلامے 
کہ پیغامِ خدا گفتند مارا
ولے تاویلِ شاں در حیرت انداخت
خداو جبرائیل ومصطفی را
پھر قرآن نے باربارتاکید کی کہ معروف کو اختیار کرو اور منکر سے بچو۔نیز اس نے انبیا کو حکم دیا اور داعیانِ حق کا فریضہ ٹھہرایاکہ وہ معروف کا حکم دیں اور منکر سے روکیں ۔یہ معروف ومنکر کیا ہے؟کوئی بھی معتبرلغت اور شرحِ الفاظِ ربانی اٹھا کر دیکھ لیںآپ کو نظر آئے گا کہ معروف سے قرآن کی مراد جانی بوجھی ہوئی اچھائی ہے۔یعنی معروف وہ ہے جس کو فطرت اچھا قرار دے ۔اسی طرح منکر جانی بوجھی ہوئی برائی ہے،جسے فطرت براٹھہراتی ہے۔مزید برآں قرآن نے متعدد جگہ مختلف قانونی امور کو عرف کے مطابق طے کرنے کا حکم دیا ہے،جس سے مراد متعلقہ مہذب معاشرے کے شرفا کا دستور ہوتا ہے۔ یہ دستو ر بھلائی کی فطری قوتِ تمیز ہی سے ترکیب پاتا ہے۔ اگر فطرت برائی بھلائی میں تمیز کی اہل نہ ہوتی تو قرآن اس کی بنیاد پر وجود پذیر ہونے والے دستور پر اعتماد نہ کرتا۔

اخلاقیات اور عقل

ہمارے ان اسکالرز کا ایک دعویٰ یہ ہے کہ عقل بھی اخلاق کا ماخذ نہیں ۔لیکن یہ دعوی اس قدر بودا ہے کہ عقل پر تنقید کرنے والوں کے سارے دلائل ،تنقیدات اور داخلی محاکموں کو مہمل بنا دیتا ہے۔ ان سے اگر کوئی یہ کہے کہ جناب ہم آپ کی تمام تر تنقیدات کو من وعن مان لیتے ہیں ،آپ صرف اتنا بتا دیجیے کہ کس بنیاد پر؟تو ان کے پاس صرف ایک جواب ہو گا کہ عقلی دلائل کی بنیاد پر،اس لیے کہ نہ یہ وحی سے جواب دینے کے دعویدار ہیں اور نہ اُن لوگوں کو وحی سے جواب دیا سکتا ہے جن کے افکار کا یہ محاکمہ کر رہے ہیں۔ اور یہ جواب ان کے سارے دلائل کا قاتل ہے۔ ظاہر ہے کہ جو چیز آپ کے نزدیک معتبر ہی نہیں اس سے آپ کسی چیز کو غیر معتبر کیسے ٹھہرا سکتے ہیں!گویا :
میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں (۳۳)
تاہم وحی کی بنیاد پرعقل کو نامعتبر ٹھہرانا بھی کچھ کم قابلِ گرفت نہیں،خاص طور پر وحئ قرآنی کی بنیاد پر۔ قرآن سے عقل کے حجت ہونے کے جواز پر دلائل لانا کیا معنی وہ توعقل وفکر سے کام لینے کی جگہ جگہ ترغیب دیتاہے۔ اس قبیل کی سینکڑوں آیات میں سے چند دیکھیے:
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّھَارِ وَ الْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِیْ الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ مَّآءٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا وَ بَثَّ فِیْھَا مِنْ کُلِّ دَآبَّۃٍ وَّ تَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَ السَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ۔(البقرہ ۲:۱۶۳) ’’بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق اور رات دن کی تبدیلی اور ان کشتیوں میں، جو لوگوں کے فائدے کی چیزوں کے ساتھ دریا میں چلتی ہیں اور آسمان سے پانی اتار کر مردہ زمین کو، اس کی موت کے بعد، زندہ کرنے اور اس میں ہر طرح کے جانور پھیلانے اور ہواؤں کے چلنے ا ور بادلوں کے آسمان اور زمین کے درمیان معلق رہنے میں عقل مندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔‘‘ ؛ سَخَّرَ لَکُمُ الَّیْلَ وَ النَّھَارَ وَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ وَ النُّجُوْمُ مُسَخَّرٰتٌم بِاَمْرِہٖ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْن (النحل۱۶:۱۲)’’ اور اس نے تمہارے لیے رات اور دن اور سورج اور چاند کو مسخر کیااور ستارے (بھی )اس کے حکم سے مسخر ہیں۔بلا شبہ اس میں عقل سے کام لینے والوں کے لیے (بہت سی )نشانیا ں ہیں۔‘‘وَفِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَ۔ وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْ اَفَلاَ تُبْصِرُوْنَ (الذریت ۵۱:۲۰۔۲۱) ’’اور زمین میں بھی نشانیاں ہیں یقین کرنے والوں کے لیے، اور تمہاری اپنی ذات میں بھی، تو کیا تمہیں دکھائی نہیں دیتا۔‘‘؛ اَوَ لَمْ یَنْظُرُوْا فِیْ مَلَکُوْتِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ مِنْ شَیْءٍ۔ (الاعراف۷:۱۸۵) ’’کیا انہوں نے آسمانوں اور زمین کی سلطنت پر، اور ان اشیا پر، جو اللہ نے بنائیں، نگاہ نہیں ڈالی؟‘‘ ؛ قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ بَدَاَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللّٰہُ یُنْشِئُ النَّشْاَۃَ الْاٰخِرَۃَ۔(العنکبوت ۲۹:۲۰) ’’آپ فرمائیے! زمین میں چل پھر کر دیکھو۔ اللہ کیونکر خلق کی ابتدا کرتا ہے اور پھر اسے دوسری اٹھان اٹھاتا ہے۔ ‘‘ ؛ اَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُہَا۔(محمد۴۷:۲۴) ’’تو کیا وہ قرآن میں غوروفکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل پڑے ہوئے ہیں۔‘‘ 
قرآن کے نزدیک صاحبانِ ایمان و تقوی کی نمایاں علامت یہ ہے کہ اِِذَا ذُکِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّہِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْہَا صُمًّا وَّعُمْیَانًا۔ (الفرقان۲۵:۷۳)’’جب انہیں ان کے رب کی آیات سے نصیحت کی جاتی ہے تو ان پر بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گر پڑتے۔‘‘یہی نہیں بلکہ قرآن کے مطابقعقل سے کام نہ لینے والے بد ترین خلائق ہیں۔ (اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰہِ الصُّمُّ الْبُکْمُ الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُوْنَ۔الانفال۸:۲۲)اسی پر بس نہیں قرآن تو یہاں تک کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ عقل و فکر سے کام نہ لینے والوں پر گندگی ڈال دیتا ہے۔(وَ یَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُوْنَ۔یونس ۱۰:۱۰۰)
ہمارے دانشور کہتے ہیں کہ عقل میں خیر و شر میں تمیز کی اہلیت نہیں ۔سوال یہ ہے کہ پھر خالقِ کائنات نے اس کے ذریعے حقیقتِ کبری تک رسائی حاصل کرنے پر اتنی زیادہ آیات میں اس غیر معمولی انداز سے زور کیوں دیا ہے؟اس نے کیوں صرف اتنا کہنے پر اکتفا نہیں کیاکہ جب میں اور میرے نبی کہہ رہے ہیں کہ اللہ ہے ،اس نے تمہیں ایک خاص مدت تک لیے دنیا میں بھیجا ہے،تمہیں ایک روز اللہ کے حضور حاضر ہو کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہے،تو بس اور کیا دلیل چاہتے ہو،سرِ تسلیم خم کردو۔کس قدر حیرت انگیز بات ہے کہ اللہ اپنے سینکڑوں ارشادات میں نہایت غیر مبہم طریق سے عقل کو خیر و شر ہی نہیں خود خالقِ خیر وشر کی پہچان کا ذریعہ بتارہا ہے اور ہم اسی کے نام پر یہ باور کرانے پر زور لگا رہے ہیں کہ خوب وزشت کی معرفت عقل کا وظیفہ ہی نہیں۔ 
عقل کے خلاف آپ کی ساری سر پھٹول اس بنا پر ہے کہ ہمیں ایک ایسی چیز میسر ہے جو عقل سے بہت اعلی درجے کی ہے اور ہم ان امور سے متعلق خبر دیتی ہے جن کا ادراک عقل کی مجال نہیں۔یہ چیز ایمان ہے۔لیکن آپ نے کبھی غور فرمایا کہ یہ ایمان کہاں سے آیا ہے؟ ایک آدمی ہے جس پر نہ وحی آتی ہے اور نہ وہ وجودِ باری اوروحی ونبوت کا قائل ہے۔آپ اس کو کیسے سمجھائیں گے کہ اللہ تعالی موجود ہے،اس نے وحی و نبوت کا سلسلہ قائم فرمایا اور انسانوں کو تعلیم دی ہے کہ وہ وحی ونبوت اور اس کے پیش کردہ عقائد و تصورات پر ایمان لائیں۔ عقل کے سوا اس کا کوئی دوسراذریعہ نہیں۔ہمارے دانشوروں کو خبر ہو نہ ہو اللہ علیم وخبیر ہے،اسے تو پتہ ہے کہ بے ایمان عقل ہی کی بنیاد پر ایمان لا سکتا ہے،سو اس نے اپنی آخری کتاب میں اسی کے ذریعے ایمان لانے پر زور دیا۔اوپر درج اوران کی قبیل کی سینکڑوں دیگرآیا ت اس حقیقت کی ناطق شہادتیں ہیں۔اب ذرا ارشاداتِ باری اور ان کے بدیہی نتائج اورہمارے عقل مخالفین کے نظریے کو ملا کر دیکھیے :عقل اللہ کو پا سکتی ہے لیکن خیر وشر کو نہیں! 
ناطقہ سر بگریبا ں ہے اسے کیا کہیے
خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھیے
بلاشبہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ایمان عقل کا رہبر ہے۔بہت سی چیزیں ایسی ہیں جنہیں ہم ایمان کے اعتماد پرمان لیتے ہیں ،حالانکہ وہ ہماری عقل میں نہیں آتیں۔لیکن ایمان کو عقل کی رہبری کا اختیار بھی تو عقل ہی نے دیا ہے۔بنابریں ایمان کے حاصلات فی الاصل عقل کے حاصلات ہیں ۔پھریہ بات بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ ایمان اورعقل میں باہم کوئی تسابق وتصادم نہیں،سمجھوتا وموافقت اور اپنائیت ہے۔بلکہ یوں کہیے کہ عقل عاشق ہے اور ایمان محبوب ۔ایمان جن چیزوں پر اعتقاد کا کہتا ہے عقل اس لیے مان لیتی ہے کہ وہ اس کے محبوب کی پسند ہیں۔ایمان بھی اس کو دھوکا نہیں دیتا اور اپنے سارے معاملات اس کو اعتماد میں لے کر طے کرتا ہے۔ا گر کہیں اختلاف ہو جائے تو ڈائیلاگ ہوتا ہے، اور بالآ خر دونوں ایک متفقہ نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں۔ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ اختلاف برقرار رہے،تاہم اختلاف باقی رہے تو امرِ فیصل، جیسا کہ محبوب ومحب کے معاملے کا عام دستور ہے،محبوب ہی کا ہوتا ہے۔اور وہ بھی اس وجہ سے کہ عقل ایمان کے فیصلے کو مان لیتی ہے۔نہ مانے تو جیسے معاملۂ عشق میں عاشق عاشق نہیں رہتا اور محبوب محبوب نہیں ،عقل عقل نہیں رہتی اور ایمان ایمان نہیں رہتا۔
اس میں شبہ نہیں کہ مغرب کو معیارِ حق ٹھہراتے ہوئے دینی عقائد و نظریات کو کھینچ تان کر اس سے موافق کرنے کی کا رویہ گمراہی ہے ۔لیکن یہ بھی کوئی دلیلِ علم و ہدایت نہیں کہ مغرب کو معیارِ باطل سمجھتے ہوئے اس سے متعلق یا منسوب ہر چیز کوجہالت اور دین ومذہب اور اس کے پیروکاروں کے لیے زہرِ قاتل قرار دیا جائے اور اس میں یہاں تک غلو ہوکہ شریعت کے بہت سے واضح نصوص کا انکار لازم آئے یاان کی دوراز کا ر تاویلات کرنا پڑیں۔ مغرب معیارِ حق نہیں تو معیارِ باطل بھی نہیں۔اسلام میں حق و باطل کو مشرق ومغرب کے خانوں میں بانٹ کر دیکھنے کا کوئی جواز نہیں۔حق مغرب کے اپنا لینے سے باطل ہوجاتاہے نہ باطل مشرق کے اختیار کر لینے سے حق۔

حوالہ جات وحواشی

۳۱۔ سیارہ ڈائجسٹ، قرآن نمبر(س۔ن)،۲/۸۲۔
۳۲۔ محمد بن اسماعیل البخاری،صحیح البخاری ،ت ۔محمد زہیر بن ناصر الناصر(دارطوق النجاۃ:۱۴۲۲ھ )،۲/۱۰۰،حدیث رقم۱۳۸۵،کتاب الجنائز،باب ماقیل فی اولاد المشرکین۔
۳۳۔ واضح رہے کہ میر کا ذکر کردہ شعردرست طور پر ایسے ہی ہے۔ جو لوگوں میں یوں مشہور ہے:میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب۔ اسی عطار کے لونڈے سے دوالیتے ہیں،وہ غلط ہے۔

غزالی اور ابن رشد کا قضیہ ۔ اصل عربی متون کی روشنی میں (۲)

مولانا محمد عبد اللہ شارق

(۳)
آپ جان چکے ہیں کہ غزالی نے ’’مسلم‘‘ فلسفیو ں کی طرف جن ہفوات کی نسبت کی ہے، ابنِ رشد ان ہفوات کی ’’مسلم‘‘ فلسفیوں کی طرف نسبت کو غلط ثابت نہیں کرپائے، بلکہ لگتا ہے کہ یہ ان کا مقصد ہی نہیں تھا۔ ’’مسلم‘‘ فلسفیوں سے منسوب جن دو ہفوات کا ہم نے حوالہ دیا ہے، ان کے ضمن میں ابن رشد کا رویہ سامنے آچکا ہے کہ وہ ان جیسے مسائل میں بوعلی سینا وغیرہ کو ناقل کی بجائے الٹا موجدِ اول نام زد کردیتے ہیں اور یوں بوعلی سینا وغیرہ کے خلاف غزالی کی ’’چارج شیٹ‘‘ کو اور بھی زیادہ مضبوط بنا دیتے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی آپ جان چکے ہیں کہ غزالی نے جہاں فلاسفہ کی الہیات کو غیر قطعی ثابت کرنے کے لیے اور محض فلاسفہ کے استدلالات میں تشکیکات دکھانے کے لیے مخالف استدلال کیے ہیں، ان سے ان کا مقصود اپنے استدلال کو قطعی ثابت کرنانہیں، بلکہ صرف یہ بتانا ہے کہ ایسے مسائل میں کسی ایک جانب کو ترجیح دینے کے لیے کوئی قطعی دلیل کسی کے پاس نہیں ہے۔ لہٰذا ابن رشد کا کوشش کرکے ایسے موقعوں پر غزالی کے استدلالات کو غیر حتمی ثابت کرنا غزالی کے لیے مضر نہیں، بلکہ ان کے موقف کو اور زیادہ مضبوط کرتا ہے۔
تیسری بات جو ہم یہاں عرض کرنا چاہتے ہیں، وہ یہ ہے کہ مختلف مسائل میں یونانی فلاسفہ کے ہاں خاصا اختلاف پایا جاتا ہے۔ غزالی نے تہافت الفلاسفۃ میں اس اختلاف سے صرفِ نظر کرتے ہوئے تردید کے لیے صرف ارسطو کے اقوال کو چنا ہے اور ایسا عمداً کیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی اس کتاب کے ذریعہ بنیادی طور پر اعتقادی انحراف کا شکار مسلم فلسفیوں کو دعوتِ دین و دعوتِ توبہ دینا چاہتے ہیں اور مسلم فلسفیوں کے ہاں ارسطو کو ہی اپنا مرشد وسالار سمجھا جاتا تھا۔ اگلی بات یہ ہے کہ پھر اسی ارسطو کے کلام کو سمجھنے میں اس کے ’’مسلم‘‘ عقیدت مندوں کا خاصا اختلاف رہا ہے۔ غزالی نے اس اختلاف سے بھی صرفِ نظر کرتے ہوئے مسلم فلسفیوں میں سے صرف فارابی اور بوعلی سینا کی تشریحات وتفہیمات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے انہی کی تردید کرتے ہیں اور یہ بھی انہوں نے عمداََ کیا ہے، وجہ یہ ہے کہ ’’مسلم‘‘ فلسفیوں میں جو اثر ورسوخ فارابی اور بوعلی کی آراء کو حاصل تھا، وہ کسی اور کو نہ تھا اور غزالی کا مقصود فلسفیوں کی ہی ہدایت ہے۔ فی الواقع کون سے مسئلہ میں ارسطو کی رائے کو کون سے فلسفی نے زیادہ درست انداز میں بیان کیا ہے، یہ توضیح اور ’’کلامِ ارسطو‘‘ کی تشریح کے ضمن میں مسلم فلسفیوں کے مابین محاکمہ کرنا غزالی کا مقصود نہیں۔ 
غزالی خود اس بات کو جانتے ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ ’’لیعلم ان الخوض فی حکایۃ اختلاف الفلاسفۃ تطویل، فان خبطہم طویل، ونزاعہم کثیر، وآراء ہم منتشرۃ وطرقہم متباعدۃ متدابرۃ، فلنقتصر علی اظہار التناقض فی رای مقدمہم الذی ہوالفیلسوف المطلق والمعلم الاول۔۔۔وہو ارسطاطالیس‘‘ مزید لکھتے ہیں: ’’ثم المترجمون لکلام ارسطاطالیس لم ینفک کلامہم عن تحریف وتبدیل محوج الی تفسیر وتاویل، حتی اثار ذالک ایضا نزاعا بینہم، واقومہم بالنقل والتحقیق من المتفلسفۃ فی الاسلام الفارابی ابو نصر وابن سینا۔۔۔فلیعلم انامقتصرون علی رد مذاہبہم بحسب نقل ہذین الرجلین ‘‘ (تہافت الفلاسفۃ۔ صفحہ۷۶۔۷۸) یعنی ’’فلاسفہ کا باہمی اختلاف اور نزاع بہت زیادہ ہے اور اس سب کا تعاقب کرنے سے بات طویل ہوجائے گی۔ ان کی آراء میں اتحاد نہیں اور نہ ہی ان کے دلائل میں کوئی یگانگت ہے۔ اس وجہ سے ہم نے یہاں صرف ارسطو کی آراء کو مو ضوع تنقید بنایا ہے جو ’’مسلم‘‘ فلسفیوں کا مقتدا ہے اور ان کے ہاں اسے فلسفہ کے پہلے باضابطہ استاد کا درجہ حاصل ہے۔ پھر ارسطو کے شارحین اور ترجمانوں کے کلام میں بھی تحریف اور تبدیلی واقع ہوئی ہے جس کی وجہ سے وہ توجیہ وتاویل کی محتاج ہے اور جس کی وجہ سے ارسطو کے شارحین میں بھی اختلاف پھیل گیا ہے۔ ارسطو کے شارح ’’مسلم‘‘ فلسفیوں میں سب سے زیادہ بااثر اور معتمد فارابی اور بوعلی سینا سمجھے جاتے ہیں۔ لہٰذا واضح رہے کہ ہم ’’مسلم‘‘ فلسفیوں کی تردید انہی دو آدمیوں کی نقول کی بنیاد پر ہی کریں گے اور بس۔ ‘‘
اب بڑی بدیہی سی بات ہے کہ اگر ابن رشد غزالی کا جواب لکھنا چاہتے تھے تو انہیں اپنے جواب میں بوعلی سینا اور فارابی کی طرف سے بھر پور صفائی دینا تھی، مگر معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ان کی گفتگو سے کہیں بھی یہ تاثر نہیں ملتا کہ وہ ابن سینا اور فارابی کے وکیل ہیں۔ بلکہ اس کے برعکس ابن رشد‘ ابن سینا اور فارابی ہی سے شکوہ کرتے رہتے ہیں کہ انہوں نے حکماءِ یونان کے اصل مذہب کو بگاڑ دیاہے اور اس کی درست تشریح نہیں کی۔ انہوں نے ابن سینا کے موقف، استدلال اور اقوال کو سفسطائی (تہافت التہافت۔صفحہ۲۷۳)، خطاء (۲۹۸)، غلط (۳۲۶)اور غیر صادق (۴۰۷) لکھا۔ جی ہاں، یہ سب انہوں نے لکھا ہے۔ کچھ مسائل کے بارہ میں لکھا کہ حکماء میں کوئی بھی اس کا قائل نہیں، سوائے ابن سینا کے، لہٰذا حکماء کی طرف اس کی نسبت کرنا درست نہیں۔ (صفحہ۱۹۵) بعض مسائل کے بارہ میں لکھا کہ فارابی اور ابن سینا نے حکماءِ یونان کی طرف یہ مسائل غلط طور پر منسوب کیے ہیں۔ (صفحہ۸۹، ۱۲۱،۳۰۶، ۳۰۹)ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’فانظر ہذا الغلط ما اکثرہ علی الحکماء، فعلیک ان تتبین قولہم ہذا ۔۔۔فی کتب القدماء لا فی کتب ابن سینا وغیرہ الذین غیروا مذاہب القوم فی العلم الالہی حتی صار ظنیا‘‘ (صفحہ۳۰۱)یعنی ’’دیکھو، یہ غلط فکر کتنی کثرت سے حکماءِ یونان کی طرف منسوب کی گئی ہے، لہٰذا تم پر لازم ہے کہ ان کے اقوال کو متقدمین کی کتابوں میں دیکھا کرو، ابن سینا وغیرہ کی کتابوں میں نہیں جنہوں نے علم الٰہی میں یونانی فلاسفہ کے مذہب کو بدل کراتنی تحریف کی کہ یہ قطعی کی بجائے ظنی ہوکر رہ گیا۔‘‘ اس عبارت میں کئی دلچسپ مگر غور طلب باتیں ہیں:
  • ارسطو کے افکار کی تشریح میں ابن سینا کے ساتھ ابن رشد کا یہ اختلاف کوئی نئی بات نہیں۔ آپ جان چکے ہیں کہ غزالی شارحین ارسطو کے اس اختلاف سے پہلے ہی واقف ہیں۔ انہوں نے جان بوجھ کر فارابی اور بوعلی سینا کی تشریحات کو اپنی تنقید کا موضوع بنایا کیونکہ ’’مسلم‘‘ فلسفیوں میں ان کو جو مقام حاصل تھا، وہ کسی اور کو نہ تھااور غزالی کا مقصد ’’مسلم‘‘ فلسفیوں کو ہی دعوتِ اصلاح دینا ہے۔ فی الواقع ارسطو یا حکماءِ یونان کے افکار کیا ہیں اور کیا نہیں، یہ چیز ان کی بحث سے خارج ہے کیونکہ اب وہ ارسطو کی قبر میں جاکر اس کو دعوتِ دین دینے سے تو رہے۔
  • ابن رشد کا جواب واقعتا جواب کہلانے کا مستحق تب ہوتا جب ابن رشد نے ’’مسلم‘‘ فلسفیوں اور خصوصا بوعلی سینا وغیرہ کی طرف سے کوئی صفائی دی ہوتی اور ان کے داغوں کو دھودیا ہوتا کیونکہ غزالی کے اپنے الفاظ کے مطابق، غزالی کا مقدمہ انہی کے خلاف تھا۔ یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ غزالی کا مقدمہ جن فلسفیوں کے خلاف ہے، ابن رشد ان کی طرف سے سرے سے صفائی ہی نہیں دیتے ، بلکہ انہیں الٹا دوہرا مجرم بناتے چلے جاتے ہیں، یہ کہہ کر کہ یہ مسائل ارسطو کی طرف غلط منسوب ہوئے ہیں اور یہ بوعلی سینا وغیرہ کی اپنی ایجاد ہیں۔ 
  • اس عبارت سے غزالی کے اس دعویٰ کی تائید بھی ہوگئی کہ فلسفی اپنی الہیات کو ریاضی کی طرح قطعی سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ابن رشد بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ بوعلی سینا کی تشریحات نے فلاسفہ کے علم الہیات کو ظنی بنا چھوڑا ہے (ورنہ وہ فی الواقع تو قطعی تھا۔)
مزید سنئے، وہ غزالی پر غصہ نکالتے ہوئے بھی یہی کہتے ہیں کہ ’’لم ینظر الرجل الا فی کتب ابن سینا فلحقہ القصور فی الحکمۃ من ہذہ الجہۃ‘‘ (صفحہ ۴۰۹) یعنی ’’اس آدمی (غزالی) نے صرف ابن سینا کی کتب پر اکتفاء کیاجس کی وجہ سے فلسفہ کو سمجھنے میں وہ ناقص رہا ہے۔‘‘ یعنی قصور ان ’’مسلم ‘‘فلسفیوں کا نہیں جو ابن سینا کو ارسطو کا سب سے بڑا شارح سمجھتے ہیں اور نہ ہی ابن رشد کا ہے جو ان فلسفیوں کو سمجھانے کی بجائے اور ابن سینا کی تردید لکھنے کی بجائے غزالی کو کوس رہا ہے، قصور ہے تو غزالی کا ہے کہ انہوں نے بوعلی سینا کی بنیاد پر اس کے پیروکار فلسفیوں کے خلاف مقدمہ دائر کیوں کیا ہے؟ میں ان لوگوں پر حیران ہوں جو اب بھی ابن رشد کے جواب کو ’’جواب‘‘ کہتے ہیں۔ 
ابن رشدکے رویہ کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر سلیمان دنیا لکھتے ہیں: ’’کنا ننتظرمن ابن رشد فی ہذا المقام الا یدخل علی ہذہ الادلۃ التی حکاہا الغزالی تعدیلا من عندہ۔۔۔ بل ان یشیر الی الادلۃ التی لابن سینا والفارابی فی ہذا المجال لانہما الذان ینقدہما الغزالی۔۔۔اما ان یغفل ابن رشد بیان ذالک ویحاول ہو ان یعرض ادلۃ الفلاسفۃ فی صورۃ اکثر قوۃ واشد حجیۃ فلیس یثبت بذالک ادانۃ الغزالی‘‘ (تہافت التہافت۔ صفحہ۸۳) ایک اور جگہ لکھتے ہیں: ’’ابن رشد لاینصب نفسہ مدافعا عن ابن سینا والفارابی وحدہما۔۔۔ وارسطو اغلی علی ابن رشد من الفارابی وابن سینا ، ولذلک حین یختلف الفارابی او ابن سینا مع ارسطو نجد ابن رشد یناصر الغزالی علی الفارابی او ابن سینا لا حبا فی الغزالی، ولکن لان وجہہ وجہہ نظرہ فی ہذہ الحالۃ تتلقی مع ارسطو الذی ہو احب مخلوق الیہ فی عالم الفلسفۃ‘‘ یعنی ’’ہم اس انتظار میں تھے کہ ابن رشد کا جواب پڑھیں گے تو وہ اس میں اپنی جانب سے دلائل دینے کی بجائے بوعلی سینا اور فارابی کے دلائل کی طرف اشارہ کریں گے اور ان کو تقویت دیں گے کیونکہ غزالی کی تنقید انہی دو اشخاص پر ہے (لیکن یہاں معاملہ الٹ ہے)، ابن رشد اس نکتہ سے غافل ہوکر مسلسل اس چکر میں رہتے ہیں کہ بوعلی سینا وغیرہ کے دلائل سے زیادہ قوی دلائل اپنی جانب سے دے کر غزالی کو نیچا دکھائیں، جبکہ یہ ممکن نہیں۔ ابن رشد اپنے جواب میں اپنے آپ کو صرف بوعلی سینا اور فارابی کا وکیل نہیں سمجھتے،ان کے نزدیک فارابی اور ابن سینا سے زیادہ قیمتی ارسطو ہے، لہٰذا جہاں ابن رشد کو فارابی اور ابن سینا کا ارسطو کے ساتھ اختلاف محسوس ہو (کہ انہوں نے اس کے مذہب کی صحیح توجیہ نہیں کی) تو ابن رشد بھی فارابی اور ابن سینا کے خلاف بیان دے کر غزالی کی مدد کرتے رہتے ہیں، اس وجہ سے نہیں کہ انہیں غزالی سے محبت ہے، بلکہ اس وجہ سے کہ فلسفہ کے جہان میں ان کے لیے سب سے زیادہ محبوب مخلوق ارسطو ہی ہے۔‘‘
ابن رشد کا خواہ مخواہ کئی جگہوں پر یہ کہنا کہ یونانی فلاسفہ کی طرف اس کی نسبت درست نہیں اور یہ بوعلی سینا وغیرہ کی غلطی ہے جس کی تردید کرکے غزالی مطمئن ہیں،اپنا مذاق بنوانے والی بات ہے۔ غزالی کو خود بھی معلوم ہے کہ یونانیوں کے ہاں ایسے مسائل میں اختلاف رہا ہے اور انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ ’’مرشد ارسطو‘‘ کے کلام کو سمجھنے میں ان کے ’’مسلم‘‘ عقیدت مندوں کا بھی شدید اختلاف ہے، انہوں نے جان بوجھ کر صرف بوعلی سینا اور فارابی کو مدنظر رکھا ہے کیونکہ ’’مسلم‘‘ فلسفیوں میں ان کی آراء کا جو اثرورسوخ ہے، وہ کسی اور کو حاصل نہیں اور غزالی کا مقصود فلسفیوں ہی کی اصلاح اور انہیں رجوع الی اللہ کے لیے آمادہ کرناہے۔ فرض کرلیا جائے کہ اگر ابن رشد واقعی سچ کہتے ہیں اور جو ابن سینا نے ارسطو کے کلام سے سمجھا ،وہ غلط ہے تو یہ ان کا بوعلی سینا سے اختلاف ہے اور انہیں چاہیے کہ ابنِ سینا کی تصانیف ’’الاشارات‘‘ اور ’’الشفاء‘‘ کا رد لکھیں، اس کے لیے ’’تہافت الفلاسفۃ‘‘ کا جواب لکھنے کی کیا ضرورت پیش آگئی؟ یا پھر اپنے فلسفی بھائیوں کو سمجھائیں جو ابن رشد کی بجائے بوعلی سینا کو ارسطو کا جانشین سمجھتے ہیں۔ غزالی فلسفیوں کی فکری تدقیقات سے غافل نہیں، وہ ان سے واقف ہیں او رانہوں نے ’’تہافت الفلاسفۃ‘‘ سے پہلے ایک تمہیدی کتاب ’’مقاصد الفلاسفۃ‘‘ کے نام سے تحریر کرکے فلسفیوں سے بھی زیادہ اچھے انداز میں فلسفیوں کے مذہب اور فکر کو تفصیل سے اور بغیر کسی تنقید کے بیان کیا ہے۔
ابن رشد کے دلائل خواہ کتنے ہی قوی ہوں، دیکھنا یہ ہے کہ انہوں نے مسلم فلسفیوں اور بوعلی سینا وغیرہ کی طرف سے کتنی وکالت کی ہے اور کتنا کامیاب مقدمہ لڑا ہے؟ تب ہی ان کا جواب ’’جواب‘‘ کہلانے کا مستحق ہوگا۔ 
(۴)
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ غزالی کے برعکس ابن رشد کا لہجہ نرم ہوتا ہے اور اس نے کہیں بھی غزالی کے لیے ناشائستہ الفاظ استعمال نہیں کیے۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ غزالی کے لہجہ میں کتنی تلخی ہے اور کیوں؟بس ان حضرات کی اطلاع کے لیے اتنا بتانا چاہتے ہیں کہ ابن رشد نے بھی ’’غزالی‘‘ (جو رشتہ میں شاید ابن رشد کے دادا استاد بھی ہیں)کے لیے شریر اور جاہل کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ (صفحہ۱۹۵، ۱۹۶) 
(۵)
غزالی کے اٹھائے گئے بعض جزوی نکات پر ابن رشد کی تنقید بجا بھی ہوسکتی ہے، لیکن فی الجملہ یہ سمجھنا کہ انہوں نے ’’مسلم‘‘ فلسفیوں کے سارے داغ دور کر دیے ہیں، اس بات کی دلیل ہے کہ ابن رشد کے ہم نوا اس سے زیادہ اس کے وفادار بننے کی کوشش کررہے ہیں۔ ساری بحث کو ایک طرف رکھ دیجئے ، مجھے اس صرف سوال کا جواب دے دیجئے کہ ابن رشد نے ’’مسلم‘‘ فلسفیوں کی طرف منسوب ہفوات کو کیسے ان سے دور کیا ہے، جن میں سے دینی عقائد پر براہِ راست ضرب لگانے والی دو مثالوں کا ذکر مضمون کی ابتدائی سطور میں ہوچکا ہے؟
(۶)
غزالی کی حمایت سے شاید یہ محسوس ہو کہ انہوں نے فلاسفہ کی تکفیر کا جو فتوی دیا، ہم اس کی بھی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن واضح ہوجائے کہ ایسا نہیں۔ جب تک کسی کا کفر نکلے ہوئے دن کی طرح میرے اپنے سامنے روشن نہ جائے، میرے اندر کسی کے کفرو ایمان کے بارہ میں سوچنے کی بھی ہمت نہیں، مبادا کہ اونچ نیچ ہوجائے اور میری اپنی نجات خطرہ میں پڑ جائے۔ خصوصا فلسفیوں کے بارہ میں جو ہمیشہ گول مول کرکے بات کرتے ہیں، تاویلوں کے چکر میں رہتے ہیں اور خود کہتے ہیں کہ ہم ان باتوں کو کھل کر بیان کرنا درست نہیں سمجھتے۔ مجھے اپنا ایمان زیادہ عزیز ہے۔ میں ان کی ہفوات کو ہفوات محسوس کرتا ہوں، مگر ان کے لفظوں کی لاگ لپیٹ اور نیت کی خیانتوں کو اللہ کریم کے سپرد کرتا ہوں۔ ہاں، غزالی کے بارہ میں اتنا کہا جاسکتا ہے کہ انہیں اپنی ذات کی حد تک شرحِ صدر ہوا ہی ہوگا تو انہوں نے تکفیر کا حوصلہ کیا۔ واللہ اعلم
(۷)
’’تہافت التہافت‘‘ غزالی کی علمی وفکری زندگی کا مطالعہ کرنے کے لیے کوئی واحد آئینہ نہیں اور نہ ہی خود غزالی کی پیروی کا شوق رکھنے والوں کو صرف اس کی حد تک خود کومحدود رکھنا چاہیے۔ غزالی کی زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ آئے جن کو انہوں نے خود غالبا ’’المنقذ من الضلال‘‘ میں بیان کیاہے۔ اسی دوران ان پہ ایک عرصہ مناظرانہ گرما گرمی کا بھی گزرا، تہافۃ الفلاسفۃ شاید اسی دور کی یادگار ہے۔ (تہافت الفلاسفہ۔ صفحہ۵۷) جبکہ ان کی زندگی کا آخری حصہ خانقاہ نشینوں کی صحبت میں ایمانی صفات کو اپنانے کی فکر کرتے ہوئے گذرا۔ ان کی سب سے گراں مایہ کتاب ’’احیاء العلوم‘‘ اسی آخری دور سے تعلق رکھتی ہے۔ (اس نکتہ کی مزید وضاحت کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں)

ابن رشد سے پیار کیوں؟

مذکورہ بالا صورتِ حال کو سامنے رکھتے ہوئے، میں ابن رشد کے مریدوں سے پوچھتا ہوں کہ آخر کس امتیازی خوبی کی بناء پر وہ ابن رشد کے نام سے اپنا رشتہ جوڑتے ہیں؟ کیا محض اس وجہ سے کہ ’’تردیدِ غزالی‘‘ کا ’’سہرا‘‘ ان کے سر ہے؟ مجھے شک ہے کہ ابن رشد کوبطورِ مرشد پیش کرنے والے اس کے چالاک مرید اور غیر مسلم ’’لبرلز‘‘ اس کی جس خوبی سے متاثر ہیں وہ اس کی آزاد خیالی ہے جو تاریخی روایات میں اس سے منسوب کی گئی ہے۔ اگر ابن رشد کو راہ نما بنانا ہے اور اسی ابن رشد کو جو تاریخی روایات کے اندر نظر آتا ہے تو سنئے، وہ قومِ عاد کے وجود کا منکر تھا جس کا ذکر قرآنِ مجید میں ہے۔ (تاریخ فلاسفۃ الاسلام۔ صفحہ۱۴۸)میں نہیں کہتا کہ یہ بات ضرور سچ ہے جو اس سے منسوب کی گئی ہے، ہاں البتہ میں یہ سوچتا ہوں کہ اس کے تاریخی چہرے پر لگے ان جیسے ’’تاریخی داغوں‘‘ کو دھوئے بغیر اس کے تاریخی چہرہ کو مرشد وراہ نما بنانے کی کیا حکمت ہوسکتی ہے؟ ابن رشد کے مرید اس بات کا جواب نہیں دیتے۔ ابن رشد کی ذات ہماری نظر میں ایک معما ہے۔ اس کی زندگی میں بھی اس کی طرف بہت کچھ منسوب ہوا اور اس کی صفائیاں بھی ملتی رہیں۔ مسلم امراء کے ہاں اسے کبھی عزت اور کبھی ذلت نصیب ہوتی رہی۔ (دیکھئے: تاریخ فلاسفۃ الاسلام) اس معمہ کو حل کیے بغیر اس کو راہ نما بنانے سے کیا مقصود ہے؟
بتایا جاتا ہے کہ ابن رشد نے سائنس وفلسفہ کے لیے بہت سی قربانیاں دیں، اس نے جوتے کھائے اور اس پہ تھوکا گیا۔ سوال یہ ہے کہ جس تاریخ میں اس کی یہ ’’قربانیاں‘‘ مذکور ہیں، کیا اسی تاریخ میں وہ ’’سائنسی انکشافات‘‘ مذکور نہیں ہیں جن کی وجہ سے اسے عام مسلمانوں کے غیظ وغضب کا شکار ہونا پڑا؟ یا تو دونوں کو سچ کہئے یا پھر دونوں کو غلط۔اگر بات قربانیوں کی ہے تو سنئے، مسلم معاشرہ سے فلسفہ کے برے اثرات کو رد کرنے کے لیے امام احمد ابن حنبل نے بھی بہت کوڑے کھائے تھے، کیا محض اس بناء پر آپ یونانی فلسفہ کے مضر اثرات کو تسلیم کریں گے؟ اگر ہاں تو پھر غزالی کا قصور کیا ہے؟ انہوں نے انہی مضر اثرات کو ہی تو نشان زد کیا ہے۔ مزید سنئے، خود غزالی کے بارہ میں منقول ہے کہ ان کی بعض کتابیں بعض علاقوں میں جلائی گئیں۔ (طبقات الشافعیۃ۔ جلد۶، صفحہ ۲۵۸) پس فرق کیا ہوا؟ اپنے موقف کے لیے قربانیاں تو سب نے دی ہیں۔ 

رہنے کا گھر آخرت ہے

اس دنیا کی خوشحالی کے لیے سائنس وٹیکنالوجی کو اختیار کرنا منع نہیں، بلکہ شاید کسی درجہ میں مفید بھی ہے۔ مگر یہ اس قیمت پر نہیں کہ ہم اسلام سے ہی دست بردار ہوجائیں۔قرآن کی نگاہ سے تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ دنیا رہنے کا اصل گھر نہیں، غیر مسلم کی کسی نیکی اور رفاہی کام پر اللہ پاک اسے اس دنیا میں ہی اس کا بدلہ دے دیتے ہیں کیونکہ آخرت کا ابدی گھر اس کے لیے نہیں۔ جبکہ مسلمان کی کسی بدعملی پر اسے دنیا میں ہی سزا دے دی جاتی ہے کہ یہ آخرت کی بڑی سزا سے بچ جائے۔ ایسی صورت میں غیر مسلم دنیا پاکر بھی ناکام اور مسلمان دنیا سے محروم ہوکر بھی اس سے بہتر ہوتے ہیں۔ مغرب کی ’’مادی عزت‘‘ اور مسلمانوں کی ’’مادی کم تری‘‘ اس لیے نہیں کہ اللہ ان سے راضی اور ہم سے ناراض ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ صرف راضی ہوکر ہی نہیں، ناراض ہوکر بھی کچھ دے سکتے ہیں۔آج آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر ہم غزالی کی بجائے ابن رشد کو اپنا راہ نما بناتے تو مغرب کی طرح سائنس میں ترقی کرتے اور ذلت کے یہ دن دیکھنے نہ پڑتے، اگر ہمیں یہ دنیا اور اس کی مادی چکا چوند اتنی ہی عزیز ہے تو خطرہ ہے کہ کل کوئی صاحب اٹھیں گے اور یہ بھی کہیں گے کہ اگر ہم مسلمان کی بجائے کچھ اور ہوتے تو ذلت کے یہ دن نہ دیکھتے۔ اگر ہمیں آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا کی حقیقی عزت بھی چاہیے تو اس کے لیے ہمیں اپنی غلطیوں کا تدارک کرنا ہوگا، جن کی وجہ سے ہم خدا کی مدد اور نیک سمجھ سے محروم ہیں۔ ان میں سے ایک غلطی دنیا پرستی بھی ہے۔ ہماری سب سے قیمتی متاع محمدِ عربی کا کلمہ ہے اور اسی کے ساتھ ہمارا رہنا مرنا ہے۔

استدراک

ہمارے ہاں ’’ماہنامہ ساحل‘‘ (مرحوم) کے وابستگان کا حلقہ سائنس اور سائنسی علوم کی مطلقاً تردید کے حوالہ سے خاصی شہرت رکھتا ہے۔ یہ حضرات اس معاملہ میں غزالی کو اپنا پیش رو اور خود کو ان کا متبع سمجھتے ہیں، ہمیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ اہل مغرب کی طرح یہ حضرات بھی غزالی کوسائنس کی مطلق تردید کے الزام سے ’’متہم‘‘ دیکھنا چاہتے ہیں، حسنِ ظن یہی ہے کہ اس میں ان کے کچھ نیک مقاصد ہوں گے، مگر میں حیران ہوں کہ غزالی خود علومِ حکمیہ (سائنسیہ وفلسفیہ) کو تقسیم کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’میں ان علوم کے صرف چند مخصوص اجزا پر تنقید کا قائل ہوں جو دین سے متصادم ہیں، ان علوم پر مطلقاً تردید کرنا درست نہیں۔‘‘ ان کے بیان کے مطابق ’’پہلے نمبر پہ ان علوم میں کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ ان کے اور دین کے درمیان اختلاف صرف لفظی نوعیت کا ہے، دوسرے نمبر پہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو دین کی کسی اصولی بات سے متصادم نہیں ہیں، مثلا یہ کہ زمین گیند کی طرح گول ہے، آسمان نے اس کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے، وغیرہ وغیرہ تو یہ بھی ہماری بحث سے خارج ہیں کیونکہ دین زمین اور آسمان کے بارہ میں صرف یہ تقاضا کرتا ہے کہ ان کو مخلوق سمجھا جائے، بعد ازاں فی الواقع یہ زمین گول ہو، چٹائی کی طرح بچھی ہوئی ہو، چھ کونوں والی ہو یا آٹھ کونوں والی، اس سے دینی عقائد اور دین کی کسی اصولی بات پہ بہرحال کوئی ضرب نہیں پڑتی، ان امور کی تردید بھی ہمیں مطلوب نہیں، بلکہ اس بارہ میں بعض اوقات سائنسی توجیہات اتنی قطعی ہوتی ہیں کہ ان کا انکار ہی ممکن نہیں ہوتا۔‘‘ ان کی رائے میں ’’ جو آدمی ایسی چیزوں کے اندر بھی ان کے ساتھ دینی جوش وخروش کے ساتھ مناظرہ کرے اور سمجھے کہ یہ دین ہے تو ’’فقد جنی علی الدین وضعف امرہ‘‘ یعنی اس آدمی نے دین کی دوستی میں دراصل دین کے خلاف ایک جرم کا رتکاب کیا ہے اور دین کے مقدمہ کو ہی اس نے کم زور کردیا ہے۔‘‘ مزید کہتے ہیں: ’’تیسرے نمبر پہ کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ دین کی کسی اصولی بات پہ ان کی زد پڑتی ہے، مثلا کائنات کے ابدی ہونے، خالق کی صفات کے تعین اور بعث بعد الموت کے جسمانی صورت میں ہونے کی باتیں جن کا انکار فلسفیوں نے کیا ہے، صرف اور صرف انہی مخصوص مسائل میں ان کے نظریات کی بیخ کنی تک خود کو محدود رکھنا چاہیے۔‘‘ (تہافت الفلاسفۃ۔ صفحہ۷۹۔۸۱) میں حیران ہوں کہ اتنی واضح تصریحات کے بعد سائنس کے ’’مطلق رد‘‘ کا گجرا غزالی کو کیسے پہنایا جاسکتا ہے اور ساحل کا حلقہ یا ابن رشد کے مرید کیسے ان کو دین وسائنس میں ہم آہنگی کے خلاف کہہ سکتے ہیں؟ اس نکتہ پہ کچھ گفتگو مضمون کی ابتداء میں بھی ہوچکی ہے۔ اللہم انی اسئلک حبک وحب من یحبک وحب عمل یقربنی الیک، آمین

مراجع

۱۔مقاصد الفلاسفۃ، امام غزالی، تحقیق: محمود بیجو۔ ط:مطبعۃ ایضاح، دمشق
۲۔تہافت الفلاسفۃ، امام غزالی، تحقیق: ڈاکٹر سلیمان دنیا۔ ط: دار المعارف، مصر
۳۔تہافت التہافت، ابن رشد، تحقیق: ڈاکٹر سلیمان دنیا۔ ط:دار المعارف، مصر
۴۔ہدایۃ الحکمۃ، اثیر الدین ابہری، حواشی:محمد عبیداللہ قندھاری وسعادت حسین، ط: مکتبہ رشیدیہ، کوئٹہ
۵۔طبقات الشافعیۃ، تاج الدین السبکی۔ ط:دار احیاء الکتب العربیۃ
۶۔تاریخ فلاسفۃ الاسلام، لطفی جمعہ، ترجمہ:ڈاکٹر میر ولی محمد۔ ط: نفیس اکیڈمی، کراچی
۷۔مقدمہ ابن خلدون، ترجمہ:مولانا عبدالرحمن دہلوی۔ ط: الفیصل لاہور
۸۔حکمائے اسلام، مولانا عبدالسلام ندوی۔ ط: نیشنل بک فاؤنڈیشن
۹۔علم الکلام، علامہ شبلی نعمانی۔ ط: نفیس اکیڈمی، کراچی

مکاتیب

ادارہ

(۱)
محترم جناب سید متین احمد شاہ صاحب 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ۔امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔ 
ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ میں مسلمان عورت کا غیر مسلموں کے ساتھ نکاح کے موضوع پر آپ کا مقالہ پڑھا۔ ماشاء اللہ خوب لکھا ہے ، اگرچہ کہیں کہیں مجھے طرز استدلال سے اختلاف ہے۔ تاہم مقدمات اور نتائج سے مجھے بنیادی طور پر اتفاق ہے۔ آخر میں برادرم جناب عمار خان ناصر کا مکتوب بھی شائع کیا گیا ہے اور مجھے یہ چند سطور لکھنے پر اسی مکتوب نے مجبور کیا ہے کیونکہ اندیشہ یہ ہے کہ کہیں ان کے مکتوب کی وجہ سے آپ کی رائے میں بھی کچھ تبدیلی نہ آگئی ہو۔ 
عمار بھائی کے مکتوب میں مجھے سب سے دلچسپ بات یہ لگی کہ اس نوعیت کے تعلق کو ’’قطعی طور پر منصوص کہنا ازروئے اصول فقہ کافی مشکل ہے۔‘‘
اولاً : مجھے یہ بالکل بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ ’’قطعی طور پر منصوص‘‘ سے ان کی مراد کیا ہے ؟ جہاں تک ان کے استاد گرامی جناب جاوید احمد غامدی کے "اصول فقہ "کا تعلق ہے ، اس کی رو سے تو قرآن سارا کا سارا ’’قطعی الدلالۃ‘‘ ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اس طرح کے مسائل میں انھیں وہ قطعیت نظر نہیں آتی ؟ 
ثانیاً : ’’منصوص‘‘ سے ان کی مراد کیا ہے ؟ ان کے مکتبِ فکر کے اصول فقہ میں کیا ظاہر ، نص ، مفسر اور محکم ؛اور اسی طرح خفی ، مشکل ، مجمل اور متشابہ ؛ نام کی تقسیمات مقبول ہیں یا نہیں ؟ بظاہر تو نہیں کیونکہ وہ تو صرف دو ہی اصطلاحات مانتے ہیں : قطعی الدلالۃ اور ظنی الدلالۃ۔ اس لیے ان کے لیے قطعیت (محکم ) اور ظنیت ( متشابہ ) کے درمیان کے چھ مدارج ماننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیا یہ حکم صرف اسی صورت میں ’’منصوص‘‘ ہوتا جب قرآن طعام کی طرح نکاح کے متعلق بھی ’’دو طرفہ‘‘ ممانعت کا ذکر ’’قطعی الفاظ‘‘ میں کرتا ؟ اگر ہاں تو کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہوا کہ قرآن کہیں کہیں قطعی الدلالۃ نہیں ہے؟ 
ثالثاً : یہ بات بھی حیران کن ہے کہ تحریم کے لیے تو وہ ’’قطعی طور پر منصوص‘‘ ہونا لازمی ٹھہراتے ہیں لیکن یہی شرط وہ تحلیل کے لیے نہیں لگاتے۔اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ جو فقہاے کرام ’’اشیا‘‘ میں اصلاً اباحت کے قائل ہیں، وہ بھی کم از کم نکاح میں اصلاً حرمت کے ہی قائل ہیں ؛ یعنی ان کے اصول فقہ کی رو سے کسی سے نکاح کی حرمت کے لیے نہیں ، بلکہ اس کی حلت کے لیے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے اصولاً تو بارِ ثبوت جناب عمار خان ناصر صاحب پر تھا کہ وہ اس ’’نکاح‘‘ کی حلت کا ’’قطعی طور پر منصوص ہونا‘‘ ثابت کردیتے ؟ یا پھر وہ تصریح کرلیتے کہ ان کے اصول فقہ کی رو سے نکاح میں بھی اصل حکم حلت کا ہے۔ 
رابعاً : یہیں سے وہ اصل بات نکھر کر سامنے آجاتی ہے جس کی طرف میں آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں ؛اور وہ یہ کہ جب وہ کہتے ہیں کہ ’’ ازروے اصول فقہ‘‘ یہ معاملہ ایسا ہے یا ویسا ہے تو وہ ’’اپنے اصول فقہ‘‘ کی بات کرتے ہیں، نہ کہ حنفی ، شافعی یا کسی اور معروف فقہی مسلک کے اصول کا۔ اگر وہ مثال کے طور پر حنفی اصول فقہ کی روسے یہ بات کررہے ہیں تو یہ بداہتاً غلط ہے کیونکہ حنفی اصول فقہ کی رو سے تو یہ طے شدہ مسئلہ ہے جسے از سر نو کھولا نہیں جاسکتا۔ یہی معاملہ شافعی اصول فقہ کا بھی ہے اور مالکی اصول فقہ کا بھی۔ البتہ ’’غامدی اصول فقہ‘‘ کی روسے ہوسکتا ہے کہ یہ طے شدہ مسئلہ نہ ہو۔ 
خامساً : اس مکتب فکر کے اصول فقہ کا کچھ اندازہ اس ایک قاعدے سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم میں نکاح کے احکام مردوں کے لیے بیان کیے جاتے ہیں اور عورتوں کا حکم ان سے بالتبع اخذ کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ قاعدہ کلیہ ہے ؟ اگر ہاں تو اس کے دلائل کیا ہیں ؟ پھر کیا دیگر قواعد کی طرح اس سے کچھ مستثنیات بھی ہیں یا نہیں ؟ مثلاً مردوں کو چار شادیوں کی اجازت ہے (خواہ آپ اس جازت پر کتنی ہی قیود عائد کریں ) لیکن عورتوں کو کسی بھی صورت میں ، کسی بھی شرط پر ، دو نکاح کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ مسئلہ زیر بحث کو آپ قاعدے کے تحت لاتے ہیں، نہ کہ استثناء ات میں ؟ 
اس لیے اگر آپ عمار بھائی سے اس موضوع پر بحث کرنا چاہتے ہیں تو اپنے اصول فقہ کی رو سے نہ کریں کیونکہ یہ اصول تو وہ مانتے ہی نہیں ہیں ؛ اور اگر ان سے ’’ان کے اصول فقہ‘‘ کی روشنی میں بحث کرنے کا ارادہ ہے تو : 
اولاً : اس کے لیے آپ کو ان کے اصول فقہ میں مہارت حاصل کرنی ہوگی ؛ 
ثانیاً : پھر ان کے اصول فقہ کی غلطی واضح کرنی ہوگی ، الا یہ کہ آپ خود ہی ان کے اصول فقہ کے قائل ہوجائیں ؛ 
ثالثاً: چونکہ ان کے اصول فقہ ابھی پوری طرح منقح اور مدون ہوکر نہیں آئے ، اور ابھی ان کا مکتبِ فکر طفولیت کے عہد میں ہے ، اس لیے ابھی ان کے اصول فقہ خام ہیں اور ان میں اخذ و رد کا سلسلہ بھی جاری ہے؛ انھیں باقاعدہ اصول فقہ بننے میں ابھی بہت وقت لگے گا ؛ آپ خود بھی جانتے ہیں کہ زلف کے سر ہونے تک ، یا قطرے کے گہر بننے تک کتنے مراحل ہوتے ہیں۔ اس لیے ابھی اس عہدِ طفولیت میں ان اصولوں کی بنیاد پر ان سے بحث محض وقت کا ضیاع ہے ، اور اصول کے بغیر ان کی فقہ پر بحث لایعنی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: من حسن اسلام المرء ترکہ ما لایعنیہ۔ 
باقی رہا ’’مقاصد شریعت‘‘ سے استدلال کرتے ہوئے ’’تیسیر‘‘ کی بنیاد پر شرعی احکام رفع کرنے کا معاملہ تو یہ طرز فکر انتہائی حد تک سنگین نتائج کا حامل ہے اور اس کی وجہ سے شریعت کے ساتھ جس نوعیت کا مذاق شروع ہوگیا ہے اس کا کچھ اندازہ ’’اسلامی بینکاری ‘‘ کے ڈرامے سے لگایا جاسکتا ہے۔ یہ ایک مستقل بحث ہے جسے میں کسی اور وقت کے لیے چھوڑ دیتا ہوں۔ صرف اتنی سی بات عرض کروں گا کہ مسیحی تاریخ کی اس گواہی سے نتائج کا اندازہ لگائیے کہ جب پولس نے ’’ غیر قوموں‘‘ کو مسیحی بنانے کی خاطر ختنے کے حکم سے ان کو مستثنی قرار دینے کا فتوی حاصل کرلیا تو اس کے بعد اس کی تان ٹوٹی اس بات پر کہ شریعت ایک لعنت ہے اور مسیح کی آمد کا مقصد ہی اس لعنت سے لوگوں کو نجات دلانا تھا۔ یوں ’’تیسیر‘‘ اور ’’رفع حرج‘‘ اور لوگوں کو راہِ حق قبول کرنے کی طرف مائل کرنے کے نام پر جب ایک حکم شرعی اٹھا لیا گیا تو پھر وہ سلسلہ کہیں نہیں رکا، بلکہ اس کا اختتام پوری شریعت سے جان چھڑانے پر ہوا۔ 
محمد مشتاق احمد
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد

’’کہانی کی دنیا‘‘ نئی ڈائری کی متقاضی

پروفیسر شیخ عبد الرشید

ہمارے ہاں عام تاثر یہی ہے کہ ہمارے عہد کے بچے شریر زیادہ اور ذہین کم ہو گئے ہیں ،حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ میرا گمان یہ ہے کہ آج کے عہد کے بچے حقیقی معنوں میں اکیسویں صدی کے بچے ہیں ۔ ان بچوں کی ذہانت، فطانت اور کارکردگی ہی اس گھمبیرتا کا شکار سماج میں جینے کا حوصلہ دیتی ہے۔ ہمارے ہاں ارفع کریم اور ملالہ یوسف زئی جیسے بچوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا عالمی سطح پر منوایا ۔ دہشت، خوف ، فرقہ واریت اور مقلدانہ جاہلیت کے اندھیروں میں یہ قابل فخر بچے ہی ہیں جو روشنی کی کرن اور ہمارے روشن مستقبل کی نوید دکھائی دیتے ہیں۔ 
گذشتہ روز میرے دوست، عظمت رفتہ کی روایات اور لگن کے حامل استاد برادرم پروفیسر میاں انعام الرحمن جو گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ کے شعبہ ء سیاسیات سے وابستہ ہیں، میرے ہاں آئے ۔ میاں انعام الرحمن ہنس مکھ، خوش گفتار، حلیم الطبع، علمی و ادبی مزاج، تحقیقی و تنقیدی انداز اور اجتہادی فہم و فکر رکھنے والے حسن کردار کا ایسا متوازن نمونہ ہیں کہ ان کی آمد و اقعتامیرے لیے ایسے ہی تھی جیسے چپکے سے ویرانے میں بہار آجائے ۔میں کئی ہفتوں سے اپنے نو سالہ بیٹے عبدالمعید کی علالت کے باعث ہسپتالوں کے چکر لگا کر تھکا تھکا اور مایوس تھا۔ یقین مانیے، میاں انعام الرحمن جیسے پاکباز اور نیک سیرت اور مخلص دوست کی اچانک آمد سے ایسے ہی تھی جیسے بے وجہ بیمار کو قرارآ جائے ۔ دل باغ باغ ہوا تو انہوں نے فوراً اپنا ہاتھ اپنے ہینڈ بیگ کی طرف بڑھایا اور کتاب نکال کر فخریہ مسکراہٹ سے کہا: شیخ صاحب! یہ میری بیٹی کی کتاب ہے ۔ میرا ماتھا ٹھنکا کہ میاں صاحب کے بچے تو ابھی چھوٹے ہیں، پرائمری یا ثانوی سطح کے طالب علم ہیں۔ میں نے بصد شکریہ ان کی گیارہ سالہ بیٹی فاطمہ انعام کی کہانیوں کی کتاب ’’کہانی کی دنیا‘‘ وصول پائی۔ 
میاں انعام الرحمن خود علمی و ادبی مجلات میں لکھتے ہیں۔ ایک اخبار میں عرصہ تک کالم نگاری بھی کی۔ الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ سے ان کی کتب بھی چھپ کر داد و تحسین وصول کر چکی ہیں ۔ میں یہی توقع کر رہا تھا کہ میاں صاحب کی کوئی نئی کتاب چھپ کر آئی ہو گی، لیکن ان کی بیٹی فاطمہ انعام کی کتاب وصول پا کر زیادہ خوشی ہوئی کہ میاں انعام الرحمن نہ صرف اپنے حصے کا علمی و ادبی کام کر رہے ہیں بلکہ انہوں نے اپنے گھرانے کی علم دوستی کی روایت کو بحسن و خوبی نئی نسل تک کامیابی سے منتقل کر دیا ہے ۔ یہی ایک صالح باپ کی معراج ہے کہ وہ اپنا علمی و فکری اثاثہ بھی اپنے بچوں کو سونپنے میں کامران ٹھہرے۔ میاں انعام الرحمن مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ان کی یہ کامرانی مجھ سمیت بہت سے والدین کے لیے لمحہ فکریہ اور قابل تقلید ہے ۔ 
’’کہانی کی دنیا‘‘ ایک کتاب نہیں بلکہ میرے لیے ایک نئی دنیا کا دروا کرنے کا ذریعہ تھا۔ ہمارے ہاں عمومی خیال یہ ہے کہ سرکاری سکول نالائق بچوں کا مرکز ہیں جہاں تدریس و تعلیم میں تربیت و تخلیق کا فقدان مثال بن چکا ہے، مگر ننھی گڑیا کی اس کتاب نے میرا یہ مفروضہ بھی غلط ثابت کر دیا ۔ میاں انعام الرحمن سرکاری ملازم ہیں اور اپنے تمام بچوں کو سرکاری سکول میں پڑھا رہے ہیں ۔ میں نے جب بھی انہیں بچوں کو ’’انگریزی میڈیم‘‘ یا ’’برانڈڈ اسکول‘‘ میں داخل کروانے کا مشورہ دیا، وہ ہمیشہ گویا ہوئے کہ اگر میں اور میرے جیسے لوگ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں نہیں بھجوائیں گے تو سرکار اور ریاست پر ہمارا یقین اور کمزور ہوتا رہے گا۔ میاں صاحب کی صاحبزادی فاطمہ انعام گورنمنٹ ایف ڈی اسلامیہ گرلز ہائی اسکول گوجرانوالہ میں کلاس ششم کی طالبہ ہیں۔ سرکاری اسکول ان کی تخلیقیت اور تخلیقی تحریروں کے لیے ذہن تیار کرنے میں رکاوٹ نہیں بنا، بلکہ اس کے تخلیقی حوصلے کو جرات بخشنے کا ذریعہ بنا۔ فاطمہ انعام کی اس کتاب سے سرکاری اسکولوں کے حوالے سے میرے خیالات میں ارتعاش پیدا ہوا ہے۔
کہانی کی دنیا میں کل پینتالیس کہانیاں ہیں۔ فاطمہ انعام نے پہلی کہانی پانچویں جماعت میں لکھی جس پر اس کے علم پرور والد نے اسے ڈائری تحفے میں دی۔ اس سے ننھی کہانی کار کے عزم میں مزید بلندی پیدا ہوئی اور اس نے پانچویں جماعت میں ہی پندرہ کہانیاں لکھ ڈالیں۔ چھٹی جماعت میں اس نے مزید تیس کہانیاں لکھیں او رپھر ڈائری ختم ہو گئی ۔ میاں صاحب کے گھر کا ماحول کتنا ادب دوست ہے اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بڑی بہن کی ڈائری ختم ہونے پر چھوٹی بہن نابغہ رحمن جو جماعت دوم کی طالبہ ہے، اس کی تجویز پر کہانیاں کتابی شکل میں چھاپنے کا فیصلہ ہوا۔ 
پینتالیس مختصر کہانیوں کے موضوعات میں تنوع نمایاں ہے۔ یہ ہماری روایتی نانی اماں کی محیر العقول ماورائی کہانیاں نہیں ہیں بلکہ موضوعات اور اسلوب عیاں کرتا ہے کہ کہانی کار کا شعور سماجی سطح سے جڑا ہوا ہے جو خوش آئند بات ہے ۔ فاطمہ انعام کا اسلوب اور زبان بچوں کے روز مرہ سے مزین ہے ۔ زبان کا روز مرہ کہانیوں کو دلکش او ر دلچسپ بناتا ہے ۔ سنڈریلا، مکی ماؤس اور Tweety جیسے کئی کردار مستقل ہیں ۔ ایک کردار لے کر مستقل کئی کہانیاں لکھنا ، کہانی نویسی کا مغربی اسٹائل ہے ۔ یہ انداز تحریر بتاتا ہے کہ ہماری ننھی مصنفہ جدید طرز تحریر سے آشنا ہے ۔ یہ اس طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ ہمارے سرکاری سکولوں کے بچے بھی جدید رجحانات سے آگاہ ہیں۔ فاطمہ انعام کی فکر اور تحریر پر ان کے گھر کے علمی ماحول کا اثر بھی صاف دکھائی دیتا ہے ۔ 
ہمارے ہاں کہانی لکھنے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے ۔ پاکستان میں بچوں کے لیے لکھنے والے بڑے تو ہیں، تاہم بچوں کا کہانیاں لکھنے کی روایت بہت کمزور ہے ۔ اخبارات میں بچوں کے صفحات پر کئی بچوں کی چند کہانیاں تو چھپتی ہیں، لیکن بچوں کی لکھی کہانیوں کو کتابی شکل میں پیش کرنا عام نہیں ہے ۔ فاطمہ انعام کی کہانیوں کی یہ کتاب اس روایت کا اچھا آغاز ہے جس پر وہ مبارکباد اور خراج تحسین کی مستحق ہیں۔ ان کی کہانیاں پڑھنے کے بعد میرے دل سے فوراً نکلا کہ کاش فاطمہ انعام کی ڈائری ابھی ختم نہ ہوتی اور ہمیں مزید کہانیاں پڑھنے کو ملتیں۔ 
فاطمہ نے اپنے حصے کا کام کیا اور میاں انعام الرحمن نے اسے کتابی شکل میں چھپوا کر کار خیر انجام دیا ہے ۔ کتاب کا انتساب فاطمہ نے اپنی دادو اور حمنہ ماما کے نام کیا ہے ۔ کتاب دیکھ کر بیٹی کی تربیت میں دادو اور حمنہ ماما کا کردار بھی ہم سب کے لیے مثالی ہے ۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ فاطمہ انعام کی تربیت کرنے والے اہل خانہ اور اساتذہ کو اجر عظیم دے اور فاطمہ انعام کے زور قلم میں اور اضافہ کرے ۔ یہ کتاب تمام اسکولوں کی لائبریری میں ہونی چاہیے۔ کتاب کی قیمت صرف 100 روپے ہے۔ ننھے بچوں کے لیے یہ کتاب اچھا تحفہ اور انعام ہے ۔ والدین بھی یہ کتاب اپنے بچوں کو دے کر تخلیق، تحریر، عزم اور حوصلے کی پوری روایت اپنے بچے کے ہاتھ میں تھما سکتے ہیں اور اسے پڑھ کر ان کا بچہ کچھ لکھے تو سمجھ لیجیے کہ ان کا بچہ بھی ڈائری کا تقاضا کر رہا ہے۔

گنٹھیا یا بڑے جوڑوں کا درد

حکیم محمد عمران مغل

اس مرض کو عام طور پر وجع المفاصل بھی کہتے ہیں۔ جوڑوں کے اندر تغیرات سے ان کی اندرونی غشا (جھلی)، ان کے اوتار، عضلات اور جوڑوں کا غلاف متاثر ہو جاتا ہے۔ جوڑوں میں درد کے ساتھ سوزش ہونے لگتی ہے۔ جسمانی درجہ حرارت میں اضافہ ہوا کرتا ہے۔ اسباب میں سردی لگنا، کسی قسم کی موروثی بیماری، نظام انہضام کا نقص، سوزاک اور آتشک کے امراض، چوٹ لگنا یا گرنا، خون میں زہروں کا آ جانا، بعض بخاروں کے اثرات، کثرت شراب نوشی، موسمی تغیرات، نم ناک جگہوں پر آرام کرنا، سخت جسمانی محنت، یورک ایسڈ کی زیادتی، غذائی بے اعتدالی وغیرہ شامل ہیں۔ 
آتشک کا صحیح علاج نہ ہونے سے خون میں زہریلے مادے بکثرت پیدا ہو کر جوڑوں کو متاثر کرتے ہیں۔ گرمیوں میں سخت ٹھنڈی اشیا کا بار بار استعمال بھی اس کا سبب بن جاتا ہے۔ عموماً اس مرض میں بلغمی مزاج جن کا وزن بڑھ چکا ہے، زیادہ مبتلا دیکھے گئے ہیں۔ خفیف بخار کے ساتھ اکڑاؤ، ورم اور عموماً گھٹنے یا کلائی میں درد کے ساتھ اس تکلیف کا اظہار دیکھا گیا ہے۔ قبض کی شکایت عموماً جوانی سے رہتی ہے۔ ہاضمہ خراب، پیشاب تیز رنگ کا اور پسینہ بدبودار ہوتا ہے۔ نیند کی کمی بھی ہو جاتی ہے۔ بعض دفعہ متاثرہ مقام پر کپڑا لگ جانے سے بھی بے پناہ تکلیف کا احساس ہوتا ہے۔ کبھی اس مرض کے ساتھ سوزاک کا حملہ بھی ہو جاتا ہے، اسی لیے اس کو سوزاکی گنٹھیا کہتے ہیں۔ آج کل سوزاکی گنٹھیا اپنی انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔ اکثر مریضوں کو سوزاکی گنٹھیا ہوتا ہے، مگر لاعلمی برتی جاتی ہے۔ مرطوب آب وہوا میں گزر بسر کرنے والوں کو یہ مرض موروثی ہوا کرتا ہے۔
پرہیز: چاول، گوبھی، آلو، گوشت تمام اقسام ترک کر دیں، خصوصاً فارمی مرغ بالکل استعمال نہ کریں۔ تمام بادی، کھٹی اور باسی اشیاء سے مکمل پرہیز رکھیں۔ کالے چنے اور ان کا شوربا جتنا ہو سکے، استعمال کریں۔ 
ہو الشافی: معجون سورنجاں پانچ گرام صبح شام کھانے کے بعد لیں۔ ہمدرد دواخانہ کی اوجاعی صبح دوپہر شام ایک ایک قرص تازہ پانی کے ساتھ استعمال کریں۔ ہمدرد کے روغن سورنجاں سے متاثرہ مقام پر مالش کریں۔ کھانے کے بعد جوارش جالینوس پانچ گرام تازہ پانی کے ساتھ لیں۔

حکومت طالبان مذاکرات اور دستور کا مسئلہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں رکاوٹوں اور وقتی تعطل کے باوجود سنجیدہ حلقوں میں امید ابھی تک قائم ہے اور وہ مسلسل دعاگو ہیں کہ دونوں فریق امت مسلمہ کی وحدت اور ملک کے امن وسلامتی کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کے حل کی ہر ممکن کوشش کریں۔ البتہ مذاکراتی ٹیموں اور ان سے زیادہ میڈیا کے مختلف ذرائع نے شریعت اور آئین کو آمنے سامنے کھڑا کر دینے کا جو ماحول بنا دیا ہے، وہ تشویشناک ہے اور اس کے بارے میں بہت زیادہ محتاط طرز عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ شریعت اور آئین دونوں ملک کی ضروریات میں سے ہیں بلکہ وطن عزیز کے قیام اور بقا کی اساس کی حیثیت رکھتی ہیں لیکن اس سلسلہ میں جو کنفیوژن بڑھتا جا رہا ہے یا عمدًا بڑھایا جا رہا ہے وہ دونوں طرف کے اصحابِ فکر و دانش کے لیے قابل توجہ ہے۔ 
دستورِ پاکستان کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ پر ہے، اس میں جمہور اور ان کے نمائندوں کو حاکم اعلیٰ تسلیم کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور قرآن و سنت کی بالادستی کا پابند قرار دیا گیا ہے اور ملک میں غیر شرعی قوانین کو ختم کر کے تمام قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کی ضمانت دی گئی ہے۔ اس لیے اس دستور کو شریعت سے متصادم قرار دینے کی بات دستور اور اس کی تشکیل کے لیے اکابر علماء کرام کی جدوجہد کی نفی اور اس سے انحراف کے مترادف ہے۔ کیونکہ اس دستور کی تدوین و ترتیب اور اسے اسلامی دستور قرار دینے والوں میں مولانا مفتی محمودؒ ، مولانا عبد الحقؒ ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ ، مولانا عبد الحکیمؒ ، مولانا نعمت اللہؒ ، مولانا صدر الشہیدؒ ، مولانا شاہ احمد نورانیؒ ، مولانا محمد ذاکرؒ ، مولانا عبد المصطفیٰ ازہریؒ ، اور پروفیسر غفور احمدؒ جیسے اکابر اہل علم و دانش شامل ہیں اور اس دستور کی وفاداری کا حلف اٹھانے والوں میں مذکورہ بالا حضرات کے علاوہ مولانا سمیع الحق، مولانا قاضی عبد اللطیفؒ ، مولانا حسن جانؒ ، مولانا معین الدین لکھویؒ ، مولانا نور محمدؒ ، مولانا محمد احمدؒ ، اور مولانا عبد المالک خان کے نام نمایاں ہیں۔
دستور کے حوالہ سے اہل دین کا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ دستور اسلامی ہے یا نہیں بلکہ اصل مسئلہ بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کا منافقانہ رویہ ہے جس نے دستور کی اسلامی دفعات کو عملاً معطل رکھا ہوا ہے۔ اس مسئلہ کا حل یہ نہیں ہے کہ سرے سے دستور سے انکار کر دیا جائے بلکہ یہ ہے کہ تمام اہل دین متحد ہو کر ایک زبردست عوامی تحریک کے ذریعہ اسٹیبلشمنٹ کو اپنا رویہ تبدیل کرنے اور دستور کی اسلامی دفعات پر عمل درآمد پر مجبور کریں۔ شریعت کے نفاذ کے خواہاں حلقے اگر اس کا اہتمام کر سکیں تو نفاذِ شریعت کی منزل زیادہ دور نہیں ہے۔
دستور کے حوالہ سے ایک مغالطہ عام طور پر یہ پایا جاتا ہے کہ اسلام میں تحریری دستور اور تحریری قوانین کی کوئی روایت موجود نہیں ہے بلکہ براہ راست قرآن و سنت ہی دستور اور قانون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ بات خلاف واقعہ ہے۔ اسلامی تاریخ میں دستور و قانون کا پہلا باضابطہ مجموعہ حضرت امام ابو یوسفؒ نے امیر المومنین ہارون الرشیدؒ کی فرمائش پر ’’کتاب الخراج‘‘ کے نام سے مرتب کیا تھا جس میں اگرچہ بنیادی امور بیت المال اور اس سے متعلقہ مسائل پر مشتمل ہیں۔ جبکہ انتظامی اور امارتی امور بھی اس میں بہت حد تک شامل ہیں۔ یہ دستور و قانون امیر المومنین کی فرمائش پر لکھا گیا تھا اور عباسی سلطنت میں باقاعدہ نافذ العمل رہا ہے۔ اسی طرح ’’الأحکام السلطانیہ‘‘ کے نام سے الماوردیؒ اور قاضی ابویعلیؒ کی معرکۃ الآراء تصانیف قانون و دستور کی باقاعدہ تدوین و تشکیل کا درجہ رکھتی ہیں اور یہ دورِ جدید کی بات نہیں بلکہ قرون اولیٰ کے دور کی علمی خدمات ہیں جن سے اب تک مسلسل استفادہ کیا جا رہا ہے۔ پھر سلطان اورنگزیب عالم گیرؒ کے دور میں ’’الفتاویٰ الہندیہ‘‘ کے نام سے جو علمی کام ہوا وہ صرف فتاویٰ نہیں تھے بلکہ ملک کے دستور و قانون کے طور پر مرتب کیے گئے تھے اور پورے برصغیر میں 1857ء تک نافذ العمل رہے ہیں۔ 
قیام پاکستان کے بعد ملک کے جمہور علماء کرام نے قرارداد مقاصد، 22 متفقہ دستوری نکات اور دستور پاکستان کی اسلامی دفعات کی صورت میں جو اجتہادی کام کیا ہے وہ نئی اختراع نہیں ہے۔ بلکہ امام ابو یوسفؒ ، قاضی ابو یعلیؒ ، الماوردیؒ ، اور اورنگزیب عالمگیرؒ کے دور کے ان سینکڑوں علماء کرام کی اجتماعی علمی جدوجہد کا تسلسل ہے جو اسلام کے اصولوں اور تقاضوں کے عین مطابق ہے اور اس سے انحراف درست طرز عمل نہیں ہے۔
دوسری طرف یہ تاثر دینا بھی گمراہ کن بات ہے کہ شریعت کا نفاذ صرف طالبان کا مطالبہ ہے اور اس کا دائرہ صرف شورش زدہ علاقوں تک محدود ہے۔ اس لیے کہ شریعت اسلامی کا نفاذ خود دستور پاکستان کا تقاضہ ہے، قیام پاکستان کا مقصد ہے اور پوری قوم کی اجتماعی ضرورت ہے۔ اس کی صرف دو تازہ مثالیں نمونہ کے طور پر پیش کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ ایک یہ کہ سود کے مسئلہ پر خود حکومت اب اس ضرورت کو محسوس کر رہی ہے کہ غیر سودی نظام کو اپنانا ملکی معیشت کو صحیح رخ پر لانے کے لیے ناگزیر ہے اور دوسری یہ کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے سپریم کورٹ میں واضح طور پر کہا تھا کہ ملک میں کرپشن کو ختم کرنے کے لیے حضرت عمرؓ کے نظام کو اختیار کیے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ یہ حضرت عمرؓ کا نظام اور غیر سودی بینکاری کیا ہے؟ یہ دونوں شریعت اسلامیہ ہی کے اہم شعبے ہیں جو نہ صرف عالم اسلام بلکہ پوری دنیا کے لیے ناگزیر ضرورت بنتے جا رہے ہیں۔
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے اپنے پچھلے دور حکومت میں پارلیمنٹ سے ’’شریعت بل‘‘ کے نام سے جو بل منظور کرایا تھا وہ یقیناًانہیں یاد ہوگا، اس میں اگرچہ قرآن و سنت کو سپریم لاء قرار دیتے ہوئے حکومتی نظام کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا جس پر ہم نے تحفظات کا اظہار کیا تھا لیکن کیا میاں محمد نواز شریف نے یہ بل واپس لے لیا ہے اور کیا ان کی حکومت اس ’’شریعت بل‘‘ پر عمل درآمد کو ضروری نہیں سمجھتی؟ سردست حکومتی نظام کو کچھ عرصہ کے لیے مستثنیٰ سمجھ کر قومی زندگی کے باقی شعبوں میں ہی اس ’’شریعت بل‘‘ کے نفاذ اور عملدرآمد کا اہتمام کرلیں۔ لیکن اس سے آنکھیں بند کر لینا اور شریعت کو صرف طالبان کا مسئلہ قرار دے کر مسلسل نظر انداز کیے چلے جانا دینی، قانونی اور اخلاقی لحاظ سے کوئی جواز نہیں رکھتا۔ میاں صاحب محترم کو سیکولر لابیوں اور عالمی استعمار کی ان سازشوں سے ہوشیار رہنا چاہیے جو انہیں بتدریج شریعت اور شریعت بل سے دور لے جانے کے لیے کر رہی ہیں اور میاں صاحب کے گرد بھی ایک مخصوص حصار ہے جو اس ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ 
ہماری ان گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ دونوں فریقوں کو اپنے اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ طالبان کو دستور پاکستان کے بارے میں مغالطوں کے دائرے سے نکل کر حقیقت پسندانہ موقف اختیار کرنا چاہیے۔ اور حکومت کو شریعت سے مسلسل بے اعتنائی کے طرز عمل کا جائزہ لے کر سیکولر لابیوں کے خول سے باہر نکلنا چاہیے۔ اگر دونوں فریقوں نے حقیقت پسندی سے کام لیا تو کوئی وجہ نہیں کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں اور پاکستان امن و سلامتی اور شریعت کی بالادستی کے حوالہ سے ایک خوشگوار مستقبل کا آغاز نہ کر سکے۔

اپریل ۲۰۱۴ء

اسکولوں میں عربی زبان کو لازم قرار دینے کا فیصلہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مطالعہ سیرتؐ کے روایتی اور غیر روایتی پہلوڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی
اسلامی قانون کی تشکیل نو : درپیش چیلنج اور محدود فکری رویےڈاکٹر محمود احمد غازی
خاطراتمحمد عمار خان ناصر
دیسی سیکولروں کی مغالطہ انگیزیاں (۲)محمد زاہد صدیق مغل
’’جمہوری و مزاحمتی جدوجہد‘‘ ۔ ایک تجزیاتی مطالعہمحمد رشید
میاں محمد عارف ایڈووکیٹ کا انتقالمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
الشریعہ اکادمی کی سرگرمیاںادارہ
مولانا زاہد الراشدی کے اسفارادارہ
فیثا غورث کے زریں اصولحکیم محمد عمران مغل

اسکولوں میں عربی زبان کو لازم قرار دینے کا فیصلہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف خان نے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں قرآن کریم کے حفاظ میں انعامات کی تقسیم کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یہ خوش خبری دی ہے کہ اسرکاری سکولوں میں میٹرک تک عربی زبان کو لازمی قرار دیا جا رہا ہے جس کے لیے اصولی فیصلہ ہو چکا ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے عربی زبان کی تعلیم کی ضرورت ہے اور ہمارے ہاں اس سلسلہ میں مسلسل بے پروائی سے کام لیا جاتا رہا ہے۔ مگر اب حکومت نے اس طرف توجہ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے اور میٹرک تک عربی تعلیمی کو لازم کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
عربی زبان ہماری دینی زبان ہے اور صرف قرآن کریم سے واقفیت کے لیے نہیں بلکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ و سنت تک براہ راست رسائی اور امت مسلمہ کے ماضی کے علمی ذخیرہ سے آگاہی کے لیے بھی عربی زبان بنیادی ضرورت کی حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد سے ہی جب کہ اس کی ضرورت اسی وقت سے محسوس کی جا رہی ہے، اس سے بے اعتنائی کا رویہ جاری ہے اور بار بار توجہ دلانے کے باوجود حکومتی حلقے اس کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔
عربی زبان کی اہمیت و ضرورت تو اپنے مقام پر مگر ہماری رولنگ کلاس کا حال یہ ہے کہ قرآن کریم ناظرہ کی تعلیم کو بھی ابھی تک ہمارے سرکاری تعلیمی نصاب و نظام میں ضرورت کا درجہ نہیں دیا جا سکا۔ کچھ عرصہ قبل وفاقی محتسب اعلیٰ نے باقاعدہ آرڈر دیا تھا کہ سرکاری سکولوں میں مڈل تک قرآن کریم ناظرہ کی تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے۔ مگر یہ آرڈر کم از کم دو عشرے گزر جانے کے باوجود عملدرآمد کے مرحلہ میں داخل نہیں ہو سکا۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ ملک بھر میں پرائمری اور مڈل سکولوں کی تعداد کو سامنے رکھتے ہوئے ان میں سے ہر سکول کو کم از کم دو قاری مہیا کرنے کے لیے بھی قراء کرام موجود نہیں ہیں۔ اور اگر اتنی تعداد میں قاری حضرات میسر آبھی جائیں تو ان کی تنخواہوں کے لیے بجٹ میں رقم کا بندوبست نہیں ہے۔ یہ کہہ کر پرائمری اور مڈل سکولوں میں قرآن کریم ناظرہ کی تعلیم کا اہتمام کرنے سے انکار کر دیا گیا تھا اور اب بھی اس کے کوئی امکانات دکھائی نہیں دے رہے۔ حالانکہ ایک مسلم ریاست میں دینی تعلیم کا یہ بالکل ابتدائی لیول ہے کہ ایک مسلمان بچہ یا بچی کم از کم قرآن کریم ناظرہ پڑھنے کی استطاعت رکھتے ہوں۔
دوسری طرف جو دینی مدارس اتنی بڑی قومی ضرورت کو پورا کرنے میں اپنا کردار مؤثر طریقہ سے ادا کر رہے ہیں، وہ ہر دور میں حکومتوں کی منفی پالیسیوں کی زد میں رہتے ہیں اور ہر حکومت انہیں دباؤ میں رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ حالانکہ پرائمری اور مڈل سکولوں سے کہیں زیادہ تعداد میں موجود مساجد اور مدارس کو قرآن کریم پڑھانے والے حافظ اور قاری صاحبان مہیا کرنے کی خدمت یہی دینی مدارس سر انجام دے رہے ہیں اور وہ حکومت سے کسی بجٹ کا تقاضا بھی نہیں کر رہے۔ تھوڑی دیر کے لیے اس صورت حال پر ایک نظر ڈالنے کی زحمت کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دینی مدارس ہمارے معاشرے میں مسجد و مدرسہ کا نظام قائم رکھنے کے لیے حافظ، قاری، خطیب، امام، مدرس اور مفتی جتنی تعداد میں مہیا کر رہے ہیں، وہ پرائیویٹ سیکٹر میں فی الواقع حیرت انگیز بات ہے۔ مگر اس کا اعتراف اور تحسین کرنے کی بجائے مختلف حوالوں سے دینی مدارس کی کردار کشی اور ان کے خلاف منفی پروپیگنڈے کے ساتھ ساتھ ان کے کردار کو محدود بلکہ غیر مؤثر کرنے کی سرکاری پالیسیاں وقفے وقفے کے ساتھ سامنے آتی رہتی ہیں اور اب بھی قومی سلامتی پالیسی کے عنوان سے ان کا اعادہ کیا جا رہا ہے۔
یہ بات ہم نے اس لیے عرض کی ہے کہ سردار محمد یوسف خان محترم عربی زبان کو میٹرک تک لازم قرار دینے کی جو خوش خبری دے رہے ہیں وہ لائق تحسین ہے۔ لیکن اس سے پہلے اس بات کی ضرورت ہے کہ سرکاری اسکولوں میں کم از کم قرآن کریم ناظرہ کی تعلیم کا تو اہتمام کیا جائے اور اس کے لیے کسی نئی پالیسی کی ضرورت نہیں بلکہ وفاقی محتسب اعلیٰ کے اس حکم پر عملدرآمد کی کوئی صورت نکال لی جائے جو برس ہا برس سے معطل پڑا ہے۔ عربی زبان صرف ہماری دینی زبان نہیں بلکہ آج کی زندہ اور مروجہ بین الاقوامی زبانوں میں بھی اہم مقام رکھتی ہے اور بیسیوں ممالک کی قومی زبان ہے جن کے ساتھ ہمارے برادرانہ تعلقات ہیں اور جن ممالک میں پاکستان کی افرادی قوت روزگار کے لیے لاکھوں کی تعداد میں ہر وقت موجود رہتی ہے۔ ہمیں سردار محمد یوسف خان کے اس ارشاد سے سو فی صد اتفاق ہے کہ اگر ہمارے ہاں عربی زبان کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے آغاز سے ہی اس کی ضرورت تعلیم کا اہتمام ہو جاتا تو ہمیں بہت سے الجھے ہوئے مسائل سے نجات مل سکتی تھی اور اب بھی عربی زبان کو اس کا صحیح مقام دے کر ان الجھنوں سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہماری اسٹیبلشمنٹ اور رولنگ کلاس ایسا ہونے دے گی؟ اگر قومی پالیسیوں کے فریزر کا دروازہ کھولا جائے تو اس میں سپریم کورٹ آف پاکستان، اسلامی نظریاتی کونسل، وفاقی شرعی عدالت، وفاقی محتسب اعلیٰ، بلکہ حکومتوں کے بڑے بڑے اچھے فیصلے منجمد ملیں گے جو اصولی طور پر کر لیے گئے تھے اور ان پر عمل کا اعلان بھی کر دیا گیا تھا مگر آج تک وہ حکومتوں کی توجہ کے طلب گار ہیں۔ 
ہماری حالت یہ ہے کہ ہم فیصلہ کرنے میں بخل نہیں کرتے اور دینی ضرورت اور قومی مفاد کے لیے بہتر سے بہتر فیصلہ کرنے میں ہم پوری مہارت رکھتے ہیں لیکن خود اپنے کیے ہوئے فیصلوں پر عملدرآمد ہمارے لیے مشکل ہو جاتا ہے اور اندرونی و بیرونی مشکلات ہر اچھے کام کی طرف پیش رفت میں ہمارے پاؤں کی زنجیریں بن جاتی ہیں۔ اس لیے فیصلوں سے زیادہ ان پر عمل درآمد کے نظام کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ سردار محمد یوسف خان ایک محترم، شریف النفس، عوامی خدمت گار اور نظریاتی شخصیت کا تعارف رکھتے ہیں۔ ہم ان کے اس اعلان کا خیر مقدم کرتے ہیں اور ایک اچھے فیصلے پر حکومت کو مبارک باد دیتے ہوئے یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اچھے فیصلے کرتے ہوئے ان پر عملدرآمد کے نظام کی اصلاح کی طرف بھی توجہ دیں کہ اصل ضرورت اسی کی ہے۔

مطالعہ سیرتؐ کے روایتی اور غیر روایتی پہلو

ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی

(۸ مارچ ۲۰۱۴ء کو الشریعہ اکادمی میں علماء و طلبہ کی نشست سے خطاب۔)

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم۔
حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب اور دیگر حضرات علماء اور معزز سامعین!
میرے لیے خوش قسمتی کی بات ہے کہ پاکستان آنے کے بعد مجھے مسلسل آپ حضرات سے رابطے اور اپنی باتیں اور معروضات پیش کرنے کا موقع ملتا ہے، سعادت ملتی ہے۔
سیرت نبویؐ بنیادی طور پر اس خاکسار کا حوالہ بن گئی ہے کہ عام طور پر اسی موضوع پر کام کرنے کا موقع ملتا ہے۔ جدید دور میں جتنے کام اس وقت ہو رہے ہیں، بلا تکلف یہ عرض کر سکتا ہوں کہ پاکستان میں اس کی مختلف جہات پر بہت عمدہ، اچھا اور وسیع کام ہو رہا ہے۔ اردو میں جتنا کام اس وقت پاکستان میں ہوا ہے، وہ دوسرے مقامات پر نہیں ہو سکا۔ ایک تجزیے کے مطابق عربی میں اتنا اچھا کام ابھی تک نہیں ہو پایا ہے جتنا یہاں مختلف جہتوں سے سیرت پر ہوتا رہا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ سیرت ایک وسیع اور ہمہ گیر موضوع ہے جس میں بہت سی چیزیں آجاتی ہیں۔ ایک طرف سیرت نبوی کا تعلق قرآن مجید سے ہے، دوسری طرف حدیث مبارکہ سے ہے، تیسری طرف سماجیات اور تاریخ سے ہے، چوتھی طرف علوم و فنون سے ہے۔ ایسی بہت سی جہات تلاش کی جا سکتی ہیں اور ان پر گفتگو کی جا سکتی ہے۔ اب اصل مسئلہ یہ ہے کہ سیرت نگاری کا طریقہ یا سیرت کا مطالعہ کیسا ہو؟ ایک طریقہ ہمارے ہاں اب تک چلا آرہا ہے کہ ہم بیانیہ انداز میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح ولادت سے لے کر وفات تک مکی اور مدنی ادوار میں تقسیم کر کے اس کو پڑھتے ہیں اور وہ ایک تاریخی بیانیہ ہوتا ہے۔ یہ تاریخی بیانیہ عام طور پر اب لکیر کا فقیر ہوگیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امامین ہمامین ابن اسحاقؒ اور ابن ہشامؒ نے جو طرز قائم کر دیا تھا، اس کی پیروی ہمیشہ کی جاتی رہی۔ علامہ شبلیؒ نے جب سیرۃ نبوی کا خاکہ مرتب کیا اور کتاب لکھی تو جلد اول خالصتاً اسی Pattern (طرز) پر لکھی اور اس کے بعد جتنی سنجیدہ کتابیں آئیں اور اضافہ کرنے والی بھی بنیں وہ اسی پیٹرن پر لکھی گئیں، اور وہ جو بیانیہ Historical Narrative تھا، وہ ہمیشہ برقرار رہا۔ 
مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ کی کتاب ’’سیرۃ المصطفیٰ‘‘ ہو، مولانا مودودیؒ کی ’’سیرت سرورِ عالم‘‘ ہو، مولانا عبدالرؤف دانا پوری کی ’’اصح السیر‘‘ ہو، یا ان کے علاوہ جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں تو وہ بیانیہ انداز میں چلتی ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت، رضاعت، بچپن، لڑکپن، نوجوانی، قبل بعثت کی زندگی، بعد بعثت کی زندگی، نبوت، تبلیغ، خفیہ تبلیغ کا زمانہ، علانیہ تبلیغ کا زمانہ، مظالم قریش۔ اس طرح کے سارے بیانات و عنوانات کو ملا کر دیکھیں، آپ کو یکساں ملیں گے۔ اب اس میں بعد کے لوگوں نے کیا اضافے کیے؟ وہ اضافے صرف یہ ہوئے کہ لوگوں نے کچھ دوسرے ماخذ سے چند روایتیں بڑھا دیں۔ حدیث سے کہیں اضافہ کر دیا۔ شبلیؒ سے غلطی ہوئی تھی تو اس کی تصحیح اور تنقیح کر دی۔ دوسرے علماء کرام نے جب دیکھا کہ شبلیؒ پہ تنقید ہو رہی ہے تو انہوں نے تنقید کے جواب میں تنقید لکھ دی، دوسرے مکتب فکر والوں نے کچھ اور اضافے کر دیے۔ اس طرح سیرت کا ایک اسلوب چل پڑا، وہی روایتی۔ اب اسی طریقے کو اختیار کیا جائے گا تو بہت دنوں تک کوئی اضافہ قابل قدر اس میں نہیں کیا جا سکتا۔ اصل طریقہ کیا ہے ہمارے روایتی علماء کا یا سیرت نگاروں کا؟ چاہے اس میں یونیورسٹی کے دانشور ہوں یا پروفیسر اہل قلم ہوں، ان سب کا طریقہ یہی ہوتا ہے کہ دو چار کتابوں کو سامنے رکھ کے ایک اور کتاب لکھ دیتے ہیں۔ کہیں کہیں اضافے کر دیتے ہیں، جو غلطیاں ہوگئی ہوں ان کی اصلاح کر دیتے ہیں، بعض مآخذ کے حوالے دے دیتے ہیں۔ لیکن اس میں بنیادی فرق نہیں ہوتا۔ 
اصل میں مغربی دنیا کے لوگوں نے جو چلن نکالا ہے، وہ ہم کو اختیار کرنا چاہیے۔ موضوعاتی اسٹڈی آف ہسٹری ہونی چاہیے۔ یعنی موضوعاتی اعتبار سے، تحلیل و تجزیہ کی بنیاد پر سیرت کی اسٹڈی ہوگی تو نئی نئی جہتیں سامنے آئیں گی اور پھر نئی نئی چیزیں نکلتی جائیں گی۔ اور مآخذ میں جو روایتی مآخذ ہیں ابن اسحاقؒ ، ابن ہشامؒ ، واقدیؒ ، ابن سعدؒ اور طبریؒ ، ان روایات کو چھوڑ کر یا ان سے استفادہ کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے غیر روایتی مآخذ سے بھی ہم کو بہت سی چیزیں مل سکتی ہیں اور بڑی قیمتی معلومات ملتی ہیں۔ شہروں پر کتابیں ہیں، مکہ اور مدینہ کی تاریخوں پر، ازرقی اور سمہودیؒ کی کتابیں ہیں۔ اسی طرح سے دوسرے شہروں کی تاریخیں ہیں، تاریخ بغداد ہے، تاریخ دمشق ابن عساکرؒ کی ہے، اسی طرح بہت سے شہروں کی تاریخیں ہیں جن میں ہمارے لیے بہت سا مواد ہے، اس کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس سے نئی نئی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ 
دوسرے اور بھی مآخذ ہیں جس میں فہرست نگاری ہے، مثلاً محمد ابن حبیب بغدادی کی کتاب المحبر  اور المنمق فی اخبار قریش۔ ان میں فہرستیں ہیں جن میں تفصیلات ملتی ہیں کہ مثلاً عہد نبوی میں یا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے قبل، بعثت کے زمانے میں یا بعد میں خلافت راشدہ، خلافت امویہ کے زمانے میں کون کون سے لوگ مطعمون میں شامل تھے، کھانا کھلانے والے تھے ، کون لوگ جوادون میں تھے۔ ایسے لوگ جنہوں نے مکی و مدنی زندگی میں ایسے غلط کام کیے تھے جنہیں دین حنیف تسلیم نہیں کرتا تھا، جیسے نکاح الوقت کا معاملہ ہے۔ ایسے کون لوگ تھے جنہوں نے بعثت سے پہلے جاہلیت کے زمانے میں دین حنیفی کو پوری طرح سے سمجھا تھا اور اس کی پابندی کی تھی، قدر دانی کی تھی۔ شراب نوشی نہیں کی، بت پرستی نہیں کی، دین حنیف کو قائم رکھنے کی کوشش کی۔ ایسے کون سے لوگ تھے جنہوں نے تاریخ کے دھارے کو بدلنے کی کوشش کی تھی۔ تو ایسی تمام فہرستیں موجود ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کی فہرستیں ہیں۔ صحابہؓ کے مختلف طبقات کیے گئے ہیں، ان کی فہرستیں ہیں۔ ان میں بنیادی جو چیز ہے وہ معاشرتی اور سماجی تفصیل ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کن لوگوں کے سماجی پیشے (Economic Professions) کیا تھے۔ تو اس میں ساری تفصیلات ہمارے پاس ہیں کہ کون لوگ گیہوں کی تجارت کرتے تھے، کتنے لوگ ایسے تھے جو تیل کی تجارت کرتے تھے، اور مختلف حضرات سبزی اور دوسری چیزوں کی تجارت کرتے تھے۔ یہ تجارتی Classification (تقسیم کار) ہے، یہ بہت دلچسپ اور بہت اہم ہے۔ اس میں سماج کا ایک بڑا طبقہ شامل تھا۔ 
پیشے کے علاوہ صنعت اور حرفت کے کچھ مسائل ہیں۔ ان علاقوں کا ذکر ہے جہاں مختلف چیزیں پیدا ہوتی تھیں، ان کو لایا جاتا تھا۔ ثقیف اور طائف کے بارے میں پوری پوری کتابیں لکھی گئی ہیں۔ اتفاق سے وہ کتابیں عام لائبریریوں میں نہیں ملتیں، لیکن بہرحال چھپ گئی ہیں اور موجود ہیں۔ تو ثقیف کے بارے میں ہماری معلومات بہت زیادہ ہو جاتی ہیں۔ طائف کے بارے میں، ہمارا عام طور سے خیال ہوتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طائف اور ثقیف سے تعلق بالکل معمولی تھا، بعد کے زمانے میں قائم ہوا۔ حالانکہ رضاعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت حلیمہ سعدیہ کے گھر میں اور وطن میں ہوئی تھی اور وہاں سے پانچ سال یا دو سال کے بعد آپ واپس تشریف لے آئے۔ اس میں یہ بحث بڑی اہم ہے کہ آپؐ نے حضرت حلیمہ سعدیہ کے یہاں رضاعت کا کتنا زمانہ گزارا، دو برس یا پانچ برس؟ یہ بہت اہم چیزیں ہیں جن کی ہم تحقیق کر سکتے ہیں۔ لیکن آپ اس کے بعد واپس جب تشریف لائے تو کیا طائف کے سفر پر نبوت کے دسویں سال حضرت خدیجہ اور ابو طالب کی وفات کے بعد ہی آپ تشریف لے گئے؟ اس کے دوران آپ کا کوئی تعلق نہیں رہا یا ثقیف کے لوگوں کا اور قریش کے لوگوں کا کوئی تعلق نہیں رہا؟ یہ تصور اصل میں ہمارے ہاں معلومات کے خلا کی وجہ سے آیا ہے۔ اس سب کو نسب کی کتابوں سے اور شہروں کی تواریخ سے اور جو روایتی مآخذ ہیں ابن اسحاق، ابن ہشام، واقدی اور بلاذری، ان کتابوں سے پر کیا جا سکتا ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اور اکابر صحابہؓ کا ان سے پہلے اکابر قریش کا ثقیف سے مسلسل رابطہ تھا۔ ہر طرح کے تعلقات تھے۔ سماجی، معاشرتی، سیاسی، تجارتی، دینی، ہر طرح کے تعلقات تھے۔ 
مثلاً آپ اس لائبریری میں بیٹھے ہیں، اس کے حوالے سے ایک بات کہوں۔ عرب میں ایک شخص تھے جنہوں نے اس زمانے میں ایک لائبریری قائم کر رکھی تھی۔ ان کا نام تھا امیہ بن ابی الصلت ثقفیبہت مشہور شاعر ہیں۔ وہ تاجر بھی تھے، کوئی دلچسپ چیز دیکھتے تو خرید لیتے۔ حضرت ابو سفیانؓ کے دوست تھے، شریک تھے، ندیم تھے، ساتھ مل کے تجارت کرتے تھے۔ وہ بصریٰ اور شام کے مختلف شہروں میں جاتے تھے، انہیں لکھنے پڑھنے کا بڑا شوق تھا۔ بہت بڑے شاعر تھے اور توحید پر مبنی اشعار اُن کے ملتے ہیں۔ ان کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان تھا کہ ان کا شعر اسلام لا چکا تھا اور بلا شبہ آپ نے ان کے اشعار سنے بھی تھے۔ ان کے اشعار پر بہت کام بھی ہو چکا ہے۔ امیہ بن ابی الصلت کا خیال یہ بھی تھا کہ جس نبی آخر الزمان کے آنے کا وقت ہوگیا ہے تو شاید وہی منتخب کیے جائیں۔ چنانچہ وہ جناب رسول اللہ صلی علیہ وسلم کو مکے میں ملنے کے لیے ائے تھے، لیکن جب آپ کے اعلان رسالت کی خبر سنی تو ان کا دل ٹوٹ گیا اور وہ نہیں آئے۔ یہ سوچنے کی سب باتیں ہیں جو آدمی سوچ سکتا ہے۔ یہ ایک بہت دلچسپ بات ان کے بارے میں ملتی ہے کہ ابو سفیان کے ساتھ جب سفر پر جاتے تھے تو تجارت کے علاوہ صومعوں میں، گرجاؤں میں، یہودیوں کی عبادت گاہوں میں، مختلف جگہوں میں چلے جاتے تھے، وہاں کتابیں نکال کے جمع کرتے تھے، پڑھتے تھے اور بہت سی چیزیں لے کے آتے تھے۔ ابو سفیان اکثر و بیشتر ان پر طنز کرتے تھے کہ آپ تجارت کے لیے آئے ہیں یا یہاں کتابیں پڑھنے کے لیے آئے ہیں۔ تو بہت سی کتابیں تلاش کر کے لاتے تھے اور طائف میں انہوں نے اپنی ایک لائبریری بنائی ہوئی تھی۔ 
چونکہ ہم روایتی مآخذ کے علاوہ دوسری روایتوں کا تجزیہ نہیں کرتے، اس لیے ہماری معلومات ادھوری رہ جاتی ہیں۔ مثلاً کتاب المحبر اور المنمق اور بہت سی دوسری کتابیں، ان کتابوں کی بنیاد پر عہد نبوی میں تجارت اور جاہلی دور میں تجارت پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے، بلکہ کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ تجارت کا وہاں ایک مسئلہ یہ تھا کہ اکثر و بیشتر ایک دوسرے کے شریک ہوتے تھے جنہیں ندیم کہا جاتا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شریک تجارت کا ذکر ملتا ہے، جاہلی دور میں آپ کے شریک تجارت رہے تھے۔ 
ایک فہرست بغدادی نے کتاب المحبر اور المنمق میں دی ہے۔ اس کے شروع میں انہوں نے عبد المطلب بن ہاشم اور ان کے شریک تجارت حرب بن امیہ اموی کو بیان کیا ہے۔ آخر میں ایک مسئلے پر دونوں میں اختلاف پیدا ہوا، وہ اختلاف بھی تجارتی تھا۔ وہ اختلاف یہ تھا کہ عبد المطلب کے جوار میں، پناہ میں ایک یہودی تاجر تھا جو بازاروں میں ان کے مال سے تجارت کیا کرتا تھا۔ وہ کسی وجہ سے حرب بن امیہ کو پسند نہیں کرتا تھا۔ چنانچہ وہ بار بار عبد المطلب پر دباؤ ڈالتے تھے کہ اس کو بازار سے اٹھا دیا جائے۔ لیکن جب وہ نہیں مانے تو لوگوں کو اس کے خلاف بھڑکا دیا اور لوگوں نے اس یہودی تاجر کو قتل کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عبد المطلب نے اپنے رشتہ دار سے جو شریک تجارت بھی تھے، خاندانی رشتے اور قرابت داری بھی تھی، فوری طور پر مطالبہ کیا کہ اس کی دیت دی جائے ورنہ ہمارے تمہارے تعلقات ختم ہو جائیں گے۔ دیت دینے سے انہوں نے انکار کر دیا۔ نتیجتاً آپ نے جو تجارتی معاہدہ کیا تھا، اسے توڑ دیا اور عبد اللہ بن حزام تیمی سے اپنا تجارتی تعلق قائم کر لیا۔ 
آپ اس فہرست کو دیکھیں اور اس کا موازنہ کریں تو تمام اکابر قریش، تمام اکابر صحابہؓ ایک دوسرے کے تجارتی ندیم نظر آئیں گے۔ ایک طرف اموی ہاشمی ہیں، ایک طرف مخزومی ہیں۔ مخزومیوں کا اور ہاشمیوں کا آپس میں تعلق بڑا عجیب و غریب نظر آئے گا۔ یہ کہانی آپ نے عام طور پر سنی ہوگی، کتابوں میں عام طور سے سنائی جاتی ہے کہ بنو امیہ اور بنو ہاشم میں شروع سے ہی اختلاف چلا آرہا تھا اور رقابت تھی، دشمنی تھی۔ لیکن یہ بات غلط ثابت ہوتی ہے، اس لیے کہ کم سے کم تیس چالیس شادیاں تو دونوں خاندانوں میں اس زمانے کی موجود ہیں۔ تجارتی تعلقات موجود ہیں، مضاربت کے تعلقات ہیں، ندیمی کے تعلقات ہیں، سماجی تعلقات ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے تعلقات ملتے ہیں۔ ایک بات اور بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ بنو ہاشم، بنو عبد شمس یعنی بنو امیہ، بنو نوفل اور بنو عبد المطلب، یہ چار خاندان تھے جن کو بنو عبد مناف کے بڑے نام سے جانا جاتا تھا اور ہمیشہ ان چاروں خاندانوں کا مجموعہ ان کا بزرگ خاندان بنو عبد مناف تھا۔ یہ عہد نبوی میں بھی تھا اور بعد میں بھی تھا۔ ابن اسحاق نے بھی لکھا ہے اور دوسرے تمام لوگوں نے بھی لکھا ہے کہ جب بنو عبد مناف کا بنو مخزوم سے یا قریش کے کسی بھی دوسرے خاندان کے سامنے کوئی معاملہ ہوتا تھا تو بنو عبد مناف کے یہ چاروں خاندان ایک طرف ہوتے تھے، متحدہ محاذ بنا لیتے تھے، اور دوسروں کے مقابلے میں ایک خاندان کی حیثیت سے پیش آتے تھے۔ ایسے معاشرتی تعلقات پر گفتگو کی جا سکتی ہے۔ 
ایک دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ان خاندانوں، بنو عامر بن لوی ہوں یا بنو مخزوم ہوں یا دوسرے لوگ ہوں، آپس میں ان کے سماجی اور معاشرتی تعلقات تھے۔ ہمارے ہاں صورت حال یہ ہوتی ہے کہ اگر ہمیں کسی سے اختلاف ہے کسی وجہ سے تو سلام دعا بھی بند ہو جاتی ہے۔ لیکن وہاں صورت حال بالکل مختلف تھی۔ اس سے پہلے کے سماجی تعلقات، معاشرتی تعلقات اسلام لانے کے بعد بھی خراب نہیں ہوتے تھے ، ان میں دراڑ نہیں پڑتی تھی۔ اختلاف ہوتا تھا لیکن اس کے باوجود بھی معاشرتی سطح پر اسے قائم رکھنے کی کوشش کی جاتی تھی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ہدایت بھی فرمائی تھی۔ آپ نے کبھی سوچا یا کبھی آپ کے خیال میں یہ آیا کہ ابو جہل مخزومی جسے ہم فرعون امت کہتے ہیں اور ہر وقت لعن طعن کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بلا شبہ اس نے مخالفت شدید ترین کی تھی، لیکن جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تنہائی میں ملتا تھا تو مصافحہ کرتا تھا اور اس کے بعد آپؐ بھی اس سے مصافحہ فرماتے تھے؟ اس لیے داعی کا بنیادی طور پر کام یہ نہیں ہوتا کہ وہ کسی سے نفرت کرے۔ اگر وہ کسی شخص سے نفرت کرے گا تو دعوت کا کام نہیں کر سکے گا۔ کسی صحابیؓ نے کہا کہ وہ تو مخالفت کرتا تھا، دوسرے بھی مخالفت کرتے تھے تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کس نے نہیں کی؟ سوائے ایک دو کے سب نے مخالفت کی۔ حضرت عمرؓ تو قتل کرنے کے درپے ہوگئے تھے، دوسرے لوگوں نے بھی کچھ کم کام نہیں کیے تھے۔ لیکن بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں معاف کر دیا تھا اور ان کا اسلام قبول کر لیا تھا۔ اس لیے کہ آپ کا کام تھا دلوں کا جیتنا۔ ان کو زیر کرنا، شکست دینا، ان کو فنا کر دینا آپ کا کام نہیں تھا۔ منٹگمری واٹ نے بڑی خوبصورت بات لکھی ہے:
The policy of the prophet Muhammad (saw) was to win the hearts of the people, not to crush them.
(پیغمبر محمدؐ کی پالیسی یہ تھی کہ لوگوں کے دل جیتے جائیں نہ کہ انہیں توڑا جائے)
یہ بنیادی چیز ہے کہ آپؐ کا نبوت سے پہلے کا معاملہ ہو یا نبوت کے بعد کا، مکی دور کا ہو یا مدنی دور کا، آپؐ نے کبھی بھی کسی شخص کو فنا کرنے کی، اپنے دشمنوں کو تہس نہس کرنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ ان کو جیتنے کی کوشش کی۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب نے پوری تفصیل سے اعداد و شمار دیے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سالہ جنگوں میں کتنے لوگ مقتول ہوئے تھے، کتنے زخمی ہوئے تھے۔ صرف دو سو اٹھارہ آدمی مارے گئے تھے کل غزوات میں۔ فتح مکہ ہوگیا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب کے سامنے موجود تھے۔ سب کی گردنیں جھکی ہوئی تھیں، خطرہ تھا کہ نجانے کیا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تمہارا کیا خیال ہے، میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں گا؟ تو لوگوں نے کیا کہا؟ یہی تو کہا تھا کہ آپ کریم ابن کریم ہیں۔ آپ ہمارے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو ایک کریم کو زیب دیتا ہے۔ آپ نے فرمایا، جاؤ، انتم الطلقاء، تم سب کے سب آزاد ہو۔ یہ وہ صورت حال تھی جو سمجھنے کی ہے۔ آپؐ کو لوگوں کو ختم کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا تھا، نہ آپ کی زندگی میں کبھی یہ پالیسی رہی تھی۔ آپ لوگوں کے گھروں میں جاتے تھے، کافروں کے گھروں میں کھانا کھاتے تھے، ان کے ساتھ رہتے تھے۔ ان کی دعوتیں کرتے تھے، ان کی دعوتیں قبول فرماتے تھے، ان کے ساتھ سلوک کرتے تھے۔ 
امیہ بن خلف کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت زبردست دشمنی تھی جو بعد میں مارا بھی گیا۔ اس نے مکے کے تمام اکابر کی دعوت کی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی آیا اور کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے گھر کھانا کھانے کے لیے تشریف لائیں۔ آپ نے اس کی دعوت فورًا قبول فرمالی۔ جب وہ واپس گیا تو راستے میں اس کا دوست عقبہ بن ابی معیط اموی اس سے ملا۔ اس نے کہا کہ سنا ہے تم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کھانے پر بلایا ہے۔ اس نے کہا، ہاں بلایا ہے۔ کھانے پر تو بلانا ہی چاہیے اور سب کو دعوت دی تو ان کو بھی دعوت دی، وہ بھی آرہے ہیں۔ اس نے بہت لعن طعن کیا، لیکن امیہ نے کہا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ وہ آدمی اچھے ہیں، ہمیں دین سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن آپ آدمی اچھے ہیں اور اچھے آدمی کو کھانے پر بلانا چاہیے۔ 
اسی طرح اس پہلو کو الٹ کر دیکھیے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ زندگی بھر رہے اور پچاس سال کی عمر تک ان سے تعلق رہا۔ بچپن سے لے کر ان کی تربیت میں رہے، ان کے گھر میں بھی رہے، وہ تو اسلام نہیں لائے تھے۔ آپ ان کے گھر میں کھاتے پیتے تھے، خود حضرت فاطمہ بنت اسد یعنی ابو طالب کی بیوی کہا کرتی تھیں کہ رسول اکرمؐ کھانے کے لیے جب گھر آتے تھے تو برکت ہوتی تھی۔ ہم ان کے لیے کھانا بچا کے رکھا کرتے تھے، اپنے بچوں کو نہیں دیتے تھے جب تک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہ کھا لیں۔ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ سماج و معاشرت میں سب لوگوں کے ساتھ میل ملاپ کا تھا۔
یہی تعلیم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرامؓ کو دی تھی۔ امیہ بن ابی خلف اور ایک بہت مشہور صحابی جو عشرہ مبشرہ میں ہیں، حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپس میں دوست تھے اور بہت قریبی دوست تھے۔ جیسے کہتے ہیں، ایک دوسرے کے ’’لنگوٹیے یار‘‘ تھے۔ دوستی میں آپس میں ملتے جلتے تھے۔ عبد الرحمن بن عوف نے شروع میں ہی اسلام قبول کر لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام بدل دیا، عبد الرحمن رکھ دیا۔ امیہ بن ابی خلف کو شکایت ہوئی، وہ آپؓ کو عبد الرحمن نام سے نہیں پکارتا تھا۔ وہ ہمیشہ آپؓ کو عبد الکعبہ کے نام سے پکارتا تھا تو حضرت عبد الرحمن جواب نہیں دیتے تھے۔ دونوں میں اختلاف چلتا رہا۔ ایک دن اس نے کہا کہ میں آپ کو پکارتا ہوں، آپ جواب ہی نہیں دیتے۔ تو حضرت عبد الرحمنؒ نے فرمایا، تم پتہ نہیں کس شخص کو بلاتے ہو۔ آخر میں اس پر صلح ہوئی (اس بات پر غور فرمائیے گا) کہ نہ تم عبد الرحمن کہو گے اور نہ عبد الکعبہ کہو گے، بلکہ عبد الٰہ کہہ کے پکارو گے۔ اس کے بعد امیہ آپؓ کو عبد الٰہ کہہ کے بلاتا تھا تو آپ جواب دیتے تھے۔ یہ دونوں حضرات ایک دوسرے کے ساتھ جاتے تھے، ندیم تھے، شریک تھے، کھانے پینے میں، اٹھنے بیٹھنے میں، اکٹھے تجارت کرتے تھے۔ بالآخر ہجرت مدینہ سے پہلے باقاعدہ ایک دستاویز لکھی ان دونوں نے کہ مکے میں عبد الرحمن بن عوفؓ کے جتنے تجارتی اور شخصی مفادات ہیں، ان سب کی حفاظت امیہ بن خلف کرے گا اور مدینہ میں عبد الرحمن بن عوف، امیہ کے تجارتی اور شخصی مفادات کی حفاظت کریں گے۔ 
یہ معاہدہ باقاعدہ لکھا گیا تھا، دستاویز تھی۔ امام بخاریؒ نے اس حدیث کو دو جگہ بیان کیا اور اس میں بیان کیا ہے کہ ایسا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ باب کتاب الاجارۃ میں ہے اور اس سے امام بخاری نے یہ اخذ کیا ہے کہ مسلم اگر حربی سے دارالاسلام یا دارالحرب میں کوئی معاہدہ کرے تو وہ جائز ہوگا۔ ایک کافر کی جان مال کی حفاظت کی ضمانت دی گئی تھی۔ پھر جنگ احد میں مشرکین کو شکست ہوئی اور امیہ اور اس کا بیٹا ؟؟ جان بچانے کے لیے بھاگنے لگے تو حضرت بلالؓ اور پر جوش صحابہؓ نے جو ان کے مظالم سے تنگ آگئے تھے، ان کا پیچھا کیا۔ اس موقع پر حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ نے بہت کوشش کی کہ امیہ کی جان بچا سکیں، لیکن بلال اور ان کے ساتھیوں نے کسی صورت میں اسے معاف نہیں کیا اور اسے قتل کر کے ہی دم لیا۔ اس کشمکش میں حضرت عبد الرحمنؓ، امیہ کو بچانے میں زخمی ہوگئے تھے۔ 
اسلام کی شان یہ تھی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رحمت کا جو تصور پیش کیا تھا، انسانیت کو سنوارنے کا وہ تصور ہمیں پیدا کرنا چاہیے اور اسی پر عمل کرنا چاہیے۔ یہ اسوہ نبویؐ ہے اور اس کے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و جلالت ہے، محبت و کرامت ہے، جس کو ہمیں سمجھنا چاہیے اور اس لحاظ سے ہمیں سیرت نبویؐ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبلؓ اور حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے کہا تھا : بشرا ولا تنفرا، لوگوں کو بشارت دو، نفرت نہ پھیلاؤ۔ نفرت نہیں پھیلانی چاہیے، بشارت دینی چاہیے۔ آپؐ تو ان لوگوں کے لیے بھی سراسر رحمت تھے جنہوں نے آپؐ کی جان لینے کی کوششیں کیں، ان کو بھی معاف کر دیا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ آپ نے اپنی ذات کے لیے کبھی انتقام نہیں لیا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ایک جنگ میں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو آپؐ نے بھیجا اور ان کے ساتھ دوسرے صحابہ کرامؓ تھے۔ حضرت اسامہ نے دشمن پر تلوار سونتی۔ ایک اور انصاری نے بھی تلوار سونتی۔ اس نے تلوار کے سامنے فورًا کلمہ پڑھا اور لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہہ دیا۔ انصاری نے اپنی تلوار روک لی اور حضرت اسامہؓ تلوار نہیں روک سکے اور اس کو قتل کر دیا۔ جب واپس آئے تو انصاریؓ نے یہ رپورٹ حضورؐ کو دی کہ حضرت اسامہؓ نے یہ کیا۔ آپؐ نے بلا کر ان سے پوچھا تو حضرت اسامہؓ نے کہا کہ تلوار کے خوف سے اس نے اسلام قبول کر لیا۔ تو آپ نے فرمایا ھلاّ شققت عن قلبہ  تو نے اس کا دل چیر کے دیکھا تھا؟ اسامہ، وہ دن کیسے ہوگا جب وہ لا الٰہ الا اللہ کہتا ہوا آئے گا، تم کیا جواب دو گے؟ اسامہ وہ دن کیسا ہوگا جب وہ لا الٰہ الا اللہ کہتا ہوا آئے گا، تم کیا جواب دو گے؟ آپؐ نے یہ تین بار فرمایا۔ حضرت اسامہؓ کہتے ہیں کاش میں اس سے پہلے مر گیا ہوتا۔ 
تو یہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے پہلو ہیں جن کو ہمیں عملی دنیا میں پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ روایتی معجزاتی پہلو بہت بیان ہو چکا ہے، اب اس کی بجائے موضوعاتی پہلو پر توجہ دینی چاہیے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اگر ایک بھی معجزہ نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟ دوسری بات آپ سے یہ کر دوں، آپ سب اہل علم ہیں۔ معجزہ بنیادی طور پر اللہ کی آیات میں سے ہوتا ہے، صرف ظاہر نبی کے ہاتھ پر ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں وضاحت ہے کہ اگر آپ چاہیں کہ کوئی آیت، کوئی نشانی لے آئیں تو آپ نہیں لا سکتے۔ معجزات تو صرف دلائل نبوت کے طور پر پیش کیے گئے تھے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ آپ سچے نبی ہیں۔ آپؐ کا سب سے بڑا معجزہ قرآن مجید ہے اور آپؐ کی سیرت و رحمت ہے اور پوری دنیا کو محیط ہے۔ تو بنیادی طور پر ہمیں سیرت کا مطالعہ اس طرح سے کرنا چاہیے۔
ضروری نہیں کہ بڑی بڑی ضخیم کتابیں لکھی جائیں۔ ضخیم کتابوں کو آپ چھوڑ دیں۔ مولانا محمد علی جوہرؒ بڑے لمبے لمبے خطوط اور مضامین لکھا کرتے تھے تو کسی نے کہا کہ آپ اتنے لمبے لمبے خطوط اور طویل مضامین کیوں لکھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا، بھئی مختصر لکھنے کی فرصت نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مختصر لکھنے کے لیے بڑی پتہ ماری کرنی پڑتی ہے۔ ہزاروں صفحات کو دس بیس صفحوں میں جمع کرنا بہت مشکل کام ہے، لیکن ایک بات کو پچاس صفحوں پر پھیلا دینا عام طور پر ہمارا علماء کا کام ہے۔ یہ کام ہم بہت آسانی سے کر سکتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ مجھے حضرت شاہ ولی اللہؒ پر ایک تعارف لکھنے کا حکم دیا گیا، ایک بڑے بزرگ آدمی نے حکم دیا تھا کہ چالیس صفحے میں لکھنا ہے۔ دانتوں پسینہ آگیا کہ صرف چالیس صفحے پر اس عظیم آدمی کی شخصیت کو کیسے سمویا جا سکتا ہے۔ لیکن لکھا اور اسے دس مرتبہ لکھا، اور اللہ کا شکر ہے کہ وہ بہت جامع چیز بن گئی۔ لیکن اس کو لکھنے میں ہم کو یہ اندازہ ہے کہ کیا گزری تھی۔ تین چار سو صفحے لکھنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ تو ایسی چھوٹی چھوٹی چیزیں علماء کرام کو لکھنی چاہئیں۔ جو سیرت سے واقف ہیں، ان کو چھوٹے رسائل لکھنے چاہئیں۔ آپ جانتے ہیں کہ طویل کتابیں و مضامین آپ لکھیں گے، بہت سی چیزیں لکھیں گے، اس کا Impact (اثر) نہیں ہوتا۔ اس کو لوگ پڑھ نہیں سکتے۔ اب زمانہ ہے بہت تیز رفتاری کا، جلدی سے کچھ پڑھ لینے کا۔ تو چھوٹی چھوٹی چیزیں سیرت پر آنی چاہئیں۔ دس صفحے کی، پندرہ صفحے کی، چالیس صفحے کی، اس میں آپؐ اسی قسم کی چیزیں سیرت کی لائیں۔ اس لیے کہ آپ ایسی کوئی کتاب لا سکیں جس میں بہت ہی نئی چیزیں ہوں، نئی معلومات ہوں یا نئی تشریحات ہوں، اس کے لیے آپ کو بہت زیادہ مطالعہ کرنا پڑے گا۔ بسا اوقات دس بیس سال بھی لگ جاتے ہیں۔ ایسی چھوٹی چھوٹی چیزیں لکھیں جو دلوں کو چھو لیں، جو انسانوں کی زندگی کو بدل دیں، جو ذہن و فکر کو بدل کے بالکل دوسرے راستے پر ڈال دیں جس کی تعبیر اقبال نے کی تھی:
؂ نگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
تو یہ تقدیریں بدلنے کا کام اب آپ کے ہاتھ میں ہے۔ آپ کے قلم میں ہے، آپ کی تقریر میں ہے۔ بہت لمبی تقریریں کرنے سے بہت لمبے مضامین لکھنے سے، روایتی قسم کی باتیں کرنے سے اب کچھ نہیں ہوتا، اب نئی چیزیں کہنے کی ضرورت ہے۔ 
حضرات! آپ کا بہت شکر گزار ہوں۔ پاکستان جب بھی آتا ہوں تو بہت محبت ملتی ہے۔ بڑا اعزاز و اکرام آپ اس بندہ ناچیز کا کرتے ہیں۔ بہت ہی دل میں شرمساری بھی محسوس ہوتی ہے اور بالکل سچی بات کہہ دوں کہ نفس کچھ موٹا بھی ہو جاتا ہے اپنی تعریفیں سن سن کے۔ یہ اچھا لگتا ہے، لیکن شرمندگی بھی ہوتی ہے۔ احساس ہوتا ہے کہ کیا دھرا کچھ نہیں، لیکن تعریفیں بہت ہوتی ہیں۔ یہ سب آپ کی فیاضی، آپ کے دل کی سخاوت ہے۔ میں گھر میں اکثر کہتا ہوں کہ جب گھر میں لکھتے لکھتے تھک جاتا ہوں اور بہت پریشان ہوجاتا ہوں اور محبت کے کوٹے میں کمی ہو جاتی ہے تو پھر میں پاکستان چلا جاتا ہوں۔ 
وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین۔

اسلامی قانون کی تشکیل نو : درپیش چیلنج اور محدود فکری رویے

ڈاکٹر محمود احمد غازی

(ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی مختلف تحریروں سے مرتب کیا گیا۔ مدیر)

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے تشریف لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے لیے بڑی ریاست چھوڑی جو کم و بیش بائیس لاکھ مرب کلو میٹر رقبے پر پھیلی ہوئی تھی جس میں آبادی کا اندازہ ایک ملین کے قریب تھا جن میں ایک چوتھائی کے قریب صحابہ کرامؓ تھے۔ باقی لوگوں کا شمار تابعین میں ہوتا تھا۔ اسلامی ریاست میں مختلف علاقوں میں عمال حکومت مقرر تھے۔ محصلین زکوٰۃ ہر صوبے، علاقے اور ہر قبیلے میں مقرر کیے جا چکے تھے۔ ہر علاقے میں فیصلہ کرنے والے قاضی اور فتویٰ دینے والے مفتی موجود تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی فرمانے والے خلیفہ اول سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ اس پورے نظام کی سربراہی فرما رہے تھے۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو قرآن مجید اور اپنی سنت کے علاوہ کوئی مرتب یا مدون قانون عطا نہیں فرمایا تھا۔ صحابہ کرامؓ، ان کے بعد تابعین اور ان کے بعد تبع تابعین کو جب کسی معاملے کا فیصلہ کرنے کی ضرورت پیش آئی تو وہ اس کے لیے اجتہاد سے کام لیتے تھے۔ صحابہ کرامؓ میں سے جو حضرات مجتہد تھے وہ خود اجتہاد کرتے اور اپنے اجتہاد کی روشنی میں معاملہ کا فیصلہ فرما دیتے۔ اگر وہ خود مجتہد نہ ہوتے یا اس معاملہ میں اپنے انتہائی تقویٰ اور محتاط رویہ کی وجہ سے خود اجتہاد نہ فرماتے تو دوسرے مجتہدین کی رائے پر عمل درآمد کرتے۔ یہاں یہ یاد رہے کہ صحابہ کرامؓ سب کے سب مجتہدین میں شامل تھے یا ان کی بڑی تعداد کو اجتہاد میں نمایاں مقام حاصل تھا۔ تابعین میں بھی مجتہدین کی بڑی تعداد تھی۔ تبع تابعین میں بھی بہت سے مجتہدین تھے۔ یہ حضرات اگر وہ خود مجتہد ہوتے تو براہ راست اجتہاد سے کام لیتے اور قرآن و سنت کی روشنی میں اپنے اجتہاد کے مطابق معاملات کا فیصلہ کر دیا کرتے تھے۔
صحابہ کرامؓ میں سے گورنر، قاضی اور مفتی صاحبان نے اور ان تمام حضرات نے جو معاملات کا فیصلہ کرنے کے سرکاری طور پر مکلف تھے، اسی طریقے کے مطابق کسی مدوّن قانون کے بغیر اپنے براہ راست اجتہاد کے نتیجے میں معاملات کو چلایا۔ اگر قاضی، عامل، گورنر یا فیصلہ کرنے والا خود اپنے کو اجتہاد کا اہل نہ سمجھتا تو کسی مجتہد سے جس کے تقویٰ اور علم پر اس کو اعتماد ہوتا، استفسار کرتا اور اس کے فتوے یا اس کے اجتہاد کی روشنی میں معاملات کو طے کر دیتا۔ یوں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قانون میں وسعت پیدا ہوتی گئی اور فقہ اسلامی کے نام سے ایک نیا فن وجود میں آتا گیا۔ 
جب تابعین کا آخری زمانہ تھا اور تبع تابعین کے دور کا آغاز تھا تو اہل علم نے عام طور پر یہ محسوس کیا کہ اسلامی ریاست اور مسلم معاشرہ کی روز افزوں ضروریات کے لیے احکام فقہ کی تدوین ضرو ری ہے۔ اب تک یہ ہوتا تھا کہ جب کوئی مسئلہ پیدا ہوا، اس کا اجتہاد کے ذریعہ حل دریافت کر لیا گیا۔ جب کوئی مقدمہ سامنے آیا، اجتہاد کے ذریعہ اس کا فیصلہ کر دیا گیا۔ اب اس امر کی ضرورت محسوس ہوئی کہ کسی صورت حال کے واقعتا پیش آنے کا منتظر رہنے کی بجائے معاملات کا پہلے سے اندازہ کر کے اور مسائل کا پہلے سے اداراک کر کے ان کا حل قرآن و سنت کی روشنی میں تجویز کر دیا جائے۔ بعض فقہا نے اس ضرورت کا احساس کیا اور اس پر کام شروع کر دیا، بعض اہل علم نے اسے غیر ضروری سمجھا اور اس سے اجتناب کیا۔ 
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ نے پہلے گروہ کی رائے کو قابل قبول سمجھا اور ان کے کام کو سراہا۔ ان حضرات میں امام اعظم ابوحنیفہؒ (م ۱۵۰ ھ)، امام شافعیؒ (م ۲۰۴ھ)، ان حضرات کے تلامذہ، امام مالکؒ (م ۱۷۹ھ) اور بہت سے دوسرے ائمہ مجتہدین شامل ہیں۔ ان حضرات نے انفرادی اور اجتماعی دونوں طریقوں سے کام لے کر آئندہ آنے والی مشکلات کی پیش بندی کی۔ ان مسائل کا اندازہ کیا جو امت کو پیش آنے والے تھے اور اپنی انتہائی فہم و بصیرت کے مطابق قرآن و سنت کی روشنی میں ان کا پیشگی حل تجویز کیا۔ ان میں سے جس فقیہ یا مجتہد کے علم اور تقویٰ پر امت کو اعتماد تھا، امت نے اس فقیہ کے اجتہادات پر عمل درآمد شروع کر دیا اور یوں فقہی مسالک یا مذاہب وجود میں آگئے۔ جس زمانے میں فقہی مسالک و مذاہب کی داغ بیل پڑ رہی تھی، یعنی دوسری صدی کے وسط سے لے کر تیسری صدی کے اواخر تک، یہ وہ زمانہ ہے جب مجتہدین بڑی تعداد میں دنیائے اسلام کے ہر علاقے میں موجود تھے۔ ان مجتہدین امت نے اپنے اپنے ذوق، اپنے اپنے مزاج، اپنے اپنے علاقے کی ضروریات اور اپنے اپنے تخصصات (Specialization) کے مطابق شریعت کے مختلف میدانوں میں کام کیا اور آنے والوں کے لیے رہنمائی کا سامان فراہم کرگئے۔
اس وقت تک یعنی چوتھی صدی ہجری کے وسط تک اس بات کی کوئی پابندی نہیں تھی کہ فیصلہ کرنے والا قاضی یا قانونی رہنمائی کرنے والا حکمران یا فرماں روا، کسی معاملہ کا فیصلہ کرنے والا کوئی عامل حکومت یا گورنر کسی خاص فقہی مسلک کی پیروی کرے۔ نہ یہ سرکاری طور پر لازمی قرار دیا گیا تھا، نہ عامۃ الناس نے اس کی ضرورت کو محسوس کیا اور نہ فقہائے اسلام نے اس کو لازمی قرار دیا۔ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ فقہائے اسلام نے ہر ایسے رجحان کی حوصلہ شکنی کی جس کا مقصد یہ تھا کہ کسی خاص فقہی اسلوب اجتہاد یا کسی خاص فقیہ کے اجتہاد کو لازمی قرار دیا جائے یا لازمی سمجھا جائے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ ان کا کام محض ایک تجویز کی حیثیت رکھتا ہے جو امت کے اہل علم کے سامنے رکھی گئی ہے۔ امت کے اہل علم اگر اس سے اتفاق کریں گے تو اس پر عمل درآمد کریں گے۔ جن حالات میں اتفاق کریں گے ان حالات میں اس پر عمل درآمد کریں گے اور جن حالات میں اتفاق نہیں کریں گے ان حالات میں اس پر عمل درآمد نہیں کریں گے۔
پانچویں صدی ہجری کے اواخر میں فقہائے اسلام نے غور کیا تو انہوں نے محسوس کیا کہ اب مختلف علاقوں میں الگ الگ اسلوب اجتہاد اس طرح مروج ہوگئے ہیں کہ اب اگر قاضی، مفتی یا جج صاحبان کو اس کی اجازت دی گئی کہ وہ ان مسالک سے ماورا ہو کر براہ راست اجتہاد سے کام لیں اور ان مسالک کو نظر انداز کر کے یعنی مقامی رائج الوقت اسلوب اجتہاد کو نظر انداز کر کے کسی نئے اسلوب اجتہاد سے کام لیں تو اس سے عامۃ الناس میں ایک تشویش پیدا ہوگی اور ذہنی طور پر لوگ الجھن کا شکار ہوں گے۔ اس لیے اس وقت یہ طے کیا گیا کہ جس علاقے میں جو اسلوب اجتہاد مروج ہے، قاضی صاحبان اسی کی پیروی کریں اور اس اسلوب اجتہاد کو چھوڑ کر کسی اور اسلوب کی طرف رجوع نہ کریں۔ اس کے دو بڑے اسباب تھے اور یہ دونوں اسباب بڑے وقیع تھے:
۱۔ اس کا ایک بڑا سبب تو یہی تھا کہ تخصصات اور مہارتیں ایک خاص مسلک ہی کے اندر دستیاب تھیں اور ان مسالک سے ہٹ کر مہارتیں اور تخصصات بڑے پیمانے پر دستیاب نہیں تھیں۔ اس لیے بڑے پیمانے پر آزادانہ اجتہاد کا کام ان تخصصات اور مہارتوں سے ہٹ کر کرنا بڑا دشوار تھا۔ مثال کے طور پر اگر سمرقند اور بخارا کے فقہاء یہ فیصلہ کرتے کہ کسی خاص معاملے میں امام مالکؒ کے اسلوب اجتہاد کے مطابق کام کریں تو وہاں نہ فقہ مالکی کی کتابیں دستیاب تھیں، نہ وہاں فقہ مالکی کے متخصصین موجود تھے اور نہ وہاں کے طلبہ اور اساتذہ کو اور اساتذہ کے اساتذہ کو کئی سال سے فقہ مالکی کتابیں پڑھنے پڑھانے کا موقع ملا تھا۔ اس لیے اگر یکایک ان سے یہ کہا جاتا کہ وہ کسی معاملے کا فیصلہ فقہ مالکی کے مطابق کریں تو یا تو وہ کمزور دلائل اور نامکمل مطالعہ کی بنیاد پر یہ فیصلہ کرتے یا کم از کم نامکمل مواد یا کم دستیابی مواد کی بنیاد پر یہ فیصلہ کرتے جو ہو سکتا ہے کہ کمزور یا غلط فیصلہ ہوتا اور فقہ مالکی کی حقیقی روح اور اسلوب کے مطابق نہ ہوتا۔
ایک خطرہ جو بڑا حقیقی خطرہ تھا، یہ تھا۔ اس حقیقی خطرے کی تائید ان جغرافیائی حالات سے بھی ہوتی ہے جو اس وقت امت مسلمہ کو درپیش تھے۔ فرض کریں کہ مفتی جو سمرقند میں تشریف فرما ہوں، ان کے سامنے کوئی مسئلہ پیش ہو تو کیا ان سے یہ توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ چھ مہینے کا سفر کر کے گھوڑے کی پشت پر سوار ہو کر اسپین یا قیروان یا مراکش جائیں اور وہاں چھ آٹھ مہینے قیام کر کے مالکی فقہ کے ماہرین سے استفادہ کر کے مالکی فقہ کی کتابیں حاصل کریں اور پھر واپس آکر سوال پوچھنے والے کو جواب دیں؟ ظاہر ہے کہ یہ بات قابل عمل نہ تھی اور نہ اس کی ضرورت تھی۔ اس لیے فقہائے اسلام نے بجا طور پر یہ طے کیا کہ جس اسلوب اجتہاد کی جس علاقے میں زیادہ پیروی ہو رہی ہے اور وہاں زیادہ مروّج ہے، اسی کی پابندی کی جائے اور اس کے حدود سے حتیٰ الامکان نکلنے سے گریز کیا جائے۔
۲۔ اس پابندی کو لازمی قرار دینے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ عامۃ الناس جن کی بڑی تعداد قانون کی نزاکتوں سے واقف نہیں ہوتی، جن کی بڑی تعداد اجتہادات کی پشت پر کارفرما دلائل اور اصولوں کے نازک پہلوؤں سے واقف نہیں ہوتی، اگر ان کے سامنے کوئی ایسے دلائل یا ایسے اجتہادات رکھے جاتے جو ان کے مانوس اور مالوف اسلوب سے مختلف ہوتے تو اس کا امکان تھا کہ ان میں تشویش یا رد عمل پیدا ہو جس سے مزید مسائل اور قباحتیں پیدا ہو سکتی تھیں۔ فقہ اسلامی محض ایک قانون نہیں ہے، یہ محض ایک سیکولر لاء نہیں ہے جس سے صرف عدالتوں، صرف قاضیوں یا صرف حکومتوں کو واسطہ ہو بلکہ یہ زندگی کی ایک ہمہ گیر اسکیم کا ایک مربوط اور متکامل حصہ ہے جس سے لوگوں کی جذباتی، اخلاقی اور دینی ہر طرح کی وابستگی ہے۔ لوگ اس کو اپنی زندگی سے بھی زیادہ قیمتی شے سمجھتے ہیں۔ ایک مسلمان دین سے اپنی وابستگی کو ہر چیز سے قیمتی قرار دیتا ہے۔ اس لیے کوئی مسلمان کسی ایسے معاملے میں جو اس کی زندگی سے بھی زیادہ قیمتی حیثیت رکھتا ہو، کوئی ایسا عمل کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا جس سے اس کے خیال و ادراک میں اور اس کے مالوف اور پسندیدہ طرز عمل میں کوئی انحراف پیدا ہو۔ ایک عام مسلمان کی رائے میں ممکن ہے کہ اسے انحراف سمجھا جاتا، اس لیے فقہائے اسلام نے اس سے احتراز کیا۔
جب فقہائے اسلام غور و خوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچ گئے تو انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ جس علاقے میں جو اسلوب اجتہاد مروّج ہے، وہاں کے قاضی صاحبان کو اسی کی پیروی کرنی چاہیے اور اس سے باہر نہیں جانا چاہیے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قاضی صاحبان اور تعبیر شریعت کی غیر محدود آزادی جو ابتدائی پانچ سو سال تک جاری رہی، کی حد بندی کی طرف یہ پہلا قدم تھا۔ اس سے پہلے فقہائے اسلام، مجتہدین اور قاضی صاحبان مکمل طور پر آزاد تھے کہ براہ راست اپنے اجتہاد یا کسی اور کے اجتہاد کی روشنی میں کسی معاملے کا جو فیصلہ صحیح سمجھیں، اس کے مطابق معاملے کو طے کر دیں۔ اب امت مسلمہ نے اپنے اجتماعی فیصلے سے ایک اجتماعی ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ اس آزادی میں ایک حد بندی قائم کی جائے اور اس آزادی کو اس خاص اسلوب اجتہاد یا مسلک یا مذہب فقہی تک محدود کر دیا جائے جو اس علاقے میں مروج ہے، سوائے اس کے کہ تمام علمائے کرام اتفاق رائے سے کوئی اور فیصلہ کریں۔ اس کی گنجائش پہلے بھی تھی اور بعد میں بھی رکھی گئی لیکن عمومی طور پر ایک مسلک کی پیروی کو لازمی قرار دے دیا گیا۔
اگر آپ پانچویں صدی ہجری کے بعد لکھی جانے والی کتابیں دیکھیں تو ان میں قاضی صاحبان کے لیے جو شرائط بیان کی گئی ہیں ان میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ وہ اس مسلک یا اسلوب اجتہاد میں مہارت رکھتے ہوں جس کے مطابق ولی یعنی حکمران نے ان کو فیصلہ کرنے کا پابند کیا ہے۔ یہ بحث بھی اس زمانے میں ملتی ہے کہ ولی امر قاضیوں اور عدالتوں کو کسی خاص اسلوب اجتہاد کے مطابق فیصلہ کرنے کا پابند کر سکتا ہے۔ اس سے پیشتر تیسری چوتھی صدی ہجری کی کتابوں میں یہ بات نہیں ملتی۔ ان میں یہ واضح طور پر لکھا ہوا ملتا ہے کہ قاضی کو مجتہد ہونا چاہیے اور قاضی اگر مجتہد نہیں ہے تو وہ قاضی نہیں بن سکتا۔ زمانے کے لحاظ سے اجتہاد میں تبدیلی کا یہ فرق ہے کہ جب مجتہد ہونے کی ضرورت تھی تو فقہائے اسلام نے قاضی کے لیے مجتہد ہونا ضروری قرار دیا اور جب حالات ایسے ہوئے کہ احکام شریعت مدوّن ہوگئے اور نئے اجتہاد کی ضرورت بہت سے معاملات میں ختم ہوگئی تو انفرادی طور پر قاضی کا مجتہد ہونا لازمی نہیں رہا۔ تاہم اگر قاضی مجتہد ہو تو اچھی بات ہے۔ یہ سلسلہ کم و بیش مزید پانچ سو سال جاری رہا۔ ان مزید پانچ سالوں میں یعنی اندازاً کہا جا سکتا ہے کہ پانچویں صدی ہجری کے اواخر سے دسویں صدی ہجری کے وسط یا اوائل تک فقہاء کرام کا نقطہ نظر عام طور پر یہ رہا ہے کہ قاضی، مفتی، اور فیصلہ کرنے والے صاحبان کے لیے اس خاص مسلک یا مذہب کی پابندی لازمی ہے جو اس علاقے میں مروّج ہے اور جس پر عمل کرنے کا حکمران یا بادشاہ نے ان کو حکم دیا ہے۔ 

ایک آفاقی فقہ: مستقبل کا تقاضا

[تاہم] گزشتہ سو، سوا سو برس کے تجربے نے یہ بتایا ہے اور ہر آنے والا دن اس تجربہ کی صداقت کی گواہی دے رہا ہے کہ آئندہ دور مختلف فقہی مسالک میں محدود رہنے کا دور نہیں ہے بلکہ ان مسالک کو اجتماعی طور پر مسلمانوں کی مشترکہ میراث قرار دینے اور ان سب کو ساتھ لے کر چلنے کا دور ہے۔ آئندہ جو فقہ سامنے آنے والی ہے، وہ صرف اور صرف عالمگیر فقہ اسلامی ہوگی۔ وہ فقہ حنفی، مالکی، شافعی یا حنبلی فقہ نہیں ہوگی۔ آج ایک آفاقی (Cosmopolitan) فقہ وجود میں آرہی ہے جس میں مسلمانوں کے سامنے پورے فقہی ذخیرے کو سامنے رکھ کر نئے انداز سے احکام مرتب کیے جا رہے ہیں۔ ایسے احکام جن میں فقہ اسلامی کے پورے ذخائر سے کام لیا جا رہا ہے اور جن میں شریعت کے مقاصد اور قرآن و سنت کی نصوص کو اوّلین اور اساسی حیثیت حاصل ہے۔ اس عالم گیر فقہ کی صحیح اسلامی خطوط پر تدوین دورِ جدید کی سب سے بڑی اور سب سے بنیادی ضرورت ہے۔
جس چیز کو آفاقی فقہ کہا گیا ہے، یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے، بلکہ در اصل فقہ اسلامی ہی کی اس اصل اور ابتدائی روح کا احیا ہے جس سے اس عظیم الشان کام کا آغاز ہوا تھا۔ صحابہ کرامؓ، تابعینؒ اور تبع تابعینؒ کے مبارک دور سے جس فقہی سرگرمی کا آغاز ہوا تھا، وہ انسان کی فکری تاریخ میں ایک ایسا غیر معمولی کارنامہ ہے جس کی تفصیلات و دقائق اور جس کی مختلف جہتوں پر غور و خوض کا کام ابھی جاری ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی عظمت کے مختلف پہلو محققین کے سامنے آتے جائیں گے۔ صدرِ اسلام میں فقہی سرگرمی کسی مسلک، علاقہ، زمانہ یا کسی انفرادی رائے تک محدود نہیں تھی بلکہ یہ عمومی طور پر شریعت اسلامی کی روح اور شریعت اسلامی کی بین الانسانیت اور بین الاقوامیت کی ترجمان تھی۔ صحابہ کرامؓ کے دور میں جو فقہ مرتب ہو رہی تھی، جس میں مزید وسعت تابعین اور تبع تابعین کے دور میں پیدا ہوئی، اس کو نہ کسی مسلک کی تنگنائیوں میں محدود کیا جا سکتا تھا، نہ کسی خاص علاقے سے اس کو اس انداز سے وابستگی تھی جو بعد میں فقہی مسالک کو مختلف علاقوں سے حاصل ہوگئی تھی۔ بلکہ یہ ایک ایسی عالمگیر، بین الاقوامی اور بین الانسانی فقہ تھی جس نے اسلامی ریاست اور مسلم معاشرے کی بڑھتی ہوئی ضروریات میں راہنمائی کا سامان فراہم کیا۔ یہ وہ دور تھا جب اسلامی ریاست روزانہ سینکڑوں میل کے حساب سے وسعت اختیار کر رہی تھی۔ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے تھے اور آئے دن نئے ممالک اور نئی تہذیبیں امت اسلامیہ کا حصہ بن رہی تھیں۔ تبدیلی کے اس غیر معمولی عمل اور انسانی سرگرمی کی اس غیر معمولی وسعت کو جس چیز نے نظم و ضبط کے دائرے میں رکھا اور جس چیز نے ان سب تبدیلیوں کو اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ کیا وہ فقہ اسلامی اور فقہائے اسلام کی تحقیقات ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب فقہ اسلامی تمام دنیا کی انسانی ضروریات کا جواب دے رہی تھی۔ وہ اپنے زمانے کے ساتھ نہیں چل رہی تھی بلکہ اپنے زمانے سے صدیوں برس آگے تھی۔ وہ زمانہ کی پیرو نہیں، زمانہ کی قائد تھی۔ فقہائے اسلام ان مسائل پر غور کر رہے تھے جن کو پیش آنے میں ابھی کئی کئی سو سال اور بعض صورتوں میں ایک ایک ہزار سال کا زمانہ باقی تھا۔ 
فقہائے کرام کی کم و بیش دو اڑھائی سو سالہ کوششوں کے بعد جب فقہ اسلامی اپنی ترقی کی ایک خاص سطح تک پہنچ گئی اور اس کی ترتیب و تنظیم کا کام شروع ہوا، اس وقت ضرورت محسوس کی گئی کہ مختلف علاقوں میں وہیں کے رائج اور مقبول فقہی اسالیب کی پیروی کی جائے تاکہ ترتیب و تنظیم کے اس عمل اور توسیع کو منضبط کرنے کے اس کام کو عقلی حدود اور شرعی قواعد کا پابند کیا جا سکے۔ یہ ایک انتظامی ضرورت بھی تھی اور ایک علمی ضرورت بھی۔ ایسا بعض جغرافیائی اور تاریخی اسباب کی بنا پر بھی کیا گیا، لیکن بہرحال یہ ایک عارضی اور وقتی چیز تھی۔ عارضی اور وقتی چیز اس وقت تک کے لیے تھی جب تک دنیائے اسلام بالخصوص اور دنیائے انسانی بالعموم ایک نئے بین الاقوامی اور عالم گیر دور میں قدم نہ رکھے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ ایک ہزار سال کی فقہی تیاری اور فقہائے اسلام کے تمام تشکیلی کارنامے اس دور کی ایک تمہید تھے جو اب شروع ہو چکا ہے۔ آئندہ آنے والے دن، عشرے اور صدیاں اس کی ضرورت کو مزید واضح کرتی چلی جائیں گی۔ آئندہ آنے والا دور عالم گیریت کا دور ہے۔ اس وقت دنیا ایک عالم گیر گاؤں میں تبدیل ہو چکی ہے۔ آج اگر کوئی شخص دنیا کے کسی ایک گوشے میں کسی رائے کا اظہار کرتا ہے تو چشم زدن میں وہ رائے دنیا کے ہر گوشے تک پہنچ جاتی ہے۔ اس پر تنقید، جواب اور جواب الجواب اور تبصرے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ 
آج سے پانچ سو سال پہلے اگر یہ ممکن تھا کہ فقہائے ماوراء النہر بعض معاملات میں شدت اختیار کریں اور کچھ دوسرے فقہاء دنیا کے بعض دوسرے علاقوں میں انہی معاملات کے بارہ میں نرمی اختیار کریں، اور یہ نرمی اور شدت بیک وقت دنیائے اسلام میں رائج العمل رہے، تو یہ اس دور کی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق تھا لیکن آج ایسا ممکن نہیں ہے۔ آج اگر دنیا کے کسی بھی گوشے میں بیٹھا ہوا فقیہ کوئی شدید رائے اختیار کرتا ہے یا کوئی ایسا نقطہ نظر اختیار کرتا ہے جو کسی احتیاط پر مبنی ہونے کی وجہ سے عامۃ الناس کی نظر میں مشکل قرار دیا جائے تو اس کے نتیجے میں پوری دنیا میں فقہ اور شریعت پر تنقید اور تبصرے کا ایک طویل رد عمل شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے منفی اثرات پوری دنیائے اسلام پر اور خاص طور پر ان لوگوں پر پڑتے ہیں جو فقہ اسلامی سے وابستگی کی وہ سطح نہیں رکھتے جو ہر مسلمان کی ہونی چاہیے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص ایسا نقطہ نظر اختیار کرتا ہے جو ضرورت سے زیادہ رخصت یا غیر ضروری تخفیف پر مبنی ہو تو اس کے اثرات بھی بہت جلد پوری دنیائے اسلام میں پھیل جاتے ہیں۔ اس لیے آج کل کے حالات میں یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی خاص اسلوب یا طرز اجتہاد کی پیروی کو اس طرح لازمی قرار دیا جائے جس طرح آج سے نو سو سال پہلے لازمی قرار دیا گیا تھا۔ 
وہ مسائل جو دور جدید نے پیدا کیے ہیں جن کے بارے میں متقدمین کی کتابوں میں کم راہ نمائی ملتی ہے یا بعض جگہ نہیں ملتی، ان کے بارے میں دور جدید کے علمائے اسلام نے ایک اجتماعی اجتہاد کی روش اپنائی ہے اور تمام فقہی مسالک اور نقطہ ہائے نظر کو سامنے رکھ کر ایک ایسا نقطہ نظر اپنانے کی کوشش کی ہے جو دور جدید کے تقاضوں کو بھی پورا کرتا ہو، جس میں قرآن و سنت کے نصوص کی حدود کی پوری پوری پیروی کی گئی ہو اور جو جائز رخصت اور تخفیف مسلمانوں کو حدود شریعت میں دی جا سکتی ہو، وہ دی گئی ہو جس کی مثال راقم الحروف نے اسلامی بینک کاری، اسلامی بیمہ کاری، اسلامی تکافل، اسلامی سیاسی نظام، قانون سازی اور اس طرح کے معاملات سے دی ہے۔ یہ وہ معاملات ہیں جن میں دنیائے اسلام میں گزشتہ پچاس سال کے دوران نئے اجتہادی رجحانات پیدا ہوئے ہیں۔
آج دنیائے اسلام میں اسلامی ریاست کے بارے میں تصورات تقریباً واضح ہیں۔ آج یہ بات طے ہے کہ جس چیز کو ہم اسلامی دستور یا نمائندہ حکومت کا اسلامی تصور قرار دیتے ہیں، اس کے اساسات اور بنیادیں کیا ہیں۔ اس کے اہم خصائص اور تصورات کیا ہیں اور وہ کون سے اصول ہوں گے جن پر دور جدید کی نمائندہ حکومت کا دستور تیار کیا جائے گا۔ آپ جامعہ ازہر کے تیار کیے ہوئے معیاری اسلامی دستور کو دیکھیں، پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو ملاحظہ فرمائیں، علمائے کرام کے بائیس نکات کو دیکھیں، اسلامی کونسل آف یورپ کے تجویز کردہ مثالی اسلامی دستور کو دیکھیں، اس طرح کی تمام دستاویزات میں ایک یکسانیت اور ہم رنگی پائی جاتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا تعلق مختلف فقہی مسالک سے ہے۔ ان دستاویز کو مرتب کرنے والوں میں کوئی شافعی ہے، کوئی حنفی ہے اور کوئی حنبلی ہے۔ لیکن ان سب حضرات نے ان دستوری تجاویز کو تیار کرنے میں کسی ایک مسلک کی پیروی کو ضروری نہیں سمجھا بلکہ فقہ اسلامی کے تمام ذخائر سے بالعموم اور قرآن و سنت کے ذخائر سے براہ راست بالخصوص استفادہ کیا ہے۔ یہ دستوری فکر اسلامی دستوری فکر تو کہی جا سکتی ہے، اس کو حنفی دستوری فکر یا شافعی یا حنبلی دستوری فکر نہیں کہا جا سکتا۔
ابھی حال ہی میں برادر ملک سعودی عرب میں بعض نئے دستوری فیصلے کیے گئے ہیں۔ وہاں مقامی سطح پر انتخابات کا عمل بھی ابھی پایہ تکمیل تک پہنچا ہے۔ چند سال پہلے ایک مجلس شوریٰ بھی تشکیل دی گئی تھی۔ یہ تمام فیصلے وہ ہیں جو ایک نئے انداز سے پہلی مرتبہ جزیرہ عرب میں ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ان فیصلوں یا ان تجربات میں برادر ملک سعودی عرب کے لوگ رائج الوقت مغربی تجربات سے متاثر نہیں ہوئے۔ یقیناًمغربی تجربات سے متاثر ہو کر اور مغربی تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ تمام معاملات اختیار کیے گئے۔ لیکن ان معاملات کو شریعت کے مطابق تشکیل دینے اور انہیں اسلامی تعلیمات اور روایات سے ہم آہنگ کرنے میں سعودی علماء نے صرف فقہ حنبلی کی پیروی نہیں کی بلکہ انہوں نے فقہ اسلامی کے تمام ذخائر اور قرآن و سنت کی بنیادی اور اساسی نصوص کو سامنے رکھا۔ یہی بات پاکستان، مصر اور دنیائے اسلام کے دوسرے ممالک کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔
اسی طرح سے اسلامی بینک کاری یا اسلامی بیمہ کاری کی مثال لے لیں۔ اسلامی بینک کاری پر اس وقت سوڈان، پاکستان، ایران، ملائیشیا اور مصر میں خاص طور پر بڑا نمایاں کام ہوا ہے۔ مصر اور ملائشیا کے لوگ فقہ شافعی کے پیروکار ہیں، پاکستان میں اکثریت فقہ حنفی کی پیروکار ہے اور ایران میں گزشتہ چار سو سال سے فقہ جعفری کی پیروی کی جا رہی ہے۔ لیکن یہ بات بڑی حیرت انگیز اور خوش آئند ہے کہ ان تمام ممالک میں اسلامی بینک کاری کے تصورات ایک جیسے ہیں۔ ان سب ممالک میں ربا کے جو اسلامی متبادلات تجویز کیے گئے ہیں، وہ تقریباً یکساں ہیں اور جہاں جہاں بھی کسی فقہ اور ملک میں کوئی نرمی یا تخفیف ملتی ہے اس کو بلا استثنا ان تمام ممالک میں اختیار کیا گیا ہے۔
مثال کے طور پر آج کل کارپوریٹ فنانسنگ میں یہ بات بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ جب ایک انٹر پرینیور (Entrepreneur) کسی انٹر پرائز کا فیصلہ کرتا ہے اور اس انٹر پرائز کی کامیابی یا اس کے شروع کیے جانے کی صورت میں جس منافع کا وعدہ کرتا ہے، یہ منافع اس کے لیے ادا کرنا واجب التعمیل ہے یا نہیں۔ فقہ حنفی کی رو سے اس طرح کے کاروباری وعدے قانوناً واجب التعمیل نہیں ہیں۔ وہ صرف اخلاقی طور پر واجب التعمیل ہیں۔ اب پاکستان میں بھی اور پاکستان سے باہر بھی یہ محسوس کیا گیا کہ خالص حنفی نقطہ نظر کے مطابق دور جدید کی کارپوریٹ فنانسنگ پر عمل بڑا دشوار ہے۔ آج کے نظام کاروبار میں اس بنیادی وعدے کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور اسی کی بنیاد پر سارا نظام چلتا ہے جس میں پہلے قدم کے طور پر یہ بتایا گیا ہو کہ جو لوگ اس کاروبار میں حصہ لیں گے یا اس میں سرمایہ کاری کریں گے ان کو فلاں شرح سے نفع دیا جائے گا۔ اب اگر اس وعدے کو محض اخلاقی وعدہ قرار دیا جائے اور یہ عدالتوں کے ذریعے قابل نفاذ نہ ہو تو اس کے نتیجے میں نہ کمپنیاں چل سکتی ہیں، نہ شیئر مارکیٹ چل سکتی ہے اور نہ کارپوریٹ فنانسنگ کے بہت سے کام کیے جا سکتے ہیں۔ اس مشکل کا سامنا کرتے ہوئے یا اس مشکل کا لحاظ کرتے ہوئے یہ محسوس کیا گیا کہ اگر اس میں فقہ مالکی کے نقطہ نظر کو اختیار کر لیا جائے تو یہ مشکل دور ہو سکتی ہے۔ لہٰذا قریب قریب ہر ملک کے اہل علم نے یہ رائے ظاہر کی کہ اس معاملہ میں فقہ مالکی ہی کی رائے کو اختیار کرنا ضروری ہے۔ امام مالکؒ کا فتویٰ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی سے ایسا وعدہ کرے جس کے نتیجے میں وہ شخص جس سے وعدہ کیا گیا ہے، کوئی مالی ذمہ داری اپنے اوپر لے لے تو اس ذمہ داری کا بالآخر بوجھ وعدہ کرنے والے پر ہوگا۔ اس کو محض اخلاقی وعدہ قرار نہیں دیا جائے بلکہ اسے قانونی طور پر نافذ کیا جائے گا۔ امام مالکؒ کا یہ نقطہ نظر تقریباً تمام فقہاء نے اختیار کر لیا ہے۔ مصر اور ملائشیا جیسے شافعی ممالک میں بھی، پاکستان جیسے حنفی ملک میں بھی اور ایران جیسے جعفری ملک میں بھی اس مالکی نقطہ نظر پر عمل درآمد ہو رہا ہے۔
اسی طرح سے کچھ معاملات ایسے ہیں جہاں فقہ حنبلی کا نقطہ نظر نسبتاً زیادہ آسانی فراہم کرتا ہے اور بقیہ تینوں فقہاء کا نقطہ نظر وہ سہولتیں فراہم نہیں کرتا جس کی ضرورت آج محسوس کی جا رہی ہے۔ اس لیے اب عام رجحان یہ ہے کہ معاملات اور تجارت کے باب میں ان سہولتوں سے فائدہ اٹھایا جائے جو حنبلی اجتہادات کے ذریعے ہمیں ملتی ہیں۔ غیر حنبلی ممالک میں اور خود حنبلی ملک سعودی عرب میں امام احمد بن حنبلؒ کے اجتہادات سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ یہی کیفیت فقہ حنفی کے بعض معاملات میں بھی ہے کہ اس نے اپنے اجتہاد کی بنیاد پر بعض معاملات میں ایسی رعایتیں تجویز کی ہیں جو دوسرے فقہاء کے ہاں نہیں ملتیں۔ 
لہٰذا ضرورت اور حالاتِ زمانہ نے یہ ناگزیر کر دیا ہے کہ فقہ اسلامی کے تمام ذخائر کو سامنے رکھا جائے اور ایک ایسی اجتماعی فقہ تشکیل دی جائے جو دنیائے اسلام کے مسائل کا یکساں طور پر ادراک کرے اور ان کا یکساں اور ایک جیسا حل تجویز کرے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس ضرورت کا دائرہ بھی بڑھتا جائے گا اور احساس بھی روز بروز گہرا ہوتا چلا جائے گا۔ جیسے جیسے ضرورت کا دائرہ وسیع ہوتا جائے گا، اس کی ضرورت کا احساس بھی پیدا ہوتا چلا جائے گا۔ جیسے جیسے یہ احساس پیدا ہوگا، عملاً اس فقہ کے خصائص سامنے آتے جائیں گے۔ آئندہ پچاس سال یا چالیس سال میں (اللہ کو بہتر معلوم ہے کتنی دیر میں) ایک نئی فقہ سامنے آجائے گی جسے نہ فقہ حنفی کہا جا سکے گا اور نہ مالکی فقہ کہا جا سکے گا۔ بلکہ وہ اسلامی عالمی فقہ کہلانے کی زیادہ مستحق ہوگی۔ یہ اسلامی عالمی فقہ پوری دنیائے اسلام کو یکساں طور پر مخاطب کر رہی ہوگی۔ یہ پوری دنیائے اسلام کے مسلمانوں کو درپیش مسائل و مشکلات کا یکساں انداز میں جواب دے رہی ہوگی۔ اس میں مسلم اقلیات کے مسائل کی نشاندہی بھی کی گئی ہوگی۔ اس میں مسلمانوں کے بین الاقوامی معاملات سے فقہی اعتناء کیا گیا ہوگا۔ اس میں مسلم اقلیات کے مسائل کی نشاندہی بھی کی گئی ہوگی۔ اس میں مسلمانوں کے بین الاقوامی معاملات سے فقہی اعتنا کیا گیا ہوگا۔ اس میں جسے آج کل انٹرنیشنل ہیومن ٹیرین لاء (International Humanitarian Law) یعنی بین الاقوامی انسانی قانون کہتے ہیں، اس کے مسائل کا بھی جواب دیا گیا ہو گا۔ موجودہ فقہی ذخائر جو مسالک کے عنوان سے مرتب و مدوّن ہیں، یہ اس نئی فقہ کے لیے مآخذ اور مصادر کا کام دیں گے۔ ان مصادر و مآخذ کی مدد سے یہ نئی فقہ اسی روح کی علم بردار اور اسی جذبے سے سرشار ہوگی جس روح کی علم بردار صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کی فقہ تھی اور اسی جوش عمل سے سرشار ہوگی جس جوش عمل سے صحابہ، تابعین اور تبع تابعین سرشار تھے۔
یہ کام کس رفتار سے آگے بڑھے گا اور کن حدود اور خطوط پر بڑھے گا، یہ بات اہل علم کے غور کرنے کی ہے۔ آج اگر فقہائے دور جدید اس ضرورت کا احساس کر کے اس آئندہ آنے والی پیش رفت کے قواعد و ضوابط مقرر کر دیں گے تو یہ پیش رفت معقول اور شرعی حدود کے اندر برقرار رہے گی۔ اگر دورِ جدید کے معاصر علماء اور فقہاء نے اس نئے رجحان کی ضرورت اور اہمیت کا احساس نہ کیا یا اس ضرورت کو غیر حقیقی ضرورت قرار دیا تو اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ یہ پیش رفت کسی حد کی پابند نہ رہے، اور وہ لوگ جو شریعت کا علم نہیں رکھتے یا وہ لوگ جو اس پیش رفت کو غلط طریقے سے استعمال کرنا چاہیں یا اسے غلط راستے پر چلانا چاہیں، وہ اس پیش رفت پر اثر انداز ہونے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یہ ایک منفی رجحان ہوگا جو بالآخر امت مسلمہ کے لیے خوش آئند ثابت نہیں ہوگا۔

علامہ اقبالؒ کی خواہش

یہ اتنا بڑا چیلنج ہے جس کا احساس علامہ اقبالؒ نے آج سے کم و بیش اَسّی سال پہلے کیا تھا۔ یہ اتنا بڑا کام ہے جس کے لیے وہ خود عرصۂ دراز تک خواہاں رہے کہ کچھ ماہرین شریعت کی مدد دستیاب ہو جائے تو وہ اس کام کا آغاز اپنی زندگی ہی میں کر جائیں۔ انہوں نے ۱۹۲۵ء میں یہ لکھا تھا کہ جو شخص زمانہ حال کی جورس پروڈنس پر نگاہ ڈال کر احکام قرآنیہ کی ابدیت کو ثابت کرے گا، وہ بنی نوع انسان کا سب سے بڑا محسن اور اس دور کی اسلامی تاریخ کا مجدّد ہوگا۔ آج اسی تجدیدی کام کی ضرورت ہے۔ 
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تقنین سے مراد صرف اتنی ہے کہ قدیم کتابوں میں فقہائے اسلام نے جو کچھ لکھا ہے اس کو دفعہ وار ایک دو تین ڈال کر مرتب کر دیا جائے۔ واضح رہے کہ تقنین اس کا نام نہیں ہے۔ تقنین، احکامِ فقہ پر ایک نئی اجتہادی بصیرت کے ساتھ نگاہ ڈالنا، احکامِ فقہ کو دور جدید سے ہم آہنگ کرنا اور دور جدید کے معاملات اس طرح مرتب کرنا ہے کہ یہ سارا عمل شریعت کے بنیادی اصولوں سے ہم آہنگ ہو جائے۔ جہاں فقہائے کرام کے اجتہادات دورِ جدید میں نظر ثانی کے محتاج ہیں، ان پر اس طرح نظر ثانی کرنا کہ حدودِ شریعت کی خلاف ورزی نہ ہو اور شریعت کے مقاصد کماحقہ پورے ہوں۔ یہ سارا کام اس احتیاط، تدبیر اور حکمت کے ساتھ کرنا کہ دورِ جدید کا وہ انسان (جس میں تعلیم دین کی بھی کمی ہے، جس کی دینی تربیت بھی مناسب انداز کی نہیں ہوئی اور جو ایک غیر اسلامی اور غیر دینی ماحول میں کام کرنے پر مجبور ہے) اس تبدیلی کو قبول کر لے۔ اس تبدیلی کے نتیجے میں اسے کوئی ایسا حرج یا مشکل پیش نہ آئے جس کی وجہ سے وہ احکام شریعت کو قبول کرنے میں تأمل کرے۔ قرآن مجید نے یسر (آسانی) کا حکم دیا ہے اور رفعِ حرج (تنگی و مشقت دور کرنا) کی تلقین کی ہے۔ آج ہمیں تدوین نو کے اس عمل میں یسر اور رفعِ حرج سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ 
واقعہ یہ ہے کہ پاکستان میں، پاکستان سے باہر اور جدید دنیائے اسلام کے بیشتر مقامات پر تدوین شریعت کا کام اس انداز سے نہیں ہوا جس انداز سے دورِ جدید میں کیا جانا مقصود تھا۔ جامعہ ازہر (مصر) میں آج سے تقریباً تیس سال پہلے مختلف فقہی قوانین کی تدوین نو کا بیڑا اٹھایا گیا تھا اور وہاں کے ماہرین کی ایک بڑی جماعت نے مختلف مسالک کی بنیاد پر قوانین کے الگ الگ مجموعے مرتب کیے تھے۔ علمی اعتبار سے یہ ایک اچھی کاوش تھی، لیکن اس سے دنیائے اسلام میں زیادہ استفادہ نہ کیا جا سکا اور یہ کام محض کتب خانوں کی زینت بننے سے آگے نہ بڑھ سکا۔ شاید اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ اب مسلکوں کی پابندی کا دور آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہے۔ اب جدید مسلم ممالک کا پبلک لاء مسلکوں کے محدود دائرہ کار کی پابندی کے ساتھ نہیں بنایا جا سکتا۔ 

حدود وقصاص میں عورت کی گواہی 

[مثال کے طور پر حدود وقصاص کے مقدمات میں عورت کی گواہی کے مسئلے میں] دلائل کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن پاک یا سنت رسولؐ میں کوئی ایسی واضح اور صریح نص قطعی موجود نہیں ہے جس کی بنیاد پر کوئی حتمی اور طے شدہ رائے قائم کی جا سکے۔ مسئلہ صدر اسلام میں صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ کے مابین مختلف فیہ رہا ہے اور جہاں صحابہ و تابعین کی غالب اکثریت نے یہ رائے اختیار فرمائی کہ حدود میں عورتوں کی گواہی قابل قبول نہیں ہے، وہاں ایسے صحابہ کرام اور تابعین بھی ہیں جنہوں نے اس رائے سے اختلاف کرتے ہوئے حدود میں عورتوں کی گواہی کو قابل قبول قرار دیا۔ لہٰذا یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ دور صحابہ و تابعین میں یہ مسئلہ مختلف فیہ تھا اور مجتہدین صحابہ و تابعین نے اپنے اپنے اجتہادات کے مطابق اس معاملہ میں آرا اختیار فرمائیں۔ مذکورہ بالا چار دلائل کی حیثیت نصوص قطعیہ کی نہیں بلکہ محض شواہد و مؤیدات کی ہے جو جمہور کے اجتہاد کی تائید میں پیش کیے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض فقہا نے صرف زہری کے اثر کا حوالہ دینا کافی سمجھا ہے اور بعض نے آیات و احادیث کے صیغہ ہائے تذکیر کی بنیاد پر گفتگو کی ہے۔ شبہ بدلیت اور قصور ولایت کی بات متاخرین کے ہاں ملتی ہے۔ متقدمین کے ہاں عموماً یہ دلائل نہیں ملتے۔ یوں بھی فقہاء کرام کا یہ اسلوب معلوم و معروف ہے کہ وہ اپنے امام مجتہد کے اقوال کی تائید میں جو عقلی دلائل دیتے ہیں ان کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ ان کے امام مجتہد نے محض ان کی بنیاد پر یہ رائے قائم کی ہے بلکہ یہ عقلی دلائل عموماً فریق ثانی پر اتمام حجت کے لیے دیے جاتے ہیں۔ یہ دلائل محض ایک نقطہ نظر کی تائید میں عقلی توجیہات ہیں جن کو نہ کوئی مضبوط شرعی دلیل قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ اس طرح کے دلائل کی بنیاد پر شریعت کے قطعی احکام کا تعین ہو سکتا ہے۔ فقہائے کرام کی جانب سے ایسے عقلی دلائل کا دیا جانا خود اس بات کی دلیل ہے کہ وہ معاملہ کو اجتہادی معاملہ سمجھتے تھے اور انہوں نے جو رائے قائم کی وہ ان کی اجتہادی رائے تھی جس سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے۔
یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ ائمہ اربعہ کے متفق علیہ نقطہ نظر سے ہٹ کر کسی اور رائے کا اختیار کرنا بڑی بھاری اور نازک ذمہ داری ہے جس کے لیے بہت غیر معمولی احتیاط اور غور و فکر کی ضرورت ہے۔ لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ اس سے قبل دنیائے اسلام کے دوسرے ممالک کے علاوہ خود پاکستان میں بہت سے معاملات میں ائمہ اربعہ کی رائے سے ہٹ کر نقطہ ہائے نظر اختیار کیے گئے ہیں اور ان کو قبول عام بھی حاصل ہوا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں اور خود اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے علاوہ رائج الوقت اسلامی بین الاقوامی قوانین میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ ایک معاملہ میں ائمہ اربعہ کی رائے سے ہٹ کر کوئی اور رائے اختیار کی گئی۔ اس لیے راقم الحروف کی یہ جسارت اس نوعیت کی پہلی جسارت نہیں ہے اور شاید آخری بھی نہیں ہوگی۔ ان گزارشات کی روشنی میں راقم الحروف کی رائے کا خلاصہ یہ ہے:
۱۔ حدود و قصاص اور دوسرے معاملات میں عورتوں اور مردوں کی گواہی یکساں طور پر معتبر ہے۔ 
۲۔ البتہ قرآن پاک اور سنت رسول خدا کی قطعی نصوص کی بنیاد پر دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہوگی۔ 
۳۔ حدود و قصاص کے تمام معاملات قرینہ قاطعہ کی بنیاد پر بھی طے کیے جا سکتے ہیں اور ان کی بنیاد پر حدود کی سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ قرینہ قاطعہ کا حدود و قصاص میں قابل قبول ہونا قرآن پاک، سنت رسول، تعامل صحابہ اور اقوال ائمہ مجتہدین سے ثابت ہے۔ اس لیے اس کے خلاف کسی فقیہ کی رائے کو قابل قبول نہیں کہا جا سکتا۔

اصول فقہ دور جدید میں

دور جدید میں جہاں دوسرے اسلامی علوم میں نئے نئے رجحانات پیدا ہوئے ہیں اور تحقیق و تدبر کے نئے نئے میدان سامنے آئے ہیں، وہاں اصول فقہ میں بھی نئے نئے رجحانات پیدا ہوئے ہیں اور تحقیق اور غور و فکر کے لیے بہت سے نئے موضوعات سامنے آئے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ پچاس سال اصول فقہ کے لیے ایک دور جدید کے منار ثابت ہوں گے اور جو رجحانات گزشتہ پچاس ساٹھ سال میں ابھر کر سامنے آئے ہیں وہ پایہ تکمیل تک پہنچیں گے اور ان کے حتمی نتائج و ثمرات سامنے آجائیں گے۔
اس سے قبل یہ اشارہ کیا جا چکا ہے کہ جدید مغربی اصول قانون کے اثر سے بہت سے معاصر اہل علم نے اصول فقہ کے مضامین کو نئے انداز سے مرتب کرنا شروع کیا ہے۔ اس ترتیب نو کے دو بڑے بڑے رجحانات پائے جاتے ہیں۔ ایک رجحان جو دنیائے عرب میں پایا جاتا ہے وہ اصول فقہ کے موضوعات کو فرانسیسی اصول قانون کی ترتیب سے مرتب کرنے کا ہے۔ اس رجحان کے ابتدائی اور پیش رو نمائندوں میں معروف دو الیبی، مصطفی زرقاء، صبحی محمصانی اور سلام مدکور وغیرہ کے نام نمایاں ہیں۔ ان حضرات میں بیشتر کی اصل اور بنیادی تعلیم اسلامی علوم اور بالخصوص فقہ اسلامی کی تھی جس کو انہوں نے اسلام کے بنیادی مآخذ و مصادر اور فقہ اسلامی کے جید اساتذہ سے پڑھا اور سمجھا تھا۔ بعد میں ان حضرات نے فرانس کی درسگاہوں میں فرانسیسی زبان اور قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اسلامی قانون کے مختلف پہلوؤں اور تصورات پر وہاں کی جامعات میں مقالات لکھے اور یوں فقہ اسلامی کے موضوعات کو فرانسیسی اسلوب میں پیش کرنا سیکھا۔
اس سلسلہ کا آغاز تو بیسویں صدی کے اوائل ہی میں ہوگیا تھا لیکن اصل پیش رفت بیسویں صدی کے وسط میں ہوئی۔ یہ وہ دور تھا جب شام، مصر اور الجزائر و مراکش سے بڑی تعداد میں طلبہ فرانس گئے اور وہاں کی یونیورسٹیوں میں قانون کی اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں۔ اس انداز سے اصول فقہ پر جو کتابیں لکھی گئیں، ان میں استاذ مصطفی احمد زرقاء کی ’’الفقہ الاسلامی فی ثوبہ الجدید‘‘ ایک ممتاز مقام رکھتی ہے۔ استاذ مصطفی احمد الزرقاء نے اس کتاب میں اصول فقہ کے چند اہم مباحث کے ساتھ ساتھ فقہ اسلامی سے بہت سا ایسا مواد اخذ کر کے مرتب کیا ہے جو روایتی طور پر اصول فقہ کے مباحث میں شامل نہیں سمجھا جاتا تھا۔ یہ بلا شبہ ایک بڑا تاریخ ساز اور اجتہادی نوعیت کا کام تھا جو استاد مصطفی زرقاء اور ان کے معاصر اہل علم نے بڑی کامیابی اور عرق ریزی سے انجام دیا۔ ان حضرات نے فقہ کی بنیادی کتابوں کے عمیق اور تنقیدی مطالعہ سے ایسے اصول اور تصورات دریافت کیے جن کی ضرورت متقدمین نے محسوس نہ کی تھی اور وہ ان اصولوں اور تصورات کو اس نئے انداز کے بجائے اپنے قدیم روایتی انداز سے جزئیات اور فروعی مسائل کے سیاق و سباق میں پیش کرتے تھے۔ استاذ مصطفی الزرقاء، شیخ علی الخفیف اور استاذ ابو زہرہ جیسے علمائے اصول نے ملکیت، مال، قبضہ، حق اور ایسے بہت سے فقہی اصولوں اور تصورات کو نئے انداز سے مرتب کر کے اصول فقہ کی کتابوں میں شامل کیا، اور یوں بہت سے فقہی مباحث کو نئی ترتیب دے کر اصول فقہ کے دائرہ میں شامل کر لیا۔ 
اس سلسلہ کا دوسرا بڑا رجحان ہمارے برصغیر میں سامنے آیا جہاں انگریزی قانون کی فرمانروائی اور انگریزی اسلوب کی حکمرانی تھی۔ یہاں کے مسلمان اہل علم نے اصول فقہ کے مباحث کو انگریزی اصول قانون کے انداز میں مرتب کرنے کی طرح ڈالی۔ اس رجحان کے اولین نمائندہ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا، جسٹس سر عبد الرحیمؒ تھے۔ ان کی کتاب Principles of Muhammadan Jurisprudence اس اعتبار سے اپنی نوعیت کی پہلی کتاب تھی کہ اس میں اصول فقہ کے مباحث کو انگریزی اصول قانون کے اسلوب میں بیان کیا گیا تھا۔ اس کتاب نے انگریزی تعلیم یافتہ اور قانون دان طبقہ میں اصول فقہ کے مباحث کو متعارف کرایا۔ بیسویں صدی کے اوائل سے مغرب میں بھی اصول فقہ کا مطالعہ شروع ہوگیا۔ میکڈانلڈ، گولڈ تسیہر (Goldziher) اور شاخت (Schacht) جیسے نامور مغربی فضلا نے اپنے اپنے نقطہ نظر سے اصول فقہ کا مطالعہ کیا اور بہت سے ایسے مباحث اور سوالات اٹھائے جو مسلمان مصنفین نے اس سے قبل نہیں اٹھائے تھے۔ ان مباحث نے مغربی جامعات کے مسلمان طلبہ کے ذریعہ جدید علمائے اصول کے انداز تحقیق و تصنیف کو بھی متاثر کیا اور انہوں نے اپنی اپنی تصانیف میں ان نئے سوالات کا جواب دینے کی کوشش کی۔ فقہ اسلامی کے قانون روما سے متاثر ہونے کی بحث، اجماع کے واقع ہو سکنے اور واقع ہونے کی صورت میں اس کے تیقن کا مسئلہ، جدید قانون سازی اور ضابطہ بند احکام کے نفاذ سے پیدا ہونے والے مسائل وہ ہیں جو بہت سے معاصر مصنفین کی تحریروں میں اٹھائے گئے ہیں۔ 
آج اصول فقہ پر کمی (Quantity) اور کیفی (Quality) دونوں اعتبار سے جتنا کام عرب دنیا میں ہوا ہے، وہ ابتدائی چند صدیوں کے بعد ہونے والے مجموعی کام سے (چند اہم مستثنیات کو نکال کر) زیادہ نہیں تو اس کے برابر ضرور ہے۔ چودھویں اور پندرھویں صدی ہجری کو ہم بلا تامل اصول فقہ کے عہد تجدید اور احیائے نو سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ گزشتہ ہجری صدی کے اوائل سے عرب دنیا میں جو کام ہونا شروع ہوا ہے اس میں دو بنیادی خصوصیات نمایاں طور پر محسوس ہوتی ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ دور جدید کی اصول فقہ کی کتابوں میں کسی متعین اور پہلے سے طے شدہ فقہی یا اصولی مسلک کی پابندی کم کی گئی ہے۔ بہت کم کتابیں ایسی ہیں جن میں کسی خاص فقہی مسلک کی پابندی کو پیش نظر رکھا گیا ہو۔ ورنہ اکثر تحریروں کا رجحان یہی ہے کہ فقہ اور اصول فقہ کے پورے سرمایہ کو مسلمانوں کا مشترکہ ورثہ قرار دے کر بحیثیت مجموعی علمائے اصول کے خیالات کو پیش کیا جائے اور فقہی مسالک اور اصولی نقطہ ہائے نظر کے مابین ایک مثبت اور صحت مندانہ تقابلی مطالعہ کے رواج کو فروغ دیا جائے۔ استاذ مصطفی زرقاء، استاد محمد ابو زہرہ، محمد سلام مدکور اور ڈاکٹر عبد الرزاق سنہوری کی تصریروں میں یہ بات واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے۔
دوسری قابل ذکر بات جس کے بارہ میں پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے، یہ ہے کہ دور جدید کے بہت سے عرب مصنفین نے مختلف مغربی تصورات کا بھی تنقیدی مطالعہ کرنے کی کوشش کی ہے اور اصول فقہ کے نظریات و تصورات کا تقابل مغربی قانون کے اصولوں سے کیا ہے۔ اس تقابل سے بہت سی ایسی غلط فہمیاں دور ہوگئی ہیں جو بعض مغربی مصنفین کی تحریروں سے پیدا ہوئی تھیں۔ مثال کے طور پر بعض مغربی مصنفین نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ فقہ بالعموم اور اصول فقہ کے بعض نظریات بالخصوص رومن قانون سے ماخذ ہیں اور چند جزوی مشابہتوں کو ادھر ادھر سے جمع کر کے بعض مغربی مصنفین یہ لکھنے لگے تھے کہ یہ چیزیں رومن لاء کے زیر اثر اسلامی قانون میں داخل ہوئیں۔ تقابلی مطالعہ بات سے یہ غلط فہمی دور ہونے لگی اور اسلامی قانون کے اصل ماخذ اور اصولوں کے ارتقائی مطالعہ نے اس تاثر کو ہمیشہ کے لیے ختم کر ڈالا۔
دنیائے اسلام کے دیگر علاقوں کے ساتھ ساتھ برصغیر جنوبی ایشیا بالخصوص پاکستان میں بھی اصول فقہ پر تحقیق و تصنیف کی ایک نئی رو گزشتہ سو سال کے دوران سامنے آئی ہے۔ برصغیر میں اصول فقہ کی تاریخ دوسرے علوم کی تاریخ سے مختلف نہیں رہی۔ یہاں کے اہل علم کی متعدد فقہی اور اصولی تالیفات نے دنیائے اسلام کے علمی اور تعلیمی حلقوں کو متوجہ کیا۔ عہد مغلیہ کے مشہور و معروف فقیہ، اصولی اور فلسفی قاضی محب اللہ بہاریؒ (م ۱۱۱۹ھ) کی مشہور و معروف کتاب ’’مسلّم الثبوت‘‘ اصول فقہ کی ایک انتہائی مقبول اعلیٰ درسی کتاب کے طور پر دنیائے اسلام کے مختلف حصوں میں متداول رہی ہے۔ برصغیر کے علاوہ ترکی، مصر، شام اور افغانستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ایک طویل عرصہ تک ’’مسلّم الثبوت‘‘ اصول فقہ کے نصاب کی ایک اعلیٰ کتاب کے طور پر پڑھی اور پڑھائی گئی۔ برصغیر میں اصول فقہ پر لکھی جانے والی کسی اور کتاب کو اتنی مقبولیت حاصل نہیں ہوئی جتنی ’’مسلّم الثبوت‘‘ کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی۔ ’’مسلم الثبوت‘‘ کے علاوہ بھی برصغیر پاک و ہند کے مختلف حصوں میں بالعموم اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں بالخصوص اصول فقہ کے موضوع پر متعدد قابل ذکر کتابیں لکھی گئیں۔ یہاں ان سب کا تذکرہ تو دشوار ہے البتہ ایک معروف درسی کتاب ’’نور الانوار‘‘ کا ذکر ضروری ہے۔ یہ کتاب جو برصغیر میں گزشتہ تین سو سال سے ایک متداول کتاب چلی آرہی ہے، عہد شاہ جہانی اور عہد عالمگیری کے مشہور استاد اور فقیہ ملا احمد جیون امیٹھویؒ (م ۱۱۳۰ھ) کی تصنیف ہے۔ ملا جیونؒ مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیرؒ کے استاد اور کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ ’’نور الانوار‘‘ ایک اور قدیم تر اصولی کتاب ’’المنار‘‘ کی شرح ہے۔
دنیائے اسلام کے نامور مفکر اور برصغیر پاک و ہند میں تجدید و اصلاح کے ایک رجحان ساز قائد شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ (م ۱۱۷۶ھ) کی کتابوں نے بھی اصول فقہ کی درس و تدریس پر گہرا اثر ڈالا۔ شاہ صاحب نے براہ راست اصول فقہ پر کوئی کتاب تو نہیں لکھی لیکن انہوں نے متعدد اہم اصولی مسائل کو اپنی تحقیقات کا موضوع بنایا۔ ان کی کتابوں ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘، ’’الانصاف‘‘ اور ’’عقد الجید‘‘ میں اجتہاد، اجماع اور تفسیر و تعبیر سنت جیسے اہم مسائل پر گفتگو کی گئی ہے۔ شاہ صاحب کے افکار نے بعد میں آنے والے تقریباً تمام اہل علم، فقہاء اور علمائے اصول کو متاثر کیا۔ ان کے خیالات میں جو جامعیت اور اعتدال پایا جاتا ہے اس نے بعد میں آنے والوں کے ذہنوں پر گہرا اثر ڈالا اور یوں برصغیر میں ایک نیا اسلوب سامنے آیا۔
اوپر سر عبد الرحیمؒ کی کتاب کا تذکرہ کیا جا چکا ہے جو بیسویں صدی کے آغاز میں سامنے آنے والی ایک منفرد انداز کی کتاب تھی۔ اس کتاب نے پہلی مرتبہ مغربی تعلیم یافتہ قانون دانوں کے حلقے کو اصول فقہ کے مباحث سے متعارف کرایا۔ اگرچہ سر عبد الرحیمؒ کی کتاب عربی میں لکھی جانے والی بعض درسی کتابوں کے اردو تراجم کی انگریزی تلخیص ہے، تاہم اس کی ترتیب میں ایک جدت پیدا کی گئی تھی اور اسلوب بھی نئے انداز کا تھا۔ اس نئی ترتیب اور اسلوب نے اصول فقہ کو مغربی اصول قانون کی ترتیب اور اسلوب میں پیش کرنے کی طرح ڈالی۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ سر عبد الرحیمؒ کی ڈالی ہوئی نیو پر بعد میں مزید تعمیر کی جاتی اور اس اسلوب پر کام کو آگے بڑھایا جاتا لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا اور مغربی تعلیم یافتہ حضرات میں سے کسی اور قانون دان نے اس کام کو آگے بڑھانے میں دلچسپی نہ لی۔
البتہ حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبالؒ کو شدت سے اس امر کا احساس تھا کہ فقہ اور اصول فقہ کی تدوین نو وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے سر عبد الرحیمؒ کی کتاب کا بنظر غائر مطالعہ کیا تھا اور یہ محسوس کر لیا تھا کہ اب اصول فقہ اور فقہ کی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز ہونے والا ہے۔ اس نئے دور کے تقاضوں سے نمٹنے کے لیے وہ یہ محسوس کرتے تھے کہ فقہ اور اصول فقہ کی مکمل تدوین نو کی ضررت ہے۔ ان کی مختلف تحریروں میں تدوین نو کے ان مجوزہ خطوط کی کسی حد تک نشاندہی بھی ہوتی ہے۔ تاہم ان کا احساس یہ تھا کہ یہ کام تن تنہا کسی ایک فرد کے کرنے کا نہیں بلکہ اس غرض کے لیے قدیم و جدید کے ماہرین کو مل کر مشترکہ کوششوں سے یہ کام کرنا چاہیے۔ انہوں نے اس کام میں ہاتھ بٹانے کے لیے وقتاً فوقتاً برصغیر کے نامور اہل علم سے درخواست کی، لیکن افسوس کہ کوئی بھی اس معاملے میں ان کا ہاتھ بٹانے پر آمادہ نہ ہو سکا۔ خود انہوں نے تن تنہا اس کام کا بیڑا اٹھانا (غالباً اپنے انتہائی متواضعانہ مزاج کی وجہ سے) مناسب نہ جانا۔
پاکستان بننے کے بعد بھی اصول فقہ کے میدان میں طویل عرصہ تک کوئی خاص قابل ذکر پیش رفت نہ ہو سکی اور ایک آدھ ہلکی پھلکی درسی کتاب کے علاوہ کوئی ٹھوس اور دیرپا کام نہیں ہوا۔ پاکستان میں گزشتہ دو ایک عشروں میں جو تھوڑا بہت کام ہوا ہے وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد پاکستان، بالخصوص اس کے ذیلی شعبہ ادارہ تحقیقات اسلامی سے وابستہ حضرات کا ہے۔ ادارہ تحقیقات اسلامی اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی سے وابستہ اہل علم میں ڈاکٹر کمال فارو قی، ڈاکٹر احمد حسن، ڈاکٹر خالد مسعود اور پروفیسر عمران احسن نیازی کی کاوشیں قابل قدر اور وقیع ہیں۔ 
خوشی کی بات یہ ہے کہ اب دیگر جامعات اور بعض دینی مدارس میں بھی اصول فقہ کی تدوین نو کی ضرورت کا احساس پیدا ہونے لگا ہے۔ اس معاملے میں پنجاب یونیورسٹی لاہور پاکستان کو سبقت کا شرف حاصل ہے۔ پنجاب یونیورسٹی نے قانون اور اسلامیات کے شعبوں میں اصول فقہ کے نصابات کو ذرا نئے انداز سے مرتب کیا جس کے نتیجے میں کئی نئی تحریریں سامنے آئیں۔ دینی مدارس سے وابستہ حضرات میں مولانا ثناء اللہ زاہد اور مولانا محمد انور بدخشانی کی کاوشیں قابل ذکر ہیں۔ ان حضرات نے بعض قدیم درستی کتابوں کو نئے انداز سے مرتب کیا ہے اور طلبہ کو اصول فقہ کے مضمون سے متعارف اور مانوس کرانے کے لیے پرانی درسی کتابوں کے نئے اور آسان متون تیار کیے ہیں۔

دور جدید میں اسلامی ریاست کا نقشہ

بیسویں صدی کے وسط میں جب دنیا کے مختلف ممالک میں یہ سوال پیدا ہوا کہ اس دور میں اسلامی ریاست کا احیاء کیسے کیا جائے اور جدید جمہوری ماحول میں اسلامی شریعت کی بالادستی کیسے قائم کی جائے تو بہت سے حضرات کے ذہنوں میں اسلامی ریاست کا کوئی واضح نقشہ اور تصور نہیں تھا۔ اس تصور کے واضح نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی ریاستیں کم و بیش دو سو سال پہلے مغربی استعمار کی آمد پر ایک ایک کر کے ختم کر دی گئی تھی۔ اسلامی قوانین کو ایک ایک کر کے منسوخ کر دیا گیا تھا۔ مسلمانوں کے اجتماعی اور ملی ادارے ایک ایک کر کے مٹا دیے گئے تھے۔ اب بیسویں صدی کا وسط آتے آتے صورت حال یہ ہوگئی تھی کہ مسلمان کئی سو سال سے جس نظام اور جن اداروں سے مانوس تھے، وہ اسلام سے بالکل متعارض تھے، اس لیے ان کے سامنے ایسا کوئی عملی نقشہ برسر زمین موجود اور کافرما نہیں تھا جس کی بنیاد پر اور جس کو سامنے رکھ کر وہ ایک نئے نظام کا خاکہ مرتب کر سکتے۔ اسلامی ریاست و حکومت کے موضوع پر قدیم دینی لٹریچر اور اسلامی کتابوں میں جو کچھ لکھا ہوا ملتا ہے وہ تین قسم کی چیزوں سے عبارت ہے۔ مثال کے طور پر اسلامی سیاسی نظام کے بارے میں علامہ ماوردیؒ (م ۴۵۰ھ) کی مشہور کتاب ’’الاحکام السلطانیہ‘‘ جو پانچویں صدی ہجری کے اوائل میں لکھی گئی تھی اور اس طرح کی دیگر بہت سی کتب کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں تین اقسام کے معاملات سے بحث کی گئی ہے:
کچھ معاملات بنیادی احکام سے متعلق ہیں۔ یہ وہ احکام ہیں جو قرآن و سنت کی نصوص میں بیان ہوئے ہیں اور جن کو اسلامی ریاست یا اسلامی معاشرہ کا اساسی عنصر اور شرط لازم یا جزو لاینفک قرار دیا جا سکتا ہے۔ یعنی ایک ایسا لازمی عنصر جس کی عدم موجودگی میں نہ معاشرے کو اسلامی معاشرہ قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ ریاست کو اسلامی ریاست کہا جا سکتا ہے۔ 
دوسرا حصہ ان احکام پر مشتمل ہے جو فقہائے اسلام نے اپنے اجتہاد اور فہم و بصیرت کی روشنی میں مرتب کیے ہیں جن سے اختلاف کرنے کی گنجائش بعد کے مفکرین اور مجتہدین کے لیے موجود ہے اور موجود رہی ہے، بلکہ ان احکام کے زمرہ سے تعلق رکھنے والے بعض معاملات میں قدیم فقہاء سے اختلاف بھی کیا گیا ہے۔
تیسرا حصہ ان امور پر مشتمل ہے جو فقہائے کرام کے کسی اجتہاد پر مبنی نہیں تھا بلکہ وہ ان فیصلوں اور احکام پر مشتمل ہے جو مختلف انتظامی اداروں کے لیے مرتب کیے گئے تھے اور جن کو مختلف مسلمان حکمرانوں اور مسلمان ریاستوں نے حالات کے تقاضوں کے پیش نظر اختیار کیا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ مختلف مسلمان حکمرانوں اور مسلمان ریاستوں نے حالات کے تقاضوں کے پیش نظر مختلف زمانوں میں مختلف ادارے قائم کیے اور ان اداروں کے لیے تفصیلی احکام بھی مرتب کرائے۔ ریاستی مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے مختلف اداروں کے قیام کی ضرورت ہر دور میں پیش آتی ہے اور اس دور میں بھی پیش آتی تھی۔ بعض ادارے پہلی صدی ہجری میں وجود میں آئے، بعض دوسری، تیسری، چوتھی، پانچویں اور چھٹی صدی میں بنائے گئے۔ غرض ہر صدی میں بعض اداروں کے قیام کی ضرورت محسوس کی جاتی رہی۔ ان اداروں کے بارے میں بھی تفصیلات ان کتابوں میں موجود ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج ہمارے دور میں اسلامی ریاست قائم کی جائے گی تو کیا اس کے لیے متذکرہ بالا تینوں قسموں کے احکام پر عمل کرنا ضرور ہوگا؟ دور جدید میں اسلامی ریاست کی بات کرنے سے قبل اس اہم سوال پر غور کرنا اور اس کا جواب دینا ضروری ہے۔ قرآن پاک، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور فقہاء کی تصریحات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان تینوں قسم کے احکام کی حیثیتیں مختلف ہیں۔ پہلی قسم کے احکام جو کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں منصوص ہیں وہ اپنی تمام جزئیات اور تفصیلات کے ساتھ جن میں کوئی نظر ثانی یا سمجھوتے کی گنجائش نہیں ہو سکتی، لازمی طور پر واجب التعمیل ہیں۔
جو معاملات اجتہادی ہیں ان میں اس دور کے مفکرین اور مجتہدین کو کم از کم نظری اعتبار سے اس بات کا اختیار ہے کہ وہ موجودہ دور کے لحاظ سے ان میں کسی تبدیلی یا اجتہاد کی ضرورت محسوس کریں تو شریعت کی دی گئی گنجائش کے مطابق نئے احکام وضع کر سکتے ہیں۔
تیسری قسم کے احکام کے بارے میں سب سے پہلے یہ دیکھا جانا ضروری ہے کہ کیا وہ اس دور میں بھی اپنی معنویت رکھتے ہیں؟ اور کیا وہ یا ان میں سے چند احکام موجودہ حالات کے سیاق و سباق میں قابل عمل ہیں؟ مثال کے طور پر جہاد کا حکم تو شریعت میں ہے، اس سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا، لیکن جہاد کے لیے ادارے، تنظیمیں اور حالات کے موافق طریق کار ہر دور میں متعین کیے جاتے رہے ہیں۔ تاہم ان تنظیمات اور اداروں کی تفصیلات وضع کرنے میں حالات و زمانہ کی رعایت رکھی جائے گی۔ ان تفصیلات سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے اور اگر ان سے بہتر کوئی تدبیر اور تنظیم موجود ہے تو اس کو اختیار کیا جا سکتا ہے۔
بہت سے مسلمان دانشور ان تینوں اقسام کے احکام میں کوئی امتیاز نہیں کرتے اور اس عدم امتیاز کی بنا پر فکری الجھنوں کا شکار ہوتے ہیں اور بعض اوقات انہی الجھنوں کی بنا پر خود شریعت ہی سے بد ظن ہو جاتے ہیں اور اسلام کے بارہ میں ان کے ذہنوں میں الجھنیں اور شبہات پیدا ہو جاتے ہیں۔ وہ اس تیسری قسم کے احکام کو بار بار دہرا کر یہ کہتے ہیں کہ اس دور میں یہ احکام کیسے چل سکتے ہیں؟ اس دور میں تلوار سے جہاد کیسے کیا جا سکتا ہے؟ اور آخر قتل کے کسی مجرم کو سزا کے لیے تلوار ہی سے گردن اڑانے کی کیا ضرورت ہے؟
دوسری طرف کچھ لوگ جو شریعت کے علمبردار ہیں، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان تینوں اقسام کے احکام کو تمام تفصیلات کے ساتھ جوں کا توں اس دور میں بھی اختیار کیا جانا ضروری ہے۔ ان دونوں نقطہ ہائے نظر کے حامل حضرات نے کبھی سنجیدگی سے شریعت کے احکام اور مسلمانوں کے تاریخی تجربہ کے مابین فرق کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کا نتیجہ مزید ژولیدگی کی صورت میں نکلا اور یوں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک ایسی صورت حال پیدا ہوگئی جس نے اسلامی قوانین کے نفاذ کے سارے معاملہ کو خاصا پیچیدہ بنا دیا۔ 
حکومت پاکستان نے ۱۹۴۸ء میں اسلامی نظام کا خاکہ مرتب کرنے کے لیے تجاویز طلب کیں۔ بہت سے لوگوں نے اس سلسلے میں اپنی تجاویز دیں۔ ان میں سے دو کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا، جس سے اندازہ ہوگا کہ اسلامی نظام کے بارے میں لوگوں میں کس انداز کی فکر پائی جاتی رہی ہے اور وہ نفاذ شریعت کے معاملے کو کس طرح دیکھتے رہے ہیں۔ ایک خاکہ میں تجویز کیا گیا تھا کہ اسلامی حکومت کا نظام نافذ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ فلاں خاص فقہ سے وابستہ جتنی مساجد ہیں، ان سب کا سروے کر کے ان سب کی ایک فہرست مرتب کرلی جائے۔ اس فہرست کے مرتب کرنے کے بعد ان مساجد کے خطباء اور ائمہ مساجد اور ان مساجد میں قائم مذہبی مدارس کے سربراہان کو دعوت دی جائے کہ وہ اپنے میں سے سب سے زیادہ متقی اور صاحب علم شخصیت کو منتخب کر لیں اور جب وہ شخصیت منتخب ہو جائے تو سب ائمہ اور خطباء حضرات اس شخصیت سے بطور امیر المومنین یا خلیفہ المسلمین بیعت کر لیں۔ بیعت کے بعد پاکستان کا نظام اس شخصیت کے سپرد کر دیا جائے اور پھر سارا کام اسی کے ہاتھوں چلے۔ وہ شخصیت جو بھی نظام حکومت چلائے گی، وہی اسلامی نظام حکومت ہوگا اور اس کی ہدایات اور احکام کے نفاذ کو شریعت کا نفاذ قرار دیا جائے گا۔ ظاہر بات ہے کہ نفاذ شریعت کی یہ شکل نہ ۱۹۴۸ء میں پاکستان میں ممکن تھی، نہ آج ممکن ہے اور نہ آئندہ ممکن ہوگی اور نہ نفاذ شریعت کے یہ معنی ہیں کہ کسی خاص مسلک یا طبقہ کے ائمہ مساجد اور خطباء کو بلا کر معاملات ریاست ان کے سپرد کر دیے جائیں۔
ایک اور خاکہ کی رو سے حکومت پاکستان کو چاہیے کہ فلاں مسلک کے ایک بڑے ممتاز اور جید عالم کو شیخ الاسلام کے منصب پر فائز کر دیا جائے، وہ شیخ الاسلام مساجد کا نظام چلائے، نکاح اور طلاق کے مقدمات کی سماعت کرے۔ جب ایسا ہو جائے گا تو پاکستان میں شریعت اسلامی کا نفاذ ہو جائے گا۔
اگر اسلامی نظام کے قیام کا مطلب یہی ہے کہ ایک مشہور عالم شیخ الاسلام کہلاتے ہوں، وہ مساجد کا نظام چلاتے ہوں اور نکاح و طلاق کے مقدمات جو ان کے پاس آئیں ان کا فیصلہ کرتے ہوں تو اس اعتبار سے آج کا روس بھی اسلامی مملکت ہے، کیونکہ وہاں شیخ الاسلام کا منصب بھی موجود ہے، وہاں مسجدوں کا نظام بھی شیخ الاسلام کے سپرد ہے اور جو لوگ نکاح و طلاق کے مقدمے شیخ الاسلام کے پاس لے کر آتے ہیں، وہ ان کا فیصلہ بھی کر دیتے ہیں۔ اس مفہوم کے اعتبار سے کئی ممالک آج اسلامی ممالک کہے جا سکتے ہیں۔ لیکن اس بات سے نہ کوئی صاحب علم و بصیرت اتفاق کرے گا اور نہ اسلامی نظام کے یہ معنی ہیں۔
ان دو مثالوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بعض حضرات کے ذہنوں میں پاکستان کے ابتدائی دنوں میں اسلامی نظام کے بارے میں کیا تصورات تھے۔

خاطرات

محمد عمار خان ناصر

علم الکلام کی اصطلاح اگرچہ علمی وفنی لحاظ سے ایسے جدلیاتی مباحث کے لیے استعمال کی جاتی ہے جن میں کسی مخصوص الٰہیاتی اور اعتقادی مسئلے کا اثبات یا تردید مقصود ہو، تاہم اپنے اصل مقصد کے لحاظ سے دیکھا جائے تو مسائل ومباحث کو براہ راست موضوع بحث بنانے کے علاوہ ایسی عمومی حکمت عملی وضع کرنا اور اس کے خط وخال کی وضاحت کرنا بھی اس علم کے دائرے میں ہی شمار ہوگا جس کا مقصد غلط نظریات اور باطل فلسفوں کے منفی اثر سے ذہنوں کو بچانا اور اسلامی عقائد ونظریات کی حقانیت اور صداقت کا یقین دلوں میں راسخ کرنا ہو۔ یہ پہلو عام طور سے علم الکلام سے متعلق تحریروں میں زیر غور نہیں لایا گیا، جبکہ غور کیا جائے تو انسانوں کے مزاجوں اور طبائع کے فرق اور جدید تہذیبی ونفسیاتی رجحانات کے تناظر میں ایسے راہ نما اصول متعین کرنے کی ضرورت اس علم کے اصل مقصد کے لحاظ سے بے حد واضح ہے جن کی روشنی میں ملحدانہ فکر سے متاثر اذہان کو مختلف او رمتنوع طریقے اختیار کرتے ہوئے مذہب کی طرف مائل کیا جا سکے اور ان کے ذہنوں سے شکوک وشبہات کے کانٹے چنے جا سکیں۔ 
اس ضمن میں تجربے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جدلیاتی انداز میں براہ راست کسی مسئلے پر مباحثہ یا مناظرہ کا طریقہ بیشتر افراد کے لیے زیادہ مفید نہیں ہوتا۔ علمی وعقلی بحث ومباحثہ کی ایک خاص سطح پر اپنی اہمیت اور افادیت ہے اور فکر ودانش کی سطح پر موثر عقلی انداز میں حق کے اثبات اور باطل کی بے مائیگی واضح کرنے کی ضرورت وافادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، تاہم جہاں تک انفرادی سطح پر متاثرین کی اصلاح کا تعلق ہے تو ان کے لیے براہ راست موضوع پر مناظرہ یا مباحثہ کا طریقہ بسا اوقات الٹا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس میں بیسویں صدی کے ممتاز عالم اور دانش ور مولانا عبد الماجد دریابادی نے اپنی آپ بیتی میں جو اپنے ذاتی تجربات بیان کیے ہیں، وہ بے حد مفید اور قابل توجہ ہیں اور الحاد سے متاثر نئی نسل کو مخاطب بنانے کے لیے نہایت اہم نفسیاتی اور دعوتی اصولوں کی نشان دہی کرتے ہیں۔ 
راقم کو مولانا کی آپ بیتی آج سے کم وبیش بیس سال قبل بزرگوارم مولانا ملک عبد الرؤف صاحب (خطیب آسٹریلیا مسجد، لاہور) کے گھر پر دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ ان دنوں ’’متحدہ علماء کونسل‘‘ سرگرم تھی جس کا دفتر ملک صاحب کے گھر میں قائم گیا تھا اور والد گرامی مختلف تنظیمی ودفتری امور کی انجام دہی کے لیے ہفتہ وار ملک صاحب کے ہاں تشریف لے جایا کرتے تھے۔ کئی مواقع پر میں بھی والد گرامی کے ہمراہ ہو جاتا اور ملک صاحب کے مہمان خانے میں کتابوں کی الماری سے اپنے ذوق کی کتابیں نکال کر دیکھتا رہتا۔ مصر کے مشہور عالم عباس حسن کی ضخیم کتاب ’’النحو الوافی‘‘ اور کئی دوسری علمی کتابیں میں نے پہلی مرتبہ ملک صاحب کے ذاتی کتب خانے میں ہی دیکھیں۔ وہیں مولانا دریا آبادی کی آپ بیتی بھی پڑی ہوئی تھی جو میں نے بڑی دلچسپی سے پڑھی اور یاد پڑتا ہے کہ شاید ساری پڑھی تھی۔
سالہا سال کے وقفے کے بعد گزشتہ دنوں یہ آپ بیتی دوبارہ پڑھنے کا موقع محترم ومکرم جناب ڈاکٹر باسط بلال کوشل صاحب کی تحریک سے ملا جو لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) میں سوشل سائنسز کے استاذ ہیں اور جدید الحاد کا تنقیدی مطالعہ ان کی تحقیق کا خاص موضوع ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے دینی مدارس کے طلبہ کو اس موضوع کے اہم مباحث اور آج کے علمی سوالات وضروریات سے روشناس کرانے کے لیے ایک تربیتی کورس مرتب کیا ہے جو وہ مختلف مقامات پر پڑھا رہے ہیں۔ اس ضمن میں الشریعہ اکادمی میں بھی متعدد نشستیں منعقد ہوئیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کورس کے لیے جو تدریسی نصاب مرتب کیا ہے، اس میں مولانا عبد الماجد دریابادی کی آپ بیتی کے متعلقہ حصے بطور خاص شامل کیے گئے ہیں تاکہ نظری بحثوں کے بجائے انسانی نفسیات اور تجربے کی سطح پر یہ سمجھا جا سکے کہ گمراہ کن نظریات کیسے انسان کے فکر ودماغ کو متاثر کرتے ہیں اور ان کا مداوا کرتے ہوئے کن علمی ونفسیاتی اصولوں کو مد نظر رکھنا چاہیے۔ خاص طور پر الحاد سے واپسی کے ذہنی سفر کی تفصیل بیان کرتے ہوئے مولانا نے جن مختلف فلسفوں، مصنفین اور موضوعات سے راہ ہدایت کی بازیافت میں معاونت ملنے کا ذکر کیا ہے، وہ بہت قابل توجہ ہے اور فکری دعوت کے میدان میں کام کرنے والے حضرات اس سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
ذیل میں مولانا کی آپ بیتی کے متعلقہ ابواب سے چند اقتباسات نقل کیے جاتے ہیں:
’’ایک عزیز کے پاس ایک انگریزی کتاب محض اتفاق سے دیکھنے میں آ گئی۔ ۔۔۔ جوں جوں آگے بڑھتا گیا، گویا ایک نیا عالم عقلیات کا کھلتا گیا اور عقائد واخلاق کی پوری پرانی دنیا جیسے زیر وزبر ہوتی چلی گئی! کتاب مذہب پر نہ تھی، نہ بہ ظاہر اس کا کوئی تعلق ابطال اسلام یا ابطال مذاہب سے تھا۔ اصول معاشرت وآداب معاشرت تھی۔ نام تھا: Elements of Social Science ۔ ۔۔۔ کتاب کیا تھی، ایک بارود بچھی ہوئی سرنگ تھی۔ حملہ کا اصل ہدف وہ اخلاقی بندشیں تھیں جنھیں مذہب کی دنیا اب تک بہ طور علوم متعارفہ کے پکڑے ہوئے ہے اور ان پر اپنے احکام کی بنیاد رکھے ہوئے ہے، مثلاً عفت وعصمت۔ کتاب کا اصل حملہ انھیں بنیادی اخلاقی قدروں پر تھا۔ ۔۔۔ کتاب کی زد ہر ایسی قدر پر پڑتی تھی جو مذہب اور اخلاق کو ہمیشہ عزیز رہے ہیں۔ ۔۔۔ پروپیگنڈے کا کمال بھی یہی ہے کہ حملہ براہ راست نہ ہو، بلکہ اطراف وجوانب سے گولہ باری کر کے قلعہ کی حالت کو اتنا مخدوش بنا دیا جائے کہ خود دفاع کرنے والوں میں تزلزل وتذبذب پیدا ہو جائے اور قدم از خود اکھڑ جانے پر آمادہ ہو جائیں۔‘‘ (ص ۲۳۴ تا ۲۳۶)
’’اسلام اور ایمان سے برگشتہ کرنے اور صاف وصریح ارتداد کی طرف لانے میں ملحدوں اور نیم ملحدوں کی تحریریں ہرگز اس درجہ موثر نہیں ہوئیں جتنی وہ فنی کتابیں ثابت ہوئیں جو نفسیات کے موضوع پر اہل فن کے قلم سے نکلی ہوئی تھیں۔ بظاہر مذہب سے کوئی تعلق ہی نہیں رکھتی تھیں، نہ نفیاً نہ اثباتاً۔ اصلی زہر انھیں بہ ظاہر بے ضرر کتابوں کے اندر کھلا ہوا ملا۔ مثلاً ایک شخص گزرا ہے ڈاکٹر ماڈسلی (Maudesley)۔ ۔۔۔ اختلال دماغی اور امراض نفسیاتی کو بیان کرتے کرتے یک بیک وہ بدبخت مثال میں وحی محمدی کو لے ایا اور اسم مبارک کی صراحت کے ساتھ لکھ گیا کہ مصروع شخص کے لیے یہ بالکل ممکن ہے کہ وہ اپنا کوئی بڑا کارنامہ دنیا کے لیے چھوڑ جائے۔‘‘ (ص ۲۴۰)
’’ڈیڑھ دو سال (۱۹ء، ۲۰ء) کے اس مسلسل مطالعہ کا حاصل یہ نکلا کہ فرنگی اور مادی فلسفہ کا جو بت دل میں بیٹھا ہوا تھا، وہ شکست ہو گیا اور ذہن کو یہ صاف نظر آنے لگا کہ اسرار کائنات سے متعلق آخری توجیہ اور قطعی تعبیر ان فرنگی مادیین کی نہیں، بلکہ دنیا میں ایک سے ایک اعلیٰ ودل نشین توجیہیں اور تعبیریں اور بھی موجود ہیں۔ ۔۔۔ اسلام سے ان تعلیمات کو بھی خاصا بعد تھا، لیکن بہرحال اب مسائل حیات، اسرار کائنات سے متعلق نظر کے سامنے ایک بالکل نیا رخ آ گیا اور مادیت، لا ادریت وتشکیک کی جو سربفلک عمارت برسوں میں تعمیر ہوئی تھی، وہ دھڑام سے زمین پر آ رہی۔ دل اب اس عقیدہ پر آ گیا کہ مادیت کے علاوہ اور اس سے کہیں ماورا ومافوق ایک دوسرا عالم روحانیت کا بھی ہے۔ حواس مادی محسوسات، مرئیات ومشہودات ہی سب کچھ نہیں، ان کی تہہ میں اور ان سے بالاتر ’’غیب‘‘ اور مغیبات کا بھی ایک مستقل عالم اپنا وجود رکھتا ہے۔ قرآن مجید نے بالکل شروع میں جو ایمان کا وصف ایمان بالغیب بتا دیا ہے، وہ بہت ہی پرحکمت ومعنی خیز ہے۔ پہلے نفس ’’غیب‘‘ پر تو ایمان ہو، پھر اس کے جزئیات وتفصیلات بھی معلوم ہوتے رہیں گے۔ ہمارے مولوی صاحبان کو اس منزل ومقام کی کوئی قدر نہ ہو، لیکن درحقیقت یہ روحانیت کا اعتقاد، ایمان کی پہلی اور بڑی فتح مبین مادیت، الحاد وتشکیک کے لشکر پر تھی۔‘‘ (ص ۲۴۷، ۲۴۸)
’’ہندو فلسفہ اور جوگیانہ تصوف نے گویا کفر وایمان کے درمیان پل کا کام دیا۔ اس معروضہ کو وہ متقشف حضرات خاص طور پر نوٹ کر لیں جو ہندو فلسفہ کے نام ہی سے بھڑکتے ہیں اور اسے یکسر کفر وضلالت کے مرادف قرار دیے ہوئے ہیں۔ ہدایت کا ذریعہ بھی اسے بآسانی بنایا جا سکتا ہے۔ اور یہ حضرات اپنے جوش دین داری میں شبلی اور محمد علی لاہوری کی خدمت تبلیغ کو سرے سے نظر انداز نہ کر جائیں، میں نے تو دونوں کی دست گیری محسوس کی بلکہ اسپرٹ آف اسلام والے جسٹس امیر علی کے کام کو بھی حقیر نہ سمجھیں حالاں کہ وہ بچارے تو قرآن مجید کو شاید کلام محمد ہی سمجھتے تھے۔ اپنی سرگزشت کا تو خلاصہ یہی ہے کہ جس فکری منزل میں، میں اس وقت تھا، حضرت تھانوی جیسے بزرگوں کی تحریروں کو ناقابل التفات ٹھہراتا، ان کی طرف نظر تک نہ اٹھاتا اور ان کے وعظ وتلقین سے الٹا ہی اثر قبول کرتا۔ غذا لطیف وتقویت بخش ہی سہی، لیکن اگر مریض کے معدہ سے مناسبت نہیں ہوگی تو الٹی مضر ہی پڑے گی۔‘‘ (ص ۲۵۵، ۲۵۶)
’’اسی دور کی ابھی ابتدا ہی تھی کہ مولانا شبلی کی سیرۃ النبی کی جلد اول پریس سے باہر آ گئی۔ کتاب شبلی کے قلم سے تھی۔ موضوع کچھ بھی سہی، کیسے نہ اس کو شوق سے ہاتھوں سے کھولتا اور اشتیاق کی آنکھوں سے پڑھتا۔ کھولی اور جب تک اول سے آخر تک پڑھ نہ لی، دم نہ لیا۔ دل کا اصلی چور تو یہیں تھا اور نفس شوم کو سب سے بڑی ٹھوکر جو لگی تھی، وہ اسی سیرۃ اقدس ہی کے متعلق تو تھی۔ مستشرقین ومحققین فرنگ کے حملوں کا اصل ہدف تو ذات رسالت ہی تھی۔ خصوصاً بہ سلسلہ غزوات ومحاربات، ظالموں نے بھی تو طرح طرح سے دل میں بٹھا دیا تھا کہ ذات مبارک نعوذ باللہ بالکل ایک ظالم فتح کی تھی۔ شبلی نے (اللہ ان کی تربت ٹھنڈی رکھے) اصل دوا اسی درد کی کی، مرہم اسی زخم پر رکھا۔ اور کتاب جب بند کی تو چشم تصور کے سامنے رسول عربی کی تصویر ایک بڑے مصلح ملک وقوم اور ایک رحم دل وفیاض حاکم کی تھی جس کو اگر جدال وقتال سے کام لینا پڑا تھا تو پھر بالکل آخر درجہ میں، ہر طرح پر مجبور ہو کر۔ یہ مرتبہ یقیناًآج ہر مسلمان کو رسول ونبی کے درجہ سے کہیں فروتر نظر آئے گا اور شبلی کی کوئی قدر وقیمت نظر میں نہ آئے گی، لیکن اس کا حال ذرا ا س کے دل سے پوچھیے جس کے دل میں نعوذ باللہ پورا بغض وعناد اس ذات اقدس کی طرف سے جما ہوا تھا۔ شبلی کی کتاب کا یہ احسان میں کبھی بھولنے والا نہیں۔‘‘ (ص ۲۴۸)
’’بڑی خیر یہ ہوئی کہ مجلسی، خانگی تعلقات اپنے عزیزوں اور خاندان والوں سے بدستور باقی رہے۔ اپنے ایک ساتھی کو اسی زمانہ میں دیکھا کہ اپنوں سے کٹ کر مکمل غیروں میں شامل ہو گئے تھے اور رہن سہن تک بالکل ہندوانہ کر لیا تھا۔ میں اپنے کھانے پینے، وضع ولباس اور عام معاشرت میں، بلکہ کہنا چاہیے کہ ایک حد تک جذباتی حیثیت سے بھی مسلمان ہی رہا، البتہ ایک روشن خیال مسلمان۔ اور روشن خیال مسلمان اس وقت نوجوانوں میں کون نہ تھا؟ اور مسلم قومیت سے میری یگانگت کی جڑیں بحمد اللہ کٹنے نہ پائیں۔ مسلم قومیت کی نعمت بھی، دین اسلام کے بعد، ایک بڑی نعمت ہے اور کوئی صاحب اسے بے وقعت وبے قیمت نہ سمجھیں۔ مجھے آگے چل کر اس بچی کھچی نعمت کی بھی بڑی قدر معلوم ہوئی۔‘‘ (ص ۲۴۲)
’’مخلصانہ وحکیمانہ کوششیں پھر اگر تھوڑی بہت کسی کی چپکے چپکے کارگر ہوتی رہیں تو بس ان دو ہستیوں کی:
(۱) ایک الہ آباد کے نامور ظریف شاعر حضرت اکبرؒ ۔ بحث ومناظرہ کی انھوں نے کبھی چھانوں بھی نہیں پڑنے دی اور نہ کبھی پند وموعظت ہی کی طرح ڈالی۔ بس موقع بہ موقع اپنے میٹھے انداز میں کوئی بات چپکے سے ایسی کہہ گزرتے جو دل میں اتر جاتی اور ذہن کو جیسے ٹہوکے دے دیتے کہ قبول حق کی گنجائش کچھ تو بہرحال پیدا ہو کر رہتی۔ ۔۔۔۔۔۔ 
(۲) دوسری ہستی وقت کے نامور رہ نمائے ملک وملت مولانا محمد علیؒ کی تھی۔ بڑی زوردار شخصیت ان کی تھی او رمیرے تو گویا محبوب ہی تھے۔ کبھی خط میں اور کبھی زبانی، جہاں ذرا بھی موقع پاتے، ابل پڑتے اور جوش وخروش کے ساتھ، کبھی ہنستے ہوئے، کبھی گرجتے ہوئے اور کبھی آنسو بہاتے ہوئے تبلیغ کر ڈالتے۔ ان کی عالی دماغی، ذہانت، علم، اخلاص کا پوری طرح قائل تھا، اس لیے کبھی بھی کوئی گرانی دونوں کی تبلیغ سے نہ ہوئی اور دونوں حق نصح (خیر خواہی) ادا کر کے پورا اجر سمیٹتے رہے۔‘‘ (ص ۲۴۹، ۲۵۰)
’’اکتوبر ۲۰ء میں سفر دکن میں ایک عزیز ناظر یار جنگ جج کے ہاں اورنگ آباد میں قیام کا اتفاق ہوا اور ان کے انگریزی کتب خانہ میں نظر محمد علی لاہوری احمد (عرف عام میں قادیانی) کے انگریزی ترجمہ وتفسیر قرآن مجید پر پڑ گئی۔ بے تاب ہو کر الماری سے نکالا اور پڑھنا شروع کر دیا۔ جوں جوں پڑھتا گیا، الحمد للہ ایمان بڑھتا ہے۔ جس ’’صاحبانہ‘‘ ذہنیت میں اس وقت تک تھا، اس کا عین مقتضا یہ تھا کہ جو مطالب اردو میں بے اثر رہتے اور سپاٹ معلوم ہوتے، وہی انگریزی کے قالب میں جا کر موثر وجاندار بن جاتے۔ یہ کوئی مغالطہ نفس ہو یا نہ ہو، بہرحال میرے حق میں تو حقیقت واقعہ بن کر رہا۔ اور اس انگریزی قرآن کو جب ختم کر کے دل کو ٹٹولا تو اپنے کو مسلمان ہی پایا اور اب اپنے ضمیر کو دھوکا دیے بغیر کلمہ شہادت بلا تامل پڑھ چکا تھا۔ اللہ اس محمد علی کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ اس کا عقیدہ مرزا صاحب کے متعلق غلط تھا یا صحیح، مجھے اس سے مطلق بحث نہیں۔ بہرحال اپنے ذاتی تجربہ کو کیا کروں، میرے کفر وارتداد کے تابوت پر تو آخری کیل اسی نے ٹھونکی۔‘‘ (ص ۲۵۴، ۲۵۵)
’’گیتا کے مطالعہ کے بعد سے طبیعت میں رجحان تصوف کی جانب پیدا ہو گیا تھا اور مسلم صوفیا کی کرامتوں اور ملفوظات سے اب وحشت نہیں رہی تھی، دلچسپی پیدا ہو گئی تھی اور خاصی کتابیں فارسی اور اردو کی دیکھ بھی ڈالی تھیں۔ ۔۔۔ ۱۹۱۹ء کا آخر تھا کہ اپنے ایک عزیز سید ممتاز احمد بانسوی لکھنوی کے پاس مثنوی رومی کے چھ دفتر کان پور کے بہت صاف، روشن وخوشنما چھپے ہوئے دکھائی دیے اور طبیعت للچا اٹھی۔ ان بچارے نے بڑی خوشی سے ایک ایک دفتر دینا شروع کر دیا۔ کتاب شروع کرنے کی دیر تھی کہ یہ معلوم ہوا کہ کسی نے جادو کر دیا۔ کتاب اب چھوڑنا چاہوں بھی تو کتاب مجھے نہیں چھوڑ رہی ہے۔ ۔۔۔ یاد نہیں کہ کتاب کتنے عرصے میں ختم کی۔ بہرحال جب بھی ختم کی، تو اتنا یاد ہے کہ دل ممتاز میاں کا نہایت درجہ احسان مند تھا کہ یہ نعمت بے بہا انھیں کے ذریعے ہاتھ آئی تھی۔ شکوک وشبہات بغیر کسی رد وقدح میں پڑے، اب دل سے کافور تھے اور دل صاحب مثنوی پر ایمان لے آنے کے لیے بے قرار تھا! (ص ۲۵۱، ۲۵۲)
’’۲۳ء کا غالباً ستمبر تھا کہ مکتوبات مجدد سرہندی کے مطالعہ کی توفیق ہوئی۔ بڑا اچھا نسخہ، خوب خوش خط وروشن اچھے کاغذ پر، حاشیہ کے ساتھ (مثنوی کے کان پوری ایڈیشن کی طرح) نو حصوں میں امرتسر کا چھپا ہوا مل گیا۔ اس نے طبیعت پر تقریباً ویسا ہی گہرا اثر ڈالا جیسا تین چار سال قبل مثنوی سے پڑ چکا تھا۔ فرق اتنا تھا کہ مثنوی نے جوش ومستی کی ایک گرمی سی پیدا کر دی تھی۔ بجائے ادھر دھر کی آوارہ گردی اور ہر صاحب مزار وصاحب آستانہ سے لو لگانے کے، اب متعین شاہراہ اتباع شریعت کی مل گئی۔ منزل مقصود متعین ہو گئی کہ وہ رضائے الٰہی ہے اس کے حصول ووصول کا ذریعہ اتباع احکام مصطفوی ہے۔ مثنوی اور مکتوبات، دونوں کا یہ احسان عمر بھر بھولنے والا نہیں۔ راہ ہدایت جو کچھ نصیب ہوئی، کہنا چاہیے کہ بالآخر انھیں دونوں کے مطالعہ کا ثمرہ ہے۔‘‘ (ص ۲۵۷)

دیسی سیکولروں کی مغالطہ انگیزیاں (۲)

محمد زاہد صدیق مغل

(۵) سیکولر ریاست خیر کے معاملے میں غیر جانبدار ہوتی ہے 

سیکولر لوگ اکثر یہ راگ الاپتے بلکہ اس راگ کے ذریعے اہل مذہب پر رعب جمانے کی کوشش کرتے ہیں کہ دیکھو ’سیکولرازم کا مطلب ریاست اور مذہب میں جدائی ہے اور بس، سیکولر ریاست کا کوئی اخلاقی ایجنڈہ (دین) نہیں ہوتا اور یہ خیر کے معاملے میں غیر جانبدار ہوتی ہے‘۔ اس دعوے کا مقصد یہ ثابت کرنا بلکہ دھوکہ دینا ہوتا ہے کہ (۱) چونکہ سیکولر ریاست ایک پوزیٹو (positive، حقیقت جیسی کہ وہ ہے ) ریاست ہوتی ہے نہ کہ نارمیٹو (normative، حقیقت جیسی کہ اسے ہونا چاہئے )، (۲) اسی لئے سیکولر ریاست کسی تصور خیر کی بیخ کنی نہیں کرتی، (۳) بلکہ تمام تصورات خیر کے فروغ کے یکساں مواقع فراہم کرتی ہے، (۴) لہذا ریاست کو پوزیٹو (سیکولر، یعنی غیرجانبدارانہ) بنیاد پر قائم ہونا چاہئے نہ کہ مذہبی بنیاد پر کیونکہ مذہب خیر کے معاملے میں جانبدار ہوتا ہے اور اپنے مخصوص تصور خیر سے متصادم تمام تصورات کے ساتھ مساوی سلوک نہیں کرتا۔ سیکولر ریاست کی اس غیر جانبداریت کے دعوے کو سیکولر لوگ ایک عرصے سے دھرتے چلے آرہے ہیں۔ اس کے جواب میں عام طور پر اہل مذہب یہ کہتے ہیں کہ ’ریاست کو خیر کے معاملے میں غیر جانبدار نہیں بلکہ جانبدار ہونا چاہئے ‘ یا یہ کہ ’ اسلامی ریاست سیکولر ریاست کی طرح غیر جانبدار نہیں بلکہ خیر کے معاملے میں جانبدار ہوتی ہے اور یہ اچھی بات ہے ‘ وغیرہ۔ مگر اس قسم کے تمام جوابات یہ فرض کرلیتے ہیں گویا سیکولر ریاست واقعی ’ہر خیر‘ کے معاملے میں ’غیر جانبدار‘ (neutral) ہوتی ہے۔ لیکن حقیقت اس کے عین برعکس ہے، ایک سیکولر ریاست نہ صرف یہ کہ ’ اپنا مخصوص اخلاقی ایجنڈہ ‘ رکھتی ہے اور اس مخصوص تصور خیر کی طرف جانبدار ہوتی ہے بلکہ ’دیگر تمام تصورات خیر کو جانچنے کیلئے ایک انتہائی ڈاگمیٹک اخلاقی پیمانہ ‘ بھی رکھتی ہے اور اسی بنیاد پر یہ ’ان دیگر تصورات کی بیخ کنی‘ کرتی چلی جاتی ہے، لیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ یہ ساری واردات وہ ’پوزیٹوازم، معروضیت اور غیر جانبداریت‘ کے پردوں میں ہی کرجاتی ہے، اور مذہبی حضرات ان پردوں کو چاک کرکے سیکولر لوگوں کا گھناؤنا چہرہ سامنے لانے کے بجائے ان کی پچ پر ہی کھیلنا شروع کردیتے ہیں۔ بظاہر معصوم دکھائی دینے والے اس دعوے میں کئی خطرناک وارداتیں چھپی ہوئی ہیں، یہاں ان کا جائزہ لیتے ہیں۔ 
سیکولر لوگوں کا یہ دعویف کہ سیکولر ریاست کا کوئی اخلاقی ایجنڈہ (ٹھیک اور غلط کا تصور و پیمانہ ) نہیں ہوتا‘ اپنی ذات میں متناقض (self-contradictory)دعوی ہے۔ درحقیقت یہ دعوی اس قدر مضحکہ خیز ہے کہ اسے رد کرنے کے لیے کسی پیچیدہ دلیل کی ضرورت ہی نہیں۔ ان عقلمندوں سے کوئی پوچھے کہ کیا بذات خود یہ تصور کہ ’مذہب کو ریاست سے الگ ہونا ’’چاہئے‘‘‘ (لفظ چاہئے پر فوکس رہے) ایک اخلاقی چوائس اور ترجیح کا معاملہ نہیں؟ پھر یہ کہنا کہ ’مذہب کو ذاتی زندگی تک محدود رکھنا ’’چاہئے‘‘ ‘ (لفظ چاہئے پر توجہ رہے) ٹھیک اور غلط کی ایک مخصوص چوائس نہیں؟ ظاہر ہے تمام لادینی نظرئیے اس اخلاقی ترجیح کے بھی قائل نہیں، مثلاً مارکسزم اپنی اصل شکل میں اس انفرادی مذہبی آزادی دینے کا بھی روا نہیں، تو یہ انفرادی مذہبی آزادی کا حق ایک اخلاقی ترجیح ہی ہوئی نا؟ پھر یہ تصور کہ ’اجتماعی نظم زندگی مذہب کے سوا کسی دوسری بنیاد (مثلاً ہیومن رائٹس) پر قائم ہونا ’’چاہئے‘‘‘ صحیح اور غلط کا ایک مخصوص تصور نہیں؟ زیادہ سے زیادہ کوئی یہی کہہ سکتا ہے نا کہ یہ تصور اسے بوجوہ بھلا معلوم ہوتا ہے، مگر کیا اسکا انکار کرسکتا ہے کہ یہ ایک اخلاقی ترجیح کا معاملہ ہی ہے؟ کیا ہیومن رائٹس سے نکلنے والے تصور خیر کو دیگر تمام تصورات خیر پر ’’فوقیت دینا‘‘ ایک اخلاقی ترجیح نہیں؟ پھر کیا دنیا کے تمام تصورات خیر کو ہیومن رائٹس کی کسوٹی پر ’’جانچنا ‘‘ اور اس ہی کسوٹی پر پرکھ کر ان کے ’’ٹھیک یا غلط ہونے کا فیصلہ صادر کرنا‘‘ بذات خود خیروشر کا ایک پیمانہ وضع کرلینا نہیں ہے؟ درحقیقت سیکولرازم کے بارے میں اس قسم کے دعوے وہی شخص کر سکتا ہے جسے سیکولرازم کے ڈسکورس کے بارے میں کوئی خبر ہی نہ ہو۔ 
اب ذرا آگے بڑھ کر مزید باریکی سے انکے دعوے کا جائزہ لیتے ہیں۔ جب سیکولر لوگ یہ کہتے ہیں کہ مذہب کو ریاستی معاملات سے الگ رکھ کر ایسے قانونی نظام پر ریاست کی تشکیل کی جانی چاہئے جو خیر کے معاملے میں غیر جانبدار ہو کر تمام تصورات خیر کو پنپنے کے مواقع فراہم کرے، تو ایسا قانونی نظام انکے خیال میں ہیومن رائٹس فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ مگر ہیومن رائٹس کے مطابق اصل تصور خیر ’فرد کی آزادی ‘ (یعنی ’حق کی خیر پر فوقیت ہونا‘) ہے، لہٰذا اس کے مطابق دنیا کا ہر وہ تصور خیر جو ’فرد کی اس صلاحیت کہ وہ جو چاہنا چاہے چاہ سکے اور اسے حاصل کرسکے‘ پر قدغن لگاتا ہے وہ غیر اخلاقی، غیرعقلی و غیر فطری تصور ہے اور اسی لئے اس کی بذریعہ قوت سرکوبی کرنا لازم ہے۔ معلوم ہوا کہ ہیومن رائٹس پر ایمان لانا غیر جانبداری کا رویہ اختیار کرنا نہیں بلکہ بذات خود خیر کے ایک مستقل مابعد الطبیعیاتی تصور (فرد کی آزادی کے حصول) پر ایمان لانا ہے ، اور ہیومن رائٹس پر مبنی سیکولر (جمہوری دستوری ) ریاست لازماً اسی تصور خیر کے تحفظ اور فروغ کی پابند ہوتی ہے (اور یہی اسکا ’دین ‘ ہوتا ہے)۔ لہٰذا اسے ’پوزیٹوازم اور غیر جانبداریت‘ سے تعبیر کرنا دھوکہ دھی کے سوا اور کچھ نہیں۔ 
چنانچہ خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ مغرب اور سیکولر طبقے کا یہ دعوی کہ لبرل سیکولر ریاست خیر کے معاملے میں غیر جانبدار اور اسی لئے Tolerant ہوتی ہے (اسکی قلعی بھی ہم آگے کھولے دیتے ہیں) ایک جھوٹا دعوی ہے کیونکہ خیر کے معاملے میں غیر جانبداری کا رویہ ممکن ہی نہیں۔ درحقیقت اس دنیا میں غیر جانبداریت (neutralism) بمعنی ’عدم رائے‘ (no position) کا کوئی وجود نہیں، بلکہ غیر جانبداری کے دعوی کا اصل مطلب ہوتا ہے ’کسی اصول کے مطابق رائے دینا یا فیصلہ کرنا‘ (غیرجانبداریت، معروضیت ، پوزیٹوازم، عقلیت، فطرت وغیرہ جیسے الفاظ محض اپنے مخصوص مفروضہ مقاصد و نظریات کو چالاکی کے ساتھ فروغ دینے اور مدمقابل کیلئے قابل قبول بنانے کا ایک مناظرانہ طریقہ کار ہے اور بس)۔ جو لوگ ان معنی میں غیر جانبداری کا دعوی کرتے ہیں گویا وہ تمام اصولوں سے ماوراء کہیں خلا میں معلق ہو کر اپنی رائے دے رہے ہیں فی الحقیقت وہ مہمل تصورات کا شکار ہیں، کیونکہ اس دنیا میں ایسا کوئی مقام نہیں جہاں پہنچ کر انسان غیر جانبدار ہوجائے۔ مثلاً یہ کہنا کہ ’فلاں مسئلے میں آپ مسلمان کے بجائے غیر جانبدار ہو کر غور کریں ‘ محض بے وقوفی کی بات ہے، کیا اسلا م سے باہر نکل کر انسان کافر ہوتا ہے یا غیر جانبدار ؟ کیا کفر بذات خود ایک جانبدارانہ مقام نہیں؟ [ائمہ علم الکلام نے معتزلہ کے ’المنزلۃ بین المنزلتین‘ (ایمان و کفر کے ما بین ایک امکانی غیر جانبدار پوزیشن) کے عقیدے کی بیخ کنی اسی گمراہی سے امت کو بچانے کیلئے فرمائی۔ عبدیت سے باہر نکل کر انسانی عقل غیر جانبدار نہیں بلکہ خواہشات اور شیاطین کی غلام ہو جاتی ہے جیسا کہ ارشاد ہوا فان لم یستجیبوا لک فاعلم انما یتبعون اھواۂم ومن اضل ممن اتبع ھواہ بغیر ھدی من اللہ  (پس اے رسول اگر وہ قبول نہ کریں آپ کے ارشاد کو تو جان لو کہ وہ اپنی خواہشات نفس کے پیرو کارہیں اور اس شخص سے بڑا گمراہ کون ہوگا جو خدائی ہدایت کے بجائے اپنی خواہشات کی پیروی کرے)، مزید فرمایا لاتطع من اغفلنا قلبہ عن ذکرنا واتبع ھواہ  (اس شخص کی اطاعت نہ کرجس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا اور جس نے اپنے خواہش نفس کی پیروی اختیار کرلی ہے) ، نیز من یعش عن ذکر الرحمن نقیض لہ شیطاناً فہو لہ قرین (جو کوئی رحمن کے ذکر سے منہ موڑتا ہے تو ہم اسکے اوپر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں جو اسکا دوست بن جاتا ہے)]۔ 

(۶) سیکولر ریاست کسی تصور خیر کی بیخ کنی نہیں کرتی 

درج بالا بحث کے بعد یہ غلط فہمی خود بخود صاف ہوجانی چاہئے کیونکہ اپنے دائرہ عمل میں سیکولر ریاست صرف انہی تصورات خیر اور حقوق کو برداشت کرتی ہے جو اسکے اپنے تصور خیر (ہیومن رائٹس، یعنی ہیومن کی آزادی) سے متصادم نہ ہوں، اور ایسے تمام تصورات خیر جو ہیومن رائٹس سے متصادم ہوں انکی بذریعہ قوت بیخ کنی (suppress) کر دیتی ہے۔ ان حقائق کو چند آسان مثالوں سے سمجھا جا سکتا ہے۔ فرض کریں ہندو اپنی مذہبی روایات کی بنیاد پر ’ستی کرنے‘ یا معاشرے کو اپنے مخصوص ’ذات پات کے نظم‘ پر تشکیل دینا چاہتے ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا سیکولر ریاست ان اعمال کی اجازت دے گی؟ ہرگز نہیں، کیوں؟ اسی لیے نا کہ ’ہیومن رائٹس قانون انہیں ان اعمال کی اجازت نہیں دیتا کہ یہ اعمال و ترجیحات بنیادی انسانی حقوق کے فلسفے سے متصادم ہیں‘۔ تو کیا سیکولر ریاست ان اعمال کی اجازت نہ دے کر بلکہ بذریعہ جبر، قوت و قانون انہیں بند کر کے ہندو تصور خیر کی بیخ کنی نہیں کرتی؟ اتنا ہی نہیں ذات پات کے نظام کی تشکیل منہدم کرکے سیکولر ریاست ہندو انفرادیت کے فروغ کا راستہ بند کردیتی ہے اور اس طرح ہندو انفرادیت کی بھی بیخ کنی دیتی ہے کیونکہ ہندو ں کے خیال میں ذات پات کے معاشرتی نظم کے بغیر وہ انفرادیت جو انکے عقائد کے ساتھ ہم آہنگ ہے کبھی دریافت نہیں کی جاسکتی۔ دوسرے لفظوں میں سیکولر ریاست ہیومن رائٹس کے نام پر ہندو رسوم ہی نہیں بلکہ ہندو عقائد کو مہمل بنا کر انکی بھی بیخ کنی کرڈالتی ہے۔ اسی طرح فرض کریں ایک مسلمان لڑکی کسی کافر سے شادی کرنا چاہتی یا مسلمان لڑکا بدکاری کرنا یا کسی لڑکے کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے، ظاہر ہے اس معاملے میں اسلامی معاشرہ وریاست ہرگز اس کی اجازت نہیں دے گی، مگر چونکہ ہیومن رائٹس قانون ان افعال کو ہیومن کا حق قرار دیتا ہے لہذا اس ریاست میں افراد کو انکی قانونی اجازت اور ریاستی سرپرستی حاصل ہوگی۔ اگر مسلمان اجتماعیت اس لڑکی اور لڑکے پر اپنا تصور خیر مسلط کرنے کی کوشش کرے گی تو لبرل ریاست ان کے خلاف کاروائی کرکے ان کی سر کوبی کردے گی۔ اب دیکھئے مسلمان چاہتے ہیں کہ ان کے معاشرتی نظم کی بقا جس اجتماعی ڈھانچے میں مضمر ہے اسے تحفظ فراہم کیا جائے مگر سیکولر ریاست عین اسکے برعکس قانون بناتی ہے۔ کیا اسکے نتیجے میں اسلامی معاشرت اور نتیجتاً اسلامی انفرادیت انتشار اور تحلیل کا شکار نہیں ہوجائے گی؟
یہاں بنیادی بات یہ سمجھنے کی ہے کہ ہیومن رائٹس ’ہیومن (خود کو قائم بالذات سمجھنے والی یعنی خدا کی باغی انفرادیت) کے حقوق‘ (right of HUMAN) کا تحفظ کرتے ہیں نہ کہ ’مسلم (ہندو یا عیسائی) انفرادیت کے حقوق‘ (right of MUSLIM)۔ دیکھئے مسلم مرد کی مرد سے شادی ’ہیومن کا حق‘ تو ہے مگر ’مسلمان کا حق نہیں‘، سوال یہ ہے کہ جب ان دوقسم کی انفرادیتوں کے حقوق میں مخاصمت ہوگی تو کیا سیکولر ریاست کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح دیتی ہے یا نہیں؟ نیز کس کو کس پر ترجیح دیتی ہے؟ درحقیقت اسی سوال کے جواب میں سیکولر ریاست کی ’جانبداریت‘ کی ساری واردات چھپی ہوئی ہے۔ تو جب یہ ریاست ’ہیومن رائٹس‘ (ایک مخصوص تصور انفرادیت و خیر) کو دیگر تصورات خیر پر فوقیت دیتی ہے نیز اسی پیمانے پر انہیں جانچتی ہے تو کیا یہ بذات خود ایک مخصوص تصور خیر کی طرف جانبداریت کا رویہ نہیں؟ پس خوب یاد رہے کہ اپنے مخصوص خیر کے معاملے میں لبرل جمہوری ریاست بھی انتہائی راسخ العقیدہ (dogmatic) اور intolerant ہوتی ہے اور اپنے اس مخصوص تصور خیر سے متصادم کسی نظرئیے کی بالادستی کو روا نہیں رکھتی۔ چنانچہ مشہور لبرل مفکر رالز (Rawls) کہتا ہے کہ مذہبی آزادی کو لبرلزم کے لئے خطرہ بننے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، وہ مذہبی نظریات جو لبرل آزادیوں کا انکار کریں ان کو عملاً کچل دینا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کسی وبا کو ختم کرنا ضروری ہوتاہے۔ اسی بنیاد پر ہیومن رائٹس کی چمپئن یورپی اقوام نے کروڑوں ریڈ انڈین اور دیگر اقوام کا قتل عام روا رکھا (جان لاک اور جیفرسن کے الفاظ میں ریڈ انڈین بھینسے اور بھیڑئیے ہیں ) اور آج بھی مجاہدین کو قتل کیا جا رہا ہے۔ 

(۷) سیکولر ریاست تمام تصورات خیر کے فروغ کے مساوی مواقع فراہم کرتی ہے 

اب تک کی بحث کے بعد اس نکتے پر زیادہ تفصیلی گفتگو کی ضرورت تو نہیں البتہ چند ایک مزید پہلووں سے بھی اس دعوے کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ اصولی بات یہ ہے کہ افراد کی ذاتی زندگیوں میں وہی اقدار ، کیفیات، صلاحیتیں و اعمال پھلتے پھولتے ہیں جن کے اظہار کے اجتماعی زندگی میں مواقع موجود ہوں، جنہیں اجتماعی زندگی میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہو، نیز جن کے حصول و عدم حصول پر اجتماعی زندگی میں کامیابی و ناکامی کا انحصار ہو۔ ایسی اقدار جو اجتماعی زندگی میں لایعنی و مہمل تصور کی جاتی ہوں یہ سمجھنا کہ لوگوں کی نفرادی زندگی میں پھلتی پھولتی رہیں گی ایک غیر عقلی بات ہے۔ جس ذاتی زندگی کا اجتماعی زندگی کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہو آہستہ آہستہ مہمل بن کر اپنی موت آپ ہی مر جایاکرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج جب ہمارا اجتماعی سیکولر نظام فرد کو علم دین کے حصول کیلئے کسی درجے میں بھی مجبور نہیں کررہا تو دینی علوم کا حصول افراد کی نجی زندگیوں میں غیر متعلقہ ہوتا جارہا ہے مگر سائنسی علوم ہر کسی کا مطمع نظر بن رہا ہے جسکی وجہ یہ ہے کہ جدید اجتماعی زندگی اسی علم کے ارد گرد تعمیر کی گئی ہے۔ 
اب ذاتی اور اجتماعی زندگی کے اس باہمی تعلق کو سامنے رکھ کر اس بات پر غور کریں کہ سیکولر ڈسکورس کا ایک اہم تقاضا آخرت کی اقداری حیثیت کا انکار کردینا بلکہ اسے لایعنی و مہمل قرار دینا بھی ہے۔ چنانچہ سیکولر ڈسکورس کہتا ہے کہ معاشرتی و ریاستی صف بندی میں یہ سوال کہ ’افراد اس معاشرے میں زندگی بسر کرنے کے بعد جنت میں جائیں گے یا جہنم میں‘ ایک لایعنی و مہمل سوال ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ مسئلہ کہ آیا ’افراد کو معاشرے میں زیادہ نیکیاں اور کم گناہ کمانے کے مواقع میسر ہیں‘ ایک بے کار سوال ہے، کیونکہ جونہی ’نیکی اور بدی کے مواقع‘ کا سوال اٹھایا جائے گا مذہب فورا ذاتی زندگی سے نکل کر اجتماعی میدان میں آجاتا ہے۔ اتنا ہی نہیں اس ریاست کے نزدیک خود ’نیکی و بدی ‘ ہی لایعنی تصورات ہیں۔ اب ظاہر ہے اسلامی نکتہ نگاہ سے آخرت کی اقداری حیثیت بنیادی نوعیت کی ہے، یعنی یہاں معاشرتی و ریاستی صف بندی میں اصل اور فیصلہ کن سوال ہی یہ ہے کہ افراد کو جنت میں جانے کے مواقع زیادہ فراہم ہونگے یا جہنم میں؟ مگر مذہب کو فرد کا نجی مسئلہ قرار دینے کا مطلب یہ اعلان کرنا ہے کہ ’مرنے کے بعد جنت و جہنم میں جانا‘ اجتماعی نظم کی تشکیل میں بے کار و بے معنی سوال ہے، جبکہ اسلام میں سب سے اہم اورپہلا سوال ہی یہ ہے کہ مرنے کے بعد کوئی شخص کہاں جائیگا ۔ اب دیکھئے مذہب اجتماعی نظم کے قیام کیلئے جس شے کی اقداری حیثیت و فوقیت کو کلیدی سمجھتا ہے سیکولر ڈسکورس اسے لایعنی قرار دیکر نکال باہر کردینا چاہتا ہے۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ سیکولر اجتماعی نظم بھی قائم ہوجائے مگر لوگوں کی زندگیوں میں آخرت بطور قدر بھی پنپتی رہے؟ صرف ایک فاتر العقل انسان ہی ایسا امکان سوچ سکتا ہے۔ جس خاندان کے کسی اجتماعی عمل اور فیصلے میں تقوی و پرہیزگاری سرے سے متعلقہ سمجھے ہی نہ جارہے ہوں آخر وہاں بچے کیونکر تقوی و پرہیزگاری اختیار کرتے رہنے کو ترجیح دیتے رہیں گے؟ اسے کہتے ہیں کہ people seek what the system rewards ، یعنی افراد اس شے کی تگ و دو کرتے ہیں جسے نظام قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ یہ محض نظریاتی باتیں نہیں، بلکہ دنیا میں جہاں بھی سیکولر جمہوری اقدار (آزادی ، مساوات اور ترقی) کا فروغ ہوا، ان معاشروں کے افراد کی زندگیوں میں فکر آخرت اور مرنے کے بعد کی زندگی کا سوال بے کار ہوتا چلا گیا اور لذت پرستانہ فکر معاش فکر معاد پر غالب آگیا۔ درحقیقت افراد کی نجی زندگی میں وہی اقدار پنپتی ہیں جو اجتماعی زندگی میں قابل قدر سمجھی جارہی ہوتی ہیں، جن ذاتی اقدار کا اجتماعی زندگی میں کامیابی و ناکامی سے سرے سے کوئی تعلق ہی نہ ہو آخر فرد کیونکر انہیں اختیار کرتا چلا جائے گا؟ لہذا یہ کہنا کہ سیکولر نظم ’ہر تصور خیر‘ کے فروغ کے مساوی مواقع فراہم کرتی ہے ایک سفید جھوٹ ہے۔ درحقیقت لبرل معاشروں میں سیکولر ریاست جس نظام زندگی کو جبراً مسلط کرتی ہے وہ لبرل سرمایہ دارانہ نظام زندگی ہے جسکے نتیجے میں سوائے ہیومن کے تمام اجتماعیتیں لازماً تحلیل ہو جاتی ہیں اور دیگر تمام نظام ہائے زندگی پر عمل کرنے کا دائرہ کار کم سے کم تر ہوتے ہوتے ختم ہو جاتا ہے۔ 

(۸) سیکولر ریاست پرامن مذہبی بقائے باہمی ممکن بناتی ہے 

اس ضمن میں سیکولر لوگ بڑے طمطراق سے یہ بھی کہتے ہیں کہ سیکولر ریاست مذہبی اختلافات (مثلا شیعہ سنی، دیوبندی بریلوی) کو ختم کرکے انکے پرامن بقائے باہمی کو ممکن بناتی ہے، اور ہمارے چند دینی لوگ بھی اس جھانسے کا شکار ہوکر اسے سیکولر ریاست کی کوئی ’خوبی ‘ اور اہل مذہب پر اس کا کوئی ’احسان ‘ تصور کرنے لگتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا سیکولر ریاست مذہبی نزاعات کا یہ حل مذہب کی اجتماعی و ذاتی اقداری حیثیت کو ’قائم و دوائم ‘ رکھتے ہوئے ’اس کے اندر‘ ہی طے کردیتی ہے یا مذہب کو ’لایعنی و مہمل‘ بنا کر حل کرتی ہے؟ اگر یہ حل وہ مذہب کی اقداری حیثیت کو لایعنی، غیرضروری و مہمل بنا کر کرتی ہے جیسا کہ امر واقعہ ہے تو اس میں اہل مذہب کیلئے خوش کن بات کیا ہے؟ ظاہر ہے اس دنیا میں کوئی بھی انسان بے کار و لایعنی شے کیلئے نہیں لڑتا، چنانچہ سیکولر ریاست کے قیام و بقا کے نتیجے میں مذہبی ترجیحات کی اقداری حیثیت چائے و کافی کی ترجیح سے زیادہ کچھ نہیں رہتی۔ کیا اسلام کو ’دین‘ سمجھنے والوں کے لیے یہ قابل قدر بات ہے یا تشویش کا مقام ؟ دوسرے لفظوں میں سیکولر ریاست کا جو فعل و خصوصیت اہل مذہب کے لیے انتہائی قابل مذمت ہونا چاہئے، چند سادہ لوح لوگ اسے اس کی خوبی فرض کرلیتے ہیں۔ 
اسی طرح جب یہ کہا جاتا ہے کہ ’سیکولر ریاست حصول مذہب کے معاملے میں کسی پر جبر نہیں کرتی‘ تو فی الحقیقت اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مذہب اِس نظم میں مہمل و لایعنی قرار دیا گیا ہے کیونکہ نظام اس ہی شے کے حصول کے لیے جبر کرتا ہے جسے وہ قابل قدر سمجھتا اور بنانا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیکولر ریاست فرد پر سائنسی (بشمول فزیکل و سوشل سائنسی) علوم کے حصول کیلئے بھرپور جبر کرتا ہے کہ اسکے بغیر وہ اس نظام میں کامیاب نہیں ہوسکتا جبکہ مذہب اسکے نزدیک محض کھیل تماشا ہوتا ہے۔ مگر ہمارے سادہ لوح مذہبی لوگ سیکولر نظام کی فراہم کردہ چند غیر متعلقہ مذہبی آزادیوں سے یہ دھوکہ کھا جاتے ہیں گویا یہ نظام مذہب کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ چنانچہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ سیکولر ریاست ہر مذہب کے چند انفرادی شعائر کی ادائیگی کا حق اس لئے نہیں دیتی کہ یہ انہیں ’قابل قدر یا اہم‘ سمجھتی ہیں بلکہ اس لئے دیتی ہے کہ یہ انہیں ’مہمل ، لایعنی، اور غیر متعلقہ‘ سمجھتی ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ہمارے یہاں چند ایسے مفکرین (مثلاً وحید الدین خان صاحب) بھی پیدا ہوگئے ہیں جن کے خیال میں اسلام پھیلتا ہی سیکولر نظام میں ہے، گویا زہر ہی ان کے نزدیک تریاق ہے۔ ایسے لوگ یا تو مذہب کو محض چند رسوم عبادت تک محدود سمجھتے ہیں اور یا پھر یہ سیکولر لوگوں کے دعوائے غیر جانبداریت سے انتہائی حد تک متاثرہیں اور اسی وجہ سے اپنے تئیں یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ چونکہ اسلام حق ہے لہٰذا جونہی اسے یہ ’نیوٹرل‘ موقع ہاتھ آئے گا یہ اپنا لوہا منوالے گا۔ لیکن اس قسم کے استدلال کو ان حضرات کی سادہ لوحی پر تو محمول کیا جا سکتا ہے مگر علمی دنیا میں اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔ 
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ سیکولرریاست کے غیر جانبداریت کے اس جھوٹے دعوے سے متاثر ہوکر تمام مذہبی گروہ اور طبقے اس کے ہاتھوں خوشی خوشی اپنی جڑیں کٹوالینے پر تیار ہوجاتے ہیں؛ یعنی بریلوی، دیوبندی، سلفی، شیعہ سب ایک ایسی انفرادیت (ہیومن) اور اجتماعیت (سول سوسائٹی) کے غلبے کو قبول کرلینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں جو ان سب کی نفی اور بیخ کنی کردیتی ہے مگر یہ سادہ لوح لوگ اسے اپنے ساتھ ’برابری، مساوات، عدل و انصاف ‘ کا معاملہ اور ’اپنی بقا کا غماز ‘ سمجھتے رہتے ہیں، فیاللعجب۔ اس مقام پر سیکولر لوگ تو کجا خود مذہبی لوگ ہی یہ استدلال پیش کرنے لگتے ہیں کہ کیونکہ یہ تمام مذہبی گروہ آپسی نزاعی کیفیت کا شکار ہیں اور ان کا باہمی رویہ ٹھیک نہیں لہٰذاخود ان گروہوں کے حق میں یہ بہتر ہے کہ اقتدار کی کنجیاں ان کے پاس رہنے کے بجائے کسی غیرجانبدار قوت کے پاس رہیں۔ سوچئے کس قدر عجیب ہے یہ استدلال ، کیا آپسی ناگوار رویوں کو بنیاد بنا کر کسی ایسے تیسرے فریق کو گھر کا مالک بن بیٹھنے کی اجازت دی جاسکتی ہے جو ہم سب کا استحقاق ملکیت غصب کرکے گھر پر ایسا قانون مسلط کردے جو ہم سب ہی کے خلاف ہو اور ہم سب کی بیخ کنی کردے؟ مستحکم سیکولر ریاستی نظام میں تو مسلم، عیسائی ، ہندو ہونا ہی لایعنی ، مہمل اور غیر متعلقہ شے بن جاتی ہے چہ جائیکہ ان ذیلی شناختوں کی بقا کا تصور کیا جاسکے۔ 
(جاری) 

’’جمہوری و مزاحمتی جدوجہد‘‘ ۔ ایک تجزیاتی مطالعہ

محمد رشید

’’الشریعہ‘‘ کے مدیر اعلیٰ مولانا زاہد الراشدی صاحب کچھ عرصہ سے تسلسل کے ساتھ نفاذ اسلام کے لیے آئینی اور جمہوری جدوجہدکی تلقین فرما رہے ہیں اور مسلح مزاحمت کے مقابلے میں غیر مسلح مزاحمت کے طریق کار کی دعوت پیہم اصرار سے دے رہے ہیں۔ اس تناظر میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلح مزاحمت کسے کہتے ہے؟ اور غیر مسلح مزاحمت کیا ہے؟ 

مسلح مزاحمت کیا ہے؟ 

مسلح مزاحمت یا مسلح بغاوت دراصل کسی کمزورفریق کے مقابلہ میں بے حد طاقتور فریق کے ظلم، جبراورآمرانہ سوچ اورشکنجہ کو بے رحمی سے اس کمزورفریق پرمسلط کرنے کے نتیجہ میں رونما ہوتا ہے۔مسلح بغاوت یا مزاحمت درحقیقت کسی بے حد طاقتورسلطنت میں کمزورکواپنی مرضی کی زندگی نہ گزارنے دینے کے نتیجے میں رونما ہوتا ہے۔پُرامن،باانصاف اور غریب پرور معاشروں میں مسلح بغاوت یا مزاحمت ایک روگ، ایک بیماری او ر ایک فتنہ ہے، جبکہ ظالم، بے انصاف، بے رحم ، بے حس ،غریب کُش اور کمزوروں کا استحصال کرنے والے معاشروں میں مسلح بغاوت یا مزاحمت ظلم،جبر،بے رحمی اور بے انصافی کی لعنتوں کا ردعمل ہے۔جوطاقت و قوت کے زعم اور تکبر میں مبتلا ایوانوں کے ردعمل میں جنم لیتا ہے ۔طاقت کے وہ ایوان جنہیں اپنے قارونی خزانوں اور مہیب مسلح قوتوں کا زعم اور نشہ ہر کمزور اور مخالف سوچ کو کچل دینے پہ آمادہ پیکار رکھتا ہے،مسلح بغاوت یا مزاحمت اس مکروہ ظالمانہ اور بے رحم معاشرے کے چہرے پرکمزوروں کا زوردار طمانچہ ہوتا ہے۔ازل سے ایسا ہوتا رہا ہے کہ انسان کی انانیت،تکبر اور اس میں چھپا ہوا ابلیس اسے اپنے سے کمزوروں کا استحصال اور ان کا دائرہ حیات تنگ کرنے پر آمادۂ پیکار کرتا رہا ہے۔جس کا نہایت مسکت جواب قوانین فطرت کے عین مطابق’’مسلح بغاوت یا مسلح مزاحمت‘‘ کی صورت میں ہردور کے نمرودوں اور فرعونوں کو ملتا رہا ہے۔
لیکن دنیا پر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیمات اور اسلام کے سورج کے روشن ہوجانے کی وجہ سے ابلیس کو یہ خطرہ پیدا ہوگیا کہ اگردنیا کے نادار،غریب اور کمزورطبقات کی اسلام کے ’’جذبہ جہاد‘‘ تک رسائی ہوگئی توپھر فرعونیت، قارونیت اورہامانیت یعنی بے رحم اور بے حس سرمایہ داروں،جاگیرداروں اوربادشاہوں کا دنیا سے ہمیشہ کے لیے صفایاہوجائے گا۔’’جذبہ جہاد‘‘ کی یہ وہ ہیبت ناک تلوار تھی جس نے ابلیس اور ابلیسی ذریت کو بے حد خوف اور فکر میں مبتلا کردیا۔چنانچہ اس نے اس کا توڑکرنے، انسانیت کو ’’جہاد‘‘ اور ’’جذبہ جہاد‘‘ سے محروم کرنے کے لیے حضرت انساں کے ہاتھوں میں جمہوریت،آزادی رائے اور انتخابی و احتجاجی سیاست کے ساحرانہ کھلونے تھما دیے۔اسی حقیقت کا اظہار ہمیں اقبال کے اشعار میں بھی جابجاملتاہے ۔چند مثالیں ذیل میں پیش کی جاتی ہیں:
آزادی افکار ہے ابلیس کی ایجاد
(بال جبریل بعنوان ’’آزادی افکار‘‘)
یہ علم ،یہ حکمت، یہ سیاست، یہ تجارت
جو کچھ ہے وہ ہے فکر ملوکانہ کی ایجاد 
(ارمغان حجازبعنوان ’’د وزخی کی مناجات‘‘)
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خودشناس و خودنگر
(ارمغان حجازبعنوان ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘)
جمہورکے ابلیس ہیں ارباب سیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تہہ افلاک
(ارمغان حجازبعنوان ’’ابلیس کی عرضداشت‘‘)
جدید دور کے سامری نے جمہوریت نامی اس کھلونے کے ذریعہ ساری دنیا کے انسانوں کو اپنے سحر میں گرفتار کر لیا۔ اس طرح اپنے مکر،فریب اور سحر کے ذریعہ انسانیت کو ایک بار پھر اسلام سے اوردنیا اور آخرت کے دکھوں سے نجات حاصل کرنے کی راہ سے دورلے جانے میں کامیاب ہوگیا۔عہد حاضر کے سامری کا یہ وہ جادو ہے جو سرچڑھ کر بول رہا ہے۔ نہ صرف اسلام کی دولت سے محروم طبقات عہد جدید کے سامری کے ’’جمہوریت‘‘ نامی اس سحر میں بری طرح گرفتار ہوچکے ہیں بلکہ اس سحر نے اسلام کے پیروکاروں کی عظیم اکثریت کو بھی اپنے جال میں جکڑ لیا ہے، حتیٰ کہ نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ بہت سے مسلم مذہبی زعما، قائدین اور علماء تک کے اذہان پر اس سحر نے رسائی حاصل کر لی۔ لہٰذا اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے بہت سارے نہایت محترم قائدین اور علماء بھی جمہوریت،آئینی جدوجہداورانتخابی و احتجاجی سیاست کواسلام اورمسلمانوں کے لیے بالکل اسی طرح مفید،ضروری اورناگزیر قرار دیتے ہیں جس طرح مغرب کے ملحد،لادین اور سرمایہ پرست اسے اپنے معاشروں کے لیے بے حد مفید،ضروری اور ناگزیر قرار دیتے ہیں۔
دکھ اور افسوس کا مقام صرف یہ نہیں ہے کہ مغرب کے مقتدرابلیسی اور دجالی اذہان دیار مغرب میں رہنے والے انسانوں کی عظیم اکثریت کو جمہوریت ،آئین،انتخابی اور احتجاجی سیاست کے کھلونے دے کران کا ذہنی،جسمانی اور روحانی بدترین استحصال کررہے ہیں بلکہ ’’درداتنا ہے کہ ہررگ میں ہے محشر برپا‘‘ کے مصداق ناختم ہونے والی اذیت کامقام یہ ہے کہ اہل اسلام کے نہ صرف سیاسی قائدین بلکہ دینی مذہبی راہنما اور مفکرین کی نگاہ میں بھی جمہوریت، آئین، انتخابی اور احتجاجی سیاست کے دجالی کھلونے اہل اسلام کے دکھوں کا واحد علاج اور مداوا ہیں۔

غیر مسلح مزاحمت کیا ہے؟

آئیے اب دیکھتے ہیں کہ یہ غیر مسلح مزاحمت یا احتجاجی سیاست کس نیلم پری کا نام ہے۔ابلیس اور اس کے پیروکاروں نے ہزاروں سال تک مذہب کا راستہ روکنے اور انسانیت کی روح کا گلا دبانے کی سرتوڑکوششوں کے بعد جب یہ دیکھا کہ ان کی تمام تر کاوشوں کے باوجود اسلام کا سورج طلوع ہوچکا ہے جو ابلیس کی بنائی گئی مہیب ترین اور ہیبتناک ترین قیصروکسریٰ کی سلطنتوں کو خس وخاشاک کی طرح بہا کر لے گیا توانہیں عالم تصور میں ہرظالم،قاہراور بدمعاش سلطنت و قوت ڈوبتی ہوئی نظر آنے لگی۔لہٰذا آنے والے دور میں ظالموں،بدمعاشوں، خائنوں، دغابازوں اور انسانیت کے دشمنوں کے تحفظ کے لیے اور انسانیت کو اسلام کی رحمت سے دور رکھنے کے لیے ضروری تھا کہ کوئی ایسا مذہب اور ایسی فکر ایجاد کی جائے جو دکھوں کی ماری انسانیت اوراسلام کے درمیان ایک ناقابل عبور دیوار کھڑی کردے۔اور یوں انسانیت ایک بار پھر اپنے دکھوں کا علاج اپنے خالق و مالک سے دریافت کرنے کی بجائے ابلیسوں اوردجالوں کے جعلی نسخوں میں تلاش کرنے میں سرگرداں رہے۔ابلیس کے پرانے جعلی نسخے اب مزید چلتے دکھائی نہیں دے رہے تھے،لہٰذا ابلیس نے جمہوریت،آزادی رائے اورانتخابی واحتجاجی سیاست کے خوشنما ودلفریب عنوان سے نیا نسخہ تیار کیا اور انسانیت کے ہاتھ میں اسے تھما دیا۔
آج جب ہم اپنے اردگردنگاہ دوڑاتے ہیں توحیرت میں گم ہوجاتے ہیں کہ ابلیس اپنی چال میں میں کیسا زبردست کامیاب رہا؟ آج ساری دنیا کے شیاطین اور مقتدرطبقات (ابلیس کی نمائندہ عالمی طاقتوں )نے دنیا بھرمیں جمہوریت کو اپنی محبوب ترین لونڈی بنایا ہوا ہے۔یہ عالمی طاقتیں اپنی اس لونڈی کے ذریعے اسلام کی بدترین مخالفت کررہی ہیں، اسلام،اہل اسلام، مشاہیر اسلام کا مذاق اڑا رہی ہیں اورمسلمانوں کے محبوب ترین شعائر یعنی رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن حکیم کی بدترین توہین کی مرتکب ہورہی ہیں۔ابلیس،اس کی آلہ کارعالمی طاقتیں اور ان عالمی طاقتوں کے آلہ کارمسلم حکمرانوں نے ساری دنیا میں فتنہ اور فساد کا بازاد گرم کیا ہوا ہے۔ یہ ابلیسی ٹولہ انسانیت کی روح کا گلا دبا رہا ہے، انسان کی روحانی زندگی کے لیے یہ ٹولہ ایک عذاب بنا ہوا ہے۔درحقیقت یہ ٹولہ بدترین دہشت گرد ہے، جس نے اپنے اختیارات ،وسائل ،جدید جنگی ٹیکنالوجی اور ذرائع ابلاغ سے نوع انسانی کو ایک دہشت اور خوف میں مبتلا کیاہوا ہے۔ یہ ابلیسی ٹولہ نہ صرف انسان اور آخرت(انسان کی ابدی مسرت) کے درمیان ایک دیوار بن کرکھڑا ہوگیا ہے بلکہ ابلیس لعین کا یہ پیروکار ٹولہ انسان اور اس کی دنیا کی نہایت محدود زندگی کی مسرتوں کے درمیان بھی ایک دیوار بن کر کھڑا ہے۔ ساری دنیا کے انسانوں کو سود کی لعنت اور نحوست میں جکڑدیاگیا ہے، ساری دنیا کے انسانوں کے لیے زندگی کی بنیادی ترین ضرورتیں پورا کرنا مشکل سے مشکل تر کردیاگیا ہے۔تازہ آکسیجن، خالص او ر صحت بخش غذا،سرچھپانے کے لیے چھت،اپنی نئی پود کی روحانی و جسمانی تعلیم یہ وہ بنیادی ترین ضرورتیں ہیں جن سے آج کے انسان کومحروم کرنے کے لیے تہذیب ، آزادی اور جمہوریت کے نام پر بدترین مکاریاں کی جارہی ہیں۔لعنت ہے ایسی ترقی،ایسی جمہوریت اور ایسی نام نہاد آزادی پرجو نہ صرف انسان کو اس کی آخرت کی ابدی مسرتوں سے محروم کردے بلکہ دنیا کی قلیل زندگی کی مسرتوں کا بھی گلا گھونٹ کررکھ دے۔
عالمی طاقتوں اور ان کے آلہ کارسرمایہ پرست حکمرانوں کی دولت کی بھوک اور ہوس نے فضاؤں کواس حد تک آلودہ کردیا ہے کہ تازہ آکسیجن ملنا محال ہوگیا ہے،دودھ کے نام پر ڈبوں میں بندسفید خوشنما زہرنما محلول سے اس کے جسم کی پرورش کی جارہی ہے،خوشنما غذاؤں کے ذریعے سے بیماریوں کی پرورش کی جارہی ہے،عام انسان کے لیے عمدہ سبزی اور دال تک رسائی مشکل سے مشکل ترکردی گئی ہے ، سرچھپانے کے لیے چھت حاصل کرنے کو ’’سرمایہ غم فرہاد‘‘بنا کررکھ دیاگیا ہے۔متوسط اور غریب طبقہ کے علاج کی راہ میں ڈاکٹرو کی شکل میں ڈاکو بٹھادیے گئے ہیں پھر جدید دور کا انسان ان ڈاکو نمامسیحاؤں سے لٹ کر نکلتا ہے توارزاں ترین دوائیں مہنگی ترین قیمتوں پر خریدنے پر مجبو ہوجاتا ہے۔مگر اس ظلم ، اس استحصال اور اس شیطنیت پر مجال ہے جمہوریت اور جمہوری نمائندوں کے ماتھے پر کوئی شکن پڑے۔جدید زندگی کی یہ وہ اذیتناکیاں ہیں جنہیں دیکھ کر شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے دوزخ میں جلتے ہوئے انسان کے جذبات کواپنی نظم’’دوزخی کی مناجات‘‘ کے ایک شعر میں اس طرح بیان کیا:
اللہ تیرا شکر کہ یہ خطہ پُرسوز	
سوداگر یورپ کی غلامی سے ہے آزاد
حقیقت یہ ہے کہ ابلیس نے ’’جمہوریت اور آزادی‘‘ کے عنوان سے اجتماعی سطح پرانسانیت کا جو بدترین استحصال کیا ہے اور انسانیت کو زندگی کی بنیادی ترین ضرورتوں سے جس طرح محروم کیا ہے، ماضی کی بدترین بادشاہتوں کے دور میں بھی اجتماعی سطح پر انسانیت کا اس طرح گلا دبانا ناممکن تھا۔ یہی وجہ ہے ابلیس نے جہاں انسانیت کی ’’روح اورجسم‘‘ ہردوکا گلا دبانے کی جو نہایت گھناؤنی اور بدترین چال تیار کی تھی وہاں اسے یہ خوف بھی دامن گیر تھا کہ کہیں انسانوں کا کوئی فہیم طبقہ اٹھے اورقرآن کے جذبہ جہاد سے سرشار ہوکرتمام عالم کے ان ابلیسی آلہ کاروں سے ٹکرا جائے جو انسانیت کو بدترین دکھوں میں مبتلا کیے ہوئے ہیں۔لہٰذا ابلیس نے اپنے آلہ کاروں کی حفاظت کے لیے احتجاجی سیاست (’’غیرمسلح مزاحمت /تصادم‘‘)کا نسخہ ایجاد کیا۔تاکہ عوامی احتجاج کے ذریعے سے وقتاً فوقتاً عوام کے موڈ کا پتہ چلتا رہے اور ابلیسی آلہ کار حالات کے مطابق اپنی حفاظت کا بندوبست کرتے رہیں۔ابلیس نے جدید دور کے سامری کے ذریعے سے آئین اورجمہوریت وغیرہ کا جو سحر پھونکااس کی رو سے عوام کے لیے اپنے جمہوری آقاؤں/انسانیت کے دشمنوں کے خلاف کسی بھی صورت ’’مسلح تصادم‘‘ کو ہمیشہ کے لیے حرام قرار دے دیاگیا۔یعنی جمہوری آقا اگرآپ سے آپ کی خالص غذا چھین لیں، غذا کے نام پر آپ کو ہر روز زہر کھانے پر مجبورکریں، آپ کو زندگی کی بنیادی ترین ضرورتیں آپ کی صلاحیتوں کا بدترین استحصال کرکے اور آپ کو کولہو کا بیل بناکر بھی پوری نہ ہونے دیں،آپ کے لیے ایسا ماحول بنادیں کے آپ کے لیے سودسے پاک معیشت اختیار کرنا،بے حیائی اور عریانیت سے پاک معاشرت اختیار کرنا اور مادہ پرستی و زرپرستی سے پاک تعلیم حاصل کرنا ناممکن ہوجائے اور انسان کی بنیادی ترین ضرورتوں کا حصول اس حدتک مشکل کردیاجائے اور اس کی خاطر اسے پیسے کے پیچھے اتنا بھگایا اور تھکایاجائے کہ وہ پیسے کا پرستار اورپجاری بن کر رہ جائے۔اس حقیقت کا اظہار مریدرومی علامہ اقبال ان الفاظ میں فرماتے ہیں:
عصرحاضر ملک الموت ہے تیرا، جس نے
قبض کی روح تری دے کے تجھے فکر معاش 
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی طبقہ جمہوریت اور جمہوریت کی ان لعنتوں سے آزاد رہنے کی کوشش کرتا ہے (مثلاً پہاڑی علاقوں پر رہنے والے اور اسلام سے محبت کرنے والے مسلم قبائل)تو تعلیم،آزادی،تہذیب اورجمہوریت کے خوشنماعنوانات کے تحت انہیں ان لعنتوں میں گرفتار کرنے کی کوشش کی جائے جس میں اس وقت نوع انسانی من حیث المجموعی گرفتار ہے۔ پہاڑوں پر رہنے والے آزاد اور بہادر مسلم قبائل ابلیسی قوتوں کے اس بہکاوے اور لالچ میںآنے سے جب انکار کرتے ہیں اورمغربی ابلیسیت کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں توانہیں دہشت گرد قرار دے کر ان پر جنگ مسلط کردی جاتی ہے۔
یہ وہ معروضی حقائق ہیں جن سے ہم بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ عالمی ابلیسی طاقتیں اور ان کے پیروکاراپنے ان سب جرائم کو جمہوریت، آزادی اور آئین کے خوشنما پردوں میں چھپانے کی کس طرح کوشش کرتے ہیں اور انسانی معاشروں کے فہیم طبقہ کے لیے کوئی راستہ باقی نہیں رہنے دیتے کہ وہ اپنے ملک و قوم اور ساری انسانیت کو ابلیسیت کے اس ملعون اور منحوس شکنجے سے نکالنے کے لیے اسلام کے جذبہ جہاد وقتال کو کام میں لائے۔ابلیس کی یہ داشتہ جمہوریت اسلام کے ماننے والوں پر لازم کرتی ہے کہ وہ ابلیس اور اس کی نمائندہ عالمی طاقتوں اور ان کے آلہ کار مسلم حکمرانوں کے اسلام کش اور انسانیت سوز جرائم پر زیادہ سے زیادہ بس ’’احتجاج ‘‘ کرلیا کریں۔اس ’’احتجاج‘‘ سے آگے بڑھ کر اگر انہوں نے ابلیس اور اس کے آلہ کارعالمی طاقتوں کے انسانیت سوز جرائم کے خلاف قرآن کے جذبہ جہاد و قتال سے کام لینے کی کوشش کی تواس کی انہیں کسی صورت اجازت نہیں دی جائے گی۔
افسوس صد افسوس جدید دور کا سامری اپنی آلہ کار عالمی طاقتوں کے ذریعے سے ساری دنیا کے انسانوں سے جو مطالبہ کررہا ہے عین وہی مطالبہ ہمارے نہایت محترم علمائے دین بھی کرنے لگ گئے ہیں۔

ایک غلط فہمی کا ازالہ: 

(1) ہم نہ ہی سیاسی حکومت کا قیام بذریعہ انتخاب(Election) کو حرام سمجھتے ہیں اور نہ ہی مسلمانوں کے دینی و دنیاوی استحصال پر احتجاج کو ناجائز قرار دیتے ہیں۔ہمارا اصل دکھ تو یہ ہے کہ ان ٹولز کو ضرورت اور کام چلانے کے ٹولز کے عام مقام پر رکھنے کی بجائے ہمارے قائدین اور دینی زعماء انہیں انسانیت کی یافت اور مسائل کا واحد حل بناکر پیش کررہے ہیں۔
(2) جہاد وقتال کے قرآنی و نبوی منہاج پر کب کیسے اور کس طرح عمل پیرا ہونا چاہیے، یہ ایک الگ معاملہ ہ اور اس پر اختلاف رائے کی پوری پوری گنجائش موجود ہے۔نیز یہ کہ جس طرح دین کے کسی بھی جز اور رکن کو اللہ کی رضا اور اخروی نجات کے جذبے کے تحت ادا کرنا مطلوب ہے اور ذاتی و دنیوی مقاصد کے حصول کے لیے دینی ارکان کی ادائیگی اللہ کے نزدیک بجائے اجر کے الٹا عذاب کا باعث بنادیتی ہے بالکل اسی طرح ’’جہاد و قتال‘‘ کے قرآنی حکم کو ذاتی اغراض اور مفادات کے لیے استعمال کرنے کی شدید حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔
لیکن سوچنے کا مقام ہے کہ پاکستان کے اس ’’بازار‘‘ میں یہ جعلی پراڈکٹ اتنی زیادہ کیوں بک رہی ہے؟کہیں ایسا تونہیں کہ قرآن وسنت جیسی اعلیٰ ترین نعمت کی ناقدری وخلاف ورزی اور ایمان و اخلاق کے معاملہ میں افلاس و قحط زدگی میں مبتلا غافل قوم کی غفلت کا فائدہ اٹھا کرعالمی ابلیسی قوتوں نے اسلام،مسلمانوں اور مذہبی قوتوں کو بدنام کرنے اور برائی کا سمبل ثابت کرنے اور مسلم ممالک کو بدترین خانہ جنگی میں دھکیلنے کے لیے ایک طرف جعلی مجاہدین بناکرانہیں مسلم علاقوں کا امن تباہ کرنے اور مسلم افواج سے لڑائی پر لگادیا۔تاکہ اس طرح مسلم علاقوں کا امن وامان بھی تباہ و برباد کردیاجائے اور مسلمانوں کی اعلیٰ ترین دفاعی قوت(جہاد و قتال‘)کوبھی دہشت گردی کا نام دے کرنہ صرف غیرمسلم دنیا بلکہ غفلت ومعاصی میں ڈوبی ہوئی مسلم دنیا میں بھی اسے برائی کا ایک سمبل بناکررکھ دیاجائے۔اوراپنے اس جعلی جہاداورجعلی مجاہدین کے ذریعے سے اصلی جہاد اور اصل مجاہدین کو بدنام اور ان کا چہرہ مسخ کرکے رکھ دیاجائے۔جبکہ قرآن وسنت نہایت شدومد سے مسلمان اور جذبہ جہاد کو لازم و ملزوم قرار دیتے ہیں۔حدیث نبوی کی رو سے جس کے اندر شہادت کی آرزو نہیں اور اس کی اس حالت میں موت واقع ہوگئی تو اس کی موت ایک قسم کے نفاق پر ہوئی۔جبکہ پاکستانی معاشرے میں ’’ایمان اور جہاد‘‘ کی دعوت اور محنت ایک اجنبی دعوت بن چکی ہے۔ ہم اجتماعی طور پرایک طرف اگر ایمان کی آبیاری، ایمان کے احیا اور سیرت و اخلاق کے تزکیہ سے غافل و لاپرواہ ہیں اور اس طرح امت مسلمہ کے محوری و مقصدی اورداخلی حصار سے بدترین غفلت کا مظاہرہ کررہے ہیں تو دوسری طرف امت مسلمہ کے خارجی حصار یعنی جذبہ جہاد وقتال کی آبیاری، آگاہی، اس کی متوازن تعلیم اور اس کی حکیمانہ ومومنانہ تربیت سے ہم تہی دست اور بانجھ ہوچکے ہیں۔اوراس نہایت اہم ترین فریضہ(ایمان و جہاد)پر اپنی توجہات کو مرکوز کرنے کی بجائے ہم اپنی قو م کو ’’اسلام کا نفاذ بذریعہ جمہوری واحتجاجی تحریک‘‘کا لالی پاپ دیے چلے جارہے ہیں جس کے بارے میں علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا:
اٹھاکر پھینک دوباہرگلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے 
ہمیں مولانا زاہدالراشدی اور دیگرمسلم مفکرین کے اخلاص پہ کوئی شبہ نہیں ہے۔اور ہمارے خیال میں ان کی زیربحث متنازعہ سوچ کی پشت پر بھی’’نئی تہذیب کے ان گندے انڈوں‘‘ کو ایک جبراور مجبوری (لادینیت )سے نجات کے لیے بطورہتھیاراستعمال کرنے کا مبارک جذبہ کارفرما ہے۔اور’’جہاد‘‘ کے نام پر مسلم معاشروں کو بدترین بدامنی اورخانہ جنگی کی طرف دھکیلنے سے بچانابھی مطلوب ہوسکتا ہے۔ہم ان کے ان مبارک احساسات کی دل کی گہرائیوں سے قدر کرتے ہیں۔لیکن ہم نہایت ادب سے عرض کرنا چاہتے ہیں کہ جدید شیطانی تہذیب کی طرف سے مسلط کردہ جبراور مجبوری(لادینیت) سے نجات کے لیے اسی تہذیب کے ٹولزمیں جزوی ترامیم کرکے انہیں اسلامی مقاصد کے لیے استعمال کرنا اوراس کی عظمت کے گن گائے بغیر اسے ایک عارضی ضرورت سمجھناایک الگ معاملہ ہے، عقل و شریعت جس کی تائید کرتی ہیں۔لیکن وقتی ضرورت کے ان عارضی ٹولز کو اسلام کے غلبہ کے لیے واحد منہاج قرار دے دینااور اسے انسانیت کے لیے ایک عظیم نعمت قرار دے دینانہ صرف مبالغہ آمیزی ہے بلکہ اسے اس حد تک اہمیت دینا کہ اسلام کا ’’جہاد و قتال‘‘ کا تصوردب جائے اور پس پردہ چلا جائے(اور مغرب کی ابلیسی طاقتوں کی چلائی گئی مہم کہ جہاد فساد ہے کی تائیدہوتی محسوس ہو) تو ہمارے نزدیک ایک مثبت اورمبارک جذبہ کے تحت وقوع پذیر ہونے والی سوچ مبالغہ اور عدم توازن کا شکار ہوکرلاشعوری اوربالواسطہ طور پراسلام کے تصور جہادوقتال کی توہین اور تنقیص کی مرتکب ہورہی ہے۔
جب دنیا کا منظرنامہ یہ صورتحال پیش کررہا ہو کہ پوری دنیا میں’’جمہوریت ‘‘ کے نام پر انسانیت کی بدترین تذلیل اور استحصال ہورہا ہو۔ساری دنیا کی حکومتیں جمہوریت کا نام لے کراپنے عوام کی ’’روح اور جسم‘‘ ہردوکا slowly & steadily گلا دبارہی ہوں۔ابلیس کی آلہ کار عالمی طاقتیں اسلام اور جمہوریت کو ایک دوسرے کی ضد ثابت کرنے پر تلی ہوں۔دنیا کے ہر کونے میں ’’جمہوریت ‘‘ کے نام پر اسلامی اقداراور اس کی علامتوں(حیا،پردہ،حجاب، داڑھی)کو چن چن کر ختم کرنے کی کوششیں ہورہی ہوں اورجہاں بس چلے (مثلاً فلسطین، چیچنیا، کوسوو، بوسنیا، میانمار، کشمیر، عراق، افغانستان میں) مسلمانوں کو بھی چن چن کر مار دیا جائے۔ عالمی ابلیسی قوتوں کے آلہ کارحکمران طبقات کومسلم معاشروں میں جمہوریت کے نام پرکرپشن، بددیانتی، بدعہدی، لوٹ مار، قانون شکنی، غریب کا گلا گھونٹنے،ظلم و فساد کا بازارگرم کرنے، تعلیم، صحت،قانون،عدالت،امن غرض ہرشعبہ زندگی کی ’’حیات’’ کا گلا نہایت مکاری، منافقت، سفاکی اور بے حسی سے گھونٹنے کی کھلی چھوٹ دے دی جائے۔ان مقاصد کے حصول کے لیے عالمی طاقتوں کاابلیسیت کی تمام طاقتوں سے مسلح ہوکراپنے آلہ کار مسلم حکمرانوں کی مکمل سرپرستی کرنااور بار بار جمہوریت کا راگ الاپناوہ بدترین فعل ہے جس نے مسلم ممالک میں بدترین فساد،بربادی،تباہی، انارکی کا ایک ناختم ہونے والا منحوس چکر چلایا ہوا ہے۔جمہوریت کے نام پر مسلم ممالک کا تعلیمی شعبہ مغربی دہشت گردی کا شکار ہے، ہمارا صحت کا شعبہ ابلیسی دہشت گردی کا شکار ہے، ہمارا عدالتی نظام قانون کے نام پر بے انصافی اورانصاف میں تاخیرکی خوفناک دہشت گردی کا شکار ہے،ہماری معیشت، ہماری معاشرت، ہمارے ذرائع ابلاغ غرض زندگی کا ہر ہر موثروقابل ذکر شعبہ ابلیسی دہشت گردی کا شکار ہے۔اور ہم اس بدترین زوال، اس بدترین دہشت گردی کا شکار ہونے کے باوجود۔۔۔اور تسلسل کے ساتھ مسلم معاشروں کے ہر شعبہ زندگی پر مغرب کے ابلیسی فکری و عملی دہشت گردانہ حملوں کی موجودگی میں تنازعات کو صرف’’جہاد بذریعہ غیرمسلح احتجاجی تحریک‘‘میں سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں ۔یہ رویہ نہ صرف جہاد بمعنی قتال میں مداہنت کے ارتکاب پر مبنی ہے بلکہ مسلم ممالک اورساری انسانیت کو درپیش ابلیس کے شش اطراف دہشت گردانہ حملوں سے آنکھیں چرانے اور غض بصر کرنے کے مترادف ہے۔

پس چہ بایدکرد! 

ہمارے محترم قائدین کے لیے مستقل اور اصل لائحہ عمل یہ ہے کہ وہ قرآن وسنت پر پوری قوت سے کاربند ہوجائیں۔اپنے عمل ، اپنے کردار اور اپنے رویوں سے ایمان واخلاق کا ایسانمونہ پیش فرمائیں کہ مسلم عوام سیرت سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان زندہ نمونوں کو آئیڈیلائز کرنے پر آمادہ ہوجائیں جس کا نتیجہ ہوگا کہ امت مسلمہ کے ایمان اور اخلاق کے اجتماعی نمونہ کی کشش ساری دنیا کے باضمیرانسانوں کو اپنی طرف مائل کرے گی۔اور ساری دنیا کے اذہان کو قرآن اور سنت نبوی کا زندہ، مثبت اور پُرکشش پیغام متاثرکرے گا۔مستقل اور اصل لائحہ عمل کے ساتھ پیہم وابستگی اور تمسک کرنے کے ساتھ ساتھ اس وقتی واضطراری لائحہ عمل کے جواز کوتسلیم کیاجاسکتا ہے کہ ہماری دینی قوتیں اپنے اصل فرض منصبی اور مستقل لائحہ عمل کو ترک کیے بغیراپنے اپنے ملکوں کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام دینی قائدین و مسلم زعماء کے اتفاق رائے سے نفاذ اسلام کے لیے انتخاب یا احتجاج کا اضطراری آپشن استعمال کریں۔اگرچہ ہماری رائے میں مغرب کی عالمی ابلیسی قوتوں نے یہ اٹل فیصلہ کیا ہوا ہے کہ انہوں نے ان دونوں آپشنز کو غلبہ اسلام اور نفاذ دین کاذریعہ کسی صورت نہیں بننے دینا۔دوسرے لفظوں میں اسلام کا نفاذمغربی طاقتوں کے لیے کسی صورت قابل برداشت نہیں۔لہٰذاان آپشنز کو صرف ایک وقتی مجبوری اوراضطرارسمجھیں ۔لہٰذا اس طریقہ کے ذریعے نفاذ اسلام میں ناکامی کی صورت میں انہیں لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیں،نہ کہ نفاذ اسلام کے لیے اسے کائنات کا بہترین اور واحد ممکن ترین طریقہ ثابت کرنے پر اپنی توانائیاں اور وقت ضائع کرتے چلے جائیں۔
اس تناظر میں اس اضطراری آپشن کا نہایت محتاط اور صرف بوقت ضرورت استعمال کے جواز کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ ہماری دینی قوتوں کا فرض ہے کہ وہ جمہوریت کے خوشنما چہرے میں چھپی ہوئی بدترین شیطنیت کا ادراک کریں اور جدید،روشن خیال تہذیب کے عنوان سے پچھلے دو سوسالوں سے ابلیسیت کی نمائندہ عالمی طاقتوں کی انسانیت (اور انسانیت کے حقیقی محافظ اسلام)کے خلاف اعلان جنگ کا پردہ چاک کرتے ہوئے اپنے اپنے دائرہ کار میں(تعلیم اور ابلاغ کے ذریعے سے)ایمان اور جہادوقتال کے قرآنی و نبوی منہاج کی دعوت کوڈسپلن بنیادوں پر استوار کریں۔
ہماری دینی قوتوں پر ہردم یہ واضح رہنا چاہیے کہ ایمان واخلاق نہ صرف تمام شعبہ ہائے حیات کی اصلاح کا مستقل اورابدی نبوی منہاج اور حل ہے بلکہ انسانی شعبہ ہائے حیات پر ابلیسیت کے جابرانہ اورقاتلانہ حملوں،امن کے خلاف ابلیس کے پیدا کردہ فساد، دہشت گردی اورجنگ کے تدارک کے مستند ترین اور کائنات کے رب کے محبوب ترین علاج ’’جہاد و قتال‘‘ کا بھی داخلی محافظ و نگہباں ہے جبکہ جہاد وقتال ایمان واخلاق کا خارجی محافظ ہے۔آج مسلم عوام کو، مسلم اساتذہ کو، مسلم صحافیوں کو، مسلم ذرائع ابلاغ کو، مسلم حکمرانوں کواور مسلم مسلح افواج کو ابلیسیت کے شش اطراف انسانیت کش حملوں سے بچانے کا اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے کہ اان کے فکر و عمل کو ’’ایمان واخلاق‘‘کی ابدی طاقت اور ‘‘جہاد قتال‘‘کی ہنگامی ربانی طاقت سے مسلح کرنے میں ہمارے قائدین اور مفکرین مسلسل، پیہم اور بلاتعطل جدوجہد پر اپنی صلاحیتوں کو مرکوز فرمائیں۔اس جدوجہدسے غفلت اورعدم توجہی نے انسانیت کی روح کو ’’موت و حیات‘‘ کی کشمکش میں مبتلا کیا ہوا ہے۔اگرہمارے نہایت محترم قائدین کسی مجبوری یا عذرکی وجہ سے اپنی اصل اور مستقل ذمہ داری نباہنے سے قاصر ہیں تو ہم نہایت ادب سے عرض کریں گے کہ وہ کم از کم امت مسلمہ کے وقاراور اسلام کے نفاذکو ان وقتی ہنگاموں،احتجاجی جلوسوں اور لانگ مارچوں سے مشروط کرنے کا سبق نہ پڑھائیں، جنہیں آزما آزما کرحضرت انسان تھک چکا ہے مگرمنزل ہے کہ ہاتھ لگتی ہی نہیں۔ یہ فرسودہ احتجاجی ہتھکنڈے(بمعنی منظم اورپرامن احتجاجی تحریکیں) کم از کم پچھلے ایک سوسال سے مسلم سیاسی ومذہبی تحریکوں کے زیرعمل ہیں۔۔۔لیکن نتیجہ سب کے سامنے ہے،دنیا میں غلبہ واقتدار اور دین کا احیا تو کیا ہوتا، الٹا ایمان اورمذہب کی رہی سہی قدریں بھی اس راہ میں گم ہوکر رہ گئیں۔سوال کیاجاسکتا ہے کیوں؟ اس کا سادہ سا جواب ہے کہ اضطرار کو اضطرار کے مقام پر رکھنے کی بجائے اسے اوڑھنا بچھونا بنالیاگیا اوراس غیر فطری اصرار اور جنون میں وہ اپنا اصل اور مستقل لائحہ عمل بھلاتے اور پس پشت کرتے چلے گئے۔
ماضی وحال کا ذرا باریک بینی سے ہم مشاہدہ کرتے ہیں توصاف نظرآتا ہے انسانیت کے اجتماعی ضمیر نے جب بادشاہت اور کلیسا کے انسانیت کش گٹھ جوڑ کے ظالمانہ شکنجے سے نکلنے کے لیے اپنے شدید غم وغصہ کا اظہار بذریعہ ایک غیرمسلح احتجاجی تحریک کیا تواس کے نتیجے میں دنیا ’’بادشاہت اور کلیسا‘‘ کے جبر اور تسلط سے تو نکل آئی مگرابلیس نے فوراً اپنا لباس تبدیل کرلیا اورنتیجتاً دنیامغرب کے عیار،بے حس،مکار اور انسانیت دشمن جمہوریت پسندتاجروں کے تسلط میں پھنس گئی اور بیسویں صدی کے یہی جمہوری درندے تھے جن کے درمیان دو عالمگیر جنگیں برپا ہوئیں جس میں کروڑوں انسان ہلاک ہوئے، کسی جنگ میں اتنی بڑی تعداد میں انسانوں کی ہلاکت تاریخ انسانی میں صرف پہلی بار ہوئی، ان جمہوریت پرست درندوں نے براعظم امریکہ کے کروڑوں انسانوں کو چن چن کرجانوروں کی طرح ہلاک کیا۔اور آج تک یہ انسانیت دشمن، ابلیس کے پیروکار، حیا اور اسلام سے دہشت زدہ جمہوری درندے ساری دنیا پر مسلط ہیں۔ اگرجمہوریت نے مغرب کے ان درندہ صفت انسانوں میں کوئی تبدیلی پیدا کی ہوتی (جو Dark Agesمیں بھی بالکل درندوں ہی کی طرح ایک دوسرے کا گلا کاٹتے رہتے تھے)تویہ انسانیت کوعقیدہ و فکر کی آزادی دیتے، انسانیت کے لیے زندگی کی ضروریات وسہولیات کا حصول (ارزاں ترین قیمت پر)آسان ترین کردیتے،اسلام اور حیا کو اپنا سب سے بڑا دشمن نہ سمجھتے، دولت، سائنس اور ٹیکنالوجی کو ساری دنیا کے انسانوں کے دکھ ،درداور مسائل دور کرنے کے لیے استعمال کرتے، جنگی جنون اور مہلک ایٹمی و کیمیاوی ہتھیاروں سے اپنے آپ کو مسلح نہ کرتے۔مگر آج دنیا کا جو منظر نامہ ہے وہ ان مثبت باتوں کے بالکل الٹ ہے۔ان مہلک نتائج کو دیکھ کر ہی حضرت علامہ اقبال کو آج سے قریباً سو سال پہلے کہنا پڑا:
تیری حریف ہے یا رب سیاست افرنگ
مگر ہیں اس کے پجاری فقط امیر و رئیس
بنایا ایک ہی ابلیس آگ سے تونے
بنائے خاک سے اس نے دو صد ہزار ابلیس
(نوٹ: جمہوریت کے مکروہ اور وحشی چہرے سے یوں پردہ اٹھتا دیکھ کر عام امن پسند انسان کے ذہن میں سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ پھر موجودہ دنیا کے لیے قابل عمل سیاسی نظام کون سا ہوسکتا ہے تواس کا جواب ہے خلافت۔اس ضمن میں عملی پیچیدگیوں کی وضاحت کی لیے مولانا زاہد الراشدی صاحب کی کتاب’’اسلام ،پاکستان اور جمہوریت‘‘میں قابل قدرمواد موجود ہے ،ان سطور کے حقیر راقم کا یہ مضمون اس کتاب کے آخری باب کا نقدلیے ہوئے ہے۔جبکہ خلافت کے مقاصدکے حوالے سے ڈاکٹر محمودغازیؒ کی کتاب’’محاضرات شریعت‘‘ میں بے حد مفید مواد دستیاب ہے) 
اسلامی انقلاب بذریعہ غیر مسلح مزاحمت کوبطورایک فلسفہ اورمستقل منہاج بتانے والوں کی سوچ زمینی حقائق سے کس قدرنابلداورلاتعلق ہے؟اوربظاہر ایک نہایت سنجیدہ فلسفہ ہونے کے باوجود اس میں کس قدرلطیفے پنہاں ہیں۔۔۔یہ کہانی پھرسہی۔ طوالت کے خوف سے ہم اپنی گذارشات کو یہیں پہ ختم کرتے ہیں اور اپنے بزرگوں سے امید کرتے ہیں کہ وہ ہماری گذارشات پر ضرور غورفرمائیں گے۔اختلاف رائے میں اگر کہیں حدادب سے تجاوز ہوا ہو تو اپنی درج ذیل کیفیت کی وجہ سے ہم دل کی گہرائیوں سے معذرت خواہ ہیں:
گفتار کے اسلوب پہ قابونہیں رہتا
جب روح کے اندر متلاطم ہوں خیالات

میاں محمد عارف ایڈووکیٹ کا انتقال

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

۱۴ مارچ، جمعۃ المبارک کو صبح اذان فجر ہو رہی تھی کہ قاری محمد یوسف عثمانی صاحب نے فون پر اطلاع دی کہ میاں محمد عارف صاحب کا انتقال ہوگیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ دو روز قبل میں ان سے مل کر آیا تھا، ان کا ہارٹ کا آپریشن ہوا تھا اور بظاہر کامیاب ہوگیا تھا۔ ہم خوش تھے کہ آپریشن کامیاب ہوگیا ہے اور وہ بھی حالات حاضرہ پر حسب معمول گفتگو کر رہے تھے۔ ہم نے اجازت چاہی تو کہا کہ آنا اپنی مرضی سے ہوتا ہے لیکن جانا ہماری مرضی سے ہوگا، اس لیے چائے پیے بغیر نہیں جا سکیں گے۔ اس بہانے کچھ دیر ان کے ساتھ گفتگو رہی جو زیادہ تر حالات حاضرہ اور حکومت طالبان مذاکرات کے بارے میں تھی۔ وہ مولانا سمیع الحق کے بارے میں پریشان تھے کہ وہ اس بڑھاپے میں بہت بڑی آزمائش سے دو چار ہوگئے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ جب سے مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا ہے، میں بھی مولانا سمیع الحق کے لیے مسلسل دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی عزت اور بھرم کو قائم رکھیں، وہ ہمارے شریف اور باوقار بزرگوں میں سے ہیں، آمین یا رب العالمین۔
میاں محمد عارف کا تعلق گوجرانوالہ کی انصاری برادری سے تھا۔ ان کا خاندان تقسیم ملک کے بعد امرتسر کے علاقہ سے ہجرت کر کے گوجرانوالہ میں آباد ہوا تھا اور پل لکڑ والا کے قریب گلی آسا ملتانیہ میں ان کی رہائش تھی۔ ان کے والد محترم میاں رحیم بخش انصاری نیک دل اور خداترس بزرگ تھے، کپڑے کا کاروبار کرتے تھے، پرانے ریلوے اسٹیشن کے سامنے ریل بازار میں سفینہ کلاتھ مارکیٹ میں ان کی بیڈ شیٹ وغیرہ کی دکان ہے اور ایک فیکٹری بھی ہے جس میں اسی نوعیت کی چیزیں تیار ہوتی ہیں۔ میاں رحیم بخش صاحب مرحوم والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ کے قریبی ساتھیوں اور معتقدین میں سے تھے، اور حضرت والد محترمؒ کے بارے میں اپنی عقیدت و محبت کا اظہار ان الفاظ میں کیا کرتے تھے کہ ’’وہ اس صدی کے مجدد ہیں‘‘۔ 
میاں محمد عارف مرحوم کے ساتھ میرا تعلق اس دور میں قائم ہوا جب وہ کالج کے اسٹوڈنٹ تھے اور میں نصرۃ العلوم میں آخری درجات کا طالب علم تھا۔ جمعیۃ طلباء اسلام کی تشکیل کا مرحلہ تھا، اس موقع پر ہمارے استاذِ محترم مولانا حافظ عزیز الرحمنؒ کو جمعیۃ طلباء اسلام کا گوجرانوالہ میں صدر چنا گیا اور میاں محمد عارف سیکرٹری چنے گئے، جبکہ مجھے نائب صدر بنایا گیا۔ وہیں سے ہماری جماعتی اور تحریکی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ باہمی ربط و تعلق کا آغاز ہوا جو کہ کم و بیش پینتالیس برس جاری رہنے کے بعد اس دنیا میں ان کی وفات پر ختم ہوگیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ 
حضرت حافظ الحدیث مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ اور حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ کے ساتھ عقیدت و محبت کا گہرا رشتہ تھا۔ حضرت درخواستیؒ ان کے گھر تشریف لایا کرتے تھے اور بہت شفقت فرمایا کرتے تھے۔ ان دونوں بزرگوں کے ساتھ میرا تعلق بھی اسی نوعیت کا تھا اور خانپور اور شیرانوالہ کی حاضری ہمارے لیے ’’ایمان کی تازگی‘‘ کا باعث ہوا کرتی تھی۔ میں جمعیۃ طلباء اسلام میں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد جمعیۃ علماء اسلام میں منتقل ہوگیا جبکہ میاں صاحب مرحوم ایل ایل بی سے فراغت کے بعد جمعیۃ طلباء اسلام میں ہی متحرک رہے اور اپنی محنت اور صلاحیتوں کے باعث بڑھتے بڑھتے مرکزی صدر کے منصب تک جا پہنچے۔ جماعتی اور تحریکی سرگرمیوں کے دوران حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ ، حضرت مولانا مفتی محمودؒ ، حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ ، حضرت مولانا سید نفیس الحسینی ؒ ، حضرت مولانا محمد اکرمؒ اور دیگر بزرگوں کے ساتھ مسلسل رابطے رہتے تھے اور میاں محمد عارف کو ان بزرگوں سے خوب استفادہ اور رفاقت کا شرف حاصل ہوا۔
حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی وفات کے بعد جب جمعیۃ علماء اسلام دو حصوں میں بٹ گئی تو میری طرح میاں محمد عارف مرحوم بھی حضرت درخواستیؒ کے ساتھ تھے اور بہت پر جوش اور متحرک تھے۔ ہمارا مزاج ایک دوسرے سے مختلف تھا، میں ہمیشہ موقف میں بے لچک مگر طرز عمل اور گفتگو میں نرم رو رہا ہوں۔ میاں صاحبؒ دونوں حوالوں سے بے لچک اور سخت تھے جس کا اظہار وہ بے باکی کے ساتھ کرتے تھے بلکہ بعض دوست تو ان کے غصے کا نظارہ کرنے کے لیے اس قسم کے مسائل ان کے سامنے چھیڑ دیا کرتے تھے۔ 
گوجرانوالہ میں قدیم اور جدید تعلیم کے امتزاج کے ساتھ ایک نیا تعلیمی ادارہ قائم کرنے کا کچھ دوستوں نے پروگرام بنایا تو وہ بھی شروع ہی سے ہمارے رفیق کار تھے۔ شاہ ولی اللہ یونیورسٹی جو کہ اب جامعہ شاہ ولی اللہؒ کے نام سے جامعۃ الرشید کراچی کی شاخ کے طور پر کام کر رہی ہے، اسی پروگرام کا نتیجہ ہے جس کے لیے الحاج میاں محمد رفیق مرحوم کے ساتھ میاں محمد عارف مرحوم بھی ایک عرصہ تک سرگرم عمل رہے اور اب بھی وہ جامعہ شاہ ولی اللہؒ کے مشاورتی نظام کاحصہ تھے، اور اس کی بہتری اور ترقی کے لیے آخر دم تک فکر مند رہے۔ 
جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں ایک مرحلہ میں بعض انتظامی معاملات میں تنازعہ نے شدت اختیار کر لی اور معاملات عدالتوں تک جا پہنچے تو حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ کے ساتھ پورے شد و مد اور جوش و خروش کے ساتھ کھڑے ہو کر مقابلہ کرنے والے دوستوں میں میاں محمد عارف سر فہرست تھے۔ وہ مدرسہ کی کمیٹی کے صدر بھی بنے اور وفات تک رہے۔ شہر کے بلدیاتی انتخابات میں انہوں نے کئی بار حصہ لیا، اپنے حلقہ کے کونسلر اور ناظم رہے اور ایک موقع پر ڈپٹی میئر کے منصب پر بھی فائز ہوئے۔ 
مولانا سمیع الحق کے ساتھ ان کا بہت گہرا تعلق تھا، اور وہ ان کے مشیر خاص سمجھے جاتے تھے۔ جمعیۃ علماء اسلام (س) کے مرکزی نائب امیر تھے اور جماعت کی پالیسی سازی میں ان کا اہم کردار ہوتا تھا۔ گزشتہ دنوں مولانا سمیع الحق نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالہ سے مختلف مکاتب فکر کے راہ نماؤں کو اعتماد میں لینے کے لیے لاہور کے ایک ہوٹل میں کل جماعتی کانفرنس کی تو مجھے وہاں میاں محمد عارف دکھائی نہ دیے جو میرے لیے حیرت اور تعجب کی بات تھی۔ دوستوں سے دریافت کیا تو پتہ چلا کہ وہ بیمار ہیں اور انہیں ہارٹ کی تکلیف ہوگئی ہے۔ دوسرے دن فون پر ان سے حال پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ انجیو گرافی کے لیے لاہور جا رہے ہیں۔ ایک دو روز کے بعد پھر حال معلوم کیا تو پتہ چلا کہ ان کا ہارٹ کا آپریشن ہوا ہے اور وہ گوجرانوالہ واپس آگئے ہیں۔ گزشتہ روز ان کی عیادت کے لیے جلیل ٹاؤن ان کے گھر گیا جس کا حال پہلے لکھ چکا ہوں، اور آج صبح ان کے انتقال کی خبر مل گئی ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
آج میں ایک مخلص، پر جوش اور درد دل سے بہرہ ور ساتھی کی پینتالیس سالہ رفاقت سے محروم ہوگیا ہوں۔ سوچتا ہوں کہ اب مجھ سے جھگڑے کون کرے گا، تلخ و تند لہجے میں اختلاف کون کیا کرے گا اور ملی و قومی مسائل پر گہرے رنج و اضطراب کے ساتھ اظہار خیال کس سے سننے کو ملے گا؟ اللہ تعالیٰ ان کی حسنات قبول فرمائیں، سیئات سے درگزر کریں اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

الشریعہ اکادمی کی سرگرمیاں

ادارہ

  • دسمبر ۲۰۱۳ء جنوری ۲۰۱۴ء میں اکادمی کے زیر اہتمام دینی مدارس کے طلبہ کے لیے جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں ۴۰ روزہ عربی بول چال کورس کا، جبکہ جنوری تا مارچ ۲۰۱۴ء کے دوران میں انگریزی بول چال کورس کا انعقاد کیا گیا۔
  • ۲۳  فروری کو مولانا زاہد الراشدی نے الشریعہ اکادمی میں پندرہ روزہ فکری نشست سے خطاب کیا۔ حالیہ نشستوں میں ’’تصوف اور عصرحاضر‘‘ کے عنوان پر تسلسل سے گفتگو جاری ہے۔
  • برصغیر کے ممتازسیرت نگارومحقق ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی ۷ اور ۸ مارچ بروز جمعہ وہفتہ گوجرانوالہ کے دو روزہ دورے پر تشریف لائے۔ اس دوران میں انھوں نے گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ کے زیر اہتمام منعقدہ سیرت سیمینار میں خطاب کرنے کے علاوہ وزیر آباد میں گورنمنٹ ظفر علی خان ڈگری کالج کے شعبہ علوم اسلامیہ کے زیر اہتمام منعقد کیے گئے سیرت سیمینار میں کلیدی خطبہ دیا، جبکہ ۸ مارچ کو الشریعہ اکادمی میں علماء وطلبہ کی ایک مختصر نشست میں’ ’سیرت نگاری کے جدید اور عصری تقاضے‘‘ کے عنوان پر گفتگو فرمائی۔
  • ۱۸ مارچ کو الشریعہ اکادمی میں جمعیت علماءِ اسلام(س)کے مرکزی نائب امیراور گوجرانوالہ کے سابق ڈپٹی مئیر میاں محمد عارف ایڈووکیٹ کی وفات پر تعزیتی نشست مولانا عبدالرؤف فاروقی صاحب کی صدارت میں منعقد ہوئی جس میں مولانا زاہدالراشدی، مولانا محمد رمضان علوی، مولانامفتی محمد سیف الدین، میاں محمد طارق ایڈووکیٹ، میاں فضل الرحمن چغتائی اور جناب محمد فاروق شیخ نے خطاب کیا۔ میاں صاحب مرحوم کی دینی وملّی خدمات پر خراجِ عقیدت پیش کیا گیا اور ان کے لیے دعائے مغفرت کی گئی۔
  • اکادمی کے زیر انتظام مدرسۃ الشریعہ میں زیر تعلیم درسِ نظامی سالِ سوم کے طلبہ مارچ کے دوران میں گوجرانوالہ بورڈ کے تحت دسویں جماعت کے امتحانات سے فارغ ہو گئے جبکہ سالِ دوم کے طلبہ کے نویں جماعت کے امتحانات جاری ہیں۔
  • الشریعہ اکادمی کے زیر انتظام مدرسۃ الشریعہ، سالِ سوم کے طالبِ علم محمد امتیاز اورمحمد ابو بکر صدیق نے پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے زیر اہتمام تعلیم کے موضوع پر منعقد ہونے والے مقابلۂ مضمون نویسی میں حصہ لیا اور اعزازی اسناد کے حقدار قرار پائے۔

مولانا زاہد الراشدی کے اسفار

ادارہ

اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے گزشتہ ماہ کے دوران میں مختلف شہروں میں درج ذیل تقریبات اور مجالس میں شرکت اور خطاب کیا:
  • ۲۱ فروری کوجامع مسجد چمن شاہ میں بعد نمازِ مغرب عالمی مجلس تحفظ ختمِ نبوت کی تربیتی نشست سے خطاب۔
  • ۲۲ فروری بعد نمازِ عشاء تلونڈی کجھور والی میں شہداء کانفرنس سے خطاب۔
  • ۲۳ فروری کو چیمبر آف کامرس گوجرانوالہ کے ہال میں بزمِ حفاظ قرآنِ کریم گوجرانوالہ کے زیر اہتمام تحفیظ القرآن کے سالانہ پروگرام سے خطاب۔
  • ۲۳ فروری کو مغرب کے بعد جامعہ فاروقیہ،شیخوپورہ میں ایک دینی اجتماع سے خطاب۔
  • ۲۵ فروری کو ظہر کے بعدجامعہ تعلیماتِ اسلامیہ،فیصل آباد میں تحریکِ انسدادِ سود کے موضوع پر منعقدہ سیمینار کی صدارت۔ سیمینار میں سرکردہ علماء کرام، تاجر حضرات اور بینکنگ سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے شرکت کی جبکہ ڈاکٹر زاہد اشرف، مولانا ارشاد الحق اثری، مولانا مفتی محمد زاہد، مولانا یاسین ظفر، جناب حامد اشرف، جناب معظم خلیل، جناب محمود احمد کمبوہ، جناب محمد آفاق شمسی اور پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر نے خطاب کیا۔ 
  • ۲۵ فروری کو مغرب کے بعد ادارہ مرکزیہ دعوت وارشاد، چنیوٹ میں سالانہ فتحِ مباہلہ کانفرنس سے خطاب ۔
  • ۲۶ فروری کو ایوانِ اقبال،لاہور میں انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کی سالانہ عالمی فتح مباہلہ کانفرنس سے خطاب
  • ۲۷ فروری کوبعد نمازِ مغرب گکھڑ کے قریب بستی کولار میں حفاظ کی دستار بندی کے ایک پروگرام سے خطاب۔
  • ۲۸ فروری کو دارالعلوم تعلیم القرآن،راجہ بازار،راولپنڈی میں جمعۃ المبارک کے اجتماع سے خطاب۔
  • ۲۸ فروری کو جامعہ رحمانیہ،ماڈل ٹاؤن ہمک ،اسلام آبادمیں سودی نظام کی نحوست کے موضوع پر گفتگو۔
  • یکم مارچ کو فیصل مسجد، اسلام آباد کے اقبال ہال میں اتحادِ امت کانفرنس سے خطاب۔
  • یکم مارچ کو مارگلا ٹاؤن اسلام آباد میں ’’وسطی ایشیا میں فقہ حنفی کے ارتقاء‘‘ کے موضوع پر پروفیسر ڈاکٹر رفیع الدین احمد کی تصنیف کی تعارفی تقریب میں شرکت۔ یہ کتاب جامعہ کراچی میں ڈاکٹر نثار احمد صاحب کی نگرانی میں ڈاکٹریٹ کے مقالہ کے طور پر لکھی کی اور گئی چھ سو سے زائد صفحات پر مشتمل ضخیم کتاب کی صورت میں شائع ہوئی ہے۔ تعارفی تقریب میں آزاد کشمیر کے بزرگ عالم دین حضرت مولانا محمد اسحاق خان المدنی اور علامہ اقبالؒ اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے وائس چانسلر جناب ڈاکٹر علی اصغر چشتی بھی شریک تھے۔
  • یکم مارچ کو جامعہ رحمانیہ ماڈل ٹاؤن ہمک اسلام آباد میں سودی نظام کے خلاف مہم کے سلسلہ میں عمومی نشست میں شرکت۔ نشست سے شریعہ اکیڈمی اسلام آباد کے سابق ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی اور پاکستان شریعت کونسل کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری حافظ سید علی محی الدین نے بھی خطاب کیا۔ 
  • ۲ مارچ کوشاہدرہ لاہور میں ظہر کے بعد علامہ ڈاکٹرخالد محمود کے ادارہ جامعہ ملیہ کے سالانہ پروگرام میں حضرت شیخ عبدالقدر جیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ کی شخصیت وکردار کے موضوع پر خطاب۔
  • ۷ مارچ کومغل چوک گوجرانوالہ میں دینی مدرسہ کے جلسہ سے خطاب۔
  • ۸ مارچ کو چوک یادگار شہداء لاہور میں جامعہ حنفیہ قادریہ کے سالانہ جلسہ سے خطاب۔
  • ۱۰  مارچ کو اسلام آباد ہوٹل اسلام آباد میں ’’مجلس صوت الاسلام پاکستان‘‘ کے زیر اہتمام ’’تربیت علماء کورس‘‘ کے فضلاء میں تقسیم اسناد کی محفل میں شرکت۔ مجلس کے چیئرمین مولانا مفتی ابوہریرہ محی الدین، مولانا عبد القیوم حقانی، ڈاکٹر سعد صدیقی، ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی، ڈاکٹر دوست محمد، سینیٹر طلحہ محمود، جناب خورشید احمد ندیم، ڈاکٹر طاہر حکیم، اور دیگر سرکردہ علماء کرام اور ارباب دانش کے علاوہ اسلام آباد میں رابطہ عالم اسلام کے ڈائریکٹر جنرل الشیخ عبدہ محمد بن ابراہیم عتین نے بھی خطاب کیا۔ بزرگ عالم دین حضرت مولانا محمد اسحاق مدنی کی دعا پر یہ محفل اختتام پذیر ہوئی۔ 
  • ۱۵  مارچ کواسلام آباد میں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے سالانہ اجلاس میں شرکت اور مغرب کے بعد مرکزی جامع مسجد ابوبکررضی اللہ عنہ، جی-الیون-ون میں سودی نظام کے خلاف نشست سے خطاب۔
  • ۱۶ مارچ کو ظہر کے بعد جامعہ قاسمیہ گوجرانوالہ میں وفاق المدارس العربیہ کے ڈویژنل اجلاس کی صدارت۔
  • ۲۰  مارچ کو روڈ و سلطان ضلع جھنگ میں شیخ العلماء حضرت مولانا محمد عبد اللہ بہلوی قدس اللہ سرہ العزیز کے ادارے ’’خانقاہ بہلویہ‘‘ میں خانقاہ شریف کے سالانہ اجتماع میں شرکت اور گفتگو۔
  • ۲۰  مارچ کو عشاء کے بعد احمد پور سیال کی قدیمی درسگاہ جامعہ شمسیہ فخر المدارس کے سالانہ جلسہ کی ایک نشست میں سیرت نبویؐ کے موضوع پر خطاب۔ اس موقع پر اتحاد اہل سنت کے نو منتخب سیکرٹری جنرل مولانا مفتی شاہد مسعود کے ساتھ ملاقات اور ملک میں مسلکی جدوجہد کے حوالہ سے مختلف امور پر تبادلۂ خیالات ہوا۔
  • ۲۳ مارچ اتوار کو خوشاب میں ایک نئی مسجد کا سنگ بنیاد رکھنے کی سعادت۔
  • ۲۳ مارچ ظہر کے بعد دوسری جامع مسجد صدیق اکبرؓ میں ’’نظریہ پاکستان اور تحفظ مدارس دینیہ‘‘ کے عنوان سے کانفرنس میں شرکت۔
  • ۲۴ مارچ کو جلال پور جٹاں ضلع گجرات میں مولانا قاری میاں احمد صاحب کے مدرسہ جامعہ انوار القرآن کی سالانہ تقریب میں طلبہ کی دستار بندی اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے خطاب۔

فیثا غورث کے زریں اصول

حکیم محمد عمران مغل

فیثا غورث اپنے وقت کا جتنا بڑا سائنس دان تھا، اس سے کہیں بڑا ریاضی دان بھی تھا۔ اس نے جیومیٹری کے قائمۃ الزاویہ سے متعلق جو نظریات پیش کیے، انھیں بعد میں کوئی ریاضی دان چیلنج نہ کر سکا۔ اس کا ایک رونگٹے کھڑے کر دینے والا قول ہے کہ جسے ریاضی نہیں آتی، وہ اپنے آپ کو انسان نہ سمجھے۔ یہ شخص ایک بتی سے کئی تراشے دکھانے والا ریاضی دان تھا۔ 
فیثا غورث نے اپنی کامیابی اور علمیت کا راز تین باتوں میں بتایا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ پینے کے لیے کھلے منہ کا برتن ہونا چاہیے۔ (آج ہم صبح سے شام تک کولا پیتے ہیں، وہ بھی پائپ بوتل میں ڈال کر پیتے ہیں۔ بوتل کا منہ ویسے ہی چھوٹا ہوتا ہے۔) دوسری بات جلیل القدر فیثا غورث نے یہ بتائی کہ کھانے کے لیے موٹا آٹا ہونا چاہیے۔ (بند، ڈبل روٹی، کیک، بسکٹ، باقر خانی، کلچہ کے شیدائی اپنا انجام سوچیں۔) تیسری بات یہ بتائی کہ جوتا چمڑے کا ہونا چاہیے۔
بظاہر یہ بڑے سادہ لیکن حقیقت میں بہت انمول اصول ہیں۔ نت نئے پکوانوں کے فیشن نے ہمارے گردوں اور جگر کا ستیاناس کر دیا ہے۔ پیزا اور سموسے جس دستر خوان پر دیکھے گئے، انھیں صبح شام کسی نہ کسی کلنک پر حاضری دیتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے۔ ہیپا ٹائٹس اور جسمانی دردیں تو آج ہماری پہچان بن گئی ہیں۔ اس کے ساتھ فارمی مرغی کے بے تحاشا استعمال نے لوگوں کو خونی امراض میں مبتلا کر دیا ہے، اس لیے ہر چھوٹا بڑا خونی یا بادی بواسیر کی شکایت کر رہا ہے۔ فیثا غورث نے کبھی میدہ یا باریک آٹے کے متعلق سوچا بھی نہ ہوگا۔ اس غذا کا پہلا حملہ معدہ پر ہوتا ہے۔ یہیں سے معدہ بگڑتا ہے اور انسانی جسم میں شوگر کے مرض کی ابتدا ہوتی ہے۔ 

مئی ۲۰۱۴ء

اقبالؒ کا پاکستانمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ارکان پارلیمنٹ کے نام پاکستان شریعت کونسل کی عرض داشتادارہ
روس کے خلاف افغانوں کا جہاد: ایک مغالطے کا ازالہاکرم تاشفین
جناب عبد الستار غوریؒمحمد عمار خان ناصر
الشریعہ اکادمی میں بیتے دنمحمد عثمان فاروق
مکالمے کی نئی راہیںمحمد عامر خاکوانی
کیا مرزا قادیانی ہوش مند اور ذی فہم شخص تھا؟مولانا محمد یوسف لدھیانوی
مادی ترقی کا لازمہ ۔ واہمہ یا حقیقت؟محمد ظفر اقبال
’’سنٹر فار پالیسی ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ‘‘ کا قیاممولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مکاتیبادارہ
مولانا حکیم محمد یاسین کا انتقالمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا زاہد الراشدی کے اسفار اور خطاباتادارہ
شوگر کا بڑھتا ہوا مرض اور اس کے اسبابحکیم محمد عمران مغل

اقبالؒ کا پاکستان

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

حضرت مولانا بشیر احمد پسروریؒ کے پوتے مولانا حافظ محمد عثمان نے پسرور ڈسکہ روڈ پر دارالعلوم رشیدیہ کے نام سے ایک دینی درسگاہ کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ وہاں مسجد اقصیٰ کی طرز پر اسی عنوان سے ایک وسیع مسجد کی تعمیر کا پروگرام ہے۔ مولانا محمد عثمان کی خواہش تھی کہ مسجد کے سنگ بنیاد کی اینٹ رکھنے کی سعادت میں حاصل کروں جو میرے لیے اعزاز کی بات تھی اور میں اس پر ان کا شکر گزار ہوں۔ جبکہ اس سے چند میل کے فاصلہ پر بَن باجوہ میں معہد الرشید الاسلامی کے نام سے ایک دینی مرکز قائم ہے۔ ہمارے محترم دوست بھائی ذوالفقار صاحب اپنے دوستوں کے ہمراہ اس کا نظام چلا رہے ہیں۔ مڈل کے ساتھ حفظ القرآن کریم کا امتزاج قائم کر رکھا ہے اور مسلسل پیش رفت کر رہے ہیں۔ شہر کے محلہ امید پورہ میں بھی اس کی ایک شاخ مسجد بلال میں کام کر رہی ہے۔ وہاں تقسیم اسناد کا جلسہ تھا، معہد الرشید الاسلامی میں تعلیم حاصل کرنے والے چار حفاظ کی دستار بندی تھی، مجھے اس میں حفظ قرآن کریم کی اہمیت اور دینی مدارس کی خدمات پر گفتگو کرنا تھی۔ لیکن جب مسجد میں داخل ہوا تو کلاس کے لڑکے کھڑے ہو کر اجتماعی صورت میں علامہ محمد اقبالؒ کا مشہور ترانہ پڑھ رہے تھے جس کا ایک معروف شعر یہ ہے کہ ؂
چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
بچوں سے یہ ترانہ سن کر میرے ذہن کا رخ بھی اقبالؒ کی طرف مڑ گیا اور میں نے گفتگو اقبالؒ اور قرآن کریم کے عنوان سے شروع کی جو چلتے چلتے ’’اقبالؒ کا پاکستان‘‘ کے موضوع میں تبدیل ہوگئی۔ 
امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نوجوانوں کو نصیحت کیا کرتے تھے کہ وہ قرآن کریم کا مطالعہ ضرور کریں، اگر سید احمد شہیدؒ کی طرح نہیں کر سکتے تو اقبالؒ کی طرح ہی مطالعہ کرلیں۔ اس کا حوالہ دے کر میں نے گزارش کی کہ آج کل ہمیں تلقین کی جا رہی ہے کہ اقبالؒ کے پاکستان کی بات کریں اور اقبالؒ نے پاکستان کا تصور پیش کرتے ہوئے پاکستان کا جو ذہنی نقشہ پیش کیا تھا، اسے سامنے رکھیں۔ میں یہ بتانا چاہوں گا کہ اقبالؒ کا پاکستان کیا تھا اور مفکر پاکستان نے ایک نئی اسلامی ریاست کی تجویز پیش کر کے اس ریاست کے جو خدو خال بیان کیے تھے ان کو کس نے سامنے رکھا ہے اور کون ان سے منحرف ہوگیا ہے۔ ذرا ترتیب سے میری بات نوٹ کر لیں، تاکہ آپ اندازہ کر سکیں کہ اقبالؒ اور اقبالؒ کا پاکستان کا نعرہ لگانے والوں نے اقبالؒ کے افکار و تعلیمات کا کیا حشر کر رکھا ہے۔ اور کون لوگ اقبالؒ کے تصورات کے مطابق پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔
  • اقبالؒ نے پنجاب اسمبلی میں سب سے پہلے یہ بل پیش کیا تھا کہ توہین رسالتؐ جرم ہے جس کی سزا مقرر ہونی چاہیے۔ توہین رسالتؐ پر سزا کی بات ہماری قانونی دنیا میں وہیں سے شروع ہوئی تھی جو 295-C تک پہنچی۔ مگر آج اقبالؒ کے نام پر توہین رسالتؐ پر سزا کے قانون کی مخالفت کی جا رہی ہے اور اقبال اقبال کا ورد کرنے والے بہت سے دانش ور اس قانون کو ختم کرانے کے درپے ہیں۔
  • اقبالؒ نے کہا تھا کہ پاکستان کے نام سے قائم ہونے والی نئی ریاست میں نفاذِ اسلام پارلیمنٹ کے ذریعہ ہونا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کا اعلان کرتے ہوئے منتخب پارلیمنٹ کو قرآن و سنت کی حدود میں قانون سازی کرنی چاہیے۔ ملک کے دینی حلقوں نے اجتماعی طور پر اقبالؒ کے اس تصور کو قبول کر لیا مگر اقبالؒ کے پاکستان کا نعرہ لگانے والے بہت سے لوگ پارلیمنٹ کو قرآن و سنت کا پابند قرار دینے کو پارلیمنٹ کی خود مختاری کے منافی کہہ کر پاکستان کے دستور کی اس نظریاتی اساس کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔
  • اقبالؒ نے کہا تھا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے اور انہیں مسلم معاشرہ کا حصہ سمجھنے کی بجائے غیر مسلم اقلیتوں میں شمار کیا جائے۔ پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ نے اقبالؒ کی اسی تجویز کے مطابق قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا تھا، مگر اس دستوری فیصلے کے خلاف مہم چلانے والے عناصر میں بعض اقبال اقبال پکارنے والے لوگ بھی نمایاں ہیں۔
  • اقبالؒ نے کہا تھا کہ چونکہ پارلیمنٹ کو قرآن و سنت کے دائرہ اور روشنی میں قانون سازی کرنی ہے جس کے لیے قرآن و سنت کا علم ضروری ہے۔ جبکہ عوامی نمائندوں کے لیے قرآن و سنت کا اس درجے کا عالم ہونے کی شرط موجودہ حالات میں قابل عمل نہیں ہے۔ اس لیے جید علماء کرام اور ماہرین قانون پر مشتمل ایک کونسل ہونی چاہیے جو اس سلسلہ میں پارلیمنٹ کی راہ نمائی کرے۔ دستور میں اقبالؒ کی اسی تجویز پر ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ کے قیام کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ مگر بہت سے اقبالی اسلامی نظریاتی کونسل کو غیر ضروری قرار دے کر اس کو ختم کرنے کی مہم چلا رہے ہیں۔
  • اقبالؒ نے اسپین کے دورے سے واپسی پر کہا تھا کہ یہ دینی مدارس جس حالت میں کام کر رہے ہیں، انہیں اسی طرح کام کرنے دو۔ یہ اگر اس طرح کام نہ کرتے تو ہمارا بھی وہی حشر ہوتا جو اسپین پر عیسائیوں کے قبضے کے بعد وہاں کے مسلمانوں کا ہوا تھا کہ آج وہاں مسلمانوں کی تعداد برائے نام ہے۔ مگر آج اقبالؒ کے کچھ نام لیوا دینی مدارس کے اس کردار اور محنت کو ختم کر دینا چاہتے ہیں اور ان کی خواہش اور کوشش ہے کہ انہیں قومی دھارے میں لانے کی آڑ میں ان کے آزادانہ تعلیمی و دینی کردار سے محروم کر دیا جائے۔
حضرات گرامی قدر! ان باتوں سے آپ خود فیصلہ کریں کہ کون اقبالؒ کے پاکستان کی بات کر رہا ہے اور کون اقبالؒ سے منحرف ہوگیا ہے؟
میں ان لوگوں سے امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ ہی کی زبان میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہم مولویوں کی بات تم نہیں سنتے، تمہاری مرضی۔ لیکن اقبالؒ سے دست بردار کیوں ہو رہے ہو؟ اس کی تو سنو کہ اسی کی فکر پر تمہیں پاکستان کی یہ عظیم نعمت ملی ہے۔ اور اسی کے نام کے نعرے لگا کر تم اپنا قد بڑھاتے ہو۔ 
بچوں کی زبان سے اقبالؒ کا ترانہ سن کر میرا ذہن اس طرف گھوم گیا اور میں نے یہ باتیں عرض کر دی ہیں۔ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح سمت پر دین، قوم اور ملک کی خدمت کرنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

ارکان پارلیمنٹ کے نام پاکستان شریعت کونسل کی عرض داشت

ادارہ

(پاکستان شریعت کونسل کا ایک اہم اجلاس 3 اپریل 2014ء کو اسلام آباد میں کونسل کے مرکزی امیر مولانا فداء الرحمن درخواستی کی قیام گاہ پر ان کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں ملک کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے چند اہم مسائل پر ارکان پارلیمنٹ کو توجہ دلانے کے لیے مندرجہ ذیل عرضداشت پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔) 


’’بگرامی خدمت معزز ارکان پارلیمنٹ اسلامی جمہوریہ پاکستان السلام علیکم ورحمۃ اللہ برکاتہ پاکستان شریعت کونسل جو کہ نفاذِ اسلام کی جدوجہد کے لیے غیر انتخابی فکری و علمی فورم کے طور پر ایک عرصہ سے سرگرم عمل ہے، وطن عزیز کی تازہ ترین صورت حال کے حوالہ سے قوم کے منتخب نمائندگان کو اس عرضداشت کے ذریعہ توجہ دلانا چاہتی ہے۔ امید ہے کہ معزز ارکان پارلیمنٹ ان گزارشات پر ہمدردانہ غور فرما کر ایوان میں انہیں مناسب صورت میں پیش کرنے کی زحمت فرمائیں گے۔ 
  • کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ حکومتی مذاکرات میں بظاہر محسوس ہونے والی پیش رفت اطمینان بخش ہے جس سے یہ توقع بڑھتی جا رہی ہے کہ باہمی گفت و شنید کے ذریعہ حکومتی رٹ کے قیام کے ساتھ ساتھ دستور پاکستان کی بالادستی، نفاذِ شریعت، امن عامہ کی بحالی اور دہشت گردی کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ دستور پاکستان کی بالادستی، نفاذِ شریعت، امن عامہ کی بحالی اور دہشت گردی کے خاتمہ کے مقاصد ان شاء اللہ تعالیٰ ضرور حاصل ہوں گے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ رب العزت ان مذاکرات کو وطن عزیز کے نظریاتی تشخص کے تحفظ، مکمل استحکام و سلامتی اور امن عامہ کی مکمل بحالی کا ذریعہ بنائیں۔ آمین یا رب العالمین۔ ہم فریقین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ملک و ملت کے وسیع تر مفاد اور بہتر مستقبل کی خاطر ان مذاکرات کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کا حامی و ناصر ہو، آمین۔ 
  • گزشتہ دنوں قومی اسمبلی آف پاکستان نے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو قانون سازی کے لیے متعلقہ ایوانوں میں پیش کرنے کی جو قرارداد منظر کی ہے ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں اور وزارت قانون سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس سلسلہ میں اپنی دستوری و قانونی ذمہ داری کو پورا کرتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے مطابق قانون سازی کا اہتمام کرے تاکہ ملکی قوانین کو دستور کے مطابق قرآن و سنت کے مطابق بنانے کا مبارک عمل جلد از جلد مکمل کرے۔ 
  • نیز اسلامی نظریاتی کونسل کو ختم کر دینے کے بارے میں سندھ اسمبلی کی حالیہ قرارداد پاکستان شریعت کونسل کی نظر میں افسوسناک اور پاکستان کے دستور کی نظریاتی اساس سے بے خبری اور بے پروائی کا نتیجہ ہے۔ اس لیے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کی اس تجویز کے مطابق قانون سازی کو یقینی بنانے کے لیے جید علماء کرام اور قانون دانوں پر مشتمل ایک کونسل کو پارلیمنٹ کے ساتھ شریک کار ہونا چاہیے تاکہ پارلیمنٹ قرآن و سنت کے دائرہ میں قانون سازی کے لیے اپنی ذمہ داری کو صحیح طور پر ادا کر سکے۔ اس لیے ہم سندھ اسمبلی کے معزز ارکان سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ نفاذِ اسلام کے سلسلہ میں مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کے خطبات کا مطالعہ کریں اور دستور پاکستان کے اسلامی تقاضوں کی تکمیل کے لیے ناگزیر فورم کے طور پر اسلامی نظریاتی کونسل کے وجود و کردار کی نفی کرنے کی بجائے قومی اسمبلی کی قرارداد کے مطابق کونسل کی سفارشات کے مطابق قانون سازی کے لیے پیش رفت کریں۔ 
  • ملک کے قومی نظام تعلیم اور نصاب میں اس وقت پائی جانے والی تقسیم در تقسیم نے جو فکری خلفشار اور ذہنی انتشار کی کیفیت پیدا کر رکھی ہے وہ انتہائی تشویش ناک ہے۔ سکولوں اور کالجوں کی طبقاتی درجہ بندی کے ساتھ ساتھ مختلف بلکہ متضاد نصاب ہائے تعلیم قومی یک جہتی کے لیے زہر قاتل کی حیثیت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ جبکہ حکومتی پالیسیوں کا رخ اس خلفشار کو ختم کرنے کی بجائے اس کی حوصلہ افزائی کی طرف دکھائی دے رہا ہے۔ اس لیے قومی وحدت اور ہم آہنگی کا اولین تقاضہ ہے کہ قومی تعلیمی پالیسی پر نظر ثانی کی جائے اور قوم کو مختلف طبقات اور ثقافتی دائروں میں تقسیم ہونے سے بچانے کے لیے دستور پاکستان کے مطابق اسلامی تعلیمات کی اساس پر یکساں تعلیمی نظام و نصاب تشکیل دیا جائے۔ تاکہ ملک کے تہذیبی و نظریاتی تشخص کے تحفظ کے ساتھ ساتھ قومی وحدت اور ملکی استحکام کے تقاضے پورے کیے جا سکیں۔ 
  • دینی مدارس اس وقت ملک بھر میں قرآن و سنت کی تعلیمات کے فروغ اور دینی اقدار و روایات کے تحفظ کے لیے جو خدمات سر انجام دے رہے ہیں وہ انتہائی قابل قدر ہیں۔ ان کا موجودہ معاشرتی کردار اس وجہ سے محفوظ بنیادوں پر مصروف کار ہے کہ وہ سرکاری کنٹرول سے باہر رہتے ہوئے عوام کے رضاکارانہ تعاون کے ساتھ آزادانہ طور پر کام کر رہے ہیں۔ جبکہ ماضی میں محکمہ تعلیم اور محکمہ اوقاف کی تحویل میں لیے جانے والے بیسیوں دینی مدارس (مثلاً جامعہ عباسیہ بہاول پور اور جامعہ عثمانیہ اوکاڑہ وغیرہ) اپنا وجود اور تشخص کھو چکے ہیں۔ اور غالباً اسی وجہ سے دینی مدارس کے وفاق اپنے نظام و نصاب کے حوالہ سے کسی سرکاری مداخلت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں جو مذکورہ بالا پس منظر میں بالکل بجا نظر آتا ہے۔ پاکستان شریعت کونسل یہ سمجھتی ہے کہ دینی مدارس کے نظام و نصاب کا سرکاری کنٹرول سے الگ رہنا ان کے تعلیمی و دینی کردار کے تسلسل اور ان پر عوامی اعتماد برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ جبکہ انہیں سرکاری کنٹرول میں لانے کے نتیجے میں موجودہ حالات میں ان مدارس کے موجودہ تعلیمی، دینی اور رفاہی کردار کو خدانخواستہ باقی نہیں رکھا جا سکے گا۔ اس لیے معزز ارکان پارلیمنٹ سے درخواست ہے کہ وہ دینی مدارس کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی بجائے ان کی مشکلات کو حل کرنے کے لیے کردار ادا کریں۔ اور دینی مدارس کے نظام کو خطرات و خدشات سے دو چار کرنے کی بجائے ان کی کمزوریوں اور خامیوں کو دور کرنے میں ان سے تعاون کریں۔ دینی مدارس کے نصاب و نظام کے حوالہ سے ضروری اصلاحات کی اہمیت سے کسی طرح انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس کا صحیح طریقہ یہ نہیں ہے کہ سرے سے ان کے نظام و نصاب کے بنیادی ڈھانچے کو ہی معرض خطر میں ڈال دیا جائے۔ بلکہ دینی مدارس کے وفاقوں کو اعتماد میں لے کر باہی مذاکرات اور گفت و شنید کے ذریعہ مبینہ کمزوریوں، خامیوں او رخلاء کو پر کرنے کا طریق کار ہی موجودہ حالات میں قابل عمل ہو سکتا ہے۔ 
  • اسلامی نظریاتی کونسل، وفاقی شرعی عدالت اور اس کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان کے واضح فیصلوں کے باوجود ملک میں سودی نظام کے خاتمہ کا وہ وعدہ ابھی تک پورا نہیں کیا جا سکا جس کا دستور پاکستان وعدہ کیا گیا ہے اور اپیل در اپیل میں سالہا سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد وفاقی شرعی عدالت میں سودی نظام کے خلاف کیس کا از سر نو سماعت شروع ہوتے ہی اس کے پھر سے غیر معینہ التواء نے اس سلسلہ میں قوم کی مایوسی میں اضافہ کیا ہے۔ جبکہ دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ حکومت پاکستان اور متعدد عالمی مالیاتی ادارے غیر سودی بینکاری کی افادیت اور اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے خود اس کی طرف پیش رفت کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ اور بین الاقوامی مالیاتی حلقوں میں غیر سودی بینکاری کا رجحان دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ اس لیے ہم وفاقی شرعی عدالت سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس کیس کی سماعت کو جلد از جلد مکمل کر کے قوم کو سودی نظام کی نحوست سے نجات دلائے۔ اور ارکان پارلیمنٹ سے گزارش ہے کہ وہ بھی اس سلسلہ میں کردار ادا کریں تاکہ قرآن و سنت کے صریح احکام پر عملدرآمد کے ساتھ ساتھ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی اس خواہش کی تکمیل کا بھی اہتمام ہو سکے جس کا اظہار انہوں نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر اپنے خطاب میں کیا تھا کہ میں چاہتا ہوں کہ پاکستان کے معاشی و مالیاتی نظام کو مغرب کے معاشی اصولوں کی بجائے اسلامی تعلیمات کے مطابق تشکیل دیا جائے۔ 
  • وفاقی وزیر امور مذہبی سردار محمد یوسف خان کا یہ اعلان خوش آئند ہے کہ حکومت نے میٹرک تک عربی زبان کو لازمی قرار دینے کا فیصلہ کر لیا ہے، ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے حکومت سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اس مستحسن فیصلہ پر عملدرآمد کے لیے جلد از جلد اقدامات کرے اور اس سلسلہ میں دینی مدارس کے وفاقوں کو بھی اعتماد میں لیا جائے۔ ‘‘

روس کے خلاف افغانوں کا جہاد: ایک مغالطے کا ازالہ

اکرم تاشفین

روس کے خلاف افغانوں کا جہاد ، امریکا کا تعاون اور روس کی شکست۔یہ موضوع اب شاید مزید اس قابل نہیں کہ اس پر بحث ومباحثہ کا میدان گرم رکھا جائے کیوں کہ ’’اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا‘‘۔ دنیا بھر میں تیزی سے بدلتے حالات میں عالم اسلام کو اس وقت جن فکری اور نظریاتی چیلنجوں کا سامنا ہے، ایسے حالات میں روس کی شکست کے پارینہ قصے کو دہرا نا ضیاع وقت کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ تاریخ کے اس حساس عصر میں مسلمان اہل فکر وقلم کو آگے بڑھتے رہنا چاہیے اور مسلمانوں خصوصاً نوجوان نسل کو جن فکری پیچیدگیوں کا سامنا ہے، ان گتھیوں کو سلجھاتے رہنا چاہیے۔ آج کی نشست میں روس کے خلاف افغانوں کی مزاحمت کا قصہ دہرانے کا مقصد ایک مغالطہ کا ازالہ کرنا ہے جو عموماً ہمارے نوجوانوں کو ہمارے اہل قلم کی جانب سے دیا جاتا ہے۔ ہمارے ایک دانشوراور کالم نگار نے گذشتہ دنوں ایک معروف روزنامے میں یہی مغالطہ دہرایا۔ انہوں نے اس بات کا ایک بارپھر تکرار کیا کہ سوویت یونین کو شکست دراصل امریکا نے دی تھی اور افغان عوام اس جنگ کی بھٹی میں جلنے والے ایندھن کے طورپر استعمال کیے گئے۔ وہ اس بات پر نالاں تھے کہ ’’روس کا سوشل ازم دنیا بھر میں یورپ کے سرمایہ دارانہ نظام میں نقب لگا چکا تھا اور ہر میدان میں سرمایہ داریت کو چیلنج کررہا تھا۔ سوویت یونین کے خاتمے سے امریکا کے لیے دنیا بھر میں میدان صاف ہو گیا اور وہ چند ارب ڈالر خرچ کرکے واحد سپر پاور بن بیٹھا اور مسلمان واحد سپر پاور کے پنجے میں آگئے۔ ‘‘
مذکورہ کالم نگار نے یہ بات ذرا طویل الفاظ میں کی ہے، ہم نے ان کا خلاصہ یہاں لکھا ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ کیوں ایک اچھا تجزیہ کار حقائق سے نظریں پھیرتا ہے؟ کسی موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے ہم ایک ہی جانب اور ایک ہی زاویے سے کیوں کسی معاملے کو دیکھتے ہیں؟ معاملے کا ایک پہلو بے شک یہی ہے کہ امریکا اور روس ایک دوسرے کے بڑے حریف تھے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ امریکا اور روس دونوں اپنے ساتھ ایک خاص نظام بھی لیے ہوئے دنیا پر چھا جانے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ اس میں بھی کوئی دورائیں نہیں کہ روس کی شکست امریکا کی فتح تھی اور امریکا کی شکست روس کی فتح، کیوں کہ اس وقت دونوں ممالک اور دونوں نظام دو مقابل قطب بن کر دنیا کے افق پر کھڑے تھے۔ گویا دونوں، ترازو کے الگ الگ دوپلڑوں میں تھے۔ ایک کا بھاری ہونا یقینی طورپر دوسرے کا ہلکاہونا تھا۔ یہ ایک بدیہی معاملہ تھا جس سے کوئی مفر بھی نہ تھا۔ اس زاویہ نگاہ سے دیکھا جائے تو وہ بات کسی حد تک ٹھیک لگتی ہے جو مذکورہ قلم کار نے کی مگر اس معاملے کا ایک پہلو اور بھی ہے اور یہی وہ پہلو ہے جس سے آج تک ہمارے مصنفین اور رائٹرز صرف نظر کرتے آرہے ہیں۔ وہ یہ کہ اشتراکیت اور سرمایہ داریت کی جنگ کو افغانستان میں ایک افغان کی نظر سے دیکھ کر فیصلہ کیا جائے۔ 
۱۹۷۹ء میں روس نے افغانستان پر حملہ کیا۔ اس وقت افغانوں کے سامنے ایک ہی سوال تھا کہ روسی جارحیت کے مقابلے میں کیا کیا جائے ؟افغانوں میں کچھ تو وہ تھے جو روسی جارحیت سے قبل ہی اس کے اشتراکی نظریے کے حامی بن چکے تھے۔ ایسے لوگوں کے لیے روس کا افغانستان پر قبضہ کسی نعمت عظمیٰ سے کم نہ تھا، کیوں کہ ایسے لوگوں کو اپنے مفادات کی تکمیل کا ایک بہترین موقع ہاتھ آگیا تھا۔ مسئلہ تو ان دیندار مسلمانوں کا تھا جنہوں نے کمیونزم کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔ خلق وپرچم کے کمیونسٹوں کے علاوہ اکثر افغان عوام کے سامنے اب بس یہی سوال تھا کہ روسی جارحیت کے بعد کیا کیا جائے ؟ ان کے سامنے دو مسائل تھے جو بار بار انہیں اپنے آپ سے یہ سوال دہرانے پر مجبور کررہے تھے۔ پہلا مسئلہ تھا روسیوں اور ان کے کٹھ پتلی کمیونسٹوں کے بے انتہا مظالم کا۔ وحشیانہ مظالم کی یہ کہانیاں آج بھی لوگوں کو از بر ہیں۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ جن لوگوں نے روسیوں کے مظالم سہے، وہ نسلیں آج بھی زندہ ہیں۔ ایسے حالات میں جب محض اسلام پسندی کی بنا پر لوگوں کا قتل عام کیا جائے ، مال واملاک چھین لیے جائیں اور اشتراکی نظریے کے علاوہ کسی بھی عقیدے کا نام لینا جرم بن جائے ،انسان نما وحشی درندوں کے غول گھر کی دہلیز پار کرکے آپ کے حرم میں داخل ہو جائیں، بیٹی ، بہن اور بیوی کی عزت محفوظ نہ ہو۔ صبح اٹھیں تو شام تک یقین نہ ہو کہ کب یہ خون آشام درندے آئیں گے اور معصوم بیٹیوں کی عصمت کی چادر تار تار کرکے چلے جائیں گے۔ ایسے سینکڑوں واقعات ہوئے کہ روسی فوجی ہیلی کاپٹر میں آئے، چھاپہ مارکرچلے گئے اور جاتے جاتے گاؤں کی دوشیزاؤں کو ریوڑ کی طرح ہنکا کر لے گئے اور پھر جب ہیلی کاپٹر فضا میں بلند ہوا تو ان کے کپڑے ہوا میں لہراتے ہوئے نیچے گرے اور صحراؤں اور ریگستانوں میں بکھر گئے۔ قرآن کریم کی بے حرمتی، مساجد کی تباہی، کیا کیا مظالم ہیں جو میری مظلوم قوم نے نہ سہے؟ کتنے بے آسرا والدین کے جوان بیٹوں کی لاشیں ان کے کندھوں پر لادی گئیں۔ 
افغانوں کا دوسرا مسئلہ فکری اور نظریاتی تھا۔ دراصل اشتراکیت اور سرمایہ داریت کے نام سے دنیا میں جوجنگ چل رہی ہے جس میں روس کی شکست کے بعد آج بظاہر سرمایہ داریت ہی کا تسلط قائم ہے ، یہ جنگ دونظاموں کی نہیں، تین نظاموں کی جنگ ہے، یعنی اشتراکیت ، سرمایہ دارنہ نظام اور اسلام۔ اشتراکیت اور سرمایہ