جنوری ۲۰۱۴ء
شیخ الہند عالمی امن کانفرنس
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
جمعیۃ علماء ہند کی دعوت پر مولانا فضل الرحمن امیرجمعیۃ علماء اسلام پاکستان کی سربراہی میں بھارت جانے والے تیس رکنی وفد کے ساتھ راقم الحروف کو بھارت جانے اور کم وبیش ایک ہفتہ وہاں رہنے کا موقع ملا۔ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی قدس اللہ سرہ العزیز کی زیر قیادت ایک صدی قبل منظم کی جانے والی ’’تحریک ریشمی رومال‘‘ کے حوالے سے جمعیۃ علماء ہند نے صد سالہ تقریبات کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور اسی پروگرام کے تحت ’’شیخ الہند ایجوکیشنل چیرٹی ٹرسٹ‘‘ کے زیر اہتمام ۱۳، ۱۴ دسمبر کو دیوبند میں اور ۱۵ دسمبر کو رام لیلا میدان دہلی میں مختلف نشستوں کا اہتمام کیا گیا جس میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، برما، نیپال، سری لنکا، مالدیپ، ماریشش اور خطے کے دیگر ممالک کے علماء کرام کے علاوہ برطانیہ سے بھی جمعیۃ علماء برطانیہ کے وفد نے شرکت کی۔ سیکڑوں علماء کرام سہ روزہ ’’شیخ الہند امن عالم کانفرنس‘‘ کی خصوصی نشستوں میں شریک ہوئے جبکہ ہزاروں افراد نے عیدگاہ گراؤنڈ دیوبند اور رام لیلا میدان دہلی میں پبلک جلسہ کی صورت میں منعقد ہونے والی عمومی نشستوں میں شرکت کی۔
دار العلوم دیوبند کے مہتمم مولانا ابو القاسم نعمانی، جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا قاری محمد عثمان منصور پوری، جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمن اور دیگر سرکردہ علماء کرام نے کانفرنس کی مختلف نشستوں کی صدارت کی جبکہ خطاب کرنے والے سرکردہ علماء کرام میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، جمعیۃ علماء ہند کے سیکرٹری جنرل مولانا سید محمود اسعد مدنی، اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی اور جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے سیکرٹری جنرل مولانا عبد الغفور حیدری کے علاوہ مولانا مفتی عبد الرؤف (بنگلہ دیش)، مولانا مفتی نور محمد (برما)، مولانا مفتی محمد رضوی (سری لنکا) اور مولانا حافظ محمد اکرام (برطانیہ) بھیشامل ہیں۔ بھارت کے مختلف علاقوں کے ممتاز علماء کرام نے بھی کانفرنس سے خطاب کیا۔
اس موقع پر ’’امن عالم کانفرنس‘‘ کی طرف سے ایک متفقہ اعلامیہ کی منظوری دی گئی جس کی ترتیب و تدوین میں دیگر حضرات کے ساتھ مجھے بھی شریک ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔ جمعیۃ علماء ہند کے سیکرٹری جنرل مولانا سید محمود اسعد مدنی نے یہ اعلامیہ پڑھ کر سنایا جسے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ اعلامیہ درج ذیل ہے:
’’ہند و بیرون ہند کے ممتاز علمائے کرام، دانشوران اور رہنمایانِ ملک و ملت کا یہ عالمی اجلاس برصغیر ہند کی آزادی میں شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ ، ان کے رفقاء اور تمام مجاہدین آزادی کی سنہری خدمات و بے مثال قربانیوں کو یاد کرتے ہوئے اور حضرت شیخ الہند کے عطا کردہ رہنما خطوط کی روشنی میں اپنے اس عہد کا اعلان کرتا ہے کہ:
۱۔ ہم انسانیت کی فلاح و بہبود اور عالمی امن کے قیام کے لیے ہر سطح پر دوستانہ تعلقات اور صلح و آشتی کی راہ ہموار کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہیں گے۔
۲۔ اپنے اپنے ملک کی سا لمیت اور وقار کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک دوسرے کی خوشحالی اور خیر سگالی کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔
۳۔ ہر قسم کے تنازعات کا پر امن ذرائع سے حل تلاش کرنے کے لیے ذہن سازی اور کوشش کریں گے۔
۴۔ اسلام کی نظر میں ہر طرح کا فتنہ و فساد، بد اَمنی و خوں ریزی اور بے قصوروں کو قتل و غارت گری کا نشانہ بنانا، بد ترین انسانیت سوز جرم ہے، اس لیے ہم ہر قسم کی دہشت گردی کی پر زور مذمت کرتے ہیں۔ اور اس بارے میں دارالعلوم دیوبند کے فتوے کی بھرپور تائید کرتے ہیں۔ اور تمام انصاف پسندوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ نہ صرف دہشت گردی سے برأت کریں، بلکہ ان اسباب و محرکات کو بھی ختم کرنے کی فکر کریں، جن کی وجہ سے دنیا میں دہشت گردی پنپتی ہے۔
۵۔ اقلیتوں، ناداروں، کمزور طبقات اور خواتین کے حقوق کی پاسداری کے بغیر خوشحالی، ترقی اور امن کا تصور ناممکن ہے۔ اس لیے ہم انہیں ان کے حقوق دلانے اور سماجی انصاف کی فراہمی کے لیے ہر ممکن جدوجہد کریں گے۔
۶۔ اخلاق سوز رسم و رواج، فضول خرچی اور جرائم سے پاک معاشرہ کی تشکیل; خاص کر شراب نوشی، منشیات، عیش پرستی، فحاشی، عریانیت اور جنین کشی کے خلاف تحریک چلانے کے لیے ہم تمام مذاہب کے رہنماؤں اور مصلحانہ تنظیموں کو اشتراک اور تعاون کی دعوت دیتے ہیں۔
۷۔ ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ مسلکی تنازعات میں تشدد اور خوں ریزی اسلامی تعلیمات کے قطعاً خلاف ہیں۔ ہم اس معاملے میں تشدد کی سخت مذمت کرتے ہوئے عہد کرتے ہیں کہ مسلکی تشدد کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
۸۔ حضرت شیخ الہندؒ نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام کے موقع پر جو وقیع خطبہ ارشاد فرمایا تھا، اس کی روشنی میں ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ ملت سے دینی و دنیوی جہالت دور کرنے کے لیے ہر ممکن جدوجہد کریں گے; خاص طور پر اسلامی ماحول میں عصری تعلیم کے ادارے قائم کرنے کی ہر ممکن جدوجہد کریں گے، جیسا کہ جمعیۃ علماء ہند کے سابق صدر محترم امیر الہند حضرت مولانا سید اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ اس موضوع کو مشن بنا کر پورے عالم میں پھیلاتے رہے۔
۹۔ ہم یہ بھی عہد کرتے ہیں کہ اہل حق کے تمام دینی اداروں اور تحریکات میں ایک دوسرے کے معاون بن کر رہیں گے۔‘‘
کانفرنس میں اس پروگرام کے پس منظر کے طور پر شیخ الہندؒ کے ایک خطاب کا اہم اقتباس اوردہشت گردی کے بارے میں دار العلوم دیوبند کا ایک فتویٰ پیش کیا گیا جو درج ذیل ہے:
جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے تاسیسی اجلاس منعقدہ ۲۹؍ اکتوبر ۱۹۲۰ء (علی گڑھ) کے خطبہ صدارت میں حضرت شیخ الہندؒ نے فرمایا کہ:
’’میں خیال کرتا ہوں کہ میری قوم اس وقت فصاحت و بلاغت کی بھوکی نہیں ہے۔ اور نہ اس قسم کی عارضی مسرتوں سے اس کے درد کا اصلی داماں ہو سکتا ہے؛ اس لیے ضرورت ہے ایک قائم و دائم جوش کی، نہایت صابرانہ ثبات قدمی کی، دلیرانہ مگر عاقلانہ طریق عمل کی، اپنے نفس پر قابو پانے کی غرض سے ایک پختہ کار بلند خیال اور ذی ہوش محمدی بننے کی۔
اے فرزندان توحید! میں چاہتا ہوں کہ آپ انبیاء و مرسلین اور ان کے وارثوں کے راستے پر چلیں اور جو لڑائی اس وقت شیطان کی ذریت اور خدائے قدوس کے لشکروں میں ہو رہی ہے اس میں ہمت نہ ہاریں اور یاد رکھیں کہ شیطان کے مضبوط سے مضبوط آہنی قلعے خداوند قدیر کی امداد کے سامنے تار عنکبوت سے زیادہ کمزور ہیں۔ کامیابی کا آفتاب ہمیشہ مصائب و آلام کی گھٹاؤں کو پھاڑ کر نکلا ہے۔
الم، أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ یُّتْرَکُوا أَنْ یَّقُولُوا آمَنَّا وَہُمْ لَا یُفْتَنُونَ، وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکَاذِبِیْنَ o (عنکبوت : ۲۔۳)
ترجمہ: ’’کیا یہ سمجھتے ہیں لوگ کہ چھوٹ جائیں گے اتنا کہہ کر کہ ہم یقین لائے، اور ان کو جانچ نہ لیں گے۔ اور ہم نے جانچا ہے ان کو جو ان سے پہلے تھے، سو البتہ معلوم کرے گا اللہ جو لوگ سچے ہیں اور البتہ معلوم کرے گا جھوٹوں کو۔‘‘
خوف کھانے کے قابل اگر کوئی چیز ہے تو خدا کا غضب اور قاہرانہ انتقام ہے، اور دنیا کی متاع قلیل خدا تعالیٰ کی رحمتوں اور اس کے انعامات کے مقابلے میں کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔
قُلْ مَتَاعُ الدَّنْیَا قَلِیْلٌ وَالآخِرَۃُ خَیْْرٌ لِّمَنِ اتَّقَی وَلاَ تُظْلَمُونَ فَتِیْلاً (سورہ نساء : ۷۷)
ترجمہ: ’’کہہ دے کہ فائدہ دنیا کا تھوڑا ہے اور آخرت بہتر ہے پرہیزگار کو اور تمہارا حق نہ رہے گا ایک تاگے کے برابر۔‘‘
مطلق تعلیم کے فضائل بیان کرنے کی ضرورت اب میری قوم کو نہ رہی، کیوں کے زمانے نے خوب بتلا دیا ہے کہ تعلیم سے ہی بلند خیالی اور تدبر اور ہوش مندی کے پودے نشو و نما پاتے ہیں اور اسی کی روشنی میں آدمی نجات و فلاح کے راستے پر چل سکتا ہے، ہاں ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ تعلیم مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو اور اغیار کے اثر سے بالکل آزاد ہو۔ کیا باعتبار عقائد و کیا خیالات کے اور کیا باعتبار اخلاق و اعمال کے اور کیا باعتبار اوضاع و اطوار کے اثرات سے پاک ہو۔ ہمارے کالج نمونے ہونے چاہئیں، بغداد اور قرطبہ کی یونیورسٹیوں کے اور ان عظیم الشان مدارس کے جنہوں نے یورپ کو اپنا شاگرد بنایا اس سے پیشتر کہ ہم ان کو اپنا استاذ بناتے۔‘‘
دہشت گردی سے متعلق دار العلوم دیوبند سے کیا جانے والا ایک استفسار اور اس کا جواب حسب ذیل ہے:
استفتاء:
’’آج کل منصوبہ بند طریقہ پر مذہب اسلام، قرآن پاک اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو دہشت گردی سے جوڑ کر بدنام کیا جا رہا ہے اور قرآنی آیات اور احادیث شریف کو غلط معانی میں ڈھال کر عوام وخواص کو مذہب اسلام سے بدظن کرنے کی مہم پوری شدت سے جاری ہے۔ اس لیے وضاحت فرمائیں کہ امن عالم کے سلسلہ میں اسلام کا واضح موقف کیا ہے؟ اور قرآن وحدیث میں اس بارے میں انسانیت کو کیا ہدایتیں دی گئی ہیں؟
محمود اسعد مدنی
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
الجواب وباللہ التوفیق:اسلام امن وسلامتی کا مذہب ہے، اس کی نظر میں روئے زمین کے کسی بھی خطہ پر فتنہ وفساد، بدامنی اور خوں ریزی اور بے قصوروں کے ساتھ قتل وغارت گری بد ترین انسانیت سوز جرم ہے۔ قرآن پاک میں کئی جگہ دنیا میں بدامنی پھیلانے سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے: وَلاَ تُفْسِدُواْ فِیْ الأَرْضِ بَعْدَ إِصْلاَحِہَا (الاعراف ۵۶) (اور روئے زمین میں بعد اس کے کہ اس کی درستی کر دی گئی، فساد مت پھیلاؤ) اور ایک جگہ فساد کی مذمت کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا گیا: وَإِذَا تَوَلَّی سَعَی فِیْ الأَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیِہَا وَیُہْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللّٰہُ لاَ یُحِبُّ الفَسَادَ (البقرۃ ۲۰۵) (اور جب وہ (فسادی) پیٹھ پھیرتا ہے تو اس دوڑ دھوپ میں رہتا ہے کہ دنیا میں فساد مچائے اور کسی کے کھیت یا جانوروں کو تلف کر دے اور اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں فرماتے) اور ایک جگہ فرمایا: وَلاَ تَعْثَوْا فِی الأَرْضِ مُفْسِدِیْنَ (البقرۃ ۶۰) (اور دنیا میں فساد نہ مچاتے پھرو)۔ قرآن اور اسلام کی نظر میں ایک قتل ناحق پوری انسانیت کے قتل کے مرادف ہے، کیونکہ یہ دروازہ جب کھل جاتا ہے تو پھر کسی کے قابو میں نہیں رہتا، جبکہ ایک آدمی کی جان بچانا پوری انسانیت کو بچانے کے قائم مقام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: مِنْ أَجْلِ ذَلِکَ کَتَبْنَا عَلَی بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ أَنَّہُ مَن قَتَلَ نَفْساً بِغَیْْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِیْ الأَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعاً وَمَنْ أَحْیَاہَا فَکَأَنَّمَا أَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعاًَّ (المائدہ ۳۲) (اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جو شخص کسی شخص کو بلامعاوضہ کسی دوسرے شخص کے یا بغیر فساد کے جو زمین میں اس سے پھیلا ہو، قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام آدمیوں کو قتل کر ڈالا اور جو شخص کسی شخص کو بچا لیوے تو گویا اس نے تمام آدمیوں کو بچا لیا)۔ اور ایک جگہ واضح طور پر یہ حکم دیا: وَلاَ تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ إِلاَّ بِالحَقِّ (بنی اسرائیل ۳۳) (اور جس شخص کے قتل کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے، اس کو قتل مت کرو، ہاں مگر حق پر)۔
اسلام کی امن پسندی کی انتہا یہ ہے کہ وہ اگرچہ مظلوم کو اپنے دفاع کی اجازت دیتا ہے، لیکن ساتھ میں یہ ہدایت بھی کرتا ہے کہ مظلوم بدلہ لینے میں اپنے حدود سے تجاوز نہ کرے اور بے قصوروں کو نشانہ نہ بنائے۔ چنانچہ ارشاد خداوندی ہے: وَقَاتِلُوا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُونَکُمْ وَلاَ تَعْتَدُوا إِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبِّ الْمُعْتَدِیْنَ (البقرۃ ۱۹۰) (اور جو لوگ تم سے لڑنے کو آئیں، تم بھی ان سے اللہ کے راستے میں لڑو اور حد سے تجاوز مت کرو، بے شک اللہ تعالیٰ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں فرماتے)۔
چنانچہ احادیث شریف میں جنگی حالات میں بھی انسانی حقوق کی پوری رعایت رکھنے کی تلقین کی گئی ہے جس کی تفصیلات احادیث میں موجود ہیں۔ علاوہ ازیں اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ خدا کی مخلوق بمنزلہ ایک کنبہ کے ہے۔ جو شخص اللہ کے کنبے پر احسان کرے گا، وہ خدا کے یہاں سب سے زیادہ محبوب ہوگا۔ (بیہقی) ہمارے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو لوگ دوسروں پر رحم کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرتا ہے۔ تم لوگ زمین پر بسنے والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔ (ترمذی، ابوداود)
الغرض اسلام ہر طرح کے بے جا تشدد، بد امنی، خوں ریزی اور قتل وغارت گری کی قطعاً نفی کرتا ہے اور کسی بھی شکل میں اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام کا یہ اصول ہے کہ اچھی اور نیک باتوں میں ایک دوسرے کا تعاون کیا جائے اور گناہ اور ظلم میں کسی کا ساتھ نہ دیا جائے۔ ارشاد خداوندی ہے: وَتَعَاوَنُوا عَلَی الْبرِّ وَالتَّقْوَی وَلاَ تَعَاوَنُوا عَلَی الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (المائدہ ۲) (آپس میں مدد کرو نیک کام پر اور پرہیزگاری پر اور مدد نہ کرو گناہ پر اور ظلم پر)۔
قرآن پاک کی ان واضح ہدایات سے یہ معلوم ہو گیا کہ اسلام جیسے امن عالم کے ضامن مذہب پر دہشت گردی کا الزام لگانا قطعاً جھوٹ ہے، بلکہ مذہب اسلام تو دنیا سے ہر قسم کی دہشت گردی کو مٹانے اور پورے عالم میں امن کو پھیلانے کے لیے آیا ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم‘‘
یہ فتویٰ پانچ سال قبل جاری ہوا تھا۔ اس پر دار العلوم دیوبند کی مہر کے ساتھ مولانا مفتی حبیب الرحمن، مولانا مفتی زین الاسلام قاسمی، مولانا مفتی وقار علی اور مولانا مفتی محمود حسن بلند شہری کے دستخط ثبت ہیں، جبکہ مولانا مفتی حبیب الرحمن کے دستخط کے ساتھ اس کے اجراء کی تاریخ ۲۳؍ جمادی الاولیٰ ۱۴۲۹ھ درج ہے۔
’’شیخ الہند عالمی امن کانفرنس‘‘ کی مختلف نشستوں میں جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا قاری سید محمد عثمان منصور پوری نے اظہار خیال کیا اور رام لیلا میدان کے کھلے جلسے میں خطبۂ صدارت بھی پیش فرمایا۔ راقم الحروف کے خیال میں ان کی گفتگو سب سے زیادہ فکر انگیز تھی۔ انہوں نے اپنے مختلف خطابات میں نہ صرف علماء کرام کو حضرت شیخ الہندؒ کے مشن اور پروگرام سے متعارف کرایا بلکہ عمل کی طرف بھی توجہ دلائی۔ مولانا قاری محمد عثمان کے خطبۂ صدارت کے بعض اہم حصے یہاں افادۂ عام کے لیے نقل کیے جا رہے ہیں:
’’آج اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ علماء آگے بڑھ کر اپنے حصے کا کردار ادا کریں، تاکہ ملک و ملت کی صحیح رہ نمائی ہو سکے۔ ایک متحرک عالم دین کے لیے عوام تک رسائی، دوسروں کے مقابلے زیادہ آسان ہے۔ وہ مختلف حیثیتوں سے عوام کے رابطے میں رہتے ہیں۔ سماج میں عوام کو درپیش مسائل میں مثبت رہ نمائی، وقت کی بڑی ضرورت ہے۔
- ان کی ایک بڑی اہم ذمہ داری اسلام کی بہتر و مثبت شبیہ کو پیش کرنا بھی ہے۔ دہشت گردی مٹانے کے نام پر؛ خصوصاً 9/11 کے بعد سے اسلام کی منفی، دہشت گردانہ اور جارحانہ تصویر پیش کر کے یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اسلام کی موجودگی میں مختلف مذاہب اور فرقے کے لوگ پر امن زندگی نہیں گزار سکتے۔ اس کے ماننے والے عدم برداشت اور علاحدگی و نفرت کے جذبے کے ساتھ رہتے ہیں۔ رہی سہی کسر اس کے جہاد کے تصور و تعلیم نے پوری کر دی ہے۔ اس پروپیگنڈا سے وہ لوگ بھی متاثر ہو جاتے ہیں، جو بالکل خالی الذہن ہوتے ہیں۔ ٹوپی داڑھی والے آدمی کو ایک خاص نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ بچے تک اشارہ کر رہے ہیں کہ اس کا اس خاص گروہ سے تعلق ہے جو دہشت گردی کی کاروائیوں میں لگا ہوا ہے۔ ایسی صورت حال میں اسلام کے تصور امن اور دہشت گردی کی مذمت پر مبنی تعلیمات کو سامنے لانے کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ اہل علم کو یہ بار بار بتانا ہوگا کہ اسلامی شریعت میں ایک بے قصور انسان کا قتل تمام انسانوں کے قتل کے ہم معنٰی ہے۔ اللہ رب العزت زمین پر فساد کو پسند نہیں کرتا ہے۔ فسادی کبھی جہادی نہیں ہو سکتے۔ اس کو دارالعلوم دیوبند اور دیگر تعلیمی و ثقافتی اداروں اور علمائے کرام کی بڑی تعداد نے موقع بہ موقع ظاہر بھی کیا ہے، لیکن اپنی باتوں کو تسلسل کے ساتھ کہنے کی ضرورت ہے۔
- یہ آپ سے مخفی نہیں ہے کہ مخالفین اپنے پروپیگنڈے کو تقویت دینے کے لیے، اقلیتوں کو درپیش مسائل و واقعات کا بھی حوالہ دیتے ہیں کہ مسلم اکثریت والے ممالک میں غیر مسلم اقلیتوں کا جان و مال محفوظ نہیں ہے۔ اس تشہیری مہم کا صحیح توڑ اور مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر ملک کی اقلیتوں کے ساتھ کچھ نہ کچھ مسائل اور مشکلات ہوتی ہیں اور اکثریت جو بذات خود طاقت ہوتی ہے، کی طرف سے نا انصافی و زیادتی ہوتی ہے؛ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ملک میں انصاف اور انسانی حقوق اور کمزوروں کی مدد کے سلسلے میں عمومی رجحان کیا ہے۔ گرچہ علماء کا طبقہ براہ راست اقتدار و حکومت میں عموماً دخیل نہیں ہے، تائم وہ اقلیتوں اور دیگر امور سے متعلق اسلامی تعلیمات کو پیش کرنے کی پوزیشن میں یقیناًہے۔ غیر مذاہب اور اقلیتوں کے حقوق کی رعایت کے سلسلے میں اسلام کے متعلق بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں؛ بلکہ یہ کہا جائے کہ غلط فہمیاں عملاً پیدا کی گئی ہیں۔ بہت سے ممالک جیسے ہندوستان میں مسلمان اقلیت میں ہیں۔ اقلیت کا مسئلہ کسی ایک مذہبی اکائی کا نہیں ہے؛ بلکہ یہ عالمی نوعیت کا مسئلہ ہے، کوئی کہیں اقلیت میں ہے، کوئی کہیں، ہندوستانی مسلمان آئین ہند کے تحت، بحیثیت اقلیت کے اپنے حقوق و اختیارات کے حصول کے لیے برابر جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ اگر عالمی طور پر اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ و رعایت کے سلسلے میں ماحول تیار ہو جاتا ہے تو سب جگہوں کی اقلیتوں کے لیے جدوجہد اور اپنے حقوق حاصل کرنے کی راہ آسان ہو جائے گی۔
- سماج میں امن کے قیام اور ایک اچھے معاشرے کی تشکیل میں پڑوسی؛ خصوصاً غیر مسلم پڑوسی کے حقوق کی پاسداری و رعایت بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اسلامی شریعت میں ہر قسم کے پڑوسی کا خیال رکھنے کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ حتیٰ کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا لگتا تھا کہ پڑوسی کو وراثت میں شامل کر دیا جائے گا۔ پڑوسی کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ جس طرح پڑوسی، گھر، محلہ اور سفر کا ہوتا ہے، اسی طرح ہر شہر، ضلع، ریاست اور ملک کے لحاظ سے بھی پڑوسی ہوتا ہے۔ اگر شریعت کے مطابق تمام قسم کے پڑوسیوں سے بہتر تعلقات بنا کر اور حقوق کی رعایت کرتے ہوئے زندگی گزاری جائے تو سماج سے فساد، تخریبی کاری اور بد امنی ختم ہو سکتی ہے۔ آج ایک دوسرے کے پڑوسی ممالک میں بہتر تعلقات نہ ہونے کے سبب فوج اور اسلحہ جات کی خریداری پر حد سے زیادہ مالی صرفہ آرہا ہے اور نتیجے میں بہت سے اقتصادی، تعلیمی و تعمیری کام مطلوبہ سطح پر نہیں ہو پاتے۔ پڑوسیوں کے معاملے میں مسلم، غیر مسلم کے درمیان شرعی و اخلاقی لحاظ سے امتیاز کرنا صحیح نہیں ہے۔ بلکہ پڑوسی ہونے اور انسانیت کے ناتے بہتر تعلقات اور حسن سلوک ضروری ہے۔ فرقہ وارانہ فساد اور فرقہ پرستی، باہمی تعلقات کی خرابی اور نفرت و تعصب سے پیداوار فروغ پاتی ہے۔ فرقہ وارانہ فساد اور فرقہ پرستی پر کانفرنس کے عنوان کے مد نظر زیادہ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس لیے ہماری کوشش ان اسباب کو دور کرنے کی ہونی چاہیے، جو فرقہ وارانہ نفرت و تشدد، فساد اور فرقہ پرستی کو جنم اور بڑھاوا دیتے ہیں۔
- اس سلسلے میں مسلکی تشدد کو بھی ان اسباب سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ فسادات جہاں مذہب و فرقہ کے نام پر کیے جاتے ہیں، وہیں ایک ہی مذہب کے افراد کی طرف سے مسلکی اختلافات کو حد سے باہر لے جانے کے سبب بھی فسادات ہوتے ہیں۔ بے شک مختلف مکاتب فکر والے اپنا موقف دلائل کے ساتھ پیش کر سکتے ہیں، لیکن سماج کے امن میں خلل ڈالنے والے پر تشدد مسلکی اختلافات کا کوئی جواز نہیں ہے۔ مزید یہ کہ مشترک مسائل میں مسلکی اختلافات کے باوجود متحدہ جدوجہد کی پوری گنجائش ہے۔ اس لیے مل جل کر مشترک امور کے لیے اتحاد و اتفاق کے نکات نکالنے کی ضرورت ہے۔
- ہم اس اہم کانفرنس کے موقع پر ایک دو اور ایسی ضروری باتوں پر بھی شرکاء کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں جو بہتر معاشرہ کی تشکیل میں اہم رول ادا کرتی ہیں۔ موجودہ دور میں ایسے بین مذاہبی مکالمات و مذاکرات بہت ہو رہے ہیں جن میں ایسے امور بھی زیر بحث آتے ہیں جو اختلافات کے کئی پہلو رکھتے ہیں؛ لیکن کچھ مشترک مسائل ایسے بھی ہیں جن پر اتفاق پایا جاتا ہے، صالح معاشرہ کی تشکیل میں تعاون و اشتراک اور عورتوں، بچوں کے حقوق کی حفاظت و رعایت بھی انہیں متفق علیہ اور مشترک باتوں میں سے ہیں۔ مغربی تہذیب و تمدن کے غلبے، جنسی آزادی اور بے راہ روی کی وجہ سے عورتوں، بچوں کی زندگی اور عزت بھیانک طریقے سے پامال ہو رہی ہے۔ سماج میں فحاشی کے سیلاب نے ان کو آزادی دینے کے بجائے غیر محفوظ بنا دیا ہے اور مختلف طریقوں سے جنسی اور جسمانی استحصال ہو رہا ہے۔ شراب سے اس میں مزید شدت پیدا ہوگئی ہے۔ پوری دنیا میں یوم اطفال اور یوم خواتین منائے جاتے ہیں اور ان کو سماج میں طاقت ور بنانے کے لیے مختلف عنوانات سے تحریکات بھی چلتی رہتی ہیں، تاہم ان کی توقیر و تحفظ یقینی ہونے کے بجائے معرض خطر میں ہے۔ یہ ایک حد تک صحیح ہے کہ قانون، جنسی جرائم کو روکنے اور صالح معاشرہ کی تشکیل میں معاون ہوتا ہے، لیکن وہ پوری طرح آدمی کو جرم کے ارتکاب سے روکنے اور صالح معاشرہ کے قیام کے لیے ذہن و دل سے تیار نہیں کر سکتا ہے، اس کے لیے کسی ایسی ہستی کا خوف و تصور ضروری ہے جس سے آدمی کا باطنی رشتہ اور جواب دہی کا احساس وابستہ ہوتا ہے۔ اور یہ کام مذہب کے تصور اور احساس کا ہے۔ مذہب اسلام نے خالق کائنات کے سامنے جزا و سزا کے حوالے سے جواب دہی کے تصور سے اسی طرف توجہ دلائی ہے۔ دیگر مذاہب اور اصلاحی تحریکات سے وابستہ افراد بھی جنسی استحصال، شراب نوشی، تعیش پرستی اور فحاشی کے مضر اثرات کو شدت سے محسوس کرتے ہوئے ان کے خاتمہ اور انسداد میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ کچھ تحریکیں نشہ سے پاک سماج بنانے کے لیے بھی چل رہی ہیں۔
ہم اس کانفرنس کے توسط سے جملہ مذاہب اور مصلحانہ تحریکات سے وابستگان کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ سماجی و جنسی جرائم کے خلاف ہمارے ساتھ آئیں۔ ہم اس سلسلے کی چلائی جانے والی تمام تحریکات کی حمایت کرتے ہوئے ہر ممکن تعاون دینے کا یقین دلاتے ہیں، ہم نے چند امور کی طرف، بلا امتیاز مذہب و فرقہ تمام لوگوں کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی ہے۔ وقتاً فوقتاً سامنے آنے والے دیگر ضروری مشترک مسائل میں بھی تعاون لینے دینے کا عمل جاری رہے گا۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہماری کوششوں کے بہتر نتائج مرتب کرے اور عزم و خلوص سے کام کی توفیق مرحمت فرمائے۔‘‘
ہم سمجھتے ہیں کہ دار العلوم دیوبند اور جمعیۃ علماء ہند کے زیر اہتمام شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے حوالے سے ان تقریبات کا انعقاد اور مذکورہ بالا اعلامیہ کی منظوری وقت کی اہم ضرورت تھی جس کے اہتمام پر جمعیۃ اور دار العلوم دونوں مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ ’’شیخ الہند عالمی امن فورم‘‘ مذکورہ بالا اعلامیہ کے عزائم کی تکمیل کے لیے موثر اور مثبت پیش رفت کرے گا جس سے اہم مسائل پر عالم اسلام بالخصوص جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی علمی وفکری راہ نمائی کا مناسب اہتمام ہو سکے گا۔
پاکستانی جامعات میں قرآنیات کا مطالعہ
پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمود اختر
(گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ میں ایم فل علوم اسلامیہ کے طلبہ سے گفتگو۔)
میرے لیے یہ اعزاز کی بات ہے کہ مجھے آپ حضرات سے مخاطب ہونے کا موقع ملا ہے۔ مجھے جو موضوع دیا گیا ہے، وہ ہے ’’پاکستانی جامعات میں قرآنیات کا مطالعہ‘‘۔ یعنی پاکستان کی یونیورسٹیوں کے اندر اس وقت قرآن کریم کے مطالعہ کے حوالے سے جو نصابات موجود ہیں اور جو اس مطالعے کے نتائج ہیں، میں نے ان پر اظہار خیال کرنا ہے۔ لیکن موضوع پر گفتگو سے قبل ایک دو باتیں میں چاہوں گا کہ آپ کے سامنے عرض کر دوں۔
ما شاء اللہ آپ لوگ ایم فل کی سطح پر آ گئے ہیں۔ آپ شعوری طور پر اس چیز کا ادراک کریں اور اپنے دل میں یہ احساس پیدا کریں کہ اب آپ بی اے، ایم اے سے اوپر ایک ایسی اسٹیج پر پہنچ گئے ہیں جہاں زمین و آسمان کا فرق پڑ جاتا ہے۔ اب آپ ہائیر اسٹڈی میں آگئے ہیں۔ اب آپ کا مطالعہ اور علمی ذخیرہ اس سے پہلے کا جو دور تھا، اس سے کہیں بہتر ہونا چاہیے اور کہیں زیادہ بلند ہونا چاہیے، آپ کی سوچ کا معیار پہلے سے کہیں بہتر ہونا چاہیے۔ اب آپ اپنے مطالعے اور اپنی سوچ کے اندر اور سوچ کی نہج کے اندر تبدیلی لائیں۔ پہلے آپ ایک چیز سنتے تھے اور سن کر اپنے ذہن میں محفوظ کر لیتے تھے، لیکن اب آپ کے اندر یہ رجحان طبع پیدا ہونا چاہیے، اپنی طبیعت میں یہ رجحان پیدا کریں کہ اب آپ نے محض سنی ہوئی اور پڑھی ہوئی باتوں کو اپنے حافظے کے اندر محفوظ نہیں کرنا، بلکہ جو چیز بھی پڑھیں اور سنیں، اس کے متعلق کیا، کیوں اور کیسے، یہ سوالات بھی اٹھائیں۔ پہلے آپ کی نظر کسی بات کے استناد کا حوالہ یہ تھا کہ یہ فلاں کتاب میں لکھی ہوئی ہے، اب آپ کی نگاہ فوری طور پر اس بات پر آنی چاہیے کہ اس کتاب کا مصنف کون ہے؟ اس نے یہ روایت کس سے لی ہے؟ جس سے یہ روایت لی ہے، اس کا مقام و مرتبہ کیا ہے اور جو بات یہ کر رہا ہے، یہ عقل میں بھی آتی ہے کہ نہیں؟ جو بات یہ کر رہا ہے، وہ ممکن بھی ہے کہ نہیں؟ اگر آپ کے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہوا ہے کہ یہ چیز صحیح بھی ہے یا نہیں تو آپ اس کے صحیح ہونے کا کھوج لگائیں گے۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو کن بنیادوں پر صحیح ہے اور اگر غلط ہے تو کس بنیاد پر غلط ہے۔ اگر آپ کہیں پڑھیں کہ فلاں بزرگ نے ایک رات میں تین مرتبہ قرآن پاک ختم کر لیا تو آپ کے ذہن میں یہ چیز پیدا ہونی چاہیے کہ کیا عملاً اور عقلاً ایسا ممکن ہے؟ آپ کو غور و فکر کرنا ہے۔ تو اپنے اندر یہ تبدیلی پیدا کریں۔ اگر آپ اسی ذہنی لحاظ سے اسی اسٹیج پر رہے جس پر آپ اس سے پہلے ایم اے کے درجے میں تھے تو پھر آپ نے کچھ بھی نہیں پایا، پھر آپ کی شخصیت اور علم کے اندر اور ذہن میں کوئی ارتقا اور improvement نہیں ہوئی۔
میں وضاحت کے لیے ایک مثال دیتا ہوں۔ حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ کی اہلیہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! میرے خاوند جو کہ تنگ دست ہیں، کیا میں ان کو زکوٰۃ دے سکتی ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، دے دیا کرو۔ یہ بات ہم سنتے اور پڑھتے آئے ہیں۔ اب آپ کے ذہن میں اس روایت کو پڑھ کر کئی طرح کے سوالات پیدا ہونے چاہییں۔ مثلاً یہ کہ کیا بیوی اپنے خاوند کو زکوٰۃ دے سکتی ہے؟ اگر دے سکتی ہے تو کیوں دے سکتی ہے؟ اور کیا خاوند اپنی بیوی کو زکوٰۃ دے سکتا ہے؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں دے سکتا؟ وہ اسے زکوٰۃ دے سکتی ہے تو یہ کیوں نہیں دے سکتا؟ یہ سوال اٹھائیں۔ پھر اس کے جواب آئیں گے۔ پھر یہ بات ذہن میں آئے گی کہ عورت بھی مال کی ملکیت کا حق رکھتی ہے۔ یہ نہیں کہ وہ عبد اللہ ابن مسعودؓ کی بیوی ہے تو ان کی دولت بیوی کی ہوگئی اور بیوی کی دولت خاوند کی ہوگئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام نے عورت کے معاشی حقوق کو تسلیم کیا ہے۔ جب اس کے حقوق کو تسلیم کیا ہے تو ظاہر بات ہے، اس پر زکوٰۃ بھی آئے گی۔ آپ کے ذہن میں یہ بات بھی آنی چاہیے کہ اس دور میں معاشی تفاوت موجود تھا۔ کوئی امیر تھا، کوئی غریب تھا۔ اور آپ کے ذہن میں یہ سوال بھی آنا چاہیے کہ حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ غربت کا کیوں شکار تھے؟ بیوی کے پاس جو دولت آئی، وہ کہاں سے آئی؟ کیا ان کو جہیز میں ملی؟ کیا کسی نے ہبہ کر دی؟ یا ان کا کوئی کاروبار تھا؟ تو ان ساری باتوں کا جواب آپ تلاش کریں گے تو آپ کے ذہن کا ارتقا ہوگا اور آپ کی سوچ پختہ اور گہری ہوگی۔
ہمارے نظام تعلیم کی ایک بہت بڑی کمی ہے کہ ہم اپنے بچوں کے اندر تخلیقی استعداد پیدا نہیں کرتے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم چیزیں رٹتے اور یاد کرتے جاتے ہیں۔ بہرحال اب آپ تخلیقی رجحان پیدا کریں اور جس اسٹیج پر آپ آئے ہیں، اس کے تقاضوں کا ادراک اپنے اندر پیدا کریں اور مطالعے کا شوق پیدا کریں۔ ایک مطالعہ ہوتا ہے بندش کا یعنی مجبوری کا مطالعہ۔ وہ اتنے اثرات مرتب نہیں کرتا جتنا شوق سے کیا گیا مطالعہ اثرات کرتا ہے۔ دیکھیں، مکان بنانے کے لیے بہت سی چیزیں پہلے ضروری ہوتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ زمین ہموار ہو۔ ایسا نہیں کہ کسی جوہڑ میں آپ مٹی ڈال کر اس کو ہموار کر لیں اور اس پر مکان بنانا شروع کر دیں۔ اگر ایسی زمین پر مکان بنائیں گے تو اس کی دیواریں بہت جلد بیٹھ جائیں گی، اس کا فرش بیٹھ جائے گا۔ عمارت کے لیے پہلے بنیاد ضروری ہے۔ اور بھی بہت سی ضروریات پوری کریں گے، ورنہ اس کے اندر سے سیم نکل آئے گی اور وہ مکان کو لے ڈوبے گی۔ اس مثال کا مقصد یہ ہے کہ آپ نے اعلیٰ تعلیم کی عمارت تعمیر کرنی ہے تو اس کے لیے زمین ہموار کرنی ہوگی۔ اپنا مطالعہ وسیع کریں، اپنے اساتذہ سے پوچھیں۔ اگر آپ کا محدود مطالعہ ہے اور آپ کسی سے معلوم نہ کریں تو یہ جہالت کی ایک شکل ہے۔ اس لیے پوچھنے میں کوئی شرم نہیں۔ ہمارے دین میں تو یہ ہے کہ ’’ماں کی گود سے لے کر قبر تک پڑھتے رہیں‘‘۔ تو پوچھنے میں بالکل بھی جھجھک نہیں ہونی چاہیے۔
اس سلسلے میں سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ آپ قرآن مجید کی طرف رجوع کریں۔ اگر تلاوت صحیح نہیں کر سکتے تو کسی سے پڑھ لیجیے۔ اس کی تلاوت صحیح کریں۔ پھر اگر آپ کو قرآن مجید کا ترجمہ نہیں آتا تو کسی کے پاس بیٹھ کر ترجمہ پڑھیے۔ اگر آپ خود پڑھیں گے تو اس کا اتنا زیادہ اچھا امپیکٹ نہیں ہوگا۔ یہ باتیں جو میں کر رہا ہوں، ضروری بنیادی باتیں ہیں جن کا لحاظ کرنا بہت ضروری ہے۔ ہمارا اپنا یہ تجزیہ ہے کہ دینی علوم مثلاً قرآن، حدیث اور فقہ اور سیرت طیبہ، ان کا اپنا ایک مزاج ہے۔ کسی نے مجھے کہا تھا کہ یہ قرآن و حدیث اور عربی کرسیوں پر بیٹھ کر نہیں آتی اور انگریزی صفوں پر بیٹھ کر نہیں آتی۔ اس کے لیے ماحول اپنانا پڑتا ہے۔ تو دینی علوم کی خاصیت یہ ہے کہ جب تک استاد کے سامنے بیٹھ کر نہ پڑھے جائیں، یہ دل میں نہیں اترتے۔ بنیادی ضرورت عربی جاننا اور اس پر دسترس حاصل کرنا ہے اور یہ ناگزیر ہے۔ آج تک جو وقت گزر گیا، سو گزر گیا۔ جن کو گزارے کی عربی آتی تھی، ان کا کام چل رہا تھا۔ اب اگلا دور بہت کمپی ٹیشن کا دور ہے۔ اب جس کو عربی نہیں آتی، وہ سمجھے کہ وہ بالکل خالی خالی ہے اور اردو مآخذ سے اسلامیات پڑھنے کے بعد وہ اسلامیات کا اسکالر نہیں کہلا سکتا۔ آپ ایم فل میں آئے ہیں اور ایم فل کی بنیادیں تبھی مضبوط ہوں گی جب آپ عربی زبان میں مہارت پیدا کریں گے۔ اگر عربی نہیں آتی تو کوئی بات نہیں، اس کو ابھی سے سیکھنا شروع کر دیں۔ قرآن حکیم کا ترجمہ اور عربی زبان کو ملا کر اپنے آپ کو تیار کریں۔ کچھ محنت کرنے سے جب آپ کو عربی آنا شروع ہو جائے گی تو آپ کے اندر ایک کانفیڈنس ابھرے گا، انشاء اللہ۔ جن کو عربی آتی ہے، ان میں کانفیڈنس ڈیولپ ہو جاتا ہے، اعتماد پیدا ہو جاتا ہے۔ اللہ کرے جو عربی نہیں جانتے، وہ عربی سیکھ جائیں۔ بعد میں ذرا اپنا جائزہ لیں کہ اگر مجھے عربی نہ آتی ہوتی تو کیا میں عربی کے ان مآخذ سے فیض یاب ہو سکتا تھا؟
مجھے بقدر ضرورت عربی آتی ہے، میں اتنا ماہر نہیں ہوں لیکن میں کہا کرتا ہوں کہ مجھے دو چیزوں کی بڑی حسرت ہے۔ ایک یہ کہ میں نے کسی استاد کے سامنے بیٹھ کر حدیث نہیں پڑھی اور دوسرا مجھے ’’فتح الباری‘‘ (شرح صحیح البخاری) کا بہت اشتیاق ہے کہ مجھے یہ ایسے پڑھنی آجائے جیسے میرے ذہن میں ہر چیز مستحضر ہو۔ آپ جب بنیادی مآخذ سے علوم کو پڑھیں گے تو اعتماد پیدا ہوگا۔ قرآن مجید، عربی کے ساتھ ساتھ حدیث کا مطالعہ بھی شروع کریں، اگرچہ آپ ’’معارف الحدیث‘‘ سے ہی آغاز کر لیں۔ ’’بلوغ المرام‘‘ اور ’’الترغیب والترہیب‘‘ سے شروع کردیں۔ ’’مشکوٰۃ‘‘ سے شروع کردیں۔ ان کتابوں کے تراجم موجود ہیں۔ اب تو ان غیر معروف کتابوں کے بھی تراجم موجود ہیں جو پہلے اردو میں دستیاب نہیں تھیں۔ ایک وقت مختص کر لیں کہ کچھ وقت میں نے قرآن مجید اور حدیث نبوی کے مطالعے پر صرف کرنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نصاب بھی رکھ لیں۔ کیونکہ سیرت قرآن و حدیث کا مجموعہ ہے، اس میں صاحب قرآن کی زندگی ہے۔ ان تین چیزوں کو سامنے رکھ کر ابھی سے مطالعہ شروع کر دیں تو انشاء اللہ العزیز آپ کو کوئی دقت پیدا نہیں ہوگی اور اگر اس کے بغیر چلیں گے تو پھر خالی خالی ہی رہیں گے اور اعتماد، کانفیڈنس ڈویلپ نہیں ہوگا۔
اب میں اصل موضوع کی طرف آتا ہوں کہ ’’پاکستان کی یونیورسٹیوں میں قرآنیات کا مطالعہ‘‘ کس انداز میں ہو رہا ہے۔ اس وقت ہماری جامعات میں قرآن کا جو مطالعہ کیا جا رہا ہے، عموماً ہر یونیورسٹی کے اندر نصاب یکساں ہے اور اس کے نصاب میں اصول تفسیر اور قرآنیات یا تفسیر اور متن تفسیر شامل ہیں۔ اصول تفسیر میں جو مرکزی کتاب پڑھائی جاتی ہے، وہ شاہ ولی اللہؒ کی ’’الفوز الکبیر‘‘ ہے۔ یہ ایسی کتاب ہے کہ اس کے بغیر اصول تفسیر کا حصہ cover ہی نہیں ہوتا۔ کتاب ایسی ہے کہ لوگ کہتے ہیں دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ شاہ ولی اللہ نے سمندر کو کوزے میں بند کیا ہوا ہے۔ یہ مبالغہ آرائی نہیں ہے۔ شاہ ولی اللہؒ نے بڑی جامعیت کے ساتھ اس رسالے میں اصول تفسیر کو جمع کیا ہے اور بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو دوسرے علماء نے بیان نہیں کیں، انہوں نے اس رسالہ میں جمع کر دی ہیں۔ ایک جامع کتاب اور اصول تفسیر میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ لیکن ہمارا جو طریقہ تدریس ہے، اس میں کہیں بھی ایسا نہیں کہ ’’الفوز الکبیر‘‘ کو سبقًا سبقًاپڑھا جاتا ہو یا پڑھایا جاتا ہو۔ کتاب اتنی اہم ہے، لیکن ہمارے ہاں تدریس کا جو دورانیہ ہے، اس کے مختصر ہونے کی وجہ سے ’’الفوز الکبیر‘‘ سبقًا سبقًا نہیں پڑھائی جاتی۔ آخر میں طلبہ اس کے نوٹس کی مدد سے تیاری کر کے ایم اے پاس کر جاتے ہیں۔ ہمارا اصول تفسیر کا نصاب الفوز الکبیر کے گرد ہی گھومتا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں چند سالوں سے ہم نے اس کے ساتھ امام ابن تیمیہؒ کا رسالہ اصول تفسیر بھی شامل کیا ہے۔ اسی طرح علوم القرآن پر مولانا گوہر رحمن کی کتاب بھی شامل کر دی ہے تاکہ الفوز الکبیر کے مباحث سمجھنے میں آسانی ہو۔
تاریخ تفسیر میں بھی جامعات کا نصاب تقریباً ایک جیسا ہے اور اس میں ہم آہنگی اور مماثلت پائی جاتی ہے۔ پنجاب کے علاوہ بلوچستان اور پشاور یونیورسٹیز کا نصاب ایسا ہی ہے۔ جن کتب تفاسیر کا تعارف کروایا جاتا ہے، وہ بھی ایک ہی ہیں۔ یونیورسٹیوں میں چونکہ دورانیہ تھوڑا ہوتا ہے، اس لیے تاریخ تفسیر کے ضمن میں تفصیل کے ساتھ اصولی باتیں پڑھا دی جاتی ہیں اور باقی چیزیں طلبہ خود ہی تیار کرتے ہیں۔ ان کو نوٹس دے دیے جاتے ہیں یا طلبہ کہیں سے نوٹس حاصل کر لیتے ہیں۔ گویا ان دونوں دائروں، اصول تفسیر اور تاریخ تفسیر کی تدریس میں یونیورسٹیز کے نصاب اور طریقہ تدریس میں زیادہ گہرائی نہیں ہے۔ ابھی چند دن پہلے ہمارے اسلامیات کے پیپرز کے انچارج کہہ رہے تھے کہ طلبہ کے اصول تفسیر اور تاریخ تفسیر کے حصے بہت کمزور ہیں۔ اس لیے کمزور ہیں کہ سارا وقت متن میں گزر جاتا ہے اور معاملہ مطالعے کے لحاظ سے اتنا گہرائی تک نہیں پہنچتا۔
متن قرآن مجید کی تدریس کے سلسلے میں، میں معافی چاہتے ہوئے تھوڑا سا تقابل کرنا چاہوں گا۔ دینی مدارس کے ساتھ اگر موازنہ کیا جائے تو دیکھنے میں یہ بات آتی ہے کہ یونیورسٹیز میں جو اسٹڈی ہوتی ہے، اس میں مطالعہ متن کے ساتھ قرآن مجید کا موضوعاتی مطالعہ بھی ہوتا ہے۔ یہ بہرحال تسلی اور اطمینان کی بات ہے کہ ہمارے ہاں آیت کی تشریح مانگی جائے یا ٹاپیکل اسٹڈی کی جائے تو دونوں صورتوں میں مطالعہ گہرا ہوتا ہے اور کوشش یہ کی جاتی ہے کہ اس میں قدیم اور جدید تمام مکاتب فکر سے طلبہ کو واقفیت حاصل ہو۔ یہاں بنیادی طور پر یہ بات آڑے آجاتی ہے کہ ہمارے اکثر طلبہ کو عربی نہیں آتی۔ اب ہم نے پنجاب یونیورسٹی میں اس بات کا اہتمام کیا ہے کہ ساتھ ہی عربی کا ڈپلومہ بھی شروع کر دیا ہے اور طلبہ کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ عربی سیکھیں۔ ایم کے سال اول میں سو نمبر کا ایک پرچہ عربی کا پہلے ہی موجود ہے۔ یہ دونوں چیزیں مل جائیں گی تو امید ہے کہ اس حوالے سے کچھ بہتری آئے گی۔
پنجاب یونیورسٹی میں ہم نے یہ کوشش کی ہے کہ تدریج کے ساتھ ہم بچوں میں عربی پڑھنے کی صلاحیت پیدا کریں اور عربی پڑھنے کی عادت ڈالیں۔ عادت ڈالنے کا ایک طریقہ ہم نے یہ اختیار کیا ہے کہ امتحانی پرچہ اس انداز سے سیٹ کیا جائے کہ بچوں کو مجبورًا عربی پڑھنی پڑے۔ اس سے پہلے زیادہ سے زیادہ یہ تھا کہ خط کشیدہ الفاظ کی تشریح دے دی جاتی تھی۔ اس میں مضمون کے اعتبار سے خط کشیدہ حصے کی تشریح تو ہو جاتی تھی لیکن عربی گریمر میں مہارت نہیں جانچی جاتی تھی۔ پنجاب یونیورسٹی نے اب یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ اگر بیس نمبر کا سوال ہے تو اس میں پانچ نمبر خط کشیدہ حصوں کی صرف ونحو کے اعتبار سے تشریح کے لیے مختص ہیں۔ مثلاً اس لفظ کا باب کون سا ہے، کون سا صیغہ اور مادہ ہے۔ ماضی، مضارع، امر یا نہی ہے۔ طالب علم نے یہ سب کچھ بیان کرنا ہے۔ گویا ایم اے میں اگر ساٹھ نمبر کا پرچہ ہے اور چار سوال ہیں تو ہر سوال میں عربی گریمر کے پانچ نمبر ہیں اور یہ لازم ہوگیا ہے۔ اگر بچے نے عربی گریمر کو حل نہیں کیا تو اس نے پانچ نمبر ضائع کر دیے۔ باقی پندرہ نمبروں میں ا س کی مارکنگ ہوگی۔ اس کے ساتھ ہم نے پنجاب یونیورسٹی میں یہ کیا ہے کہ علامہ وہبہ الزحیلی کی ’’التفسیر المنیر‘‘ کا منتخب متن (دو رکوع) ایم اے کے نصاب میں شامل کر دیا ہے۔ دو رکوع کے تقریباً ساٹھ ستر صفحات بن جاتے ہیں۔ اسی طرح حدیث کے پرچہ میں فتح الملہم (شرح صحیح مسلم) کی کتاب الایمان اور فتح الباری (شرح صحیح بخاری) کا منتخب حصہ بھی شامل کر دیا ہے جنھیں طلبہ عربی میں ہی پڑھیں گے اور عربی ہی میں جواب دیں گے۔ تو یہ ہم نے ایک قدم اٹھایا ہے تاکہ بچوں کو عربی پڑھنے کی طرف متوجہ کیا جائے۔
ڈاکٹر حمید اللہؒ عالم اسلام کے بہت بڑے اسکالر تھے۔ میرے علم کے مطابق وہ سات آٹھ زبانوں کے ماہر تھے۔ وہ فرماتے تھے کہ ایک اسلامی اسکالر کو کم از کم بنیادی طور پر عربی اور اس کے ساتھ کم از کم ایک یورپین لینگویج آنی چاہیے۔ اس حوالے سے ہمارے پاس انگریزی ہی بچتی ہے۔ لاہور میں تو چینی زبان سیکھنے کا رجحان بھی کافی ہے۔ لوگ چینی سیکھنے کی طرف بہت جا رہے ہیں۔ ہمارے وزیر اعلیٰ نے جرمنی میں جا کر جرمن زبان میں تقریر کی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں جرمن زبان کا ایک چھوٹا سا شعبہ ہے۔ وہاں سے ہمارے استاد وزیر اعلیٰ صاحب کو پڑھانے آتے ہیں۔ ان میں اتنی استعداد پیدا ہوگئی ہے کہ انہوں نے جرمن میں گفتگو کی ہے، یہ اچھی بات ہے۔ تو انگریزی آنی چاہیے اور جب ہم انگریزی پڑھاتے ہیں یا پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ادھر سے جواب آتا ہے کہ مومنوں کو انگریزی نہیں آتی۔ یہ آنی چاہیے، اس کے بغیر ہم نہیں چل سکتے۔ ہم نے اس حوالے سے بندوبست کیا ہے اور پنجاب یونیورسٹی میں انگریزی کا بھی کچھ حصہ شامل کر دیا ہے جس کا امتحان پاس کرنا طلبہ کے لیے ضروری ہوگا، لیکن ہوگا نان کریڈٹ، یعنی رزلٹ میں شامل نہیں ہوگا۔
ہماری یونیورسٹیز میں قرآنیات کا جو مطالعہ ہو رہا ہے، وہ ایک حوالے سے ہمارے لیے اطمینان بخش ہے اور ایک اعتبار سے پریشان کن ہے۔ اطمینان بخش پہلو یہ ہے کہ ہمارا ٹیچر جب کلاس کے اندر لیکچر دیتا ہے تو وہ پانچ سات تفسیریں پڑھ کر آتا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ عربی گریمر کا حصہ ہم نے ہر سوال کے اندر لازم کر دیا ہے۔ اسی طرح پہلے ہمارے ہاں موضوعاتی مطالعے پر مبنی سوالات ہوتے تھے۔ اب ہم نے لازم کر دیا ہے کہ ٹاپیکل اسٹڈی والا سوال نہیں آیا کرے گا۔ مثلاً ’’سورہ نحل کی روشنی میں توحید کے دلائل بیان کیجیے‘‘، یہ سوال نہیں آئے گا بلکہ آیت دی جائے گی اور طالب علم نے یہ تلاش کرنا ہے کہ اس آیت کے اندر کون کون سے سوال ہیں؟ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک آیت میں ایک سے زیادہ موضوعات ہوں۔ بہرحال ہمارے سسٹم میں بظاہر جو اطمینان کا پہلو ہے، وہ یہ ہے کہ ہمارا استاد اگر ایک آیت کی تفسیر کرتا ہے تو پانچ چھ تفسیریں اس نے پڑھی ہوتی ہیں اور اس کے مطابق وہ طلبہ کو پڑھاتا ہے۔ بچوں سے نوٹس بھی تیار کرواتا ہے اور بعض اوقات بچوں کے پاس پہلے سے نوٹس موجود ہوتے ہیں۔ تو اس حوالے سے متن والا سوال خاصا وزنی ہو جاتا ہے۔ اگر میں موازنہ کروں دینی مدارس سے تو ان کا اپنا ایک انداز ہے، ہمارا اپنا انداز ہے۔ یہاں طالب علم کو چار پانچ تفسیروں کا بہرحال علم ہوجاتا ہے کہ مولانا مودودیؒ نے آیت کے بارے میں کیا لکھا ہے؟ بلکہ جب پیپر مارکنگ ہوتی ہے تو اس کے اندر ایک طالب علم جو ترجیحی نمبر حاصل کرتا ہے تو اس میں ایک پوائنٹ یہ بھی ہوتا ہے کہ طالب علم نے کتنی تفاسیر کے ریفرنس دیے ہیں۔ مثلاً مولانا مودودیؒ اس آیت کے بارے میں یہ لکھتے ہیں۔ مفتی محمد شفیعؒ (مصنف معارف القرآن) یہ لکھتے ہیں۔ پیر کرم شاہ (مصنف تفسیر ضیاء القرآن) یہ لکھتے ہیں۔
میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ تقریباً تمام جامعات کے اندر یہ بات موجود ہے اور مجھے اس بات کا مشاہدہ ہے کہ مطالعہ قرآن میں کسی مسلکی رجحان کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا۔ ہمارے ایسے ساتھی موجود ہیں جو پنجاب یونیورسٹی میں پڑھ کر آئے۔ وہ جہاں مولانا مودودیؒ کے حوالے دیتے ہیں، وہاں وہ مفتی محمد شفیعؒ کے حوالے بھی دیتے ہیں۔ جہاں پیر کرم شاہ صاحبؒ کے حوالے ہوتے ہیں، وہاں مولانا امین احسن اصلاحیؒ کے حوالے بھی ہوتے ہیں۔ تو ہمارے ہاں مسلکی رجحانات سے بالاتر ہو کر جو چیز جہاں سے بھی ملتی ہے اور جس صحیح لٹریچر میں سے ہمیں کوئی چیز ملتی ہے، ہم طلبہ کو اس کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ یونیورسٹیز میں متن قرآن کے حوالے سے یہ بڑی حوصلہ افزا چیز ہے کہ اللہ کے فضل سے بڑی مفید اسٹڈی ہوتی ہے۔ اگرچہ وہاں بحث و تمحیص تو نہیں ہوتی، مثلاً یہ مسئلہ کیسے پیدا ہوا، فلاں نے کیا کہا، فلاں نے کیا کہا، اور ان کے کیا دلائل ہیں۔ ایم اے کی سطح پر یہ بات نہیں ہو پاتی، بلکہ کسی کی رائے کا حوالہ دینے اور بیان کرنے پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔ دلائل کی سطح پر تقابل کرنا، یہ ایم اے کی سطح پر نہیں ہو پاتا۔ اس حوالے سے یہ ہمارے مطالعہ قرآن کا بہت مثبت پہلو ہے۔ وسیع المشربی کا مطلب ہے کہ جہاں کہیں بھی کوئی مفید بات ملتی ہے، ہر ایک سے استفادہ کرنا۔ آپ دیکھیے کہ بظاہر کتنا فرق ہے کہ ایک طرف پیر کرم شاہ بریلوی مکتبہ فکر کے ہیں، مولانا مفتی شفیع دیوبندی مسلک کے ہیں، مولانا امین احسن اصلاحی، ان کا الگ تفسیری مکتبہ فکر ہے، لیکن ہمارے ہاں ان سب سے استفادہ کیا جاتا ہے۔
ایک دفعہ میں نے کلاس میں طلبہ کو ’’تدبر قرآن‘‘ پڑھنے سے منع کیا کہ ان کو نہ پڑھنا۔ فوراً ایک طالب علم بولا کہ آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ میں نے کہا کہ پہلے میری وضاحت سن لیں۔ مولانا امین احسن اصلاحی کا تفسیر کا اپنا ایک انداز ہے اور ان کا اپنا تفسیری مسلک ہے۔ میں کہتا ہوں کہ پہلے اپنے اسلاف کا نقطہ نگاہ پڑھ لیجیے! کوئی بندہ عالم نہیں بن سکتا جب تک ’’تدبر قرآن‘‘ نہ پڑھ لے، لیکن ’’تدبر قرآن‘‘ پڑھنے کے لیے ایک علمی سطح چاہیے۔ اگر ہر بندہ اسے براہ راست پڑھے گا تو ہو سکتا ہے، کئی چیزیں اس کے ذہن میں نہ آسکیں۔ لیکن جب آپ تھوڑا سا علمی سطح پر اوپر چلے جائیں گے تو پھر آپ کہیں گے کہ اس تفسیر کے بغیر میں عالم بن ہی نہیں سکتا۔ اس تفسیر کا اپنا ایک مقام ہے۔ تو یونیورسٹی میں ان تمام مکاتب فکر کی تفسیر سے استفادہ کیا جاتا ہے اور کھلے دل سے لوگوں کو سب کچھ سمجھایا جاتا ہے، بشرطیکہ راست فکر کاحامل ہو۔
بہرحال ہم نے یہ کیا ہے کہ کچھ تفسیریں مختص کر دی ہیں کہ فلاں سورت اس تفسیر کی روشنی میں اور فلاں اس تفسیر کی روشنی میں پڑھنی ہے اور کوشش کر رہے ہیں کہ بچے کو سوال دیا جائے کہ فلاں آیت کی تفسیر ’’التفسیر المنیر‘‘ کی روشنی میں یا معارف القرآن کی روشنی میں کرو۔ اس طرح طالب علم متعلقہ تفسیر پڑھنے پر مجبور ہوگا۔ ایک قدم ہم نے یہ اٹھایا ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کے اندر چار شعبے اسپیشلائزیشن کے رکھے ہیں۔ ان میں قرآن میں سپیشلائزیشن کا شعبہ ہے۔ اسی طرح فقہ، مطالعہ مذاہب عالم اور حدیث اور سیرت کے شعبے ہیں۔ ایم اے کے دس پرچے ہیں۔ طالب علم کو مذکورہ مضامین میں سے کسی ایک مضمون میں اسپیشلائزیشن کے تین پرچے پڑھنے پڑیں گے۔ اس طرح ہماری یونیورسٹیز میں قرآنیات کی تعلیم مزید پروموٹ ہوگی اور مزید بہتری آئے گی۔ اسی طرح کئی اور پہلووں سے بھی مزید بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ حال ہی میں ہم نے چھ دن کی ورکشاپ کی ہے اور اس میں بہت ساری چیزیں سامنے آئی ہیں۔ اساتذہ مل بیٹھ کر قرآن مجید کے نصابات میں جو عصری تقاضے ہیں، سب سے پہلے ان کا تعین کریں کہ ہم نے بچوں کے سامنے کیا کیا چیزیں لانی ہیں، کن کن چیزوں سے بچوں کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔ یہ اساتذہ پہلے بیٹھیں، نکات متعین کریں، پھر اس پر ڈسکس کریں کہ بچوں کو ان موضوعات پر کیسے علم دینا ہے اور اس پر فیڈ بیک دیں اور جب تک ہم فیڈ بیک کا نظام نہیں بنائیں گے تو اس وقت تک یہ ممکن نہیں کہ ہم اچھے نتائج حاصل کر سکیں۔
مثبت پہلووں کے ساتھ ہمیںیونیورسٹیز میں کچھ مسائل کا بھی سامنا ہے۔ مثلاً ایک بہت بڑا مسئلہ طلبہ کے اندر علمی استعداد و صلاحیت پیدا کرنے اور جو وہ پڑھیں، اسے ان کے دماغ میں محفوظ کرنے کا ہے۔ یہ سب کچھ پڑھنے کے بعد ایم اے پاس طالب علم کی لیاقت میں کیا اضافہ ہوتا ہے؟ یہ ہمارے لیے ایک سوال ہے کہ آخر وہ علم جو ہم یونیورسٹیز کے اندر انہیں پڑھاتے ہیں، ان کے ذہنوں میں محفوظ کیوں نہیں ہوتا؟ دینی مدارس میں ایک خاص ماحول ہوتا ہے۔ اس ماحول میں بچے پہلے سے مطالعہ کر کے جاتے ہیں۔ پھر استاد سبق دیتا ہے، پھر وہ سبق کا آپس میں مذاکرہ یعنی تکرار کرتے ہیں تو اس سے چیزیں ذہن نشین ہو جاتی ہیں۔ طلبہ ایک دوسرے سے سنتے ہیں، میں پڑھ رہا ہوں باقی سن رہے ہیں تو اس سے بھی ذہنوں میں چیز محفوظ ہوتی ہے۔ کالجز اور یونیورسٹیز کے اندر یہ چیز موجود نہیں۔ اگر قرآن مجید پکڑا ہے تو وضو کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ اگر وضو کے چکر میں پڑے تو کلاس رہ جائے گی۔ ادب و احترام ملحوظ نہیں۔ میں نے پہلے بھی کہا کہ صفوں پر بیٹھ کر دین آتا ہے اور دین سیکھنے کے کچھ ضروری آداب بھی ہیں۔ یہ سب چیزیں ہوں گی، تب دین کا علم آئے گا ورنہ یہ ساری باتیں اوپر سے گزر جائیں گی۔ یونیورسٹی میں وہ ماحول ہی نہیں ہوتا جو دین کا علم سیکھنے کے لیے ضروری ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے ذہن میں مطالعہ کا مقصد صرف یہی ہے کہ امتحان میں نمبر کیسے لینے ہیں۔ ہم ہدایت لینے یا علم کے حصول کے لیے نہیں پڑھتے۔ ایک چیز ادھر سے سنی اور ادھر سے نکال دی۔ تو نہ ماحول ہوتا ہے اور نہ ہی اعلیٰ مقاصد ہوتے ہیں۔ طلبہ میں قرآنیات اور دیگر علوم کے حوالے سے خود مطالعہ کرنے کا ذوق نہیں ہوتا۔ نوٹس نہیں بنا سکتے، پرانے نوٹس سالہا سال سے چل رہے ہیں۔ ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے پاس کس سال کے نوٹس ہیں؟ چونکہ طلبہ کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا اور انہیں بہت سے کام ہوتے ہیں، لہٰذا زیادہ تر طالبات کے تیار کردہ نوٹس ہی چلتے ہیں۔ ہم اندازہ کر لیتے ہیں کہ ان نوٹس کی کتنے سال عمر ہوگئی ہے، وہی چلتے رہتے ہیں۔ اصل کتابوں اور مآخذ سے پڑھنا مشکل ہے۔
ایم فل، پی ایچ ڈی میں یوں سمجھنا چاہیے کہ طالب علموں کے پاس موضوع سے متعلق علم موجود ہے اور اب انھوں نے اس علم کا عملی انطباق کرنا ہے۔ میں ایم فل کو علوم القرآن پڑھاتا ہوں اور میرا اپنا پڑھانے کا طریقہ یہ ہے کہ میں ’’الفوز الکبیر‘‘ کو بنیاد بنا لیتا ہوں۔ ایک تو یہ بڑی بنیادی کتاب ہے، دوسرا ان بچوں نے ایم اے میں اس کو پڑھا بھی ہوا ہے۔ اسی طرح مولانا گوہر الرحمن کی کتاب علوم القرآن بھی آگئی ہے، اس کے اندر بہت زیادہ معلومات ہیں۔ اسی طرح علوم القران پر مولانا مالک کاندھلویؒ اور مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب کی کتابیں ہیں تو میں نے ان کتابوں کو سامنے رکھ کر تیاری کرتا ہوں۔ مثال کے طور پر اسباب نزول کی جو بحث ہے، اس میں ایک تو روایتی انداز ہے کہ ان لوگوں نے اسباب نزول بیان کیے ہیں۔ اسباب نزول کی اہمیت کیا ہے؟ ان کی اہمیت تفسیر قرآن میں کیا ہے؟ یہ تو ایک روایتی سوال ہے۔ میں اس میں یوں سوال کرتا ہوں کہ مولانا اصلاحی فرماتے ہیں کہ بہت سارے تفسیری اختلافات محض اس لیے پیدا ہوگئے ہیں کہ لوگوں نے اسباب نزول کا التزام کیا، لہٰذا کمزور اور ضعیف روایتیں لے لیں۔ مفسرین نے ہر آیت کی تفسیر میں اس کے شان نزول کی روایتیں لانا شروع کر دیں، لہٰذا کمزور روایتیں بھی شان نزول میں شامل ہوگئیں۔ تو میں طلبہ کو یہ اسائنمنٹ دیتا ہوں کہ آپ وہ مقامات تلاش کریں جہاں کمزور روایتیں داخل ہونے کی وجہ سے تفسیری اختلافات پیدا ہوگئے۔ ساتھ ہی مولانا اصلاحیؒ یہ فرماتے ہیں اور بہت سے مقامات پر مولانا نے صحیح فرمایا ہے کہ اگر نظم قرآن کو بنیاد بنایا جائے تو بہت سے تفسیری اختلافات ختم ہو سکتے ہیں۔ میں طلبہ میں یہ کام تقسیم کر دیتا ہوں کہ پانچ، پانچ مقامات تلاش کر کے لائیں جہاں تفسیری اختلافات تھے اور نظم قرآن کی وجہ سے وہ اختلافات ختم ہوگئے۔
اسی طرح نسخ کی بحث ہے۔ طلبہ نے اس پر بہت کچھ پڑھ رکھا ہے۔ اس کو بھی مستحضر رکھیں، لیکن اس سطح پر اپنے مطالعہ میں نئے پہلووں کو بھی شامل کریں۔ نئی بات یہ ہے کہ قرآن مجید کے موجودہ نسخہ میں کوئی ناسخ ہے، نہ منسوخ ہے، یہ قرآن مجید بالکل سُچا ہے۔ یہ کس کا نقطہ نگاہ ہے اور اس کے دلائل کیا ہیں؟ میں نے ایک جگہ یہ بات کی کہ اس موجودہ قرآن میں نہ کوئی ناسخ ہے اور نہ ہی منسوخ ہے تو مجھے کہا گیا کہ یہ تو معتزلہ کا نظریہ ہے۔ پوری امت میں واحد شخص ابو مسلم اصفہانی ہے جس نے یہ نقطہ نگاہ اختیار کیا۔ میں نے کہا کہ مجھے معتزلی نہ بنا دینا، میں اپنی بات کی وضاحت کردوں گا۔ تو علمی مباحث میں یہ بھی ڈر ہوتا ہے کہ اگر میں نے فلاں موقف اختیار کیا تو مجھ پر کوئی فتویٰ نہ لگ جائے۔ میں نے طلبہ کو مولانا سعید احمد اکبر آبادی کی کتاب فہم قرآن اور اسی طرح دوسری کتابیں پڑھائیں تو ان کا ذہن کھلا اور وہ اس سوال کو وسعت نظری کے ساتھ سمجھنے کے قابل ہوئے۔ بہرحال طلبہ کو اپنا مطالعہ وسیع کرنے پر مجبور کیا جائے۔ جب تک آپ خود مطالعہ نہیں کریں گے، کوئی قابل سے قابل استاد بھی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
آخر میں، میں آپ کا پھر شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے مجھے اپنی معروضات پیش کرنے کا موقع اور اعزاز دیا۔
نواب صدیق حسن خاں بھوپالی اور ان کی علمی خدمات
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی
(خود نوشت ’ابقاء المنن بالقاء المحن‘ کے خصوصی حوالے سے)
نواب صدیق حسن خان سادات قنوج سے تعلق رکھتے ہیں، وہ حسینی سید ہیں (۱) اور ان کے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیچ 33نفوس کا واسطہ ہے۔(۲) یہ خاندان بلادعرب سے ایران کے راستہ ملتان آیا اور وہاں سے اس کی شاخیں دہلی، حیدرآباد اور اودھ منتقل ہوئیں۔ اس خاندان میں متعدد لوگ ائمہ، صلحاء، اولیاء ہونے کے علاوہ دنیوی ثروت ووجاہت سے مالامال ہوئے ہیں۔ (۳) صدیق حسن خان کے والد ماجد سیداولادحسن تھے، جو شیعیت سے تائب ہوکر سنی ہوئے، اور دہلی آکر شاہ رفیع الدین اور شاہ عبدالعزیز سے اکتساب فیض کیا۔ انہوں نے شاہ عبدالعزیز کے ممتاز خلیفہ اور مجاہد کبیرسیداحمدشہید ؒ کے ہاتھ پر بیعت کی اور قنوج اور اس کے اطراف میں ہزارہا آدمی ان کی تبلیغی و اصلاحی کوششوں سے مشرف بہ اسلام ہوئے۔
نواب صدیق حسن خان 19جمادی الاولیٰ 1248ھ مطابق 1832ء کو اپنے نانیہال بانس بریلی میں پیداہوئے، پھر ان کی والدہ انہیں قنوج لے کر آئیں۔ صدیق حسن خان ابھی چار پانچ برس کے ہی تھے کہ 1253ھ میں ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ والدہ محترمہ اور والد کے بعض مریدوں کی سرپرستی میں صدیق حسن نے تعلیم وتربیت اور نشوونما پائی۔ والدہ نے ایک معلم کا انتظام گھر میں کیا۔ والد کا کتب خانہ موجودتھا۔ ان کے بڑے بھائی احمد حسن عرشی بھی بڑے لائق فائق اور ذہین تھے۔ صدیق حسن نے ان سے بھی چند کتابیں پڑھیں۔ اس کے بعد فرخ آباد کانپور اور بریلی میں مختلف علماء سے استفادہ کیا اور مواعظ واصلاحی مجالس میں شریک رہنے لگے۔ اس کے بعد دہلی گئے جہاں مختلف علماء سے اخذ علم کیا، بطور خاص صدرالافاضل مفتی محمد صدرالدین آزردہ سے علوم آلیہ کے علاوہ تفسیر وفقہ کی کتابیں پڑھیں۔ دہلی کے علماء ومشاہیر کی زیارت کی اور زیادہ تر اوقات علماء، عقلاء، امراء اور صلحاء کی تربیت میں گزرے۔ نوجوان صدیق حسن کھیل کود، لہوولعب وغیرہ میں کبھی وقت ضائع نہیں کرتے تھے،کیونکہ ان کی والدہ محترمہ ننے بچپن میں بہت ہی اہتمام کے ساتھ ان کی دینی واخلاقی تربیت کی تھی۔(۴)
مفتی صدرالدین آزردہ نے انہیں فراغت کی سند دی، وہاں سے بھوپال آئے، جہاں فقہ الحدیث اور صحاح ستہ کی سند شیخ زین العارفین بن محسن یمانی اور شیخ محمدحسین سے پائی۔ انہوں نے تلمیذشوکانی مولانا عبدالحق نیوتنوی سے بھی اجازت حدیث لی۔ اسی طرح خانوادہ ولی اللٰہی کی سند (بذریعہ مراسلت) مولانا محمدیعقوب نواسہ شاہ عبدالعزیز سے حاصل کی ۔جوانی میں ہی صدیق حسن کو تفسیر وحدیث سے خصوصی شغف پیداہوگیا جو تاحیات برقرار رہا۔
کارگاہ حیات میں
1850ء میں نوجوان صدیق حسن تلاش معاش میں بھوپال آئے۔ وہاں کے مدارالمہام منشی جمال الدین کے ذریعہ تاریخ بھوپال کی تدوین کے لیے آپ کا تقرر ہوا، تاہم جلد ہی اس ملازمت کو چھوڑنا پڑگیا۔ اب وہاں سے ٹونک گئے اور کافی عرصہ وہاں گزرا مگر وہاں کی فضا بھی زیادہ راس نہ آئی۔ اسی اثناء میں نواب بھوپال کا دعوت نامہ پھرملا، اور اب کی اچھے منصب پر تقرر ہوا۔ حتی کہ مدارالمہام نے ، جو صدیق حسن خاں کے ہم مشرب بھی تھے، اپنی صاحبزادی ذکیہ بیگم کا نکاح بھی آپ سے کردیا۔ 1285ھ میں صدیق حسن خان حج بیت کے سفرپر روانہ ہوئے۔ آٹھ مہینے کا یہ سفر ان کے لیے علمی لحاظ سے بڑا مبارک ثابت ہوا۔ حجاز کے علماء سے استفادہ کے علاوہ صاحب سبل السلام علامہ محمد بن اسماعیل الصنعانی کے 25رسالے اپنے ہاتھ سے نقل کرلیے اور متعدد بلند پایہ علمی کتابیں خریدیں۔ صدیق حسن اپنی گراں قدر خدمات کے باعث ارباب حکومت کی نظرمیں پسندیدہ ٹھہرے۔وہ ملکہ بھوپال شاہ جہاں بیگم کے دفتر خاص میں کاغذات وغیرہ پیش کرنے کے سلسلہ میں برابر آتے جاتے رہتے تھے۔ اللہ نے ملکہ کے دل میں آپ کی محبت ڈال دی۔ چونکہ وہ بیوہ تھیں، ان کے شوہر نواب باقی محمد خان کا چندسال پہلے ہی انتقال ہواتھا، اس لیے برطانوی حکومت کی تجویز پر انہوں نے عقدثانی کا ارادہ کرلیا۔ صدیق حسن خان کے علمی مرتبہ، علونسب اور استقامت کردار پر پورے بھروسہ کے بعد انہوں نے 1871ء میں ان سے نکاح کرلیا ،بعد ازاں بیگم صاحبہ کی جانب سے انہیں پچاس ہزار روپے سالانہ آمدنی والی جائداد عطاہوئی۔(۵)
نواب صدیق حسن خان نے ملکہ کے تعاون سے مملکت میں اہم اصلاحات کیں، نفاذ شریعت، علوم کی نشرواشاعت اور بدعات کے خاتمہ کے لیے اہم اقدامات کیے۔پورے 15سال نواب صاحب نے مملکت اور عوام کی دل وجان اور پورے اخلاص کے ساتھ خدمت کی مگر ’’المعاصرۃ اصل المنافرہ‘‘ کے تحت ان کے بہت سے دشمن اور حاسدین بھی پیداہوگئے۔ خاص قرابت داروں میں بھی بعض نے سخت مخالفت کی مثلاً ان کی سوتیلی بیٹی اور ولیۂ عہد سلطان جہاں بیگم بھی ان کے خلاف ہوگئیں، حالانکہ نواب صدیق حسن تاحیات ان سے حقیقی باپ جیسا مشفقانہ برتاؤ کرتے رہے۔ ان کی شکایات انگریز سرکارتک بھی پہنچائی گئیں۔ چنانچہ دشمنوں کی ان ریشہ دوانیوں اور سازشوں کے باعث نواب صاحب کے اختیارات، اعزازات اور القاب واپس لے لیے گئے اور تین سال تک سخت تکلیف اور کوفت کے عالم میں گزرے۔ (۶) تاہم علمی انہماک اور مطالعہ وغیرہ اس مدت میں بھی جاری رکھا۔ البتہ ان کی اہلیہ محترمہ رئیسہ بھوپال شاہجہاں بیگم نے ان کاپورا ساتھ دیا اور پوری وفاشعاری کا ثبوت دیا۔ اسی عالم میں 1307ھ مطابق 1890ء کو نواب صاحب نے دنیا کو خیربادکہا۔ وفات کے کچھ ہی دن بعد ان پر لگے الزامات غلط ثابت ہوئے اور ان کے القاب واعزازات بھی پسِ مرگ واپس کردیے گئے۔
علمی خدمات
علامہ نواب صدیق حسن خان بھوپالی ہندوستان کے ان چند علماء کبار میں سے ہیں، جن سے پورا عالم اسلام واقف ہے۔ وہ ایک نابغۂ روزگار تھے جنہیں جملہ علوم اسلامیہ میں کامل عبور حاصل تھا، لیکن ان کے تخصص کے موضوعات قرآن، علوم القرآن، سنت، فقہ الحدیث اور تصوف تھے۔ انہوں نے کم وبیش 200سے زائد چھوٹے بڑے رسائل اور اصلاحی وعلمی اور تحقیقی کتابیں تالیف کیں جن میں ان کی طبع زاد کم اور تلخیص، تدوین ایڈیٹنگ اور Compilation زیادہ ہے۔ ان میں سے متعدد کتابیں اب مختلف عرب ممالک بطور خاص مملکت قطرسے نہایت آب وتاب کے ساتھ شائع ہوگئی ہیں۔ نواب صدیق حسن کی علمی جلالتِ قدر کے لیے یہ بات کافی ہے کہ علامہ شوکانی کے رسالہ دُرَرِ بہیہ کی ان کی شرح الروضۃ الندیۃ کا محدث عصر علامہ ناصرالدین البانیؒ منجملہ دوسری کتب کے، درس دیا کرتے تھے۔ (۷) متاخرین میں برصغیر کے جن چند بڑے علماء سے عالم عرب بخوبی واقف ہے، نواب صاحب کا شمار انہیں علماء میں ہوتاہے۔
عربی زبان میں ان کی حیات و خدمات پر پروفیسر اجتباء ندوی مرحوم نے ایک وقیع کام کیاہے جنہیں اس کام کی تحریک شیخ البانیؒ کے درس میں شرکت سے ملی تھی۔ (۸) نواب صاحب کا بہت بڑا امتیاز یہ ہے کہ برصغیر راست رجوع الی القرآن والسنۃ کی جس فکروتحریک کے اصول ومبادی حضرت امام ولی اللہ الدہلویؒ نے وضع کیے تھے (اپنی متعدد تالیفات خاص کر حجۃ اللہ البالغۃ، القول الجمیل اور الانصاف فی بیان سبب الاختلاف میں)مذاہب فقہ اربعہ میں سے کسی مذہب کی پابندی نہ کرنے اور ائمہ فقہ میں کسی معین امام کی تقلید جامد کے غیرضروری ہونے کے نظریات کی اشاعت میں نواب صدیق حسن نے خوب حصہ لیا اور اس راہ کی تمام پریشانیوں اور فتنوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔
صدیق حسن خان کو بچپن سے ہی پڑھنے اور مطالعہ کا شوق دامن گیرتھا، چنانچہ عربی واسلامی کتب متداولہ اور اسلامی علوم وفنون کی اساتذہ سے باقاعدہ تحصیل کے ساتھ ہی خارجی مطالعہ جاری رکھا۔ اپنی طالب علمی کے زمانہ کے بارے میں رقم طراز ہیں:
’’اس زمانہ میں ہرکتاب کے دیکھنے اور سمجھنے کا شوق دامن گیررہتاتھا، حتیٰ کہ شعروداستان کی بھی کوئی کتاب خواہ نظم ہو یا نثر ایسی نہیں جس کا ایک بار اول سے آخرتک مطالعہ نہ کیاہو، حتیٰ کہ فسانہ عجائب، مثنوی، میرتقی میر، شعراء ہند کے دواوین، شعراء فارسی کے متداول فارسی دواوین، مثنوی غنیمت زلیخا، سکندر نامہ ابوالفضل، توقیعات اور سہ نثرظہوری وغیرہ کا بھی مطالعہ کیا‘‘۔ (۹)
اسی خارجی مطالعہ کے شوق نے نواب صاحب کو امام محمد بن علی الشوکانی، (جوان کے سب سے محبوب مصنف ہیں) شاہ ولی اللہ الدہلویؒ ،محمد بن اسماعیل الامیر الصنعانیؒ ، امام ابن تیمیہؒ اور ابن القیم الجوزیہ وغیرہ کی کتب اور علوم سے استفادہ تک پہنچادیا۔ اس چیز کی اہمیت اس وقت معلوم ہوگی جب یہ ذہن میں رہے کہ یہ متاخرین علماء صاحب نظر اور مجتہد علماء ہیں۔ ان میں کوئی بھی مقلد جامد نہیں، اور برصغیر میں اس وقت ان علماء کے علوم غیرمتداول، کتابیں نایاب اور ان کے اجتہادات وتحقیقات سے عدم اعتنائی وتغافل کیشی کا رویہ تھا۔ علامہ ابن تیمیہؒ اور ان کے علوم سے استفادہ بھی اولاً شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے شروع کیاتھا اور ان سے برصغیر کو روشناس کرایاتھا۔ پھر نواب صدیق حسن نے اس فکرکوعام کیا۔
نواب صدیق حسن خان کا سب سے بڑا کارنامہ علوم کتاب وسنت کی اشاعت ہے۔ چنانچہ جب بھوپال میں انہوں نے کاروبار سلطنت سنبھالا تو دوسرے صیغوں میں اصلاحات کے ساتھ ہی اس شعبہ پر بھی بہت توجہ کی ۔ممتاز ائمہ اور علماء اسلام کی کتابیں بیرونی ممالک سے منگوائیں، انہیں شائع کیا۔ خود لکھتے ہیں:
’’میرااکثرمال علوم کتاب وسنت کی اشاعت میں صرف ہواہے۔ میں نے ہرکتاب کو ایک ہزار کی تعداد میں طبع کراکر قریب وبعید کے تمام ممالک میں تقسیم کرایاہے۔ اگرچہ ان پر ہزاروں روپے صرف ہوئے ہیں تاہم کبھی کسی کتاب کی قیمت وصول نہیں کی‘‘۔ (۱۰)
فتح الباری (مکمل) ہندمیں دستیاب نہ تھی، نواب صاحب نے جدہ سے 600روپے میں ابن علان کا قلمی نسخہ خریدلیا اور پھر اس کو مطبع بولاق مصر سے شائع کرادیا، جس پر 50ہزار روپے کا صرفہ آیا۔ اسی طرح انہوں نے تفسیر ابن کثیر کو فتح البیان کے ساتھ شائع کرایا۔ (۱۱)
نواب صاحب نے علامہ ابن حجرعسقلانیؒ ، علامہ ذہبیؒ ، امام شعرانیؒ ، امام منذریؒ ، سفارینیؒ ، حافظ ابن تیمیہؒ ان کے تلمیذ رشید حافظ ابن القیمؒ ، ابن رجب حنبلیؒ ، ابن الجوزیؒ ، سیوطیؒ ، سید محمدبن اسماعیل الامیر الصنعانیؒ ، قاضی محمدبن علی الشوکانیؒ کی تالیفات لاکھوں روپے صرف کرکے منگوائیں، ان کی اشاعت کی اور ان سے استفادہ کو عام کیا، حالانکہ ان میں سے اکثر برصغیر میں متداول نہ تھیں بلکہ عنقائے مغرب کی طرح نایاب ومفقود تھیں۔ (۱۲)
اس کے علاوہ نواب صدیق حسن نے ان میں سے بہت سی کتابوں کے قلمی نسخے یاخود مصنف کے قلم سے لکھے گئے مخطوطے جمع کرلیے خاص کر ابن حجرؒ ، شوکانیؒ اور امیر الصنعانیؒ کی کتابیں، بعض ایسی کتابیں بھی نواب صاحب کے کتب خانہ کی زینت بنیں جن کے سو، دوسو، تین سو، چار سو حتی کہ چھ سات سو اور آٹھ سو برس کے قدیم نسخے بھی تھے۔ ان کے کتب خانہ میں ہزاروں کتابیں جمع ہوگئی تھیں اور ان کا فیض عام ہورہاتھا۔(۱۳)
عرب ممالک میں نواب صاحب کے بہت سے معاونین اسی مقصد پرمامور ومتعین تھے، ان کا کام یہ تھاکہ وہ دیارعرب کے کونہ کونہ کتابیں تلاش کرکے ان کی خدمت میں بھیجتے رہتے تھے۔ (۱۴)
اپنی خودنوشت سوانح عمری ’ابقاء المنن بالقاء المحن‘ میں نواب صاحب نے علوم کی مختلف شاخوں اور فروع میں اپنی پسندیدہ کتابوں کی مختصر سی فہرست بھی دی ہے، جس سے ان کے بلند علمی ذوق، وسعتِ مطالعہ، دراکی، سرعت فہم، قوت اخذ اور تجزیہ کی قوت کا پتہ چلتاہے۔ اس فہرست میں انہوں نے بالترتیب مواعظ میں احیاء علوم الدین للغزالی کو، شروح حدیث میں فتح الباری لحافظ ابن حجرکو، فقہ السنۃ میں قاضی محمد بن علی الشوکانیؒ کی نیل الاوطار، السیل الجرار، وبل الغمام اور اپنی کتاب مسک الختام کو نیز فتح العلام (ان کے صاحب زادہ نور الحسن کی تصنیف) اور اپنی کتاب الروضۃ الندیۃ کو، تفسیرمیں ابن کثیر، فتح القدیر اپنی کتابوں فتح البیان اور ترجمان القرآن کو ،تذکرہ میں طبقات الصوفیۃ شعرانیؒ کو، نیز شعرانی ہی کی لطائف المنن کو اور تراجم میں ابن حجرکی الدررالکامنۃ، شوکانی کی البدر الطالع اور اپنی کتاب التاج المکلل کو بہترین کتاب قراردیاہے۔ (۱۵)
مسلک وفکری منہج
کسی باوثوق ذریعہ سے یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ عبادات وغیرہ میں نواب صاحب مسلک محدثین پر عمل پیراتھے یا فقہ حنفی کے مطابق عمل کیاکرتے تھے۔ تاہم اپنے فکری منہج کے بارے میں نواب صدیق حسن کا ذہن بالکل صاف تھا، انہوں نے صراحت سے لکھاہے کہ ’’میں تو مشہوراہل الحدیث ہوں اور تقویۃ الایمان ورسائل توحید کا پابندہوں‘‘۔ (۱۶)
مسئلہ تقلید کے سلسلہ میں انہوں نے بہت کچھ لکھاہے اور کبھی بھی جادۂ اعتدال نہیں چھوڑا۔ ان کے نزدیک کتاب وسنت مذمت تقلید جامد سے بھرے پڑے ہیں، تاہم ایک عامی اور مقلد جاہل تقلید کرسکتاہے۔جو قرآن وحدیث کے دلائل نہ جاننے کی بناپر ان پر براہ راست عمل نہیں کرسکتا اور کتب فقہ سے بھی منتفع نہیں ہوسکتا بشرط یہ کہ وہ کسی امام کے مذہب پر بالکل اس طرح نہ جم جائے کہ بس اسی کو حق سمجھے کیوں کہ اس طرح کی تقلید سلف سے ثابت نہیں..... تمام دنیا بھی دلیل کے خلاف کہتی رہے تو کہتی رہے معترض پر اس کا جواب واجب نہیں ہوگا۔ (۱۷)
نواب صاحب نے میزان شعرانی کا قول نقل کرکے لکھاکہ ’’فقہاء کا مسائل میں اختلاف تشدید وتخفیف پرمحمول ہے اور سوئے ظن کی بنسبت سب کے ساتھ حسنِ ظن رکھنا سلامتی کا راستہ ہے۔ (۱۸)
مزید لکھتے ہیں:
’’میں صرف اہل سنت کو فرقہ ناجیہ سمجھتاہوں، شافعی، مالکی، حنبلی، ظاہری اہل الحدیث اور اہل سلوک میں سے کسی کے متعلق گمان بدنہیں رکھتا۔ مجھے معلوم ہے کہ ان میں سے ہر گروہ کے کچھ مسائل خلاف دلائل ہیں اور کچھ موافق نصوص، ان کے بعض فتاویٰ صحیح اور بعض ضعیف ومردود ہیں لیکن حکم اکثر کے مطابق ہوتاہے اقل کے مطابق نہیں۔‘‘ (۱۹)
نواب صدیق حسن خاں کے نزدیک ائمہ سلف پر مخالفت سنت کا طعن کرنا انصاف کا خون بہانا ہے، البتہ ان کے جو مقلد کتاب وسنت کے دلائل واضح ہوجانے کے بعد بھی ان کی محض رائے کی تقلید پر جمے ہوئے ہیں وہ ان کوغلطی پر توسمجھتے ہیں گمراہ نہیں۔ (۲۰)
ان کے نزدیک عبادات ومعاملات میں اہل علم کا اختلاف کفرواسلام کا اختلاف نہیں زیادہ سے زیادہ اسے اجتہاد یا فہم کی غلطی سے تعبیر کیاجاسکتاہے، البتہ اصول دین میں ان کا اختلاف غالباً کفرتک لے جاتاہے اور اسلام میں متعدد گمراہ فرقے اصول وعقائد میں اختلاف کے سبب ہی ہوتے ہیں۔ (۲۱) وہ لکھتے ہیں:
’’میں نے کسی کتاب میں بھی مقلدین مذاہب کے حق میں طعن وتشنیع کا کوئی لفظ نہیں نکالا چہ جائے کہ حضرات ائمہ اربعہ کے حق میں کوئی نازیبا لفظ استعمال کروں.... میرا چاروں ائمہ فقہ، جمیع محدثین جملہ علماء پاک دین کے حق میں اسی طرح کا اعتقاد ہے، جیساکہ صحابہؓ تابعین تبع تابعینؒ اور تمام سلف صالحین کے حق میں ہے ..... بے شک میں اس وقت تک کسی کی مجرد رائے اور اجتہاد کو نہیں مانتا جب تک اسے دلیل سنت کے موافق نہ پاؤں خواہ اس کا تعلق علم ظاہر سے ہو یا علم باطن سے ...... میں معانی آیات واحادیث میں جملہ علماء اکابر، صلحاء اور ائمہ سلف کے اقوال واحوال پر اعتماد کرتاہوں خواہ حنفیہ ہوں یا شافعیہ، حنابلہ ہوں یامالکیہ ،علماء صوفیہ ہوں یا مشائخ طریقت....... رہی بات کہ رد تقلید یا ذم مقلدین سے سوئے ادب لازم آتاہے جو اس کا جواب یہ ہے کہ لازم مذہب کسی کے نزدیک بھی مذہب نہیں۔ طعن تقلید ائمہ دین پر نہیں ہوتا اس لیے کہ وہ تو تقلید کی دعوت نہیں دیتے تھے بلکہ اس سے منع کرتے تھے ..... میں نے فعل تقلید کی تردید کی ہے متعین مقلدین کی نہیں۔۔۔۔ (۲۲) امت مسلمہ میں سے کسی شخص کا اتباع بجز اللہ ورسول کے واجب نہیں ہے اسی وجہ سے سارے سلف تقلید رجال سے منع کرتے آئے ہیں۔‘‘ (۲۳)
مسئلہ تقلید پر نواب صاحب کے زمانہ میں بھی خوب بحثا بحثی جاری تھی، انہوں ننے بھی مخصوص انداز میں اس پر تبصرہ کیا، ان کے مطابق یہ مسئلہ اس لائق نہیں کہ اس پر بحث تضلیل وتکفیرتک پہنچ جائے لکھتے ہیں:
’’یہ علم اصول فقہ کا ایک جزوی مسئلہ ہے، اور نہایت واضح ہے کہ تقلید اس کو کہتے ہیں کہ آدمی دوسرے شخص کی بات کو حلت وحرمت کے سلسلہ میں بلادلیل ونص شارع قبول کرلے۔ سو یہ بات ظاہرہے کہ سب مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں اور کسی شئی کی حلت وحرمت آپ کے بتائے بغیرمعلوم نہیں ہوسکتی۔ تو اتباع آپؐ ہی کا چاہیے کسی اور شخص کا نہیں، ورنہ اسے پیغمبرماننا پڑے گا۔ اگر کسی مجتہد نے کسی شیے پر اپنے اجتہاد،رائے یا قیاس سے حکم لگایا اور بعد میں کسی دوسرے شخص پر قرآن و حدیث سے دلیل واضح ہوگئی تو وہ مجتہد معذور ہے، لیکن اسے جہدوسعی کا ایک اجر ضرور ملے گا،مگر وہ شخص جسے قرآن یا سنت صحیحہ پہنچ گئی، ہرگز معذورنہ ہوگا اور اگر دیدہ ودانستہ نص کی مخالفت کرے گا تو خدا ورسول کا مخالف ٹھہرے گا... ہم نے فقہ مذاہب اربعہ کی ساری کتابیں دیکھی ہیں۔ کسی امام مجتہد سے یہ بات منقول نہیں کہ ہمارے اجتہاد کے آگے تم قرآن وحدیث کوْ چھوڑ دینا۔۔۔اس صورت میں ظاہر ہے کہ ان کامقلد صحیح وصادق وہی مسلمان ہے جو اس قول حق میں ان کی پیروی کرے، نہ کہ وہ جو ان کے اس قول کی مخالفت کرے ۔۔۔علاوہ ازیں ائمہ اربعہ سے فقہ کے جتنے مسائل منقول ہیں ۔۔۔ وہ سارے احکام قرآن و حدیث کے خلاف نہیں بلکہ سنت صحیحہ سے جتنے مسائل ثابت ہیں، وہ ان چاروں مذاہب کے اندر منتشر اور موجود ہیں۔‘‘ (۲۴)
اتباع ایسی چیز ہے جو شرعاً مامور بہ ہے اور تقلید نصاً منہی عنہ ہے.....
نواب صدیق حسن خاں اہل سنت کے تمام مکاتبِ فکر کو صحیح سمجھتے ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ:
’’ائمہ اربعہ کے اصول ایک ہیں اور فروعی اختلاف ضلالت وکفر کا موجب نہیں ہوتا...... امت کو ظاہری اور باطنی اعتبار سے کتاب وسنت کی اتباع کا حکم دیاگیاہے اور اللہ ورسول کے سوا کوئی متبوع نہیں، امت کے جس قدر علماء ومشائخ ہیں ان کے اقوال مقبول بھی ہیں اور مردود بھی۔‘‘ (۲۵)
حق مذاہب اربعہ میں دائر ہے منحصر نہیں اس لیے اہل الحدیث، ظاہریہ اور صوفیہ بھی حق پر ہیں بلکہ یہ لوگ حق میں سب سے افضل ہیں۔ (۲۶)
نواب صدیق حسن خاں مسلکی تحزب اور فرقہ بندی سے دورتھے، وہ شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے مسلک اعتدال کے قائل تھے (بعض اختلافات کے ساتھ) کیسے یہ انہیں کی زبانی دیکھتے ہیں:
’’ائمہ اربعہ کے مذاہب پر عبور حاصل کرنے کے بعد میں نے اپنے لیے دلیل کے اتباع کو پسند کیاہے، یعنی دلیل کے اعتبار سے جو مذہب قوی اور صحیح تر ہو، میں اسے اختیار کرتاہوں،خواہ وہ مذہب حنفی ہو یاشافعی، مالکی ہو یا حنبلی۔ میں کسی مذہب کو محض تعصب کے پیش نظر رد نہیں کرتا اور نہ کسی مذہب کو محض خواہش کے مطابق اختیار کرتا ہوں۔ مثلاً مسئلۂ آب میں مذہب مالکؒ زیادہ قوی ہے، تشہد کے صیغوں کے بارے میں امام ابوحنیفہؒ کامذہب زیادہ قوی ہے اور مسئلۂ صفات میں امام احمد بن حنبلؒ کا مسلک سب سے صحیح ہے، لہٰذا میں نے انہیں اختیار کیاہے۔ علی ہذا القیاس میں نے اپنی تمام تالیفات میں اسی قاعدہ کو پیش نظررکھاہے۔ اس اعتبار سے میں اپنے آپ کو حنفی کہوں یا شافعی، مالکی کہوں یا حنبلی تو کذب لازم نہیں آئے گا اور اگر محض سنی کہوں تو بھی بالکل سچ ہے۔ ائمہ اربعہ اور دیگر مجتہدین کا محب اور خادم ہونے کی حیثیت سے اگر میں اپنے آپ کو ان میں سے کسی امام کی طرف منسوب کروں تو بھی درست ہے، چنانچہ سلف امت کی طرف اہل علم کی اکثر نسبتیں اسی قبیل سے ہیں۔‘‘ (۲۷)
سلف سے اختلاف
نواب صدیق حسن خاں چونکہ صاحب رائے اور وسیع النظر عالم تھے، اس لیے علماء سلف سے بعض مسائل میں اختلاف بھی کیاہے۔ لکھتے ہیں:
’’دنیا میں کوئی مؤلف اور مصنف ایسا نہیں ہوا کہ اس پر کسی معاصر یا متأخرنے تنقیدنہ کی ہو۔ ہرفقیہ اور ہرمحدث کی ہرکتاب پر تنقید کی گئی ہے، مثلاً شروح حدیث میں فتح الباری بے مثال ہے، کہاگیا ہے ’’لا ہجرۃ بعد الفتح‘‘ (یعنی فتح الباری کے بعداب اسے چھوڑکرکسی اورکتاب کارخ نہیں کیاجائے گا)۔ اس کے باوجود علامہ شوکانی نے اس کے بعض مقامات پر سخت تنقید کی ہے۔ سید محمد بن اسماعیل صنعانی نے ’’احالات فتح‘‘ میں مؤلف کا نسیان ثابت کیاہے۔‘‘
خود نواب صدیق حسن خاں نے بھی شوکانی کے بعض مسائل پر تنقید کی ہے اور بعض جگہ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ ا ور حافظ ابن قیمؒ کی بعض تقریرات کو بھی تسلیم نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے بارے میں بھی اہل علم سے یہی اپیل کی کہ:
’’میری کتاب کا جومسئلہ کتاب وسنت کی صحیح نص کے خلاف ہو اسے اٹھاکر دیوار پر ماردیں اور جو قرآن وحدیث کے موافق ہو اسے قبول کریں۔‘‘(۲۸)
نواب صدیق حسن خاں کا کہناہے کہ وہ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کا یہ قول تسلیم نہیں کرتے ’’ایک دن نار بھی فنا ہوجائے گی‘‘ شیخ ابن عربی کا یہ قول قبول نہیں کرتے کہ فرعون حالت ایمان میں ہے، البتہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی یہ بات قبول کرتاہوں کہ بدعت اگرچہ حسنہ ہو اس سے ظلمت پیداہوتی ہے اور سنت اگرچہ چھوٹی ہو تو اس سے دل میں نور ہی نور پیدا ہوتا ہے۔(۲۹)
نواب صاحب نے مسک الختام اور شروح تجریدالصحیحین میں بہت جگہوں پر مذہب امام عالی مقام امام ابوحنیفہؒ کو راجح لکھاہے اور دوسرے مذاہب کو مذہب مرجوح، ضعیف یا مردود لکھاہے۔ (۳۰) البتہ نواب صاحب کو اپنے علم پر اعتماد کامل حاصل ہوگیاتھا چنانچہ بعض جگہوں پر تحدیث نعمت کے بطور اس کا اظہار بھی کردیا :
’’معاصرین میں سے کسی کو بھی ائمہ اسلام کی کتابوں پر اس قدرعبورحاصل نہیں جتنامجھ کو ہے، کیوں کہ میں نے ہزارہا کتابوں کا مطالعہ کیاہے اور ہرموضوع کی اکثرکتابوں کو از اول تاآخر پڑھاہے، فقہ السنۃ، اصول فقہ اور علم تفسیر میں جو دستگاہ مجھے حاصل ہے وہ کسی اور کو نہیں۔‘‘(۳۱)
’’ایسی کوئی کتاب نہیں جو تالیف ہوئی یا طبع ہوئی یا عرب وعجم کے شہروں میں دستیاب ہوتی ہو اور میرے مطالعے میں نہ آئی ہو، اگرچہ میں اسے اپنے پاس نہ رکھ سکاہوں گا۔‘‘ (۳۲)
یہ بیان کیا جا چکا ہے کہ نواب صاحب طباع مصنف نہیں بلکہ ملخص ہیں۔ ان کی کتابیں علم تفسیر، حدیث، فقہ الحدیث سلوک واحسان، ادب اور تاریخ سے متعلق ہیں،تاہم ان کی بہت سی کتابوں میں متقدمین کے منتخب اقتباسات واقوال ہیں اور بعض میں علماء سلف میں سے کسی مؤلف کی تلخیص البتہ ان میں اپنے بعض فوائد کا اضافہ کیاہے۔ مثلا ان کی تفسیر فتح البیان اصلاً فتح القدیر للشوکانی کی تلخیص ہے، البتہ جابجا دوسری کتب تفسیر سے اضافے کیے ہیں۔ حصول المأمول، ارشاد الفحول شوکانی کی تلخیص ہے۔ مثیر ساکن الغرام الی روضات دارالسلام ابن قیمؒ کی حادی الارواح کی تلخیص ہے۔ بعض کتابوں کے اردو یا فارسی ترجمے بھی کیے ہیں، ان کی طبع زادتصنیفیں بہت کم ہیں۔ (۳۳)
نواب صاحب کے پاس چونکہ موہبت خداوندی سے وسعتِ علمی کے ساتھ وجاہت ریاست بھی جمع ہوگئی تھی، اس لیے کتابوں کی نشرواشاعت کا زبردست کام ان کے ذریعہ انجام پایا۔ ہندوستانی علماء میں وہ اس لحاظ سے بہت ممتاز ہیں کہ ان کے حین حیات ہی ان کی تصنیفات بلاد عرب وعجم میں مشہور ہوگئیں، چنانچہ عدن، یمن، صنعاء، زبید، حدیدہ، بغداد، حرمین شریفین، مصر، القدس، دمشق، بیروت، قسطنطنیہ اور فارس تک ان کی کتابیں پہنچیں اور ہر جگہ اہل علم نے ان کو پسندکیا، ان پر تقاریظ لکھیں۔ (۳۴) نواب صاحب نے یہ بھی لکھاہے کہ انہوں نے ائمہ سلف اور علماء سابقین کی کتب سے زیادہ استفادہ کیاہے، کتب خلف سے بہت کم اخذ کیاہے اور بالخصوص معاصرین کی کتب کے مطالعہ کا توبہت کم اتفاق ہواہے۔ (۳۵) لیکن راقم کے خیال میں ان کے اس بیان میں تسامح ہواہے، اس لیے کہ خود انہی کی تصریح کے مطابق محمد بن اسماعیل الامیرالصنعانیؒ اور علامہ قاضی محمدبن علی شوکانیؒ سے انہوں نے زیادہ استفادہ کیاہے جبکہ یہ دونوں ان کے معاصر نہ سہی، لیکن ان سے ذراسا پہلے ہی ہوگزرے ہیں، اور ان دونوں فضلاء کو علمی لحاظ سے انہوں نے شیخ محمد بن عبدالوہابؒ پر ترجیح دی ہے۔ (۳۶)
نواب صاحب نے فکر اسلامی کی خدمات انجام دی ہیں، لیکن انہیں مجتہد یا مجدد ہونے کا ہرگز دعویٰ نہیں تھا، وہ اپنے آپ کو متبع کتاب وسنت کہلانا پسند کرتے تھے۔ بعض لوگ انہیں مجتہدیا مجدد کہدیتے تھے، لیکن نواب صاحب اس قسم کے الفاظ سے سخت پریشان خاطر ہوتے وہ کہتے ہیں :
’’مجھ میں کوئی شرط اجتہاد اور کوئی صورت تجدید نہیں ہے میں مروجہ وظائف علم سے بالکل علیحدہ رہتاہوں، نہ کبھی درس وتدریس کرتاہوں، نہ کسی کو شاگرد بناتاہوں، نہ آج تک کسی فتویٰ پر دستخط کیے، نہ کسی کا مرید ہوں اور نہ کسی کو مرید ومعتقد کرنا چاہتا ہوں، بلکہ خادم کتاب وسنت ہوں۔‘‘ (۳۷)
خلاصہ یہ ہے کہ نواب صدیق صاحب قنوجی بھوپالی ان بڑے علماء میں سے ہیں، جنہوں نے جملہ علوم اسلامیہ کے مطالعہ میں بڑی وسعت پیداکی اور تدوین، تلخیص اور ترتیب وتالیف کے ذریعہ اسلاف کرام کے علوم سے ایک جہاں کو متعارف کرایا، خاص کر برصغیر میں فقہاء محدثین، متاخرین مجتہدین امت اور مشاہیر اسلام کے فکروتجدید کی روشنی پھیلائی، علم اسلامیہ کی اس نشرواشاعت میں ان کا کوئی ثانی اور شریک وسہیم نہیں ہے۔ (۳۷)اس لیے بعض علماء نے ان کو کبار مصلحین ومجددین اسلام میں شمار کیاہے، علامہ عبدالحی الکتانی الجزائری نواب صاحب کے بارے یں لکھتے ہیں:
وبالجملۃ فہو من کبارمن لہم الید الطولیٰ فی احیاء کثیر من کتب الحدیث وعلومہ بالھند وغیرہا جزاہ اللہ خیراً (ابقاء المنن، صفحہ 362)
پروفیسراجتبا ء ندوی مرحوم نے لکھا ہے:
’’ان کے تمام کارناموں میں ان کا اپنا رنگ وآہنگ، خداداد صلاحیت، گہرامطالعہ اور فکر سلیم اپنی جھلکیاں دکھائے بغیر نہیں رہتا‘‘۔ (۳۹)
نواب صاحب کی فکر کا خلاصہ یہ ہے کہ دلائل کے اعتبار سے زیادہ صحیح، قوی اور احوط طریقہ اختیار کیاجائے اور اہل علم کے اقوال کے مقابلہ میں کتاب وسنت کے دلائل کو ہر حال میں ترجیح دی جائے، اختلافی مسائل میں حتی الامکان مختلف مذاہب فقہیہ کے درمیان جمع وتطبیق کی راہ کو تلاش کیا جائے۔ (۴۰) یہی اصل میں حقیقی فکر اسلامی ہے، اور اس کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔یہ وضاحت بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ فرقہ اہل حدیث میں جوجمودفکرپایاجاتاہے اوروہ ائمہ اربعہ خاص کرامام ابو حنیفہ ؒ کی جوتنقیص کررہے ہیں ا، س کے پیشِ نظران کا اپنے آپ کونواب صدیق حسن خاں کی طر ف منسوب کرناحقیقت سے دورمعلوم ہوتاہے۔ نواب صاحب کی فکر اور علمی خدمات پر کام ابھی کم ہواہے۔ ضرورت ہے کہ ان کے سرمایہ فکر کے مختلف پہلوؤں کو جائزہ وتحقیق کا موضوع بنایاجائے۔
مصادرومراجع
۱۔ نواب صدیق حسن خاں سیادت وشرافت نسب کے تصور کو تو درست سمجھتے ہیں اور کفائت کے لیے اسے ضروری جانتے ہیں، تاہم اپنی خودنوشت میں جابجا اس بات کا واضح اظہار کیاہے کہ ’’تقویٰ کے بغیر یہ شرف قطعا نفع بخش نہیں‘‘ یہ فخرکی نہیں ذمہ داری کی بات ہے، اور باعمل غیرسید بے عمل سید سے افضل ہے‘‘ اسی طرح انہوں نے بے عملی کے ساتھ سیادت کے غرور وتعلی کو سخت ناپسند کیاہے اور اس بارے میں سخت الفاظ لکھے ہیں۔ دیکھیے ابقاء المنن صفحہ 43تا 47(بڑی عمدہ بحث ہے)اور صفحات70,195۔
۲۔ پوراشجرۃ نسب ملاحظہ ہو ابقاء المنن، صفحہ 32
۳۔ نفس المصدر، صفحہ 33۔
۴۔ نواب صاحب نے والدہ محترمہ کی بڑی تعریف کی ہے۔ ان کے طریق تربیت کے بارے میں لکھاہے: میں سات برس کاتھا، میرے گھرکے دروازے پر مسجد تھی۔ مجھے خوب یاد ہے کہ صبح کے وقت اذان ہوتے ہی والدہ مرحومہ مجھے بیدار کردیتیں اور وضوکراکے مسجد میں بھیج دیتی تھیں اور گھر میں کبھی نماز پڑھنے دیتی تھیں۔ اگرنیند کی سستی کی وجہ سے نہ اٹھتا تو منہ پر پانی ڈال دیتی تھیں۔ اس وجہ سے بچپن ہی سے نماز کی عادت پڑگئی۔ شاید دس برس کی عمر میں والدہ نے روزہ رکھوایا اور اس وقت سے روزہ رکھنے کی عادت پڑگئی۔ (ابقاء المنن بالقاء المحن نواب صدیق حسن قنوجی اسلامک اکیڈمی لکھنؤ، طبع ثانی 2004، صفحہ52)۔
۵۔ مولاناحکیم سیدعبدالحی الحسنیؒ رائے بریلوی، نزہۃ الخواطر:ج8،صفحہ189,90
۶۔ اس سلسلہ میں ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ نواب کے خاندان کے افراد خاص کر ولیہ عہدسلطان جہاں بیگم اپنی والدہ رئیسۂ بھوپال اور نواب صدیق حسن سے اس لیے ناراض تھیں کہ انہوں نے خاندان سے باہرشادی کرلی۔ لیکن یہ کوئی قوی بات معلوم نہیں ہوتی۔ ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ انہیں یہ غلط فہمی ہوگئی تھی کہ صدیق حسن اپنے بیٹوں کو تخت کا وارث بناناچاہتے ہیں۔ لیکن آخر میں یہ بات بھی غلط ثابت ہوگئی۔ نواب صاحب نے خود اپنی خودنوشت میں متعددجگہ اس کا تذکرہ کیا ہے کہ ریاست وامارت سے طبعاً انہیں کوئی رغبت ودلچسپی نہیں ہے۔ وہ تو اسے عطائے خداوندی سمجھتے تھے اور ایک آزمائش بھی۔
بعض اہل علم نے نواب صاحب کی مخالفت کی توجیہ اختلاف مسلک میں تلاش کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سلطان جہاں بیگم نہ صرف کٹرحنفیہ تھیں بلکہ اکابرعلماء دیوبند سے ارادت کا تعلق بھی رکھتی تھیں۔ علامہ شبلیؒ نے جب ’’سیرت‘‘ کے لیے مالی امداد کی اپیل کی تھی توانہوں نے پہلے سیرت النبی کا مسودہ منگوایا اور اسے اپنے شیخ، شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندیؒ کی خدمت میں ملاحظہ کے لیے بھیجا۔ جب شیخ الہند کے تلمیذخاص مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے اس کے بارے میں بلند کلمات کہے تب سیرت کے لیے امداد منظور ہوئی۔ نواب صاحب کے حاسدوں نے ان کے بارے میں بہت سی افواہیں اڑائی تھیں۔ مثلاً یہ کہ وہ تقلید کے مخالف ہیں۔ ائمہ اربعہ کو برا بھلاکہتے ہیں، کرامات اولیا کے منکر ہیں وغیرہ۔ حالانکہ ان تمام الزامات کی تردید اور وضاحت نواب صاحب نے اپنی خودنوشت ابقاء المنن میں کردی ہے۔ پھربھی معاندانہ پروپیگنڈہ سے ولیہ عہدکا متاثر ہوجانا بعید ازقیاس نہیں ہے۔
۷۔ ملاحظہ ہو ابراہم محمدالعلی، محمد ناصرالدین الالبانی محدث لعصر ناصرالسنۃ، ص:29، دارالعلم دمشق، الطبعۃ الثانیۃ، 2003۔
۸۔ جیساکہ پروفیسرمحمداجتباء ندوی مرحوم نے نواب صدیق حسن پر عربی میں اپنی کتاب کے مقدمہ میں تحریرکیاہے۔
۹۔ ملاحظہ ہو ابقاء المنن بالقاء المحن خودنوشت سوانح نواب صدیق حسن خان، تسہیل محمد خالدسیف تصحیح ونظرثانی قاری نعیم الحق، ناشر نواب صدیق حسن قنوجی اسلامک اکیڈمی لکھنؤ، ص:60۔
۱۰۔ نفس مصدر صفحہ78
۱۱۔ نفس مصدر صفحہ 73
۱۲۔ نفس مصدر 73
۱۳۔ نفس مصدر 69
۱۴۔ پروفیسراجتباء ندوی تاریخ فکراسلامی، المرکز العلمی، نئی دہلی، صفحہ 180 طبع 1998ء۔
۱۵۔ ابقاء المنن بالقاء المحن، صفحہ:69
۱۶۔ صفحہ:300
۱۷۔ صفحہ:83
۱۸۔ صفحہ:159
۱۹۔ صفحہ:83
۲۰۔ صفحہ:83
۲۱۔ صفحہ:84
۲۲۔ صفحہ:269-268
۲۳۔ صفحہ:267
۲۴۔ صفحہ:161-160
۲۵۔ صفحہ:90
۲۶۔ ملاحظہ ہو ابقاء المنن بالقاء المحن خودنوشت سوانح عمری (اردو) نواب صدیق حسن خاں بھوپالی، صفحہ:91
۲۷۔ صفحہ:93-92
۲۸۔ صفحہ:183 ۔ ایک جگہ انہوں نے لکھا: ’’میری اکثرتالیفات نہایت تحقیق سے لکھی گئی ہیں.... میں نہیں کہتا کہ میں نے جو کچھ لکھاپڑھاہے، اس میں کوئی نسیان نہیں ہواہوگا،بلکہ ہرتالیف میں ضرور خطائیں ہوں گی (صفحہ 81) نیز اسی طرح کی بات اس کتاب کے صفحہ 284پر لکھی ہے۔
۲۹۔ یہی کتاب، صفحہ 183-182
۳۰۔ صفحہ:268
۳۱۔ صفحہ:96
۳۲۔ صفحہ:331
۳۳۔ اسی بات کا اعتراف نواب صدیق صاحب نے خود بھی کیاہے۔ ایک جگہ لکھا: میری اکثر تالیفیں آثارسلف وعلماء راسخین کی مؤلفات کے تراجم (ترجموں) پر مشتمل ہیں۔ (صفحہ 184 وہی کتاب) وہ اپنے آپ کو ائمہ سابقین اور علماء امت کا حمال ونقال بتاتے ہیں۔ (ایضاً)
۳۴۔ وہی کتاب صفحہ:75
۳۵۔ صفحہ:65
۳۶۔ صفحہ:271
۳۷۔ صفحہ:167
۳۸۔ نواب صاحب نے اپنے مصارف سے جوعلمی کتابیں اور رسائل چھپواکر اہل علم اور طالبان حق کو مرحمت کیں ان کی تعداد تقریباً 5ہزار تک پہنچتی ہے۔ ملاحظہ ہو ابقاء المنن، صفحہ337
۳۹۔ پروفیسراجتباء ندوی، تاریخ اسلامی، صفحہ175، المرکز العلمی، نئی دہلی۔
۴۰۔ ابقاء المنن بالقاء المحن، نواب صدیق حسن خاں (اردو) صفحہ:88
امارت اسلامیہ کا قیام اور سقوط ۔ افغان طالبان کا نقطہ نظر
ادارہ
(زیر نظر سطور امارت اسلامیہ افغانستان کے سرکاری ترجمان ماہنامہ ’’شریعت‘‘ کے شمارہ نومبر/ دسمبر ۲۰۱۳ء میں ’’۱۵؍محرم: افغان عوام کی فتح کا دن‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے ایک مضمون سے ماخوذ ہیں۔ امارت اسلامیہ اور القاعدہ کے مابین تعلق کی نوعیت کے ضمن میں افغان طالبان کے موقف کے حوالے سے اہمیت کے پیش نظر اس حصے کو یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔ اہل دانش کی طرف سے اس موضوع پر سنجیدہ تجزیاتی تحریروں کو خوش آمدید کہا جائے گا۔ مدیر)
طالبان تحریک کا ظہور وقت اور حالات کا ایک مثبت رد عمل تھا۔ یہ ایک مسلح تحریک تھی جس نے افغانستان کو ٹوٹنے، بکھرنے، فسادات سے تباہ ہونے اور طوائف الملوکی کا شکار ہونے سے بچا لیا او رمسلمانوں کو صدر اسلام کی ایک حقیقی خوب صورت تصویر دکھا دی۔ یہی اسباب وعوامل تھے جو تحریک کے آغاز کا باعث بنے۔
طالبان کو کون لایا؟
یہ وہ سوال ہے جس کا جواب بہت آسان اور بہت واضح ہے۔ وہ یہ کہ طالبان ایک اسلامی اور قومی احساس کی بنیاد پر سامنے آئے ہیں۔ نہ انھیں کسی نے ورغلایا ہے اور نہ یہ باہر کا کوئی وارداتی گروہ ہے، بلکہ یہ حالات کا وہ فوری رد عمل تھا جس کے ریشے بہت کم وقت میں عوام کے بھرپور تعاون کی بدولت سپین بولدک سے اسلام قلعہ، تورخم اور شیر خان بندرہ تک پھیل گئے، جس نے اپنے ہم وطنوں کو قوم پرستی کی بجائے اخوت، بھائی چارے اور امن کا پیغام دیا۔
نہ کسی بیرونی جنرل نے اسے منظم کیا، نہ لندن کے سفارت خانے یا کسی اور بیرونی محور کے اشارے، دولت یا اسلحوں سے اس تحریک کی تنظیم سازی کی گئی۔ اگر کچھ مزید تحقیق میں جائیں تو تحریک اسلامی طالبان بہت پہلے سے ’’جمعیت طلبہ اہل السنت والجماعت‘‘ کے نام سے موجود تھی۔ اس تنظیم کی صوبائی، ضلعی اور علاقائی شوریٰ بھی فعال تھی۔ روس کے خلاف لوگوں کے جہادی جذبات بہت گرم تھے۔ ایک عینی شاہد کے طور پر وہ رکنیت فیس یا ماہانہ چندہ اب بھی مجھے یاد ہے جس کی ادائیگی زمانہ طالب علمی میں تہی دستی اور کس مپرسی کے باوجود صرف اس تحریک کو مضبوط کرنے کے لیے ہم کرتے تھے۔ اسی دور میں جنوبی علاقوں میں طلبہ کے بڑے بڑے جہادی محاذ پہلے سے موجود تھے جو کمیونسٹوں کی شکست کے بعد غفلت اور لاپرواہی کا شکار ہو کر غیر منظم ہو گئے تھے اور کسی نئی تحریک اور بیداری کے منتظر تھے۔ دینی مدارس اور جامعات میں جمعیت طلبہ اہل السنت والجماعت کی تحریک اور طلبہ کے سابقہ جہادی محاذ ساتھ ساتھ کام کر رہے تھے۔ ایک اسلامی امارت کے قیام نے ان جماعتوں اور محاذوں کو ایک نتیجے پر منتج کر دیا، اس لیے طالبان تحریک کی اٹھان کے اسباب اجنبی نہیں، داخلی تھے جس نے ایسی روشن تحریک کی شکل اختیار کر لی۔
طالبان کے مالی اور عسکری مآخذ
امریکی جارحیت کے خلاف جاری حالیہ جہاد کے دوران امارت اسلامیہ کے مجاہدین کے جتنے مالی منابع اور مآخذ کام کر رہے ہیں، پہلے اس سے بھی زیادہ تھے، اس لیے کہ ملک کے مخلص صاحب حیثیت اور عسکری حضرات کے پاس جو اسلحہ اور رقم تھا، وہ انھوں نے طالبان تحریک کے حوالے کر دیا، اس لیے کہ وہ جنگجو فسادیوں سے تنگ آ چکے تھے۔ وہ جن کی جان، مال، عزت اور ناموس کو غیر قانونی شدت پسند جنگجووں سے خطرہ تھا، انھوں نے طالبان کے ساتھ کسی قسم کا تعاون کرنے سے گریز نہیں کیا۔
طالبان اور شیخ اسامہ بن لادن شہید رحمہ اللہ
اس میں شک نہیں کہ شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ ایک عالمی مجاہد اور تمام اسلامی ممالک کی آزادی کے قائل تھے۔ ان کا خیال تھا کہ فلسطینیوں کو اپنا حق دیا جانا چاہیے۔ جزیرۂ عرب سے خارجی افواج کو نکالا جائے اور افغانستان میں بھی ایک اسلامی نظام کا قیام ہونا چاہیے۔ مگر یہ بات کسی کو بھولنی نہیں چاہیے کہ شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ طالبان سے پہلے بھی افغانستان میں موجود تھے۔ عبد اللہ عزام شہید رحمہ اللہ کے ہمراہ روسیوں کے خلاف سالہا سال تک بے دریغ قربانیاں دیں اور اسی وقت سے کچھ جہادی تنظیموں کے ان کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے۔ طالبان نے اگر پوری جواں مردی اور بہادری سے آخری سانسوں تک ان کی حفاظت کی اوربالآخر اپنی سلطنت بھی اس پر قربان کر دی تو اس کی وجہ صرف اور صرف دین اسلام کا حکم اور افغانی روایات تھیں، طالبان نے آخری سانس تک جس کی لاج رکھی اور ہر طرح کے سیاسی اور فوجی دباؤ کو مسترد کیا۔ ایسی بات کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ طالبان نے شیخ اسامہ کو عالمی تحریکوں اور کارروائیوں کے حوالے سے کوئی ہدایات دی ہوں۔ وہ یہاں ایک مہمان تھے اور عالمی مسائل میںآزاد تھے۔ وہ یہاں تھے تو اپنے عالمی جہادی منصوبے وہ خود ترتیب دیتے تھے۔ طالبان نے کبھی اس میں دخل نہیں دیا اور نہ طالبان کو اس حوالے سے کوئی اطلاع ہوتی تھی۔
نیو یارک کا واقعہ اور طالبان کی بے خبری
جب عالمی تجارتی مرکز اور پینٹاگون پر حملہ ہوا تو طالبان نے اس سے بے خبری ظاہر کی۔ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح انھیں بھی حیرت تھی کہ یہ واقعہ کس نے ترتیب دیا تھا؟ بلکہ اس حوالے سے امارت اسلامیہ نے ایک مذمتی اعلامیہ بھی نشر کر دیا۔ جارج ڈبلیو بش جو پہلے سے امارت اسلامیہ کو برداشت نہیں کر پا رہا تھا، اسے اچھا موقع ہاتھ آ گیا۔ اس نے عالمی دنیا میں اعلان کر دیا کہ یا تو ہمارے ساتھ ہو جاؤ یا القاعدہ کے ساتھ۔ ایک پریس کانفرنس میں تو اس نے صلیبی جنگ کے آغاز کے الفاظ بھی استعمال کیے جس پر بعد میں شدید تنقید بھی کی گئی۔ امارت اسلامیہ افغانستان پر حملہ کیا گیا۔ یہ اس دور کی اپنے طرز کی ایک انتہائی غیر متوازن جنگ تھی، مگر طالبان نے اس جنگ کو بھی پیٹھ نہیں دکھائی۔ آج یہ اپنی شکست کا خواب دیکھ رہے ہیں، انھیں رسوائی کا سامنا ہے۔ افغانستان پر حملہ ایسے حالات میں کیا گیا کہ انھیں نہ گیارہ ستمبر کی خبر تھی اور نہ وہ اس میں ملوث رہے تھے۔
اسلامی جمہوریت کا فلسفہ ۔ شریعت اور مقاصد شریعت کی روشنی میں (۲)
مولانا سمیع اللہ سعدی
مساواتِ عامہ اور آزادی
لبرل جمہوریت میں ریاست کے تمام باشندے جنسی،مذہبی،سیاسی اور معاشرتی ہر اعتبار سے مساوی سمجھے جاتے ہیں اور ہر ایک کو ہر قسم کے افعال،اعمال اور نظریات اختیار کرنے کی آزادی حاصل ہوتی ہے ،بشرطیکہ یہ آزادی امنِ عامہ اور ریاست کے نظم و نسق میں رکاوٹ نہ بنے۔جمہوریت کی اسلام کاری میں اس اصول میں درج ذیل ترامیم کرنی ہوں گی:
1۔اسلامی تعلیمات کی رو سے بھی علاقہ،رنگ و نسل اور زبان کے اعتبار سے انسان مساوی حیثیت رکھتے ہیں،البتہ اسلام انسانوں کو مومن اور کافر دو بڑے گروہوں میں تقسیم کرتا ہے ۔اسلامی ریاست میں کفاراور غیر مسلموں کو بنیادی حقوق ملتے ہیں اور دنیا کا کوئی نظام اقلیتوں کو اس طرح کے حقوق فراہم نہیں کرتا ،جیسا کہ اسلام نے فراہم کیے۔البتہ اسلامی ریاست کے بنیادی مقاصد میں سے دین اسلام کی حفاظت،اشاعت اور اس کا دفاع ہے ، اس لیے جمہوریت کی اسلام کاری میں ریاست کی نظر میں تمام مذاہب برابر نہیں ہوں گے ،بلکہ اسلامی اقدارکازیادہ سے زیادہ فروغ اور غیر اسلامی تہذیب و ثقافت سے اسلامی معاشرے کو پاک کرنا ریاست کی بنیادی ذمہ دریوں میں شامل ہوگا۔
2۔دوسرے مذاہب والوں کو تو انفرادی طور پر اپنے مذہب پر عمل کی مکمل اجازت ہو گی ،لیکن اپنے مذہب کی تشہیر،تبلیغ اور معاشرے میں اپنی ثقافت کی ترویج ممنوع ہوگی۔اسلامی ریاست میں مذاہبِ باطلہ کی ترویج کا کوئی تصور نہیں ہے اور نہ ہی اسلامی تعلیمات کی رو سے ایک مسلم معاشرے میں مذاہبِ باطلہ کو تبلیغ کی اجازت ہے۔
3۔لبرل مغربی جمہوریت میں جنسی مساوات یعنی مرد و زن کو ہر طرح سے مساوی درجہ دیا گیا ہے ،جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عورت ووٹ دینے ،رکنِ پارلیمنٹ بننے ،کرسی اقتدار پر بیٹھنے اور سیاسی جماعت کی سربراہ بننے میں مر د کے بالکل مساوی ہے ،اسی طرح زندگی کے دوسرے شعبوں اور کاموں میں عورت اور مرد برابر ہیں ،جو کام مرد کر سکتاہے، جمہوری نظام میں مساوات کی خاطر عورت بھی اسے سرانجام دے سکتی ہے ۔جبکہ اسلام مردو زن میں مساوات کی بجائے حفظِ مراتب اور دائرہ کار کی تقسیم پر زور دیتا ہے اس لیے اسلامی جمہوریت میں عورتوں کے لیے ایسا مناصب قطعاً ممنوع ہوں گے ،جو شریعت کی رو سے صرف مرد کے ساتھ خاص ہیں ۔اسی طرح عورت کو ایسے کاموں کی بھی اجازت نہیں ہو گی جو اسلامی تعلیمات اور مقاصدِ شریعت سے ہم آہنگ نہ ہوں ۔
4۔لبرل مغربی جمہوریت میں ملکی باشندے ہر فعل،قول،نظریہ اور رائے کے اظہار میں مکمل آزاد ہوتے ہیں ،لہذا جمہوریت کی اسلام کاری کرتے وقت مطلق آزادی کے حدود طے کرنے ہوں گے۔حدود و قیود کی تعیین قابلِ بحث ہو سکتی ہے ،لیکن مکمل آزادی اسلامی تعلیمات سے کسی طرح سے بھی ہم آہنگ نہیں ہے۔
اختیارات کی تقسیم اور حکومت کی مدت
اسلامی نظامِ خلافت میں اگرچہ اختیارات کا منبع اور مرکز خلیفہ کی ذات ہوتی ہے ،لیکن اختیارات کی تقسیم کے خلاف بھی نص نہیں ہے ،اس لیے اباحتِ اصلیہ کے اصول پر اس کے جواز کی گنجائش نکل سکتی ہے کہ اختیارات انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ میں تقسیم ہوں ،کیونکہ اختیارات کا منبع ایک ذات ہو یا الگ الگ ،مقاصدِ شریعت پر خاص فرق نہیں پڑتا ،اس میں اصل مسئلہ اختیارات کا شریعت کی روشنی میں صحیح استعمال ہے ،خواہ سارے اختیارات ایک شخص کے پاس ہوں یا اشخاص اور اداروں میں تقسیم ہوں۔
البتہ حکومت کی خاص مدت مقرر کرنا قابلِ بحث ہے۔ اس سلسلہ میں درجہ ذیل گزارشات پیشِ خدمت ہیں۔
1۔ سیاستِ شرعیہ اور اسلامی ریاست پر لکھنے والے فقھاء اور سیاسی مفکرین مثلاً علامہ ماوردی ،قاضی ابو یعلیٰ ،امام جوینی،امام ابن تیمیہ،شاہ ولی اللہ اور دیگر فقھاء نے عزل الامام کے ممکنہ طریقوں پرتفصیل سے بحث کی،لیکن کسی ایک مفکر اور فقیہ نے اختتامِ مدت کوعزل کے طرق میں شمار نہیں کیا۔اور نہ ہی پوری اسلامی تاریخ میں کبھی خلیفہ کی مدتِ حکومت مقرر ہوئی ہے ،کہ اس کے بعد امام خود بخود معزول ہو،گویا حکومت کی مدت کا تقرر ایسا مسئلہ ہے ،جس کی نظیر ہماری علمی،فکری اور سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی۔اس لیے اس کے جواز کے لیے شاید محض اتنی بات کا فی نہ ہو کہ نصوص اس بارے میں ساکت ہیں،کیونکہ پوری اسلامی تاریخ اور قدیم فقہی ذخیرے کو یکسر نظر انداز کرنا دقیق غور وفکر اور طویل سوچ بچار کا متقاضی ہے۔اگر مقاصدِ شریعت کی روشنی میں اس مسئلہ کا جائز لیا جائے تو درج ذیل باتیں سامنے آتی ہیں۔
۱۔جب ایک امیر اصولوں کے مطابق نظامِ حکومت چلا رہا ہے، تو صرف مخصوص مدت کے گزرنے پر اسے معزول کرنا محلِ نظر ہے ،خصوصاً جب اس کے عزل کی صورت میں اثارتِ فتنہ اور نا اہل افراد کی امارت کا خدشہ ہو۔
2۔حکومت کی مدت مقرر کرنے کی صورت میں ریاست میں ایک قسم کا اضطراب سا رہتا ہے ،کیونکہ سازشی عناصر، کرپٹ طبقہ اور غیروں کے آلہ کار کسی نہ کسی طریقے سے اگلی مدت میں برسرِ اقتدار آنا چاہتے ہیں جس کے لیے خفیہ منصوبے اور موجودہ حکومت کے خلاف رائے عامہ کی ہمواری کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔لیکن جب حکومت کی باقاعدہ مدت مقرر نہیں ہو گی تو یہ طبقہ مایوس ہو گا اور اسلامی ریاست میں حصولِ حکومت کی خاطر انارکی پھیلانے سے گریز کرے گا۔
3۔حکومت کی مدت مقرر کرنے میں یہ مسئلہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ملک کے سرکردہ افراد اور کسی نہ کسی حوالے سے حکومت کے اہل اشخاص کے دوران اندرونِ خانہ رسہ کشی اور سرد جنگ جاری رہتی ہے اور ہر کوئی اگلی مدت میں حکومت کے حصول کے لیے سرگرم رہتا ہے اور معاشرے کے بگاڑ کی صورت میں رسہ کشی کھلم کھلا نفرت اور عداوت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ لہٰذا حکومت کی مدت کا تقرر ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا موجودہ حالات ،عالمی تناظر، اسلامی ریاست کی مخصوص ساخت اور مقاصدِ شریعت کی روشنی میں دقت اور باریک بینی سے جائزہ لینا ہوگا۔ جمہوریت کی اسلام کاری میں لبرل مغربی جمہوریت کی اتباع میں تمام خدشات و عواقب سے بے پرواہ ہو کر حکومت کی چاریا پانچ سال کی مدت کا تقرر نہیں ہوگا،بلکہ نفسِ مدت کے تقرر اور تحدیدِ مدت دونوں مسئلوں کے بارے میں مقاصدِ شریعت کو سامنے رکھ کر کوئی نیا لائحہ عمل اختیار کرنا ہو گا۔
جمہوریت کی اسلام کاری کی بحث کا خلاصہ
اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ لبرل مغربی جمہوریت کے تقریبا تمام اصول اسلامی تعلیمات سے یا تو کلی طور پر متصادم ہیں یا مقاصدِ شریعت، اسلامی ریاست اور اسلامی معاشرے کی ساخت اور مزاج سے بالکل ہم آہنگ نہیں ہیں ،اس لیے جمہوریت کی اسلام کاری میں تمام اصولوں پر نظرثانی کرنی ہو گی اور اس کے تمام اصولوں میں اسلامی تعلیمات کے مطابق ترمیم کرنی ہو گی۔ پیچھے ذکر کردہ ترمیمات و اصلاحات کا مقصد ان کی حتمیت بتانا نہیں ،کہ اس کے علاوہ اور طریقے سے تبدیلی نہیں کر سکتے، بلکہ صرف لبرل مغربی جمہوریت کے اصولوں کا قابلِ ترمیم و تبدیل دکھانا مقصود تھا۔ اب چاہے ان ترمیمات سے لبرل جمہوریت کا اصل چہرہ ہی کیوں نہ مسخ ہو جائے جیسا کہ مذکورہ ترامیم سے واضح ہو تا ہے۔جو لوگ جمہوریت کی اسلام کاری کو ناممکن کہتے ہیں، ان کا مقصد و مدعا بھی شاید یہی ہے کہ لبرل مغربی جمہوریت کی اساسی اور بنیادی اصولوں کو باقی رکھتے ہوئے اسے اسلامی تعلیمات کے مطابق بنانا اور مقاصدِ شریعت سے ہم آہنگ کرنا ناممکن ہے۔
اسلامی ممالک خصوصا پاکستان میں رائج جمہوریت
جمہوریت کی اسلام کاری پر بحث کے بعد کے یہ اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ اسلامی ممالک نے لبرل مغربی جمہوریت کو کن تبدیلیوں اور ترمیمات کے ساتھ قبول کیا؟اور ان ترمیمات سے کیا لبرل مغربی جمہوریت’’ اسلامی‘‘ بن گئی؟ کیاسلامی ممالک میں رائج جمہوری نظام مقاصدِ شریعت سے ہم آہنگ ہے؟ خصوصا پاکستان کے حوالے سے اس کا ایک جائزہ لینا مقصود ہے۔
امتِ مسلمہ کا المیہ
امتِ مسلمہ کو عصرِ حاضر میں جو بڑے دہچکے لگے، ان میں ایک بہت بڑا دھچکہ ادارہ خلافت کا غیروں کی عیاری اور اپنوں کی سادگی سے شکست و ریخت کا شکارہوناہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خلافتکا ادارہ اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجودمسلم امت کے سر پر ایک سائبان کا کردار ادا کر رہا تھا،جس سے امت مجموعی طور پر زوال کے تھپیڑوں سے کافی حد تک محفوظ تھی۔اور اسلامی تعلیمات اپنی اجتماعی شکل میں بڑی حد تک نافذ تھیں ۔خلافت کے ختم ہونے سے دیگر نقصانات کے علاوہ امت نے ایک بڑا خسارہ یہ اٹھایاکہ تقریبا تمام اسلامی ممالک بشمول پاکستان نے لبرل مغربی جمہوریت کو اس کے بنیادی اصولوں میں ترمیم کیے بغیر نظامِ حکومت کے طور پر قبول کیا ۔اگر کسی جگہ اسلام پسندوں اور علماء کی کوششوں سے اربابِ اقتدار ترمیم پر آمادہ ہوئے تو اتنی معمولی ترمیم کی کہ اس سے لبرل مغربی جمہوریت کے بنیادی اصول ،ڈھانچہ اور طریقہ کار با لکل متاثر نہیں ہوااور اس پر مستزاد یہ کہ جدت پسند اور مغرب سے انتہائی مرعوب مفکرین نے اسلامی ممالک میں رائج جمہوری نظام کو اسلامی جمہوریت کے نام سے موسوم کیا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ ایک تو اسلامی ممالک میں رائج جمہوریت پر شرعی حیثیت سے گفتگو کا دروازہ تقریبا بند ہوااور دوسرا یہ کہ اسلام کا آئیڈیل نظامِ حکومت ’خلافت ‘کے قیام کے لیے کما حقہ کوششیں نہیں ہو سکیں اورنظامِِ خلافت علمی،فکری اور عملی طور پر معدوم ہوتا گیا۔اور آج اسلامی ممالک کا منظر نامہ یہ ہے کہ لبرل مغربی جمہوریت اپنے تمام آثارِ سیۂ کے ساتھ قائم ہے اور دردمندانِ ملت اور غمخوارانِ امت اصلاحِ نظام کی بجائے تبدیلی افراد کے لیے تگ و دو کررہے ہیں۔
رائج جمہوری نظام پر بحث کے دو مرحلے
پاکستان میں رائج جمہوریت پر بحث کے دو مرحلے ہیں : ایک یہ کہ رائج جمہوری نظام اور لبرل مغربی جمہوریت میں کتنی چیزوں میں اشتراک و موافقت ہے ؟ دوسرا یہ کہ اس نظام کو اسلامی بنانے کے لیے اس میں کیا کیا ترمیم ہوئی ہے ا ور کیا یہ ترمیمات اس کی اسلامکاری کے لیے کافی ہیں؟ اور ان ترمیمات سے یہ ’’اسلامی جمہوریت‘‘ شریعت اور مقاصدِ شریعت سے ہم آہنگ ہو گئی؟
لبرل مغربی جمہوریت اور رائج جمہوری نظام میں اشتراکات
لبرل مغربی جمہوریت اور پاکستان میں رائج ’’اسلامی جمہوریت‘‘ میں درج ذیل باتوں اور اصولوں میں اشتراک و موافقت ہے۔
پارلیمنٹ کے اختیارات
لبرل مغربی جمہوریت میں پارلیمنٹ دو تھائی اکثریت سے کوئی بھی قانون پاس کر سکتی ہے اور پارلیمنٹ کی قانون سازی پر کوئی بھی پابندی و تحدید نہیں ہوتی ۔ ہمارے ہاں رائج جمہوریت میں بھی پارلیمنٹ کو قانون سازی کے بلا کسی تحدید کے مکمل اختیارات حاصل ہیں۔ چنانچہ آئین کے آرٹیکل 70 میں قانون سازی کا جو طریقہ بیان کیا گیا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی جب بل دو تہائی اکثریت سے پاس کرے تو اسے دوسرے ایوان میں منظوری کے لیے پیش کیا جائیگا،سینٹ نے بھی اگر اسے اکثریت سے منظور کیا تو قانون کو صدر کے پاس منظوری کے لیے بھیجا جائیگا ۔ صدر کی منظوری کے بعد وہ ملک کا قانون بن جائیگا۔( یہ صرف خلاصہ ہے اس میں ایوانوں اور صدر کے اشکالات اور دیگرضمنی مباحث کاذکر نہیں ہے) اب قانون سازی کے عمل پر نہ کوئی پابندی لگائی گئی ہے اور نہ تحدید۔جو بھی بل مذکورہ طریقے سے منظور ہوجائیگا وہ ملک کا قانون بن جائیگا۔خواہ شریعت کے موافق ہو یا مخالف۔
البتہ اگر اس پر یہ اشکال ہو کہ قردادِ مقاصد اور آرٹیکل 270 کے تحت تو یہ صراحت کی گئی ہے کہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائیگا،تو اس کا جواب یہ ہے کہ دستور کی ترمیم سے متعلق آرٹیکل 239 کے دفعات کے الفاظ یہ ہیں:
’’ دستور میں ترمیم پر کسی عدالت میں کسی بھی بنیاد پر چاہے جو کچھ ہو اعتراض نہیں کیا جائیگا ۔ ازالہ شک کے لیے بذریعہ ہذا قرار دیا جاتا ہے کہ دستور کے احکام میں سے کسی میں ترمیم کرنے کے مجلسِ شوری کے اختیارات پر کسی بھی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے‘‘(آئینِ پاکستان صفحہ155)
لہٰذا اب اگر پارلیمان کی دوتہائی اکثریت قران و سنت کے خلاف قانون نہ بنانے کی شق ختم کرے ،پھر اس کے بعد کثرت سے جو قانون بنائے تو ان کی یہ ساری کاروائی آئین و قانون کے بالکل مطابق ہو گی۔ خلاصہ یہ نکلا کہ پارلیمنٹ ہر حال میں سپریم قرار پائی کہ پہلے پارلیمنٹ نے یہ پابندی لگائی ، پھر خود یہ پابندی ختم کی ۔ قران و سنت کے خلاف قانون نہ بنانے کی وجہ اس کی تقدیس و بالادستی نہیں ،بلکہ اس کے آئینی شق ہو نے کی وجہ سے ہے ۔ جب دو تہائی اکثریت نے یہ شق ختم کر دی تو اس کی بالادستی خود بخود ختم ہوگئی۔ اس کو شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے ان الفاظ میں بیان کیا:
’’ سیکولر جمہوریت میں پارلیمنٹ پرقا نون سازی کے سلسلے میں کوئی پابندی نہیں ہوتی سوائے اس پابندی کے جو دستور یا آئین نے خود اس پر لگائی ہو اور یہ دستوری پابندی بھی کسی پارلیمنٹ یا دستور ساز ادارے نے عائد کی ہو تی ہے اور پارلیمنٹ جب چاہے اس پابندی کو دستوری ترمیم کے ذریعے اٹھا بھی سکتی ہے ،لہذا مالِ کار پارلیمنٹ پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہوتی‘‘(272)
اسی طرح یہ اشکال نہ کیاجائے کہ وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل اس قسم کی ترمیمات کے روک تھام کے لیے قائم کئے گئے ہیں ، کیونکہ دستور کے قوانین وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں ،چناچہ آرٹیکل 203 کے تحت اس قانون کی تشریح کی گئی ہے جو وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔
’’قانون میں کوئی رسم یا رواج شامل ہے جو قانون کااثر رکھتا ہو، مگر اس میں دستور ،مسلم شخصی قانون ، کسی عدالت یا ٹربیونل کے ضابطہ کار سے متعلق کوئی قانون یا اس بات کے آغازِ نفاذ سے دس سال مدت گزرنے تک کوئی مالی قانون محصولات یا فیسوں کے عائد کرنے ، بنکاری یا بیمہ کے تعامل اور طریقہ سے متعلق کوئی قانون شامل نہیں ہے‘‘(آئین پاکستان صفحہ116 )
اسلامی نظریاتی کونسل بھی محض سفارش اور مشورہ تک محدود ہے اور وہ بھی اس وقت جب صدر یا اسمبلی از خود کسی قانون کے شرعی یا غیر شرعی ہونے کے بارے میں استفسار کرے ۔اسلامی نظریاتی کونسل کو از خود نوٹس لینے کا اختیار نہیں ہے۔( ملاحظہ فرمائیے آرٹیکل 229 ،230 کے دفعات)
الغرض ایسا طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ اس ’’اسلامی جمہوریت‘‘ میں پارلیمنٹ کی بالادستی اور اس کو قانون سازی کے مکمل اختیارات کسی طرح بھی متاثر نہیں ہیں ۔
آئین و دستور کی بالا دستی اور تقدس
لبرل مغربی جمہوریت میں آئین و دستور ہر صورت میں بالا دست اور مقدس ہو تا ہے ۔پاکستان میں رائج جمہوری نظام میں بھی آئین و دستور کوہر صورت میں تقدس اور بالا دستی حاصل ہے۔ چناچہ آئین کی ابتدا ئیہ میں بنیادوں اصولوں کے تحت درج ہے۔
’’دستور اور قانون کی اطاعت ہر شخص خوہ جو بھی ہو اور ہر اس شخص کی جو فی الوقت پاکستان میں ہو واجب التعمیل ذمہ داری ہے‘‘
کیا اس کے اندر یہ قید ہے کہ دستور اور قانون اسی وقت تک بالادست اور واجب التعمیل رہے گا ،جب تک وہ قران و سنت کے خلاف نہ ہو۔نیز تمام مناصب کے لیے جو حلف آئین میں درج ہیں ،ان سب میں علی الاطلاق دستور کی ہر صورت میں اطاعت اور اس کادفاع شامل ہے ۔ پاکستان کی تمام عدالتیں بھی دستور کے مطابق فیصلہ کرنے کی پابند ہیں ،خواہ دستور شریعت سے متعارض ہی کیوں نہ ہو ، کیونکہ ملک کے تمام افراد ، تمام ادارے، آئین کی رو سے صرف دستور اور قانون کی پابند ہیں ۔ دستور اور قانون کی بالا دستی کی یہی شکل لبرل مغربی جمہوریت میں ہوتی ہے ۔اس اصول میں مغربی جمہوریت اور رائج’’اسلامی جمہوریت‘‘ میں کوئی فرق نہیں ہے۔
بالغ رائے دہی کا تصور اور سیاسی مساوت
لبرل مغربی جمہوریت کی طرح ہمارے ہاں رائج جمہوری نظام میں بھی ملک کے تما م افرادوو ٹنگ کے عمل میں حصہ لے سکتے ہیں اور ان کا فیصلہ صرف کثرت کی بنیاد پر ہو تا ہے۔اسی طرح ملک کا ہر فرد پارلیمنٹ کا ممبر بن سکتا ہے ۔ اگرچہ آرٹیکل 62,63 کے تحت کچھ شرائط لگائی گئیں ہیں ، لیکن جیسا کہ پہلے اس پر بحث ہو چکی ہے کہ جب پارلیمنٹ ایک قانون ساز ادارہ ہے، تو اس کی رکنیت کے لیے اسلامی علوم سے مکمل واقفیت کی شرط لگانا ہو گی اور ہر خاص عام پارلیمان کا ممبر بننے کا اہل نہیں ہو گا ۔ لیکن ہمارا دستور اس قسم کی کوئی شرط نہیں لگاتا۔ چناچہ مشاہدہ ہے کہ اس قسم کے لوگ بھی پارلیمنٹ کے ممبر بن جاتے ہیں جو شاید کلمہ طیبہ کے درست تلفظ اور ترجمہ پر قادر نہ ہو،چناچہ اس قسم کے لوگ ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان ‘‘ کے مسلم عوام کے لیے قانون سازی کرتے ہیں۔نتیجہ یہ نکلا کہ اس اصول میں بھی لبرل مغربی جمہوریت اور رائج ’’اسلامی جمہوریت ‘‘ میں موافقت ہے ۔
کثرتِ رائے کی حتمیت
کثرتِ رائے چونکہ جمہوریت کا بنیادی اور اساسی اصول ہے ، اس لیے اس اصول کو بھی ہماری ’’اسلامی جمہوریت‘‘ میں جوں کا توں رکھا گیا ہے اور کثرتِ راے آئینی و قانونی طور پر لازمی و حتمی ہے۔ ووٹنگ کا عمل ہو یا پارلیمنٹ میں قانون سازی کا معاملہ ، ہر مسئلے میں کثرتِ راے کو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے۔
سیاسی جماعتیں اور حزبِ اختلاف
لبرل مغربی جمہوریت کی طرح رائج جمہوری نظام میں رنگ، نسل ،علاقہ،زبان،ثقافت غرض ہر اعتبار سیا سی جماعتیں بنانے کی مکمل اجازت ہے اور ان سیاسی جماعتوں کو اپنا منشور طے کرنے کے کلی اختیارات حاصل ہیں ،خواہ وہ منشور سیکولر ہو یا اسلامی ، صرف ایک شرط اور قید ہے کہ کہ منشور آئین و دستور نامی ’’مقدس صحیفے‘‘ کے خلاف نہ ہو ۔اس اجازت اور آزادی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان سمیت دیگر’’ اسلامی جمہوری‘‘ ملکوں میں ایک اللہ اور رسول کو ماننے والے رنگ ، نسل ،قومیت ، زبان اور طبقات کے اعتبارسے سیاسی جماعتوں کی صورت میں آپس میں دست و گریباں ہیں ۔ اسی طرح حزبِ اختلاف کا ادارہ مکمل مغربی تصور کے ساتھ قائم ہے ۔ اس مخالف شریعت اصول کے ہوتے ہوئے بھی ہمارے ہا ں رائج جمہوریت کی ’’اسلامیت‘‘ مکمل طور پر برقرار ہے۔
مساواتِ عامہ اور آزادی
ہمارے ہاں رائج جمہوریت میں دینی طبقات کے پر زور اسرار اور طویل اور صبر آزما جدوجہد کے بعد جو ’’اسلامیت ‘‘ کی کچھ جھلک موجود ہے ، اس میں مساوات اور آزادی کے حوالے سے تمہید میں یہ جملہ شامل ہے :
’’جمہوریت ، آزادی ،مساوات ،رواداری اور عدلِ عمرانی کے اصولوں پر جس طرح اسلام نے ان کی تشریح کی ہے پوری طرح عمل کیا جائے گا‘‘
اس سے قطع نظر کہ اسلام نے واقعی جمہوریت کی کوئی تشریح کی ہے یا نہیں؟ یہ جملہ امید افزا ہے ،لیکن آگے دستور کی دفعات خود اس تمہید کی مخالف ہیں کہ اس میں آزادی اور مساوات کی اسلام مخالف تشریح شامل ہے۔
۱ ۔اس تمہید کے ساتھ ایک دو جملوں کے بعد یہ جملہ شامل ہے:
’’جس میں قرارِ واقعی انتظام کیا جائے گا کہ اقلیتیں آزادی سے اپنے مذہب و عقیدہ رکھ سکیں اور ان پر عمل کر سکیں اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دے سکیں‘‘
کیا شریعت کی رو سے دیگر مذاہب کو اسلامی ریاست میں اپنی ثقافتوں کو ترقی دینے ،اسے بڑھانے کی اجازت ہے ؟کیا ثقافت کے لفظ میں خاص طور پر ان کے دینی شعائر نہیں آتے ؟ تو ایک اسلامی ریاست میں اہلِ کفر کے شعائر کے اظہار ہی نہیں بلکہ ترقی شرعی طور پر درست ہے؟ثقافت اور دینی شعائر کے اظہار اور اس کی حدود میں یقیناًفقہاء کے مختلف اقوال ہو سکتے ہیں لیکن ہر حد اور پابندی سے عاری اہل کفرکی کھلی آزادی کسی فقیہ کا قول نہیں ہے۔
2۔اقلیتوں کو مذہب کی نشر واشاعت ، تبلیغ اور مذہب کے نام پر انجمن سازی کی مکمل آزادی دستور میں فراہم کی گئی ہے ۔چنانچہ آرٹیکل 20 کے تحت دفعہ یوں ہے:
’’ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے ،اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کاحق ہو گا‘‘
کیا یہ شق اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ ہے؟ یہاں تبلیغ کے جواز و عدمِ جواز کا فتوی دینا مقصود نہیں ،بلکہ اصل اس بات کی نشاندہی کرنا مقصد ہے کہ اقلیتوں سے متعلق اسلام نے جتنے حقوق دیے ہیں، سب میں حدود ، قیود اور مخصوص شرائط لگائی ہیں ۔ ان حدود اور شرائط میں فقہاء کااختلاف ہے ،لیکن بغیر کسی قید کے مکمل آزادی کسی طرح سے بھی اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ خلاصہ یہ کہ مساواتِ عامہ اور آزادی جو لبرل جمہوریت کے بنیادی اصولوں میں سے ہے ، ہماری ’’اسلامی جمہوریت‘‘ میں تقریبا وہی ہے ۔ اس اصول میں اگرچہ کچھ ترمیم کی گئی ہے ،لیکن وہ اسلامی تعلیمات کے مکمل مطابق نہیں ہے۔گویا اس اصول میں بھی رائج جمہوریت لبرل مغربی جمہوریت کے تقریبا مماثل ہے۔
اختیارات کی تقسیم اور حکومت کی مدت
ہم یہ بحث پہلے کر چکے ہیں کہ اختیارات کی تقسیم اسلامی تعلیمات اور مقاصدِ شریعت کے منافی معلوم نہیں ہوتی۔ البتہ حکومت کی مدت پر نظر ثانی کی ضرورت ہے اور مقاصدِ شریعت سے ہم آہنگ اس مسئلے کا از سرنو جائزہ لینا ہوگا ،لیکن ہما رے جمہوری نظام میں محض لبرل جمہوریت کی اتباع میں حکومت کی مدت پانچ سال مقرر کی گئی ہے۔
رائج جمہوریت میں ’’اسلامیت‘‘ کا عنصر
اب بحث یہ رہ جاتی ہے کہ وہ کونسی ترمیمات ہیں ؟جن کی بنیاد پر اسلامی ممالک خصوصاً پاکستان کے جمہوری نظام کو اسلامی کہا جاتا ہے اور ان ترمیمات سے یہ رائج نظام واقعی اسلامی بن گیا ہے؟ ان ترمیمات پر بحث سے پہلے یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ پچھلے ذکر کردہ تمام اصولوں میں ہمارا جمہوری نظام لبرل مغربی جمہوریت کے بالکل موافق و مماثل ہے اور وہ اصول اکثر اسلامی تعلیمات اور مقاصدِ شریعت سے ہم آہنگ نہیں ہیں ،اس لیے ان ذکر کردہ اصولوں میں موافقت رائج نظام کی ’’اسلامیت ‘‘ کو ختم کرنے کے لیے کا فی ہے، کیونکہ ایک بھی غیر اسلامی اور شریعت سے متصادم اصول کی شمولیت کسی کسی نظام کو غیر اسلامی بنا دیتی ہے ،خصوصاً جبکہ وہ اصول اس نظام کے ان اساسی اور بنیادی اصولوں اور تصورات میں سے ہوجس پر اس کی پوری عمارت کھڑی ہو۔لیکن اس کے باوجود جمہوریت کی اسلام کاری کے حوالے سے کی گئی ترمیمات اور تبدیلیوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں تا کہ ’’اسلامی جمہوریت‘‘ کی حقیقت مزید منقح اور واضح ہو جائے۔
لبرل مغربی جمہوریت میں اسلام کی پیوند کاری درجہ ذیل نکات کی شکل میں کی گئی ہے:
1۔آئین و دستور میں قراردادِ مقاصد کو شامل کیا گیا ہے ، جس میں حاکمیتِ اعلی اور اقتدارِ اعلی کواللہ تعا لی کے لیے تسلیم کیا گیا ہے۔
2۔آئین و دستور میں اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنا یاجائیگااور شریعت سے متصادم قوانین کو اسلامیانے کی کوشش کی جائیگی اور اس مقصد کے لیے وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل جیسے ادارے بنائے گئے ہیں۔
3۔اسلام کو مملکتی مذہب قرار دیا گیا ہے۔
4۔ملک کے کلیدی عہدے جیسے صدر اور وزیر اعظم کے لیے مسلمان ہونے کی شرط لگائی گئی ہے ۔
5۔وزارتِ مذہبی امور کا باقا عدہ محکمہ بنا یا گیا ہے جو اوقاف ، حج ،زکوۃ ، روئیتِ ہلال اور دیگر مذہبی معاملات سر انجام دیتا ہے۔
کیا ان نکا ت سے جمہوریت اسلامی بن سکتی ہے؟
ان پانچ نکات میں سے آخری دو نکات تو کسی نظام کے اسلامی بنانے کے لیے کافی نہیں ہے ۔ کیونکہ کسی نظام کے سربراہ کا مسلمان اور بات ہے اور اس نظام کا اسلامی اصولوں کے مطابق ہونا ایک الگ بحث ہے۔اسی طرح وزارتِ مذہبی امور بنانے سے بھی کوئی نظام اسلامی نہیں بن سکتا ، کیونکہ مذہب سے متعلق معاملات کو چلانے کے لیے تو لبرل جمہوری ملکوں میں بھی وزارتیں اور محکمے بنے ہوئے ہیں۔ یہ بات چونکہ ایک قسم کی بدیہی ہے اس لیے پر مزید تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے ۔ اب بقیہ تین نکات کے بارے میں چند باتیں پیشِ خدمت ہیں۔
حاکمیتِ اعلیٰ اور اس کا مفہوم
ہمارے ہاں عمومی طور پر جمہوریت کے بارے میں یہ غلط فہمی عام ہے کہ جمہوریت عوام کی حاکمیت اور اقتدارِ اعلی کا نام ہے ،جبکہ اسلامی ممالک خصوصاً پاکستان میں آئینی طور پر اقتدارِ اعلی اللہ تعالی کے لیے مانا گیا ہے ،اس لیے رائج جمہوریت آئینی و قانونی طور پر ’’اسلامی ‘‘ہے اور مقتدر اور ذی فہم حلقے بھی عام طور پر یہ بات دہراتے ہیں کہ پاکستان کا نظام اور قانون تو اسلامی ہے ، افراد ٹھیک نہیں ہے ،اس لیے جدو جہد کا نکتہ تبدیلی نظام کی بجائے تبدیلی افراد ہو تا ہے اور عمومی طور پر دینی قوتوں کی پوری طاقت افراد کے بدلنے اور صالح سے صالح قیادت لانے پر صرف ہو تی ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ لبرل جمہوریت میں عوام کی حاکمیت کا مطلب یہ ہے کہ لبرل مغربی جمہوریت کا پورا ڈھانچہ اور اس کے بنیادی اصول عوام کی حاکمیت اور کلی اختیار کو فرض کر کے طے کئے گئے ہیں۔مغربی جمہوریت کا ایک ایک اصول ،پورا طریقہ کار، ووٹنگ کے عمل سے لیکر حکومت تک پہنچنے کے تمام مراحل اور حکومتی نظم و نسق چلانے کے جملہ طریقے ،سب میں عوام کی حاکمیتِ اعلی کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے ۔عوام کی حاکمیت محض خالی نظریہ اور مفرو ضہ نہیں ہے ،جس کا جمہوریت کے بنیادی اصولوں اور ڈھانچے سے تعلق نہ ہو۔بلکہ جمہوریت کا پورا نقشہ عوم کی حاکمیت کا مظہر اتم ہے،اس لیے جب یہ کہا جائے کہ ہم عوم کی حاکمیت کی بجائے اللہ کی حاکمیت کے قائل ہیں، تو لبرل مغربی جمہوریت کے اس پورے ڈھانچے میں ترمیم کرنی ہو گی، وہ تمام طریقے تبدیل کرنے ہو ں گے ،جو عوام کی حاکمیت کے غماز ہیں ۔اگر صرف آئین میں یہ جملہ درج ہو کہ حاکمیت اللہ کے لیے ہے ،جبکہ ڈھانچہ اور بنیادی اصول لبرل جمہوریت کے باقی رکھے گئے، جیسا کہ ہمارے ہاں رائج جمہوریت میں لبرل جمہوریت کا بنیادی ڈھانچہ ،اساسی اصول اور پورا طریقہ کار جوں کا توں ہے،تو اس نظام کو عوام کی حاکمیت پر بنی نظام ہی کہا جائیگا، کیونکہ صرف نام کے بدلنے سے شئی کی حقیقت اور ماہیت نہیں تبدیل نہیں ہو جاتی۔
شریعت کی اصطلاح میں منافق اسی کو تو کہتے ہیں جو اللہ کی وحدانیت کا اقرار زبان سے کرنے کے باوجود اپنی سوچ، بنیادی تصورات اور ان بنیادی افعال کو ترک نہیں کرتا جس سے ا س کے موحد ہونے کی بجائے مشرک ہونے کا اظہار ہو تا ہے۔تو شریعت زبان پر حکم لگانے کی بجائے اس کی حقیقت پر حکم لگا کر اسے کلمہ طیبہ پڑھنے کے باوجود کافر قرار دیتی ہے۔ لہذا شرعی اصطلاح میں ہمارے ہاں رائج جمہوریت کومنافق جمہوریت کہا جائے ،تو شاید تقریبِ فہم کے لیے یہ تعبیر مناسب ہو گی ،کہ اللہ کی حاکمیت کا اقرار کرنے کے باوجود اس کا بنیادی ڈھانچہ بالکل لبرل مغربی جمہوریت کی طرح ہے۔
اس کو دوسرے لفظوں میں یو ں بھی تعبیر کر سکتے ہیں کہ جمہوریت میں عوام کی حاکمیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ لبرل جمہوری ملکوں میں آئین و دستور میں عوام کو ہر قسم کی حاکمیت کا سرچشمہ لفظا تسلیم کیا گیا ہے ، لہذا جمہوریت کی اسلام کاری میں آئین و دستور میں عوام کی حاکمیت کے الفاظ کی بجائے اللہ کی حاکمیت کے الفاظ لکھ لیے جائیں ۔بلکہ عوام کی حاکمیت کا مطلب یہ ہے کہ لبرل مغربی جمہوریت کے بنیادی اصول اور پورا ڈھانچہ عوام کی حاکمیت پر مشتمل ہے ،اس لیے اس پورے ڈھانچے کو مختصراً عوام کی حا کمیت سے تعبیر کیا جاتا ہے ا ور
یوں کہہ دیا جاتا ہے کہ جمہوریت عوام کی کلی حاکمیت کا نام ہے ۔اگر وہی اصول اور ڈھانچہ ہمارے ہاں بھی برقررار ہے، تو محض نام کے بدلنے یا آئین میں کچھ الفاظ بڑھانے سے عوام کی حاکمیت کا عنصر تبدیل نہیں ہو گا۔اور نام خواہ جو بھی رکھ لیں اس کی ماھیت اور حقیقت جب لبرل جمہوریت والی ہے ،تو اس پر حکم بھی لبرل جمہوریت کا لگے گا۔اور یہ کہنا صحیح ہو گا کہ ہماری ’’اسلامی جمہوریت‘‘ عوام کی حا کمیت کا نام ہے۔
خلاصہ یہ نکلا کہ جب اس کی حقیقت، ماہیت، بنیادی اصول ، طریقہ کار لبرل مغربی جمہوریت کی طرح ہے ،تو صرف آئین میں قرار دادِ مقاصد یا اللہ کی حاکمیت کے الفاظ بڑہا دینے سے یہ نظام اسلامی نہیں بنے گا،خصوصاً جبکہ وہ الفاظ بھی عوامی نمائندوں نے دو تہائی اکثریت سے پاس کئے ہوں اور انہیں اسے تبدیل کرنے کا مکمل اختیاربھی ہو۔
قرآن و سنت کے خلاف قانون نہ بنانے کی شق
رائج جمہوریت کو اسلامی کہنے کے لیے دوسرا استدلال اس سے کیا جاتا ہے کہ چونکہ آئین میں اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنیا جائیگااور موجودہ غیر اسلامی قونین کو بھی جلد از جلد اسلامی قالب میں ڈھالا جائیگا۔لہذا جب دستور میں قانون سازی اور پارلیمنٹ کے اختیارات کی حدود طے کی گئی ہیں، تو لبرل اور رائج جمہوری نظام میں خود بخود فرق ہو گیاکہ لبرل جمہوریت میں اس طرح کی کوئی قید و پابندی نہیں ہوتی۔
اس نکتے اور استدلال کے بارے میں چند گزارشات پیشِ خدمت ہیں:
1۔قرآن و سنت کے خلاف قانون نہ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ شریعت کے مامورات قانوناً لاگو ہو نگے اور منہیات قانوناً ممنوع ہو ں گے ۔جبکہ مباحات اور انتظامی امور میں مقاصدِ شریعت سے ہم آہنگ قانون سازی کی جائی گی۔تو کیا ہمارے آئین کی رو سے شریعت کے مامورات قانونا نافذ ہیں ؟کیا شریعت کی منہیات قانوناً ممنوع ہیں؟کیا ہماری عدالتیں محض اس وجہ سے ایک کام پر پابندی لگانے کی مجاز ہیں کہ وہ شریعت میں ممنوع ہیں ،خواہ دستور میں اسے صراحۃً منع نہ کیا گیا ہو۔کیا قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایسی چیز لاگو اور ناافذ کرنے کا اختیار ہے جس کونافذ کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے؟اگر ان کو آئینی شقوں کے علاوہ باقی کسی قسم کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہے تو گویا قرآن وسنت کے خلاف قانون نہ بنانے کی شق کے باوجود ملک میں قرآن وسنت کے خلاف قونین موجود ہیں۔اور ملک میں عملاً قرآن و سنت کی بجائے آئین و دستور کو بالادستی حاصل ہے۔
2۔قرآن و سنت کے خلاف قانون نہ بنانے کی شق کی خود کیا حیثیت ہے؟کیا پارلیمنٹ اسے اکثریت سے تبدیل کر سکتی ہے یا نہیں ؟ اگر ارکانِ پارلیمنٹ کو اسے تبدیل کرنے کا مکمل اختیار ہے ،تو انجامِ کار کے اعتبار سے عوامی نمائندوں کی بالادستی ہوئی ،نہ کہ قرآن وسنت کی بالادستی ۔
3۔قرآن و سنت کے خلاف اگر پارلیمنٹ کوئی قانون پاس کر لے، تو اس قانون کی آئینی حیثیت کیا ہو گی؟کیا صرف اس وجہ سے کہ شریعت کے خلاف ہے ،وہ آئینی شق خود بخود کالعدم ہوجائے گی ؟ یا کیا پارلیمنٹ سے بالادست ملک میں ایسا ادارہ موجود ہے جس کے پاس پارلیمنٹ کی غیر اسلامی قانون سازی کو منسوخ کرنے کا مکمل اختیار ہو؟اگر ایسی بات نہیں ہے تو کیا صرف آئین میں اس قسم کے الفاظ لکھنے سے یہ جمہوریت’’ اسلامی ‘‘بن جائی گی ؟ جبکہ عملاً پارلیمنٹ اسی طرح ملک کا سپریم ادارہ ہے ،جس طرح لبرل جمہوریت میں پارلیمنٹ ملک کا خود مختار ادارہ ہوتا ہے۔
4۔قرآن و سنت کو بالا دست رکھنے کا اصل طریقہ تو یوں تھا، کہ آئین میں دفعہ کی عبارت اس قسم کی ہوتی:
’’تمام قوانین دلائلِ شریعہ یعنی قرآن وسنت ، اجماع قیاس اور دیگر ماخذِ شریعہ سے اخذ کیے جائیں گے ۔اگر کوئی قانون غیر شرعی ماخذ سے لیا گیا اور وہ شریعت کے منافی ہو تو وہ کالعدم شمار ہو گا ،اس کا کوئی اعتبار نہیں ہو گا اور آئین کی یہ شق ان بنیادی شقوں میں شامل ہے جو ہر صورت میں لاگوں ہوں گے اور ناقابلِ تبدیل ہیں‘‘ یا پارلیمنٹ سے اوپر ایک ایک ایسا سپریم ادارہ ہوتا ،جس کو پارلیمنٹ کے خلافِ شریعت قانون کا لعدم قرار دینے کا مکمل اختیار ہوتا۔ لہٰذا محض ایک بے جان قسم کی دفعہ شامل کرنے سے یہ پورانظام کیسے اسلامی بن سکتا ہے۔
5۔ اگر با لفرض مان بھی لیں کہ یہ دفعہ اپنی تمام تر ابہامات اور ضعف کے باوجود دستور کو ’’اسلامی‘‘ بنانے کے لیے کا فی ہے تو کیا پاکستان کا دستور اسلامی ہے؟تعجب کی بات یہ کہ دستور میں صرف ایک حصہ (نہم) چند اسلامی احکام کے لیے مختص کیا گیا ہے، اس کے علاوہ باقی پورے دستور کی دفعات میں اسلامی تعلیمات اور مقاصدِ شریعت سے ہم آہنگی سرے سے مفقود ہے۔ دستور کی ساری دفعات دنیا میں رائج پارلیمانی نظام کو سامنے رکھ کر طے کی گئی ہیں ۔ اگر یہ اشکال ہو کہ وہ دفعات مباحات اور انتظامی امور کے ذیل میں آتی ہیں، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اولاً تو یہ تسلیم ہی نہیں ہے کہ وہ سارے قوانین اس دائرے سے متعلق ہیں، کیونکہ اس میں حکمرانوں کے انتخاب، عزل ،رکنیت کی شرائط، مالیاتی امور اور دیگر بے شمار ایسے احکامات ہیں، جن میں قدم قدم پر شریعت کی رہنمائی کی ضرورت ہے ،لیکن ان تمام امور میں اسلامی تعلیمات کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔اور اگر تسلیم کر لیں کہ یہ ساری دفعات مباحات اور انتظامی امور سے متعلق ہیں تو سوال یہ ہے کہ پھر شریعت کی منصوصات اور متفقہ مسائل کے بارے میں دستور کیو ں خاموش ہے ؟ اس کی خاموشی اگر اجازت ہے تو گویا شریعت کی منہیات قانوناً جائز ہیں؟ اور اگر خاموشی منع کے زمرے میں آتی ہے تو مامورات قانوناً ممنوع ہیں؟ کیا ہماری عدالتیں فیصلہ کرتے وقت صرف دستور کو سامنے رکھتی ہیں یا شریعت کو؟کیا عدالتوں کا دائرہ اختیار ، طریقہ کار اور فیصلہ کرنے کے اصول دستور میں درج نہیں ہیں ؟ کیا ہماری عدالتیں آج بھی ہندوستانی عدالتوں کے لیے برطانیہ کے جاری کردہ ایکٹ کے تحت کام نہیں کر ہی ہیں ؟کیا عدالتوں کا سارا نظام شریعت کے مطابق ہے؟ کیا ان سب غیر شرعی امور کے باوجود ہمارا دستور ’’اسلامی‘‘ ہے؟
6۔آخر میں اگر مان بھی لیں کہ دستور با لکل’’ اسلامی ‘‘ہے تو دستور جمہوریت کے اجزا ء میں سے ایک جز ہے، تو صرف اس جز کے اسلامی بننے سے رائج پورا جمہوری نظام اسلامی بن جائیگا ؟جبکہ بقیہ اکثر اصولوں اور ڈھانچے میں یہ ’’اسلامی جمہوریت‘‘لبرل مغربی جمہوریت کے بالکل مطابق ہے اور لبرل جمہوریت کے ان اصولوں کا غیر اسلامی ہونا بالکل واضح ہے۔
اسلام مملکتی مذہب ہوگا
اس جملے کا مطلب اگر یہ ہے کہ حکومت کے افراد مسلمان ہو ں گے تو ظاہر ہے کہ محض افراد کے اسلام سے نظام اسلامی نہیں بنتا۔اور اگر یہ ہے کہ اسلام کو بالادستی حاصل ہو گی تو وہی سوالات اور ابحاث لوٹ کر آئیں گے جو دوسرے نکتے کے ذیل میں گزر چکے۔خلاصہ یہ کہ یہ جملہ بھی رائج جمہوریت کو اسلامی بنانے کے لیے کافی نہیں ہے۔
آخری گزارش: کرنے کا اصل کام
موجودہ نظام میں شامل ہو کر اس کے اصولوں کے اند ر رہتے ہوئے اس میں بہتری کی کوشش کرنا ، کثرتِ رائے سے زیادہ سے زیادہ اسلامی شقوں کا دستور میں اضافہ کرنا اور صالح سے صالح قیادت لانے کی جدو جہد کرنا یقیناًایک عظیم کام ہے اور اس میں ہر دینی ، مذہبی جماعت نے اپنی بساط کے مطابق، اثر و رسوخ اور اپنی حکمتِ عملی کے تحت بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور آج جو اس ملک کے نظام میں اسلام کی کچھ’’ آمیزش ‘‘نظر آرہی ہے ،وہ انہی رجالِ باصفا کی انتھک کو ششوں کا نتیجہ ہے ،لیکن ہمیں اس پہلو پر بھی غور و فکر اور سوچ و بچار کرنا ہو گا کہ کہیں یہ کوششیں ، یہ جدو جہد اور تگ و دو اس لحا ظ سے عا رضی تو نہیں ہے کہ اگر کہیں (اللہ نہ کرے)سیکولر اور دین بیزار قسم کے لو گوں کو کثرت اور قوت حاصل ہو اوروہ ایک قررارداد سے ان ساری اسلامی شقوں کو یکسر ختم کر دے ،تو ان کا یہ عمل موجودہ نظام اور آئین کے بالکل مطابق ہو گا، کیونکہ موجودہ نظام انہیں اس بات کا مکمل اختیار دیتا ہے ۔ نیز جب اس نظام کی بنیادیں اور اساسی اصول لبرل مغربی جمہوریت کے تقریباً مطابق ہیں اور یہ نظام اسی لبرل مغربی جمہوریت ہی کا دوسرا رخ ہے ،تو کہیں اہلِ دین کی شرکت اور اصلاحِ نظام کی بجائے تبدیلی افراد کی یہ کو شش اس نظام کی ’’اسلامیت ‘‘ پر مہر نہ ثبت کر دے اور یہ شرکت اہلِ دین کی خاموش موافقت اور تائید نہ سمجھی جائے اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مقتدر حلقوں کی خاموشی ااور اس نظام کا شریعت کی روشنی میں جائزہ لینے کی کوششوں کے فقدان سے اب عمومی طور پر یہ تاثر عام ہوتا جارہا ہے کہ ہمارا ملک آئینی اور قانونی طور پر ایک مکمل اسلامی ریاست ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس ملک کو صحیح صالح قیادت میسر نہیں آسکی جو اس ’’اسلامی ‘‘ دستور کو نافذ کرے۔ خدا نخواستہ اگر یہ فکر و سوچ عمومی طور پر راسخ ہوگئی تو اس سے اس ملک کے نظام کی اسلام کاری کا باب مکمل بند ہو جائیگا اور اس نظام کو اسلامی سمجھنے کی وجہ سے خلافت کے احیا کی کوششیں بھی رفتہ رفتہ معدوم ہو جائیں گی۔ حالانکہ خلافت کے فریضے کو ترک کرنے کی پاداش میں در در کی ٹھو کریں امت کا مقدر ہیں اور اسلامی تحریکوں کی بے پناہ قربانیوں کے باوجود امتِ مسلمہ دینی، اخلاقی ،سیاسی ،عسکری ، علمی اور فکری غرض ہر اعتبار جانبِ زوال ہی گامزن ہے اور خلافت کی صورت میں ایک مرکز نہ ہونے کی وجہ سے ان کوششوں اور قربانیوں کے کما حقہ اثرات ظاہر نہیں ہو رہے ۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صحیح سمجھ عطا فرمائے اور دینِ اسلام کی تعلیمات کو ہر سطح پر مکمل طور پر نافذ کرنے کی قوت اور حکمت و بصیرت سے نوازے۔آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و سلم۔
دینی رسالے ہائیڈ پارک نہیں بن سکتے
فصیح احمد
محترم مکرم و معظم جناب زاہد الراشدی صاحب نے نومبر ۲۰۱۳ء کے الشریعہ میں ’’الشریعہ اور ہائیڈیارک‘‘ کے عنوان سے ادارتی کلمات میں راقم کے البرہان ستمبر ۲۰۱۳ء کے شمارے میں شائع ہونے والے مضمون ’’تار عنکبوت‘‘ کو اپنے موقف کو موکد کرنے کے لیے پیش کیا ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ حضرت والا نے میری تحریر سے وہ نتائج اخذ فرمائے جو راقم کی تحریر کے منشاء، مدعا، مقصد، سے کوئی مطابقت ہی نہیں رکھتے۔ اس التباس ذہنی یا انتشار فکری کا سبب سوائے اس کے کچھ نہیں کہ حضرت والا ہر دینی رسالے کو ہائیڈیارک کی صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں جہاں ہر رنگ کا پھول کھلا ہو ، ہر پرندہ چہچہا رہا ہو اور ہر شخص کو سب کچھ کہنے کی آزادی ہو۔ مطلق اصول صرف یہ ہو کہ تم جو کہنا چاہتے ہو آزاد ہو، ہم بھی اس کے رد عمل میں جو کچھ لکھنا چاہیں گے، وہ لکھیں گے۔ اس عمل کو محترم راشدی صاحب تلاش حق اور خیر کی جستجو کا نام دیتے ہیں اور ان کاخیال ہے کہ اس مکالمے، مباحثے، تبادلے سے خیر کی شناخت آسان اور حق تک رسائی ممکن ہو جاتی ہے۔ اس صدی کے سب سے بڑے فلسفی ہیبر ماس کا خیال بھی یہی ہے اس باطل عمل کو وہ Intersubjective Communication کہتا ہے۔ ہیبر ماس کے خیال میں ہر مکتب فکر ، ہر گروہ، ہر مفکر کو تبادلہ خیالات کے عمل میں شریک کیا جائے ۔اس کے نتیجے میں ایسا خیر بر آمد ہوجائے گا جس پر سب کا اتفاق ہوگا۔ جناب راشدی صاحب نے ہیبر ماس کو پڑھے بغیر ہی اس کے فلسفے کو طائرانہ تعقل کے ذریعے ایک دینی امر بنادیا ہے۔
ہماری جس تحریر سے راشدی صاحب نے اپنے غلط موقف کی اصولی تائید دریافت کی ہے، وہ تحریر ہم دوبارہ ان کی خدمت میں پیش کرتے ہیں:
’’ایک بات ہم مدیر البرہان ڈاکٹر محمد امین صاحب کی خدمت میں بصد احترام عرض کرنا چاہتے ہیں کہ البرہان ایک نظریاتی، تحقیقی اور علمی رسالہ ہے لہٰذا اس رسالے میں مضامین کا چناؤ اور مضامین کی اشاعت کے حوالہ سے بھی علمی تحقیقی رویہ اپنانا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ قارئین کو علمی و فکری انتشار سے بچایا جائے۔ انتشار ذہنی سے بچنے کے لیے اس بات کی کوشش کی جائے کہ ایسے گمراہ کن اور غیر علمی مضمون کو رسالے میں چھاپنے کی ضرورت ہی نہیں اور اگر کسی مصلحت کے تحت کبھی شائع کرنا ضروری ہو تو پہلے کسی اہل علم کو وہ مضمون بھجوادیا جائے اور ان سے جواب لکھوایا جائے۔ مضمون کا جواب ملنے کے بعد ا س مضمون کے ساتھ اس جواب کو بھی شائع کردیا جائے تاکہ قارئین دونوں کے موقف کو سامنے رکھ کر رائے قائم رسکیں، کیونکہ بسا اوقات قاری ایک ماہ کا رسالہ پڑھنے کے بعد دوسرے ماہ اس کا جواب کسی وجہ سے نہیں پڑھ سکا تو اس قاری کے فکری انتشار یا گمراہی کا ذمہ دار کون ہوگا؟ ہم سمجھتے ہیں کہ قارئین البرہان کو علمی و فکری انتشار سے بچانے کا اس سے بہتر اور مناسب کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔ ہماری عاجزانہ رائے یہ ہے کہ البرہان کو ہائیڈیارک نہیں بننا چاہیے‘‘۔ [ماہنامہ الشریعہ، کلمہ حق، ص۲،نومبر ۲۰۱۳ء]
اس تحریر سے درج ذیل اصول ثابت ہوتے ہیں:
(ا) دینی رسالے کے لیے مضامین کا چناؤ اور اشاعت کا مقصد قارئین کو علمی و فکری انتشار سے بچانا ہو۔
(ب) قارئین کو انتشار ذہنی سے بچانے کی کوشش کی جائے اور وحید الدین خان جیسے گمراہ فرد اوران کے غیر علمی مضمون کو چھاپنے کی ضرورت ہی نہیں۔جو اغلاط کا دفتر ہے۔
(پ) اگر جناب وحید الدین خان صاحب جیسے گمراہ شخص کی تحریر کو مصلحت کے تحت کبھی شائع کرنا ضروری ہو تو پہلے کسی اہل علم کو وہ مضمون بھجوادیا جائے اور ان سے جواب لکھوایا جائے مضمون کا جواب ملنے کے بعد اس گمراہ مضمون کے ساتھ اس کا جواب بھی شائع کردیا جائے تاکہ قارئین دونوں کے موقف کو سامنے رکھ کر رائے قائم کرسکیں۔ یہاں ہم نے خاص طور پر وضاحت کی ہے کہ اگر کسی مصلحت کے تحت کسی گمراہ کن ، غیر علمی مضمون کو شائع کرنا ضروری ہو تب اس حفاظتی طریقے کے ساتھ مضمون کی مجبوراً اشاعت کی جائے اس اشاعت کا مقصد لوگوں کو گمراہ مضمون کی گمراہیوں سے آگاہ کرنا ہے نہ کہ گم راہ مصنف کے خیالات کی اشاعت کرنا ۔
(ت) گمراہ مضمون اور اس کا جواب ایک ساتھ شائع کیا جائے تاکہ اس مضمون کی گمراہی واضح کردی جائے، اس کا ازالہ وامالہ بھی ہو جائے تاکہ دین کے نام پر پھیلائی جانے والی دینی گمراہیوں کو عوام پر واضح کردیا جائے۔ یہ کا م بھی مصلحت عامہ کے تحت مجبوراً ہی کیا جائے گا او راس کی حکمت یہ ہے کہ اگر گمراہ مضمون پہلے شائع کردیا جائے اور اس کا جواب بعد میں تو اس سے گمراہی کا ازالہ نہیں ہوسکے گا۔ اکثر اوقات ایک قاری ایک ماہ کا رسالہ پڑھنے کے بعد کسی مصروفیت یا کسی بھی دوسرے سبب سے اس کا جواب نہیں پڑھتا اور گمراہ مضمون کے سحر کا شکار ہو سکتا ہے اس صورت میں قاری کی گمراہی کا ذمہ دار کون ہوگا کیونکہ دینی رسالے کا مقصد انتشار اور خلفشار ذہنی عام کرنا نہیں، اسے ختم کرنا ہے۔ لہٰذا دینی رسالے کے قارئین کو فکری انتشار سے بچانے کا بہترین طریقہ یہی ہے۔
(ٹ) لہٰذا ہماری عاجزانہ رائے یہ ہے کہ دینی رسالے (البرہان) کو ہائیڈیارک نہیں بننا چاہیے کیونکہ ہائیڈپارک وہ جگہ ہے جہاں جس کا جو دل چاہے کہہ سکتاہے۔ اس آزادی اظہار رائے کا کوئی اصول طے شدہ نہیں ہوتا، ہر بات اور دعویٰ الحق ہوتا ہے۔ ہائیڈیارک میں ہر طوطی آواز لگاسکتا ہے۔ وہ متفرق ، متنوع، رنگا رنگ، آوازوں کا دبستان ہوتا ہے جہاں ہر پرندے کو پرواز کی اور ہر بلبل کو گریبان چاک کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔
دینی رسالہ ہائیڈپارک نہیں بن سکتا۔ وہاں مکالمے، مباحثے، تبادلۂ خیال کے اصول پہلے سے طے شدہ ہوتے ہیں۔ ان اصولوں کے تحت کسی سے بھی مکالمہ ہوسکتا ہے۔ مکالمے کا بنیادی اصول یہ ہے کہ دونوں فریقین کی ما بعد الطبیعیاتی اساسات [Metaphysical Foundations] ایک ہوں۔ اس اصول کو طے کیے بغیر مکالمہ مکالمہ نہیں رہتا۔ مناظرے کا بھی اصول یہی ہے کہ فریقین پہلے کسی اصول پر متفق ہو جاتے ہیں جو دونوں کے لیے حجت ہوتا ہے۔ رسالت مآب نے اسی لیے کفار اور مشرکین کو مکالمے کی دعوت نہیں دی کیونکہ دونوں کے مابین مکالمے کی مشترکہ بنیاد نہیں تھی۔ دونوں کی ما بعد الطبیعیاتی اساسات یکسر مختلف تھیں۔ ان کو صرف دعوت دی گئی۔ لیکن اہل کتاب کو دعوت بھی دی گئی اور ساتھ ہی ساتھ مکالمے کی بھی دعوت دی گئی کیونکہ اہل کتاب کی ما بعد الطبیعیاتی اساسات اہل ایمان سے مماثل تھیں۔ ان میں تحریف ہوگئی تھی۔ توحید وہ بھی تسلیم کرتے تھے، لیکن ان کی توحید خالص نہیں تھی۔ اس کے باوجود ان کو دعوت ’’خالص توحید‘‘ کی بنیاد پر دی گئی کیونکہ وہ التوحید ، الکتاب اور الرسول کو اس طرح پہچانتے تھے جس طرح ایک ماں اپنے بیٹے کو پہچانتی ہے۔ مکالمے، مباحثے کی طرح مباہلہ کا اصول بھی یہی ہے کہ دونوں فریقین میں کوئی مشترک اساس ہو۔ جب ایک فریق دلیل برہان فرقان کے باوجود ایمان لانے پر تیار نہ ہو تو اسے مباہلے کی دعوت دی جاتی ہے کیونکہ دونوں فریق ایک ہی خدا پر یقین رکھتے ہیں اور دونوں کا خیال یہی ہوتا ہے کہ خدا ہمارے ساتھ ہے۔ لہٰذا مباہلہ کی دعوت اسے دی جاتی ہے جو خدا کے وجود کو تسلیم کرتا ہو۔ کسی ملحد کو مباہلے کی دعوت نہیں دی جاسکتی کیونکہ وہ خدا کو تسلیم نہیں کرتا، آپ کی دعوت کو قبول نہیں کرے گا۔ باطل فریق اہل کتاب خدا کو اپنا رب مانتے تھے لہٰذا اہل نجران کو دعوت مباہلہ دی گئی۔
اہل نجران کو معلوم تھا کہ رسالت مآب سچے ہیں قران اللہ کا کلام ہے لہٰذا وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اللہ کی نصرت رسالت مآبؐ کے ساتھ ہے۔ اگر مباہلہ ہوا تو اللہ کی لعنت ہم پر پڑے گی اور ہمارے گھر والے ہلاک ہو جائیں گے لہٰذا وہ بھاگ گئے۔ قرآن نے واضح کردیا کہ اہل کتاب قرآن کو اور اس کے لانے والے کو خوب پہچانتے تھے اور جب وہ آگیا تو اس سے منکر ہوگئے پس ان منکرین پر اللہ کی لعنت ہے قرآن حکیم نے کفار، مشرکین ،اہل کتاب سب سے مناظرے، مکالمے، مباحثے، کے آداب طے کردیے ہیں کہ یہ مشترکہ اساس کی بنیاد پر ہوگا۔ اساسات طے شدہ ہیں۔ اگر کوئی ان اساسات، بنیادی مقدمات، ایمانیات، بنیادی اصولوں کو تسلیم نہیں کرتا تو اس سے مکالمے و مباحثے و مناظرے کے بجائے اس کو دعوت دی جائے گی۔
الشریعہ پر ہمارا اعتراض یہی ہے کہ الشریعہ قرآن ، سنت اوراسلامی علمیت کی روشنی میں مکالمے مباحثے کے طے شدہ اصولوں کو اچھی طرح جاننے کے باوجود ان مکاتب فکر سے مکالمہ و مباحثہ کررہا ہے جن کے بنیادی اصول، مبادیات، منہج ہی مختلف ہے۔ مثلاً اہل السنت والجماعت کی مبادیات پر یقین رکھنے والے گروہ کو اہل سنت میں ہی شمار کیا جائے گا اور اس گروہ یا فرد سے مذاکرہ، مباحثہ ، مکالمہ جاری رہے گا لیکن اگر ایک گروہ اور ایک فرد ایک مکتب فکر اہل السنت و الجماعت کے بنیادی اصولوں قرآن سنت اجماع قیاس کو تسلیم ہی نہیں کرتا، صطلاحات اہل السنت کی استعمال کرتا ہے، لیکن ان کے مفاہیم میں تحریف، تغیر، تبدل کرکے مکالمہ کرنا چاہتا ہے تو اس سے مکالمہ نہیں ہوسکتا، لیکن اس گروہ کو دعوت ضرور دی جاسکتی ہے۔ الشریعہ کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ ان گمراہ فرقوں، مکاتب، اشخاص کی آرا نہایت کرو فر سے آزادی اظہار کے نام پر شائع کررہا ہے جو گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ اس طرح گمراہی کی تبلیغ، ترسیل، اشاعت میں نادانستہ طور پرشرکت کرکے وہ دینی حلقوں میں ذہنی انتشار اور فکری خلفشار پھیلا رہا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ان گمراہ افکار کا مسکت جواب لکھنے کے بجائے الشریعہ ان افکار کا دانستہ یا نادانستہ اتنا کم زور جواب دیتا ہے کہ گمراہ فکر کی قبولیت کا دریچہ کشادہ ہوتا جارہا ہے ہم نے اپنی تحریر میں اسی طرف توجہ دلاتے ہوئے لکھا تھا:
’’دینی علمی رسالوں کو ہائیڈیارک میں تبدیل کرنے کا کام مولانا زاہد الراشدی صاحب نے الشریعہ کے ذریعہ بخوبی انجام دیا ہے۔ دنیا بھر کی غلط سلط تحریریں نہایت کرو فر کے ساتھ الشریعہ میں شائع ہوتی ہیں ۔ انتشار پھیلانے کے اس عمل کو وہ آزادانہ رائے اور علمی ترقی کہتے ہیں۔ موصوف جاوید غامدی صاحب کے نظریات اپنے صاحبزادے کے سائے میں پھیلانے کا کام کررہے ہیں ، تجدید دین کے نام پر تجدد عام ہورہا ہے‘‘۔ [ماہنامہ الشریعہ، کلمہ حق، ص۲،نومبر ۲۰۱۳ء]
اس تمہید کے بعداب حضرت والا محترم حضرت مولانا راشدی صاحب کا موقف پڑھیے:
’’الشریعہ‘‘ کے بارے میں جناب فصیح احمد کے ارشادات پر کچھ معروضات پیش کرنے سے پہلے ہم ان کا تہہ دل سے شکریہ اداکرتے ہیں کہ انہوں نے علمی وفکری مسائل پر باہمی تبادلۂ خیالات اور مباحثہ و مکالمہ کی اہمیت و افادیت کے ساتھ ساتھ دونوں طرف کے مضامین کو ایک ہی فورم پر شائع کرنے کی ضرورت بیان کرکے ہمارے اس موقف کی اصولی طور پر تائید فرمادی ہے کہ علمی و فکری مسائل پر مکالمہ و مباحثہ ہونا چاہیے اور کوئی ایسا فورم بھی ضرور موجود ہونا چاہیے جہاں کسی مسئلہ پر مختلف موقف رکھنے ولے دو یا دو سے زائد فریقوں کا موقف یک جا شائع ہوتا کہ قارئین کو سب لوگوں کا موقف سامنے رکھ کر رائے قائم کرنے میں آسانی رہے۔ الشریعہ گزشتہ ربع صدی سے یہی خدمت سر انجام دے رہا ہے اور ہمیں خوشی ہے کہ ہماری پالیسی پر ناقدانہ نظر رکھنے والے علمی حلقوں میں بھی اس کی اہمیت و ضرورت کا احساس پیدا ہورہا ہے، فالحمداللہ علی ذلک۔ ہمیں اعتراف ہے کہ ’’الشریعہ میں گزشتہ ربع صدی کے دوران شائع ہونے والے بہت سے مضامین کی زبان ’’ہائیڈپارک‘‘ اور ’’موچی دروازہ‘‘ سے مختلف نہیں ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ زبان کس نے استعمال کی ہے؟‘‘ [ماہنامہ الشریعہ، کلمہ حق، ص۲،۳،نومبر ۲۰۱۳ء]
حضرت والا نے ہماری عبارت سے جو معانی اخذ کیے ہیں متن کے فہم سے وہ معانی کسی صورت نہیں پھوٹتے ہم نے درج بالا سطور میں اپنے متن کا فہم دلا ئل سے واضح کردیا ہے تاکہ ہمارے متن سے گمراہی اخذ کرنے کا کوئی قرینہ باقی نہ رہے کوئی دریچہ نہ کھل سکے اور ہر امکان مسدود ہو جائے ۔ ہمارا موقف صرف یہ ہے کہ دینی رسالو ں میں بحث و مباحثہ ان مکاتب فکر کے افکار پر ہونا چاہیے جو اہل السنت و الجماعت کے اصولوں کو تسلیم کرتے ہوں اور ان مسلمہ اصولوں کے دائرے میں رہ کر اپنے خیالات افکار پیش کررہے ہوں اگر وہ ان مسلمات کو ہی تسلیم نہیں کرتے اور دین کی تعبیر و تشریح کے نئے اصول تخلیق کرکے اہل السنت و الجماعت کی پندرہ سو سالہ قدیم علمیت کے مقابلے پر نئی متوازی علمیت پیش کرتے ہیں تو ان سے مکالمہ نہیں ہوسکتا ان کو دعوت دی جاسکتی ہے یا ان کو مباہلے کا پیغام دیا جاسکتا ہے۔
اپنے اس موقف کی تائید میں ہم خودحضرت والا مولانا زاہد الراشدی صاحب کی ایک تحریر پیش کررہے ہیں محترم عمار ناصر صاحب کی کتاب’’حدود تعزیرات چند اہم مباحث ‘‘کے ’’دیباچے‘ ‘ میں وہ لکھتے ہیں:
۱۔ راقم الحروف کے نزدیک اسلامی قوانین و احکام کی تعبیر و تشریح کے لیے صحیح قابل عمل اور متوازن راستہ یہ ہے کہ امت مسلمہ کے اجماعی تعامل اور اہل السنۃ والجماعۃ کے علمی مسلمات کے دائرہ کی بہر حال پابندی کی جائے [عمار ناصر، حدود و تعزیرات ، ص ۹، المورد لاہور طبع اول ۲۰۰۸ء]
۲۔ جن تقاضوں کو ہم قرآن و سنت کی تعلیمات اہل سنت کے علمی اور اجتہاد شرعی کے دائرے میں قبول کرسکتے ہیں انہیں کھلے دل سے قبول کرلیں ۔[ص ۱۰، محولہ بالا]
۳۔ جوامور قرآن و سنت کی نصوص صریحہ، اور اجتہاد شرعی کے مسلمہ اصولوں سے متصادم ہوں ان کے بارے میں کسی قسم کا معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیے بغیر پوری دل جمعی کے ساتھ ان پر قائم رہیں (ص ۱۰ محولہ بالا)
۴۔ سنت رسول سے مراد وہی ہے جو امت مسلمہ چودہ سو سال سے اس کا مفہوم سمجھتی آرہی ہے اور اس سے ہٹ کر سنت کا کوئی نیا مفہوم طے کرنا اور جمہور امت میں اب تک سنت کے متوارث طور پر چلے آنے والے مفہوم کو مسترد کردینا بھی عملًا سنت کو اسلامی قانون سازی کا ماخذ تسلیم نہ کرنے کے مترادف ہے (ص ۱۰، محولہ بالا )
۵۔ صرف قرآن کریم کو قانون سازی کی بنیاد بنانا اور سنت رسول کو قانون سازی کا ماخذ تسلیم کرنا قطعی طور پر ناقابل قبول ہے اور خود قرآنی تعلیمات کے منافی ہے (ص ۱۰، محولہ بالا )
۶۔ ایک رجحان آج کل عام طور پر یہ بھی پایا جاتاہے کہ سنت مستقل ماخذ قانون نہیں ہے (ص ۱۰ محولہ بالا)
۷۔ سنت کو اسلامی قانون سازی کا مستقل ماخذ اور قران و سنت کی تعبیر و تشریح کا حتمی معیار تسلیم کیا جائے جیسا کہ حضرات صحابہ کرام کے دور میں ہوتا تھا اور اسی پر امت مسلمہ کا اجماعی تعامل چلا آرہا ہے [ص ۱۱، محولہ بالا )
۸۔ قرآن و سنت دونوں کو قانون سازی کی بنیاد کے طور پر تسلیم کیا جائے ۔ (ص ۱۲ محولہ بالا )
۹۔ قدیم و جدید میں تطبیق کی کوشش ( احسن کام ہے ) صرف ایک شرط کے ساتھ کہ امت کے اجماعی تعامل اور اہل السنۃ و الجماعۃ کے علمی مسلمات کا دائرہ کراس نہ ہو کیونکہ اس دائرے سے آگے بہر حال گمراہی کی سلطنت شروع ہو جاتی ہے ( ص ۱۳، محولہ بالا )
راشدی صاحب کے ان دلائل سے ہمیں صد فی صد اتفاق ہے ہمارا منشاء بھی یہی ہے کہ الشریعہ اور تمام دینی رسالوں میں انہی اصولوں کے مطابق مباحثے، مکالمے اور مناظرے کا اہتمام ہونا چاہیے تمام علمی تحریریں ، اختلافی گفتگو ، تنقیدی آراء اگر قرآن و سنت کی نصوص صریحہ، امت کے اجماعی تعامل، اہل السنت و الجماعت کے علمی مسلمات کے دائرے کے اندر پیش کی جائیں تو ان پر بحث و مباحثے اور گفتگو کا دروازہ کھلا رکھا جائے لیکن الشریعہ اور راشدی صاحب پر ہمارا بنیادی اعتراض یہی ہے کہ انہوں نے ان طے شدہ اصولوں کے بر خلاف گمراہ مکاتب فکر کے خیالات کی ترسیل کو آزادی اظہار رائے کا نام دے کر الشریعہ کو ہائیڈ پارک میں تبدیل کردیا ہے۔
ان اصولی مباحث پر گفتگو کے بعدجو ہمارے اور راشدی صاحب کے مابین مشترک متفق علیہ ہیں اب ہم غامدی صاحب کے مکتب فکر کے افکار کی الشریعہ میں تشہیر ، تبلیغ ، تدریس ، ترسیل کے حوالے سے جناب محترم راشدی صاحب کے عذر کا جائزہ لیتے ہیں راشدی صاحب غامدی صاحب کے مکتب فکر کے افکار کی اشاعت کی دلیل دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’محترم فصیح احمد صاحب نے جناب جاوید احمد غامدی اور ان کے حلقۂ فکر کے بعض احباب کے مضامین کی ’’الشریعہ‘‘ میں اشاعت کا ’’طعنہ‘‘بھی دیا ہے، حالانکہ ہم نے غامدی صاحب پر تنقیدات بھی الشریعہ میں شائع کی ہیں۔ فصیح صاحب نے اسے نظر انداز کردیا۔‘‘ [ماہنامہ الشریعہ، کلمہ حق، ص۵،نومبر ۲۰۱۳ء]
لیکن راشدی صاحب کا یہ عذر، یہ دلیل ان کے طے شدہ اصولوں کے منافی ہے۔ غامدی صاحب کے مکتب فکر سے اہل سنت و الجماعت کا مکالمہ ممکن نہیں ہے، کیونکہ جناب غامدی صاحب کا مکتب فکر اہل السنت والجماعت کے اصولوں کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتا۔ وہ سنت کو ماخذ قانون تسلیم نہیں کرتا، وہ اجماع کو ماخذ قانو ن تسلیم نہیں کرتا، وہ عقل و فطرت کو ماخذات دین کے طور پر قبول کرتا ہے۔ وہ نصوص کی تعبیر و تشریح میں تنوع، رنگا رنگی، تغیرات کا قائل ہے۔ ہمارا سوال صرف یہ ہے کہ ایک مکتب فکر جب سنت کو ماخذ قانون ہی تسلیم نہیں کرتا تو اس مکتب فکر سے مذاکرے مباحثے کی بنیاد کیا ہو؟ ایک مکتب فکر خدا اور رسول کو تسلیم کرنے سے انکار کردے یا قرآن کو کتاب اللہ تسلیم نہ کرے تو کیا تب بھی ہم اس مکتب فکر کے خیالات علم کی نئی روش، جدید جہت ،منفرد سطح کے طور پر پیش کرکے مکالمہ شروع کردیں گے؟ ظاہر ہے ہم اس مکتب فکر کو دعوت دیں گے۔ مکالمہ مباحثہ ان سے ممکن نہیں کیونکہ وہ ہمارے بنیادی مسلمات کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔
غامدی صاحب نے ’’میزان‘‘ میں صاف لفظو ں میں لکھ دیا ہے:
۱۔ سنت دین ابراہیمی کی روایت ہے سنت عبادات، معاشرت، خور و نوش رسوم و آداب تک محدود ہے سنت محض نماز، روزہ، اعتکاف، زکوٰۃ، صدقہ فطرہ، حج و عمرہ، قربانی تشریق کی تکبیروں ، نکاح و طلاق ، حیض و نفاس، سور یا خون، مردار، خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیے گئے جانور کی حرمت، جانروں کے تزکیہ، بسم اللہ سے دائیں ہاتھ سے کھانے پینے، السلام علیکم کہنے اور جواب دینے، چھینک پر الحمدللہ جواب میں یرحمک اللہ کہنے، مونچھیں پست رکھنے، زیر ناف کے بال کاٹنے، بغل کے بال اکھاڑنے ، ناخن کاٹنے، ختنہ، ناک منہ دانت صاف کرنے، استنجا، حیض و نفاس کے بعد غسل، غسل جنابت، میت کے غسل ، تجہیز و تکفین ،تدفین، عید الفطر اور عیدالاضحی کا نام ہے ان سنتوں کی کل تعداد ۱۶ ہے [غامدی میزان ، ص ۱۴، طبع پنجم ۲۰۱۰ء المور لاہور ]
۲۔ سنت صرف وہی چیز ہوسکتی ہے جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے دین ہو (اور سنت میں مخفی دین صرف ۱۶ سنتوں میں محصور ہے ) سنت کا تمام تر تعلق عملی زندگی سے ہے علم و عقیدہ ، تاریخ، شان نزول ، اور اس طرح کی چیزوں کا سنت سے کوئی تعلق نہیں سنت کا لفظ ہی اس سے ابا کرتا ہے کہ ایمانیات کی قسم کی کسی چیز پر اس کا اطلاق کیا جائے لہٰذا علمی نوعیت کی کوئی بھی چیز سنت نہیں ہے اس کا دائرہ صرف کرنے کے کام ہیں اس دائرے سے باہر کی چیزیں اس میں کسی طرح شامل نہیں کی جاسکتیں عملی نوعیت کی وہ چیزیں بھی سنت نہیں ہوسکتیں جن کی ابتداء پیغمبر کے بجائے قرآن سے ہوئی ہے سنت قرآن کے کسی حکم پر عمل یا اس کی تفہیم و تبتین کو قرار نہیں دیا جاسکتا۔ نفل نماز ،روزے ،قربانی بھی سنت نہیں فطرت بھی سنت نہیں ہے۔ فطرت سنت سے الگ ہے نماز میں قعدے کے اذکار بھی سنت نہیں ہیں سنت خبر واحد سے ثابت نہیں ہوتی سنت قرآن کی طرح صحابہ کے اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے لہٰذا سنت بھی قرآن ہی کی طرح پوری قطعیت کے ساتھ متعین ہو جاتی ہے [میزان ص ۵۷، ۵۸، ۵۹، ۶۰، ۶۱ محولہ بالا] دوسرے معنوں میں جس طرح قرآن کی آیات کی تعداد متعین ہے سنتوں کی تعداد بھی متعین ہے ۔
میزان کے مقدمے میں پہلے صفحے پر ’’اصول و مبادی‘‘ کے تحت غامدی صاحب لکھتے ہیں کہ دین کا تنہا ماخذ اس زمین پر اب محمدؐ کی ذات ہے (ص ۱۳ میزان ۲۰۱۰) قانون و حکمت دین حق ہے اور دو صورتوں میں ہم تک پہنچا ہے ۱۔ قرآن مجید، ۲۔سنت(ص ۱۳ محولہ بالا)صفحہ ۴۷ پر غامدی صاحب لکھتے ہیں’’ سنت قرآن کے بعد نہیں بلکہ قرآن سے مقدم ہے [ص ۴۷ محولہ بالا] سنت دین ابراہیمی کی روایت ہے (ص ۱۴ محولہ بالا ) ان متضاد بیانات میں ترتیب قائم کی جائے تو ماخذات دین کی فہرست جو غامدی صاحب نے مرتب کی ہے خود ان کے اصول کی روشنی میں اس طرح مرتب ہوگی۔ ۱۔ سنت (کیونکہ سنت حضرت ابراہیم سے شروع ہورہی ہے معلوم نہیں دیگر انبیاء جو حضرت ابراہیم سے پہلے تھے کیا کرتے تھے ان کو توسنت کا علم ہی نہیں تھا ) ۲۔ رسالت مآبؐ ، ۳۔قرآن مجید لیکن غامدی صاحب نے اس ترتیب کو سہواً پیش نظر نہیں رکھا۔
راشدی صاحب کا اصول ہے کہ سنت ماخذ قانون ہے غامدی صاحب کے مکتب کا اصول ہے کہ وہ ماخذ قانون نہیں ہوسکتی۔ اس بنیادی اختلاف کی صورت میں غامدی صاحب کے مکتب فکر اور برادرِ مکرم عمار خان ناصرصاحب کے خیالات پر مکالمہ کیسے ممکن ہے جب بنیادی مقدمات ہی مختلف ہیں۔ ایک جانب غامدی صاحب کا دعویٰ ہے کہ سنت قرآن کی طرح قطعی الدلالہ ہے اور صحابہ کے اجماع و عملی تواتر سے متعین ہے لیکن اس تعین، اجماع، عملی تواتر کا حال یہ ہے کہ( ۱) میزان حصہ اول ۱۹۸۵ء میں سنتوں کی تعداد متعین نہیں تھی اس وقت اہل سنت کی تعریفِ سنت سے غامدی صاحب متفق تھے۔ (۲) محاضرات کراچی ۱۹ تا ۲۸ مارچ ۱۹۹۸ء میں غامدی صاحب نے سنتوں کی تعداد چالیس بیان کی ۔ (۳)اصول و مبادی تالیف جاوید احمد غامدی دانش سرا ۱۲۳ بی ماڈل ٹاؤن لاہور طبع اول ۲۰۰۰ء، کے مطابق سنتوں کی تعداد چالیس تھی ۔(۴)میزان طبع دوم اپریل ۲۰۰۲ء دارالاشراق ۱۲۳ بی ماڈل ٹاون لاہور میں ص ۱۰ پر اصول و مبادی کے تحت سنتوں کی تعداد صرف ۲۷ رہ گئی ۔(۵) میزان طبع اول ۲۰۰۸ء میں سنتوں کی تعداد صرف صرف اٹھارہ رہ گئی۔( ۶)میزان طبع پنجم فروری ۲۰۱۰ء میں سنتوں کی تعداد صحابہ کے اجماع و عملی تواتر سے صرف ۱۷ رہ گئی۔ (۷) میزان طبع اول ۲۰۰۸ء اور میزان ۲۰۰۹ء میں سنتوں کی تعداد ۱۸ تھی۔ ایک سنت جو ۲۰۰۸ء ، ۲۰۰۹ء تک صحابہ کے اجماع اور عملی تواتر سے قرآن کی طرح ہی امت کو منتقل ہوئی تھی، اچانک ۲۰۱۰ء میں کہاں غائب ہوگئی؟ وہ سنت تھی نومولود کے کان میں اذان ۔ ۲۰۱۰ء میں غامدی صاحب کو خبر ہوگئی کہ اس سنت پر صحابہ کا اجماع نہیں تھا نہ تواتر عملی تھا۔ لہٰذا یہ سنت خارج کردی گئی۔ غامدی صاحب لکھتے ہیں ثبوت کے اعتبار سے سنت اور قرآن مجید میں کوئی فرق نہیں وہ جس طرح صحابہ کے اجماع اور قولی تواتر سے ملا ہے سنت اسی طرح ان کے اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے اور قرآن ہی کی طرح ہر دور میں مسلمانوں کے اجماع سے ثابت قرار پائی ہے لہٰذا اس کے بارے میں اب کسی بحث و نزاع کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ [میزان ص ۱۴، طبع پنجم ۲۰۱۰ء] تو سوال یہ ہے کہ سنت اتنی قطعی، واضح، قرآن کی طرح مستحکم تھی تو ۲۰۱۰ء میں وہ کیسے منسوخ ہوگئی؟ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ صحابہ کا اجماع عملی تواتر بھی منسوخ ہوسکتا ہے اور قرآن کی آیت کی تعداد بھی کم و بیش ہوسکتی ہے جس طرح سنت کی تعداد کم زیادہ ہو رہی ہے ماخذ ناقابل تغیر ہوتا ہے۔ اگر سنت ماخذ ہے تو یہ کیسا ماخذ ہے جو مسلسل تغیر و تبدل سے گزر رہا ہے۔
۳۔ غامدی صاحب دین کے صرف دو ماخذ تسلیم کرتے ہیں: قرآن، سنت۔ وہ قیاس، اجماع کو ماخذ تسلیم نہیں کرتے۔ ان کی نظر میں سنتوں کی تعداد صرف ۱۷ ہے۔ قرآن کی تشریح و تفسیر کے ضمن میں وہ سنت کو ماخذ، ذریعہ تسلیم نہیں کرتے کہ سنت تو صرف اعمال کا نام ہے۔ علم، قانون، اصول، تشریح و تفسیر کا نام نہیں۔ اصلاً غامدی صاحب کا ماخذ دین صرف اور صرف قرآن ہے، وہ سنت کو ماخذ قانون و ماخذ تفسیر قرآن تسلیم نہیں کرتے۔ منکر سنت کے بارے میں خود راشدی صاحب کی رائے یہ ہے کہ’’ صرف قرآن کریم کو قانون سازی کی بنیاد بنانا اور سنت کو قانون سازی کا ماخذ تسلیم نہ کرنا قطعی طو ر پر ناقابل قبول اور خود قرآنی تعلیمات کے منافی ہے۔‘‘ [ص ۱۰ دیباچہ حدود و تعزیرات عمار ناصر طبع اول جولائی ۲۰۰۸ء ] غامدی صاحب اوران کا مکتب فکر بشمول محترم عمار ناصر صاحب جب سنت کو ماخذ قانون ہی نہیں مانتے تو قرآنی تعلیمات کے خلاف غلط نقطۂ نظر بھی رکھتے ہیں تو ان کی تحریروں کی الشریعہ میں اشاعت کا کیا جواز ہے؟
الشریعہ پر ہمارا اعتراض یہی ہے کہ وہ ہائیڈپارک نہ بنے، قرآن و سنت اجماع قیاس کے اصولوں کا محافظ بنے۔ جدیدیت پسندوں، منکرین سنت کے افکار کو اپنے رسالے کی زینت بنا کر ان کو اعتبار وقار اور اعتماد مہیا نہ کرے۔ یہ دین کے ساتھ مذا ق ہے اور اپنے طے شدہ اصولوں کا انکار۔ قرآن نے یہی بات واضح کی ہے کہ اے ایمان والو، تم وہ باتیں کیوں کہتے ہو جن پر خود عمل نہیں کرتے۔
نیلسن منڈیلا کا انتقال
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
نیلسن منڈیلا تحریک آزادی کے عالمی لیڈروں میں سے تھے جنہوں نے نہ صرف جنوبی افریقہ کی آزادی کے لیے طویل جنگ لڑی بلکہ دنیا کے نقشے پر دکھائی دینے والی نسلی امتیاز کی دو آخری نشانیوں میں سے ایک کے خاتمہ کی راہ ہموار کی۔ نیلسن منڈیلا سے قبل جنوبی افریقہ سفید فام، سیاہ فام اور انڈین کہلانے والے باشندوں کے درمیان تقسیم تھا۔ تینوں کی آبادیاں الگ الگ تھیں، رہن سہن الگ الگ تھا اور حقوق و مفادات کے معیارات الگ الگ تھے۔ گوروں کی حکومت تھی اور سیاہ فام اکثریت غلاموں جیسی زندگی بسر کر رہی تھی۔ انڈین کہلانے والی آبادی جو مسلمانوں، ہندوؤں اور دیگر مذاہب کے لوگوں پر مشتمل تھی اور جس میں انڈونیشیا وغیرہ سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی شامل تھے، اپنی الگ شناخت رکھتی تھی۔ انڈین کمیونٹی تجارت و سیاست میں قدرے بیدار و متحرک ہونے کی وجہ سے سیاہ فاموں سے کسی حد تک مختلف معیار کی حامل تھی۔ اس نسلی تفریق و امتیاز اور گوروں کی اقلیتی حکومت کے خلاف نیلسن منڈیلا نے آزادی کا پرچم بلند کیا، زندگی کے کم و بیش تین عشرے جیل میں گزارے اور عدم تشدد پر مبنی پر اَمن جدوجہد کے نتیجے میں اپنی قوم کو آزادی کی منزل سے ہمکنار کرنے میں بالآخر کامیاب ہوگئے۔
میں جنوبی افریقہ کے حالیہ سفر کے دوران اس جیل کے سامنے سے گزرا ہوں جس کے بارے میں بتایا گیا کہ نیلسن منڈیلا نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ اس کی سلاخوں کے پیچھے بسر کیا ہے۔ نسلی امتیاز کے خاتمہ کے لیے گزشتہ صدی کے دو بڑے لیڈروں کا نام تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ امریکہ کے مارٹن لوتھر کنگ اور جنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلا۔ دونوں کی جدوجہد میں یہ بات قدرِ مشترک تھی کہ انہوں نے سیاہ فام لوگوں کو سفید فام لوگوں کی بالاتری اور بالادستی سے نجات دلانے کے لیے جدوجہد کی اور دونوں کی جدوجہد تشدد سے ہٹ کر خالصتاً پر اَمن سیاسی تحریک پر مبنی تھی۔ البتہ مارٹن لوتھر کنگ نے امریکی دستور اور حکومت کے تحت رہتے ہوئے سیاہ فام باشندوں کے لیے برابر کے سیاسی و شہری حقوق کے لیے کامیاب جدوجہد کی، جبکہ نیلسن منڈیلا گوری اقلیت کی حکومت کے خاتمہ اور جمہوری بنیادوں پر ملک میں اکثریتی حکومت کے قیام کے لیے سرگرم عمل رہے، دونوں نے نسلی امتیاز کے خاتمہ میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ دونوں کے ملکوں میں ان کی جدوجہد سے پہلے دور کے نسلی امتیاز کی نشانیاں اور آثار کچھ نہ کچھ اب بھی پائے جاتے ہیں، میں نے امریکہ اور جنوبی افریقہ دونوں جگہ گھوم پھر کر ان آثار کا مشاہدہ کیا ہے جو ماضی کی تلخ یادوں کی غمازی کرتے ہیں، اور انہیں دیکھ کر ان دونوں لیڈروں کی عزیمت و استقامت اور صبر و حوصلہ کی بے ساختہ داد دینا پڑتی ہے۔
میں 5 دسمبر جمعرات کو جوہانسبرگ سے سعودیہ ایئر لائن کے ذریعہ جدہ کی طرف روانہ ہوا تو اس وقت تک مجھے کوئی خبر نہیں تھی، مگر ایک رات جدہ ایئرپورٹ پر گزارنے کے بعد جمعہ کی شام کو لاہور پہنچا تو معلوم ہوا کہ نیلسن منڈیلا اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے ہیں۔ ایک عظیم حریت پسند راہ نما اور عوام دوست لیڈر کی وفات پر صدمہ ہوا اور دل جنوبی افریقہ کے عوام کے غم میں شریک ہوگیا۔
مکاتیب
ادارہ
محترم ابو عمار زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ۔ امید ہے آپ، محترم عمار صاحب اور دیگر احباب ادارہ خیریت سے ہوں گے۔
چند ماہ قبل ’’الشریعہ‘‘ کے ایک شمارے میں مفتی ابولبابہ صاحب کا ایک مضمون جو امیر عبد القادر الجزائری صاحب کے متعلق تھا، پڑھ کر قلب بے تاب تو ہوا کہ ایسی زبان جو کسی ان پڑھ آدمی کو بھی زیب نہیں دیتی، ایک مفتی کے قلم سے کیسے صفحۂ قرطاس پر آگئی؟ تاہم کچھ گھریلو کچھ سیاسی اور کچھ پیشہ وارانہ مصروفیات آڑے آتی ہیں اور قبلہ و کعبہ مفتی صاحب کی زبانِ قلم پر قلم نہ اٹھ سکا۔
ایک مدت سے سوچ رہا تھا کہ لکھے ہوئے عرصہ بیت گیا، کچھ لکھا جائے۔ محترم مجید نظامی صاحب کا بھی اصرار رہا کہ نوائے وقت کے سنڈے میگزین میں ’’جیل کے دن۔ جیل کی راتیں‘‘ لگ بھگ دس ماہ تک لکھنے کے بعد مزید کچھ لکھوں، مگر نہ جانے طبیعت اس طرف کیوں مائل نہ ہو سکی۔ اب حال ہی میں جماعت اسلامی کے سابق امیر ضلع گوجرانوالہ چوہدری محمد اسلم صاحب (اللہ ان کی عمر دراز کرے اور صحت مند رکھے) کی یادداشتیں جو کتابی شکل میں آئی ہیں، مجھ تک منور ہاشمی صاحب ایڈووکیٹ کے ذریعے پہنچیں جس کے لیے میں ان کا مشکور ہوں۔ چوہدری صاحب کی یادداشتیں پڑھیں تو ایک گزرا ہوا دور یاد آگیا۔ کتاب ’’میری تحریکی یادداستیں‘‘ کے نام سے چھپی ہے۔ خوشی ہوئی کہ نوے سال کے لگ بھگ عمر ہونے کے باوجود چوہدری اسلم صاحب کی صحت اور یادداشت دونوں اللہ کے فضل سے درست ہیں۔ اس لیے کتاب میں بیان کردہ واقعات عمر کے عذر سے نادرست نہیں ہو سکتے۔
چوہدری صاحب کی یادداشتوں کو کئی حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ذاتی، خاندانی، جماعتی، سماجی اور تحریکی حصوں میں۔ مگر فکری لحاظ سے کتاب بڑی بانجھ ہے۔ شاید چوہدری صاحب بھی صرف تحریکی یادداشتیں ہی لکھنا چاہتے تھے، کوئی فکری کام کرنے کا ان کا کوئی ارادہ ہی نہ ہو۔ لیکن اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ہر بڑا آدمی اپنی یادداشتیں یا سوانح عمریاں لکھتا آیا ہے جس میں قاری کی دلچسپی بھی فکری معاملات سے زیادہ واقعاتی معاملات میں ہوتی ہے۔ اپنے تئیں چوہدری اسلم صاحب نے جو کچھ لکھا، دیانتداری سے لکھا مگر افسوس کہ کچھ واقعات میں انہوں نے اندھی محبت اور کچھ میں اندھی نفرت کا برملا اظہار کیا ہے۔ اور یہ دونوں رویے انسان کو اعتدال سے دور کر دیتے ہیں اور یوں جو کچھ کہا یا لکھا جاتا ہے، یقیناًبے اعتدالی کے زمرے میں آتا ہے۔ ’’میری تحریکی یادداشتیں‘‘ کے کچھ واقعات پر عرض کرنا چاہوں گا۔
صفحہ 106 پر جن چوہدری اسماعیل ایڈووکیٹ کا ذکر کیا گیا ہے، وہ لاہور ہائی کورٹ بارے میں ’’اسماعیل پھڈا‘‘ کے نام سے جانے جاتے تھے۔ فوجداری مقدمات کا اچھا وکیل ہونے کے باوجود ذہنی طور پر بے اعتدالی ان کی شخصیت کا حصہ مرتے دم تک رہی۔ ویسے میرے 34 سالہ پیشہ وکالت کے تجربے میں کراچی سے پشاور تک ہر بار میں جماعت اسلامی کے اکثر وکلاء صاحبان انہی ’’خوبیوں‘‘ کے حامل ملے۔ چوہدری صاحب نے اگر ان کی ضمانت کے لیے سفارش کی تھی جو چوہدری صاحب کے بھائی نے منظور بھی کر لی تو اس واقعہ کا ذکر اگر وہ نہ بھی کرتے تو بہتر تھا۔ کیونکہ اس مظلوم عورت جو چوہدری اسماعیل کی بیوی تھی پر جو گزری، وہ بات چوہدری صاحب گول کر گئے۔ یاد رہے کہ ازاں بعد وہ خاتون پاگل ہوگئی تھی۔ کتاب میں صفحہ 135 پر جس ملت ہائی سکول گوجرانوالہ کا ذکر کیا گیا ہے، بے شک اس سکول نے اچھے طلبہ پیدا کیے مگر اخلاقی طور پر اس کا انجام بھی بد دیانتی پر ہوا۔
سکولوں کو قومیانے کے بعد جب ملت ہائی سکول کی بلڈنگ خالی کرالی گئی تو جماعت اسلامی کے یونس گھمن صاحب ایڈووکیٹ تب ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن گوجرانوالہ کے صدر تھے۔ نیشنل سٹیڈیم کے صدر دروازے کے باہری طرف وکلاء کا ایک کلب تھا جہاں وہ اِن ڈور گیم اور ٹینس وغیرہ کھیلتے تھے۔ اس کلب کا نام گوجرانوالہ بار کے ایک صاحب ثروت ممبر لبھو رام ایڈووکیٹ کے نام پر ’’لبھو رام کلب‘‘ رکھا گیا تھا جنہوں نے یہ عظیم الشان بلڈنگ بار کو عنایت کر دی تھی۔ ادھر جونہی ملت ہائی سکول کی بلڈنگ خالی ہوئی، یونس گھمن صاحب نے بطور صدر بار فورًا لبھو رام کلب کی جگہ بلا اجازت بار ایسوسی ایشن کا کوئی اجلاس طلب کیے بغیر علامتی کرائے پر سکول انتظامیہ کے حوالے کر دی۔ اکثر وکلاء صاحبان نے اعتراض بھی کیا مگر چونکہ جماعت کے لوگ ’’پر عزم‘‘ ہوتے ہیں، اس لیے بات آگے نہ بڑھ سکی۔ بعد میں وکلاء کلب کے لیے مخصوص یہ جگہ کرکٹ سٹیڈیم میں شامل کر لی گئی اور یوں ایک بد دیانتی کی قیمت بار کو ادا کرنا پڑی اور بار ایک ارب کی قیمتی جائیداد سے محروم ہوگئی۔
صفحہ نمبر 162 پر چوہدری اسلم صاحب نے خواتین ارکان جماعت کے باب میں محترمہ کنیز فاطمہ کے شوہر ملک محمد رفیق صاحب اور ان کی گرانقدر مالی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کچھ ایسا انداز اپنایا ہے کہ گویا ملک رفیق مرحوم آخر دم تک جماعت کے ساتھ چلے۔ ایسا ہرگز نہیں۔ ملک محمد رفیق صاحب مرحوم نے جماعت اسلامی سے علیحدگی اختیار کر کے ’’تحریک استقلال‘‘ میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ 1979ء کے انتخابات میں (جو ضیاء الحق نے ملتوی کر دیے تھے) ملک صاحب تحریک استقلال کے ٹکٹ پر گوجرانوالہ شہر کے صوبائی حلقے سے انتخابات میں حصہ لینے کے خواہشمند تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میاں محمود علی قصوری ایڈووکیٹ اس پارلیمانی بورڈ کے سربراہ اور میں ایک ممبر تھا جس نے ٹکٹوں کی تقسیم کا فیصلہ کرنا تھا۔ دیگر ممبران، ملک حامد سرفراز، ملک وزیر علی اور غالبًا ممتاز تارڑ نے جب ملک رفیق صاحب کا انٹرویو شروع کیا تو مرحوم نے اپنی بیگم صاحبہ کی خدمات گنوانا شروع کر دیں اور تحریک نظام مصطفی میں بیگم صاحبہ کے دلیرانہ کردار کو وضاحت سے پیش کیا تو میاں محمود علی قصوری صاحب نے اپنی روایتی گرجدار آواز میں اپنے مخصوص تکیہ کلام کو استعمال کرتے ہوئے سوال کیا کہ ’’اوئے بیبا کجھ تویں کیتا کہ نئیں‘‘ (اے بھلے آدمی! تو نے بھی کچھ کیا ہے کہ نہیں؟)۔ معلوم نہیں کہ جماعت اسلامی چھوڑ کر جانے والوں کی واپسی کے لیے جماعت کا دستور کیا کہتا ہے، چوہدری صاحب نے وضاحت نہیں کی۔
بارے ذکر رفیق تارڑ صاحب کا ہو جائے۔ صفحہ نمبر189، 190، 191 پر چوہدری صاحب نے سابق صدر پاکستان کو سمارٹ، محنتی، دیانتدار، مستعد دیانت دار، منتہائے مقصود، خدمت اسلام اور صاحب عظمت کے ’’معدودے چند‘‘ لفظوں سے یاد کیا ہے۔ شاید چوہدری اسلم صاحب کی زنبیل میں ان کے لیے اس سے زائد الفاظ نہ تھے، ورنہ یہ صفحات کھولتے ہی خوشامد کی بو آنے لگتی ہے۔
رفیق تارڑ صاحب ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے انتخابات میں ایک پولنگ سٹیشن پر ایوب خان کے پولنگ ایجنٹ تھے۔ گوجرانوالہ بار کے ممبر ہونے کے ناطے پرانے وکلاء کو اب بھی وہ ناگفتنی الفاظ یاد ہیں جو وہ قائد اعظم کے بارے میں ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ پولنگ کا ’’ایجنٹ‘‘ ہونے کا انعام سپیکر ویسٹ پاکستان اسمبلی چوہدری محمد انور بھنڈر صاحب کے والد خان بہادر محمد حسین مرحوم نے گورنر مغربی پاکستان نواب کالا باغ سے یوں دلوایا کہ تارڑ صاحب کو ایڈیشنل سیشن جج بھرتی کر لیا گیا اور تمام قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انہیں پہلے دن سے ہی کنفرم کر دیا گیا۔ ضیاء الحق نے 5 جولائی 77ء کو اقتدار سنبھالا تو حضرت نے داڑھی بھی بڑھالی اور ضیاء الحق کے PCO کے تحت حلف بھی اٹھا لیا۔ جب سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ سجاد علی شاہ صاحب نے وزیر اعظم نواز شریف کو سپریم کورٹ میں طلب کیا تو یہ تارڑ صاحب ہی تھے جو ایک روایت کے مطابق ’’بریف کیس‘‘ لے کر کوئٹہ گئے اور بلوچستان ہائی کورٹ کے جج صاحبان کو اپنے ہی چیف جسٹس کے خلاف بغاوت پر آمادہ کیا۔ سنا ہے کہ تارڑ صاحب بڑی بذلہ سنج اور ’’مخولیہ‘‘ طبیعت کے مالک ہیں۔ عدلیہ سے فراغت کے بعد ان کا زیادہ وقت میاں شریف مرحوم کی صحبت میں گزرتا۔ تارڑ صاحب انہیں بہت سے گفتنی و نا گفتنی لطائف سے محظوظ کرتے اور یوں میاں صاحب مرحوم کا وقت بھی اچھا کٹ جاتا۔ یہ لطائف پھر پاکستان کی صدارت میں تبدیل ہوگئے۔ اللہ عمر دراز کرے عطاء الحق قاسمی صاحب کی کہ پہلے یہی کام کر کے لطائف و ’’مخولیہ پن‘‘ کی بنا پر وہ میاں نواز شریف سے ناروے اور تھائی لینڈ کی سفارت حاصل کر چکے تھے۔ تارڑ صاحب کے اوصاف حمیدہ میں سازش، خوشامد اور جمہوریت دشمنی شامل ہو تو ہو، جو اوصاف چوہدری صاحب نے گنوائے ہیں، دور دور تک نہیں ہیں۔
جب کوئی بھی چھوٹا بڑا آدمی اپنی یادداشتوں کو کتابی شکل دیتا ہے تو اس میں لکھا ہوا سچ یا جھوٹ ایک دستاویز بن جاتا ہے۔ اس خدشے کا اظہار میں اس لیے کر رہا ہوں کہ چوہدری اسلم صاحب کی ’’میری تحریکی یادداشتیں‘‘ کے کچھ واقعات جو ذاتی یا بالواسطہ طور پر مجھے معلوم ہیں، ایک قاری کے لیے ان کی تصحیح کر سکوں، ورنہ چوہدری صاحب نے تو زندگی بھر کا توشہ سامنے رکھ دیا ہے۔ مثلاً کتاب کے صفحہ نمبر 227 پر چوہدری صاحب نے بیان کیا کہ وہ 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بننے والے ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ کے صدر تھے۔ اس امر کی تصحیح ضروری ہے۔ گوجرانوالہ میں اس اتحاد کے صدر مسلم لیگ کے چوہدری فقیر اللہ ایڈووکیٹ تھے جو اس وقت ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن گوجرانوالہ کے بھی صدر تھے۔
جہاں تک کتاب کے فکری اور سیاسی پہلو کا تعلق ہے تو اس پر آئندہ وقت ملا تو قلم اٹھاؤں گا۔ یہاں ایک امر کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں ذاتی طور پر ہمیشہ چوہدری اسلم صاحب کی سیاسی و انتظامی صلاحیتوں کا معترف رہا ہوں۔ آج بھی پورے گوجرانوالہ میں میرا شمار یقیناًان لوگوں میں ہوگا جو چوہدری صاحب کی ذات پر لگنے والے ایک داغ کا دفاع کرتے آئے ہیں، ایک ایسا داغ جس سے چوہدری صاحب کی ذات قطعاً معصوم ہے۔ اللہ انہیں صحت مند رکھے اور ان کے سایۂ شفقت کو دراز کرے۔ آمین
محمد سلیمان کھوکھر ایڈووکیٹ، گوجرانوالہ
تعارف و تبصرہ
ادارہ
’’خامہ بہ جوش‘‘
’’خامہ بہ جوش‘‘ برادرِ عزیز فصیح الدین اشرف کے کالموں پر مشتمل رشحاتِ قلم کا شاہکار ہے۔ مصنف پولیس سروسز آف پاکستان سے وابستہ ہیں اور علم و ادب کا طالب علمانہ ذوق رکھتے ہیں۔ ان کے مطالعات کا کینوس بڑا وسیع ہے۔ دنیائے علم کے تقریباً ہر موضوع پر وسیع معلومات رکھتے ہیں۔ اردو بازار میں ملازمت کے دوران ان کے پختہ علمی ذوق کے پیش نظر ان سے شناسائی ہوئی اور یہ تعلق خط و کتابت اور فون کے ذریعے تا دمِ ایں جاری ہے۔ گزشتہ دنوں انہوں نے گوشہ ادب کوئٹہ سے شائع ہونے والی اپنی نادرِ روزگار تالیف ’’خامہ بہ جوش‘‘ ارسال فرمائی اور ساتھ ہی اس پر تبصرہ لکھنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔ بڑے سائز کے 410 صفحات پر مشتمل یہ کتاب اگرچہ مجھ ایسے بے بضاعت اور کم علم کے تبصرے کی محتاج نہیں جس کو ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب اور احمد زین الدین صاحب مدیر روشنائی (کراچی) اور پروفیسر اسحاق وردگ صاحب جیسے اساطینِ علم و ادب نے خراجِ تحسین پیش کیا ہو۔ عجیب حُسنِ اتفاق کہیے یا پھر حُسنِ توارد سمجھیے کہ ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب نے لاہور میں بیٹھ کر اس پر ’’حرفِ چند‘‘ لکھا جبکہ زین الدین صاحب نے کراچی میں بیٹھ کر ’’علم کا جویا۔ فصیح الدین اشرف‘‘ کے عنوان سے لکھا اور دونوں نے اپنی اپنی تحریروں کا خاتمہ شاعر مشرق حکیمِ الامت علامہ اقبال کے اس شہرہ آفاق مصرع پر کہا۔
ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی
فکاہیہ کالم نگاری کے گل سرسید مشفق خواجہ مرحوم کے فکاہیہ کالموں کا مستقل عنوان ’’خامہ بہ گوش‘‘ ہوا کرتا تھا۔ فصیح الدین اشرف نے انہی سے اپنے کالموں کا عنوان مستعار لیا ہے جو ان کے کالموں پر ’’خامہ بہ جوش‘‘ کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ اتنی بڑی اور قد آور شخصیت کے اختیار کردہ نام کی خوشہ چینی کو مصنف موصوف نے بڑی خوبصورتی سے نبھایا ہے اور ان کے وقار کو قطعاً داغدار نہیں ہونے دیا۔ ’’خامہ بہ جوش‘‘ کا روپ دھار کر جب وہ اس وادئ پر خار میں نکلے ہیں تو ان کے سوزِ دروں، سیماب فطرتی اور علم کے ابلتے جوش نے نتیجتاً انہیں ’’خانہ بردوش‘‘ کر ہی چھوڑا۔ میری ان سے آخری بالمشافہ ملاقات پشاور میں ہوئی تھی، اس وقت سے لے کر تادمِ تحریر وہ ’’خانہ بردوش‘‘ ہی ہیں اور اگر ان کی فکر و نظر کے تیور یہی رہے تو ممکن نہیں کہ وہ کبھی اس ’’خانہ بردوشی‘‘ کی بساط لپیٹ پائیں گے اور اس آبلہ پا کالم نگار کی دیگر انفرادیتوں میں سے ایک انفرادیت بھی یہی ہے۔ وہ اس وقت آتشِ نمرود میں کودے ہیں جب گل و گلزار کی رنگینیوں سے متمتع ہونے کا سنہری وقت ہوتا ہے لیکن انہوں نے اس گنگا میں اشنان کو اپنی شان سے فروتر سمجھا اور قلندرانہ بانکپن کے ساتھ نعرۂ مستانہ لیے ہوئے صدائے جرس دینے لگے۔
انہوں نے اپنی کتاب کا انتساب جناب رسالت مآبؐ کی ذات بابرکات کے حضور نذرانۂ عقیدت کے طور پر پیش کیے جانے والے پرواز جالندھری کے ان اشعار سے کیا ہے:
لیتا ہوں تیرا نامؐ ہر اک جام سے پہلے
آتا ہی نہیں کیف تیرے نامؐ سے پہلے
ہر رنگ سے قرطاسِ عقیدت پہ نظر کی
ابھرا نہ کوئی نام تیرے نامؐ سے پہلے
دنیا تیری نسبت سے ہمیں جان رہی ہے
ورنہ یونہی پھرتے رہے بے نام سے پہلے
’’عرض کالم نگار‘‘، ڈاکٹر تحسین فراقی کے ’’حرفے چند‘‘ ، احمد زین الدین کے ’’علم کا جویا ۔ فصیح الدین اشرف‘‘ ، پروفیسر اسحاق وردگ کے فصیح الکالم اور آغا گل کے "Fasihuddin - A Regular Trajan" اور خود صاحب کتاب کے اپنے چشم کشا تعارف ’’میں کون ہوں‘‘ کے بعد کتاب کو مندرجہ ذیل جلی عنوانات کے تحت ترتیب دیا گیا ہے:
- سلوک و تصوف (اس میں چھ کالم ہیں)
- فوج اور قومی سلامتی (اس میں پانچ کالم ہیں)
- ہم، مغرب، امریکہ اور اسلام (اس میں تیرہ کالم ہیں)
- پولیس، علم الجرائم (کریمنالوجی) کرپشن اور امن عامہ (اس میں دس کالم ہیں)
- صحافت اور شعر و ادب (اس میں آٹھ کالم ہیں)
- چند سوالات (اس میں پانچ کالم ہیں)
- سیاست، قومی و سماجی مسائل اور نظریات و افکار (اس میں بیس کالم ہیں)
- عظیم پسندیدہ شخصیات (دو شخصیات پر کالم)
- عظیم زندہ شخصیات (اس میں چھ کالم ہیں)
- سیر و سیاحت اور بیرون ملک تقریریں (اس میں پانچ کالم ہیں)
- اسلامی مدارس اور امن و تحفظ (اس میں تین کالم ہیں)
- یادِ رفتگان (اس میں چار کالم ہیں)
- گوشۂ بلوچستان (اس میں سات کالم ہیں)
- قارئین کے تبصرے اور نقد و حرف (اس میں تین کالم ہیں)
- قندر مکرر (اس میں تین کالم ہیں)
- نقد و تاثرات (پروفیسر ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی مدظلہ کی تحریر)
اس طرح یہ کتاب سولہ جلی عنوانات اور بے شمار ذیلی عنوانات پر مشتمل کالموں کا ایک بصیرت افروز مرقع ہے۔ گویا کہ آسمانِ عبرت و بصیرت پر بکھری ہوئی کہکشاں ہے۔ اس میں نہ صرف وطن عزیز پاکستان کے سلگتے ہوئے مسائل کو موضوع بحث بنایا گیا ہے بلکہ عالمی سطح پر ان کے زوال و ادبار اور نکبت و بدحالی کے اسباب و علل کی دل لگتی ہوئی نشاندہی کی گئی ہے۔ مصنف بعض مقامات پر اپنے جذبات و احساسات کی ترجمانی کے نقطۂ عروج پر دکھائی دیتے ہیں۔ ہر کالم اس لائق ہے کہ اس پر ایک بسیط تبصرہ لکھا جا سکتا ہے۔ جب صریر نامہ کی وقعت کا یہ عالم ہو تو پھر جمیع کالموں پر ایک مختصر تبصرے میں قلم کشائی کا ر دارد ہے۔ مصنف کے استاد گرامی علی اصغر باواجی ان کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اِک گونج بن کے پھیل رہے ہیں افق افق
ہم روحِ عصرِ نوا کی صدا کے سفیر ہیں
فصیح کے اندر ایک آفاقی اور تخلیقی صلاحیت موجود ہے جو ہر وقت ان کی معاونت کے لیے تیار رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ زندگی میں وہ جس شعبے میں بھی داخل ہوئے وہاں انہوں نے کوئی اجنبیت محسوس نہیں کی۔ اپنی انفرادیت اور شناخت کو برقرار رکھا اور اس کی سر بلندی پر جا ٹھہرے۔ ایک بار کہنے لگے کہ باواجی! میری زندگی صرف ظاہری شکل و صورت پر مشتمل ایک وجود نہیں ہے بلکہ اس میں فطرت نے سوچنے اور محسوس کرنے کی بے پناہ صلاحیت رکھ دی ہے۔ میں نے قدرت کے دیے گئے ان عطیات کو بروئے کار لانا ہے اور اپنے تخلیقی عمل سے ایک جہانِ نو تخلیق کرنا ہے۔ ایسا نظام تعلیم رائج کرنا چاہتا ہوں جس سے انسانیت میں ایک وحدت پیدا ہو جائے اور یہ مذہبی، نسلی اور قبائلی تفاوت ختم ہو جائے۔ ایسے عمل ہی کو خیر کہتے ہیں ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ فصیح اپنے اندر ایک تڑپ رکھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ عالمی معیار کے مطابق ان کے اپنے ملک میں ایک یونیورسٹی (انسٹیٹیوٹ آف کریمنالوجی) کا قیام ہو جہاں سے طالب علم ایم ایس سی اور پی ایچ ڈی کر کے ملک و قوم کی خدمت کریں۔‘‘ (بیک فلیپ)‘‘
فصیح الدین کے جذبات و احساسات کا ایک خوبصورت آئینہ خانہ ان کی یہ کتاب ہے جس کے مندرجات سے کماحقہ استفادہ کرنے کے لیے کتاب کا براہِ راست مطالعہ ناگزیر ہے۔ اس گنجینۂ معانی کو صوری و معنوی خوبیوں سے آراستہ کر کے اربابِ علم و دانش کی بارگاہ میں پیش کرنے کا سہرا جناب زعیم بخاری کے سر بندھتا ہے جنہوں نے خوبصورت گیٹ اپ، عمدہ طباعت اور حسین پیشکش کے باوجود قیمت قارئین کی دسترس سے ماورا نہیں ہونے دی۔
(مبصر : محمد شبیر قمر)
کھانسی سے وابستہ امراض اور ان سے حفاظت
حکیم محمد عمران مغل
قدیم اطباء عظام نے اپنے تجربات کی روشنی میں فرمایا کہ جس طرح زمین کو سیم برباد کر دیتی ہے، اسی طرح کھانسی نزلہ زکام جس مرد عورت کو لگ جائیں تو وہ بھی اپنے آپ کو سیم زدہ ہی سمجھے۔ یہ بیماریاں انسانی ہڈیوں کو کھوکھلا کر دیتی ہیں، کیونکہ آنے والی زندگی میں ان سے دمہ، دق، ٹی بی سیل اور لاتعداد دوسرے جان لیوا امراض لاحق ہو جاتے ہیں۔ گزرے زمانہ میں تشویش پریشانی اس کا باعث ہوا کرتی تھی مگر آج خوراک کی کمی اور بے اعتدالی بھی اس کا بڑا باعث بن گئی ہے۔ اگر ڈالڈا سے بچیں اور ڈبے کا دودھ بھی نہ پئیں تو پھر مذکورہ امراض سے چھٹکارا قطعی ممکن ہے۔
ایک نہایت کم قیمت مگر مجرب ترین نسخہ پیش کرتا ہوں۔ کسی بھی قسم کی کھانسی نزلہ زکام یا دمہ دق ٹی بی یا سل کو پکڑے تو اجمل دواخانہ کی لعوق سپستان اور لعوق خیار شنبر دونوں کو یک جا کر کے صبح دوپہر شام بڑا چمچ چاٹ لیا کریں۔ نہایت خوش مزہ دلکش اور مفرح دوا ہے۔ ساتھ ہی حب کبدنو شادری ہمدرد کی دو دو گولیاں صبح شام کھانے کے بعد پانی سے پی لیا کریں۔ اگر فوری افاقہ چاہیں اور دیگر خطرناک کھانسی کی اقسام سے بھی بچنا چاہیں تو قرشی دواخانہ کی خمیرہ ابریشم حکیم ارشد والا استعمال کریں۔ صبح شام خالی پیٹ چھوٹا چمچہ لے لیں۔ اس سے خشک کھانسی اور سانس پھولنا آناً فاناً ختم ہو جائے گا۔ سینہ کی کھڑکھڑاہٹ اور آنے والے اوقات میں دمہ کا خطرے سے بھی ان شاء اللہ محفوظ رہیں گے۔
کھانسی شدت پکڑے اور لمبا عرصہ تک رہ جائے تو دمہ یا سل لازمی لگ جاتی ہے اور خدا نہ کرے پھیپھڑے کے مزمن امراض لگ سکتے ہیں۔ سینہ میں درد اور تنگی کے ساتھ عام جسمانی کمزوری شروع ہو جاتی ہے۔ ایسی صورت میں اجمل دواخانہ کا شربت سیکو سونے پر سہاگہ ثابت ہوگا، ان شاء اللہ۔ مریض کو مکمل آرام سے رکھیں، مقوی اور زود ہضم اغذیہ دیں۔ دیسی چوزہ کی یخنی نہایت ضروری ہے۔ انڈہ اور گندم کا دلیہ بھی بے حد ضروری ہے۔ کبھی کبھی مونگ کی دال کی کھچڑی اور کھٹے پھلوں کے علاوہ ہر قسم کا پھل جو مریض پسند کرے دیں، لیکن بند پیکٹ کا دودھ اور جوس اور بوتلیں بالکل نہ دیں۔ آلو گوبھی، دال ماش اور چاول سے بھی مریض کو بچائیں۔ اگر سرد پانی سے غسل کر لیا تو تمام جسم میں درد پیدا ہو کر چلنا مشکل ہو جائے گا۔ ٹھنڈا پانی، برف، اے سی، کھلی ہوا میں چہل قدمی بھی نہ کریں۔ سرد ہوا کے جھونکے بڑے زیادہ خطرناک ہیں۔ جتنا ہو سکے جسم کو گرم رکھیں اور بادی اشیاء سے پرہیز کریں۔
فروری ۲۰۱۴ء
موجودہ صورتحال اور افغان طالبان کا موقف
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
امارت اسلامی افغانستان کی اعلیٰ سطحی قیادت ان دنوں پاکستان کے سرکردہ علماء کرام اور دینی راہ نماؤں کو اپنے موقف اور پالیسیوں کے حوالہ سے بریف کرنے کے لیے ان سے رابطوں میں مصروف ہے جو ایک خوشگوار امر ہے اور اس کی ضرورت ایک عرصہ سے محسوس کی جا رہی تھی۔ افغان طالبان کے بارے میں عالمی اور علاقائی میڈیا طرح طرح کی خبروں اور تبصروں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے جو عموماً منفی اور کردار کشی پر مبنی ہوتا ہے، جبکہ خود افغان طالبان کا میڈیا محاذ اس حوالہ سے بہت کمزور ہے اور ان کے پاس اس کے وسائل بھی نظر نہیں آتے۔ اس خلا کو کسی حد تک باہمی رابطوں اور میل جول سے پر کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے امارت اسلامی افغانستان کی اس تازہ مہم سے ہمیں اطمینان حاصل ہوا ہے اور ہم اس کے جاری رہنے کی امید رکھتے ہیں۔
امارت اسلامی افغانستان کے چند سینیئر راہ نماؤں کے ساتھ ان رابطوں کے دوران راقم الحروف کو بھی گفتگو کا موقع ملا ہے جس کی کچھ تفصیل درج ذیل ہے۔
افغان راہ نماؤں کا کہنا ہے کہ انہوں نے بیرونی عسکری جارحیت کے خلاف جو کامیابیاں حاصل کی ہیں اس کا اعتراف اب عالمی سطح پر بھی ہونے لگا ہے اور یہ رائے عام ہوتی جا رہی ہے کہ نیٹو اتحاد افغانستان میں طالبان کے خلاف اس جنگ میں اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکا اور اب وہ با عزت واپسی کے راستے تلاش کر رہا ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے اور اس میں کسی طرح کا کوئی مبالغہ نہیں ہے لیکن اب امارت اسلامیہ افغانستان کو ڈپلومیسی اور میڈیا کے محاذ پر جن مشکلات کا سامنا ہے اس کے لیے پاکستان کے دینی حلقوں کی توجہ اور سرپرستی ضروری ہے۔ مثلاً وسائل کی کمی ان کے لیے اپنی پوزیشن کی وضاحت اور بہی خواہوں کے ساتھ رابطوں میں بڑی رکاوٹ ہے۔ خصوصاً میڈیا کے شعبہ میں غلط پروپیگنڈے کا جواب جس قدر زیادہ ضروری محسوس ہوتا ہے اس سے زیادہ مشکل دکھائی دیتا ہے۔
ڈپلومیسی کے محاذ پر ان کا کہنا ہے کہ اب امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سب سے بڑی خواہش اور کوشش یہ ہے کہ جانے سے پہلے کسی نہ کسی طرح حامد کرزئی کو افغانستان کے ایک جائز حکمران کے طور پر تسلیم کرا لیا جائے۔ اس کے لیے لوئی جرگہ اور بین الاقوامی کانفرنسوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کی دینی قیادت کی اہم شخصیات کو مصالحت کے نام پر حامد کرزئی اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ بٹھا کر کٹھ پتلی حکومت کے امیج کو بہتر بنانے کی کوشش ہو رہی ہیں جو حامد کرزئی کو جائز حکمران کی حیثیت دینے کی چال سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ گزشتہ سال کابل میں علماء کرام کی ایک بین الاقوامی کانفرنس اسی مقصد کے لیے منعقد ہوئی تھی جس میں شرکت سے انکار کر کے پاکستان کے سرکردہ علماء کرام نے اس چال کو ناکام بنا دیا تھا۔ اب پھر اسی طرح کا جال پھیلایا جا رہا ہے، اس لیے امارت اسلامی افغانستان کی علماء کرام سے یہ اپیل ہے کہ وہ اس سے ہوشیار رہیں۔ طالبان راہ نماؤں کا یہ بھی کہنا ہے کہ افغان طالبان نے یہ جنگ مظلوموں کے سب سے بڑے ہتھیار ’’فدائی حملہ‘‘ کے ذریعہ لڑی ہے اور اس میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس ہتھیار کی علی الاطلاق مخالفت اور اسے مطلقاً حرام قرار دینے کے فتوے پر ان کے تحفظات ہیں اور وہ اس میں اپنا نقصان محسوس کر رہے ہیں۔
اسی دوران طالبان راہ نماؤں کی طرف سے ایک مفصل تحریری موقف تقسیم کیا گیا ہے جس کے بارے میں ہمارا خیال ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی ضرورت ہے۔ جبکہ کالم کا دامن تنگ ہونے کی وجہ سے اس کا صرف ایک حصہ ہم اس میں پیش کر رہے ہیں، مگر اس سے قبل میں اپنی گفتگو کا مختصر خلاصہ بھی پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
راقم الحروف نے عرض کیا کہ جہاں تک افغانستان میں ہونے والے جہاد کا تعلق ہے ہم اسے افغانستان کی قومی آزادی کی جنگ اور شرعی جہاد سمجھتے ہیں۔ روسی استعمار کے خلاف ان کی جنگ بھی شرعی جہاد تھا اور امریکی استعمار کی عسکری یلغار کے خلاف ان کی مزاحمت اور جنگ بھی شرعی جہاد ہے۔ اسی طرح امارت اسلامی افغانستان نے اپنے پانچ سالہ دورِ اقتدار میں خلفاء راشدینؓ کی روایات کو جس طرح زندہ کیا ہے اسے سامنے رکھتے ہوئے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ دنیا میں نفاذِ اسلام کے نئے دور کا نقطۂ آغاز ہے اور ہم اس کی کامیابی کے لیے پر خلوص خواہش کے ساتھ دعا گو بھی ہیں۔
حامد کرزئی کو ہم افغانستان کا جائز حکمران تصور نہیں کرتے اور ہمارا موقف یہ ہے کہ غیر ملکی فوجوں کے مکمل انخلاء کے بعد افغان عوام اپنی آزادانہ رائے کے ساتھ جو حکومت قائم کریں گے وہی جائز حکومت ہوگی، اس لیے حامد کرزئی یا اس کے نمائندوں کے ساتھ ان معاملات میں کسی بھی درجہ کی یک طرفہ شرکت غیر اصولی بات ہوگی۔
فدائی حملوں کے بارے میں ہمارا شروع سے یہ موقف ہے جس کا ہم کئی بار اظہار کر چکے ہیں کہ یہ مظلوم اور بے بس قوموں کا آخری جنگی ہتھیار ہوتا ہے جو ہر دور میں استعمال ہوتا آرہا ہے اور آج بھی بے بس مظلوموں کے لیے یہ آخری ہتھیار کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے کسی بھی شرعی جہاد یا جائز جنگ میں اس کے استعمال پر ہمیں کوئی اشکال نہیں ہے۔ البتہ پاکستان کے مختلف حصوں میں عام آبادیوں، مساجد، امام بارگاہوں، گرجا گھروں اور مارکیٹوں میں ان خود کش حملوں کے ذریعہ جو تباہی پھیلائی جا رہی ہے، اسے ہم شرعاً درست نہیں سمجھتے اور یہ کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہیں۔ اس لیے پاکستان کا امن و استحکام صرف پاکستانیوں کی ضرورت نہیں بلکہ اسلام اور عالم اسلام کے بھی مفاد میں ہے اور اس میں بدامنی کا فروغ ملت اسلامیہ کے لیے باعث نقصان ہے۔ ہم ان حملوں کے بارے میں واضح تحفظات رکھتے ہیں اور جائز فدائی حملوں اور ناجائز خود کش حملوں کے درمیان فرق قائم رکھنے اور اسے واضح کرنے کو ضروری سمجھتے ہیں۔
ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان کے اندر ہونے والی اس قسم کی کاروائیوں میں افغان طالبان کا کسی درجہ میں بھی کوئی حصہ نہیں ہے اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ امارت اسلامی افغانستان ایسی کاروائیوں کی کسی طرح بھی حمایت نہیں کر رہی، لیکن میڈیا کے یک طرفہ پراپیگنڈے کی وجہ سے اور ناموں کی مشابہت کی وجہ سے جو غلط فہمیاں پھیلتی جا رہی ہیں ان سے نجات حاصل کرنے کے لیے اس فرق کو واضح کرتے رہنا از حد ضروری ہے۔
اس سلسلہ میں امارت اسلامی افغانستان کے تحریری موقف میں جو وضاحت کی گئی ہے وہ اطمینان بخش اور خوش آئند ہے، قارئین کرام اسے بھی ملاحظہ فرمالیں:
’’آخر میں امارت اسلامیہ کی پالیسی اور طریقہ کار سے اچھی طرح آگاہ کرنے کے لیے یہ چند وضاحتیں ضروری سمجھتے ہیں۔ وہ یہ کہ ہمارے پاس کام کے طریقہ کار کے لیے جید علماء کی جانب سے تائید شدہ مرتب اصول اور لائحہ عمل موجود ہے۔ ہر طرح کے مسائل میں تجربہ کار شیوخ اور علماء کرام سے فتوے طلب کیے جاتے ہیں۔ آپس کے مشورے اور اطاعت کے جذبے سے ہر کام انجام دیا جاتا ہے۔ ہمارے فیصلے ہمارے جذبات کے نہیں اصولوں کے تابع ہیں۔ ہم دشمنوں کی سازشوں کی طرف متوجہ ہیں۔ دنیا کے حالات سے خود کو باخبر رکھتے ہیں۔ داخلی و خارجی سیاست میں امور کے بہتر نظم و ضبط کے لیے الگ الگ کمیٹیاں متعین کی گئی ہیں۔ ایک دوسرے کے کاموں میں بے جا مداخلت نہیں کی جاتی۔ اپنی بساط کے مطابق ہم نے کوشش کی ہے کہ کام اہل کار افراد کے سپرد کیا جائے۔ علماء کرام اور صاحب نظر لوگوں کے مشورے اور نقطہ ہائے نظر بڑی وسعت قلبی اور دل کی خوشی سے سنتے اور ضرورت کے وقت ان سے استفادہ بھی کرتے ہیں۔ ہمارے طریقۂ کار میں ہر معاملے میں بلا ضروری اور بے وقت دست اندازی اور لوگوں کو بے جا تنگ کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ نہ کسی کو دھمکانے اور نہ تاوان کی غرض سے لوگوں کو اغوا کرنے کو قانونی سمجھتے ہیں۔ اور نہ شک کی بناء پر کسی کے جان و مال کی جانب دست درازی کو جائز سمجھتے ہیں۔ مجاہد کے نام پر بھتہ خوری مجاہد کی شان نہیں سمجھتے۔ بے گناہ انسانوں کا قتل، کثیر آبادی اور مقدس مقامات پر ہدف کی تعیین کے بغیر حملے ہمارا کام نہیں اور نہ ہم کسی اور کو ایسا کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ عزت، ذلت، کامیابی اور ناکامی اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت ہمارے ساتھ اس وقت شامل ہوگی جب ہم اللہ کے دین کو مضبوطی سے پکڑے رکھیں گے۔ اور اس کے احکام پر عمل کریں گے۔ اللہ کی مخلوق کو اذیت نہ دیں۔ لہٰذا تمام علماء کرام، صاحب نظر لوگوں اور اہل خیر سے ہماری توقع ہے کہ کچھ خود سر یا دشمن کے انٹیلی جنس اداروں کے پنجوں میں جکڑے ہوئے نام نہاد مجاہدین کی نازیبا حرکتوں کو امارت اسلامیہ کی جانب منسوب نہ کریں۔ تمام وہ اعمال جو شریعت کے اصولوں سے متصادم ہیں ہماری جانب سے اس کی تردید کی جاتی ہے اور اگر ہماری صف میں کوئی ایسا کرے گا تو اسے شرعی سزا کا سامنا کرنا ہوگا۔ الحمد للہ ثم الحمد للہ ہمارے مجاہدین کو اللہ تعالیٰ نے ان ناپاک امراض سے محفوظ رکھا ہوا ہے۔ ایسے نا مناسب اور ناجائز امور کی انجام دہی کے بعد اگر کوئی شخص اپنی نسبت امارت اسلامیہ کی جانب کرتا ہے یا محترم امیر المومنین کو اپنا قائد کہتا ہے تو یہ محض نام کا ناجائز استعمال ہے۔ ایسے لوگ امارت اسلامیہ کے مبارک نام سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جو لوگ امارت اسلامیہ سے مربوط ہوتے ہیں وہ امارت اسلامیہ کی اطاعت بھی کرتے ہیں۔ اور امارت اسلامیہ کی پالیسی یہی ہے جو ہم نے اوپر ذکر کی ہے۔ اگر کوئی اس سے سرتابی کرتا ہے تو اس کا امارت اسلامیہ سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی امارت اسلامیہ ایسے شخص کو مجاہد کہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم اور آپ کو تمام بے اطاعت، جاہ طلب اور نا اہل لوگوں کے شر سے محفوظ فرمائے۔ آمین ثم آمین۔‘‘ (2013/12/30)
شیعہ سنی کشیدگی اور فریقین کی قیادت کی ذمہ داری
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
گزشتہ محرم الحرام میں راولپنڈی میں رونما ہونے دردناک سانحہ کے تناظر میں ہم راولپنڈی کی ایک درد مند دل رکھنے والی خاتون غزالہ یاسمین کا ایک خط قارئین کی نذر کر رہے ہیں جس میں انہوں نے اس مسئلہ پر اپنا دردِ دل پیش کیا ہے اور اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ملک کے عام شہریوں کے جذبات اس معاملہ میں کیا ہیں اور وہ اپنی مذہبی قیادتوں سے کیا توقع رکھتے ہیں؟ محترمہ غزالہ یاسمین صاحبہ اپنے اس خط کی اشاعت کی فرمائش کے ساتھ لکھتی ہیں کہ:
’’پاکستان کبھی امن و آشتی اور یگانگت کا مظہر تھا۔ اسی قوت کے باعث اس ملک کا قیام عمل میں آیا تھا۔ لیکن نہ جانے اس ملک کو کس کی نظر لگ گئی کہ اب یہ اختلافات خصوصًا فرقہ وارانہ نوعیت کے اختلافات کی زد میں ہے۔ ذرائع ابلاغ ان اختلافات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور یوں پوری دنیا میں اسلام اور پاکستان کی سبکی کے سامان فراہم کرتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اختلافات کو کم کرنے کو اپنا مشن بنا لیا ہے۔ یہ لوگ خاموش انداز میں اپنے وسائل استعمال کرتے ہیں اور ان مؤثر شخصیات کو جو اختلافات کو کم کرنے میں کسی طرح بھی اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں، مسلسل قائل کرتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ ان سے روابط رکھتے ہیں اور ان روابط کو اس کارِ خیر کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
قارئین، ناظرین اور سامعین کو مژدہ ہو کہ آج کی اس تحریر میں ایسے ہی تین اشخاص کے ایک مجموعے کو متعارف کرایا جا رہا ہے جنہوں نے 10 محرم کو راجہ بازار راولپنڈی کے سانحے کے بعد یہ قسم کھائی کہ وہ اللہ کی رضا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی کے لیے ملک بھر کے علمائے کرام، دانشوروں اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے روابط کو بڑھائیں گے اور جو کچھ نقصان راولپنڈی کے سانحے کی وجہ سے اسلام اور پاکستان کی ساکھ کو پہنچا ہے، اسے کم کرنے کی مقدور بھر کوشش کریں گے۔ بڑی مشکل سے ان حضرات نے اس بات کی اجازت دی کہ ان کے ناموں سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے۔ ان تینوں شخصیات کا تعلق کشمیر کے مختلف علاقوں سے ہے۔ ان میں قدر مشترک پاکستان سے ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی محبت ہے۔ وہ اس لیے بھی پاکستان کے دکھ کو برداشت نہیں کر سکتے کہ ان کا اپنا وطن غلام ہے اور وہ آزادی کی قدر و قیمت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ یہ شخصیات محمد حنیف خان آف راولا کوٹ آزاد کشمیر، سردار محمد ایوب خان آف باغ آزا دکشمیر اور راجہ محمد امجد خان آف اسکردو گلگت بلتستان حال مقیم راولپنڈی ہیں۔
مختلف مواقع پر ان تین حضرات سے جو ملاقاتیں ہوئیں، ان کی تلخیص کچھ یوں ہے:
محمد حنیف خان آف راولا کوٹ: میں نے سانحہ راولپنڈی کے فورًا بعد متعلقہ علمائے کرام کو فردًا فردًا خطوط لکھے اور ان کے معاملات کو صحیح نہج پر لانے کے ضمن میں ادا کیے گئے کردار کو سراہا۔ یہ خطوط ایک عقیدت مند کے خطوط تھے جو ہر طرح کے اختلافات سے بلند ہو کر لکھے گئے تھے۔ میری رائے میں علمائے کرام نے مثالی کردار ادا کیا تھا، اس لیے میں نے اپنے خطوط میں انہیں اولیائے کہتے ہوئے بھی باک محسوس نہیں کیا تھا۔ میں نے اپنے خطوط میں علمائے کرام سے یہ بھی کہا تھا کہ ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں کئی طرح کے لوگ رہتے ہیں۔ ہندو، سکھ اور عیسائی بھی رہتے ہیں۔ شیعہ بھی رہتے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ہزاروں بندے مار کر بھی آخر کار بات چیت کریں گے۔ مولانا صاحب! کچھ کیجیے۔ کسی دن کسی شیعہ لیڈر کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کر لیں۔ یقیناًقتل و غارت بند ہو جائے گی۔ روزِ محشر اگر بلند مقام نہ پایا تو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مجھے شرمندہ کر دینا۔
سردار محمد ایوب خان: اپنے ملک کے تمام علمائے کرام اور ان کے عقیدت مندوں سے التماس کرتا ہوں کہ مخالفین کو پیار و محبت سے سیدھی راہ پر لایا جائے۔ ہم تو انہیں اپنی ضد پر پکا کر رہے ہیں۔ کیا ہمارے اکابرین اسی طرح تبلیغ کیا کرتے تھے؟ ہمارے اکابرین کون ہیں؟ یقیناًحضرت شاہ ولی اللہ ہیں۔ یقیناًحضرت مہاجر مکی ہیں۔ یقیناًقاری محمد طیب ہیں۔ یقیناًمولانا اشرف علی تھانوی ہیں۔ یقیناًمولانا احمد علی لاہوری ہیں۔ قریب کے زمانے میں مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا عبد الحق، حضرت مفتی محمود اور حضرت قاضی حسین احمد آخر ہمارے ہی اکابرین میں سے ہیں۔ کیا وہ بھی یوں ہی کیا کرتے تھے جیسے آج کل ہو رہا ہے؟
راجہ محمد امجد خان: 24 دسمبر 2013کو پورا ملک راولپنڈی پر کان دھرے ہوئے تھا کہ 10 محرم کے المناک سانحے کے بعد راولپنڈی میں چہلم کا جلوس نکلنا تھا۔ ہر طرف خدشات تھے کہ نہ معلوم کیا ہوگا؟ ہر آدمی سوچ رہا تھا کہ کشت و خون ہوگا۔ لیکن 24 دسمبر کو صورت حال بالکل مختلف نظر آئی۔ ہر طرف امن و امان تھا۔ لوگ پر سکون تھے۔ لاکھوں افراد کا جلوس تھا جو راجہ بازار سے گزرا۔ کہیں گملا نہ ٹوٹا۔ راجہ بازار کے تاجر سب سے زیادہ مطمئن تھے کہ ان کا سکون بحال ہو رہا تھا۔ میں بھی سروے کرنے نکلا۔ نماز مغرب مرکزی جامع مسجد اہل حدیث میں ادا کی۔ وہاں یہ دیکھ کر حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جلوس میں شامل شیعہ حضرات کی بڑی تعداد نماز ادا کر رہی تھی۔ جامع مسجد اہل حدیث کے منتظمین انہیں ہر طرح سے خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ مسجد کے باہر شیعہ خواتین نماز ادا کر رہی تھیں۔ مسجد پر کوئی پہرہ نہ تھا۔ اندر آنے کی اجازت عام تھی، بالکل عام دنوں کی طرح۔ دیگر مساجد اور مختلف مقامات پر بھی ایسا ہی دیکھا، کوئی تفریق کہیں نظر نہ آئی۔ دل بہت خوش ہوا۔ گزشتہ 10 محرم کو ہونے والا سانحہ بھی نہ ہوتا اگر دونوں طرف کے علماء باہم روابط استوار رکھتے۔ کہیں نہ کہیں روابط کی کمی کے باعث افسوسناک سانحہ ہوا، لیکن بعد میں چہلم کے موقع پر راولپنڈی خصوصاً راجہ بازار کے لوگوں کے مثالی طرز عمل کے بارے میں آگاہ کرنا چاہتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ آئندہ بھی ہمیشہ ایسی ہی یک جہتی کا مظاہرہ کیا جائے گا۔‘‘
ترجمہ قرآنی ۔اور۔ میری کہانی
مولانا سید سلمان الحسینی الندوی
ستمبر ۱۹۵۴ء میں میری پیدائش ہوئی۔ والد صاحب مظاہر علوم سے فارغ ہوکر حضرت مولانا علی میاںؒ کی خدمت میں ۱۹۵۰ء میں حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے بھیجے گئے تھے۔ وہ حضرت مولاناؒ کے ۱۹۵۰ء کے سفرِحجاز میں دیگر چند حضرات کے ساتھ شریک تھے۔ سفر تبلیغی ودعوتی تھا۔ والد صاحب دوسال کے لیے حجاز میں رہ گئے۔اس دوران عراق ،شام وفلسطین کے تبلیغی اسفار کا موقع ملا۔ حجاز کے دورانِ قیام امامِ حرمِ مکی شیخ عبد المہیمن مصری سے قراء ت کی مشق کی۔ قرآن پاک کا حفظ بھی شروع کیا۔ وہ ان کے لہجہ سے متاثر ہوئے۔ حفظ مکمل تو نہیں ہوسکا تھا لیکن اچھا خاصا حصہ یاد تھا۔ مجھے یاد ہے کہ وہ میرے بچپن میں محلہ کی مسجد میں فجر کی نماز پڑھاتے تھے اور بڑی اچھی حجازی قراء ت فرماتے تھے۔
وہ مرکز تبلیغ، لکھنؤ میں ندوہ کے مکتب میں پڑھاتے تھے جب میری مکتبی تعلیم ان کے پاس شروع ہوئی۔ پھر وہ مددگار ناظم ندوہ بنادیے گئے اور میری مکتبی تعلیم جاری رہی۔ غالباً ۱۹۶۱ء سے مجھے منصور پور ضلع مظفر نگر کے درجہ حفظ میں دو پارے حافظ یامین صاحبؒ کے پاس پڑھنے کا موقع ملا جو بہت اچھے قاری تھے۔ پھر دوبارہ انہی پاروں کا اعادہ مظفر نگر کی حوض والی مسجد میں حافظ ساجد صاحبؒ کے پاس کرنے کی نوبت آئی جہاں ہمارے اباجی سید محمدیوسف صاحب رحمۃ اللہ علیہ رہتے تھے جو حضرت مدنی ؒ کے مرید با اختصاص اور جمعیت العلماء کے مظفر نگر میں ذمہ دار تھے۔ پھر ۶۲۔۱۹۶۳ء میں باقاعدہ میرا داخلہ دار العلوم ندوۃ العلماء کے درجۂ حفظ میں حافظ محمد اقبال صاحب ؒ کے پاس ہوا۔ پھر ایک سال بعد ۱۹۶۸ء میں حافظ حشمت صاحب ؒ کے سیکشن کی طرف منتقل کردیا گیا جہاں ۱۹۶۷ء میں میرا حفظ قرآن مکمل ہوا۔
دورانِ حفظ قاری رشید الحسن صاحبؒ سے گھر پر قراء ت کی مشق کرتا رہا۔ وہ نواب سید صدیق حسن قنوجی کے پرپوتے تھے جو بعد میں میرے خالو بھی ہوگئے۔ پھر پاکستان منتقل ہوگئے۔ ان کے صاحبزادگان ماشاء اللہ حافظ، قاری اور عالم ہیں اور تعلیمی میدان میں اچھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ مجھے ان کی قراء ت اور بالخصوص ان کا ’’مد‘‘ اور اس میں ان کی آواز کا تموج بہت پسند تھا۔ درجہ حفظ میں ہمارے دورمیں طلباء کو قاری عبدالباسط عبد الصمد کی قراء ت سنانے کے لیے گراموفون کا انتظام کیا گیاتھا۔ ہم طلباء ان کی قراء ت کے سحر سے مسحور تھے۔ کبھی کبھی فجر بعد کسی ہوٹل میں ان کی تلاوت لگادی جاتی اور سڑک پر لوگ ٹھٹھک کر کھڑے ہوجاتے۔ قرآن پاک سے یہ میرا حفظ وقراء ت، تراویح کی امامت، اور اس کی تلاوت کی نغمگی سے ذوقی اور وجدانی تعلق کا دور تھا۔
۱۹۶۹ء سے عربی کے درجۂ سوم میں داخلہ ہوا اور عربی کی شد بد سے قرآنی الفاظ کے ابتدائی مطالب سے مناسبت شروع ہوئی جو درجہ کی کتابوں کے اہتمام اور مطالعہ کے چسکہ کی بنیاد پر ۱۹۷۰ء میں خوب پروان چڑھی۔
۷۰۔۱۹۷۱ء میں کلیۃ الشریعہ کے پہلے سال ۔جسے عربی پنجم کہتے تھے۔ کا ترجمہ وتفسیرِقرآن کا گھنٹہ مولانا برہان الدین سنبھلی ۔دام ظلہ۔ کا لگایا گیا۔ مکی دور کی سو رتیں اعراف، یونس، ہود وغیرہ نصاب میں تھیں۔ مولانا کی زبان کی چاشنی، لطیف اشارات، عمدہ محاورات، اور افہام وتفہیم پر استادانہ قدرت ومہارت نے اس موضوع سے بڑا انس پیدا کردیا۔ درجہ میں توجہ سے سنتا اور گھر پر آکر ظہر بعد اپنے حافظہ سے درسِ تفسیر لکھ لیتا۔ ہر کام کی چیز کو حفاظت سے رکھنے کا ذوق تھا۔ سب سے زیادہ اہتمام سے قرآن کے ان دروس کو محفوظ رکھا۔ دھاگہ سے سی کر اس کی جلد بنائی اور اس کے صفحہ اول پر ’’عنوان کتاب‘‘ کے طرز کی معلومات درج کیں۔ تقریباً ۴۰؍ سال بعد خیال آیا کہ مولانا برہان الدین سنبھلی ۔دام ظلہ۔ جو فالج کے بعد معذور چل رہے ہیں۔ اللہ ان کو شفائے کامل عطا فرمائے۔ سے چند سطریں بطور تبرک لکھواکر اس مجموعۂ دروس کو شائع کردوں۔ ایک پیش لفظ کے ساتھ الحمد للہ ’’درسِ قرآنِ کریم‘‘ کے نام سے شائع کردیا۔
یہ جملہ معترضہ تھا۔ قرآن کچھ سمجھ میں آنے لگا اور تروایح میں اب ایک خاص کیف کے ساتھ پڑھنے لگا۔ ۷۳۔۱۹۷۴ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کے شیخ ا لتفسیر حضرت مولانا محمد اویس نگرامی ندویؒ سے مدنی سورتوں ۔البقرۃ، آل عمران۔ وغیرہ کی تفسیر پڑھنے کا موقع ملا اور اس کے منتخب اجزا کو عربی میں قلمبند کرتارہا۔ اسی دوران حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی ’’الفوز الکبیر‘‘ درجۂ ہفتم میں پڑھی۔ مولانا نگرامیؒ ،شاہ ولی اللہ، ابن تیمیہ، ابن القیم کے عاشق ودلدادہ تھے۔ شاید ہی کوئی دن ان کے حوالوں، ان کی تحقیقات اور علمی نکات اور بلند مقام کے تذکرہ کے بغیر گذرتا ہو۔ آگے چل کر فضیلت دوم میں حجۃ اللہ البالغۃ کے درس نے تو میرے ذہن پر ان کے فکری نقوش ایسے مرتسم کردیے کہ پھر انہی کی فقہی تحقیقات اور اختلافاتِ فقہاء کے اسباب، اور اجتہاد وتقلید پر ان کے نظریات کو اپنے مقالۂ فضیلت کا عنوان بنایا۔ ان موضوعات پر میرے رسائل شائع ہوچکے ہیں۔
یہی وہ زمانہ تھا کہ مرکز تبلیغ لکھنؤ میں ہر اتوار کو مغرب بعد مولانامحمد منظور نعمانیؒ کا درس قرآن پاک ہوتا تھا جس میں لکھنؤ کے خواص اور باذوق حضرات شریک ہوتے تھے۔ میں بھی طالبعلمانہ حاضری دیتا تھا اور مولانا کے سادہ، پرمغز اور موثر درس سے مستفید ہوتا تھا۔
۱۹۷۴ء میں اپنے درجہ کے ساتھیوں کو لے کر میں نے ’’انجمن شباب الاسلام‘‘ قائم کی جس کے مقاصد میں درس قرآن پاک کے حلقوں کا قیام بڑی اہمیت کا حامل تھا، لیکن ۷۵۔۱۹۷۶ء میں فضیلت کے دوسال کی تعلیم اور ۱۹۷۷ء سے ۱۹۸۰ء کے اواخر تک جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیۃ (ریاض) میں کلیۃ اصول الدین میں ایک سال کی تعلیم اور د و سال مقالۂ ایم اے کی مشغولی نے عملی طور پر انجمن کے کاموں اور درسِ قرآن پاک کے حلقوں کو موخر رکھا۔
ریاض میں کلیۃ اصول الدین میں ۱۹۷۷ء میں میرا داخلہ ہوا۔ وہاں نصاب کا ایک نیا تجربہ ہوا۔ تفسیر کے دوگھنٹے ہوتے تھے۔ ایک تفسیر تحلیلی کے عنوان سے ہمارے ہاں رائج طرز کے مطابق، یہ گھنٹہ ڈاکٹر مصطفی سوری کا تھا۔ وہ بڑے فصیح اللسان اور پختہ صاحبِ علم تھے۔ دوسرا گھنٹہ ’’تفسیر موضوعی‘‘ کے نام سے تھا۔ یہ تفسیر کے معروضی مطالعہ کا نیا طرز تھا جس کے ہم لوگ ہندوستان میں عادی نہیں۔ یہ موضوع ڈاکٹر احمد حسن فرحات سے متعلق تھا۔ وہ بھی شامی ہیں۔ حسن اتفاق یہ کہ میرے اصل موضوع، علوم حدیث کے استاد بھی شام کے معروف عالم ومحدثِ جلیل، شیخ عبدالفتاح ابوغدۃؒ تھے جو ہمارے مقالۂ( ایم، اے) کے نگراں بھی تھے۔ تیسرا موضوع علوم القرآن کا تھا جس میں شیخ مناع القطان کی ’’مباحث فی علوم القرآن‘‘ ہم طلباء نے پڑھی تھی اور ڈاکٹر صبحی الصالح کی ’’مباحث فی علوم القرآن‘‘ بھی مطالعہ میں رہی۔
ڈاکٹراحمد حسن فرحات سے سید قطب کی ’’التصویر الفنی فی القرآن ‘‘ پڑھی جس سے ایک نیا پہلو قرآنیات کا سامنے آیا۔ سید قطب کی ’’مشاہد القیامۃ فی القرآن‘‘ اور ان کی عظیم الشان تفسیر ’’فی ظلال القرآن‘‘ کے مطالعہ کا بھی خوب موقع ملا، بلکہ کہنا چاہیے کہ اس تفسیر میں سید قطب کے جگر کا خون اس طرح شامل ہے اور زبان وبیان کے ساحرانہ ملکہ کی ایسی بلاکی تاثیر اس میں پیدا ہوگئی ہے کہ اس کا قاری صرف علمی اور تحقیقی ٹھنڈی تفسیر نہیں پڑھتا، بلکہ مضامین قرآن کے ساتھ، پہاڑوں پر چڑھتا، وادیوں میں اترتا، گھاٹیوں کو عبور کرتا، فتوحات قرآن سے سرشار ہوتاجاتا ہے۔ یہ حق ہے کہ اس دور میں اتنی طاقتور تفسیر نہیں لکھی گئی۔
ڈاکٹر احمد حسن فرحات کی طرف سے قرآن کے معروضی مطالعہ کے موضوعات طلباء کو دیے گئے تو میں نے ’’الأمانۃ فی القرآن‘‘ اپنے لیے اختیار کیا۔ پھر’’ الأمانۃ‘‘ کو قرآن پاک سے کھنگالا اور کوئی قابل ذکر تفسیر نہ چھوڑی جس سے ’’امانت‘‘ کی تشریحات اکٹھی نہ کی ہوں۔
ندوہ کے دورِ طالبعلمی میں تفسیر قرطبی، تفسیر رازی،تفسیر ابن کثیر، تفسیر مظہری، تفسیر بیان القرآن کے علاوہ تفسیر معارف القرآن، تفسیر ماجدی، مولانا ابوالکلام آزاد کی ترجمان القرآن اور مولانا امین أحسن اصلاحی کی تدبر قرآن، سب ہی پڑھی تھیں، لیکن حضر ت تھانویؒ کے دقیق نکتوں، اور مولانا اصلاحی کی لغوی بحثوں اور سورتوں اور آیتوں کے ربط کے مختلف پہلوؤں اور تفسیر ماجدی کے تقابلی مطالعوں، اور عصری تحقیقی بحثوں سے ذہن متاثر تھا، لیکن مولانا شبیر احمد عثمانی کے حواشی سے زیادہ اشتغال نے ان کا شائق بنارکھا تھا، اور ’’إنا عرضنا الأمانۃ‘‘ کی تشریح میں اس شعر نے
آسماں بار امانت نتوانست کشید
قرعۂ فال بنام من دیوانہ زدند
لوح دماغ پر ایک تصویر مرتسم کردی تھی، اور یہی ’’ الأمانۃ فی ضوء القرآن‘‘ کے موضوع کا محرک بنی۔ الحمد للہ ایم اے سال اول کا وہ مقالہ طبع ہوچکا ہے اور اس کا اردو ترجمہ بھی شائع ہوچکا ہے۔
ڈاکٹر احمد حسن فرحات، مولانا حمید الدین فراہی کے بہت قائل تھے۔ ان کا تذکرہ ندوہ کے ماحول میں ،میں سنتارہا تھا اور ان کے رسالے پڑھتارہا تھا، لیکن ڈاکٹر فرحات کا اصرار تھا کہ میں ایم اے کا اپنا تھیسس ان ہی کی تحقیقات پر لکھوں اور تفسیر کو ہی اپنا موضوع بناؤں، لیکن موضوع کے انتخاب میں شیخ عبدالفتاح ابوغدۃ سے خصوصی تعلق غالب آیا، اور موضوع مقالہ ’’ألفاظ الجرح والتعدیل‘‘ علوم حدیث کا طے پایا۔ میں بطور تحدیث نعمت یہ بھی ذکر کردوں کہ جامعہ محمد بن سعود ریاض میں ’’مسابقۃ الحدیث‘‘ (حدیث کا انعامی مقابلہ) ۱۹۷۸ء منعقد ہوا۔ اس میں پوری جامعہ میں میرا اول نمبر آیا اور پھر ۱۹۷۹ء میں قرآن کا انعامی مقابلہ منعقد ہوا، اس میں حفظ میں بعض مقامات پر بھول جانے کی وجہ سے پوری جامعہ میں دوسرا نمبر آیا۔
جامعہ کے ایک مصری استاد جو شعبۂ تفسیر کے صدر تھے،شیخ’’ محمد الراوی‘‘ تھے۔ ان کا طرزِ قراء ت اور اندازِ تفسیر بڑا موثر ہوتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ دل پر دستک کی چوٹ لگارہے ہیں، ان کا نقش بھی دل ودماغ پر رہا۔
جامعہ محمد بن سعود ۔ریاض ۔سے فارغ ہوکر میں دار العلوم ندوۃ العلماء ۱۴۰۱ھ کے جمادی الثانی اور ۱۹۸۱ء کے ماہ اپریل میں حاضر ہوا اور باوجود تعلیمی سال کے اختتام کے میرے گھنٹے بیرونی طلبا کے لیے سنن ترمذی اور تفسیر کے لگا دیے گئے تھے۔ پھر باقاعدہ ۱۴۰۲ھ مطابق ۱۹۸۲ء سے میں نے سورۃ الفاتحہ، سورۃ البقرۃ، سورۃ آل عمران کا عا لمیت کے سندی سال میں درس دینا شروع کیا اور پہلی مرتبہ سورۃ البقرۃ کے درس کے دوران مجھے پوری سورۃ البقرۃ کی منظم فصلوں اور ان کے عنوانات کا انکشاف ہوا۔
تین انسانی طبقات ۔تین بنیادی عقائد۔ قصۂ آدم وابلیس۔بنی اسرائیل کی تاریخ عروج وزوال۔ امامت ابراہیمی۔ ملت ابراہیمی۔ کعبہ کی مرکزیت۔ یہود ونصاریٰ کی معزولی۔ قبلہ کی تبدیلی۔ امت کا موحدانہ نظام۔ نماز اور زکوۃ کا مکی سورتوں میں بیان گذرنے کے بعد، روزوں کابیان۔ حج کا نظام۔ سماجی مسائل اور اصلاحات۔ خاندانی اور عائلی نظام۔ معرکۂ حق وباطل۔ فلسفۂ موت وحیات۔ انفاق فی سبیل اللہ۔اسلام کا غیر سودی نظام۔ مالیاتی اور معاملاتی مسائل۔ حلفیہ بیانات۔ پھردعاؤں پر اختتام۔
مجھے سورۂ بقرہ ایک جامع اسلامی نظام کے ابتدائی خاکہ کی شکل میں نظرآئی اور میں نے طلبا کو اسی ترتیب سے پڑھایا۔
۱۹۸۲ء سے انجمن شباب الاسلام کی تحریک پھر سے ایک نئے و لولہ اور جوش کے ساتھ شروع کی گئی۔ ہفتہ واری، ماہانہ اور سالانہ پروگراموں کے علاوہ ایک اہم پروگرام شہر کی مساجد میں درس قرآن پاک کے حلقوں کا تھا۔ ندوہ کے متعدد مدرسین کے حلقہ ہائے درسِ قرآن، مختلف مساجد میں شروع کرائے گئے۔
اسی دوران ’’الفوز الکبیر فی اصول التفسیر‘‘ کو معاصر عربی اسلوب کے قالب میں ڈھالنے کے لیے میں نے فارسی اصل کا از سرنو عربی ترجمہ کیا۔ ارادہ اس کی تشریحات اور جامع حواشی کا تھا، لیکن تحریکی مصروفیات نے یہ کام نہ ہونے دیا۔ الفوز الکبیر کا فارسی سے میرا عربی ترجمہ ذی القعدہ ۱۴۰۴ھ میں شائع ہوا۔
درس قرآن کے حلقوں کی مہم ۱۴۰۳ھ کے ماہ رمضان میں، میں نے بڑے زور وشو رسے چلائی اور شہر کی مختلف مساجد میں ختم قرآن کے موقع پر پوری قوت سے عوام کو ترجمہ وتفسیر قرآن پڑھنے کی دعوت دی۔ میرے ذہن میں حضرت شیخ الہند کی یہ بات دوارن مطالعہ نقش ہوگئی تھی کہ حضرت نے مالٹا کے جیل میں خوب غوروخوض کے بعد امت کے مسائل کا حل دونکتوں میں بیان فرمایا تھا، ایک اتحاد ملی کی کوشش، دوسرے قرآن کے مطالب ومعانی کی نشرواشاعت، اور ہماری تحریک کے یہ دونوں بنیادی عناصر تھے۔
میرا ہفتہ واری درسِ قرآن مولوی گنج کی دھنیا مہری مسجد میں بروز چہار شنبہ بتاریخ ۳؍ صفر ۱۴۰۴ ھ مطابق ۹؍نومبر ۱۹۸۳ ء بعد مغرب شروع ہوا جو مولوی گنج کی مسجد خواص کی تعمیر کی تکمیل کے بعد وہاں منتقل ہوگیا۔ پھر مسجد کے لب سڑک ہونے اور ٹریفک کے شوروغل کی وجہ سے ایک عرصہ بعد ہمارے اپنے محلہ کی مسجد ’’قبر ماموں بھانجہ‘‘ میں منتقل ہوا، پہلے یہ درس ہر چہار شنبہ کو بعد مغرب ہوتا تھا، پھر ہر دوشنبہ کو بعد مغرب ہونے لگا۔
لکھنؤ کے مرکز تبلیغ میں بھی مولانا سجاد نعمانی کے لمبے سفرِ تبلیغ کے دوران رمضان وشوال ۱۴۰۳ھ مطابق۱۹۸۳ء میں چند ہفتے پابندی سے درس دینے کا موقع ملا۔ پھر جنوری ۱۹۸۴ء سے نشاط گنج بالدہ روڈ کی جامع مسجد میں وہاں کے حضرات کے اصرار پر پندرہ روزہ درس قرآن شروع کیا، لیکن اپنی شدید مصروفیات کی بنا پر بعد میں اسے دوسرے ساتھیوں کے حوالہ کردیا۔
میرا ہفتہ واری درسِ قرآن۔ حسن اتفاق ہی کہیے کہ۔ نزولِ قرآنی کی مدت ۲۳؍ سال میں پورا ہوا۔ ہر ہفتہ ایک رکوع دور کوع کا درس مغرب سے عشاء تک ہوتا تھا جس کے ٹیپ کرنے کا بھی اہتمام تھا۔ اس کے ساڑھے تین سو، چار سو کیسٹ تیار ہوگئے تھے۔ غالباً ۱۴۲۷ھ مطابق ۲۰۰۶ ء میں یہ درس مکمل ہوا اور اس موقع پر ایک بڑا اجلاسِ قرآنی منعقد کیا گیا۔
اسی دوران اپنے محلہ کی مسجدمیں، میں نے فجر کی نماز کے بعد مختصر درسِ قرآن کا سلسلہ شروع کیا جو ۱۵؍ سے ۲۰؍ منٹ تک ہوتا تھا جس میں، میں ایک رکوع کی تلاوت کرتا تھااور پھر آیات کا رواں ترجمہ کرتا تھا۔ پھر مختصر سی تفسیر ۔مصلیان مسجد کی رعایت کے ساتھ۔ بیان کرتا تھا۔ الحمد للہ اس یومیہ درس کے ریکارڈ کا بھی اہتمام کیا گیا۔ فجر بعداس مجلس میں الحمد للہ دو مرتبہ پورے قرآن پاک کی تفسیر کا موقع ملا۔
ان دروس کے دوران میں نے مولانا مودودی کی تفہیم القرآن سے بھی بہت استفادہ کیا۔ تفسیر ماجدی اور مولانا مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندیؒ کی معارف القرآن بھی زیر نظر رہتی تھی، لیکن یہ احساس ہوتا تھا کہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے لیے تفہیم القرآن زیادہ مفید ہے۔ میں نے مولانا مودودی کے ترجمۂ قرآن میں کہیں کہیں عربیت کے صاف اور بلند ذوق کی کمی دیکھی۔ چاہتا تھا کہ ان مقامات کی نشاندہی کردوں لیکن نوبت نہ آسکی۔
قرآن پاک کی تحریک شروع کرنے سے قرآن اور موضوعات قرآنی، میری تقریروں کا عنوان اور موضوع بنتے گئے۔ میں نے اپنے نانا حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کو اپنی تقاریر قرآنی آیات سے شروع کرتے دیکھا تھا۔ قاری کی تلاوت سے مولانا کسی آیت کا انتخاب فرمالیتے تھے، اور اسے ہی تقریر کا عنوان بنالیتے تھے۔ میں نے اسی طرز کو اختیار کیا اور بسااوقات جلسوں میں خطاب سے پہلے کوئی موضوع ذہن میں نہ ہوتا اور کبھی کبھی حمد وثناء وصلاۃ وسلام کے تمہیدی الفاظ ادا کرتے کرتے کوئی آیت کریمہ ذہن میں آتی اور اسی کو موضوع بناکر جلسہ کی مناسبت سے مربوط کرتا۔ اس سلسلہ میں قرآن پاک کی فیاضی، دادرسی اور حکمتوں کے خزانے خوب خوب سامنے آتے رہے۔
مجھے قرآن پاک کے معجزانہ پہلو سے ہمیشہ دلچسپی رہی اور اس سلسلہ میں مصطفی صادق الرافعی کی’’اعجاز القرآن‘‘، علامہ رشید رضا مصری کی ’’الوحی المحمدی‘‘، اور سیدقطب اور محمد قطب کے مضامین کے علاوہ قرآن کے سائنسی اعجاز کے لیے علامہ جوہری طنطاوی کی تفسیر پر بھی نگاہ ڈالی، اوراپنے محترم ومرحوم دوست ۔جن سے عمر کے بڑے فرق کے باوجود تعلق محبانہ اور دوستانہ تھا۔ مولانا شہاب الدین ندویؒ کی ’’چاند کی تسخیر‘‘ سے لے کر تقریباً تمام کتابیں پڑھیں۔ پھر رابطہ عالم اسلامی کے شعبہ ’’الإعجاز العلمی فی القرآن‘‘ کے صدر شیخ عبد المجید زندانی کی ’’إنہ الحق‘‘ اور بعض دیگر کتابیں نظر سے گذریں،اور ان سے متعدد ملاقاتوں میں بھی ان کی تحقیقات سننے کا موقع ملا۔ ہارون یحییٰ کی سی ڈیز دیکھنے اوران کی بعض کتابوں کے مطالعہ سے بھی بہت سے گوشے سامنے آئے۔ قرآن اور سائنس کے موضوع پر موریس بوکائی کی کتاب ’’بائیل قرآن اور سائنس‘‘ بھی غور سے پڑھی۔ اس موضوع پر متعدد متخصص شخصیات کے بیانات سنے جن میں ڈاکٹر زغلول نجار مصری معروف ہیں اور یہ بات کھل کرسامنے آئی کہ آج کے دور میں قرآن کے معجزانہ پہلوؤں میں سب سے زیادہ موثر پہلو، قرآن کے سائنسی اعجاز کا ہے۔ قرآن کے بلاغی، بیانی، لغوی اعجاز کے سمجھنے والے، افسوس ہے کہ مدارس میں بھی برائے نام ہی ہوں گے، لیکن قرآن کے سائنسی اعجاز کا دل ودماغ پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ قرآنی علوم سے متعلق ارض القرآن۔ اعلام قرآنی۔ حیوانات قرآنی۔ اور علوم القرآن کی تمام متداول کتابیں الحمد للہ نظر سے گذریں۔
اسی دوران حضرت مولانا علی میاںؒ کے ۱۹۵۰ء کے قرآنی لکچرز جو انہوں نے دار العلوم ندوۃ العلماء میں بحیثیت استاد تفسیر دیے تھے اور مولاناؒ کے پاس اس کی اصل بھی محفوظ نہیں رہی تھی، والد مرحوم حضرت مولانا سید محمد طاہر صاحبؒ کے محفوظ کاغذات میں ملے۔ انہوں نے مولانا سے وہ لکچرز سنے تھے اور نوٹ کیے تھے۔ میں نے حضرت مولاناؒ کے سامنے انہیں پیش کیا۔ مولانا باغ باغ ہوئے اور پھر ’’مطالعہ قرآن کے اصول ومبادی‘‘ کے عنوان سے نظرثانی اور اضافوں کے بعد اسے شائع کیا۔ پھر حضرت مولاناؒ کی متعدد اردو اور عربی کتابوں کے عربی اور اردو تراجم کی طرح مجھے اس کتاب کو عربی میں منتقل کرنے کی توفیق ملی، اور ’’المدخل إلی الدراسات القرآنیۃ‘‘ کے عنوان سے حضرت والا ؒ نے اپنے مقدمہ کے ساتھ اسے شائع فرمایا۔
اس سیاحتِ قرآنی، تذکیر بالقرآن، جہاد بالقرآن اور تحریکِ قرآنی کی مصروفیتوں کے درمیان متعدد احباب نے ’’اپنا رواں ترجمہ‘‘ پیش کرنے کامجھ سے مطالبہ کیا۔ گذشتہ سالوں میں، میں نے کام شروع بھی کیا، لیکن ایک پارہ سے کام آگے نہ بڑھ سکا۔
ادھر ایک عرصہ سے صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ سال بھر تدریس اور دعوتی مصروفیات کے دوران صرف ہلکے پھلکے مضامین یارسالوں کی نوبت ہی آتی ہے۔ ہاں رمضان المبارک میں سکون سے وقت ملتا ہے۔ چند سالوں سے جامعہ سید احمد شہید میں ماہِ رمضان المبارک گذارنے اور آخری عشرہ کے اعتکاف سے جو یکسوئی نصیب ہوئی، اس میں مسلسل تین سال کے ماہِ رمضان المبارک میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی کتاب ’’مصفی شرح موطأ‘‘ کے عربی ترجمہ میں مشغول رہا۔ عہدولی اللہی سے ملت اسلامیہ ہندیہ کے علماء پریہ قرض چلا آرہا تھا اور ایامِ طالب علمی سے میری تمنا اس کے ترجمہ کی تھی۔ شاہ ولی اللہ دہلوی کی شخصیت میرے فکری اور فقہی تانے بانے کا اصل مرجع تھی۔
گذشتہ رمضان المبارک ۱۴۳۳ھ میں، میں الحمد للہ’’ مصفی‘‘ کے ترجمہ سے فارغ ہوا اور جوں جوں رمضان المبارک ۱۴۳۴ھ قریب آتا گیا، ترجمۂ قرآن پاک کی پرانی تمنا، دیرینہ مطالبہ اور دلی جذبہ اور پختہ ارادہ عود کرتا گیا۔ ماہ جون ۲۰۱۳ء کے رمضان کوموسم کے اعتبار سے کسی معتدل مقام پر گذارنے اور اس عظیم کام کے لیے یکسو ہونے کا ارادہ کررہا تھا اور خیال تھا کہ جناب ضیاء اللہ شریف صاحب کی قائم کردہ خانقاہ سید احمد شہید میسور ۔ میں ماہِ رمضان المبارک گذارو ں گا اور ترجمہ کا کام انشاء اللہ ایک ماہ میں مکمل کرلوں گا۔ ہمت کہتی تھی کہ روزانہ ایک پارہ کا ترجمہ انشاء اللہ ہوجائے گا، جبکہ رمضان المبارک میں یہ معمول رہتا ہے کہ روزانہ ظہر بعد درس قرآن ہوتاہے، اور پھرروزانہ تراویح کے بعد تراویح میں پڑھے ہوئے حصہ کی مختصر تفسیر ہوتی ہے۔
میں اسی فکر ورابطہ میں تھا کہ رمضان المبارک سے ۲۰؍۲۵؍ روز پہلے کٹھمنڈو ۔نیپال ۔ سے حافظ محمد حسین ندوی مجھ سے ملنے لکھنؤ آئے۔ کٹھمنڈو میں میرے مشورہ سے انہوں نے برادرم سعید قاضی، مولوی عامر ظفر ندوی اور بعض دیگر احباب کے تعاون کے ساتھ ’’مدرسۃ الحرمین‘‘ ۱۹۹۸ء میں قائم کیا تھا۔ پھر ہمارے اصرار پر اس کے لیے چاروں طرف سے پہاڑوں کے بیچ میں ایک خوبصورت وادی میں اراضی خرید کر مسجد، ہوسٹل، اور درجات کی تعمیر کی تھی۔ میری حاضری مدرسہ کے معاینہ اور مدرسہ کے جلسوں میں شرکت کے لیے متعدد بار ہوچکی تھی۔
میں نے حافظ محمد حسین سے رمضان کسی ٹھنڈے مقام پر گذارنے کی اپنی خواہش کا ذکر کیا۔ انہوں نے شدت سے اصرار کیا کہ آپ مدرسۃ الحرمین ۔ کٹھمنڈو ۔ میں رمضان گذاریں۔ وہاں نیپالی، چینی، تبتی اور پاکستانی احباب دروسِ قرآن اور رمضان کے پروگرام سے مستفید بھی ہوں گے اور آپ اپنا کام سکون سے کرسکیں گے۔ میں نے اس پیشکش پر چند شرائط کے ساتھ سنجیدگی سے غور کرنا شروع کردیا اور حافظ حسین نے نیپال میں اس کا اعلان کردیا اور ضروری انتظامات میں کوئی کسرنہ چھوڑی۔
رمضان المبارک ۱۴۳۴ھ کا چاند ہوا۔ مبارک رات سے ابتداہوئی۔ میں نے رمضان المبارک کے پہلے دن، پہلے روزہ کی صبح ۹؍بجے، دو رکعت صلاۃ الحاجۃ اور بارگاہ الٰہی میں مقبول اور پسندیدہ ومفید ترجمہ کی دعاؤں کے ساتھ ۔سورۃ الفاتحہ کے ترجمہ سے’’مقدمۂ قرآن عظیم‘‘ کے عنوان سے ترجمہ کا آغاز کردیا۔ اب روز کا یہی معمول ہوتا۔ ظہر کی اذان تک تقریباً یہ سلسلہ جاری رہتا۔ ظہر بعد مسجد میں درس قرآن ہوتا۔ تراویح کے بعد حسب معمول جتنا حصہ پڑھا جاتا،اس کا مختصر بیان ہوتا اور کبھی تراویح کے بعد احباب کی مجلس کے اختتام پر پھر ترجمہ کی مشغولیت رہتی۔ آخر آخر میں عصر کے بعد مسجد میں کتاب خوانی ودعا کے بعد اپنی قیام گاہ پرمیں پھر ترجمہ میں مشغول ہوجاتا۔
میں نے طے یہ کیا تھا کہ ترجمہ حرفی نہیں ہوگا، معنی خیز ہوگا۔ ضروری وضاحتیں بین القوسین مربوط طریقہ پر ہوتی چلی جائیں گی، تاکہ قاری کو بغیر تفسیر کی حاجت کے، رواں ترجمہ سے ہی مطالب قرآنی سمجھ میں آتے چلے جائیں۔
قرآن کی نزولی ترتیب وقتی ضرورت سے تھی، لیکن حقیقی ازلی اور ابدی ترتیب یہی ہے جو ہمارے سامنے ہے جس کی بنا پر مصحف صدیقی مرتب کیا گیا اور پھر اس کے نسخے مصاحف عثمانی کی شکل میں عالم اسلامی میں پھیلا دیے گئے۔ ظاہر ہے کہ یہ ازلی ترتیب اللہ کی حکمتوں سے لبریز ہے۔ جو عرب اپنی شاعری اور نثاری میں کسی تصنیفی ترتیب سے واقف نہیں تھے اور وہ دور جزیرۃ العرب میں تصنیف وتالیف کا تھابھی نہیں،سورتوں کے ذریعہ مضامین کو اور آیتوں کے ذریعہ مفردات اور جملوں کو پیش کیا گیاتھا۔ زیادہ تر سورتوں کے نام عربی ذوق کے مطابق علامتی رکھے گئے۔ زبان وبیان کے معجزہ سے عرب مبہوت تھے اور ان کے دور کے اسلوب کی اس کلام ربانی میں ایسی نادر اور حیرت انگیز رعایت رکھی گئی تھی کہ وہ فطرت انسانی کو اپیل کرتی تھی، اس لیے وہ نہ ان کے لیے اجنبی تھی، نہ کسی دور میں اجنبی رہی، لیکن ہردور کے انسانوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ’’لتبین للناس‘‘ (تا کہ آپ لوگوں کے لیے کھول کھول کر بیان کردیں) کا فریضہ انجام اسی وقت دیا جاسکتا تھا جب ہردور کی زبان اور اصطلاحات میں اس فطری ترتیب کی ترجمانی ہو۔
حق یہ ہے کہ ترجمہ کا یہ کام، رمضان المبارک کے دنوں میں ، صلاۃ الحاجت کے بعد، روزہ کی حالت میں، ایسا مسرت آگیں، سکینت آمیز، اور بارگاہ الہی میں حاضری اور ہم کلامی ومناجات کی روحانی لذتوں کے کیف اور قرب کے وجدانی اثرات سے معمور تھا کہ ایسا لگتا تھا کہ قلب وذہن پر ایک خاص طراوٹ ہورہی ہے اور قلم کو غیبی سہارا دیا جارہا ہے۔ القاء والہام کا دعویٰ تو بڑوں کی بات ہے، لیکن دل جابجا تایید ایزدی اور توفیق ربانی کی گواہی دیتا تھا۔
انہی کیفیات میں ایک دن پورا قرآن ’’ترجمانی کے عصری قالب میں‘‘ ایسا مرتب ہوتا نظر آیا کہ مقدمہ ،ابواب ، فصلیں، ذیلی عنوانات سب ہی مرتب ہوتے چلے گئے۔ نظم وترتیب قرآنی پر تاریخ تفسیر میں معدودے چند عظیم مفسرین نے روشنی ڈالی ہے، لیکن عوام تو عوام، خواص بلکہ اخص الخواص، طلباء اور مدرسین مدارس کی گرفت میں وہ کم ہی آسکی۔ علامتی ناموں سے سورتوں کے حوالہ اور آیتوں کے نمبرات کے ذریعہ جوباتیں کہی جاتی ہیں، ان کے حوالے اس طرح دیے جاتے ہیں کہ ہر مضمون گویاایک مستقل مضمون ہے۔ میرے لیے بہرحال ایک مربوط ترتیب سامنے آتی چلی گئی اور ایک دو مجلس میں قرآن کی ۱۱۴۔ سورتوں کے پندرہ ابواب اور دسیوں فصلوں کے عنوانات طے پاگئے اور پوری فہرست ابواب اور فصلوں کے ساتھ بحمد اللہ مرتب ہوگئی۔ یہ میرے لیے سب سے بڑی دریافت اور سب سے بڑی معنوی فتح تھی۔
قریبی عرصہ میں مولانا تقی عثمانی کا ’’آسان ترجمۂ قرآن‘‘ ضروری تشریحات کے ساتھ تین جلدوں میں چھپ کر آیا ہے۔ انہوں نے رمضان المبارک ۱۹۲۹ء مطابق ستمبر ۲۰۰۸ء میں اس کو مکمل کیا۔ دوسرا ’’آسان ترجمہ وتشریح قرآن مجید‘‘ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کے قلم سے رمضان ۱۴۱۹ھ سے درمیان کے لمبے وقفوں کی وجہ سے ربیع الاول ۱۴۳۲ھ مطابق فروی ۲۰۱۱ء میں سورۂ اعراف تک ایک جلد میں شائع ہوا۔ دوسری، تیسری جلد کا انتظار ہے۔ میرا احساس ہے کہ ان دونوں ترجموں سے یہ ترجمہ زیادہ آسان، سہل اور رواں ہے۔ پھر کیونکہ میں نے تفسیر نہیں لکھی، ترجمہ میں ہی ضروری توضیحات مربوط طور پر کر دی ہیں کہ تسلسل کے ساتھ قاری پڑھتا چلاجائے اور اسے بار بار نمبرات دیکھ دیکھ کر نیچے حاشیے نہ دیکھنے پڑیں، اس لیے مجھے امید ہے کہ اس ترجمہ بلکہ ترجمانی سے مستفید ہونے والے قاری کو جس کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے، مزید تشریحات کے بغیر مطالب قرآنی سمجھ میں آتے چلے جائیں گے۔
غزالی اور ابنِ رشد کا قضیہ ۔ اصل عربی متون کی روشنی میں (۱)
مولانا محمد عبد اللہ شارق
(نوٹ: بعض عربی عبارات کا ترجمہ نہیں کیا گیا، کیونکہ عربی عبارت نقل کرنے سے قبل ہی ان کا مفہوم، اپنے الفاظ میں بیان کر دیا گیا ہے۔)
غزالی نے اپنے دور میں خود کو مسلم کہنے والے بعض فلسفیوں کی کچھ آراء پر سخت علمی تنقید کی جو ان کی کتاب ’’تہافت الفلاسفۃ‘‘ کی صورت میں آج تک موجود ہے، جبکہ ایک مشہور فلسفی ’’ابنِ رشد‘‘ نے ’’تہافت التہافت‘‘ کے نام سے اس نقد کا جواب لکھا۔ غزالی اور ابنِ رشد کی اس آویزش کو غزالی اور ابنِ رشد کا قضیہ کہا جاتا ہے۔ زیرِ نظر مضمون میں اس علمی آویزش اور بحث کے تمام پہلوؤں کو زیرِ بحث لانا مقصود نہیں، نہ یہ مفید ہے اور نہ ہی آج کے جدید ذہن کے لئے یہ سب پہلو قابلِ فہم ہوں گے۔ موجودہ دور میں بہت سے لوگ غزالی کے مقابلہ میں ابنِ رشد کو اپنا راہ نما قرار دیتے ہیں اور قرائن یہ بتاتے ہیں کہ ان کی اکثریت نے غزالی اور ابن رشد کے عربی متون کو تو درکنار، ان کے تراجم کو بھی نہیں پڑھا۔ کہیں کسی تحقیقی مجلہ میں اس موضوع پر دو، ایک مقالے پڑھ کر وہ اس معاملہ میں ثالثی کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ ہمارے قومی اخبارات کے بہت سے کالم نگاروں کا یہ پسندیدہ موضوع ہے اور وہ وقفہ وقفہ سے اِس موضوع پر رائے زنی کرتے ہوئے غزالی کے موقف پر ابن رشد کے موقف کو ترجیح دیتے رہتے ہیں۔ غزالی کے حوالہ سے یہ حضرات کچھ سنگین قسم کی غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگر عالمِ اسلام‘ غزالی کی بجائے ابنِ رشد کو اپنا راہ نما بناتا تو آج ذلت کے یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ ان کا خیال ہے کہ ابن رشد سائنس اور اسلام کے درمیان ہم آہنگی کا قائل تھا، جبکہ غزالی سائنس کے مخالف ومنکر تھے اور گیارہویں صدی عیسوی میں مسلمانوں کے درمیان آنے والا سائنسی وفکری انحطاط غزالی کی مخالفت ہی کی وجہ سے پیدا ہوا۔ زیرِ نظر مضمون میں دراصل انہی ’’مغالطوں‘‘ کا ازالہ مقصود ہے۔ ان حضرات پر میری تنقید غزالی سے اندھی عقیدت کا نتیجہ نہیں، بلکہ یہ سوچی سمجھی رائے ہے جو غزالی اور ابن رشد کے اصل عربی متون کو براہِ راست پڑھنے کے بعد میرے اندر پیدا ہوئی ہے۔
امام غزالی رحمہ اللہ کا موقف
غزالی نے فلسفیوں پر کوئی ایسا جبر نہیں کیا کہ وہ فلسفہ نہ پڑھیں یا سائنسی تحقیقات کرنا چھوڑ دیں اور نہ ہی کبھی انہوں نے یہ کہا کہ اسلام اور سائنس ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ غزالی کے پیروکاروں نے ایسے فلسفیوں اور سائنس دانوں پر کبھی تنقید نہیں کی جنہوں نے خود کو سائنسی تجربات اور ریاضی وطب جیسے مفید، کارآمد اور اوریجنل سائنسی علوم تک محدود رکھا۔ چنانچہ ہمارے علم کے مطابق الخوارزمی (الجبرا کے بانی)، ابن الہیثم (ماہرِ طب)، حکیم یحییٰ بن ابی منصور، ابو ریحان البیرونی (ماہرین جیومٹری)، مسلم بن فراس (پہلا ہوا باز)، عباس بن سعید جوہری اور سند بن علی (آلاتِ رصد بنانے کے ماہر)، بنو موسیٰ بن شاکر (گھڑی جیسے متحرک آلات بنانے کے ماہر)، محمد بن زکریا رازی (ماہر کیمیا)، حکیم ابو محمد العدلی القائنی، ابو سہل ویجن بن رستم کوہی اور حکیم ابو الوفاء بوزجانی (ماہرین ریاضی) جیسے لوگوں کو کبھی بھی کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلم حکماء اور سائنس دانوں میں اکثر لوگ ایسے ہی تھے جنہوں نے خالصتاً ریاضی وطب جیسے حقیقی اور تجرباتی علوم تک اپنے آپ کو محدود رکھا اور اس میدان میں خدمات انجام دیں، لیکن ان کی زیادہ شہرت نہیں۔
مولانا عبدالسلام ندوی کے بقول’’ صرف مامون الرشید کے زمانہ تک مسلمانوں میں متعدد ریاضی دان پیدا ہوئے اور مشہور ہوئے، مگر فلسفی صرف کندی پیدا ہوا۔ ‘‘ (حکمائے اسلام۔ جلد۱، صفحہ۱۰۵)لیکن ان ریاضی دانوں اور جینوئن سائنس دانوں کے نہ تو آج نام زیادہ معروف ہیں اور نہ ہی تاریخ میں ان کے احوال زیادہ محفوظ ہیں، وجہ وہی کہ ان کی تعداد بہت زیادہ تھی اور یہ لوگ اپنا سا کام کرتے رہتے تھے، متنازعہ امور میں یا مذہب کے معاملہ میں ٹانگ اڑا کر انہوں نے کبھی مشہور ہونے کی کوشش نہیں کی۔ دیکھئے، بنو موسیٰ بن شاکر، حکیم یحییٰ بن منصور ، عباس بن سعید وغیرہ کے نام سے کون واقف ہے؟ صرف الخوارزمی کا نام جانا پہچانا ہے، مگر اس کے حالات بھی آدھے صفحہ سے زیادہ نہیں ملتے۔ ایسے لوگوں کو بھی اگرچہ بعض اوقات فلسفی کہا جاتا ہے کیونکہ اس دور میں ریاضی وطب جیسے علوم بھی فلسفہ کا ایک شعبہ سمجھے جاتے تھے، لیکن فی الجملہ ان کو فلسفی کی بجائے ’’حکیم‘‘ کہا جاتا ہے۔ فلسفی کا لفظ اس کے مقابلہ میں ان لوگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، جنہوں نے خود کو ان جینوئن علوم تک محدود نہیں رکھا، بلکہ مذہبیات اور مابعد الطبیعیات میں ٹانگ اڑا کر اس میں بھی نئی نئی ’’ایجادات‘‘ پیش کرنے کی کوشش کی یا دوسروں کی ’’ایجادات‘‘ کو رد کیا۔ یہی وجہ ہے کہ لطفی جمعہ کی ’’تاریخ فلاسفۃ الاسلام‘‘ میں صرف ایسے ہی لوگوں کا تذکرہ ملتا ہے، جینوئن حکماء اور سائنس دانوں کا نہیں۔
غزالی کی تنقید کا رخ انہی ’’مسلم‘‘ فلسفیوں کی طرف ہے جنہوں نے اپنے متنازعہ ’’کارناموں‘‘ کی وجہ سے شہرت حاصل کی اور ان میں سے بعض نے اپنی الہیات اور مابعد الطبیعیات (Metaphysics)کو اسلام میں داخل کرنے کی سعی کی۔ان فلسفیوں نے اپنے علمِ الہیات میں خداوند تعالی کے بارہ میں یہ عجیب وغریب دعوی کیا کہ وہ اپنی مخلوق کی کلیات کو اور ان پر طاری ہونے والے جزوی حالات کو جانتا ہے یعنی یہ کہ میری مخلوق میں انسان ہے، چرند ہے، پرند ہے،ان میں کس نے کب پیدا ہونا اور کب مرنا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن وہ ان جزئیات میں آنے والے موقع بموقع تغیر سے بے خبر اور غافل ہے، یعنی انسانوں میں اس وقت کتنے انسان موجود ہیں ، کون پیدا ہورہا ہے؟ کون مررہا ہے؟کون سا درخت پھل رہا ہے اور کون سا درخت سوکھ رہا ہے؟ کونسا ہوچکا ہے اور کس نے ہونا ہے؟ اگر کسی کو یہ ’’منطق‘‘ ناقابلِ فہم اور عجیب وغریب محسوس ہوتی ہے تو وہ فلسفیوں کا سر پیٹے، ہمارا نہیں۔ یہ حرف بحرف انہی کا عقیدہ ہے۔ فلسفہ کے مشور و متداول متن ’’ہدایۃ الحکمۃ‘ ‘ کے مصنف اثیر الدین ابہری کے الفاظ ہیں: ’’الواجب لذاتہ عالم بالجزئیات المتغیرۃ علی وجہ کلی۔۔۔ لکن لا یدرکہا مع تغیرہا‘‘ (ہدایۃ الحکمۃ۔ صفحہ۷۲) اہل سنت کے ہاں مشہور یہ رہا ہے کہ فلسفی سرے سے یہ ہی نہیں مانتے کہ اللہ کی ذات کو جزئیات کا علم حاصل ہے، لیکن یہ بات درست نہیں۔ علامہ شبلی نے بھی یہ وضاحت کی ہے۔ (علم الکلام۔ جلد اول،صفحہ۱۲۹) صحیح بات یہی ہے کہ وہ اسے مانتے بھی ہیں اور نہیں بھی، یعنی مانتے ہیں لیکن اپنی عجیب وغریب منطق کے ساتھ۔ تہافت التہافت کے محقق ڈاکٹر سلیمان دنیا نے بوعلی کی سینا کی تصنیف ’’الشفاء‘‘ سے عبارت نقل کرکے دعوی کیا ہے کہ وہ باری تعالیٰ کے بارہ میں جزئیات سے بالکل ناواقف ہونے کا قائل تھا۔ (تہافت التہافت۔ صفحہ۵۸)لیکن میری سمجھ سے یہ بالا تر ہے کیونکہ اس کی محولہ عبارت میں ہی الفاظ یہ ہیں: ’’لایجوز ان یکون عاقلا لہذہ المتغیرات مع تغیرہا من حیث ہی متغیرۃ عقلا زمانیا مشخصا (بل علی نحو آخر نبینہ) ۔۔۔واجب الوجود انما یعقل کل شیء علی نحو کلی۔۔۔‘‘ (تہافت التہافت۔صفحہ۵۰) مزید سنئے، اسی طرح ان فلسفیوں نے یہ دعوی کیا کہ خدا ایک بے دست وپا قسم کی قوت (جسے وہ ’’عقل ‘‘ کہتے ہیں) کا نام ہے جس سے ایک اور قوت نے جنم لیا، اس سے پھر ایک اور قوت نے، یہاں تک کہ یہ سلسلہ دسویں قوت اور ’’عقل‘‘ تک پہنچا۔ اس دسویں عقل اور قوت سے یہ سارا جہان نمودار ہوا۔ اثیر الدین ابہری کے الفاظ ہیں: ’’الصادر من المبدء الاول انما ہو الواحد لانہ بسیط والبسیط لا یصدر عنہ الا الواحد کمامر‘‘ (ہدایۃ الحکمۃ۔ صفحہ۷۵)
یہ باتیں دلیل کی رو سے کتنی بے سروپا اور احمقانہ ہیں، اس بحث میں پڑے بغیر فی الحال صرف یہ دیکھئے کہ ایک آدمی یہ سب باتیں خود کو مسلمان کہتے ہوئے اسلام ہی کے نام پر کرتا ہے تو کیا اسے اس بات کا حق پہنچتا ہے اور اگر کوئی غزالی اس پہ تنقید کرے تو کیا یہ بلاجواز ہے؟ بات بڑی واضح ہے کہ ان ہفوات کو فلسفی بے شک اپنے ’’علم الہیات‘‘ کا جزو بنائیں کیونکہ دین میں جبر نہیں، مگر انہیں اس بات کاکوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ یہ سب باتیں خود کو مسلمان کہتے ہوئے بھی کریں اور یوں مسلمانوں کے لئے تشویش، انتشار اور افتراق کا باعث بنیں۔ طرہ یہ کہ ’’مسلم‘‘ فلسفی اپنی الہیات کو ریاضی اور منطق کی طرح حتمی اور شبہات سے پاک بھی سمجھتے تھے، مگر ان کا دعوی تھا کہ اس کے دلائل کو سمجھنا صرف فلسفیوں کے لیے ممکن ہے۔
غزالی یہ چاہتے ہیں کہ مسلمان فلسفہ اور سائنس کے صرف کارآمد علوم کو اختیار کریں اور مذہب کے دائرہ سے ان کو الگ رکھتے ہوئے ان کی بنیاد پر اسلام کو بدلنے کی کوئی کوشش نہ کریں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے نزدیک حکمت وفلسفہ اور سائنس کے تمام اجزاء قابلِ اعتراض نہیں، بلکہ صرف وہ حصہ جو اسلام کی تعلیمات سے صریحاً متصادم ہے ۔غزالی کے اپنے الفاظ ہیں:
’’ہذا الفن ونظائرہ ہو الذی ینبغی ان یظہر فساد مذہبہم فیہ دون ما عداہ‘‘ (تہافت الفلاسفۃ۔صفحہ۸۱)
یعنی ’’فن الہیات اور اس کی امثال ہی فلسفہ کا وہ شعبہ ہیں جہاں ان کے مذہب کی تردید مقصود ہے،فلسفہ کے کسی اور فن یا شعبہ (ریاضی، طب، منطق، سوشل سائنسز وغیرہ) پر تنقید کرنا ہمیں مطلوب نہیں۔‘‘
اس سے بھی زیادہ واضح الفاظ دیکھیں:
’’علومہم اربعۃ اقسام: الریاضیات والالہیات والمنطقیات والطبیعیات، اما الریاضیات۔۔۔ فلا غرض لنا فی الاشتغال بایرادہ، واما الالہیات فاکثر عقائدہم فیہا علی خلاف الحق والصواب نادر فیہا، واما المنطقیات ۔۔۔ فیخالفون اہل الحق فیہا بالاصطلاحات والایرادات دون المعانی والمقاصد اذ غرضہا تہذیب طرق الاستدلالات، واما الطبیعیات فالحق فیہا مشوب بالباطل‘‘ (مقاصد الفلاسفہ صفحہ۱۰،۱۱)
یعنی ’’فلسفیوں کے نظریاتی علوم کے چار بنیادی شعبے ہیں، ایک تو ریاضی ہے جس کو موضوعِ بحث بنانا مطلوب نہیں، دوسرا الہیات ہے ، اس میں ان کے اکثر عقائد راہِ راست سے ہٹے ہوئے ہیں، تیسرا منطق ہے جس میں اہلِ حق کے ساتھ ان کا اختلاف صرف اصطلاح میں ہے، اصل مفاہیم میں نہیں ، چوتھا طبیعیات ہے جس میں الٹی سیدھی، دونوں طرح کی باتیں پائی جاتی ہیں۔‘‘
تہافت التہافت کی فہرست پر ایک نظر ڈال کر بھی یہ بات بآسانی معلوم کی جاسکتی ہے کہ غزالی کی گفتگو کا محور یا تو الٰہیات کے ان مسائل کی نشان دہی ہے جو دین کی تعلیمات سے صریحاً متصادم ہیں، یا پھر وہ فلسفیوں کے اس زعم کو رد کرنا چاہتے ہیں کہ ان کی الہیات ریاضی اور منطق کی طرح شک وشبہ سے پاک ہے۔اپنی کتاب میں ان کے صرف یہی دو اہداف ہیں۔ دوسروں کی بنائی ہوئی فہرستوں کو بھی چھوڑ دیجئے، وہ خود ’’تہافت الفلاسفۃ‘‘ کے مقدمہ میں ایک عنوان قائم کرتے ہیں:
’’فہرست المسائل التی اظہرنا تناقض مذہبہم فیہا فی ہذا الکتاب‘‘ (صفحہ۸۶)
یعنی ’’ان مسائل کی فہرست جن کے اندر فلسفیوں فلسفیوں کے مذہب کے ضعف کو ہم نے اس کتاب میں بیان کیا ہے۔‘‘
اس کے بعد انہوں نے خودبیس مسائل کی فہرست دی ہے۔ ان مسائل پہ ایک سرسری نظر بھی ڈال لی جائے تو اندازاہ ہوجائے گا کہ ان کے اہداف صرف یہی دو ہیں۔ وہ الٰہیات کے ان مسائل کی نشان دہی کرتے ہیں جو دین کی تعلیمات سے صریحاً متصادم ہیں یا پھر وہ فلسفیوں کے اس زعم کو رد کرتے ہیں کہ ان کی الٰہیات ریاضی اور منطق کی طرح شک وشبہ سے پاک ہے۔
اب خود بتائیے کہ کیا غزالی سائنس کے منکر ہیں؟ اسلام کی حقانیت دو اور دو ، چار کی طرح واضح ہے کیونکہ اللہ کا وجود اس کائنات کا سب سے بدیہی سچ ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت وراست گوئی کو آج کے غیر متعصب ’’نان مسلم‘‘ بھی تسلیم کرتے ہیں۔ اس کے بعد اسلام کے اثبات کے لئے کسی فلسفیانہ دلیل کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی فلسفیانہ دلیل کی بنا پر ایسے بدیہی سچ پہ تنقید روا ہے۔ کجا یہ کہ اسلام پہ یہ تنقید خود کو مسلمان کہتے ہوئے (یعنی اسلام کے نام پر) ہی کی جائے۔
ان واضح تصریحات کے بعد کسی کے لئے یہ کہنے کی گنجائش نہ تھی کہ غزالی سائنس کے منکرہیں یا مذہب اور سائنس کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے خلاف ہیں۔ لیکن پروپیگنڈے کاتو کام ہی یہی ہے کہ حقائق کو تروڑا مروڑا جائے۔ بہتر ہوگا کہ یہاں پر ڈاکٹر سلیمان دنیا کی رائے بھی نقل کردی جائے۔ ڈاکٹر سلیمان دنیاجامعۃ الازہر، مصر میں فلسفہ کے استاد اور المرکز الثقافی الاسلامی، نیویارک کے مدیر رہے۔ وہ امام غزالی کی ’’تہافت الفلاسفۃ‘‘اور ابن رشد کی ’’تہافت التہافت‘‘ دونوں کے بیک وقت محقق، حاشیہ نگار اور مقدمہ نگار ہیں۔ انہوں نے دونوں کتابوں کے حرف حرف کو پڑھا، سمجھا، ان پہ اپنے وقیع علمی حواشی تحریر کیے، موقع بموقع غزالی اور ابن رشد دونوں پہ بے لاگ نقد کیا، دونوں کتابوں کے شروع میں گراں قدر تحقیقی مقدمے تحریر کیے اور مختلف قلمی نسخوں کو سامنے رکھتے ہوئے الفاظ کے معمولی اختلاف تک کو بھی جابجا واضح کیا۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ غزالی اور ابن رشد کے قضیہ کے بارہ میں ان کی رائے کسی بھی دوسرے آدمی کے مقابلہ میں کس پائے کی ہوگی؟غزالی کے بارہ میں وہ لکھتے ہیں:
’’غفل قوم عن ذالک فی القدیم والحدیث، وظنوا ان الغزالی یحمل علی التفکیر العقلی جملۃ ویکرہہ ویحاربہ ویریدہ ان لایکون، ومن ہنا قالوا ما قالوا من ان الغزالی قد ضرب الفلسفۃ ۔یعنون کلہا۔ ضربۃ لم تقم لہا بعد الشرق قائمۃ، ومن الغریب انہ حتی فی عصرنا ہذا ، بعد ما تیسر طبع کثیر من الکتب وتیسر تبعا لذالک الاطلاع علی کثیر من کتب الغزالی، مایزال بعض المنتسبین الی العلم والواضعین انفسہم بین اہلہ فی مقام الصدارۃ یجہلون ہذہ الحقیقۃ‘‘ (تہافت التہافت بہ تحقیق سلیمان دنیا۔ صفحہ۱۶)
’’قدیم اور جدید، دونوں ادوار میں لوگوں کے ایک گروہ کا یہ خیال رہا ہے کہ غزالی پوری عقلی وفکری روایت پر حملہ آور ہیں، فکری کاوشوں کو ناپسند کرتے ہیں، ان کے خلاف بر سرِ پیکار ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس پوری روایت کا خاتمہ ہو۔ اسی بناء پر ان لوگوں نے غزالی کے بارہ میں وہ سب کہا جو ان کے منہ میں آیا۔ ان لوگوں کے مطابق غزالی نے پورے فلسفہ اور سائنس کی ایسی بیخ کنی کی ہے کہ اس کے بعد وہ مشرق میں پیروں پہ کھڑا نہیں ہوسکا۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ہمارے زمانہ میں جبکہ کتابیں آسانی سے دستیاب ہیں اور غزالی کی کتابوں سے مراجعت کرنا کوئی مشکل کام نہیں رہا، اب بھی خود کو علم سے منسوب کرنے والے اور اہلِ علم میں خود کو صدر نشینی کا اہل سمجھنے والے لوگ اس حقیقت سے جاہل ہیں۔‘‘
ڈاکٹر سلیمان دنیا کا تعجب بجا، مگر مسئلہ یہ ہے کہ روشن خیال اپنی روشن خیالی کو مصدقہ کروانے کے چکر میں ہر وہ کام کرتے ہیں جس میں انہیں کوئی حرج محسوس نہیں ہوتا۔ غزالی کو پڑھے بغیر ، غزالی کی طرف غلط موقف منسوب کرنا اور پھر ان پہ نقد کرنا بھی شاید اسی غرض سے ہے ۔ خالص عربی زبان میں بپا ہونے والے اس قضیہ کے بارہ میں بھی ان حضرات کا خیال ہے کہ عربی متون کے حوالے ثانوی درجہ رکھتے ہیں اور انگریزی مقالات کے حوالے ان سے زیادہ معتبر ہیں۔
ْ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ فلسفیوں کے علمِ الہیات پر تنقید کرنے میں غزالی تنہا نہیں، فخر الدین رازی اور ابنِ تیمیہ جیسے کئی علماء نے بھی ان پر سخت تنقید کی ہے۔ یہ سب حضرات (فقہی مسائل میں مختلف الخیال ہونے کے باوجود) فلسفیوں پر تنقید کرنے میں یک زبان ہیں۔ اور تو اور، خود ’’سلسلہ فلسفیہ‘‘ میں ایک بڑا نام ابو البرکات بغدادی کا آتا ہے۔ یہ مذہبا یہودی تھا اور بعد میں اس نے اسلام قبول کیا۔ اس نے بھی خود اپنی کتاب ’’المعتبر‘‘ میں فلسفیوں کی الہیات پر شدید اور بھر پور تنقید کی ہے۔ بعض حضرات کے بقول، بعد میں رازی اور ابنِ تیمیہ کی فلسفہ پر تنقید اکثرو بیشتر اسی ’’المعتبر‘‘ سے ماخوذ ہوتی ہے جو سلسلہ فلسفیہ کے ہی ایک عظیم رکن کی تصنیف ہے۔(حکمائے اسلام۔ جلد۱، صفحہ۴۵۰، ۴۵۱)
علامہ اقبال کے درجِ ذیل مشہورِ زمانہ شعر سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بھی فلسفہ کے ناروا پہلوؤں پر غزالی کی تنقید کو درست اور قابلِ رشک سمجھتے تھے۔
رسمِ اذاں رہ گئی ، روحِ بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا ، تلقینِ غزالی نہ رہی
ابن رشد کی تنقید
ابن رشد نے اگر چہ غزالی کی ’’تہافت الفلاسفۃ‘‘ پر تنقید لکھی ہے، مگر جنہوں نے دونوں کو پڑھا ہے، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ابن رشد اپنی تمام تر تنقید کے باوصف غزالی کی کتاب کا قد کاٹھ گھٹا نہیں سکے۔ابنِ رشد کا مقصد ’’تہافت التہافت‘‘ میں کیا ہے اور وہ ثابت کیا کرنا چاہتے ہیں؟ یہ بات اگر میں ابن رشد کے حامیوں سے پوچھوں تو مجھے یقین ہے کہ بغلیں جھانکنے کے سوا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا یا پھر ان میں سے جو لوگ ذرا زبان آور ہیں، وہ اندھیرے میں تیر چلاتے ہوئے کوئی نہ کوئی بات بنا لیں گے۔ اس قضیہ سے ان لوگوں کی واقفیت کا عالم تو یہ ہے کہ یہ غزالی کو سائنس ومذہب کی ہم آہنگی کے خلاف سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ لوگ نہیں جانتے کہ خود ابن رشد نے بھی ’’تہافت التہافت‘‘ میں کہیں غزالی پرکم از کم یہ الزام عائد نہیں کیا۔ غزالی کے مقابلہ میں ابن رشد کو راہ نما بنانے کے شوقین جانتے ہی نہیں کہ ابن رشد نے خود لکھا کیا ہے اور غزالی نے ایسا کیا لکھا تھا جس سے ابن رشد نے اختلاف کیا ہے۔
(۱)
غزالی کا مقصود(جیساکہ گذشتہ عنوان کے تحت بھی تفصیل سے بیان ہوچکا ہے) ایک تو فلاسفہ کی الٰہیات کے ان مسائل کی نشان دہی ہے جو دین کی تعلیمات سے صریحا متصادم ہیں۔ ان میں سے دو مثالوں کا ذکر ہم بھی گذشتہ سطور میں کرچکے ہیں:
ا۔ مخلوق کے جزئی احوال سے نا واقفیت والی بات۔
۲۔ یہ سارا جہان اللہ نے پیدا نہیں کیا۔ وہ ایک قوت ہے جسے وہ ’’عقل‘‘ کا نام دیتے ہیں، اس سے ایک قوت اور عقل نے جنم لیا، اس سے ایک اور عقل نے، یہاں تک کہ یہ سلسلہ دسویں عقل تک پہنچا اور اسی سے یہ سارا جہان نمودار ہوا۔
باقی مسائل جو غزالی نے فلاسفہ کی الہیات کی طرف منسوب کئے ہیں، ان سے ہم صرفِ نظر کرتے ہیں، صرف انہی دو مثالوں پر اکتفا کیجیے۔ ابن رشد کے ’’دیسی پیروؤں‘‘ کا خیال ہوگا کہ شاید ابن رشد نے فلاسفہ کی طرف ان مسائل کی نسبت کو غلط ثابت کیا ہوگا اور اس نسبت سے انکار کیا ہوگا، حالانکہ فی الواقع ایسا نہیں۔ پہلا مسئلہ ابن سینا کی تصانیف ’’الاشارات‘‘ اور ’’الشفاء‘‘میں موجود ہے اور ابنِ رشد نے بھی ابن سینا سے اس کی نسبت کو قطع نہیں کیا۔ ڈاکٹر سلیمان دنیا نے ’’الشفاء‘‘ کی طویل عبارت حرف بحرف نقل کی ہے۔ (تہافت التہافت۔ صفحہ۵۸)جبکہ دوسرے مسئلہ کی نسبت کو ابن رشد نے فلاسفہ سے قطع ضرور کیا ہے مگر یونانی فلاسفہ سے، بوعلی سینا اور اس کے ہم نواؤں سے نہیں، انہیں وہ الٹا دوہرا مجرم نام زد کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے خانہ ساز اس عقیدہ کی نسبت غلط طور پر یونانیوں کی طرف کی ہے۔ (تہافت التہافت۔ صفحہ۳۰۹، ۳۰۱) اور غزالی کا مقدمہ خود غزالی ہی کے بقول بوعلی سینا اور اس کے ہم نواؤں کے خلاف ہے۔ (تہافت الفلاسفۃ، صفحہ۷۶، ۷۸۔غزالی کی اصل عبارت بھی آگے ہم نقل کردیں گے۔) سبحان اللہ! اب خود بتائیے کہ اس سے زیادہ سے زیادہ یونانی فلسفیوں کی جان تو چھوٹ گئی کہ ابنِ رشد کے بقول ان کی طرف اس مسئلہ اور عقیدہ کی نسبت درست نہیں، لیکن کیا اس کے ساتھ ہی ساتھ بوعلی سینا وغیرہ کے خلاف غزالی کی ’’چارج شیٹ‘‘ زیادہ مضبوط نہیں ہوگئی (جن کی تردید کرنا غزالی کو مطلوب تھا)؟ کیونکہ ابنِ رشد ہی کے دعوی کے مطابق اس مسئلہ میں بوعلی سینا وغیرہ ناقل نہیں، بلکہ خود ان کے موجد ہیں۔
بوعلی سینا وغیرہ نے اپنی تصانیف میں کئی ایسے مسائل نقل کئے ہیں، جن کے بارہ میں ابنِ رشد کہتا ہے کہ بوعلی سینا نے یونانی فلاسفہ کی طرف ان کی نسبت غلط طور پر کی ہے اور درحقیقت یہ اس کے اپنے ذاتی افکار ہیں۔مثلا دیکھئے: تہافت التہافت، صفحہ۸۹، ۱۲۱۔ ایسے مسائل کی ایک فہرست علامہ شبلی نے ’’علم الکلام‘‘ میں ترتیب بھی دی ہے۔ (علم الکلام۔ جلد۱، صفحہ۱۲۴)انہی میں سے وہ دوسرا مسئلہ بھی ہے جو ہم نے ابھی ذکر کیا ہے۔
(۲)
جیساکہ ہم نے عرض کیا،غزالی کا مقصود ایک تو ’’الہیات‘‘ کے ان مسائل کی نشان دہی ہے جو دین کی تعلیمات سے صریحا متصادم ہیں۔دوسرا جب وہ فلسفہ کے الہیاتی مسائل پر تنقید کرتے ہیں اور فلسفیوں کے دلائل کے مقابلہ میں مخالف عقلی والزامی دلائل پیش کرتے ہیں تو ان کا مقصود فقط یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ فلاسفہ کی الہیات ریاضی اور منطق کے اصولوں کی طرح قطعی نہیں اور اس میں دلیل کے اعتبار سے اشتباہ اور اختلاف کی گنجائش موجود ہے۔ ان کے الفاظ ہیں:
’’یستدلون علی صدق علومہم الالہیۃ بظہور العلوم الحسابیۃ والمنطقیۃ ویستدرجون بہ ضعفاء العقول ولوکانت علومہم الالہیۃ متقنۃ البراہین نقیۃ عن التخمین کعلومہم الحسابیۃ لما اختلفوا فیہا کما لم یختلفوا فی الحسابیۃ‘‘ (تہافت الفلاسفۃ۔ صفحہ ۷۶،۷۷)
یعنی ’’ارسطو کے سحر میں مبتلا ’’مسلم‘‘ فلسفی علم الہیات کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے یہ حیلہ سازی کرتے ہیں کہ جس طرح یونانی فلاسفہ کے وضع کردہ علمِ ریاضی اور علمِ منطق شک وشبہ سے پاک ہیں، اسی طرح ان کا وضع کردہ علم الہیات بھی قطعی اور حتمی ہے، یوں وہ کم عقلوں کو اپنی الہیات سے مرعوب کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ اگر ان کا علمِ الہیات علومِ حسابیہ کی طرح مدلل اور شبہات سے پاک ہوتا تو کم ازکم ان کے پیش رو یونانیوں کا اس میں کوئی اختلاف نہ ہوتا جیساکہ علومِ حسابیہ میں ان کا کوئی اختلاف نہیں ہوتا۔‘‘(جبکہ ان کا اس میں شدید اختلاف منقول ہے اور خود غزالی نے وہ نقل کیا ہے۔)
فلاسفہ کے استدلال کے جواب میں ان کا عقلی اور الزامی استدلال محض یہی بات ثابت کرنے کے لئے ہوتا ہے کہ الہیات کے اندر فلاسفہ کے دلائل اس طرح قطعی نہیں جس طرح کہ ریاضی اور منطق کے مسائل ہیں اور جس طرح کہ ارسطو سے زیادہ ارسطو کے وفادار ’’مسلم‘‘ فلسفی سمجھتے ہیں۔مثال کے طور پر فلسفیوں کا عقیدہ تھا کہ افلاک ذی روح ہیں اور وہ خدا تعالی(جسے وہ ’’عقلِ اول‘‘ کہتے ہیں) کے برعکس مخلوقات کے افعال اور جزئیات میں آنے والے تغیر سے بھی لمحہ بہ لمحہ واقف رہتے ہیں۔ اب اگر کوئی اسے ثابت کرنے کا کہتا تو بتایا جاتا کہ یہ آسان کام نہیں اور اس کے لئے بہت ہی عالی قسم کا دماغ درکار ہے۔ میرا نہیں خیال کہ آج کا کوئی روشن خیال مسلمان بھی فلسفیوں کے اس رویہ کی حمایت کرے یا یہ خیال کرے کہ الہیات کے حوالہ سے ’’مسلم فلسفیو ں‘‘ کی اندھی عقیدت بجا تھی اور غزالی نے جس طرح الہیات کو موضوع بحث بنایا ہے، الہیات کے مسائل کو جس طرح قطعی کی بجائے ظن وتخمین کا مجموعہ بتایا ہے اور ان پر قطعی دلائل کا مطالبہ کیا ہے، یہ ناجائز تھا۔ اگر کوئی ایسا سوچتا ہے تو اسے چاہئے کہ کم از کم ایک دفعہ ضرور فلسفیوں کی الہیات کا مطالعہ کرلے۔
فلسفیوں کا علمِ الہیات حماقتوں کا ایک پلندہ تھا۔ ابنِ خلدون کے بقول، سمجھ نہ آنے کے باوجود لوگ اس سے چمٹے رہتے تھے کیونکہ ان کے خیال میں یہ سمجھ آجائے تو انسان کو ایک خاص قسم کی غیبی قوت حاصل ہوجاتی ہے۔ (مقدمہ ابنِ خلدون۔ صفحہ۵۶۱) چنانچہ عام لوگ تو رہے ایک طرف، ارسطو کے بعد فلسفہ کے تیسرے بڑے استاد بو علی سینا کے بارہ میں منقول ہے کہ اس نے ’’الہیات‘‘ کے موضوع پر فلسفہ کے دوسرے استاد الفارابی کی ’’مابعد الطبیعہ‘‘ نامی ایک کتاب پڑھی، مگر کچھ پلے نہ پڑا۔ جذبہ ایسا قوی تھا کہ یکے بعد دیگرے اسے چالیس دفعہ پڑھ ڈالا، کتاب لفظ بہ لفظ یاد ہوگئی مگر پلے پھر بھی کچھ نہ پڑا۔یہاں تک کہ اس علم سے مایوس ہوگیااور جوش ٹھنڈا پڑ گیا، لیکن دل میں خلش تھی۔ ایک دفعہ پھر کسی موقع پر اسے پڑھا تو محسوس ہوا کہ اب مجھے سمجھ آنے لگی ہے۔ (حکمائے اسلام۔ جلد۱۔ صفحہ۲۹۵) اور یہ کوئی ہوائی بات نہیں۔ ’’مسلم‘‘ فلسفیوں کا علمِ الہیات آج بھی دستیاب ہے، خود اس کے اس کا مطالعہ کرکے اس کی ’’بے سرو سامانی ‘‘ کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ایسے بے سروپا علم کے مسائل کو اگر کوئی فلسفی اپنا عقیدہ بنائے ، خود کو مسلمان کہتے ہوئے بنائے اور اوپر سے یہ دعوی بھی کرے کہ ہمارا علمِ الہیات ریاضی کی طرح شک وشبہ سے پاک ہے، مگر اس کا سمجھنا ہر کس وناکس کے بس کی بات نہیں تو کیا وہ اب بھی قابل تنقید نہیں، قابلِ تعریف ہے؟ غزالی کا قصور یہی ہے کہ انہوں اس رویہ پر تنقید کی ہے۔الہیاتی مسائل کو ثابت کرنے کے لئے فلسفی جو استدلال کرتے ہیں، غزالی نے اس کے برخلاف استدلال کرکے محض یہ بتایا کہ اس کی گنجائش بھی موجود ہے اور الہیات میں فلسفیوں کا استدلال دواور دو، چار کی طرح شک وشبہ سے پاک نہیں، بلکہ وہ محض امکانات ہیں جنہیں ان لوگوں نے عقائد کا درجہ دے رکھاہے۔
اب ’’تہافت الفلاسفۃ‘‘ میں جگہ جگہ بکھری ہوئی غزالی کی اس تنقید کے جواب میں ابن رشد کیا کہتے ہیں؟ یہ بھی سمجھنے کی چیز ہے۔ اس کے جواب میں ابن رشد نے دیگر فلسفیوں کی طرح ایک تو یہی مضحکہ خیز ’’اندازِ استدلال‘‘ اختیار کیا ہے کہ چونکہ ان دلائل کا سمجھنا عالی دماغ ’’خواص‘‘ کا کام ہے اور عوام کے سامنے ان کی حقیقت کو بیان کرنا درست نہیں، لہذا ان دلائل کی حقیقت‘ میں اپنی اس کتاب ’’تہافت التہافت‘‘ میں کھول نہیں سکتاکیونکہ یہ کتاب میں نے عوام کے لئے لکھی ہے اور ان دلائل کا ان کی رسائی سے دور رہنا ضروری ہے۔ مثلاً ایک جگہ وہ لکھتے ہیں:
’’ہذا العلم لاسبیل الی افشاء ہ فی ہذا الموضع‘‘ (صفحہ۹۲)یعنی ’’اس کتاب میں اس علم کو بے نقاب کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔‘‘ ایک اور جگہ لکھتے ہیں: ’’لا یقف علی مذاہبہم فی ہذہ الاشیاء الا من نظر فی کتبہم مع الشروط التی وضعوہا مع فطرۃ فائقۃ ومعلم عارف‘‘ (صفحہ ۱۹۵)
اسی طرح کا نادر اندازِ استدلال صفحہ۱۱۳، ۱۱۷، ۱۲۹، ۱۷۳، ۳۱۱و ۴۱۷ پر بھی نظر آتا ہے۔ ایک جگہ فلاسفہ کے موقف کے علمی اثبات کو مشکل کہہ کر اس سے جان چھڑا لیتے ہیں۔ ان کے الفاظ ہیں: ’’القدیم لایتغیر بضرب من ضروب التغیر، وہذا کلہ عسیر البیان‘‘ (صفحہ۶۵)
ان کے اسی طرزِ استدلال پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر سلیمان دنیا لکھتے ہیں: ’’الاولی بابن رشد اثبات دعواہ، لاالتہرب منہا بدعوی عسر بیانہا، ثم مہاجمۃ دعوی خصمہ‘‘ (تہافت التہافت۔ صفحہ۶۵) یعنی ’’ ابن رشد کو اپنا دعویٰ ثابت کرنا چاہیے تھا، دعویٰ کے اثبات کو مشکل کہہ کر جان چھڑا لینااور پھر مخالف سے جھگڑا بھی کرنا ‘ یہ کوئی طریقہ نہیں۔‘‘ ابن رشد کے مرید بھی ابن رشد کے اس اندازِ استدلال سے بخوبی واقف ہیں اور وہ اس کے اس قول کی کوئی توجیہ نہیں کرپاتے کہ ’’عوام کو علم وحکمت کی باتوں سے دور رکھنا چاہیے۔‘‘ درج ذیل لنک پر ابن رشد کے مریدوں کا اس موضوع پر مکالمہ دیکھا جاسکتا ہے۔
http://www.mukalma.com/?dialogue=11361
دوسرا ابن رشد کو غزالی کے اس اسلوبِ نقد کو سمجھنے میں ہی سرے سے مغالطہ ہوا ہے۔ فلاسفہ کے استدلال کے مقابلہ میں غزالی جو مخالف استدلال کرتے ہیں، وہ اس کی قطعیت کا دعوی نہیں کرتے، اس سے مقصود محض فلسفیوں کے استدلال میں تشکیک کو اجاگر کرنا اور یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ ایسے مسائل میں اشتباہ اور اختلاف کی گنجائش موجود ہے، لہٰذا فلسفیوں کا عوام کو یہ کہہ کر الو بنانا غلط ہے کہ ان کا سمجھنا آسان نہیں، ورنہ یہ بھی ریاضی کی طرح قطعی اور حتمی ہیں۔ مثلاً افلاک کو جان دار ثابت کرنے کے لئے فلسفی ’’اٹکل نما‘‘ جو استدلال کرتے ہیں، غزالی نے اس کے مخالف استدلال کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی کہ افلاک ضرور بے جان ہی ہیں، بلکہ محض یہ بتایا کہ فلسفی اپنے جس تصور کو حتمی اور قطعی سمجھتے ہیں، اس کے لئے کوئی قطعی دلیل موجود نہیں ہے۔ مثلا وہ اپنے مقدمہ میں ہی وضاحت کرتے ہیں:
’’لا ادخل فی الاعتراض علیہم الا دخول مطالب منکر، لا دخول مدع مثبت‘‘ (تہافت التہافت۔ صفحہ۸۲)
یعنی ’’ان پر میرے اعتراض سے مقصودجانبِ مخالف کا دعویٰ اور اس کا اثبات نہیں ہوتا ، بلکہ صرف یہ کھانا ہوتا ہے کہ ان کا موقف غیر قطعی ہے اور دوسرے امکان کی گنجائش بھی موجود ہے۔‘‘
ابن رشد نے ایسے موقعوں پر یہ سمجھا ہے کہ وہ شاید اپنے مخالف استدلال کو قطعی بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اس لئے وہ اپنی تصنیف میں جابجا بس یہی ثابت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ یہاں پر غزالی کا مخالف استدلال بھی قطعی نہیں، حالانکہ یہ چیز غزالی کے موقف کو کم زور کرنے کی بجائے الٹا اسے تقویت دیتی ہے کیونکہ جب وہ غزالی کے موقف کو غیر حتمی کہتے ہیں تو اس کا بالواسطہ یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ فلاسفہ کا استدلال بھی اس کے مقابلہ میں حتمی اور قطعی نہیں(اور یہی ثابت کرنا غزالی کا مقصود ہے) ، ورنہ ظاہر ہے کہ اگر ان کا استدلال حتمی اور قطعی ہوتا تو غزالی کے استدلال کو وہ غیر حتمی کی بجائے باطل اور غلطِ محض کہتے۔
’’تہافت التہافت‘‘ کے دو سطری مقدمہ میں ’’تہافت التہافت‘‘ تحریر کرنے کا مقصد خود ابن رشد ہی کے الفاظ میں یہ ہے:
’’فان الغرض فی ہذا القول ان نبین مراتب الاقاویل المثبتۃ فی کتاب التہافت لابی حامدفی التصدیق والاقناع وقصور اکثرہا عن رتبۃ الیقین‘‘ (تہافت التہافت۔ صفحہ۵۵)
یعنی ’’اس کتاب میں ہمارا مقصود یہ بتانا ہے کہ ابو حامد الغزالی کی کتاب ’’تہافت الفلاسفہ‘‘ میں جو بیانات اور دلائل مذکور ہیں، استدلال کی رو سے ان کا کیا درجہ ہے اور یہ کہ ان میں سے زیادہ تر ایسے ہیں جو یقین کے رتبہ سے فروتر ہیں۔‘‘
بعینہ اسی طرح کا مضمون لفظوں کے ذرا اختلاف کے ساتھ صفحہ ۸۲ پر بھی موجود ہے۔
’’ فقد تبین لک انہ لیس فی الادلۃ التی حکاہا عن المتکلمین فی حدوث العالم کفایۃ فی ان تبلغ مرتبۃ الیقین، وانہا لیست تلحق بمراتب البرہان، ولا الادلۃ التی ادخلہا عن الفلاسفۃ فی ہذاالکتاب لاحقۃ بمراتب البرہان۔ وہو الذی قصدنا بیانہ فی ہذا الکتاب‘‘ ۔
ڈاکٹر سلیمان دنیا اس پہ تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’الغزالی لیس بصدد ان یثبت عقیدۃ فی کتاب تہافت الفلاسفۃ، وانما ہدفہ ہو التشکیک فی ادلۃ الفلاسفۃ تلک الادلۃ التی یزعم الفلاسفۃ انہا بلغت حد الیقین والریاضی ۔۔۔فلیس اذن من حق ابن رشد ان ینتظر من الغزالی فی کتابہ تہافت الفلاسفۃ ان یکون مثبتا ولیس من حقہ کذلک ان یتصید من کلامہ ما یسمیہ ادلۃ لم تبلغ مرتبۃ الیقین‘‘ (تہافت التہافت۔ صفحہ۸۲)
یعنی ’’غزالی اپنی کتاب ’’تہافت الفلاسفۃ‘‘ میں اپنے عقیدہ کو قطعی دلائل کے ساتھ ثابت کرنے کے در پے نہیں ہیں (یہ کام غالبا انہوں نے اپنی ایک اور کتاب قواعد العقائد میں کیا ہے جو احیاء العلوم کا حصہ ہے) اس کتاب میں ان کا مقصود محض فلاسفہ کے دلائل میں اشتباہ کی گنجائش نکال کر دکھانا ہے جنہیں فلسفی ریاضی کی طرح قطعی سمجھتے ہیں اور بس،لہذا ابن رشد کے لیے مناسب نہیں کہ وہ غزالی سے اس کتاب میں قطعی دلائل کی توقع رکھے اور نہ ہی اس کے لئے یہ مناسب ہے کہ ان کے غیر یقینی استدلالات کو غیر یقینی کہہ کر ان کا شکار کھیلے۔‘‘
(جاری)
فکرِ مغرب : بعض معاصر مسلم ناقدین کے افکار کا تجزیہ (۱)
ڈاکٹر محمد شہباز منج
مغربی فکر سے متعلق ہمارے یہاں کے علمی حلقوں میں بالعموم دو رویے پائے جاتے ہیں۔ایک یہ کہ مغربی فکر معیارِ حق ہے،اس کے حاصلات کو نہ صرف یہ کہ رد نہیں کرنا چاہیے بلکہ نعمتِ غیر مترقبہ سمجھتے ہوئے قبول کر لینا چاہیے۔اس رویے کے حامل مذہبی عقائد و نظریات کے مغربی نتائجِ فکر سے تطابق کومعراجِ علم خیال کرتے ہیں۔ان کے نزدیک مذہب کی اس دور میں سب سے بڑی خدمت اس کے ذریعے یہ ثابت کر دینا ہے کہ اے مغرب:مستند ہے’’تیرا‘‘ فرمایا ہوا۔ یہاں تک کہ وہ اس کوشش میں مسلمات و بدیہیاتِ دین کو بھی تاویل کی سان پر چڑھا دیتے ہیں۔ دوسرا رویہ یہ ہے کہ مغربی فکر اور اس کے حاصلات لغو،لایعنی اورباطلِ محض ہیں۔یہ اہلِ اسلام کے لیے شجرِ ممنوعہ کا حکم رکھتے ہیں۔مغرب کی کسی بھی چیز کو اپنالینا یا اسے درست سمجھنا نادانی اور دین سے عدمِ واقفیت کی دلیل ہے۔اس رویے کے حامل مغرب کے ہر تصورو نظریہ کے ردکو دین کی بہت بڑی خدمت سمجھتے ہیں ۔ راقم الحروف کے نزدیک یہ دونوں رویے افراط و تفریط اوردو انتہاوں سے عبارت ہیں۔ اول الذکر سے متعلق ہمارے ہاں بہت کچھ لکھا گیا ہے اور ایک تسلسل کے ساتھ لکھا جا رہا ہے ۔(۱)لیکن ثانی الذکر سے متعلق کوئی قابلِ ذکر تنقید سامنے نہیں آئی ۔شاید اس وجہ سے کہ یہ رویہ اور اس کے فکری اثرات نسبتاً محدود ہیں۔تاہم گذشتہ کچھ عرصے سے اس رویے کے حاملین کے مختلف رسائل و جرائد میں کثرت اور تکرار کے ساتھ مضامین شائع ہو رہے ہیں۔بلکہ بعض ایسے رسائل بھی سامنے آ چکے ہیں جو باقاعدہ اس رویے کے ترجمان ہیں ۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس کو سنجیدہ بحث و تجزیے کا موضوع بنایا جائے۔ ہماری یہ گزارشات اسی ضمن میں ایک کوشش ہیں۔ہم ان دانشوروں کے افکار ونظریات کے اہم اور نمایاں نکات ذکر کر کے ان کا جائزہ لیتے ہیں۔
سائنس و ٹیکنالوجی اور مذہب :یہ دانشور اپنی تنقیدِ مغرب میں جو نتائج سامنے لاتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ مغربی سائنس وٹیکنالوجی مغرب اور نظامِ سرمایہ داری کا ایک جال ہے جواس نے دنیا کو اپنے دام میں پھنسانے کے لیے بچھا رکھا ہے۔سا ئنس مذہب کی دشمن ہے۔اس کی اپنی مخصوص اقدار ہیں ،جو مذہبی اقدار سے متصادم ہیں ۔چنانچہ سائنس مذہبی جوش و جذبے کو تباہ کرتی اور آدمی کو مذہب بیزار بناتی ہے۔یہ سمجھنا کہ اسلام یا اسلامی فکر و تہذیب کا موجودہ سائنس کی ترقی میں کوئی کردار ہے ،ایک بے سند مفروضہ ہے۔سائنس مقاصدِ اسلام کے حصول میں مدد گار کیا ہوگی وہ توالٹا اس کے مقاصد میں سدِّ راہ ہے۔مسلمان اگر واقعی اسلامی معاشرہ تشکیل دینے کے خواہاں ہیں تو انہیں موجودہ سائنس وٹیکنالوجی اور اس کے مظاہر کورد کرنا ہو گا۔اس کے ساتھ ساتھ ان لو گوں کا کہنا یہ بھی ہے کہ سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر کسی اخلاقی قدرکا اثبات نہیں ہو سکتا۔اس لیے کہ سائنسی تجربات کا دائرہ ’کیاہے‘ اور’ کس طرح ‘ہے سے عبارت ہے، جبکہ اخلاقیات کا’کیا بہتر ہے‘اور ’کیا ہونا چاہیے ‘ہے۔ لہٰذا اخلاقیات میں سائنس کا حوالہ محض جہالت و نادانی ہے۔
سائنس وٹیکنالوجی اور مذہب کے حوالے سے ہمارے ممدوح دانشوروں کے یہ خیالات اپنی کلیت میں بدیہی اسلامی تعلیمات اور نصوصِ شرعیہ سے متصادم ہیں اور ان میں صریح تضاد و تناقض پایا جاتا ہے ۔ان کے نصوصِ شرعیہ کی روشنی میں محاکمے سے پہلے ان کے اند موجود تضاد وتخالف پر ایک نظر ڈال لینا مناسب ہوگا۔ان حضرات کا ایک طرف موقف یہ ہے کہ سائنس کو غیر اقداری سمجھنا غلط ہے،اس کی اپنی مخصوص اقدار ہیں۔یہ اپنی ان اقدار کی بقا چاہتی اور اس کے لیے مسلسل کار فرما رہتی ہے۔ لیکن دوسری طرف کہتے ہیں کہ سائنس کا اقدار سے کچھ علاقہ ہی نہیں ۔’کیا اچھا ہے‘،’ کیوں ہے‘،’کیا ہونا چاہیے‘ اس کے دائرہ کار سے باہر کی چیزیں ہیں ،اسے محض ’کیا ہے‘ اور ’کس طرح ہے‘سے بحث ہے۔ یہ واضح تضاد و تناقض ہے ۔ہم ان حضرات سے عرض کرتے ہیں کی جناب آپ کے خیالات سے تین باتیں نکل سکتی ہیں؛ ایک یہ کہ آپ کے خیال میں سائنس فی نفسہ اقداری ہے؛ دوسری یہ کہ سائنس نفس الامر میں غیر اقدای ہے؛اور تیسری یہ کہ سائنس خود تو غیر اقداری ہے، البتہ مرورِ ایام سے کچھ لوگوں یا کسی خاص قوم نے اس میں کچھ مخصوص اقدار داخل کردی ہیں۔اگر آپ پہلی بات کے قائل ہیں تو آپ اس استدلال میں حق بجانب نہیں کہ اقدار واخلاقیات سائنس کے دائرے کی باتیں نہیں۔(واضح رہے کہ بات صرف اقدار کی موجودگی کے قائل ہونے کی ہو رہی ہے ،یہ بحث غیر متعلق ہوگی کہ سائنسی اقدار مذہب کی اقدار سے مختلف ہیں)اور اگر آپ دوسری یاتیسری بات کو درست سمجھتے ہیں توآپ کی یہ ساری بحث لا یعنی ہو جاتی ہے کہ سائنس اقداری ہے۔تیسری بات کی صورت میںآپ کے لیے بحث کا میدان صرف سائنس میں اقدار کا دخول یا اس کے جسمِ ناتواں پر ایک نامناسب بوجھ لادنے کا ذمہ دار طبقہ رہ جاتا ہے کہ اس نے اس بے چاری کو کیوں تکلیفِ مالا یطاق دی ہے۔اقدار کے حوالے سے ہمارے کے نزدیک سائنس کی حیثیت کیاہے؟اس کا تعین ہماری اگلی بحث سے خود بخود ہو جائے گا۔
سائنس وٹیکنالوجی کے مذہب دشمن اور مذہب بیزاری کا ذریعہ ہونے کا نظریہ فی الواقع مغرب کے نشأۃ ثانیہ سے پہلے کے مسیحی اہلِ مذہب کے علم وسائنس دشمن رویے کا تسلسل ہے، اہلِ اسلام کو یہ کسی صورت زیب نہیں دیتا۔علمی تحقیقات اور سائنس و ٹیکنالوجی سے متعلق اپروچ اور رویے کے باب میں مسیحیت اور اسلام میں قطعاً مغائرت ہے۔ہمارے سائنس مخالف دانشور اس بدیہی حقیقت کو ماننے سے نہ صرف اعراض کرتے بلکہ اس کے خلاف طول طویل لا یعنی دلائل پیش کرتے ہیں ،جسے خود عام مغربی اہلِ علم ہی نہیں اہلِ سائنس واضح طور پر محسوس کرتے ہیں۔مغربی اہلِ سائنس تسلیم کرتے ہیں کہ مغرب کے مذہب مخالف مادہ پرست سائنسدان مذہب و سائنس پر گفتگو کرتے ہوئے یہودیت و عیسائیت ہی کو سامنے رکھتے ہیں اور یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ کوئی مذہب ایسا بھی ہو سکتا ہے جس کا سائنس سے متعلق رویہ یہودیت و عیسائیت سے مختلف ہو۔ اسلام سے متعلق غیرصحیح معلومات نے ان کو اس مذہب کے خلاف مذکورہ مذاہب سے بھی زیادہ متعصب بنادیا ہے۔بہ الفاظِ دیگر ان کے خیال میں اسلام یہودیت و عیسائیت سے بڑھ کر اوہام و خرافات پر مبنی، غیر صحیح اور سائنس سے متصادم ہے۔(۲) کیا اس حقیقت کی روشنی میں اسلام اور سائنس کے باب میں مغرب کے ملحدین اورہمارے زیر نظر حامیانِ اسلام دونوں کے نتائج فکر یکساں قرار نہیں پاتے ؟کیا دونوں ہی کی رائے یہ نہیں بنتی کہ اسلام اور سائنس کا باہم کوئی ناتا نہیں،ایک دوسرے کا دشمن اور اس کی راہ میں رکاوٹ ہے؟بایں ہمہ ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ مغرب کے ملحد اسلام دشمن ہیں اورہمارے دانشور اسلام کے تنہا خیر خواہ !یعنی:
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو مرے نامۂ سیاہ میں تھی
ہماری رائے میں زیر بحث تناظر میں مغرب کے مذہب دشمن ملحدین اور اہلِ سائنس،سائنس کے حق اور مذہب کے خلاف تعصب میں مبتلامسلم مقلدینِ مغرب اور مذہب کے حق اور سائنس کے خلاف تعصب کا شکار مسلم اہلِ قلم تینوں ایک ہی زمرے میں شمار کیے جانے کے لائق ہیں ۔اس لیے کے تینوں میں یہ قدر مشترک ہے کہ مذہب اور سائنس باہم مغائر و مخالف ہیں۔اگر اس بات کے ثبوت فراہم ہو جائیں کہ مذہب اور سائنس یا(مغرب میں یہودیت و مسیحیت ہی کے مذہب کے نمائندہ ہو نے کی غلطی فہمی کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے کہنا چاہیے کہ )اسلام اور سائنس میں کوئی دشمنی نہیں تو تینوں کے تصورات کا بیک وقت ابطال ہو جاتا ہے ۔اور اس کے ثبوت نہایت بدیہی ہیں ۔چند ایک مختصراً ملاحظہ فرمائیے:
سائنس کسے کہتے ہیں؟
اس سوال کے ماہرین کی طرف سے دیے گئے چند جوابات یہ ہیں: یہ طبیعی کائنات کاغیر جانبدارانہ مشاہدہ اور اس سے متعلق بنیادی حقائق کا مطالعہ ہے۔(۳)اس کے معنی جاننے اور سیکھنے کے ہیں۔ (۴)اس کامطلب علم ہے۔(۵) یہ مشاہدے سے دریافت ہونے والے نتائج یا علمی حقائق کو مرتب اور منظم کر نے کا نام ہے۔(۶) یہ تجرباتی علوم و حکمت یا فطری و طبیعی مظہر کا باقاعدہ علم یا ایسی سچائی ہے، جو مشاہدہ، تجربہ یا استقرائی منطق سے معلوم کی گئی ہو،یا طبیعی حقائق کو وہ علم ہے، جو مشاہدے اور تجربے سے حاصل ہو۔(۷) اس کے معنی غیر جانبداری سے حقیقت کے کسی پہلو کا باقاعدہ مطالعہ کرنا ہیں۔(۸)خلاصہ یہ کہ سائنس عبارت ہے علم ،معلومات ،مشاہدے وتجربے ،حقائق کے غیر جانبدارانہ مطالعے ،استقرائی منطق سے حقیقتِ واقعہ تک رسائی سے ۔اب دیکھیے مذہب کو بھی ان چیزوں سے کوئی سروکار ہے یا نہیں۔
قرآن کا مطالعہ کرنے والا ایک عام قاری بھی محسوس کر سکتا ہے کہ قرآن جگہ جگہ ان چیزوں پر زور دیتا ہے۔وہ اپنے قاری سے کثرت اور تکرارکے ساتھ علم،مشاہدے ،تدبر وتفکر اورحقائق کے غیر جانبدارانہ مطالعے کامطالبہ کرتا ہے ۔ جاننے ،سیکھنے اور علم حاصل کرنے کے حوالے سے قرآن کے مثبت رویے کا اندازہ اس سے لگائیے کہ اس کے مطابق انسان کو اس کی تخلیق کے بعد سب سے پہلے علم الاشیا دیا گیا اوراسی بنا پر اسے فرشتوں پر فضیلت بخشی گئی ۔(البقرہ۲:۳۰۔۳۳)قرآن نے سب سے پہلے علم و تعلم کی اہمیت اجاگر کی۔ اس کے نزول کی ابتدا ہی علم و تعلیم سے متعلق آیات سے ہوئی ۔(العلق ۹۶:۱۔۵)اس نے واضح کیا کہ علم والے اور بے علم برابر نہیں ہو سکتے۔ ( الزمر۳۹:۹)علم والے اللہ کے ہاں صاحبانِ فضل و کمال ہیں۔(المجادلہ۵۸:۱۱)اللہ تعالی سے وہی لوگ ڈرتے ہیں جو اہل علم ہیں۔(الفاطر۳۵:۲۸) اہلِ علم ہی اللہ کی پیش فرمودہ مثالوں کو سمجھتے ہیں ۔(ا لعنکبوت۲۹:۴۳) نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا ایک اہم اور بنیادی مقصدہی تعلیم دینا ہے۔( الجمعہ۶۲:۲)چنانچہ اس نے تعلیم دی کہ پروردگارِ عالم سے اپنے علم میں پیہم اضافے کی استدعا کرتے رہو۔(طہ۲۰:۱۱۴)جہاں تک مشاہدے، تجربے ، تدبر فی الخلق کے ذریعے حقیقت تک رسائی کا تعلق ہے توقرآن حکیم نے اس پر اس قدر زور دیا ہے کہ اس کے مقدس اوراق میں سے کم ہی اس سے خالی ہوں گے ۔قرآن کے نقطۂ نظر سے ذکرِ خداوندی کی ترجیحی اہمیت محتاجِ دلیل نہیں، لیکن اس کے نزدیک اس کے ساتھ بھی تدبر لازم ہے۔وہ اصل اہلِ ذکر انہی کو مانتا ہے جو ذکرِ الٰہی کے ساتھ ساتھ تخلیقِ ارض و سما میں غور وفکرجاری رکھتے ہیں۔ (آل عمران۳:۱۹۱)ایک عام آدمی بھی جانتا ہے کہ سائنسدان جانووں، زمین و آسمان اور پہاڑوں وغیرہ کی ساخت پر اور ان سے متعلق دیگر امور پر تحقیقات پیش کرتے ہیں۔قرآن پکا ر پکار کا کہہ رہا ہے کہ ان چیزوں میں بلا شبہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں اور انسانوں کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ اس سلسلہ میں مشاہدہ اور تفکر و تدبر سے کام لیں۔(الغاشیہ۸۸:۱۸۔۲۰؛ قٓ ۵۰:۶) مشاہدہ اور تدبرفی الخلق کی اہمیت کے پیش نظر قرآن نے ان لوگوں کو حیوانوں سے بھی بدتر اور جہنمی قرار دیا ہے، جو اپنے قوائے حسی کو مشاہدۂ فطرت اور ذہنوں کو تفکر و تدبر کے لیے استعمال نہیں کرتے۔(ا لاعراف ۷:۱۷۹)
قرآن کی دعوتِ فکر وتدبر کے ضمن میں یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قرآن کریم نے کسی مظہرِ فطرت کو دیکھ کر اس پر غور و فکر کیے بغیر آگے گزر جانے کو نافرمانوں کی نشانی بتایا ہے (وَ کَاَیِّنْ مِّنْ اٰیَۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ یَمُرُّوْنَ عَلَیْھَا وَ ھُمْ عَنْھَا مُعْرِضُوْنَ۔ یوسف ۱۲:۱۰۵)اور اہلِ علم کے مطابق کسی مظہرِ قدرت یا ایۃ اللّٰہ پر غور و فکر ترک کر دینا ،اس سے پہلے کہ اس کی حقیقت پوری طرح منکشف ہو ، اس سے اعراض کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ مسلمان کو یہ حکم ہے کہ جب موجوداتِ قدرت میں سے کوئی چیز اس کے نوٹس میں آئے تو اسے نظر انداز نہ کرے، بلکہ اس کے مشاہدے اور مطالعے کا حق ادا کرے ، اس کی حقیقت اور اصلیت کو پوری طرح سمجھے، اور خدا کی حکمتیں ،جو اس کے اندر پوشیدہ ہیں ،ان سے پوری طرح واقف ہونے کی کوشش کرے ۔ گویا جب تک کسی چیز کی حقیقت پوری طرح واضح نہ ہو جائے، مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ اپنی تحقیق و تجسس کو جاری رکھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے امت کو سکھائی گئی یہ دعا بھی اس مطلب کی تائید کرتی ہے: اللّٰہم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ اللّٰہم ارنا الاشیاء کماہی۔’’ اے خدا! ہم کو صداقت بطور صداقت کے دکھا دے اور اس کی پیروی کرنے کی توفیق دے اور جھوٹ بطور جھوٹ کے دکھادے اور اس سے بچنے کی توفیق عطا فرما۔ اے خدا! ہمیں اشیا کواس طرح سے دکھا دے جیسی وہ درحقیقت ہیں۔ ‘‘نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا گویا سائنسی طریقِ تحقیق کی حمایت کرتی ہے ،کیونکہ سائنسی طریقِ تحقیق ،جو اس بات پر زور دیتا ہے کہ مشاہدہ کے نتائج کو کامل احتیاط سے اخذ کیا جائے اور انتہائی طور پر درست کرنے کی کوشش کی جائے ،اس کا مقصد یہی ہے کہ اشیا ایسی ہی نظر آئیں جیسی کہ وہ درحقیقت ہیں۔(۹)
اشیا کو ان کی اصلی حالت میں دیکھنے اور مشاہدے کے نتائج میں غلطی سے بچنے کے لیے قرآن بہ تکرار صحیفۂ فطرت کے مطالعہ کی دعوت دیتا ہے۔مثلاً ایک جگہ ارشاد ہے: الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا مَا تَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ فَارْجِعْ الْبَصَرَ ہَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍ ۔ ثُمَّ ارْجِعِ لْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِءًا وَّہُوَ حَسِیْرٌ۔(الملک ۶۷:۳۔۴ )یہاں قرآن بار بار نگاہ ڈالنے اور غو رو فکر کرنے پر زور دے رہا ہے۔ سائنسی زبان میں یہی چیز مشاہدہ (Observation)اور تجربہ (Experiment)کہلاتی ہے ۔کسی چیز کا بار بار مشاہدہ کرنے اور حالات بدل بدل کریعنی تجربہ کر کے مطالعہ کرنے اور غورو فکر کر کے گہرے نتائج اخذ کرنے کو سائنسی تحقیق (Scientific Research)کہا جاتا ہے۔
تجربہ او رمشاہدہ کی انتہائی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ پر ایمان مضبوط ہوتا اور اطمینانِ قلب نصیب ہوتا ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کے اپنے خاص بندوں کو،ان کے اطمینانِ قلب کی خاطر کرائے گئے مشاہدات مذکور ہیں۔مثلاًیک واقعہ حضرت ابراہیم سے متعلق ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی مردوں کو زندہ کرنے کی قدرتِ کاملہ پر ایمان تھا تا ہم انہوں نے اطمینانِ قلب کے لیے مشاہدہ کرنا چاہا تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے چار پرندے لے کر انہیں سدھایا اور پھر ان کو ذبح کر کے ان کا گوشت باہم ملا کر چار پہاڑوں کی چوٹیوں پر رکھ دیا۔ پھر ان کو ایک ایک کر کے آواز دی تو وہ ان کی نگاہوں کے سامنے زندہ ہو گئے۔(البقرہ ۲:۲۶۰)دوسرا واقعہ حضرت عزیر علیہ السلام سے متعلق ہے۔انہیں بھی اللہ کی قدرتِ کاملہ پر یقین تھاِ تاہم جب انہوں نے ایک بستی کو عجیب و غریب حالت میں تباہ شدہ دیکھا تو یہ جاننا چاہا کہ اللہ تعالیٰ اس بستی کو کس کیفیت سے زندہ کرے گا ؟تو اللہ تعالیٰ نے انہیں مشاہدہ کرانے کے لیے سو برس تک مردہ رکھا۔ پھر ان کو زندہ کر کے پوچھا کتنی مدت تک اس حالت میں رہے ہو؟ وہ بولے: دن یا آدھا دن۔ اللہ نے فرمایا: نہیں ،بلکہ سو برس تک اس حالت میں رہے ہو۔ کھانے کو دیکھو وہ بالکل نہیں گلا سٹرا اور دیکھو گدھے کی ہڈیوں کو ہم کیسے ترکیب دیتے ہیں؟ اور تمہارے دیکھتے ہی دیکھتے ان پر گوشت چڑھاتے ہیں۔ یہ سب کچھ ہوتا دیکھ کر حضرت عزیز علیہ السلام کو اللہ کی قدرتِ کاملہ پر اطمینانِ قلبی حاصل ہو گیا۔(البقرہ۲ :۲۵۹)ان واقعات سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاں مشاہدہ اور مطالعہ کائنات پر زور دیا اور بھرپور طریقے سے اس کی دعوت و ترغیب دی وہاں اپنے بندوں کو مشاہدات بھی کرائے۔ چنانچہ مشاہدہ تجربہ اور تدبرفی الخلق کے اعتبار سے بھی قرآن اور سائنس میں ایک واضح تعلق نظر آتا ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ قرآن سائنس کی کتاب نہیں،اس کا اصل اور بنیادی کام انسان کی ہدایت ہے۔(۱۰)تاہم وہ جہاں انسان کو اللہ کی معرفت کا درس دیتا ہے، وہاں اللہ کی کبریائی، خلاقیت اور علم و قدرت وغیرہ کے اظہار کے لیے اور اپنے دعوؤں کی حقانیت کے ثبوت میں کائنات اور اس میں کار فرما قوانینِ طبیعی سے تعرض کرتے ہوئے ان کے کسی نہ کسی پہلو کو بطورِدلیل پیش کرتا ہے، اور ساتھ ہی ساتھ کائنات اور اس کے مظاہر کے مشاہدے اور مطالعے کی دعوت دیتا ہے ۔گویا حقیقت تک رسائی کے لیے جن چیزوں پر سائنس کا انحصار ہے قرآ ن بھی سچائی تک پہنچنے کی غرض سے انہی چیزوں کو ذریعہ بنانے کو کہتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ فلاسفہ ، علماے دین اور اہلِ سائنس کے نمایاں اور بڑے بڑے افراد نے مذہب اور سائنس کے تصادم کے تصورکارد کیااوران کی قربت کا اثبات کیا ہے۔مثلاً معرکہ آرا سائنسی نظریہ ’اضافیت‘ (Relativity)پیش کرنے والا ،بیسویں صدی کا سب سے بڑا سائنسدان آئن سٹائن کہتا ہے:’’سائنسی تحقیق آدمی میں ایک خاص قسم کے مذہبی احساسات پیدا کرتی ہے،یہ ایک طرح کی عبادت ہے ۔(۱۱) میرے لیے راسخ ایمان کے بغیر اصلی سائنسدان کا تصور محال ہے۔‘‘(۱۲) معروف فرانسیسی سائنسدان، فزیشن،ماہرِ امراضِ قلب اور فرانس کی میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق صدرڈاکٹر موریس بکائی لکھتے ہیں:
"It comes as no surprise, Therefore, to learn that religion and science have always been considered to be twin sisters by Islam and that today, at a time when science has taken such great strides, they still continue to be associated. " (13)
’’اس میں کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ اسلام نے مذہب اور سائنس کو ہمیشہ جڑواں بہنیں تصور کیا ہے۔آج بھی، جب کہ سائنس ترقی کی انتہاؤں کو چھو رہی ہے،وہ ایک دوسرے کے قدم بقدم ہیں ۔‘‘
سائنس کے تناظر میں اسلام کی حقانیت پر بات کرنے میں موریس بکائی چونکہ بہت مشہور ہیں اور ان کا عام حوالہ دیا جاتا ہے اس لیے میرے بعض سائنس مخالف دوست اسے ہنسی میں اڑانے کی کوشش کرتے ہیں کہ آپ لوگوں کے پاس آ جا کہ یہی حوالہ ہے،میں ان دوستوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ان کا یہ خیال قلتِ مطالعہ یا سائنس سے تعصب کا نتیجہ ہے۔ اگر وہ تحقیق کی تھوڑی سی زحمت بھی گوارا کریں اور تعصب کی عینک اتار کر دیکھیں تو انہیں معلوم ہوگا کہ مذہب اور سائنس کی قربت کا قائل صر ف بکائی نہیں دنیا کے اکثر سائنسدان ہیں۔حتی کہ آپ کو شائد ہی کوئی ایسا معتبر سائنسدان ملے جو مذہبی ذہن نہ رکھتا ہو۔آئزک نیوٹن جسے دنیائے سائنس کا سب سے بڑا نام سمجھا جاتا ہے ،دہریت کی مخالفت اور مذہب کے دفاع میں زوردار مضامین لکھتا رہا ہے۔(۱۴) اس نے اپنی متعدد تحریروں میں ببانگ دہل اقرار کیا ہے کہ یہ کائنات اللہ کے وجود کی ناطق شہادت ہے ۔(۱۵)فرانسس بیکن،جو سائنسی طریقِ تحقیق کے بانیوں میں سے ہے، سائنس اور مطالعہ فطرت کو کلامِ خدا کے بعد ایمان کا سب سے ثقہ ثبوت قرار دیتا ہے۔(۱۶)مشاہدۂ فلک کے لیے پہلے پہل ٹیلی سکوپ استعمال کرنے والامشہور سائنسدان گلیلیو کہتا ہے کہ یہ کائنات اور اس کے سارے حقائق خدا کے تخلیق کردہ ہیں ،کائنات اللہ کی تحریر کردہ دوسری کتاب ہے ،لہذا سائنس اورعقیدہ و مذہب کبھی ایک دوسرے سے متصادم نہیں ہو سکتے۔(۱۷)جدید علم فلکیا ت کا بانی کیپلرسائنس کی طرف آیا ہی اپنے مذہبی رجحانات کی بنا پر تھا ،اس نے واضح کیا ہے کہ اس نے اپنی سائنسی دریافتوں سے خدا کو پایا ہے۔(۱۸)
یہ تو سائنسدانوں کے خیالات تھے ۔جہاں تک علمائے اسلام کا تعلق ہے ان کے حوالے اس سے بھی زیادہ پیش کیے جا سکتے ہیں لیکن مضمون کی شکایتِ تنگئ داماں کو ملحوظ رکھتے ہوئے میں صرف دو حوالوں پر اکتفا کروں گا؛ایک علامہ اقبا ل کا، جو فلسفہ اور علم دین دونوں میں مسلمہ حیثیت رکھتے ہیں اور جدید مغربی تہذیب کے بہت بڑے ناقد ہیں اور دوسرا مولانا مودودی کا،جو بیسویں صدی کے دوران مسلمانانِ برصغیر میں مغربی تہذیب واقدار کے مقابلہ میں اسلامی تہذیب اقدار پر اعتمادپیدا کرنے اور احیاے اسلام کے حوالے سے ایک اہم اور نمایاں مصنف اور جانے پہچانے عالمِ دین ہیں۔موخر الذکر رقمطراز ہیں:’’حقیقت یہ ہے کہ سائنس کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو انسانوں کے دل میں ایمان کو گہری جڑوں سے رائج کرنے والا نہ ہو۔ فزکس، کیمسٹری، بیالوجی، اناٹومی، اسٹرانومی غرض جس علم کو بھی دیکھیں اس میں ایسے حقائق سامنے آتے ہیں جو انسان کو پکا اور سچا مومن بنا دینے کے لیے کافی ہیں۔ سائنس کے حقائق سے بڑھ کر آدمی کے دل میں ایمان پیدا کرنے والی کوئی دوسری چیز نہیں ہے۔ یہی تو وہ آیاتِ الٰہی ہیں جن کی طرف قرآن بار بار توجہ دلاتا ہے۔‘‘ (۱۹)مقدم الذکر کہتے ہیں:
"The truth is that the religious and scientific processes, though involving different methods, are identical in their final aim at reaching the most real." (20)
’’واقعہ یہ ہے کہ مذہب اور سائنس،مختلف طریقِ کار اپنانے کے باوجود، اس اعتبار سے بالکل ایک ہیں کہ دونوں کا مطمأ نظر حقیقتِ واقعہ تک رسائی ہے۔‘‘
جب یہ بات واضح ہوگئی کہ قرآن کی دعوتِ مطالعۂ فطرت اور انفس وآفاق سائنس کی ترقی میں بنیادی اور اہم کردار ادا کرنے والی چیزیں ہیں؛مذہب سائنس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بلکہ اس کو مہمیز لگاتا ہے اور اس حقیقت کا اعتراف دنیا کے عظیم سائنسدانوں اور مفکرین نے واضح الفاظ میں کیا ہے تو اس خیال کی بھی آپ سے آپ تردید ہو گئی کہ اسلامی فکر وتہذیب کا سائنس کی ترقی میں کوئی کردار نہیں ۔لہذا اس پر مزید تفصیلی دلائل کی حاجت نہیں۔البتہ اس تصور کا بودا پن متحقق کرنے کی غرض سے اس پر بطورِ خاص چند سطور صرف کر نا ضروری معلوم ہوتا ہے:
یہ حقیقت مسلم اور غیر مسلم محققین نے عام تسلیم کر لی ہے کہ قرونِ وسطی کے مسلمانوں کی سائنسی ترقی قرآن و حدیث کے مشاہداتی و تجرباتی اندازِ نظر کو اپنانے پر زور دینے کی بنا پر تھی،(۲۱)اور متعددسائنسی دریافتیں مختلف شرعی احکام اور تقاضوں کا نتیجہ تھیں؛مثلاً الجبرا کواسلامی قانونِ وراثت اور فلکیات،جغرافیہ،جیومیٹری اور ٹرگنومیٹری کوسمتِ قبلہ اور اوقاتِ نمازمعلوم کرنے کی اسلامی تقاضوں کے تحت ترقی ملی۔(۲۲)ابن النفیس نے بخاری کی حدیث ’’اللہ نے کوئی مرض ایسا پیدا نہیں کیا جس کی دوا پیدا نہ کی ہو۔‘‘کو اپنی عظیم سائنسی دریافتوں کی بنیاد بنایا تھا۔اس نے خون کی دل سے پھیپھروں کی طرف حرکت(Pulmonary Circulation )کو دریافت کیا اور اپنی اس تحقیق کو حشرِ اجساد کے روایتی اسلامی تصور کی تائید میں پیش کیا۔(۲۳)مسلم کیمیا گری ،کیمسٹری اور علم نجوم کے محرکات بھی مذہبی تھے۔ (۲۴)قرآن وحدیث کے ساتھ ساتھ ان اسلامی ذرائع علم کے مستند ماہرین(علماے دینیات) کے افکار و تحریرات نے بھی مختلف سائنسی علوم کی تحریک پیدا کی۔ مثال کے طور پرطبِ اسلامی میں سرجری اورعلمِ تشریح الاعضا پر امام غزالی کی تصنیفات کے اثرات ہیں،جنہوں نے ان علوم کوتخلیقاتِ خداوندی کے ادراک کے لیے استعمال کرنے پر زور دیا۔ (۲۵)پندرہویں صدی کے مسلم ماہرِکونیات علی القوشجی نے ارسطاطالیسی تصورِ سکونِ زمین کو غزالی وغیرہ ایسے عظیم مسلم ماہرینِ علومِ دین کی تنقیدِارسطو سے تحریک پاکر رد کیا تھا۔(۲۶)امام غزالی نے خود ارسطو کے تصور کائنات کو رد کرتے ہوئے تعددِ عوالم کا تصور پیش کیا۔(۲۷)اسلام ،اسلامی تہذیب اور اہلِ اسلام کے دنیائے سائنس میں غیر معمولی کردار کو مغربی اہل علم وقلم۔جو بالعموم اسے ماننے میں تعصب میں مبتلا ہوتے ہیں۔ نے بھی نہایت واضح لفظوں میں تسلیم کیا ہے۔ مثلارابرٹ بریفالٹ لکھتا ہے: مسلمانوں نے یونانیوں سے کہیں بڑھ کر تجربات پر زور دیا۔(۲۸)ول ڈیوراں اقرار کرتا ہے کہ مسلم کیمیا دان علمِ کیمسٹری کے بانی ہیں۔(۲۹)یورپ کو سائنسی طریقِ تحقیق سے متعارف کرانے والا مشہور مغربی سائنسدان راجر بیکن بھی مسلم سائنسدانوں سے متاثر تھا ۔(۳۰)یہ اور اس نوع کے دیگر لاتعداد واضح شواہد کی ہوتے ہوئے سائنسی ترقی میں اسلامی فکر وتہذیب کے کردار کا انکار حق کا منہ چڑانے کے مترادف ہے۔
حوالہ جات و حواشی
۱۔ میں خود اس رویے اور اس کے حاملین کا سخت ناقد ہوں۔اس ضمن میں مختلف رسائل و جرائد میں راقم کے متعدد مضامین بھی شائع ہو چکے ہیں۔مثال کے طور پر ’’ تحقیقاتِ اسلامی ‘‘علی گڑھ ، انڈیا، شمارہ جنوری۔مارچ ۲۰۱۱ء میں پرویز کی قرآ نی فکر اور ’’الشریعہ‘‘دسمبر۲۰۱۱، فروری۲۰۱۲ء میں دنیائے اسلام پر استشراقی و مغربی فکر کے اثرات پر شائع ہونے والے راقم کے تفصیلی مضامین ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔
2. See for details: Maurice Bucaille,The Bible, The Quran and Science,trans. ALastair D. Pannel and Author (ND),102.
3. United States of America, Encyclopaedia Britannica ( U.S.A: Fifteenth Edition, 1986) 10/552; Gould.J.Kolb, A Dictionary of Social Sciences( London:Tavistock Publications, 1964),620.
4. Thomas Arnold,The legacy of Islam (London: Oxford University Press, 1983) ,11.
۵۔ ڈاکٹرعبدالقادر، تاریخ سائنس(لاہور:ادارہ تالیف و ترجمہ، پنجاب یونیورسٹی ،۱۹۸۳ء) ، ۱۔
۶۔ ڈاکٹررفیع الدین، اسلام اور سائنس) لاہور:اقبال اکادمی ،میکلورڈ روڈ،۱۹۸۲ء(،۱۔
۷۔ ڈاکٹرفضل کریم، قرآن اور جدید سائنس(لاہور:فیروز سنز ، ۱۹۹۹ء)،۳۵۔
۸۔ پروفیسرمحمود انور، جدید طبیعات کا تعارف( لاہور :مجلس ترقی ادب ،۲کلب روڈ ، ۱۹۶۵ء)،۱۔
۹۔ ڈاکٹررفیع الدین، اسلام اور سائنس، ۱۷۔
۱۰۔ جو لوگ سائنس کی حمایت میں غلو کر کے قرآن سے خواہ مخواہ اس کی جزئیات نکالنے اور ہر کچے پکے سائنسی تصور کو قرآن سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ ہمارے نزدیک اسی طرح قابلِ گرفت ہیں جیسے اس وقت زیرِ تنقیدعلما و دانشور۔ایک مسلمان کو نہ سائنس کے ہر نظریے و فرضیے سے مرعوب ہوکر قرآن کو اس کے مطابق کرنے کی فکر چاہیے اور نہ ہی اس کے ہرتصور کو بلاوجہ اسلام مخالف سمجھ لینا چاہیے۔گویا اسیخَیْرُ الْاُمُوْرِ اَوْسَطُھَا کے پیش نظر معتدل رویہ اپنانا چاہیے ۔راقم نے اس سلسلے میں اپنے ایک مضمون میں تفصیلی بحث کی ہے۔دیکھیے: ڈاکٹر محمد شہباز منج،’’مذہب اور سائنس۔باہمی تعلق کی صحیح نوعیت۔‘‘القلم۱۶،شمارہ۔۲ (۲۰۱۱ء):۱۶۱۔۱۸۴۔
11. http://www.einsteinandreligion.com/religioncomments.html
12. http://scienceandthemedia.weebly.com/uploads/6/9/6/2/6962884/ei nstein_science_philosophy_and_religion
13. Maurice Bucaille, The Quran and Modern Science, (Karachi: Ashraf Publication,ND),3.
14. Henry M. Morris, Men of Sciencs Men of God(U.S.A: Master Books, 2012),31-32.
15. See for example: Sir Isaac Newton, Mathematical Principles of Natural Philosophy, trans. Andrew Motte, (Chicago:William Benton, 1952),273-7
16. http://www.christianity.co.nz/ science4.htm
17. http://home.columbus.rr.com/ sciences/enlightened_belief_ history.htm
18. J.H. Tiner, Johannes Kepler-Giant of Faith and Science ( Michigan: Mott Media, 1977),197.
۱۹۔ مولانا بوالاعلی مودودی، ترجمان القرآن( لاہور:پاکستان پرنٹنگ پریس، ۱۹۶۵ء)،۲۸۵۔۲۸۶۔
20. Dr Allama Muhammad Iqbal, The Reconstruction of Religious Thought in Islam (Lahore: Hafeez Press,1965),195-96.
21. See: Laurence Bettany, "Ibn al-Haytham: an answer to multicultural science teaching.", Physics Education 30, no.4 (1995): 247150252;I. A. Ahmad, "The impact of the Qur'anic conception of astronomical phenomena on Islamic civilization", Vistas in Astronomy 39,no. 4 (1995): 395150403
22 . Owen Gingerich, "Islamic astronomy." Scientific American 254 ,no.10 (April 1986):74;Solomon Gandz, "The Algebra of Inheritance: A Rehabilitation of Al-Khuwarizmi." Osiris 5, (1938): 319150391
23. Nahyan A. G.Fancy, "Pulmonary Transit and Bodily Resurrection: The Interaction of Medicine, Philosophy and Religion in the Works of Ibn al-Nafis (d. 1288)."( Electronic Theses and Dissertations ,University of Notre Dame,2006), 2321503
24. George Saliba, A History of Arabic Astronomy: Planetary Theories During the Golden Age of Islam (New York: New York University Press,1994),60, 6715069
25. Emilie Savage-Smith, "Attitudes Toward Dissection in Medieval Islam." Journal of the History of Medicine and Allied Sciences 50, no.1:(1995): 67150110.
26 F. Jamil Ragep, "Tusi and Copernicus: The Earth's Motion in Context." Science in Context 14, no.11502(2001):145150163
27. Taneli Kukkonen, "Possible Worlds in the Tahafut al-Falasifa: Al-Ghazali on Creation and Contingency." Journal of the History of Philosophy 38,no.4 (2000): 479150502 .
28. Robert Briffault,The Making of Humanity (London:G. Allen & Unwin,1928), 190-202.
29. Will Durant, The Age of Faith (New York: Simon & Schuster,1980),4/162-86.
30. David C.Lindberg, "Alhazen's Theory of Vision and Its Reception in the West." Isis 58, no.3 (1967): 321150341 .
(جاری)
مسلمان عورت کا غیر مسلم مرد سے نکاح ۔ ڈاکٹر محمد شکیل اوج کے استدلال کا تنقیدی جائزہ
مولانا سید متین احمد شاہ
(راقم نے یہ مقالہ رائے کے لیے مشفق مکرم جناب عمار خان ناصر صاحب کی خدمت میں پیش کیا۔ انھوں نے اس پر ایک تفصیلی رائے مرحمت فرمائی جس پر بعض مقامات پر اسلوبِ خطاب میں تبدیلیاں کی گئیں۔ اس میں بیان کردہ نکات کو مقالے میں مندرج کرنے کے بجائے بلفظہ مستقلاً شامل کرنا مناسب معلوم ہوا جس کی وجہ ان کی علمی قدر وقیمت ہے، اس لیے اسے بحث کے مزید پہلووں کی توضیح کے لیے آخر میں درج کر دیا گیا ہے۔ متین احمد)
جامعہ کراچی کے شعبہ اسلامی علوم کے سربراہ ڈاکٹر محمد شکیل اوج نے اپنی سرپرستی میں شائع ہونے والے مجلے شش ماہی ’’التفسیر‘‘ میں اس کے جواز کے بارے میں ایک مضمون لکھا تھا جو اب ان کے مجموعہ مضامین ’’نسائیات‘‘ میں شامل ہے۔یوں تواس مجموعے کے مختلف مندرجات پر گفتگو کی جاسکتی ہے تاہم اس وقت پیش نظر اسی مضمون ’’محصنین اہلِ کتاب سے مسلم عورتوں کا نکاح‘‘پر اپنی ناچیز معروضات پیش کرنا مقصود ہے۔
عہد جدید کے تہذیبی و تمدنی ارتقا اورمشرق و مغرب کے فکری تصادم کے نتیجے میں کئی ایسے مسائل اہلِ علم کے سامنے آئے جن سے گزشتہ دور کے اہلِ علم کو واسطہ پیش نہیں آیا تھا۔ان مسائل کا تعلق زندگی کے کسی ایک پہلو سے نہیں بلکہ تقریبا تمام پہلوؤں سے ہے۔عقیدہ، عبادت، معاملات، معیشت ، سیاست۔۔۔ تمام میدانوں میں فکر کا ایک مستقل دھارا ہے جس کا سامنا امت کے اہلِ علم وفکرنے کیا ہے۔مغرب کی اس تہذیبی یلغار کے اثرات میڈیا کے ذریعے ہر سوچنے والے انسان تک رسائی حاصل کر چکے ہیں اور وہ ان سوالات کی چبھن اپنے اندر محسوس کرتا ہے۔اس سنگینی کے اثرات کا سامنا ان مسلمانوں کو زیادہ ہے جو دیارِ غیر میں رہ رہے ہیں۔انھی مسائل میں سے ایک افسوس ناک مسئلہ مسلمان عورتوں کے غیر مسلم مردوں سے شادی کرنے کا بھی ہے۔ہمارے ملک میں تو شاید اس مسئلے کی اہمیت اتنی زیادہ نہیں ہے، لیکن امریکا، کینیڈا ، افریقہ، ہندوستان وغیرہ میں مسلمان اس صورتِ حال سے دوچار ہو رہے ہیں۔ ایمانی کم زوری اور مادی چکا چوند نے نئی نسل کو اقبال کے بقول ہربند سے آزاد کر کے کعبے سے صنم خانے میں لا آباد کیا ہے۔ اس طرح کے واقعات پیش آ رہے ہیں کہ کوئی مسلمان لڑکی کسی کافر آشنا کے ساتھ چلی گئی اور شادی منعقد کر لی؛ اس لیے یہ سوال سوچنے والے اہل علم کے لیے تردد کا باعث ہے۔
غیر مسلموں سے نکاح کے سلسلے میں قرآنِ کریم کے تین مقامات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔سورۂ بقرہ میں مومن مردوں کو اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ وہ مشرک عورتوں سے نکاح کریں، اسی طرح مسلمان مردوں کو اس بات سے بھی منع کیا گیا ہے کہ وہ مسلمان عورتوں کا نکاح مشرک مردوں سے کروائیں۔ ارشادِ خداوندی ہے:
وَلاَ تَنکِحُوا الْمُشْرِکَاتِ حَتَّی یُؤْمِنَّ، وَلأَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ خَیْْرٌ مِّن مُّشْرِکَۃٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْکُمْ، وَلاَ تُنکِحُوا الْمُشِرِکِیْنَ حَتَّی یُؤْمِنُوا، وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْْرٌ مِّن مُّشْرِکٍ وَلَوْ أَعْجَبَکُمْ، أُوْلَءِکَ یَدْعُونَ إِلَی النَّارِ، وَاللّٰہُ یَدْعُوَ إِلَی الْجَنَّۃِ وَالْمَغْفِرَۃِ بِإِذْنِہِ، وَیُبَیِّنُ آیَاتِہِ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُونَ (۱)
’’اور (مومنو!) مشرک عورتوں سے جب تک ایمان نہ لائیں نکاح نہ کرنا کیونکہ مشرک عورت خواہ تم کو کیسی ہی بھلی لگے، اس سے مومن لونڈی بہتر ہے اور (اسی طرح) مشرک مرد جب تک ایمان نہ لائیں، مومن عورتوں کو ان کی زوجیت میں نہ دینا کیوں کہ مشرک (مرد) سے خواہ تم کو کیسا بھلا لگے، مومن غلام بہتر ہے۔ یہ (مشرک لوگوں کو) دوزخ کی طرف بلاتے ہیں اور خدا اپنی مہربانی سے بہشت اور بخشش کی طرف بلاتا ہے اور اپنے حکم لوگوں سے کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ نصیحت حاصل کریں۔‘‘
اسی طرح سورۂ مائدہ میں مسلمان مردوں کے لیے حلال چیزوں کے بیان میں نکاح کا ذکر بھی ہے۔وہاں ان کو اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ اہل کتاب میں سے محصن عورتوں سے نکاح ان کے لیے حلال ہے۔ ارشاد ہے:
وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِیْنَ أُوتُوا الْکِتَابَ مِن قَبْلِکُمْ (۲)
’’اہل کتاب میں سے محصن عورتیں تمہارے لیے حلال ہیں۔‘‘
مشرک کے معاملے میں مسلمان مرد اور عورت دونوں کو نہی ہے، لیکن اس آیت میں مسلمان مرد کو کتابی عورت سے نکاح کی اجازت تو دی گئی جبکہ مسلمان عورت کے کتابی مرد سے نکاح کے بارے میں سکوت اختیار کیا گیا ہے۔
سورۂ ممتحنہ میں ارشادہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِذَا جَاءَ کُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُہَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوہُنَّ، اللّٰہُ أَعْلَمُ بِإِیْمَانِہِنَّ، فَإِنْ عَلِمْتُمُوہُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوہُنَّ إِلَی الْکُفَّارِ، لَا ہُنَّ حِلٌّ لَّہُمْ وَلَا ہُمْ یَحِلُّونَ لَہُنَّ (۳)
’’مومنو! جب تمہارے پاس مومن عورتیں وطن چھوڑ کر آئیں تو ان کی آزمائش کر لو۔ (اور) خدا تو ان کے ایمان کو خوب جانتا ہے۔ سو اگر تم کو معلوم ہو کہ مومن ہیں تو ان کو کفار کے پاس واپس نہ بھیجو کہ نہ یہ ان کو حلال ہیں اور نہ وہ ان کو جائز۔‘‘
ڈاکٹر محمد شکیل اوج کے استدلال کی طرف آنے سے پہلے یہ دیکھنا مناسب ہے کہ امت کے مفسرین اور فقہا اس حوالے سے کیا رائے رکھتے ہیں۔ تفاسیر اور کتبِ فقہ کی مراجعت سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان عورت کے غیر مسلم مرد سے نکاح کا قائل کوئی بھی قابلِ ذکر مفسر اور فقیہ نہیں رہا ہے اور اس کی حرمت پر چودہ سو سال میں امت کا اجماع رہا ہے۔ سورۂ بقرہ کی آیت میں صراحتاً مسلمان عورتوں کو مشرک مردوں کے ساتھ نکاح کرنے سے منع کیا گیا ہے اور اس پر ایک مسلمان غلام کو ترجیح دی گئی ہے خواہ مشرک بظاہر متاثر کن ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شریعت میں سب سے بنیادی اور قابلِ ترجیح چیز دین اور ایمان کا مسئلہ ہے۔ چناں چہ سورۂ بقرہ میں اس حکم کے ساتھ فرمایا گیا: أُوْلَئِکَ یَدْعُونَ إِلَی النَّارِ (یہ مشرک لوگ جہنم کی طرف بلانے والے ہیں)۔ سورۂ مائدہ میں بھی اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا گیا : وَمَن یَکْفُرْ بِالإِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہُ وَہُوَ فِی الآخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ (۴) (جو کوئی ایمان کا منکر ہو تو اس کا عمل برباد ہو گیا اوروہ آخرت میں خسارے میں چلا گیا۔)
نکاح کے سلسلے میں ایک حدیث شریعت کے اسی مزاج کو واضح کرتی ہے جس میں یہ بات کہی گئی ہے کہ عورت سے نکاح اس کے جمال، مال، حسب ونسب اور دین کی وجہ سے کیا جا سکتاہے، لہٰذا انتخاب کرنے میں دین کو پیش نظر رکھا جائے۔ (۵) احکامِ شرعی کے پہلو بہ پہلو اس ایمانی اور دینی تذکیر کا مقصد یقیناًیہی ہے کہ یہ نکاح محض قضائے شہوت کا ایک ذریعہ نہیں بلکہ اس کے ساتھ تہذیب و تمدن کے عمیق رشتے مربوط ہیں اور شریعت جن مقاصد کے حصول کے لیے آئی ہے، ان میں نسل اور دین کی حفاظت کا گہرا تعلق اس نکاح کے ساتھ ہے۔اس وجہ سے مسلمان عورت کا نکاح کسی کافر سے جائز نہیں ہے۔علامہ ابن جریر طبری سورۂ بقرہ کی آیت کے تحت بعض سلف کا یہ قول نقل کرتے ہیں:
یعنی تعالی ذکرہ بذلک ان اللہ قد حرم علی المومنات ان ینکحن مشرکا کائنا من کان المشرک ومن ای اصناف الشرک کان، فلا تنکحوہن ایہا المومنون منہم فان ذلک حرام علیکم ولان تزوجوہن من عبد مومن مصدق باللہ وبرسولہ وبما جاء بہ من عند اللہ خیر لکم من ان تزوجوہن من حر مشرک ولو شرف نسبہ وکرم اصلہ وان اعجبکم حسبہ ونسبہ (۶)
’’اللہ تعالیٰ کا مقصود اس سے یہ ہے کہ اس نے مومن عورتوں پر یہ بات حرام کر دی ہے کہ وہ کسی مشرک سے نکاح کریں، خواہ وہ کیسا ہی کیوں نہ ہو اور اس میں جس نوعیت کا شرک بھی پایا جاتا ہو، اس لیے اے جماعتِ مومنین! تم ان عورتوں کا نکاح ان مشرک مردوں سے نہ کرو، کیوں کہ ایسا کرنا تم پر حرام ہے۔ان کا نکاح تم اللہ ، اس کے رسول اور اس کی طرف سے لائی گئی وحی پر ایمان رکھنے والے مومن غلام سے کرو، یہ اس سے بہتر ہے کہ تم ان کا نکاح کسی آزاد مشرک سے کر ڈالو؛اگرچہ اس کا حسب و نسب اعلیٰ ہی کیوں نہ ہو اور اس کی خاندانی نسبت اور حسن وجمال تم کو متاثر ہی کیوں نہ کرے۔‘‘
اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں شرک اپنے عموم پر ہے اوراس عموم کی وجہ بظاہر اس حکم کی علت ہے۔ جملہ أُوْلَئِکَ یَدْعُونَ إِلَی النَّارِ ماقبل کے ساتھ بغیر عطف کے واقع ہوا ہے اور اس کی حیثیت یہاں استینافِ بیانی کی ہے جو ماقبل کلام سے پیدا ہونے سوال کا جواب ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس ممانعت کی وجہ اور علت کیا ہے؟ اس کا جواب اس جملے میں دیا گیا ہے کہ یہ لوگ جہنم کے داعی ہیں، اس لیے ان کے ساتھ یہ نکاح منع ہے۔اگرچہ قرآن مجید میں مشرکین سے براہ راست مراد عام طور پر اس عہد کے مشرکین ہوتے ہیں، لیکن احکام کا تعلق ان کی علتوں کے ساتھ ہوتا ہے ، الا یہ کہ کوئی واضح دلیل آ کر یہ بتا دے کہ یہ حکم انہی افراد کے ساتھ خاص ہے۔ چناں چہ شرک کی یہ علت جہاں بھی پائی جائے گی، وہ دعوتِ جہنم کو مستلزم ہونے کی وجہ سے اس امتناع کا سبب قرار پائے گی اور اس کے دینی اور ایمانی نقصانات سے بچنا جہاں ممکن نہ ہو، وہاں اس کی بنیاد پر حکم کا ترتب ہو گا۔اصول ہے کہ اذا علق الشارع حکما علی علۃ فانہ یوجد حیث وجدت. (۷) (شارع نے کوئی حکم کسی علت کے ساتھ مربوط کیا ہو تو جہاں بھی وہ علت پائی جائے گی، وہ حکم بھی پایا جائے گا۔)
سورۂ ممتحنہ میں بھی مسلمان عورتوں کو کافروں کی طرف لوٹانے کی نہی ہے اور کہا گیا ہے کہ وہ ایک دوسرے پر جانبین سے حلال نہیں ہیں۔ یہاں بھی کفار سے مراعد سیاق وسباق کی روشنی میں مشرکین ہی ہیں۔اس لیے مسئلے کا نقطہ ارتکاز سورۂ مائدہ کی آیت ہے جس میں مومن مردوں کو مومن مسلمان عورتوں اور اہلِ کتاب کی پاک باز عورتوں سے نکاح کے حلال ہونے کو بیان کیا گیا۔اس آیت میں مسلمان عورت کو کتابی مرد سے نکاح کرنے کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا، لیکن آیا اس سکوت کی وجہ سے یہ مقام مجتہد فیہ بن گیا ہے اور حالات اور ظروف کے مطابق اس کا معاملہ مسلمانوں کی مرضی کے سپرد کر دیا گیا ہے؟ اس بات کو جاننے کے لیے اس آیت کو اس کے سیاق میں دیکھنا ضروری ہے۔ اصل میں یہ آیت سابقہ آیت سے مربوط ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ’’لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کیا چیز حلال کی گئی ہے؟ آپ ان سے کہہ دیجیے کہ تمہارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئی ہیں۔‘‘ (۸) پھر اس آیت میں کچھ چیزوں کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ تمھارے لیے حلال ہیں۔ آگے زیر بحث آیت اصل میں اسی سوال کے جواب کا تسلسل ہے۔ شیخ محی الدین الدرویش نے اس کی نحوی تالیف اس طرح ذکر کی ہے۔
کلام مستانف مسوق لتکریر ذکر الطیبات التی احلت لکم یوم السوال عنہا او الیوم الذی اکملت لکم دینکم (۹)
’’یہ کلام استینافی ہے جس کو انھی پاکیزہ چیزوں کے بیان کو تقویت بخشنے کے لیے لایا گیا ہے جن کو ان کے بارے میں سوال کے یا تکمیلِ دین کے زمانے میں حلال کیاگیا۔‘‘
گویا آیت اور ماقبل آیت کے درمیان حرفِ عطف کا نہ آنا اس بات کا قرینہ ہے کہ یہاں کلام میں بلاغت کی اصطلاح میں فصل بصورت اتحاد تام ہے، اور کلام کی جہت ایک ہی ہے۔جب یہ مقام حلال اور حرام جیسے نہایت نازک امورکی (نئے سرے سے یا تکریرِ سابق کے طور پر)تشریع کاہے تو پہلے اللہ تعالیٰ نے دونوں آیات میں عمومی انداز میں طیبات کا حلال ہونا بتایا، لیکن انسانی عقل یا فطرت کو اس سلسلے میں فیصل اور قطعی قرار نہیں دیا جا سکتا اور ان کے بارے میں ہر وقت یہ احتمال ہے کہ وہ اس معاملے میں غلطی کا ارتکاب کر دیں ، اس لیے حلال امور کو واضح طور پر بتا دیا گیا۔ ایک نازک معاملے میں سوال کا بدیہی تقاضا یہ ہے کہ وہاں جن امور کی حلت یا حرمت بیان کرنا مقصود ہے تو ان کے کسی فرد کے بارے میں کوئی احتمال یا گنجلک کو باقی نہ رہنے دیا جائے اور بات کو واضح کر کے بیان کر دیا جائے ، ورنہ یہ بات ایک حکیمانہ جواب کی عظمت کے منافی ہے۔اگر یہ مقام سوال کے جواب کا نہ ہوتا۔جہاں ایک کلامِ بلیغ کے مناسب وضاحت اصل ہے اور ابہام اس کی بلاغت کے منافی ہے۔ اور متکلم از خود کوئی تشریعی امور کو بیان کر رہا ہوتا تو یہ احتمال تھا کہ یہ مقام مجتہد فیہ ہو جائے، کیوں کہ بہ ہر حال حلال اور حرام کا دائرہ بہت وسیع ہے اور اس میں اصل طیب ہونا ہے، لیکن ان طیبات کے مخصوص افراد میں مسلمان مرد کے کتابی عورت سے نکاح کے حلال ہونے کو بیان کر دینا اور اس کے برعکس صورت کو بیان نہ کرنا اس بات کا واضح قرینہ ہے کہ یہاں اس طیب کا دائرہ مخصوص ہے؛ اس لیے کسی مسلمان عورت کا غیر مسلم کتابی سے نکاح درست نہیں ہو گا ’’کیوں کہ آیت میں صرف اہل کتاب عورتوں کے متعلق بتایا گیا ہے۔‘‘ (۱۰)
2۔ استدلال کے اس علمی پہلو کے علاوہ مسلمان عورت کے غیر مسلم کے ساتھ نکاح کے ناجائز ہونے کا دوسرا اہم پہلو مقاصدی ہے اور سورۂ بقرہ کی آیت کے ضمن میں مشرکوں کے ساتھ نکاح کے عدمِ جواز کی علت کے بیان میں، جیسا کہ ذکر ہوا، یہ بات ذکر کی گئی ہے کہ اس کا تعلق دین اور ایمان کی حفاظت کے ساتھ ہے۔ سورۂ مائدہ کی مذکورہ بالا آیت کے ساتھ بھی وَمَن یَکْفُرْ بِالإِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہُ وَہُوَ فِی الآخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ (اور جو کوئی ایمان کے ساتھ کفر اختیار کرے گا تو اس کا عمل اکارت جاے گا اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہو گا)۔ مسلمان مرد کو کتابی عورت کے ساتھ نکاح کرنے کو جائز کہنے کے باوجود قرآنِ کریم نے اصل مقصدی پہلو کو سامنے رکھا ہے اور وہ ہے ایمان اور دین کا پہلو۔ یہ جملہ معترضہ بتا رہا ہے کہ یہاں یہ اجازت ان کے تزکیہ حال کے لیے نہیں بلکہ تیسیر مسلمین کے لیے ہے۔(۱۱)
3۔ یہاں یہ بات غور طلب ہے جس کی طرف مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے اشارہ کیا ہے کہ یہاں یہ حکم اور اجازت اس دور میں دی گئی ہے جب اسلام کو مکمل غلبہ حاصل ہو چکا ہے، چناں چہ کہتے ہیں:
’’اس دور میں کفار کا دبدبہ ختم ہو چکا تھا اور مسلمان ایک ناقابل شکست طاقت بن چکے تھے۔ یہ اندیشہ نہیں تھا کہ ان کو کتابیات سے نکاح کی اجازت دی گئی تو وہ کسی احساس کمتری میں مبتلا ہو کر تہذیب اور معاشرت اور اعمال و اخلاق میں ان سے متاثر ہوں گے۔ بلکہ توقع تھی کہ مسلمان ان سے نکاح کریں گے تو ان کو متاثر کریں گے اور اس راہ سے ان کتابیات کے عقائد و اعمال میں خوشگوارتبدیلی ہو گی اور عجب نہیں کہ ان میں بہت سی ایمان و اسلام سے مشرف ہو جائیں۔ علاوہ ازیں یہ پہلو بھی قابل لحاظ ہے کہ کتابیات سے نکاح کی اجازت بہرحال علیٰ سبیل التنزل دی گئی ہے۔ اس میں آدمی کے خود اپنے اور اس کے آل و اولاد اور خاندان کے دین و ایمان کے لیے جو خطرہ ہے، وہ مخفی نہیں ہے۔‘‘ (۱۲)
جناب جاوید احمد غامدی نے یہی بات بڑی جامعیت اور اختصار کے ساتھ بیان کی ہے، لکھتے ہیں:
’’آیت کے سیاق سے واضح ہے کہ یہ اجازت اس وقت دی گئی جب حلال و حرام اور شرک و توحید کے معاملے میں کوئی ابہام باقی نہیں رہا۔اس کے لیے آیت کے شروع میں لفظ ’’الیومَ‘ بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس اجازت میں شرک وتوحید کے وضوح اور شرک پر توحید کے غلبے کو بھی یقیناًدخل تھا۔لہٰذا اس بات کی پوری توقع تھی کہ مسلمان ان عورتوں سے نکاح کریں گے تو یہ ان سے لازماً متاثر ہوں گی اور شرک وتوحید کے مابین کوئی تصادم نہ صرف یہ کہ پیدا نہیں ہو گا، بلکہ ہو سکتا ہے کہ ان میں بہت سی ایمان و اسلام سے مشرف ہو جائیں۔ یہ اس اجازت سے فائدہ اٹھاتے وقت اس زمانے میں بھی ملحوظ رہنی چاہیے۔‘‘ (۱۳)
یہ بات بہت معنی خیز ہے کہ جب یہ غلبے کے دور کی بات ہے اور اس میں نکاح کی اجازت بھی صراحتاً مسلمان مرد کو دی گئی ہے جس کو بیوی پر ولایت کاملہ حاصل ہوتی ہے تو آخر اس غلبے کے عہد میں کسی مسلمان عورت کو یہ اجازت کیوں نہیں دی گئی؟ اس عہد میں اسلام کی دعوت اپنے شباب پر تھی اور داعی اعظم کا وجودِمسعود خود امت میں موجود تھا جنھوں نے کفار کی تالیفِ قلب اور ان کو مسلم معاشرے میں جذب کرنے کے لیے ناقابلِ فراموش اقدامات کیے۔ کیا ان کو اس بات کی حرص نہیں ہو سکتی تھی کہ اس نکاح کو جائز قرا ر دیتے اور صحابہ کرام کو بھی اس کی ترغیب دیتے؟جب کہ صورتِ حال یہ ہے کہ اس وقت کا کوئی ایک واقعہ بھی اس نظریے کی تائید نہیں کرتا۔ مرد کو اجازت دے کر یہ مقصود بھی اسلام نے حاصل کر لیا اور یہاں تک گنجائش بھی تھی جس کو نظر انداز نہیں کیا گیا، لیکن عورت کے معاملے میں یہ مقصد حاصل ہونے کے بجائے اس اقدام کے Counter Productive ہونے کاغالب اور واضح امکان موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ عورت عام طور پرتاثر پذیر ہوتی ہے اور مرد کی قوامیت میں ہوتے ہوئے یہ غالب امکان بلکہ امر واقعہ ہے کہ وہ مرد کی پسند اور ناپسندکے تابع ہوتی ہے، اس لیے یہ عین ممکن ہے کہ وہ (جس کو حدیث میں ناقصات العقل والدین کہا گہا ہے)مرد کے کافرانہ عقائد اور اعمال کو اختیار کر لے۔ عورت کی یہی انفعالیت اور تاثر پذیری ہے جس کی وجہ سے اسے شریعت اسلامی میں حکم و امامت کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔
اسی بات کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ مسلمان کے کافر عورت سے نکاح کرنے کے جواز اور برعکس صورت کے عدمِ جواز کے درمیان ایک فارق موجود ہے جس کی وجہ سے دونوں صورتوں کو ایک دوسرے پر قیاس نہیں کیا جاسکتا، اور وہ یہ کہ مسلمان یُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَیْْکَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِکَ کے تحت سابقہ انبیاء اور ادیان کے، نسخ سے پہلے صحیح ہونے پر ایمان رکھتا ہے۔یہ بات اس کے اسلام کی طرف آنے کا ایک مثبت باعث ہو سکتی ہے، جب کہ ایک نصرانی یا یہودی نہ مسلمانوں کے دین کو صحیح مانتا ہے اور نہ آپ کی نبوت پر ایمان رکھتا ہے۔ ان کا توحید بھی تثلیث جیسے شرک کی بدترین آلودگی میں ملوث ہے؛اس لیے مسلمان عورت کے لیے غالب امکان ہے کہ کافر اس کو اپنے دین کی طرف کھینچ لے۔ (۱۴)
علامہ عبداللہ یوسف علی کہتے ہیں:
A Muslim woman may not marry a non-Muslim, because her Muslim status would be affected: the wife ordinarily takes the nationality and status given by her husband's law. A non-Muslim woman marrying a Muslim husband would be expected eventually to accept Islam. (15)
’’ایک مسلمان عورت ایک غیرمسلم مرد سے شادی نہیں کر سکتی، کیوں اس سے اس کے مسلمان ہونے کی حیثیت متاثر ہو گی۔ بیوی عام طورپر خاوند کے قانون کی طرف سے دی گئی قومیت اور حیثیت کو اختیار کرتی ہے۔ اس کے بر عکس ایک مسلمان سے شادی کرنے والی غیر مسلم عورت آخر کار اسلام قبول کر لے گی۔‘‘
وہبہ زحیلی اس حکمت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وسبب تحریم زواج المسلم بالمشرکۃ والمسلمۃ بالکافر مطلقا کتابیا کان او مشرکا ہو ان اولئک المشرکین والمشرکات یدعون الی الکفر والعمل بکل ما ہو شر یودی الی النار، اذ لیس لہم دین صحیح یرشدہم ولا کتاب سماوی یہدیہم الی الحق مع تنافر الطبائع بین قلب فیہ نور وایمان وبین قلب فیہ ظلام وضلال، فلا تخالطوہم ولا تصاہروہم اذ المصاہرۃ توجب المداخلۃ والنصیحۃ والالفۃ والمحبۃ والتاثر بہم وانتقال الافکار الضالۃ والتقلید فی الافعال والعادات غیر الشرعیۃ، فہولاء لا یقصرون فی الترغیب بالضلال مع تربیۃ النسل او الاولاد علی وفق الاہواء والضلالات (۱۶)
’’مسلمان مرد کے مشرک عورت کے ساتھ اور مسلمان عورت کے علی الاطلاق کافر مرد، خواہ وہ کتابی ہو یا مشرک، کے ساتھ نکاح کے ناجائز ہونے کی وجہ یہ ہے کہ مشرک مرد اور عورتیں، کفر اور واصل جہنم کرنے والے اعمالِ شرکے داعی ہوتے ہیں، کیوں کہ ان کے پاس باعث ہدایت کوئی صحیح دین اور حق کی طرف رہ نمائی کرنے والی کوئی آسمانی کتاب نہیں ہے، نیز نور وایمان اور ظلمت و ضلال کے دلوں کے فرق کے لحاظ سے ان کی طبیعتوں میں تضاد ہے، اس لیے نہ تو ان کے ساتھ اختلاط کرو اور نہ ان کے ساتھ رشتہ داریاں قائم کرو؛ کیوں کہ رشتے داریاں، تعلق باہمی، خیر خواہی، محبت و الفت، ان سے متاثر ہونے، گمراہ کن افکار کے منتقل ہونے اور غیر شرعی عادات و اعمال کی تقلید کا باعث ہوتی ہیں؛ اس لیے کہ یہ لوگ گم راہی کی ترغیب کے ساتھ ساتھ اپنی خواہشات اور گم راہیوں کے مطابق نسل کی تربیت میں کوتاہی نہیں کرتے۔‘‘
ایمان اور دین کا یہی وہ لازمی پہلو ہے جس کی وجہ سے امت کے متعدد فقہا نے دارالحرب اور دارالکفر میں کتابیات سے نکاح کو مکروہ قرار دیا ہے۔
یہاں عہد صحابہ کے ایک واقعے کا ذکر مناسب ہوگا۔ حضرت حذیفہ بن یمانؓ نے ایک یہودی عورت سے شادی کی تو حضرت عمرؓ نے ان کو لکھا کہ اس کو طلاق دے دیں۔ حذیفہ نے ان کولکھا کہ اگر یہ حرام ہے تو طلاق دے دیتا ہوں۔ حضرت عمر نے جواباً تحریر فرمایا کہ میں نہیں کہتا کہ حرام ہے، لیکن مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ تم ان کی بیسواؤں کے چکر میں پڑ جاؤ گے۔ (۱۷)
یہ نصیحت اس صحابی کو کی جا رہی ہے جس کا مزاج یہ تھا کہ لوگ حضور سے خیر کے سوالات پوچھتے تھے اور یہ شر کے سوالات دریافت کرتے تھے کہ کہیں فتنے میں نہ پڑ جائیں اور نصیحت کرنے والی شخصیت فاروقِ اعظم کی ہے جن کی ایمانی دوربینی اور بصیرت محتاجِ تعارف نہیں ہے۔ اس بات سے واضح ہوتا ہے کہ اس معاملے میں صحابہ کا مزاج کیا تھا اور وہ ان امورمیں دینی مصالح کو کس طرح ترجیح دیتے تھے۔ اسی بات کے پیشِ نظر امام مالک کے نزدیک کتابیہ عورت سے نکاح مکروہ ہے۔ (۱۸)
مسلمان مرد کے غیر مسلم عورت سے نکاح کے بارے میں اس طویل عرض کا مقصود یہ تھا کہ اس اجازت میں شریعت اسلامی کا مزاج واضح ہو جائے کہ یہ اجازت کوئی اتنی پسندیدہ چیز نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں عورت کو کسی کے نکاح میں دینا مرد کے نکاح کے مقابلے میں زیادہ نزاکت کا حامل ہو تا ہے جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ عورت پر مرد کو کامل ولایت حاصل ہو تی ہے اور وہ اس کے عادات واطوار کے اپنانے میں منفعل مزاج ہوتی ہے۔کافر کے نکاح میں دینا یقینی اور بدیہی طورپر اس کے دین کی تباہی کے باعث ہو گا ، اس لیے اس سے نکاح کو شریعت بہ طریقِ اولیٰ نادرست قرار دے گی۔
بعض کتبِ تفسیر میں ایک روایت ان الفاظ میں ملتی ہے:
عن جابر بن عبد اللہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ’’نتزوج نساء اہل الکتاب ولا یتزوجون نساء نا‘‘. (۱۹)
’’حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کر سکتے ہیں، لیکن وہ ہماری عورتوں سے نکاح نہیں کر سکتے۔‘‘
علامہ ابن کثیر یہ روایت نقل کرنے کے بعد ابن جریر طبری کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ اگرچہ اس روایت کی سند میں وجوہِ ضعف موجود ہیں، لیکن امت کے اجماع کی وجہ سے اس کو درست تسلیم کیا جائے گا۔ (۲۰)
اس بحث کے بعد ڈاکٹر شکیل اوج کے موقف سے تعرض کیا جا تا ہے۔ ڈاکٹر اوج نے اس مسئلے کے بیان کرنے سے پہلے ایک تمہید ذکر کی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ قرآنِ کریم نے مشرکین سے دو طرفہ نکاح کی ممانعت کی ہے اور اہلِ کتاب سے یک طرفہ نکاح کی۔ مشرکین سے قرآنی اصطلاح کے مطابق صرف عہد نبی کے مشرکین مراد ہیں اور یہ ممانعت انہی کے ساتھ خاص ہے۔ اہل کتاب سے نکاح کے معاملے میں یک طرفہ جواز کو بیان کیا گیا ہے اور جانب ثانی (مسلمان عورت کے کتابی مرد سے نکاح) کے بارے میں سکوت اختیار کیا گیا ہے جس کی وجہ سے یہ مسئلہ مجتہد فیہ بن گیا ہے اور حالات اور ضرورت کے تحت کسی بھی صورت کو اختیار کیا جا سکتا ہے۔ نیز اہل کتاب کا خاص اطلاق یہود ونصاریٰ پر ہے؛ لیکن تحقیق کے بعد دنیا کی بیش تر اقوام کو اہل کتاب قرار دیا جا سکتا ہے۔ (۲۱)
قرآنِ کریم کی مخصوص اصطلاحات ’مشرکین‘ اور ’اہل کتاب ‘ کے اطلاق میں یہ تخصیص اور تعمیم بظاہر درست نہیں ہے۔ مشرکین سے اگر قرآن کی مراد اس وقت کے مشرکین ہیں تو اہل کتاب سے بھی مراد یہود و نصاریٰ ہی ہیں اور اس دائرے کو پھیلا کر دنیا کی بیشتر اقوام کو اس کے تحت داخل کرنا تکلف محض ہے۔ لفظ مشرک کو اصطلاح پر باقی رکھنا اور لفظ اہ کتاب کو لغوی پہلو سے عام کرنا دعویٰ بلا دلیل ہے۔ قرآن پاک نے جن اکتیس مقامات پر اہل کتاب کا لفظ اور سولہ مقامات پر اوتوا الکتب کے الفاظ استعمال کیے ہیں (جیسا کہ ڈاکٹر اوج بھی ذکر کرتے ہیں)، ان کا سیاق و سباق واضح طور پر بتاتا ہے کہ مراد یہود ونصاریٰ ہیں اور ان سے کسی اور قوم کو مراد نہیں لیا جا سکتا جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے کتاب نازل کی ہو۔ اگر کتاب کے لفظ کی عمومیت سے (جیسا کہ البقرہ ۲۱۳ کا حوالہ دیا گیا ہے) دیگر اقوام بھی مراد لی جائیں اور تحقیق کے بعد ان کو اہلِ کتاب قرار دیا جاسکتا ہے تو لفظِ شرک اور اس کے مشتقات کو سامنے رکھ کر یہ دعویٰ کرنا کیوں درست نہیں ہے کہ شرک کی علت جہاں بھی موجود ہو، وہاں مشرک کے لفظ کا اطلاق درست ہے؟آخر مجوسی، صابی، ستارہ پرست، کنفیوشس کے پیروکار بدھ اس عموم میں کیوں نہیں آ سکتے؟ڈاکٹر اوج کا پہلا اطلاق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مکمل طور پر غلط ہے، بلکہ اس کی حیثیت ایسے ہی جیسے ہمارے عرف میں علما کا اطلاق ایک خاص طبقے پر ہوتا ہے لیکن اس سے کسی دوسرے سے علم کی نفی نہیں ہوتی؛ لیکن اسی اسلوب کی گنجائش دوسری جگہ پر اختیار کرنا بھی تو ممکن ہے اور مشرکین کے اطلاق عرفی کے علاوہ شرک کا وجود دوسری جگہ بھی تسلیم کیا جا سکتا ہے۔
علامہ رشید رضا کا کہنا ہے کہ قرآنِ کریم کی دونوں اصطلاحوں ’مشرکین‘اور ’اہلِ کتاب‘میں اس اجتہاد کی گنجائش موجود ہے کہ ان کو اپنے خاص اطلاق سے ہٹ کر بھی استعمال کیا جائے۔ (۲۲) چناں چہ سلف میں بعض افراد سے یہ بات مروی ہے کہ انھوں نے مشرکین سے نکاح کی ممانعت والی آیت میں حکم کا مدار مخصوص اصطلاح پر نہیں رکھا بلکہ اس علت پر رکھا ہے جس کی وجہ سے یہ حکم دیا گیا اور وہ علت شرک ہے۔ پہلے ابن جریر طبری کے حوالے سے یہ بات گزری ہے اور صحابہ میں حضرت ابن عمرکی طرف یہ بات منسوب ہے کہ وہ مشرکین سے نکاح کی نہی میں یہود ونصاریٰ کو بھی داخل سمجھتے تھے اور ان کی یہ دلیل تھی کہ جب یہود حضرت عزیر کو اور نصاریٰ حضرت عیسیٰ کو اللہ کا بیٹا قرار دیتے ہیں تو پھر اس شرک سے بدترین شرک اور کون سا ہو سکتا ہے جس کے بعد ان سے مناکحت کے معاملات جائز ہوں؟ جن مفسرین نے اس قول کو اختیار کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ آیت اپنے نزول کے وقت تمام غیرمسلموں، خواہ وہ کتابی ہوں یا غیر کتابی ، کو شامل تھی، لیکن یہ حکم سورۂ مائدہ کی آیت سے جزوی طور پر منسوخ ہے۔(۲۳) تاہم یہ مذہب کم زور ہے اور جمہور کا موقف یہی ہے کہ یہ نکاح جائز ہے البتہ ایسا کرنا،جیسا کہ گزرا، ضرورت کے تحت ہی ہے اور شریعت کی نظر میں زیادہ پسندیدہ عمل نہیں ہے۔
اس تمہید کے بعد ڈاکٹر اوج کہتے ہیں کہ مسلمان عورت کے کتابی مرد سے نکاح کا معاملہ مجتہد فیہ ہے اور ضروریاتِ زمانہ کے اقتضا سے کوئی صورت اختیار کی جا سکتی ہے اور ہمیں اس سکوت میں اثبات کا پہلو زیادہ قرین صواب لگتا ہے، کیوں کہ مثبت معنی کے متعدد قرائن خود قرآن میں موجود ہیں۔اس کے بعد انھوں نے اپنے دعوے کی تائید میں چار قرائن پیش کیے ہیں۔
پہلا قرینہ یہ ہے کہ سورۂ بقرہ کی آیت 221 اور سورۂ ممتحنہ کی آیت ۱۰ میں مشرکین سے نکاح کے معاملے میں نہی دو طرفہ ہے، لیکن سورۂ مائدہ میں حلت کا یک طرفہ بیان ہے؛ اس لیے اگر’’مسلمان عورت کا نکاح اہلِ کتاب مرد سے ناجائز ہوتا تو ضرور اس مقام پر اس کی صراحت کر دی جاتی، جیسا کہ مشرک مردوں کے معاملے میں کی گئی۔‘‘(۲۴)
اثباتی پہلو کے لیے پیش کیا گیا یہ قرینہ کم زور معلوم ہوتا ہے۔ یہاں اسی بات کو دلیل مثبِت بنانے کے بجائے اگر یہ کہا جائے کہ سورۂ بقرہ اور ممتحنہ میں جب دو طرفہ نہی ہے تواس سے معلوم ہوا کہ یہ حرمت دونوں طرف سے ہے۔ اگر اہلِ کتاب کے معاملے میں بھی حلت دو طرفہ ہوتی تو اس کو واضح طور پر بیان کر دیا جاتا ، لیکن یہاں چوں کہ یک طرفہ حلت کا بیان ہے، اس لیے مسئلہ مجتہد فیہ نہیں رہا ، بلکہ یہ بات بالبداہت ثابت ہو گئی کہ کتابی عورت سے تو مسلمان مرد کا نکاح تو جائز ہے، لیکن برعکس جائز نہیں، کیوں کہ اگر دوسری صورت بھی جائز ہوتی تو اس کو صراحت کے ساتھ بیان کر دیا جاتا جس طرح مشرکین کے معاملے میں بیان کیا گیا۔ اگر اس زاویے سے دیکھا جائے جائے تو یہی بات دلیل مثبِت نظر آنے کے بجائے دلیل نافی نظر آنے لگتی ہے اور اس کی تردید کا بظاہر کوئی قرینہ نہیں ہے۔
یہاں اگر دونوں آیات کے سیاق وسباق پر غور کیا جائے تو اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ سورۂ بقرہ کی آیت سے پہلے مصالحت یتامیٰ کا مضمون ہے اور اس کے تناظر میں کہا گیا ہے کہ اس مصلحت کی اہمیت اپنی جگہ لیکن ایمان بہ ہر حال مقدم ہے اور اس کے لیے نکاح اہل ایمان ہی سے مناسب ہے۔بعد میں بھی یہی کہا گیا کہ مشرکین داعی جہنم ہیں۔ گویا مقام شرح و توضیح کا تھا، اس لیے اس کو واضح کر کے بیان کر دیا گیا۔ سورۂ مائدہ میں بھی۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے ۔یہ مقام اصل میں سوال کے جواب کا مقام ہے اور ایسے مقام پر کلامِ بلیغ کا تقاضا ہے کہ بات میں ایجاز نہ ہو ، بلکہ وہ اطناب اور شرح کے ساتھ ہو کہ سائل کی تشفی ہو جائے اور جواب ملنے کے بعد بھی وہ تشنگی کا احساس نہ کرے۔ چناں چہ یہاں جو جواب شارع کے ہاں مقصود تھا، وہی بیان کر دیا گیا ۔ اگر جانب ثانی اس کی نظر میں حلال ہوتی تو اس کو ضرور بیان کیا جاتا اورسوال کا جواب ہونے نیز تشریع کا مقام ہونے کا تقاضا بھی یہی تھا۔ شرح و توضیح کے مقام پر کلامِ بلیغ کا تقاضا اطناب ہے نہ کہ ایجاز اور پھر مقام اگر نکاح جیسے نازک ترین مسائل کی حلت وحرمت سے متعلق ہو تو وہاں اس کی حساسیت اور بڑھ جاتی ہے اور اس کی حلت و حرمت کا مسئلہ انسانی عقل کے حوالے کرنا کلامِ حکیم کے شایانِ شان نہیں ہے۔ سورۂ نساء میں قرآن نے جہاں محرمات کا بیان کیا ہے، وہاں بھی اطناب اور تفصیل کا اسلوب اختیار کیا ہے۔
دوسرا قرینہ ڈاکٹر شکیل اوج نے اپنے موقف کی تائید میں یہ ذکر کیا ہے کہ سورۂ مائدہ کی اس آیت سے پہلے طیبات کی حلت کا اصول بیان کیا گیا ہے اور پھر طعام کی دوطرفہ حلت کے بیان کے ساتھ ایجاز واختصار کے پیش نظر نکاح میں بہ ظاہر یک طرفہ حلت کو بیان کیا گیا ، لیکن یہ اجازت اصلاً دو طرفہ حلت ہی کو متضمن ہے، کیوں کہ اہلِ کتاب کے مرد بھی محصن ہونے کہ وجہ سے طیب ہو سکتے ہیں۔(۲۵)
یہ قرینہ بھی ایک کم زور قرینہ معلوم ہوتا ہے۔ یہاں بنیادی سوال اہمیت کا ہے۔ کیا شارع کے بلیغ کلام کا یہ نقص نہیں تصور ہوگا کہ طعام کے معاملے میں تو وہ اطناب اور شرح کے ساتھ بتائے کہ وہ دونوں طرف سے حلال ہے ، جب کہ اصول ہے کہ اشیا میں اصل اباحت ہے اور نکاح کے معاملے میں وہ ایجاز سے کام لے جو حلت اور حرمت کے پہلو سے کھانے کے مقابلے میں ایک بہت نازک مسئلہ ہے؟ نکاح کا معاملہ یہاں اگر دوطرفہ حلال ہوتا تو یقیناًاس میں بھی یہاں طعام کی طرح اطناب ہی سے کام لیا جاتا۔ طیبات کو یقیناًشارع نے اصولاً حلال ٹھہرایا ہے ،لیکن اس کے ساتھ بعض حلال چیزوں کو بیان کرنا اسی مقصد کے لیے ہے کہ یہاں انسانی عقل خود ہی طیب کا تعین کرنے میں نہ ٹھوکر کھائے، چناں چہ یہاں طیبات کا دائرہ بیان کر دیا۔ باقی جن طیبات کا ذکر نہیں ہے تو ان میں شریعت کے اس اصول پر عمل کیا جائے گاکہ اشیا میں اصل اباحت ہے اور ابضاع میں اصل تحریم ہے۔ علامہ ابن نجیم فرماتے ہیں: لا یجوز التحری فی الفروج. (۲۶) (فروج کے معاملے میں تحری اور اجتہاد جائز نہیں ہے۔) اس اصل کی حکمت یہی ہے کہ اگر اس میں انسانی عقل کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو انسانی دین اور تمدن پر جو افتاد آئے گی وہ محتاجِ وضاحت نہیں ہے۔اہلِ کتاب عورتوں کے ساتھ مسلمان مردوں کا نکاح غلبہ اسلام کے عہد میں جائز قرار دینا خدمتِ اسلام کی مصلحت کے تحت ہے تاہم شریعت کی نظر میں یہ کوئی بہت پسندیدہ عمل نہیں ہے اور عہد صحابہ میں اس کی چند ایک مثالیں ہی ملتی ہیں،جیسا کہ پہلے گزرا، لیکن مسلمان عورت کو ایک کافر کے نکاح میں دینا اس مصلحت کے حق میں قطعا نہیں ہے۔ اگر یہ کوئی پسندیدہ صورت ہوتی تو یقیناًصحابہ کرام بھی اپنے ذہن رسا سے یہ اجتہاد فرما سکتے تھے اوراہل کتاب کے ’’محصنینِ طیبین‘‘کو تلاش کر کیاس عہد کی نہایت مضبوط ایمان والی صحابیات اس مقصد کو بخوبی پورا کر سکتی تھیں کہ اس کے نکاح میں آ کر اس سے متاثر ہونے کے بجائے اس کی سیرت و کردار کو بدل لیتیں، لیکن اس عہد مبارک کی کوئی ایک مثال بھی اس اجتہاد کی نہیں ملتی۔یہاں تو قرآن کی واضح طور پر اجازت کو بھی دین کے وہ متوالے زیادہ پسندیدہ نہیں سمجھ رہے اور دینی مصلحت کو زیادہ پیشِ نظر رکھ رہے ہیں، جب کہ ان کے مضبوط ایمان کے بارے میں یہی گمان کیا جا سکتا ہے کہ اس طرح کے نکاح ان کے لیے زیادہ مضر بھی نہیں ثابت ہو سکتے تھے۔ڈاکٹر شکیل اوج کے نزدیک ’’جب’’ باعمل کتابیہ ‘‘ مسلم خاندان میں جذب کی جا سکتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ کسی ’’باعمل کتابی‘‘کو جذب نہیں کیا جا سکتا؟باکردار کتابی مردوں کو مسلم معاشرہ یا خاندان میں جذب نہ کرنا غیر مساویانہ طرزِ عمل اختیار کرنا ہے، یا ایک ہی طرح کے مقدمہ میں دو طرح کے فیصلے کرنا ہے۔‘‘ (۲۷) ڈاکٹر اوج کی یہ رائے عالم گیریت کے تناظر میں درست سہی، لیکن اس میں کچھ معذرت خواہی کا انداز نظر آتا ہے۔پہلے یہ بات گزری کہ غلبہ اسلام کے عہد میں اہلِ کتاب سے قرب و موانست کے پیش نظر ان کے ساتھ معاملہ مناکحت کی جس حد تک گنجائش تھی، وہ دے دی گئی۔ اگر اس عہدِ مسعود میں جانب ثانی کی کوئی گنجائش ہو تی تو اس کو ضرور ذکر کیا جاتا اور عملاً اس کا کا کوئی نمونہ سامنے آتا، لیکن ظاہر ہے کہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔
تیسرا قرینہ یہ پیش کیا گیا ہے کہ اہلِ کتاب کی محصنات سے پہلے مومن محصنات کا ذکر ہے،اور مومن مردوں کا ذکر نہیں ہے، لیکن وہاں دو طرفہ صورت جائز ہے تو اہلِ کتاب کے محصن مردوں کے معاملے میں یہی دوطرفہ صورت اختیار کی جائے گی۔ (۲۸)
یہ قرینہ تقریباً پہلے قرینے کی مانند ہی ہے اور اس پر گفتگو سے اس کا جواب واضح ہے کہ یہاں مقام تشریع کا ہے اور اگر شارع کے پیش نظر یہ بات ہوتی تو اسے ضرور واضح کر دیا جاتا۔
چوتھا قرینہ یہ پیش کیا گیا ہے کہ قرآن میں غیر شادی شدہ مسلمان عورتوں کو کہیں بھی مسلمان مردوں سے شادی کا حکم نہیں دیا گیاجو کہ ان کے ہم مذہب ہیں تو ان کو غیر مسلم مردوں سے نکاح کاکیسے حکم دیا جاتا، اور اس عدمِ ذکر سے یہ کیسے لازم آیا کہ اہل کتاب مردوں سے مسلمان عورتیں نکاح نہیں کر سکتیں۔(۲۹)
یہ دلیل تقریباً اسی طرح کی ہے جو میلاد شریف کے جواز کے لیے پیش کی جاتی ہے کہ جب قرآن وحدیث میں اس کی نہی وارد نہیں ہے تو اس سے خود بہ خود ثابت ہوا کہ وہ جائز ہے۔اگر اس سے نہی نہیں ہے تو اس کا ناجائز ہونا کہاں سے ثابت ہوتا ہے؟ قرآن کریم نے مشرکین سے نکاح کے معاملے میں جب دو طرفہ حکم دیا ہے تو وہاں ظاہر ہے خطاب مسلمان مرد اور عورتوں دونوں کو ہے۔ یہاں دلالۃ النص سے خود یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ اہل ایمان کا آپس میں نکاح جائز ہے، مسلمان مرد کا مسلمان عورت سے اور برعکس بھی،لیکن جب اہل کتاب کا معاملہ آتا ہے تو وہاں صرف یک طرفہ صورت ہی بیان کی جاتی ہے۔ یہاں آخر شارع کو کیا امر مانع تھا کہ اس نے دوسری طرف کو بیان نہیں کیا؟ اگر یہ صورت جائز ہوتی تو ضرور اس کو بھی ذکر کر دیا جاتا۔
ڈاکٹر شکیل اوج کی بحث کے بارے میں یہی کچھ عرض کرنا مقصود تھا۔ یہاں اس سوال کا جواب جاننا ضروری ہے کہ موجودہ حالات میں اس بحث کی ضرورت کیا تھی؟شروع میں یہ ذکر کیا گیا کہ بعض جگہوں پر یہ صورتِ حال پیش آ رہی ہے کہ مسلمان عورتیں غیر مسلموں کو ترجیح دے رہی ہیں، اس لیے اہل علم کو یہ سوچنے کی ضرورت پڑ رہی ہے۔ اس سلسلے میں درست طرز تو یہ تھا کہ ایمان وعمل سے دور بد نصیب مسلمانوں کو یہ تنبیہ کی جا تی اور ان کے والدین کو یہ احساس دلایا جاتا کہ اپنی اولاد کی احسن اسلامی خطوط پر تربیت کریں جس کے نتیجے میں یہ مسائل پیدا نہ ہوں۔لیکن نام نہاد مسلمانوں کی گم راہی ، بد عملی اور تہذیبِ مغرب کی کورانہ تقلید کو تہذیب و تمدن کے ارتقا کا نتیجہ یا مظہر سمجھ کراس طرح کی راہ نمائی یقیناًان کی مزید بے راہ روی کا باعث بن سکتی ہے۔خاندان کا ادارہ شاید وہ واحد ادارہ ہے جس میں مشرق اور مغرب کے درمیان ابھی بہت کچھ امتیاز باقی ہے اور یہاں کی عفت اور تقدس کا کافی گہرا نقش آج زندگیوں میں موجود ہے۔ اگر اس کو بھی ’’قانونِ انجذاب‘‘کے تحت اہلِ مغرب کی زندگیوں کے تابع کر دیا جائے تو پھر شاید ہماری تہذیبی شناخت کے لیے یہ زہرِ ہلاہل سے کم نہیں ہو گا۔بعض مغل شاہنشاہوں نے یہی طرزِ عمل اختیار کیا تو خاندان کے ادارے میں وہ تمام مفاسد در آئے جو ہندو تہذیب کا امتیاز تھے اور’’آج بھی جو لوگ قوموں اور مذہبوں کے امتیازی نشانات ونظریات کو ختم کرنے کے درپے ہیں، وہ اس کا سب سے زیادہ کارگر نسخہ آپس کی شادیوں ہی کو سمجھتے ہیں۔اس وجہ سے ایک مسلمان کو اس معاملے میں بے پرواہ اور سہل انگار نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ (۳۰)
آج سے چودہ سو سال پہلے تو شاید ممکن تھا کہ اْس ماحول میں کوئی محصن مل جائے اور اس سے بھی یک طرفہ اجازتِ نکاح دی جائے، لیکن آج کے جس منظر نامے میں یہ بحث چھیڑی گئی ہے، اس میں ’’اہل کتاب‘‘(جن کے دائرے میں ڈاکٹر شکیل اوج کے اجتہاد کی رو سے روئے زمین کے تمام غیر مسلموں کو تحقیق کے بعد داخل کیا جا سکتا ہے)میں صفت احصان کو تلاش کرنا شاید ایک نا ممکن کام ہو گا۔جہاں جنسی آزادی کو ایک فلسفہ حیات اور انسانی حق کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے اور اس کے برا ہونے کو سرے سے برا سمجھا ہی نہیں جارہا ، وہاں سے ’’محصنینِ طیبین‘‘ کو تلاش کرکے مسلمان عورتیں ان کے حوالے کرنے کا نقطہ نظر بہ ظاہر درست معلوم نہیں ہوتا۔اس طرح کا کوئی جواز اسلامی شریعت میں ہوتا تو خیرالقرون کا عہد اس کے لیے بہ ترین دور تھا، لیکن ظاہر ہے کہ اس عہد میں اس صورتِ حال کی کوئی ایک مثال بھی نہیں ملتی۔ پھر آج کے یہود ونصاریٰ میں کثیر تعداد ان لوگوں کی ہے جو سرے سے خدا کے وجود ہی کے قائل نہیں۔ مسلمان مرد کو اس عہد میں تثلیث کے پرستاروں سے یک طرفہ نکاح کی اجازت اس لیے دی گئی تھی کہ کم از کم بد ترین شرک کی آمیزش کے باوجود بہ ہر حال وہ لوگ خدا کے قائل ضرور تھے اور مسلمانوں اور ان میں وحدت کی بعض بنیادیں مشترک تھیں۔ آج یہ صورتِ حال بدل چکی ہے اور جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں شرک ایک شاکلہ تھا ،آج یہود ونصاریٰ کی زندگیوں میں الحاد ایک غالب شاکلے کی حیثیت رکھتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ علامہ شبیر احمد عثمانی آج کے اکثر اہل کتاب سے اْس تعامل کی نفی کرتے ہیں جو اْس عہد کے اہلِ کتاب کے ساتھ روا تھا، بلکہ ان کو تو سرے سے انہیں اہلِ کتاب کہنے ہی سے انکار ہے۔ فرماتے ہیں:
’’یہ یاد رہے کہ ہمارے زمانہ کے ’’نصاریٰ‘‘عموماً برائے نام نصاریٰ ہیں۔ان میں بہ کثرت وہ ہیں جو نہ کسی کتابِ آسمانی کے قائل ہیں ، نہ مذہب کے، نہ خدا کے۔ ان پر اہل کتاب کا اطلاق نہیں ہو سکتا، لہٰذا ان کے ذبیحہ او ر نساء کا حکم اہلِ کتاب کا سا نہ ہوگا۔‘‘ (۳۱)
مولانامفتی محمد تقی عثمانی نے بھی یہی بات فرمائی ہے۔(۳۲)اصل وجہ وہی ہے کہ اس قسم کے نکاح کی حلت و حرمت کا مدار کسی کے یہودی یا نصرانی ہونے کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ صیانت دین وایمان کی علت پر ہے۔آج کے اہلِ کتاب میں تو کسی مسلمان کو شاید ہی ایسی محصن عورت مل سکے اور برعکس صورتِ حال بھی اسی طرح ہے، اس لیے کسی مسلمان مرد کابھی اس طرح کامنصوص نکاح حرام لغیرہ ہوگا ، چہ جائے کہ مسلمان عورت کے نکاح کو جائز قرار جائے جس کی اجازت قرآنی فحواے کلام سے بہ آسانی مستنبط نہیں کی جاسکتی۔
جناب عمار خان ناصر کا مکتوب
برادرِ گرامی جناب سید متین شاہ صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
کتابی مرد کے ساتھ مسلمان عورت کے نکاح کے حوالے سے آپ کا مقالہ نظر نواز ہوا۔ ما شاء اللہ عمدہ استدلال پر مبنی ہے، اگرچہ بعض جگہ تبصرے ذرا سخت لہجے میں آ گئے ہیں۔
میرے طالب علمانہ فہم کے مطابق اس مسئلے کے جو قابل غور پہلو بنتے ہیں، ان کے حوالے سے اپنی معروضات پیش کر رہا ہوں:
سب سے بنیادی نکتہ اس بات کی تعیین ہے کہ مائدہ کی آیت میں محصنات اہل کتاب کے تصریحاً ذکر کیے جانے جب کہ محصنین سے سکوت کی وجہ ازروئے بلاغت کیا ہو سکتی ہے؟ آیا یہ سکوت اس پر دلالت کرتا ہے کہ اجازت صرف محصنات کے نکاح کی دینا مقصود ہے یا اس کے علاوہ کچھ دوسرے پہلو ؤں کا بھی احتمال ہے؟
پہلے نکتے کے حق میں یہ دلیل دی جا سکتی ہے (جو جصاص نے بیان کی ہے اور آپ نے بھی ا س کا ذکر کیا ہے) کہ مائدہ کی آیت دراصل سورۂ بقرہ میں مشرکین (یعنی ہر قسم کے اہل کفر) کے ساتھ حرمت نکاح کے عمومی حکم کے بعد ایک استثنایا تخصیص کو بیان کرنے کے لیے آئی ہے اور اس اعتبار سے یہاں محصنات اہل کتاب کے ذکر پر اکتفا اس بات کی دلیل ہے کہ محصنین اہل کتاب سے مسلمان عورتوں کے نکاح کے حوالے سے حرمت کا سابقہ حکم علیٰ حالہ برقرار ہے۔
اگر اس استدلال کا بنیادی مقدمہ درست ہو تو ظاہر ہے کہ نتیجہ بھی بہت محکم ہے، تاہم میری طالب علمانہ رائے میں بقرہ کی آیت: ولا تنکحوا المشرکین کی تعمیم کو قرآن مجید کی مخصوص اصطلاح اور استعمال قبول نہیں کرتا۔ اہل کتاب میں سے نصاریٰ میں یقیناًشرک پایا جاتا ہے، لیکن بطور ایک گروہ کے المشرکین کا لقب قرآن نے خاص طور پر اہل کتاب سے الگ، صرف مشرکین عرب کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس لحاظ سے صحیح صورت حال یہ بنتی ہے کہ قرآن نے بقرہ میں مشرکین سے نکاح کی تو ممانعت کر دی تھی، جبکہ کفار کے دیگر گروہوں کا حکم مسکوت عنہ رہا تا آنکہ مائدہ کی آیت میں اسے ایک مستقل ہدایت کے طور پر، نہ کہ بقرہ کی آیت کی تخصیص کے طور پر، بیان کیا گیا۔
الیوم احل لکم کے الفاظ سے بظاہر یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ یہاں ان چیزوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جنھیں پہلے حرام قرار دیا گیا تھا، لیکن بدیہی طور پر یہ شبہ درست نہیں، کیونکہ یہ اسلوب قرآن کی زبان میں مسکوت عنہ اور مبہم چیزوں کی حلت کے واضح بیان کے لیے بھی اتنا ہی موزوں ہے۔ پہلے مفہوم پر اس لیے بھی انھیں محمول نہیں کیا جا سکتا کہ احل لکم الطیبت اور المحصنت من المؤمنات میں طیبات اور محصنات کو یہاں پہلی مرتبہ حلال نہیں کیا گیا، بلکہ ان کی پہلے سے معلوم حلت کو ایک خاص بلاغی فائدے کے لیے (جس کا ذکر آگے آتا ہے) دہرایا گیا ہے۔
میرے خیال میں قرآن مجید کے مجموعی اسالیب کو سامنے رکھتے ہوئے مذکورہ احتمال کے علاوہ کم سے کم دو مزید احتمالات قابل غور ہیں:
ایک یہ کہ قرآن مجید میں مناکحات کے بیان میں عمومی طور پر مردوں کو ہی مخاطب کیا گیا ہے اور اصلاً انھی کے تعلق سے احکام بیان کیے گئے ہیں، جبکہ خواتین کے احکام ان سے بالتبع اخذ کیے جاتے ہیں۔ مثلاً نساء میں محرمات کے بیان میں کہا گیا ہے کہ جو لوگ آزاد عورتوں سے نکاح نہ کر سکتے ہوں، وہ لونڈیوں سے نکاح کر لیں: فمن لم یستطع منکم طولا ان ینکح المحصنت المومنت فمن ما ملکت ایمانکم من فتیاتکم المومنت۔ یہاں آزاد عورتوں کے، غلاموں سے نکاح کا تصریحاً ذکر نہیں، لیکن ظاہر ہے کہ بالتبع اخذ کیا جا سکتا ہے۔ اسی اصول پر مائدہ کی آیت میں یہ احتمال ہو سکتا ہے کہ چونکہ مناکحات میں اصلاً مرد ہی مخاطب ہوتے ہیں، اس لیے انھی کے زاویے سے محصنات اہل کتاب کا ذکر کیا گیا ہے اور محصنین اہل کتاب کا حکم اس سے بالتبع اخذ کیا جائے گا۔ گویا مسلمان عورتوں کے لیے محصنین اہل کتاب کی حلت کا عدم ذکر کوئی قطعی دلیل اس بات کی نہیں بنتی کہ ان کے ساتھ نکاح کو ممنوع سمجھا جائے۔
بقرہ کی آیت ولا تنکحوا میں صنفین کے نکاح کی ممانعت کا ذکر کیا گیا ہے، لیکن غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ وہاں سادہ طور پر صرف نکاح کے احکام کا بیان پیش نظر نہیں، بلکہ بحیثیت مجموعی مسلمان سوسائٹی کے مشرک سوسائٹی کے ساتھ تعلقات کی تحدید مقصود ہے۔ دونوں کے مابین خاندانی رشتے ناتے پہلے سے چلے آ رہے تھے اور قرآن اب اس پر پابندی عائد کرنا چاہتا تھا، اس لیے تصریحاً یہ کہنے کی ضرورت تھی کہ مشرکین کے ساتھ ازدواجی تعلق کی کوئی بھی صورت اختیار نہ کی جائے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ یہاں نئے رشتے قائم کرنے کی ممانعت بتائی گئی ہے، جبکہ سابقہ رشتوں سے متعلق کوئی واضح ہدایت نہیں دی گئی۔ سابقہ رشتوں سے متعلق واضح ہدایت بہت بعد میں سورۂ ممتحنہ میں معاہدۂ حدیبیہ کی ایک شق کے تناظر میں دی گئی اور یہ کہا گیا کہ نہ مسلمان مرد، مشرک عورتوں کو اپنے نکاح میں روکے رکھیں اور نہ مسلمان عورتوں کو، ان کے مشرک خاوندوں کے پاس واپس بھیجا جائے۔
دوسرا احتمال جو قابل غور ہے، وہ یہ کہ قرآن مجید عام طور پر حکم کے بیان میں مخاطبین کے ذہنی حالات اور زمانہ نزول کی معروضی صورت حال کو بھی مد نظر رکھتا ہے اور اس کی بیان کردہ قیود اور شرائط کا صحیح رخ سمجھنے کے لیے اس پہلو کو ملحوظ رکھنا ضروری ہوتا ہے، جیسے مثال کے طور پر من اصلابکم کی قید کا مقصد سمجھنے کے لیے متبنیٰ سے متعلق عرب روایت کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔ مائدہ کی آیت میں صرف محصنات کے حکم پر اکتفا کی ایک ممکنہ وجہ، اس اسلوب کی رو سے، یہ ہو سکتی ہے کہ اس ماحول میں مسلمانوں کے ہاں اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کا رجحان اور رغبت تو موجود تھی اور غالباً یہی چیز یسئلونک ماذا احل لہم کا محرک بنی تھی، لیکن خواتین کو ان کے نکاح میں دینے کی کوئی خاص روایت یا رجحان موجود نہیں تھا۔ اس لحاظ سے قرآن نے اگر سائلین کے ذہنی رجحان کے تناظر میں اسی پہلو کے بیان پر اکتفا کی (اور دوسرے پہلو کے، سرے سے زیر بحث ہی نہ ہونے کی وجہ سے صرف نظر کیا) تو اسے کوئی قطعی قرینہ اس بات کا نہیں کہا جا سکتا کہ وہ محصنین سے نکاح کو ممنوع قرار دینا چاہتا ہے۔
مذکورہ وجوہ سے میری طالب علمانہ رائے کے مطابق محصنین اہل کتاب کے ساتھ نکاح کی ممانعت کو قطعی طور پر منصوص کہنا ازروئے اصول فقہ کافی مشکل ہے۔ البتہ چند قرائن سے شارع کا یہ رجحان یقیناًمعلوم ہوتا ہے کہ ایسا نکاح اس کی نظر میں ناپسندیدہ ہے۔ مثلاً مائدہ کی آیت میں قرآن نے اہل کتاب کے ساتھ معاملات کے حوالے سے دو امور کا ذکر کیا ہے: ایک طعام اور دوسرا نکاح۔ طعام کے ذکر میں صریحاً دو طرفہ حلت بیان کی گئی ہے، یعنی طعام الذین اوتوا الکتاب حل لکم وطعامکم حل لہم، جبکہ نکاح کے بیان میں صرف یک طرفہ حلت کا ذکر ہے۔ ایک ہی سیاق میں اسلوب کی یہ تبدیلی قطعی دلیل نہ سہی، ایک بہت مضبوط قرینہ اس بات کا ضرور ہے کہ شارع نکاح کی اجازت کو یک طرفہ ہی رکھنا چاہتا ہے۔
قرآن کے دیگر بیانات سے بھی واضح ہوتا ہے کہ وہ مناکحت کے تعلق کو اصلاً اہل ایمان ہی کے مابین پسند کرتا ہے۔ چنانچہ مائدہ کی زیر بحث آیت میں اصولی طور پر المحصنات من المؤمنات کے ذکر کی کوئی ضرورت نہیں تھی، اس لیے کہ ان کی حلت پہلے سے واضح تھی، تاہم قرآن نے اس کو یہاں دہرایا ہے اور اس کے بعد بالتبع محصنات اہل کتاب کا ذکر کیا ہے تاکہ نکاح کے معاملے میں شارع کی ترجیحات واضح رہیں۔ سورۂ نساء میں لونڈیوں کے ساتھ نکاح کی اجازت میں من فتیاتکم المؤمنات کی قید بھی اسی ترجیح کو واضح کرتی ہے۔
مزید برآں شریعت کے عمومی مقاصد اور پیش نظر مصالح بھی اس رجحان کی تائید کرتے ہیں۔ رشتہ نکاح میں عورت کا مرد کے تابع ہونا ایک بدیہی امر ہے اور ظاہر ہے کہ اسلام کا مجموعی مزاج اس کو ناپسند ہی کرے گا کہ ایک مسلمان عورت کسی غیر مسلم مرد کے فراش پر ہو۔ فی نفسہ ایک ناگوار امر ہونے کے ساتھ ساتھ اگر عورت اور اس کی اولاد کے، شوہر کے دین اور کافرانہ ماحول سے متاثر ہونے کا خطرہ بھی ہو تو ظاہر ہے کہ اس رشتے کی قباحتیں شریعت کی نظر میں مزید بڑھ جاتی ہیں۔
مذکورہ ساری بحث کے تناظر میں، میری رائے یہ ہے کہ اہل کتاب کے مردوں او رمسلمان عورتوں کے مابین نکاح کو عمومی اباحت کے طور پر پیش کرنا اور خاص طور پر یہود ونصاریٰ کے علاوہ دوسرے غیر مسلم گروہوں کو بھی ’’اہل کتاب‘‘ میں شمار کرتے ہوئے باہمی مناکحت کے رجحان کی حوصلہ افزائی کرنا شریعت کے مزاج اور ترجیحات کی درست ترجمانی نہیں۔ البتہ ایک خاص صورت میں عملی مصالح کے تناظر میں اہل کتاب مرد اور مسلمان عورت کے نکاح کو گوارا کیا جا سکتا ہے، یعنی جب میاں بیوی میں سے صرف عورت مسلمان ہو جائے اور اس کے لیے عملی حالات کے لحاظ سے اپنے شوہر اور بچوں سے علیحدگی اختیار کرنا بوجوہ مشکل ہو جائے۔ یہ صورت اس وقت یورپ میں کثرت سے پیش آ رہی ہے اور عالم اسلام کے بعض جید اہل علم نے اس پر اجتہادی زاویہ نظر اختیار کرنے کی دعوت دی ہے۔ (یورپی مجلس افتاء کا رجحان بھی اس حوالے سے تیسیر کی طرف ہے، جبکہ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب نے ’’مقاصد شریعت‘‘ میں اس کی تائید کی ہے)۔ میرا طالب علمانہ رجحان بھی اسی طرف ہے اور اپنی کتاب ’’حدود وتعزیرات:چند اہم مباحث‘‘ میں، میں اس پر اپنی رائے ان الفاظ میں بیان کر چکا ہوں:
’’نصوص کے فہم کا ایک بے حد اہم پہلو یہ ہوتا ہے کہ اس دائرۂ اطلاق کو متعین کیا جائے جس میں نص قطعی طور پر موثر ہے اور جس سے باہر ایک مجتہد اپنی مجتہدانہ بصیرت کو بروے کار لانے کے لیے پوری طرح آزاد ہے۔ اس فہم میں ظاہر ہے کہ اختلاف بھی واقع ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر قرآن مجید کی رو سے ایک مسلمان خاتون کو کسی غیرمسلم مرد سے نکاح کرنے کی اجازت نہیں۔ یہ حکم کوئی نیا رشتہ نکاح قائم کرنے کی حد تک تو بالکل واضح ہے، لیکن میاں بیوی اگر پہلے سے غیرمسلم ہوں اور بیوی اسلام قبول کر لے تو کیا ان کے مابین تفریق بھی لازم ہوگی؟ حکم کا اس صورت کو شامل ہونا قطعی نہیں۔ عقلی اعتبار سے حالت اسلام میں کسی غیر مسلم شوہر کا ارادی انتخاب کرنے اور پہلے سے چلے آنے والے رشتہ نکاح کو نبھانے میں ایک نوعیت کا فرق پایا جاتا ہے اور سیدنا عمر کی رائے یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ اس صورت میں تفریق کو ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ چنانچہ بعض مقدمات میں انھوں نے میاں بیوی کے مابین تفریق کر دی ،جبکہ بعض مقدمات میں بیوی کو اختیار دے دیا کہ وہ چاہے تو خاوند سے الگ ہو جائے اور چاہے تو اسی کے نکاح میں رہے۔ (مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۸۰۰۱، ۳۸۰۰۱) یقیناًاس فیصلے میں انھوں نے بیوی کو درپیش عملی مسائل ومشکلات کا لحاظ رکھا ہوگا اور آج کے دور میں بالخصوص غیرمسلم ممالک میں پیش آنے والے اس طرح کے واقعات میں سیدنا عمر کا یہ اجتہاد رہنمائی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔‘‘ (ص ۲۵۳، ۳۵۳)
امید ہے کہ زیر بحث مسئلے کے حوالے سے یہ معروضات غور وفکر میں کسی حد تک آپ کی مدد کر سکیں گی۔
دعاؤں کی درخواست کے ساتھ
محمد عمار خان ناصر
۱۷؍ اکتوبر ۲۰۱۳ء
حوالہ جات
۱۔ البقرۃ ۲۲۱
۲۔ المائدہ ۵
۳۔ الممتحنہ ۱۰
۴۔ المائدہ ۵
۵۔ بخاری، صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب الاکفاء فی الدین، رقم ۵۰۹۰
۶۔ محمد بن جریر الطبری، جامع البیان فی تاویل القرآن، ت: احمد محمد شاکر، بیروت، موسسۃ الرسالۃ، ط ۱، ۱۴۲۰ھ۔۲۰۰۰م، ج ۴، ص ۳۷۰
۷۔ محمد بن علی شوکانی، ارشاد الفحول الیٰ تحقیق الحق من علم الاصول، بیروت، دار الکتاب العربی، ط ۱، ۱۴۱۹ھ۔۱۹۹۹ء، ج ۱، ص ۳۳۷
۸۔ المائدہ ۴
۹۔ محی الدین درویش، اعراب القرآن الکریم، بیروت، دار الارشاد، ط ۴، ۱۳۸۳ھ۔۱۹۶۴م، ج ۱، ص ۱۲۶
۱۰۔ عمر احمد عثمانی، فقہ القرآن (خاندانی معاملات نکاح وطلاق وغیرہ)، کراچی، ادارۂ فکر اسلامی، ط ۲، ۲۰۰۰ء، ص ۶۳
۱۱۔ طاہر بن عاشور، التحریر والتنویر، تیونس، دار التونسیۃ، ۱۹۸۴ء، ج ۶، ص ۱۲۴
۱۲۔ امین احسن اصلاحی، تدبر قرآن، لاہور، فاران فاؤنڈیشن، ۲۰۰۹ء، ج ۲، ص ۴۶۵
۱۳۔ جاوید احمد غامدی، البیان، لاہور، المورد، ط ۱، ۲۰۱۰ء، ج ۱، ص ۶۰۰
۱۴۔ ابن عاشور، مرجع سابق، ج ۲، ص ۳۶۳
15- Abdullah Yusuf Ali, The Holy Qur'an: Translation and Commentary (Islamabad: Da'wah Academy, 2004) p. 280
۱۶۔ وہبہ زحیلی، التفسیر المنیر فی العقیدۃ والشریعۃ والمنہج، دمشق، دار الفکر المعاصر، ط ۲، ۱۴۱۸ھ، ج ۲، ص ۲۹۲
۱۷۔ ابن ابی شیبہ، المصنف فی الاحادیث والآثار، کتاب النکاح، من کان یکرہ النکاح فی اہل الکتاب، رقم حدیث ۱۶۱۶۳
۱۸۔ محمد بن یوسف مواق مالکی، التاج والاکلیل لمختصر خلیل، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، ۱۹۹۴ء، ج ۵، ص ۱۳۳
۱۹۔ عماد الدین ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، ط ۱، ۱۴۱۹ھ، ج ۱، ص ۴۳۷
۲۰۔ نفس مصدر وصفحہ
۲۱۔ ڈاکٹر شکیل اوج، نسائیات (چند فکری ونظری مباحث) ، کراچی، کلیہ معارف اسلامیہ، جامعہ کراچی، جون ۲۰۱۲ء، ط ۱، ص ۹۵۔۱۰۰
۲۲۔ رشید رضا، تفسیر المنار، مصر، الہیءۃ العامۃ المصریۃ للکتاب، ۱۹۹۰ء، ج ۶، ص ۱۵۷
۲۳۔ محمد عزت دروَزہ، التفسیر الحدیث (مرتب حسب ترتیب النزول)، قاہرہ، دار احیاء الکتب العربیۃ، ج ۶، ص ۳۹۳
۲۴۔ شکیل اوج، مرجع سابق، ص ۱۰۰
۲۵۔ شکیل اوج، مرجع سابق، ص ۱۰۲
۲۶۔ زین الدین ابن نجیم، الاشباء والنظائر، حواشی وتخریج: زکریا عمیرات، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، ط ۱، ۱۴۱۹ھ۔۱۹۹۹ء، ج ۱، ص ۵۷
۲۷۔ شکیل اوج، مرجع سابق، ص ۱۰۴
۲۸۔ نفس مرجع، ص ۱۰۳
۲۹۔ نفس مرجع وصفحہ
۳۰۔ امین احسن اصلاحی، تدبر قرآن، ج ۱، ص ۵۲۰
۳۱۔ شبیر احمد عثمانی، تفسیر عثمانی، مجمع الملک فہد، ص
۳۲۔ محمد تقی عثمانی، آسان ترجمہ قرآن، کراچی، مکتبۃ المعارف، ۲۰۱۰ء، ص ۲۳۹
مکاتیب
ادارہ
(۱)
جناب مولانا عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
دسمبر کے الشریعہ میں ایک مضمون ’’ پاکستانی جامعات میں قرآنیات کا مطالعہ‘‘ نظر سے گزرا۔عنوان پڑھ کر دل باغ باغ ہو گیا اور اس امید کے ساتھ پڑھنا شروع کیا کہ اس میں پاکستانی جامعات کے نصابِ تفسیر وعلومِ تفسیر کے حوالے سے ایک جامع استقرا سے کام لیا گیا ہو گا اور اس کے محاسن و معائب کو نمایاں کیا گیا ہوگا، لیکن افسوس ہے کہ ’’پاکستانی جامعات ‘‘ کے عنوان کے اعتبار سے موضوع جس وسعت کا متقاضی تھا، وہ زیرِ نظر مضمون میں نظر نہیں آیا۔
اصولِ تفسیر کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں:’’اس وقت ہماری جامعات میں قرآن کا جو مطالعہ کیا جا رہا ہے، عموما ہر یونیورسٹی کے اندر نصاب یکساں ہے اور اس کے نصاب میں اصولِ تفسیر اور قرآنیات یا تفسیر اور متن تفسیر شامل ہیں۔اصولِ تفسیر میں جو مرکزی کتاب پڑھائی جاتی ہے، وہ شاہ ولی اللہ کی ’’الفوز الکبیر‘‘ ہے۔‘‘ اس کے بعد انھوں نے اس کتاب کی اصولِ تفسیر کے پہلو سے اہمیت بیان کی ہے اور کہا ہے کہ اس کی تدریس ہماری جامعات میں اس طرح نہیں ہوتی جیسی اس کتاب کا حق ہے۔پنجاب یونیورسٹی کے حوالے سے کہا ہے کہ ہم نے گذشتہ سالوں میں امام ابن تیمیہ کا رسالہ بھی شامل کیا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کا یہ ارشاد 1980ء سے اسلام آباد میں قائم، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی کے حوالے سے سخت مغالطہ پیدا کرنے والا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ پاکستان میں یونیورسٹیوں میں علومِ اسلامی کے نصاب کے حوالے سے اسلامی یونیورسٹی ایک بالکل منفرد تجربہ ہے جس کی نظیر اگر پیش کی جا سکتی ہے تو عرب جامعات کی صورت میں پیش کی جا سکتی ہے، جن کے تعلیمی منہج اور اسلوب کی گہری چھاپ اس یونی ورسٹی کے علومِ اسلامی کے نصاب پر نظر آتی ہے۔زیرِ بحث اس وقت چوں کہ قرآنیات سے متعلقہ علوم ہیں، اس لیے مذکورہ اقتباسات کے حوالے سے عرض ہے کہ اصولِ تفسیر کے سلسلے میں اسلامی یونی ورسٹی کے نصاب میں اس سلسلے میں اب تک ہونے والی جملہ کاوشوں سے طالب علم کو نہ صرف روشناس کروایا جاتا ہے، بلکہ عملاً اس کو ان سے استفادہ بھی کروایا جاتا ہے۔چناں چہ اس سلسلے میں جدید عرب علما نے جو کام کیا ہے، اس سے ہماری یونی ورسٹیوں میں عمومی شناسائی نہیں ہے۔مثال کے طور پر شیخ عبدالرحمان حسن حبنکہ المیدانی کی ’’قواعد التدبر الامثل لکتاب اللہ عز و جل‘‘، خالد بن عثمان السبت کی ’’قواعد التفسیر‘‘، خالد عبدالرحمان العک کی کتاب ’’اصول التفسیر و قواعدہ‘‘ اور مساعد بن سلیمان الطیار کی ’’فصول فی اصول التفسیر‘‘اس سلسلے کی نہایت اہم اور جامع کتابیں ہیں جس سے ایک طالب علم پہلی بار اصولِ تفسیر اور علوم القرآن کی ابحاث میں واضع امتیازات سے واقف ہوتا ہے۔اسلامی یونی ورسٹی میں اصول تفسیر کا استاد ان کتابوں کے منتخب ابواب طلبا میں تقسیم کرتا ہے جس سے اس کو موضوع پر خاطر خواہ واقفیت ہو جاتی ہے۔ مذکورہ بالا کتابوں میں سے کوئی کتاب (مثلا’’ فصول فی اصول التفسیر‘‘)بہ طور نصاب کے طے کر دی جاتی ہیاور اس کے ساتھ باقی کتابوں سے معاون کتب کے طور پر استفادہ کیا جاتا ہے، اس طرح اس میں مدارس کا قدیم کتابی طرز اور جدید موضوعی طرز خوب صورتی کے ساتھ جمع ہو جاتے ہیں۔شاہ ولی اللہ کی ’’الفوز الکبیر‘‘ یقیناًایک علمی کتاب ہے لیکن اگر گستاخی نہ ہو تو یہ عرض کرنے کی جسارت کروں گا کہ وہ اصولِ تفسیر سے زیادہ علوم القران کی کتاب ہے۔اصولِ تفسیر کے حوالے سے اس کو دریا بہ کوزہ کا مصداق قرار دینا شاید مبالغہ ہو۔ شاید دیگر جامعات میں اصولِ تفسیر کے نام پر علوم القرآن ہی کی تدریس ہو رہی ہے۔
یہاں ضمناً اس بات کا ذکر غالبا غیر مناسب نہیں ہو گا کہ اصولِ تفسیر وہ مضمون ہے جس کے لیے ہمارے علما عام طور پر اصولِ فقہ ہی کو کافی سمجھتے رہے ہیں، کیوں کہ ان میں کتاب اللہ کے فہم کے اصولوں ہی سے بحث ہوتی ہے، جس کی وجہ سے عام طور پر امت میں اس فن کی تدوین کی طرف توجہ نہیں دی گئی، لیکن متاخرین میں اس ضرورت کا پوری قوت کے ساتھ احساس ترجمان القرآن علامہ حمیدالدین فراہی کو ہوا اور پھر انھوں نے عملاً اس فن کی طرف توجہ بھی کی۔ان کے افکار سے اختلاف کی پوری گنجائش کے ساتھ اس حقیقت کا اعتراف ناانصافی ہو گی کہ ان کے کام میں قرآن کے اسالیب، اس کی بلاغت ،تفسیر کے اصول، ترجیح کے اصول وغیرہ مباحث بے حد قیمتی ہیں۔آج عرب علما نے اس کی طرف توجہ کی ہے تو اس کام سے استفادے کی بہت ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
تاریخ تفسیر کے حوالے سے بھی ہمیں اسلامی یونی ورسٹی کے نصاب میں باقی جامعات کے نصاب سے بہت اختلاف دیکھنے کو ملتا ہے۔چناں چہ یہاں ’’مناہج المفسرین و تاریخ التفسیر‘‘ کے نام سے مستقل مادہ پڑھایا جاتا ہے جس میں اصل بنیاد کی حیثیت محمدحسین الذہبی کی کتاب ’’التفسیر و المفسرون‘‘ کو یا مناہج مفسرین پر لکھی کسی جدید عربی کتاب کو حاصل ہوتی ہے اور معاون کے طور پر دیگر کتابوں کو پیشِ نظر رکھا جاتا ہے۔اس نصاب میں طالب مشہور مدارسِ تفسیر، تاریخ کے بڑے بڑے مفسرین،تفسیرِ ماثور اور تفسیر بالراے کے رجحانات کے تحت لکھی گئی نمائندہ تفاسیر، تفسیر کے منحرف رجحانات وغیرہ امور سے کافی واقفیت حاصل کر لیتا ہے۔باقی یونی ورسٹیوں میں عام طور پر ذہبی کی کتاب کے ترجموں اور تلخیصوں (جیسے غلام احمد حریری کی ’’تاریخ تفسیر اور مفسرین‘‘) پر ہی نصاب کا مدار ہوتا ہے۔
مذکورہ دو امور کے علاوہ تفسیر میں دخیل (یعنی ماثور میں موضوعات اور اسرائیلیات اور تفسیر بالرائے میں غلط اصولوں کے تحت کی گئی تفسیر )، علوم القرآن ، اعجازِ قرآن وغیرہ مستقل مادوں کی حیثیت سے پڑھائے جاتے ہیں، جس سے ایک طالب علم پہلی بار قرآنیات کے ایک وسیع تنوع سے آشنا ہوتا ہے۔برصغیر میں تفسیر اور علومِ قرآن ایک مستقل موضوع ہے جو یہاں پڑھایا جاتا ہے۔ متن تفسیر کے حوالے سے بھی اسلامی یونی ورسٹی کا نصاب موضوعاتی نوعیت کا ہے۔مثلا تفسیر بیانی میں علامہ طاہر ابن عاشور کی ’’التحریر و التنویر‘‘، تفسیر کلامی میں ’’تفسیرِ رازی‘‘، ماثور میں ’’تفسیر نسفی‘‘ وغیرہ تفاسیر کے منتخب حصے داخل نصاب کیے جاتے ہیں جن سے طالب علم تفسیر کی نمائندہ کتابوں کا ذوق آشنا ضرور ہو جاتا ہے۔
نصاب کی اس جامعیت کے علاوہ یہ سب کچھ علومِ اسلامیہ کی اصل زبان عربی میں ہوتا ہے۔طلبہ کو مشقی کام کی تفویض ، پریزنٹیشن، تھیسس وغیرہ سب امور عربی میں کرنا پڑتا ہے۔اس سے معیار اور استعداد کا جو بین فرق سامنے آتا ہے وہ محتاجِ وضاحت نہیں، جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے عام جامعات میں طلبا کی استعداد کی غریب الحالی کو خود واضح فرمایا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلامی یونی ورسٹی کا علومِ اسلامیہ (تفسیر وعلومِ تفسیر، حدیث و علومِ حدیث، فقہ و شریعہ، عقیدہ و کلام، سیرت، تقابلِ ادیان وغیرہ) کا نصاب ایک مستقل تجزیاتی بحث اور نقد کا متقاضی ہے اور پاکستان کی کسی بھی جامعہ کے نصاب کے مقابلے میں زیادہ جامعیت، وسعت، گہرائی اور گیرائی کا حامل ہے۔
محمد وقاص، ایم فل اسکالر (شعبہ تفسیر)
اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد
(۲)
مولانا ابو عمار زاہد الراشدی ، رئیس التحریر ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ گوجرانوالہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
’’الشریعہ‘‘ باقاعدہ مل رہا ہے جس سے جامعہ کے اساتذہ اور طلبہ مستفید ہوتے ہیں۔ اس عنایت پر ازحد شکریہ۔ جزاکم اللہ
ماہ جنوری ۲۰۱۴ء کا شمارہ موصول ہوا جس میں جناب ڈاکٹر غطریف شہباز ندوی کا نواب صدیق حسن خان پر تفصیلی مضمون نظر سے گزرا۔ انھوں نے بہت خوب لکھا۔ اللہ تعالیٰ جزا عطا فرمائے، آمین۔ البتہ مضمون میں دو باتیں ایسی ہیں جن کی وضاحت ازحد ضروری ہے۔ امید ہے ڈاکٹر صاحب تک نیک خواہشات کے ساتھ یہ وضاحت بھی پہنچا دیں گے۔
(۱) ڈاکٹر صاحب رقم طراز ہیں: ’’باوثوق ذریعہ سے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ عبادات وغیرہ میں نواب صاحب مسلک محدثین پر عمل پیرا تھا یا فقہ حنفی کے مطابق عمل کیا کرتے تھے۔ تاہم اپنے فکری منہج کے بارے میں نواب صدیق حسن کا ذہن بالکل صاف تھا۔ انھوں نے صراحت سے لکھا ہے: میں تو مشہور اہل الحدیث ہوں اور تقویۃ الایمان اور رسائل توحید کا پابند ہوں۔‘‘
عبادات میں نواب صاحب کا مسلک مذکورہ پیرا گراف سے ہی واضح ہو جاتا ہے۔ جو شخص اتنی صراحت کے ساتھ اہل الحدیث ہونے کا دعویٰ کرے، وہ کیونکر محدثین کا مسلک چھوڑ کر کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرے گا؟ یقیناًنواب صاحب کا فکری منہج کی طرح عبادات اور سلوک میں محدثین والا مسلک تھا۔ بفرض محال اگر پھر بھی وثوق حاصل نہ ہو تو ان کا تحریر کردہ کتابچہ ’’تعلیم الصلوٰۃ‘‘ دیکھ لینا چاہیے۔ اس کے بعد تو ذرا بھی گنجائش نہیں رہتی کہ جاہ والا کس مسلک کے مطابق نماز ادا کرتے تھے۔ اس میں انھوں نے وہی موقف اختیار کیا ہے جو محدثین کا ہے۔ نماز میں ہل حدیث اور احناف کے درمیان جو اختلافی مسائل ہیں، انھی کا تذکرہ کر کے اپنا موقف واضح کیا ہے۔
(۲) مضمون کے آخر میں ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں: ’’یہ وضاحت بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ فرقہ اہل حدیث میں جو جمود فکر پایا جاتا ہے اور ائمہ اربعہ خاص کر امام ابوحنیفہ کی جو تنقیص کر رہے ہیں، اس کے پیش نظر ان کا اپنے آپ کو نواب صدیق حسن خان کی طرف منسوب کرنا حقیقت سے دور معلوم ہوتا ہے۔‘‘
ہم ڈاکٹر صاحب کے بارے میں حسن ظن رکھتے ہیں، لیکن یہ پڑھ کر افسوس ہوا کہ انھوں نے رواجی جملے تحریر فرما دیے جو زبان زد عام ہیں اور ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اہل حدیث کوئی فرقہ نہیں، بلکہ محدثین اور اسلاف کے اعلیٰ افکار اور منہج پر کاربند جماعت ہے جو اس عظیم الشان ورثے کی محافظ ہے جو اسلاف نے بے پناہ قربانیوں کے بعد امت کے لیے چھوڑا ہے۔ رہی بات ائمہ اربعہ اور خاص کر امام ابو حنیفہ رحمہم اللہ کی تنقیص کی تو عرض ہے کہ ہذا بہتان عظیم۔ ہم واشگاف الفاظ میں اعلان کرتے ہیں کہ اہل حدیث کا ہرگز ہرگز یہ منہج نہیں ہے کہ وہ متقدمین یا متاخرین میں سے کسی کی توہین یا تنقیص کریں۔ اس ضمن میں ہماری وہی فکر ہے جو نواب صدیق حسن خان کی ہے جس کا تذکرۂ جمیل ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون میں فرمایا ہے۔ ہم تمام ائمہ اور فقہاء کرام کادل وجان سے احترام کرتے ہیں اور ان کی آرا کو قدر کی نظر سے دیکھتے ہیں اور انھیں ہر دو حالت میں ماجور سمجھتے ہیں۔ امت محمدیہ کے لیے ان کی بے پناہ خدمات کا اعتراف کرتے ہیں۔ جیسے مجھے یہ حق نہیں کہ میں دیگر ائمہ کرام کے بارے میں احناف کا موقف بیان کروں کہ ان کا طرز عمل کیا ہے، اسی طرح کسی کو بھی یہ حق نہیں کہ وہ اہل حدیث کے موقف کو اپنی خواہش کے مطابق بیان کرے۔ ہم اپنا دوٹوک موقف اوپر بیان کر آئے ہیں۔ اس پر کسی کو تعلیق لگانے کی ضرورت نہیں۔
رہی بات فکری جمود کی تو امر واقعہ یہ ہے کہ موجودہ دور میں اگر کوئی گروہ، جماعت یا مسلک فکری جمود سے خالی ہے تو صرف اور صرف اہل حدیث ہے، وللہ الحمد۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ دین مکمل ہو چکا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہو گئی اور اسلام قیامت تک کے لیے آفاقی دین ہے جو آنے والوں کی مکمل راہنمائی کرے گا۔ جدید مسائل کے بارے میں اجتہاد کیا جا سکتا ہے۔ قرآن وسنت کی روشنی میں اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے اور یہ کام علماء امت کرتے رہے اور آئندہ بھی کریں گے۔ اس واضح موقف پر فکری جمود کا الزام بیمار ذہن ہی لگا سکتا ہے۔
اس سے بڑی حقیقت اور کیا ہوگی کہ تما م اہل حدیث مدارس میں رائج نصاب میں فقہ حنفی کی معتبر کتاب ہدایہ بالاستیعاب پڑھائی جاتی ہے اور ا س کے بعد فقہ مقارن مستقل مضمون ہے جو وفاق المدارس السلفیہ کے آخری تین سالوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ کیا حنفی مدارس یہ جرات کریں گے کہ وہ فقہ مقارن کی تعلیم اپنے طلبہ کو دیں؟ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ان کے اول اور آخر ہیں۔ فکری جمود تو ان کے ہاں ہے جو صرف امام ابوحنیفہ پرانحصار کرتے ہیں۔ یہ فکری جمود ان کے ہاں کیسے ہو گیا جو نہ صرف ائمہ اربعہ بلکہ دیگر ائمہ اور فقہاء کے فقہی نقطہ نظر کو پڑھتے پڑھاتے اور ان پر عمل کرتے ہیں؟
اہل حدیث کایہ امتیاز ہے کہ وہ اپنے ہاں بڑی وسعت رکھتے ہیں۔ تمام ائمہ اور فقہاء کی آرا کاباریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں اور جو رائے اقرب الی الکتاب والسنۃ ہو، اسے قبول کرتے ہیں۔ اصل اساس اور بنیاد بہرحال قرآن وحدیث کی ہے۔ ان کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے کی رائے کی کیا اہمیت ہے؟ خود امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مشہور قول ہے ’’جب میں کوئی ایسی بات کہوں جو قرآن وحدیث کے خلاف ہو تو میری بات چھوڑ دو۔‘‘ اس تناظر میں اہل حدیث کا موقف اظہر من الشمس ہے۔ ان پر فکری جمود محض الزام ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
اس لیے ڈاکٹر صاحب کی خدمت اقدس میں مودبانہ التماس کروں گا کہ وہ دوبارہ بنظر غائر اس کا جائزہ لیں اور جو لوگ حقیقت میں فکری جمود، تقلید جامد کے شکار ہیں، ان کی اصلاح کریں اور کوئی نسخہ تجویز فرمائیں۔
محمد یاسین ظفر
ناظم اعلیٰ وفاق المدارس السلفیہ پاکستان
پرنسپل جامعہ سلفیہ فیصل آباد
مارچ ۲۰۱۴ء
سودی نظام کے خلاف دینی حلقوں کی مشترکہ مہم
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
قائد اعظم محمد علیؒ جناح نے ۱۵ جولائی ۱۹۴۸ء کو کراچی میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر اپنے خطاب میں کہا تھا کہ:
’’میں نہایت اشتیاق کے ساتھ آپ کی ریسرچ فاؤنڈیشن کے تحت موجود بینکنگ نظام کو اسلامی معاشی اور معاشرتی افکار کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی سعی و کوشش کو دیکھنا چاہوں گا۔ مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیے کچھ ناقابل حل مسائل پیدا کیے ہیں اور بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ کوئی معجزہ ہی اسے تباہی سے بچا سکتا ہے۔ یہ نظام انسانوں کے مابین معاشی عدل قائم کرنے اور عالمی سطح پر ہونے والی کشمکش کے تدارک میں ناکام ہو چکا ہے۔ اس کے برخلاف یہی نظام ماضی میں ہونے والی دو عالمی جنگوں کا سبب بنا ہے۔ دنیائے مغرب اپنی صنعتی ترقی اور مشینی ایجادات و اختراعات کے باوجود بدترین انتشار میں مبتلا ہے جو تاریخ میں اپنی نوعیت کا ایک منفرد معاملہ ہے۔ مغربی معاشی نظریے اور عمل کو اختیار کرنا ہمیں اس آسودہ معاشرے تک پہنچانے کا باعث نہیں ہو سکتا جو ہماری منزل ہے۔ ہمیں اپنی تقدیر خود اپنے ظروف و احوال کے مطابق لکھنی ہوگی اور اسلام کے معاشرتی عدل اور انصاف پر مبنی ایک معاشی نظام کو دنیا کے سامنے پیش کرنا ہوگا جس کے ذریعہ ہم بحیثیت مسلمان اپنا فرض ادا کر سکیں اور انسانیت کے سامنے پیغام امن پیش کر سکیں جو اس کی فلاح و بہبود، انبساط اور ترقی کا ضامن ہوگا۔‘‘
مگر بانی پاکستان کی اس واضح ہدایت کے باوجود ملک کا معاشی نظام ابھی تک مغرب کے معاشی نظریات اور اصول و ضوابط کے مطابق چل رہا ہے اور اس میں اصلاح کی کوئی کوشش کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم قومی معیشت میں سودی نظام اور مغرب کے معاشی اصولوں کے تمام تر تلخ نتائج، نحوستوں اور تباہ کاریوں کو دیکھتے بلکہ بھگتتے ہوئے بھی میر تقی میر مرحوم کے اس شعر کا مصداق بنے ہوئے ہیں کہ:
میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
جس معاشی نظام نے ہماری قومی معیشت کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے اور جو ہمارے ایمان و عقیدہ سے متصادم ہونے کے ساتھ ساتھ قومی مفادات کے بھی منافی ہے، بدستور ہم پر مسلط ہے اور رولنگ کلاس قوم کو اس دلدل سے نجات دلانے کے لیے کوئی راستہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔
پاکستان میں نافذ ہونے والے ہر دستور میں اس کا وعدہ کیا گیا کہ قوم کو سودی نظام سے جلد از جلد نجات دلائی جائے گی۔ حتیٰ کہ 1973ء کے دستور کے آرٹیکل 380 کی ذیلی دفعہ F میں کہا گیا ہے کہ ’’حکومت جس قدر جلد ممکن ہو سکے ربا کو ختم کرے گی۔‘‘
قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لیے دستوری طور پر قائم ہونے والے ادارہ اسلامی نظریاتی کونسل نے 3 دسمبر 1969ء میں قرار دیا تھا کہ:
’’موجودہ بینکاری نظام کے تحت افراد، اداروں اور حکومتوں کے درمیان قرضوں اور کاروباری لین دین میں اصل رقم پر جو اضافہ یا بڑھوتری کی جاتی ہے وہ ربا کی تعریف میں آتی ہے، سیونگ سرٹیفیکیٹ میں جو اضافہ دیا جاتا ہے وہ بھی سود میں شامل ہے، پراویڈنٹ فنڈ اور پوسٹل بیمہ زندگی میں جو سود دیا جاتا ہے وہ بھی ربا میں شامل ہے اور اس کے ساتھ ساتھ صوبوں، مقامی اداروں اور سرکاری ملازمین کو دیے گئے قرضوں پر اضافہ بھی سود ہی کی ایک قسم ہے لہٰذا یہ تمام صورتیں حرام اور ممنوع ہیں۔‘‘
اسلامی نظریاتی کونسل نے اس کے بعد سودی نظام کے خاتمے اور متبادل معاشی نظام کے حوالہ سے ایک جامع رپورٹ 25 جون 1980ء کو حکومت کے سامنے پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ ان تجاویز پر عمل کی صورت میں دو سال کے اندر پاکستان کی معیشت کو سود سے پاک کیا جا سکتا ہے۔
وفاقی شرعی عدالت نے 1990ء میں اس سلسلہ میں ایک واضح فیصلہ صادر کیا جس میں تمام مروّجہ سودی قوانین کا جائزہ لے کر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی کہ وہ 30 جون 1992ء تک ان قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق تبدیل کر لیں ورنہ یہ سب قوانین یکم جولائی 1992ء تک خود بخود کالعدم ہو جائیں گے۔
وفاقی شرعی عدالت کے اس تاریخی فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل دائر کی گئی جس کی سماعت میں سات سال کی مسلسل تاخیر کے بعد 1999 میں اس کے لیے بینچ تشکیل دیا گیا اور سپریم کورٹ نے وفاقی شرعی عدالت کی توثیق کرتے ہوئے کہ وہ جون 2001ء تک وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر عمل مکمل کر کے ملک کو سود سے پاک کر دے۔ مگر یہ فیصلہ بھی اب اپیل در اپیل کے مراحل میں ہے اور حکومت نے اس پر عمل کرنے کی بجائے تاخیری حربوں کا سہارا لے رکھا ہے۔
اس پس منظر میں ’’ملی مجلس شرعی‘‘ کی تحریک پر گزشتہ دو تین ماہ کے دوران مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ راہ نماؤں کے درمیان مرکز جماعت الدعوۃ، دفتر جماعت اسلامی، دفتر تنظیم اسلامی اور مسجد خضراء لاہور میں باہمی مشاورت کی متعدد نشستیں ہوئی ہیں جن میں یہ طے پایا ہے کہ وفاقی شرعی عدالت میں زیر سماعت اپیل کے حوالہ سے ’’ملی مجلس شرعی پاکستان‘‘ جماعت اسلامی اور تنظیم اسلامی کے تعاون سے علمی و فکری جدوجہد جاری رکھے گی جبکہ ملک کے دینی حلقوں میں اس مقصد کے لیے باہمی ربط و تعاون کے فروغ اور عوام میں بیداری و آگہی پیدا کرنے کی غرض سے ایک مستقل فورم ’’تحریک انسداد سود پاکستان‘‘ کے نام سے قائم کیا گیا ہے اور اس کی رابطہ کمیٹی کے کنوینر کی ذمہ داری راقم الحروف کو سونپی گئی ہے۔
رابطہ کمیٹی میں مولانا عبد المالک خان، مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا امیر حمزہ، علامہ خلیل الرحمن قادری، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، ڈاکٹر محمد امین، مولانا عبد الرؤف ملک، سردار محمد خان لغاری، قاری محمد یعقوب شیخ، مولانا حافظ عبد الغفار روپڑی، جناب حافظ عاکف سعید، مولانا مجیب الرحمن انقلابی، میاں محمد اویس، مولانا حافظ محمد نعمان، مولانا قاری جمیل الرحمن اختر، اور سید جواد حسین نقوی کے علاوہ ممتاز دانش ور جناب اوریا مقبول جان بھی شامل ہیں، جبکہ جن حضرات نے خطوط اور زبانی پیغامات کے ذریعہ تائید و حمایت کی ہے، ان میں مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی، مولانا محمد اویس نورانی، مولانا قاری زوار بہادر، ڈاکٹر زاہد اشرف، مولانا عبد القیوم حقانی اور مولانا پیر عبد الرحیم نقشبندی بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ اس مہم کے آغاز کے طور پر 21 فروری کو ’’یوم انسداد سود‘‘ کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس موقع پر مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام اور خطباء نے جمعۃ المبارک کے خطبات میں سودی نظام کی نحوست و حرمت کے ساتھ ساتھ مقتدر طبقات کے تاخیری حربوں کا ذکر کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ملک کو سودی نظام کی لعنت سے نجات دلا کر بابرکت اسلامی معاشی نظام کے نفاذ کی راہ ہموار کرے۔
ملک بھر میں تمام مکاتب فکر اور طبقات کے علماء کرام، ارباب دانش، راہ نماؤں اور کارکنوں سے گزارش ہے کہ اس کار خیر میں ہمارے ساتھ شریک ہو کر ملکی نظام معیشت کو سود کی لعنت سے نجات دلانے میں کردار ادا کریں۔
حکومت طالبان مذاکرات اور دستور کا مسئلہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں رکاوٹوں اور وقتی تعطل کے باوجود سنجیدہ حلقوں میں امید ابھی تک قائم ہے اور وہ مسلسل دعاگو ہیں کہ دونوں فریق امت مسلمہ کی وحدت اور ملک کے امن وسلامتی کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کے حل کی ہر ممکن کوشش کریں۔ البتہ مذاکراتی ٹیموں اور ان سے زیادہ میڈیا کے مختلف ذرائع نے شریعت اور آئین کو آمنے سامنے کھڑا کر دینے کا جو ماحول بنا دیا ہے، وہ تشویشناک ہے اور اس کے بارے میں بہت زیادہ محتاط طرز عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ شریعت اور آئین دونوں ملک کی ضروریات میں سے ہیں بلکہ وطن عزیز کے قیام اور بقا کی اساس کی حیثیت رکھتی ہیں لیکن اس سلسلہ میں جو کنفیوژن بڑھتا جا رہا ہے یا عمدًا بڑھایا جا رہا ہے وہ دونوں طرف کے اصحابِ فکر و دانش کے لیے قابل توجہ ہے۔
دستورِ پاکستان کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ پر ہے، اس میں جمہور اور ان کے نمائندوں کو حاکم اعلیٰ تسلیم کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور قرآن و سنت کی بالادستی کا پابند قرار دیا گیا ہے اور ملک میں غیر شرعی قوانین کو ختم کر کے تمام قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کی ضمانت دی گئی ہے۔ اس لیے اس دستور کو شریعت سے متصادم قرار دینے کی بات دستور اور اس کی تشکیل کے لیے اکابر علماء کرام کی جدوجہد کی نفی اور اس سے انحراف کے مترادف ہے۔ کیونکہ اس دستور کی تدوین و ترتیب اور اسے اسلامی دستور قرار دینے والوں میں مولانا مفتی محمودؒ ، مولانا عبد الحقؒ ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ ، مولانا عبد الحکیمؒ ، مولانا نعمت اللہؒ ، مولانا صدر الشہیدؒ ، مولانا شاہ احمد نورانیؒ ، مولانا محمد ذاکرؒ ، مولانا عبد المصطفیٰ ازہریؒ ، اور پروفیسر غفور احمدؒ جیسے اکابر اہل علم و دانش شامل ہیں اور اس دستور کی وفاداری کا حلف اٹھانے والوں میں مذکورہ بالا حضرات کے علاوہ مولانا سمیع الحق، مولانا قاضی عبد اللطیفؒ ، مولانا حسن جانؒ ، مولانا معین الدین لکھویؒ ، مولانا نور محمدؒ ، مولانا محمد احمدؒ ، اور مولانا عبد المالک خان کے نام نمایاں ہیں۔
دستور کے حوالہ سے اہل دین کا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ دستور اسلامی ہے یا نہیں بلکہ اصل مسئلہ بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کا منافقانہ رویہ ہے جس نے دستور کی اسلامی دفعات کو عملاً معطل رکھا ہوا ہے۔ اس مسئلہ کا حل یہ نہیں ہے کہ سرے سے دستور سے انکار کر دیا جائے بلکہ یہ ہے کہ تمام اہل دین متحد ہو کر ایک زبردست عوامی تحریک کے ذریعہ اسٹیبلشمنٹ کو اپنا رویہ تبدیل کرنے اور دستور کی اسلامی دفعات پر عمل درآمد پر مجبور کریں۔ شریعت کے نفاذ کے خواہاں حلقے اگر اس کا اہتمام کر سکیں تو نفاذِ شریعت کی منزل زیادہ دور نہیں ہے۔
دستور کے حوالہ سے ایک مغالطہ عام طور پر یہ پایا جاتا ہے کہ اسلام میں تحریری دستور اور تحریری قوانین کی کوئی روایت موجود نہیں ہے بلکہ براہ راست قرآن و سنت ہی دستور اور قانون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ بات خلاف واقعہ ہے۔ اسلامی تاریخ میں دستور و قانون کا پہلا باضابطہ مجموعہ حضرت امام ابو یوسفؒ نے امیر المومنین ہارون الرشیدؒ کی فرمائش پر ’’کتاب الخراج‘‘ کے نام سے مرتب کیا تھا جس میں اگرچہ بنیادی امور بیت المال اور اس سے متعلقہ مسائل پر مشتمل ہیں۔ جبکہ انتظامی اور امارتی امور بھی اس میں بہت حد تک شامل ہیں۔ یہ دستور و قانون امیر المومنین کی فرمائش پر لکھا گیا تھا اور عباسی سلطنت میں باقاعدہ نافذ العمل رہا ہے۔ اسی طرح ’’الأحکام السلطانیہ‘‘ کے نام سے الماوردیؒ اور قاضی ابویعلیؒ کی معرکۃ الآراء تصانیف قانون و دستور کی باقاعدہ تدوین و تشکیل کا درجہ رکھتی ہیں اور یہ دورِ جدید کی بات نہیں بلکہ قرون اولیٰ کے دور کی علمی خدمات ہیں جن سے اب تک مسلسل استفادہ کیا جا رہا ہے۔ پھر سلطان اورنگزیب عالم گیرؒ کے دور میں ’’الفتاویٰ الہندیہ‘‘ کے نام سے جو علمی کام ہوا وہ صرف فتاویٰ نہیں تھے بلکہ ملک کے دستور و قانون کے طور پر مرتب کیے گئے تھے اور پورے برصغیر میں 1857ء تک نافذ العمل رہے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد ملک کے جمہور علماء کرام نے قرارداد مقاصد، 22 متفقہ دستوری نکات اور دستور پاکستان کی اسلامی دفعات کی صورت میں جو اجتہادی کام کیا ہے وہ نئی اختراع نہیں ہے۔ بلکہ امام ابو یوسفؒ ، قاضی ابو یعلیؒ ، الماوردیؒ ، اور اورنگزیب عالمگیرؒ کے دور کے ان سینکڑوں علماء کرام کی اجتماعی علمی جدوجہد کا تسلسل ہے جو اسلام کے اصولوں اور تقاضوں کے عین مطابق ہے اور اس سے انحراف درست طرز عمل نہیں ہے۔
دوسری طرف یہ تاثر دینا بھی گمراہ کن بات ہے کہ شریعت کا نفاذ صرف طالبان کا مطالبہ ہے اور اس کا دائرہ صرف شورش زدہ علاقوں تک محدود ہے۔ اس لیے کہ شریعت اسلامی کا نفاذ خود دستور پاکستان کا تقاضہ ہے، قیام پاکستان کا مقصد ہے اور پوری قوم کی اجتماعی ضرورت ہے۔ اس کی صرف دو تازہ مثالیں نمونہ کے طور پر پیش کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ ایک یہ کہ سود کے مسئلہ پر خود حکومت اب اس ضرورت کو محسوس کر رہی ہے کہ غیر سودی نظام کو اپنانا ملکی معیشت کو صحیح رخ پر لانے کے لیے ناگزیر ہے اور دوسری یہ کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے سپریم کورٹ میں واضح طور پر کہا تھا کہ ملک میں کرپشن کو ختم کرنے کے لیے حضرت عمرؓ کے نظام کو اختیار کیے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ یہ حضرت عمرؓ کا نظام اور غیر سودی بینکاری کیا ہے؟ یہ دونوں شریعت اسلامیہ ہی کے اہم شعبے ہیں جو نہ صرف عالم اسلام بلکہ پوری دنیا کے لیے ناگزیر ضرورت بنتے جا رہے ہیں۔
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے اپنے پچھلے دور حکومت میں پارلیمنٹ سے ’’شریعت بل‘‘ کے نام سے جو بل منظور کرایا تھا وہ یقیناًانہیں یاد ہوگا، اس میں اگرچہ قرآن و سنت کو سپریم لاء قرار دیتے ہوئے حکومتی نظام کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا جس پر ہم نے تحفظات کا اظہار کیا تھا لیکن کیا میاں محمد نواز شریف نے یہ بل واپس لے لیا ہے اور کیا ان کی حکومت اس ’’شریعت بل‘‘ پر عمل درآمد کو ضروری نہیں سمجھتی؟ سردست حکومتی نظام کو کچھ عرصہ کے لیے مستثنیٰ سمجھ کر قومی زندگی کے باقی شعبوں میں ہی اس ’’شریعت بل‘‘ کے نفاذ اور عملدرآمد کا اہتمام کرلیں۔ لیکن اس سے آنکھیں بند کر لینا اور شریعت کو صرف طالبان کا مسئلہ قرار دے کر مسلسل نظر انداز کیے چلے جانا دینی، قانونی اور اخلاقی لحاظ سے کوئی جواز نہیں رکھتا۔ میاں صاحب محترم کو سیکولر لابیوں اور عالمی استعمار کی ان سازشوں سے ہوشیار رہنا چاہیے جو انہیں بتدریج شریعت اور شریعت بل سے دور لے جانے کے لیے کر رہی ہیں اور میاں صاحب کے گرد بھی ایک مخصوص حصار ہے جو اس ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔
ہماری ان گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ دونوں فریقوں کو اپنے اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ طالبان کو دستور پاکستان کے بارے میں مغالطوں کے دائرے سے نکل کر حقیقت پسندانہ موقف اختیار کرنا چاہیے۔ اور حکومت کو شریعت سے مسلسل بے اعتنائی کے طرز عمل کا جائزہ لے کر سیکولر لابیوں کے خول سے باہر نکلنا چاہیے۔ اگر دونوں فریقوں نے حقیقت پسندی سے کام لیا تو کوئی وجہ نہیں کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں اور پاکستان امن و سلامتی اور شریعت کی بالادستی کے حوالہ سے ایک خوشگوار مستقبل کا آغاز نہ کر سکے۔
شریعت کی تعبیر اور دستور کی اسلامیت اور کی بحث
عمران احسن خان نیازی
مترجم : محمد مشتاق احمد
ان دنوں مختلف حلقوں کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ کون سی شریعت پاکستان میں نافذ کی جائے گی ؟ اعتراض کیا جاتا ہے کہ بہت سے فرقوں اور شریعت کی بہت سی تعبیرات کی موجودگی میں کس کی تعبیر نافذ کی جائے گی ، بالخصوص اب جبکہ بعض لوگوں نے شریعت کے نفاذ کے لیے ہتھیار بھی اٹھالیے ہیں ؟ اس سوال کا آسان جواب یہ ہے کہ پاکستان کے دستور اور قانون کی رو سے پاکستان میں "عدلیہ کی شریعت " نافذ کی جائے گی۔ اس بات کی مختصر توضیح ذیل میں پیش کی جاتی ہے۔
دستور کی دفعہ 227 ( ا) دو ذمہ داریاں عائد کرتی ہے :
اولاً یہ کہ ’’تمام موجودہ قوانین کو قرآن و سنت میں مذکور احکامِ اسلام سے ہم آہنگ کیا جائے گا۔ ‘‘
ثانیاً یہ کہ’’ ان احکام سے متصادم قانون سازی نہیں کی جائے گی۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی غیر اسلامی قانون نہیں بنایا جائے گا۔
پہلی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل نے دستوری تقاضوں کے مطابق اپنی رپورٹیں تیار کی ہیں۔ نیز جن بعض قوانین کی جزئیات احکامِ اسلام سے متصادم نظر آتی ہیں انھیں کالعدم قرار دینے کے لیے وقتاً فوقتاً وفاقی شرعی عدالت میں بھی کا رخ کیا جاتا ہے۔
نئی یا مجوزہ قانون سازی کے متعلق دوسری دستوری ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے دستور کی دفعہ 229 میں جو طریق کار طے کیا گیا ہے اس کی رو سے مجوزہ قانون کے مسودے کی احکامِ اسلام سے ہم آہنگ بنانے کے لیے کونسل کی رہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ تاہم اگر مفادِ عامہ کا تقاضا ہو تو کونسل کا جواب موصول ہونے سے قبل بھی پارلیمنٹ مجوزہ قانون کا مسودہ منظور کرسکتی ہے۔ (دفعہ (3) 229) وفاقی یا صوبائی مجلس ہاے قانون ساز اس بات کی پابند نہیں ہیں کہ وہ کسی مجوزہ قانون کا مسودہ لازماً کونسل کو بھیجیں ، اور بالعموم وہ ایسا کرتی بھی نہیں ہیں۔ مقننہ عام طور پر قانون سازی کے امور کونسل کی مشاورت کے بغیر ہی انجام دیتی ہے۔ اس وقت ہمارے لیے موضوعِ بحث یہی قوانین ہیں جو کونسل کی مشاورت کے بغیر بنائے جاتے ہیں۔
چونکہ اسلام سے متصادم کوئی قانون نہیں بنایاجاسکتا اس لیے اس دستوری امر کی پابندی کرتے ہوئے مقننہ قانون ایسا بناتی ہے جو اسلام سے ہم آہنگ ہو۔ پس مفروضہ یہ ہے کہ مقننہ کے بنائے ہوئے تمام قوانین اسلامی ہیں ، خواہ انھیں وضع کرنے کے دوران میں کونسل سے مشورہ لیا گیا ہو یا نہیں۔ پس پاکستان میں تمام قوانین اسلامی ہیں۔ اگر ہم ان قوانین کو غیر اسلامی کہیں گے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ مقننہ دستور کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر اسلامی قوانین وضع کررہی ہے۔ ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کی مقننہ کے متعلق یہ کہنا مناسب نہیں ہوگا۔ پس یہ مفروضہ ماننا پڑے گا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ملک میں موجود تمام عدالتیں اس مفروضے کا ’’عدالتی نوٹس‘‘ لیں گی کہ مقننہ کے وضع کردہ تمام قوانین اسلامی ہیں۔
ذرا ترمیم شدہ شکل میں یہ مفروضہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے قبل انگریزوں کی جانب سے بنائے گئے قوانین پر بھی منطبق ہوتا ہے۔کونسل اور شرعی عدالت نے تقریباً ان تمام قوانین کا جائزہ لیا ہے اور ربا جیسے معدودے چند مسائل کے سوا رائج الوقت تقریباً تمام قوانین کو اسلام کے مطابق قرار دیا گیا ہے۔ جن چند قوانین کو غیر اسلامی قرار دیا گیا ہے ان کو بھی بتدریج اسلامی قانون کے سانچے میں ڈھال دیا جائے گا جب ان کے متعلق کونسل کی رپورٹ آجائے گی ، یا جب شرعی عدالت ان کے متعلق فیصلہ کرلے گی۔ قوانین کی غالب اکثریت کے متعلق کونسل اور شرعی عدالت ، یا بہ الفاظِ دیگر پاکستان کے عوام ، کا مفروضہ یہ ہے کہ یہ اسلامی ہیں۔ پس عدالتیں ان قوانین کے متعلق بھی عدالتی نوٹس لیں گی کہ انھیں اسلامی فرض کرتے ہوئے ان کی تعبیر کی جائے۔
نئی قانون سازی اور پہلے سے رائج قوانین کے متعلق ان دو مفروضوں کا مجموعی نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان میں موجود تمام قوانین اسلام سے ہم آہنگ کیے جاچکے ہیں۔ مستقبل میں بھی جو قوانین بنائے جائیں گے وہ اسلام سے ہم آہنگ ہوں گے۔ پس قوانین کو اسلامیانے کا عمل تکمیل کو پہنچ چکا ہے اور ہمارے تمام قوانین اسلامی ہیں۔ یہ حقیقت ہماری عدالتوں کے لیے نہایت اہم ہے۔ اب اس بات کی توضیح ضروری ہے کہ جب ہم کہتے ہیں کہ عدالتیں ان مفروضوں کا اور اس اہم حقیقت کا عدالتی نوٹس لیں تو اس سے ہماری مراد کیا ہے ؟ اس مقصد کے لیے ہم امریکی جج جسٹس کارڈوزو پر انحصار کریں گے جو ہمارے لیے عدالتی طرز عمل کی توضیح کرتے ہیں۔
جسٹس کارڈوزو کہتے ہیں :
’’پس ہمارے لیے پہلا سوال یہ ہونا چاہیے کہ : جج جس قانون کا اظہار اپنے فیصلے کے ذریعے کرتا ہے وہ اسے کہاں سے حاصل کرتا ہے ؟ بعض اوقات یہ مآخذ بالکل واضح ہوتے ہیں ؛ [جیسے مثال کے طور پر کسی] جزئیے سے متعلق حکم دستور یا قانون فراہم کردیتا ہے۔ اگر ایسا ہو تو جج کسی اور چیز کی طرف نہیں دیکھتا۔ جب متعلقہ حکم معلوم ہوجائے تو اس پر عمل پیرا ہوناہی اس کا کام ہے۔ دستور قانون پر بالادست ہوتا ہے ؛ لیکن قانون اگر دستور سے ہم آہنگ ہو تو جج کے وضع کردہ قانون پر بالادست ہوتا ہے۔ اس مفہوم میں جج کا وضع کردہ قانون مقننہ کے وضع کردہ قانون کی بہ نسبت ثانوی حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔ [تاہم] یہ [بھی] صحیح ہے کہ ضوابط اور قوانین جج کو غیر ضروری نہیں بنادیتے ؛ نہ ہی اس کے کام کو لگا بندھا اور مشینی بنادیتے ہیں؛ [بلکہ] قانون میں موجود خلاؤں کا پر کرنا ضروری ہوتا ہے ؛ [اور اسی طرح] اشکالات اور احتمالات کا خاتمہ کرنا پڑتا ہے۔‘‘ (The Nature of Judicial Process)
قانون میں جن خلاؤں، اشکالات یا احتمالات کا جسٹس کارڈوزو ذکر کررہے ہیں وہ عام آدمی کی سوچ سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ جج کو ہر قانون کی تعبیر کرنی پڑتی ہے اور تمام خلاؤں ، اشکالات اور احتمالات کو دور کرکے قانون کو شکل دینا اور معانی پہنانا ہوتا ہے جس کے بعد ہی وہ لوگوں کے مسائل کو منصفانہ اور متوازن حل دیتا ہے۔
یہ خلا ، اشکال اور احتمال جن کا ذکر جسٹس کارڈوزو کررہے ہیں ، اور بھی بڑھ جاتے ہیں جب ہم یہ فرض کرتے ہیں کہ تمام قوانین اب اسلامی ہوچکے ہیں۔ کیا یہ اشکالات دور کرنے میں ہمارے ملک کا قانون ہماری کچھ مدد کرتا ہے ؟ یقیناً ، کرتا ہے۔ اس مسئلے پر جس قانون کا اطلاق ہوتا ہے ، لیکن جس پر بوجوہ عمل نہیں کیا جارہا ، "قانونِ نفاذِ شریعت 1991ء" کی دفعہ 4 میں مذکور ہے۔ اس دفعہ کا متن حسبِ ذیل ہے :
’’قوانین کی تعبیر شریعت کی روشنی میں کی جائے گی : اس قانون کے مقصد کے لیے ( الف ) جب کسی قانون کی دو تعبیرات ممکن ہوں تو عدالت وہ تعبیر اختیار کرے گی جو اسلامی اصولوں اور نظری? قانون سے ہم آہنگ ہو ؛ ( ب ) جب دو یا زائد برابر کی تعبیرات ممکن ہوں تو عدالت وہ تعبیر اختیار کرے گی جو دستور میں مذکور پالیسی کے رہنما اصول اور اسلامی دفعات سے ہم آہنگ ہو۔ ‘‘
ان دونوں ذیلی دفعات میں لفظ shall آیا ہے ، نہ کہ may ، اور اسی لیے اس حکم پر عمل لازمی ہے ، نہ کہ اختیاری۔ " اس قانون کے مقصد کے لیے " سے بالبداہت مراد یہ ہے کہ " نفاذِ شریعت کے مقصد کے لیے ، جیسا کہ اس قانون اور دستور کا تقاضا ہے۔ " باقی رہا یہ سوال کہ اس لازمی تعبیر کی شکل عدالتی اصطلاح میں کیا ہوگی ، تو اس کا جواب دینا خود عدالتوں پر ہی لازم ہے۔ قانون دان حضرات پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس دفعہ کی رو سے لازم ہونے والی تعبیر کے متعلق عدالتوں کے سامنے سوال اٹھائیں۔
اگر اس دفعہ کی روشنی میں قانون کی تعبیر شریعت کی روشنی میں کی جائے تو ملک کا پورا قانون اسلامی عدل اور انصاف کے رنگ میں رنگ جائے گا اور یہ رنگ چار پانچ سال میں واضح طور پر سامنے آجائے گا۔ بعض اوقات عدالتیں شریعت کی طرف اشارہ کرتی ہیں لیکن ایسا ہر معاملے میں نہیں ہوتا۔ ضروری ہے کہ تمام قوانین کی تعبیر شریعت کے مطابق کی جائے۔ اس سے مراد ہر طرح کے قوانین ہیں ، جیسے ٹیکس کا قانون ، کمپنی کا قانون، معاہدے کا قانون ، تلافی کا قانون وغیرہ۔ ہر قانونی تصور کو اسلام کے سانچے میں ڈھالا جائے گا۔ قانونی تصور کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کا مفہوم یہ ہے کہ خلاؤں کو پر اور اشکالات کو دور کرنے کا کام شریعت کی روشنی میں کیا جائے گا۔ اگر یہ قانونی لحاظ سے لازمی کام 1991ء میں شروع کیا جاچکا ہوتا تو آج ہم اس صورت حال سے دوچار نہ ہوتے کہ قانونی نظام کے اسلامی ہونے سے ہی انکار کیا جارہا ہے۔ آخر میں اس بات کا بھی اضافہ کروں کہ شریعت کے بامعنی نفاذ کا یہی واحد طریقہ ہے۔ اس کے نتیجے میں شریعت کا نفاذ تدریج اور سہولت کے ساتھ ہوجائے گا۔ آج جو لوگ شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کررہے ہیں انھیں نفاذ کے اسی طریقے پر اصرار کرنا چاہیے۔ ’’کس کی شریعت کا نفاذ کیا جائے گا ؟ ‘‘ اس سوال کا جواب عدالتوں کو یہ کہہ کر دینا چاہیے کہ کسی فرقے کی شریعت نہیں ، بلکہ شریعت کی دستوری شکل کا نفاذ کیا جائے گا۔
کیا ہمارا دستور اسلامی ہے؟
وفاقی حکومت نے ایک ممتاز عالم دین سے فتوی حاصل کیا ہے جس کی رو سے ہمارا دستور مکمل طور پر اسلامی ہے کیونکہ اس میں وہ 22 ’’اسلامی‘‘ دفعات شامل ہیں جو اس ملک کے ممتاز علماے کرام نے متفقہ طور پر تجویز کیے تھے۔(ایکسپریس ٹربیون، ۹ فروری) سابقہ سطور میں ہم نے تجویز کیا ہے کہ محض قوانین وضع کرنے سے وہ اسلامی نہیں ہوجاتے ؛ بلکہ یہ تبھی اسلامی ہوں گے جب عدالتیں ان کی اسلامی تعبیر کریں گی۔ زیر نظر سطور میں یہ واضح کیا جارہا ہے کہ ان 22 نکات کی شمولیت سے دستور اسلامی نہیں ہوجاتا؛ دستور تبھی اسلامی ہوگا جب عدالتیں صرف ان 22 نکات کی ہی نہیں بلکہ دستور کی ہر ہر دفعہ کی اسلامی تعبیر کریں گی۔
سوال یہ ہے کہ عدالتیں کیوں دستور کی اسلامی تعبیر نہیں کررہیں؟ ہمارے علماے کرام اور صحافی حضرات کو ، جو اس موضوع پر لکھ رہے ہیں ، معلوم ہونا چاہیے کہ اگر عدالتیں دستور کی ہر شق کی اسلامی تعبیر نہیں کرپارہیں تو اس کی وجہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب عدالت عظمی نے حاکم خان بنام حکومتِ پاکستان میں دیا ہے۔ (PLD 1992 SC 559) اس مقدمے میں یہ مسئلہ زیر بحث تھا کہ قصاص کے مقدمات میں قاتل کی معافی کا اختیار صرف مقتول کے ورثا کے پاس ہے یا ورثا کی مرضی کے بغیر بھی صدر قاتل کو معاف کرسکتا ہے ؟دستوری اصطلاح میں بظاہر دفعہ2۔ الف ، جو دستور کو اسلامی بنانے کی کوشش کرتی ہے ، اور دفعہ 45 ، جو صدر کو ہر سزا کی معافی کا اختیار دیتی ہے ، کے درمیان تصادم تھا۔
اگر یہ فرض کرتے ہوئے کہ دستور اسلامی ہے ، دفعہ 45 کی بھی اسلامی تعبیر کی گئی ہوتی تو معزز عدالت نے قرار دیا ہوتا کہ دفعہ 45 کا اطلاق قصاص کی سزا پر نہیں ہوتا۔ تاہم عدالت نے یہ نہیں کہا۔ اس کے برعکس اس نے قرار دیا کہ دفعہ 2150 الف "دستور پر حاوی " نہیں ہے اور دفعہ 2150 الف دستور کی کسی دوسری شق کی تخصیص یا تقیید نہیں کرسکتی۔ بہ الفاظ دیگر ،صرف وہ "22 نکات" ہی اسلامی ہیں ؛ باقی ہر شق اپنا انفرادی مفہوم رکھتی ہے۔
پورے دستور کو اسلامی بنانے کا طریقہ پھر کیا ہے ؟ معزز عدالت نے اس کے لیے یہ طریقہ سجھایا ہے :
پس اگر دستور کی موجودہ شقوں میں سے کسی کے متعلق یہ سوال اٹھایا جائے کہ اللہ تعالیٰ کی مقررکردہ جن حدود کے اندر لوگوں کو قانون سازی کا اختیار ہے یہ شق ان حدود سے تجاوز کی بنا پر ناجائز ہے ، تو اس مسئلے کا حل صرف مجلس شوری ( پارلیمنٹ ) کے پاس ہے جو اگر اس رائے سے متفق ہو تو متعلقہ شق کو ٹھیک کرکے اسے واپس اللہ تعالیٰ کی مقررکردہ حدود کے اندر لانے کے لیے مناسب ترمیم کرسکتی ہے۔ (PLD 1992 SC 559, 621)
یہ موقف دستوری لحاظ سے انتہائی دوررس نتائج کا حامل ہے اور اس کا تفصیلی تجزیہ ضروری ہے۔
برطانیہ میں دستور عام قوانین کی صورت میں بکھرا پڑا ہے جس کی وجہ سے عام طور پر کہا جاتا ہے کہ وہاں [یکجا صورت میں] تحریری دستور موجود نہیں ہے۔ دستور کی جگہ وہاں پارلیمنٹ کا فیصلہ بالادست حیثیت رکھتا ہے۔ اس بنا پر وہاں جج کہا کرتے تھے کہ : " ہم ملکہ عظمیٰ اور پارلیمنٹ کے معزز اراکین کے خادم ہیں۔ " چنانچہ کسی قانون میں ترمیم کی ضرورت ہوتی تھی تو جج اسے واپس پارلیمنٹ بھیجا کرتے تھے۔ تعبیر قانون کے لیے وہ لفظ کے ظاہری مفہوم پر اصرار کرتے تھے اور قانون میں اپنی جانب سے کسی مفہوم یا پہلو کا اضافہ نہیں کرتے تھے۔ تمام فیصلے پارلیمنٹ سادہ اکثریت کے ذریعے کرتی تھی۔ جہاں تحریری دستور ہو ، جیسا کہ امریکا میں ہے ، وہاں ایسا نہیں کیا جاتا۔ برطانیہ میں بھی اب یہ موقف بتدریج تبدیل ہوتا جارہا ہے اور وہاں بھی جج بعض اوقات مدون دستور کے مفروضے پر عمل کرتے ہیں۔
غیر مدون دستور کے برعکس تحریری طور پر مدون دستور قانون کے مآخذ کے درمیان ترتیب مقرر کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس صورت میں تحریری دستور کو بالادستی حاصل ہوتی ہے۔ دستور کو عام قانون پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ اسی بالادستی کے مفروضے کی بنا پر عدالتوں کے لیے یہ اختیار تسلیم کیا جاتا ہے کہ وہ دستور سے تصادم کی بنیاد پر قوانین کو کالعدم قرار دیں۔ پاکستان میں بھی ماضیِ قریب میں عدالت عظمیٰ نے اس قاعدے کا کاکثرت سے استعمال کیا ہے۔ چونکہ برطانیہ میں قوانین کے درمیان اس نوعیت کی ترتیب کا عنصر مفقود ہے ، اس لیے وہاں عدالتوں کے پاس اس طرح کا اختیار موجود نہیں جس طرح امریکا میں ماربری بنام میڈی سن کے مشہور مقدمے سے عدالتِ عظمیٰ نے حاصل کیا۔ برطانیہ میں یہ عدالتی اختیار صرف انتظامی فیصلوں کے جائزے تک ہی محدود ہے۔ اگر ہم اپنے دستور کی شقوں کے مفہوم کے تعین اور اسلام کے ساتھ ان کی ہم آہنگی کا فیصلہ کرنے کے لیے اسی طرح پارلیمنٹ کی طرف بھیجیں گے تو اس سے قوانین کے درمیان اس ترتیب اور عدالتوں کے اس اختیار کی نفی ہوتی ہے جسے ہمارے دستور نے تسلیم کیا ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ حاکم خان کیس میں معاملہ پارلیمنٹ کی طرف بھیجنے کے بجاے اگر عدالتِ عظمیٰ نے اپنے اس اختیار کا استعمال کیا ہوتا تو وہ یہ فیصلہ بھی سنا سکتی تھی کہ مقتول کے ورثا کے پاس قاتل کو معاف کرنے کا حق دستور کی دفعہ 45 سے متصادم ہے ! عدالت نے ایسا نہیں کیا اور پورا معاملہ پارلیمنٹ کی طرف بھیج دیا۔ پارلیمنٹ نے دستور میں ترمیم کرنے کے بجاے مجموعہ تعزیراتِ پاکستان میں ایک نئی شق کا اضافہ کیا۔ چنانچہ 1997ء میں اس مجموعے کی دفعہ 54 میں ، جو سزاوں کی معافی کے بارے میں حکومت کے اختیار کے بارے میں ہے ، حسبِ ذیل ترمیم کی گئی : "البتہ اگر مجرم کو قتل کے کسی جرم میں سزاے موت سنائی جاتی ، تو مقتول کے ورثا کی مرضی کے بغیر ایسی سزا میں تخفیف نہیں کی جائے گی۔ " اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو کام عدالت نہیں کرسکی وہ عدالت نے ایک عام قانون کے ذریعے کردیا کہ اس نے دستور کی دفعہ 45 کی تخصیص ایک عام قانون کے ذریعے کی۔ گویا دستور میں ترمیم سادہ اکثریت کے ذریعے کی گئی !
دفعہ 45 کی تخصیص اس طریقے سے ، یعنی ایک عام قانون کے ذریعے ،کی گئی حالانکہ اس کے الفاظ عام ہیں اور اس میں ’’قانون کے تحت‘‘ جیسی کوئی ترکیب بھی استعمال نہیں کی گئی۔ اگر اس کے باوجود پارلیمنٹ یہاں یہ کرسکتی ہے تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ بنیادی حقوق سے متعلق دفعات کے ساتھ وہ کیا کچھ کرسکے گی کیونکہ ان دفعات میں تو یہ ترکیب بھی استعمال کی گئی ہے ! مثال کے طور پر ’’مفاد عامہ کی خاطر قانون کے تحت عائد کی گئی مناسب قید کے اندر‘‘ (دفعہ 15)، ’’نظم اجتماعی کے مفاد کی خاطر قانون کے تحت عائد کی گئی مناسب قیود کے اندر‘‘ (دفعہ 16)، ’’ قانون کے تحت عائد کی گئی مناسب قیود کے اندر‘‘۔ (دفعہ 17) چنانچہ پارلیمنٹ قانون سازی کے ذریعے بنیادی حقوق پر کئی قیود عائد کرسکتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان دفعات میں پنکچر لگے ہوئے ہیں۔ ( پنکچر میں کسی اور بات کی طرف تلمیح نہ سمجھی جائے) ۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر صدارتی اور دیگر نوعیتوں کی استثنا سے متعلق دفعہ 248 کا جائزہ اسلامی قانون کی روشنی میں لیا گیا تو اس کی تعبیر کیسی ہوگی ؟ افسوس کی بات یہ ہے کہ ماضیِ قریب میں جب عدالت میں اس دفعہ پر بحث ہورہی تھی تو اس پہلو کو نظر انداز کیا گیا۔ تاہم دفعہ 6 تو اس وقت بھی عدالتوں میں زیر غور ہے۔ ہمارے دستور کی اسلامیت جانچنے کا یہ ایک اور موقع ہے۔ ہمیں انتظار ہے اس بات کا کہ اسلامی اصولوں کی روشنی میں عدالت " غداری " کا کیا مفہوم متعین کرتی ہے ؟
پس بنیادی نکتہ یہ ہے کہ محض قانون سازی کافی نہیں ہے ؛ نہ ہی قوانین میں محض یہ تصریح کرنے سے کہ یہ اسلامی ہیں ، کام چل سکتا ہے۔ دستور یا قانون میں اسلامی دفعات کی شمولیت سے صرف آدھا کام ہی ہوا ہے۔ اصل میں اہمیت اس امر کی ہے کہ عدالتیں دستور اور قوانین کی تعبیر کس طرح کرتی ہیں ۔ شاید حاکم خان کیس کا فیصلہ اب بھی نافذ ہے۔ تاہم اسلامی قانون کی روشنی میں دستور کی عدالتی تعبیر کی راہ میں یہ فیصلہ رکاوٹ نہیں بن سکتا۔
1898ء کے ایک فیصلے کی بنا پر 1966ء تک انگلستان میں برطانوی دار الامراء پر خود اس کے اپنے فیصلوں کی پابندی لازم تھی۔ یہ اصول پہلی دفعہ لندن سٹریٹ ٹرام ویز بنام لندن سٹی کونسل کے مقدمے میں طے کیا گیا۔ دار الامراء نے قرار دیا کہ ’’کسی قانونی امر کے متعلق اس ایوان کا فیصلہ حتمی ہے اور۔۔۔ پارلیمنٹ کے قانون کے سوا کوئی چیز بھی اس ایوان کے فیصلے میں موجود کسی مزعومہ غلطی کی تصحیح نہیں کرسکتی۔‘‘ 1966ء میں دار الامراء نے ایک ’’تعامل کی دستاویز‘‘ کے ذریعے یہ موقف تبدیل کرلیا اور قرار دیا کہ ’’ایوان کے سابقہ فیصلوں کو عام طور پر لازمی ماننے کے باوجود ایوان ان سے انحراف کرسکتا ہے اگر اسے یہ انحراف صحیح معلوم ہو۔‘‘ پس اس وقت زیادہ سے زیادہ جو کچھ چاہیے وہ صرف عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے جاری کردی ایک ’’تعامل کی دستاویز‘‘ ہے جس میں یہ قرار دیا جائے کہ آج سے پاکستان کے دستور اور قوانین کی تعبیر اسلامی قانون کی روشنی میں کی جائے گی۔ اس کے بعد کوئی یہ سوال نہیں کرسکے گا کہ کیا پاکستان کا دستور اسلامی ہے؟
دیسی سیکولروں کی مغالطہ انگیزیاں (۱)
محمد زاہد صدیق مغل
(۱) کون سا اسلام جناب، کیونکہ مولویوں کا اسلامی احکامات کی تشریح میں اختلاف ہے، لہٰذا جب تک یہ اختلافات ختم نہیں ہوجاتے اسلام کو اجتماعی نظم سے باہر رکھو ۔
(۲) ٹھیک ہے اختلافات ہمارے درمیان بھی ہیں، مگر ہم لڑتے تو نہیں نا ، مولوی تو لڑتے ہیں ایک دوسرے کو کافر و گمراہ کہتے ہیں ۔
(۳) عقل پر مبنی نظام مذہب کی طرح ڈاگمیٹک نہیں ہوتا ۔
(۴) عقلی نظام تبدیل ہوسکتا ہے، لہٰذا یہ اختلافا ت رفع کا بہتر فریم ورک فراہم کرتا ہے ۔
(۵) سیکولر ریاست خیر کے معاملے میں غیر جانبدار ہوتی ہے ۔
(۶) چونکہ سیکولر ریاست کا کوئی اخلاقی ایجنڈا نہیں ہوتا، لہٰذا یہ کسی تصور خیر کی بیخ کنی نہیں کرتی ۔
(۷) سیکولر ریاست تمام مذاہب کا فروغ ممکن بناتی ہے ۔
(۸) سیکولر ریاست مذہبی اختلافات کا خاتمہ کرکے پر امن بقائے باہمی ممکن بناتی ہے ۔
(۹) سیکولر ریاست فرد کی پرائیویٹ لائف میں مداخلت نہیں کرتی ۔
(۱۰) لبرل سیکولر ریاست غیر استعماری اور پر امن ہوتی ہے ۔
یہ اور اسی قبیل کے چند مزید نکات ہمارے دیسی سیکولر حضرات مذہبی طبقے کے خلاف بطور ’علمی دلیل‘ پیش کرکے رعب جماتے ہیں ۔ درحقیقت سیکولرازم کے بارے میں اس قسم کے دعوے یا تو سیکولرازم سے جہالت کا غماز ہوتے ہیں اور یا پھر جانتے بوجھتے کذب بیانی۔ پہلی صورت میں ان کی حیثیت علمی دلائل نہیں بلکہ ’مغالطہ انگیزیوں’ کی ہے جبکہ دوسری صورت میں فریب کاری کی۔ البتہ ہمارے یہاں کے دیسی سیکولر لوگوں کی علمی کم مائیگی کو سامنے رکھتے ہوئے انہیں مغالطہ انگیزیوں پر محمول کرنا قرین قیاس ہے کیونکہ یہ تو ’مقلدین محض ‘ ہیں، ان بچاروں کو تو اتنی بھی خبر نہیں کہ سیکولرازم کی بڑائی ثابت کرنے والے جن دعووں پر یہ تکیہ کیے بیٹھے ہیں آج خود مغربی اہل علم کے ہاں ان کی کوئی مسلمہ علمی و عقلی توجیہ باقی نہیں رہی۔ اس سلسلہ مضمون میں ہم چند ایسی ہی غلط العام مغالطہ انگیزیوں کا مختصر جائزہ پیش کریں گے۔ دھیان رہے ان میں سے اکثر و بیشتر عذر ایسے ہیں جو ہمارے دیسی سیکولر لوگ مذہب کو اجتماعی زندگی سے برطرف کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، مگر ہم یہ دکھائیں گے کہ وہ تمام عذر جو یہ لوگ مذہب سے برات کے لیے استعمال کرتے ہیں خود ان کے اپنے تراشیدہ عقلی نظریات میں بدرجہ اتم بلکہ زیادہ بھیانک صورت میں موجود ہیں، لہٰذا دیانت کا تقاضا تو یہ ہے کہ یہ لوگ فورا سے قبل اپنے ان تراشیدہ نظریات سے بھی توبہ کرلیں۔ وما توفیقی الا باللہ
(۱) کون سا اسلام جناب؟
ایک زمانہ تھا جب دنیا میں لبرل طبقے تخلیقی صلاحیتوں کا مظہر سمجھے جاتے تھے، مگر نجانے ہمارے یہاں کے لبرل طبقے فکری طور پر اسقدر بانجھ کیوں ہو گئے ہیں کہ آج تک ہر اسلامی شق ، اصلاح یا ترمیم کے خلاف پچاس سال پرانی ایک ہی دلیل پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں: ’ کون سا اسلام جناب، کیونکہ مولویوں کا اسلامی احکامات کی تشریح میں اختلاف ہے لہٰذاجب تک یہ اختلافات ختم نہیں ہوجاتے اسلام کو ایک طرف کرو اور اجتماعی نظام عقل کی روشنی میں طے کیا جائے گا نہ کہ مذہب کی‘۔ مگر یہ لوگ غور نہیں کرتے کہ اسلامی احکامات کی تشریح میں اختلاف کوئی ایسی شے نہیں جس کا ظہور آج پہلی دفعہ ہوگیا ہے، یہ تو قرون اولیٰ سے لے کر آج تک چلتا رہا ہے، تو اگر ان تمام تر اختلافات کے باوجود مسلمان تیرہ سو سال تک حکومتیں چلاتے رہے ہیں تو آج یہ یکا یک کیوں ناممکن نظر آنے لگا ہے؟ ان داعیان عقل و فکر کا مفروضہ یہ ہے کہ جس امر اور اصول میں اختلاف ہو اجتماعی زندگی میں نا صرف یہ کہ وہ قابل عمل نہیں بلکہ اس سے باہر رکھنا بھی ضروری ہے، جب تک کہ متعلقہ ماہرین علم کا اس پر اجماع نہ ہوجائے۔ درحقیقت یہ علمی دلیل نہیں بلکہ دین پر عمل نہ کرنے کا بہانہ ہے کیونکہ اگر یہ اصول زندگی کے ہر پہلو اور شعبے پر لاگو کردیا جائے تو یقین مانئے زندگی کا وجود صفحہ ہستی سے ہمیشہ کے لیے مٹ جائے گا۔ مثلاً اسی منطق کی بنیاد پرکہا جاسکتاہے کہ:
- چونکہ ماہرین معاشیات کا اس امر میں اختلاف ہے کہ زری و مالیاتی پالیسی کس طرح بنائی جانی چاہیے، لہٰذا اسٹیٹ بینک، پلاننگ کمیشن، ایف بی آراور فنانس منسٹری وغیرہ کو اس وقت تک تالا لگا دیا جائے جب تک تمام ماہرین معاشیات کا اجماع نہ ہوجائے۔
- چونکہ ماہرین معاشیات کا غربت کی تعریف، اس کے اسباب و وجوہات اور اس کا سدباب کرنے کے طریقوں کے بارے میں اختلاف ہے، لہٰذا ساری دنیا میں غربت مٹانے والے پروگرام فی الفور بند کر دئیے جائیں جب تک کہ اجماع نہ ہوجائے ۔
- چونکہ ماہرین معاشیات کا اس امر میں اختلاف ہے کہ ملکیت کا کون سا نظام (نجی یا پبلک) اجتماعی ترقی کا ضامن ہے لہٰذا دنیا میں ملکیتوں کے تمام نظام معطل کر دیے جائیں جب تک کہ اجماع نہ ہوجائے ۔
- چونکہ ماہرین طب (ایلوپیتھ، ہومیوپیتھ، حکمت) کا بیماریوں کی تشخیص اور ان کے علاج کے درست طریقہ کار کے بارے میں اختلاف ہے، لہٰذا تمام ماہرین طب کو فی الفور علاج سے روک دیا جائے جب تک کہ اس پر اجماع نہ ہوجائے۔
- چونکہ ماہرین سیاسیات کا اس امر میں اختلاف ہے کہ ریاست کی تعمیر و تشکیل کے لیے کون سا نظام ریاست (آمریت، جمہوریت، اور اگر جمہوریت تو اس کی کون سی شکل ) درست ہے لہٰذا دنیا میں ریاست کاری کے عمل کو اس وقت تک معطل رکھا جائے جب تک کہ اجماع نہ ہوجائے ۔
- چونکہ ماہرین قانون کا آئین کی بہت سی بنیادی شقوں کی تشریح میں اختلاف ہے، لہٰذا آئین کو ایک طرف کردیا جائے ۔
یہ لسٹ درحقیقت نہ ختم ہونے والی کڑی ہے۔ ذرا تصور تو کیجئے یہ تمام امور کس قدر اہم شعبہ جات زندگی سے متعلق ہیں۔ انسانی زندگی و صحت کی قدر وقیمت سے کون انکاری ہوسکتا ہے اور ان اطباء کی آئے دن کی فاش علمی غلطیوں سے لوگ اپنی زندگی و مال و دولت سے محروم ہورہے ہیں، اسی طرح غربت کا خاتمہ، نظام ملکیت کی بنیاد، ریاستی زری و مالیاتی پالیسی کا انتظام و انصرام اور سب سے بڑھ کر خود نظم ریاست کی بنیاد میں سے کون سا امر غیر ضروری ہے؟ اب سوچئے کہ اگر ان شعبہ جات و علوم کے یہ ’بنیادی اختلافات‘ ہمیں دنیا بھر میں ان کی معاشرتی و ریاستی ادارتی صف بندی (institutionalization) سے نہیں روک رہے تو دینی طبقے کے اختلافات کیوں ہمیں اس عمل سے روکتے ہیں؟ اصل بات نیت کی ہے اور سچ ہے کہ جب ایک عمل کرنے کے لیے انسان کی نیت نہ ہو تو اسے بہانہ بھی دلیل نظر آتا ہے۔
(۲) مولوی تو لڑتے ہیں، ہم نہیں لڑتے
اس مقام پر سیکولر لوگ تمام مذاہب (یا تمام مذہبی گروہوں) کو ’ایک گروہ ‘ بنا کر پینترا بدل کر بڑی چالاکی سے اہل مذہب کویہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ’ٹھیک ہے اختلافات ہمارے درمیان بھی ہیں مگر ہم تم لوگوں کی طرح ایک دوسرے کو کافر نہیں کہتے اور نہ ہی لڑتے ہیں‘۔ گویا یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ عقلی نظامہائے زندگی کے اختلافات کے نتیجے میں اس طرح جنگ و جدل کی کیفیت برپا نہیں ہوتی جس طرح مذہبی اختلافات سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر امر واقعی ایساہی ہے تو ہم پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ جب سب عقل پرست (درحقیقت مذہب مخالفین) ’فروغِ آزادی کا ہی نعرہ لگاتے ہیں‘ (جس طرح اہل مذہب فروغِ عبدیت کا نعرہ لگاتے ہیں) تو یہ نہ صرف آپس میں بلکہ دوسروں سے بھی جنگ و جدل کی کیفیت میں کیوں مبتلا رہے ہیں اور آج بھی یہ سلسلہ تھمنے کا نام کیوں نہیں لے ر ہا؟ مثلاً لبرلز نے فرقہ مارکسزم کے بانی مارکس کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا؟ انہی لبرلز نے نطشے کو یہودی اور پاگل کیوں کہا تھا (جب اس نے ان کی یہ پول کھولی تھی کہ تم عقل کے نام پر نئی قسم کی امپیرئیل ازم کو فروغ دے رہے ہو) ؟ لینن اور ماؤ نے روس اور چائنہ میں لبرلز اور قوم پرستوں کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا؟ جرمنی کے نسل پرستوں نے ان دونوں کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا؟ پھر ان دونوں نے نسل پرستوں کے ساتھ کیاسلوک کیا تھا؟ آج تک ان آپسی جنگوں میں جو کروڑوں انسان قتل کردیے گئے، ان نظریات کے فروغ کے لیے جن قوموں کی نسل کشی کردی گئی (مثلا ریڈ انڈین اور ابورجینز) وہ کس کھاتے میں گئے؟ آج بھی یہ تمام فرقے ایک دوسرے کے ساتھ کیا معاملہ کررہے ہیں؟ کیا یہ سب ایک دوسرے کو ’اپنا بھائی‘ سمجھ کر ایک دوسرے کی ’خیر خواہی کے لیے ‘ کوشاں ہیں؟ تو پھر یہ کس منہ سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’ہم نہ تو آپس میں کسی کو کافر کہتے ہیں اور نہ ہی لڑتے ہیں‘ نیز ’مذہب کی تاریخ خونی تاریخ ہے‘؟
پھر کوئی ان سے پوچھے کہ اچھا یہ تو بتاؤ کہ ’آزادی‘ کا جو نعرہ تم بلند کررہے ہو کیا اس کے فروغ کا کوئی ’ایک اجماعی طریقہ‘ ہے تمہارے پاس؟ چنانچہ معاملہ یہ ہے کہ جب ان سے یہ پوچھا جائے کہ ’آزادی کیسے حاصل ہوتی ہے‘، تو اس امر میں ہر کسی کا ’اپنا اپنا فرقہ ‘ ہے، مثلا انارکزم، لبرٹیرنزم، لبرلزم،ڈیموکریٹک سوشل ازم ، کمیونزم، نیشنل ازم، نسل پرستی، فیمینزم، پوسٹ ما ڈرنزم وغیرہم ہر ایک کی فروغ آزادی کی اپنی ایک تشریح ہے اور ان میں یہ طے کرنے کا کوئی اصول موجود نہیں کہ ’آزادی کی درست تشریح ‘ کون سی ہے۔ تو جب ان لوگوں میں اس امر میں کوئی اجماع ہی نہیں (اور نہ ہی ہوسکتا ہے) کہ ’آزادی کس طرح حاصل ہوتی ہے‘ اور جب حصول آزادی کا درست طریقہ ہی ان کے درمیان نزاعی امر ہے تو پھر کس بنیاد پر یہ لوگ ریاست کو کسی ’ایک طریقے ‘ کا پابند بنانے کی بات کرتے ہیں؟ اگر مذہبی اختلافات ریاست کو کسی ایک طریقے کا پابندبنانے میں مانع ہیں تو یہ اختلافات کیوں نہیں؟ (یہاں علم معاشیات و سیاسیات کی درج بالا مثالیں پھر عود آتی ہیں کہ ان سب کا مقصد بھی فروغ آزادی ہی ہے)۔
اس مقام پر سیکولر لوگ بڑی ہوشیاری سے اہل مذہب کو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ’ہم ہر ملک کی عوام کو حق دیتے ہیں کہ وہ اپنے لیے جو بھی طرز حکومت اختیار کرنا چاہیں کرلیں‘۔ لیکن اگر یہ بات واقعی درست ہے تو پھر یہ سب آج تک ایک دوسرے کی ریاستوں میں نقب زنی کیوں کرتے چلے آرہے ہیں؟ کبھی کمیونزم کے توسیع پسندانہ عزائم کے ساتھ تو کبھی ہیومن رائٹس و جمہوریت کے دفاع کے نام پر تم لوگ دنیا بھر میں استعمارانہ دھماچوکڑی کیوں مچا رکھتے ہو؟ آخر پوری دنیا کی معیشت و ذرائع پر گرفت مضبوط رکھنے کے لیے عالمی نگران ایجنسیوں کا دائرہ کیوں بڑھاتے جارہے ہو؟ گلوبلائزیشن کے نام پر قومی ریاستوں کو کمزور کرنے کا سلسلہ کیوں چلا رکھا ہے تم نے؟
(۳) عقل پر مبنی اجتماعی نظم ڈاگمیٹک نہیں ہوتا
جب ان باتوں کا جواب نہیں بنتا تو عقل پرست و سیکولر لوگ ایک نئے قسم کا داؤ پیچ کھیلتے ہیں اور وہ یہ کہ ’مذہبی عقیدہ چونکہ معین، غیر متبدل و آفاقی ہونے کا مدعی ہوتا ہے لہٰذا یہ اپنے ماننے والوں میں ڈاگمیٹک (متشدد) رویے کو فروغ دیتا ہے جو بالآخر نزاع و جنگ وجدل کی کیفیت اختیار کرجاتا ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ ہم اجتماعی نظم مذہبی عقیدے کے بجائے عقل پر استوار کریں کیونکہ عقلی نظریات مذہب کی طرح ڈاگمیٹک نہیں ہوتے‘۔ اگر واقعی اسی بنیاد پر یہ لوگ مذہب کو رد کرتے ہیں تو لازم ہے کہ فورا سے قبل عقلی تراشیدہ نظریات (بشمول غالب لبرل سیکولرازم) کو بھی رد کردیں کیونکہ عقلی نظریات بھی انتہائی متشدد اور کنزرویٹوہوتے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آزادی کی نیلم پری کے پرستار اسے اپنی اخلاقی ذمہ داری سمجھتے ہیں کہ ’پوری انسانیت‘ کو ’اس مقدس خیر و سچ‘ سے بہراور کرائیں۔ یہی وجہ ہے کہ اشتراکیت کا چمپئن روس ہو یا ہیومن رائٹس کا داعی امریکہ، ہر ایک ’انسانیت کی بھلائی‘ کے نام پر (In the name of people) اپنے نظریات کے فروغ کے لیے لازما ’علم جہاد ‘ بلند کرتا ہے۔ ان عقلی تراشیدہ نظریات کی تین سو سالہ تاریخ بتاتی ہے کہ عقل کے نام پر جتنے انسانوں کا قتل عام کیا گیا، جس منظم طریقے سے پوری پوری اقوام کی نسل کشی کردی گئی، جس استحصال اور لوٹ کھسوٹ سے کام لیکر پورے پورے براعظم ہڑپ کر لیے گئے، جس طرح خود اپنی تراشیدہ اخلاقی اقدار کی دھجیاں بکھیری گئیں اس کی نظیر پوری انسانی تاریخ مل کر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ آخر یہ ڈاگمیٹزم نہیں تو اور کیا ہے ؟
پھر یہ ڈاگمیٹزم کوئی اتفاقی امر یا کسی انسانی اخلاقی کمزوری کا اظہار نہیں بلکہ اس کی خالص علمی بنیادیں موجود ہیں۔ درحقیقت عقل کا نعرہ لگانے والا خود کو ’عقل کے جبر‘ کا شکار پاتا ہے۔ ’عقل کے ہر مخصوص تصور‘ پر یقین رکھنے کے نتیجے میں وہ تمام لوگ جو اس مخصوص تصور پر ’یقین نہیں رکھتے ‘ خود بخود ’غیر عقلی‘ (irrational) ٹھرتے ہیں، یعنی وہ ’دائرہ عقل سے باہر ‘ اور عقل کے دشمن ‘ قرار پاتے ہیں، اور چونکہ اس فریم ورک میں ’انسانیت‘ (civilization) ’فروغ عقلیت کے مخصوص تصور‘ کا ہم معنی ہوتا ہے لہٰذا ’عقل کے دشمن‘ ’انسانیت کے دشمن‘ قرار پاتے ہیں (چنانچہ یہی وجہ ہے کہ عقل کے نام لیوا انتہائی ڈاگمیٹک اور کنزرویٹو ہوتے ہیں، اپنے علاوہ ہر کسی کو جاہل اور بے وقوف سمجھتے ہیں)۔ مثلا جو لوگ ہیومن رائٹس پر ایمان نہیں لاتے لبرل سیکولرز کے نزدیک وہ غیر عقلی، جاہل اور وحشی لوگ ہیں، اسی طرح جو لوگ مادی طبقاتی کشمکش کے قائل نہیں اشتراکی سیکولروں کے نزدیک وہ عقل کے دشمن ہیں وغیرہ۔ ہر ’عقلی نظریہ ‘ ایک مخصوص انفرادی و اجتماعی رویے کو فروغ دیتا ہے اور دنیا کا کوئی نظریہ ’عقلی‘ (civilized) اور غیر عقلی (barbaric) رویے کو کبھی مساوی اقداری حیثیت نہیں دیتا۔ ’عقل ‘ تقاضا کرتی ہے کہ ’غیر عقلی‘ کو مغلوب کرکے چھوڑا جائے کیونکہ وہ تو ہے ہی غیر عقلی، اس کے غالب وجود کا کیا مطلب، ایسا غالب وجود تو ’عقل اور انسانیت ‘ کے لیے خطرہ ہے، لہٰذا ’تحفظ عقل‘ کے لیے ’غیر عقلی‘ کی مغلوبیت ناگزیر ہے ۔ جب تک ’غیر‘ (the others) کا غالب وجود باقی ہے ’عقل‘ کو خطرہ لاحق رہتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہیومن رائٹس کی چمپئن یورپی اقوام نے ریڈ انڈینز کا قتل عام اسی بنیاد پر روا رکھا کہ (جان لاک اور جیفرسن کے الفاظ میں) یہ ہیومن نہیں بھینسے اوربھیڑیے ہیں۔ اسی طرح آج امریکہ مجاہدین اور اس کے حواریوں کو نان ہیومن سمجھ کر مارتا ہے۔
یہ دلیل دیتے وقت عقل پرست پس پردہ یہ جھانسا دینے کی کوشش کرتے ہیں گویا دنیا میں عقل کا کوئی ایک ہی تصور ہے جس پر ساری دنیا ایمان رکھتی ہے لہٰذا اس کی بنیاد پر کوئی اختلاف نہیں ہوگا ، ظاہر بات ہے یہ تو صرف ایک سفید جھوٹ ہے کیونکہ اس دنیا میں عقل کے اتنے ہی تصورات ممکن ہیں جتنی انسانی عقلیں موجود ہیں۔ اب چونکہ عقل کا کوئی آفاقی تصور ممکن ہی نہیں اور نہ ہی کسی مخصوص تصور عقلیت کی کوئی آفاقی عقلی توجیہ پیش کی جاسکتی ہے لہٰذا عقلیت کے مختلف و متضاد تصورات ہمیشہ اور لازما کشاکش کا شکار رہتے ہیں اور عقل کے فریم ورک میں اس نزاع کا کوئی حل ممکن نہیں۔ گویا یہاں ’الجہاد ماض الی یوم القیامۃ‘ (جہاد تو روز قیامت تک جاری رہے گا) والی کیفیت برپا رہتی ہے۔
(۴) عقل پر مبنی نظام رفع اختلاف کا بہتر انتظام ہے
اس ضمن میں عقل پرست اور سیکولر لوگ ایک دوسری قسم کی توجیہ بھی پیش کرتے ہیں، وہ یہ کہ ’چونکہ عقلی تراشیدہ نظام تجربات کی روشنی میں متبدل ہوتے ہیں لہٰذا یہ رفع نزاع کا بہتر فریم ورک فراہم کرتے ہیں‘۔ مگر یہ محض لفاظی ہے کیونکہ اگر امر واقعی ایسا ہی ہے تو تین سو سال میں ان کے آپسی اختلافات کیوں رفع نہ ہوگئے؟ کیا یہ سیکولر لوگ دوسو سال قبل ’دریافت ہونے والے ‘ ہیومن رائٹس سے دستبردار ہونے کے لیے تیار ہیں؟ دستبردار ہونا تو درکنار ان ہیومن رائٹس کے حوالے سے ان کی ڈاگمیٹزم کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اگرچہ آج ان کے اکابرین فلاسفہ خود مانتے ہیں کہ ہیومن رائٹس اور جمہوریت وغیرہ کسی شے کی کوئی آفاقی عقلی توجیہ پیش کرنا ممکن نہیں البتہ یہ ہمیں جمالیاتی طور پر اچھے لگتے ہیں لہٰذا یہ جاری و ساری رہنا چاہیے۔ مثلاٍ مشہور پوسٹ ماڈرن فلسفی چارلس ٹیلر (Charles Taylor)کہتا ہے کہ آزادی، مساوات وترقی کا فروغ ہماری لبرل معاشرت کے ارتقا کی تاریخ ہے لہٰذا، ان کا فروغ ہماری شناخت کے ہم معنی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ان قدار سے میرا لگاؤ ایسا ہی ہے جیسے کلاسیکی موسیقی، آرٹ، ادب اور رقص سے لگاؤ ہے، یہ لگاؤ ہی ٹیلر کو ٹیلر بناتے ہیں اور ان اقدار سے غداری اپنی تاریخ اور تہذیب سے غداری ہے۔ رارٹی (Rorty) کہتا ہے کہ اگرچہ میں آزادی کی کوئی آفاقی عقلی توجیہ نہیں دے سکتا البتہ یہ مجھے جمالیاتی سطح پر اچھی لگتی ہے۔ تو جناب ’اصول ‘ (مابعدالطبیعیاتی ایمان) تو آپ کے یہاں بھی نہیں بدلتے تو پھر فوقیت کی وجہ جواز کیا رہی؟
پھر معاملہ اتنا ہی نہیں جتنا اوپر بیان کیا گیا بلکہ یہ پہلو بھی غور طلب ہے کہ اہل اسلام کے پاس کوئی ’ایسی بنیاد‘ (قرآن وسنت) تو موجود ہے جس کے آگے وہ سب سر نگوں ہونے کے لیے تیار ہیں، جس کی بات ثابت و متحقق ہوجانے کے بعد اس کے آگے کوئی لب کشائی کی اور ’اپنی رائے دینے‘ کی جرات بھی نہیں کرتا (یہی وجہ ہے کہ اس کاایک بڑا حصہ قطعی الدلات ہونے کی بنا پر متفق علیہ ہے جبکہ دوسرا حصہ مجتہد فیہ امور پر مبنی ہونے کی وجہ سے اختلافات کا دائرہ رہا ہے )۔ اس کے مقابلے میں ان عقل پرستوں کے پاس تو ’سرے سے رفع نزاع کی کوئی بنیاد ہے ہی نہیں‘، ہم پھر کہے دیتے ہیں ’سرے سے کوئی بنیاد ہے ہی نہیں‘۔ یہاں عقلی لم ٹٹول ہے اور بس، اور چونکہ عقلی تصورات بے شمار ہیں نیز ان میں تمیز و ترجیح کا پیمانہ نا ممکن ہے، لہٰذا یہاں ’تمام تر‘ اختلافات ابدی ہیں کہ یہاں کچھ بھی قطعی طور پر طے کرنا ممکن نہیں ۔ ’وقت اور مطلب‘ پڑنے پر یہ لوگ خود اپنی ہی گھڑی ہوئی ہر بات اور اصول کو اپنے ہی پیروں تلے روند کر آگے بڑھ جانے میں کوئی مضائقہ محسوس نہیں کرتے کہ آج ’ان کی عقل میں ارتقاء ہوگیا‘۔ اور چونکہ یہ اپنے نفس کے سوا کسی کے آگے جوابدہ نہیں ہوتے (اور نفس بھی وہ جو شہوت و غضب سے مغلوب ہے) لہٰذا یہ خود کو ہر اخلاقی خلاف ورزی کے لیے معاف کردینے میں حق بجانب سمجھتے ہیں (رارٹی کہتا ہے کہ یہ درست ہے کہ ہم نے ریڈ انڈینز کا قتل عام کیا لیکن چونکہ ہم خود مختار ہیں اور کسی کو جوابدہ نہیں لہٰذا یہ ہمارا حق ہے کہ خود کو معاف کردیں)۔
درحقیقت ہر نظام زندگی میں اپنے داخلی اختلافات کو سمونے اور حل کرنے کی ایک حد تک لچک اور صلاحیت موجود ہوتی ہے اور اسلامی تاریخ اس کابین منہ بولتا ثبوت ہے جہاں بے شمار کلامی، فقہی و صوفی گروہ و سلسلے اپنے اپنے طرز پر کام کرتے رہے اور آج بھی کرتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں خلافت اسلامیہ میں ذمی بھی اسلام کے عطا کردہ حقوق کے تحت موج سے زندگی گزارتے رہے ہیں (یہی وجہ ہے کہ اندلس میں خلافت اسلامی کے سقوط کے بعد ذمیوں نے پوری دنیا چھوڑ کر خلافت عثمانیہ کے زیر سایہ رہنے کو ترجیح دی)۔ یقیناًاسلام کی قائم کردہ ایمپائر میں بھر پور رحمت اور وسیع الظرفی موجود ہے، لیکن اسلام اس وسیع الظرفی کو کسی خارجی پیمانے (مثلا ہیومن رائٹس) پر نہیں قرآن وسنت پر تول کر پرکھتا ہے۔ اگر یہ سوال پوچھا جائے کہ ’پھر یہ اسلامی گروہ آپس میں لڑتے ہوئے کیوں پائے جاتے ہیں‘ تو اس کاجواب ’فی الحال ایک پختہ (mature) اسلامی خلافت (ایسی ریاست جو رسول اللہ کی سیاسی نیابت سر انجام دے) کا وجود نہ ہونا ہے‘۔ جب ریاستی نظم نہ ہو تو انفرادیت و معاشرت دونوں انتشار کا شکار ہونے لگتی ہیں، خلیفہ کو انہی معنی میں ظل اللہ کہا جاتا ہے کہ وہ تمام دینی کام کو سمو دیتا ہے نیز انتشار پھیلانے والی قوتوں کو ریگولیٹ کرتا ہے۔ اگر آج لبرل سیکولر سرمایہ دارانہ ریاست لبرل معاشرتی و معاشی تنظیم (سول سوسائٹی و مارکیٹ) کی پشت پناہی اور ریگولریشن سے ہاتھ کھینچ لے تو یہ زمین بوس ہوجائے، مثلاٍ اگر یہ ڈاکٹری ، وکالت، تعلیم، بینکوں، کمپنیوں وغیرہ پر نظر نہ رکھے تو آپ دیکھ لیں گے کہ کس طرح ڈاکٹر، وکیل، سکول کالج و یونیورسٹیاں نیز مالیاتی ادارے عوام کا مال لوٹتے ہیں نیز کس طرح یہ کرپشن کا شکارا ور باہمی طور پر دست و گریبان ہوتے ہیں (ان کے نظارے تو آئے دن ہم اس قدر سخت ریگولیشن کے باوجود بھی دیکھتے رہتے ہیں)۔ پس جب پختہ اسلامی خلافت قائم ہوجائے گی تو یہ چھوٹے چھوٹے گروہ خود بخود ڈسپلن اور سیدھے (align) ہو جائیں گے۔ (جاری)
فرانس کے ایک مختصر دورے کے تاثرات
محمد عمار خان ناصر
(یہ تاثرات الشریعہ اکادمی میں منعقدہ ایک مجلس میں بیان کیے گئے جنھیں ٹیپ ریکارڈر سے مولانا محمد کامران نے منتقل کیا اور ایڈیٹنگ کے بعد انھیں یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔)
۱۲ سے ۱۴ دسمبر ۲۰۱۴ء، مجھے تین دن کے لیے فرانس کے شہر Lyon میں امیر عبد القادر الجزائریؒ کے حوالے سے منعقد ہونے والے ایک سلسلہ تقریبات میں شرکت کا موقع ملا۔ یہ پروگرام مختلف قسم کی سرگرمیوں پر مشتمل تھا اور اس کا اہتمام بنیادی طور پر فرانس میں مقیم الجزائری مسلمانوں کی ایک مقامی تنظیم نے کیا تھا، جبکہ امیر عبد القادر الجزائری کی شخصیت اور تاریخی کردار سے مختلف حوالوں سے دلچسپی رکھنے والی بعض دوسری تنظیموں نے اس میں معاونت کی تھی۔ الجزائر میں، جو امیر عبد القادر کا اصل وطن ہے، کئی فورمز پر اور کئی حوالوں سے مختلف سطحوں پر امیر عبد القادر کی شخصیت پر کام ہو رہا ہے۔ ان میں سے ایک تنظیم موسسۃ الامیر عبد القادر ہے، وہ بھی اس پروگرام کی ترتیب اور انتظام میں شریک تھی۔ اسی طرح امریکہ کی ریاست آئیووا (Iowa) میں ایک چھوٹا سا قصبہ Elkader امیر عبد القادر کے دور میں ہی ان کے نام سے موسوم کیا گیا تھا۔ وہاں ایک تنظیم ’’عبد القادر ایجوکیشن پروجیکٹ‘‘ کے عنوان سے امریکی اسکولوں اور کالجوں میں طلبہ کو امیر عبد القادر کی شخصیت اور کردار سے متعارف کروانے کے لیے کام کر رہی ہے۔ اس تنظیم کے سرکردہ افراد بھی اس پروگرام میں شرکت کے لیے خصوصی طور پر آئے تھے۔ اس کے علاوہ دعوت نامے پر کئی اور تنظیموں کا نام بھی لکھا ہوا تھا، لیکن بنیادی طور پر اس کی منتظم فرانس میں الجزائری مسلمانوں کی مذکورہ تنظیم ہی تھی۔
Lyon ، یہ پیرس کے بعد فرانس کا دوسر ابڑا شہر ہے، آبادی کے لحاظ سے بھی اور تاریخی اہمیت کے لحاظ سے بھی۔ کئی صدیاں پہلے یہ علاقہ فرانس کے نام سے معروف نہیں تھا، بلکہ تاریخی طور پر اس خطے کو Gaul کہا جاتا تھا۔ قرون وسطیٰ میں فرانکس کی ایک خاص نسل یہاں آ کر آباد ہوئی تو اس کے بعد اس نے کسی مرحلے پر فرانس کا نام اختیار کر لیا۔ رومی سلطنت کے دور میں Lyon کو گال کا دار الحکومت قرار دیا گیا۔ بعد میں پھر دار الحکومت پیرس میں منتقل ہو گیا۔ اس لحاظ سے اس شہر کی تاریخی لحاظ سے بھی اور بعض دوسرے حوالوں سے بھی بڑی اہمیت ہے۔ امیر عبد القادر الجزائری کو فرانسیسی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دینے کے بعد ترکی کی طرف جلاوطن کرنے سے پہلے جب کچھ عرصے کے لیے فرانس میں نظر بند رکھا گیا اور پھر رہا کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو رہائی کے بعد فرانس سے رخصت ہونے سے پہلے وہ ۱۸۵۲ء میں دسمبر کی ۱۲ اور ۱۳ تاریخ کو اس شہر میں آئے تھے۔ اسی مناسبت سے انھی تاریخوں میں ان کی یاد میں Lyon میں یہ تقریبات منعقد کی گئیں جن میں شرکت کی غرض سے میرا یہ سفر ہوا۔
مجھے جب اس پروگرام میں شرکت کی دعوت دی گئی تو میں نے فوراً قبول کر لی۔ مجھے پچھلے چند سالوں سے عبد القادر الجزائری کی شخصیت میں خاص دلچسپی رہی ہے اور پاکستان میں ان کی شخصیت کو عمومی طور پر متعارف کروانے کے لیے ایک امریکی مصنف جان کائزر کی کتاب کا اردو ترجمہ یہاں چھپوانے میں بھی میرا کردار رہا ہے۔ چنانچہ میں نے اس پروگرام میں شرکت کی پیش کش کو فوراً قبول کر لیا۔ الجزائری کی شخصیت سے دلچسپی کے علاوہ خاص طور پر اس پروگرام میں شرکت کے بھی کئی محرکات تھے۔ مجھے دلچسپی تھی کہ یہ دیکھا جائے کہ آج دنیا میں مختلف سطحوں پر مختلف ذہنی پس منظر رکھنے والے لوگ عبد القادر کی شخصیت کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں تو وہ کون سے مختلف پہلو ہیں جو ان کے لیے دلچسپی کا باعث ہیں اور جن کی وجہ سے آج عبد القادر کی شخصیت کو یوں کہہ لیں کہ نئے سرے سے دریافت کیا جا رہا ہے۔ اپنے دور میں تو عبد القادر عالمی شہرت یافتہ شخصیات میں شامل تھے۔ ۱۸۳۲ء سے ۱۸۴۸ء تک کا دور وہ ہے جس میں وہ الجزائر میں فرانس کے خلاف جنگ آزادی لڑ رہے تھے۔ تقریباً اسی دور میں ہمارے ہاں برصغیر میں سید احمد شہید نے تحریک مجاہدین برپا کی تھی اور وسط ایشیا میں اسی زمانے میں امام شامل روسی افواج کے خلاف برسر پیکار تھے۔ امام شامل کا عرصہ جہاد ذرا لمبا ہے اور وہ تیس سال تک روس کے خلاف جہاد کرتے رہے ہیں۔ ان دونوں راہ نماؤں کے آپس میں قریبی روابط بھی تھے۔
اپنے دور میں امیر عبد القادر دنیا کی ایک قدر آور شخصیت تھے جس کی وجہ ایک تو فرانس کے خلاف جدوجہد آزادی تھی۔ پھر انھوں نے جلاوطنی کے دور میں ۱۸۶۰ء میں دمشق میں مسلم مسیحی فسادات میں غیر معمولی کردار ادا کیا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ہزاروں بے گناہ مسیحیوں کو شر پسندوں کے ہاتھ قتل ہونے سے بچایا اور اپنی حویلی میں لا کر انھیں پناہ دی۔ جو گروہ شر وفساد پھیلانے اور مسیحیوں کا قتل عام کرنے کے لیے نکلے ہوئے تھے، انھیں اپنے مقاصد میں کامیابی سے روکنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ اس وقت مڈل ایسٹ میں مغربی طاقتوں کی سیاست خاص طور پر اس نکتے پر مرکوز تھی کہ یہاں مقیم مختلف مسیحی گروہوں کی حفاظت کون سی طاقت کرے گی۔ برطانیہ اور فرانس میں خاص طو رپر اس کے لیے سیاسی مسابقت چل رہی تھی اور مسیحیوں کے تحفظ کے دعوے کے ساتھ یہ طاقتیں اس مسئلے کو سلطنت عثمانیہ کے ساتھ مذاکرات میں بھی اٹھاتی تھیں۔ اس ضمن میں بعض اہم معاہدے بھی ہوئے اور یہ مغربی طاقتیں اس مسئلے کو سلطنت عثمانیہ کے خلاف ایک سیاسی دباؤ کے طور پر استعمال کر رہی تھیں۔ ۱۸۶۰ء کے واقعے سے قبل الجزائری کا تعارف مسلمان دنیا، خاص طور پر عرب دنیا میں تو تھا ہی اور مغربی دنیا بھی عمومی طور پر ان کے نام سے واقف تھی، لیکن دمشق کے اس کردار کی وجہ سے مغربی پریس نے انھیں بہت زیادہ کوریج دی اور بڑے بڑے عالمی لیڈروں نے ان کے اس اقدام کو سراہا اور تحسین کے کلمات کہے۔ اسی دور میں امریکہ کی ریاست آئیووا (Iowa) میں آباد کاری ہو رہی تھی تو ایک قصبے کا نقشہ بنانے والے انجینئر کو پریس میں خبروں اور مضامین کے ذریعے سے عبد القادر کا تعارف ہوا اور وہ ان کے کردار سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے اس قصبے کا نام Elkader رکھ دیا۔
اپنے دور میں امیر عبد القادر کا سیاسی اثر ورسوخ بھی کافی تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ اس دور میں جب اس امکان پر باقاعدہ گفتگو چل رہی تھی کہ شام کا علاقہ سلطنت عثمانیہ سے الگ ہو کر ایک آزاد عرب ریاست کی شکل اختیار کر لے تو مختلف سطحوں پر شام کے گورنر کے طور پر امیر عبد القادر کا نام لیا جانے لگا۔ گویا انھیں ایک ایسی شخصیت تصور کیا جا رہا تھا جن کی قیادت کو شام کے مختلف سیاسی گروہ اپنے داخلی اختلافات سے بالاتر ہو کر قبول کرنے کے لیے تیار ہو سکتے تھے۔ تاہم عبد القادر نے یہ ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا، کیونکہ وہ آخری عمر میں سیاست کے دھندوں سے الگ ہو کر تعلیم وتدریس، تصنیف اور روحانی مشاغل کی طرف یکسو ہو چکے تھے۔
میں عرض کر رہا تھا کہ عبد القادر اپنے دور کی ایک عالمی شہرت یافتہ اور قابل احترام شخصیت تھے۔ اگر آپ امیر عبدالقادر کے حالات پر اور زندگی کے مختلف پہلوؤں پر مواد تلاش کرنا چاہیں تو سب سے زیادہ لٹریچر فرانسیسی زبان میں ملے گا، کیونکہ عبد القادر نے جلاوطنی سے پہلے کچھ عرصہ فرانس میں نظر بندی کی حالت میں گزارا ہے۔ اس عرصے میں ان کے فرانس کے مذہبی راہ نماؤں ، کیتھولک چرچ کے پادریوں اور فرانس کے سیاسی لیڈروں سے بڑے اچھے ذاتی روابط قائم ہو گئے۔ انھوں نے اپنے مسیحی حلقہ احباب کے لوگوں سے مذہبی مسائل پر گفتگو اور تبادلہ خیال بھی کیا اور خطوط کا تبادلہ بھی کرتے رہے۔ انھوں نے عربی میں تنبیہ العاقل وذکری الغافل کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی ہے جس میں ایک کیتھولک بشپ کے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے جو اس نے عقلی لحاظ سے اسلام کی تعلیمات پر کیے تھے اور کہا تھا کہ اسلام کی تعلیمات عقلی لحاظ سے محل نظر ہیں۔ یعنی فرانس کے علمی اور مذہبی حلقوں میں ان کا خاصا تعارف ہے اور فرانس میں کافی لوگ عبد القادر کی شخصیت اور افکار پر تحقیقی وتصنیفی کام کرتے رہتے ہیں۔ ابھی اسی سفر میں میری ملاقات وہاں کے ایک کیتھولک بشپ Christian Delorme سے ہوئی جنھوں نے حال ہی میں امیر عبد القادر پر فرانسیسی زبان میں L'Emir Abd El-Kader a Lyon (امیر عبد القادر لے آن میں) کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے۔ اس کا ایک نسخہ انھوں نے میری فرمائش پر مجھے بھی دیا۔ مجھے اگرچہ فرانسیسی نہیں آتی، لیکن میں نے ان سے اس کتاب کا نسخہ لے لیا۔ تو الجزائری پر سب سے زیادہ کام فرانسیسی زبان میں ہوا ہے۔ اس کے بعد دوسرے نمبر پر عربی زبان میں کام ہوا ہے جو زیادہ تر علمی حلقوں تک محدود ہے۔
بہرحال ۱۸۸۳ء میں ان کی وفات کے بعد یوں لگتا ہے کہ تاریخ انھیں بھول گئی ہے۔ گویا انھیں فراموش کر دیا گیا ہے، لیکن اب پچھلے چند سالوں سے دوبارہ ان کی شخصیت کا احیا ہوا ہے۔ الجزائر کی حکومت، الجزائر کی سول سوسائٹی کے مختلف طبقات ان کی شخصیت اور کردار کے تعارف میں خاصی دلچسپی لے رہے ہیں۔ باقی عرب دنیا میں بھی ان کا ازسر نو تعارف ہو رہا ہے اور عرب سے جو لوگ امریکہ اور برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں گئے ہیں، وہ بھی اس طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ گویا آپ کہہ سکتے ہیں کہ مختلف سطحوں پرامیر کی شخصیت دوبارہ توجہ کا مرکز بن رہی ہے اور یہی چیز میرے لیے اس سفر میں دلچسپی کی ایک خاص وجہ تھی۔ مجھے اندازہ تھا کہ مختلف پس منظر کے لوگ وہاں آئے ہوں گے اور ان کے ساتھ تبادلہ خیال سے یہ سمجھنے کا موقع ملے گا کہ الجزائری میں کس کس حوالے سے دلچسپی لی جا رہی ہے اور ان کی شخصیت کے کون کون سے پہلو موضوع مطالعہ ہیں۔ الحمد للہ کافی لوگوں سے ملاقات ہوئی اور تبادلہ خیال کا موقع بھی ملا اور بہت سے اہم پہلو سمجھنے میں مدد ملی۔
یہ تین دن کا پروگرام تھا جس میں مختلف طبقات کے ذوق اور مزاج کے لحاظ سے دو تین الگ الگ انداز کی مجالس اور سرگرمیاں منظم کی گئی تھیں۔ پہلے دن جب میں پہنچا تو ایئر پورٹ سے مجھے سیدھا ایک ہال میں لے جایا گیا جہاں ابتدائی تعارفی تقریب منعقد کی جا رہی تھی۔ یہ تقریب فرانس کی عام کمیونٹی کے لیے تھی جس میں مسلمان، غیر مسلم، مرد، عورتیں، طلبہ اور عام لوگ شریک تھے۔ دو تین مقررین نے امیر عبد القادر کی شخصیت اور آج کے دور کے حوالے سے ان کی اہمیت پر مختصر بات کی۔ اگلے دن اس پروگرام کے آرگنائزر فواد چرغی نے اپنے گھر میں الجزائری مسلمانوں کے مختلف گھرانوں اور فرانس کی بعض مقامی فیملیوں کو جمع کیا ہوا تھا۔ یہ ایک طرح کا Social get-together تھا، ایک بہت ہی غیر رسمی قسم کا اکٹھ تھا جس میں فیملیاں آپس میں بیٹھ کر گپ شپ اور تبادلہ خیال بھی کرتی ہیں۔ کھانے پینے کا بھی بندوبست تھا اور مہمانوں کو عربوں کی مشہور ڈش ’’کس کس‘‘ پیش کی گئی جو بالکل پھیکی تھی اور مجھے تو بہت ہی بدذائقہ لگی۔ اس میل جول کی تقریب کو ہلکا سا touch امیر عبد القادر کے تعارف کا دے دیا گیا تھا۔ مختلف فلیکس آویزاں کیے گئے تھے جن میں امیر عبد القادر کی تصویر کے ساتھ چھوٹے چھوٹے اقتباسات درج تھے۔ مکان کے باہر دو تین منزلہ عمارت کی دیوار پر الجزائری کی ایک بہت بڑی تصویر لگائی گئی تھی جس کی باقاعدہ نقاب کشائی کی گئی۔
پروگرام کے تیسرے اور آخری دن Lyon کی ژاں ملاں یونیورسٹی (Jean-Mullen University) میں اساتذہ اور طلبہ اور پڑھے لکھے طبقات کے لیے ایک علمی نوعیت کی نشست رکھی گئی تھی۔ مجھے اس آخری نشست میں آخری گفتگو کے لیے کہا گیا۔ اس گفتگو کا عنوان تھا: امیر عبد القادر الجزائری کا تصور جہاد۔ میں نے اپنی مختصر گفتگو میں عبد القادر کے تصور جہاد اور اس وقت ہمیں پاکستان اور افغانستان میں جہاد کا جو تصور اور نمونہ دیکھنے کو مل رہا ہے، ان کے مابین تقابل کیا اور یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ ان میں سے کون سا تصور جہاد فقہی وشرعی اصولوں کی درست نمائندگی کرتا ہے۔ امیر نے سولہ سال تک جن اصولوں کے تحت جہاد کیا، اس سے ہمارے سامنے جہاد کا جو نقشہ آتا ہے اور جہاد کی جو شکل ہم اس وقت اپنے خطے میں دیکھ رہے ہیں، دونوں کے مابین تضاد کی نسبت ہے۔ عبد القادر کے بعض فیصلوں سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے، لیکن میری رائے میں ان کا تصور جہاد بڑی حد فقہی اور شرعی اصولوں کی نمائندگی کرتا ہے، جبکہ ہم اس وقت جو نقشہ دیکھ رہے ہیں، وہ ان اصولوں کی کسی بھی درجے میں نمائندگی نہیں کرتا۔ میں نے اسی پہلو سے گفتگو کے لیے یہ عنوان منتخب کیا کہ جہادکے ان دونوں تصورات میں ہم کن کن پہلووں سے تقابل کر سکتے ہیں اور یہ دیکھ سکتے ہیں کہ اگر شرعی اصولوں کی روشنی میں جہاد کیا جائے تو اس کا عملی نقشہ کیا ہوگا۔ میں نے اپنی تقریر انگریزی میں لکھی ہوئی تھی، لیکن فرانس میں انگریزی سمجھنے والے لوگ بہت کم ملیں گے۔ ایک مقامی خاتون نے، جن کی اپنی انگریزی اتنی اچھی نہیں تھی، میری تقریر کا فرانسیسی میں ترجمہ کیا اور بحیثیت مجموعی میرا تاثر یہ ہے کہ میں جو کچھ کہنا چاہ رہا تھا، وہ لوگوں تک پہنچ گیا۔ تقریر کے بعد انفرادی ملاقاتوں میں میری گفتگو کے حوالے سے پسندیدگی ظاہر کی گئی اور کہا گیا کہ اس تقریر میں بہت مختصر اور ٹو دی پوائنٹ یعنی بالکل متعین طریقے سے اسلام کے تصور جہاد کے ضمن میں پانچ چھ اہم اصول بیان کر دیے ہیں جن کا لحاظ الجزائری کے ہاں نظر آتا ہے، جبکہ موجودہ تصور جہاد میں انھیں پامال کیا جا رہا ہے۔
میں نے اپنی گفتگو میں اسلام کے تصور جہاد کے ضمن میں جو نکات واضح کیے، ان میں سے نکتہ یہ تھا کہ جہاد کے حقیقی تصور کی روح یہ ہے کہ جہاد کو ذاتی اقتدار یا دولت یا اثر ورسوخ کے حصول کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔ یہ تو ایک فریضہ ہے جو مسلمانوں کو مخصوص حالات میں ایک ذمہ داری کے طور پر ادا کرنا ہوتا ہے۔ اگر اس میں personal ambitions اور دولت واقتدار کی خواہش شامل ہو جائے تو اللہ کی نظر میں وہ جہدوجہد اپنی روح کے لحاظ سے بے وقعت قرار پاتی ہے۔ امیر کے ہاں جہاد کی یہ اسپرٹ بہت نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ انھوں نے دو مرحلوں پر اس وقت جب کہ وہ باقاعدہ امیر المومنین بن چکے تھے اور الجزائر کا ایک پورا علاقہ ان کے زیر تصرف تھا جس پر ان کی حکومت قائم تھی، مراکش کے بادشاہ کو یہ درخواست کی کہ یہ علاقے جو ہمارے زیر نگیں ہیں، آپ ان کو اپنی قلمرو میں شامل کر لیں اور یہاں اپنا کوئی نمائندہ مقرر کر دیں جو معاملات کا انتظام وانصرام کرے۔ امیر نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ واپس اپنی خانقاہی زندگی اور تعلیم وتدریس کی مشغولیت کی طرف لوٹ جاؤں۔ اس حوالے سے شاہ مراکش کے نام امیر کے جو خطوط ہیں، وہ ہنری چرچل نے اپنی کتاب میں نقل کیے ہیں۔ ہنری چرچل ایک برطانوی مصنف تھا جس نے امیر کے قیام دمشق کے زمانے میں مسلسل کئی مہینے تک امیر عبد القادر سے ملاقاتیں کر کے ان کی یادداشتیں قلم بند کیں اور انھیں ایک کتاب کی صورت میں مرتب کر دیا۔ یہ کتاب انگریزی میں ہے، جبکہ اس کا عربی ترجمہ حیاۃ الامیر عبد القادر کے نام سے انٹر نیٹ پر دستیاب ہے اور عبد القادر کے حالات سے متعلق ایک بنیادی ماخذ کا درجہ رکھتی ہے۔ اس میں ہنری چرچل نے امیر کے وہ خطوط نقل کیے ہوئے ہیں جو انھوں نے شاہِ مراکش کو لکھے تھے۔ امیر کا یہ اقدام یقینی طور پر جہاد کی صحیح اسپرٹ کی عکاسی کرتا ہے، جبکہ اس وقت ہم خاص طور پر اپنے خطے میں جہاد کے نام پر جو سرگرمیاں دیکھ رہے ہیں، اس میں حقیقی جہادی روح کا واضح فقدان دکھائی دیتا ہے اور واقفان حال جانتے ہیں کہ اب تو اس نے دولت اور اقتدار کے ایک گھناؤنے کاروبار کی شکل اختیار کر لی ہے۔
دوسری چیز جو میں نے اپنی گفتگو میں واضح کی، یہ تھی کہ جہاد چند اخلاقی اصولوں کی پابندی کا تقاضا کرتا ہے۔ اگر ان اصولوں کی پابندی ہوگی تو شریعت کی نظر میں وہ جہاد ہے، ورنہ نرا فساد ہے۔ان میں سے ایک یہ ہے کہ آپ جنگ کے دوران میں بے گناہوں پر اور ان لوگوں پر جو جنگ میں شریک نہیں، ہاتھ نہیں اٹھائیں گے۔ قیدیوں کے ساتھ آپ کا برتاؤ اخلاقی اصولوں کے دائرے میں ہونا چاہیے اور آپ دشمن کے ساتھ جو بھی معاہدہ کریں، اس کی لفظ ومعنی کے اعتبار سے آپ نے پابندی کرنی ہے۔ عبد القادر الجزائری کے ہاں ان اصولوں کی بڑی غیر معمولی پاس داری دکھائی دیتی ہے۔ جنگی قیدیوں کے حوالے سے تو ان کا کردار اتنا غیر معمولی ہے کہ اس وقت دنیا میں جنگی قیدیوں کے حوالے سے جو بین الاقوامی قانون ہے، اس کے بارے میں اب یہ بات بین الاقوامی سطح پر تسلیم کی جانے لگی ہے اور اقوام متحدہ کے زیر اہتمام بعض کانفرنسیں اس موضوع پر منعقد ہوئی ہیں کہ قیدیوں کے حقوق سے متعلق اخلاقی تصورات کو بین الاقوامی سطح پر معاہداتی شکل دینے میں اور جدید بین الاقوامی قانون کی بنیاد رکھنے میں عبد القادر الجزائری کی کوششوں کو جنیوا کنونشنز پر سبقت حاصل ہے اور عبد القادر نے اس ضمن میں فرانسیسی حکومت کے ساتھ جو معاہدات کیے، وہ دور جدید میں اس نوعیت کی پہلی کوشش کا درجہ رکھتے ہیں۔ عبد القادر نے اپنی قید میں آنے والے فرانسیسی فوجیوں کی نہ صرف جسمانی دیکھ بھال اور حفاظت کا بندوبست کیا، بلکہ ان کی مذہبی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے فرانسیسی حکومت سے پادریوں کو بھیجنے کی درخواست کی اور فرانس کے ساتھ قیدیوں کے حقوق کے حوالے سے باقاعدہ معاہدات کیے۔ اس موضوع پر اسی سفر میں مجھے ایک عرب مصنف کی لکھی ہوئی ضخیم کتاب بھی دستیاب ہوئی جو الجزائر کی موسسۃ الامیر عبدالقادر کی ایک اعلیٰ عہدیدار خاتون زہور بو طالب نے دی جو امیر عبد القادر کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں اور تیسری چوتھی پشت میں ان کا رشتہ عبد القادر کے ننھیال سے جا ملتا ہے۔ کم وبیش چھ سو صفحات پر مشتمل یہ ضخیم کتاب مصطفی خیاطی نے لکھی ہے اور فرانسیسی زبان میں L'Emir Abd El Kader: Fondateur du Droit Humanitaire International (امیر عبد القادر: بین الاقوامی قانون انسانیت کا بانی) کے عنوان سے دو سال قبل الجزائر میں منعقد ہونے والی ’’امیر عبد القادر اور جدید بین الاقوامی قانون انسانیت‘‘ کے موضوع پر منعقد ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس کے موقع پر شائع کی گئی ہے۔ مصنف نے اس میں تفصیل کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ عبد القادر الجزائری جدید بین الاقوامی انسانی قانون کے بانی ہیں۔
میرے لیے اس سفر میں دلچسپی کا ایک خاص پہلو یہ بھی تھاکہ اس میں جان ڈبلیو کائزر شریک ہو رہے تھے۔ یہ وہی مصنف ہیں جنھوں نے الجزائری کی داستان حیات پر چند سال قبل انگریزی میں Commander of the Faithful کے عنوان سے ایک مقبول اور دلچسپ کتاب لکھی ہے۔ میں نے اس کتاب کا اردو ترجمہ ایڈٹ کر کے اسے پاکستان میں چھپوانے میں کافی کام کیا تھا۔ کائزر امریکہ کی ریاست ورجینیا میں شہری ماحول سے دور اپنے ایک فارم پر الگ تھلگ زندگی بسر کرتے ہیں۔ ان کی عمر ستر سال سے زیادہ ہے، لیکن صحت اور جوش وجذبہ کے لحاظ سے بالکل جوان ہیں۔ ان کی کتاب کے مسودہ پر نظر ثانی اور پھر اردو ترجمہ کی ایڈیٹنگ اور اشاعت کے اس سارے عرصے میں میری ان سے ملاقات نہیں ہو سکی، جبکہ ایک خاص تناظر میں مجھے کائزر سے ملاقات کی خواہش تھی۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے کائزر کی کتاب کے حوالے سے ہمارے ہاں بعض مذہبی اخبارات میں امیر عبد القادر کی شخصیت کے متعلق ایک بحث چھیڑی گئی اور امیر کے کردار کے مختلف پہلوؤں پر کئی سوالات اٹھائے گئے۔ اردو میں چونکہ الجزائری کی شخصیت کے متعلق کوئی تفصیلی ماخذ ابھی تک دستیاب نہیں، اس لیے بحث میں سارا حوالہ کائزر کی کتاب ہی کا تھا۔ میں نے جب اس کتاب پر کام کیا تو میرے ذہن میں بھی بہت سے سوالات آئے تھے، تاہم کائزر سے براہ راست ملاقات نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر سوالات ذہن میں ہی رہے۔ میں نے کتاب کے مندرجات کے حوالے سے اور یہ کہ کائزر نے یہ کیسے مرتب کی اور کن کن مآخذ سے فائدہ اٹھایا اور خاص طور پر یہ کہ انھیں الجزائری کی شخصیت سے کیسے دلچسپی پیدا ہوئی، کئی سوالات کی فہرست اپنے پاس لکھی ہوئی تھی تاکہ کائزر سے ملاقات کے موقع پر تو ان سوالات کے حوالے سے ان سے گفتگو کر سکوں۔ اس سفر میں یہ مقصد کافی حد تک پورا ہوا۔ ہمارا قیام چونکہ ایک ہی ہوٹل میں تھا، اس لیے مختلف نشستوں میں کائزر سے تفصیلی تبادلہ خیال کا موقع ملا اور جو سوالات میرے ذہن میں تھے، تقریباً ان سب پر بات ہوئی۔
ایک بڑا اہم سوال یہ تھا کہ کائزر نے یہ کتاب تاریخی تحقیق کے اسلوب میں نہیں لکھی، بلکہ ایک کہانی یا داستان کے انداز میں لکھی ہے اور جو شخص بھی اس کو پڑھے گا، اس کو نظر آئے گا کہ اس کا تاریخی پس منظر اور بیان کردہ واقعات کی تفصیلات بنیادی طور پر تاریخی ہیں یعنی افسانوی نہیں ہیں، لیکن ظاہر ہے کہ جب آپ تاریخی واقعات کو کہانی کی شکل دیتے ہیں تو اس میں آپ کو کچھ فکشن بھی شامل کرنا پڑتا ہے۔ میرے سامنے سوال یہ تھا کہ کائزر نے واقعات کی تحقیق میں کتنا کام کیا ہے۔ میں نے جب کائزر کے سامنے یہ سوال رکھا تو اور بعض اہم واقعات جو انھوں نے کتاب میں درج کیے ہیں، ان کے اصل مآخذ سے متعلق دریافت کیا تاکہ ان سے رجوع کر کے تحقیق کی جا سکے تو کائزر نے کہا کہ میں نے اس کتاب میں محقق کا کام نہیں کیا، یعنی میں نے عبد القادر کے حالات کی کوئی تاریخی تحقیق نہیں کی، اس لیے کہ تحقیقی نوعیت کی کتابیں بہت سے لوگوں نے لکھی ہوئی ہیں اور خاص طور پر فرانسیسی زبان میں ا س حوالے سے کافی بڑا ذخیرہ موجود ہے۔
کائزر نے کہا کہ مجھے یہ کتاب لکھنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ اگرچہ فرانسیسی زبان میں امیر عبدالقادر کی شخصیت پر کافی کام ہوا ہے، لیکن ایک تو فرانسیسیوں کا جو اسلوب کلام ہے، وہ condescending tone میں لکھتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں فرانسیسیوں کا احساس برتری جھلکتا ہے۔ چونکہ امیر کو فرانسیسیوں کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی اور پھر انھیں فرانس میں لا کر محبوس رکھا گیا اور پھر جلا وطن کیا گیا تو قدرتی طور پر فرانسیسی جب عبدالقادر کے بارے میں لکھتے ہیں تو اگرچہ اس میں کوئی تحقیر یا تضحیک نہیں ہوتی، لیکن condescending toneبہرحال ہوتی ہے۔ اس وجہ سے فرانسیسی میں لکھی گئی کوئی کتاب مجھے ایسی نہیں ملی جسے امیر عبد القادر کی شخصیت کے غیر جانب دارانہ تعارف کے لیے پیش کیا جا سکے اور خاص طور پر عرب دنیا میں جس کا کوئی اچھا تاثر ہو۔ کائزر نے کہا کہ اس وجہ سے مجھے یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ غیر جانب دارانہ انداز میں امیر کی داستان حیات تحریر کی جائے۔
کائزر نے دوسری بات یہ کہی کہ امیر پر لکھی گئی بیشتر کتابوں کا انداز تحقیقی کتاب کا ہے جس میں حوالہ جات اور تحقیق کے دیگر لوازمات شامل ہونے کی وجہ سے وہ ایک عام آدمی کی دلچسپی کی نہیں رہتی۔ میں نے یہ چاہا کہ ایک عام آدمی کے لیے جسے تاریخی تحقیق میں کوئی دلچسپی نہیں، لیکن اس کے سامنے امیر کی شخصیت اور کردار کا ایک نقشہ آنا چاہیے، ایک کتاب لکھی جائے۔ چنانچہ میں نے اس کتاب میں ایک محقق کی ذمہ داری انجام نہیں دی اور نہ بہت زیادہ اصل مآخذ سے رجوع کیا ہے۔ میرا انحصار ثانوی مآخذ پر رہا ہے اور میں نے واقعات کی تاریخی تحقیق پر اتنی توجہ نہیں دی جتنا اس بات پر دی ہے کہ اسے ایک عام آدمی کے لیے قابل فہم، آسان اور دلچسپ بنایا جائے۔ اس تناظر میں، میں نے جب کائزر سے کتاب میں درج بعض بڑے اہم واقعات کے ماخذ سے متعلق پوچھا تو انھوں نے کہا کہ میں نے مآخذ تو نوٹ نہیں کیے۔ جب میں مطالعہ کر رہا تھا تو جو چیزیں مجھے اپنے مقصد کے لحاظ سے دلچسپ اور مفید لگیں، وہ میں نے لے لیں، لیکن اب میرے ذہن میں بالکل نہیں ہے کہ میں نے کون سی بات کہاں سے لی ہے۔ البتہ کتاب کے انگریزی نسخے کے آخر میں کائزر نے فرانسیسی اور انگریزی کے ان مآخذ کی ایک عمومی فہرست دے دی ہے جن سے انھوں نے اس کام کے دوران میں استفادہ کیا۔
میں جن واقعات کی تحقیق کے لیے ان کے اصل تاریخی ماخذ سے متعلق جاننا چاہ رہا تھا، وہ کم وبیش وہی تھے جن کا ذکر کچھ عرصہ قبل ہمارے ہاں امیر کی شخصیت پر کیچڑ اچھالنے کے لیے ایک ناگوار اور سطحی قسم کی صحافیانہ مہم میں کیا گیا اور انھیں بطور اعتراض نمایاں کیا گیا۔ مثلاً کائزر نے اپنی کتاب میں بعض لوگوں کے بیانات نقل کیے ہیں کہ انھوں نے امیر کے گھر میں ان کی پانچ بیویاں دیکھیں۔ کائزر نے اگرچہ اس پر حاشیے میں یہ وضاحت کی ہوئی ہے کہ اس بیان کی تصدیق کا اس کے علاوہ کوئی اور ذریعہ ہمارے پاس نہیں، لیکن بہرحال ایک بیان تو آ گیا اور اس کی بنیاد پر کوئی شخص پیالی میں طوفان اٹھانا چاہے تو اٹھا سکتا ہے۔ کائزر نے کہا کہ میرا اپنا خیال بھی یہ ہے کہ امیر کی بیویاں چار ہی تھیں، جبکہ پانچویں شاید ان کی کوئی باندی ہوگی، کیونکہ عربوں میں اس وقت تک لونڈیوں کا سلسلہ موجود تھا۔ ظاہر ہے کہ جس خاتون نے بتایا کہ اس نے امیر کے گھر میں پانچ بیویاں دیکھیں، اس نے محض ایک مشاہدہ بیان کیا ہے۔ یہ تو نہیں بتایا کہ اس نے باقاعدہ اس کی تحقیق کی تھی اور امیر کے اہل خانہ سے یہ پوچھا تھا کہ گھر کے افراد میں سے فلاں کون ہے اور فلاں کون۔ عین ممکن ہے کہ اس نے قیاس سے کام لیتے ہوئے یہ سمجھا ہو کہ یہ پانچوں امیر کی بیویاں ہیں، اس لیے یہ بات قرین قیاس نہیں لگتی کہ امیر نے (شریعت کے واضح اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے) بیک وقت پانچ بیویاں اپنے نکاح میں رکھی ہوں گی۔
کائزر سے دوسرا سوال میں نے یہ پوچھا کہ انھوں نے کتاب کے آخری حصے میں ایک آزاد خیال برطانوی خاتون جین ڈگبی کے امیر عبد القادر کی مجالس میں آنے جانے اور ان کے باہمی روابط کا ذکر کیا ہے۔ ان کی درج کردہ تفصیلات سے بعض بیمار ذہنوں نے یہ اخذ کرنے کی کوشش کی ہے کہ امیر کے اس خاتون کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے۔ میں نے کائزر سے پوچھا کہ کیا واقعتا تاریخی لحاظ سے ان کے تعلقات اس نوعیت کے تھے یا کیا خود کائزر نے ان دونوں کے باہمی تعلقات کے متعلق کتاب میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے۔ کائزر یہ سوال سن کر بے ساختہ مسکرائے اور فوراً نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہنے لگے کہ نہیں، یہ تاثر بالکل درست نہیں۔ میں نے تو ان دونوں کی باہمی ملاقاتوں کا ذکر اس پہلو سے کیا ہے کہ میرے خیال میں یہ دونوں شخصیات اپنے ماحول سے باغی شخصیات تھیں اور میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ خود ایک جرات مند اور حریت فکر رکھنے والی شخصیت ہونے کی وجہ سے امیر کے حلقہ احباب میں بھی بعض ایسے افراد شامل تھے جو اپنی اپنی ثقافت او رماحول سے باغی تھے۔
ایک اور اہم سوال امیر عبد القادر کی فری میسنری میں شمولیت سے متعلق تھا۔ فری میسنری مغرب میں کئی صدیوں سے قائم ایک تنظیم ہے جس کے فکری رجحانات وقتاً فوقتاً تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ عبد القادر کی شخصیت کے متعلق تاریخی طور پر جو متنازع فیہ سوالات ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ آیا انھوں نے فری میسنری میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی تھی یا نہیں۔ عبد القادر کے خاندان کے لوگ اس کو تسلیم نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ فری میسنری میں ان کی شمولیت تاریخی طور پر ثابت نہیں۔ اس حوالے سے عربی زبان میں بعض تفصیلی تحریریں انٹرنیٹ پر بھی موجود ہیں۔ تاہم بعض دیگر مورخین امیر کی اس تنظیم میں شمولیت کے قائل ہیں۔ کائزر کا اپنا رجحان یہ تھا کہ چونکہ فری میسنری کی اپنی بعض کتابوں اور فہرستوں میں امیر عبد القادر کی شمولیت کا ذکر ملتا ہے، اس لیے غالب گمان یہی ہے کہ انھوں نے فری میسنری کی طرف سے شمولیت کی دعوت قبول کی ہوگی اور اس میں کوئی اچنبھے کی بات اس لیے نہیں ہے کہ اس وقت یعنی آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے فری میسنری کے متعلق وہ تصور عام نہیں تھا جو آج مسلم دنیا میں پایا جاتا ہے۔ اس کے متعلق یہ تصور موجود نہیں تھا کہ یہ کوئی صہیونی ایجنڈے پر بنائی گئی تنظیم ہے یا اس کا مقصد کچھ خفیہ مقاصد کی تکمیل ہے۔ اس وقت یوں سمجھ لیں کہ اسے دانش وروں کا ایک فورم سمجھا جاتا تھا۔ دنیا بھر کے بڑے بڑے سیاسی، مذہبی، سماجی اور فکری راہ نما جنھیں علمی وفکری بحثوں میں دلچسپی ہوتی تھی، وہ ان کا حصہ ہوتے تھے اور اپنی مجا لس میں مذہب اور معاشرے سے متعلق ایسے سوالات پر آزادانہ بحث ومباحثہ کرتے تھے جو عمومی سطح پر زیر بحث نہیں لائے جا سکتے تھے۔ ہر مذہب اور ہر نقطہ خیال کے لوگ ان مجلسوں میں بیٹھ کر اس طرح کے مسائل پر باہم تبادلہ خیال کرتے تھے۔ کائزر کا خیال یہ تھا کہ عبد القادر چونکہ خود ایک بہت بڑے مفکر تھے او ر فلسفہ اور مذہب سے متعلق بڑے اہم او رنازک سوالات پر مخصوص آرا رکھتے تھے، اس لیے یہ کوئی بعید بات نہیں لگتی کہ انھوں نے فری میسنری کی طرف سے اس تنظیم میں شمولیت کی دعوت قبول کی ہو اور ان کی مجالس میں شریک ہوتے رہے ہوں، کیونکہ فری میسنری کے بارے میں اس وقت کوئی منفی تصور نہیں پایا جاتا تھا۔ البتہ کائزر نے کہا کہ میں اس کے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا کہ یہ تعلق باقاعدہ فری میسنری کا رکن بننے کی صورت میں قائم ہوا یا عبد القادر کی رہائش پر ان کی بعض مجالس میں شرکت تک محدود رہا، لیکن بہرحال ایک نوعیت کا تعلق ضرور رہا ہے۔
اس بحث سے متعلق ایک اہم نکتہ یہ تھا کہ کائزر کی کتاب کے اردو ترجمہ کا جو مسودہ مجھے بھیجا گیا، اس میں اس مقام پر یہ لکھا ہوا ہے کہ ۱۸۷۷ء میں عبدالقادر نے میسونی تنظیم سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ ’’جب اس سوسائٹی میں الحاد پرستوں کو بھی شامل کر لیا گیا تو عبد القادر کے نزدیک یہ اس تنظیم کا ناقابل قبول اقدام تھا جس کے ارکان نے عیسائیت سے الگ ہو کر محض توحید پرستی کی راہ اپنائی تھی اور اب سوسائٹی بے خدا انسان پرستی کو قبول کرنے کے راستے پر چل نکلی تھی، چنانچہ عبد القادر نے اس سے علیحدگی اختیار کر لی۔‘‘ (ص ۴۴۱) یہ پیراگراف کتاب کے انگریزی نسخے میں یہ شامل نہیں ہے۔ میں نے کائزر سے اس کے متعلق پوچھا تو وہ تھوڑی دیر اپنی کتاب کے انگریزی متن اور پھر کتاب کے آخر میں درج تعلیقات کو دیکھتے رہے۔ پھر وہ کچھ کنفیوز سے ہو گئے اور کہنے لگے کہ مجھے یاد نہیں آ رہا کہ یہ بات میں نے لکھی ہے اور یہ کہ اگر یہ نوٹ میرا لکھا ہوا ہے تو انگریزی متن میں کیوں شامل نہیں۔ یوں اس نکتے پر کائزر کے ساتھ گفتگو سے بات واضح ہونے کے بجائے الجھ سی گئی۔ میں نے پوچھا کہ ان تمام باتوں کا تاریخی ماخذ کیا ہے اور یہ تفصیلات کہاں مل سکتی ہیں تو کائزر نے کہا کہ یہ چیزیں اب مجھے مستحضر نہیں۔
کائزر کے ساتھ گفتگو میں ایک اور بڑی اہم بات سامنے آئی جو کتاب کے انگریزی متن میں تو شامل ہے، لیکن افسوس ہے کہ اردو ترجمے میں شامل نہیں ہو سکی اور اس کی وجہ سے ہمارے ہاں ہونے والی صحافیانہ بحث میں ایک بڑا سوال اٹھا دیا گیا اور یہ کہا گیا کہ چونکہ عبد القادر نے شکست قبول کرنے کے بعد جلا وطنی کے دور میں فرانسیسی حکومت سے وظیفہ لینا شروع کردیا تھا، اس لیے ان کی ساری جہادی جدوجہد ہی مشکوک ہو جاتی ہے۔ تاریخی طور پر یہ ایک حقیقت ہے کہ جلا وطنی کے بعد امیر کی زندگی میں اور اس کے بعد ۱۹۵۴ء تک فرانسیسی حکومت امیر کے خاندان کو سالانہ ایک متعین رقم ادا کرتی رہی ہے۔ میرے ذہن میں بھی اس کی حقیقی نوعیت پوری طرح واضح نہیں تھی، لیکن اس سفر کے دوران میں مجھے کائزر کی کتاب کے انگریزی نسخے کو دوبارہ دیکھنے کا موقع ملا تو معلوم ہوا کہ ایک بڑا اہم حاشیہ کائزر نے لکھا ہوا ہے جس کی انھوں نے زبانی تصدیق بھی کی اور کچھ مزید معلومات بھی فراہم کیں۔ وہ یہ کہ یہ رقم جو امیر کو اور ان کے خاندان کو دی جاتی رہی، درحقیقت الجزائر میں امیر کے خاندان کی ملکیت ان زمینوں کا معاوضہ تھی جو فرانسیسی حکومت نے ضبط کر لی تھیں۔ ان کی جلاوطنی کے موقع پر فرانسیسی حکومت نے یہ فیصلہ کیا، جس میں بہرحال فرانسیسی حکومت کی good willبھی جھلکتی ہے، کہ چونکہ ہم نے امیر کی خاندانی زمینیں ضبط کر لی ہیں، اس لیے امیر کے خاندان کو اپنے خرچ اخراجات کے لیے اس کے معاوضے کے طور پر سالانہ ایک متعین رقم دی جائے گی تاکہ وہ جہاں بھی رہیں، اسے اپنے اخراجات پر صرف کر سکیں۔
کائزر نے بتایا کہ امیر کی وفات کے بعد ایک موقع پر فرانس میں یہ بات زیر بحث آئی کہ جب عبد القادر وفات پا چکے ہیں تو کیا اس رقم کی ادائیگی ان کی زندگی تک محدود تھی یا ان کے بعد ان کے خاندان کو بھی دی جائے گی؟ اس پر فرانس کی عدالت میں ایک مقدمہ چلا اور عدالت نے یہ قرار دیا کہ چونکہ یہ عبد القادر کی ذاتی زمینیں نہیں تھیں، بلکہ ان کے خاندان کی مشترکہ ملکیت تھیں اور یہ رقم بھی عبد القادر کو ذاتی حیثیت میں، بلکہ خاندان کے سربراہ کی حیثیت سے دی جا رہی تھی، اس لیے یہ ان کے بعد ان کے خاندان کو بھی بدستور ادا کی جاتی رہے گی۔ چنانچہ اس فیصلے کے مطابق ۱۹۵۴ء تک فرانسیسی حکومت امیر کے خاندان کویہ رقم ادا کرتی رہی۔ پھر ۱۹۵۴ء میں فرانس کی سینیٹ نے یہ فیصلہ کیا کہ اب یہ سلسلہ ختم ہو جانا چاہیے۔ میری خواہش تھی کہ اس مقدمے سے متعلق کچھ مزید تفصیلات دستاویزی صورت میں مل جائیں، تاہم کائزر اس ضمن میں کوئی مدد نہیں کر سکے۔ ان کے حافظے میں بس اتنی ہی بات محفوظ تھی۔
سوالات وجوابات
سوال: کیا جان کائزر مسلمان ہیں؟
جواب: نہیں، وہ مسلمان نہیں۔ البتہ وہ مسیحی ہیں یا نہیں اور مسیحی تعلیمات پر کس حد تک عمل پیرا ہیں، یہ میں ان سے نہیں پوچھ سکا۔ میرا اپنا اندازہ یہ ہے کہ وہ مسیحی ہیں۔ بنیادی طور پر کائزر جو سوچ رکھتے ہیں، وہ یہ ہے کہ مغرب نے جس رخ پر ترقی کی ہے، اس میں مادیت پر بہت زور ہے اور روحانی قدروں کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ اس اندھا دھند ترقی کے نتیجے میں انسانی زندگی میں سکون اور اطمینان ناپید ہو گیا ہے اور ماحولیاتی آلودگی بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ سوچ رکھنے والے تعداد میں محدود ہیں، لیکن اس کے ترجمان آپ کو مغربی معاشروں میں مل جائیں گے۔ کائزر بھی اسی طرز فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ انھوں نے موبائل فون نہیں رکھا ہوا اور وہ ریاست ورجینیا میں شہر سے دور اپنے ایک فارم پر رہتے ہیں۔ وہ جدید طرز معاشرت کے سخت ناقد ہیں جس میں اخلاقی قدریں مفقود ہوتی جا رہی ہیں اور انسانی زندگی کو ایک مشینی زندگی بنا دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ جو سرمایہ دارانہ نظام ہے اور اندھا دھند ترقی کا جو رجحان ہے، یہ انسانیت کو بالکل تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔ کائزر نے ایک دلچسپ بات یہ کہی، جس سے ان کے انداز فکر کا کسی حد تک اندازہ کیا جا سکتا ہے، کہ طالبان کا جو انصاف فراہم کرنے کا طریقہ ہے، وہ مجھے اچھا لگتا ہے، کیونکہ ایک تو وہ فوری انصاف پر یقین رکھتے ہیں اور دوسرے ان کا سزا دینے کا طریقہ جرائم کو روکنے میں موثر ہے۔ مثلاً کائزر نے کہا کہ اگر عورت کے ساتھ زیادتی کرنے والے مجرم کو خصی کر دیا جائے تو یہ سزا اس جرم کو روکنے میں بہت موثر ثابت ہوگی۔
سوال: عبد القادر نے جب خلافت عثمانیہ سے الگ ہو کر قائم ہونے والی مجوزہ عرب ریاست کی قیادت قبول کرنے سے انکار کیا تو اس کی وجہ کیا تھی؟ کیا ان کی مصروفیات ا س میں رکاوٹ تھیں یا وہ مسلمانوں کے سیاسی اتحاد میں دراڑ نہیں ڈالنا چاہتے تھے؟
جواب: نہیں۔ انھوں نے اس سے متعلق سوال کے جواب میں یہ کہا تھاکہ ’’مجھے اب دنیاوی جاہ وجلال کی کوئی تمنا نہیں ہے۔ میں اب صرف خاندان کے ساتھ رہنے، عبادت کرنے اور سکون سے وقت گزارنے جیسے خوشیاں حاصل کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ امیر طبعاً ایک سیاسی اور ہنگامہ خیز زندگی کو پسند نہیں کرتے تھے۔ اس سے پہلے انھوں نے الجزائر میں جو کردار ادا کیا، وہ بھی اس لیے تھا کہ اس صورت حال میں اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے کوئی متبادل میسر نہیں تھا۔ طبعاً وہ خلوت کی زندگی کو پسند کرتے تھے۔ وہ ابن عربی کے فلسفے سے متاثر بھی تھے اور اس کے بہت بڑے شارح بھی۔ ابن عربی کی فلسفیانہ تعلیمات کی تشریح میں عبد القادر نے اپنی مشہور اور ضخیم کتاب ’’المواقف‘‘ تصنیف کی ہے۔ جلاوطنی کے بعد انھوں نے اپنے آپ کو مطالعہ اور روحانی مشاغل میں مصروف کر لیا تھا اور اب دوبارہ وہ سیاسی میدان میں قدم نہیں رکھنا چاہتے تھے۔ میرے خیال تو انکار کی بنیادی وجہ یہی ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ یہ محسوس کرتے ہوں کہ انھیں پیش کش کرنے والے جو یہ سمجھ رہے ہیں کہ عرب ان کی قیادت قبول کرنے پر متفق ہو جائیں گے، وہ اتنا قابل عمل خیال نہیں ہے۔
بہرحال آپ نے سوال میں جو وجہ ذکر کی ہے، وہ قرین قیاس نہیں لگتی، کیونکہ عبد القادر ان لوگوں میں سے تھے جو ترکوں اور ترک حکام کے طرز حکومت سے سخت نالاں تھے ۔ ہمارے ہاں تو عام طور پر اس مسئلے کو اس حوالے سے دیکھا جاتا ہے کہ انگریزوں نے عربوں میں قومیت کا جذبہ بیدار کر کے انھیں ترکی خلافت کے خلاف ابھارا، لیکن عربوں کے زاویہ نظر سے آپ دیکھیں تو ان کے لیے آخری دور میں ترکوں کی حکومت اسی طرح کی ایک imperialist حکومت بن چکی تھی جس طرح ہم ہندوستان میں برطانوی حکومت کو سمجھتے تھے۔ ترک عربوں اور اپنے زیر نگیں دوسری قوموں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ ترک حکام میں بدعنوانی اور کرپشن عام ہو چکی تھی اور بدانتظامی پھیلی ہوئی تھی۔ انگریزوں نے یقیناًاپنے مقاصد کے تحت عربوں میں اس احساس کو بڑھاوا دیا اور منافرت کو تقویت پہنچائی، لیکن بہرحال ترکوں سے عربوں کو بہت سی جینوئن شکایات بھی تھیں۔ عبد القادر کا ذہنی رجحان بھی یہی تھا کہ ترک حکام متکبر اور نااہل ہیں اور ہمیں گڈ گورننس نہیں دے رہے۔ اس لحاظ سے مجھے نہیں لگتا کہ عبد القادر نے اسلامی اتحاد جیسے مفروضے کے زیر اثر مجوزہ عرب ریاست کی قیادت قبول کرنے سے انکار کیا ہو۔
سوال: ترکوں کا رویہ اور طرز حکومت کیا تھا جس سے ان لوگوں کو شکایت تھی؟
جواب: دیکھیں، جیسے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ برطانوی باہر سے آ کر ہندوستان پر مسلط ہو گئے ہیں، اگرچہ انھوں نے یہاں کافی انتظامی سہولتیں بھی فراہم کیں، لیکن ہم انھیں ذہنی طور پر قبول نہیں کرتے۔ اسی طرح خلافت عثمانیہ کے آخری دور میں عربوں کے احساسات ترکوں کے متعلق اسی طرح کے ہو چکے تھے۔ اس کی بڑی وجہ خود ترکوں میں ایک نخوت کا رویہ تھا جو پیدا ہو چکا تھا۔ قومی مفاخرت کا احساس ترکوں، عربوں اور ایرانیوں، ان تینوں قوموں میں بڑی شدت سے موجود ہے۔ عرب سمجھتے ہیں کہ ہم اسلام کے اصل وارث ہیں۔ ایرانی یہ کہتے ہیں کہ اسلام میں جتنی تہذیبی، علمی اور فکری ترقی ہے، اس میں تو عربوں کا کوئی کردار ہی نہیں۔ کتب حدیث کے مدونین بیشتر عجمی ہیں، تمام نامور مسلمان فلسفی سرزمین ایران سے تعلق رکھتے ہیں، حتیٰ کہ عربی زبان سے متعلق علوم کو مرتب اور مدون کرنے والے اہل علم بھی زیادہ تر عجمی ہیں۔ ہمارے دوست میر احمد علی ایرانیوں کا یہ مقولہ سناتے ہیں کہ عربوں نے تو دنیا کو صرف نبی دیا ہے، اسلام کے لیے باقی سارا کام تو ہم نے کیا ہے۔ اسی طرح کی قومی نخوت ترکوں میں بھی تھی جس کا اظہار ترک حکام کے رویے اور انداز حکومت میں بھی ہوتا تھا اور عرب آخری دور میں اس سے سخت نالاں ہو چکے تھے۔
سوال: اس کی کیا وجہ ہے کہ امیر عبد القادر الجزائری اتنا اہم آدمی ہے، لیکن اس کو دنیا کے سامنے ہم نے متعارف نہیں کرایا، بلکہ ایک مغربی مصنف نے اس کو دوبارہ دریافت کیا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہم اس کی طرف متوجہ نہیں ہوئے؟ اگر اہل مغرب اس کے تعارف میں دلچسپی محسوس کر رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ امیر عبد القادر کا تصور جہاد انھیں اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے زیادہ موزوں لگتا ہے اور انھیں اس میں کم خطرہ نظر آتا ہے، جبکہ طالبان کو جو تصور جہاد ہے، وہ ان کے لیے زیادہ خطرناک ہے؟ جیسے وہ صوفی ازم کو فروغ دینا چاہتے ہیں، کیا اسی طرح کا معاملہ امیر عبد القادر کے حوالے سے تو نہیں؟
جواب: دیکھیں، اس وقت امیر عبد القادرکی شخصیت میں بہت سے حلقے دلچسپی لے رہے ہیں جس میں مغرب کے بعض حلقے بھی شامل ہیں، لیکن یہ بات صحیح نہیں کہ ان کے تعارف کی ابتدا اہل مغرب نے کی ہے۔ کائزر کی کتاب تو کوئی تین چار سال قبل لکھی گئی ہے۔ ان کی شخصیت کو دوبارہ دریافت کرنے کا آغاز الجزائر سے ہوا ہے اور الجزائری حکومت اور خود امیر عبد القادر کے خاندان کے لوگ اس میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ الجزائر کے لوگ امیر عبد القادر کو جدید الجزائر کا بانی سمجھتے ہیں، یعنی قدیم قبائلی طرز زندگی کی جگہ الجزائر کو جدید خطوط پر ایک منظم ریاست بنانے کا آغاز عبد القادر کے دور حکومت میں کیا گیا تھا۔ عبد القادر صرف ایک مجاہد نہیں تھے، بلکہ بہت زبردست منتظم بھی تھے۔ اس کی تفصیلات پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں کہ انھوں نے الجزائر کی قبائلی معاشرت کوبالکل جدید طرز پر استوار کرنے کے لیے کیا کیا اقدامات کیے۔ اس لحاظ سے الجزائری قوم امیر عبد القادر کو وہی حیثیت دیتی ہے جو ہم اپنی تاریخ میں سرسید احمد خان، علامہ اقبال یا قائد اعظم کو دیتے ہیں۔ سو ان کی شخصیت کے تعارف میں اس وقت initiative اہل مغرب نے نہیں لیا، البتہ اہل مغرب کی دلچسپی یقیناًاس میں ہے اور ظاہر ہے کہ اس میں ان کا اپنا مفاد بھی شامل ہے۔ انھیں جہاد کے صحیح یا غلط تصور سے دلچسپی نہیں ہے۔ ان کا مطمح نظر یہ ہے کہ مسلمانوں میں اس وقت جو انتہا پسندی کی ایک سوچ ہے، اس میں کمی آئے۔
تو اہل مغرب کو اس لحاظ سے عبد القادر کے تصور جہاد سے دلچسپی ہو سکتی ہے کہ وہ کم سے کم ایسا تصور جہاد نہیں ہے جس میں عام شہریوں کو مارنا بھی درست سمجھا جاتا ہو اور جس میں ہر حال میں لڑنے مرنے ہی کو منتہائے مقصود قرار دیا گیا ہو۔ پھر یہ کہ عبد القادر کا جو طرز فکر ہے دوسرے مذاہب، خاص طور پر مسیحیت کے بارے میں، وہ بھی اہل مغرب کے لیے دلچسپی کا باعث ہے۔ مثال کے طو رپر کائزر نے مجھے الجزائری کی شخصیت میں دلچسپی کی دو وجوہ بتائیں۔ ایک یہ کہ عبد القادر یہ کہتے ہیں کہ یہودیت، مسیحیت اور اسلام، ان تینوں کا آپس میں بڑا گہرا رشتہ ہے، کیونکہ یہ ایک ہی ماخذ سے پھوٹے ہیں اور انبیاء کے ایک ہی سلسلے پر یقین رکھتے ہیں۔ اس لحاظ سے آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے مابین کزنز کا رشتہ ہے۔ میں نے کائزر سے کہا کہ یہ عبد القادر کا کوئی منفرد خیال نہیں ہے۔ سارے مسلمان یہی مانتے اور سمجھتے ہیں، البتہ اس کا عملی اثر ان مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ آپ کے رویے اور طرز عمل میں کس طرح دکھائی دیتا ہے، اس میں عبد القادر کسی حد تک مختلف جگہ کھڑے ہیں اور وہ چیز ہمیں عام مذہبی رویے میں دکھائی نہیں دیتی۔ بہرحال اصولی طور پر یہ تصور عبد القادر کا کوئی منفرد تصور نہیں ہے۔
کائزر نے دوسری وجہ یہ بتائی، جو زیادہ دلچسپ ہے، کہ میرے لیے یہ بات بڑی حیران کن تھی کہ عبد القادر یہ کہتے ہیں وہ جو ایک مسیحا نے آنا ہے جس نے آ کر مسلمانوں کو غلبہ دلانا ہے، وہ وہی یسوع مسیح ہے جس پر مسیحی ایمان رکھتے ہیں۔ میں نے کائزر سے کہا کہ یہ بھی عبد القادر کا کوئی منفرد خیال نہیں۔ سارے مسلمان یہی مانتے ہیں کہ آخری زمانے میں آنے والے مسیح، وہی یسوع مسیح یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہوں گے جو بنی اسرائیل کے آخری نبی تھے۔ کائزر نے حیران ہو کر پوچھا کہ کیا سارے مسلمان، چاہے وہ عوام ہوں یا پڑھے لکھے لوگ، یہی مانتے ہیں؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ یہ بات کائزر کے لیے مزید حیران کن تھی۔
سو عبد القادر کی شخصیت میں دلچسپی کے مختلف پہلو ہیں اور مختلف حلقے مختلف حوالوں سے ان میں دلچسپی محسوس کر رہے ہیں۔ مثال کے طو ر پر فرانس میں الجزائری کمیونٹی جس نے اس تین روزہ پروگرام کے انتظامات کیے، ان کی دلچسپی الجزائری میں نہ اس حوالے سے ہے کہ وہ ایک بہت بڑے عالم تھے، نہ اس حوالے سے ہے کہ وہ ایک بڑے مجاہد تھے۔ ان کی دلچسپی ایک دوسرے پہلو سے ہے۔ فرانس میں الجزائری کمیونٹی بہت زیادہ احساس محرومی کا شکار ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں نہ تو الجزائری حکومت اپنا سمجھتی ہے اور نہ فرانس کے لوگ اپناتے ہیں۔ الجزائر کے لوگ کہتے ہیں کہ تم لوگ فرانس میں رہتے ہو اور فرانسیسی ہو، جبکہ فرانس کے لوگ ہمیں اس طرح دیکھتے ہیں کہ ہم الجزائر سے آئے ہیں اور الجزائری ہیں۔ یوں الجزائری مسلمانوں کی نئی نسل بے حد احساس محرومی کا شکار ہے۔ اب یہ لوگ عبد القادر میں اس وجہ سے دلچسپی محسوس کرتے ہیں کہ اگر ہماری نئی نسل کو یہ معلوم ہوگا کہ ہماری ماضی قریب کی تاریخ میں ایک ایسی شخصیت تھی جسے بین الاقوامی سطح پر اتنا احترام حاصل تھا تو اس سے ان کے اندر ایک خود اعتمادی پیدا ہوگی اور اگر ہم اس شخصیت کا آج کی فرانسیسی کمیونٹی کے سامنے تعارف کروائیں گے تو اس سے دونوں کمیونٹیوں کے مابین جو ایک فاصلہ ہے، اس کو پاٹنے میں مدد ملے گی۔
اب آپ دیکھیں کہ شخصیت ایک ہے، لیکن اس میں مختلف حلقوں کے لیے دلچسپی کے مختلف پہلو موجود ہیں۔ اگر اہل مغرب یا امریکہ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں میں الجزائری کے تصور جہاد کو عام کرنا انھیں زیادہ suit کرتا ہے تو ضرور وہ ایسا سمجھتے ہوں گے، لیکن اگر یہ تصور جہاد خود فقہ وشریعت کے معیارات کے لحاظ سے ایک درست تصور ہے تو ہم صرف اس وجہ سے تو اس کو رد نہیں کر سکتے کہ اہل مغرب بھی اس کا فروغ چاہتے ہیں۔ اگر وہ جہاد کا صحیح تصور ہے اور شرعی اصولوں کی درست نمائندگی کرتا ہے اور اس وقت ہم جس مسخ شدہ تصور جہاد کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں، ا س کے مقابلے میں ایک متبادل تصور اور نمونہ ہمیں دیتا ہے تو ہم کیوں نہ اس کو قبول کریں اور لوگوں کو اس سے متعارف کروائیں؟ اگر امریکہ کی تائید سے عملاً جہاد کا فریضہ انجام دیا جا سکتا ہے اور اس سے اس کے استناد پر کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا تو جہاد کے ایک صحیح تصور اور نمونے کو محض اس بنیاد پر کیسے مسترد کیا جا سکتا ہے کہ اسے فروغ دینے میں، اپنے مقاصد کے تحت، اہل مغرب کو بھی دلچسپی ہے؟
سوال: امام شامل اور امیر عبد القادر، ان دونوں کے آپس میں کس نوعیت کے تعلقات تھے؟ اگر ہم ان کی جدوجہد کے حوالے سے دیکھیں تو دونوں کا طرز عمل ایک جیسا نظر آتا ہے، یعنی امام شامل نے بھی بعد میں جہادی سرگرمیاں ترک کر دیں۔
جواب: امام شامل اور امیر عبد القادر نے اپنی جدوجہد کے آخری مرحلے میں ہتھیار ڈال دیے اور دونوں نے اپنی قوم کو یہ مشورہ دیا کہ وہ یہ راستہ چھوڑ دیں، کیونکہ مزید جانیں گنوانے کے علاوہ اس کا کوئی نتیجہ نکلتا دکھائی نہیں دیتا اور کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔ اس وجہ سے بعض انتہا پسند چیچن گروہ امام شامل کو بھی ’’غدار‘‘ شمار کرتے ہیں کہ انھوں نے جدوجہد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے بجائے درمیان میں چھوڑ دیا۔ بہرحال ان دونوں ہم عصر لیڈروں کے مابین ذاتی دوستی کا تعلق تھا اور دونوں کے مابین خطوط کا تبادلہ بھی ہوتا رہا ہے۔ کائزر نے بتایا کہ فرانسیسی زبان میں ایک پوری کتاب لکھی گئی ہے جس میں تاریخی دستاویزات کی روشنی میں امام شامل اور امیر عبد القادر کے باہمی تعلقات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ کائزر نے اس کتاب کا نام اپنی کتاب کے انگریزی نسخے کے آخر میں مراجع ومصادر میں درج کیا ہوا ہے۔ میں کوشش کروں گا کہ اس کتاب کو حاصل کیا جائے اور کسی فرانسیسی جاننے والے کی مدد سے اس استفادہ کیا جائے۔
کائزر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جب نہر سویز کا افتتاح ہوا تو افتتاحی تقریب میں امیر عبدالقادر کے ساتھ امام شامل بھی موجود تھے۔ امام شامل ان دنوں روسی حکومت کی اجازت سے حج کے لیے آئے ہوئے تھے او ر سعودی عرب میں مقیم تھے۔ مدینہ میں ان کی وفات ہوئی اور وہ جنت البقیع میں مدفون ہیں۔ انھیں نہر سویز کے افتتاح کے موقع پر دعوت دی گئی اور امیر عبد القادر کے ساتھ ان کی ایک تصویر بھی موجود ہے۔ ہمارے ہاں امیر عبدالقادر کے خلاف جو طوفان بدتمیزی اٹھایا گیا، اس میں ان کے خلاف یہ نکتہ بھی پیش کیا گیا کہ چونکہ وہ نہر سویز کی افتتاحی تقریب میں شریک ہوئے تھے اور نہر سویز کا سارا منصوبہ ہی یہودی اور صہیونی سازش تھا، اس لیے اس موقع پر جو لوگ بھی موجود تھے، ان کی موجودگی ان کے یہودی ایجنٹ ہونے کا ثبوت ہے۔ اگر اس سطحی طرز استدلال کو مانا جائے تو صرف عبد القادر کو نہیں، بلکہ امام شامل کو بھی صہیونی ویہودی ایجنٹ باور کرنا پڑے گا۔
سوال: مسلمان جو مزاحمت کر رہے ہیں اور جہاد کے نام پر جو کچھ بھی کر رہے ہیں، ان کو بتانے کے لیے تو ہمارے پاس اصول موجود ہیں کہ شریعت یہ کہتی ہے۔ لیکن جو ان کی مخالف قوتیں ہیں، ان کے لیے کیا معیار ہے؟ کیا بین الاقوامی انسانی حقوق کے چارٹر کو ہم بنیاد بنائیں گے یا عیسائیت جو راہنما اصول دیتی ہے، وہ بتا کر ان سے یہ کہیں گے کہ جنگ کے یہ اصول ہیں جن کی تم خلاف ورزی کر رہے ہو؟
جواب: دیکھیں، یہاں دو باتیں ہیں۔ ایک بات یہ کہ اگر آپ یہ گمان کرتے ہیں کہ دنیا میں اس وقت یا کبھی بھی قانون یا اصول کی حکمرانی رہی ہے یا کبھی ہوگی تو یہ بڑی سادگی کی بات ہے۔ دنیا میں اصلاً طاقت کی حکمرانی ہے اور طاقت اپنے طرز عمل کا جواز اخلاقیات سے نہیں، بلکہ اپنی طاقت سے ہی اخذ کیا کرتی ہے۔ تو پہلا کام جو اس وقت ہمیں کرنا ہے، وہ یہ ہے کہ ہم کوئی ایسی حماقت نہ کریں جس کے نتیجے میں ہم دشمن کو، جس کے ساتھ ہمارا طاقت کا کوئی توازن ہی نہیں ہے، موقع دیں کہ وہ ہم پر چڑھ دوڑے۔ مخالف قوتوں کے پاس کوئی واقعی جواز ہو یا محض ایک بہانہ، ہمارے کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم اپنی کسی حماقت سے دشمن کو طاقت کے استعمال کا موقع نہ دیں جس کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ حماقتیں کیے بغیر، اس وقت دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ جہاں جہاں ظلم اور زیادتی ہو رہی ہے، ان کی داد رسی کے لیے دنیا میں جو نظم بنا ہوا ہے، ہم اس کا جتنا بہتر سے بہتر استعمال کر کے مسلمانوں کے مسائل کا حل نکال سکتے ہیں، نکالنے کی کوشش کریں۔ مثلاً اقوام متحدہ کی سطح پر دنیا میں بعض اصول مان لیے گئے ہیں۔ جمہوریت کا اصول ہے، قوموں کے لیے حق خود ارادیت کا اصول ہے۔ اب یہ ہماری صلاحیت پر ہے کہ ہم اپنے لوگوں کو مشکلات سے نکالنے کے لیے ان سے کتنا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
ہمارا مسئلہ اس وقت یہ نہیں ہے کہ قانون میں یا نظام کے دائرے میں سرے سے کوئی راستے ہی موجود نہیں۔ راستے موجود ہیں اور راستے نکالے جا سکتے ہیں۔ یہ ہماری حکومتوں کی مفاد پرستیاں اور سیاسی ترجیحات ہیں جو آڑے آ جاتی ہیں۔ مثلاً فلسطین کا جو مسئلہ ہے، آپ کا کیا خیال ہے کہ ا س کو بگاڑنے میں ارد گرد کی عرب حکومتوں کا اور خود فلسطینیوں کا تھوڑا ہاتھ ہے؟ اسرائیل کو تو ہم سامنے رکھ لیتے ہیں کوسنے اور اپنی کمزوریوں سے توجہ ہٹانے کے لیے۔ فلسطین کا مسئلہ پیدا کرنے میں، اس کو بگاڑنے میں اور مشکلات میں اضافہ کرنے میں اسی نوے فی صد کردار ارد گرد کی عرب حکومتوں کا اور خود فلسطینیوں کے داخلی افتراق وانتشار اور باہمی لڑائیوں کا ہے۔ تو یہ ہماری داخلی کمزوریاں ہیں، ورنہ اس وقت دنیا میں جو بھی نظام بنا ہوا ہے، اس کے تحت پر امن طریقے سے مشکلات کے حل کے لیے راستے نکالے جا سکتے ہیں۔ ہم خود اس سے فائدہ اٹھانے اور راستے نکالنے کے لیے ذہنی طور پر آمادہ نہیں ہے اور اس کے لیے جو ضروری کوشش ہے، خود کو اس کا اہل ثابت نہیں کرپا رہے۔
سوال: عبد القادر فرانس کے خلاف لڑتے رہے، اس کے باوجود فرانس میں ان کی یاد میں تقریبات منعقد ہو رہی ہیں۔ تو کیا فرانسیسی حکومت اس کی اجازت دے رہی ہے؟
جواب: دیکھیں، مغربی ملکوں میں جو آزادئ رائے کا تصور ہے، وہ ہمارے یہاں سے کافی مختلف ہے۔ یورپی ملکوں میں سے فرانس میں شہری آزادیوں کا دائرہ نسبتاً محدود ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کا معاملہ کافی مختلف ہے۔ فرانس کو سارے یورپی ملکوں میں ایک الگ نمونے کے طور پر دیکھا جا تا ہے۔ وہ اپنے سیکولرزم میں اور جو فرانسیسی قومیت کا تصور ہے، اس میں کافی سخت ہے۔ لیکن بہرحال فرانس تاریخی طو رپر انقلاب فرانس جیسے سیاسی واقعات اور روشن خیالی جیسی فکری تحریکات کا مرکز رہا ہے اور اس روایت کے اپنے کچھ مسلمات اور تقاضے ہیں جس کے مظاہر آپ کو فرانس میں بھی ملیں گے۔ مثلاً امیر عبد القادر کی یاد میں جو یہ تقریبات منعقد ہوئیں، ان کا انتظام تو فرانسیسی حکومت نے نہیں کیا، لیکن مقامی انتظامیہ نے منتظمین کو اتنی سہولت ضرور بہم پہنچائی کہ مجھے کانفرنس میں شرکت کی غرض سے ویزا کے حصول میں مدد دینے کے لیے جو دعوت نامہ آیا، وہ Lyon کے ڈپٹی میئر کی طرف سے بھیجا گیا تھا۔
ایک اور حوالے سے بھی عبد القادر کی داستان سے دنیا کو متعارف کروانا فرانس کے لوگوں کے لیے باعث دلچسپی ہو سکتا ہے۔ ایک دن کائزر اور تقریبات کے مقامی منتظمین کا وفد ایک فرانسیسی بزنس مین سے ملاقات کے لیے گیا تو یہ لوگ مجھے بھی ساتھ لے گئے۔ اس ملاقات کامقصد یہ تھا کہ فرانس میں عبد القادر کے تعارف کے لیے جو کام ان کے پیش نظر ہے، اس کے لیے الجزائری حکومت سے تعاون طلب کرنے کے بجائے فرانس کی مقامی کمیونٹی وسائل مہیا کرے۔ میں نے دیکھا کہ کافی دیر تک، تقریباً گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ وہ اس سے بات کرتے رہے، لیکن اس نے کوئی خاص دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ پھر کائزر نے اس سے کہا کہ یہ جو داستان ہے، اس میں فرانسیسی قوم کے لیے بھی دلچسپی کا ایک بڑا اہم پہلو ہے اور وہ یہ کہ فرانس نے اپنے ایک دشمن کو جس نے اس سے شکست کھائی تھی، یہاں فرانس میں لا کر کسی جیل میں نہیں، بلکہ ایک بڑے تاریخی قلعے میں رکھا۔ پھر اس سے بات چیت کے لیے بہترین نمائندے بھیجے جو عبد القادر کے لیے ہمدردی اور احترام کے جذبات رکھتے تھے۔ پھر جب عبد القادر کو رخصت کیا تو ان کے اور ان کے خاندان کے لیے سالانہ وظیفہ مقرر کیا جو اس کی وفات کے بعد بھی فرانسیسی حکومت ۱۹۵۴ء تک انھیں ادا کرتی رہی۔ کائزر نے کہا کہ آپ لوگ اس داستان کے ذریعے سے دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ ہم اپنے دشمنوں کے ساتھ کم سے کم وہ معاملہ نہیں کرتے جو (دہشت گردی کے خلاف حالیہ جنگ میں) امریکیوں نے کیا ہے۔ کائزر کی اس بات سے وہ بزنس مین ایک دم بڑا پرجوش ہو گیا اور اس نے فوراً یہ تجویز پیش کی کہ جن فرانسیسی طلبہ نے عبد القادر کے حوالے سے انعامی تحریری مقابلے میں حصہ لیا ہے، اگلے سال انھیں قلعہ آمبواز کی سیر کے لیے لے جایا جائے جہاں عبد القادر کو نظر بند کیا گیا تھا اور اس دورے کے اخراجات میرے ذمے ہوں گے۔
سوال: عبد القادر کی شخصیت بہرحال بعض حلقوں کے نزدیک ایک متنازعہ شخصیت ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ جو لوگ اس وقت جہاد کے نام سے غلط حکمت عملی اختیار کیے ہوئے ہیں، انھیں راہ راست پر لانے کے لیے اس کے علاوہ دوسری شخصیات کو حوالہ بنایا جائے جو متنازعہ نہیں ہیں؟
جواب: دیکھیں، کسی بھی معاملے کو دیکھنے کے ایک سے زیادہ زاویے ہو سکتے ہیں۔ جب ہم جہاد کے تناظر میں عبدالقادر کی بات کرتے ہیں تو دراصل ہم جہاد کے صحیح تصور کا ایک نمونہ پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جو لوگ جہاد کے اس تصور سے اختلاف رکھتے ہیں، انھیں عبد القادر کی شخصیت سے بھی چڑ ہوگی۔ لیکن اس بحث کا فریق صرف وہی ایک حلقہ تو نہیں جسے مخاطب بنانے کی ضرورت ہے۔ آپ کی سوسائٹی میں اور دنیا میں اور بھی بہت سے لوگ ہیں۔ اگر عبدالقادر ایک مخصوص حلقے کے لیے ناقابل قبول ہے یا اس کے ساتھ گفتگو میں ہمیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتا تو نہ سہی۔ وہ آج کی دنیا کو اور آپ کی نئی نسل کو بہت سی باتیں سمجھانے اور بہت سی غلط فہمیاں دور کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ ایک مخصوص حلقہ جو عبد القادر کے تصور جہاد سے سے نفور ہے، اس کے ساتھ بات کرتے ہوئے آپ بے شک عبد القادر کا حوالہ نہ دیں۔ ان سے آپ اصولوں کے حوالے سے بات کریں کہ جہاد کے یہ اصول ہیں جو قرآن، حدیث اور فقہ اسلامی میں بیان ہوئے ہیں۔ آئیے، ان اصولوں پر بات کرتے ہیں۔ تو ان لوگوں کے سامنے آپ بے شک عبد القادر کا حوالہ پیش نہ کریں، لیکن باقی سارے لوگ تو اس طرح کے تعصب میں مبتلا نہیں۔ ان کے سامنے عبد القادر کا نمونہ پیش کرنا کئی پہلوؤں سے مفید ہو سکتا ہے۔
مقصد یہ کہ کوئی ضروری نہیں کہ ایک ہی بات یکساں طور پر سب کے لیے مفید ہو۔ عبد القادر پر جو کتاب لکھی گئی ہے، وہ القاعدہ کے ساتھ مکالمے کے لیے نہیں لکھی گئی اور نہ اس آئیڈیالوجی کے متاثرین کے لیے مفید ہے۔ یہ کتاب تو آج کی نئی نسل کے لیے لکھی گئی ہے جسے اس وقت جہاد کا ایک ہی یک طرفہ تصور اور نمونہ دنیا میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس کو یہ سمجھانے کے لیے اور دنیا کو یہ بتانے کے لیے کہ جہاد کا صحیح تصور اس سے مختلف ہے، ہمیں دوسرے نمونے پیش کرنے ہوں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس خاص پہلو سے امیر عبد القادر کی شخصیت ہمارے لیے ایک بہت بڑا اثاثہ ہے کہ جدید دنیا میں ایک ایسا آدمی، ایسا عالمی شہرت یافتہ شخص جس کا مغرب میں تعارف بھی ہے اور احترام بھی، وہ اسلام کی جنگی اخلاقیات کی صحیح ترجمانی کرتا ہے۔ دور جدید میں جہاد کے حوالے سے جو غلط تصورات دنیا میں پھیلے ہیں، اور ان میں سے بہت سوں کا تعلق خود ہمارے بعض طبقات کی حماقتوں سے بھی ہے، ان کو دور کرنے کے لیے ہمارے پاس قریبی تاریخ میں ایک ایسا نمونہ موجود ہے جس کو دنیا کے سامنے لا کر ہم اسلام کے تصور جہاد کے حوالے سے شکوک وشبہات اور غلط فہمیوں کا ازالہ کر سکتے ہیں۔
فکرِ مغرب: بعض معاصر مسلم ناقدین کے افکار کا تجزیہ (۲)
ڈاکٹر محمد شہباز منج
جہاں تک سائنس اور اخلاقی اقدار کے باہمی تعلق کا سوال ہے تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایسی چیز جو حقیقتِ مطلقہ کے عرفان کااہم ذریعہ ہواسے لازماً اعلی اخلاقی اقدار کے حصول کا ذریعہ بھی ہونا چاہیے۔لیکن حادثہ یہ ہوا کہ مغرب میں نشأۃِ ثانیہ کے دور میں جب مذہب اور سائنس میں جدائی واقع ہوئی تو اہلِ سائنس نے ردعمل میں جہاں مذہب کو سائنس کی راہ میں رکاوٹ خیال کرتے ہوئے رد کردیا وہاں مذہبی اخلاقی اقدار سے بھی کنارہ کشی اختیار کر لی ۔جب سائنس کا مذہبی اخلاقیات سے کوئی علاقہ نہ رہا تو ظاہر ہے اس میں وہی اخلاقیات داخل ہونا تھیں جو اس سے متعلق لوگوں کی اخلاقیات تھیں ،یعنی غیر مذہبی اور آزادانہ اخلاقیات۔اب چونکہ سائنس پر غیر مذہبی لوگوں کا قبضہ تھا تو لامحالہ سائنس کو انہی کی اخلاقیات کا حامل ہونا تھا۔مگراس سے یہ کیسے طے ہو گیا کہ سائنس فی نفسہ غیر مذہبی اخلاقیات کی حامل ہے،جیسا کہ ہمارے سائنس مخالف دانشور ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔واقعہ یہ ہے کہ سائنس میں غیر مذہبی اخلاقی اقدار اکے دخول کے اصل ذمہ دار اہلِ کلیسا ہیں۔کیا ہمارے سائنس مخالف دانشور بھی انہی کی روش اپنانے کے درپے ہیں۔اگر اہلِ مذہب سائنس کی زمامِ کار ملحددین ہی کے ہاتھوں میں دینے پر مصر ہوں تو انہیں کس طرح یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ سائنس اور اہلِ سائنس کی غیر مذہبی اخلاقیات کی شکایت کریں !
بلاشبہ عصر حاضر کی ایک نہایت اہم ضرورت سائنس کو مذہب و اخلاق سے مربوط کرنا ہے۔دورِ جدید کے بڑے بڑے مفکرین اس کا گہرا احساس رکھتے ہیں۔میں اس ضمن میں یہاں ڈاکٹر رفیع الدین کے توسط سے دو مفکرین کی آرا پیش کروں گا:پروفیسر سوادکن ۔ہارورڈ یونیورسٹی کے شعبہ عمرانیات کا سابق صدر۔ لکھتا ہے:’’ مذہب اور سائنس کا موجودہ تضاد خطرناک ہی نہیں بلکہ غیر ضروری بھی ہے۔ اگر خدا اور اخلاقی اقدار کا صحیح تصور میسر آ جائے تو اس کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جائے گی کہ مذہب اور سائنس دونوں ایک ہیں اور ایک ہی مقصد کی پیش برد کے لیے اپنا وجود رکھتے ہیں ۔یعنی یہ کہ تجربات کی اس قریبی دنیا میں خدائے مطلق کی قدرتوں کو بے نقاب کیا جائے تاکہ انسان کی شرافت اور خدا کی عظمت دونوں کا اثبات عمل میں آئے۔‘‘؛ فیلڈ مارشل سمٹس۔ فلسفہ کی بلند پایہ کتاب ہولزم Holismکا مصنف ۔کہتا ہے:’’ صداقت کی مخلصانہ جستجو اور نظم او رحسن کے ذوق کے اعتبار سے سائنس مذہب اور فن کے اوصاف سے حصہ لیتی ہے ... اصل بات یہ ہے کہ یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ شائد سائنس ہمارے اس عہد کے لیے خدا کی ہستی کی واضح ترین نقاب کشائی ہے... سچی بات تو یہ ہے کہ نوعِ انسانی کو جو کارہائے نمایاں سر انجام دینے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہو گا کہ وہ سائنس کو اخلاقی قدروں کے ساتھ ملحق کرے گی اور اس طرح سے اس بڑے خطرے کا ازالہ کرے گی جو ہمارے مستقبل کو درپیش ہے۔‘‘ (۳۱)
راقم کی رائے میں آج کے دور میں سائنس کے مذہب اور اخلاق سے ربط کے سلسلے میں عامۃ الناس کی نفسیات کے تحت، غیر شعوری طور پر ہی سہی ، بہت کچھ کام جاری ہے۔وہ وقت ضرورآئے گاجب سائنس مذہبی اخلاقیات سے مربوط ہو کر کل شی یرجع الی اصلہ کے مصداق اپنی اصل کی طرف لوٹ آئے گی ۔
اگر ہم اپنی عملی زندگی میں سائنس اور سائنسی ایجادات و اکتشافات کے ناقابلِ انکار کردار اور ہمارے ممدوح دانشوروں کے اس سے متعلق عملی رویے کے تناظر میں دیکھیں تو ان کے نقطہ نظر کی غلطی اور سطحیت اور نمایاں ہوتی ہے اور وہ مذاق بن کر رہ جا تے ہیں۔ یہ اپنی تحریروں میں شد ومدسے سائنس اور سائنسی مظاہر کی برائیاں گنواتے اور مسلمانوں کو ان سے کنارہ کشی اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں،لیکن خود ان میں بری طرح ملوث ہوتے ہیں۔کیایہ تبلیغ و اصلاح کے تناظر میں اتنی سی بات سے بھی ناواقف ہیں کہ مبلغ کو پہلے خود اپنی دعوت پر عمل کر کے دکھانا چاہیے۔یہ موبائل فون اور انٹر نیٹ وغیرہ کو اہلِ اسلام کے لیے زہرِ قاتل بتاتے اور ان کے استعمال کو مغرب کی مادی تہذیب و اقدار کے فروغ میں حصہ ڈالنے کے مترادف قرار دیتے ہیں، لیکن خود ان چیزوں کو اس طرح بے دریغ استعمال کرتے ہیں ،جیسے انہیں اس معاملے میں کوئی خصوصی استثنا حاصل ہے۔بندہ پوچھے یہ پریس ،یہ چھاپہ خانے،یہ کمپیوٹراور اس کے ذریعے اپنے مافی الضمیر کی نشر واشاعت،یہ بڑی بڑی بلڈنگزاورٹاورز،یہ یونیورسٹیاں اور ان کے ادراوں میں خدمات،یہ کانفرنسز اور اور ان کے لوازمات،یہ ائر کنڈیشنڈ آفس،یہ کاروں اور ہوائی جہازوں کے سفر و علی ہذ القیاس اس ’’منحوس ‘‘سائنس کی کوئی ایک چیز بھی ہے جس سے جناب بے نیاز ہوں !ستم ظریفی دیکھیے کہ ہمارے یہ ممدوح سائنس اور اس کے مظاہر کی برائیاں سائنس اور اس کے مظاہر ہی کے ذریعے بیان کرتے ہیں،لیکن پھر بھی انہیں برا کہتے ہیں۔کیا ان احباب نے کبھی غور کیا کہ موبائل انٹر نیٹ اور ٹی وی وغیرہ چیزیں فی نفسہ بری ہیں توان کا انہی اشیا کو استعمال کرتے ہوئے ان کے خلاف واویلا کیسے نیکی و بھلائی قرار پاتا ہے۔انہیں دو میں سے ایک بات ماننی ہو گی ؛یا یہ کہ یہ چیزیں نفس الامر میں بری نہیں، اور یا یہ کہ ان چیزوں کو استعمال کرکے وہ بھی دوسروں کی طرح برائی کے فروغ کا ذریعہ بن رہے ہیں۔(بلکہ ان کا جرم اس وجہ سے شدید تر ہو جاتا ہے کہ دوسرے ان کو برائی سمجھ کر استعمال نہیں کر رہے جبکہ یہ انہیں برائی یقین کرکے استعمال کر رہے ہیں) اوروہ جس بات کو بھی مانیں گے ان کا مقدمہ باطل ہو جائے گا۔
تاریخ ،فطرت اور عقل بطور ماخذ اخلاق
تاریخ، فطرت اورعقل سے متعلق ہمارے زیر نظر دانشوروں کا دعویٰ ہے کہ یہ اخلاقیات کی بنیاد نہیں بن سکتے۔ان میں سے کسی میں بھی یہ اہلیت نہیں کہ وہ یہ بتا سکے کہ خیر کیا ہے اور شر کیا؟حق کس چیز کا نام ہے اور باطل کس چیزکا؟کون سا کام آدمی کو کرنا چاہیے اور کون سا نہیں کرنا چاہیے؟ایسا ثابت کرنے کی کوشش کے پیچھے یہ مفروضہ کارفرما ہے کہ ان تمام چیزوں کو اخلاقیات کی بنیاداہلِ مغرب اور ان سے متاثر مسلمان بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔لیکن نہ یہ مفروضہ کلی طور پرصحیح ہے اور نہ اس کی بنیاد پر حاصل کردہ مذکورہ نتیجہ،ہاں اس میں جزوی صداقت موجود ہے۔مفروضہ میں جزوی صداقت یہ ہے کہ عقل وفطرت وغیرہ سے درسِ اخلاق کے دہریہ اور مذہب بیزاراہلِ مغرب اور مغرب سے مرعوب مسلمان بھی قائل ہیں ۔لیکن اس میں غلطی یہ تسلیم نہ کرنا ہے کہ ان سے اخلاقی اسباق کے صرف یہی لوگ قائل نہیں بلکہ مذہبی لوگ حتی کہ خود مذہب بھی اس کا قائل ہے۔ اور نتیجے میں جزوی صداقت یہ ہے کہ مذکورہ اشیا یا ان میں سے بعض اخلاقیات کی تنہا بنیاد نہیں ۔لیکن اس میں غلطی یہ خیال کرنا ہے کہ ان میں سے کسی کااخلاق سے کچھ علاقہ ہی نہیں۔یہ حقیقت درج ذیل نکات سے نمایاں ہو کر سامنے آ جائے گی :
تاریخ اور اخلاق
ہمارے ان دوستوں کا کہنا ہے کہ تاریخ انسان کو اخلاقی سبق سکھانے سے قاصر ہے ۔ تاریخی عمل سے نتائج اخذ کرنے کا کوئی منہج متعین کرنا ناممکن ہے ۔مختلف فلسفی مطالعۂ تاریخ سے مختلف نتائج اخذ کرتے ہیں۔لیکن یہ نتیجہ بھی مذہباً اورعقلاً ہر دو لحاظ سے نادرست ہے۔مذہب باربار مطالعۂ تاریخ اور اس سے اخلاقی نتائج اخذ کرنے پر زور دیتا ہے۔قرآن کی بیسیوں آیا ت اس پر شاہد ہیں ۔تذکیر بایامِ اللہ قرآن کا ایک نہایت اہم مضمون ہے ۔ارشاد ہے : وَ ذَکِّرْھُمْ بِاَیَّامِ اللّٰہِ (ابراہیم۱۴:۵)’’اور انہیں اللہ کے ایام یاد کراو۔‘‘اور یہ اقوامِ سابقہ کے حشر کے مطالعے اور اس سے عبرت حاصل کرنے کی ترغیب ہی تو ہے۔ قرآن حکیم نے جس واحد تاریخی واقعہ کو سب سے زیادہ تفصیل کے ساتھ ایک ہی جگہ بیان کیا ہے وہ قصۂ یوسف علیہ السلام ہے ۔لیکن اس سے اس کا جو مقصود ہے وہ سورہ یوسف کی آخری آیت کہ ان الفاظ میں ملاحظہ فرمایے: لَقَدْ کَانَ فِیْ قَصَصِھِمْ عِبْرَۃٌ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ۔ (یوسف۱۲:۱۱۱) ’’ان کے قصے میں اہلِ عقل کے لیے(سامانِ)عبرت ہے۔‘‘ زمین میں چل پھر کر پہلوں کے انجام سے سبق سیکھنے کی تاکیداتنی زیادہ آیات میں کی گئی ہے کہ ان کا استقصا اس مضمون کی بساط سے باہر ہے۔چند آیات دیکھ لیجیے:
قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلُ۔ (الروم۳۰:۴۲)’’کہو:زمین میں چلو پھرو اور دیکھو کے پہلے لوگوں کا کیاانجام ہوا۔‘‘؛ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ سُنَنٌ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ۔(آل عمران۳:۱۳۷)’’تم سے پہلے لوگوں کے طور طریقے گزر چکے ہیں، سو زمین میں چل پھر کر دیکھ لوکہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا۔‘‘؛ فَھَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا سُنَّتَ الْاَوَّلِیْنَ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحْوِیْلًا۔ اَوَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ وَکَانُوْٓا اَشَدَّ مِنْھُمْ قُوَّۃً وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعْجِزَہٗ مِنْ شَیْءٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِی الْاَرْضِ اِنَّہٗ کَانَ عَلِیْمًا قَدِیْرًا۔ (فاطر۳۵:۴۳۔۴۴)’’کیا یہ اس چیز کے انتظار میں ہیں کہ ان کے ساتھ وہی کیا جائے جو پہلوں کے معاملے میں کیا گیا ؟سو تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پاو گے،اور اس کی سنت کو بدلتا نہ دیکھو گے ۔کیا یہ لوگ زمین میں چلتے پھرتے نہیں کہ دیکھتے ان لوگوں کا کیا انجام ہوا جو ان سے پہلے تھے !حالانکہ وہ ان سے زیادہ طاقتور تھے،اللہ ایسا نہیں کہ زمین وآسمان کی کوئی چیز اسے عاجز کر سکے،وہ علم والا،قدرت والا ہے۔‘‘
مطالعۂ تاریخ ہی آپ کو بتاتا ہے کی مذہب کی فراہم کردہ اخلاقیات کا نتیجہ(Out put)کیا رہا۔اسی سے آپ غیر مذہبی اقدار پر مذہبی اقدار کی فوقیت ثابت کرتے ہیں ۔قرآن واضح طور پر کہہ رہا ہے کہ جھوٹ ،فریب اور دغا چھوڑ دو اس لیے کہ اس کانتیجہ تباہی ہے اور یہ نتیجہ قرطاسِ تاریخ پر رقم ہے۔کیا اس میں کوئی ابہام ہے کہ قرآن کے نزدیک نہ صرف تاریخ سے اخلاقی سبق حاصل ہوتا ہے ، بلکہ اس سے اخلاقی سبق کا حصول قرآ ن کا نہایت اہم تقاضا ہے ۔آخر قرآن نے یہ کہنا کیوں کافی نہیں سمجھا کہ جھوٹ اور بد اخلاقی اس لیے چھوڑ دو کے اللہ نے اسے چھوڑنے کا حکم دیا ہے اور اس کے نتیجے میں تمہیں جنت حاصل ہو گی۔اس کا سادہ سا جواب یہی ہے کہ یوں کہنا اہلِ ایمان ہی کے لیے فائدہ مند ہوسکتا ہے ۔اس سے ان لوگوں کو کچھ نفع حا صل نہیں ہو سکتا جو ذاتِ باری کو جانتے اور مانتے ہی نہیں ۔انہیں تو آپ کو انہی چیزوں سے اخلاقیات نکال کر دکھانی پڑے گی،جنہیں وہ جانتے اور مانتے ہیں،اور ان میں سے ایک نہایت اہم چیز تاریخ ہے۔
فطرت اور اخلاقیات
ہمارے ممدوح سکالریہ نظریہ بھی پیش کرتے ہیں کہ فطرت بھی اخلاق کا ماخذ نہیں بن سکتی۔ دلیل وہی تاریخ والی دلیل جیسی ہے کہ یہ متعین ہی نہیں کیا جاسکتا کہ انسانی فطرت کیا ہے۔مختلف ادوار اور حالات سے گزرنے والے انسانوں کی فطرت مختلف ہوتی اور مختلف نتائج دیتی ہے۔لیکن یہ نظریہ بھی مذہب واخلاق کی کسوٹی پر پرکھنے سے باطل قرار پاتا ہے۔اولاً اس لے کہ قرآن میں فطرت کے خیر و شر معلوم کرنے کا پیمانہ ہونے کے واضح شواہد ہیں۔ ارشاد ہے : فَاَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ۔ (الروم۳۰:۳۰)’’پس اپنا رخ پورے طور پر دینِ حنیف کی طرف رکھیے۔خدا کی فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پید کیا۔ اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہو سکتی ،یہی صحیح دین ہے۔‘‘ایک اور جگہ فرمایا: وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰہَا۔ فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰہَا۔(الشمس۹۱:۸)’’اور نفس کی اور اس ذات کی قسم جس نے اس کی تکمیل کی۔پھر اسے اس کی نیکی و بدی سمجھادی۔‘‘حدیث میں بھی واضح طور پر کہا گیا کہ : کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الُفِطْرَۃِ فَاَبَوَاہٗ یُھَوِّدَانِہ اَوْ یُنَصِّرَانَہِ اَوْ یُمَجِّسَانِہِ ۔ (۳۲)’’ ہر بچہ فطرت پر پیداہوتا ہے،پھر اس کے والدین اس کو یہودی،نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔‘‘ان نصوص سے اس دعوے کی واضح تردید ہو رہی ہے کہ انسان کی’ اصلی حالت‘کے تعین کا کوئی پیمانہ نہیں،اور اس حقیقت کو واشگاف کر رہے ہیں کہ انسان کی اصلی حالت کا مسئلہ محض فلاسفہ اور مغربی مفکرین کا ڈھکوسلہ نہیں بلکہ خالص مذہبی تصور ہے۔مذکورہ نصوص کی شرح میں بہت سے شارحین نے لکھا ہے کہ اگر آدمی کو اس کی اصلی حالت پر چھوڑ دیا جائے تو وہ مشرک وکافر نہیں بلکہ موحد گاجبکہ ہمارے دانشور انسان کو سوسائٹی سے کاٹ کر دیکھنے کوسیکولر مفکرین کی’’لامتصور شے کو متصور کرنے کی لا حاصل کوشش‘‘سے تعبیر کرتے ہیں۔
اگر ہمارے ممدوح دانشوروں کو فطرت سے اس لیےَ بیر ہے کہ مختلف ماحول کے لوگوں کی فطرتیں مختلف ہوتی ہیں اورانسان کی فطرت مسخ ہوسکتی ہے، تو ہم ان کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ ہمیں کوئی ایسی چیز بتائیے جو مختلف فیہ نہ ہو اور مسخ نہ ہو سکتی ہو۔مسخ کرنے پر آئیں تو سیکولر ولبرل ہی نہیں خود اہلِ مذہب اللہ کی آخری کتاب کو اس کی تعبیر وتشریح کے نام پر مسخ کر ڈالیں۔اقبال نے اس کا جگہ جگہ رونا رویا ہے۔کہیں وہ کہتے ہیں:
احکام ترے حق ہیں مگر اپنے مفسر
تاویل سے قرآں کو بنا سکتے ہیں پاژند
کہیں شکوہ سنج ہیں:
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
اور کہیں نوحہ کناں ہیں:
زمن بر صوفی وُ ملا سلامے
کہ پیغامِ خدا گفتند مارا
ولے تاویلِ شاں در حیرت انداخت
خداو جبرائیل ومصطفی را
پھر قرآن نے باربارتاکید کی کہ معروف کو اختیار کرو اور منکر سے بچو۔نیز اس نے انبیا کو حکم دیا اور داعیانِ حق کا فریضہ ٹھہرایاکہ وہ معروف کا حکم دیں اور منکر سے روکیں ۔یہ معروف ومنکر کیا ہے؟کوئی بھی معتبرلغت اور شرحِ الفاظِ ربانی اٹھا کر دیکھ لیںآپ کو نظر آئے گا کہ معروف سے قرآن کی مراد جانی بوجھی ہوئی اچھائی ہے۔یعنی معروف وہ ہے جس کو فطرت اچھا قرار دے ۔اسی طرح منکر جانی بوجھی ہوئی برائی ہے،جسے فطرت براٹھہراتی ہے۔مزید برآں قرآن نے متعدد جگہ مختلف قانونی امور کو عرف کے مطابق طے کرنے کا حکم دیا ہے،جس سے مراد متعلقہ مہذب معاشرے کے شرفا کا دستور ہوتا ہے۔ یہ دستو ر بھلائی کی فطری قوتِ تمیز ہی سے ترکیب پاتا ہے۔ اگر فطرت برائی بھلائی میں تمیز کی اہل نہ ہوتی تو قرآن اس کی بنیاد پر وجود پذیر ہونے والے دستور پر اعتماد نہ کرتا۔
اخلاقیات اور عقل
ہمارے ان اسکالرز کا ایک دعویٰ یہ ہے کہ عقل بھی اخلاق کا ماخذ نہیں ۔لیکن یہ دعوی اس قدر بودا ہے کہ عقل پر تنقید کرنے والوں کے سارے دلائل ،تنقیدات اور داخلی محاکموں کو مہمل بنا دیتا ہے۔ ان سے اگر کوئی یہ کہے کہ جناب ہم آپ کی تمام تر تنقیدات کو من وعن مان لیتے ہیں ،آپ صرف اتنا بتا دیجیے کہ کس بنیاد پر؟تو ان کے پاس صرف ایک جواب ہو گا کہ عقلی دلائل کی بنیاد پر،اس لیے کہ نہ یہ وحی سے جواب دینے کے دعویدار ہیں اور نہ اُن لوگوں کو وحی سے جواب دیا سکتا ہے جن کے افکار کا یہ محاکمہ کر رہے ہیں۔ اور یہ جواب ان کے سارے دلائل کا قاتل ہے۔ ظاہر ہے کہ جو چیز آپ کے نزدیک معتبر ہی نہیں اس سے آپ کسی چیز کو غیر معتبر کیسے ٹھہرا سکتے ہیں!گویا :
میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں (۳۳)
تاہم وحی کی بنیاد پرعقل کو نامعتبر ٹھہرانا بھی کچھ کم قابلِ گرفت نہیں،خاص طور پر وحئ قرآنی کی بنیاد پر۔ قرآن سے عقل کے حجت ہونے کے جواز پر دلائل لانا کیا معنی وہ توعقل وفکر سے کام لینے کی جگہ جگہ ترغیب دیتاہے۔ اس قبیل کی سینکڑوں آیات میں سے چند دیکھیے:
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّھَارِ وَ الْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِیْ الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ مَّآءٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا وَ بَثَّ فِیْھَا مِنْ کُلِّ دَآبَّۃٍ وَّ تَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَ السَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ۔(البقرہ ۲:۱۶۳) ’’بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق اور رات دن کی تبدیلی اور ان کشتیوں میں، جو لوگوں کے فائدے کی چیزوں کے ساتھ دریا میں چلتی ہیں اور آسمان سے پانی اتار کر مردہ زمین کو، اس کی موت کے بعد، زندہ کرنے اور اس میں ہر طرح کے جانور پھیلانے اور ہواؤں کے چلنے ا ور بادلوں کے آسمان اور زمین کے درمیان معلق رہنے میں عقل مندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔‘‘ ؛ سَخَّرَ لَکُمُ الَّیْلَ وَ النَّھَارَ وَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ وَ النُّجُوْمُ مُسَخَّرٰتٌم بِاَمْرِہٖ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْن (النحل۱۶:۱۲)’’ اور اس نے تمہارے لیے رات اور دن اور سورج اور چاند کو مسخر کیااور ستارے (بھی )اس کے حکم سے مسخر ہیں۔بلا شبہ اس میں عقل سے کام لینے والوں کے لیے (بہت سی )نشانیا ں ہیں۔‘‘وَفِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَ۔ وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْ اَفَلاَ تُبْصِرُوْنَ (الذریت ۵۱:۲۰۔۲۱) ’’اور زمین میں بھی نشانیاں ہیں یقین کرنے والوں کے لیے، اور تمہاری اپنی ذات میں بھی، تو کیا تمہیں دکھائی نہیں دیتا۔‘‘؛ اَوَ لَمْ یَنْظُرُوْا فِیْ مَلَکُوْتِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ مِنْ شَیْءٍ۔ (الاعراف۷:۱۸۵) ’’کیا انہوں نے آسمانوں اور زمین کی سلطنت پر، اور ان اشیا پر، جو اللہ نے بنائیں، نگاہ نہیں ڈالی؟‘‘ ؛ قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ بَدَاَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللّٰہُ یُنْشِئُ النَّشْاَۃَ الْاٰخِرَۃَ۔(العنکبوت ۲۹:۲۰) ’’آپ فرمائیے! زمین میں چل پھر کر دیکھو۔ اللہ کیونکر خلق کی ابتدا کرتا ہے اور پھر اسے دوسری اٹھان اٹھاتا ہے۔ ‘‘ ؛ اَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُہَا۔(محمد۴۷:۲۴) ’’تو کیا وہ قرآن میں غوروفکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل پڑے ہوئے ہیں۔‘‘
قرآن کے نزدیک صاحبانِ ایمان و تقوی کی نمایاں علامت یہ ہے کہ اِِذَا ذُکِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّہِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْہَا صُمًّا وَّعُمْیَانًا۔ (الفرقان۲۵:۷۳)’’جب انہیں ان کے رب کی آیات سے نصیحت کی جاتی ہے تو ان پر بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گر پڑتے۔‘‘یہی نہیں بلکہ قرآن کے مطابقعقل سے کام نہ لینے والے بد ترین خلائق ہیں۔ (اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰہِ الصُّمُّ الْبُکْمُ الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُوْنَ۔الانفال۸:۲۲)اسی پر بس نہیں قرآن تو یہاں تک کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ عقل و فکر سے کام نہ لینے والوں پر گندگی ڈال دیتا ہے۔(وَ یَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُوْنَ۔یونس ۱۰:۱۰۰)
ہمارے دانشور کہتے ہیں کہ عقل میں خیر و شر میں تمیز کی اہلیت نہیں ۔سوال یہ ہے کہ پھر خالقِ کائنات نے اس کے ذریعے حقیقتِ کبری تک رسائی حاصل کرنے پر اتنی زیادہ آیات میں اس غیر معمولی انداز سے زور کیوں دیا ہے؟اس نے کیوں صرف اتنا کہنے پر اکتفا نہیں کیاکہ جب میں اور میرے نبی کہہ رہے ہیں کہ اللہ ہے ،اس نے تمہیں ایک خاص مدت تک لیے دنیا میں بھیجا ہے،تمہیں ایک روز اللہ کے حضور حاضر ہو کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہے،تو بس اور کیا دلیل چاہتے ہو،سرِ تسلیم خم کردو۔کس قدر حیرت انگیز بات ہے کہ اللہ اپنے سینکڑوں ارشادات میں نہایت غیر مبہم طریق سے عقل کو خیر و شر ہی نہیں خود خالقِ خیر وشر کی پہچان کا ذریعہ بتارہا ہے اور ہم اسی کے نام پر یہ باور کرانے پر زور لگا رہے ہیں کہ خوب وزشت کی معرفت عقل کا وظیفہ ہی نہیں۔
عقل کے خلاف آپ کی ساری سر پھٹول اس بنا پر ہے کہ ہمیں ایک ایسی چیز میسر ہے جو عقل سے بہت اعلی درجے کی ہے اور ہم ان امور سے متعلق خبر دیتی ہے جن کا ادراک عقل کی مجال نہیں۔یہ چیز ایمان ہے۔لیکن آپ نے کبھی غور فرمایا کہ یہ ایمان کہاں سے آیا ہے؟ ایک آدمی ہے جس پر نہ وحی آتی ہے اور نہ وہ وجودِ باری اوروحی ونبوت کا قائل ہے۔آپ اس کو کیسے سمجھائیں گے کہ اللہ تعالی موجود ہے،اس نے وحی و نبوت کا سلسلہ قائم فرمایا اور انسانوں کو تعلیم دی ہے کہ وہ وحی ونبوت اور اس کے پیش کردہ عقائد و تصورات پر ایمان لائیں۔ عقل کے سوا اس کا کوئی دوسراذریعہ نہیں۔ہمارے دانشوروں کو خبر ہو نہ ہو اللہ علیم وخبیر ہے،اسے تو پتہ ہے کہ بے ایمان عقل ہی کی بنیاد پر ایمان لا سکتا ہے،سو اس نے اپنی آخری کتاب میں اسی کے ذریعے ایمان لانے پر زور دیا۔اوپر درج اوران کی قبیل کی سینکڑوں دیگرآیا ت اس حقیقت کی ناطق شہادتیں ہیں۔اب ذرا ارشاداتِ باری اور ان کے بدیہی نتائج اورہمارے عقل مخالفین کے نظریے کو ملا کر دیکھیے :عقل اللہ کو پا سکتی ہے لیکن خیر وشر کو نہیں!
ناطقہ سر بگریبا ں ہے اسے کیا کہیے
خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھیے
بلاشبہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ایمان عقل کا رہبر ہے۔بہت سی چیزیں ایسی ہیں جنہیں ہم ایمان کے اعتماد پرمان لیتے ہیں ،حالانکہ وہ ہماری عقل میں نہیں آتیں۔لیکن ایمان کو عقل کی رہبری کا اختیار بھی تو عقل ہی نے دیا ہے۔بنابریں ایمان کے حاصلات فی الاصل عقل کے حاصلات ہیں ۔پھریہ بات بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ ایمان اورعقل میں باہم کوئی تسابق وتصادم نہیں،سمجھوتا وموافقت اور اپنائیت ہے۔بلکہ یوں کہیے کہ عقل عاشق ہے اور ایمان محبوب ۔ایمان جن چیزوں پر اعتقاد کا کہتا ہے عقل اس لیے مان لیتی ہے کہ وہ اس کے محبوب کی پسند ہیں۔ایمان بھی اس کو دھوکا نہیں دیتا اور اپنے سارے معاملات اس کو اعتماد میں لے کر طے کرتا ہے۔ا گر کہیں اختلاف ہو جائے تو ڈائیلاگ ہوتا ہے، اور بالآ خر دونوں ایک متفقہ نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں۔ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ اختلاف برقرار رہے،تاہم اختلاف باقی رہے تو امرِ فیصل، جیسا کہ محبوب ومحب کے معاملے کا عام دستور ہے،محبوب ہی کا ہوتا ہے۔اور وہ بھی اس وجہ سے کہ عقل ایمان کے فیصلے کو مان لیتی ہے۔نہ مانے تو جیسے معاملۂ عشق میں عاشق عاشق نہیں رہتا اور محبوب محبوب نہیں ،عقل عقل نہیں رہتی اور ایمان ایمان نہیں رہتا۔
اس میں شبہ نہیں کہ مغرب کو معیارِ حق ٹھہراتے ہوئے دینی عقائد و نظریات کو کھینچ تان کر اس سے موافق کرنے کی کا رویہ گمراہی ہے ۔لیکن یہ بھی کوئی دلیلِ علم و ہدایت نہیں کہ مغرب کو معیارِ باطل سمجھتے ہوئے اس سے متعلق یا منسوب ہر چیز کوجہالت اور دین ومذہب اور اس کے پیروکاروں کے لیے زہرِ قاتل قرار دیا جائے اور اس میں یہاں تک غلو ہوکہ شریعت کے بہت سے واضح نصوص کا انکار لازم آئے یاان کی دوراز کا ر تاویلات کرنا پڑیں۔ مغرب معیارِ حق نہیں تو معیارِ باطل بھی نہیں۔اسلام میں حق و باطل کو مشرق ومغرب کے خانوں میں بانٹ کر دیکھنے کا کوئی جواز نہیں۔حق مغرب کے اپنا لینے سے باطل ہوجاتاہے نہ باطل مشرق کے اختیار کر لینے سے حق۔
حوالہ جات وحواشی
۳۱۔ سیارہ ڈائجسٹ، قرآن نمبر(س۔ن)،۲/۸۲۔
۳۲۔ محمد بن اسماعیل البخاری،صحیح البخاری ،ت ۔محمد زہیر بن ناصر الناصر(دارطوق النجاۃ:۱۴۲۲ھ )،۲/۱۰۰،حدیث رقم۱۳۸۵،کتاب الجنائز،باب ماقیل فی اولاد المشرکین۔
۳۳۔ واضح رہے کہ میر کا ذکر کردہ شعردرست طور پر ایسے ہی ہے۔ جو لوگوں میں یوں مشہور ہے:میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب۔ اسی عطار کے لونڈے سے دوالیتے ہیں،وہ غلط ہے۔
غزالی اور ابن رشد کا قضیہ ۔ اصل عربی متون کی روشنی میں (۲)
مولانا محمد عبد اللہ شارق
(۳)
آپ جان چکے ہیں کہ غزالی نے ’’مسلم‘‘ فلسفیو ں کی طرف جن ہفوات کی نسبت کی ہے، ابنِ رشد ان ہفوات کی ’’مسلم‘‘ فلسفیوں کی طرف نسبت کو غلط ثابت نہیں کرپائے، بلکہ لگتا ہے کہ یہ ان کا مقصد ہی نہیں تھا۔ ’’مسلم‘‘ فلسفیوں سے منسوب جن دو ہفوات کا ہم نے حوالہ دیا ہے، ان کے ضمن میں ابن رشد کا رویہ سامنے آچکا ہے کہ وہ ان جیسے مسائل میں بوعلی سینا وغیرہ کو ناقل کی بجائے الٹا موجدِ اول نام زد کردیتے ہیں اور یوں بوعلی سینا وغیرہ کے خلاف غزالی کی ’’چارج شیٹ‘‘ کو اور بھی زیادہ مضبوط بنا دیتے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی آپ جان چکے ہیں کہ غزالی نے جہاں فلاسفہ کی الہیات کو غیر قطعی ثابت کرنے کے لیے اور محض فلاسفہ کے استدلالات میں تشکیکات دکھانے کے لیے مخالف استدلال کیے ہیں، ان سے ان کا مقصود اپنے استدلال کو قطعی ثابت کرنانہیں، بلکہ صرف یہ بتانا ہے کہ ایسے مسائل میں کسی ایک جانب کو ترجیح دینے کے لیے کوئی قطعی دلیل کسی کے پاس نہیں ہے۔ لہٰذا ابن رشد کا کوشش کرکے ایسے موقعوں پر غزالی کے استدلالات کو غیر حتمی ثابت کرنا غزالی کے لیے مضر نہیں، بلکہ ان کے موقف کو اور زیادہ مضبوط کرتا ہے۔
تیسری بات جو ہم یہاں عرض کرنا چاہتے ہیں، وہ یہ ہے کہ مختلف مسائل میں یونانی فلاسفہ کے ہاں خاصا اختلاف پایا جاتا ہے۔ غزالی نے تہافت الفلاسفۃ میں اس اختلاف سے صرفِ نظر کرتے ہوئے تردید کے لیے صرف ارسطو کے اقوال کو چنا ہے اور ایسا عمداً کیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی اس کتاب کے ذریعہ بنیادی طور پر اعتقادی انحراف کا شکار مسلم فلسفیوں کو دعوتِ دین و دعوتِ توبہ دینا چاہتے ہیں اور مسلم فلسفیوں کے ہاں ارسطو کو ہی اپنا مرشد وسالار سمجھا جاتا تھا۔ اگلی بات یہ ہے کہ پھر اسی ارسطو کے کلام کو سمجھنے میں اس کے ’’مسلم‘‘ عقیدت مندوں کا خاصا اختلاف رہا ہے۔ غزالی نے اس اختلاف سے بھی صرفِ نظر کرتے ہوئے مسلم فلسفیوں میں سے صرف فارابی اور بوعلی سینا کی تشریحات وتفہیمات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے انہی کی تردید کرتے ہیں اور یہ بھی انہوں نے عمداََ کیا ہے، وجہ یہ ہے کہ ’’مسلم‘‘ فلسفیوں میں جو اثر ورسوخ فارابی اور بوعلی کی آراء کو حاصل تھا، وہ کسی اور کو نہ تھا اور غزالی کا مقصود فلسفیوں کی ہی ہدایت ہے۔ فی الواقع کون سے مسئلہ میں ارسطو کی رائے کو کون سے فلسفی نے زیادہ درست انداز میں بیان کیا ہے، یہ توضیح اور ’’کلامِ ارسطو‘‘ کی تشریح کے ضمن میں مسلم فلسفیوں کے مابین محاکمہ کرنا غزالی کا مقصود نہیں۔
غزالی خود اس بات کو جانتے ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ ’’لیعلم ان الخوض فی حکایۃ اختلاف الفلاسفۃ تطویل، فان خبطہم طویل، ونزاعہم کثیر، وآراء ہم منتشرۃ وطرقہم متباعدۃ متدابرۃ، فلنقتصر علی اظہار التناقض فی رای مقدمہم الذی ہوالفیلسوف المطلق والمعلم الاول۔۔۔وہو ارسطاطالیس‘‘ مزید لکھتے ہیں: ’’ثم المترجمون لکلام ارسطاطالیس لم ینفک کلامہم عن تحریف وتبدیل محوج الی تفسیر وتاویل، حتی اثار ذالک ایضا نزاعا بینہم، واقومہم بالنقل والتحقیق من المتفلسفۃ فی الاسلام الفارابی ابو نصر وابن سینا۔۔۔فلیعلم انامقتصرون علی رد مذاہبہم بحسب نقل ہذین الرجلین ‘‘ (تہافت الفلاسفۃ۔ صفحہ۷۶۔۷۸) یعنی ’’فلاسفہ کا باہمی اختلاف اور نزاع بہت زیادہ ہے اور اس سب کا تعاقب کرنے سے بات طویل ہوجائے گی۔ ان کی آراء میں اتحاد نہیں اور نہ ہی ان کے دلائل میں کوئی یگانگت ہے۔ اس وجہ سے ہم نے یہاں صرف ارسطو کی آراء کو مو ضوع تنقید بنایا ہے جو ’’مسلم‘‘ فلسفیوں کا مقتدا ہے اور ان کے ہاں اسے فلسفہ کے پہلے باضابطہ استاد کا درجہ حاصل ہے۔ پھر ارسطو کے شارحین اور ترجمانوں کے کلام میں بھی تحریف اور تبدیلی واقع ہوئی ہے جس کی وجہ سے وہ توجیہ وتاویل کی محتاج ہے اور جس کی وجہ سے ارسطو کے شارحین میں بھی اختلاف پھیل گیا ہے۔ ارسطو کے شارح ’’مسلم‘‘ فلسفیوں میں سب سے زیادہ بااثر اور معتمد فارابی اور بوعلی سینا سمجھے جاتے ہیں۔ لہٰذا واضح رہے کہ ہم ’’مسلم‘‘ فلسفیوں کی تردید انہی دو آدمیوں کی نقول کی بنیاد پر ہی کریں گے اور بس۔ ‘‘
اب بڑی بدیہی سی بات ہے کہ اگر ابن رشد غزالی کا جواب لکھنا چاہتے تھے تو انہیں اپنے جواب میں بوعلی سینا اور فارابی کی طرف سے بھر پور صفائی دینا تھی، مگر معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ان کی گفتگو سے کہیں بھی یہ تاثر نہیں ملتا کہ وہ ابن سینا اور فارابی کے وکیل ہیں۔ بلکہ اس کے برعکس ابن رشد‘ ابن سینا اور فارابی ہی سے شکوہ کرتے رہتے ہیں کہ انہوں نے حکماءِ یونان کے اصل مذہب کو بگاڑ دیاہے اور اس کی درست تشریح نہیں کی۔ انہوں نے ابن سینا کے موقف، استدلال اور اقوال کو سفسطائی (تہافت التہافت۔صفحہ۲۷۳)، خطاء (۲۹۸)، غلط (۳۲۶)اور غیر صادق (۴۰۷) لکھا۔ جی ہاں، یہ سب انہوں نے لکھا ہے۔ کچھ مسائل کے بارہ میں لکھا کہ حکماء میں کوئی بھی اس کا قائل نہیں، سوائے ابن سینا کے، لہٰذا حکماء کی طرف اس کی نسبت کرنا درست نہیں۔ (صفحہ۱۹۵) بعض مسائل کے بارہ میں لکھا کہ فارابی اور ابن سینا نے حکماءِ یونان کی طرف یہ مسائل غلط طور پر منسوب کیے ہیں۔ (صفحہ۸۹، ۱۲۱،۳۰۶، ۳۰۹)ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’فانظر ہذا الغلط ما اکثرہ علی الحکماء، فعلیک ان تتبین قولہم ہذا ۔۔۔فی کتب القدماء لا فی کتب ابن سینا وغیرہ الذین غیروا مذاہب القوم فی العلم الالہی حتی صار ظنیا‘‘ (صفحہ۳۰۱)یعنی ’’دیکھو، یہ غلط فکر کتنی کثرت سے حکماءِ یونان کی طرف منسوب کی گئی ہے، لہٰذا تم پر لازم ہے کہ ان کے اقوال کو متقدمین کی کتابوں میں دیکھا کرو، ابن سینا وغیرہ کی کتابوں میں نہیں جنہوں نے علم الٰہی میں یونانی فلاسفہ کے مذہب کو بدل کراتنی تحریف کی کہ یہ قطعی کی بجائے ظنی ہوکر رہ گیا۔‘‘ اس عبارت میں کئی دلچسپ مگر غور طلب باتیں ہیں:
- ارسطو کے افکار کی تشریح میں ابن سینا کے ساتھ ابن رشد کا یہ اختلاف کوئی نئی بات نہیں۔ آپ جان چکے ہیں کہ غزالی شارحین ارسطو کے اس اختلاف سے پہلے ہی واقف ہیں۔ انہوں نے جان بوجھ کر فارابی اور بوعلی سینا کی تشریحات کو اپنی تنقید کا موضوع بنایا کیونکہ ’’مسلم‘‘ فلسفیوں میں ان کو جو مقام حاصل تھا، وہ کسی اور کو نہ تھااور غزالی کا مقصد ’’مسلم‘‘ فلسفیوں کو ہی دعوتِ اصلاح دینا ہے۔ فی الواقع ارسطو یا حکماءِ یونان کے افکار کیا ہیں اور کیا نہیں، یہ چیز ان کی بحث سے خارج ہے کیونکہ اب وہ ارسطو کی قبر میں جاکر اس کو دعوتِ دین دینے سے تو رہے۔
- ابن رشد کا جواب واقعتا جواب کہلانے کا مستحق تب ہوتا جب ابن رشد نے ’’مسلم‘‘ فلسفیوں اور خصوصا بوعلی سینا وغیرہ کی طرف سے کوئی صفائی دی ہوتی اور ان کے داغوں کو دھودیا ہوتا کیونکہ غزالی کے اپنے الفاظ کے مطابق، غزالی کا مقدمہ انہی کے خلاف تھا۔ یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ غزالی کا مقدمہ جن فلسفیوں کے خلاف ہے، ابن رشد ان کی طرف سے سرے سے صفائی ہی نہیں دیتے ، بلکہ انہیں الٹا دوہرا مجرم بناتے چلے جاتے ہیں، یہ کہہ کر کہ یہ مسائل ارسطو کی طرف غلط منسوب ہوئے ہیں اور یہ بوعلی سینا وغیرہ کی اپنی ایجاد ہیں۔
- اس عبارت سے غزالی کے اس دعویٰ کی تائید بھی ہوگئی کہ فلسفی اپنی الہیات کو ریاضی کی طرح قطعی سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ابن رشد بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ بوعلی سینا کی تشریحات نے فلاسفہ کے علم الہیات کو ظنی بنا چھوڑا ہے (ورنہ وہ فی الواقع تو قطعی تھا۔)
مزید سنئے، وہ غزالی پر غصہ نکالتے ہوئے بھی یہی کہتے ہیں کہ ’’لم ینظر الرجل الا فی کتب ابن سینا فلحقہ القصور فی الحکمۃ من ہذہ الجہۃ‘‘ (صفحہ ۴۰۹) یعنی ’’اس آدمی (غزالی) نے صرف ابن سینا کی کتب پر اکتفاء کیاجس کی وجہ سے فلسفہ کو سمجھنے میں وہ ناقص رہا ہے۔‘‘ یعنی قصور ان ’’مسلم ‘‘فلسفیوں کا نہیں جو ابن سینا کو ارسطو کا سب سے بڑا شارح سمجھتے ہیں اور نہ ہی ابن رشد کا ہے جو ان فلسفیوں کو سمجھانے کی بجائے اور ابن سینا کی تردید لکھنے کی بجائے غزالی کو کوس رہا ہے، قصور ہے تو غزالی کا ہے کہ انہوں نے بوعلی سینا کی بنیاد پر اس کے پیروکار فلسفیوں کے خلاف مقدمہ دائر کیوں کیا ہے؟ میں ان لوگوں پر حیران ہوں جو اب بھی ابن رشد کے جواب کو ’’جواب‘‘ کہتے ہیں۔
ابن رشدکے رویہ کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر سلیمان دنیا لکھتے ہیں: ’’کنا ننتظرمن ابن رشد فی ہذا المقام الا یدخل علی ہذہ الادلۃ التی حکاہا الغزالی تعدیلا من عندہ۔۔۔ بل ان یشیر الی الادلۃ التی لابن سینا والفارابی فی ہذا المجال لانہما الذان ینقدہما الغزالی۔۔۔اما ان یغفل ابن رشد بیان ذالک ویحاول ہو ان یعرض ادلۃ الفلاسفۃ فی صورۃ اکثر قوۃ واشد حجیۃ فلیس یثبت بذالک ادانۃ الغزالی‘‘ (تہافت التہافت۔ صفحہ۸۳) ایک اور جگہ لکھتے ہیں: ’’ابن رشد لاینصب نفسہ مدافعا عن ابن سینا والفارابی وحدہما۔۔۔ وارسطو اغلی علی ابن رشد من الفارابی وابن سینا ، ولذلک حین یختلف الفارابی او ابن سینا مع ارسطو نجد ابن رشد یناصر الغزالی علی الفارابی او ابن سینا لا حبا فی الغزالی، ولکن لان وجہہ وجہہ نظرہ فی ہذہ الحالۃ تتلقی مع ارسطو الذی ہو احب مخلوق الیہ فی عالم الفلسفۃ‘‘ یعنی ’’ہم اس انتظار میں تھے کہ ابن رشد کا جواب پڑھیں گے تو وہ اس میں اپنی جانب سے دلائل دینے کی بجائے بوعلی سینا اور فارابی کے دلائل کی طرف اشارہ کریں گے اور ان کو تقویت دیں گے کیونکہ غزالی کی تنقید انہی دو اشخاص پر ہے (لیکن یہاں معاملہ الٹ ہے)، ابن رشد اس نکتہ سے غافل ہوکر مسلسل اس چکر میں رہتے ہیں کہ بوعلی سینا وغیرہ کے دلائل سے زیادہ قوی دلائل اپنی جانب سے دے کر غزالی کو نیچا دکھائیں، جبکہ یہ ممکن نہیں۔ ابن رشد اپنے جواب میں اپنے آپ کو صرف بوعلی سینا اور فارابی کا وکیل نہیں سمجھتے،ان کے نزدیک فارابی اور ابن سینا سے زیادہ قیمتی ارسطو ہے، لہٰذا جہاں ابن رشد کو فارابی اور ابن سینا کا ارسطو کے ساتھ اختلاف محسوس ہو (کہ انہوں نے اس کے مذہب کی صحیح توجیہ نہیں کی) تو ابن رشد بھی فارابی اور ابن سینا کے خلاف بیان دے کر غزالی کی مدد کرتے رہتے ہیں، اس وجہ سے نہیں کہ انہیں غزالی سے محبت ہے، بلکہ اس وجہ سے کہ فلسفہ کے جہان میں ان کے لیے سب سے زیادہ محبوب مخلوق ارسطو ہی ہے۔‘‘
ابن رشد کا خواہ مخواہ کئی جگہوں پر یہ کہنا کہ یونانی فلاسفہ کی طرف اس کی نسبت درست نہیں اور یہ بوعلی سینا وغیرہ کی غلطی ہے جس کی تردید کرکے غزالی مطمئن ہیں،اپنا مذاق بنوانے والی بات ہے۔ غزالی کو خود بھی معلوم ہے کہ یونانیوں کے ہاں ایسے مسائل میں اختلاف رہا ہے اور انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ ’’مرشد ارسطو‘‘ کے کلام کو سمجھنے میں ان کے ’’مسلم‘‘ عقیدت مندوں کا بھی شدید اختلاف ہے، انہوں نے جان بوجھ کر صرف بوعلی سینا اور فارابی کو مدنظر رکھا ہے کیونکہ ’’مسلم‘‘ فلسفیوں میں ان کی آراء کا جو اثرورسوخ ہے، وہ کسی اور کو حاصل نہیں اور غزالی کا مقصود فلسفیوں ہی کی اصلاح اور انہیں رجوع الی اللہ کے لیے آمادہ کرناہے۔ فرض کرلیا جائے کہ اگر ابن رشد واقعی سچ کہتے ہیں اور جو ابن سینا نے ارسطو کے کلام سے سمجھا ،وہ غلط ہے تو یہ ان کا بوعلی سینا سے اختلاف ہے اور انہیں چاہیے کہ ابنِ سینا کی تصانیف ’’الاشارات‘‘ اور ’’الشفاء‘‘ کا رد لکھیں، اس کے لیے ’’تہافت الفلاسفۃ‘‘ کا جواب لکھنے کی کیا ضرورت پیش آگئی؟ یا پھر اپنے فلسفی بھائیوں کو سمجھائیں جو ابن رشد کی بجائے بوعلی سینا کو ارسطو کا جانشین سمجھتے ہیں۔ غزالی فلسفیوں کی فکری تدقیقات سے غافل نہیں، وہ ان سے واقف ہیں او رانہوں نے ’’تہافت الفلاسفۃ‘‘ سے پہلے ایک تمہیدی کتاب ’’مقاصد الفلاسفۃ‘‘ کے نام سے تحریر کرکے فلسفیوں سے بھی زیادہ اچھے انداز میں فلسفیوں کے مذہب اور فکر کو تفصیل سے اور بغیر کسی تنقید کے بیان کیا ہے۔
ابن رشد کے دلائل خواہ کتنے ہی قوی ہوں، دیکھنا یہ ہے کہ انہوں نے مسلم فلسفیوں اور بوعلی سینا وغیرہ کی طرف سے کتنی وکالت کی ہے اور کتنا کامیاب مقدمہ لڑا ہے؟ تب ہی ان کا جواب ’’جواب‘‘ کہلانے کا مستحق ہوگا۔
(۴)
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ غزالی کے برعکس ابن رشد کا لہجہ نرم ہوتا ہے اور اس نے کہیں بھی غزالی کے لیے ناشائستہ الفاظ استعمال نہیں کیے۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ غزالی کے لہجہ میں کتنی تلخی ہے اور کیوں؟بس ان حضرات کی اطلاع کے لیے اتنا بتانا چاہتے ہیں کہ ابن رشد نے بھی ’’غزالی‘‘ (جو رشتہ میں شاید ابن رشد کے دادا استاد بھی ہیں)کے لیے شریر اور جاہل کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ (صفحہ۱۹۵، ۱۹۶)
(۵)
غزالی کے اٹھائے گئے بعض جزوی نکات پر ابن رشد کی تنقید بجا بھی ہوسکتی ہے، لیکن فی الجملہ یہ سمجھنا کہ انہوں نے ’’مسلم‘‘ فلسفیوں کے سارے داغ دور کر دیے ہیں، اس بات کی دلیل ہے کہ ابن رشد کے ہم نوا اس سے زیادہ اس کے وفادار بننے کی کوشش کررہے ہیں۔ ساری بحث کو ایک طرف رکھ دیجئے ، مجھے اس صرف سوال کا جواب دے دیجئے کہ ابن رشد نے ’’مسلم‘‘ فلسفیوں کی طرف منسوب ہفوات کو کیسے ان سے دور کیا ہے، جن میں سے دینی عقائد پر براہِ راست ضرب لگانے والی دو مثالوں کا ذکر مضمون کی ابتدائی سطور میں ہوچکا ہے؟
(۶)
غزالی کی حمایت سے شاید یہ محسوس ہو کہ انہوں نے فلاسفہ کی تکفیر کا جو فتوی دیا، ہم اس کی بھی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن واضح ہوجائے کہ ایسا نہیں۔ جب تک کسی کا کفر نکلے ہوئے دن کی طرح میرے اپنے سامنے روشن نہ جائے، میرے اندر کسی کے کفرو ایمان کے بارہ میں سوچنے کی بھی ہمت نہیں، مبادا کہ اونچ نیچ ہوجائے اور میری اپنی نجات خطرہ میں پڑ جائے۔ خصوصا فلسفیوں کے بارہ میں جو ہمیشہ گول مول کرکے بات کرتے ہیں، تاویلوں کے چکر میں رہتے ہیں اور خود کہتے ہیں کہ ہم ان باتوں کو کھل کر بیان کرنا درست نہیں سمجھتے۔ مجھے اپنا ایمان زیادہ عزیز ہے۔ میں ان کی ہفوات کو ہفوات محسوس کرتا ہوں، مگر ان کے لفظوں کی لاگ لپیٹ اور نیت کی خیانتوں کو اللہ کریم کے سپرد کرتا ہوں۔ ہاں، غزالی کے بارہ میں اتنا کہا جاسکتا ہے کہ انہیں اپنی ذات کی حد تک شرحِ صدر ہوا ہی ہوگا تو انہوں نے تکفیر کا حوصلہ کیا۔ واللہ اعلم
(۷)
’’تہافت التہافت‘‘ غزالی کی علمی وفکری زندگی کا مطالعہ کرنے کے لیے کوئی واحد آئینہ نہیں اور نہ ہی خود غزالی کی پیروی کا شوق رکھنے والوں کو صرف اس کی حد تک خود کومحدود رکھنا چاہیے۔ غزالی کی زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ آئے جن کو انہوں نے خود غالبا ’’المنقذ من الضلال‘‘ میں بیان کیاہے۔ اسی دوران ان پہ ایک عرصہ مناظرانہ گرما گرمی کا بھی گزرا، تہافۃ الفلاسفۃ شاید اسی دور کی یادگار ہے۔ (تہافت الفلاسفہ۔ صفحہ۵۷) جبکہ ان کی زندگی کا آخری حصہ خانقاہ نشینوں کی صحبت میں ایمانی صفات کو اپنانے کی فکر کرتے ہوئے گذرا۔ ان کی سب سے گراں مایہ کتاب ’’احیاء العلوم‘‘ اسی آخری دور سے تعلق رکھتی ہے۔ (اس نکتہ کی مزید وضاحت کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں)
ابن رشد سے پیار کیوں؟
مذکورہ بالا صورتِ حال کو سامنے رکھتے ہوئے، میں ابن رشد کے مریدوں سے پوچھتا ہوں کہ آخر کس امتیازی خوبی کی بناء پر وہ ابن رشد کے نام سے اپنا رشتہ جوڑتے ہیں؟ کیا محض اس وجہ سے کہ ’’تردیدِ غزالی‘‘ کا ’’سہرا‘‘ ان کے سر ہے؟ مجھے شک ہے کہ ابن رشد کوبطورِ مرشد پیش کرنے والے اس کے چالاک مرید اور غیر مسلم ’’لبرلز‘‘ اس کی جس خوبی سے متاثر ہیں وہ اس کی آزاد خیالی ہے جو تاریخی روایات میں اس سے منسوب کی گئی ہے۔ اگر ابن رشد کو راہ نما بنانا ہے اور اسی ابن رشد کو جو تاریخی روایات کے اندر نظر آتا ہے تو سنئے، وہ قومِ عاد کے وجود کا منکر تھا جس کا ذکر قرآنِ مجید میں ہے۔ (تاریخ فلاسفۃ الاسلام۔ صفحہ۱۴۸)میں نہیں کہتا کہ یہ بات ضرور سچ ہے جو اس سے منسوب کی گئی ہے، ہاں البتہ میں یہ سوچتا ہوں کہ اس کے تاریخی چہرے پر لگے ان جیسے ’’تاریخی داغوں‘‘ کو دھوئے بغیر اس کے تاریخی چہرہ کو مرشد وراہ نما بنانے کی کیا حکمت ہوسکتی ہے؟ ابن رشد کے مرید اس بات کا جواب نہیں دیتے۔ ابن رشد کی ذات ہماری نظر میں ایک معما ہے۔ اس کی زندگی میں بھی اس کی طرف بہت کچھ منسوب ہوا اور اس کی صفائیاں بھی ملتی رہیں۔ مسلم امراء کے ہاں اسے کبھی عزت اور کبھی ذلت نصیب ہوتی رہی۔ (دیکھئے: تاریخ فلاسفۃ الاسلام) اس معمہ کو حل کیے بغیر اس کو راہ نما بنانے سے کیا مقصود ہے؟
بتایا جاتا ہے کہ ابن رشد نے سائنس وفلسفہ کے لیے بہت سی قربانیاں دیں، اس نے جوتے کھائے اور اس پہ تھوکا گیا۔ سوال یہ ہے کہ جس تاریخ میں اس کی یہ ’’قربانیاں‘‘ مذکور ہیں، کیا اسی تاریخ میں وہ ’’سائنسی انکشافات‘‘ مذکور نہیں ہیں جن کی وجہ سے اسے عام مسلمانوں کے غیظ وغضب کا شکار ہونا پڑا؟ یا تو دونوں کو سچ کہئے یا پھر دونوں کو غلط۔اگر بات قربانیوں کی ہے تو سنئے، مسلم معاشرہ سے فلسفہ کے برے اثرات کو رد کرنے کے لیے امام احمد ابن حنبل نے بھی بہت کوڑے کھائے تھے، کیا محض اس بناء پر آپ یونانی فلسفہ کے مضر اثرات کو تسلیم کریں گے؟ اگر ہاں تو پھر غزالی کا قصور کیا ہے؟ انہوں نے انہی مضر اثرات کو ہی تو نشان زد کیا ہے۔ مزید سنئے، خود غزالی کے بارہ میں منقول ہے کہ ان کی بعض کتابیں بعض علاقوں میں جلائی گئیں۔ (طبقات الشافعیۃ۔ جلد۶، صفحہ ۲۵۸) پس فرق کیا ہوا؟ اپنے موقف کے لیے قربانیاں تو سب نے دی ہیں۔
رہنے کا گھر آخرت ہے
اس دنیا کی خوشحالی کے لیے سائنس وٹیکنالوجی کو اختیار کرنا منع نہیں، بلکہ شاید کسی درجہ میں مفید بھی ہے۔ مگر یہ اس قیمت پر نہیں کہ ہم اسلام سے ہی دست بردار ہوجائیں۔قرآن کی نگاہ سے تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ دنیا رہنے کا اصل گھر نہیں، غیر مسلم کی کسی نیکی اور رفاہی کام پر اللہ پاک اسے اس دنیا میں ہی اس کا بدلہ دے دیتے ہیں کیونکہ آخرت کا ابدی گھر اس کے لیے نہیں۔ جبکہ مسلمان کی کسی بدعملی پر اسے دنیا میں ہی سزا دے دی جاتی ہے کہ یہ آخرت کی بڑی سزا سے بچ جائے۔ ایسی صورت میں غیر مسلم دنیا پاکر بھی ناکام اور مسلمان دنیا سے محروم ہوکر بھی اس سے بہتر ہوتے ہیں۔ مغرب کی ’’مادی عزت‘‘ اور مسلمانوں کی ’’مادی کم تری‘‘ اس لیے نہیں کہ اللہ ان سے راضی اور ہم سے ناراض ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ صرف راضی ہوکر ہی نہیں، ناراض ہوکر بھی کچھ دے سکتے ہیں۔آج آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر ہم غزالی کی بجائے ابن رشد کو اپنا راہ نما بناتے تو مغرب کی طرح سائنس میں ترقی کرتے اور ذلت کے یہ دن دیکھنے نہ پڑتے، اگر ہمیں یہ دنیا اور اس کی مادی چکا چوند اتنی ہی عزیز ہے تو خطرہ ہے کہ کل کوئی صاحب اٹھیں گے اور یہ بھی کہیں گے کہ اگر ہم مسلمان کی بجائے کچھ اور ہوتے تو ذلت کے یہ دن نہ دیکھتے۔ اگر ہمیں آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا کی حقیقی عزت بھی چاہیے تو اس کے لیے ہمیں اپنی غلطیوں کا تدارک کرنا ہوگا، جن کی وجہ سے ہم خدا کی مدد اور نیک سمجھ سے محروم ہیں۔ ان میں سے ایک غلطی دنیا پرستی بھی ہے۔ ہماری سب سے قیمتی متاع محمدِ عربی کا کلمہ ہے اور اسی کے ساتھ ہمارا رہنا مرنا ہے۔
استدراک
ہمارے ہاں ’’ماہنامہ ساحل‘‘ (مرحوم) کے وابستگان کا حلقہ سائنس اور سائنسی علوم کی مطلقاً تردید کے حوالہ سے خاصی شہرت رکھتا ہے۔ یہ حضرات اس معاملہ میں غزالی کو اپنا پیش رو اور خود کو ان کا متبع سمجھتے ہیں، ہمیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ اہل مغرب کی طرح یہ حضرات بھی غزالی کوسائنس کی مطلق تردید کے الزام سے ’’متہم‘‘ دیکھنا چاہتے ہیں، حسنِ ظن یہی ہے کہ اس میں ان کے کچھ نیک مقاصد ہوں گے، مگر میں حیران ہوں کہ غزالی خود علومِ حکمیہ (سائنسیہ وفلسفیہ) کو تقسیم کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’میں ان علوم کے صرف چند مخصوص اجزا پر تنقید کا قائل ہوں جو دین سے متصادم ہیں، ان علوم پر مطلقاً تردید کرنا درست نہیں۔‘‘ ان کے بیان کے مطابق ’’پہلے نمبر پہ ان علوم میں کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ ان کے اور دین کے درمیان اختلاف صرف لفظی نوعیت کا ہے، دوسرے نمبر پہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو دین کی کسی اصولی بات سے متصادم نہیں ہیں، مثلا یہ کہ زمین گیند کی طرح گول ہے، آسمان نے اس کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے، وغیرہ وغیرہ تو یہ بھی ہماری بحث سے خارج ہیں کیونکہ دین زمین اور آسمان کے بارہ میں صرف یہ تقاضا کرتا ہے کہ ان کو مخلوق سمجھا جائے، بعد ازاں فی الواقع یہ زمین گول ہو، چٹائی کی طرح بچھی ہوئی ہو، چھ کونوں والی ہو یا آٹھ کونوں والی، اس سے دینی عقائد اور دین کی کسی اصولی بات پہ بہرحال کوئی ضرب نہیں پڑتی، ان امور کی تردید بھی ہمیں مطلوب نہیں، بلکہ اس بارہ میں بعض اوقات سائنسی توجیہات اتنی قطعی ہوتی ہیں کہ ان کا انکار ہی ممکن نہیں ہوتا۔‘‘ ان کی رائے میں ’’ جو آدمی ایسی چیزوں کے اندر بھی ان کے ساتھ دینی جوش وخروش کے ساتھ مناظرہ کرے اور سمجھے کہ یہ دین ہے تو ’’فقد جنی علی الدین وضعف امرہ‘‘ یعنی اس آدمی نے دین کی دوستی میں دراصل دین کے خلاف ایک جرم کا رتکاب کیا ہے اور دین کے مقدمہ کو ہی اس نے کم زور کردیا ہے۔‘‘ مزید کہتے ہیں: ’’تیسرے نمبر پہ کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ دین کی کسی اصولی بات پہ ان کی زد پڑتی ہے، مثلا کائنات کے ابدی ہونے، خالق کی صفات کے تعین اور بعث بعد الموت کے جسمانی صورت میں ہونے کی باتیں جن کا انکار فلسفیوں نے کیا ہے، صرف اور صرف انہی مخصوص مسائل میں ان کے نظریات کی بیخ کنی تک خود کو محدود رکھنا چاہیے۔‘‘ (تہافت الفلاسفۃ۔ صفحہ۷۹۔۸۱) میں حیران ہوں کہ اتنی واضح تصریحات کے بعد سائنس کے ’’مطلق رد‘‘ کا گجرا غزالی کو کیسے پہنایا جاسکتا ہے اور ساحل کا حلقہ یا ابن رشد کے مرید کیسے ان کو دین وسائنس میں ہم آہنگی کے خلاف کہہ سکتے ہیں؟ اس نکتہ پہ کچھ گفتگو مضمون کی ابتداء میں بھی ہوچکی ہے۔ اللہم انی اسئلک حبک وحب من یحبک وحب عمل یقربنی الیک، آمین
مراجع
۱۔مقاصد الفلاسفۃ، امام غزالی، تحقیق: محمود بیجو۔ ط:مطبعۃ ایضاح، دمشق
۲۔تہافت الفلاسفۃ، امام غزالی، تحقیق: ڈاکٹر سلیمان دنیا۔ ط: دار المعارف، مصر
۳۔تہافت التہافت، ابن رشد، تحقیق: ڈاکٹر سلیمان دنیا۔ ط:دار المعارف، مصر
۴۔ہدایۃ الحکمۃ، اثیر الدین ابہری، حواشی:محمد عبیداللہ قندھاری وسعادت حسین، ط: مکتبہ رشیدیہ، کوئٹہ
۵۔طبقات الشافعیۃ، تاج الدین السبکی۔ ط:دار احیاء الکتب العربیۃ
۶۔تاریخ فلاسفۃ الاسلام، لطفی جمعہ، ترجمہ:ڈاکٹر میر ولی محمد۔ ط: نفیس اکیڈمی، کراچی
۷۔مقدمہ ابن خلدون، ترجمہ:مولانا عبدالرحمن دہلوی۔ ط: الفیصل لاہور
۸۔حکمائے اسلام، مولانا عبدالسلام ندوی۔ ط: نیشنل بک فاؤنڈیشن
۹۔علم الکلام، علامہ شبلی نعمانی۔ ط: نفیس اکیڈمی، کراچی
مکاتیب
ادارہ
(۱)
محترم جناب سید متین احمد شاہ صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ۔امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ میں مسلمان عورت کا غیر مسلموں کے ساتھ نکاح کے موضوع پر آپ کا مقالہ پڑھا۔ ماشاء اللہ خوب لکھا ہے ، اگرچہ کہیں کہیں مجھے طرز استدلال سے اختلاف ہے۔ تاہم مقدمات اور نتائج سے مجھے بنیادی طور پر اتفاق ہے۔ آخر میں برادرم جناب عمار خان ناصر کا مکتوب بھی شائع کیا گیا ہے اور مجھے یہ چند سطور لکھنے پر اسی مکتوب نے مجبور کیا ہے کیونکہ اندیشہ یہ ہے کہ کہیں ان کے مکتوب کی وجہ سے آپ کی رائے میں بھی کچھ تبدیلی نہ آگئی ہو۔
عمار بھائی کے مکتوب میں مجھے سب سے دلچسپ بات یہ لگی کہ اس نوعیت کے تعلق کو ’’قطعی طور پر منصوص کہنا ازروئے اصول فقہ کافی مشکل ہے۔‘‘
اولاً : مجھے یہ بالکل بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ ’’قطعی طور پر منصوص‘‘ سے ان کی مراد کیا ہے ؟ جہاں تک ان کے استاد گرامی جناب جاوید احمد غامدی کے "اصول فقہ "کا تعلق ہے ، اس کی رو سے تو قرآن سارا کا سارا ’’قطعی الدلالۃ‘‘ ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اس طرح کے مسائل میں انھیں وہ قطعیت نظر نہیں آتی ؟
ثانیاً : ’’منصوص‘‘ سے ان کی مراد کیا ہے ؟ ان کے مکتبِ فکر کے اصول فقہ میں کیا ظاہر ، نص ، مفسر اور محکم ؛اور اسی طرح خفی ، مشکل ، مجمل اور متشابہ ؛ نام کی تقسیمات مقبول ہیں یا نہیں ؟ بظاہر تو نہیں کیونکہ وہ تو صرف دو ہی اصطلاحات مانتے ہیں : قطعی الدلالۃ اور ظنی الدلالۃ۔ اس لیے ان کے لیے قطعیت (محکم ) اور ظنیت ( متشابہ ) کے درمیان کے چھ مدارج ماننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیا یہ حکم صرف اسی صورت میں ’’منصوص‘‘ ہوتا جب قرآن طعام کی طرح نکاح کے متعلق بھی ’’دو طرفہ‘‘ ممانعت کا ذکر ’’قطعی الفاظ‘‘ میں کرتا ؟ اگر ہاں تو کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہوا کہ قرآن کہیں کہیں قطعی الدلالۃ نہیں ہے؟
ثالثاً : یہ بات بھی حیران کن ہے کہ تحریم کے لیے تو وہ ’’قطعی طور پر منصوص‘‘ ہونا لازمی ٹھہراتے ہیں لیکن یہی شرط وہ تحلیل کے لیے نہیں لگاتے۔اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ جو فقہاے کرام ’’اشیا‘‘ میں اصلاً اباحت کے قائل ہیں، وہ بھی کم از کم نکاح میں اصلاً حرمت کے ہی قائل ہیں ؛ یعنی ان کے اصول فقہ کی رو سے کسی سے نکاح کی حرمت کے لیے نہیں ، بلکہ اس کی حلت کے لیے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے اصولاً تو بارِ ثبوت جناب عمار خان ناصر صاحب پر تھا کہ وہ اس ’’نکاح‘‘ کی حلت کا ’’قطعی طور پر منصوص ہونا‘‘ ثابت کردیتے ؟ یا پھر وہ تصریح کرلیتے کہ ان کے اصول فقہ کی رو سے نکاح میں بھی اصل حکم حلت کا ہے۔
رابعاً : یہیں سے وہ اصل بات نکھر کر سامنے آجاتی ہے جس کی طرف میں آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں ؛اور وہ یہ کہ جب وہ کہتے ہیں کہ ’’ ازروے اصول فقہ‘‘ یہ معاملہ ایسا ہے یا ویسا ہے تو وہ ’’اپنے اصول فقہ‘‘ کی بات کرتے ہیں، نہ کہ حنفی ، شافعی یا کسی اور معروف فقہی مسلک کے اصول کا۔ اگر وہ مثال کے طور پر حنفی اصول فقہ کی روسے یہ بات کررہے ہیں تو یہ بداہتاً غلط ہے کیونکہ حنفی اصول فقہ کی رو سے تو یہ طے شدہ مسئلہ ہے جسے از سر نو کھولا نہیں جاسکتا۔ یہی معاملہ شافعی اصول فقہ کا بھی ہے اور مالکی اصول فقہ کا بھی۔ البتہ ’’غامدی اصول فقہ‘‘ کی روسے ہوسکتا ہے کہ یہ طے شدہ مسئلہ نہ ہو۔
خامساً : اس مکتب فکر کے اصول فقہ کا کچھ اندازہ اس ایک قاعدے سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم میں نکاح کے احکام مردوں کے لیے بیان کیے جاتے ہیں اور عورتوں کا حکم ان سے بالتبع اخذ کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ قاعدہ کلیہ ہے ؟ اگر ہاں تو اس کے دلائل کیا ہیں ؟ پھر کیا دیگر قواعد کی طرح اس سے کچھ مستثنیات بھی ہیں یا نہیں ؟ مثلاً مردوں کو چار شادیوں کی اجازت ہے (خواہ آپ اس جازت پر کتنی ہی قیود عائد کریں ) لیکن عورتوں کو کسی بھی صورت میں ، کسی بھی شرط پر ، دو نکاح کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ مسئلہ زیر بحث کو آپ قاعدے کے تحت لاتے ہیں، نہ کہ استثناء ات میں ؟
اس لیے اگر آپ عمار بھائی سے اس موضوع پر بحث کرنا چاہتے ہیں تو اپنے اصول فقہ کی رو سے نہ کریں کیونکہ یہ اصول تو وہ مانتے ہی نہیں ہیں ؛ اور اگر ان سے ’’ان کے اصول فقہ‘‘ کی روشنی میں بحث کرنے کا ارادہ ہے تو :
اولاً : اس کے لیے آپ کو ان کے اصول فقہ میں مہارت حاصل کرنی ہوگی ؛
ثانیاً : پھر ان کے اصول فقہ کی غلطی واضح کرنی ہوگی ، الا یہ کہ آپ خود ہی ان کے اصول فقہ کے قائل ہوجائیں ؛
ثالثاً: چونکہ ان کے اصول فقہ ابھی پوری طرح منقح اور مدون ہوکر نہیں آئے ، اور ابھی ان کا مکتبِ فکر طفولیت کے عہد میں ہے ، اس لیے ابھی ان کے اصول فقہ خام ہیں اور ان میں اخذ و رد کا سلسلہ بھی جاری ہے؛ انھیں باقاعدہ اصول فقہ بننے میں ابھی بہت وقت لگے گا ؛ آپ خود بھی جانتے ہیں کہ زلف کے سر ہونے تک ، یا قطرے کے گہر بننے تک کتنے مراحل ہوتے ہیں۔ اس لیے ابھی اس عہدِ طفولیت میں ان اصولوں کی بنیاد پر ان سے بحث محض وقت کا ضیاع ہے ، اور اصول کے بغیر ان کی فقہ پر بحث لایعنی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: من حسن اسلام المرء ترکہ ما لایعنیہ۔
باقی رہا ’’مقاصد شریعت‘‘ سے استدلال کرتے ہوئے ’’تیسیر‘‘ کی بنیاد پر شرعی احکام رفع کرنے کا معاملہ تو یہ طرز فکر انتہائی حد تک سنگین نتائج کا حامل ہے اور اس کی وجہ سے شریعت کے ساتھ جس نوعیت کا مذاق شروع ہوگیا ہے اس کا کچھ اندازہ ’’اسلامی بینکاری ‘‘ کے ڈرامے سے لگایا جاسکتا ہے۔ یہ ایک مستقل بحث ہے جسے میں کسی اور وقت کے لیے چھوڑ دیتا ہوں۔ صرف اتنی سی بات عرض کروں گا کہ مسیحی تاریخ کی اس گواہی سے نتائج کا اندازہ لگائیے کہ جب پولس نے ’’ غیر قوموں‘‘ کو مسیحی بنانے کی خاطر ختنے کے حکم سے ان کو مستثنی قرار دینے کا فتوی حاصل کرلیا تو اس کے بعد اس کی تان ٹوٹی اس بات پر کہ شریعت ایک لعنت ہے اور مسیح کی آمد کا مقصد ہی اس لعنت سے لوگوں کو نجات دلانا تھا۔ یوں ’’تیسیر‘‘ اور ’’رفع حرج‘‘ اور لوگوں کو راہِ حق قبول کرنے کی طرف مائل کرنے کے نام پر جب ایک حکم شرعی اٹھا لیا گیا تو پھر وہ سلسلہ کہیں نہیں رکا، بلکہ اس کا اختتام پوری شریعت سے جان چھڑانے پر ہوا۔
محمد مشتاق احمد
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد
’’کہانی کی دنیا‘‘ نئی ڈائری کی متقاضی
پروفیسر شیخ عبد الرشید
ہمارے ہاں عام تاثر یہی ہے کہ ہمارے عہد کے بچے شریر زیادہ اور ذہین کم ہو گئے ہیں ،حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ میرا گمان یہ ہے کہ آج کے عہد کے بچے حقیقی معنوں میں اکیسویں صدی کے بچے ہیں ۔ ان بچوں کی ذہانت، فطانت اور کارکردگی ہی اس گھمبیرتا کا شکار سماج میں جینے کا حوصلہ دیتی ہے۔ ہمارے ہاں ارفع کریم اور ملالہ یوسف زئی جیسے بچوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا عالمی سطح پر منوایا ۔ دہشت، خوف ، فرقہ واریت اور مقلدانہ جاہلیت کے اندھیروں میں یہ قابل فخر بچے ہی ہیں جو روشنی کی کرن اور ہمارے روشن مستقبل کی نوید دکھائی دیتے ہیں۔
گذشتہ روز میرے دوست، عظمت رفتہ کی روایات اور لگن کے حامل استاد برادرم پروفیسر میاں انعام الرحمن جو گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ کے شعبہ ء سیاسیات سے وابستہ ہیں، میرے ہاں آئے ۔ میاں انعام الرحمن ہنس مکھ، خوش گفتار، حلیم الطبع، علمی و ادبی مزاج، تحقیقی و تنقیدی انداز اور اجتہادی فہم و فکر رکھنے والے حسن کردار کا ایسا متوازن نمونہ ہیں کہ ان کی آمد و اقعتامیرے لیے ایسے ہی تھی جیسے چپکے سے ویرانے میں بہار آجائے ۔میں کئی ہفتوں سے اپنے نو سالہ بیٹے عبدالمعید کی علالت کے باعث ہسپتالوں کے چکر لگا کر تھکا تھکا اور مایوس تھا۔ یقین مانیے، میاں انعام الرحمن جیسے پاکباز اور نیک سیرت اور مخلص دوست کی اچانک آمد سے ایسے ہی تھی جیسے بے وجہ بیمار کو قرارآ جائے ۔ دل باغ باغ ہوا تو انہوں نے فوراً اپنا ہاتھ اپنے ہینڈ بیگ کی طرف بڑھایا اور کتاب نکال کر فخریہ مسکراہٹ سے کہا: شیخ صاحب! یہ میری بیٹی کی کتاب ہے ۔ میرا ماتھا ٹھنکا کہ میاں صاحب کے بچے تو ابھی چھوٹے ہیں، پرائمری یا ثانوی سطح کے طالب علم ہیں۔ میں نے بصد شکریہ ان کی گیارہ سالہ بیٹی فاطمہ انعام کی کہانیوں کی کتاب ’’کہانی کی دنیا‘‘ وصول پائی۔
میاں انعام الرحمن خود علمی و ادبی مجلات میں لکھتے ہیں۔ ایک اخبار میں عرصہ تک کالم نگاری بھی کی۔ الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ سے ان کی کتب بھی چھپ کر داد و تحسین وصول کر چکی ہیں ۔ میں یہی توقع کر رہا تھا کہ میاں صاحب کی کوئی نئی کتاب چھپ کر آئی ہو گی، لیکن ان کی بیٹی فاطمہ انعام کی کتاب وصول پا کر زیادہ خوشی ہوئی کہ میاں انعام الرحمن نہ صرف اپنے حصے کا علمی و ادبی کام کر رہے ہیں بلکہ انہوں نے اپنے گھرانے کی علم دوستی کی روایت کو بحسن و خوبی نئی نسل تک کامیابی سے منتقل کر دیا ہے ۔ یہی ایک صالح باپ کی معراج ہے کہ وہ اپنا علمی و فکری اثاثہ بھی اپنے بچوں کو سونپنے میں کامران ٹھہرے۔ میاں انعام الرحمن مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ان کی یہ کامرانی مجھ سمیت بہت سے والدین کے لیے لمحہ فکریہ اور قابل تقلید ہے ۔
’’کہانی کی دنیا‘‘ ایک کتاب نہیں بلکہ میرے لیے ایک نئی دنیا کا دروا کرنے کا ذریعہ تھا۔ ہمارے ہاں عمومی خیال یہ ہے کہ سرکاری سکول نالائق بچوں کا مرکز ہیں جہاں تدریس و تعلیم میں تربیت و تخلیق کا فقدان مثال بن چکا ہے، مگر ننھی گڑیا کی اس کتاب نے میرا یہ مفروضہ بھی غلط ثابت کر دیا ۔ میاں انعام الرحمن سرکاری ملازم ہیں اور اپنے تمام بچوں کو سرکاری سکول میں پڑھا رہے ہیں ۔ میں نے جب بھی انہیں بچوں کو ’’انگریزی میڈیم‘‘ یا ’’برانڈڈ اسکول‘‘ میں داخل کروانے کا مشورہ دیا، وہ ہمیشہ گویا ہوئے کہ اگر میں اور میرے جیسے لوگ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں نہیں بھجوائیں گے تو سرکار اور ریاست پر ہمارا یقین اور کمزور ہوتا رہے گا۔ میاں صاحب کی صاحبزادی فاطمہ انعام گورنمنٹ ایف ڈی اسلامیہ گرلز ہائی اسکول گوجرانوالہ میں کلاس ششم کی طالبہ ہیں۔ سرکاری اسکول ان کی تخلیقیت اور تخلیقی تحریروں کے لیے ذہن تیار کرنے میں رکاوٹ نہیں بنا، بلکہ اس کے تخلیقی حوصلے کو جرات بخشنے کا ذریعہ بنا۔ فاطمہ انعام کی اس کتاب سے سرکاری اسکولوں کے حوالے سے میرے خیالات میں ارتعاش پیدا ہوا ہے۔
کہانی کی دنیا میں کل پینتالیس کہانیاں ہیں۔ فاطمہ انعام نے پہلی کہانی پانچویں جماعت میں لکھی جس پر اس کے علم پرور والد نے اسے ڈائری تحفے میں دی۔ اس سے ننھی کہانی کار کے عزم میں مزید بلندی پیدا ہوئی اور اس نے پانچویں جماعت میں ہی پندرہ کہانیاں لکھ ڈالیں۔ چھٹی جماعت میں اس نے مزید تیس کہانیاں لکھیں او رپھر ڈائری ختم ہو گئی ۔ میاں صاحب کے گھر کا ماحول کتنا ادب دوست ہے اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بڑی بہن کی ڈائری ختم ہونے پر چھوٹی بہن نابغہ رحمن جو جماعت دوم کی طالبہ ہے، اس کی تجویز پر کہانیاں کتابی شکل میں چھاپنے کا فیصلہ ہوا۔
پینتالیس مختصر کہانیوں کے موضوعات میں تنوع نمایاں ہے۔ یہ ہماری روایتی نانی اماں کی محیر العقول ماورائی کہانیاں نہیں ہیں بلکہ موضوعات اور اسلوب عیاں کرتا ہے کہ کہانی کار کا شعور سماجی سطح سے جڑا ہوا ہے جو خوش آئند بات ہے ۔ فاطمہ انعام کا اسلوب اور زبان بچوں کے روز مرہ سے مزین ہے ۔ زبان کا روز مرہ کہانیوں کو دلکش او ر دلچسپ بناتا ہے ۔ سنڈریلا، مکی ماؤس اور Tweety جیسے کئی کردار مستقل ہیں ۔ ایک کردار لے کر مستقل کئی کہانیاں لکھنا ، کہانی نویسی کا مغربی اسٹائل ہے ۔ یہ انداز تحریر بتاتا ہے کہ ہماری ننھی مصنفہ جدید طرز تحریر سے آشنا ہے ۔ یہ اس طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ ہمارے سرکاری سکولوں کے بچے بھی جدید رجحانات سے آگاہ ہیں۔ فاطمہ انعام کی فکر اور تحریر پر ان کے گھر کے علمی ماحول کا اثر بھی صاف دکھائی دیتا ہے ۔
ہمارے ہاں کہانی لکھنے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے ۔ پاکستان میں بچوں کے لیے لکھنے والے بڑے تو ہیں، تاہم بچوں کا کہانیاں لکھنے کی روایت بہت کمزور ہے ۔ اخبارات میں بچوں کے صفحات پر کئی بچوں کی چند کہانیاں تو چھپتی ہیں، لیکن بچوں کی لکھی کہانیوں کو کتابی شکل میں پیش کرنا عام نہیں ہے ۔ فاطمہ انعام کی کہانیوں کی یہ کتاب اس روایت کا اچھا آغاز ہے جس پر وہ مبارکباد اور خراج تحسین کی مستحق ہیں۔ ان کی کہانیاں پڑھنے کے بعد میرے دل سے فوراً نکلا کہ کاش فاطمہ انعام کی ڈائری ابھی ختم نہ ہوتی اور ہمیں مزید کہانیاں پڑھنے کو ملتیں۔
فاطمہ نے اپنے حصے کا کام کیا اور میاں انعام الرحمن نے اسے کتابی شکل میں چھپوا کر کار خیر انجام دیا ہے ۔ کتاب کا انتساب فاطمہ نے اپنی دادو اور حمنہ ماما کے نام کیا ہے ۔ کتاب دیکھ کر بیٹی کی تربیت میں دادو اور حمنہ ماما کا کردار بھی ہم سب کے لیے مثالی ہے ۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ فاطمہ انعام کی تربیت کرنے والے اہل خانہ اور اساتذہ کو اجر عظیم دے اور فاطمہ انعام کے زور قلم میں اور اضافہ کرے ۔ یہ کتاب تمام اسکولوں کی لائبریری میں ہونی چاہیے۔ کتاب کی قیمت صرف 100 روپے ہے۔ ننھے بچوں کے لیے یہ کتاب اچھا تحفہ اور انعام ہے ۔ والدین بھی یہ کتاب اپنے بچوں کو دے کر تخلیق، تحریر، عزم اور حوصلے کی پوری روایت اپنے بچے کے ہاتھ میں تھما سکتے ہیں اور اسے پڑھ کر ان کا بچہ کچھ لکھے تو سمجھ لیجیے کہ ان کا بچہ بھی ڈائری کا تقاضا کر رہا ہے۔
گنٹھیا یا بڑے جوڑوں کا درد
حکیم محمد عمران مغل
اس مرض کو عام طور پر وجع المفاصل بھی کہتے ہیں۔ جوڑوں کے اندر تغیرات سے ان کی اندرونی غشا (جھلی)، ان کے اوتار، عضلات اور جوڑوں کا غلاف متاثر ہو جاتا ہے۔ جوڑوں میں درد کے ساتھ سوزش ہونے لگتی ہے۔ جسمانی درجہ حرارت میں اضافہ ہوا کرتا ہے۔ اسباب میں سردی لگنا، کسی قسم کی موروثی بیماری، نظام انہضام کا نقص، سوزاک اور آتشک کے امراض، چوٹ لگنا یا گرنا، خون میں زہروں کا آ جانا، بعض بخاروں کے اثرات، کثرت شراب نوشی، موسمی تغیرات، نم ناک جگہوں پر آرام کرنا، سخت جسمانی محنت، یورک ایسڈ کی زیادتی، غذائی بے اعتدالی وغیرہ شامل ہیں۔
آتشک کا صحیح علاج نہ ہونے سے خون میں زہریلے مادے بکثرت پیدا ہو کر جوڑوں کو متاثر کرتے ہیں۔ گرمیوں میں سخت ٹھنڈی اشیا کا بار بار استعمال بھی اس کا سبب بن جاتا ہے۔ عموماً اس مرض میں بلغمی مزاج جن کا وزن بڑھ چکا ہے، زیادہ مبتلا دیکھے گئے ہیں۔ خفیف بخار کے ساتھ اکڑاؤ، ورم اور عموماً گھٹنے یا کلائی میں درد کے ساتھ اس تکلیف کا اظہار دیکھا گیا ہے۔ قبض کی شکایت عموماً جوانی سے رہتی ہے۔ ہاضمہ خراب، پیشاب تیز رنگ کا اور پسینہ بدبودار ہوتا ہے۔ نیند کی کمی بھی ہو جاتی ہے۔ بعض دفعہ متاثرہ مقام پر کپڑا لگ جانے سے بھی بے پناہ تکلیف کا احساس ہوتا ہے۔ کبھی اس مرض کے ساتھ سوزاک کا حملہ بھی ہو جاتا ہے، اسی لیے اس کو سوزاکی گنٹھیا کہتے ہیں۔ آج کل سوزاکی گنٹھیا اپنی انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔ اکثر مریضوں کو سوزاکی گنٹھیا ہوتا ہے، مگر لاعلمی برتی جاتی ہے۔ مرطوب آب وہوا میں گزر بسر کرنے والوں کو یہ مرض موروثی ہوا کرتا ہے۔
پرہیز: چاول، گوبھی، آلو، گوشت تمام اقسام ترک کر دیں، خصوصاً فارمی مرغ بالکل استعمال نہ کریں۔ تمام بادی، کھٹی اور باسی اشیاء سے مکمل پرہیز رکھیں۔ کالے چنے اور ان کا شوربا جتنا ہو سکے، استعمال کریں۔
ہو الشافی: معجون سورنجاں پانچ گرام صبح شام کھانے کے بعد لیں۔ ہمدرد دواخانہ کی اوجاعی صبح دوپہر شام ایک ایک قرص تازہ پانی کے ساتھ استعمال کریں۔ ہمدرد کے روغن سورنجاں سے متاثرہ مقام پر مالش کریں۔ کھانے کے بعد جوارش جالینوس پانچ گرام تازہ پانی کے ساتھ لیں۔
اپریل ۲۰۱۴ء
اسکولوں میں عربی زبان کو لازم قرار دینے کا فیصلہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف خان نے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں قرآن کریم کے حفاظ میں انعامات کی تقسیم کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یہ خوش خبری دی ہے کہ اسرکاری سکولوں میں میٹرک تک عربی زبان کو لازمی قرار دیا جا رہا ہے جس کے لیے اصولی فیصلہ ہو چکا ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے عربی زبان کی تعلیم کی ضرورت ہے اور ہمارے ہاں اس سلسلہ میں مسلسل بے پروائی سے کام لیا جاتا رہا ہے۔ مگر اب حکومت نے اس طرف توجہ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے اور میٹرک تک عربی تعلیمی کو لازم کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
عربی زبان ہماری دینی زبان ہے اور صرف قرآن کریم سے واقفیت کے لیے نہیں بلکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ و سنت تک براہ راست رسائی اور امت مسلمہ کے ماضی کے علمی ذخیرہ سے آگاہی کے لیے بھی عربی زبان بنیادی ضرورت کی حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد سے ہی جب کہ اس کی ضرورت اسی وقت سے محسوس کی جا رہی ہے، اس سے بے اعتنائی کا رویہ جاری ہے اور بار بار توجہ دلانے کے باوجود حکومتی حلقے اس کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔
عربی زبان کی اہمیت و ضرورت تو اپنے مقام پر مگر ہماری رولنگ کلاس کا حال یہ ہے کہ قرآن کریم ناظرہ کی تعلیم کو بھی ابھی تک ہمارے سرکاری تعلیمی نصاب و نظام میں ضرورت کا درجہ نہیں دیا جا سکا۔ کچھ عرصہ قبل وفاقی محتسب اعلیٰ نے باقاعدہ آرڈر دیا تھا کہ سرکاری سکولوں میں مڈل تک قرآن کریم ناظرہ کی تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے۔ مگر یہ آرڈر کم از کم دو عشرے گزر جانے کے باوجود عملدرآمد کے مرحلہ میں داخل نہیں ہو سکا۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ ملک بھر میں پرائمری اور مڈل سکولوں کی تعداد کو سامنے رکھتے ہوئے ان میں سے ہر سکول کو کم از کم دو قاری مہیا کرنے کے لیے بھی قراء کرام موجود نہیں ہیں۔ اور اگر اتنی تعداد میں قاری حضرات میسر آبھی جائیں تو ان کی تنخواہوں کے لیے بجٹ میں رقم کا بندوبست نہیں ہے۔ یہ کہہ کر پرائمری اور مڈل سکولوں میں قرآن کریم ناظرہ کی تعلیم کا اہتمام کرنے سے انکار کر دیا گیا تھا اور اب بھی اس کے کوئی امکانات دکھائی نہیں دے رہے۔ حالانکہ ایک مسلم ریاست میں دینی تعلیم کا یہ بالکل ابتدائی لیول ہے کہ ایک مسلمان بچہ یا بچی کم از کم قرآن کریم ناظرہ پڑھنے کی استطاعت رکھتے ہوں۔
دوسری طرف جو دینی مدارس اتنی بڑی قومی ضرورت کو پورا کرنے میں اپنا کردار مؤثر طریقہ سے ادا کر رہے ہیں، وہ ہر دور میں حکومتوں کی منفی پالیسیوں کی زد میں رہتے ہیں اور ہر حکومت انہیں دباؤ میں رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ حالانکہ پرائمری اور مڈل سکولوں سے کہیں زیادہ تعداد میں موجود مساجد اور مدارس کو قرآن کریم پڑھانے والے حافظ اور قاری صاحبان مہیا کرنے کی خدمت یہی دینی مدارس سر انجام دے رہے ہیں اور وہ حکومت سے کسی بجٹ کا تقاضا بھی نہیں کر رہے۔ تھوڑی دیر کے لیے اس صورت حال پر ایک نظر ڈالنے کی زحمت کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دینی مدارس ہمارے معاشرے میں مسجد و مدرسہ کا نظام قائم رکھنے کے لیے حافظ، قاری، خطیب، امام، مدرس اور مفتی جتنی تعداد میں مہیا کر رہے ہیں، وہ پرائیویٹ سیکٹر میں فی الواقع حیرت انگیز بات ہے۔ مگر اس کا اعتراف اور تحسین کرنے کی بجائے مختلف حوالوں سے دینی مدارس کی کردار کشی اور ان کے خلاف منفی پروپیگنڈے کے ساتھ ساتھ ان کے کردار کو محدود بلکہ غیر مؤثر کرنے کی سرکاری پالیسیاں وقفے وقفے کے ساتھ سامنے آتی رہتی ہیں اور اب بھی قومی سلامتی پالیسی کے عنوان سے ان کا اعادہ کیا جا رہا ہے۔
یہ بات ہم نے اس لیے عرض کی ہے کہ سردار محمد یوسف خان محترم عربی زبان کو میٹرک تک لازم قرار دینے کی جو خوش خبری دے رہے ہیں وہ لائق تحسین ہے۔ لیکن اس سے پہلے اس بات کی ضرورت ہے کہ سرکاری اسکولوں میں کم از کم قرآن کریم ناظرہ کی تعلیم کا تو اہتمام کیا جائے اور اس کے لیے کسی نئی پالیسی کی ضرورت نہیں بلکہ وفاقی محتسب اعلیٰ کے اس حکم پر عملدرآمد کی کوئی صورت نکال لی جائے جو برس ہا برس سے معطل پڑا ہے۔ عربی زبان صرف ہماری دینی زبان نہیں بلکہ آج کی زندہ اور مروجہ بین الاقوامی زبانوں میں بھی اہم مقام رکھتی ہے اور بیسیوں ممالک کی قومی زبان ہے جن کے ساتھ ہمارے برادرانہ تعلقات ہیں اور جن ممالک میں پاکستان کی افرادی قوت روزگار کے لیے لاکھوں کی تعداد میں ہر وقت موجود رہتی ہے۔ ہمیں سردار محمد یوسف خان کے اس ارشاد سے سو فی صد اتفاق ہے کہ اگر ہمارے ہاں عربی زبان کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے آغاز سے ہی اس کی ضرورت تعلیم کا اہتمام ہو جاتا تو ہمیں بہت سے الجھے ہوئے مسائل سے نجات مل سکتی تھی اور اب بھی عربی زبان کو اس کا صحیح مقام دے کر ان الجھنوں سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہماری اسٹیبلشمنٹ اور رولنگ کلاس ایسا ہونے دے گی؟ اگر قومی پالیسیوں کے فریزر کا دروازہ کھولا جائے تو اس میں سپریم کورٹ آف پاکستان، اسلامی نظریاتی کونسل، وفاقی شرعی عدالت، وفاقی محتسب اعلیٰ، بلکہ حکومتوں کے بڑے بڑے اچھے فیصلے منجمد ملیں گے جو اصولی طور پر کر لیے گئے تھے اور ان پر عمل کا اعلان بھی کر دیا گیا تھا مگر آج تک وہ حکومتوں کی توجہ کے طلب گار ہیں۔
ہماری حالت یہ ہے کہ ہم فیصلہ کرنے میں بخل نہیں کرتے اور دینی ضرورت اور قومی مفاد کے لیے بہتر سے بہتر فیصلہ کرنے میں ہم پوری مہارت رکھتے ہیں لیکن خود اپنے کیے ہوئے فیصلوں پر عملدرآمد ہمارے لیے مشکل ہو جاتا ہے اور اندرونی و بیرونی مشکلات ہر اچھے کام کی طرف پیش رفت میں ہمارے پاؤں کی زنجیریں بن جاتی ہیں۔ اس لیے فیصلوں سے زیادہ ان پر عمل درآمد کے نظام کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ سردار محمد یوسف خان ایک محترم، شریف النفس، عوامی خدمت گار اور نظریاتی شخصیت کا تعارف رکھتے ہیں۔ ہم ان کے اس اعلان کا خیر مقدم کرتے ہیں اور ایک اچھے فیصلے پر حکومت کو مبارک باد دیتے ہوئے یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اچھے فیصلے کرتے ہوئے ان پر عملدرآمد کے نظام کی اصلاح کی طرف بھی توجہ دیں کہ اصل ضرورت اسی کی ہے۔
مطالعہ سیرتؐ کے روایتی اور غیر روایتی پہلو
ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی
(۸ مارچ ۲۰۱۴ء کو الشریعہ اکادمی میں علماء و طلبہ کی نشست سے خطاب۔)
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم۔
حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب اور دیگر حضرات علماء اور معزز سامعین!
میرے لیے خوش قسمتی کی بات ہے کہ پاکستان آنے کے بعد مجھے مسلسل آپ حضرات سے رابطے اور اپنی باتیں اور معروضات پیش کرنے کا موقع ملتا ہے، سعادت ملتی ہے۔
سیرت نبویؐ بنیادی طور پر اس خاکسار کا حوالہ بن گئی ہے کہ عام طور پر اسی موضوع پر کام کرنے کا موقع ملتا ہے۔ جدید دور میں جتنے کام اس وقت ہو رہے ہیں، بلا تکلف یہ عرض کر سکتا ہوں کہ پاکستان میں اس کی مختلف جہات پر بہت عمدہ، اچھا اور وسیع کام ہو رہا ہے۔ اردو میں جتنا کام اس وقت پاکستان میں ہوا ہے، وہ دوسرے مقامات پر نہیں ہو سکا۔ ایک تجزیے کے مطابق عربی میں اتنا اچھا کام ابھی تک نہیں ہو پایا ہے جتنا یہاں مختلف جہتوں سے سیرت پر ہوتا رہا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ سیرت ایک وسیع اور ہمہ گیر موضوع ہے جس میں بہت سی چیزیں آجاتی ہیں۔ ایک طرف سیرت نبوی کا تعلق قرآن مجید سے ہے، دوسری طرف حدیث مبارکہ سے ہے، تیسری طرف سماجیات اور تاریخ سے ہے، چوتھی طرف علوم و فنون سے ہے۔ ایسی بہت سی جہات تلاش کی جا سکتی ہیں اور ان پر گفتگو کی جا سکتی ہے۔ اب اصل مسئلہ یہ ہے کہ سیرت نگاری کا طریقہ یا سیرت کا مطالعہ کیسا ہو؟ ایک طریقہ ہمارے ہاں اب تک چلا آرہا ہے کہ ہم بیانیہ انداز میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح ولادت سے لے کر وفات تک مکی اور مدنی ادوار میں تقسیم کر کے اس کو پڑھتے ہیں اور وہ ایک تاریخی بیانیہ ہوتا ہے۔ یہ تاریخی بیانیہ عام طور پر اب لکیر کا فقیر ہوگیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امامین ہمامین ابن اسحاقؒ اور ابن ہشامؒ نے جو طرز قائم کر دیا تھا، اس کی پیروی ہمیشہ کی جاتی رہی۔ علامہ شبلیؒ نے جب سیرۃ نبوی کا خاکہ مرتب کیا اور کتاب لکھی تو جلد اول خالصتاً اسی Pattern (طرز) پر لکھی اور اس کے بعد جتنی سنجیدہ کتابیں آئیں اور اضافہ کرنے والی بھی بنیں وہ اسی پیٹرن پر لکھی گئیں، اور وہ جو بیانیہ Historical Narrative تھا، وہ ہمیشہ برقرار رہا۔
مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ کی کتاب ’’سیرۃ المصطفیٰ‘‘ ہو، مولانا مودودیؒ کی ’’سیرت سرورِ عالم‘‘ ہو، مولانا عبدالرؤف دانا پوری کی ’’اصح السیر‘‘ ہو، یا ان کے علاوہ جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں تو وہ بیانیہ انداز میں چلتی ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت، رضاعت، بچپن، لڑکپن، نوجوانی، قبل بعثت کی زندگی، بعد بعثت کی زندگی، نبوت، تبلیغ، خفیہ تبلیغ کا زمانہ، علانیہ تبلیغ کا زمانہ، مظالم قریش۔ اس طرح کے سارے بیانات و عنوانات کو ملا کر دیکھیں، آپ کو یکساں ملیں گے۔ اب اس میں بعد کے لوگوں نے کیا اضافے کیے؟ وہ اضافے صرف یہ ہوئے کہ لوگوں نے کچھ دوسرے ماخذ سے چند روایتیں بڑھا دیں۔ حدیث سے کہیں اضافہ کر دیا۔ شبلیؒ سے غلطی ہوئی تھی تو اس کی تصحیح اور تنقیح کر دی۔ دوسرے علماء کرام نے جب دیکھا کہ شبلیؒ پہ تنقید ہو رہی ہے تو انہوں نے تنقید کے جواب میں تنقید لکھ دی، دوسرے مکتب فکر والوں نے کچھ اور اضافے کر دیے۔ اس طرح سیرت کا ایک اسلوب چل پڑا، وہی روایتی۔ اب اسی طریقے کو اختیار کیا جائے گا تو بہت دنوں تک کوئی اضافہ قابل قدر اس میں نہیں کیا جا سکتا۔ اصل طریقہ کیا ہے ہمارے روایتی علماء کا یا سیرت نگاروں کا؟ چاہے اس میں یونیورسٹی کے دانشور ہوں یا پروفیسر اہل قلم ہوں، ان سب کا طریقہ یہی ہوتا ہے کہ دو چار کتابوں کو سامنے رکھ کے ایک اور کتاب لکھ دیتے ہیں۔ کہیں کہیں اضافے کر دیتے ہیں، جو غلطیاں ہوگئی ہوں ان کی اصلاح کر دیتے ہیں، بعض مآخذ کے حوالے دے دیتے ہیں۔ لیکن اس میں بنیادی فرق نہیں ہوتا۔
اصل میں مغربی دنیا کے لوگوں نے جو چلن نکالا ہے، وہ ہم کو اختیار کرنا چاہیے۔ موضوعاتی اسٹڈی آف ہسٹری ہونی چاہیے۔ یعنی موضوعاتی اعتبار سے، تحلیل و تجزیہ کی بنیاد پر سیرت کی اسٹڈی ہوگی تو نئی نئی جہتیں سامنے آئیں گی اور پھر نئی نئی چیزیں نکلتی جائیں گی۔ اور مآخذ میں جو روایتی مآخذ ہیں ابن اسحاقؒ ، ابن ہشامؒ ، واقدیؒ ، ابن سعدؒ اور طبریؒ ، ان روایات کو چھوڑ کر یا ان سے استفادہ کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے غیر روایتی مآخذ سے بھی ہم کو بہت سی چیزیں مل سکتی ہیں اور بڑی قیمتی معلومات ملتی ہیں۔ شہروں پر کتابیں ہیں، مکہ اور مدینہ کی تاریخوں پر، ازرقی اور سمہودیؒ کی کتابیں ہیں۔ اسی طرح سے دوسرے شہروں کی تاریخیں ہیں، تاریخ بغداد ہے، تاریخ دمشق ابن عساکرؒ کی ہے، اسی طرح بہت سے شہروں کی تاریخیں ہیں جن میں ہمارے لیے بہت سا مواد ہے، اس کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس سے نئی نئی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔
دوسرے اور بھی مآخذ ہیں جس میں فہرست نگاری ہے، مثلاً محمد ابن حبیب بغدادی کی کتاب المحبر اور المنمق فی اخبار قریش۔ ان میں فہرستیں ہیں جن میں تفصیلات ملتی ہیں کہ مثلاً عہد نبوی میں یا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے قبل، بعثت کے زمانے میں یا بعد میں خلافت راشدہ، خلافت امویہ کے زمانے میں کون کون سے لوگ مطعمون میں شامل تھے، کھانا کھلانے والے تھے ، کون لوگ جوادون میں تھے۔ ایسے لوگ جنہوں نے مکی و مدنی زندگی میں ایسے غلط کام کیے تھے جنہیں دین حنیف تسلیم نہیں کرتا تھا، جیسے نکاح الوقت کا معاملہ ہے۔ ایسے کون لوگ تھے جنہوں نے بعثت سے پہلے جاہلیت کے زمانے میں دین حنیفی کو پوری طرح سے سمجھا تھا اور اس کی پابندی کی تھی، قدر دانی کی تھی۔ شراب نوشی نہیں کی، بت پرستی نہیں کی، دین حنیف کو قائم رکھنے کی کوشش کی۔ ایسے کون سے لوگ تھے جنہوں نے تاریخ کے دھارے کو بدلنے کی کوشش کی تھی۔ تو ایسی تمام فہرستیں موجود ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کی فہرستیں ہیں۔ صحابہؓ کے مختلف طبقات کیے گئے ہیں، ان کی فہرستیں ہیں۔ ان میں بنیادی جو چیز ہے وہ معاشرتی اور سماجی تفصیل ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کن لوگوں کے سماجی پیشے (Economic Professions) کیا تھے۔ تو اس میں ساری تفصیلات ہمارے پاس ہیں کہ کون لوگ گیہوں کی تجارت کرتے تھے، کتنے لوگ ایسے تھے جو تیل کی تجارت کرتے تھے، اور مختلف حضرات سبزی اور دوسری چیزوں کی تجارت کرتے تھے۔ یہ تجارتی Classification (تقسیم کار) ہے، یہ بہت دلچسپ اور بہت اہم ہے۔ اس میں سماج کا ایک بڑا طبقہ شامل تھا۔
پیشے کے علاوہ صنعت اور حرفت کے کچھ مسائل ہیں۔ ان علاقوں کا ذکر ہے جہاں مختلف چیزیں پیدا ہوتی تھیں، ان کو لایا جاتا تھا۔ ثقیف اور طائف کے بارے میں پوری پوری کتابیں لکھی گئی ہیں۔ اتفاق سے وہ کتابیں عام لائبریریوں میں نہیں ملتیں، لیکن بہرحال چھپ گئی ہیں اور موجود ہیں۔ تو ثقیف کے بارے میں ہماری معلومات بہت زیادہ ہو جاتی ہیں۔ طائف کے بارے میں، ہمارا عام طور سے خیال ہوتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طائف اور ثقیف سے تعلق بالکل معمولی تھا، بعد کے زمانے میں قائم ہوا۔ حالانکہ رضاعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت حلیمہ سعدیہ کے گھر میں اور وطن میں ہوئی تھی اور وہاں سے پانچ سال یا دو سال کے بعد آپ واپس تشریف لے آئے۔ اس میں یہ بحث بڑی اہم ہے کہ آپؐ نے حضرت حلیمہ سعدیہ کے یہاں رضاعت کا کتنا زمانہ گزارا، دو برس یا پانچ برس؟ یہ بہت اہم چیزیں ہیں جن کی ہم تحقیق کر سکتے ہیں۔ لیکن آپ اس کے بعد واپس جب تشریف لائے تو کیا طائف کے سفر پر نبوت کے دسویں سال حضرت خدیجہ اور ابو طالب کی وفات کے بعد ہی آپ تشریف لے گئے؟ اس کے دوران آپ کا کوئی تعلق نہیں رہا یا ثقیف کے لوگوں کا اور قریش کے لوگوں کا کوئی تعلق نہیں رہا؟ یہ تصور اصل میں ہمارے ہاں معلومات کے خلا کی وجہ سے آیا ہے۔ اس سب کو نسب کی کتابوں سے اور شہروں کی تواریخ سے اور جو روایتی مآخذ ہیں ابن اسحاق، ابن ہشام، واقدی اور بلاذری، ان کتابوں سے پر کیا جا سکتا ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اور اکابر صحابہؓ کا ان سے پہلے اکابر قریش کا ثقیف سے مسلسل رابطہ تھا۔ ہر طرح کے تعلقات تھے۔ سماجی، معاشرتی، سیاسی، تجارتی، دینی، ہر طرح کے تعلقات تھے۔
مثلاً آپ اس لائبریری میں بیٹھے ہیں، اس کے حوالے سے ایک بات کہوں۔ عرب میں ایک شخص تھے جنہوں نے اس زمانے میں ایک لائبریری قائم کر رکھی تھی۔ ان کا نام تھا امیہ بن ابی الصلت ثقفیبہت مشہور شاعر ہیں۔ وہ تاجر بھی تھے، کوئی دلچسپ چیز دیکھتے تو خرید لیتے۔ حضرت ابو سفیانؓ کے دوست تھے، شریک تھے، ندیم تھے، ساتھ مل کے تجارت کرتے تھے۔ وہ بصریٰ اور شام کے مختلف شہروں میں جاتے تھے، انہیں لکھنے پڑھنے کا بڑا شوق تھا۔ بہت بڑے شاعر تھے اور توحید پر مبنی اشعار اُن کے ملتے ہیں۔ ان کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان تھا کہ ان کا شعر اسلام لا چکا تھا اور بلا شبہ آپ نے ان کے اشعار سنے بھی تھے۔ ان کے اشعار پر بہت کام بھی ہو چکا ہے۔ امیہ بن ابی الصلت کا خیال یہ بھی تھا کہ جس نبی آخر الزمان کے آنے کا وقت ہوگیا ہے تو شاید وہی منتخب کیے جائیں۔ چنانچہ وہ جناب رسول اللہ صلی علیہ وسلم کو مکے میں ملنے کے لیے ائے تھے، لیکن جب آپ کے اعلان رسالت کی خبر سنی تو ان کا دل ٹوٹ گیا اور وہ نہیں آئے۔ یہ سوچنے کی سب باتیں ہیں جو آدمی سوچ سکتا ہے۔ یہ ایک بہت دلچسپ بات ان کے بارے میں ملتی ہے کہ ابو سفیان کے ساتھ جب سفر پر جاتے تھے تو تجارت کے علاوہ صومعوں میں، گرجاؤں میں، یہودیوں کی عبادت گاہوں میں، مختلف جگہوں میں چلے جاتے تھے، وہاں کتابیں نکال کے جمع کرتے تھے، پڑھتے تھے اور بہت سی چیزیں لے کے آتے تھے۔ ابو سفیان اکثر و بیشتر ان پر طنز کرتے تھے کہ آپ تجارت کے لیے آئے ہیں یا یہاں کتابیں پڑھنے کے لیے آئے ہیں۔ تو بہت سی کتابیں تلاش کر کے لاتے تھے اور طائف میں انہوں نے اپنی ایک لائبریری بنائی ہوئی تھی۔
چونکہ ہم روایتی مآخذ کے علاوہ دوسری روایتوں کا تجزیہ نہیں کرتے، اس لیے ہماری معلومات ادھوری رہ جاتی ہیں۔ مثلاً کتاب المحبر اور المنمق اور بہت سی دوسری کتابیں، ان کتابوں کی بنیاد پر عہد نبوی میں تجارت اور جاہلی دور میں تجارت پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے، بلکہ کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ تجارت کا وہاں ایک مسئلہ یہ تھا کہ اکثر و بیشتر ایک دوسرے کے شریک ہوتے تھے جنہیں ندیم کہا جاتا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شریک تجارت کا ذکر ملتا ہے، جاہلی دور میں آپ کے شریک تجارت رہے تھے۔
ایک فہرست بغدادی نے کتاب المحبر اور المنمق میں دی ہے۔ اس کے شروع میں انہوں نے عبد المطلب بن ہاشم اور ان کے شریک تجارت حرب بن امیہ اموی کو بیان کیا ہے۔ آخر میں ایک مسئلے پر دونوں میں اختلاف پیدا ہوا، وہ اختلاف بھی تجارتی تھا۔ وہ اختلاف یہ تھا کہ عبد المطلب کے جوار میں، پناہ میں ایک یہودی تاجر تھا جو بازاروں میں ان کے مال سے تجارت کیا کرتا تھا۔ وہ کسی وجہ سے حرب بن امیہ کو پسند نہیں کرتا تھا۔ چنانچہ وہ بار بار عبد المطلب پر دباؤ ڈالتے تھے کہ اس کو بازار سے اٹھا دیا جائے۔ لیکن جب وہ نہیں مانے تو لوگوں کو اس کے خلاف بھڑکا دیا اور لوگوں نے اس یہودی تاجر کو قتل کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عبد المطلب نے اپنے رشتہ دار سے جو شریک تجارت بھی تھے، خاندانی رشتے اور قرابت داری بھی تھی، فوری طور پر مطالبہ کیا کہ اس کی دیت دی جائے ورنہ ہمارے تمہارے تعلقات ختم ہو جائیں گے۔ دیت دینے سے انہوں نے انکار کر دیا۔ نتیجتاً آپ نے جو تجارتی معاہدہ کیا تھا، اسے توڑ دیا اور عبد اللہ بن حزام تیمی سے اپنا تجارتی تعلق قائم کر لیا۔
آپ اس فہرست کو دیکھیں اور اس کا موازنہ کریں تو تمام اکابر قریش، تمام اکابر صحابہؓ ایک دوسرے کے تجارتی ندیم نظر آئیں گے۔ ایک طرف اموی ہاشمی ہیں، ایک طرف مخزومی ہیں۔ مخزومیوں کا اور ہاشمیوں کا آپس میں تعلق بڑا عجیب و غریب نظر آئے گا۔ یہ کہانی آپ نے عام طور پر سنی ہوگی، کتابوں میں عام طور سے سنائی جاتی ہے کہ بنو امیہ اور بنو ہاشم میں شروع سے ہی اختلاف چلا آرہا تھا اور رقابت تھی، دشمنی تھی۔ لیکن یہ بات غلط ثابت ہوتی ہے، اس لیے کہ کم سے کم تیس چالیس شادیاں تو دونوں خاندانوں میں اس زمانے کی موجود ہیں۔ تجارتی تعلقات موجود ہیں، مضاربت کے تعلقات ہیں، ندیمی کے تعلقات ہیں، سماجی تعلقات ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے تعلقات ملتے ہیں۔ ایک بات اور بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ بنو ہاشم، بنو عبد شمس یعنی بنو امیہ، بنو نوفل اور بنو عبد المطلب، یہ چار خاندان تھے جن کو بنو عبد مناف کے بڑے نام سے جانا جاتا تھا اور ہمیشہ ان چاروں خاندانوں کا مجموعہ ان کا بزرگ خاندان بنو عبد مناف تھا۔ یہ عہد نبوی میں بھی تھا اور بعد میں بھی تھا۔ ابن اسحاق نے بھی لکھا ہے اور دوسرے تمام لوگوں نے بھی لکھا ہے کہ جب بنو عبد مناف کا بنو مخزوم سے یا قریش کے کسی بھی دوسرے خاندان کے سامنے کوئی معاملہ ہوتا تھا تو بنو عبد مناف کے یہ چاروں خاندان ایک طرف ہوتے تھے، متحدہ محاذ بنا لیتے تھے، اور دوسروں کے مقابلے میں ایک خاندان کی حیثیت سے پیش آتے تھے۔ ایسے معاشرتی تعلقات پر گفتگو کی جا سکتی ہے۔
ایک دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ان خاندانوں، بنو عامر بن لوی ہوں یا بنو مخزوم ہوں یا دوسرے لوگ ہوں، آپس میں ان کے سماجی اور معاشرتی تعلقات تھے۔ ہمارے ہاں صورت حال یہ ہوتی ہے کہ اگر ہمیں کسی سے اختلاف ہے کسی وجہ سے تو سلام دعا بھی بند ہو جاتی ہے۔ لیکن وہاں صورت حال بالکل مختلف تھی۔ اس سے پہلے کے سماجی تعلقات، معاشرتی تعلقات اسلام لانے کے بعد بھی خراب نہیں ہوتے تھے ، ان میں دراڑ نہیں پڑتی تھی۔ اختلاف ہوتا تھا لیکن اس کے باوجود بھی معاشرتی سطح پر اسے قائم رکھنے کی کوشش کی جاتی تھی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ہدایت بھی فرمائی تھی۔ آپ نے کبھی سوچا یا کبھی آپ کے خیال میں یہ آیا کہ ابو جہل مخزومی جسے ہم فرعون امت کہتے ہیں اور ہر وقت لعن طعن کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بلا شبہ اس نے مخالفت شدید ترین کی تھی، لیکن جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تنہائی میں ملتا تھا تو مصافحہ کرتا تھا اور اس کے بعد آپؐ بھی اس سے مصافحہ فرماتے تھے؟ اس لیے داعی کا بنیادی طور پر کام یہ نہیں ہوتا کہ وہ کسی سے نفرت کرے۔ اگر وہ کسی شخص سے نفرت کرے گا تو دعوت کا کام نہیں کر سکے گا۔ کسی صحابیؓ نے کہا کہ وہ تو مخالفت کرتا تھا، دوسرے بھی مخالفت کرتے تھے تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کس نے نہیں کی؟ سوائے ایک دو کے سب نے مخالفت کی۔ حضرت عمرؓ تو قتل کرنے کے درپے ہوگئے تھے، دوسرے لوگوں نے بھی کچھ کم کام نہیں کیے تھے۔ لیکن بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں معاف کر دیا تھا اور ان کا اسلام قبول کر لیا تھا۔ اس لیے کہ آپ کا کام تھا دلوں کا جیتنا۔ ان کو زیر کرنا، شکست دینا، ان کو فنا کر دینا آپ کا کام نہیں تھا۔ منٹگمری واٹ نے بڑی خوبصورت بات لکھی ہے:
The policy of the prophet Muhammad (saw) was to win the hearts of the people, not to crush them.
(پیغمبر محمدؐ کی پالیسی یہ تھی کہ لوگوں کے دل جیتے جائیں نہ کہ انہیں توڑا جائے)
یہ بنیادی چیز ہے کہ آپؐ کا نبوت سے پہلے کا معاملہ ہو یا نبوت کے بعد کا، مکی دور کا ہو یا مدنی دور کا، آپؐ نے کبھی بھی کسی شخص کو فنا کرنے کی، اپنے دشمنوں کو تہس نہس کرنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ ان کو جیتنے کی کوشش کی۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب نے پوری تفصیل سے اعداد و شمار دیے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سالہ جنگوں میں کتنے لوگ مقتول ہوئے تھے، کتنے زخمی ہوئے تھے۔ صرف دو سو اٹھارہ آدمی مارے گئے تھے کل غزوات میں۔ فتح مکہ ہوگیا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب کے سامنے موجود تھے۔ سب کی گردنیں جھکی ہوئی تھیں، خطرہ تھا کہ نجانے کیا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تمہارا کیا خیال ہے، میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں گا؟ تو لوگوں نے کیا کہا؟ یہی تو کہا تھا کہ آپ کریم ابن کریم ہیں۔ آپ ہمارے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو ایک کریم کو زیب دیتا ہے۔ آپ نے فرمایا، جاؤ، انتم الطلقاء، تم سب کے سب آزاد ہو۔ یہ وہ صورت حال تھی جو سمجھنے کی ہے۔ آپؐ کو لوگوں کو ختم کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا تھا، نہ آپ کی زندگی میں کبھی یہ پالیسی رہی تھی۔ آپ لوگوں کے گھروں میں جاتے تھے، کافروں کے گھروں میں کھانا کھاتے تھے، ان کے ساتھ رہتے تھے۔ ان کی دعوتیں کرتے تھے، ان کی دعوتیں قبول فرماتے تھے، ان کے ساتھ سلوک کرتے تھے۔
امیہ بن خلف کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت زبردست دشمنی تھی جو بعد میں مارا بھی گیا۔ اس نے مکے کے تمام اکابر کی دعوت کی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی آیا اور کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے گھر کھانا کھانے کے لیے تشریف لائیں۔ آپ نے اس کی دعوت فورًا قبول فرمالی۔ جب وہ واپس گیا تو راستے میں اس کا دوست عقبہ بن ابی معیط اموی اس سے ملا۔ اس نے کہا کہ سنا ہے تم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کھانے پر بلایا ہے۔ اس نے کہا، ہاں بلایا ہے۔ کھانے پر تو بلانا ہی چاہیے اور سب کو دعوت دی تو ان کو بھی دعوت دی، وہ بھی آرہے ہیں۔ اس نے بہت لعن طعن کیا، لیکن امیہ نے کہا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ وہ آدمی اچھے ہیں، ہمیں دین سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن آپ آدمی اچھے ہیں اور اچھے آدمی کو کھانے پر بلانا چاہیے۔
اسی طرح اس پہلو کو الٹ کر دیکھیے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ زندگی بھر رہے اور پچاس سال کی عمر تک ان سے تعلق رہا۔ بچپن سے لے کر ان کی تربیت میں رہے، ان کے گھر میں بھی رہے، وہ تو اسلام نہیں لائے تھے۔ آپ ان کے گھر میں کھاتے پیتے تھے، خود حضرت فاطمہ بنت اسد یعنی ابو طالب کی بیوی کہا کرتی تھیں کہ رسول اکرمؐ کھانے کے لیے جب گھر آتے تھے تو برکت ہوتی تھی۔ ہم ان کے لیے کھانا بچا کے رکھا کرتے تھے، اپنے بچوں کو نہیں دیتے تھے جب تک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہ کھا لیں۔ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ سماج و معاشرت میں سب لوگوں کے ساتھ میل ملاپ کا تھا۔
یہی تعلیم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرامؓ کو دی تھی۔ امیہ بن ابی خلف اور ایک بہت مشہور صحابی جو عشرہ مبشرہ میں ہیں، حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپس میں دوست تھے اور بہت قریبی دوست تھے۔ جیسے کہتے ہیں، ایک دوسرے کے ’’لنگوٹیے یار‘‘ تھے۔ دوستی میں آپس میں ملتے جلتے تھے۔ عبد الرحمن بن عوف نے شروع میں ہی اسلام قبول کر لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام بدل دیا، عبد الرحمن رکھ دیا۔ امیہ بن ابی خلف کو شکایت ہوئی، وہ آپؓ کو عبد الرحمن نام سے نہیں پکارتا تھا۔ وہ ہمیشہ آپؓ کو عبد الکعبہ کے نام سے پکارتا تھا تو حضرت عبد الرحمن جواب نہیں دیتے تھے۔ دونوں میں اختلاف چلتا رہا۔ ایک دن اس نے کہا کہ میں آپ کو پکارتا ہوں، آپ جواب ہی نہیں دیتے۔ تو حضرت عبد الرحمنؒ نے فرمایا، تم پتہ نہیں کس شخص کو بلاتے ہو۔ آخر میں اس پر صلح ہوئی (اس بات پر غور فرمائیے گا) کہ نہ تم عبد الرحمن کہو گے اور نہ عبد الکعبہ کہو گے، بلکہ عبد الٰہ کہہ کے پکارو گے۔ اس کے بعد امیہ آپؓ کو عبد الٰہ کہہ کے بلاتا تھا تو آپ جواب دیتے تھے۔ یہ دونوں حضرات ایک دوسرے کے ساتھ جاتے تھے، ندیم تھے، شریک تھے، کھانے پینے میں، اٹھنے بیٹھنے میں، اکٹھے تجارت کرتے تھے۔ بالآخر ہجرت مدینہ سے پہلے باقاعدہ ایک دستاویز لکھی ان دونوں نے کہ مکے میں عبد الرحمن بن عوفؓ کے جتنے تجارتی اور شخصی مفادات ہیں، ان سب کی حفاظت امیہ بن خلف کرے گا اور مدینہ میں عبد الرحمن بن عوف، امیہ کے تجارتی اور شخصی مفادات کی حفاظت کریں گے۔
یہ معاہدہ باقاعدہ لکھا گیا تھا، دستاویز تھی۔ امام بخاریؒ نے اس حدیث کو دو جگہ بیان کیا اور اس میں بیان کیا ہے کہ ایسا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ باب کتاب الاجارۃ میں ہے اور اس سے امام بخاری نے یہ اخذ کیا ہے کہ مسلم اگر حربی سے دارالاسلام یا دارالحرب میں کوئی معاہدہ کرے تو وہ جائز ہوگا۔ ایک کافر کی جان مال کی حفاظت کی ضمانت دی گئی تھی۔ پھر جنگ احد میں مشرکین کو شکست ہوئی اور امیہ اور اس کا بیٹا ؟؟ جان بچانے کے لیے بھاگنے لگے تو حضرت بلالؓ اور پر جوش صحابہؓ نے جو ان کے مظالم سے تنگ آگئے تھے، ان کا پیچھا کیا۔ اس موقع پر حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ نے بہت کوشش کی کہ امیہ کی جان بچا سکیں، لیکن بلال اور ان کے ساتھیوں نے کسی صورت میں اسے معاف نہیں کیا اور اسے قتل کر کے ہی دم لیا۔ اس کشمکش میں حضرت عبد الرحمنؓ، امیہ کو بچانے میں زخمی ہوگئے تھے۔
اسلام کی شان یہ تھی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رحمت کا جو تصور پیش کیا تھا، انسانیت کو سنوارنے کا وہ تصور ہمیں پیدا کرنا چاہیے اور اسی پر عمل کرنا چاہیے۔ یہ اسوہ نبویؐ ہے اور اس کے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و جلالت ہے، محبت و کرامت ہے، جس کو ہمیں سمجھنا چاہیے اور اس لحاظ سے ہمیں سیرت نبویؐ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبلؓ اور حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے کہا تھا : بشرا ولا تنفرا، لوگوں کو بشارت دو، نفرت نہ پھیلاؤ۔ نفرت نہیں پھیلانی چاہیے، بشارت دینی چاہیے۔ آپؐ تو ان لوگوں کے لیے بھی سراسر رحمت تھے جنہوں نے آپؐ کی جان لینے کی کوششیں کیں، ان کو بھی معاف کر دیا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ آپ نے اپنی ذات کے لیے کبھی انتقام نہیں لیا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ایک جنگ میں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو آپؐ نے بھیجا اور ان کے ساتھ دوسرے صحابہ کرامؓ تھے۔ حضرت اسامہ نے دشمن پر تلوار سونتی۔ ایک اور انصاری نے بھی تلوار سونتی۔ اس نے تلوار کے سامنے فورًا کلمہ پڑھا اور لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہہ دیا۔ انصاری نے اپنی تلوار روک لی اور حضرت اسامہؓ تلوار نہیں روک سکے اور اس کو قتل کر دیا۔ جب واپس آئے تو انصاریؓ نے یہ رپورٹ حضورؐ کو دی کہ حضرت اسامہؓ نے یہ کیا۔ آپؐ نے بلا کر ان سے پوچھا تو حضرت اسامہؓ نے کہا کہ تلوار کے خوف سے اس نے اسلام قبول کر لیا۔ تو آپ نے فرمایا ھلاّ شققت عن قلبہ تو نے اس کا دل چیر کے دیکھا تھا؟ اسامہ، وہ دن کیسے ہوگا جب وہ لا الٰہ الا اللہ کہتا ہوا آئے گا، تم کیا جواب دو گے؟ اسامہ وہ دن کیسا ہوگا جب وہ لا الٰہ الا اللہ کہتا ہوا آئے گا، تم کیا جواب دو گے؟ آپؐ نے یہ تین بار فرمایا۔ حضرت اسامہؓ کہتے ہیں کاش میں اس سے پہلے مر گیا ہوتا۔
تو یہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے پہلو ہیں جن کو ہمیں عملی دنیا میں پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ روایتی معجزاتی پہلو بہت بیان ہو چکا ہے، اب اس کی بجائے موضوعاتی پہلو پر توجہ دینی چاہیے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اگر ایک بھی معجزہ نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟ دوسری بات آپ سے یہ کر دوں، آپ سب اہل علم ہیں۔ معجزہ بنیادی طور پر اللہ کی آیات میں سے ہوتا ہے، صرف ظاہر نبی کے ہاتھ پر ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں وضاحت ہے کہ اگر آپ چاہیں کہ کوئی آیت، کوئی نشانی لے آئیں تو آپ نہیں لا سکتے۔ معجزات تو صرف دلائل نبوت کے طور پر پیش کیے گئے تھے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ آپ سچے نبی ہیں۔ آپؐ کا سب سے بڑا معجزہ قرآن مجید ہے اور آپؐ کی سیرت و رحمت ہے اور پوری دنیا کو محیط ہے۔ تو بنیادی طور پر ہمیں سیرت کا مطالعہ اس طرح سے کرنا چاہیے۔
ضروری نہیں کہ بڑی بڑی ضخیم کتابیں لکھی جائیں۔ ضخیم کتابوں کو آپ چھوڑ دیں۔ مولانا محمد علی جوہرؒ بڑے لمبے لمبے خطوط اور مضامین لکھا کرتے تھے تو کسی نے کہا کہ آپ اتنے لمبے لمبے خطوط اور طویل مضامین کیوں لکھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا، بھئی مختصر لکھنے کی فرصت نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مختصر لکھنے کے لیے بڑی پتہ ماری کرنی پڑتی ہے۔ ہزاروں صفحات کو دس بیس صفحوں میں جمع کرنا بہت مشکل کام ہے، لیکن ایک بات کو پچاس صفحوں پر پھیلا دینا عام طور پر ہمارا علماء کا کام ہے۔ یہ کام ہم بہت آسانی سے کر سکتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ مجھے حضرت شاہ ولی اللہؒ پر ایک تعارف لکھنے کا حکم دیا گیا، ایک بڑے بزرگ آدمی نے حکم دیا تھا کہ چالیس صفحے میں لکھنا ہے۔ دانتوں پسینہ آگیا کہ صرف چالیس صفحے پر اس عظیم آدمی کی شخصیت کو کیسے سمویا جا سکتا ہے۔ لیکن لکھا اور اسے دس مرتبہ لکھا، اور اللہ کا شکر ہے کہ وہ بہت جامع چیز بن گئی۔ لیکن اس کو لکھنے میں ہم کو یہ اندازہ ہے کہ کیا گزری تھی۔ تین چار سو صفحے لکھنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ تو ایسی چھوٹی چھوٹی چیزیں علماء کرام کو لکھنی چاہئیں۔ جو سیرت سے واقف ہیں، ان کو چھوٹے رسائل لکھنے چاہئیں۔ آپ جانتے ہیں کہ طویل کتابیں و مضامین آپ لکھیں گے، بہت سی چیزیں لکھیں گے، اس کا Impact (اثر) نہیں ہوتا۔ اس کو لوگ پڑھ نہیں سکتے۔ اب زمانہ ہے بہت تیز رفتاری کا، جلدی سے کچھ پڑھ لینے کا۔ تو چھوٹی چھوٹی چیزیں سیرت پر آنی چاہئیں۔ دس صفحے کی، پندرہ صفحے کی، چالیس صفحے کی، اس میں آپؐ اسی قسم کی چیزیں سیرت کی لائیں۔ اس لیے کہ آپ ایسی کوئی کتاب لا سکیں جس میں بہت ہی نئی چیزیں ہوں، نئی معلومات ہوں یا نئی تشریحات ہوں، اس کے لیے آپ کو بہت زیادہ مطالعہ کرنا پڑے گا۔ بسا اوقات دس بیس سال بھی لگ جاتے ہیں۔ ایسی چھوٹی چھوٹی چیزیں لکھیں جو دلوں کو چھو لیں، جو انسانوں کی زندگی کو بدل دیں، جو ذہن و فکر کو بدل کے بالکل دوسرے راستے پر ڈال دیں جس کی تعبیر اقبال نے کی تھی:
نگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
تو یہ تقدیریں بدلنے کا کام اب آپ کے ہاتھ میں ہے۔ آپ کے قلم میں ہے، آپ کی تقریر میں ہے۔ بہت لمبی تقریریں کرنے سے بہت لمبے مضامین لکھنے سے، روایتی قسم کی باتیں کرنے سے اب کچھ نہیں ہوتا، اب نئی چیزیں کہنے کی ضرورت ہے۔
حضرات! آپ کا بہت شکر گزار ہوں۔ پاکستان جب بھی آتا ہوں تو بہت محبت ملتی ہے۔ بڑا اعزاز و اکرام آپ اس بندہ ناچیز کا کرتے ہیں۔ بہت ہی دل میں شرمساری بھی محسوس ہوتی ہے اور بالکل سچی بات کہہ دوں کہ نفس کچھ موٹا بھی ہو جاتا ہے اپنی تعریفیں سن سن کے۔ یہ اچھا لگتا ہے، لیکن شرمندگی بھی ہوتی ہے۔ احساس ہوتا ہے کہ کیا دھرا کچھ نہیں، لیکن تعریفیں بہت ہوتی ہیں۔ یہ سب آپ کی فیاضی، آپ کے دل کی سخاوت ہے۔ میں گھر میں اکثر کہتا ہوں کہ جب گھر میں لکھتے لکھتے تھک جاتا ہوں اور بہت پریشان ہوجاتا ہوں اور محبت کے کوٹے میں کمی ہو جاتی ہے تو پھر میں پاکستان چلا جاتا ہوں۔
وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین۔
اسلامی قانون کی تشکیل نو : درپیش چیلنج اور محدود فکری رویے
ڈاکٹر محمود احمد غازی
(ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی مختلف تحریروں سے مرتب کیا گیا۔ مدیر)
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے تشریف لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے لیے بڑی ریاست چھوڑی جو کم و بیش بائیس لاکھ مرب کلو میٹر رقبے پر پھیلی ہوئی تھی جس میں آبادی کا اندازہ ایک ملین کے قریب تھا جن میں ایک چوتھائی کے قریب صحابہ کرامؓ تھے۔ باقی لوگوں کا شمار تابعین میں ہوتا تھا۔ اسلامی ریاست میں مختلف علاقوں میں عمال حکومت مقرر تھے۔ محصلین زکوٰۃ ہر صوبے، علاقے اور ہر قبیلے میں مقرر کیے جا چکے تھے۔ ہر علاقے میں فیصلہ کرنے والے قاضی اور فتویٰ دینے والے مفتی موجود تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی فرمانے والے خلیفہ اول سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ اس پورے نظام کی سربراہی فرما رہے تھے۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو قرآن مجید اور اپنی سنت کے علاوہ کوئی مرتب یا مدون قانون عطا نہیں فرمایا تھا۔ صحابہ کرامؓ، ان کے بعد تابعین اور ان کے بعد تبع تابعین کو جب کسی معاملے کا فیصلہ کرنے کی ضرورت پیش آئی تو وہ اس کے لیے اجتہاد سے کام لیتے تھے۔ صحابہ کرامؓ میں سے جو حضرات مجتہد تھے وہ خود اجتہاد کرتے اور اپنے اجتہاد کی روشنی میں معاملہ کا فیصلہ فرما دیتے۔ اگر وہ خود مجتہد نہ ہوتے یا اس معاملہ میں اپنے انتہائی تقویٰ اور محتاط رویہ کی وجہ سے خود اجتہاد نہ فرماتے تو دوسرے مجتہدین کی رائے پر عمل درآمد کرتے۔ یہاں یہ یاد رہے کہ صحابہ کرامؓ سب کے سب مجتہدین میں شامل تھے یا ان کی بڑی تعداد کو اجتہاد میں نمایاں مقام حاصل تھا۔ تابعین میں بھی مجتہدین کی بڑی تعداد تھی۔ تبع تابعین میں بھی بہت سے مجتہدین تھے۔ یہ حضرات اگر وہ خود مجتہد ہوتے تو براہ راست اجتہاد سے کام لیتے اور قرآن و سنت کی روشنی میں اپنے اجتہاد کے مطابق معاملات کا فیصلہ کر دیا کرتے تھے۔
صحابہ کرامؓ میں سے گورنر، قاضی اور مفتی صاحبان نے اور ان تمام حضرات نے جو معاملات کا فیصلہ کرنے کے سرکاری طور پر مکلف تھے، اسی طریقے کے مطابق کسی مدوّن قانون کے بغیر اپنے براہ راست اجتہاد کے نتیجے میں معاملات کو چلایا۔ اگر قاضی، عامل، گورنر یا فیصلہ کرنے والا خود اپنے کو اجتہاد کا اہل نہ سمجھتا تو کسی مجتہد سے جس کے تقویٰ اور علم پر اس کو اعتماد ہوتا، استفسار کرتا اور اس کے فتوے یا اس کے اجتہاد کی روشنی میں معاملات کو طے کر دیتا۔ یوں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قانون میں وسعت پیدا ہوتی گئی اور فقہ اسلامی کے نام سے ایک نیا فن وجود میں آتا گیا۔
جب تابعین کا آخری زمانہ تھا اور تبع تابعین کے دور کا آغاز تھا تو اہل علم نے عام طور پر یہ محسوس کیا کہ اسلامی ریاست اور مسلم معاشرہ کی روز افزوں ضروریات کے لیے احکام فقہ کی تدوین ضرو ری ہے۔ اب تک یہ ہوتا تھا کہ جب کوئی مسئلہ پیدا ہوا، اس کا اجتہاد کے ذریعہ حل دریافت کر لیا گیا۔ جب کوئی مقدمہ سامنے آیا، اجتہاد کے ذریعہ اس کا فیصلہ کر دیا گیا۔ اب اس امر کی ضرورت محسوس ہوئی کہ کسی صورت حال کے واقعتا پیش آنے کا منتظر رہنے کی بجائے معاملات کا پہلے سے اندازہ کر کے اور مسائل کا پہلے سے اداراک کر کے ان کا حل قرآن و سنت کی روشنی میں تجویز کر دیا جائے۔ بعض فقہا نے اس ضرورت کا احساس کیا اور اس پر کام شروع کر دیا، بعض اہل علم نے اسے غیر ضروری سمجھا اور اس سے اجتناب کیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ نے پہلے گروہ کی رائے کو قابل قبول سمجھا اور ان کے کام کو سراہا۔ ان حضرات میں امام اعظم ابوحنیفہؒ (م ۱۵۰ ھ)، امام شافعیؒ (م ۲۰۴ھ)، ان حضرات کے تلامذہ، امام مالکؒ (م ۱۷۹ھ) اور بہت سے دوسرے ائمہ مجتہدین شامل ہیں۔ ان حضرات نے انفرادی اور اجتماعی دونوں طریقوں سے کام لے کر آئندہ آنے والی مشکلات کی پیش بندی کی۔ ان مسائل کا اندازہ کیا جو امت کو پیش آنے والے تھے اور اپنی انتہائی فہم و بصیرت کے مطابق قرآن و سنت کی روشنی میں ان کا پیشگی حل تجویز کیا۔ ان میں سے جس فقیہ یا مجتہد کے علم اور تقویٰ پر امت کو اعتماد تھا، امت نے اس فقیہ کے اجتہادات پر عمل درآمد شروع کر دیا اور یوں فقہی مسالک یا مذاہب وجود میں آگئے۔ جس زمانے میں فقہی مسالک و مذاہب کی داغ بیل پڑ رہی تھی، یعنی دوسری صدی کے وسط سے لے کر تیسری صدی کے اواخر تک، یہ وہ زمانہ ہے جب مجتہدین بڑی تعداد میں دنیائے اسلام کے ہر علاقے میں موجود تھے۔ ان مجتہدین امت نے اپنے اپنے ذوق، اپنے اپنے مزاج، اپنے اپنے علاقے کی ضروریات اور اپنے اپنے تخصصات (Specialization) کے مطابق شریعت کے مختلف میدانوں میں کام کیا اور آنے والوں کے لیے رہنمائی کا سامان فراہم کرگئے۔
اس وقت تک یعنی چوتھی صدی ہجری کے وسط تک اس بات کی کوئی پابندی نہیں تھی کہ فیصلہ کرنے والا قاضی یا قانونی رہنمائی کرنے والا حکمران یا فرماں روا، کسی معاملہ کا فیصلہ کرنے والا کوئی عامل حکومت یا گورنر کسی خاص فقہی مسلک کی پیروی کرے۔ نہ یہ سرکاری طور پر لازمی قرار دیا گیا تھا، نہ عامۃ الناس نے اس کی ضرورت کو محسوس کیا اور نہ فقہائے اسلام نے اس کو لازمی قرار دیا۔ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ فقہائے اسلام نے ہر ایسے رجحان کی حوصلہ شکنی کی جس کا مقصد یہ تھا کہ کسی خاص فقہی اسلوب اجتہاد یا کسی خاص فقیہ کے اجتہاد کو لازمی قرار دیا جائے یا لازمی سمجھا جائے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ ان کا کام محض ایک تجویز کی حیثیت رکھتا ہے جو امت کے اہل علم کے سامنے رکھی گئی ہے۔ امت کے اہل علم اگر اس سے اتفاق کریں گے تو اس پر عمل درآمد کریں گے۔ جن حالات میں اتفاق کریں گے ان حالات میں اس پر عمل درآمد کریں گے اور جن حالات میں اتفاق نہیں کریں گے ان حالات میں اس پر عمل درآمد نہیں کریں گے۔
پانچویں صدی ہجری کے اواخر میں فقہائے اسلام نے غور کیا تو انہوں نے محسوس کیا کہ اب مختلف علاقوں میں الگ الگ اسلوب اجتہاد اس طرح مروج ہوگئے ہیں کہ اب اگر قاضی، مفتی یا جج صاحبان کو اس کی اجازت دی گئی کہ وہ ان مسالک سے ماورا ہو کر براہ راست اجتہاد سے کام لیں اور ان مسالک کو نظر انداز کر کے یعنی مقامی رائج الوقت اسلوب اجتہاد کو نظر انداز کر کے کسی نئے اسلوب اجتہاد سے کام لیں تو اس سے عامۃ الناس میں ایک تشویش پیدا ہوگی اور ذہنی طور پر لوگ الجھن کا شکار ہوں گے۔ اس لیے اس وقت یہ طے کیا گیا کہ جس علاقے میں جو اسلوب اجتہاد مروج ہے، قاضی صاحبان اسی کی پیروی کریں اور اس اسلوب اجتہاد کو چھوڑ کر کسی اور اسلوب کی طرف رجوع نہ کریں۔ اس کے دو بڑے اسباب تھے اور یہ دونوں اسباب بڑے وقیع تھے:
۱۔ اس کا ایک بڑا سبب تو یہی تھا کہ تخصصات اور مہارتیں ایک خاص مسلک ہی کے اندر دستیاب تھیں اور ان مسالک سے ہٹ کر مہارتیں اور تخصصات بڑے پیمانے پر دستیاب نہیں تھیں۔ اس لیے بڑے پیمانے پر آزادانہ اجتہاد کا کام ان تخصصات اور مہارتوں سے ہٹ کر کرنا بڑا دشوار تھا۔ مثال کے طور پر اگر سمرقند اور بخارا کے فقہاء یہ فیصلہ کرتے کہ کسی خاص معاملے میں امام مالکؒ کے اسلوب اجتہاد کے مطابق کام کریں تو وہاں نہ فقہ مالکی کی کتابیں دستیاب تھیں، نہ وہاں فقہ مالکی کے متخصصین موجود تھے اور نہ وہاں کے طلبہ اور اساتذہ کو اور اساتذہ کے اساتذہ کو کئی سال سے فقہ مالکی کتابیں پڑھنے پڑھانے کا موقع ملا تھا۔ اس لیے اگر یکایک ان سے یہ کہا جاتا کہ وہ کسی معاملے کا فیصلہ فقہ مالکی کے مطابق کریں تو یا تو وہ کمزور دلائل اور نامکمل مطالعہ کی بنیاد پر یہ فیصلہ کرتے یا کم از کم نامکمل مواد یا کم دستیابی مواد کی بنیاد پر یہ فیصلہ کرتے جو ہو سکتا ہے کہ کمزور یا غلط فیصلہ ہوتا اور فقہ مالکی کی حقیقی روح اور اسلوب کے مطابق نہ ہوتا۔
ایک خطرہ جو بڑا حقیقی خطرہ تھا، یہ تھا۔ اس حقیقی خطرے کی تائید ان جغرافیائی حالات سے بھی ہوتی ہے جو اس وقت امت مسلمہ کو درپیش تھے۔ فرض کریں کہ مفتی جو سمرقند میں تشریف فرما ہوں، ان کے سامنے کوئی مسئلہ پیش ہو تو کیا ان سے یہ توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ چھ مہینے کا سفر کر کے گھوڑے کی پشت پر سوار ہو کر اسپین یا قیروان یا مراکش جائیں اور وہاں چھ آٹھ مہینے قیام کر کے مالکی فقہ کے ماہرین سے استفادہ کر کے مالکی فقہ کی کتابیں حاصل کریں اور پھر واپس آکر سوال پوچھنے والے کو جواب دیں؟ ظاہر ہے کہ یہ بات قابل عمل نہ تھی اور نہ اس کی ضرورت تھی۔ اس لیے فقہائے اسلام نے بجا طور پر یہ طے کیا کہ جس اسلوب اجتہاد کی جس علاقے میں زیادہ پیروی ہو رہی ہے اور وہاں زیادہ مروّج ہے، اسی کی پابندی کی جائے اور اس کے حدود سے حتیٰ الامکان نکلنے سے گریز کیا جائے۔
۲۔ اس پابندی کو لازمی قرار دینے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ عامۃ الناس جن کی بڑی تعداد قانون کی نزاکتوں سے واقف نہیں ہوتی، جن کی بڑی تعداد اجتہادات کی پشت پر کارفرما دلائل اور اصولوں کے نازک پہلوؤں سے واقف نہیں ہوتی، اگر ان کے سامنے کوئی ایسے دلائل یا ایسے اجتہادات رکھے جاتے جو ان کے مانوس اور مالوف اسلوب سے مختلف ہوتے تو اس کا امکان تھا کہ ان میں تشویش یا رد عمل پیدا ہو جس سے مزید مسائل اور قباحتیں پیدا ہو سکتی تھیں۔ فقہ اسلامی محض ایک قانون نہیں ہے، یہ محض ایک سیکولر لاء نہیں ہے جس سے صرف عدالتوں، صرف قاضیوں یا صرف حکومتوں کو واسطہ ہو بلکہ یہ زندگی کی ایک ہمہ گیر اسکیم کا ایک مربوط اور متکامل حصہ ہے جس سے لوگوں کی جذباتی، اخلاقی اور دینی ہر طرح کی وابستگی ہے۔ لوگ اس کو اپنی زندگی سے بھی زیادہ قیمتی شے سمجھتے ہیں۔ ایک مسلمان دین سے اپنی وابستگی کو ہر چیز سے قیمتی قرار دیتا ہے۔ اس لیے کوئی مسلمان کسی ایسے معاملے میں جو اس کی زندگی سے بھی زیادہ قیمتی حیثیت رکھتا ہو، کوئی ایسا عمل کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا جس سے اس کے خیال و ادراک میں اور اس کے مالوف اور پسندیدہ طرز عمل میں کوئی انحراف پیدا ہو۔ ایک عام مسلمان کی رائے میں ممکن ہے کہ اسے انحراف سمجھا جاتا، اس لیے فقہائے اسلام نے اس سے احتراز کیا۔
جب فقہائے اسلام غور و خوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچ گئے تو انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ جس علاقے میں جو اسلوب اجتہاد مروّج ہے، وہاں کے قاضی صاحبان کو اسی کی پیروی کرنی چاہیے اور اس سے باہر نہیں جانا چاہیے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قاضی صاحبان اور تعبیر شریعت کی غیر محدود آزادی جو ابتدائی پانچ سو سال تک جاری رہی، کی حد بندی کی طرف یہ پہلا قدم تھا۔ اس سے پہلے فقہائے اسلام، مجتہدین اور قاضی صاحبان مکمل طور پر آزاد تھے کہ براہ راست اپنے اجتہاد یا کسی اور کے اجتہاد کی روشنی میں کسی معاملے کا جو فیصلہ صحیح سمجھیں، اس کے مطابق معاملے کو طے کر دیں۔ اب امت مسلمہ نے اپنے اجتماعی فیصلے سے ایک اجتماعی ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ اس آزادی میں ایک حد بندی قائم کی جائے اور اس آزادی کو اس خاص اسلوب اجتہاد یا مسلک یا مذہب فقہی تک محدود کر دیا جائے جو اس علاقے میں مروج ہے، سوائے اس کے کہ تمام علمائے کرام اتفاق رائے سے کوئی اور فیصلہ کریں۔ اس کی گنجائش پہلے بھی تھی اور بعد میں بھی رکھی گئی لیکن عمومی طور پر ایک مسلک کی پیروی کو لازمی قرار دے دیا گیا۔
اگر آپ پانچویں صدی ہجری کے بعد لکھی جانے والی کتابیں دیکھیں تو ان میں قاضی صاحبان کے لیے جو شرائط بیان کی گئی ہیں ان میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ وہ اس مسلک یا اسلوب اجتہاد میں مہارت رکھتے ہوں جس کے مطابق ولی یعنی حکمران نے ان کو فیصلہ کرنے کا پابند کیا ہے۔ یہ بحث بھی اس زمانے میں ملتی ہے کہ ولی امر قاضیوں اور عدالتوں کو کسی خاص اسلوب اجتہاد کے مطابق فیصلہ کرنے کا پابند کر سکتا ہے۔ اس سے پیشتر تیسری چوتھی صدی ہجری کی کتابوں میں یہ بات نہیں ملتی۔ ان میں یہ واضح طور پر لکھا ہوا ملتا ہے کہ قاضی کو مجتہد ہونا چاہیے اور قاضی اگر مجتہد نہیں ہے تو وہ قاضی نہیں بن سکتا۔ زمانے کے لحاظ سے اجتہاد میں تبدیلی کا یہ فرق ہے کہ جب مجتہد ہونے کی ضرورت تھی تو فقہائے اسلام نے قاضی کے لیے مجتہد ہونا ضروری قرار دیا اور جب حالات ایسے ہوئے کہ احکام شریعت مدوّن ہوگئے اور نئے اجتہاد کی ضرورت بہت سے معاملات میں ختم ہوگئی تو انفرادی طور پر قاضی کا مجتہد ہونا لازمی نہیں رہا۔ تاہم اگر قاضی مجتہد ہو تو اچھی بات ہے۔ یہ سلسلہ کم و بیش مزید پانچ سو سال جاری رہا۔ ان مزید پانچ سالوں میں یعنی اندازاً کہا جا سکتا ہے کہ پانچویں صدی ہجری کے اواخر سے دسویں صدی ہجری کے وسط یا اوائل تک فقہاء کرام کا نقطہ نظر عام طور پر یہ رہا ہے کہ قاضی، مفتی، اور فیصلہ کرنے والے صاحبان کے لیے اس خاص مسلک یا مذہب کی پابندی لازمی ہے جو اس علاقے میں مروّج ہے اور جس پر عمل کرنے کا حکمران یا بادشاہ نے ان کو حکم دیا ہے۔
ایک آفاقی فقہ: مستقبل کا تقاضا
[تاہم] گزشتہ سو، سوا سو برس کے تجربے نے یہ بتایا ہے اور ہر آنے والا دن اس تجربہ کی صداقت کی گواہی دے رہا ہے کہ آئندہ دور مختلف فقہی مسالک میں محدود رہنے کا دور نہیں ہے بلکہ ان مسالک کو اجتماعی طور پر مسلمانوں کی مشترکہ میراث قرار دینے اور ان سب کو ساتھ لے کر چلنے کا دور ہے۔ آئندہ جو فقہ سامنے آنے والی ہے، وہ صرف اور صرف عالمگیر فقہ اسلامی ہوگی۔ وہ فقہ حنفی، مالکی، شافعی یا حنبلی فقہ نہیں ہوگی۔ آج ایک آفاقی (Cosmopolitan) فقہ وجود میں آرہی ہے جس میں مسلمانوں کے سامنے پورے فقہی ذخیرے کو سامنے رکھ کر نئے انداز سے احکام مرتب کیے جا رہے ہیں۔ ایسے احکام جن میں فقہ اسلامی کے پورے ذخائر سے کام لیا جا رہا ہے اور جن میں شریعت کے مقاصد اور قرآن و سنت کی نصوص کو اوّلین اور اساسی حیثیت حاصل ہے۔ اس عالم گیر فقہ کی صحیح اسلامی خطوط پر تدوین دورِ جدید کی سب سے بڑی اور سب سے بنیادی ضرورت ہے۔
جس چیز کو آفاقی فقہ کہا گیا ہے، یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے، بلکہ در اصل فقہ اسلامی ہی کی اس اصل اور ابتدائی روح کا احیا ہے جس سے اس عظیم الشان کام کا آغاز ہوا تھا۔ صحابہ کرامؓ، تابعینؒ اور تبع تابعینؒ کے مبارک دور سے جس فقہی سرگرمی کا آغاز ہوا تھا، وہ انسان کی فکری تاریخ میں ایک ایسا غیر معمولی کارنامہ ہے جس کی تفصیلات و دقائق اور جس کی مختلف جہتوں پر غور و خوض کا کام ابھی جاری ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی عظمت کے مختلف پہلو محققین کے سامنے آتے جائیں گے۔ صدرِ اسلام میں فقہی سرگرمی کسی مسلک، علاقہ، زمانہ یا کسی انفرادی رائے تک محدود نہیں تھی بلکہ یہ عمومی طور پر شریعت اسلامی کی روح اور شریعت اسلامی کی بین الانسانیت اور بین الاقوامیت کی ترجمان تھی۔ صحابہ کرامؓ کے دور میں جو فقہ مرتب ہو رہی تھی، جس میں مزید وسعت تابعین اور تبع تابعین کے دور میں پیدا ہوئی، اس کو نہ کسی مسلک کی تنگنائیوں میں محدود کیا جا سکتا تھا، نہ کسی خاص علاقے سے اس کو اس انداز سے وابستگی تھی جو بعد میں فقہی مسالک کو مختلف علاقوں سے حاصل ہوگئی تھی۔ بلکہ یہ ایک ایسی عالمگیر، بین الاقوامی اور بین الانسانی فقہ تھی جس نے اسلامی ریاست اور مسلم معاشرے کی بڑھتی ہوئی ضروریات میں راہنمائی کا سامان فراہم کیا۔ یہ وہ دور تھا جب اسلامی ریاست روزانہ سینکڑوں میل کے حساب سے وسعت اختیار کر رہی تھی۔ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے تھے اور آئے دن نئے ممالک اور نئی تہذیبیں امت اسلامیہ کا حصہ بن رہی تھیں۔ تبدیلی کے اس غیر معمولی عمل اور انسانی سرگرمی کی اس غیر معمولی وسعت کو جس چیز نے نظم و ضبط کے دائرے میں رکھا اور جس چیز نے ان سب تبدیلیوں کو اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ کیا وہ فقہ اسلامی اور فقہائے اسلام کی تحقیقات ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب فقہ اسلامی تمام دنیا کی انسانی ضروریات کا جواب دے رہی تھی۔ وہ اپنے زمانے کے ساتھ نہیں چل رہی تھی بلکہ اپنے زمانے سے صدیوں برس آگے تھی۔ وہ زمانہ کی پیرو نہیں، زمانہ کی قائد تھی۔ فقہائے اسلام ان مسائل پر غور کر رہے تھے جن کو پیش آنے میں ابھی کئی کئی سو سال اور بعض صورتوں میں ایک ایک ہزار سال کا زمانہ باقی تھا۔
فقہائے کرام کی کم و بیش دو اڑھائی سو سالہ کوششوں کے بعد جب فقہ اسلامی اپنی ترقی کی ایک خاص سطح تک پہنچ گئی اور اس کی ترتیب و تنظیم کا کام شروع ہوا، اس وقت ضرورت محسوس کی گئی کہ مختلف علاقوں میں وہیں کے رائج اور مقبول فقہی اسالیب کی پیروی کی جائے تاکہ ترتیب و تنظیم کے اس عمل اور توسیع کو منضبط کرنے کے اس کام کو عقلی حدود اور شرعی قواعد کا پابند کیا جا سکے۔ یہ ایک انتظامی ضرورت بھی تھی اور ایک علمی ضرورت بھی۔ ایسا بعض جغرافیائی اور تاریخی اسباب کی بنا پر بھی کیا گیا، لیکن بہرحال یہ ایک عارضی اور وقتی چیز تھی۔ عارضی اور وقتی چیز اس وقت تک کے لیے تھی جب تک دنیائے اسلام بالخصوص اور دنیائے انسانی بالعموم ایک نئے بین الاقوامی اور عالم گیر دور میں قدم نہ رکھے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ ایک ہزار سال کی فقہی تیاری اور فقہائے اسلام کے تمام تشکیلی کارنامے اس دور کی ایک تمہید تھے جو اب شروع ہو چکا ہے۔ آئندہ آنے والے دن، عشرے اور صدیاں اس کی ضرورت کو مزید واضح کرتی چلی جائیں گی۔ آئندہ آنے والا دور عالم گیریت کا دور ہے۔ اس وقت دنیا ایک عالم گیر گاؤں میں تبدیل ہو چکی ہے۔ آج اگر کوئی شخص دنیا کے کسی ایک گوشے میں کسی رائے کا اظہار کرتا ہے تو چشم زدن میں وہ رائے دنیا کے ہر گوشے تک پہنچ جاتی ہے۔ اس پر تنقید، جواب اور جواب الجواب اور تبصرے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔
آج سے پانچ سو سال پہلے اگر یہ ممکن تھا کہ فقہائے ماوراء النہر بعض معاملات میں شدت اختیار کریں اور کچھ دوسرے فقہاء دنیا کے بعض دوسرے علاقوں میں انہی معاملات کے بارہ میں نرمی اختیار کریں، اور یہ نرمی اور شدت بیک وقت دنیائے اسلام میں رائج العمل رہے، تو یہ اس دور کی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق تھا لیکن آج ایسا ممکن نہیں ہے۔ آج اگر دنیا کے کسی بھی گوشے میں بیٹھا ہوا فقیہ کوئی شدید رائے اختیار کرتا ہے یا کوئی ایسا نقطہ نظر اختیار کرتا ہے جو کسی احتیاط پر مبنی ہونے کی وجہ سے عامۃ الناس کی نظر میں مشکل قرار دیا جائے تو اس کے نتیجے میں پوری دنیا میں فقہ اور شریعت پر تنقید اور تبصرے کا ایک طویل رد عمل شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے منفی اثرات پوری دنیائے اسلام پر اور خاص طور پر ان لوگوں پر پڑتے ہیں جو فقہ اسلامی سے وابستگی کی وہ سطح نہیں رکھتے جو ہر مسلمان کی ہونی چاہیے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص ایسا نقطہ نظر اختیار کرتا ہے جو ضرورت سے زیادہ رخصت یا غیر ضروری تخفیف پر مبنی ہو تو اس کے اثرات بھی بہت جلد پوری دنیائے اسلام میں پھیل جاتے ہیں۔ اس لیے آج کل کے حالات میں یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی خاص اسلوب یا طرز اجتہاد کی پیروی کو اس طرح لازمی قرار دیا جائے جس طرح آج سے نو سو سال پہلے لازمی قرار دیا گیا تھا۔
وہ مسائل جو دور جدید نے پیدا کیے ہیں جن کے بارے میں متقدمین کی کتابوں میں کم راہ نمائی ملتی ہے یا بعض جگہ نہیں ملتی، ان کے بارے میں دور جدید کے علمائے اسلام نے ایک اجتماعی اجتہاد کی روش اپنائی ہے اور تمام فقہی مسالک اور نقطہ ہائے نظر کو سامنے رکھ کر ایک ایسا نقطہ نظر اپنانے کی کوشش کی ہے جو دور جدید کے تقاضوں کو بھی پورا کرتا ہو، جس میں قرآن و سنت کے نصوص کی حدود کی پوری پوری پیروی کی گئی ہو اور جو جائز رخصت اور تخفیف مسلمانوں کو حدود شریعت میں دی جا سکتی ہو، وہ دی گئی ہو جس کی مثال راقم الحروف نے اسلامی بینک کاری، اسلامی بیمہ کاری، اسلامی تکافل، اسلامی سیاسی نظام، قانون سازی اور اس طرح کے معاملات سے دی ہے۔ یہ وہ معاملات ہیں جن میں دنیائے اسلام میں گزشتہ پچاس سال کے دوران نئے اجتہادی رجحانات پیدا ہوئے ہیں۔
آج دنیائے اسلام میں اسلامی ریاست کے بارے میں تصورات تقریباً واضح ہیں۔ آج یہ بات طے ہے کہ جس چیز کو ہم اسلامی دستور یا نمائندہ حکومت کا اسلامی تصور قرار دیتے ہیں، اس کے اساسات اور بنیادیں کیا ہیں۔ اس کے اہم خصائص اور تصورات کیا ہیں اور وہ کون سے اصول ہوں گے جن پر دور جدید کی نمائندہ حکومت کا دستور تیار کیا جائے گا۔ آپ جامعہ ازہر کے تیار کیے ہوئے معیاری اسلامی دستور کو دیکھیں، پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو ملاحظہ فرمائیں، علمائے کرام کے بائیس نکات کو دیکھیں، اسلامی کونسل آف یورپ کے تجویز کردہ مثالی اسلامی دستور کو دیکھیں، اس طرح کی تمام دستاویزات میں ایک یکسانیت اور ہم رنگی پائی جاتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا تعلق مختلف فقہی مسالک سے ہے۔ ان دستاویز کو مرتب کرنے والوں میں کوئی شافعی ہے، کوئی حنفی ہے اور کوئی حنبلی ہے۔ لیکن ان سب حضرات نے ان دستوری تجاویز کو تیار کرنے میں کسی ایک مسلک کی پیروی کو ضروری نہیں سمجھا بلکہ فقہ اسلامی کے تمام ذخائر سے بالعموم اور قرآن و سنت کے ذخائر سے براہ راست بالخصوص استفادہ کیا ہے۔ یہ دستوری فکر اسلامی دستوری فکر تو کہی جا سکتی ہے، اس کو حنفی دستوری فکر یا شافعی یا حنبلی دستوری فکر نہیں کہا جا سکتا۔
ابھی حال ہی میں برادر ملک سعودی عرب میں بعض نئے دستوری فیصلے کیے گئے ہیں۔ وہاں مقامی سطح پر انتخابات کا عمل بھی ابھی پایہ تکمیل تک پہنچا ہے۔ چند سال پہلے ایک مجلس شوریٰ بھی تشکیل دی گئی تھی۔ یہ تمام فیصلے وہ ہیں جو ایک نئے انداز سے پہلی مرتبہ جزیرہ عرب میں ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ان فیصلوں یا ان تجربات میں برادر ملک سعودی عرب کے لوگ رائج الوقت مغربی تجربات سے متاثر نہیں ہوئے۔ یقیناًمغربی تجربات سے متاثر ہو کر اور مغربی تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ تمام معاملات اختیار کیے گئے۔ لیکن ان معاملات کو شریعت کے مطابق تشکیل دینے اور انہیں اسلامی تعلیمات اور روایات سے ہم آہنگ کرنے میں سعودی علماء نے صرف فقہ حنبلی کی پیروی نہیں کی بلکہ انہوں نے فقہ اسلامی کے تمام ذخائر اور قرآن و سنت کی بنیادی اور اساسی نصوص کو سامنے رکھا۔ یہی بات پاکستان، مصر اور دنیائے اسلام کے دوسرے ممالک کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔
اسی طرح سے اسلامی بینک کاری یا اسلامی بیمہ کاری کی مثال لے لیں۔ اسلامی بینک کاری پر اس وقت سوڈان، پاکستان، ایران، ملائیشیا اور مصر میں خاص طور پر بڑا نمایاں کام ہوا ہے۔ مصر اور ملائشیا کے لوگ فقہ شافعی کے پیروکار ہیں، پاکستان میں اکثریت فقہ حنفی کی پیروکار ہے اور ایران میں گزشتہ چار سو سال سے فقہ جعفری کی پیروی کی جا رہی ہے۔ لیکن یہ بات بڑی حیرت انگیز اور خوش آئند ہے کہ ان تمام ممالک میں اسلامی بینک کاری کے تصورات ایک جیسے ہیں۔ ان سب ممالک میں ربا کے جو اسلامی متبادلات تجویز کیے گئے ہیں، وہ تقریباً یکساں ہیں اور جہاں جہاں بھی کسی فقہ اور ملک میں کوئی نرمی یا تخفیف ملتی ہے اس کو بلا استثنا ان تمام ممالک میں اختیار کیا گیا ہے۔
مثال کے طور پر آج کل کارپوریٹ فنانسنگ میں یہ بات بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ جب ایک انٹر پرینیور (Entrepreneur) کسی انٹر پرائز کا فیصلہ کرتا ہے اور اس انٹر پرائز کی کامیابی یا اس کے شروع کیے جانے کی صورت میں جس منافع کا وعدہ کرتا ہے، یہ منافع اس کے لیے ادا کرنا واجب التعمیل ہے یا نہیں۔ فقہ حنفی کی رو سے اس طرح کے کاروباری وعدے قانوناً واجب التعمیل نہیں ہیں۔ وہ صرف اخلاقی طور پر واجب التعمیل ہیں۔ اب پاکستان میں بھی اور پاکستان سے باہر بھی یہ محسوس کیا گیا کہ خالص حنفی نقطہ نظر کے مطابق دور جدید کی کارپوریٹ فنانسنگ پر عمل بڑا دشوار ہے۔ آج کے نظام کاروبار میں اس بنیادی وعدے کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور اسی کی بنیاد پر سارا نظام چلتا ہے جس میں پہلے قدم کے طور پر یہ بتایا گیا ہو کہ جو لوگ اس کاروبار میں حصہ لیں گے یا اس میں سرمایہ کاری کریں گے ان کو فلاں شرح سے نفع دیا جائے گا۔ اب اگر اس وعدے کو محض اخلاقی وعدہ قرار دیا جائے اور یہ عدالتوں کے ذریعے قابل نفاذ نہ ہو تو اس کے نتیجے میں نہ کمپنیاں چل سکتی ہیں، نہ شیئر مارکیٹ چل سکتی ہے اور نہ کارپوریٹ فنانسنگ کے بہت سے کام کیے جا سکتے ہیں۔ اس مشکل کا سامنا کرتے ہوئے یا اس مشکل کا لحاظ کرتے ہوئے یہ محسوس کیا گیا کہ اگر اس میں فقہ مالکی کے نقطہ نظر کو اختیار کر لیا جائے تو یہ مشکل دور ہو سکتی ہے۔ لہٰذا قریب قریب ہر ملک کے اہل علم نے یہ رائے ظاہر کی کہ اس معاملہ میں فقہ مالکی ہی کی رائے کو اختیار کرنا ضروری ہے۔ امام مالکؒ کا فتویٰ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی سے ایسا وعدہ کرے جس کے نتیجے میں وہ شخص جس سے وعدہ کیا گیا ہے، کوئی مالی ذمہ داری اپنے اوپر لے لے تو اس ذمہ داری کا بالآخر بوجھ وعدہ کرنے والے پر ہوگا۔ اس کو محض اخلاقی وعدہ قرار نہیں دیا جائے بلکہ اسے قانونی طور پر نافذ کیا جائے گا۔ امام مالکؒ کا یہ نقطہ نظر تقریباً تمام فقہاء نے اختیار کر لیا ہے۔ مصر اور ملائشیا جیسے شافعی ممالک میں بھی، پاکستان جیسے حنفی ملک میں بھی اور ایران جیسے جعفری ملک میں بھی اس مالکی نقطہ نظر پر عمل درآمد ہو رہا ہے۔
اسی طرح سے کچھ معاملات ایسے ہیں جہاں فقہ حنبلی کا نقطہ نظر نسبتاً زیادہ آسانی فراہم کرتا ہے اور بقیہ تینوں فقہاء کا نقطہ نظر وہ سہولتیں فراہم نہیں کرتا جس کی ضرورت آج محسوس کی جا رہی ہے۔ اس لیے اب عام رجحان یہ ہے کہ معاملات اور تجارت کے باب میں ان سہولتوں سے فائدہ اٹھایا جائے جو حنبلی اجتہادات کے ذریعے ہمیں ملتی ہیں۔ غیر حنبلی ممالک میں اور خود حنبلی ملک سعودی عرب میں امام احمد بن حنبلؒ کے اجتہادات سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ یہی کیفیت فقہ حنفی کے بعض معاملات میں بھی ہے کہ اس نے اپنے اجتہاد کی بنیاد پر بعض معاملات میں ایسی رعایتیں تجویز کی ہیں جو دوسرے فقہاء کے ہاں نہیں ملتیں۔
لہٰذا ضرورت اور حالاتِ زمانہ نے یہ ناگزیر کر دیا ہے کہ فقہ اسلامی کے تمام ذخائر کو سامنے رکھا جائے اور ایک ایسی اجتماعی فقہ تشکیل دی جائے جو دنیائے اسلام کے مسائل کا یکساں طور پر ادراک کرے اور ان کا یکساں اور ایک جیسا حل تجویز کرے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس ضرورت کا دائرہ بھی بڑھتا جائے گا اور احساس بھی روز بروز گہرا ہوتا چلا جائے گا۔ جیسے جیسے ضرورت کا دائرہ وسیع ہوتا جائے گا، اس کی ضرورت کا احساس بھی پیدا ہوتا چلا جائے گا۔ جیسے جیسے یہ احساس پیدا ہوگا، عملاً اس فقہ کے خصائص سامنے آتے جائیں گے۔ آئندہ پچاس سال یا چالیس سال میں (اللہ کو بہتر معلوم ہے کتنی دیر میں) ایک نئی فقہ سامنے آجائے گی جسے نہ فقہ حنفی کہا جا سکے گا اور نہ مالکی فقہ کہا جا سکے گا۔ بلکہ وہ اسلامی عالمی فقہ کہلانے کی زیادہ مستحق ہوگی۔ یہ اسلامی عالمی فقہ پوری دنیائے اسلام کو یکساں طور پر مخاطب کر رہی ہوگی۔ یہ پوری دنیائے اسلام کے مسلمانوں کو درپیش مسائل و مشکلات کا یکساں انداز میں جواب دے رہی ہوگی۔ اس میں مسلم اقلیات کے مسائل کی نشاندہی بھی کی گئی ہوگی۔ اس میں مسلمانوں کے بین الاقوامی معاملات سے فقہی اعتناء کیا گیا ہوگا۔ اس میں مسلم اقلیات کے مسائل کی نشاندہی بھی کی گئی ہوگی۔ اس میں مسلمانوں کے بین الاقوامی معاملات سے فقہی اعتنا کیا گیا ہوگا۔ اس میں جسے آج کل انٹرنیشنل ہیومن ٹیرین لاء (International Humanitarian Law) یعنی بین الاقوامی انسانی قانون کہتے ہیں، اس کے مسائل کا بھی جواب دیا گیا ہو گا۔ موجودہ فقہی ذخائر جو مسالک کے عنوان سے مرتب و مدوّن ہیں، یہ اس نئی فقہ کے لیے مآخذ اور مصادر کا کام دیں گے۔ ان مصادر و مآخذ کی مدد سے یہ نئی فقہ اسی روح کی علم بردار اور اسی جذبے سے سرشار ہوگی جس روح کی علم بردار صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کی فقہ تھی اور اسی جوش عمل سے سرشار ہوگی جس جوش عمل سے صحابہ، تابعین اور تبع تابعین سرشار تھے۔
یہ کام کس رفتار سے آگے بڑھے گا اور کن حدود اور خطوط پر بڑھے گا، یہ بات اہل علم کے غور کرنے کی ہے۔ آج اگر فقہائے دور جدید اس ضرورت کا احساس کر کے اس آئندہ آنے والی پیش رفت کے قواعد و ضوابط مقرر کر دیں گے تو یہ پیش رفت معقول اور شرعی حدود کے اندر برقرار رہے گی۔ اگر دورِ جدید کے معاصر علماء اور فقہاء نے اس نئے رجحان کی ضرورت اور اہمیت کا احساس نہ کیا یا اس ضرورت کو غیر حقیقی ضرورت قرار دیا تو اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ یہ پیش رفت کسی حد کی پابند نہ رہے، اور وہ لوگ جو شریعت کا علم نہیں رکھتے یا وہ لوگ جو اس پیش رفت کو غلط طریقے سے استعمال کرنا چاہیں یا اسے غلط راستے پر چلانا چاہیں، وہ اس پیش رفت پر اثر انداز ہونے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یہ ایک منفی رجحان ہوگا جو بالآخر امت مسلمہ کے لیے خوش آئند ثابت نہیں ہوگا۔
علامہ اقبالؒ کی خواہش
یہ اتنا بڑا چیلنج ہے جس کا احساس علامہ اقبالؒ نے آج سے کم و بیش اَسّی سال پہلے کیا تھا۔ یہ اتنا بڑا کام ہے جس کے لیے وہ خود عرصۂ دراز تک خواہاں رہے کہ کچھ ماہرین شریعت کی مدد دستیاب ہو جائے تو وہ اس کام کا آغاز اپنی زندگی ہی میں کر جائیں۔ انہوں نے ۱۹۲۵ء میں یہ لکھا تھا کہ جو شخص زمانہ حال کی جورس پروڈنس پر نگاہ ڈال کر احکام قرآنیہ کی ابدیت کو ثابت کرے گا، وہ بنی نوع انسان کا سب سے بڑا محسن اور اس دور کی اسلامی تاریخ کا مجدّد ہوگا۔ آج اسی تجدیدی کام کی ضرورت ہے۔
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تقنین سے مراد صرف اتنی ہے کہ قدیم کتابوں میں فقہائے اسلام نے جو کچھ لکھا ہے اس کو دفعہ وار ایک دو تین ڈال کر مرتب کر دیا جائے۔ واضح رہے کہ تقنین اس کا نام نہیں ہے۔ تقنین، احکامِ فقہ پر ایک نئی اجتہادی بصیرت کے ساتھ نگاہ ڈالنا، احکامِ فقہ کو دور جدید سے ہم آہنگ کرنا اور دور جدید کے معاملات اس طرح مرتب کرنا ہے کہ یہ سارا عمل شریعت کے بنیادی اصولوں سے ہم آہنگ ہو جائے۔ جہاں فقہائے کرام کے اجتہادات دورِ جدید میں نظر ثانی کے محتاج ہیں، ان پر اس طرح نظر ثانی کرنا کہ حدودِ شریعت کی خلاف ورزی نہ ہو اور شریعت کے مقاصد کماحقہ پورے ہوں۔ یہ سارا کام اس احتیاط، تدبیر اور حکمت کے ساتھ کرنا کہ دورِ جدید کا وہ انسان (جس میں تعلیم دین کی بھی کمی ہے، جس کی دینی تربیت بھی مناسب انداز کی نہیں ہوئی اور جو ایک غیر اسلامی اور غیر دینی ماحول میں کام کرنے پر مجبور ہے) اس تبدیلی کو قبول کر لے۔ اس تبدیلی کے نتیجے میں اسے کوئی ایسا حرج یا مشکل پیش نہ آئے جس کی وجہ سے وہ احکام شریعت کو قبول کرنے میں تأمل کرے۔ قرآن مجید نے یسر (آسانی) کا حکم دیا ہے اور رفعِ حرج (تنگی و مشقت دور کرنا) کی تلقین کی ہے۔ آج ہمیں تدوین نو کے اس عمل میں یسر اور رفعِ حرج سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ پاکستان میں، پاکستان سے باہر اور جدید دنیائے اسلام کے بیشتر مقامات پر تدوین شریعت کا کام اس انداز سے نہیں ہوا جس انداز سے دورِ جدید میں کیا جانا مقصود تھا۔ جامعہ ازہر (مصر) میں آج سے تقریباً تیس سال پہلے مختلف فقہی قوانین کی تدوین نو کا بیڑا اٹھایا گیا تھا اور وہاں کے ماہرین کی ایک بڑی جماعت نے مختلف مسالک کی بنیاد پر قوانین کے الگ الگ مجموعے مرتب کیے تھے۔ علمی اعتبار سے یہ ایک اچھی کاوش تھی، لیکن اس سے دنیائے اسلام میں زیادہ استفادہ نہ کیا جا سکا اور یہ کام محض کتب خانوں کی زینت بننے سے آگے نہ بڑھ سکا۔ شاید اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ اب مسلکوں کی پابندی کا دور آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہے۔ اب جدید مسلم ممالک کا پبلک لاء مسلکوں کے محدود دائرہ کار کی پابندی کے ساتھ نہیں بنایا جا سکتا۔
حدود وقصاص میں عورت کی گواہی
[مثال کے طور پر حدود وقصاص کے مقدمات میں عورت کی گواہی کے مسئلے میں] دلائل کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن پاک یا سنت رسولؐ میں کوئی ایسی واضح اور صریح نص قطعی موجود نہیں ہے جس کی بنیاد پر کوئی حتمی اور طے شدہ رائے قائم کی جا سکے۔ مسئلہ صدر اسلام میں صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ کے مابین مختلف فیہ رہا ہے اور جہاں صحابہ و تابعین کی غالب اکثریت نے یہ رائے اختیار فرمائی کہ حدود میں عورتوں کی گواہی قابل قبول نہیں ہے، وہاں ایسے صحابہ کرام اور تابعین بھی ہیں جنہوں نے اس رائے سے اختلاف کرتے ہوئے حدود میں عورتوں کی گواہی کو قابل قبول قرار دیا۔ لہٰذا یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ دور صحابہ و تابعین میں یہ مسئلہ مختلف فیہ تھا اور مجتہدین صحابہ و تابعین نے اپنے اپنے اجتہادات کے مطابق اس معاملہ میں آرا اختیار فرمائیں۔ مذکورہ بالا چار دلائل کی حیثیت نصوص قطعیہ کی نہیں بلکہ محض شواہد و مؤیدات کی ہے جو جمہور کے اجتہاد کی تائید میں پیش کیے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض فقہا نے صرف زہری کے اثر کا حوالہ دینا کافی سمجھا ہے اور بعض نے آیات و احادیث کے صیغہ ہائے تذکیر کی بنیاد پر گفتگو کی ہے۔ شبہ بدلیت اور قصور ولایت کی بات متاخرین کے ہاں ملتی ہے۔ متقدمین کے ہاں عموماً یہ دلائل نہیں ملتے۔ یوں بھی فقہاء کرام کا یہ اسلوب معلوم و معروف ہے کہ وہ اپنے امام مجتہد کے اقوال کی تائید میں جو عقلی دلائل دیتے ہیں ان کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ ان کے امام مجتہد نے محض ان کی بنیاد پر یہ رائے قائم کی ہے بلکہ یہ عقلی دلائل عموماً فریق ثانی پر اتمام حجت کے لیے دیے جاتے ہیں۔ یہ دلائل محض ایک نقطہ نظر کی تائید میں عقلی توجیہات ہیں جن کو نہ کوئی مضبوط شرعی دلیل قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ اس طرح کے دلائل کی بنیاد پر شریعت کے قطعی احکام کا تعین ہو سکتا ہے۔ فقہائے کرام کی جانب سے ایسے عقلی دلائل کا دیا جانا خود اس بات کی دلیل ہے کہ وہ معاملہ کو اجتہادی معاملہ سمجھتے تھے اور انہوں نے جو رائے قائم کی وہ ان کی اجتہادی رائے تھی جس سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے۔
یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ ائمہ اربعہ کے متفق علیہ نقطہ نظر سے ہٹ کر کسی اور رائے کا اختیار کرنا بڑی بھاری اور نازک ذمہ داری ہے جس کے لیے بہت غیر معمولی احتیاط اور غور و فکر کی ضرورت ہے۔ لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ اس سے قبل دنیائے اسلام کے دوسرے ممالک کے علاوہ خود پاکستان میں بہت سے معاملات میں ائمہ اربعہ کی رائے سے ہٹ کر نقطہ ہائے نظر اختیار کیے گئے ہیں اور ان کو قبول عام بھی حاصل ہوا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں اور خود اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے علاوہ رائج الوقت اسلامی بین الاقوامی قوانین میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ ایک معاملہ میں ائمہ اربعہ کی رائے سے ہٹ کر کوئی اور رائے اختیار کی گئی۔ اس لیے راقم الحروف کی یہ جسارت اس نوعیت کی پہلی جسارت نہیں ہے اور شاید آخری بھی نہیں ہوگی۔ ان گزارشات کی روشنی میں راقم الحروف کی رائے کا خلاصہ یہ ہے:
۱۔ حدود و قصاص اور دوسرے معاملات میں عورتوں اور مردوں کی گواہی یکساں طور پر معتبر ہے۔
۲۔ البتہ قرآن پاک اور سنت رسول خدا کی قطعی نصوص کی بنیاد پر دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہوگی۔
۳۔ حدود و قصاص کے تمام معاملات قرینہ قاطعہ کی بنیاد پر بھی طے کیے جا سکتے ہیں اور ان کی بنیاد پر حدود کی سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ قرینہ قاطعہ کا حدود و قصاص میں قابل قبول ہونا قرآن پاک، سنت رسول، تعامل صحابہ اور اقوال ائمہ مجتہدین سے ثابت ہے۔ اس لیے اس کے خلاف کسی فقیہ کی رائے کو قابل قبول نہیں کہا جا سکتا۔
اصول فقہ دور جدید میں
دور جدید میں جہاں دوسرے اسلامی علوم میں نئے نئے رجحانات پیدا ہوئے ہیں اور تحقیق و تدبر کے نئے نئے میدان سامنے آئے ہیں، وہاں اصول فقہ میں بھی نئے نئے رجحانات پیدا ہوئے ہیں اور تحقیق اور غور و فکر کے لیے بہت سے نئے موضوعات سامنے آئے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ پچاس سال اصول فقہ کے لیے ایک دور جدید کے منار ثابت ہوں گے اور جو رجحانات گزشتہ پچاس ساٹھ سال میں ابھر کر سامنے آئے ہیں وہ پایہ تکمیل تک پہنچیں گے اور ان کے حتمی نتائج و ثمرات سامنے آجائیں گے۔
اس سے قبل یہ اشارہ کیا جا چکا ہے کہ جدید مغربی اصول قانون کے اثر سے بہت سے معاصر اہل علم نے اصول فقہ کے مضامین کو نئے انداز سے مرتب کرنا شروع کیا ہے۔ اس ترتیب نو کے دو بڑے بڑے رجحانات پائے جاتے ہیں۔ ایک رجحان جو دنیائے عرب میں پایا جاتا ہے وہ اصول فقہ کے موضوعات کو فرانسیسی اصول قانون کی ترتیب سے مرتب کرنے کا ہے۔ اس رجحان کے ابتدائی اور پیش رو نمائندوں میں معروف دو الیبی، مصطفی زرقاء، صبحی محمصانی اور سلام مدکور وغیرہ کے نام نمایاں ہیں۔ ان حضرات میں بیشتر کی اصل اور بنیادی تعلیم اسلامی علوم اور بالخصوص فقہ اسلامی کی تھی جس کو انہوں نے اسلام کے بنیادی مآخذ و مصادر اور فقہ اسلامی کے جید اساتذہ سے پڑھا اور سمجھا تھا۔ بعد میں ان حضرات نے فرانس کی درسگاہوں میں فرانسیسی زبان اور قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اسلامی قانون کے مختلف پہلوؤں اور تصورات پر وہاں کی جامعات میں مقالات لکھے اور یوں فقہ اسلامی کے موضوعات کو فرانسیسی اسلوب میں پیش کرنا سیکھا۔
اس سلسلہ کا آغاز تو بیسویں صدی کے اوائل ہی میں ہوگیا تھا لیکن اصل پیش رفت بیسویں صدی کے وسط میں ہوئی۔ یہ وہ دور تھا جب شام، مصر اور الجزائر و مراکش سے بڑی تعداد میں طلبہ فرانس گئے اور وہاں کی یونیورسٹیوں میں قانون کی اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں۔ اس انداز سے اصول فقہ پر جو کتابیں لکھی گئیں، ان میں استاذ مصطفی احمد زرقاء کی ’’الفقہ الاسلامی فی ثوبہ الجدید‘‘ ایک ممتاز مقام رکھتی ہے۔ استاذ مصطفی احمد الزرقاء نے اس کتاب میں اصول فقہ کے چند اہم مباحث کے ساتھ ساتھ فقہ اسلامی سے بہت سا ایسا مواد اخذ کر کے مرتب کیا ہے جو روایتی طور پر اصول فقہ کے مباحث میں شامل نہیں سمجھا جاتا تھا۔ یہ بلا شبہ ایک بڑا تاریخ ساز اور اجتہادی نوعیت کا کام تھا جو استاد مصطفی زرقاء اور ان کے معاصر اہل علم نے بڑی کامیابی اور عرق ریزی سے انجام دیا۔ ان حضرات نے فقہ کی بنیادی کتابوں کے عمیق اور تنقیدی مطالعہ سے ایسے اصول اور تصورات دریافت کیے جن کی ضرورت متقدمین نے محسوس نہ کی تھی اور وہ ان اصولوں اور تصورات کو اس نئے انداز کے بجائے اپنے قدیم روایتی انداز سے جزئیات اور فروعی مسائل کے سیاق و سباق میں پیش کرتے تھے۔ استاذ مصطفی الزرقاء، شیخ علی الخفیف اور استاذ ابو زہرہ جیسے علمائے اصول نے ملکیت، مال، قبضہ، حق اور ایسے بہت سے فقہی اصولوں اور تصورات کو نئے انداز سے مرتب کر کے اصول فقہ کی کتابوں میں شامل کیا، اور یوں بہت سے فقہی مباحث کو نئی ترتیب دے کر اصول فقہ کے دائرہ میں شامل کر لیا۔
اس سلسلہ کا دوسرا بڑا رجحان ہمارے برصغیر میں سامنے آیا جہاں انگریزی قانون کی فرمانروائی اور انگریزی اسلوب کی حکمرانی تھی۔ یہاں کے مسلمان اہل علم نے اصول فقہ کے مباحث کو انگریزی اصول قانون کے انداز میں مرتب کرنے کی طرح ڈالی۔ اس رجحان کے اولین نمائندہ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا، جسٹس سر عبد الرحیمؒ تھے۔ ان کی کتاب Principles of Muhammadan Jurisprudence اس اعتبار سے اپنی نوعیت کی پہلی کتاب تھی کہ اس میں اصول فقہ کے مباحث کو انگریزی اصول قانون کے اسلوب میں بیان کیا گیا تھا۔ اس کتاب نے انگریزی تعلیم یافتہ اور قانون دان طبقہ میں اصول فقہ کے مباحث کو متعارف کرایا۔ بیسویں صدی کے اوائل سے مغرب میں بھی اصول فقہ کا مطالعہ شروع ہوگیا۔ میکڈانلڈ، گولڈ تسیہر (Goldziher) اور شاخت (Schacht) جیسے نامور مغربی فضلا نے اپنے اپنے نقطہ نظر سے اصول فقہ کا مطالعہ کیا اور بہت سے ایسے مباحث اور سوالات اٹھائے جو مسلمان مصنفین نے اس سے قبل نہیں اٹھائے تھے۔ ان مباحث نے مغربی جامعات کے مسلمان طلبہ کے ذریعہ جدید علمائے اصول کے انداز تحقیق و تصنیف کو بھی متاثر کیا اور انہوں نے اپنی اپنی تصانیف میں ان نئے سوالات کا جواب دینے کی کوشش کی۔ فقہ اسلامی کے قانون روما سے متاثر ہونے کی بحث، اجماع کے واقع ہو سکنے اور واقع ہونے کی صورت میں اس کے تیقن کا مسئلہ، جدید قانون سازی اور ضابطہ بند احکام کے نفاذ سے پیدا ہونے والے مسائل وہ ہیں جو بہت سے معاصر مصنفین کی تحریروں میں اٹھائے گئے ہیں۔
آج اصول فقہ پر کمی (Quantity) اور کیفی (Quality) دونوں اعتبار سے جتنا کام عرب دنیا میں ہوا ہے، وہ ابتدائی چند صدیوں کے بعد ہونے والے مجموعی کام سے (چند اہم مستثنیات کو نکال کر) زیادہ نہیں تو اس کے برابر ضرور ہے۔ چودھویں اور پندرھویں صدی ہجری کو ہم بلا تامل اصول فقہ کے عہد تجدید اور احیائے نو سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ گزشتہ ہجری صدی کے اوائل سے عرب دنیا میں جو کام ہونا شروع ہوا ہے اس میں دو بنیادی خصوصیات نمایاں طور پر محسوس ہوتی ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ دور جدید کی اصول فقہ کی کتابوں میں کسی متعین اور پہلے سے طے شدہ فقہی یا اصولی مسلک کی پابندی کم کی گئی ہے۔ بہت کم کتابیں ایسی ہیں جن میں کسی خاص فقہی مسلک کی پابندی کو پیش نظر رکھا گیا ہو۔ ورنہ اکثر تحریروں کا رجحان یہی ہے کہ فقہ اور اصول فقہ کے پورے سرمایہ کو مسلمانوں کا مشترکہ ورثہ قرار دے کر بحیثیت مجموعی علمائے اصول کے خیالات کو پیش کیا جائے اور فقہی مسالک اور اصولی نقطہ ہائے نظر کے مابین ایک مثبت اور صحت مندانہ تقابلی مطالعہ کے رواج کو فروغ دیا جائے۔ استاذ مصطفی زرقاء، استاد محمد ابو زہرہ، محمد سلام مدکور اور ڈاکٹر عبد الرزاق سنہوری کی تصریروں میں یہ بات واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے۔
دوسری قابل ذکر بات جس کے بارہ میں پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے، یہ ہے کہ دور جدید کے بہت سے عرب مصنفین نے مختلف مغربی تصورات کا بھی تنقیدی مطالعہ کرنے کی کوشش کی ہے اور اصول فقہ کے نظریات و تصورات کا تقابل مغربی قانون کے اصولوں سے کیا ہے۔ اس تقابل سے بہت سی ایسی غلط فہمیاں دور ہوگئی ہیں جو بعض مغربی مصنفین کی تحریروں سے پیدا ہوئی تھیں۔ مثال کے طور پر بعض مغربی مصنفین نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ فقہ بالعموم اور اصول فقہ کے بعض نظریات بالخصوص رومن قانون سے ماخذ ہیں اور چند جزوی مشابہتوں کو ادھر ادھر سے جمع کر کے بعض مغربی مصنفین یہ لکھنے لگے تھے کہ یہ چیزیں رومن لاء کے زیر اثر اسلامی قانون میں داخل ہوئیں۔ تقابلی مطالعہ بات سے یہ غلط فہمی دور ہونے لگی اور اسلامی قانون کے اصل ماخذ اور اصولوں کے ارتقائی مطالعہ نے اس تاثر کو ہمیشہ کے لیے ختم کر ڈالا۔
دنیائے اسلام کے دیگر علاقوں کے ساتھ ساتھ برصغیر جنوبی ایشیا بالخصوص پاکستان میں بھی اصول فقہ پر تحقیق و تصنیف کی ایک نئی رو گزشتہ سو سال کے دوران سامنے آئی ہے۔ برصغیر میں اصول فقہ کی تاریخ دوسرے علوم کی تاریخ سے مختلف نہیں رہی۔ یہاں کے اہل علم کی متعدد فقہی اور اصولی تالیفات نے دنیائے اسلام کے علمی اور تعلیمی حلقوں کو متوجہ کیا۔ عہد مغلیہ کے مشہور و معروف فقیہ، اصولی اور فلسفی قاضی محب اللہ بہاریؒ (م ۱۱۱۹ھ) کی مشہور و معروف کتاب ’’مسلّم الثبوت‘‘ اصول فقہ کی ایک انتہائی مقبول اعلیٰ درسی کتاب کے طور پر دنیائے اسلام کے مختلف حصوں میں متداول رہی ہے۔ برصغیر کے علاوہ ترکی، مصر، شام اور افغانستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ایک طویل عرصہ تک ’’مسلّم الثبوت‘‘ اصول فقہ کے نصاب کی ایک اعلیٰ کتاب کے طور پر پڑھی اور پڑھائی گئی۔ برصغیر میں اصول فقہ پر لکھی جانے والی کسی اور کتاب کو اتنی مقبولیت حاصل نہیں ہوئی جتنی ’’مسلّم الثبوت‘‘ کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی۔ ’’مسلم الثبوت‘‘ کے علاوہ بھی برصغیر پاک و ہند کے مختلف حصوں میں بالعموم اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں بالخصوص اصول فقہ کے موضوع پر متعدد قابل ذکر کتابیں لکھی گئیں۔ یہاں ان سب کا تذکرہ تو دشوار ہے البتہ ایک معروف درسی کتاب ’’نور الانوار‘‘ کا ذکر ضروری ہے۔ یہ کتاب جو برصغیر میں گزشتہ تین سو سال سے ایک متداول کتاب چلی آرہی ہے، عہد شاہ جہانی اور عہد عالمگیری کے مشہور استاد اور فقیہ ملا احمد جیون امیٹھویؒ (م ۱۱۳۰ھ) کی تصنیف ہے۔ ملا جیونؒ مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیرؒ کے استاد اور کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ ’’نور الانوار‘‘ ایک اور قدیم تر اصولی کتاب ’’المنار‘‘ کی شرح ہے۔
دنیائے اسلام کے نامور مفکر اور برصغیر پاک و ہند میں تجدید و اصلاح کے ایک رجحان ساز قائد شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ (م ۱۱۷۶ھ) کی کتابوں نے بھی اصول فقہ کی درس و تدریس پر گہرا اثر ڈالا۔ شاہ صاحب نے براہ راست اصول فقہ پر کوئی کتاب تو نہیں لکھی لیکن انہوں نے متعدد اہم اصولی مسائل کو اپنی تحقیقات کا موضوع بنایا۔ ان کی کتابوں ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘، ’’الانصاف‘‘ اور ’’عقد الجید‘‘ میں اجتہاد، اجماع اور تفسیر و تعبیر سنت جیسے اہم مسائل پر گفتگو کی گئی ہے۔ شاہ صاحب کے افکار نے بعد میں آنے والے تقریباً تمام اہل علم، فقہاء اور علمائے اصول کو متاثر کیا۔ ان کے خیالات میں جو جامعیت اور اعتدال پایا جاتا ہے اس نے بعد میں آنے والوں کے ذہنوں پر گہرا اثر ڈالا اور یوں برصغیر میں ایک نیا اسلوب سامنے آیا۔
اوپر سر عبد الرحیمؒ کی کتاب کا تذکرہ کیا جا چکا ہے جو بیسویں صدی کے آغاز میں سامنے آنے والی ایک منفرد انداز کی کتاب تھی۔ اس کتاب نے پہلی مرتبہ مغربی تعلیم یافتہ قانون دانوں کے حلقے کو اصول فقہ کے مباحث سے متعارف کرایا۔ اگرچہ سر عبد الرحیمؒ کی کتاب عربی میں لکھی جانے والی بعض درسی کتابوں کے اردو تراجم کی انگریزی تلخیص ہے، تاہم اس کی ترتیب میں ایک جدت پیدا کی گئی تھی اور اسلوب بھی نئے انداز کا تھا۔ اس نئی ترتیب اور اسلوب نے اصول فقہ کو مغربی اصول قانون کی ترتیب اور اسلوب میں پیش کرنے کی طرح ڈالی۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ سر عبد الرحیمؒ کی ڈالی ہوئی نیو پر بعد میں مزید تعمیر کی جاتی اور اس اسلوب پر کام کو آگے بڑھایا جاتا لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا اور مغربی تعلیم یافتہ حضرات میں سے کسی اور قانون دان نے اس کام کو آگے بڑھانے میں دلچسپی نہ لی۔
البتہ حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبالؒ کو شدت سے اس امر کا احساس تھا کہ فقہ اور اصول فقہ کی تدوین نو وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے سر عبد الرحیمؒ کی کتاب کا بنظر غائر مطالعہ کیا تھا اور یہ محسوس کر لیا تھا کہ اب اصول فقہ اور فقہ کی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز ہونے والا ہے۔ اس نئے دور کے تقاضوں سے نمٹنے کے لیے وہ یہ محسوس کرتے تھے کہ فقہ اور اصول فقہ کی مکمل تدوین نو کی ضررت ہے۔ ان کی مختلف تحریروں میں تدوین نو کے ان مجوزہ خطوط کی کسی حد تک نشاندہی بھی ہوتی ہے۔ تاہم ان کا احساس یہ تھا کہ یہ کام تن تنہا کسی ایک فرد کے کرنے کا نہیں بلکہ اس غرض کے لیے قدیم و جدید کے ماہرین کو مل کر مشترکہ کوششوں سے یہ کام کرنا چاہیے۔ انہوں نے اس کام میں ہاتھ بٹانے کے لیے وقتاً فوقتاً برصغیر کے نامور اہل علم سے درخواست کی، لیکن افسوس کہ کوئی بھی اس معاملے میں ان کا ہاتھ بٹانے پر آمادہ نہ ہو سکا۔ خود انہوں نے تن تنہا اس کام کا بیڑا اٹھانا (غالباً اپنے انتہائی متواضعانہ مزاج کی وجہ سے) مناسب نہ جانا۔
پاکستان بننے کے بعد بھی اصول فقہ کے میدان میں طویل عرصہ تک کوئی خاص قابل ذکر پیش رفت نہ ہو سکی اور ایک آدھ ہلکی پھلکی درسی کتاب کے علاوہ کوئی ٹھوس اور دیرپا کام نہیں ہوا۔ پاکستان میں گزشتہ دو ایک عشروں میں جو تھوڑا بہت کام ہوا ہے وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد پاکستان، بالخصوص اس کے ذیلی شعبہ ادارہ تحقیقات اسلامی سے وابستہ حضرات کا ہے۔ ادارہ تحقیقات اسلامی اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی سے وابستہ اہل علم میں ڈاکٹر کمال فارو قی، ڈاکٹر احمد حسن، ڈاکٹر خالد مسعود اور پروفیسر عمران احسن نیازی کی کاوشیں قابل قدر اور وقیع ہیں۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ اب دیگر جامعات اور بعض دینی مدارس میں بھی اصول فقہ کی تدوین نو کی ضرورت کا احساس پیدا ہونے لگا ہے۔ اس معاملے میں پنجاب یونیورسٹی لاہور پاکستان کو سبقت کا شرف حاصل ہے۔ پنجاب یونیورسٹی نے قانون اور اسلامیات کے شعبوں میں اصول فقہ کے نصابات کو ذرا نئے انداز سے مرتب کیا جس کے نتیجے میں کئی نئی تحریریں سامنے آئیں۔ دینی مدارس سے وابستہ حضرات میں مولانا ثناء اللہ زاہد اور مولانا محمد انور بدخشانی کی کاوشیں قابل ذکر ہیں۔ ان حضرات نے بعض قدیم درستی کتابوں کو نئے انداز سے مرتب کیا ہے اور طلبہ کو اصول فقہ کے مضمون سے متعارف اور مانوس کرانے کے لیے پرانی درسی کتابوں کے نئے اور آسان متون تیار کیے ہیں۔
دور جدید میں اسلامی ریاست کا نقشہ
بیسویں صدی کے وسط میں جب دنیا کے مختلف ممالک میں یہ سوال پیدا ہوا کہ اس دور میں اسلامی ریاست کا احیاء کیسے کیا جائے اور جدید جمہوری ماحول میں اسلامی شریعت کی بالادستی کیسے قائم کی جائے تو بہت سے حضرات کے ذہنوں میں اسلامی ریاست کا کوئی واضح نقشہ اور تصور نہیں تھا۔ اس تصور کے واضح نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی ریاستیں کم و بیش دو سو سال پہلے مغربی استعمار کی آمد پر ایک ایک کر کے ختم کر دی گئی تھی۔ اسلامی قوانین کو ایک ایک کر کے منسوخ کر دیا گیا تھا۔ مسلمانوں کے اجتماعی اور ملی ادارے ایک ایک کر کے مٹا دیے گئے تھے۔ اب بیسویں صدی کا وسط آتے آتے صورت حال یہ ہوگئی تھی کہ مسلمان کئی سو سال سے جس نظام اور جن اداروں سے مانوس تھے، وہ اسلام سے بالکل متعارض تھے، اس لیے ان کے سامنے ایسا کوئی عملی نقشہ برسر زمین موجود اور کافرما نہیں تھا جس کی بنیاد پر اور جس کو سامنے رکھ کر وہ ایک نئے نظام کا خاکہ مرتب کر سکتے۔ اسلامی ریاست و حکومت کے موضوع پر قدیم دینی لٹریچر اور اسلامی کتابوں میں جو کچھ لکھا ہوا ملتا ہے وہ تین قسم کی چیزوں سے عبارت ہے۔ مثال کے طور پر اسلامی سیاسی نظام کے بارے میں علامہ ماوردیؒ (م ۴۵۰ھ) کی مشہور کتاب ’’الاحکام السلطانیہ‘‘ جو پانچویں صدی ہجری کے اوائل میں لکھی گئی تھی اور اس طرح کی دیگر بہت سی کتب کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں تین اقسام کے معاملات سے بحث کی گئی ہے:
کچھ معاملات بنیادی احکام سے متعلق ہیں۔ یہ وہ احکام ہیں جو قرآن و سنت کی نصوص میں بیان ہوئے ہیں اور جن کو اسلامی ریاست یا اسلامی معاشرہ کا اساسی عنصر اور شرط لازم یا جزو لاینفک قرار دیا جا سکتا ہے۔ یعنی ایک ایسا لازمی عنصر جس کی عدم موجودگی میں نہ معاشرے کو اسلامی معاشرہ قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ ریاست کو اسلامی ریاست کہا جا سکتا ہے۔
دوسرا حصہ ان احکام پر مشتمل ہے جو فقہائے اسلام نے اپنے اجتہاد اور فہم و بصیرت کی روشنی میں مرتب کیے ہیں جن سے اختلاف کرنے کی گنجائش بعد کے مفکرین اور مجتہدین کے لیے موجود ہے اور موجود رہی ہے، بلکہ ان احکام کے زمرہ سے تعلق رکھنے والے بعض معاملات میں قدیم فقہاء سے اختلاف بھی کیا گیا ہے۔
تیسرا حصہ ان امور پر مشتمل ہے جو فقہائے کرام کے کسی اجتہاد پر مبنی نہیں تھا بلکہ وہ ان فیصلوں اور احکام پر مشتمل ہے جو مختلف انتظامی اداروں کے لیے مرتب کیے گئے تھے اور جن کو مختلف مسلمان حکمرانوں اور مسلمان ریاستوں نے حالات کے تقاضوں کے پیش نظر اختیار کیا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ مختلف مسلمان حکمرانوں اور مسلمان ریاستوں نے حالات کے تقاضوں کے پیش نظر مختلف زمانوں میں مختلف ادارے قائم کیے اور ان اداروں کے لیے تفصیلی احکام بھی مرتب کرائے۔ ریاستی مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے مختلف اداروں کے قیام کی ضرورت ہر دور میں پیش آتی ہے اور اس دور میں بھی پیش آتی تھی۔ بعض ادارے پہلی صدی ہجری میں وجود میں آئے، بعض دوسری، تیسری، چوتھی، پانچویں اور چھٹی صدی میں بنائے گئے۔ غرض ہر صدی میں بعض اداروں کے قیام کی ضرورت محسوس کی جاتی رہی۔ ان اداروں کے بارے میں بھی تفصیلات ان کتابوں میں موجود ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج ہمارے دور میں اسلامی ریاست قائم کی جائے گی تو کیا اس کے لیے متذکرہ بالا تینوں قسموں کے احکام پر عمل کرنا ضرور ہوگا؟ دور جدید میں اسلامی ریاست کی بات کرنے سے قبل اس اہم سوال پر غور کرنا اور اس کا جواب دینا ضروری ہے۔ قرآن پاک، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور فقہاء کی تصریحات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان تینوں قسم کے احکام کی حیثیتیں مختلف ہیں۔ پہلی قسم کے احکام جو کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں منصوص ہیں وہ اپنی تمام جزئیات اور تفصیلات کے ساتھ جن میں کوئی نظر ثانی یا سمجھوتے کی گنجائش نہیں ہو سکتی، لازمی طور پر واجب التعمیل ہیں۔
جو معاملات اجتہادی ہیں ان میں اس دور کے مفکرین اور مجتہدین کو کم از کم نظری اعتبار سے اس بات کا اختیار ہے کہ وہ موجودہ دور کے لحاظ سے ان میں کسی تبدیلی یا اجتہاد کی ضرورت محسوس کریں تو شریعت کی دی گئی گنجائش کے مطابق نئے احکام وضع کر سکتے ہیں۔
تیسری قسم کے احکام کے بارے میں سب سے پہلے یہ دیکھا جانا ضروری ہے کہ کیا وہ اس دور میں بھی اپنی معنویت رکھتے ہیں؟ اور کیا وہ یا ان میں سے چند احکام موجودہ حالات کے سیاق و سباق میں قابل عمل ہیں؟ مثال کے طور پر جہاد کا حکم تو شریعت میں ہے، اس سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا، لیکن جہاد کے لیے ادارے، تنظیمیں اور حالات کے موافق طریق کار ہر دور میں متعین کیے جاتے رہے ہیں۔ تاہم ان تنظیمات اور اداروں کی تفصیلات وضع کرنے میں حالات و زمانہ کی رعایت رکھی جائے گی۔ ان تفصیلات سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے اور اگر ان سے بہتر کوئی تدبیر اور تنظیم موجود ہے تو اس کو اختیار کیا جا سکتا ہے۔
بہت سے مسلمان دانشور ان تینوں اقسام کے احکام میں کوئی امتیاز نہیں کرتے اور اس عدم امتیاز کی بنا پر فکری الجھنوں کا شکار ہوتے ہیں اور بعض اوقات انہی الجھنوں کی بنا پر خود شریعت ہی سے بد ظن ہو جاتے ہیں اور اسلام کے بارہ میں ان کے ذہنوں میں الجھنیں اور شبہات پیدا ہو جاتے ہیں۔ وہ اس تیسری قسم کے احکام کو بار بار دہرا کر یہ کہتے ہیں کہ اس دور میں یہ احکام کیسے چل سکتے ہیں؟ اس دور میں تلوار سے جہاد کیسے کیا جا سکتا ہے؟ اور آخر قتل کے کسی مجرم کو سزا کے لیے تلوار ہی سے گردن اڑانے کی کیا ضرورت ہے؟
دوسری طرف کچھ لوگ جو شریعت کے علمبردار ہیں، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان تینوں اقسام کے احکام کو تمام تفصیلات کے ساتھ جوں کا توں اس دور میں بھی اختیار کیا جانا ضروری ہے۔ ان دونوں نقطہ ہائے نظر کے حامل حضرات نے کبھی سنجیدگی سے شریعت کے احکام اور مسلمانوں کے تاریخی تجربہ کے مابین فرق کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کا نتیجہ مزید ژولیدگی کی صورت میں نکلا اور یوں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک ایسی صورت حال پیدا ہوگئی جس نے اسلامی قوانین کے نفاذ کے سارے معاملہ کو خاصا پیچیدہ بنا دیا۔
حکومت پاکستان نے ۱۹۴۸ء میں اسلامی نظام کا خاکہ مرتب کرنے کے لیے تجاویز طلب کیں۔ بہت سے لوگوں نے اس سلسلے میں اپنی تجاویز دیں۔ ان میں سے دو کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا، جس سے اندازہ ہوگا کہ اسلامی نظام کے بارے میں لوگوں میں کس انداز کی فکر پائی جاتی رہی ہے اور وہ نفاذ شریعت کے معاملے کو کس طرح دیکھتے رہے ہیں۔ ایک خاکہ میں تجویز کیا گیا تھا کہ اسلامی حکومت کا نظام نافذ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ فلاں خاص فقہ سے وابستہ جتنی مساجد ہیں، ان سب کا سروے کر کے ان سب کی ایک فہرست مرتب کرلی جائے۔ اس فہرست کے مرتب کرنے کے بعد ان مساجد کے خطباء اور ائمہ مساجد اور ان مساجد میں قائم مذہبی مدارس کے سربراہان کو دعوت دی جائے کہ وہ اپنے میں سے سب سے زیادہ متقی اور صاحب علم شخصیت کو منتخب کر لیں اور جب وہ شخصیت منتخب ہو جائے تو سب ائمہ اور خطباء حضرات اس شخصیت سے بطور امیر المومنین یا خلیفہ المسلمین بیعت کر لیں۔ بیعت کے بعد پاکستان کا نظام اس شخصیت کے سپرد کر دیا جائے اور پھر سارا کام اسی کے ہاتھوں چلے۔ وہ شخصیت جو بھی نظام حکومت چلائے گی، وہی اسلامی نظام حکومت ہوگا اور اس کی ہدایات اور احکام کے نفاذ کو شریعت کا نفاذ قرار دیا جائے گا۔ ظاہر بات ہے کہ نفاذ شریعت کی یہ شکل نہ ۱۹۴۸ء میں پاکستان میں ممکن تھی، نہ آج ممکن ہے اور نہ آئندہ ممکن ہوگی اور نہ نفاذ شریعت کے یہ معنی ہیں کہ کسی خاص مسلک یا طبقہ کے ائمہ مساجد اور خطباء کو بلا کر معاملات ریاست ان کے سپرد کر دیے جائیں۔
ایک اور خاکہ کی رو سے حکومت پاکستان کو چاہیے کہ فلاں مسلک کے ایک بڑے ممتاز اور جید عالم کو شیخ الاسلام کے منصب پر فائز کر دیا جائے، وہ شیخ الاسلام مساجد کا نظام چلائے، نکاح اور طلاق کے مقدمات کی سماعت کرے۔ جب ایسا ہو جائے گا تو پاکستان میں شریعت اسلامی کا نفاذ ہو جائے گا۔
اگر اسلامی نظام کے قیام کا مطلب یہی ہے کہ ایک مشہور عالم شیخ الاسلام کہلاتے ہوں، وہ مساجد کا نظام چلاتے ہوں اور نکاح و طلاق کے مقدمات جو ان کے پاس آئیں ان کا فیصلہ کرتے ہوں تو اس اعتبار سے آج کا روس بھی اسلامی مملکت ہے، کیونکہ وہاں شیخ الاسلام کا منصب بھی موجود ہے، وہاں مسجدوں کا نظام بھی شیخ الاسلام کے سپرد ہے اور جو لوگ نکاح و طلاق کے مقدمے شیخ الاسلام کے پاس لے کر آتے ہیں، وہ ان کا فیصلہ بھی کر دیتے ہیں۔ اس مفہوم کے اعتبار سے کئی ممالک آج اسلامی ممالک کہے جا سکتے ہیں۔ لیکن اس بات سے نہ کوئی صاحب علم و بصیرت اتفاق کرے گا اور نہ اسلامی نظام کے یہ معنی ہیں۔
ان دو مثالوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بعض حضرات کے ذہنوں میں پاکستان کے ابتدائی دنوں میں اسلامی نظام کے بارے میں کیا تصورات تھے۔
خاطرات
محمد عمار خان ناصر
علم الکلام کی اصطلاح اگرچہ علمی وفنی لحاظ سے ایسے جدلیاتی مباحث کے لیے استعمال کی جاتی ہے جن میں کسی مخصوص الٰہیاتی اور اعتقادی مسئلے کا اثبات یا تردید مقصود ہو، تاہم اپنے اصل مقصد کے لحاظ سے دیکھا جائے تو مسائل ومباحث کو براہ راست موضوع بحث بنانے کے علاوہ ایسی عمومی حکمت عملی وضع کرنا اور اس کے خط وخال کی وضاحت کرنا بھی اس علم کے دائرے میں ہی شمار ہوگا جس کا مقصد غلط نظریات اور باطل فلسفوں کے منفی اثر سے ذہنوں کو بچانا اور اسلامی عقائد ونظریات کی حقانیت اور صداقت کا یقین دلوں میں راسخ کرنا ہو۔ یہ پہلو عام طور سے علم الکلام سے متعلق تحریروں میں زیر غور نہیں لایا گیا، جبکہ غور کیا جائے تو انسانوں کے مزاجوں اور طبائع کے فرق اور جدید تہذیبی ونفسیاتی رجحانات کے تناظر میں ایسے راہ نما اصول متعین کرنے کی ضرورت اس علم کے اصل مقصد کے لحاظ سے بے حد واضح ہے جن کی روشنی میں ملحدانہ فکر سے متاثر اذہان کو مختلف او رمتنوع طریقے اختیار کرتے ہوئے مذہب کی طرف مائل کیا جا سکے اور ان کے ذہنوں سے شکوک وشبہات کے کانٹے چنے جا سکیں۔
اس ضمن میں تجربے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جدلیاتی انداز میں براہ راست کسی مسئلے پر مباحثہ یا مناظرہ کا طریقہ بیشتر افراد کے لیے زیادہ مفید نہیں ہوتا۔ علمی وعقلی بحث ومباحثہ کی ایک خاص سطح پر اپنی اہمیت اور افادیت ہے اور فکر ودانش کی سطح پر موثر عقلی انداز میں حق کے اثبات اور باطل کی بے مائیگی واضح کرنے کی ضرورت وافادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، تاہم جہاں تک انفرادی سطح پر متاثرین کی اصلاح کا تعلق ہے تو ان کے لیے براہ راست موضوع پر مناظرہ یا مباحثہ کا طریقہ بسا اوقات الٹا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس میں بیسویں صدی کے ممتاز عالم اور دانش ور مولانا عبد الماجد دریابادی نے اپنی آپ بیتی میں جو اپنے ذاتی تجربات بیان کیے ہیں، وہ بے حد مفید اور قابل توجہ ہیں اور الحاد سے متاثر نئی نسل کو مخاطب بنانے کے لیے نہایت اہم نفسیاتی اور دعوتی اصولوں کی نشان دہی کرتے ہیں۔
راقم کو مولانا کی آپ بیتی آج سے کم وبیش بیس سال قبل بزرگوارم مولانا ملک عبد الرؤف صاحب (خطیب آسٹریلیا مسجد، لاہور) کے گھر پر دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ ان دنوں ’’متحدہ علماء کونسل‘‘ سرگرم تھی جس کا دفتر ملک صاحب کے گھر میں قائم گیا تھا اور والد گرامی مختلف تنظیمی ودفتری امور کی انجام دہی کے لیے ہفتہ وار ملک صاحب کے ہاں تشریف لے جایا کرتے تھے۔ کئی مواقع پر میں بھی والد گرامی کے ہمراہ ہو جاتا اور ملک صاحب کے مہمان خانے میں کتابوں کی الماری سے اپنے ذوق کی کتابیں نکال کر دیکھتا رہتا۔ مصر کے مشہور عالم عباس حسن کی ضخیم کتاب ’’النحو الوافی‘‘ اور کئی دوسری علمی کتابیں میں نے پہلی مرتبہ ملک صاحب کے ذاتی کتب خانے میں ہی دیکھیں۔ وہیں مولانا دریا آبادی کی آپ بیتی بھی پڑی ہوئی تھی جو میں نے بڑی دلچسپی سے پڑھی اور یاد پڑتا ہے کہ شاید ساری پڑھی تھی۔
سالہا سال کے وقفے کے بعد گزشتہ دنوں یہ آپ بیتی دوبارہ پڑھنے کا موقع محترم ومکرم جناب ڈاکٹر باسط بلال کوشل صاحب کی تحریک سے ملا جو لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) میں سوشل سائنسز کے استاذ ہیں اور جدید الحاد کا تنقیدی مطالعہ ان کی تحقیق کا خاص موضوع ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے دینی مدارس کے طلبہ کو اس موضوع کے اہم مباحث اور آج کے علمی سوالات وضروریات سے روشناس کرانے کے لیے ایک تربیتی کورس مرتب کیا ہے جو وہ مختلف مقامات پر پڑھا رہے ہیں۔ اس ضمن میں الشریعہ اکادمی میں بھی متعدد نشستیں منعقد ہوئیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کورس کے لیے جو تدریسی نصاب مرتب کیا ہے، اس میں مولانا عبد الماجد دریابادی کی آپ بیتی کے متعلقہ حصے بطور خاص شامل کیے گئے ہیں تاکہ نظری بحثوں کے بجائے انسانی نفسیات اور تجربے کی سطح پر یہ سمجھا جا سکے کہ گمراہ کن نظریات کیسے انسان کے فکر ودماغ کو متاثر کرتے ہیں اور ان کا مداوا کرتے ہوئے کن علمی ونفسیاتی اصولوں کو مد نظر رکھنا چاہیے۔ خاص طور پر الحاد سے واپسی کے ذہنی سفر کی تفصیل بیان کرتے ہوئے مولانا نے جن مختلف فلسفوں، مصنفین اور موضوعات سے راہ ہدایت کی بازیافت میں معاونت ملنے کا ذکر کیا ہے، وہ بہت قابل توجہ ہے اور فکری دعوت کے میدان میں کام کرنے والے حضرات اس سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
ذیل میں مولانا کی آپ بیتی کے متعلقہ ابواب سے چند اقتباسات نقل کیے جاتے ہیں:
’’ایک عزیز کے پاس ایک انگریزی کتاب محض اتفاق سے دیکھنے میں آ گئی۔ ۔۔۔ جوں جوں آگے بڑھتا گیا، گویا ایک نیا عالم عقلیات کا کھلتا گیا اور عقائد واخلاق کی پوری پرانی دنیا جیسے زیر وزبر ہوتی چلی گئی! کتاب مذہب پر نہ تھی، نہ بہ ظاہر اس کا کوئی تعلق ابطال اسلام یا ابطال مذاہب سے تھا۔ اصول معاشرت وآداب معاشرت تھی۔ نام تھا: Elements of Social Science ۔ ۔۔۔ کتاب کیا تھی، ایک بارود بچھی ہوئی سرنگ تھی۔ حملہ کا اصل ہدف وہ اخلاقی بندشیں تھیں جنھیں مذہب کی دنیا اب تک بہ طور علوم متعارفہ کے پکڑے ہوئے ہے اور ان پر اپنے احکام کی بنیاد رکھے ہوئے ہے، مثلاً عفت وعصمت۔ کتاب کا اصل حملہ انھیں بنیادی اخلاقی قدروں پر تھا۔ ۔۔۔ کتاب کی زد ہر ایسی قدر پر پڑتی تھی جو مذہب اور اخلاق کو ہمیشہ عزیز رہے ہیں۔ ۔۔۔ پروپیگنڈے کا کمال بھی یہی ہے کہ حملہ براہ راست نہ ہو، بلکہ اطراف وجوانب سے گولہ باری کر کے قلعہ کی حالت کو اتنا مخدوش بنا دیا جائے کہ خود دفاع کرنے والوں میں تزلزل وتذبذب پیدا ہو جائے اور قدم از خود اکھڑ جانے پر آمادہ ہو جائیں۔‘‘ (ص ۲۳۴ تا ۲۳۶)
’’اسلام اور ایمان سے برگشتہ کرنے اور صاف وصریح ارتداد کی طرف لانے میں ملحدوں اور نیم ملحدوں کی تحریریں ہرگز اس درجہ موثر نہیں ہوئیں جتنی وہ فنی کتابیں ثابت ہوئیں جو نفسیات کے موضوع پر اہل فن کے قلم سے نکلی ہوئی تھیں۔ بظاہر مذہب سے کوئی تعلق ہی نہیں رکھتی تھیں، نہ نفیاً نہ اثباتاً۔ اصلی زہر انھیں بہ ظاہر بے ضرر کتابوں کے اندر کھلا ہوا ملا۔ مثلاً ایک شخص گزرا ہے ڈاکٹر ماڈسلی (Maudesley)۔ ۔۔۔ اختلال دماغی اور امراض نفسیاتی کو بیان کرتے کرتے یک بیک وہ بدبخت مثال میں وحی محمدی کو لے ایا اور اسم مبارک کی صراحت کے ساتھ لکھ گیا کہ مصروع شخص کے لیے یہ بالکل ممکن ہے کہ وہ اپنا کوئی بڑا کارنامہ دنیا کے لیے چھوڑ جائے۔‘‘ (ص ۲۴۰)
’’ڈیڑھ دو سال (۱۹ء، ۲۰ء) کے اس مسلسل مطالعہ کا حاصل یہ نکلا کہ فرنگی اور مادی فلسفہ کا جو بت دل میں بیٹھا ہوا تھا، وہ شکست ہو گیا اور ذہن کو یہ صاف نظر آنے لگا کہ اسرار کائنات سے متعلق آخری توجیہ اور قطعی تعبیر ان فرنگی مادیین کی نہیں، بلکہ دنیا میں ایک سے ایک اعلیٰ ودل نشین توجیہیں اور تعبیریں اور بھی موجود ہیں۔ ۔۔۔ اسلام سے ان تعلیمات کو بھی خاصا بعد تھا، لیکن بہرحال اب مسائل حیات، اسرار کائنات سے متعلق نظر کے سامنے ایک بالکل نیا رخ آ گیا اور مادیت، لا ادریت وتشکیک کی جو سربفلک عمارت برسوں میں تعمیر ہوئی تھی، وہ دھڑام سے زمین پر آ رہی۔ دل اب اس عقیدہ پر آ گیا کہ مادیت کے علاوہ اور اس سے کہیں ماورا ومافوق ایک دوسرا عالم روحانیت کا بھی ہے۔ حواس مادی محسوسات، مرئیات ومشہودات ہی سب کچھ نہیں، ان کی تہہ میں اور ان سے بالاتر ’’غیب‘‘ اور مغیبات کا بھی ایک مستقل عالم اپنا وجود رکھتا ہے۔ قرآن مجید نے بالکل شروع میں جو ایمان کا وصف ایمان بالغیب بتا دیا ہے، وہ بہت ہی پرحکمت ومعنی خیز ہے۔ پہلے نفس ’’غیب‘‘ پر تو ایمان ہو، پھر اس کے جزئیات وتفصیلات بھی معلوم ہوتے رہیں گے۔ ہمارے مولوی صاحبان کو اس منزل ومقام کی کوئی قدر نہ ہو، لیکن درحقیقت یہ روحانیت کا اعتقاد، ایمان کی پہلی اور بڑی فتح مبین مادیت، الحاد وتشکیک کے لشکر پر تھی۔‘‘ (ص ۲۴۷، ۲۴۸)
’’ہندو فلسفہ اور جوگیانہ تصوف نے گویا کفر وایمان کے درمیان پل کا کام دیا۔ اس معروضہ کو وہ متقشف حضرات خاص طور پر نوٹ کر لیں جو ہندو فلسفہ کے نام ہی سے بھڑکتے ہیں اور اسے یکسر کفر وضلالت کے مرادف قرار دیے ہوئے ہیں۔ ہدایت کا ذریعہ بھی اسے بآسانی بنایا جا سکتا ہے۔ اور یہ حضرات اپنے جوش دین داری میں شبلی اور محمد علی لاہوری کی خدمت تبلیغ کو سرے سے نظر انداز نہ کر جائیں، میں نے تو دونوں کی دست گیری محسوس کی بلکہ اسپرٹ آف اسلام والے جسٹس امیر علی کے کام کو بھی حقیر نہ سمجھیں حالاں کہ وہ بچارے تو قرآن مجید کو شاید کلام محمد ہی سمجھتے تھے۔ اپنی سرگزشت کا تو خلاصہ یہی ہے کہ جس فکری منزل میں، میں اس وقت تھا، حضرت تھانوی جیسے بزرگوں کی تحریروں کو ناقابل التفات ٹھہراتا، ان کی طرف نظر تک نہ اٹھاتا اور ان کے وعظ وتلقین سے الٹا ہی اثر قبول کرتا۔ غذا لطیف وتقویت بخش ہی سہی، لیکن اگر مریض کے معدہ سے مناسبت نہیں ہوگی تو الٹی مضر ہی پڑے گی۔‘‘ (ص ۲۵۵، ۲۵۶)
’’اسی دور کی ابھی ابتدا ہی تھی کہ مولانا شبلی کی سیرۃ النبی کی جلد اول پریس سے باہر آ گئی۔ کتاب شبلی کے قلم سے تھی۔ موضوع کچھ بھی سہی، کیسے نہ اس کو شوق سے ہاتھوں سے کھولتا اور اشتیاق کی آنکھوں سے پڑھتا۔ کھولی اور جب تک اول سے آخر تک پڑھ نہ لی، دم نہ لیا۔ دل کا اصلی چور تو یہیں تھا اور نفس شوم کو سب سے بڑی ٹھوکر جو لگی تھی، وہ اسی سیرۃ اقدس ہی کے متعلق تو تھی۔ مستشرقین ومحققین فرنگ کے حملوں کا اصل ہدف تو ذات رسالت ہی تھی۔ خصوصاً بہ سلسلہ غزوات ومحاربات، ظالموں نے بھی تو طرح طرح سے دل میں بٹھا دیا تھا کہ ذات مبارک نعوذ باللہ بالکل ایک ظالم فتح کی تھی۔ شبلی نے (اللہ ان کی تربت ٹھنڈی رکھے) اصل دوا اسی درد کی کی، مرہم اسی زخم پر رکھا۔ اور کتاب جب بند کی تو چشم تصور کے سامنے رسول عربی کی تصویر ایک بڑے مصلح ملک وقوم اور ایک رحم دل وفیاض حاکم کی تھی جس کو اگر جدال وقتال سے کام لینا پڑا تھا تو پھر بالکل آخر درجہ میں، ہر طرح پر مجبور ہو کر۔ یہ مرتبہ یقیناًآج ہر مسلمان کو رسول ونبی کے درجہ سے کہیں فروتر نظر آئے گا اور شبلی کی کوئی قدر وقیمت نظر میں نہ آئے گی، لیکن اس کا حال ذرا ا س کے دل سے پوچھیے جس کے دل میں نعوذ باللہ پورا بغض وعناد اس ذات اقدس کی طرف سے جما ہوا تھا۔ شبلی کی کتاب کا یہ احسان میں کبھی بھولنے والا نہیں۔‘‘ (ص ۲۴۸)
’’بڑی خیر یہ ہوئی کہ مجلسی، خانگی تعلقات اپنے عزیزوں اور خاندان والوں سے بدستور باقی رہے۔ اپنے ایک ساتھی کو اسی زمانہ میں دیکھا کہ اپنوں سے کٹ کر مکمل غیروں میں شامل ہو گئے تھے اور رہن سہن تک بالکل ہندوانہ کر لیا تھا۔ میں اپنے کھانے پینے، وضع ولباس اور عام معاشرت میں، بلکہ کہنا چاہیے کہ ایک حد تک جذباتی حیثیت سے بھی مسلمان ہی رہا، البتہ ایک روشن خیال مسلمان۔ اور روشن خیال مسلمان اس وقت نوجوانوں میں کون نہ تھا؟ اور مسلم قومیت سے میری یگانگت کی جڑیں بحمد اللہ کٹنے نہ پائیں۔ مسلم قومیت کی نعمت بھی، دین اسلام کے بعد، ایک بڑی نعمت ہے اور کوئی صاحب اسے بے وقعت وبے قیمت نہ سمجھیں۔ مجھے آگے چل کر اس بچی کھچی نعمت کی بھی بڑی قدر معلوم ہوئی۔‘‘ (ص ۲۴۲)
’’مخلصانہ وحکیمانہ کوششیں پھر اگر تھوڑی بہت کسی کی چپکے چپکے کارگر ہوتی رہیں تو بس ان دو ہستیوں کی:
(۱) ایک الہ آباد کے نامور ظریف شاعر حضرت اکبرؒ ۔ بحث ومناظرہ کی انھوں نے کبھی چھانوں بھی نہیں پڑنے دی اور نہ کبھی پند وموعظت ہی کی طرح ڈالی۔ بس موقع بہ موقع اپنے میٹھے انداز میں کوئی بات چپکے سے ایسی کہہ گزرتے جو دل میں اتر جاتی اور ذہن کو جیسے ٹہوکے دے دیتے کہ قبول حق کی گنجائش کچھ تو بہرحال پیدا ہو کر رہتی۔ ۔۔۔۔۔۔
(۲) دوسری ہستی وقت کے نامور رہ نمائے ملک وملت مولانا محمد علیؒ کی تھی۔ بڑی زوردار شخصیت ان کی تھی او رمیرے تو گویا محبوب ہی تھے۔ کبھی خط میں اور کبھی زبانی، جہاں ذرا بھی موقع پاتے، ابل پڑتے اور جوش وخروش کے ساتھ، کبھی ہنستے ہوئے، کبھی گرجتے ہوئے اور کبھی آنسو بہاتے ہوئے تبلیغ کر ڈالتے۔ ان کی عالی دماغی، ذہانت، علم، اخلاص کا پوری طرح قائل تھا، اس لیے کبھی بھی کوئی گرانی دونوں کی تبلیغ سے نہ ہوئی اور دونوں حق نصح (خیر خواہی) ادا کر کے پورا اجر سمیٹتے رہے۔‘‘ (ص ۲۴۹، ۲۵۰)
’’اکتوبر ۲۰ء میں سفر دکن میں ایک عزیز ناظر یار جنگ جج کے ہاں اورنگ آباد میں قیام کا اتفاق ہوا اور ان کے انگریزی کتب خانہ میں نظر محمد علی لاہوری احمد (عرف عام میں قادیانی) کے انگریزی ترجمہ وتفسیر قرآن مجید پر پڑ گئی۔ بے تاب ہو کر الماری سے نکالا اور پڑھنا شروع کر دیا۔ جوں جوں پڑھتا گیا، الحمد للہ ایمان بڑھتا ہے۔ جس ’’صاحبانہ‘‘ ذہنیت میں اس وقت تک تھا، اس کا عین مقتضا یہ تھا کہ جو مطالب اردو میں بے اثر رہتے اور سپاٹ معلوم ہوتے، وہی انگریزی کے قالب میں جا کر موثر وجاندار بن جاتے۔ یہ کوئی مغالطہ نفس ہو یا نہ ہو، بہرحال میرے حق میں تو حقیقت واقعہ بن کر رہا۔ اور اس انگریزی قرآن کو جب ختم کر کے دل کو ٹٹولا تو اپنے کو مسلمان ہی پایا اور اب اپنے ضمیر کو دھوکا دیے بغیر کلمہ شہادت بلا تامل پڑھ چکا تھا۔ اللہ اس محمد علی کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ اس کا عقیدہ مرزا صاحب کے متعلق غلط تھا یا صحیح، مجھے اس سے مطلق بحث نہیں۔ بہرحال اپنے ذاتی تجربہ کو کیا کروں، میرے کفر وارتداد کے تابوت پر تو آخری کیل اسی نے ٹھونکی۔‘‘ (ص ۲۵۴، ۲۵۵)
’’گیتا کے مطالعہ کے بعد سے طبیعت میں رجحان تصوف کی جانب پیدا ہو گیا تھا اور مسلم صوفیا کی کرامتوں اور ملفوظات سے اب وحشت نہیں رہی تھی، دلچسپی پیدا ہو گئی تھی اور خاصی کتابیں فارسی اور اردو کی دیکھ بھی ڈالی تھیں۔ ۔۔۔ ۱۹۱۹ء کا آخر تھا کہ اپنے ایک عزیز سید ممتاز احمد بانسوی لکھنوی کے پاس مثنوی رومی کے چھ دفتر کان پور کے بہت صاف، روشن وخوشنما چھپے ہوئے دکھائی دیے اور طبیعت للچا اٹھی۔ ان بچارے نے بڑی خوشی سے ایک ایک دفتر دینا شروع کر دیا۔ کتاب شروع کرنے کی دیر تھی کہ یہ معلوم ہوا کہ کسی نے جادو کر دیا۔ کتاب اب چھوڑنا چاہوں بھی تو کتاب مجھے نہیں چھوڑ رہی ہے۔ ۔۔۔ یاد نہیں کہ کتاب کتنے عرصے میں ختم کی۔ بہرحال جب بھی ختم کی، تو اتنا یاد ہے کہ دل ممتاز میاں کا نہایت درجہ احسان مند تھا کہ یہ نعمت بے بہا انھیں کے ذریعے ہاتھ آئی تھی۔ شکوک وشبہات بغیر کسی رد وقدح میں پڑے، اب دل سے کافور تھے اور دل صاحب مثنوی پر ایمان لے آنے کے لیے بے قرار تھا! (ص ۲۵۱، ۲۵۲)
’’۲۳ء کا غالباً ستمبر تھا کہ مکتوبات مجدد سرہندی کے مطالعہ کی توفیق ہوئی۔ بڑا اچھا نسخہ، خوب خوش خط وروشن اچھے کاغذ پر، حاشیہ کے ساتھ (مثنوی کے کان پوری ایڈیشن کی طرح) نو حصوں میں امرتسر کا چھپا ہوا مل گیا۔ اس نے طبیعت پر تقریباً ویسا ہی گہرا اثر ڈالا جیسا تین چار سال قبل مثنوی سے پڑ چکا تھا۔ فرق اتنا تھا کہ مثنوی نے جوش ومستی کی ایک گرمی سی پیدا کر دی تھی۔ بجائے ادھر دھر کی آوارہ گردی اور ہر صاحب مزار وصاحب آستانہ سے لو لگانے کے، اب متعین شاہراہ اتباع شریعت کی مل گئی۔ منزل مقصود متعین ہو گئی کہ وہ رضائے الٰہی ہے اس کے حصول ووصول کا ذریعہ اتباع احکام مصطفوی ہے۔ مثنوی اور مکتوبات، دونوں کا یہ احسان عمر بھر بھولنے والا نہیں۔ راہ ہدایت جو کچھ نصیب ہوئی، کہنا چاہیے کہ بالآخر انھیں دونوں کے مطالعہ کا ثمرہ ہے۔‘‘ (ص ۲۵۷)
دیسی سیکولروں کی مغالطہ انگیزیاں (۲)
محمد زاہد صدیق مغل
(۵) سیکولر ریاست خیر کے معاملے میں غیر جانبدار ہوتی ہے
سیکولر لوگ اکثر یہ راگ الاپتے بلکہ اس راگ کے ذریعے اہل مذہب پر رعب جمانے کی کوشش کرتے ہیں کہ دیکھو ’سیکولرازم کا مطلب ریاست اور مذہب میں جدائی ہے اور بس، سیکولر ریاست کا کوئی اخلاقی ایجنڈہ (دین) نہیں ہوتا اور یہ خیر کے معاملے میں غیر جانبدار ہوتی ہے‘۔ اس دعوے کا مقصد یہ ثابت کرنا بلکہ دھوکہ دینا ہوتا ہے کہ (۱) چونکہ سیکولر ریاست ایک پوزیٹو (positive، حقیقت جیسی کہ وہ ہے ) ریاست ہوتی ہے نہ کہ نارمیٹو (normative، حقیقت جیسی کہ اسے ہونا چاہئے )، (۲) اسی لئے سیکولر ریاست کسی تصور خیر کی بیخ کنی نہیں کرتی، (۳) بلکہ تمام تصورات خیر کے فروغ کے یکساں مواقع فراہم کرتی ہے، (۴) لہذا ریاست کو پوزیٹو (سیکولر، یعنی غیرجانبدارانہ) بنیاد پر قائم ہونا چاہئے نہ کہ مذہبی بنیاد پر کیونکہ مذہب خیر کے معاملے میں جانبدار ہوتا ہے اور اپنے مخصوص تصور خیر سے متصادم تمام تصورات کے ساتھ مساوی سلوک نہیں کرتا۔ سیکولر ریاست کی اس غیر جانبداریت کے دعوے کو سیکولر لوگ ایک عرصے سے دھرتے چلے آرہے ہیں۔ اس کے جواب میں عام طور پر اہل مذہب یہ کہتے ہیں کہ ’ریاست کو خیر کے معاملے میں غیر جانبدار نہیں بلکہ جانبدار ہونا چاہئے ‘ یا یہ کہ ’ اسلامی ریاست سیکولر ریاست کی طرح غیر جانبدار نہیں بلکہ خیر کے معاملے میں جانبدار ہوتی ہے اور یہ اچھی بات ہے ‘ وغیرہ۔ مگر اس قسم کے تمام جوابات یہ فرض کرلیتے ہیں گویا سیکولر ریاست واقعی ’ہر خیر‘ کے معاملے میں ’غیر جانبدار‘ (neutral) ہوتی ہے۔ لیکن حقیقت اس کے عین برعکس ہے، ایک سیکولر ریاست نہ صرف یہ کہ ’ اپنا مخصوص اخلاقی ایجنڈہ ‘ رکھتی ہے اور اس مخصوص تصور خیر کی طرف جانبدار ہوتی ہے بلکہ ’دیگر تمام تصورات خیر کو جانچنے کیلئے ایک انتہائی ڈاگمیٹک اخلاقی پیمانہ ‘ بھی رکھتی ہے اور اسی بنیاد پر یہ ’ان دیگر تصورات کی بیخ کنی‘ کرتی چلی جاتی ہے، لیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ یہ ساری واردات وہ ’پوزیٹوازم، معروضیت اور غیر جانبداریت‘ کے پردوں میں ہی کرجاتی ہے، اور مذہبی حضرات ان پردوں کو چاک کرکے سیکولر لوگوں کا گھناؤنا چہرہ سامنے لانے کے بجائے ان کی پچ پر ہی کھیلنا شروع کردیتے ہیں۔ بظاہر معصوم دکھائی دینے والے اس دعوے میں کئی خطرناک وارداتیں چھپی ہوئی ہیں، یہاں ان کا جائزہ لیتے ہیں۔
سیکولر لوگوں کا یہ دعویف کہ سیکولر ریاست کا کوئی اخلاقی ایجنڈہ (ٹھیک اور غلط کا تصور و پیمانہ ) نہیں ہوتا‘ اپنی ذات میں متناقض (self-contradictory)دعوی ہے۔ درحقیقت یہ دعوی اس قدر مضحکہ خیز ہے کہ اسے رد کرنے کے لیے کسی پیچیدہ دلیل کی ضرورت ہی نہیں۔ ان عقلمندوں سے کوئی پوچھے کہ کیا بذات خود یہ تصور کہ ’مذہب کو ریاست سے الگ ہونا ’’چاہئے‘‘‘ (لفظ چاہئے پر فوکس رہے) ایک اخلاقی چوائس اور ترجیح کا معاملہ نہیں؟ پھر یہ کہنا کہ ’مذہب کو ذاتی زندگی تک محدود رکھنا ’’چاہئے‘‘ ‘ (لفظ چاہئے پر توجہ رہے) ٹھیک اور غلط کی ایک مخصوص چوائس نہیں؟ ظاہر ہے تمام لادینی نظرئیے اس اخلاقی ترجیح کے بھی قائل نہیں، مثلاً مارکسزم اپنی اصل شکل میں اس انفرادی مذہبی آزادی دینے کا بھی روا نہیں، تو یہ انفرادی مذہبی آزادی کا حق ایک اخلاقی ترجیح ہی ہوئی نا؟ پھر یہ تصور کہ ’اجتماعی نظم زندگی مذہب کے سوا کسی دوسری بنیاد (مثلاً ہیومن رائٹس) پر قائم ہونا ’’چاہئے‘‘‘ صحیح اور غلط کا ایک مخصوص تصور نہیں؟ زیادہ سے زیادہ کوئی یہی کہہ سکتا ہے نا کہ یہ تصور اسے بوجوہ بھلا معلوم ہوتا ہے، مگر کیا اسکا انکار کرسکتا ہے کہ یہ ایک اخلاقی ترجیح کا معاملہ ہی ہے؟ کیا ہیومن رائٹس سے نکلنے والے تصور خیر کو دیگر تمام تصورات خیر پر ’’فوقیت دینا‘‘ ایک اخلاقی ترجیح نہیں؟ پھر کیا دنیا کے تمام تصورات خیر کو ہیومن رائٹس کی کسوٹی پر ’’جانچنا ‘‘ اور اس ہی کسوٹی پر پرکھ کر ان کے ’’ٹھیک یا غلط ہونے کا فیصلہ صادر کرنا‘‘ بذات خود خیروشر کا ایک پیمانہ وضع کرلینا نہیں ہے؟ درحقیقت سیکولرازم کے بارے میں اس قسم کے دعوے وہی شخص کر سکتا ہے جسے سیکولرازم کے ڈسکورس کے بارے میں کوئی خبر ہی نہ ہو۔
اب ذرا آگے بڑھ کر مزید باریکی سے انکے دعوے کا جائزہ لیتے ہیں۔ جب سیکولر لوگ یہ کہتے ہیں کہ مذہب کو ریاستی معاملات سے الگ رکھ کر ایسے قانونی نظام پر ریاست کی تشکیل کی جانی چاہئے جو خیر کے معاملے میں غیر جانبدار ہو کر تمام تصورات خیر کو پنپنے کے مواقع فراہم کرے، تو ایسا قانونی نظام انکے خیال میں ہیومن رائٹس فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ مگر ہیومن رائٹس کے مطابق اصل تصور خیر ’فرد کی آزادی ‘ (یعنی ’حق کی خیر پر فوقیت ہونا‘) ہے، لہٰذا اس کے مطابق دنیا کا ہر وہ تصور خیر جو ’فرد کی اس صلاحیت کہ وہ جو چاہنا چاہے چاہ سکے اور اسے حاصل کرسکے‘ پر قدغن لگاتا ہے وہ غیر اخلاقی، غیرعقلی و غیر فطری تصور ہے اور اسی لئے اس کی بذریعہ قوت سرکوبی کرنا لازم ہے۔ معلوم ہوا کہ ہیومن رائٹس پر ایمان لانا غیر جانبداری کا رویہ اختیار کرنا نہیں بلکہ بذات خود خیر کے ایک مستقل مابعد الطبیعیاتی تصور (فرد کی آزادی کے حصول) پر ایمان لانا ہے ، اور ہیومن رائٹس پر مبنی سیکولر (جمہوری دستوری ) ریاست لازماً اسی تصور خیر کے تحفظ اور فروغ کی پابند ہوتی ہے (اور یہی اسکا ’دین ‘ ہوتا ہے)۔ لہٰذا اسے ’پوزیٹوازم اور غیر جانبداریت‘ سے تعبیر کرنا دھوکہ دھی کے سوا اور کچھ نہیں۔
چنانچہ خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ مغرب اور سیکولر طبقے کا یہ دعوی کہ لبرل سیکولر ریاست خیر کے معاملے میں غیر جانبدار اور اسی لئے Tolerant ہوتی ہے (اسکی قلعی بھی ہم آگے کھولے دیتے ہیں) ایک جھوٹا دعوی ہے کیونکہ خیر کے معاملے میں غیر جانبداری کا رویہ ممکن ہی نہیں۔ درحقیقت اس دنیا میں غیر جانبداریت (neutralism) بمعنی ’عدم رائے‘ (no position) کا کوئی وجود نہیں، بلکہ غیر جانبداری کے دعوی کا اصل مطلب ہوتا ہے ’کسی اصول کے مطابق رائے دینا یا فیصلہ کرنا‘ (غیرجانبداریت، معروضیت ، پوزیٹوازم، عقلیت، فطرت وغیرہ جیسے الفاظ محض اپنے مخصوص مفروضہ مقاصد و نظریات کو چالاکی کے ساتھ فروغ دینے اور مدمقابل کیلئے قابل قبول بنانے کا ایک مناظرانہ طریقہ کار ہے اور بس)۔ جو لوگ ان معنی میں غیر جانبداری کا دعوی کرتے ہیں گویا وہ تمام اصولوں سے ماوراء کہیں خلا میں معلق ہو کر اپنی رائے دے رہے ہیں فی الحقیقت وہ مہمل تصورات کا شکار ہیں، کیونکہ اس دنیا میں ایسا کوئی مقام نہیں جہاں پہنچ کر انسان غیر جانبدار ہوجائے۔ مثلاً یہ کہنا کہ ’فلاں مسئلے میں آپ مسلمان کے بجائے غیر جانبدار ہو کر غور کریں ‘ محض بے وقوفی کی بات ہے، کیا اسلا م سے باہر نکل کر انسان کافر ہوتا ہے یا غیر جانبدار ؟ کیا کفر بذات خود ایک جانبدارانہ مقام نہیں؟ [ائمہ علم الکلام نے معتزلہ کے ’المنزلۃ بین المنزلتین‘ (ایمان و کفر کے ما بین ایک امکانی غیر جانبدار پوزیشن) کے عقیدے کی بیخ کنی اسی گمراہی سے امت کو بچانے کیلئے فرمائی۔ عبدیت سے باہر نکل کر انسانی عقل غیر جانبدار نہیں بلکہ خواہشات اور شیاطین کی غلام ہو جاتی ہے جیسا کہ ارشاد ہوا فان لم یستجیبوا لک فاعلم انما یتبعون اھواۂم ومن اضل ممن اتبع ھواہ بغیر ھدی من اللہ (پس اے رسول اگر وہ قبول نہ کریں آپ کے ارشاد کو تو جان لو کہ وہ اپنی خواہشات نفس کے پیرو کارہیں اور اس شخص سے بڑا گمراہ کون ہوگا جو خدائی ہدایت کے بجائے اپنی خواہشات کی پیروی کرے)، مزید فرمایا لاتطع من اغفلنا قلبہ عن ذکرنا واتبع ھواہ (اس شخص کی اطاعت نہ کرجس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا اور جس نے اپنے خواہش نفس کی پیروی اختیار کرلی ہے) ، نیز من یعش عن ذکر الرحمن نقیض لہ شیطاناً فہو لہ قرین (جو کوئی رحمن کے ذکر سے منہ موڑتا ہے تو ہم اسکے اوپر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں جو اسکا دوست بن جاتا ہے)]۔
(۶) سیکولر ریاست کسی تصور خیر کی بیخ کنی نہیں کرتی
درج بالا بحث کے بعد یہ غلط فہمی خود بخود صاف ہوجانی چاہئے کیونکہ اپنے دائرہ عمل میں سیکولر ریاست صرف انہی تصورات خیر اور حقوق کو برداشت کرتی ہے جو اسکے اپنے تصور خیر (ہیومن رائٹس، یعنی ہیومن کی آزادی) سے متصادم نہ ہوں، اور ایسے تمام تصورات خیر جو ہیومن رائٹس سے متصادم ہوں انکی بذریعہ قوت بیخ کنی (suppress) کر دیتی ہے۔ ان حقائق کو چند آسان مثالوں سے سمجھا جا سکتا ہے۔ فرض کریں ہندو اپنی مذہبی روایات کی بنیاد پر ’ستی کرنے‘ یا معاشرے کو اپنے مخصوص ’ذات پات کے نظم‘ پر تشکیل دینا چاہتے ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا سیکولر ریاست ان اعمال کی اجازت دے گی؟ ہرگز نہیں، کیوں؟ اسی لیے نا کہ ’ہیومن رائٹس قانون انہیں ان اعمال کی اجازت نہیں دیتا کہ یہ اعمال و ترجیحات بنیادی انسانی حقوق کے فلسفے سے متصادم ہیں‘۔ تو کیا سیکولر ریاست ان اعمال کی اجازت نہ دے کر بلکہ بذریعہ جبر، قوت و قانون انہیں بند کر کے ہندو تصور خیر کی بیخ کنی نہیں کرتی؟ اتنا ہی نہیں ذات پات کے نظام کی تشکیل منہدم کرکے سیکولر ریاست ہندو انفرادیت کے فروغ کا راستہ بند کردیتی ہے اور اس طرح ہندو انفرادیت کی بھی بیخ کنی دیتی ہے کیونکہ ہندو ں کے خیال میں ذات پات کے معاشرتی نظم کے بغیر وہ انفرادیت جو انکے عقائد کے ساتھ ہم آہنگ ہے کبھی دریافت نہیں کی جاسکتی۔ دوسرے لفظوں میں سیکولر ریاست ہیومن رائٹس کے نام پر ہندو رسوم ہی نہیں بلکہ ہندو عقائد کو مہمل بنا کر انکی بھی بیخ کنی کرڈالتی ہے۔ اسی طرح فرض کریں ایک مسلمان لڑکی کسی کافر سے شادی کرنا چاہتی یا مسلمان لڑکا بدکاری کرنا یا کسی لڑکے کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے، ظاہر ہے اس معاملے میں اسلامی معاشرہ وریاست ہرگز اس کی اجازت نہیں دے گی، مگر چونکہ ہیومن رائٹس قانون ان افعال کو ہیومن کا حق قرار دیتا ہے لہذا اس ریاست میں افراد کو انکی قانونی اجازت اور ریاستی سرپرستی حاصل ہوگی۔ اگر مسلمان اجتماعیت اس لڑکی اور لڑکے پر اپنا تصور خیر مسلط کرنے کی کوشش کرے گی تو لبرل ریاست ان کے خلاف کاروائی کرکے ان کی سر کوبی کردے گی۔ اب دیکھئے مسلمان چاہتے ہیں کہ ان کے معاشرتی نظم کی بقا جس اجتماعی ڈھانچے میں مضمر ہے اسے تحفظ فراہم کیا جائے مگر سیکولر ریاست عین اسکے برعکس قانون بناتی ہے۔ کیا اسکے نتیجے میں اسلامی معاشرت اور نتیجتاً اسلامی انفرادیت انتشار اور تحلیل کا شکار نہیں ہوجائے گی؟
یہاں بنیادی بات یہ سمجھنے کی ہے کہ ہیومن رائٹس ’ہیومن (خود کو قائم بالذات سمجھنے والی یعنی خدا کی باغی انفرادیت) کے حقوق‘ (right of HUMAN) کا تحفظ کرتے ہیں نہ کہ ’مسلم (ہندو یا عیسائی) انفرادیت کے حقوق‘ (right of MUSLIM)۔ دیکھئے مسلم مرد کی مرد سے شادی ’ہیومن کا حق‘ تو ہے مگر ’مسلمان کا حق نہیں‘، سوال یہ ہے کہ جب ان دوقسم کی انفرادیتوں کے حقوق میں مخاصمت ہوگی تو کیا سیکولر ریاست کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح دیتی ہے یا نہیں؟ نیز کس کو کس پر ترجیح دیتی ہے؟ درحقیقت اسی سوال کے جواب میں سیکولر ریاست کی ’جانبداریت‘ کی ساری واردات چھپی ہوئی ہے۔ تو جب یہ ریاست ’ہیومن رائٹس‘ (ایک مخصوص تصور انفرادیت و خیر) کو دیگر تصورات خیر پر فوقیت دیتی ہے نیز اسی پیمانے پر انہیں جانچتی ہے تو کیا یہ بذات خود ایک مخصوص تصور خیر کی طرف جانبداریت کا رویہ نہیں؟ پس خوب یاد رہے کہ اپنے مخصوص خیر کے معاملے میں لبرل جمہوری ریاست بھی انتہائی راسخ العقیدہ (dogmatic) اور intolerant ہوتی ہے اور اپنے اس مخصوص تصور خیر سے متصادم کسی نظرئیے کی بالادستی کو روا نہیں رکھتی۔ چنانچہ مشہور لبرل مفکر رالز (Rawls) کہتا ہے کہ مذہبی آزادی کو لبرلزم کے لئے خطرہ بننے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، وہ مذہبی نظریات جو لبرل آزادیوں کا انکار کریں ان کو عملاً کچل دینا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کسی وبا کو ختم کرنا ضروری ہوتاہے۔ اسی بنیاد پر ہیومن رائٹس کی چمپئن یورپی اقوام نے کروڑوں ریڈ انڈین اور دیگر اقوام کا قتل عام روا رکھا (جان لاک اور جیفرسن کے الفاظ میں ریڈ انڈین بھینسے اور بھیڑئیے ہیں ) اور آج بھی مجاہدین کو قتل کیا جا رہا ہے۔
(۷) سیکولر ریاست تمام تصورات خیر کے فروغ کے مساوی مواقع فراہم کرتی ہے
اب تک کی بحث کے بعد اس نکتے پر زیادہ تفصیلی گفتگو کی ضرورت تو نہیں البتہ چند ایک مزید پہلووں سے بھی اس دعوے کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ اصولی بات یہ ہے کہ افراد کی ذاتی زندگیوں میں وہی اقدار ، کیفیات، صلاحیتیں و اعمال پھلتے پھولتے ہیں جن کے اظہار کے اجتماعی زندگی میں مواقع موجود ہوں، جنہیں اجتماعی زندگی میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہو، نیز جن کے حصول و عدم حصول پر اجتماعی زندگی میں کامیابی و ناکامی کا انحصار ہو۔ ایسی اقدار جو اجتماعی زندگی میں لایعنی و مہمل تصور کی جاتی ہوں یہ سمجھنا کہ لوگوں کی نفرادی زندگی میں پھلتی پھولتی رہیں گی ایک غیر عقلی بات ہے۔ جس ذاتی زندگی کا اجتماعی زندگی کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہو آہستہ آہستہ مہمل بن کر اپنی موت آپ ہی مر جایاکرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج جب ہمارا اجتماعی سیکولر نظام فرد کو علم دین کے حصول کیلئے کسی درجے میں بھی مجبور نہیں کررہا تو دینی علوم کا حصول افراد کی نجی زندگیوں میں غیر متعلقہ ہوتا جارہا ہے مگر سائنسی علوم ہر کسی کا مطمع نظر بن رہا ہے جسکی وجہ یہ ہے کہ جدید اجتماعی زندگی اسی علم کے ارد گرد تعمیر کی گئی ہے۔
اب ذاتی اور اجتماعی زندگی کے اس باہمی تعلق کو سامنے رکھ کر اس بات پر غور کریں کہ سیکولر ڈسکورس کا ایک اہم تقاضا آخرت کی اقداری حیثیت کا انکار کردینا بلکہ اسے لایعنی و مہمل قرار دینا بھی ہے۔ چنانچہ سیکولر ڈسکورس کہتا ہے کہ معاشرتی و ریاستی صف بندی میں یہ سوال کہ ’افراد اس معاشرے میں زندگی بسر کرنے کے بعد جنت میں جائیں گے یا جہنم میں‘ ایک لایعنی و مہمل سوال ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ مسئلہ کہ آیا ’افراد کو معاشرے میں زیادہ نیکیاں اور کم گناہ کمانے کے مواقع میسر ہیں‘ ایک بے کار سوال ہے، کیونکہ جونہی ’نیکی اور بدی کے مواقع‘ کا سوال اٹھایا جائے گا مذہب فورا ذاتی زندگی سے نکل کر اجتماعی میدان میں آجاتا ہے۔ اتنا ہی نہیں اس ریاست کے نزدیک خود ’نیکی و بدی ‘ ہی لایعنی تصورات ہیں۔ اب ظاہر ہے اسلامی نکتہ نگاہ سے آخرت کی اقداری حیثیت بنیادی نوعیت کی ہے، یعنی یہاں معاشرتی و ریاستی صف بندی میں اصل اور فیصلہ کن سوال ہی یہ ہے کہ افراد کو جنت میں جانے کے مواقع زیادہ فراہم ہونگے یا جہنم میں؟ مگر مذہب کو فرد کا نجی مسئلہ قرار دینے کا مطلب یہ اعلان کرنا ہے کہ ’مرنے کے بعد جنت و جہنم میں جانا‘ اجتماعی نظم کی تشکیل میں بے کار و بے معنی سوال ہے، جبکہ اسلام میں سب سے اہم اورپہلا سوال ہی یہ ہے کہ مرنے کے بعد کوئی شخص کہاں جائیگا ۔ اب دیکھئے مذہب اجتماعی نظم کے قیام کیلئے جس شے کی اقداری حیثیت و فوقیت کو کلیدی سمجھتا ہے سیکولر ڈسکورس اسے لایعنی قرار دیکر نکال باہر کردینا چاہتا ہے۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ سیکولر اجتماعی نظم بھی قائم ہوجائے مگر لوگوں کی زندگیوں میں آخرت بطور قدر بھی پنپتی رہے؟ صرف ایک فاتر العقل انسان ہی ایسا امکان سوچ سکتا ہے۔ جس خاندان کے کسی اجتماعی عمل اور فیصلے میں تقوی و پرہیزگاری سرے سے متعلقہ سمجھے ہی نہ جارہے ہوں آخر وہاں بچے کیونکر تقوی و پرہیزگاری اختیار کرتے رہنے کو ترجیح دیتے رہیں گے؟ اسے کہتے ہیں کہ people seek what the system rewards ، یعنی افراد اس شے کی تگ و دو کرتے ہیں جسے نظام قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ یہ محض نظریاتی باتیں نہیں، بلکہ دنیا میں جہاں بھی سیکولر جمہوری اقدار (آزادی ، مساوات اور ترقی) کا فروغ ہوا، ان معاشروں کے افراد کی زندگیوں میں فکر آخرت اور مرنے کے بعد کی زندگی کا سوال بے کار ہوتا چلا گیا اور لذت پرستانہ فکر معاش فکر معاد پر غالب آگیا۔ درحقیقت افراد کی نجی زندگی میں وہی اقدار پنپتی ہیں جو اجتماعی زندگی میں قابل قدر سمجھی جارہی ہوتی ہیں، جن ذاتی اقدار کا اجتماعی زندگی میں کامیابی و ناکامی سے سرے سے کوئی تعلق ہی نہ ہو آخر فرد کیونکر انہیں اختیار کرتا چلا جائے گا؟ لہذا یہ کہنا کہ سیکولر نظم ’ہر تصور خیر‘ کے فروغ کے مساوی مواقع فراہم کرتی ہے ایک سفید جھوٹ ہے۔ درحقیقت لبرل معاشروں میں سیکولر ریاست جس نظام زندگی کو جبراً مسلط کرتی ہے وہ لبرل سرمایہ دارانہ نظام زندگی ہے جسکے نتیجے میں سوائے ہیومن کے تمام اجتماعیتیں لازماً تحلیل ہو جاتی ہیں اور دیگر تمام نظام ہائے زندگی پر عمل کرنے کا دائرہ کار کم سے کم تر ہوتے ہوتے ختم ہو جاتا ہے۔
(۸) سیکولر ریاست پرامن مذہبی بقائے باہمی ممکن بناتی ہے
اس ضمن میں سیکولر لوگ بڑے طمطراق سے یہ بھی کہتے ہیں کہ سیکولر ریاست مذہبی اختلافات (مثلا شیعہ سنی، دیوبندی بریلوی) کو ختم کرکے انکے پرامن بقائے باہمی کو ممکن بناتی ہے، اور ہمارے چند دینی لوگ بھی اس جھانسے کا شکار ہوکر اسے سیکولر ریاست کی کوئی ’خوبی ‘ اور اہل مذہب پر اس کا کوئی ’احسان ‘ تصور کرنے لگتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا سیکولر ریاست مذہبی نزاعات کا یہ حل مذہب کی اجتماعی و ذاتی اقداری حیثیت کو ’قائم و دوائم ‘ رکھتے ہوئے ’اس کے اندر‘ ہی طے کردیتی ہے یا مذہب کو ’لایعنی و مہمل‘ بنا کر حل کرتی ہے؟ اگر یہ حل وہ مذہب کی اقداری حیثیت کو لایعنی، غیرضروری و مہمل بنا کر کرتی ہے جیسا کہ امر واقعہ ہے تو اس میں اہل مذہب کیلئے خوش کن بات کیا ہے؟ ظاہر ہے اس دنیا میں کوئی بھی انسان بے کار و لایعنی شے کیلئے نہیں لڑتا، چنانچہ سیکولر ریاست کے قیام و بقا کے نتیجے میں مذہبی ترجیحات کی اقداری حیثیت چائے و کافی کی ترجیح سے زیادہ کچھ نہیں رہتی۔ کیا اسلام کو ’دین‘ سمجھنے والوں کے لیے یہ قابل قدر بات ہے یا تشویش کا مقام ؟ دوسرے لفظوں میں سیکولر ریاست کا جو فعل و خصوصیت اہل مذہب کے لیے انتہائی قابل مذمت ہونا چاہئے، چند سادہ لوح لوگ اسے اس کی خوبی فرض کرلیتے ہیں۔
اسی طرح جب یہ کہا جاتا ہے کہ ’سیکولر ریاست حصول مذہب کے معاملے میں کسی پر جبر نہیں کرتی‘ تو فی الحقیقت اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مذہب اِس نظم میں مہمل و لایعنی قرار دیا گیا ہے کیونکہ نظام اس ہی شے کے حصول کے لیے جبر کرتا ہے جسے وہ قابل قدر سمجھتا اور بنانا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیکولر ریاست فرد پر سائنسی (بشمول فزیکل و سوشل سائنسی) علوم کے حصول کیلئے بھرپور جبر کرتا ہے کہ اسکے بغیر وہ اس نظام میں کامیاب نہیں ہوسکتا جبکہ مذہب اسکے نزدیک محض کھیل تماشا ہوتا ہے۔ مگر ہمارے سادہ لوح مذہبی لوگ سیکولر نظام کی فراہم کردہ چند غیر متعلقہ مذہبی آزادیوں سے یہ دھوکہ کھا جاتے ہیں گویا یہ نظام مذہب کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ چنانچہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ سیکولر ریاست ہر مذہب کے چند انفرادی شعائر کی ادائیگی کا حق اس لئے نہیں دیتی کہ یہ انہیں ’قابل قدر یا اہم‘ سمجھتی ہیں بلکہ اس لئے دیتی ہے کہ یہ انہیں ’مہمل ، لایعنی، اور غیر متعلقہ‘ سمجھتی ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ہمارے یہاں چند ایسے مفکرین (مثلاً وحید الدین خان صاحب) بھی پیدا ہوگئے ہیں جن کے خیال میں اسلام پھیلتا ہی سیکولر نظام میں ہے، گویا زہر ہی ان کے نزدیک تریاق ہے۔ ایسے لوگ یا تو مذہب کو محض چند رسوم عبادت تک محدود سمجھتے ہیں اور یا پھر یہ سیکولر لوگوں کے دعوائے غیر جانبداریت سے انتہائی حد تک متاثرہیں اور اسی وجہ سے اپنے تئیں یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ چونکہ اسلام حق ہے لہٰذا جونہی اسے یہ ’نیوٹرل‘ موقع ہاتھ آئے گا یہ اپنا لوہا منوالے گا۔ لیکن اس قسم کے استدلال کو ان حضرات کی سادہ لوحی پر تو محمول کیا جا سکتا ہے مگر علمی دنیا میں اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ سیکولرریاست کے غیر جانبداریت کے اس جھوٹے دعوے سے متاثر ہوکر تمام مذہبی گروہ اور طبقے اس کے ہاتھوں خوشی خوشی اپنی جڑیں کٹوالینے پر تیار ہوجاتے ہیں؛ یعنی بریلوی، دیوبندی، سلفی، شیعہ سب ایک ایسی انفرادیت (ہیومن) اور اجتماعیت (سول سوسائٹی) کے غلبے کو قبول کرلینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں جو ان سب کی نفی اور بیخ کنی کردیتی ہے مگر یہ سادہ لوح لوگ اسے اپنے ساتھ ’برابری، مساوات، عدل و انصاف ‘ کا معاملہ اور ’اپنی بقا کا غماز ‘ سمجھتے رہتے ہیں، فیاللعجب۔ اس مقام پر سیکولر لوگ تو کجا خود مذہبی لوگ ہی یہ استدلال پیش کرنے لگتے ہیں کہ کیونکہ یہ تمام مذہبی گروہ آپسی نزاعی کیفیت کا شکار ہیں اور ان کا باہمی رویہ ٹھیک نہیں لہٰذاخود ان گروہوں کے حق میں یہ بہتر ہے کہ اقتدار کی کنجیاں ان کے پاس رہنے کے بجائے کسی غیرجانبدار قوت کے پاس رہیں۔ سوچئے کس قدر عجیب ہے یہ استدلال ، کیا آپسی ناگوار رویوں کو بنیاد بنا کر کسی ایسے تیسرے فریق کو گھر کا مالک بن بیٹھنے کی اجازت دی جاسکتی ہے جو ہم سب کا استحقاق ملکیت غصب کرکے گھر پر ایسا قانون مسلط کردے جو ہم سب ہی کے خلاف ہو اور ہم سب کی بیخ کنی کردے؟ مستحکم سیکولر ریاستی نظام میں تو مسلم، عیسائی ، ہندو ہونا ہی لایعنی ، مہمل اور غیر متعلقہ شے بن جاتی ہے چہ جائیکہ ان ذیلی شناختوں کی بقا کا تصور کیا جاسکے۔
(جاری)
’’جمہوری و مزاحمتی جدوجہد‘‘ ۔ ایک تجزیاتی مطالعہ
محمد رشید
’’الشریعہ‘‘ کے مدیر اعلیٰ مولانا زاہد الراشدی صاحب کچھ عرصہ سے تسلسل کے ساتھ نفاذ اسلام کے لیے آئینی اور جمہوری جدوجہدکی تلقین فرما رہے ہیں اور مسلح مزاحمت کے مقابلے میں غیر مسلح مزاحمت کے طریق کار کی دعوت پیہم اصرار سے دے رہے ہیں۔ اس تناظر میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلح مزاحمت کسے کہتے ہے؟ اور غیر مسلح مزاحمت کیا ہے؟
مسلح مزاحمت کیا ہے؟
مسلح مزاحمت یا مسلح بغاوت دراصل کسی کمزورفریق کے مقابلہ میں بے حد طاقتور فریق کے ظلم، جبراورآمرانہ سوچ اورشکنجہ کو بے رحمی سے اس کمزورفریق پرمسلط کرنے کے نتیجہ میں رونما ہوتا ہے۔مسلح بغاوت یا مزاحمت درحقیقت کسی بے حد طاقتورسلطنت میں کمزورکواپنی مرضی کی زندگی نہ گزارنے دینے کے نتیجے میں رونما ہوتا ہے۔پُرامن،باانصاف اور غریب پرور معاشروں میں مسلح بغاوت یا مزاحمت ایک روگ، ایک بیماری او ر ایک فتنہ ہے، جبکہ ظالم، بے انصاف، بے رحم ، بے حس ،غریب کُش اور کمزوروں کا استحصال کرنے والے معاشروں میں مسلح بغاوت یا مزاحمت ظلم،جبر،بے رحمی اور بے انصافی کی لعنتوں کا ردعمل ہے۔جوطاقت و قوت کے زعم اور تکبر میں مبتلا ایوانوں کے ردعمل میں جنم لیتا ہے ۔طاقت کے وہ ایوان جنہیں اپنے قارونی خزانوں اور مہیب مسلح قوتوں کا زعم اور نشہ ہر کمزور اور مخالف سوچ کو کچل دینے پہ آمادہ پیکار رکھتا ہے،مسلح بغاوت یا مزاحمت اس مکروہ ظالمانہ اور بے رحم معاشرے کے چہرے پرکمزوروں کا زوردار طمانچہ ہوتا ہے۔ازل سے ایسا ہوتا رہا ہے کہ انسان کی انانیت،تکبر اور اس میں چھپا ہوا ابلیس اسے اپنے سے کمزوروں کا استحصال اور ان کا دائرہ حیات تنگ کرنے پر آمادۂ پیکار کرتا رہا ہے۔جس کا نہایت مسکت جواب قوانین فطرت کے عین مطابق’’مسلح بغاوت یا مسلح مزاحمت‘‘ کی صورت میں ہردور کے نمرودوں اور فرعونوں کو ملتا رہا ہے۔
لیکن دنیا پر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیمات اور اسلام کے سورج کے روشن ہوجانے کی وجہ سے ابلیس کو یہ خطرہ پیدا ہوگیا کہ اگردنیا کے نادار،غریب اور کمزورطبقات کی اسلام کے ’’جذبہ جہاد‘‘ تک رسائی ہوگئی توپھر فرعونیت، قارونیت اورہامانیت یعنی بے رحم اور بے حس سرمایہ داروں،جاگیرداروں اوربادشاہوں کا دنیا سے ہمیشہ کے لیے صفایاہوجائے گا۔’’جذبہ جہاد‘‘ کی یہ وہ ہیبت ناک تلوار تھی جس نے ابلیس اور ابلیسی ذریت کو بے حد خوف اور فکر میں مبتلا کردیا۔چنانچہ اس نے اس کا توڑکرنے، انسانیت کو ’’جہاد‘‘ اور ’’جذبہ جہاد‘‘ سے محروم کرنے کے لیے حضرت انساں کے ہاتھوں میں جمہوریت،آزادی رائے اور انتخابی و احتجاجی سیاست کے ساحرانہ کھلونے تھما دیے۔اسی حقیقت کا اظہار ہمیں اقبال کے اشعار میں بھی جابجاملتاہے ۔چند مثالیں ذیل میں پیش کی جاتی ہیں:
آزادی افکار ہے ابلیس کی ایجاد
(بال جبریل بعنوان ’’آزادی افکار‘‘)
یہ علم ،یہ حکمت، یہ سیاست، یہ تجارت
جو کچھ ہے وہ ہے فکر ملوکانہ کی ایجاد
(ارمغان حجازبعنوان ’’د وزخی کی مناجات‘‘)
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خودشناس و خودنگر
(ارمغان حجازبعنوان ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘)
جمہورکے ابلیس ہیں ارباب سیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تہہ افلاک
(ارمغان حجازبعنوان ’’ابلیس کی عرضداشت‘‘)
جدید دور کے سامری نے جمہوریت نامی اس کھلونے کے ذریعہ ساری دنیا کے انسانوں کو اپنے سحر میں گرفتار کر لیا۔ اس طرح اپنے مکر،فریب اور سحر کے ذریعہ انسانیت کو ایک بار پھر اسلام سے اوردنیا اور آخرت کے دکھوں سے نجات حاصل کرنے کی راہ سے دورلے جانے میں کامیاب ہوگیا۔عہد حاضر کے سامری کا یہ وہ جادو ہے جو سرچڑھ کر بول رہا ہے۔ نہ صرف اسلام کی دولت سے محروم طبقات عہد جدید کے سامری کے ’’جمہوریت‘‘ نامی اس سحر میں بری طرح گرفتار ہوچکے ہیں بلکہ اس سحر نے اسلام کے پیروکاروں کی عظیم اکثریت کو بھی اپنے جال میں جکڑ لیا ہے، حتیٰ کہ نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ بہت سے مسلم مذہبی زعما، قائدین اور علماء تک کے اذہان پر اس سحر نے رسائی حاصل کر لی۔ لہٰذا اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے بہت سارے نہایت محترم قائدین اور علماء بھی جمہوریت،آئینی جدوجہداورانتخابی و احتجاجی سیاست کواسلام اورمسلمانوں کے لیے بالکل اسی طرح مفید،ضروری اورناگزیر قرار دیتے ہیں جس طرح مغرب کے ملحد،لادین اور سرمایہ پرست اسے اپنے معاشروں کے لیے بے حد مفید،ضروری اور ناگزیر قرار دیتے ہیں۔
دکھ اور افسوس کا مقام صرف یہ نہیں ہے کہ مغرب کے مقتدرابلیسی اور دجالی اذہان دیار مغرب میں رہنے والے انسانوں کی عظیم اکثریت کو جمہوریت ،آئین،انتخابی اور احتجاجی سیاست کے کھلونے دے کران کا ذہنی،جسمانی اور روحانی بدترین استحصال کررہے ہیں بلکہ ’’درداتنا ہے کہ ہررگ میں ہے محشر برپا‘‘ کے مصداق ناختم ہونے والی اذیت کامقام یہ ہے کہ اہل اسلام کے نہ صرف سیاسی قائدین بلکہ دینی مذہبی راہنما اور مفکرین کی نگاہ میں بھی جمہوریت، آئین، انتخابی اور احتجاجی سیاست کے دجالی کھلونے اہل اسلام کے دکھوں کا واحد علاج اور مداوا ہیں۔
غیر مسلح مزاحمت کیا ہے؟
آئیے اب دیکھتے ہیں کہ یہ غیر مسلح مزاحمت یا احتجاجی سیاست کس نیلم پری کا نام ہے۔ابلیس اور اس کے پیروکاروں نے ہزاروں سال تک مذہب کا راستہ روکنے اور انسانیت کی روح کا گلا دبانے کی سرتوڑکوششوں کے بعد جب یہ دیکھا کہ ان کی تمام تر کاوشوں کے باوجود اسلام کا سورج طلوع ہوچکا ہے جو ابلیس کی بنائی گئی مہیب ترین اور ہیبتناک ترین قیصروکسریٰ کی سلطنتوں کو خس وخاشاک کی طرح بہا کر لے گیا توانہیں عالم تصور میں ہرظالم،قاہراور بدمعاش سلطنت و قوت ڈوبتی ہوئی نظر آنے لگی۔لہٰذا آنے والے دور میں ظالموں،بدمعاشوں، خائنوں، دغابازوں اور انسانیت کے دشمنوں کے تحفظ کے لیے اور انسانیت کو اسلام کی رحمت سے دور رکھنے کے لیے ضروری تھا کہ کوئی ایسا مذہب اور ایسی فکر ایجاد کی جائے جو دکھوں کی ماری انسانیت اوراسلام کے درمیان ایک ناقابل عبور دیوار کھڑی کردے۔اور یوں انسانیت ایک بار پھر اپنے دکھوں کا علاج اپنے خالق و مالک سے دریافت کرنے کی بجائے ابلیسوں اوردجالوں کے جعلی نسخوں میں تلاش کرنے میں سرگرداں رہے۔ابلیس کے پرانے جعلی نسخے اب مزید چلتے دکھائی نہیں دے رہے تھے،لہٰذا ابلیس نے جمہوریت،آزادی رائے اورانتخابی واحتجاجی سیاست کے خوشنما ودلفریب عنوان سے نیا نسخہ تیار کیا اور انسانیت کے ہاتھ میں اسے تھما دیا۔
آج جب ہم اپنے اردگردنگاہ دوڑاتے ہیں توحیرت میں گم ہوجاتے ہیں کہ ابلیس اپنی چال میں میں کیسا زبردست کامیاب رہا؟ آج ساری دنیا کے شیاطین اور مقتدرطبقات (ابلیس کی نمائندہ عالمی طاقتوں )نے دنیا بھرمیں جمہوریت کو اپنی محبوب ترین لونڈی بنایا ہوا ہے۔یہ عالمی طاقتیں اپنی اس لونڈی کے ذریعے اسلام کی بدترین مخالفت کررہی ہیں، اسلام،اہل اسلام، مشاہیر اسلام کا مذاق اڑا رہی ہیں اورمسلمانوں کے محبوب ترین شعائر یعنی رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن حکیم کی بدترین توہین کی مرتکب ہورہی ہیں۔ابلیس،اس کی آلہ کارعالمی طاقتیں اور ان عالمی طاقتوں کے آلہ کارمسلم حکمرانوں نے ساری دنیا میں فتنہ اور فساد کا بازاد گرم کیا ہوا ہے۔ یہ ابلیسی ٹولہ انسانیت کی روح کا گلا دبا رہا ہے، انسان کی روحانی زندگی کے لیے یہ ٹولہ ایک عذاب بنا ہوا ہے۔درحقیقت یہ ٹولہ بدترین دہشت گرد ہے، جس نے اپنے اختیارات ،وسائل ،جدید جنگی ٹیکنالوجی اور ذرائع ابلاغ سے نوع انسانی کو ایک دہشت اور خوف میں مبتلا کیاہوا ہے۔ یہ ابلیسی ٹولہ نہ صرف انسان اور آخرت(انسان کی ابدی مسرت) کے درمیان ایک دیوار بن کرکھڑا ہوگیا ہے بلکہ ابلیس لعین کا یہ پیروکار ٹولہ انسان اور اس کی دنیا کی نہایت محدود زندگی کی مسرتوں کے درمیان بھی ایک دیوار بن کر کھڑا ہے۔ ساری دنیا کے انسانوں کو سود کی لعنت اور نحوست میں جکڑدیاگیا ہے، ساری دنیا کے انسانوں کے لیے زندگی کی بنیادی ترین ضرورتیں پورا کرنا مشکل سے مشکل تر کردیاگیا ہے۔تازہ آکسیجن، خالص او ر صحت بخش غذا،سرچھپانے کے لیے چھت،اپنی نئی پود کی روحانی و جسمانی تعلیم یہ وہ بنیادی ترین ضرورتیں ہیں جن سے آج کے انسان کومحروم کرنے کے لیے تہذیب ، آزادی اور جمہوریت کے نام پر بدترین مکاریاں کی جارہی ہیں۔لعنت ہے ایسی ترقی،ایسی جمہوریت اور ایسی نام نہاد آزادی پرجو نہ صرف انسان کو اس کی آخرت کی ابدی مسرتوں سے محروم کردے بلکہ دنیا کی قلیل زندگی کی مسرتوں کا بھی گلا گھونٹ کررکھ دے۔
عالمی طاقتوں اور ان کے آلہ کارسرمایہ پرست حکمرانوں کی دولت کی بھوک اور ہوس نے فضاؤں کواس حد تک آلودہ کردیا ہے کہ تازہ آکسیجن ملنا محال ہوگیا ہے،دودھ کے نام پر ڈبوں میں بندسفید خوشنما زہرنما محلول سے اس کے جسم کی پرورش کی جارہی ہے،خوشنما غذاؤں کے ذریعے سے بیماریوں کی پرورش کی جارہی ہے،عام انسان کے لیے عمدہ سبزی اور دال تک رسائی مشکل سے مشکل ترکردی گئی ہے ، سرچھپانے کے لیے چھت حاصل کرنے کو ’’سرمایہ غم فرہاد‘‘بنا کررکھ دیاگیا ہے۔متوسط اور غریب طبقہ کے علاج کی راہ میں ڈاکٹرو کی شکل میں ڈاکو بٹھادیے گئے ہیں پھر جدید دور کا انسان ان ڈاکو نمامسیحاؤں سے لٹ کر نکلتا ہے توارزاں ترین دوائیں مہنگی ترین قیمتوں پر خریدنے پر مجبو ہوجاتا ہے۔مگر اس ظلم ، اس استحصال اور اس شیطنیت پر مجال ہے جمہوریت اور جمہوری نمائندوں کے ماتھے پر کوئی شکن پڑے۔جدید زندگی کی یہ وہ اذیتناکیاں ہیں جنہیں دیکھ کر شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے دوزخ میں جلتے ہوئے انسان کے جذبات کواپنی نظم’’دوزخی کی مناجات‘‘ کے ایک شعر میں اس طرح بیان کیا:
اللہ تیرا شکر کہ یہ خطہ پُرسوز
سوداگر یورپ کی غلامی سے ہے آزاد
حقیقت یہ ہے کہ ابلیس نے ’’جمہوریت اور آزادی‘‘ کے عنوان سے اجتماعی سطح پرانسانیت کا جو بدترین استحصال کیا ہے اور انسانیت کو زندگی کی بنیادی ترین ضرورتوں سے جس طرح محروم کیا ہے، ماضی کی بدترین بادشاہتوں کے دور میں بھی اجتماعی سطح پر انسانیت کا اس طرح گلا دبانا ناممکن تھا۔ یہی وجہ ہے ابلیس نے جہاں انسانیت کی ’’روح اورجسم‘‘ ہردوکا گلا دبانے کی جو نہایت گھناؤنی اور بدترین چال تیار کی تھی وہاں اسے یہ خوف بھی دامن گیر تھا کہ کہیں انسانوں کا کوئی فہیم طبقہ اٹھے اورقرآن کے جذبہ جہاد سے سرشار ہوکرتمام عالم کے ان ابلیسی آلہ کاروں سے ٹکرا جائے جو انسانیت کو بدترین دکھوں میں مبتلا کیے ہوئے ہیں۔لہٰذا ابلیس نے اپنے آلہ کاروں کی حفاظت کے لیے احتجاجی سیاست (’’غیرمسلح مزاحمت /تصادم‘‘)کا نسخہ ایجاد کیا۔تاکہ عوامی احتجاج کے ذریعے سے وقتاً فوقتاً عوام کے موڈ کا پتہ چلتا رہے اور ابلیسی آلہ کار حالات کے مطابق اپنی حفاظت کا بندوبست کرتے رہیں۔ابلیس نے جدید دور کے سامری کے ذریعے سے آئین اورجمہوریت وغیرہ کا جو سحر پھونکااس کی رو سے عوام کے لیے اپنے جمہوری آقاؤں/انسانیت کے دشمنوں کے خلاف کسی بھی صورت ’’مسلح تصادم‘‘ کو ہمیشہ کے لیے حرام قرار دے دیاگیا۔یعنی جمہوری آقا اگرآپ سے آپ کی خالص غذا چھین لیں، غذا کے نام پر آپ کو ہر روز زہر کھانے پر مجبورکریں، آپ کو زندگی کی بنیادی ترین ضرورتیں آپ کی صلاحیتوں کا بدترین استحصال کرکے اور آپ کو کولہو کا بیل بناکر بھی پوری نہ ہونے دیں،آپ کے لیے ایسا ماحول بنادیں کے آپ کے لیے سودسے پاک معیشت اختیار کرنا،بے حیائی اور عریانیت سے پاک معاشرت اختیار کرنا اور مادہ پرستی و زرپرستی سے پاک تعلیم حاصل کرنا ناممکن ہوجائے اور انسان کی بنیادی ترین ضرورتوں کا حصول اس حدتک مشکل کردیاجائے اور اس کی خاطر اسے پیسے کے پیچھے اتنا بھگایا اور تھکایاجائے کہ وہ پیسے کا پرستار اورپجاری بن کر رہ جائے۔اس حقیقت کا اظہار مریدرومی علامہ اقبال ان الفاظ میں فرماتے ہیں:
عصرحاضر ملک الموت ہے تیرا، جس نے
قبض کی روح تری دے کے تجھے فکر معاش
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی طبقہ جمہوریت اور جمہوریت کی ان لعنتوں سے آزاد رہنے کی کوشش کرتا ہے (مثلاً پہاڑی علاقوں پر رہنے والے اور اسلام سے محبت کرنے والے مسلم قبائل)تو تعلیم،آزادی،تہذیب اورجمہوریت کے خوشنماعنوانات کے تحت انہیں ان لعنتوں میں گرفتار کرنے کی کوشش کی جائے جس میں اس وقت نوع انسانی من حیث المجموعی گرفتار ہے۔ پہاڑوں پر رہنے والے آزاد اور بہادر مسلم قبائل ابلیسی قوتوں کے اس بہکاوے اور لالچ میںآنے سے جب انکار کرتے ہیں اورمغربی ابلیسیت کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں توانہیں دہشت گرد قرار دے کر ان پر جنگ مسلط کردی جاتی ہے۔
یہ وہ معروضی حقائق ہیں جن سے ہم بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ عالمی ابلیسی طاقتیں اور ان کے پیروکاراپنے ان سب جرائم کو جمہوریت، آزادی اور آئین کے خوشنما پردوں میں چھپانے کی کس طرح کوشش کرتے ہیں اور انسانی معاشروں کے فہیم طبقہ کے لیے کوئی راستہ باقی نہیں رہنے دیتے کہ وہ اپنے ملک و قوم اور ساری انسانیت کو ابلیسیت کے اس ملعون اور منحوس شکنجے سے نکالنے کے لیے اسلام کے جذبہ جہاد وقتال کو کام میں لائے۔ابلیس کی یہ داشتہ جمہوریت اسلام کے ماننے والوں پر لازم کرتی ہے کہ وہ ابلیس اور اس کی نمائندہ عالمی طاقتوں اور ان کے آلہ کار مسلم حکمرانوں کے اسلام کش اور انسانیت سوز جرائم پر زیادہ سے زیادہ بس ’’احتجاج ‘‘ کرلیا کریں۔اس ’’احتجاج‘‘ سے آگے بڑھ کر اگر انہوں نے ابلیس اور اس کے آلہ کارعالمی طاقتوں کے انسانیت سوز جرائم کے خلاف قرآن کے جذبہ جہاد و قتال سے کام لینے کی کوشش کی تواس کی انہیں کسی صورت اجازت نہیں دی جائے گی۔
افسوس صد افسوس جدید دور کا سامری اپنی آلہ کار عالمی طاقتوں کے ذریعے سے ساری دنیا کے انسانوں سے جو مطالبہ کررہا ہے عین وہی مطالبہ ہمارے نہایت محترم علمائے دین بھی کرنے لگ گئے ہیں۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ:
(1) ہم نہ ہی سیاسی حکومت کا قیام بذریعہ انتخاب(Election) کو حرام سمجھتے ہیں اور نہ ہی مسلمانوں کے دینی و دنیاوی استحصال پر احتجاج کو ناجائز قرار دیتے ہیں۔ہمارا اصل دکھ تو یہ ہے کہ ان ٹولز کو ضرورت اور کام چلانے کے ٹولز کے عام مقام پر رکھنے کی بجائے ہمارے قائدین اور دینی زعماء انہیں انسانیت کی یافت اور مسائل کا واحد حل بناکر پیش کررہے ہیں۔
(2) جہاد وقتال کے قرآنی و نبوی منہاج پر کب کیسے اور کس طرح عمل پیرا ہونا چاہیے، یہ ایک الگ معاملہ ہ اور اس پر اختلاف رائے کی پوری پوری گنجائش موجود ہے۔نیز یہ کہ جس طرح دین کے کسی بھی جز اور رکن کو اللہ کی رضا اور اخروی نجات کے جذبے کے تحت ادا کرنا مطلوب ہے اور ذاتی و دنیوی مقاصد کے حصول کے لیے دینی ارکان کی ادائیگی اللہ کے نزدیک بجائے اجر کے الٹا عذاب کا باعث بنادیتی ہے بالکل اسی طرح ’’جہاد و قتال‘‘ کے قرآنی حکم کو ذاتی اغراض اور مفادات کے لیے استعمال کرنے کی شدید حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔
لیکن سوچنے کا مقام ہے کہ پاکستان کے اس ’’بازار‘‘ میں یہ جعلی پراڈکٹ اتنی زیادہ کیوں بک رہی ہے؟کہیں ایسا تونہیں کہ قرآن وسنت جیسی اعلیٰ ترین نعمت کی ناقدری وخلاف ورزی اور ایمان و اخلاق کے معاملہ میں افلاس و قحط زدگی میں مبتلا غافل قوم کی غفلت کا فائدہ اٹھا کرعالمی ابلیسی قوتوں نے اسلام،مسلمانوں اور مذہبی قوتوں کو بدنام کرنے اور برائی کا سمبل ثابت کرنے اور مسلم ممالک کو بدترین خانہ جنگی میں دھکیلنے کے لیے ایک طرف جعلی مجاہدین بناکرانہیں مسلم علاقوں کا امن تباہ کرنے اور مسلم افواج سے لڑائی پر لگادیا۔تاکہ اس طرح مسلم علاقوں کا امن وامان بھی تباہ و برباد کردیاجائے اور مسلمانوں کی اعلیٰ ترین دفاعی قوت(جہاد و قتال‘)کوبھی دہشت گردی کا نام دے کرنہ صرف غیرمسلم دنیا بلکہ غفلت ومعاصی میں ڈوبی ہوئی مسلم دنیا میں بھی اسے برائی کا ایک سمبل بناکررکھ دیاجائے۔اوراپنے اس جعلی جہاداورجعلی مجاہدین کے ذریعے سے اصلی جہاد اور اصل مجاہدین کو بدنام اور ان کا چہرہ مسخ کرکے رکھ دیاجائے۔جبکہ قرآن وسنت نہایت شدومد سے مسلمان اور جذبہ جہاد کو لازم و ملزوم قرار دیتے ہیں۔حدیث نبوی کی رو سے جس کے اندر شہادت کی آرزو نہیں اور اس کی اس حالت میں موت واقع ہوگئی تو اس کی موت ایک قسم کے نفاق پر ہوئی۔جبکہ پاکستانی معاشرے میں ’’ایمان اور جہاد‘‘ کی دعوت اور محنت ایک اجنبی دعوت بن چکی ہے۔ ہم اجتماعی طور پرایک طرف اگر ایمان کی آبیاری، ایمان کے احیا اور سیرت و اخلاق کے تزکیہ سے غافل و لاپرواہ ہیں اور اس طرح امت مسلمہ کے محوری و مقصدی اورداخلی حصار سے بدترین غفلت کا مظاہرہ کررہے ہیں تو دوسری طرف امت مسلمہ کے خارجی حصار یعنی جذبہ جہاد وقتال کی آبیاری، آگاہی، اس کی متوازن تعلیم اور اس کی حکیمانہ ومومنانہ تربیت سے ہم تہی دست اور بانجھ ہوچکے ہیں۔اوراس نہایت اہم ترین فریضہ(ایمان و جہاد)پر اپنی توجہات کو مرکوز کرنے کی بجائے ہم اپنی قو م کو ’’اسلام کا نفاذ بذریعہ جمہوری واحتجاجی تحریک‘‘کا لالی پاپ دیے چلے جارہے ہیں جس کے بارے میں علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا:
اٹھاکر پھینک دوباہرگلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
ہمیں مولانا زاہدالراشدی اور دیگرمسلم مفکرین کے اخلاص پہ کوئی شبہ نہیں ہے۔اور ہمارے خیال میں ان کی زیربحث متنازعہ سوچ کی پشت پر بھی’’نئی تہذیب کے ان گندے انڈوں‘‘ کو ایک جبراور مجبوری (لادینیت )سے نجات کے لیے بطورہتھیاراستعمال کرنے کا مبارک جذبہ کارفرما ہے۔اور’’جہاد‘‘ کے نام پر مسلم معاشروں کو بدترین بدامنی اورخانہ جنگی کی طرف دھکیلنے سے بچانابھی مطلوب ہوسکتا ہے۔ہم ان کے ان مبارک احساسات کی دل کی گہرائیوں سے قدر کرتے ہیں۔لیکن ہم نہایت ادب سے عرض کرنا چاہتے ہیں کہ جدید شیطانی تہذیب کی طرف سے مسلط کردہ جبراور مجبوری(لادینیت) سے نجات کے لیے اسی تہذیب کے ٹولزمیں جزوی ترامیم کرکے انہیں اسلامی مقاصد کے لیے استعمال کرنا اوراس کی عظمت کے گن گائے بغیر اسے ایک عارضی ضرورت سمجھناایک الگ معاملہ ہے، عقل و شریعت جس کی تائید کرتی ہیں۔لیکن وقتی ضرورت کے ان عارضی ٹولز کو اسلام کے غلبہ کے لیے واحد منہاج قرار دے دینااور اسے انسانیت کے لیے ایک عظیم نعمت قرار دے دینانہ صرف مبالغہ آمیزی ہے بلکہ اسے اس حد تک اہمیت دینا کہ اسلام کا ’’جہاد و قتال‘‘ کا تصوردب جائے اور پس پردہ چلا جائے(اور مغرب کی ابلیسی طاقتوں کی چلائی گئی مہم کہ جہاد فساد ہے کی تائیدہوتی محسوس ہو) تو ہمارے نزدیک ایک مثبت اورمبارک جذبہ کے تحت وقوع پذیر ہونے والی سوچ مبالغہ اور عدم توازن کا شکار ہوکرلاشعوری اوربالواسطہ طور پراسلام کے تصور جہادوقتال کی توہین اور تنقیص کی مرتکب ہورہی ہے۔
جب دنیا کا منظرنامہ یہ صورتحال پیش کررہا ہو کہ پوری دنیا میں’’جمہوریت ‘‘ کے نام پر انسانیت کی بدترین تذلیل اور استحصال ہورہا ہو۔ساری دنیا کی حکومتیں جمہوریت کا نام لے کراپنے عوام کی ’’روح اور جسم‘‘ ہردوکا slowly & steadily گلا دبارہی ہوں۔ابلیس کی آلہ کار عالمی طاقتیں اسلام اور جمہوریت کو ایک دوسرے کی ضد ثابت کرنے پر تلی ہوں۔دنیا کے ہر کونے میں ’’جمہوریت ‘‘ کے نام پر اسلامی اقداراور اس کی علامتوں(حیا،پردہ،حجاب، داڑھی)کو چن چن کر ختم کرنے کی کوششیں ہورہی ہوں اورجہاں بس چلے (مثلاً فلسطین، چیچنیا، کوسوو، بوسنیا، میانمار، کشمیر، عراق، افغانستان میں) مسلمانوں کو بھی چن چن کر مار دیا جائے۔ عالمی ابلیسی قوتوں کے آلہ کارحکمران طبقات کومسلم معاشروں میں جمہوریت کے نام پرکرپشن، بددیانتی، بدعہدی، لوٹ مار، قانون شکنی، غریب کا گلا گھونٹنے،ظلم و فساد کا بازارگرم کرنے، تعلیم، صحت،قانون،عدالت،امن غرض ہرشعبہ زندگی کی ’’حیات’’ کا گلا نہایت مکاری، منافقت، سفاکی اور بے حسی سے گھونٹنے کی کھلی چھوٹ دے دی جائے۔ان مقاصد کے حصول کے لیے عالمی طاقتوں کاابلیسیت کی تمام طاقتوں سے مسلح ہوکراپنے آلہ کار مسلم حکمرانوں کی مکمل سرپرستی کرنااور بار بار جمہوریت کا راگ الاپناوہ بدترین فعل ہے جس نے مسلم ممالک میں بدترین فساد،بربادی،تباہی، انارکی کا ایک ناختم ہونے والا منحوس چکر چلایا ہوا ہے۔جمہوریت کے نام پر مسلم ممالک کا تعلیمی شعبہ مغربی دہشت گردی کا شکار ہے، ہمارا صحت کا شعبہ ابلیسی دہشت گردی کا شکار ہے، ہمارا عدالتی نظام قانون کے نام پر بے انصافی اورانصاف میں تاخیرکی خوفناک دہشت گردی کا شکار ہے،ہماری معیشت، ہماری معاشرت، ہمارے ذرائع ابلاغ غرض زندگی کا ہر ہر موثروقابل ذکر شعبہ ابلیسی دہشت گردی کا شکار ہے۔اور ہم اس بدترین زوال، اس بدترین دہشت گردی کا شکار ہونے کے باوجود۔۔۔اور تسلسل کے ساتھ مسلم معاشروں کے ہر شعبہ زندگی پر مغرب کے ابلیسی فکری و عملی دہشت گردانہ حملوں کی موجودگی میں تنازعات کو صرف’’جہاد بذریعہ غیرمسلح احتجاجی تحریک‘‘میں سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں ۔یہ رویہ نہ صرف جہاد بمعنی قتال میں مداہنت کے ارتکاب پر مبنی ہے بلکہ مسلم ممالک اورساری انسانیت کو درپیش ابلیس کے شش اطراف دہشت گردانہ حملوں سے آنکھیں چرانے اور غض بصر کرنے کے مترادف ہے۔
پس چہ بایدکرد!
ہمارے محترم قائدین کے لیے مستقل اور اصل لائحہ عمل یہ ہے کہ وہ قرآن وسنت پر پوری قوت سے کاربند ہوجائیں۔اپنے عمل ، اپنے کردار اور اپنے رویوں سے ایمان واخلاق کا ایسانمونہ پیش فرمائیں کہ مسلم عوام سیرت سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان زندہ نمونوں کو آئیڈیلائز کرنے پر آمادہ ہوجائیں جس کا نتیجہ ہوگا کہ امت مسلمہ کے ایمان اور اخلاق کے اجتماعی نمونہ کی کشش ساری دنیا کے باضمیرانسانوں کو اپنی طرف مائل کرے گی۔اور ساری دنیا کے اذہان کو قرآن اور سنت نبوی کا زندہ، مثبت اور پُرکشش پیغام متاثرکرے گا۔مستقل اور اصل لائحہ عمل کے ساتھ پیہم وابستگی اور تمسک کرنے کے ساتھ ساتھ اس وقتی واضطراری لائحہ عمل کے جواز کوتسلیم کیاجاسکتا ہے کہ ہماری دینی قوتیں اپنے اصل فرض منصبی اور مستقل لائحہ عمل کو ترک کیے بغیراپنے اپنے ملکوں کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام دینی قائدین و مسلم زعماء کے اتفاق رائے سے نفاذ اسلام کے لیے انتخاب یا احتجاج کا اضطراری آپشن استعمال کریں۔اگرچہ ہماری رائے میں مغرب کی عالمی ابلیسی قوتوں نے یہ اٹل فیصلہ کیا ہوا ہے کہ انہوں نے ان دونوں آپشنز کو غلبہ اسلام اور نفاذ دین کاذریعہ کسی صورت نہیں بننے دینا۔دوسرے لفظوں میں اسلام کا نفاذمغربی طاقتوں کے لیے کسی صورت قابل برداشت نہیں۔لہٰذاان آپشنز کو صرف ایک وقتی مجبوری اوراضطرارسمجھیں ۔لہٰذا اس طریقہ کے ذریعے نفاذ اسلام میں ناکامی کی صورت میں انہیں لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیں،نہ کہ نفاذ اسلام کے لیے اسے کائنات کا بہترین اور واحد ممکن ترین طریقہ ثابت کرنے پر اپنی توانائیاں اور وقت ضائع کرتے چلے جائیں۔
اس تناظر میں اس اضطراری آپشن کا نہایت محتاط اور صرف بوقت ضرورت استعمال کے جواز کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ ہماری دینی قوتوں کا فرض ہے کہ وہ جمہوریت کے خوشنما چہرے میں چھپی ہوئی بدترین شیطنیت کا ادراک کریں اور جدید،روشن خیال تہذیب کے عنوان سے پچھلے دو سوسالوں سے ابلیسیت کی نمائندہ عالمی طاقتوں کی انسانیت (اور انسانیت کے حقیقی محافظ اسلام)کے خلاف اعلان جنگ کا پردہ چاک کرتے ہوئے اپنے اپنے دائرہ کار میں(تعلیم اور ابلاغ کے ذریعے سے)ایمان اور جہادوقتال کے قرآنی و نبوی منہاج کی دعوت کوڈسپلن بنیادوں پر استوار کریں۔
ہماری دینی قوتوں پر ہردم یہ واضح رہنا چاہیے کہ ایمان واخلاق نہ صرف تمام شعبہ ہائے حیات کی اصلاح کا مستقل اورابدی نبوی منہاج اور حل ہے بلکہ انسانی شعبہ ہائے حیات پر ابلیسیت کے جابرانہ اورقاتلانہ حملوں،امن کے خلاف ابلیس کے پیدا کردہ فساد، دہشت گردی اورجنگ کے تدارک کے مستند ترین اور کائنات کے رب کے محبوب ترین علاج ’’جہاد و قتال‘‘ کا بھی داخلی محافظ و نگہباں ہے جبکہ جہاد وقتال ایمان واخلاق کا خارجی محافظ ہے۔آج مسلم عوام کو، مسلم اساتذہ کو، مسلم صحافیوں کو، مسلم ذرائع ابلاغ کو، مسلم حکمرانوں کواور مسلم مسلح افواج کو ابلیسیت کے شش اطراف انسانیت کش حملوں سے بچانے کا اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے کہ اان کے فکر و عمل کو ’’ایمان واخلاق‘‘کی ابدی طاقت اور ‘‘جہاد قتال‘‘کی ہنگامی ربانی طاقت سے مسلح کرنے میں ہمارے قائدین اور مفکرین مسلسل، پیہم اور بلاتعطل جدوجہد پر اپنی صلاحیتوں کو مرکوز فرمائیں۔اس جدوجہدسے غفلت اورعدم توجہی نے انسانیت کی روح کو ’’موت و حیات‘‘ کی کشمکش میں مبتلا کیا ہوا ہے۔اگرہمارے نہایت محترم قائدین کسی مجبوری یا عذرکی وجہ سے اپنی اصل اور مستقل ذمہ داری نباہنے سے قاصر ہیں تو ہم نہایت ادب سے عرض کریں گے کہ وہ کم از کم امت مسلمہ کے وقاراور اسلام کے نفاذکو ان وقتی ہنگاموں،احتجاجی جلوسوں اور لانگ مارچوں سے مشروط کرنے کا سبق نہ پڑھائیں، جنہیں آزما آزما کرحضرت انسان تھک چکا ہے مگرمنزل ہے کہ ہاتھ لگتی ہی نہیں۔ یہ فرسودہ احتجاجی ہتھکنڈے(بمعنی منظم اورپرامن احتجاجی تحریکیں) کم از کم پچھلے ایک سوسال سے مسلم سیاسی ومذہبی تحریکوں کے زیرعمل ہیں۔۔۔لیکن نتیجہ سب کے سامنے ہے،دنیا میں غلبہ واقتدار اور دین کا احیا تو کیا ہوتا، الٹا ایمان اورمذہب کی رہی سہی قدریں بھی اس راہ میں گم ہوکر رہ گئیں۔سوال کیاجاسکتا ہے کیوں؟ اس کا سادہ سا جواب ہے کہ اضطرار کو اضطرار کے مقام پر رکھنے کی بجائے اسے اوڑھنا بچھونا بنالیاگیا اوراس غیر فطری اصرار اور جنون میں وہ اپنا اصل اور مستقل لائحہ عمل بھلاتے اور پس پشت کرتے چلے گئے۔
ماضی وحال کا ذرا باریک بینی سے ہم مشاہدہ کرتے ہیں توصاف نظرآتا ہے انسانیت کے اجتماعی ضمیر نے جب بادشاہت اور کلیسا کے انسانیت کش گٹھ جوڑ کے ظالمانہ شکنجے سے نکلنے کے لیے اپنے شدید غم وغصہ کا اظہار بذریعہ ایک غیرمسلح احتجاجی تحریک کیا تواس کے نتیجے میں دنیا ’’بادشاہت اور کلیسا‘‘ کے جبر اور تسلط سے تو نکل آئی مگرابلیس نے فوراً اپنا لباس تبدیل کرلیا اورنتیجتاً دنیامغرب کے عیار،بے حس،مکار اور انسانیت دشمن جمہوریت پسندتاجروں کے تسلط میں پھنس گئی اور بیسویں صدی کے یہی جمہوری درندے تھے جن کے درمیان دو عالمگیر جنگیں برپا ہوئیں جس میں کروڑوں انسان ہلاک ہوئے، کسی جنگ میں اتنی بڑی تعداد میں انسانوں کی ہلاکت تاریخ انسانی میں صرف پہلی بار ہوئی، ان جمہوریت پرست درندوں نے براعظم امریکہ کے کروڑوں انسانوں کو چن چن کرجانوروں کی طرح ہلاک کیا۔اور آج تک یہ انسانیت دشمن، ابلیس کے پیروکار، حیا اور اسلام سے دہشت زدہ جمہوری درندے ساری دنیا پر مسلط ہیں۔ اگرجمہوریت نے مغرب کے ان درندہ صفت انسانوں میں کوئی تبدیلی پیدا کی ہوتی (جو Dark Agesمیں بھی بالکل درندوں ہی کی طرح ایک دوسرے کا گلا کاٹتے رہتے تھے)تویہ انسانیت کوعقیدہ و فکر کی آزادی دیتے، انسانیت کے لیے زندگی کی ضروریات وسہولیات کا حصول (ارزاں ترین قیمت پر)آسان ترین کردیتے،اسلام اور حیا کو اپنا سب سے بڑا دشمن نہ سمجھتے، دولت، سائنس اور ٹیکنالوجی کو ساری دنیا کے انسانوں کے دکھ ،درداور مسائل دور کرنے کے لیے استعمال کرتے، جنگی جنون اور مہلک ایٹمی و کیمیاوی ہتھیاروں سے اپنے آپ کو مسلح نہ کرتے۔مگر آج دنیا کا جو منظر نامہ ہے وہ ان مثبت باتوں کے بالکل الٹ ہے۔ان مہلک نتائج کو دیکھ کر ہی حضرت علامہ اقبال کو آج سے قریباً سو سال پہلے کہنا پڑا:
تیری حریف ہے یا رب سیاست افرنگ
مگر ہیں اس کے پجاری فقط امیر و رئیس
بنایا ایک ہی ابلیس آگ سے تونے
بنائے خاک سے اس نے دو صد ہزار ابلیس
(نوٹ: جمہوریت کے مکروہ اور وحشی چہرے سے یوں پردہ اٹھتا دیکھ کر عام امن پسند انسان کے ذہن میں سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ پھر موجودہ دنیا کے لیے قابل عمل سیاسی نظام کون سا ہوسکتا ہے تواس کا جواب ہے خلافت۔اس ضمن میں عملی پیچیدگیوں کی وضاحت کی لیے مولانا زاہد الراشدی صاحب کی کتاب’’اسلام ،پاکستان اور جمہوریت‘‘میں قابل قدرمواد موجود ہے ،ان سطور کے حقیر راقم کا یہ مضمون اس کتاب کے آخری باب کا نقدلیے ہوئے ہے۔جبکہ خلافت کے مقاصدکے حوالے سے ڈاکٹر محمودغازیؒ کی کتاب’’محاضرات شریعت‘‘ میں بے حد مفید مواد دستیاب ہے)
اسلامی انقلاب بذریعہ غیر مسلح مزاحمت کوبطورایک فلسفہ اورمستقل منہاج بتانے والوں کی سوچ زمینی حقائق سے کس قدرنابلداورلاتعلق ہے؟اوربظاہر ایک نہایت سنجیدہ فلسفہ ہونے کے باوجود اس میں کس قدرلطیفے پنہاں ہیں۔۔۔یہ کہانی پھرسہی۔ طوالت کے خوف سے ہم اپنی گذارشات کو یہیں پہ ختم کرتے ہیں اور اپنے بزرگوں سے امید کرتے ہیں کہ وہ ہماری گذارشات پر ضرور غورفرمائیں گے۔اختلاف رائے میں اگر کہیں حدادب سے تجاوز ہوا ہو تو اپنی درج ذیل کیفیت کی وجہ سے ہم دل کی گہرائیوں سے معذرت خواہ ہیں:
گفتار کے اسلوب پہ قابونہیں رہتا
جب روح کے اندر متلاطم ہوں خیالات
میاں محمد عارف ایڈووکیٹ کا انتقال
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
۱۴ مارچ، جمعۃ المبارک کو صبح اذان فجر ہو رہی تھی کہ قاری محمد یوسف عثمانی صاحب نے فون پر اطلاع دی کہ میاں محمد عارف صاحب کا انتقال ہوگیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ دو روز قبل میں ان سے مل کر آیا تھا، ان کا ہارٹ کا آپریشن ہوا تھا اور بظاہر کامیاب ہوگیا تھا۔ ہم خوش تھے کہ آپریشن کامیاب ہوگیا ہے اور وہ بھی حالات حاضرہ پر حسب معمول گفتگو کر رہے تھے۔ ہم نے اجازت چاہی تو کہا کہ آنا اپنی مرضی سے ہوتا ہے لیکن جانا ہماری مرضی سے ہوگا، اس لیے چائے پیے بغیر نہیں جا سکیں گے۔ اس بہانے کچھ دیر ان کے ساتھ گفتگو رہی جو زیادہ تر حالات حاضرہ اور حکومت طالبان مذاکرات کے بارے میں تھی۔ وہ مولانا سمیع الحق کے بارے میں پریشان تھے کہ وہ اس بڑھاپے میں بہت بڑی آزمائش سے دو چار ہوگئے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ جب سے مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا ہے، میں بھی مولانا سمیع الحق کے لیے مسلسل دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی عزت اور بھرم کو قائم رکھیں، وہ ہمارے شریف اور باوقار بزرگوں میں سے ہیں، آمین یا رب العالمین۔
میاں محمد عارف کا تعلق گوجرانوالہ کی انصاری برادری سے تھا۔ ان کا خاندان تقسیم ملک کے بعد امرتسر کے علاقہ سے ہجرت کر کے گوجرانوالہ میں آباد ہوا تھا اور پل لکڑ والا کے قریب گلی آسا ملتانیہ میں ان کی رہائش تھی۔ ان کے والد محترم میاں رحیم بخش انصاری نیک دل اور خداترس بزرگ تھے، کپڑے کا کاروبار کرتے تھے، پرانے ریلوے اسٹیشن کے سامنے ریل بازار میں سفینہ کلاتھ مارکیٹ میں ان کی بیڈ شیٹ وغیرہ کی دکان ہے اور ایک فیکٹری بھی ہے جس میں اسی نوعیت کی چیزیں تیار ہوتی ہیں۔ میاں رحیم بخش صاحب مرحوم والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ کے قریبی ساتھیوں اور معتقدین میں سے تھے، اور حضرت والد محترمؒ کے بارے میں اپنی عقیدت و محبت کا اظہار ان الفاظ میں کیا کرتے تھے کہ ’’وہ اس صدی کے مجدد ہیں‘‘۔
میاں محمد عارف مرحوم کے ساتھ میرا تعلق اس دور میں قائم ہوا جب وہ کالج کے اسٹوڈنٹ تھے اور میں نصرۃ العلوم میں آخری درجات کا طالب علم تھا۔ جمعیۃ طلباء اسلام کی تشکیل کا مرحلہ تھا، اس موقع پر ہمارے استاذِ محترم مولانا حافظ عزیز الرحمنؒ کو جمعیۃ طلباء اسلام کا گوجرانوالہ میں صدر چنا گیا اور میاں محمد عارف سیکرٹری چنے گئے، جبکہ مجھے نائب صدر بنایا گیا۔ وہیں سے ہماری جماعتی اور تحریکی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ باہمی ربط و تعلق کا آغاز ہوا جو کہ کم و بیش پینتالیس برس جاری رہنے کے بعد اس دنیا میں ان کی وفات پر ختم ہوگیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
حضرت حافظ الحدیث مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ اور حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ کے ساتھ عقیدت و محبت کا گہرا رشتہ تھا۔ حضرت درخواستیؒ ان کے گھر تشریف لایا کرتے تھے اور بہت شفقت فرمایا کرتے تھے۔ ان دونوں بزرگوں کے ساتھ میرا تعلق بھی اسی نوعیت کا تھا اور خانپور اور شیرانوالہ کی حاضری ہمارے لیے ’’ایمان کی تازگی‘‘ کا باعث ہوا کرتی تھی۔ میں جمعیۃ طلباء اسلام میں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد جمعیۃ علماء اسلام میں منتقل ہوگیا جبکہ میاں صاحب مرحوم ایل ایل بی سے فراغت کے بعد جمعیۃ طلباء اسلام میں ہی متحرک رہے اور اپنی محنت اور صلاحیتوں کے باعث بڑھتے بڑھتے مرکزی صدر کے منصب تک جا پہنچے۔ جماعتی اور تحریکی سرگرمیوں کے دوران حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ ، حضرت مولانا مفتی محمودؒ ، حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ ، حضرت مولانا سید نفیس الحسینی ؒ ، حضرت مولانا محمد اکرمؒ اور دیگر بزرگوں کے ساتھ مسلسل رابطے رہتے تھے اور میاں محمد عارف کو ان بزرگوں سے خوب استفادہ اور رفاقت کا شرف حاصل ہوا۔
حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی وفات کے بعد جب جمعیۃ علماء اسلام دو حصوں میں بٹ گئی تو میری طرح میاں محمد عارف مرحوم بھی حضرت درخواستیؒ کے ساتھ تھے اور بہت پر جوش اور متحرک تھے۔ ہمارا مزاج ایک دوسرے سے مختلف تھا، میں ہمیشہ موقف میں بے لچک مگر طرز عمل اور گفتگو میں نرم رو رہا ہوں۔ میاں صاحبؒ دونوں حوالوں سے بے لچک اور سخت تھے جس کا اظہار وہ بے باکی کے ساتھ کرتے تھے بلکہ بعض دوست تو ان کے غصے کا نظارہ کرنے کے لیے اس قسم کے مسائل ان کے سامنے چھیڑ دیا کرتے تھے۔
گوجرانوالہ میں قدیم اور جدید تعلیم کے امتزاج کے ساتھ ایک نیا تعلیمی ادارہ قائم کرنے کا کچھ دوستوں نے پروگرام بنایا تو وہ بھی شروع ہی سے ہمارے رفیق کار تھے۔ شاہ ولی اللہ یونیورسٹی جو کہ اب جامعہ شاہ ولی اللہؒ کے نام سے جامعۃ الرشید کراچی کی شاخ کے طور پر کام کر رہی ہے، اسی پروگرام کا نتیجہ ہے جس کے لیے الحاج میاں محمد رفیق مرحوم کے ساتھ میاں محمد عارف مرحوم بھی ایک عرصہ تک سرگرم عمل رہے اور اب بھی وہ جامعہ شاہ ولی اللہؒ کے مشاورتی نظام کاحصہ تھے، اور اس کی بہتری اور ترقی کے لیے آخر دم تک فکر مند رہے۔
جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں ایک مرحلہ میں بعض انتظامی معاملات میں تنازعہ نے شدت اختیار کر لی اور معاملات عدالتوں تک جا پہنچے تو حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ کے ساتھ پورے شد و مد اور جوش و خروش کے ساتھ کھڑے ہو کر مقابلہ کرنے والے دوستوں میں میاں محمد عارف سر فہرست تھے۔ وہ مدرسہ کی کمیٹی کے صدر بھی بنے اور وفات تک رہے۔ شہر کے بلدیاتی انتخابات میں انہوں نے کئی بار حصہ لیا، اپنے حلقہ کے کونسلر اور ناظم رہے اور ایک موقع پر ڈپٹی میئر کے منصب پر بھی فائز ہوئے۔
مولانا سمیع الحق کے ساتھ ان کا بہت گہرا تعلق تھا، اور وہ ان کے مشیر خاص سمجھے جاتے تھے۔ جمعیۃ علماء اسلام (س) کے مرکزی نائب امیر تھے اور جماعت کی پالیسی سازی میں ان کا اہم کردار ہوتا تھا۔ گزشتہ دنوں مولانا سمیع الحق نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالہ سے مختلف مکاتب فکر کے راہ نماؤں کو اعتماد میں لینے کے لیے لاہور کے ایک ہوٹل میں کل جماعتی کانفرنس کی تو مجھے وہاں میاں محمد عارف دکھائی نہ دیے جو میرے لیے حیرت اور تعجب کی بات تھی۔ دوستوں سے دریافت کیا تو پتہ چلا کہ وہ بیمار ہیں اور انہیں ہارٹ کی تکلیف ہوگئی ہے۔ دوسرے دن فون پر ان سے حال پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ انجیو گرافی کے لیے لاہور جا رہے ہیں۔ ایک دو روز کے بعد پھر حال معلوم کیا تو پتہ چلا کہ ان کا ہارٹ کا آپریشن ہوا ہے اور وہ گوجرانوالہ واپس آگئے ہیں۔ گزشتہ روز ان کی عیادت کے لیے جلیل ٹاؤن ان کے گھر گیا جس کا حال پہلے لکھ چکا ہوں، اور آج صبح ان کے انتقال کی خبر مل گئی ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
آج میں ایک مخلص، پر جوش اور درد دل سے بہرہ ور ساتھی کی پینتالیس سالہ رفاقت سے محروم ہوگیا ہوں۔ سوچتا ہوں کہ اب مجھ سے جھگڑے کون کرے گا، تلخ و تند لہجے میں اختلاف کون کیا کرے گا اور ملی و قومی مسائل پر گہرے رنج و اضطراب کے ساتھ اظہار خیال کس سے سننے کو ملے گا؟ اللہ تعالیٰ ان کی حسنات قبول فرمائیں، سیئات سے درگزر کریں اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
الشریعہ اکادمی کی سرگرمیاں
ادارہ
- دسمبر ۲۰۱۳ء جنوری ۲۰۱۴ء میں اکادمی کے زیر اہتمام دینی مدارس کے طلبہ کے لیے جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں ۴۰ روزہ عربی بول چال کورس کا، جبکہ جنوری تا مارچ ۲۰۱۴ء کے دوران میں انگریزی بول چال کورس کا انعقاد کیا گیا۔
- ۲۳ فروری کو مولانا زاہد الراشدی نے الشریعہ اکادمی میں پندرہ روزہ فکری نشست سے خطاب کیا۔ حالیہ نشستوں میں ’’تصوف اور عصرحاضر‘‘ کے عنوان پر تسلسل سے گفتگو جاری ہے۔
- برصغیر کے ممتازسیرت نگارومحقق ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی ۷ اور ۸ مارچ بروز جمعہ وہفتہ گوجرانوالہ کے دو روزہ دورے پر تشریف لائے۔ اس دوران میں انھوں نے گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ کے زیر اہتمام منعقدہ سیرت سیمینار میں خطاب کرنے کے علاوہ وزیر آباد میں گورنمنٹ ظفر علی خان ڈگری کالج کے شعبہ علوم اسلامیہ کے زیر اہتمام منعقد کیے گئے سیرت سیمینار میں کلیدی خطبہ دیا، جبکہ ۸ مارچ کو الشریعہ اکادمی میں علماء وطلبہ کی ایک مختصر نشست میں’ ’سیرت نگاری کے جدید اور عصری تقاضے‘‘ کے عنوان پر گفتگو فرمائی۔
- ۱۸ مارچ کو الشریعہ اکادمی میں جمعیت علماءِ اسلام(س)کے مرکزی نائب امیراور گوجرانوالہ کے سابق ڈپٹی مئیر میاں محمد عارف ایڈووکیٹ کی وفات پر تعزیتی نشست مولانا عبدالرؤف فاروقی صاحب کی صدارت میں منعقد ہوئی جس میں مولانا زاہدالراشدی، مولانا محمد رمضان علوی، مولانامفتی محمد سیف الدین، میاں محمد طارق ایڈووکیٹ، میاں فضل الرحمن چغتائی اور جناب محمد فاروق شیخ نے خطاب کیا۔ میاں صاحب مرحوم کی دینی وملّی خدمات پر خراجِ عقیدت پیش کیا گیا اور ان کے لیے دعائے مغفرت کی گئی۔
- اکادمی کے زیر انتظام مدرسۃ الشریعہ میں زیر تعلیم درسِ نظامی سالِ سوم کے طلبہ مارچ کے دوران میں گوجرانوالہ بورڈ کے تحت دسویں جماعت کے امتحانات سے فارغ ہو گئے جبکہ سالِ دوم کے طلبہ کے نویں جماعت کے امتحانات جاری ہیں۔
- الشریعہ اکادمی کے زیر انتظام مدرسۃ الشریعہ، سالِ سوم کے طالبِ علم محمد امتیاز اورمحمد ابو بکر صدیق نے پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے زیر اہتمام تعلیم کے موضوع پر منعقد ہونے والے مقابلۂ مضمون نویسی میں حصہ لیا اور اعزازی اسناد کے حقدار قرار پائے۔
مولانا زاہد الراشدی کے اسفار
ادارہ
اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے گزشتہ ماہ کے دوران میں مختلف شہروں میں درج ذیل تقریبات اور مجالس میں شرکت اور خطاب کیا:
- ۲۱ فروری کوجامع مسجد چمن شاہ میں بعد نمازِ مغرب عالمی مجلس تحفظ ختمِ نبوت کی تربیتی نشست سے خطاب۔
- ۲۲ فروری بعد نمازِ عشاء تلونڈی کجھور والی میں شہداء کانفرنس سے خطاب۔
- ۲۳ فروری کو چیمبر آف کامرس گوجرانوالہ کے ہال میں بزمِ حفاظ قرآنِ کریم گوجرانوالہ کے زیر اہتمام تحفیظ القرآن کے سالانہ پروگرام سے خطاب۔
- ۲۳ فروری کو مغرب کے بعد جامعہ فاروقیہ،شیخوپورہ میں ایک دینی اجتماع سے خطاب۔
- ۲۵ فروری کو ظہر کے بعدجامعہ تعلیماتِ اسلامیہ،فیصل آباد میں تحریکِ انسدادِ سود کے موضوع پر منعقدہ سیمینار کی صدارت۔ سیمینار میں سرکردہ علماء کرام، تاجر حضرات اور بینکنگ سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے شرکت کی جبکہ ڈاکٹر زاہد اشرف، مولانا ارشاد الحق اثری، مولانا مفتی محمد زاہد، مولانا یاسین ظفر، جناب حامد اشرف، جناب معظم خلیل، جناب محمود احمد کمبوہ، جناب محمد آفاق شمسی اور پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر نے خطاب کیا۔
- ۲۵ فروری کو مغرب کے بعد ادارہ مرکزیہ دعوت وارشاد، چنیوٹ میں سالانہ فتحِ مباہلہ کانفرنس سے خطاب ۔
- ۲۶ فروری کو ایوانِ اقبال،لاہور میں انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کی سالانہ عالمی فتح مباہلہ کانفرنس سے خطاب
- ۲۷ فروری کوبعد نمازِ مغرب گکھڑ کے قریب بستی کولار میں حفاظ کی دستار بندی کے ایک پروگرام سے خطاب۔
- ۲۸ فروری کو دارالعلوم تعلیم القرآن،راجہ بازار،راولپنڈی میں جمعۃ المبارک کے اجتماع سے خطاب۔
- ۲۸ فروری کو جامعہ رحمانیہ،ماڈل ٹاؤن ہمک ،اسلام آبادمیں سودی نظام کی نحوست کے موضوع پر گفتگو۔
- یکم مارچ کو فیصل مسجد، اسلام آباد کے اقبال ہال میں اتحادِ امت کانفرنس سے خطاب۔
- یکم مارچ کو مارگلا ٹاؤن اسلام آباد میں ’’وسطی ایشیا میں فقہ حنفی کے ارتقاء‘‘ کے موضوع پر پروفیسر ڈاکٹر رفیع الدین احمد کی تصنیف کی تعارفی تقریب میں شرکت۔ یہ کتاب جامعہ کراچی میں ڈاکٹر نثار احمد صاحب کی نگرانی میں ڈاکٹریٹ کے مقالہ کے طور پر لکھی کی اور گئی چھ سو سے زائد صفحات پر مشتمل ضخیم کتاب کی صورت میں شائع ہوئی ہے۔ تعارفی تقریب میں آزاد کشمیر کے بزرگ عالم دین حضرت مولانا محمد اسحاق خان المدنی اور علامہ اقبالؒ اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے وائس چانسلر جناب ڈاکٹر علی اصغر چشتی بھی شریک تھے۔
- یکم مارچ کو جامعہ رحمانیہ ماڈل ٹاؤن ہمک اسلام آباد میں سودی نظام کے خلاف مہم کے سلسلہ میں عمومی نشست میں شرکت۔ نشست سے شریعہ اکیڈمی اسلام آباد کے سابق ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی اور پاکستان شریعت کونسل کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری حافظ سید علی محی الدین نے بھی خطاب کیا۔
- ۲ مارچ کوشاہدرہ لاہور میں ظہر کے بعد علامہ ڈاکٹرخالد محمود کے ادارہ جامعہ ملیہ کے سالانہ پروگرام میں حضرت شیخ عبدالقدر جیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ کی شخصیت وکردار کے موضوع پر خطاب۔
- ۷ مارچ کومغل چوک گوجرانوالہ میں دینی مدرسہ کے جلسہ سے خطاب۔
- ۸ مارچ کو چوک یادگار شہداء لاہور میں جامعہ حنفیہ قادریہ کے سالانہ جلسہ سے خطاب۔
- ۱۰ مارچ کو اسلام آباد ہوٹل اسلام آباد میں ’’مجلس صوت الاسلام پاکستان‘‘ کے زیر اہتمام ’’تربیت علماء کورس‘‘ کے فضلاء میں تقسیم اسناد کی محفل میں شرکت۔ مجلس کے چیئرمین مولانا مفتی ابوہریرہ محی الدین، مولانا عبد القیوم حقانی، ڈاکٹر سعد صدیقی، ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی، ڈاکٹر دوست محمد، سینیٹر طلحہ محمود، جناب خورشید احمد ندیم، ڈاکٹر طاہر حکیم، اور دیگر سرکردہ علماء کرام اور ارباب دانش کے علاوہ اسلام آباد میں رابطہ عالم اسلام کے ڈائریکٹر جنرل الشیخ عبدہ محمد بن ابراہیم عتین نے بھی خطاب کیا۔ بزرگ عالم دین حضرت مولانا محمد اسحاق مدنی کی دعا پر یہ محفل اختتام پذیر ہوئی۔
- ۱۵ مارچ کواسلام آباد میں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے سالانہ اجلاس میں شرکت اور مغرب کے بعد مرکزی جامع مسجد ابوبکررضی اللہ عنہ، جی-الیون-ون میں سودی نظام کے خلاف نشست سے خطاب۔
- ۱۶ مارچ کو ظہر کے بعد جامعہ قاسمیہ گوجرانوالہ میں وفاق المدارس العربیہ کے ڈویژنل اجلاس کی صدارت۔
- ۲۰ مارچ کو روڈ و سلطان ضلع جھنگ میں شیخ العلماء حضرت مولانا محمد عبد اللہ بہلوی قدس اللہ سرہ العزیز کے ادارے ’’خانقاہ بہلویہ‘‘ میں خانقاہ شریف کے سالانہ اجتماع میں شرکت اور گفتگو۔
- ۲۰ مارچ کو عشاء کے بعد احمد پور سیال کی قدیمی درسگاہ جامعہ شمسیہ فخر المدارس کے سالانہ جلسہ کی ایک نشست میں سیرت نبویؐ کے موضوع پر خطاب۔ اس موقع پر اتحاد اہل سنت کے نو منتخب سیکرٹری جنرل مولانا مفتی شاہد مسعود کے ساتھ ملاقات اور ملک میں مسلکی جدوجہد کے حوالہ سے مختلف امور پر تبادلۂ خیالات ہوا۔
- ۲۳ مارچ اتوار کو خوشاب میں ایک نئی مسجد کا سنگ بنیاد رکھنے کی سعادت۔
- ۲۳ مارچ ظہر کے بعد دوسری جامع مسجد صدیق اکبرؓ میں ’’نظریہ پاکستان اور تحفظ مدارس دینیہ‘‘ کے عنوان سے کانفرنس میں شرکت۔
- ۲۴ مارچ کو جلال پور جٹاں ضلع گجرات میں مولانا قاری میاں احمد صاحب کے مدرسہ جامعہ انوار القرآن کی سالانہ تقریب میں طلبہ کی دستار بندی اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے خطاب۔
فیثا غورث کے زریں اصول
حکیم محمد عمران مغل
فیثا غورث اپنے وقت کا جتنا بڑا سائنس دان تھا، اس سے کہیں بڑا ریاضی دان بھی تھا۔ اس نے جیومیٹری کے قائمۃ الزاویہ سے متعلق جو نظریات پیش کیے، انھیں بعد میں کوئی ریاضی دان چیلنج نہ کر سکا۔ اس کا ایک رونگٹے کھڑے کر دینے والا قول ہے کہ جسے ریاضی نہیں آتی، وہ اپنے آپ کو انسان نہ سمجھے۔ یہ شخص ایک بتی سے کئی تراشے دکھانے والا ریاضی دان تھا۔
فیثا غورث نے اپنی کامیابی اور علمیت کا راز تین باتوں میں بتایا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ پینے کے لیے کھلے منہ کا برتن ہونا چاہیے۔ (آج ہم صبح سے شام تک کولا پیتے ہیں، وہ بھی پائپ بوتل میں ڈال کر پیتے ہیں۔ بوتل کا منہ ویسے ہی چھوٹا ہوتا ہے۔) دوسری بات جلیل القدر فیثا غورث نے یہ بتائی کہ کھانے کے لیے موٹا آٹا ہونا چاہیے۔ (بند، ڈبل روٹی، کیک، بسکٹ، باقر خانی، کلچہ کے شیدائی اپنا انجام سوچیں۔) تیسری بات یہ بتائی کہ جوتا چمڑے کا ہونا چاہیے۔
بظاہر یہ بڑے سادہ لیکن حقیقت میں بہت انمول اصول ہیں۔ نت نئے پکوانوں کے فیشن نے ہمارے گردوں اور جگر کا ستیاناس کر دیا ہے۔ پیزا اور سموسے جس دستر خوان پر دیکھے گئے، انھیں صبح شام کسی نہ کسی کلنک پر حاضری دیتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے۔ ہیپا ٹائٹس اور جسمانی دردیں تو آج ہماری پہچان بن گئی ہیں۔ اس کے ساتھ فارمی مرغی کے بے تحاشا استعمال نے لوگوں کو خونی امراض میں مبتلا کر دیا ہے، اس لیے ہر چھوٹا بڑا خونی یا بادی بواسیر کی شکایت کر رہا ہے۔ فیثا غورث نے کبھی میدہ یا باریک آٹے کے متعلق سوچا بھی نہ ہوگا۔ اس غذا کا پہلا حملہ معدہ پر ہوتا ہے۔ یہیں سے معدہ بگڑتا ہے اور انسانی جسم میں شوگر کے مرض کی ابتدا ہوتی ہے۔
مئی ۲۰۱۴ء
اقبالؒ کا پاکستان
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
حضرت مولانا بشیر احمد پسروریؒ کے پوتے مولانا حافظ محمد عثمان نے پسرور ڈسکہ روڈ پر دارالعلوم رشیدیہ کے نام سے ایک دینی درسگاہ کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ وہاں مسجد اقصیٰ کی طرز پر اسی عنوان سے ایک وسیع مسجد کی تعمیر کا پروگرام ہے۔ مولانا محمد عثمان کی خواہش تھی کہ مسجد کے سنگ بنیاد کی اینٹ رکھنے کی سعادت میں حاصل کروں جو میرے لیے اعزاز کی بات تھی اور میں اس پر ان کا شکر گزار ہوں۔ جبکہ اس سے چند میل کے فاصلہ پر بَن باجوہ میں معہد الرشید الاسلامی کے نام سے ایک دینی مرکز قائم ہے۔ ہمارے محترم دوست بھائی ذوالفقار صاحب اپنے دوستوں کے ہمراہ اس کا نظام چلا رہے ہیں۔ مڈل کے ساتھ حفظ القرآن کریم کا امتزاج قائم کر رکھا ہے اور مسلسل پیش رفت کر رہے ہیں۔ شہر کے محلہ امید پورہ میں بھی اس کی ایک شاخ مسجد بلال میں کام کر رہی ہے۔ وہاں تقسیم اسناد کا جلسہ تھا، معہد الرشید الاسلامی میں تعلیم حاصل کرنے والے چار حفاظ کی دستار بندی تھی، مجھے اس میں حفظ قرآن کریم کی اہمیت اور دینی مدارس کی خدمات پر گفتگو کرنا تھی۔ لیکن جب مسجد میں داخل ہوا تو کلاس کے لڑکے کھڑے ہو کر اجتماعی صورت میں علامہ محمد اقبالؒ کا مشہور ترانہ پڑھ رہے تھے جس کا ایک معروف شعر یہ ہے کہ
چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
بچوں سے یہ ترانہ سن کر میرے ذہن کا رخ بھی اقبالؒ کی طرف مڑ گیا اور میں نے گفتگو اقبالؒ اور قرآن کریم کے عنوان سے شروع کی جو چلتے چلتے ’’اقبالؒ کا پاکستان‘‘ کے موضوع میں تبدیل ہوگئی۔
امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نوجوانوں کو نصیحت کیا کرتے تھے کہ وہ قرآن کریم کا مطالعہ ضرور کریں، اگر سید احمد شہیدؒ کی طرح نہیں کر سکتے تو اقبالؒ کی طرح ہی مطالعہ کرلیں۔ اس کا حوالہ دے کر میں نے گزارش کی کہ آج کل ہمیں تلقین کی جا رہی ہے کہ اقبالؒ کے پاکستان کی بات کریں اور اقبالؒ نے پاکستان کا تصور پیش کرتے ہوئے پاکستان کا جو ذہنی نقشہ پیش کیا تھا، اسے سامنے رکھیں۔ میں یہ بتانا چاہوں گا کہ اقبالؒ کا پاکستان کیا تھا اور مفکر پاکستان نے ایک نئی اسلامی ریاست کی تجویز پیش کر کے اس ریاست کے جو خدو خال بیان کیے تھے ان کو کس نے سامنے رکھا ہے اور کون ان سے منحرف ہوگیا ہے۔ ذرا ترتیب سے میری بات نوٹ کر لیں، تاکہ آپ اندازہ کر سکیں کہ اقبالؒ اور اقبالؒ کا پاکستان کا نعرہ لگانے والوں نے اقبالؒ کے افکار و تعلیمات کا کیا حشر کر رکھا ہے۔ اور کون لوگ اقبالؒ کے تصورات کے مطابق پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔
- اقبالؒ نے پنجاب اسمبلی میں سب سے پہلے یہ بل پیش کیا تھا کہ توہین رسالتؐ جرم ہے جس کی سزا مقرر ہونی چاہیے۔ توہین رسالتؐ پر سزا کی بات ہماری قانونی دنیا میں وہیں سے شروع ہوئی تھی جو 295-C تک پہنچی۔ مگر آج اقبالؒ کے نام پر توہین رسالتؐ پر سزا کے قانون کی مخالفت کی جا رہی ہے اور اقبال اقبال کا ورد کرنے والے بہت سے دانش ور اس قانون کو ختم کرانے کے درپے ہیں۔
- اقبالؒ نے کہا تھا کہ پاکستان کے نام سے قائم ہونے والی نئی ریاست میں نفاذِ اسلام پارلیمنٹ کے ذریعہ ہونا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کا اعلان کرتے ہوئے منتخب پارلیمنٹ کو قرآن و سنت کی حدود میں قانون سازی کرنی چاہیے۔ ملک کے دینی حلقوں نے اجتماعی طور پر اقبالؒ کے اس تصور کو قبول کر لیا مگر اقبالؒ کے پاکستان کا نعرہ لگانے والے بہت سے لوگ پارلیمنٹ کو قرآن و سنت کا پابند قرار دینے کو پارلیمنٹ کی خود مختاری کے منافی کہہ کر پاکستان کے دستور کی اس نظریاتی اساس کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔
- اقبالؒ نے کہا تھا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے اور انہیں مسلم معاشرہ کا حصہ سمجھنے کی بجائے غیر مسلم اقلیتوں میں شمار کیا جائے۔ پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ نے اقبالؒ کی اسی تجویز کے مطابق قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا تھا، مگر اس دستوری فیصلے کے خلاف مہم چلانے والے عناصر میں بعض اقبال اقبال پکارنے والے لوگ بھی نمایاں ہیں۔
- اقبالؒ نے کہا تھا کہ چونکہ پارلیمنٹ کو قرآن و سنت کے دائرہ اور روشنی میں قانون سازی کرنی ہے جس کے لیے قرآن و سنت کا علم ضروری ہے۔ جبکہ عوامی نمائندوں کے لیے قرآن و سنت کا اس درجے کا عالم ہونے کی شرط موجودہ حالات میں قابل عمل نہیں ہے۔ اس لیے جید علماء کرام اور ماہرین قانون پر مشتمل ایک کونسل ہونی چاہیے جو اس سلسلہ میں پارلیمنٹ کی راہ نمائی کرے۔ دستور میں اقبالؒ کی اسی تجویز پر ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ کے قیام کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ مگر بہت سے اقبالی اسلامی نظریاتی کونسل کو غیر ضروری قرار دے کر اس کو ختم کرنے کی مہم چلا رہے ہیں۔
- اقبالؒ نے اسپین کے دورے سے واپسی پر کہا تھا کہ یہ دینی مدارس جس حالت میں کام کر رہے ہیں، انہیں اسی طرح کام کرنے دو۔ یہ اگر اس طرح کام نہ کرتے تو ہمارا بھی وہی حشر ہوتا جو اسپین پر عیسائیوں کے قبضے کے بعد وہاں کے مسلمانوں کا ہوا تھا کہ آج وہاں مسلمانوں کی تعداد برائے نام ہے۔ مگر آج اقبالؒ کے کچھ نام لیوا دینی مدارس کے اس کردار اور محنت کو ختم کر دینا چاہتے ہیں اور ان کی خواہش اور کوشش ہے کہ انہیں قومی دھارے میں لانے کی آڑ میں ان کے آزادانہ تعلیمی و دینی کردار سے محروم کر دیا جائے۔
حضرات گرامی قدر! ان باتوں سے آپ خود فیصلہ کریں کہ کون اقبالؒ کے پاکستان کی بات کر رہا ہے اور کون اقبالؒ سے منحرف ہوگیا ہے؟
میں ان لوگوں سے امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ ہی کی زبان میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہم مولویوں کی بات تم نہیں سنتے، تمہاری مرضی۔ لیکن اقبالؒ سے دست بردار کیوں ہو رہے ہو؟ اس کی تو سنو کہ اسی کی فکر پر تمہیں پاکستان کی یہ عظیم نعمت ملی ہے۔ اور اسی کے نام کے نعرے لگا کر تم اپنا قد بڑھاتے ہو۔
بچوں کی زبان سے اقبالؒ کا ترانہ سن کر میرا ذہن اس طرف گھوم گیا اور میں نے یہ باتیں عرض کر دی ہیں۔ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح سمت پر دین، قوم اور ملک کی خدمت کرنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
ارکان پارلیمنٹ کے نام پاکستان شریعت کونسل کی عرض داشت
ادارہ
(پاکستان شریعت کونسل کا ایک اہم اجلاس 3 اپریل 2014ء کو اسلام آباد میں کونسل کے مرکزی امیر مولانا فداء الرحمن درخواستی کی قیام گاہ پر ان کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں ملک کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے چند اہم مسائل پر ارکان پارلیمنٹ کو توجہ دلانے کے لیے مندرجہ ذیل عرضداشت پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔)
’’بگرامی خدمت معزز ارکان پارلیمنٹ اسلامی جمہوریہ پاکستان
السلام علیکم ورحمۃ اللہ برکاتہ
پاکستان شریعت کونسل جو کہ نفاذِ اسلام کی جدوجہد کے لیے غیر انتخابی فکری و علمی فورم کے طور پر ایک عرصہ سے سرگرم عمل ہے، وطن عزیز کی تازہ ترین صورت حال کے حوالہ سے قوم کے منتخب نمائندگان کو اس عرضداشت کے ذریعہ توجہ دلانا چاہتی ہے۔ امید ہے کہ معزز ارکان پارلیمنٹ ان گزارشات پر ہمدردانہ غور فرما کر ایوان میں انہیں مناسب صورت میں پیش کرنے کی زحمت فرمائیں گے۔
- کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ حکومتی مذاکرات میں بظاہر محسوس ہونے والی پیش رفت اطمینان بخش ہے جس سے یہ توقع بڑھتی جا رہی ہے کہ باہمی گفت و شنید کے ذریعہ حکومتی رٹ کے قیام کے ساتھ ساتھ دستور پاکستان کی بالادستی، نفاذِ شریعت، امن عامہ کی بحالی اور دہشت گردی کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ دستور پاکستان کی بالادستی، نفاذِ شریعت، امن عامہ کی بحالی اور دہشت گردی کے خاتمہ کے مقاصد ان شاء اللہ تعالیٰ ضرور حاصل ہوں گے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ رب العزت ان مذاکرات کو وطن عزیز کے نظریاتی تشخص کے تحفظ، مکمل استحکام و سلامتی اور امن عامہ کی مکمل بحالی کا ذریعہ بنائیں۔ آمین یا رب العالمین۔
ہم فریقین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ملک و ملت کے وسیع تر مفاد اور بہتر مستقبل کی خاطر ان مذاکرات کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کا حامی و ناصر ہو، آمین۔
- گزشتہ دنوں قومی اسمبلی آف پاکستان نے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو قانون سازی کے لیے متعلقہ ایوانوں میں پیش کرنے کی جو قرارداد منظر کی ہے ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں اور وزارت قانون سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس سلسلہ میں اپنی دستوری و قانونی ذمہ داری کو پورا کرتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے مطابق قانون سازی کا اہتمام کرے تاکہ ملکی قوانین کو دستور کے مطابق قرآن و سنت کے مطابق بنانے کا مبارک عمل جلد از جلد مکمل کرے۔
- نیز اسلامی نظریاتی کونسل کو ختم کر دینے کے بارے میں سندھ اسمبلی کی حالیہ قرارداد پاکستان شریعت کونسل کی نظر میں افسوسناک اور پاکستان کے دستور کی نظریاتی اساس سے بے خبری اور بے پروائی کا نتیجہ ہے۔ اس لیے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کی اس تجویز کے مطابق قانون سازی کو یقینی بنانے کے لیے جید علماء کرام اور قانون دانوں پر مشتمل ایک کونسل کو پارلیمنٹ کے ساتھ شریک کار ہونا چاہیے تاکہ پارلیمنٹ قرآن و سنت کے دائرہ میں قانون سازی کے لیے اپنی ذمہ داری کو صحیح طور پر ادا کر سکے۔ اس لیے ہم سندھ اسمبلی کے معزز ارکان سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ نفاذِ اسلام کے سلسلہ میں مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کے خطبات کا مطالعہ کریں اور دستور پاکستان کے اسلامی تقاضوں کی تکمیل کے لیے ناگزیر فورم کے طور پر اسلامی نظریاتی کونسل کے وجود و کردار کی نفی کرنے کی بجائے قومی اسمبلی کی قرارداد کے مطابق کونسل کی سفارشات کے مطابق قانون سازی کے لیے پیش رفت کریں۔
- ملک کے قومی نظام تعلیم اور نصاب میں اس وقت پائی جانے والی تقسیم در تقسیم نے جو فکری خلفشار اور ذہنی انتشار کی کیفیت پیدا کر رکھی ہے وہ انتہائی تشویش ناک ہے۔ سکولوں اور کالجوں کی طبقاتی درجہ بندی کے ساتھ ساتھ مختلف بلکہ متضاد نصاب ہائے تعلیم قومی یک جہتی کے لیے زہر قاتل کی حیثیت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ جبکہ حکومتی پالیسیوں کا رخ اس خلفشار کو ختم کرنے کی بجائے اس کی حوصلہ افزائی کی طرف دکھائی دے رہا ہے۔ اس لیے قومی وحدت اور ہم آہنگی کا اولین تقاضہ ہے کہ قومی تعلیمی پالیسی پر نظر ثانی کی جائے اور قوم کو مختلف طبقات اور ثقافتی دائروں میں تقسیم ہونے سے بچانے کے لیے دستور پاکستان کے مطابق اسلامی تعلیمات کی اساس پر یکساں تعلیمی نظام و نصاب تشکیل دیا جائے۔ تاکہ ملک کے تہذیبی و نظریاتی تشخص کے تحفظ کے ساتھ ساتھ قومی وحدت اور ملکی استحکام کے تقاضے پورے کیے جا سکیں۔
- دینی مدارس اس وقت ملک بھر میں قرآن و سنت کی تعلیمات کے فروغ اور دینی اقدار و روایات کے تحفظ کے لیے جو خدمات سر انجام دے رہے ہیں وہ انتہائی قابل قدر ہیں۔ ان کا موجودہ معاشرتی کردار اس وجہ سے محفوظ بنیادوں پر مصروف کار ہے کہ وہ سرکاری کنٹرول سے باہر رہتے ہوئے عوام کے رضاکارانہ تعاون کے ساتھ آزادانہ طور پر کام کر رہے ہیں۔ جبکہ ماضی میں محکمہ تعلیم اور محکمہ اوقاف کی تحویل میں لیے جانے والے بیسیوں دینی مدارس (مثلاً جامعہ عباسیہ بہاول پور اور جامعہ عثمانیہ اوکاڑہ وغیرہ) اپنا وجود اور تشخص کھو چکے ہیں۔ اور غالباً اسی وجہ سے دینی مدارس کے وفاق اپنے نظام و نصاب کے حوالہ سے کسی سرکاری مداخلت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں جو مذکورہ بالا پس منظر میں بالکل بجا نظر آتا ہے۔
پاکستان شریعت کونسل یہ سمجھتی ہے کہ دینی مدارس کے نظام و نصاب کا سرکاری کنٹرول سے الگ رہنا ان کے تعلیمی و دینی کردار کے تسلسل اور ان پر عوامی اعتماد برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ جبکہ انہیں سرکاری کنٹرول میں لانے کے نتیجے میں موجودہ حالات میں ان مدارس کے موجودہ تعلیمی، دینی اور رفاہی کردار کو خدانخواستہ باقی نہیں رکھا جا سکے گا۔ اس لیے معزز ارکان پارلیمنٹ سے درخواست ہے کہ وہ دینی مدارس کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی بجائے ان کی مشکلات کو حل کرنے کے لیے کردار ادا کریں۔ اور دینی مدارس کے نظام کو خطرات و خدشات سے دو چار کرنے کی بجائے ان کی کمزوریوں اور خامیوں کو دور کرنے میں ان سے تعاون کریں۔
دینی مدارس کے نصاب و نظام کے حوالہ سے ضروری اصلاحات کی اہمیت سے کسی طرح انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس کا صحیح طریقہ یہ نہیں ہے کہ سرے سے ان کے نظام و نصاب کے بنیادی ڈھانچے کو ہی معرض خطر میں ڈال دیا جائے۔ بلکہ دینی مدارس کے وفاقوں کو اعتماد میں لے کر باہی مذاکرات اور گفت و شنید کے ذریعہ مبینہ کمزوریوں، خامیوں او رخلاء کو پر کرنے کا طریق کار ہی موجودہ حالات میں قابل عمل ہو سکتا ہے۔
- اسلامی نظریاتی کونسل، وفاقی شرعی عدالت اور اس کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان کے واضح فیصلوں کے باوجود ملک میں سودی نظام کے خاتمہ کا وہ وعدہ ابھی تک پورا نہیں کیا جا سکا جس کا دستور پاکستان وعدہ کیا گیا ہے اور اپیل در اپیل میں سالہا سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد وفاقی شرعی عدالت میں سودی نظام کے خلاف کیس کا از سر نو سماعت شروع ہوتے ہی اس کے پھر سے غیر معینہ التواء نے اس سلسلہ میں قوم کی مایوسی میں اضافہ کیا ہے۔ جبکہ دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ حکومت پاکستان اور متعدد عالمی مالیاتی ادارے غیر سودی بینکاری کی افادیت اور اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے خود اس کی طرف پیش رفت کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ اور بین الاقوامی مالیاتی حلقوں میں غیر سودی بینکاری کا رجحان دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔
اس لیے ہم وفاقی شرعی عدالت سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس کیس کی سماعت کو جلد از جلد مکمل کر کے قوم کو سودی نظام کی نحوست سے نجات دلائے۔ اور ارکان پارلیمنٹ سے گزارش ہے کہ وہ بھی اس سلسلہ میں کردار ادا کریں تاکہ قرآن و سنت کے صریح احکام پر عملدرآمد کے ساتھ ساتھ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی اس خواہش کی تکمیل کا بھی اہتمام ہو سکے جس کا اظہار انہوں نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر اپنے خطاب میں کیا تھا کہ میں چاہتا ہوں کہ پاکستان کے معاشی و مالیاتی نظام کو مغرب کے معاشی اصولوں کی بجائے اسلامی تعلیمات کے مطابق تشکیل دیا جائے۔
- وفاقی وزیر امور مذہبی سردار محمد یوسف خان کا یہ اعلان خوش آئند ہے کہ حکومت نے میٹرک تک عربی زبان کو لازمی قرار دینے کا فیصلہ کر لیا ہے، ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے حکومت سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اس مستحسن فیصلہ پر عملدرآمد کے لیے جلد از جلد اقدامات کرے اور اس سلسلہ میں دینی مدارس کے وفاقوں کو بھی اعتماد میں لیا جائے۔ ‘‘
روس کے خلاف افغانوں کا جہاد: ایک مغالطے کا ازالہ
اکرم تاشفین
روس کے خلاف افغانوں کا جہاد ، امریکا کا تعاون اور روس کی شکست۔یہ موضوع اب شاید مزید اس قابل نہیں کہ اس پر بحث ومباحثہ کا میدان گرم رکھا جائے کیوں کہ ’’اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا‘‘۔ دنیا بھر میں تیزی سے بدلتے حالات میں عالم اسلام کو اس وقت جن فکری اور نظریاتی چیلنجوں کا سامنا ہے، ایسے حالات میں روس کی شکست کے پارینہ قصے کو دہرا نا ضیاع وقت کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ تاریخ کے اس حساس عصر میں مسلمان اہل فکر وقلم کو آگے بڑھتے رہنا چاہیے اور مسلمانوں خصوصاً نوجوان نسل کو جن فکری پیچیدگیوں کا سامنا ہے، ان گتھیوں کو سلجھاتے رہنا چاہیے۔ آج کی نشست میں روس کے خلاف افغانوں کی مزاحمت کا قصہ دہرانے کا مقصد ایک مغالطہ کا ازالہ کرنا ہے جو عموماً ہمارے نوجوانوں کو ہمارے اہل قلم کی جانب سے دیا جاتا ہے۔ ہمارے ایک دانشوراور کالم نگار نے گذشتہ دنوں ایک معروف روزنامے میں یہی مغالطہ دہرایا۔ انہوں نے اس بات کا ایک بارپھر تکرار کیا کہ سوویت یونین کو شکست دراصل امریکا نے دی تھی اور افغان عوام اس جنگ کی بھٹی میں جلنے والے ایندھن کے طورپر استعمال کیے گئے۔ وہ اس بات پر نالاں تھے کہ ’’روس کا سوشل ازم دنیا بھر میں یورپ کے سرمایہ دارانہ نظام میں نقب لگا چکا تھا اور ہر میدان میں سرمایہ داریت کو چیلنج کررہا تھا۔ سوویت یونین کے خاتمے سے امریکا کے لیے دنیا بھر میں میدان صاف ہو گیا اور وہ چند ارب ڈالر خرچ کرکے واحد سپر پاور بن بیٹھا اور مسلمان واحد سپر پاور کے پنجے میں آگئے۔ ‘‘
مذکورہ کالم نگار نے یہ بات ذرا طویل الفاظ میں کی ہے، ہم نے ان کا خلاصہ یہاں لکھا ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ کیوں ایک اچھا تجزیہ کار حقائق سے نظریں پھیرتا ہے؟ کسی موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے ہم ایک ہی جانب اور ایک ہی زاویے سے کیوں کسی معاملے کو دیکھتے ہیں؟ معاملے کا ایک پہلو بے شک یہی ہے کہ امریکا اور روس ایک دوسرے کے بڑے حریف تھے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ امریکا اور روس دونوں اپنے ساتھ ایک خاص نظام بھی لیے ہوئے دنیا پر چھا جانے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ اس میں بھی کوئی دورائیں نہیں کہ روس کی شکست امریکا کی فتح تھی اور امریکا کی شکست روس کی فتح، کیوں کہ اس وقت دونوں ممالک اور دونوں نظام دو مقابل قطب بن کر دنیا کے افق پر کھڑے تھے۔ گویا دونوں، ترازو کے الگ الگ دوپلڑوں میں تھے۔ ایک کا بھاری ہونا یقینی طورپر دوسرے کا ہلکاہونا تھا۔ یہ ایک بدیہی معاملہ تھا جس سے کوئی مفر بھی نہ تھا۔ اس زاویہ نگاہ سے دیکھا جائے تو وہ بات کسی حد تک ٹھیک لگتی ہے جو مذکورہ قلم کار نے کی مگر اس معاملے کا ایک پہلو اور بھی ہے اور یہی وہ پہلو ہے جس سے آج تک ہمارے مصنفین اور رائٹرز صرف نظر کرتے آرہے ہیں۔ وہ یہ کہ اشتراکیت اور سرمایہ داریت کی جنگ کو افغانستان میں ایک افغان کی نظر سے دیکھ کر فیصلہ کیا جائے۔
۱۹۷۹ء میں روس نے افغانستان پر حملہ کیا۔ اس وقت افغانوں کے سامنے ایک ہی سوال تھا کہ روسی جارحیت کے مقابلے میں کیا کیا جائے ؟افغانوں میں کچھ تو وہ تھے جو روسی جارحیت سے قبل ہی اس کے اشتراکی نظریے کے حامی بن چکے تھے۔ ایسے لوگوں کے لیے روس کا افغانستان پر قبضہ کسی نعمت عظمیٰ سے کم نہ تھا، کیوں کہ ایسے لوگوں کو اپنے مفادات کی تکمیل کا ایک بہترین موقع ہاتھ آگیا تھا۔ مسئلہ تو ان دیندار مسلمانوں کا تھا جنہوں نے کمیونزم کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔ خلق وپرچم کے کمیونسٹوں کے علاوہ اکثر افغان عوام کے سامنے اب بس یہی سوال تھا کہ روسی جارحیت کے بعد کیا کیا جائے ؟ ان کے سامنے دو مسائل تھے جو بار بار انہیں اپنے آپ سے یہ سوال دہرانے پر مجبور کررہے تھے۔ پہلا مسئلہ تھا روسیوں اور ان کے کٹھ پتلی کمیونسٹوں کے بے انتہا مظالم کا۔ وحشیانہ مظالم کی یہ کہانیاں آج بھی لوگوں کو از بر ہیں۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ جن لوگوں نے روسیوں کے مظالم سہے، وہ نسلیں آج بھی زندہ ہیں۔ ایسے حالات میں جب محض اسلام پسندی کی بنا پر لوگوں کا قتل عام کیا جائے ، مال واملاک چھین لیے جائیں اور اشتراکی نظریے کے علاوہ کسی بھی عقیدے کا نام لینا جرم بن جائے ،انسان نما وحشی درندوں کے غول گھر کی دہلیز پار کرکے آپ کے حرم میں داخل ہو جائیں، بیٹی ، بہن اور بیوی کی عزت محفوظ نہ ہو۔ صبح اٹھیں تو شام تک یقین نہ ہو کہ کب یہ خون آشام درندے آئیں گے اور معصوم بیٹیوں کی عصمت کی چادر تار تار کرکے چلے جائیں گے۔ ایسے سینکڑوں واقعات ہوئے کہ روسی فوجی ہیلی کاپٹر میں آئے، چھاپہ مارکرچلے گئے اور جاتے جاتے گاؤں کی دوشیزاؤں کو ریوڑ کی طرح ہنکا کر لے گئے اور پھر جب ہیلی کاپٹر فضا میں بلند ہوا تو ان کے کپڑے ہوا میں لہراتے ہوئے نیچے گرے اور صحراؤں اور ریگستانوں میں بکھر گئے۔ قرآن کریم کی بے حرمتی، مساجد کی تباہی، کیا کیا مظالم ہیں جو میری مظلوم قوم نے نہ سہے؟ کتنے بے آسرا والدین کے جوان بیٹوں کی لاشیں ان کے کندھوں پر لادی گئیں۔
افغانوں کا دوسرا مسئلہ فکری اور نظریاتی تھا۔ دراصل اشتراکیت اور سرمایہ داریت کے نام سے دنیا میں جوجنگ چل رہی ہے جس میں روس کی شکست کے بعد آج بظاہر سرمایہ داریت ہی کا تسلط قائم ہے ، یہ جنگ دونظاموں کی نہیں، تین نظاموں کی جنگ ہے، یعنی اشتراکیت ، سرمایہ دارنہ نظام اور اسلام۔ اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ نظام کی جنگ تو ظاہر ہے کہ معاشی اور عسکری اعتبار سے دنیا کی دو طاقتور قوتیں ان نظاموں کے پشت پر ہیں، اس لیے ان کی قوت سب کے سامنے ہے۔ تیسرا فریق اسلام ہے۔ اگرچہ بظاہر اس کا علمبردار کوئی مضبوط معاشی یا عسکری ملک نہیں جس کی وجہ سے دنیا میں سرمایہ داری یا اشتراکیت کی طرح اسے بھی غلبہ ملے، مگر روس اور امریکا دونوں اس راز سے واقف ہیں کہ اسلام دنیا میں ایک تیسرے مضبوط نظام کی حیثیت سے ابھرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ابھرنے کی یہ صلاحیت اسے بیرونی عوامل نے اسے نہیں بخشی بلکہ فی ذاتہ یہ ایک مکمل نظام ہے جو دنیا کی کامیاب رہنمائی کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس لیے بظاہر ’’رِنگ‘‘ میں نہ ہونے کے باوجود اشتراکیت اور سرمایہ داریت نے اسے اپنے لیے خطرہ سمجھا۔ روس کی شکست کے بعد امریکیوں نے کہا تھا کہ ’’اب ہمارے سامنے اسلام ہی واحد خطرہ ہے جو ہماری راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے‘‘ اور یہی بات روس کے لاشعور میں بھی کہیں موجود تھی، یعنی وہ امریکا کے بعداسلام ہی کو اپنا دشمن سمجھتا تھا۔ اس لیے روس کا اشتراکی نظریہ امریکا کے سرمایہ دارانہ نظام کے لیے جتنا بڑا خطرہ تھا، اپنے دوسرے حریف اسلام کو بھی وہ اتنا ہی بڑا دشمن سمجھتا تھا۔
عام طور پر ہمارے دانشورسرمایہ دارانہ نظام کی دشمنی کی بات تو کرتے ہیں، مگر روس کی اسلام دشمنی کو یکسر بھول جاتے ہیں۔ افغانستان آنے سے قبل روس نے وسطی ایشیائی ممالک پر قبضہ کیا تھا۔ وہاں کے مسلمانوں کے ساتھ روس نے جو کیا، اس کی تاریخ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ کاش ہمارے دانشور افغانستان پر تبصرہ کرنے سے پہلے وسطی ایشیائی ممالک میں ہونے والے روسی مظالم کی بھیانک تاریخ پڑھ لیں۔ روس کی مزاحمت صرف افغانوں نے نہیں کی، وسطی ایشائی ممالک قفقاز اور چیچنیا وغیرہ میں روس کے خلاف بڑی مزاحمتی تحریکیں چلیں۔ قفقاز میں امام شامل اور چیچنیا میں شامل بسایوف نے بھی روس کے خلاف ہتھیار اٹھائے۔ ان کی جنگیں بھی سالہا سال پر محیط رہیں، مگر افسوس وہ کامیاب نہ ہوسکیں۔ سوویت یونین کی شکست وریخت افغانوں کے ہاتھوں لکھی تھی۔افغانستان میں سوویت یونین کو اشتراکیت کے علاوہ اور کوئی نظریہ قبول ہی نہ تھا۔ ماہنامہ ’’شریعت‘‘ میں شائع ہونے والے ہمارے ایک دوست کے مضمون کا ایک اقتباس پیش خدمت ہے جنہوں نے اس صورتحال کا بہت جامع الفاظ میں نقشہ کھینچا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’افغان اتنے پاگل تھے اور نہ اس حد تک زندگی ان پر بوجھ تھی کہ کسی لایعنی مقصد کے لیے دوملین بھائیوں اوربیٹوں کی قربانی دیتے۔ کمیونسٹ یلغار کے بعد افغانوں کو بڑے اندرونی وبیرونی دشمن کا سامنا تھا۔ افغانوں کے وطن پر سیلاب بہہ نکلا تھا اور انہیں اپنے سب سے بڑے سرمایے یعنی اسلامی عقیدے کے خاتمے کا خطرہ درپیش تھا۔ افغانستان کا شمالی طاقتور پڑوسی یہ فیصلہ کرچکا تھا کہ طوعاً وکرہاً ہر افغان بچے ،بڑے، مرد اورعورت کے ذہن کومارکس ازم کے دَہری عقیدے کا انجکشن لگایا جائے۔ نماز ،روزہ ، حج ، زکوٰۃ، مسواک، اذان، مسجد، قرآن، اللہ، رسول، مذہب اور تمام عربی اصطلاحات کو عقیدے اورعمل سے نکال دیا جائے۔ افغانوں کو روسی تعاون کے بدلے اپنا ڈیڑھ ہزارسالہ قبلہ لینن گراڈ کی جانب موڑلینا چاہیے، کیوں کہ نئے مارکسسٹ معاشرے کا یہی تقاضا ہے۔ بریگ نوف نے کہا ’’کمیونزم کے پڑوسیوں کو صرف کمیونسٹ ہی ہونا چاہیے اور بس‘‘۔ یہی واقعہ اور یہی یک طرفہ کفری یلغار تھی جس نے افغانوں کو دیوار سے لگادیا۔ کسی طرح کا استثنا،کوئی راستہ اور کوئی مصلحت افغان عوام کے لیے نہ چھوڑی گئی۔ بریگ نوف نے حفیظ اللہ امین کی زبانی اعلان کیا کہ’’ دو کروڑ مخالفین کو قتل کردینا چاہیے تاکہ61 ہزار افراد پر مشتمل معاشرے کے لیے راہ ہموار ہوجائے‘‘۔ افغان عوام مجبور تھے کہ یا تو عقیدے کی موت قبول کریں اور یا جسمانی موت۔ چونکہ جسمانی موت آسان ہے اور اس کا انجام بھی عقیدے کی موت کے بہ نسبت صرف ظاہری اور وقتی ہے، اس لیے ڈیڑھ ملین افغانوں نے جسمانی موت کوگلے لگالیا تاکہ اپنی قوم کو عقیدے کی موت سے بچاسکیں۔‘‘
افغانوں نے جب اپنے دفاع میں ہتھیار اٹھائے تو کوئی بھی امریکی ان کے درمیان موجود نہیں تھا جو انہیں یہ راستہ دکھا رہا تھا۔ افغان حریت پسندوں نے اگر اس وقت ہتھیار اٹھائے تو وہ صرف روسی مظالم اور اسلام دشمنی تھی جس نے افغانوں کو لڑنے پر مجبور کردیا۔ افغان مجاہد ین نے جہاد کا آغازسوکھے پیٹ اور پرانے ہتھیاروں سے کیا تھا۔ وہ بوتل سے گرنیڈ بناکرروسی لشکر کا ٹینک اڑانے کی کوشش کررہے تھے۔ کلہاڑی ، بیلچہ اور پتھر لے کر وہ روسی ٹینکوں کے سامنے سینہ سپر ہو رہے تھے، کیوں کہ نہتے عوام کے پاس اب صرف یہی راستہ بچا تھا۔
افغانوں کی مزاحمت کے آغاز کے بعد دنیا کے سامنے ایک نیا منظر نامہ بن رہاتھا۔ ایک جنگ چھڑگئی تھی جس میں ایک جانب دنیا کی طاقت ور ترین قوت سوویت یونین اور دوسری طرف نہتے افغان عوام تھے۔ جہاں دیگر حقائق قابل تسلیم ہیں، وہاں یہ بات بھی مان لینی چاہیے کہ دونوں فریق اپنی اپنی تاریخ ، مضافات و متعلقات ، دوست و دشمن ، اپنی اپنی ترجیحات اور اپنا اپنا بیک گراؤنڈ رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ روس ایک عالمی سپر پاور تھا جس کی جنگ کے اثرات اس کے دوستوں اور دشمنوں سب پر پڑنے والے تھے۔ ایک جانب وسطی ایشائی ممالک تھے جو براہ راست روسی جارحیت کا شکار تھے۔ دوسری جانب پاکستان تھا جو افغانستان کے بعد روسی جارحیت کا شکار بننے والا تھا۔ پاکستان کے بلوچستان اور کراچی کے ساحلوں سے ٹکرانے والے بحیرہ عرب کے اس پارعرب ممالک پھیلے ہوئے ہیں جن کا خیال تھا کہ روس کی استعماری جد وجہد کا اصل ہدف عرب ممالک ہی ہیں جہاں سوشل ازم کے بڑے حریف مذہب ’’اسلام‘‘ کے روحانی مرکز کے ساتھ ساتھ تیلکے وسیع ذخائر بھی ہیں۔ دوسری طرف مغربی یورپی ممالک تھے جو سرمایہ دارانہ نظام کے حامی تھے اور روس کو اپنا فطری حریف سمجھتے تھے۔ادھرسوویت یونین تھا کہ پوری دنیا کو تاراج کرنے کا سودا سر میں لیے بے لگام ہوکر نکل پڑا تھا۔
’’دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے‘‘، اس لیے سوویت یونین کے ہر بدخواہ کی خواہش تھی کہ افغانوں کے ہاتھوں سوویت روس کی شکست ہوجائے۔ مگر مشکل یہ تھی کہ روس کے عتاب اور قہر آلود نگاہوں کے سامنے کسی کا بس بھی نہ چلتا تھا۔ اس لیے افغانوں کی جنگ شروع ہونے کے بعد ایک عرصہ تک دنیا دم بخود کھڑی دیکھتی رہی۔ سوویت یونین کے رعب اور دبدبے کے سامنے کسی کو ہمت نہ ہوئی کہ یوں علی الاعلان افغانوں کی مدد کے لیے آگے آتا۔ افغان مجاہدین کو امداد پہلے دن ہی سے ملنا شروع نہیں ہوئی۔ ساری دنیا اس انتظار میں تھی کہ یہ جنگ آگے جاکر کیا رخ اختیار کرے گی ؟ کسی کو یہ یقین نہیں آرہا تھا کہ افغان اتنا مضبوط عزم لے کر اٹھے ہیں کہ روس اپنی تمام تردرندگی کے باوجود انہیں شکست نہیں دے سکے گا۔ آخر یہ انہونی بھی ہونی ہوگئی ، دنیا کو یقین آگیا کہ افغانوں کی مزاحمت کوئی وقتی وبال یا دو روزہ جذبہ انتقام نہیں۔ تب ہی افغانوں کی جانب عرب دنیا اور امریکا نے تعاون کا ہاتھ بڑھا یا۔فکری اعتبار سے یہ تعاون تین دشمنوں میں سے ایک طاقتور دشمن کے خلاف دو کا آپس کا اتحاد تھا جس میں ایک نے اپنا سر پیش کیا کیوں کہ اس کے پاس اس کے سوا کچھ تھا ہی نہیں۔ دوسرے نے اپنی ٹیکنالوجی پیش کی کیوں کہ سرجاتے ہوئے اس کی جان جاتی ہے۔
یہ تھا وہ باعث جس نے افغانوں کو ہاتھوں میں ہتھیار تھمادیے۔ شریف النفس افغانوں کے خلاف روس نے ہی سازشوں کے جال بنے تھے اور پھر خود ہی جارحیت ہی کی تھی۔ اس کے باوجود ہمارے دانشور وں کے پاس لعنت ملامت کے لیے افغان عوام ہی ہیں۔ روس کی تو جیسے معصومیت قسم کھانے کے قابل ہو۔ دنیا میں اگر کوئی اپنے حق کے لیے آواز یا ہتھیار اٹھائے تو ساری دنیا اس کی حمایت میں کھڑی ہوجاتی ہے۔ اس کو انصاف دلانے کی بات کی جاتی ہے، مگر ہم افغانوں نے اپنی آزادی اور حق کے لیے ہتھیار اٹھاکر ایسا کون سا بڑا گناہ کردیا کہ غیر تو غیر، اپنے مسلمان بھی مسلسل کوستے چلے جارہے ہیں؟ سرخ ریچھ کو موت کی گھاٹ اتارنا کیا اتنا بڑا جرم ہے کہ بیس سال بعد بھی قابل معافی نہیں؟ روس کی تباہی سے اگر امریکا کو فائدہ ہونا تھا تو یہ اس جنگ کا خود بخود حاصل ہونے والا ایک ناگزیر نتیجہ تھا، افغانوں کی جنگ ہرگز اس مقصد کے لیے نہیں تھی۔ افغانوں نے اس وقت بھی اسلام کے دفاع کی جنگ لڑی، اس وقت بھی کافروں کو اسلام کا دشمن سمجھا، آج بھی کفر کو اسلام کا دشمن سمجھتے ہیں۔ آج ہم اس بات پر نالاں ہیں کہ امریکا کا کوئی حریف نہیں جو اسے نکیل ڈالے! تو کیا روس جیسا وحشی مقابل ہونے کی صورت ہم مسلمان محفوظ اور پر امن رہ جاتے؟ دو عالمی طاقتوں کی رسہ کشی میں ہماری کمزور اقوام کیا پامال نہ ہوجاتیں؟ اسلام اور مسلمانوں کو آج جو پریشانیاں درپیش ہیں، کیا اشتراکیت کے وجود سے وہ دوگنی نہ ہوتیں؟
اوپر کی سطورکا مقصد صورت حال کی تھوڑی سی وضاحت تھی ۔ روس کے خلاف افغانوں کی جنگ میں افغانوں کو محض ایندھن یا مجاہدین رہنماؤں کو امریکی آلہ کار کہنے سے قبل اس جنگ کو ایک عام افغان کی نظر سے دیکھا جائے اور اس پہلو پر بھی سوچا جائے کہ اس وقت افغانوں کے پاس امریکا سے اسلحہ لے کر لڑنے کے سوا اور بچا بھی کون سا راستہ تھا!
جناب عبد الستار غوریؒ
محمد عمار خان ناصر
جناب عبد الستار غوری بھی اپنے وقت مقرر پر اللہ کے حضور میں حاضر ہو گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہم لا تحرمنا اجرہ ولا تفتنا بعدہ۔ آمین
ان سے پہلی ملاقات آج سے کوئی بائیس چوبیس برس قبل گوجرانوالہ میں ، جامع مسجد شیرانوالہ باغ میں ہماری رہائش گاہ پر ہوئی۔ وہ اپنے کسی دوست کے ہمراہ والد گرامی سے ملاقات کے لیے آئے تھے۔ (میری یادداشت کے مطابق یہ ڈاکٹر سفیر اختر صاحب تھے، لیکن ایک موقع پر غوری صاحب نے تصحیح کرتے ہوئے غالباً افتخار بھٹہ صاحب کا نام لیا تھا)۔ اس زمانے میں مجھے مسیحیت اور بائبل وغیرہ کے مطالعے کا نیا نیا شوق، بلکہ کسی حد تک جنون تھا اور میری علمی دلچسپی کا بنیادی دائرہ یہی تھا۔ غوری صاحب اپنے ساتھ اپنا ایک ۷۰ صفحات کا مقالہ لائے تھے جو کتاب استثناء کی اس مشہور پیشین گوئی کی تشریح پر مبنی تھا جس میں کوہ فاران سے دس ہزار قدسیوں کے جلوہ گر ہونے کی بات ذکر کی گئی ہے۔ غوری صاحب نے میری دلچسپی کو دیکھتے ہوئے ازراہ عنایت اس کی ایک نقل مجھے بھی دی اور کہا کہ یہ ابھی نامکمل اور غیر مطبوعہ ہے اور صرف مطالعے کے لیے تمھیں دے رہا ہوں۔ اسی موقع پر انھوں نے بتایا کہ انھوں نے یہودیت ومسیحیت کے مطالعہ وتحقیق سے متعلق نادر ونایاب کتب کا ذخیرہ اپنے پاس جمع کر رکھا ہے۔
اس موضوع کے حوالے سے میری شناسائی اس وقت تک زیادہ تر محمد اسلم رانا صاحب مرحوم سے تھی جو پہلے ’’طب وصحت‘‘ کے نام سے ایک رسالے میں یہودیت ومسیحیت سے متعلق اپنے نتائج تحقیق شائع کیا کرتے تھے۔ بعد میں انھوں نے ’’المذاہب‘‘ کے نام سے ایک مستقل رسالے کا ڈیکلریشن لے لیا جس کی اشاعت کا سلسلہ ان کی وفات تک جاری رہا۔ رانا صاحب کی تحریر تحقیقی حوالہ جات سے مزین ہونے کے ساتھ ساتھ کافی حد تک مناظرانہ اسلوب میں لکھی ہوتی تھی۔ وہ وقتاً فوقتاً گوجرانوالہ آتے رہتے تھے اور کھوکھرکی گوجرانوالہ میں مسیحی دینیاتی تعلیم کے عالمی سطح کے ادارے فیتھ تھیولاجیکل سیمنری میں بھی مختلف حضرات سے ملاقات کے لیے جایا کرتے تھے۔ یاد پڑتا ہے کہ گوجرانوالہ کے معروف مسیحی عالم ڈاکٹر پادری کے ایل ناصر اور ان کے جریدہ ’’کلام حق‘‘ سے مجھے رانا صاحب نے ہی متعارف کروایا تھا اور میں غالباً ۱۹۹۰ء میں ایک مرتبہ ڈاکٹر کے ایل ناصر سے ملاقات کے لیے ان کے دفتر بھی گیا تھا۔
بہرحال غوری صاحب سے ملاقات کے بعد یہ معلوم ہوا کہ اس موضوع پر زیادہ اعلیٰ سطحی تحقیقی کام کرنے والے حضرات بھی موجود ہیں۔ تاہم اس کے بعد ان کے ساتھ ربط ضبط یا استفادہ کا کوئی خاص موقع مجھے نہیں ملا تا آنکہ ۲۰۰۴ء میں، میں نے جناب جاوید احمد غامدی کے قائم کردہ ادارے ’’المورد‘‘ کے ساتھ بطور ریسرچ اسکالر وابستگی اختیار کر لی۔ غور ی صاحب بھی اس وقت سینئر ریسرچ اسکالر کے طور پر المورد سے وابستہ تھے اور خاص اپنے موضوع کے دائرے میں تحقیقی کام میں مصروف تھے۔ مجھے المورد کی ہفتہ وار علمی نشستوں میں شرکت کے لیے ہفتے میں ایک دو دن جانا ہوتا تھا۔ چنانچہ اگلے پانچ چھ سالوں میں غوری صاحب سے میل ملاقات، نشستوں اور گفتگووں کے مواقع مسلسل ملتے رہے۔ ان کی نہایت قیمتی ذاتی لائبریری کا بھی کچھ حصہ المورد میں ان کے دفتر میں موجود تھا اور وقتاً فوقتاً اس کی کتابیں الٹ پلٹ کر دیکھنے کا موقع بھی مجھے میسر آتا رہا۔
المورد کے ساتھ غوری صاحب کی بطور محقق وابستگی کا ایک خوب صورت پہلو یہ تھا کہ وہ خود مسلکاً اہل حدیث تھے اور مولانا اصلاحی کے اسلوب تفسیر پر ان کی ناقدانہ تحریریں بھی بعض جرائد میں چھپ چکی تھیں، لیکن یہ چیز اہل المورد کے لیے ان کے علم وفضل کی قدر دانی میں مانع نہیں ہوئی۔ ان کا شمار ادارے کے سینئر محققین اور بزرگوں میں ہوتا تھا اور وہ کسی قسم کی انتظامی جواب دہی سے بالکل بالاتر ہو کر اپنی ذاتی صواب دید پر اپنے تحقیقی کاموں کی انجام دہی میں مشغول رہتے تھے۔ المورد میں نماز باجماعت کی امامت بھی عام طور پر غوری صاحب ہی کراتے تھے اور مجھے بے شمار نمازیں ان کی اقتدا میں ادا کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔
غوری صاحب قیام پاکستان کے موقع پر ریاست پٹیالہ کے کسی علاقے سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔ وہ تقسیم کے موقع پر ہونے والی قتل وغارت کے بعض چشم دید واقعات سنایا کرتے تھے اور اس موضوع کے حوالے سے خاصے حساس تھے۔ ۲۰۰۵ء میں بھارت سے ہمارے ایک دانش ور دوست یوگندر سکند پاکستان آئے تو میرے ایما پر ان کے ساتھ المورد میں بھی ایک نشست کا اہتمام کیا گیا۔ غوری صاحب بھی اس میں موجود تھے۔ لاہور میں یوگندر سکند کی میزبان دیپ نامی ایک خاتون تھیں جو پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے ایک خاص نقطہ نظر رکھتی تھیں۔ مذکورہ نشست میں انھوں نے غالباً تقسیم کے حوالے سے کوئی ایسی بات کہہ دی تو میں نے دیکھا کہ غوری صاحب خاصے جذباتی ہو گئے اور کافی سخت لہجے میں ان کی تردید کرتے ہوئے اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ غالباً یہ واحد موقع تھا جب میں نے انھیں غصے کی حالت میں دیکھا۔ اس کے علاوہ عمومی طور پر وہ بڑے خوش گوار موڈ میں رہتے تھے۔
علمی وتحقیقی کتابوں کی تلاش اور پھر دوسرے اہل علم تک انھیں پہنچانا، غوری صاحب کا خاص ذوق تھا۔ اس مقصد کے لیے شہر کے کتب فروشوں ، خاص طور پر پرانی کتابیں بیچنے والوں اور کتابوں کی عمدہ ومعیاری فوٹو کاپی اور جلد بندی کرنے والے حضرات کے ساتھ ان کے خصوصی روابط تھے۔ الشریعہ اکادمی کی لائبریری کے لیے دائرۂ معارف امریکیہ (Encyclopedia Americana) کا ایک نسبتاً پرانا نسخہ غوری صاحب ہی کی عنایت سے نہایت ارزاں داموں مہیا ہوا۔ اس کے علاوہ بھی ان کی طرف سے فراہم کردہ متعدد علمی کتابوں کے مجلد عکسی نسخے میری ذاتی اور اکادمی کی لائبریری میں محفوظ ہیں۔ وہ کتاب کی عکسی نقل اور جلد بندی ایسے خوب صورت انداز میں کرواتے تھے کہ ایک نظر دیکھنے پر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا تھا کہ یہ اصل چھپی ہوئی کتاب ہے یا اس کی عکسی نقل۔
یہودیت ومسیحیت اور بائبل کا تحقیقی مطالعہ، جیسا کہ عرض کیا گیا، ان کا خاص موضوع تھا اور وہ اس کے نہایت بلند پایہ متخصص کا درجہ رکھتے تھے۔ اس حوالے سے ان کے متعدد نتائج تحقیق مقالات اور کتابوں کی صورت میں شائع ہو چکے ہیں۔ کتاب استثناء کی پیشین گوئی پر ان کا پرانا مقالہ معلوم نہیں کہ پایہ تکمیل کو پہنچا اور کہیں شائع ہوا یا نہیں، لیکن وہ نامکمل حالت میں بھی خاصے کی چیز ہے۔ ’’ذبیح کون ہے؟‘‘ کے موضوع پر ہمارے دینی لٹریچر میں اب تک کی آخری چیز مولانا حمید الدین فراہی علیہ الرحمہ کا رسالہ سمجھا جاتا ہے اور قرآن مجید اور تورات کے داخلی شواہد کی حد تک یقیناًاب بھی ہے، تاہم غوری صاحب نے اس بحث میں یہودی تاریخی لٹریچر سے متعلق بعض نکات کی تحقیق کے ضمن میں نمایاں علمی اضافہ کیا ہے اور ان کی یہ تحقیق المورد کے زیر اہتمام اردو اور انگریزی، دونوں زبانوں میں شائع ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ کتاب زبور کے ایک پیراگراف پر مبنی ان کی تحقیقی کتاب بھی سامنے آ چکی ہے جس میں، غوری صاحب کی تحقیق کے مطابق، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف کو بیان کیا گیا ہے۔ غوری صاحب اپنی شائع ہونے والی ہر نئی تصنیف بڑے اہتمام کے ساتھ مجھے عنایت فرماتے تھے اور یہ وعدہ بھی لیتے تھے کہ میں اس پر ’الشریعہ‘ میں تفصیلی تبصرہ کروں گا۔ افسوس ہے کہ ان کی طرف سے متعدد بار یاددہانی کے باوجود میں ان کی یہ فرمائش پوری نہیں کر سکا۔
۲۰۰۳ء؍۲۰۰۴ء میں جب میں نے مسجد اقصیٰ کی تولیت کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر پیش کیا تو اس پر غوری صاحب کا رد عمل خلاف توقع تھا۔ یہودیت ومسیحیت کے مطالعے سے ان کے خصوصی شغف کے تناظر میں میرا گمان یہی تھا کہ وہ بھی اس مسئلے کو ’’اسلامی غیرت‘‘ کے زاویہ نظر سے دیکھتے ہوں گے اور میرا نقطہ نظر انھیں پسند نہیں آئے گا، لیکن مجھے حیرانی ہوئی جب ایک موقع پر انھوں نے میرے نقطہ نظر سے اتفاق کیا اور کہا کہ مسلمانوں کو ہیکل سلیمانی کی تعمیر نو میں رکاوٹ ڈالنے کے بجائے اس معاملے میں یہودیوں کی مدد کرنی چاہیے۔
غوری صاحب نے مطالعہ یہودیت ومسیحیت کا یہ ذوق اپنی اگلی نسل کو بھی منتقل کیا ہے۔ ان کے فرزند برادرم ڈاکٹر احسان الرحمن غوری صاحب (اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ علوم اسلامیہ، پنجاب یونیورسٹی، لاہور) کو اپنے والد محترم سے اس موضوع پر براہ راست تربیت پانے کا موقع ملا ہے اور انھوں نے اپنا ایم فل اور ڈاکٹریٹ کا تحقیقی کام بھی انھی موضوعات سے متعلق ان کی زیر نگرانی مکمل کیا ہے۔مجھے پوری امید ہے کہ وہ اس روایت کو نہ صرف زندہ رکھیں گے بلکہ اس میدان میں تحقیق ومطالعہ کی وسعتوں میں مزید اضافہ کریں گے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے مرحوم بزرگ کی دینی خدمات کا اعلیٰ سے اعلیٰ صلہ عطا فرمائے، ان کے درجات کو بلند سے بلند تر فرمائے اور ان کے اَخلاف کو ان کے کیے ہوئے علمی وتحقیقی کام کا فیض زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
الشریعہ اکادمی میں بیتے دن
محمد عثمان فاروق
(دورۂ تفسیر قرآن ومحاضرات قرآنی سے متعلق مشاہدات وتاثرات)
۱۷ جون تا ۲۵ جولائی ۲۰۱۳ء، الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے زیر اہتمام علوم قرآنیہ کے شائقین کے لیے قرآن مجید کے ترجمہ وتفسیر اور توسیعی محاضرات کا اہتمام کیا گیا۔ ملک کے طول وعرض سے چالیس کے قریب طلبہ نے شرکت کی۔ جن دینی مدارس وجامعات سے طلبہ نے شرکت کی، ان میں جامعہ اشرفیہ لاہور، جامعہ دار العلوم کراچی، جامعہ فاروقیہ کراچی، جامعہ فریدیہ اسلام آباد، جامعہ معارف القرآن اسلام آباد اور مدرسہ اشاعت الاسلام مانسہرہ قابل ذکر ہیں۔
دورہ کے نصاب میں بنیادی طور پر قرآن مجید کا مکمل ترجمہ اور تفسیری مباحث شامل تھے۔ جن اساتذہ نے تدریس کی ذمہ داری انجام دی، ان کے نام حسب ذیل ہیں:
۱۔ مولانا زاہد الراشدی (سورۂ فاتحہ تا التوبہ)
۲۔ مولانافضل الہادی (سورۂ یونس تا بنی اسرائیل، سورۃ الانبیاء تا النور)
۳۔ مولانا ظفر فیاض صاحب (سورۃ الکہف تا الانبیاء، سورۃ الفرقان تا فاطر)
۴۔ مولانا محمد یوسف صاحب (سورۂ یس تا الحجرات)
۵۔ مولانا محمد وقار صاحب (سورۂ ق تا القمر)
۶۔ مولانا حافظ محمد رشید صاحب (سورۃ الرحمن تا التحریم)
۷۔ مولانا عمار خان ناصر صاحب (سورۃ الملک تا الناس)
یہ کورس کل وقتی تھا او رطلبہ کے قیام وطعام کا انتظام اکادمی میں ہی تھا، اس لیے وقتاً فوقتاً علوم قرآنی سے متعلق مختلف عنوانات پر محاضرات بھی رکھے گئے جن کی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے:
۱۔ استاذ گرامی مولانا زاہد الراشدی صاحب نے احکام القرآن اور معاصر وضعی قوانین پر ۲۰ خطبات دیے جن میں انسانی حقوق کا عالمی منشور، اسلام اور مغربی قوانین کا تقابلی مطالعہ، پاکستان کے تین دساتیر (۵۶ء، ۶۲ء اور ۷۳ء) کا اجمالی تعارف، حدود آرڈیننس، تحفظ حقوق نسواں بل، پاکستان میں نفاذ شریعت کی کوششوں کی تاریخ اور علماء کے مرتب کردہ ۲۲ دستوری نکات جیسے اہم مباحث پر سیر حاصل گفتگو کی گئی۔
۲۔ گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ کے شعبہ سیاسیات کے استاذ میاں انعام الرحمن صاحب نے جدید معاشی وسیاسی تصورات اور تحریکوں پر تفصیلی گفتگو کی۔ میاں صاحب نے طلبہ کو مروجہ افکار ونظریات سے واقفیت حاصل کرنے کی خاص طور پر ترغیب دی۔ وہ دوران گفتگو اکثر قدرے مسکراتے ہوئے کہتے تھے کہ ’’بھائی! معاصر افکار کو پڑھ لیا کریں۔ اس سے آپ کے ایمان ویقین پر کوئی حرف نہیں آئے گا۔ پڑھ لیا کریں، فائدہ ہی ہوگا۔‘‘ میاں صاحب یہ بات مدارس کے طلبہ کو جگانے کے لیے کرتے تھے جو عام طور پر ضرورت سے زیادہ ذہنی تحفظات کا شکار اور نامعلوم خوف کے احساس میں مبتلا ہوتے ہیں۔
۳۔ حافظ محمد سلیمان اسدی صاحب نے قدیم اور جدید تفاسیر کا تعارف کروایا اور مفسرین کے اسالیب ومناہج پر روشنی ڈالی جس سے طلبہ کو سلف وخلف کی اہم تفسیری کاوشوں سے شناسائی ہوئی۔ یہ گفتگو اس لحاظ سے بھی دلچسپ تھی کہ کم وقت میں اسدی صاحب نے طویل موضوع کو سمیٹ لیا۔
۴۔ سرگودھا یونیورسٹی کے شعبہ علوم اسلامیہ میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر فیروز شاہ کھگہ صاحب نے، جو جامعہ اشرفیہ لاہور سے فارغ التحصیل ہیں، تحریک استشراق اور قرآن مجید پر مستشرقین کے اعتراضات کے موضوع پر تفصیلی گفتگو کی۔ ڈاکٹر صاحب کی تقریر بہت فکر انگیز، لبہ ولہجہ بے حد شستہ اور اسلوب دل نشین تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے پنجاب یونیورسٹی سے اسی موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے اثنائے گفتگو میں عربی مدارس کے نصاب اور طریقہ تدریس کے کمزور پہلوؤں کی طرف نہایت دردمندی اور خلوص کے ساتھ توجہ دلائی اور کہاکہ دور حاضر میں اسلام کو مختلف چیلنج درپیش ہیں جن میں الحاد، اباحیت پسندی، اسلام اور پیغمبر اسلام کے متعلق مستشرقین کے پھیلائے ہوئے شبہات وغیرہ شامل ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہم لوگ مسلکی اور فقہی وفروعی اختلافات میں الجھے ہوئے ہیں اور مسلم امہ کو جو اصل خطرات درپیش ہیں، ان سے نظریں چرائے بیٹھے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دینی مدارس کے طلبہ قرآن وسنت کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ جدید علوم مثلاً نفسیات، معاشیات، سماجیات اور مغربی فکر وفلسفہ بھی پڑھیں اور حکمت، تدریج اور خیر خواہی کے ساتھ معاشرے میں دعوت واصلاح کا کام کریں۔
۵۔ جامعہ امدادیہ فیصل آباد کے شیخ الحدیث مولانا مفتی محمد زاہد صاحب نے ’’قرآن فہمی میں حدیث وسنت سے استفادہ کے مختلف پہلو‘‘ کے عنوان پر تفصیلی لیکچر دیا۔ مفتی صاحب نے تحقیقی اور فنی تفصیلات سے گریز کرتے ہوئے بہت سادہ اور دل نشین پیرایے میں قرآن مجید اور حدیث وسنت کے باہمی تعلق کی وضاحت کی اور بتایا کہ قرآن مجید اور حدیث کا تعلق متن وشرح، اجمال وتفصیل، دعویٰ ودلیل کا ہے۔ ہدایت منبع وسرچشمہ قرآن اور صاحب قرآن دونوں ہیں اور یہ نقطہ نظر درست نہیں کہ راہ نمائی کے لیے قرآن مجید کافی ہے۔ مفتی صاحب نے قرآن مجید اور احادیث وآثار کے مختلف دلائل سے حدیث وسنت کی حجیت اور اس کی استنادی حیثیت کو اجاگر کیا۔
۶۔ ڈاکٹر عبد الماجد حمید مشرقی صاحب نے ’’دعوت دین کی راہ میں رکاوٹیں اور ان کا حل‘‘ کے موضوع پر گفتگو کی۔ انھوں نے آسان اور عملی مثالوں کی مدد سے یہ بات سمجھائی کہ دعوت وتبلیغ کا کام کرنے والوں کو اخلاص، خیر خواہی اور حکمت وفراست کا حامل ہونا چاہیے، اس راہ کی مزاحمتوں اور موانع کو خندہ پیشانی اور صبر وتحمل کے ساتھ برداشت کرنا چاہیے اور اس معاملے میں داعئ اعظم کے اسوہ اور آپ کے صحابہ کرام کی سیرت کو مشعل راہ بنانا چاہیے۔ ڈاکٹر صاحب نے دعوت کے اس تصور کو ناقص قرار دیا جس میں صرف صوم وصلوٰۃ کو پیش نظر رکھا جاتا ہے اور لوگوں کے سماجی ومعاشی مسائل ومشکلات کو حل کرنے، ان کے دکھ درد میں شریک ہونے اور ان کے مسائل نمٹانے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے یہ واقعہ سنایا کہ جب پہلی مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جبریل علیہ السلام سے سامنا ہوا اور پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ خوف کی حالت میں گھر واپس تشریف لائے۔ حضرت خدیجہ کے پوچھنے پر آپ نے سارا ماجرا سنایا۔ اس موقع پر حضرت خدیجہ نے ان الفاظ میں آپ کو تسلی دی کہ:
کلا واللہ لا یخزیک اللہ ابدا، انک لتصل الرحم وتحمل الکل وتکسب المعدوم وتعین علی نوائب الحق (صحیح بخاری)
’’ہرگز نہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی بے یار ومددگار نہ چھوڑے گا، کیونکہ آپ تو صلہ رحمی کرنے والے ہیں، بے سہاروں کا سہارا ہیں، غریبوں کے دکھوں کا مداوا کرتے ہیں اور ہر جائز کام میں لوگوں کی امداد واعانت کرتے ہیں۔‘‘
مشرقی صاحب نے کہا کہ قرآن مجید میں دعوت کے لیے دعوت الی اللہ کی تعبیر وارد ہوئی ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دعوت، اللہ کی بندگی اور عبدیت کی طرف دی جانی چاہیے نہ کہ کسی مخصوص گروہ یا نظریات کی طرف۔ دعوت دین کا موضوع ایمان، اخلاق، ترک رذائل اور اکتساب فضائل ہونا چاہیے۔ دعوت بالکل سادہ اور فطری اسلوب میں ہونی چاہیے اور ہر قسم کے تکلف، تصنع اور بناوٹ سے پاک ہونی چاہیے۔
۷۔ ادارۂ تحقیقات اسلامی ، اسلام آباد سے مولانا سید متین احمد شاہ صاحب تشریف لائے اور ’’قرآن مجید کا ابلاغی اعجاز‘‘ اور ’’قرآن مجید کی سائنسی تفسیر کا جائزہ‘‘ کے عنوانات پر پرمغز گفتگو کی۔ مولانا نے بڑے مدلل اورمفصل انداز سے قرآن کی فصاحت، بلاغت، ایجاز، اختصار اور اثر انگیز کلام ہونے کو آیات قرآنیہ کی مثالوں سے بیان کیا۔ سائنسی تفسیر کے ضمن میں انھوں نے کہا کہ دور حاضر میں سائنس اور اس کی ایجادات ودریافتوں کے زیر اثر کچھ اہل علم نے آیات کی تشریح وتفصیل کرنی شروع کر دی ہے جو غیر محتاط رجحان ہے کیونکہ سائنسی نظریات میں آئے روز تغیر وتبدل ہوتا رہتا ہے اور مفروضات، تجربات اور مشاہدات میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔ اس لیے خدا کے لاریب کلام کو انسانی نظریات کی آمیزش سے الگ ہی رکھنا چاہیے۔ مولانا نے کہا کہ علم کے ذرائع میں وحی، وجدان، تجربہ، مشاہدہ ، اسناد وروایات میں بے خطا اور حتمی ذریعہ علم صرف اور صرف وحی ربانی یعنی قرآن مجید ہی ہے۔
۸۔ دورۂ تفسیر کے طلبہ کے لیے گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ میں بھی ایک محاضرے میں شرکت کا اہتمام کیا گیا جس کا انعقاد شعبہ علوم اسلامیہ میں ایم فل کے طلبہ کے لیے کیا گیا تھا۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبہ فقہ وقانون کے اسسٹنٹ پروفیسر محمد مشتاق احمد صاحب نے ’’جہاد اور اس کی عصری تطبیقات: چند سوالات‘‘ کے موضوع پر گفتگو کی۔ مشتاق صاحب قدیم فقہی ذخیرے کے ساتھ ساتھ مروجہ بین الاقوامی قانون پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ انھوں نے عصر حاضر میں جہاد، مزاحمت اور مختلف جہادی سرگرمیوں پر تفصیلی خیالات پیش کیے اور موجودہ زمانے کے بعض اہل علم کے افکار پر نقد بھی کیا۔ آخر میں شرکاء کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات واشکالات کے جواب بھی دیے۔ الشریعہ اکادمی کی طرف سے موصوف کی کتاب ’’جہاد، مزاحمت اور بغاوت‘‘ بھی شائع کی گئی ہے جس کا مقدمہ استاذ گرامی مولانا زاہد الراشدی صاحب نے لکھا ہے۔
۹۔ جمعیت علماء اسلام کے راہ نما حافظ نصیر احمد احرار صاحب نے ’’شیخ الہند کی تفسیری خدمات‘‘ پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ مولانا محمود الحسن صاحب نے کس طرح مختصر حواشی میں معانی وحکمت کا دریا کوزے میں بند کر دیا ہے۔ ان کی گفتگو مجموعی طور پر مفید تھی، البتہ راقم کا طالب علمانہ احساس ہے کہ تحقیق واستدلال کا عنصر کم اور عقیدت وتقدس کا پہلو غالب تھا۔
دورۂ تفسیر کے تمام اساتذہ علم وفضل اور اخلاق وکردار کا مثالی نمونہ تھے اور طلبہ نے سب سے استفادہ کیا، لیکن راقم تین اساتذہ سے متعلق قدرے تفصیل سے اپنے تاثرات وجذبات کا اظہار کرنے کی جسارت کرنا چاہے گا جن سے نجی مجالس میں بھی سیکھنے او رمختلف امور پر تبادلہ خیال کرنے کا موقع ملا۔ ان میں (۱) مولانا زاہد الراشدی صاحب، (۲) مولانا فضل الہادی صاحب اور (۳) مولانا عمار خان ناصر صاحب شامل ہیں۔
مولانا زاہد الراشدی صاحب
مولانا اخلاص، سادگی، بے نفسی اور توازن واعتدال کی جیتی جاگتی تصویر ہیں۔ مزاج میں شگفتگی، تواضع اور رواداری غالب ہے۔ پوری توجہ سے سوالات اور اشکالات سنتے اور محبت آمیز انداز میں جواب دیتے ہیں۔ جو سوال ان کے ذوق یا مطالعہ کے میدان سے باہر ہو تو صاف کہہ دیتے ہیں کہ ’’مجھے معلوم نہیں۔ آپ فلاں عالم سے پوچھ لیں یا فلاں صاحب علم کی کتاب دیکھ لیں۔‘‘ جب کسی فاضل ومحقق کی بات پر نقد کرتے تو ساتھ ازراہ تفنن یہ کہتے کہ ’’مغالطہ لگتا ہے اور بڑوں بڑوں کو لگتا ہے۔‘‘ اسی طرح وہ اپنے سے مختلف نقطہ نظر رکھنے والوں سے بھی مناظرے کے بجائے مکالمے کا اسلوب اختیار کرتے ہیں۔ طلبہ سے اکثر ایک بات بہ تکرار واعادہ کہتے تھے کہ ’’اپنے سے مختلف سوچ رکھنے والوں کا موقف غور سے سننا چاہیے اور ان کی زبانی سننا چاہیے۔‘‘ ایک مرتبہ اہل علم کے باہمی اختلافات او رمعاصرت کے حوالے سے انھوں نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ حکیمانہ قول سنایا کہ:
استمعوا علم العلماء ولا تصدقوا بعضہم علی بعض فو الذی نفسی بیدہ لہم اشد تغایرا من التیوس فی زروبہا (جامع بیان العلم لابن عبد البر)
’’اہل علم سے علم کی بات سیکھا کرو، لیکن ان کی باہمی چپقلش سے محتاط رہا کرو۔ خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، یہ آپس میں ایسے اختلاف کرتے ہیں جیسے باڑے میں بندھے ہوئے بکرے سینگ لڑاتے ہیں۔‘‘
استاذ گرامی مولانا راشدی صاحب کی صحبت سے ایک بات یہ بھی سیکھی کہ امت کے تمام دبستان فکر اور مخلص ومحقق علماء وداعیان دین اور ان کا علمی وفکری کام ہم سب کی مشترکہ میراث ہے اور ایک طالب علم کو ہر قسم کے تعصبات، گروہ بندیوں اور شخصی وفاداریوں سے بالاتر ہو کر ان سے اخذ واستفادہ کرنا چاہیے اور یہ اصول ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے کہ ’خذ ما صفا ودع ما کدر‘۔
مولانا کسی عالم ومحقق کی چند منفرد آرا ونظریات پر تنقید کرتے ہوئے اس کی تنقیص پر اتر آنے اور پھر اسے ’لاخیرا‘ قرار دینے کے رویے پر بھی ماتم کناں نظر آتے۔ مولانا نے کہا کہ جہاں تک تفردات وشذوذات کا تعلق ہے تو وہ تقریباً تمام اہل علم کے ہوتے ہیں۔ اگر ہم چند اختلافات کی وجہ سے استفادہ کرنا چھوڑ دیں تو پھر کسی عالم سے بھی کچھ نہ سیکھ پائیں گے، کیونکہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی بھی شخص معصوم اور خطا سے پاک نہیں۔ امام دار الہجرت امام مالک نے بالکل بجا فرمایا ہے:
کل یوخذ قولہ ویرد الا صاحب ہذا القبر۔
’’ہر شخص کی بات لی بھی جا سکتی ہے اور چھوڑی بھی، سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے۔‘‘
مولانا نے ایک بات یہ بھی سمجھائی کہ دین کے مسلمات اور نصوص میں تو ہمیں آخری، قطعی اور حتمی یقین وجزم رکھنا چاہیے، لیکن جہاں تک ان کی تعبیرات، تفصیلات اور فروعات کا تعلق ہے تو اس معاملے میں دل ودما غ کو کھلا رکھنا چاہیے، غور وفکر کرنا چاہیے اور اہل علم سے مسلسل سیکھنا چاہیے۔ اسلاف کے ساتھ ساتھ اخلاف اور روایت پسند اہل علم کے ساتھ ساتھ معتدل جدید مفکرین ومحققین سے بھی سیکھنا چاہیے۔
ایک نجی مجلس میں دوران گفتگو میں راقم نے مصر کے مصنف ڈاکٹر عبد الحلیم ابو شقہ کی کتاب ’’تحریر المراۃ المسلمۃ فی عہد الرسالۃ‘‘ کی بابت مولانا کی رائے معلوم کی تو مولانا کہنے لگے، بہت اچھی کتاب ہے اور مصنف نے بڑی عرق ریزی سے کتاب وسنت کی روشنی میں اسلام میں عورت کا مقام، معاشرتی زندگی میں اس کا دائرہ عمل، پردہ، ملازمت، ازدواجی زندگی، غرضیکہ عورت سے متعلق تمام امور پر بحث کی ہے اور بڑی اجتہادی شان سے لککھا ہے۔ اباحیت پسندی اور شدت پسندی کی دو انتہاؤں کے مابین راہ اعتدال اختیار کی ہے۔ ایک طالب نے یہ باتیں سن کر کہا کہ مولانا! ہمارے معاشرے میں تو اس طرح کے جدید اہل علم اور مصنفین کو تجدد پسند، جدت پسند اور نہ جانے کن کن القابات سے نوازا جاتا ہے۔ مولانا نے جواب دیا کہ جس طرح تجدد پسندی کا رویہ غلط ہے، اسی طرح تجمد پسندی بھی قابل اصلاح ہے۔ ہماری مذہبی فکر اس وقت بہت افراط وتفریط کا شکار ہے۔ مثلاً مغرب کے بارے میں رویے کو ہی دیکھ لیں۔ کچھ لوگ مغرب سے منسوب ہر چیز کو حتیٰ کہ اس کی ایجادات کو بھی غلط سمجھتے ہیں۔ انھیں کسی معاملے میں خیر اور استفادے کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا۔ دوسری طرف کچھ طبقات ایسے بھی ہیں جو مغرب اور اس سے منسوب ہر چیز کو عین معیار حق سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک کسی چیز یا نظریہ کے صحیح اور غلط ہونے کا معیار صرف مغرب ہے۔ اب یہ دونوں رویے اور زاویہ نگاہ عدم توازن کا شکار ہیں۔ ہمیں تجزیہ وتحلیل کر کے مفید بات کو لینا ہے اور ناقص یا غلط بات کو ترک کر دینا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت کو ہر وقت مستحضر رکھنا چاہیے کہ خیر الامور اوسطہا۔ بہترین معاملات وہی ہیں جن میں میانہ روی اختیار کی جائے۔
مولانا نے کہا کہ انسان جس طرح اخلاقی، مادی اور روحانی وجود رکھتا ہے، اسی طرح اس کا ایک نفسیاتی وجود ہے اور انسانی نفسیات بہت پیچیدہ ہے۔ اس لیے حب وبغض، قرب وبعد کے معاملے میں بہت احتیاط اور مزاج کا ٹھہراؤ چاہیے۔ نہ محبت اور عقیدت میں اندھا ہونا چاہیے اور نہ اختلاف ونفرت میں شدت اختیار کرنی چاہیے۔ پھر انھوں نے امام شافعی کا شعر سنایا:
وعین الرضا عن کل عیب کلیلۃ
ولکن عین السخط تبدی المساویا
ترجمہ: جب انسان محبت ورضا کی نظر سے دیکھے تو ہر عیب ونقص سے نظر اٹھ جاتی ہے، لیکن جب نفرت وناراضگی کی نظر ڈالتا ہے تو خامیاں اور عیوب ونقائص ہی نظر آتے ہیں۔
مولانا اکثر کہتے تھے کہ توازن اس دنیا کا سب سے مشکل کام ہے اور حقیقت کو پالینا اور اس پر قائم رہنا بہت بڑی سعادت ہے۔
مولانا کی ایک بڑی خوبی جو انھیں دوسرے داعیان وقائدین سے ممتاز کرتی ہے، وہ ان کی حق پسندی، اپنے سے اختلاف کرنے والوں سے حسن ظن رکھنا اور ان کے کارناموں کا اعتراف کرنا ہے۔ ایک مرتبہ ایک طالب علم نے ہندوستان کے مشہور عالم و مصنف مولانا وحید الدین خان صاحب کی شخصیت اور کام کے متعلق مولانا کی رائے پوچھی تو مولانا کہنے لگے، خان صاحب بڑے عبقری انسان، بہترین مصنف، وسیع المطالعہ عالم اور داعی الی اللہ ہیں۔ ان کا اصل میدان تزکیہ و اصلاح اور دعوت و تبلیغ ہے اور وہ تمام معاملات پر اسی دائرے میں گفتگو کرنے کے خوگر ہو گئے ہیں۔ ان کا لٹریچر دور حاضر کی نفسیات، مزاج اور ذہنی سطح کے عین مطابق ہے اور وہ جدید محاورے اور اسلوب سے پوری طرح آشنا ہیں۔ تذکیر القرآن (دو جلدوں میں قرآن مجید کی تفسیر)، مذہب اور علم جدید کا چیلنج، تعبیر کی غلطی (دین کی انقلابی تعبیر پر مفصل نقد) اور سفر نامے و ڈائریاں وغیرہ قابل استفادہ ہیں۔ لیکن چونکہ ہر انسانی کام اجتہادی ہوتا ہے جس میں عدم توازن اور غلطی کا پورا امکان ہوتا ہے اس لیے خان صاحب کے بعض افکار و نظریات سے مجھے اختلاف ہے، جس میں ان کا تصور جہاد، دین کے دیگر شعبوں میں ہونے والے کام کی نفی، علماء سلف پر ان کی تند و تیز تنقیدات، توہین رسالت کے مرتکب کے لیے سزائے موت کا انکار وغیرہ شامل ہیں۔
راقم الحروف مولانا کی بات سن کر سوچ رہا تھا کہ خود پسندی و خود رائی کے اس دور میں جبکہ ہر گروہ کل حزب بما لدیھم فرحون کا عملی مظاہرہ کر رہا ہے، اور ہر با صلاحیت شخص جو کچھ پڑھ لکھ کر بول لیتا ہے، اعجاب کل ذی رأی برأیہ کی پیش گوئی کے مصداق کامل بنا ہوا ہے، ایسے میں مولانا کی شخصیت گوہر نایاب ہے۔ اگرچہ انہوں نے کوئی جماعت یا انجمن نہیں بنائی لیکن وہ اپنی ذات میں انجمن ہیں۔ ان کے ذہن پر کوئی مخصوص فکر، رجحان یا ’ازم‘ بھی مسلط نہیں ہے۔ وہ تزکیہ و احسان، دعوت و تبلیغ، جہاد و قتال، اصلاح معاشرہ اور اسلامی حکومت کے قیام غرضیکہ ہر شعبے اور میدان میں ہونے والی خدمت دین کی تحسین کرتے ہیں اور ہر شخص کو اپنی صلاحیت، استعداد، مزاج اور افتاد طبع کے مطابق ان کاموں میں تعاون کی ترغیب دیتے ہیں۔
ایک طالب علم نے سبق کے بعد مولانا سے کہا کہ آج کل علمی حلقوں میں آپ کے افکار کے حوالے سے بہت باتیں ہو رہی ہیں اورفلاں عالم دین تو آپ پر بہت شدید تنقید کرتے ہیں اورآپ کے نظریات، عمار صاحب اور بالخصوص آپ کے مجلہ الشریعہ کی ’’آزادانہ غور و فکر‘‘ اور ’’مکالمہ و مباحثہ‘‘ کی پالیسی پر برستے ہیں۔ مولانا نے یہ ساری بات بڑے اطمینان اور ٹھیراؤ کے ساتھ سنی اور پھر مسکراتے ہوئے کہنے لگے، بیٹا! کوئی بات نہیں۔ وہ سب ہمارے دوست ہیں اور دوستوں کا حق ہوتا ہے۔ جس بات کو وہ درست سمجھتے ہیں پوری جرأت، متانت اور سنجیدگی سے اپنی بات کہنے کا حق رکھتے ہیں۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ امت کے مختلف مکاتب فکر اور زاویۂ نگاہ رکھنے والے لوگوں میں مکالمہ ہو، بات چیت ہو تاکہ اختلافات کم ہوں اور غلط فہمیاں اور شکوک و شبہات دور ہوں۔ مسلم معاشرے میں ہونے والی علمی و تحقیقی، دعوتی و اصلاحی، رفاہ عامہ اور معاشرے کی اسلامی تشکیل نو، غرضیکہ دین کے لیے ہونے والی ہر سنجیدہ کاوش کے حوالے سے مولانا نے کہا کہ ان سب میدانوں اور سطحوں پر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ان سب کاموں میں وقت لگانے والے لوگوں میں سے یہ دعویٰ نکل جائے کہ ’’جو جدوجہد ہم کر رہے ہیں، وہی بالکل ٹھیک اور مطلوب کام ہے۔‘‘
اصلاحِ فرد و معاشرہ اور اسلامی انقلاب و اقامتِ دین کے علمبرداروں کی باہمی کشمکش کی بابت مولانا کہنے لگے کہ اصل میں جن لوگوں کا رخ فرد اور معاشرے کی اصلاح کی طرف ہے وہ حکومت و نظم اجتماعی کو اسلام کے قوانین کے مطابق ڈھالنے اور ریاستی و انتظامی اداروں میں دین کی بالادستی کی طرف وہ توجہ نہیں دیتے جو فی الواقع دینی چاہیے۔ اور اس کے برعکس جو لوگ تبدیلئ حکومت اور نفاذِ شریعت کی بات کرتے ہیں وہ مقاصد و وسائل کے فرق کو ملحوظ خاطر نہیں رکھتے۔ اور فرد کے تزکیہ و تطہیر کو جو دین کا مقصود و مطلوب ہے، کی دین میں فیصلہ کن حیثیت کو بعض اوقات نظر انداز کر دیتے ہیں۔ حالانکہ حکومت و ریاست، کسی بھی معاشرے کا عکس ہوتی ہے اور معاشرہ افراد سے مل کر بنتا ہے۔ مولانا کے نزدیک حکومت کو اسلامیانے کے عمل سے قبل معاشرے میں تزکیہ و احسان، تعلیم و تربیت، تحقیق و اجتہاد اور دعوت و اصلاح کا کام بڑی حکمت، دل سوزی، تدریج اور محنت سے کرنے کی ضرورت ہے اور ایک سیاسی انقلاب سے قبل تہذیبی، ثقافتی اور سماجی تبدیلی از بس ضروری ہے۔
مولانا فضل الہادی صاحب
استاذ محترم فضل الہادی صاحب مرنجان مرنج طبیعت کے مالک ہیں، طلبہ سے نہایت مشفقانہ بلکہ دوستانہ برتاؤ کرتے ہیں۔ جامعہ دارالعلوم کراچی سے فارغ التحصیل ہیں اور مولانا سرفراز خان صفدر صاحبؒ سے ترجمہ و تفسیر پڑھنے کی سعادت حاصل ہے۔ عربی زبان و ادب پر گہری نظر رکھتے ہیں اور فی البدیہہ عربی اشعار کہتے ہیں۔ ایک مرتبہ دوران سبق داعی اور دعوت کا جو موضوع زیر بحث آیا تو کہنے لگے کہ داعی کو تین چیزوں کا خصوصی التزام کرنا چاہیے:
ا) اللہ تعالیٰ سے عبدیت و استعانت کا خصوصی تعلق۔
ب) مخاطبین کو اپنے سے بہتر سمجھنا۔
ج) دعوت و تبلیغ کے بعد توبہ و استغفار کی کثرت۔
پھر آپ نے بانئ تبلیغی جماعت مولانا الیاسؒ کا ملفوظ سنایا:
’’بندہ مومن کے ہر نیک عمل کا آخری جزو، اعتراف تقصیر اور خشیت رب ہونا چاہیے۔‘‘ (ملفوظات مولانا الیاسؒ ، مرتبہ مولانا منظور نعمانیؒ )
دین کے داعیان اور معلمین پر نفس اور شیطان کا سب سے مہلک اور قوی حملہ خود نمائی، شہرت پسندی اور انانیت کا ہوتا ہے۔ استادِ محترم نے اس ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے، جس میں تین منجیات اور تین مہلکات کا ذکر ہے، کہا کہ ہلاک کرنے والی چیزوں میں تیسری چیز نام و نمود اور خود پسندی ہ جسے رسول اکرم ؐ نے واعجاب المرء بنفسہ وھی اشدھنّ کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ یعنی حب جاہ تو پہلی دو مہلکات (خواہش نفس کی پیروی اور بخل و کنجوسی) سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ انہوں نے سلف صالحین میں سے کسی کا قول سنایا کہ ’’کاملین کے ہاں سے جو چیز سب سے آخر میں رخصت ہوتی ہے، وہ حب جاہ و خود پسندی ہے۔‘‘
اس مرض کا علاج تجویز کرتے ہوئے استاد محترم نے طلبہ کو ادعیہ ماثورہ، مسنون اذکار، تنہائی میں طویل نفل نماز اور محاسبۂ نفس کی ترغیب دی۔ استاد محترم قرآن مجید کی تفسیر کرتے ہوئے قدیم عربی تفاسیر کے حوالہ جات بھی دیتے ہیں۔ ان میں روح المعانی، کشاف، زاد المسیر،قرطبی اور طبری وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ’انشراحِ صدر‘ کی تعریف کرتے ہوئے آپ نے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کا یہ اثر سنایا:
التجافی عن دار الغرور، و الانابۃ الی دارالخلود و استعداد الموت قبل نزولہ۔
ترجمہ: ’’انشراح صدر کا مطلب ہے کہ انسان اس دارِ فانی سے دل نہ لگائے بلکہ آخرت جو ہمیشہ ہمیش کا گھر ہے، اس کی طرف یکسو ہو اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے تیاری کی فکر کرے۔‘‘
اسی طرح خدا کے متعلق استواء علی العرش ہونے کی تفصیل امام مالکؒ کے اس قول کی روشنی میں بتائی:
الاستواء معلوم، و کیفیتہ مجھول، والسوال عنہ بدعۃ۔
ترجمہ: ’’خدا کے عرش پر مستوی ہونے کا مطلب معلوم ہے، لیکن اس کی ہیئت اور کیفیت ہمیں معلوم نہیں اور اس بارے میں سوال اور کھود کرید کرنا بدعت ہے۔‘‘
ایک مرتبہ دوران تدریس استاد محترم نے اکابرین دیوبند میں سے مولانا قاسم نانوتوی صاحبؒ اور مولانا اشرف علی تھانوی صاحبؒ کی کتب کی بعض عبادات پر ’مہربان دوستوں‘ (جس سے استاد محترم کی مراد بریلوی مکتبہ فکر کے علماء ہیں) کے کفر و فسق کے فتاویٰ کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ اسلاف کی تحریروں میں اگر کوئی بات کمزور یا خلاف تحقیق معلوم ہو تو پہلے حتی الوسع تاویل و توجیہ کرنی چاہیے۔ کیونکہ اہل ایمان اور خصوصًا گزرے ہوئے نیک صالحین اہل علم سے حسن ظن اور عقیدت رکھنا ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے۔ ان کی بات کو موقع محل اور اس خاص پس منظر میں سیاق و سباق میں دیکھنا چاہیے، پھر اس کے بعد کوئی رائے قائم کرنی چاہیے۔ ویسے بھی ہماری امت کی علمی روایت میں یہ بات بیان کی جاتی ہے کہ ’’ہمیں سلف صالحین کی خامیاں اپنی طرف اور اپنی خوبیاں ان کی طرف منسوب کرنی چاہئیں‘‘۔ حدیث میں آتا ہے کہ قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ:
لعن آخر ھذہ الامّۃ اوّلھم۔
ترجمہ: ’’اس امت کے آخری دور کے لوگ، گزرے ہوئے لوگوں پر زبانِ طعن دراز کریں گے۔‘‘
ایک طالب علم نے پوچھا کہ کیا ہم اپنے بزرگوں اور اساتذہ سے اختلاف رائے کر سکتے ہیں؟ استاد محترم نے جواب دیا کہ اگر ایک طالب علم وسیع مطالعہ کا حامل ہے اور تجزیہ و تحلیل کی صلاحیت سے بھی بہرہ ور ہے تو ادب و احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنے بزرگوں اور والدین و اساتذہ کی تمام تر علمی عظمت و جلالت کے با وصف مختلف سوچ رکھ سکتا ہے۔ ویسے بھی امام مالکؒ کا قول ہے:
کل یؤخذ قولہ و یرد الّا صاحب ھٰذ القبر۔
’’ہر شخص کی بات لی بھی جا سکتی ہے اور چھوڑی بھی، ما سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے۔ ‘‘
پھر کہنے لگے، غالباً امام ابن قیمؒ نے الفوائد میں اپنے استاد امام ابن تیمیہؒ کی نسبت لکھا ہے کہ ’’ہمیں اپنے استاد (ابن تیمیہؒ ) سے بہت محبت ہے لیکن حق بات سے محبت ان سے بھی بڑھ کر ہے۔‘‘
محقق علماء سے استفادے کے ضمن میں استاد محترم نے ایک اہم بات یہ بھی سمجھائی کہ یہ دور تخصص کا ہے، لہٰذا کسی بھی علم اور فن کے ماہر سے اس کے متعلقہ میدان میں جس کا وہ شہ سوار ہے، استفادہ کرنا چاہیے۔ کیونکہ ہر شخص ہر میدان کا اہل نہیں ہوتا۔ عین ممکن ہے کہ ایک عالم حدیث کے علم پر مہارت رکھتا ہو، لیکن فقہ یا تاریخ میں اس کا علم اتنا عمیق نہ ہو۔
الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے اس دور میں دانشوروں اور مقررین کی بھیڑ ہوگئی ہے جو آئے روز دین کی من پسند اور نت نئی تاویلات کرتے نظر آتے ہیں۔ استاد محترم نے اس تناظر میں کہا کہ سوائے چند مستثنیات کے میڈیا پر آنے والے زیادہ تر صاحبان علم ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہوتے ہیں اور ہر سوال کا آخری و حتمی جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں اور کسی معاملے میں لا علمی کا اظہار اپنی شان کے منافی سمجھتے ہیں۔ یہ کوئی علمی اور متواضع رویہ نہیں ہے۔ سلف صالحین کا مزاج بالکل مختلف تھا۔ اگر ان سے کوئی ایسی بات پوچھی جاتی جس کا جواب انہیں معلوم نہ ہوتا تھا تو وہ صاف کہہ دیتے تھے کہ ’’لا ادری‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ ’لا ادری‘ کہنے کو ’نصف العلم‘ کہا گیا ہے۔
ٹی وی چینلز پر مختلف موضوعات پر ہونے والے ٹاک شوز اور مذاکروں پر نقد کرتے ہوئے استاد محترم نے کہا کہ اس طرح کے پروگراموں نے تو قوم کا مزاج بگاڑ دیا ہے اور بے حسی اور انتشار ذہنی میں اضافہ کیا ہے۔ شرکاء مذاکرہ کی حالت بھی یہ ہوتی ہے کہ ان میں سے ہر شخص ’عقل کل‘ ہونے کا مدعی ہوتا ہے (الا ما شاء اللہ)۔ مخاطب کی بات توجہ سے سننے کی بجائے ’دندان شکن‘ جواب سوچنے لگتا ہے اور افہام و تفہیم کی بجائے سارا زور ’لینا، پکڑنا اور جانے نہ دینا‘ پر ہوتا ہے۔ استاد محترم نے ائمہ سلف میں سے کسی کا واقعہ سنایا کہ جب کبھی ان کا اپنے سے مختلف نقطہ نظر رکھنے والے شخص سے کسی بات پر مباحثہ ہوتا تو وہ بارگاہِ خداوندی میں پہلے یہ دعا کیا کرتے تھے کہ یا اللہ میرے مخالف کی زبان پر حق جاری کر دے اور میری سوچ کی غلطی مجھ پر کھول دے۔
مولانا عمار خان ناصر
استاد گرامی جناب عمار خان ناصر صاحب صالحیت اور صلاحیت کا حسین امتزاج ہیں۔ وسعت مطالعہ، غور و فکر، عاجزی و تواضع اور تحمل و رواداری آپ کی نمایاں صفات ہیں۔ سلف کے ساتھ ساتھ خلف اور روایت پسند اہل علم کے ساتھ ساتھ معتدل جدید محققین اور مفکرین سے بھی بھرپور اور یکساں استفادہ کرتے ہیں۔ وہ ’ہم غیر جانبدار نہیں بلکہ حق کے طرفدار ہیں‘ کا مصداق ہیں۔ حق پسندی کا یہ عالم ہے کہ جس بات کو حق سمجھتے ہیں، اپنوں اور بیگانوں کی مخالفت کی پروا کیے بغیر کہتے اور لکھتے ہیں۔
معاصر مفکرین اور داعیان سے استفادے کے حوالے سے عمار صاحب نے کہا کہ میں نے مولانا وحید الدین خان صاحب اور جناب جاوید احمد غامدی صاحب سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ خاص طور پر خان صاحب کی فکر انگیز تحریریں اور تزکیہ و دعوت پر ان کا قیمتی لٹریچر بڑا قیمتی ہے۔ جاوید احمد غامدی صاحب سے تلمذ کے تعلق کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ جاوید صاحب کی شخصیت، علم و تحقیق کی گہرائی و گیرائی اور خاص طور پر ان ے علمی رویے نے جس میں حد درجہ تواضع و انکساری ہے، مجھے بے حد متاثر کیا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ خان صاحب اور غامدی صاحب کی ہر بات اور ہر تحقیق درست ہے۔ مجھے ان دونوں اصحاب علم کے بہت سے نقطہ ہائے نظر سے اختلاف ہے اور میں نے اپنی تحریروں میں اس اختلاف کا اظہار بھی کیا ہے۔ استاد محترم نے کہا کہ ایک طالب علم کے لیے سیکھنے کے اعتبار سے مخصوص نتائج فکر سے زیادہ اہم چیز کسی صاحب علم کا زاویۂ نگاہ ہوتا ہے۔ استاد گرامی نے رجال دین سے اخذ و استفادہ اور تلمذ کے حوالے سے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کا قول سنایا:
لا یقلدنّ احدکم دینہ رجلًا، فان آمن آمن، وان کفر کفر، وان کنتم لا بدّ مقتدین فاقتدوا بالمیّت فانّ الحیّ لا تؤمن علیہ الفتنۃ۔ (معجم طبرانی)
ترجمہ: ’’تم میں سے کوئی شخص اپنے دین کے معاملے میں اپنی باگ کسی کے ہاتھ میں نہ دے دے کہ اگر وہ ایمان لائے تو ایمان لے آئے اور اگر وہ کفر پر راضی وہ جائے تو یہ بھی کفر پر راضی ہو جائے، اور اگر تمہیں پیروی کرنی ہی ہے تو کسی گزرے ہوئے شخص کی کرو کیونکہ جو شخص زندہ ہے وہ آزمائش سے محفوظ نہیں ہے۔‘‘
تزکیہ و احسان اور تصوف و سلوک کی بابت پوچھنے پر استاد محترم نے کہا کہ بلاشبہ دین کا مقصد فرد کے علم، عمل اور مزاج تینوں جہات سے تزکیہ و تطہیر ہے اور دین کا اصل مخاطب بھی فرد ہی ہے، لہٰذا تزکیہ کی حیثیت دین میں بنیادی اور اساسی ہے۔ باقی جہاں تک تصوف و سلوک کا اور خاص طور پر اس کی تعبیرات کا تعلق ہے تو اصطلاح سے قطع نظر مقاصد بالکل ٹھیک ہیں، یعنی ذوق عبادت، حسن معاشرت، اللہ کی مخلوق سے ہمدردی و غمگساری، خدمت خلق، رفاہ عامہ، فرد میں انکساری، عفو، ایثار اور نفئ ذات کے جذبات کو پروان چڑھانا وغیرہ۔ لیکن تصوف کے علم کلام، فلسفیانہ مباحث اور بالخصوص ایسے افکار جو کتاب و سنت سے ہم آہنگ نہیں ہیں، ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں استاد محترم نے مولانا اشرف علی تھانویؒ کی تجدیدی و اصلاحی مساعی کا ذکر کیا اور کہا کہ مولانا نے بڑی حد تک تصوف و سلوک کو شریعت کا پابند بنایا ہے اور یہ ان کی بڑی خدمت ہے۔ امام غزالیؒ کا تصوف جو صرف خواص کے لیے تھا، مولانا تھانوی نے عوام الناس کی سطح پر اور ان کی نفسیاتی وعملی ضروریات کے لحاظ سے اس کی تفہیم کی ہے اور اصلاح نفس اور اصلاح معاشرہ کے لیے قابل قدر اور قیمتی مواد تصنیف کیا ہے۔ استاد گرامی نے مزید کہا کہ دور حاضر میں سندھ کے ایک صوفی منش عالم حافظ موسیٰ بھٹو صاحب نے مولانا تھانویؒ کی مشکل اور ادق تحریروں کو آسان اور عام فہم بنانے کے لیے بڑی تگ و دو کی ہے اور تصوف کی مروجہ خرافات اور ناقص تشریحات کو بڑی حکمت اور دلسوزی کے ساتھ ہدف تنقید بنایا ہے۔ موسیٰ بھٹو صاحب کی شخصیت کے حوالے سے استاد محترم نے کہا کہ ان کے مزاج میں بہت ٹھیراؤ ہے اور ان کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ وہ قدیم علماء اور محقق صوفیاء کے ساتھ ساتھ جدید اہل علم کے کام پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں اور جدید ذہن کی نفسیات سے بھی آگاہ ہیں۔
ایک مرتبہ ایک طالب علم نے عمار صاحب سے پوچھا کہ ہمارے محلے کی مسجد کی دیوار پر یہ اشتہار لکھا ہوا ہے کہ ’’اپنے مسلک کے علماء کے علاوہ کسی دوسرے کی کتاب نہیں پڑھنی چاہیے، کیونکہ اس سے انسان گمراہ ہو جاتا ہے‘‘۔ طالب علم نے پوچھا ، استاد محترم! یہ بات کس حد تک درست ہے؟ تو عمار صاحب نے (قدرے مسکراہٹ کے ساتھ) جواب دیا کہ یہ بات بس اس دیوار پر لگے اشتہار کی حد تک درست ہے۔ سب طلبہ یہ سن کر مسکرانے لگے۔ پھر استاد گرامی نے کہا کہ ایک عام آدمی کو آپ ذہنی خلفشار سے بچانے کے لیے یہ بات کہیں تو کسی حد تک اس کا جواز بنتا ہے،لیکن دین کے طالب علم جو کل معاشرے میں جائیں گے اور سماج کی راہنمائی کا فریضہ سر انجام دیں گے، ان کو آخر یہ آپ کیا ذہنیت دے رہے ہیں؟ کیوں ان کے سروں پر کنٹوپ چڑھا رہے ہیں؟ عالم کی صفات میں ایک نمایاں وصف جو قدیم فقہی لٹریچر میں بیان کیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ: ان یکون بصیرًا بزمانہ۔ عالم وہ ہے جو اپنے زمانے سے واقف ہو۔ استاد محترم نے طلبہ سے کہا کہ دین کا مطالعہ ہر قسم کی تنگ نظری، جانبداری اور تعصب سے بالاتر ہو کر کرنا چاہیے۔ جو خیر جہاں سے ملے، ضرور لینی چاہیے اور اس معاملے میں عرفی تاثر اور لوگوں کی کڑوی کسیلی باتوں کی بالکل پروا نہیں کرنی چاہیے۔
استاد محترم نے ایک نوجوان فاضل اور محقق مبشر نذیر صاحب کے کام کو بھی سراہا جنہوں نے تفسیر، حدیث، فقہ، تاریخ، اسلامی تحریکات، تصوف اور مذاہب عالم کے تقابلی مطالعہ پر تعلیم وتدریس کے پہلو سے قابل قدر کام کیا ہے اور ان کی بڑی خوبی یہ ہے کہ تمام دبستان فکر اور اہل علم و فکر سے یکساں استفادہ کیا ہے اور غیر جانبدارانہ اور تقابلی (Comparative) اسلوب اختیار کیا ہے۔
دین کی انقلابی تعبیر پر بات کرتے ہوئے، جسے عام طور پر ’’اقامت دین‘‘ کے عنوان سے معنون کیا جاتا ہے، استاد گرامی نے کہا کہ یہ احساس کہ مسلمانوں کو اپنا نظم اجتماعی یا بالفاظ دیگر حکومت و ریاست کے امور دین کی تعلیمات کے مطابق چلانے چاہئیں، اپنی اصل کے اعتبار سے بالکل ٹھیک ہے، بلکہ دین کے مطالبات میں سے ہے۔ مسلمان جس طرح بحیثیت فرد اللہ اور رسول کی تعلیمات کا پابند ہے۔ اسی طرح ایک مسلم معاشرے میں ریاستی و انتظامی معاملات بھی کتاب و سنت کے قوانین و احکام کے مطابق ہونے چاہئیں۔ لیکن یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ اسلامی حکومت کا قیام حالات، امکانات اور مواقع کے لحاظ سے ہوگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ حکومت و ریاست بالذات مقصود نہیں ہے۔ تیسرے یہ کہ دین کے نفاذ سے قبل ایک خاص حد تک دین کا نفوذ ہونا چاہیے۔ تزکیہ، دعوت، تعلیم اور تدریس کے نتیجے میں جب معاشرہ میں اسلامی تعلیمات سے قلبی و ذہنی ہم آہنگی پیدا ہوگی تو اللہ تعالیٰ کو اگر منظور ہوا تو ہماری حکومت بھی انصاف اور مساوات کے اصولوں کو پیش نظر رکھ کر معاملات سر انجام دے گی۔
استاد محترم نے کہا کہ مرور ایام کے ساتھ اس فکر میں عدم توازن پیدا ہوتا گیا جس سے اس فکر کے حاملین میں انقلاب کی سوچ اتنی غالب ہوتی گئی کہ دین کی روح اور اس کا داخل نظر انداز ہوتا گیا اور جدوجہد کا سارا مرکز و محور خارج میں منتقل ہوگیا۔ نتیجتاً دین قریب قریب اسٹیٹ کے مترادف ہوگیا اور اس کا روحانی پہلو کمزور ہوتا چلا گیا۔ اس تعبیر کے اثرات دین کے مقاصد، دعوت دین اور غیر مسلموں سے تعلقات کی نوعیت، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے حدود و شرائط، نظم اجتماعی میں خروج، جہاد و قتال کا تصور اور اس کی نوعیت و دائرہ کار، انبیاء کی دعوت اور ان کا مقصد بعثت، یہ اور اس طرح کے دوسرے بہت سے اہم امور پر پڑے۔ چنانچہ ہندوستان کے جلیل القدر مفکر مولانا علی میاں ندویؒ کو قلم اٹھانا پڑا اور انہوں نے ’’عصر حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح‘‘ لکھ کر انقلابی فکر کے ناقص پہلوؤں کی طرف بڑی سنجیدگی، اخلاص اور درد مندی سے توجہ دلائی۔ اس کے علاوہ مولانا وحید الدین خان صاحب نے ’’تعبیر کی غلطی‘‘ کی شکل میں اس فکر پر مفصل نقد کیا۔
راقم نے استاد گرامی سے ان کی پسندیدہ کتب کے متعلق پوچھا تو جواب دیا کہ علم دین کے دائرے میں قرآن مجید کے بعد مجھے تین کتابیں بہت پسند ہیں:
(ا) مسند احمد بن حنبل
(ب) کتابِ مقدس (بائبل )
(ج) صفۃ الصفوۃ لابن الجوزی (جو ابو نعیم کی ’حلیۃ الاولیاء‘ کی تلخیص ہے)
رمضان کے مہینے میں تراویح عمار صاحب کی اقتدا میں پڑھنے کا موقع ملا۔ تراویح کی نماز کے بعد وہ نماز میں پڑھے گئے قرآن مجید کے حصے کا خلاصہ بھی بیان کرتے تھے۔ ایک مرتبہ تراویح و خلاصہ کے بعد گفتگو کے دوران راقم نے ڈاکٹر اسرار احمدؒ صاحب کے جاری کردہ دورۂ ترجمہ قرآن کے پروگرام کی طرف استاد گرامی کی توجہ مبذول کرائی تو استاد محترم نے کہا کہ عوام الناس کا قرآن مجید سے تعلق جوڑنے کے لیے یہ بہت اچھا پروگرام ہے اور ڈاکٹر صاحبؒ کی حسنات میں سے ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآن مجید کے پیغام کو سادہ اور دلنشین اسلوب میں فقہی اور فنی باریکیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے لوگوں تک پہنچایا جائے۔ اس لحاظ سے ڈاکٹر صاحبؒ کا درس قرآن عوامی سطح پر بہت مؤثر ہوتا تھا۔ ہمارے ہاں بہت کم لوگ ہیں جو جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے سامنے اتنے موثر پیرایے میں قرآن مجید کا ترجمہ و تشریح کر سکتے ہیں۔
سبق کے بعد ایک مرتبہ ایک طالب علم نے استاد محترم سے کہا کہ آج کل آپ کی شخصیت مختلف حلقوں کی طرف سے اعتراضات کا نشانہ ہے، اس حوالے سے آپ کیا کہتے ہیں؟ عمار صاحب نے کہا کہ میں بھی انسان ہوں اور میری کسی تحریر میں غلطی اور نقص کا ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ اختلاف رائے فطری چیز ہے۔ بس طالب علمانہ اسپرٹ کے ساتھ سیکھتے رہنے اور خوب سے خوب تر کی جستجو کرتے رہنا اصل چیز ہے۔ ہمارے معاشرے میں بد قسمتی یہ ہے کہ یہاں علمی رویہ مفقود ہے۔ غور و فکر کرنا اور مخاطب کی بات کو سننا، نہ ہونے کے برابر ہے۔ لوگ اپنے اپنے خول اور مسلکوں کے حصار بنا کر انھی میں جی رہے ہیں اور ان سے باہر نکل کر دوسرے کی بات سننے کے لیے تیار نہیں۔ لیکن اس چیز سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ قرآن مجید میں سورۃ رعد میں ایک قاعدہ کلیہ بیان کیا گیا ہے:
فامّا الزّبد فیذھب جفآءً وامّا ما ینفع النّاس فیمکث فی الارض۔
ترجمہ: ’’سو جو جھاگ ہوتا ہے، وہ سوکھ کر زائل ہو جاتا ہے، لیکن جو چیز لوگوں کے لیے نفع بخش ہوتی ہے، وہ زمین میں ٹھیری رہتی ہے‘‘۔
پھر کہنے لگے کہ ہم نے الشریعہ کی صورت میں ایک پلیٹ فارم مہیا کرنے کی ایک ادنیٰ سی کاوش کی ہے تاکہ امت کے مختلف طبقات کے درمیان مکالمہ کی صورت پیدا ہو، کشیدگی ختم ہو اور ایک دوسرے کی بات کو سننے اور غور و فکر کرنے کی راہ ہموار ہو۔
استاد محترم سے پوچھا گیا کہ لوگوں سے ہمارا اختلاف ہوتا ہے اور بعض اوقات بات کشیدگی تک پہنچ جاتی ہے تو اس ضمن میں ہمیں کیا رویہ اور طریقہ اختیار کرنا چاہیے؟استاد محترم نے کہا کہ جب غور و فکر اور مطالعہ و تحقیق کرتے ہوئے آپ کسی نئے نقطہ نظر یا فکر سے متاثر ہوں تو فوراً انھی نتائج فکر پر قانع ہو کر اس کے پر جوش داعی و علمبردار نہیں بننا چاہیے، بلکہ غور و مطالعہ کا سلسلہ مزید جاری رہنا چاہیے اور چیزوں کو ایک لگے بندھے انداز میں دیکھنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ مخاطب کو اپنی بات زیادہ سنانے کی بجائے تواضع سے اس کی بات سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ دین کا سچا طالب علم کبھی خود پسند، متکبر اور جلد باز نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ کثرت مطالعہ اور کثرت دعا و استغفار کے التزام سے اللہ تعالیٰ انسان کے دل میں نور بصیرت پیدا کر دیتے ہیں جس سے الجھنیں اور اشکالات دور ہو جاتی ہیں۔
دورہ کے نصاب کی بہتری کے لیے چند تجاویز
راقم اپنے محدود علم، مشاہدے اور تجربے کی بنا پر چند تجاویز و مشورے پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہے:
ا) تزکیہ و احسان کے مباحث پر بھی محاضرات رکھے جائیں۔ خاص طور پر امام نوویؒ ، ابن قدامہؒ ، ابن قیمؒ ، ابن جوزیؒ اور ابن عبد البرؒ جیسے اساطین علم و فضل کی کتابوں کے منتخبات کا مطالعہ کروایا جائے تاکہ ایک تو سلف صالحین کے دینی فہم، ذوق، ترجیحات اور اسلوب سے آگاہی حاصل ہو اور ساتھ ساتھ طلبہ میں عربی دانی کی استعداد بڑھے۔
ب) دعوت دین اور معاشرہ و حکومت کی اسلامی تشکیل نو کے لیے اصول و مبادی اور طریقۂ کار کے موضوعات کو بھی خصوصی جگہ دی جائے تاکہ علم دین سیکھنے کے بعد طلبہ اپنے سماج اور ماحول میں جا کر اپنی استعداد، میلان طبع اور ذوق کے مطابق دعوت و اصلاح کا کام کر سکیں اور انذار، دعوت، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے حوالے سے دین کی تفویض کردہ ذمہ داریاں ادا کر سکیں۔
ج) جدید مغربی فکر و فلسفہ کے تعارف پر مبنی کچھ محاضرات کا بھی انعقاد کیا جائے تاکہ طلبہ حالات کے رخ اور تقاضوں سے واقف ہوں۔
د) نفسیات کے موضوع پر بھی کچھ مواد شامل نصاب ہونا چاہیے تاکہ دین کے طالب علم جنہوں نے کل معاشرے میں راہ نمائی کا فریضہ سر انجام دینا ہے، انسان کی نفسیات، محرکات، افتاد طبع اور رجحان سے واقف ہوں۔
اکیڈمی کی انتظامیہ خاص طور پر ناظم اکیڈمی مولانا محمد عثمان صاحب، مولانا وقار احمد، مولانا حافظ محمد رشید اور ان کی پوری ٹیم بے حد شکریے کی مستحق ہے جنہوں نے طلبہ کے قیام، طعام اور دوسری ضروریات کا خاطر خواہ بندوبست کیا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان سب کو ایمان، صحت اور عافیت کی دولت حاصل ہو، آمین۔
مکالمے کی نئی راہیں
محمد عامر خاکوانی
پچھلے ڈیڑھ دو برسوں کے دوران سوشل میڈیا سے میرا رابطہ خاصا بڑھا ہے۔ میری دلچسپی دوسری ویب سائیٹس میں پیدا نہیں ہو سکی، فیس بک البتہ شروع ہی سے مجھے دلچسپ لگی۔ میرے کئی دوستوں کو ٹوئٹر زیادہ پسند ہے اور ان کے خیال میں اس کے ذریعے زیادہ بہتر ابلاغ ہو سکتا ہے۔ ایسا ہوتا ہوگا، مگر مجھے تو ٹوئٹر خاصا بور لگا۔ جو بات فیس بک میں ہے، وہ ادھر نہیں۔ ممکن ہے آگے جا کر ٹوئٹر میں دلچسپی پیدا ہو جائے۔ فیس بک کا ایک بڑا فائدہ میں نے یہ دیکھا کہ مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کا باہمی رابطہ او ر انٹرایکشن اس نے ممکن بنا دیا۔ متضاد سوچ کے حامل وہ لوگ جو کبھی ایک محفل میں اکٹھے نہیں ہو سکتے، ان کے لیے مخالف نقطہ نظر کو سننا اور سمجھنا بھی ممکن نہیں، فیس بک نے ان کی مشکل آسان کر دی ہے۔ کئی جگہوں پر تو اتنی عمدہ بحث دیکھی کہ دل خوش ہو گیا۔ اہم فکری ایشوز پر دوستوں نے بات کی اور نہایت تحمل کے ساتھ دوسروں کے جواب بھی سنے۔ اس طرح کے فورمز پر گفتگو کا اسلوب یہی ہونا چاہیے کہ اپنا نقطہ نظر پوری طرح وضاحت اور دلائل کے ساتھ بیان کر دیا جائے اور پھر جواباً بھی ایسا ہی کیا جائے۔ چیٹ کی طرز پر ایک ایک دو دو فقروں میں سوال جواب سے خلط مبحث ہوتی ہے، کوئی کارآمد چیز برآمد نہیں ہوتی۔ ایک اچھا کام یہ ہوا کہ بہت سے لوگوں نے اردو ٹائپنگ سیکھ لی یا وہ گوگل ٹرانسلیٹر وغیرہ استعمال کر کے اردو میں طویل نوٹ لکھتے ہیں۔ اس سے ابلاغ میں زیادہ آسانی ہو جاتی ہے۔
ایک بات البتہ مجھے شدت سے محسوس ہوئی کہ یہاں بھی بیشتر لکھنے والوں نے اپنے اپنے ڈیرے ہی بنا رکھے ہیں۔ وہ اپنے صفحات پر کالم وغیرہ پوسٹ کر دیتے ہیں اور ان کے مداح ان پر تبصرے کر دیتے ہیں۔ متبادل یا اختلافی رائے کم ہی نظر آئی۔ مجھے لگتا ہے کہ ایسے مشترکہ فورم کی ضرورت ہے جہاں کالم نگار اور تجزیہ نگار اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کر سکیں اور کالموں پر ہونے والے سنجیدہ نوعیت کے سوالات کے جوابات بھی دے سکیں۔ اس طرح کے کسی فورم پر جانے میں کم از کم مجھے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ میں دانستہ طور پر ساتھی کالم نگاروں کے فیس بک صفحات پر کمنٹس کرتا رہتا ہوں تاکہ ان صفحات کو وزٹ کرنے والوں کے لیے مختلف آرا ایک ہی جگہ پر میسر آ سکیں۔ برادرم رؤف کلاسرا نے ایک ویب سائٹ کی بنیاد ڈالی تھی جہاں مختلف لکھنے والے اپنی تحریریں بھیجتے رہتے، مگر اپنی مصروفیت کے باعث وہ اسے وقت نہیں دے پائے۔ اس سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے کسی کو آگے آنا چاہیے۔
اسی طرح بہت سے صفحات ایسے ہیں جہاں پر کسی خاص مکتب فکر یا سکول آف تھاٹ کے لوگ ہی اکٹھے ہوتے ہیں۔ جماعت اسلامی سے متاثر فکر کے نوجوانوں کے اپنے پیج ہیں اور وہ ایک دوسرے کی پوسٹ ہی آگے بڑھاتے ہیں۔ کم وبیش یہی حال علامہ طاہر القادری یا زید حامد وغیرہ کے حامی کرتے ہیں۔ ایک خوشگوار تبدیلی میں نے روایتی دینی حلقوں میں دیکھی۔ چونکہ اب کئی جامعات میں کمپیوٹر کی تعلیم دی جا رہی ہے اور وہاں سے فارغ التحصیل افراد کی تعداد بھی خاصی ہو چکی، دینی مدارس سے فارغ التحصیل یہ لوگ اب فیس بک پر آ چکے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ المیہ ہے کہ دینی مدارس اور ان کے طلبہ کا حلقہ مین اسٹریم سے کٹا ہوا ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں کا مدارس کے ساتھ کہیں پر، کسی بھی نوعیت کا انٹر ایکشن موجود نہیں۔ مختلف پبلک یونیورسٹیوں کے طلبہ کے وفود جب دوسرے صوبوں یا شہروں کی یونیورسٹیوں کا وزٹ کرتے ہیں، اس سے باہمی مکالمہ کی فضا قائم ہوتی ہے۔ مثال کے طورپر پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ جامعہ کراچی یا جام شورو یونیورسٹی جائیں تو یہ صرف طلبہ کے ایک وفد کا وزٹ نہیں، بلکہ دو مختلف ماحول اور مختلف مزاج میں کام کرنے والی جامعات کے طلبہ کا انٹر ایکشن بھی ہے۔ اس کی اپنی افادیت ہے۔ اس طرح کا انٹر ایکشن دینی مدارس اور جدید یونیورسٹیوں کے طلبہ کے درمیان موجود نہیں۔ اگر لمز، فاسٹ اور نسٹ وغیرہ کے طلبہ جامعہ رشیدیہ یا جامعہ بنوریہ جائیں تو ان کی بہت سی غلط فہمیوں کا خاتمہ ہوگا اور مدارس کی حقیقی تصویر سامنے آئے گی۔ کم وبیش یہی صورت حال مدارس کے طلبہ کے پبلک یا نجی یونیورسٹیوں کے وزٹ کے بعد پیدا ہوگی۔
ویسے حقیقت تو یہ ہے کہ روایتی دینی حلقوں کا ہمارے سماج کے ساتھ بھی قریبی تعلق نہیں۔ روایتی طور پر جسے مولوی کہا جاتا ہے، اسے ہم نے اپنے سماج کا حصہ بنایا ہی نہیں۔ صرف اسے نماز پڑھانے، بچوں کو قرآن پاک پڑھانے یا پھر مخصوص مواقع پر مختلف رسومات کی ادائیگی کے قابل ہی سمجھا ہے۔ انھوں نے فلم یا کسی کلچرل فیسٹیول میں تو کیا جانا ہے، ان کے بارے میں ازخود تصور کر لیا جاتا ہے کہ انھوں نے کسی علمی ادبی سرگرمی میں حصہ نہیں لینا۔ کچھ قصور ان کا بھی ہوگا، مگر ہم نے بھی انھیں ساتھ ملانے کی سعی نہیں کی۔ مولوی یا مدارس کے طلبہ اور فارغ التحصل طلبہ، حتیٰ کہ تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی کے نوجوانوں کو کھیلوں وغیرہ سے بھی دور ہی رکھا جاتا ہے۔ محلے کی کرکٹ ٹیم میں اگر کوئی باریش لڑکا شامل ہو جائے تو اس کا مذاق اڑایا جاتا اور حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ اگرچہ جامعۃ الرشید جیسے چند ایک مدارس ایسے ہیں جنھوں نے جدید ترین تعلیم کو اپنے اداروں کا حصہ بنایا، یوں آئی ٹی، بزنس ایڈمنسٹریشن اور مینجمنٹ جیسے میدانوں کے لیے تربیت یافتہ نوجوان تیار کیے، مسئلہ مگر یہ ہے کہ اس معیار کے مدارس دو چار ہی ہیں۔ ہمارے دانش وروں اور گھنٹوں نان ایشوز پر ضائع کرنے والے اینکروں کو اس سوال کا جواب ڈھونڈنا چاہیے کہ معاشرے سے کٹے ہوئے اس حصے کو کس طرح مین اسٹریم کے ساتھ شامل کرنا ہے۔ ویسے مدارس کی داخلی دنیا کے حوالے سے بھی خاصا کچھ کرنے کی ضرورت ہے، مگر یہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔
فیس بک نے البتہ یہ کمی کسی حد تک پوری کی ہے۔ مجھے بعض مدارس سے تعلق رکھنے والی ممتاز دینی شخصیات کے صفحات نظر آئے ہیں۔ اگرچہ ان میں زیادہ تر دینی اور اصلاحی نوعیت کا مواد ہی دیا جا رہا ہے، مگر چلو یہ لوگ فیس بک پر تو آ گئے۔ مفتی ابو لبابہ شاہ منصور جیسے ممتاز لکھاری جن کی خاصی بڑی ریڈر شپ ہے، وہ اگر سنجیدہ بحث ومباحثہ کے لیے کوئی پیج بنائیں جہاں روایتی دینی حلقوں کے ساتھ ساتھ ہم جیسے دنیا دار بھی اپنی رائے دے سکیں، ایسی صورت میں باہمی مکالمے کی اچھی فضا قائم ہو سکتی ہے۔ محترم المقام مولانا زاہد الراشدی نے اپنے ماہانہ جریدے ’الشریعہ‘ کی صورت میں بڑا عمدہ اور معیاری علمی، فکری فورم مہیا کر رکھا ہے۔ ان کے اسکالر صاحب زادے عمار ناصر فیس بک پر خاصے فعال ہیں۔ وہ الشریعہ کے فورم کو سوشل میڈیا پر بھی متحرک کر سکتے ہیں۔ فیس بک کے نقصانات اپنی جگہ ہیں، اس کی زیادتی وقت کے ضیاع کا باعث بنتی ہے، اس لیے توازن ضروری ہے، مگر اس نے مکالمے کی نئی راہیں کھول دی ہیں۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ان امکانات کو کس قدر بروئے کار لاتے ہیں۔
(بشکریہ روزنامہ دنیا)
کیا مرزا قادیانی ہوش مند اور ذی فہم شخص تھا؟
مولانا محمد یوسف لدھیانوی
مولانا عبد الماجد دریاآبادیؒ مرزا قادیانی کو غیر معمولی عقل و علم کا شخص اور فہیم و ذی ہوش کا لقب پوری سادگی کے ساتھ دیں، لیکن واقعہ یہ ہے کہ مرزا صاحب کی شخصی زندگی کا بالاستیعاب مطالعہ کرنے، اس کی طفلی، شباب اور پیری کے واقعات اور احوال پر نظر غائر رکھنے، اس کے تمام معاملات پر غور کرنے، اور اس کی تحریرات کو بنظر صحیح دیکھ جانے کے بعد میرا خیال تھا کہ کوئی شخص بشرطِ عقل سلیم اس کو زیرک، دانا، عاقل، عالم، ذی فہم اور ہوش مند قرار نہیں دے سکتا، الّا یہ کہ خود اسی کے حواس ماؤف ہوگئے ہوں۔ پہلی دفعہ مولانا کی تحریر پڑھ کر یہ جدید انکشاف ہوا کہ مرزا صاحب کے ثناخوانوں اور اس کو فہیم و ذی ہوش قرار دینے والوں میں مولانا دریا آبادی جیسے فہیم اور ذی علم لوگ بھی شامل ہیں:
سوخت عقل ز حیرت کہ ایں چہ بو العجبی است
خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ مولانا کے ذہن میں فہیم اور ذی ہوش کا مفہوم کیا ہے؟ اور وہ کن بنیادوں پر مرزا صاحب کو فہیم اور ذی ہوش لکھ ڈالنے پر اپنے کو بے بس پاتے ہیں؟
کسے نکشو دونکشاید بحکمت ایں معمارا !
شواہد فہم مرزا !
مرزا غلام احمد قادیانی جن کے نزدیک ۔۔۔ بقول مرزا محمود ۔۔۔ ہر شخص بڑے سے بڑا مرتبہ حاصل کر سکتا ہے، حتیٰ کہ ۔۔۔ خاک بدہن گستاخ ۔۔۔ محمد رسول اللہ ۔۔۔ بآبائنا و أمہاتنا ۔۔۔ سے بھی بڑھ سکتا ہو۔ ان کے فہم و ہوش اور غیر معمولی عقل و علم کا اندازہ لگانے میں مولانا دریا آبادی اب تک قاصر ہیں۔
جس کے نزدیک مسیح علیہ السلام کو ’’کنجریوں سے میلان اور صحبت رہی ہو‘‘۔ ایک متقی انسان کی صفات سے وہ عاری ہوں‘‘، ’’زنا کار کسبیاں زنا کاری کا پلید عطر ان کے سر پر اور اپنے بالوں کو ان کے پاؤں پر ملتی ہوں‘‘، مولانا دریا آبادی مصر ہیں کہ وہ ذی علم اور ہوش مند تھا ۔۔۔!
جو گستاخ، سیدنا مسیح علیہ السلام کے پورے خاندان کو بطور تعریض و تہکم ’’پاک اور مطہر‘‘ بتلاتا ہو، ان کی تین دادیوں اور نانیوں کو ۔۔۔ العیاذ باللہ ۔۔۔ ’’زنا کار اور کسبی‘‘ بتلاتے ہوئے شرم نہیں کرتا، اور زنا کار خانوادے سے آپ کے وجود کے ظہور پذیر ہونے کو انکشاف کرتا ہو، وہ مولانا کے نزدیک غیر معمولی عقل مند تھا ۔۔۔!
جو بد زبان، حضرت مسیح علیہ السلام کو شرابی، یوسف نجار کا بیٹا، ان کے قرآن میں ذکر کردہ معجزات کو مکروہ عمل، قابل نفرت، اعجوبۂ نمایاں قرار دیتا ہو، اور ان کے معجزات کو مٹی کے کھیل سے زیادہ وقعت نہ دیتا ہو، مولانا چند آزاد ذہنوں سے مرعوب ہو کر اسے ’’فہیم اور ذی ہوش‘‘ مانتے ہیں ۔۔۔ !
جو ’’ہوش مند‘‘ اعلان کرتا ہو کہ ’’مسیح علیہ السلام ہدایت اور توحید اور دینی استقامتوں کے کامل طور پر دلوں میں اتارنے سے قریب قریب ناکام رہے‘‘ اور ان سے کوئی معجزہ نہ ہوا‘‘، حیف ہے کہ وہ مولانا دریا آبادی کے نزدیک ’’غیر معمولی عقل و علم کا شخص‘‘ تھا ۔۔۔!
جو فرعون صفت بار بار قسم کھا کھا کر مسیح علیہ السلام سے افضلیت کا دعویٰ رکھتا ہو، اور جو یہ اعتقاد نہ رکھے، اسے ’’مبتلائے وسوسۂ شیطانی‘‘ قرار دیتا ہو، کون دانش مند اس کے حق میں مولانا دریا آبادی کا یہ خطاب تسلیم کرے گا کہ وہ فہم و ہوش اور عقل و علم کا تھا‘‘ ۔۔۔!
جس غیر معمولی عقل و علم کے شخص نے اپنی تصنیفات میں بار بار یہ لکھا ہو کہ ’’مریم بتول نے ایک مدت تک بے نکاح رہ کر اور حاملہ ہو جانے کے بعد بزرگان قوم کی ہدایت اور اصرار سے بوجہ حمل کے نکاح کر کے تعلیم توراۃ کی خلاف ورزی کی، بتول ہونے کے عہد کو توڑا، تعدد ازواج کی قبیح رسم ڈالی‘‘، اس کو ’’فہیم اور ذ ی ہوش‘‘ تسلیم کرنا، اور پورے ’’شرح صدر‘‘ کے ساتھ تسلیم کرنا، مولانا دریا آبادی ہی کی ہمت ہے ۔۔۔!
(مرسلہ: مولانا اللہ وسایا صاحب، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، ملتان)
مادی ترقی کا لازمہ ۔ واہمہ یا حقیقت؟
محمد ظفر اقبال
یہ زمانہ انسانی فکر اور معاشرے کی ہر سطح پر مغربی افکار اور تہذیب کے غلبے کا زمانہ ہے۔ جدید مغربی تہذیب اپنی ابتدا سے اب تک خالص مادیت کی علم بردار رہی ہے۔ مادی ترقی [material progress] ہی کے باعث مغرب آج پوری دنیا پر عملاً متصرف ہے۔ ماریہ سبرٹ لکھتی ہیں:
It was progress which had permitted Europeans to 'Discover' the whole world, and progress which would explain their growing hegemony over the global horizon.۱
اس حقیقت کے بالمقابل یہ بھی امر واقعہ ہے کہ مسلمان مادی ترقی میں بہت پیچھے ہیں۔ مغرب کی مادی ترقی اور فتوحات کا عروج، امت مسلمہ پر مغرب کے تسلط اور یلغار کی مسلسل اور متواترسرگرمیاں اور مسلمانوں کی استخلاف فی الارض سے محرومی نے مسلم دنیا کو عجیب و غریب صورت حال سے دو چار کر رکھا ہے۔ مسلمان اس وقت بیک وقت چار ادوار میں ایک ساتھ زندہ ہیں:
[۱] مسلمانوں کا دینی و مذہبی پس منظر تقریباً ۱۵۰۰ سال قدیم ہے۔
[۲] مسلمانوں کا معاشرتی ڈھانچہ کم و بیش سترھویں اٹھارویں صدی کا ہے۔
[۳] مسلمان عملاً بیسویں صدی میں جی رہے ہیں۔
[۴] مسلمانوں کی معلومات اکیسویں صدی کی ہیں ۔
اس صورت حال نے مسلم دنیا کو عجیب مخمصے میں مبتلا کررکھا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بہ حیثیت قوم مسلمان ایک شکست خوردہ دنیا کے باسی ہیں جو اپنی سمت اور مقام کے تعین میں سرگرداں ہو۔ گزشتہ ڈیڑھ صدیوں میں امت مسلمہ کے علمی نمائندوں نے زوال امت کے تعین کی جستجو میں جو تحریری سرمایہ جمع کیا ہے، اسے پڑھ کر بہ طور امت مسلم شناخت کاسوال پوری شدت کے ساتھ سامنے آجاتا ہے۔کیا واقعی مسلمان اپنی شناخت کا غالب حصہ کھو چکے ہیں؟ اورباقی ماندہ مسلسل کھو رہے ہیں؟ زوال امت کے اسباب اور تجزیوں کا غالب حصہ آپس میں متضاد اور متصادم معلوم ہوتا ہے۔ اور اس پوری بحث کے تفصیلی مطالعے کے بعد سوائے الجھاؤ کے اور کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
زوال سے دوبارہ کمال کی بازیافت کے لیے حکمت عملی اور لائحہ عمل کے حوالے سے مسلم اہل فکر و قلم بالعموم تین نقاط نظر کے حامی معلوم ہوتے ہیں:
مادّی ترقی اصل الاصول اور مذہب چند کلیات کا نام ہے: مفکرین کا پہلا طبقہ:
پہلا طبقہ قلیل افراد کے ایسے گروہ پر مشتمل ہے جس کے نزدیک مادی ترقی[material progress] کا حصول اصل الاصول ہے۔ غالب تعقل [dominant discourse] کے ساتھ چلنا ہی حقیقی دانش مندی ہے۔ مذہب اگر انسانوں کے لیے آیا ہے تو اس کے قابل قبول ہونے کی شرط لازم یہ ہے کہ وہ زمانے کے کسوٹی پر کسے جانے کے بعد اس سے کھرا نکل آئے۔ بہ صورت دیگر مذہب اکیسویں صدی میں رہنے والے معراج ارتقا پر فائز عقلیت اور تجربیت پسند انسانوں کے لیے اپنے اندر کشش کا کوئی سامان نہیں رکھتا۔ دنیا میں کامل انہماک، تمتع فی الارض اور تسخیر کائنات ہی فی الحقیقت دانش مندی اور فطرت کا تقاضا ہے۔ مذہب چند اصولی ہدایات اور کلیات کا نام ہے۔ اس کا تعلق انسان کی ذاتی اور انفرادی زندگی سے ہے۔ انسان کی اجتماعی زندگی اور معاشرتی معاملات کے ہر ہر پہلو میں مذہب کی ’’دراندازی‘‘ ہر گز قابل قبول نہیں۔ عہد جدید میں معاشرے مذہب کی بنیاد پر تعمیر و تشکیل نہیں پاتے بلکہ ترقی، ارتقا، معیار زندگی، سہولت، آسائش، طاقت، اقتدار اور سرمائے کی بنیاد پر قائم کیے جاتے ہیں۔ اور ان ہی اصولوں پر جانچے اور پرکھے جاتے ہیں۔ اگر اس مسلّمہ حقیقت کے باوجود بھی انسانی معاشرے کا کوئی طبقہ مذہب سے اپنا تعلق استوار اور قائم رکھنے پر مصر ہوتو اسے چاہیے کہ جرمن اور فرنچ قومیتوں کی طرح مسلم قومیت کی وحدت کو اپنے ساتھ ملحق رکھ کر مادی ترقی کے کسی بھی سیاسی، سماجی، عمرانی، معاشی یاقانونی ماڈل کو اختیار کر لے۔ اگر مادی ترقی کی راہ میں اسلامی علمیات [Islamic Epistemology] اور مابعد الطبیعیات [Metaphysics] میں تبدیلی، ترمیم یا تنسیخ کرنی پڑے تو اسے بے خوف و خطر قبول کرلینا چاہیے۔ عزت اور ذلت کافیصلہ کن اور حتمی معیار ’’مادی ترقی‘‘ ہے۔
یہ طبقہ مغربی افکار و تہذیب اور فکر و فلسفے کو ایک عالم گیر سچائی اور فطری حقیقت کے طور پر قبول کرتا ہے۔ مذہب اوردینی اخلاقیات اس طبقے کی نظر میں ازکار رفتہ باتیں ہیں، اور ذہن انسانی کی عدم بلوغت [immaturity] کی یادگار ہیں۔ اس طبقے سے وابستہ مفکرین بالعموم ادب، فلسفہ، عمرانیات اور معاشیات کے شعبوں سے وابستہ ہوتے ہیں، اس طبقے کے وہ افراد جو بر عظیم سے وابستہ ہیں، ان کی اکثریت اسلامی علوم اور دینی مصادر علمی تک بہ راہ راست رسائی نہیں رکھتے۔ اسلامی فکر سے متعلق ان کے خیالات کا بنیادی حوالہ مستشرقین ہی کی کتابیں ہیں۔ اس وقت اسلامی دنیا میں مغرب کے زیر اثر ’’بنیاد پرستی‘‘ کے خلاف جنگ میں اس طبقے سے وابستہ افراد کی خدمات وسیع پیمانے پر حاصل کی جارہی ہیں۔ عصری تعلیمی اداروں میں ’’روشن خیالی‘‘ کی ترویج کے لیے ایسے افراد کی افزائش مسلسل کی جارہی ہے تاکہ اسلامی دنیا میں لادینیت [Secularism] کو فروغ حاصل ہوسکے۔
اسلام کے دفاع اور ترویج کے لیے ترقی ایک ناگزیر ضرورت: مسلم مفکرین کا دوسرا طبقہ:
دوسرا طبقہ مخلص مسلم مفکرین کے ایسے گروہ پر مشتمل ہے جن کے نزدیک اسلام کے ساتھ مسلمانوں کی وابستگی غیر مشروط اور اٹوٹ ہے۔ مسلمانوں کی کامیابی اور ناکامی کا واحد پیمانہ اسلام ہے۔ اسلام کو ماننے اور اس پر عمل کا تقاضا اسلام کی ترویج، اشاعت اور اس کے عملی نفاذ سے عبارت ہے۔ امت مسلمہ کے دینی اور معاشرتی تشخص کو قائم رکھنے ، اسلام کو ریاستی سطح پر نافذ کرنے اور عسکری سطح پر مضبوط اور مستحکم بنانے کے لیے مادی ترقی [material progress] کا حصول ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ بالفاظ دیگر اسلام اصل ہے اور ترقی اس اصل کو مضبوط، محفوظ اور مستحکم کردینے کی ’’شاہ کلید‘‘ہے۔
مغربی فکر و تہذیب کے بے شمار پہلو مثلاً سیکولرازم، قوم پرستی، اباحیت پرستی، اخلاقی بے اعتدالی، جنسی بے راہ روی وغیرہ صریحاً مسترد کردینے کے قابل ہیں۔ اس کڑی تنقید کے باوجود مادی ترقی کا ’’قفل ابجد‘‘ بہ ہر حال مغرب ہی کے پاس ہے۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں مغرب کے بے شمار پہلو لائق رد سہی، لیکن اس کے بہت سے اجزا سے استفادہ خود اسلام کے دفاع و ترویج اور ملت اسلامیہ کے تہذیبی تشخص کی ناگزیر مجبوری ہے۔ مغربی تجربات اور اکتشافات خصوصاً سائنسی علوم و فنون اور سائنسی منہاج کا اخذ و کسب بہت ضروری ہے۔ اس سلسلے میں تعلیم و تحصیل ہی وہ راہ ہے جس پر چل کر مطلوب و مقصود میں کامیابی کا امکان ہے۔ مغرب سے علوم و فنون سے اکتساب اور استفادے کے وقت نہایت حزم اور احتیاط اور چھان پھٹک کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں خذ ما صفا و دع ما کدر کا اصول پیش نظر رہنا چاہیے۔مسلمانوں کو چاہیے کہ اسلامی مابعد الطبیعیات، علمیات اور اخلاقیات کے حصار میں ان علوم و فنون کی تحصیل کریں۔ اس طرح ان مغربی علوم و فنون کی تحصیل کے نتائج اور اثرات ہر گز وہ نہ ہوں گے جن کا اظہار مغرب سے ہوا ہے۔ ایک بار جب ان علوم فنون کی تکمیل و تحصیل ہوجائے گی تو اس وقت مسلم سائنس دانوں کو چاہیے کہ وہ مغرب کے فلسفیانہ نظریات سے دامن جھاڑ کر اسلامی مابعد الطبیعیات، علمیات اور اقدار کے زیر اثر ایسے نتائج پیدا کریں جو مغرب سے الگ ہوں۔
مادی ترقی اور سائنسی علوم و فنون اصلاً غیر اقداری [value neutral] ہیں۔ بالفاظ دیگر سائنسی علوم اور اس کے زیر سایہ پروان چڑھنے والی ترقی فی نفسہٖ کوئی اچھائی یا برائی نہیں رکھتی، بلکہ اس کے استعمال کا مقصد اسے اچھا یا برا بناتا ہے۔
مخلص مفکرین کا یہ گروہ اسلامی علمیات پر تو گہری نظر رکھتا ہے، لیکن مغربی فکر و فلسفے پر ، الاماشاء اللہ، تجزیاتی اور تنقیدی نظر نہیں رکھتا۔
دین اور مادی ترقی دو الگ مابعد الطبیعی دائروں کے رہین: مفکرین کا تیسرا طبقہ:
تیسرا طبقہ مخلص مسلم مفکرین کے ایسے گروہ پر مشتمل ہے جو اسلامی علوم اور مغربی فکر و تہذیب کی اصلیت اور حقیقت کو اس کے بنیادی ماخذ اور سیاق و سباق کے ساتھ نہ صرف جانتا ہے، بلکہ اسلامی علوم کی روشنی میں اس کے محاکمے کی بھی اہلیت رکھتا ہے۔ ان کے مطابق مغربی طرز کی مادی ترقی کے حصول کے لیے صرف مغربی زبان اور سائنسی علوم و فنون کی تحصیل و تعلیم کافی نہیں ہے۔ زبان تو علوم کے ابلاغ، اظہار اور تفہیم کا محض ایک ذریعہ [medium]ہے۔ وہ فکری سرمایہ اور خرد افروزی امر دیگر ہے جو مادی ترقی کا لازمہ ہے۔ ترقی پذیر اقوام آج وہیں کھڑی ہیں، جہاں مغرب اب سے ۳۰۰ سال پہلے کھڑا تھا۔ ترقی کے حصول کے سفر میں ترقی پذیر اقوام کو بھی عملاً ان تمام راستوں اور مراحل سے گزرنا ہوگا، جن سے غیر ترقی یافتہ مغرب گزر کر ترقی یافتہ ہوا ہے۔
انسان مرکز کائنات: مادی ترقی کے حصول کا پہلا ہدف:
اس سفر کا پہلاہدف انسان اور کائنات کا رُخ ’’خدا مرکزی‘‘سے ’’بشر مرکزی‘‘ [Humanism] کی طرف پھیردینا ہے۔ ترقی کا حصول اور جدیدیت کی تشکیل جن فکری عناصر کی مرہون کرم ہے ان میں کلیدی عنصر ’’بشرمرکزی‘‘ [Humanism] ہے۔ چارلس سنگر کے مطابق جدید فکر [modern thought]، جدید سائنس [modern science]، جدید آرٹ [modern art] اور جدید ادب [modern letters] سب ’’بشر مرکزی‘‘ کی پیداوار ہیں۔ ۲ مغرب پر نظررکھنے والا ہر طالب العلم اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ سولہویں صدی سے یورپ میں لادینیت کے نشروفروغ نے یورپ بلکہ پورے مغربی ذہن میں یہ بات راسخ کردی کہ معاشی عروج اور تہذیبی برتری کی واحد راہ مذہبی بندشوں اور تحدیدات سے آزادی اختیار کرلینے میں ہی پنہاں ہے۔اس لیے ترقی کا مغربی ماڈل اسلام کے ساتھ غیر مشروط وابستگی اور عملی و محسوس تعلق کے ساتھ ممکن نہیں۔ جہاں توحید ہی مقدمہ ہے اور توحید ہی نتیجہ ہے۔ ماریہ سبرٹ لکھتی ہیں:
Progress is more than just a journey or an ideal. It is modern destiny. To modern man, and those who want to share his identity, rejecting faith in progress is unbearable. Modern man is defined by progress. His self-esteem is rooted in it and it is his deepest justification for the ruthlessness he displays towards his fellow men and nature.۳
آزاد منڈی کی معیشت، ترقی کا اصلی میدان:
دوسری بات یہ کہ اسلامی مابعد الطبیعیات کے زیر اثر مادی ترقی اس لیے بھی ممکن نہیں کہ حصول ترقی کا سب سے سریع العمل اور زرخیز میدان مارکیٹ [market] ہے۔ مارکیٹ میں صرف ایک ہی اصول کار فرما ہوتا ہے: زر سے زر کا حصول اور سرمائے کی بڑھوتری برائے بڑھوتری [accumulation of capital for the sake of accumulation]۔ جب بھی ترقی کے مارکیٹ ماڈل پر خارج سے کوئی نظریہ [ideology] مسلّط [impose] کیا جائے گا، شرح ترقی گر جائے گی اور آزاد منڈی کی معیشت [free market economy] کے ذریعے حاصل ہونے والی ترقی کا مقابلہ نہیں کرسکے گی۔ بالفاظِ دیگر ترقی کے عمل میں اگر اسلامی احکام اور فرامین کے تحت حدود و قیود عائد کی جائیں گی[جو کہ اسلام کے ماننے والوں کے لیے ناگزیر ہیں] تو ترقی لازماً محدود ہوگی اور لامحدود ترقی کے آگے کھڑی نہیں رہ سکے گی اور اگر بالفرض اس عمل پر کوئی قدغن عائد نہ کی جائے تو اس کے نتیجے میں پروان چڑھنے والی اقدار [values] سرمایہ دارانہ ہوں گی، اسلامی نہیں۔
مادّی ترقی مخصوص اقدار اور مستقل تہذیب ہی میں ممکن ہے:
تیسرا اہم ترین اور غور طلب پہلو یہ ہے کہ سائنسی ایجادات اور اکتشافات ہر گز غیر اقداری [value neutral] نہیں ہیں۔ جدید اکتشافات کو مغرب کے نظام اقدار سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ تمام علوم و فنون اور اس کے مظاہر ایک خاص تہذیب و تمدن، اقدار و روایات اور مابعد الطبیعیات میں پیدا ہوئے اور پھلے پھولے ہیں۔ یہ جہاں بھی جائیں گے اپنی اقدار، روایات، اسلوب حیات اور طرز زندگی ساتھ لے جائیں گے۔ ضیاء الدین سردار لکھتے ہیں:
’’جدید سائنس واضح طور پر مغربی ہے۔ پوری دنیا میں جہاں بھی سائنس کو اہمیت حاصل ہے وہ اپنے اسلوب اور طریق کار میں مغربی ہے۔ سائنس داں کا رنگ اور اس کی زبان خواہ کچھ بھی ہو‘‘۔۴
مغربی سائنس اور نیچرل فلاسفی: بنیادی فرق:
ممکن ہے بعض طبائع ’’مغربی سائنس‘‘ کا لفظ سن کر کچھ وحشت محسوس کریں کہ آیا سائنس بھی مشرقی یا مغربی ہوتی ہے؟ یہ امر واقعہ ہے کہ مغرب کی مادی ترقی [material progress]، جدید سائنس [modern science] کی مرہون کرم ہے۔ جدید سائنس قبل از جدید معاشروں میں مروج نیچرل فلاسفی سے اپنی ماہیت اور غایت دونوں میں مختلف بلکہ متضاد ہے۔ قبل از جدید معاشروں کی سائنسی سرگرمی فطرت اور اس کے تقدس کو قائم رکھتے ہوئے اس کے پس پشت کار فرما اسرار کو جاننے سے عبارت تھی۔اس کا مقصود کائنات اور فطرت کی سچائی، رعنائی، حسن اور شان کو عیاں کرناتھا۔ جدید سائنس کی ترقی ایک خاص مابعد الطبیعیات کے زیر اثر ممکن ہوسکی ہے۔ اس کا مقصد اور محرک کائنات اور فطرت پر ارادۂ انسانی کا تسلّط ہے اوراس کا استحصال کی حد تک استعمال ہے۔ ہائیڈگر کے افکار اس طرف بڑا واضح اشارہ کرتے ہیں، اس کے مطابق:
The essence of technology, which he names "the enframing," reduces the being of entities to a calculative order. Hence, the mountain is not a mountain but a standing supply of coal, the Rhine is not the Rhine but an engine for hydro-electric energy, and humans are not humans but reserves of manpower. The experience of the modern world, then, is the experience of being's withdrawal in face of the enframing and its sway over beings.۵
قبل از جدید معاشروں میں فطرت اپنے اندر ایک شان تقدیس رکھتی تھی اور جدید معاشروں میں فطرت محض ایک ’’شے‘‘ [commodity] ہے۔ تسخیر کائنات اس کے مقاصد میں شامل نہیں بلکہ کائنات کا استحصال کی حد تک استعمال دنیائے جدید کا عزم ہے۔ مادی ترقی کے حصول کے پس پشت کار فرما دانش بدترین قسم کی سفاکی کی مظہر ہے، مارکوزے اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے لکھتا ہے:
We submit to the peaceful production of the means of destruction, to the perfection of the waste, to being educated for a defense which deforms the defenders and that which they defend.۶
ٹیکنالوجی، جو جدید سائنسی ترقی اور تعیشات کا سب سے فعال مظہر ہے، کی حقیقت کے متعلق ضیاء الدین سردار لکھتے ہیں:
Technology is like fire. As long as it is under your control, you can derive benefit from it. Let it get out of hand, and you will be the first one it will destroy. And then the trees, and then the wood. And finally the earth itself.۷
اس لیے جدید سائنس کو غیر اقداری[value neutral] ان معنوں میں سمجھنا کہ اس کے ثمرات کو جس ظرف میں ڈال دیا جائے گا وہ اسی کی شکل اختیار کر لے گا اور ہم ان ثمرات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کے اثرات سے متاثر نہیں ہوں گے، نادانی ہے۔ حسین نصر فرماتے ہیں:
’’حقیقت یہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجی اپنے ساتھ ایک خاص تصور کائنات، ایک خاص طرز زیست، ایک خاص طرز عمل اور ایک خاص تصور وقت بھی لاتی ہے ۔۔۔ میں سوچ نہیں سکتا کہ اسلامی تہذیب مغربی ٹیکنالوجی کا ایک اچھا حصّہ اختیار کرے اور کہے کہ یہ اچھا اور کار آمد ہے اور دوسرا حصہ مسترد کردے اور کہے یہ برا اور بے کار ہے۔ آپ جدید ٹیکنالوجی کا جوبھی حصہ اختیار کریں و ہ اپنے ساتھ منفی اثرات بھی لائے گا‘‘۔۸
مزید کہتے ہیں:
’’مجھے ایسے حضرات سے سخت اختلاف ہے جو کہتے ہیں یورپ جاؤ وہاں بندوقیں بنانا سیکھو، واپس آؤ۔ بندوق بردار فوجیں کھڑی کرو اور باقی ہر چیز بھول جاؤ۔ ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ ہم ایسا نہیں کرسکتے۔در اصل تمام چیزیں اکھٹی آتی ہیں۔ بندوق سازی سے لے کر کمپیوٹر اور سیل فون بنانے کی ٹیکنالوجی تک فولاد سازی، جہاز سازی یہ سب صنعتیں آتی ہیں۔ کیوں کہ ان سب کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے۔ ٹیکنالوجی اپنا ایک تصور کائنات رکھتی ہے اور انسان پر عائد کرتی ہے‘‘۔۹
ترقی کے فعلی محرکات اور دین کا اقداری نظام:
اسلامی مابعد الطبیعیات کے زیر اثر پروان چڑھنے والی مادی ترقی مغرب کے لیے کوئی خطرہ[threat]بن سکے گی یانہیں۔ یہ سوال تو رہا ایک طرف لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ یہ ترقی مسلمانوں کی اسلام کے ساتھ وابستگی میں ایک بڑا رخنہ ضرور ڈال دے گی۔
مادی ترقی[material progress] کے تمام تر فعلی محرکات ہوس[lust]، لالچ[greed] اور خود غرضی[self-interestedness] سے عبارت ہیں، جو مذاہب خصوصاً اسلام کی بنیادی تعلیمات صبر و شکر، فقر و توکل، غنا و عطا سے بہ راہ راست متصادم ہیں۔اس لیے ان میں جبرو مقابلہ ناگزیر ہے۔ ماریہ سبرٹ لکھتی ہیں:
Leniency bordering on approval towards such a sin, which is now perceived as the vertiable psychological engine of material progress.۱۰
مزید لکھتی ہیں:
Greed and arrogance in individual turn into prosperity and justice for nations and all mankind an invisible hand, a cunning reason that will do him humanity good even its members indulge in evil.۱۱
ان وجوہات کی بنا پر تیسرے طبقے کے مطابق مغربی ترقی کے حصول کی کوشش اور اسلام کے ساتھ وابستگی بہ یک وقت ممکن نہیں۔
اسلامی دنیا: مادّی ترقی کا حصول مغربی مفکرین کے بیانات کی روشنی میں:
یہ تو مادی ترقی کے حوالے سے اسلامی تہذیب کے علمی نمائندوں کے بیان فرمودہ خطوط اور مجوزہ احتیاطیں اور دوسرے طبقے کے خدشات، اعتراضات اور نتائج پر گفتگو تھی اس مبحث کو اگر ایک اور زاویہ نظر سے دیکھا جائے تو بات زیادہ واضح ہوسکے گی۔ اہل مغرب جن سے مادی ترقی کے حصول کے لیے استفادہ کیا جائے گا، خود وہ مسلمانوں کے اس طرز عمل کو کس نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ آیا وہ اس تعلیم و تحصیل کو بلا کسی شرط اور قید کے مسلمانوں تک منتقل کردینے پر تیار ہیں؟کیا یہ ممکن ہے کہ مسلمان مغرب سے علوم و فنون سیکھ کر الگ ہوجائیں اور مغرب کو اس کی خبر بھی نہ ہو؟ یا انھیں مسلمانوں کی تمام سرگرمیوں، عزائم، خواہشات، جذبات، احساسات کی پوری پوری خبر ہے اور وہ نہایت کڑی شرائط اور قیود کے ساتھ اہل اسلام کو مغربی علوم و فنون سے استفادے کی اجازت دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں چند شواہد او ر نظائر کا مطالعہ ضروری ہے۔
مغربی مفکرین کا متفقہ اعلان: مادی ترقی اور غرب زدگی لازم و ملزوم:
مرحوم ڈاکٹر محمود غازی [سابق صدر بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد] اپنی آپ بیتی بیان فرماتے ہیں کہ:
’’آج سے چند سال پہلے جرمنی میں ایک اجتماع میں جانے کا موقع ملا۔ میرے علاوہ باقی مفکرین یورپ سے بلائے گئے تھے۔ اس اجتماع کا عنوان تھا:’’کیا اسلام مغرب اور یورپ کے لیے خطرہ ہے؟‘‘ جس کے ایک سوال کے جواب میں میں نے اپنا تجزیہ پیش کیا کہ اب مسلمان مفکرین اور دانش وروں کی بڑی تعداد اس بات کی نمائندگی کرتی ہے کہ مغربی تہذیب کے مثبت پہلوؤں سے مسلمانوں کو استفادہ کرنا چاہیے۔ ان کی سائنس اور ٹیکنالوجی، ان کی سہولتیں یہ مسلمانوں کے لیے قابل قبول ہونی چاہییں اور ان کو اپنانا چاہیے۔ جب کہ ان کے جومنفی پہلو ہیں مثلاً اخلاقی اقدار کے متعلق ان کے خیالات و نظریات یا سیکولرازم اور لامذہبیت یا مردوزن کی آزادی جو ان کے یہاں ہے، یہ چیزیں دنیائے اسلام کو قبول نہیں کرنی چاہییں۔ تو اس کے جواب میں اجتماع کے شرکانے تقریباً بالاتفاق میر ی بات کو مسترد کردیا اور کہا کہ ٹھیک ہے، آپ اس رویّے کو درست سمجھتے ہوں، لیکن مغرب ان شرائط پر اپنی ٹیکنالوجی سے آپ کو استفادہ کرنے کی اجازت دینے کو تیار نہ ہوگا۔ انھوں نے کہا یہ ایک پورا پیکج ہے، جسے آپ کو جوں کا توں قبول کرنا پڑے گا۔ اس میںآپ کو اخذ و انتخاب[pick and choose]کی اجازت نہیں دیں گے‘‘۔۱۲
اگراس سلسلے میں مستند مغربی مفکرین کے چند ایک بیانات بہ راہ راست پڑھ لیے جائیں تو بات زیادہ واضح اور مؤکد ہوجائے گی۔
معروف مغربی ماہر معاشیات اور مؤرخ ٹائن بی لکھتا ہے:
Possibly experience has already shown that this attempt to pick and choose [aimed at receiving from the West the maximum amount of Western technology while taking the minimum amount of the rest of our civilization] may not be practicable in the long run. If you once commit your self to taking one element from some alien civilization you may find yourself led on, in unexpected ways, into being constrained also to receive other elements which, at first sight, might seem to have no connection with the element that you have originally taken intentionally and deliberately. In the long run, it may not be possible to take a part and leave the rest; What that is ۔۔۔ all non-western civilization have been trying to do during the last two hundered years. They have been trying to take as much possible of our technology and as little as possible of the rest of our civilization.۱۳
معروف امریکی تجزیہ نگار اور مسلمانوں کے خلاف امریکی عسکری یلغار اور تہذیبی حملے کو جواز فراہم کرنے والا مفکر سیمویل ہن ٹنگٹن صاف لفظوں میں لکھتا ہے:
Only when Muslims explicitly accept the Western model will they be in a position to technicalize and then to develop.۱۴
ایک اور مغربی مفکر ہملٹن گب کی یہ حتمی رائے ہے کہ جدید کاری[modernization]اور غرب زدگی[westernization]دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ عالم اسلام کے در پیش مسائل کا واحد حل مغربی اقدار و تہذیب کو ترقی اور ٹیکنالوجی کے ساتھ جوں کا توں اختیار کرلینے میں ہے۔ ۱۵
گب تصریح کرتا ہے کہ جن ممالک میں مغرب سے مستعار اور ماخوذ مادی ترقی اور صنعتی ترقی رواج پکڑ رہی ہے ان ملکوں کا بہ یک وقت مغربی تہذیب و اقدار سے محفوظ رہنا اور اس کے بالمقابل اسلامی تہذیب، اقدار اور روایات سے اپنا تعلق استوار رکھنا امر محال ہے:
A wave of antipathy, if not contempt, for everything to do with Western civilization has to late become manifest in the Arab World ۔۔۔ The plain truth of the matter that "modernization" means "westernization". But on the other hand, it would be impossible for the Arabs [Muslims] to follow the path taken by the Turkish Republic without losing their identity completely. This, then, is the question: how in a world in which technology is making progress at a ever vaster scale, can the social values and cultural ideals of Islam be reaffirmed in such a way as to rebuild a stable society endowed with vigorous and homogeneous social order capable of playing an active and constructive role.۱۶
مغرب: مادی ترقی کے نتیجے میں درپیش مسائل:
متذکرہ بیانات اور شواہد کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ترقی کا حصول ترک واخذ کے اصول پر تو ممکن نہیں۔ کیا اب اس کی واحد متبادل صورت وہی رہ جاتی ہے جس کا مشورہ زوال کے تجزیے کے ضمن میں مسلم مفکرین کے پہلے طبقے نے دیا تھا؟ کیا اس بات کو نظر انداز کردینا آسان ہے کہ مغرب نے اس ترقی کے حصول کی خاطرغیر شعوری طور پر ہی سہی اپنی تمام مذہبی[religious]، معاشرتی[social]، اخلاقی[moral] اورخاندانی[family]اقدار کو قربان کردیا۔زندگی اور معاشرے سے متذکرہ اوصاف کے انخلانے مغرب کو مختلف النوع مسائل اور مشکلات سے دو چار کردیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مغربی معاشرے کو خود غرضی[self -interestedness]، تشویش[anxiety]، دل شکستگی[despair] اور individuality جیسے اوصاف رذیلہ مادی ترقی کے ’’تحفے‘‘کے طور پر عطا ہوئے ہیں۔ مغربی معاشرے کا انسان، انسانی تعلقات کی سلک میں منسلک نہیں بلکہ قانونی تعلقات کا اسیر بن کر رہ گیا ہے۔ دو سو سال تک مادیت اور ترقی کے دفاع کے باوجود اب مغرب میں خاندان اور مذہبی اخلاقیات کے احیا کی کوششیں شروع ہورہی ہیں۔ ہائیڈگر جیسا فلسفی کہہ رہا ہے کہ مغربی تہذیب اخلاقی طور پر دیوالیہ ہوچکی ہے۔ وہ جدید دنیا کے مسائل کے حل کے لیے the other thinkingکا قائل ہوگیا تھا۔ Der spiegel نے جب ہائیڈگر سے سوال کیا کہ دنیا کیسے بدلی جاسکتی ہے تو اس نے کہا:
No! I know of no path toward a direct change of the present state of the world, assuming that such a change is at all humanly possible.۱۷
اسلامی دنیا: مادی ترقی کا حصول: چند سوالات اور حقائق:
مسلم مفکرین کے مختلف نقطہ ہائے نظر اور مغربی مفکرین کے بیانات کے مطالعے سے جو صورت حال سامنے آتی ہے اس کو سامنے رکھ کر چند نتائج اور چند سوالات کا پیدا ہونا ناگزیر ہے۔ یہ بات ہر شبہے سے بالا ہے کہ امت مسلمہ کا مجموعی مزاج، چند مستثنیات کے ساتھ، یہی ہے کہ وہ اگرچہ مغرب جیسی مادی ترقی کے خواہاں ہیں، لیکن دوسرے طرف من حیث الکل اب تک اپنے مذہبی، اخلاقی، تہذیبی اور روایتی اقدار سے بھی دست بردار ہونے کو تیار نہیں، ملٹن ویورسٹ [Milton Viorst] جیسے مغربی مفکرین جس بات کو ’’عربوں کی مقفل سوچ‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں وہ یہی ہے کہ مسلمان اس دور میں بھی مذہب کو قابل عمل سمجھ رہے ہیں۔۱۸ خواہشات اور جذبات کی حد تک یہ رویہ بہت خوش نما معلوم ہوتا ہے۔ اگرچہ اسلام سے غیر مشروط وابستگی میں اب بہت حد تک تبدیلی آگئی ہے، مذہب کی گرفت مسلم معاشرے سے بہ تدریج ڈھیلی ہوتی جارہی ہے۔ جنوبی ایشیاکی تاریخ کا ماہر محقق فرانسس رابنسن [Francis Robinson] ، گزشتہ سو سالوں میں مسلمان معاشروں میں پیدا ہونے والی اس تبدیلی کا تجزیہ کرتے ہوئے، اسے ٹھیک وہی راستہ قرار دیتا ہے جس پر چل کر عیسائیت نے سیکولرازم کی راہ اپنائی تھی۔ وہ بتاتا ہے کہ اب مسلم معاشروں میں بھی سماجی و معاشرتی قوانین کے لیے وحی کی رہ نمائی کو بالعموم عوامی زندگی میں لائق اعتنا نہیں سمجھا جاتا، مذہبی علم کو ارزاں باور کیا جاتا ہے، وہ لوگ جو تہذیبی سطح پر مسلمان تھے، عملی طور پر مکمل ’’عقلی‘‘ ہوگئے ہیں۔ سیکولرازم تک لے جانے والا یہی وہ راستہ ہے جو مسلمانوں سے قبل عیسائیت اختیار کرچکی تھی۔رابنسن لکھتا ہے:
For the hundered years preceding the Muslim revival of the late twentieth century, the Islamic World seemed to be following a path of secularization similar to that on which the Western Christian world embarked some centuries before. Law derived from revelation had been increasingly removed from public life; religious knowledge had steadily lost ground in education; more and more Muslims who were Islamic by Culture but made 'rational' calculations about their lives -- in much the same way as Christians formed in the secular West might to do -- had come forward.۱۹
کیا کوئی قوم آزادی[freedom] اور ترقی[progress]کو بہ طور قدر[value] اختیار کرلینے کے بعد مذہب[خصوصاً اسلام]سے اپنا رشتہ برقراررکھ سکتی ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اسلام کا تصور بندگی آزادی کو سلب کرلیتا ہے اور ترقی کا مغربی ماڈل دنیا کو دار الامتحان ماننے کے انکار اور Kingdom of Heavenکے اصرار پر قائم ہے؟ یہ مبحث انتہائی غور و تدبر کا متقاضی ہے ۔ کیا اس کے جواب میں، تمام خطرات و مسائل سے صرف نظر کرتے ہوئے،جذبات میں آکر فقط اتنا کہہ دینا کافی ہوجائے گا کہ ’’مضمون نگار مسلمانوں کو فقرو افلاس میں دھکیلنے کے متمنی اور پتھر کے زمانے میں بھیج دینے کے خواہاں ہیں‘‘؟ اس وقت مسلم امّہ کا اپنی مجموعی دانش سے یہ سوال ہے کہ کیا مسلم تہذیب اس بات کی متحمل ہوسکتی ہے کہ وہ ترقی کی خاطر اپنی اخلاقی، تہذیبی، معاشرتی اور مذہبی اقدار کو قربان کردے؟ کیا مغرب کے لیے اصل خطرہ[threat] مذہب سے غیر مشروط وابستگی میں پنہاں نہیں ہے؟ یہ بات قابل غور ہے کہ مسلمان مغرب سے ترقی کی تحصیل کے بعد مغرب ہی کے لیے ترقی کے میدان میں خطرہ بن جائیں، کیا یہ بات فی الواقع اتنی ہی سادہ ہے؟ جب مسلمان ، اپنے زعم میں، ترقی کی دوڑ میں مغرب سے آگے بڑھ رہے ہوں گے تو مغرب سو رہا ہوگا؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ خطرہ تو اس وقت ہوگا جب دو بنیادی مابعد الطبیعی تصورات [’’خدا مرکزی‘‘ اور ’’انسان مرکزی‘‘] کے مابین معرکہ آرائی الحق اور الخیر کی سطح پر ہو؟کیا ترقی کے مغربی ماڈل کو اختیار کرلینے کے بعد مسلمانوں کے لیے بدیہی طور پر وہی طرز زندگی پر کشش اور بامعنی نہیں ہوگا جو ترقی کا لازمہ ہے اور جس کا عملی اظہار مغرب میں ہورہا ہے؟ اس صورت حال میں تصادم یا ٹکراؤ کا کیا سوال؟ یہاں تو اصل جنگ مادی میدان میں مسابقت[competition] سے عبارت ہے۔ جو جتنا اچھا صارف[consumer] اور آزاد مارکیٹ کی معیشت[free market economy] کو فروغ دینے والا ہوگا وہ زیادہ طاقت ور کہلائے گا۔ کیا یہاں خدا سپردگی، خود فراموشی، توکل، غیبی مددوغیرہ مضحکہ خیز تصورات معلوم نہیں ہوں گے؟کیا یہاں اصل پیمانہ، قدر، فرقان ، برہان، حق، خیر اور سچ صرف اور صرف سرمایہ[capital] نہیں ہوگا؟ کیا فکری اور نظریاتی سطح کی یہ تبدیلی مسلمانوں کو اس قابل چھوڑے گی کہ وہ اسلام کو اس کی اصل صورت اور تعبیر کے ساتھ دنیا میں پورے تحکم اور قوت کے ساتھ غالب اور نافذ کرنے کی کوشش کرسکیں؟ کیا ترقی کا یہ ماڈل غیر اقداری[value neutral]ہے؟ کیا یہ اقدار ایک علیحدہ تہذیب اور اسلوب حیات کی داعی نہیں ہیں؟ کیا ہمارا مضبوط اسلامی اقداری اور خاندانی نظام اس مزعومہ ترقی کے بعد قائم رہ سکے گا؟کیا ہمارے پاس مغرب کی طرح ایسے ادارے [institutions] موجود ہیں جو اخلاقی طور پر بدعنوان اور بگڑے ہوئے معاشرے کو سہارا دے سکیں؟ ہمارا آخری فعال ادارہ جواب تک بہت مضبوط ہے: خاندانی نظام کیا وہ اسprogress اور developmentکی خاطر پاش پاش نہیں ہوجائے گا؟
ترقی اور اسلام: مجموعی مسلم دانش کا ذہنی خلجان:
یہ چند اہم اور قابل غور سوالات ہیں۔ ان سوالات کو جذبات کی سطح پر نہیں مسائل اور درپیش صورت حال کی تفہیم کی غرض سے واقعیت کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ امت مسلمہ کی یہ خوش قسمتی ہے کہ وہ pre-industrialعہد میں جیتے ہوئے post-industrialمعاشرے کے مسائل اور مصائب سے آگہی اور واقفیت رکھتی ہے۔ ان سوالات و اشکالات سے قطع نظر یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ صنعتی انقلاب نے مسلم دانش ورانہ ذہن کو مجموعی طور پر تشکیک کا خوگر بنادیا ہے۔ آج کا دانش ور ذہناً مفلوج معلوم ہوتا ہے۔ اسے اسلام اور ترقی کے مابین تطبیق و تلفیق کی کوئی تسلی بخش راہ نہیں مل رہی۔ یا غالباً ان میں تطبیق کے عدم امکان نے مسلمانوں کو دانش ورانہ سطح پر’’ کیا ہورہاہے‘‘ اور ’’کیا ہونا چاہیے ‘‘کے درمیان stuck کردیا ہے۔ ماریہ سبرٹ کا ترقی کے خواہاں تیسری دنیاکے لوگوں کو دیا گیا مشورہ بہت اہم اور قابل توجہ ہے کہ :
The third world had to develop first before even think about REAL PROGRESS.۲۰
اس سلسلے میں مغربی مابعد الطبیعیات و علمیات اور بلا تاویل اسلامی حقائق و نکات پر مسلسل اور سنجیدہ غور و فکر کے بعد امید ہے کسی ایسے نتیجے تک پہنچا جاسکے جو رومانویت اور جذباتیت سے زیادہ حقیقت اور واقعیت پر مبنی ہو۔
حواشی
1- Jos233 Maria Sbert, "Progress" in The Development Dictionary: A Guide to Knowledge as Power, [ed., Wolfgang Sachs], London & New Jersey: Zed Book Ltd., 1993, p. 197.
2- Charles Singer, A Short History of Science: to the Nineteenth Century, Oxford: Clarendon Press, 1941, p. 167.
3- Jos233 Maria Sbert, op.cit., 195.
4- Ziauddin Sardar, Explorations in Islamic Science, London: Mansell Pub., 1989, p. 6.
5- Stanford Encyclopedia of Philosophy Online, s.v. "Postmodernism", accessed Feb, 4, 2014. http://plato.stanford.edu/entries/postmodernism/
6- Herbert Marcuse, One-Dimensional Man, London & New York: Routledge, 1964, p. xxxix.
7- Ziauddin Sardar, Science, Technology and the Development in the Muslim World, London: Croom Helm, 1977, p. 128.
۸- حسین نصر/ مظفر اقبال، ’’اسلام، سائنس اور مسلمان‘‘، مشمولہ اقبالیات، جنوری-مارچ، ۲۰۰۷ء، صفحہ۱۰۔
۹- ایضاً،صفحہ۱۲۔
10-Jos233 Maria Sbert, op.cit., p. 196.
11-Ibid.
۱۲- محمود احمد غازی، ’’مغرب کا فکری و تہذیبی چیلنج اور علما کی ذمے داریاں‘‘ مشمولہ ماہنامہ الشریعہ، مارچ ۲۰۰۵ء، صفحہ۱۲۔
13-Arnold J. Toynbee, Christianity Among the Religions of the World, New York: Charles Scribner's Sons., 1957, p. 51.
ٹائن بی نے اپنی بعض دیگر تصانیف میں بھی اسی نقطہ نظر کا اظہار کیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے:
Arnold J. Toynbee, The World and the West, New York: Oxford University Press, 1954, pp. 66-84, pp. 99-100.
Arnold J. Toynbee, Idem, Civilization on Trial, New York: Oxford University Press, 1949, pp. 184-212.
14-Samuel P. Huntington, The Clash of Civilization and the Remarking of World Order, Penguine Books, 1997, p. 74.
۱۵- ملاحظہ کیجیے:
Hamilton Gibb, Modern Trends in Islam, Chicago: Chicago University Press, 1972.
16-Hamilton A.R. Gibb, Studies on The Civilization of Islam, Lahore: Islamic Book Services, 1987, p. 331.
17-"Spiegel Interview with Martin Heidegger," in Martin Heidegger and National Socialism: Questions and Answers, eds. G252nther Neske and Emil Kettering, trans. Harries Lisa, New York: Paragon House, 1990, p. 60.
۱۸- تفصیل کے لیے دیکھیے:
Milton Viorst, "The Shackles on the Arab Mind", The Washington Quarterly, Spring 1998, Vol. 2, pp. 168-175.
19-Francis Robinson, "Secularization, Weber and Islam", in Islam and Muslim History in South Asia, Delhi: Oxford University Press, 2010, p. 122.
20-Jos233 Maria Sbert, op.cit., p. 195.
’’سنٹر فار پالیسی ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ‘‘ کا قیام
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
جامعۃ الرشید ایک بار پھر سبقت لے گیا ہے کہ اس نے وقت کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے تحقیق اور مکالمہ کی اہم ملی و قومی ضرورت کے لیے قومی سطح پر ایک نیا فورم تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے اور ’’نیشنل سنٹر فار اسٹڈی اینڈ ڈائیلاگ‘‘ کے عنوان سے ’’تھنک ٹینک‘‘ کی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے۔ ۳؍ اپریل کو اسلام آباد کے ایک معروف ہوٹل میں اس فکری و علمی فورم کا افتتاحی پروگرام علمی و فکری دنیا میں تازہ ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا تھا جس نے مستقبل کے لیے امید کی نئی کرن روشن کی ہے اور تحقیق و جستجو کے متلاشی ارباب علم و فکر کے لیے مطالعہ و تحقیق اور اظہار و مکالمہ کا ایک نیا دَر وا کر دیا ہے۔
مکالمہ و تحقیق ہماری قدیم علمی روایت ہے جس کی جھلکیاں تاریخ میں جا بجا بکھری پڑی ہیں اور جس کے آثار قیامت تک ارباب فکر و نظر کی راہ نمائی کا سامان رہیں گے۔ امام اعظم حضرت امام ابوحنیفہؒ کی وہ تاریخی علمی و فقہی مجلس اسی تحقیق و مکالمہ کی اساس تھی جس میں بیسیوں فقہاء کرام اور مختلف شعبوں کے ماہرین مل بیٹھ کر مسائل کی نشاندہی کرتے تھے، ان کی تحقیق و تجزیہ کے مراحل سے گزرتے تھے، بحث و مکالمہ کا سلسلہ ہوتا تھا اور اجتماعی مشاورت کے ساتھ مسئلہ کا حل تجویز کرتے تھے۔ اختلاف ہوتا تھا، مختلف نقطہ ہائے نظر کا اظہار ہوتا تھا، نقد و تبصرہ ہوتا تھا اور ان مسائل کا بھی انفرادی آراء کے طور پر فقہی ریکارڈ میں اندراج کیا جاتا تھا جن پر اتفاق رائے نہیں ہو پاتا تھا۔
عقائد و مذہب کی دنیا میں ہم نے اس تحقیق و مکالمہ کا ایک منظر متحدہ ہندوستان میں ’’میلہ خدا شناسی‘‘ کی صورت میں دیکھا جو ہر سال پبلک اجتماع کے طور پر کئی روز جاری رہتا تھا اور مختلف مذاہب کے راہ نما وہاں اپنے عقائد اور مذہب کی ترجمانی کرتے تھے۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کا اسی میلہ خدا شناسی میں اسلام کی حقانیت پر بیان کئی بار شائع ہو چکا ہے۔
پاکستان کے قیام کے بعد ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کا اجتماع اور قادیانیوں کے بارے میں اجتماعی موقف کا باہمی مشاورت سے تعین اسی مکالمہ کا تسلسل تھا۔ اور پاکستان کے دستوری ڈھانچے کی تشکیل کے لیے مختلف مکاتب فکر کے ۳۱ علماء کرام کی طرف سے ۲۲ متفقہ دستوری نکات کی تدوین بھی اسی تحقیق و مکالمہ کی ایک جامع صورت تھی، جبکہ سرکاری سطح پر تعلیمات اسلامیہ بورڈ، اسلامی مشاورتی کونسل اور پھر اسلامی نظریاتی کونسل میں مختلف مکاتب فکر کے اکابر علماء کرام کے ساتھ ساتھ عصری قانون کے ماہرین اور مختلف شعبوں کے بارے میں تجربہ و مہارت رکھنے والے حضرات کا اجتماع اسی تسلسل کا حصہ ہے۔
ایک عرصہ سے اس کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ جس طرح پاکستان کے دستور کی نظریاتی بنیادیں طے کرنے کے لیے ۳۱علماء کرام کا باہمی مشاورت اور بحث و مکالمہ کا اہتمام کیا گیا تھا، اسی طرح ملک و قوم کو درپیش مسائل پر بحث و مباحثہ اور مشاورت کی کوئی صورت پرائیویٹ سطح پر ضرور ہونی چاہیے۔ حکومتی سطح پر وقتاً فوقتاً ایسی مجالس کا اہتمام کیا جاتا ہے جن کی افادیت اپنی جگہ مسلمہ ہے، لیکن حکومتی دائروں سے ہٹ کر پرائیویٹ طور پر ایسی علمی و تحقیقی مجالس کا اہتمام اور اس کے لیے کسی باقاعدہ نظم کا قیام بھی ایک اہم ملی و قومی ضرورت ہے۔ ہمارے خیال میں ’’نیشنل سنٹر فار اسٹڈی اینڈ ڈائیلاگ‘‘ کا قیام اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے عمل میں لایا گیا ہے۔
’’تھنک ٹینک‘‘ کے افتتاحی اجلاس میں راقم الحروف بھی حاضر تھا اور کچھ گزارشات پیش کرنے کی سعادت بھی حاصل کی مگر زیادہ وقت مختلف راہ نماؤں اور مفکرین کے خیالات سننے اور آرا و افکار کے تنوع سے لطف اندوز ہونے میں گزرا اور اس پر جو خوشی ہوئی، اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ جسٹس (ر) خلیل الرحمن خان اس فورم کے چیئرمین اور سید عدنان کاکاخیل سیکرٹری جنرل ہیں جو فورم تشکیل دینے والوں کی سنجیدگی اور عزم کی نشاندہی کرتے ہیں، جبکہ افتتاحی نشست کی صدارت کے لیے مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کا انتخاب اور ان کی تشریف آوری اس ’’تھنک ٹینک‘‘ کی علمی و فکری سطح اور ثقاہت کی علامت ہے۔ اسی طرح مولانا محمد خان شیرانی، مولانا مفتی منیب الرحمن، علامہ ابتسام الٰہی ظہیر اور دوسرے علماء کرام کی موجودگی و خطاب اس فورم کے دائرہ کار کی وسعت کا غماز ہے۔
اس نشست میں ’’نیشنل سنٹر‘‘ کے مقاصد و اہداف کا ذکر کیا گیا اور عزائم کا اظہار کیا گیا، مگر میرے لیے سب سے زیادہ دچسپ وہ مکالمہ تھا جو کسی ایجنڈے کے بغیر ہی میڈیا کے موضوع پر پہلی نشست میں ہوگیا۔ مولانا مفتی منیب الرحمن نے میڈیا سے دینی حلقوں کی شکایات کا ذکر کیا جس پر جناب حامد میر اور ڈاکٹر شاہد مسعود نے میڈیا کے دفاع کی پوزیشن اختیار کی، مگر ضیاء شاہد صاحب نے اپنی گرما گرم گفتگو سے اس کو ایک نیا رخ دے دیا۔ یہ نشست مکالمہ کے لیے نہیں تھی مگر مکالمہ ہوگیا اور بہت دلچسپ اور خوب ہوا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس طرح کے آزادانہ بحث و مکالمہ کی ضرورت کی سطح کیا ہے اور اربابِ فکر و دانش اس کے لیے کس قدر بے تاب ہیں؟
اگر اس افتتاحی نشست میں شریک کوئی دوست میڈیا کے کردار، اس سے عوامی حلقوں کی شکایات، میڈیا کی مجبوریوں، عوامی نفسیات، میڈیا کی پشت پر کام کرنے والے عوامل و محرکاتاور میڈیا کے کردار میں اصلاح کے لیے تجاویز پر مشتمل اس گفتگو کو مرتب صورت دے سکیں تو یہ ہمارے قارئین کے لیے ایک بڑا فکری تحفہ ہوگا اور مفتی منیب الرحمن، حامد میر، ڈاکٹر شاہد مسعود، اور ضیاء شاہد کی گفتگو عوامی حلقوں کے لیے بہت چشم کشا ہوگی۔
بہرحال اس کامیاب پیش رفت پر جامعۃ الرشید اور تمام متعلقہ بزرگوں اور دوستوں کو مبارک باد دیتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک عزائم میں اس فورم کو کامیابی سے ہمکنار کریں، آمین یا رب العالمین۔
مکاتیب
ادارہ
(۱)
جناب ایڈیٹر ماہنامہ الشریعہ
السلام علیکم
ماہنامہ ’الشریعہ‘ اس وقت الحمد للہ بہت سے فکری موضوعات کے لیے اہل علم وفکر کے درمیان علمی مباحثے کے لیے ایک انتہائی سنجیدہ فورم کا کردار ادا کر رہا ہے۔ چونکہ الشریعہ کے قارئین بھی تقریباً سبھی اہل علم احباب ہیں، اس لیے خیال ہوا کہ سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد کے حوالے سے معروف صحافی سلیم صافی کے کالم کا طالب علمانہ جواب آپ کے اور ’الشریعہ‘ کے تمام اہل نظر قارئین کی خدمت میں پیش کردوں۔ امید ہے مضمون آپ کے اور ’الشریعہ‘ کے قارئین کی نظر التفات کے قابل ہوگا۔
اکرم تاشفین
کالم نگار ماہنامہ ’شریعت‘
(ترجمان امارت اسلامیہ، افغانستان)
(۲)
This is in reference to the essay by Muhammad Abdullah Shariq titled "Ghazali aur Ibn Rushd ka Qaziyyah" in last two issues of Al-Shariah.
The premise of the essay is flimsy, since the author aims to defend Ghazali against a hypothetical attack without caring to cite even one source. In fact, there is more than one way in which criticisms have been extended on Ghazali from variety of perspectives such as scientific, philosophical or religious, some of which may are given as,
- Less informed and reductionist criticisms by the so-called Muslim rationalists or modernists.
- Minimalist critical attempts by Non-Muslims (including atheists) who kind of see Ghazali-Averroes tussle as a manifestation of struggle between dogma and rationalism.
- Nuanced criticisms waged from the point of view of extending critique on Asharite cosmology and the nature of its causal underpinnings.
- Formal all-encompassing criticisms from epistemological point of views where Ghazali and Averroes seem to be coming from different paradigms as far as theory of knowledge is concerned; of course, there are also far reaching sociological implications as different Weltanschauungs are seem to be purported.
In my humble view, the author is only defending Ghazali against the first kind of criticisms but that too remains elusive to a reader who is already aware about this classical historical debate. As far as the less informed lay-reader is concerned, the whole exposition besides being misleading, presents a simplistic and distorted picture of Muslim intellectual activity in medieval period, as well as history of philosophy and science as well.
Consequently, these Muslim intellectuals are shown by the author to belong to two distinct camps, that is, those who didn't involve themselves with ultimate metaphysical questions and those who did. Of course, this is certainly his authorial discretion; however the division presented by the author is generally superfluous. It is merely a matter of fact and interest that some of them cared to indulge in metaphysics and others restricted themselves to pure empirical disciplines. The author does not care to note the fact that it was primarily the Greek science that was passed to Arabs through the translation movement; and because the complete medieval scientific tradition was deeply rooted in Hellenistic philosophy, its metaphysical foundation could not be just overlooked. Moreover, if it is not entirely erroneous, it is at least remarkably arguable and simplistic to attribute an original compartmentalization of knowledge in physics and metaphysics within the Greek paradigm.
Therefore, when we analyze the whole intellectual tradition of medieval era, it is merely a matter of interest that Al-Farabi, Al-Jahiz, Al-Kindi, Ibn Tufail, Avicenna or Averroes indulged in humanistic disciplines and others (some of which the author mentioned) indulged in empirical disciplines. In fact, all of them were polymaths in varying degrees and were essentially multidisciplinary. Considering for instance the case of Muhammad Bin Zakariah Razi - whom the author chooses to introduce as an example of his contributions in Chemistry - which student of Muslim medieval philosophical tradition is not aware of the infamous Rhazes, the so-called free-thinker? Hasn't he written scores of works on metaphysical questions? Wasn't he declared a heretic and a free-thinker by the religious zealots of his time? Or if Abbas Ibn Farnas - whom the author erroneously mentions as Muslim Ibn Faras - is better known as the first aviator (arguably), he was also a physician and musician; and if author chooses to present Albeiruni as a representative indulgence in Geometry, he is far better known as an Indologist too.
A more realistic and plausible contention, therefore, is that all of these myriad intellectuals were multidisciplinary polymaths. As unbiased readers of Muslim tradition we must be able to rise above the medieval herseography, try to get into the shoes of Avicenna, Averroes or Ibn Tufail's, and empathetically view them struggling with the onslaught of the challenge of Hellenistic tradition.
Considering that the author himself acknowledges the historical convergence of science and philosophy as a single academic discipline, his subsequent insistence on division between utilitarian-empirical and metaphysical-philosophical seems superfluous. Of course, he is right in contending that Ghazali is targeting the arguments which affect the religious side of truth; however, he refuses to acknowledge that inquisitive human minds are seldom able to compartmentalize truth in this vulgar fashion to keep its higher dimensions and purely utilitarian sides separately. It is a feat only achieved by ordinary masses the or exceptionally extraordinary minds such as Ghazali himself. It is no wonder, then, that his immediate detractors, for instance Averroes, find it hard to interweave all threads of his thought into a common fabric. Hence, it is not merely an acerbic disparaging comment, when Averroes contended that,
"He was an Asharite with the Asharites, a sufi with the sufis, and a philosopher with the philosophers, so that he was like a man in the following verse:
One day you are a Yamanite, when you meet a man of Yaman
But when you meet a man of Ma'add, you assert you are from Adnan"
Moreover, if Muslim culture and civilization end up being compartmentalized and atomistic in terms of knowledge and thought, and being proud of it too, Ghazali deserves to take a large part of the blame. That however, is fortunately arguable and in recent few decades, it has been extensively shown that there is a lot more unification of thought in Ghazali then classically perceived.
More remarkably, when seen from a philosophical and scientific standpoint, the present review of Ghazali - Averroes dispute ends up making a case against any possibility of finding a holistic unified trend of Ghazalian scheme. Taking for instance the author's claim that Ghazali is not refuting 'science'. Can such a claim be warranted without any objective definition of science? Authors bent on classical discourse must realize that those who criticize Ghazali are basically coming with their own definitions of science and how it attempts to answer the questions related to higher reality and ultimate fabric of the universe, its origin as well as its destiny. Any reading of Ghazali-Averroes dispute disregarding these intricate issues, not attempting to disentangle them neatly and bordering on polemics through boisterous ridicule against supposed philosophers and scientists would prove to be simply reductionist, just like its counterparts in radical scientism and New Age militant atheism.
At the same time, it is pertinent to argue that among the two Ghazali is perhaps more novel even in his system of natural philosophy - whatever than can be deduced from his writings such as Tahafah or Iqtisad fi al-Aitiqaad - as compared to Averroes who is primarily an interpreter indulged in Aristotelian exegesis. The comparison, however, is incomplete and unfair to Averroes unless we try to see the so-called dispute from their respective standpoints.
If Ghazali, who is primarily speaking from the position of a theological defense, aims to safeguard religious belief from speculative contamination of philosophers - specifically targeting Al-Farabi and Avicenna -, Averroes takes it as an attack on the whole Peripatetic tradition and appropriately rises to its defense. While Ghazali is justified in his objection to the notion of eternality of world as it conflicts with the omnipotent agency of God, Averroes is not entirely wrong in his notion of differentiation between temporal and eternal agents. Can we speak of qualitative aspect of time, or for that matter time itself, when ascribing action to God? Is it temporally sensible at all to utter that God suddenly created the world? Does God differentiate between this hour and next hour in terms of quality, since he is beyond a notion of temporality at first place? When Ghazali extends the analogy of a hungry man, sitting ambivalent in front of two similar dates, confronted with the choice, Averroes questions whether it's truly a choice between dates or between eating and not eating since there is nothing in the qualitative domain that differentiates one date from the other; as soon as we are forced to make a qualitative difference, it would not remain a choice between two similar options. While Ghazali is creating a space in natural philosophy for God as an active agent, Averroes keeps falling back to the problem of differentiating between God's will and His knowledge.
In the same manner, through juxtaposing their texts, we can visualize them debating complex issues related to agency, nominalism, contingency, causation, the nature of soul and cosmology. It is also important to note for the sake of completion that their exchange is not restricted to these two books but Averroes extensively quotes Al-Ghazali in his other works as well, sometimes questioning his theories and at other times presenting them in support of some contention. As a recent commentator on their interaction aptly notes, Ghazali gave birth to a new philosophy while criticizing philosophies of his predecessors. Averroes, on the other hand, never projects himself as someone too sure on his convictions. If all his literature is reduced to a singular contention, it would be an unassailable belief that divinely revealed knowledge cannot be in contradiction with acquired knowledge through reflection and reason.
Lastly, in my humble opinion, if the underlying contention by religious intelligentsia is to call for submission of scientific discourse to a so-called Shar'i limits, it is not warranted, may it be through rational or theological justifications. One both these grounds, such a demand would remain questionable unless a curious soul is forced to submit in front of an ecclesiastical order, as in medieval Christianity. Quran incessantly calls man to search for truth within himself and outside in the universe. As Iqbal notes in the start of his celebrated lectures, the ultimate nature of this world, its permanence or extinction, our relationship to it and our conduct are important questions equally belonging to the domains of religion, philosophy and higher-poetry. And even though science can afford to ignore or forget the underlying metaphysics, religion can hardly function without an ultimate reconciliation of human experience with his environment.
Since the advent of modernity, most of these questions are now being increasingly thrown into the domain of science, or at least being equally commented upon from a scientific standpoint. In this respect, while a post-modern inclination towards scientism and the so-called new-age Atheism is unwarranted on purely intellectual grounds, arguing for a regulated or coerced compartmentalization of knowledge for theological considerations is equally unjustifiable. Science does have its metaphysical foundations and inherent in its spirit of enquiry is the resolve that it cannot simply remain indifferent to higher aspects of reality, restricting strictly to the questions of utilitarian domains. One thing we learn from Averroes, Ghazali and other Muslim philosophers is the spirit of enquiry and the resolve to defend their faith in an unseen higher reality when challenged by science or philosophy. Liberals as well as conservatives in Muslim societies must learn to look beyond the heresiographic aspects of medieval disputes and instead reflect upon the right questions of contemporary relevance.
Asim Bakhshi
asembuxi@gmail.com
مولانا حکیم محمد یاسین کا انتقال
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حکیم محمد یاسین صاحبؒ ہمارے پرانے اور بزرگ ساتھی تھے، طویل عرصہ سے جماعتی رفاقت چلی آرہی تھی اور مختلف دینی تحریکات میں ساتھ رہا، ان کا انتقال ہوگیا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔جھنگ صدر کے محلہ مومن پورہ کی مسجد اشرفیہ نہ صرف ان کی مسلکی، دینی اور تحریکی سرگرمیوں کا مرکز تھی بلکہ اسے جھنگ کے اہم تحریکی اور جماعتی مرکز کا مقام حاصل تھا۔ جامعہ قاسم العلوم ملتان کے فاضل اور حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے معتمد شاگرد تھے۔ جمعیۃ علماء اسلام کی مرکزی مجلس شوریٰ کے حضرت مفتی صاحبؒ کے دور سے ہی ممبر تھے۔ مجھے طالب علمی کے زمانے میں ان کے مرکز میں حاضری کا شرف حاصل ہوا۔ حضرت والد مکرم رحمہ اللہ تعالیٰ نے وہاں جلسہ میں تقریر کا وعدہ کر رکھا تھا لیکن علالت کی وجہ سے سفر کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ مدرسہ نصرۃ العلوم میں ان دنوں چھچھ کے مولانا حافظ محمد دلبر صاحب زیر تعلیم تھے۔ اچھے مقرر تھے، تلاوت بھی خوب کرتے تھے اور نعت و نظم کا بھی بھرپور ذوق رکھتے تھے۔ وہ اور میں دونوں مختلف دیہات میں جایا کرتے تھے اور دینی مجالس کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ ہماری دونوں کی ٹولی اس دور میں بہت مشہور تھی۔ حضرت والد محترمؒ نے جھنگ کے اس جلسہ کے لیے اپنی جگہ ہم دونوں کو بھجوایا اور ہم نے اس جلسہ میں جا کر خطاب کیا۔ حضرت مولانا حکیم محمد یاسینؒ کے ساتھ میری وہ پہلی ملاقات تھی اور اس کے بعد ملاقاتوں کا وہ سلسلہ چلا کہ میں ان کی تعداد اندازے سے بھی نہیں بتا سکتا۔ اپنے اسفار کے دوران موقع ملنے پر میں جھنگ میں ضرور رکا کرتا تھا اور حضرت مولانا مفتی عبد الحلیم پانی پتیؒ کی بزرگانہ شفقتوں کے ساتھ ساتھ مولانا حکیم محمد یاسینؒ کی میزبانی سے مستفید ہوتا۔ وہ اکثر میری حاضری پر علماء کرام اور کارکنوں کی کوئی نہ کوئی نشست رکھ لیتے تھے اور کسی تازہ مسئلہ پر اظہار خیال کا موقع مل جاتا تھا۔
وہ اچھے طبیب تھے اور مسجد کے ساتھ ان کی حکمت کی دوکان تھی جو اب ان کے بیٹے چلا رہے ہیں۔ جمعیۃ علماء اسلام کے اجلاسوں، کانفرنسوں اور دیگر پروگراموں میں مختلف مقامات پر ان سے ملاقات ہوتی تھی اور اکثر مسائل پر ہمارے درمیان ذہنی ہم آہنگی رہتی تھی۔ اصابت رائے اورا پنے موقف پر استقامت کی صفات سے بہرہ ور تھے اور جمعیۃ علماء اسلام (س) کے اہم راہ نماؤں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ زندگی کا اکثر حصہ انہوں نے دینی جدوجہد اور مسلکی تگ و تاز میں بسر کیا اور جھنگ کے علاقہ میں جمعیۃ علماء اسلام کو منظم کرنے اور ساتھیوں کو بیدار رکھنے کے لیے ہر وقت متحرک رہتے تھے۔ حتیٰ کہ علالت کے دور میں بھی ان کی ہر ممکن کوشش ہوتی تھی کہ جماعتی سرگرمیوں کا تسلسل قائم رہے۔
ان کی وفات سے ہم ایک مخلص دوست، متحرک جماعتی راہ نما اور مسلکی حمیت سے متصف بزرگ ساتھی سے محروم ہوگئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی حسنات کو قبول فرمائیں اور سیئات سے درگزر کرتے ہوئے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔
مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی کے گھر پر چھاپہ
گزشتہ دنوں خفیہ اداروں کے اہل کاروں نے گوجرانوالہ کے بزرگ عالم دین حضرت مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی کے فرزند مولانا حافظ احمد اللہ گورمانی کے گھر میں دروازے توڑ کر گھس جانے کے بعد خوف و ہراس کی فضا قائم کی اور مفتی صاحب محترم کے داماد مولانا حافظ محمد آصف کو اٹھا کر لے گئے۔ ان سطور کے تحریر کیے جانے تک مسلسل رابطوں کے باوجود ابھی تک کچھ معلوم نہیں ہو رہا کہ انہیں کس ادارے نے اٹھایا ہے، وہ کہاں ہیں اور کس حالت میں ہیں؟ حافظ محمد آصف مفتی محمد عیسیٰ خان صاحب کے داماد ہیں اور لاہور کے ایک دینی مدرسہ میں خدمات سر انجام دیتے ہیں۔وہ اکابر اور اسلاف کی یادگاریں اور نوادرات جمع کرنے کا ذوق رکھتے ہیں جس کے لیے انہوں نے اپنے گھر میں چھوٹی سی گیلری بنا رکھی ہے۔ بڑے بڑے بزرگوں کی یادگاریں مختلف شکلوں میں سنبھالی ہوئی ہیں، کسی کی کوئی تحریر، کسی کی دستار کا ٹکڑا، کسی بزرگ کی قمیص، کسی کی لاٹھی اور کسی کی کوئی اور استعمال شدہ چیز بڑے سلیقے سے رکھی ہوئی ہے۔
مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی کے گھر میں خفیہ اداروں کی اس کارروائی نے شہر کے دینی حلقوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑا دی ہے اور ہر شخص پریشانی اور اضطراب کا شکار ہے۔ اس سے قبل شہر میں دارالعلوم جلیل ٹاؤن، مدرسہ انوار العلوم مرکزی جامع مسجد اور مدرسہ مظاہر العلوم چمڑا منڈی میں اسی قسم کی کاروائیاں ہو چکی ہیں اور سب لوگ حیرت میں ہیں کہ اگر پولیس یا کسی ادارے کو حافظ محمد آصف کی کسی معاملہ میں ضرورت تھی تو اس کے لیے نارمل ذرائع اختیار کیے جا سکتے تھے اور گوجرانوالہ کے اداروں اور علماء کرام نے ایسے معاملات میں ہمیشہ سرکاری اداروں سے تعاون کیا ہے۔ لیکن اب یہ خیال عام ہو رہا ہے کہ شاید اسی تعاون کی یہ سزا دی جا رہی ہے کہ گوجرانوالہ کے بڑے دینی مدارس اور شخصیات کو نشانے پر رکھ لیا گیا ہے اور وقفے وقفے کے بعد انہیں اس قسم کی کارروائیوں کا ہدف بنایا جا رہا ہے۔
ملک بھر کے احباب اور دینی راہ نماؤں سے بھی گزارش ہے کہ وہ اس سلسلہ میں آواز اٹھائیں اور اپنے اپنے ذرائع سے حکومت پر زور دیں کہ وہ اس قسم کی کاروائیوں کی روک تھام کے لیے ٹھوس حکمت عملی اختیار کرے اور حافظ محمد آصف سمیت ان تمام افراد کو بازیاب کرایا جائے جنہیں ایسی کاروائیوں کے ذریعے غائب کر دیا گیا ہے۔
مولانا زاہد الراشدی کے اسفار اور خطابات
ادارہ
- ۲۵ مارچ کو بعد نماز عشاء مولانا قاری سعید احمد کے ہمراہ حافظ آباد میں محفل قرأت میں شرکت اور خطاب۔
- ۲۶ مارچ کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں جمعیۃ شبان اہل سنت کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی محفل قرأت میں شرکت۔
- ۲۷ مارچ کو گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ میں ’’عالمی رابطہ ادب اسلامی‘‘ کے زیر اہتمام برصغیر کی نعتیہ شاعری کے حوالہ سے ایک سیمینار کی پہلی نشست کی صدارت۔ سیمینار سے پروفیسر ڈاکٹر سعد صدیقی، پروفیسر ڈاکٹر محمود الحسن عارف، پروفیسر حافظ سمیع اللہ فراز، پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم ورک، مولانا محمد یوسف خان، حافظ محمد عمار خان ناصر اور دوسرے مقررین نے خطاب کیا۔
- ۲۷ مارچ کو عشاء کے بعد جامعہ امداد العلوم شاہ کوٹ کے سالانہ جلسہ سے خطاب۔
- ۳۱ مارچ کو گکھڑ میں ایک مدرسہ کے جلسۂ دستار بندی سے خطاب۔
- یکم اپریل کو بیدیاں ضلع قصور میں بنات کے ایک مدرسہ کے سالانہ جلسہ سے خطاب۔
- ۲ ؍اپریل کو ظہر کے بعد مدینہ مسجد، مسلم کالونی گوجرانوالہ میں حفظ قرآن کریم کی کلاس کے افتتاح کے موقع پر خطاب ۔
- ۲ ؍اپریل کو عشاء کے بعد نواب چوک میں مولانا عبد الواحد رسول نگری کے مدرسۃ البنات میں طالبات کو مشکوٰۃ شریف کے آخری سبق کی تدریس۔
- ۳؍ اپریل کو اسلام آباد میں ’’سنٹر فار پالیسی ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ فورم‘‘ کی افتتاحی تقریب میں شرکت۔ جسٹس (ر) خلیل الرحمن خان اس فورم کے چیئرمین اور سید عدنان کاکاخیل سیکرٹری جنرل ہیں۔ افتتاحی نشست کی صدارت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے کی، جبکہ مولانا محمد خان شیرانی، مولانا مفتی منیب الرحمن، علامہ ابتسام الٰہی ظہیر کے علاوہ جناب حامد میر، ڈاکٹر شاہد مسعود اور ضیاء شاہد صاحب نے بھی گفتگو کی۔
- ۴ ؍اپریل کو عشاء کے بعد الٰہ آباد، وزیر آباد میں مولانا محمد یونس کی مسجد میں حفاظ کرام کی دستار بندی کی تقریب میں شرکت اور خطاب۔
- ۵ ؍اپریل کو معہد الرشید الاسلامی، پسرور میں حفاظ کرام کی دستار بندی کی تقریب سے خطاب اور دارالعلوم رشیدیہ میں مسجد اقصیٰ کی تعمیر کا سنگ بنیاد۔
- ۷ ؍اپریل کو مغرب کے بعد سادھوکی میں درس قرآن کریم ۔
- ۷ ؍اپریل کو عشاء کے بعد مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں مجلس احرار اسلام کی سالانہ شہدائے ختم نبوت کانفرنس کی صدارت۔ کانفرنس سے مولانا سید کفیل شاہ بخاری اور حاجی عبد اللطیف چیمہ نے خطاب کیا۔
- ۸ ؍اپریل کو مدرسہ سراجیہ سرگودھا کی سالانہ تقریب میں شرکت۔ صدارت حضرت مولانا خواجہ خلیل احمد سجادہ نشین کندیاں شریف نے فرمائی اور مولانا راشدی نے تفصیلی خطاب کیا۔
- ۹ ؍اپریل کو عشاء کے بعد گوندلانوالہ کے ایک مدرسہ میں تقسیم انعامات کی تقریب سے خطاب۔
- ۱۰ ؍اپریل کو ظہر کے بعد جامعہ اشرفیہ لاہور میں اصول حدیث کی کلاس میں لیکچر۔
- ۱۰ ؍اپریل کو عشاء کے بعد منچن آباد ضلع بہاول نگر کی مسجد پراچہ میں سیدنا حضرت صدیق اکبرؓ کی یاد میں جلسہ سے خطاب۔ صدارت مولانا معین الدین وٹو نے کی۔
- ۱۱ ؍اپریل کو شہباز کالونی کنگنی والا گوجرانوالہ میں ایک دینی درسگاہ کا سنگ بنیاد اور خطاب۔
- ۱۲ ؍اپریل کو ظہر کے بعد مرکزی جامع مسجد واہنڈو میں ختم نبوت کانفرنس سے خطاب ۔
- ۱۳ ؍اپریل کو اعوان چوک گوجرانوالہ میں مدرسہ عثمانیہ کے سالانہ جلسہ دستار بندی سے خطاب ۔
- ۱۴ ؍اپریل کو مغرب کے بعد جامعہ عبد اللہ بن عمرؓ مدنی روڈ کھیالی میں درس ۔
- ۱۵ ؍اپریل کو ظہر کے بعد اقراء ، قائد آباد میں بنات کے ایک مدرسہ میں بخاری شریف کے آخری سبق کی تدریس۔
- ۱۶ ؍اپریل کو معہد الرشید الاسلامی، بن باجوہ، ضلع سیالکوٹ کی سالانہ تقریب سے خطاب۔
- ۱۷ ؍اپریل کو مدرسہ ام المومنین أم سلمہؓ کھیالی گوجرانوالہ میں طالبات کو بخاری شریف کے آخری سبق کی تدریس۔
- ۱۷ ؍اپریل کومغرب کے بعد جامعہ سعدیہ پیپلز کالونی فیصل آباد میں طالبات کو بخاری شریف کے آخری سبق کی تدریس۔
- ۱۸ ؍اپریل کو عشاء کے بعد پراگ پور سیالکوٹ کی جامع مسجد میں سیرت النبیؐ کانفرنس سے خطاب۔
- ۱۸؍ اپریل کو جمعۃ المبارک کے موقع پر مدرسہ انوار العلوم گوجرانوالہ میں ختم بخاری شریف کے پروگرام میں گفتگو اور شیخ الحدیث مولانا محمد داؤد کے ہمراہ طلبہ کی دستار بندی۔ مہمان خصوصی کے طورپر شیخ الحدیث حضرت مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ مدعو تھے، مگر عین وقت پر اچانک علالت میں اضافہ کی وجہ سے سفر نہ فرما سکے۔
- ۱۹ ؍اپریل کو مغرب کے بعد مسجد شیخاں لالہ موسیٰ میں ایک تقریب سے خطاب۔
- ۱۹ ؍اپریل کو عشاء کے بعد جہلم کے ایک پبلک پارک میں جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام کے زیر اہتمام منعقدہ جلسہ عام میں جامعہ کے دورۂ حدیث کے طلبہ کو بخاری شریف کے آخری سبق کی تدریس۔ جلسہ سے تحریک خدام اہل سنت کے امیر مولانا قاضی ظہور حسین اور وفاق المدارس کے راہ نماؤں مولانا قاری محمد حنیف جالندھری اور مولانا قاضی عبد الرشید نے بھی خطاب کیا۔
- ۲۰ ؍اپریل کو نوشہرہ سانسی گوجرانوالہ میں بنات کے ایک مدرسہ کی طالبات کو بخاری شریف کے آخری سبق کی تدریس۔
- ۲۰ ؍اپریل کو مغرب کے بعد جامعہ رشیدیہ ساہیوال کی سالانہ تقریب ختم بخاری شریف میں شرکت۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد المجید لدھیانوی نے بخاری شریف کا آخری سبق پڑھایا، جبکہ ان سے پہلے مولانا زاہد الراشدی نے خطاب کیا۔
- ۲۲ ؍اپریل کو گکھڑ کے قریب چوڑہ کے ایک مدرسہ کی تقریب سے خطاب۔
- ۲۳ ؍اپریل کو ایمن آباد شہر میں ایک دینی مدرسہ کی طالبات کو بخاری شریف کے آخری سبق کی تدریس۔
- ۲۳ ؍اپریل کو مغرب کے بعد مدرسہ اجمل المدارس فیروز وٹواں کی طالبات کو مشکوٰۃ شریف کے آخری سبق کی تدریس۔
الشریعہ اکادمی کی سرگرمیاں
- ۲۹ مارچ تا ۲؍اپریل الشریعہ اکادمی میں درس نظامی اور حفظ کے ششماہی امتحانات کا انعقاد ہوا۔
- ۱۴؍ اپریل کو برطانیہ سے میسج ٹی وی کے مینیجنگ ڈائیریکٹر جناب کامران ڈاراور ان کے بھائی محمد فاروق اکادمی میں تشریف لائے اورٹی وی چینل کے لیے مولانا زاہد الراشدی کے بیانات کی ریکارڈنگ کے سلسلے میں مشاورت کی گئی۔
- ۱۴؍ اپریل کو اکادمی کی پندرہ روزہ فکری نشست میں مولانا زاہدالراشدی صاحب نے’’تصوف اور شریعت کا تلازم‘‘ کے عنوان پرخصوصی لیکچر دیا۔
- ۱۹؍ اپریل کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں بادشاہی مسجد لاہور کے سابق خطیب مولانا عبد الرحمن جامی رحمہ اللہ تعالیٰ کی یاد میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں احباب کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی۔ محترم پروفیسر خالد ہمایوں اور مولانا زاہد الراشدی نے جامی صاحب مرحوم کے بارے میں اپنی یادداشتوں اور تأثرات پر گفتگو کی۔
- ۲۴؍ اپریل کو اکادمی کے اساتذہ وطلبہ تفریحی ومعلوماتی دورے پر قلعہ روہتاس(جہلم)اور منگلاڈیم(میر پور) گئے۔
شوگر کا بڑھتا ہوا مرض اور اس کے اسباب
حکیم محمد عمران مغل
تقریباً تمام انسانی امراض کا تعلق کام ودہن سے ہے، لیکن شوگر کے مرض کا تعلق خاص طور پر خور ونوش کی عادات اور معدہ سے ہے، اس کے علاوہ کسی جسمانی عضو سے نہیں۔ کوئی چیز معدہ میں پھنس گئی اور آپ نے ازالہ کے لیے پھکی، چورن یا ہاضمے کی گولی کھا لی۔ معدہ کی کیفیت کا ازالہ ہو گیا۔ پھر کبھی یہی تکلیف محسوس ہوئی تو آپ نے پھر یہی کام کیا۔ اسی طرح آپ کو ہاضمہ کی خرابی دور کرنے کے لیے بار بار کوئی چیز استعمال کرنا پڑی تو سمجھ لیں کہ رفتہ رفتہ شوگر کا مرض آپ کے جسم میں جگہ بنا رہا ہے، کیونکہ جو کچھ آپ نے کھایا پیا ہے، وہ انسانی صحت کے اصول کے مطابق ازخود ہضم ہونا چاہیے۔ اس ہاضمے کے لیے آپ بار بار متبادل ادویہ کھائیں گے تو معدہ اس کا عادی ہو کر اپنا اصل عمل چھوڑ دے گا۔ یاد رکھیں، یہی شوگر کے مرض کی ابتدا ہے۔ جو کام معدے کے ذمے تھا، وہ آپ نے ہاضمہ کی ادویہ سے لینا شروع کر دیا۔
ایک نکتہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انسانی گردہ ایک دن برف کی طرح ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ جس دن یہ ٹھنڈک آپ کے گردے میں برابر آ گئی تو اللہ کی ذات کے سوار کوئی طاقت آپ کو شوگر کے مرض سے نہیں بچا سکتی۔ کوکا کولا یا دیگر بند بوتلوں کا پانی بھی کچھ عرصے کے بعد آپ کو خون کے آنسو رلائے گا۔ ہم نے ایسے مریض بھی دیکھے ہیں جو کھانے کے ایک آدھ گھنٹے کے بعد پاخانہ کر دیا کرتے تھے۔ پوچھنے پر بتایا کہ یہ اس تیزابی پانی کا نتیجہ ہے جو ہم بوتلوں میں پیتے تھے۔
تمام مشروبات، میدہ کے بنی ہوئی مصنوعات، پکے پکائے کھانے، ہر قسم کے جام، اچار، مربے، چٹنیاں، ان میں ایسے کیمیکل ملائے جاتے ہیں جن سے انتڑیوں کا اَستر اتر جاتا ہے۔ پھر یہ کیفیت پیدا ہو جاتی ہے کہ کھانے کے بعد فوراً بیت الخلا جانا پڑتا ہے۔ اورنگ زیب عالمگیر اپنے مطبخ میں میدہ رکھنا گوارا نہ کرتے تھے۔
تانبہ کے برتن میں قلعی کروا کر استعمال کریں، یہ کئی ادویہ کا ملغوبہ ہے۔ مٹی کے برتنوں سے بھی شوگر کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔ کھانے کے بعد ایک چٹکی کالی زیری پانی کے ساتھ کھا لیں، معدہ واش ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ
جون ۲۰۱۴ء
مغربی معاشروں میں مذہب کی واپسی
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں 7 مئی کو شائع ہونے والی ایک دلچسپ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکی سپریم کورٹ نے اکثریتی فیصلے کے ذریعے سرکاری اجتماعات میں مذہبی دعا مانگنے کو درست تسلیم کیا ہے اور عیسائی طریقے پر دعا مانگنے کے خلاف ماتحت عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق نیویارک ریاست کے ٹاؤن ’’گویس‘‘ کی ٹاؤن کونسل کے اجلاسوں میں عیسائی طریقے کے مطابق دعا مانگے جانے کے خلاف دو خواتین نے عدالت میں دعویٰ دائر کیا تو وفاقی اپیل کورٹ نے ان کے حق میں یہ لکھ کر فیصلہ صادر کر دیا کہ ٹاؤن کونسل کے اجلاس میں عیسائی عقیدے کے مطابق دعا مانگنے کا طریقہ در اصل اس کے مذہبی نقطہ نظر کی توثیق کرتا ہے۔ جبکہ سپریم کورٹ کے 9 میں سے 5 ججوں نے اکثریتی فیصلہ صادر کر کے اس فیصلے کو رد کرتے ہوئے ٹاؤن کونسل کے اجلاسوں میں عیسائی طریقے کے مطابق دعا مانگنے کو درست عمل قرار دے دیا ہے۔ البتہ چار ججوں نے اس فیصلہ سے اختلاف کیا ہے۔ مزید دلچسپی کی بات یہ ہے کہ عیسائی طریقے پر دعا مانگنے کی اجازت دینے والے پانچوں جج عیسائی ہیں، جبکہ اختلاف کرنے والے چاروں جج یہودی ہیں۔ مگر اکثریتی فیصلہ ہونے کی وجہ سے یہ فیصلہ نافذ ہوگیا ہے جس سے ریاستی اسمبلیوں کی طرح ٹاؤن کونسلوں کو بھی یہ حق مل گیا ہے کہ وہ کسی ایک مذہب کے مطابق دعا کے ساتھ اپنے اجلاس کا آغاز کر سکتی ہیں۔ سپریم کورٹ کے 9 ججوں نے اس فیصلہ میں یہ بات متفقہ طور پر لکھی ہے کہ ’’سرکاری اداروں کو مذہب سے آزاد علاقے قرار نہیں دیا جا سکتا‘‘ مگر اکثریتی فیصلہ صادر کرنے والے ججوں کا اس کے ساتھ یہ بھی کہنا ہے کہ:
’’رسمی دعا مانگنے کی روایت امریکہ کے قیام کے وقت سے جاری ہے جو اس امر کا اعتراف ہے کہ امریکی اپنے وجود کو حکومت کی اتھارٹی سے کہیں زیادہ بلند اپنے نظریات کے تابع سمجھتے ہیں‘‘۔
یہ رپورٹ پڑھ کر مجھے چند سال قبل واشنگٹن ڈی سی کے نواح میں واقع ایک دینی مرکز ’’دارالہدیٰ‘‘ کی لائبریری میں ہونے والی ایک گفتگو یاد آگئی جس میں چند امریکی دوستوں نے مجھ سے سوال کیا تھا کہ امریکی معاشرہ میں مذہب کی طرف واپسی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے اور ہم اس کے بارے میں یہ سوچ رہے ہیں کہ مذہب معاشرے میں دوبارہ اثر و نفوذ کے بعد کہیں سوسائٹی کے اجتماعی معاملات میں دخل اندازی تو شروع نہیں کر دے گا؟ انہوں نے اس کے بارے میں میرا نقطہ نظر دریافت کیا تو میں نے عرض کیا کہ اگر تو وہ فی الواقع مذہب ہے تو ضرور کرے گا۔ اس لیے کہ مذہب صرف فرد کی راہ نمائی نہیں کرتا بلکہ سوسائٹی کا راہ نما بھی ہوتا ہے۔ اور حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے ذریعہ نسل انسانی کی راہ نمائی کے لیے نازل ہونے والی آسمانی تعلیمات میں فرد، خاندان اور سوسائٹی تینوں کے لیے راہ نمائی کا سامان موجود ہے، اور تینوں اس راہ نمائی کے محتاج ہیں۔
اب سے تین سو سال قبل یورپی معاشرے میں مذہب کے نام پر ہونے والے مظالم اور بادشاہت اور جاگیرداری کے جبر کو مذہب کے نام پر فراہم کیے جانے والے جواز کے رد عمل میں مذہب کی حکمرانی سے بغاوت کی جو تحریک شروع ہوئی تھی اور جس نے انقلاب فرانس کے بعد ایک باقاعدہ فلسفہ و نظام کی شکل اختیار کر لی تھی، اس کی بنیاد مذہب کے معاشرتی کردار کی نفی پر تھی جس نے آہستہ آہستہ پوری دنیا کو اپنے اثر و رسوخ کے دائرے میں لے لیا۔ حتیٰ کہ وہ دنیا کا رائج الوقت سکہ بن گیا۔ لیکن چونکہ مذہب انسانی فطرت کا حصہ ہے اور انسان زندگی کے بیشتر معاملات میں آسمانی تعلیمات کی راہ نمائی کی ضرورت محسوس کرتا ہے اس لیے مذہب کے معاشرتی کردار سے انحراف کی یہ روایت کم و بیش دو صدیوں تک انسانی معاشرے پر حکمرانی کے بعد اب واپسی کے راستے تلاش کر رہی ہے۔ اور امریکی سپریم کورٹ تک کو یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ سرکاری اداروں کو مذہب سے آزاد علاقے قرار نہیں دیا جا سکتا۔
ہمارے خیال میں یہ بحث اب ایک اور دلچسپ مرحلہ میں داخل ہوتی نظر آرہی ہے۔ اب تک یہ کہا جاتا رہا ہے کہ ریاستی اداروں اور حکومتی اداروں میں سرے سے مذہب کا عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔ مگر اب یہ کہا جا رہا ہے کہ سرکاری اور حکومتی اداروں کو معاشرے میں موجود مذاہب میں سے کسی ایک کی طرفداری نہیں کرنی چاہیے اور مذہبی تنازعات میں فریق کا کردار ادا کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ چنانچہ امریکی سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے کے نکات میں بھی اس کا تذکرہ موجود ہے کہ مطلقاً مذہبی دعا منع نہیں ہے۔ لیکن کسی ایک مذہب کے مطابق دعا مانگنے سے اختلاف کیا گیا ہے۔ جبکہ سپریم کورٹ کے 5 ججوں نے اس اختلاف کو بھی تسلیم نہیں کیا اور کہا ہے کہ کسی ایک مذہب کے طریقے پر دعا مانگنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ اس طرح یہ بات اس رخ پر مزید آگے بڑھ گئی ہے کہ ریاستی اداروں کو سوسائٹی میں موجود مذاہب میں سے کسی ایک مذہب کو ترجیح دینے کا حق بھی حاصل ہوگیا ہے۔
ہم ایک عرصہ سے مغربی معاشروں میں مذہبی رجحانات کی واپسی کے عمل کو دیکھ رہے ہیں اور اس میں مسلسل پیش رفت کا مشاہدہ کرتے ہوئے زیر لب یہ بھی گنگناتے جا رہے ہیں کہ:
اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں
البتہ اس کشمکش کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جہاں مغربی معاشروں کے رجحانات کا رخ مذہبی اقدار و روایات کی طرف واپس مڑ رہا ہے اور مغرب ’’وجدانیات‘‘ کے نام سے آسمانی تعلیمات کی طرف واپسی کے راستے تلاش کرنے میں مصروف ہے، وہاں ہمارے مسلم معاشروں کے بہت سے دانش ور ابھی تک سوسائٹی کی اجتماعیت کو مذہبی رجحانات سے ’’نجات‘‘ دلانے کی تگ و دو میں اپنا اور قوم کا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ اور جس ’’پتھر‘‘ کو بھاری سمجھ کر صرف چومنے کے بعد مغرب واپسی کے موڈ میں ہے، ہمارے ان دانش وروں نے اسی پتھر کو اٹھا لینے کے عزم کے ساتھ اس کی طرف دوڑ لگا رکھی ہے۔
دینی موضوعات پر تعلیمی و تربیتی کورسز
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
شعبان المعظم اور رمضان المبارک دینی مدارس میں درجہ کتب کے طلبہ کے لیے تعطیلات کے ہوتے ہیں اور شوال المکرم کے وسط میں عام طور پر نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوتا ہے۔ اس دوران حفاظ اور قرا کا زیادہ وقت قرآن کریم کی منزل یاد کرنے اور رمضان المبارک کے دوران تراویح میں سننے سنانے میں گزرتا ہے۔ جبکہ عام طلبہ کو تعلیمی مصروفیات میں مشغول رکھنے اور ان کے وقت کو مفید بنانے کے لیے مختلف کورسز کے اہتمام کی روایت کافی عرصہ سے چلی آرہی ہے۔ زیادہ تر قرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر کے دورے ہوتے ہیں جو شعبان کے آغاز سے شروع ہو کر رمضان المبارک کے وسط تک جاری رہتے ہیں۔ ان میں اساتذہ کرام اپنے اپنے ذوق کے مطابق طلبہ کو قرآن کریم کا ترجمہ و تفسیر مختصر دورانیہ میں پڑھاتے ہیں۔ ان میں حضرت مولانا حسین علیؒ ، حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ ، حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ ، حضرت مولانا حماد اللہ ھالیجویؒ ، حضرت مولانا محمد عبد اللہ بہلویؒ ، حضرت مولانا غلام اللہ خانؒ اور حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے دوروں نے بطور خاص شہرت حاصل کی، اور ہزاروں علماء و طلبہ نے ان سے استفادہ کیا۔
والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ نے ۱۹۷۶ء سے ۲۰۰۰ء تک مسلسل پچیس سال دورہ تفسیر پڑھایا۔ اس کے علاوہ بھی ان کا ذوق یہ تھا کہ جامعہ نصرۃ العلوم میں درس نظامی کی آخری کلاسوں کو پابندی کے ساتھ ترجمہ قرآن کریم پڑھاتے تھے جو دو سال میں مکمل ہوتا تھا۔ اور مدرسہ میں روزانہ تعلیم کا آغاز اسی سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ جبکہ عم محترم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ کا خصوصی ذوق یہ تھا کہ وہ دورۂ حدیث کے طلبہ کو حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ مکمل یا کچھ ابواب ضرور پڑھاتے تھے جو مدرسہ کے نصاب کا باقاعدہ حصہ ہے۔ یہ دونوں کام اب بھی جاری ہیں اور دونوں بزرگوں کی یہ روایت جاری رکھنے کی سعادت بحمد اللہ تعالیٰ مجھے حاصل ہے۔ دورۂ تفسیر قرآن کریم کے علاوہ مختلف مقامات پر میراث، صرف و نحو، منطق، اصول فقہ اور دیگر علوم و فنون کے ماہرین ان تعطیلات کے دوران اپنے اپنے فنون میں مختصر دورانیے کے کورسز کراتے ہیں جو بہت مفید اور ضروری ہیں۔ اب کچھ عرصہ سے عربی بول چال اور تحریر و تقریر کے کورسز کا اہتمام بھی ہونے لگا ہے، جس میں ہمارے فاضل دوست مولانا مفتی ابو لبابہ شاہ منصور کی شبانہ روز محنت کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے۔ یہ سب کورسز ہماری اجتماعی ضرورت کا درجہ رکھتے ہیں اور ان سے تعلیمی ذوق بڑھنے کے ساتھ ساتھ چھٹیوں کے اوقات کا صحیح مصرف بھی مل جاتا ہے اور تعلیمی ترقی بھی ہوتی رہتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسرے ادیان اور فرق باطلہ سے طلبہ کو متعارف کرانے کے لیے بھی کورسز ہوتے ہیں جن میں چناب نگر میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت اور چنیوٹ میں ادارہ مرکزیہ دعوت و ارشاد کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے تربیتی دورے بطور خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ ان میں دوسرے مذاہب کے ساتھ ساتھ قادیانیت کے دجل و فریب سے علماء و طلبہ کو واقف کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اس قسم کے کورسز کا دائرہ مسلسل پھیلتا جا رہا ہے جو بہت خوش آئند ہے۔ لیکن ان میں نظم و ضبط اور باہمی رابطہ و تعاون کا ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ اکثر اوقات ایک طرز کی دینی ضرورت کی طرف تو سب کی توجہ ہوجاتی ہے اور ایک ایک شہر میں متعدد کلاسیں لگ جاتی ہیں، مگر دوسری طرز کی دینی ضرورت جو اسی درجہ کی اہمیت رکھتی ہے، نظر انداز ہو جاتی ہے اور اس کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہوتی۔ ہمارے خیال میں اگر کوئی بڑا دینی اور علمی ادارہ اس سال ملک بھر میں ایک سروے کا اہتمام کر سکے کہ کہاں کہاں کون کون سے مضامین میں یہ دورے ہوتے ہیں اور ملک کی عمومی دینی ضروریات کے حوالہ سے ان کا تناسب کیا ہے تو یہ بہت بڑی دینی خدمت ہوگی۔ یوں اگلے سال ان کاموں کی ترجیحات اور درجہ بندی کرنے میں آسانی رہے گی۔
گزشتہ دنوں ایک بڑے مدرسہ میں بخاری شریف کے آخری سبق کے موقع پر میں نے طلبہ سے عرض کیا کہ وہ فارغ ہونے کے بعد اور تعطیلات کے دوران اپنے وقت کو ضائع ہونے سے بچائیں۔ اور کسی نہ کسی کورس میں اپنے ذوق کے مطابق ضرور شریک ہوں، یا کچھ وقت تبلیغی جماعت کے ساتھ لگا لیں۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ خود اپنے اوقات اور معمولات کی ترتیب قائم ہو جاتی ہے اور طرح طرح کے لوگوں کے ساتھ میل جول اور گفتگو سے پبلک ڈیلنگ کا ذوق بھی پیدا ہو جاتا ہے۔
ہمارے خیال میں دینی مدارس کے طلبہ کے ذوق، ضروریات اور نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے جس قسم کے کورسز کی ضرورت ہے، ان میں اہم عنوانات یہ ہو سکتے ہیں:
- ترجمہ قرآن کریم اور تفسیر۔ خاص طور پر انہیں عوام میں درس قرآن کی طرز اور ذوق سے بہرہ ور کرنا۔
- غیر اسلامی ادیان اور فرق باطلہ سے تعارف اور اس میں مسائل میں مناظرہ سکھانے کے ساتھ ساتھ ان مذاہب کی تاریخ، مسلمانوں کے ساتھ ان کے تعلقات کی نوعیت، متنازعہ معاملات اور ان کی موجودہ پوزیشن سے متعارف کرانا بھی ضروری ہے، تاکہ باہمی معاملات کی صحیح پوزیشن سامنے آئے۔
- صرف، نحو، میراث اور دیگر فنون کے مطالعاتی اور تعارفی دورے۔
- آج کے دور میں اسلام کی دعوت و تعارف کی ضروریات اور تقاضوں سے آگاہی۔
- عربی بول چال اور تحریر و تقریر کی مشق اور اس کی اہمیت کا احساس دلاتے ہوئے عملی تربیت۔
- موجودہ فکری تحریکات کے فکری اور تاریخی پس منظر اور ان کے نقصانات سے آگاہی۔
- اصول فقہ، اصول تفسیر اور اصول حدیث کے تعارفی کورسز۔
- موجودہ بین الاقوامی ماحول، عالمی قوانین و نظام اور مسلمانوں پر ان کے اثرات سے آگاہی۔
- اسلام اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں مغربی مفکرین بالخصوص مستشرقین کے اعتراضات کا جائزہ۔
- شریعت اسلامیہ کے احکام و قوانین پر جدید اعتراضات و اشکالات کا جائزہ۔
- پاکستان میں نفاذ شریعت کی جدوجہد اور اس کے تقاضوں سے آگاہی۔ وغیر ذالک۔
ان مقاصد کے لیے اصل میں تو درس نظامی سے فراغت کے بعد بڑے جامعات کو ایک ایک سال کے کورسز کا اہتمام کرنا چاہیے جو ان میں سے کسی ایک موضوع پر ہوں۔ لیکن تعارفی سطح پر سالانہ تعطیلات کے دوران مختصر کورسز بھی فائدہ مند ہو سکتے ہیں۔ میرے خیال میں جامعۃ الرشید نے گزشتہ دنوں جسٹس (ر) خلیل الرحمن خان اور مولانا سید عدنان کاکاخیل کی سربراہی میں جو تھنک ٹینک قائم کیا ہے وہ اس کی منصوبہ بندی میں موثر کردار ادا کر سکتا ہے۔
ایک تجربہ محدود سطح پر ہم نے بھی الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں گزشتہ سال سے شروع کر رکھا ہے جو ’’دورہ تفسیر قرآن کریم و محاضرات قرآنی‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اس سال یہ کلاس 3 شعبان سے 28 شعبان تک ہوگی اور اس میں قرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر کے ساتھ ساتھ عصر حاضر کے تقاضوں، بین الاقوامی قوانین اور خلافت و شریعت سمیت مختلف عنوانات پر بیسیوں محاضرات ہوں گے۔ اس سلسلہ میں زیادہ تر خدمت راقم الحروف خود سر انجام دے گا جبکہ معاون اساتذہ میں مولانا فضل الہادی، مولانا حافظ محمد یوسف، مولانا ظفر فیاض، مولانا حافظ وقار احمد اور حافظ محمد عمار خان ناصر شامل ہوں گے، ان شاء اللہ العزیز۔
حصول علم کا جذبہ اور ہمارے اسلاف
مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی
(کچھ عرصہ قبل بھارت کے نامور محقق اور مورخ مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی الشریعہ اکادمی میں تشریف لائے اور اہل علم کی ایک نشست سے خطاب کیا جس کی صدارت استاذ العلماء حضرت مولانا محمد عیسیٰ خان گورمانی نے کی۔ مولانا کی گفتگو کا نقل شدہ مسودہ کاغذات میں دب جانے کے باعث نظروں سے اوجھل ہو گیا تھا۔ اب دوبارہ ملنے پر اسے افادۂ عام کے لیے شائع کیا جا رہا ہے۔ مدیر)
نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم۔ اما بعد!
حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب دامت برکاتہم اور حضرت مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان صاحب مدظلہ العالی۔
میں یقیناًاس لائق نہیں ہوں جس طرح کے کلمات خیر سے ازراہِ محبت ذکر کیا گیا ہے، لیکن چونکہ یہ بڑے حضرات ہیں، اکابر حضرات ہیں، اس لیے دعا و تمنا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کے خیالات کو حقیقت میں بدل دے اور ان کے یہ کلمات ہمارے لیے ایسی دعا ثابت ہوں جو حقیقت ہو جائیں۔ یہ بات میرے لیے بڑی خوش نصیبی اور سعادت کی ہے کہ اس مبارک مدرسہ میں حاضری ہوئی۔ میں جب پڑھتا تھا، اس وقت میں نے حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کی کتاب ’’راہ سنت‘‘ پڑھی تھی اور پھر تو بار بار پڑھنے کا موقع ملا۔ مولانا کی جتنی کتابیں ہیں، میرے خیال میں تقریباً ساری ہی ایک ایک کر کے پڑھیں۔ حضرت مولانا سواتی صاحب کی بیشتر کتابیں بھی دیکھنے اور ہمارے اندر تھوڑی بہت جتنی لیاقت تھی، اس کے مطابق ان کو سمجھنے اور ان سے استفادہ کی توفیق نصیب ہوئی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی جو بے شمار عنایات اور انعامات ہیں، ان میں سے ایک بڑا انعام اور فضل و کرم یہ ہے کہ آج اس مبارک مدرسے اور ان حضرات کے زیر سایہ حاضر ہونے کی توفیق ملی اور آپ سے ملاقات ہوئی۔
یہ بھی بڑی سعادت ہے اور یہ بھی بڑی خوشی کی بات ہے کہ آج یہاں مدرسے کی لائبریری کا افتتاح ہو رہا ہے۔ یہ بات بڑی تعجب کی ہوگی کہ لائبریری کے افتتاح کے لیے ایک ایسے آدمی کو طلب فرمایا گیا جو بہت ہی ادنیٰ درجہ کا طالب علم ہے اور اس کا اہل بھی نہیں ہے، لیکن بعض اوقات آپ حضرات جانتے ہیں کہ حکم کے بعد گنجائش کم رہتی ہے۔ تو حکم ہوا تو میں حاضر ہوگیا۔ لائبریری کا قائم کرنا بہت مبارک ہے اور بے حد ضروری بھی ہے۔ مدارس کا اصل ورثہ علم ہی تھا۔ ہمارا دین جو یہاں تک پہنچا، یہ جو علم ہے، وہ اصل میں ہمارے اسلاف کی محنت کا نتیجہ ہے۔ ان حضرات نے علم اور کتاب دونوں کو مفاد سے بالاتر ہو رکھا۔ کسی کام کو نہ اپنی ذات کے لیے کیا اور نہ کسی دنیا کے مفاد کے لیے کیا۔ ہر بات میں وہ دو چیزوں کی رعایت رکھتے تھے۔ ایک اللہ تعالیٰ کی رضا اور دوسرا علم کی خدمت۔ اسی لیے ہمارے علماء نے ایسے ایسے کام کیے ہیں کہ آج بڑی بڑی اکیڈمیاں اور ادارے کروڑوں روپے کے بجٹ سے وہ کام نہیں کر سکتے جو ان میں سے ایک ایک نے کر دیے ہیں۔
ابھی پچھلے مہینے ہمارے ہاں ایک کتاب شائع ہوئی ہے ’’فتاویٰ تاتار خانیہ‘‘۔ اس کے مصنف آٹھویں صدی کے عالم ہیں، ۷۸۶ھ میں ان کی وفات ہے۔ ان کی کتاب کو قاضی سجاد صاحب نے مرتب کرنا شروع کیا تھا، لیکن اجل نے ان کو مہلت نہیں دی اور ان کی وفات ہوگئی۔ اب ہمارے ہاں ایک اور عالم مفتی شبیر صاحب نے اس کو مرتب کر کے شائع کیا ہے جو ۲۳ جلدوں میں ہے۔ یہ ایک فرد کا کام ہے۔ آپ کہیں گے کہ اس وقت بادشاہ سرپرستی کرتے تھے۔ آپ حضرات نے سنا ہوگا کہ ٹونک کے ایک عالم تھے، مولانا محمود حسن صاحب۔ انہوں نے ان علماء کے جو عربی میں صاحب تصنیف ہیں، جنہوں نے عربی میں کوئی قابل ذکر کتاب لکھی ہے، صرف ان کے حالات جمع کیے ہیں۔ یہ ’’معجم المصنفین‘‘ کے نام سے ۸۰ جلدوں میں ہے اور اس کتاب کے مؤلف کوئی پرانی صدی کے آدمی نہیں ہیں۔ غالباً ابھی ۱۳۷۰ھ یا اس کے بعد ان کی وفات ہوئی ہے۔
ایک بات اور یاد آئی۔ ہمارے شبیر میواتی صاحب کو اچھی طرح معلوم ہوگی۔ ہمارے ہاں ایک ہندو راجہ تھا، راجندر لاؤ۔ اردو کا بڑا دلدادہ تھا۔ اس نے اردو کا ایک لغت مرتب کیا جس کا ایک نسخہ دستیاب ہوگیا ہے جو پچاس جلدوں میں ہے۔ اردو کا لغت پچاس جلدوں میں اور ہندو لکھ رہا ہے۔ جن لوگوں کو آپ نے بہت قریب سے دیکھا ہے، ان میں ہمارے مولانا ادریس صاحب کاندھلوی ہیں۔ ان کی شرح بخاری شریف۳۰ جلدوں میں ہے اور شرح بیضاوی ۳۰ جلدوں میں ہے۔ مشکوۃ شریف کی شرح التعلیق الصبیح ۸ جلدوں میں ہے۔ ان کی تفسیر معارف القرآن دیکھی ہوگی اور ان کی سیرت پر جو کتاب ہے، مجھے یہ کہنا چاہیے کہ پورے برصغیر میں غالباً علامہ شبلی کی کتاب کے بعد سب سے بڑی مرجع ہے۔ بتائیے مولانا ادریس صاحب کو کس کا تعاون تھا؟ وہ کس سے تنخواہ لیتے تھے؟ کہاں سے وظیفہ ملتا تھا؟ وہ ایک فرد تھے، ارادہ رکھتے تھے، خدا کے لیے کام کرتے تھے، خدا کی طرف سے مدد ہوتی تھی۔ ہم لوگ اول تو کام کرنا نہیں چاہتے، اگر کرنا چاہتے ہیں تو ہماری ترتیب الٹی ہوتی ہے۔ ہمارے بزرگوں نے مدرسوں کے بارے میں بھی یہ کیا اور علم کے بارے میں بھی یہ کیا کہ وہ پہلے کام کرتے تھے، وسائل بعد میں خود بخود آتے تھے۔ ہم پہلے وسائل ڈھونڈتے ہیں اور کام کچھ نہیں ہوتا۔ اس لیے کام شروع کر دینا چاہیے۔ میں نے ابھی دیکھا تو نہیں، لیکن سنا ہے کہ مولانا موسیٰ خانؒ روحانی بازی کی ایک تقریر ہے بیضاوی کی جو شاید ۶۰ جلدوں میں ہے اور اب اس کی طباعت کا اہتمام ہو رہا ہے۔اس طرح کی بہت ساری باتیں ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ آدمی کرنا چاہے تو بہت کچھ کر سکتا ہے۔
حضرت مولانا ادریس کو آپ نے دیکھا ہوگا۔ مولانا کی صفات کیا تھیں؟ مولانا کی صفت یہ تھی کہ مولانا نے پوری زندگی کبھی انگریزی قلم کو ہاتھ میں نہیں لیا۔ بازار سے آنے والی روشنائی سے نہیں لکھا۔ وہ کہتے تھے کہ یہ روشنائی ناپاک ہے، میں اس سے حدیث کس طرح لکھوں؟ خدا کو کیا جواب دوں گا؟ تب ان کے کام میں برکت ہوتی تھی۔ مولانا ہمیشہ تاحیات سرکنڈے کے قلم سے لکھتے تھے، خود بناتے تھے۔ اسی طرح سے اور بھی سب حضرات اس طرح کام کرتے تھے۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب کو ہم نے خود دیکھا، زمین پر بوریا بچھا کر بیٹھتے تھے۔ آپ کے ہاں تو ہم جانتے نہیں کیا کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو ۵، ۷ روپے کا آتا ہے بوریا اور وہاں قربانی کا گوشت رکھنے کے کام آتا ہے۔ شیخ الحدیث صاحب اس پر بیٹھتے تھے، اسی پر بیٹھ کر سارے کام کیے ہیں۔ وہیں بیٹھ کر اوجز المسالک لکھی گئی ہے، وہاں اس کمرے میں نہ بجلی ہے، نہ دنیاوی شوکت ہے اور نہ ہی کوئی پنکھا ہے۔ وہاں بیٹھے رہتے تھے۔ چاروں طرف کتابوں کا ہجوم ہوتا تھا۔ ترتیب سے کتابیں لگی ہوتی تھیں اور جب کوئی ضرورت پڑتی تو ان کے پاس جو طلبہ تھے، مولانا یوسف صاحب تھے یا دوسرے حضرات، ان کو کہتے تھے کہ کتاب اٹھاؤ۔ کتاب دیکھی، پھر رکھ دی۔ شیخ نے اپنے اس کمرے میں پوری زندگی نہ بجلی لگنے دی، نہ پنکھا لگنے دیا۔ حافظ صاحب اور شیخ صاحب لنگی باندھتے تھے اور وہ لنگی پسینے سے تر ہو جاتی تھی۔ جب دیکھتے کہ پسینہ بنیان میں سے ٹپکنے لگا تو اس کو بدل کر دھوپ میں ڈال دیا، لیکن کام میں نہیں فرق پڑتا تھا۔ ہمارے ہاں سہولیات تو بہت ہیں، لیکن وہ لگن نہیں، وہ تڑپ نہیں، وہ جذبہ نہیں۔
علم تو اس امت کا خاصہ ہے۔ اس امت نے جس طرح علم کو آگے بڑھایا اور جتنے علم کے پہلو ایجاد کیے، پوری دنیا اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ یورپ نے آپ کے پاس جو معلومات تھیں، ان کو نکھارا سنوارا اور آگے بڑھایا۔ ہمارے ہاں ایک بہت بڑے مغربی اسکالر ہیں اور ان کی دنیا میں بڑی شہرت ہے اس بات میں کہ انہوں نے اہرام مصر میں اور دوسری جو عمارتیں ہیں، ان کے کتبات اور مہروں کو پڑھا ہے اور دنیا میں ان کو سند سمجھا جاتا ہے۔ چار، پانچ سال پہلے ایک کتاب چھپی تو پتہ چلا کہ آٹھویں صدی کے ایک عالم تھے، وہ سارے کتبے حل کر چکے تھے۔ اس بندۂ خدا کے وہ کتاب ہاتھ لگ گئی اور اس نے وہ ساری چیزیں اپنی طرف منسوب کرلیں۔ تو اس طرح سے ہوتا ہے۔
ہم نے وہ راستہ چھوڑ دیا ہے۔ ہمارے اندر سے وہ لگن ختم ہوگئی۔ ہمارے اندر سے وہ جذبہ چلا گیا، ہمارے اندر سے وہ تڑپ جاتی رہی۔ اب کام نہیں ہوتا۔ یہ جو ادارہ قائم کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ مبارک کرے۔ مزید ترقیات سے نوازے اور بڑے ادارے قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ساتھ ساتھ کچھ افراد بھی تیار کریں اور افراد کون ہوں؟افراد وہ ہوں جوبالکل کشتیاں جلا کر کام کریں۔ دنیا کے کسی مفاد کو سامنے نہ رکھیں اور بالکل سراپا علم کے اندر ڈوب جائیں۔ پھربات بنتی ہے۔ جب تک یہ بات نہ ہو تو بات نہیں بنتی۔ آج کل آپ دیکھیں کہ اتنی کتابیں چھپ رہی ہیں کہ پہلے کبھی نہیں چھپتی تھیں۔ لیکن شاید دو سو چار سو کتابوں میں سے کوئی دو چار کتابیں ایسی ہوں کہ آدمی پڑھ کر یہ سمجھے کہ اس کو پڑھ کر کوئی فائدہ حاصل کیا۔پہلے لوگوں کی کتابیں ایسی ہیں مثلاً مولانا محمد قاسم صاحب،ؒ مولانا اشرف علی تھانویؒ ، ان کے بعد مولانا ادریس صاحب کو بھی، ان کی کتابوں کو آپ جتنی مرتبہ پڑھیں گے تو ہر مرتبہ کوئی نہ کوئی نیا فائدہ حاصل ہوگا اور آپ سوچیں گے کہ یہ بات تو میں نے پڑھی ہی نہیں۔ میرا ذہن اس طرف گیا ہی نہیں۔ بعض فقرے ایسے ہیں ان کی کتاب میں کہ ایک فقرے کی شرح میں پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ یہ ان کے علم کی گہرائی، ان کی جامعیت تھی کہ انہوں نے یہ فقرات لکھے۔ ہمارے اندر یہ بات نہیں۔ ہم کبھی کسی کتاب کے دو سو تین سو صفحے پڑھتے ہیں، پڑھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ کیوں وقت ضائع کیا ۔ ان میں سے دو صفحے بھی ایسے نہیں نکلتے کہ جن کو پڑھ کر آدمی کچھ فائدہ حاصل کرے۔
اب یہ ہے کہ آپ حضرات کے ہاں وسائل بھی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ یہاں طلبہ کی توجہ بھی ہے، اور کسی چیز کی کسی طرح کی دقت نہیں ہے۔ یہاں ایسا ادارہ قائم ہو جو ہمارے اسلاف خاص طور پر حضرت شاہ ولی اللہ سے اب تک کے حضرات پر کام ہو۔ ان پر تحقیق ہو، ان پر تنقیح ہو۔ حضرت شاہ ولی اللہ کی جملہ تصانیف، مجھے معلوم ہے کہ اس برصغیر میں کسی مقام پر بھی ایک جگہ موجود نہیں ہیں۔ اگر ہوں تو میری راہنمائی فرمائیں۔ ان کی کتابیں موجود ہیں، لیکن کسی کے اندر وہ جذبہ نہیں۔ میں ایک ناچیز سا طالب علم ہوں، ایک چھوٹے سے قصبے میں رہتا ہوں، اور میرے پاس شاہ صاحب اور مولانا قاسم کی سو فیصد کتابیں موجود ہیں۔ میرے پاس حضرت شاہ ولی اللہ کی سو فیصد کتابیں موجود ہیں۔ مطبوعہ بھی اور غیر مطبوعہ بھی، ہاتھ سے لکھی ہوئی بھی۔ اسی طر ح حضرت مولانا قاسم نانوتوی کی سو فیصد کتابیں میرے پاس ہیں۔ الحمد للہ اس وقت ہمارے ذخیرے میں ۱۶ سو تو مخطوطے ہیں اور ۱۲،۱۴ ہزار کتابیں ہیں اور استفادے کے لیے پوری دنیا سے لوگ آتے ہیں۔ اگر یہاں لوگ اس طرح کی کوشش کریں تو اس کو کامیابی کیوں حاصل نہ ہو۔ اس لیے کوئی ایسا ادارہ ہو جہاں ان تمام حضرات کی چیزیں جمع کی جائیں اور طلبہ کو ان پر کام کرنے کا موقع دیا جائے۔ مثلاً حضرت شاہ صاحب ہیں، ان کی اپنی اصطلاحات ہیں جن کو وہ مختلف جگہ پر استعمال کرتے ہیں اور مختلف مطلب لیتے ہی۔ اب اگر ایسی لغت مرتب کی جائے کہ اس بات کو شاہ صاحب فلاں جگہ فرمائیں تو یہ مطلب ہے، فلاں جگہ فرمائیں تو یہ مطلب ہے تو ان کی کتابوں سے استفادہ کرنا بہت آسان ہو جائے گا اور یہ جو بات کی جاتی ہے کہ صاحب ! شاہ صاحب کے ہاں اختلاف بہت ہے، اس کا جواب ہو جائے۔ اسی طرح شاہ صاحب اجتہاد و تقلید پر خوب لکھتے ہیں، ان کی ساری چیزوں کو جمع کیا جائے تو وہ مفہوم ہرگز نہ ہو جو آج لیا جا رہا ہے۔ ان پر حضرت مولانا عبید اللہ سندھی نے کام کیا تھا، لیکن ان کی کتابیں اس وقت چھپنی شروع ہوئی ہیں جب ان کے پڑھنے والے چلے گئے۔
ہمارے ہاں یہ بات بہت مشہور ہے کہ حضرت علامہ کشمیری نے فرمایا کہ مولانا گنگوہی تفقہ میں شامی سے بڑھے ہوئے ہیں، لیکن اس کا کوئی دستاویزی ثبوت بھی چاہیے۔ حضرت کشمیری نے فرمایا، بہت اچھا ہے لیکن یہ ثابت کیسے ہو؟ اس کی صورت یہ ہے کہ ان کے فتاویٰ کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے اور اس بات کو ثابت کیا جائے۔
پہلے علماء یہ کیا کرتے تھے کہ آدمی ہزار صفحے پڑھے، پھر دس صفحے لکھے۔ اب کام الٹ ہوگیا ہے کہ پہلے سو صفحے لکھے، پھر پڑھنا شروع کرتے ہیں۔ اس کے لیے طلبہ کو تیار کرنا ہوگا۔ اسی طرح ہمارے دیگر حضرات کے ملفوظات میں بھی بہت سارے نوادر موجود ہیں۔ ہمارے قریب کے بزرگ ہیں حضرت شاہ عبد القادر رائے پوری، ان کے ہاں غیر معمولی باتیں ہیں۔ حضرت شاہ یعقوب کے ہاں بھی اسی طرح چیزیں ہیں۔ اس کے لیے طلبہ کو تیار کرنے کی ضرورت ہے اور طلبہ اس وقت تیار ہوتے ہیں کہ جب استاد ان سے ان چیزوں میں فائق ہو۔ ان کی ہر موقع پر راہنمائی کر سکتا ہو۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ ہر جگہ باقاعدہ طلبہ ہوں، ذہین طلبہ رکھے جائیں، ان کو معقول وظیفے دیے جائیں، ان کے لیے تمام علمی مواد جمع کر دیا جائے۔ علم کا تو معاملہ یہ ہے کہ آدمی جب اس میں لگ جاتا ہے تو یہ خود بخود آپ کو ترقی دیتا ہے۔ ہم نے اور چیزوں کو مقصد بنا لیا ہے، علم کو چھوڑ دیا ہے۔
لین پول یونیورسٹی ہے برطانیہ میں جو آکسفورڈ اور کیمبرج کے بعد سب سے بڑی سمجھی جاتی ہے۔ اس کے شعبہ علوم اسلامیہ کے جو صدر ہیں، وہ ہمارے ہاں آئے تھے۔ یہ صاحب وزیر اعظم برطانیہ کے اسلامی ممالک کے لیے مشیر ہیں۔ مجھے اس بات پر تعجب ہوا کہ وہ کیوں آئے تھے؟ اس بات پر ریسرچ کرنے کے لیے کہ یہ ہندوستان کے جو مدارس ہیں، ان کے مقاصد کیا ہیں؟ اور کیا یہ اپنے مقاصد پورے کر رہے ہیں؟ اور اب ان کا نقطۂ نظر کیا ہے؟ اتنا بڑا آدمی جس کی حیثیت برطانیہ کے ایک وزیر کی ہے، وہ صوفے پر نہیں بیٹھا، دری پر بیٹھا اور وہیں پر سویا۔ وہ کہتا تھا کہ طالب علم کو ان باتوں سے کیا تعلق۔ ہم نے کہا تو کہنے لگا کہ نہیں نہیں، جہاں تم بیٹھو گے، وہیں بیٹھوں گا۔ جو کھلاؤ گے، کھاؤں گا۔ مقصد تو باتیں کرنا ہے اور وہ دیر تک، رات دو بجے تک سوالات پوچھتا رہا اور ایسے ایسے سوالات کہ ہمارے بڑے بڑے اچھے حضرات کا ذہن بھی اس طرف نہیں جا سکتا کہ مدرسوں کے مزاج میں فرق کیوں ہے؟ ان کے نصاب میں فرق کیوں ہے؟ فلاں آدمی فلاں آدمی کے طریقہ تعلیم میں کیوں فرق ہے؟ فلاں فلاں کے پاس بیٹھنے والے طلبہ کے مزاج میں کیوں فرق ہے؟ اور ایسے سوالات کے انبار تھے کہ بس۔ بہرحال جو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی، وہ ہم نے عرض کیا۔
بہرحال ضرورت اس بات کی ہے کہ کچھ افراد تیار کیے جائیں۔ یہاں مولانا زاہد الراشدی صاحب کی زیر سرپرستی اور مولانا عمار صاحب کی زیر نگرانی بہت سا کام ہو سکتا ہے۔ اللہ اس ادارے کو ترقی دے اور اس کو ہم جیسے لوگوں کے لیے مرجع بنائے۔ ان شاء اللہ اس سلسلے میں جو خدمت مجھ سے ہو سکے گی، میں حاضر ہوں۔
مذہبی فرقہ واریت: اسباب، نقصانات اور اصلاحی تجاویز
مولانا محمد تہامی بشر علوی
انسانی مزاج ومذاق کے تنوعات، فکر ونظر کی نے رنگیاں، عقل وفہم کی اونچ نیچ، اسا لیب غور وخوض میں کھلا تفاوت اور تاثرات و احساسات کااپنا اپنامستقل جہاں، یہ وہ ناقابل انکار حقیقتیں ہیں جو تعبیر مذہب کے ضمن میں بھی پوری طرح جلوہ گر دیکھی جاسکتی ہیں۔ مذہبی تعبیر کے تنوعات، افکار کاجہاں آباد کرتے ہیں تو افکار نظریہ واعتقاد کا جزو بن جاتے ہیں۔ یوں ہر نظریہ وعقیدہ اپنے حاملین تلاش کرتاہے۔ نتیجہ معلوم کہ مذہبی برادری مختلف عقائد ونظریات میں بٹ جاتی ہے۔پھر بتدریج یہ تنوع، غلو و تعصب کی اور یہ تعصب ،تفرق وتشتت کی مکروہ صورتوں میں ظہور پذیر ہونے لگتا ہے جسے ہم تفہیم کی خاطر ’’فرقہ واریت ‘‘کا عنوان دے سکتے ہیں ۔ یہی وہ مرحلہ ہوتاہے جب مذہب کے نام پر خود مذہب سمیت ہر انسانی قدر خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ ’’فرقہ وارانہ‘‘ تجاوزات ور اُس کی ہلاکت آفرینیاں! بس الامان والحفیظ! لیکن اہل مذہب اس ہلاکت آفریں اور پُر خطر مقام پر کیوں پہنچے؟ اُس کے بنیاد ی ا سباب کیاتھے؟ ذیل کی سطور میں اس بات کا جا ئزہ لیاجاتاہے ۔
(۱) ترکِ قرآن
مذہبی فرقہ واریت کابنیادی سبب یہی ہے کہ اہل مذہب قرآن کو خدا کے نازل کردہ ایک ’’نصب العین‘‘کے طور پر لینے کی بجائے محض میراث میں ملی ایک ایسی کتاب کی صورت میں قبول کیے ہوئے ہیں کہ جسے محض اپنے نظریات کی تائید کے طور پر پیش کیاجاسکتاہے ۔ اُن کا معاملہ قرآن کے ساتھ یہ نہیں کہ بالکل خالی الذہن ہوکر آئیں اور قرآن سے عقیدہ ونظریہ کے باب میں راہنمائی لے لیں۔ بلکہ یہاں ترتیب یہ قرارپاچکی ہے کہ پہلے دل ودماغ میں مزعومہ عقائد ونظریات پوری پیوستگی کے ساتھ جماکر قرآن کے حضور آیاجائے اور پھر انہیں مزعومہ عقائد ونظریات کو قرآن سے کشیدکرنے میں مہارتوں کے جوہر دکھلائے جائیں۔ قرآن کو حق تدبر نہ دینا وہ مجرمانہ غفلت ہے جس کاخمیازہ ’’فرقہ واریت‘‘ کی صورت میں ہمیں بھگتناپڑ رہاہے۔ وہ عقائد جو کسی مسلمان کے لیے ضروری ہوسکتے ہیں، جن پر نجات کامدار ہے، قرآن نے انہیں بیان کرنے میں کوئی ابہام چھوڑ ااور نہ ہی کوئی خفا۔ یہ نہیں ہوسکتاکہ رب تعالیٰ انسانیت کے نام ہدایت نامہ بھیجے اوراس میں انساں کی نجات کے لیے ضروری عقائد کو ہی بیان نہ کرے یا اُس میں کوئی اجمال وابہام چھوڑ دے، یہاں تک کہ انسانیت گمراہی کی وادیوں میں بھٹکتی پھرے ۔اس حوالہ سے قرآن صریح اور واضح ہے۔ اگر کوئی کمی ہے تو یہی کہ ’’رجوع الی القرآن‘‘ کوکماحقہ اہمیت نہیں دی گئی۔ یقیناًً وہ مزعومہ نظریات بھی قرآن کی تعبیر و تشریح کے نام سے رواج پا چکے ہیں۔ لیکن ’الفرقان‘ کہ جو حق و باطل میں خط امتیاز کھینچ دے اور ’المیزان‘ کہ جو تمام نظریات و عقائد کی جانچ پرکھ کی کسوٹی بن سکے، وہ تو بس بہرحال ’القرآن ‘‘ ہی ہے ۔ قرآن افتراق سے بچنے کے لیے ’’واعتصموا بحبل اللہ‘‘ کا نسخہ اسی لیے تجویز کرتاہے اور ترک قرآن کے انجام سے ’’ولا تفرقوا‘‘ کی صورت میں خبرادر کرتاہے ۔
(۲) ’ ’غلو‘‘
مذہبی فرقہ واریت کا دوسرا بنیادی سبب مذہبی معاملات میں مختلف طرح سے برتاجانے والا ’’غلو‘‘ ہے۔ کبھی تو اپنے فہم دین کو ’’الفرقان‘‘اور ’’المیزان‘‘کی حیثیت دے کرسارے جہاں کی اسلامیت اور’’ مذہبیت‘‘ کو اسی کسوٹی پرلا کھڑا کر دیا جاتاہے اور اپنے فہم سے ٹکراتے ہردوسرے فہم کو گمراہ، ضلالت، باطل اور نامعلوم کن کن عنوانوں سے تعبیر کیاجاتاہے۔ اپنے فہم کے حوالہ سے یہ وہ بڑھا ہواغلوہے کہ اسلام میں اس کی تعلیم تودرکنار، وہ محض رسمی طور پر بھی ساتھ کھڑا ہونے سے صاف انکار ی ہے۔’’غلو‘‘کے شعبوں میں ایک شعبہ ’’جماعتی غلو‘‘کابھی ہے جس کا لازمی نتیجہ دوسری تنظیموں اور شعبہ جات کو غیر اہم سمجھنے کارویہ ہے۔ اس نوع کے غالی لوگ کسی ’’دینی مقصد‘‘ کی خاطر اپنائی جانے والی مخصوص ترتیب وطریق کو مقصدسے زیادہ عزیزرکھتے ہیں اور ایک وقت میں تو مقصد ان کی نگاہوں سے بالکل ہی اوجھل ہوجاتاہے ۔ اسی غلو کاایک نمونہ ’’تعظیمی ومدحیاتی‘‘غلو کی صورت میں بھی دیکھا جاسکتاہے جب کسی شخصیت کی یوں تعظیم کی جائے کہ کسی دوسری بڑی ہستی کی تنقیص لازم آنے لگے یاتقابل کی فضا قائم کر کے ’’مدح وثنا‘‘ کے پُل باندھتے باندھتے مقابل کی تنقیص کاپہلو نکل آئے۔ دیکھیے، اہل اسلام کے مرکزی مرجع ومنبع محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مدحیاتی غلو کی جڑ کیسے کاٹی۔ فرمایا: ’’لاتطرُونی کما اطرت النصاریٰ المسیح بن مریم‘‘، ’’یعنی نصاریٰ کی مانند تم بھی پیغمبر کی مدح میں اتنے آگے نہ نکل جانا کہ اللہ کی تنقیص لازم آنے لگے۔ اور فرمایاکہ ’’لاتقولوا انا خیر من یونس بن متیٰ‘‘ یعنی تقابل کی فضا قائم کرکے مجھے یونس علیہ السلام پر فضیلت نہ دیا کرو۔غور کیجیے! کیایہ وہی بات نہیں ،جو قرآن نے یوں سمجھاناچاہی کہ ’’ لانفرق بین احد من رسلہ‘‘ کہ اعتقاد وتعظیم کا حق تمام پیغمبروں کو مساوی دیاجانا چاہییے۔ اس جہت سے تفریق بین الرسل قرآنی نظریہ بہر حال نہیں ہوسکتا۔
(۳) پیغمبرانہ دعوت سے انحرف
تیسرے سبب کے طور پر دعوتی نقص کو گنوایاجاسکتاہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے پیغمبر وں کی دعوت دین ہمیشہ صحیح جذبہ ، صحیح طریقہ اور صحیح نیت پر مبنی رہی۔ ناصحانہ اسلوب ، سچی تڑپ ، بے آمیز کھری نیت ، حکیمانہ طرز، قول لین، مجاد لہ بالاحسن ا ور بشارت وانذار اس کے لوازمات سمجھے جاسکتے ہیں ۔ مگرا فسوس اہل مذہب نے عموماً اس مثبت اور تعمیری دعوت کی ساری چولیں ہلاکر رکھ دیں۔ اہل مذہب کی اکثریت کے ہاں مناظرانہ کج بحثی، تنقیدی تلخ نوائی اور کرخت لہجہ وللکار قریباً معمول کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں ۔نتیجہ معلوم کہ تلخیاں بامِ عروج تک جاپہنچیں۔ اب تو مختلف الخیال اہل مذہب کے مابین مباحثے ومناظرے تک بھی پولیس انتظامیہ کی نگرانی کے بغیر قریباً ناممکن ہوچکے ہیں ۔
(۴) بے مہار خطابت
بلاشبہ فن خطابت اپنی ضرورت و افادیت کے پیش نظر ہر دور میں اہم رہاہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ خطابت ایک دو دہاری تلوار کی مانند ہے۔ اگر باقاعدہ حکمت عملی کے ساتھ اہل افراد کے ہاتھوں یہ ضرورت پوری ہوتی رہے تو عوام کے لیے ترغیب ، ترہیب اور تعلیم کاذریعہ بن سکتی ہے۔ اس کے ذریعہ رائے عامہ کو منظم کیا جاتاہے اور یہی خطابت جذبات کورخ دے کر اہم مقاصد کا پیش خیمہ بن سکتی ہے ۔ لیکن یہی فریضہ نااہل ، ناقص العلم اور بے مہار خطبا انجام دینے لگ جائیں تویقیناًعوامی جذبات کا بے دردی سے استحصال شروع ہونے لگتاہے ، دلوں میں عصبیتوں کے شعلے بھڑک اٹھتے ہیں۔ پھر انہیں شعلوں کی روشنی میں ’’فرقہ واریت‘‘ کے ناجائز محلات تعمیرکرکے ان کی پیشانی پر ’’قصرِ غیرت دینی‘‘ لکھ دیاجاتاہے ۔ چنانچہ اطراف میں پھیلی فرقہ واریت کارنگ گہراکرنے میں سب سے زیادہ دخل اسی علم واخلاق سے عاری منہ زور خطابت کابھی ہے ۔
(۵) بغی
فرقہ وارانہ فضا قائم بلکہ پختہ کرنے میں کارفرماعناصر میں مضبوط ترین عنصر ’’بغی‘‘ ہے۔ اس مرض کے مریض اہل مذہب معاونت کی بنیادوں پر تعمیری سفر کرنے کی بجائے معاندت کا کلہاڑااٹھائے پہلے سے موجود تعمیرکو بھی پیوند خاک کردیناچاہتے ہیں۔ اسلام کی خاطر کوشاں کسی دوسرے فردیاجماعت کورفیق سمجھنے کی بجائے اپنافریق وحریف یقین کرتے ہیں۔ یہ وہ مہلک مرض ہیں جن کے ہوتے ہوئے ‘’’وحدت امت‘‘ کاکوئی تصور بھی نہیں کیاجاسکتا۔ شاید اسی وجہ سے قرآن نے اس طرف متوجہ کرنا ضروری سمجھا: ’’کان الناس امۃ واحدۃ ۔۔۔ وما اختلف فیہ الا الذین اوتوہ من بعد ما جاء ھم العلم بغیاً بینھم‘‘ یعنی ا نسانیت میں موجود وحدت کاجنازہ اسی بغی کے ہاتھوں نکلا تھا۔
(۶) نیم مذہبی قیادت
کسی دینی غرض سے بنائی جانے والی تنظیموں اور جماعتوں کے لیے معقول معیار نہ ہونا بھی ’’فرقہ واریت ‘‘ کاسبب بن رہاہے ۔ جماعت ، تنظیم یاتحریک کن شرائط پر بننی چاہیے؟ ان کے سربراہ کے لیے میرٹ کیاہے؟ یہ اور اس طرح کے دیگر لوازمات جماعت تاحال ہماری سنجیدہ توجہ کے مستحق نہ بن سکے ۔’’ مطلوبہ دینی مقاصد‘‘ شاید اتنے نہیں جتنی ہمارے ہا ں تنظیموں اور جماعتوں کی بھرمار ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اکثر جماعتوں کے سربراہان اور قائد ین اہلیت وصلاحیت کے اعتبار سے شایدبیسویں لائن کے لوگ بھی نہیں ہوتے جنہیں منصب قیادت نے بہت نمایاں کرکے ’’صف اول‘‘ کا جز لاینفک ‘‘بنا رکھاہوتاہے۔ ’’نیم ملا خطرہ ایمان‘‘کاعملی ظہور انہیں جماعتوں کے کئی اعتبارات سے ’’نیم ‘‘ قائدین کی صورت میں ہمارے سامنے ہوچکاہے۔ مذہب کے نام پر کسی فساد کی نشاندہی کیجیے اور اس کی بنیادوں تک پہنچنے کاسفر جاری رکھیے، یقیناہر مذہبی فساد کے پیچھے کوئی نہ کوئی ’’نیم‘‘ ضرور کھڑا نظر آئے گا، عام اس سے کہ وہ علم میں نیم ہو، عمل میں ، اخلاق میں یا پھر عقل وحکمت کے لحاظ سے۔ بہر حال اس نی مذہبی قیادت نے بھی ’’ فرقہ واریت ‘‘ کا ماحول تشکیل دینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔
(۷) ترجیحات کی غلط ترتیب
انسان اعلیٰ سے اعلیٰ نظام سے وابستگی اختیار کرلے، چاہے جتنی عمدہ سے عمدہ تربیت حاصل کرلے ، کبھی اپنے سے قہر وغضب کی مطلقاًنفی نہیں کرسکتا۔ ان صفات کے خالق نے انسانی فطرت کی حقیقت کے پیش نظریوں ارشاد فرمایاکہ ’’ان الشیطٰن لکم عدو فاتخذوا ہ عدو۱‘‘! یعنی قوت قہرو غضب کویوں ہی محل بے محل میں چھڑکتے نہ پھرو، بلکہ صرف وصرف شیطان اور شیطانی طاقتوں کی طرف اپنے غضب کارخ موڑے رکھو۔ خدانخواستہ یہی رخ امت کی طرف مڑ گیاتو’’وحدت ‘‘ کی کمرٹوٹ جائے گی۔ اسے یوں سمجھیے کہ کچی چھت پر جمع شدہ پانی کسی پرنالہ کے ذریعہ نہ نکالاجائے تو چھت توڑ کر اندر ٹپکنے لگ جاتاہے۔ یوں ہی انسانی فطرت میں جمع شدہ غیظ وغضب کو اظہار کی متعین جگہ نہ ملے تواپنوں پرہی ظاہر ہوجاتاہے۔ دیکھیے قرآن کس پیرایے میں سمجھانا چاہتا ہے: ’’اشداء علی الکفار رحما ء بینھم‘‘ یعنی شدت کا رخ کفار کی طرف موڑ دینے والے نتیجتاً افراد امت کے ساتھ نرم خوہی رہتے ہیں۔ اصحاب محمد علیہم الرضوان اسی حقیقت کامظہر اتم تھے۔ اس مقصد کے لیے ضروری تھا کہ ہماری ترجیحات ’’اسلام ‘‘کی بنیاد پر ترتیب دی جائیں۔ اس سے لازماً ’’اسلامی عصبیت ‘‘کا ظہور ہوتا جس کا لازمی نتیجہ کفر سے نفرت ہوتا، لیکن یہاں ترجیحات مسلک کی بنیاد پر طے کی گئیں جس کی کوکھ سے خوفناک مسلکی تعصب نے جنم لیا اور یہی تعصب قینچی بن کر امت کی وحدت کومسلسل کاٹتاچلاگیا ۔ سو اہل مذہب کواپنی مذہبی ترجیحات اسلام کی بنیاد پر طے کرنی ہوں گی۔
اس تناظرمیں پڑھیے، قرآن کیاکہتاہے: ’’ان اقیموا الدین ولا تتفرقوا فیہ‘‘ اپنی جدوجہد کاہدف ’’الدین‘‘ کاقیام بناؤ، ورنہ تفرق وتشتت سے نہ بچ سکوگے ۔ ایسانہیں ہے کہ تمہارامسلک ’’الدین‘‘ کے قائم مقام کی حیثیت اختیار کرلے اور تمہارے مسلک سے باہر ’’الدین ‘‘کااحاطہ بھی نہ پہنچ سکے ۔ ایساہوگاکہ تمہارے مسلک کادائرہ تونہ پہنچ سکے گا البتہ ’’الدین‘‘ کاحصار اسے بھی حاوی ہوگا۔’’الدین‘‘پرفوکس ہوگاتو نفرت کارخ بھی ’’غیر الدین‘‘کی طرف ہوگا۔ ’’الدین ‘‘ کے علاوہ پر فوکس کرنے والے یقیناًنفرت کا رخ کسی نہ کسی لحاظ سے خود ’’الدین‘‘ہی کی طرف موڑ لیں گے۔ ہمارامدعایوں سمجھیے کہ ہم اگر مسلک احناف سے وابستہ ہیں توحنفیت کے حصار میں آگئے، لیکن ’’الدین‘‘کادائرہ حنفیت کے دائرہ سے بہت وسیع ہے۔ چنانچہ مثلاً حنابلہ ، شوافع اور مالکیہ گو حنفیت کے دائرہ میں نہ آسکے، بہر حال ’’الدین‘‘کے دائرہ سے باہر نہیں۔ اہل مذہب ’الدین‘پر فوکس کیے بغیر امت کو ’’تفرقہ‘‘ سے نہیں بچا سکتے۔
(۸) اسوۂ سلف کوملحوظ رکھنا
اہل مذہب جن عظیم ہستیوں سے اپنی نسبتوں کا دم بھرتے نہیں تھکتے، عملاً مذہبی اختلافات کے مرحلہ میں ان کے ا سوہ کو ملحوظ نہیں رکھتے۔ جنگ صفین کاتصور ایک خونی مذہبی اختلاف سے مرکب ہے۔ اس شدید مذہی اختلاف کے باوجود رومیوں کی ناپاک خواہش کاجو جواب سیدناامیر معاویہؓ نے دیا، اس جواب کاایک ایک لفظ ’’مقاصد شریعت‘‘ پر گہری نظر اور شرعی تقاضا بدلتے ہی حکمت عملی بدل لینے کی طرف راہنمائی کرتا ہے ۔ یعنی اگر کفر نے حملہ کیا توتقاضا علیؓ سے اتحاد کاہوجائے گا، جس کے لیے معاویہؓ نہ صرف اتحاد کرلے گا بلکہ بطور سپاہی اپنی تمام ترتوانائیاں کفر کے خلاف صرف کردے گا۔ کم از کم پاکستان کی سُنی اکثریت کے پیش نظر دیوبندی ، بریلوی اور اہل حدیث طبقہ میں بھی مسلکی برداشت کے گراں قدر لائق تقلید نمونے موجود ہیں جن کا بخوف طوالت سر دست ذکر نہ ہوسکے گا۔ ضروری ہے کہ جن ہستیوں سے نسبت اہل مذہب کاتشخص قرارپاتا ہے اُن کے رویوں کی جھلک بھی ہمارے رویوں میں نظر آنی چاہیے۔
(۹) اشاعت کا غیرمحتاط اسلوب
فرقہ واریت کا پوداتنا ور درخت بننے سے پہلے غیر محتاط لٹریچر سے خوب پانی چوس لیتاہے ۔ یہی غیرمحتاط لٹریچر نااہل خطبا کو آب ودانہ مہیاکرتاہے یوں خطیبانہ جواہراپنے کمال تک پہنچنے سے پہلے ’’فرقہ واریت‘‘ کو کمال تک پہنچا دیتے ہیں ۔ غیر ضروری اختلافی مسائل کی عوام میں اشاعت ، طعن وتشنیع پر مشتمل جارحانہ طرزتحریر، مخالف پر طنزیہ فقرے چست کرنے کی ریت وغیرہ ذالک امور مذہبی لٹریچر کا ناگزیر حصہ بن کر بدترین پھوٹ کا ذریعہ بن رہے ہیں ۔
(۱۰) مشترکات کو نظر اندز کرنا
مذہبی روایت میں مخالف یا مختلف نظریہ کے حامل افراد کے محاسن عموماً بلکہ کلیتاً نظر انداز کرلیے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں کامذہبی ذہن کریدکریدکر وجوہ نزاع نکالنے میں بڑی دلچسپی سے مگن رہتاہے ، یوں صلاحیتیں تخریب میں کھپنے لگتی ہیں ۔ اسی اختلاف کی تلاش کانشہ اور تضلیل وتفسیق کا جنون مشترکات کی طرف متوجہ ہونے سے مانع رہتاہے ۔ حالانکہ امت میں شامل افراداور جماعتوں کے مابین ایسی اساسات اتفاق ضرور پائی جاتی ہیں جن پر وحدت امت کی بنیادیں اٹھائی جاسکتی ہیں ۔ آج ’’تعالو الی کلمۃ سواء بیننا و بینکم‘‘ میں موجود کھلی ہدایت اپنے ماننے والوں سے عمل درآمد چاہتی ہے ۔
اب آئندہ سطور میں ’’فرقہ واریت‘‘ کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کا جائزہ لیاجاتاہے ۔
(۱) اسلامی واخلاقی احکامات کی حکم عدولی
فرقہ واریت کاماحول دلوں میں غلو پر مبنی عقیدت قائم کرواتاہے جس کا رد عمل دوسرے فرقوں سے شدید نفرت کے اظہار کی صورت میں ہوتاہے۔ اس موقع پر کئی اسلامی حقوق ، فرقہ وارانہ جذبات کی تسکین کی خاطر بلا تردد پامال کرلیے جاتے ہیں۔ اختلافی مسائل میں اپنی برتری اور حقانیت ثابت کرنے کے جنون میں متفق علیہ ناجائز امور بھی بآسانی برت لیے جاتے ہیں۔ غیبت، بدگمانی ، اہانت، تذلیل ، طعن و تشنیع جیسے قبیح اخلاقی جرائم بھلاکون سا مذہبی مسلک اسلام کی روسے جائز کہہ سکتاہے؟ تمام اہل مذہب نے اسلام کے نام پر اپنی اپنی جماعتیں تشکیل دیں۔ پھر اسی اسلام کے بنیادی احکامات اس موڑ پر بالکلیہ نظر انداز کرڈالے۔بغض وحسد کے وہ شعلے بھڑکائے کہ ’’حبل اللہ‘‘ بھی جلا ڈالی۔ ’’حبل اللہ‘‘کی گرفت ڈھیلی پڑتے ہی عصبیتی خواہشات بے لگام ہوگئیں، بداخلاقی کے ریکارڈ قائم کرنے میں باہمی مسابقت کا ماحول پیداہوگیا جس میں ہر فریق دوسرے پر بازی لینے کے لیے اخلاق وشرافت سے کوسوں دور ہوجاتاہے ۔ تفرقہ واختلاف کاایک ہولناک طوفان اٹھا جس نے وابستگانِ مذہب کواخلاقی کسمپرسی کے لق ودق بیاباں میں بے یار ومددگار چھوڑ دیا۔
(۲) دیانت دارانہ فہم واستدلال کی حکومت کاخاتمہ
فرقہ واریت کے بڑھنے کی وجہ سے عصبیتی جذبات بھی شدت اختیار کرتے چلے گئے جس کا برانتیجہ یہ نکلاکہ عقل واستدال انہی منفی جذبات کے خادم بن کررہ گئے ۔ قرآن وسنت سے راہنمائی ملنے کی بجائے عصبیتی جذبات کی تسکین کا سامان تلاشا جانے لگا ۔ چنانچہ وہی قرآن جس سے معمولی فہم رکھنے والے کے لیے بھی ہدایت مل جانابآسانی ممکن تھا ، فرقہ واریت کی شامت سے کئی افلاطونی دماغ بھی اس کی ہدایت تک نہ پہنچ سکے ۔ بڑے بڑے دماغ لے کر قرآن کے حضورتو آئے مگر جب واپس لوٹے تو قرآنی آیات کو مزعومات کی تائیدمیں کھڑاکرکے لوٹے ۔ قرآن نے کیاکہا؟ اس کی منشاکیاتھی؟اس سے نابلد رہے۔
(۳) علمی بددیانتی کا چلن
علمی خیانت فرقہ واریت کالازمی نتیجہ ہے۔ ایسا ماحول دوسرے کی بات پر کماحقہ غور کرنے سے ہی مانع بن جاتاہے ۔ مخالف کے مؤقف کومن گھڑت غلط سلط مفاہیم کاجامہ پہنا کرپروپیگنڈہ کی ساری سنتیں زندہ کرلی جاتی ہیں، پھر اس پر افسانہ آرائیوں کا اک نہ تھمنے والا سلسلہ چل پڑتاہے۔ دوسرے کو بہر حال گمرہ اور غلط ثابت کرنے کے لیے سینہ زوری اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ اخلاق ودیانت ماتم کناں جبکہ جبین حیا عرق عرق ہوجاتی ہے۔ جبکہ اسلام میں دیانت کا ایسا پیمانہ مطلوب ہے جس میں اپنے خلاف بھی گواہی دینا پڑ جائے تو بلاتأمل دی جاسکے۔
(۴) ابہامات کا فروغ
مذہبی تعبیرات میں خیانت در آنے سے جھوٹ شوشے اور ادھورے سچ کے نمونے کئی بار دیکھنے کوملتے ہیں ۔ پوری حقیقت لینے کی بجائے ادھوری حقیقت لے لی جاتی ہے یا پھر حقیقت کو بالکل ہی نظر انداز کردیاجاتاہے۔ اس صورت حال میں لوگوں کے لیے درست رائے قائم کرنا دشوار ہوجاتاہے۔ پھر یہ ابہامات تضادات کو جنم دیتے ہیں اور تضادات تصادم کی راہ ہموار کرتے ہیں جس کا لازمی نتیجہ سماجی زندگی میں انتشار، بے چینی ، افراتفری اور خوف کی صورت میں نکلتاہے۔ مجموعی زندگی کانظام اتھل پتھل ہوکر رہ جاتاہے ۔ ابہام کی موجودگی علمی ونظریاتی سطح پر بدبودار جمود پیدا کردیتی ہے عقل وفہم کاپہیہ جام ہوکر فکری ارتقاء معطل ہوجاتاہے ،بے سروپاگمانوں کی بہتات سے عقل و علم مجروح کردیے جاتے ہیں۔ پھر یہی عقل وفکر کابحران اک خوفناک المیہ بن کر ہمارے لیے ترقی کے سارے امکانات ختم کرلیتاہے ۔ قرآن اس موقع پر واشگاف الفاظ میں یوں راہنمائی کرتاہے کہ ’’وقولوا قولا سدیدا‘‘ کہ کچھ کہنے سے پہلے اپنی بات کو سچائی اور دیانت کے پیمانوں میں اچھی طرح تول لیاکرو۔
(۵) تعمیری سوچ کا فقدان
متعصب ذہن ہر ممکن حدتک مخالف سے تقابل کی فضا قائم رکھنے کاعادی ہو جاتا ہے۔ اس کے پیش نظر اپنی برتری کا اثبات اور مخالف کو نیچا دکھاناہوتاہے۔ اس طرز فکر وعمل سے باہمی تلخیاں پروان چڑھتی ہیں، امت کی طاقت سے کوئی تعمیری کام لیناناممکن ہوجاتاہے۔ لوگ تخریبی طور پر سوچنے کے عادی بن جاتے ہیں، طبیعتیں مثبت طرز کے کاموں میں کوئی دلچسپی محسوس نہیں کرتیں۔ قرآن وسنت سے صرف نزاعی موضوعات کے اثبات وتردیدکی غرض سے استناد کیاجاتاہے ۔ مثبت وتعمیری رخ پہ غور طلب سینکڑوں احکامات شرع نظر انداز کر دیے جاتے ہیں، صرف اس وجہ سے کہ عموماً اہل مذہب کی دلچسپی کاسامان رد ودفاع کا میدان کارزار گرم کرناہوتاہے ۔ اسلام کے بنیادی تقاضے سمجھنے میں بھی ایساذہن نارساثابت ہوتاہے ۔
(۶) ناحق قتل وقتال کاسلسلہ
فرقہ واریت کازہر پوری طرح سرایت کرجانے کے بعد مخالف کاقتل مباح سمجھ لیاجاتاہے ۔ سینوں میں دھکتی یہ تعصب کی آگ خونِ ناحق بہائے بغیر بجھنے کا نام نہیں لیتی۔ پھر یہ سلسلہ انتقام در انتقام کی صورت میں قتل وقتال کی طویل خونی داستانیں رقم کرنے لگتاہے۔
(۷) اسلام سے اعتماد اٹھ جانا
فرقہ وارانہ کشمکش کے ماحول نے امت کے بڑے طبقہ کواسلام سے ہی بیزار کرڈالاہے ۔وہ اسلام جو اپنی خصوصیات کے اعتبار سے دنیا بھر کے انسانوں کو اپنے میں سمیٹنے کی صلاحیت رکھتاتھا ،اس کشمکش سے متاثر امت کا ایک بڑا طبقہ اسلام سے ہی بدظن ہوابیٹھاہے ۔ یوں فرقہ واریت کی یہ زد براہ راست اسلام کے مقاصد پر جاپڑتی ہے ۔ اسلام کے حسین خد وخال کافی حد تک متاثر ہو کربدنماہوجاتے ہیں ۔ لوگ اسلام سے متنفر ہوکر ابدی خیر سے ہی محروم ہوجاتے ہیں ۔
(۸) مالی نقصانات
علمی ، فکری، دینی ،اخلاقی اور جانی نقصانات کے ساتھ ساتھ ’’فرقہ واریت‘‘ کا ایک نقصان مالی نوعیت کابھی ہے ۔ مخالف کے سامنے اپنی شان وشوکت کے اظہار کیلئے مختلف طریقے اپنائے جاتے ہیں ۔ اس مقصد کے لیے اسراف وتبذیرکی ساری راہیں کھول دی جاتی ہیں۔ مذہب کے نام پر جمع شدہ پونجی کا خطیر حصہ فرقہ وارانہ مقاصدمیں ضائع کردیاجاتاہے ۔ غیر معیاری لٹریچر کی اشاعت، غیر ضروری جلسے جلوس وغیرہ کے مصارف کو اسراف کے علاوہ کوئی نام نہیں دیاجاسکتا۔
اصلاحی تجاویز
حالات سنگین ہوچکنے کے بعد بھی قابل تغیررہتے ہیں ۔ اگر انسان راست فکر اور درست عمل کو پذیرائی دیناشروع کردے توبگاڑ سے سدھار کاسفر یقیناًممکن ہوجاتاہے ۔ ذیل میں چند تجاویز ’’فرقہ واریت‘‘کے خاتمہ کی غرض سے حوالہ قرطاس کی جاتی ہیں۔
(۱) ایسی تقریرو تحریر سے اجتناب جس سے عقیدہ توحید مجروح ہوتاہو،کسی بھی طبقہ کی محترم شخصیات وعقائد (رسول خدا، ازواج نبی، اصحاب پیغمبر‘اہل بیت سلف صالحین ، اولیاء کرام، ائمہ مجتہدین اور شعائر دین وغیرہ) کی اہانت کاتاثر ابھرتا ہو۔
(۲) ہر مسلک اور جماعت کے ذمہ داران خطبا حضرات کے لیے میرٹ وحدود متعین کیے جائیں،ایسا ضابطہ طے کرنا ضروری ہے جس کے ذریعے نااہل اور بے مہار خطباء منبر ومحراب سے دور رکھے جاسکیں ۔ اس مقصد کے لیے چند ممکنہ صورتیں یوں ہوسکتی ہیں ۔
(الف) تخصص فی الافتاء وتخصص فی الحدیث وغیرہ کی طرح کاتخصص فی الخطابہ کورس بھی باضابطہ مدارس میں کروایاجائے جس میں خطبا کے علمی واخلاقی معیار کوبہتر بنایاجائے پھر بتدریج کسی بھی خطیب کے لیے اس کورس کے بغیر خطابت ممنوع قراردی جائے ۔
(ب) یاکسی بھی مسلک یا جماعت کے ذمہ داران کی طرف سے باضابطہ اجازت نامہ حاصل کرنے کے بعد خطابت کی اجازت دی جائے ۔
۳۔ریاٍست اور علماء کے تعاون سے ایک بورڈ تشکیل دیاجائے جس کی تصدیق کے بغیر کوئی لٹریچر شائع کرنا جرم قراردے دیاجائے ۔
۴۔ ہر مسلک کے علماء کی سپریم کونسل تشکیل کی جائے جوہنگامی صورت حال اور دیگر مسلکی تنازعات میں مصالحتی کمیشن کا کردار اداکرے۔
۵۔ مذہبی تعلیمی اداروں میں وحدت امت ، انسانی حقوق ، اخلاقی اہمیت ، دوسرے مسالک کے حقوق کی اہمیت کواجاگر کرنے والامفید لٹریچر شامل نصاب کیاجائے کیونکہ تعلیم وتربیت کے بغیر انسان کی اصلاح کا مؤثر ذریعہ کوئی اور نہیں۔
۶۔ مدارس کے اساتذہ علماء میں یہ شعور بطور مہم اجاگر کیاجائے کہ خود بھی اپنے طلبا کے سامنے مخالف مسالک وشخصیات کی اہانت سے باز رہیں اور طلبا کو بھی باز رکھنے کی عملی تربیتی کوشش کریں ۔
۷۔ بین المسالک مشترکہ سیمینارزاور نشستیں وقتاً فوقتاً منعقد کی جایاکریں ۔ طلبا وعلما ایک دوسرے کے اداروں اور جامعات کے دورے کااہتمام کریں۔ باہمی دوریوں کی وجہ سے پیداشدہ غلط فہمیاںآپ ہی دور ہوجائیں گی۔
۹۔ مختلف نشستوں اور پمفلٹس اور دیگر ذرائع سے علماء میں اسلام کی اساسات پر حملہ آور فتنوں (الحاد، اباحیت، دہریت، مغربیت وغیرہ)سے آگاہ کیاجاتارہے تاوقتیکہ علماء طبقہ اپنی مخالفتوں کا رخ درست سمت موڑ لے ۔
۱۰۔ اسلامی اخلاقی اصولوں کی پابندی یقینی بنائی جائے ۔
۱۱۔ اختلافات کے دائروں میں فرق واضح طور پر سمجھا اور سمجھایاجائے کہ کہیں اختلاف کفر واسلام کہیں حق وباطل کا کہیں اہل قبلہ کے مابین کہیں اولیٰ غیراولیٰ ، وغیرہ ہر اختلاف کااپنا دائرہ آداب اور احکامات ہیں۔ اس فرق کو خوب ملحوظ رکھاجائے ۔
۱۲۔ اس شعور کو عام کیاجائے کہ کسی بڑے سے بڑے مخالف کے بھی آپ کے ذمہ کچھ حقوق اسلام نے لازم کیے ہیں ۔ اختلاف کی آڑ میں ان حقوق کو تلف کردیناکسی طرح جائز نہیں ہوسکتا۔
۱۳۔ مستند اور تربیت یافتہ جید علماء کرام کے علاوہ اختلافی مسائل چھیڑنے سے حتی الامکان باز رکھاجائے ۔ چونکہ اختلافی مسائل ڈھنگ اور سلیقہ سے بیان کرنا کسی طرح افتراق کاذریعہ نہیں بنتا ۔
۱۴۔ باہمی مکالمہ کیلئے تربیت یافتہ علماء کرام کی زیر نگرانی تحریری وزبانی فورمز مہیاکیے جائیں جس کے ذریعہ علمی واستدلالی بنیادوں پر علمی مباحث کو فروغ دیاجاسکے۔
۱۵۔ اہل مذہب یہ طے کرلیں کہ بہرحال صداقت اور باہمی انصاف پر قائم رہاجائے ۔ ’’جنگ میں سب کچھ جائز‘‘ کاابلیسی اصول اختیار کرکے مخالف پر جھوٹے الزامات لگانے اور افسانے تراشنے کی دل شکنی کی جائے۔ اس طرز کے بے ہودہ طریقوں کا چلن ایک غلط ماحول تشکیل دیتاہے ۔ اہل مذہب کوبار بار آگاہ کیاجاتارہے کہ پھر ایسا ماحول کبھی بھی تعاون ومفاہمت کے لیے نہیں بلکہ تصادم ومزاحمت کیلئے ہی سازگار رہے گا۔ پھر نتیجہ اس کے سوانہ نکلے گاکہ اس بے ہودہ طریقے کو مفید سمجھنے والے خود بھی نہ بچ سکیں گے۔
۱۶۔ اہل مذہب کو اب علمی ناز بہرحال ترک کرنا ہو گا۔ رائے رکھنے کے جملہ حقوق اپنے ہی نام محفوظ کر لینا یقیناًانفرادیت کا وہ مبالغہ ہے جو اجتماعی زندگی میں کبھی بھی نبھ نہیں سکتاہے ۔ اب اپنی رائے کا وزن دھونس دھاندلی کی بجائے علم واستدلال کی بنا پر تسلیم کروایاجاسکتاہے ۔ جبروتشدد کے زور پر کشمکش، مزاحمت ، بدمزگی کاماحول پیداکرکے اپنی رائے شاید وقتی طور پر کہیں مسلط توہوسکے مگر کامیاب نہ ہوسکے گی۔ کامیابی کے لیے بہر حال امت کی طرف سے قبولیت اور دلی رضامندی ناگزیرہے ۔
۱۷۔ انفراد ی عصبیت کی بجائے ملی واسلامی مفادات پیش نظر رکھناضروری ہیں چونکہ ہر تعصب جواب میں ایک دوسرے تعصب کو پیداکردیتاہے، یوں تعصب کے مقابلے میں تعصب کشمکش پیداکیے بغیرنہیں رہ سکتا۔
۱۸۔ جماعت یاپارٹی بنانے کاعمل اتناآزادانہ نہیں ہوناچاہیے۔ اس کے لیے شرائط طے کرناضروری ہیں، بالخصوص پارٹی سربراہ کے لیے شرائط ومیرٹ طے کرناضروری ہے ۔کم از کم ہر مذہبی جماعت کا سربراہ ایک مستند عالم دین ، ملی واسلامی مفادات پر گہری نظر رکھنے والا عصری تقاضوں کا ادراک رکھنے والاتوہوناچاہیے۔
۱۹۔ بین المسالک حقوق کا تعین انتظامیہ اور علماء کی مشاورت سے طے کرکے مساویانہ عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔ مذہبی جلسے جلوس کی حدود متعین کی جائیں ۔
۲۰۔ ملی یکجہتی کونسل کی (17) نکاتی سفارشات پر عملدرآمد کیاجائے ۔
۲۱۔ بعض مسلکی تنازعات مٹانے کی غرض سے سابق میں کی گئی کاوشوں پر عملدرآمدبھی ضروری ہے۔ ’’المہندعلی المفند‘‘، ’’فیصلہ ہفت مسئلہ‘‘، ’’31 علماء کے 23 نکات‘‘، ’’تحریک نفاذ نظام مصطفی‘‘، ’’’تحریک ختم نبوت ‘‘وغیر ذالک۔ ان کاوشوں وتجربات کی روشنی میں وحدت امت کے ہدف کی طرف سفر کاپھر سے آغاز کیاجاء۔
۲۲۔ سوشل میڈیا کے ذریعے اشتعال انگیز مواد کی سرکولیشن روکی جائے۔
آخرمیں قرآن مقدس کی روشنی میں ’’تفرق ‘‘ سے بچنے کے نسخہ پر بھی غور کرلیتے ہیں جسے قرآن حکیم نے یوں بیان فرمایاہے: ’’واعتصموا بحبل اللہ‘‘ یعنی پھر سے رجوع الی القرآن کیاجائے۔ آگے فرمایا: ’’ولاتفرقوا‘‘۔ قابل غور امر یہ ہے کہ ’’ولاتختلفوا‘‘ نہیں فرمایا۔ مطلب یہ کہ اختلاف کا مٹنا تو ممکن نہیں، البتہ اختلافات کو تحزب وتفرق کا ذریعہ مت بناؤ۔ ایک دوسرے موقع پر یوں ارشاد ہوتاہے ’’ان تتقوا اللہ یجعل لکم فرقاناً‘‘ یعنی دلوں میں اللہ کاڈر رکھنے والے اور خود کو برائی سے دور رکھنے میں سنجیدہ افراد ’’تقویٰ ‘‘ کی پونجی بڑھاتے جائیں ، اللہ اختلافات میں امتیاز کی قوت عطاے فرمائے گا۔ یہ تقویٰ کیاہے؟ چھوٹے بڑے ، کھلے چھپے، حقوق اللہ وحقوق العباد اور اعضاوقلب کے گناہوں سے بچنا۔ ایسی صفات والاشخص کبھی اختلافات میں نہ الجھے گا۔
اب یہ تقویٰ حاصل کیسے ہو؟ ایک موقع پر یوں ارشاد ہوتاہے: ’’یا ایہاالذین اٰمنو اتقوا اللہ وکونو مع الصادقین‘‘ یعنی ان لوگوں کی معیت اختیار کی جائے جو زبان، دل ، عقیدہ، فکروعمل اورکردار کے سچے ہیں ۔ قرآن کی مطلوب ان صفات کواپنے میں پیدا کرنے والے فرقہ واریت جیسے سنگین گناہ میں مبتلا ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ شریعت اسلام میں مجبوری کی حالت میں خنزیر کا گوشت کھانا تو حلال ہو سکتا ہے مگر فرقہ واریت اور تفرقہ بازی کسی صورت جائز قرار نہیں دی جا سکتی۔
خیبر پختون خوا میں سود کی ترویج کی ایک مذموم کوشش ۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کا موقف؟
محمد مشتاق احمد
قرآنِ کریم نے صراحتاً سودخوروں کے خلاف اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے اعلانِ جنگ کیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا محاصرہ کیا اور بعد میں وہاں کے لوگوں نے دار الاسلام کا حصہ بننے کے لیے شرائط رکھیں تو آپ نے ان کی ہر شرط قبول کی ، سواے اس شرط کے کہ وہ سودی لین دین برقرار رکھیں گے۔ اسی طرح اہلِ خیبر اور اہل ِ نجران کے لیے شرط رکھی تھی کہ وہ سودی لین دین نہیں کریں گے۔ اسی بنا پر فقہاے کرام نے قرار دیا ہے کہ دار الاسلام میں سودی لین دین کی اجازت کسی صورت نہیں دی جائے گی ، یہاں تک کہ غیر مسلموں کے ساتھ کیے گئے معاہدات میں بھی اس کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ امام سرخسی نے اس قاعدے کی تصریح کی ہے : الربا مستثنیً من کل عھد۔ چنانچہ کسی خطے کو دار الاسلام قرار دینے کی کم سے کم شرائط میں ایک یہ ہے کہ وہاں قانوناً سودی لین دین کی ممانعت ہو۔
وطنِ عزیز میں آبادی کی انتہائی غالب اکثریت مسلمانوں کی ہے ؛ اسلامی شریعت کو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نافذ کرنے کی کوشش خود کو مسلمان کہلوانے والوں کی ذمہ داری ہے ؛ اسی لیے پاکستان کے دستور کی دفعہ 227 میں واشگاف الفاظ میں یہ اعلان کیا ہے کہ پاکستان میں اسلامی قانون سے متصادم قانون نہیں بنایا جائے گا اور یہ کہ موجود تمام قوانین کو بھی اسلامی قانون سے ہم آہنگ کیا جائے گا۔ ان دستوری وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے دستور کی رو سے اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت کے ادارے قائم کیے گئے ہیں جن کی کاوشوں کے نتیجے میں کئی قوانین میں غیراسلامی دفعات کو ختم کیا گیا ہے۔ تاہم بعض غیر اسلامی قوانین اب بھی مختلف وجوہات کی بنا پر اس ملک میں رائج ہیں اور ان میں سب سے زیادہ سنگین مسئلہ ان قوانین کا ہے جو سود اور سودی نظام کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
مصورِ پاکستان علامہ محمد اقبال نے جب قائدِ اعظم محمد علی جناح کو انگلستان سے واپس آکر مسلمانوں کی قیادت سنبھالنے کے لیے خطوط لکھے تو ان میں خصوصاً اس بات کا ذکر کیا کہ مسلمانوں کی معیشت پر ہندوساہوکار نے سود کے ذریعے قبضہ کیا ہوا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد 1948ء میں جب قائدِ اعظم نے اسٹیٹ بینک کا افتتاح کیا تو اسلامی معاشی نظام کے لیے کام کرنے پر خصوصی زور دیا۔ اس کے باوجود پاکستان میں نہ صرف بینکوں کے ذریعے اور حکومتی سطح پر سود کا آسیب مسلط رہا ہے ، بلکہ انفرادی اور نجی سطح پر بھی قانونی طور پر سود وصول کرنے کی اجازت ہے۔ اس سلسلے میں ایک اہم قانون "مغربی پاکستان نجی سودی قرضوں کا آرڈی نینس" (West Pakistan Moneylenders Ordinance 1960) ہے جس کے ذریعے نجی قرضوں پر بھی ساڑھے سات فی صد سالانہ تک شرحِ سود جائز قرار دیا گیا ہے۔
نجی قرضوں پر سود کے امتناع کا قانون 2007ء
اگرچہ حکومتی یا بینکوں کے سود کو بھی عملی مشکلات کے لولے لنگڑے عذر کی بنا پر کسی طور پر جواز نہیں دیا جاسکتا ، لیکن نجی سودی کاروبار کی ممانعت کی راہ میں آخر کیا رکاوٹ ہے ؟ ہمیں اس کا اندازہ اس وقت ہوا جب 2005ء میں میرے والد گرامی جناب اکرام اللہ شاہد صاحب نے ، جو اس وقت صوبائی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر تھے ،اسمبلی میں نجی قرضوں پر سود کے خاتمے کے لیے ایک بل پیش کیا۔اس وقت صوبہ سرحد میں مذہبی سیاسی جماعتوں کے اتحاد ، متحدہ مجلسِ عمل ، کی حکومت تھی ؛ اس لیے توقع یہ تھی کہ یہ بل فوراً ہی قانون بن جائے گا لیکن مختلف حیلوں بہانوں سے اسے دو سال تک لٹکائے رکھا گیا اور یہ بل دو سال تک محکمہ قانون، محکمہ خزانہ اور محکمہ داخلہ کے پاس رہا لیکن ان دو سالوں میں ان محکموں کی جانب سے اسمبلی سیکرٹریٹ کو کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ بالآخر والد صاحب کی بھرپور کوششوں کے بعد جولائی 2007ء میں اسمبلی نے اسے بالاتفاق منظور کرلیا۔ اس قانون کی رو سے نہ صرف 1960ء کے اس قانون کو منسوخ کیا گیا جس کی رو سے نجی قرضوں پر سود کی اجازت دی گئی تھی ، بلکہ اس فعل کو قابلِ دست اندازیِ پولیس اور ناقابلِ ضمانت اور ناقابل ِ صلح جرم قرار دیا گیا۔ اسی نوعیت کا ایک قانون پنجاب اسمبلی نے بھی منظور کیا۔
سیاسی جماعتوں کا کردار
جیسا کہ عرض کیا گیا ، مذہبی سیاسی جماعتوں کے اتحاد کی حکومت کے باوجود اس قانون کی منظوری میں عدم دلچسپی کا یہ عالم رہا کہ اسے منظور ہونے میں دو سال کا عرصہ لگ گیا۔ اس قانون کی منظوری کے چند مہینے بعد اکتوبر 2007ء4 میں حکومت کی مدت پوری ہوگئی۔
2008ء میں عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت آگئی۔ بعض عوامل کی وجہ سے ، جن کا ذکر غیر ضروری ہے ، حکومت نے کبھی اس قانون کو عملاً نافذ کرنے کی کوشش نہیں کی جس کی وجہ سے قانونی طور پر جرم قرار دیے جانے کے بعد بھی سودی لین دین کا سلسلہ بلا روک ٹوک کے جاری رہا۔ 2012ء میں عدالتِ عالیہ پشاور کے بعض احکامات کی بنا پر ، جن کا ذکر آگے آئے گا ، حکومت کو اس قانون کے خاتمے کے لیے کوشش کرنے کا موقع ملا۔چنانچہ ایک مسودۂ قانون Khyber۔Pukhtunkwa Prohibition of Usurious Loans Bill 2013 اس مقصد کے لیے بنایا گیا اور اسے 7 مارچ 2013ء کو اسمبلی میں پیش بھی کیا گیا لیکن اس کی منظوری سے قبل ہی حکومت کی مدت پوری ہو گئی۔
پاکستان تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی کی نئی حکومت پر عدلیہ کی جانب سے دباؤ برقرار رہا۔ نومبر 2013ء میں اسلام آباد میں بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی نے مسلح تصادم اور اندرونی خلفشار کی صورتوں میں طبی سہولیات کے تحفظ کے لیے ایک سیمینار کا انعقاد کیا جس میں مختلف مکاتبِ فکر کے علماے کرام کو گفتگو کے لیے بلایا گیا۔ اس سیمینار میں ایک مقالہ میں نے بھی پیش کیا۔ اس سیمینار میں میری ملاقات جناب مولانا ڈاکٹر عطاء الرحمان صاحب سے ہوئی جن کا تعلق میرے ہی شہر مردان سے ہے۔ ڈاکٹر صاحب جماعتِ اسلامی سے تعلق رکھنے والے ممتاز عالم دین جناب مولانا گوہر رحمان کے فرزند ہیں اور مردان سے جماعتِ اسلامی کے ایم این اے بھی رہے ہیں۔ ایم ایم اے کی صوبائی حکومت کے دور میں وہ "نفاذِ شریعت کونسل " کے رکن بھی رہے اور سنجیدہ اور فہمیدہ اہلِ علم و سیاست میں شمار ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر عطاء الرحمان صاحب نے مجھے بتایا کہ نجی سودی قرضوں کی لعنت کے خاتمے کے لیے عدالتِ عالیہ پشاور نے سخت احکامات جاری کیے ہیں اور حکومت پر لازم کیا ہے کہ وہ اس قبیح فعل کو قانونی طور پر جرم قرار دے۔ ڈاکٹر صاحب اس ضمن میں مجھ سے مدد کے خواہاں تھے اور ان کا کہنا تھا کہ جناب سراج الحق صاحب نے انھیں اس سلسلے میں اہلِ علم سے رابطے کے لیے کہا ہے۔ مجھے اس پر بڑی حیرت ہوئی اور میں نے انھیں بتایا کہ جب اخبارات میں جناب چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کے ریمارکس میں نے پڑھے تھے تو مجھے دھچکا لگا تھا کیونکہ صوبہ خیبر پختون خوا میں تو پہلے ہی سے یہ فعل قانوناً جرم ہے ؛ اور مجھے مزید حیرت آج اس لیے ہورہی ہے کہ آپ کو بھی اس کا علم نہیں ہے جبکہ آپ نفاذِ شریعت کونسل کے رکن تھے اور سراج صاحب کو بھی اس کا علم نہیں جبکہ وہ اس وقت بھی سینئر وزیر اور وزیرِ خزانہ تھے اور آج بھی ہیں ! ڈاکٹر صاحب کو بھی حیرت ہوئی اور کئی بار پوچھا کہ کیا واقعی یہ قانون ہے ؟ میں نے اسی وقت اپنا لیپ ٹاپ کھول کے اس قانون کا مسودہ ا نھیں یو ایس بی میں دے دیا۔
جنوری 2014 ء میں روزنامہ "ایکسپریس" کے کالم نگار جناب شاہد حمید کے کالم کے ذریعے معلوم ہوا کہ موجودہ صوبائی حکومت اسی مسودۂ قانون کو منظوری کے لیے پیش کرنے جارہی ہے جو عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت نے تیار کیا تھا اور جس کا مقصد نجی سودی لین دین کو ایک دفعہ پھر جواز دینا تھا۔ ڈاکٹر عطاء الرحمان اور سراج الحق صاحب کے متعلق حسنِ ظن کی بنا پر مجھے اس پر یقین نہیں آیا۔ اگلے کالم میں جناب شاہد حمید نے صوبائی حکومت کے ذمہ داران کے ایک خط کا ذکر کیا جس میں کہا گیا تھا کہ حکومت 2007 کے قانون کو مزید موثر بنانے کی کوشش کررہی ہے۔ مجھے بھی اس پر یقین کرنا پڑا تاآنکہ پچھلے ہفتے والد صاحب نے مجھے وہ مسودۂ قانون دے دیا جسے صوبائی سمبلی میں پیش کیا گیا ہے۔ اس مسودۂ قانون پر جناب سراج الحق صاحب کے دستخط بحیثیت منسٹر انچارج کے ثبت ہیں جو انھوں نے 14 اپریل 2014ء کو کیے ہیں ، یعنی جماعت اسلامی کے امیر کا حلف اٹھانے کے بعد پہلے ہفتے میں۔
یہ مسودۂ قانون وہی ہے جو 2013ء میں عوامی نیشنل پارٹی نے پیش کیا تھا؛ صرف 2013ء کو 2014 کردیا گیا ہے۔ یہ مسودۂ قانون نجی سودی لین دین پر پابندی کو موثر بنانے کے لیے نہیں ، بلکہ سودی کاروبار کے احیا کے لیے بنایا گیا ہے۔ اگر یہ قانون بنا تو صوبہ خیبر پختون خوا میں ایک دفعہ پھر نجی قرضوں پر سود کو قانونی طور پر جواز مل جائے گا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ 124 ارکان پر مشتمل صوبائی اسمبلی میں، جن میں جمعیت علماے اسلام کے 16 اور جماعت اسلامی کے 8 ارکان بھی ہیں، کسی ایک رکن کو بھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس کا ایک مرتبہ سرسری مطالعہ ہی کرلیتا۔ ہمارے علم کی حد تک کسی رکن اسمبلی نے آج تک اسمبلی سیکرٹریٹ میں بھی اس بل کی کسی شق پر کوئی اعتراض پیش نہیں کیا گیا۔
ذیل میں اس مجوزہ قانون کی بعض شقوں پر تبصرہ پیش کیا جارہا ہے لیکن اس سے پہلے ضروری ہے کہ اس ضمن میں عدالتِ عالیہ پشاور کے احکامات کا بھی جائزہ لیا جائے کیونکہ عدالتِ عالیہ کے احکامات کو ہی اس مجوزہ قانون کی بنیاد کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔
عدالتِ عالیہ پشاور کے احکامات
2012ء میں ایک از خود نوٹس کی سماعت کے دوران میں عدالتِ عالیہ پشاور کے اس وقت کے چیف جسٹس جناب جسٹس دوست محمد خان نے اس امر پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا کہ نجی قرضوں پر نہایت ظالمانہ انداز میں سود وصول کیا جارہا ہے اور اس کی روک تھام میں حکومت اپنا کردار ادا نہیں کررہی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومتی اور بینکوں کی سطح پر سود کے خاتمے کی راہ میں جو بھی رکاوٹیں ہوں ، نجی سودی کاروبار کا فوری خاتمہ ممکن ہے۔ جب اخبارات میں ان کے یہ ریمارکس آئے تو ابتدا میں مجھے یہی خیال آیا کہ شاید انھیں معلوم نہیں ہے اور نہ ہی انھیں ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا ہے کہ 2007ء میں نجی سودی کاروبار کو قانونی جرم قرار دیا گیا ہے۔ تاہم عدالتِ عالیہ کے متعلقہ آرڈر شیٹ نکال لینے کے بعد معلوم یہ ہوا کہ وہ اس قانون کو مزید موثر بنانا چاہتے تھے اور اسی مقصد سے انھوں نے حکومت کو احکامات جاری کیے تھے۔
تاہم چونکہ ان کے احکامات میں بار بار اس بات کا ذکر ہوا کہ نجی سود لینے والے لوگ بڑی ظالمانہ شرح سے سود وصول کررہے ہیں ، اس لیے بیوروکریسی نے ان احکامات کی تعبیر یہ کی کہ عدالتِ عالیہ چاہتی یہ ہے کہ نجی سودی کاروبار جاری رہے لیکن صرف "ظالمانہ شرحِ سود "ہی کو ممنوع قرار دیا جائے ! چنانچہ نیا مسودۂ قانون بنانے کے لیے مختلف محکموں کے سیکریٹریز کی جو میٹنگ ہوئی، اس کے منٹس میں یہی قرار دیا گیا ہے کہ 2007ء کا قانون اس لیے ختم کرنا چاہیے کہ اس نے "مناسب شرحِ سود" کو بھی ممنوع کردیا ہے؛ اور یہ کہ ایسا قانون ہونا چاہیے کہ مناسب شرحِ سود جائز ہو اور ظالمانہ شرحِ سود جرم ہو ! یہی "فلسفہ" اس مجوزہ قانون کے ایک ایک شق کی بنیاد ہے اور یہی اس مجوزہ قانون کی روح ہے۔
یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اگر عدالتِ عالیہ کی مراد واقعتا وہی تھی جو بیوروکریسی نے سمجھی ہے تو عدالتِ عالیہ نے بھی نہ صرف اپنی دستوری ذمہ داری پوری کرنے سے گریز کیا ہے بلکہ اپنے دستوری اختیارات سے تجاوز بھی کیا ہے۔ دستور کی رو سے پاکستان میں شریعت سے متصادم قانون سازی نہیں کی جاسکتی۔ اس لیے عدالتِ عالیہ حکومت کو یہ حکم نہیں دے سکتی تھی۔ اگر عدالتِ عالیہ کا موقف یہ ہے کہ قرآن و سنت کی رو سے صرف ظالمانہ شرحِ سود ہی حرام ہے تو اس موقف کی صحت و عدم صحت کی بحث جائے بغیر ، بہ صد ادب گزارش کی جاتی ہے کہ موجودہ نظام میں قرآن و سنت کی تعبیر کا اختیار عدالتِ عالیہ کے پاس نہیں ، بلکہ وفاقی شرعی عدالت کے پاس ہے۔ اگر عدالتِ عالیہ یہ اختیار حاصل کرنا چاہتی ہے تو اس کے لیے اسے عدالتِ عظمی کے کئی نظائر کے تبدیل ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا۔
دوسری بات یہ ہے کہ دستور کی رو سے قانون سازی اسمبلی کا کام ہے ، نہ کہ عدالتِ عالیہ کا۔ ہاں ، جب اسمبلی قانون منظور کرے تو عدالتِ عالیہ اس کا جائزہ لے سکتی ہے کہ کہیں وہ دستور سے متصادم تو نہیں اور اس کے بعد وہ دستور سے تصادم کی حد تک اسے کالعدم بھی قرار دے سکتی ہے۔ عدالتِ عالیہ کسی موضوع پر قانون سازی کے لیے اسمبلی کو کہہ سکتی ہے لیکن عدالتِ عالیہ کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ قانون سازی کے خدوخال متعین کرکے اسمبلی کو ان کی پابندی پر مجبور کرے۔
مناسب یا ظالمانہ شرح سود
مجوزہ قانون کی اساس یہ مفروضہ ہے ، جیسا کہ اس کے دیباچے کے دوسرے پیرا میں تصریح کی گئی ہے ، کہ "مناسب شرحِ سود" کے ساتھ سودی لین دین جائز ہے اور قانوناً صرف "ظالمانہ شرحِ سود " کی ممانعت ہونی چاہیے۔
چنانچہ دفعہ 3 ( 1) کی رو سے " محض سود " نہیں بلکہ " ظالمانہ سود " کی وصولی کو ہی جرم قرار دیا گیا۔ اول الذکر کو interest اور ثانی الذکر کو usurious interest سے موسوم کیا گیا ہے۔ اس ظالمانہ سود کی تعریف دفعہ 2 (این) میں یہ پیش کی گئی ہے کہ وہ سود جو " بینک ریٹ " سے زائد کی شرح پر وصول کیا جائے۔ پھر دفعہ 2 (اے) میں Karachi Inter۔bank Offer Rate (KIBOR) سے تین فیصد زائد کو بینک ریٹ قرار دیا گیا ہے۔ آگے کئی دفعات میں " بینک ریٹ سے زائد " کی ترکیب استعمال کی گئی ہے ؛ جیسے دفعات 6 ، 7 اور 13۔ سوال یہ ہے کہ کیا دستخط کرنے سے پہلے ہمارے محترم وزیرِ خزانہ اور نو منتخب امیرِ جماعتِ اسلامی کی نظر ان دفعات پر نہیں پڑی تھی ؟
یہاں اس بات کی طرف بھی توجہ دلانی ہے کہ "مناسب " اور "ظالمانہ" شرحِ سود کے تصورات سرمایہ دارانہ نظام سے درآمد کیے گئے ہیں اور مسلمان و غیر مسلم اہل علم نے اس پر بہت کچھ لکھا ہے۔ مولانا مودودی نے بھی اپنی کتاب "سود" میں شرحِ سود کی "معقولیت " پر تفصیلی تنقید کی ہے اور مجھے یقین ہے کہ محترم نومنتخب امیرِ جماعتِ اسلامی نے وہ بحث ضرور پڑھی ہوگی۔ پاکستان میں "مناسب شرحِ سود " کے تعین کے لیے 1959ء میں ایک آرڈی نینس West Pakistan Usurious Loans Ordinance 1959 لایاگیا تھا جس کی رو سے عدالت کو اختیار دیا گیا تھا کہ اگر کسی مقدمے میں وہ محسوس کرے کہ شرح سود " ظالمانہ" ہے تو وہ اسے "مناسب" حد تک لے آئے اور اس ضمن میں مناسب حد کے تعین کے لیے بینک ریٹ کا حوالہ دیا گیا تھا۔ 1960ء میں نجی سودی قرضوں کے آرڈی نینس West Pakistan Moneylenders Ordinance 1960 نے اس چکر میں جانے سے روکنے کے لیے نجی قرضوں کے لیے شرح سود کی زیادہ سے زیادہ حد ساڑھے سات فیصد سالانہ تک مقرر کرلی۔ 2007ء کے قانون کے ذریعے یہ سود کلیتاً ممنوع قرار دیا گیا۔ اس نئے مجوزہ قانون کے ذریعے ایک بار پھر اس سود کو قانوناً زندہ کرنے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے۔
کیا عدالت راس المال کی ادائیگی معاف کرسکتی ہے؟
عدالتِ عالیہ پشاور نے اپنے ایک آرڈر میں قرار دیا تھا کہ نئے قانون میں عدالت کے پاس کا اختیار ہونا چاہیے کہ وہ بطورِ سزا راس المال کی ضبطی کے احکامات جاری کرسکے۔ مجوزہ قانون کا مسودہ بنانے والے اس سے بھی ایک قدم آگے گئے۔ چنانچہ مجوزہ قانون کی دفعہ 10 میں قرار دیا گیا ہے کہ عدالت کو اگر معلوم ہو کہ قرض خواہ مقروض کو تنگ کررہا ہے تو وہ بطورِ سزا یہ کرسکتی ہے کہ راس المال کو بحقِ سرکار ضبط کرلے ، یا مقروض کو باقی ماندہ راس المال کی ادائیگی معاف کردے !
سوال یہ ہے کہ شرعاً کیا عدالت راس المال ضبط کرسکتی ہے ؟ عدالتِ عالیہ کے پاس تعبیرِ شریعت کا اختیار کہاں سے آگیا؟ نیز عدالت کس قاعدے کے تحت مقروض کو راس المال کی ادائیگی معاف کرسکتی ہے ؟ فقہی لحاظ سے تو سودی معاہدہ " عقدِ فاسد" ہے جس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ رقم دینے والے کو اس کا اصل زر لوٹایا جائے گا ؛ مقروض کسی طور بھی اصل زر کی ادائیگی سے انکار نہیں کرسکتا ؛ نہ ہی عدالت کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ کسی اور کا حق معاف کرے۔ امام سرخسی نے اس قاعدے کی تصریح کی ہے : لیس للامام ولایۃ اسقاط حق العبد۔ قرآنِ کریم کی نصِ صریح ہے : و ان تبتم فلکم رؤوس اموالکم، لا تَظلمون و لا تْظلمون۔ (سورۃ البقرۃ ، آیت 279) اس آخری ٹکڑے پر نظر رہے : جس طرح قرض دینے والا اصل زر سے زائد کا مطالبہ کرکے ظلم کرتا ہے ، اسی طرح مقروض اصل زر روک کر ظلم کرے گا۔مسئلہ بس یہی ہے ، اور کچھ نہیں کہ لوگ اللہ تعالیٰ کے قانون سے گریز کرکے خود ہی ظلم اور عدل کا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔
دیگر قابلِ اعتراض دفعات
اس مجوزہ قانون کی دیگر کئی دفعات بھی شرعاً ناقابلِ قبول ہیں ، بالخصوص دفعہ 2 ( جی ) میں جس طرح " قرض " کی تعریف پیش کی گئی ہے ، یا نجی قرضہ دینے والے کی جو تعریف دفعہ 2 (آئی) میں دی گئی ہے اسے کسی طور بھی قبول نہیں کیا جاسکتا۔ اول الذکر کی رو سے بیعِ سلم ناجائز ہوجاتی ہے جبکہ "مناسب شرحِ سود " پر قرضہ جائز ہوجاتا ہے۔ ثانی الذکر کی رو سے صرف نجی قرضوں کا "کاروبار "کرنے والوں پر ہی اس قانون کا اطلاق ہوگا اور عام افراد اگر قرضہ دیں گے تو ان کو کھلی چھٹی ہوگی۔
خلاصہ بحث یہ ہے کہ یہ پورا مسودہ شریعت سے واضح طور پر متصادم ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ یہ مسودۂ قانون واپس لیا جائے اور 2007 کے قانون کو مزید موثر بنانے کے لیے ایک ایک نیا مسودہ لایا جائے تاکہ "ظالمانہ سودی قرضوں کے امتناع" کے نام پر ایک دفعہ پھر نجی قرضوں پر سود کو قانونی جواز نہ مل سکے۔
پس چہ باید کرد؟
اگر یہ قانون بن گیا تو پھر اس کا خاتمہ نہایت مشکل ہوجائے گا کیونکہ اس کے لیے یا تو اسمبلی سے پھر ایک نیا قانون منظور کروانا پڑے گا ؛ اور یا پھر اسے عدالتِ عالیہ کے ذریعے دستور کے ساتھ تصادم کی بنیاد پر ، اور یا وفاقی شرعی عدالت سے قرآن وسنت کے ساتھ تصادم کی بنیاد پر کالعدم قرار دینا پڑے گا۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں ہی راستے نہایت طویل اور دشوار گزار ہیں۔
اس لیے دینی حمیت رکھنے والے تمام افراد کی ذمہ داری ہے کہ جماعتی تعصبات سیبالاتر ہو کر اس مسود? قانون کو منظور ہونے سے روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ اسی جذبے کے تحت میں نے اپنے استادِ محترم پروفیسر عمران احسن خان نیازی کے ذریعے پاکستان تحریکِ انصاف کے ذمہ داران سے رابطہ کرکے ان کے سامنے اس مسودے کا شق وار جائزہ پیش کیا جس کے بعد انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ یہ مسودہ ایک کمیٹی کے سامنے پیش کریں گے اور مجھے اس کمیٹی کے سامنے اپنے دلائل پیش کرنے کا موقع دیں گے۔ میں برادرم عمار خان ناصر کا بھی مشکور ہوں جنھوں نے "الشریعہ" کے فورم پر اس سنجیدہ اور فوری نوعیت کے مسئلے کو اہلِ علم کے سامنے پیش کرنے کا موقع فراہم کیا۔
کیا مذہبی سیاسی جماعتیں اور اہل علم اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری پوری کریں گے؟
جمہوری و مزاحمتی جدوجہد ۔ محمد رشید کے جواب میں
ڈاکٹر عبد الباری عتیقی
الشریعہ اپریل ۲۰۱۴ء کے شمارے میں محمد رشید صاحب کا مضمون ’ جمہوری و مزاحمتی جدوجہد‘ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ فاضل مضمون نگار نے اس میں انتہائی وضاحت سے اور لگی لپٹی رکھے بغیر اپنا اور دوسرے جہادی و انقلابی لوگوں کا نقطہ نظر بیان کردیا ہے۔ ہم اس نقطہ نظر کو اول تا آخر غلط سمجھتے ہیں اور اس غلطی کی وضاحت کرنا ضروری خیال کرتے ہیں۔
فاضل مضمون نگار کی تحریر میں جہادی و انقلابی نقطہ نظر انتہائی وضاحت سے بیان کر دیے جانے کے باوجود پوری تحریر قرآن و حدیث کے دلائل سے مکمل طور پر تہی دامن نظر آتی ہے۔ پوری تحریر واضح طور پر محض جذبات کی شاعری کا اظہار ہے۔ اس بات کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ یہ پورا نقطہ نظر اصلاً قرآن و حدیث کی تعلیمات پر مبنی نہیں ہے بلکہ اس نقطہ نظر کے حاملین کی اپنی خواہشات، پر جوش ذہنیت، رد عمل کی نفسیات ، نام نہاد غیرت اور اسی طرح کے کچھ دوسرے جذبات پر مبنی ہے۔ فاضل مضمون نگار بھی بس علامہ اقبالؒ کے کچھ زبان زد عام اشعار ہی کو استدلال کے طور پر پیش کرسکے ہیں۔ ہماری نظر میں دور حاضر کی اس جہادی اور انقلابی فکر کی اصل خامی ہی یہی ہے کہ یہ فکر قرآن و سنت پر مبنی نہیں ہے بلکہ رد عمل کی نفسیات کی بنیاد پر وجود میں آئی ہے۔ استعماری طاقتوں کے ظلم و ناانصافی پر مبنی اقدامات کو بنیاد بنا کر ہوش و حواس سے عاری اور قید شریعت سے آزاد جذبات پر مبنی تباہ کن تشدد اور دہشت گردی کو ’مزاحمت‘ اور ’جہاد‘ کا عنوان دے دیا جاتا ہے۔
اس پر مستزاد یہ کہ خود فاضل مضمون نگار کے اعتراف کے مطابق اسلام کے پیروکاروں کی عظیم اکثریت اوربہت سے مذہبی قائدین اور محترم علمائے دین جمہوریت اور پر امن جدو جہد کے قائل ہیں تو پھر آپ آخر کس کا اتباع کر رہے ہیں ؟ خود علامہ اقبالؒ جن کے اشعار بہت دہرائے جاتے ہیں ، ان کی پوری زندگی برطانوی استعمار کے خلاف پر امن اور آئنی اور قانونی جدوجہد کی آئینہ دار ہے۔ علامہ اقبال ؒ کی پوری زندگی میں مسلح جدوجہد اور مزاحمت کانام و نشان نہیں ملتا۔ ۱۹۲۰ء کے بعد سے بر صغیر پاک و ہند کے ہرمکتب فکر کے تما م قابل ذکر علما ئے کرام بھی اسی پر امن اور قانونی جدو جہد کے علم بردار رہے ہیں۔ بر صغیر پاک و ہند میں ’اسلامی انقلاب‘ کے ایک بہت بڑے داعی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’ غلطی سے تاریخ نگاروں نے غزوات کو اتنا نمایاں کر دیا ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں عرب کا یہ انقلاب لڑائیوں سے ہوا۔ حالانکہ آٹھ سال کی تمام لڑائیوں میں جن سے عرب جیسی جنگجو قوم مسخر ہوئی ، طرفین کے جانی نقصان کی تعداد ہزار بارہ سو سے زیادہ نہیں ہے۔ انقلابات کی تاریخ اگر آپ کے پیش نظر ہے تو آپ کو تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ انقلاب غیرخونی انقلا ب(bloodless revolution) کہے جانے کا مستحق ہے۔‘‘ (تحریک آزاد ی ہند اور مسلمان۲:۱۸۷) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ جہادی و انقلابی فکر جس طرح قرآن و سنت کے دلائل سے محروم ہے اسی طرح اسلاف و اکابرین علما کی اجماعی حمایت سے بھی بڑی حدتک خالی ہے۔
فاضل مضمون نگار ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ : ’’ پہاڑوں پر رہنے والے آزاد اور بہادر مسلم قبائل ابلیسی قوتوں کے اس بہکاوے اور لالچ میں آنے سے جب انکار کرتے ہیں اور مغربی ابلیسیت کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں تو انہیں دہشت گرد قرار دے کر ان پر جنگ مسلط کر دی جاتی ہے۔‘‘ دوسری طرف وہ عالمی ابلیسی قوتوں کو یہ الزام دیتے ہیں کہ وہ جعلی جہاد اور جعلی مجاہدین کے ذریعے اصلی جہاد اور اصلی مجاہدین کو بدنام کر رہے ہیں ۔ اب یہ فیصلہ کیسے کیا جائے کہ کون جعلی مجاہد ہے اور کون اصلی؟ کون سی کاروائی جعلی مجاہدین کر رہے ہیں اور کون سی اصلی مجاہدین؟ ہماری رائے میں یہ بات صرف اس لیے کی جاتی ہے تاکہ شریعت کی قید سے آزاد اور نقل و عقل کے دلائل سے عاری اس مسلح جدو جہد کے اگر بظاہر کچھ اچھے پہلو اور مثبت نتائج ہوں تو ان کا کریڈٹ لے لیا جائے اور برے پہلوؤں اور منفی نتائج کو عالمی ابلیسی قوتوں اور جعلی مجاہدین کے کھاتے میں ڈال دیا جائے۔ آج تک اس طرح کی کسی جہادی کاروائی کے متعلق متعین طور پر یہ نہیں بتایا جا سکا ہے کہ یہ کس ابلیسی قوت یا جعلی مجاہدین یا بیرونی طاقتوں کی کارستانی ہے۔ دہشت گردی کی کاروائیوں سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبے خیبر پختونخواہ میں پہلے پانچ سال ایم ایم اے کی حکومت رہی جو جہادیوں کی حامی سمجھی جاتی تھی اور آج بھی صوبے کی مخلوط حکومت جہادیوں کی کھلم کھلا حامی ہے۔ کیا اس دوران کبھی ایسا ہوا کہ کسی خود کش دھماکے یا دہشت گردی کے الزام میں ایسے لوگوں کو پکڑا گیا ہو جو ان ابلیسی قوتوں یا غیر ملکی ایجنسیوں کے ایما پر یہ کام کر رہے ہوں ۔ اس کے برعکس کم و بیش ہر کاروائی کی ذمہ داری جہاد ی گروہ کھلم کھلا قبول کرتے رہے ہیں۔ اس کے باوجود جعلی مجاہدین، تیسرے ہاتھ اور بیرونی دشمنوں کا واویلا کیا کھلے جھوٹ کا درجہ نہیں رکھتا؟ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب مرکزی حکومت اور جہادیوں کے درمیان باقاعدہ مذاکرات شروع ہوئے اور جہادیوں نے عارضی جنگ بندی کا اعلان کیا توایسی تمام کاروائیاں مکمل طور پر بند رہیں۔ کہاں گئے جعلی مجاہدین اور کہاں گئیں ابلیسی قوتیں؟
انسانیت کی تاریخ میں جنگ و قتال بجا طور پر ہمیشہ ایک غیر مطلوب، اضطراری اور ہنگامی حالت رہی ہے اورامن و سکون کا زمانہ بالکل فطری، مطلوب اور مستقل چیز سمجھا جاتا رہا ہے۔ کسی بھی قسم کی تبدیلی کی جدوجہد کے لیے بھی یہی اصول فطری اور عین مطلوب ہے۔ مگر فاضل مضمون نگار نے جوش جذبات میں یہ ترتیب بالکل الٹ دی ہے۔ ان کے نزدیک اب جنگ و قتال اور مسلح جدو جہد عین فطری اور مستقل حالت قرار پائی ہے جبکہ پر امن دور اور پر امن جدو جہد اضطراری اور وقتی ’ٹول‘ قرار پایا ہے۔
جنگ کے اصلاً ایک غیر مطلوب حالت ہونے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان دلیل ہے۔ عبداللہ بن ابی اوفی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جن ایام میں دشمنوں سے ملاقات ہوئی تو آپ نے انتظار کیا ، یہاں تک کہ آفتاب ڈھل گیا تو آپ ان کے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا، اے لوگو! دشمنوں سے ملاقات کی تمنا مت کرو اور اللہ تعالیٰ سے سلامتی مانگو ، لیکن جب دشمن سے سامنا ہوجائے تو پھر ثابت قدم رہو ، اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے کے نیچے ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا! الٰہی،کتاب کے نازل کرنے والے، بادل کے چلانے والے، لشکروں کو شکست دینے والے، ان کو شکست دے اور ہمیں ان پر غالب کر۔‘‘ (مسلم۲: ۲۰۳۶)
فاضل مضمون نگار فرماتے ہیں: ’’ ازل سے ایسا ہوتا رہا ہے کہ انسان کی انانیت، تکبر اور اس میں چھپا ہوا ابلیس اسے اپنے سے کمزوروں کا استحصال اور ان کا دائرہ حیات تنگ کرنے پر آمادہء پیکار کرتا رہا ہے۔ جس کا نہایت مسکت جواب قوانین فطرت کے عین مطابق ’مسلح بغاوت یا مسلح مزاحمت‘ کی صورت میں ہر دور کے نمرودوں اور فرعونوں کو ملتا رہا ہے۔‘‘ اس بیان سے یہ تاثر ملتا ہے، اور یہی تاثر دینا غالباَمقصود بھی ہے ، گویا نمروداور فرعون کے خلاف ان کی طرف بھیجے جانے والے رسولوں نے مسلح جدوجہد کی تھی اور جہاد و قتال کے ذریعے ان پر غلبہ پایا تھا۔ اور یہی وہ واحد منہاج ہے جو ہر دور کے ’نمرودوں‘ اور ’فرعونوں‘ کے خلاف اختیار کیا جانا چاہیے۔ قرآن مجید اس تاثر سے بالکل خالی ہے۔ نمرود کی طرف بھیجے جانے والے جلیل القدر رسول سیدنا ابراہیمؑ تھے۔ آپؑ کا تذکرہ قرآن کی کم و بیش ۲۵ سورتوں میں کیا گیا ہے مگر اشارۃََ بھی کہیںیہ ذکر نہیں کیا گیا کہ آپؑ نے نمرود کے خلاف کوئی مسلح جدوجہد کی تھی۔ اس کے برعکس آپؑ کی پوری جدوجہد واضح طور پر اول تا آخر دعوت و تبلیغ اور ہجرت پر مشتمل ہے۔ مولانا محمد حفظ الرحمان صاحب سیوہارویؒ لکھتے ہیں: ’’ غرض حضرت ابراہیم ؑ نے سب سے پہلے اپنے والد آذرکو اسلام کی تلقین کی ،پیغام حق سنایا اور راہ مستقیم دکھائی۔اس کے بعد عوام اور جمہور کے سامنے اس دعوت کو عام کیا اور سب کو امر حق تسلیم کرانے کے لیے فطرت کے بہترین اصول و دلائل کو پیش فرمایا اور نرمی، شیریں کلامی مگر مضبوط و محکم اور روشن حجت و دلیل کے ساتھ ان پر حق کو واضح کیا اور سب سے آخر میں بادشاہ نمرود سے مناظرہ کیااور اس پرروشن کردیا کہ ربوبیت والوہیت کا حق صرف خدائے واحد ہی کے لیے سزاوار ہے اور بڑے سے بڑے شاہنشاہ کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ اس کی ہمسری کا دعویٰ کرے کیونکہ وہ اور کل دنیا اسی کی مخلوق ہے اور وجود و عدم کی قید و بند میں گرفتار ۔ مگر اس کے باوجود کہ بادشاہ آذر اور جمہور حضرت ابراہیم ؑ کے دلائل سے لاجواب تھے اور دلوں میں قائل بلکہ بتوں کے واقعہ میں تو زبان سے بھی اقرار کرنا پڑا کہ ابراہیم ؑ جو کچھ کہتا ہے وہی حق ہے اور صحیح و درست، تاہم ان میں سے کسی نے راہ مستقیم کو اختیار نہ کیا اور قبول حق سے منحرف ہی رہے۔ اور اتنا ہی نہیں بلکہ اس کے برعکس اپنی ندامت و ذلت سے متاثر ہو کر بہت زیادہ غیض و غضب میں آگئے اور بادشاہ سے رعایا تک سب نے متفقہ فیصلہ کر لیا کہ دیوتاؤں کی توہین اور باپ دادا کے دین کی مخالفت میں ابراہیم ؑ کو دہکتی آگ میں جلا دینا چاہیے کیونکہ ایسے سخت مجرم کی سزا یہی ہو سکتی ہے اور دیوتاؤں کی تحقیر کا انتقام اسی طرح لیا جاسکتا ہے ..... اس مرحلہ پر پہنچ کر ابراہیم ؑ کی جدوجہد کا معاملہ [نمرود کی حد تک ] ختم ہوگیا۔‘‘(قصص القرآن۱: ۱۵۰)
یہی معاملہ فرعون کی طرف بھیجے جانے والے جلیل القدر رسول سیدنا موسی ؑ کا ہے۔ آپؑ کا تذکرہ قرآن کی کم و بیش ۳۷ سورتوں کی سیکڑوں آیات میں کیا گیا ہے۔ فرعون کے تمام تر مظالم اور زیادتیوں کے باوجود اس کے خلاف کسی قسم کی مسلح جدو جہد کا سراغ نہیں ملتا۔ قرآن سے واضح ہے کہ سیدنا موسی ؑ فرعون کے خلاف ’مسلح بغاوت‘ کرنے کے لیے نہیں بھیجے گئے تھے بلکہ اسے اللہ کی بندگی کی دعوت پہنچانے اور بنی اسرائیل کو آزاد کرنے کا مطالبہ کرنے پر مامور تھے۔ اسی طرح یہ بھی واضح ہے کہ فرعون کا عبرت ناک انجام کسی ’مسلح مزاحمت‘ کے نتیجے میں نہیں بلکہ اس دعوت کو ٹھکرانے اور اللہ کے مقابلے میں سرکشی اختیار کرنے کے نتیجے میں براہ راست اللہ کی جانب سے عذاب مسلط کرنے سے ہوا تھا۔ہم اس حوالے سے صرف دو آیات پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں: ’’ جا، تو اور تیرا بھائی میری نشانیوں کے ساتھ۔ اور دیکھو، تم میری یاد میں تقصیر نہکرنا۔ جاؤ تم دونوں فرعون کے پا س کہ وہ سرکش ہو گیا ہے۔ اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا۔شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے۔‘‘ (طٰہٰ ۲۰: ۴۴۔۴۲) ’’ہم ان سے پہلے فرعون کی قوم کو اسی آزمائش میں ڈال چکے ہیں ۔ ان کے پاس ایک نہایت شریف رسول آیا ، اور اس نے کہا، اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کرو۔ میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں۔ اللہ کے مقابلے میں سرکشی نہ کرو۔ میں تمہارے سامنے (اپنی ماموریت کی ) صریح سند پیش کرتا ہوں۔ اور میں اپنے رب اور تمہارے رب کی پناہ لے چکا ہوں اس سے کہ تم مجھ پر حملہ آور ہو۔ اگر تم میری بات نہیں مانتے تو مجھ پر ہاتھ ڈالنے سے باز رہو۔ آخرکار اس نے اپنے رب کو پکارا کہ یہ لوگ مجرم ہیں ۔(جواب دیا گیا) اچھا تو راتوں رات میرے بندوں کو لے کر چل پڑو۔ تم لوگوں کا پیچھا کیا جائے گا۔ سمندر کو اس کے حال پر کھلا چھوڑ دے۔ یہ سارا لشکر غرق ہونے والا ہے۔‘‘ (الدخان ۴۴: ۲۴۔۱۷)قرآن کی اس واضح شہادت کے بعد فاضل مضمون نگار کا مندرجہ بالا بیا ن کس زمرے میں آتا ہے اس کا فیصلہ قارئین خود کرسکتے ہیں۔ اس پر اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ ’ خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں‘ کے ساتھ ساتھ رسولوں کی سیرت کو بھی ہم اپنے ہی خیالات کے آئینے میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
ہم چاہتے ہیں کہ جہاد و قتال کا قرآنی و نبوی اسلوب بھی مختصراً یہاں بیان کردیں ۔ ’جہاد‘ ظلم و عدوان کے خلاف مسلمان ریاست کے مسلح اقدام کو کہتے ہیں۔ اس حوالے سے پہلی بات یہ ہے کہ جہاد کے اس حکم کے مخاطب مسلمان اپنی انفرادی حیثیت میں نہیں ہیں بلکہ ، جہاد قتال سے متعلق قرآن کی آیات کے اسلوب سے واضح ہے کہ، جہاد کا یہ حکم ان کو بحیثیت جماعت کے دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاد کا حق اور اختیار صرف مسلمانوں کے نظم اجتماعی(ریاست) کو حاصل ہے ۔کوئی فرد یا غیر ریاستی گروہ کسی حال میں بھی اس کا حق نہیں رکھتا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بنا پرارشاد فرمایا ہے کہ’’ مسلمانوں کا حکمران ان کی سپر ہے، قتال اسی کے پیچھے رہ کرکیا جاتاہے اور لوگ اپنے لیے اسی کی آڑ پکڑتے ہیں۔‘‘(بخاری، ۲۹۵۷)۔ دوسری بات یہ کہ یہ جہاد نہ خواہشات نفسانی کے لیے ہوتا ہے اور نہ ہی کسی قومی عصبیت و عداوت کے جذبے کے تحت۔ بلکہ یہ جہاد، فی سبیل اللہ کی قید سے واضح ہے کہ، محض اللہ کے لیے ہوتا ہے۔ تیسری بات یہ کہ اللہ کی راہ میں یہ قتال اخلاقی حدود سے بے پروا ہو کر نہیں کیا جاسکتا۔کسی قسم کی زیادتی، عہد شکنی، تکبر و نمائش، غیر مقاتلین اور عورتوں اور بچوں کا قتل ،آگ میں جلانا، لوٹ مار، مثلہ، راستوں کو تنگ کرنا وہ چیزیں ہیں جن کا ارتکاب کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے،’’ جو تم پر زیادتی کریں ، تم بھی ا ن کی اس زیادتی کے برابر ہی انہیں جواب دواور اللہ سے ڈرتے رہواور جان لو کہ اللہ ان کے ساتھ ہے جو اس کی حدود کی پابندی کرتے ہیں۔‘‘ (البقرہ ۲: ۱۹۴) یہ جہاد ہے اور جب یہ صبر وثبات، ایک خاص حد تک مادی طاقت اور بھرپور ایمانی قوت کے ساتھ کیا جائے تو اللہ کی نصرت بھی شامل حال ہو جاتی ہے۔ اب ہر شخص بچشم سر دیکھ سکتا ہے کہ آج کی ’جہادی‘ اور ’مزاحمتی‘ سرگرمیوں میں کس حدتک ان آداب و شرائط کی پابندی کی جاتی ہے۔ یہاں تو عملاً حال یہ ہے کہ ،
بادۂ عصیاں سے دامن تر بہ تر ہے شیخ کا
اس پہ دعویٰ ہے کہ اصلاحِ دو عالم ہم سے ہے
ہم فلسفیانہ اور پیچیدہ مباحث سے بچتے ہوئے ’جمہوریت‘ کے بارے میں بھی سادہ انداز میں کچھ گزارشات پیش کرنا چاہتے ہیں۔ جمہوریت کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ عوام کے اجتماعی معاملات کو چلانے کے لیے عوام کی اکثریت کی رائے پر عمل کیا جائے۔ ہماری نظر میں یہ نہ صرف انتہائی فطری اور واحد قابل عمل طریقہ ہے بلکہ دین کے تقاضوں کے بھی عین مطابق ہے۔ قرآن کا حکم امرھم شوریٰ بینھم اسی کا بیان ہے۔ اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ مسلمانوں کے معاملات انکے مشورے /رائے سے چلائے جانے چاہییں ۔اس حکم کا تقاضہ محض یہ نہیں ہے کہ ان سے رسمی طور پر مشورہ کر لیا جائے بلکہ ان کے مشورہ کے مطابق ہی فیصلہ بھی کیا جائے۔ اور یہ مشورہ بھی کسی خاص طبقے یا گروہ تک محدود نہ ہو بلکہ تمام لوگوں کو مشورے/رائے کا یکساں حق دیا جائے۔ اسی کا نام جمہوریت ہے۔ یہاں یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ ایسا نہیں ہے کہ اسلام نے ’خلافت‘ کے نام سے کوئی مخصوص سیاسی نظام قائم کیا ہے۔ اسلام نے تو امرھم شوریٰ بینھم کا اصول دیا ہے جس میں حکمرانوں کا نصب و عزل بھی اور باقی اجتماعی معاملات بھی لوگوں کی مرضی سے طے کیے جاتے ہیں۔ خلافت راشدہ میں بھی یہی اصول کارفرما رہا اور تمام خلفائے راشدین اصلاََ لوگوں کی مرضی سے ہی حکمران بنے،چاہے اس اصول پر عمل درآمد کا عملی طریقہ ہر دفعہ مختلف ہی رہا ہو۔ حتی کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے بھی اپنی نامزدگی کے باوجود لوگوں کی آزاد مرضی کے بعد ہی اس ذمہ داری کو قبول کیا تھا۔ لہٰذا یہ سمجھنا کسی صورت درست نہیں ہے کہ جمہوریت، خلافت کا متبادل یا اس کے بالمقابل کوئی نظام ہے۔اصل بات یہ ہے کہ یہی دین کا عین تقاضا ہے۔
جمہوریت کا متبادل صرف اور صرف آمریت ہے۔ یعنی محض طاقت کے بل بوتے پرعوام کے حق حکمرانی کو غصب کر لینا۔ اگر اس اصول کو مان لیا جائے تو جس طرح آج ’خلافت‘ کے مدعی اقلیت میں ہونے کے باوجود طاقت اور جبر کی بنیاد پر اپنا غلبہ حق بجانب سمجھتے ہیں ،اسی طرح کل کوئی مغرب زدہ یا کمیونسٹ اقلیت یا کسی اقلیتی مسلک کے ماننے والے بھی اگر طاقت حاصل کرلیتے ہیں تو کیا آپ انہیں یہ حق دینے کے لیے تیار ہیں کہ و ہ بالجبر آپ پر مسلط ہوجائیں۔ طاقت کے قانون کے اس اصول کو اگر مان لیا جائے تو اس کا نتیجہ مستقل انتشار اور انارکی کے سوا اور کیا نکل سکتا ہے۔
جمہوریت کو خلاف اسلام سمجھنے والے قرآن کی چند آیات سے استدلال کرتے ہیں۔ جن میں یہ کہا گیا ہے کہ اکثریت کی پیروی نہ کرو کیونکہ اکثریت گمراہ ہوتی ہے۔ اس حوالے سے ایک آیت یہ ہے، ’’ اور اکثر لوگ جو زمین پر آباد ہیں (گمراہ ہیں) اگر تم ان کا کہنا مان لو گے تو وہ تمہیں خد اکا رستہ بھلا دیں گے ۔ یہ محض خیال کے پیچھے چلتے اور نرے اٹکل کے تیر چلاتے ہیں۔‘‘ ( الانعام ۶: ۱۱۶) اس آیت اور اس مفہوم کی دوسری آیات سے واضح ہے کہ یہاں ا ن لوگوں کا ذکر ہورہا ہے جو رسول کے منکرین ہیں اور جانتے بوجھتے رسول کی مخالفت پر تلے ہوئے ہیں۔ رسولوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ ایسے لوگ عموماََ اکثریت میں رہے ہیں اور رسولوں پر ایک قلیل تعداد ہی ایمان لاتی ہے۔ رسولوں اور ان کے ماننے والوں کو منکرین اور معاندین کی اس اکثریت کی پیروی سے منع کیا جارہا ہے۔ اس بات کا اس سے کیا تعلق ہے کہ جب رسول کے ماننے والے ایک معاشرہ منظم کر لیں تو اب کے معاملات ان ہی کی اکثریت کی رائے سے چلائے جائیں۔
یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ اکثریت کی رائے کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اکثریت حق و باطل کا معیار بن گئی ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ اکثریت کی رائے ہمیشہ صحیح ہوتی ہے۔ صحیح اور غلط کا معیار تو صرف دلیل ہے۔ اکثریت کی رائے تو اصل میں فصلِ نزاعات کا ایک طریقہ ہے۔ بلکہ صحیح تر الفاظ میں واحد قابل عمل او ر دوسرے تمام ممکنہ طریقوں کے مقابلے میں سب سے بہتر اور کم نقصان دہ طریقہ ہے۔ اگر فیصلہ سازوں کے درمیا ن رائے کا اختلاف ہو جائے تو فیصلہ کرنے کا اس کے سوا کیا مہذب راستہ باقی بچتا ہے کہ اکثریت کی رائے کے مطابق فیصلہ کر لیا جائے۔ اس کے سوا تمام طریقے انتشار اور انارکی پر منتج ہوتے ہیں۔ اس بات کو ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
فرض کیجیے فیصلہ سازوں کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کسی تعلیمی ادارے میں مخلوط تعلیم کا انتظام کیا جائے یا لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے الگ الگ انتظام کیا جائے۔ فیصلہ ساز دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے ہیں ۔ قلیل گروہ کی رائے یہ ہے کہ دین کی تعلیمات کسی صورت مخلوط نظام کی اجازت نہیں دیتیں۔ کثیر گروہ کی رائے میں دین ہی کی تعلیمات کی روشنی میں اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ شائستگی اور وقار کے ساتھ حدود کے اندر رہتے ہوئے مخلوط نظام کو قبول کیا جاسکتا ہے۔ اب قطع نظر اس سے کہ صحیح رائے کس گروہ کی ہے ، فیصلہ کی فطری بنیاد اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ اکثریت کی رائے کے مطابق فیصلہ کرلیا جائے۔ یہ کسی صورت باطل کی پیروی نہیں ہے۔ اس طریقے میں یہ امکان بہرحال موجود ہے کہ غلط فیصلہ عمل میں آجائے۔ لیکن ساتھ ہی یہ راستہ بھی کھلا ہے کہ قلیل گروہ دلائل سے کثیر گروہ کو اپنی رائے کے حق میں قائل کرلے اور فیصلہ ا س رائے کے حق میں تبدیل ہوجائے۔
غلط فیصلہ ہو جانے کا امکان اگر کوئی نقص ہے تو یہ نقص آپ کے مفروضہ ’خلافت‘ کے نظام میں بھی بعینہِ موجود ہے۔ خلیفہ یا اس کی شوریٰ پر وحی تو نازل ہوگی نہیں۔ تمام تر تقویٰ اور تدین کے باوجود وہ ہونگے تو بہرحال انسان ہی، جن سے ہر وقت خطا کا وقوع ممکن ہے۔ یہ خطا فیصلوں میں بھی ممکن ہے اور بالکل اسی طرح ممکن ہے جس طرح جمہوریت میں ۔ سیدناعمرؓ نے ایک موقع پر مہر کی تحدید کا فیصلہ کرلیا تھا لیکن ایک خاتون کے توجہ دلانے پرآپؓ نے اس فیصلہ کو غلط مانتے ہوئے واپس لے لیا۔ بہت ممکن تھا کہ بعد میں کسی دوسرے فرد کے توجہ دلانے پریا خود ہی اپنی رائے تبدیل ہوجانے پر سیدنا عمرؓ پھر پہلی رائے کے قائل ہوجاتے۔ کیونکہ یہ رائے تو بہر حال موجود ہے کہ حکمران مخصو ص حالات میں مہر کی تحدید کا اختیار رکھتا ہے۔ مختصراً یہ کہ جب ’خلافت‘ کے نظام میں بھی غلط فیصلے ہو سکتے ہیں اور ان کی اصلاح کے لیے کوئی انتظام بنانا پڑ سکتا ہے تو یہی انتظام ’جمہوریت ‘ میں بھی ہو سکتا ہے۔
جمہوریت کا ایک اور نقص یہ بتایا جاتا ہے کہ اس میں ایک فرد ایک ووٹ کا نظام ہوتا ہے جو انتہائی غیر فطری، غیرمنصفانہ اور بیہودہ طریقہ ہے۔ آخر ایک جاہل ، گنوار، غیر متقی فرد کی رائے ایک عالم، متقی ،ذہین اور قابل فرد کی رائے کے برابر کیسے ہو سکتی ہے؟ ہماری رائے میں یہ نقطہ نظر بھی مغالطوں پر مبنی ہے۔شریعت اور فقہ دونوں کی نظر میں قانونی طور پر ہر مسلمان برابر ہے۔ اللہ کی نظر میں اور آخرت میں اجرکے لحاظ سے لوگوں کے درجات جو بھی ہوں، قانونی حقوق و فرائض کے لحاظ سے سب برابر ہیں۔لہٰذا سب کا ووٹ/مشورہ/رائے بھی برابر ہے۔ قرآن مجید کے حکم امرھم شوریٰ بینھم کا لازمی تقاضہ ہے کہ جن لوگوں کے معاملات ہوں ان سب کی رائے فیصلہ میں شامل ہو۔ اگر مثلاََ پاکستان کا حکمران بنانے کا معاملہ ۱۸ کروڑ لوگوں سے متعلق ہے تو لازماً ۱۸ کروڑ لوگوں کی رائے سے ہی فیصلہ کیا جانا چاہیے۔ آخر کسی محدود طبقے یا گروہ کو یہ حق کیسے اور کس اصول کے تحت دیا جائے کہ وہ ۱۸ کروڑ لوگوں کے معاملات کا فیصلہ خود کردیں؟ یہ یقینی طور پر امرھم شوریٰ بینھم کے اصول کی خلاف ورزی ہوگی۔ اور فرض کریں آپ یہ حق،مثال کے طور پر، علما کے طبقے کو دیتے ہیں کہ وہ ۱۸ کروڑ لوگوں کے معاملات کا فیصلہ محض اپنی رائے سے کریں تو یہ اعتراض پھر اٹھتا ہے کہ علما بھی عمر، علم، تقویٰ اور اہلیت کے لحاظ سے مختلف درجوں کے ہونگے تو ان سب کی رائے یا ووٹ کیوں برابر ہو؟ ایک عالم آج درس نظامی کی تکمیل کر کے فارغ ہوا ہے اور دوسرا عالم ۳۰ سال پہلے عالم بنا تھا اور تخصص کر کے آج شیخ القرآن، شیخ الحدیث یا مفتی کے درجے پر فائز ہے ۔ ان دونوں کو رائے یا ووٹ کا یکساں حق کس اصول کی بنیاد پر دیا جائے؟ اسی طرح ایک ڈاکٹر آج ڈاکٹر بنا ہے اور دو سرا ۳۰ سال کا تجربہ رکھنے والا اسپیشلسٹ ہے۔ ان دونوں کو رائے یا ووٹ کا یکساں حق کیوں دیا جائے؟ علیٰ ھذہ القیاس۔ مختصراََ یہ کہ آپ ووٹ دینے کے لیے جو بھی تحدید کر دیں آپ کو بہر حال ووٹ کے حقدار طبقے یا گروہ کے معاملے میں یہ سمجھوتہ کرنا پڑے گا کہ بلا لحاظ علم ،تقویٰ و تدین، تجربہ اور مہارت اس طبقہ کے ہر فرد کا ووٹ برابر تسلیم کریں۔ تو آخر یہ سمجھوتہ ۸ ۱ کروڑ عوام کے بارے میں کرنے میں کیا قباحت ہے ، جبکہ معاملات بھی ان تمام کے تمام ۱۸ کروڑ عوام سے متعلق ہوں۔
سیاسی نظام کے حوالے سے علامہ اقبالؒ کے اشعار تو بہت دہرائے جاتے ہیں ۔ آئیے تصویرکا دوسرا رخ بھی دیکھتے ہیں۔ علامہ اقبال ؒ اپنے خطبات ’تجدید فکریات اسلام‘ (The Reconstruction of religious thought in Islam) میں فرماتے ہیں:
’’ گزشتہ پانچ سو برس سے اسلامی فکر عملی طور پر ساکت و جامد چلی آرہی ہے۔ ایک وقت تھا جب مغربی فکر اسلامی دنیا سے روشنی اور تحریک پاتا تھا۔ تاریخ کا یہ عجب طرفہ تماشہ ہے کہ اب دنیائے اسلام ذہنی طور پر نہایت تیزی سے مغرب کی طرف بڑھ رہی ہے ، گو یہ بات اتنی معیوب نہیں کیونکہ جہاں تک یورپی ثقافت کے فکری پہلو کا تعلق ہے ، یہ اسلام ہی کے چند نہایت اہم ثقافتی پہلوؤں کی ایک ترقی یافتہ شکل ہے۔ ڈر ہے تو صرف یہ کہ یورپی ثقافت کی ظاہری چمک کہیں ہماری اس پیش قدمی میں حارج نہ ہو جائے اور ہم اس ثقافت کی اصل روح تک رسائی میں ناکام نہ ہو جائیں۔ہماری ذہنی غفلت کی ان کئی صدیوں میں یورپ نے ان اہم مسائل پر سنجیدگی سے سوچا ہے جن سے مسلمان فلاسفہ اور سائنس دانوں کو گہری دلچسپی رہی تھی۔‘‘
’’توحید کا جوہر اپنے عملی تصور میں مساوات ، یکجہتی اور آزادی ہے۔اسلامی نقطہ نظر سے ریاست ان اعلیٰ اصولوں کو زمانی اور مکانی قوتوں میں تبدیل کرنے کی جدوجہد سے عبارت ہے یعنی اسے ایک مخصوص انسانی ادارے میں عملی صورت دینے کی خواہش کا نام ہے۔ صرف اسی اکیلے مفہوم میں اسلام میں ریاست تھیاکریسی ہے، اس مفہوم میں ہرگز نہیں کہ ریاست کا سربراہ زمین پر خدا کاکوئی نائب یا نمائندہ ہوگاجو اپنی مطلق العنان استبدادیت پر اپنی مٖفروضہ معصومیت کا پردہ ڈال دے ۔‘‘
’’ آئیے اب دیکھیں کہ [ترکی کی] قومی اسمبلی نے خلافت کے ادارے کے بارے میں اجتہاد کے اختیار کا کس طرح استعمال کیا ہے۔ اہل سنت کے قوانین(فقہ) کی رو سے امام یا خلیفہ کا تقرر ناگزیرہے۔اس سلسلے میں جو پہلا سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا خلافت فرد واحد تک محدود رہنی چاہیے۔ ترکوں کے اجتہادکی رو سے یہ اسلام کی روح کے بالکل مطابق ہے کہ خلافت یا امامت افراد کی ایک جماعت یا منتخب اسمبلی کو سونپ دی جائے۔ جہاں تک میں جانتا ہوں مصراور ہندوستان کے علمائے اسلام اس مسئلے پر ابھی تک خاموش ہیں ۔ ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ ترکوں کا موقف بالکل درست ہے اور اس کے بارے میں بحث کی بہت کم گنجائش ہے۔ جمہوری طرز حکومت نہ صرف یہ کہ اسلام کی روح کے عین مطابق ہے بلکہ یہ عالم اسلام میں ابھرنے والی نئی طاقتوں کے لحاظ سے بہت ضروری ہے۔‘‘
’’ آج کے مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنی اس اہمیت کو سمجھیں،بنیادی اصولوں کی روشنی میں اپنی عمرانی زندگی کی از سر نو تشکیل کریں،اور اسلام کے اس مقصد حقیقی کوحاصل کریں جس کی تفصیلات تا حال ہم پر پوری طرح واضح نہیں ہیں یعنی روحانی جمہوریت (Spiritual Democracy) کا قیام۔‘‘
ضروری نہیں ہے کہ اقبالؒ کی ہر بات آنکھ بند کرکے مان لی جائے لیکن بہرحال تصویر کا یہ رخ بھی سامنے رہنا چاہیے۔
جمہوریت پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ ہمارے عوام کی اکثریت بدعنوان، بدکردار اور کم علم لوگوں پر مشتمل ہے لہذا وہ اپنے ہی جیسے لوگوں کو منتخب کریں گے۔ یہ تو بہر حال حقیقت ہے کہ جیسا معاشرہ ہوتا ہے عموماََ ویسے ہی اس کے حکمران ہوتے یں۔ اس کا علاج یہ نہیں ہے کہ غیر فطری اور مصنوعی طریقہ سے طاقت کے زور پر کسی دیندار فرد کو ’خلیفہ‘ بنا دیا جائے۔ایسا حکمران یا تو معاشرے کی طرف سے مسترد کر دیا جائے گا یا معاشرے جیسا ہی بن جائے گا۔ صحیح اور فطری طریقہ صرف یہ ہے کہ معاشرے کے اخلاق و کردار کی تربیت کی جائے ۔ جس حد تک معاشرہ بہتر ہوگا اسی کے بقدر اجتماعی نظام بھی بہتر ہوتا جائے گا۔ یہی بات علامہ اقبال ؒ اپنے خطبات میں ان الفاظ میں کہتے ہیں،’’ جدید مسلم اسمبلی کی قانونی کارکردگی کے بارے میں ایک اور سوال بھی پوچھا جا سکتا ہے۔ کم از کم موجودہ صورت حال میں اسمبلی کے زیادہ تر ممبران مسلم فقہ(قانون) کی باریکیوں کے بارے میں مناسب علم نہیں رکھتے۔ ایسی اسمبلی قانون کی تعبیرات میں کوئی بہت بڑی غلطی کر سکتی ہے۔ قانون کی تشریح و تعبیر میں ہونے والی ان غلطیوں کے امکانات کو ہم کس طرح ختم یا کم سے کم کر سکتے ہیں ......... غلطیوں سے پاک تعبیرات کے امکانات کی واحد صورت یہ ہے کہ مسلمان ممالک موجودہ تعلیم قانون کے نظام کو بہتر بنائیں، اس میں وسعت پیدا کریں اور اس کو جدید فلسفہ قانون کے گہرے مطالعے کے ساتھ وابستہ رکھا جائے۔‘‘
اپنے نظریات و خیالات پر مبنی نظام کو اقلیت میں ہونے کے باوجود طاقت کے زور پر اکثریت پر مسلط کرنے کی خواہش نہ صرف صبر و استقامت جیسی اعلیٰ قدر کے فقدان کا ثبوت ہے بلکہ اس خوف کا اظہار بھی ہے کہ آپ کے نظریات اتنے بے وزن ہیں کہ دلائل کی بنیاد پر کسی کو ان کا قائل ہی نہیں کیا جاسکتا۔ یہ دوسرے نظریات کے مقابلے میں کھلا اعتراف شکست نہیں تو اور کیا ہے؟
اس نظریے نے سو ڈیڑھ سو سال پہلے ہی جنم لیا ہے کہ اسلام کی اصل دعوت اور منتہائے مقصود ہی یہ ہے کہ اقتدار پر قبضہ کر کے ایک’اسلامی ریاست‘ قائم کی جائے۔اور یہ کہ دین ریاست کے ہم معنی ہے۔ اور یہ کہ یہ صالح اقلیت ہے جو اکثریت پر حکمرانی اور ان پر اپنے خودساختہ تصورات بالجبر مسلط کرنے کا حق اور اختیار رکھتی ہے،بلکہ یہ اس کا فریضہ ہے کہ وہ ایسا کرے۔ دین میں اس نظریے کی اجنبیت،فکر کے اس انحراف اور تعبیر کی اس غلطی کو آج کے دور میں اس حد تک واضح کیا جاچکا ہے کہ اب اس باطل نظریے کے حق میں عقل اور نقل کی شاید ہی کوئی دلیل باقی بچی ہو۔
آخر میں ہم فاضل مضمون نگار کویہ مخلصانہ مشورہ دیں گے کہ وہ ایک دفعہ ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ قرآن و سنت کی روشنی میں اس جہادی و انقلابی فکر کا جائزہ لیں۔ انہوں نے اپنے مضمون کا اختتام جس شعر پر کیا ہے (گفتار کے اسلوب پر قابو نہیں رہتا ، جب روح کے اندر متلاطم ہوں خیالات) اس میں جہاں ان کے گفتار کے اسلوب کے بے قابو ہونے کی وجہ بیان ہوئی ہے وہیں، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ، ان کی فکر کے عدم توازن اور انحراف کی اصل وجہ بھی پوشیدہ ہے۔ اور وہ وجہ ہے جذبات اور خیالات کا تلاطم ، طوفان خیزی اور حدود سے متجاوز ہونا۔ ظاہر ہے کہ جب جذبات کا یہ تلاطم گفتار کے اسلوب کو قابو میں نہیں رہنے دیتا تو فکر اور نظریات کو کس طرح صراط مستقیم پر باقی رہنے دے سکتا ہے۔ استعماری اور طاغوتی طاقتوں کا ظلم اور ناانصافی اپنی جگہ، لیکن اس کا مقابلہ کس طرح کیا جائے اگر اس کا فیصلہ غصے، بے قید جوش و جذبات اور تلاطم کی اس نفسیات میں کیا جائے گا تو اسلام کی صراط مستقیم کبھی ہاتھ نہیں آسکتی اور انسان فکر اور تعبیر کی غلطیوں کی بھول بھلیوں میں بھٹکتا رہے گا۔ مومن کی تو صفت یہ بیا ن ہوئی ہے کہ وہ الکظمین الغیظ ہوتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ،’’ قوی وہ نہیں کہ جو (کشتی میں کسی کو) پچھاڑے بلکہ قوی وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھے۔‘‘ (بخاری ۳: ۱۰۴۷) قرآن کا یہ ارشاد بھی ہر وقت یاد رہنا چاہیے کہ ،’’ کسی قوم کی دشمنی بھی تمہیں اس پر نہ ابھارے کہ انصاف سے پھر جاؤ۔ انصاف کرو، یہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔بے شک اللہ تمہارے ہر عمل سے باخبر ہے۔‘‘ (المائدہ ۵:۸)
تدبر کائنات کے قرآنی فضائل ۔ روحانی تدبر مراد ہے یا سائنسی؟
مولانا محمد عبد اللہ شارق
بعض چیزیں اتنی واضح اور غیر مبہم ہوتی ہیں کہ ان کے لئے قلم اٹھاتے ہوئے بھی عجیب سا محسوس ہوتا ہے، لیکن لوگوں میں ان کے حوالہ سے پائی جانے والی خواہ مخواہ کی غلط فہمیاں تقاضا کرتی ہیں کہ ان کو بیان کیا جائے، ورنہ وہ بے سروپا غلط فہمیاں بڑھتے بڑھتے بہت تناور ہوجائیں گی اور پھر ان کا تدارک مشکل ہوگا۔ اللہ تعالی نے قرآنِ مجید میں بے شمار جگہوں پر انسانوں کو کائنات میں تدبر کرنے کی ترغیب دی ہے، اس کے فضائل بیان کئے ہیں، اسے مومنین کی صٖفت بتایا ہے اور تدبرِ کائنات سے اعراض کرنے والوں کی مذمت کی ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کائنات کے اس تدبر سے مراد سائنسی ومادی تدبر ہے جو کہ سائنس دان کرتے ہیں۔ واقفانِ حال جانتے ہیں کہ یہ نکتہ قرآن کے سر تھوپنے والے’’نکتہ دان‘‘ در اصل قرآن سے کتنے نا آشنا ہیں، لگتا ہے کہ انہوں نے کبھی بھی خود قرآنی آیات کو ان کے سیاق وسباق میں سمجھ کر پڑھنے کی کوشش نہیں کی۔ مگر کیا کیجئے کہ یہ خیال آج اچھے بھلے ذہین وفہیم لوگوں میں بھی مقبول ہورہا ہے۔
قرآن جابجا اپنی آیات میں جس ’’تدبر‘‘ کی دعوت دیتا ہے، وہ ہرگز ہرگز سائنسی ومادی تدبر نہیں، اس سے سے مراد وہ تدبر ہے جو انسان کو کائنات کے خالق کی طرف متوجہ کرتا ہے اور اس میں توجہ الی اللہ پیدا کرتا ہے، جس کے ساتھ انسان کو اس کائنات کے ہر ہر ذرہ میں خداوند جل وعلا کا نور نظر آتا ہے اور دیکھنے والا خود اس نور میں نہا جاتا ہے، جس تدبر کے دوران، تدبر کرنے والا زمین وآسمان کو دیکھتے دیکھتے خدا کی ذات میں محو ہوجاتا ہے، اللہ کی قدرت وعظمت کے احساس سے مغلوب ہوجاتا ہے اور تعلق مع اللہ کی کیفیات اس میں موج زن ہوتی ہیں۔کسی بھی سائنسی انکشاف کے بغیر انسان اس تدبر کی معراج کو پاسکتا ہے اور کوئی بدو بھی اس تدبر کی معراج کو پاکر قرآن کا مطلوبہ عارف باللہ بن سکتا ہے، خواہ وہ زمین کو ساکن، سورج کو متحرک اور زمین کو چپٹی سمجھتا ہو۔ یہ بات اتنی روشن ہے کہ اس کو الگ سے ثابت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، قرآن کا ایک بار ٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ مطالعہ کرلینا ہی کافی ہے۔ یہ روحانی تدبر اور وہ مادی تدبر، بادی النظر میں خواہ کتنے ہی قریب قریب محسوس ہوں، درحقیقت ان میں زمین وآسمان کا فاصلہ ہے۔ علم وتدبر کے قرآنی فضائل کو سائنسی ومادی تدبر پر فٹ کرنا میرے نزدیک ایک تہمت اور تحریف سے کم نہیں۔اس چیز کو واضح کرنے کے لئے ایک نہیں، ایک سو ایک شواہد قرآن ہی سے پیش کئے جاسکتے ہیں جو مطالبہ پر ان شاء اللہ حاضر ہوجائیں گے۔ قرآنی ’’تدبرکائنات‘‘ سے اصولی طور پر تو کیا، ضمنی طور پر بھی سائنسی تدبر مراد نہیں ہوسکتاہے،جبکہ ان حضرات کی طرف سے یہاں تک کہا جاتا ہے کہ جو آدمی کائنات میں سائنسی نہج پر تدبر نہیں کرتا، وہ قرآن کے مطابق اللہ کی ’’آیات‘‘ اور تخلیق سے اعراض کرنے والا ہے۔ معاذ اللہ!
گذشتہ دنوں’ البرہان‘(جنوری ، فروری ۲۰۱۴ء) اور ’ الشریعہ‘ (فروری ، مارچ ۲۰۱۴ء) میں سائنس اور فکرِ مغرب کے موضوع پر ڈاکٹر شہباز منج کے قسط وار مضامین شائع ہوئے، ان دونوں میں متعلقہ موضوع کے حوالہ سے انہوں نے فی الجملہ کافی متوازن رائے پیش کی اور سائنس کے حوالہ سے مسلم اہل علم کے خودساختہ افراط وتفریط پر انہوں نے بجا تنقید کی، مگر قرآنی تعلیم ’’تدبرِ کائنات‘‘ کے حوالہ سے نہ جانے ان کی رائے میں بھی کیوں عدمِ توازن پیدا ہوگیا ہے اور نہ جانے کس بنیاد پر انہوں نے اس ’’تدبرِ کائنات‘‘ سے سائنسی تدبر مراد لینے پر اصرار کیا ہے، ان کے الفاظ ہیں: ’’کسی مظہرِ قدرت یا آیۃ اللہ پر غور وفکر ترک کردینا ، اس سے پہلے کہ اس کی حقیقت پوری طرح منکشف ہو، اس سے اعراض کے زمرہ میں آتاہے۔۔۔۔ مسلمان کو حکم ہے کہ جب موجوداتِ قدرت میں سے کوئی چیز اس کے نوٹس میں آئے تو اسے نظر انداز نہ کرے، اس کی حقیقت اور اصلیت کو پوری طرح سمجھے اور خدا کی حکمتیں جو اس کے اندر پوشیدہ ہیں ان سے پوری طرح واقف ہونے کی کوشش کرے۔۔۔۔ ‘‘ (الشریعہ،فروری۔ صفحہ۲۸۔۔ البرہان،جنوری۔ صفحہ۳۹)
میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا ، صرف اتنا جاننا چاہتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کا رویہ اس حوالہ سے کیا تھا؟ قرآن کے سب سے اولین اور شایانِ شان مخاطب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب تھے، اصحابِ کرام اہلِ لسان تھے، ہم سے کہیں بڑھ کر اہلِ ایمان بھی تھے، قرآن کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ہم سے کہیں زیادہ متفکر رہتے تھے، صاحبِ وحی صلی اللہ علیہ وسلم کے براہِ راست شاگرد تھے اور فہمِ قرآن میں یقیناًہم سے ہزار درجہ آگے تھے۔ اگر ’’تدبرِ کائنات‘‘ کی قرآنی تعلیم سے سائنسی ومادی تدبر ہوتا اور اسی کی ترغیب دینا قرآن میں مقصود ہوتا تو مادہ پر صحابہ کی سائنسی وتحقیقاتی سرگرمیاں کبھی گوشہء خفاء میں نہ ہوتیں۔ جبکہ یہاں معاملہ برعکس ہے، اس حوالہ سے ان کی دلچسپی تو نہیں، البتہ بے رغبتی اور عدمِ دلچسپی کے کئی شواہد موجود ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دلچسپی تو اس حوالہ سے بس اس قدر تھی کہ آپ نے کسی خیال سے کھجوروں کو گشنی کرنے کے بارہ میں صحابہ کو ایک تجویز دی، لیکن جب اس کے مطلوبہ نتائج ظاہر نہ ہوئے تو یہ کہہ کر آپ اس معاملہ سے ہی الگ ہوگئے کہ ’’تم جانو اور تمہاری دنیا، تم اپنی دنیا کے امور کو خود بہتر سمجھ سکتے ہو۔‘‘ اسی طرح شاگردانِ رسول کی اس حوالہ سے رغبت اور دلچسپی بھی بس اس قدر تھی کہ دینی جوش وجذبہ کے ساتھ مادہ پر ’’سائنسی تدبر‘‘ تو دور کی بات ہے، اگر ان کو بعض اوقات قرآن کے کسی لفظ کا معنی ومفہوم سمجھ نہیں آسکا تو اس کو سمجھنے کے لئے بھی انہوں نے زیادہ تکلف کو غیر مناسب سمجھا۔ سورۃ عبس کی آیت ۳۱ میں نباتات کی مختلف اقسام کے ساتھ ایک چیز ’’أبّ‘‘ کا ذکر آیا ہے، اب جو حضرات تدبرِ کائنات کی قرآنی تعلیم سے لازما سائنسی تدبر مرادلیتے ہیں اور ان کے نزدیک جب تک کسی چیز کی حقیقت پوری طرح منکشف نہ ہوجائے، اس وقت تک اس پہ غور وفکر ترک کرنا اس سے اعراض کے زمرہ میں آتا ہے، ان کے نزدیک نباتات کی باقی اقسام کی طرح اس خاص قسم ’’اب‘‘ پر پوری یکسوئی اور دلجمعی کے ساتھ مادی وسائنسی طرز کا تدبر ہونا چاہئے، اس تدبر کے بغیر ان کو چھوڑ کر آگے چلے جانا گویا اللہ کی تخلیق سے اعراض اور قرآن کی رو سے قابل مذمت ہے، لیکن اب ذرا غور سے سنئے کہ ان نباتات پر سائنسی ومادی تدبر تو درکنار، صحابہ میں سے دو بزرگ ترین شخصیات ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کو سرے سے یہ تک معلوم نہیں تھا کہ اس ’’اب‘‘ سے نباتات کی کونسی خاص قسم مراد ہے اور اس کا صحیح مصداق کونسا پودا ہے، جبکہ یہ بھی کہیں منقول نہیں کہ اس کا صحیح مصداق جاننے کے لئے انہوں نے کوئی تحقیقاتی کمیٹیاں بٹھائی ہوں، بلکہ اس کے برعکس سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے یہ منقول ہے کہ اس حوالہ سے زیادہ متفکر ہونا گویا ایک طرح کا تکلف ہے۔
صحیح سند کے ساتھ منقول ہے کہ ’’ایک مرتبہ حضرت عمر ’’سورہ عبس ‘‘ کی تلاوت کر رہے تھے ، جب وہ آیت ۳۱ میں ’’وفاکہۃ وأبا‘‘ پر پہنچے تو فرمایا کہ ’’فاکہۃ‘‘ کا معنی تو ہمیں معلوم ہے، مگر یہ ’’أبّ‘‘ کیا ہے؟ پھر خود کلامی کے سے انداز میں خود ہی اپنے آپ کو کہنے لگے کہ اے خطاب کے فرزند!یہ سوچ بچار کرکے تم محض تکلف کررہے ہو۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر۔ سورہ عبس، آیت۳۱) ایک اور روایت کی رو سے یہ واقعہ تب پیش آیا جب آپ نے منبر پر کھڑے ہو کر یہ سورت تلاوت فرمائی۔ اور اس میں مزیدیہ ہے کہ ’’آپ نے ہاتھ میں پکڑی چھڑی کو زور سے زمین پر مارا اور فرمایا کہ اے عمر! اگر ’’أبّ‘‘ کا معنی تمہیں معلوم نہ ہو تو اس میں تمہارا کیا نقصان ہے؟اس کتاب کی جو بات تمہیں سمجھ آجائے، اس کی پیروی کرو، اور جو نہ آئے تو اسے اللہ کے سپرد کرو۔‘‘ (روح المعانی۔ عبس:۳۱) اب حضرت عمر کے اس رویہ کو سنی علماء کس نظر سے دیکھتے ہیں، اسے چھوڑ دیجئے کہ وہ تو وہیں ہی ’’روایت پسند‘‘ ، اپنے دور کے روشن خیال اعتزالی طبقہ سے تعلق رکھنے والے معروف مفسر علامہ جار اللہ زمخشری کی سنیے کہ وہ بھی حضرت عمر کے اس رویہ کو قابل تقلید سمجھتے ہیں: ’’صحابہ کی توجہات کا اصل رخ عمل کی طرف تھا،نری معلومات سے بے جا شغف اور ان کی تدقیق کو وہ تکلف ہی سمجھتے تھے، الا یہ کہ اس تدقیق کا کوئی تعلق عمل سے ہو۔ حضرت عمر کی مراد یہ ہے کہ ’’عبس‘‘ کی وہ آیات جن میں ’’أبا‘‘ کا ذکر بھی ہے، ان میں انسان پر اللہ کے احسانات کو بیانات کیا گیا ہے کہ کس طرح اللہ تعالی نے انسان کے لئے اور اس کے مویشیوں کے لئے آسمان سے پانی نازل کیا، زمین کو سیراب کیا، پھر زمین کے سینے کو چیر کر اندر سے غلے اور اناج، انگور اور ترکاریاں، زیتون اور کھجوریں، گھنے گھنے باغ اور طرح طرح کے پھل نکالے۔ اسی ضمن میں اللہ نے نباتات کی ایک خاص قسم ’’أب‘‘ کا ذکر بھی کیا ہے۔انسان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ان نعمتوں پر غور کرے اور اپنے اندر اپنے رب کے لیے احساس تشکر پیدا کرے۔ آیت کے سیاق وسباق سے اتنا تو صاف واضح ہوجاتا ہے کہ ’’أب‘‘ بھی نباتات کی ایک قسم ہے جو انسان کے نفع کے لئے اللہ نے نکالی ہے۔حضرت عمر کی لاعلمی فقط اس قدر ہے کہ یہ کونسی خاص قسم ہے۔ تو اس موقع پر کرنے کا جواہم کام ہے اور جو واضح بھی ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ کی نعمتوں کا احساس کرکے اس کا شکر ادا کیا جائے، ’’أب‘‘ کے خاص پودے کی خاطر توجہ اصل مقصد سے نہ ہٹا لی جائے، اس پودے کے تعین کوچھوڑ دیا جائے کہ کسی موقع پر اس کی وضاحت ہوگئی تو ہوگئی ورنہ اللہ جانے۔ بعد ازاں حضرت عمر نے قرآنی مشکلات میں اسی طریقہ کو اختیار کرنے کی تلقین باقی لوگوں کو بھی کی۔‘‘ (الکشاف۔ عبس:۳۱) ذرا دل پہ ہاتھ رکھ کے بتائیے کہ حضرت عمر کا یہ رویہ کسی بھی طرح ’’سائنسی تدبر‘‘ کے رویہ سے میل کھاتا ہے؟
مزید سنیے، خلافت راشدہ کے تقریباً ایک سو سال بعد عباسی خلفاء کے دور کو سائنس دوستی اور ’’علوم وفنون کا دور‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس دور میں روم وفارس کے علو م وفنون او ران کے کتابی ذخیروں کو بڑے اہتمام سے عربی میں ترجمہ کیا گیا‘ خصوصاً یونان کے علمی ورثہ پر بہت زیادہ توجہ دی گئی جو روم اور مصر میں پڑ ا ہواتھا۔ ان کے علمی ذخیرے کو وہاں سے منگوایا گیا اور عربی میں ان کے ترجمہ وتشریح کے لیے باقاعدہ سرکاری ادارے قائم کیے گئے۔ اسی سلسلہ میں مسلمانوں نے بعد میں جو کارنامے انجام دیے ‘ ان کی وجہ سے مسلمانوں کو سائنس کی تاریخ میں یونان کا شاگرد اور جانشین باور کیا جاتا ہے۔یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ روم ‘ فارس اورمصرتو اس سے بہت پہلے حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ہی فتح ہوچکے تھے‘ تو اولین دور کے ان فاتح مسلمانوں نے روم اور فارس میں پڑے ہوئے کتابوں کے ان انباروں کے ساتھ کیا سلوک کیا جنہیں سو سال بعد کے مسلمان حکم ران بڑی دلچسپی لے کر عربی میں منتقل کرتے رہے؟ اگر شاگردانِ رسولِ دینی جوش وجذبہ کے ساتھ سائنسی تدبر میں رغبت رکھتے تھے تو مفتوحہ علاقوں میں پڑے کتابوں کے وہ انبار ان کی دلچسپی کا محور ہونا چاہئے تھے جو در اصل سائنسی ومادی تدبر پر ہی مبنی تھے اور جن کی ’’قدر‘‘ کو پہچان کر عباسی خلفا نے اپنا نام روشن کیا۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب علمی ذخائر ان کی آنکھوں سے اوجھل رہ گئے جو ان علاقوں کے اولین اور حقیقی فاتح تھے؟ کیا فتوحات کے بعد اپنی ہی مفتوحہ اقوام کے ان علوم وفنون پر ان کی نظر نہ جاسکی جنہوں نے بعد میں آنے والے مسلم فرماں رواؤ ں کی آنکھوں کو خیرہ کردیااور وہ سونا اور چاندی میں تول کر ان کے ہاں کی کتابوں کو اپنے ہاں درآمد کرتے رہے؟کیا وہ ایسے ہی غافل اور نادان تھے؟ ظاہر ہے کہ کوئی بھی معقول آدمی اس کی تائید کرسکتاہے اور نہ ہی اس کے لیے کوئی تاریخی شہادت پیش کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے کہ انہوں نے ان علوم فنون میں عباسی خلفاء کی طرز پرکوئی دلچسپی لی یا ان پہ توجہ دی ہوکیونکہ اگر ایسا ہوتا تو تاریخ میں اس کی کوئی ایک آدھ مثال تو ضرور ہی محفوظ ہوتی جیساکہ عباسی خلفاء کی اس دلچسپی کے واقعات بکثرت موجود ہیں‘ مگر ایسا نہیں ہے۔تو پھر سوال وہی کہ اسلام کے اولین ادوار میں ان علوم وفنون کا آخر کیا بنا؟ اور اس دور کے مسلمانوں نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا؟کیا یہ بات درست ہے کہ اولین دور کے مسلمان ان علوم وفنون میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے ؟ ان کے انہماک کو ناپسند کرتے تھے؟ ظاہر ہے کہ اس حوالہ سے تاریخ کی خاموشی تو کم از کم یہی بتاتی ہے، بلکہ بعض صریح تاریخی روایات سے بھی ان کے اسی رویہ کی تائید ہوتی ہے کہ مفتوحہ علاقوں میں کتابوں کے انبار ان کی نظر سے گذرے بھی مگر انہوں نے عمدا ان میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ کتاب نویسی کی مستند تاریخ ’’کشف الظنون‘‘ (کاتب چلپی)، مقدمہ ابن خلدون، الافادۃ والاعتبار (عبداللطیف البغدادی)، اخبار العلماء باخیار الحکماء (قفطی) اور المواعظ والاعتبار (مقریزی) میں ایسی روایات موجود ہیں۔ ضرورت پڑنے پر ان کی عبارات بھی نقل کی جاسکتی ہیں۔ میں جاننا صرف یہ چاہتا ہوں کہ اگر ’’تدبرِ کائنات‘‘ کے قرآنی فضائل کا مصداق سائنسی ومادی تدبر ہی ہے تو شاگردانِ رسول کے اس رویہ کی آخر کیا توجیہ کی جائے گی؟ ڈاکٹر شہباز منج کے بقول نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو باقاعدہ خدا سے چیزوں کی سائنسی حقیقت منکشف کرنے کی دعا مانگی کہ ’’اللہم ارنا الاشیاء کما ہی‘‘ اب ان کو خود ہی بتانا چاہیے کہ اگر اس نبوی دعا میں وہی کچھ مانگا گیا ہے جو کہ وہ سمجھ رہے ہیں تو آخر نبی کی پوری زندگی میں اس نوع کی کوئی سائنسی سرگرمی کہیں کیوں نظر نہیں آتی، وہ اس حوالہ سے صرف دعا مانگنے تک ہی کیوں محدود رہ گئے؟ ان کے شاگردوں کا رویہ اس حوالہ سے ’’منفی‘‘ اور عدمِ رغبت کا کیوں ہے اور عباسی خلفاء کی طرح انہوں نے روم وفارس کے بھرے ہوئے کتب خانوں میں دلچسپی کیوں نہیں لی؟
یہاں ایک مغالطہ کا ازالہ بھی انتہائی ضروری ہے۔ جب کبھی یہ بتایا جائے کہ قرآنی ’’تدبرِ کائنات‘‘ سے سائنسی تدبر مراد نہیں ہے تو بعض لوگ اس کا معنی یہ لیتے ہیں کہ شاید سائنسی تدبر کی مخالفت کی جارہی ہے اور اس کو شرعاً ناجائز ٹھہرایا جارہا ہے، حالانکہ یہ بات بھی ایسے ہی غلط ہے جیسا کہ قرآنی ’’تدبرِ کائنات‘‘ سے سائنسی تدبر مراد لینا۔ معاملہ کی اصل نوعیت بس اتنی ہے کہ قرآن نے نہ تو سائنسی ومادی تدبر کی کہیں کوئی ترغیب دی ہے اور نہ ہی اس سے کوئی ممانعت فرمائی ہے۔ سائنسی تدبر ایک مباح سرگرمی ہے بشرطیکہ اس کا انہماک انسان کو خدا پرستی کے تقاضوں سے غافل نہ کردے۔ نہ تو قرآنی تدبر کائنات کا مصداق یہ تدبر ہے اور نہ ہی شاید اس کی ممانعت کی کوئی شرعی دلیل موجود ہے۔ یہ دونوں شکلیں افراط وتفریط کی ہیں۔ ہاں، البتہ موجودہ دور میں جبکہ امت کو ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے تو اس دور میں مسلمانوں کے سائنسی تدبر کی طرف متوجہ ہونے کی کوئی فضیلت بھی ہوسکتی ہے، مگر یقین جانیے کہ امت کی موجودہ بدحالی کا اصل سبب میڈیا، معیشت اور دفاعی ٹیکنالوجی جیسے میدانوں میں اس کی کم تری نہیں ہے، بلکہ سب سے پہلے اور سب سے زیادہ ہمیں اللہ کی توجہ کی ضرورت ہے۔ غالباً اسی کی ناراضگی کی وجہ سے ہم اس وقت ناسمجھی اور بدتدبیری کا شکار بھی ہیں، اسی کی ناراضگی کی وجہ سے ہمیں کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا، جب اس کو راضی کرنے کی فکر ہم نے اپنا لی، اپنی عملی ودینی حالت بہتر کرلی، مومنین کی صفات کو اپنے اندر پیدا کرلیا تو ان شاء اللہ خود بخود راستے آسان ہوجائیں گے، مادی اسباب کی کمی ’’کمی‘‘ نہیں رہے گی، نیک سمجھ عطا ہوگی اور اللہ کی غیبی نصرت وولایت کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔ ہذا ما عندی والعلم عنداللہ ، ولاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم
دارالعلوم دیوبند کے قیام کا مقصد اور موجودہ مدارس کا کردار
تاریخی و تجزیاتی مطالعہ
مولانا محمد انس حسان
دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی دینی فراست اور علمی ذکاوت کا عملی نمونہ تھا۔ انقلاب 1857ء کی نا کامی کے بعد جب مسلمان انتہائی کس مپرسی کے عالم میں تھے مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ نے ایک ایسے دینی مرکز کی نیو اٹھائی جس کا مقصد مسلمانوں کی مذہبی اقدار کی حفاظت اور وقت کی جابر سلطنت یعنی حکومت برطانیہ کے خلاف ایسی جماعت تیار کرنا تھا جو مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی یاد تازہ کردے۔ سید محبوب رضوی لکھتے ہیں کہ:
’’اس وقت بنیادی نقطۂ نظر یہ قرار پایا کہ مسلمانوں کے دینی شعور کو بیدار رکھنے اور ان کی ملی شیرازہ بندی کے لیے ایک دینی وعلمی درسگاہ کا قیام ناگزیر ہے ۔ چنانچہ طے ہوا کہ اب دہلی کی بجائے دیوبند میں یہ دینی درسگاہ قائم ہونی چاہیے۔‘‘ (1)
حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کو جب بتایا گیا کہ دیوبند میں ایک مدرسہ قائم کیا گیا ہے تو اس پر آپ نے فرمایا کہ :
’’سبحان اللہ! آپ فرماتے ہیں ہم نے مدرسہ قائم کیا ہے۔ یہ خبر نہیں کہ کتنی پیشانیاں ، اوقات سحر میں سربسجود ہوکر گڑگڑاتی رہیں کہ خدا وندا! ہندوستان میں بقاءِ اسلام اور تحفظِ علم کا کوئی ذریعہ پیدا کر۔ یہ مدرسہ ان ہی سحرگاہی دعاؤں کا ثمرہ ہے۔‘‘ (2)
مولانا نانوتویؒ نے 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد کے نامساعد حالات میں جو طریقہ کار وضع کیا اس کے بنیادی اصول اور مقاصددرج ذیل تھے:
(1) شاہ ولی اللہ کے اسلوب تدریس کی اساس پر دینی علوم وفنون کی طرف دعوت دینا۔
(2) عیسائیت اور ہندووں کی جانب سے اسلام کے حوالے سے پھیلائے گئے شکوک وشبہات کا ازالہ کرنا۔
(3) کتاب وسنت کو مسلم و غیر مسلم طبقات میں پھیلانے کے لیے جدوجہد اور کوشش کرنا۔
(4) قابض اور مسلط حکومت سے تعاون لیے بغیر دین اسلام کی بیداری کے لیے اپنا مال اور جان خرچ کرنا۔
(5) شاہ ولی اللہ کے فلسفے میں تجدید کرکے ہندوستان میں دین کے غلبے کی تحریک کو نئے رخ پر ڈالنا۔
(6) قدیم علوم وفنون میں انتہائی عمیق غوروخوض کرکے اسے ہندوستان کے لوگوں کی ذہنیت کے قریب بنانا۔
(7) ماہرین فلسفہ کی ’’مخصوص اصطلاحات‘‘ کو چھوڑ کر ، عام ہندوستانیوں کی زبان میں بات کرنا۔
(8) عدم تشدد کے اصول پرقائم رہتے ہوئے منظم علمی وفکری شعور بیدار کرنا۔
ان اصول ومقاصد کے حصول کے لیے ہی دار العلوم دیوبند قائم کیا گیا تھا۔بتانا یہ مقصود ہے کہ دارالعلوم کوئی رسمی علمی ادارہ نہیں تھا بلکہ یہ اعلی مقاصد کے حصول کے لیے قائم کیا گیا تھا۔اگرچہ مولانا نا نوتوی ؒ کے وصال کے کچھ عرصہ بعد ہی دارالعلوم کے مقاصد کی تعیین کے حوالے سے معروضی بحث کاسلسلہ شروع ہوگیا تھا اور بعض اکابرین کی رائے یہ تھی کہ دارالعلوم کو محض تعلیم وتعلم تک محدود رکھنا مناسب ہوگا کیونکہ یہی اس کی علت غائی تھی۔تاہم بعض اکابرین کی رائے یہ تھی دارالعلوم کا مقصد محض تعلیم و تعلم ہی نہیں تھابلکہ قومی و سیاسی نوعیت کے گھمبیر مسائل سے نبرد آزما ہونے اورحکومت برطانیہ سے آزادی کے حصول کے لیے منظم جماعت تیار کرنا تھا۔مولانا نانوتویؒ خود فرماتے ہیں:
’’ہم نے دارالعلوم کے اصل مقصد پر درس و تدریس ، علوم اسلامی کا پردہ ڈال دیا ہے۔‘‘ (3)
چنانچہ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن ؒ (جو کہ اس مدرسہ کے سب سے پہلے طالب علم تھے ) نے ایک موقع پر فرمایا:
’’حضرت الاستاذ نے اس مدرسہ کو کیا درس و تدریس ، تعلیم و تعلم کے لئے قائم کیا تھا؟ مدرسہ میرے سامنے قائم ہوا،جہاں تک میں جانتا ہوں ۱۸۵۷ء کے ہنگامے کی نا کامی کے بعد یہ ارادہ کیا گیا کہ کوئی ایسا مرکز قائم کیا جائے، جس کے زیر اثر لوگوں کو تیار کیا جائے تا کہ ۱۸۵۷ء کی ناکامی کی تلافی کی جائے۔‘‘ (4)
حضرت شیخ الہندؒ نے مزید فرمایا:
’’تعلیم و تعلم، درس و تدریس جن کا مقصد اور نصب العین ہے ،میں ان کی راہ میں مزاحم نہیں ہوں، لیکن خود اپنے لئے تو اسی راہ کا میں نے انتخاب کیا ہے، جس کے لئے دارالعلوم کا یہ نظام میرے نزدیک حضرت الاستاذ نے قائم کیا تھا۔‘‘(5)
مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ دارالعلوم کے قیام کے پس منظر کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’جس وقت شاملی کے میدان سے وہ خود (مولانا نانوتویؒ ) اور ان کے رفقائے کار بہ ظاہر ناکامی کے ساتھ واپس ہوئے تویقیناًان کی یہ واپسی یاس ونامرادی کی واپسی نہ تھی اور نہ ہو سکتی تھی۔ واپس تو وہ بیشک ہوئے تھے لیکن یقیناًیہ واپسی مُتَحَرِّفاً لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَیِّزاً اِلٰی فِئَۃٍ (الانفال) ’’جنگ ہی کے لئے کتراتے ہوئے یا کسی ٹولی سے ملنے کے لئے ‘‘ہو سکتی تھی اور یقینااسی کے لئے تھی۔‘‘(6)
دارالعلوم کے قیام کو انگریز سامراج کے خلاف نئے محاذ اور میدان کی تیاری سے تعبیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’۱۸۵۷ء کی کشمکش کی نا کامی کے بعد قتال اور آویزش کے نئے محاذوں اور میدانوں کی تیاری میں آپ (حضرت نانوتویؒ ) کا دماغ مصروف ہو گیا۔ دارالعلوم دیوبند کا تعلیمی نظام اس لائحہ عمل کا سب سے زیادہ نمایاں اور مرکزی وجوہری عنصرتھا۔‘‘(7)
دیوبندمکتب فکر سے تعلق رکھنے والے حضرات کو موجودہ دور کے تناظر میں دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
(الف) پہلا طبقہ وہ ہے جو دارالعلوم کو محض ایک رسمی تعلیمی ادارے کے طور پر پیش کرتا ہے۔اکابرین علماء دیو بند کا حقیقی تعارف اوران کی مساعی جمیلہ کا شعور نئی نسل میں منتقل کرنا ان کے مقاصد سے خارج ہے۔
(ب) دوسرا طبقہ وہ ہے جوتحریک بالاکوٹ اور معرکہ شاملی جیسی عسکری مثالوں کو اکابرین دیوبندکی سنت قرار دیتے ہوئے فی زمانہ غلبہ دین کے لیے عسکری طریقہ کار اختیار کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔شیخ الہند ؒ کی قائم کردہ جمعےۃعلماء ہند کی پالیسی ان کی نظر میں بے معنی ہے۔
ہمارے خیال میں یہ دونوں مکاتب فکر دار العلوم دیوبند کے مقاصدسے کما حقہ آگاہی نہیں رکھتے ۔چنانچہ پہلا طبقہ تو محض اپنے مدارس کی چار دیواری اور اس سے بھی بڑھ کر اپنی موروثی شہنشاہیت اور امارت قائم رکھنے کے لیے نئی نسل کو بے شعور رکھنا چاہتا ہے۔جبکہ دوسرا طبقہ اپنی کم علمی اور بے شعوری کے باعث غلبہ دین کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ حالانکہ یہ بات آشکار ہے کہ حضرت شیخ الہندؒ نے مولانا نانوتویؒ ؒ کے مقاصد کے حصول کے لیے عدم تشدد کے اصول پرپر امن جدوجہدکا طریقہ اختیار کیا تھا اور اسی مقصد کے تحت جمعےۃعلماء ہند کا قیام عمل میں آیاتھا۔
بدقسمتی سے ہمارے مدارس میں تاریخ و مقاصد دیوبند کے حوالے سے کچھ زیادہ آگاہی نہیں دی جاتی۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہمارے مدارس اس نظریاتی دیوبند سے دور ہوتے جارہے ہیں جس کی بنیاد مولانا نانوتویؒ نے رکھی تھی۔ چنانچہ آج یہ بات شدت سے محسوس کی جارہی ہے اوروقت گزرنے کے ساتھ اس کا تقاضہ پیدا ہو رہا ہے کہ ہم جائزہ لیں کہ کیا ہمارے مدارس مولانا نانوتویؒ کے وضع کردہ اصولوں پر چل رہے ہیں یا نہیں؟
یقیناًاس گئے گزرے دور میں قال اللہ و قال رسول کی صدائیں غنیمت ہیں مگر کیا ہمارا دینی تقاضا بس یہی ہے کہ ہم اسی پر اکتفا کرکے بیٹھ جائیں اوراقامت دین کے لیے اپنے اکابرین کے طرز عمل کو یکسر نظر انداز کر کے تحفظ مدارس کی فکر میں خود کو ہلکان کرتے رہیں؟ یہ کتنی بد نصیبی کی بات ہے کہ جو دارالعلوم اقامت دین کے لیے مورچے کاکردار ادا کرنے کے لیے قائم ہوا تھا، آج اس کے نام لیوا وں کو یہ فکر کھائے جاتی ہے کہ مدارس کا وجود مٹادیا جائے گا۔در حقیقت یہ مسئلہ مدارس کے وجود وعدم وجود کا نہیں بلکہ اپنی وراثت اور امارت کی بقاء ودوام کا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ مولانا نانوتویؒ کے قائم کردہ دارالعلوم دیوبند کی نسبت سے آج ہم دیوبندی کہلاتے ہیں، لیکن ہم میں سے اکثر یہ نہیں جانتے کہ دیوبند کسی عمارت یا رسمیت کا نام نہیں بلکہ یہ ایک مستقل نظریہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک ایسا نظریہ جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے راستے پر چل کر ایک آزاد اسلامی نظام کے قیام کے لئے منظم جدو جہد کی دعوت دیتا ہے۔ چنانچہ ہمارے اکابرین کی جدو جہدِ آزادی اور وقت کی ظالمانہ اور طاغوتی طاقتوں کے خلاف قربانیاں اس نظریے کی زندہ مثالیں ہیں۔
مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے دارالعلوم دیوبند کے جو اصول و ضوابط وضع کئے تھے وہ ’’اصول ہشتگانہ ‘‘ کے نام سے موسوم ہیں۔ذیل میں ہم محض پہلے اصول پر اپنی معروضات پیش کرتے ہیں۔ پہلے اصول کی پہلی شق کے الفاظ یہ ہیں :
’’آزادیِ ضمیر کے ساتھ ہر موقع پر کلمۃ الحق کا اعلاء ہو۔ کوئی سنہری طمع ، مربیانہ دباؤ یا سرپرستانہ مراعات اس میں حائل نہ ہوسکے۔‘‘(8)
لیکن آج بدقسمتی سے محض چند مدارس کو چھوڑ کر ہمارے مدارس کی اکثریت مولانا کے اس اصول پر پورانہیں اترتی۔ ہمارے مدارس میں آہستہ آہستہ آزادیِ ضمیر کے ساتھ وقت کی جابر طاقتوں کے خلاف’’ اعلاء کلمۃ الحق‘‘ کی اہلیت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ دارالعلوم دیوبند اس لئے قائم ہوا تھا کہ1857ء کی جنگِ آزادی میں مسلمانوں کو ہونے والے عظیم نقصان کاازالہ کیا جا سکے۔جنگِ آزادی کی نا کامی کے بعد مسلمانانِ ہند ہندوستان میں جس کسی مپرسی کی حالت میں زندگیاں گزار رہے تھے اور عیسائی مشنریاں جس دیدہ دلیری سے شعائر اسلام کا مذاق اڑانے اور مسلمانوں کو عیسائی بنانے میں سرگرم تھیں، اس کا تقاضہ تھا کہ ایک ایسا مرکز قائم کیا جائے، جہاں مسلمانوں کی دینی، سیاسی اور اخلاقی تربیت کے ساتھ ساتھ وقت کی جابر طاقت یعنی حکومتِ برطانیہ کے خلاف ایسے رجال تیار کئے جائیں جو انہیں اس شکست کا مزا چکھادیں۔
بنا بریں دارالعلو م کے قیام کا مقصد صرف درس وتدریس نہیں تھا، بلکہ ایک ایسا مرکز قائم کرنا مقصود تھا جہاں مسلمانوں کی بچی کھچی انفرادی صلاحیتوں کو اجتماعی شکل دیدی جائے۔ اور یہ اجتماعی طاقت اس مقصد کا احیاء کرے اور اس کام کو مکمل کرے، جو حضرت سیدین رحمہم اﷲ کے ہاتھوں انجام نہ پاسکاتھا۔ چنانچہ حضرت حاجی امداد اﷲ مہاجر مکیؒ ، مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ اور خود مولانا نانوتویؒ کی زندگیاں اور کردار اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ ان کی زندگی کا طویل حصہ انگریز حکومت کے خلاف علمی وعملی جہاد میں گزرا۔نیز حضرت نانوتویؒ کا وضع کردہ پہلا اصول ہی ایسا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی سنہری طمع، سرپرستانہ مراعات اور مربیانہ دباؤ میں آئے بغیر آزادی ضمیر کے ساتھ حق گوئی سے باز نہیں آنا۔ لہذا یہ اصول ہمیں یہ سوچنے کی دعوت دیتا ہے کہ ایک ایسے غلام ملک میں جہاں مذہب، حکومت اور آزادی رائے پر کسی جابر وقت کا تسلط ہو، کیا یہ اصول بلواسطہ نہ سہی بلاواسطہ ایک انقلابی دعوت نہیں ہے۔
اگر ہم اپنے گرد وپیش کا جائزہ لیں تو آج ملک بھر میں ہزاروں مدارس درس و تدریس میں مشغول ہیں اور ان سے فارغ التحصیل ہونے والے طلباء کی تعدادلاکھوں میں ہوتی ہے۔ لیکن اگر ان طلباء سے اپنے اکابرین کی جد وجہد کے بارے میں پوچھیں تو سخت مایوسی اور ناخوشگوار حیرت ہوتی ہے۔در حقیقت ہمارے مدارس نظریہ دیوبند سے بہت دور ہو چکے ہیں اور اس کی کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔
(1) آج ملک بھر میں کوئی ایک مدرسہ بھی ایسا نہیں جو آزادیِ ضمیر اور حریت رائے کے ساتھ مربیانہ دباؤ اور سرپرستانہ مراعات میں آئے بغیر عصرِ حاضرکے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے حوالے سے واضح لائحہ عمل یا پروگرام رکھتا ہو۔ اگر کوئی حق گو ’’ اعلاء کلمۃ الحق ‘‘ کرتا بھی ہے تو اس کی اس انفرادی صدا کو مجذوب کی بڑ سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔
(2) آج ہمارے مدارس کے مسندنشینوں کی حق گوئی محض اخباری بیانات اور جذباتی تقریروں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے ۔ ایک دوسرے پر تکفیر کے فتاوی جاری کرنے کو’’ اعلاء کلمۃ الحق ‘‘ سمجھ لیا گیا ہے۔جہاں ایک طرف دہشت گردی کا عذاب مسلط ہے وہیں فتوی گردی کے عمل سے بھی کوئی دامن محفوظ نہیں رہاہے۔
(3) ایک طرف تو تکفیری فتاویٰ کی بھر مار ہے تو دوسری طرف سرمایہ داروں کے مفادات کے تحفظ کے لیے بڑی فراخ دلی سے من پسند فتاویٰ جاری کیے جاتے ہیں۔انہی سرمایہ داروں کے مال سے اگر مدارس چلانے ہوتے تو حضرت نانوتویؒ سمیت بہت سے اکابرین کے لیے یہ عمل ناممکن نہیں تھا۔مضاربہ اسکینڈل جیسی دو نمبریوں سے معصوم عوام کو دھوکہ دینے کے عمل میں بعض جیدمدارس کے’’دار الافتاء‘‘ کا بڑا نمایاں کردار رہاہے جو سب پر آشکار ہے۔
(4) اکابرین دیو بند کاعمل تو یہ تھاکہ تنخواہ کے حوالے سے خود کو بطور مثال پیش کرتے تھے اور مالی حوالے سے بہت احتیاط برتتے تھے۔لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ مدارس کے مہتممین اور ان کی اولادیں توشاہانہ ٹھاٹھ باٹھ سے زندگی بسر کرتے ہیں جبکہ غریب مدرس کی انتہائی بری حالت ہے۔اگر مالی حوالے سے کوئی احتجاج کی آواز بلند ہوتی بھی ہے تواسے اکابرین کے اخلاص وتقویٰ کے وعظ پر ٹرخا دیا جاتا ہے۔
(5) آج ہمارے مدارس کی اکثریت مذہب اور سیاست کو الگ الگ رکھنے پر مصر ہیں۔ چنانچہ اس رویے نے ہمارے معاشرے میں دین و دنیا کی تفریق کے تصور کومزید مستحکم کیا ہے۔ جس کے نتیجے میں مدارس اورسماج کے درمیان وسیع خلیج حائل ہوگئی ہے ۔عوام میں یہ تاثر قائم ہوگیا ہے کہ علماء کا کام محض نکاح و وفات کی رسوم سر انجام دینا ہے،دیگر سماجی مسائل کا حل ان کے پاس نہیں ہے۔
(6) ہمارے وہ احبابِ مدارس جنہوں نے افغانستان کے حوالے سے جہاد کے فتاویٰ شائع کروا کر بلکہ اس میں خود عملاً شریک ہو کر ’’ شیخ المجاہدین ‘‘ اور ’’ سرپرست مجاہدین ‘‘ کے القابات پائے اور اس عمل کو ’’ اعلاء کلمۃ الحق‘‘ کا عظیم فریضہ قرار دیا، آج پاکستان کے معروضی حالات میں ان کی فقہی بصیرت نے انہیں خاموش کرا رکھا ہے ۔
(7) ہمارے مدارس کے وہ لوگ جو سیاست کو دین سے الگ تصور نہیں کرتے اور مذہبی سیاست کی دعوت دیتے ہیں،آج ملک کے سیکولر اور لا دینی نظام کا حصہ بن چکے ہیں اور بزعم خویش اسی پر مطمئن ہیں کہ نظام کا حصہ بن کر نظام کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ ایک طرف تو ’’کچھ دو کچھ لو ‘‘ کا نعرہ لگایا جاتا ہے اور دوسری طرف اسلامی شریعت کے نفاذ کی بات کی جاتی ہے۔ اس دو عملی نے ناصرف آزادیِ ضمیر کو متاثر کیا ہے بلکہ عوام بھی مدارس کی پروردہ مذہبی و دینی جماعتوں سے مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔
(8) فرو عی مسائل پر بحث شر وع دن سے رہی ہے لیکن آج ہمارے دینی مدارس دین کے اس ایک محاذ کو محاذ کل سمجھے ہوئے ہیں۔ چنانچہ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہم معمولی اختلافات کا شکار ہو کر فرقہ درفرقہ بٹتے چلے جا رہے ہیں۔اس پر مستزادیہ کہ یہ فرقہ بندی مسلکِ دیوبند سے باہر کی نہیں بلکہ آج دیوبندی کہلوانے والی بیسیوں جماعتیں ہمارے اردگرد موجود ہیں۔ چنانچہ نظریہ دیوبند انہی جماعتوں کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر رہ گیا ہے۔
بہرحال مولانا نانوتویؒ کے گذشتہ ذکر کئے گئے پہلے اصول کی دوسری شق کے الفاظ یہ ہیں:
’’اس کا (دیوبند ) کا تعلق عام مسلمانوں کے ساتھ زائد سے زائد ہو۔ تاکہ یہ تعلق خود بخود مسلمانوں میں ایک نظم پیدا کردے جو ان کو اسلام اور مسلمانوں کی اصل شکل پر قائم رکھنے میں معین ہو۔اور اس طرح اسلامی عقائد اور اسلامی تہذیب ہمیشہ کے لئے ورنہ کم از کم اس وقت تک کے لئے محفوظ ہو جائے ۔ جب تک کہ یہ مرکز اپنے صحیح اصول پرقائم رہے، نیز توکل علی اﷲ اور عوام کی طرف سے احتیاج خودکارکنانِ مدرسہ کو اسلامی شان پر باقی رکھ سکے اور جابرانہ استبدادیا ریاست کا ٹھاٹھ ان میں قطعاً نہ پیدا ہو، بلکہ ایک جمہوری تعلق ہو جو ایک کو دوسرے کا محتاج بنائے رکھے۔ اور اس طرح آپس میں خود ایک دوسرے کی اصلاح ہوتی رہے ۔‘‘ (9)
بدقسمتی سے ہمارے موجودہ مدارس مولانا نانوتویؒ کے اس اصول پر بھی پورا نہیں اترتے۔دیوبند کا مقصد تو یہ تھا کہ عوام الناس سے زیادہ سے زیادہ تعلق پیدا ہو اور اس کا سیاق و سباق یہ تھا کہ 1857ء کی تحریک آزادی میں انقلابی سوچ کی حامل ایک جماعت صفحہ ہستی سے مٹائی جا چکی تھی اور مسلمان قوم ہر جگہ انگریزوں کے شکوک و شبہات اور ظلم و ستم کانشانہ بنی ہوئی تھی۔ ان حالات میں مسلمانوں کے علمی حلقوں میں دو سوچیں ابھر کر سامنے آئیں۔
(الف) پہلی سوچ کے حامل وہ لوگ تھے جو انگریز سامراج سے قطعی مرعوب نہیں تھا بلکہ ان سے شدید نفرت کے جذبات رکھتے تھے اور اپنی مذہبی ، ثقافتی اور علمی روایات کو کسی طور پر چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھے۔ اس فکر کی نمائندگی ’’مدرسہ دیوبند‘‘ کررہا تھا۔
(ب) دوسری سوچ کے حامل وہ لوگ تھے جو انگریز سامراج سے متاثرہو کر ہر میدان میں مدافعانہ اور غلامانہ سوچ کو پروان چڑھا رہے تھے اور اس فکر کی نمائندگی سرسید احمد خان کا قائم کردہ کالج علی گڑھ کررہا تھا۔
ہمارے لیے یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ ’’علی گڑھ‘‘ کا ادارہ ’’دارالعلوم‘‘ کے مقابلے میں قائم کیا گیا، تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ انگریز سامراج نے اپنی حکمت عملی سے ان ہر دواداروں کو ایک دوسرے کے مقابل لا کھڑا کیا اور ان کی باہمی رقابت سے سیاسی فوائد حاصل کیے۔ اس باہمی رقابت کو ولی اللّٰہی جماعت کے تیسرے دور کے امام شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ نے دور کیا اور اجتماعی ترقی وملی آزادی کے لیے ایک دوسرے کو مل جل کر کام کرنے کی دعوت دی ۔ تاہم اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ مولانا نانوتویؒ جدید علوم وفنون یا انگریزی زبان کے مخالف تھے۔ حضرت نانوتویؒ اور سر سید احمد خاںؒ کے ایک استاد مولانا مملوک علی نانوتویؒ تھے جو کہ شاہ عبد العزیز دہلویؒ کے شاگرد تھے۔ حضرت نانوتویؒ جدید علوم وفنون کے قائل تھے اور ان علوم کا حصول طلباء کے لیے ضروری خیال فرماتے تھے۔ چنانچہ سید محبوب رضوی نے مولانا نانوتویؒ کی یہ تحریر نقل کی ہے کہ:
’’اگر طلباء مدرسہ ہذا ، مدارس سرکاری میں جاکر علومِ جدید حاصل کریں تو ان کے کمال میں یہ بات زیادہ موید ہوگی۔‘‘(10)
مولانا احمد عبدالمجیب قاسمی حضرت نانوتویؒ کے تصور علوم جدیدہ پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
’’جدید تعلیم کے حصول سے حضرت نانوتویؒ نے منع نہیں فرمایا اور کیسے منع کرتے وہ تو باخبر، زمانہ شناس اور صاحب بصیرت عالم تھے اورتقاضائے زمانہ سے آگاہ تھے، بلکہ ایک گونہ ترغیب بھی دلائی۔‘‘ (11)
تاہم ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ مولانا نانوتویؒ نے عصری اور دینی تعلیم کے مشترکہ نصاب کو دارالعلوم میں کیوں جاری نہیں فرمایا ؟ تو اس کا جواب مولانا نے خود یہ دیا ہے کہ:
’’زمانہ واحد میں علوم کثیرہ کی تحصیل، سب علوم کے حق میں باعثِ نقصان استعداد رہتی ہے۔‘‘(12)
مولانا کے اس جملہ سے واضح ہوجاتا ہے کہ وہ بیک وقت دینی وعصری تعلیم کی تدریس کو استعداد پیدا نہ ہونے کا باعث قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ ان کا مقصد یہ تھا کہ دینی تعلیم کے حاملین فراغت کے بعد عصری تعلیمی اداروں میں آئیں اور عصری تعلیم کے حاملین مدارسِ دینیہ میں آئیں۔ اگر وہ جدید علوم وفنون کے حوالے سے عصری تعلیمی اداروں کے مخالف ہوتے تو خود مولانا مملوک علیؒ سے کیوں پڑھتے جو شاہ عبدالعزیزؒ کے فتویٰ کی روشنی میں انگریز کے قائم کردہ کالج میں نوجوانوں کی تربیت کا محاذ سنبھالے ہوئے تھے۔ بلکہ مولانا گیلانیؒ کے مطابق تو مولانا نانوتویؒ خود انگریزی زبان سیکھنے کے خواہش مند تھے اور دارالعلوم دیوبند میں سنسکرت زبان سیکھنے کا اہتمام بھی تھا۔ (13)
ان دونوں مکاتب فکر کا مقصد آزادی تھا لیکن حصول مقصد کے طریقے میں اختلاف تھا اور یہ اختلاف وقت کے ساتھ ساتھ اس قدر طویل ہوا کہ انگریزوں کے خلاف دو الگ محاذ جنگ قائم کرنے کی بجائے مسلمان خود آپس میں محاذ آرا ہوگئے اور یہ فکری محاذ آرائی اب تک قائم ہے۔ حالانکہ ان دونوں فکری تحریکوں کا ملاپ سماجی تبدیلی کا صحیح راستہ متعین کرنے میں معاون و مددگار ہوسکتا تھا۔
حضرت شیخ الہند ؒ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اس کمی کو شدت سے نہ صرف محسوس کیا بلکہ ان دونوں تحریکات کے اشتراک کے نتیجے میں ایک قومی انقلاب برپا کرنے کے لیے کئی عملی اقدامات کیے۔مولانا اپنی مستقبل بینی اور عبقریت کی بناپر بھانپ گئے تھے کہ غلبہ دین کو جدید دور کے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور اس کی بنیاد پر حریت وآزادی کی جدوجہد کو کامیاب بنانے کے لیے دارالعلوم (دینی) اور علی گڑھ (عصری) کے اداروں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے اپنی اس سوچ کا اظہار جامعہ ملیہ کے تاسیسی جلسے میں اپنی آخری تقریر میں کیا تھا۔ انہوں نے فرمایا کہ:
’’اے نونہالانِ وطن! جب میں نے دیکھا کہ میرے اس درد کے غم خوار (جس میں میری ہڈیاں پگھلی جارہی ہیں) مدرسوں اور خانقاہوں میں کم اور سکولوں اور کالجوں میں زیادہ ہیں تو میں نے اور میرے چند مخلص احباب نے ایک قدم علی گڑھ کی طرف بڑھایا ۔اور جس طرح ہم نے ہندوستان کے دو تاریخی مقاموں (دیوبند اور علی گڑھ) کا رشتہ جوڑا، کچھ بعید نہیں کہ بہت سے نیک نیت بزرگ میرے اس سفر پر نکتہ چینی کریں اور مجھ کو محروم بزرگوں کے مسلک سے منحرف بتلائیں۔ لیکن اہلِ نظر سمجھتے ہیں کہ جس قدر میں بظاہر علی گڑھ کی طرف آیا ہوں، لیکن اس سے کہیں زیادہ علی گڑھ میری طرف آیا ہے ۔‘‘ (14)
حضرت شیخ الہند نے مزید فرمایا:
’’آپ میں سے جو حضرات محقق اور باخبر ہیں ، وہ جانتے ہوں گے کہ میرے اکابر سلف نے کسی وقت بھی کسی اجنبی زبان کے سیکھنے یا دوسری قوموں کے علوم و فنون حاصل کرنے پر کفر کا فتویٰ نہیں دیا۔ ہاں! یہ بیشک کہا گیا کہ اگر انگریزی تعلیم کا آخری اثر یہی ہے جو عموماً دیکھا گیا ہے کہ لوگ نصرانیت کے رنگ میں رنگے جائیں یا ملحدانہ گستاخیوں سے اپنے مذہب اور مذہب والوں کا مذاق اڑائیں ..........تو ایسی تعلیم پانے سے ایک مسلمان کا جاہل رہنا ہی اچھا ہے ازراہ نوازش آپ ہی انصاف کیجیے کہ یہ تعلیم سے روکنا تھا یا اس کے اثر بد سے ۔‘‘ (15)
حضرت شیخ الہند ؒ نے ہی علی گڑھ کے فاضل اور شہرہ آفاق مقرر مولانا محمد علی جوہر مرحوم کو دیوبند آنے کی دعوت دی اور باوجود اس کے کہ وہ کوئی عالم دین یا فقیہہ نہیں تھے اپنی دستار ان کے سر پر رکھ دی۔ حضرت شیخ الہندؒ کے اس عمل سے دو نتائج برآمد ہوئے۔
(الف) اول مولانا کی وسیع القلبی اور اخلاق و محبت کے اس عظیم مظاہرہ سے بہت سے علیگ یا غیر درسی حضرات تحریک دیوبند کے حوالے سے اپنے نکتہ نظر پر نظر ثانی کے لئے آمادہ نظر آنے لگے۔ چنانچہ حضرت شیخ الہندؒ کا وسیع حلقہ ایسے حضرات کا تھا جو مذہبی معاملات میں محض نمودو نمائش کا قائل نہیں تھا۔ نیز حضرت کی انہی پالیسیوں کی بدولت (جو کہ دراصل حضرت نانوتویؒ ہی کے پہلے اصول کی دوسری شق کا احیاء تھا ) ما سوائے انگریز حکومت اور اس کے گماشتوں کے کوئی دو سرا دشمن نہ تھا۔
(ب) دوسرا نتیجہ مولانا کے اس عمل کا یہ ہوا کہ ارباب دیوبند کا ایک مخصوص ذی اقتدار طبقہ ان کا مخالف ہو گیا اور ان کی راہ میں مزاحم ہوگیا۔ چونکہ مولانا کی ذاتی علمی و جاہت اورمقام و مرتبہ کی وجہ سے کسی کو یہ جرأت تو نہ ہوئی کہ وہ علی الاعلان ان کی مخالفت کرتا لیکن شیخ الہند ؒ کی پالیسیوں کو ناکام بنانے اور ان کی طاقت ختم کرنے کے لئے ان کے قریبی ساتھیوں کو ان سے الگ کرکے اور دارالعلوم بدر کرکے حضرت کی طاقت اور زور بازو کو کمزور کردیا گیا۔ اس حلقہ نے ایسا کیوں کیا؟ اس کا لازمی جواب یہی ہے کہ یہ حلقہ دارالعلوم کی عمارت اور طریقہ تعلیم کو ان تخریبی عوامل سے بچانا چاہتے تھے جو حضرت شیخ الہندؒ کی پالیسیوں کے نتیجے میں مدرسہ کو لاحق تھے۔
وہ لوگ جو حجرہ نشینی کے قائل تھے اوراقامت دین کے حوالے سے عملی جد وجہدسے فرار اختیار کرتے ہوئے دار العلوم کو محض درس وتدریس تک محدود رکھنا چاہتے تھے، ان کے بارے میں حضرت شیخ الہندؒ نے فرمایا:
’’اسلام صرف عبادات کا نام نہیں بلکہ وہ تمام مذہبی، تمدنی ، اخلاقی ، سیاسی ضرورتوں کے متعلق ایک کامل ومکمل نظام رکھتا ہے ۔ جو لوگ کہ زمانہ موجودہ کی کشمکش میں حصہ لینے سے کنارہ کشی کرتے ہیں اور صرف حجروں میں بیٹھ رہنے کو اسلامی فرائض کی ادائیگی کے لیے کافی سمجھتے ہیں ، وہ اسلام کے پاک وصاف دامن پر ایک بدنما دھبہ لگاتے ہیں ۔ ان کے فرائض صرف نماز ، روزہ میں منحصر نہیں بلکہ اس کے ساتھ ہی اسلام کی عزت برقرار رکھنے اور اسلامی شوکت کی حفاظت کی ذمہ داری بھی ان پر عائد ہوتی ہے۔ ‘‘(16)
بہر حال آج اکثر مدارس حضرت نانوتویؒ کے پہلے اصول کی دوسری شق پربھی پورا نہیں اترتے ۔حضرت نانوتویؒ کا فرمانا تو یہ تھا کہ عام مسلمانوں سے زیادہ تعلق ہولیکن آج ہمارے ارباب مدارس عام مسلمانوں سے اتنے ہی دور ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ دوریاں ختم ہوتیں مگر یہ جوں کی توں قائم ہیں بلکہ ان میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ حضرت شیخ الہندؒ نے اپنے استاد کی وضع کردہ اس شق کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مساعی کیں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب کیا تا کہ وہ اس اجتماعی نظام کا حصہ بن سکیں اور خود کو الگ جنس تصور نہ کریں۔ لیکن بدقسمتی سے ان کی مساعی سے انحراف ان کی موت کے کچھ ہی عرصے بعد شروع ہوگیا تھا۔ ’’مولوی‘‘ اور ’’بابو‘‘ کی اصطلاحات نے اسے مزید ہوا دی اور آج یہ حال ہے کہ ہمارے ارباب مدارس کالج اور یونیورسٹی کے نیم مذہبی طلباء کو بنظرِ حقارت دیکھتے ہیں۔نیز اسلام اور عصری تقاضوں سے متعلقہ ان کے شکوک و شبہات کا ازالہ کرنے کی بجائے اپنے اخلاقی ، سماجی اور معاشرتی رویوں سے انہیں خود سے مزید دور کرتے جا رہے ہیں، جس کا لازمی نتیجہ یہی برآمد ہوا ہے کہ آج ہمارے کالج اور یونیورسٹیوں کے قابل قدر اور مستقبل کے سیاسی و معاشرتی معمار اپنی لگامیں لا دینی قوتوں کے سپرد کر چکے ہیں اور یہ سب حضرت نانوتویؒ کے اصول سے انحراف کا نتیجہ ہے۔
حضرت نانوتوی ؒ کے اس زریں اصول میں یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ اللہ پر توکل اور عوام کی طرف سے احتیاج کی وجہ سے مدرسہ کے کارکنوں میں جابرانہ استبداد اور ریاست کا ٹھاٹھ پیدا نہ ہو گا۔ کراچی کے بعض بڑے مدارس کے وارثین اور مفتیان سے ملنے کا اتفاق ہوا تو احساس ہوا کہ شاید گورنر سے ملنا اتنا مشکل نہ ہوتا جتنا ان حضرات سے ملنے میں دقتیں پیش آئیں۔علماء حق اور صوفیاء کا شیوہ تو یہ تھا کہ وہ امراء سے کتراتے او رغرباء کے پاس خود چل کر جاتے تھے۔ اسی وجہ سے ایک بوسیدہ جھونپڑی میں بیٹھے حق گو عالم و صوفی کی حق گوئی سے قصرِ خلافت کانپتا تھا۔ لیکن آج کی صورتحال اس کے برعکس ہے۔
حضرت نانوتویؒ کا یہ فرمانا بھی قابل توجہ ہے کہ اس طرح کا ٹھاٹھ اور جابرانہ تعلق پیدا نہ ہو بلکہ ایک جمہوری تعلق ہو جو فریقین کو ایک دوسرے کا محتاج بنا کر رکھے اور اس طرح خود ایک دوسرے کی اصلاح ہوتی رہے۔ لیکن آج یہ احتیاج اور اصلاح یکطرفہ ہو کر رہ گئی ہیں۔ یعنی مدارس عوام کی مالی امداد کے محتاج ہیں لیکن عوام ان کی طرف سے اپنی اصلاح کے نہ محتاج ہیں اور نہ اس پر آمادہ نظر آتے ہیں اور اس ساری خرابی کی اصل یہ ہے کہ آج ہمارے مدارس اس زعم میں بری طرح مبتلاء ہیں کہ اصلاح کرنا صرف انہی کا حق ہے۔ عوام کو یہ حق حاصل نہیں کہ اگر وہ ان میں کوئی خامی دیکھیں تو ان کی اصلاح کردیں۔چنانچہ اس عمل نے مذہبی اجارہ داری کی فکر کو ہوا دی ہے اور اس کا لازمی نتیجہ یہی برآمد ہوا ہے کہ آج ہمارے علماءِ مدارس کے اصلاحی احکامات مدارس تک ہی محدود ہو کر رہ گئے ہیں اور عوام پر اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے۔
غرض اربابِ مدارس کو آج اس بات پر سنجیدگی سے غورکرنے کی ضرورت ہے کہ آج کے مدارس اس نظریاتی دارالعلوم دیوبند سے کس قدر دور ہیں جس کی نیو حضرت نانوتویؒ نے اٹھائی تھی۔ اگر دارالعلوم کسی نظریاتی جدوجہد کا نام ہے تو آج ہمارے مدارس بانجھ کیوں ہو گئے ہیں؟ ہمیں سوچنا چاہئے کہ آج ہندوستان کی سب سے بڑی تحریک آزادی (دارالعلوم دیوبند) کے نام لیوا اسلامی نظام کے قیام میں اپناکیا کردار ادا کر رہے ہیں؟ آج کتنے مدارس ایسے ہیں جو حضرت نانوتویؒ کے اس پہلے اصول پر عمل پیرا ہیں؟ یہ بات بھی سوچنے کے قابل ہے کہ ارباب مدارس دیوبند کی تاریخ، اس کے مقاصد اور ان مقاصد کے حصول کے لئے علماء دیوبند کی شاندار اور بے مثال قربانیوں کو اپنے نصاب تعلیم کا حصہ کیوں نہیں بناتے؟آخر کیا وجہ ہے کہ منطق وفلسفہ کی فرسودہ کتابیں اوراراکین وفاق المدارس کی کتب تو نصاب کا حصہ بن سکتی ہیں مگر شاہ ولی اللہ(الفوز الکبیر کے علاوہ) ،شاہ عبد العزیز،مولانا نانوتوی ،مولانا گنگوہی،شیخ الہند،مولانا مدنی اور سید محمد میاں رحمہم اللہ جیسے اکابر علماء دیوبند کی کتب کیوں نہیں پڑھائی جاتیں؟حقیقت تو یہ ہے کہ آج ہمارے مدارس کے فاضلین اپنے اکابرین کے حقیقی تعارف سے محروم ہوچکے ہیں اور یہ ایک المیہ ہے جس کی ذمہ داری ارباب مدارس اور اس سے بھی بڑھ کر وفاق المدارس پر عائد ہوتی ہے۔اگر آج ہم اس نظریاتی دیوبند کے اصول و ضوابط وحصول و مقاصد پر عمل پیرا ہیں تو اس کی عملی توجیہ ہو، بصورت دیگر ہمارے ان بانجھ اداروں کو اپنا تعلق اس عظیم نظریاتی دارالعلوم کے ساتھ جوڑنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔
حواشی
(1) محبوب رضوی، تاریخ دارالعلوم دیوبند، ج 1، ص 169،المیزان،لاہور،2005ء
(2) گیلانی، مناظر احسن، سوانح قاسمی، ج 2، ص 223،مکتبہ رحمانیہ، لاہور
(3) ماہنامہ الولی حیدر آباد،ج 14،شمارہ11،ص27،1991ء
(4) گیلانی،مناظر احسن ،احاطہ دارالعلوم میں بیتے ہوئے ایام،ص170،ادارہ تالیفات اشرفیہ،ملتان،1997
(5) ایضاً ،ص171
(6) گیلانی، مناظر احسن، سوانح قاسمی، ج 2، ص 222-223
(7) ایضاً ،ص223
(8) سید محمد میاں،علماء ہند کا شاندار ماضی ،ج5،ص48،مکتبہ رشیدیہ ،کراچی، 1992ء
(9) ایضاً
(10) محبوب رضوی، تاریخ دارالعلوم دیوبند، ج2، ص 302
(11) حجتہ الاسلام الامام محمد قاسم نانوتوی: حیات۔ افکار۔ خدمات (مجموعہ مقالات)، ص 280، تنظیم ابنائے قدیم دارالعلوم دیوبند، نئی دہلی، 2005ء
(12) ایضاً،ص281
(13) گیلانی، مناظر احسن، برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت، ج 2، ص 40
(14) مدنی،حسین احمد،مولانا،نقشِ حیات ،ج2،ص677،دارالاشاعت ،کراچی
(15) ایضاً
(16) شاہجہان پوری، شیخ الہند مولانا محمود حسن: ایک سیاسی مطالعہ، ص 211،مجلس یادگار شیخ الاسلام، کراچی، 1988ء
مکاتیب
ادارہ
محترم ومکرم عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم!
الشریعہ کے اپریل 2014ء کا شمارہ نظروں سے گزرا۔ اس شمارہ میں راقم کا مضمون ’’جمہوری و مزاحمتی جدوجہد۔ ایک تجزیاتی مطالعہ‘‘ شائع کیا گیا۔ یہ یقیناً آپ لوگوں کی روایتی اعلیٰ ظرفی ہے کہ باوجود اس کے کہ اس مضمون میں الشریعہ کے رئیس التحریر پر بدویانہ انداز میں تنقید کی گئی تھی، آپ لوگوں نے اسے شائع فرمایا۔ یقینا یہ حسن اخلاق اور اعلیٰ ظرفی ہمارے دینی و مذہبی حلقوں کے لیے ایک عمدہ معیار اور مثالی نمونہ ہے۔ اگر ہمارے مذہبی و دینی حلقے اس حسن اخلاق واعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرنے لگ جائیں تو اس لڑتی بھڑتی قوم کے لیے یہ بہت مبارک اور نیک شگون ہوگا۔ ایک اچھا نمونہ اور مثال بننے پر یہ عاجز الشریعہ کے منتظمین کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ اس لیے نہیں کہ آپ نے راقم کا اختلافی مضمون شائع کیا۔ یہ تو آپ کی روایت ہے۔ بلکہ یہ خراج تحسین اس بنا پر پیش کررہا ہوں کہ آپ نے اپنے نقطہ نظر کی شدت سے نفی کرنے والے ایک جاندار مدلل مضمون کو الشریعہ میں جگہ دی۔ مجھ سمیت کسی بھی تجزیہ نگار کی کوئی بھی رائے حرف آخر قطعاً نہیں۔ تاہم اگر مختلف آرا کی پشت پر موجود دلائل کا تبادلہ و مذاکرہ ہوتا رہے تو اتفاق واتحادکی منزل کو قریب کیا جا سکتا ہے۔
اے کاش! امت کا دین پسند اور مذہب کا علمبردار طبقہ اختلافی امور میں اعتدال کی راہ اپنانے اور اپنے اپنے اختلافات کو دلائل کی بنیاد پر پرکھنے کے ساتھ ساتھ ڈائیلاگ اور مکالمہ کی راہ اپنا لے اوردعوت ایمان، قیام عدل اورظلم کی مخالفت پر متحد و متفق ہوجائے تو اس امت کی ذلت و ضلالت کے طویل دورانیے پر کامیابی سے قابو پایا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو ایمان کی بہترین حالت میں زندہ رکھے اور ہردم حق بات کہنے اور سننے پر آمادہ رکھے۔ آمین۔
محمد رشید
abu_munzir1999@yahoo.com
مولانا زاہد الراشدی کے اسفار و خطابات
ادارہ
۲۴ اپریل ۲۰۱۴ء کو بعد از مغرب جامعہ اسلامیہ محمدیہ فیصل آباد میں بخاری شریف کا آخری سبق اور ختم بخاری کی تقریب سے خطاب۔
۲۵ اپریل کو جمعۃ المبارک کے موقع پر جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد میں نماز جمعہ کے اجتماع سے خطاب۔
۲۵ اپریل کو جامعہ اسلامیہ محمدیہ فیصل آباد میں جامعہ کے فضلاء کے سالانہ اجتماع میں ’’عصر حاضر میں علماء کرام کی ذمہ داریاں‘‘ کے موضوع پر تفصیلی گفتگو۔
۲۶ اپریل کو جامعہ عائشہ صدیقہ، شاہین چوک گجرات میں بخاری شریف کا آخری سبق اور ختم بخاری کی تقریب سے خطاب۔
۲۶ اپریل کو بعد از عصر مسجد فاروقیہ کچی پمپ والی گوجرانوالہ میں ایک اسکول کی تقریب سے خطاب۔
۲۷ اپریل کو صبح ۱۱ بجے جامعہ بناء العلم رائے ونڈ میں ختم بخاری شریف کی تقریب سے خطاب
۲۷ اپریل کو بعد از مغرب مکی مسجد، ڈیوڑھا پھاٹک گوجرانوالہ میں مدرسہ فاطمۃ الزہراء کی طالبات کو بخاری شریف کے آخری سبق کی تدریس۔
۲۸ اپریل کو بعد از مغرب جامعہ مسجد قاسمیہ، نوشہرہ روڈ گوجرانوالہ میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر گفتگو۔
۲۹ اپریل کو ۱۱ بجے ضلع کونسل ہال گوجرانوالہ میں معذور شہریوں کے حوالے سے ایک تقریب سے خطاب۔
۲۹ اپریل کو بعد از ظہر مرکزی جامع مسجد واہنڈو میں ختم نبوت کانفرنس میں گفتگو۔
یکم مئی کو پینسرہ، جھنگ روڈ، فیصل آباد میں بعد از عشاء حضرت مولانا صادق الامین نقشبندی کے مدرسہ میں سالانہ تقریب سے خطاب۔
۲ مئی کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں اسلامک رائٹرز فورم پنجاب کے سیمینار سے گفتگو۔ سیمینار میں وفاقی وزیر مملکت جناب عثمان ابراہیم اور معروف دانش ور جناب خورشید احمد ندیم نے شرکت کی۔
۳ مئی کو بعد از ظہر جامعہ حسینیہ نکودر، دینہ میں ختم مشکوٰۃ شریف کی تقریب سے خطاب۔
۳ مئی کو بعد از مغرب مسجد امن، باغبانپورہ لاہور میں پاکستان شریعت کونسل کے زیر اہتمام شہداء بالاکوٹ سیمینار سے گفتگو۔
۳ مئی کو بعد از عشاء جامعہ سرور کونین، بادامی باغ لاہور میں محفل حمد ونعت میں ’’نعت رسول کے آداب اور تقاضے‘‘ کے موضوع پر گفتگو۔ اس محفل میں مولانا حافظ فضل الرحیم (نائب مہتمم جامعہ اشرفیہ، لاہور) اور مولانا مفتی محمد حسن (استاذ الحدیث جامعہ مدنیہ جدید، لاہور) نے بھی شرکت اور خطاب کیا۔
۵ مئی کو بعد از مغرب مسجد حدیبیہ، زاہد کالونی، گوجرانوالہ میں ایک دینی محفل میں گفتگو۔
۶ مئی کو صبح ۱۱ بجے جامعۃ المتین گوجر خان کے سالانہ جلسہ سے خطاب۔
۶ مئی کو بعد از مغرب گجرات میں جمعیۃ علماء اہل سنت کے زیر اہتمام ماہانہ نشست میں درس قرآن کریم۔
۸ مئی کو صبح ۱۱ بجے جامعہ عائشہ، بھاؤ عثمان پور، کھاریاں میں ختم بخاری شریف کی تقریب سے خطاب۔
۸ مئی کو بعد از ظہر جامعہ صدیقیہ تعلیم القرآن، پنجن کسانہ میں ختم بخاری شریف کی تقریب سے خطاب۔
۱۰ مئی کو بعد از مغرب عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام کھیالی گوجرانوالہ میں منعقدہ دو روزہ تربیتی کورس سے خطاب۔
۱۰ مئی کو دار العلوم جلیل ٹاؤن گوجرانوالہ میں بخاری شریف کے آخری سبق کی تدریس۔
۱۱ مئی کو بعد از ظہر لاہور کینٹ میں جامعہ عمر بن عبد العزیز کی سالانہ تقریب سے خطاب۔ تقریب میں حضرت مولانا محمد نواز قادری مدظلہ آف ملتان نے بھی گفتگو کی۔
۱۱ مئی کو بعد از مغرب شیراکوٹ لاہور میں مولانا عبد القیوم خان نیازی مدظلہ کے جامعہ احیاء العلوم کی سالانہ تقریب دستار بندی سے خطاب۔
۱۲ مئی کو صبح ۱۱ بجے پراچہ دار العلوم، انجرا، ضلع اٹک میں ختم بخاری شریف کی تقریب سے خطاب۔
۱۲ مئی کو بعد از مغرب جامعہ رحمانیہ، ماڈل ٹاؤن، ہمک اسلام آباد میں درس قرآن کریم۔
۱۳ مئی کو صبح نماز فجر کے بعد جامع مسجد الیاس، ماڈل ٹاؤن اسلام آباد میں درس۔
۱۳ مئی کو ۱۱ بجے مانگا بائی پاس روڈ، مری میں ختم بخاری شریف کی تقریب سے خطاب۔
۱۳ مئی کو بعد از مغرب مدرسہ انوار العلوم، دھیر کوٹ آزاد کشمیر میں دورۂ حدیث کے طلبہ سے خطاب۔
۱۴ مئی کو ۱۱ بجے گورنمنٹ سائنس کالج رنگلہ میں اساتذہ سے خطاب۔
۱۴ مئی کو ۱۲ بجے بیس بگلہ میں مولانا مفتی عبد الرشید کے مدرسۃ البنات میں تقریب سے خطاب۔
۱۴ مئی کو بعد از ظہر مدرسہ امداد الاسلام، تھب میں بخاری شریف کے آخری سبق کی تدریس۔
۱۴ مئی کو بعد از مغرب مدرسہ حفصہؓ جگلڑی میں تقریب سے خطاب۔
۱۵ مئی کو صبح ۱۰ بجے گلستان کالونی راولپنڈی میں مولانا قاری فضل ربی کے مدرسہ میں بخاری شریف کے آخری سبق کی تدریس۔
۱۵ مئی کو بعد از ظہر جامعہ اسلامیہ راولپنڈی صدر میں ختم بخاری شریف کی تقریب سے خطاب۔ تقریب میں مولانا فضل الرحمن اور مولانا سید عبد المجید ندیم نے بھی گفتگو کی۔
۱۵ مئی کو بعد از مغرب شیخہ بانڈہ، ایبٹ آباد میں ایک دینی مدرسہ کی تقریب سے خطاب۔
۱۶ مئی کو جامعہ قاسمیہ گوجرانوالہ میں طالبات کو بخاری شریف کے آخری سبق کی تدریس۔
۱۶ مئی کو بعد از نماز جمعہ کنور گڑھ، کالج روڈ گوجرانوالہ میں صوفی محمد عالم صاحبؒ کے مدرسہ میں طالبات کو بخاری شریف کے آخری سبق کی تدریس۔
۱۷ مئی کو بعد از ظہر جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں ختم بخاری شریف کی سالانہ تقریب سے خطاب۔
۱۸ مئی کو بعد از مغرب کوٹ عبد المالک، شاہدرہ میں مولانا قاری غلام مصطفی کے مدرسہ کی سالانہ تقریب سے خطاب۔
جولائی ۲۰۱۹ء
علوم اسلامیہ میں تحقیق کے جدید تقاضے
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
(۱۷ جون ۲۰۱۴ء کو علامہ اقبالؒ اوپن یونیورسٹی اسلام آباد میں پی ایچ ڈی اسکالرز کی نشست سے خطاب۔)
بعد الحمد والصلوٰۃ! یہ میرے لیے خوشی اور افتخار کی بات ہے کہ علامہ اقبالؒ اوپن یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی اسکالرز کے اس کورس میں ارباب فہم و دانش سے گفتگو کا موقع مل رہا ہے اور اس پر میں یونیورسٹی انتظامیہ کا شکر گزار ہوں۔ میں آج اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلامی علوم میں تحقیق کا ذوق رکھنے والے احباب کی خدمت میں کچھ گزارشات پیش کرنا چاہوں گا۔
پہلی بات یہ ہے کہ اسلامی علوم و فنون کے حوالہ سے تحقیق اور ریسرچ کے شعبہ میں ہم ایک عرصہ سے تحفظات اور دفاع کے دائرے میں محصور چلے آرہے ہیں۔ مستشرقین نے اسلام، قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اعتراضات اور شکوک و شبہات پھیلانے کا سلسلہ شروع کیا تو ہم ان کے جوابات میں مصروف ہوگئے اور تحقیق کے میدان مین ابھی تک ہمارا رخ وہی ہے۔ کم و بیش تین صدیاں گزر گئی ہیں کہ ہماری علمی کاوشوں کی جولانگاہ کم و بیش یہی ہے۔ میرے خیال میں اب ہمیں اس دائرے سے باہر نکل کر اقدام اور پیش قدمی کے امکانات کا جائزہ لینا چاہیے اور defense سے offence کی طرف بڑھنا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مذہب کے معاشرتی کردار سے انحراف کے اس فلسفہ کے تلخ نتائج بھگتنے کے بعد اب مغرب کو اس سے واپسی کے راستے تلاش کرنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے اور اس کی جھلکیاں وقتاً فوقتاً دکھائی دینے لگی ہیں۔ اس لیے ہمیں عالمی سطح پر دکھائی دینے والی اس فکری تبدیلی پر نظر رکھتے ہوئے تحقیق اور ریسرچ کے نئے موضوعات تلاش کرنا ہوں گے اور امت مسلمہ کی راہ نمائی کے تقاضوں کو پورا کرنا ہوگا۔
اس سلسلہ میں دو تین میدانوں کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا جن کو علمی و فکری جدوجہد کی جولانگاہ بنایا جا سکتا ہے اور جن کے مختلف پہلو مسلم محققین اور مفکرین کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مثلاً معاشیات کے شعبہ میں سابق پاپائے روم پوپ بینی ڈکٹ کی قائم کردہ ایک کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ دنیا میں معاشی طور پر توازن اور انصاف قائم کرنے کے لیے قرآن کریم کے بیان کردہ معاشی اصولوں کی طرف رجوع ضروری ہے اور یہ بات صرف کمیٹی کی رپورٹ تک محدود نہیں رہی، بلکہ آج کی عملی صورت حال یہ ہے کہ مغربی دنیا میں اسلامی یا غیر سودی بینکاری کا مرکز بننے کے لیے لندن اور پیرس میں کشمکش عروج پر ہے۔ گزشتہ دنوں لندن میں منعقد ہونے والی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اعلان کیا ہے کہ وہ لندن کو غیر سودی بینکاری کا مرکز بنانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں، جبکہ پیرس کے بارے میں معلومات یہ ہیں کہ فرانس کی حکومت نے غیر سودی بینکاری کی مرکزیت کو اپنی طرف کھینچنے کے لیے اپنے معاشی قوانین میں ترامیم کی ہیں۔ یہ تحقیق و تجزیہ کا ایک بڑا موضوع اور میدان ہے اور ہمارے اسکالرز کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس تبدیلی کا جائزہ لیں اور دنیا کو بتائیں کہ مغرب کو اتنی بڑی تبدیلی تک لے جانے کے عوامل کیا ہیں اور کون سے اسباب نے مغربی دنیا کو غیر سودی بینکاری کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کیا ہے؟
اسی طرح خاندانی نظام کے منتشر ہوجانے کے حوالہ سے بھی مغرب کی پریشانی قابل دید ہے اور بہت سے مغربی دانش ور مسلسل اس بات پر اضطراب کا اظہار کرتے ہوئے خاندانی نظام کی بحالی کے لیے بے چین دکھائی دیتے ہیں۔ روسی دانش ور میخائیل گوربا چوف نے اب سے ربع صدی قبل اپنی کتاب ’’پرسٹرائیکا‘‘ میں کہا تھا کہ ہم نے جنگ عظیم اول میں لاکھوں افراد کے قتل سے پیدا ہونے والے افرادی قوت کے خلا کو پر کرنے کے لیے عورت کو گھر سے نکال کر فیکٹری اور دفتر کی زینت بنایا تھا۔ اس سے ہم نے افرادی قوت کے خلا کو تو کسی حد تک پر کر لیا مگر ہمارا گھریلو نظام تتر بتر ہوکر رہ گیا ہے، اور اب ہمیں عورت کو گھر واپس لے جانے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا ہے، جبکہ برطانیہ کے ایک سابق وزیر اعظم جان میجر باقاعدہ ’’Back to Basics‘‘ کے نعرے کے ساتھ فیملی سسٹم کی بحالی اور خواتین کو گھریلو ذمہ داریوں کو ترجیح دینے کی طرف راغب کرنے کی مہم چلاتے رہے ہیں۔ یہ بھی تحقیق اور ریسرچ کا ایک بڑا دائرہ ہے کہ مغرب میں فیملی سسٹم کے بکھرنے کے اسباب کیا ہیں اور خاندانی رشتوں اور نظام کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے اسلام دنیا کی کیا راہ نمائی کرتا ہے۔ قرآن و سنت کی تعلیمات اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندانی زندگی کے بارے میں اسوۂ حسنہ آج بھی نسل انسانی کی راہ نمائی کے لیے کافی ہیں، لیکن اسے دنیا کے سامنے آج کی زبان و نفسیات کے مطابق پیش کرنے کی ذمہ داری ہماری ہے۔ مگر ہمیں اس کے لیے اپنے کردار اور طرز عمل کی نئی ترجیحات طے کرنا ہوں گی۔
میڈیا اور ذرائع ابلاغ ایک مستقل موضوع بحث کی حیثیت رکھتے ہیں کہ میڈیا کے مختلف شعبوں کی کارکردگی نے انسانی سوسائٹی پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں؟ مثال کے طور پر اس کے ایک جزوی پہلو کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ کچھ عرصہ قبل بھارتی صوبہ ہریانہ کی ایک سکھ خاتون نے طلاق کی شرح میں مسلسل اضافے کو پی ایچ ڈی کے مقالہ کا موضوع بنایا اور اس کے مختلف اسباب کا جائزہ لیتے ہوئے موبائل فون کو طلاق کی شرح میں ہوشربا اضافے کا سب سے بڑا سبب قرار دیا۔ اس کا کہنا ہے کہ شادی سے ایک سال قبل اور ایک سال بعد تک لڑکی کے پاس موبائل فون نہیں ہونا چاہیے، جبکہ چند ماہ قبل برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے الیکٹرانک ذرائع ابلاغ کی تباہ کاریوں کی یہ کہہ کر دھائی دی ہے کہ ہماری نئی نسل برباد اور ناکارہ ہوتی جا رہی ہے، اس لیے ہمیں نیٹ اور موبائل کے بارے میں قانون سازی کرنا ہوگی۔ اس سے ہٹ کر فحاشی اور عریانی کے فروغ اور اسلامی اور مشرقی اقدار و روایات کو کمزور کرنے میں میڈیا کا کردار سب کے سامنے ہے۔ ہمارے دانش وروں کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے اور موبائل، نیٹ، چینل اور دیگر ذرائع ابلاغ کے غلط استعمال کی مختلف صورتوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اس کی تباہ کاریوں کو اجاگر کرنا چاہیے۔
اس کے ساتھ ہی میں ان بین الاقوامی معاہدات اور قوانین کا بھی تذکرہ کرنا چاہوں گا جو اس وقت دنیا کے عملاً حکمران ہیں۔ میں یہ بات اکثر کہا کرتا ہوں کہ دنیا پر آج حکومتوں کی حکومت نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی معاہدات کی حکمرانی ہے۔ صرف اس فرق کے ساتھ کہ طاقت ور اور دولت مند ملک اپنے لیے راستہ نکالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں مگر کمزور ممالک خود کو ان کے سامنے بے بس پاتے ہیں اور معاہدات کی پابندی پر مجبور ہوتے ہیں۔ ان معاہدات کا اسلامی تعلیمات کی رو سے جائزہ لینا ضروری ہے اور ہمارے اسکالرز کو چاہیے کہ وہ بین الاقوامی معاہدات کا اسلامی تعلیمات کے ساتھ تقابلی مطالعہ کر کے قرآن و سنت کی روشنی میں امت مسلمہ کی راہ نمائی کریں۔ اس سلسلہ میں مثال کے طور پر ایک بات عرض کروں گا کہ مجھے گزشتہ چند سالوں کے دوران ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی کے زیر اہتمام مختلف سیمیناروں میں شرکت کا موقع ملا ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ جنگی متاثرین کی امداد کے سلسلہ میں اپنی سرگرمیوں کے بارے میں مسلم علاقوں میں ریڈ کراس کو دشواریاں پیش آرہی ہیں اور ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی ان دشواریوں پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے۔ میں نے اس سلسلہ کے ایک سیمینار میں عرض کیا کہ اگر ریڈ کراس کی تشکیل اور اس کے قوانین اور طریق کار کی تدوین کے وقت اسلام کو ایک زندہ حقیقت تسلیم کرتے ہوئے اس کے نمائندوں کو بھی شامل کر لیا جاتا تو آج یہ مشکلات پیش نہ آتیں۔ اس وقت یہ سمجھ لیا گیا کہ مسیحی دنیا کی طرح مسلمان بھی اسلام کے معاشرتی کردار سے بالآخر دست بردار ہو جائیں گے، اس لیے بین الاقوامی قوانین کی تشکیل و تدوین میں مذہب کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا مگر عملاً ایسا نہیں ہو سکا، اس لیے کہ مسلمان دنیا کے کسی بھی حصے میں مذہب کے معاشرتی کردار سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں اور اسلام آج بھی انسانی معاشرہ کی ایک زندہ اور متحرک قوت و حقیقت ہے۔ اس لیے اس مسئلہ کا حل آج بھی یہی ہے کہ انسانی سوسائٹی میں اسلام کو ایک زندہ حقیقت اور نسل انسانی کے ایک بڑے حصے کے راہ نما کے طور پر تسلیم کیا جائے اور آج کے زمینی حقائق کی بنیاد پر بین الاقوامی قوانین و معاہدات کا از سرِ نو جائزہ لیا جائے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے مسلم محققین اور دانش ور حضرات اسی ایک میدان کو اپنی علمی تگ و تاز کا مرکز بنا لیں تو تحقیق و تجزیہ کے سینکڑوں موضوعات ان کی توجہ کے طالب دکھائی دیتے ہیں۔ ان گزارشات کا مقصد اور خلاصہ یہ ہے کہ ہمیں اسلام کے دفاع کے ساتھ ساتھ اب اقدام اور پیش رفت کو بھی موضوع بنانا چاہیے اور مغربی فلسفہ و نظام کی ناکامی کے اسباب و عوامل کو بے نقاب کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کی افادیت و ضرورت کو واضح کرنے کی علمی و فکری محنت کرنی چاہیے کہ یہ آج کی اہم ضرورت ہے اور ہماری ذمہ داری بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح سمت محنت کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔
میری علمی و مطالعاتی زندگی (پروفیسر خورشید احمد کے مشاہدات و تاثرات)
عرفان احمد
مرتب: عرفان احمد بھٹی / عبد الرؤف
اللہ تعالیٰ کا میرے اوپر یہ بڑا فضل رہا ہے کہ میں نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی، وہ دینی اور علمی دونوں اعتبار سے ایک اچھا گھرانا تھا۔ میرے والد مرحوم علی گڑھ کے پڑھے ہوئے تھے۔ انہوں نے سیاسی زندگی میں تحریک خلافت مسلم لیگ اور قیام پاکستان کے لیے جدوجہد میں بھرپور حصہ لیا۔ والد محترم کے دینی، سیاسی اور ادبی شخصیات سے گہرے روابط تھے اور ایسے سربرآوردہ حضرات کا ہمارے ہاں آنا جانا تھا، اس لیے بچپن ہی میں دہلی کی ادبی اور ثقافتی زندگی سے استفادے کا موقع ملا۔ بچوں کی ایک انجمن دلی میں تھی جس کا میں سب سے کم عمر صدر منتخب ہوا۔ جامعہ ملیہ میں سپورٹس‘ مباحثوں اور بیت بازی میں شرکت کی۔ گھر کی فضا میں مجھے اقبال، حالی، غالب کے کلام کو پڑھنے کا موقع ملا۔ بیت بازی میں شرکت کرنے کے لیے سینکڑوں اشعار یاد کرنے کا موقع ملا۔ اس پہلو سے ایک ایسی فضا تھی جس سے مجھے اوائل عمر ہی سے علمی اور ادبی ذوق سے مناسبت پیدا ہوئی۔ اس وقت یہ ٹھیک سے یاد نہیں ہے کہ میں نے پہلی کتاب کون سی پڑھی، لیکن اس دور میں چونکہ اشعار بہت یاد کیے تھے، اس لیے ممکن ہے حالی کی مسدس اور اقبال کی بانگ درا بہت چھوٹی عمر میں پڑھی ہو اور اشعار بھی یاد کیے ہوں۔ باقاعدہ کتابی مطالعہ میں نے اپنے کالج کے دنوں میں شروع کیا، لیکن انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں مجھے پرائمری اور سیکنڈری میں ہی لکھنے اور بولنے کا شوق پیدا ہوا۔ چناں چہ محمد علی ٹرافی نو یا دس سال کی عمر میں حاصل کی۔
جن لوگوں سے میں پہلے پہل متاثر ہوا، ان میں ابوالکلام آزاد، محمد علی جوہر، جواہر لال نہرو، مولانا حسرت موہانی تھے اور اتفاق کی بات ہے کہ نہرو کی دو کتابیں میں نے میٹرک کی عمر میں پڑھ لی تھیں‘ ایک (Glimpes of History )اور دوسری (Letters of Father to Daughter)۔ یہ دونوں دراصل خطوط ہیں جو اندرا گاندھی کو نہرو نے لکھے تھے۔ ان میں بہت خوب صورت انداز میں تاریخ کو بیان کیا گیا ہے۔ چونکہ جواہر لال نہرو کو میں نے پڑھا، اس لیے میرا تھوڑا سا رجحان اشتراکیت کی طرف ہوا لیکن سا تھ ساتھ چونکہ تحریک پاکستان میں میرے والد سرگرم تھے‘ اس لیے میں ’’بچہ مسلم لیگ‘‘ میں بھی شامل تھا۔ یہ بڑا دلچسپ معاملہ تھا جس کے تحت اسلام‘ پاکستان‘ مسلمانوں کی آزادی اور قومی تشخص کی طرف جھکاؤ تھا۔ اس لیے میں جب پاکستان آیا تو یہاں مجھے پہلی مرتبہ مولانا مودودیؒ سے ملنے اور ان کے لٹریچر کو پڑھنے کا موقع ملا۔ مولانا کو میں نے بچپن میں دیکھا ہوا تھا۔ 1938یا 1939کی بات ہے جب مولانا ہمارے ہاں تشریف لائے۔ میرے والد صاحب کے ان سے دوستانہ مراسم تھے اور میں نے ان کو اس زمانے میں ایک انقلابی غزل سنائی تھی۔ اس کے بعد میں نے جب مولانا مودودی صاحب کی تصانیف کا مطالعہ کیا تو بالکل ایک دوسری دنیا مجھ پر کھلی۔ مولانا کی جن دو کتابوں نے جو مجھے بہت متاثر کیا وہ خطبات اور تنقیحات ہیں۔ تنقیحات اگرچہ ذرا مشکل کتاب ہے، لیکن چونکہ میرا ذہنی رشتہ اشتراکیت سے تھا اس لیے اس کتاب نے مجھے بہت متاثر کیا۔ بالخصوص اس کے دو مضامین ’’ہماری ذہنی غلامی اور اس کے اسباب‘‘ اور ’’ہندوستان میں اسلامی تہذیب کا انحطاط‘‘۔ اس زمانے میں، میں نے نو مسلم علامہ محمد اسد کی تحریروں کو پڑھا۔ پاکستان بننے کے بعد 1947 تک ان کے رسالے عرفات کے 6یا 7 شمارے شائع ہوئے تھے جو میں نے بڑی تلاش کے بعد حاصل کیے۔
اقبال، مولانا مودودی اور علامہ محمد اسد، یہ تین ایسے لوگ ہیں جو مجھے زندگی کے اس موڑ پر کہ جب میرا جھکاؤ اشتراکیت کی طرف تھا، مجھے اسلام کی طرف لانے کا ذریعہ بنے۔ بعد میں اسلامی جمعیت طلبہ میں شریک ہوا اور بہت جلد اس کی اہم ذمہ داریوں کا سزاوار ٹھہرا۔
جمعیت کے زمانے میں انگریزی ہفت روزہstudents voice نکالا جو پاکستان میں طلبہ کا پہلا رسالہ تھا۔ اس پلیٹ فارم نے مجھے بہت اچھے مواقع دیے۔ مباحثوں میں حصہ لینا، اسلام کی دعوت پیش کرنا اور پھر اس وقت کی غیر اسلامی تحریکوں کو سمجھنا اور ان یک مقابلے میں اسلام کی بالادستی کو پیش کرنے کی کوشش کرنا۔ مغرب کے لکھنے والوں میں سب سے پہلے میں جس سے متاثر ہوا، وہ پروفیسر سی ایم جوڈ تھے۔ ان کی ایک کتاب تھی Modern Thought، اگرچہ یہ بہت اونچے درجے کے فلسفی نہیں تھے، لیکن ان کا اہم کارنامہ مغرب کی فکر کو بڑے صاف ستھرے انداز میں اور آسان انداز میں پیش کرنا ہے۔ پھر وہیں سے برٹرینڈرسل سے متعارف ہوا، اس کو پڑھا اور اس سے تاثر بھی لیا۔ میرا خیال یہ ہے کہ برٹرینڈرسل بیسویں صدی کے فلسفیوں میں بہت ہی نمایاں نام ہے۔ اس دوران میں معاشیات میں بھی دلچسپی پیدا ہوئی۔ اللہ کا فضل تھا کہ اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ کی وجہ سے مغربی فکر کو پڑھنے اور مغرب کو سمجھنے کے باوجود اس کے حملے سے میں بچ گیا۔ میرے پاس ایک معیار تھا، اپنے دین کا اسلامی فکر کا جس پر میں چیزوں کو جانچتا تھا، اس لیے کبھی میں ان چیزوں سے مرعوب نہیں ہوا۔ مولانا مودودیؒ نے قرآن کریم سے میرا رشتہ استوار کیا۔ دینی تعلیم میں اہم کردار ماسٹر محمد اکرم مرحوم و مغفور کا ہے جو حافظ قرآن بھی تھے اور خوش الحان قاری بھی۔ ان کی حیثیت ہمارے لیے ایک اتالیق کی تھی۔ قرآن مجید کو پڑھنے اور سمجھنے میں پہلے محمد اکرم صاحب اور پھر مولانا کی تفہیم القرآن نے ایک کلید کا کام سرانجام دیا۔
قرآن مجید کو سمجھنے کے لیے میں نے بہت سی تفاسیر جن میں کلاسیکل اور جدید دونوں شامل ہیں، پڑھی ہیں تاہم مولانا کے بعد مولانا ابوالکلام آزاد کی تفسیر ترجمان القرآن نے متاثر کیا۔ تفہیم القرآن کے علاوہ مجھے جس تفسیر نے متاثر کیا وہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی ’’تدبر قرآن‘‘ ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی کی تفسیر بھی بڑے شوق سے پڑھی۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی ترجمان القرآن کی تین جلدوں میں سب سے اہم پہلی ہے جو سورہ فاتحہ کی تفسیر ہے، دوسری میں دیگر مباحث ہیں اور تیسری جلد کو غلام رسول مہر نے مرتب کیا ہے۔ کلاسیکل کتب کے جو ترجمے ہیں، ان میں تفسیر ابن کثیر کو میں نے بڑی اچھی طرح مطالعہ کیا۔ امام رازی کی تفسیرکبیر کو مکمل نہیں پڑھا، لیکن اس کے کچھ حصے ترجمے کی شکل میں پڑھے ہیں۔ ابن تیمیہؒ میرے بہت ہی محبوب مفکر ہیں۔ ان کی قرآن فہمی کا مطالعہ کیا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد سے مجھے خاندانی نسبت ملی۔ میرے والد صاحب سے ان کے تعلقات تھے۔ ان کی سب سے پہلی کتاب جو میں نے پڑھی وہ ’’غبار خاطر‘‘ اور پھر ’’تذکرہ‘‘ ہے‘ غبار خاطر سیاسی خطوط کے بجائے زیادہ علمی اور ادبی موضوعات کو لیے ہوئے ہے۔ انہوں نے مجدد الف ثانی کی تحریک کا جو تذکرہ کیا ہے، اس سے میں بہت زیادہ متاثر ہوا تھا۔ اسی طرح مولانا شبلی نعمانی اور مولانا سید سلیمان ندوی کا میں نے مطالعہ کیا۔ شبلی سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ خاص کر مسلم تاریخ، مسلم شخصیات اور ان کے کارنامہ زندگی سے واقفیت اور وابستگی میں شبلی کی تحریروں نے گہرا اثر ڈالا۔
سیرت النبیﷺ میں سب سے زیادہ سید سلیمان ندوی کی کتاب سے متاثر ہوا۔ سیرت کا دوسرا حصہ انہوں نے مکمل کیا، اس میں شبلی کا انداز اور لہجہ پوری طرح پایا جاتا ہے اس کے علاوہ Wistoron, History of the worldاور مختلف انسائیکلوپیڈیا جن میں سے ان سے مجھے مختلف علوم کو سمجھنے اور ان کے متعلق ایک دروازہ کھولنے کا موقع ملا۔ ان کے علاوہ امین حسن اصلاحی، صدرالدین اصلاحی، سید قطب شہید، پروفیسر عبدالحمید صدیقی اور نعیم صدیقی کو میں نے دل کی آنکھوں سے پڑھا۔ تصوف کے سلسلے میں مولانا اشرف علی تھانوی کی کتابیں بڑے شوق سے پڑھیں۔ تاہم تصوف میرے لیے دلچسپی کا موضوع نہیں رہا، اس کے باوجود امام غزالی ’’احیاء العلوم اور کیمیائے سعادت‘‘ نے مجھے بہت متاثر کیا۔ ان کتابوں میں سماجی، نفسیاتی اور متصوفانہ امور کا امتزاج بڑے توازن سے جلوہ افروز ہے۔ شاہ ولی اللہ کی حجتہ اللہ البالغہ کی پہلی جلد باعث کشش شاہ کار ہے اور اس میں اللہ اور رسولﷺ کے دین کے دعوت ہے۔
میں نے تاریخ میں سید ابوالحسن علی ندوی کی کتابوں کے علاوہ اکبر شاہ خاں نجیب آبادی اور مولانا احمد سعید اکبر آبادی کی کتابیں پڑھی ہیں۔ مغربی فکر میں جن لوگوں کا بڑا نام ہے، تقریباً سب کو پڑھا ہے بالخصوص ول ڈیورانٹ اور ایچ جی ویلز کی کتب اور مسلمانوں میں خاص طور پر ابن خلدون اور پھر شاہ ولی کی ازالۃ الخفاء، اس میں اسلامی تاریخ کا بڑا ذکر آتا ہے۔ اس کے علاوہ آرنلڈ ٹوائن بی کی A Study of History تو 12 جلدوں کو میں نے پڑھا ہے، لیکن اس کی دو جلدیں جو کہ تلخیص ہیں انھیں میں نے خاص طور پر دیکھا ہے۔
ول ڈیورانٹ کی A Story of Civilization میرے خیال میں تاریخ پر سب سے اچھی کتاب ہے۔ اس میں پرانی تہذیبوں سے لے کر بیسویں صدی تک پوری تاریخ کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ایک اور جرمن مورخ ہے اس کی ایک کتاب جس نے مجھے بہت متاثر کیا، وہ The clashes of our age ہے۔ اس میں اس نے 36تہذیبوں کے بارے میں گفت گو کی ہے۔ وہ بہت ہی سود مند ثابت ہوئی۔ اس مطالعے سے مجھے مغرب کو سمجھنے میں بہت مدد ملی اور پھر یہ نتیجہ اخذ کرنے میں سہولت ہوئی کہ مغرب کی تہذیبی، سیاسی، معاشرتی، معاشی ترقی کس طرح ہوئی۔
یہ ایک عجیب معاملہ ہے کہ میری ابتدائی تربیت تو شاعری سے ہوئی ہے مگر میں شعر نہیں کہتا بلکہ بہت سے اشعار اور نظمیں یاد ہیں۔ پھر اردو نثر اور انگریزی ادب پڑھنے کا موقع ملا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اردو میں میں نے سب سے زیادہ فیض نسیم حجازی کے ناولوں سے اٹھایا۔ اس بات سے قطع نظر کہ ان کی تحریروں میں لمبی لمبی تقریروں کی بھرمار ہے، لیکن بحیثیت مجموعی جو جذبہ محرکہ ان ناولوں سے ملا ہے، وہ کہیں اور سے ملنا مشکل ہے اور جو انسانیت انسان کے اندر دبی ہوتی ہے وہ اسے نکھار دیتے ہیں۔ داستان مجاہد، یوسف بن تاشفین، آخری چٹان ، شاہین، ادب کے مقصد اور پیغام کے حوالے سے شاہ کار ناول ہیں۔ یہ ناول زبان کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ تاریخی عوامل اور علم و تہذیب کو سمجھنے میں مدد گار ہیں۔ مزاح میں شوکت تھانوی کا میں نے بڑے شوق سے مطالعہ کیا ہے۔ رشید احمد صدیقی، اسٹیفن لی کاک اور پطرس بخاری بھی بہت پسند ہیں۔ اسی طرح طالب علمی کے زمانے میں جاسوسی ناول بہت شوق سے پڑھتا تھا۔ اس ذوق کا آغاز ہواتھا شرلاک ہومز سے۔ کوئی ایک آدھا ہی ناول بچا ہو گا ان کا۔ پھر اردو میں ابن صفی کو بھی پڑھتا رہا۔
ابوالکلام آزاد اور مولانا مودودی سے میں نے زبان سیکھی۔ انگریزی شاعری میں خاص طور پر ملٹن اور ایذار پاؤنڈ کو میں نے بہت شوق سے پڑھا۔ کارلائل کی چیزیں بھی میں نے دیکھی ہیں، انگریزی لٹریچر پر تنقید بھی پڑھی، لیکن انگریزی میں ادب سے زیادہ سنجیدہ اور علمی چیزوں کو پڑھنے میں زیادہ دلچسپی رہی ہے۔
اقبال میری روح میں ہے۔ اقبال کے ساتھ حالی، میر تقی میر، اکبر الہ آبادی، حسرت موہانی کا مطالعہ میں نے شوق سے کیا ہے۔ میں انہیں مسلم ثقافت کا بہت قیمتی سرمایہ سمجھتا ہوں۔ ساتھ ہی ساتھ غالب، مومن کا بھی مطالعہ کیا ہے۔
افسانہ اور افسانوی ادب بہت کم زیر مطالعہ رہا ہے، البتہ منٹو کے کچھ افسانے پڑھے ہیں۔ محمد حسین آزاد کی ’’آب حیات‘‘ کے علاوہ ’’طلسم ہوش ربا‘‘ کو شوق سے پڑھا۔ ٹالسٹائی، پریم چند، جیلانی بی اے اورم نسیم میرے پسندیدہ افسانہ نگار ہیں۔
اہم رسائل و جرائد کو باقاعدگی سے پڑھا، شروع ہی سے The Economistاور Encounter وغیرہ کو میں باقاعدگی سے پڑھتا رہا ہوں۔
روزنامہ ’’ڈان‘‘ سے میرا تعلق اس کی اشاعت کے پہلے روز سے ہے اور جب میں محمد علی جوہر کی تحریر کا عاشق ہوا تو کامریڈ کی ساری فائلیں بڑی محنت کر کے حاصل کیں۔
اسی طریقے سے جب بھی مجھے موقع ملا میں نے ’’لندن ٹائمز‘‘ کو پڑھا ہے۔ رسائل میں مجھے علی گڑھ میگزین کا علی گڑھ نمبر اور غالب نمبر، نقوش کا شخصیات نمبر، نگار کی خصوصی اشاعتیں اور الفرقان کا شاہ ولی اللہ نمبر بہت پسند آئے۔ ذاتی چیزوں میں مجھے اپنے ہی مرتب کردہ چراغ راہ کے ’’اسلامی قانون نمبر‘‘ اور ’’نظریہ پاکستان نمبر‘‘ بہت پسند آئے تھے۔
میٹرک میں، میں نے اختیاری مضمون کے طور پر عربی پڑھی ہے، تاہم میری ابتدائی تعلیم عربی میں نہیں ہوئی اور فارسی کی بھی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی۔ باقی تھوڑی بہت فارسی میں نے اپنی ذاتی کاوش سے سیکھی لیکن استفادے کی حد تک میرے لیے زیادہ بڑا ذریعہ اردو، اور انگلش ہی ہیں۔
میں ہر وقت پڑھ سکتا ہوں اور جب بھی موقع ملے پڑھ سکتا ہوں، ایک عرصہ تک تو صبح کا تمام وقت مطالعے میں ہی گزرتا تھا، اب دوسری مصروفیات میں کم ہی ایسا موقع ملتا ہے، اس لیے اب رات کے اوقات میں کتابوں کے ساتھ بسر کرتا ہوں۔ عموماً کرسی، میز یا پھر صوفے پر بیٹھ کر پڑھتا ہوں۔ رات کو تین تکیے سر کے نیچے رکھ کر نیم دراز حالت میں پڑھنے کی عادت بھی رہی ہے۔ رفتار مطالعہ اچھی ہے، اس لیے کم وقت میں زیادہ مطالعہ ہوتا ہے۔ شروع میں بڑی محنت کے ساتھ میں نے کتابوں کا مطالعہ کیا ہے، اور اس میں ایک طریقہ یہ استعمال کیا ہے کہ ہر اہم علم کی ایک دو بنیادی کتب اس طرح پڑھی جائیں کہ ایک باب پڑھنے کے بعد آنکھ بند کر کے اور کتاب بند کر کے سوچا جائے کہ کیا پڑھا؟ شروع ہی سے ذہن کو اخذ اکتساب و حفاظت کی عادت پڑ گئی، اس طرح تیز مطالعہ اور ضروری باتوں کو اخذ کرنے کی عادت پڑ گئی ہے۔
مطالعے کے لیے تنہائی اور خاموشی مطلوب ہے، لیکن شور و شغب میں بھی پڑھ لیتا ہوں۔ ماحول کی ناسازگاری سے طبیعت مکدر ہوتی ہے۔ اگر مطالعے کے وقت دنیا مجھے نہیں چھوڑتی تو میں اس کو چھوڑ دیتا ہوں، ذہن کو سب سے کاٹ کر کتاب سے جوڑ لیتا ہوں۔ سفر میں برابر پڑھتا ہوں، بالعموم لائٹ لٹریچر، سفر نامہ، ناول، افسانہ اور نظمیں وغیرہ۔
پڑھنے کے ساتھ ساتھ ذاتی لائبریری میں اچھی کتب جمع کرنے کا شوق بھی مجھے شروع سے رہا ہے اور طالب علمی کے زمانے ہی سے میرے پاس اچھی خاصی لائبریری رہی ہے۔ میں جب کراچی میں تھا 1965میں، میرے پاس 20ہزار کتابیں ہوں گی جن میں سے کچھ اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی کو عطیہ کیں۔ لندن میں بھی میرے پاس 7یا 8ہزار کتابیں تھیں جن کا بیشتر حصہ میں نے اسلامک سنٹر فاؤنڈیشن کو عطیہ کیا ہے اور یہاں بہت سی کتب انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹیڈیز اسلام آباد کے سپرد کی ہیں۔
جن لوگوں کو پڑھا، اللہ کے فضل و کرم سے سب لوگوں سے میرا رابطہ رہا، ملاقاتیں رہیں اور ایسے لوگوں کی بہت بڑی تعداد ہے۔ بہت ساروں کے ساتھ میرے تعلقات ذاتی بھی رہے اور خط و کتابت بھی رہی۔ ان میں علامہ یوسف القرضاوی، مصطفی احمد زرقا سے لے کر آرنلڈ ٹوائن بی جیسے دراز قامت لوگ شامل ہیں۔ پھر خدا کا شکر ہے کہ علمی کانفرنسوں کے مواقع پر سینکڑوں شخصیات سے ملا ہوں۔
باقی زندگی کے لیے اگر تین کتابیں ساتھ رکھنے کی بات کی جائے تو سیرت پاکﷺ اور تاریخ پر کوئی کتاب رکھنے کے ساتھ کلیات اقبال رکھنا چاہوں گا۔
سینکڑوں ایسی تحریریں پڑھی ہیں جن کے مطالعے سے خون کھولتا ہے اور ان کے جوابات بھی لکھے ہیں۔ ایسی تحریریں جو بدی اور گناہ کی طرف ترغیب دیں، ہمیشہ ناپسند رہی ہیں۔
حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ڈاکٹر رضوان علی ندوی کی تنقید (۱)
مفتی امان اللہ نادر خان
مؤرخہ 7 اور 8 جولائی (2013) کے روزنامہ ’’امت‘‘ میں ’’ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی ‘‘صاحب کا ایک مضمون بعنوان ’’ حضرت معاویہؓ اور قدیم مؤرخین اور محدثین‘‘ شائع ہوا ، جس میں ڈاکٹر صاحب نے ’’ اہلسنت والجماعت ‘‘ کے مؤقف سے انحراف کر کے بزعمِ خویش حضرت سیدنا امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے ’’صحیح حالات ‘‘پر ’’تاریخی حقائق ‘‘اور ’’قدیم مؤرخین و محدثین ‘‘ کی آراء کی مدد سے روشنی ڈالی ہے اور یہ ثابت کرنے کی نا کام کو شش کی ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے زبان زد عام مشہور فضائل و مناقب من گھڑت ہیں ،قدیم مؤرخین و محدثین میں سے کسی نے انہیں ذکر نہیں کیا، اس ضمن میں ’’ڈاکٹر صاحب ‘‘نے مولانا اورنگزیب صاحب کے مضمون ( یا بالفاظ دیگر حضرت امیرمعاویہؓ ) پر جو اعتراضات کیے ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ:
(۱) سیدنا امیر معاویہ ایک عام صحابی تھے، ’’جلیل القدر‘‘ اور ’’عظیم المرتبت‘‘ نہیں تھے۔
(۲) وہ آپ ﷺ کے خطوط و معاہدات لکھا کرتے تھے، البتہ ’’کاتبِ وحی‘‘ نہیں تھے۔
(۳) وہ ’’مؤلفۃ القلوب‘‘ اور ’’طُلَقآء‘‘ میں سے تھے اور فتح مکہ کے بعد اسلام لائے۔
(۴) وہ ’’اول الملوک‘‘ تھے، ’’خلیفہ‘‘ نہیں تھے۔
(۵) حضور اکرم ﷺ سے ان کی فضیلت میں کوئی صحیح حدیث مروی نہیں۔
نوٹ: اعتراضات کا جواب دینے سے قبل قارئین کے لیے ایک بات کی وضاحت کرنا ضروری ہے، وہ یہ کہ ہماری یہ تحریر ڈاکٹر رضوان علی ندوی صاحب کے مضمون کے جواب میں لکھی گئی تحریر کا خلاصہ، تلخیص، بلکہ اُس کا اجمالی خاکہ ہے، اصل تحقیقی وتفصیلی جواب میں ہم نے ڈاکٹر صاحب کے اٹھائے گئے اعتراضات کو تفصیل سے ذکر کرنے، پھر ان کا تجزیہ وتحلیل کرنے، مولانا اورنگزیب صاحب کے مضمون سے ان کا موازنہ کرنے، ان کے درمیان محاکمہ کرنے کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کے ذکر کردہ اقتباسات کی اصل کتاب کی طرف مراجعت کرکے سیاق وسباق سے انہیں مکمل دیکھ کر ان کے صحیح مفاہیم ومطالب بیان کرنے کا کام کیا ہے۔ اور اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب کے تسامحات کی نشاندہی کی ہے جب کہ موجودہ تلخیص خالص علمی انداز میں اُس تفصیلی جواب کا خلاصہ اور لب لباب ہے، جسے اہلِ علم اور اسی طرح وہ حضرات جنہوں نے ڈاکٹر صاحب کی تحریر بغور پڑھی ہو اور ان کے ذہنوں میں اس کا مفہوم باقی ہو، وہ تو قدرے آسانی سے سمجھ جائیں گے، البتہ جن حضرات نے ڈاکٹر صاحب کی تحریر نہیں پڑھی، یا ان کے ذہنوں میں اس کا مفہوم محفوظ نہ ہو، تو وہ حضرات شاید ہماری اس تحریر میں کچھ تشنگی (جو بوجہ تلخیص کے پائی جائے گی) محسوس کریں گے، اس کے لیے ہم پیشگی معذرت خواہ ہیں،لیکن اگر وہ اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب کی تحریر بھی سامنے رکھ کر مطالعہ کریں گے، تو انشاء اللہ وہ تشنگی بھی باقی نہیں رہے گی۔
پہلے اعتراض کا جواب
جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے ،سو اس سلسلے میں ’’ڈاکٹرصاحب‘‘ دلیل تو کوئی بھی پیش نہ کر سکے، البتہ اپنے اندر کے غصہ و کینہ کا خوب اظہار کر کے ایک صحابی رسول ﷺکی شان میں زبان درازی کی ہے، جس سے ان کا مدعا ہرگز ثابت نہیں ہوتا۔
مختصراً عرض یہ ہے کہ ’’جلیل القدر‘‘ اور ’’عظیم المرتبت‘‘ یہ دونوں صیغہ صفت ہیں اور کلی مشکک کے طور پر ان کا اطلاق اپنے تمام افراد پر اولیت و اولویت (کمی و زیادتی) کے اختلاف سے ہوتا ہے اور اس بات پر تمام اہلسنت متقدمین و متأخرین کا اتفاق واجماع ہے کہ خود ’’صحابیت‘‘ ایک ایسا بلند مقام ہے کہ نبوت کے بعد اس سے اونچا کوئی مقام نہیں۔ اور یہی معنیٰ ہے ’’جلیل القدر‘‘ اور ’’عظیم المرتبت‘‘ ہو نے کا۔
تمام انبیاء علیھم السلام اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سب سے زیادہ مقرب لوگ ہیں، لیکن ان کے درجات میں پھر بھی تفاوت ہے اور یہ تفاوت ’’تقرب‘‘ کے اس مقام کے منافی ہرگز نہیں، لہذا تمام صحابہ رضی اللہ عنہم ’’جلیل القدر‘‘ اور ’’عظیم المرتبت‘‘ ہیں اور کسی صحابی کے ’’جلیل القدر‘‘ اور ’’عظیم المرتبت‘‘ ہونے سے دوسرے کسی صحابی کی’’جلالتِ قدر‘‘ اور ’’علو مرتبت‘‘ کی نفی پر استدلال کرنا ایک ’’مضحکہ خیز‘‘ بات ہے۔
اب ذرا ’’ڈاکٹر صاحب‘‘ کی عبارت ملاحظہ فرمایئے:
’’اگر حضرت معاویہؓ ہی ’’جلیل القدر‘‘ اور ’’عظیم المرتبت‘‘ خلیفہ تھے تو پھر حضرت ابو بکرؓ، حضرت عمر فاروقؓ کے لیے کون سے الفاظِ مدح باقی رہ گئے‘‘؟!
لفظ ’’ہی‘‘ سے حصر کا مفہوم بیان کرنا مولانا اورنگزیب صاحب پر غلط الزام ہے، جس سے وہ بری ہیں اس پر مزید تبصرہ اہلِ علم حضرات کی خدمت میں چھوڑ دیا جاتا ہے،
سورۃ الحدید آیت ۱۰ کا مفہوم یہی ہے کہ فتح مکہ سے قبل قتال و انفاق کرنے والوں کا مقام فتح مکہ کے بعد قتال و انفاق کرنے والوں سے زیادہ ہے اور یہی مسلّم بھی ہے ۔ مولانا اورنگزیب صاحب نے بھی اس سے انکار نہیں کیا، مگر اس سے حضرت امیر معاویہؓ کی ’’جلالتِ قدر‘‘ اور ’’علو مرتبت‘‘ کی نفی پر وجہ استدلال کیا ہے؟
جہاں تک سورۃ التوبۃ آیۃ نمبر ۱۰۰ کا تعلق ہے تو اگر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ’’السابقون الأولون‘‘ کا مصداق نہیں تو ’’والذین اتبعوھم‘‘ میں شامل ہو کر ’’رضی اللہ عنھم‘‘ کا مصداق ہو نے میں تو کسی بھی قدیم و جدید مفسر کو کوئی کلام نہیں۔
’’اتباع بالإحسان‘‘ کی تفسیر ’’اتباع قبل از فتح مکہ‘‘ سے کرنا اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس خوشنودی (رضی اللہ عنہ) سے خارج قرار دینا یہ ’’ڈاکٹر صاحب‘‘ کی ’’خانہ زاد تفسیر‘‘، ’’انوکھی تحقیق‘‘،بلکہ آیت کے مفہوم میں واضح ’’تحریف ‘‘ ہے، جس سے چودہ (۱۴) صدیوں کے تمام مفسرین (جدیدو قدیم )علماء بری ہیں ۔
آیت کی تفسیر میں قدیم و جدید مفسرین کرام نے جو کچھ لکھا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ :
(۱) ’’السابقون الأولون‘‘ کے مصداق میں چھ(۶) مختلف اقوال ہیں: ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس سے مراد تمام صحابہ کرامؓ ہیں۔
(۲) سابقہ قول کے مطابق تمام صحابہ مراد لینے کی صورت میں ’’والذین اتبعوھم‘‘ سے مراد تابعین ہیں اور جنہوں نے اول الذکر (السابقون الأولون) سے مراد قدماء صحابہ لیے ہیں، ان کے نزدیک آخر الذکر (والذین اتبعوھم )سے مراد وہ صحابہؓ ہیں جنہوں نے قسمِ اوّل کے افعال میں ان کی اچھی پیروی کی ۔
(۳) ’’والذین اتبعوھم‘‘ کا مصداق ’’السابقون الأولون‘‘ کے بعد ایمان لانے والے تمام صحابہ کرامؓسمیت قیامت تک آنے والے تمام مسلمان ہیں ،جو ایمان لاکر ان کی اچھی پیروی کریں۔
(۴) ’’اتباع بالإحسان‘‘ کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اعمالِ صالحہ میں قسمِ اول (السابقون الأولون)کی پیر وی کی جائے۔
دوسری تفسیر یہ ہے کہ قسمِ اول کے بارے میں اچھی رائے و اعتقاد رکھا جائے ،ان پر طعن و تشنیع نہ کی جائے ۔
تیسری تفسیر یہ ہے کہ قسمِ اوّل کے محاسن ذکر کیے جائیں اور ان کے لیے رحمت وغیرہ کی دعا کی جائے۔
اب اس کا حاصل یہ ہے کہ :
(الف) ’’والذین اتبعوھم‘‘ سے مراد ’’ سابقین اولین ‘‘ کے بعد والے تمام صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں ۔
(ب) یا اس سے مراد صحابہ کرامؓ سمیت قیامت تک آنے والے تمام وہ مسلمان ہیں، جو ایمان لاکر سابقین اولین کے طریقے پر چلیں اور ان کی پیروی کریں ۔
تفصیلی اقوال کے لیے مذکورہ آیت کے تحت ملاحظہ فرمائیں : التفسیر الکبیر(۱۶؍۱۳۷)،روح المعانی(۶؍۹)،فتح القدیر (۲؍۵۰۷،۵۰۸)،زادالمسیر (۳؍۳۷۰،۳۷۱)، الصاوی علی الجلالین (۲؍ ۶۷)،تفسیر جلالین ،تفسیر سمر قندی ،تفسیر المنار ،تفسیر أبی السعود،الکشف والبیان المعروف بہ ’’تفسیر ثعلبی ‘‘ ،الجامع لاحکام القرآن للامام القرطبی ، تفسیر عثمانی ،بیان القرآن ، معار ف القرآن للکاندھلوی ،مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ رحمۃ اللہ (۴؍۲۳۵۔ ۲۴۹)
علاوہ ازیں ’’رضی اللہ عنہم ‘‘کا پروانہ مذکورہ آیت کے علاوہ قرآن کریم میں چار اور مقامات پر بھی ہے:
ایک سورۃ الفتح آیت نمبر ۱۸ہے ، جس میں یہ خوشنودی ’’اہل بیعت رضوان ‘‘کے لیے ہے ۔(ڈاکٹر صاحب کہیں گے کہ حضرت معاویہؓ ان میں سے نہیں ،ٹھیک ہے ،ہمیں بھی اس پر اصرار نہیں )
لیکن یہی خوشنودی سورۃ المائدۃآیت نمبر ۱۱۹،سورۃ المجادلۃ آیت نمبر ۲۲،اور سورۃ البینۃ آیت نمبر ۸میں بھی مذکور ہے، جو تمام صحابہ کرام کے لیے عام ہے۔ اب ہم ’’ڈاکٹر صاحب ‘‘ کا مبلَغِ علم دیکھتے ہیں کہ مذکورہ آیت کی تفسیر میں وہ کون سی نئی اور’’ انوکھی تحقیق‘‘پیش کر کے ان تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کواس خوشنودی کے زمرے سے خارج قرار دیتے ہیں، جو فتح مکہ کے بعد اسلام لائے ۔
دوسرے اعتراض کا جواب
دوسرا اعتراض یہ تھا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے لیے دیگر خطو ط و معاہدات کی کتابت تو کیا کر تے تھے ،البتہ ’’کاتبِ وحی ‘‘ نہیں تھے ۔
یہاں بھی ’’ڈاکٹر صاحب‘‘ نے کسی بھی معتبر یا غیر معتبر قدیم یا جدید مؤرخ و محدث کے حوالے سے کوئی ایک حوالہ بھی ایسا پیش نہیں کیا،جس میں کتابتِ وحی کی نفی ہو ، خواہ صراحۃًیا دلالۃً یا کنایۃً یا اشارۃً،البتہ ایسی عبارات ضرور ذکر کی ہیں، جو اس حوالے سے مجمل تھیں، جن میں نفسِ کتابت کا تذکرہ تھا،البتہ کتابتِ وحی کی نفی یا اثبات سے وہ عبارات ساکت تھیں ۔
’’ڈاکٹرصاحب‘‘نے سارا زور الفاظ و تعبیرات پرَ صرف کیا ہے، مثلاً:
’’ قدیم ترین مؤرخ المدائنی (وفات ۲۰۵ھ )‘‘ اور’’ امام ذہبیؒ جو انتہائی ثقہ محدث اور وسیع الا طلاع قدیم مؤرخ ہیں (وفات ۷۴۸ھ)‘‘ وغیرہ۔
ہم ’’غیر جانبدارانہ ‘‘انداز میں اس سے متعلق تمام عبارات کا مفہوم یہاں اختصار سے پیش کریں گے ،چنانچہ کتابتِ وحی سے متعلق دو طرح کی عبارات ہیں :
پہلی قسم کی وہ عبارتیں ہیں جو مجمل ہیں، جن میں اثبات و نفی کا ذکر نہیں،البتہ نفسِ کتابت کا ذکر ہے، جو کتابتِ وحی و غیر وحی دونوں کو محتمل و شامل ہیں ، جن کا حاصل یہ ہے کہ :
(الف) آپﷺ کے جملہ کا تبین میں حضرت معاویہ ر ضی اللہ عنہ بھی ہیں ۔
(ب) حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ خطوط و معاہدات و دیگر امور کی کتابت کیا کرتے تھے ۔
(ج) کتابتِ وحی کے بارے میں مذکورہ تمام عبارات مجمل ہیں ۔
حوالہ جات کے لیے ملاحظہ فرمائیں:
الإصابۃ (۳؍۴۳۳)،فتح الباری(۷؍۱۰۴)، مجمع الزوائد (۹؍۳۵۷)، زاد المعاد (۱؍ ۱۱۷)،سیر الأعلام النبلاء (۳؍۱۲۰)، تاریخ الاسلام الذہبي( ۲؍ ۳۴۲)، الکامل في التاریخ (۲؍ ۱۷۹)، تاریخ بغداد (۱ ؍۲۲۲)،الاستیعاب (۳؍ ۳۵۹)، تاریخ الطبري(۲؍ ۲۱۸)، مسند أحمد (۱؍ ۴۷۹،۸۴۴) اور الطبقات الکبریٰ (۷؍ ۴۰۶)
دوسری قسم کی وہ عبارات ہیں،جن میں کتابتِ وحی کی تصریح ہے۔
آٹھویں صدی ہجری کے امام ذہبیؒ کا حوالہ
چنانچہ آٹھویں صدی ہجری کے ’’انتہائی ثقہ محدث اور وسیع الاطلاع قدیم مؤرخ ‘‘ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ (وفات۷۴۸ھ) اپنی مشہور کتاب ’’تاریخ الإسلام ‘‘ میں اس عبارت سے بالکل متصل جو ’’ ڈاکٹر صاحب ‘‘ نے اپنے مضمون میں نقل کی ہے ، کہتے ہیں :
وقد صح عن ابنِ عباس ، قال: کنت ألعب، فدعاني رسول ﷺ وقال: ’’أدع لی معاویۃ‘‘ وکان یکتب الوحي‘‘.
کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے صحت کے ساتھ یہ ثابت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں کھیل رہا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ جاؤ معاویہ کو بلاؤ ، حضرت ابنِ عباس فرماتے ہیں کہ معاویہ آپ ﷺ کے لیے وحی کتابت کیا کر تے تھے (۲؍ ۳۴۲)
یہی روایت امام ذہبی ؒ نے اپنی دوسری کتاب ’’سیر الأعلام ‘‘میں ’’ڈاکٹرصاحب ‘‘ کی نقل کردہ عبارت سے دو سطر بعد ذکر کی ہے ۔پھر امام ذہبی نے مذکورہ روایت نقل کرکے اس کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: ’’رواہ أحمد في مسندہ‘‘۔اور امام احمد ؒ نے اپنی مسند میں یہ روایت چار مقامات پر ذکر کی ہے ۔(حدیث:۲۱۵۰،۲۶۵۱،۳۱۰۴،اور ۳۱۳۱) جن میں دو مقامات پر ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے، ’’وکان کاتبہ‘‘.
حافظ ذہبی ؒ کی تصریح سے یہ بھی معلوم ہو گیاکہ مسند احمد میں کتابت سے’’ کتابت وحی ‘‘مراد ہے ،اس لیے کہ روایت ایک ہی ہے ۔ نیز اس کی تائید پانچویں صدی ہجری کے مشہورمحدث امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ المتوفی :۴۵۸ھ سے بھی ہوتی ہے کہ انہوں نے بھی اسی روایت کو اپنی سند کے ساتھ ذکر کیا ہے ، جس میں یہ صراحت ہے :’’وکان یکتب الوحي‘‘. (دلائل النبوۃ :۶؍ ۲۴۳)
قارئین یقیناً’’ڈاکٹر صاحب ‘‘ کی اس ’’دیانت‘‘ پر انہیں داد دینا چاہیں گے کہ کتنی جرأت کے ساتھ انہوں نے کہا کہ’’حافظ ذہبیؒ نے کہیں بھی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی کتابت وحی کا ذکر نہیں کیا ‘‘ حالانکہ ہم نے امام ذہبی ؒ کی دونوں کتابوں سے دکھایا کہ انہوں نے بڑی صراحت کے ساتھ کتا بتِ وحی کا اثبات کیا ہے ،اگر فاضلِ موصوف کو اس پر اعتماد نہیں تھا ،تو تب بھی دیانۃًان کی یہ ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ اس کو ذکر کرتے ،پھر اصولی و فنی اعتبار سے اس پر نقد و جرح کر کے اس کی تضعیف و تردید (اگر ہوتی،تو)کر تے ۔
اگر یہ کہاجائے کہ ’’ڈاکٹر صاحب ‘‘مذکورہ عبارت پر نظر نہیں پڑی تو
اولاً :یہ عرض ہے کہ وہ عبارت توآ نجناب کی ذکر کردہ عبارت سے بالکل متصل ہے۔
ثانیاً: پھر اس سے ’’ڈاکٹر صاحب ‘‘کی پوری تحریر مشکوک ٹھہرادی جا ئے گی کہ انہوں نے سیاق و سباق اور بحث کی پوری تفصیل سے صرَفِ نظر کرتے ہو ئے ’’جانبدارانہ ‘‘ انداز میں صرف اپنے مطلب کی بات لی ہے ،بہر کیف !واقعہ جو بھی ہے ڈاکٹر صاحب نے یہاں ’’زبر دست علمی خیانت ‘‘کا ارتکاب کیا ہے، جس کی مناسب و معقول تو جیہ کرنا خود انہی کے ذمہ ہے، ’’ہم کچھ عرض کریں گے ، تو شکایت ہو گی ‘‘۔
نویں صدی ہجری کے نامور محدث شیخ الاسلام حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ کا حوالہ
امام ذہبی ؒ کے بعد نویں صدی ہجری کے نامور محدث شیخ الاسلام حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ (وفات :۸۵۲ھ)نے بھی ’’تقریب التہذیب‘‘میں یہ تصریح کی ہے :
’’معاویہ بن أبي سفیان رضي اللہ عنہ صخر بن حرب بن أمیہ الأموي ،أبو عبد الرحمن، الخلیفۃ، صحابي، أسلم قبل الفتح وکتب الوحی‘‘
کہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنھما ایک صحابی اور خلیفہ ہیں،فتح مکہ سے قبل مشرف با سلام ہوئے اور کتابت وحی کے فرائض انجام دئیے ہیں ۔
حافظ ابنِ حجر کے بارے میں ڈاکٹر صاحب خود فر ما چکے تھے :’’ وہ ابنِ کثیر سے زیادہ وسیع العلم اور حافظ حدیث و مؤرخ ہیں ‘‘ اس لیے حافظ صاحب رحمہ اللہ کا مذکورہ حوالہ دیکھنے کے بعد وہ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے اور بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر مذکورہ حوالے کا بڑی صراحت و جرأت کے ساتھ انکار ہی کر دیا ، فر ماتے ہیں :
’’ مضمون نگار (مولانا اورنگزیب صاحب)نے یہ غلط لکھا ہے کہ ’’شیخ الاسلام حافظ ابنِ حجرؒ کہتے ہیں کہ معاویہ بن ابی سفیان ایک صحابی اور خلیفہ راشد ہیں ،فتح مکہ سے قبل مشرف با سلام ہو ئے ،یہ نہ ان کی بڑی کتاب ’’ الإصابۃ في تمیز الصحابہ‘‘میں ہے اورنہ چھوٹی مختصر کتاب’’تقریب التہذیب ‘‘میں ہے، مضمون نگار (مولانا اورنگزیب صاحب)کا حوالہ غلط ہے۔‘‘
خدا گواہ ہے کہ ’’ڈاکٹر صاحب ‘‘کی اس تحقیق کو’’صریح جھوٹ ‘‘تحریر کرتے ہوئے، ان کا مقام و منصب ملحوظِ خاطر رکھ کر دل اجازت نہیں دیتا ، نہ ہی قلم ساتھ دیتا ہے ، مگر اس کی تو جیہ کریں توپھر کیا کریں ؟
حافظ ابن حجر کی وہ بات جو ’’ الإصابۃ ‘‘اور ’’ فتح الباري ‘‘ میں مجمل تھی، یہاں ’’ التقریب‘‘ میں اس کی وضاحت بھی ہو گئی، جس سے معلوم ہوا کہ ’’ الإصابہ‘‘ اور ’’فتح الباري‘‘کی مجمل عبارت سے ڈاکٹر صاحب کا نفی کتابتِ وحی پر استدلال کرنا سراسر غلط ہے ، یہاں ڈاکٹر صاحب نے ’’ الإصابہ‘‘ اور ’’فتح الباري‘‘کی عبارت نقل کرکے آخر میں کہا کہ
’’انہوں نے یہ قطعاً نہیں لکھا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے وحی کی کتابت کی ‘‘اس طرح ابنِ حجر کا بیان ’’الاصابہ‘‘ اور ’’فتح الباری‘‘ دونوں میں یکساں ہے ،یعنی صرف ’’ کتابت ‘‘ کا ذکر ہے ،کتابتِ وحی کا ذکر سرے سے نہیں ‘‘ ۔
ڈا کٹر صاحب سے کوئی پو چھے کہ ا گر حافظ ابنِ حجر نے ’’قطعاً نہیں لکھا ‘‘اور’’ کتابت وحی کا ذکر سرے سے نہیں کیا‘‘ تو پھر ’’ التقریب‘‘ میں کس نے لکھا ؟ اور یہ کہ ’’التقریب‘‘ کس کی تصنیف ہے؟ہمارا خیال ہے کہ اسے بھی بلا تبصرہ قارئین کی خدمت میں چھوڑ دینا ہی بہتر ہو گا۔
یہاں یہ بات بھی قارئین پر خوب واضح ہونی چاہیے کہ مذکورہ بالا دونو ں حوالے ان قدیم ’’انتہائی ثقہ،وسیع الاطلاع ، حافظ حدیث و مؤرخ‘‘ کے ہیں، جن سے ڈاکٹر صاحب نے اپنی پوری تحریر میں جابجا تائید حاصل کی ہے، جب کہ ان دو نو ں بزرگوں کا مؤقف اس کے بالکل بر خلاف ہے جسے ڈاکٹر صاحب نے دانستہ یا نادانستہ طور پر ان کی طرف منسوب کیا ہے ۔
آٹھویں صدی ہجری کے مایہ ناز مفسر ،محدث اور مؤرخ حافظ ابن کثیر دمشقی رحمہ اللہ کا حوالہ
اسی طرح آٹھویں صدی ہجری کے مایہ ناز مفسر ،محدث اور مؤرخ حافظ ابن کثیر دمشقی رحمہ اللہ( وفات : ۷۷۴ھ)نے بھی ’’البدایہ والنھایہ‘‘ میں کتابتِ وحی کی تصریح اور وضاحت سے اثبات کیا ہے، فرماتے ہیں :
’’وکاتب وحي رب العالمین‘‘. (۸؍۲۲)
ڈاکٹر صاحب سے اس کا جواب نہ بن سکا تویہ کہہ کر چل دیئے:
’’افسوس کی بات ہے کہ حافظ ابن کثیرؒ بھی اس رو میں بہہ گئے ہیں ‘‘۔
اس پر تبصرہ کے حقوق بھی اہلِ علم کے لیے محفوظ ہیں ۔
پانچویں صدی ہجری کے مشہور فقیہ اور محدث علامہ ابن حزم اندلسی رحمہ اللہ کا حوالہ
پانچویں صدی ہجری کے مشہور فقیہ، اصولی اور محدث علامہ ابن حزم اندلسی رحمہ اللہ ( وفات : ۴۵۶ھ) آپﷺ کے کاتبین کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’علي ابن أبي طالب و عثمان و عمر و أبو بکر و معاویۃ بن أبي سفیان، وکان زید ابن ثابت من ألزم الناس لذالک، ثم تلاہ معاویۃ بعد الفتح ، فکانا ملازمین للکتابۃ بین یدیہ ﷺفي الوحي وغیر ذلک، لا عمل لھماغیر ذلک ‘‘. (جوامع السیر ۃ :ص:۲۷،دار المعارف)
مذکورہ عبارت کا حاصل یہ ہے کہ:
(الف) دیگر کاتبین کی طرح حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی کتابتِ وحی کے فرائض انجام دیئے ہیں ۔
(ب) یہ دونو ں حضرات (زید بن ثابت اور معاویہ رضی اللہ عنھما )ہر وقت آپ ﷺ کی خدمت میں کتابت کے لیے حاضر رہا کرتے تھے۔
(ج) ان دونوں حضرات نے وحی اور غیر وحی دونوں کی کتابت کی ہے۔
(د) ان دونوں حضرات کا وحی وغیر وحی کی کتابت کے علاوہ دوسرا کام نہ تھا ۔
یہی بات علی بن برھان الدین ، علامہ حلبی ؒ نے سیرت کی مشہور کتاب ’’السیرۃ الحلبیۃ‘‘ میں ذکر کی ہے ۔(۳؍ ۳۲۷)
یہ عبارت مکمل مع مفہوم کے ذکر کر نے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ’’ڈاکٹر صاحب ‘‘ نے مولانا اورنگزیب ’’مظلوم‘‘ کو اس عبارت کے حوالے سے ’’قطع وبرید و اضافے ‘‘ کا بے بنیاد اور غلط الزام دیا ہے ، ورنہ مولانا نے اپنی تحریر میں وہی بات ذکر کی ہے، جو ہم ابھی اصل مراجع سے ذکر کر آئے ہیں۔
تیسری صدی ہجری کے مشہور لغوی مفسر اور محدث امام ابو بکر الخلال رحمہ اللہ کا حوالہ
تیسری صدی ہجری کے مشہور لغوی مفسر اور محدث امام ابو بکر الخلال رحمہ اللہ( متوفی: ۳۱۱ھ) نے اپنی سند سے نقل کیا ہے کہ ابو الحارث کہتے ہیں:
’’ ہم نے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے اس شخص کے بارے میں دریافت کیا، جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو ’’کاتبِ وحی ‘‘ اور ’’ خال المؤمنین‘‘نہ کہتا ہو ،تو انہوں نے فرمایا ’’یہ بُری اور بے کار (بلا سند ) بات ہے، ایسی بات کر نے والوں سے دور رہا جائے گا ، ان کی ہم نشینی اختیار نہیں کی جائے گی ، اور ہم ان کا حکم لوگوں کو بتا ئیں گے‘‘۔ (السنۃ :۲؍ ۴۳۴)
کتاب کے محقق دکتور عطیہ الزھرانی نے اسناد کی توثیق اور متن کی تائید میں لکھا کہ
’’ اس کی اسناد صحیح ہے اور اس میں کسی بھی قسم کے شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ایک جلیل القدر صحابی ، کاتبِ وحی اور ام المؤمنین امِ حبیبہؓ کے بھائی ہیں ‘‘۔
اگر یہی بات ہم کہہ دیں کہ ’’ڈاکٹر صاحب‘‘ کی با ت بُری، بیکار، بلا سنداور رد ی میں پھینکنے کے قابل ہے اور ایسے لوگوں سے دور رہنا چاہیے، توشاید ’’ڈاکٹر صاحب‘‘اس کی تاب نہ لا کرآپے سے باہر ہو جائیں ،مگر الحمد للہ یہ بات اللہ تعالیٰ نے ابتدائے تیسری ہجری کے ایک ایسے امام مجتہد اور محدث سے کہلوائی ہوئی ہے ،جن کی جلالتِ شان بلا استثناء تمام مسلمانوں کے علاوہ خود ’’ڈاکٹر صاحب ‘‘ کو بھی مسلَم ہے ۔
ان مذکورہ حوالوں کے بعد طوالت کے خوف سے مزید عبارات ذکر کرنے اور ان پرتجزیہ کرنے کے بجائے صرف حوالہ جات پر اکتفا کیا جاتا ہے ۔
مذکورہ بالا جلیل القدر قدیم محدثین و مؤرخین کے علاوہ
آٹھویں صدی ہجری کے مؤرخ و ادیب علی بن محمد خزاعی رحمہ اللہ علیہ(متوفی : ۷۸۹ھ) نے ’’تخریج الدلالات الشرعیۃ‘‘ (ص: ۶۳)میں
آٹھویں صدی ہجری کے مایہ ناز متکلم ،فقیہ اور محدث شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ علیہ (وفات: ۷۲۸ھ) نے’’مجموع الفتاویٰ‘‘(۴؍ ۲۴۵)میں،
ساتویں صدی ہجری کے مشہورمفسر و فقیہ امام قرطبی رحمہ اللہ علیہ (وفات:۶۷۱ھ)نے ’’الجامع للأحکام القرآن‘‘ میں،
چھٹی صدی ہجری کے مشہور فقیہ و محدث ابن العربی مالکی رحمہ اللہ علیہ (وفات:۵۴۳ھ)نے ’’أحکام القرآن‘‘ میں،
پانچویں صدی ہجری کے مشہور مؤرخ و مفسر قاضی محمد بن سلامۃ قضاعی رحمہ اللہ علیہ (وفات ۴۶۴ھ) نے ’’الأنباء بأنباء الأنبیاء و تواریخ الخلفاء و ولایات الأمراء (ص:۱۴۱) میں،
تیسری صدی ہجری کے اواخر اور چوتھی صدی کے ربع اول کے مشہور فقیہ و ادیب ابن عبد ربہ اندلسی رحمہ اللہ علیہ (وفات : ۳۲۸ھ) نے اپنی عربی ادب کی مشہور کتاب ’’العقد الفرید‘‘ (۵؍۸) میں،
ابنِ حجر ہیثمی مکی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’تطہیر الجنان واللسان‘‘ (ص:۳۸؍ ۳۹)میں
مرکز الاسانید ، امام الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’إزالۃ الخفاء‘‘ (۱؍۴۷۲)میں ،
ماضی قریب کے فنِ رجال کے ماہر مشہور محدث عبد الحئی کتانی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’التراتیب الإداریۃ‘‘ (۱؍۱۵۱) میں،
دکتور اکرم ضیاء العمری رحمہ اللہ علیہ نے ’’عصر الخلافۃ الراشدۃ‘‘ میں
شیخ عبد العظیم الزرقانی رحمہ اللہ علیہ نے ’’مناھل العرفان في علوم القرآن‘‘ (ص:۲۳۹)میں،
مولانا ابو الحسن الاعظمی نے ’’کاتبینِ وحی‘‘(ص:۱۳)میں
دکتورعلاء بکر نے ’’عقیدۃ أہل ا لسنۃ والجماعۃ‘‘ (۱؍ ۹۴)میں
اور مفتی محمد تقی عثمانی مد ظلہ نے ’’علوم القرآن‘‘(ص:۱۷۹)میں حضر ت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے کتابت وحی کا اثبات کیا ہے ۔
یہ نا قابل تردیدصحیح ،صریح اور واضح بائیس حوالہ جات ہیں جو ہم نے ماضی قریب کے علاوہ آٹھویں صدی سے لیکر اوائل تیسری صدی ہجری کے قدیم ترین مؤرخین ،محدثین، فقہاء اور جلیل القدر ائمہ کرام رحمہم اللہ کے حوالے سے ذکر کیے ہیں، جن سے یہ بات بخوبی ثابت ہوئی کہ حضرت امیر معاویہؓ نہ صرف یہ کہ کاتبِ وحی تھے، بلکہ انہوں نے اسلام قبول کر نے کے بعد بڑے لزوم ،مواظبت اور انتہائی ذمہ داری کے ساتھ اس فریضہ کو انجام دیا اور ہمیشہ اس خدمت کی انجام دہی کی فکر میں رہے۔اور آپﷺ کو بھی انکی دیانت وامانت پر کامل اعتماد تھا۔
علاوہ ازیں وہ’’یار لوگ‘‘جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو ’’مسلمان ‘‘ بھی سمجھنے کو تیار نہیں ،بلکہ اس سے بھی بڑھ کر حضرات خلفاء ثلاثہ، امہات المؤمنین اور دیگر جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تکفیر اور ان پرلعن و طعن کو اپنے ایمان کا حصہ قرار دیتے ہیں، وہ بھی اس حقیقت کا انکار نہیں کر سکے ،چنانچہ شیعوں کے مشہور ترین اور قدیم ثقہ مؤرخ احمد بن أبی یعقوب(وفات:۲۵۷ھ)الکاتب العباسی نے ’’تاریخ یعقوبی‘‘(۱؍ ۴۰۱،۴۰۲) میں اس بات کا بر ملا اعتراف کیا ہے کہ’’ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کاتبِ وحی تھے ‘‘۔
شیخ محب الدین الخطیب نے ’’العواصم من القواصم ‘‘کی تعلیق میں وضاحت کی ہے کہ
حضرات صحابہ کرامؓ اور بالخصوص بنو امیہ سے بغض و کینہ رکھنے والوں سے جب اس بات کا انکار نہ ہو سکا کہ آپﷺ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو کتابت پر مامور کیا تھا، تو انہوں نے یہ فرق اپنی طرف سے گھڑ لیاکہ انہوں نے خطوط و معاہدات کی کتابت کی ہے، نہ کہ وحی کی ،یہ فرق ان کی ذہنی اختراع ،خبثِ باطن کا نتیجہ اور شیطانی القاء ہے، اس پر ان کے پاس کوئی بھی مستند دلیل نہیں ، اگر یہ تفریق آپ ﷺ کی طرف سے ہوتی، تو ناقلین اسے تواتر کے ساتھ ذکر کرتے، جیسا کہ دیگر امور میں اس طرح ہوا ہے ۔(ص:۵۸؍ ۵۹)
ایک مسلمہ اصول ہے کہ جو چیز عقلاً ممکن ہو ،اگر اس کے اثبات میں کوئی دلیل نقلی صحیح آجائے تو اس کے اثبات کا قائل ہو نا واجب اور ضروری ہے۔ ( الانتباہات المفیدۃ،ص:۵۷)
اور حضرت معاویہؓ کا کاتبِ وحی ہونا ’’ڈاکٹر صاحب ‘‘کے ہاں بھی عقلاً ممکن ہے اور اثبات پر ہم نا قابلِ تردید ٹھوس دلائل پیش کر چکے ، جبکہ نفی پر’’ڈاکٹر صاحب ‘‘ کے پاس کو ئی دلیل نہیں ،لہذا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو ’’کاتب وحی ‘‘ قرار دینا واجب اور لازم ہے۔
رہی بات ڈاکٹر مصطفی الاعظمی کا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو کاتبینِ وحی میں ذکر نہ کر نے کی ،سو ’’عدم ذکر الشئ لا یستلزم عدم وجودہ‘‘ یہ ایک مسلمہ اصول ہے ، ہاں ’’ذکر عدم الشء‘‘ اور چیز ہے جس کا اثبات ’’ڈاکٹر صاحب ‘‘ نہ کر سکے ۔
اس کے علاوہ ’’ ڈاکٹر صاحب ‘‘نے آخر میں ایک عقلی دلیل یہ دی کہ
’’حضرت معاویہ ؓ ظہورِ اسلام کے اکیس سال بعد اسلام لائے اور ان اکیس برسوں میں بہت زیادہ قرآن لکھا جا چکا تھا ،یہ کون لکھتا رہا؟ آخر کے دو برسوں میں تو بہت کم قرآن لکھا گیا ‘‘۔
’’ڈاکٹر صاحب‘‘ کا یہ ’’واویلا‘‘اس وقت کار آمد ہوگا، جب مولانا اورنگزیب ’’فقیر ‘‘ نے یہ دعویٰ کیا ہوتا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے پورے یا اکثرِ قرآن کی کتابت کی ہے ، جب کہ ان کا مدعا تو یہ ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا تبِ وحی تھے ، بس ،ڈاکٹر صاحب اس بات سے تو بخوبی واقف ہوں گے ہی کہ سالبہ جزئیہ موجبہ کلیہ کی نقیض بنتی ہے ، جب کہ موجبہ جزئیہ کی تردید سالبہ جزئیہ سے نہیں ہوتی ۔
اب اصولی طور پر ’’ڈاکٹر صاحب‘‘ کا مدعا دو باتوں میں سے کسی ایک کے ثبوت سے ثابت ہو گا :
یا تو ڈاکٹر صاحب یہ ثابت کریں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے بعد کوئی وحی نازل نہیں ہوئی۔
یا وحی تو نازل ہوئی مگرحضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس کی کتابت نہیں کی ۔
ڈاکٹر صاحب قیامت تک ان میں سے کوئی بھی ایک بات ثابت نہیں کر سکتے ، اور اس کے بغیر صفحات کے سا تھ اپنا ’’ نامہ اعمال‘‘ بھی سیاہ کر نے سے کچھ حا صل نہیں ہوسکتا۔
اس سلسلے میں ’’ڈاکٹر صاحب کی آخری دلیل جو ان کے زعم میں بہت مضبوط ہے ( جبکہ حقیقت میں اس کی حیثیت تارِ عنکبوت سے بھی زیادہ نہیں ، جو صرف ’’ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ‘‘کے مترادف ہے ) وہ یہ کہ
’’حضرت ابو بکر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کے عہد میں ’’جمع قرآن ‘‘ کی خدمت انجام دینے والے حضرت زید بن ثابت ،عبد اللہ بن زبیر ،سعید بن ابی العاص اور عبد الرحمن بن الحارث بن ہشام رضی اللہ عنھم ہیں ، اگر حضرت معاویہؓ بھی کاتبِ وحی ہو تے ،تو وہ بھی اس مہم میں شریک ہو تے ‘‘۔
عوامی سطح کے لحاظ سے تویہ یقیناً مضبوط دلیل ہو گی، جب کہ علمی و تحقیقی نقطہ نظر سے یہ نہ صرف یہ کہ کوئی کمزور دلیل ہے ، بلکہ اس سے استدلال کر نا بھی انتہائی مضحکہ خیز بات ہے ،جس کی وضاحت یہ ہے کہ ’’ڈاکٹرصاحب ‘‘ نے یہاں ’’تلبیس ابلیس‘‘اور ’’خلط بحث ‘‘ کا ارتکاب کیا ہے کہ ہماری بحث تو ’’ کتابتِ وحی ‘‘کے اثبات اور نفی سے ہے اور استدلال جس واقعہ سے کیا جا رہا ہے اس کا تعلق ’’جمع قرآن ‘‘ سے ہے ۔
ہمیں حیرت ہے کہ ’’ عربی زبان اور دیگر علوم پر اتھارٹی کا درجہ رکھنے والے ’’ڈاکٹر صاحب اتنی موٹی با ت بھی سمجھنے سے قاصر ہیں !! کہاں کی بات کہاں سے جوڑرہے ہیں !! اگر جمع قرآن کی مہم میں عدمِ شرکت دلیل ہے، عدمِ کتابتِ وحی پر، تو پھر ’’ ڈاکٹر صاحب ‘‘ سے مؤدبانہ التماس ہے کہ وہ تھوڑی سی مزید جرأت کرکے حضرت علی ، عثمان ، ابو بکر ، عمر ، ابی بن کعب ،حنظلہ بن الربیع ، جابر بن سعید بن العاص ، خالد بن سعید ،ابان بن سعید،العلاء بن الحضرمی، عبد اللہ بن سعد بن ابی السرح ،زبیر بن العوام ،معیقیب بن ابی فاطمہ ،عبد اللہ بن الارقم الزہری،شرحبیل بن الحسنہ اور عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو بھی بیک جنبشِ قلم ’’ کاتبینِ وحی ‘‘کی فہرست سے خارج فرمادیں،اس لیے کہ یہ تمام حضرات بھی اس مہم میں شریک نہیں تھے ، جبکہ قدیم ترین محدثین و مؤرخین نے ان تمام اصحاب کو ’’کاتبینِ وحی ‘‘ میں شمار کیا ہے ۔
تیسرے اعتراض کاجواب
تیسرا اعتراض یہ تھا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ۸ ھ میں فتح مکہ کے بعد اسلام لائے اور وہ مؤ لفۃ القلوب اور طلقاء میں سے تھے ۔
اس ضمن میں ڈاکٹر صاحب کی تحریر’’جانبدارانہ‘‘ ہے، جس کااندازہ آگے آنے والی تفصیل سے بخوبی ہو جائے گا ۔
بحث کی ’’غیر جانبدارانہ ‘‘تفصیل یہ ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام کے سَن کی تعیین میں مؤرخین میں تھوڑا سا اختلاف پایا جاتا ہے ،جس کا حاصل یہ ہے کہ حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ نے ’’ البدایۃ والنھایۃ ‘‘ (۸؍۲۲)میں ، ابن عبد البر رحمہ اللہ نے ’’الاستیعاب‘‘ (۳؍ ۳۹۵)میں اور حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے ’’تہذیب التہذیب‘‘ (۱۰؍۲۰۷)میں دو قول ذکر کیے ہیں :
پہلا یہ کہ وہ ۸ھ فتح مکہ کے موقع پر اسلام لائے ۔
اور دوسرا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا خود اپنا بیا ن کہ میں عمرۃ القضاء کے موقع پر اسلام لایا اور آپﷺ سے اسلام کی حالت میں ملا،لیکن فتح مکہ تک اپنے اسلام کو والد سے چھپائے رکھا ۔
حافظ مزی رحمہ اللہ نے ’’تہذیب الکمال ‘‘ (۲۸؍ ۱۷۷)میں ایک تیسرا قول بھی ذکر کیا ہے کہ وہ ’’ صلح حدیبیہ‘‘ کے موقع پر اسلام لائے۔
ان تینوں حضرات نے فتح مکہ والے قول کو پہلے ذکر کیا ہے ،اس صنیع سے مترشح ہوتا ہے کہ یہی قول ان کا پسندیدہ اور مختار ہے ۔
حافظ صاحب رحمہ اللہ نے ’’ الإصابۃ‘‘ میں ابن سعد کا قول ’’قبل عمرۃ القضیہ‘‘ اور واقدی کا قول’’بعد الحدیبیہ‘‘ ذکر کیا ہے اور یہ صرف تعبیر کا فرق ہے ، جبکہ مصداق دونو ں کا ایک ہی ہے ۔
ڈاکٹرصاحب نے اس ضمن میں لکھا کہ :
’’پھر یہ کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے مفصل حالات الاصابہ میں ہیں وہی لائقِ اعتبار ہیں ‘‘۔
اس اصرار سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حافظ صاحب رحمہ اللہ نے ۸ھ کے قول کو اختیار کیا ہو ، جب کہ اختیار کر نا اور راجح قراردینا تو دور کی بات ہے، یہا ں تو حافظ صاحب نے ۸ھ کے قول کو سرے سے ذکر ہی نہیں کیا ، پھر یہی نہیں بلکہ ’’تقریب التہذیب‘‘ میں حافظ صاحب نے یہ تصریح کی ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ فتح مکہ سے قبل اسلام لائے :
’’صحابي،أسلم قبل الفتح وکتب الوحی‘‘. (ص:۵۳۷)
اس سے معلوم ہوا کہ حافظ صاحب رحمہ اللہ کے نزدیک راجح یہی ہے کہ وہ فتح مکہ سے قبل اسلام لائے ، جبکہ’’ تہذیب التہذیب ‘‘ میں تصریح کے ساتھ کسی قول کی ترجیح نہیں، صرف صنیع سے استیناس کیا گیا تھا ۔
’’الإصابۃ‘‘ میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی روایت سے جو تعارض حافظ صاحب نے بیان کیا تھا ،آگے بخاری و مسند احمد کے حوالے سے اس کا جواب بھی دیا ہے ، جو ڈاکٹر صاحب کی ’’ دیانت ‘‘ کی نذر ہو گیا ۔
علاوہ ازیں پانچویں صدی ہجری کے مشہور ثقہ مؤر خ حا فظ ابو نعیم اصفہانی رحمہ اللہ (وفات : ۴۳۰ھ)نے ’’ معرفۃ الصحابۃ ‘‘ (۴؍ ۲۲۳) میں ،
امام ذہبی رحمہ اللہ نے ’’ سیر الأعلام النبلاء ‘‘( ۳؍ ۱۲۰)میں ،
خطیبِ بغدادی رحمہ اللہ نے ’’ تاریخِ بغداد ‘‘(۱؍ ۲۲۲) میں ،
امام ذہبی رحمہ اللہ نے دوسری تصنیف ’’ تاریخ الإسلام ‘‘ (۲؍ ۳۴۱) میں
اور تیسری صدی ہجری کے مشہور مؤرخ ابنِ سعد رحمہ اللہ نے ’’الطبقات الکبری‘‘(۷؍ ۴۰۶)میں ۷ھ عمرۃ القضاء والے قول کو اختیار کیا ہے اور اسے ترجیح دی ہے
اب ان تمام حوالہ جات کا خلاصہ یہ ہوا کہ :
(۱) حافظ ابنِ کثیر،حافظ مزی اور ابن عبد البر رحمہم اللہ نے ۸ھ کے قول کو لیا ہے ۔
(۲) مذکورہ حضرات نے اس اختیار پر کوئی تصریح نہیں کی، بلکہ یہ ان کے صنیع کا مفہوم ہے ، جبکہ ساتھ ہی ان حضرات نے قبل الفتح والے قول کو بھی ذکر کیا ہے ۔
(۳) حافظ ابنِ حجر ،امام ذہبی ، خطیبِ بغدادی ،ابو نعیم اصفہانی اور ابن سعد رحمہم اللہ ان تمام حضرات نے الفاظ و تعبیر کے تھوڑے سے فرق سے ۷ھ والے قول کو لیا ہے ۔
(۴) ان حضرات نے اس اختیار و ترجیح کی تصریح بھی کی ہے ، جس کی دلیل یہ ہے کہ فتح مکہ والے قول کو سوائے ’’ تہذیب التہذیب‘‘ کے، انہوں نے ذکر ہی نہیں کیا، نیز اس کے راجح ہو نے کی ایک وجہ راوی کااپنا بیا ن ہو نا ہے ۔
علاوہ ازیں ترجیح کی بات بھی اس صورت میں ہو گی ، جب کہ تعارض ہو اور تطبیق کی صورت ممکن نہ ہو، جب کہ مذکورہ عبارات میں ادنی تأمل (بشرطِ انصاف) سے بھی تطبیق بالکل آسانی سے سمجھ آجاتی ہے اور وہ یہ کہ عمرۃ القضاء ۷ھ میں حقیقت اسلام کا اعتبار ہے ، جب کہ فتح مکہ ۸ھ میں اظہارِ اسلام کا ،پس دونوں میں کوئی منافات نہیں، پھر یہ بھی واضح رہے کہ انھیں ’’متأخر الاسلام ‘‘ثابت کر نے کا اصل مقصد کتابتِ وحی اورجلالتِ قدر کا انکار ہے، جس کی تردید ہم سابق میں کر چکے ہیں۔
اگر چہ’’ متأخر الاسلام ‘‘ ہو نا بھی فی نفسہ کوئی عیب کی بات نہیں، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک ’’متأخر الاسلام ‘‘ قدیم الاسلام سے رتبہ میں آگے بڑھ جاتا ہے ، جیسا کہ حضرت ’’عمر فاروق ‘‘حضرت عثمان ، حضرت طلحہ ،زبیر ، سعد اور عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنھم سے بڑھ گئے ،صرح بہ شیخ الإسلام ابنِ تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ. (مجموع الفتاوی : ۴؍ ۲۴۰)
اب انہیں ’’ طُلَقاء ‘‘ میں سے شمار کرنا عبث ہے، رہی بات ’’ مؤلفۃ القلوب ‘‘ میں سے ہونے کی ،سو اس سلسلے میں ڈاکٹرصاحب نے ’’حسبِ عادت‘‘ جانبدارانہ انداز میں بحث کی پوری تفصیل سے صرَف نظر کرتے ہوئے ’’مؤلفۃ القلوب ‘‘ کا ذہنی اختراع سے ایسا نقشہ کھینچا ہے کہ جس سے قارئین کے ذہن پر انتہائی منفی اثر پڑتا ہے ،بہر حال ! ڈاکٹرصاحب کااپنا ’’تحقیقی معیار ‘‘ ہے۔ ہم انہیں اس میں معذور سمجھتے ہیں ۔ اب ہم اس بحث کے جملہ متعلقات اختصاراً ذکر کرتے ہیں۔
ابن العربی المالکی رحمہ اللہ (أحکام القرآن:۲؍ ۵۲۹)اور امام قرطبی رحمہ اللہ (تفسیر القرطبي: ۸؍۱۴۶)نے ان کا’’مؤلفۃ القلوب‘‘میں سے ہونے سے انکار کیا ہے، اس کے بر عکس کئی مؤرخین واصحاب السیرنے ان میں شمار کیا ہے ،ساتھ ہی یہ تصریح بھی کی ہے کہ ’’مولفۃ القلوب‘‘اپنی قوم کے سردار اور معزز ترین لوگوں میں سے تھے ،انہیں عطایا دینے سے انہیں اور ان کے ذریعے ان کی قومو ں کو مانو س کر ناہوتا تھا۔
ابن ہشام رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
’’وأعطی رسول اللہ ﷺ المؤلفۃ قلوبھم وکانو أشرافا من أشراف الناس ،یتألفھم و یتألف بھم قومھم ،فأعطی أبا سفیان بن حرب ماءۃبغیر، وأعطی ابنہ معاویہ ماءۃ بعیر .......(السیرۃ النبویۃ: ۴؍۴۹۲،۴۹۳)
اسی طرح ابنِ کثیر نے ’’البدایۃ والنہایۃ ‘‘.(۴؍ ۳۸۸)،طبری نے اپنی تاریخ (۲؍ ۱۷۵)، امام ذہبی نے ’’سیرالأعلام‘‘(۳؍۱۲۲)،ابن خلدون نے اپنی تاریخ(۲؍ ۴۴۹)،ابنِ سعد نے ’’ الطبقات الکبریٰ‘‘ (۷؍۴۰۶)، ابن الاثیر نے’’الکامل في التاریخ ‘‘(۲؍۱۴۳)، شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ’’مجموع الفتاوی ‘‘ (۴؍۲۳۵) اور ابن عبد البر نے ’’الاستیعاب‘‘ (۳؍ ۳۹۵)میں ذکر کیا ہے، ڈاکٹر صاحب کی ’’دیانت ‘‘ نے اس تذکرہ کی اجازت نہیں دی ۔
نیز مفسرین نے یہاں مؤلفۃ القلوب کی چار مختلف اقسام ذکر کی ہیں :
پہلی قسم: وہ لوگ جو کفار تھے اور انہیں عطایا دینا اسلام کی طرف مائل کرنے کی غرض سے تھا۔
دوسری قسم :وہ جو حدیث العہد بالإسلام ،تھے انہیں عطایا دینا اس غرض سے تھا کہ اسلام ان کے دلوں میں راسخ ہو جائے ۔
تیسری قسم : جو اپنی قوم و قبیلے میں سردار ، معزز ترین لوگ ، اثر ورسوخ رکھنے والے تھے اور اسلام لا چکے تھے ، اپنی قوم میں ان کی بات کو ماناجاتا تھا ،انہیں عطایا دینے کی غرض یہ تھی کہ ان کے دیگر ساتھی ،قوم و قبیلے والے اپنے معززلو گوں کے ساتھ اکرام و تکریم کے معاملے سے متأثر ہوکر اسلام لے آئیں ۔
چوتھی قسم : وہ لوگ جنہیں عطایا اس غرض سے دئیے جاتے تھے کہ وہ کفار سے قتال کر کے مسلمانوں کو ان کے شر سے محفوظ رکھیں ۔
تفصیل کے لیے دیکھیے:’’تفسیر أبي سعود ‘‘سورۃ التوبۃ :آیت نمبر ۶۰،(۳؍ ۱۶۱،۱۶۲)۔’’تفسیر القرطبي ‘‘(۸؍ ۱۴۵)۔ ’’تفسیر الجلالین ‘‘، ’’ تفسیر الصاوي ‘‘(۲؍ ۵۳)۔ ’’تفسیر بیضاوي‘‘ (۴؍۵۸۷)۔
ڈاکٹر صاحب نے اپنی تحریر میں صرف دوسری قسم کا تذکرہ کیا ہے اور یہ تأثر دیا ہے کہ تمام مؤلفۃ القلوب اسی قبیل سے تھے ، یہ مذکورہ تصریحات کے خلاف ہے،اب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا قسم اول میں سے نہ ہو ناتو یقینی اور متفق علیہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب بھی انہیں ’’ کفار ‘‘ میں سے نہیں گردانتے اور قسمِ ثانی بھی مراد نہیں کہ ہم سابق میں یہ ثابت کر چکے کہ تحقیقی اور راجح قول کے مطابق وہ ۷ھ عمرۃ القضاء کے موقع پر اسلام لائے ، لہذا وہ ان نو مسلموں میں سے بھی نہیں جو فتح مکہ کے بعد اسلام لائے ، جہاں تک تیسری اور چوتھی قسم کا تعلق ہے، سو اگر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حالات پر گہری نظر ڈالی جائے، تو قرینِ قیاس یہی ہے کہ وہ تیسری قسم سے تھے، اس لیے کہ وہ اور ان کے والد ماجد اپنی قوم کے سردار، معزز ترین اور خواندہ لوگوں میں سے تھے ۔
لہٰذا انہیں عطایا دینا ان کی قوم کو مانوس کر نے کی غرض سے تھا، نہ کہ انہیں اسلام پر بر قرار رکھنے کی غرض سے، اس تقدیر پر کہ ان کا اسلام کمزوریا ا س پر بر قرار رہنامشکوک تھا ، جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے ذکر کیا ہے اور اس کی ایک بہت بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ فتح مکہ کے بعد اور مؤلفۃ القلوب میں غنائم تقسیم ہو نے سے پہلے ’’غزوہ حنین ‘‘ اور ’’ غزوہ طائف‘‘ پیش آیا،اور ثقہ مؤرخین کی تصریحات کے مطابق حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ان دونو ں غزوات میں بنفسِ نفیس شریک تھے ،یہ شرکت بتلاتی ہے کہ وہ ضعیف الایمان ،متردد فی الاسلام یا ان لو گو ں میں سے نہیں تھے، جنہوں نے فتح مکہ کے بعد اسلام کی شوکت سے مرعوب ہو کر مجبوراً اسلام قبول کیا ، بلکہ وہ پہلے ہی اسلام لا چکے تھے ، کما حققناہ، دیکھیے: ’’الطبقات الکبریٰ‘‘ (۷؍ ۴۰۶)،’’ تاریخ الخلفاء ‘‘للسیوطي (ص:۱۵۵)،’’سیر الأعلام ‘‘( ۳؍ ۱۲۲)،’’البدایۃ والنہایۃ‘‘ (۸؍ ۱۲۴)اور’’ مجموع الفتاوی‘‘(۴؍ ۲۳۷)۔
چوتھے اعتراض کا جواب
چوتھا اعتراض یہ تھا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ’’ اول الملوک‘‘ ( اسلام کے پہلے بادشاہ) تھے ، خلیفہ نہیں تھے ، استدلال حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے ہے کہ ’’ خلافت میرے بعد تیس سال رہے گی، پھر بادشاہت ہو گی‘‘۔
یہاں بھی ڈاکٹرصاحب نے انتہائی ’’جانبداری ‘‘ کا مظاہرہ کر کے خلافت کے مو ضوع پر اپنی پسند کی ایک روایت ذکر کر لی اور اس کے مقابل دیگر بہت سی صحیح احادیث چھوڑ دیں ، جن میں سے چند ہم ذکر کرتے ہیں تاکہ مسئلہ کے دوسرے پہلو پر بھی ’’غیر جانبدارانہ ‘‘ ا ورتحقیقی طور پر غور کیا جا سکے ۔
(۱) بخاری و مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’بنی اسرائیل میں ان کے امور کے متولی انبیا ء علیہم السلام ہوتے تھے، جب ایک نبی فوت ہو جاتا دوسرا آجا تا اور یقین میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا ، البتہ خلفاء ہو ں گے اور کثرت سے ہو ں گے ‘‘۔ (بخاري :۱؍ ۴۹۱) و( مسلم: ۲؍۱۲۶)و(شرح السنۃ :۱۰؍ ۵۵)و ( مشکوۃ:ص: ۳۱۰) و(المصنف لابن شیبہ:۱۵؍ ۵۸)
سماک بن حرب ،جابر بن سمرۃ،اور ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ :
’’دین اسلام بارہ ’’خلفاء‘‘تک غالب رہے گااور یہ تمام قریش سے ہوں گے ‘‘. دیکھیے( مسلم ،رقم الحدیث: ۴۷۰۸،۴۷۰۹)و( مجمع الزوائد :۵؍ ۱۹۰) و ( مسند احمد :۲؍۸۲)
ان دونوں قسم کی احادیث میں ظاہری تعارض کو رفع کر نے کے لیے کبا ر علماء محدثین نے تطبیق کی راہ اختیا ر کی ہے، چنانچہ حافظ ابن حجرؒ نے ’’فتح الباري‘‘ (۱۳؍۲۶۲)،محقق عینی نے ’’ عمدۃ القاري ‘‘(۲۴؍ ۴۱۹)،علامہ شمس الحق عظیم آبادی نے ’’ عون المعبود ‘‘ ( ۱۲؍ ۳۹۸)،علامہ تفتازانی نے ’’شرح العقائد ‘‘( ص : ۳۰۹) اور علامہ احمد بن اسماعیل کو رانی نے ’’ الکو ثر الجاري‘‘(۴؍ ۱۱۰) میں جو تطبیق بیان کی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ حدیثِ سفینہ میں ’’ خلافتِ نبوت اور ’خلافتِ کاملہ‘‘مراد ہے اور یہ پانچ خلفا ء تک جا ری رہی ،جبکہ جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ و دیگر کی حدیث میں ’’ مطلق خلافت‘‘ مراد ہے، جو ’’ خلافت علی منہاج النبوۃ ‘‘سے کم درجے کی ہے، لیکن وہ بھی ’’ خلافت ‘‘ہی کا فرد ہے، اب تعارض باقی نہ رہا ، اس لیے کہ خلافتِ کاملہ اخص ہے، جس کی نفی سے اعم ( مطلق خلافت) کی نفی لازم نہیں آتی ۔
ہمارا دعویٰ ’’ مطلق خلافت ‘‘کا ہے، جو ’’ امارت ‘‘ ،’’ ولایت ‘‘اور ’’ ملک ‘‘ کے منافی نہیں، ایک شخص ’’والی ‘‘،’’ ملک‘‘ اور ’’خلیفہ‘‘ ہو سکتا ہے ، لہذا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا خود کو ’’ اول الملوک ‘‘ کہنا، ابن حزم کا ان کے عہدِ حکومت کو ’’ ولایت ‘‘ سے تعبیر کرنا ، امام ذہبی کا ان کو ’’ خیر الملوک ‘‘ کہنا اور ان کا شان و شوکت کے ساتھ رہنا ’’ خلافت‘‘ کے منافی نہیں، ان میں سے کسی بات سے بھی ڈاکٹر صاحب کا مدعا ثابت نہیں ہوتا، اس کے لیے داکٹر صاحب کو پہلے ’’ مطلق خلافت ‘‘ اور ’’ ولایت و امارت ‘‘ میں منافات ثابت کر نا ہو گا،صرف الفاظ و تعبیرات کے زور سے بات نہیں بنتی ۔
ڈاکٹر صاحب نے لکھا کہ
’’ بیالیس صفحا ت میں ان کے حالا ت لکھنے کے بعد ذہبی کا آخری فیصلہ ہے ‘‘
آگے لکھتے ہیں :
’’ملحوظ رہے کہ امام ذہبی نے انہیں خلیفہ نہیں، ’’ خیر الملوک ‘‘ کہا ہے ‘‘
ان دونو ں عبارات کا حقیقت سے کوئی مجازی تعلق بھی نہیں ، یہ صرف الفاظ کی بازی گری ہے ، اس لیے کہ امام ذہبی نے نہ تو خلافت وولایت کے موضوع پر بحث کر کے ولایت کو ترجیحاً ذکر کیا ہے ، نہ ہی اس موضوع پر مؤرخین کا اختلاف ذکر کر کے ان کے ما بین محاکمہ کیا ہے اور نہ ہی ’’ ولایت ‘‘ کا اثبات کر کے ’’ خلافت ‘‘ کی نفی کی ہے کہ اسے ان کا ’’ فیصلہ ‘‘ قرارا دیا جائے۔ اور یہ تأثر بھی حقیقت کے بالکل بر عکس ہے کہ انہوں نے ’’ ملک ‘‘ کا اثبات اور خلافت کی نفی کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امام ذہبی نے جا بجا اور دیگر مؤرخین نے بھی ان کے عہدِ حکومت پر ’’خلافت‘‘ کا اطلاق کیا ہے جس سے ہمارا یہ مدعا واضح ہو جا تا ہے کہ ان تمام مؤرخین کے نزدیک ’’مطلق خلافت‘‘ اور ’’ولایت و امارت‘‘میں کوئی منافات نہیں۔
ہم ذیل چند عبارات مختصراً ذکر کرتے ہیں :
امام ذہبی نے ’’سیر الأعلام‘‘ میں لکھا :
’’بایعہ أھل الشام بالخلافۃ‘‘ (۳؍ ۱۳۷)
اس کے چھ صفحات بعد لکھتے ہیں:
’’وأقبلو بعد بیعۃ معاویۃ بالخلافۃ‘‘ (۳؍۱۴۳)
اس کے تین صفحات بعد لکھتے ہیں:
’’وتسلم معاویۃ الخلافہ في آخر ربیع الآخر‘‘ (۳؍ ۱۴۶)
اسی کے ایک سطر بعد لکھتے ہیں:
’’وقال ابن اسحاق: ’’یویع معاویۃ بالخلافۃ‘‘ (۳؍ ۱۴۶)
بلکہ امام ذہبی کا جو ’’حقیقی فیصلہ ‘‘ ہے، جو انہوں نے ’’ قلتُ ‘‘ کے ساتھ ذکر کیا ہے، اس میں بھی ’’ خلافت ‘‘ کا ذکر ہے، جو ایک طویل اقتباس ہے، جسے امام ذہبی نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی مدح و منقبت میں ذکر کیاہے، لیکن ڈاکٹر صاحب نے اس میں قطع و برید کر کے اس سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کیا ہے۔ امام ذہبی نے لکھا ہے:
’’قُلتُ‘‘حسبک بمن یؤمرہ عمر ......عمل نیابۃ الشام عشرین سنۃ، والخلافۃ عشرین سنۃ‘‘ (۳؍ ۱۲۳،۱۳۳)
خلافت کے اثبات کے لیے مزید دیکھیے:’’تقریب التہذیب ‘‘(ص:۵۳۷)، ’’الطبقات الکبریٰ‘‘ (۷؍۴۰۶)، ’’تہذیب التہذیب‘‘ (۱۰؍ ۲۰۷)، ’’تہذیب الکمال‘‘ (۲۸؍ ۱۷۹)، ’’ الإصابہ‘‘ (۳؍۴۳۳)، ’’الاستیعاب‘‘ (۳؍ ۳۹۸)، ’’تاریخ بغداد‘‘(۱؍ ۲۲۲،۲۲۴) اور’’ الکامل في التاریخ ‘‘ (۳؍ ۳۷۲،۳۷۴).
شیخ الاسلام ابن تیمیہ لکھتے ہیں: ’’وأما إسلام معاویۃ وولایتہ علی المسلمین والإمارۃ والخلافۃ، فأمر یعرفہ جماھیر الخلق‘‘.(مجموع الفتاوی،۴؍ ۲۴۷)
ابن تیمیہ کے اس آخری حوالے سے نہ صرف حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت ثابت ہو تی ہے بلکہ اس سے یہ بات بھی بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ ’’ ولایت ‘‘، ’’امارت‘‘اور’’ خلافت ‘‘میں کوئی منا فات نہیں ۔
آٹھویں صدی ہجری کے عظیم مؤرخ ابن خلدون (وفات :۸۰۸ھ)کے تجزیہ کا حاصل یہ ہے کہ ’’حق یہی ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ خلفاء کی جماعت میں شامل ہیں ،البتہ مؤرخین نے ان کا تذکرہ خلفائے سابقین کے تذکرے سے دو وجوہات کی بنا پرمؤخر رکھا :
ایک یہ کہ ان کی خلافت بطریق تغلب وجود میں آئی تھی، جب کہ سابقہ خلفاء کی خلافت اختیاری واجتماعی طریقے سے آئی تھی۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم نسب ہو نے کی وجہ سے خلفائے بنو امیہ کے ساتھ ان کا تذکرہ کیا گیا اور حضرت عثمان ر ضی اللہ عنہ کوخلفائے سابقہ کے ساتھ اس لیے رکھا گیا کہ و ہ فضیلت میں ان کے قریب تھے‘‘۔
ابن خلدون کے اس تاریخی ،تحقیقی اور مبنی بر اعتدال تجزیہ کے بعد’’ڈاکٹر صاحب ‘‘کی یہ شکایت بھی دور ہو جاتی ہے کہ ابن حزم نے اپنے رسالے میں تمام اموی حکمرانوں کا تذکرہ ’’ولا یت ‘‘ کے ساتھ کیا ہے اور ان سے سابقین کا تذکرہ ’’خلافت ‘‘ کے ساتھ۔
(جاری)
مکاتیب
ادارہ
(۱)
مشفقی ومکرمی جناب عمار ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مزاجِ گرامی بخیر!
مئی 2014ء کے شمارہ ’’الشریعہ‘‘ میں جناب عاصم بخشی کا مکتوب نظر سے گذرا جس میں غزالی اور ابنِ رشد کے حوالہ سے میرے مضمون (فروری، مارچ 2014ء) پر کچھ تعریضات پیش کی گئی ہیں۔ زیرِ نظر مکتوب کے اندر انہی تعریضات کے جواب میں کچھ توضیحات پیش کرنا مقصود ہیں۔
۱۔ مکتوب نگار کو اعتراض ہے کہ غزالی کا دفاع کرتے ہوئے میں نے اپنے مضمون میں ناقدینِ غزالی کے جس ’’فرضی حملہ‘‘ کے خلاف جوابی کار روائی کی ہے، اس حملہ کا کوئی حوالہ اور ماخذ نہیں بتایا اور نہ ہی اس حملہ کے کسی ذمہ دار کی نشان دہی کی ہے۔ اطلاعا عرض ہے کہ غزالی پر یہ ’’فرضی حملہ‘‘ آج روشن خیالوں کے ہر دوسرے جتھے کی طرف سے ہوتا ہے اور اس کا اعتراف خود مکتوب نگار نے بھی چند سطروں کے بعد کیا ہے۔ ویسے میرے مضمون کی ابتداء میں ڈاکٹر سلیمان دنیا کی عبارت بھی موجود ہے جو اس بات کی شہادت ہے کہ غزالی پر یہ حملہ عالمی اور غیر علاقائی نوعیت کا ہے اور بعض اوقات اس میں بڑے بڑے دانش ور بھی ملوث ہوتے ہیں۔ اب وہ خود ہی بتائیں کہ اس صورتِ حال میں اس ’’حملہ‘‘ کی فی الواقع موجودگی کو ثابت کرنے کے لئے آخر کسی ایک مخصوص مقالہ کا حوالہ دینے کی ضرورت ہی کیا ہے؟
۲۔ مکتوب نگار کی رائے میں غزالی پر مختلف الخیال حلقوں کی طرف سے مختلف نوعیت کی تنقیدات کی جاتی ہیں، ان میں سب سے غیر علمی اور سطحی تنقید وہی ہے جو ہمارے نام نہاد مسلم معقولیین اور متجددین کی طرف سے ہوتی ہے اور جس کے خلاف جوابی کارروائی کا بیڑا میں نے اٹھایا ہے۔ مذکورہ تنقیدی حملہ کو سطحی اور غیر علمی قرار دینا بالکل بجا، لیکن اگر اس طرح سے وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اس غیر علمی تنقید کا جواب دینا بھی ایک فضول اور زائد از ضرورت کا م ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ مکتوب نگار کی سادہ لوحی ہے۔ گم راہ کن غلط فہمیوں کو اگر صرف سطحی اور غیر علمی کہہ کر چھوڑ دیا جائے تو بعض اوقات وہ اتنی تناور ہوجاتی ہیں کہ ان کے خلاف بولنا بے اثر ہوجاتا ہے۔ غزالی کو پوری عقلی روایت کا مخالف گرداننا اور سائنس ومذہب کی ہم آہنگی کے خلاف سمجھنا ایک غلطی ہے اور یہ غلطی آج صرف غزالی کے نقد کاروں سے ہی نہیں، بلکہ غزالی کے بعض سادہ لوح مریدوں سے بھی اسی غلطی کا ارتکاب ہوتا ہے اور وہ بزعمِ خود اس ’’رویہ‘‘ کو غزالی کی خوبی سمجھتے ہیں۔ یعنی غزالی خود اپنی کتاب ’’تہافت‘‘ اور ’’المنقذ‘‘ میں جس رویہ کی باربار مذمت کرتے ہیں کہ ’’حکمت وفلسفہ‘‘ کی مطلق تنقید سے اسلام کو کوئی فائدہ پہنچنے والا نہیں، جس رویہ کو وہ ’’صدیق للاسلام جاہل‘‘ یعنی اسلام کے نادان دوست کا رویہ کہتے ہیں اور جس کے خلاف غزالی کے بعض مذمتی بیانات ہم اپنے مضمون میں نقل کرچکے ہیں، اسی رویہ کو غزالی کے ’’اپنے‘‘ اور مخالف، دونوں ہی غزالی کی طرف منسوب کرتے ہیں، اس کو ’’ثابت‘‘ کرنے کے لیے باقاعدہ مورچے لگاتے ہیں اور پھر داد کے منتظر ہوتے ہیں۔ ہمارے مکتوب نگار دوست کا خیال ہے کہ اپنوں اور غیروں کی اس سنگین علمی غلطی کو ابھی بھی صرف سطحی اور غیر علمی کہنے پر اکتفاء کیا جائے۔
۳۔ مسلم ’’حکیموں‘‘ اور فلسفیوں میں کچھ تو وہ تھے جنہوں نے خود کو غیر مابعد الطبیعیاتی علوم تک محدود رکھا، جبکہ کچھ نے ما بعد الطبیعیات (الہیات) میں بھی ٹانگ اڑائی اور یوں دین کے دائرہ میں دخل اندازی کی۔ یہ دخل اندازی کیوں ناروا تھی، اس موضوع پر کچھ گفتگو میں اپنے مضمون میں کرچکا ہوں۔ مکتوب نگار کا نکتہ اعتراض یہ ہے کہ’’مسلم ‘‘ حکماء کے مابین یہ خطِ تقسیم غیر حقیقی ہے۔ ’’مسلم‘‘ حکماء کا علمی منبع وماخذ یونانی علمیت تھی اور یونانی علمیت ایک اکائی کا نام تھاجس کا ایک لازمی جزو مابعدالطبیعیات بھی تھی۔ یونانی علمیت کا کوئی بھی قاری، متعلم اور ماہر اس کے کسی خاص جزو کو نظر سے گذارے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ یہ بہت مشکل تھا کہ یونانی علمیت کے تمام اجزاء اس کی نظر سے گذریں مگر اسی علمیت کا ایک لازمی جزو ’’مابعد الطبیعیات‘‘ اس کی نظر سے اوجھل رہ جائے۔ مکتوب نگار کی یہ ساری گفتگو اغلبا درست ہے اور میں نے ایسی کوئی بات سرے سے نہیں کی جس کے جواب میں وہ یہ سب کہنے کی ضرورت محسوس کررہے ہیں۔ بعض حکماء کے بارہ میں میرا یہ موقف اور حسنِ ظن کہ’’ انہوں نے خود کو غیر الہیاتی علوم تک محدود رکھا‘‘ اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ سرے سے یونانی الہیات ان کی نظر سے ہی نہیں گذری۔ اس کا م مفہوم اور مدعا فقط یہ تھا کہ انہوں نے اس مابعد الطبیعیات کے لئے تائید وحمایت کی کوئی پوزیشن اختیار نہیں کی اور اس معاملہ میں خود کو یونانی الہیات کا دفاعی فریق نہیں بننے دیا۔ یوں بھی دیکھا جائے تو فی نفسہ کفریات کا مطالعہ نہیں، بلکہ ان کی تائید وتصدیق اصل میں قابلِ اعتراض چیز ہے، ورنہ تو وہ بہت سے فلسفی بھی اس کی زد میں آجائیں گے جو در اصل یونانی الہیات کے ناقد ہیں مثلا خود غزالی اور ابوالبرکات بغدادی وغیرہ، کیونکہ یہ حضرات یونانی الہیات کا مطالعہ ہی نہیں، اس پہ عبور رکھتے تھے اور کم از کم ان لوگوں کو تو برے فلسفیوں کی کیٹیگری میں شامل کرنا ہمارا مدعا ہرگز نہیں تھا۔ اگر مضمون کے اندر میرے مدعا کے ابلاغ میں کوئی سقم رہ گیا تھا تو امید ہے کہ اب اس کا ازالہ ہوچکا ہوگا۔ میری پہلی قسط میں صفحہ ۱۶ کی ساری گفتگو کو اگر سیاق وسباق کے ساتھ پڑھ لیا جائے تو وہ ’’محدود رکھنے‘‘ کے اسی مفہوم کی متقاضی ہے اور اس میں مذکورہ حکماء کے ساتھ ہمارے حسنِ ظن کے قرائن بھی موجود ہیں جن سے مذکورہ بالا خط تقسیم کی موجودگی بھی ثابت ہوتی ہے۔
مکتوب نگار کی رائے میں، اِس راقم نے خود ہی سائنس اور فلسفہ کو گذشتہ تاریخ کے اعتبار سے مرتکز اور ہم معنی تک کہا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یونانی علمیت بشمول اپنی الہیات وغیر الہیات کے ’’مسلم‘‘ حکماء کے سامنے ایک ’’کل‘‘ اور اکائی کی حیثیت سے موجود تھی اور مسلم حکماء کی اس سے مشغولیت بھی ایک اکائی ہی کی حیثیت سے تھی۔ اطلاعا عرض ہے کہ فلسفہ اور سائنس کے جس ارتکاز اور وحدتِ اطلاق کی بات مکتوب نگار میری طرف منسوب کرکے ’’خطِ تقسیم‘‘ کو غیر حقیقی ثابت کرنا چاہتے ہیں، اس حوالہ سے میرے مضمون کا مواد بھی در حقیقت ’’خطِ تقسیم‘‘ کی نشان دہی کرتا ہے اور اس بات کا قرینہ ہے کہ ’’مسلم‘‘ حکماء و فلاسفہ میں دلچسپی کے دائرے مختلف رہے تھے، وہ بے شک ’’جامع العلوم‘‘ رہے ہوں گے مگر ضروری نہیں کہ الٰہیات میں نفیاً یا اثباتاً ان کی دلچسپی بھی یکساں رہی ہو۔ چنانچہ پہلی قسط میں صفحہ۱۶ کے درمیانی پیراگراف کو دوبارہ پڑھ لیجئے۔
۴۔ بشمول کچھ اور فلاسفہ وحکماء کے، میں نے محمد بن زکریا رازی، البیرونی اور عباس بن فرناس (اس کا نام مسلم بن فرناس لکھنا شاید میری غلطی تھی) وغیرہ کے بارہ میں یہ لکھا تھا کہ ’’ہمارے علم کے مطابق‘‘ انہوں نے خود کو غیر مابعد الطبیعیاتی علوم تک محدود رکھا۔ اب ان میں سے کسی کے بارہ میں اگر یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ فی الواقع خالصتا غیر الہیاتی ’’حکیم‘‘ نہیں تھا تو اس میں کوئی حرج نہیں، ہمیں بھی ہر ایک کو بہ ہر صورت یہ ثابت کرنے پر اصرار نہیں اور اسی وجہ سے ہی ہم نے ڈھیلے ڈھالے انداز میں ’’ہمارے علم کے مطابق‘‘ کی شرط کا اضافہ مضمون کے متن میں ہی کردیا تھا۔ثابت تو صرف یہ کرنا مقصود تھا کہ کچھ حکماء بہر حال ایسے بھی تھے کہ جنہوں نے خود کو غیر الہیاتی علوم تک محدود رکھا اور اس کے قرائن بھی موجود ہیں۔ باقی دی گئی مثالوں میں سے اگر کوئی مثال اس صورت کے مطابق نہیں ہے تو اس سے ہمارے اساسی موقف پر بہرحال کوئی زد نہیں پڑتی۔ رازی اور عباس بن فرناس کے بارہ میں مکتوب نگار کی دی گئی معلومات درست ہوسکتی ہیں کہ انہوں نے خود کو غیر الہیاتی علوم تک محدود نہیں رکھا، مگر البیرونی کے بارہ میں ان کا یہ کہنا کہ وہ ’’ہندویات‘‘ کا ماہر تھا، کیا معنی رکھتا ہے؟وہ ہندویات کا ماہر تو تھا، لیکن کیا ہندی کفریات کی کوئی تصدیق وتائید یا اس ضمن میں کوئی قابلِ اعتراض بیان بھی اس سے منقول ہے؟ اگر نہیں تو پھر اس کا شمار انہی ’’حکماء‘‘ میں ہونا چاہئے جنہوں نے خود کو الہیات میں کوئی نئی اور متنازعہ’’ ایجاد‘‘ پیش کرنے سے محفوظ رکھا اور جنہیں کبھی بھی مسلم معاشرہ میں کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ مکتوب نگار کو یہاں پر ایک بار پھر ’’محدود رکھنے‘‘ کا معنی سمجھنے میں مغالطہ ہوا ہے۔
۵۔ مکتوب نگار کی رائے میں اگر ہم غیر متعصب ہوکر دیکھیں تو دیکھیں گے کہ بوعلی سینا وغیرہ مسلم فلاسفہ‘ افلاطونی روایت کے غضب ناک حملہ کے خلاف مسلسل بر سرِ پیکار ہیں جس کی بہرحال تحسین ہونی چاہئے۔ مکتوب نگار کو چاہئے کہ وہ خود ان کی اس جدوجہد پر ذرا تفصیلی کلام کریں اور یہ بھی بتادیں کہ اگر کسی ملحد میں صدقہ وسخاوت جیسی کچھ اچھی صفات پائی جاتی ہوں تو کیا ان کی وجہ سے اس کے الحاد وبے دینی سے چشم پوشی کرلینی چاہئے؟
۶۔ میں نے لکھا تھا کہ ایک مسلمان کے فلسفیانہ غور وفکر کو شرعی حدود وقواعد کا پابند ہونا چاہئے۔ مکتوب نگار کو اعتراض ہے کہ ’’قرآن میں باقاعدہ تلقین کی گئی ہے کہ حق وسچ کو تلاش کرنے لئے انفس وآفاق میں غور کیا جائے، لہذا فلسفیانہ غور وفکر کو نام نہاد شرعی حدود کا پابند بنانے کا کوئی جواز نہیں ہے اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ متجسس دماغ اس کو قبول کرلیں، الا یہ کہ ماضی کے کلیسائی جبر کی تاریخ دہرائی جائے۔‘‘ اطلاعا عرض ہے کہ فلسفیانہ غور وفکر میں حتمیت وقطعیت کوئی چیز نہیں ہوتی جس کا اعتراف خود مکتوب نگار بھی کریں گے اور یونانیوں و’’اسلامیوں‘‘ کا علمِ الہیات تمام کا تمام ظن وتخمین پر ہی مبنی ہے۔ اس میں ان مسائل کو قطعی عقائد کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے جن کی کوئی قطعی دلیل قطعا موجود نہیں ہے۔ جن چیزوں کا حتمی علم نہ ہو، ان کے بارہ میں فلسفیانہ غور وفکر جاری رکھنا اور پھر بالآخر محض ظن وتخمین کی بنیاد پر کوئی رائے بھی قائم کرلینا کیسا ہے اور قرآنی تعلیم اس کے بارہ میں کیا ہے؟ سنئے: ’’ولا تقف مالیس لک بہ علم، ان السمع والبصر والفواد کل اولئک کان عنہ مسؤلا‘‘ یعنی ’’جن چیزوں کا کوئی حتمی علم تمہیں نہیں ہے ان کے پیچھے مت پڑو اور نہ ان کی پیروری کرو، کیونکہ دید، شنید اور دھڑکتا دل، ان سب کو اپنی اپنی طرف سے جواب دہ ہونا ہے۔‘‘ (الاسراء:۳۶) یعنی اسی جواب دہی کا احساس کرتے ہوئے مشتبہ امور میں بے مقصد اور بے نتیجہ غور وفکر کرکے اپنی توانائیاں ضائع نہ کرو، خصوصا جبکہ معاملہ مقدس الہیاتی شعائر کا ہو تو غیبی حقائق کے بارہ میں اٹکل پچو لگانا ان مقدس شعائر کی بے حرمتی اور حق تلفی کا سبب بن کر ایمان کے لئے بھی خطر ناک ہوسکتا ہے۔ مشرکینِ مکہ کا ملائکہ کو مؤنث سمجھناظن وتخمین پر مبنی اسی فلسفیانہ غور وفکر کا ہی نتیجہ تھا اور اسی پہ اللہ نے فرمایا تھا کہ کیا تم فرشتوں کی تخلیق کے وقت سامنے موجود تھے؟ یونانیوں کی الہیات بھی تمام کی تمام ظنی وفرضی چیزوں پر مبنی ہے، معدودے چند باتوں کے علاوہ کسی بھی چیز کی کوئی قطعی وحتمی دلیل موجود نہیں ہے۔ غزالی کی تہافت کا ایک بڑا حصہ محض یہی ثابت کرنے کے لئے ہے جس کی تفصیلی نشان دہی ہم اپنے مضمون میں کرچکے ہیں۔ اسلام کا خدا فلسفیوں کے خدا کی طرح کوئی سائنسی فارمولا ٹائپ کی چیز نہیں ہے جس کاکوئی وقار اور احترام نہ ہو۔ یہاں تو ہر اس چیز کا بھی احترام ہے جو خدا کی طرف سچائی کے ساتھ منسوب ہوجائے۔ اسلامی عقائد اور غیبی تصورات جہاں تک ثابت ہیں، وہ سب کے سب عقلا بلکہ بداہۃ ثابت ہیں اور کسی بھی انسانی رشتہ سے زیادہ ان کا تقدس اور احترام واجب ہے۔ کیا کوئی بھی معقول انسان اپنے محترم اور عزیز رشتوں کو ظن وتخمین پر مبنی فلسفیانہ غور وفکر کا میدان بنانا پسند کرسکتا ہے؟ اگر نہیں تو قطعیت کے ساتھ ثابت ان اسلامی عقائد کو فلسفیانہ غور وفکر کا شوق پورا کرنے کے لئے تختہء مشق بنانا اور بنا کسی معقول دلیل کے ان کے بارہ میں رائے قائم کرلینا بھی قابلِ مذمت ہے اور مذکورہ بالا آیت کی رو سے اس پہ سخت جواب دہی کا اندیشہ ہے۔
قرآن میں انفس وآفاق اور کائنات کے اندر جو غور وفکر کرنے کی تلقین کی گئی ہے، اس کے حاصلِ معنی پر ہم اپنے مضمون ’’تدبرِ کائنات کے قرآنی فضائل‘‘ (الشریعہ۔ جون 2014ء) میں تفصیلی کلام کرچکے ہیں۔ اس سے نہ تو الہیاتی امور میں ہونے والا ظن وتخمین پر مبنی فلسفیانہ غور وفکر مراد ہے اور نہ ہی طبیعیاتی امور کے اندر ہونے والا سائنسی وتجرباتی غور وفکر۔ ہاں ، البتہ وہ روحانی اور الہیاتی غور وفکر ضرور مراد ہے کہ جس کی طرف خود کائنات بھی پورے زور وشور کے ساتھ انسان کو دعوتِ التفات دے رہی ہے،جس سے انسان میں خالقِ کائنات کی عظمت، قوت ، قدرت، بادشاہت، رحمت، حکمت، علمی وسعت اور لامحدود بڑائی کے تصورات راسخ ہوں، جس غور وفکر کے نتائج بالکل قطعی وعام فہم ہیں اور ان میں کوئی فلسفیانہ جھول یا اشتباہ نہیں پایا جاتا جیسے وجودِ باری تعالی، توحیداور خالق کی تقدس آمیز صفات (قدیر، عظیم، علیم، کریم وغیرہ) اور جس غور وفکر کے نتیجہ میں ہی اسلامی الہیاتی تصورات کا اتنا تقدس طے پایا ہے کہ ان کے بارہ میں اٹکل پچو لگانا، بغیر یقین کے لب کشائی کرنا اور فلسفیانہ غور وفکر کا میدان بنانا ان کی بے حرمتی قرار پاتا ہے۔
فلسفیانہ غوروفکر ایک مشغلہ ہے اور یہ مشغلہ کسی حد تک مباح بھی ہوسکتا ہے، بشرطیکہ اپنی جائز حدود تک محدود رہے۔ الہیات کے تقدس کے پیشِ نظر اس میں ایسی کوئی رائے قابلِ قبول تو کجا ، قابلِ برداشت بھی نہیں ہے جو ظنی وتخمینی اندازوں پر مبنی ہو، صرف وہی آراء یہاں قابلِ قبول اور معتبر ہیں جو عقلا پوری قطعیت کے ساتھ ثابت ہوں یا پھر وحی کے قطعی ذریعہ سے ماخوذ ہوں، باقی جتنے مشتبہ احتمالات ہیں، ان کے بارہ میں کچھ کہنے اور سوچنے سے اپنے آپ کو دور رکھنا ہی عافیت کا راستہ ہے اور کم از کم مقدس الہیاتی شعائر کے بارہ میں ایمان کے لئے خطرناک اور خدا کی ناراضگی کا باعث بننے والے ایسے رویہ کا تحمل کوئی مسلمان تو بالکل نہیں کرسکتا۔ مثلا وقت اور ’’زمان‘‘ کے ’’قِدم وحدوث‘‘ کی بحث کو لے لیجئے جو مکتوب نگار نے بلاوجہ چھیڑی ہے اور پھر خود اظہار کیا ہے کہ اس بحث کا کوئی تسلی بخش ، حتمی اور قطعی فلسفیانہ جواب ممکن نہیں ہے۔ یہ بحث مذکورہ آیت کی رو سے قابلِ مذمت ہے۔ اپنے ایمان کے لئے اتنی سی بات کافی ہے کہ ’’اللہ خالق کل شیء‘‘ یعنی ’’اللہ ہر چیز کا خالق ہے۔ (الانعام: ۱۰۲) اس کی تفصیل میں جاکر ہم ان بہت سی چیزوں کا نام بھی لے سکتے ہیں جو عام فہم ہیں، جن کا تصور کرنے کے لئے کوئی فلسفیانہ پیچ وتاب کھانے کی ضرورت نہیں ہے اور جن کا ذکر خود خدا نے انسان کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے کیا ہے، مثلا سورج وچاند، زمین وآسمان، ستارے اور سیارے، پہاڑ ودریا، بادل وبارش، گرمی وسردی، صحت وبیماری، جن وانسان، چرند پرند، شجر وحجر، دن ورات، ہفتے ومہینے اور دوسری بہت سی چیزیں۔ باقی رہیں ’’زمان‘‘ جیسی پیچیدہ تصوراتی اور خیالی چیزیں جن کے بارہ میں پہلے دن سے طے ہے کہ ان پر جتنی بھی بحث کرلی جائے وہ بے نتیجہ رہے گی، ان کا کوئی قطعی حل انسانی فہم وادراک کے پاس نہیں ہے (الا یہ کہ تانیثِ ملائکہ کی طرح کا کوئی ’’حل‘‘ فرض کرلیا جائے)، بلکہ محض ان جیسی چیزوں کا تصور کرنے کے لئے ہی انسانی عقل کا پہلے مصنوعی وغیر فطری تفکرات کا عادی ہونا ضروری ہے تو جب ایسی چیزوں کا تعلق مقدس دینیاتی امور سے بھی ہوتو ایسی چیزوں کے بارہ میں نہ سوچنا اور ان کے پیچھے نہ پڑنا ہی سلامتی کا راستہ ہے۔خود ساختہ ’’نتیجہ‘‘ اخذ کرنے میں اگر کوئی اونچ نیچ ہوگئی یا بارگاہِ الوہیت کے آداب کی کوئی حق تلفی ہوگئی تو اپنی نجات ہی خطرے میں پڑ جائے گی، کسی دوسرے کا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ جبکہ دماغی بوکاٹوں کے وقتی تلذذ کے لئے اپنی ابدی نجات کو خطرے میں ڈالنا سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ بہ الفاظِ اقبال:
خرد ہوئی ہے زمان ومکاں کی زناری
نہ ہے زماں نہ مکاں، لاالہ الا اللہ
رہا معاملہ متجسس دماغوں کا اور ماضی کے کلیسائی جبر کا تو گذارش یہ ہے کہ شرعی نقطہ نظر متجسس دماغوں کی پسندیدگی کو دیکھ کر طے نہیں کیا جاتا، البتہ سائنسی تدبر کے خلاف کلیساکے جبر کو ہم بھی قابلِ مذمت سمجھتے ہیں، لیکن مابعد الطبیعیاتی شعائر کے بارہ میں فلسفیانہ تخمینہ بازی پر عائد کی گئیں مدلل اور بامقصد شرعی قدغنوں کو ماضی کے کلیسائی جبر کے ساتھ جوڑنا ناقابلِ فہم اور افسوس ناک ہے۔ہمارے مسلم اہلِ علم مثلا غزالی وغیرہ تقریبا ایک ہزال سال پہلے ہی یہ وضاحتیں کرچکے ہیں کہ (جس طرح کی چیزوں میں کلیسا نے جبر کا مظاہرہ کیا تھا) ایسی چیزوں میں فلسفیوں کے ساتھ مناظرہ کرنا ہی نامعقول اور خود دین کے مقدمہ کو کم زور کرنے کے مترادف ہے۔ میری دوسری قسط کے آخری پیراگراف کو ذرا توجہ سے پڑھ لیجئے۔
۷۔ مکتوب نگار نے سائنس کی تعریف کا سوال بھی اٹھایا ہے تو ہمارے نزدیک سائنس نام ہے مادی کائنات پر غیر روحانی وغیر الہیاتی تدبر کرنے اور اس سے نتائج اخذ کرنے کا۔ اب اگر مابعد الطبیعیاتی سوالات سائنس کا جزو سمجھے جاتے ہیں تو ٹھیک ہے، ہمیں اس پہ کوئی اعتراض نہیں، مگر جو اعتراض پہلے فلسفہ پر ہوتا تھا، اب وہی سائنس پر ہوگا کیونکہ اصل اعتراض اس سرگرمی پر ہے جو الہیاتی تقدسات کے خلاف ہے، خواہ وہ فلسفہ کہلائے یا سائنس۔ الہیات میں صرف قطعی اور حتمی بات قابلِ قبول ہے، اگر فلسفہ یا سائنس کوئی قطعی اور نیا ’’انکشاف‘‘ کرتے ہیں جو واقعتا قطعی ہو اور نیا بھی تو اسلام کو اس پہ کیا اعتراض ہوسکتا ہے، مگر عملا کوئی انکشاف ایسا ہوگا نہیں۔ فلسفہ کہیں، سائنس کہیں، دماغی کاوش کہیں،عقلی روایت کہیں یا کچھ اور، اسلام کے ساتھ ان کی ہم آہنگی کی یہی ایک صورت ہے کہ یہ قطعیت کے ساتھ ثابت اسلامی شعائر کا احترام ملحوظ رکھیں اور ان پہ غیر یقینی مشتبہات کی نشانہ بازی سے باز رہیں، یہی ہم آہنگی منصفانہ ہے، مطلوب بھی اور اس کے اثبات ہم نے غزالی کے حق میں کیا تھا۔
۸۔ مکتوب نگار نے غزالی اور ابنِ رشد کے جن چند ضمنی اختلافات کی طرف اشارہ کیا ہے، وہ ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ غزالی کا اصل مقدمہ جیسا کہ ہم مضمون میں عرض کرچکے ہیں، فارابی، بوعلی سینا اور ان کے پیروکاروں کے خلاف تھا۔ اس کے مقابلہ میں ابنِ رشد کا جواب اب اسی صورت میں جواب کہلانے کا مستحق ہوتا کہ وہ فارابی اور بوعلی سینا کی طرف سے کوئی تسلی بخش قسم کی صفائی دیتے، لیکن ہم عرض کرچکے ہیں کہ وہ اس حوالہ سے بالکل ناکام رہے ہیں۔ پس چند ضمنی اور لفظی اختلافات کو نمایاں کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟
میرا اندازہ ہے کہ مکتوب نگار نے میرے مضمون سے متعلق جو قابلِ ذکر اور دریافت طلب نکات اٹھائے تھے، ان کی مناسب وضاحت ہوچکی ہے۔
والسلام
محمد عبداللہ شارق
mabdullah_87@hotmail.com
(۲)
برادرم جناب محمد مشتاق احمد صاحب
اسسٹنٹ پروفیسر قانون بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مجھے آج (2جون 2014ء) کو ایک ای میل کے ذریعے ماہنامہ الشریعہ کے جون 2014ء کے شمارے میں صوبہ خیبر پختونخوا اسمبلی سے حال ہی میں صوبے میں نجی قرضوں پر سود کی روک تھام کے حوالے سے منظور کردہ بل پر آپ کا مضمون پڑھنے کا موقع ملا ہے۔ آپ نے اس مضمون کا عنوان رکھا ہے ( خیبر پختونخوا میں سود کی ترویج کی ایک مذموم کوشش) اور اس میں ایک مقام پر آپ نے لکھا ہے کہ اس مسودہ قانون پر جناب سراج الحق صاحب کے دستخط بحیثیت منسٹر انچارج کے ثبت ہیں جو انہوں نے 14 اپریل 2014ء کو کیے ہیں یعنی جماعت اسلامی کے امیر کا حلف اٹھانے کے بعد پہلے ہفتے میں۔ میں اس حوالے چند معروضات آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔
1۔ مضمون کے ابتدائیہ میں آپ نے سود کی ممانعت، حرمت اور شناعت کے حوالے سے جو تحریر کیا ہے، اس سے مجھ سمیت جماعت اسلامی پاکستان کے ہر کارکن اور ہر مسلمان کو اتفاق ہے اور اسکی وجہ یہ ہے کہ ربا اور سود کا حرام قطعی ہونا قرآن وسنت کی واضح نصوص سے ثابت ہے اور اس کی حرمت پر دور نبوی سے لے کر آج تک فقہاء دین اور ائمہ مجتہدین کا اجماع موجود ہے۔ قرآن کریم میں سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 275 ربا کے حرام قطعی ہونے کی صریح دلیل ہے اور اس آیت میں ہر قسم کے سود کو حرام قرار دیا گیا ہے۔(خواہ وہ سود مفرد ہو یا سود مرکب)۔ اسی طرح سود سے متعلق قرآنی آیات کی تشریح و توضیح اور قباحت میں احادیث کا ایک بڑا ذخیرہ بھی موجود ہے۔
ان مختصر جملوں کو تحریر کرنے سے آپ جیسے صاحب علم کے سامنے سود کی حرمت پر دلائل دینا مقصود نہیں ہے بلکہ غرض صرف اور صرف یہ ہے کہ سود کی ممناعت اور حرمت پر ان واضح نصوص شرعیہ کی موجودگی میں ایک ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان بھی کس طرح اس کی حرمت سے انکار کرسکتا ہے؟ یا دیدہ ودانستہ اور جان بوجھ کر سود کو جاری رکھنے کی مذموم کوشش کرسکتا ہے؟
2۔ اس موجودہ بل پر اپنا موقف دینے سے پہلے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اس بل کو پیش کرنے کے اس بنیادی سبب کا اعادہ کروں جس کا ذکر آپ نے بھی اپنے مضمون میں واضح طور پر کیا ہے اور وہ یہ کہ سابق چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جناب دوست محمد صاحب کے ریمارکس مختلف اخبارات میں چھپے تھے جن سے معلوم ہوتا تھا کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں نجی سود کے امتناع کے حوالے سے کسی قانونی خلاء کی وجہ سے ایسے سود خوروں کو عملاً سزا نہیں دی جاسکتی جنہوں نے معاشرے میں لوگوں کی مشکلات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ظلم وبربریت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ 2012ء میں ایک ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران معزز سابق چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کے ریمارکس اور اظہار ناراضگی کا بھی آپ نے اپنے مضمون میں ذکر فرمایا ہے۔ میں نے آپ سے اسلام آباد کے سیمینار میں ملاقات سے قبل ایک تحریر (ریکارڈ میں موجود) کے ذریعے موجودہ سینئر وزیر(وزیر خزانہ) اور اس وقت جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر محترم جناب سراج الحق صاحب کی توجہ اس حوالے سے ضروری قانون سازی کے علاوہ کئی دیگر امور کی طرف بھی دلائی تھی جس پر انہوں نے ایک کمیٹی بھی تشکیل دے دی تھی۔ اس کمیٹی میں دیگر ماہرین کے علاوہ مجھ جیسے طالب علم کا نام بھی شامل تھا لیکن میں بیرون ملک سفر کی وجہ سے شرکت نہ کرسکا۔
3۔ آپ نے لکھا ہے کہ اس موضوع پر توآپ کے والد محترم جناب اکرام اللہ شاہد صاحب کی طرف سے پیش کردہ بل جولائی 2007ء میں اس وقت کی صوبائی اسمبلی سے پہلے ہی منظور ہوچکا تھا اور حیرت کا اظہار کیا ہے کہ اسکا علم اس وقت کے سینئروزیر محترم سراج الحق صاحب اور مجھے کیوں نہیں تھا جبکہ میں اس وقت ممبر قومی اسمبلی اور ایم ایم اے حکومت کی تشکیل کردہ نفاذ شریعت کونسل کا رکن بھی تھا۔ اپنے بارے میں آپکے تحریر کردہ تعریفی جملوں کو میں آپ کے حسن ظن سے تعبیر کرتا ہوں، ورنہ من آنم کہ من دانم کے مصداق میں اپنے آپکو اچھی طرح جانتا ہوں۔ بہر حال میں آپ کے اس حسن ظن کے لیے آپ کا مشکور ہوں اور آپ کے بارے میں یہ رائے رکھتا ہوں( جس کا میں کئی مرتبہ دوستوں کی مجالس میں اظہار بھی کرچکا ہوں) کہ اللہ تعالی نے آپ کو علمی دانش وبصیرت سے نوازا ہے۔ نومبر 2013 کو اسلام آباد کے سیمینار میں میرے سابق کلاس فیلو اور اس پروگرام کے میزبان جناب ڈاکٹر ضیاء اللہ رحمانی صاحب کو میں نے بتا دیا تھا کہ اپنے موضوع پر مدلل، مربوط اور علمی مقالہ برادرم محمد مشتاق احمد نے پیش کیا ہے۔
جہاں تک شریعت کونسل کے ممبر ہونے کی حیثیت سے مجھے آپ کے والد محترم اور ہمارے مشفق بزرگ محترم اکرام اللہ شاہد صاحب کے پیش کردہ بل کا علم کیوں نہ ہوسکا تو اس حوالے سے میں عرض کروں کہ آپ کے والد محترم کے بل کا مسودہ شریعت کونسل میں برائے غور وخوض آیا ہی نہیں تھا۔ اس لیے اس پر رائے دینے یا اسکا علم ہونے کی بات تو یہیں پر ختم ہوجاتی ہے۔ جماعت اسلامی کی طرف سے اس وقت میرے علاوہ محترم پروفیسر محمد ابراہیم خان صاحب اور جناب ارباب عثمان صاحب ایڈوکیٹ بھی اس کونسل کے اراکین تھے اور ان سے اس بات کی تصدیق کرائی جاسکتی ہے۔
آپ کے والد محترم اس وقت حکمران جماعت ایم ایم اے کی پارلیمانی پارٹی کے ایسے رکن تھے جن کو صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی حیثیت سے ایک اہم اور باعزت منصب سے بھی نوازا گیا تھا۔ اس لیے مناسب تو یہی ہوتا کہ ایک سرکاری ممبر کی حیثیت سے باہمی مشاورت سے یہ بل اسمبلی میں آتا، لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر آپ کے جہاندیدہ اور پارلیمانی روایات سے اچھی طرح باخبر والد محترم نے ایسا نہیں کیا تو ان کے پاس اس کی معقول وجہ بھی ہوگی۔ میں ذاتی طور پر ان کی طرف سے اس اہم موضوع پر قانون سازی کی کاوش کو نہایت تحسین کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اس دینی کاوش پر اجر عظیم سے نوازے،آمین۔
4۔ آپ نے یہ بھی لکھا ہے کہ آپکے والد محترم کے پیش کردہ اس بل کو ایم ایم اے حکومت میں دو سال تک لٹکائے رکھا گیا تو اگر واقعی کسی فنی، انتظامی یا کسی دیگر معقول وجہ کے بغیر ایسا ہوا ہے تو میں اس کی مذمت کرتا ہوں اور یہ یقیناً اچھا نہیں ہوا ہے۔ لیکن اگر اس کو بالآخر اسی اسمبلی سے متفقہ طور پر پاس بھی کرایا گیا ہے تو دیر آید درست آید کے مصداق یہ بھی ایک قابل تحسین کام ہوا ہے۔
5۔ جہاں تک پھر بھی محترم سراج الحق صاحب اور ہماری طرف سے اس بل کے بارے میں ہماری لاعلمی کو ہماری ایک کمزوری کے طور پر بتاکر حیرت کا اظہار کیا گیا ہے تو آپکو معلوم ہے کہ جب کسی اسمبلی سے کوئی بھی قانون بنتا ہے تو اسکو فوری طور پرقانون کی سرکاری کتاب یا دستاویز کا حصہ بنایا جاتا ہے اور جج حضرات سمیت وکلاء بھی ان قوانین سے اپنے آپکو باخبر رکھتے ہیں کیونکہ انہی قوانین سے تو انکو تقریبا روزانہ واسطہ پڑتا ہے۔ جبکہ آپکے والد محترم چونکہ خود ایک سیاست دان ہیں، اسلئے آپ یہ بھی یقیناًجانتے ہونگے کہ سیاست سے وابستہ ایسے لوگوں کا زیادہ وقت مختلف النوع مصروفیات اور خدمات کے حوالے سے عوامی میدان میں گزرتا ہے۔یہ پھر بھی اپنے آپکو باخبر نہ رکھنے کے لیے یہ کوئی Excuse اور معقول وجہ نہیں ہونی چاہیے، لیکن اگر واقعی ایسا ہے کہ امتناع سود کے حوالے سے واقعتا ایک مکمل اور قابل عمل قانون سازی موجود تھی اور اسکا ہمیں علم نہیں تھا تو مشتاق بھائی، از راہ تفنن عرض کردوں کہ سابق چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ سمیت صوبے کے ان دیگر جج اور وکلاء صاحبان کو اگر اسطرح کی قابل عمل قانون سازی کا علم نہ ہوسکا جو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں اور قانونی پس منظر کی وجہ سے ہمہ وقت قانون کی تعبیر وتشریح اور مطالعے میں مصروف رہتے ہیں تو ہم جیسے کمزور انسانوں کی لاعلمی زیادہ اچنبھے کی بات نہیں ہونی چایے اور اس بنا پر ہم امید رکھتے ہیں کہ ہماری اس کمزوری اور غلطی پر ہمیں معافی مل جائے گی۔
6۔ لیکن امر واقعہ ایسا نہیں ہے بلکہ سابق چیف جسٹس ہائی کورٹ کو بھی اس قانون کی موجودگی کا علم تھا جسکا حوالہ آپ نے دیا ہے اور سینئر وزیر صوبہ محترم سراج الحق صاحب کی قائم کردہ اس کمیٹی کو بھی علم تھا جس نے اس نئے بل کے مسودے پر اپنے اجلاس میں غور کیا تھا۔ اس اجلاس کے ریکارڈڈ منٹس کے علاوہ پشاور سے کمیٹی کے رکن پروفیسر سید محمد عباس صاحب سے بھی اس بات کی تصدیق کرائی جاسکتی ہے کہ بل کی منظوری سے قبل کمیٹی کے علم تھا کہ اس موضوع پر ایک قانون پہلے سے موجود ہے لیکن بقول سابق چیف جسٹس ہائی کورٹ کے اس میں موجودنقص کی وجہ سے اس قانون کے مطابق مجرموں کو سزا نہیں دلائی جاسکتی۔ آپ نے لکھا ہے کہ( عدالت عالیہ کے متعلقہ آرڈر شیٹ نکال لینے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ اس قانون کو مزید موثر بنانا چاہتے تھے اور اسی مقصد کے لیے انہوں نے حکومت کو احکامات جاری کیے تھے) سوال یہ ہے کہ سابق چیف جسٹس صاحب کے ریمارکس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس قسم کے سودی کاروبار والوں کو سزا دلوانا چاہتے تھے لہٰذا اگر مذکورہ قانون زیادہ موثر نہیں تھا تو تھوڑا موثر تو ضرور ہوگا لیکن ہم نے کسی ایسے مجرم کو اس قانون کے تحت تھوڑی سزا پاتے بھی نہیں دیکھا۔ اس لیے اس قانونی خلا کو پر کرنے یا آپ کے بقول اس قانون کو زیادہ موثر بنانے کے لیے نئی قانون سازی یہ کا اقدام کیا گیا۔
7۔ اب آیئے اس اہم نکتے کی طرف کہ اس بل میں تو ایک لحاظ سے سود کو جواز دینے کا تاثر پایا جاتا ہے تو میں بلاتامل اس بات سے متفق ہوں اور یہی تاثر میں نے بھی لیا ہے لیکن یہ تاثر میں نے آپ کا مضمون پڑھنے سے پہلے اس وقت لیا تھا جب میں نے 13 مئی 2014ء کے اخبارت میں اس بل کی منظوری سے متعلق پڑھا۔میرے پاس منظور شدہ بل کی نقل تو نہیں تھی لیکن بل سے متعلق اخبار میں موجود ایک جملے کو اسی وقت میں نے نوٹ کرکے 15 مئی 2014ء کو محترم سراج الحق صاحب کی خدمت میں ایک خط لکھ کر ای میل کیا اور اسکی کاپی جماعت اسلامی صوبہ خیبر پختونخوا کے امیر محترم پروفیسرمحمد ابراہیم خان صاحب کے ذاتی ای میل پر بھیج دی۔ (محترم سراج الحق صاحب کو ارسال کردہ خط کی نقل اس تحریر کے ساتھ منسلک ہے)۔ اخبارکے مطابق وہ جملہ جس سے میں نے یہ تاثر لیا کہ اس سے سود کو جواز فراہم ہورہا ہے، یوں ہے :’’نجی قرضوں پر سود کی روک تھام کے بل کے مطابق نجی سطح پر قرضوں کی فراہمی بینکوں کی جانب سے قرضوں کی فراہمی پر مقرر کردہ شرح منافع سے زائد پر نہیں دیے جاسکیں گے۔‘‘
اس پر صوبائی وزیر خزانہ محترم سراج الحق صاحب کی خدمت میں تحریر کردہ خط میں عرض کیا تھا کہ ’’ لیکن اس بل میں اس نکتے سے مجھے پریشانی اور تشویش بھی پیدا ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے (یہاں اوپر والا جملہ نقل کیا گیا ہے)۔ ظاہر ہے کہ قرض پر جو منافع لیا جائے تو وہی تو سود ہے اور عملاً پاکستان کے بینکوں میں یہی کچھ ہورہا ہے۔ بل کے مذکورہ جملے سے گویا ہم خود سود کو جواز فراہم کر رہے ہیں۔‘‘ اور پھر میں نے اصلاح کی تجویز دی ہے جو آپ ملحقہ خط میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔
اگر ہماری تربیت متعصبانہ ماحول میں ہوتی اور ہم جماعتی تعصب کا شکار ہوتے تو ہم اس غلطی کے لیے تاویلیں پیش کرکے اس کا دفاع کرتے لیکن الحمدللہ ہم پہلے مسلمان ہیں اور بعد میں جماعت اسلامی میں اس لیے شامل ہیں کہ یہ ہمیں منہج رسول کے مطابق اقامت دین کے لیے مخلصانہ جدوجہد کرنے والی جماعت نظر آرہی ہے۔
8۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر واقعی جماعت اسلامی اقامت دین کے لیے کام کرنے والی جماعت ہے تو اس بل میں موجود اس غلطی کی وجہ کیا ہے؟ تو میں بالکل شرح صدر اور پورے اعتماد کے ساتھ یہ سمجھتا ہوں کہ اسکی وجہ یہ قطعا نہیں ہے کہ خدا نخواستہ جماعت اسلامی سودی نظام کو جائز سمجھتے ہوئے اسکو جاری رکھنے کے لیے ارادتاً کوشش کر رہی ہے۔ آپکو معلوم ہے کہ میرے والد مرحوم شیخ القرآن حضرت مولانا گوہررحمن رحمہ اللہ کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا لیکن نہوں نے 1991 میں وفاقی شرعی عدالت میں عملاً پیش ہوکر سودی نطام کے خاتمے اور حرمت سود پر مدلل اور جامع بیانات ریکارڈ کرائے تھے جس کی روشنی میں وفاقی شرعی عدالت نے 14 نومبر 1991ء کو متفقہ فیصلہ سنا دیا تھا کہ بینکوں کا سود وہی ربا ہے جسے قرآن نے حرام قرار دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ نے بھی 23 دسمبر 1999ء کو اس فیصلے کی توثیق کردی تھی اور حکم دیا تھا کہ جون 2001ء تک سودی معیشت کا مکمل خاتمہ کردیا جائے۔ لیکن عملاً کیا ہوا؟ اس کی پوری تفصیل آپ کو معلوم ہے جس کے اعادے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس وقت پھر اسی حوالے سے ایک پیٹیشن وفاقی شرعی عدالت میں زیر سماعت ہے جس میں جماعت اسلامی کے دیگر افراد کے علاوہ میرا نام بھی عدالت کے سامنے پیش ہونے والے افراد کی فہرست میں شامل ہے۔ لہٰذا یہ تو ایک کھلے تضاد کی کیفیت ہے کہ ایک طرف تو جماعت اسلامی سودی نظام کے خاتمے کی کوشش کررہی ہے اور دوسری طرف صوبہ خیبر پختونخوا کی اپنی وزارت میں سودی نظام کے تحفظ کی دانستہ کوشش کر رہی ہے۔
میرے نزدیک اسکی واحد وجہ بے توجہی ہے کہ متعلقہ ذمہ داران اور ارکان اسمبلی نے اسکا پورے انہماک اور توجہ سے مطالعہ نہیں کیا اور محض امتناع سود کا عنوان دیکھ کر اس کو ووٹ دیا۔ میرا یہ بھی اندازہ ہے کہ ہماری بیوروکریسی ابھی تک اسلامی نظام کے عملی نفاذ اور سودی نظام کے خاتمے کے لیے تیا رنہیں ہے اس لیے یہ بعید نہیں ہے کہ ڈرافٹنگ کے دوران متعلقہ بیوروکریسی نے اسکی یہ شکل بنادی ہو۔اس نکتے سے میں صوبائی حکومت اور متعلقہ ذمہ داران کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش نہیں کر رہا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ قانون سازی جیسے اہم معاملے میں بے توجہی بھی کوئی معمولی غلطی نہیں ہے لیکن عدم توجہ کی وجہ سے ایک کام کے ہوجانے اور عقیدہ وفکر کی بنیاد پر دانستہ طور پر ایک عمل کے اصدار میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔
9۔ میں نے اپنے والد مرحوم کے وقت سے لے کر اب تک جماعت اسلامی کے نظام کا جتنا مشاہدہ کیا ہے تو اسکی روشنی میں یہ کہ سکتا ہوں کہ جماعت کے شورائی اداروں اور مجالس میں جب کسی معاملے میں قرآن وحدیث کی روشنی میں ایک واضح صورت سامنے آجائے تو اسی کو اختیار کیا جاتا ہے، چاہے اس سے پہلے کسی غلط فہمی کی وجہ سے جماعتی طور پر کوئی دوسرا موقف ہی کیوں اختیار نہ کیا گیا ہو۔ یعنی انسانی کمزوری کی بنیاد پر کی گئی غلطی سے رجوع کرکے اسکی اصلاح کی جاتی ہے اور ایسا عملاً ہوتا رہا ہے جسکی میں آپکی خدمت میں ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ 1991ء میں جناب نواز شریف صاحب کی سابقہ حکومت میں اس وقت کے پارلیمنٹ سے نفاذ شریعت بل منظور کرایا گیا تھا۔ اس وقت میرے والد مرحوم پارلیمنٹ کے رکن نہیں تھے لیکن جماعت اسلامی کے دیگر اراکین پارلیمنٹ نے اس بل کے حق میں ووٹ دیا تھا۔جب اخبارات سے معلوم ہوا کہ اس بل میں خلاف اسلام دفعات بھی شامل ہیں تو میرے والد مرحوم نے جماعت اسلامی کے ایک اہم ذمہ دار اور مرکزی شوریٰ کا رکن ہوتے ہوئے ’’نفاذ شریعت ایکٹ 1991ء کا شرعی جائزہ‘‘ کے عنوان سے ایک مفصل مضمون لکھا (چھپی ہوئی شکل میں اب بھی موجود ہے) اور جماعت کے مرکزی شوری میں اس پر قرآن وحدیث کی روشنی میں دلائل پیش کے لیے جس کے بعد جماعت نے بطور وضاحت مرکزی شوری سے ایک باقاعدہ قرارداد منظور کرائی جس میں اس بل کو نفاذ شریعت سے فرار کا بل قرار دیا گیا۔
10۔ غلطیوں کا شکار ہونے کے اس معاملے پر بھی تنقید کی جاسکتی ہے لیکن ایک عرصے سے جماعت کے کارکنان اور ذمہ داران کو قریب سے جانتے ہوئے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس کی وجہ بھی وہ پیاس، تڑپ، لگن اور بے قراری ہے جو جماعت کے ذمہ داران اور تمام کارکنان کے دلوں میں شریعت کے عملی نفاذ کے حوالے سے موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی شریعت کے پیاسے یہ کارکنان شریعت کے حوالے سے کسی بھی پیشرفت کا موقع پاتے ہیں تو اس طرح بے اختیار دوڑتے ہیں جس طرح پیاسا کنویں کی طرف دوڑتا ہے۔ اس لیے موجودہ بل میں خامی کی وجہ یہ نہیں ہے کہ امیر جماعت اسلامی پاکستان محترم سراج الحق صاحب خدانخواستہ صوبے میں سودی نظام کی ترویج وبقاء چاہتے ہیں بلکہ اسکی وجہ محترم سراج الحق صاحب اور ان کے رفقاء کے دلوں میں شریعت کیلئے موجود وہ شدید پیاس اور تڑپ ہے جس نے محترم سراج الحق صاحب کو مجبور کیا کہ جونہی ان کو معلوم ہوا کہ نجی سود کے امتناع کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے تو انہوں نے فوری طور پر اس حوالے سے عمل درآمد کا آغاز کرایا اور اسی سرعت اور تیزی کی وجہ سے اس قانون سازی میں ایک ٹھوس غلطی صادر ہوگئی۔ میں پھر اس بات کا اعادہ کروں کہ سرعت یا بے توجہی کی وجہ سے کی گئی غلطی بھی بہر حال غلطی ہے جس کی اصلاح کی فوری کوشش ہونی چاہیے۔ میں دوبارہ اس طرف محترم امیر جماعت اور دیگر قائدین کی توجہ دلاؤں گا اور اپنی جماعت کو جانتے ہوئے مجھے امید ہے کہ اسکی اصلاح ضرور ہوگی، ان شاء اللہ۔
11۔ آخر میں بڑے ادب واحترام کے ساتھ آپکی خدمت میں یہ بھی عرض کروں کہ کسی خامی کی اصلاح یا کسی معاملے کی طرف توجہ دلانا آپکا حق بھی ہے اور بحیثیت مسلمان ایک ذمہ داری بھی ہے لیکن ایک رسالے میں اس تنقیدی انداز میں مضمون شائع کرانا میرے خیال میں مناسب نہیں تھا۔ جماعت اسلامی پاکستان، جمعیت علماء اسلام(ف) اور (س) اور دیگر دینی جماعتوں کے درمیان بعض اختلافات کے باوجود کم ازکم اس اہم قدر مشترک پر تو اتفاق موجود ہے کہ یہ سب جماعتیں اپنے منشور اور پروگرام میں واضح طور پر ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ چاہتی ہیں اور پاکستان کو سیکولر سٹیٹ بنانے والی قوتوں کے راستے میں مزاحم ہیں۔ لہٰذا اسطرح کی پبلک تنقید سے ان سیکولر قوتوں کو ہی فائدہ پہنچتا ہے۔ مناسب ہوتا کہ اگر آپ اپنی اسی تحریر میں اٹھائے گئے نکات کو شائع کرانے سے قبل محترم سراج الحق صاحب اور جماعت کی قیادت کے علم میں لاتے اور پھر دیکھتے کہ اگر وہ اس غلطی کو برقرار رکھنے پر اصرار کرتے یا ایک مناسب وقت گزرنے کے باجود اسکی اصلاح نہ کرتے تو پھر آپکو حق پہنچتا کہ اس طرح پبلک میں اس پر کھل کر تنقید کرتے۔
اللہ تعالی ہمیں اخلاص کے ساتھ اپنے دین کی اتباع اور خدمت کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین۔ شکریہ
ڈاکٹر عطاء الرحمن
مدیرجامعہ اسلامیہ تفہیم القرآن مردان
رکن مرکزی مجلس شوریٰ وعاملہ جماعت اسلامی پاکستان
(۳)
برادرم محمد مشتاق احمد صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
14 جون 2014ء کوآپکا ای میل ملا جس میں آپ نے نجی قرضوں پر سود کی ممانعت کے حوالے سے صوبہ خیبر پختونخوا کی اسمبلی سے حال ہی میں پاس کردہ بل کے بارے آپکے نام میرے خط مورخہ 2 جون 2014ء کو ماہنامہ الشریعہ میں شائع کر وانے کے بارے میں پوچھا ہے۔ میں اس کے لیے آپ کا شکرگذار ہوں لیکن میرے خیال میں تو یہ کسی علمی اختلاف کا موضوع نہیں تھا اور نہ ہی بل میں موجود سقم اور غلطی کے بارے میں ہمارے درمیان کوئی اختلاف تھابلکہ اس خط کا مقصد آپکے مضمون میں بعض نکات کے حوالے سے ایک خط کے ذریعے اپنے احساسات کا اظہار کرنا تھا جس پر آپ نے اپنے جوابی ای میل میں نہایت ہی اچھے انداز میں اپنے رد عمل کا اظہار بھی کیا تھا۔ اس لیے میں اسکو شائع کرانے کے حق میں نہیں تھا، البتہ میں نے اس کی کاپی امیر جماعت اسلامی پاکستان و صوبائی وزیر خزانہ صوبہ خیبر پختونخوا محترم جناب سراج الحق صاحب کی خدمت میں صرف اس مقصد کے لیے ارسال کردی تھی کہ اس بل میں وہ اہم تبدیلیاں لائی جاسکیں جن کے بارے میں میں نے اپنے خط میں امید کا اظہار کیا تھا۔
بہر حال اگر آپ اس کو شائع کروانا چاہتے ہیں تو جواب درجواب کی صورت اختیار نہ کرنے کی صورت میں اس کی اشاعت میں کوئی حرج بھی نہیں ہے بلکہ اس وقت تو اس کی اشاعت اس لحاظ سے مفید بھی ہوگی کہ اس دوران ہونے والی ان مفید اور مثبت developments کا تذکرہ بھی ساتھ ہی شایع ہو جائے گا جن کے حوالے سے میں نے اپنی قیادت کے بارے میں حسن ظن اور مثبت امید کا اظہار کیا تھا، فالحمد للہ علی ذالک۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا کہ اخبارات کے ذریعے موجودہ بل کی صوبائی اسمبلی سے منظوری کے بارے میں پڑھ کر میں نے 15 مئی 2014ء کو محترم جناب سراج الحق صاحب کو ایک خط کے ذریعے اپنی تشویش سے آگاہ کردیا تھا اور باقاعدہ ایکٹ بننے سے قبل اس پر دوبارہ غور کرنے کی درخواست کی تھی۔ اسی طرح ماہنامہ الشریعہ میں آپکے مضمون اور اس حوالے سے اپنے اس خط سے بھی آگاہ کردیا تھا جس میں مذکورہ بل میں ضروری تبدیلیوں کے حوالے سے امید کا اظہار کیا تھا۔
مجھے بہت اطمینان حاصل ہوا اور میں اس بات پر اللہ رب العالمین کاشکر اداکرتا ہوں کہ محترم سراج الحق صاحب نے اس اہم معاملے کا فوری نوٹس لے کر 5 جون 2014ء کو پشاور میں ایک اہم اجلاس بلایا جس میں سرکاری ذمہ داران کے علاوہ بعض جید علماء کرام کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ مجھ جیسے طالب علم کو بھی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی لیکن میں بیرون ملک سفر کی وجہ سے اس اجلاس میں شرکت نہیں کرسکا۔ دعوت نامے کے ساتھ اسمبلی سے موجودہ منظور شدہ بل کی کاپی بھی ارسال کردی گئی تھی، لہٰذا میں نے 4 جون 2014ء کو دوران سفر کچھ ضروری تجاویز بذریعہ ای میل ارسال کردی تھیں۔ ان تجاویز میں ایک تجویز یہ بھی دی تھی کہ اس موضوع پر ایک نئے بل کی بجائے 2007ء والے ایکٹ میں ضروری ترامیم لائی جائیں۔ (میری طرف سے ارسال کردہ تجاویز کی نقل منسلک ہے)۔ اس بل کی اہمیت کے پیش نظر محترم جناب سراج الحق صاحب نے خود اس اجلاس کی صدارت کی اور صوبے سے سود کی اس لعنت کو دور کرنے کے لیے موجودہ بل میں ضروری ترامیم تجویز کرنے کے لیے جید علماء کرام اور ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل کرنے کا اعلان کیا۔ مجھے امید ہے کہ ان مخلصانہ کوششوں کے نتیجے میں ہم نجی سطح پر سود ی لین دین میں ملوث افراد کو قانوناً عبرت ناک سزا دلوانے میں کامیاب ہوجائیں گے، ان شاء اللہ۔
میری طرف سے محترم مولانا زاہد الراشدی مد ظلہ اور برادرم عمار ناصر حفظہ اللہ کی خدمت میں سلام عرض کیجیے گا۔
ڈاکٹر عطاء الرحمن
مہتمم جامعہ اسلامیہ تفہیم القرآن مردان
ناظم اعلیٰ رابطۃ المدارس الاسلامیہ پاکستان
(۴)
"خیبر پختون خوا میں سود کی ترویج کی ایک مذموم کوشش : جماعتِ اسلامی اور جمعیت علماے اسلام کا موقف؟ "کے عنوان سے ماہنامہ "الشریعہ" کے جون کے شمارے میں راقم کا مضمون شائع ہوا اور حسبِ توقع اس کی اشاعت بہت مفید ثابت ہوئی۔ یکم جون کو ہی ملک کے اندر اور باہر سے بعض دوستوں نے ای میل اور فون کے ذریعے رابطہ کرکے تفصیلات کا مطالبہ کیا۔ بعض دوستوں نے یہ مضمون سوشل میڈیا پر بھی شیئر کیا جس کی وجہ سے بھی بہت سے لوگوں تک یہ مضمون پہنچا۔ زیادہ تر جماعتِ اسلامی ، یا یونی ورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے حلقے سے ہی لوگوں نے رابطہ کرکے اپنے رد عمل کا اظہار کیا اور نہایت خوش آئند امر یہ رہا کہ یہ رد عمل بالعموم مثبت رہا۔ 2 جون کو ہمارے مخدوم جناب مولانا ڈاکٹر عطاء الرحمان صاحب نے دورانِ سفر ہی ملائشیا سے ایک طویل مراسلہ ای میل کے ذریعے بھیجا جسے اس شمارے میں شائع کیا جارہا ہے۔ زیر نظر مضمون میں "الشریعہ" کے معزز قارئین کو اس سلسلے میں حکومتی سطح پر کی گئی تازہ پیش رفت سے آگاہ کیا جارہا ہے۔ تاہم اس سے پہلے ضروری ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے مکتوب میں اٹھائے گئے بعض نکات پر اپنے موقف کی توضیح کی جائے۔ مقصود مباحثہ یا مناظرہ نہیں ، بلکہ غلط فہمی کا ازالہ ہے۔
میں نے اپنے مضمون میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا ، نہ ہی یہ میرا موقف ہے ، کہ جماعتِ اسلامی (یا جمعیت العلماء) خدانخواستہ "دیدہ و دانستہ" سودخوری کی ترویج کررہی ہے۔ پاکستان میں اسلامی قانون اور اسلامی معیشت کے نفاذ کے سلسلے میں جماعتِ اسلامی کے کام سے میں کیسے انکار کرسکتا ہوں ؟ مولانا گوہر رحمان رحمہ اللہ کو تو میں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سمجھتا ہوں اور ہمیشہ ان سے کچھ سیکھنے کی ہی کوشش کی۔ ان کی حق گوئی و بیباکی کی تو ایک دنیا معترف ہے۔ نہ ہی خدا نخواستہ مجھے جناب سراج الحق صاحب کی دینداری پر کوئی شبہ ہے۔مسئلہ یہ نہیں تھا ، بلکہ صرف یہ تھا کہ ایسے دیندار شخص جو ایسی جماعت کے سربراہ ہیں کیسے بغیر پڑھے مسودۂ قانون پر دستخط کرکے اسے منظوری کے لیے اسمبلی میں پیش ہونے دیتے ہیں ؟ جب میں نے یہ کہا کہ جماعت کے امیر کا حلف اٹھانے کے بعد پہلے ہفتے میں انھوں نے اس مسودے پر دستخط کیے ہیں تو مقصود یہی تھا کہ جماعت کا امیر بننے کے بعد تو ان کی ذمہ داری مزید بڑھ گئی ہے۔ اگر پہلے بھی وہ بغیر سوچے سمجھے اس مسودے پر دستخط کرتے تو غلط کرتے لیکن اب انھوں نے یہ کیا تو بہت ہی غلط کیا۔ آپ کہتے ہیں یہ عدم توجہی کی بنا پر ہوا ، نہ کہ دیدہ و دانستہ۔ مجھے اس سے سو فیصد اتفاق ہے ، اور میرا گلہ بھی بس یہی ہے ، اور کچھ نہیں ۔
اگر مضمون کے عنوان ، یا اس نوعیت کے بعض جملوں سے کسی کو تکلیف پہنچی ہے تو مجھے افسوس ہے لیکن ازراہِ تفنن عرض ہے کہ اگر مضمون کا عنوان یہ نہ ہوتا ، یا مضمون میں یہ چند (بے ضرر قسم کے ) جملے نہ ہوتے تو کیا اس پر اس نوعیت کا فوری اور شدید ردعمل ہوتا؟ مجھے بچپن سے ہی ابنِ صفی کی تحریرات سے لگاو رہا ہے۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں کہ اگر کسی ادبی مضمون کا عنوان "جوش کی شاعری " ہو تو شاید ہی کوئی اسے پڑھنے کی زحمت گوارا کرے لیکن اگر عنوان ہو "جوش اور پاپوش" تو ہر کوئی اس پر کم ازکم ایک نظر تو ڈال ہی لیتا ہے۔ پشتو کے ایک مقولے کا مفہوم ہے کہ ماں بھی اس وقت تک بچے کو دودھ پلانے کے لیے گود میں نہیں لیتی جب تک بچہ رونا نہ شروع کردے۔ میرا مضمون بھی بس اسی نوعیت کا تھا۔ پشتو ہی کا ایک اور مقولہ ہیکہ گلہ اپنوں سے ہی ہوتا ہے اور چچا غالب نے بھی کہا تھا :
جب توقع ہی اٹھ گئی غالب
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی
پس مجھے سراج صاحب ، یا جماعتِ اسلامی اور جمعیت علماے اسلام کے معزز ارکان ، سے گلہ تھا تو صرف اسی وجہ سے کہ ان سے یہ توقع نہیں تھی۔ مجھے خوشی ہے کہ اس شکوے کا فائدہ بہرحال ہوا۔
ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ میرے مضمون کی اشاعت سے قبل ہی اس مسودۂ قانو ن کے بارے میں اخبار میں خبر پڑھ کر انھوں نے 15 مئی کو سراج صاحب کو خط لکھ کر عدم اطمینا ن کا اظہار کیا تھا۔ بالکل صحیح ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے بعد بھی اس مسودۂ قانون کے حوالے سے کوئی پیش رفت اس وقت تک نہیں ہوئی جب تک "الشریعہ" میں میرا مضمون شائع نہیں ہوا۔ چنانچہ اس مضمون کی اشاعت کے بعد ہی 3 جون کو جناب سراج الحق صاحب نے اس مسودے کا جائزہ لینے اور نیا مسودہ بنانے کے لیے ایک سات رکنی کمیٹی بنائی جن میں ڈاکٹر صاحب کے علاوہ میرے والد محترم اور جناب پروفیسر سید محمد عباس صاحب بھی شامل تھے۔ اس کمیٹی کا پہلا اجلاس 5 جون کو ہوا اور اجلاس کا جو ایجنڈا ارکان کو بھیجا گیا اس کے ساتھ میرا مضمون بھی منسلک تھا جس سے اس اجلاس کا "شان نزول" خود بخود معلوم ہوا۔جناب سراج الحق صاحب نے اس کمیٹی کے پہلے اجلاس کی صدارت کی اور اس میں متفقہ طور پر طے پایا کہ مسودے سے ایسی تمام شقیں دور کردی جائیں گی جن سے کسی طور بھی سود کو جواز ملتا ہے۔ جناب سراج الحق صاحب نے واشگاف الفاظ میں قرار دیا کہ سودی لین دین حرام ہے اور ہم اس نظام کو ختم کردیں گے۔ ( بحوالہ روزنامہ "ایکسپریس " پشاور ، مورخہ 7 جون 2014 ء) ڈاکٹر عطاء الرحمان صاحب بیرون ملک سفر کی وجہ سے اس میٹنگ میں شریک نہ ہوسکے لیکن انھوں نے اپنی تجاویز ای میل کیں۔ کمیٹی کی ایک اور میٹنگ 11 جون اوراس کے بعد 16 جون کو ہوئی جس میں نئے مسودے کے بنیادی خدوخال طے کیے گئے۔ بجٹ اجلاس کی وجہ سے اگلی میٹنگ میں تھوڑی تاخیر ہوئی لیکن امید ہے کہ جون کے آخری ہفتے میں مسودے کو حتمی شکل دی جائے گی۔
جمعیت علماے اسلام کے حلقے سے کسی نے بھی براہِ راست رابطہ نہیں کیا ، نہ ہی باضابطہ ردعمل سے آگاہ کیا۔ پچھلے مضمون میں یہ شکوہ بھی کیا گیا تھا کہ مضمون تحریر کیے جانے تک ( 24 مئی تک ) جمعیت علماے اسلام کے 16 ارکان میں کسی ایک نے بھی اس مسودے میں ترمیم کے لیے اسمبلی سیکرٹریٹ میں کوئی تجویز پیش نہیں کی۔ مضمون کی اشاعت کے بعد یہ ہوا کہ 6جون کو جمعیت سے تعلق رکھنے والے ایک رکن اسمبلی جناب مولانا فضل غفور صاحب نے اس مسودۂ قانون میں ترامیم کے لیے اپنی بعض تجاویز اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کرائیں۔ یہ تجاویز بنیادی طور پر انھی نکات پر مشتمل ہیں جو میرے پچھلے مضمون میں پیش کیے گئے تھے۔
اس دراز نفسی سے مقصود ہر گز یہ نہیں ہے کہ میں سارا "کریڈٹ" لینا چاہتا ہوں۔ اجر کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور وہ نیتوں اور اعمال سے بخوبی باخبر ہے۔ میں اصل میں یہ نکتہ اٹھانا چاہتا ہوں کہ بعض اوقات "پبلک تنقید " سے وہ فائدہ ہوتا ہے جو نجی خطوط سے نہیں ہوتا۔ پچھلے مضمون میں بھی صراحت کی گئی تھی اور یہاں بھی مکرراً عرض ہے کہ یہ معاملہ فوری نوعیت کا تھا اور اس قانون کی منظوری کے نتائج انتہائی خطرناک ہوتے۔ اس لیے اس کا راستہ روکنے کے لیے "الشریعہ" سے زیادہ مناسب فورم اور کوئی نہیں تھا ، اور الحمد للہ اس کا مثبت نتیجہ برآمد ہوا۔
باقی رہا اسلامی قانو ن کے نفاذ کے معاملے میں عدالتِ عالیہ اور بیوروکریسی کا رویہ اور انداز ، تو ان کے متعلق الگ سے اپنی معروضات تفصیلاً پیش کروں گا ، ان شاء اللہ۔ یار زندہ، صحبت باقی!
محمد مشتاق احمد
mushtaqahmad@iiu.edu.pk
’’کتاب العروج‘‘ ۔ تہذیب کے قرآنی سفر کا ایک چشم کشا تذکرہ
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی
اب سے کوئی سات دہائی پہلے لبنان کے ایک مسلمان ادیب اورمصنف امیرشکیب ارسلان نے ایک مختصرسی کتاب لکھی تھی : لماذاتأخرالمسلمون وتقدم غیرہم (مسلمانوں کے زوال اوردوسروں کے عروج کے اسباب)۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ سوال آج تک مسلمانان عالم کے تعاقب میں ہے اوران کے پڑھے لکھے حلقہ کے زیرغور ہے مگراس کے جوابات جو مختلف علماء نے دیے ہیں، ان میں جواب کم اور مزیدسوال زیادہ کھڑے ہوتے ہیں۔ راشد شازنے اس مسئلہ کو بہت گہرائی سے لیاہے اوران کی اکثر تحریروں میں یہ تجزیہ راہ پاجاتاہے۔ راشدشاز ہمارے زمانہ کے ایک عہدساز مفکرومصنف ہیں۔ عربی ،انگریزی اوراردومیں ان کی متعددفکرانگیزکتابیں منظرعام پر آچکی ہیں۔ فقہ ظاہر (فقہ ) اور فقہ باطن (تصوف)،روایت پرستی، ملوکیت ،مشائخیت اور استبدادفکر کے حجابات میں حقیقتِ اسلام کچھ چھپ سی گئی ہے کہ اس کی تہ بہ تہ گردکوجھاڑنے اوراس کی بازیافت کے عمل میں پوری پوری زندگیاں لگانے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی تفصیل سے ان اسباب کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے جن کے باعث اسلام وقت کی غالب تہذیب بن گیا اورپھریہ کہ وہ کیااسباب وعوامل ہیں جن کے باعث آج امت مسلمہ یوں لگتاہے جیسے معزول ہوکررہ گئی ہو۔
راشدشاز کی تازہ بتازہ کتاب اسی ضرورت کوپوراکرتی ہے۔کتاب العروج کو بجاطورپر تہذیب کے قرآنی سفرکا ایک چشم کشاتذکرہ قراردیاجاسکتاہے ۔ یہ کتاب محض ایک تاریخی بیانیہ نہیں، گواس میں ایک عظیم تاریخ کا پورالوازمہ موجودہے۔ اس کے پہلے باب میں مصنف نے بیان کیاہے کہ الٰہی تصورحیات کے جلومیں جو تحریک اکتشاف قرآن کے دیے ہوئے علمی منہج سے برپاہوئی ،جووحی ربانی اورانفس وآفاق میں غوروفکرسے عبارت تھا، اس نے انسانی ذہن کو استقرائی طریقہ نکال کراسے استخراجی منہج سے آشنا کیااورانسانی عقل کوتجربہ ومشاہدہ اورتحلیل وتجزیہ کی راہ پر ڈال دیاجس کے نتیجہ میں مسلمانوں نے روم اورہندویونان کے قدیم علوم کو اپنی آغوش میں لے لیا۔ یوں کہیے کہ انسانی تہذیب کی کل جمع پونجی تحلیل وتجزیہ کی میز پر لے آئی گئی۔دیکھتے ہی دیکھتے عالم اسلام کا وسیع وعریض خطہ اکتشافی تمدن کی ضیا باریوں سے جگمگا اٹھا ۔
الکندی ،ابن سینا، ابوبکر زکریا رازی ،ابن الہیثم ،عباس بن فرناس ،الخوارزمی ،جابربن حیان ،البتانی ،ابوریحان البیرونی،ابن رشد،ابن نفیس، نصیر الدین طوسی ،قطب الدین شیرازی ،ابوعبیدالجوزجانی ،عبدالرحمن ،الخازنی ،کمال الدین الفارسی ،ابوالقاسم الزہراوی ،یحییٰ المغربی، جمشید الکاش، ابوالحسن الطبری، یاقوت الحموی، ابن جبیر، ابن بطوطہ، ابن خلدون، عمرخیام، قاضی زادہ الرومی، ابن شاطر، محمدعلی السمرقندی، ابوجعفرالبطروجی، ابن الجزری، شریف الادریسی، ابن العوام ،ابن بطلان ،ابن مسکویہ اور تقی الدین اوران جیسے سیکڑوں علماء،دانشور،تحقیق کاراوراساطین اسلامی تہذیب کے نمائندے تھے کہ آج کی ساری سائنسی ترقی اورچمک دمک جن کی کاوشوں کی رہین منت ہے۔ ان میں سے کتنے تھے جوقرآن وحدیث اورفقہ جیسے علوم کے بھی ماہرتھے کہ تب علم دین اورعلم دنیاکی ثنویت قائم نہ ہوئی تھی اور یہ علماء علمِ دنیابھی دینی جزبہ اورضرورت کے تحت ہی حاصل کرتے تھے۔غیروں کو توچھوڑیے، آج خودمسلمانوں کی نئی نسلیں بھی ان کے نام اورکام سے واقف نہیں ۔ ان اصحاب علم وفکرواختراع کے کتنے ہی کارنامے تومغربی علماء وسائنس دانوں کی طرف منسوب کردیے گئے ہیں ۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج اسلام اورسائنس میں دنیاکو تضادنظرآتاہے کہ ر وایتی علماء اسلام کے اجارہ دار بن کررہ گئے ہیں۔ راشدشازلکھتے ہیں:
’’آج کسے اس با ت پر یقین آئے گاکہ تہذیب کا سائنسی قالب جس کے دم سے جدیددنیاکی چمک دمک قائم ہے، ہمارے اکتشافی طرزفکرکی پیداوارہے جس کی جڑیں کہیں اورنہیں بلکہ عین وحی ربانی کے صفحات میں پائی جاتی ہیں‘‘ (صفحہ ۱۱)
اس باب کے اخیر میں مصنف نے ان تما م اسباب کا احاطہ بھی کیاہے جن کے سبب اکتشافی ذہن نے عالم اسلام سے مراجعت کرلی اور اساطیری ذہن اس پرمسلط ہوگیا،جس کا نقطہ عروج یہ تھا کہ جب 1580میں استنبول کے اندرتقی الدین کی بنائی ہوئی رصدگاہ جامدعلماء کے زیر اثر خودمسلمانوں نے مسمارکردی اورر اس کے کچھ دنوں بعد 1675 میں برطانیہ میں گرین وچ کے ٹیلہ پر رصدقائم ہوئی توگویااس بات کا اشارہ تھی کہ اب وقت کی زمام مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکلاچاہتی ہے۔ اوریوں تحریک اکتشاف مغرب کومنتقل ہوگئی ۔
کتاب کے دوسرے حصہ میں مصنف نے اکتشافی تحریک کی عالم اسلام سے مغرب کو ہجرت اوراس کے اسباب ومحرکات پر روشنی ڈالی ہے ۔قرطبہ وطلیطلہ ،استنبول وصقلیہ کے ذریعہ عرب علوم کے وسیع پیمانہ پر ترجموں نے یورپ والوں کے آگے علم وآگہی اوراکتشاف واختراع کی ایک نئی دنیاکے دروازے واکردیے اوریوں سولہویں وسترہویں صدیوں میں پورامغرب علوم عرب کے سہارے ایک نئی دنیاکی تعمیرمیں جوش وخروش سے لگ گیا۔یہ وہ وقت تھا کہ جب عالم اسلام رجعت قہقریٰ کے باعث اساطیری اورمتصوفانہ طرزفکرکا اسیرہوچکاتھا اورتحریک اکتشاف کے غلغلے ماندپڑچکے تھے۔ وہ علمی وفنی زوال کے ساتھ اقتصادی ابتری کابھی شکار ہوگیا اور بالآخراٹھارویں صدی کے آتے آتے اس کی سیاسی وعسکری قوت بھی ڈانواڈول ہوچکی تھی۔ اب مغرب نئی ٹیکنالوجی سے سرشارہوکرمسلم دنیاکو یکے بعددیگرے تہ وبالاکرنے لگا اور انیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں تک وہ مسلم دنیاکے حصے بخرے کرچکاتھا۔ کتاب میں مصنف نے بڑی جامعیت سے نہ صرف اسلامی تہذیب کے محیرالعقول کارناموں کو قاری کے سامنے مجسم کردیاہے بلکہ اسلامی تہذیب اورتاریخ اسلام سے متعلق مغرب کے پھیلائے ہوئے بعض مغالطوں اورکذب بیانیوں کا ناقدانہ جائزہ بھی لیاہے۔
کہاجاتاہے کہ چوتھی صدی ہجری کے بعدمسلمان ہمہ جہتی زوال سے دوچار ہوچکے تھے، مگرحقیقت تویہ ہے کہ عثمانی ترکوں کی فوجیں تو 1782 میں ویاناکے دروازوں پر دستک دے رہی تھیں اورتین تین اسلامی قوتوں مغل تہذیب ،صفوی ایران اورعثمانی ترکوں کا دبدبہ پوری دنیاپرقائم تھا۔یہ الگ حقیقت ہے کہ جب اساطیری ذہن مسلم فکرپر چھا گیا اور اکتشافی ذہن نے مات کھائی تومسلمانان عالم کے زوال کی رفتاربڑی تیز ترہوگئی۔ بہرحال مشرق (اسلام )کا سقوط اور مغرب کا عروج ابھی دو صدیوں قبل کا سانحہ ہے۔ نشأۃ ثانیہ ،تحریک اصلاح وغیرہ کی آڑ میں ۵،۶صدیوں سے چلے آرہے مغرب کے فکری اور پھر عملی عروج کی کہانی ایک اسطورہ سے زیادہ نہیں ہے۔اس اسطورہ کے پردے میں مغرب نے ترجمہ کے نام پر مسلمان علما ء کی کتابوں کے سرقے کیے ،ان کی تحقیقات کو اپنے علماء کی طرف بڑی دھاندلی سے منسوب کرلیااوریوں زوروشورسے مغربی ذہن کی برتری کا راگ الاپا گیااورمغرب کے علاوہ جو اقوام ہیں، ان کو دوسرے درجہ کے انسان بنادیا گیا ۔ یہ پروپیگنڈاکیاگیاکہ مسلمانوں نے اپنی ترجمہ کی تحریک میں دانش یونانی کے ترجمہ اورچربہ پیش کرنے کے سوااورکیاکیاہے ۔بڑے طمطراق سے دعویٰ کیاگیاکہ سائنس کواصل فروغ اہل مغرب نے دیاہے ۔ راشد شازلکھتے ہیں:
’’جب تک اکتشافی علوم کے لیے ’’العلوم العربیہ ‘‘کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی، یہ تاثرعام تھا کہ سائنسی تہذیب کا عربوںیامسلمانوں سے رشتہ گہراہے البتہ جب اکتشافی علماء کے لیے سائنٹسٹ یاسائنس داں کی اصطلاح چل نکلی توہمارے لیے یہ یقین کرنامشکل ہوگیاکہ ہماری فکروتہذیب سے اس نئی مخلوق سائنٹسٹ کا بھی کبھی کوئی تعلق رہاہے‘‘۔ (صفحہ ۱۱)
کتاب العروج میں اس پوری بحث کو دل چسپ جامع اورمختصرانداز میں سمیٹ دیاگیاہے ۔کتا ب کے شروع میں ظہورنبوت محمدی کے نتیجہ میں ہمہ گیراسلامی انقلاب اوردنیاکے اوپراس کے خوشگورتہذیبی وتمدنی اثرات کو بیان کیاگیاہے۔ یہ بیان مختصرمگرجامع بھی ہے ۔ فکر انگیز اور انبساط بخشنے والاہے مگراس پرہیروورشپ کا ذرابھی گمان نہیں ہوتا۔ راشدشازکی ناقدانہ بصیرت قاری کو اس گمراہی میں پڑنے سے روکتی رہتی ہے اورطربناک ماضی کی جھلکیاں دکھانے کے ساتھ ہی وہ قدم قدم پر اس کواپنے تاریک حال اوراس کے اسباب سے روشناس کراتی اورکچوکے لگاتی رہتی ہے۔ ان کی رائے اس بارے میں یہ ہے:
’’قرآن مجیدتوآج بھی ہمارے درمیان موجودہے لیکن تقدیس وتکریم کے لبادے میں ہم نے اس کی معطلی کا پختہ انتظام کررکھاہے،ہمارے اردگردمذہبی زندگی کی بساط کچھ اس طرح سجائی گئی ہے کہ اس نے عملامذہب کے لبادے میں دین کی نفی اورقرآن کے انکارکا ماحول قائم کر رکھاہے ۔یہی وجہ ہے کہ مذہبی زندگی کی چہل پہل اور تجدیدواصلاح کے فلک شگاف نعروں کے باوجودہم پر ایک نئی صبح طلوع نہیں ہوتی ‘‘ ۔ (صفحہ ۲۱)
زیرنظر’’کتاب العروج ‘‘( ایک جلداوردوحصوں پر مشتمل ) کے پہلے باب میں راشدشاز نے ایک الہامی جملہ لکھاہے کہ ’’خداکا تجربہ اگر خلاقانہ ہوتووہ انسان کو تسخیر کائنات کے فریضہ پر آمادہ کرتاہے،اوراگرمقلدانہ ہوتوانسانی ذہن وجدنا آباء نا کذلک یفعلون کے پیداکردہ توہمات کا شکارہوجاتاہے اوریہی تجربہ اگرتکبروغرورکے آمیزہ سے تشکیل پائے توبغاوت وسرکشی کو جنم دیتاہے ‘‘۔ چنانچہ قرون اولیٰ کی مسلمان نسلوں کو اگرپہلے کی مثال میں پیش کیاجاسکتاہے تودورزوال کے مسلم معاشرے دوسرے رویہ کی نمائندگی کرتے ہیں اورآج کاترقی یافتہ لبرل مغرب ٹھیٹھ تیسرے رویہ کا ترجمان بناہواہے۔
کتاب اپنے بیش قیمت مندرجات کی طرح ظاہرحسن سے بھی آراستہ ہے اوراعلیٰ درجہ کی کتابت وطباعت سے مزین ہے۔ کتاب کا مصوراوررنگین ہونابھی قاری کے اندراعتمادپیداکرنے کا بڑاذریعہ ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ قارئین اس پوری کتاب کوسانس روکے اورمسلسل نشستوں میں پڑھتے چلے جائیں گے اورنئے نئے انکشافات اور تاریخی حقائق سے دوچارہوں گے ۔توقع ہے کہ کتا ب پڑھنے والوں کے دل میں جہاں امیدکی نئی جوت جگائے گی، وہیں ان کو انقلابی شعور اورولولہ انگیز نشاط وعمل کی کیفیت سے آشناکرے گی ۔
300سے زاید صفحات پر مشتمل یہ کتاب ملی پبلی کیشنز ملی ٹائمز بلڈنگ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگرنئی دہلی 110025 نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت پانچ سو روپے ہے۔
غیر سودی بینکاری پر ایک سیمینار
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
۲۸ مئی کو ڈیرہ اسماعیل خان پاکستان شریعت کونسل اور میزان بینک کے باہمی تعاون سے ’’غیر سودی بینکاری‘‘ کے مسئلہ پر منعقدہ سیمینار میں راقم الحروف نے درج ذیل معروضات پیش کیں:
بعد الحمد والصلوٰۃ ! غیر سودی معاشی نظام اور غیر سودی بینکاری اس وقت دنیا بھر میں مختلف سطحوں پر زیر بحث ہے اور اسی حوالہ سے آج کا یہ سیمینار بھی منعقد ہو رہا ہے۔ غیر سودی بینکاری کے فقہی اور فنی پہلوؤں کے بارے میں تو اس وقت کچھ عرض نہیں کر سکوں گا، البتہ اس کی معروضی صورت حال کے تناظر میں کچھ معروضات پیش کرنا چاہوں گا۔
غیر سودی بینکاری کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ پاکستان کے قیام کے بعد سٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے واضح طور پر کہا تھا کہ ہم اپنے معاشی نظام کی بنیاد مغرب کے معاشی فلسفہ پر نہیں بلکہ اسلام کے اصولوں پر رکھنا چاہتے ہیں، کیونکہ مغرب کے معاشی نظام نے انسانی سوسائٹی کو جنگوں اور تباہی سے دوچار کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی قائد اعظمؒ نے ملک کے معاشی ماہرین کو ہدایت کی تھی کہ وہ اسلامی اصولوں کے مطابق ملک کے معاشی نظام کی تشکیل کی طرف پیش رفت کریں۔ لیکن چھ عشروں سے زیادہ وقت گزر جانے کے باوجود ہمارے معاشی ماہرین اس کے لیے سنجیدہ نہیں ہوئے اور ملک کا معاشی نظام سود اور سٹہ کے مغربی اصولوں کے مطابق ہی چل رہاہے۔
اس دوران عالمی سطح پر یہ تبدیلی ضرور آئی ہے کہ سابق پاپائے روم پوپ بینی ڈکٹ کی قائم کردہ معاشی ماہرین کی ایک کمیٹی نے رپورٹ دی ہے کہ دنیا کے معاشی نظام کو قرآن کریم کے بیان کردہ معاشی اصولوں کے مطابق چلا کر ہی صحیح رخ دیا جا سکتا ہے اور اس کے بعد عالمی سطح پر غیر سودی بینکاری کی طرف نہ صرف یہ کہ مغربی ملکوں کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے بلکہ اس وقت مغرب میں غیر سودی بینکاری کا مرکز بننے کے لیے لندن اور پیرس میں کشمکش جاری ہے اور چند ماہ قبل برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے ایک بین الاقوامی کانفرنس میں اعلان کیا ہے کہ وہ لندن کو غیر سودی بینکاری کا مرکز بنانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ ایک وقت وہ تھا جب ہم غیر سودی بینکاری کی بات کرتے تھے تو ہمیں سادہ لوحی اور بے خبری کا طعنہ دیا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ غیر سودی معیشت آج کے دور میں قابل عمل نہیں ہے، لیکن آج غیر سودی بینکاری کا مرکز بننے کے لیے لندن اور پیرس میں مقابلہ جاری ہے۔ یہ یقیناًاسلام کا اعجاز اور اسلامی تعلیمات کی صداقت و ابدیت کا اظہار ہے۔
ہمارے ملک میں غیر سودی بینکاری اور معیشت کے عمومی تناظر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل نے طویل بحث و مباحثہ و تجزیہ کے بعد ملک میں رائج سودی قوانین کو غیر اسلامی اور غیر دستوری قرار دے کر حکومت کو انہیں اسلام کے مطابق تبدیل کرنے کی ہدایت کر رکھی ہے جس کی توثیق سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی کر دی تھی۔ لیکن ہمارے حکمران طبقے اور بینکار حلقے اسے قبول کرنے کی بجائے اپیل در اپیل کے چکر میں ٹالتے چلے جانے میں مصروف ہیں اور خاصے عرصے کے بعد وفاقی شرعی عدالت نے اس کیس کی دوبارہ سماعت شروع کی ہے تو اس کے لیے دینی حلقوں کے متحرک ہونے کی وجہ سے کیس کو پھر معرض التواء میں ڈال دیا گیا ہے۔
میں اس سلسلہ میں آپ حضرات سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کے مشترکہ علمی و فکری فورم ’’ملی مجلسی شرعی پاکستان‘‘ نے وفاقی شرعی عدالت میں مشترکہ موقف پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی تیاری کے لیے تمام مکاتب فکر کے جید علماء کرام کا گروپ کام کر رہا ہے اور یہ متفقہ موقف کچھ دنوں تک سامنے آجائے گا۔ اس کے ساتھ ہی ملی مجلس شرعی پاکستان کی تحریک پر دینی اور عوامی حلقوں میں اس سلسلہ میں آگہی اور بیداری پیدا کرنے کے لیے ’’تحریک انسداد سود پاکستان‘‘ کے نام سے ایک الگ فورم تشکیل دیا گیا ہے جس کی رابطہ کمیٹی کا کنوینر مجھے بنایا گیا ہے اور اس کے تحت ملک کے مختلف شہروں میں عوام، تاجر حلقوں اور علماء کرام میں غیر سودی اسلامی نظام معیشت کے فروغ اور سودی نظام کے خاتمہ کی جدوجہد کے بارے میں آگاہی اور بیداری کے لیے سیمیناروں کا سلسلہ جاری ہے۔ میں علماء کرام، تاجر حضرات اور غیر سودی بینکاری سے دلچسپی رکھنے والے بینکاروں سے گزارش کروں گا کہ وہ اس تحریک میں شریک ہوں اور اسے آگے بڑھانے میں ہمارے ساتھ تعاون کریں۔
غیر سودی بینکاری کے حوالہ سے تیسرا پہلو یہ ہے کہ پاکستان سمیت مختلف مسلم ممالک میں عملی طور پر غیر سودی بینکاری کے تجربہ کا آغاز ہو چکا ہے اور عالم اسلام کی معروف دینی و علمی شخصیات اس کی سرپرستی کر رہی ہیں، مگر بعض علمی حلقوں کے اس سلسلہ میں تحفظات بھی پائے جاتے ہیں۔ میں اس سلسلہ میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ چونکہ اسلامی معاشی نظام کے سوسائٹی میں عملی کردار کے تعطل پر خاصا دور گزرا ہے، اس لیے اسے نئے سرے سے روبہ عمل میں لانے میں کچھ عرصہ تو تجربات کے دور سے گزرنا ہی پڑے گا اور اس کے مکمل شکل تک پہنچنے تک تحفظات بھی سامنے آتے رہیں گے۔ اس لیے اس تجربہ کے کسی پہلو سے علمی اور دینی طور پر اختلاف ہو تو اس کا اظہار ضرور کیا جائے، لیکن اس بات کو غنیمت سمجھا جائے کہ ملک کے معاشی نظام کے ایک حصے کو اسلام کے مطابق ڈھالنے کا جذبہ موجود ہے اور اسے عملی شکل دینے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔
مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ فرمایا کرتے تھے کہ آج کے دور میں اگر کوئی اپنا کام اسلام کے مطابق کرنے کی خواہش رکھتا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کی جائے اور اس کی راہ نمائی کی جائے تاکہ اس کی اس خواہش کو عملی جامہ پہنایا جا سکے، بلکہ جائز حدود میں رہتے ہوئے اسے سہولت بھی دی جائے اور اس کے لیے قابل عمل راستے تلاش کیے جائیں۔ حضرت مفتی صاحبؒ کے اسی ارشاد کو سامنے رکھتے ہوئے میں یہ گزارش کروں گا کہ ملک میں غیر سودی بینکاری کے تجربہ کی حوصلہ افزائی اور اس کی کامیابی کے لیے تعاون کرنا ہی بہتر راستہ ہے اور اگر کسی پہلو سے اختلاف ہو تو اس کا اظہار کیا جائے اور کام کرنے والوں کی راہ نمائی کا اہتمام کیا جائے، لیکن اختلاف کو مخالفت اور رکاوٹ بننے سے بچایا جائے۔
اس حوالہ سے ایک اور بات دونوں حلقوں سے عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر خدانخواستہ اس تجربہ میں ہم ناکام ہوگئے اور باہمی کشمکش کے باعث اسے بہتری اور کامیابی کی طرف نہ لے جا سکے تو وہ سابقہ پوزیشن پھر سے بحال ہو جائے گی کہ اسلام کے معاشی نظام کو ناقابل عمل قرار دیا جانے لگے گا۔ میرے خیال میں ہم سب کو اس صورت حال کی واپسی کو روکنے کے لیے اپنے اپنے دائرے میں مخلصانہ محنت کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دیں۔ آمین یا رب العالمین۔
الشریعہ اکادمی میں دورۂ تفسیر و محاضرات قرآنی
ادارہ
الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ ہر سال مدارس کی سالانہ چھٹیوں کے موقع پر مدارس کے فضلا اور منتہی طلبا کے لیے دورہ تفسیر کا اہتمام کرتی ہے۔ امسال بھی چوتھے سالانہ دورۂ تفسیر کا افتتاح ۲ جون بروز سوموار صبح نو بجے ہوا ۔ افتتاحی تقریب میں اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی کے علاوہ مدرسہ نصرۃ العلوم کے مہتمم مولانا محمد فیاض خان سواتی اور مدرسہ اشرف العلوم کے استاذ الحدیث مولانا مفتی فخر الدین بطور مہمان خصوصی شریک تھے۔ تلاوت و نعت کے بعد اکادمی کے استاذ مولانا حافظ محمد رشید نے دورۂ تفسیر کا مختصر تعارف اور امتیازی خصوصیات سامعین کے سامنے پیش کیں۔ اس کے بعد مولانا محمد فیاض خان سواتی نے خطاب کیا جس میں انہوں نے مدرسہ نصرۃ العلوم کے نصاب میں شامل تفسیر قرآن کے نصاب پر روشنی ڈالی اور یہ واضح کیا کہ جامعہ نصرۃ العلوم اور الشریعہ اکادمی کی سند تفسیر ایک ہی ہے اور اکادمی کا دورۂ تفسیر جامعہ نصرۃ العلوم کے دورۂ تفسیر کا ہی تسلسل ہے۔ مولانا محمد فیاض خان سواتی نے قرآن کریم کی تفہیم کے لیے عصر حاضر کے ضروری لوازمات پر عمدہ اور عالمانہ گفتگو فرمائی۔ ان کے بعد مولانا مفتی فخرالدین نے قرآن کریم کے حقوق پر روشنی ڈالتے ہوئے طلبہ کو تاکید کی کہ وہ قرآن کریم کے تلفظ کی درستی اور تصحیح پر بھی کچھ وقت صرف کریں کہ یہ بھی قرآن کریم کے حقوق میں سے ایک بڑا حق ہے۔ مولانا زاہد الراشدی نے اپنے مختصر خطاب میں طلبہ کو تلقین کی کہ وہ اکادمی کے قیام کے دوران اپنا وقت ضائع ہونے سے بچائیں اور زیادہ سے زیادہ علمی مصروفیات میں وقت صرف کریں۔ آخر میں مولانا مفتی جمیل احمد گجر نے اجتماعی دعا کروائی اور دعا پر افتتاحی تقریب اختتام پذیر ہوئی۔
الشریعہ اکادمی میں دورۂ تفسیر کے نصاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: ایک، ترجمہ و تفسیر اور دوسرا، محاضرات علوم القرآن۔ پہلے حصے کے تحت اساتذہ کرام نے قرآن کریم کی مکمل تفسیر درساً پڑھائی اور اس کے منتخب کتب تفسیر کے مطالعہ کو شامل نصاب کرتے ہوئے طلبہ کو یہ ذمہ داری دی گئی کہ وہ فلاں فلاں تفاسیر سے مقررہ سورتوں کا مطالعہ کریں اور پھر اپنے نتائج مطالعہ کو کلاس میں طلبہ اور استاد کے سامنے پیش کریں۔
دورۂ تفسیر میں مختلف اساتذہ نے قرآن مجید کے مختلف پاروں کی تدریس کی جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
مولانا زاہد الراشدی : سورہ فاتحہ تا اختتام سورہ نساء، سورہ والضحیٰ تا آخر قرآن کریم
مولانا فضل الہادی (استاذ الحدیث جامعہ اشاعت الاسلام مانسہرہ ): سورۃ المائدہ تا اختتام سورہ یوسف، سورۃ المؤمن تا اختتام سورۃ الاحقاف
مولانا محمد ظفر فیاض (استاذ الحدیث جامعہ نصرۃ العلوم): سورہ الرعد تا اختتام سورۃ النمل
مولانا حافظ محمد یوسف : سورۃ القصص تا اختتام سورۃ الزمر
مولانا محمد عمار خان ناصر : سورۂ محمد ، سورۃ الفتح ، سورۃ الحجرات۔ سورۃ الجن تا اختتام سورۃ اللیل
مولانا وقار احمد : سورہ ق تا اختتام سورۃ الحدید
مولانا حافظ محمد رشید : سورۃ المجادلہ تااختتام سورہ نوح
اس سال دورۂ تفسیر کا دورانیہ تقریباً پچیس دن (۲ جون تا ۲۶ جون) تھا۔ الحمد للہ اس مختصر وقت میں اساتذہ کرام نے اپنے اپنے اسباق مکمل فرمائے۔
دورہ کا دوسرا حصہ محاضرات علوم القرآن پر مشتمل تھا۔ اکادمی کے دورۂ تفسیر کی یہ خصوصیت ہے کہ طلبہ کو علوم القرآن کے مختلف پہلوؤں سے روشناس کروانے کے لیے ملک کے مختلف اہل علم کو منتخب موضوعات اظہار خیال کی دعوت دی جاتی ہے جس سے طلبہ علوم القرآن سے متعلقہ قدیم و جدید مباحث سے آگاہی حاصل کرتے ہیں۔ امسال اس حصے کو تین ذیلی شعبوں میں تقسیم کیا گیا:
۱۔ احکام القرآن اور اقوام متحدہ کا چارٹر اور عالمی و پاکستانی قوانین کا تقابلی مطالعہ
۲۔ ارض القرآن و جغرافیہ قرآنی پر سلسلہ محاضرات
۳۔علوم قرآنی کے مختلف موضوعات پر لیکچرز
پہلے عنوان کے تحت مولانا زاہد الراشدی نے تقریباً محاضرات پیش کیے جن میں اقوام متحدہ کے چارٹر کی مختلف شقوں کا احکام القرآن کے ساتھ تقابل کیا گیا اور دونوں کے مابین مخالفت و موافقت کے پہلوؤں کو واضح کیا گیا۔ اس کے علاوہ مولانا راشدی نے مختلف موضوعات مثلاً خلافت و حکومت، خاندانی نظام،اسلام میں غلامی کا تصور اور عصر حاضر میں موجود مختلف ادیان و مذاہب کے تعارف وغیرہ پر سیر حاصل گفتگو فرمائی۔
دوسرے عنوان ’’ارض القرآن و جغرافیہ قرآنی‘‘ کے عنوان پر ایک مختصر کورس ترتیب دیا گیا جو پانچ دن تک جاری رہا۔ اس کے موضوعات میں دنیا کے جغرافیہ کا اجمالی تعارف، نقشہ سمجھنے کا طریقہ ،نقشہ کی مددسے قرآن کریم میں مذکور انبیاء کرام اور ان کے مقامات دعوت کی نشاندہی اور قرآن میں مذکوراقوام کا تعارف اور ان کے مقامات کی نشاندہی وغیرہ شامل تھے۔ اس کورس میں مولانا فضل الہادی نے تدریس کے فرائض سر انجام دیے۔ طلبہ نے اس سلسلے کا بے حد فائدہ محسوس کیا اور گلوب اور نقشوں کی مدد سے مقامات قرآنی کو سمجھا۔ کورس کے درمیان میں استاد گرامی مولانا زاہد الراشدی نے ’’قرآن فہمی میں ارض القرآن کی اہمیت اور اس موضوع کے مآخذ کا تعارف‘‘ کے عنوان سے بڑی اہم اور پرمغز گفتگو فرمائی۔ کورس کی اختتامی تقریب مولانا محمد عمار خان ناصر مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک ہوئے۔ اس تقریب میں طلبہ کرام نے کورس کے مختلف اسباق کاخلاصہ اساتذہ کے سامنے پیش کیا۔ آخر میں مولانا عمار خان ناصر نے علم ارض القرآن کے علمی، اعتقادی، تاریخی اور دعوتی فوائد کے عنوان سے جامع خطاب فرمایااور انھی کی دعا پر تقریب کا اختتام ہوا۔
دورۂ تفسیر کے دوران میں علوم قرآنی کے منتخب موضوعات پر دروس کا سلسلہ بھی رہا جس کی تفصیل اس طرح ہے:
ڈاکٹر اکرم ورک (پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج کامونکی): مستشرقین کا تعارف اور حدیث پر ان کے اعتراضات کا جائزہ
ڈاکٹر حافظ محمود اختر (سابق صدر شعبہ علوم اسلامیہ ، جامعہ پنجاب، لاہور): مستشرقین کے اصول تحقیق
ڈاکٹر جنیداحمد ہاشمی (اسسٹنٹ پروفیسر ، انٹر نیشنل یونیورسٹی ، اسلام آباد ): تاریخ علوم القرآن (۲ محاضرے)
مولانا سید متین شاہ (فاضل جامعہ امدادیہ ، فیصل آباد ، ریسرچ سکالر IRI، اسلام آباد ):
۱۔ تفاسیر میں وجوہ اختلاف : علامہ ابن تیمیہ کے مقدمۃ التفسیر کی روشنی میں
۲۔مولانا اصلاحی کا نظریہ نظم قرآن
مولانا حافظ محمد سرور (فاضل جامعہ اشرفیہ ، لیکچرار اسلامیات ، PIEAS، یونیورسٹی ، اسلام آباد ): الحاد ی فکر کے معاشرے پر اثرات
مولانا وقار احمد(فاضل مدرسہ نصرۃ العلوم ، لیکچرر گورنمنٹ کالج ، ہری پور ):
۱۔ امام شاہ ولی اللہ اور ان کی خدمات قرآنیہ کا تعارف
۲۔مولانا محمد قاسم نانوتوی اور علم التفسیر
حافظ محمد رشید (فاضل جامعہ دار العلوم کراچی ، لیکچرر ، گورنمنٹ ڈگری کالج ڈسکہ): جدید اصول تحقیق کا تعارف اسلامی تعلیمات کی روشنی میں (۲ محاضرے)
مولانا محمد عبد اللہ راتھر(فاضل جامعہ دار العلوم کبیر والہ ، ناظم تعلیمات الشریعہ اکادمی ): اسلامی تہذیبی ورثہ اور ہماری ذمہ داریاں
اکادمی میں دورہ تفسیر کے اختتام پر شرکا کو ایک سوال نامہ دیا جاتاہے جس میں دورہ کے نصاب، مختلف اساتذہ کے طریقہ تدریس، انتظامی معاملات ، محاضرات کے لیے تشریف لانے والے اہل علم اور دورہ سے متعلق مجموعی تاثر کے حوالے سے آرا اور تجاویز طلب کی جاتی ہیں۔ اس سال بھی طلبہ سے feedback لینے کا اہتمام کیا گیا۔ طلبہ نے پوری آزادی کے ساتھ سوالات کے جوابات تحریر کیے جن پر اکادمی کی سالانہ میٹنگ میں غور کیا جائے گا۔
اس سال دورۂ تفسیر میں ملک کے مختلف حصوں سے شریک ہونے والے طلبہ کرام کے نام مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ حضرت عمر جامعہ مدنیہ، چارسدہ
۲۔ عبد الغفور خان ۔
۳۔ عبد الرحمان ۔ جامعہ امداد العلوم، پشاور
۴۔ عاقب عبد الرزاق ۔ جامعہ علوم القرآن، راول پنڈی
۵۔ فواد فاروق ۔ جامعہ حقانیہ، اکوڑہ خٹک
۶۔ عتیق الرحمان ۔ جامعہ حنفیہ، جہلم
۷۔ شاہد اقبال ۔ گورنمنٹ ڈگری کالج، کروڑ لعل عیسن
۸۔ عبد الرب ۔ جامعہ حبیبیہ تعلیم القرآن، کروڑ لعل عیسن
۹۔ فیصل محمود عباسی ۔ جامعہ دار العلوم، کراچی
۱۰۔ فرمان اللہ ۔ جامعہ حلیمیہ، درہ پیزو، لکی مروت
۱۱۔ عمر فاروق ۔ مدرسہ معمورہ ، دار بنی ہاشم، ملتان
۱۲۔ محمد اعجاز ۔ مدرسہ معمورہ، دار بنی ہاشم، ملتان
۱۳۔ عمر فاروق ۔ مدرسہ عربیہ، شفیع مسجد، نوشہرہ
۱۴۔ میاں محمد عبید اللہ ۔ گورنمنٹ ڈگری کالج، ڈسکہ
۱۵۔ کفایت اللہ ۔ جامعہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ
۱۶۔ محمد الیاس ۔ جامعہ دار العلوم نصیریہ، حضرو
۱۷۔ محمد یاسر خان ۔ جامعہ علوم القرآن، راول پنڈی
۱۸۔ سہیل احمد ۔ جامعہ علوم القرآن، راول پنڈی
۱۹۔ اعجاز حسین ۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد
۲۰۔ عبد المجید ۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد
۲۱۔ محمد عمر ۔ جامعہ رحمانیہ، شمع کالونی، گوجرانوالہ
۲۲۔ عبد الغفور ۔ جامعہ دار الہدیٰ، اسلام آباد
۲۳۔ مشتاق احمد ۔ جامعہ دار الہدیٰ، اسلام آباد
۲۴۔ فخر الاسلام ۔ جامعہ اشاعت الاسلام، مانسہرہ
۲۵۔ ثناء اللہ ۔ جامعہ اشاعت الاسلام، مانسہرہ
۲۶۔ عطاء اللہ ۔ جامعہ عمر بن الخطاب، مانسہرہ
۲۷۔ محمد دانش ۔ جامعہ غفوریہ، جھنگ روڈ، فیصل آباد
۲۸۔ احسان الرحمان ۔ جامعہ اسلامیہ امدادیہ، فیصل آباد
۲۹۔ محمد ابوبکر ۔ جامعہ اشرفیہ، لاہور
۳۰۔ محمد عمر ۔ مدرسہ عبد اللہ بن مسعودؓ، ہری پور
۳۱۔ فواد الرحمان ۔ دار العلوم اسلامیہ، چارسدہ
۳۲۔ سید اکبر ۔ جامعہ دار الہدیٰ، اسلام آباد
۳۳۔ فرحان ارشد عباسی ۔ جامعہ اسلامیہ امدادیہ، فیصل آباد
۳۴۔ محمد فیاض ۔ جامعہ اشاعت الاسلام، مانسہرہ
۳۵۔ سید احسان شاہ ۔ جامعہ اشاعت الاسلام، مانسہرہ
۳۶۔ محمد فہیم ۔ جامعہ اشاعت الاسلام، مانسہرہ
۳۷۔ حسنین معاویہ ۔ گورنمنٹ اسلامیہ کالج، گوجرانوالہ
۳۸۔ جنید احمد حقانی ۔ جامعہ حقانیہ، اکوڑہ خٹک
۳۹۔ محمد فاروق ۔ گوجرانوالہ
۴۰۔ محمد بلال ۔ جامعہ دار الہدیٰ ، اسلام آباد
۴۱۔ محمد عارف ۔ مدرسہ مفتاح العلوم، ہری پور
۴۲۔ محمد خبیب ۔ مدرسہ مفتاح العلوم، ہری پور
۲۶ جون بروز جمعرات بعد از مغرب دورۂ تفسیر کی اختتامی نشست منعقد ہوئی جس میں اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی کے علاوہ جامعہ پنجاب کے شعبہ علوم اسلامیہ کے صدر ڈاکٹر محمد سعد صدیقی مدرسہ مظاہر العلوم و انوار العلوم گوجرانوالہ کے شیخ الحدیث مولانا محمد داؤد اور علامہ زاہد الراشدی نے شرکت کی اور طلبہ کو اسناد تقسیم کی گئیں۔
ملی مجلس شرعی کا ایک اہم اجلاس
ادارہ
۱۵ جون کو جامعہ اشرفیہ لاہور میں مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کے مشترکہ علمی و فکری فورم ’’ملی مجلس شرعی پاکستان‘‘ کا ایک اہم اجلاس مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی کی صدارت میں منعقد ہوا، جس میں مولانا مفتی محمد خان قادری، علامہ احمد علی قصوری، مولانا عبد المالک خان، مولانا حافظ عبد الغفار روپڑی، مولانا سید عبد الوحید، حافظ عاکف سعید، پروفیسر ڈاکٹر محمد امین، مولانا سید قطب، مولانا قاری احمد وقاص، اور مولانا زاہد الراشدی نے شرکت کی۔
وفاقی شرعی عدالت میں سودی نظام و قوانین کے خلاف کیس کی از سر نو سماعت شروع ہونے کے بعد عدالت کی طرف سے ملک بھر کے علمی و دینی حلقوں کے لیے جو سوالنامہ جاری کیا گیا ہے، ملی مجلس شرعی نے مختلف مکاتب فکر کی طرف سے اس کا متفقہ جواب بھجوانے کا فیصلہ کیا تھا، جس کے لیے ایک مشترکہ کمیٹی کئی ماہ تک کام کرتی رہی ہے اور اس نے متفقہ جواب تیار کر لیا ہے۔ کونسل کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمد امین نے اس کی رپورٹ پیش کی جس پر اجلاس میں اس متفقہ جواب کی منظوری دیتے ہوئے اسے وفاقی شرعی عدالت کو باضابطہ طور پر بھجوانے اور شائع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اجلاس میں مولانا زاہد الراشدی نے تحریک انسداد سود پاکستان کے کنوینر کی حیثیت سے ملک کے مختلف شہروں میں اس سلسلہ میں منعقد ہونے والے اجتماعات کی رپورٹ پیش کی اور طے پایا کہ رمضان المبارک کے بعد عوامی و دینی حلقوں میں سود کے بارے میں بیداری اور آگہی کو فروغ دینے کے لیے تحریک انسداد سود پاکستان کی سرگرمیوں کو تیز کیا جائے گا۔
اجلاس میں ملک کی عمومی صورت حال اور مختلف عوامی مسائل کا بھی جائزہ لیا گیا اور سرکردہ علماء کرام نے اس سلسلہ میں اپنی تجاویز پیش کیں۔
مولانا مفتی محمد خان قادری نے کہا کہ اس وقت ہمارے ملک کے عوام کا سب سے بڑا مسئلہ غربت اور مہنگائی کا ہے اور غریب آدمی اس چکی میں بری طرح پستا چلا جا رہا ہے۔ مگر دینی حلقوں اور علماء کرام کی اس طرف پوری طرح توجہ نہیں ہے۔ حالانکہ معاشرے کے غریب اور مستحق لوگوں کا خیال رکھنا اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرنا ہماری دینی ذمہ داری ہے۔ اس لیے علماء کرام، دینی جماعتوں، مدارس اور مساجد کو اپنے پروگرام میں اس بات کو بھی شامل کرنا چاہیے اور ہر مسجد میں ایک ایسی کمیٹی ہونی چاہیے جو اردگرد کے نادار اور غریب لوگوں کی ضروریات کا خیال رکھے اور ان کو اجتماعی طور پر پورا کرنے کا اہتمام کرے۔
مولانا حافظ فضل الرحیم نے اس طرف توجہ دلائی کہ میڈیا اور ابلاغ کے ذرائع کی طرف سے فحاشی اور عریانی کے فروغ کا دائرہ جس طرح وسیع ہوتا جا رہا ہے، اس سے ہماری دینی اور اخلاقی قدریں تباہ ہو رہی ہیں، فحاشی کا احساس ختم ہوتا جا رہا ہے اور ثواب و گناہ کا فرق مٹنے لگا ہے۔ اگر اس کا بروقت سدباب نہ کیا گیا تو نئی نسل کے ایمان اور اخلاق کی حفاظت مشکل ہو جائے گی۔
مولانا حافظ عاکف سعید نے کہا کہ ہمارے تمام مسائل کی اصل جڑ یہ ہے کہ پاکستان کے قیام کے بعد سے اب تک ہم ملک میں اقامت دین اور دینی احکام و قوانین کے نفاذ کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں۔ بلکہ سودی نظام کے حوالہ سے اللہ تعالیٰ اور ان کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف حالت جنگ میں ہیں۔ جب تک اس صورت حال کو تبدیل نہیں کیا جاتا ہمارے مسائل کی سنگینی میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا اور ایک ایک مسئلہ کو لے کر اسے حل کرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہو پائیں گی۔
علامہ احمد علی قصوری نے اس بات پر زور دیا کہ دینی حلقوں نے جب بھی کسی مشترکہ قومی اور دینی مسئلہ پر اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے اور متفق ہو کر تحریک چلائی ہے انہیں اس میں ہمیشہ کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے مسئلہ پر بھی اسی اتحاد اور عزم کا اظہار کیا جائے جس کا مظاہرہ عقیدہ ختم نبوت اور ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے مسئلہ پر کیا گیا تھا۔
مولانا سید عبد الوحید نے کہا کہ ہمیں عوام میں یہ شعوربھی پیدا کرنا چاہیے کہ امارت اور تعیش کے بے جا مظاہرے اور معیار زندگی میں بے تحاشہ فرق کو ختم کیا جائے۔ اس لیے کہ اس سے غریب عوام میں مایوسی پھیلتی ہے اور معیار زندگی کی دوڑ میں بہت سی خرابیاں جنم لیتی ہیں۔
مولانا عبد المالک خان نے کہا کہ قومی اور عوامی مسائل کے لیے دینی حلقے اور علماء کرام اپنی اپنی جگہ تو کام کر رہے ہیں لیکن ان میں اجتماعیت اور مشاورت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ کوئی بھی کام اجتماعی طور پر سر انجام دینے سے اس میں قوت پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ برکت بھی ہوتی ہے۔
اجلاس میں ان امور کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ ان مسائل کی طرف دینی اور عوامی حلقوں کو توجہ دلانے کے علاوہ ان کے بارے میں منظم جدوجہد کے لیے ایک رپورٹ مرتب کی جائے گی اور رمضان المبارک کے بعد ملی مجلس شرعی کے اجلاس میں اس کا جائزہ لے کر اس مہم کو آگے بڑھانے کا طریق کار طے کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
مولانا زاہد الراشدی کے اسفار و خطابات
ادارہ
25 مئی کو اٹھیل پور قصور میں مدرسہ عربیہ اشرف العلوم کے سالانہ اجلاس سے خطاب۔
27 مئی کو ڈیرہ اسماعیل خان میں جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے فاضل مولانا محمد یوسف ثانی کی دستار بندی کی تقریب سے خطاب اور اسلامیہ کالونی میں مولانا عبد الحفیظ محمدی کی مسجد کی تعمیر نو پر دعائیہ تقریب میں شرکت۔
28 مئی کو ڈیرہ اسماعیل خان میں پاکستان شریعت کونسل کے زیر اہتمام سود کے موضوع پر سیمینار سے خطاب اور بزرگ عالم دین شیخ الحدیث مولانا علاء الدینؒ کی وفات پر ان کے صاحبزادگان سے مدرسہ نعمانیہ میں تعزیت۔
29 مئی کو ڈیرہ اسماعیل خان میں جامعہ نصرۃ العلوم کے سابق استاذ مولانا حبیب اللہ ڈیرویؒ کے مدرسہ کا دورہ اور بزرگ عالم دین حضرت مولانا قاری محمد یوسف سے ملاقات۔
30 مئی کو بعد نماز مغرب اڈیالہ راولپنڈی میں دارالعلوم دیوبند کی خدمات پر ایک سیمینار سے خطاب۔
31 مئی کو تراڑ کھل آزاد کشمیر کی مرکزی جامع مسجد میں علماء اہل سنت کی علاقائی جماعت تنظیم اہل سنت کے سالانہ اجتماع سے خطاب۔
5-4 جون کو ادارہ مرکزیہ دعوت و ارشاد چنیوٹ میں سالانہ ختم نبوت کورس کی تین نشستوں سے خطاب۔
6 جون کو اٹاوہ گوجرانوالہ میں جمعہ کی نماز کے بعد بنات کے مدرسہ میں بخاری شریف کے آخری سبق کی تقریب سے خطاب۔
8 جون کو صبح دس بجے مدرسۃ فاطمۃ الزہراء واپڈا ٹاؤن میں خواتین کے تربیتی کورس سے خطاب۔ ظہر کے بعد حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود مدظلہ کے ادارہ جامعہ ملّیہ شاہدرہ لاہور میں علماء کے تربیتی کورس کی اختتامی نشست سے خطاب۔ اور عصر کی نماز کے بعد مریدکے میں ایک مسجد کے سنگ بنیاد کی تقریب میں شرکت۔
10 جون کو جامعہ اسلامیہ امدادیہ منڈی دار ہرٹن ضلع ننکانہ صاحب میں علماء کرام کے علاقائی اجتماع سے خطاب۔
12-11 جون کو جامعہ محمدیہ اسلام آباد میں حضرت مولانا ڈاکٹر محمد الیاس فیصل آف مدینہ منورہ کے زیر انتظام منعقد ہونے والے تربیتی کورس کی دو نشستوں سے خطاب۔ اور مغرب کے بعد جامعہ حنفیہ تعلیم القرآن سرائے عالمگیر میں علماء کرام سے ملاقات۔
13 جون کو بعد نماز عشاء جامعہ حنفیہ قادریہ جامع مسجد امن باغبان پورہ لاہور کے سالانہ جلسہ دستار بندی سے خطاب۔
14 جون کو ظہر کے بعد دُھنی تحصیل حافظ آباد میں طالبات کے ایک مدرسہ میں خواتین کے لیے منعقد ہونے والے تربیتی کورس سے خطاب۔
15 جون کو لاہور ٹاؤن شپ میں جامعہ القدسیۃ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے علماء کرام کے تربیتی کورس کی اختتامی نشست سے خطاب۔ اور عصر کے بعد جامعہ اشرفیہ لاہور میں ملی مجلس شرعی پاکستان کے اہم اجلاس میں شرکت۔
16 جون کو دارالعلوم انوریہ اجمل ٹاؤن گوجرانوالہ کے سالانہ جلسہ دستار بندی سے مغرب کے بعد خطاب۔
17 جون کو ظہر کے بعد علامہ اقبالؒ اوپن یونیورسٹی اسلام آباد میں پی ایچ ڈی اسکالرز کے لیے منعقدہ کورس کی ایک نشست میں گفتگو۔ مغرب کے بعد منڈیاں ایبٹ آباد کی مرکزی جامع مسجد میں جلسہ عام سے خطاب۔
18 جون کو جامع مسجد الیاسی نواں شہر ایبٹ آباد میں حضرت مولانا شیخ نذیر احمد زئی مدظلہ کے سالانہ دورہ تفسیر قرآن کریم کی ایک نشست سے فہم قرآن کریم کے عصری تقاضے کے موضوع پر تفصیلی گفتگو اور عشاء کے بعد حویلیاں کے قریب بانڈہ میں ایک مدرسہ کی سالانہ تقریب سے خطاب۔
19 جون کو اسلام آباد میں بعد نماز ظہر مجلس صوت الاسلام کراچی کے زیر اہتمام سال بھر جاری رہنے والے خطابت کورس کی آخری نشست سے خطاب۔
21 جون کو نماز عصر کے بعد ڈی سی کالونی گوجرانوالہ کے قریب ایک مسجد کے سنگ بنیاد کی تقریب میں مولانا مفتی محمد حسن کے ہمراہ شرکت اور مغرب کے بعد ڈی سی روڈ گوجرانوالہ میں تنظیم اسلامی کے زیر اہتمام استقبال رمضان المبارک کی تقریب سے خطاب۔
22 جون کو مولانا عبد الرؤف فاروقی کے جامعہ اسلامیہ کامونکی میں حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کی یاد میں قائم کیے جانے والے الرحمت ٹرسٹ ہسپتال کی افتتاحی تقریب سے خطاب۔
پانی پینے کے طبی اصول
حکیم محمد عمران مغل
پانی کا سب سے اہم کام خون کو پتلا کرنا ہے جس سے یہ رگوں میں دوڑتا ہے۔ چین کے لوگ ساری زندگی گرم پانی پیتے ہیں، ہماری طرح برف کے گولے حلق میں نہیں ٹھونستے۔ پانی کا برتن گہرا نہیں ہونا چاہیے، بلکہ کشادہ ہونا چاہیے تاکہ اس میں خاکی ذرات ہوں تو نظر آ سکیں۔
آدمی کو پانی کب پینا چاہیے؟ پرانے اطبا نے انسانی مزاجوں کے لحاظ سے درجات مقرر کیے ہیں۔ مرطوب مزاج تھوڑا صبر کر کے پیے، لیکن خشک مزاج فوری پیے۔ اگر ایسا نہ کرے گا تو تب دق، احتراق اخلاط، ضعف دماغ اور سرد کا اندیشہ ہے۔ غذا کے ساتھ پانی پینے کے متعلق اطبا کا کافی اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک اس سے غذا کچی رہ جاتی ہے اور بعض کا خیال ہے کہ ہاضمہ تیز ہوتا ہے۔ اس بات پر سب متفق ہیں کہ مرطوب مزاج والا بہرکیف نقصان اٹھاتا ہے۔ صرف خشک مزاج والے کو اطبا نے اجازت دی ہے کہ پیاس کو فوری بجھائے۔ صفراوی مزاج والا غذا کھانے کے دو گھنٹہ بعد، سوداوی مزاج تین گھنٹہ بعد، بلغمی مزاج چار گھنٹہ بعد اور بعض اطبا نے گھنٹہ دو گھنٹہ بعد کی بھی پابندی عائد کی ہے۔ اگر معدہ او رجگر میں گرمی ہو تو پھر فوری پئیں۔
بدن کے مسامات کھلے ہوں یا معدہ خالی ہو تو پانی کی سردی بلا اصلاح اعضائے رئیسہ اور اعصاب میں سرایت کر جاتی ہے جو حرارت غریزیہ کے لیے باعث نقصان ہے۔ جماع کے بعد پانی پینے سے حرارت غریزیہ بجھتی ہے۔ رعشہ، تشنج پیدا ہوتا ہے اور بھوک بھی مر جاتی ہے۔
نہار منہ پانی پینے سے اگر دل کی طرف چلا گیا تو دل کی حرارت بجھا کر باعث موت ہو سکتا ہے۔ جگر کی طرف چلا گیا تو خطرناک مرض استسقا (پانی کا بھر جانا) پیدا کرتا ہے۔ نہارمنہ ٹھنڈا پانی پینے سے معدہ اور اعضاء تنفس سکڑ جاتے ہیں، لیکن خشک مزاج اور طاعون کے مریض کو نہار منہ پینا جائز ہے کیونکہ پانی ان کی اندرونی حرارت کی اصلاح کرتا ہے۔
ریاضت، حمام یا اسہال کے بعد ٹھنڈا پانی پینے سے وہی عوارض ہوں گے جو جماع کے بعد ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی ناقابل برداشت جگر کا درد بھی ہوا کرتا ہے۔ نیند سے بیدار ہو کر فوری طور پر پانی پینے سے زکام اور دماغی امراض ہوں گے۔ قے کے بعد پانی پینے سے ضعف معدہ ہوا کرتا ہے۔ رات کو تھوڑا پینا چاہیے۔ کھڑے کھڑے یا اوندھے منہ یا تکیہ کی ٹیک لگا کر پینے سے احشا اور اعصاب متاثر ہوتے ہیں۔ جنھیں اعصابی دردیں ہوں، وہ یہی لوگ ہوتے ہیں۔
کنویں او رنہر کا پانی ملا کر کبھی نہ پئیں۔ دو مختلف کنووں کا پانی بھی ملا کر نہ پئیں۔ اس سے تبخیر اور قراقر پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح بارش، کنویں اور نہر کا پانی قطعاً ملا کر نہ پینا چاہیے۔ یہ لطیف اور کثیف کا اجتماع ہے۔ تربوز کا پانی پینے سے برص کا مرض ہوتا ہے۔ یہ برس ہا برس کی تحقیقات ہیں۔
نوٹ: مئی کی اشاعت میں کتابت کی غلطی سے یہ جملہ شائع ہو گیا ہے کہ ’’مٹی کے برتنوں سے بھی شوگر کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔‘‘ مٹی کے برتنوں کا استعمال ہرگز شوگر کا باعث نہیں بنتا۔
اگست ۲۰۱۴ء
فلسطینی عوام، عالمی ضمیر اور مسلمان حکمران
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
فلسطینی عوام ایک بار پھر صہیونی جارحیت کی زد میں ہیں۔ غزہ میں اسرائیل کی فضائی اور زمینی کاروائیوں نے سینکڑوں فلسطینیوں کو خون میں نہلا دیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل غزہ کے غیور اور مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی آزادی کی اور تشخص کو مکمل طور پر پامال کر دینے پر تل گیا ہے اور اسے حسب سابق مغربی قوتوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ ان فلسطینی عوام کا واحد قصور یہ ہے کہ وہ فلسطین کے باشندے ہیں۔ اپنے اس حق سے دستبردار ہونے کے لیے کسی صورت تیار نہیں ہیں اور اس کے لیے مسلسل قربانیاں دیتے چلے جا رہے ہیں۔ اب سے ایک صدی قبل برطانوی وزیر خارجہ بالفور نے فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن تسلیم کرتے ہوئے انہیں دنیا بھر سے وہاں لا کر بسانے اور ان کی ریاست قائم کرانے کا جو معاہدہ کیا تھا، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک نے ہر قسم کی انسانی، اخلاقی اور سیاسی حدود کو پاؤں تلے روندتے ہوئے اسے نہ صرف پورا کیا ہے بلکہ وہ اس کی مکمل پاسداری کر رہے ہیں۔ حتیٰ کہ اقوام متحدہ نے فلسطین کو تقسیم کر کے فلسطین کو الگ اور آزاد وطن دینے کا جو وعدہ کر رکھا ہے، اقوام متحدہ کے اصولوں اور بین الاقوامی معاہدات کی دنیا بھر میں دہائی دینے والے مغربی ممالک کو اس کا بھی کوئی پاس نہیں ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ نے فلسطین کو تقسیم کر کے فلسطین اور اسرائیل کے نام سے دو آزاد ریاستیں قائم کی تھیں اور ان کی سرحدوں کا تعین بھی کر دیا تھا۔ اگرچہ اس حوالہ سے مسلم ممالک میں دو الگ الگ موقف پائے جاتے ہیں۔ سعودی عرب اور پاکستان سمیت بہت سے ممالک نے اس تقسیم کو تسلیم نہیں کیا اور وہ اسرائیل کو ایک جائز ریاست کے طور پر قبول نہیں کر رہے، مگر مصر، اردن اور بعض دیگر مسلم ممالک نے اس تقسیم کو تسلیم کر رکھا ہے اور اسرائیل کو ایک قانونی ریاست کا درجہ دیا ہوا ہے، بلکہ خود فلسطینیوں میں الفتح اور حماس کے موقف اس سلسلہ میں الگ الگ ہیں۔ لیکن فلسطین کی تقسیم کو بالفرض تسلیم کرتے ہوئے بھی اقوام متحدہ کے فیصلے کے مطابق جس آزاد فلسطین ریاست کو قائم ہونا چاہیے تھا، اس کا دنیا کے نقشے پر کوئی وجود نہیں ہے اور میونسپلٹی طرز کی فلسطینی اتھارٹی قائم کر کے فلسطینیوں کو ان کی اپنی حکومت کے لالی پاپ پر بہلانے کی فریب کاری تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ بلکہ اسرائیل نے اقوام متحدہ کی مقرر کردہ بین لااقوامی سرحدوں کو پامال کر کے جن علاقوں پر گزشتہ نصف صدی سے قبضہ کر رکھا ہے، ان میں بیت المقدس بھی شامل ہے۔ انہیں اسرائیل سے واگزار کرانے میں کوئی بھی سنجیدہ نہیں ہے۔
جو لوگ اسرائیل کو ایک جائز ریاست تسلیم نہیں کرتے اور فلسطین کی تقسیم کے فیصلے کو منصفانہ نہیں سمجھتے، ہم بھی ان میں شامل ہیں، لیکن اسے ایک طرف رکھتے ہوئے خود تقسیم فلسطین کے اس بین الاقوامی فیصلے کے دو بنیادی تقاضے ہیں۔ ایک یہ کہ فلسطینیوں کی آزاد اور خود مختار ریاست تسلیم کی جائے جو کسی بھی قسم کی بیرونی مداخلت اور نگرانی سے پاک ہو۔ دوسرا یہ کہ اقوام متحدہ کی مقرر کردہ سرحدوں کو پامال کر کے اسرائیل نے جن علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے، انہیں اس سے واگزار کرایا جائے۔ عراق نے بین الاقوامی سرحدوں کی خلاف ورزی کر کے کویت پر قبضہ کیا تھا تو ہر طرف ہاہاکار مچ گئی تھی اور امریکہ نے اقوام متحدہ کی چھتری تلے فوجی کاروائی کر کے کویت کی خود مختاری کو بین الاقوامی سرحدات کے تقدس کے نام پر بحال کرا دیا تھا، لیکن اسرائیل نے دن دہاڑے بیت المقدس پر ناجائز قبضہ کیا اور مصر، شام اور اردن کی مسلمہ سرحدوں کو روند ڈالا مگر اقوام متحدہ خود بھی اور اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے والے مغربی ممالک بھی نصف صدی سے منقار زیر پر ہیں۔
سوال یہ ہے کہ دنیا پر اپنی چودھراہٹ کا ڈھنڈورا پیٹنے والے مغربی ممالک فلسطینیوں اور عرب ممالک کے اس جائز حق کی بحالی کے لیے سنجیدگی کیوں اختیار نہیں کر رہے اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے لاکھوں فلسطینی مہاجرین اور فلسطین کے اندر اسرائیل کی بار بار جارحیت کا نشانہ بننے والے مظلوم فلسطینی انہیں دکھائی کیوں نہیں دے رہے؟ اس سے زیادہ ستم ظریفی کا منظر یہ ہے کہ عالم اسلام اور عرب ممالک میں بھی اس حوالہ سے کوئی سنجیدگی دکھائی نہیں دے رہی۔ یوں لگتا ہے جیسے عالم عرب اور مسلم امہ نے بھی فلسطینیوں کو حالات بلکہ اسرائیل کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ مسلم حکومتوں کو اپنی داخلی حدود میں شدت پسندی اور بغاوت تو دکھائی دیتی ہے اور اسے کچلنے کے لیے وہ اپنی پوری قوت صرف کر رہی ہیں، لیکن اس شدت پسندی اور بغاوت کا باعث بننے والی بین الاقوامی دہشت گردی اور اسرائیلی جارحیت ان کو دکھائی نہیں دیتی اور انہوں نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ حالانکہ اگر مسلم ممالک متفق ہو کر اسرائیل، کشمیر، اراکان اور اس جیسے دیگر سلگتے ہوئے مسائل پر جرأت مندانہ موقف اور کردار اختیار کرنے کا حوصلہ کر لیں تو یہ داخلی شدت پسندی اور بغاوت خود ان مسلم ممالک کی اپنی قوت کا رخ بھی اختیار کر سکتی ہے۔
مسلم حکمران تھوڑی دیر کے لیے ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ سوچیں کہ مسلم دنیا کے کسی حصے میں ’’خلافت‘‘ کا نعرہ ابھرتا ہے تو دنیا بھر کے کروڑوں مسلمانوں کی آنکھوں میں چمک کیوں آجاتی ہے اور ان کے دلوں کی دھڑکن کیوں تیز ہو جاتی ہے؟ دراصل مسلم امہ خلافت کے اس کردار کو زندہ ریکھنا چاہتی ہے کہ سندھ میں راجہ داہر کی قید میں ایک مسلم خاتون اپنی بے بسی پر فریاد کرتی ہے تو عراق میں خلیفۂ وقت کا مقرر کردہ گورنر حجاج بن یوسفؒ اس کی مدد کے لیے بے چین ہو جاتا ہے اور اپنے بھتیجے محمد بن قاسمؒ کی کمان میں فوج روانہ کر دیتا ہے۔ یہ کردار امت مسلمہ کی ضرورت ہے اور وقت کا تقاضا ہے۔ اگر مسلم حکمرانوں میں یہ کردار اختیار کرنے کی سوچ اور حوصلہ موجود ہے اور وہ اسے روبہ عمل لانے کی کوئی صورت نکال سکتے ہیں تو شاید حالات کچھ سنبھل جائیں۔ ورنہ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ خلا اور حبس زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتے اور حبس جس قدر شدید ہو اس کی طرف بڑھنے والی آندھیوں کی رفتار بھی اسی حساب سے تیز ہوا کرتی ہے۔
مشرق وسطیٰ میں سیاسی و مذہبی کشمکش
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
عراق و شام میں سنی مجاہدین کے گروپ نے اپنے مقبوضہ علاقوں میں اسلام خلافت کے قیام کا اعلان کر دیا ہے۔ ’’اسلامک اسٹیٹ آف عراق و شام‘‘ کے نام سے کام کرنے والے ان مجاہدین نے مسلح پیش رفت کر کے عراق اور شام کی سرحد پر دونوں طرف کے بعض علاقوں پر کنٹرول حاصل کر رکھا ہے اور بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کا قبضہ ختم کرانے میں عراق اور شام دونوں طرف کی حکومتوں کو کامیابی حاصل نہیں ہو رہی۔ حتیٰ کہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری بھی گزشتہ دنوں بغداد کا دورہ کر کے اس سلسلہ میں ایک مشاورت میں شریک ہو چکے ہیں اور عراقی وزیر اعظم نوری المالکی کی درخواست پر امریکہ ان کی امداد کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔
’’اسلامک سٹیٹ آف عراق و شام‘‘ کا پس منظر یہ ہے کہ عراق کے وزیر اعظم نوری المالکی اور شام کے صدر بشار الأسد دونوں کا تعلق اہل تشیع سے ہے اور دونوں ملکوں کی سنی آبادی کو ان کے جارحانہ اور انتقامی طرز عمل کی شکایت ہے۔ حتیٰ کہ امریکہ کی سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن ایک انٹرویو میں نوری المالکی کے بارے میں کہہ چکی ہیں کہ وہ فرقہ وارانہ تعصب رکھتے ہیں۔ انہوں نے برسر اقتدار آنے کے بعد فوج اور سول انتظامیہ سے سنی افسران کو چن چن کر نکال دیا تھا اور وہ سنی آبادی کو حکومتی معاملات میں شریک کرنے کی سوچ نہیں رکھتے۔ دوسری طرف شام کے صدر بشار الأسد کو ملک کی سنی اکثریت کے خلاف معاندانہ اقدامات اپنے والد حافظ الأسد سے ورثہ میں ملے ہیں اور وہاں یہ کشمکش گزشتہ چار عشروں سے تھوڑے بہت اتار چڑھاؤ کے ساتھ مسلسل جاری ہے۔ جب حافظ الاسد نے سنی علماء اور کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن کر کے ان کے مضبوط مذہبی گڑھ اور تاریخی بستی ’’حماۃ‘‘ کو فوجی آپریشن کا نشانہ بنایا تھا، کہا جاتا ہے کہ اس آپریشن اور کریک ڈاؤن میں دس ہزار کے لگ بھگ سنی علماء اور کارکنوں نے جام شہادت نوش کیا تھا اور شام کی اخوان المسلمون کے سربراہ الاستاذ عبد الفتاح ابو غدہؒ سمیت سینکڑوں سرکردہ علماء کرام جلا وطنی پر مجبور ہوگئے تھے۔
موجودہ صورت حال میں نوری المالکی اور بشار الاسد کو نہ صرف ایران کی مکمل حمایت حاصل ہے بلکہ لبنان کی حزب اللہ اس لڑائی میں ان کے شانہ بشانہ ہے اور عالمی سطح پر روس اور چین کی واضح سپورٹ کے بعد اب امریکہ بھی انہیں بچا لینے کی حکمت عملی پر آگیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی عالمی حلقوں میں لگاتار گردش کرنے والی اس خبر پر بھی نظر ڈال لی جائے کہ عراق کو تین حصوں (۱) شیعہ عراق (۲) کرد عراق اور (۳) سنی عراق میں تقسیم کرنے کی تیاریاں آخری مراحل میں داخل ہوگئی ہیں جس کے نتیجے میں سنی عراق صرف تین صوبوں تک محدود ہو کر رہ جائے گا اور یہ وہ صوبے ہیں جہاں نہ تیل ہے اور نہ ہی انہیں دوسرے وسائل میسر ہیں۔ اور اس طرح ایک عرب صحافی کے بقول عراق کے سنی (السنۃ علی باب اللہ) مستقبل میں اللہ تعالیٰ کے دروازے پر کھڑے نظر آتے ہیں۔
اردن کے شاہ عبد اللہ نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ مشرق وسطیٰ کے اہل سنت شیعہ ہلال کے حصار میں ہیں۔ اور آج یہ بات علاقے کی صورت حال میں واضح عملی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ اس پس منظر میں شام اور عراق کے سنی مجاہد گروپوں نے اتحاد قائم کر کے دونوں طرف کے علاقوں پر قبضہ کرنے کا جو سلسلہ کچھ عرصہ سے شروع کر رکھا ہے اس سے یہ بات سمجھ آرہی ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ کے جغرافیائی نقشہ کو از سر نو تبدیل کرنے کی عالمی کوششوں میں رکاوٹ ڈالنے کی فکر میں ہیں۔ اس خطہ کی موجودہ جغرافیائی تقسیم پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کے ساتھ خلافت عثمانیہ کی شکست و ریخت اور اس کے بیشتر علاقوں پر یورپی ممالک کے تسلط کے بعد اس وقت وجود میں آئی تھی جب بین الاقوامی معاہدات کے تحت ترکی کو خلافت کا ٹائیٹل ترک کر دینے کی صورت میں اس کی حدود میں محصور کر دیا گیا تھا۔ اور اس کے بہت سے صوبوں کو نئی سرحدات کے ساتھ آزاد ممالک کی حیثیت دے دی گئی تھی۔ ورنہ یہ سب علاقے حتیٰ کہ اسرائیل بھی ترکی کی خلافت عثمانیہ کے صوبوں کی حیثیت رکھتے تھے۔ مگر یورپی قوتوں نے خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے زیر نگیں علاقوں کو اس طرح تقسیم کر دینا بھی ضروری سمجھا تھا کہ وہ ایک دوسرے کے کام نہ آسکیں بلکہ ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار رہیں۔
عالمی استعمار کو ایک صدی کے بعد اپنے مفادات اور تسلط کے تحفظ اور اسرائیل کی بقا کے لیے مشرق وسطیٰ کی جغرافیائی سرحدوں کی نئے سرے سے تشکیل کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے اور اس کے لیے تانے بانے بنے جا رہے ہیں۔ عالمی استعمار نے مشرق وسطیٰ کی نئی جغرافیائی تقسیم کے ساتھ ساتھ عالم اسلام میں خلافت اسلامیہ کے قیام اور شریعت اسلامیہ کے نفاذ کو ہر قیمت پر روکنے کو بھی اپنے ایجنڈے میں شامل کر رکھا ہے۔ کچھ عرصہ قبل برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے جو وزارت عظمیٰ سے علیحدگی کے بعد سے مغرب کی فکری قیادت کے لیے مسلسل سرگرم ہیں، ایک خطاب میں کہا تھا کہ دنیا میں کہیں بھی خلافت قائم نہیں ہونے دی جائے گی، اور نہ ہی شریعت نافذ ہوگی۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ترکی نے ’’معاہدہ لوزان‘‘ میں جب خلافت و شریعت سے دست برداری اختیار کی تھی اور آئندہ کبھی خلافت و شریعت کو اپنی حدود میں دوبارہ واپس نہ لانے کا یورپی قوتوں سے وعدہ کیا تھا تو اس معاہدے پر دستخط کرنے والے ترک لیڈر مصطفی کمال اتاترک اور عصمت انونو اس کانفرنس میں خلیفہ عثمانی کے نمائندے کے طور پر شریک ہوئے تھے اور اسی حیثیت سے دستخط کیے تھے۔ اس پر بعض مغربی دانش وروں کا کہنا ہے کہ خلافت و شریعت سے مکمل اور مستقل دست برداری کا یہ معاہدہ عثمانی خلافت کے نمائندے نے کیا تھا جو پورے عالم اسلام کی طرف سے تھا۔ اس لیے پوری مسلم امہ اس بات کی پابند ہے کہ وہ خلافت و شریعت سے دست برداری پر ہمیشہ قائم رہے۔ جبکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عالم اسلام میں خلافت کے احیاء کی ضرورت کا احساس بڑھتا جا رہا ہے اور اس کے لیے مسلم ممالک میں بیسیوں تحریکیں کام کر رہی ہیں جن میں سے بعض نے عسکری جدوجہد کا راستہ اختیار کر رکھا ہے۔ ان کے طریق کار سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن بنیادی طور پر وہ بھی خلافت اسلامیہ کے احیاء و قیام کے لیے مصروف عمل ہیں اور عالم اسلام کی ایک اجتماعی دینی و ملی ضرورت کی تکمیل چاہتے ہیں۔
خلافت اسلامیہ امت مسلمہ کی دینی ضرورت تو ہے ہی، ملی اور عالمی ضرورت بھی ہے کہ عالم اسلام اس وقت زخموں سے چور ہے مگر عالمی سطح پر اس کی آواز اٹھانے والا کوئی نہیں ہے، جبکہ امت مسلمہ پوری کی پوری عالمی استعماری قوتوں کے رحم و کرم پر ہے۔ اس کا اندازہ ایک بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو مرحومہ نے ایک انٹرویو میں عالم اسلام کی بے بسی کا ذکر کرتے ہوئے انتہائی حسرت کے ساتھ یہ جملہ کہا تھا کہ ’’اب تو کوئی Ottomon Empire (سلطنت عثمانیہ) بھی نہیں ہے جو عالمی سطح پر مسلمانوں کی آواز اٹھا سکے‘‘۔
اس ساری صورت حال میں سنی ممالک کی حکومتوں کا رویہ کیا ہے اور سنی دنیا کی علمی و فکری قیادتیں کس مزے سے خواب خرگوش میں مست ہیں، اس پر یہ شعر ان کی نذر کرنے کو جی چاہ رہا ہے کہ:
گلۂ جفائے وفا نما جو حرم کو اہل حرم سے ہے
کسی بتکدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی ہری ہری
اعجازِ قرآن ۔ ایک مختصر جائزہ
محمد حسنین
علوم قرآن کے تمام مباحث پر قرن اول سے اب تک ہر پہلو اور ہر زاویہ سے بحث کی جاتی رہی ہے لیکن پھر بھی ان کا حق ادا نہ ہو سکا اور اب بھی وہ تشنہ معلوم ہوتے ہیں۔ دوسرے مباحث کی طرح ’’اعجاز قرآن‘‘ کا موضوع بھی ابتدا ہی سے زیر بحث رہا ہے۔ اگرچہ ابتدائی صدیوں میں متکلمین کے کلامی مباحث یا مفسرین کی تفسیروں کے ضمن میں اس کا تذکرہ ہوتا تھا، لیکن بہت جلد اس موضوع پر مستقل تالیفات وجود میں آنے لگیں۔ چنانچہ کوئی صدی ایسی نہیں ملتی جس میں اعجاز قرآن کے موضوع پر پائے جانے والے علمی سرمایہ میں اضافہ نہ ہوا ہو۔
اعجاز قرآن کے مسئلہ کو شروع شروع میں مستقل بحث و تحقیق کا موضوع نہیں بنایا گیا، بلکہ اسے دیگر ان مسائل کے ساتھ شامل رکھا گیا جن میں اس زمانے میں زبردست کلامی بحثیں ہوتی تھیں اور ان کے سلسلہ میں اسلامی فرقوں کے درمیان باہم اختلاف تھا، خاص طور پر ان مسائل کے ساتھ جو نبوت اور معجزہ سے متعلق تھے۔ تیسری صدی ہجری میں اسلامی معاشرہ میں اعجاز قرآن کے بارے میں مختلف اقوال تھے جن کی وجہ سے اسلامی فرقوں میں کشمکش کی نازک صورتحال پیدا ہو گئی تھی۔ ہر فرقہ کے لوگ اعجاز قرآن کے بارے میں اپنی رائے کا اثبات اور اپنے مخالفین کی آواز کا ابطال کرتے تھے۔ اس قسم کی کتابوں میں ابن قتیبہ کی ’’تاویل مشکل القرآن‘‘ ابوالحسن اشعری کی ’’مقالات الاسلامیین‘‘ جاحظ کی ’’حجج النبوۃ‘‘ اور ابوالحین خیاط کی ’’الانتصار‘‘ قابل ذکر ہیں۔ ہر صدی میں ’’اعجاز قرآن‘‘ پر لکھی جانے والی تالیفات کے مصنفین نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ اعجاز قرآن پر جو کچھ لکھ رہے ہیں، وہ حرفِ آخر ہے، لیکن اگلی صدی نے ان کے اس دعویٰ پر خط نسخ کھینچ دیا۔
معجزہ
معجزہ کی حقیقت پر بات کرتے ہوئے علامہ جلال الدین السیوطی ؒ المتوفی ۹۱۱ھ رقمطراز ہیں کہ
’’اعلم أنَّ المعجزۃ أمر خارق للعادۃ ، مقرون بالتحدی، سالم من المعارضۃ‘‘ ۱
ترجمہ’’ معجزہ ایسے خارق عادت امر کو کہتے ہیں جس کے ساتھ تحدی بھی کی گئی ہو اور وہ معارضہ سے سالم رہے۔‘‘
جہاں تک معجزہ کی اقسام کا تعلق ہے حضرات علماء نے اس کی دو قسمیں بیان کی ہیں۔
۱۔ حسی معجزہ
۲۔ عقلی معجزہ
قوم بنی اسرائیل کے اکثر معجزات کا تعلق حسی معجزات سے تھا جس کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ قوم بڑی کند ذہن اور کم فہم تھی جبکہ امت محمدیہ کے زیادہ تر معجزات عقلی ہیں جس کا سبب اس امت کے افراد کی ذکاوت اور ان کے عقل کا کمال ہے اور دوسرا سبب یہ ہے کہ شریعت محمدیہ چونکہ آخری اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہے، اس لحاظ سے بھی اس کو عقلی معجزہ دیا گیا تاکہ اہل بصیرت اسے ہر وقت اور ہر زمانہ میں دیکھیں۔۲
اس ضمن میں ایک قول یہ بھی ہے کہ گزشتہ زمانہ کے واضح معجزات حسی اور آنکھوں سے نظر آنے والے تھے مثلاً صالح علیہ السلام کی اونٹنی اور موسیٰ علیہ السلام کا عصا اور قرآن کا معجزہ عقل و ادراک کے ذریعہ سے مشاہدہ میں آتا ہے۔ اس لیے اس کے متبع لوگ بکثرت ہوں گے کیونکہ آنکھوں سے دکھائی دینے والی چیز اپنے دیکھنے والے کے فنا ہوتے ہی خود بھی فنا ہو جاتی ہے، مگر جو چیز عقل کی آنکھوں سے دکھائی دیتی ہے، وہ باقی رہنے والی شے ہے۔ اس کو ہر ایک شخص یکے بعد دیگرے دائمی طور پر دیکھتا رہے گا۔۳
۱۔ قرآن کریم، ایک مسحور کن کلام
قرآن کریم کے اعجاز بیان کے سامنے اہل عرب نے آغاز بعثت ہی سے سپرڈال دی۔ جونہی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے سامنے اس کی تلاوت کی، ان کو اس کے اعجاز بیان کا اندازہ ہو گیا اور انہیں معلوم ہو گیا کہ کوئی بھی عربی ، جو عربی زبان کی حس اور اس کا اصلی ذوق رکھتا ہے یہ تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں۔ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے اہل عرب کو اس کلام الٰہی کے سننے سے روکنا چاہا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ بلاشبہ یہی تھی کہ ان کو یقین تھا کہ کوئی بھی عربی اس قرآن اور انسانی کلام میں تمیز کرنے میں غلطی نہیں کر سکتا۔
کبھی کبھی اس کی کچھ آیتیں کسی ایسے شخص کے گوش گزار ہو جاتیں جو اسلام کا شدید دشمن ہوتا، لیکن انہیں سنتے ہی اعجاز قرآن کے سامنے سپرڈال دیتا ، جیسا کہ حضرت عمر بن الخطابؓ کا اسلام لانے کا واقعہ ہے۔۴ اسی طرح روایتوں میں آتا ہے کہ جبیر بن مطعم بن عدی ایک مشترک کافدیہ ادا کرنے کی غرض سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس وقت آپ سورۃ الطور کی تلاوت فرما رہے تھے۔۵ جب اس آیت پر پہنچے:
إِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ لَوَاقِعٌ، مَا لَہُ مِن دَافِعٍ (الطور /۷، ۸)
ترجمہ: ’’ تیرے رب کا عذاب ضرور واقع ہونے والا ہے جسے کوئی دفع کرنے والا نہیں ‘‘
تو ان پر کپکپی طاری ہو گئی اور فوراً اسلام قبول کر لیا اور کہنے لگے، مجھے ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں مجھ پر عذاب نہ آپڑے۔
پھر یہی نہیں کہ یہ شعلہ بیان خطیب اور آتش نوا شاعر قرآن کریم کا مقابلہ نہیں کر سکے بلکہ ان میں سے بہت سے لوگوں نے اس کلام کی حیرت انگیز تاثیر کا کھل کر اعتراف کیا۔ امام حاکمؒ اور امام بیہقیؒ نے قرآن کریم کے بارے میں ولید بن مغیرہ کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں:
واللّٰہ ان لقولہ الذی یقول حلاوۃ وان علیہ لطلاوۃ وانہ لمثمر اعلاہ مغدق اسفلہ وانہ لیعلو وما یعلیٰ
’’خدا کی قسم ، جو یہ کلام بولتے ہیں اس میں بلا کی شیرینی اور رونق ہے۔ یہ کلام غالب ہی رہتا ہے، مغلوب نہیں ہوتا‘‘۔
یہ ولید بن مغیرہ ابوجہل کا بھتیجا تھا۔ ابوجہل کو جب یہ پتہ چلا کہ میرا بھتیجا اس کلام سے متاثر ہو رہا ہے تو وہ اسے تنبیہ کرنے کے لیے اس کے پاس آیا۔ اس پر ولید نے جواب دیا کہ خدا کی قسم ! تم میں کوئی شخص شعر کے حسن کو مجھ سے زیادہ جاننے والا نہیں، خدا کی قسم ! محمد جو کہتے ہیں، شعر کو اس کے ساتھ کوئی مناسبت اور مشابہت نہیں ہے۔ ۶
۲۔ اعجاز قرآن کے ادراک میں تمام اہل عرب برابر تھے:
کیا ان لوگوں پر قرآن کا اعجاز واضح ہو گیا تھا؟ جس سے ان کی بصیرتیں روشن ہو گئیں اور وہ قرآن کی چند آیات سن کر ہی رسول اکرم صلی اللہ علی وسلم کے معجزہ پر ایمان لے آئے جبکہ دوسرے لوگوں پر قرآن کا اعجاز واضح نہ ہو سکا اور وہ عرصہ تک دشمنی اور تکذیب میں لگے رہے؟
قاضی ابوبکر باقلانی اس سوال کا جواب اثبات میں دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان وجوہ میں سے جن کی وجہ سے لوگ اسلام قبول کرنے سے باز رہے اور عرصہ تک شرک و تکذیب کی روش پر قائم رہے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ زمانہ بعثت میں فصاحت کے معاملہ میں اہل عرب میں تفاوت پایا جاتا تھا۔ انہوں نے سورۃ توبہ کی آیت ذکر کی ہے۔
وَإِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَأَجِرْہُ حَتَّی یَسْمَعَ کَلاَمَ اللّٰہِ ثُمَّ أَبْلِغْہُ مَأْمَنَہُ ذَلِکَ بِأَنَّہُمْ قَوْمٌ لاَّ یَعْلَمُونَ (التوبہ /۶)
’’ اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص پناہ مانگ کر تمہارے پاس آنا چاہے (تاکہ اللہ کا کلام سنے) تو اسے پناہ دید و یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سن لے۔ یہ اس لیے کرنا چاہیے کہ یہ لوگ علم نہیں رکھتے‘‘
اور اس سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس آیت سے واضح اشارہ ملتا ہے کہ اہل عرب میں کچھ لوگ ایسے تھے جن کا محض کلام الٰہی سن لینا ان پر حجت تھا۔
باقلانی نے اس پر درج ذیل اعتراض بھی ذکر کیا ہے:
’’ اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ اگر یہ بات صحیح ہے تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ عہد نبویؐ میں تمام فصحاء قرآن سننے کے معاملہ میں ایک درجے پر تھے تو اسے یہ جواب دیا جائے گا کہ اس سے یہ ہرگز لازم نہیں آئے گا۔ اس لیے کہ انہیں اسلام قبول کرنے سے باز رکھنے والی اور بھی بہت سی چیزیں تھیں مثلاً یہ کہ وہ شکوک و شبہات میں مبتلا تھے۔ ان میں بعض خالق کی ذات میں شک کرتے تھے۔ بعض کو توحید میں شک تھا بعض نبوت میں مشکوک تھے۔ ‘‘۷
پھر ان کے شکوک و شبہات کے وجوہ مختلف تھے کچھ لوگ ایسے تھے جن کے شبہات کم تھے اور انہوں نے قرآن میں اتنا غور کیا جتنا غور کرنے کا حق تھا اور انکار کی روش اختیار نہیں کی چنانچہ وہ مشرف باسلام ہو گئے اور کچھ لوگ ایسے تھے جن کے شبہات زیادہ تھے اور انہوں نے قرآن کریم میں غور کرنے سے اعراض کیا۔ یا یہ کہ وہ بلاغت کے اعلیٰ مرتبہ پر نہیں تھے، اسی لیے انہیں غور و فکر کرنے میں عرصہ لگ گیا اور انہیں یہ دیکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ کیا دوسرے ویسا کلام لانے سے عاجز، ہیں اس لیے ان کا معاملہ موقوف رہا۔ اگروہ فصاحت میں ایک ہی مرتبہ پر ہوتے اور اسلام قبول کرنے سے بار رکھنے والے اسباب یکساں ہوتے تو بیک وقت سب کے سب مشرف با سلام ہو جاتے۔۸
ڈاکٹر عائشہ عبدالرحمن بنت الشاطی اس کے جواب میں کہتی ہیں کہ جو شخص عربی زبان جانتا ہو لیکن فصاحت کے اس درجے پر نہ ہو جو اسالیب کلام اور زبان جاننے کے وجوہ کی معرفت کے لیے ضروری ہے، وہ عجمی کے برابر ہے کیونکہ جس طرح عربی نہ جاننے والا اعجاز قرآن کا ادراک نہیں کر سکتا، اسی طرح وہ بھی اس سے ناواقف رہتا ہے۔ اس معاملہ میں ایک عرب اہل زبان جو زبان کے اس مرتبے پر نہ ہو اور غیر اہل زبان دونوں برابر ہیں۔۹
اس کلام میں ضعف اور زیادتی ہے، اس لیے کہ زمانہ بعثت میں اہل عرب تمام کے تمام فصحاء تھے، اگرچہ ان میں بلاغت اور اظہار کی قدرت کے مراتب میں تفاوت تھا اور اس میدان میں بلیغ خطباء اور ماہر شعراء کو امتیاز حاصل تھا۔ ایسا بھی نہ تھا کہ وہ اچھے اور برے قول اور اعلیٰ اور ادنیٰ کلام میں فرق نہ کر سکتے ، مگر ان میں تنقیدی حس موجود تھی جسے خالص لغوی سلیقہ نے مزید جلا بخشی تھی۔ ۱۰
ڈاکٹر عائشہ عبدالرحمن بنت الشاطی فرماتی ہیں کہ اعجاز قرآن کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر فرد قرآن جیسا کلام پیش کرنے کی قدرت کا گمان کرنے لگے، پھر ویسا کرنے سے عاجز ہو جائے اور نہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایک فرد کے بجائے تمام ماہرین فصاحت سے رجوع کیا جائے اور وہ اس کا مثل لانے سے عاجز رہیں ۔ لہٰذا اصل بات یہ ہے کہ تمام اہل عرب فصحاء تھے۔۱۱
۳۔ قرآن کریم کا چیلنج
اب ذرا زمانہ جاہلیت کے اہل عرب کا تصور کیجیے۔ خطابت اور شاعری ان کے معاشرے کی روح رواں تھی۔ عربی شعر و ادب کا فطری ذوق ان کے بچے بچے میں سمایا ہوا تھا۔ فصاحت و بلاغت ان کی رگوں میں خون حیات بن کر دوڑتی تھی۔ ان کی مجلسوں کی رونق، ان کے میلوں کی رنگینی ، ان کے فخر وناز کا سرمایہ اور ان کی نشرو اشاعت کا ذریعہ سب کچھ شعرو ادب تھا اور انہیں اس پر اتنا غرور تھا کہ وہ اپنے سوا تمام قوموں کو ’’ عجم ‘‘ یعنی گونگا کہا کرتے تھے۔ایسے ماحول میں ایک اُمّی (جناب محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم) نے ایک کلام پیش کیا اور اعلان فرمایا کہ یہ اللہ کا کلام ہے کیونکہ:
قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَی أَن یَأْتُواْ بِمِثْلِ ہَذَا الْقُرْآنِ لاَ یَأْتُونَ بِمِثْلِہِ وَلَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْراً (الاسراء/۸۸)
’’ اگر تمام انسان اور جنات مل کر اس قرآن جیسا (کلام) پیش کرنا چاہیں تو اس جیسا پیش نہیں کر سکیں گے، خواہ وہ ایک دوسرے کی کتنی مدد کیوں نہ کریں ‘‘۔
یہ اعلان کوئی معمولی بات نہ تھی۔ یہ دعویٰ اس ذات پاکؐ کی طرف سے تھا جس نے کبھی وقت کے مشہور ادباء اور شعراء سے کوئی علم حاصل نہ کیا تھا۔ کبھی مشاعرے کی محفلوں میں کوئی ایک شعر بھی نہیں پڑھا تھا اور کبھی کاہنوں کی صحبت بھی نہ اٹھائی تھی۔ خود شعر کہنا تو درکنار آپؐ کو دوسرے شعراء کے اشعار تک یاد نہیں تھے۔ پھر یہی وہ ذات تھی جسے میدان فصاحت کے یہ سور ما ایک نئے دین کا بانی کہا کرتے تھے۔ اگریہ اعلان سچا ثابت ہو جائے تو ان کے آبائی دین کی ساری عمارت منہ کے بل گر پڑتی ۔ اس لیے یہ اعلان تو درحقیقت ان کی ادبی صلاحیتوں کو ایک زبردست چیلنج تھا۔۱۲
سورۃ البقرہ میں ارشاد فرمایا کہ
وَإِن کُنتُمْ فِیْ رَیْْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَی عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَۃٍ مِّن مِّثْلِہِ وَادْعُواْ شُہَدَاءَ کُم مِّن دُونِ اللّٰہِ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ، فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَلَن تَفْعَلُوا فَاتَّقُواْ النَّارَ الَّتِیْ وَقُودُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ أُعِدَّتْ لِلْکَافِرِیْنَ (البقرۃ / ۲۳، ۲۴)
’’اگر تمہیں اس امر میں شک ہے کہ یہ کتاب جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری ہے یہ ہماری ہے یا نہیں تو اس کے مانند ایک ہی سورت بنا لاؤ۔ اپنے سارے ہم نواؤں کو بلا لو۔ ایک اللہ کو چھوڑ کر باقی جس جس کی چاہو مدد لے لو ۔ اگر تم سچے ہو تو یہ کام کر کے دکھاؤ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا اور یقیناًکبھی نہیں کر سکتے تو ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن بنیں گے انسان اور پتھر، جو مہیا کی گئی ہے منکرین حق کے لیے‘‘۔
اس طرح اس آیت مبارکہ کے ذریعے چیلنج ختم کر دیا گیا۔ اس سلسلہ میں مکی عہد میں ۸۶ سورتیں نازل ہوئیں لیکن اہل عرب قرآن جیسی ایک سورت بھی لانے سے عاجز وبے بس رہے۔
ڈاکٹر عائشہ کہتی ہے کہ بعض متکلمین کا یہ خیال ہرگز درست نہیں۔۔۔ جیسا کہ قاضی عبدالجبار نے نقل کیا ہے ۔۔۔ کہ نبیؐ نے قرآن کے ذریعے انہیں اس وقت چیلنج کیا جب آپ کو قوت و شوکت حاصل ہو گئی تھی، آپ کی دعوت پھیل گئی تھی، آپ کے اصحاب کثیر تعداد میں ہو گئے تھے اور آپ نے ان سے جنگ بھی چھیڑ دی تھی، اس لیے اہل عرب خوف کی وجہ سے ان کا مثل نہ لا سکے۔ کیوں کہ سورۃ بقرہ کی آیت کے علاوہ بھی چیلنج کی تمام آیات ہجرت سے قبل ہی نازل ہوئی تھیں جب مکہ میں ظلم و زیادتی ، اذیت و تعذیب اور فتنہ اپنے بام عروج پر تھا۔۱۳
ولید بن مغیرہ کا واقعہ حضرت ابن عباسؓ نقل فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد جب موسم حج آیا تو اس نے قریش کو جمع کر کے کہا کہ موسم حج میں عرب کے مختلف قبائل یہاں آئیں گے۔ اس لیے محمد کے بارے میں کوئی ایسی بات طے کر لو کہ پھر باہم کوئی اختلاف نہ ہو۔ قریش نے کہا کہ ہم لوگوں سے یہ کہیں گے کہ محمد کاہن ہیں ۔ ولید نے کہا : خدا کی قسم! ان کا کلام کاہنوں جیسا نہیں ہے۔ قریش نے کہا کہ پھر ہم انہیں مجنون کہیں گے، ولید بولا کہ ان میں جنون کا شائبہ تک نہیں ۔ قریش کہنے لگے کہ پھر ہم کہیں گے کہ وہ شاعر ہیں ۔ ولید نے کہا کہ شعر کی تمام اصناف سے میں واقف ہوں۔ یہ کلام شعر ہرگز نہیں ہے۔ قریش نے کہا کہ پھر ہم انہیں جادوگر کہہ دیں ۔ ولید نے پہلے اس کا بھی انکار کیا مگر عاجز آ کر اسی پر فیصلہ ہوا۔۱۴
البتہ چند مسخروں نے قرآن کریم کے مقابلے میں کچھ مضحکہ خیز جملے بنائے تھے وہ تاریخ کے صفحات میں آج تک محفوظ ہیں اور اہل عرب ہمیشہ ان کی ہنستی اڑاتے آئے ہیں۔ مثلاً کسی نے ’’ سورۃ القارعہ ‘‘ اور ’’ سورۃ الفیل ‘‘ کے انداز پر یہ جملے کہے تھے کہ: الفیل ما الفیل وما ادراک ماالفیل لہ مشفر طویل وذنب اثیل وما ذاک من خلق من ربنا لقلیل۔۔۔ یا کسی نے قرآن کے مقابلے پر یہ جملے بنائے تھے: الم ترا الی ربک کیف فعل بالحبلی اخرج منھا نسمۃ تسعی بین شراسیف وحشی۔۔۔ پھر نزول قرآن کے کافی عرصے کے بعد عربی کے مشہور ادیب اور انشاء پرداز عبداللہ بن المقفع (المتوفی ۱۴۲ھ) نے قرآن کریم کا جواب لکھنے کا ارادہ کیا لیکن اسی دوران کسی بچے کو یہ آیت پڑھتے سنا کہ: وَقِیْلَ یَا أَرْضُ ابْلَعِیْ مَاء کِ وَیَا سَمَاء أَقْلِعِیْ وَغِیْضَ الْمَاء وَقُضِیَ الأَمْرُ (ہود /۴۴) تو پکار اٹھا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اس کلام کا معارضہ ناممکن ہے اور یہ ہرگز انسانی کلام نہیں۔ ۱۵
اعجاز قرآن کے مختلف وجوہ
زمانہ قدیم سے مسلم علماء سلف میں اعجاز کی بحث ہوتی رہی ہے اور اعجاز کے وجوہ میں ان کے مختلف مسالک اور متعدد اقوال رہے ہیں۔ انہوں نے وجوہ اعجاز کے بارے میں کچھ بھی کہا ہو۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن کا بلاغی اعجاز کبھی جدل و اختلاف کا موضوع نہیں بنا۔ اسلامی فرقوں میں اس کے بارے میں اگر کچھ اختلاف رہا ہے تو محض یہ کہ صرف بلاغت ہی قرآن کا وجہ اعجاز ہے یا اس کے ساتھ ساتھ دوسرے وجوہ بھی ہیں۔ بظاہر ان کے کلامی مجادلہ کے شور میں اختلاف کا شبہ ہوتا ہے لیکن اگر ان کے موقف میں بنظر غائر دیکھا جائے تو آخر کار کوئی شبہ باقی نہیں رہتا۔۶ ۱
علامہ الرمانی کہتے ہیں کہ اعجاز قرآن کے وجوہ ان امور سے ظاہر ہوتے ہیں کہ باوجود بکثرت و داعی اور سخت حاجت ہونے اور تمام لوگوں کے مقابلہ پر تحدی کیے جانے کے اس کا معارضہ کسی سے نہ بن آیا۔۱۷ جبکہ علامہ زرکشیؒ نے وجوہ کی ایک وجہ وہ رعب بیان کیا ہے جو کہ اس کے سننے سے سامعین کے قلوب میں پیدا ہوتا ہے۔ عام اس سے کہ وہ سننے والے قرآن کے مقر ہوں یا منکر ۔ ۱۸ اس بات میں تو کسی کو شک نہیں کہ اعجاز قرآن کی بہت سی وجہیں ہیں۔ یہاں چند وجوہ کو بیان کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
۱۔ قرآن کریم کی بلاغت اور فصاحت:
قرآن حکیم بلاغت کے اس اعلیٰ معیار پر پہنچا ہوا ہے جس کی مثال انسانی کلام میں قطعی نہیں ملتی۔ ان کے کلام کی بلاغت اس معیار تک پہنچنے سے قاصر ہے۔ بلاغت کا مطلب یہ ہے کہ جس موقع پر کلام کیا جا رہا ہے اس کے مناسب معنی کے بیان کے لیے بہترین الفاظ اسی طرح منتخب کیے جائیں کہ مدعا کے بیان کرنے میں اور اس پر دلالت کرنے میں نہ کم ہوں نہ زیادہ ہوں۔ لہٰذا قرآن کریم بلاغت کے اس بلند معیار پر پورا اترتا ہے۔
علامہ جلال الدین السیوطیؒ کہتے تھے کہ قرآن کریم کی بلاغت اور اُس کے آئندہ معاملات میں پیشین گوئیاں اور اس کا معمول کو توڑ دینا اور پھر اس کا ہر ایک معجزہ پر قیاس ہونا، یہ باتیں بھی اُس کے اعجاز کی مثبت ہیں۔ اور معمول کلام توڑنا اس بات کا نام ہے کہ نزول قرآن سے قبل اور اس کے عہد میں معمول اور عادات کے مطابق کلام کی کئی نوعیں رائج تھیں۔ مثلاً شعر ، سجع ، خطبے ، رسائل اور منشور کلام جس کے ذریعہ سے لوگ معمولی بات چیت کیا کرتے ہیں اور جو روزمرہ کی بول چال ہے مگر قرآن نے ان سب طریقوں سے جدا اور خارج از عادت ایک نیا مفرد طریقہ پیش کیا جس کا درجہ حسن میں ہر ایک پر فائق ہے۔۱۹
قرآن کریم کے جملوں میں وہ شوکت ، سلاست اور شیرینی ہے کہ اس کی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی۔ یہاں صرف ایک مثال پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔
قاتل سے قصاص لینااہل عرب میں بڑی قابل تعریف بات تھی اور اس کے فوائد ظاہر کرنے کے لیے عربی میں کئی مقولے مشہور تھے۔ مثلاً : القتل احیاء للجمیع (قتل اجتماعی زندگی ہے) اور القتل الفی للقتل (قتل سے قتل کی روک تھام ہوتی ہے) اور اکثروا القتل لیفل القتل (قتل زیادہ کرو تاکہ قتل کم ہو جائے) ۔
ان جملوں کو اتنی مقبولیت حاصل تھی کہ یہ زبان زد عام تھے اور فصیح سمجھے جاتے تھے۔ قرآن کریم نے بھی اسی مفہوم کو ادا فرمایا لیکن کس شان سے ؟ ارشاد ہے :
وَلَکُمْ فِیْ الْقِصَاصِ حَیَاۃٌ (البقرۃ/۱۷۹)
’’ اور تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے ‘‘۔
اس جملے کے اختصار ، جامعیت ، سلاست ، شوکت اور معنویت کو جس پہلو سے دیکھیے بلاغت کا معجز شاہکار معلوم ہوتا ہے اور پہلے کے تمام جملے اس کے آگے سجدہ ریز دکھائی دیتے ہیں ۔ ۲۰
۲۔ اسلوب کا اعجاز:
زمانہ بعثت میں جب مشرکین اہل عرب قرآن کے مثل ایک سورت بھی نہ لا سکے تو اس پر چیلنج کی بحث ختم کر دی گئی۔ تاکہ اعجاز کا مسئلہ پے در پے نسلوں کے سامنے رہے اور یہ سوال ہمیشہ ان کے پیش نظر رہے کہ آخر اہل عرب قرآن کے مثل ایک سورۃ بھی لانے سے کیوں قاصر و عاجز رہے۔
قرآن کریم کے اعجاز کا سب سے زیادہ روشن مظاہرہ اس کے اسلوب میں ہوتا ہے اور یہ وہ چیز ہے جس کا مشاہدہ ہر کس و ناکس کر سکتا ہے۔ اس کے اسلوب کی چند اہم معجزانہ اور خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔ قرآن کریم ایک ایسی نثر پر مشتمل ہے جس میں شعر کے قواعد و ضوابط ملحوظ نہ ہونے کے باوجود ایک ایسا لذیذ اور شیریں آہنگ پایا جاتا ہے جو شعر سے کہیں زیادہ حلاوت اور لطافت کا حامل ہے۔ ۲۱
۲۔ علماء بلاغت نے اسلوب کی تین قسمیں قرار دی ہیں۔ ۱۔خطابی ۲۔ادبی ۳۔علمی
ان تینوں قسموں کے دائرے الگ الگ ہیں۔ خصوصیات جدا اور ان تینوں کو ایک ہی عبارت میں جمع نہیں کیا جا سکتا مگر قرآن کریم کا اعجاز یہ ہے کہ وہ ان تینوں اسالیب کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔
۳۔ اگر ایک ہی بات کو بار بار دہرایا جائے تو کہنے والا ادب و انشاء میں خواہ کتنا بلند پایہ مقام رکھتا ہو ایک مرحلے پر پہنچ کر سننے والے اکتا جاتے ہیں، لیکن قرآن کریم کا معاملہ یہ ہے کہ اس میں ایک ہی بات بعض اوقات بیسیوں مرتبہ کہی گئی ہے۔ ایک ہی واقعہ بار بار مذکور ہوا ہے لیکن ہر مرتبہ نیا کیف ، نئی تاثیر محسوس ہوتی ہے۔ ۲۲
۳۔ غیب کی خبروں سے اعجاز کا پہلو:
قرآن کے اعجاز کی وجوہ میں سے تیسری بڑی وجہ غیب کی خبروں کے بارے میں پیشن گوئیاں ہیں ۔یہاں پر صرف چند پیشن گوئیاں بیان کی جا رہی ہیں۔
قرآن کریم آنے والے واقعات کی ان پیشن گوئیوں پر مشتمل ہے جو بالآخر سو فیصد درست ثابت ہوئیں۔
(۱) الم، غُلِبَتِ الرُّومُ، فِیْ أَدْنَی الْأَرْضِ وَہُم مِّن بَعْدِ غَلَبِہِمْ سَیَغْلِبُونَ، فِیْ بِضْعِ سِنِیْنَ (الروم/ ۱۔۳)
’’ ا۔ل۔م۔ رومی قریب کی سرزمین میں مغلوب ہو گئے ہیں اور اپنی اس مغلوبیت کے بعد چند سال کے اندر وہ غالب ہو جائیں گے ‘‘ ۔
(۲) لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِن شَاء اللَّہُ آمِنِیْنَ مُحَلِّقِیْنَ رُؤُوسَکُمْ وَمُقَصِّرِیْنَ لَا تَخَافُونَ (الفتح/۲۷)
’’ اگر اللہ نے چاہا تو تم مسجد حرام میں ضرور داخل ہو گئے۔ اس طرح کہ تم میں بعض نے اپنے سرمنڈوائے ہوئے ہوں گے ، بعض نے بال چھوٹے کرائے ہوئے ہوں گے اور تمہیں کوئی خوف نہ ہو گا‘‘۔
(۳) سَتُدْعَوْنَ إِلَی قَوْمٍ أُوْلِیْ بَأْسٍ شَدِیْدٍ (الفتح/۱۶)
’’ عنقریب تمہیں ایک ایسی قوم کی طرف بلایا جائے گا جو سخت قوت والی ہے‘‘۔
اس میں جو خبر دی گئی ہے وہ بعینہ اسی طرح واقع ہوئی۔ اس لیے کہ سخت قوت والی قوم کا مصداق راحج قول کے مطابق بنو حنیفہ مسلیمۃ الکذب کا قبیلہ ہے اور بلانے والے صدیق اکبرؓ ہیں۔
(۴) إِذَا جَاء نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ، وَرَأَیْْتَ النَّاسَ یَدْخُلُونَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ أَفْوَاجاً (النصر/۱،۲)
’’ جب اللہ کی مدد اور فتح آ جائے اور آپؐ لوگوں کو دیکھ لیں کہ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہو رہے ہیں‘‘۔
یہاں فتح سے مراد فتح مکہ ہے، کیونکہ صحیح قول کے مطابق یہ سورت فتح مکہ سے قبل نازل ہوئی ہے۔ اس لیے کہ اِذَا استقبال کو مقتضی ہے۔گزرے ہوئے واقعہ کے لیے اِذَا جَأءَ مستعمل نہیں ہوتا اور نہ اِذَا وَقَعَ کہا جاتا ہے۔ سو مکہ فتح ہو گیا اور لوگ جوق در جوق گروہ در گروہ اہل مکہ اور طائف کے رہنے والے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں داخل اسلام ہوئے۔
(۵) قُل لِّلَّذِیْنَ کَفَرُواْ سَتُغْلَبُونَ (آل عمران/۱۲)
’’ آپ کافروں سے کہہ دیجیے کہ عنقریب تم مغلوب ہوجاؤ گے ‘‘۔
ٹھیک اسی طرح واقع ہوا جس طرح خبر دی گئی اور کفار مغلوب ہو گئے۔۲۳
اعجازِ قرآن اور اہل بلاغت
مفسرین اور خاص طور پر ان میں سے اہل بلاغت نے آیات قرآنی کی تفسیر کے سیاق میں بلاغت کے جن پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ قرآن کے اعجازبیان پر اس اجماع نے اعجاز کی بحث کو خاص طور پر بلاغی میدان میں منتقل کر دیا۔ بلاغی اعجاز کے سلسلہ میں ابتدائی کوششیں ظاہر ہوئیں اور عبدالقاہر جرجانی کو اس بات میں شہرت حاصل ہوئی کہ وہ نظم میں اعجاز کے قائل ہیں۔ اسی طرح ابوبکر باقلانی اس حیثیت سے مشہور ہوئے کہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے قرآن کی بلاغت میں تفصیل سے گفتگو کی ہے۔
اگر ہم بلاغی اعجاز کے سلسلہ میں ان ابتدائی مصنفین کے اسلوب اور طریقہ بحث پر کوئی حکم نہیں لگا سکتے جن کی کتابیں ہم تک نہیں پہنچ سکی ہیں تو کم از کم ان لوگوں کے اسالیب میں تو ضرور غور کر سکتے ہیں جن کی کتابیں ہم تک پہنچتی ہیں اور جو ہمارے لیے نقوش راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ چند کا مختصراً تعارف یہاں پیش کیا جاتا ہے۔
۱۔ خطابی ؒ
سب سے پہلے خطابی (متوفی ۳۸۸ھ) نے چوتھی صدی ہجری میں اپنے رسالہ ’’ بیان اعجاز القرآن ‘‘ میں نظم کے ذریعے اعجاز کے فکر کی تشریح کی۔ اسی طرح بلاغت کے پہلو سے اعجاز کی وضاحت کی جس کے ان سے پہلے اکثر علماء اہل نظر قائل تھے، اگرچہ ان کی فکر اس سلسلہ میں ایک قسم کی تقلید اور غلبہ ظن پر مبنی تھی۔
خطابی نے اس کتاب میں ان لوگوں کے شبہات کا بھی جواب دیا جنہوں نے بعض قرآنی آیات کی بلاغت پر اعتراض کیا اور مدعیان نبوت کے ان اقوال کا رد کیا ہے جنہیں ’’ معارضات قرآن ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کتاب کی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ خطابی نے قرآن کریم کے ایسے الفاظ میں دلالت کے لحاظ سے باریک فرق کی طرف اشارہ کیا ہے جن کے بارے میں ہماری ڈکشنریوں اور تفسیر کی کتابوں میں کیا جاتا ہے۔۲۴
۲۔ رمانی ؒ
علی بن عیسیٰ الرمانی نے، جو چوتھی صدی ہجری کے ہیں، اپنے رسالہ ’’ النکت فی اعجاز القرآن ‘‘ میں بلاغت قرآن کو موضوع بنایا ہے۔ شروع میں انہوں نے اعجاز قرآن کے سلسلہ میں سات وجوہ بیان کیے ہیں پھر بلاغت کے پہلو سے اعجاز پر تفصیل سے بحث کی ہے۔۲۵
۳۔ قاضی عبدالجبار ؒ
قاضی عبدالجبار معتزلی کی کتاب ’’ المغنی ‘‘ کا جو حصہ ’’ اعجاز قرآن ‘‘ کے لیے خاص ہے اس میں قرآن کی فصاحت ، بحث و نظر کا موضوع رہی ہے۔۲۶
۴۔ باقلانی ؒ
چوتھی صدی کے اواخر میں باقلانی ظاہر ہوئے۔ انہوں نے اپنی مشہور کتاب ’’ اعجاز القرآن ‘‘ پیش کی جو اعجاز پر خالص قرآنی مطالعہ نہیں جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہوتا ہے اور جیسا کہ اس کے مقدمہ میں بھی باقلانی وعدہ کرتے ہیں بلکہ وہ کلامی اور مذہبی مجادلہ اور شعرو نثر کے بے شمار طویل نصوص کی ادبی تنقید سے زیادہ قریب ہے۔
باقلانی کی کتاب کا مطالعہ کرنے والے کے لیے دشوار ترین امر یہ ہے کہ کلامی مجادلہ اور شعر و نثر کے طویل نصوص کے اس طومار سے نظم قرآن کے بلاغی اعجاز کے سلسلہ میں باقلانی کی کوئی واضح فکر حاصل کر سکے۔
۵۔ جرجانی ؒ
پانچویں صدی ہجری میں عبد القاہر جرجانی نے اپنے رسالہ ’’الشافیہ‘‘ میں اعجاز کی بحث میں متکلمین اور مذہبیین کے اختلافات کا جائزہ لیا اور ان تمام لوگوں کے شبہات کا استقصاء کیا جنہوں نے اعجاز کو اس کے بلاغی پہلو سے پھیر دیا ہے خاص طور پر وہ لوگ جو ’’صرفہ‘‘ کے قائل ہیں۔ ۲۷
عبدالقاہر کے نزدیک نظم میں اس بلاغی اعجاز کو وہ شخص نہیں سمجھ سکتا جو سمجھنے کے آلہ سے محروم ہو اور وہ ہے علم بلاغت و فصاحت ، انہوں نے اپنی کتاب ’’ دلائل الاعجاز ‘‘ میں اس علم کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ جرجانی نے اپنی کتاب ’’دلائل الاعجاز ‘‘ کی ابتدائی فصلوں میں اپنے مسلک کا اثبات کرتے ہوئے کہا ہے کہ فصاحت و بلاغت میں اصل اعتبار نظم کا ہے نہ کہ الفاظ کا اس لیے کہ الفاظ معانی کے خادم ہوتے ہیں چونکہ ان کا خیال ہے کہ نظم قرآن کا اعجاز اسی وقت سمجھ میں آ سکتا ہے جب فصاحت کے اسرار کا ادراک حاصل ہو۔۲۸
اعجاز قرآن پر عیسائی علماء کے اعتراضات
پہلا اعتراض: قرآن کریم کی بلاغت پر
عیسائی علماء قرآن کریم پر اعتراض یہ کرتے ہیں کہ یہ بات تسلیم نہیں کی جا سکتی کہ قرآن کریم بلاغت کے اس انتہائی معیار پر پہنچا ہوا ہے جو انسانی دسترس سے باہر ہے اور اگر اس کو مان بھی لیا جائے تب بھی یہ اعجاز کی ناقص دلیل ہے، کیونکہ اس کی پہچان اور شناخت صرف وہی شخص کر سکتا ہے جس کو عربی زبان اور لغت عرب کی پوری مہارت ہو۔ اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ وہ تمام کتابیں جو یونانی ، لاطینی زبانوں میں بلاغت کے اعلیٰ معیار پر پہنچی ہوئی ہیں۔ وہ بھی کلام الٰہی مانی جائے۔
جواب :
قرآن کریم کی عبارت کو بلاغت کے اعلیٰ درجہ تک پہنچا ہوا نہ ماننا سوائے ہٹ دھرمی کے کچھ نہیں۔ رہی یہ بات کہ اس کی شناخت صرف وہی کر سکتا ہے جس کو عربی زبان کی کامل مہارت ہو ، سو یہ درست ہے لیکن اس سے ان کا مدعا ہرگز ثابت نہ ہو گا کیونکہ یہ معجزہ بلغاء اور فصحاء کو عاجز اور قاصر کرنے کے لیے تھا اور ان کا عاجز ہونا ثابت ہو چکا، نہ صرف یہ کہ وہ معارضہ نہیں کر سکے بلکہ اپنی عاجزی کا اعتراف بھی کیا اور مسلمانوں نے یہ دعویٰ کبھی نہیں کیا کہ قرآن کے کلام اللہ ہونے کا سبب صرف اس کا بلیغ ہونا ہے بلکہ ان کا دعویٰ تو یہ ہے کہ بلاغت بھی قرآن کے کلام الٰہی ہونے کے بے شمار اسباب میں سے ایک سبب ہے اور قرآن کریم اس لحاظ سے منجملہ بہت سے معجزات کے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معجزہ ہے۔ ۲۹
جسٹس محمد تقی عثمانی اس اعتراض کے جواب میں کہتے ہیں کہ اگرشیخ سعدی کی کتاب فارسی زبان کی اعلیٰ ترین کتاب تسلیم کی جاتی ہے یا پھر دوسرے لوگوں نے اپنی اپنی زبانوں میں جو اعلیٰ بلاغت پر کتب لکھی اور آج تک ان کی کوئی نظیر پیش نہیں کر سکا تو پھر بھی ان اعلیٰ غلاغت کی کتب کو کلام الٰہی تسلیم نہیں کیا جائے گا کیونکہ کلام الٰہی کو کلام الٰہی اس لیے تسلیم کیا جاتا ہے کہ یہ کلام ایک اُمّی نے پیش کیا۔ جبکہ شیخ سعدی نے دن رات محنت کر کے اساتذہ سے علم حاصل کر کے اعلیٰ بلاغت کی کتب لکھی جبکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نہ کوئی استاد تھا اور نہ ہی آپ پڑھے لکھے تھے۔ ۳۰
دوسرا اعتراض: بائبل کی مخالفت
چونکہ قرآن کریم نے بعض مقامات پر عہد نامہ جدید و عہد نامہ قدیم کی کتابوں کی مخالفت کی ہے اس لیے وہ خدا کا کلام نہیں ہو سکتا ؟
جواب :
عیسائی پادری قرآن کریم اور بائبل کے درمیان جو مخالفتیں بیان کرتے ہیں وہ تین قسم کی تھیں۔
اول : منسوخ احکام کے لحاظ سے
دوم : بعض واقعات ایسے ہیں جن کا ذکر قرآن میں موجود ہے اور دونوں عہد ناموں میں نہیں پایا جاتا۔
سوم: قرآن کے بعض بیان کردہ حالات ان کتابوں کے بیان کیے ہوئے احوال کے مخالف ہیں۔
ان تینوں لحاظ سے عیسائیوں کا قرآن پر طعن کرنا محض بے جا اور بے معنی ہے کیونکہ قرآن کریم نے سابقہ کتب کے احکام کو منسوخ کر دیا اور یہ عمل کثرت سے سابقہ شریعتوں میں بھی پایا جاتا رہا ہے تو پھر قرآن کے منسوخ احکام پر ہی اعتراض کیوں ؟ جیسا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی شریعت نے سوائے نو ( 9 ) احکام کے تمام احکام کو منسوخ کر دیا، یہاں تک کہ توریت کے مشہور دس احکام بھی منسوخ کر دیے گئے۔ پھر عہد نامہ جدید میں بہت سے قصے وہ ذکر کیے گئے ہیں جن کا ذکر عہدنامہ قدیم کی کسی کتاب میں نہیں۔ ۳۱
تیسرا اعتراض: اللہ کی جانب گمراہی کی نسبت
قرآن کریم میں کہا گیا ہے کہ ہدایت اور گمراہی اللہ کی جانب سے ہے۔ جنت میں نہریں اور حوریں اور محلات ہیں اور کافروں کے ساتھ جہاد کرنا واجب ہے۔ یہ تینوں کام قبیح اور برے ہیں جو اس امر کی دلیل ہے کہ قرآن جو ایسے قبیح مضامین پر مشتمل ہے وہ اللہ کا کلام نہیں ہو سکتا۔
جواب :
پہلی بات کے جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس قسم کا مضمون عیسائیوں کی مقدس کتابوں میں بہت سے مقامات پر موجود ہے۔ لہٰذا ان کو یہ ماننا پڑے گا کہ ان کی مقدس کتابیں بھی یقینی طور پر منجانب اللہ نہیں ہیں۔ کچھ آیات یہاں نقل کی جا رہی ہیں:
۱۔ ’’ پر خداوند نے فرعون کے دل کو سخت کر دیا اور اس نے بنی اسرائیل کو جانے نہ دیا‘‘۳۲
۲۔ ’’ لیکن خداوند نے تم کو آج تک نہ تو ایسا دل دیا جو سمجھے اور نہ دیکھنے کی آنکھیں اور سننے کے کان دیئے‘‘ ۳۳
۳۔ ’’ اس سبب سے وہ ایمان نہ لا سکے کہ یسعیاہ نے پھر کہا ، اس نے ان کی آنکھوں کو اندھا اور دل کو سخت کر دیا، ایسا نہ ہو کہ وہ آنکھوں سے دیکھیں اور دل سے سمجھیں اور رجوع کریں ‘‘ ۳۴
دوسری بات کے جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ اس امر میں کہ جنت حورو قصور اور دوسری نعمتوں پر مشتمل ہے۔ عقلی طور پر کوئی قباحت نہیں ہے، نیز مسلمان یہ نہیں کہتے کہ جنت کی لذتیں جسمانی لذتوں تک محدود ہیں، جس طرح فرقہ پروٹسٹنٹ کے علماء غلطی سے یا عوام کو غلطی میں ڈالنے کے لیے کہتے ہیں بلکہ جنت روحانی اور جسمانی ہر دو قسم کی لذتوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے پہلی لذت دوسری سے بڑھی ہوئی ہے۔۳۵
چوتھا اعتراض: اختلافات مضامین
قرآن کریم میں وہ مضامین نہیں پائے جاتے جو روح کے مقتضیات اور اس کے پسندیدہ ہو سکتے ہیں۔
جواب :
دو چیزیں جو روح کے مقاصد اور مقتضیات ہیں اور جو اس کی پسند اور چاہت کی چیزیں ہیں، وہ صرف دو ہیں۔ کامل اعتقادات اور نیک اعمال۔ قرآن کریم ان دونوں قسم کے مضامین کو مکمل طور پر بیان کرتا ہے۔ ۳۶
پانچواں اعتراض: قرآن کا معنوی اختلاف
قرآن میں جابجا معنوی اختلاف پائے جاتے ہیں۔ مثلاً :
لاَ إِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ (البقرۃ/۲۵۶)
’’ دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے‘‘
فَذَکِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَکِّرٌ، لَّسْتَ عَلَیْْہِم بِمُصَیْْطِرٍ (الغاشیۃ/۲۱، ۲۲)
’’ پس اے نبیؐ! آپ نصیحت کیجیے آپ نصیحت کرنے والے ہی تو ہیں۔ آپ ان کے داروغہ نہیں ‘‘
یہ آیات ان آیات کے مخالف ہیں جن میں جہاد کا حکم پایا جاتا ہے۔
اسی طرح اکثر آیتوں میں کہا گیا ہے کہ مسیح انسان اور صرف رسول ہیں :
إِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ رَسُولُ اللّٰہِ وَکَلِمَتُہُ أَلْقَاہَا إِلَی مَرْیَمَ وَرُوحٌ مِّنْہُ (النساء/۱۷۱)
’’ بلاشبہ عیسیٰ بن مریم اللہ کے رسول اور اللہ کا وہ کلمہ ہیں جو اللہ نے مریم پر نازل کیا، اور اللہ کی روح ہیں ‘‘
اس کے برعکس دوسرے موقع پر کہا گیا ہے کہ وہ نوع انسانی میں سے نہیں ہیں بلکہ ان کا مقام بلند تر ہے:
وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِیْ أَحْصَنَتْ فَرْجَہَا فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِن رُّوحِنَا (التحریم/۱۲)
’’ اور مریم بنت عمران جس نے اپنی شرمگاہ کو (بدکاری) سے محفوظ رکھا تو ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی‘‘
جواب :
پہلے اختلاف کی نسبت تو یہ کہا جائے گا کہ اس کو اختلاف کہنا ہی غلط ہے، بلکہ یہ حکم جہاد کے حکم سے قبل کا ہے۔ جب جہاد کا حکم نازل ہوا تو پہلا حکم منسوخ ہو گیا اور نسخ کو اختلاف معنوی کہنا بالکل لغو ہے۔ ورنہ لازم آئے گا کہ توریت اور انجیل کے تمام احکام منسوخہ میں اختلاف معنوی تسلیم کیا جائے۔
جب ان دونوں آیتوں کے فیصلہ کے مطابق مسیح خدا کی روح ہیں تو ضروری بات ہے کہ وہ الوہیت کے درجہ میں ہوں کیونکہ خدا کی روح خداسے کم نہیں ہو سکتی۔ عیسائی علماء کا یہ اعتراض در حقیقت صرفی قواعد سے لاعلمی کی بنیاد پر ہے اور یہ دونوں قسم کی آیات ہرگز اس پر دلالت نہیں کرتیں کہ عیسیٰ بن مریم نوع انسانی میں سے نہیں ہیں۔
حوالہ جات
۱ السیوطیؒ ، جلال الدین، علامہ، الاتقان فی علوم القرآن ، بیروت: دارالمعرفہ، ۱۳۱۷ھ، جلد ۲،ص۲۲۸
۲ ایضاً
۳ ایضاً،۲/۲۲۹۔۲۲۸
۴ ابن ہشام، جمال الدین عبداللہ بن یوسف، السیرۃ النبویۃ، بیروت: داراحیاء التراث العربی، ۱۳۹۸ھ، جلد۱، ص ۷۰ ۔ ۳۶۹
۵ ایضاً ، ۲/۲۳۵
* مزید وضاحت کیلئے دیکھیں، اعجاز القرآن ازباقلانی، ص ۳۸
۶ السیوطیؒ ، جلال الدین، علامہ، الخصائص الکبریٰ، بیروت: دارصادر، جلد۱، ص ۱۱۳
۷ البلاقانیؒ ، ابوبکر قاضی، اعجاز القرآن، مصر: دارالمعارف، ۱۱۱۹ھ، ص ۴۰
۸ ایضاً، ص ۱۷۱
۹ الشاطیؒ ، عائشہ عبدالرحمن، ڈاکٹر، قرآن کریم کا اعجاز بیان، مترجم(محمد رضی الاسلام ندوی)، لاہور: دارالکتاب،جولائی ۲۰۰۴ء، ص ۴۸
۱۰ الشاطیؒ ، عائشہ عبدالرحمن، ڈاکٹر، قرآن کریم کا اعجاز بیان، ص ۴۸
۱۱ ایضاً، ص ۴۹
۱۲ عثمانی، محمد تقی، مولانا، علوم القرآن اور اصول تفسیر، کراچی: مکتبہ دارالعلوم، ۱۴۲۳ھ، ص ۵۰۔۲۴۹
۱۳ الشاطیؒ ، عائشہ عبدالرحمن، ڈاکٹر، قرآن کریم کا اعجاز بیان، ص ۸۱
۱۴ السیوطیؒ ، جلال الدین، علامہ، الخصائص الکبریٰ، جلد۱، ص۱۱۳
۱۵ عثمانی، محمد تقی، مولانا، علوم القرآن اور اصول تفسیر، ص ۵۴۔۲۵۳
۱۶ الشاطیؒ ، عائشہ عبدالرحمن، ڈاکٹر، قرآن کریم کا اعجاز بیان، ص ۹۸
۱۷ السیوطیؒ ، جلال الدین، علامہ، الاتقان فی علوم القرآن ، جلد ۲، ص۲۳۰
۱۸ الزرکشیؒ ، بدر الدین، امام، البرہان فی علوم القرآن، بیروت: دارالمرفۃ، ۱۲۱۷ھ، جلد۱، ص ۱۴۲
۱۹ السیوطیؒ ، جلال الدین، علامہ، الاتقان فی علوم القرآن ، جلد ۲، ص۲۳۵
۲۰ عثمانی، محمد تقی، مولانا، علوم القرآن اور اصول تفسیر، ص ۲۵۹
۲۱ یہ پوری بحث حضرت شاہ ولی اللہ محدث علی دہلویؒ کی کتاب ’’الفوزالکبیر فی اصول تفسیر‘‘ میں دلکھیں۔
۲۲ عثمانی، محمد تقی، مولانا، علوم القرآن اور اصول تفسیر، ص ۶۴۔۲۶۳
۲۳ کیرانویؒ ، رحمت اللہ، مولانا، اظہار الحق، بیروت: منشورات المکتبۃ المعریۃ، جلد۲، ص، ۹۹۔۹۸
۲۴ الشاطیؒ ، عائشہ عبدالرحمن، ڈاکٹر، قرآن کریم کا اعجاز بیان، ص ۱۲۴۔۱۲۰
۲۵ الشاطیؒ ، عائشہ عبدالرحمن، ڈاکٹر، قرآن کریم کا اعجاز بیان، ص ۱۲۵
۲۶ ایضاً، ص ۱۳۰
۲۷ ایضاً، ص ۱۴۷۔۱۳۴
۲۸ ایضاً، ص ۱۵۰۔۱۴۸
۲۹ کیرانویؒ ، رحمت اللہ، مولانا، اظہار الحق،جلد۲، ص، ۱۲۶۔۱۲۴
۳۰ عثمانی، محمد تقی، مولانا، علوم القرآن اور اصول تفسیر، ص ۲۵۹
۳۱ کیرانویؒ ، رحمت اللہ، مولانا، اظہار الحق،جلد۲، ص، ۲۷۔۱۲۶
۳۲ کتاب مقدس، عہد نامہ قدیم، کتاب خروج،باب، ۱۰، آیت ۲۰
۳۳ کتاب استثناء، باب ۲۹، آیت ۴
۳۴ انجیل یوحنا، باب ۱۲،آیت۱۰
۳۵ کیرانویؒ ، رحمت اللہ، مولانا، اظہار الحق،جلد۲، ص، ۱۲۶۔۱۲۵
۳۶ ایضاً، جلد۲، ص ۱۶۳
عراق اور فرقہ واریت کی آگ / مسئلہ فلسطین
خورشید احمد ندیم
عراق کی وحدت فرقہ واریت کی زد میں ہے۔شیعہ سنی تنازعہ عراق کو شاید ایک ملک نہ رہنے دے۔ عرا ق تقسیم ہواتو پھر مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ بھی تبدیل ہو جا ئے گا۔تاریخ یہ ہے کہ وہاں لگنے والی آگ ہمارے دامن کو ضرور چھوتی ہے۔کیا اس باربھی یہی ہوگا؟
القاعدہ کا قصہ بحیثیت تنظیم ،تمام ہوا۔تاہم ایک نظریے کے طور پر وہ زندہ ہے اور مقامی تنظیموں کی صورت میں ظہور کر رہا ہے۔پاکستان میں تحریکِ طالبان کی شکل میں اور شام وعراق میں امارت اسلامیہ عراق و شام (ISIS) کے روپ میں۔ فرات کا کنارہ اب اس کے قبضے میں ہے۔ شام کے ایک علاقہ اور اب عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل کے ساتھ تکریت پر اب ISIS کو قوتِ نافذہ حاصل ہو چکی۔عراق کو اردن اور شام سے ملانے والی چار گزرگاہوں میں سے تین ان کے کنٹرول میں ہیں۔امارت والوں کا کہنا ہے کہ برطانیہ اور فرانس نے ریت پر لکیریں کھینچتے ہوئے جو تقسیم کی تھی،اب ختم ہو نے کو ہے اور اسلامی خلافت ایک بار پھر قائم ہورہی ہے۔مو جود ہ سرحدیں اب بے معنی ہو جا ئیں گی۔عراق کی مو جودہ شیعہ حکومت ان کا ایک ہدف ہے۔وزیر اعظم مالکی شیعہ ہیں۔ اپنے طویل دورِ اقتدار میں وہ مسلکی تعصب سے بلند نہیں ہو سکے۔سنی اقلیت ان سے نا لاں رہی۔امارتِ اسلامیہ کے مو جودہ تمام تصورات، وہ القاعدہ کی صورت میں ہوں، طالبان کی شکل میں یا امارتِ اسلامیہ کے روپ میں،سب میں جوخیلات مشترک ہیں، ان میں ایک شیعہ دشمنی بھی ہے۔
مشرق وسطیٰ میں شیعہ سنی اختلاف تاریخ کے مختلف ادوار سے گزر تاہوااب ایک پیچیدہ صورت اختیار کر چکا۔اس کا آ غاز خلافت راشدہ کے عہد میں ہو گیا تھا۔عرب مسلمانوں کی فتوحات کا دائرہ جب ایران تک وسیع ہوا تو اسے نظریے کے بجائے عرب ایران کشمکش کے تناظر میں دیکھا گیا۔یہ گرہ آج تک کھل نہیں سکی۔صفویوں کی آ مد سے پہلے،ایران سنی اکثریتی ملک تھا۔عراق میں بھی انیسویں صدی تک سنیوں کی اکثریت تھی۔آج عراق میں سنی اقلیت میں ہیں۔صدام حسین اقلیت کے نمائدہ تھے مگر اقتدار ان کے پاس تھا۔بحرین میں شیعہ اکثریت میں ہیں لیکن اقتدار سنیوں کا ہے۔ شیعہ سارے مشرقَ وسطیٰ میں بکھرے ہوئے ہیں۔ ایران ان کی سیاسی قوت کا مرکز ہے۔۱۹۷۹ء میں جب انقلاب آیا تو ایران کا مسلکی تشخص نمایاں ہو گیا۔اس نے مشرقِ وسطیٰ کے اہلِ تشیع میں بیدداری کی ایک لہر پیدا کر دی۔ولی رضا نصر نے اپنی کتاب ’اہلِ تشیع کا احیا(Shia Revival) میں لکھا ہے کہ اس انقلاب سے پہلے مشرقِ وسطیٰ کے شیعہ مختلف قومی جماعتوں اور تحریکوں سے وابستہ تھے۔انقلاب کے بعد انہوں نے اپنے مسلکی تشخص کے ساتھ ظہور کیا۔ پھر جب انقلاب کے بانی آیت اللہ خمینی صاحب نے انتقالِ اقتدار کا تصور پیش کیا تو سنی بادشاہتیں بہت سے اندیشوں میں مبتلا ہو گئیں۔
یہ اندیشے آٹھ سالہ ایران عراق جنگ کی بنیاد بن گئے۔اہلِ عرب نے اپنی تما م قوت صدام حسین کی پشت پر لا کھڑی کی۔ ایران کو تو شکست نہ ہو سکی لیکن صدام حسین کو سمجھنے میں عربوں سے غلطی ہو گئی۔وہ کویت پر چڑھ دوڑے اور اب عربوں کے خائف ہو نے کا وقت تھا۔امریکا اور عالمی طاقتیں ،معلوم ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے وسائل پرایک مدت سے نظریں رکھے ہوئے ہیں۔اسرائیل اسی لیے قائم ہوا۔یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اس صورتِ حال سے فائدہ نہ اٹھاتیں۔ کویت کی حمایت کو عنوان بنا کر انہوں نے اپنی فوجیں اتار دیں اور یوں بالفعل مشرقِ وسطیٰ پر ان کا قتدار قائم ہو گیا۔ ایران نے اس اقتدار کو چیلنج کر نا چاہا تو وہ عالمی قوتوں کا ہدف بنا۔اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے،امریکا نے اسی شیعہ سنی اختلاف کو استعمال کیا جو پہلے سے مو جود تھا۔تاریخ کا معاملہ یہ ہے کہ اس کی ایک باگ اگرانسانی ہاتھ میں ہے تو دوسری قدرت کے۔اسے ہم تاریخ کا جبر کہتے ہیں۔یہ جبر اپنا کام کر تا رہا۔ امریکا نے جن مذہبی جذبات کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر نا چاہا،ایک وقت آیا کہ وہ خود اس کے لیے چیلنج بن گئے۔یہی حادثہ عربوں کے ساتھ ہوا۔ وہ جس سلفی اسلام کے نمائدہ تھے، اس کا ایک فرزند اسامہ بن لادن ا ن کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن گیا۔ عراق کی صورتِ حال نے ایران کواب پھر امریکا کے قریب کر دیا۔
مفادات کے اس کھیل میں جو پیچیدہ صورتِ حال ابھری ہے، اس کا ایک نقشہ ٹائم میگزین نے اپنی حالیہ اشاعت میں کھینچا ہے۔عراق میں امارتِ اسلامیہ کی پیش رفت نے امریکا اور ایران کو اتحادی بنا دیا ہے۔ دونوں وزیر اعظم مالکی کی پشت پر کھڑے ہیں۔شیعہ اثرات کو محفوظ کرنے کی خواہش نے ایران کو شام کے بشار الاسد کی پشت پر لا کھڑا کیا ہے جو مارت اسلامیہ سمیت اپنے ان باغیوں سے چار سال سے لڑ رہے ہیں جنہیں سعودی عرب کی حمایت حا صل ہے۔ امریکا ایران کے اثرات کے محدود کرنے کے لیے عرب ریاستوں کے ساتھ کھڑا ہے لیکن اب اسے شکایت ہے کہ وہ سنی جنگوؤں کی مدد کر رہے ہیں جو امریکا کے لیے بھی خطرہ ہیں۔امریکا، ایران، عراق اور کرد، امارتِ اسلامیہ کے خلاف یک زبان ہیں لیکن کرد خوش ہیں کہ امارت کی پیش رفت سے ان کی آ زادی کا راستہ کھل رہا ہے۔وہ عراق کی ایک بڑی آئل ریفائنری پر قابض ہیں اور ان کا راہنما مسعود برزانی اب کردستان کو ایک حقیقت سمجھتا ہے۔کرد عراق کی آبادی کا بیس فی صد ہیں۔ وہ شام میں ہیں اور ترکی میں بھی۔تاریخی اعتبار سے کرد اور ترکی لڑتے رہیں لیکن اب ان کے مابین بھی بشارالاسد اور تیل کے معاملے میں ایک اتفاقِ رائے وجود میں آ چکا۔اب ترکی نے کرد ریاست کی دبے الفاظ میں حمایت کا اشارہ بھی دے دیاہے۔
امریکا، ایران،عرب مالک،جس نے جو کچھ کیا،اب اس کے نتائج بھگت رہا ہے ۔تاریخ کی جو باگ قدرت کے ہاتھ میں ہے،وہ اس کا رخ موڑ رہی ہے۔کوئی قدرت کے اشاروں کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔یہ آگ اب پھیلے گی۔ سنی شیعہ تنازعہ عراق کو اپنی لپیٹ میں لے چکا۔ امارت اسلامیہ کے مقابلے میں ریاست شکست کھاچکی۔آیت اللہ سیستانی نے ریاست کی حمایت میں اپنی ملیشیا کو تیار رہنے کا حکم دے دیا ہے، اس کے ساتھ مقتدیٰ الصدرنے بھی اپنی ملیشیاکو دوبارہ منظم کر لیا ہے تاہم وہ ریاست کے ساتھ نہیں ہیں۔جب ریاست اس طرح خانہ جنگی کا شکار ہو جا ئے تو پھر اس کا منظم رہنا مشکل ہو جا تا ہے۔اگر عراق کی وحدت قائم نہیں رہتی تو یہ ممکن نہیں کہ شام، اردن، ایران اور ترکی براہ راست اس سے متاثر نہ ہوں۔ اسی طرح سعودی عرب بھی ہو گا اور پھر لازم ہے کہ پاکستان بھی ہو۔
اس ساری معرکہ آرائی میں امتِ مسلمہ کہیں نہیں ہے۔ نسلی عصبیتیں ہیں یا مسلکی۔میں اسی لیے یہ عرض کرتا رہاہوں کہ بحیثیت سیاسی تصور، امتِ مسلمہ ایک ایساا سم ہے جس کا کوئی مسمیٰ نہیں۔ایک روحانی وحدت کے طور پر وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ عراق کے مو جودہ قضیے سے یہ بات پوری طرح واضح ہو گئی ہے۔دنیا بھر میں اسلامی تحریکوں نے اس تصور کو مجسم کرنی کوشش کی اور اپنی صفوں کی حد تک اس کا اہتمام بھی کیا جیسے پاکستان کی جماعت اسلامی یا مشرقِ وسطیٰ کی الاخوان المسلمون لیکن عملاًہر جگہ نسلی یا مسلکی تقسیم ہی غالب رہی۔اس میں اہلِ پاکستان کے لیے بڑا سبق ہے جہاں لوگوں کی وابستگی پاکستان کے جغرافیے سے زیادہ اپنے مسلک کے ساتھ ہے جن کی اساس مشرقِ وسطیٰ میں ہے۔ یہ وابستگی پہلے بھی یہاں ظہور کرتی رہی ہے اورایک بار پھرکرے گی۔سطحی مباحث اور تماشوں میں گھری قومی قیادت کیا اس کا ادار ک رکھتی ہے؟کیا قوم کو اس نئے چیلنج کے بارے میں خبر دار کیا جا رہا ہے؟کاش میں ان سوالات کے جواب اثبات میں دے سکتا۔
مسئلہ فلسطین
میرا مخاطب اسرائیل یاامریکانہیں،اردو پڑھنے والے وہ لوگ ہیں جو فلسطینیوں پر روارکھے گئے ظلم پر اداس ہیں۔
آج اہلِ فلسطین کے ساتھ ہمدردی کا تقاضا ہے کہ ان کے قتلِ عام کو رکوایا جائے۔یہی نہیں، اس پر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے کہ آئندہ ایسے واقعات کم سے کم ہوں۔میرے نزدیک تشدد کی مکمل نفی کے سوا اس کی کوئی صورت نہیں۔ بدقسمتی سے پہلے الفتح اور اب حماس جیسی تنظیموں نے تشدد کو بطورحکمت عملی اختیار کرکے فلسطینیوں کو زخموں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ اس حکمتِ عملی سے مکمل آزادی تو دور کی بات، اب ادھوری آزادی کا تصور بھی خواب وخیال ہو تا جا رہا ہے۔یاسر عرفات نے بعد از خرابی بسیارتشددکو الوداع کہا۔حماس کوابھی تک تشدد پہ اصرار ہے۔اس لائحہ عمل کی ناکامی نوشتہ دیوار ہے۔ فلسطینیوں کا بہتا لہو،تنہا ایسی دلیل ہے جو اس اندازِ فکر کی غلطی پر شاہد ہے۔آج اہلِ فلسطین کو ایک نئی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ایسی حکمت عملی جو ان کے جانی و مالی نقصان کو کم کر سکے اور مسئلے کے ایک منصفانہ حل کے لیے ان کی جد وجہد کو زندہ رکھ سکے۔میری اس رائے کی بنیاد چند دلائل پر ہے:
۱۔ چند دنوں کے تصادم میں۲۳۴فلسطینی مارے جا چکے اور اس کے مقابلے میں صرف ایک اسرائیلی کی جان گئی ہے۔اگر ہم ان واقعات کی ابتدا کو سامنے رکھیں تو تین اسرائیلی نوجوان اغوا کے بعد قتل ہوئے۔یوں یہ دو سو چونتیس اور چار کی نسبت ہے۔گویا ایک اسرائیلی کے بدلے میں اٹھاون فلسطینیوں کی جان گئی۔ابھی جنگ جاری ہے اور نہیں معلوم کہ یہ نسبت کہاں تک جاتی ہے۔اس سے پہلے،جب بھی تصادم ہوا، نسبت کم و بیش یہی رہی۔۹۔۲۰۰۸ء میں بھی یہی ہوا تھا۔اس وقت۱۱۶۶؍ فلسطینیوں کے مقابلے میں تیرہ اسرئیلیوں کی جان گئی۔تب یہ نسبت ایک اور نوے(۹۰)کی تھی۔مجھے اس قیادت پر حیرت ہے جو اس حکمت عملی پر اصرار کرتی ہے جس میں انسانی جان کے ضیاع کا تناسب یہ ہے۔اس قربانی کو بھی گوارا کیا جا سکتا ہے اگر یہ معلوم ہو کہ وہ مقصد پورا ہو رہا ہے جس کے لیے جانیں دی جارہی ہیں۔اس کابھی دور دور تک کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔
۲۔ فلسطینی اس وقت کئی سیاسی وعسکری گروہوں میں منتقسم ہیں۔محمود عباس کی جماعت اور حماس کا اختلاف ظاہرو باہر ہے۔یہ اختلاف نظری ہے اور مفاداتی بھی۔برسرِ پیکار گروہ باہم قتل وغارت گری میں بہت سے لوگوں کی جان لے چکے۔اس طرح منقسم قوم کسی منظم ریاست کے خلاف کیسے لڑ سکتی ہے؟
۳۔ امتِ مسلمہ جس کو دن میں کئی بات پکارا جاتا ہے،کہیں مو جود نہیں ہے۔اس لیے اس پکار کا کوئی جواب نہیں آتا۔مجھے حیرت ہے کہ لوگ اس کے باوجودخلا میں صدا لگاتے اور یہ امید کرتے ہیں کہ جواب آئے گا۔میں بارہا عرض کر چکا کہ امت ایک روحانی وجود تو ہے کوئی سیاسی یا سماجی اکائی نہیں۔ آج مسلمانوں کی قومی ریاستیں ہیں یا مسلکی گروہ۔سب اپنے اپنے مفادات کی آ ب یاری کر رہے ہیں۔’داعش‘ نے اپنے تئیں خلافت کا اعلان کیا اور القاعدہ نے اسے مسترد کر دیا۔داعش کا اپنا خلیفہ ہے اور القاعدہ کا اپنا۔امتِ مسلمہ پاکستان جیسے ملکوں میں بعض گروہوں کا رومان ہے۔وہ فلسطینیوں کے لیے صرف احتجاج کر سکتے ہیں اور بس۔کیا اس سے ان کے دکھوں میں کوئی کمی آ سکتی ہے؟
۴۔ اسرائیل ایک منظم ریاست ہے اور اس کی پشت پر امریکا، برطانیہ اور روس جیسی کئی طاقت ور ریاستیں ہیں۔یہ طاقتیں ہر اخلاقی اور بین الاقوامی قانون کو نظر انداز کرتے ہوئے اسرائیل کی حمایت کرتی ہیں۔دنیا کا اس وقت اجماع ہے کہ اسرائیل کو بطور ریاست قائم رہناہے۔فلسطینی ریاست کے بارے میں ابھی تک ابہام ہے۔فلسطینیوں کی حمایت ایران کی ریاست کرتی ہے یا شام کی۔اس حمایت کی اساس بھی نظریہ یا امت نہیں، ان ریاستوں کے علاقائی مفادات ہیں۔اس وقت حماس کے ساتھ اسلامی جہاد کی تنظیم بھی مو جود ہے جسے ایران کی حمایت حاصل ہے۔کہا جاتا ہے کہ اسرائیل اور امریکا کو ایک تشویش یہ بھی ہے کہ حماس کی نسبت اسلامی جہاد سے معاملات کرنا مشکل تر ہو گا، اس لیے حماس سے معاملہ کرنے کی کوشش کی جائے۔ شام کی حکومت اس وقت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے،اس لیے فلسطینیوں کی کوئی مدد نہیں کر سکتی۔یوں بھی،بشار الاسد کے خانوادے کو امت مسلمہ سے جو نسبت ہے، اس کا حال کوئی اخوان سے پوچھے جن کی پیٹھ پر اس خاندان کا تازیانہ مسلسل برستا رہا۔پھر یہ کہ ماضی میں بھی ان ریاستوں کی کوئی مدد فلسطینیوں کے کام نہ آ سکی۔مصر میں اخوان ان کا اخلاقی اور کسی حد تک مادی سہارا تھے۔ان کے بے چارگی ہمارے سامنے ہے۔
سادہ سا سوال ہے کہ ان اسباب کی روشنی میں اہلِ فلسطین کو کیا کر نا چاہیے؟میرا خیال ہے کہ قابلِ عمل حل صرف ایک ہے۔فلسطینی خود کوایک سیاسی قیادت کے تحت منظم کریں اور دوریاستی حل کو قبول کرلیں۔وہ اس بات کی پوری کوشش کریں کہ ان کی ریاست ہر طرح سے خود مختار اور آز اد ہو۔اس کے ساتھ یروشلم کو ایک آزاد شہر قرار دینے کا مطالبہ کیا جائے کیونکہ یہ تینوں ابرہیمی مذاہب کے لیے تقدس رکھتا ہے۔دو ریاستی حل پر اس وقت کم و بیش ساری دنیا متفق ہے۔جب یہ فارمولا پہلی بار سامنے آیا تو اس میں فلسطینیوں کے لیے بہت کچھ تھا۔جب انہوں نے اسے تسلیم نہیں کیا اور یہ خیال کیا کہ وہ عسکری جدو جہد سے اسرائیل کاخاتمہ کردیں گے توان اسباب کی بنا پر ،جن کا میں نے ذکر کیا، ان کا وجود سمٹتا چلا گیا۔آج اگر اسرائیل ۱۹۶۷ء سے پہلے کی سرحد کو تسلیم کرتے ہوئے مقبوضہ علاقے خالی کرتا اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کو عملاً تسلیم کرتا ہے تو یہ فلسطینیوں کی بڑی فتح ہو گی۔
اگر تشدد کو خیر باد کہتے ہوئے، فلسطینی اس کے لیے سیاسی جدو جہد کرتے ہیں تو اس کے دو فوئد ان کو فوری طور پر مل سکتے ہیں۔ایک یہ کہ اسرائیلی تشدد میں کمی آ جائے گی۔دوسرا یہ کہ انہیں دنیا کے ایک بڑے حصے کی اخلاقی و سیاسی تائید میسرآ جائے گی۔اس وقت امریکا میں یہودیوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو اسرائیل کے خلاف ہے۔وہ اس ظلم کی تائید پر آ مادہ نہیں۔خود اسرائیل میں بھی بہت سے یہودی ہیں جو اسرائیل کو خوف کی اس فضا سے نکالنا چاہتے ہیں۔اس کے ساتھ مسلمان قومی راستیں بھی اپنے قومی مفادات کو قربان کیے بغیر، فلسطینیوں کی حمایت کر سکیں گی۔اسرائیل آسانی کے ساتھ مقبوضہ علاقوں کو خالی نہیں کرے گا۔اس کے لیے بھی طویل جدو جہد کی ضرورت ہو گی۔ تاہم اس وقت ساری تو جہ فلسطینیوں کے قتل عام کو روکنے پر دی جانی چاہیے۔کاش انہیں ایسی قیادت میسر آ سکے جوان کی بچوں کو زندگی کا پیغام دے سکے۔پاکستان کی اسلامی تحریک اگر اہلِ فلسطین کو یہ مشورہ دے سکے تو ان کے ساتھ یہی حقیقی ہمدردی ہو گی۔اب اس کے سوا کچھ نہیں ہو گا کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہو جائے۔کیا ۲۳۴ ؍افراد کی جان اس لیے دی گئی؟یہ سچ یہ کہ اسرائیل نے ظلم کیا لیکن سوال یہ ہے کہ فلسطینی قیادت نے اس ظلم کو روکنے کے لیے کیا کیا؟ اس وقت اہل فلسطین کو ایک نئی قیادت اور ایک نئی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔یہ طے کہ موت کو گلیمرائز کرنے والے زندگی کا امید نہیں دے سکتے۔جو عمومی زندگی میں بھی جنگ کے اصول اپنا تی ہو،قومیں ایسی قیادت کے ہاتھوں برباد ہو جاتی ہیں۔
(بشکریہ روزنامہ ’’دنیا‘‘)
حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ڈاکٹر رضوان علی ندوی کی تنقید (۲)
مفتی امان اللہ نادر خان
پانچویں اعتراض کا جواب
اسحاق بن راہویہ کا قول ہے کہ ’’ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں کوئی صحیح حدیث مروی نہیں ‘‘۔
علامہ عبد العزیز فرہاروی رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق کے مطابق اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ’’لا یصح‘‘ سے مراد’’صحیح اصطلاحی‘‘ کی نفی ہو تو یہ بات ہو سکتی ہے ،لیکن یہ مضر نہیں اس لیے کہ ’’ صحیح اصطلاحی‘‘ احادیث کا تو وجود ہی کم ہے، یہی وجہ ہے کہ عام شرعی احکام اور فضائل ’’حدیث حسن ‘‘ سے ثابت ہوتے ہیں ، یہی ابن راہویہ کی مراد ہے ۔ اور اگر یہ مراد لیا جائے کہ کوئی حدیث ثابت ہی نہیں، جیسا کہ ڈاکٹر صاحب کا مدعا ہے، تو یہ بات بالکل غلط ہے ، اس لیے کہ ’’ حسن ‘‘ درجے کی کئی احایث حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں احادیث کی معتبر کتابو ں میں مو جود ہیں جو ازروئے اسناد صحیح ہیں۔ اختصاراً یہاں کچھ ذکر کرتے ہیں :
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں پہلی حدیث
(۱) مسند احمد کی روایت ہے:
حدثنا علي بن بحر، حدثنا الولید بن مسلم، حدثنا سعید بن عبد العزیز عن ربیعۃ بن یزید عن عبد الرحمن بن أبي عمیرۃ الأزدي عن النبي ﷺأنہ ذکر معاویۃ وقال: اللھم اجعلہ ھادیاً مھدیاً وأھد بہ ‘‘ (مسند احمد: ۲۹؍۴۲۶)
محقق شعیب ارنوؤط سند کی تصحیح اور رجا ل کی توثیق کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’رجالہ ثقات ،رجال الصحیح ‘‘ .
اس کے علاوہ کئی جلیل القدر محدثین نے مختلف طرق سے اس کی تخریج کی ہے،چنانچہ امام بخاری نے ’’ التاریخ الکبیر‘‘ (۵؍۲۴۰)،(۷؍۳۲۷)، امام ترمذی نے اپنی’’ جامع ‘‘(۳۸۴۲)ابن ابی عاصم نے ’’اآاحاد والمثانی‘‘ (۱۱۲۹)، خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ(۱؍ ۲۰۷ ،۲۰۸ )،امام ابو بکر الخلال نے ’’ السنۃ ‘‘ (۶۹۹) ابن قانع نے ’’معجم الصحابۃ‘‘ (۲؍ ۱۴۶ )،امام طبرانی نے ’’ الأوسط‘‘ (۶۶۰)، ابو نعیم اصفہانی نے ’’حلیۃ الأولیا ء ‘‘(۸؍ ۳۵۸)، خطیب تبریزی نے ’’مشکوٰۃ المصابیح‘‘ (ص: ۵۷۹)، امام ذہبی نے ’’تاریخ الإسلام ‘‘(۲؍۳۴۲)، حافظ نور الدین ہیثمی نے’’موارد الظمآن‘‘(۵۶۶)، ابن سعد نے ’’ الطبقات الکبری ‘‘(۷؍ ۱۳۶)،ابو نعیم نے ’’أخبار أصفہان‘‘ (۱؍ ۱۸۰ )،ابن الاثیر جزری نے ’’أسد الغابۃ‘‘(۴؍ ۳۸۶ )حافظ ابن کثیرنے ’’البدایۃ والنہایۃ‘‘ (۸؍ ۱۲۹) ابن عساکر نے ’’ تاریخ دمشق‘‘ (۶؍ ۶۸۶ )، امام نووی نے’’ تہذیب الأسماء واللغات‘‘ (۲؍ ۱۰۳ ،۱۰۴)،ابن ابی حاتم نے اپنی ’’ علل‘‘ (۲؍ ۳۶۲)، امام احمد نے ’’کتاب فضائل الصحابۃ‘‘(۲؍ ۹۱۳،۱۴)اور ابن حجر ہیثمی نے ’’تطہیرالجنان ‘‘(ص: ۱۱،۱۲ ) میں اس کو ذکر کیا ہے۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن قراردیا ہے۔ ’’ڈاکٹر صاحب ‘‘ اس ’’ حسن ‘‘ درجے کی حدیث کو ابن الجوزی کے حوالے سے ’’موضوع کہہ کر آگے چل دیے ۔
ہم یہاں ڈاکٹر صاحب کی ’’خیانتوں ‘‘اور ’’ حدیث دانی ‘‘ کا جائزہ لیں گے۔
۱۔ ابن الجوزی نے دو طرق سے یہ ر وایت نقل کی، ایک میں ’’ محمد بن اسحاق ‘‘اور دوسرے میں ’’ اسماعیل بن محمد ‘‘پر کلا م کر کے اسے رد کر دیا ، ہماری روایت میں یہ دونو ں راوی نہیں ، ایک طریق کا حکم لے کر دوسرے پر چسپاں کر نا خالص ’’ علمی افتراء‘‘،’’تلبیس ابلیس ‘‘اور ’’ تحقیقی خیانت ‘‘ ہے ۔
۲۔ ابن الجوزی نے ’’لایصحان‘‘ کہا تھا، جو أعم ہے ’’موضوع‘‘ سے ۔ حدیث کا ادنیٰ طالب علم بھی جانتا ہے کہ ہر ’’ مو ضو ع‘‘ حدیث ’’لا یصح‘‘ ہو تی ہے، جب کہ ہر ’’لا یصح‘‘ حدیث ’’مو ضوع ‘‘ نہیں ہو تی، لہٰذا اسے ’’موضوع ‘‘قرار دے کر اس کی نسبت ابن الجوزی کی طرف کرنا نرا بہتان اور خالص افترا ہے۔
۳۔علیٰ سبیل التسلیم’’ موضوع ‘‘ مان لینے سے یہ حکم اسی طریق کا ہو گا ،جسے ابن الجوزی نے ذکر کیا ہے باقی پر یہ حکم بوجہ عدمِ وجودِعلت نہیں لگے گا ۔
۴۔پھر اس سے زیادہ سے زیادہ مذکورہ طریق ہی ’’ مو ضوع ‘‘ کہلائے گا ، نفسِ حدیث کا مو ضوع ہو نا پھر بھی کسی صورت ثابت نہیں ہو تا ۔
۵۔ڈاکٹر صاحب کا مبلغ علم دیکھیے کہ دیگر تمام جلیل القدر محدثین کرام کی تصحیح ، تحسین وتو ثیق کو یکسر نظر انداز کر کے صرف ابن الجوزی کی بات پر ( اور اسکی حقیقت بھی ہم واضح کر چکے )اعتماد کر کے ایک صحیح حدیث کو رد کر دیا ۔
(۶) ڈاکٹر صاحب کو ’’سیر الأعلام ‘‘ کے بیالیس صفحات میں یہ حدیث نظر نہیں آئی ؟
( ۷) امام ذہبی نے اس مو ضو ع پراکیس ’’ مو ضوع ‘‘ احایث کی نشاندہی ’’سیر الأعلام ‘‘ میں کروائی ہے، ان میں مذکورہ حدیث کو شمار نہیں کیا ۔(سیر الأعلام : ۳؍ ۱۲۸۔۱۳۱)
اس اعتراض کا تحقیقی جواب یہ ہے :
۱۔ حضرات محدثینِ کرام وماہرین علومِ حدیث کے نزدیک علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ کا شمار ’’متشددین‘‘ میں ہوتا ہے، جو جرحِ راوی اور تضعیف راویت میں سختی سے کام لیتے ہیں۔(قواعد في علوم الحدیث، ص: ۱۸۸ و الرفع والتکمیل، ص: ۳۲۰، ۳۲۱)
۲۔ ان حضرات (جن کا شمار ’’متشددین‘‘ میں ہوتا ہے)کی جرح کا حکم یہ ہے کہ ان کی جرح اس وقت مقبول ہو گی، جب دیگر محدثینِ کرام نے ان کی موافقت کی ہو اور مقابلے میں کسی اور محدث سے توثیق منقول نہ ہو، یا اگر توثیق بھی منقول ہو تو پھر جرح مفسر ہو، ورنہ ان کی جرح محدثین کے ہاں معتبر نہیں۔ (قواعد في علوم الحدیث، ص: ۱۸۸-۱۹۰)
۳۔ ثقہ محدثین کرام کی تصریحات کے مطابق اسی تشدد وافراط کے نتیجہ میں ابن الجوزی رحمہ اللہ نے صحاحِ ستہ کے علاوہ مسند أحمد، مستدرک حاکم، السنن الکبریٰ، شعب الإیمان، دلائل النبوۃ، صحیح ابن حبان، صحیح ابن خزیمۃ، سنن الدارقطني، اور مسند دارمي کی بعض ضعیف ، بعض حسن، بلکہ بعض ’’صحیح‘‘ درجے کی احادیث پر بھی کلام کیا ہے اور اسے ’’موضوع‘‘ قرار دیا ہے۔نیز! حضراتِ محدثین کرام نے ایسی تمام احادیث کی باقاعدہ نشاندہی کی ہے اور انہیں شمار کیاہے، جن کی تعداد ۳۰۰ تک پہنچتی ہے۔(تدریب الراوي:۱؍۲۷۸۔ منہج النقد، ص:۲۹۷، ۲۹۸۔ الأجوبۃ الفاضلۃ، ص: ۱۶۳، ۱۶۹).
۴۔اسی وجہ سے کئی جلیل القدر محدثین کرام نے علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ کا اس صنیع پر خوب تعاقب کیا ہے جسے علامہ سیوطی رحمہ اللہ کی ’’اللآليالمصنوعۃ‘‘، ’’ذیل اللآليالمصنوعۃ‘‘، ’’النکت البدیعات‘‘، اور شروح سنن ’’ابی داؤد، نسائی و ابن ماجہ‘‘ وغیرہ میں، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی ’’القول المسدد‘‘ اور ’’الخصال المکفرۃ‘‘ میں اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ کی ’’تلخیص کتاب الموضوعات‘‘ اور’’ تلخیص العلل المتناہیۃ‘‘ میں دیکھا جا سکتا ہے۔
۵۔ محدثین کرام کی تصریحات کے مطابق علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ کی مذکورہ تسامحات کے دو سبب ہیں:
الف: کسی راوی پر کسی محدث کی جرح ہوتی ہے (اگرچہ یسیر ہو،) علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ اسی کو مدار بنا کر روایت کو رد کر دیتے ہیں اور اس راوی کے حق میں دیگر محدثین کرام کے توثیقی و تعدیلی کلمات کو نظر انداز کر دیتے ہیں ۔
ب: دوسرا سبب یہ ہے کہ کسی روایت کے کسی ایک طریق محدثینِ کرام نے ’’وضع‘‘ کا حکم لگایا ہوتا ہے، جب کہ اسی روایت کے دیگر صحیح طرق بھی موجود ہوتے ہیں، علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ مغالطہ میں پڑ کر ’’مطلق متن ‘‘ پر ’’وضع‘‘ کا حکم لگا دیتے ہیں، جس کی زد میں ’’صحیح طُرق‘‘ بھی آجاتے ہیں، حالانکہ دیگر محدثینِ کرام کا کلام نہ ’’ مطلق متن‘‘ اور نہ ہی دیگر ’’صحیح طرق‘‘ پر ہوتا ہے۔
۶۔ علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ کے اس افراط و تفریط کی شہادت علامہ سیوطی ، حافظ ابن حجر، حافظ سخاوی،حافظ انصاری، حافظ عراقی، امام نووی، حافظ ذہبی اور دیگر جلیل القدر محدثینِ کرام رحمہم اللہ نے دی ہے۔
مذکورہ حدیث پر جو کلام علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے کیا ہے یہ بھی ان کے جملہ اوہام اور تسامحات میں سے ہے، جس کی تصریح حافظ ذہبی نے ’’تلخیص العلل المتناہیۃ‘‘ میں کی ہے، چناں چہ علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے مذکورہ حدیث کے ایک طریق میں ’’ محمد بن اسحاق لؤلؤی‘‘ نامی راوی پر کلام کیا ہے، حافظ ذہبی نے یہاں ابن الجوزی کو ہونے والے مغالطے کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’قال ابن الجوزي : مدارہ علی محمد بن إسحاق اللؤلؤي، ولم یکن ثقۃ، وھذا جھل منہ؛ فإنما محمد بن إسحاق ھنا أبو بکر الصاغاني، ثقۃ‘‘.(تلخیص العلل المتناہیۃ، ص:۹۳)
یعنی ابن الجوزی نے یہاں لاعلمی اور مغالطہ سے مذکورہ راوی کو ’’محمد بن اسحاق لؤلؤی بلخی‘‘ سمجھاہے، جس پر انہوں نے جرح نقل کی ہے، حالاں کہ یہ محمد بن اسحاق ’’ابو بکر صاغانی‘‘ ہیں اور یہ ’’ثقہ‘‘ راوی ہیں۔
پھر علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے ایک دوسرے طریق میں ’’اسماعیل بن محمد‘‘ نامی راوی پر کلام کرتے ہوئے فرمایا:
قال الدارقطني: إسماعیل بن محمد ضعیف کذاب‘‘.
حافظ ذہبی نے اس پر استدراک کرتے ہوئے فرمایا:
’’وھذہٖ بلیۃ أخریٰ، فإنما إسماعیل ھنا ھو الصفار-ثقۃ- والذي کذبہ الدارقطني ھو المزني، یروي عن أبي نعیم‘‘. (تلخیص العلل المتناہیۃ، ص: ۹۴)
یعنی یہ دوسری مصیبت ہے اس لیے کہ یہاں روایت میں جو ’’اسماعیل بن محمد‘‘ نامی راوی ہیں، یہ ’’اسماعیل بن محمد الصفار‘‘ ہیں، جو ایک ’’ثقہ‘‘ راوی ہیں۔ اورابن الجوزی نے امام دارقطنی کے حوالے سے جن کی تکذیب نقل کی ہے، وہ ’’اسماعیل بن محمد المزنی‘‘ ہیں، جو ’’ابو نعیم‘‘ سے روایت کرتے ہیں۔
اس تحقیقی جواب کی تفصیل کے لیے دیکھیے: ’’معرفۃ أنواع علم الحدیث‘‘ (ص:۲۰۴)، ’’تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ‘‘ (۱؍۱۰)، ’’فتح المغیث‘‘ (۱؍۲۷۵، ۲۷۶)، ’’قواعد في علوم الحدیث‘‘ (ص:۱۸۸ -۱۹۰)، ’’الرفع والتکمیل في الجرح والتعدیل‘‘ (ص: ۳۲۰، ۳۲۵)، ’’تدریب الراوي‘‘ (۱؍۲۷۸، ۲۷۹)، ’’منہج النقد في علوم الحدیث‘‘ (ص: ۲۹۷، ۲۹۸)، ’’الأجوبۃ الفاضلۃ للأسئلۃ العشرۃ الکاملۃ‘‘ (ص:۱۶۳ -۱۷۱) اور ’’تلخیص العلل المتناہیۃ‘‘(ص: ۹۳، ۹۴).
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں دوسری حدیث
حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو دعا دیتے ہوئے فرمایا :
’’ اے اللہ ! معاویہؓ کوکتاب اورحساب کا علم عنایت فرما اور اسے عذاب سے محفوظ فرما ‘‘۔
دیکھیے: ’’مسند أحمد ‘‘(۴؍ ۱۲۷)،’’مجمع الزوائد ‘‘(۹؍ ۳۵۶)،’’کتاب فضائل الصحابۃ للأمام أحمد ‘‘ (۲؍ ۹۱۳،۹۱۴)، ’’موارد الظمآن ‘‘(ص: ۵۶۶)،’’کتاب المعرفہ والتاریخ للبسوي (۲؍ ۳۴۵)،’’أنساب الأشراف للبلاذري‘‘(۴؍ ۱۰۷)،’’تاریخ دمشق‘‘ (۱۶؍۶۸۳)، ’’تاریخ الإسلام للذہبي ‘‘ (۲؍ ۳۱۸)، ’’الاستیعاب ‘‘(۳؍ ۳۸۱)،’’البدایۃ والنہایۃ‘‘(۸؍ ۱۲۰)،’’الإصابۃ‘‘(۱؍ ۳۸۵،۳۸۶)،’’کنز العمال‘‘ (۶؍ ۱۹۰ )،(۷؍ ۸۸)، ’’جزء الحسن بن عرفۃ العبدي‘‘(رقم الحدیث :۳۶،۶۶) بحوالہ سیرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ،از مولانا محمد نافع مد ظلہ،(۱؍۱۱۲)
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں تیسری حدیث
حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
’’ معاویہ کا تذکرہ خیر و خوبی کے سوا مت کرو ، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سنا ہے کہ آپ معاویہ کے حق میں فرماتے تھے: ’’اے اللہ !انہیں ہدایت نصیب فرما ‘‘ ۔
دیکھیے: ’’سنن الترمذي‘‘ (ص: ۵۴۷)،’’ التاریخ الکبیر للبخاري‘‘( ۴؍ ۳۲۸)،’’البدایۃ والنہایۃ‘‘ (۸؍ ۱۲۲)،’’ تاریخ دمشق ‘‘(۱۶؍۶۸۶) .
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں چوتھی حدیث
حضر ت وحشی بن حرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوار تھے، آپ نے ارشاد فرمایا: کہ آپ کے جسم کا کو ن سا حصہ میرے قریب ترہے ؟ تو حضرت معاویہ نے فرمایا :میرا شکم آپ کے نزدیک ہے ، تو اس وقت آپ نے ارشاد فرمایا :’’ اے اللہ ! اسے علم و حلم سے پرُ فرما ‘‘۔
دیکھیے :’’التاریخ الکبیر للبخاري‘‘ (۴؍ ۱۸۰)،’’علل الحدیث لابن أبي حاتم‘‘(۲؍ ۳۵۹)،’’تاریخ الإسلام للذہبي‘‘(۲؍ ۳۱۹)،’’تاریخ دمشق‘‘( ۱۶؍ ۶۸۸ )بحوالہ سیرت معاویہ رضی اللہ عنہ ،از مولانا محمد نافع (۱؍ ۱۱۵)
ابن عساکر نے ’’تاریخ دمشق‘‘ میں’’نفی فضیلتِ معاویہ رضی اللہ عنہ ‘‘ کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ مذکورہ روایات حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں وارد روایات میں سے اصح ترین ہیں:
’’أصح ماروي في فضل معاویۃ، حدیث أبي حمزۃعن ابن عباس أنہ ’’کان کاتب النبي ﷺ‘‘، فقد أخرجہ مسلم في صحیحہ، وبعدہ حدیث،’’ اللھم علمہ الکتاب والحساب‘‘، وبعدہ حدیث ابن أبي عمیرۃ : ’’اللھم اجعلہ ھادیاً مھدیاً‘‘( ۱۶؍ ۶۹۷)
اسی کو ابن عراق کنانی نے بھی’’تنزیہ الشریعۃ‘‘میں علامہ سیوطی کے حوالے سے نقل کیا ہے ۔(تنزیہ الشریعۃ: ۲؍۸، ذیل الآالی للسیوطی ،ص: ۷۵)
حافظ ابن کثیر مندرجہ با لا احادیث پر بحث کر نے کے بعد فرماتے ہیں کہ
’’ ہم نے اس مسئلہ میں مو ضو ع ومنکر روایات سے احتراز کر کے صرف صحیح ، حسن اور جید روایات کے بیان کر نے پر اکتفا کیا ہے‘‘۔ ( البدایۃ والنھایۃ:۸؍۱۲۲)
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلا بحری جہاد کر نے والے لشکر کو جنت کی خوشخبری دی ہے (بخاری، کتاب الجہاد :رقم : ۲۹۲۴)اور محدثین و مؤرخین کا اس پر اتفاق ہے کہ پہلی بار غزوہ( جسے ’’غزوہ قبرص‘‘ کہا جاتا ہے )۲۷ھ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی امارت میں پیش آیا۔
اب ڈاکٹر صاحب پر اپنا مدعا ثابت کر نے کے لیے اصولی طور سے لازم ہے کہ وہ ہماری ذکر کردہ پانچوں’’صحیح احادیث ‘‘کو جملہ طرق کے ساتھ،’’موضوع ‘‘ ثابت کریں ،اس لیے کہ ایک طریق کی صحت سے بھی فی الجملہ مضمون کا ثبوت ہو جا تا ہے اور صرف ’’ضعیف ‘‘ثابت کرنے سے بھی بات نہیں بنے گی کہ ’’ باب الفضائل‘‘میں ضعیف حدیث تین شرائط کے ساتھ مقبول ہے ،پھر تعدد طرق سے تو وہ بھی قوی ہو جاتی ہے ۔
اس کے بعد ڈاکٹر صاحب کے ذکر کردہ ’’مطاعن ‘‘ کا سر سری جا ئزہ لیتے ہیں ۔
پہلے طعن کا جواب
۱۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو شام کا گور نر بنانا ،حمص کی ولایت انھیں سپرد کرنا ،بعد ازاں شام کے تمام علاقے و نواحی ان کی امارت میں دینا اور اپنے دورِ خلافت کے آخر تک انہیں بر قرار رکھنا ،پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا بھی ان سے یہی معاملہ بر قرار رکھنا ظاہر ہے کہ اسی کو ’’ اعتمادِخاص ‘‘ کہا جا تا ہے ۔
رہی بات دُرّے مارنے والے واقعے کی، سو وہ ایک جزوی واقعہ ہے جو نہ ’’ اعتمادِ خاص ‘‘ کے منافی ہے اور نہ ہی ’’نفی فضیلت ‘‘ کو مستلزم ہے۔ پھر یہ ان حضرات کا ’’غایتِ تقوی ‘‘اور ’’ کمال ‘‘ تھا کہ ذرا سی بات پر بھی فوراً گرفت فرماتے۔ ساتھ ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی’’جلالی شان ‘‘ بھی اگر مد نظر رکھیں تو با ت واضح ہو جاتی ہے۔ کئی احادیث میں ان کا یہ مقولہ مذکور ہے :
’’دعني یا رسول اللہ ﷺ! أضرب عنق ھذا المنافق‘‘
اسی تناظر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس بات کو بھی دیکھ لیا جائے کہ
’’ یہ اللہ کا اقتدار ہے وہ نیک کو بھی دیتا ہے اور فاجر کو بھی ‘‘۔
پھر کسی بھی صحابی سے متعلق ’’معصومیت ‘‘ کا دعویٰ ہم نے کب کیا ہے ؟ ان سے بڑی بڑی غلطیاں سر زرد ہوئیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے مغفرتِ کاملہ فرمائی۔ حضرت ماعز بن مالک اسلمی رضی اللہ عنہ کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’لقد تاب توبۃ لو قسمت بین أمۃ لوسعتھم ‘‘ (مسلم، رقم :۴۴۳۱)
لیکن ڈاکٹر صاحب اب بھی معاف کر نے کے لیے تیار نہیں۔ ’’سیر الأعلام ‘‘کے حوالے سے لکھتے ہیں :
’’ اے اللہ ! ابو سفیان پر لعنت کر ‘‘۔
لیکن آپ کا یہ مبارک ارشاد یاد نہیں: ’’الإسلام یھدم ما کان قبلہ‘‘، یہ کہا ں کی تحقیق ہے؟’’رافضیت نوازی‘‘ اور کس چیز کا نام ہے ؟
دوسرے طعن کا جواب
(۲) حضرت عمر رضی ا للہ عنہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان کی مدح سرائی میں فر مایا کرتے تھے کہ :
’’تم قیصر و کسریٰ کی دانائی اور زیرکی کا ذکر کرتے ہو ،حالانکہ تمہارے پاس معاویہ جیسے دانشمند اور زیرک آدمی مو جود ہیں ‘‘۔
کبھی فرماتے :
’’تم ہرقل اور کسری کی ہوشمندی و ہوشیاری سے تعجب کرتے ہو اور معاویہ رضی اللہ عنہ کو چھوڑبیٹھتے ہو‘‘۔
بعض دفعہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر نظر فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا:
’’دانائی اور زیرکی میں معاویہ رضی اللہ عنہ کو تو عربوں کے کسری ہیں‘‘۔
دیکھیے:’’ الکامل في التاریخ ‘‘( ۳؍ ۳۷۳)،’’تاریخ الإسلام ‘‘(۲؍۳۴۳)،’’البدایۃ والنہایہ‘‘(۸؍ ۱۳۲).
لیکن ڈاکٹر صاحب نے جب ’’تعصب ‘‘ ( بلکہ رافضیت ) کی عینک سے مطالعہ کیا ،تو انہیں یہ مَنْقَبت بھی مذمت نظر آئی ،نتیجۃً اس کا جومفہوم بیان کیا، وہ قارئین ملاحظہ فرماچکے ہیں ۔فکر ہر کس بقدر ہمت اوست ۔
تیسرے طعن کا جواب
۳۔ ’’لا أشبع اللہ بطنہ‘‘کے جواب سے قبل ڈاکٹر صاحب کے چند ’’ تسامحات ‘‘کی نشاندہی ضروری ہے :
(۱) ابتداءً حوالہ’’ مسند احمد‘‘ کا دیا گیا ہے ، حالانکہ اس میں نہ تین مرتبہ کاذکر ہے اور نہ ہی بد دعا کا۔
(۲) مسند احمد میں ’’وکان کاتبہ‘‘(کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کاتبِ وحی تھے ، )بھی مذکور ہے ،ڈاکٹر صاحب نے اس کا تذکرہ نہیں کیا۔
(۳) آپ نے انہیں کتابتِ وحی کے لیے بلایا تھا ۔
(۴) تین مرتبہ بلائے جانے اور بد دعا کا ذکر ’’سیر الأعلام ‘‘(۳؍ ۱۲۳)اور ’’ البدایۃ والنہایۃ ‘‘(۸؍ ۱۲۶)میں ہے، جس کا حوالہ ڈاکٹر صاحب نے دیا ہے ،لیکن دونوں جگہ ’’وکان یکتب الوحي‘‘ کی تصریح ہے اور دونوں حضرات نے اس کے بعدانتہائی بہترین ومناسب توجیہ بھی ذکر کی ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ آپ کی طرف سے دعا ہے، بددعا نہیں ۔یہ دونوں باتیں بھی’’ڈاکٹر صاحب ‘‘کی ’’دیانت ‘‘ کی نذر ہو گئیں ۔
اب اصل جواب کی طرف آتے ہیں ،وہ یہ کہ حدیث کی کتاب ’’مسند احمد ‘‘میں جواصل واقعہ مذکور ہے ،اس میں نہ تین مرتبہ کا ذکر ہے، نہ بد دعا کا، جس سے معلوم ہوا کہ یہ کسی راوی کا اپنا ادراج ہے ، البتہ مزید تتبع سے ’’مسلم ‘‘ میں بھی یہ روایت ملی ،وہاں دو مرتبہ کا ذکر ہے اور مذکورہ بد دعا کا بھی ۔
علامہ بلاذری نے ’’أنساب الأشراف ‘‘ میں لکھا :
’’قال أبو حمزۃ: فکان معاویۃ بعد ذلک لا یشبع‘‘. (۴؍ ۱۰۶)
اس تصریح سے معلوم ہوا کہ یہ راوی ابو حمزہ (جو ابنِ عباس رضی اللہ عنھما سے روایت کر تے ہیں )کا ادراج ہے ،یہ ابو حمزہ عمران بن ابی عطاء الأسدی الواسطی ہیں ، ایک متکلم فیہ راوی ہیں ،علمائے رجال نے ان پرنقد و کلام کیا ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھیے: ’’المغني في الضعفاء‘‘(۲؍ ۱۳۶)،’’کتاب الضعفاء الکبیر‘‘(۳؍ ۲۹۹)،’’میزان الاعتدال‘‘ (۳؍ ۲۳۹)،’’الجرح والتعدیل‘‘ (۶؍ ۳۸۷)،’’تہذیب الکمال ‘‘(۲۲؍ ۳۴۳)،’’تہذیب التہذیب‘‘(۸؍ ۱۳۶)،’’تقریب التہذیب ‘‘(ص: ۴۳۰).
ان کی تضعیف یا تو ثیق سے متعلق حتمی رائے قائم کرنا تو مشکل ہے ،البتہ امام نووی کی تصریح کے مطابق اتنی بات متفق علیہ ہے کہ ان کی صرف ایک ہی روایت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے ہے، جو مسلم اور مسند احمد میں ہے اور اس میں ان کی متابعت کوئی نہیں۔ (شرح النووی :۱۶؍ ۳۷۱)۔ حاصل یہ ہے کہ یہ ان کا متفردانہ قول ہے اور راوی کا متفرد قول بغیر متابعت کے لائقِ اعتناء نہیں ہوتا،پھر روایت پر نقد و کلام سے قطع نظراس جملہ کا صحیح محمل موجود ہے، وہ یہ کہ یہ ’’ثَکَلَتْک أمُّک‘‘،’’ترِبت یداک‘‘ اور ’’ علی رَغمِ أنفک‘‘کے قبیل سے ہیں جو بغیر کسی قصد کے صادر ہوتے ہیں ، اس توجیہ کو امام نووی نے اختیا ر کیا ہے ۔(شرح النووی :۱۶؍ ۳۷۱)
امام ذہبی نے ’’سیر الأعلام‘‘میں یہ مطلب بیان کیا کہ ’’ اللہ ان کو شکم سیری نہ دے ،تا کہ قیامت کے دن انہیں بھوک کی تکلیف نہ ہو‘‘۔(۳؍ ۱۲۳) اس لیے کہ آپ نے فرمایا :
’’ جو شخص دنیا میں سب سے زیادہ شکم سیر ہو گا، وہ آخرت میں سب سے زیادہ بھو کا ہوگا ‘‘۔ (ترمذی: ۲۴۷۸) و ( ابن ماجہ :۳۳۵۰)و(ابن ابی الدنیا فی الجوع :۲؍۲)و(مجمع الزوائد: ۵؍ ۳۱)
تیسری توجیہ :امام نووی فرماتے ہیں کہ امام مسلم نے پہلے یہ حدیث ذکر کی کہ:
’’اے اللہ!میں اگر کسی بھی شخص کو ایسی بد دعا دوں،جس کا وہ مستحق نہ ہو،تو اس بد دعا کو اس کے لیے گناہوں سے پاک کر نے ،تزکیہ اور قربت کا ذریعہ بنا ‘‘۔
پھر اس سے متصل ہی مذکورہ حدیث کو لا کراستنباط کیا ہے کہ یہ آپ کے پہلے فرمان کے مطابق در حقیقت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے دعا ہے۔ (شرح النووی :۱۶؍ ۳۷۱ ) اسی کو امام ذہبی نے ’’سیر الأعلام‘‘ (۳؍ ۱۲۴)اور حافظ ابن کثیر نے ’’البدایۃ والنہایۃ‘‘ (۸؍ ۱۲۶،۱۲۷)میں اختیار کیا ہے ،لیکن ڈاکٹر صاحب اسے ماننے کے لیے تیا ر نہیں کہ ’’ہنر بچشم عداوت بزرگ تر عیب است‘‘۔
چوتھے طعن کا جواب
۴۔ رہی با ت بخاری و مسلم کا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی منقبت میں کوئی باب نہ باندھنے کی ،سو اس کے جواب میں اولاًیہ عرض ہے کہ کسی فضیلت کے ثبوت کو بخاری و مسلم پر موقوف کرنے کا نرالا معیار چودہ صدیوں میں سے کس مفسر ، محدث ،محقق یا فقیہ کاہے؟ کیا بخاری میں تمام صاحبِ مناقب صحابہ کے مناقب و فضائل موجود ہیں
وثانیاً: ’’عدم ذکر الشئ لایستلزم عدم وجودہ‘‘ جس کی وضاحت ہم کر چکے ہیں۔
وثالثاً: ایسا ہے بھی نہیں ،بلکہ مسلم کے حوالے سے تو ہم ابھی ذکر کر چکے اور امام بخاری نے اگر ’’صحیح بخاری‘‘ میں مناقب بیان نہیں کیے تو ’’التاریخ الکبیر ‘‘بھی تو انہی کی کتاب ہے ۔
رہی بات امام بخاری کا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حالات کو’’ذکرِمعاویہ ‘‘ کے عنوان سے ذکر کر نے کی ،سو یہ اگر ’’نفی فضیلت ‘‘کو مستلزم ہے ،تو ڈاکٹر صاحب سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ وہ عباس بن عبد المطلب،ابوالعاص بن الربیع،اسامہ بن زید ،عبد اللہ بن عباس ،جریر بن عبد اللہ البجلی ،حذیفہ بن الیمان ،اور ہند بن عتبہ بن ربیع رضی اللہ عنہم اجمعین کے فضائل و مناقب کا بھی انکار کردیں ،یہ الزامی جواب ہے ،تحقیقی جواب یہ ہے کہ امام بخاری رحمۃاللہ علیہ ’’تفنن فی الکلام ‘‘کی غرض سے ایسی تعبیرات اختیار کرتے ہیں ،کذا في’’الناہیۃ ‘‘(ص:۳۴)۔
پانچویں طعن کا جواب
۵۔ ڈاکٹر صاحب نے جو آخری طعن ذکر کیا ہے، اس کا حاصل یہ ہے کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے فضائلِ معاویہ رضی اللہ عنہ میں وارد روایات کو مَن گھڑت اور مو ضوع قرار دیا ہے، پھر آخر میں اسحاق بن راہویہ اور امام نسائی کا حوالہ بھی دیاہے۔
جہاں تک بات ہے اسحا ق بن راہویہ اور امام نسائی کے کلام کی ،تو اس کا جواب سابق میں ہم تفصیل و تحقیق کے ساتھ دے چکے ہیں،رہی بات امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے کلام کی ،سو اس میں یہ یقین نہیں کہ وہ ’’مَن گھڑت ‘‘ فضائل کون سے ہیں؟ ڈاکٹر صاحب جب تک یہ ثابت نہ کریں کہ ان ’’مَن گھڑت ‘‘ فضائل سے وہی مراد ہیں، جو ہم نے سابق میں احادیث کی معتبر کتب سے محدثین کرام کی تحسین و توثیق کے ساتھ ذکر کیے ہیں،اس وقت تک ان کا مدعا ثابت نہیں ہو گا اور یہ ثابت کر نے کے لیے ڈاکٹر صاحب کو بلا مبالغہ صدیاں در کار ہیں۔ لیکن ان کی سہولت کے لیے ہم خود ہی ثابت کردیتے ہیں کہ اس سے مراد وہ فضائل نہیں جو ہم نے ذکر کیے ہیں۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی منقبت میں متعدد موضوع روایات اس کے علاوہ ہیں، جو ہم ذکر کر چکے ، جیسا کہ حافظ ذہبی کی ’’سیر الأعلام ‘‘ کے حوالے سے اکیس روایا ت کا حوالہ گزرا ، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کی مراد بھی وہی دیگر مو ضوع روایات ہیں ، نہ کہ وہ جو ہم نے ذکر کیں ، دلیل اس کی یہ ہے کہ ہماری ذکر کردہ روایا ت کو خود امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے ’’مسند أحمد‘‘ اور ’’کتاب فضائل الصحابۃ‘‘ میں ذکر کیا ہے ،اگر ان کی مراد یہی روایات ہیں، تو پھر امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے خود کیوں ان فضائل کو ذکر کیا ؟
ڈاکٹر صاحب نے ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے یہ تو ذکر کیا تھا:
’’ولاخلاف أن أبا سفیان ومعاویۃ أسلما في فتح مکۃ سنۃثمان ‘‘.
لیکن ابن قیم کا یہ فیصلہ نظر انداز کر گئے کہ:حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی مذمت کی متعلقہ احادیث کذب محض ہیں:
’’ومن ذلک الأحادیث في ذم معاویۃ رضي اللہ عنہ، وکل حدیث في ذمہ فھو کذب‘‘. (المنار المنیف في الصحیح والضعیف، ص:۱۱۷)
یہ ہیں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی زندگی کے صحیح حالات۔ ان میں سے بہت سے گوشے ابھی تفصیل طلب ہیں۔ عام قارئین کو یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ایک جلیل القدر ،عظیم المرتبت صحابی رسول ہیں، ۷ھ میں مشرف با سلام ہوئے۔ صحیح احادیث کی روشنی میںآپﷺ سے ان کے حق میں کئی دعائیں منقول ہیں۔ ان کا شمار سرِ فہرست ’’کاتبین وحی ‘‘ میں ہوتا تھا۔ حضرت عمر و عثمان رضی اللہ عنہما کے دورِ خلافت میں بیس (۲۰) سال تک شام کے ’’امیر ‘‘( گورنر) رہے۔ اس کے بعد بیس(۲۰) سال تک ’’خلیفہ ‘‘ رہے ،کم وبیش آدھی دنیا پر (اسلامی نظام نافذ کرکے )حکومت کرنے کے بعد ۶۰ھ میں اس دارِ فانی سے رخصت ہوکر دارِ بقاء کی طرف منتقل ہو گئے۔
مادی ترقی اور شناخت کا بحران
حافظ کاظم عثمان
مئی ۲۰۱۴ء کے شمارے میں ایک مضمون ’’مادی ترقی کا لازمی نتیجہ: شناخت کا بحران، واہمہ یا حقیقت‘‘ پڑھنے کا موقع ملا۔ جناب محمد ظفر اقبال صاحب کا موضوع قابل ستایش ہے اور مغربی عقائد و نظریات کے بارے میں ان کا مؤقف بھی مضبوط ہے، لیکن مضمون پڑھتے ہوئے بعض باتوں نے پریشان کیا اور ذہن میں کئی سوالات پیدا ہوئے۔ یہ مضمون دراصل ان سوالات کے جوابات کی تلاش میں لکھا گیا ہے۔
1۔ محمد ظفر اقبال صاحب ابتدا ہی میں لکھتے ہیں کہ ’’امر واقعہ ہے کہ مسلمان آج مادی ترقی میں بہت پیچھے ہیں۔ ‘‘
سوال یہ ہے کہ مسلمان آج مادی ترقی میں کس سے پیچھے ہیں اور یہ پیچھے ہونا کیا واقعی ایک problematic issue ہے؟ اور کیا مسلمانوں کو اس belated consciousness میں مبتلا ہونا چاہیے؟ پیچھے رہ جانے کا تعلق تو اس گروہ کا ہوتا ہے جو اس دوڑ میں شامل ہو جبکہ امت مسلمہ کے معتبر اہل علم حضرات نے کبھی بھی اس دوڑ میں شامل ہونے کی ترغیب نہیں دی بلکہ اس ترقی کی دوڑ کے بارے میں ان کا رویّہ ہمیشہ حقارت آمیز رہا ہے۔ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ ہم پیچھے نہیں ہیں، بلکہ ہم اس سے لاتعلق ہیں کیوں کہ یہ ترقی دنیا کو پوجے بغیر ممکن نہیں۔
اس معاملے کو دوسری طرح دیکھیں تو آج مسلمان مادی ترقی میں کوئی اتنا پیچھے بھی نہیں، بلکہ آج بلا تفریقِ مذہب، بنی نوع انسانی میں کچھ لوگ اس ترقی میں پیچھے ہیں اور کچھ آگے ہیں۔ یہی صورتحال مسلمانوں کی بھی ہے۔ اسی لیے آج مسلم و غیر مسلم ممالک میں cosmopolitan urbanization ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ آج مادی ترقی میں کوئی خاص قوم آگے یا پیچھے نہیں ہے بلکہ ایک خاص گروہ ( The Elite) ہے جو کہ رنگ ونسل، زبان اور جغرافیائی سرحدوں کے اختلاف کے باوجود ایک ہی تہذیب کا پیروکار ہے۔ اْن کے تصرف میں دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی ہے، ان تمام لوگوں کی پسند نا پسند، بود و باش، برانڈ، پسندیدہ کھانے، پسندیدہ میوزک اور فلمیں وغیرہ سب ایک جیسی ہوتی ہیں۔ ان میں مسلمان بھی ہوتے ہیں، ہندو بھی، عیسائی بھی اور یہودی بھی لیکن کوئی ان کے طرز حیات سے یہ اندازہ نہیں لگا سکتا کہ یہ کس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
C. Wright Mills اس حوالے سے کہتا ہے:
"The upper class style of life is pretty much the same-although there are regional variations- in each of the big cities of the nation. The houses and clothing, the types of social occasions the metropolitan 400 care about, tend to be homogeneous. The brooks brother suit-and-shirt is not extensively advertised nationally and the store has only four branches outside New York City, but it is well known in every major city of the nation, and in no key city do the "representatives" of Brooks Brothers feel themselves to be strangers. There are other such external that are specific and common to the proper upper-class style."1
’’اشرافیہ کی طرزِ زندگی تقریباً ایک جیسی ہے، البتہ کہیں کہیں کسی قوم کے بڑے شہروں میں علاقائی تغیر پایا جاتا ہے۔ ان کے مکانات اور لباس، معاشرتی اجتماع کے مواقع یکسانیت کی طرف مائل ہیں۔ (مثلاً) بروک برادر سوٹ اینڈ شرٹ کے زیادہ اشتہار نہیں چھپتے اور نیو یارک میں اْس کی محض چار شاخیں ہیں، مگر پورے امریکا میں (یہ برانڈ) اچھی طرح جانی جاتی ہے اور بروک برادرز کے کپڑے پہننے والے کہیں بھی اجنبی محسوس نہیں ہوتے۔ اسی طرح مزید بھی کچھ مخصوص مظاہر ہیں جو کہ اشرافیہ میں مشترک ہیں۔ ’’
آج دراصل اس تناظر میں اقوام کو دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ صحیح منظر نامہ پیش نظر رہ سکے اور عالم اسلام میں سے اگر کوئی اس اشرافیہ طبقے میں شامل ہو بھی جائے تو ہم اْسے اسلام کی کامیابی نہ سمجھیں اور نہ ایسے مسلمانوں کو اپنا ہیرو تصور کریں۔ مسلمان آج جس مغلوبیت اور پسپائی کا شکار ہیں، اْس کا اس ترقی اور مقابلہ بازی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مسلمانوں کی زبوں حالی کی وجہ اْن کے دین سے نکلتی ہے نہ کہ خارجی عوامل سے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی مسلمان ایمانی طور پر مردہ ہوئے، زمانے کے ہاتھوں مفتوح ہوگئے۔ خواہ ہندوستان ہو، خلافت عثمانیہ ہو یا اسپین، مسلمانوں کو ہمیشہ ایمانی کمزوری کی وجہ سے شکست و ریخت کا سامنا کرنا پڑ ا اور غیروں نے بالعموم مردوں پر جھنڈے گاڑ کے فتح کا جشن منایا۔
2۔ کیا بیک وقت کئی ادوار میں زندہ رہنا صرف مسلمانوں کا مسئلہ ہے؟
ان چار ادوار کی نشاندہی محترم جناب ڈاکٹر عبد الوہاب سوری صاحب نے ایک مضمون میں فرمائی ہے جس کا نام What is live and what is dead in Iqbal's thought ہے اور یہ مضمون آکسفرڈ کی شائع کردہ کتاب "Revisioning Iqbal As a poet and Muslim Political Thinker" میں شامل ہے۔ حیرت ہے کہ اس مضمون کا حوالہ شامل نہیں کیا گیا۔ بہرحال یہ چار ادوار کا مسئلہ آج ہر قدیم تہذیب کے ساتھ ہے۔ مسلمانوں کے علاوہ ہندوستانی، چینی اور جاپانی اقوام وغیرہ بھی ایک ساتھ کئی ادوار میں زندہ ہیں۔ ان کا بھی معاشرتی ڈھانچہ قدیم ہے بلکہ ان کا مذہبی ورثہ اسلام سے بھی پہلے کا ہے تو پھر مسلمان ہی اس مخمصے میں مبتلا کیوں ہیں؟ ہمارے خیال میں کئی ادوار میں زندہ رہنے سے زیادہ یہ بات با معنی ہے کہ ہم اپنی دینی اقدار پر مصر ہیں اور ہمارا معاشرتی ڈھانچہ بھی دین ہی کی بدولت پوری طرح جاہلیت جدیدہ کا شکار نہیں ہوا۔
3۔کیا یہ تین طبقات مسلم اہل فکر کی صحیح نمائندگی کرتے ہیں؟
امت مسلمہ کے کئی گروہ ایسے ہیں جن کی نمائندگی اس زمرہ بندی میں نہیں ہوتی۔ مثلاً تبلیغی جماعت نہ تو مادی ترقی کو اصل شے مانتی ہے، نہ مغرب کی کچھ چیزیں لینے اور کچھ چھوڑنے کی قائل ہے اور نہ ہی مغرب پر تنقیدی نظر رکھتی ہے۔ وہ تو ایک خالص دینی جماعت ہے جن کی علمیت روایتی مذہب سے نکلتی ہے۔ لیکن کیا یہ منہج اپنی ذات میں کوئی قابلِ التفات شے نہیں ہے؟ کیا یہ مغرب سے تصادم کے نتیجے میں کامیاب ترین گروہ نہیں ہے؟ بلکہ آج تو محسوس ایسا ہوتا ہے کہ مغرب سے نبردآزما ہونے کا واحد راستہ مغرب سے کلیتاً بے اعتنا ہوجانا ہی ہے۔ مزید یہ کہ علماء دیوبند، علماء اہل حدیث یا بریلوی علما ء اس زمرہ بندی میں کہاں کھڑے ہوتے ہیں؟
جب ہم کسی شے کی زمرہ بندی کرتے ہیں اور اس کو ایسے بیان کرتے ہیں کہ جو ہے یہی ہے تو اس سے کئی مسائل جنم لیتے ہیں۔ مثلاً اس مضمون میں امت مسلمہ کا سوادِ اعظم نظر انداز کردیا گیا جس کی وجہ سے ایک قاری یا تو ان افراد کو امت کی mainstream میں شامل ہی نہیں سمجھے گا اور اگر سمجھے گا بھی تو بس بے وقعت سی شے کے طور پر۔ دوسرا یہ کہ اس طرح کی ناقص زمرہ بندی سے درست نتائج اخذ کرنا کیونکر ممکن ہوگا۔
4۔تیسرے طبقے کی وضاحت کرتے ہوئے موصوف نے اظہارِ خیال فرمایا: ’’مادی ترقی کے حصول کے لیے صرف مغربی زبان اور سائنسی علوم و فنون کی تحصیل و تعلیم کافی نہیں ہے۔ زبان تو علوم کے ابلاغ، اظہار و تفہیم کا محض ایک ذریعہ ہے۔ وہ فکری سرمایہ اور خرد افروزی امر دیگر ہے جو مادی ترقی کا لازمہ ہے۔‘‘
اس عبار ت میں دو مسئلے ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ کوئی بھی زبان محض اظہار کا ذریعہ نہیں ہوتی بلکہ یہ اپنے بولنے والوں کی نفسیات، اْ ن کے احساسات، چیزوں کے بارے میں اْن کا نظریہ اور اْن کی جمالیات وغیرہ کو منعکس کرتی ہے۔ اس کی سادہ سی مثال یہ ہے کہ اْردو میں مخاطب حاضر کے کئی صیغے ہیں، احترام کے رشتوں میں ’’آپ‘‘ کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے، بے تکلف احباب کو ’’تم‘‘ یا ’’تو‘‘ سے پکارا جاتا ہے، جبکہ انگریزی میں مخاطب کرنے کے لیے صرف ایک ہی لفظ You ہے۔ تو کیا جب ایک انگریز اپنے والد اور احباب کو "You" کہہ کر مخاطب کرتا ہوگا اور ایک ارد و بولنے والا اپنے والد کو آپ کہہ کر اور دوستوں کو تم کہہ کر پکارتا ہوگا تو ان کی نفسیاتی کیفیت ایک جیسی ہوتی ہوگی؟ کیا یہ دونوں زبانیں بولنے والے اپنے بڑوں کا ایک جیسا احترام کرتے ہوں گے؟
ہائیڈیگر اس حوالے سے کہتا ہے:
"Language is a human activity. The kind of being of this activity will be determined from the kind of being of the human being, for the human being alone, as distinguished from stone, plant and animal, speaks. The being of the human being in itself the being of the language." 2
’’زبان دراصل ایک انسانی عمل ہے۔ کسی معاشرے میں جس طرح کے انسان ہوں گے اْسی طرح کی زبان وجود میں آئے گی۔ جمادات، نباتات اور حیوانات کے برعکس انسان گفتگو کر سکتا ہے۔ لہٰذا انسان ہونے کا معاملہ درحقیقت زبان کے تعین سے طے پاتا ہے۔ ‘‘
دوم یہ کہ یہاں تک آپ کی بات ٹھیک ہے سائنسی علوم و فنون کی تعلیم مغربی مادی ترقی کے لیے کافی نہیں ہے۔ لیکن اْن عقائد کی راہ ہموار کرنے کے لیے اس کی طاقت بھی غیر معمولی ہے، اس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جب ہم ان عقائد کے نتیجے میں وجود میں آنے والی اشیاء کا استعمال کرتے ہیں تو وہ عقائد بھی غیر محسوس طریقے سے در آتے ہیں۔
ایک گزارش:
موجودہ دور لفظوں کی بے توقیری کا دور ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے انسان کو اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ جو لکھنا چاہے لکھے، جس موضوع پر چاہے قلم اْٹھائے، دفتر کے دفتر سیاہ کردے۔ اس وجہ سے آج لفظوں کا خالق کون ہے، یہ بات غیر اہم ہوگئی ہے اور مضمون کی تفہیم کی واحد صورت لفظ رہ گئی ہے۔ ہمارے اسلاف میں لکھنا ایک مشق نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ ایک مقدس فریضہ سمجھا جاتا تھا ا ور معاشرے کے بڑے لوگ ہی لکھنے کے فریضے کو سرانجام دیتے تھے۔ اسی لیے معاشرے میں علمی ذوق اور کتابوں کے بارے میں ان کا رویّہ یکسر مختلف تھا۔ اور پھر جو علم وجود میں آتا تھا وہ مشقی یا مشغلے کے طور پر یا ڈگری حاصل کرنے کے لیے معرض وجود میں نہیں آتا تھا بلکہ اْس کے پیچھے علم و فہم کا ایک سمندر ہوتا تھا، وہ معاشرے کی کوئی ضرورت پوری کرتا تھا، حوالوں کے مجموعے کے بجائے خود ایک حوالہ بنتا تھا۔
الفاظ کی بھر مار سے ایک اور مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ خیالات کا معیار اور لفظوں کی اہمیت گھٹ گئی۔ یہ سانحہ صرف مغرب کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ مشرقی اقوام بھی اپنے اپنے قلم تھامے اس میدانِ عمل میں نکل پڑے۔ اس طوفانِ افکار و نظریات کی وجہ سے آج ایک شخص کے پاس کسی تحریر کو پڑھنے کے بعد کچھ سوچنے کا، reflect کرنے کا یا کوئی لائحہ عمل بنانے کا وقت نہیں رہا۔ ذرا سوچیں کیا ہم انسانوں کو ذہنی طور پر مفلوج کرنے میں مغرب کے ساتھ برابر کے شریک نہیں ہیں؟ کیا اس رویّے سے امت مسلمہ کی بحیثیت مجموعی سوچنے سمجھنے اور غور و فکر کرنے کی صلاحیت مفقود نہیں ہوجائے گی؟
نیل پوسٹ مین نے اپنی کتاب Amusing Ourselves to Death میں جارج آرویل اور ایلڈس ہکسلے کے مستقبل کے بارے میں خیالات کا بہت دلچسپ موازنہ کیا ہے۔ یاد رہے کہ ان دونوں ناول نگاروں نے تقریباً ربع صدی سے پہلے اگلے دور کی پیش گوئی کی تھی۔
"Orwell feared those who would deprive us of information. Huxley feared those who would give us so much that we would be reduced to passivity and egoism. Orwell feared that the truth would be concealed from us. Huxley feared the truth would be drowned in a sea of irrelevance."3
’’آرویل اس بات سے خوفزدہ تھا کہ ہم سے معلومات چھپائی جائے گی جبکہ ہکسلے کا یہ خدشہ لاحق تھا کہ ہمیں اتنی معلومات دی جائے گی کہ ہماری جہالت اور غفلت میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ آرویل اس بات سے ڈرتا تھا کہ ہم سے سچ چھپایا جائے گا۔ لیکن ہکسلے کو اس بات کا ڈر تھا کہ سچ کو غیر ضروری معلومات کے دریا میں بہا دیا جائے گا۔‘‘
ڈاکٹر اسرار احمد کا دینی تحریکوں اور افراد کارکے حوالے سے کیا گیا تجزیہ بھی بہت relevant ہے۔’’ اسلام کی نشاۃ ثانیہ: کرنے کا اصل کام‘‘ میں آپ فرماتے ہیں:
’’مغربی تہذیب و تمدن اور فلسفہ و فکر کا یہ تسلّط اس قدر شدید اور ہمہ گیر ہے کہ بعض اْن قوّتوں کے نکتہ نظر کا جائزہ بھی اگر دقت نظر سے لیا جائے جو مختلف ممالک میں مغربی تہذیب و تمدّن کے خلاف صف آرا ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی مغربی اثرات سے بالکلیہ محفوظ نہیں ہیں اور خود ان کا طرزِ فکر بہت حد تک مغربی ہے۔‘‘4
ہمارے خیال میں اس طرح تابڑ توڑ لکھنا بذات خود جدیدیت کی ایک علامت ہے اور اس نقار خانے میں محض ایک اور آواز کا اضافہ ہے۔ اس کے بجائے اگر ہم خاموش ہوجائیں تو شاید کئی آوازوں سے زیادہ مؤثر ہوجائیں۔
حواشی
1- C. Wright Mills, The Power Elite, Oxford university press, 1959, p. 6
2- Martin Heidegger, Logic As the Question Concerning the Essence of Language, State University of New York, 2009, p.23
3- Neil Postman, Amusing Ourselves to Death: Public Discourse in the Age of Show Business, New York Penguin, 1985, p. 80
4۔ ڈاکٹر اسرار احمد ، ’’اسلام کی نشاۃ ثانیہ : کرنے کا اصل کام‘‘، انجمن خدام القرآن، 1968، صفحہ ۵۰
قرآنی مطالبہ تدبر کائنات: حقیقت مطلق تک رسائی کا عالمگیر مذہبی تجربہ یا ایک ناقابل ابلاغ سری کیفیت پر اصرار؟
عاصم بخشی
اگر کسی اہم سوال پر مبنی مضمون کا مقدمہ عقل و شعور کو اپنا مخاطب بنانے کی بجائے مناظرانہ اسلوب میں کیے گئے ان دعوؤں سے شروع ہو کہ بات تو نہایت واضح ہے مگر چوں کہ یہ سائنسی علمیت کا شکار نام نہاد دانشور عوام میں غلط فہمیاں پیدا کر کے ان کو صراط مستقیم سے بھٹکا رہے ہیں اس لیے ہمیں قلم اٹھانا پڑ رہا ہے، تو یہ مکالمہ کی موت ہے اور علمی تنقیدکا کیاکہیے کہ وہ توشاید مکالمہ سے کہیں آگے کا مرحلہ ہے۔ یہ تھا وہ فوری احساس جو مولانا عبداللہ شارق کا مضمون ’’تدبر کائنات کے قرآنی فضائل: روحانی تدبر مراد ہے یا سائنسی‘‘ پڑھ کے ذہن میں پیدا ہوا۔ مگر یہ تسلیم کرنا بھی ضروری ہے کہ فاضل مصنف نے ایک اہم سوال اٹھایا ہے اور ان کا مضمون ہماری جدید کلاسیکی مذہبی فکر کے ایک کافی بڑے طبقے کی نمائندگی کرتا ہے۔ کچھ قارئین کے لیے لفظ ’جدید‘ کا استعمال شاید حیرانی کا سبب ہو مگر ہمارے عظیم علمی ورثہ میں ایسا بہت کچھ ہے جس کی بنیاد پرمذہبی فکر کے ان سادہ لوح رجحانات کو ’جدید‘ کہنا شاید اتنا بھی غیر مناسب نہیں۔ ان مخصوص رجحانات کی جدیدیت اس لیے بھی واضح ہے کہ حقائق کائنات اور ایجاد و ابداع عالم کے متعلق اولین دور کے سادہ مگر جامع اور مکمل نظریاتی ڈھانچے اور عہد وسطیٰ کے پیچیدہ اور دقیق علم الکلام کے برعکس یہ جدید رجحانات یا توظاہراً اِس بحث کی فلسفیانہ اور سائنسی جہتوں، یعنی کہ نظریہ علم و وجود، اِس کی تکوینی نسبتیں، اْن کا شعور انسانی سے تعلق اور اس کے نتیجے میں حق تک رسائی سے بالکل ہی نابلد ہیں اور یا پھر نیت یہ ہے کہ بحث کو ان تمام ’خرافات‘ سے پاک رکھ کر اس کا دائرہ اتنا سکیڑ دیا جائے کہ مفتیانِ کرام کو فتوی ٰ دینے میں آسانی ہو کہ کون سا تدبر کائنات قابل تقلید ہے اور کون سا مکروہ۔
اعادے کے طور پر زیر نظر مضمون کا خلاصہ کلام کچھ یوں ہے: قرآن اپنے مخاطب سے کائنات کی حقیقت کی بارے میں جس قسم کے تدبر کا مطالبہ کرتا ہے وہ ’سائنسی ‘ نہیں بلکہ ’روحانی‘ ہے۔ کیوں کہ مصنف کی اپنی بنائی گئی اصطلاح ’سائنسی تدبر‘ ایک مادی اورتجربی ذریعہ تحقیق ہے اور ہر انسان اسے کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا، لہٰذا اس قسم کا تدبر ایک پرکیف مذہبی تجربے کی بنیاد نہیں بن سکتا۔اس کے برعکس قرآن کا مطلوب تدبر کائنات، مصنف کی وضع کی گئی ایک اور اصطلاح کے مطابق ایک ’روحانی تدبر ‘ ہے جو انسان کو خدا کی موجودگی کے ایک روحانی جذبے سے سرشار کر دے۔ سائنسی علم و تحقیق محض مباحات میں سے ہے اور اسے کسی ایسے کائناتی تدبر پرمنطبق نہیں کیا جا سکتا جس کا مطالبہ اللہ تعالیٰ انسان سے کرتا ہے۔ اگر سادہ طور پر دیکھیں تو مصنف شاید اس بات سے متفق نظر آتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو کائنات کے بارے میں سائنسی غوروفکر اور تدبر سے کوئی مطلب نہیں اور سائنسی تدبر کو خدا کے مطالبے کے طور پر کرنا تو ہے ہی غلط۔ نتیجتاً کیوں کہ مذہبی تجربہ خالص روحانی ہے اس لیے وہ اس کے اور سائنسی غوروفکر کے مابین بعد المشرقین ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ’سائنسی تدبر‘ میں عدم دلچسپی کا حوالہ دے کرمصنف یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ اگر یہ اتنا ہی اہم اور ضروری تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ترغیب کیوں نہ دی اور آخر عباسی دور کی تحریک ترجمہ تک مسلمانوں نے شدومد سے کائنات میں سائنسی غوروفکر شروع نہ کیا؟(۱)
مزید آگے بڑھنے سے پہلے یہ ضروری صفائی پیش کرنا ناگزیر ہے کہ جدید سائنسی مادہ پرستی اور روایتی مذہبی روحانیت کے درمیان جاری تنازعات کے تناظر میں مصنف کا ذہنی جھکاؤ قابل تحسین ہے۔ اس بات سے کوئی صالح ذی فہم شخص شاید ہی انکار کرے کے جدید سائنسی سرمایہ دارانہ علمیت ایسے علمی نظریات کو زیادہ فروغ دے رہی ہے جن کا رجحان مقابلتاً الحادی افکار کی جانب ہے۔ اس کے علاوہ جدید انسان کا فکری نمونہ، اگر بالکل مادہ پرستی کی طرف مائل نہ بھی ہو تو کم سے کم ایک ناگزیر دوئی کاشکار تو ضرور ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس ساری بحث میں ہمارے پیش نظر ایک مذہبی شخص ہے جو کم از کم اتنا جدید تو ضرور ہے کہ ا س کا شعور کئی کسری اکائیوں میں بٹا ہوا ہے۔ لہٰذا ہمیں پورے وثوق سے اس بات کا اقرار ہے کہ روایتی مذہبی فکر کا ایک خاص دھارا ، جس سے فاضل مصنف کا تعلق ہے، کی نیت اس بحث کو سائنسی اور فلسفیانہ موشگافیوں سے نکال کے روحانیت کی آفاقی بنیادوں میں واپس لوٹانے کی ہے۔ جہاں تک ان آفاقی بنیادوں کا تعلق ہے، ہم ان سے متفق ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمارا یہ بھی ایمان ہے کہ قرآن کے مطالبہ تدبر کائنات کی تعریف و توضیح کسی بھی ایسے مقام سے کرنا ناممکن ہے جو ماورائے زمان و مکان ہو، کیوں کہ ایسا کوئی بھی مقام ہمیں کم از کم کائنات کے اندر تو شاید نہ مل سکے۔ مزید برآں یہ کہ ذہن کی کسی ایسے مقام تک رسائی بھی ناممکن ہے جو قلب و ذہن سے باہررہ کر کسی بھی قسم کے تدبر کائنات کا دعوی ٰ کر سکے۔ لہٰذاہمیں اس مفروضے پر متفق ہونا پڑے گا کہ اگر شاعرانہ تخیل کا سہارا نہ لیا جائے تو تدبر کائنات کے روحانی احوال، جن کا مصنف نے اپنے مضمون کے شروع میں ذکر کیا ہے، عقل و شعور اور ذہن و وجود کے راستوں سے گزر کے ہی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں قرآنی اصطلاح، ’تدبر‘ کی قوس کسی بھی طرح انسانی تجربے سے قائم الزوایہ تو نہیں کھینچی جا سکتی، ہاں یہ بالکل ٹھیک ہے کہ ایک بدو اور ایک ریاضی دان قرآن کے یکساں مخاطب ہیں۔ مگرتدبر کائنات کے پس منظر میں ان کی ذہنی واردات کا ایک دوسرے سے قطعاً مختلف ہونا اس بات پر ہر گز دلیل نہیں کہ حضورِ حق کے احوال،انسانی قلب وذہن پر منکشف ہونے سے پہلے کسی ایک خاص ذریعہ علم ہی کے متقاضی ہیں اور اس پر اصرار کرتے ہیں۔
اب اس سارے مسئلے کو اس مختصر پس منظر میں رکھتے ہوئے ایک فلسفیانہ ذہن اور ہماری بحث کی حد تک محدود رکھا جائے توایک ایسے سائنسی ذہنی رجحان رکھنے والے مذہبی شخص کے سامنے کچھ اہم سوالات پیدا ہوتے ہیں جو سائنس کی سطحی اور افادی حیثیت سے بالا تر ہو کر اسے ایک نظریہ علم اور ایک ایسے مستند ذریعہ علم کے طور پر مانتا ہو،جو کائنات کے ابدی حقائق تک رسائی بہم پہنچا سکتا ہے۔ اولاً تو یہ کہ قرآنی علم المعانی کے دائرے میں رہتے ہوئے تدبرِ کائنات آخر ہے کیا؟ یعنی کیا یہ تدبر ،کائنات کے عام فہم معانی، یعنی کائنات کے طبیعی عوامل ، اس کی حقیقت وجود اور اس کے دوام و بقا اور ایجاد وغیرہ سے بالا تر کوئی کارِ عظیم ہے اور قرآن کس درجے میں اس کا طالب ہے؟ ثانیاً یہ کہ خارجی دنیا کے متعلق انسانی تجربے کی ساخت کیا ہے؟ اور یہ تجربہ انسان کی داخلی دنیا یعنی وجدانی کیفیات، جذباتی رویوں ، نفسیات اور دیگر رجحانات سے کیا تعلق رکھتا ہے اور ان پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے؟ کیا اس اندرونی نفسیات اور خارج کا علم دینے والے حسی تجربات کی حیثیت ایک مربوط ٹھوس اکائی کی ہے یا ان میں زمانی درجے میں علت ومعلول کا کوئی رشتہ ہے؟ ثالثًا کیا فی الوقت کوئی ایسے متفقہ نفسیاتی نمونے موجود ہیں جو دنیا کے تمام افراد کے آفاقی حقائق کے متعلق باطنی تجربات کی ماہیت اور اس کے نتیجے میں واردقلبی سکینت کی کیفیت کو غیر مبہم طور پر بیان کر سکیں ؟ یاد رہے کہ یہ وہی آفاقی سچائیاں ہیں جو تدبر کائنات کے نتیجے میں قرآن کو مطلوب ہیں۔ رابعاً چوں کہ قائم کردہ مفروضہ یہ ہے کہ ابدی حقیقت تک رسائی کے لیے تدبر کائنات تو ناگزیر ہے ہی، لہٰذا کیا قرآن کسی خاص قسم کے عارفانہ تجربے پراصرار کرتا ہے ، یعنی ایک سری وحدت قسم کا باطنی تجربہ ، یا پھر جدید انسان کی ٹھوس فکر کی عادت بھی ایسا یقینی علم حاصل کرنے کے قابل ہے، جس کے لیے ذہن کی آخری حد تک ابدی حقیقت کی رسائی اور زبان و بیان کی آخری حد تک ترسیل ممکن ہو؟
ظاہر ہے کہ مقصودآخری درجے میں ان سوالوں کے تسلی بخش جواب فراہم کرنا نہیں اور نہ ہی ہم جیسے طالب علم اس طرح کی جرات کر سکتے ہیں، کیوں کہ قدیم زمانے سے لے کر آج تک کے اعلیٰ ترین دماغ فلسفیانہ ، سائنسی ، نفسیاتی، جمالیاتی اور مذہبی نقطہ ہاے نگاہ سے ان سوالوں کے جواب مہیا کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں جن میں ایک بڑی تعداد انبیاوصالحین اور ائمہ کرام کی بھی ہے،مگر چوں کہ نئے اور کثیرالجہت علمی تجربوں کی روشنی میں انسانی شعور کا اپنے آپ سے متعارف ہونے کا سلسلہ قیامت تک جاری وساری ہے ، ہمارا مقصد روایتی مذہبی سوچ سے جذباتی وابستگی کے باوجود اس کے اس زیربحث فکری دھارے کے سامنے ان سوالوں کا اٹھانا ہے تاکہ جدید اور روایتی ذہن ایک ہی درجے میں فہم حق کی منازل طے کر سکیں۔
زیرتبصرہ رجحان کے ظاہری طرزفکر کے برعکس، ’علم‘ اور ’حق‘ جیسے قرآنی مقولات ایک ٹھوس اکائی ہیں، یعنی کائنات کی حقیقت مطلق اپنی بنیادی حیثیت میں واحد ہے۔ اقسامِ علم یعنی طبیعات، حیاتیات اور نفسیات وغیرہ اسی حقیقت واحد کی سمت راہ نمائی کرتی ہیں۔ فلسفہ سائنس میں ایک جدید اور غالب رجحان، کہ تمام عالم ایک واحد اور قابلِ شناخت طبیعی اصول کے ماتحت ہے،اورجس کی جانب کم از کم پچھلی کچھ صدیوں سے تحقیق جاری ہے، عمومی طور پر قرآنی روح سے متضاد نہیں ہے۔ مزید برآں یہ کہ انسان کی داخلی دنیا بھی چوں کہ کائنات ہی کا حصہ ہے، اس لیے یہ مفروضہ کم از کم ممکنات کی حد تک قائم کیا جا سکتا ہے کہ انسان کا شعوری تجربہ ،جو اس آفاقی اصول سے ہر گز ماورا نہیں ہے، اس حقیقتِ مطلق تک رسائی کی قابلیت رکھتا ہے۔ اس روشنی میں اگر صرف سادہ طور پر ہی تجزیہ کیا جائے تو یہ تصور کہ حضور حق کا ایک خاص قسم کا عارفانہ تجربہ ہر صورت میں ایک ٹھوس عقلی بنیادوں پر قائم ایک سائنسی فکر ی تجربے سے متضاد کوئی الگ شے ہے، اتنا معقول معلوم نہیں ہوتا۔ یہ وہ جوہریت زدہ رجحان ہے جس کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے۔ اس رجحان کی استغراقی تجریدیت اس شاعرانہ تخیل سے واضح ہے جو کہ ’روحانی تدبر‘ کی تعریف میں مصنف بیان کرتے ہیں:
’’اس سے مراد وہ تدبر ہے جو انسان کو خالق کی طرف متوجہ کرتا ہے اور اس میں توجہ الی اللہ پیدا کرتا ہے، جس کے ساتھ انسان کو کائنات کے ہر ہر ذرہ میں خداوند جل و علا کا نور نظر آتا ہے اور دیکھنے والا خود اس نور میں نہا جاتا ہے، جس تدبر کے دوران، تدبر کرنے والا زمین و آسمان کو دیکھتے دیکھتے خدا کی ذات میں محو ہو جاتا ہے، اللہ کی قدرت و عظمت کے احساس سے مغلوب ہو جاتا ہے اور تعلق مع اللہ کی کیفیات اس میں موجزن ہوتی ہیں۔‘‘ (۲)
یہاں درپیش مسئلہ ہرگز وہ نمونہ فکر نہیں جہاں کائنات کا ایک حسی تجربہ، مثلاً زمین و آسمان کو نگاہ اٹھا کر ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہنا، ایک آفاقی حقیقت مطلق کے عارفانہ مذہبی تجربے کو تحریک دے رہا ہے، جس کے نتیجے میں ناظر کی حسِ بصیرت اسے خدا کی انفس و آفاق میں موجودگی کا شدید جذباتی احساس دلا رہی ہے۔ اگر یہ کیفیت اس طرح حاصل ہو جاتی ہے تو یقیناًیہی مطلوب ہے، مگر اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ اس قسم کا تدبر کائنات عصر حاضر میں عمومی طورپر حقیقت مطلق تک رسائی کا ضامن ہے، بعید از قیاس ہے۔ علاوہ ازیں یہ مسئلہ کہ قدیم دور، ازمنہ وسطیٰ اور زما نہ جدید کے انسانوں کے تصور کائنات میں کیا فرق ہے اور اس کا تدبر کائنات کے ساتھ کیا تعلق ہے ،بھی یقیناًغور طلب ہے۔ مگر فی الوقت ان دونوں مسائل سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم روایتی ذہن کے اس رجحان میں دلچسپی رکھتے ہیں جس کے نتیجے میں تقریباً فطری غفلت سے ایک سرّی عارفانہ تجربے کو ایک ٹھوس یا نام نہاد سائنسی تجربے کے بالمقابل رکھ کر دیکھا جا رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس قسم کے رجحانات کی ایک اہم وجہ مذہبی تجربے کے نتیجے میں حاصل ہونے والے احساسِ سکینت کو بڑی حد تک ایک عارفانہ سعادتمندانہ جذبہ سرشاری تک محدود رکھنا ہے، اور اسے اسی تناظر میں دیکھنے پر اصرار کرنا ہے۔ پچھلی صدی کی اہم ترین مذہبی نفسیات اور سائنس کے مطالعوں کو علامہ اقبال نے اپنے خطبہ اول میں زیر بحث لاتے ہوئے اسلامی نظریے کی ندرت اور اہمیت کو واضح کیا ہے اور عیسائیت کے مقابلے میں اسلام کے مابعدالطبیعی عنصر کومحض ایک پیچیدہ،مخفی اور ناقابل ابلاغ عارفانہ تجربے کے بجائے ایک ٹھوس حسی و عقلی و ذہنی تجربے کے نتیجے کے طور پر ثابت کیا ہے۔ اقبال لکھتے ہیں:
’’بے شک قرآن حکیم کے نزدیک مشاہدۂ فطرت کا بنیادی مقصد انسان میں اس حقیقت کا شعور اجاگر کرنا ہے جس کے لیے فطرت کو ایک آیت یا نشانی قرار دیا گیا ہے، مگرمقام غور تو قرآن کا تجربی رویہ ہے جس نے مسلمانوں میں واقعیت کا احترام پیدا کیا او ریوں انہیں بالآخر عہد جدید کی سائنس کے بانی کی حیثیت سے متعارف کرایا۔ یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ اسلام نے مسلمانوں میں تجربی روح اس دور میں پیدا کی جب خدا کی جستجو میں مرئی کو بے وقعت سمجھ کر نظرانداز کر دیا جاتا تھا۔‘‘ (۳)
پھر آخر اس بات کا آخر کیا مطلب ہے کہ تدبر کائنات ، جو کہ آخر ایک حسی تجربے ہی سے تحریک پاتا ہے، مجھے حقیقت مطلق تک رسائی دے سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ نفسِ تدبر اس شے کے بارے میں جو مقصودِ تدبر ہے، کوئی نہ کوئی رائے تو قائم کر ے گا ہی ، اور اس بات پر تو ہم آغاز ہی سے متفق ہیں کہ قرآن کائنات کو خدائی تخلیق کے مظہر کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے۔ یہ غایتی مقدمہ اپنے اندر یہ واضح مطالبہ رکھتا ہے کہ کائنات کو جانا جائے، سادہ لفظوں میں اس بات کو اس طرح بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ تدبر کائنات اور تصور کائنات کا آپس میں ایک پیچیدہ گٹھ جوڑ ہے؛ لہٰذا یہ مسئلہ کلاسیکی مسئلہ علم کے دائرہ کار سے باہر نہیں ہے، اور یہی وہ دائرہ ہے جہاں عقل اس شے سے، جسے وہ جاننا چاہتی ہے، مسلسل مصروف پیکار ہوتی ہے۔ علم کی نظریاتی پیچیدگیوں سے بالا تر ہو کر ہم صرف اس سادہ سوا ل میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ اشیاومظاہر کائنات تدبر کے لیے اپنے آپ کو ذہن وعقل کی تجربہ گاہ میں کس طرح پیش کرتے ہیں؟ وحی بنیادی طور پر ہمارے شعور کے وجدانی حصے کو اپنا مخاطب بناتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ حسی تجربے کی دعوت دیتی ہے تاکہ اس وجدانی طور پر جانی گئی حقیقت کا اثبات یا انکار کیا جاسکے۔ ظاہر ہے کہ عمومی حسی تجربہ ہی تمام نوع انسانی کی مشترکہ میراث ہے۔ مذہبی تجربے کی ناقابل ابلاغ عارفانہ روایات کے بالمقابل حقیقت مطلق تک رسائی کے تجربی طریق کو متعارف کروانا قرآنی فلسفے کا ایک اہم ندرتی پہلو ہے، ایک ایسا پہلو جو کسی بھی زمانے کے انسان کی تجرباتی تسکین و اعتماد کے ساتھ ساتھ تدبر کائنات کے جدید سائنسی میلان سے بھی بالکل ہم آہنگ ہے۔ لہٰذا سائنسی تناظر میں بھی قرآن حقیقت مطلق تک راہ نمائی کے لیے کائناتی مناظر کو محض وجدانی علامات کے طور پر پیش کرتا ہے اور ان علامات کے ذریعے حصولِ علمِ کائنات کے لیے ایک ذہنی وعقلی جاذبیت پیدا کرتا ہے۔ رہا روحانی و عارفانہ تجربہ تو وہ تدبر کائنات کا نہیں بلکہ حقیقت مطلق کو پا لینے کالازمی نتیجہ ہے۔ مثلاً جب قرآن اپنے قاری کی اس حقیقت تک راہ نمائی کرتا ہے جیسا کہ ان اللہ ینزل الغیث (لقمان: ۴۳) یا ولقد خلقنا الانسان من سلالۃ من طین (المومنون: ۲۱) یا اولٰئک کالانعام بل ھم اضل (الاعراف: ۹۷۱) تو یہ علمی درجے میں محض کچھ وجدانی سچائیوں کا تعارف ہے۔ اور موسمی اور ماحولیاتی تغیرات اور ان کی طبیعاتی علل کی دریافت، انسانی مادۂ تخلیق کے بارے میں علم حیاتیات کی تحقیق اور علم نفسیات اور فلسفہ اخلاق کی وہ جہات جو انسان کو جانوروں اور درندوں سے ممتاز کرتی ہیں، قرآن کا براہ راست موضوع نہیں ہیں ،مگر ان علوم کی تشکیل کی حقیقی اساس ہونے کے ساتھ ساتھ ان کو وہ ناگزیر وجدانی مفروضے بھی فراہم کرتی ہیں جو ان کی صحیح سمت متعین کرتے ہیں اور جن کے بغیر یہ محض الل ٹپ ٹامک ٹوئیاں ہی مار سکتے ہیں۔ (۴)
فلسفیانہ اور سائنسی تناظر میں دیکھا جائے تو بہ طور مسلمان ہمارا بنیاد ی مفروضہ چوں کہ ایک سچے نبی کے ذریعے وحی خداوندی کا ابلاغ ہے، اس لیے قرآن تدبر کائنات کی آفاقی ہدایت کے طور پر اپنے آپ کو مختصر وجدانی حقائق تک محدود رکھتا ہے۔ ان وجدانی حقائق کا تدبر کائنات سے گہرا تعلق ہے، مگر ان کے نتیجے میں جو تصور کائنات قائم ہوتا ہے وہ ہر گز ماورائے زمان نہیں ہے۔ اسے ماورائے زمان ماننا اصل میں ان وجدانی حقائق اور ان کے نتیجے میں حاصل کردہ علوم کو قران کے مطلوب تدبر کائنات سے کوئی لاتعلق شے ماننا ہے، اور یہ نہ صرف قرآن کا ایک سطحی مطالعہ ہے بلکہ تاریخ ِ فلسفہ سائنس سے ناآشنا ہونے کا بھی ثبوت ہے۔ خدا کے رسول اسی لیے آتے ہیں کہ حقیقت مطلق سے متعلق مختلف عقائد اور پہلے سے موجود وجدانی نظریات کا بذریعہ وحی اثبات یا ابطال کر دیں مگر جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، یہ اثبات و ابطال کچھ متبادل علامات ہی فراہم کرتا ہے جو ظاہر ہے کہ حق پر مبنی ہوتی ہیں۔ ان علامات پر تعقل و تدبر ظاہر ہے کہ ایک انسانی کاوش ہے اور عصری علوم اور افکار پر ہی منحصر ہے۔
ذہن جدید اور تجربہ جدید کا پیچیدہ ہونا محض ایک واقعاتی و تاریخی حقیقت ہے اور اس کا نتیجہ کسی بھی قسم کی ذہنی برتری یا کم تری کی صورت میں نکالنا نہ صرف فکری تعصب بلکہ سراسرناواقفیت پر مبنی ہے جس کے مقلدین آج کے کئی معاشرتی دانشور، فلسفی، ماہرین نفسیات اور سائنسدان ہیں۔ ہم یہاں قارئین کی مدد کے لیے نہایت مختصراً صرف اتنا واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ایک صحابی اور عصر حاضر کے انسان کے تدبر کائنات میں کیا فرق ہو سکتا ہے اور اس کے کون سے عوامل ہیں؟ قدیم اور جدید انسان کے فطرت وکائنات کے بارے میں مشاہدات اور تجربات کا موازنہ ایک مستقل تحقیق طلب مضمون ہو نا چاہیے ، اور ہمیں فی الوقت اس سے کوئی غرض نہیں کہ عرب کی قبائلی معاشرت کے خاص فکری پہلو کیا تھے جنہیں کسی بھی طور ’سائنسی‘ کہا جا سکے، مگر ہمارے مکالمے کی حد تک کم از کم یہ باور کرانا ناگزیر ہے کہ اس تصور کائنات کے مطابق، جس کے زمانے میں قرآن نازل ہوا،وہ ایک جکڑ ی ہوئی تنگ کائنات تھی۔ (۵) اس کے تغیرات کا دائرہ نہایت محدود تھا اور ہر انسان ان تغیرات کے روزمرہ کے عمومی تجربے سے واقف تھا۔اس قدیم فکر کے مطابق ایک کائنات کا ایک مربوط نظام فکر صرف انہی تغیرات کی بنیاد پر قائم ہو سکتا ہے جس کا علت و معلول ظاہراً واضح ہو یا جن سے کوئی معینہ یا مقررہ افادی نتیجہ برآمد ہو۔ آپ قرآن کی کوئی کائناتی مثال ایک قدیم قاری کے ذہن سے پڑھیں تو آپ کو سائنسی تجریدیت کا شائبہ تک نہ ہو گا۔ یہ دنیا یقینی طور پر غیر مبہم واضح اقسام میں بٹی ہوئی تھی اور یہ طبقے مقرر تھے اور قدرت کے کارخانے میں بھی ذات پات کا ایک سلسلہ قائم تھا۔ اس سلسلے میں یہ ہونا ناممکن تھا کہ انواع وطبقات آپس میں گڈ مڈ ہو جائیں یا دو مختلف الانواع اشیا ایک تیسری نوع کو وجود میں لا سکیں۔ (۶)
یہ اس زمانے کا خاصہ تھا کہ ناقابل ابلاغ اور ناقابل فہم علل کو فوق الفطرت قوتوں سے منسوب کیا جائے۔ اصولوں اور مبینہ صداقتوں کو تجربے ، تشکیک اور سوال کی دنیا میں رکھنے کے بجائے آفاق گیر سمجھا جاتا تھا۔ سائنس یا فلسفے کا کوئی ادنیٰ درجے کا طالب علم بھی آج یہ سیکھتا ہے کہ کسی بھی مبینہ صداقت کو آج اپنا جواز پیش کرنا ضروری ہے۔ایک دس سالہ بچے کا ذہن بھی جدید درس گاہوں میں آج اس طرح تیار کیا جاتا ہے کہ فطرت کو مابعدالطبیعاتی یا دینیاتی مقصد کے تابع سمجھنے کے بجائے اسے انسانی غرض کا مطیع سمجھا جائے۔ سورۃ الملک کی وہ عظیم آیات جن میں دو بار افلاک کی طرف نظر دوڑانے کا ذکر ہے، کیا آج کا انسان ایک قدیم انسان کے ذہن سے پڑھنے کا تصور بھی کر سکتا ہے؟ یا پھر وہ آخری آیت جس میں پانی کے بند ہو جانے کی تنبیہ ہے، کیا ہماری ہنسلی کی ہڈی میں بھی وہی سنسناہٹ دوڑا سکتی ہے جو ایک صحابی کو محسوس ہوتی ہو گی؟ اگرعصر حاضر کاانسان اس قابل ہے کہ محض خلا میں گھورنے سے ازلی حقائق پر غوروخوض کرتے ہوئے حقیقت مطلق کا احاطہ کر سکے اوردیکھتے دیکھتے اپنے آپ کو نورِ رباّنی کی حضوری سے سرشار محسوس کرے تو اس میں ظاہرہے کہ کچھ قابل اعتراض نہیں، مگر آج کے انسان کی ذہنی و فکری ساخت اور تجربے کو قدیم اور قبل از دورِ وسطیٰ کے انسان، جن میں انبیاو صالحین و صحابہ کرام وغیرہ بھی شامل ہیں، پر قیاس کرنا اور اس سے عمومی طور پر اْس قسم کے تدبرکا مطالبہ ایک عجیب و غریب طرح کی سادہ لوحی ہے۔
ایک اوراہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ مذکورہ بالا فکری عوامل کی بدولت اس طرح کا مخفی عارفانہ تجربہ عصر حاضر میں ٹھوس بنیادوں پر ایک عالم گیر سچائی کے طور پر ناقابل ابلاغ ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ ایک طرح کی انفرادی وجدانی کیفیت تو ہو سکتی ہے مگر یہ کیفیت تصدیق یا تکذیب کی متلاشی ہے۔ یہ بھی یقیناًسچ ہے کہ اس وجدانی کیفیت کا تعلق کائنات کی کسی طبیعی حقیقت ، جیسا کہ زمین کا کروی یا چپٹا ہونا، سے نہیں ہے مگر پھر اس کا کیا جائے کہ قرآن کا مطالبہ تدبر کائنات تجریدی ہر گز نہیں بلکہ تجرباتی ہے ، جو اپنے قاری کو بار بار حسی تجربے پر اکساتا ہے اوراپنے دلائل میں جا بہ جا کائنات کے ان گنت طبعی عوامل اور مناظر کا حوالہ دیتا ہے۔ اب اگر پورا تجرباتی تناظر ہی بدل چکا ہے تو پھر یا تو اس گردش ایام کو پیچھے کی طرف دوڑائیے اور یا پھر اپنی تدبرانہ نگاہ کو بدلیے۔ ہاں یہ ذکر پہلے گزر چکا ہے کہ وحی کائنات کے طبعی یا نفسیاتی حقائق تک صرف ایک وجدانی علامتی پیرایے میں ضرورت کی حد تک ہی راہ نمائی کرتی ہے اور آگے کی گرہیں کھولنے کا کام عقل و شعور ہی کے حوالے کر دیتی ہے۔ تدبر کائنات کے پس منظر میں ہم میں سے ہر انساناپنے اخلاقی، جمالیاتی اور مذہبی شعور کی حد میں رہتے ہوئے ، اپنے اپنے علم کی مطابق، وحی سے معانی اخذ کرتا رہتا ہے اور جوں جوں علم کا دائرہ وسیع ہورہا ہے تدبر کائنات بھی زرخیزی کے عمل سے گزر رہا ہے۔ اسی عمل کا نتیجہ مذہبی تجربے کاتدریجاً قابل ابلاغ ہونا ہے۔ اور ہماری ناچیز راے میں قرآن کا یہ وعدہ کہ سنریھم اٰیتنا فی الاٰفاق و فی انفسھم حتی یتبین لھم انہ الحق (حم السجدہ: ۳۵) اسی کا مصداق ہے۔
مذہبی ایمانیات سے قطع نظر ہو کے بھی دیکھا جائے تو ایسے حقائق کی کیا وقعت ہے جن کا ہم دعویٰ تو کرتے نہ تھکیں ،مگر ہمیں اس بات پہ قدرت نہ ہو کہ ان سچائیوں کا اظہار پوری قوت سے ایک عالم گیر اصول بلاغت کو بنیاد بنا کر اپنے خارج میں کر سکیں؟ اگر کسی کا اس بات پر اصرار ہے کہ واحاط بما لدیھم و احصی کل شیء عددا (الجن: ۸۲) اور وان من شی ء الا عندنا خزائنہ و ما ننزلہ الا بقدر معلوم (الحجر: ۱۲) جیسی علامات پر تدبر اسے ایک روحانی کیفیت اور تعلق مع اللہ کے جذبہ سے سرشار کر دیتا ہے تو پھر اسے اس حقیقت کو، جو اس پر تدبر کے نتیجے میں آشکار ہوئی ہے، اس درجے میں قابل ابلاغ بنانے پر یقین کامل ہونا چاہیے کہ وہ آنے والے تمام زمانوں کے اعلیٰ ترین ذہنی و فکری مطالبوں کے مطابق ایک حقیقی سچائی کے طور پر قبول کی جائے۔ اس کے لیے ایسے عالم گیر اصولوں کا علم ناگزیر ہے جن کی نسبت قطعی العلم اور جن کی ساخت قطعی الدلالت ہو۔ قدیم اور جدید دنیا میں یہی حق کا معیار ہے۔ اس لیے اگر آج ایک ماہر علم منطق، ریاضی دان یا سائنسدان ان آیات پر تدبر اس طرح کرے کہ یہ شاید متناہیات اورلامتناہیات کی جانب کچھ حتمی وجدانی علامات ہیں تو ایساسائنسی تدبر قابل تعریف و تقلید ہے؛ کیوں کہ یہ حقیقت مطلق تک عالم گیر رسائی کی راہ کھولتا ہے۔ سائنسی، معاشرتی اور نفسیاتی وجوہات سے بالا تر ہو کر، علم و وجود کے درمیان کامل اتفاق اور ایک میٹا تھیوری کی تشکیل تو اصلاً مذہب ہی کا اہم ترین مطالبہ ہے۔
آخر میں ایک بار پھر یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ قرآن تدبر کو کسی خاص ترکیبی اصطلاح سے مخصوص نہیں کرتا؛ لہٰذا ہمیں بھی کوئی حق نہیں پہنچتا کہ قارئین کے اپنے مزاج کے مطابق اس مطالبہ قرآنی کو پورا کرنے کی کوشش کو حق یا باطل ثابت کرتے پھریں۔ اس بات پر تو ہم سب متفق ہیں کہ قرآن کوئی طبیعات ، کیمیا، حیاتیات یا نفسیات کی کتاب تو ہے نہیں، مگر چوں کہ قرآن ہدایت کی خاطر جا بجا ہمیں مظاہرِ انفس و آفاق کی طرف متوجہ کرتا ہے؛ لہٰذا عصر حاضر کا قاری ان علوم کے دلائل کو استعمال کیے بغیر شاید تدبر کائنات کے مطالبے کا مکمل حق ادا نہیں کر سکتا۔ رہی اللہ کے انعام کی بات تو وہ جس کو چاہے جس طور حقیقت مطلق کی تجلی سے نواز دے۔ اس لیے کسی بھی سائنسی یا فلسفیانہ رجحان کے تدبر کا مطلب ہر گز روحانی مقاصد واحوال کا انکار نہیں ہے۔ حقیقت اور شعور کے مابین یقیناًکچھ پیچیدہ مخفی نسبتیں ہیں مگر انہیں جاننے کا عمل بھی تدریجاً سائنسی دائرہ اختیار میں آتا جا رہا ہے، اور انہیں مکمل طور پر جاننے سے پہلے کسی آفاقی حقیقت پر اپنے خارج میں اصرار محض ایک اصرار یا پھر زیادہ سے زیادہ تخیلاتی شاعری سے ملتی جلتی کوئی شے ہے۔ انسان اپنے مختلف المزاج ہونے کے باعث تدبرکی متعدد شاہراہوں سے گزر کر منزل حقیقت تک پہنچ سکتے ہیں مگر ملکیت حق اور تائید حق فی نفسہ اس بات پر دلیل نہیں کہ یہ حقیقت قابل بیان وابلاغ بھی ہے۔ حلقہ فیثا غورث کے دور سے آج تک انسان اس کوشش میں ہے کہ ریاضی کے تجریدی نظریات استعمال کرتے ہوئے حقیقت مطلق کی ٹھوس شبیہات تخلیق کر سکے۔ اسی طرح یونانی المیے سے لے کرآج تک ایمان و یقین کی تمام روحانی ونفسیاتی و جذباتی اشکال، انسا ن کے جمالیاتی شعور کے مختلف مظاہر ہیں۔ جدید سائنس کا دائرہ کار مسلسل وسعت پزیر ہے اور اس کے قواعدوضوابط کا اطلاق آج عمرانیات، لسانیات، نفسیات، تاریخ یہاں تک کہ تخلیقی جمالیاتی علوم پر بھی ہو رہا ہے اور وہ دن دور نہیں جب مذہبی تحریر ومکالمہ بھی سائنسی اسلوب ہی میں مستند ٹھہرے گا۔ مزید برآں حقیقت مطلق کی ربانی تعبیرکی ملکیت کا واحد دعوے دار ہونے کی وجہ سے مذہبی انسان کو فطری طور پر علم ووجود کی عالم گیر وحدت کا علم بردار ہونا چاہیے۔ سائنسی علمیت کو محض مادہ پرستی یا افادیت تک محدود کرنے اور اپنے بودے مفروضوں کے دلائل، تواریخ میں تلاش کرنے کی بجائے روایتی علمیت کے حامل مذہبی ذہن کو آگے بڑھ کر فلسفہ اور سائنس کی سمت متعین کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ذہن و عقل اور روحانیت، اور مادیت اور ناگفتنی لطافت کا ایک مثالی میل ممکن ہو۔
حواشی
۱۔ اس آخری سوال پر کلام سے میں نے اس تحریر میں جان بوجھ کر گریز کیا ہے، کیوں کہ مسئلہ تدبر کائنات کے پس منظرمیں اولین معاشرے اور عصر حاضر کا فرق تو کافی گہرائی سے زیر بحث آچکا تھا جس سے بات بہت حد تک واضح ہو چکی ہے، مگر پھر بھی یہ تاریخی پس منظر میں مسلم بنیادیں دریافت کرنے کا ایک اہم تحقیقی مسئلہ ہے۔ اس سلسلے میں دو سے زائد مکتبہ فکر موجود ہیں اور ایک دلچسپی رکھنے والے قاری کو ان تفصیلات سے کلی طور پر آگاہی کے لیے جارج سلیبا کی کتاب کا Islamic Science and the Making of European Renaissance (2011) کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔
۲۔محمد عبداللہ شارق، ’’تدبر کائنات کے قرآنی فضائل‘‘ (الشریعہ، جون ۲۰۱۴)
۳۔ علامہ محمد اقبال، ’’تجدید فکریاتِ اسلام‘‘ ، ترجمہ: ڈاکٹر وحید عشرت، اقبال اکادمی پاکستان(۲۰۰۲)
۴۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین، ’’قرآن اور علم جدید‘‘، ڈاکٹر رفیع الدین فاؤنڈیشن(۲۰۱۱)
5- John Dewey, Reconstruction in Philosophy, Henry Holt and Company, New Jersey (1920)
ترجمہ :انتظار حسین، ’’فلسفہ کی نئی تشکیل‘‘، سنگ میل پبلی کیشنز لاہور (۱۹۹۱)
6- Edwin. A. Burtt, Metaphysical Foundations of Modern Physical Science, Kegan Paul, Trench, Trubner and Co, New York (1925)
روحانی تدبر کائنات؟
ڈاکٹر محمد شہباز منج
کوئی بات کسی کے سر تھوپنے کا واقعی کوئی اخلاقی جواز نہیں۔لیکن کچھ مہربان صرف یہ جملہ استعمال کرکے دوسروں کے سر جو جی چاہے تھوپنے کی سند حاصل کر تے دکھائی دیتے ہیں۔میرا سائنس اور مغربی فکر سے متعلق اپنے مضامین میں ایک مقدمہ یہ تھا کہ قرآن کائنات میں تدبر کی جو دعوت دیتا ہے، اس کے نتیجے میں سائنسی ترقی میں مدد مہیا ہوتی ہے۔میں نے کہیں یہ بات نہیں کہی کہ قرآن سے کسی ایسے تدبر کی دعوت ملتی ہے جو آدمی کو خدا بیزار بنا دے یا اسے خدا اور اس کے مطالبات سے غافل کر دے ۔ الشریعہ جون 2014کے "تدبرِ کائنات کے قرآنی فضائل" نگارنے میرے مضامین سے یہ تدبر خدا جانے کہاں سے اخذ کر لیا؟
اگر بات صر ف میرے سر تھوپنے کی ہوتی تو ان سطور کی حاجت نہ تھی،مگر تنقید نگار تو روا روی میں قرآن کے سر بھی وہ تصور تھوپ گئے ہیں جواس کتاب الٰہی کے لیے یکسر اجنبی ہے۔ ان بے ربط جملوں کا ایک محرک یہ بھی ہے کہ جناب مدیر ’’الشریعہ‘‘ نے اسی تصور کو بڑی فکرِ رسا کا نتیجہ خیال کرتے ہوئے موقررسالے کے بیرونی صفحے پر نمایاں کیا ہے۔ تنقید نگار اور مدیر ہر دو احباب کے ذمے ہے کہ وہ قرآن سے کوئی حوالہ دے کر بتائیں کہ قرآن کے تدبر کائنات سے ضمنی طور پر بھی سائنسی تدبر مراد نہیں ہو سکتا؛قرآن نے اپنے تدبرِ کائنات کو روحانی و سائنسی خانوں میں تقسیم کیا اور ان مختلف تدبروں کے نتائج یا متوقع نتائج کو الگ الگ ذکر کیا ہے۔قرآن سے ذرا اس مقام کی نشاندہی فرمائیے جہاں قرآن نے کہا ہو کہ تدبر کرنے سے پہلے یہ طے کر لیں کہ آپ کا تدبر کس نوعیت کا ہے؟ آپ روحانی تدبر کرنے جا رہے ہیں یا سائنسی ومادی تدبر؟ جب تدبر کرنے لگیں تو فلاں نوع کا تدبر کریں، وہ آپ کو خدا تک پہنچائے گااور فلاں قسم کے تدبر سے گریز کریں، وہ آپ کو ملحد بنا دے گا ؟قرآن کہتا ہے کائنات میں تدبر کرو آپ کہتے ہیں کائنات میں روحانی تدبر کرو۔گویا صرف قرآنی تدبر سے قرآن کا مقصود حاصل نہیں ہو سکتا۔اس کو آپ کی اختراع کردہ روحانیت سے مقید کرنا ضروری ہے۔
قرآن کے مخاطب اگر صرف آپ ایسے مسلمان اور صاحباِنِ روحانیت ہی ہوتے تو وہ یقیناًآپ کی تشفی کا سامان کرتا مگر اس کے مخاطب تو وہ لوگ بھی ہیں جو روحانیت سے واقف ہیں اور نہ خدا و رسول سے۔آپ مطمئن ہوں یا نہ ہوں اسے معلوم تھا کہ ایسے لوگوں کو صرف تدبر کی ترغیب دی جا سکتی ہے آپ کے وضع کردہ روحانی تدبر کی نہیں۔جس شخص کو حقیقت و روحانیت تک پہنچنا ہی تدبر کے ذریعے سے ہے، اسے آپ روحانی تدبر کی دعوت کیونکر دے سکتے ہیں؟ نتیجہ ہاتھ میں تھما کر تدبر کی دعوت ایک صاحبِ ایمان کو تو دی جاسکتی ہے، اور اس کے لیے کار گر بھی ہو سکتی ہے، لیکن ایک خداناشناس کو نہ ایسی دعوت فائدہ مند ہو سکتی ہے اورنہ وہ ایسی دعوت پر لبیک کہنے کے لیے تیار ہو سکتا ہے۔ اس لیے کہ یہ چیز اسے سوچ سمجھ کر اور غو و فکر کرکے ماننے کے دیے گئے اختیار اور اس کے حق میں منشا ومقصودِ الٰہی ہی کے خلاف ہے؟اگر اسے لازماً منوانا مطلوب ہوتاتو صرف ماننے کو کہا جاتا یا اس پر مجبور کیا جاتا، غور و فکراور تدبر کر کے ماننے کو نہ کہا جاتا۔
وہ تدبر جو ایک ملحد یا بے خداسائنسدان سائنسی ایجادات و انکشافات کے لیے کرتا ہے، بالکل اسی طرح اچھا یا برا ہو سکتا ہے جیسے ایک مسلمان اور باخدا شخص کا الٰہیات وغیرہ کے حوالے سے تدبر۔عین ممکن ہے کہ وہ ملحد جس کے تدبر کو آپ سائنسی تدبر کہہ کر مذموم قرار دے رہے رہیں، وہ اس کو با خدا اور صاحبِ ایمان بنا دے اور وہ مسلمان اور باخدا جس کے تدبر کو آپ روحانی ٹھہرا کر محمود بتا رہے ہیں، وہ اسے بے خدا اور بے ایمان بنا دے۔سعود عثمانی یاد آگیا:
میاں یہ عشق ہے اور آگ کی قبیل سے
کسی کو خاک بنا دے کسی کو زر کر دے
آپ نے سائنسی تدبر والے بڑے بڑے کافر وں کا تدبر روحانی اور بڑے بڑے روحانی تدبر والوں کا تدبر سائنسی بنتے دیکھا نہیں تو سنا ضرور ہوگا۔ کتنے کافر "سائنسی " تدبر سے مسلمان ہو جاتے ہیں اور کتنے" روحانی" تدبر سے کافر یا کم از کم کفر کے ملزم ؟کیا آپ اس روحانی تدبر کو نہیں جانتے جو بہت سے ایسے لوگوں کو کافر ٹھہرا دیتا ہے ،جس کو مسلمانوں کا ایک جم غفیر خدا رسیدہ اور اسلام کا سچا پیروکار سمجھتا ہے! نتیجہ ؟ تدبر تدبر ہوتا ہے روحانی یا سائنسی نہیں۔جب آپ کا روحانی تدبر تباہی کا موجب بن سکتا ہے اور آپ کے سائنسی تدبر سے خیر برآمد ہو سکتی ہے تو پہلے سے اس درجہ دوستی کا کیا جواز ہے کہ دوسرے سے دشمنی کے بغیر یہ نبھائی نہ جا سکے !
محترم صاحبِ مضمون تضاد خیالی میں مبتلا ہیں۔ایک طرف وہ کہتے ہیں کہ"تدبر کائنات سے اصولی طور پر تو کیا ضمنی طور بھی سائنسی تدبر مراد نہیں ہو سکتا " اور دوسری طرف فرماتے ہیں:"قرآن نے سائنسی و مادی تدبر کی کہیں کوئی ترغیب دی ہے اور اور نہ ہی اس سے کوئی ممانعت فرمائی ہے۔ سائنسی تدبر ایک مباح سر گرمی ہے ۔۔۔ موجودہ دور میں جبکہ امت کو ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے تو اس دور میں مسلمانوں کے سائنسی تدبر کی طرف متوجہ ہونے کی کوئی فضیلت بھی ہو سکتی ہے۔"
سوال یہ ہے کہ جس چیز کی فضیلت بھی ہو سکتی ہے، اسے بعض واضح نصوص سے اور وہ بھی ضمناً مراد لینے میں کون سا امر مانع ہے؟اگر آپ کا خیال یہ ہے کہ اس فضیلت سے اہلِ اسلام کے لیے کوئی مذہبی نوعیت کی فضیلت نہیں، محض دنیوی اور قومی و ملی فضیلت مراد ہے تو ہم آپ سے عرض کریں گے کہ قوم و ملت کے مفاد میں ایسی سر گرمی جس کی قرآن و سنت میں ممانعت نہ ہوثواب ہے یا گناہ ؟اگر گناہ ہے تو اس کی فضیلت نہیں ؛اگر ثواب ہے تو یہ خلافِ قرآن نہیں، موافقِ قرآن ہے۔ اورموافقِ قرآن ہے تو آپ کا مقدمہ باطل۔
قرآنی تدبر کائنات سے ضمنی طور پر بھی سائنسی تدبر مراد لینا ہمارے مہربانوں کو خلافِ قرآن بلکہ قرآن پر اتہام یا اس میں تحریف دکھائی دیتا ہے لیکن مذہب کے نام پر یہ "ضمنی طور پر" وہ وہ چیزیں مراد لے لیتے ہیں کہ بقول اقبال خدا و جبرائیل و مصطفی بھی حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔آپ کی وہ ضمنی مرادیں جنہوں نے امت مرحومہ کو انتشار و تشتت میں مبتلا کر رکھا ہے،اور جن کا دین کے "سارے فسانے " میں کہیں کوئی ذکر نہیں ، آپ کو بالکل خلافِ قرآن نظر نہیں آتیں،خلافِ قرآن نظر آتا ہے تو بے چارہ بے ضرر سا ضمنی سائنسی تدبر !
ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے
خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھیے
تدبر کائنات کی قرآنی دعوت سے اہل اسلام نے جو ضمنی سائنسی فوائد حاصل کیے میں نے ان فوائد کو بہت سے حوالہ جات کے ساتھ الشریعہ میں شائع شدہ اپنے مضمون "فکر مغرب: بعض معاصر مسلم ناقدین کے افکار کا تجزیہ" میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔مضمون نگار سے گزارش ہے کہ ذرا اس تفصیل کو دوبارہ ملاحظہ فرما لیں۔ اس تفصیل سے واضح ہے کہ قرآنی تدبر کے مسلمانوں کے حق میں ضمنی سائنسی نتائج کوقرآن سے عقیدت رکھنے والے مسلمانوں ہی نے نہیں، بہت سے غیر مسلم محققین نے بھی تسلیم کیا ہے۔
"کسی مظہر قدرت یا آیت اللہ پر غور و فکر ترک کر دینا اس سے پہلے کہ اس کی حقیقت پوری طرح منکشف ہو، اس سے اعراض کے زمرے میں آتا ہے" یہ بات میں نے قرآنی آیات کے حوالے سے نقل کی تھی ۔مضمون نگار کو میرے مضمون میں اس بات سے متصل یہ آیاتِ قرآنی کیوں نظر نہیں آئیں: وکاین من آیۃ یمرون علیھا وھم عنھا معرضون؛ الذی خلق سبع سموات طباقا ما تری فی خلق الرحمن من تفوت۔فارجع البصر ھل تری من فطور۔ ثم ارجع البصر کرتین ینقلب علیک البصر خاسئا و ھو حسیر۔کیا یہ اور اس نوع کی دیگر بہت سی آیات حقیقت منکشف ہونے تک غور کی دعوت نہیں؟ ہاں، مگر مسئلہ یہ دکھائی دیتاہے کہ ہمارے مہربان دوست کے نزدیک حقیقت منکشف ہونے سے لازماً مراد کوئی معروف و اصطلاحی سائنسی دریافت ہی ہے، جبھی تو حضرت کو یہ فکر لا حق ہو گئی کہ یوں تو صحابہ پر بھی بہت سی چیزوں کی حقیقت منکشف نہیں ہوئی تھی۔کیا اس بار بار غور سے اللہ کا ایقان و عرفان حاصل کر لینا حقیقت کا منکشف ہونا نہیں ہے؟
تنقید نگار کا ایک نہایت ہی عجیب استدلال یہ ہے کہ "آخر نبی کی پوری زندگی میں اس نوع کی سائنسی سرگرمی کہیں کیوں نظر نہیں آتی۔" (یہ استدلال اسی نوعیت کا ہے جیسا کہ ہمارے روایتی مذہبی حلقوں میں بدعت کے حوالے سے پیش کیا جاتا ہے۔ اس تناظر میں ہمارے یہاں جو غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں، ان سے متعلق راقم نے جنا ب مولانا زاہد الراشدی زید مجدہ کی ایک تحریر پر نقد کے ضمن میں تفصیلی گفتگو کی ہے، لیکن دیگر مصروفیات کی وجہ سے یہ تکمیل پذیر نہیں ہو پا رہی ۔ان شاء اللہ اسے جلد شائع کراؤں گا جس میں بدعت کے اس تصور کے بودے پن کو تحقیقی منہاج پر شرح و بسط سے نمایاں کیا جائے گا)۔ سوال یہ ہے کہ کیا حضور کی زندگی میں وہ سرگرمیاں نظر آتی ہیں جو ہم اور آپ آج کل ببانگ دہل دین کی خدمت کے نام پر انجام دے رہے ہیں ؟کیا حضور اور آپ کے صحابہ ہماری طرح مضمون نگاری کیا کرتے تھے؟ کیا انہوں نے بڑے بڑے مدارس اور اداروں کی ادارت سنبھال رکھی تھی ، اور ان کے لیے وہ نصاب وضع کر رکھا تھا جو ہمارے نزدیک قریب قریب الہامی ہے؟ کیا وہ اشعری ، ماتریدی ،حنفی ،شافعی ،دیوبندی ،بریلوی کہلایا کرتے تھے؟ کیا وہ غزالی اور ابن رشد کی کلامی بحثوں پر وقت ضائع کیا کرتے تھے ؟ کیا ان میں سے بہت سی بحثیں کبھی صحابہ کے خواب و خیال میں بھی آئی تھیں ؟ انہوں نے ایسی مذہبی سیاسی جماعتیں بنا رکھی تھیں جو اسلام کی خدمت کے نام پر ان سیکولرلوگوں کے ساتھ مل کر حکومت کیا کرتی تھیں جن کی کرپشن اور اسلام دشمنی کا خود ہی ڈھنڈورا پیٹا کرتی تھیں ؟ صحابہ نے تو آپ کے بقول" قرآنی لفظ "اب" کی تحقیقات کے لیے کمیٹیاں نہیں بنائی تھی "لیکن ہمارے فقہا اور متکلمین نے قرآن کے ایک ایک لفظ کے فقہی و کلامی مصداق ڈھونڈنے میں عمریں کھپا دیں۔ ہم اس پر بھی مطمئن نہ ہوئے اور ان کی مزید کرید کے لیے تھوک کے حساب سے دارالافتاء، مفتی اور متکلم بنا دیے اور مسلسل بنائے جا رہے ہیں۔ دفتروں کے دفتر سیاہ کر دیے اور کرتے جا رہے ہیں۔نبی اور صحابہ نے کھجوروں سے مسجدیں بنائیں، ہم نے بھوک سے بلکتی مخلوق کی سنی ان سنی کر کے قومی دولت کو تزئین منبر و محراب میں جھونک دیا۔ "شاگردانِ رسول نے مفتوحہ علاقوں میں پڑے کتا بوں کے انبار سے دلچسپی نہ لی" اور ہم ہیں کہ اپنی للہیت اور خدارسیدگی کو داؤ پر لگا کر مدارس اور کتب خانوں میں انواع واقسام کی کتابیں جمع کر تے رہتے ہیں؛اوران کتابوں میں بہت سی ایسی بھی ہیں جن میں ہمارے عقائد کے لحاظ سے کفر بھرا ہوا ہوتاہے۔ یہ فہرست بہت طویل ہے۔
یہ سب چیزیں اگر عہدِ نبوی و صحابہ میں موجود نہ ہونے کے باوجوددین و ملت کی خدمت ہیں تو سائنس بے چاری؛جس نے آپ کی ان دینی خدمات کے لیے اپنی بہت سی سروسز پیش کی ہیں، اس سے متعلق غور و فکر ہی دشمنی ملت اور مخالفتِ قرآن کیوں ٹھہری!
کسی ایک زمانے کی قومی وملی ،دینی و ثقافتی ،سیاسی و حربی ،علمی و فنی ضرورتوں اور تقاضوں کا حوالہ دے کر اسے ہر زمانے پر اپلائی کرنے کی سوچ سے زیادہ بودی سوچ کوئی نہیں ہو سکتی۔اس اعتبار سے چودہ پندرہ سو سال کے فرق کو چھوڑیے، عہدِ نبوی اور خلفاے راشدین ہی کے ادوار پر نظر ڈال لیجیے۔ آپ کو عہد نبوی ،عہد صدیقی ،عہد فاروقی ،عہدِ عثمانی اور عہدِ علی المرتضی ہر ایک میں واضح فرق نظر آئے گا۔
دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے حالاتِ زمانہ کے تحت توپیں ،بم اور ٹینک وغیرہ سامانِ حرب کی تیاری تقریباً تمام اہل علم کے نزدیک قرآن کی تعلیمِ اعدوا لھم ما استطعتم من قوۃ کی مصداق ہے۔کیا یہ اسی نہج پر تدبر کے بغیر ممکن ہے؟ اور کیا اسلحہ کے لیے بے شمار انواع کے علوم و فنون کی ضرورت نہیں ،جو ظاہر ہے کہ تدبر ہی کی بنیاد پر استوار ہو سکتے ہیں۔ کیا اس تدبر کے نتیجے میں وجود پذیر ہونے والی چیزیں سائنسی دریافتیں نہیں کہلائیں گی ؟ان اشیا کے حوالے سے کیے گئے تدبر پر آپ کا فتویٰ کیا ہو گا؟روحانی تدبر یا سائنسی تدبر؟اگر روحانی تدبر ہے تو سائنسی دریافتیں روحانی ہو گئیں اور اگر سائنسی تدبر ہے تو اعدوا لھم ما استطعتم من قوۃ ایک مباح سرگرمی ٹھہری۔
پھر اس تدبر(جسے آپ ضمناً بھی قرآن کی تعلیمِ تدبر کی مراد ماننے کو تیار نہیں ) کی واحد دینی و قرآنی بنیاد اعدوا لھم ما استطعتم من قوۃ ہی نہیں، نوع انسانی کی بھلائی اور اسے سہولتوں کی فراہمی سے متعلق سینکڑوں نصوص بھی اس کی انتہائی غیر مبہم بنیادیں ہیں۔ کیا بجلی ،گیس وغیرہ اشیا اور ان سے جڑی دیگر لاتعداد چیزوں اور ضرورتوں ،جن کے بغیر آج کل اہل دنیا ہی نہیں، اہل دین کے لیے بھی رشتہ جسم و جاں قائم رکھنا مشکل ہے،کی فراہمی و تیاری وغیرہ کے امورپر غورو تدبر خلافِ قرآن ہے؟کتنی حیرت کی بات ہے کہ فضول قسم کی کلامی،فقہی ،مسلکی بحثوں اور دینی حلقوں میں مروج اس نوع کے بہت سے دیگرامورکے حوالے سے تدبر ،جو نہ قرآن کا مطالبہ ہے اور نہ ایک عام مسلمان کو اس سے کوئی سروکار اور فائدہ،" روحانی تدبر" ٹھہرا کرسر آنکھوں پر رکھا جائے اور جوتدبر قرآن کا مطالبہ بھی ہو اور بنی نوع انسان کے لیے نفع بخش بھی، وہ" سائنسی تدبر" اور"مباح سرگرمی "قرار دے کر "گناہِ بے لذت "کا مصداق بنا دیا جائے:
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
دہشت گردی کے خلاف قومی مہم
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
طبیب کسی بھی طریق علاج سے تعلق رکھتا ہو، مریض کا علاج شروع کرنے سے پہلے دو باتیں ضرور چیک کرتا ہے۔ ایک یہ کہ اسے بیماری کیا ہے اور دوسری یہ کہ اس بیماری کا سبب کیا ہے۔ بیماری اور اس کے سبب کا تعین کیے بغیر کوئی معالج کسی مریض کے علاج کا آغاز نہیں کرتا۔ پھر وہ صرف بیماری کا علاج نہیں کرتا بلکہ سبب کے سدّباب کا بھی اہتمام کرتا ہے۔ بسا اوقات سبب سے پیچھا چھڑانے کو بیماری کے علاج سے بھی مقدم کرتا ہے، اس لیے کہ جب تک سبب کا خاتمہ نہ ہو کسی بیماری کے علاج کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو پاتی۔
ہم اس وقت قومی سطح پر دہشت گردی کے سدّباب کی جس مہم میں مصروف ہیں اس میں بھی علاج کے اس مسلّمہ اصول اور طریق کار کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، جو کہ دکھائی نہیں دے رہا۔ اور اس سے اصحابِ فکر و دانش کی تشویش مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حدود میں حکومت کی رٹ کا قائم ہونا اور دستور کی بالادستی کو تسلیم کیا جانا ہر لحاظ سے ضروری اور ناگزیر ہے۔ اور کسی بھی دینی یا سیاسی مطالبہ کے لیے ہتھیار اٹھانا ملکی سا لمیت، قومی وحدت اور ملّی تقاضوں کے منافی ہے۔ افواج پاکستان دستور کی بالادستی اور حکومتی رٹ کے لیے جو کاروائی جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ شمالی وزیرستان میں آپریشن سے متاثرہ بے گھر شہریوں کی دیکھ بھال اور امداد کے لیے قوم کے مختلف اداروں اور طبقات کی جو سرگرمیاں جاری ہیں، پوری قوم ان کے ساتھ ہے اور اس مشن کی کامیابی کے لیے دعا گو ہے۔ لیکن معاملات کو اس سطح تک لے جانے والے اسباب و عوامل کی طرف کسی ادارے یا طبقے کی کوئی توجہ نظر نہیں آرہی جو تشویشناک امر ہے اور اہل فکر و نظر سے سنجیدگی اختیار کرنے کا تقاضہ کر رہی ہے۔
بلاشبہ دہشت گردی ایک کینسر ہے جو پورے قومی وجود میں سرایت کرتا جا رہا ہے اور بدقسمتی سے کراچی، لاہور، اسلام آباد اور پشاور سمیت ملک کے اہم مراکز اس کی زد میں ہیں۔ مگر ہمارے قومی پالیسی سازوں نے قومی جسم کے کینسر زدہ اعضاء کو کاٹتے چلے جانے کی پالیسی کے ساتھ کینسر کا سبب بننے والے عوامل کے سدباب کو ابھی تک اپنی پالیسی میں شامل نہیں کیا۔ اس لیے ہم اس قومی کینسر کے علاج کی ریاستی پالیسی کی حمایت کرنے کے باوجود یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ حکومت اور دیگر پالیسی ساز اداروں سے گزارش کریں کہ اسباب و عوامل کا سدباب کیے بغیر کینسر کا علاج کینسر زدہ اعضاء کو کاٹتے چلے جانے کی صورت میں مسلسل جاری رکھنے کے نتائج پر ضرور غور کر لیا جائے اور اس سلسلے میں پالیسی ترجیحات کا ایک بار پھر جائزہ لے لیا جائے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ملک کے شمال مغربی علاقوں سوات، جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان وغیرہ میں حکومتی رٹ کو چیلنج اور اس کے جواب میں فوجی آپریشن کے اسباب پر غور کیا جائے تو دو سبب سب سے بڑے اور نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ ایک یہ کہ جہادِ افغانستان میں روس کے خلاف جنگ میں شریک ہونے والے ہزاروں ملکی اور غیر ملکی افراد کو جنگ ختم ہونے کے بعد اپنا ایجنڈا طے کرنے میں آزاد چھوڑ دیا گیا اور کسی قومی پالیسی کا انہیں حصہ نہیں بنایا گیا، جس کی وجہ سے ہر گروہ نے اپنا ایجنڈا خود طے کیا اور آج پوری قوم اس کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔ سوویت یونین کے خلاف افغانستان کے جہاد میں جو لوگ شریک ہوئے وہ پاکستانی شہری ہوں یا بیرون ممالک سے آئے ہوں، ان کی آمد اور جہاد میں شرکت خود ہماری ریاستی پالیسی کا حصہ تھی۔ ہم اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ ان لوگوں کو جہاد کی تربیت دینے اور اس میں عملاً شریک کرنے کے عمل کے ہر مرحلہ میں ہم ان کے ساتھ شریک تھے۔ لیکن روسی فوجوں کی افغانستان سے واپسی کے بعد اس بات کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا کہ ہزاروں لوگوں نے ہمارے ذریعہ ہتھیاروں کی ٹریننگ حاصل کی ہے اور انہیں ہتھیاروں تک رسائی بھی میسر ہے۔ اس لیے ان کے مستقبل کے پروگرام اور ایجنڈے میں ان کی راہ نمائی اور نگرانی کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سندھ کے چند ہزار مسلح حروں کو تو حکمت عملی کے تحت قومی نظم کا حصہ بنا لیا گیا تھا، لیکن جہاد افغانستان کے بعد ان سے کم از کم دس گنا زیادہ مسلح افراد کے بارے میں کوئی قومی پالیسی طے نہیں کی گئی اور انہیں اس طرح آزاد چھوڑ دیا گیا کہ آج وہ حکومتی رٹ اور دستوری بالادستی کے لیے خطرہ بن گئے ہیں۔
ہمیں اس حقیقت کا اعتراف بہرحال کرنا ہوگا اور اس کی روشنی میں اس خطرے سے نمٹنے کی حکمت عملی اور ترجیحات طے کرنا ہوں گی۔ امریکہ کی سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے تو ایک موقع پر یہ اعتراف کیا تھا کہ روسی فوجوں کی واپسی کے بعد مجاہدین کے گروپوں کو نظر انداز کرنا ہماری غلطی تھی، مگر ہماری قومی قیادت ابھی اس کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتی۔ جبکہ اس حقیقت کو تسلیم کر کے اس کی بنیاد پر قومی پالیسی کی تشکیل کے بغیر اس مسئلہ کے پائیدار حل کی کوئی صورت کم از کم ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔
دوسرا سبب ہمارے نزدیک نفاذِ شریعت کے اہم قومی تقاضے کو مسلسل نظر انداز کرتے چلے جانا ہے۔ حالانکہ اس مسئلہ میں اصولی طور پر کوئی اختلاف موجود نہیں ہے۔ دستور پاکستان نفاذِ شریعت کی بات کرتا ہے۔ ہماری قومی سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشوروں میں اسلامی احکام و تعلیمات کی عملداری کی بات موجود ہے۔ جبکہ ریاستوں کو پاکستان کا باقاعدہ حصہ بناتے وقت اور اس کے بعد مختلف تحریکات کے ساتھ کیے جانے والے معاہدات میں اس کا باقاعدہ وعدہ کیا گیا ہے، لیکن اس کی کوئی عملی صورت سامنے نہیں آرہی۔ اس حوالہ سے ایک عذر یہ کیا جاتا ہے کہ نفاذ شریعت کے لیے طالبان کا وژن ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ یہ بات درست ہوتی اگر ہم نے دستور میں طے شدہ طریق کار کے مطابق نفاذ شریعت کی طرف پیش رفت کی ہوتی اور منتخب پارلیمنٹ اور دستوری عدلیہ کے فیصلوں پر عملدرآمد کا کچھ نہ کچھ اہتمام کر لیا ہوتا۔ اس صورت میں یہ کہا جا سکتا تھا کہ پاکستانی قوم کے جمہوری وژن کے مطابق ہم نے نفاذ اسلام کے لیے یہ اقدامات کر رکھے ہیں، اس لیے اس کے برعکس کسی وژن کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن صورت حال یہ ہے کہ نفاذِ اسلام کے لیے پارلیمنٹ کے فیصلوں، دستور کے تقاضوں اور عدالت عظمیٰ کی واضح ہدایات کے باوجود کوئی عملی پیش رفت موجود نہیں ہے۔ مگر نفاذِ شریعت کے مطالبات کو ہم ’’طالبان کا وژن‘‘ قرار دے کر مسترد کرتے چلے جا رہے ہیں، یہ بات نہ قرین انصاف ہے اور نہ ہی عقل و دانش اس کا کوئی جواز فراہم کرتی ہے۔
آج بھی نفاذِ شریعت کے حوالہ سے ’’طالبان کے مبینہ وژن‘‘ کو روکنے کا راستہ یہی ہے کہ دستور و پارلیمنٹ نے ملک میں نفاذِ اسلام کے لیے جو فیصلے کر رکھے ہیں ان پر عملدرآمد کا اہتمام کیا جائے۔ اور طالبان کے ساتھ ساتھ پوری قوم کو یہ واضح پیغام دیا جائے کہ دستور و قانون اور عدلیہ و پارلیمنٹ کے فیصلوں کے مطابق نفاذِ اسلام کے لیے عملی اقدامات کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ اور یہ آغاز عملاً دکھائی بھی دے۔ ہم پورے وثوق سے کہتے ہیں کہ دستور کے مطابق نفاذ اسلام کو قومی پالیسی کا عملی حصہ بنانے کے اعلان سے ہی نفاذ شریعت کے کسی متبادل وژن کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی۔
ہم دستور کی بالادستی اور حکومت رٹ کی بحالی کے لیے حکومت اور افواج پاکستان کے ساتھ ہیں اور شمالی وزیرستان سے بے گھر ہونے والے لاکھوں افراد کی بحالی اور دیکھ بھال کے لیے ریاستی اداروں اور قوم کے مختلف طبقات کی جدوجہد کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ مگر یہ درخواست کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ کینسر کا علاج کرتے ہوئے کینسر کے اسباب کے سدّباب اور روک تھام کی بھی کوئی صورت نکالی جائے۔ ورنہ کینسر کا شکار ہونے والے ایک کے بعد دوسرے عضو کو کاٹتے چلے جانے کا آخری نتیجہ بہرحال ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہوگا۔
ستمبر ۲۰۱۴ء
جمہوریت اور پاکستانی سیاست
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
اسلام آباد کے بعد جکارتہ بھی الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے خلاف سراپا احتجاج ہے اور ہارنے والوں نے انتخابی نتائج کو مسترد کرتے ہوئے دارالحکومت پر دھاوا بول کر کاروبار زندگی کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ جکارتہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے مسلمان ملک انڈونیشیا کا دارالحکومت ہے اور وہاں بھی احتجاجی سیاست نے اسلام آباد جیسا منظر قائم کر دیا ہے۔ جکارتہ کی صورتحال کیا ہے؟ اس کی تفصیلات تو چند روز تک واضح ہوں گی، مگر اسلام آباد کی صورت حال یہ ہے کہ وزیر اعظم سے استعفا کا مطالبہ کرنے والے اور کسی قیمت پر مستعفی نہ ہونے کا اعلان کرنے والے وزیر اعظم اپنے اپنے موقف پر قائم ہیں۔ مذاکرات شروع ہونے کے بعد معطل ہو چکے ہیں اور اب صرف ’’ایمپائر‘‘ کی انگلی اٹھنے کا انتظار ہے جو ان سطور کی اشاعت تک شاید اٹھ چکی ہو یا بس اٹھنے ہی والی ہو۔ وزیر اعظم سے استعفا کا مطالبہ کرنے والوں کی قیادت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہر القادری اپنی اپنی افواج کے ساتھ اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے سامنے موجود ہیں بلکہ دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ استعفا لیے بغیر وہ یہاں سے نہیں ہٹیں گے، جبکہ پارلیمنٹ کی اکثریت اور سیاسی جماعتوں کی بڑی تعداد کے علاوہ وکلاء برادری اور تاجر برادری بھی استعفیٰ نہ دینے کے موقف پر وزیر اعظم کے ساتھ کھڑی دکھائی دے رہی ہے۔
مگر ہمیں اس سارے کھیل میں فٹ بال بن جانے والی ’’جمہوریت‘‘ پر ترس آنے لگا ہے کہ اس میچ میں اس کی جو درگت بن رہی ہے شاید اس سے قبل اسے اس کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو۔ اس لیے وہ اِدھر سے اُدھر لڑھکتے ہوئے یقیناًیہ گنگنا رہی ہوگی کہ:
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتی تو میں تو کیا ہوتا
استعفا کا مطالبہ کرنے والوں کے ہاتھ میں بھی جمہوریت کا پرچم ہے کہ ان کے نزدیک جمہوریت کا سب سے بڑا تقاضا وزیر اعظم کا منظر سے ہٹ جانا ہے اور استعفیٰ سے انکار کرنے والوں کی دلیل بھی یہی جمہوریت ہے کہ ان کے پیچھے ہٹ جانے سے جمہوریت ’’ڈی ریل‘‘ ہو سکتی ہے۔ گویا دونوں طرف جمہوریت ہی ایک دوسرے سے نبرد آزما ہے۔ اب تک علماء کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ لوگ جب آپس میں محاذ آرائی کرتے ہیں تو دونوں طرف ’’اسلام‘‘ کا نعرہ ہوتا ہے۔ اب سیکولر سیاست بھی وہی منظر پیش کرنے لگی ہے اور ایک جمہوریت دوسری جمہوریت سے ٹکرا رہی ہے۔ جمہوریت بیچاری کا قصور یہ ہے کہ وہ خود کوئی نظام نہیں ہے بلکہ صرف اتنا بتاتی ہے کہ سوسائٹی کی اکثریت کے جذبات کیا ہیں اور ملک کے شہریوں کی اکثریت کون سا نظام چاہتی ہے۔ جمہوریت کا کردار صرف سوسائٹی کی اکثریتی خواہش کا اظہار کرنا ہوتا ہے، اس خواہش کی عملی تشکیل اکثریت کے نمائندوں نے کرنا ہوتی ہے۔ مگر ایک طرف جمہوریت کے مغربی علمبرداروں نے یہ طے کر رکھا ہے کہ کسی ملک کے عوام کی اکثریت نے مغربی فلسفہ و ثقافت کی حمایت میں فیصلہ دیا ہے تو وہ ’’جمہوریت‘‘ ہے اور اگر کسی ملک کے عوام کی اکثریت مغربی نظام اور ثقافت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے تو وہ ملک جمہوریت کا اہل ہی نہیں ہے اور وہاں جمہوریت کی بجائے بادشاہت، ڈکٹیٹر شپ اور فوجی آمریت مغربی حکمرانوں کی پسندیدہ چیز قرار پا جاتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف ہمارے ہاں معیار یہ بن گیا ہے کہ اگر انتخابی نتائج ہماری مرضی کے مطابق ہیں تو وہ جمہوریت شفاف ہے، لیکن انتخابی نتائج اگر ہماری مرضی کے نہیں ہیں تو سرے سے وہ جمہوریت ہی نہیں ہے اور اس کے خلاف ڈنڈے اٹھا کر دارالحکومت کا رخ کر لینا جمہوریت کا سب سے بڑا تقاضا بن جاتا ہے۔
گزشتہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی، اس پر کم و بیش سب سیاسی جماعتوں کا اتفاق ہے، البتہ اس کی کمی بیشی پر بحث کی گنجائش موجود ہے۔ مگر یہ بات بھی حقیقت ہے کہ الیکشن کے نتائج کو سب جماعتوں نے تسلیم کیا ہوا ہے اور ان کے مطابق اپنی اپنی ذمہ داریاں بھی سنبھالی ہوئی ہیں۔ اسمبلیوں کی رکنیت کے ساتھ ساتھ حکومتوں کا وجود بھی ایک سال سے زیادہ عرصہ گزار چکا ہے۔ جبکہ مبینہ دھاندلیوں کے سد باب کے لیے قانونی پراسیس کے علاوہ پارلیمنٹ بھی اس کے لیے طریق کار طے کر چکی ہے اور سد باب کے اس عمل کو مزید مؤثر بنانے کے امکانات اور مواقع سے بھی انکار نہیں کیا جا رہا تو اس سلسلہ میں اس قدر ضد اور ہٹ دھرمی کا کیا جواز ہے؟ اور پھر یہ سوال اپنی جگہ مستقل اہمیت رکھتا ہے کہ ’’ایمپائر کی انگلی‘‘ آخر کون سی جمہوریت کی علامت ہوتی ہے؟
غزہ کی صورتحال اور عالم اسلام
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
غزہ میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کی آنکھ مچولی بھی جاری ہے اور حملوں کے تسلسل میں بھی کوئی فرق نہیں آرہا، اس کا نتیجہ کیا ہوگا اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں۔ لیکن اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے سیکرٹری جنرل عیاض امین مدنی کے اس بیان کے بعد اس کے بارے میں اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں ہے کہ:
’’او آئی سی ایک سیاسی تنظیم ہے، مذہبی نہیں۔ ہم ممبر ممالک کے درمیان تحقیق، تجارت اور دیگر شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔ موجودہ صورت حال میں ہم کیا کر سکتے ہیں؟ اگر او آئی سی کا اجلاس بلایا جائے تو کس لیے؟ اس وقت فوری طور پر قرارداد کی ضرورت ہے مگر اقوام متحدہ میں کیس فائل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ امریکہ اسے ویٹو کر دے گا۔ ہم نے اسرائیلی جارحیت کا معاملہ عالمی عدالت برائے جنگی جرائم میں لے جانے کا سوچا تھا مگر فلسطین اور اسرائیل دونوں اس کے ممبر نہیں۔ ہر ملک کی اپنی ذمہ داری ہے اور او آئی سی تمام ممالک کی ذمہ داریاں پوری نہیں کر سکتی۔ پوری دنیا کو دیکھنا چاہیے کہ فلسطینیوں کی کیسے مدد کی جا سکتی ہے؟‘‘
دنیا بھر کے مسلمانوں کو یہ امید تھی کہ جلد یا بدیر او آئی سی کا سربراہی اجلاس ہوگا اور مسلم حکومتوں کے سربراہ فلسطینی ممالک کو اسرائیلی درندگی سے نجات دلانے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کریں گے۔ لیکن سیکرٹری جنرل صاحب نے صاف جواب دے دیا کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے، ہر ملک اپنی ذمہ داریاں خود پوری کرے۔ ادھر غزہ کی صورت حال یہ ہے کہ مکانات ملبے کے ڈھیر بن چکے ہیں، شہداء اور زخمیوں کی تعداد ہزاروں سے متجاوز ہے۔
اس کے ساتھ ۶؍ اگست کے ایک قومی اخبار میں شائع ہونے والی ایک خبر یہ بھی ہے کہ رمضان المبارک کے ختم ہوتے ہی لندن کی سڑکوں پر ’’سپر کاروں‘‘ کا رش پڑ چکا ہے۔ عرب ممالک کے با اثر ترین افراد اپنی مہنگی ترین گاڑیوں سمیت یہاں پہنچ چکے ہیں۔ سینکڑوں کی تعداد میں نجی طیاروں پر آنے والی ان گاڑیوں کی فی گاڑی لاکھوں ڈالروں میں قیمت ہے اور اس صورت حال پر مقامی رہائشی بھی سخت برہم نظر آتے ہیں۔ لندن کے مہنگے ترین علاقہ ’’نائٹس برج‘‘ کی جانب سے مقامی پولیس کو مسلسل شکایات موصول ہو رہی ہیں کہ پوری رات عرب باشندے سڑکوں پر تیز رفتاری سے گاڑیاں بھگاتے ہیں، ایک طرف تو ان گاڑیوں نے شہریوں کا سونا محال کر رکھا ہے، دوسری طرف تیز رفتاری سے جانوں کو الگ خطرہ ہے۔ پھر دن کے وقت غلط پارکنگ کی وجہ سے شہریوں کو مسائل رہتے ہیں۔ مقامی پولیس کے مطابق صرف متحدہ عرب امارات کے شہریوں کو غلط پارکنگ پر کیے گئے جرمانے ایک سال میں دگنے ہو چکے ہیں۔ اسی طرح قطر اور سعودی شہری بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں ہیں۔ گزشتہ برس مشرق وسطیٰ سے آنے والی گاڑیوں کو اسی ہزار پونڈ سے زیادہ رقم کے جرمانے کیے گئے۔ تاہم اس صورت حال سے مقامی ہوٹل اور ریستوران مالکان بے حد خوش نظر آتے ہیں کیونکہ آنے والے دنوں میں پر تعیش ہوٹلوں میں پیسہ پانی کی طرح بہایا جائے گا۔ اب اسے مسلمانوں کی بے حسی کہیں یا وقت گزارنے کا محبوب مشغلہ!
او آئی سی کے سیکرٹری جنرل کے بیان اور عرب ممالک کے با اثر اور متمول افراد کی عیش پرستی کے اس منظر کے بعد اب فلسطینیوں کے مستقبل کے بارے میں کچھ سوچنے کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ اور کیا عرب ممالک کے حکمران اور عیش پرست طبقے اس بات سے مطمئن ہوگئے ہیں کہ اسرائیل کی یہ درندگی صرف غزہ اور فلسطین تک محدود رہے گی اور اس مورچہ کو سر کرنے کے بعد وہ اپنے توسیع پسندانہ عزائم بالخصوص ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے نقشے میں رنگ بھرنے کے لیے مزید پیش رفت نہیں کرے گا؟ یہ خبر پڑھ کر ہمیں سورۃ بنی اسرائیل کی آیت ۱۶ یاد آگئی ہے اور ڈر لگنے لگا ہے کہ:
’’اور جب ہم کسی علاقے کو تباہ کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو وہاں کے عیش پرست لوگوں کو ڈھیل دے دیتے ہیں ، اور جب وہ فسق و فجور کی انتہا کر کے حجت پوری کر دیتے ہیں تو ہم اس بستی اور علاقے کو تباہ و برباد کر ڈالتے ہیں۔‘‘
البتہ اس سارے تناظر میں ایک اچھی خبر بھی ہے جس نے دل کو تسلی دی ہے کہ مسلم حکمرانوں کی غیرت و حمیت بالکل راکھ نہیں ہوگئی بلکہ کہیں کہیں اس کی چنگاریاں موجود ہیں جنہیں ہوا دی جائے تو حمیت و غیرت کی تپش کو دوبارہ زندہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ خبر بھی لندن سے ہے کہ برطانوی حکومت کی پاکستانی نژاد مسلمان خاتون سعیدہ وارثی نے برطانیہ کی اسرائیل نواز پالیسی پر احتجاج کرتے ہوئے استعفا دے دیا ہے اور ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ غزہ کے بارے میں برطانیہ کی پالیسی کی مزید حمایت نہیں کر سکتیں، اس لیے انہوں نے وزیر اعظم کو استعفا بھجوا دیا ہے۔
سعیدہ وارثی کا یہ اعلان جہاں ایک مسلمان بیٹی کی ملی حمیت کا غماز اور مسلمانوں میں غیرت و حمیت کی کسی نہ کسی درجہ میں موجودگی کا اظہار ہے، وہاں او آئی سی کے سربراہوں اور سیکرٹری جرنل کے نام یہ پیغام بھی ہے کہ اگر وہ فلسطینیوں کی حمایت میں عملی طور پر کچھ نہیں کر سکتے تو او آئی سی کے مردہ گھوڑے کی لاش کو دفنا دینے کا اعلان تو کر سکتے ہیں، اس میں دیر کس بات کی ہے۔ ہمیں عیاض امین مدنی اور سعیدہ وارثی کے ان بیانات پر سودا کا یہ شعر یاد آرہا ہے اور ہم اسے مسلم حکمرانوں کی نذر کرنا چاہتے ہیں کہ:
سودا قمار عشق میں شیریں سے کوہ کن
بازی اگرچہ لے نہ سکا، سر تو دے سکا
کس منہ سے اپنے آپ کو کہتا ہے عشق باز
اے روسیاہ تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا
فرضیت جہاد کے نصوص کا صحیح محل / اختلاف اور نفسانیت
محمد عمار خان ناصر
فرضیت جہاد کے نصوص کا صحیح محل
قرآن مجید کے متعدد نصوص میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے گروہ پر کفار ومشرکین کے خلاف قتال کو فرض قرار دیتے ہوئے انھیں اس ذمہ داری کی ادائیگی کا حکم دیا گیا اور اللہ کی راہ میں اپنی جان اور مال کو قربان کرنے کی مسلسل اور پرزور تاکید کی گئی ہے۔
قرآن وسنت کے نصوص سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیرو اہل ایمان کو عہد نبوی کے معروضی حالات کے تناظر میں جہاد وقتال کا حکم دو طرح کے مقاصد کے تحت دیا گیا تھا: ایک اہل کفر کے فتنہ وفساد اور اہل ایمان پر ان کے ظلم وعدوان کا مقابلہ کرنے کے لیے اور دوسرے کفر وشرک کا خاتمہ اور باطل ادیان کے مقابلے میں اسلام کا غلبہ اور سربلندی قائم کرنے کے لیے۔ ان دونوں طرح کے احکام کی نوعیت، قانونی اساس اور دائرۂ اطلاق ایک دوسرے سے مختلف ہے جس کا قرآن کے طالب علموں کے سامنے واضح رہنا ضروری ہے۔
جہاں تک کفر وشرک کا خاتمہ کر کے اسلام کا غلبہ قائم کرنے کی ہدایات کا تعلق ہے تو قرآن مجید میں یہ ہدایات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مخصوص ذمہ داری کے تناظر میں وارد ہوئی ہیں جو آپ پر اہل عرب کی اصلاح کے حوالے سے عائد کی گئی تھی اور اس ضمن میں ملت ابراہیمی کی اصل تعلیمات کے احیا اور مشرکانہ بدعات کے خاتمے کو آپ کی جدوجہد کا ہدف قرار دیا گیا تھا۔ قرآن نے واضح کیا کہ آپ عام معنوں میں کوئی داعی، واعظ اور مبلغ نہیں، بلکہ خدا کے رسول اور اس کے آخری پیغمبر ہیں، چنانچہ خداکے قانون کے مطابق آپ کی جدوجہد کا کامیابی سے ہم کنار ہونا اور جزیرۂ عرب میں خدا کے دین کا غلبہ قائم ہونا ایک طے شدہ فیصلہ ہے جو اہل کفر کی خواہشات، کوششوں اور سازشوں کے علی الرغم قائم ہو کر رہے گا۔ (التوبہ ۹:۳۳)
دین کا یہ غلبہ، ظاہر ہے کہ منکرین حق کے خلاف قائم کیا جانا تھااور اس کی عملی صورت یہ تھی کہ بیت اللہ کو مشرکین کے قبضہ وتصرف سے آزاد کرا کے دوبارہ توحید خالص کا مرکز بنا دیا جائے اور اسلام کے علاوہ کوئی دوسرا دین سرزمین عرب میں غالب اور سربلند نہ رہے۔ اس ہدف کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ’قتال‘ کاناگزیر ہونا تاریخ وسیرت سے واقف ہر شخص پر واضح ہے اور قرآن مجید میں کفار کے خلاف جہاد وقتال کے احکام اسی تناظر میں وارد ہوئے ہیں۔
قرآن مجید میں جہاد وقتال کی ایک دوسری وجہ فتنہ وفساد اور ظلم وعدوان بیان کی گئی ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ زمان ومکان کے کسی مخصوص دائرے سے متعلق نہیں۔ چنانچہ اس ہدایت کو شریعت کی ایک ابدی ہدایت کی حیثیت حاصل ہے اور ان سے یہ اصول اخذ کرنا بالکل بجا ہے کہ کفار کے جو گروہ مسلمانوں پر کسی بھی نوعیت کے ظلم وستم اور جارحیت کا ارتکاب کریں اور بالخصوص عقیدہ ومذہب کے انتخاب واختیار کے معاملے میں ان کی آزادی ان سے چھیننے کی کوشش کریں، ان کے خلاف تلوار اٹھانا نہ صرف جائز ہے بلکہ قوت واستطاعت اور حالات کی موافقت اور جنگ کے اخلاقی اصولوں کی پاسداری کی شرط کے ساتھ ایک اخلاقی فریضے کی حیثیت رکھتا ہے۔ دعوت اسلام کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے اور دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے دینی ودنیاوی مفادات کے تحفظ کے لیے اگر جہاد وقتال کی ضرورت پیش آجائے تو، متعلقہ شرائط وآداب کی پابندی اور عملی مصالح اور حکمتوں کی رعایت کے ساتھ، اس کے جواز میں بھی کوئی کلام نہیں ہو سکتا۔ اس ضمن میں اقدامی اور دفاعی جہاد میں فرق کی بحث، جو ہمارے ہاں ماضی قریب میں پیدا ہوئی، بالکل بے معنی ہے۔ اصل چیز جہاد کا مقصد اور اس کی اصولی وجہ جواز ہے۔ جائز اور مشروع مقصد کے لیے جیسے دفاعی جہاد ہو سکتا ہے، اسی طرح اقدامی بھی ہو سکتا ہے۔ دونوں میں فرق کی کوئی معقول اور قابل فہم بنیاد موجود نہیں۔
البتہ اس ضمن میں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ نزول قرآن کے بعد کے زمانوں میں کفار کا کوئی گروہ اگر اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ عناد کی بنیاد پر انھیں ظلم وستم اور ایذا رسانی کا نشانہ بنائے تو حکم کی علت کی رو سے ان کے خلاف جہاد کرنا بھی یقیناًدرست ہوگا، تاہم ظاہر ہے کہ یہ ایک اجتہادی معاملہ ہوگا اور کسی مخصوص گروہ کے عزائم یا صورت حال کی نوعیت متعین کرنے کے حوالے سے رائے اور حکمت عملی کے اختلاف کی گنجایش بھی پوری طرح موجود رہے گی۔ چنانچہ ایسی کسی بھی صورت حال میں جہاد کے عملاً فرض ہونے کے حق میں قرآن وسنت کے ان نصوص سے استدلال نہیں کیا جا سکتاجن میں اصلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کے زمانے میں مخصوص صورت حال کے تناظر میں آپ کے مخالف گروہوں کے خلاف جہاد کو فرض اور اس سے گریز کو کفر ونفاق کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ یہ ایک خاص اطلاقی صورت حال میں خدا کا فیصلہ تھا جس کے خلاف کسی دوسری راے کی گنجایش نہیں تھی، جبکہ اس سے ہٹ کر کسی بھی دوسری صورت حال میں جہاد کا یہ حکم اصولی طور پر تو یقیناًموثرہے، لیکن اس کو عملاً فرض قرار دینے کے لیے شرائط کے موجود اور موانع کے مفقود ہونے نیز عملی حالات کے سازگار ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ ہر حال میں ایک اجتہادی فیصلہ ہوگا جسے ’منصوص‘ قرار دے کر اس سے اختلاف کرنے والوں کو وعیدیں سنانا یا اسلام دشمن قوتوں کا آلہ کار اور قتل کا مستحق قرار دینا خدا کے دین کے معاملے میں ایک سنگین جسارت کا درجہ رکھتا ہے۔
ماضی قریب کے ممتاز حنفی عالم اور فقیہ مولانا مفتی عبد الشکور ترمذیؒ نے اس نکتے کو واضح کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’کہاں پیغمبر اسلام کے قطعی حکم عام شرکت جہادکی خلاف ورزی اور تعمیل حکم سے بچنے کے لیے حیلہ جوئی اور گفتار سازی اور سب سے بڑھ کر ان کا چھپا ہوا کفر ونفاق اور ارشادات نبوت پر عدم یقین کی دلی کیفیت اور کہاں ایک امتی کی دعوت کے ساتھ عدم تعاون۔ دونوں کو برابر قرار دینا اور دونوں کی خلاف ورزی اور عدم تعمیل پر ایک ہی طرح کا نتیجہ مرتب کر دینا غلو فی الدین ہے اور داعی کی حیثیت کو امتی کی بجائے ایک نبی کی حیثیت میں پیش کرنے کے مترادف ہے۔
جہاد تبوک میں بلا استثناء تمام مسلمانوں کو شرکت کا حکم عام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا۔ حکم قطعی اور نص رسول کے سامنے کسی تاویل واجتہاد کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں رہی تھی اور اس حکم قطعی عام کی تعمیل سے بچنے کے لیے حیلہ وحوالہ سے کام لینا عدم یقین اور کفر ونفاق کی وجہ سے ہی تھا، اس لیے اگلی آیت وان جہنم لمحیطۃ بالکافرین میں صاف طو رپر اس طرح کی حیلہ جوئی کرنے والوں کو کافر اور جہنمی قرار دیا گیا ہے۔
برخلاف دوسرے کسی ایسے شخص کی طرف سے دعوت جہاد کے جس کی حیثیت محض امتی کی ہو، نہ وہ نبی ہے نہ وہ اس کا نائب وخلیفہ ہے۔ اس کے عدم تعاون کو آیت نفاق کا مصداق قرار دینا یقیناًتفسیر بالرائے اور اپنی خواہش کے مطابق قرآنی آیات کو ڈھالنا اور حدود سے تجاوز کرنا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ شرائط جہاد کے پائے جانے میں اختلاف ہو جائے اور ظاہر ہے کہ جن لوگوں کے نزدیک شرائط نہ پائے جاتے ہوں، ان کے نزدیک اس دعوت جہاد پر لبیک کہناکیوں ضروری ہوگا؟ ایسی حالت میں قعود عن الجہاد کو منافقین کے قعود کے مثل کیونکر قرار دیا جا سکتا ہے؟ اور اس پر ’’راہ حق میں جہاد کرنے سے جی چرانا‘‘ کا حکم لگانا کیسے درست ہو سکتا ہے؟‘‘ (’’مولانا ابو الکلام آزاد اور ان کی تفسیر علماء عصر کی نظر میں‘‘، مجلہ ’’الحقانیہ، ساہیوال، جولائی/اگست ۲۰۱۴ء، ص ۱۲۴، ۱۲۵)
اختلاف اور نفسانیت
انسانوں کے مابین اختلاف کا پیدا ہوجانا ایک طبعی امر ہے۔ اس کی وجہ کسی مادی مفاد کا ٹکراؤ بھی ہو سکتا ہے، رائے اور نقطہ نظر کا مختلف ہونا بھی اور شخصی اناؤں کا باہمی تصادم بھی۔ علمی وفکری اختلاف اگر دیانت داری سے ہو اور اس میں نفسانی آمیزشیں نہ ہوں تو اختلاف کا اظہار مخصوص آداب کے ساتھ ہوتا ہے۔ تاہم انسان ایک کمزور شخصیت کا مالک ہے۔ عام طو رپر اس کے لیے ایسی صورت حال میں اپنی نفسانی کمزوریوں سے بالاتر ہو جانا اور اختلاف کو خالص نظری وعلمی رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگ ایسی کیفیت میں رائے یا نقطہ نظر کے اختلاف کو نفسی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور یہیں سے اختلاف کے حدود وآداب پامال ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
علم نفسیات کی رو سے اگر انسان اپنی ذہنی کیفیات کا تجزیہ کرنا سیکھ لے اور مختلف رویوں سے پیدا ہونے والی ظاہری علامات پر نظر رکھے تو وہ خود اپنا نفسی علاج کر سکتا ہے۔ بالعموم انسانوں کے لیے غیر جانب داری سے خود اپنی ہی شخصیت کا تجزیہ کرنا ممکن نہیں ہوتا اور وہ خود کو سمجھنے اور اپنی اصلاح وعلاج کے لیے دوسرے ماہرین سے، جو ان کی شخصیت کا بہتر تجزیہ کر کے علاج تجویز کر سکیں، رجوع کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ یہیں سے ماہرین نفسیات اور دینی اصلاح کے دائرے میں صوفیاء کے کردار کی اہمیت سامنے آتی ہے۔ بہرحال اختلاف رائے کے حوالے سے اپنی نفسیاتی کیفیت کا تجزیہ کرنے کے لیے کچھ عمومی علامات کو اگر سامنے رکھا جائے اور اپنے طرز عمل اور رویے پر نظر رکھتے ہوئے مسلسل تجزیہ کیا جاتا رہے تو خود آموزی کے اصول پر بھی کافی حد تک بہتری پیدا کرنا ممکن ہے۔
راقم کے مشاہدہ وتجربہ کی روشنی میں اگر کوئی شخص اختلاف کی کیفیت میں اپنے اندر درج ذیل علامات میں سے کوئی علامت محسوس کرے تو اسے یقین کر لینا چاہیے کہ اس کا اختلاف بظاہر کتنے ہی علمی، اصولی اور مذہبی نکتے پر مبنی ہو، درحقیقت اس میں نفسانیت کی آمیزش ہو چکی ہے اور شخصی یا گروہی انا بھی اس میں اپنا حصہ وصول کرنے کے لیے متحرک ہو چکی ہے:
۱۔ آپ کو اپنی ناپسندیدگی کا رخ مخالف رائے سے زیادہ حامل رائے کی طرف محسوس ہو اور آپ رائے کی غلطی اس پر یا دوسرے لوگوں پر واضح کرنے سے زیادہ اس کی شخصیت کو مجروح کرنے میں دلچسپی اور لذت محسوس کریں۔
۲۔ آپ مخالف رائے کو خود اس کے اپنے نقطہ نظر اور پیش کردہ استدلال کے مطابق غیر جانب داری سے پیش نہ کر سکتے ہوں اور اسے اپنے زاویہ نظر سے منفی اور تنقیدی رنگ میں ہی بیان کرنے میں اطمینان محسوس کریں۔
۳۔ آپ کی نظر محض مخالف کی خامیوں اور کمزوریوں پر ہی ٹکتی ہو، جبکہ اس کے ہاں پائی جانے والی خوبیوں کا اعتراف کرنے میں آپ کو انقباض محسوس ہو۔
۴۔ بحث کے دوران میں آپ کو مخالف کی کسی بات میں وزن محسوس ہو، لیکن آپ ہمدردی سے اس پر غور کرنے کے بجائے اپنے ذہن میں پہلے سے قائم منفی تاثر کی بنیاد پر اسے جھٹک دیں۔
۵۔ آپ اختلاف میں دوہرے معیار سے کام لیں۔ ایک بات جسے آپ غلط سمجھتے ہیں، اگر آپ کے پسندیدہ اصحاب فکر نے کہی ہو تو آپ حسن ظن یا تاویل وغیرہ سے کام لیں، لیکن وہی بات اپنے کسی مخالف کی زبان سے سننے یا تحریر میں پڑھنے پر آپ کی ’’دینی غیرت‘‘ جاگ اٹھے۔
۶۔ آپٖ مخالف پر تنقید کرتے ہوئے اختلاف کے درجے کو ملحوظ نہ رکھیں اور کم تر درجے کے اختلاف کو بھی سنگین اور ناقابل برداشت ظاہر کیے بغیر آپ کا اطمینان نہ ہوتا ہو۔ (مولانا تھانویؒ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ استاد یا والد کو بچے کی غلطی پر تادیب کا حق ہے، لیکن یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کیا سزا، غلطی کے تناسب سے دی جا رہی ہے؟ اگر غلطی ہلکی تھی، لیکن غصے سے مغلوب ہو کر سزا سخت دے دی گئی تو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ عمل اصلاح اور تادیب کے جذبے سے نہیں، بلکہ اپنے غصے کی تسکین کے لیے کیا گیا ہے)۔
۷۔ کسی شخص کے خیالات اور افکار سے آپ کو پہلے بھی اختلاف ہو، لیکن کسی خاص واقعے کے بعد جس میں آپ کو اس شخص سے یا اس کی وجہ سے ذاتی طور پر کوئی دکھ پہنچے، اختلاف کے حوالے سے آپ کے احساسات اور اختلاف کے اظہار میں شدت اور جارحیت پیدا ہو جائے۔ (اس حوالے سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا واقعہ معروف ہے کہ انھوں نے میدان جنگ میں ایک کافر کو زیر کر لیا، لیکن جب کافر نے ان کے چہرے پر تھوک دیا تو سیدنا علی نے یہ کہہ کر اسے چھوڑ دیا کہ اب اگر میں اسے قتل کرتا تو مجھے ڈر تھا کہ اس میں میرا ذاتی انتقام کا جذبہ بھی شامل ہوگا)۔
۸۔ آپ کو کسی سے اختلاف رائے ہو اور آپ اس کی اصلاح کے خواہش مند ہوں، لیکن کسی مرحلے پر آپ ہمدردانہ اصلاح کے بجائے اسے بحث میں زیر کرنے یا لوگوں کی نظر میں اسے نیچا دکھانے یا دوسروں کو اس سے متنفر کرنے کی کوشش کریں جس میں آپ کو کامیابی نہ ہو اور اس کے بعد آپ کے محسوسات اور اظہار اختلاف کے طریقے میں سختی اور تندی در آئے۔
۹۔ آپ اپنے دل میں مخالف کے لیے اصلاح کی حقیقی اور مخلصانہ خواہش رکھتے ہیں، اس کو جانچنے کا ایک سادہ پیمانہ یہ ہے کہ کیا آپ اس کے حق میں دعا اور استغفار کرتے ہیں؟ نیز مخالف کی کوئی ایسی بات سامنے آنے پر جو آپ کی نظر میں قابل اعتراض ہو، آپ کو دکھ محسوس ہوتا ہے اور یہ خواہش پید اہوتی ہے کہ کاش اس نے یہ بات نہ کہی ہوتی یا آپ کو اس بات پر خوشی محسوس ہوتی ہے کہ بہت اچھا، اس پر تنقید کرنے کے لیے ایک اور نکتہ مل گیا؟ (میرے ذاتی مشاہدے کی بات ہے کہ ایک معروف عالم اور مناظر کو میں نے ایک صاحب علم کے متعلق، جن کے بارے میں ان صاحب کی رائے اچھی نہیں تھی، یہ بتایا کہ فلاں مسئلے میں ان کی رائے یہ ہے۔ مناظر صاحب کے نقطہ نظر کے مطابق وہ رائے الحاد کے درجے کو پہنچی ہوئی تھی، لیکن انھوں نے یہ اطلاع ملنے پر کسی افسوس یا دکھ کا اظہار نہیں کیا، بلکہ جوش مسرت سے جیسے ان کی باچھیں کھل گئیں۔ زبان حال سے وہ گویا یہ کہہ رہے تھے کہ بہت خوب، اب اس کو ایسا رگیدوں گا کہ کیا یاد کرے گا!)
نفسانیت ایسی چیز ہے کہ اس کے شر سے ہر حال میں نہ صرف پناہ مانگنی چاہیے بلکہ ہمہ وقت نفس کے شرور پر نظر بھی رکھنی چاہیے۔ یہ بظاہر بڑے اعلیٰ درجے کے دینی کاموں میں بھی شامل ہو کر انھیں خالص دنیوی اور نفسانی سرگرمیاں بنا دیتی ہے۔ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اہل مدارس کے متعلق لکھا تھا کہ ان کے لیے اپنے اخلاص اور للہیت کو جانچنے کا ایک سادہ سا نسخہ یہ ہے کہ اگر آپ کے قائم کردہ دینی ادارے کے قریب ہی کوئی دوسرا دینی ادارہ بننے لگے تو آپ اپنے محسوسات کا جائزہ لیں۔ اگر آپ کو اس بات پر خوشی محسوس ہو کہ دین کے کام کے لیے ایک اور ذریعہ وجود میں آ رہا ہے جس سے خلق خدا کو فائدہ ہوگا تو آپ کا کام اخلاص پر مبنی ہے۔ اور اگر آپ کو رقابت اور اپنے حلقہ اثر کے متاثر ہونے کے جذبات محسوس ہوں تو یقیناًآپ کا محرک خدمت دین اور رضائے الٰہی کا حصول نہیں ہو سکتا۔
اللہم انا نعوذ بک من شرور انفسنا ومن سیآت اعمالنا۔
مسجدِ اقصی کی تولیت اور عمار خان ناصر صاحب کی تحریرات ۔ تفصیلی و تنقیدی جائزہ (۱)
مولانا سمیع اللہ سعدی
قبلہ اول، انبیائے کرام کا مولد و مدفن اور روئے زمین پر حرمین شریفین کے بعد افضل ترین بقعہ مسجدِ اقصی کے حوالے سے عمار خان ناصر کا ’’عجیب و غریب‘‘ موقف اور ماضی و حال کی پوری امتِ مسلمہ کے برعکس اختیار کردہ ’’نظریہ‘‘علمی حلقوں میں کافی عرصے سے زیرِ بحث ہے ۔امتِ مسلمہ کے بالغ نظرمحققین نے اس موقف اور نظریے کے مضمرات، نقصانات، پسِ منظر اور اس حوالے سے عمار خان ناصر کے’’ ماخذ و مراجع‘‘ کو بخوبی آشکارا کیا ہے۔ذیل کی تحریر میں ہم آنجناب کی اس موضوع پرشائع شدہ دو مرکزی تحریروں’’مسجدِ اقصی،یہوداور امتِ مسلمہ‘‘(ماہنامہ الشریعہ، ستمبر ، اکتوبر2003)اور ’’مسجدِ اقصی،یہوداور امتِ مسلمہ۔ تنقیدی آراء کا جائزہ‘‘ (ماہنامہ الشریعہ ، اپریل، مئی 2004) کا ایک منصفانہ جائزہ لیتے ہیں ،کیونکہ جناب عمار خان صا حب عموما’’ً شاکی‘‘ رہتے ہیں کہ میری تحریروں پر مفصل اور سنجیدہ تنقید کسی نے نہیں کی اور میرے اٹھائے گئے’’نکات ‘‘ اور ’’اعتراضات‘‘ کو کسی نے چیلنج نہیں کیا ۔(۱) لہٰذا مذکورہ تحریروں کا ابتدا سے لے انتہاء تک ایک مربوط جائزہ نکات ، استفسارات اور سوالات کی شکل میں لیا جاتا ہے ۔ اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ ہمیں حق بات کہنے ،حق آشکارا ہونے کے بعد اسے ماننے اور اپنی غلطی تسلیم کرنے کا حوصلہ اور ہمت عطا فرمائیں۔ آمین
1۔آنجناب نے سب سے پہلے مضمون کی تمہید میں مسئلے کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:
’’اور اس میں انبیائے بنی اسرائیل کی یاد گار کی حیثیت رکھنے والی تاریخی مسجدِ اقصی موجود ہے جس کی تولیت کا مسئلہ مسلمانوں اور یہود کے مابین متنازع فیہ ہے‘‘(براہین صفحہ233 )
ہم آنجناب سے پوچھتے ہیں کہ تمہید میں اس تنازع کا پسِ منظر کیوں واضح نہیں کیا گیا کہ یہ تنازع کب سے ہے؟بعثتِ نبوی سے،حضرت عمرؓ کی فتحِ بیت المقدس کے وقت سے،صلاح الدین ایوبی کے دور سے یا کفریہ طاقتوں کا ایک مخصوص منصوبے کے تحت ارضِ مقدس میں یہودیوں کی آباد کاری کے وقت سے؟تنازع کا وقتِ ابتدا ء اگر آنجناب بیان کر دیتے ،تو مذکورہ تنازع کے کافی پہلو ؤ ں پر روشنی پڑ سکتی تھی۔ یہ تحریر پڑھتے وقت قاری یہ سمجھ لیتا ہے کہ شاید صدرِ اسلام سے آج تک یہ مسئلہ متنازع فیہ ہے ۔آنجنا ب سے سوال ہے کہ حضرت عمرؓ کی فتح سے لیکر اس تنازع کے پیدا ہونے سے پہلے تک کبھی یہودیوں نے اس جگہ کو واپس لینے ، اس پر احتجاج کرنے اور مسلم حکمرانوں سے اس کی تولیت لینے کا باقاعدہ مطالبہ کیا ہے؟آنجناب ضروریہ کہیں گے کہ یہود اس مطالبے کی پوزیشن میں نہیں تھے، تو سوال یہ کہ حضرت کعب احبار بیت المقدس کی فتح کے وقت حضرت عمرؓ کے ساتھ تھے اور ان کے بارے میں سب کو علم ہے کہ اپنے زمانے میں یہود کے کتنے بڑ ے عالم تھے ۔انہوں نے حضرت عمرؓ جیسے ’’عادل ‘‘اور ’’شرعی حکم‘‘ کے سامنے سر جھکا دینے والی شخصیت سے مسجدِ اقصی کی تولیت کا صراحۃً یا اشارۃً ذکر کیوں نہیں کیا؟ خود آپ نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ صدیوں کے سکوت کے بعد یہودیوں کے ہاں اس کی (ہیکل سلیمانی) کی تعمیر کا مطالبہ شدت سے سامنے آیا ہے، تو آنجناب صدیوں کے سکوت کی کیا توجیہ کریں گے؟کہ اچانک اس مطالبے کے پیدا ہونے کی وجوہات کیا ہیں؟کیا ہماری پوری اسلامی تاریخ میں مسجدِ اقصی کی تولیت کی بحث کبھی اٹھائی گئی؟اگر ان سوالوں کا جواب نفی میں ہے، تو یہ بات بخو بی واضح ہوتی ہے کہ یہ تنازع فطری اور واقعی نہیں ہے بلکہ مخصوص طاقتوں کی طرف سے پیدا کردہ مصنوعی اور امتِ مسلمہ کو یہود کے ہاتھوں زیر کرنے کا ’’جامع منصوبہ‘‘ ہے۔
2۔ اس ’’مبہم ‘‘اور ’’مغالطہ ‘‘ پر مبنی تمہید کے بعد آنجناب نے مسجدِ اقصی کی مختصر لیکن ’’نا مکمل تاریخ ‘‘ بیان کی ہے۔ یہ تاریخ مکمل طور پر تورات اور اسفارِ یہود سے نقل کی گئی ہے۔ جناب عمار صاحب سے بجا طور پر سوال ہے کہ آنجناب نے اس بارے میں غیر اسلامی ماخذ کو ترجیح کیوں دی؟کیا اسلامی ماخذ مسجدِ اقصی کی تاریخ کے بارے میں خاموش ہیں؟ مفسرین نے سورہ اسراء کے تحت،محدثین نے بخاری شریف کی حدیثِ ابی ذر(۲) اور نسائی شریف کی حدیثِ عبداللہ بن عمرو(۳) کی تشریح میں مسجدِ اقصی کی جو تاریخ بیان کی ہے ۔آنجناب نے اس سے پہلو تہی کیوں اختیار کی ؟ہماری تاریخ کی امہات الکتب میں مسجدِ اقصی کی تاریخ جا بجا بیان ہوئی ہے (۴)آنجناب نے اس کو نظر انداز کیوں کیا؟اس کے علاوہ صدرِ اسلام سے لیکر آج تک مسجدِ اقصی کی تاریخ ، فضائل اور احکام پر بیسیوں کتب لکھی گئی ہیں،اس وقت میرے سامنے شہاب اللہ بہادر کی مایہ ناز کتاب ’’معجم ما الف فی فضائلِ و تاریخِ المسجد الا قصی‘‘ہے ،اس میں فاضل مصنف نے تیسری صدی ہجری سے لیکر چودہویں صدی کے اختتام تک مسجدِ اقصی کے حوالے سے لکھی گئی مطبوعہ و مخطوطہ کتب کا تعارف کرایا ہے ۔ان سب معتبر ، مستند اور معتمد ماخذ کو چھوڑ کر محرف و منسوخ شدہ مصاحف پر اعتماد کیوں کیا گیا؟ خصوصاً دسویں صدی ہجری کے مشہور عالم مجیر الدین الحنبلی کی کتاب ’’الانس الجلیل بتاریخ القدس و الخلیل‘‘ اور باہویں صدی ہجری کے مورخ محمد بن محمد الخلیلی کی ضخیم کتاب ’’تاریخ القدس و الخلیل‘‘مسجدِ اقصی کی تاریخ کے حوالے سے مرجع کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کو پسِ پشت کیوں ڈال دیا؟صحفِ یہود سے تاریخ نقل کر کے قاری کے ذہن میں غیر محسوس طریقے سے کہیں یہ بات تو نہیں ڈالی جارہی ہے کہ مسجدِ اقصی پر ’’یہود کا تاریخی و مذہبی حق‘‘(واوین کے الفاظ مذکورہ مضمون سے لیے گئے ہیں)کچھ اس طرح سے پختہ ہے کہ اس کی تاریخ کے لئے بھی ہمیں صحفِ یہود کی طرف رجوع کرنا پڑ رہا ہے۔آنجناب ضرور یہ کہیں گے کہ تاریخ میں سابقہ صحف پر اعتماد کرنے میں کیا حرج ہے؟ یقیناًکوئی حرج نہیں ہے لیکن اولاً تو جب ایک چیز اسلامی ماخذ میں بآسانی مل سکتی ہے تو اس میں ان مصاحف کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت اور ان کی وجہ ترجیح کیا ہے؟ ثانیاًان صحف کا موضوع مسجدِ اقصی کی تاریخ کا بیان نہیں ہے بلکہ مختلف قصوں اور واقعا ت کے ضمن میں متفرق مقامات پر مسجدِ اقصی کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے تو باقاعدہ اس موضوع پر لکھی گئی مفصل تصنیفات کو چھوڑ کر غیر متعلقہ مراجع سے استمداد کسی’’ علمی تحقیق‘‘ کے شایانِ شان نہیں ہے۔ ثالثاً ان میں تحریف صرف احکام میں نہیں ہوئی ہے بلکہ تاریخی حوادث و واقعات میں بھی اہلِ کتاب نے بہت کچھ اپنی طرف سے داخل کیا ہے، قرآن پاک میں انبیائے کرام کے قصوں کے ضمن میں مفسرین کی نقل کردہ اسرائیلی روایات اس کی شاہد ہیں،تو ان سب’’ موانع ‘‘کے ہوتے ہوئے آخر ان پر اعتماد کی وجہ کیا ہے؟
اس پر مستزاد یہ تاریخ بھی نامکمل بیان کی گئی ہے(کیونکہ ان ’’محرف‘‘ صحف میں تاریخ اتنی ہی بیان ہوئی ہے)مسجدِ اقصی کی تاریخ حضرتِ داؤد و حضرتِ سلیمان علیہما السلام سے شروع کی ہے حا لانکہ تمام مصادر اس بات پر متفق ہیں کہ یہ دو جلیل القدر پیغمبر مسجدِ اقصی کے مؤسس و بانی نہیں ہیں، بلکہ ان کی حیثیت محض تجدید کنندہ کی ہیں اور خود عمار صاحب نے بھی مضمون کے حاشیے میں اس کا ذکر کیا ہے،تو آنجناب سے سوال یہ کہ مسجدِ اقصی کی ابتدائی تاریخ اور اس کے اولین مؤسس کو زیر بحث کیوں نہیں لیا گیا؟جبکہ کسی چیز کی تاریخ کے بیان میں اس کی ابتدا اور بانی کا ذکر سب سے اہم سمجھا جاتا ہے۔کیا یہ وجہ تو نہیں کہ اصل بانی و مؤسس کے ذکر سے آنجناب کے ’’موقف ‘‘پر زد پڑسکتی تھی؟کہ جب مسجدِ اقصی کی تاریخ یہودکے زمانے سے پہلے شروع ہوتی ہے، تو انہیں اس پرمحض اپنا حق جتانے اور اسکی تولیت کا دعوی کرنے کا کیا حق ہے؟
3۔مسجدِ اقصی کی نامکمل تاریخ بیان کرنے کے بعد آنجناب نے ’’حقِ تولیت سے یہود کی معزولی‘‘کا عنوان باندھا ہے۔اس عنوان کے تحت آنجناب نے ایک عجیب ’’مقدمہ‘‘تراشا ہے اور اس تحریر کی پوری عمارت اس مقدمے پر کھڑی ہے۔اس مقدمے کا خلاصہ یہ نکاتِ ثلاثہ ہیں:
1 ۔کسی مذہب والوں کو ان کی مخصوص عبادت گاہ اور مرکزِ عبادت کی تولیت سے محروم کرنے کے لئے قرآن و حدیث کی واضح نص کی ضرورت ہے۔
2۔مشرکینِ مکہ کو مسجدِ حرام کی تولیت سے اس وقت تک محروم نہیں کیا گیاجب تک ۹ھ میں سورہ برات کی واضح آیتیں نہیں اتری تھیں۔
3۔مسجدِ اقصی سے یہود کی تولیت کی منسوخی کے بارے میں اس طرح کی کوئی واضح نص نہیں ہے ،جس طرح سے مسجدِ حرام کے بارے میں ہے،اس لئے اس بارے میں جتنے ’’استدلالات‘‘کئے جاتے ہیں وہ سارے کالعدم ہیں، کیونکہ وہ ’’صریح‘‘ نہیں ہیں۔
یہ مقدمہ درجہ ذیل وجوہ سے محض ’’خود ساختہ‘‘ ہے:
1۔مسجدِ اقصی کے بارے میں بحث کی بنیاد یہ نہیں ہے کہ کسی مذہب کی مرکزی عبادت گاہ کی اہلِ مذہب سے تولیت کی منسوخی کے کیا شرعی احکامات ہیں،بلکہ بحث کا اصل طرز یہ ہے کہ روئے زمین کے وہ چند مقدس مقامات جن کی اہمیت ،فضیلت،برکت اور عظمت صرف اس بنیاد پر نہیں ہیں کہ کسی مذہب والوں نے انہیں مرکزِ عبادت کے طور پر آباد کیا،بلکہ خود حق تعالی نے اپنے جلیل القدر پیغمبروں کے ذریعے ان جگہوں کو بابرکت اور افضل البقاع قرار دیا، ان کو ان مقامات کی تعمیر ،تاسیس ،تجدید اور انہیں مرکزِ عبادت بنانے کے باقاعدہ احکامات دیئے اور ان مقامات کی فضیلت وتقدس تمام ادیانِ سماویہ میں مسلم ہیں ، ایسے ’’مقامات‘‘کی تولیت ،انہیں آباد کرنے اور ان میں عبادتِ صحیحہ ادا کرنے کا حق بعثتِ نبوی کے بعد دنیا میں اب تک موجود تین ادیانِ سماویہ اسلام،یہودیت اور عیسائیت میں کس مذہب کے ماننے والوں کو حاصل ہے۔شرعی نصوص کے مطابق روئے زمین پر ایسے مقدس اور بابرکت مقامات صرف تین ہیں:مسجدِ حرام، مسجدِ نبوی اور مسجدِ اقصیٰ۔
چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہاللہ شدِرحال والی حدیث کے تحت لکھتے ہیں:
وفی ہذالحدیث فضیلۃ ہذہ المساجدومزیتہاعلی غیرہا لکو نہا مساجد الانبیاء و لان الا ول قبلۃالناس والیہ حجہم والثانی کان قبلۃ الا مم السالفہ والثالث اسس علی التقوی(۵)
اس کے علاوہ اسراء کے موقع پر مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصی تک سفر،لا تشد الرحال والی حدیث(۶)دونوں مسجدوں کی تاسیس والی حدیثِ بخاری(۷)مساجدِ ثلاثہ میں نماز کا ثواب بیان کرنے والی حدیث(۸)اور فقہائے کرام کے ان مقامات میں نذر،اعتکاف اور ان سے عمرہ و حج کا احرام باندنے کے الگ احکامات کابیان(۹)ان مقامات کے مراتبِ فضیلت پر بحث(۱۰)اور اسلامی تاریخ کے جلیل القدر علماء کا مقاماتِ ثلاثہ کے فضائل، تعارف، تاریخ اور احکامات کو بیان کرنے کے لئے الگ تصنیفات(۱۱)اس بات کے واضح شواہدہیں کہ یہ تینوں مقامات مخصوص فضیلت اور ناقابلِ انفکاک تعلق کے حامل ہیں۔قرآن و حدیث کے ادنی طالبِ علم پر ان مقامات کے خاص فضائل اور ان کا تقدس مخفی نہیں ہیں۔
ان’’ مقاماتِ مقدسہ‘‘ کے بارے میں تمام ادیانِ سماویہ میں یہ ضابطہ چلا آرہا ہے کہ یہ ہر زمانے کے اہلِ حق کو ملتے ہیں ۔اگرچہ کبھی کھبار اہلِ حق کے کمزور ہونے اور انہیں ان کے کئے کی سزا کے نتیجے میں ان پر اہلِ باطل کا غلبہ بھی رہا ہے،لیکن ان کا ’’شرعی ‘‘حکم یہی چلا آرہا ہے کہ اس کے حقدار صرف اور صر ف زمانے کے اہلِ حق ہوتے ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السالام چونکہ ابو الا انبیاء ہیں ،اس لئے ان کے بعد یہ مقدس مقامات ان کی اولاد اور ان کے سچے متبعین میں تقسیم کئے گئے ،چنانچہ مسجدِ حرام بنی اسماعیل اور مسجدِ اقصی بنی اسرائیل کے حوالے کی گئی ،لیکن ساتھ یہ شرط بھی لگا دی گئی کہ تمہارے پاس ان مقدس مقامات کی تولیت اور ذمہ داری دینِ حق پر قائم رہنے ، اللہ کی اطاعت پر کار بند رہنے اور شرک و کفر سے بچنے کی شرط کے ساتھ مشروط ہے۔چنانچہ انبیائے بنی اسرائیل کی زبانی بنی اسرائیل کو یہ اعلان سنایا گیاجسے آنجناب نے بھی نقل کیا ہے:
’’اگر تم میری پیروی سے برگشتہ ہو جاؤاور میرے احکام اور آئین کو جو میں نے تمہارے آگے رکھے ہیں، نہ مانو،بلکہ جاکر اور معبودوں کی عبادت کرنے اور ان کو سجدہ کرنے لگوتو میں اسرائیل کو اس ملک سے جو میں نے تمہیں دیا ہے ،کاٹ ڈالوں گااور اس گھر کو جسے میں نے اپنے نام کے لئے مقدس کیا ہے،اپنی نظر سے دور کر دوں گااور اسرائیل سب قوموں میں ضرب المثل اور انگشت نما ہو گا‘‘(۱۲)
اس کی تائید قرآنِ پاک سے بھی ہوتی ہے ،چناچہ سورہ مائدہ میں اللہ نے بنی اسرائیل کو حضر تِ موسی علیہ السلام کی زبانی یہ اعلان سنایا:
یَا قَوْمِ ادْخُلُوا الأَرْضَ المُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ وَلاَ تَرْتَدُّوا عَلَی أَدْبَارِکُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِیْنَ (المائدہ ۵:۲۱)
’’اے میری قوم اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمہارے واسطے لکھ دی ہے اور اپنی پشت کے بل پیچھے نہ لوٹو،ور نہ پلٹ کر نامراد ہو جاؤ گے۔‘‘
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے ولا ترتدوا کی جہاں اور تفسیریں کی ہیں وہاں ساتھ یہ بھی کی ہے کہ اس سے مراد اللہ کی نافرمانی اور سرکشی ہے،چنانچہ علامہ آلوسی لکھتے ہیں:
لا ترجعو ا عن دینکم با لعصیان (۱۳)
امام قرطبی لکھتے ہیں:
لا ترجعوا عن طاعتی و ما امرتکم من قتال الجبارین (۱۴)
اس کے علاوہ سورہ اسراء کی ابتدائی آیات میں بیت المقدس سے بنی اسرائیل کی دو مرتبہ بے دخلی بھی اسی سنت اللہ کی تائید کر رہی ہے کہ یہ مقدس مقام کی تولیت اللہ کی اطاعت کے ساتھ مشروط ہے۔
اسی طرح بنی اسماعیل کو بھی مسجدِ حرام کی تولیت اسی شرط کے ساتھ دی گئی تھی،چونکہ بنی اسماعیل میں قرآن کے علاوہ کوئی کتاب نہیں نازل ہوئی اس لئے اس کا اعلان قرآن پاک میں کیا گیا،چنانچہ سورہ الانفال میں اللہ فرماتے ہیں:
وَمَا لَہُمْ أَلاَّ یُعَذِّبَہُمُ اللّٰہُ وَہُمْ یَصُدُّونَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَا کَانُواْ أَوْلِیَاءَ ہُ إِنْ أَوْلِیَآؤُہُ إِلاَّ الْمُتَّقُونَ (الانفال۸:۳۳)
’’اور بھلا ان میں کیا خوبی ہے کہ اللہ ان کو عذاب نہ دے جبکہ وہ لوگوں کو مسجدِ حرام سے روکتے ہیں، حالانکہ وہ اس کے متولی نہیں ہے ،متقی لوگوں کے سوا کسی قسم کے لوگ اس کے متولی نہیں ہو سکتے۔‘‘
سابقہ صحف اور قرآن پاک کی ان واضح نصوص سے یہ بات بخوبی ثابت ہورہی ہے کہ ان مقاماتِ مقدسہ کے بارے میں سنت اللہ یہی ہے کہ ان کی تولیت کے حقدار صرف اہلِ حق ہیں۔اب آنجناب بتائیں کہ نبی پاک ﷺ کی بعثت کے بعد روئے زمین پر اب امتِ مسلمہ کے علاوہ بھی کوئی حق گروہ ہے؟اس لئے اس سنت اللہ کے مطابق مسجدِ حرام اور مسجدِ اقصی دونوں کی تولیت صرف اس امت کے ذمے ہے ،جبکہ مسجدِ نبوی میں تو ویسے آپ کا شاہی دربار سجا ہے۔آنجناب نے بحث کی پوری ترتیب کو ’’خلط‘‘کیا اور مسجدِ اقصی کو ایک خاص مذہب کا محض مرکزِ عبادت قرار دے کر پھر اسکی تولیت کی بحث کی ہے ،اسی خلطِ مبحث کا نتیجہ ہے کہ آنجناب کو مسجدِ اقصی امتِ مسلمہ کی تولیت میں دینے پر ’’تضادات‘‘نظر آئے،جس کا ذکر اپنے مقام پرآئے گا۔
اس سنت اللہ کے نتیجے میں اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جملہ وراثتوں کا حقدار اس امت کو ٹھہرایا ہے،چنانچہ سورہ آلِ عمران میں فرماتے ہیں:
إِنَّ أَوْلَی النَّاسِ بِإِبْرَاہِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوہُ وَہَذَا النَّبِیُّ وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ وَاللّٰہُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ (آل عمران ۳:۶۸)
’’ابراہیم کے ساتھ تعلق کے سب سے زیادہ حقداروہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کی پیروی کی،نیز یہ نبی ﷺاوروہ لوگ جو ان پر ایمان لائے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ ہماری پوری تاریخ میں ان مقاماتِ مقدسہ کی تولیت کا سوال کبھی نہیں اٹھایا گیااور نہ ہی اس حوالے سے ’’شرعی دلائل‘‘اکٹھا کرنے کا اہتمام کیاگیا۔اسی طرح ان کی تولیت لینے کے لئے کسی ’’واضح نص‘‘کی ضرورت کبھی محسوس نھیں کی گئی،بلکہ ان مقدس مقامات پر سیاسی غلبہ ہوتے ہی ان مقامات کو تولیت میں لیا گیا،چنانچہ فتحِ مکہ کے موقع پر مسجدِ حرام کی تولیت مسلمانوں کے ہاتھوں میں آگئی اور مسجدِ اقصی کی تولیت آپﷺ کی بشارت کے نتیجے میں حضرت عمرؓ کے دور میں بیت المقدس کی فتح کی صورت میں امت نے سنبھالی۔آنجناب نے اس حوالے سے جو نکات اٹھائے ہیں ان کا ذکر اپنے مقام پر آئیگا۔
2۔اس خود ساختہ مقدمے کا دوسرا حصہ کہ مشرکین کو مسجدِ حرام کی تولیت سے اس وقت تک محروم نہیں کیا گیا،جب تک ۹ھ میں سورہ برات کی واضح آیتیں نہیں اتری تھیں،اسلامی تاریخ سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔اسلامی تاریخ کا ادنی طالبِ علم جانتا ہے کہ آپﷺ کا مکہ کو فتح کرنے کا مقصد ہی دراصل مشرکین سے بیت اللہ کو چھڑانا تھا۔آنجناب بتائیں کہ اس کے علاوہ فتحِ مکہ کا کیا مقصد تھا؟جب آپﷺوہاں ٹھہرے بھی نہیں،وہاں کے باشندوں سے انتقام بھی نہیں لیا،وہاں کے باشندوں کے اسلام پر مجبور بھی نھیں کیا،تو پھر محض اس شہر میں داخل ہو کر واپس نکلنے کا کیا مقصد تھا؟نیز اسلامی تاریخ میں فتحِ مکہ جو مقام و اہمیت حاصل ہے،وہ کس بنیاد پر؟اور صحابہ کرامؓ نے جس جوش و خروش اور جس جذبے کے ساتھ اس میں شرکت کی ،اس کی بنیادی وجہ کیا تھی؟سیرت نگاروں نے فتحِ مکہ کا مقصدِ اعظم ہی بیت العتیق کو مشرکین سے چھڑوانا لکھا ہے،چنانچہ ابن القیم زاد المعاد میں فتحِ مکہ کو الفتح الاعظم لکھ کر اس کا مقصد یوں بیان کیا ہے:
الذی اعز اللہ بہ دینہ و رسولہ و جندہ و حزبہ الا مین،و استنقذ بہ بلدہ وبیتہ الذی جعلہ ھدی للعالمین،من ایدی الکفار و المشرکین(۱۵)
’’وہ فتح جس کے ذریعے اللہ نے اپنے دین ،اپنے رسول،اپنے لشکراور اپنی امانتدار جماعت کو عزت سے نوازا۔اور اس کے ذریعے اپنے شہر اور اپنے اس گھر کو مشرکین اور کفار سے چھڑایا ،جس کو پوری کائنات کے لئے ہدایت کا زریعہ بنایا ہے۔‘‘
آپ ﷺ کا مکہ فتح کر کے بیت اللہ میں داخل ہو نا،بتوں کو گرانا ،جاء الحق و زہق الباطل کی صدالگانا،وہاں نماز پڑھنا،حضرت بلالؓ کا چھت پر چڑھ کر اذان دینا،کیا یہ سارے کام بیت اللہ کی تولیت کو واپس لینے کے اعلانات نہیں تھے؟اگر جناب عمار صاحب کا خود ساختہ مقدمہ مان لیں تو سوال یہ ہے کہ زبانِ نبوت نے اس موقع پر ایسا کوئی جملہ ارشاد کیوں نہیں فرمایا کہ’’حقِ تولیت چونکہ ایک نازک معاملہ ہے اس لئے کسی واضح نص تک ہمیں انتظار کرنا چاہئے‘‘آپﷺ نے جب حضرت عثمان بن ابی طلحہؓ سے بیت اللہ کی چابیاں لے لیں تو حضرت علیؓ و دیگر صحابہ نے جب درخواست کی کہ یہ چابیاں ہمیں عطا فرمائیں، تو اس وقت آپﷺ نے یہ کیوں نہیں فرما یا کہ ’’حقِ تولیت چونکہ ایک نہایت نازک معاملہ ہے اس لئے کسی واضح نص کا انتظار کرنا چاہئے‘‘بلکہ آپ ﷺ نے چابیاں ان سے لیکر پھر اپنے اختیار سے ان کو واپس کر دیں،جو حافظ ابنِ حجر کے بقول صلحِ حدیبیہ کے موقع پر مسلمان ہوئے تھے،(۱۶)کیا کسی مسلمان کو بیت اللہ کی چابیاں دینا مشرکین سے حقِ تولیت واپس لینے کی دلیل نہیں ہے۔
البتہ اتنی بات تھی کہ آپ ﷺ نے چونکہ عام معافی کا اعلان کیا تھا،اس لئے مشرکین کو بھی بیت اللہ میں داخل ہونے کی اجازت تھی۔ سورہ براۃ کی مذکورہ آیتوں کے نزول کے بعد ان کا داخلہ نہ صرف مسجدِ حرام میں بند کیا گیا ،بلکہ پورے حرم کو ان کے لئے ممنوع قرار دیا۔آنجناب نے ان مذکورہ آیتوں کو حقِ تولیت کی منسوخی کی دلیل بنا یا،جو کئی وجوہ سے مخدوش استدلال ہے۔
1۔آنجناب کی پیش کردہ آیتوں میں سے سورہ براۃ کی آیت ۲۸تو اپنے مفہوم کے ساتھ با لکل واضح طور پر دلالت کر رہی ہے کہ اس کا مقصد مشرکین کا مکہ میں داخل ہونے کی ممانعت کا بیان ہے۔آنجناب کے استدلال کی بنیادی ’’غلطی‘‘ یہی ہے کہ آنجناب نے داخل ہونے اور نہ ہونے کی بحث کو تولیت کی بحث کے ساتھ ’’خلط‘‘ کردیا ،حالانکہ ان دونوں میں واضح فرق ہے،کیو نکہ کسی مقام میں کسی کے داخل ہونے کی اجازت سے اس مقام کی تولیت اس کے لئے کیسے لازم آگئی؟چنانچہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْمُشْرِکُونَ نَجَسٌ فَلاَ یَقْرَبُواْ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِہِمْ ہَذَا (براۃ ۹:۲۸)
’’اے ایمان والو!مشرک لوگ تو سراپا ناپاکی ہیں،لہذاوہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب بھی نہ آنے پائیں۔‘‘
علامہ آلوسیؒ لکھتے ہیں:
المراد النھی عن الدخول الاانہ نھی عن القرب للمبالغۃ (۱۷)
یہی وجہ ہے کہ اس آیت کے ذیل میں مفسرین نے مسجدِ حرام اور بقیہ مساجد میں مشرکین اور اہلِ کتاب کے دخول کے جواز و عدمِ جواز پر بحث کی ہیں ۔اور اس بارے میں فقہاء کے مذاہب تفصیل سے بیان کئے ہیں(۱۸)لیکن تولیت کا مسئلہ قدماء میں سے کسی نے ذکر نہیں کیا۔آنجناب نے کس طرح اس سے تولیت کی منسوخی اخذ کی ہمیں معلوم نہیں ہو سکا؟حالانکہ خود آنجناب نے ’’اصول ‘‘ بنایا تھا کہ اس معاملے میں ’’صریح‘‘دلیل کی ضرورت ہے۔
2۔تولیت کی منسو خی کے لئے اس آیت کے علاوہ آنجناب نے مذکورہ سورہ کی آیت ۱۷ کو بھی دلیل بنایا ہے،اللہ تعالی فرماتے ہیں:
مَا کَانَ لِلْمُشْرِکِیْنَ أَن یَعْمُرُواْ مَسَاجِدَ اللّّٰہ شَاہِدِیْنَ عَلَی أَنفُسِہِمْ بِالْکُفْرِ (براۃ ۹:۱۷)
’’مشرکین اس بات کے اہل نہیں ہیں کہ وہ اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں۔‘‘
اس آیت کو منسوخی کا ’’اعلان ‘‘قرار دینا بھی بوجوہ درست نہیں ہے:
۱۔آنجناب کو علم ہوگا کہ تولیت کے لئے عربی میں’ ’عمر‘‘کا مادہ استعمال نہیں ہوتا بلکہ ’’ولی‘‘کا مادہ آتا ہے،آنجناب آباد کرنے سے تولیت کس ’’دلالت‘‘کی بنیاد پر لے رہے ہیں؟اگربالفرض دلالت کی کسی قسم سے تولیت بھی اس کے مفہوم میں آجائے تو صریح نہ ہونے کی بنیاد پر آنجناب کے اصول کی بنیاد پر ’’کالعدم‘‘ہے۔
۲۔مفسرین اس آیت کے تولیت وغیرہ کی کوئی بحث ہی نہیں کی ہے ،بلکہ اس کا مقصد یہ بیان کیا ہے ،کہ اس آیت میں اللہ تعالی مشرکین کے اس زعم پر رد کر رہے ہیں کہ وہ اس بات پر فخر کرتے تھے کہ ہم اللہ کے گھر اور اس کے مہمانوں کی خدمت بجا لاتے ہیں ،تو اللہ نے ان آیات میں ان کا رد کیا کہ اصل قابلِ ٖفخر چیز ایمان ہے،نیز جب وہ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے تو ان کی ان خدمات کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔چنانچہ علامہ آلوسی لکھتے ہیں:
والغرض ابطال افتخار المشرکین بذلک لا قترانہ بما ینافیہ وھو الشرک (۱۹)
اسی بات کو تفسیر طبری میں بھی بیان کیا گیا ہے(۲۰)اگر ان آیات کا مقصد مشرکین سے بیت اللہ کی تولیت کی منسوخی کا اعلان ہے جیسا کہ آنجناب کا ’’گمان‘‘ ہے ،تو پھر اس چیز کو سر فہرست ہونا چاہیئے تھا ،کیونکہ یہ یقیناًًاس امت کی تاریخ میں ایک یاد گار اور سب سے بڑا اعلان تھا۔اور مسلمانوں کو بیت العتیق کی تولیت کے اعلان پر سب سے زیادہ خوشی منانی چاہیئے تھی ،حالانکہ اس طرح کی کوئی بات تواریخ میں منقول نہیں ہے۔
۳۔ ان آیات کے نزول کے بعد اسی سال حج کے موقع پر آپﷺ نے حضرت علیؓ کو مشرکین کے بھرے اجتماع میں کچھ اعلانات کے لئے بھیجا، اس میں بھی تولیت کا اعلان سرے سے غائب ہے ،چنانچہ روایت میں آتا ہے ،کہ حضرت علیؓ نے یہ اعلان کیا:
امرہ ان ینادی فی المشرکین الا یحج بعدالعام مشرک ولایطوف بالبیت عریان (۲۱)
اگر واقعی ان آیات سے مشرکین کا حقِ تولیت منسوخ ہوا تھا تو اس کو تو سر فہرست ہونا چاہیئے ،آنجناب نے یہاں بھی اسی ’’خلطِ مبحث ‘‘سے کام لیتے ہوئے اس اعلان کو حقِ تولیت کی منسوخی کا اعلان قرار دیا۔حالانکہ یہ بات بدیہی ہے کہ حج سے روکنا اور بیت اللہ میں داخل ہونے کی ممانعت اور بحث ہے ،جبکہ تولیت ایک الگ بحث ہے۔
خلاصہ یہ نکلا کہ آنجناب نے جو یہ مقدمہ ’’تراشا‘‘ ہے کہ مشرکین کو مسجدِ حرام کی تولیت سے ایک صریح نص کی بنیاد پر محروم کیا گیا ،سرے سے غلط ہے ،کیونکہ فتحِ مکہ کے موقع پر مشرکین سے تولیت لے لی گئی،اگرچہ ان کا مکمل داخلہ ۹ھ میں مذکورہ آیات کی بنیاد پر بند کیا گیا۔اور یہ تولیت اسی سنت اللہ کے نتیجے میں آپﷺ نے لی ،جس کا ذکر سابقہ صحف اور فرقانِ حمید میں بار بار ہوا تھااورپچھلے انبیاء کی تاریخ بھی اس پر شاہد تھی۔
3۔اس کے علاوہ اس عنوان کے تحت آنجناب نے ایک لمبی بحث کی ہے ،جس میں مشرکین و اہلِ کتاب کے مساجد اور مقاماتِ مقدسہ میں داخل ہونے کے جواز و عدمِ جواز کی بحث فقہاء کے مذاہب کی روشنی میں کی ہے۔کیا حقِ تولیت اور کسی مقام میں داخل ہونے کی اجازت کا مفہوم ایک ہے؟تعجب ہے کہ اس مقام پر آنجناب نے اس حوالے سے فقہاء کے مذاہب، انما المشرکون والی آیت کے عموم و خصوص میں مفسرین کے اختلافات تو تفصیل سے بیان کئیے ،لیکن مسجدِ اقصی کی تولیت کے اثبات و نفی پر کوئی ایک دلیل نہیں دی۔زیادہ سے زیادہ یہ بات ثابت کی ہے کہ حنفیہ کے ہاں مسجدِ اقصی میں اہلِ کتاب کے داخل نہ ہونے کے حوالے سے کوئی نص نہیں ہے۔کیا اس سے اہلِ کتاب کی تولیت ثابت ہوگئی؟نیز جس جزیئے سے آنجناب نے حقِ تولیت کو اہلِ کتاب کیلئے ثابت ہونے کے بارے میں استدلال کیا ہے ،اسے لطیفہ ہی کہا جاسکتا ہے۔آنجناب کا’’کمال ‘‘ہے کہ یہود کے لئے حقِ تولیت کے اثبات کے لئے تو فقط’’جزئیات ‘‘سے استدلال کریں ،لیکن مسلم امت کے لئے اسے ثابت کرنے کے لئے دو ٹوک اور واضح نص کا مطالبہ کریں۔وہ بھی ایسی جزئیات جو کسی اور سیاق میں بیان ہوئی ہیں اور شاید ان کے واضعین کے حاشیہ و خیال میں بھی یہ بات نہ ہو کہ کوئی ’’ذہین و فطین‘‘ان جزئیات سے یہود کے لئے مسجدِ اقصی کی تولیت ثابت کرے گااور مزید یہ کہ ان واضعین کا موقف بھی یہ ہو کہ مسجدِ اقصی کی تولیت امتِ مسلمہ کا حق ہے ،کیونکہ مسجدِ اقصی پر یہود کے حقِ تولیت کی بقا امتِ مسلمہ میں آنجناب کے علاوہ کسی کا مسلک نہیں ہے۔ جس جزئی پر آنجناب نے استدلال کی عمارت کھڑی کی ہے ،اس میں صرف اتنی بات بیان ہوئی ہے کہ اگر کوئی ذمی مسجدِ اقصی کے لئے کوئی چیز وقف کرے تو اس کا یہ وقف درست ہو گا یا نہیں؟تو فقہاء نے لکھا ہے کہ چونکہ اہلِ کتاب کے ہاں بھی مسجدِ اقصی محترم ہے اس لئے وقف کے بنیادی اصول کے مطابق ان کا یہ وقف درست سمجھا جائیگا۔اب قارئین بتائیں کہ اس سے ان کی تولیت کیسے ثابت ہوتی ہے؟آنجناب نے اس سے یہ ’’نتائج ‘‘اخذ کئے ہیں :
۱۔ اس جزئیے سے ثابت ہو اکہ فقہاء مسجدِ اقصی کو اہلِ کتاب اور مسلمانوں کی مشترکہ عبادت گاہ مانتے ہیں(تعجب ہے کہ فقہاء جب اس کو اہل کتاب کی بھی عبادت گاہ مانتے ہیں تو اس کے لئے فقہاء نے اس جزئیے کے علاوہ پوری فقہ اسلامی میں اور کوئی حکم بیان نہیں کیا ہے!کہ اہلِ کتاب کو اپنی اس عبادت گاہ میں وقف کے علاوہ اور کون کونسے اختیارات حاصل ہیں؟)
۲۔اشتراک سے ثابت ہو کہ ان کا حقِ تولیت بھی باقی ہے ،کیونکہ تولیت کو مانے بغیر اشتراک کا تصور نہیں ہو سکتا(تعجب ہے کہ ایک وقف کے دو متولی کیسے ھونگے؟خصوصاًجبکہ ان کی ملتیں بھی مختلف ہوں۔ہر متولی جب اس کو اپنے دین کے مطابق استعمال کرنا چاہے گا تو اس کا حشر کیا ہو گا ؟آنجناب بتائیں؟اور اگر اس سے صرف اہلِ کتاب کی تولیت ثابت ہوتی ہے، تو عجیب تضاد ہے کہ اہلِ کتاب کا وقف درست ہونا توانکی تولیت کی دلیل ہے اور مسلمان کا وقف درست ہونا اس کی تولیت کی دلیل بالکل نہیں ہے؟یا للعجب)
قارئین اس سے جناب عمار صاحب کے استدلال کی’’ مضبو طی‘‘ کا اندازہ لگائیں۔
4 ۔اس طرح کی ’’لاحاصل ‘‘بحث کے بعدآنجناب نے عنوان باندھا ہے ’’مسلمانوں کے حقِ تو لیت کے شرعی دلائل کا جائزہ‘‘اس عنوان کے بعد آنجناب نے یہ عبارت رقم کی ہے:
’’ہم اوپر تفصیل کے ساتھ واضح کر چکے ہیں کہ مسجدِ اقصی کی تولیت کے منسوخ ہونے کا کوئی اشارہ تک قرآن و سنت اور کلاسیکل فقہی لٹریچر میں نہیں ملتا‘‘۔
جناب عما ر صاحب کا ’’کمال ‘‘ہے کہ آپ ﷺ کو اللہ نے بیت المقدس میں تمام انبیاء کا امام بنا کر نماز پڑھوائی، آپ ﷺ کے لئے مخصوص مدت کے لئے قبلہ بنایا،آپﷺ نے مسجدِ اقصی کے لئے سفر کو باعثِ ثواب قرار دیا،اس میں ’’نماز‘‘پڑھنے کی ترغیب دی،مسجدِ اقصی کو ان بقعات میں شمار کیا جس میں دجال (یہود کا سربراہ)داخل نہیں ہو سکے گا(۲۲)(اور جناب عمار صاحب دجال کے متبعین کو یہ مقدس مقام دینے پر زور دے رہے ہیں)اور قربِ قیامت میں مومنین کے اس میں(یہود کے مرکزِ عبادت میں) محصورہونے کی پیشین گوئی فرمائی(۲۳)فقہاء نے اس میں (یہود کی عباد ت گاہ میں)اعتکاف کے احکامات بیان کئے(۲۴)مسجدِ اقصی اور حرمینِ شریفین میں افضلیت کی بحثیں کیں(۲۵)حضرت عمرؓ نے اس کو فتح کر کے اس میں نماز پڑھی حالانکہ آپ نے دیگر عبادتگاہوں میں ان کی درخواست کے باوجود نماز نہیں پڑھی ،وہاں مسجد بنوائی(۲۶)(یہود کے مرکزِ عبادت میں مسجد بنوانایاللعجب)اس فتح کے بعدصدیوں تک اس کی تولیت مسلمانوں کے پاس رہی،پھر جب عیسائیوں نے اس پر قبضہ کیا تو ’’یہود کے مرکزِ عبادت‘‘کے لئے امتِ مسلمہ نے جانیں دیں،اور یہود در پردہ عیسائیوں کی مدد کرتے رہے،ان سب کے باوجود آنجناب کا ’’دعوی ‘‘ہے کہ نصوص میں امتِ مسلمہ کی تولیت کا ’’اشارہ ‘‘تک نہیں ہے۔ہم آنجناب سے پوچھتے ہیں کہ ان تمام مواقع پر اللہ ،نبی پاک ﷺ ،اورامتِ مسلمہ کے علماء و فقہاء نے یہ ضرورت کیوں محسوس نہیں کی کہ کہیں ان سے امت اس عبادت گاہ پر ’’قبضہ ‘‘نہ کر لے اور ’’استحقاق کی نفسیات سے مغلوب‘‘نہ ہو جائے ،اس لئے ساتھ اس کی بھی وضاحت کردی جائے کہ یہود کا حقِ تولیت منسوخ نہیں ہو ا،اس لئے ان کو بنیاد بنا کر اس عبادت گا پر قابض نہ ہو جاؤ۔کیا آنجناب یہود کے حقِ تولیت کے باقی رہنے اور منسوخ نہ ہونے پر کوئی واضح دلیل دے سکتے ہیں؟آنجناب کے استدلال کا ’’عالم‘‘تو یہ ہے کہ حضرت عمرؓ کے مسجدِ اقصی میں نماز پڑھنے سے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ یہود کا حقِ تولیت باقی ہے اور استدلال اس بات سے کر رہے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے ایک خاص جگہ صخرہ سے ہٹ کر پر نماز پڑھی(حالانکہ اس کی اصل وجہ کتبِ تاریخ میں منقول ہے)مسجدِ اقصی کی اصل بنیادوں کو تلاش نہیں کیا،معلوم ہوا کہ یہود کا حقِ تولیت باقی ہے۔تعجب ہے کہ حضرت عمرؓ نے اس موقع پر مختلف ارشادات فرمائے،حضرت کعب احبار سے استفسارات کئے، لیکن یہود کے حقِ تولیت کے بارے میں ایک جملہ بھی ارشاد نہیں فرمایا اور ایک خاص جگہ پر نماز پڑھ کے امت پر چھوڑ دیا کہ خود ’’استنباط‘‘کرلو کہ یہود کا حق باقی ہے (اگرچہ حقِ تولیت کے لئے’’ صریح دلیل ‘‘کی ضرورت ہیے یا للعجب)
اپنے ’’دلائل‘‘ کا تو یہ عالم ہے لیکن واضح نصوص کو رد کر کے کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں کے پاس اشارہ تک نہیں۔کیا علمی دنیا میں ’’غیر جانبدارانہ تحقیق‘‘اسی کا نام ہے؟صاف واضح ہے کہ آنجناب یہودیوں کا ’’تاریخی و مذہبی حق ‘‘تسلیم کر کے اس کے لئے ’’مواد ‘‘اکٹھا کر رہے ہیں۔
آنجناب کے تعقبات و اعتراضات کا اجمالی جواب
آنجناب نے اپنے ’’زعم ‘‘کے مطابق مسجدِ اقصی کی تولیت کے ’’دلائل ‘‘پر اعتراضات وارد کئے کہ ان دلائل سے یہود کا حقِ تولیت کو منسوخ کرنا درست نہیں ہے،ان تمام تعقبات کی بنیاد دو باتوں پر ہے:
۱۔آنجناب نے جو خود ساختہ مقدمہ اپنے مضمون کی ابتدا میں ’’تراشا‘‘تھا کہ کسی مذہب کی عبادت گاہ کی تولیت لینے کے لئے کسی واضح نص کی ضرورت ہے،اس بنیاد پر آنجناب نے تقریباً تمام دلائل کو اجمالاًرد کردیا کہ ان میں سے کوئی بھی صریح نہیں ہے،۔ اس مقدمے کی حقیقت ہم ماقبل میں واضح کرچکے ہیں کہ اس کی جملہ شقیں آنجناب کی ’’ایجاد‘‘ ہیں۔نیز مسجدِ اقصیٰ پر یہ تعریف ہی صادق نہیں آتی کہ وہ محض کسی خاص مذہب کا’’ مرکزِعبادت‘‘ ہے ،بلکہ یہ تودنیا کے ان مقدس مقامات میں سے ہیں ،جن کی تولیت کے بارے میں تمام ادیان کے بارے میں یہ ضابطہ چلا آرہا ہے کہ وہ ہر زمانے کے اہلِ حق کو ملتے ہیں۔
۲۔آنجناب کے ان تمام اعتراضات میں ایک بنیادی ’’غلطی‘‘یہ ہے کہ آنجناب نے ان تمام واقعات اور نصوص کو یہود کے حقِ تولیت کی منسو خی کے ’’دلائل ‘‘قرار دیا اور انہیں باقاعدہ ’’دلائل ‘‘اور’’اعلانات‘‘ فرض کر کے ان پر اعتراضات کی ایک لمبی فہرست تیار کرلی ، حالانکہ یہ واقعات و نصوص سرے سے دلائل کے ’’زمرے ‘‘میں ہی نہیں آتے، بلکہ یہ تو امتِ مسلمہ کو اس مقدس مقام کی تولیت ملنے کے’’ مظاہر‘‘اس حق کے ’’نتائج‘‘اور اس کے ’’ثمرات‘‘ہیں ۔حقِ تولیت کی دلیل تودنیا کے ان چند مقدس مقامات کے بارے میں وہ ’’سنت اللہ ‘‘اور تمام ادیانِ سماویہ میں مسلم ’’اللہ تعالی کا وہ قانون ‘‘ ہے جس کی وضاحت ہم بار بار کر چکے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہماری پوری علمی تاریخ میں مسجدِ حرام اور مسجدِ اقصی کی تولیت کے بارے میں ’’دلائل ‘‘بیان کرنے کا یہ طرز نظر نہیں آتا۔کتبِ تفسیر، کتبِ حدیث ،اور کتبِ فقہ کے اس پورے ذخیرے میں ان مقاماتِ مقدسہ کے دلائل تو کجا یہ مسئلہ ہی بیان نہیں ہوا ،حالانکہ ان کتب میں ہر چھوٹے سے چھوٹا مسئلہ با لتفصیل بیان ہوا ہے ۔آنجناب نے چونکہ مسجدِ حرام کی تولیت کو بھی ’’صریح دلیل ‘‘کا نتیجہ قرار دیا ہے ،ہم آنجناب سے ایک سوال کرتے ہیں کہ وہ مسجدِ حرام کی تولیت کے ’’دلائل‘‘ اور اس ’’مسئلے‘‘ کی نشاندہی تفسیرِ ،حدیث و شروحِ حدیث اور فقہ اسلامی کے چاروں مکاتب کی کتبِ فقہ میں سے کسی ایک قدیم کتاب میں کردے ،تو ہم آنجناب کے ممنون ہو ں گے۔تعجب کی بات ہے کہ سورہ براۃ کی جن آیتوں کو آنجناب نے مسجدِ حرام کی تولیت کی ’’دلیل ‘‘بنایا اس کے تحت بھی مفسرین نے اس مسئلے کا ذکر نہیں کیا ہے۔
واقعہ اسراء اور سورہ بنی اسرائیل کی ابتدائی آیات
اسلامی تاریخ میں اسراء و معراج کا واقعہ مختلف وجوہات کی بنا پر ایک ممتاز واقعہ ہے،اس تاریخی واقعے کو اللہ تعالی نے سورہ بنی اسرائیل کی ابتدائی آیات میں بیان کیا۔یہ واقعہ بے شمار حکم و مصالح اور اسرار و رموز پر مشتمل ہے ۔یہ یادگار معجزہ اور اس کو بیان کرنے کے لئے مذکورہ سورت کی ابتدائی آیات درجہ ذیل وجوہ سے اس بات کا سب سے بڑا مظہر ہے کہ حرمین کے بعد دنیا کے مقدس ترین مقام مسجدِ اقصی کی تولیت ؔ خیر الامم کے پاس ہے۔پہلے ان کا ذکر کرتے ہیں ،پھر آنجناب کے ’’اعتراضات ‘‘پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
۱۔اس واقعے میں آپ ﷺ کو مسجدِ اقصی کا سفر کرانااور وہاں انبیاء کی امامت کا تاج آپﷺ کے سر پر رکھنا اس بات کامظہر ہے کہ اس گھر میں جہاں یہ نبی امام ہے ،وہاں ان کو ماننے والی امت بھی باقی ملتوں کی امام اور اس مقدس گھر کی تولیت کی ذمہ دار ہے ۔
۲۔مسجدِ اقصی کو اللہ تعا لی اپنی خاص نشانیوں میں شمار کیا ،اس سے اس مقام کی اہمیت، فضیلت،تقدس اور آفاقیت خود بخود آشکارا ہوتی ہے اس سے آنجناب کے اس ’’مفروضے ‘‘کی تردید ہو تی ہے کہ مسجدِ اقصی کی حیثیت صرف ایک مذہب کے مرکزِ عبادت کی ہے۔ جب یہ ایک آفاقی مقدس مقام ہے تو اس کی تولیت ’’سنت اللہ‘‘کے مطابق ہر زمانے کے اہلِ حق کو ملے گی۔
۳۔اس وا قعے کے ذکر کے بعد اللہ تعا لی نے اس مقدس مقام سے یہود کی اپنے معاصی اور سرکشی کی بدولت دو بار جلا وطنی کا ذکر کیا ،جس سے ان مقدس مقامات کے بارے میں اللہ نے اپنے اس خاص سنت کی طرف اشارہ کیا اور اس موقع پرمفسرین کے نزدیک اپنے خاص سنت کو ذکر کرنے کے دوبڑے مقصد ہیں:
۱۔ مشرکینِ مکہ کو تنبیہ کرنی مقصود ہے کہ مسجدِ حرام بھی اللہ کے انہی مقدس مقامات میں سے ہے ،اس لئے اگر تم اپنے کفر و شرک سے باز نہ آئے ،تو تم اللہ کی اٹل سنت کے مطابق اس گھر کی تولیت اور خدمت سے محروم کر دیے جاؤ گے۔
۲۔مسلمانوں کو بھی تنبیہ ہے کہ اگر تم نے اللہ کی نافرمانی اختیار کر لی تو تم کو بھی اللہ مسجدِ اقصی کی تولیت سے بطورِ سزا اسی طرح محروم کر دے گا ،جیسا کہ یہود کو اپنی نافرمانی کے نتیجے میں اللہ نے محروم کردیا۔(۲۸)
۴۔اس کے بعد اللہ تعا لی نے اپنے اس ضابطے کو’’صراحۃً‘‘ بیان کیا چنانچہ ان واقعات کے ذکر کے بعد فرمایا:
عَسَی رَبُّکُمْ أَن یَرْحَمَکُمْ وَإِنْ عُدتُّمْ عُدْنَا (الاسراء۱۷:۸)
’’عین ممکن ہے کہ (اب ) تمہارا رب تم پر رحم کرے ،لیکن اگر تم پھر وہی کام کرو گے تو ہم پھر وہی کام کریں گے۔‘‘
ّاس آیت کی تفسیر مفسرین نے یہ کی ہے کہ اس میں اللہ کی ’’رحمت ‘‘سے مراد آپﷺ کی بعثت ہے اور ان عدتم سے مراد پچھلے انبیاء کی طرح آپﷺ کی تکذیب اور آپﷺ کو اسی طرح ستانا ہے جیسا کہ اس مغضوبِ علیہم قوم نے اس سے پہلے حضرتِ موسی علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام کو ستایا تھا۔اور عدنا سے مراد تیسری مرتبہ اس گھر کی تولیت اور اس ارض مقدسہ سے اخراج ہے۔گویا خلاصہ یہ نکلا کہ اللہ فرماتے ہیں کہ دو بار جلا وطنی کے بعد اللہ تمہیں ایک موقع اور دیں گے اور آپﷺ کو مبعوث کریں گے ،پھر اگر تم نے اسی خاتم الانبیاء کو اسی طرح ستا یااور ان کی تکذیب کی جیسا کہ اس سے پہلے تم دو جلیل القدر پیغمبروں کے ساتھ کرچکے ہو تو ہم اپنے اصول کے مطابق تمہیں دو بارہ اس گھر کی تولیت سے محروم کر دیں گے۔
امام رازی ؒ ان آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
ای فعلِ ما لا ینبغی وھو التکذیب لمحمد ﷺو کتمانِ ما ورد فی التوراۃ فعاد اللہ علیہم التعذیب علی ایدی العرب(۲۹)
امام طبری ؒ نے حضرت ابن عباسؓ سے اس کی تفسیر یوں نقل کی ہے:
فعادوا فسلط اللہ علیہم المومنین(۳۰)
مفسر ابن ابی حاتم ؒ نے امام ضحاک سے اس کی تفسیر یوں نقل کی ہے:
کانت الرحمۃ التی وعدہم بعث محمدﷺ(۳۱)
اس آیت کی یہی تفسیر حافظ ابنِ کثیر ؒ نے تفسیر ابنِ کثیر میں (۳۲)علامہ آلوسی ؒ نے روح المعانی میں (۳۳)امام قرطبی ؒ نے تفسیرقرطبی میں (۳۴)امام بغوی نے معالم التنزیل میں (۳۵)امام اہل سنت امام ماتریدی ؒ نے تاویلات اہل السنۃ میں (۳۶) اور دیگر تقریبا تمام متقدمین و متاخرین نے بیان کی ہے۔
آنجناب نے اس آیت کا مطلب یہ بیان کیا ہے اللہ تعالی یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ ’’یہودی رہتے ہوئے‘‘تم کو یہ گھر دو بارہ اللہ کی رحمت سے مل سکتا ہے ،آنجناب کی یہ تفسیر ’تحریف ‘‘کہلانے کی زیادہ مستحق ہے۔ آنجناب سے گزارش ہے کہ اس کی تائید خلف و سلف میں سے کسی ایک مفسر سے دکھا دیں ۔نیز آیت کی یہ تفسیر کرنے سے تو خود اس کاا وپر والی آیت کے ساتھ کھلا تعارض لازم آتا ہے کہ عام ’’معاصی ‘‘پر تو اللہ نے انہیں اس گھر کی تولیت سے محروم کر دیا ،لیکن اللہ کے آخری پیغمبر کی تکذیب کے باجود وہ اللہ کی رحمت کے مستحق ہیں اور انہیں یہ گھر مل سکتا ہے۔اپنے ذہنی ’’مقدمات ‘‘سے کتاب اللہ کی من مانی تفسیر کے نتیجے میں اس طرح کے ’’تضادات‘‘اور ’’عجائبات‘‘اچھنبے کی بات نہیں ہے۔صرف جنا ب عمار صاحب ہی نہیں بلکہ تمام متجددین،اپنی عقل کی بنیاد پر شریعت کے متفقہ مسائل پر از سرِ نو ’’تحقیق‘‘ کرنے والے اور سلف کے فہمِ دین کی تغلیط کرنے والوں کی تحریرات ’’ایسی شاہکار ‘‘ہوتی ہیں ۔
آنجناب کے ’’اعتراضات‘‘
آنجناب کے خود ساختہ مقدمہ کے اعتبار سے حقِ تولیت کی منسوخی کے لئے چونکہ ’’صریح دلیل‘‘کی ضرورت ہے اور یہ چونکہ صریح نہیں ہے ،اس لئے آنجناب نے اس کو رد کر دیا ۔دوسراآنجناب نے کہا ہے کہ اس واقعے سے امتِ مسلمہ کی تولیت کی حکمت سلف میں کسی نے بیان نہیں کی ،تو اس کا جواب یہ ہے کہ اولا شرعی احکام کی حکمتوں کے بیان کے لئے سلف کی پابندی کی قطعاً ضرورت نہیں ہے ،بشرطیکہ وہ دوسرے نصوص کے معارض نہ ہو اور یہ حکمت چونکہ معارض نہیں ہے ،اس لئے کوئی مضائقہ نہیں ہے،ثانیاًمسجدِ اقصی کی تولیت کی بحث چونکہ آج کی ’’پیداوار‘‘ہے ،اس لئے زمانہ حال کے اکابر نے شرعی نصوص کے اس پہلو کو بھی اجا گر کیا،اس کی مثال یہ ہے کہ آج کے علماء قرآن کی بہت ساری آیتوں کو ختمِ نبوت کی دلیل بناتے ہیں،حالانکہ سلف میں کسی نے ان کو اس مسئلے کے لئے دلیل کے طور پر ذکر نہیں کیا ،اس کی وجہ یہی تھی کہ چونکہ یہ مسئلہ یوں اٹھا نہیں تھا، اس لئے ان آیتوں کے اس پہلو کی طرف کسی کاذہن نہیں گیا۔اس کے علاوہ چونکہ آنجناب کے نزدیک یہ حقِ تولیت کی منسوخی کی ’’باقاعدہ دلیل‘‘ہے اس لئے آنجناب نے یہ نکات اٹھائے:
۱۔مسجدِ حرام کی تولیت سے پہلے اس کی تولیت کیوں منسوخ کی حالانکہ وہ بہرحال اس سے افضل اور اہم ہے ۔(حالا نکہ ہم وضاحت کر چکے ہیں کہ یہ تولیت کی منسوخی کے’’ اعلانات ‘ نہیں ہیں ،بلکہ تولیت کی منسوخی تو ’’سنت اللہ ‘‘کے نتیجے میں ہوگئی،یہ تو فقط اس کے مظاہر ہیں)
۲۔مسجدِ حرام کی تولیت کو ’’۹ھ‘‘میں ’’صراحۃ‘‘ بیان کیا اس کو اشارۃ کیوں بیان کیا۔(اس پر ہم تفصیل سے بحث کر چکے ہیں )
۳۔اگر اسراء کے موقع پر ہی اس کی تولیت منسوخ ھوگئی تو تحویلِ قبلہ کے مقاصد میں سے بڑا مقصد تالیفِ یہود کیونکر حاصل ہو سکتا ہے جبکہ ان کو اس پر تولیت کاحق ہی نہیں ہے۔(اس پر بحث آگے کرتے ہیں )
تحویلِ قبلہ کا واقعہ
مسجدِ اقصی پر امتِ مسلمہ کی تولیت کے مظاہر میں سے دوسرا بڑا مظہر تحویلِ قبلہ کا واقعہ ہے ۔نبی پاک ﷺ کی جو صفات پچھلی کتابوں میں بیان ہوئی تھیں ،ان میں ایک صفت ’’نبی القبلتین‘‘کا بھی ذکر تھا۔چنانچہ اس پیشین گوئی کو پورا کرنے کے لئے اللہ تعا لی نے سولہ سترہ مہینے امتِ مسلمہ کا قبلہ بیت المقدس کو بنایا(۳۷)اور خاص طور پر یہ حکم مدینہ منورہ میں اس لئے آیا تاکہ یہود کی تالیف قلب کا مقصد بھی حاصل ہو اور انہیں اسلام کے قریب لایا جائے۔تحویلِ قبلہ سے ان کے اسلام کے قریب آنے کی دو وجہیں تھیں:
۱۔چونکہ ان کی کتابوں میں آپﷺ کی ایک صفت نبی القبلتین کا بیان ہوا تھا ،اس لئے جب آپﷺ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑہیں گے، تو انہیں اپنی صحف کی پیش گوئی سچی نظر آئیگی اور یوں یہود آپﷺ کو وہ نبی ماننے پر آمادہ ہو سکتے تھے ،جن کی خوشخبری ان کی الہامی کتب میں بار بار بیان ہوئی تھی۔
۲۔عمومی طور پر یہود کا گمان تھا کہ ’’نبی مبشر‘‘ان میں سے ہوگا ،لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ یہ نبی تو بنی اسماعیل میں سے آیا تو انہیں مختلف وجوہ کی بنا پر آپﷺ کو ماننے میں تامل ہوا اور وہ آپﷺ کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے،تو اس موقع پر تحویلِ قبلہ کا حکم آیا تا کہ انہیں اس بات کا اندازہ ہو کہ یہ پیغمبر اگرچہ بنی اسماعیل میں سے ہے ،لیکن پچھلے انبیاء کے تبرکات اور مقدس مقامات کا احترام بھی ان کے مشن کا مقصد ہے۔گویا یہ نبی ایک اعتبار سے سابقہ انبیاء کے مشن کی تکمیل ہی کے لئے آیا ہے۔اس طرح سے ان کاوہ بغض کافی حد تک کم ہو سکتا تھا،جس کا وہ ہر موقع پر اظہار کرتے تھے اور وہ مشرکین کی بجائے مسلمانوں کے قریب ہو سکتے تھے اور یہی اس حکم کے مقاصد میں سے ایک مقصد تھا۔اب اس حکم کی مختلف حیثیتیں ہو گئیں۔
۱۔آپﷺ کو نبی القبلتین کا تاج پہناناکہ دنیا کے دو مقدس گھر جو پہلے انبیاء میں تقسیم ہوئے تھے ،اب یہ آخری نبیﷺان دونوں گھروں کے وارث اور والی ہیں۔اور ظاہر یہ ایک ایسی خصوصیت ہے ،جو گزشتہ تمام انبیاء میں سے کسی کو نہیں ملی تھی۔ا ور اس کے ضمن میں اس امت کی فضیلت اور اس کا خیر الامم ہونا بالکل واضح ہے۔کہ دنیا کے دو مقدس گھر اس امت کیلئے اللہ نے قبلہ بنا یااور انہیں ان دونوں کا ذمہ دار بنایا، حالانکہ اس سے پہلے یہ خصوصیت کسی امت کو نہیں ملی تھی۔چنانچہ اس واقعے کے نتیجے میں اس امت کا خیر الامم کے منصب پر فائز ہونا اللہ تعالی نے ’’صراحۃً‘‘بیان کیا:
وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَسَطاً لِّتَکُونُواْ شُہَدَاءَ عَلَی النَّاسِ (البقرہ ۲:۱۴۳)
اور اسی طرح ہم نے تم کو ایک معتدل امت بنایا
وسطاً کاایک مطلب مفسرین نے جہاں معتدل اور افراط وتفریط سے پاک بیان کیا ہے ،وہاں اس کا مطلب ’’خیر‘‘یعنی بہترین بھی اس کا مطلب بیان کیا ہے ،امام رازی و علامہ زمخشری ؒ نے اس دوسرے مطلب کو مختلف وجوہ کی بنا پر راجح قرار دیا ،کیونکہ خیر کے اندر اعتدال والا معنی خود بخود آگیا۔(۳۸)
۲۔اس واقعے سے یہود کو اسلام کے قریب کرنا تھا ،مذکورہ واقعے سے تالیفِ یہود کا مقصد کیونکر حاصل ہو ا ،اس کو ہم پیچھے ذ کر کر چکے ہیں ۔
۳۔کمزور ایمان والے مسلمانوں اور منافقین کا امتحان لینا مقصد تھا کہ وہ پختہ مسلمانوں کی طرح اس حکم کی اتباع کرتے ہیں یا وہ اس پر گوناگوں اعتراضات و شبہات کرتے ہیں ،کیونکہ یہ واقعہ اسلام میں نسخ کے ابتدائی واقعات میں سے ہے۔الا لنعلم من یتبع الرسول سے اس حکمت کی طرف بھی اشارہ ہے۔
آنجناب کے ’’اعتراضات‘‘
۱۔ آنجناب نے اس پر ایک تو وہی ’’صراحت ‘‘والا ’’پرانا ‘‘اعتراض کیا ، لیکن ظاہر ہے کہ جب اس واقعے کے نتیجے میں اللہ تعا لی نے اس امت کو خیر امت کا لقب دیا،تو اس حکمت کی طرف ایک اعتبار سے ’’صریح‘‘اشارہ ہوگیا ۔ذوق والوں پر اس کی’’ صراحت‘‘ مخفی نہیں ہے۔
۲۔آنجناب نے ایک ’’عجیب ‘‘اعتراض یہ بھی کیا ہے کہ اگر اس واقعے سے مسجدِ اقصی کی تولیت امتِ مسلمہ کے پاس آگئی تو ان کی تالیف کا مقصد کیونکر حاصل ہوگا،کیونکہ اس سے تو آنجناب کے بقول انہیں اشتعال میں آنا چاہئے ،کہ ان کا قبلہ ان سے چھین لیا گیا۔گویا آنجناب کے نزدیک اس واقعے سے تولیت کی منسوخی اور یہود کی تالیفِ قلب دونوں اخذ کرنا ایک قسم کا تعارض ہے۔لیکن آنجناب کو یہ تضاد دو وجہ سے پیش آرہا ہے:
۱۔آنجناب تحویلِ قبلہ کے اس واقعے کو تولیت کا ’’باقاعدہ اعلان‘‘بنا رہے ہیں ،حالانکہ ہم کئی با ر کہہ چکے ہیں کہ یہ باقاعدہ اعلانات اور دلائل نہیں ہیں ،بلکہ یہ تو حقِ تولیت کے مظاہر ہیں ۔حقِ تولیت کی اصل دلیل تو اللہ کا وہ ضابطہ اور خاص ’’سنت‘‘ہے،جو ان مقاماتِ مقدسہ کے بارے میں تمام ادیانِ سماویہ میں مسلم ہے ۔نیز یہ سنت ’’قولی اعلانات‘‘ کی بجائے عام طور پر ’’فعلی ‘‘شکل میں ظاہر ہوتی ہے ،(اگرچہ کتبِ سماویہ میں اس ضابطے کا اعلان بھی مختلف مواقع پر کیا گیا،جیسے ہم ماقبل میں تورات اور قرآن پاک کے حوالے سے دونوں مقدس مقامات کے بارے میں اس سنت کا ذکر کر چکے ہیں )یعنی کہ ان مقدس مقامات پر اللہ تعا لی اہلِ حق کو غلبہ دے دیتے ہیں ۔چنانچہ مسجدِ حرام پر اللہ تعالی نے اس امت کو فتحِ مکہ کی شکل میں تولیت عطا کی ،حا لانکہ آنجناب کا ’’مفروضہ اعلان ‘‘توایک سال بعد ۹ھ میں کیا گیا۔جبکہ مسجدِ اقصی پر تولیت کی آپﷺ نے باقاعدہ خوشخبری دی اور یہ خوشخبری حضرتِ عمرؓ کے ہاتھوں پوری ہوئی اور ان کے دور میں اس مقدس مقام کی تولیت بھی اس امت کے پاس آگئی۔
۲۔آنجناب نے یہاں اس حکم کی مختلف گروہوں کے اعتبار سے مختلف حیثیتوں کے ’’خلط ‘‘کر دیا ،اس لئے آنجناب کو تضاد نظر آیا۔گویا حیثیت کی قید کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے آنجناب کو تعارض نظر آیا۔اس حکم کی حیثیت یہودیوں کے اعتبار سے تالیفِ قلب تھی ،منافقین اور کمزور ایمان والوں کے اعتبار سے ابتلاء و آزمائش کی تھی اور پختہ اور حقیقی ایمان کے حامل آپﷺ کے سچے متبعین کے اعتبار سے انہیں اس مقدس گھر کا ذمہ دار بنا کر انہیں خیر امت کے منصب پر فائز کرنا تھا (اگرچہ اس کا ظہور کئی سال بعد حضرتِ عمر کے دور میں ہوا)اس کی مثال بالکل یوں ہے کہ قرآن پاک کی حیثیت مومنین کے اعتبار سے ذریعہ رحمت ہے اور کفار کے اعتبار سے ذریعہ ضلالت ہے ، جیسا کہ خودقرآن پاک نے اپنی یہ مختلف حیثیات بیان کی ہیں (۳۹)تو آنجناب اس ’’تعارض ‘‘ کے بارے میں کیا کہیں گے ۔یہی وجہ ہے کہ یہ تضاد چودہ سو سالہ تاریخ میں صرف آنجناب کو نظر آیا ،سلف سے اعراض کر کے ،صرف عقل اور محض عقل کو بنیاد بنا کر شرعی نصوص کی تفسیر کرنے سے ایسے تضادات پیش آجایا کرتے ہیں ۔
۳۔آنجناب نے یہود کے حقِ تولیت کے باقی رہنے میں اس سے بھی ’’استدلال‘‘کیا ہے کہ اللہ تعالی نے خود قرآن پاک میں ’’قبلتہم‘‘ کا لفظ کہہ کر گویا یہود کے اس مقدس مقام پر تولیت کی ’’توثیق ‘‘کر دی کیونکہ آنجناب کے بقول تنسیخِ تولیت کے مبحث میں یہ نسبت موزوں معلوم نہیں ہوتی ۔اس’’شاہکار استنباط ‘‘پر ہم صرف اتنا کہتے ہیں کہ آنجناب صرف اس سوال کا جواب دیں کہ اگر مسجدِ اقصی کو یہود کا صرف قبلہ ’’کہنا‘‘(وہ بھی ان کے زعم کے مطابق) ان کے حقِ تولیت کے باقی رہنے کی ’’دلیل ‘‘ہے، تو مسلمانوں کے لئے تو اللہ تعا لی نے اس مقام کو باقا عدہ شرعی حکم کے تحت قبلہ ڈیڑھ سال تک ’’بنایا‘‘کیایہ مسلمانوں کے حقِ تولیت کے لئے موئید نہیں ہے؟تعجب ہے کہ ایک فریق کے لئے صرف قبلہ ’’کہنے ‘‘سے تو حقِ تولیت ثابت ہوتی ہو اور دوسرے فریق کے لئے اسے باقا عدہ قبلہ ’’بنانے ‘‘سے ان کے حقِ تولیت کا اشارہ تک نہ بنتا ہو۔چنانچہ آنجناب لکھتے ہیں:
’’ہم فی الواقع نہیں سمجھ سکے کہ اس پسِ منظر کے ساتھ مسجدِ اقصی کو عارضی طور پر مسلمانوں کا قبلہ مقررکرنے کے اس حکم کودلالت کی کونسی قسم کے تحت مستقل تولیت کا پروانہ قرار دیا جاسکتا ہے‘‘
ہم بھی ’’بجوابِ آن غزل ‘‘کہتے ہیں :
’’ہم فی الواقع نہیں سمجھ سکے کہ اس پسِ منظر کے ساتھ مسجدِ اقصی کو صرف یہود کا قبلہ کہنے سے دلالت کی کونسی قسم کے تحت اس مغضوبِ علیہم قوم کو اللہ کا یہ مقدس و مطہر گھر مستقل طور پر دینے کا پروانہ قرار دیا جا سکتا ہے‘‘
حواشی:
۱۔ملاحظہ ہو آنجناب کا مضمون :مسجدِ اقصی کی بحث اور حافظ محمد زبیر کے اعتراضات(ماہنامہ الشریعہ مارچ ۲۰۰۷)
۲۔بخاری شریف ،۴؍۱۴۶رقم الحدیث ۳۳۶۶ ۔مراد وہ حدیث ہے ،جس میں دونوں مسجدوں کی تعمیر کے درمیان چالیس سال کا عرصہ بیان ہوا ہے۔
۳۔سنن نسائی ،باب فضل المسجد الاقصی رقم الحدیث ۶۹۲ ۔ اس حدیث کی طرف اشارہ ہے ،جس میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی تعمیرِِ بیت المقدس کا ذکر ہے۔
۴۔الکامل فی التاریخ ۱؍۱۷۳
۵۔فتح الباری ،۳؍۶۵
۶۔بخاری شریف ،۲؍۶۰ رقم الحدیث ۱۱۸۹
۷۔بخاری ،رقم الحدیث ۳۳۶۶
۸۔سنن ابن ماجہ،الصلاۃ فی المسجد الجامع رقم الحدیث ۱۴۱۳
۹۔بدائع الصنائع ،باب الا عتکاف ؍۱۱۳ ، باب مکان الاحرام ۲؍۱۶۴
۱۰۔فتح الباری ۳؍۶۵
۱۱۔ملاحظہ ہو ،معجم ما الف فی فضائل و تاریخ المسجد الا قصی
۱۲۔براہین ص۲۴۰
۱۳۔روح المعانی ،۶؍۱۰۶
۱۴۔تفسیر القرطبی ،۷؍۳۹۷
۱۵۔زاد المعاد ،۳؍۴۹۴
۱۶۔الا صابہ ،۴؍۲۲۰
۱۷۔روح المعانی ،۱۰؍۷۶
۱۸۔تفسیر القرطبی ،۱۰ ؍۱۵۴
۱۹۔روح المعانی ،۱۰؍۶۴
۲۰۔تفسیر طبری ،۱۴؍۱۶۸
۲۱۔ابن کثیر ،۷؍۱۷۳
۲۲۔مسند احمد ۳۳؍۳۴۹
۲۳۔ایضاً
۲۴۔بدائع ،۲؍۱۶۴
۲۵۔فتح الباری۳؍۶۵
۲۶۔البدایہ و النہایہ ،۹؍۶۵۵
۲۸۔معارف القران ،۵؍۴۵۱
۲۹۔تفسیرِ کبیر ،۲۰؍۱۶۱
۳۰۔تفسیر طبری ،۱۴؍۵۰۶
۳۱۔تفسیرِ ابنِ ابی حاتم ،۴؍۲۲۱
۳۲۔تفسیر ابن کثیر ،۸؍۴۴۰
۳۳۔روح المعانی ،۱۵؍۲۱
۳۴۔تفسیر قرطبی ،۱۳؍۲۳
۳۵۔معالم التنزیل ،۵؍۸۰
۳۶۔تاویلات اہلِ السنہ ،۷؍۸
۳۷۔روح المعانی ،۲؍ ۱۰
۳۸۔تفسیرِ کبیر،۴؍ ۱۰۸
۳۹۔البقرہ آیت ۲۶
جو آئے آئے کہ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں
محمد رشید
اپریل 2014ء کے الشریعہ میں شائع ہونے والے راقم کے مضمون’’جمہوری و مزاحمتی جدوجہد۔۔۔ایک تجزیاتی مطالعہ‘‘ کی تردید میں جون 2014ء کے الشریعہ میں ڈاکٹر عبدالباری عتیقی صاحب کامضمون شائع ہوا ہے۔9صفحات پرمشتمل مضمون کے پہلے دو صفحات میں راقم کے متذکرہ مضمون پر ’’فردجرم‘‘ کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
۱۔محمد رشیدکے مضمون میں جہادی وانقلابی لوگوں کا نقطہ نظربیان کیاگیاہے۔
۲۔یہ نقطہ نظر اول تا آخرغلط ہے۔
۳۔پوری تحریر قرآن وحدیث کے دلائل سے عار ی ہے۔
۴۔پوری تحریر محض جذبات کی شاعری کا اظہار ہے۔
۵۔یہ تحریر ردعمل کی نفسیا ت اورنام نہاد غیرت پر مبنی ہے۔
۶۔یہ دور حاضرکی وہ انقلابی فکر ہے جس میں تباہ کن تشدداوردہشت گردی کومزاحمت اور جہادکا نام دے دیا جاتا ہے۔
۷۔انسانیت کی تاریخ میں جنگ و قتال ایک اضطراری اورہنگامی حالت رہی ہے اور امن ایک مستقل چیز۔محمد رشیدنے جوش جذبات میںیہ ترتیب الٹ دی ہے۔ان کے نزدیک اب جنگ وقتال اور مسلح جدوجہد عین فطری اور مستقل حالت قرار پائی ہے جبکہ پرامن دوراورپرامن جدوجہد اضطراری اور وقتی ٹول قرار پایا ہے۔
ڈاکٹرعتیقی نے اپنے مضمون کے تین صفحات تصور جہادکی’’ مرمت‘‘ اور چار صفحات جمہوریت کی تعریف و دفاع اور خلافت سے لاتعلقی کے اظہارپرسیاہ فرمائے ہیں۔جن لوگوں کی فکری ابتری کا یہ حال ہو کہ قرآن واسلام کے سیاسی اصولوں کی تمام خوبیاں انہیں انگریزکے عطاکردہ ’’جمہوریت‘‘ کے سیاسی نظام میں توبدرجہ کمال نظر آرہی ہوں،لیکن یہی خوبیاں انہیں نبی اکرم ﷺکے عطاکردہ’’خلافت‘‘ کے سیاسی نظام میں نظر نہیں آتیں۔ جمہوریت کے مقابلہ میں خلافت کے سیاسی نظام سے بے تعلقی کااظہاریہ ذہنیت ان الفاظ میں کرتی ہے کہ ’’یہاں یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ ایسا نہیں ہے کہ اسلام نے ’’خلافت‘‘ کے نام سے کوئی مخصوص سیاسی نظام قائم کیا ہے‘‘۔ بھلا جوذہنیت نبی اکرم ﷺ کے عطا کردہ اور منہاج نبوت پر قائم ہونے والے خلفائے راشدین کے خلافت کے سیاسی نظام کو یک قلم اسلام سے نکال باہر کرتی ہو،اس ذہنیت کے لیے راقم ایسے نہایت کمتراور حقیر طالب علم پر وہ الزامات لگانا کیسے مشکل ہوسکتاہے جن کا ذکر اوپر کی سطور میں ہوا ہے۔
مضمون نگار کی معقولیت اور دیانت کا اندازہ اس نکتہ سے بخوبی لگایاجاسکتا ہے کہ راقم نے اپنے مضمون میں علمبرداران جمہوریت پرانتہائی سنگین نوعیت کی جوفردجرم تحریرکی، جناب عتیقی کا مضمون ان انتہائی سنگین جرائم/الزامات کے جواب میں بالکل خاموش ہے۔لیکن جمہوریت پر وارد ہونے والے چند ایسے اعتراضات و نقائص، جن کا ہمارے مضمون میں قطعاً کوئی ذکرتک نہیں، کی زوردار تردیدلکھ مارتے ہیں۔اس زوردار تردیدوتنقید اور جمہوریت کے فرضی دفاع پر چار صفحات سیاہ کردیے جاتے ہیں۔
فرض کریں کہ ایک ’’ملزم‘‘ کے خلاف سنگین دفعات کے تحت کوئی مقدمہ عدالت میں زیرکاروائی ہے۔اس ’’ملزم‘‘کامخالف وکیل دہشت گردی،قتل،اغوااور ڈکیتی وغیرہ کے سنگین جرائم ثابت کرنے کے لیے عدالت میں اس کے خلاف دلائل دیتا ہے تو اس ’’ملزم‘‘کا وکیل ان سنگین جرائم کے جواب اوردفاع میں ایک لفظ بھی عدالت میں نہیں کہتا بلکہ اپنے موکل/ ’’ملزم‘‘کے خلاف سائیکل چوری،کم تولنے، ٹریفک کا اشارہ توڑنے وغیرہ الزامات (جن کا مقدمہ میں کوئی ذکرہی نہیں)کا نہایت مدلل، زورداراور دندان شکن جواب /دفاع عدالت میں پیش کرتا ہے۔اب ایسے وکیل کی دیانت اور معقولیت پرجتنااعتبارکیاجاسکتاہے،اپنی زیر بحث تحریر کے ذریعہ ڈاکٹر عتیقی کا رویہ اتنا ہی معتبر اور معقول ثابت ہوتا ہے۔کیا یہ بات حیران کن نہیں کہ ڈاکٹر عتیقی نے راقم کے مضمون کا جواب دینے کے لیے ’’جمہوریت ‘‘پر جن اعتراضات کا جواب عنایت فرمایا، ان اعتراضات کا راقم کے زیربحث مضمون میں ذکر تک نہ ہے۔
ڈاکٹر عتیقی علمبرداران جمہوریت پر راقم کے الزامات کے دفاع میں جس ’’معقولیت اور دیانت ‘‘کامظاہرہ کرتے ہیں، بالکل اسی ’’معقولیت اور دیانت ‘‘کا اظہار آنجناب کے ان دیگر الزامات میں ہمیں نظر آتا ہے ،جو انہوں نے راقم کے زیربحث مضمون پر عائد فرمائے ہیں۔
ایک تجزیہ کار/تنقید نگارکی علمی دیانت اس چیزکاتقاضا کرتی ہے کہ فریق مخالف پر جو جوالزامات لگائے جارہے ہیں،ان الزامات/مفروضات کو وہ فریق مخالف کی تحریرکے حوالہ جات سے ثابت کرے اور پھرعلمی دلائل سے ان کا تجزیہ ومحاکمہ کرے۔لیکن ڈاکٹرعتیقی صاحب کا مضمون اپنے الزامات/دعووں اورمفروضات کوثابت کرنے میں اس معقول اور صائب روش سے عاری نظرآتا ہے۔موصوف نے اپنی تحریر میں جابجامغالطہ آمیزیاں پیدا فرمائی ہیں اور پھر اپنی ان خود تراشیدہ مغالطہ آمیزیوں کی تردید میں زوراستدلال کا استعمال فرمایا ہے۔
آنجناب کی دیانت کا حال یہ ہے کہ وہ راقم کے نقطہ نظرکو پورے زوروشور سے غلط قرار دے رہے ہیں ،اسے نرا جذباتی اور قرآن وسنت کامخالف قرار دے رہے ہیں مگر مجال ہے اپنے 9صفحاتی مضمون کے کسی ایک پیرے ہی میں وہ راقم کے نقطہ نظرکا نچوڑاور خلاصہ بیان کردیں۔تاہم انہوں نے راقم کے مضمون کے بعض نامکمل اقتباسات سے اپنی مرضی کا مکمل مفہوم اخذکیااور پھر اس کی تردید میں صفحے سیاہ کرنے میں نہایت مہارت کا مظاہرہ فرمایا۔ذیل میں ہم اپنے 9صفحاتی مضمون (جمہوری ومزاحمتی جدوجہد۔۔۔ایک تجزیاتی مطالعہ)میں بیان کیے گئے نقطہ نظر کا خلاصہ بیان کررہے ہیں:
۱۔ظالم، بے انصاف، بے رحم ، بے حس ،غریب کُش اور کمزوروں کا استحصال کرنے والے معاشروں میں مسلح بغاوت یا مزاحمت ظلم،جبر،بے رحمی اور بے انصافی کی لعنتوں کا ردعمل ہے۔جوطاقت و قوت کے زعم اور تکبر میں مبتلا ایوانوں کے ردعمل میں جنم لیتا ہے ۔
۲۔ہم نہ ہی سیاسی حکومت کا قیام بذریعہ انتخاب(Election) کو حرام سمجھتے ہیں اور نہ ہی مسلمانوں کے دینی و دنیاوی استحصال پر احتجاج کو ناجائز قرار دیتے ہیں۔ہمارا اصل دکھ تو یہ ہے کہ ان ٹولز کو ضرورت اور کام چلانے کے ٹولز کے عام مقام پر رکھنے کی بجائے ہمارے قائدین اور دینی زعماء انہیں انسانیت کی یافت اور مسائل کا واحد حل بناکر پیش کررہے ہیں۔
۳۔آج ساری دنیا کے شیاطین اور مقتدرطبقات (ابلیس کی نمائندہ عالمی طاقتوں )نے دنیا بھرمیں جمہوریت کو اپنی محبوب ترین لونڈی بنایا ہوا ہے۔یہ عالمی طاقتیں اپنی اس لونڈی کے ذریعے اسلام کی بدترین مخالفت کررہی ہیں، اسلام،اہل اسلام، مشاہیر اسلام کا مذاق اڑا رہی ہیں اورمسلمانوں کے محبوب ترین شعائر یعنی رسول رحمتﷺ اور قرآن حکیم کی بدترین توہین کی مرتکب ہورہی ہیں۔ابلیس،اس کی آلہ کارعالمی طاقتیں اور ان عالمی طاقتوں کے آلہ کارمسلم حکمرانوں نے ساری دنیا میں فتنہ اور فساد کا بازاد گرم کیا ہوا ہے۔ یہ ابلیسی ٹولہ انسانیت کی روح کا گلا دبا رہا ہے، انسان کی روحانی زندگی کے لیے یہ ٹولہ ایک عذاب بنا ہوا ہے۔درحقیقت یہ ٹولہ بدترین دہشت گرد ہے، جس نے اپنے اختیارات ،وسائل ،جدید جنگی ٹیکنالوجی اور ذرائع ابلاغ سے نوع انسانی کو ایک دہشت اور خوف میں مبتلا کیاہوا ہے۔ یہ ابلیسی ٹولہ نہ صرف انسان اور آخرت(انسان کی ابدی مسرت) کے درمیان ایک دیوار بن کرکھڑا ہوگیا ہے بلکہ ابلیس لعین کا یہ پیروکار ٹولہ انسان اور اس کی دنیا کی نہایت محدود زندگی کی مسرتوں کے درمیان بھی ایک دیوار بن کر کھڑا ہے۔
۴۔حقیقت یہ ہے کہ ابلیس نے ’’جمہوریت اور آزادی‘‘ کے عنوان سے اجتماعی سطح پرانسانیت کا جو بدترین استحصال کیا ہے اور انسانیت کو زندگی کی بنیادی ترین ضرورتوں سے جس طرح محروم کیا ہے، ماضی کی بدترین بادشاہتوں کے دور میں بھی اجتماعی سطح پر انسانیت کا اس طرح گلا دبانا ناممکن تھا۔
۵۔جب دنیا کا منظرنامہ یہ صورتحال پیش کررہا ہو کہ پوری دنیا میں’’جمہوریت ‘‘ کے نام پر انسانیت کی بدترین تذلیل اور استحصال ہورہا ہو۔ساری دنیا کی حکومتیں جمہوریت کا نام لے کراپنے عوام کی ’’روح اور جسم‘‘ ہردوکا slowly & steadily گلا دبارہی ہوں۔ابلیس کی آلہ کار عالمی طاقتیں اسلام اور جمہوریت کو ایک دوسرے کی ضد ثابت کرنے پر تلی ہوں۔دنیا کے ہر کونے میں ’’جمہوریت ‘‘ کے نام پر اسلامی اقداراور اس کی علامتوں (حیا، پردہ، حجاب،داڑھی)کو چن چن کر ختم کرنے کی کوششیں ہورہی ہوں اورجہاں بس چلے (مثلاً فلسطین، چیچنیا، کوسوو، بوسنیا، میانمار، کشمیر، عراق، افغانستان میں) مسلمانوں کو بھی چن چن کرماردیاجائے۔عالمی ابلیسی قوتوں کے آلہ کارحکمران طبقات کومسلم معاشروں میں جمہوریت کے نام پرکرپشن،بددیانتی،بدعہدی، لوٹ مار، قانون شکنی،غریب کا گلا گھونٹنے، ظلم و فساد کا بازارگرم کرنے، تعلیم، صحت،قانون،عدالت،امن غرض ہرشعبہ زندگی کی ’’حیات’’ کا گلا نہایت مکاری، منافقت، سفاکی اور بے حسی سے گھونٹنے کی کھلی چھوٹ دے دی جائے۔ان مقاصد کے حصول کے لیے عالمی طاقتوں کا ابلیسیت کی تمام طاقتوں سے مسلح ہوکراپنے آلہ کار مسلم حکمرانوں کی مکمل سرپرستی کرنااور بار بار جمہوریت کا راگ الاپنا وہ بدترین فعل ہے جس نے مسلم ممالک میں بدترین فساد،بربادی،تباہی، انارکی کا ایک ناختم ہونے والا منحوس چکر چلایا ہوا ہے۔
۶۔جمہوریت کے نام پر مسلم ممالک کا تعلیمی شعبہ مغربی دہشت گردی کا شکار ہے، ہمارا صحت کا شعبہ ابلیسی دہشت گردی کا شکار ہے، ہمارا عدالتی نظام قانون کے نام پر بے انصافی اورانصاف میں تاخیرکی خوفناک دہشت گردی کا شکار ہے،ہماری معیشت، ہماری معاشرت، ہمارے ذرائع ابلاغ غرض زندگی کا ہر ہر موثروقابل ذکر شعبہ ابلیسی دہشت گردی کا شکار ہے۔اور ہم اس بدترین زوال، اس بدترین دہشت گردی کا شکار ہونے کے باوجود۔۔۔اور تسلسل کے ساتھ مسلم معاشروں کے ہر شعبہ زندگی پر مغرب کے ابلیسی فکری و عملی دہشت گردانہ حملوں کی موجودگی میں تنازعات کو صرف’’جہاد بذریعہ غیرمسلح احتجاجی تحریک‘‘میں سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں ۔یہ رویہ نہ صرف جہاد بمعنی قتال میں مداہنت کے ارتکاب پر مبنی ہے بلکہ مسلم ممالک اورساری انسانیت کو درپیش ابلیس کے شش اطراف دہشت گردانہ حملوں سے آنکھیں چرانے اور غض بصر کرنے کے مترادف ہے۔
۷۔آج مسلم عوام کو، مسلم اساتذہ کو، مسلم صحافیوں کو، مسلم ذرائع ابلاغ کو، مسلم حکمرانوں کواور مسلم مسلح افواج کو ابلیسیت کے شش اطراف انسانیت کش حملوں سے بچانے کا اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے کہ اان کے فکر و عمل کو ’’ایمان واخلاق‘‘کی ابدی طاقت اور ‘‘جہاد قتال‘‘کی ہنگامی ربانی طاقت سے مسلح کرنے میں ہمارے قائدین اور مفکرین مسلسل، پیہم اور بلاتعطل جدوجہد پر اپنی صلاحیتوں کو مرکوز فرمائیں۔اس جدوجہدسے غفلت اورعدم توجہی نے انسانیت کی روح کو ’’موت و حیات‘‘ کی کشمکش میں مبتلا کیا ہوا ہے۔
۸۔ان جمہوریت پرست درندوں نے براعظم امریکہ کے کروڑوں انسانوں کو چن چن کرجانوروں کی طرح ہلاک کیا۔اور آج تک یہ انسانیت دشمن، ابلیس کے پیروکار، حیا اور اسلام سے دہشت زدہ جمہوری درندے ساری دنیا پر مسلط ہیں۔ اگرجمہوریت نے مغرب کے ان درندہ صفت انسانوں میں کوئی تبدیلی پیدا کی ہوتی (جو Dark Agesمیں بھی بالکل درندوں ہی کی طرح ایک دوسرے کا گلا کاٹتے رہتے تھے)تویہ انسانیت کوعقیدہ و فکر کی آزادی دیتے، انسانیت کے لیے زندگی کی ضروریات وسہولیات کا حصول (ارزاں ترین قیمت پر)آسان ترین کردیتے،اسلام اور حیا کو اپنا سب سے بڑا دشمن نہ سمجھتے، دولت، سائنس اور ٹیکنالوجی کو ساری دنیا کے انسانوں کے دکھ درداور مسائل دور کرنے کے لیے استعمال کرتے، جنگی جنون اور مہلک ایٹمی و کیمیاوی ہتھیاروں سے اپنے آپ کو مسلح نہ کرتے۔مگر آج دنیا کا جو منظر نامہ ہے وہ ان مثبت باتوں کے بالکل الٹ ہے۔ان مہلک نتائج کو دیکھ کر ہی حضرت علامہ اقبال کو آج سے قریباً سو سال پہلے کہنا پڑا:
تیری حریف ہے یا رب سیاست افرنگ
مگر ہیں اس کے پجاری فقط امیر و رئیس
بنایا ایک ہی ابلیس آگ سے تونے
بنائے خاک سے اس نے دوصدہزار ابلیس
راقم کے زیربحث مضمون کا خلاصہ درج بالا نکات میں پیش کیاگیاہے۔کیاجناب ڈاکٹر عبدالباری عتیقی ہمارے مضمون میں بیان کیے گئے ان مرکزی ترین نکات کو دیکھ کربتاسکتے ہیں کہ ان نکات سے وہ نتیجہ فکرکس طرح اخذ ہوتاجس کا اظہاروہ اپنے جوابی مضمون میں ایک الزام کی شکل میں اس طرح کرتے ہیں:
’’استعماری طاقتوں کے ظلم و ناانصافی پرمبنی اقدامات کوبنیاد بناکرہوش وحواس سے عاری اورقید شریعت سے آزادجذبات پرمبنی تباہ کن تشدد اور دہشت گردی کو’مزاحمت اور جہاد‘ کا عنوان دے دیا جاتا ہے۔‘‘
اگر وہ اپنے اس الزام کوبشمول دیگرنامعقول الزامات کے ہمارے مضمون پر ثابت نہیں کرسکتے اور یقیناوہ ایسا نہیں کرسکے توانہیں مان لینا چاہیے کہ تنقید نگاری اور تجزیہ کاری کے لیے دیانت اورمعقولیت کی جوکم از کم سطح مطلوب ہے،اس سے انہوں نے اپنے آپ کو عاری ثابت کیا ہے۔موصوف کو معلوم ہونا چاہیے کہ کسی بھی تجزیہ کارکی تنقید اور مخالف نقطہ نظرکا کوئی معقول جواب نہ پاکراس پربلا دلیل وثبوت ’’تباہ کن تشدد اور دہشت گردی ‘‘قسم کے لچر اور بیہودہ الزام لگا دیناعلم اور دلیل کے میدان میں ایک بے قیمت اور اجنبی طرز استدلال ہے۔ہاں! جہالت ودرندگی کے رسیا،طاقت وقوت کے نشوں میں بدمست اورخدائی کی دعویدار قوتوں کا یہ محبوب، مرغوب اور دل پسند طرز استدلال اور مشغلہ رہاہے کہ جب کسی کمزور فریق کا شکار کرنا ہو یا کسی ناپسندیدہ شخص کو مجرم ثابت کرنے کا کوئی جواز اور ثبوت ہاتھ نہ لگ رہا ہو تو اس پر فرضی اور جھوٹا الزام لگا کر اپنے شوق شکار اور ذوق درندگی کی تسکین کرلی جائے۔
اگراپنے اس تجزیہ اور نقطہ نظرکی وجہ سے راقم پرجناب ڈاکٹرعتیقی کااوپر بیان کیا گیا فتویٰ ثابت ہوتا ہے توموصوف تسلی جمع خاطر رکھیں کہ وہ خود بھی اپنے اس فتویٰ کی زد سے بچ نہیں پاتے کیونکہ موصوف تصورجہادکی ’’مرمت‘‘ کرتے ہوئے جہاد کی تعریف ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:
’’جہاد ظلم وعدوان کے خلاف مسلمان ریاست کے مسلح اقدام کو کہتے ہیں‘‘۔
موصوف کی اس تعریف کے رو سے ریاست کے اندر اور باہر ہر قسم کے ظلم اور زیادتی کو ریاست کا بذریعہ بندوق اور بذریعہ فوجی (جنگی)اقدام ختم کرنا جہاد ہے۔ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ موصوف کی یہ تعریف جہاد کو ایک مذاق اور ایک کھیل بنا کر رکھ دیتی ہے۔لیکن ہم اتنا ضرورکہیں گے کہ جہاد کی اس انوکھی تعریف کی وجہ سے موصوف کا درج بالا فتویٰ زیادہ شدت سے اور پوری شان سے ان پر لاگوضرور ہوجاتاہے۔کیوں کہ مغربی ابلیسی قوتیں امت مسلمہ کی’’جہادوقتال‘‘کے محض تصورات ہی سے وابستگی کو ’’تباہ کن تشدداور دہشت گردی‘‘کا سبب قرار دیتے ہیں۔اور اس معاملے میں ان کے ہاں کوئی فرق نہیں پایا جاتا کہ اگر کوئی فرد ’’جہاد وقتال‘‘کے تصورات سے وابستگی کا اظہار کرے تواسے ’’تباہ کن تشد اور دہشت گردی‘‘ قرار دیاجائے گا اور اگر پوری قوم اور ریاست ’’جہاد وقتال‘‘ سے وابستگی اور عملی تیاری کرے گی تو اسے مغرب کی انسانیت دشمن ابلیسی قوتیں’’تباہ کن تشدد اور دہشت گردی‘‘قرار نہیں دیں گی۔
جہاد وقتال کے قرآنی تصورات کو مسخ کرنے والے اور اس مقدس قرآنی تعلیم کے معاملے میں مداہنت،مصالحت، شرمندگی اور صفائیاں پیش کرنے والے مغرب کی دجالی قوتوں کو اس لیے سازگار ہیں کہ مسلمانوں میں جہاد اور شہادت کے تصورات انسانیت کی کامل تباہی کے ابلیسی ایجنڈے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔مسلمان ریاستوں کے حکمران(چاہے وہ حزب اختلاف میں ہوںیا حزب اقتدار میں)کامل طور پر دجالی تہذیب کے آگے سربسجودہیں۔ایک مسلم ریاست (افغانستان)نے عالمی ابلیسی قوتوں کے جھوٹ،دھوکہ اورفریب کے آگے سرجھکانے سے انکارکیاتھا،تودجال کی نمائندہ قوتیں اس پر ٹوٹ پڑیں اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔بعدمیں افغانستان کی عوام نے اسلام اور جہادکا جھنڈا تھامااور گزشتہ تیرہ سال سے کامل استقامت سے مغرب کی انسانیت دشمن ابلیسی قوتوں سے جنگ آزما ہیں۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا میں دجالی اقدار کا تاحال سب سے بڑا نمائندہ امریکہ افغانستان میں شکست سے دوچار ہے۔پس مسلم ریاستیں اوران کے حکمران عالمی دجالی طاقتوں کا اصل مسئلہ نہیں ہیں۔ان کا اصل درد سروہ مسلم عوام ہیں جو اللہ ورسول سے عشق کا دم بھرتے ہیں،جو مغربی دجالی تہذیب کی بجائے اسلام کو راہ نجات سمجھتے ہیں اورنماز ،روزہ حج اورزکواۃ کی طرح جہاد کو بھی ایک عبادت سمجھتے ہیں۔اس عوام کو گمراہ کرنے کے لیے بے حیائی،دنیا پرستی،عیاشی، آوارگی،خود پرستی اور سودی معیشت کی لعنتوں سے برباد کرنے کی آخری حد تک کوشش کی جاچکی ہے، لیکن اس کے باوجود امت مسلمہ اور انسانیت کے دفاع کے داخلی حصار(ایمان واخلاق)اورخارجی حصار(جہاد)کو مکمل طور پر تباہ کرنے میں ابلیس تاحال کامیاب نہیں ہوسکا۔
اسی وجہ سے ابلیس کی سکیم تبدیل ہوئی اور امت مسلمہ کے وہ افراد جن کے ایمان واخلاق اور جہاد وقتال کے قرآنی تصورات کوابلیس مکمل طور پر تباہ کرنے میں ناکام ہوگیاتھا،ان میں ایسے مفکرین اور سکالرزکی سرپرستی کی گئی جن کی مساعی کارخ(Shift of emphasis) ایمان واخلاق کی تعمیر کی بجائے فقہی اور فروعی مسائل میں مغرب سے ہم آہنگیاں تلاش کرنے کی طرف پھرچکاہو۔لہٰذا جہاد وقتال کے تصورات کو مسخ کرنے اور اسے عوام کی نظروں سے اوجھل کرنے کے لیے پورے شدومد سے ریاست کے ’’آسمانوں‘‘(جہاں کے حکمران دجالی تہذیب اور اس کے پروگرام کے سامنے کامل طور پر سجدہ ریزہیں)میں چھپانے والے دانشوروں کے لیے دوستی وعنایات کے دروازے کھول دیے گئے۔
یہ نسخہ ابلیسی آلہ کاروں نے اندلس میں مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے نہایت کامیابی سے آزمائی جانے والی اس سکیم سے اخذ کیاتھا،جس میں مغرب کے گوری چمڑی والے طاقتورعیسائی حکمرانوں نے مسلم عوام کے جذبہ جہادسے محفوظ رہ کراندلس کی چھوٹی چھوٹی کمزور اورنام نہاداسلامی ریاستوں کو زیرکرنے کے لیے خودپرست اور عیاش حکمرانوں کو جھوٹ، دھوکے اور فریب سے لالچ اور طمع دے کر معاہدوں میں جکڑلیا ۔اورپھر ایک ایک کرکے ان مسلم ریاستوں کو ہڑپ کرتے گئے۔رہ گئے مسلم عوام تو وہ ریاست (کے حکمرانوں)سے آخر وقت تک یہی توقع رکھتے رہے کہ وہ ان کی آزادی اور خود مختاری پر سودے بازی اور اسلام سے عظیم غداری کا ارتکاب نہیں کرسکتے ۔ریاست پر حد سے زیادہ انحصاراورمسلم معاشرے کے خارجی دفاعی حصار(جہاد)سے غفلت کے نتیجے میں اندلس کے مسلمانوں کو تاریخ کی عظیم ترین نسل کشی کا سامنا کرنا پڑا۔جس کے نتیجے میں پندرہویں صدی عیسوی کے اختتام کے ساتھ ہی اندلس سے اسلام اور مسلمانوں کا بھی خاتمہ ہوگیا۔انسانی نسل کشی کا یہ نسخہ اندلس کے نئے عیسائی حکمرانوں کے توسط سے نئی دریافت ہونے والی دنیااورنئی کالونی (براعظم امریکہ)برآمد کیاگیا،جسے اگلے تین چار سوسالوں میں امریکہ کے دس کروڑ اصل باشندوں(ریڈ انڈین)کی نسل کشی کے لیے بے حد کامیابی سے آزمایاگیا۔کیونکہ وہاں نہ تو اسلام تھا اور نہ ہی جہاد۔اندلس میں اسلام اور مسلمانوں کے خاتمہ اور انسانیت کی عظیم نسل کشی کے لیے آزمایاجانے والا ابلیسی نسخہ اکیسویں صدی کی عالمی دجالی طاقتوں کا اہم ترین حربہ بن چکا ہے ۔جس کی رو سے عالمی شیطانی تہذیب کے غلبہ کے لیے اورانسانیت کی آخری حد تک تباہی کے لیے ضروری ہے کہ مسلم حکمرانوں(ریاستوں)کو لالچ،فریب اور دھوکہ سے معاہدوں میں جکڑلو اورمسلم ریاستوں کو ابلیسی عالمی مقاصدکی خدمت میں لگادو۔رہ گئے مسلم عوام توان میں ایمان وجہادکی حرارت کو سردکردو۔افسوس مسلم ممالک کے حکمرانوں اور دانشوروں کی عظیم اکثریت دانستہ یا نادانستہ اس ناپاک دجالی منصوبہ کی ادنیٰ خدمتگار بن چکی ہے۔
واضح رہے کہ جس طرح مسلم عوام کو ایمان اور جہاد کی متوازن اور ڈسپلن تعلیم سے روکنا اوردوررکھناابلیسی مشن ہے۔بالکل اسی طرح مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر،مسلم معاشروں میں انارکی،ہلاکت،فسادات اورتباہی پھیلانا بھی ابلیس ہی کا دجالی مشن ہے۔لہٰذا جہاد مسلم معاشرے کی اقدار ،عوام اور سرحدوں کا مقدس ترین دفاعی حصارہے۔مسلم معاشروں کوبم دھماکوں اور خودکش حملوں کے ذریعے تباہی،بدامنی اورانارکی سے دوچارکرنا قطعاً قطعاً جہاد نہیں ہے۔۔۔یہ جہاد کو بدنام کرنے اورجہاد کو فساد ثابت کرنے کا وہ شیطانی منصوبہ ہے میڈیا،دانشور اور صحافیوں کی عظیم اکثریت جس کے ادنیٰ خدمت گار بن چکے ہیں۔ یہ صرف اور صرف ابلیسی آلہ کاروں کا پیدا کردہ فساد ہے،چاہے اس کا ارتکاب اسلام اور ایمان کے کتنے ہی بلند وبانگ دعووں کے ساتھ کیوں نہ کیا جائے۔جہادمسلمانوں کے، کمزور انسانوں کے، اسلامی اقدار کے اور مسلم معاشروں کے امن اورڈسپلن کی حفاظت اور دفاع کانام ہے۔جہاد اہل ایمان کی اجتماعی مسلح قوت کے ذریعے اسلامی اقداراور انسانیت پر حملہ آورمسلح قوت کا اللہ پر یقین اور جنت کی آرزو کے ساتھ مردانہ وار مقابلہ کا نام ہے۔
راقم کا دل اس یقین سے سرشار ہے کہ پاکستان کی پاک افواج اور افغانستان وخیبرپختونخواہ کے پاک دل و پاکبازمجاہدین اپنی تمام تر خامیوں،کمزوریوں اور خطاؤں کے باوجود،انسانیت کی کامل تباہی کے ابلیسی ودجالی منصوبے کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔یہ ابلیسی خونخوار درندوں کے مقابلے میں اسلام اور انسانیت کے دفاع کی وہ آخری چٹان ہے،جسے توڑنا اور تہس نہس کرنامغربی دجالی تہذیب کے نمائندوں کا اہم ترین مشن بن چکاہے۔لہٰذا پاکستانی افواج اورافغانستان ووزیرستان وغیرہ کے مسلم سپاہیوں کونقصان پہنچاناوہ بدترین دہشت گردی ہے،جو عالم مغرب کی عالمی طاقتوں کی آخری تمنا بن چکی ہے۔ جو لوگ اس دجالی منصوبہ بندی کے آلہ کار بن چکے ہیں وہ اسلام اور انسانیت کے بدترین دشمن ہیں۔رہا یہ سوال کہ پاکستانی افواج اور وزیرستان کے مجاہدین (طالبان)کی باہمی آویزش کے نتیجے میں مارے جانے والے سپاہیوں کی کیا پوزیشن ہے تواس میں عادلانہ موقف یہ ہے کہ ہر دومسلم فریقین میں سے جو بھی اسلامی اقدار،اسلامی سرحدوں اوراور مسلمانوں کی جان ومال کی حفاظت کے عزم وارادے سے لڑتا ہواماراگیاوہ شہیدہے۔
تاہم دجالی تہذیب کے اسلام کش و انسانیت دشمن شیطانی ایجنڈاکے مقابل انسانیت کے دفاع کی اس ’’آخری چٹان اور حصار‘‘کی باہمی آویزش کو ہم کسی طور جہاد کا نام نہیں دے سکتے۔ہماری ناقص رائے میں یہ آویزش عالمی استعماری طاقتوں کی طویل منصوبہ بندی اورخوفناک سازش کا نتیجہ ہے۔یہ آویزش غیر فطری اوروقتی ہے۔اس آویزش کے دونوں فریق فطری اتحادی ہیں،لہٰذا یہ آویزش زیادہ دیر چلتی نظر نہیں آتی جس نے بہرحال ختم ہونا ہے اور فطری طور پر ایک عظیم ترین اتحاد کی شکل میں نمودار ہونا ہے،جو ابلیس کے دجالی نمائندوں کے لیے ایک خوفناک ڈراؤنا خواب ہے۔
جہاد بطورتبدیلی کا سیاسی آرگن:راقم کے زیربحث مضمون میں سیاسی تبدیلی کے لیے یا نفاذ اسلام کے لیے جہاد کا تعارف ایک سیاسی ٹول کے طورپرقطعاً نہیں کرایاگیا۔ہاں! ان اہل علم کے رویہ پر نہایت افسوس کا اظہار ضرور کیا گیا ہے جوجہاد کو سیاسی تبدیلی کے آرگن کے طور پرمتعارف کرانے والے حضرات کی جتنی شدت سے نفی کرتے ہیں اتنی ہی شدت سے جمہوریت اور احتجاجی سیاست کے فریب کارانہ کھلونوں کو نفاذ اسلام کے لیے واحد طریق عمل قرار دیتے ہیں۔اوربعض مفکرین اورقائدین (مثلاً تنظیم اسلامی کے بانی ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم)تو نفاذِ اسلام اور غلبہ دین کانبوی منہاج بیان کرتے ہوئے دورِ نبویﷺ کے جہادمیں اجتہادکا اعلان فرماتے ہیں اور احتجاجی سیاست کو ’’غیرمسلح تصادم‘‘ کا نام دیتے ہوئے اسے عصر حاضرمیں جہاد وقتال کاواحدمتبادل قرار دے ڈالتے ہیں۔جہاد وقتال کی ایک غلط تعبیر ایک نام نہاد اجتہادکو جنم دیتی ہے۔اور پھر عصرحاضرکے فریب کارانہ جمہوری ہتھکنڈوں(احتجاجی سیاست)کواسلامی انقلاب کا واحد منہاج قرار دیتے ہوئے اسے ’’جہاد وقتال‘‘کا تقدس عطا کردیاجاتا ہے۔راقم نے تنظیم اسلامی کی رفاقت کے دنوں میں ڈاکٹراسرار احمد مرحوم سے طویل عرصے(1996سے2002) تک بذریعہ مراسلت اس فکری مغالطہ کی سنگینی اور گمراہی کو مبرہن کرنے کی کوشش کی۔تاہم راقم کو اس کا اعتراف ہے کہ ایک نہایت حقیر کارکن انتہائی بلندیوں پرفائزراہنما کے غلط تیقن اور وجدان کی اصلاح کرنے میں ناکام رہا۔اس راہ میں جوسب جھیلتے ہیں وہ جھیلنا پڑا:
اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے وہ گزری
تنہا پس زنداں، کبھی رسوا سربازار
اپنے زیر بحث مضمون میں بھی راقم نے جمہوریت اور آزادی کے عنوان سے ابلیس کے دجالی فریب کا پردہ چاک کرنے کی کوشش کی ہے۔اور اس فکری خرابی پرنقد کیا ہے جس کے ذریعے ساری دنیا میں فساد کی واحد وجہ مسلمانوں کے ’’جذبہ جہاد‘‘کوقرار دے کر ’’احتجاجی سیاست ‘‘کے جمہوری کھلونوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھمادیاجاتا ہے۔ معاملہ کی خرابی اس وقت نہایت سنگین اور شدید ہوجاتی ہے جب ’’ہمارے نہایت محترم قائدین اور علماء بھی جمہوریت، آئینی جدوجہداورانتخابی و احتجاجی سیاست کواسلام اورمسلمانوں کے لیے بالکل اسی طرح مفید،ضروری اورناگزیر قرار دیتے ہیں جس طرح مغرب کے ملحد،لادین اور سرمایہ پرست اسے اپنے معاشروں کے لیے بے حد مفید،ضروری اور ناگزیر قرار دیتے ہیں۔لہٰذاآج ایک طرف اگرمغرب کے مقتدرابلیسی اور دجالی اذہان دیار مغرب میں رہنے والے انسانوں کی عظیم اکثریت کو جمہوریت ،آئین،انتخابی اور احتجاجی سیاست کے کھلونے دے کران کا ذہنی،جسمانی اور روحانی بدترین استحصال کررہے ہیں تودوسری طرف اہل اسلام کے نہ صرف سیاسی قائدین بلکہ دینی مذہبی راہنما اور مفکرین کی نگاہ میں بھی جمہوریت،آئین، انتخابی اور احتجاجی سیاست کے دجالی کھلونے اہل اسلام کے دکھوں کا واحد علاج اور مداوا ہیں۔‘‘
اس تجزیہ کے ساتھ راقم نے اپنے زیر بحث مضمون میں عرض کیا کہ ’’ہماری دینی قوتوں پر ہردم یہ واضح رہنا چاہیے کہ ایمان واخلاق نہ صرف تمام شعبہ ہائے حیات کی اصلاح کا مستقل اورابدی نبویﷺمنہاج اور حل ہے بلکہ انسانی شعبہ ہائے حیات پر ابلیسیت کے جابرانہ اورقاتلانہ حملوں،امن کے خلاف ابلیس کے پیدا کردہ فساد، دہشت گردی اورجنگ کے تدارک کے مستند ترین اور کائنات کے رب کے محبوب ترین علاج ’’جہادوقتال‘‘ کا بھی داخلی محافظ و نگہباں ہے جبکہ جہاد وقتال ایمان واخلاق کا خارجی محافظ ہے۔‘‘۔ نیز یہ کہ ’’ہمارے قائدین اور مفکرین مسلسل، پیہم اور بلاتعطل اس جدوجہد پر اپنی صلاحیتوں کو مرکوز فرمائیں۔اس جدوجہدسے غفلت اورعدم توجہی نے انسانیت کی روح کو ’’موت و حیات‘‘ کی کشمکش میں مبتلا کیا ہوا ہے۔اگرہمارے نہایت محترم قائدین کسی مجبوری یا عذرکی وجہ سے اپنی اصل اور مستقل ذمہ داری نباہنے سے قاصر ہیں تو ہم نہایت ادب سے عرض کریں گے کہ وہ کم از کم امت مسلمہ کے وقاراور اسلام کے نفاذکو ان وقتی ہنگاموں،احتجاجی جلوسوں اور لانگ مارچوں سے مشروط کرنے کا سبق نہ پڑھائیں، جنہیں آزما آزما کرحضرت انسان تھک چکا ہے مگرمنزل ہے کہ ہاتھ لگتی ہی نہیں۔ یہ فرسودہ احتجاجی ہتھکنڈے(بمعنی منظم اورپرامن احتجاجی تحریکیں) کم از کم پچھلے ایک سوسال سے مسلم سیاسی ومذہبی تحریکوں کے زیرعمل ہیں۔۔۔لیکن نتیجہ سب کے سامنے ہے،دنیا میں غلبہ واقتدار اور دین کا احیا تو کیا ہوتا، الٹا ایمان اورمذہب کی رہی سہی قدریں بھی اس راہ میں گم ہوکر رہ گئیں۔سوال کیاجاسکتا ہے کیوں؟ اس کا سادہ سا جواب ہے کہ اضطرار کو اضطرار کے مقام پر رکھنے کی بجائے اسے اوڑھنا بچھونا بنالیاگیا اوراس غیر فطری اصرار اور جنون میں وہ اپنا اصل اور مستقل لائحہ عمل بھلاتے اور پس پشت کرتے چلے گئے۔‘‘
محترم ڈاکٹر عبدالباری عتیقی صاحب دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا ہمارے اس تجزیہ اور تجویز کے کسی ایک جملے سے بھی ان کی طرف سے عائد کیے جانے والے الزامات کو ثابت کیا جاسکتا ہے ۔
آخر میں ہم موصوف کے اس الزام کوجزوی طورپر قبول کرتے ہیں کہ :’’(محمد رشید کی)پوری تحریرقرآن وحدیث کے دلائل سے مکمل طور پر تہی دامن نظر آتی ہے‘‘۔ہم یہ وضاحت پیش کرنے کی جسارت کرتے ہیں کہ ہماری زیربحث تنقیدی تحریر کے براہ راست مخاطب وہ نہایت محترم اہل علم تھے جو ایمان اور جہاد کی اہمیت وعظمت کو براہ راست قرآن وحدیث سے ہم سے بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔تاہم ہمیں خطرہ ہے کہ اگر ہم نے اہل ایمان کی اجتماعی زندگی کے داخلی محافظ ’’ ایمان واخلاق‘‘اورخارجی محافظ’’جہادوقتال‘‘کی اہمیت وعظمت اور تشریح کے لیے قرآن وسنت کے سینکڑوں حوالہ جات سے استدلال کیاتوالشریعہ کو خاص نمبرشائع کرنا پڑجائے گا ،اگرکبھی الشریعہ نے اس موضوع پر خاص نمبر شائع کرنے کا اعلان کیا توڈاکٹر عتیقی کا یہ اعتراض بھی دور کردیاجائے گا،تاہم اس بات کا غالب امکان ہے کہ یہ مقالہ ’’جمہوری ‘‘فریب کاریوں کی تعریف وتحسین، الحاد وآوارگی سے کھیل کوداورخلافت وجہاد کے خالص قرآنی ونبوی تصور کے انکاروفرار سے عاری ہونے کی وجہ سے(ثناخوان مغرب کی نظروں میں) مردودہی قرارپائے گا۔اوراس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ڈاکٹرعبدالباری عتیقی اور اس قبیل کے دیگرلوگ جعلی الزامات اوردیگرخوفناک فتویٰ نما تیروں سے ہمیں چھلنی چھلنی کرنے کے لیے میدان میں نہیں نکل آئیں گے؟
موصوف نے اپنے مضمون کے آخر میں راقم کی ذات پر طعنہ زنی کرتے ہوئے طنزکے نشترچلائے ہیں ۔انسان جب دلیل کے میدان میں ناکام ہوجاتا ہے تووہ اپنی ناکامی کو ہجوگوئی اورطعنہ زنی کی اوٹ میں چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔اب بھلا ذاتی ہجو گوئی کا کسی کو کیا جواب دیا جائے۔ہم ان کے لیے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحت فکر عطافرمائے۔درج ذیل دلی کیفیت کے ساتھ ہم اپنے اس طویل وضاحت نامہ کو ختم کرتے ہیں:
غم جہاں ہو،غم دوست ہوکہ تیر ستم
جو آئے آئے کہ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں
مادّی ترقی کا لازمہ: واہمہ یا حقیقت؟ چند توضیحات
محمد ظفر اقبال
مئی ۲۰۱۴ء میں وطن عزیزکے مؤقر جریدے ماہنامہ الشریعہ [گوجرانوالہ] میں راقم کا ایک مضمون ’’مادی ترقی کا لازمہ ۔ واہمہ یا حقیقت؟‘‘ شائع ہوا۔ ۱ یہ مضمون کسی تحکمانہ جذبے کے زیر اثر نہیں لکھا گیا تھا، بلکہ اس کا واحد مقصد عصر حاضر میں مادی ترقی کے حوالے سے ہم ایسے طالب العلموں کے ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات و اشکالات کے جوابات کی جستجو تھی۔ راقم نے جو کچھ تھوڑا بہت مطالعہ کیا تھا، اس کے مطابق جو سوالات اور اشکالات قابل جواب معلوم ہوئے وہ اہل علم کی خدمت میں اس خیال سے پیش کردیئے تھے کہ ان کے گراں قدر افکار اس مبحث کو آگے بڑھانے اور خلجان کی رفع کرنے میں ممد و معاون ہوں گے۔ مضمون کی اشاعت کے بعد دو ماہ تک جب اس سلسلے میں کوئی بحث و گفتگو سامنے نہ آئی تو راقم کو یہ احساس ہوا کہ شاید مضمون میں کوئی ایسی بات ہی نہ ہوگی جو عصر حاضر کے سنجیدہ علمی و فکری اذہان کو اس موضوع پر گفتگو کے لیے آمادہ وتیار کرسکے۔ تآنکہ اگست ۲۰۱۴ء میں راقم کے مضمون پر جناب حافظ کاظم عثمان صاحب کا ایک تبصرہ شائع ہوا ۔ ۲ یہ امر انتہائی خوش کن ہے کہ حافظ صاحب نے اس مبحث کو آگے بڑھانے میں اپنی معلومات و مطالعے کی حد تک حصہ لیا ۔
حافظ صاحب نے ابتداً ہی اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر اسے ’’قابل ستائش‘‘ کی سند سے نوازا اور مغربی عقائد و نظریات کے متعلق راقم کے مؤقف کی ’’مضبوطی‘‘ کا بھی اعتراف فرمایا ۳ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ راقم نے حافظ صاحب کا مضمون بغور پڑھا۔ حافظ صاحب نے راقم کے پیش کردہ مؤقف پر تو کوئی تنقید نہیں فرمائی البتہ بعض عبارات اور تجزیوں پر اپنا نقطۂ نظر بیان فرمایا ہے۔ ان ہی عبارات کی توضیح اور تجزیوں کی تحلیل میں یہ سطور تحریر کی جارہی ہیں۔
مسلمانوں کا مادی زوال: اصل مسئلہ
راقم نے اپنے مضمون کی ابتدا ہی میں لکھا تھا کہ ’’امر واقعہ ہے کہ مسلمان آج مادی ترقی میں بہت پیچھے ہیں‘‘۔۴ حافظ صاحب نے اصولی طور پر تو مسلمانوں کی ’’مغلوبیت اور پسپائی ‘‘ کو تسلیم کر لیا ۵ مغلوبیت اور پسپائی بالعموم دنیاوی شکست اور مادی زوال ہی کو کہا جاتا ہے آگے چل کر حافظ صاحب نے یہ مؤقف اختیار فرمایا ہے کہ مادی ترقی میں پیچھے ہونا کوئی پریشان کن مسئلہ نہیں ہے حافظ صاحب کا یہ تجزیہ فی الاصل راقم کے سابقہ مضمون کے آخری حصے میں پیش کیے گئے سوالات کے جوابات کی اپنی سی ایک کوشش ہے جو اختلاف کے باوصف قابل قدر ہے۔
اسی بحث میں حافظ صاحب نے طبقہ اشرافیہ [upper class] کے حوالے سے C. Wright Mills کا جو اقتباس درج فرمایا ہے، وہ اسلامی تاریخ کے ضمن میں بالکل ایک اجنبی حوالہ ہے۔ اسلامی تاریخ میں شرف و فضیلت کی بنیاد ’’تقویٰ‘‘ ہے نہ کہ مال و اسباب کی کثرت۔ بلکہ اٹھارویں صدی سے قبل تک قدیم معاشروں میں بھی بڑے لوگ سادگی، فقرو تنگی کو حکمت کا سرچشمہ سمجھتے تھے۔
مسلمان: چار ادوار میں بیک وقت تقسیم: مخمصے کی اصل وجہ
راقم نے مسلمانوں کی بہ یک وقت چار ادوار میں تقسیم پر ایک تجزیہ پیش کیا تھا۔ حافظ صاحب نے اس پر تحریر فرمایا کہ ’’ان چار ادوار کی نشان دہی محترم جناب ڈاکٹر عبد الوہاب سوری صاحب نے اپنے ایک مضمون میں فرمائی ہے ۔۔۔ حیرت ہے کہ اس مضمون کا حوالہ شامل نہیں کیا گیا‘‘۔ ۶ حوالہ تو اس وقت درج کیا جاتا جب یہ تقسیم ڈاکٹر عبدالوہاب سوری صاحب کے مضمون سے نقل کی گئی ہوتی۔ اگر توارد اور سرقے میں فرق ملحوظ رہے تو یہ مغالطہ پیش نہیں آسکتا۔ حافظ صاحب کی نشان دہی کے بعد راقم نے ڈاکٹر سوری کا مقالہ پڑھا۔ راقم کے لیے یہ امر انتہائی مسرت و ابتہاج کا باعث ہے کہ پاکستان کی سب سے بڑے سیکولر علمی ادارے کے شعبہ فلسفہ کے سابق رئیس او ر مغربی افکار و اقدارپر گہری اور بصیرت افروز نظر رکھنے والے بالغ نظر محقق اور استاذ کا تجزیہ بھی وہی تھا ۷ جو ایک بوریہ نشین حقیر طالب العلم کا ہے۔۸ حافظ صاحب کی کرم فرمائی سے راقم کی ڈاکٹر سوری کے ایک انتہائی قیمتی مقالے تک رسائی ہوئی۔ اب راقم کے لیے یہ امر زیادہ موجب اطمینان و امتنان ہوگا کہ وہ امت مسلمہ کی بہ یک وقت چار ادوار میں تقسیم کو بہ جائے اپنے تجزیے کے ڈاکٹر سوری صاحب کی سند سے بیان کرے، اس سے بات زیادہ مؤکداور مستحکم ہوجائے گی۔ اگر راقم کا یہ مضمون کہیں کتابی مجموعے میں شامل ہوا تو یہ تجزیہ، ان شاء اللہ، ڈاکٹر سوری کی سند پر بیان کیا جائے گا اگر حافظ صاحب ڈاکٹر عبد الوہاب سوری کے فاضلانہ مقالے کی روشنی میں اپنے مضمون کا از سر نو جائزہ لیں تو ان کے بہت سے واہمے دور ہوجائیں گے۔
حافظ صاحب فرماتے ہیں: ’’کیا بیک وقت چار ادوار میں زندہ رہنا صرف مسلمانوں کا مسئلہ ہے؟‘‘ ۹ ’’صرف‘‘ مسلمانوں کا مسئلہ ہو یا نہ ہو، مسلمانوں کے لیے مسئلہ ضرور ہے۔ مسلمان روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کے آخری دین اور اس کی بنیاد پر اس مذہب، معاشرے اور تہذیب کے علم بردار ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرما کر اس کی تکمیل کا اعلان فرمایا ۔ مسلمان اللہ تعالیٰ کے آخری پیغام کے حامل اور عالم گیر دین کے داعی ہیں۔ یہ بات اس دین اور اس کے زیر اثر پروان چڑھنے والی تہذیب و معاشرت میں بہ طور جوہر داخل ہے کہ یہ زمانے کی اتباع سے عبارت نہیں بلکہ زمانے کو بدل کر اپنے ساتھ چلادینے کا خوگر ہے اسلام اور امت مسلمہ کے مقابل حافظ صاحب نے جن تہذیبوں کے نشان دہی فرمائی ہے وہ بہ طور دین کسی آخری پیغام کی حامل ہیں اور نہ وہ اپنے اطلاق و نفاذ کے لیے کسی حاکمیت و ریاست کی طالب ہیں۔ جب کہ اسلام شریعت کی تکمیل اورتنفیذ کے لیے لازماً ریاست کا طالب ہے۔
ہندی، چینی و جاپانی تہذیبیں: نظام سرمایہ داری کے ہاتھوں مفتوح
ہندوستانی، چینی اور جاپانی اقوام و تہذیبیں اپنے علامتی وجود کے باوصف مغر ب کے سرمایہ دارانہ نظام کا ایک حصہ بن چکی ہیں۔ ان تہذیبوں کے پیروکاروں کی عملی زندگی میں ان کے داعیان کے تعلیمات مذہبی اعمال اور رسومات کی حد تک تو باقی ہیں لیکن معاشرتی، سیاسی، سماجی، عمرانی اور معاشی زندگی سے ان کی تعلیمات ناپید ہوچکی ہیں تنویری علمیت [Enlightened Epistemology] نے اسلام کے سوا دنیا کے ہر مذہب کو علمیاتی بنیادوں پر اکھاڑ پھینکا۔ عیسائیت نوفلاطونیت [Neo-Platonism]، کانٹ کے ریشنلزم [Rationalism]اور ہیوم کی تجربیت [Empiricism] کا شکار ہوگئی۔ بدھ علمیت، چینی روایات اور رومی قدامت پرستی کسی کو ہیگل اور مارکس کے تصورات [Dialectical Idealism, Historical Materialism] نے مسخر کرلیا قدیم ہندو اور یہودی فکر کو نیطشے اور دیگر وجودی مفکرین [Existentialism] کے فلسفے نے برباد کرڈالا۔ وہ قوم پرستی اور سوشل ڈیموکریسی کا شکار ہوگئیں۔ ۱۰
حافظ صاحب نے چین کی مثال خصوصیت کے ساتھ پیش فرمائی ہے۔ عہد حاضر میں اشتراکی ملک ہونے کے باوجود چین کی وابستگی عملاً سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ ہے۔۱۱ سرمایہ دارانہ نظم کو اختیار کرلینے کے بعدہی چین نے محیر العقول مادی ترقی ممکن ہوسکی ہے۔ اس ترقی میں عملاً ریاست دخیل نہیں ہے۔۱۲
مسلمان: مغربی تہذیب و افکار سے تاثر: ایک تجزیہ
جہاں تک مسلمانوں کا معاملہ ہے تو حافظ صاحب نے خود ارشاد فرمادیا کہ مسلمانوں کا معاشرتی ڈھانچہ دین کی بدولت ’’پوری طرح‘‘ جاہلیت جدیدہ کا شکار نہیں ہوا۔ ۱۳ گویا ’’جاہلیت جدیدہ‘‘ سے ’’جزوی‘‘ تاثر قبول کرلینے کو حافظ صاحب بھی تسلیم کرتے ہیں۔ یہی جزوی تاثر آگے چل کر کلی تبدیلی و تغیر میں ڈھل جاتا ہے۔ مغرب کو بھی یہاں تک پہنچتے، خدا کی موت کا اعلان کرتے اور انسان کو حاکم مطلق گردانتے ۳۰۰سال کا عرصہ لگا۔ تبدیلی کا عمل نجماً نجماً اور جزواً جزواً ہی ہوتا ہے جس کے باعث معاشروں میں پیدا ہونے والی تبدیلی اور مذہب پر رونما ہونے والے تغیر کا احساس نہیں ہوتا مسلمان کس حد تک اس تغیر کا شکار ہوچکے ہیں۔ اس سلسلے میں جنوبی ایشیا کی تاریخ کے ماہر محقق و مستشرق فرانسس روبنسن کا ایک اقتبا س سابقہ مضمون سے دوبارہ پڑھنا ناگزیر ہے:
For the hundred years Preceding the Muslim revival of the late twentieth century, the Islamic World seemed to be following a path of secularization similar to that on which the Western Christian world embarked some centuries before. Law derived from revelation had been increasingly removed from public life; religious knowledge had steadily lost ground in education; more and more Muslims who were Islamic by Culture but made 'rational' calculations about their lives -- in much the same way as Christians formed in the secular West might to do -- had come forward.۱۴
مسلمان: تین طبقات کی حتمی تقسیم : ایک الزام
راقم نے عصر حاضر میں مادی ترقی کی بحث میں حصہ لینے والے اہل قلم کو تقریب سخن کے لیے تین طبقات میں تقسیم کرتے ہوئے لکھا تھا:
’’زوال سے دوبارہ کمال کی بازیافت کے لیے حکمت عملی اور لائحہ عمل کے حوالے سے مسلم اہل فکر و قلم بالعموم تین نقاط نظر کے حامی معلوم ہوتے ہیں‘‘۔ ۱۵
یہ عبارات بتا رہی ہیں کہ یہ تقسیم حتمی نہیں ہے اس میں اضافہ اور کمی ممکن ہے لیکن حافظ صاحب نے عاجلانہ نتائج تک جست لگاتے ہوئے راقم کے ذمے وہ بات لگادی جو کہی ہی نہیں گئی۔ حافظ صاحب لکھتے ہیں:
’’جب ہم کسی شے کی زمرہ بندی کرتے ہیں اور اس کو ایسے بیان کرتے ہیں کہ جو ہے یہی ہے تو اس سے کئی مسائل جنم لیتے ہیں‘‘۔ ۱۶
راقم کی کسی ایک عبارت سے بھی ایسا مترشح نہیں ہوتا کہ راقم کی پیش کردہ ’’زمرہ بندی‘‘ حتمی، قطعی، یقینی اور ناقابل نظر ثانی ہے تنقید کے وقت اس بات کا تو خیال رکھنا چاہیے کہ مخاطب پر اس ’’جرم ‘‘ کے ارتکاب کی ’’سزا‘‘ جاری نہ کی جائے جو اس نے کیا ہی نہیں۔
مادی ترقی: اہل سنت و جماعت کا نقطہ نظر
حافظ صاحب کا خیال ہے کہ ’’مغرب سے نبرد آزما ہونے کا واحد راستہ مغرب سے کلیۃً بے اعتنا ہوجانا ہے‘‘ ۱۷ کفر اور جاہلیت سے بچنے اور محفوظ رہنے کے لیے اس کی اصلیت اور حقیقت سے واقفیت خود دین کی رو سے کس قدر ضروری ہے ، یہ ایک الگ بحث ہے۔ تاہم حافظ صاحب کی مغرب سے کلیۃً بے اعتنائی کی بات اسی وقت ٹھیک ہوگی جب کل امت مغربی افکار و اقدار کی اتباع و تقلید اور اس کی Islamizationکو ترک کر کے بے اعتنائی اختیار کرے۔ صرف چند ایک طبقات کی جزوی بے اعتنائی اسے امت کا اجماعی عمل نہیں بننے دیتی۔حافظ صاحب نے اس زمرے بندی میں تبلیغی جماعت کے عدم ذکر پر بھی شکوہ فرمایا ہے بلا شبہہ تبلیغی جماعت بہت سارے معاملات میں سے کچھ کی جانب ہماری رہ نمائی کرتی ہے جو قابل ستائش اور لائق تقلید ہونے کے باوجود کلی رہ نمائی نہیں ہے۔ جہاں تک حضرات علمائے دیوبند، علمائے بریلوی اور علمائے اہل حدیث کا تعلق ہے تو یہ تینوں طبقات فکر علمی اور فکر ی طور پر منہج اہل سنت سے وابستہ ہیں۔ اصولی و نظری سطح پر یہ تینوں مکاتیب مغرب کے ساتھ خذ ماصفا ودع ما کدر کے اصول کا اطلاق نہیں کرسکتے کیوں کہ اسلام اور مغرب میں وجودیاتی، علمیاتی اور مابعد الطبیعیاتی سطح کا اختلاف ہے امت کا سواد اعظم اہل سنت و جماعت ہی ہے جس کی تفصیل اوپر بیان کی جاچکی ہے۔۱۸
صرف مغربی زبان کی تحصیل مادی ترقی کی کلید نہیں
چوتھے نکتے میں حافظ صاحب نے زبان کے حوالے سے راقم کی اس عبارت پر اعتراض فرمایا ہے:
’’مادی ترقی کے حصول کے لیے صرف مغربی زبان اور سائنسی علوم و فنون کی تحصیل و تعلیم کافی نہیں ہے۔ زبان تو علوم کے ابلاغ، اظہار و تفہیم کا محض ایک ذریعہ ہے۔ وہ فکری سرمایہ اور خرد افروزی امر دیگر ہے جو مادی ترقی کا لازمہ ہے۔۱۹
حافظ صاحب کا اعتراض یہ ہے کہ زبان محض ابلاغ کا ذریعہ نہیں ہوتی بلکہ وہ کسی تہذیب کی نفسیات، جمالیات اور احساسات کی بھی عکاس ہوتی ہے۔ حافظ صاحب کا بیان راقم کے مؤقف کی تغلیط نہیں، اس پر استدراک و اضافہ ہے۔ زبان کی تحصیل بالعموم علوم عقلیہ کے حصول کے لیے کی جاتی ہے [اسلامی معاشروں میں عربی و فارسی زبان کی تحصیل اس سے مستثنیٰ ہے]، گھروں میں گفتگو کے لیے یہ زبانیں نہیں سیکھی جاتیں۔ یہ عہد حاضر کا جبر ہے کہ مغربی علوم اور اس کے زیر اثر مادی ترقی محض زبان کے سیکھنے پر منحصر نہیں ہے اس کے لیے مغرب کے تین بنیادی عقائد آزادی [freedom]، مساوات[equality] اور ترقی[progress] پر ایمان اور ا س کے مطابق اعمال بجا لانے لازم ہیں۔ ان تین عقائد پر ایمان اورعمل کے بغیر محض مغربی زبان پر عبور مادی ترقی کے لیے نافع نہیں ہوسکتی۔
زبان کی جمالیات اور احساسات کا انعکاس: ایک غلط مثال کا انتخاب
حافظ صاحب نے ’’زبان‘‘ کے مسئلے پر اپنے بیان کو مؤکد بنانے کے لیے ہائیڈگر کا حوالہ پیش فرمایا ہے، قطع نظر اس کے کہ یہ حوالہ معلومات میں اضافے کا سبب بن سکا یہ نہیں اور اس پر کس قدر اضافے اور بحث کی گنجائش موجود ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خودحافظ صاحب پر اس بیان کی تفہیم پوری طرح نہ ہوسکی۔ موصوف نے اس بحث کی تسہیل کی جو مثال دی ہے وہ بہت عجیب ہے۔ حافظ صاحب لکھتے ہیں:
’’اردو میں مخاطب حاضر کے کئی صیغے ہیں، احترام کے رشتوں میں ’’آپ‘‘ کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے، بے تکلف احباب کو ’’تم‘‘ یا ’’تو‘‘کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے، جب کہ انگریزی میں مخاطب کرنے کے لیے صرف ایک ہی لفظ "You"ہے۔ تو کیا جب انگریز اپنے والد اور احباب کو "You" کہہ کر مخاطب کرتا ہوگا تو ان کی نفسیاتی کیفیت ایک جیسی ہوتی ہوگی؟ کیا یہ دونوں زبانیں بولنے والے اپنے بڑوں کا ایک جیسا احترام کرتے ہوں گے؟‘‘۔۲۰
محض لفظ "You"کی مثال سے کسی تہذیب میں فرق مراتب اور ادب آداب کو جانچنے کا حتمی معیار قرار دے دینے کا یہ رویہ ٹھیک نہیں معلوم ہوتا۔ حافظ صاحب کا یہ سارابیان لسانیاتی فلسفے سے عدم واقفیت کا غماز ہے۔۲۱ اس سلسلے میں مغربی فلاسفہ کے اقوال سے استناد کی بجائے اگر قرآن مجید ہی سے فیصلہ لے لیا جائے تو سب سے بہتر ہوگا۔ عربی زبان کی تفہیم کے لیے لغت عرب میں قرآن مجید سے برتر و محکم کتاب کوئی اور نہیں ہے۔ قرآن حکیم ہی سے ایک ہی صیغے سے دو متضاد شخصیات سے تخاطب کی مثال دیکھیے، قرآن مجید نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
اِِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ [۶۸:۴]
اور اسی قرآن پاک میں ابلیس کو خطاب کرتے ہوئے کہا:
فَاخْرُجْ مِنْھَا فَاِنَّکَ رَجِیْمٌ [۱۵:۳۴]
اگر کوئی مستشرق پلٹ کر حافظ صاحب والا سوال جزوی تبدیلی کے ساتھ یوں داغ دے کہ جب ایک مسلمان مخاطبت کے لیے ایک ہی صیغے [انک] کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابلیس رجیم دونوں کے لیے پڑھتا ہوگا تو کیا یہاں بھی وہی مسئلہ نہیں پیش آسکتاجو "You" کہہ کر کبھی اس سے باپ اور کبھی بے تکلف دوست مراد لینے والوں کو پیش آتا ہوگا؟ الزامی جواب سے ہٹ خود یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ اردو میں ہمیشہ احترام کے رشتوں میں ’’آپ‘‘ ہی کہا جائے۔ اردو بولنے والے مسلمان بالعموم اپنی مناجات اور دعاؤں میں اپنے رب کو ’’تو‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ ماں باپ سے محبت کے اظہار میں بھی ’’تو‘‘ کا لفظ عام مستعمل ہے ، اقبال کا اپنی والدۂ مرحومہ کی یاد میں مشہور شعر ہے:
عمر بھر تیری محبت میری خدمت گر رہی
میں تری خدمت کے قابل جب ہوا، تو چل بسی
مضمون کے اختتام میں ’’ایک گزارش ‘‘کے عنوان سے حافظ صاحب نے جس تندی اور عتاب کا اظہار فرمایا ہے، چوں کہ عصر حاضرمیں یہی اسلوب گفتگو اور انداز تحریر مروج ہے لہٰذا راقم اس سلسلے میں حافظ صاحب کو ایک حد تک معذور خیال کرتا ہے لیکن ایک بات حیران کن ہے اور وہ یہ کہ حافظ صاحب نے راقم کے مضمون پرسکوت اختیار کرنے کے حوالے سے جو اعتراض وارد کیا اور نصیحت فرمائی تھی کہ : ’’اگر ہم خاموش ہوجائیں تو کئی آوازوں سے زیادہ مؤثر ہوجائیں‘‘ ۲۲ قطع نظر اس سے کہ یہ اعتراض صحیح بھی ہے یا نہیں، حافظ صاحب نے راقم کے مضمون کی تردید کے لیے وہی طریق اختیار کیا جو طریق خود ان کی نظر میں قابل اعتراض ہے حافظ صاحب کے بہ قول یہ تحریریں عصر حاضر میں لوگوں کے ذہنوں کو مفلوج بنا نے میں مغرب کے ساتھ برابر کی شریک ہیں۔ ۲۳ راقم کی تحریر سے کسی کاذہن ملفوج ہوا ہو تو ہوا ہو، حافظ صاحب نے خود اپنی ہی نصیحت کے برعکس سکوت اختیار نہ کر کے ملفوج لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہی فرمایا ہوگا نہ کہ کمی۔
آخر میں ایک سوال یہ ہے کہ پاکستان کے جرائد میں راقم کا ان موضوعات کے حوالے سے شاید یہ پہلا مضمون ہے۔ اس کے باوجود راقم پر یہ تہمت ’’ کہ اس طرح تابڑ توڑ لکھنا بہ ذات خود جدیدیت کی علامت ہے‘‘ حیران کن ہے۔
حواشی
۱- محمد ظفر اقبال، ’’مادّی ترقی کا لازمہ واہمہ یا حقیقت؟‘‘ مشمولہ ماہنامہ الشریعہ، مئی۲۰۱۴ء، صفحات ۳۵-۴۶۔
۲- حافظ کاظم عثمان، ’’مادّی ترقی اور شناخت کا بحران‘‘، مشمولہ ماہنامہ الشریعہ، اگست۲۰۱۴ء، صفحات۳۷-۴۱۔
۳- ایضاً، صفحہ۳۷۔
۴- محمد ظفر اقبال، ’’مادّی ترقی کا لازمہ واہمہ یا حقیقت؟‘‘، صفحہ۳۵۔
۵- حافظ کاظم عثمان، ’’مادّی ترقی اور شناخت کا بحران‘‘، صفحہ ۳۸۔
۶- ایضاً۔
7- Abdul Wahab Suri, "What is Living and What is Dead in Iqbal: A Critical Attempt to Understand Apparently Incommensurable Hermeneutical Circles Prevailing in Iqbal's Thought" in Revisioning Iqbal As a Poet and Muslim Political Thinker, [Gita Dharampal-Frick, Ali Usman Qasmi and Katia Rostetter, eds.], Pakistan: Oxford, 2011.
۸- محمد ظفر اقبال، ’’مادّی ترقی کا لازمہ واہمہ یا حقیقت؟‘‘، صفحہ۳۵۔
۹- حافظ کاظم عثمان، ’’مادّی ترقی اور شناخت کا بحران‘‘، صفحہ ۳۸۔
۱۰- ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری، ’’عالم اسلام اور مغرب کی کش مکش: نئے تناظر میں نئی تحریکوں کے کام میں تطبیق کی ضرورت‘‘، مشمولہ سرمایہ دارانہ نظام: ایک تنقیدی جائزہ، [مرتب: محمد احمد حافظ]،کراچی: الغزالی پبلی کیشنز، ۲۰۰۹ء، صفحہ۲۲۷۔
۱۱- یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اشتراکیت بھی سرمایہ داری ہی کی ایک شکل ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اشتراکیت کی سرمایہ داری پر تنقید سرمائے کے انفرادی ارتکاز پر ہے اور اشتراکیت سرمایہ داری کی اجتماعی ادارتی صف بندی سے عبارت ہے۔ فی الاصل انفرادی سرمایہ داری [لبرل]اور اجتماعی سرمایہ داری [اشتراکیت] میں کوئی اقداری فرق اور تضاد نہیں۔آزادی [freedom]، مساوات[equality] اور الوہیت سرمایہ پر ایمان لبرل سرمایہ داری اور اشتراکی سرمایہ داری کی اساسی اقدار ہیں۔ لبرل سرمایہ داری جن امور کو فرد [individual] کے لیے روا رکھتی ہے اشتراکی سرمایہ داری ان ہی اقدار کو اجتماعیت [collectivity]کے لیے جائز قرار دیتی ہے۔
12- Jared Diamond, "China, Lurching Giant" in Collapse: How Societies Choose to Fail or Succeed, New York: Viking, 2005, pp. 358-377.
۱۳- حافظ کاظم عثمان، ’’مادّی ترقی اور شناخت کا بحران‘‘، صفحہ ۳۹۔
14-Francis Robinson, "Secularization, Weber and Islam", in Islam and Muslim History in South Asia, Delhi: Oxford University Press, 2010, p. 122.
۱۵- محمد ظفر اقبال، ’’مادّی ترقی کا لازمہ واہمہ یا حقیقت؟‘‘، صفحہ۳۶۔
۱۶- حافظ کاظم عثمان، ’’مادّی ترقی اور شناخت کا بحران‘‘، صفحہ ۳۹۔
۱۷- ایضاً۔
۱۸- راقم نے عالم اسلام میں گزشتہ دو سو سال سے جاری ’’سائنس زدگی ‘‘اور ’’سائنسی اعتزال ‘‘کے مظاہر اور امت مسلمہ میں زوال کے تجزیوں کے ضمن میں لکھی گئی تالیفات کا ایک تاریخی جائزہ بہ عنوان ’’علوم عقلیہ اور زوال امت‘‘ مرتب کیا ہے۔ یہ لوازمہ ابھی زیر تسوید ہے۔ ان شاء اللہ جلد اشاعت پذیر ہوگا۔
۱۹- محمد ظفر اقبال، ’’مادّی ترقی کا لازمہ واہمہ یا حقیقت؟‘‘، صفحہ۳۷۔
۲۰- حافظ کاظم عثمان، ’’مادّی ترقی اور شناخت کا بحران‘‘، صفحہ ۳۹۔
۲۱- اس سلسلے میں رہ نمائی کے لیے دیکھیے:
Barry Lee [eds.], Philosophy of Language: The Key Thinkers, New York: Continuum International Group, 2011.
۲۲- حافظ کاظم عثمان، ’’مادّی ترقی اور شناخت کا بحران‘‘، صفحہ ۴۱۔
۲۳-ایضاً۔
گوجرانوالہ میں قادیانی مسئلہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
گوجرانوالہ شہر کے حیدری روڈ پر رمضان المبارک کی ۲۹ (انتیسویں) شب کو رونما ہونے والے سانحہ کے بارے میں ملک کے مختلف حصوں سے احباب تفصیلات دریافت کر رہے ہیں اور ملکی و بین الاقوامی پریس میں طرح طرح کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کے ذمہ دار حضرات کی طرف سے ملنے والی اطلاعات کی روشنی میں میسر معلومات سے قارئین کو آگاہ کر دیا جائے۔
حیدری روڈ پر قادیانیوں کے پندرہ بیس خاندان ایک عرصہ سے رہائش پذیر ہیں اور اپنی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ ۱۹۹۲ میں اسی محلہ میں ایک واقعہ پیش آیا کہ قادیانیوں نے اپنے مرکز میں ڈش لگا کر احمدیہ ٹی وی کی نشریات کے ذریعہ اردگرد کے نوجوانوں کو ورغلانے کا سلسلہ شروع کیا تو علاقہ کے مسلمانوں نے اس پر احتجاج کیا۔ شہر میں غیر مسلم اقلیتیں ہمیشہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھتی ہیں اور اگر حدود سے تجاوز کی بات نہ ہو تو انہیں برداشت کیا جاتا ہے۔ اس برداشت اور رواداری میں گوجرانوالہ شہر بہت سے دوسرے شہروں سے بہتر روایات رکھتا ہے۔ مگر قادیانیوں کا مسئلہ مختلف ہے اس لیے کہ وہ اپنی دعوت اور سرگرمیاں اسلام کے نام پر کرتے ہیں۔ حالانکہ پوری امت مسلمہ انہیں دائرہ اسلام سے خارج سمجھتی ہے اور پاکستان کے دستور میں بھی انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا ہے۔ لیکن وہ اس فیصلے اور دستور پاکستان کو مسترد کرتے ہوئے اسلام کے نام پر اپنے مذہب کی تبلیغ و دعوت پر بضد رہتے ہیں جس پر پاکستانی قوم کے ساتھ ساتھ دستور و قانون کو بھی اعتراض ہوتا ہے۔ اس لیے ان کی سرگرمیاں قابل قبول نہیں ہوتیں، اور وہ جہاں بھی ایسا کرتے ہیں اردگرد کے مسلمانوں کے لیے ناقابل برداشت ہو جاتا ہے۔
۱۹۹۲ کے اس واقعہ پر علاقہ کے مسلمان مشتعل ہوئے تو قانون حرکت میں آیا اور قادیانیوں کی ان سرگرمیوں کو روک دیا گیا جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے بین الاقوامی حلقوں سے رابطہ قائم کیا اور کم و بیش ستائیس افراد اس بہانے کینیڈا کا ویزہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور وہ وہیں آباد ہیں۔ اس کے بعد دو عشروں سے زیادہ عرصہ خاموشی کے ساتھ گزر گیا اور ایک محلہ میں رہنے کے باوجود مسلمانوں اور قادیانیوں میں کشیدگی کا کوئی خاص واقعہ پیش نہیں آیا۔
رمضان المبارک کی انتیسویں (۲۹) شب کو عاقب نامی ایک قادیانی نوجوان نے صدام حسین نامی مسلمان لڑکے کو فیس بک پر ایک خاکہ بھجوایا جس میں بیت اللہ شریف کی توہین کی گئی ہے۔ یہ تصویر موبائل ریکارڈ پر موجود ہے اور اس کا پرنٹ بھی بعض دوستوں نے سنبھال رکھا ہے۔ دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اس میں ایک بد صورت ننگی عورت کو خانہ کعبہ کی چھت پر (نعوذ باللہ) گندگی کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ایک محفل میں وہ خاکہ اور تصویر بعض دوستوں نے مجھے دکھانا چاہی تو میں نے یہ کہہ کر معذرت کر دی کہ میں اس معاملہ میں بہت کمزور واقع ہوا ہوں۔ یہ توہین آمیز خاکہ جس کیفیت میں بتایا جا رہا ہے میں اسے نہیں دیکھ سکوں گا۔ صدام حسین نے یہ خاکہ دیکھ کر اپنے دو چار دوستوں سے بات کی اور وہ مل کر ڈاکٹر سہیل صاحب کی دکان پر گئے جو پہلے قادیانی تھے اب مسلمان ہیں۔ ان لڑکوں نے ان سے کہا کہ وہ عاقب کو سمجھایں کہ وہ ایسی حرکتیں نہ کرے، یہ ناقابل برداشت ہیں۔ وہیں عاقب بھی اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ آگیا اور ان کے درمیان خاصی توتکار ہوئی جو بڑھتے بڑھتے اس نوبت تک پہنچ گئی کہ قریب کے قادیانی مکانات کی چھتوں سے اینٹیں اور پتھر برسنا شروع ہوئے۔ عاقب نے صدام اور اس کے ساتھیوں سے کہا کہ جاؤ تم سے جو ہو سکتا ہے کر لو، مجھے کوئی پروا نہیں ہے ، اس کے ساتھ ہی قادیانی لڑکوں میں سے کسی نے فائرنگ بھی کر دی جس سے قریب کی ایک مسجد کے امام مولانا حاکم خان کا تیرہ سالہ لڑکا زخمی ہوگیا جس کی ٹانگ پر گولی لگی تھی۔ علاقہ کے سابق کونسلر مقبول احمد کہتے ہیں کہ وہ اس لڑکے کو اٹھا کر سول ہسپتال لے گئے، اس دوران فائرنگ اور باہمی تصادم کی خبر اردگرد کے محلوں میں پھیل گئی اور لوگ جمع ہونا شروع ہوگئے۔ محلہ کے پندرہ بیس حضرات یہ دیکھ کر تھانہ پیپلز کالونی گئے اور انچارج تھانہ سے بات کی کہ حالات زیادہ خراب ہونے کا خدشہ ہے اس لیے وہ مداخلت کریں اور وہاں پہنچیں۔ ایس ایچ او اور ڈی ایس پی دونوں سے ان کی بات ہوئی مگر ان دونوں کو واقعہ میں دل چسپی لینے پر قائل کرنے میں انہیں ڈیڑھ دو گھنٹے لگ گئے۔
یہ وہ وقت تھا جب لوگ تراویح کی نماز سے فارغ ہو کر مساجد سے نکل رہے تھے، اس لیے اردگرد محلوں کی بیسیوں مساجد کے نمازی وہاں جمع ہوئے اور ہزاروں افراد کا اجتماع ہوگیا۔ محلہ کے پندرہ بیس سرکردہ حضرات اس وقت تھانے میں پولیس افسران کو قائل کرنے میں مصروف تھے۔ سابقہ کونسلر مقبول احمد زخمی بچے کو لے کر ہسپتال گئے ہوئے تھے۔ ہجوم مشتعل تھا اور کنٹرول کرنے والا کوئی نہیں تھا، اس لیے مشتعل اور بے قابو ہجوم نے قادیانیوں کے گھروں کا رخ کیا اور انہیں آگ لگانا شروع کر دی۔ اس دوران ضلعی امن کمیٹی کے ارکان قاری محمد سلیم زاہد، مولانا مشتاق چیمہ اور بابر رضوان باجوہ بھی وہاں پہنچ گئے اور صورت حال کو کنٹرول کرنے کی کوششوں میں مصروف ہوگئے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ جب پہنچے تو مکانوں کو آگ لگی ہوئی تھی، پولیس ایک طرف کھڑی تھی، فائر بریگیڈ کی گاڑیاں ہجوم نے ایک طرف روکی ہوئی تھیں جبکہ پولیس کے جوان ہجوم کی کاروائیوں سے روکنے اور فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کو راستہ دلوانے میں کوئی کردار ادا نہیں کر رہے تھے۔ اس کے بعد جب ڈی سی او، سی پی او، اور پھر کمشنر صاحب وہاں پہنچے تو انہوں نے کاروائیوں کو رکوانے میں پولیس اور محلہ داروں کی مدد سے موثر کردار ادا کیا اور فائر بریگیڈ کی گاڑیاں آگ بجھانے کے لیے وہاں پہنچ پائیں۔ محلہ داروں کا کہنا ہے کہ آتش زنی اور لوٹ مار کے افسوسناک واقعات ہوئے ہیں لیکن محلہ داروں نے اس میں کوئی حصہ نہیں لیا۔ باہر سے آنے والے نا معلوم حضرات نے ایسا کیا ہے، بلکہ ایک مکان میں پھنسے ہوئے آٹھ دس قادیانی افراد کو محلہ داروں نے ہی وہاں سے نکالا ہے اور اس کوشش میں ایک مسلمان خود بھی جھلس گیا ہے۔
اس دوران آتش زنی سے قادیانی گھرانے کی ایک خاتون اور دو بچیاں جاں بحق ہوئیں، رات دو بجے کے لگ بھگ اس صورت حال کو کنٹرول کیا جا سکا اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے۔ دونوں طرف سے مقدمات تھانے میں درج ہو چکے ہیں اور عید کی چھٹیاں گزارنے کے بعد اس سلسلہ میں سرگرمیوں کا آغاز ہو گیا ہے۔
محلہ کے ذمہ دار حضرات اور امن کمیٹی کے ارکان کا کہنا ہے کہ خانہ کعبہ کی توہین ناقابل برداشت ہے، اس پر عوام کا مشتعل ہونا فطری بات تھی مگر اسے بروقت کنٹرول کرنے میں اگر تھانہ پیپلز کالونی محلہ کے ذمہ دار حضرات سے تعاون کرتا اور ڈیڑھ دو گھنٹے کا وقت وہاں ضائع نہ ہو جاتا تو آتش زنی اور لوٹ مار کے افسوسناک بلکہ شرمناک واقعہ کی نوبت شاید نہ آتی۔
خانقاہ یاسین زئی اور مولانا سید محمد محسن شہیدؒ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
(یہ مضمون مولانا سید محمد محسن شہیدؒ کی زندگی پر لکھی جانے والی ایک کتاب کے لیے تحریر کیا گیا۔)
پنیالہ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی خانقاہ یاسین زئی کے بارے میں میرا مبلغ علم اتنا ہی تھا کہ مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود قدس اللہ سرہ العزیز کی زبان سے بارہا اس روحانی مرکز کا تذکرہ سنا ۔ اور اس کی عظمت دل میں بیٹھ جانے کے لیے اتنی بات ہی میرے لیے کافی تھی کہ حضرت مفتی صاحبؒ کی نیاز مندی اور رفاقت میں میری جماعتی اور سیاسی زندگی کے کئی سال گزرے ہیں اور بحمد اللہ مجھے ان کی شفقت و اعتماد کا بھرپور حصہ میسر آیا ہے۔ میں نے انہیں بے پناہ سیاسی زندگی کے دور عروج میں بھی ذاکر و شاغل اور شب زندہ دار پایا ہے جس کی بڑی وجہ اس عظیم روحانی خاندان اور مرکز کے ساتھ ان کی وابستگی بھی ہو سکتی ہے۔
اسی طرح درہ پیزو کے جامعہ حلیمیہ کے بارے میں بھی صرف اتنا معلوم تھا کہ وہ صوبہ خیبر پختون خواہ کے بڑے دینی مدارس میں سے ہے۔ وہاں ایک بار حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے ساتھ مجھے بھی حاضر ہونے کی سعادت حاصل ہو چکی ہے اور جامعہ حلیمیہ کے مختلف متعلقین سے وقتاً فوقتاً ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں۔ اس لیے جب حضرت مولانا سید محمد محسن شاہ شہیدؒ ، مہتمم جامعہ حلیمیہ کے بارے میں مجھ سے کچھ لکھنے کی فرمائش کی گئی تو ایک عرصہ تک تردّد رہا کہ جانتا تو کچھ ہوں نہیں لکھوں گا کیا؟ مگر اللہ تعالیٰ بھلا کرے برادر مکرم مولانا ڈاکٹر عبد الحکیم اکبری کا کہ انہوں نے چند ماہ قبل ڈیرہ اسماعیل خان میں حاضری کے موقع پر حضرت مولانا محمد محسن شاہؒ کے بارے میں اپنی تصنیف مرحمت فرما دی جس کے مطالعہ سے مجھے معلوم ہوا کہ خانقاہ یاسین زئی کا تاریخی پس منظر کیا ہے اور جامعہ حلیمیہ کا اس سے تعلق کیا ہے؟ اور یہ بات پہلی بار میرے علم میں آئی کہ حضرت مولانا سید محمد محسن شاہؒ کا تعلق خانقاہ یاسین زئی کے عظیم روحانی مرکز اور خاندان سے ہے اور جامعہ حلیمیہ بھی در اصل خانقاہ یاسین زئی کے علوم و فیوض کا مظہر ہے۔
خانقاہ یاسین زئی میں حاضری کی حسرت رہی ہے جو اب بڑھ گئی ہے جبکہ حضرت مولانا سید محمد محسن شاہؒ کی زیارت و ملاقات کا وہی موقع ذہن میں محفوظ ہے جس کا تذکرہ حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے ساتھ جامعہ حلیمیہ میں ایک بار حاضری کے حوالہ سے کر چکا ہوں۔ جماعتی پروگراموں میں اور ملاقاتیں بھی ہوئی ہوں گی مگر یاد صرف وہی ہے۔ البتہ جامعہ حلیمیہ کی تعلیمی خدمات اور خانقاہ یاسین زئی کے روحانی فیوض مختلف احباب کے ذریعہ اور متعدد فضلاء کی صورت میں معلوم ہوتے رہتے ہیں اور اس مرکز علوم و فیوض کے لیے مسلسل دعا گو رہتا ہوں۔
ہمارے ان اکابر نے اس دور میں جب آج جیسی سہولتیں اور وسائل تصور میں بھی نہیں آسکتی تھیں، دینی علوم اور روحانی فیوض کے فروغ کے لیے دینی مدارس اور خانقاہوں کی صورت میں جو صبر آزما محنت کی ہے وہ یقیناًان حضرات کی کرامت شمار ہوگی جو اسلام کی صداقت و عظمت کا اظہار ہے۔ خاص طور پر برطانوی استعمار کے دورِ استبداد میں جب وہ جنوبی ایشیا میں اسلام کی ہر علامت کو ختم کر دینے کے درپے تھا، ان بزرگوں نے اپنے وجود کو مٹا کر اسلام کی عظمت کا پرچم سر بلند رکھا۔ اور مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کے بقول زمانے کی نگاہوں سے اپنی محنت اور جدوجہد کو اوجھل رکھنے کے لیے وہ چٹائیوں اور تپائیوں پر آگئے بلکہ زمین پر بچھ گئے اور اس وقت تک ’کیمو فلاج‘‘ رہے جب تک دنیا کی سازشوں کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں آگئے۔
آج کا عالمی استعمار ان مدارس اور خانقاہوں کا سامنا کرنے میں خود کو بے بس محسوس کر رہا ہے اور اس پر اس کی جھنجھناہٹ اب جھلّاہٹ میں بدلتی جا رہی ہے کہ وہ نہ تو ان مدارس اور خانقاہوں کو ختم کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے، نہ ہی ان پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش میں اسے کامیابی ہو رہی ہے، اور نہ ہی ان کا رخ تبدیل کرنے کے لیے اس کی کوئی سازش کامیاب ہو رہی ہے۔ یہ یقیناًحضرت مولانا سید محمد محسن شاہؒ اور ان جیسے دیگر بزرگوں کے خلوص و محنت پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے صلہ و ثمرہ ہے جس سے نہ صرف اس خطہ کے لوگ بلکہ دنیا بھر کے مسلمان بالواسطہ یا بلا واسطہ فیض یاب ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان اکابر کے درجات بلند سے بلند تر فرمائیں اور ہم سب کو ان کے نقش قدم پر چلتے رہنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
تعارف و تبصرہ
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی
’’اظہارِ دین‘‘
مصنف: مولانا وحید الدین خاں
ناشر: 1 نظام الدین ویسٹ نئی دہلی گڈورڈ بکس 110013
صفحات : 719
مولانا وحید الدین خان ہمارے دور کے ایک صاحب طرز ادیب ، انشاء پرداز اور صاحب اسلوب مفکر و مصنف اورداعئ دین ہیں۔ مولانا کی سب سے بڑی خصوصیت مغرب کا وسیع مطالعہ ہے جس میں ان کا کوئی ثانی نہیں ۔ بدقسمتی سے مولانامسلمانوں کے در میان بعض سیاسی اسباب سے ایک متنازعہ شخص بنے رہے ہیں تاہم ان کے قلم کی تازگی، طبع کی جولانی اور عصری اسلوب میں مضامین تازہ کی آمدمیں کوئی کلام نہیں ۔ یہ بہت اچھی بات ہے کہ ان کے حلقہ میں یہ احساس بڑھاہے کہ مولانا کی متفرق ومنتشر تحریروں کومتعینہ موضوعات کے تحت یک جا کردیا جائے اور حتی الامکان نزاعی بحثوں کو نہ چھیڑا جا ئے ۔ چنانچہ اسی سلسلہ میں پہلے کتاب معرفت آئی اوراب اسی سلسلہ کی دوسری کڑی اظہار دین کے نام سے شائع کی گئی ہے ۔ ان دونوں کتابوں کومیری معلومات کے مطابق مولانا کے معاون خاص مولانا محمد ذکوان ندوی نے جمع کیاہے۔ اظہارِدین دراصل عصری اسلوب میں اسلام کا علمی وفکری مطالعہ ہے۔ یہ کتاب تین ابواب میں منقسم ہے ۔پہلا باب خد ا کی طرف: جدید سائنس کی روشنی میں خدا کے وجود کا اثبات ہے۔ دوسرا باب اسلام اور عصرحاضر ہے۔ اس میں مصنف نے فکرمغرب کی وضاحت کی ہے ساتھ ہی قرآن کا تصورِتاریخ کیا ہے اس سے بھی بحث کی ہے۔ تیسرا باب اسلام اکیسویں صدی میں مختلف عنوانات کے تحت داعیان دین کے لیے لائحہ عمل اور طریقۂ کار کی رہنمائی ہے ۔ خود مولانا کے اپنے الفاظ میں یہ کتاب’’ اسلامی تعلیمات کی عقلی تببین Rational Interpretationکے پہلو سے تعلق رکھتی ہے ۔ اس کتاب میں کوشش کی گئی ہے کہ اسلام کی اصل آئڈیا لوجی کو اس طرح واضح کیاجائے کہ وہ آج کے ذہن کے لیے قابل فہم Understandable بن سکے۔‘‘(آغازکلام)۔
سائنس اورالحاد ،جدید الحادایک تجزیہ، دورشرک اور دور الحاد ، دورسائنس اور مذہب، حیاتیاتی ارتقا کا نظریہ، گاڈ پارٹیکل، مذہب اور سائنس ، اسلام اور جدید مغربی تہذیب مغربی کلچر، ماڈرن ایج اور اسلام، انسانی تاریخ کی تعبیر ، قرآن کا تصورِ تاریخ، فکری مستوی کے مطابق خطاب، عصری تقاضے چند قابلِ غورپہلو،تخلیق انسانی کا مقصد ، خلافت کا تصور، قیامت کے دروازے پر، تاریخ انسانی کا خاتمہ اور زندگی کا مقصدوغیرہ اس کتاب کے بڑے اہم مباحث ہیں ۔ ایک بحث میں مصنف نے بتایاہے کہ تاریخ انسانی میں دوعظیم فکری انقلابات آئیں گے جن میں پہلا انقلاب صحابہ کرام سے تعلق رکھتاہے جبکہ دوسرے انقلاب کو مصنف اخوان رسول کے نام سے تعبیر کرتے ہیں ۔اس تقسیم کی بازگشت مولانا کی نئی تحریروں میں باربار ہورہی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ جس حدیث سے اس سلسلہ میں استدلال کیاجارہاہے وہ سادہ معنوں میں صحابہ کے بعد آنے والے سبھی لوگوں کو اخوان کے لفظ سے تعبیر کرتی ہے۔جس میں تابعین وتبع تابعین بھی آجاتے ہیں۔ اس میں کسی خاص گروہ کو کوئی خاص رول دینے کی بات کہیں نہیں کہی گئی ہے۔پھر اسلامی تاریخ کو دودوروں اصحابِ رسول اور اخوان رسول میں کیونکر تقسیم کیاجاسکتاہے؟
مولاناوحیدالدین خاں کے نزدیک جدیدتہذیب کے تین پہلوہیں۔ ۱۔جدیدسائنسی دریافتیں:یہ ان کے نزدیک اسلام سے مطابقت رکھتی ہیں۔۲۔جدیدکلچر:جس میں بعض چیز یں اسلام سے مطابقت رکھتی ہیں مثلا آزادی اظہاررائے اوربعض اس سے مغایرہیں مثال کے طورپرعریانیت وفحاشی ۳۔جدیدفلسفیانہ افکار :مثلا ڈاورن کا فلسفہ ارتقاء ۔مولانااس تیسرے پہلویعنی فلسفیانہ افکارکوکلیۃً مستردکرتے ہیں۔ارتقاء کا نظریہ ان کے نزدیک مغالطوں پرمبنی ہے اورقطعی طورپرغیرسائنسی نظریہ ہے ۔ جدیدکلچرکی غیراسلامی چیز وں کومصنف مسترد کرتے ہیں لیکن نمبرایک یعنی سائنسی دریافتوں کووہ قبول کرتے ہیں۔ (ملاحظہ ہو صفحہ 288تا292)۔
یہ بھی واضح رہے کہ سائنس سے مرادمولاناکی نظریاتی سائنس ہے جس کووہ کہتے ہیں کہ: ’’نظریاتی سائنس کامل طورپر معرفت کی سائنس ہے ‘‘جس میں آج کوئی کام نہیں ہورہاہے ۔بیسویں صدی میں اس سائنس میں قابل ذکرپیش رفت ڈاکٹر عبدالسلام 1926-1996 اور سرجمیس جینز 1877- 1946نے کی تھی ۔ ڈاکٹر عبدا لسلام سے پہلے فزکس اورطبیعات کی دنیامیں سائنس دانوں نے یہ مان لیاتھاکہ چارطاقتیں ہیں جوکائنات کوکنٹرول کرتی ہیں ۔ یوں گویا خداکی ضرورت ان سائنس دانوں کی نظرمیں نہیں رہ گئی تھی ۔ مگر ڈاکٹر عبدالسلام نے ’’خالص ریاضیاتی بنیادپر یہ ثابت کیاکہ کائنات کوکنٹرول کرنے والی طاقتیں چارنہیں تین ہیں اسی تحقیق پر ان کونوبل پرائزدیاگیا‘‘۔اوراس کے بعد نظریاتی سائنس میں سب سے بڑاکارنامہ برطانوی سائنس داں اسٹیفن ہاکنگ 1942) کا ہے جس نے اپنیsingle string theory کے ذریعہ گو یا توحید کوپوری طرح ثابت کردیاہے ۔اس نے بتایاہے کہ ایک ہی قوت ہے جوپوری کائنات کوکنٹرول کرتی ہے ۔ ( صفحہ : 102 )سائنس کی دوسری قسم عملی یا ٹیکنیکل سائنس ہے جس کوانطباقی applied scienceبھی کہتے ہیں اورجوآج دنیامیں ساری ٹیکنالوجی کی ترقیوں کی بنیاد،جدیدمشینی تہذیب کی جنم داتااورسارے شروفسادکی جڑہے۔ ماننزم یا وحدت الوجود(ادویت واد)اورآواگون ( Cycle of life )پر بھی مولانانے مختصرطورپر کلام کیاہے۔ اس کے علاوہ موجودہ مغرب دور میں مقبول تصور انسانی پر وری پر بھی گفتگو کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نظریہ ہیومن ازم کا خلاصہ یہ ہے کہ اس دنیامیں انسان ہی سب کچھ ہے انسان کے اوپر کوئی اورطاقت موجودنہیں ۔ہیومن ازم کے نظریہ کواس طرح بیان کیاجاتاہے سیٹ کی منتقلی خداسے انسان کی طرف (Transfe of seat from God to man)۔ان نظریات کوانہوں نے مؤثراورطاقت وردلائل سے ردکیاہے۔ (دیکھیں صفحہ 184-185 )
اس کتاب میں مختلف عنوانات کے تحت جدید فکر ، جدیدسائنس اورجدید مادی افکارپر مولانانے روشنی ڈالی ہے۔اورخذماصفااوردع ماکدرکے اصول پرعمل کرتے ہوئے مفیدچیزوں کولے لیاہے اور مضر چیزوں کو مسترد کیا ہے ۔اس لیے اسلامی علوم کے طلبہ ،علماء کرام اورداعیان دین کے لیے اس کتاب کا مطالعہ بہت مفیدثابت ہوگا ۔ اس کتاب سے وہ جدیدتہذیب اور مغربی فکرسے اچھی طرح واقف ہوجائیں گے اوراس کے مفید ومضر دونوں پہلوؤں سے ان کوآگاہی حاصل ہوگی ۔مولانانے لکھاہے کہ جدیدالحادکے پیچھے یوں توبہت سے اذہان کام کررہے ہیں لیکن بنیادی طورپر چارمفکرین کواس میں خاص اہمیت حاصل ہے۔وہ چارہیں : آئزاک نیوٹن ، چارلس ڈارون ، سگمند فرائڈ اورکارل مارکس،مولانانے ان چاروں اوران کے نظریات کے بارے میں مختصر اور جامع طورپر جوکچھ لکھ دیاہے وہ بصیرت افروز ہے اور پڑھنے سے تعلق رکھتاہے (ملاحظہ ہوصفحہ 95-99)۔ان کے بارے میں مولانامزیدلکھتے ہیں:
’’وہ چیز جس کوجدیدفکرmodern thoughtکہاجاتاہے اس کے چارنظریاتی ستون ہیں ۔یہ چارنظریاتی ستون خالص علمی اعتبارسے ابھی تک غیرثابت شدہ ہیں لیکن یہی چارنظریات دنیاکے ذہن پر چھائے ہوئے ہیں دنیاکی بیشترآبادی کے لیے یہ چارنظریات گویاسیکولرعقیدہ Secular belief کی حیثیت رکھتے ہیں۔۔۔۔ان میں سے ایک نظریاتی ستون وہ ہے جس کونظریہ ارتقاء evolution theory کہاجاتاہے جس کے تحت موجودہ زمانہ میں تمام حیاتیاتی مظاہرکی توجیہ کی جاتی ہے ۔۔۔دوسرانظریاتی ستون وہ ہے جس کواصول تعلیل principle of causationکہاجاتاہے اورجس کے تحت تمام طبیعی واقعات کی توجیہ کی جاتی ہے۔۔۔۔تیسرانظریاتی ستون وہ ہے جس میں انسانی شخصیت کی توجیہ خواہش کی بنیادپر کی جاتی ہے یعنی مبنی برخواہش فکرdesire-based thinking۔اس نظریہ کے مطابق انسان کے اندرجوخواہش ہے، وہ اس کی شخصیت کی تشکیل کرتی ہے ۔۔۔چوتھانظریاتی ستون وہ ہے جوکارل مارکس کے افکارپر مبنی ہے۔ اس کے نظریاتی ستون کومیں اپنے الفاظ میں مبنی برنظام فکر system- based thinkingکہوں گا‘‘(صفحہ 608باختصار)
مولانانے لکھاہے :یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان پوری تاریخ میں بے خبری کے اندھیروں میں بھٹکتارہاہے۔ انسان کی اس بے خبری کوتین عنوان کے تحت بیان کیاجاسکتاہے :
۱۔آئیڈیل ازم Idealism
۲۔بہیویرازمBehaviourism
۳۔یوٹلٹیرین ازم(افادیت) Utili tarionism مؤخرالذکرکوآسان لفظوں میں کھاؤپیواورخوش رہوکہا جاسکتاہے جس کی ترجمانی بابرنے یوں کی تھی کہ :بابربہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست ۔اس کے بعدانہوں نے جامع ومرکز انداز میں ان تینوں چیزوں کوانسانی تاریخ کے تناظرمیں جائزہ لیاہے ۔
عقل ووحی کے بارے میں مولانانے ایک بڑی خوبصورت بات کہی ہے: ’’عقل reasonاوروحی revelationکوایک دوسرے کا حریف بتانابلاشبہ ایک غلطی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ وحی ایک مستقل ذریعۂ علم ہے جبکہ عقل بذات خود کوئی ذریعۂ علم نہیں ۔خودوحی کی صحت پر جب کوئی شخص یقین کرلیتاہے تووہ بھی یہی کرتاہے کہ اپنی خدادادعقل کواستعمال کرکے اس پر غورکرتاہے اوریقین کے درجہ میں پہنچ کروہ وحی کی صداقت کودریافت کرتاہے ۔اس اعتبارسے یہ کہنا در ست ہوگاکہ عقل وحی کی مددگارہے نہ کہ وحی کی مدمقابل ‘‘(صفحہ 115)
کتاب میں بعض ان خیالات کا اظہاربھی کیاگیاہے جس میں اہل علم کی دورائیں ہوسکتی ہیں۔ مولاناکے اپنے مخصوص تصوردین اوراصلاح ملت یااحیاء دین اوردعوتِ دین کی جھلکیاں بھی جابجااس میں نظرآتی ہیں، مثلاً مولانا کا کہنا ہے کہ اسلامی حکومت کی اصل ضرورت قرآن کی حفاظت کے لیے تھی اوراس زمانہ میں اس کی کوئی ضرورت نہیں رہ گئی ہے وغیرہ، ان خیالات پر اہل علم کواپنی رائے ظاہرکرنی چاہیے۔
مولانا وحید الدین خاں صاحب کے بارے بہت سے لوگ الزام دیتے ہیں کہ وہ ہمیشہ مغرب کی تعریف میں رطب اللسان رہتے ہیں، مگرعلی الاطلاق ایسانہیں ہے جیساکہ اس کتاب کے متعددمباحث سے معلوم ہوتاہے اورجس کی طرف اوپر مختصراًاشارہ کیا گیا ہے ۔
راقم نے اس کتاب کو بے حد مفید پایا۔ تاہم ایک کمی جو واضح طورپر محسوس ہوئی وہ یہ ہے کہ اس پوری کتا ب میں کہیں بھی مرتب کتاب جناب مولانا محمد ذکوان ندوی کا نام نہیں ہے ۔کسی علمی وتحقیقی کتاب کے لیے یہ ایک نقص کی بات ہے۔ مرتب ومدون کا نام نہ دینا سراسر جدید اصولِ تصنیف کے خلاف ہے۔مولانا کو بڑی شکایت یہ ہے کہ مسلمانوں نے ان کا اعتراف نہیں کیا، لیکن خود ان کے ہاں اعتراف تو کجا، چھوٹوں کی حوصلہ افزائی تک نہیں ہوتی۔یا د رہے کہ بین الاقوامی معیار کے جو ناشرین ہیں وہ بھی اکنالجمنٹ کا زبردست اہتمام کرتے ہیں ۔گڈورڈ جیسے بڑے ادارے میں اس چیز کا عدم اہتمام حیرت انگیز ہے۔
ایک علمی و فکری ورکشاپ کی روداد
محمد عثمان فاروق
لاہور کے ایک تعلیمی ادارے النّحل نے 11 جون تا 21 جون 2014ء ایک اہم ورکشاپ کا انعقاد کیا جس کا عنوان حسب ذیل تھا: ’’دینی فکر اور علم جدید: تنازعات کی وجوہات اور مفاہمت کی ممکنات‘‘۔کم و بیش تیس طلبہ نے اس میں شرکت کی جس میں NUST یونیورسٹی اسلام آباد، LUMS یونیورسٹی لاہور، پیر محمد کرم شاہ ازہریؒ کے قائم کردہ ادارہ دارالعلوم غوثیہ بھیرہ شریف اور قرآن اکیڈمی لاہور کے فارغ التحصیل طلبہ سر فہرست تھے۔ادارہ النحل کے سربراہ اور LUMS یونیورسٹی کے پروفیسر جناب ڈاکٹر باسط بلال کوشل صاحب نے تعلیم و تدریس کی ذمہ داری سر انجام دی۔
ڈاکٹر صاحب وسیع المطالعہ مفکر، محقق و نقاد، اور متعدد کتب کے مصنف ہیں۔ (واضح رہے کہ ڈاکٹر صاحب کی کتب انگریزی زبان میں ہیں)۔ مذہب، فلسفہ، سماجیات (Sociology) اور مغربی علوم و افکار پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ 2003ء میں انہوں نے Drew یونیورسٹی امریکہ سے ڈاکٹریٹ (Ph.D) کی۔ آپ کے تحقیقی مقالے (Thesis) کا موضوع Sociology of Religionتھا۔ 2011ء میں Virginia یونیورسٹی سے مندرجہ ذیل عنوان پر دوسری پی ایچ ڈی کی:
Max Weber, Charles Peirce and the Integration of Nature and Geisteswissenschaftern
ڈاکٹر صاحب کی دین کے ساتھ بے پناہ وابستگی اور دعوت و نصرت دین کا جذبہ ڈاکٹر اسرار احمدؒ سے تعلق کا مرہون منت ہے۔ ان کی ابتدائی دینی تعلیم و تربیت قرآن اکیڈمی ماڈل ٹاؤن لاہور میں ہوئی۔ اگرچہ انہیں دین کی انقلابی فکر سے کچھ زیادہ اتفاق نہیں ہے اور نہ ہی باضابطہ طور پر ڈاکٹر اسرار صاحب کی قائم کردہ جماعت سے رفاقت کا تعلق ہے لیکن وہ ڈاکٹر اسرار صاحب کی اولین تحریروں میں سے ایک مختصر مگر جامع تحریر ’’اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور کرنے کا اصل کام‘‘ میں پیش کیے گئے نکات اور نتائج فکر کو خاصی اہمیت دیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ماضی قریب کے مفکرین میں سے علامہ اقبال، ڈاکٹر رفیع الدین، Charles Peirce اور Max Weber سے خاصا استفادہ کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب ان مستثنیات میں سے ہیں جو عصر حاضر کے علوم و افکار خاص طور پر مغربی فکر و فلسفہ اور سماجیات و سائنس سے براہ راست اولین مصادر و مآخذ (Sources) کے ذریعے واقف ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بہت کم شخصیات ایسی ہیں جو دینی علم کے ساتھ ساتھ جدید علم پر بھی گہری نظر رکھتی ہوں۔
ورکشاپ میں منتخب مطالعاتی مواد (Reading Pack) کا مطالعہ کروایا گیا جس کے اجزا یہ تھے:
۱۔ امام غزالیؒ کی آپ بیتی ’’المنقذ من الضلال‘‘ کے منتخبات جس میں امام صاحب نے تلاش حقیقت کے اپنے سفر کو پوری شرح و بسط سے لکھا ہے۔ مولانا عبد الماجد دریا آبادیؒ کی آپ بیتی کا وہ حصہ جس میں انہوں نے اپنے دس سالہ دورِ الحاد و تشکیک کی مفصل روداد بیان کی ہے۔ اور ان عوامل و محرکات کا جائزہ لیا ہے جو ان کی راہ راست سے انحراف کا باعث بنے۔ بعد میں اسلام کی طرف بازگشت کو موضوع بنا کر قدرے تفصیل سے اپنے تاثرات اور مشاہدات کا اظہار کیا ہے۔
ج۔ ڈاکٹر رفیع الدین صاحب کی کتاب ’’قرآن اور علم جدید‘‘ کے منتخب مقامات بھی پڑھائے گئے جس میں ڈاکٹر رفیع الدین صاحب نے عصر حاضر میں مغربی فکر و فلسفہ اور جدید سائنسی علوم کے زیر اثر اسلام کو علمی و نظریاتی سطح پر درپیش تحدیات (Challenges) کا جائزہ لیا ہے اور اس سے عہدہ برآ ہونے کے لیے جہد و عمل کا ایک خاکہ (Outline) پیش کیا ہے۔
د۔ عالم مغرب کے معروف فلسفی اور مفکر تعلیم جان ڈیوی کی کتاب ’’فلسفے کی نئی تشکیل‘‘ کے منتخب ابواب (Selected Cahpters) بھی شامل نصاب تھے، جس میں فلسفے کی تاریخ، مقاصد و اہداف، ارتقائی علمی و فکری مراحل، فلسفے اور سائنس کا باہمی تعلق، حقیقت تک رسائی کے لیے عقل محض کے ذریعے فلسفیانہ طریقہ کار، فلسفے کی نئی تشکیل کے لیے تاریخی و سماجی عوامل اور سائنسی محرکات جیسے اہم موضوعات زیر بحث آئے۔
ڈاکٹر صاحب نے اس خشک اور دقیق موضوع کو بڑی خوبصورتی اور دل نشین انداز میں واضح کیا۔ ڈاکٹر باسط کوشل صاحب کی فکر اور دعوت کے بارے میں راقم کا احساس یہ ہے کہ یہ عوام سے کہیں زیادہ خواص سے متعلق ہے، یعنی وہ معاشرے کے ذہین اور تعلیم یافتہ طبقے جسے ذہین اقلیت کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا، کو اس بات کی ترغیب ہے کہ وہ ایک طرف کتاب و سنت کا صحیح فہم حاصل کریں، دینی روح اور اس کے مزاج سے شناسائی حاصل کریں، اور دوسری طرف جدید علوم و افکار سے گہری واقفیت حاصل کر کے اسلام کے آفاقی پیغام کو پورے اعتماد، فکری وضوح (Clarity) اور بہترین عقلی استدلال کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کریں اور دور جدید کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے دعوت دین کا فریضہ بحسن و خوبی سر انجام دینے کے لیے کمر بستہ ہو جائیں۔
المنقذ من الضلال اور مولانا دریا آبادی کی آپ بیتی (Autobiography) کا مطالعہ کرواتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے اس بات کی طرف بطور خاص توجہ دلائی کہ امت مسلمہ کی دینی علمی روایت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر دور میں مسلمان اہل علم و دانش نے اپنے عہد کے مروجہ علوم و افکار اور نظریات پر کامل دسترس حاصل کی اور پھر اسلام کی ایسی متوازن علمی و نظریاتی تعبیر پیش کی جس سے لوگوں کے قلوب و اذہان اسلام کی تعلیمات سے ہم آہنگ ہوئے اور وہ لوگ جو غیر اسلامی افکار سے متاثر ہو کر الحاد، دہریت، لا ادریت، شک و ارتیاب کی دلدل میں پھنس گئے تھے، جلد ہی صحت یاب ہوگئے اور اسلام پر ان کا قلبی و عقلی اعتماد نہ صرف بحال ہوا بلکہ اس میں پہلے سے کہیں زیادہ پختگی پیدا ہوگئی۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اسلام کو ہر دور اور ہر زمانے میں مختلف نوعیت کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن مسلمان مفکرین و علماء بھی اس سے بے خبر نہیں رہے، بلکہ انہوں نے اسلام پر ہونے والے ہر نظریاتی حملے کا مسکت جواب دیا ہے۔ امام ابن تیمیہؒ کی ’’الردّ علی المنطقیین‘‘، امام غزالیؒ کی ’’تہافۃ الفلاسفہ‘‘ اور شاہ ولی اللہؒ کی کتاب ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ ڈاکٹر رفیع الدین صاحب کی کتاب ’’قرآن اور علم جدید‘‘ کے اقتباسات کا مطالعہ کرواتے ہوئے ڈاکٹر باسط صاحب نے ایک چشم کشا بات کہی کہ مغربی فکر و فلسفہ کے گمراہ کن افکار و تصورات کے زیر اثر مسلم سماج میں عوام میں بالعموم اور خواص بالفاظ دیگر جدید تعلیم یافتہ طبقہ میں بالخصوص ایک طرح کا ذہنی ارتداد ایک عرصے سے شروع ہو چکا ہے۔ خدا، وحی، روح اور آخرت جیسے بنیادی دینی مقدمات اب لوگوں کو فرسودہ اور بے معنی معلوم ہوتے ہیں۔ شکم و فرج کے تقاضوں کو پورا کرنے کی دھن ہر عام و خواص پر سوار ہے جس کے نتیجے میں دنیا، عقلِ محض، مادی جسم ہی سب کچھ سمجھا جانے لگا ہے۔
دور جدید کے افکار میں الحاد، لا ادریت، لا دینیت، مادہ پرستی، تحلیل نفسی، منطقی اثباتیت، وجودیت، تجرباتیت، کرداریت، میکانکی ارتقاء، اور سیکولر ازم کے باطل نظریات کی تند و تیز یلغار نے ہمیں دین سے برگشتہ کر دیا ہے اور ہماری نئی نسلوں کو شکوک و شبہات کے گڑھے میں دھکیل دیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان مغالطہ انگیز اور غارت دین و ایمان افکار و نظریات کا باریک بینی سے مطالعہ کریں اور ایسا بیانیہ جواب (Counter Narrative) تیار کریں جو نہ صرف اسلام کے چہرے سے بد نما دھبوں کو دور کرے بلکہ اس میں ایسی دل کشی اور جاذبیت پیدا ہو کہ دنیا اسلام کی فطری کشش کو محسوس کرے اور خدا رخی زندگی گزارنے کے قابل ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ آج ہمیں دین کی تعبیر جدید پیش کرنا ہوگی جو ایک طرف ہماری مستند علمی و دینی روایت کی مظہر ہو اور دوسری طرف جس میں جدید دور کے تقاضوں اور سماجی عوامل کا پورا پورا خیال رکھا گیا ہو۔ دین کو مختلف آمیزشوں اور افراط و تفریط سے پاک کر کے اعلیٰ علمی، عقلی اور نظریاتی سطح پر پیش کرنا ہوگا۔
ڈاکٹر صاحب نے روایتی دینی حلقوں، جماعتوں اور تحریکوں پر بھی کڑی تنقید کی جو اپنے اپنے خولوں میں مقید ہو کر بس اپنی مخصوص فکر، ضابطے کی سرگرمیوں اور فروعی و فقہی نزاعات میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ ان کی ترجیحات میں اپنی تحریک کا فروغ اور اپنے مسلک کی نشوونما و بقا ہی رہ گیا ہے اور مسلم سماج کو درپیش مسائل سے انہوں نے صرف نظر کیا ہوا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی نقد اپنے تلخ لب و لہجہ کے باوجود اصولی طور پر درست ہے، لیکن راقم کا مشاہدہ ہے کہ بعض اوقات مخلص علماء و محققین اور داعیان کے بارے میں شدید غلط فہمی پیدا کرتی ہے اور سننے والا یہ تاثر لیتا ہے کہ شاید علماء دین تو بس ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اور کچھ بھی بات نہیں کر رہے۔ حالانکہ یہ حقیقت واقعہ ہے کہ قحط رجال کے اس گئے گزرے دور میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو دین کی حفاظت، دعوت، اشاعت اور تحقیق و تعلیم کا کام پورے اخلاص، محنت سے کر رہے ہیں جو نہایت قابل قدر اور حوصلہ افزا بات ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے ایک اہم بات یہ بھی کہی کہ بعض لوگ جو دین کی نصرت و دعوت کا بے پناہ جذبہ رکھتے ہیں اور جن کا خلوص ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہے وہ علم جدید خصوصاً سائنس کی ہر تحقیق اور مثبت ایجاد و دریافت کی تردید کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں جس سے لوگوں میں دین کا یہ منفی تاثر جاتا ہے کہ شاید مذہب ہر نئی بات کی، خواہ وہ کتنی معقول اور مدلل ہو، نفی کرتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ایسے مخلص و جذباتی مگر کوتاہ نظر لوگوں کے لیے ’’نادان دوستوں کی نصرت دین‘‘ کی تعبیر اختیار کی جو در حقیقت امام غزالیؒ کے الفاظ ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ یہ طرز عمل اختیار کرنے سے ہم لوگ خود اپنے مقدمے کو کمزور کر دیتے ہیں۔ پھر آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ دیا:
الکلمۃ الحکمۃ ضالۃ المؤمن فحیث وجدھا فھو احق بھا۔ (جامع الترمذی)
ترجمہ: حکمت و دانائی تو مومن کی گمشدہ متاع ہے، وہ اسے جہاں پائے، وہی اس کا زیادہ حقدار ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ علم و تحقیق کی بات کو مشرق و مغرب میں نہیں بانٹنا چاہیے، یہ تو ساری انسانیت کی مشترکہ میراث ہے جس سے بغیر تعصب و امتیاز کے استفادہ کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ہر حال میں علمی دیانت کے اصولوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ یہ کوئی علمی اور اخلاقی طریقہ نہیں ہے کہ ہر کسی بات یا تحقیق جدید کو محض اس وجہ سے قبول نہ کریں کہ وہ مغرب سے منسوب ہے۔ انہوں نے کہا کہ بعض اوقات ہم کسی نظریہ یا فکر کو دین مخالف سمجھ کر رد کر دیتے ہیں، لیکن وہ ہو سکتا ہے فی الواقع دین سے متضاد نہ ہو بلکہ ہمارے فہم یا تعبیر و توجیہ سے ٹکرا رہی ہو اور ظاہر بات ہے کہ تعبیر و تشریح دین ایک انسانی اور اجتہادی معاملہ ہے جس میں غلطی و خطا کا امکان برابر موجود رہتا ہے۔ ویسے بھی یہ بات تو بدیہی ہے کہ وحی اور عقل سلیم میں کوئی تضاد و نزاع نہیں ہے، خدا کی معرفت آیات انفسی و آفاقی پر غور کرنے سے ملتی ہے اور جدید سائنس انفس و آفاق پر غور و تدبر کی طرف ہی گامزن ہے۔ ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم نے بالکل بجا کہا کہ قرآن خدا کا کلام ہے اور کائنات خدا کا کام (صنعت و کاریگری) ہے۔ لہٰذا خدا کے کلام و کام میں فرق و تفاوت نہیں ہو سکتا۔
ورکشاپ شیڈول کے مطابق نماز عصر سے مغرب تک روزانہ کسی مہمان مقرر کا لیکچر ہونا تھا، لیکن بعض وجوہات کی بنا پر ایسا نہیں ہو سکا۔ صرف دو مہمان مقرر تشریف لائے جن میں علامہ اقبال مرحوم کے نواسے میاں اقبال صلاح الدین صاحب نے اقبال کے حالات زندگی اور قرآن سے شغف و انہماک پر گفتگو کی جبکہ LUMS سے تشریف لانے والے ڈاکٹر طارق جدون صاحب نے سائنسی طریقۂ تحقیق پر روشنی ڈالی۔ ادارہ النحل کی انتظامیہ سے گزارش ہے کہ آئندہ ایسی ورکشاپس دیگر علمی و تحقیقی شخصیات کو بھی مختلف موضوعات پر محاضرات کی دعوت دی جائے جن میں جناب احمد جاوید صاحب (ڈپٹی ڈائریکٹر اقبال اکیڈمی لاہور)، ڈاکٹر ابصار احمد صاحب (شعبہ فلسفہ پنجاب یونیورسٹی)، ڈاکٹر محمد امین (مدیر البرہان، لاہور) اور مولانا یوسف خان صاحب (شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ) جیسے اصحاب علم و فضل شامل ہیں۔
جناب ڈاکٹر باسط بلال صاحب اور ادارہ النحل کی پوری ٹیم کا بے حد شکریہ جنہوں نے اس ورکشاپ کا اہتمام کیا، طلبہ کے قیام و طعام اور دیگر سہولیات کا خاطر خواہ بندوبست کیا۔ جناب ڈاکٹر احمد بلال صاحب بھی خصوصی شکریے کے مستحق ہیں جو طلبہ کے ساتھ نہایت محبت اور تواضع کے ساتھ متعلق رہے اور وقتاً فوقتاً طلبہ سے تجاویز و آرا (Feedback) لیتے رہے اور Assignments بھی لیتے رہے۔
اکتوبر ۲۰۱۴ء
’’دہشت گرد‘‘ کا موقف اس کی زبانی
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
میری اس گزارش پر بعض دوستوں کو الجھن ہوتی ہے کہ کسی کے بارے میں یک طرفہ بات نہیں کرنی چاہیے اور اگر کسی فرد یا گروہ کے بارے میں کوئی شکایت یا اعتراض ہو تو اس سے بھی پوچھ لینا چاہیے کہ تمہارا موقف کیا ہے؟ اس کا موقف از خود طے کرنے کی بجائے اس سے دریافت کرنا چاہیے اور اگر وہ کوئی وضاحت پیش کرے تو اسے یکسر مسترد کر دینے کی بجائے اس کا سنجیدگی اور انصاف کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے۔ ہمارے ساتھ گزشتہ ڈیڑھ صدی سے یہ معاملہ جاری ہے کہ اکابر علماء دیوبند پر گستاخ رسولؐ ہونے کا الزام مسلسل دہرایا جا رہا ہے۔ عبارات پیش کی جا رہی ہیں اور فتوؤں پر فتوے جاری ہو رہے ہیں۔ مگر اس حوالہ سے خود ان اصحابِ عبارات نے جو تحریری وضاحتیں پیش کی ہیں اور اکابر علماء دیوبند نے متنازعہ مسائل پر جو موقف بیان کیا ہے، اسے قبول نہیں کیا جا رہا اور یہ کہا جا رہا ہے کہ علماء دیوبند کا موقف وہ نہیں ہے جو وہ خود بیان کرتے ہیں، بلکہ وہ ہے جو معترضین نے ان کی عبارات سے سمجھ رکھا ہے۔
اس تناظر میں آج کا ایک اہم مقدمہ قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں جو رفتہ رفتہ دنیا کا سب سے بڑا مقدمہ بنتا جا رہا ہے، اور وہ ہے اس نوجوان کا مقدمہ جو خود کو مجاہد کہتا ہے لیکن دنیا نے اسے دہشت گردی کا ٹائٹل دے رکھا ہے اور اسے صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لیے دنیا میں ہر طرف نہ صرف طاقت کا بے دریغ استعمال ہو رہا ہے بلکہ عالمی سطح پر متحدہ محاذ قائم کر کے یہ عزم ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس کو دنیا میں کہیں بھی زندہ رہنے کا حق نہیں دیا جائے گا۔
آج جی چاہتا ہے کہ اس مجاہد یا دہشت گرد کا مقدمہ خود اس کی زبان میں پیش کروں، خاص طور پر اس لیے بھی کہ اسے اپنی پوزیشن واضح کرنے یا اپنا موقف اور جذبات پیش کرنے کے لیے ابلاغ اور لابنگ کا کوئی فورم میسر نہیں ہے اور میڈیا کے تمام مؤثر ذرائع کے دروازے اس کے لیے شجر منوعہ کا درجہ اختیار کر چکے ہیں۔ البتہ یہ وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ اس موقف سے یا اس میں سے کسی بات سے میرا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ میں اپنا موقف متعدد تحریروں میں بیان کر چکا ہوں اور ضرورت محسوس ہونے پر پھر بھی کسی موقع پر بیان کر سکتا ہوں۔ اس لیے آج صرف اس نوجوان کی بات کرنا چاہتا ہوں جو ہتھیار بکف ہے اور اپنے زعم میں اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی، اسلام کے غلبہ، کفر و طاغوت کے خاتمہ اور قرآن و سنت کی روشنی میں عدل و انصاف کے قیام کے لیے اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھے ہوئے دنیا کے مختلف محاذوں پر صف آرا ہے۔ وہ فلسطین میں بھی ہے، عراق و شام میں بھی ہے، افغانستان میں بھی ہے، کشمیر میں بھی ہے، نائجیریا اور صومالیہ میں بھی ہے، شیشان و ترکستان میں بھی ہے، اور فلپائن و اراکان میں بھی ہے۔ اسے مجاہد کی فریاد کا عنوان دیں یا دہشت گرد کا مقدمہ کہہ لیں آپ کی مرضی ہے۔ لیکن اس کی بات ضرور سنیں اور اس پر غور بھی کریں کہ جس صورت حال سے وہ دوچار ہے اس کے اسباب و عوامل کیا ہیں اور وہ کون سے حالات ہیں جنہوں نے اسے اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ:
- میں ایک مسلمان ہوں اور قرآن و سنت پر ایمان رکھتا ہوں۔ مجھے قرآن و سنت میں بتایا گیا ہے کہ ایک مسلمان معاشرے میں اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات و فرامین کی عملداری قائم ہونی چاہیے اور ایک مسلمان حکومت کو اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔ میں قرآن و حدیث کو کسی دینی مدرسہ میں پڑھوں، کالج اور یونیورسٹی میں اس کی سہولت میسر آجائے، یا قرآن و سنت کی تعلیمات تک رسائی کا کوئی اور ذریعہ مل جائے، احکام و قوانین اور نظام کے حوالہ سے قرآن و سنت کی تصریحات میں مجھے کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا اور دنیا میں کہیں بھی چلا جاؤں ان کے معنی و مفہوم میں یکسانیت ہی دکھائی دیتی ہے۔ لیکن جب عملاً دیکھتا ہوں تو مجھے یہ عملداری کسی مسلمان معاشرے میں نظر نہیں آتی اور کوئی مسلمان حکومت اس کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتی۔ مجھے بتایا جاتا ہے کہ مسلمان حکومتیں اس وجہ سے اس کے لیے تیار نہیں ہیں کہ آج کا عالمی نظام ان کو اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اور مروجہ بین الاقوامی سسٹم اور معاہدات میں اس کی گنجائش موجود نہیں ہے۔
- میں یہ منظر دیکھ رہا ہوں کہ دنیا کے ہر ملک میں عوام کو یہ حق دیا گیا ہے کہ ان کی اکثریت اپنے وطن کے لیے جس نظام کو پسند کرے اور جن احکام و قوانین کو نافذ کرنا چاہے، انہیں اس کا حق حاصل ہے۔ لیکن کسی مسلمان ملک کا یہ حق تسلیم نہیں کیا جا رہا کہ اس کے عوام کی اکثریت خود اپنے ملک میں اپنے دین و مذہب کے احکام و قوانین کا نفاذ کر سکے۔ دنیا نے دیکھا ہے کہ الجزائر اور مصر میں عوام کے اکثریتی فیصلوں کو مسترد کر کے ان پر آمریت مسلط کر دی گئی ہے اور پاکستان کے عوام کی اکثریت اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے نفاذ اسلام کا دستوری حق حاصل کرنے کے باوجود اس سے محروم ہے، بلکہ سیکولر عالمی فورمز پاکستانی عوام کے منتخب نمائندوں کے طے کردہ اس دستور کو ختم کرانے کے درپے ہیں۔
- یہ منظر میری آنکھوں کے سامنے ہے کہ دو مسلمان ملکوں انڈونیشیا اور سوڈان کی تقسیم ہوئی ہے اور غیر مسلم مسیحی آبادی کو اکثریتی مسلم آبادی سے الگ کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے ذریعہ ریفرنڈم کروا کر ان کی الگ ریاستیں قائم کر دی گئی ہیں، لیکن کشمیر میں اقوام متحدہ کے باضابطہ فیصلہ کے باوجود اس ریفرنڈم سے عمداً گریز کیا جا رہا ہے اور اس سلسلہ میں بین الاقوامی معاہدات اور جنرل اسمبلی کی قراردادیں عالمی استعمار کے سامنے بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہیں۔
- فلسطین میں وہاں کی قدیمی آبادی کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے میں اسے نہیں بھول سکتا۔ اسرائیل گزشتہ نصف صدی سے امریکہ اور یورپ کی سرپرستی بلکہ پشت پناہی سے مظلوم فلسطینیوں پر ظلم و ستم کا جو بازار گرم رکھے ہوئے ہے، اس سے عالمی امن کے چودھریوں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ اور خاموشی کے ساتھ یہ انتظار جاری ہے کہ آہستہ آہستہ فلسطینیوں کی قوت مزاحمت بلکہ ان کا وجود بھی ختم ہو جائے تاکہ پورے مشرق وسطیٰ پر اسرائیل کی چودھراہٹ مسلط کرنے اور مسلمانوں کے قبلہ اول مسجد اقصیٰ کے بارے میں عالمی استعمار کے ایجنڈے کو مکمل کرنے کی راہ ہموار ہو۔
- مجھے یہ کہا جا رہا ہے کہ فلسطین ہزاروں سال قبل یہودیوں کا وطن تھا اس لیے اس زمین پر ان کا حق ہے، لیکن کوئی یہ بتانے کے لیے تیار نہیں ہے کہ اندلس پر مسلمانوں نے کئی صدیاں حکومت کی ہے، وہاں ان کا حق کیوں نہیں ہے۔ اور بنگلہ دیش کے پڑوس میں اراکان پر صدیوں مسلمانوں کی حکومت رہی ہے، آج بھی اس پٹی میں مسلم آبادی اکثریت میں ہے، لیکن انہیں وہاں کا باشندہ تسلیم نہیں کیا جا رہا، اور انہیں بے وطن کرنے کے لیے قتل و غارت اور ریاستی دہشت گردی کا عذاب ان پر مسلط کیا گیا ہے، اس پر اقوام متحدہ زبان جمع خرچ سے آگے کیوں نہیں بڑھ رہی؟
- افغانستان میں روسی استعمار کے تسلط کے خلاف جہاد شروع ہوا تو اس میں میری شرکت کو سراہا گیا۔ مجھے مجاہد قرار دیا گیا، میری حمایت و امداد کے لیے پوری دنیا ایک طرف ہوگئی اور مجھے حریت پسند اور فریڈم فائٹر کے خطابات سے نوازا گیا، لیکن میں نے اسی افغانستان میں امریکی فوجوں کی آمد اور تسلط کے خلاف ہتھیار اٹھائے تو مجھے دہشت گرد قرار دے دیا گیا ہے اور میں دنیا کا سب سے بڑا مجرم قرار پا گیا ہوں۔
- مجھے بتایا گیا کہ افغانستان میں روسی افواج کی آمد جارحیت تھی اور اس کے خلاف مسلح مزاحمت جہاد تھا۔ لیکن مشرق وسطیٰ میں، تیل کے چشموں پر اور اسرائیل کے جبر و تشدد کے تحفظ و دفاع میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی فوجوں کی موجودگی جارحیت کیوں نہیں ہے؟ مجھے اس سوال کا جواب نہیں دیا جا رہا، صرف یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ فوجیں اس خطہ کی حکومتوں کی دعوت پر آئی ہیں، جبکہ تاریخ بتاتی ہے کہ افغانستان میں روسی افواج کی آمد بھی اس وقت کے افغان حکمران حفیظ اللہ امین کی باقاعدہ دعوت پر معاہدہ کے تحت ہوئی تھی۔
- مجھے یہ کہا جاتا ہے کہ بین الاقوامی نظام کے خلاف ہتھیار اٹھانا جرم ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مسلمان ملکوں میں مسلمان حکومتوں کے خلاف ہتھیار اٹھانا جائز نہیں ہے، لیکن اس سوال کا کوئی بھی جواب نہیں دے رہا کہ بین الاقوامی نظام یک طرفہ جارحیت کا سب سے بڑا ہتھیار بن جائے تو پھر بے بس اور مظلوم قوموں کے پاس ہتھیار اٹھانے کے سوا کیا چارۂ کار باقی رہ جاتا ہے؟ اور اس عقدہ کا حل بھی کوئی پیش نہیں کر رہا کہ مسلمان ملکوں میں مسلمان عوام کے منتخب نمائندوں کے جمہوری فیصلوں کو طاقت کے زور پر مسترد کر دیا جائے تو وہ عوام اپنے فیصلوں کی بحالی کے لیے کیا راستہ اختیار کریں؟
- میرا عقیدہ ہے اور صرف میرا عقیدہ نہیں بلکہ مسلمانوں کے تمام فقہی مذاہب کا متفقہ فیصلہ ہے کہ ’’خلافت اسلامیہ‘‘ کا قیام ملت اسلامیہ کا اجتماعی دینی فریضہ ہے، جبکہ عملی صورت حال یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطہ میں اسلامی خلافت یا امارت کے قیام کو برداشت نہیں کیا جا رہا۔ بلکہ اوباما اور ٹونی بلیئر جیسے عالمی لیڈر برملا کہتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو خلافت قائم نہیں کرنے دیں گے۔
- میرا مقدمہ سادہ سا ہے کہ:
- مسلمان ممالک میں غیر ملکی مداخلت کا سلسلہ بند کر کے ان کے عوام کو اپنے نظام و قوانین کے بارے میں خود فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے اور ان کے اجتماعی فیصلوں کو مسترد کرنے کا مکروہ سلسلہ ختم کیا جائے۔
- عالمی لیڈر اور حکومتیں اسلام اور اسلامی تعلیمات کے خلاف بین الاقوامی معاہدات کی آڑ میں محاذ آرائی ختم کر کے مسلمانوں کے دین اور ثقافت کا احترام کریں اور طاقت کے زور پر مسلم ممالک میں مغربی فلسفہ و تہذیب کو مسلط کرنے سے باز آجائیں۔
- فلسطین، کشمیر، اراکان اور دیگر ایسے مظلوم خطوں کے مسلمانوں کو ان کے مسلمہ حقوق دلوانے کا اہتمام کیا جائے اور منافقت کا سلسلہ ترک کر کے انہیں عملاً انصاف مہیا کیا جائے۔
- عراق اور افغانستان سے غیر ملکی فوجیں واپس بلائی جائیں اور مشرق وسطیٰ کے عوام و ممالک کو آپس میں لڑانے کی مذموم اور شرمناک سازش سے باز رہا جائے۔
- مسلمان حکومتیں مغربی استعمار کی کاسہ لیسی ترک کر کے ملت اسلامیہ کے اجتماعی ضمیر اور جذبات کے مطابق اپنی خود مختاری بحال کریں اور ملی حمیت و غیرت کا مظاہرہ کریں۔
- خلافت اسلامیہ کا قیام ملت اسلامیہ کا اجتماعی دینی فریضہ ہے ور اس وقت پوری امت اس شرعی فریضہ کی تارک اور گنہ گار ہے۔ اس پر توبہ و استغفار کا اہتمام کیا جائے اور خلافت اسلامیہ کے عملی قیام کی طرف موجودہ حالات کی روشنی میں پیش رفت کی جائے۔
مسلمان حکومتیں اور سیاسی قیادتیں اگر اس ایجنڈے پر سنجیدہ ہو جائیں اور عملاً بھی کچھ کریں تو مجھے ہتھیار اٹھانے کی کیا ضرورت ہے؟ لیکن اگر مسلمان حکومتیں بھی کچھ نہ کریں، مسلم ممالک کے عوام کے جمہوری فیصلوں کو بھی قوت کے بل پر سبوتاژ کیا جاتا رہے، اسلام اور اسلامی عقائد و روایات کے خلاف ثقافتی یلغار بھی دن بدن بڑھتی رہے، اور مسلمانوں کی سیاسی قیادتیں بھی ’’اسٹیٹس کو‘‘ پر قناعت کر کے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہیں، تو پھر مجھے بتایا جائے کہ کیا میں بھی اس موقف اور ایجنڈے سے دست بردار ہو جاؤں؟؟؟
دستور پاکستان اور عالمی لابیاں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ملک کے دستور و آئین کے خلاف جو قوتیں ایک عرصہ سے سرگرم عمل ہیں، موجودہ سیاسی بحران کی طوالت سے ان کو بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے اور کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ شاید اس مہم کا اصل مقصد یہی ہو۔ ہم نہیں سمجھتے کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری ارادتاً وطن عزیز کو بے آئین کر کے پاکستان کے نظریاتی تشخص اور جغرافیائی وحدت کو داؤ پر لگا سکتے ہیں، لیکن غیر شعوری طور پر بہت کچھ ہو سکتا ہے اور گزشتہ چند سالوں میں ’’عرب بہار‘‘ کے سیاسی اور عوامی ریلے سے عالمی منصوبہ بندوں نے جو نتائج انتہائی انجینئرڈ طریقہ سے حاصل کر لیے ہیں، ان کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی نتیجہ غیر متوقع نہیں ہے۔ اس لیے کہ منصوبہ بند بھی وہی ہیں، ایجنڈا بھی وہی ہے اور طریق واردات میں بھی کچھ زیادہ فرق دکھائی نہیں دے رہا۔
وطن عزیز کو ۱۹۵۶ء اور ۱۹۶۲ء کے دساتیر کی منسوخی کے بعد ۱۹۷۳ء میں یہ متفقہ دستور میسر آیا تھا جس کی تشکیل میں اس وقت کی تمام جمہوری اور نمائندہ سیاسی قوتیں شریک تھیں۔ یہ دستور تمام سیاسی، مذہبی اور علاقائی طبقات کی تائید و حمایت سے نافذ ہوا تھا، جبکہ ملک کی جمہوری، سیاسی اور مذہبی قوتیں آج بھی اس پر متفق اور اس کی بقا و تحفظ کے لیے کمر بستہ ہیں، لیکن کچھ لوگوں نے مختلف حوالوں سے ابتداء سے ہی اس کی مخالفت کو اپنا مشن اور وطیرہ بنا رکھا ہے اور پوری قوم کے ایک طرف ہونے کے باوجود وہ دستور کے خلاف محاذ آرائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ محاذ آرائی در اصل عالمی فورم پر ہے اور پاکستان کی نظریاتی شناخت اور قومی وحدت کے مخالف عالمی حلقوں کو ملک کے اندر ایسے ’’بوسٹر‘‘ ہمیشہ میسر رہے ہیں جو دستور پاکستان کے بارے میں شکوک و شبہات پھیلانے اور اس کی خدانخواستہ ناکامی کا ڈھنڈورا پیٹنے میں مصروف عمل رہتے ہیں۔
بین الاقوامی سیکولر حلقوں کو یہ اعتراض ہے کہ پاکستان کے دستور کی بنیاد پاکستانی قوم کی مذہبی شناخت اور اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ پر ہے اور اس میں قرآن و سنت کے قوانین کے نفاذ کی ضمانت دی گئی ہے، جو اگرچہ عملاً دکھائی نہیں دے رہی لیکن دستور پاکستان میں اس کی موجودگی بھی ان عناصر کو برداشت نہیں ہے اور اس کے خلاف زہر اگلتے رہنے کا کوئی موقع بھی یہ لوگ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ دوسری طرف پاکستانی عوام کا موقف یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور قرآن و سنت پر ایمان رکھتے ہیں جس کا بنیادی تقاضہ مسلم معاشرہ میں شرعی احکام کی عملداری ہے۔ پھر پاکستان کے نام سے الگ ملک کے قیام کا مقصد اور بنیاد ہی جنوبی ایشیا کے اس خطہ کے مسلمانوں کی الگ مذہبی اور تہذیبی شناخت ہے، جس سے دست برداری کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اسی حوالہ سے خود ان کے اپنے منتخب نمائندوں نے یہ دستور متفقہ طور پر تشکیل دیا ہے جو پاکستانی قوم کے نظریاتی تشخص کے ساتھ ساتھ ان کے جمہوری موقف اور جذبات کا بھی آئینہ دار ہے۔ اور اس کی مخالفت پاکستانی عوام کی نظریاتی شناخت کے ساتھ ساتھ ان کے جمہوری موقف اور حق کی بھی نفی ہے جو ان کے لیے کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہے۔
پاکستان کے دستور کی نظریاتی بنیادوں کے ساتھ ساتھ عالمی سیکولر حلقوں کو ناموس رسالتؐ کے تحفظ کا قانون بھی مسلسل چبھ رہا ہے، حالانکہ یہ مسلمہ اصولوں کے مطابق ہے اور ملک کی منتخب پارلیمنٹ کا منظور کردہ ہے۔ مگر جمہوریت اور رائے عامہ کے نام نہاد علمبردار پاکستانی عوام کا یہ حق تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ وہ اور ان کے منتخب نمائندے اپنی قوم کے اجتماعی جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے دستور و قانون کی تشکیل و تدوین کر لیں، اور اپنی مذہبی و تہذیبی شناخت کے دستوری تحفظ کا اہتمام کر سکیں۔
قادیانی گروہ بھی ملک و قوم اور دستور و قانون کے خلاف اسی عالمی مہم کا حصہ ہے اور عالمی سیکولر قوتوں کے شریک کار بلکہ آلۂ کار کی حیثیت سے اس دستور و قانون کے خلاف محاذ آرائی کے لیے بین الاقوامی کمین گاہوں میں مورچہ بند ہے۔ قادیانی گروہ کا موقف ہے کہ وہ پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ کے فیصلے کو تسلیم نہیں کرتا اور امت مسلمہ کے عالمی سطح پر اجتماعی موقف کی بھی اسے کوئی پرواہ نہیں ہے۔ ۱۹۷۴ء کے دوران جب ملک کی منتخب پارلیمنٹ قادیانی مسئلہ پر بحث کر رہی تھی اس وقت کے قادیانی سربراہ مرزا ناصر احمد نے پارلیمنٹ کے فلور پر اس موقف کا اعلان کیا تھا کہ دنیا میں صرف ان کا گروہ مسلمان ہے اور ان کے دادا مرزا غلام احمد قادیانی پر ایمان نہ لانے والے دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کو مسلمان کہلانے کا حق نہیں ہے۔ کیونکہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی پر ایمان نہ لانے کے باعث (نعوذ باللہ) دائرہ اسلام سے ان کے بقول خارج ہو چکے ہیں۔
آج کی عالمی سیکولر قوتیں دنیا بھر کے مسلمانوں کے خلاف قادیانی گروہ کے اس موقف کی حمایت کر رہی ہیں اور ان کے ساتھ مل کر پاکستان کے دستور کو ختم کرانا چاہتی ہیں۔ اس لیے ہم عمران خان اور طاہر القادری سے یہ توقع رکھنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ ملک کے نظام اور دستور کے خلاف اپنی مہم کو اس حد تک آگے نہیں لے جائیں گے کہ اس سے قادیانیوں اور ان کے ہمنواؤں کے مذموم مقاصد کی تکمیل ہوتی ہو۔
اسلامی ممالک میں مذہبی انتہا پسندی: اسباب اور حل
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی
تلخیص وترجمہ: مولانا مدثر جمال تونسوی
(مارچ ۲۰۱۴ء میں دبئی میں شیخ عبد اللہ بن بیہ حفظہ اللہ اور اور امیر عبد اللہ بن زاید کے زیر اہتمام قیام امن کے موضوع پر منعقدہ کانفرنس میں کیے گئے خطاب کے اہم نکات۔)
1۔ میری گفتگو عدم اطاعت کے عنوان سے ہوگی کیوں کہ کانفرنس کے عنوان میں یہ پہلو بھی شامل ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ اطاعت کے وجوب اور اثبات کے موضوع کو مفتی مصر شیخ احمد شوقی علام حفظہ اللہ تعالی نے تفصیل سے بیان فرمادیا ہے۔
2۔ عصرحاضر کی بڑی مشکل یہی عدم طاعت ہے یعنی مسلم معاشروں اور مسلم ملکوں میں حکمرانوں کی اطاعت نہ کرنے کا رجحان زیادہ ہے اور اسی سے مشکلات بڑھ رہی ہیں۔
3۔ اس سلسلے میں قرآن و سنت کی بعض نصوص کو غلط طور پر بیان کیا جارہا ہے اور ان کے ذریعے سے حکمرانوں کی اطاعت کی سرے سے نفی کی جارہی ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ حکمرانوں کی طاعت واجب ہے اگرچہ مباح کام میں ہی اس کا حکم کیوں نہ ہو ! یہاں تک کہ فقہاء نے ذکر کیا ہے کہ اگر حکمران اپنی رعایا کو کسی دن روزہ رکھنے کاحکم دے دے تو عوام پر ضروری ہوگا کہ اس دن روزہ رکھیں۔
4۔ لیکن چونکہ حدیث میں لا طاعۃ فی معصیۃ (اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں) کے الفاظ موجود ہیں، اسی طرح حدیث میں یہ بھی موجود ہے : الا ان تروا کفرا بواحا لکم فیہ من اللہ حجۃ و برھان (یعنی ایسا کھلا کفر دیکھو جس کے خلاف تمھارے پاس اللہ کی طرف سے حجت اور برہان موجود ہو) او کما قال صلی اللہ علیہ وسلم تو ان نصوص سے غلط معانی مراد لیے جاتے ہیں اور نوجوانوں کو گمراہ کیا جاتا ہے۔
5۔ یہاں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ کی ایک بات کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ: حدیث: الا ان تروا کفرا بواحا۔۔۔ میں فعل رؤیت بغیر کسی واسطے کے متعدی بیک مفعول ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس رؤیت سے مراد رؤیت عینی ہے، رؤیت اجتہادیہ نہیں ہے۔ یعنی جب تم اپنی آنکھوں سے بغیر کسی شک وشبہ اور بغیر کسی اجتہاد اور اختلاف کے دیکھ لو کہ وہ کفر ہے تو وہی کفر بواح ہوگا۔ لیکن اگر وہ ایسا معاملہ ہے جو اجتہاد اور غور و فکر کا محل ہے تو وہ کفر بواح میں داخل نہیں ہوگا۔
6۔ اسی لیے تقریبا تمام علماء کا اتفاق ہے کہ اسلامی حکومتوں کے خلاف مسلح خروج جائز نہیں ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں : فقہاء کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ بزور و قوت تخت حکومت پر براجمان ہوجانے والے کی طاعت واجب ہے بلکہ اس کی طاعت اس کے خلاف خروج کرنے سے بہتر ہے، کیوں کہ اسی میں مسلمانوں کے خون کی حفاظت اورمصیبتوں سے چھٹکارا ہے۔
7۔آج اکثر اسلامی ملکوں میں جو مسئلہ ہمیں درپیش ہے، وہ یہ ہے کہ متعدد انتہا پسند جماعتیں اسی مسلح بغاوت کے رخ پر چل پڑی ہیں اور بعض نصوص سے اپنے اس مسلح خروج کو تائید پہنچاتی ہیں۔
8۔ چنانچہ اس مشکل سے نکلنے کے لیے یہ کافی نہیں کہ ہم محض یہ مقالات پڑھ کر سنادیں یا محض انہیں وعظ کہہ دیں بلکہ اس مشکل کے حقیقی حل کی طرف توجہ دینا ہوگی اور یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ مسئلہ پیدا کیوں ہوا ؟
9۔ وہ حقیقی سبب جس کی وجہ سے ہمارے نوجوانوں کو دھوکہ میں ڈال میں دیا جاتا ہے، یہ ہے کہ اس وقت الحمد للہ یہ امت اسلامی بیداری کی طرف سفر کر رہی ہے اور نوجوان یہ چاہتے ہیں کہ وہ خالص اسلامی بنیادوں پر اپنی زندگی گزاریں، لیکن جب وہ گھروں سے نکلتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ باہر کی زندگی میں عملی طور پر مسلم معاشرے میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ان حقائق کے بالکل مخالف ہے جو کچھ ہم نے قرآن و سنت میں پڑھا ہے۔ یہ سب دیکھ کر ان کے دلوں میں ایک سخت غم و غصہ پیدا ہوتا ہے۔ بعد ازاں ان نوجوانوں کی اسی کیفیت سے بعض انتہا پسند رہنما فائدہ اٹھاتے ہیں۔ پھر ان میں سے بعض تو اپنے نظریات ہی کی وجہ سے انتہا پسند ہوتے ہیں اور بعض کے بارے میں یہ بھی امکان ہوتا ہے کہ وہ دشمنان اسلام کی طرف سے مسلمانوں کی صفوں میں داخل کیے گئے ایجنٹ ہوں۔
10۔ الغرض وہ اس طرح نوجوانوں کو ورغلاتے ہیں۔ مثلاً ان سے کہتے ہیں : اے نوجوانو ! دیکھو قرآن یہ کہہ رہا ہے: وَمَن لَّمْ یَحْکُم بِمَا أَنزَلَ اللّٰہُ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْکَافِرُونَ (المائدۃ 44) ، وَمَن لَّمْ یَحْکُم بِمَا أَنزَلَ اللّٰہُ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُونَ (المائدۃ 47)، وَمَن لَّمْ یَحْکُم بِمَا أَنزَلَ اللّٰہُ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ (المائدۃ 45) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یوں فرمایا ہے : میرے بعد کچھ ایسے حکمران آئیں گے جو ان کے جھوٹ پر ان کی تصدیق کرے گا اور ان کے ظلم پر ان کی اعانت کرے گا تو وہ مجھ سے نہیں ہوگا اور نہ مجھے اس سے کچھ تعلق ہوگا۔
11۔ یہ وہ نصوص ہیں جن کی بنیاد پر سادہ لوح نوجوانوں کو ورغلایا جاتا ہے۔ چنانچہ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مشکل کا حل کیا ہے ؟ اور اس سلسلے میں ہمیں بالکل کھل پر اس کی وضاحت کرنا ہوگی۔ اس کے لیے فقط یہ کافی نہیں کہ اس طرح کا کوئی اجتماع رکھ لیا جائے اور اس میں وہ آیات واحادیث پڑھ دی جائیں جن میں امن و سلامتی کی تاکید ہے اور جو حکمران کی اطاعت کو ضروری قرار دیتی ہیں، بلکہ اس مشکل کے حل کے لیے دو نکات پر توجہ دینا لازمی اور ضروری ہے :
پہلا نکتہ : ہم اپنے اجتماعات، اپنے جامعات اور اپنے مدارس میں محض امن و سلامتی کی ضرورت کے بیان پر اکتفا نہ کریں بلکہ ضروری ہے کہ ہم ان نصوص کی وضاحت کریں جن سے وہ انتہا پسند استدلال کرتے ہیں اور ان کے فہم کی تردید کریں اور جب ہم باہمی بحث و مباحثہ کی بات کرتے ہیں تو وہ صرف غیر مسلموں کے ساتھ نہیں ہونی چاہیے بلکہ ان انتہا پسند جماعتوں کے ساتھ بھی ہونا چاہیے جن کی ہم مذمت کرتے ہیں۔ اعتدال پسندوں اور انتہا پسندوں کے مابین مکالمہ سنجیدہ علمی بنیادوں پر ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ ہونا چاہیے اور اس میں ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ان نصوص کا صحیح محمل بیان کیا جائے جن سے وہ لوگ استدلال کرتے ہیں۔ مثلاً قرآنی آیت : وَمَن لَّمْ یَحْکُم بِمَا أَنزَلَ اللّٰہُ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْکَافِرُون کا محمل کیا ہے؟ اسی طرح حدیث : لا طاعۃ فی معصیۃ کا کیا مطلب ہے؟ اگرچہ بعض نوجوان عملی طور پر منحرف ہیں، لیکن وہ اپنے دین کے لیے مخلص ہیں۔ پس جب علمی رسوخ رکھنے والے علماء کرام اور ان سادہ لوح نوجوانوں کے مابین باہمی بحث و مباحثہ ہوگا تو کچھ بعید نہیں کہ وہ حق کو تسلیم کرلیں۔ الغرض میرے نزدیک پہلی جو چیز ضروری ہے، وہ مکالمہ ہے جس کا انتظام ہمارے اجتماعات میں ، ہمارے مدارس میں اور ہماری مساجد میں ہونا چاہیے۔
12۔ دوسری بات بھی بہت وضاحت کے ساتھ کہنا چاہوں کہ جب اسلامی ممالک مغربی استعمار سے آزاد ہوئے تو اس کے بعد ان کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ شریعت اسلامیہ کو عملی طور پر نافذ کرنے کی طرف توجہ دیتے، کیوں کہ جب تک مغربی استعمار نے ہمارے ہاتھ روکے ہوئے تھے تو معاملہ جدا تھا، مگر جب ہم ان سے آزاد ہوگئے اور زمام اختیار ہمارے ہاتھ میں آگئی، تمام قوانین ہمارے ہاتھ میں آگئے تو ہمارے بس میں تھا کہ ہم قرآن و سنت کی بنیادوں پر قائم معاشرے کو تشکیل دیتے، مگر ایسا نہ ہوا۔ گویا کوتاہی صرف اس دوسری جانب سے نہیں ہوئی بلکہ ہم بھی کوتاہی میں پڑگئے اور ہم سے یہی کوتاہی ہوئی کہ ہم نے اپنی نسل نو کی تربیت قرآن و سنت کی بنیادوں پر نہیں کی بلکہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم تمام شعبہ ہائے زندگی میں مغربی افکار کے دلدادہ بن گئے۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ مغرب سارا کا سارا شر ہے اور نہ یہ کہتا ہوں کہ مغرب سارا کا سارا خیر ہے بلکہ اس میں شر بھی ہے اور خیر بھی ہے۔ ہم بہت سے جدید سائنسی علوم میں مغرب کے قرض دار ہیں جن میں ان سے استفادہ کیا ہے، لیکن بہرحال اس میں بہت سے شرور بھی ہیں اور ہم نے آنکھیں بند کر کے ان کی ہر چیز لے لی ہے چنانچہ یہ مغربی طرز زندگی ہمارے نوجوانوں کے دلوں میں حکومتوں اور حکمرانوں کی طرف سے بد اعتمادی اور انتہا پسندی پیدا کرتا ہے۔
خلاصہ اس دوسری بات کا یہ ہوا کہ ہم سلامتی والے راستے پر چلتے ہوئے شریعت اسلامیہ کے عملی نفاذ کی طرف گامزن ہوں اور ہمارے نوجوانوں کو اس کا احساس ہو جائے کہ حکومت اس ذمہ داری کو نبھانے کی طرف گامزن ہوچکی ہے۔ اگرچہ یہ سب تدریجی انداز سے ہی ہوگا، لیکن اگر ایسا کر لیا گیا تو مجھے یقین ہے کہ اس مکالمے کے بعد اور ان اقدامات کے بعد اس قسم کی تباہ کن تحریکات اپنی موت آپ مر جائیں گی۔ ان شاء اللہ
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ دو بنیادی باتیں ہیں جو ہمیں اس اندرونی مشکل (مسلح بغاوت ) سے نجات دلا سکتی ہیں : ایک تو یہ کہ ان تحریکات سے متاثر ہونے والے نوجوانوں کے ساتھ سنجیدہ اور صبر آزما بحث مباحثہ کا ماحول بنایا جائے اور دوسری بات یہ ہے کہ حقیقی طور پر تمام اسلامی ممالک میں شریعت اسلامیہ کی عملی تنفیذ کے راستے پر گامزن ہوا جائے۔ واللہ سبحانہ ہو الموفق
ڈاکٹر محمد شکیل اوج شہید
خورشید احمد ندیم
’’افکارِ شگفتہ‘‘ بہت دنوں سے میرے سامنے رکھی ہے۔ ڈاکٹر شکیل اوج کا محبت بھرا اصرار اور پھر میری افتادِ طبع، دونوں متقاضی رہے کہ اس پر کچھ لکھوں۔ موضوعات کا تنوع اور دلچسپی مجھے اپنی طرف کھینچتے رہے مگر غمِ دوراں نے مہلت ہی نہ دی۔ آج افکار باقی ہیں مگر وہ شگفتہ چہرہ میری نظروں سے اوجھل ہو چکا، ہمیشہ کے لیے۔
ڈاکٹر فاروق خان کی شہادت کے بعد، یہ دوسرا گھاؤ ہے جو رگِ جاں میں اتر گیا ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ ڈاکٹر شکیل اوج سے پہلی ملاقات کب ہوئی، لیکن یہ یاد ہے کہ برسوں سے ایک ہی ملاقات چلی آتی تھی۔ ۱۶ستمبر تک، جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ شاید اس کے بعد بھی کہ ان کا علمی کام اور محبت بھری یادیں، آنے والی مسافت کے لیے زادِ راہ بنی رہیں گی۔یہاں تک کہ داعیِ اجل اس طرف کا رخ کرے اور یہ سفر تمام ہو۔ یہ میرے جذبات ہیں، لیکن میں جانتا ہوں کہ اس زمین پر بہت سے لوگ ایسے ہیں، جو یہی سوچ رہے ہیں۔ محبت جب بوئی جاتی ہے تو وہ دل کے ویرانوں کو وادئ گل میں بدل دیتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب ایسی بہت سی وادیاں آباد کر گئے ہیں جہاں ان کی یاد کے گلاب برسوں مہکتے رہیں گے۔علم کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ایک بہتا دریا جس کی روانی دائمی ہے۔
ڈاکٹر شکیل اوج کی فکری آنکھ بریلوی مکتب فکر کی آغوش میں کھلی۔ درسِ نظامی سے فراغت ہوئی تو جدید تعلیم کی طرف رخ کیا اور مروجہ مفہوم میں اس کی چوٹی کو ہاتھ لگایا۔ پی۔ایچ۔ڈی تو تھے ہی، ’ڈی لیٹ ‘کی ڈگری بھی انہیں مل چکی تھی۔ پاکستان میں ان کے علاوہ ایک آدھ ہی اس اعزاز کا حامل ہوگا۔ علم کے اس سفر میں دیانت ان کے ہم رکاب رہی اور یوں وہ فکری ارتقاء کی منازل طے کرتے گئے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ بر صغیر میں کوئی دوسرا ایسا نہیں جس نے مولانا احمد رضا خان کا ان کی طرح بالاستعیاب اور دقتِ نظر کے ساتھ مطالعہ کیا ہو۔ ان کی کوئی تحریر ایسی نہیں جو منصہ ء شہود پر آ ئی ہو اور ان کی نظر سے نہ گزری ہو۔یہ مگر ان کے علمی سفر کا پہلا پڑاؤ تھا۔ اس وادی میں اترے تو ان پر تین باتیں واضح ہو تی چلی گئیں اور پھر یہ ان کے علمی کام کی پہچان بن گئیں۔ایک یہ کہ دین کے باب میں قرآن مجید فرقان ہے۔ اس کی حاکمیت، روایت اور قول سلف سمیت ہر شے پر قائم ہے۔ دوسرا یہ کہ علم کی دنیا میں تعصب اور کسی خاص مکتب فکر سے غیر مشروط وابستگی، دیانت کے خلاف اور نظری ارتقاء میں مانع ہے۔ ایک سکالر سب سے استفادہ کرتا ہے لیکن کسی رائے کے رد و قبولیت کا فیصلہ مسلکی تعصب کی بنیاد پر نہیں، دلیل اور استدلال کی اساس پر کرتا ہے۔ تیسرا یہ کہ علمی اختلاف باہمی احترام اور سماجی تعلقات میں رکاوٹ نہیں ہوتا۔ ہم لوگوں سے اختلاف کرتے ہیں،مکالمہ کرتے ہیں اور بایں ہمہ ان کی علمی جلالت کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔ کوئی شبہ نہیں کہ اس باب میں وہ اسلاف کا نمونہ تھے۔
فکری ارتقاء کے سفر میں اب وہ اس منزل پر تھے کہ قرآن مجید ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔وہ حافظِ قرآن بھی تھے۔قرآن مجید کی آیات مستحضررہتیں۔ کسی موضوع پر گفتگو کرتے تو قرآن مجید کے حوالے قابل رشک بے تکلفی سے دیتے چلے جاتے ۔ قرآن مجید سے یہ محبت انہیں مکتب فراہی کے بہت قریب لے آئی۔ مولانا امین احسن اصلاحی کی ’’تدبر قرآن‘‘ کے تو وہ عاشق تھے۔ ان کی دو اہم اور آخری تصانیف ’’ تعبیرات‘‘ اور ’’نسائیات‘‘ اس کی شاہد ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ انگلیوں پر گنے جانے والے ان چند صاحبان علم میں سے تھے جو اپنی تحقیق میں قرآن مجید کی حاکمیت کا عملاً قبول کرتے تھے۔تاہم اس فکری ارتقا کے باوجود قدیم حلقے سے ان کا تعلق خاطر تادمِ آخر قائم رہا۔اپنی آخری کتاب بھی اپنے استاد مولانا محمد اعظم سعیدی کے نام معنون کی۔
چند ماہ پہلے انہوں نے کراچی یونیورسٹی میں بین الاقوامی سیرت کانفرنس کا اہتمام کیا۔ مجھے بھی اس شرکت کی سعادت نصیب ہوئی۔ پاک و ہند سے جید علما اور سکالرزمدعو تھے۔ انتخاب میں مسلک کا امتیاز تھا نہ فقہ کی تمیز۔ بھارت سے تشریف لانے والے ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی نے کلیدی خطبہ دیا۔ یہ ڈاکٹر صاحب کی وسعت قلبی کا اعتراف تھاکہ انہوں نے جسے شرکت کی دعوت دی، اس نے رد نہیں کیا۔ اس میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنہیں ڈاکٹر صاحب کی کئی آراء سے اتفاق نہیں تھا۔ تاہم وہ ان کے علم، محبت اور سماجی رکھ رکھاؤ کے معترف تھے۔ ان کے حلقۂ ارادت میں سب لوگ شامل تھے۔ چند روز پیشتر جب ڈاکٹر طاہر مسعود کی تصنیف’’ کوئے دلبراں‘‘ پر میرا کالم شائع ہوا تو ان کا فون آیا۔ اس وقت وہ مکرمی مفتی منیب الرحمن صاحب کے پاس بیٹھے تھے۔ اُن کے فون سے ازراہ شفقت مفتی صاحب نے بھی بات کی۔ دونوں نے کالم کے بارے میں اپنی رائے اور محبت کا اظہار کیا۔ میں جانتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کااسی طرح کے احترام کاتعلق دوسرے مسلک کے لوگوں کے ساتھ بھی تھا۔
ان کے ہاں تفرد ات یا شذوذعلمی آراء کی قبولیت میں مانع نہیں تھے۔ ان کی ادارت میں نکلنے والے شاندار علمی جریدے ’’التفسیر‘‘ کا ایک منفرد اور ضخیم ’’ تفردات نمبر‘‘ شائع ہوا۔ اس میں انہوں نے مسلمانوں کی علمی تاریخ کی جلیل القدر شخصیات کے تفردات پر مبنی بہت سے علمی مقالات کو جمع کر دیا۔ چند روز پہلے ’’ التفسیر‘‘کا ایک اور شاندار نمبر’’ برصغیر کے مفسرین اور ان کی تفاسیر‘‘مو صول ہوا۔ ان کا محبت بھرا اصرار تھا کہ یہ دونوں نمبر میرے کالم کا موضوع بنیں۔ اس سے پہلے کہ میں ان کی خواہش کی تکمیل کرتا ، وہ آرزوؤں کی اس دنیا سے رخصت ہو کر جزا و سزا کے دروازے پر جا کھڑے ہوئے۔ شاید میں کبھی ان پر لکھوں لیکن مجھے معلوم ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے لیے اب یہ بے معنی ہے کہ اب وہ تمناؤں کی اسیری سے رہا ہو چکے۔
ڈاکٹر صاحب طاہر مسعود اور ڈاکٹر آمنہ آفریں بھی ان کے ساتھ گاڑی میں تھے، جب ڈاکٹر شکیل اوج کو ہدف بنا کر مارا گیا۔ایک گولی ڈاکٹر آمنہ کے بازوکو گھائل کر گئی لیکن اﷲ نے ان کی جان بچائی اور طاہر مسعود کی بھی۔ اﷲ کے اس احسان پر ہم اس کے شکر گزار ہیں۔ ڈاکٹر طاہر مسعود کے علمی کمالات اور شخصی اوصاف سے سب واقف ہیں۔ ڈاکٹر آمنہ آفرین ان کے ہونہار شاگردوں میں سے ہیں۔ ان کی نگرانی میں پی۔ ایچ۔ ڈی کی۔ ڈاکٹر صاحب ان کے علمی اوصاف اور ذہانت کے باعث انہیں عزیز رکھتے۔ چند ماہ پہلے ڈاکٹر فضل الرحمٰن مرحوم پر ڈاکٹر آمنہ کی کتاب شائع ہوئی۔
۱۴ ستمبر کی سہ پہر بی بی سی سے فون آیا کہ وہ ڈاکٹر شکیل اوج کے بارے میں میرے تاثرات ریکارڈ کرنا چاہتے ہیں۔ چند منٹ ہی بات کر سکا۔مجھے اعتراف ہے کہ میں دریا کو کوزے میں بند نہیں کر سکا۔ کالم کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ محض ۵۴ سال کے سفر حیات میں انہوں نے جو علمی سنگ ہائے میل عبور کیے، ان کا ذکر ایک کالم میں نہیں ہو سکتا اور یہ مقصود بھی نہیں۔ ’’افکار شگفتہ‘‘ کی دل کشی باقی رہے گی اور اہل علم ان کی طرف رجوع کرتے رہیں گے، یہ الگ بات کہ ڈاکٹر صاحب خود نہیں ہوں گے۔
محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے
تری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے
علماء دیوبند کا اجتماعی مزاج اور فکری رواداری
حافظ خرم شہزاد
بریلوی علما وعوام سے اختلاف میں اعتدال
بہاول پور کے مشہور مقدمے میں ’’مختار قادیانی نے اعتراض کیا کہ علماء بریلی، علمائے دیوبند پر کفر کا فتویٰ دیتے ہیں اور علمائے دیوبند علمائے بریلی پر۔ اس پر شاہ صاحب نے فرمایا: ’’میں بطور وکیل تمام جماعت دیوبند کی جانب سے گذارش کرتا ہوں کہ حضرات دیوبند ان کی تکفیر نہیں کرتے۔ اہل سنت والجماعت اور مرزائی مذہب والوں میں قانون کا اختلاف ہے اور علماء دیوبند وعلماء بریلی میں واقعات کا اختلاف ہے، قانون کا نہیں۔ چنانچہ فقہاء حنفیہ رحمہم اللہ نے تصریح کی ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی شبہ کی بنا پر کلمہ کفر کہتا ہے تو اس کی تکفیر نہ کی جائے گی۔ دیکھو رد المحتار، بحر الرائق غیرہ۔‘‘ (ملفوظات محدث کشمیری ص ۶۹، مرتب: مولانا سید احمد رضا بجنوریؒ )
’’تبلیغ میں الاہم فالاہم پر توجہ ضروری ہے۔ مسائل اختلافیہ کی بنا پر مخالف پارٹی کے لوگ پروپیگنڈہ شروع کر کے عوام کو بدظن بنا دیتے ہیں۔ پھر امور متفقہ علیہا پر بھی موثر تبلیغ نہیں ہو سکتی۔ اس لیے نمازی بنانا اور اصول وعقائد اسلام واہل سنت کو سمجھانا اولاً وبالذات ضروری ہے۔ شرک سے نفرت دلاتے وقت عبادت اصنام واحجار واشجار وحیوانات وغیرہ کو جو کہ ہنود اور دیگر کفار کرتے ہیں اور جن میں ابنائے وطن غیر مسلم مبتلا ہیں، ان کو ذکر کیا جائے اور اس سے قوم کو سمجھایا جائے۔ اس مقام پر قبور، تعزیہ وغیرہ کو صراحتاً نہ ذکر کیا جائے۔ جب نفرت عبادت غیر اللہ ان کے قلوب میں خوب راسخ ہو جائے اور وہ مانوس ہو جائیں، اعمال مفترضہ کے عادی ہو جائیں، تب ان کو آہستہ آہستہ شرور حالیہ سے بھی آگاہ کیا جائے۔‘‘ (ملفوظات حضرت مدنی، مرتبہ ابو الحسن بارہ بنکوی، ص ۷۲)
’’جن صاحب کے یہاں میلاد اور عرس ہوتا ہے اور چونکہ خلاف شرع ہوتا ہے، اس لیے اولاً ان کی اصلاح ہونی چاہیے۔ اگر یہ ممکن نہیں تو آپ ان کے اعمال میں شرکت نہ فرمائیں۔ ہاں اگر ظن غالب ہو کہ وہ لوگ اس کی وجہ سے آپ کے ایذا کے درپے ہوں گے یا تعصب وغیرہ میں پڑ کر اس سے زائد گناہ میں مبتلا ہو جائیں گے یا مسلمانوں میں افتراق کا زہریلا بازار گرم ہو جائے گا تو شریک ہو جانا جائز ہے۔‘‘ (ملفوظات حضرت مدنی، مرتبہ ابو الحسن بارہ بنکوی، ص ۸۶)
’’حضرت مولانا حسین علی مرحوم کے متوسلین میں تشدد بہت زیادہ ہے جو کہ غلط درجہ تک پہنچ جاتا ہے۔ یسرا ولا تعسرا وبشرا ولا تنفرا (الخ) کے خلاف ہے۔ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوب انوار القلوب کے بالکل مخالف ہے، اگرچہ بریلویوں کے غلو کا جواب اسی طرح ہوتا ہے۔‘‘ ((ملفوظات حضرت مدنی، مرتبہ ابو الحسن بارہ بنکوی، ص ۱۳۱)
’’کانپور میں ایک شخص نے میرے سامنے اہل بدعت کی برائی کرنا شروع کیا۔ میں نے ان کی طرف سے تاویلات کرنا شروع کر دیں۔ پھر اس نے غیر مقلد کی برائیاں شروع کیں۔ میں ان کی طرف سے تاویلات کرنا شروع کر دیں۔ اس نے متحیر ہو کر پوچھا، آخر آپ کا مذہب کیا ہے؟ میں نے کہا میرا مذہب یہ آیات قرآن ہیں:
کُونُواْ قَوَّامِیْنَ لِلّہِ شُہَدَاء بِالْقِسْطِ وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَی أَلاَّ تَعْدِلُواْ اعْدِلُواْ ہُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَی۔
’’نہ بھڑکائے غصہ تم کو کسی قوم کا اس بات پر کہ نہ تم انصاف کرو بلکہ تمھیں انصاف کرنا چاہیے۔ وہی تقویٰ کے قریب ہے۔‘‘ (تحفۃ العلماء، (افادات وملفوظات حکیم الامت مولانا تھانویؒ ) مرتبہ مولانا مفتی محمد زید جلد دوم، ص ۲۲۳)
عدم تقلید اور ائمہ سے اختلاف
’’ابن تیمیہ اور ابن قیم استاد شاگرد ہیں۔ دونوں بڑے عالم ہیں۔ بعض افاضل کا ان کے بارے میں قول ہے کہ علمہما اکثر من عقلہما۔ یہ دونوں حنبلی مشہور ہیں، مگر حنبلی ہیں نہیں۔ ان کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ خود مجتہد ہونے کے مدعی ہیں۔ ایسا محقق کسی بات میں ائمہ مجتہدین کے خلاف کرے تو ۔۔۔ مضائقہ نہیں۔‘‘ (تحفۃ العلماء (افادات وملفوظات حکیم الامت مولانا تھانویؒ ) مرتبہ مولانا مفتی محمد زید جلد دوم، ص ۴۰۷)
’’مقلد کو اجازت نہیں کہ ایسے شخص کو برا کہے جس نے بعذر مذکور اس مسئلہ میں تقلید [ترک] کر دی ہو، کیونکہ ان کا یہ اختلاف ایسا ہے جو سلف سے چلا آیا ہے جس کے باب میں علماء نے فرمایا ہے کہ اپنا مذہب ظناً صواب محتمل خطا اور دوسرا مذہب ظناً خطا محتمل صواب ہے۔ ۔۔۔ اگر کوئی اہل حدیث تقلید کو حرام نہ سمجھے اور بزرگوں کی شان میں بدزبانی اور بدگمانی نہ کرے تو خیر یہ بھی بعض سلف کا مسلک رہا ہے۔ اس میں بھی تنگی نہیں کرتا ہوں۔ ہاں، دل کا پوری طرح ملنا نہ ملنا اور بات ہے۔‘‘ (تحفۃ العلماء، (افادات وملفوظات حکیم الامت مولانا تھانویؒ ) مرتبہ مولانا مفتی محمد زید جلد دوم، ص ۴۵۸)
معاملات میں عوام کی سہولت کا لحاظ
’’میرا ارادہ تھا کہ ایک رسالہ احکام معاملات میں ایسا لکھوں کہ جن معاملات میں عوام مبتلا ہیں، اگر وہ صورتیں کسی مذہبی میں بھی جائز ہوں تو اس کی اجازت دے دوں تاکہ مسلمانوں کا فعل کسی طرح سے تو صحیح ہو سکے۔ میں نے احتیاطاً اس کے بارے میں حضرت مولانا گنگوہیؒ سے بھی دریافت کیا کہ ایسے مسائل میں دوسرے مذہب پر فتویٰ دینا جائز ہے یا نہیں؟ تو حضرت نے اجازت دے دی۔ مولانا بہت پختہ حنفی تھے۔‘‘ (تحفۃ العلماء، (افادات وملفوظات حکیم الامت مولانا تھانویؒ ) مرتبہ مولانا مفتی محمد زید جلد دوم، ص ۱۶۸)
’’فرمایا کہ ہمارے استاد حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب کے مزاج میں ایسے اختلافی مسائل کے بارے میں بڑا توسع تھا۔ میں نے ان سے ایک مسئلہ پوچھا جس میں حضرت مولانا کا فتویٰ حضرت گنگوہی کے فتوے سے مختلف تھا۔ اپنی تحقیق کے مطابق مسئلہ بتلا دیا اور پھر یہ بھی فرما دیا کہ مولانا گنگوہی کا فتویٰ اس کے بارے میں یہ ہے۔ اب تمھیں اختیار ہے جس کو چاہو اختیار کرو۔ ۔۔۔(ایضا، ج ۲، ص ۲۲۴)
’’حضرت حاجی [امداد اللہ مہاجر مکی] صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ہم لوگوں کو جو خدا تعالیٰ سے محبت ہے، ان کے احسانات کی وجہ سے ہے۔ اس واسطے ہمارے حضرت کا مسلک یہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے، آرام سے رہو مگر حد سے نہ نکلو، اس لیے مختلف فیہ مسائل میں وسعت دینی چاہیے۔ اس طرح ایک تو شریعت سے محبت ہوگی، دوسرے آرام رہے گا۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی امر کی دو شقوں میں اختیار دیا جاتا تو جو شق زیادہ آسان ہوتی تھی، آپ اسی کو اختیار فرماتے تھے اور فطرت سلیمہ کا بھی یہی مقتضا ہے۔
فرمایا محققین کا مسلک یہ ہے کہ اپنے نفس کے عمل میں تو تنگی برتے اور اعلیٰ وادنی کو عمل کے لیے اختیار کرے، مگر رائے اور فتویٰ میں وسعت رکھے اور لوگوں کے لیے مقدور بھر آسانی (اور جواز) کو تلاش کرے۔‘‘ (ایضاً، جلد دوم، ص ۲۲۴، ۲۲۵)
مسجدِ اقصی کی تولیت اور عمار خان ناصر صاحب کی تحریرات ۔ تفصیلی و تنقیدی جائزہ (۲)
مولانا سمیع اللہ سعدی
مشرکین مکہ پر قیاس
جناب عما ر صاحب نے حقِ تولیت کے ’’مزعومہ شرعی دلائل ‘‘کا ذکر کرتے ہوئے تیسرے نمبر پر یہ ’’دلیل ‘‘ذکر کی ہے اور یہ’’دعوی ‘‘کیا ہے کہ مسلم مفکرین یہود کی تولیت کی منسوخی کے لئے مسجدِ اقصی کو مسجدِ حرام پر اور یہود کو مشرکینِ مکہ پر ’’قیاس ‘‘کرتے ہیں۔کہ جس طرح مشرکینِ مکہ اللہ کی نافرمانی کے نتیجے میں مسجدِ حرام کی تولیت سے محروم کئے گئے ،اسی طرح یہود بھی اپنی نافرمانیوں کی بدولت مسجدِ اقصی کی تولیت سے محروم ہونگے۔
آنجناب نے یہ استدلال حضرت قاری طیب صاحب ؒ کی مایہ ناز کتاب ’’مقاماتِ مقدسہ اور ان کا اجتماعی نظام ‘‘کے ایک اقتباس سے اخذ کیا ہے ،ہم سب سے پہلے حضرت قاری صاحبؒ کی وہ عبارت قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں ،پھر آنجناب کے ’’حسنِ استنباط ‘‘سے متعلق چند باتیں عرض کریں گے ۔حضرت قاری صاحب لکھتے ہیں :
’’یہ تینوں مرکز اسلام کی جامعیت کی وجہ سے مسلمانوں کو کسی کے دیے سے نہیں ملے ،بلکہ خدا کی طرف سے عطا ہوئے ا ور انہی کے قبضہ و تصرف میں دیے گئے ہیں ، جن میں کسی غیر کے دخل یا قبضے کا از روئے اصول سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔حجاز میں مشرکین ملتِ ابراہیم کے نام سے عرب پر قابض و متصرف تھے ،لیکن جب انہوں نے شعائر اللہ کی جگہ بے جان مورتیوں اور پتھر کے سنگ دل خداؤں کو جگہ دی،تو سنت اللہ کے مطابق ان کا قبضہ تبدیل کر دیا گیا ۔شام کی مقدس سرزمین بلا شبہ اولاً یہودکو دی گئی اور فلسطین ان کے قبضے میں لگا دیاگیا ،جیسا کہ قرآن ’’کتب اللہ لکم‘‘ سے اس کا انہیں دے دیا جانا ظاہر کیا ہے،لیکن انہوں نے عہد شکنی کی اور الٰہی میثاق کو توڑ ڈالا ۔ان حرکات کے انتہاء پہنچ جانے پر حق تعالی نے انہیں بیت المقدس کی تولیت اوراس ملک کی ملکیت سے محروم کرکے ان پر نصاری کو مسلط کر دیا ،چنانچہ بعثتِ نبوی سے تین سو سال پہلے نصاری شام اور فلسطین کی ارضِ مقدس پر قابض ہو گئے ،لیکن اقتدار جم جانے کے بعد ردِ عمل شروع ہوااور با لا خر وہ بھی قومی اور طبقاتی رقابتوں میں مبتلا ہو کر اسی راہ پر چل پڑے تھے ،جس پر یہود چلے تھے ،صخرہ معلقہ کو جو یہود کا قبلہ تھا ،غلاظت کی جگہ قرار دیا اور اس کی انتہائی توہین شروع کر دی ،محض اس لئے کہ وہ یہود کا قبلہ تھا،اس پر پلیدی ڈالی اور اسے مزبلہ (کوڑی)بناکر چھوڑا۔ظاہر ہے کہ شعائر الہیہ اور نشاناتِ خداوندی کے بعد کوئی قوم بھی پنپ نہیں سکتی ،اس لئے بالا خر نصاری کا بھی وقت آگیا،ان کا اقتدار یہاں ختم ہوا اور حق تعالی نے مسلمانوں کو غلبہ دے کر انہیں بیت المقدس کا متولی بنا یا۔‘‘ (بحوالہ مذکورہ مضمون)
آنجناب نے اس عبارت سے یہ نتیجہ اخذ کیاہے :
’’اس میں اہلِ کتاب کو مشرکینِ مکہ پر اور اس کے نتیجے میں مسجدِ اقصی کی تولیت کے معاملے کو مسجدِ حرام کی تولیت کے معاملے پر قیاس کیا گیا ہے‘‘
قارئین سے درخواست ہے کہ وہ حضرت قاری صاحب کی عبارت کو دوبارہ غور سے پڑھیں اور خصوصاً تحریر میں نمایاں کردہ جملوں اور الفاظ کو توجہ سے دیکھیں ،ہھر جناب عمار صاحب کے اخذ کردہ نتیجے کو دیکھیں اور انصاف سے فیصلہ کریں کہ کیا واقعی حضرت کا مقصد ایک’’ عقلی قیاس ‘‘پیش کرنا ہے ،جیسا کہ آنجناب نے ’’دعوی ‘‘کیا ہے یا حضرت قاری صاحب اس عبارت میں اس ’’سنت اللہ ‘‘اور’’ خداوندی ضابطے‘‘ کو بیان کرنا چاہتے ہیں ،جس کو ہم نے اس تحریر میں بار بار بیان کیا ہے۔
حضرت نے اس اس عبارت میں سب سے پہلے ان عبادتگاہوں کے لئے ’’مرکز ‘‘کا لفظ استعمال کیا ،اس سے اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ جن مقامات کی ہم بات کر رہے ہیں ،وہ کسی مخصوص قوم ،ملت اور مذہب کی’’جاگیر ‘‘نہیں ہیں ،بلکہ یہ مقامات اللہ کے منتخب کردہ مراکز ہیں ۔اس سے آنجناب کے اس نظریے کی تردید ہو گئی کہ مسجدِ اقصی کی حیثیت محض بنی اسرائیل کے قومی قبلہ اور مرکزِ عبادت کی ہے ،چنانچہ آنجناب لکھتے ہیں :
’’اس کے برعکس مسجدِ اقصی کی حیثیت محض بنی اسرائیل کے قومی قبلہ اور مرکزِ عبادت کی تھی ‘‘
اس کے بعد حضرت نے مشرکین کے حقِ تولیت کے ختم ہونے کو یوں بیان کیا :
’’تو سنت اللہ کے مطابق ان کا قبضہ تبدیل کیا گیا ‘‘
کیا جناب عمار صاحب بتائیں گے کہ ’’سنت اللہ ‘‘سے کیا مراد ہے اور حضرت اس لفظ سے ان مراکز عبادت کے لئے اللہ کی کونسی سنت اور ضابطے کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں ۔
پھر حضرت نے مسجدِ اقصی کی تولیت یہود سے نصاری کی طرف منتقل ہونے کو یوں بیان کیا:
’’انہوں نے عہد شکنی کی اور الٰہی میثاق کو توڑ ڈالا ،ان حرکات کے انتہا کو پہنچ جانے کی بنا پر حق تعالیٰ نے انہیں بیت المقدس کی تولیت اور اس ملک کی ملکیت سے محروم کر دیا‘‘۔
اس عبارت میں قاری صاحب نے پھر اس سنت اللہ کی طرف اشارہ کیا کہ اللہ تعالی نے خود انہیں ان کی مذکورہ حرکات کی بنا پر مسجدِ اقصی کی تولیت سے محروم کر دیا۔
اس کے بعد اس مقدس مقام کی تولیت مسلمانوں کی طرف منتقل ہونے کو کچھ یوں بیان کیا:
’’ظاہر ہے کہ شعائر الہیہ اور نشات خداوندی کے بعد کوئی قوم پنپ نہیں سکتی ،اس لئے با لا خر نصاری کا وقت آگیا، ان کا اقتدار ختم ہوا اور حق تعالی نے مسلمانوں کو غلبہ دے کر انہیں بیت المقدس کا متولی بنا دیا ۔‘‘
اس پوری عبارت کا تجزیہ کرنے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت قاری صاحب مسجدِ اقصی اور مسجدِ حرا م دونوں کو شعائر اللہ ،نشاناتِ خداوندی ،مراکزِ عبادت اور مقدس مقام مانتے ہیں ۔پھر ان مقاماتِ مقدسہ کے بارے میں اس سنت اللہ اور خدائی ضابطے کو بیان کیا ،جس کی طرف ہم کئی بار اس تحریر میں اشارہ کر چکے ہیں ،چنانچہ حضرت قاری صاحب مشرکین سے بیت اللہ کی تولیت چھیننے ،یہود کے مسجدِ اقصی کی تولیت سے محروم ہونے ،نصاری کے مسجدِ اقصی کی تولیت سے معزولی اور آخر میں مسلمانوں کا ان مقدس مقامات کی تولیت سنبھالنے کو سنت اللہ اور اسی خداوندی ضابطے کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں ۔لیکن آنجناب کا ’’حسنِ استنباط ‘‘ ہے کہ اس عبارت سے ایک ’’عقلی قیاس ‘‘ ثابت کر رہے ہیں ۔
اس کے بعد آنجناب نے اپنے ’’غلط نتیجے ‘‘ کی بنیا د پر بحث کی پوری عمارت کھڑی کردی اور اس ’مزعومہ قیاس ‘‘ کے رد میں درجہ ذیل نکات اٹھائے :
۱۔حقِ تولیت کے لئے ’’صریح دلیل ‘‘ کی ضرورت ہے ،اسے صرف قیاس سے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔
۲۔مشرکینِ مکہ اور اہلِ کتاب کے جرائم ،احکامات اور ان دو مسجدوں کی نوعیت میں خاصا فرق ہے ،اس لئے ان کے حقِ تولیت کے احکام الگ ہونگے،چنانچہ مفصل بحث کر کے آ خر میں لکھتے ہیں :
’’دونوں عبادت گاہوں کے درجے ،اور احکام میں پائے جانے والے ان اصولی و فروعی فرق کو حقِ تولیت کے معاملے میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتابلکہ اس پر بھی گہرے طور پر اثر انداز ہوتے ہیں ‘‘
تعجب ہے کہ مسلم مفکرین کو تو حقِ تولیت قیاس سے ثابت کرنے پر کوس رہے ہیں ،لیکن خود یہ فرق بھی قیاس سے نکال رہے ہیں کہ ان دونوں گروہوں کے نام الگ الگ رکھنا ،جزیہ کے حکم میں فرق،عبادت گاہوں کی بقا و ہدم میں فرق اور اس جیسے دیگر فروق ’’دلالت ‘‘ کرتے ہیں کہ حقِ تولیت میں بھی فرق ہے ،اگر قاری صاحب با لفرض اپنی عبارت میں ’’اشتراک العلۃیدل علی اشتراک الحکم‘‘والا ’’قیاس ‘‘ پیش کر رہے تھے ،تو آنجناب ’’افتراق العلۃ یدل علی افتراق الحکم ‘‘ والا قیاس پیش نہیں کر رہے ہیںیا للعجب ۔
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو میرے نامہ اعمال میں تھی
اس پوی مفصل بحث میں آنجناب نے اپنے اس ’’قیاس ‘‘ پر پورا زور صرف کرنے کے علاوہ حقِ تولیت کے حوالے سے اپنے موقف پر ایک بھی ’’صریح دلیل ‘‘ نہیں دی ۔
۳۔ آنجناب نے اپنا سارا زور اس پر صرف کیا کہ مشرکینِ مکہ کی تولیت سے محرومی کی واحد وجہ ’’شرک ‘‘ ہے اور اہلِ کتاب چونکہ قرآنی اصطلاح کے اعتبار سے مشرکین نہیں ہیں اس لئے یہ ’’قیاس ‘‘ غلط ہے۔ہم آنجناب سے پوچھتے ہیں کہ پھر مسجدِ حرام کی تولیت کے معاملے میں اہلِ کتاب کا کیا حکم ہے ؟ کیونکہ وہ مشرکین نہیں ہیں !ظاہر ہے کہ اللہ نے مسجدِ حرام سے صرف مشرکین کی بے دخلی کے بارے میں’’صریح نص‘‘ نازل کی ہے ؟کیا آنجناب کے پاس اس حوالے سے ایک بھی ’’صریح نص‘‘ ہے کہ اہلِ کتاب مسجدِ حرام کی تولیت کے حق دار نہیں ہیں ۔آنجناب ’’اخرجوا الیہود و النصاری من جریرۃ العرب‘‘ جیسی نصوص پیش کریں گے، لیکن عرض یہ ہے کہ جب حضرت عمر کی بیت المقدس کے بارے میں یہود کے حوالے سے لگائی جانے والی ایک شرط ’’ولا یسکن بایلیا معہم احد من الیہود‘‘ مسجد اقصی پریہود کی تولیت سے آنجناب کے بقول مانع نہیں بنتی تو ’’اخرجو الیہود و النصاری ‘‘ والی نص اہلِ کتاب کی تولیت سے مانع کیسے بنے گی؟ نیز اگر اہلِ کتاب اس پر اپنے ’’مذہبی حق‘‘ کایوں دعوی کریں کہ یہ گھر ’’بنی اسرائیل کے جد امجد حضرت ابرایہم علیہ السلام نے تعمیر کیا ہے اور جب بنی اسرائیل کے ایک پیغمبر حضرت سلیمان علیہ السلام نے جو گھر بنا یا ،آپ اس پر ہمارا ’’تاریخی و مذہبی حق ‘‘تسلیم کرتے ہیں، تو جو اس گھر پر ہمارا حق کیونکر نہیں ہوگا ،جو سب بنی اسرائیل کے جد امجد نے تعمیر کیا ہے ؟آنجناب اس حوالے سے کیا ’’تحقیق‘‘ پیش فرمائیں گے؟
۴۔اصل بات یہ ہے کہ نصوص میں بطورِ علت شرک کا جو بیان ہوا ہے ،اس میں مقصود اہلِ کتاب سے احتراز ہے ہی نہیں ،جیسا کہ آنجناب کا گمان ہے ،بلکہ وہ علت ایمان کے مقابلے میں بیان ہوئی ہے ۔گویا اس میں مشرکین کا تقابل مومنین کے ساتھ کیا گیا ہے نہ کہ اہلِ کتاب کے ساتھ،یعنی مشرکینِ مکہ کو اس لئے مسجدِ حرام کی تولیت نہیں مل سکتی ، کیونکہ وہ مشرک ہیں یعنی مومن نہیں ہیں ۔علمی اصطلاح میں اس کو یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ حصر اضافی ہے نہ کہ حقیقی،چنانچہ علامہ آلوسی ؒ سورہ الانفال کی آیت ’’ان اولیاء ہ الا لمتقون ‘‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
وما اولیا ء المسجد الحرام الا المتقون من الشرک الذی لا یعبدون فیہ غیر ہ تعالی وا لمراد بہم المسلمون وہذہ المرتبۃ الا ولی من التقوی (۴۰)
اسی طرح مفسرین نے سورہ براۃ کی آیت ’’شاہدین علی انفسہم بالکفر‘‘ میں صرف مشرکین کا ذکر نہیں کیا ،بلکہ اہلِ کتاب کا بھی ذکر کیا ،چنانچہ امام ابنِ کثیر ؒ کی جو عبارت آنجناب نقل کی ہے ،اس سے آگے عبارت یوں ہے :(جو آنجناب کو شاید’’نظر ‘‘ نہیں آئی )
وہم شاہدون علی انفسہم بالکفر ای بحالہم و قالہم کما قال الذی لو سالت النصرانی ما دینک ؟لقال نصرانی ،والیہودی ما دینک ،لقال یہودی ،والصائبین و المشرک لقال مشرک (۴۱)
نیز اس بات کی تائید اگلی آیت سے بھی ہوتی ہے اس میں ’’مساجد اللہ ‘‘ کی تولیت صرف غیر مشرکین یعنی مومنین کا حق بتلایا گیا ہے:
إِنَّمَا یَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللّٰہِ مَنْ آمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلاَۃَ وَآتَی الزَّکَاۃَ وَلَمْ یَخْشَ إِلاَّ اللّٰہَ (البراء ۃ ۹: ۱۸)
’’اللہ کی مسجدوں کو تو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ اور آخرت پر ایمان لائے ہوں اور نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈریں ۔‘‘
۵۔ اس موقع پر آنجانب نے مسجدِ اقصی و مسجدِ حرام اور مشرکین و اہل کتاب کے درمیان جتنے ’’فروق‘‘ بیان کیے ہیں اور دونوں کے جد ا جدا احکامات پر جتنا ’’زور ‘‘ صرف کیا ہے ، ان کو یہاں زیرِ بحث لانا بے فائدہ ہے ،کیونکہ ان فروق کی وجہ سے ان دو مقدس مقامات کی تولیت میں فرق نکالنا آنجناب کا ’’قیاس ‘‘ہے ،جس پر آنجناب نے پوری بحث میں کوئی ’’دلیل‘‘نہیں دی ۔اس کے علاوہ یہ سارے فروق واقعی حق تولیت میں بھی ’’علتِ موثرہ ‘‘ کا کردار ادا کرتے ہیں ،اس پر بھی ’’دلیل‘‘ کی ضرورت ہے ،کیونکہ مقیس و مقیس علیہ کا تمام اوصاف میں کلی ’’اشتراک ‘‘ صحتِ قیاس کے لئے کسی کے نزدیک بھی شرط نہیں ہے ۔
۶۔آنجناب نے مسجدِ حرام کی تولیت سے مشرکین کی محرومی کی علت ’’شرک ‘‘ نکالی ہے ،اس پر سوال یہ ہے کہ اس حکم کی علۃ العلۃ کیا ہے ؟یعنی شرک کیوں ایک مقدس گھر کی تولیت سے بے دخلی کی علت ہے؟تو اس بارے میں گزارش یہ ہے اس حکم کی اصل علت ’’اللہ کی نافرمانی اور تکذیبِ پیغمبر‘‘ہے کہ مشرکین چونکہ اپنے شرک کی آڑ میں اللہ کی نافرمانی اور اللہ کے ایک جلیل القدر پیغمبر کی تکذیب کر رہے تھے ،تو اللہ نے انہیں اس گھر کی تولیت سے محروم کردیااور یہی علت اہلِ کتاب میں بھی پائی جاتی ہے، اس لئے وہ بھی ایک مقدس گھر کی تولیت سے محروم ہونگے۔اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ یہود کی بیت المقدس سے دو مرتبہ جلاوطنی کی وجہ اللہ کی نافرمانی اور اس کے جلیل القدر پیغمبروں کی تکذیب اور ان کی اطاعت سے انکار کی وجہ سے ہوئی تھی ۔سورہ اسراء کی ابتدائی آیات اس پر شاہد ہیں ۔اور یہی علت آج کے یہودیوں میں موجود ہے ،اس لئے وہ اس مقدس گھر کی تولیت کے قطعاً حقدار نہیں ہونگے۔
۷۔اس بحث کے آخرمیں آنجناب نے ایک ’’تضاد ‘‘کا دعوی بھی کیا ہے ،چنانچہ لکھتے ہیں :
’’علاوہ ازیں اس تضاد کا کیا حل ہے کہ جب اسلام میں اہلِ کتاب کی عام عبادت گاہوں کو تحفظ دیا گیا اور ان پر اہلِ مذہب کی تولیت و رصرف کا حق تسلیم کیا گیا ،تو ان کے قبلہ اور مرکزِ عبادت کے بارے میں یہ فیصلہ کیوں کیا گیا کہ وہ اس پر تولیت ، تصرف اور اس میں عبادت کا حق نہیں رکھتے۔‘‘
آنجناب کو یہ تضاد اس لیے نظر آرہا ہے ،کہ آنجناب کے نزدیک مسجدِ اقصی کی حیثیت محض یہود کے ایک قومی عبادت گاہ اور مرکزِ عبادت کی ہے اور آنجناب اس کو صرف یہود کا مرکزِ عبادت ’’فرض‘‘ کر کے ساری بحث کر رہے ہیں۔ حالانکہ ہم اس کی وضاحت بار بار کر چکے ہیں کہ مسجدِ اقصی صرف یہود کا قبلہ و مرکز نہیں ہے ،بلکہ وہ دنیا کے ان چند مقدس مقامات میں سے ایک مقدس مقام ہے جس کی بنیاد،تعمیر ،اور تجدید اللہ کے حکم سے اللہ کے جلیل القدر انبیاء نے کی ہے اور ایسے مقدس مقامات کے بارے میں ’’سنت اللہ ‘‘یہی ہے کہ وہ ہر زمانے کے اہلِ حق کو ملتے ہیں ۔یہود کو بھی ایک زمانے میں یہ مقام اسی لئے ملا تھا کہ وہ اس وقت اہلِ حق تھے ۔اگر آنجناب اپنا زاویہ نظر تبدیل کر لیں ،تو اس میں ایک رتی کے برابر تضاد نہیں ہے۔اپنے ذہن سے ’’غلط مقدمات ‘‘ فرض کر کے جب احکاما تِ شریعت پر نظر ڈالیں گے ،تو تضادات کے سوا کیا نظر آئے گا؟
فتحِ بیت المقدس کی بشارت
جناب عمار صاحب نے ’’دلائلِ شرعیہ ‘‘ پر نقد کرتے ہوئے ایک ’’دلیل ‘‘ یہ بھی بیان کی ہے کہ بعض حضرات احا دیث میں بیت المقدس کی فتح کی بشارت کو بھی مسجدِ اقصی کی تولیت کی دلیل بناتے ہیں ۔ آنجناب نے اس پر اعتراض یہ کیا ہے کہ بیت المقدس شہر کی فتح کی بشارت سے وہاں پر موجود عبادت گاہوں پر تولیت کاحق کہاں سے لازم آیا؟کیونکہ کسی شہر کا فتح ہو کر مسلمانوں کے قبضے میں آنا اور بات ہے ، جبکہ ہاں پر موجود عبادت گاہوں پر تولیت ایک اور بحث ہے ۔
آنجناب سے گزارش ہے کہ نصوص شرعیہ میں بیت المقدس کا لفظ مسجدِ اقصی کے لیے ہی استعمال ہوا ہے، اس لفظ کا بلد اقدس کے لیے استعمال کا رواج محققین کے نزدیک خلافت عباسیہ کے دور میں خصوصاً ہارون الرشید کے دور میں شروع ہوا (۴۲) لہٰذا جب اس سے مراد ہی مسجدِ اقصی ہے ،تو پھر ان احادیث کو تولیت کی دلیل کیوں نہیں بنا یا جاسکتا؟ ذیل میں چند نصوص ذکر کرتے ہیں جن میں مسجدِ اقصی کے لئے بیت المقدس کا لفظ استعمال ہوا ہے:
۱۔نسائی شریف میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہاتھوں مسجدِ اقصی کی تعمیر کا ذکر ان الفاظ میں ہوا ہے:
لما فرغ سلیمان من بناء بیت المقدس سال اللہ ثلاثاً (۴۳)
۲۔معراج کی رات آپ ﷺ مسجدِ اقصی میں داخل ہوئے اور آپﷺ کے اعزاز کے لیے انبیاء کو جمع کیا گیا ،اس کا ذکر یوں ہے :
ثم دخلت بیت المقدس ،فجمع لی الانبیاء (۴۴)
۳۔ جب آپ ﷺ معراج سے واپس تشریف لائے اور علی الصباح یہ واقعہ بیان کیا،تو مشرکین نے امتحاناً مسجدِ اقصی کے بارے میں سوالات شروع کر دیے ،تو اللہ نے مسجدِ اقصی کو آپ کے سامنے ظاہر کر دیا ،اس کا ذکر یوں ہوا ہے :
فجلا اللہ لی البیت المقدس (۴۵)
۴۔امام ابو داؤد ؒ نے باب باندھا ہے :
باب من نذر ان یصلی فی بیت المقدس (۴۶)
۵۔امام ابنِ ماجہ ؒ نے باب باندھا ہے :
باب من اہل من بیت المقدس (۴۷)
۶۔ترمذی شریف میں حضرت یحیی اور حضرت عیسی علیہما السلام کا ایک لمبا واقعہ مذکور ہے ،اس میں حضرت یحیی علیہ السلام نے مسجدِ اقصی میں بنی اسرائیل کو جمع کیا ،اس کا تذکرہ یوں آیا ہے :
فجمع الناس فی بیت المقدس فامتلاء المسجد (۴۸)
۷۔حضرتِ حذیفہ بن یمانؓ کی روایت میں ہے :
اصلی رسول اللہ ﷺ فی بیت المقدس؟ (۴۹)
۸۔امام رازیؒ تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں :
وقولہ(الی المسجد الااقصی) اتفقواعلی ان المرادمنہ بیت المقدس(۵۰)
۹۔روح المعانی میں علامہ آلوسی ؒ لکھتے ہیں :
( الی المسجد الاقصی) وھو بیت المقدس (۵۱)
۱۰۔امام ابنَ کثیر ؒ لکھتے ہیں :
(الی المسجد الا اقصی ) وھو بیت المقدس (۵۲)
ان نصوص سے یہ بات واضح طورپرثابت ہوتی ہے ،کہ بیت المقدس کا لفظ قرآن و حدیث میں مسجدِ اقصی کے لئے ہی بولا جاتا ہے ۔اس کے علاوہ آنجناب نے شاید ’’قصداً‘‘اس بشارت اور پیش گوئی پر اکتفاء کیا ،حالانکہ اس حوالے سے مزید نصوص بھی آئی ہیں ،کاش آنجناب ان پر بھی ’’خامہ فر سائی ‘‘ فرماتے۔اب ان میں سے چند کا ذکر کیا جاتا ہے:
۱۔مسجدِ اقصی میں دجال (یہود کا سربراہ)داخل نہیں ہو سکے گا(۵۳)
۲۔ بیت المقدس میں مسلمان قربِ قیامت میں محصور ہونگے(۵۴)
۳۔بیت المقدس کی خرابی و بربادی کے ساتھ مدینہ منورہ کی خرابی و بربادی کا بڑا گہرا تعلق ہے(۵۶)
۴۔ابوابِ بیت المقدس پر جو لشکر جہاد کرے گا وہ حق لشکر ہو گا(۵۷)
تکوینی مشیت اور تشریعی حکم میں فرق
جناب عمارصاحب نے مسجدِ اقصی سے یہود کی بے دخلی کے واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے ،کہ یہود پر ان کی نافرمانی کے نتیجے میں بخت نصر اور دوسرے فاتحین کا مسلط ہونا خالص ایک تکوینی معاملہ ہے ،اس لئے اسے اپنے حق میں دلیل نہیں بنایاجاسکتا ۔آنجناب نے یہاں بھی ’’خلطِ مبحث ‘‘ سے کام لیا ،حالانکہ سورہ اسراء میں مذکور واقعات تشریعی اور تکوینی دونوں قسم کے احکام پر مشتمل ہیں :
۱۔حکمِ تشریعی تو یہ ہے کہ نافرمانی اور سرکشی کی وجہ سے یہود سے مسجدِ اقصی کی تولیت چھین لی گئی ،یہ وہی ضابطہ ہے ،جو کتب سماویہ میں بار بار بیان ہواہے۔لہذا آئندہ جو بھی گروہ اور جماعت اس طرح نافرمانی کا ارتکاب کرے گی وہ اس گھر کی تولیت سے یہود کی طرح محروم ہو گی۔
۲۔اس نافرمانی کے نتیجے میں ان پر ایسے فاتحین مسلط ہونا ،جنہوں نے بیت المقدس کو ویراں و برباد کیا ،یہ ایک خالص تکوینی معاملہ ہے اور اللہ تعا لی نے اسی کی مذمت ’’ومن اظلم ممن منع مساجد اللہ ‘‘ میں بیان کی ہے ۔اس لئے اگر اب کوئی ان واقعات سے استدلال کرتے ہوئے اس مقدس مقام کی بے حرمتی روا رکھے گا ،تو وہ یقیناً مذمت کا مستحق ہو گا۔اب امتِ مسلمہ کے مفکرین اس تکوینی معاملے سے استدلال کرتے ہوئے مسجدِ اقصی کی حرمت کو پامال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یا وہ اس میں بیان کیا ہوا حکم اور اللہ کی سنت سے استدلال کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں ،کہ یہ مقدس گھر اس مغضوبِ علیہم قوم کو نہ دیا جائے۔آنجناب خود فیصلہ کر لیں ۔
’’ما کان للمشرکینِ ان یعمروا مساجد اللہ‘‘ کی تعمیم
آنجناب نے لکھا ہے کہ اس آیت کے عموم سے استدلال کرتے ہوئے تمام مساجد اور تمام کفار کو اس حکم میں شامل کرنا درست نہیں ہے ،کیونکہ یہ صرف مسجدِ حرام کے بارے میں ہے اور یہ حکم صرف مشرکین کے ساتھ خاص ہے ۔آنجناب سے گزارش ہے کہ اگر استدلال کرنا بھی ہے، تو وہ اس آیت کی بجائے اگلی آیت سے ہوتا ہے ،وہ اس میں اللہ نے اپنے گھروں کے بارے میں ایک عمومی ضابطہ بیان کیا ہے ،اللہ تعالی فرماتے ہیں :
إِنَّمَا یَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللّٰہِ مَنْ آمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلاَۃَ وَآتَی الزَّکَاۃَ وَلَمْ یَخْشَ إِلاَّ اللّٰہَ (البراء ۃ ۹: ۱۸)
’’اللہ کی مسجدوں کو تو وہی لوگ آباد کرتے ہیں ،جو اللہ اور آخرت پر ایمان لائے ہوں اور نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈریں۔‘‘
اس کی تفسیر میں اما مِ اہل سنت اما م ماتریدی ؒ لکھتے ہیں:
فذلک کلہ علی المسلمین ای علیہم عمارۃ المساجد و بہم تعمر المساجد ولہم ینبغی ان یعمروھا (۵۸)
یہ سارے کام مسلمانوں کا فریضہ ہیں ،یعنی ان کی ذمہ د اری مساجد کو آباد کرنا ہے ،اور انہی سے مساجد حقیقت میں آباد ہوتے ہیں اور انہی کا حق ہے کہ وہ مساجد کو آباد کریں ۔
بیت المقدس میں یہود کا قیام
حضرت عمرؓ نے بیت المقدس کی فتح کے وقت جو شرائط لگائیں تھیں ،ان میں ایک شرط یہ بھی شامل تھی کہ یہود میں سے کوئی بھی بیت المقدس میں قیام نہیں کر سکے گا ۔اب یہ شرط کتنی صراحت کے ساتھ یہود کی تولیت کی نفی کر رہی ہے ،کیونکہ اگر واقعی از روئے ’’شریعت ‘‘مسجدِ اقصی پر یہود کا حق ہو تا ،تو حضرت عمرؓ اس میں ضرور کوئی ایسا استثناء کرتے ،جس سے ان کا یہ ’’شرعی حق ‘‘ پامال نہ ہوتا۔یہ کونسی ’’عدالت‘‘ ہے کہ عیسائیوں کی عام عبادت گاہ کا تو اتنا خیال رکھ رہے ہیں ،کہ ان میں نماز بھی پڑھنا گوارا نہیں کر رہے ہیں ،لیکن یہود کو نہ صرف ان کی ’’مرکزی عبادت گاہ‘‘ سے محروم رکھ رہے ہیں ،بلکہ انہیں اس شہر میں قیام کی اجازت نہیں دے رہے ہیں ،کہ وہ کم از کم اسے دیکھ ہی لیا کریں ۔
آنجناب نے جو اس کا ’’شاہکار جواب ‘‘ دیا ہے ،قارئین بھی اس سے لطف اندوز ہوں ،آنجناب نے لکھا ہے کہ یہ شرط اصل میں عیسائیوں کی درخواست پر لگائی گئی،جو پرانے زمانے میں ایک رومی بادشاہ نے لگائی تھی اور عیسائی اسی شرط کو برقرار رکھناچاہ رہے تھے ۔اب جناب عمار صاحب کو کون بتائے کہ کیا اس شرط کا پسِ منظر اور سبب بتانے سے کیا یہ بات ثابت ہوگئی کہ حضرت عمرؓ کی نظر میں ان کا حقِ تولیت باقی ہے ؟نیز مسلمان فاتح تھے یا مفتوح ،کہ عیسائیوں کی درخواست پر ایک ’’غیر شرعی ‘‘شرط لگانے پر آمادہ ہو گئے ؟حقیقت یہ ہے کہ یہ شرط اور مسجدِ اقصی پر یہود کی تولیت ایک دوسرے کے بالکل معارض ہے ۔اگر آنجناب کا موقف تسلیم کرلیں کہ مسجدِ اقصی پر یہود کا تاریخی و مذہبی حق باقی ہے اور از روئے شریعت ان کا یہ حق منسوخ نہیں ہوا ،تو حضرت عمرؓ کی عدالت پر ایسا دھبہ لگتاہے ،جس کی امت کے تمام مفکرین مل کر بھی مناسب توجیہ نہیں کر سکتے ، کیونکہ مسجدِ اقصی پر یہود کا حق تسلیم کرتے ہوئے اس شرط کی اس کے سوا کوئی توجیہ نہیں ہو سکتی کہ انہوں نے یہ شرط لگا کر یہود کا یہ حق ’’غصب ‘‘کر لیاجو شریعت کی رو سے انہیں عطا ہوا تھا۔
فتح بیت المقدس کے موقع پر حضرت عمرؓ کا طرزِ عمل
حضرت عمرؓ نے جب بیت المقدس کو فتح کیا ،تو مسجد ااقصی میں حاضر ہو ئے ،عیسائیوں نے صخرہ کو یہود کی نفرت میں مزبلہ یعنی کوڑا دان بنایا تھا،حضرت عمرؓ نے خود اسے صاف کیااور اذان کا حکم دیا ،چنانچہ وہاں اذان دی گئی اور حضرت عمرؓ نے اسی احاطے میں ایک خاص جگہ پر نماز ادا کی ،حضرت عمرؓ کے اس طرز عمل میں یہ پس منظر بھی پیش نظر ہونا چاہیئے کہ آپؓ نے بیت المقدس میں اہلِ کتاب کی عبادت گاہوں میں ان کی درخواست کے باوجود نماز ادا نہیں کی ،کہ کل کہیں مسلمان میرے اس فعل کی آڑ میں ان عبادت گاہوں پر مستقل قبضہ نہ کر لیں ،لیکن آپ نے نہ صرف مسجدِ اقصی میں نماز ادا کی ،بلکہ وہاں پر مسجد کی تعمیر کا بھی حکم بھی دے دیا ۔ اب اس طرز عمل کی اس کے سوا کیا توجیہ ہوسکتی ہے کہ یہ مقدس مقام اب یہود کی بجائے مسلمانوں کی عبادت گاہ بن چکا ہے ،آنجناب نے اس عمل کی توجیہ تین نکات کی شکل میں کی ہے اور لکھا ہے کہ ان نکات کی بنا پر حضرت عمرؓ کا یہ طرزِ عمل اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ یہود کا اس پر حق باقی ہے ،قارئین بھی یہ ’’نکات ‘‘ ملاحظہ کریں :
۱۔حضرت عمرؓ نے مسجدِ اقصی کی اصل بنیادوں کو تلاش نہیں کیا ،معلوم ہوا کہ امتِ مسلمہ کی طرف اس کی تولیت منتقل نہیں ہوئی ،چنانچہ لکھتے ہیں:
’’اب اگر یہود کے حقِ تولیت کے امتِ مسلمہ کو منتقل ہونے کے تصور کو درست مان لیا جائے،تو سیدنا عمرؓ کو اس عبادت گاہ پر تصرف حاصل کرنے کے بعداس بات کا اہتمام کرنا چاہیئے تھا کہ جس طرح انہوں نے کعب احبار کی رہنمائی میں صخرہ بیت المقدس کو کوڑا کرکٹ اور ملبے کے نیچے سے دریافت کیا ،اسی طرح مسجد کی اصل بنیادوں کو تلاش کر کے ان کو محفوظ کرنے کا اہتمام فرماتے ،لیکن اس طرح کی کوئی کوشش انہوں نے نہیں کی ،چنانچہ اصل مسجد کا رقبہ اور بنیادیں متعین طور پر آج بھی معلوم نہیں ہے ۔‘‘
آنجناب کی اس’’ توجیہ‘‘ اور یہود کے حقِ تولیت میں کیا ’’تعلق ‘‘اور کونسی ’’نسبت ‘‘ ہے ؟مسجدِ اقصی کی اصل بنیادوں کو تلاش نہ کرنے سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ حضرت عمرؓ اس پر یہود کا حق تسلیم کرتے ہیں؟آنجناب حضرت عمرؓ کے اس فعل سے دلالت کی کونسی قسم کے تحت یہ ثابت کر رہے ہیں کہ آپؓ اس پر امتِ مسلمہ کا حق نہیں مانتے؟نیز جب آنجناب نے خود لکھا ہے کہ بار بار انہدام اور تعمیر کی بنا پر مسجدِ اقصی کی اصل بنیادوں کو گہری کھدائی اور اثریاتی تحقیق کے بغیر معلوم کرنا ممکن نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ آنجناب کے بقول اس کی اصل بنیادیں آج تک معلوم نہیں ہوسکیں،تو حضرت عمرؓ اسے ایک مجلس میں کیسے معلوم کرتے ؟ْقبۃ الصخرہ کو حضرت عمرؓ نے باقاعدہ معلوم کیا ،اس پر آنجناب اپنے ’’اصول ‘‘ کے مطابق امتِ مسلمہ کی تولیت کا حق تو تسلیم کریں۔یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ اتنا اہم معاملہ اور مسئلہ ہے ،لیکن حضرت عمرؓ جیسا مدبر اور صاحبِ فراست آدمی ’’زبان ‘‘ سے کچھ فرمانے کی بجائے اپنے ’’مبہم افعال ‘‘ سے اس کا ’’فیصلہ ‘‘ کر رہے ہیں کہ اس مقدس مقام پر امتِ مسلمہ اور یہود میں سے کس کا حق ہے ؟
۲۔آنجناب نے حضرت عمرؓ کے فعل کی توجیہ میں دوسرا نکتہ یہ لکھا ہے کہ آپ مسجدِ اقصی کے اس پورے احاطے میں ایک جگہ کو عبادت کے لئے مخصوص کیوں کیا؟خاص جگہ کو متعین کرنے سے معلوم ہوا کہ وہ اس پر یہود کا حق بھی مانتے تھے۔
۳۔ آنجناب نے مزید لکھا ہے کہ قبۃ الصخرہ جب حضرت عمرؓ نے دریافت کیا تو اس سے اصل مسجد کے محلِ وقوع کا علم بھی تقریباً ہوگیا ،تو حضرت عمرؓ پھر اس صخرہ سے ہٹ کر کسی اور جگہ کو کیوں عبادت کے لئے مخصوص کیا ؟معلوم ہوا وہ اس پر یہود کا حق بھی تسلیم کر تے تھے ۔(اگرچہ اس کی اصل وجہ تمام توریخ میں منقول ہے(۵۹)
آنجناب نے حضرت عمرؓ کے فعل کی جو ’’تو جیہات ‘‘ کی ہیں اور اس سے جو ’’نتیجہ ‘‘ نکالا ہے وہ قارئین نے ملاحظہ کر لیا ،کہ آنجناب اس پر یہود کا مذہبی و تاریخی حق ثابت کرنے کے لئے ’’کتنی تگ و دو ‘‘ کر رہے ہیں ۔’’استدلال ‘‘کی دنیا میں قارئین نے کبھی اس طرح کے ’’عجوبے ‘‘ملاحظہ نہیں کئے ہونگے ۔
آنجناب اس پر موقع پر صرف ایک سوال کا جواب دیں کہ جب آپ کے بقول امتِ مسلمہ کا مسجدِ اقصی پر کوئی حق نہیں ہے اور از روئے شریعت اس پر یہود کا حق ہے ،تو حضرت عمرؓ سے اس بارے میں کوئی ایک ایسا قول نقل کر دیں جس سے صراحۃ، دلالۃ یا اشارۃً یہ ثابت ہوتا ہو کہ اس جگہ پر یہود کا حق باقی ہے ؟
قانونی اور اخلاقی حق میں فرق
آنجناب نے یہ بھی لکھا ہے کہ اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ مسجدِ اقصی یہودیوں کے حوالے کی جائے ،کیونکہ دوسرے فریق کے احساسات اور جذبات کی رعایت رکھنا اخلاقیات کا اعلی اور بلند مقام ہے ۔
آنجناب کے اس ’’شگوفے ‘‘ پر ہم تبصرہ نہیں کرتے ،کیونکہ اس کی زد میں حضرت عمرؓ سے لیکر عصرِ حاضر تک پوری امتِ مسلمہ آتی ہے۔کہ چودہ صدیوں میں حضرت عمرؓ سمیت اس ’’خیر امت ‘‘ میں کوئی ایک ایسا شخص پیدا نہیں ہو ا ،جو اعلی اخلاقیات کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسجدِ اقصی یہود کے حوالے کرتا ۔البتہ اس موقع پر آنجناب ’’یہود کی خیر خواہی ‘‘کے جذبے سے کچھ اتنا مغلوب ہوگئے ،کہ’’ جوش‘‘ میں آنجناب کے قلم سے یہ عبارت نکلی ،چنانچہ لکھتے ہیں :
’’اس لئے کسی گروہ کو ان کی عبادت گاہ میں جو اس کے روحانی اور قلبی جذبات کا مرکز ہے ،عبادت کرنے سے نہ روکا جائے ،بالخصوص جبکہ وہاں سے اس کی بے دخلی ’’ظلماًو قہراً‘‘اور ’’مذہبی و اخلاقی اصولوں کی پامالی ‘‘ کے نتیجے میں عمل میں آئی ہو‘‘۔
آنجناب بتائیں کہ یہود کو اپنی عبادت گاہ سے بے دخل کس نے کیا ؟کیا اللہ تعالی جس قوم کو کسی عبادت گاہ سے بے دخل کردے اسے ظلم کہا جا سکتا ہے ؟اور کیا اس بے دخلی کو مذہبی و اخلاقی اصولوں کی پا مالی کہنا درست ہے؟آنجناب ’’توجیہ ‘‘ کریں گے کہ میں نے بخت نصر اور دوسرے فاتحین کے افعال کو ظلم کہا ،لیکن یہاں تو آنجناب نے ان فاتحین کے افعال اور مظالم کو ظلم کہنے کی بجائے یہود کی بے دخلی کو ظلم کہا ،حا لانکہ ان کی اس مقدس مقام سے بے دخلی ظلم نہیں ،بلکہ عینِ انصاف کا تقاضا تھا ،کیونکہ اس بے دخلی کو اللہ تعالی نے سورہ بنی اسرائیل میں اپنا فیصلہ قرار دیا ہے ،کہ یہود کو ان کے برے افعال کی بنا پر ہم نے انہیں اس مقام سے نکال دیا ۔آنجناب سے گزارش ہے کہ وہ یا تو اس عبارت پر نظر ثانی فرمائیں یا اس کی مناسب توجیہ سے قارئین کو آگاہ فرمائیں۔
مذکورہ تحریرات پر ایک اجمالی نظر
جناب عمار صاحب کے لکھے گئے ہر دو مضامین کا تفصیلی جائزہ قارئین کے سامنے آچکا ہے ،اب قارئین فیصلہ کریں کہ آنجناب کے اس ’’موقف ‘‘ میں استدلال کی کتنی ’’مضبوطی ‘‘ ہے، ان تحریرات میں آنجناب نے تاویل اور توجیہ کی کیسی ’’عمدہ ‘‘مثالیں قائم کی ہیں اور اس ’’غیر جانبدارانہ تحقیق ‘‘ میں آنجناب نے کتنی ’’جانبداری ‘‘ کا مظاہرہ کیا ہے ۔یہ تفصیلی جائزہ سردست ہم نے صرف آنجناب کے اہم ’’مزعومہ شرعی دلائل ‘‘ پر’’ نقد‘‘ تک محدود رکھا اور اس حوالے سے آنجناب نے جو مزید ابحاث کی ہیں ، ان کوچھوڑ دیا۔اب ان مضامین کے بارے میں چند متفرق باتیں اجمالی جائزے کے عنوان سے پیشِ خدمت ہیں :
۱۔آنجناب نے مسجدِ اقصی کی تاریخ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جو عبادت گاہ تعمیر کی ،وہ ’’تاریخ ‘‘ میں ہیکلِ سلیمانی کے نام سے معروف ہے ۔آنجناب سے گزارش ہے کہ تاریخ سے کونسی تاریخ مراد ہے ؟اسلامی تاریخ میں تو اسے مسجدِ اقصی اور بیت المقدس کہا جاتا ہے ۔جبکہ بنی اسرائیل کی تاریخ میں اسے ’’بیت یہوہ‘‘اور ’’بیت المقدس ‘‘ کہتے ہیں(۶۰)نیز آنجناب سے عرض ہے کہ ایک تو ’’ہیکل ‘‘ کی لغوی و تاریخی تحقیق سے ہمیں آگاہ کریں،دوسرا ہیکل کے ساتھ ’’سلیمانی ‘‘کا لفظ کیوں اور کیسے لگا اور کن قدیم مصادر میں یہ لفظ آیا ہے؟
۲۔آنجناب نے لکھا ہے کہ مسجدِ اقصی سے یہود کے حقِ تولیت کی منسوخی کا نظریہ مولانا امین احسن اصلاحی ،مولانا سید سلیمان ندوی اور قاری طیب صاحب ؒ نے اختیار کیا ہے اور یہ نظریہ ہماری تاریخ میں پہلے کسی نے ظاہر نہیں کیا ،تو گویا آنجناب کے نزدیک تاریخ میں یہود کے حقِ تولیت کی عدمِ نسخ کی شہادتیں موجود ہیں ،گزارش ہے کہ کوئی ایک حوالہ پیش فرمادیں ،جس میں تصریح ہو کہ یہود کا حق منسوخ نہیں ہوا۔تعجب ہے کہ جس نظریے پر امت چودہ سو سال سے متفق ہے ،آنجناب اس کو صرف تین علماء کی رائے کہہ رہے ہیں ۔نیز خود آنجناب نے اپنے موقف کو عام موقف سے بالکل مختلف موقف کہا ہے (۶۱)کیا صرف تین علماء کی رائے کو ’’عام موقف ‘‘کہنا درست ہے ؟اس کے علاوہ آنجناب نے یہود کے حق کی نفی والے موقف کو ’’امت مسلمہ کی نمائندگی کرنے والے کم و بیش تمام مقتدر اہلِ علم اور علمی سیاسی ادراوں‘‘ کاموقف کہا ہے ۔(۶۲)تعجب ہے کہ ایک طرف اسے صرف تین علماء کا موقف کہہ رہے ہیں اور دوسری طرف اسے’’تمام مقتدر علماء‘‘ اور’’ عمومی نظریہ‘‘بھی کہتے ہیں !
۳۔آنجناب نے اس مضمون میں بھر پور کوشش کی ہے کہ مسجدِ اقصی کو صرف یہود کی ایک عبادت گاہ،مرکزِ عبادت اور قبلہ کے طور پر متعارف کروائے،چنانچہ لکھتے ہیں:
’’اس کے برعکس مسجدِ اقصی کی حیثیت محض بنی اسرائیل کے قومی قبلہ اور مرکزِ عبادت کی تھی‘‘
حالانکہ قرآن و حدیث کے مطابق اس کی’’ محض‘‘ یہ حیثیت بالکل نہیں ہے ۔ بخاری کی حدیث کے مطابق دنیا میں بیت اللہ کے چالیس سال بعد اس کی بنیاد رکھی گئی ،اس طرح سے اس کے بانی حضرت آدم علیہ السلام یاحضرت ابراہیم علیہ السلام قرار پاتے ہیں نیز ایک قول کے مطابق حضرت یعقوب علیہ السلام اس کے موسس ہیں ،جو بھی قول مان لیں (اگرچہ دلائل کے اعتبار سے پہلے دونوں قول اصح ترین ہیں ) اتنی بات تو ثابت ہوتی ہے ،اس عبادت گاہ کے ساتھ صرف یہود کا تعلق نہیں ہے ،کیونکہ یہود حضرت موسی علیہ السلام کی اتباع کا دعوی کرنے والوں کو کہتے ہیں اور یہ تینوں حضراتِ انبیاء حضرت موسی علیہ السلام سے قطعی طور پر پہلے مبعوث ہوئے تھے ۔یہود کو بھی یہ عبادت گاہ اس لئے ملی تھی کہ وہ زمانے کے اہلِ حق تھے اورمقدس مقامات کے بارے میں خداوندی اصول یہی ہے کہ وہ زمانے کے اہلِ حق کوملتے ہیں ۔
اب ظاہر ہے کہ اسے ایک مقدس مقام ماننے کی صورت میں بحث کا انداز اور ہوگا ،جبکہ اسے صرف اہلِ کتاب کی عبادت گاہ ماننے کی صورت میں بحث کا طرز مختلف ہوگا۔چونکہ دوسرا طرز(جو اصل میں یہودی مراجع کا طرز ہے)آنجناب کے ’’موقف ‘‘ کے لئے مفید تھا ،اس لئے آنجناب نے اس پر بہت زیادہ زور لگایااور مسجدِ اقصی کے دوسرے پہلو کو بالکل نظر انداز کر دیا۔یہی وجہ ہے کہ آنجناب بار بار اہلِ کتاب کی عبادت گاہوں سے متعلقہ نصوص سے ذکر کرتے ہیں اور ان کے ’’عموم‘‘میں مسجدِ اقصی کو شامل کر کے بحث کی پوری عمارت کھڑی کر دیتے ہیں ۔
۴۔آنجناب نے یہ بھی لکھا ہے کہ مسلمانوں نے اس کی تولیت امانتاًاٹھائی تھی ۔اتنے ’’بڑے دعوے‘‘ پر آنجناب نے کوئی ایک دلیل بھی نہیں دی ۔کیا کسی اور مذہب کی ’’عبادت گاہ‘‘کو امانتاًلینے کا تصور اور اس کے احکامات فقہ اسلامی میں ملتے ہیں؟نیز ہماری تاریخ میں کیامسجدِ اقصی کے علاوہ اور بھی کسی عبادت گاہ کو امانتاً تولیت میں لیا گیا؟یہود جب خود روئے زمین پر موجود تھے ،تو ان کی سب سے ’’مرکزی عبادت گاہ‘‘کو کیوں امانتاًلیا گیا ،جبکہ ان کی باقی عام عبادت گاہوں سے کسی حوالے سے کوئی تعرض نہیں کیا گیا؟
۵۔آنجناب نے اس پوری بحث میں امتِ مسلمہ کے حقِ تولیت کے ’’دلائل ‘‘پر تو بے شمار ’’اعتراضات ‘‘کئے ، لیکن خود اپنے ’’مدعا‘‘کہ اس پر یہود کا مذہبی وتاریخی حق ہے اور ان کی تولیت بالکل منسوخ نہیں ہوئی،اس پر کوئی ایک دلیل بھی نہیں دی ۔آنجناب سے گزارش ہے کہ اپنے موقف پر قرآن پاک کی کوئی آیت،کسی حدیث کا حوالہ ؛کسی فقہی کتاب سے اقتباس یا کسی ایک عالم کا کوئی قول پیش فرمادیں،تا کہ ہمیں اندازہ ہو کہ آنجناب کے دلائل کتنے قوی ہیں ؟فریق مخالف کے استدلالات پر نقد سے تو مسئلے کا اثبات نہیں ہوتا ،جب تک اپنے دلائل پیش نہ کئے جائیں۔
۶۔آنجناب نے اس مضمون کے آخر میں اس موضوع پر غیر جانبدارانہ تحقیقات کے فقدان کا بھی شکوہ کیا ہے ،لیکن کیاآنجناب کی تحقیق غیر جانبدارانہ ہے؟کیا یہ انصاف ہے کہ اگر کوئی محقق اس پر امتِ مسلمہ کا حقِ تولیت ثابت کرے تو آنجناب کی نظر میں وہ ’’جانبدارانہ تحقیق ‘‘ ہے اور اگر خود یہود کو اس کا حق دار ٹھہرائیں ،تو وہ ایک ’’غیر جانبدارانہ تحقیق‘‘ ہے؟کیا صرف ایک فریق کے ماخذ سے تعارف،تاریخ وغیرہ نقل کر کے دوسرے فریق کے دلائل پر ’’محض نقد کرنا ‘‘غیر جانبدارانہ رویہ ہے ؟آنجناب کا فرض بنتا تھا کہ امت مسلمہ کے بالغ نظر محقیقین نے یہود کے مذکورہ دعاوی پر جو تعقبات کئے ہیں ،ان کو بھی ذکر کرتے ،پھر موازنہ کر کے کوئی فیصلہ کرتے،لیکن آنجناب نے اس قسم کی تمام تحقیقات کو یکسر نظر انداز کر دیا۔پوری امت کو ’’انصاف و اخلاق کی تاکید کرنے والا‘‘خود اتنی بڑی ناانصافی کرے گا ،اس کی توقع نہیں تھی۔
۷۔آنجناب نے اس پورے مضمون میں اس بات پر تو خوب زور لگایا کہ امتِ مسلمہ استحقاق کی نفسیات سے مغلوب ہوگئی ہے،تاریخی حوادث کے نتیجے میں مسجدِ اقصی کو سنبھالنے کے نتیجے میں اب انہوں نے مستقل طور پر یہودیوں کے اس حق کو غصب کیا ،فریقِ مخالف کی مرکزی عباد ت گاہ پر یوں قبضہ کرلینا اعلی اخلاق کے منافی ہے ،لیکن اس پورے مضمون میں کسی جگہ اشارۃً تک اس کا ذکر نہیں کیا کہ یہود نے اپنا ’’مزعومہ حق ‘‘لینے کے لئے فلسطین کے مسلمانوں پر کیا دردناک مظالم ڈھائے؟ہزاروں فلسطینیوں کو بلا کسی جرم کے کس طرح بے دردی سے شیہد کیا؟اپنے مزعومہ حق کو لینے کے لئے کونسے غیر اخلاقی اور غیر انسانی کام کئے؟بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا مخالفت کر کے فلسطینیوں کے ساتھ کون سا سلوک روا رکھا؟آنجناب نے امتِ مسلمہ کی ’’بداخلاقی ‘‘ کا تو شکوہ کیا ،لیکن یہود کے مظالم سے چشم پوشی اختیار کی ۔ گزشتہ نصف صدی سے اسرائیل نے تمام بین الاقوامی قوانین اور مسلمہ انسانی و اخلاقی اصولوں کو پامال کر تے ہوئے مظلوم و نہتے فلسطینیوں پر جو ظلم کشی روا رکھی ہے ،کاش اس ’’غیر جانبدارانہ تحقیق ‘‘میں اس کا بھی کچھ ذکر آجاتااور آنجناب امتِ مسلمہ کے ساتھ یہود کو بھی کچھ اخلاق کی تلقین فرمادیتے۔آنجناب نے ’’مسجدِ اقصی میں سلسلہ عبادات کے احیا ء کے حوالے سے یہود کے سینوں میں صدیوں کی تڑپ‘‘تومحسوس کر لی ،لیکن مظلوم فلسطینیوں کی دلدوز چیخیں آنجناب کے کانوں تک نہیں پہنچ سکیں(واوین کے الفاظ مذکورہ مضمون سے لئے گئے)
۸۔آنجناب نے اس مضمون میں عرب علماء کے اس موقف پر بھی کڑی تنقید کی ہے ،جو ہیکلِ سلیمانی کے وجود سے انکار کرتے ہیں ۔آنجناب نے اس موقف کو ’’کتمانِ حق‘‘اور ’’تکذیبِ آیات اللہ ‘‘سے تعبیر کیا،ہم آنجناب سے پوچھتے ہیں ،کہ یہاں پر ’’حق ‘‘اور ’’آیات اللہ‘‘سے آنجناب کیا مراد لیتے ہیں ؟اگر اس سے قرآن و حدیث کے نصوص مرادہیں ،اور ایک مسلمان کے شایانِ شان بھی یہی ہے کہ اس کے نزدیک حق اور آیات اللہ سے قرآن و حدیث مراد ہوں ،تو کس نص میں یہ بات آئی ہے کہ یہودی جس ہیکل کا دعوی کرتے ہیں ،اس سے مراد مسجدِ اقصی ہے؟مسجدِ اقصی کے بارے میں جو تفصیلات نصوص میں آئی ہیں ،ان کے مطابق یہ مسجد ،بیت اللہ کے بعد دنیا کا دوسرا مقدس ترین مقام ہے بیت اللہ کے چالیس سال بعد اس کی تعمیر ہوئی ،اس طرح سے اس کے موسس اول حضرت آدم علیہ السلام ،یا حضرت ابراہیم علیہ السلام یا حضرت یعقوب علیہ السلام قرار پاتے ہیں ،اور پھر سلیمان علیہ السلام نے اس کی تجدید کی اور اسے دوبارہ تعمیر کیا ،حضرت زکریا علیہ السلام ،حضرت یحییٰ علیہ السلام ،حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام و دیگر انبیائے کرام اسی کو اپنی عبادت کا مرکز بنایا(یاد رہے یہ سارے پیغمبر وہ ہیں جنہوں نے یہود کے ہاتھوں سخت تکالیف اٹھائیں اور بعض کو یہود نے بے دردی سے شہید کیا )اورآخر میں آپﷺ نے اسراء کے موقع پر اس میں تمام انبیاء کی امامت فرمائی۔
جبکہ ہیکلِ سلیمانی اور اس کے بانی حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارے میں اسفارِ یہو د اور ان کی دیگر کتب میں یہ تفصیلات ہیں :
۱۔ سلیمان علیہ السلام کے بارے میں صحفِ یہود میں متعارض روایتیں ہیں،اکثر کے ہاں آپ پیغمبر کی بجائے ایک بادشاہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
۲۔آپ نے اس وقت کے فرعون کی بیٹی سے نکاح کیا اور آپ کی بہت ساری بیبیاں تھیں ،ان میں سے کچھ مشرک تھیں اور ان کی وجہ سے آپ بھی نعوذ باللہ شرک کی طرف مائل تھے۔
۳۔آپ نے سات سال کے عرصے میں ایک عظیم الشان عبادت گاہ تعمیر کی ،اور آپ ہی اس کے بانی و موسس ہیںآپ سے پہلے اس کا نام و نشان تک نہیں تھا،اس عبادت گاہ کے رقبے ،حجم،اس میں استعمال ہونے والے سامان اور اس کی دیگر تفصیلات کے بارے میں بیشمار متعارض روایتں ان کی صحف میں بکھری ہوئی ہیں ،جن میں تطبیق کسی طرح ممکن نہیں ہے۔
۴ ۔یہ ہیکل کس جگہ پر بنایا گیا، اس بارے میں ان کے صحف میں چھ روایتیں ہیں ۔
۵۔فلسطین میں کس جگہ پر اس کی تعمیر ہوئی ،اس بارے میں پانچ روایتیں ہیں ،جن میں سے ایک روایت موجودہ مسجدِ اقصی کے عین نیچے کی ہے ۔
۶۔یہ عبادت گاہ ہمیشہ سے یہود کا مرکز رہا ہے (یاد رہے اگر دونوں کو ایک مان لیں تو لازم آئے گاکہ اس مرکز کو ان کے دشمن انبیاء یعنی حضرت زکریا،حضرت یحیی،اور حضرت عیسی و ان کی والدہ ، نے بھی ’’مرکزِ عبادت ‘‘ بنایا تھا ،آنجناب ان دونوں باتوں کی تطبیق فرمائیں)
۷۔اس عبادت گاہ کی تیسری مرتبہ تعمیر ہوگی ،اور اس کی تعمیرہوتے ہی یہود کی نشاۃ ثانیہ کا آغازہو جائیگا۔(اور مسجدِ اقصی تو کب سے تعمیر ہے ،تو ان کی نشاۃثانیہ کیوں نہیں ہورہی ہے،نیز جب وہ پہلے سے تعمیر ہے تو دوبارہ تعمیر کا کیا مطلب؟آنجناب سے ان کے جوابات مطلوب ہیں ،کیونکہ آنجناب مسجدِ اقصی اور مزعومہ ہیکل کو ایک قرار دیتے ہیں )
۸۔اس کے مقام کے بارے میں چونکہ متعارض روایتیں ہیں ،اس لئے یہود اپنے تمام وسائل کے ساتھ جدید ترین مشنریوں اور ماہرین کے ساتھ اس کے آثار ڈھونڈ رہے ہیں (اگر جگہ متعین ہوتی تو آثار ڈھونڈنے کا کیا مطلب؟ آنجناب سے سوال ہے )
۹۔اس تلاش میں انہوں نے مختلف طریقوں سے مسجدِ اقصی کے نیچے بھی مختلف تحقیقات کی ہیں ۔
۱۰۔ان تمام تحقیقات میں اب تک مسجدِ اقصی اور اس کے گرد اب تک ایک نشان اور کسی قسم کی کوئی تائید نہیں مل سکی اور اس کا اقرارمتعدد یہودی اور امریکی ماہرین کر چکے ہیں ،یہاں تک کہ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے۔
ہیکلِ سلیمانی کے بارے میں ان تفصیلات کو دیکھتے ہوئے کیا یہ موقف زیادہ درست ہے ،کہ ہیکل اور مسجدِ اقصی دونوں ایک عبادت گاہ کے نام ہیں ،یا یہ موقف زیادہ قرینِ قیاس معلوم ہوتا ہے ،کہ دونوں مختلف عمارتوں کے نام ہیں؟ فیصلہ آنجناب فرمائیں ۔
اب جن عرب علماء نے مذکورہ بالا حقائق کے نتیجے میں یہ بات کہی ہے کہ ہیکل کا وجود محض انکا مفروضہ ہے ،خصوصاً مسجدِ اقصی کے نیچے تو اس کا وجود تو کا فی محلِ نظر ہے ،تو اس میں کونسے حق کا کتمان اور کونسی آیتوں کی تکذیب لازم آتی ہے؟ مذکورہ تفاصیل کی بنا پر تو دونوں کے ایک ہونے کا نظریہ کتمانِ حق اور تکذیب آیات اللہ کے زیادہ قریب نظر آتا ہے، کیونکہ ہیکل کے بارے میں یہود کے محرف صحف میں منقول تفصیلات اور مسجدِ اقصی کے بارے میں نصوص میں واضح تباین ہے اور دونوں کو ایک ماننے سے متعدد اشکالات اور تضادات کا لزوم ہوتا ہے ،جبکہ الگ الگ ماننے سے کوئی ایک اشکال لازم نہیں آتا۔ سمجھ نہیں آتا کہ آنجناب نے ہیکل کے بارے میں مکمل تفصیلات کا مطالعہ کیے بغیر عالمِ اسلام کے چوٹی کے محققین پر آیات اللہ کی تکذیب جیسا سخت ’’فتوی ‘‘ کیونکر لگایا؟جس کو دوسرے لفظوں میں ’کفر کا فتوی ‘‘ کہہ سکتے ہیں،کیونکہ آیات اللہ کی تکذیب کا دوسرا نام کفر ہے۔ علمی و تاریخی بحث پر ’’کفر کا فتوی ‘‘لگانا کیا ’’متوازن و معتدل رویہ ‘‘ہے؟(۶۳)
۹۔آنجناب کے اس مضمون میں ایک ’’المیہ ‘‘یہ بھی ہے کہ آنجناب یہود کے ’’دعاوی‘‘اور ’’مطالبات‘‘کو ’’تاریخی حقیقت‘‘اور ’’مسلمہ تحقیق‘‘تسلیم کر کے امتِ مسلمہ کی اخلاقی و علمی حیثیت پر ماتم شروع کر دیتے ہیں ۔چنانچہ مسجدِ اقصی کے بارے میں تھوڑی سی معلومات رکھنے والے کے علم میں بھی یہ بات ہے ،کہ دیوارِ براق ،جسے یہود دیوارِ گریہ کہتے ہیں ،کا پس منظر کیا ہے ،ہم پہلے اس دیوار اوراس کے بارے میں پیدا شدہ تنازع کے حوالے سے کچھ مختصراً عرض کرتے ہیں ،پھر اس بارے میں آنجناب کی ’’تحقیق ‘‘پر ایک نظر ڈالتے ہیں :
آپﷺ نے معراج کے موقع پر بیت المقدس تک سفر براق پر کیا اور جب مسجدِ اقصی میں آپ ﷺ نے اللہ کے حکم سے انبیاء کرام کو نماز پڑھائی، تو صحیح مسلم کی روایت (۶۴)کے مطابق آپﷺ نے براق ایک حلقے کے ساتھ باندھا،امام نووی نے حلقے کی تشریح دروازے کے حلقے سے کی ہے کہ مسجدِ اقصی کے کسی دروازے کے حلقے سے براق آپﷺ نے باندھا ،علامہ مجیری ؒ نے الانس الجلیل میں مسجدِ اقصی کے مختلف دروازوں کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جس دروازے کے حلقے سے براق باندھا گیا ،اس کا نام باب الجنائز اور باب الا سباط ہے(۶۵)اور مزید یہ لکھا ہے کہ یہ دروازہ مسجدِ اقصی کی مغربی جانب میں ہے اور اسی مناسبت سے اسے ’’باب المغاربہ ‘‘بھی کہتے ہیں(۶۶)اس طرح سے مسجدِ اقصی کی مغربی جانب کے بارے میںیہ بات اسلامی تاریخ میں طے تھی کہ اس میں وہ حلقہ بھی تھا ،جس سے براق باندھا گیا،اور اسی کی یاد میں مسجدِ اقصی کی مغربی جانب میں ایک مسجد ’’مسجدِ براق ‘‘کے نام سے امویوں کے دور میں تعمیر کی گئی ،اور بعد میں مختلف ادورا میں اس مسجد کی تجدید بھی ہوتی گئی (۶۷)پھر سقوط ہسپانیہ کے بعد جب اسپین میں عیسائیوں کی حکومت آئی ،تو انہوں نے سارے یہودیوں کو اسپین سے جلا وطن کر دیا ،اس وقت کے مشہور عثمانی خلیفہ سلیمان قانونی نے یہود کو پناہ دی اور انہیں مسجدِ اقصی کی مغربی دیوار کے ساتھ ایک جگہ دی اور انہیں یہاں اپنی عبادات اور دینی مشاغل کی اجازت دی ،لیکن چونکہ دھوکہ و فراڈ اس قوم کی سرشت میں داخل ہے ،اس لئے انہوں نے آہستہ آہستہ یہ بات مشہور کردی ،کہ جس دیوار کے ساتھ ہم عبادت کر رہے ہیں ،یہ اصل میں مفروضہ ہیکل کی وہ دیوار ہے جو محفوظ رہ گئی ہے۔ ابتدا میں تو مسلمانوں نے اپنی روایتی تسامح کی بنا پر اس بات کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا ،لیکن جب یہود کی چیرہ دستیاں حد سے بڑھ گئیں ،تومسلمانوں کا اشتعال میں آنا ایک لازمی بات تھی ،اس طرح سے اس بات نے ایک سنگین تنازع کی حیثیت اختیار کرلی۔ آخرکار ۱۹۳۰ء میں اس تنازع کو حل کرنے کے لئے برطانوی حکومت نے ایک کمیشن تشکیل دیا جس میں دونوں فریقوں کے منتخب نمائندوں کے علاوہ آثارِ قدیمہ کے ماہرین شامل تھے۔ اس کمیشن نے کئی دن فریقین کا موقف سنااور اپنے ذرائع سے تحقیقات کیں اور آخر میں اس نے دیوار سے متعلق ان الفاظ میں فیصلہ سنایا:
’’مغربی دیوار کی ملکیت صرف مسلمانوں کی ہے، کیونکہ یہ بھی بقیہ دیواروں کی طرح مسجدِ اقصی کی ایک دیوار ہے اور مسجد کے باقی حصوں کی طرح وقف مال ہے ،نیز اس دیوار کے سامنے کا پورا حصہ بھی مسلم وقف میں شامل ہے۔‘‘(۶۸)
لیکن یہود نے متفقہ کمیشن کا یہ فیصلہ بھی نہیں مانا اور آج تک اپنے اس ’’باطل موقف ‘‘پر قائم ہیں ۔اس کے علاوہ اس موقف کے بطلان پر مزید شواہد بھی ہیں :
۱۔پورے اسلامی ذخیرے میں یہ بات کسی جگہ نہیں ملتی کہ مسجدِ اقصی کی یہ دیوار زمانہ اسلام سے پہلے کی ہے ،اور اس کی پرنی تعمیرات میں سے ہے ،حالانکہ اگر واقعی یہ دیوار اسلامی تعمیر سے پہلے بھی قائم تھی ،تو اس کا ذکر اسلامی ماخذ میں واضح طور پر ہونا چاہئے تھا۔
۲۔سلیمان قانونی کے زمانے سے پہلے تاریخ میں یہ بات ثابت نہیں ہے ،کہ کبھی یہودیوں نے اس جگہ پر باقاعدہ عبادت کا اہتمام کیا ہو۔
۳۔یہودیوں کے پرانے ماخذ میں دیوارِ گریہ یا حائط المبکی کے نام سے کسی دیوار کا ذکر نہیں ملتا ،حالانکہ اگر واقعی یہ مفروضہ ہیکل کی باقیات ہوتی ،تو ان کے ہیکل کی اہمیت کی بنا پر اس کا ذکر سرِ فہرست ہونا چاہئے تھا۔
۴۔خود یہود کے انصاف پسند محققین نے اس کا اعتراف کیا ہے ،کہ جب پرانے اور بنیادی ماخذ میں یہ بات نہیں ملتی ،تو یہ دعوی محلِ نظر ہے ۔
۵۔آج تک آثارِ قدیمہ کی تحقیق میں یہ بات ثابت نہیں ہو سکی کہ یہ دیوار مفروضہ ہیکل کی باقیات میں سے ہے۔ (۶۹)
آنجناب کی رائے
آنجناب نے اپنے مضمون میں اس پر یہ خامہ فرسائی کی ہے :
۱۔آنجناب نے ایک تو تاریخ بیان کرتے ہوئے بلا کسی حوالہ کے یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی ،کہ اس کی مغربی دیوار بالکل محفوظ رہ گئی اور اس حوالے سے مذکور ہ مباحث اور اس کے حوالے سے مشہور تنازع کا اشارۃً تک ذکر نہیں کیا ،یقیناً یہ آنجناب کی ’’دیانت ‘‘اور ’’غیر جانبداری ‘‘کی ’’اعلی مثال ‘‘ ہے۔ (براہین ص۲۴۲)
۲۔آنجناب نے مزید لکھا ہے کہ عرب علماء کا اس کو دیوار براق کہنا اور اس بات کا انکار کرنا کہ یہ ہیکل کی باقیات میں ہے، یہ ایک ایسا موقف اور رویہ ہے ،کہ اس کی علمی اور اخلاقی حیثیت ناقابلِ فہم ہے اور یہ امتِ مسلمہ کی اخلاقی حیثیت پر بہت بڑا سوال ہے کہ وہ ایک متفقہ بات کا انکار کر ہے ہیں (اب قارئین انصاف کریں کہ اس حوالے سے یہودیوں کا موقف ناقابلِ فہم ہے یا امتِ مسلمہ کا ،نیزآنجناب کا یہود کے موقف کو متفقہ کہنا، کس قدر حقائق کو چھپانے اور یہود کی بے جا وکالت کرنے کی دلیل ہے ۔آنجناب سے سوال ہے کہ ایک متنازعہ مسئلے کو متفقہ ظاہر کرنے کی اخلاقی و علمی حیثیت کتنی ناقابلِ فہم ہے ؟)
۳۔آنجناب نے یہ بات بھی لکھی ہے کہ بیسویں صدی سے پہلے اس بنیاد پر اس دیوار کے تقدس کا کوئی تصور مسلمانوں کے ہاں نہیں پایا جاتا تھا کہ یہاں آپﷺ نے براق باندھا تھا (اس سے پہلے الانس الجلیل کے حوالے سے یہ بات گزر چکی ہے کہ انہوں نے مغربی جانب کو براق کے باندھنے کی جگہ قرار دیا ہے ،اب اسے عمار صاحب کا تجاہلِ عارفانہ کہیں یا اسلامی ماخذ سے بے خبری ،نیز اس جانب میں مسجدِ براق تعمیر کرنے کی بات بھی گزر چکی ہے ،اب قارئین ہی آنجناب کی اس ’’عمدہ تحقیق‘‘پر کوئی تبصرہ کریں ۔)
۴۔آنجناب نے ایک بے بنیاد بات یہ بھی کہی ہے کہ اس دیوار کی دریافت کا سہرا عثمانی خلیفہ سلطان سلیم کے سر ہے کہ انہوں نے سولہویں صدی میں ملبے کے نیچے سے اسے دریافت کیا (اب آنجناب سے کون پوچھے کہ جب آ پ کے بقول یہ ہیکل کی باقیات میں سے ہے ،تو یہودیوں کو پندرہ صدیوں تک اس کا علم کیوں نہیں ہو سکا؟نیز کیا یہ صدیوں پرانی دیوار ملبے کے ہٹانے سے ہی برآمد ہوگئی اور اس موقع پر سلطان سلیم نے بھی اس کو ہیکل کی باقیات تسلیم کیا؟اس کے دریافت والی بات کس معتبر تاریخ میں لکھی ہے ؟آنجناب نے اس کے لئے مودودی صاحب کی ایک تقریر کا حوالہ دیا ،کیا اتنی بڑی اور تاریخی تحقیق کے لئے صرف تقریر کا حوالہ کافی ہے؟
۱۰۔آنجناب نے اس مضمون میں مکمل طور پر یہود کے موقف کی وکالت کی ہے ،اس طرح سے اسے ایک غیر جانبدارانہ تحقیق کہنا محلِ نظر ہے ،حا لانکہ آنجناب نے اپنے مضمون کو تعصبات و جذبات سے بالاتر تجزیہ کہا ہے ۔آنجناب کا ’’اخلاقی فرض ‘‘بنتا تھا کہ جب آنجناب کے نزدیک یہود کا موقف درست ہے اور آنجناب انہیں کے لئے اس مضمون میں مواد اکٹھا کر رہے تھے تو اسے غیر جانبدارانہ تحقیق کہنے سے گریز کرتے۔
۱۱۔آنجناب نے اس مضمون میں بار بار امتِ مسلمہ کی اخلاقی کمزوری کا رونا تو رویا ،لیکن اس پہلو کا ذکر نہیں کیا کہ امتِ مسلمہ نے انبیاء کے اس مقدس مقام کا کس طرح غیر جانبداری سے کما حقہ تحفظ کیا،اس کی حفاظت کے لئے اپنی جانیں دیں اور آج تک دے رہے ہیں اور محض یہود کے بغض میں آکر اس مقدس مقام کا تقدس پامال نہیں کیا۔یہ یقیناً اس امت کی وہ اخلاقی فتح ہے جو اس سے پہلے یہود و نصاری کی پوری تاریخ میں معدوم ہے ،کہ ان دونوں گروہوں نے ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کا کیا حشر کیا۔
۱۲۔آنجناب نے اس پورے مضمون میںیہود کی مظلومیت اور ان کی بے چارگی کا عنصر تو خوب نمایاں ہے،لیکن اس میں ان کی کرتوتوں ،انبیاء ساتھ اس قوم کے ناروا سلوک ،نبی پاکﷺ اور صحابہ کرام کے خلاف ان کی گھناونی سازشوں اور اللہ کی نظر میں اس قوم کی حیثیت اور مقام کا بالکل ذکر نہیں کیا ،آنجناب کا یہ طرز انتہائی قابلِ افسوس ہے ۔
۱۳۔آنجناب نے اس مضمون میں انصاف کی بہت تلقین کی ہے ،لیکن خود نصوص اور تاریخی واقعات میں جو واضح ناانصافیاں کی ہیں (جن میں سے کچھ کا ذکر اس مضمون میں آچکا) جو دور دراز کی بے جا تاویلات کی ہیں اور ’’یحرفون الکلم عن مواضعہ‘‘ کا جو مظاہرہ کیا ہے ،کیا وہ انصاف کے زمرے میں آتا ہے ؟
۱۴۔آنجناب نے اس مضمون میں مسجدِ اقصی کی تولیت پر تو ’’پر زور بحثیں ‘‘کی ہیں ،لیکن اسرائیل کے ناجائز وجود اور ایک قوم کو زبردستی جلاوطن کر کے ان کی سرزمین پر بلا جواز قبضہ پر کسی قسم کے تبصرے سے ’’گریز‘‘کیا ہے ۔حالانکہ ان دونوں مسئلوں میں کافی مضبوط ربط واور گہرا تعلق ہے ۔
آخری گزارش ،کرنے کا اصل کام
علمی و فکری مسائل پر تحقیق کرنا اور کسی مسئلے کے تمام جوانب و پہلو ؤ ں پر بحث کرنا یقیناًایک مستحسن امر ہے ،لیکن کسی بھی علمی و فکری مسئلے پر بحث سے پہلے اپنے گرد و پیش کے ماحول اور خارجی احوال کو پیشِ نظر رکھنا بہت ضروری ہو تاہے اور یہ بھی دیکھنا بہت ضروری ہے کہ اس ’’تحقیق ‘‘ کے اظہار میں نفع و نقصان کا تناسب کیا ہے ؟خصوصاً امتِ مسلمہ آج داخلی اعتبار سے تقسیم در تقسیم کا شکار ہے ،اس پر مستزاد مغربی دنیا نے عسکری،سیاسی ،اور فکری و ثقافتی طور پر پوری امت پر یلغار کر رکھی ہے ۔ ان حالات میں کیا یہ مناسب ہے کہ امتِ مسلمہ کے متفقہ مسائل کو ’’تحقیق ‘‘کے نام پر از سر نو چھیڑا جائے ،اسلاف کے فہمِ دین اور ان پر قائم اعتماد کی اس مبارک فصیل میں دراڑیں ڈالی جائیں اور امت کے اصل مسائل سے توجہ ہٹا کر مفکرین کو ایک لا یعنی بحث میں الجھایا جائے؟پہلے سے فرقوں ،جماعتوں اور گروہوں میں بٹی امت کو مزید تقسیم کرنے کا ’’سنہرا کارنامہ ‘‘سر انجام دیا جائے ۔
اس دور میں یہ ’’کمال ‘‘کی بات نہیں ہے کہ ’’محقق‘‘بن کر جمہور امت سے ہر مسئلے میں اختلاف کو اپنا وطیرہ بنا لیا جائے، کیو نکہ اب ان ’’شواذ ‘‘آراء کے بارے میں پچھلی دو صدیوں میں کثرت سے ’’مواد‘‘‘ متجدیدین اور مستشرقین تیار کر چکے ہیں تو اسی مواد کی جگالی کرنا اسلام کی کونسی خدمت ہے؟اور اسی مواد کو دوبارہ نئے انداز میں پیش کرنا کونسی ’’تحقیق‘‘ ہے ؟جناب عمار صاحب سے مقتدر علمی حلقوں کو یہی گلہ ہے کہ آنجناب کی ہر تحریر منفی و تنقیدی مواد پر مشتمل ہوتی ہے اور تعمیری پہلو کی بجائے اس میں تخریب کا عنصر نمایاں ہوتا ہے ۔اس لئے آنجناب سے گزارش ہے کہ اپنی صلاحیتوں کو ان لایعنی اور لا حاصل بحثوں پر صرف کرنے کی بجائے عصرِ حاضر میں امتِ مسلمہ کے حقیقی مسائل کو حل کرنے پر صرف کرے۔امتِ مسلمہ مغرب کا مقابلہ کیسے کرے ؟مغرب کی فکری یلغار کو کیسے روکے ؟امتِ مسلمہ کے ایک بڑے طبقے کا ایمان شریعت کی ابدیت و کاملیت سے تقریباً اٹھ چکا ہے اور یہ طبقہ مکمل طور پر لبرل بن چکاہے ،اس طبقے کو دوبارہ’’ اسلام‘‘ کے قریب کیسے لایا جائے ؟دنیاوی تعلیم کے اعتبار سے کالجو ں اور یونیورسٹیوں میں جو مسترد شدہ اور مغرب سے مرعوب کرنے والا نصاب پڑھایا جا رہا ہے ،اس کی اصلاح کیسے کی جائے ؟خود علماء اور دینی طبقات اس بات کی ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ وہ عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق جدید نصاب کا خاکہ تیار کریں ،اس میں صاحبِ صلا حیت افراد کی ضرورت ہے کہ وہ اس میں آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرے ۔امتِ مسلمہ کو دوبارہ عروج دلانے کی ان’’ مثبت کوششوں‘‘ میں اپنا حصہ ڈالنا چاہئے ۔کاش آنجناب کے قلم سے ان مثبت و تعمیری موضوعات پر بھی ’’تحقیق ‘‘ نکلے۔
آخر میں آنجناب سے گزارش ہے کہ اس پورے مضمون میں کوئی واقعی کمزوری آنجناب کو نظر آئے، تو ہمیں اس پر مطلع فرمائیں ،ہم آنجناب کے ممنون ہوں گے اور اسے کھلے دل سے تسلیم بھی کریں گے اور ساتھ یہ عرض ہے کہ اگر ہمارا تبصرہ آنجناب کے دل کو لگے ،تو اپنی اجتہادی خطا کو تسلیم کریں ،کیونکہ اجتہاد کی غلطی واضح ہوجانے کے بعد اس پر ڈٹے رہنا اہلِ علم کے شایانِ شان نہیں ہے ۔اللہ تعا لی ہم سب کو اپنے دین کی صحیح خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ سید الرسلینﷺ۔
حوالہ جات
۴۰۔روح المعانی ،۹؍ ۲۰۲
۴۱۔ابنِ کثیر ،۷؍۱۵۸
۴۲۔المدخل الی دراسۃ المسجد الا قصی ص۳۱
۴۳۔سنن نسائی ،فضل المسجد الاقصی ،رقم الحدیث ۶۹۲
۴۴۔نسائی ،فرض الصلاۃ،رقم الحدیث۴۴۹
۴۵۔بخاری، حدیث الاسراء ،رقم الحدیث ۳۸۸۶
۴۶۔ابو داؤد ،ص۳۷۱
۴۷۔ابنِ ماجہ ،۲؍۹۹۸
۴۸۔ترمذی ،مثل الصلوۃوالصیام والصدقۃ،رقم الحدیث۲۸۶۳
۴۹۔ترمذی ،کتا ب التفسیر ،رقم ۳۱۴۷
۵۰۔تفسیرِ کبیر،۲۰؍۱۴۷
۵۱۔روح المعانی ،۱۵؍۹
۵۲۔ابن کثیر ،۸؍۳۷۳
۵۳۔مسند احمد ،۳۲؍۳۴۹
۵۴۔ایضاً
۵۵۔ابو داؤد ،باب فی اماراتِ الملاحم،۴۲۹۴
۵۶۔مسندِ احمد ،۳۶؍۶۵۷
۵۷۔ایضاً
۵۸۔تاویلات ،۵؍۳۱۷
۵۹۔البدایہ و النہایہ ،۹؍۶۵۵
۶۰۔المدخل الی دراسۃ المسجد لاقصی ص۱۴۰
۶۱۔ملاحظہ ہو ،آنجناب کا مضمون :مسجدِ اقصی ،یہود اور امتِ مسلمہ تنقیدی آراء کا جائزہ ص۱
۶۲۔براہین ص۲۳۳
۶۳۔ان تمام نکات کے لئے ملاحظہ ہو:
۱۔ نقض المزاعم الیہودیہ فی الہیکل السلیمانی از ڈاکٹر صالح راقب
۲۔المسجد الاقصی و الہیکل الثالث ،تاریخ،عمارہ ،ادعاء ات ازمصطفی احمد
۳۔الہیکل المزعوم بین الوہم و الحقیقۃاز ڈاکٹر عبدالقاسم فرا
۴۔http://www.almoslim.net/node/109235
۵۔http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showthread.php?t=53612
۶۔http://www.ahewar.org/debat/show.art.asp?aid=105719
۷۔http://www.almoslim.net/node/10923
۸۔ہیکل السلیمان و عبادۃ اشیطان
۶۴۔صحیح مسلم،باب الاسراء ،رقم الحدیث ۱۶۲
۶۵۔الانس الجلیل،۲؍۲۶
۶۶۔ایضاً،۲؍۲۸
۶۷۔بیت المقدس اور اس کے مضافات ص۶۱
۶۸۔ حائط البراق ام الحائط المبکی از ڈاکٹر غنیم حسن
۶۹۔ حائط براق کے بارے میں ملاحظہ ہو:
۱۔ ڈاکٹر غنیم حسن کا مذکورہ تحقیقی مقالہ
۲۔ حائط البراق وکی پیڈیا ،
۳۔ http://forum.sh3bwah.maktoob.com/t448675.html
۴۔ http://forum.sh3bwah.maktoob.com/t448675.html
قرآنی تدبرِ کائنات: روحانی تدبر مراد ہے یا سائنسی؟ (کرم فرماؤں کی خدمت میں جوابی توضیحات)
مولانا محمد عبد اللہ شارق
اپنے گذشتہ مضمون ’’تدبرِ کائنات کے قرآنی فضائل ۔۔۔‘‘ پر بالترتیب جناب عاصم بخشی اور ڈاکٹر شہباز منج کے دو ناقدانہ تبصرے ’’الشریعہ‘‘ کے شمارہ اگست ۲۰۱۴ء میں نظر سے گذرے۔ دونوں صاحبان نے میرے مضمون میں مذکور اصل علمی نکات سے ذرا بھی مس نہیں کیا اور نہ ہی میرے اصل موقف ومدعا کو موضوعِ بحث بنایا ہے جسے میں ان کی طرف سے نیم دلانہ ’’اعترافِ حقیقت‘‘ سمجھتا ہوں۔ تاہم کچھ مغالطے ہیں اور کچھ سوالات ہیں جو خصوصا اول الذکر ناقد نے اٹھائے ہیں اور ہماری گفتگو کے اصل منشاء سے غیر متعلق ہونے کے باوجود زیرِ بحث موضوع سے ہی کچھ کچھ متعلق ہیں اور ان کا جواب دینا بھی اس ضمن میں فائدہ سے خالی نہ ہوگا، اس لیے ہم ان پر بات کریں گے تاکہ بحث میں پیدا ہوجانے والا الجھاؤ اور بوجھل پن دور ہوسکے اور ہمارے ناقدین کی تشفی کا سامان بھی ہوسکے۔
گذشتہ تحریر میں میرا موقف:
گذشتہ تحریر میں ہمارا مقصد صرف یہ واضح کرنا تھا کہ دنیاوی مقاصد واغراض کے لیے اور مادی حقائق کو منکشف کرنے کے لیے کائنات میں کیا جانے والا تدبر جو کہ سائنس دان کرتے ہیں، یہ ہماری اصطلاح میں سائنسی تدبر ہے اور یہ جائز ہے، بلکہ اگر نیک نیتی کے ساتھ ہو تو ’’واعدوا لہم مااستطعتم من قوۃ‘‘جیسی آیات کی وجہ سے فی زمانہ امتِ مسلمہ کے لیے کسی درجہ مستحسن بھی ہوسکتا ہے۔مگر قرآن میں جس تدبرِ کائنات کی مکرر تلقین کی گئی ہے اور جس سے اعراض کرنے والوں کی سخت مذمت کی گئی ہے، اس سے مراد مذکورہ بالا سائنسی تدبر نہیں، بلکہ وہ تدبر ہے جس کا مقصدمعرفتِ الہی، توجہ الی اللہ کا حصول اور قلب ونظر کا تزکیہ ہو۔ اب ہوا یہ کہ ہمارے ’’مفکرین‘‘ کی ایک بڑی کثرت جو لاشعوری طور پر مادی اسباب ووسائل کو عروج وزوال کا فیصلہ کن معیار سمجھتی ہے ، ’’قرآنی حکم: تدبرِ کائنات‘‘ سے سائنسی تدبر مراد لینے لگی اور بقول ان کے، قرآن ہی کی رو سے عروج وزوال کا واحد سبب بھی یہی سائنسی تدبر ہے۔ بقول ان کے جو قوم اس تدبر کو اپنائے گی، قرآن کی رو سے وقت کی زمامِ کار اس کے ہاتھ میں ہوگی اور موجودہ دور میں زوالِ امت کا اصل سبب یہی ہے کہ سائنسی، مادی وتجربی تدبرِ کائنات کا جو حکم قرآن نے اسے دیا تھا، وہ ہمارے حلیف اپنا کر ہم سے آگے نکل چکے ہیں۔ دور نہ جائیے، الشریعہ ہی کے شمارہ جولائی ۲۰۱۴ء میں ’کتاب العروج‘ نامی ایک کتاب پر ڈاکٹر غطریف شہباز ندوی کا تبصرہ شائع ہوا ہے، اسے دیکھ لیجئے ۔ یہ مذکورہ طرزِ فکر کی بھر پور نمائندگی کرتا ہے۔ میرا مقصد اپنے مضمون میں یہ واضح کرنا تھا کہ قرآن میں دیے گئے ’’تدبرِ کائنات‘‘ کے حکم سے کسی غیر روحانی تدبر پر اکسانا بالکل مقصود نہیں ہے جس کا ایک ثبوت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے رویے ہیں، کجا یہ کہ اسے عروج وزوال کا اکلوتا اور حقیقی سبب قرار دینے کی تہمت بھی قرآن کے سر ڈالی جائے۔ بس اتنی سی بات واضح کرنا مقصود تھا، مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ناقدین نے اسے ’’مسئلہ کشمیر‘‘ بنا دیا۔
باقی رہی زوالِ امت کی بات تو شاید اس کا حقیقی سبب سائنسی تدبر کو کھو دینا نہیں، بلکہ ان عظیم الشان روحانی واخلاقی صفات کو کہیں کھو دینا ہے جن کی اہمیت کے پیشِ نظر قرآن میں بیسیوں بار ان کا تکرار ہوا، جن پر رب العلمین کی طرف سے جہاد میں نصرت ومعیت کا وعدہ تھا اور جس کے نتیجہ میں مومنوں کی تدبیروں نے کامیاب، جبکہ غیروں کی تدبیروں نے ناکام ہونا تھا۔ بے شک امت کو سائنسی تحقیقات سے تعرض کرنا چاہئے، مگر یقین جانئے کہ امت اِس وقت مادی تنزلی سے کہیں زیادہ روحانی واخلاقی تنزلی کا شکار ہے۔ حقیقی اورپائے دار عزت وشوکت خدا کی رضامندی سے حاصل ہوسکتی ہے اور اس کی سب سے پہلی شرط سائنسی تحقیق نہیں، تعلق مع اللہ (اللہ کے ساتھ قلبی تعلق) کا احیاء ہے۔ تعلق مع اللہ کے بغیر ممکن ہے کہ وقتی طور پر کسی کو کچھ عروج حاصل ہوجائے جس میں خدا کی کوئی حکمت مضمر ہوگی، مگر اس سے اللہ کے ہاں سرخروئی کا ملنا مشکل ہے اور ہر وہ عروج جس میں رضاءِ الہی شامل نہ ہو، وہ پانی کے بلبلے کی طرح ہے جو صرف نظر کا دھوکا ہے، تھوڑا وقت گذرنے کے بعد، یا تو اِس دنیا میں ہی یا پھر آخرت میں سب کچھ آشکار ہوجائے گا۔
*۔۔۔*
اب آتے ہیں پہلے اول الذکر ناقدکی طرف۔ ان کو سب سے پہلے میری ’’تمہید‘‘ پر اعتراض ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر کوئی چیز غلط ہو اور اس کی نادرستگی کو سمجھنے کے لئے بالکل معمولی سی توجہ کی ضرورت ہو تو اس کو غلط کہنے سے مکالمہ کا آغاز نہ کیا جائے اور نہ ہی یہ کہا جائے کہ لوگ اس حوالہ سے خواہ مخواہ کی غلط فہمی میں مبتلا ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے بقول ان کے، مکالمہ کی اور علمی تنقید کی ’’موت‘‘ واقع ہوجاتی ہے۔ خیر، تفنن بر طرف! فاضل ناقد کو ہمارے مضمون میں مذکور دو الفاظ ’روحانی تدبر‘ اور ’سائنسی تدبر‘ کا اطلاق سمجھنے میں مغالطہ لگا ہے اور اسی سے پھر انہوں نے کچھ سوالات اٹھائے ہیں۔ آئیے، اِن سوالات پر ذرا غور کرتے ہیں:
سائنسی تدبر کے دو مفہوم اور روحانی تدبر کی دو شکلیں:
(۱) تدبر کے ساتھ ’سائنسی‘ اور ’روحانی‘ کا سابقہ ہم نے تحقیق وتدبر کے مختلف اغراض ومقاصد کو واضح کرنے کے لیے لگایا تھا کہ اگر تدبر کرتے ہوئے مادی اغراض ومقاصد پیشِ نظر ہیں تو یہ تدبر ’سائنسی ومادی‘ ہے اور قرآنی تدبرِ کائنات کا مصداق نہیں، جبکہ اگر اس سے مقصود قلب ونظر کا تزکیہ، طاری غفلت کا ازالہ اور معرفت الٰہی کی تحصیل ہے تو یہ تدبر روحانی ہے اور یہ قرآنی تدبرِ کائنات کا مصداق بھی ہے۔ اس کی تصریح ہمارے مضمون میں ہی موجود تھی۔ فاضل ناقد اس معاملہ میں تو ہمارے ساتھ متفق ہیں کہ قرآنی تدبر کا مقصود معرفت الٰہی ہے لیکن ان کو مغالطہ یہ لاحق ہوا ہے کہ ’سائنسی ومادی تدبر‘ سے اِس راقم کا مقصود کوئی مادی ، تجربی، حسی اور ٹھوس عقلی بنیادوں پر قائم باضابطہ اسلوبِ تحقیق تھا جو نہ تو بقول ان کے میرے نزدیک معرفتِ باری کا ذریعہ بننے کے قابل ہے اور نہ ہی قرآنی تدبرِ کائنات کے فضائل کا مصداق بن سکتا ہے، کیونکہ میرے نزدیک قرآنی تدبرِ کائنات کا مصداق ’روحانی تدبرِ کائنات‘ تھا، نہ کہ ’سائنسی تدبر‘ اور بقول ان کے اس روحانی تدبرسے میری مراد کوئی ایسا غیر حسی وغیر تجربی اسلوبِ تدبر تھا جو کبھی بھی ٹھوس عقلی بنیادوں پر قائم نہیں ہوتا اور نہ ہی دوسروں کے لیے قابلِ ابلاغ یا قابلِ تفہیم ہوتا ہے، بلکہ یہ کوئی ایسا باطنی تجربہ یا سری کیفیت ہے جو انسان کو خدا کی موجودگی کے ایک روحانی احساس سے سرشار کردے۔ مثلا ایک جگہ ان کے الفاظ ہیں:
’’یہ تصور کہ حضورِ حق کا ایک خاص قسم کا عارفانہ تجربہ ہر صورت میں ٹھوس عقلی بنیادوں پر قائم ایک سائنسی فکری تجربے سے متضاد کوئی الگ شے ہے، اتنا معقول معلوم نہیں ہوتا ۔۔۔ کسی بھی سائنسی یا فلسفیانہ رجحان کے تدبر کا مطلب ہرگز روحانی مقاصدواحوال کا انکار نہیں ہے۔‘‘ (صفحہ۴۵)
اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ موصوف میرے موقف کو کیا سے کیا سمجھ گئے ہیں۔ اطلاعا عرض ہے کہ مادی اور دنیاوی اغراض ومقاصد کے لئے کیا جانے والا ’سائنسی تدبر‘ جوکہ ہمارے علم کے مطابق سائنس دان کرتے ہیں اور جو ہماری مراد بھی تھا ، یہ واقعی نہ تو روحانی تدبر کی کوئی شکل ہے اور نہ ہی اسے قرآنی تدبرِکائنات کے فضائل کا مصداق ٹھہرانے کا کوئی جواز ہے۔ تاہم اگر ’سائنسی تدبر‘ کا وہ معنی لیا جائے جو آپ نے بیان کیا ہے تو وہ محض ایک اسلوبِ تدبر ہے، اگر اس اسلوبِ تدبر کو معرفتِ الہی تک پہنچنے کے لیے اختیار کیا جائے گا تو یہ روحانی تدبر ہوگا اور قرآنی فضائل کا مصداق بھی، (بلکہ شاید یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ خود قرآن معرفتِ الہی تک کامل رسائی کے لیے اسی واحد اسلوب کی طرف غالبا سب سے زیادہ متوجہ کرتا ہے)، لیکن اگر اسی اسلوبِ تدبر کو مادی اغراض کے لیے اختیار کیا جائے گا تو یہ ہماری اصطلاح میں غیر روحانی تدبر ہوگا اور قرآنی ترغیبات کا مصداق بھی نہیں ہوگا۔
’روحانی تدبر‘سے ہمارا مقصود ہر وہ ’تدبرِ کائنات‘ تھا جس کا مقصد رب العالمین کی معرفت اور اس کی یاد ہو، خواہ وہ تدبر اپنی ابتدائی شکل میں عرفانی ہو یا عقلی واستدلالی۔ (جی ہاں، عقلی بنیادوں کی بحث تبھی ہوگی کہ جب عقلی استدلال اور اس کے نتیجہ میں عقلی اطمینان مطلوب ہوگا۔) چنانچہ قرآن میں تدبرِ کائنات کا مطالبہ کافر اور مومن دونوں سے کیا گیا ہے، اب مومن کا تدبر از اول تا آخر عرفانی ہو تو ہو، مگر ایک کافر کو ابتداء استدلالی تدبر کی ضرورت بھی پیش آسکتی ہے اور چونکہ ان دونوں میں مقصود معرفتِ الہی ہی ہے اس لئے یہ دونوں ہی قرآنی تدبرِ کائنات کی شکلیں ہیں، معیاری شکلیں ہیں اور دونوں ہی ٹھوس عقلی بنیادوں پر قائم ہوں گی، بس فرق یہ ہے کہ پہلے میں جب عقلی اطمینان ابھی مطلوب ہے تو عقلی واستدلالی بنیادیں زیر غور بھی آسکتی ہیں ، جبکہ دوسرا چونکہ پہلے سے موجود عقلی اطمینان پر قائم ہوگا، اس لیے عقلی بنیادیں اس میں زیرِ غور لانے کی شاید ضرورت ہی نہیں ہوگی۔ ’روحانی تدبر‘ کا سری کیفیت والا وہ معنی جو ہمارے ناقد نے بیان کیا ہے، یقین جانئے کہ ہماری مراد تو کیا ہوتا، ہمیں ابھی تک سمجھ بھی نہیں آیا۔
جی ہاں،’ عرفانی‘ اور ’عقلی واستدلالی‘ دونوں ہی روحانی تدبر کی شکلیں ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ استدلالی تدبر کا سفر اِس ضمن میں زیادہ طویل نہیں ہوگا کیونکہ اسلام کی مبادیات کچھ زیادہ گاڑھے، ثقیل اور ناقابلِ فہم ’’عقلی دلائل‘‘ کے سمجھنے پر موقوف نہیں، خدا نے اِن کا راستہ آسان کردیا ہے اور تبھی تو اِن پر ایمان نہ لانے پہ جہنم کی سخت ترین سزا مقرر فرمائی ہے۔ ان مبادیات کی صداقت کو سمجھنے کے لیے فلسفیانہ پیچ وتاب کھانے کی نہیں، سنجیدگی، ہوش مندی اور قبولِ حق کے جذبہ کی ضرورت ہوتی ہے اور بس۔ مثلا دیکھئے، رب العالمین کا وجود کسی بھی بدیہی سے زیادہ بڑی بدیہی حقیقت ہے اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فی الجملہ و اصولی صداقت کو ان کی نبوت کے منکر بھی ہر دور میں تسلیم کرتے رہے ہیں۔ دل پہ ہاتھ رکھ کے بتائیے کہ اِن دو باتوں کے بعد اسلام کے بارہ میں مزید کسی شک وشبہ کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟ یوں تو دلائل اور بھی بہت ہیں، مگر کیا ابتداءً اسلام کی حقانیت کو سمجھنے کے لئے اتنی سی توضیح کافی نہیں اور کیا اِس توضیح کا کوئی بھی معقول جواب موجود ہے؟ میں عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ عقلی اطمینان کا سفر اس ضمن میں نسبتا مختصر ہوگا اور اس کے بعد کا سفر عرفانی ہی عرفانی ہوگا جو عقلی اطمینان کے ہی مطابق اس کے عمل اور کردار کو صحیح رخ پہ استوار کرے گا۔ یہ اس کے اندر تعلق مع اللہ کے ضمن میں خوف، محبت، ممنونیت، عبدیت، یکسوئی اور خشوع ورقت جیسی ایمانی کیفیات کو پختہ کرے گا۔ الا یہ کہ وہ خود بے سروپا شیطانی وساوس میں مشغول ہوکرعقلی اطمینان کو پنپنے نہ دے یا اس اطمینان کو پانے کے لیے ناقص فلسفیانہ استدلالات کی جوڑ توڑ میں مشغول رہے۔
اسی طرح ان کی گفتگو سے یہ تاثر لینا بھی درست نہیں ہوگا کہ میرے نزدیک روحانی تدبر اور مادی اغراض کے لیے ہونے والے ’’سائنسی تدبر‘‘ کی آمیزش ناممکن ہے کیونکہ ایک ہی تدبر میں روحانیت اور مادیت کی یوں آمیزش ہوسکتی ہے کہ اس کا جتنا حصہ ’’روحانی‘‘ ہوگا، وہ ’’قرآنی تدبرِ کائنات‘‘ کے فضائل کا مصداق ہوگا اور جو حصہ غیر روحانی ہوگا، اس کا حکم ’’سائنسی ومادی تدبر‘‘ والا ہی ہوگا۔ یہ عین ممکن ہے کہ سائنسی تدبر ہی کے دوران ایک صاحبِ تدبر اپنا کام بھی کررہا ہو اور ساتھ ہی ساتھ توجہ الی اللہ کو بھی اپنے دل میں سموئے ہوئے ہو، طبیعی عوامل پر غور کرتے ہوئے بھی یادِ الٰہی سے غافل نہ ہو اور اس کے سامنے موجود سائنسی وتحقیقی منظر نامہ ’’حجاب‘‘ بننے کی بجائے معرفت الٰہی میں بڑھوتری ہی کا ایک ذریعہ ثابت ہورہا ہو۔ اب ظاہر ہے کہ اِس صورت میں روحانی وسائنسی تدبر یکجا ہیں، اس میں جتنا حصہ اللہ کے لیے ہوگا، اس کا اجر اسے اللہ کے ہاں ملے گااور جو حصہ غیر روحانی ہوگا، وہ قرآنی تدبرِ کائنات کے فضائل کا مصداق نہیں ہوگا۔
روحانی تدبر اور سائنسی ورلڈ ویو:
اسی سلسلہ کی ایک مزید کڑی ان کا یہ بیان ہے کہ چونکہ اس راقم کے نزدیک سائنسی اسلوبِ تدبر روحانی مقاصد کے لیے قابلِ استعمال نہیں، لہٰذا گویا ہمارے نزدیک موجودہ دور کا سائنسی تدبر کرنے والا یا سائنسی ورلڈ ویو رکھنے والا ایک انسان اس وقت تک قرآنی وروحانی تدبر کا حامل نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ سائنسی تدبر اور سائنسی ورلڈ ویو سے بالکل ہی تہی دامن نہ ہوجائے۔ گویا ہم (بالفاظِ ناقد) گردشِ ایام کو پیچھے کی طرف دوڑانا چاہتے ہیں اور روحانی تدبر کے لیے ہزاروں سال پہلے کے تصورِ کائنات میں پہنچنا ضروری سمجھتے ہیں۔ میرے بارے میں یہ مغالطہ بھی شاید ان کو اصطلاحات ہی کے فرق کی وجہ سے اور مضمون میں مذکور اولین دور کے مسلمانوں کے کچھ حوالوں سے لاحق ہوا ہے۔ ان کے الفاظ ہیں:
’’اگر عصر حاضر کا انسان اِس قابل ہے کہ محض خلا میں گھورنے سے ازلی حقائق پر غور وخوض کرتے ہوئے حقیقتِ مطلقہ کا احاطہ کرسکے اور دیکھتے ہی دیکھتے اپنے آپ کو نورِ ربانی کی حضوری سے سرشار محسوس کرے تو اس میں ظاہر ہے کہ کچھ قابلِ اعتراض نہیں، مگر آج کے انسان کی ذہنی وفکری ساخت اور تجربہ کو قدیم اور قبل از دورِ وسطی کے انسان جن میں انبیاء وصالحین وصحابہ کرام وغیرہ بھی شامل ہیں، پر قیاس کرنا اور اس سے عمومی طور پر اس قسم کے تدبر کا مطالبہ ایک عجیب وغریب طرح کی سادہ لوحی ہے ۔۔۔ اب اگر پورا تجرباتی تناظر ہی بدل چکا ہے تو پھر یا تو گردشِ ایام کو پیچھے کی طرف دوڑائیے اور یا پھر اپنی تدبرانہ نگاہ کو بدلیے۔۔۔ قرآن کوئی طبیعیات، کیمیا، حیاتیات یا نفسیات کی کتاب تو ہے نہیں، مگر چوں کہ قرآن ہدایت کی خاطر جابجا ہمیں مظاہر انفس وآفاق کی طرف متوجہ کرتا ہے، لہٰذا عصر حاضر کا قاری ان علوم کے دلائل کو استعمال کیے بغیر شاید تدبر کائنات کے مطالبے مکمل حق ادا نہیں کرسکتا ۔۔۔ یہ ٹھیک ہے کہ ایک بدو اور ایک ریاضی دان قرآن کے یکساں مخاطب ہیں۔ مگر تدبر کائنات کے پس منظر میں ان کی ذہنی واردات کا ایک دوسرے سے قطعا مختلف ہونا اس بات پر ہرگز دلیل نہیں کہ حضورِ حق کے احوال، انسانی قلب وذہن پر منکشف ہونے سے پہلے کسی ایک خاص ذریعہ علم ہی کے متقاضی ہیں اور اس پر اصرار کرتے ہیں۔‘‘ (صفحہ۴۸،۴۹، ۴۳)
ہمارا مقصد اپنے مضمون میں کہیں پر بھی یہ ثابت کرنا نہیں تھا کہ جدید دور کا سائنسی انسان جو سائنسی ورلڈ ویو رکھتا ہے، وہ روحانی تدبر کا اہل نہیں۔ آپ جان چکے ہیں کہ ہم نے سائنسی تدبر کو مباح بلکہ ایک لحاظ سے مستحسن بھی لکھا ہے، پس اگر یہ تدبر خدا نخواستہ مطلوب روحانی تدبر کی راہ میں کوئی رکاوٹ ہو تا جوکہ حکمِ خداوندی ہے تو ہم سائنس کو آخر کیوں کر مباح ومستحسن کہتے، اِس صورت میں تو ایک خداوندی حکم کی تعمیل میں رکاوٹ ہونے کی وجہ سے اسے واجب الترک اور قابلِ نفرین ہونا چاہئے تھا۔( ضروری ہے کہ یہاں پر ہم ’’سائنسی ورلڈ ویو‘‘ کی بھی قدرے وضاحت کردیں۔ ہم ’’سائنسی ورلڈ ویو‘‘ سے اپنی گفتگو میں صرف وہ نیامنظرنامہ لے رہے ہیں جس میں عصرِ حاضر کا انسان ماضی کے انسان کے مقابلہ میں نظامِ کائنات کو سرسری آثار ووقائع کی روشنی میں دیکھنے کی بجائے قدرے گہرائی سے دیکھتا ہے، مگر اس میں کوئی الحادی کیفیت نہیں ہوتی۔ )
روحانی تدبر اور کائنات کا بدویانہ تناظر:
تاہم بعینہ اسی طرح، دوسری طرف ہم یہ بات بھی درست نہیں سمجھتے کہ موجودہ دور کا کوئی انسان محض ’’خلاء میں گھورنے‘‘ سے یا بالفاظِ دیگر، کائنات کے بدویانہ تناظر سے اللہ تک رسائی اور حضورِ حق کی سری سرشاری حاصل نہیں کرسکتا اور یہ کہ اِس مقصد کے حصول کے لئے موجودہ دور میں اسے کیمیا، طبیعیات، حیاتیات یا نفسیات کے دلائل سے مدد لینا ہی ضروری ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ آنکھوں کے سامنے موجود زمین وآسمان کے جن عظیم، محکم اور ہوش ربا آثار وتغیرات کو ہمارے داعی نظر انداز کردیتے ہیں، یقین جانئے کہ ان کو خود اپنی آنکھوں سے خواہ بدویانہ نگاہ کے ساتھ ہی دیکھنا آج بھی کسی وضعی علم کی نظامِ کائنات کو بیان کرنے والی پیچیدہ تحقیقات سے زیادہ عام فہم ، زیادہ دل نشین اور زیادہ پائیدار مشعلِ راہ ثابت ہوسکتا ہے، بس ہوا یہ کہ چونکہ ہم آسمان وزمین کو ہروقت دیکھتے ہیں، مسلسل دیکھتے چلے آرہے ہیں اور شروع ہی سے انہیں سطحی نگاہ سے دیکھنے کے عادی ہوچکے ہیں، جبکہ ہمارے دل ودماغ پر چند سفلی خواہشات کا کل وقتی بسیرا ہوتا ہے، انہی کو ہم سوچتے ہیں اور انہی کے خواب دیکھتے ہیں، پھر کائنات میں آنکھوں کے سامنے موجود رب العلمین کی طرف متوجہ کرنے والی عظیم نشانیوں کو کوئی بیان نہیں کرتا تو ان وجوہات کی بناء پر زمین وآسمان میں آنکھوں کے سامنے موجود ’’آیات اللہ‘‘ کی خرد افروزی، ہوش ربائی اور ہیبت ناکی کی طرف ہمارا خیال ہی نہیں جاتا اور نہ ہی ہم ان سے اثر لیتے ہیں، ہاں! نئے سے نئے سائنسی انکشافات پھر بھی دل پہ کچھ اثر کر جاتے ہیں۔
انبیاء کی آمد کا ایک مقصد یہ ہوتا تھا کہ وہ بنی نوع انسان کو اِن ’’آیات اللہ‘‘ کی طرف متوجہ کریں اور خود اپنی آنکھوں سے ایک عاقلانہ، حقیقت پسندانہ وعارفانہ نگاہ کے ساتھ انہیں ان پہ غور کرنے کی تعلیم دیں تاکہ ان پر طاری غفلت جو مختلف شکلوں کی کفریات یا فسق وفجور کی شکل اختیار کرچکی ہے، اس کا ازالہ ہو۔ ہم لوگ ’’تدبر کائنات‘‘ کی تلقینات پڑھ کر بھی یہ کرتے ہیں کہ ان بعض کتابوں کو پڑھ لینا کافی سمجھتے ہیں جن میں چند مناظرِ کائنات کی نقشہ کشی کی گئی ہوتی ہے، یعنی عملا کچھ وقت فارغ کرکے خود اپنی نگاہوں کے ساتھ کائنات کو دیکھنے کے لئے تیار نہیں اور ایسا ہم کریں بھی کیسے؟ ہمیں تو بند کمروں اور مصنوعی روشنیوں سے ہی نکلنے کی فرصت نہیں جو انسان کی خدمت اور نصیحت کے لیے طلوع وغروب ہوتے اجالوں، گھٹتے بڑھتے چاندوں، زمین سے ابلتے خزانوں، اڑتی پھدکتی، رینگتی، تیرتی اور قلانچیں بھرتی زندگی کی شکلوں، موسم کی بدلتی رتوں، دور تلک پھیلی کائناتوں یا خود اپنی صورت مورت پر ہی آئینہ سامنے رکھ کر کچھ غور کریں جو آج بھی انسان ہی کو دعوتِ فکر دینے کے لیے موجود ہیں، ہم تو خوب صورت قدرتی مناظر کو بھی اس لئے دیکھنے جاتے ہیں کہ محض اپنی جمالیاتی حس کی تسکین ہوجائے۔ اس لیے ہمیں یہ عجیب محسوس ہوتا ہے کہ وضعی علوم کے دلائل پر غور کیے بغیر ’’محض خلاء میں گھور لینے ‘‘ (یعنی کائنات کے بدویانہ مشاہداتی تناظر) سے جدید انسان کو کیسے معرفتِ حق حاصل ہوسکتی ہے؟ یقین جانئے کہ ’’گلشن میں علاجِ تنگیء داماں بھی ہے۔‘‘ نظامِ قدرت کے چند مخفی اصولوں اور پہلوؤں کو بیان کرنے والے وضعی علوم کے دلائل سے ناواقفیت کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔(بدویانہ اور غیر سائنسی تصورِ کائنات کے موجودہ دور میں کار آمد ہونے کی بحث ضمنا چھڑ گئی، ورنہ اصل مقصود تدبر ہے جو معرفتِ الٰہی کی خاطر ہو، خواہ وہ سائنسی ورلڈ ویو کے ساتھ ہو یا بدویانہ ورلڈ ویو کے ساتھ، جیساکہ ہم عرض کرچکے ہیں۔)
اسلام، عیسائیت اور ایک ناقابلِ ابلاغ سری کیفیت:
(۲) مذکورہ غلط فہمیوں کے نتیجہ میں ہی پھر ایک اور سنگین مغالطہ ناقد کو میرے موقف کے بارہ میں یہ لاحق ہوا ہے کہ شاید میں (بالفاظِ ناقد) عیسائیت کی طرح اسلام کے مابعد الطبیعی عنصر کو مذکورہ اس پیچیدہ، مخفی اور ناقابلِ ابلاغ عارفانہ تجربہ کا نتیجہ مانتا ہوں جسے انہوں نے ’روحانی تدبر‘ کا نام دے رکھا ہے اور حسی وعقلی تجربات کے خلاف ہوں یا مبادیاتِ اسلام کو ان کی بنیاد پر ثابت نہیں مانتا(دیکھئے ناقد کا عنوان اور متعلقہ شمارہ میں صفحہ ۴۵ و ۴۸پر ان کی گفتگو)، حالانکہ ایسی کوئی بات میرے حاشیہء خیال میں بھی نہیں تھی۔ وجہ اس مغالطہ کی بھی شاید وہی رہی ہے کہ میرے مضمون میں سائنسی تدبر اور روحانی تدبر کااطلاق سمجھنے میں انہیں مغالطہ لگا ہے۔ اب اس کے جواب میں پہلی عرض تو یہ ہے کہ خود ورحانی تدبر بھی ہمارے نزدیک تدبرِ کائنات کی ایک قسم ہونے کی وجہ سے حسی ومشاہداتی اور قابلِ تفہیم تدبر ہی ہے، جبکہ دوسری بات یہ کہ اس روحانی تدبر میں ہی ’عقلی واستدلالی‘ تدبر بھی شامل ہے۔ روحانی کیفیات کی سری سرشاری دلیل سے زیادہ نتیجہ ہے ملکوتی وآفاقی حقائق کے ادراک کا، نیز اسی کے ہم قائل ہیں۔ امید ہے کہ اتنی وضاحت کافی ہوگی۔
روحانی تدبر کی معراجی کیفیات اور سائنسی انہماک:
(۳) ایک جگہ ناقد موصوف کہتے ہیں کہ
’’یہ اس زمانہ کا خاصا تھا کہ ناقابلِ ابلاغ اور ناقابلِ فہم علل کو فوق الفطرت قوتوں سے منسوب کیا جائے ۔۔۔ ایک دس سالہ بچے کا ذہن بھی جدید درس گاہوں میں آج اس طرح تیار کیا جاتا ہے کہ فطرت کو مابعد الطبیعیاتی یا دینیاتی مقصد کے تابع سمجھنے کے بجائے اسے انسانی غرض کا مطیع سمجھا جائے ۔۔۔ سورۃ الملک کی وہ عظیم آیات جن میں دو بار افلاک کی طرف نطر دوڑانے کا ذکر ہے، کیا آج کا انسان ایک قدیم انسان کے ذہن سے پڑھ سکتا ہے؟ یا پھر وہ آخری آیت جس میں پانی کے بند ہوجانے کی تنبیہ ہے، کیا ہماری ہنسلی کی ہڈی میں بھی وہی سنسناہٹ دوڑا سکتی ہے جو ایک صحابی کو محسوس ہوتی ہوگی؟‘‘ (صفحہ۴۷، ۴۸)
میں ان کی اس مبینہ صورتِ حال سے شاید اتفاق کرتا ہوں، مگر میں سمجھ نہیں سکا کہ موصوف اس سے ثابت کیا کرنا چاہتے ہیں؟ بہر حال یاد رکھئے کہ جس طرح تدبرِ کائنات کا قرآنی حکم ہر زمانہ کے لیے ہے، خواہ اس زمانہ کا ورلڈ ویو سائنسی ہو یا بدویانہ، بالکل اسی طرح اس کی وہ آیات بھی ہر زمانہ کے لیے ہیں جن میں انسان کو خدا مستی، بے خودی، کائنات کے ہر ذرہ میں خدا کا نور تلاش کرنے اور نہ صرف ناقابلِ فہم وناقابلِ ابلاغ علل کو بلکہ عام فہم وقابلِ ابلاغ علل کو بھی ایک فوق الفطرت ذات سے منسوب کرنے کا سبق دیا گیا ہے۔ مثلا یہ کہ شجر وحجر اللہ سبحانہ وتعالی کی تسبیح وثناخوانی میں مشغول ہیں، جھکے ہوئے سائے در اصل خدا کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں اور پہاڑ کی اونچائی سے جو پتھر نیچے آگرتے ہیں، یہ در اصل اللہ کے خوف سے نیچے آگرتے ہیں۔ حالانکہ سایہ کے جھکنے اور پتھر کے نیچے آگرنے جیسے امور کی ’مادی علل‘ پردہء خفاء میں نہیں، بلکہ آنکھوں کے سامنے موجود ہیں جنہیں قدیم دور کا ایک بدو بھی دیکھ کر بتا سکتا ہے۔ یہ غیبی حقائق جو قرآن میں بیان ہوئے ہیں، محض زیب داستان بڑھانے کے لیے نہیں بلکہ مومن ہی کو ایک خاص زاویہ نگاہ عطا کرنے کے لیے ہیں کہ وہ شجر وحجر کو، جھکے ہوئے سایوں کو اور اوپر سے نیچے آگرنے والے پتھروں تک کو کس زاویہ سے دیکھے؟ اسی زاویہء نگاہ کی آبیاری کے نتیجہ میں ہی ایک مومن کسی مخلوق کے ہاتھوں پہنچنے والی بھلائی کو بھی پہلے خدا کی طرف منسوب کرتا اور اسی کا شکر بجا لاتا ہے۔ اِس زاویہء نگاہ کا خوگر بننے کے لیے تھوڑی سی نفسانی مشقت اٹھانی پڑتی ہے۔ جو اللہ کو اللہ سمجھتا ہے، اس کے لئے یہ معمولی سی مشقت کوئی معنی نہیں رکھتی، لیکن جو اللہ کو اللہ نہیں سمجھتا، اپنے اندر احساسِ بندگی نہیں رکھتا اور ایسے عارفانہ زاویہء نگاہ کا مذاق اڑاتا ہے (میری مراد کافرہے) تو روزِ قیامت نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے اندر یہی زاویہء نگاہ از خود پیدا ہوجائے گا اور ہر چیز میں خدا کی بادشاہی صاف نظر آجائے گی، مگر تب کا عارف بننا کسی کام نہیں آئے گا، حقیقی عارف وہی ہے جو غیب پر ایمان رکھتے ہوئے اس دنیا میں ہی عارف بن جائے اور خدا کے امتحان میں پورا اتر آئے، یہ آدمی آخرت کی رسوائی سے بچ جائے گا۔ جس طرح تدبرِ کائنات کا قرآنی حکم ہر زمانہ کے لیے ہے، اسی طرح خدا کے خوف سے دل میں رقت پیدا ہونے، آنکھوں کے راستے بہہ پڑنے، اس کا نام سن کر دل لرز جانے، خدائی تنبیہات کو سرسری نہ لینے، آیاتِ الہی کو سن کر ایمان بڑھنے اور روتے ہوئے سجدہ میں جاگرنے جیسی قرآنی تعلیمات بھی ہر زمانہ کے لیے ہیں۔
باقی بعض آیات کے بارہ میں یہ کہنا کہ ان کو سن کر ایک صحابی ہی کی ہنسلی کی ہڈی میں سنسناہٹ پیدا ہوسکتی تھی اور آج یہ ممکن نہیں کیونکہ جدید درس گاہوں کی ذہن سازی اور طرح کی ہے، کہیں اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ ہم جدید تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی درس گاہوں کی اس کم زوری پر سمجھوتہ کرلیں اور سائنسی انہماک کے مضر روحانی اثرات کو نظر انداز کردیں؟ میں نے گذشتہ مضمون میں عرض کیا تھا کہ ’’سائنسی تدبر ایک مباح سرگرمی ہے بشرطیکہ اس کا انہماک انسان کو خدا پرستی کے تقاضوں سے غافل نہ کردے۔‘‘ مذکورہ شرط کو ذکر کرنے کا منشاء ہی یہی تھا کہ ہماری درس گاہوں میں، جیساکہ ناقد موصوف نے لکھا ہے، سائنسی منہجِ تدبر کی تعلیم وتربیت کا اہتمام تو بخوبی کیا جاتا ہے، مگر خدا پرستی کے تقاضوں کی تعلیم و تربیت کا ذرا بھی اہتمام نہیں ہوتا اور نہ ہی نبوی منہجِ تدبر کی کوئی تبلیغ وتفہیم ہوتی ہے جو کہ امرِ ربی ہے۔ ہاں، سارا زور اان سرگرمیوں پر صرف ہوتا ہے جن کا جواز بھی اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ ان کا انہماک انسان کو خدا پرستی کے تقاضوں سے غافل نہ کردے۔ اب یہ چیز خدا پرستی کے تقاضوں میں سے ہی تو ہے کہ ایک مومن تدبرِ کائنات کے نبوی منہج کا حامل ہو، آیاتِ قرآنی اس کے وجود کو ہلا دیں، مطلوبہ خدا پرستی کی کیفیات کو ہر زمانہ سے متعلق سمجھتا ہو اور خدا پرستی کے اِن تقاضوں کی ادائیگی میں جو کوتاہی ہوجائے، اس پر فکرمند ونادم رہتا ہو۔ انبیاء کا منہجِ تدبر کوئی پیچیدہ منہج نہیں، بلکہ خود ساری کائنات کسی بھی اور منہج سے زیادہ انسان کو اسی منہجِ تدبر پر اکساتی ہے، مگر چونکہ ہم ایک مستقل غفلت کے عادی ہوچکے ہیں، اس لیے یہ منہج سیکھے بنا ہمیں آتا نہیں۔ ایک صحابی اور ایک جدید انسان کی کیفیات کا مذکورہ بالا فرق ہماری نظر میں بدویانہ قدامت اور سائنسی جدیدیت سے زیادہ ایمانی استعداد کم زور و نحیف ہوجانے کے بسبب ہے۔ اگرکسی ملک کے فانی اور ناقص الاختیار حکم ران یہ اعلان کردیں کہ ہم ہنگاہی صورتِ حال میں فلاں فلاں سہولیات کو اپنی مملکت سے ختم کرسکتے ہیں تو لوگوں کو واقعی اس بات پر یقیں آجاتا ہے، وہ سہولیات ان کو ڈوبتی ہوئی نظر آتی ہیں اور یہ سن کر ان کی ’’ہنسلی کی ہڈی میں سنسناہٹ‘‘ بھی پیدا ہوتی ہے، لیکن اگر یہی بات رب العلمین کہے کہ میں پانی کے خزانے خشک کرسکتا ہوں اور ایسا کرنے کی صورت میں تم اپنی زندگی کا سامان کہاں سے لاؤ گے تو ہمارے اوپر اس کا کوئی اثر ہی نہیں پڑتا، اس کا سبب تعلق مع اللہ کی کم زوری اور غیر سنجیدگی ہے۔ ہم گنہ گاروں کو اس کا جواز تلاش کرنے کی بجائے، اس پر شرمندہ ہونا چاہئے۔
آج کا کوئی کافر ہو یا نام کا مسلمان، اگر اسے یہ عظیم الشان کائنات معرفتِ حق کی طرف متوجہ نہیں کرتی یا تدبرِ کائنات والی قرآنی تنبیہات اس کی ’’ہنسلی کی ہڈی میں سنسناہٹ‘‘ نہیں دوڑاتیں تو اِس کا سبب سنجیدگی اور ہوش مندی کا فقدان ہے۔ اگر کوئی انسان سرکشی پر اترا ہوا ہے، نہ بدلنے کا اس نے فیصلہ کر رکھا ہے اور نورِ حق کی روشنی میں عارفانہ نگاہ کے ساتھ کائنات کو دیکھنے کے لئے تیار ہی نہیں تو ایسا انسان خواہ وہ چودہ سوسال پہلے پیدا ہوا ہو یا آج، وہ قرآنی آیات سن کر بھی جامد کا جامد اور پتھر کا پتھر رہے گا، چنانچہ قدیم انسان جو اللہ کے منادیوں کی سیدھی سادی عام فہم باتوں کو ہوش مندی سے نہیں سنتا تھا، سنجیدگی سے ان پہ غور نہیں کرتا تھا اور کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلینے میں اپنی عافیت سمجھتا تھا، وہ بھی طرح طرح کی کفریات میں مبتلا ہوتا تھااورمحض قدامت کی وجہ سے تدبرِ کائنات والی قرآنی آیات وتنبیہات اس کے لیے سامانِ ہدایت نہیں بن جاتی تھیں، کیا یہ سچ نہیں؟ جبکہ اس کے برعکس اگر کوئی آدمی آج بھی پوری ہوش مندی کے ساتھ قرآنی آیات کو سنے گا تو یہ آیات اس کے لیے خاطر خواہ تاثیر کا موجب بنیں گی اور محض اس وجہ سے کہ یہ کوئی سائنسی دور کا انسان ہے، وہ ان کی برکت سے محروم نہیں رہے گا اور خدا کی کائنات بھی اس پر اپنی پرتیں کھولے گی۔ ہماری حالت تو یہ ہے کہ ہم اپنے اس سائنسی انہماک کی اصلاح تک کے لیے بھی آمادہ نہیں ہیں جس میں خدا پرستی کے تقاضوں کو مقدم تو کیا، شاید بعض اوقات ملحوظ بھی نہیں رکھا جاتا۔واضح یہ کرنا مقصود ہے کہ ایک صحابی میں اور ’’جدید‘‘ مسلمان میں اصل فرق ہوش مندی و سنجیدگی کا ہے، کچھ اور نہیں۔ ( باقی ’افلاک میں نظر دوڑانے والی آیت‘ کے بارہ میںیہ واضح کردوں کہ اس آیت میں افلاک کے اندر نہیں، بلکہ رحمن کی تخلیق میں نظر دوڑانے کی بات ہے، تاہم اگر کوئی قدیم یا جدید انسان سیاق وسباق میں افلاک کا ذکر ہونے کی وجہ سے اس ’تخلیق‘ سے مراد افلاک ہی لیتا ہے تو کوئی حرج نہیں، لیکن قرآن کے لفظ ’تخلیق‘ میں بے انتہا عموم اور توسع پایا جاتا ہے۔ نیز ہم عرض کر چکے ہیں کہ روحانی تدبر کرتے ہوئے انسان کی ذہنی سطح بدویانہ ہو یا جدید سائنسی، اس میں بھی کم از کم ہمیں تو کوئی اشکال نہیں ہے۔ )
’’نبوی منہجِ تدبر‘‘ کی تعلیم وتربیت:
محض کلمہ پڑھ لینے سے تو کوئی بھی آدمی قربِ الہی کے مدارج طے نہیں کرلیتا۔ اگر آج کا کوئی مسلمان بھی کسی کافر کی طرح تدبرِ کائنات کی عرفانی برکات سے محروم ہے تو اس کا سبب غیر سنجیدگی ہے، اپنی غیر سنجیدگی کو اولا سنجیدگی میں بدلنے کے لیے تو محض ایک دفعہ ہی نبوی وقرآنی دعوت کو بیدار مغزی سے سن لینا کافی ہے، لیکن اس سنجیدگی کو اچھی طرح جمانے، نبوی، ایمانی اور روحانی منہجِ تدبر کی تربیت پانے، قلب ونظر کا تزکیہ کرنے اور شیطانی غفلتوں کے مکمل انسداد کے لیے اسی نبوی وقرآنی دعوت کو بار بار سننے، سوچنے اور دوہراتے رہنے کا عمل کرنا ہوگا اور اس کو اپنے اہم ترین یومیہ مشاغل میں شامل کرنا ہوگا۔مذکورہ نبوی وقرآنی دعوت سے میری مراد ذکر و نصیحت کی وہ موٹی موٹی باتیں ہیں جن کو ابنیاء بار بار دوہراتے تھے، جن کا قرآن بھی بار بار تذکرہ کرتا ہے اور جو مسلم وغیر مسلم کے لیے یکساں مفید ہوتی ہیں، جن میں اللہ کا تعارف کرایا جاتا ہے، اس کی عظمت، قدرت اور رحمت کی تشریح کی جاتی ہے، اس کی تخلیقات میں تدبر کی دعوت دی جاتی ہے، کائناتی نقوش ومناظر کی عارفانہ نقشہ کشی کی جاتی ہے، آخرت کا تذکرہ ہوتا ہے، رسولوں کی صداقت کا بیان ہوتا ہے، حق وباطل اور نور وظلمت کا فرق بتایا جاتا ہے، پھر ان امورپر غور کرتے ہوئے اللہ کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے، جبینِ نیاز ٹیک دینے اور مومنین کی صفات اپنانے کو کہا جاتا ہے۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ یہ ’’نبوی دعوت‘‘ شاید صرف کفار کے لیے ہے اور مومن ایک دفعہ قبول کرلینے کے بعد اِس ’’دعوت وتذکیر‘‘ کو باربار سننے کا محتاج نہیں، مگر یہ سوچ یکسر غلط ہے۔ مثلا دیکھئے کہ قرآن سارا کا سارا ’’مذکورہ دعوت وتذکیر‘‘ پر ہی مشتمل ہے اورقرآن میں بے شک کفار کوبھی مخاطب کیا گیا ہے، لیکن ظاہر ہے کہ شب وروز اس کی تلاوت مومنین نے ہی کرنی ہے اور قرآن میں ان کی ہی یہ صفت بتلائی گئی ہے۔ یہ اِس بات کی دلیل ہے کہ ایک ایمان والا بھی ’’دعوت وتذکیر‘‘ پر مبنی مذکورہ مضامین کو بار بار سننے سنانے کا پورا پورا محتاج ہے اور یہی اس کی ایمانی ترقی کا راستہ ہے۔ یہ کرنے سے انسان میں غافلانہ جمودات کی برف پگھلتی ہے اور وہ بہت کچھ نظر آنے لگتا ہے جو پہلے نظر نہیں آرہا تھا۔
یہ تو رہا اِس تربیت کا ایک مرحلہ، اس کے بعد ایک دوسرا مرحلہ بھی ہے جس پر ہم بات کرتے ہیں، لیکن اس سے پہلے تھوڑی سی تمہید سن لیجئے۔ شاید اس کو موجودہ دور کے انسان کی بدقسمتی کہنا چاہئے کہ اس میں انسان مصنوعی چیزوں کے نرغے میں پیدا ہوتا، پلتا بڑھتا اور پھر مر جاتا ہے، جبکہ خدا کی نکھری ہوئی کائنات کو عاقلانہ نگاہ کے ساتھ دیکھنے کی اس کو فرصت ہی نہیں ملتی۔ انسان کا انسان ہی کی ’’ہاتھ لگی‘‘ مصنوعی چیزوں کو دیکھنا، دیکھتے رہنا، ہروقت انہی میں گھرے رہنا، بند کمروں ومصنوعی روشنیوں سے باہر قدم نہ رکھنا ، دنیا کے جھوٹے تفکرات میں جکڑے رہنا یا چند مادی وطبیعی عوامل کو دریافت کرکے انہی پہ قناعت کرلینااس کو کنوئیں کا مینڈک بنا دیتا ہے جو اپنے کنوئیں کو ہی کل کائنات سمجھتا ہے۔ آپ کو میری اس بات کی تصدیق کرنی چاہئے کہ مادی وطبیعی توجیہات اس کائنات کی کوئی بھی معقول اور مکمل توجیہ نہیں کرپاتے۔ ان توجیہات کی حیثیت زیادہ سے زیادہ فقط اتنی ہے کہ کوئی آدمی پہلی دفعہ پانی والی ٹونٹی کے پیچھے کوئی واٹر ٹینک تلاش کرلے اور یہ نہ سوچے کہ اس واٹر ٹینک کو بھی اپنے پیچھے کسی ’’سورس‘‘ کی ضرورت ہے اور جس نے یہ بجلی، موٹر پمپ، واٹرٹینک، پائپ اور ٹونٹی کا حسین جال ایک ترتیب اورا ہتمام سے بچھایا ہے، وہ بھی ضرور کوئی دانا، زندہ وموجود، تدبیر وحکمت کا مالک، ہمارا محسن اور قابلِ تعریف شخصیت ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ سائنسی ایجادات اور مصنوعی چیزوں کو دیکھ کر ہمارا رویہ ایسا ’’بھولا بھالا‘‘ نہیں ہوتا، وہاں ہم سیانے بن جاتے ہیں۔ چنانچہ ہم میں سے کتنے ہی لوگ ہیں جو موبائل فون، ہوائی جہاز، برقی سیڑھی اور ٹیلی ویژن جیسے سائنسی کھلونوں کو بدویانہ نگاہ سے دیکھتے ہیں، میرا مطلب ہے کہ ان کھلونوں میں کارفرما وضعی علوم کی تفصیلی کدو کاوش سے مطلق آگاہی نہیں رکھتے، لیکن ان چیزوں کو دیکھ ان کی پہلی نگاہ ہی ان کے ’’تخلیق کار‘‘ کی طرف جاتی ہے،وہ سائنس کی، سائنسدانوں کی اور سائنسی علوم کی تعریف میں رطب اللسان ہوتے ہیں اور سائنسی کھلونے انہیں حیران بھی کرتے ہیں سوال یہ ہے کہ یہی نگاہ مبہوت کردینے والی خدائی تخلیقات کے معاملہ میں جاکر کیوں مردہ ہوجاتی ہے؟ کیوں اسے ان تخلیقات کے خالق کی طرف متوجہ نہیں کرتی؟ کیوں اس خالق کو قابلِ ذکر تک نہیں رہنے دیتی؟ کیوں دیکھنے والے کے دل میں ممنونیت ومرعوبیت کے احساسات پیدا نہیں کرتی؟ کیوں اسے حیران نہیں کرتی؟ کیوں اسے اللہ کے آگے جھکنے پر مجبور نہیں کرتی؟ یہاں آکر وہی نگاہ اتنی ’’بھولی بھالی‘‘ کیوں بن جاتی ہے؟
ہماری ان ایمانی کم زوریوں کا ایک ہی سبب ہے اور وہ ہے شیطان کی طرف سے مسلط کردہ غفلت۔ اس غفلت کے ازالہ کے لیے اور قلب ونظر کا تزکیہ کرنے کے لیے ایک تو یہ ہے کہ انبیاء کے منہجِ تدبر کو سمجھنا ہوگا اور اس کے لیے ان کی دعوت وتذکیر کو بار بار سننا ہوگا، جبکہ دوسرا کام اور دوسرا مرحلہ (جس کی طرف میں نے اشارہ کیا تھا)یہ ہے کہ خود کو ذرا مصنوعی ماحول اور مصنوعی روشنیوں کی فضاء سے نکالنا ہوگا، اپنے اپنے بنائے ہوئے کنؤں سے باہر آنا ہوگا، مادی تدبر کے انہماک کو ایک حد کا پابند بنانا ہوگا، خدا کو اس کائنات کا کوئی عضوِ معطل سمجھنے کی روش ترک کرکے کائنات کی ہی گواہی کے مطابق ایک عظیم وعلیم اور قادرِ مطلق ہستی سمجھنا ہوگا، پھر اس کے بعد جب آنکھوں کے سامنے موجود فطری مشاہدات ان شاء اللہ اس پہ اپنی اصل معنویت کھولیں گے اور جب ایک مرتبہ نگاہ نورِ حقیقت کو محسوس کرنے لگے گی تو مصنوعیت کے نام سے موجود خدا کی تخلیقات ( جی ہاں، سائنسی ایجادات بھی اللہ ہی کی تخلیق ہیں) بھی ا س کے لیے حجاب نہیں بنیں گی کیونکہ انسانی عقل اور سائنس بھی خدا ہی کی تخلیق کا ایک ادنی کرشمہ ہیں اور تزکیہ والی نگاہ انہیں اسی نگاہ سے دیکھے گی۔جب دل میں اللہ کی عظمت وہیبت ایک بار جم جائے تو طبیعی عوامل میں بھی خدا کا وجود تلاش کرنے کے لیے چالیس دن کا چلہ نہیں کاٹنا پڑتا۔
آج کل ہمارے بعض دانش وراصلاحِ تعلیم کے لیے کچھ خود ساختہ ’’اسلامی معیار‘‘ قائم کرنے میں مشغول ہیں، مثلا یہ کہ سات سال سے کم عمر کے بچے کے لیے دنیاوی تعلیم کا انتظام کرنا غیر اسلامی ہے، تعلیم کے میدان میں طلبہ سے فیس وصول کرنا غیر اسلامی ہے اور فیسیں وصول کرنے کی حد تک دنیاوی تعلیم کے سب ادارے غیر اسلامی حرکت کا ارتکاب کررہے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ اگر ہماری درس گاہیں ’’اصلاحِ تعلیم‘‘ کے لمبے چوڑے پروگرام بنانے اور اِن خود ساختہ اسلامی معیارات پر کان دھرنے سے پہلے صرف ایک سادہ سا کام کرلیں کہ قرآن جن ایمان افروز مضامین کو بار بار مومن کے کان میں ڈالنا چاہتا ہے، وہ مضامین کسی نصابی کتاب کے ضمن میں ایک دو بار پڑھا دینے کی بجائے، یومیہ بنیادوں پر پورے وقارا ور احترام کے ساتھ عام فہم زبان میں بچوں کے کانوں میں دیر تک ڈالیں اور بچوں کو دین کے نام پر چند وظائف کا ’’رٹو طوطا‘‘ بنا دینے کی بجائے انہیں سورۃ البروج والے واقعہ کے ’ ویرانہ نشین عابد کی طرح‘ اپنے رب کی معرفت کے حقیقی ومعنوی احساس سے ہم کنار کریں تو ایک ہزار ایک برائیاں ان شاء اللہ خود بخود دم توڑ جائیں گی اور خدا نے چاہا تو اسلامی اسکولوں کی یہ پریشانی بھی دور ہوجائے گی کہ سب کچھ کرنے کے باوجود بھی ان کے بچوں کا آئیڈیل ’’مغرب‘‘ کیوں ہوتا ہے۔ ہماری درس گاہوں میں بچوں کو سائنسی تحقیق کا سبق تو زور وشور سے دیا جاتا ہے، مگر یہ سبق بار بار نہیں دہرایا جاتا کہ ’’سائنس اور انسانی عقل بھی اللہ ہی کی تخلیق کا ایک ادنی کرشمہ ہیں، لہذا سائنس وانسانی عقل کی ہیبت ومرعوبیت سے زیادہ ہمیں اپنے باطن میں رب العلمین کی قوت وقدرت کا احساس راسخ کرنا ہے اور اسی کا ہر لمحہ وہر لحظہ استحضار پیدا کرنے کی کوشش کرنی ہے ۔‘‘
*۔۔۔*
قرآن سائنسی اسلوبِ تدبر کا مخالف نہیں، مگر:
رہے ہمارے دوسرے ناقد تو وہ ہمارے مضمون کو سمجھ کر بھی نہ جانے کیا سمجھے ہیں۔ انہوں نے میری طرف ایسا بہت کچھ منسوب کیا ہے، جسے پڑھ کر دلی افسوس ہوا۔ ان کی تنقید بعض ایسی وضاحتوں کی متقاضی ہے جو اگر کسی بچہ کے سامنے دینی ہوتیں تو حرج نہیں تھا، لیکن الشریعہ کے صفحات پر ایسا کرتے ہوئے دل میں گھٹن پید اہوتی ہے۔مثلا میں نے گذشتہ مضمون میں تفصیل سے لکھا تھا کہ ’’قرانی حکم: تدبرِ کائنات‘‘ سے اگر معروف سائنسی ومادی تدبر مراد ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اس خداوندی حکم کی بجا آوری کی خاطر سائنسی تدبر کی کوئی سرگرمی ضرور نظر آتی، مگر ایسا نہیں ہے، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کا رویہ اس حوالہ سے الٹا عدمِ دلچسپی کا نظر آتا ہے۔ ناقد موصوف اس پر لکھتے ہیں کہ ’’کیا حضور اور آپ کے صحابہ ہماری طرح مضمون نگاری کیا کرتے تھے؟ (وغیرہ وغیرہ کی ایک لمبی داستان)‘‘ (صفحہ۵۴) یعنی سوال چنا، جواب گندم۔سوال کا منشاء تو یہ تھا کہ اگر ’’قرآنی حکم: تدبرِ کائنات‘‘ سے سائنسی تدبر مراد ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی زندگی میں اس امرِ ربی کی تعمیل کیوں نظر نہیں آتی؟مگر وہ ثابت یہ کرنا شروع کردیتے ہیں کہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مضمون نگاری نہیں فرمائی اور ہمارے لیے یہ جائز ہے، اسی طرح سائنسی تدبر بھی خواہ آپ نے نہ کیا ہو، مگر ہمارے لیے یہ کرنا جائز ہے ۔ حالانکہ سائنسی تدبر کی فی الجملہ اباحت میں ان کا اور میرا سرے سے کوئی اختلاف ہی نہیں، اس کے تو ہم بھی قائل ہیں۔اسی طرح بعض جگہ ناقد نے یوں لکھا ہے کہ گویا میں سائنسی تدبر کو (بلفظہ) نہ صرف ناجائز، بلکہ ملت کے ساتھ دشمنی کے مترادف اور خلافِ قرآن سمجھتا ہوں، (دیکھئے: صفحہ ۵۴) بلکہ میں بقول ان کے یہ بھی سمجھتا ہوں کہ سائنسی تدبر انسان کو ملحد بنادیتا ہے۔ (صفحہ ۵۱) اس الزام اور اتہام پر میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ جناب ! اللہ کا نام لیجئے۔ کیا میں نے سائنسی ومادی تدبر کو اپنے مضمون میں جائز اور کسی درجہ مستحسن نہیں لکھا تھا اور کیا اسی سے متعلقہ سطور بیرونی صفحہ پر شائع نہیں ہوئی تھیں جن پر آپ نے مدیر الشریعہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا؟ تو پھر یہ سب کہنے کا جواز کیا ہے اور میرے بارہ میں یہ سب آپ نے کہاں سے سمجھ لیا ہے؟
ان کی ’’خلافِ قرآن‘‘ والی بات البتہ کچھ تنقیح کا تقاضا کرتی ہے۔ موصوف کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’قوم وملت کے مفاد میں ایسی سرگرمی جس کی قرآن وسنت میں ممانعت نہ ہو ثواب ہے یا گناہ؟ اگر گناہ ہے تو اس کی فضیلت نہیں، اگر ثواب ہے تو یہ خلافِ قرآن نہیں، موافقِ قرآن ہے اور موافقِ قرآن ہے تو آپ کا مقدمہ باطل۔‘‘ (صفحہ۵۲، ۵۳) یعنی ایک بار پھر وہی بات کہ سائنسی تدبر کو جائز اور مرغوب تسلیم کیا جائے جس میں میرا اور ان کا کوئی اختلاف نہیں۔ گذارش یہ ہے کہ جو چیز مباح اور کسی درجہ مستحسن ہو، وہ آپ ہی کے بقول خلافِ قرآن نہیں، بلکہ موافقِ قرآن ہے اور اسی کے ہم قائل ہیں۔ لیکن یاد رکھئے کہ کسی چیز کے موافقِ قرآن ہونے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اب اس پر قرآن کی کوئی بھی آیت منطبق کردینے کا کسی کو فری ہینڈ مل گیا ہے۔ مثلا جسمانی ورزش ایک مباح ومستحسن سرگرمی ہے اور اس لیے اسے خلافِ قرآن بھی نہیں کہا جاسکتا، مگر اب اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ ’’اقیموا لصلوۃ‘‘ کے قرآنی حکم سے بھی یہی ورزش مراد لینا جائز ہے۔ یہی معاملہ اس سائنسی تدبر کا ہے جو مادی اغراض ومقاصد کے لیے اور مادی حقائق کو منکشف کرنے کے لیے سائنس دان کرتے ہیں، یہ جائز ہے اور خلافِ قرآن بھی نہیں۔ مگر قرآن جس تدبرِ کائنات کا مطالبہ کرتا ہے، یہ مادی تدبر اس کا ہرگز ہرگز مصداق نہیں، نہ تو اصولی طور پر اور نہ ہی ضمنی طور پر کیونکہ ضمنی مطالبہ ہونے کی صورت میں بھی پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا کے اس ضمنی مطالبہ کو نبی اور اس کے شاگردوں نے پورا کیوں نہیں کیا اور جس ضمنی مطالبہ کی تکمیل کے لیے ہمیں عباسی خلفاء کے ہاں مخصوص ’’علمی سرگرمیاں‘‘ نظر آتی ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے شاگردوں نے موقع ملنے کے باوجود ان علمی سرگرمیوں میں بے رغبتی کیوں دکھائی اور خود قرآن میں بھی اس ضمنی مطالبہ کا کوئی قرینہ نطر کیوں نہیں آتا؟ ہاں، البتہ یہ ممکن ہے کہ کوئی سائنس دان مادی اغراض کے لیے ہونے والے اپنے مذکورہ تدبر کو قلب کی بیداری، ہوشیاری، ابدی وبدیہی صداقتوں کی بازیابی، ظلمتوں کی سرکوبی اور طاری غفلت کے ازالہ کے لیے استعمال کرے تو سائنسی تدبر کا یہ ملکوتی استعمال خدائی مطالبہء تدبر کی تکمیل کہلائے گا۔
حقیقت معاملہ فقط یہ ہے کہ قرآن مشاہداتی اور تجرباتی طرزِ استدلال کا مخالف نہیں جسے ’’سائنسی طرزِ استدلال‘‘ بھی کہا جاتا ہے، بلکہ قرآن خود اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لیے اسی طرزِ استدلال کو اختیار کرتا ہے ۔ اب اگر بعض مذاہب دنیا میں ایسے ہیں جو اس طرزِ استدلال کے مخالف ہیں اور یوں مروجہ سائنس کے ساتھ ان کی یک گونہ آویزش ہے تو ٹھیک ہے، ناواقف لوگوں کو بتائیے کہ اسلام کو ان مذاہب پر قیاس مت کرو، یہ اس طریقِ استدلال کا ہرگز ہرگز مخالف نہیں۔ یہاں تک تو معاملہ ٹھیک ہے، مگر یہ مت کہئے کہ قرآن جس تدبرِ کائنات کا مطالبہ کرتا ہے، سائنس دانوں کا کائنات پر مادی تدبر اسی خداوندی مطالبہ کی تکمیل ہے اور یہ مادی وسائنسی تدبر کیے بغیر امرِ ربی کی تکمیل نہیں ہوسکتی کیونکہ قرآن جس مقصد کے لیے تدبر کی تعلیم دیتا ہے وہ معرفتِ الہی ہے، مادی حقائق اور طبیعی عوامل کو منکشف کرنا نہیں۔
کفار کو ’’روحانی تدبر‘‘ کی دعوت دینا ’’چہ معنی دارد؟‘‘
موصوف کا صرف ایک سوال ایسا ہے جو ہمارے موقف سے براہِ راست متعلق ہے اور ہم اس کی وضاحت کیے دیتے ہیں۔ ان کا سوال ہے:
’’قرآن کے مخاطب تو وہ لوگ بھی ہیں جو روحانیت سے واقف ہیں اور نہ خدا ورسول سے۔ آپ مطمئن ہوں یا نہ ہوں، اسے معلوم تھا کہ ایسے لوگوں کو صرف تدبر کی ترغیب دی جاسکتی ہے، آپ کے وضع کردہ روحانی تدبر کی نہیں۔ جس شخص کو حقیقت وروحانیت تک پہنچنا ہی تدبر کے ذریعہ سے ہے، اسے آپ روحانی تدبر کی دعوت کیونکر دے سکتے ہیں؟ نتیجہ ہاتھ میں تھما کر تدبر کی دعوت ایک صاحبِ ایمان کو تو دی جاسکتی ہے اور اس کے لئے کارگر بھی ہوسکتی ہے، لیکن ایک خدا ناشناس کو نہ ایسی دعوت فائدہ مند ہوسکتی ہے اور نہ ہی ایسی دعوت پر لبیک کہنے کے لئے تیار ہوسکتا ہے۔‘‘
اطلاعاً عرض ہے کہ آپ بھی مطمئن ہوں یا نہ ہوں، لیکن قرآن نے جہاں بھی تدبرِ کائنات کی تعلیم دی ہے، وہیں اس کی غایت، اس کا مقصد، اس کا منہج اور اس کا مطلوبہ نتیجہ بھی ساتھ بیان کیا ہے کہ اے بنی نوع انسان! یہ ساری کائنات تمہیں اس نہج پر غوروفکر کی دعوت دے رہی ہے، مثلا یہ کہ خدا کی قدرت کو پہچانو اور اس کی ہیبت ومرعوبیت اپنے اوپر طاری کرو، اس کی لاتعداد نعمتوں کو دیکھو اور اس کے لیے ممنونیت وشکر گذاری کا کما حقہ احساس اپنے دل میں آباد کرو، اس کی عظمتوں کا احساس اپنے اندر راسخ کرو اور اس سے تعظیم واحترام کا قلبی تعلق قائم کرو، صرف اسی کی بندگی بجا لاؤ اور اس بجا آوری میں جو کوتاہی ہو جائے، اس پر استغفار کرو۔ یہ یا اس سے ملتا جلتا کوئی مضمون آپ کو تدبر والی ہر آیت کے آس پاس مل جائے گا۔ مطلق تدبر کہ خواہ دنیاوی غرض سے ہو یا روحانی غرض سے، اس کا حکم قرآن میں آپ نے کہیں پڑھا ہے؟ کافر کو جب تدبر کا کہا جائے گا تو مطلق تدبر مطلوب نہیں ہوگا، بلکہ مقصود یہ ہوگا کہ وہ مطلوبہ منہج پر غور کرکے اپنی کفریات سے توبہ کرے۔
جہاں تک میں ان کے مضمون سے سمجھا ہوں، وہ قرآنی تدبرِ کائنات سے معروف سائنسی ومادی تدبر مراد لینے کے معاملہ میں شش وپنج کے اندر مبتلا ہیں، تبھی تو وہ کبھی ہر دور کی اپنی ضروریات کا حوالہ دے کر محض اسے جائز ثابت کرنے کے لئے کوشاں نظر آتے ہیں جس میں ان کا اور میرا کوئی جھگڑا ہی نہیں اور کبھی وہ اس کو تدبرِکائنات کے قرآنی مطالبہ کا مصداق قرار دے دیتے ہیں جو کہ امرِ ربی اور مطالبہء خداوندی ہے اور جس کا مخاطب ہر زمانہ میں ہر انسان رہا ہے۔ انہیں ایک فیصلہ کرلینا چاہئے۔ جلدی نہیں، ذرا ٹھہر کر سوچئے۔ اللہم انی اعوذ بک من الفتن ماظہر منہا وما بطن۔ آمین
تحریک انسداد سود کی رابطہ کمیٹی کا اجلاس
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
تحریک انسداد سود پاکستان کی رابطہ کمیٹی کا اجلاس ۱۳ ستمبر کو بعد نماز ظہر آسٹریلیا مسجد لاہور میں منعقد ہوا جس میں مولانا عبد الرؤف ملک، مولانا حافظ عبد الغفار روپڑی، علامہ خلیل الرحمن قادری، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، ڈاکٹر محمد امین، پروفیسر حافظ ظفر اللہ شفیق، مولانا قاری جمیل الرحمن اختر، مولانا حافظ محمد سلیم، مولانا مجیب الرحمن انقلابی، قاری محمد یوسف احرار اور دیگر حضرات نے شرکت کی۔ جبکہ صدارت کے فرائض راقم الحروف ابو عمار زاہد الراشدی نے سر انجام دیے۔ اجلاس میں ملک کی موجودہ عمومی صورت حال اور انسداد سود مہم کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا گیا اور طے پایا کہ سود کی لعنت کے خاتمہ کے لیے جدوجہد کو آگے بڑھایا جائے گا اور وفاقی شرعی عدالت میں مقدمہ کی پیروی کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر پرائیویٹ سود کے مسلسل پھیلاؤ کے نقصانات کی طرف رائے عامہ کو توجہ دلاتے ہوئے علماء کرام، دینی کارکنوں اور مراکز کو اس سلسلہ میں جدوجہد کے لیے تیار کیا جائے گا۔
اجلاس میں اس حوالہ سے شدید تشویش اور اضطراب کا اظہار کیا گیا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے واضح فیصلہ کے باوجود ملک میں سودی نظام اور قوانین کا تسلسل جاری ہے اور ملک کے معاشی نظام میں اس کی بے برکتی اور نحوست بڑھتی جا رہی ہے۔ اجلاس کی رائے میں ملک کے معاشی عدم توازن اور بڑھتے ہوئے پریشان کن معاشی مسائل کی سب سے بڑی وجہ شرعی قوانین کے نفاذ سے گریز اور سودی نظام و قوانین کو باقی رکھنا ہے۔ اس لیے جب تک حکومت اس سلسلہ میں اپنی روش اور پالیسی میں بنیادی تبدیلی نہیں کرتی، مسائل کے حل کی کوشش کامیاب ہونے کی امید نظر نہیں آتی۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ مختلف مکاتب فکر کے راہ نماؤں کا ایک وفد اس کے لیے جلد از جلد وزیر اعظم اور وزیر خزانہ سے ملاقات کر کے ان سے مطالبہ کرے گا کہ سودی قوانین کے سلسلہ میں سپریم کورٹ کے واضح فیصلہ کے خلاف دائر کی جانے والی اپیلوں کو واپس لینے اور غیر سودی معاشی نظام کی ترویج و نفاذ کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ اجلاس میں طے پایا کہ سرکاری سطح سے ہٹ کر پرائیویٹ دائروں میں سود کی جو مختلف صورتیں رائج ہیں اور جن میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے وہ معاشرہ کے اخلاقی اور معاشی نظام کے لیے کینسر کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس لیے ان کے خلاف عوامی بیداری کی مہم چلائی جائے گی اور مساجد و مدارس کے ساتھ ساتھ ابلاغ اور لابنگ کے دیگر مؤثر ذرائع کو بھی اس مقصد کے لیے متحرک کیا جائے گا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ مختلف شہروں میں سود کی ممانعت اور نحوست کے بارے میں سیمینار منعقد کرنے کا سلسلہ شروع کیا جائے گا اور اس کا آغاز عید الاضحی کے بعد گوجرانوالہ میں سیمینار منعقد کر کے کیا جائے گا، جس کے انتظامات کی ذمہ داری ابو عمار زاہد الراشدی کو سونپ دی گئی ہے۔
ملی مجلس شرعی پاکستان کے سیکرٹری جنرل پروفیسر ڈاکٹر محمد امین نے اجلاس کو بتایا کہ سودی نظام کے سلسلہ میں وفاقی شرعی عدالت کے سوالنامہ کا تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء کرام کی طرف سے متفقہ جواب تیار کر لیا گیا ہے جسے جلد عدالت میں پیش کر دیا جائے گا۔ مولانا عبدا لرؤف ملک نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دینی جماعتوں اور مراکز کے درمیان رابطوں اور اشتراک عمل میں اضافے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم اسی طریقہ سے اسلام اور پاکستان کے خلاف عالمی استعماری قوتوں کی سازشوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے مرکزی راہ نما ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے کہا کہ حکمرانوں کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ جب تک قومی سطح پر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے اسباب کو ختم کرنے کے لیے سنجیدگی سے اقدامات نہیں کیے جائیں گے اس وقت تک ملکی حالات میں بہتری کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔
اجلاس میں موجودہ سیاسی بحران کے دوران دستور پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کا نوٹس لیا گیا اور کہا گیا ہے کہ ملک کے حالات میں خرابی دستور کی وجہ سے نہیں بلکہ دستور پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ جبکہ یہ دستور ملکی سا لمیت، قومی وحدت اور جغرافیائی تحفظ کے ساتھ قوم کی نظریاتی شناخت کی علامت و بنیاد ہے۔ اسی وجہ سے بین الاقوامی سیکولر حلقے اور لابیاں دستور کے خلاف مہم جوئی کر رہی ہیں جس کا مقصد پاکستان کو دستور سے خدانخواستہ محروم کر کے وطن عزیز کے وفاق، نظریاتی شناخت اور وحدت کو داؤ پر لگانا ہے، اور اس کی کسی صورت میں اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اجلاس میں تمام محب وطن حلقوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ دستور پاکستان کے خلاف ان سازشوں پر کڑی نظر رکھیں اور انہیں ناکام بنانے کے لیے مؤثر کردار ادا کریں۔
پاکستان شریعت کونسل کے راہ نما مولانا قاری جمیل الرحمن اختر نے کہا کہ ملک میں پرائیویٹ سطح پر گلی گلی اور محلہ محلہ میں سودی حلقے موجود ہیں جن کی نشاندہی کرتے ہوئے اس حوالہ سے قرآن و سنت کی تعلیمات کو پھیلانے کی ضرورت ہے اور اس سلسلہ میں علماء کرام اور خطباء کرام کو بھرپور محنت کرنی چاہیے۔
ممتاز اہل حدیث راہ نما مولانا حافظ عبد الغفار روپڑی نے کہا کہ سود جیسی لعنت کے خلاف جدوجہد کرنا ہماری دینی ذمہ داری ہے اور تمام مکاتب فکر اس مہم میں ملی مجلس شرعی اور تحریک انسداد سود کے ساتھ ہیں۔
اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعہ حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو قانون سازی کے لیے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں جلد از جلد پیش کیا جائے اور سودی نظام کے بارے میں اپیل در اپیل اور ٹال مٹول کا طرز عمل ختم کر کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کا اہتمام کیا جائے۔
اجلاس میں سیلاب سے ہونے والے وسیع تر جانی و مالی نقصانات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے مختلف اداروں اور حلقوں کی طرف سے کی جانے والی امدادی سرگرمیوں کو سراہا گیا اور دعا کی گئی کہ اللہ تعالیٰ مرحومین کی مغفرت فرمائیں اور متاثرین کی بحالی اور نقصانات کے ازالہ کی کوششوں کو کامیابی سے نوازیں۔ اجلاس میں شمالی وزیرستان کے آپریشن کے متاثرین کے ساتھ بھی ہمدردی کا اظہار کیا گیا اور ان کی جلد از جلد اپنے گھروں میں واپسی اور بحالی کے لیے دعا کی گئی۔
مولانا مسعود بیگ اور ڈاکٹر شکیل اوج کا المناک قتل
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
جامعہ بنوریہ کراچی کے استاذ مولانا مسعود بیگ کی شہادت کا غم ابھی تازہ تھا کہ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کے سربراہ ڈاکٹر محمد شکیل اوج کی شہادت کی خبر سننا پڑی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ کراچی ایک عرصہ سے مختلف حوالوں سے قتل وغارت کی آماج گاہ بنا ہوا ہے۔ قومیتوں کے اختلافات اور فرقہ وارانہ تنازعات کے علاوہ سیاسی اور لسانی جھگڑے اس قتل وغارت کے محرکات میں سرفہرست ہیں اور اس میں سب سے زیادہ غم واندوہ اور رنج وصدمہ کا پہلو یہ ہے کہ عام شہریوں اور کارکنوں کی قیمتی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ مختلف مکاتب فکر اور طبقات کے ارباب علم ودانش خاص طور پر اس کا نشانہ بن رہے ہیں اور ارباب فضل وعلم کی ایک طویل فہرست ہے جو ہر دردمند او رمحب وطن مسلمان اور پاکستان کو مضطرب اور بے چین کیے ہوئے ہے۔
مولانا مسعود بیگ ہمارے محترم دوست مولانا مفتی محمد نعیم کے داماد اور ایک صاحب فکر عالم دین تھے، جبکہ ڈاکٹر محمد شکیل اوج کا شمار ان ارباب علم ودانش میں ہوتا ہے جو اسلام کی علمی وفکری روایات کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ وابستہ رہتے ہوئے جدید مسائل میں نئی نسل کو علمی وفکری راہ نمائی فراہم کرنے میں مصروف رہتے تھے اور ہزاروں طلبہ نے دینی علم وفکر میں ان سے استفادہ کیا ہے۔
چند ماہ قبل کراچی یونیورسٹی کی سیرت کانفرنس میں ان کی دعوت پر شریک ہونے کا موقع ملا تھا۔ اس سے قبل بھی ان سے متعدد ملاقاتوں اور فون پر تبادلہ خیالات کا سلسلہ جاری رہا۔ وہ دینی اور عصری علوم پر گہری نظر رکھتے تھے، آج کے دور کے تقاضوں کو سمجھتے تھے اور ان کی روشنی میں نئی نسل کی راہ نمائی کے اسلوب سے بہرہ ور تھے، اس لیے ان کی وفات بلاشبہ علمی دنیا کا نقصان ہے اور ہم سب کے لیے باعث رنج والم ہے۔
اللہ تعالیٰ مولانا مسعود بیگ، ڈاکٹر شکیل اوج اور قتل وغارت کا نشانہ بننے والے دیگر حضرات کی مغفرت فرمائیں اور کراچی کو اس عذاب سے نجات عطا فرمائیں جس نے پوری قوم کو بے چین کر رکھا ہے۔ آمین یا رب العالمین
علماء دیوبند ۔ مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلی کا مکتوب
ادارہ
عزیز گرامی میاں عمار صاحب۔
شکریہ کہ الشریعہ کے شمارے تا اگست موصول ہو گئے۔ امید ہے اب ماہ بماہ آتے رہیں گے۔ پیکیٹ کھولنے پر جو ذرا سی ورق گردانی فوراً ہی کی تو خاص اشاعت اور جون ہی کی عام اشاعت میں دو باتیں توجہ دلانے کے قابل نظر آئیں۔ خاص نمبر کے اسامہ مدنی صاحب کے مضمون (در دفاعِ مولانا راشدی) میں حضرت مولانا علی میاں صاحب کو فاضل دیوبند بتا دیا ہے جو واقعہ نہیں ہے۔ مولانا نے صرف چار مہینے دیوبند میں رہ کر بخاری اور ترمذی کے درس کی سماعت کی تھی۔ (پرانے چراغ جلد اول، تذکرہ حضرت مدنی)۔ جبکہ عام شمارہ میں انس حسان صاحب نے حضرت شیخ الہند کو جمعیۃ العلماء کا بانی بتا دیا ہے، جبکہ جمعیۃ جب 1919ء میں قائم کی گئی تو حضرت شیخ الہند مالٹا میں محبوس تھے۔ الشریعہ جیسے رسالوں میں تاریخی باتیں تحقیق سے آنے کی امید کی جاتی ہے نہ کہ سنی سنائی۔
جمعیۃ العلماء ہند کی بنیاد رکھنے والے علماءِ دیوبند نہیں تھے، زیادہ تر تو دوسرے علماء تھے اور ان کے سرخیل مولانا عبد الباری فرنگی محلی۔ البتہ رفتہ رفتہ ایسی صورت ہوئی کہ علماء دیوبند ہی حاوی ہو گئے حتیٰ کہ مولانا عبد الماجد بدایونی نے ایک موقع پر مولانا ابوالکلام آزاد سے کہا کہ صاحب، یہ تو اب جمعیۃ علماء دیوبند ہوئی جا رہی ہے جس پر مولانا نے فرمایا کہ ہاں میرے بھائی، جب دیوبند ہی علماء پیدا کر رہا ہوگا تو پھر وہ جمعیۃ علمائے دیوبند ہو ہی جائے گی۔ یہ بات میں نے کہیں پڑھی بھی تھی، اس کے علاوہ والدِ ماجد سے سنی بھی تھی۔
والسلام اور حضرت مولانا کی خدمت میں بھی نیاز۔
عتیق
الشریعہ اکادمی میں علمی و فکری نشستیں
مولانا محمد عبد اللہ راتھر
یہ بات مسلم ہے کہ ’’انسان‘‘ تحریر شدہ کتابوں سے اِتنا نہیں سیکھتا جتنا کتابِ زندگی کے تلخ و شیریں تجربات انسان کو سکھادیتے ہیں اور پھر ’’سفر‘‘ کا تو معنی ہی ’’کھولنا‘‘ ہے۔ سفر انسانی ذہن کے لیے معلومات و تجربات کے اَن گنت دریچے کھول دیتا ہے ۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا زاہد الراشدی حفظہ اللہ اپنی عمر کے ۶۷ ویں برس میں ہیں اور اُن کی زندگی کا اکثر حصہ تدریس، خطابت اور دینی تحریکات کے مقاصد کی خاطراسفار میں گزراہے ۔ اندرون و بیرون ممالک کے سینکڑوں یادگار اسفار اُن کی زندگی کا حصہ ہیں۔ اسفار کی کثرت کے باوجود ۱۹۷۰ء سے باقاعدہ تدریس اور تب سے لے کر اب تک صحافتی شعبہ سے منسلک رہنا، بلکہ اِن شعبوں میں کمال کا حصول آپ کا خاص امتیاز ہے۔ آپ پاکستان کی مختلف دینی تحریکات کا حصہ بلکہ بنیادی کردار رہے ہیں۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا سرفراز خاں صفدر رحمہ اللہ اور شیخ التفسیر حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خاں سواتی کے علاوہ حضرت مولانا عبیداللہ انوررحمہ اللہ، حافظ الحدیث مولانا محمد عبداللہ درخواستی رحمہ اللہ اور حضرت مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ وغیرہ اکابر کا مکمل اعتماد اور رفاقت بھی آپ کو نصیب ہوئی ۔ اِس کے علاوہ اپنے دَور کی سینکڑوں نابغۂ روزگار شخصیتوں سے ملاقاتیں آپ کی یادداشتوں کا حصہ ہیں۔
آپ کے اِنہی علمی، فکری ، صحافتی اور تجرباتی مشاہدات سے استفادہ کے لیے کچھ عرصہ سے علماء و طلبہ کے لیے بالخصوص اور عوام الناس کے لیے بالعموم الشریعہ اکادمی میں ماہانہ فکری نشستوں کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔ یہ نشست الشریعہ اکیڈمی ، ہاشمی کالونی ، کنگنی والا میں منعقد ہوتی ہے جس میں مولانا موصوف کسی موضوع پر لیکچر اِرشاد فرماتے ہیں۔ گذشتہ برس اِن نشستوں کا موضوع ’’تصوف اور عصر حاضر ‘‘ تھا اور سامعین کے اصرار پر اسے ماہانہ سے پندرہ روزہ میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ یہ نشست جہاں علماء اور طلباء کے لیے انتہائی پر مغز معلومات، قیمتی تجربات ، بامقصد لطائف، سبق آموز واقعات، مشفقانہ نصائح، تاریخی حقائق، ملکی و بین الاقوامی حالات پر جاندار تبصروں پر مشتمل ہوتی ہے، وہیں ایک عام آدمی کے لیے بھی انتہائی مفید ہوتی ہے اور عام فہم روز مرہ کی زبان میں ہونے کی وجہ سے ہر شخص اس سے آسانی سے استفادہ کرسکتا ہے ۔
اِن نشستوں کی چند جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں :
۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت کے بارے میں فرماتے ہیں :
بٹ دری فیکٹری (گکھڑ) کے اوپر ایک چوبارہ سا تھا، اس میں ہماری رہائش تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے، والد صاحب رحمہ اللہ خود گرفتاری دینے کے لیے تھانہ گئے ۔ ایک طالب علم مولوی عزیز الرحمن صاحب نے آپ کا بستر اُٹھایا ہوا تھا۔ مجھے یاد ہے ، میری نظروں میں ہے وہ منظر ۔۔۔ سیڑھیوں سے اُترتے ہوئے۔ تقریباً دس ماہ کے لگ بھگ آپ رحمہ اللہ جیل میں رہے ۔ واپسی کا منظر بھی مجھے یاد ہے ۔۔۔
۱۹۶۸ء کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
سعودی عرب میں خانہ کعبہ کے غسل میں ظفر اللہ خان (قادیانی) شریک ہوئے۔ اس پر بڑا احتجاج ہوا۔ اگلے سال سعودی گورنمنٹ نے قادیانیوں کے حج پر آنے پر پابندی لگادی۔ اس پر آغا شورش کاشمیری نے چٹان کا چھ یا سات سطروں کا ایک شذرہ لکھا ۔’’ الحمد للہ ‘‘ اس کا عنوان تھا کہ شکر ہے سعودی عرب کو خیال آیا ‘ یہ فیصلہ کیا۔ اس پر چٹان پریس ضبط ہوگیا ۔ چٹان کا ڈیکلریشن منسوخ ہوگیا ۔ آغا شورش کاشمیری کے خلاف گرفتاری کے آرڈر جاری ہوگئے ۔ ایک طوفان مچ گیا۔
۶ مئی ۱۹۶۸ء کو جمعیت علماء اسلام کے جلسے میں آغا شورش نے بڑی خوفناک تقریر کی، اپنے پورے عروج پر ۔ مولانا غلام غوث ہزاروی رحمہ اللہ کو میں نے زندگی میں کبھی شعر پڑھتے نہیں سنا کہ تقریر میں کوئی شعر پڑھیں ۔ صرف وہاں آغا شورش کو خطاب کی دعوت دیتے ہوئے مولانا نے ایک شعر پڑھا ۔ میرے ذہن میں وہ نقش ہو گیا۔ مولانا نے کہا کہ آغا شورش کاشمیری کا جرم کیا ہے؟ یہ کہ اس نے سعودی عرب کے ایک فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے اور چار سطریں لکھی ہیں؟ آپ یہ بھی برداشت نہیں کرسکتے ؟تو وہاں یہ شعر پڑھا :
نزاکت کس قدر ہے دِلربا کو
اُٹھا سکتے نہیں رنگ حنا کو
زندگی میں، میں نے ایک ہی شعر مولانا سے سنا۔ اس جلسے میں پھر آغا صاحب گرفتار ہوگئے ۔
امریکا میں علامہ زاہد الراشدی صاحب کی ایک لاٹ پادری سے ملاقات اور اُس سے دلچسپ اور فکر انگیز مکالمے کی تفصیلات ۔۔۔ اور برمنگھم (برطانیہ)میں سکھوں کے گوردوارہ میں علماء کے وفد کا داخلہ کیسے ممکن ہوا ، حالانکہ وہاں داخلہ کے لیے گرو گرنتھ صاحب کے سامنے ماتھا ٹیکنا لازمی شرط تھا۔
سمر قند اور بخارا کے دورہ کے دوران ایک بڑھیا کا رِقت آمیز واقعہ ۔۔۔اور وہاں کے زمیں دوز مدرسوں کی رُوداد۔۔۔ دورۂ بنگلہ دیش کے دوران سلہٹ کے مدرسہ سے حضرت مدنی رحمہ اللہ کے مرتب کردہ ۱۶سالہ نصاب تعلیم کی نقل کا حصول ۔۔۔ (یہ نصاب عام مدارس کے مروجہ نصاب سے ہٹ کر ہے جس میں دنیاوی و عصری علوم کو بھی نمایاں حیثیت دی گئی ہے ) ۔۔۔ اور دوسرے بہت سے اہم و دلچسپ واقعات۔
مولانا زاہد الراشدی حفظہ اللہ کے سینے میں بعض ایسی روایات ہیں جن کے بارے میں اُن کا کہنا ہے کہ اِن رازوں کی امین اَب میرے سوا دنیا میں صرف ایک دو شخصیتیں ہیں ۔ راقم الحروف کا خیال ہے کہ وہ کچھ ہماری تاریخ کی راز کی باتیں ہیں جنہیں وہ بتانا مناسب نہیں سمجھتے یا ہمارے دِل اُن کو اُٹھانے کی وسعت نہیں رکھتے ۔ لیکن جتنی باتیں وہ بتا رہے ہیں، اُن کو سننے اور حفاظت کا اہتمام تو بہرحال ہماری ذمہ داری ہے اور ہمیں اس میں کوتاہی نہیں کرنا چاہیے۔
تمتّع من شمیم عرار نجد
فما بعد العشیّۃ من عرار
انسانی صحت کے لیے حرارت کی اہمیت
حکیم محمد عمران مغل
کرۂ ارضی پر انسانی زندگی اور انسانی صحت کے لیے سورج کی فراہم کردہ تپش اور حرارت بے حد اہم ہے۔ اگر سورج کی تپش نہ ہو تو زندگی کا کاروبار ٹھپ ہو کر رہ جائے۔ اگر سورج کی تپش کی زیادتی سے جسم کو بیماریاں لاحق ہوتی ہیں تو صحت کا گلشن بھی اسی تپش سے کھلتا ہے۔ پھلوں میں مٹھاس، غلے میں بڑھوتری اور پھولوں میں رنگ ، خوشبو اور چمک جو پیدا ہوتی ہے، وہ سورج کی گرمی سے ہوتی ہے۔ انسان کو جب بخار ہوتا ہے تو خون کے کئی مادے پگھل کر ضائع ہوتے ہیں۔
جسم میں ٹھنڈک کی زیادتی کی وجہ سے جوڑ جکڑے جاتے ہیں اور شوگر کے مرض کی زیادتی بھی ٹھندک کی وجہ سے ہے۔ اطباء نے اپنے تجربات میں لکھا ہے کہ ایک مریض کو ٹی بی کا مرض لاحق ہو جائے اور دوسرے کو جوڑوں کے درد اور گنٹھیا کا تو ٹی بی کا مریض شفا یاب ہو کر لمبی عمر پا سکتا ہے، لیکن قوت باہ کے مریض کا چراغ ٹمٹمانا شروع کر دیتا ہے۔
الغرض جس قدر ہو سکے، ٹھنڈی اشیاء سے اجتناب برتیں۔ کھانے کے بعد جوارش کمونی ضرور استعمال کریں۔اگر ہو سکے تو جوارش جالینوس بھی استعمال کرتے رہیں۔ طب یونانی میں بعض ادویہ سال ہا سال تک کھائی جاتی ہیں۔
نومبر ۲۰۱۴ء
اکابر دیوبند کی فکر اور معاصر تناظر میں اس سے استفادہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
دیوبندی مکتب فکر کا تذکرہ کیا جائے تو تین شخصیتوں کا نام سب سے پہلے سامنے آتا ہے اور تاریخ انہی تین بزرگوں کو دیوبندیت کا نقطہ آغاز بتاتی ہے۔ امام الطائفہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کو دیوبندیت کے سرپرست اعلیٰ کی حیثیت حاصل ہے، جبکہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ ، اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ سے دیوبندیت کے علمی، فکری اور مسلکی تشخص کی ابتدا ہوتی ہے اور یہ تین شخصیات دیوبندی مکتب فکر کی اساس اور بنیاد سمجھی جاتی ہیں۔
حضرت نانوتویؒ دیوبندیوں کے سب سے بڑے متکلم اور حضرت گنگوہیؒ فقیہ اعظم تھے۔ جبکہ ان کے قائم کردہ علمی، فقہی، فکری، روحانی اور سیاسی ڈھانچے میں رنگ بھرنے کا کام شیخ الہندؒ ، حضرت مولانا محمود حسنؒ ، مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ ، مولانا اشرف علی تھانویؒ ، مولانا سید حسین احمد مدنیؒ ، مولانا عبید اللہ سندھیؒ ، مولانا شبیر احمد عثمانیؒ ، مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ ، اور مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ جیسے اکابر نے سر انجام دیا ہے اور ان گلہائے رنگا رنگ کے حسین گلدستے کو دنیا ’’دیوبندیت‘‘ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ مگر ہماری نئی نسل کا المیہ یہ ہے کہ ان سب بزرگوں کا نام عقیدت و احترام کے دائرہ میں تو سرفہرست ہے، لیکن ان کے تعارف اور افکار و تعلیمات سے با خبر ہونے کی ضرورت محسوس نہیں کی جا رہی۔ بلکہ ہم اپنے ماحول میں خود اپنے قائم کردہ فکری خولوں میں ان شخصیتوں کو بند کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں جس سے نہ صرف یہ کہ دیوبندیت کا صحیح تعارف آج کی دنیا کے سامنے پیش نہیں ہوتا بلکہ بہت سے معاملات میں ہم خود بھی کنفیوژن کا شکار ہو جاتے ہیں۔
دیوبندیت آج کی علمی و فکری دنیا کا ایک اہم موضوع ہے۔ مغرب کی بہت سی یونیورسٹیوں میں دیوبندیت کے علمی و فکری خدوخال اور انسانی معاشرے پر اس کے اثرات کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالات میں انہیں زیر بحث لایا جا رہا ہے۔ مگر خود ہمارے ہاں اس محنت بلکہ سوچ تک کا فقدان ہے اور اگر کہیں اس سلسلہ میں کوئی مجلس یا فورم ہوتا بھی ہے تو روایتی اور جذباتی طرز پر عقیدت و محبت کے اظہار کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور ہم اپنے بزرگوں کے فضائل اور مناقب بیان کر کے خوش ہوتے رہتے ہیں کہ ہمیں اپنے بزرگوں کے نام یاد ہیں اور ان سے محبت و عقیدت کا اظہار ہمارے معمولات میں شامل ہے۔ خاص طور پر دینی مدارس کے اساتذہ کی بڑی تعداد اور طلبہ کی غالب اکثریت میں اس بات کا شعور اور احساس موجود نہیں ہے کہ جن بزرگوں کو ہم اپنے تعارف کا ذریعہ بناتے ہیں اور جن کے نام پر عزت حاصل کرتے ہیں، ان کی علمی و فکری جدوجہد کا دائرہ کیا تھا، طریق کار کیا تھا، معاشرے پر اس کے اثرات کیا ہیں، اور آج کے معروضی حالات میں ان سے استفادہ کی صحیح صورتیں کیا ہیں؟
اس پس منظر میں کچھ عرصہ قبل شیخ الہندؒ اکیڈمی کے نام سے کچھ نوجوانوں نے اس خلا کو پر کرنے کی ضرورت کا احساس کیا اور شیخ الہندؒ حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے حوالہ سے ملک بھر میں سیمینارز اور مقالات کا اہتمام کیا تو ہمیں خوشی ہوئی اور بعض مجالس میں شرکت کے علاوہ ہم نے اپنے مضامین اور کالموں میں اس پر اطمینان کا اظہار کیا۔ پھر دیوبند اور دہلی میں حضرت شیخ الہندؒ کے موضوع پر بین الاقوامی اجتماعات میں حاضری کا موقع ملا تو اس خوشی اور اطمینان کا لطف دوبالا ہوگیا۔ گذشتہ دنوں ہمارے فاضل دوست حافظ نصیر احمد احرار اور ان کے رفقاء نے اس سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے شیخ الہند اکیڈمی کی طرف سے قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ پر ایک سیمینار کا اہتمام کیا جو ۱۹؍ اکتوبر کو ایوان اقبالؒ لاہور میں منعقد ہوا اور اس میں دیوبندی مکتب فکر کے اکابر زعماء نے شرکت اور خطاب کیا۔
پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ حضرت مولانا حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ ہمارے روحانی پیشوا ہیں جبکہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ فکری قائد اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ فقہی امام کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لیے آج کی دنیا میں فقہی حوالوں سے جو چیلنجز درپیش ہیں اور جن مشکلات و مسائل کا سامنا ہے ان سے عہدہ برآ ہونے کے لیے حضرت گنگوہیؒ کی فقہی کاوشوں کے ساتھ ساتھ ان کے اجتہادی منہج اور طریق کار سے استفادہ بھی انتہائی ضروری ہے۔ امید ہے کہ اس طرح کے علمی وفکری سیمینار اس اہم ضرورت کو پورا کرنے میں مثبت پیش رفت کا ذریعہ ثابت ہوں گے۔
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں
ڈاکٹر محی الدین غازی
اس مضمون میں اس کی ضرورت نہیں محسوس کی گئی کہ قرآن مجید کے ترجمہ کا اہم اور عظیم کام کرنے والوں کی تحسین میں کچھ رقم کیا جائے کہ اتنی عظیم خدمت مختلف شخصیات کے ذریعہ جس قدر ہمت واہتمام سے انجام دی گئی، وہ محتاج بیان وستائش نہیں ہے۔
پیش نظر تحریر میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ قرآن مجید کے ترجمہ کا کام بہت ضروری مگر نازک عمل ہے، اس میں غلطی کے امکانات کو کم سے کم کرتے رہنے کی مسلسل کوشش ضروری ہے، قرآن اللہ کا کلام ہے، تاہم اس کلام کا ترجمہ ایک انسانی کوشش ہوتی ہے، جس میں غلطیوں کا امکان ہمیشہ باقی رہتا ہے، اسی لئے جو ترجمہ جتنا زیادہ مشہور ومتداول ہے اس کا بار بار گہرائی اور باریک بینی سے جائزہ لیتے رہنا بھی اسی قدر زیادہ ضروری ہے۔ اس جائزہ میں نہ کسی طرح کا احترام مانع ہونا چاہئے اور نہ کوئی نسبت حائل ہونی چاہئے، راقم کی رائے میں ہونا تو یہ چاہئے کہ ترجمہ قرآن کا کام اجتماعی طور پر اکیڈمی کی سطح پر اور متعدد بار متعدد ماہرین لغت کی نظر سے گذرنے کے بعد قابل اشاعت سمجھا جائے، اور اشاعت کے بعد بھی نظر ثانی کا کام جاری رہے۔ لیکن بوجوہ تراجم قرآن کے ساتھ ایسا اہتمام نہیں ہوسکا۔ عام طور سے ہر ترجمہ قرآن ایک انفرادی کوشش رہی ہے، اوراس لئے غلطیوں کا امکان کسی نہ کسی حد تک ہر ترجمہ میں پایا جاتا ہے۔
تراجم قرآن کے جائزوں کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ بسا اوقات ایک غلطی شروع کے کسی مترجم سے ہوئی اور وہ آگے بھی نقل ہوتی رہی، اور کبھی ایسا بھی ہوا کہ ابتدائی دور کے مترجمین نے غلطی نہیں کی اور وہ بعد میں در آئی۔
راقم کا مقصود غلطیوں کو نمایاں کرنا نہیں، بلکہ ترجموں کے تقابلی مطالعہ کی افادیت دکھانا ہے، اور ترجمہ کے عمل میں نظر ثانی اور اجتماعی کاوش کی اہمیت پر زور دینا ہے، کہ فقہی مسائل میں اجتماعی اجتہاد جس قدر ضروری ہے، اس سے زیادہ ضرورت ترجمہ قرآن میں اجتماعی مساعی کی ہے۔
تقابلی مطالعہ بڑی حد تک یہ تأثر بھی قائم کرتا ہے کہ بیشتر مقامات پر اگر بعض مترجمین سے کوئی چوک ہوئی ہے تو دوسرے مترجمین کے یہاں اس چوک کا تدارک کر لیا گیا ہے۔ اس مختصر مقالہ میں کچھ مثالوں کے ذریعہ مختلف نوعیت کی غلطیوں کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس مضمون کی تیاری میں سب سے اہم حصہ عم محترم مولانا محمد امانت اللہ اصلاحی حفظہ اللہ کے افادات کا ہے جنہیں تفہیم القرآن اور تدبر قرآن کے ریویو کے دوران نوٹ کرنے کا موقعہ ملا۔ زیر نظر تحریر میں جن غلطیوں کی طرف نشان دہی کی گئی ہے وہ عموما مذکورہ دونوں ترجموں میں پائی جاتی ہیں۔
(۱) کبھی ضمیر غائب کا مرجع متعین کرنے میں غلطی ہوجاتی ہے:
أُوْلَئِکَ لَہُمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہِمُ الْأَنْہَار۔ (الکھف: ۳۱)
متعدد مترجمین نے اس آیت کا یوں ترجمہ کیا: ’’ان کے لئے سدا بہار جنتیں ہیں، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی‘‘۔
اس ترجمہ کی رو سے جنتوں کے یا بعض تراجم میں جنتوں میں ان کے محلوں کے نیچے نہریں بہنے کا بیان ہے۔ جبکہ آیت میں اہل جنت کے نیچے نہریں بہنے کی بات ہے، کیونکہ تَحْتِہِمُ میں ضمیر ’ھم‘ ہے جو اہل جنت کی طرف ہی لوٹ سکتی ہے، اگر ضمیر ’ھا‘ ہوتی تو جنتوں کی طرف لوٹتی۔
شاہ عبدالقادر کے ترجمہ میں اس کا خیال کیا گیا ہے، ان کا ترجمہ ہے: ’’ایسوں کو باغ ہیں بسنے کے، بہتی ان کے نیچے نہریں‘‘۔ جوناگڑھی نے بھی ایسا ہی ترجمہ کیا : ’’ان کے نیچے نہریں جاری ہوں گی‘‘۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ قرآن میں مذکورہ ذیل دو اور مقامات پر بھی جنتیوں کے نیچے نہریں بہنے کا ذکر ہے ، اور وہاں جنت کا ذکر نہیں صرف جنتیوں کا ذکر ہے، یعنی قطعی طور سے اہل جنت کے نیچے نہریں بہنا مراد ہے:
إِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ یَہْدِیْہِمْ رَبُّہُمْ بِإِیْمَانِہِمْ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہِمُ الأَنْہَارُ فِیْ جَنَّاتِ النَّعِیْمِ۔ (یونس: ۹)
وَنَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُورِہِم مِّنْ غِلٍّ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہِمُ الأَنْہَار۔ (الاعراف: ۴۳)
اگر کوئی یہ سوال کرے کہ جنت کے نیچے نہریں بہنے کا مطلب سمجھ میں آتا ہے، گرچہ اس کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ جنت اوپر ہوگی اور نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جنت میں درختوں کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، اہل جنت کے نیچے نہریں بہنے سے کیا مراد ہے، اس کا جواب یہ دیا جاسکتا ہے کہ جس طرح قرآن کے بعض مقامات پر جنت کے نیچے نہریں بہنے کا ذکر کیا گیا اور اس سے جنت کے حسن وجمال کو ظاہر کیا گیا، اسی طرح اہل جنت کی خوشحالی ظاہر کرنے کے لئے مذکورہ مقامات پر خود ان جنتیوں کے نیچے نہریں بہنے کا ذکر کیا گیا۔
یہی وجہ ہے کہ فرعون نے جب موسی کے مقابلے میں اپنی خوشحالی اور اقتدار میں اپنی برتری ظاہر کرنا چاہی تو یہی بات کہی۔ اس نے کہا:
وَہَذِہِ الْأَنْہَارُ تَجْرِیْ مِن تَحْتِیْ۔ (الزخرف:۵۱)
(اور یہ نہریں میرے نیچے بہتی ہیں۔)
(۲) کبھی نحو کے کسی قاعدے کو برتنے میں غلطی ہوجاتی ہے:
قُل لَّوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَاداً لِّکَلِمَاتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَن تَنفَدَ کَلِمَاتُ رَبِّیْ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہِ مَدَداً۔ (الکھف: ۱۰۹)
اس کا ترجمہ عام طور سے مترجمین نے یوں کیا ہے : ’’اگر میرے رب کی نشانیوں کو قلم بند کرنے کے لئے سمندر روشنائی بن جائے تو میرے رب کی نشانیوں کے ختم ہونے سے پہلے سمندر ختم ہوجائے گا، اگرچہ ہم اس کے ساتھ اس کے مانند اور سمندر ملادیں‘‘۔
اس میں زمانہ مستقبل کا ترجمہ کیا گیا ہے، حالانکہ لو شرطیہ کے بارے میں قاعدہ یہ ہے کہ وہ زمانہ ماضی کے لئے آتاہے،خواہ جملہ شرط میں فعل ماضی ہو یا فعل مضارع ہو۔
قاعدہ کی رو سے درست ترجمہ یوں ہوگا: ’’اگر میرے رب کی نشانیوں کو قلم بند کرنے کے لئے سمندر روشنائی بن جاتا تو میرے رب کی نشانیوں کے ختم ہونے سے پہلے سمندر ختم ہوجاتا، اگرچہ ہم اس کے ساتھ اس کے مانند اور سمندر ملادیتے‘‘۔
(۳) کبھی کسی لفظ کے معنی کے سلسلے میں تساہل ہوجاتا ہے:
سورۃ الناس اور سورۃ الفلق اور دیگر مقامات پرمتعدد مترجمین نے أعوذ کا ترجمہ کیا ہے: ’’میں پناہ مانگتا ہوں‘‘، حالانکہ پناہ مانگنے کے لئے استعاذہ آتا ہے، کچھ مترجمین نے ’’پناہ میں آتا ہوں‘‘، اور ’’پناہ لیتا ہوں‘‘ کیا ہے، لفظ کے لحاظ سے یہی ترجمہ درست ہے۔بعض مترجمین نے ’’پناہ میں آیا‘‘، یعنی ماضی کا ترجمہ کیا ہے، جبکہ یہاں فعل ماضی نہیں ہے۔
(۴) کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک لفظ کے دو معنی ہوسکتے ہیں، لیکن مترجم سے سیاق کے لحاظ سے مناسب معنی اختیار کرنے میں لغزش ہوجاتی ہے:
إِنَّ اللّہَ لاَ یَغْفِرُ أَن یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِکَ لِمَن یَشَاءُ۔ (النساء : ۴۸)
إِنَّ اللّہَ لاَ یَغْفِرُ أَن یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِکَ لِمَن یَشَاءْ ۔ (النساء: ۱۱۶)
بعض مترجمین نے ترجمہ کیا : ’’اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں کرتا، اس کے ماسوا دوسرے جس قدر گناہ ہیں وہ جس کے لئے چاہتا ہے معاف کردیتا ہے‘‘۔
شاہ عبدالقادر کا ترجمہ ہے: ’’اور بخشتا ہے اس سے نیچے جس کو چاہے‘‘۔
دون کا ترجمہ اس کے سوا بھی ہوسکتا ہے، اور اس سے کمتر بھی ہوسکتا ہے، دوسری نصوص کی روشنی میں کم تر کا ترجمہ درست ہے۔
صحیح ترجمہ یہ ہوگا: ’’اللہ شرک کو معاف نہیں کرتا۔ اس سے کمتر درجہ کے جوگناہ ہیں وہ جس کے لئے چاہتا ہے معاف کردیتا ہے‘‘۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بعض گناہ شرک سے بھی بڑے ہوتے ہیں، جیسے خدا کے حضور کبر شرک سے بڑا گناہ ہے، ابلیس کا گناہ شرک نہیں ہے، اس کے لئے قرآن مجید میں استکبر کا لفظ آیا ہے۔
کَعَصْفٍ مَّأْکُول۔ (الفیل:۵)
’’مَّأْکُول‘‘کے دو معنی ہوسکتے ہیں، کھائی ہوئی چیز، یا کھانے کی چیز۔
عام طور سے مترجمین نے آیت کے اس ٹکڑے کا ترجمہ کیا ہے: ’’کھائے ہوئے بھس کی طرح‘‘۔
ترجمہ بالا پر اشکال یہ آتا ہے کہ کھائے ہوئے بھس سے کیا مراد ہے،کھانے کے بعد تو بھس گوبر بن جاتا ہے، سیاق کے لحاظ سے مناسب یہ ہے کہ یہاں ماکول کا ترجمہ ’’کھایا ہوا‘‘ کے بجائے ’’کھانے کے قابل‘‘ کیا جائے، ترجمہ ہوگا : ’’کھانے کا بھس بناکر رکھ دیا‘‘۔محمدفاروق خان کے ہندی ترجمہ میں ہے: ’’جیسے کھانے کا بھوسا ہو‘‘۔
(۵) دو ملتے جلتے الفاظ کے درمیان باریک فرق میں تساہل بھی غلطی کا سبب بن جاتا ہے:
ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ۔ (التکاثر:۸)
’’النَّعِیْمِ‘‘ کا ترجمہ عام طور سے لوگ نعمت کردیتے ہیں، حالانکہ نعمت اور نعیم میں فرق ہے۔ نعمت کے لئے عربی میں ’’نعمۃ‘‘ آتا ہے جس کا مطلب ’’اللہ کی بخشی ہوئی چیزیں‘‘ ہوتا ہے، جبکہ نعیم کا مطلب ہوتا ہے ’’آرام وآسائش‘‘۔ بخشش اور آسائش میں جو فرق ہے، وہ زبان کا ذوق رکھنے والے آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔
شاہ عبدالقادر نے اس آیت میں آرام ترجمہ کیا ہے، سورہ یونس آیت ۹؍ میں بھی جنات النعیم کا ترجمہ ’’باغوں میں آرام کے‘‘ کیا ہے۔لیکن مائدہ ۶۵؍ میں جنات النعیم کا ترجمہ نعمت کے باغوں کیا ہے۔
سورہ تکاثر میں ’’نعیم‘‘ سے مراد آسائش ہے اس کی تائید سورہ انبیاء کی اس آیت سے بھی ہوتی ہے:
لا تَرْکُضُوا وَارْجِعُوا إِلَی مَا أُتْرِفْتُمْ فِیْہِ وَمَسَاکِنِکُمْ لَعَلَّکُمْ تُسْأَلُون۔ (الانبیاء: ۱۳)
جو مفہوم ’’مَا أُتْرِفْتُمْ فِیْہِ‘‘کا ہے تقریبا وہی نعیم کا بھی ہے۔ یعنی آرام وآسائش کی وہ حالت جو اس دنیا میں حاصل رہی۔
فَأَمَّا الْإِنسَانُ إِذَا مَا ابْتَلَاہُ رَبُّہُ فَأَکْرَمَہُ وَنَعَّمَہُ فَیَقُولُ رَبِّیْ أَکْرَمَنِ۔ (الفجر:۱۵)
آیت مذکورہ میں’’َنَعَّمَہُ‘‘ کا لفظ آیا ہے جس کا ترجمہ عموماََ نعمت دینے سے کیا گیا ہے، دراصل نعم نعیم کے لئے ہوتا ہے، اور نعمت کے لئے انعم ہوتا ہے، آیت مذکورہ میں نعمہ کا ترجمہ آسائش دینے سے کیا جائے گا۔
(۶) کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی آیت میں ضمیر کا استعمال ہوتا ہے، اور مترجم اپنی تفسیر کے مطابق ضمیر کے بجائے ضمیر کا مرجع ذکر کردیتا ہے، یہ طریقہ درست معلوم نہیں ہوتا، اس سے قاری کے غوروفکر کے وہ امکانات محدود ہوجاتے ہیں جو خود آیت نے فراہم کئے تھے:
فَنَادَاہَا مِن تَحْتِہَا أَلَّا تَحْزَنِیْ۔ (مریم:۲۴)
اس کا ترجمہ ہوگا: ’’پس اس نے اس کے نیچے سے اسے آواز دی کہ مغموم نہ ہو‘‘۔ جیسا کہ شاہ عبدالقادر نے کیا ہے کہ: پھر آواز دی اس کو اس کے نیچے سے کہ غم نہ کھا۔
بعض مترجمین نے ترجمہ کیا: ’’پس (کھجورکے) نیچے سے فرشتہ نے اس کو آواز دی کہ مغموم نہ ہو‘‘۔
اگر آیات پر غور کیا جائے تو یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی ماں مریم کے نیچے سے اس کو آواز دی اور کہا کہ مغموم نہ ہو۔ اور یہی مفہوم زیادہ صحیح لگتا ہے، کیونکہ عیسیٰ کی اس ندا کے بعد ہی مریم کو معلوم ہوا کہ عیسیٰ بولتے ہیں، اور اسی لئے انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں کے سوالوں کے جواب میں عیسیٰ کی طرف اشارہ کردیا تھا۔ اگر ترجمہ میں ضمیر کی جگہ فرشتہ ذکر کردیا جائے تو قاری کے لئے دوسرے امکان پر سوچنے کا موقعہ ختم ہوجاتاہے۔ حالانکہ وہ امکان آیت کے الفاظ خود فراہم کررہے ہیں۔ ہاں اگر قاری کی سہولت پیش نظر ہے تو ضمیر کو ذکر کرکے اس کا مرجع قوسین میں ذکر کردینا چاہیے۔
(۷) بسا اوقات فعل کے بعدآنے والا حرف فعل کے معنی کو تبدیل کردیتا ہے۔ مترجم کی نگاہ کبھی اس تبدیلی کا خیال کرنے میں چوک جاتی ہے۔ ذیل کی مثالیں ملاحظہ ہوں:
وَقَالُواْ مَہْمَا تَأْتِنَا بِہِ مِن آیَۃٍ لِّتَسْحَرَنَا بِہَا فَمَا نَحْنُ لَکَ بِمُؤْمِنِیْن۔ (الاعراف: ۱۳۲)
قَالُواْ یَا ہُودُ مَا جِئْتَنَا بِبَیِّنَۃٍ وَمَا نَحْنُ بِتَارِکِیْ آلِہَتِنَا عَن قَوْلِکَ وَمَا نَحْنُ لَکَ بِمُؤْمِنِیْن۔ (ھود:۵۳)
وَمَا نَحْنُ لَکُمَا بِمُؤْمِنِیْن۔ (یونس:۷۸)
فَمَا آمَنَ لِمُوسَی إِلاَّ ذُرِّیَّۃٌ مِّن قَوْمِہ۔ (یونس:۸۳)
ایمان کے ساتھ جب ’’باء‘‘ آتا ہے تو مطلب ہوتا ہے اس پر ایمان لانا جس کا ’’باء‘‘ کے بعد ذکر ہے جیسے آمنت باللہ۔ اور جب لام آتا ہے تو مطلب ہوتا ہے اس کی ’’بات ماننا‘‘ جس کا لام کے بعد ذکر ہے۔مذکورہ بالا آیتوں میں لام آیا ہے، اس لئے چاروں جگہ ترجمہ ’’بات ماننے‘‘ کا ہونا چاہئے،ترجمہ نگاروں میں سے بعض نے ایسے سارے مقامات پرمذکور نبی پر ’’ایمان نہ لانا‘‘ یا اس کو’’ نہ ماننے‘‘ کا ترجمہ کیا ہے۔بعض مترجمین نے کچھ مقامات پر اس کی رعایت کی ہے اور بعض مقامات پر نہیں کی۔
اسی طرح کفر کے ساتھ جب ’’باء‘‘ آتا ہے تو کفرو انکار کے معنی میں ہوتا ہے ، اور براہ راست مفعول کی ضمیر آتی ہے تو ناشکری کرنے کا معنی ہوتا ہے۔
أَلا إِنَّ عَاداً کَفَرُواْ رَبَّہُم۔ (ھود:۶۰)
أَلاَ إِنَّ ثَمُودَ کَفرُواْ رَبَّہُمْ۔ (ھود:۶۸)
مذکورہ دونوں آیتوں کا درست ترجمہ یہ ہے: ’’سنو عاد نے اپنے رب کی ناشکری کی‘‘، ’’سنو ثمود نے اپنے رب کی ناشکری کی‘‘۔ لیکن عام طور سے لوگوں نے کفر اور انکار کا ترجمہ کیا ہے۔حالانکہ سورہ بقرہ میں وَاشْکُرُواْ لِیْ وَلاَ تَکْفُرُون۔ (البقرہ: ۱۵۲)کا ترجمہ میرے علم کی حد تک سارے مترجمین نے ’’ناشکری نہ کرو‘‘، یا ’’کفران نعمت نہ کرو‘‘، کیا ہے۔
وَلاَ تَعْزِمُواْ عُقْدَۃَ النِّکَاحِ حَتَّیَ یَبْلُغَ الْکِتَابُ أَجَلَہ۔ (البقرہ: ۲۳۵)
بعض مترجمین نے مذکورہ ٹکڑے کا ترجمہ کیا: ’’اور عقد نکاح باندھنے کا فیصلہ نہ کرو‘‘ ، یا ’’عقد نکاح کا عزم نہ کرو‘‘۔
دراصل عزم کے ساتھ علی ہوتا تو یہ ترجمہ درست ہوسکتا تھا، لیکن یہاں علی مذکور نہیں ہے، اس لئے ترجمہ ہوگا: ’’عقد نکاح کو پختہ نہ کرو‘‘۔ یعنی نکاح کی گرہ نہ باندھو۔ شاہ عبدالقادر نے یہی ترجمہ کیا ہے: ’’اور نہ باندھو گرہ نکاح کی‘‘۔
(۸) بعض الفاظ انسانوں کے شایان شان ہوتے ہیں ، لیکن اللہ کے لئے ان کا استعمال مناسب نہیں ہوتا ہے:
اسی طرح کا ایک لفظ ’’کاش‘‘ ہے، جس کے لئے عربی میں ’’لو ‘‘آتا ہے۔
لَبِئْسَ مَا شَرَوْاْ بِہِ أَنفُسَہُمْ لَوْ کَانُواْ یَعْلَمُون۔ (البقرہ: ۱۰۲)
وَلَوْ أَنَّہُمْ آمَنُواْ واتَّقَوْا لَمَثُوبَۃٌ مِّنْ عِندِ اللَّہ خَیْْرٌ لَّوْ کَانُواْ یَعْلَمُون۔ (البقرہ:۱۰۳)
وَلَوْ یَرَی الَّذِیْنَ ظَلَمُواْ إِذْ یَرَوْنَ الْعَذَابَ أَنَّ الْقُوَّۃَ لِلّہِ جَمِیْعا۔ (البقرہ: ۱۶۵)
مذکورہ تینوں مقامات اور ان جیسے دیگر مقامات پر بعض مترجمین نے ’’لو‘‘ کا ترجمہ ’’کاش‘‘ سے کیا ہے، ’’کاش‘‘ کا لفظ انسانوں کے لئے تو درست ہے، لیکن اللہ تعالی کے لئے اس لفظ کا استعمال مناسب نہیں ہے، اس کی جگہ (اگر کہیں) کہنا مناسب ہے۔ ’’کاش وہ جانتے‘‘ کے بجائے، ’’اگر کہیں وہ جانتے‘‘۔
(۹) کبھی ایسا ہوتا ہے کہ لفظ کے اندر تو ایک مفہوم کی گنجائش ہوتی ہے لیکن پورے جملہ کا مفہوم لفظ کے اس مفہوم کو اِبا کرتا ہے:
فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْْہِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ کَخَشْیَۃِ اللّٰہِ أَوْ أَشَدَّ خَشْیَۃ۔ (النساء:۷۷)
کچھ مترجمین نے اس کا ترجمہ کیا ہے: ’’اب جو انہیں لڑائی کا حکم دیا گیا تو ان میں سے ایک فریق کا حال یہ ہے کہ لوگوں سے ایسا ڈر رہے ہیں جیسا کہ خدا سے ڈرنا چاہئے، یا اس سے بھی بڑھ کر‘‘۔
اس ترجمہ پر اشکال یہ وارد ہوتا ہے کہ اللہ سے جو ڈر مطلوب ہے کیا اس سے زیادہ کسی اور سے ڈرا جاسکتا ہے، ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے، اللہ تعالی سے جتنا ڈرنا چاہئے اس کی کوئی حد ہی نہیں ہے کہ یہ کہا جا ئے کہ اس سے بھی بڑھ کر۔ یعنی اللہ سے جتنا ڈرنا چاہئے اس سے زیادہ کسی اور چیز سے ڈرا ہی نہیں جاسکتا ہے۔
درست ترجمہ یہ ہے کہ :’’لوگوں سے ایسا ڈر رہے ہیں جیسا خدا سے ڈرتے ہیں یا کچھ اس سے بھی بڑھ کر‘‘۔
(۱۰) قرآن مجید میں ایجاز کے اسلوب کو اختیار کیا گیا ہے، کم الفاظ میں زیادہ مفہوم کی ادائیگی دراصل قرآن مجید کا ایک خوبصورت انداز ہے۔ کبھی اس اسلوب سے مترجم کی نگاہ چوک جاتی ہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُونُواْ قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاء لِلّٰہِ۔ (النساء: ۱۳۵)
متعدد مترجمین اس کا ترجمہ کرتے ہیں : ’’انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو‘‘۔
دراصل اس آیت میں قوامین آیا ہے، اور شہداء آیا ہے، اس کے علاوہ بالقسط آیا ہے جو بیک وقت دونوں سے متعلق ہے، اور لِلّٰہ آیا ہے۔ وہ بھی دونوں سے متعلق ہے۔ اگر عبارت کو کھولا جائے تو یوں ہوگی: کُونُوا قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ لِلّٰہ شُہَدَاءَ بِالْقِسْطِ لِلّٰہِ۔گویا اللہ کی خاطر انصاف کے علم بردار بنو اور اللہ کی خاطر انصاف کے گواہ بنو۔ یعنی دونوں ہی آیتوں میں للہ اور بالقسط دونوں الفاظ قوامین سے بھی متعلق ہیں اور شہداء سے بھی۔ قوامین سے مراد عملی کردار اور شہداء سے مراد قولی شہادت ہے۔ جبکہ مترجمین عام طور سے بالقسط کو صرف قوامین سے جوڑتے ہیں، اور للہ کو صرف شھداء سے متعلق بناتے ہیں۔
درست ترجمہ یوں ہوگا: ’’خدا واسطے انصاف کے علمبردار اور اس کے گواہ بنو‘‘۔
وَلاَ تَقْعُدُوا بِکُلِّ صِرَاطٍ تُوعِدُونَ وَتَصُدُّونَ عَن سَبِیْلِ اللّٰہِ مَنْ آمَنَ بِہِ وَتَبْغُونَہَا عِوَجا۔ (الاعراف: ۸۶)
بعض مترجمین نے ترجمہ اس طرح کیا: ’’اور ہر راستے پر یوں نہ بیٹھو کہ راہگیروں کو ڈراؤ اور اللہ کی راہ سے انہیں روکو جو اس پر ایمان لائے اور اس میں کجی چاہو‘‘۔
درست ترجمہ: ’’اور ہر راستے میں بیٹھ کر جو ایمان لائے انہیں دھمکیاں نہ دو اور اللہ کی راہ سے نہ روکو اس میں کجی کی خواہش کے ساتھ‘‘۔
دراصل ’’من آمن بہ‘‘ دونوں افعال سے متعلق ہے، یعنی وہ دھمکیاں بھی اہل ایمان کو دیتے ہیں اور روکتے بھی اہل ایمان کو ہیں۔
شاہ عبدالقادر کا ترجمہ یوں ہے: ’’اور مت بیٹھو ہر راہ پر ڈر کے، اور روکتے اللہ کی راہ سے، اس کو جو کوئی یقین لاوے اس پر، اور ڈھونڈتے اس میں عیب‘‘۔یہ ترجمہ عمدہ ہے، البتہ اس میں (ڈرکے) لگتا ہے کتابت کی غلطی ہے، ڈراتے ہوگا۔
(۱۱) کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دو افعال آتے ہیں اور اس کے بعد جار مجرور آتا ہے، اور وہ جار مجرور کس فعل سے متعلق ہے یہ طے کرنے میں چوک ہوجاتی ہے، اگر سیاق وسباق پر غور کریں اور نحو کے قواعد کو باریکی سے ملحوظ رکھیں تو درست ترجمہ تک رسائی ہوسکتی ہے:
إِذْ أَنتُم بِالْعُدْوَۃِ الدُّنْیَا وَہُم بِالْعُدْوَۃِ الْقُصْوَی وَالرَّکْبُ أَسْفَلَ مِنکُمْ وَلَوْ تَوَاعَدتَّمْ لاَخْتَلَفْتُمْ فِیْ الْمِیْعَادِ وَلَکِن لِّیَقْضِیَ اللّہُ أَمْراً کَانَ مَفْعُولاً لِّیَہْلِکَ مَنْ ہَلَکَ عَن بَیِّنَۃٍ وَیَحْیَی مَنْ حَیَّ عَن بَیِّنَۃٍ وَإِنَّ اللّہَ لَسَمِیْعٌ عَلِیْم۔ (الانفال: ۴۲)
عام طور سے مترجمین نے آیت کا ترجمہ یوں کیا ہے: ’’تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو، اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے‘‘۔
جبکہ درست ترجمہ یہ ہے:’’تاکہ جو حجت سے (دلیل روشن کی رو سے) ہلاک ہوچکا ہے وہ ہلاک ہوجائے، اور جو حجت سے (دلیل روشن کی رو سے) زندہ رہنے کا مستحق ہے وہ زندہ رہے‘‘۔
یعنی لِّیَہْلِکَ مَنْ ہَلَکَ عَن بَیِّنَۃٍٍ میں عَن بَیِّنَۃٍٍٍ متعلق ہے ہَلَکَ سے نہ کہ لِّیَہْلِکَ سے جیسا کہ عام مترجمین نے لیا ہے۔
اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ عام ترجمہ کے لحاظ سے ’’ھلک‘‘ اور ’’حی‘‘ کی جگہ فعل مضارع یعنی ’’یھلک‘‘ اور ’’یحیی‘‘ آتا۔ موقع ومحل سے بھی عام ترجمہ کی تائید نہیں ہوتی۔ کیونکہ حجت تو جنگ بدر سے پہلے تمام ہوچکی تھی۔ اب تو ہلاکت کے مستحقین کو ہلاکت سے دوچار ہونا تھا۔
(۱۲) ایک مشہور ترجمہ کے بالمقابل کبھی ایک غیر مشہور ترجمہ مفہوم کے لحاظ سے زیادہ مناسب لگتا ہے:
لاَ تُضَآرَّ وَالِدَۃٌ بِوَلَدِہَا وَلاَ مَوْلُودٌ لَّہُ بِوَلَدِہ۔ (البقرہ: ۲۳۳)
اس آیت کا ترجمہ عام طور سے لوگوں نے یہ کیا ہے کہ : ’’نہ تو ماں کو اس وجہ سے تکلیف میں ڈالا جائے کہ بچہ اس کا ہے، اور نہ باپ ہی کو اس وجہ سے تنگ کیا جائے کہ بچہ اس کا ہے‘‘۔
اس آیت کا ترجمہ شاہ عبد القادر نے اس سے بالکل مختلف کیا ہے، : ’’نہ ضرر چاہے ماں اپنی اولاد کا اور نہ لڑکے والا اپنی اولاد کا‘‘۔
بالفاظ دیگر نہ تو ماں ایسا رویہ اختیار کرے کہ اس کے بچے کو نقصان پہنچے اور نہ ہی باپ ایسا رویہ اختیار کرے جو اس کے بچے کے لئے نقصان دہ ہو۔ یہ ترجمہ اس لئے بھی زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ماں باپ میں بچہ کو لے کر جو تنازعات ہوتے ہیں ان کا راست نقصان اصل میں بچہ ہی کو پہنچتا ہے۔ والدین اپنی اپنی انا کے لئے اس قدر شدت اختیار کرلیتے ہیں کہ خود بچہ کا مفاد داؤں پر لگ جاتا ہے۔ بولدہ میں حرف ’’باء‘‘ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔کیونکہ فعل ضار یضار کا صلہ ’’باء ‘‘آتا ہے۔ اگر علت کا مفہوم ہوتا جیسا کہ مذکورہ بالا ترجمہ میں ہے تو اس کے لئے ’’لام‘‘ آتا۔
وَلاَ یُضَآرَّ کَاتِبٌ وَلاَ شَہِیْد۔ (البقرہ: ۲۸۲)
اس ٹکڑے کا ترجمہ عام طور پرمترجمین نے یہ کیا ہے کہ: ’’اور کاتب اور گواہ کو ستایا نہ جائے‘‘۔ اس کا ایک اور ترجمہ ہوسکتا ہے، اور وہ یہ کہ ’’کاتب اور گواہ نقصان نہ پہنچائیں‘‘۔ احمد رضا خاں نے مشہور ترجمہ کے ساتھ اسے بھی ذکر کیا ہے۔ یہ ترجمہ زیادہ مناسب اس وجہ سے ہے کہ کاتب کو نقصان پہنچانے کی کوئی صورت عام طور سے نہیں بنتی، وہ تو قرض کے لین دین کے وقت کتابت کرکے اپنی راہ لیتا ہے، اس وقت کوئی اس سے ناراض بھی نہیں ہوتا ہے کہ اسے نقصان پہنچائے، اس کے برعکس کاتب لکھتے وقت اور شاہد گواہی دیتے وقت فریقین میں سے کسی کوبھی ناحق نقصان پہنچاسکتے ہیں۔
وَالْوَزْنُ یَوْمَئِذٍ الْحَقُّ فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہُ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُون۔ (الاعراف:۸)
عام طور سے مترجمین نے مذکورہ ٹکڑے کا ترجمہ اس طرح کیا: ’’اس دن وزن دار صرف حق ہوگا‘‘۔یا ’’اس دن وزن بر حق اور یقینی ہے‘‘۔ مفہوم اور زبان کے قواعد کی رو سے شاہ عبدالقادر کا ترجمہ درست ہے گو کہ وہ مشہور نہیں ہوسکاکہ : ’’تول اس دن ٹھیک ہے‘‘۔یعنی اس دن صحیح صحیح تولا جائے گا، اور اس میں کوئی غلطی نہیں ہوگی۔
(۱۳) کسی آیت کا یا آیت کے جزء کا ایسا ترجمہ بھی اہل علم کے لیے قابل توجہ ہوسکتا ہے جو مترجمین میں سے کسی نے اب تک اختیار نہیں کیا:
فَکَأَیِّن مِّن قَرْیَۃٍ أَہْلَکْنَاہَا وَہِیَ ظَالِمَۃٌ فَہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلَی عُرُوشِہَا وَبِئْرٍ مُّعَطَّلَۃٍ وَقَصْرٍ مَّشِیْد۔ (الحج: ۴۵)
اس آیت کا ترجمہ طاہر القادری نے یوں کیا ہے: ’’پھر کتنی ہی (ایسی) بستیاں ہیں جنھیں ہم نے ہلاک کرڈالا اس حال میں کہ وہ ظالم تھیں پس وہ اپنی چھتوں پر گری پڑی ہیں، اور (ان کی ہلاکت سے) کتنے کنویں بے کار (ہوگئے) اور کتنے مضبوط محل اجڑے پڑے (ہیں)‘‘ عام طور سے مترجمین نے ایسا ہی ترجمہ کیا ہے۔
اس میں غور طلب حصہ خَاوِیَۃٌ عَلَی عُرُوشِہَا ہے، ’’خَاوِیَۃٌ‘‘ کے اصل معنی ویران اور خالی کے آتے ہیں، لیکن کسی نے بھی اس آیت میں اس کا ترجمہ ویران سے نہیں کیا بلکہ گری ہوئی اور ڈھی ہوئی ترجمہ کیا۔ حالانکہ قَصْرٍ مَّشِیْد سے بھی صاف معلوم ہوتا ہے کہ بہت سارے محل ہیں جو ویران تو ہیں مگر ڈھے اور گرے ہوئے نہیں ہیں۔
غالبا عَلَی عُرُوشِہَا کی وجہ سے مترجمین اس معنی کی طرف گئے، کیونکہ سورہ نمل کی آیت فَتِلْکَ بُیُوتُہُمْ خَاوِیَۃً بِمَا ظَلَمُوا۔ (۵۲) میں ’’خَاوِیَۃً‘‘ کا ترجمہ بہت سارے مترجمین نے خالی ویران اور اجڑے ہوئے کیا ہے۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی حفظہ اللہ نے اس آیت کا ترجمہ یوں کیا ہے:
’’پھر کتنی ہی بستیاں ہیں جنھیں ہم نے ہلاک کرڈالا اس حال میں کہ وہ ظالم تھیں پس وہ اپنی چھتوں کے برقرار رہتے ہوئے ویران پڑی ہیں‘‘۔ خَاوِیَۃً یعنی ویران اور عَلَی عُرُوشِہَا یعنی چھتوں کے ہوتے ہوئے۔
مذکورہ ذیل قرآنی آیتوں میں بھی خَاوِیَۃٌ عَلَی عُرُوشِہَا کااسی طرح کا ترجمہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔
أَوْ کَالَّذِیْ مَرَّ عَلَی قَرْیَۃٍ وَہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلَی عُرُوشِہَا قَالَ أَنَّیَ یُحْیِیْ ہََذِہِ اللّہُ بَعْدَ مَوْتِہَا۔ (البقرہ: ۲۵۹)
وَأُحِیْطَ بِثَمَرِہِ فَأَصْبَحَ یُقَلِّبُ کَفَّیْْہِ عَلَی مَا أَنفَقَ فِیْہَا وَہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلَی عُرُوشِہَا۔ (الکھف:۴۲)
فَتِلْکَ بُیُوتُہُمْ خَاوِیَۃً بِمَا ظَلَمُوا۔ (النمل:۵۲)
(۱۴) لام برائے تعلیل اور لام برائے تبیین کے درمیان اشتباہ:
عربی زبان میں لام کے متعدد استعمالات ہیں ، ان میں سے ایک استعمال علت کا ہے جیسے لِإِیْلَافِ قُرَیْْش قریش کے مانوس کئے جانے کی وجہ سے، اسی طرح ایک اسلوب یہ بھی ہے کہ فعل یا دوسرے مشتقات فعلیہ کے عمل میں زور پیدا کرنے کے لئے (معمول اور خاص طور سے )مفعول بہ پر لام کا اضافہ کردیتے ہیں، اس سے فعل اور مفعول بہ میں تعلق اور گہرا ہوکر ظاہر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر شکرتک اور نصحتک کا مطلب ہے میں نے تمہارا شکر ادا کیا اور میں نے تمہاری خیر خواہی کی۔ اسی کو لام کے اضافہ کے ساتھ شکرت لک (میں نے تمہارا شکریہ ادا کیا)اور نصحت لک بھی کہتے ہیں۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کے مطابق جب نصحت لک کہیں گے تومطلب ہوگا : میں نے عملاً تمہاری خیرخواہی کی، اور جب نصحتک کہیں گے تو ترجمہ ہوگا: میں نے تمہاری خیرخواہی کی بات کہی۔ گویا لام کے اضافے سے خود فعل کے مفہوم میں بھی اس طرح کی تبدیلیاں ہوجاتی ہیں جن سے واقفیت کے لئے عربیت کا ذوق ہونا ضروری ہے۔اس لام کو ابن ہشام نے مغنی اللبیب میں خاص طور سے ذکر کیا ہے اوراسے لام تبیین کا نام دیا ہے۔
قرآن مجید میں اس کی مثالیں بہت ہیں، مثال کے طور پر ذیل کی دو آیتیں ملاحظہ ہوں:
إِنَّ الَّذِیْنَ عِندَ رَبِّکَ لاَ یَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِہِ وَیُسَبِّحُونَہُ وَلَہُ یَسْجُدُون۔ (الاعراف:۲۰۶)
فَإِنِ اسْتَکْبَرُوا فَالَّذِیْنَ عِندَ رَبِّکَ یُسَبِّحُونَ لَہُ بِاللَّیْْلِ وَالنَّہَارِ وَہُمْ لَا یَسْأَمُون۔ (فصلت: ۳۸)
پہلی آیت میں یسبحونہ ہے اور دوسری آیت میں یسبحون لہ ہے۔ دونوں کا مطلب ایک ہے، البتہ ایک جگہ لام کے اضافہ سے زیادہ زور پیدا ہوگیا۔
اس مقام پر مولانا امانت اللہ اصلاحی نے یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ تسبیح استکبار کی ضد ہے جیساکہ مذکورہ آیتوں میں نمایاں ہے، جب بغیرلام کے ہوتو قولی تسبیح مراد ہوگی،اور لام کے ساتھ ہو تو تسبیح کے عملی مظاہر کی طرف اشارہ ہوگا، اسی لیے پہلی آیت میں عملی پہلو کو اجاگر کرنے کے لیے سجود کا ذکر ہے۔
قرآن مجید میں اس اسلوب کا استعمال جگہ جگہ ملتا ہے جیسے:
(۱)ّ فَاذْکُرُونِیْ أَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُواْ لِیْ وَلاَ تَکْفُرُون۔ (البقرۃ :۱۵۲)
واضح رہے کہ شکر کے ساتھ جب لام آتا ہے تو لام اس ذات پر داخل ہوتا ہے جس کا شکریہ ادا کیا جائے اور جس امر پر شکرکیا جائے وہ بطور مفعول ہوتا ہے جیساکہ فرمایا کان سعیہم مشکورا۔ (الاسراء :۱۹) اسی طرح کہتے ہیں شکر اللہ لک سعیک۔
(۲) وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَک۔ (البقرۃ : ۳۰)
(۳) وَأُمْلِیْ لَہُمْ إِنَّ کَیْْدِیْ مَتِیْن۔ (الاعراف : ۱۸۳)
یہ لام کبھی مفعول پر داخل ہوتا ہے جیسا کہ اوپر کی مثالوں میں ہے، اور کبھی مفعول کا تعلق جس سے ہوتا ہے اس کی ضمیر پر داخل کرتے ہیں۔ جیسے ساقطع رقبتک میں تیری گردن کاٹ دوں گا، اور ساقطع لک رقبتک میں تیری گردن کاٹ ڈالوں گا، دونوں کا مفہوم ایک ہے البتہ دوسرے جملے میں مخاطب جس کی گردن کی بات ہورہی ہے اس کی ضمیر لاکر اس پر لام لگا دیا گیا، اور اس طرح کلام میں زورپیدا ہوگیا، یہاں لک کا مطلب تمہارے لئے اگر لیں گے تو ایک مہمل سی بات ہوگی، اس لئے کہ یہاں علت کا محل نہیں بلکہ تاکید کا محل ہے۔ البتہ ایسی صورت میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ اس لام تبیین اور لام تعلیل میں مترجمین فرق نہیں کرتے، اور جہاں لام تبیین وتاکید کے لئے ہے وہاں بھی علت کا ترجمہ کردیا جاتا ہے۔
زیر نظر اسلوب کی کچھ مثالیں ملاحظہ ہوں:
(۱) یُصْلِحْ لَکُمْ أَعْمَالَکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُم۔ (الاحزاب:۷۱)
یہاں مفعول بہ تو اعمال اور ذنوب ہیں لیکن لام تبیین مخاطب کی ضمیر پر داخل کیا ہے ، کہ وہ اعمال اور وہ ذنوب اسی مخاطب سے تعلق رکھتے ہیں۔ بعض مترجمین جیسے فتح محمد جالندھری کا ترجمہ درست ہے:
’’وہ تمہارے اعمال درست کردے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔‘‘
احمد رضا خاں کا ترجمہ ہے:
’’تمہارے اعمال تمہارے لیے سنواردے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔‘‘
مترجم نے پہلا لام تو علت کا مانا مگر دوسرا لام تبیین کا مان لیا۔
طاہر القادری کا ترجمہ ہے:
’’وہ تمہارے لئے تمہارے (سارے) اعمال درست فرما دے گا اور تمہارے گناہ تمہارے لئے بخش دے گا۔ ‘‘
یہاں مترجم نے دونوں کو لام تعلیل مانا ہے۔
(۲) إِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحاً مُّبِیْنا۔ (الفتح :۱)
لام تبیین کے لحاظ سے ترجمہ ہوگا:
’’بے شک ہم نے تم کو ایک کھلی ہوئی فتح عطا کردی۔ ‘‘
جن لوگوں نے لام کو علت مانا ہے وہ ترجمہ کچھ یوں کرتے ہیں:
’’بے شک ہم نے تمہارے لئے کھلی ہوئی فتح عطا کی۔‘‘
(۳) وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِیْ ارْتَضَی لَہُم۔ (النور:۵۵)
فتح محمد جالندھری کا ترجمہ درست ہے:
’’اور ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے مستحکم وپائیدار کرے گا۔‘‘
جبکہ سید مودودی، امین احسن اصلاحی اور دوسرے مترجمین نے لام کو برائے علت مان کر ترجمہ کیا:
’’اْن کے لیے اْن کے اْس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ تعالیٰ نے اْن کے حق میں پسند کیا ہے۔‘‘
(۴) وَأَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِی۔ (الاحقاف:۱۵)
یہاں فتح محمد جالندھری نے لام کو علت مان کر ترجمہ یوں کیا:
’’اور میرے لئے میری اولاد میں صلاح (وتقویٰ) دے۔‘‘
جبکہ محمد جونا گڑھی نے درست ترجمہ کیا:
’’اور تو میری اولادبھی صالح بنا۔‘‘
(۵) یَوْمَئِذٍ لَّا تَنفَعُ الشَّفَاعَۃُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَہُ الرَّحْمَنُ وَرَضِیَ لَہُ قَوْلا۔ (طہ:۱۰۹)
عام طور سے مترجمین نے یہاں علت کا ترجمہ نہیں کیا ہے، احمد رضا خاں نے جو عام طور سے ایسے لام کا ترجمہ علت کے لحاظ سے کرتے ہیں یہاں تبیین کے لحاظ سے ترجمہ کیا ہے:
’’اس دن کسی کی شفاعت کام نہ دے گی، مگر اس کی جسے رحمن نے اذن دے دیا ہے اور اس کی بات پسند فرمائی۔‘‘
جبکہ امین احسن اصلاحی نے یہاں علت کے لحاظ سے ترجمہ کیا ہے:
’’اور جس کے لئے کوئی بات کہنے کو پسند کرے۔‘‘
(۶) قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِی۔ وَیَسِّرْ لِیْ أَمْرِی۔ (طہ:۲۵۔۲۶)
’’عرض کیا : پروردگار، میرا سینہ کھول دے ، اور میرے کام کو میرے لیے آسان کر دے۔‘‘ (سید مودودی : پہلا لام تبیین، دوسرا لام تعلیل)
’’اس نے دعا کی اے میرے رب، میرے سینے کو میرے لئے کھول دے اور میری مہم کو آسان کر۔‘‘ (امین احسن اصلاحی: پہلا لام تعلیل دوسرا لام تبیین)
’’کہا میرے پروردگار میرا سینہ کھول دے، اور میرا کام آسان کردے۔‘‘ (فتح محمد جالندھری: دونوں لام تبیین)
’’عرض کی اے میرے رب میرے لیے میرا سینہ کھول دے، اور میرے لیے میرا کام آسان کر۔‘‘ (احمد رضا خان: دونوں لام تعلیل)
(۷) أَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَک۔اور ورفعنا لک ذکرک۔ (الم نشرح)
ان دونوں آیتوں کے ترجمے میں بھی مترجمین کا ملا جلا رویہ رہا ہے۔
سرسری جائزہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ عام طور سے مترجمین نے اس سلسلے میں کسی ایک استعمال کی پابندی نہیں کی، بلکہ ایک ہی مترجم بسا اوقات ایک ہی سیاق میں کہیں ایک استعمال کو اختیار کرتا ہے تو کہیں دوسرے استعمال کو۔بہر حال صحیح بات یہ ہے کہ مذکورہ تمام مثالوں میں لام برائے تبیین وتوکید ہے نہ کہ برائے تعلیل۔
لام تبیین اور لام تعلیل کے درمیان اشتباہ کا امکان اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ ابن عاشور نے جو قرآنی اسالیب پر اپنے وقت کے امام مانے جاتے ہیں، دوسری کئی آیتوں میں لام تبیین کا ذکر کرتے ہوئے أَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ کا بار بارحوالہ دیا، اور کہا کہ جیسے وہاں لام برائے تبیین ہے ویسے ہی یہاں ہے۔ لیکن جب وہ خود أَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکََ کی تفسیر لکھنے چلے تو وہ سارے حوالے فراموش کردیئے اور کہا کہ یہاں لام برائے تعلیل ہے۔
مذکورہ مثالوں میں لام کو برائے تبیین وتاکید مان لینے کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ ترجمہ میں اس تاکید کا اظہار کیسے کیا جائے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی ایسی تمام مثالوں میں حسب گنجائش فعل کو تاکید کے صیغے میں استعمال کرنے کی تجویز دیتے ہیں، جیسے کیا کے بجائے کردیا، اور کر کے بجائے کردے۔ جیسے وَیَسِّرْ لِیْ أَمْرِی کا ترجمہ: "اور میری مہم کو آسان کر" کے بجائے "اور میری مہم کو آسان کردے" کیا جائے گا۔اسی طرح یُصْلِحْ لَکُمْ أَعْمَالَکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُم۔ (الاحزاب:۷۱) میں فتح محمد جالندھری کا ترجمہ ہے: وہ تمہارے اعمال درست کردے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔جبکہ امین احسن اصلاحی کا ترجمہ ہے: اللہ تمہارے اعمال سدھارے گا اور تمہارے گناہوں کو بخشے گا۔ اول الذکر نے بجا طور پر فعل میں تاکید کا اضافہ کیا ہے۔جبکہ موخرالذکر نے لام کی رعایت کی ہی نہیں نہ بطور تعلیل نہ بطور تاکید۔
(۱۵) لام برائے ظرف اور لام برائے تعلیل کے درمیان اشتباہ:
لام کبھی فی کے معنی میں بھی آتا ہے، موقعہ کے لحاظ سے لام برائے ظرف اور لام برائے علت میں فرق کرنا ہوتا ہے۔
مثال کے طور پرمندرجہ ذیل دو آیتیں ملاحظہ ہوں:
وَلَمَّا جَاء مُوسَی لِمِیْقَاتِنَا۔ (الاعراف:۱۴۳)
اور جب موسی ہماری مقررہ مدت پر حاضر ہوا۔ (امین احسن اصلاحی)
وَاخْتَارَ مُوسَی قَوْمَہُ سَبْعِیْنَ رَجُلاً لِّمِیْقَاتِنَا۔ (الاعراف:۱۵۵)
اور موسی نے اپنی قوم کے ستر آدمی چنے، ہمارے وقت مقرر کے لئے۔ (امین احسن اصلاحی)
دونوں آیتوں میں میقاتنا سے پہلے لام ہے، مگر موقعہ کلام سے معلوم ہورہا ہے کہ پہلی آیت میں لام بمعنی فی ہے، جبکہ دوسری آیت میں لام برائے تعلیل ہے۔اس لام کو بعض لوگ عند کے معنی میں لے کر لام توقیت کا بھی نام دیتے ہیں۔ لام ظرف یا توقیت کے ترجمہ میں ہمیشہ میں (فی) کا آنا ضروری نہیں جیساکہ مثال سے ظاہر ہے۔
مذکورہ لام کے سلسلے میں بھی مترجمین کو کبھی کبھی اشتباہ ہوجاتا ہے اور وہ لام توقیت کو لام برائے علت سمجھ کر ترجمہ کردیتے ہیں۔ کچھ مثالیں یہاں ذکر کی جاتی ہیں:
(۱) أَلَا یَظُنُّ أُولَئِکَ أَنَّہُم مَّبْعُوثُون۔ لِیَوْمٍ عَظِیْمٍ۔ (المطففین :۴۔ ۵)
اس آیت میں بعض مترجمین نے لام کو برائے تعلیل سمجھ کر ترجمہ اس طرح کیا ہے :
کیا ان لوگوں کو گمان نہیں کہ انہیں اٹھنا ہے، ایک عظمت والے دن کے لیے (احمد رضاخان)
کیا انہیں اپنے مرنے کے بعد جی اٹھنے کا خیال نہیں اس عظیم دن کے لئے (محمد جونا گڑھی)
لیکن یہاں لام برائے توقیت ہے۔ درست ترجمہ یوں ہے:
کیا یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ ایک بڑے دن، یہ اٹھا کر لائے جانے والے ہیں؟ (سید مودودی)
(۲) فَجُمِعَ السَّحَرَۃُ لِمِیْقَاتِ یَوْمٍ مَّعْلُومٍ۔ (الشعراء: ۳۸)
تو ساحر ایک معین دن کے مقررہ وقت کے لئے جمع کئے گئے(امین احسن اصلاحی) کے بجائے ، درست ترجمہ یوں ہوگا: تو ساحر ایک معین دن کے مقررہ وقت پر جمع کیے گئے۔ (امانت اللہ اصلاحی)
(۳) یَوْمَ یَجْمَعُکُمْ لِیَوْمِ الْجَمْعِ ذَلِکَ یَوْمُ التَّغَابُنِ۔ (التغابن :۹)
جب وہ اکٹھے کئے جانے کے دن کے لئے تم کو اکٹھا کرے گا (امین احسن اصلاحی) کے بجائے ، درست ترجمہ یوں ہوگا: جب وہ اکٹھے کئے جانے کے دن تم کو اکٹھا کرے گا۔ (حافظ نذر احمد)
(۴) ذَلِکَ یَوْمٌ مَّجْمُوعٌ لَّہُ النَّاس۔ (ہود : ۱۰۳)
وہ ایک ایسا دن ہوگا جس کے لیے سارے ہی لوگ اکٹھے کئے جائیں گے (امین احسن اصلاحی) کے بجائے درست ترجمہ یہ ہے:
وہ ایک ایسا دن ہوگا جس دن سارے ہی لوگ اکٹھے کئے جائیں گے۔ (حافظ نذر احمد)
(۵) لاَ یُجَلِّیْہَا لِوَقْتِہَا إِلاَّ ہُوَ۔ (الاعراف : ۱۸۷)
وہی اس کے وقت پر اس کو ظاہر کرے گا۔ (امین احسن اصلاحی) اس آیت میں میرے علم کی حد تک سارے مترجمین نے لام توقیت کا ترجمہ کیا ہے۔
(۶) إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاء فَطَلِّقُوہُنَّ لِعِدَّتِہِن۔ (الطلاق :۱)
جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو اْنہیں اْن کی عدت کے لیے طلاق دیا کرو۔(سید مودودی) کے بجائے درست ترجمہ ہوگا:جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے وقت پر انہیں طلاق دو۔ (احمد رضا خان)
سرسری جائزہ سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ حافظ نذر احمد کے ترجمہ میں لام بمعنی فی کی تقریبا ہر جگہ رعایت کی گئی ہے۔ باقی ترجموں میں صورتحال یہ ہے کہ کسی مقام پر اس کی رعایت ہوسکی تو کسی مقام پر رعایت نہیں ہوسکی۔
(۷) أَقِمِ الصَّلاَۃَ لِدُلُوکِ الشَّمْسِ إِلَی غَسَقِ اللَّیْْل۔ (الاسراء: ۷۸)
اس آیت کا ترجمہ عام طور سے مترجمین نے اس طرح کیا ہے کہ: نماز قائم کرو زوال آفتاب سے لے کر اندھیرے تک۔ (سید مودودی)
مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہاں بھی لام فی کے ہم معنی ہے، ترجمہ ہوگا: نماز قائم کرو سورج کے ڈھلنے پر (یا زوال آفتاب کے اوقات میں )، شب کے تاریک ہونے تک۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ لام سے کا مفہوم ادا کرنے کے لئے نہیں آتا ہے۔ ابن عاشور لکھتے ہیں:
واللام فی (لِدْلْوکِ الشَّمسِ) لام التوقیت. وھی بمعنی(عند).
(۱۶) باء برائے ملابست اور باء برائے سببیت کے درمیان اشتباہ:
جس طرح لام کے متعدد استعمالات ہیں اسی طرح باء کے بھی کئی استعمالات ہیں، ترجمہ میں ان کی رعایت کرنا ضروری ہے۔ سورۃ الشمس کی مندرجہ ذیل آیت کے ترجمہ کے بارے میں مولانا امانت اللہ اصلاحی کا نقطہ نظر بہت اہم ہے۔
کَذَّبَتْ ثَمُودُ بِطَغْوَاہَا۔ (الشمس:۱۱)
کا ترجمہ کرتے ہوئے عام طور سے مترجمین نے باء کو برائے سببیت مانا ہے اور ترجمہ اس طرح کیا ہے : ثمود نے اپنی سرکشی کی بنا پر جھٹلایا (سید مودودی)۔ بعض لوگوں نے باء استعانت کے لحاظ سے ترجمہ کیا جو یوں ہے: ثمود نے اپنی سرکشی سے جھٹلایا (احمد رضا خان)۔ باء استعانت جیسے کتبت بالقلم، میں نے قلم سے لکھا۔ عربی تفاسیر میں بھی عام طور سے یہی دو اقوال ہیں، بعض نے باء تعدیہ کا قول بھی ذکر کیا ہے۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہاں باء برائے ملابست یا برائے مصاحبت ہے۔ اس کے لحاظ سے ترجمہ ہوگا: ثمود نے سرکشی کرتے ہوئے جھٹلایا، یا جھٹلانے کے ساتھ ساتھ سرکشی دکھائی۔ واضح ہوکہ با برائے ملابست ماننے کی صورت میں آیت کے دونوں معنی ہوسکتے ہیں، تکذیب کے ساتھ سرکشی کی یا سرکشی کے ساتھ تکذیب کی، مگر چونکہ آگے سرکشی کی وضاحت آرہی ہے، اس لیے زیادہ موزوں ترجمہ ہوگا، تکذیب کے ساتھ ساتھ سرکشی کی۔ آگے کی ایک آیت میں فکذبوہ فعقروھا کہا گیا جس میں تکذیب کا بھی ذکر ہوگیا اور سرکشی یعنی عقر ناقہ کا بھی ذکر ہوگیا۔
اس کی نظیر یں قرآن مجید میں بہت واضح طور سے موجود ہیں جیسے:
(۱) یَوْمَ یَدْعُوکُمْ فَتَسْتَجِیْبُونَ بِحَمْدِہ۔ (الاسراء :۵۲)
جس دن وہ تمہیں بلائے گا تو تم اس کی حمد کرتے چلے آؤ گے (احمد رضا خان) جس دن وہ تمہیں بلائے گا تم اس کی تعریف کرتے ہوئے تعمیل ارشاد کرو گے (محمد جونا گڑھی)۔
(۲) وَإِن مِّن شَیْْءٍ إِلاَّ یُسَبِّحُ بِحَمْدَہِ۔ (الاسراء: ۴۴)
کوئی چیز نہیں مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے۔ (فتح محمد جالندھری)
(۳) وَسَبِّحْ بِحَمْدِہِ۔ (الفرقان : ۵۸)
اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو (سید مودودی)
مذکورہ تینوں مثالوں میں عام طور سے مترجمین ومفسرین نے بحمدہ کی باء کو برائے ملابست یا مصاحبت مانا ہے۔ اور اسی لحاظ سے ترجمہ کیا ہے۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ سورۃ الشمس کی آیت مذکورہ میں لوگوں کا ذہن ادھر نہیں گیا، حالانکہ سورہ الشمس والی آیت ٹھیک اسی اسلوب پر آئی ہے۔ سورہ نساء کی آیت نمبر ۱۶۶؍ میں انزلہ بعلمہ میں بھی باء مصاحبت کی ہے، نہ کہ استعانت کی۔ ترجمہ ہوگا: اس نے اس کو اپنے علم کے ساتھ نازل کیا ہے(امین احسن اصلاحی) نہ کہ: اسے اپنے علم سے اتارا ہے۔ (محمد جوناگڑھی)
(۱۷) ثم بالفتح اور ثم بالضم کے درمیان اشتباہ:
ثُمَّ جب ضمہ کے ساتھ ہو تو حرف عطف ہوتا ہے اور اس میں حسب موقع پھر یا بھی یا پھر بھی کا مفہوم ہوتا ہے۔ جبکہ ثَمَّ جب فتحہ کے ساتھ ہو تو اشارہ مکان کے لئے استعمال ہوتا ہے جس کا ترجمہ وہاں سے کیا جاتا ہے۔
ثَمَّ فتحہ کے ساتھ قرآن مجید میں چارمقامات پر آیا ہے، تین مقامات پر تو سبھی مترجمین نے وہاں کا ترجمہ کیا ہے، لیکن چوتھے مقام پر محسوس ہوتا ہے کہ کئی مترجمین کو اشتباہ ہوگیا۔ وہ مقام ہے: مُطَاعٍ ثَمَّ أَمِیْن۔ (التکویر : ۲۱)
اس کا ترجمہ مترجمین نے یوں کیا ہے:
(۱) سردار (اور) امانت دار ہے (فتح محمد جالندھری، ثَمَّ کا ترجمہ نہیں کیا)۔
(۲) (تمام جہانوں کے لئے) واجب الاطاعت ہیں (کیونکہ ان کی اطاعت ہی اللہ کی اطاعت ہے)، امانت دار ہیں (وحی اور زمین و آسمان کے سب اْلوہی رازوں کے حامل ہیں)۔ (طاہر القادری، قابل غور بات یہ ہے کہ غیر ضروری طور پرقوسین کے ذریعہ موصوف اپنے فکری مسلک کی تبلیغ میں ایسا مصروف ہوئے کہ لفظ ثَمَّ کا ترجمہ ہی نہیں کیا)۔
(۳) وہ وہاں قابل اطاعت اور پھر امانت دار ہے (جوادی، ثَمَّ کا ترجمہ دوبار کیا، پہلا صحیح دوسرا غلط)
(۴) جس کی (آسمانوں میں) اطاعت کی جاتی ہے امین ہے (محمد جونا گڑھی، ثَمَّ کا لفظی ترجمہ نہیں کیا،بلکہ قوسین میں اس کی تشریح کی ہے آسمانوں میں کہہ کر)۔
(۵) (وہاں) اس کا حکم مانا جاتا ہے اور پھر وہ امانتدار (بھی) ہے۔ (محمد حسین نجفی، ثَمَّ کا ترجمہ دوبار کیا۔ پہلا قوسین میں جو صحیح ہے، دوسرا متن کے اندر جو غلط ہے)۔
اس کی بات مانی جاتی ہے اور وہ نہایت امین بھی ہے۔ (امین احسن اصلاحی، ثَمَّ کا ترجمہ غلط کیا)۔
آیت مذکورہ پر گفتگو کرتے ہوئے ثَمَّ (زبر کے ساتھ) کے بارے میں صاحب تدبر قرآن لکھتے ہیں: ’’صفت سے پہلے جب یہ آتا ہے تو اس کی عظمت و اہمیت کو نمایاں کرنے کے لئے آتا ہے ، یہاں یہ صفت امین سے پہلے آیا ہے تو اس سے مقصود حضرت جبریل علیہ السلام کی اس صفت کی طرف خاص طور پر توجہ دلانا ہے۔ یعنی مذکورہ صفات کے ساتھ ان کی خاص اہمیت رکھنے والی یا خاص طور پر ذکر کے لائق صفت یہ بھی ہے کہ وہ نہایت امانت دار ہیں‘‘۔ (تدبر قرآن)
صاحب تدبر کا مذکورہ بیان بالکل درست ہے مگر وہ ثَمَّ (زبر کے ساتھ) پر صادق نہیں آتا ہے بلکہ ثُمَّ (پیش کے ساتھ) پر صادق آتا ہے، جبکہ آیت میں اول الذکر استعمال ہوا ہے۔ یہاں ثَمَّ کا ترجمہ وہاں سے کیا جائے گا، البتہ چونکہ ایک صفت کے بعد دوسری صفت بغیر حرف عطف کے آئی ہے، اس کا اظہار ’’اور‘‘ سے بھی کرسکتے ہیں، اور ’’بھی‘‘ سے بھی کرسکتے ہیں۔ درست ترجمہ یوں ہوگا: وہاں اْس کا حکم مانا جاتا ہے، وہ با اعتماد ہے۔ (سید مودودی)وہاں اس کا حکم مانا جاتا ہے، امانت دار ہے۔ (احمد رضا خان) یہاں یہ بھی واضح رہے کہ ثَمَّ کا تعلق بعد کی صفت امین سے نہیں بلکہ سابق صفت مطاع سے ہے۔
(۱۸) خسف بہ الارض کا مطلب:
اگر کوئی جگہ زمین میں اندر جا دھنسے تو کہتے ہیں: خسف المکان، تاہم خسف متعدی بھی استعمال ہوتا ہے اور خسف بہ الارض کا مطلب ہوتا ہے اس کو زمین میں دھنسادیا۔ اس ترکیب میں دو مفعول ہوتے ہیں ایک پر باء لگی ہوتی ہے اور دوسرا منصوب ہوتا ہے، کیونکہ فعل کا اثر دو چیزوں پر ہوتا ہے۔ ایک تو زمین پر کہ اس میں شگاف کیا جائے اور دوسرا اس چیز پر کہ اس کو اس شگاف میں دھنسا کر غائب کردیا جائے۔ فیروزآبادی کے الفاظ میں و(خسف) اللہ بفْلانٍ الارضَ: غیَّبہ فیھا۔ قرآن مجید میں یہ لفظ اسی طرح کی ترکیب کے ساتھ کئی مقامات پر آیا ہے، اور عام طور سے مترجمین نے اسی کے مطابق ترجمہ کیا ہے، جیسے :
(۱) أَفَأَمِنَ الَّذِیْنَ مَکَرُواْ السَّیِّئَاتِ أَن یَخْسِفَ اللّٰہُ بِہِمُ الأَرْض۔ (النحل : ۴۵)
کیا جو لوگ بری بری چالیں چلتے ہیں اس بات سے بے خوف ہیں کہ خدا ان کو زمین میں دھنسا دے۔ (فتح محمد جالندھری)
(۲) فَخَسَفْنَا بِہِ وَبِدَارِہِ الْأَرْض۔ (القصص : ۸۱)
آخر کار ہم نے اسے اور اس کے گھر کو زمین میں دَھنسا دیا۔ (سید مودودی)
البتہ یہاں اور ایسے اکثر مقامات پر صاحب تدبر قرآن نے ایک دوسری راہ نکالی ہے، انہوں نے فعل کے بعد آنے والی باء کو مصاحبت کا مان کرپہلی آیت کا ترجمہ اس طرح کیا: اللہ ان کے سمیت زمین کو دھنسادے۔ اور دوسری آیت کا ترجمہ اس طرح کیا: پس ہم نے اس کے اور اس کے گھر سمیت زمین کو دھنسادیا۔
لیکن صحیح ترجمہ وہی ہے جو عام مترجمین نے اختیار کیا، کیوں کہ خسف کے اس عمل میں زمین نہیں دھنستی ہے، بلکہ زمین پھٹتی ہے اور جو چیز اس میں جاکر سماجاتی ہے وہ دھنستی ہے، زمین تو پھٹنے کے بعد دوبارہ برابر ہوجاتی ہے۔
توجہ طلب بات یہ ہے کہ اسی آیت میں
لَوْلَا أَن مَّنَّ اللّٰہُ عَلَیْْنَا لَخَسَفَ بِنَا۔ (القصص : ۸۲)
کا ترجمہ صاحب تدبر نے عام مترجمین کے طرزپر یوں کیا: اگر اللہ کا ہم پر فضل نہ ہوا ہوتا تو ہمیں بھی دھنسادیتا۔
دیکھنے کی چیز یہ بھی ہے کہ صاحب تدبر نے سورہ سبا آیت نمبر ۹، سورہ اسراء آیت نمبر ۶۸؍ اور سورہ ملک آیت نمبر ۱۶؍ میں ترجمہ عام مترجمین سے ہٹ کر اپنے انداز سے کیا ہے،لیکن سورہ عنکبوت میں
وَمِنْہُم مَّنْ خَسَفْنَا بِہِ الْأَرْض۔ (العنکبوت : ۴۰)
کا ترجمہ کرتے ہوئے عام مترجمین کے اندازکو اختیارکرلیا اور یوں ترجمہ کیا: اور ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسادیا۔
ابن عاشور نے بھی کہیں کہیں یہی راہ اختیار کی ہے:
سورہ ملک والی آیت پر گفتگو کرتے ہوئے باء کو مصاحبت کا بتاتے ہیں:
والباء فی قولہ: (بکم) للمصاحبۃ،أی یخسف الارض مصاحبۃلذواتکم۔
جبکہ سورہ نحل والی آیت میں باء کو برائے تعدیہ قرار دیتے ہیں:
وخسف من باب ضرب. ویستعمل قاصرا ومتعدیا. یقال: خسفت الارض،ویقال: خسف اللہ الارض، قال تعالی: (فَخَسَفنَابِہِ وَبِدَارہ الارضَ) (القصص:۸۱)، ولا یتعدی الی ما زاد علی المفعول الا بحرف التعدیۃ، والاکثر ان یعدی بالباء کما ھنا وقولہ تعالی: (فَخَسَفنَابِہِ وَبِدَارِہ الاَرض)، أی جعلناھا خاسفۃ بہ، فالباء للتعدیۃ، کما یقال: ذھب بہ۔
(۱۹) مھین کا موزوں ترجمہ:
مھین کا لفظ قرآن مجید میں چار مقامات پر آیا ہے۔ اس کا ترجمہ مترجمین کے یہاں کہیں حقیر اور ذلیل جیسے الفاظ سے ملتا ہے اور کہیں معمولی ، بے وقعت اور بے قیمت کے الفاظ سے۔ لغت کے لحاظ سے حقیر اور ذلیل جیسا مفہوم اس لفظ کے اندر نہیں ہے بلکہ معمولی اور بے وقعت ہی درست مفہوم ہے۔ کہا جاسکتا ہے ہے کہ اردو میں حقیر اور ذلیل جیسے الفاظ معمولی اور بے قیمت کے لئے بھی استعمال ہوتے ہیں، لیکن پھر بھی غالب اور عام استعمال کے لحاظ سے دونوں طرح کے لفظوں میں ایک بڑا فرق محسوس ہوتا ہے۔اس فرق کی رعایت ترجمہ میں کرنا ضروری ہے۔ ابن عاشور نے مھین کی توضیح اس طرح کی ہے، والمھین: الشیء الممتھن الذی لایعبأ بہ۔ ایسی بے وقعت چیز جو کسی کی توجہ کی سزاوار نہ بنے۔ یہ بات بھی سامنے رہنا چاہئے کہ عربی میں حقیر اصلا چھوٹے اور معمولی کے ہم معنی ہوتا ہے، جبکہ اردو میں آکر وہ ذلیل سے قریب ہو گیا ہے۔ اسی لئے عربی کی تفسیروں میں جہاں مھین کا مفہوم حقیر سے بیان کیا گیا ہے تو وہاں معمولی اور بے قیمت کا مفہوم ہے، وہ آیتیں جن میں مھین کا لفظ آیا ہے حسب ذیل ہیں:
(۱) ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہُ مِن سُلَالَۃٍ مِّن مَّاء مَّہِیْنٍ۔ (السجدۃ : ۸)
پھر اْس کی نسل ایک ایسے ست سے چلائی جو حقیر پانی کی طرح کا ہے (سید مودودی)
پھر اس کی نسل ایک بے وقعت پانی کے نچوڑ سے چلائی (محمد جوناگڑھی)
(۲) أَلَمْ نَخْلُقکُّم مِّن مَّاء مَّہِیْن۔ (المرسلات : ۲۰)
کیا ہم نے تمہیں حقیر پانی سے پیدا نہیں کیا (محمد جوناگڑھی)
کیا ہم نے تمہیں ایک بے قدر پانی سے پیدا نہ فرمایا (احمد رضاخان)
کیا ہم نے تمہیں ایک ذلیل پانی سے نہیں پیدا کیا (احمد علی)
مذکورہ دونوں آیتوں میں اس پانی کا ذکر ہے جس سے انسان کی تخلیق کی گئی ہے، ظاہر ہے یہاں اس پانی کی تذلیل و تحقیر مقصود نہیں ہے، بلکہ مقصود یہ ہے کہ وہ معمولی اور بے قیمت ہے۔ انسان جسے اللہ نے تکریم سے نوازا ہے، اور اس کی بہترین تخلیق کی ہے، اس کی تخلیق کا مادہ ذلیل وحقیر کیسے ہوسکتا ہے۔
(۳) أَمْ أَنَا خَیْْرٌ مِّنْ ہَذَا الَّذِیْ ہُوَ مَہِیْنٌ وَلَا یَکَادُ یُبِیْن۔ (الزخرف : ۵۲)
یا میں بہتر ہوں اس سے کہ ذلیل ہے اور بات صاف کرتا معلوم نہیں ہوتا (احمد رضا خان)
بلکہ میں بہتر ہوں بہ نسبت اس کے جو بے توقیر ہے اور صاف بول بھی نہیں سکتا (محمد جونا گڑھی)
یہاں بھی فرعون کو یہ بتانا ہے کہ موسیٰ ایک عام سے آدمی ہیں، جن کے پاس کچھ نہیں ہے۔ ذلیل کا محل یہاں بھی نہیں ہے۔
(۴) وَلَا تُطِعْ کُلَّ حَلَّافٍ مَّہِیْن۔ (القلم : ۱۰)
ہرگز نہ دبو کسی ایسے شخص سے جو بہت قسمیں کھانے والا بے وقعت آدمی ہے (سید مودودی)
اور کسی ایسے شخص کے کہے میں نہ آجانا جو بہت قسمیں کھانے والا ذلیل اوقات ہے (فتح محمد جالندھری)
اور ہر ایسے کی بات نہ سننا جو بڑا قسمیں کھانے والا ذلیل (احمد رضا خان)
مذکورہ آیت میں بھی اس شخص کے بے وقعت ہونے کا ذکر ہے، جسے اپنی بات کی تصدیق کے لئے بار بار قسمیں کھانے کی ضرورت پڑتی ہے۔
(۲۰) نکرہ کی معنویت کا اظہار:
ایک لفظ کے معرفہ والے پہلو اور اس کے بالمقابل ایک دوسرے لفظ کے نکرہ والے پہلو کو اجاگر کرنا بھی مترجم کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ کیونکہ معانی کے کچھ گوہر آبدار اس پہلو میں بھی نہاں ہوتے ہیں۔ذیل کی مثال سے یہ بات واضح ہوتی ہے:
إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْراً۔ (الم نشرح :۶)
اس کا ترجمہ یوں کیا گیا ہے:
ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ (امین احسن اصلاحی)
تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے(سید مودودی)
مولانا امانت اللہ اصلاحی نے آیت کا ترجمہ اس طرح بتایا: ہر دشواری کے ساتھ کوئی نہ کوئی آسانی ہے۔ اس طرح العسر معرفہ کے ساتھ یسر کو نکرہ ذکر کرنے کی معنویت نمایاں ہوجاتی ہے، العسر کو معرفہ ذکر کرکے تمام دشواریوں کا احاطہ کیا تو یسر کو نکرہ ذکر کرکے دشواریوں سے نکلنے کے لامتناہی امکانات کی طرف اشارہ کردیا۔
(۲۱) باء بمعنی عن:
قرآن مجید میں قیامت کے موقع پر آسمان کے پھٹ پڑنے کا ذکر کیا گیا ہے، اس کے لیے انفطار کا نیز انشقاق اور تشقق کافعل استعمال کیا گیا ہے۔ انفطار اور انشقاق دونوں کا مطلب پھٹ جانا ہے۔ اور اگر کسی چیز کے پھٹ جانے کے بعد اس کے اندر سے کوئی چیز ظاہر ہو تو اس پر عن لگاتے ہیں۔ جیسے زمین سے کونپل نکلتی ہے تو اس کے لیے کہتے ہیں: انفطرت الارض عن النبات اور انشقت الارض عن النبات، یعنی زمین نے پھٹ کر پودے کو ظاہر کردیا۔ قرآن مجید میں فعل تشقق کا عن کے ساتھ استعمال اسی مفہوم کو بیان کرتا ہے، قرآن کی ایک آیت ہے:
یَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْہُمْ سِرَاعاً ذَلِکَ حَشْرٌ عَلَیْْنَا یَسِیْرٌ۔ (ق : 44)
اس دن زمین ان پر سے پھٹ جائے گی اور وہ جھٹ پٹ نکل کھڑے ہوں گے۔(فتح محمد جالندھری)
عن سے جو مذکورہ مفہوم ادا ہوتا ہے اسے کبھی باء کے ذریعہ بھی ادا کیا جاتا ہے۔ جیسے انفطرت الارض بالنبات اور انشقت الارض بالنبات۔ البتہ مولانا امانت اللہ اصلاحی کے مطابق دونوں میں یہ فرق ہے کہ جس پر عن داخل ہو اس میں صرف نمودار ہونے کا مفہوم ہوتا ہے، جبکہ باء کے استعمال سے اس کے نکل کر باہر آجانے کا مفہوم پیدا ہوجاتا ہے۔ لیکن لوگوں کا ذہن ایسے موقع پر عن والے مفہوم کے بجائے باء برائے سببیت کی طرف چلا جاتا ہے، یا کسی اور طرف۔
مثال (۱)
فَکَیْْفَ تَتَّقُونَ إِن کَفَرْتُمْ یَوْماً یَجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیْباً۔ السَّمَاء مُنفَطِرٌ بِہِ کَانَ وَعْدُہُ مَفْعُولاً۔ (المزمل:17 ۔ 18)
اگر تم ماننے سے انکار کرو گے تو اْس دن کیسے بچ جاؤ گے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا ، اور جس کی سختی سے آسمان پھٹا جا رہا ہوگا؟ اللہ کا وعدہ تو پورا ہو کر ہی رہنا ہے۔ (سید مودودی)
آسمان اس کے صدمے سے پھٹ جائے گا۔ (احمد رضا خان)
آسمان اس کے بوجھ سے پھٹا پڑ رہا ہے۔ (امین احسن اصلاحی)
(اور) جس سے آسمان پھٹ جائے گا۔(فتح محمدجالندھری)
آسمان پھٹ جائے گا اس دن میں۔ (محمود حسن)
مولانا امانت اللہ اصلاحی نے آیت کا ترجمہ اس طرح کیا: آسمان پھٹ کر اس کو ظاہر کرنے والا ہے۔ مطلب واضح ہے کہ آسمان پھٹے گا اور اس میں سے قیامت کے مناظر ظاہر ہوجائیں گے، جس طرح زمین میں شگاف ہوتا ہے اور پودا اس میں سے ظاہر ہوجاتا ہے۔ اس مفہوم کو سمجھنے میں ذیل کی آیت بھی مدد کرتی ہے۔
یَسْأَلُونَکَ عَنِ السَّاعَۃِ أَیَّانَ مُرْسَاہَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِندَ رَبِّیْ لاَ یُجَلِّیْہَا لِوَقْتِہَا إِلاَّ ہُوَ ثَقُلَتْ فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ لاَ تَأْتِیْکُمْ إِلاَّ بَغْتَۃ۔ (الاعراف:187)
وہ تم سے قیامت کے باب میں سوال کرتے ہیں کہ اس کا وقوع کب ہوگا؟ کہہ دو کہ اس کا علم تو بس میرے رب ہی کے پاس ہے وہی اس کے وقت پر اس کو ظاہر کرے گا۔ آسمان وزمین اس سے بوجھل ہیں، وہ تم پر بس اچانک ہی آدھمکے گی۔( امین احسن اصلاحی)
مثال (۲)
وَیَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَاءُ بِالْغَمَامِ۔ (الفرقان : 25)
اس آیت میں بھی باء عن کے معنی میں ہے، مگر مترجمین نے مختلف دوسری توجیہات اختیار کی ہیں:
اور جس دن کہ آسمان ایک بدلی کے ساتھ پھٹے گا۔ (امین احسن اصلاحی ، یہاں باء برائے ملابست کے لحاظ سے ترجمہ کیا گیا ہے۔)
اور جس دن پھٹ جائے گا آسمان بادلوں سے۔ (احمد رضا خان، یہاں باء برائے سببیت کے لحاظ سے ترجمہ کیا گیا ہے۔)
اور اس دن آسمان پھٹ کر بادل (کی طرح دھوئیں) میں بدل جائے گا۔ (طاہر القادری، غور طلب ہے، نہ جانے کس قاعدہ کی رو سے کیا گیا۔)
اور جس دن آسمان بادل سمیت پھٹ جائے گا۔ (محمدجوناگڑھی، یہاں بھی باء برائے ملابست کے لحاظ سے ترجمہ کیا گیا ہے، جسے بعض مفسرین نے اختیار کیا ہے، لیکن مترجم کے برعکس ان کے پیش نظر یہ تھا کہ اس وقت ایک خاص بادل کی موجودگی میں آسمان پھٹے گا، نہ یہ کہ آسمان کے ساتھ ساتھ بادل بھی پھٹ جائے گا، جیسا کہ ترجمہ سے ظاہر ہوتا ہے۔)
اس آیت میں باء کو عن کے معنی میں لیں گے تو ترجمہ یہ ہوگا کہ ’’اور جس دن آسمان پھٹ جائے گا اور اس میں سے ایک بادل نمودار ہوگا‘‘، سید مودودی کا ترجمہ اسی تاویل کے مطابق ہے:
آسمان کو چیرتا ہوا ایک بادل اس روز نمودار ہو گا۔
اسی طرح اشرف علی تھانوی کا بھی : اور جس روز آسمان ایک بدلی پر سے پھٹ جائے گا۔
اس مفہوم کو سمجھنے کے لئے ذیل کی آیت سے مدد لی جاسکتی ہے:
ہَلْ یَنظُرُونَ إِلاَّ أَن یَأْتِیَہُمُ اللّہُ فِیْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلآئِکَۃ۔ (البقرۃ:210)
کیا لوگوں کو اس بات کا انتظار ہے کہ ان کے پاس خود اللہ تعالیٰ ابر کے سائبانوں میں آجائے اور فرشتے بھی۔(محمد جونا گڑھی)
زمخشری کے الفاظ میں:
والمعنی: أن السماء تنفتح بغمام یخرج منہا، وفی الغمام الملائکۃ ینزلون وفی أیدیہم صحائف أعمال العباد۔۔۔ وفی معناہ قولہ تعالی ہَلْ یَنظُرُونَ إِلاَّ أَن یَأْتِیَہُمُ اللّہُ فِیْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلآئِکَۃ۔ (تفسیرالکشاف: 3 / 275)
(جاری)
تہذیب مغرب: فلسفہ و نتائج (۱)
محمد انور عباسی
تمہید:
انسان کا مطالعہ اہم سہی لیکن مغرب کے انسان کا مطالعہ اس لحاظ سے زیادہ اہم ہے کہ چند صدیاں قبل کا مغربی انسان آج کے اس انسان سے یکسر مختلف ہے۔ اس کے فلسفہِ حیات نے اسے ایسا فرد Human being) ) بنا کر ہمارے سامنے لا کھڑا کیا ہے جس کی پیروی کی خواہش آج کل دنیا کے اکثر انسانوں کے دلوں میں خواب بن کر تڑپ رہی ہے، یہ سمجھے بغیر کہ مغرب کا انسان کس طرح سے آزاد ہے، اس کی زندگی کا فلسفہ کیا ہے اور اس کے نتائج کیا ہیں؟ لبرل ازم نے اس کے رویّوں میں کیا تبدیلی پیدا کردی ہے اور اس کی سمت کیا ہے؟
ہم مسلمانوں کے لیے یہ مطالعہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہمارے پاس اپنا ایک فلسفہ ہے ۔ اس کے باوجود اب ایک فیشن سا ہو چلا ہے کہ ہر چمکتی ہوئی چیز کو سونا سمجھ کر ہم اس کی طرف لپک کر پکڑنابہت بڑی کامیابی سمجھتے ہیں۔ سترھویں صدی کی تحریکِ تنویر یعنی روشن خیالی کی تحریک کے بعدمغربی انسان نے کیا حاصل کیا اور کیا گنوا بیٹھا، اس کی آگاہی ہمارے لیے بہت ضروری ہے تا کہ ایک باشعور شخص سوچ سمجھ کر اپنے لیے جو راستہ اختیار کرنا چاہے وہ چن لے۔
انسانی زندگی کا کوئی بھی پہلو ہو اس کا تعلق انسان کے فلسفہِ حیات سے لازماًجڑتا ہے چاہے اسے اس کا شعور ہو یا نہ ہو۔ انسان کا تصورِکائنات کیا ہے؟ اس کی اپنی حیثیت کیا ہے؟ وہ کہاں سے آیا ہے ، کیوں آیا ہے اور کہاں جا رہا ہے؟ ان ہی سوالات کے جوابات نے انسان کی عملی زندگی کی تشکیل کی ہے۔ بالعموم اس کا تجزیہ نہیں کیا جاتا۔ عام آدمی سے پوچھیں تو شاید وہ ان میں سے کسی ایک کا بھی جواب نہ دے سکے لیکن اس کے شب و روز کا اگر مطالعہ کیا جائے تو اس کے ہر فعل، ہر رویّے،ہر سوچ و فکر کے پیچھے ان ہی سوالات کی عملی صورت نظر آئے گی۔
سترھویں صدی سے قبل کی مغربی دنیا پر چرچ کا اقتدارتھا۔ مسیحی مذہب جیسا تیسا بھی تھا، خاصا توانا و طاقتور تھا۔ لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ مذہب کی یہ مسخ شدہ صورت انتہائی جمود و تعطل کا سبب بھی تھی اور نتیجہ بھی۔یہ دنیا ایک مکروہ چہرہ لیے ہوئی تھی۔ راہبوں کے مسکن بدمعاشی اور عیاشی کے اڈے بن گئے تھے۔ انتہائی نا معقول عقائد کلچر کا رنگ دھار چکے تھے۔ جنت کے ٹکٹ اور مغفرت کے سر ٹیفکیٹ جاری کرنا مذہبی قیادت کے اختیار میں تھا۔کھلی چھٹی تھی کہ معاشرے کے صاحبِ اختیار اور کھاتے پیتے لوگ ہر قسم کی کرپشن، لوٹ مار اور بدمعاشی کر کے مذہبی قیادت سے لین دین کر کے پاک صاف بن سکیں۔ ان حالات میں ایک بغاوت کا رونما ہونا ایک فطری امر تھا، اور یہ بغاوت روشن خیالی (Enlightenment)کی تحریک کی صورت میں سامنے آ گئی۔ فلاسفر، سائنسدان، عمرانی علوم کے ماہر سب ہی میدان میں آ گئے۔
اس تحریک کے علمبرداروں نے لبرل ازم اور ماڈرن ازم کی بنیاد رکھی۔ دعویٰ کیا گیا کہ حقیقت وہی ہو سکتی ہے جس کا مشاہدہ کیا جاسکے۔ ان دلائل کے بل بوتے پر مذہب کے مقابلے میں ایک اورجدید مذہب سامنے لایا گیاجسے ہم ہیومنزم (Humanism)کے نام سے جانتے ہیں۔ اب مافوق الفطرت عقائدکی کوئی حیثیت رہی نہ ضرورت۔ مادّہ ہی اس کائنات کی سب سے اعلیٰ و ارفع حقیقت قرار پائی۔جان لاک سے روسو تک، آدم سمتھ سے مارشل، فرائیڈمین، کینز اور کارل مارکس تک، سر فرانسس بیکن سے آئین سٹائین اور ڈارون سے آج تک کے تمام فلاسفہ، سائنسدان اور علومِ عمرانی کے ماہرین و مفکرین نے کچھ اتفاق سا کر لیا ہے کہ فلسفہِ مادّیت سے جان چھڑانا کچھ آسان کام نہیں، اگرچہ اب مغرب سے ہی ان کے دانشور اب کچھ اور ہی کہانیاں بیان کر رہے ہیں۔
دلیل کا دور (Age of Reason):
سترھویں صدی میں یورپ میں روشن خیالی (Enlightenment)کی تحریک کے عہد کو دلیل کا دور کہا جاتا ہے۔ اس دور میں قدامت پسند تصورات پر جنہیں کلیسا کی سرپرستی حاصل تھی سوالات اٹھائے گئے۔ سولھویں صدی کے ابتدائی نصف عشرے میں پروٹسٹنٹ تحریک کے آغاز اور اس کے بعد ہونے والی مذہبی جنگوں کے نتیجے میں ۱۶۴۸ ء میں معاہدہِ ویسٹ فیلیا عمل میں لایا گیا جس میں ریاست اور کلیسا کی علیحدگی پر اتفاق ہوا اور یورپ میں سیکولر نظام کی داغ بیل پڑی اور یہ مغربی تہذیب کا غالب تہذیبی و ثقافتی نظریہ بن گیا۔ (۱)
روشن خیالی کی یہ تحریک نیوٹن اور جان لاک سے لے کر والٹیر اور روسو کے نظریات پر مبنی فلسفے سے غذا حاصل کر کے پروان چڑھی۔ چنانچہ اٹھارویں صدی کو روشن خیالی کی صدی کہا گیا۔ اسے ذہنی پختگی کے دور سے بھی عبارت کیا گیا جو انسانی یقین کی صورت میں اس طور سامنے آئی کہ عقل ہی انسانیت کے لیے حق کی پہچان قرار پائی اور ّ ّّّ "عالمگیر سچائی" کی تلاش اور دریافت کا سبب بھی۔ روشن خیالی کی تحریک عقل کو مذہب کے متبادل کے طور پر مغرب میں سامنے لانے کے لیے اس لیے کامیاب ہوئی کہ اس کے سامنے لایعنی عقائد او ر عقل دشمن تصورات پر مبنی مذہب بر سرِ کارتھا۔ جدید مذہب آزادی اور مساوات کے دلکش نعروں کے ساتھ سامنے آیا۔یورپ سے باہر ہم لوگوں کی اکثریت اب بھی یہ سمجھتی ہے کہ ہر انسان کو یہ حقوق حاصل تھے۔ مگر حقیقت یہ نہیں ہے ۔
حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔یہ حقوق صرف یورپی اقوام اور وہ بھی صرف مرد حضرات کو ہی حاصل تھے۔ اس موضوع پر لکھنے والی ایک مشہور ہستی کے الفاظ میں:
"The seeming paradox at the heart of Liberalism, which asserted equality and liberty for all yet maintained a rigorous inequality in relation to certain groups, should be understood in terms of the particular meanings given these words. Equality and liberty (from intervention by government) refer to human beings capable of reason. Only they can be granted the status of belonging to the universal human. Only they are to be regarded as autonomous persons, as individuals, and therefore able to be granted public rights and freedoms. Those who are deemed outside reason -that is, the 'uncivilised' or those closer to nature and therefore more animal-like- are not quite Human, and thus not capable of receiving these rights and freedoms." (2)
یعنی لبرل ازم جس نے آزادی اور مساوات کا نعرہ دیا، حیرت انگیز طور پر خلافِ قیاس بڑی سختی سے چند گروپوں کے لیے غیر مساوی رویّہ اپنانے پر مصر رہی۔ مساوات اور آزادی جیسی نعمت، بتایا گیاکہ، ان لوگوں کے لیے ہی ہو سکتی ہے جو استدلال کی قوت رکھتے ہوں۔ صرف وہی اس رتبے پر فائز ہو سکتے ہیں اور انسانی اور عوامی حقوق کے مستحق ہو سکتے ہیں۔ ان کے علاوہ غیر مہذب لوگ یا وہ لوگ جو فطرت کے زیادہ قریب ہیں (یعنی یورپی نہیں) اس لیے جانوروں جیسے ہی ہیں در اصل ہیومن ہیں ہی نہیں اس لیے وہ آزادی اور اس طرح کے دوسرے حقوق حاصل کرنے کے اہل ہی نہیں! یورپی اقوام میں بھی صرف مرد حضرات، عورتیں بھی ان حقوق سے محروم تھیں!! غالباً ان ہی وجوہ کی بنا پر پوسٹ ماڈرن مفکرین نے ماڈرن ازم اور ہیومن ازم کی تحریک یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ یہ در اصل یورپی اقوام کے کلچر کو دنیا پرحکمرانی کی تحریک ہے جس سے آزادی اور مساوات جیسی اقدارکو آڑ بنایا گیا ہے۔
یہ تھا جدید مذہب جو روشن خیالی(Enlightenment) کی تحریک نے لبرل ازم اور ماڈرن ازم کے خوش کن نعروں سے مزین ہو کر ہیومن ازم کے نام سے سامنے آیا۔
ہیومن ازم (Humanism):
مغربی تہذیب کے اصل معماریونانی فلاسفہ بالعموم ہیومن ازم کے داعی تھے۔ جدید مغرب میں جب مذہب کو رد کرنے کا عام رجحان پیدا ہوا تو اس فلسفے کو نئی زندگی ملی اور اس نعرے کو ہر دلعزیز بنایا گیا کہ ایک انسان کسی خاص مذہب،خدا یا کسی بھی ما فوق الفطری نظریات کا ترک کر کے اپنے موجودہ معاشرے کو ایک انسان کی حیثیت سے دیکھے اور دوسروں کو محض اسی حیثیت سے پرکھے اور ان سے سلوک ،تعلق یا معاملہ کرے۔ان دیکھے نظریات اور رہنمائی کے تصورات کو ایک طرف رکھ کر عالمی سچائی، اخلاقی اقدار وغیرہ کو عقل و منطق کے ذریعے دریافت کرے اور یوں مذہب کے متبادل کے طور پر عقل کے ذریعے ایک جدید قابلِ عمل اخلاقی نظام کے تحت زندگی بسر کرنے کے لیے ہیومن ازم کے نام سے نیا فلسفہ وجود میں آیا۔
جیک گراسبی (Jack Grassby) لکھتا ہے:
"Humanist start from the premise that there are no accessible gods, spirits or non-material 'souls'. There are no supernatural beings to instruct or inform us. There is no transcendent entity, religious or ideological, that we can turn to for comfort, validation or support".(3)
یعنی ہیومن ازم کے پیروکاروں کا بنیادی مقدمہ ہی یہ ہے کہ یہاں کوئی قابلِ رسائی خدا، روح یا غیر مادّی ہستی نہیں۔یہاں کوئی مافوق الفطرت وجود نہیں جو ہمیں ہدایت دے سکے یا کوئی اطلاع ہی بہم پہنچا سکے اور نہ کوئی ایسی بالاتر ہستی، مذہبی یا نظریاتی، پائی جاتی ہے جس سے ہم کسی قسم کی تسکین پا سکیں یا کوئی جواز یا حمایت ہی حاصل کر سکیں۔ اس کی ایک اور تعریف ہمیں ان الفاظ میں ملتی ہے:
"Humanism is a secular alternative to religion in our quest for a good, moral life. It is a view of life which does not count upon any God, religion or life after death. (Thomas W. Clork (1993): Humanism and Post-modernism; a Reconciliation.)
یعنی ہیومن ازم ایک اچھی اور اخلاقی زندگی کی تلاش میں مذہب کی جگہ لینے والا اس کا متبادل سیکولر طرزِ زندگی ہے ۔ یہ ایک مکمل فلسفہِ حیات ہے جو کسی خدا، مذہب یا موت کے بعد کسی زندگی کا قائل ہے نہ ان پر انحصار کرتا ہے ۔اس مذہب میں ہمارے وجود کا مقصداعلیٰ اخلاقی اقدار کے تحت زندگی گزارنا نہیں بلکہ مادّی وجود کے ہیجان انگیز احساسات کی بھوک مٹانا ہے۔ ایک اور مفکر Dean Koontz کے مطابق
"The sole purpose of existence is to open oneself to sensation and to satisfy all appetites as they arise. No values can be attached to pure sensation.... No consideration of good or bad, right or wrong with no fear but only our fortitude." (Intensity: Pp. 142, 317)
ہمارے وجود کا واحد مقصد اس کے ہیجان انگیز احساسات اور بھوک کی تسکین ہے۔ اس سعی میں کسی اخلاقی قدر کو کوئی اہمیت نہیں دی جائے گی نہ کسی نیک و بد یا صحیح یا غلط کا خیال کیا جائے گا۔
اس نئے مذہب نے جس عملی نظام کی بنیاد رکھی اس کو جدیدیت (Modernism) کے نام سے موسوم کیا گیا۔
جدیدیت (Modernism):
جدیدیت کی مختصر تعریف بل کراؤزاس طرح کرتا ہے:
"Modernism is synonymous with the humanist philosophy of the Enlightenment which began in the 17th Century, and ended with the fall of communism. In its very basic summation it was a movement that was optimistic about discovering universal truth that would explain all of life." (4)
یعنی جدیدیت روشن خیالی تحریک کے ہیومن ازم کے فلسفے کے ہم معنی ہے جو سترھویں صدی میں شروع ہوئی اور کمیون ازم کے زوال کے ساتھ ہی اختتام کو پہنچی۔اپنے بنیادی فلسفے کے اعتبار سے مختصراً کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک ایسی تحریک تھی جو زندگی کے ہر پہلو کی وضاحت اور عالمگیر سچائی کی دریافت کے لیے پر امید تھی۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ جدیدیت لبرل ازم کا عملی پرتو تھی جس کا مقصد ماضی سے نجات، حالات سے مفاہمت، نئے پن کا جنون اور مذہب کا خاتمہ تھا۔ جدید انسان ہی اصل لبرل کہلانے کا مستحق بنا۔
معروف محقق و دانشور مرزا محمد الیاس لکھتے ہیں:
’’جدیدیت کی اس تحریک کا سب سے پہلا شکار چرچ تھا۔ اس تحریک نے انسان کے اعتقادی رویوں کو مسترد کر دیا ۔ خدا کی نفی کردی اور اچھائی و برائی، نیکی و بدی کی جنگ کو مضحکہ خیز قرار دے دیا۔ چرچ کے علم سے فاصلوں نے اس تحریک کو زیادہ اہمیت دی۔ زمین کا سورج کے گرد گھومنا چرچ کو منظور نہ تھا لیکن جدیدیت نے اسے سچ ثابت کر دیا۔ یہ کام اس کی فکری ماں سائنس نے کیا۔ استدلال کی بنیاد سائنسی تجربہ تھا۔ سائنسی تجربے کی بات قبول نہ کرنے والے کو جدیدیت کا دشمن قرار دیا گیا۔ اس تحریک کے راہنماؤں کا موقف تھا کہ ہر بات اور ہر رویہ، ہر مظہر اور واقعہ سائنس کے دیے استدلال سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ روایت، رواج، تاریخ، فنِ لطیفہ ہر کچھ اور سب کچھ استدلال کا محتاج ہے۔ استدلال ان کو ثابت کر دے تو درست، اگر استدلال ان کو غلط کہہ دے تو یہ غلط ہوں گے۔ جدیدیت کا سب سے بڑا نعرہ یہ تھا کہ وہ ایک بہتر اور اچھا معاشرہ بنا سکتی ہے۔ یہ معاشرہ کس طرح سے بنے گا؟ اس کی بنیاد ۱۸ویں صدی کی روشن خیالی تھی۔ اس روشن خیال ذہن کو ہی اس قابل سمجھا گیا کہ وہ سچائی کو پا سکے۔‘‘ (۵)
اسی طرح ایک مغربی دانشور نے لکھا کہ:
"Modernism denies any spiritual nature of mankind. Man has set himself and his material desires above all else, including God."
یعنی جدیدیت انسان کے روحانی وجود کو یکسر مسترد کرتی ہے۔ جدید انسان نے اپنے آپ اور اپنی مادّی خواہشات کو خدا سمیت ہر شے سے بالاتر سمجھ لیا ہے۔ اس دور کے مروجّہ مذہب عیسائیت اور جدیدیت با قاعدہ ٹھن گئی۔ اس کی تفصیل کرتے ہوئے عالمی شہرت یافتہ برطانوی مورّخ کیرن آرمسٹرانگ اپنی کتاب Battle for God میں لکھتی ہیں:
’’ ڈارون کی کتاب Origin کی اشاعت مذہب اور سائنس کے درمیان ایک ابتدائی نوعیت کی جھڑپ کا سبب بنی، تاہم پہلے حملے مذہبی لوگوں نے نہیں بلکہ زیادہ جارحیت پسند سیکولر لوگوں نے کئے تھے۔ انگلینڈ میں تھامس ہکسلے (۱۸۲۵۔۱۸۹۵) اور بقیہ یورپ میں کارل ووگٹ (۱۸۱۷۔۱۹۱۹) اور ارنسٹ ہیکل (۱۸۳۴۔۱۹۱۹) نے دوسرے شہروں میں جا جا کر اور بڑے بڑے اجتماعات سے خطاب کر کر کے ڈارون کے نظریے کو مقبول کیا، یہ ثابت کرنے کے لیے کہ سائنس اور مذہب کو تو ایک دوسرے سے الگ کیا ہی نہیں جا سکتا ۔ درحقیقت وہ مذہب کے خلاف ایک صلیبی جنگ (crusade) کی تبلیغ کر رہے تھے۔
ہکسلے کو واضح طور پر اس امر کا احساس تھا کہ وہ ایک جنگ میں شریک ہے۔ اس نے زور دے کر کہا کہ عقل کو سچ کی واحد کسوٹی ہونے کے مسئلے پر مصالحت بالکل نہیں ہو سکتی۔ ’نامعلوم عرصے پر محیط کشمکش کے بعد کسی ایک کو مٹنا ہو گا۔‘ ہکسلے کے نزدیک سائنسی عقلیت پسندی ایک نیا سیکولر مذہب تھا۔ یہ تبدیلیِ مذہب (conversion) اور کامل وابستگی کا تقاضا کرتا ہے کہ ’عقلی معاملات میں کسی بھی فکرسے دوچار ہوئے بغیراپنی عقل کی پیروی کرو۔‘ ہکسلے کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی راستہ ہی نہیں تھا۔ صرف عقل ہی سچی تھی اور مذہب کی اساطیر سچ سے عاری تھیں۔یہ قدامت پسندانہ دور کی اساطیری پابندیوں سے آزادی کا آخری اعلامیہ تھا۔ اب عقل کسی اعلیٰ دربار کے تابع نہیں رہی تھی۔ اخلاقیات اس کو پابند نہیں کر سکتی تھی بلکہ اسے تو اس کو’کسی اور شے کی پروا کیے بغیر‘ اختتام تک جانے کی تحریک دینا تھی۔
انگلستان کے علاوہ باقی یورپ سے تعلق رکھنے والے یہ صلیبی جنگجو مذہب کے خلاف اپنی جنگ میں مزید آگے چلے گئے۔ لڈوگ بکنر(Ludwig Buchner) نے ایک بہت سخت کتاب Force and Matter لکھی جس کی (اور تو اور) خود ہکسلے نے بھی مذمت کی۔ بکنرنے کہا کہ کائنات کا کوئی مقصد نہیں ہے، دنیا کی ہر شے کا محرک محض ایک خلیہ ہوتا ہے اور محض کوئی احمق ہی خدا کو مان سکتا ہے۔‘‘ (ص: ۱۴۸۔۱۴۹)
جدیدیت اس دعوے کے ساتھ میدان میں اتری تھی کہ استدلال سے دریافت کردہ صداقتوں سے انسان کی زندگی بہتر ہوگی۔ اس کو ہر طرح کی غلامی سے نجات مل جائے گی جس میں سب سے بڑی مذہب کی غلامی ہے جو انسانوں کے دل و دماغ کو اپنے شکنجے میں کس لیتی ہے۔ مرزا محمد الیاس’ جدیدیت کا مقصد‘ کے عنوان کے تحت رقمطراز ہیں:
’’جدیدیت کا سب سے بڑا نعرہ یہ تھا کہ وہ ایک بہتر اور اچھا معاشرہ بنا سکتی ہے۔ اس تک پہنچنے کے لیے علم اور استدلال کی ضرورت سمجھی گئی۔ یہ ایک سائنسی عمل جس سے مزید علم حاصل ہوتا تھا، استدلال کی قوت سے بدعنوان مذہبی اور سیاسی تصورات سے نجات مل سکتی ہے او ر تعلیم سے سچائی مل سکتی ہے۔ کہاگیا کہ تعلیم ہمارے ذہن کو روشن کرتی اور اچھا آدمی بناتی ہے۔ تعلیم یافتہ اور روشن خیال لوگ نئے معاشرے کی بنیادیں استوار کرتے ہیں‘‘ (ہفت روزہ آئین ، اشاعت خاص، سوئم، ص:۲۸)
یہ اچھا معاشرہ کس طرح وجود میں آیا اور جدیدیت نے کس طرح اس کی تشکیل میں حصہ لیا، ہم ان دو نمایاں اور ممتاز میدانوں میں اس کا جائزہ لیں گے جس میں جدیدیت نے خصوصی توجہ دی جو اس کے عقائد کا لازمی نتیجہ تھے ۔ یہ دو میدان سیاسی اور جنسی تھے۔ سیاسی میدان میں سیکولرزم اور جنسی میدان میں نسوانیت کی تحریک(Feminism) تھی۔ مغربی تہذیب کی تعمیر و تشکیل میں ان کا جو نتیجہ سامنے آیا یا آرہا ہے اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔
سیکولرزم (Secularism):
روشن خیالی کی تحریک کے زیرِ اثر ہیومن ازم کے عملی نظامِ جدیدیت نے جب فرد کی مکمل آزادی اور عقلیت پسندی کا اعلان کیا تو اس کے سامنے اپنے معاشرے میں ایک ہی مذہب عیسائیت بر سرِ اقتدار تھا۔ اس مذہب میں بد عنوانی تو خیر آ ہی چکی تھی مگر اس کی تعلیمات (چرچ کو اس کا حصہ دو اور قیصر کو اس کا حصہ) میں عملاًسیکولرنظام کی بنیادیں پائی جاتی تھیں۔
سیکولرزم کی تعریف و تفہیم میں خاصا تنوع یا کنفیوژن پایا جاتا ہے۔ اس میں مذہب کی تکریم سے لے کر مذہب کی توہین تک کے سبھی قسم کے نظریات مل جاتے ہیں۔ اگر معاملے کو انتہائی سادہ لیں تو بعض دانشور ہمیں یہ تک بتا سکتے ہیں کہ مذہب کی اپنی بھلائی اور اس کی تکریم کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسے ریاستی امور کی ’’گندگی‘‘ سے بچا کر الگ رکھا جائے، سنبھال کرکسی اونچی جگہ بڑی عزت کے ساتھ رکھ کراسے انسان کی پرائیویٹ اور ذاتی زندگی تک محدود رکھا جائے۔ وہ جس طرح کے چاہے عقائد بنائے، بگاڑے، اسے اس کی مکمل آزادی ہولیکن ریاستی امور میں اسے کسی قسم کی مداخلت کی ہرگز اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ان کے نزدیک یہ تصور لا دینیت نہیں بلکہ مذہب کا حقیقی مقصدہی یہی ہے اور بہترین ’’مذہبی‘‘ رویّہ ہے۔ بعض کا اس سے بڑھ کر دعویٰ یہ ہے کہ مذہب کو ریاستی امور سے دور رکھ کر ہی مغرب نے موجودہ ترقی کی ہے لہٰذا یہی نسخہ تمام اقوام و ملل کے لیے یکساں مفید ہے۔
بعض مغربی دانشور یہ یقین دلاتے ہیں کہ سیکولرزم مذہب کے خلاف ہرگز نہیں۔ Graeme Smith نے اپنی کتاب A short History of Secularism میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ برطانیہ کے سیکولر نظام میں لوگ زبردست ’’مذہبی‘‘ ہیں۔ مصنف ۲۰۰۱ ء کے حکومتی سروے کو سامنے لا کر ارشاد فرماتے ہیں کہ شمال مشرقی و مغربی انگلینڈ میں ۸۰ فیصد لوگوں نے اپنے عیسائی ہونے کا اعلان کیا ہے اور صرف پانچ فیصد افراد غیر مذہبی پائے گئے ۔(ص: ۱۔۲) مصنف کے نزدیک سیکولرزم کا لازمی مطلب عیسائیت کا خاتمہ نہیں ۔ غالباً اس کی وجہ عیسائیت کے بارے میں ان کا اپنا حقیقت پسنداہ یہ تجزیہ رہا ہو کہ:
"Christian identity is fluid because it changes whenever it enters a new context. Christian's history demonstrates this point repeatedly." (p.10)
یعنی عیسائیت کی شناخت سیّال اور تغیّر پذیر واقع ہوئی ہے کیونکہ جب بھی اسے نئے حالات سے سابقہ پڑا اس نے اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھال لیا۔ عیسائیت کی پوری تاریخ نے متعدد بار اس بات کی شہادت دی ہے۔
جب مغربی معاشرے میں ان کے مروّجہ مذہب کی صحیح شناخت ہی یہی ہوتو سیکولرزم کو اس سے یا اس کو سیکولرزم سے کیا خطرہ ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت میں تو بلا شبہ ایک فردسیکولر ہونے کے ساتھ ساتھ ’’زبردست مذہبی‘‘ بھی ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ذہنی ساخت (Mindset) کے حامل افراد سیکولرزم کو مذہب کے خلاف نہیں سمجھتے اور بسا اوقات یہ دعویٰ کرتے رہتے ہیں کہ سیکولرزم کا مطلب لا دینیت قطعاً نہیں ہے۔ مسلم معاشرے کے سیکولر دانشور بالخصوص اسی طرح کے خیالات رکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس نظام میں افراد کو اس کی مکمل آزادی ہوتی ہے کہ اپنے اپنے مذہب پر عمل کرتے رہیں۔ لہٰذا اس صورتِ حال میں اسے مذہب دشمن یا لادینیت نہیں کہا جا سکتا۔سیکولر ’’مسلمانوں‘‘ کے خیالات کو ایک طرف رکھتے ہوئے جب ہم اصل اور بنیادی مآخذ کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ہمیں ایک دوسری ہی حقیقت ملتی ہے۔ بریان ٹرنر (Bryan S. Turner) کے الفاظ میں ’’ سیکولرائزیشن نفسِ انسانی کے متعلق اُن نہایت ہی روایتی تصورات کا ترکیبی جزو ہے، جو نفس کو اس کے بے ساختہ جوابی عمل سے پہچانتے ہیں ،جس کی وجہ سے انفرادیت پسندی اور ذاتی رویّوں نے ایک واضح سماجی رجحان اختیار کر لیا ہے جن کا محور مذہبی فکر سے نفرت اور اس سے مکمل آزادی ہے۔‘‘ (۶)
جی ہاں! مذہبی فکر سے نفرت اوراس سے مکمل آزادی۔ ابتدائی مرحلے میں ریاستی امور سے بے دخلی کے بعد مذہب کس حیثیت میں کتنے عرصے تک یہ ’’آزادی‘‘ برقرار رکھ سکے گا، یہ سمجھنا شاید اب کچھ مشکل نہیں ہونا چاہیے۔جس خدا کی حاکمیت اجتماعی معاملات میں ناقابلِ قبول ہو اس کی حاکمیت انفرادی میں معاملات کیوں کر قبول کی جا سکتی ہے۔ انسان چونکہ ناقابلِ تقسیم وحدت ہے اس لیے یہ متضاد رویّہ زیادہ عرصے تک معقول انسان نہیں سنبھال سکتا۔ انسان مختلف اور متضاد خانوں میں اپنے آپ کو نہیں بانٹ سکتا، وہ ایک کُل ہے۔ وہ اگر ایک سیکولر ہے تو اس کے مطابق ہی اپنی زندگی ڈھالے گا۔ اس کے لیے ضروری ہو گا کہ مذہبی عقائداور نظریات سے جان چھڑائے کیونکہ بقول طارق جان ’’مذہب کو زندہ رہنے کے لیے لازم ہے کہ وہ پہاڑوں اور غاروں سے اترے اور زندگی کے بہاؤ میں آئے۔ سیکولرزم کو زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ مذہب پہاڑوں پر اور مزاروں اور خانقاہوں میں ہی رہے، تا کہ وہ اپنی من مانی کرتے ہوئے انسانی آورشوں کو ان کے اخلاقی اور روحانی متن سے محروم کر دے۔‘‘ (۷)
وکی پیڈیا کے مضمون نگار کے مطابق سیکولرزم حکومتی اداروں اور نمائندوں کا مذہبی اداروں سے مکمل علیحدگی کا نام ہے۔ اس میں مذہبی احکامات و تعلیمات سے آزاد ہونے کے حق پر زور دیا جاتا ہے۔ جدیدیت کے ابتدائی ایام میں جب ہولی اوک (George Jacob Holyoak) نے برطانیہ میں اس نظریے کی بنیاد رکھی تو اس نے اپنا ہاتھ ذرا نرم رکھا۔ اس نے مذہبی عقائد کو چھیڑے اور تنقید کئے بغیر سیکولرزم پیش کیا۔ اس نے کہا کہ یہ عیسائیت کے خلاف نہیں بلکہ الگ سے ایک آزاد فکر ہے۔ اس کو اس بات کا احساس تھا کہ اس نظریے میں بنیادی طور پر مذہب مخالف رجحان پایا جاتا تھا تب ہی تو اس کو وضاحت کی ضرورت محسوس ہوئی۔لیکن جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ سیکولرزم کی اپنی بقا کے لیے یہ ضروری تھا کہ مذہب کی جگہ لے لے اور عین منطقی نتیجے کے طور پر ایک وقت آیا جب یہ مذہب کے خلاف نفرت کا اعلان کرنے لگا، حتی کہ ۱۹۶۱ ء میں Gabriel Vahanian نے ایک کتاب شائع کی جس کا عنوان تھا God is Dead، جس میں کہا گیا کہ جدید سیکولر کلچر میں خدا کی راہنمائی کا تصور ہی غائب اور عملاً ہماری زندگی سے مذہبی اخلاقیات خارج ہو چکی ہیں۔ ایسے غیر متعلق وجود کو اگر مُردہ نہ سمجھیں تو کیا کہیں۔ ایسی مافوق الافطر ت ہستی جوہماری زندگی کے معاملات کے لیے نہ تو کوئی راہنمائی دے سکے بلکہ جس کے وجود کو ہم سائنسی انداز میں سمجھ ہی نہ سکیں وہ اگر عملاً لاتعلق ہی ہے تو اس کی زندگی بہرحال ہمارے لیے کوئی فائدہ نہیں دے سکتی۔
ان ہی ایام میں امریکہ میںDeath of God Movement خداکی موت کی تحریک نمودار ہوئی۔ وان بیوران (Paul Van Buranاور ہیملٹن(William Hamilton) نے ’’تحقیق‘‘ پیش کی کہ ایک ماورائی وجود (Transcendence) کے لیے جدید فکر میں کوئی بامعنی جگہ نہیں مل سکتی ۔J.J. Atlizer، جو خدا کی موت کی تحریک کا ایک بڑا موید تھا، نے دعویٰ کیاکہ مذہب ایک قسم کی شاعری ہے جسے خدا کے وجود کی بنیاد بنایا گیا ہے۔ جدیدیت کے عہد میں سیکولرزم کے زمانہِ طفولیت یں کچھ نہ کچھ پردہ تھا، جومابعد جدیدیت (Post Modernism)میں سیکولرزم کا نظریہ بلوغت کی منزلیں طے کر کے ایک تناور درخت بن کر نمودار ہو چکاتھا۔ ڈیونڈ رینڈ (David Rand)جو کینیڈا کی Quebec Secular Movement کے رکن ہیں، اپنے ایک مضمونDoes Secularism imply Religious neutrality? میں لکھتے ہیں کہ لوگوں نے مذہب کے معاملے میں سیکولرزم کی غیر جانبداری کا غلط مفہوم سمجھ رکھا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ:
"However, the Secular State must not remain neutral in the operation of its institutions. Indeed, it must reject any and all supernatural or pseudo scientific hypothesis, as well as all religious dogmas."
یعنی ایک سیکولر ریاست کو اداروں کے معاملات میں غیر جانبدار نہیں ہونا چاہیے۔ یقیناًاسے تمام مافوق الفطرت یا مصنوعی سائنسی مفروضوں اور تمام مذہبی اصول و قوانین کو رد کر دینا چاہیے۔ ایساکیوں کرنا ضروری ہے؟ اس کی دو وجوہات بتاتے ہیں۔ اولاً یہ کہ:
"Without that orientation, how could one justify the exclusion of religious principles from the operations of the state."
یعنی اس واضح سمت کو اپنائے بغیر مذہبی اصولوں کو ریاستی معاملات سے کیسے خارج کیا جاسکتا ہے؟ دوسرے الفاظ میں یہ پہلے سے طے کر لیا گیا ہے کہ مذہب کو بہرحال باہر رکھنا ہی ہے تواس کے لیے جواز یا فلسفہ پیدا کردینا کون سا مشکل کام ہے۔ دوسری وجہ کہ ریاست کو مذہب مخالف کیوں ہونا چاہیے، یہ صاحب ہمیں بتاتے ہیں کہ:
"Without its anti-religious aspect Secularism would inevitably be truncated and weekend." (8)
یعنی اگرریاست مذہب مخالف رویّہ نہ اپنائے گی تو سیکولرزم لازمی طور پر کمزور ہو کر ختم ہو جائے گا۔ جدیدیت میں اگر انسان لبرل کہلوانے کے شوق میں عقل کو مذہب کے خلاف استعمال کر کے کوئی معقول فلسفہ سامنے لاتا تو ایک بات بھی تھی۔ لیکن یہا ں تو یہ ہو رہا ہے کہ مذہب کو ریاست بدری کے احکامات اس لیے نہیں جاری کرنا پڑ رہے کہ سیکولرزم کو ئی مضبوط بنیادیں رکھتا ہے بلکہ ایک کمزور فلسفے کو اس لیے ریاست کے سہارے کی ضرورت ہے ، نہ صرف محض سہارے کی ضرورت ہے بلکہ اس کی بھی ضرورت ہے کہ ریاست مذہب خلاف رویّہ اپنائے تاکہ ایک فلسفہ ناتواں ہو کر گر نہ پڑے۔ اگر ایسا نہیں ہو گا تو ظاہر ہے کہ اس کا مطلب سیکولرزم کو ختم کرنا ہو گا۔
سیکولرزم کی اس حقیقت کے باوجود بعض ’’مسلم سیکولر‘‘ حضرات کا یہ ارشاد کہ سیکولرزم لا دینیت نہیں ہے، محض ان کا مخمصہ ہی ہو سکتا ہے۔ ان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ مغربی معاشرے کے تجربے کو مسلم معاشرے میں فٹ کرنا چاہتے ہیں۔ مغرب کے سامنے اسلام نہیں، عیسائیت کا تجربہ تھا جس کایہ دعویٰ ہی نہیں تھا کہ زندگی کے مختلف شعبوں وہ راہنمائی دیتا ہے۔ وہ اگر چند انفرادی عقائد ہی تک ہی محدود ہے توایک حد تک اس کی سمجھ آسکتی ہے۔ لیکن ایسا دین (نظامِ زندگی) جو عقائد سے اوپر اٹھ کر ان کا تعلق زندگی کے دیگر شعبوں تک محیط کرنا چاہے، اپنی شناخت اور وفا کا محور ایک بر تر ہستی سے جوڑدے اور باقی سب سے بیزار کر دے وہ انفرادی سطح تک کس طرح محدود ہونا پسند کرے گا۔ ایک مذہب اگر چند مذہبی رسوم ادا کر کے ان کا تعلق انسانی معاشرتی و معاشی زندگی سے منسلک کرتا ہے نہ کوئی راہنمائی دیتا ہے، اس کا ان ہی رسوم کی ادائیگی تک محدود ہو کر انفرادی مسئلہ بن جانا فطری اور منطقی نتیجہ ہے، لیکن اگر وہ ان رسومات کو وسعت دے کر معاشرتی و معاشی زندگی تک پھیلاتا ہے تو سیکولر حضرات کو بجا طور پر حیرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ پکار اٹھتے ہیں کہ:
قَالُوا یَا شُعَیْبُ أَصلَاتُکَ تَأمُرُکَ أَنْ نَتْرُکَ مَا یَعْبُدُ آبَا ؤُنَا أَوْ أَنْ نَفْعَلَ فِی أَمْوَا لِنَا مَا نَشَاءُ اِنَّکَ لَأَنْتَ الْحَلِیمُ الرَّشِیْدُ ۔ (سورہ ہود، آیت ۸۷)
وہ اس شخص (حضرت شعیبؑ ) کو بڑی حیرت سے دیکھ کر پوچھتے ہیں کہ بھئی تم تو بڑے معقول شخص لگتے ہو، تمہاری نماز وغیرہ ہمیں زندگی کے دوسرے معاملات ، مثلاً کہ ہم معاشی زندگی کس طرح بسر کریں، میں کس طرح مداخلت کر سکتی ہے۔ سیکولر ذہن کوئی جدید ذہن نہیں، یہ ہر دور کے مادّہ پرست ذہن کا مخمصہ رہا ہے۔حضرت شعیبؑ کی قوم کو بھی یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ مذہب کے کسی عقیدے یا کسی رسم وغیرہ کا انسانی زندگی سے کیا تعلق ہو سکتا ہے۔وہ بھلے جس طرح کا انفرادی عقیدہ رکھے، جس طرح کی مذہبی رسومات چاہے ادا کرے، لیکن ان عقائد اور رسومات کا معاشی یا معاشرتی زندگی سے کیا تعلق ہو سکتا ہے۔ ہزارہا سال گزرنے کے باوجود یہ مخمصہ آج بھی قائم ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ آج اس نظریے یا مخمصے کو فلسفے و منطق کی زبان کا سہارا مل گیا ہے۔ ہر دور میں اس کا مشورہ یہی رہا ہے کہ خالقِ کائنات، اگر کوئی ہے، تو اسے انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں راہنمائی کرنے ، اجتماعی معاملات میں مداخلت کرنے کا کوئی حق نہیں، لہٰذا اسے ان معاملات سے دور رکھو۔ تم کمرے کے اندر یا مسجد یا چرچ جا کر اپنے اپنے طریقوں سے مذہبی رسومات، نماز وغیرہ ادا کرنا چاہتے ہو تو بھلے یہ کام کرتے رہو، باقی اجتمائی معاملات کو چند لوگوں کی سوچ اور سمجھ پر چھوڑ دو۔
اس نامعقول رویے کے متعلق ایک برطانوی دانشور لکھتے ہیں:
’’انسانی تفہیم کو د و چیزیں محدود کرتی ہیں، ایک تو مخصوص تربیت کی کمی یا کسی مخصوص علم سے ناواقفیت اور دوسرا کسی موضوع کو گرفت میں لانے کی عملی استعداد۔۔۔ کسی سچائی کو نہ سمجھ پانے میں ہماری قلت استعداد کا دخل بھی ہو سکتا ہے لیکن ہم یہ تسلیم نہیں کرتے اور یہ فرض کر لیتے ہیں کہ جو کچھ ہماری سمجھ سے باہر ہے، وہ بیکارِ ہے یا وجود ہی نہیں رکھتا۔ یہ رویہ قدیم اقوام کے علامتی نظریات اور دینی کتابوں دونوں کے بارے میں آج کل روارکھاجاتاہے۔‘‘(Gai Eaton: King of the Castle; p.123)
حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی اصطلاح کو اپنے ماحول اور پس منظر سے کاٹ کرالگ کرکے کسی دوسرے معاشرے، ماحول اور پس منظر میں منطبق کریں گے تو اس اصطلاح کے ساتھ انصاف کریں گے نہ اس معاشرے کے ساتھ جس میں ہم اس کا اطلاق چاہتے ہیں۔ سیکولرزم اپنے دعوے کے مطابق ایسا نظامِ زندگی ہے جس میں انسان نامی مخلوق کو زندگی بسر کرنے کے لیے کسی مافوق الفطرت ہستی، مذہب یا اخلاقیات وغیرہ کی ضرورت نہیں۔ اس کی پہلی وجہ اس کے نزدیک تو یہ ہے کہ اس بات کا کوئی عقلی یا سائنسی ثبوت نہیں ہے کہ کسی بالاتر ہستی نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ یہ مادّے ہی کی ترقی یافتہ شکل ہے جو ارتقاء کی نتیجہ ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے انسان اس قابل ہے کہ وہ اپنی عقل استعمال کر کے اپنے بارے میں خیر اور شر کے پیمانے وضع کر سکتا ہے، اس کے ذریعے اپنے اجتماعی مفاد اور فائدے کے لیے بہتر فیصلے کرنے کی استعداد رکھتا ہے۔ اس کے نزدیک زندگی اسی دنیا تک محدودہے، کسی دوسری دنیا یا زندگی کا کوئی سائنسی ثبوت نہیں ۔ یہ اس زندگی کے ساتھ نا انصافی ہو گی اگر اس کو کسی دوسری دنیا میں جوابدہی کے خوف سے ڈر ڈر کر بسر کیا جائے اور کھل کر من مانی کے مواقع ضائع کر دیے جائیں۔
اس بحث کو سمیٹتے ہوئے ہم طارق جان کے چند سوالات قارئین کرام کے سامنے رکھ دیتے ہیں:
۱۔ سیکولرزم کو کس نے یہ حق دیا کہ وہ ایک مسلمان معاشرے میں انسانی معاملات کو اپنی جکڑ میں لے؟
۲۔ وہ کیوں خود تو ریاستی امور کو کنٹرول کرنے اور مذہب کو سیاست سے باہر رکھے، جبکہ مذہب بھی یہ دعویٰ رکھتا ہو کہ وہ انسانی مسائل کہ بہتر طریقے سے حل کر سکتا ہے؟
۳۔ عقل کا وہ کون سا پیمانہ جس سے سیکولرزم کو حق دیا جا سکتا ہے کہ وہ خود تو کلیت پسند بن جائے اور خدا اور اخلاقیات کوانسانی دائرہِ کارسے بے دخل کر کے اپنے آپ کو واحد سچائی قرار دے؟ (۹)
حوالہ جات
۱۔ ڈاکٹر مونس احمر: جنگ سنڈے میگزین، ۲۰ جنوری ۲۰۱۳ء
2- Prof. Christine C. Beakley: Modernist Emancipatory Feminism; (p. 30)
3- Jack Grassby: Post-Modern Humanism; (p. 16)
4- Bill Crouse: Post Modernism - a new paradigm.
۵۔ہفت روزہ آئین، جون ۲۰۰۵ء، (ص ۲۷ا۔۲۸)
6- Bryan S. Turner: Orientalism,Post-Modernism and Globalism,1994 (p,183)
۷۔ طارق جان: سیکولرزم؛ مباحث اور مظالطے، (ص۔۲۴)
۸۔
۹۔ طارق جان: (ص ۱۰۴۔۱۰۵)
(جاری)
مولانا ابو الحسن علی ندویؒ : ایک ملی مفکر (۱)
محمد طارق ایوبی
مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ تو نہ مر جائے
کہ زندگی ہی عبارت ہے تیرے جینے سے
مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی جس وقت اس دار فانی سے رحلت ہوئی تو یہ ایک عام تأثر پایا گیا کہ ملت اسلامیہ ایک عظیم، جرأت مند وبے باک اور دینی غیرت و ایمانی حمیت سے سرشار و مخلص اورحق گو داعی سے محروم ہوگئی ہے اور بالخصوص ہندوستان کی ملت اسلامیہ یتیم ہو کر رہ گئی ہے۔ میری ناقص نظر میں مولانا اس سلسلہ میں یکتا تھے کہ ایک طرف اخلاص کی دولت سے مالا مال، ملی تڑپ ان کے سینہ میں موجزن، علم و مطالعہ سے ان کی زندگی عبارت، سلوک و تزکیہ میں کندن بنی شخصیت،وسیع نظر اور بیش قیمت تجربات کا سرمایہ ان کے پاس تھا۔ دینی غیرت اور ایمانی حمیت آپ کا سرمایۂ افتخار تھی، خم ٹھونک کر حق کا اظہار آپ کا طرۂ امتیاز تھا۔ مولانا کی پوری زندگی کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا ؒ نے ہمیشہ مذہبی مفاد، دین کی بالا دستی، ملی مفاد اور حق گوئی کو اپنا شعار بنایا اور کبھی بھی اس میں کسی فرد وادارے یا شہرت و جاہ طلبی اور ادنیٰ درجہ کی مادیت پسندی یااور کوئی مصلحت حائل نہ ہوئی۔ درحقیقت مولانا کے اخلاص و استغناء میں ہی ان کی جرأت و حق گوئی کا راز مضمر ہے۔ جامعیت کے ساتھ خانقاہ و مدرسہ، ملی مسائل و عصری جامعات اور علمی و تصنیفی میدان کو اپنی دعوتی سر گرمیوں کی جولانگاہ بنایا۔ وفات کے بعد جوں جوں وقت گزرتا گیا، مذکورہ بالا شعر (جو خود مولاناؒ نے ایک جگہ ذکر کیا ہے) اپنی معنویت کا احساس دلانے لگا، کہ وہ بے لوثی، وہ اضطراب و تڑپ، وہ اخلاص اور فکرو عمل جس سے مولانا کی زندگی عبارت تھی ،ان کی زندگی اسی زندہ دلی کا سحر انگیز نتیجہ تھی، اب وہ زند دلی ہی نہیں نظر آتی تو مولاناؒ جیسا بلند کردار، ان کے جیسی جرأت گفتار، ملی مسائل پر تڑپ جانے اور تڑپادینے کا وصف اور وسیع القلبی و و سیع النظری کہاں نظر آئے۔
اب تک مفکر اسلامؒ کے متعلق بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور مختلف زبانوں میں لکھا گیا ہے۔ ان کے منہج تنقید پر اور ان کے ادبی نظریہ پر عربی میں ایم ، فل و پی، ایچ ،ڈی کے مقالے لکھے گئے۔ عبدالقادر چوغلے (ساؤتھ افریقہ) کی دو ضخیم کتابیں انگریزی میں شائع ہو چکی ہیں۔ اس لئے زیر نظر سطور میں قطعی نہ ہی مولانا کی مکمل سوانح پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور نہ ہی آپ کی جملہ علمی فتوحات اور کارہائے نمایاں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔۔ اس سطور میں ایک خاص داعیہ کی بنیاد پر چند کتابوں سے مولاناؒ کی تڑپ ،بے پناہ اخلاص،بے لوثی ، عملی پیش رفت ،دینی حمیت و غیرت ایمانی کے واقعات اور جرأت مندانہ اقدامات اور منہج نقد و اصلاح کو پیش کرنے کے لیے اقتباسات پیش کیے گئے ہیں جس میں صاف طور پر مولانا کی شخصیت ایک حق گو مومن ومفکر کے طور پر نظر آئے گی۔ بالخصوص مولانا کی خود نوشت سوانح ’’کاروان زندگی‘‘ سے اقتباسات پیش کیے گئے ہیں، کیونکہ اس میں مولانا کی زندگی کا خلاصہ اور ان کی مبارک مساعی کا عطر موجود ہے۔ مولانا نے خود اپنی ترجمانی کی ہے، اس لیے وہ بنیادی مصدر ہے۔ ہر اہم سفر، کتاب و خطاب کا اس میں خلاصہ ہے۔ آپ کی سیکڑوں کتابوں کے بجائے اس دور میں صرف’’ کاروان زندگی‘‘ کی ضخیم جلدوں کا مطالعہ بھی مشکل ہوتا ہے۔ اور پھر مولانا کے فکر کو سمجھنے کے لیے آپ کی عربی تحریروں تک رسائی ضروری ہے، کیونکہ آپ کی علمی جولانیوں اور دعو تی سر گرمیوں کا اصل میدان عرب اور حقیقی وسیلہ عربی ہے۔
اس دور میں جبکہ زندہ دلی مفقود ہوئی جاتی ہے، ہر تحریک اور عمل کسی مفاد سے وابستہ ہوا جاتا ہے۔ اخلاص و بے لوثی ناپید ہوئی جاتی ہے، جاہ ومنصب کی طلب اور مادیت پسندی سے کوئی خالی نظر نہیں آتا۔ حق گوئی و بیباکی اور جرأت مندانہ تنقید برائے اصلاح سے بھی اعراض کیا جاتا ہے۔ اس صورت حال میں کوشش کی گئی کہ حضرت مولاناؒ کی زندگی کے ان تابناک پہلووں کو ’’کاروان زندگی‘‘ کی روشنی میں پیش کیاجائے۔ ’’کاروان زندگی‘‘ میں اجمالی طور پر مصنف ؒ کے تمام افکار و خیالات اور احساسات کا اجمالی طور پر در آنا ایک فطری بات ہے۔ حیرت کی انتہائی نہ رہی جب دوران مطالعہ خود حضرت مولانا کے قلم سے یہی بات لکھی دیکھی :
’’ اس تصنیف کا محرک یہ خیال تھا کہ اپنے فکری شعور ،ذہنی ارتقاء، تحریروتصنیف کی تاریخ،اور اپنے زمانہ کے اہم واقعات وحوادث اور دعوتوں اور تحریکوں کا ذ کر کرنے کے سلسلہ میں اپنے ان خیالات وافکار ،مشاہدات و تاثرات اور دعوت و تحریک کو (اجمالاًو اختصاراً سہی) اور اپنی تحریرو ں اور کتابو ں کے مرکزی نقطۂ خیال اور ان کے اہم اقتباسات کو پیش کرنے کا موقعہ ملے گا جو کثیر التعداد مضامین اور ان کتابوں میں بکھرے ہوئے ہیں (جن کی تعداد اب دو سو سے اوپرہو چکی ہے) اور جن پر بیک وقت ہر صاحب ذوق کی نظر پڑنی مشکل ہے۔‘‘ (کاروان زندگی ج۶ ص ۱۰)
میں نے چند کتابوں اور بالخصوص’’ کاروان زندگی‘‘ کو سامنے رکھ کر محض مولانا کے مجاہدانہ کردار، جرأت گفتار، صریح تنقیدیں، واضح مشورے، اصلاح و تغیر کے عمل میں حرکت و پیش قدمی، ملی تڑپ ، مسائل کے حل کی تلاش میں تگ و دو، اخلاص و بے لوثی، لوگوں کو برتنے کا انداز، تما م تر مفادات سے بالا ہوکر اپنی ساری زندگی کو اسلام کی خدمت میں لگا دینے اور کسی پل بھی خالی اور چین سے نہ بیٹھنے کی ایک مؤثر و متحرک اور دلکش و دلآویز تصویردکھانے کی کوشش کی ہے۔ میری نظر میں اس کوشش سے ایک طرف تو مولانا کے افکار و انداز کی اشاعت و و ضاحت ہوگی تو دوسری طرف اس عہد میں مولانا کے افکار ، ان کی کوششوں اور طریقۂ عمل کی معنویت و ضرورت اور اہمیت بھی اجاگر ہوگی اور اس کا اندازہ ہو سکے گا کہ ان حالات میں اس تڑپ ، حرکیت و جامعیت اور بے لوث خدمت کی کس قدر ضرورت ہے، ورنہ اگر مولانا ؒ کی خدمات اور علمی و عملی زندگی کا مکمل جائزہ پیش کرنا مقصد ہوتا تو محض کوئی ایک ہی پہلو ضخیم کتاب کا متقاضی ہے۔ اس کا یہ موقع بھی نہیں اور اس کی ضرورت بھی نہیں، کیو نکہ مولانا ؒ کی خدمات و حیات پر متعدد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ عالم اسلام کی ایک مؤثر شخصیت مجا ہد وقت وچراغ سحر ڈاکٹر یوسف القرضاوی حفظہ اللہ نے انتہائی محبت و احترام میں اپنے قلم کو ڈبو کر اپنی تصنیف ’’ابو الحسن الندوی کما عرفتہ‘‘ پیش کی۔ ڈاکٹر عبداللہ عباس ندویؒ نے سب سے پہلے ایک جامع کتا ب ’’میر کارواں‘‘ پیش کی، جو ان کے قلم کی روانی، اسلوب کی شگفتگی اور حقائق نویسی میں ممتاز ہونے کے ساتھ سوانحی ادب میں گراں قدر اضافہ ہے۔ مولاناؒ کے جانشین، سفر وحضر کے رفیق اور طویل رفاقتوں میں قریب سے دیکھنے والے متاع عہد آخر مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی صاحب نے بھی ’’مولانا علی میاں: عہد ساز شخصیت ‘‘ کے نام سے مولانا کی حیات پر مفصل کتاب پیش کی۔ اس کے علاوہ عربی میں نوجوان فاضل سید عبدالماجد غوری نے بھی ضخیم ومعلوماتی کتاب تیار کی۔ پرفیسر محمد اجتباء ندوی،ؒ پروفیسر محسن عثمانی ندوی، مولانا سید محمد واضح رشید ندوی کی کتابیں بھی لائق استفادہ ہیں۔ مولانا کے فکری پہلووں پر متعدد مقالات اور کتابوں میں ترکی عبدمجید السلمانی کی کتاب ’’الفکر والسلوک السیاسی عندابی الحسن الندوی‘‘ اور احمد الوشمی کی ’’منہج النقد عند أبی الحسن‘‘ لائق مطالعہ ہیں۔ مولانا کے افکار و دعوت کو سمجھنے کے لیے ان کے ہی فرد خاندان مولانا بلال عبدالحی حسنی صاحب کی کتاب ’’حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی دعوت و فکر کے اہم پہلو‘‘ کافی ضخیم ومفصل ہو نے کے ساتھ بہت مفید ہے۔ کیا ہی خوب ہو کہ اس کو عربی میں منتقل کرکے عالم عربی میں عام کیا جائے۔ یہ کتاب چھ ابواب پر مشتمل ہے ، مولانا کے تقریبا تمام افکار اور خدمات کا احاطہ کرتی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ مولاناؒ جس جامعیت کے حا مل و داعی تھے، اس کو کسی ایک کتاب میں جمع کرنا بہر حال مشکل ہے، اور جب اس مشکل کو ممکن بنایا جاتا ہے تو کتاب ضخامت کے سبب عام قارئین کی دسترس سے باہر ہوجاتی ہے۔ یہی بنیادی سبب ہے کہ اس وقت جس چیز کا سب سے زیادہ تقاضا تھا، اس کو الگ سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔
مولاناؒ جس جامعیت کے حامل تھے اس کے سبب ان کے تصنیفی شوق کو کبھی بھی دعوت و تبلیغ کے فریضہ نے رکنے نہ دیا اور نہ ہی اس کے برعکس ہوا کہ ان کی دعوتی زندگی علمی فرائض کی ادائیگی سے متأثر ہوئی ہو، تقریری و تحریری عمل ایک ساتھ جاری تھا، علمی انہماک اور دعوتی سر گرمیوں کے ساتھ اجتماعی مسائل سے کبھی بچنے کی کوشش نہیں کی، گوشۂ عافیت کو ملی مسائل پر کبھی حاوی نہ ہونے دیا، ضرورت و بساط بھر ملک و ملت کے لئے سیاسی کوششیں بھی کیں، کہ مولانا ہی کے الفاظ میں ’’تعمیری سیاست کے ذریعہ ملت کے تحفظ میں حصہ لینا ضروری ہوتا ہے‘‘۔ مولانا کی یہی جامعیت تھی جس نے ان کو ہر دلعزیز ومثالی کردار کی حامل شخصیت بنا دیا۔
حضرت مولاناؒ ابتدا میں جماعت اسلامی سے متعلق ہوئے، پھر تبلیغی جماعت سے تعلق ہوا بلکہ اس فکر و دعوت کو دنیا بھر میں عام کرنے میں آپ کا بڑا حصہ رہا۔ آخرتک مولانا نے اس سے اپنا تعلق باقی رکھا۔ جماعت اسلامی سے علیحدگی اور مولانا مودودیؒ سے بعض اختلافات کے باوجود کبھی کوئی ایسی بات زبان پر نہ آئی جو فکری اختلاف سے آگے بڑھ سکے ۔ مولانانے ان دونوں طریقہائے دعوت کے درمیان سے ایک اور راستہ اختیار کیا اور سب کو ساتھ لے کر اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے ساری زندگی مصروف عمل رہے۔ آپ نے امراء و ملوک ، علماء ودانشوران اور عوام الناس کے ہر حلقہ میں اپنی دعوت پہنچانے کی کوشش کی اور ہر طبقہ کو اپنا مخاطب سمجھا اور کسی حد تک متأثر بھی کیا۔ ابتد سے ہی مولانا نے انقلا بی طبیعت پائی تھی جس کا اظہار آخر تک حرکیت کی شکل میں بار بار ہوتا رہا اور جس کی جھلک ’’کاروان زندگی‘‘ کی آخری جلد میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔
مولانا کی زندگی سے یہ سبق ملتا ہے کہ کام کرنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی، بس اس کے لیے کردار، تڑپ اور اخلاص درکار ہے۔ آزادی کے بعد متصلاً جب کبار علماء ملک میں موجود تھے اور مولانا نوجوان تھے، تب بھی مولانا کو ملک کی صورت حال نے بے چین کیا تو ’’نشان راہ‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون تیار کیا اور ندوۃ العلماء میں ایک اجتماع بلایا اور مستقبل میں ملت اسلامیہ کے مسائل پر گفتگو کی۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ کسی بات کو کہنے کے لئے وہ مقام، وہ عمر و مرتبہ چاہیے جہاں سے کوئی تبصرہ کیا جا سکے اور کوئی بڑی اور حق بات کی جا سکے، کسی حد تک بجا اوربالکل بجا! لیکن جب مصلحت پسندی اور سچ یہ ہے کہ سکوتِ بے جا اور اپنے آپ میں گم رہنے کی روش عام ہوجائے تو پھر کیا کیا جائے! کوئی تو ہو جو حق گوئی کرے اور حق کا غلغلہ ہر جگہ بلند کرے۔ مولانا نے بے شمار ایسے نقوش چھوڑے ہیں کہ اخلاص وانابت اور جرأت مومنانہ کے ساتھ اصلاح و حق گوئی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے۔ ہمیشہ حکمت کے ساتھ مدلل انداز میں حق بات کہی جائے۔ ابتدائی عملی زندگی میں تو یہ نقوش ملتے ہی ہیں، آخری عمر میں امراض و ضعف بھی ملی مسائل میں اس حق گوئی اور مواقع تلاش کر اپنی بات کہنے کے عمل سے نہ روک سکے۔ علم و ادب کی وادیوں کو سیراب کرنے کے ساتھ خانقاہ کو آباد کرنا اور اجتماعی و ملی مسائل میں دلچسپی لینا ہی مولاناؒ کا وصف امتیازی ہے۔
وہ ہمیشہ دعوت و اصلاح کے مواقع ڈھونڈا کرتے تھے۔ بسا اوقات تو طبیعت کے آمادہ نہ ہونے کے باوجود مختلف مجالس اور کانفرنسوں میں صرف اس جذبہ سے مجبور ہوکر شرکت کرتے تھے کہ حکومت کے نمائندوں اور امت کے منتخب مجمع کے سامنے ایمانی دعوت پیش کرنے اور اصل حقائق کو واشگاف کرنے کا یہ موقع کہیں ہاتھ سے نہ چلا جائے۔ آئندہ صفحات میں پیش کیے گئے اقتباسات میں اس کی دلیل ملے گی۔ مولانا کے یہاں حکمت اور تنقیدی بصیرت کے ساتھ اپنی پوری بات پیش کرنے کی بے شمار مثالیں ہیں۔ مولانا اکثر جب کسی پر تنقید کرتے، اس کے کمزور پہلووں پر انگلی رکھتے اور کوتاہیوں کی نشاندہی کرتے تو اس سے قبل وہ اس کی خدمات کو سراہنے اور اس کی اچھائیوں کو پیش کرنے کے قائل تھے۔ بد قسمتی سے علمی انحطاط کے اس دور میں بہت سے لو گ اس انداز کو سمجھ نہیں پائے اور اس کو مدح و توصیف سمجھ بیٹھے۔ اسی لیے بہت سے لوگوں کو میں نے خود کہتے ہوئے سنا اور لکھتے دیکھا کہ مولانا عرب کے بعض حکام (خواہ وہ نا اہل ہوں) کی تائید کرتے تھے۔ سعودیہ سے ان کا دوستانہ تعلق تھا۔ ہر موقع پر انہوں نے اس کے موقف کی تائید کی۔ یہ سراسر غلط اور حقیقت فہمی سے دور ہونے پر مبنی خیال ہے۔ مولانا نے ہمیشہ حکام سے ملاقات و مراسلت ان کی اصلاح کے لیے کی تاکہ ان تک دین اور دینی دعوت پہنچائی جاسکے۔ مولانا کے خطوط و خطابات اس پر دلالت کرتے ہیں جن کے اقتباسات جا بجا نظر آئیں گے۔ مولانا کی بے پناہ مقبولیت کے باوجود بھی صریح تنقید پر مبنی بعض مضامین پر خود حکومت سعودیہ نے حکم امتناعی نافذ کیا اور مملکت میں ممنوع قرار دیا۔ مولانا ہمیشہ حکمرانوں کو عمر بن عبد العزیز اور صلاح الدین ایوبی کی مثال دیا کرتے تھے۔
در حقیقت مولانا کا اخلاص، بے لوثی اور استغناء اس درجہ کا تھا کہ اس نے انہیں نقد و اصلاح کی مکمل آزادی دے رکھی تھی۔ کبھی وہ اپنے یا اپنے افراد خاندان اور اپنے ادارے کے لیے کوئی سوال نہ کرتے۔ حتی الامکان آسانی کے ساتھ کسی سے کچھ قبول نہ کرتے، بلکہ کانفرنس و غیرہ میں جاتے تو بھی منتظمین کے ذریعہ مہیا کرائی گئی قیام و طعام کی اعلیٰ سہولیات کو نظر انداز کرکے اپنے اہل تعلق کے یہاں قیام و طعام کو ترجیح دیتے اور حجاز کے سفر میں تو بیشتر یہی معمول رہا۔ جہاں یہ خدشہ ہوتا کہ اس سے اپنی بات کہنے یا کہنے کے بعد سننے والے پر اثر پڑنے میں کمی ہو سکتی ہے، وہاں تو خاص خیال رکھتے اور آخری درجہ کے استغناء کا مظاہرہ کرتے، اگر چہ یہ استغناء آپ کی عادت ثانیہ تھی۔ آج کی مجبوری یہ ہے کہ بسا اوقات غلط کو غلط صرف اس لیے نہیں کہا جاتا یا صحیح کی تصدیق صرف اس لیے نہیں کی جاتی کہ مولانا جیسے اصحاب دل حضرات کی سیرت کو محض واقعات و عقیدت کی بنا پر پڑھ لیا جاتا ہے۔ ذاتی و خاندانی مفادات پر ملی و اجتماعی مفادات کی ترجیح اور استغناء و بے لوثی یوں تو عنقا ہو چکی ہے۔ بڑے بڑے ادارے اور تحریکیں ان کے فقدان کا شکار ہوکر رہ گئی ہیں، بلکہ بسا اوقات تو محسوس ہوتا ہے کہ ان خصوصیات کا فقدان بر وقت اقدامات اور لازمی کوششوں، ابطال باطل اور تائید حق سے بھی روک دیتا ہے۔ حضرت مولاناؒ کے استغناء و بے لوثی کا یہ عالم تھاکہ شاہ فیصل سے ملاقات ہوئی، آپ نے بڑی مؤثر گفتگو کی یہاں تک کہ شاہ فیصل کی چیخیں نکل پڑیں۔ ملاقات کے اختتام پر شاہ فیصل نے ندوۃ العلماء کے لیے ایک خطیر رقم کی پیش کش کی تو مولانا نے اس کو نظر انداز کر دیا۔ شاہ فیصل ایوارڈ لینے تک نہ گئے، بلکہ مصلحتا اس کو قبول کیا اور ساتھ ہی اس کے دعوت اسلامی اور دینی تعلیم سے متعلق اداروں میں تقسیم کا اعلان کرا دیا اور کمال حیرت ہے کہ اس رقم کا ادنیٰ حصہ بھی ہندوستان نہ آنے دیا۔ دبئی اور برونائی کا ایوارڈ بھی بڑے اصرار کے بعد قبول کیا اور ساری رقم اداروں اور تنظیموں میں تقسیم کر دی۔ چندر شیکھر اور نرسمہا راؤ نے پدم بھوشن کی پیشکش کی۔ نرسمہا راؤ نے خود فون کرکے پیشکش کی، لیکن مولانا نے اس کو خوبصورتی کے ساتھ ٹال دیا۔ ۱۹۸۰ء میں شاہ فیصل ایوارڈ ملنے کے بعد اسی سال دارالمصنفین میں مولانا کے لیے ان کو اطلاع دیے بغیر ایک استقبالیہ تقریب کا اہتمام کیا گیا تو آپ نے اپنے کلمات تشکر میں ایاز کا مشہور جملہ دوہرا کر اپنی گفتگو کا آغاز کیا جو تقریباً ضرب المثل ہے ، ’’ایاز قدر خود را بشناس‘‘۔ اس جملہ کے پس منظر میں ایاز کا وہ مکمل و منفرد واقعہ بھی نقل کیا جو بہت معروف ہے۔ حضرت مولانا کی یہ تواضع ان کی بلند پایہ شخصیت، حد درجہ استغناء و بے نیازی اور بے لوثی و اخلاص کی غماز ہے اور یہی سب چیزیں عظمتوں کا پتہ دیتی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا کی شخصیت مختلف الجہات ہے۔ سب سے خاص جہت یہ ہے کہ وہ مفکر تھے، وقت کے تقاضوں کوملحوظ رکھتے تھے، تاریخ و سیرت اورقرآن و سنت پر گہری نظر رکھنے کے سبب پیش آنے والے حالات پر محکم تبصرہ کرتے تھے، اور صحیح اسلامی موقف اختیار کرتے تھے، مولانا کی بیشتر تصانیف ایک خاص فکری خاکے کے تحت ہی لکھی گئی ہیں۔ مولانا کی بیشتر جہتیں خاندانی مزاج اور موروثی ذوق کا حصہ ہیں۔ مولانا اگر داعی تھے تو یہ ان کے خاندانی مزاج کا حصہ تھا۔ تصنیفی و علمی ذوق ورثہ میں ملا تھا۔ خانقاہ کے ذریعہ اصلاح حال کی کوشش بھی خاندانی صفت تھی۔ مولانا کی پوری زندگی کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ مولانا میں تحریکی عنصر اس درجہ کا نہ تھا کہ خود کوئی تحریک چھیڑتے۔ مولانا نے حتی الامکان تحریکات کی صدارت و ذمہ داری قبول کرنے سے اپنے کو الگ رکھا، لیکن پھر بھی ملی تڑپ اور جذبۂ دعوت سے مغلوب ہوکر جا بجا آپ کی حرکیت اور طبیعت کی انقلاب پسندی ظاہر ہوجاتی تھی،اور یہی وجہ ہے کہ جب آپ کے سامنے کسی تحریک و تنظیم کا خاکہ آتا تو پھر بتقاضائے وقت اس تحریک کا ہر ممکن تعاون فرماتے اور گویا حالات کی تبدیلی کے ساتھ تحریکات اور بروقت و مناسب اقدامات کے منتظر رہتے۔ سیاسی رہنمائی اور سیاسی تجزیات اور تحریکی و تنظیمی امور و مسائل میں جو بھی دلچسپی مولانا کو تھی، وہ خاندان میں صرف ان کو سید احمد شہیدؒ کے واسطہ سے ملی تھی۔ اس حرکیت میں مولانا کے رفقاء کا بھی بڑا دخل تھا۔ مولانا کی تحریکی پیش رفت میں مولانا محمد منظور نعمانی ؒ کی رفاقت کا ذکر بار بار آتاہے۔ دیگر رفقاء کار میں مولانا محمد الحسنی اور مولانا اسحق جلیس ندوی رحمہما اللہ رحمۃ واسعۃقابل ذکر ہیں جو عملی خاکے تیار کرنے میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔
مفکر اسلامؒ ، اسلام کو اقتدار میں دیکھنے کے خواہاں تھے۔ اس کے لیے بقدر استطاعت جو کچھ کر سکتے تھے، وہ کیا۔ سیاسی سوجھ بوجھ پیدا کرنے کی کوشش کی، علماء کو حالات سے واقفیت اور بے لوث سیاسی خدمت وبصیرت کی ترغیب دی، کبھی امراء کو خطاب کیا، کبھی بادشاہوں اور مملکت کے سر براہوں کو مخاطب کیا،خود ہندوستان کے مختلف وزرائے اعظم کو خطوط لکھے۔ مولانا کی نظر میں اسلام کو اقتدار تک پہنچانے کے دو راستے تھے۔ ایک تو یہ کہ اسلام پسند لوگوں کو کرسی تک پہنچایا جائے اور دوسرا یہ کہ کرسی والوں تک اسلام پہنچایا جائے۔** اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلا راستہ مشکل اور ٹکراؤ پیدا کرنے کا ہے اوردوسرا پر امن و پائیدارہے۔ مولانا ؒ نے پوری زندگی دوسرے موقف پر عمل کیا اور اپنی تمام تر کوششوں ، اسفار، دوروں، خطابات، خطوط اور علمی و ادبی صلاحیتوں کو اس کے لئے استعمال کیا، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب لینا صحیح نہیں کہ مولانا پہلے راستہ کے مخالف تھے یا اس کو غلط سمجھتے تھے۔ انہوں نے اپنی علمی و تصنیفی زندگی کا آغاز ہی ’’سیرت سید احمد شہید‘‘ سے کیا جن کی تحریکِ اصلاح و تجدید کی بنیاد ہی جہا داور قیام حکومت ہے اور جو کتاب مکمل داستان انقلاب سے عبارت ہے۔ ابتدا میں ہی ان پر ایسے مضامین لکھے جو ان کی داستان عزیمت اور جذبۂ صادق کے ترجمان تھے۔ مفصل کتا ب کو بھی اس کا یہی پہلو سید احمد شہید پر لکھی جانے والی دوسری کتا بوں سے ممتاز کرتا ہے کہ اس میں دعوت و عزیمت کے عنصر کو اجاگر کرکے پیش کیا گیا ہے۔ مولانا اس موقف کے مخالف کیوں کر ہو سکتے تھے جبکہ وہ موقف خود حضرت سید احمد شہید ؒ کا تھا۔ خود مولانا کے قلم سے نکلا کہ شہداء بالا کوٹ کا پیغام یہ ہے کہ ساری زندگی ایک ایسے قطعہ زمین کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جس پر اللہ کا دین قائم کیا جا سکے۔
پاکستان میں ایک مرتبہ آپ نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ اسلام کو اقتدار کی ضرورت ہے اس لیے کہ امر ونہی استعلاء وغلبہ کے بغیر ممکن نہیں۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں خود استعلاء کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ مولانا نے ساری زندگی الاخوان المسلمون کی تائید کی اور اخوانی حلقہ نے بھی مولانا کی خوب پذیرائی کی بلکہ کہنا چاہیے اور اعتراف کرنا چاہیے کہ چوٹی کے علماء اور بڑے بڑے ادباء جنہوں نے مولانا کو سر آنکھوں پر بیٹھایا، ان میں سے اکثر کا تعلق اخوان سے تھا۔ مولانا آخر تک اس سحر انگیزتحریکِ دعوت کے معترف و مداح رہے، بلکہ حسن البناء کے داماد و معتمدخاص ڈاکٹر سعید رمضان کو مولانا نے اپنے گھر کا سا فرد قرار دیا اور ان سے گھر کے سے تعلق کا ذکر کیا۔ مولانا نے لکھا ہے کہ عربوں میں جیسا محبت واپنائیت کا تعلق میرا ڈاکٹر سعید رمضان سے ہوا، ویسا کسی اور سے نہ ہوا۔ اپنی جگہ پر دونوں طریقے یقیناًمؤثر اور اہمیت کے حامل ہیں، ایک کی تایید دوسرے کی نفی نہیں ہو سکتی اور مولانا کے یہاں تو طریقہ عمل کے ساتھ دوسرے موقف کے حاملین کی تائید بھی ہے۔ پھر ظاہر ہے کہ تاریخ اسلام میں دونوں موقف کی مثالیں ملتی ہیں۔ کبھی دعوت و تبلیغ اور افہام و تفہیم ہتھیار رہے، اور کبھی دعوت پیش کرنے کے بعد غلبۂ اسلام کے لیے طاغوتوں سے پنجہ آزمائی کرنی پڑی۔
یوں تو مفکر اسلام ؒ کی پوری زندگی علم و عمل اور فکر و تدبر اور یقیں محکم، عمل پیہم و محبت فاتح عالم سے عبارت ہے، لیکن مولانا کی بصیرت اور اجتماعی و ملی تڑپ کو بطور مثال پیش کرنے کے لئے بلکہ قابل تقلید نمونہ کے طور پر ایک دو چیزوں کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے۔ یوں تو مولاناؒ ہمیشہ پاکیزہ سیاست کی اہمیت کو سمجھتے تھے اوراس کو ایک رخ دینے کی کوشش کرتے تھے۔ اس کے لیے وہ عوام کے نمائندوں سے رابطہ کرتے تھے، امراء اورو زیروں سے مراسلت کرتے تھے، ممکن حد تک نقدو احتساب بھی کرتے تھے، افہام و تفہیم اور وضاحتوں کے ذریعہ راہ ہموار کرنے کی کوششیں کرتے تھے، فسادات کا بے لاگ تجزیہ کرتے تھے۔ مولانا نے پوری جرأت کے ساتھ ۱۹۹۰ء میں ایک مضمون میں یہ بھی لکھا کہ فسادات کے منجملہ اسباب میں سے ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ ’’ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے والوں، اس کے مقابلہ میں صف آرا (Confront) ہوجانیوالوں ، اور اس کو روکنے کے لیے ہر خطرہ مول لینے والوں کی کمی، خاص طور پر اس موقع پر مذہبی پیشواؤں کا میدان میں نہ آنا اور حالات سے مقابلہ نہ کرناہے‘‘۔ مولانا ہمیشہ اپنے آپ کو محدود کر لینے کے خلاف رہے اور عملی اقدامات سے اس کا ثبوت دیا ۔مولاناؒ ’’مسلم مجلس مشاورت‘‘ کے قیام کی دعوت اور اس کی تاسیس میں نہ صرف پورے طور پر شریک رہے،بلکہ اسکے داعی اور سرپرست سمجھے گئے ،اور اس کی سر پرستی کی۔ اس کی مجلسوں میں علالتوں کے با وجود شرکت کی اور اس کے دوروں میں شریک ہوکر انہیں مؤثر بنایا۔ مولانا کے جذبۂ دروں اور جذبۂ صادق اور ملی تڑپ، اجتماعی مفاد اور قومی تشخص کی حفاظت کے اشتیاق و تڑپ کی اس وقت انتہا نہ رہی جب ان کو اندیشہ ہوا کہ یہ مجلس بکھر جائے گی۔ اس دوران مولاناؒ سیتاپور میں تھے، آنکھ کا آپریشن ہوا تھا، ڈاکٹروں نے سفر تو دور زور سے بولنے کو بھی منع کیا تھا لیکن یہ اللہ کا بندہ جس کا مسلک تھا،
اک جان کا زیاں ہے سو ایسا زیاں نہیں
کسی کے منع کرنے سے نہ مانے اور دہلی کا سفر اختیار کیا اور وہاں مجلس کی میٹنگ میں مؤثر تقریر کی اور اپنا دل نکال کر رکھ دیا۔ اس وقت تو یہ تقریر کامیاب رہی اور مجلس کسی بکھراؤ کا شکار نہ ہوئی، لیکن ملت کے اس درد نے آنکھ کا ایسا در د دیا کہ وہ ضائع ہوکر رہی اور زندگی بھر اس دردکا احساس باقی رہا۔
حضرت مولانا کے سلسلہ میں یہ کہا جانا انتہائی غلط ہے کہ وہ کسی منکَر کی تردید نہ کرتے تھے اور کسی تنظیم یا فرقہ پر تنقید نہ کرتے تھے۔ مولانا کی جرأت گفتار اور دینی غیرت و حمیت ہی ان کی تحریر و تقریر کا اصل جوہر ہے۔ مولانا نے بہت واضح تنقیدیں کی ہیں۔ عربوں کی بے راہ روی، عیش و عشرت پسندی، مادیت پرستی، حقیقی اسلام سے بعد، تقریباً آپ کے ہر عربی مضمون و خطاب کا حصہ رہا ہے۔ ہندوستان میں صحیح و غلط موقف کی وضاحت میں آپ نے اپنے قلم و زبان کو ہمیشہ استعمال کیا ہے۔ آپ کے رسالہ احادیث صریحۃ مع اخواننا العرب اور سلسلہ إسمعیات آپ کی تنقیدوں اور صحیح تعبیر میں اصلاح کی غرض سے کی گئی تنقیدوں کا مجموعہ ہے۔ ملک و بیرون ملک کے کسی مسئلہ میں بھی مولانا مجاملت و مداہنت سے کام نہیں لیتے تھے۔ موقع پڑا تو اتحاد کی علامت سمجھے جانے والے اس داعی حق کو ’’دو متضاد تصویریں‘‘ لکھنے سے بھی کوئی امر مانع نہ رہا۔ وہ آوازۂ حق نہایت شان و صراحت سے بلند کیا کرتے تھے۔ مولانا کا رسالہ من الجبایۃ إلی الھدایۃ مولانا کی دینی غیرت اور منہج نقد و اصلاح کا غماز ہے۔ یہ رسالہ در حقیقت مولانا کے ان ہی جذبات کا عکاس ہے جن کا اظہار انہوں نے اپنے سفر حجاز ۱۹۵۰ء میں اپنے بڑے بھائی ڈاکٹر عبدالعلیؒ صاحب کے نام لکھے گئے خط میں کیا ہے۔ اس رسالہ میں مولانا نے جن امراض کی نشاندہی کی اور جن کوتاہیوں اور برائیوں کو اجاگر کیا، وہ ختم نہ ہوئیں بلکہ دن بدن بڑھتی گئیں اور مولانا تھے کہ آخر تک منکر کی نکیر کرتے رہے۔ رابطہ عالم اسلامی کے جلسوں میں بسا اوقات حضرت مولانا اپنا دل نکال کر رکھ دیا کرتے تھے، اور زبان دل سے گفتگو کیا کرتے تھے، لیکن ان لوگوں پر کیا اثر ہوتا جنہوں نے ایک نیک انسان کے مخلص جذبات کے تحت ۱۹۶۲ء میں وجودآنے والی اس تنظیم کو محض اپنا ترجمان بنالیا اور ہمیشہ اس تنظیم کا استحصال کیا ۔ حد یہ کہ جو شخص اس کا فکری مؤسس تھا، اس کو چند سال کے بعد اس کی حق بیانی اور صاف گوئی کے سبب ایسا معتوب قرار دیا کہ آخری عمر یعنی ۱۹۹۵ء تک ان کا حجاز آنا جانا موقوف رہا۔ بہت کم لوگوں کے علم میں ہوگا کہ رابطہ عالم اسلامی کے فکری مؤسس شیخ حسن البناء کے داماد و معتمدِ خاص ڈاکٹر سعید رمضانؒ تھے اور ان ہی کی دعوت پر اس کا قیام عمل میں آیاتھا۔
حضرت مولاناؒ حق گوئی میں ایک لحظہ بھی چوکتے نہ تھے، بلکہ بر وقت جواب دے دیا کرتے تھے۔ مولانا نے خود بیان کیا کہ ان کا رسالہ’’ردۃ ولا أبا بکر لھا‘‘ بہت عام ہوا اور خوب پڑھا گیا۔ رابطہ عالم اسلامی کے جلسہ میں وہ تشریف رکھتے تھے کہ خمینی صاحب داخل ہوئے تو مفتی امین الحسینیؒ نے بڑھ کران کا استقبال کیا۔ پھر مولانا کو ان سے متعارف کرایا تو خمینی صاحب گویا ہوئے، جی! آپ کا رسالہ ردۃ ولا ابا بکر لھا پڑھا ہے لیکن اس کا نام ردۃ ولا ابا حسن لھا ہونا چاہیے تھا۔ خمینی صاحب نے اپنی روایتی عداوت اور عقیدے کی ترجمانی کردی، لیکن مولانا کی ظرافت و حق گوئی نے ان کو یوں خاموش کیا کہ یہ تو ایسے ہی ٹھیک ہے۔ عربی محاورہ قضیۃ ولا أبا حسن لھا ہے۔
ڈاکٹر حسن الأمرانی نے اپنے ایک مقالہ کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ ’’شیخ ابو الحسن نے خود مجھ سے بیان کیا کہ ایک مرتبہ خمینی صاحب میرے ساتھ خانۂ کعبہ کا طواف کررہے تھے اور دعا یو ں پڑھتے تھے ربنا اغفرلنا ولإخواننا الذین سبقونا بالإیمان یہاں پہنچ کر رک جاتے اور آیت نہ پوری کرتے۔ پھر اسی کو دوہراتے تو میں ان سے قریب ہوا اور کہا: ’’ولا تجعل فی قلوبنا غلا للذین آمنوا‘‘۔ شیخ نے فرمایا کہ گویا میں نے ان کو کچوکا لگایا‘‘۔
یہاں اس کا ذکر ضروری ہے کہ یہ صرف میرا احساس نہیں کہ مولانا کی دعوت اور ان کے دینی جذبات سے جن لوگوں کو ہوش کے ناخن لینا چاہیے تھا انہوں نے نہ لیا، البتہ ایسا بھی نہیں کہ اس کا اثر نہ ہوا لیکن حکومتی سطح پر وہ نہ ہوا جس کی خود حضرت مولانا کو امید تھی، من الجبایہ الی الھدایۃ جو ابتداءً ایک خط تھا، اسکو مولانانے مولانا عبیداللہ صاحب کے حوالے کیا، انہوں نے شیخ عمر بن الحسن کو پہنچا دیا کہ وہ مملکت سعودیہ کے ولی عہد کو پڑھ کر سنا دیں، مولانا یہ لکھنے کے بعد کہ معلوم ہوا کہ وہ انہوں نے سنا دیا یوں افسوس و حسرت کا اظہار کرتے ہیں:
’’ کاش! کہ اس خط کا کوئی عملی نتیجہ نکلتا ، اور اسی وقت سے راستہ کی تبدیلی کی کوشش کی جاتی تو آج نہ صرف مملکت سعودیہ بلکہ عالم اسلام کی صورت حال بہت مختلف ہوتی‘‘ (کاروان زندگی ج۱ ص ۳۴۱)
مولانا کا ملی جذبہ اور دینی غیرت و حمیت ’’عرب قومیت‘‘ کے خلاف تحریک چلانے میں بھی قابل دید و لائق تقلید ہے، اس وقت مولانا پر اس فتنہ کی تنقید کا ایسا غلبہ تھا کہ جو لوگ مولانا اور ان کے خاندان کے مزاج سے واقف تھے وہ کہتے تھے ان کو کیا ہو گیا ہے، مولانا نے ایسی جرأت مندانہ تنقید کی کہ حکومت مصر کی شکایت پر حکومت ہند نے استفسار تک کیا، کہا جا سکتا ہے کہ عرب قومیت کے باطل نظریہ کے خلاف سب سے طاقتور آواز ہندوستان سے ہی بلند ہوئی، یہی نہیں بلکہ عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کی ذلت آمیز شکست کا مولانا نے بے لاگ تجزیہ کیا ہے اور اس ضمن میں مولانا نے جزیرۃ العرب میں بیٹھ کر عربوں پر سخت تنقیدیں کی ہیں، اس سلسلہ کے مضامین کا مجموعہ ’’عالم عربی کاا لمیہ‘‘ حقائق کے انکشاف، حالات کا مومنانہ تجزیہ اور صاف گوئی کی جرأت پر دلالت کرتا ہے، مولانا نے اس وقت عربوں کی شکست کے جن اسباب کی نشاندہی کی وہ آج عربوں میں پہلے سے کئی سو فیصد زیادہ ترقی کرگئے ہیں، آپسی انتشار ، مادیت پسندی ، اقتدار کی حفاظت ، اسلام سے دوری اور اسلام پسند لوگوں سے نفرت و عداوت نے انکو امریکہ کا غلام اور اسرائیل کا نمائندہ بنا دیا ہے، طبعی اور دینی و اخلاقی دونوں نظامہا ئے زندگی سے ان کی بغاوت عروج پر پہنچ گئی ہے، اسرائیل سے جنگ کے موقع پر بقول مفکر اسلامؒ ’’ان پر بے چینی و اضطرارطاری رہتا اور وہ اپنے اوپر اللہ کی مباح کردہ لذتیں بھی حرام کر لیتے‘‘ لیکن اب تو بات یہاں تک آ پہنچی ہیکہ وہ ان ہی لذتوں کے لئے جیتے ہیں، بلکہ ان ہی اسباب تلذذ کی حفاظت کے لئے انہوں نے دین کو امریکہ و اسرائیل کی پسند کے مطابق بقدر ضرورت استعمال کرنے اور اسکا پروپیگنڈہ کرنے تک محدود کر دیا ہے،اسلامی ممالک اغیار کے دست نگر بنا دیے گئے ہیں، دینی شعائر پر پابندیاں عائد کی جارہی ہیں! بے حیائی و فحاشی اور عریانیت ولذت کوشی نے ان کو اپنے شکنجہ ضلالت میں گرفتارکرکے دین کے نور بصیرت سے ہزاروں کوس دور کر دیا ہے، مدینہ طیبہ میں جوار مسجد نبوی میں مولانا کی یہ حق گوئی ملاحظہ کیجئے:
’’صرف زمانۂ جنگ اور اس سے چند دن قبل کے اخبارات و رسائل پڑھئے کیا یہ اخلاق اور یہ طریقۂ زندگی اللہ اور اس کے رسول کی رضا کامو جب ہو سکتا ہے؟ کیا ام کلثوم کے گیت اللہ تعالیٰ اور رسولؐ کی رضا اور فتح و کامرانی کے نزول کا ذریعہ بن سکتے ہیں؟ کیا یہ نائٹ کلب، عریانی وبے حیائی کے اڈے، جسے ہمارے بھائیوں نے اس ملک میں نئی زندگی بخشی جس پر مقدس اسلامی مقامات کے دفاع کی سب سے بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، ہمیں رسوائی وہزیمت سے بچا سکتے ہیں؟‘‘ (عالم عربی کا المیہ ص ۷۸؍ ۷۹)
مولاناؒ نے ایک طرف مغربی تہذیب پر تنقید کی تو دوسری طرف امت اسلامیہ کو اپنی تہذیب پر فخر کرنے کی دعوت دی، اسلامی تمدن کو اختیار کرنے پر ہر جگہ زور دیا، تعلیم ، نظام تعلیم اور نصاب تعلیم پر اپنی قیمتی آراء پیش کیں، نظام تعلیم کو اسلامی بنانے اور نصاب میں دینی عنصر داخل کرنے کی تاکید کی، نصاب میں تجدید و اصلاح کی رائے دی،مولانا در حقیقت مفکر تھے ، وقت کے تقاضے پیش نظر رہتے تھے، یہی وجہ ہے کہ عہد حاضر کے مفکرین میں مولانا منفرد ہیں، جن کی زبان سے یہ جملہ نکلا کہ علم میں دوئی کا کوئی تصور نہیں، یہ کہہ کر گویا انہوں نے ایک بہت بڑے انقلاب کی دعوت دی، ملی مسائل میں بڑھ کر حصہ لینے کے ساتھ علماء کو حالات سے جڑنے کی بھر پور و مؤثر دعوت دی، موقع پڑا تو شیعیت و قادیانیت کی تردید میں سارا زور صرف کر دیا، وسیع النظری اور وسعت فکری کا یہ مطلب سمجھنا مولانا کے نزدیک قطعی درست نہ تھا کہ حق کو حق اور باطل کو باطل نہ کہا جائے، وہ اس کو دعوت اتحاد کے منافی بھی نہ سمجھتے تھے بلکہ جب ’’دو متضاد تصویریں‘‘ کی تصنیف پر بعض اہل تعلق نے اعتراض کیا تو مولانا نے اس کو زندگی بھر کا سرمایہ اور باعث نجات قرار دیا اور اس کو علماء ربانیین و مجددین کا طریقہ قرار دیا،مولانا کی غیرت ایمانی انکی جرأت گفتارکو ہمیشہ رواں دواں رکھتی تھی ،وہ باطل کی زیا دتیوں پر مضطرب ہو جایا کرتے تھے اور یہ جذبات پھرزبان و قلم سے سیل رواں کی طرح جاری ہوجایا کرتے تھے اور عبارت کو جو ش وغیرت سے معمور کردیا کرتے تھے،دعوتِ اتحاد اپنی جگہ ،جادۂ اعتدال کی پاسداری کا اپنا مقام لیکن مفکر وہی ہے جو مو ضوع اور وقت کی نزاکت کا لحاظ کرتے ہوئے مسائل کو پوری جرأت کے ساتھ بیان کرے۔ ’’سیرت سید احمد شہید‘‘میں مولانا کا جو رنگ ہے وہ تا دم آخر باقی رہا،اگر آج بھی حضرت والا بقید حیات ہوتے تو ان کا قلم مجاہد کی تلوار کی طرح چلتا اور خون ناحق بہانے والوں پر انکی زبان دنیا بھر کو متوجہ کردینے کے لیے کافی ہوتی۔ جو خون ناحق بہایا گیا اور جس طرح علماء کے ایک گروہ نے حق کو باطل ثابت کرنے کی کوشش کی اور مظلوم و امن پسند اور اسلام پسند مظاہرین کو بھیانک تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد مفسدودہشت گرد قرار دیا گیا،اے کاش کہ یہ متحمس وغیرت مند اورمومن قلم زندہ و متحرک ہوتا تو پوری دنیا میں اہل حق کے محاذ کی قیادت کا فریضہ انجام دیتا۔ نفوس قدسیہ کے دفاع اور مظلوموں کی حمایت کا یہ غیرت سے لبریز رنگ دیکھئے۔ سب جانتے ہیں کہ ہندوستان میں ایک طبقہ مجاہد اسلام حضرت مولانا اسماعیل شہید ؒ کو کافرو گمراہ ثابت کرتا ہے، اس امر کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا ؒ کے قلم سے جو جملے نکلے ہیں وہ ہمارے لیئے دفاع حق کا نمونہ اور اعتدال و غیرت ایمانی سے مرکب ایک حسین تصویر ہیں، مولانا تحریر فرماتے ہیں:۔
’’مولانا کی دوسری فضیلتیں تو رہیں بر طرف، ان کی شہادت مسلم ہے اور شہداء کی مغفرت مسلم ،لیکن ۲۴؍ذو القعدہ ۱۲۴۸ء سے لے کر آج تک کم وبیش ۱۳۶برس کے طویل عرصہ میں شاید ہی کوئی ایسا دن طلوع ہوا ہو ،جس کی صبح کو اس شہید اسلا م کی تکفیر و تضلیل کا کوئی فتویٰ نہ نکلا ہو، لعنت اور سب و شتم کا کوئی صیغہ استعمال نہ کیا گیا ہو، فقہ و فتاویٰ کی کوئی دلیل ایسی نہیں جو اس کے کفر کے ثبوت میں پیش نہ کی گئی ہو۔ وہ ابو جہل و ابو لہب سے زیادہ دشمن اسلام ، خوارج مرتدین سے زیادہ مارق من الدین و خارج از اسلام، فرعون وہامان سے زیادہ مستحق نار ، کفر و ضلالت کا بانی ، بے ادبوں اور گستاخوں کا پیشوا ، شیخ نجدی کا مقلد و شاگرد بتایاگیا۔ یہ ان لوگوں نے کہا ، جن کے جسم نازک میں آج تک اللہ کے لئے ایک پھانس بھی نہیں چبھی ، جن کے پیروں میں اللہ کے راستے میں کبھی کوئی کانٹا نہیں گڑا، جن کو خون چھوڑ کر (کہ اس کا ان کے یہاں کیا ذکر؟)اسلام کی صحیح خدمت میں پسینے کا ایک قطرہ بہانے کی سعادت بھی حاصل نہیں ہوئی! یہ ان لوگوں نے کہا، جن کی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عزت و عصمت بچانے کے لئے اس نے سر کٹایا ، کیا اس کا یہی گناہ تھا، اور کیا دنیا میں احسان فراموشی کی اس سے بڑھ کر نظیر مل سکتی ہے؟ جس وقت پنجاب میں مسلمانوں کا دین و ایمان ، جان و مال ، عزت وآبرو محفوظ نہ تھی ، سکھ اپنے گھروں مسلمان عورتیں ڈال لیتے تھے، مساجد کی بے حرمتی ہورہی تھی، اور ان میں گھوڑے باندھے جاتے تھے، اس وقت یہ غیرت ایمانی وحمیت اسلامی کے مدعی کہاں تھے؟
رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
آج کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے‘‘
(سیرت سید احمد شہید ج ۲ ص ۴۸۶۔۴۸۷)
مولانا کی خدمات کا دائرہ بے حد وسیع ہے۔ باطل ادبی نظریات کے مقابلہ کے لیے اسلامی نظریہ ادب جو پہلے سے کسی نہ کسی صورت میں موجود تھا، اس کو ایک مستقل ادبی اسکول کی شکل دینے کا تجدیدی کارنامہ انجام دیا۔ ندوۃ العلماء کے سبزہ زار کو کئی مرتبہ عرب وعجم کے علماء اور عمائدین کے اجتماع سے معمور و منور کیا۔ امت اور بالخصوص اس کے مثقف طبقہ نیز امراء و حکام کی فکری رہنمائی کی کوشش کی۔ دینی تعلیم کی ضرورت و اہمیت کی وضاحت کے ساتھ عصری تعلیم کو ایمان و اخلاقیات سے مربوط کرنے کی کوشش کی۔ عصری اور بالخصوص ملی دانش گاہوں کو ان کے فرائض و واجبات یاد دلائے۔ دینی تعلیمی تحریک کی صدارت کی، اصلاح نصاب کی آواز بلند کی، تعلیم کے وسائل کو سراہا، خود مؤثر نصابی کتابیں تیار کیں، مدارس ویونیورسٹیز کو ان کی ذمہ داریاں یاد دلائیں۔ مولاناؒ کو اس کا سخت احساس تھا کہ جس طبقہ میں دین ہے، وہ اقتدار سنبھالنے سے قاصر ہے اور جس طبقہ کے ہاتھ میں نظام حکومت اور کم از کم نظام تعلیم آتا ہے وہ دین سے دور ہے۔ اس کے سبب معاشرہ جس تضاد کا شکار ہوتا ہے، اس سے کرب و بے چینی اور بے اطمینانی کی کیفیت اور ٹکراؤ کی حالت پیدا ہوجانا نا گزیر ہے۔ مولانا نے دیندار طبقہ کو مشورہ دیااور خود انتھک محنت کی کہ اس طبقہ تک دین پہنچا یا جائے اور اس کو اسلامی اخلاقیات سے متصف کیا جائے۔
مولانا کی ذات بے شمار خوشنما خوبیوں کا حسین مرقع تھی، ان کی خدمات نہایت وقیع اور سنجیدہ و بے لوث تھیں، ان کو اخلاص کی جو دولت نصیب ہوئی تھی اور روح کی جو پاکیزگی میسر تھی اس کے سبب لوگوں کو بے انتہا متأثر کرتے تھے، لوگ ان کے ہمنوا ہوجاتے تھے، کار آمد افراد کی ناز برداری کا ہنر مولانا جانتے تھے بلکہ مخالفین کو بھی ملت کے کام کا بنا لیتے تھے، رعایت ومروت مولانا کا خاص وصف تھا، لوگوں کو جوڑنے اور ان سے کام لینے کی حکمت معلوم تھی، آج بہت سے افراد کا ر آمد ہیں،لیکن افسوس کہ قحط الرجال کا شکوہ ہے، لیکن کار آمد لوگوں کو استعمال کرنے کا ہنر گویا معدوم ہو چکا ہے،اور افراد سازی تو تقریبا مفقود ہے، بے کار لوگوں کو کار آمد بنانا تو دور قریب آئے ہوئے لوگوں کو جوڑ کر رکھنے کا وصف بھی نظر نہیں آتا۔ لیکن حضرت مولانا ؒ کی زندگی ان خوبیوں سے عبارت تھی اسی لیے انہیں جاں نثاروں اور لائق و فائق افراد کا ر کی ایک جماعت ہاتھ آگئی تھی، اسمیں ان کی فراخ دلی، بے لوثی ، ذاتی اور خاندانی مفادات سے آخری درجہ کی دوری ، وسعت قلبی ، دور اندیشی ، متفکرانہ مزاج ، دوسروں کے ساتھ حسن سلوک ، طبیعت کی شرافت ، دسروں کا اعتراف ، بڑوں کے احترام کے ساتھ معاصرین کی عزت افزائی اور چھوٹوں کی دلجوئی کو بڑا دخل تھا، ظاہر ہے کہ ان تمام خصوصیات پر الگ الگ مقالات لکھے جا سکتے ہیں مگر یہاں سوانح لکھنا اور مولانا کی شخصیت و خدمات کا احاطہ کرنا مقصد نہیں ہے ،مولانا کی پوری زندگی اس سے عبارت ہے کہ
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
اگر ان لوگوں کی روایات اور واقعات کو بہت احتیاط کے ساتھ جمع کیا جائے تو بھی الگ ایک کتاب تیار ہو سکتی ہے جن کو حضرت مولانا نے ان کی صلاحیت و حیثیت کے اعتبار سے استعمال کیا، وہ بہت بڑے بڑے کام لوگوں سے لیا کرتے تھے اور ان کو آگے بڑھایا کرتے تھے، ان کی مدد کرتے اور انہیں ملت کے لئے استعمال کرتے، اسمیں مولانا کی فردشناسی کے ساتھ ان کے انقلابی مزاج و حرکیت اور ملی تڑپ کو بڑا دخل تھا۔
بس چلتے چلتے یہ اور عرض کرنے کا دل چاہتا ہیکہ مولانا کو عنداللہ جو مقبولیت حاصل ہوئی اس کا پر تو دنیا میں یوں نظر آیا کہ وہ خلق خدا میں بے پناہ مقبو ل ہوئے، انکو اہل دل کی دعائیں ملیں ، اہل علم کی نظر میں قدر و منزلت حاصل ہوئی ، ایک قابل ذکر پہلو یہ بھی ہے کہ آپ کو وہ نفوس ملے جنہوں نے اپنی زندگیاں آپ پر نثار کردیں، مخلص و دور اندیش اور متحرک رفقاء کار کا ہاتھ آنا بھی بڑی نعمت ہے، مولانا کو ایسے مخلصین ملے کہ جو آپ کے علمی و فکری معاون ہونے کے ساتھ ساتھ ملی کاموں، ملک وبیرون ملک کے دعوتی دوروں اور اسفار کے اچھے مشیرو معاون رہے، کیا ہی خوب ہوکہ کوئی صاحب قلم اس پہلو پر بھی ایک دلآویز کتاب پیش کر دے تاکہ اس دور آخر میں ایثار کرنے والے مخلصین کا بھی ایک پر کشش مجموعہ منظر عام پر آکر لوگوں کے لئے قابل تقلید ثابت ہو سکے، کہ اب تو ایثار و اخلاص عنقاء ہوئے جاتے ہیں اور ہر کس و ناکس مشیرو معاون بنا جاتا ہے ، جس کے سبب عمل اور تحریک عمل کا متأثر ہونا یقینی ہے۔ مفاد پرستی جس قدر بڑھ گئی ہے، افراد شناسی اسی قدر مفقود ہے۔
(جاری)
مولاناؒ نے اپنے یمن کے سفر ۱۹۸۴ء کی روداد لکھتے ہوئے شیخ یاسین عبدالعزیز کی ایک گفتگو نقل کی ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کو یہاں نقل کر دیا جائے: ’’انہوں نے دین کی دعوت دینے والی اور اس کے غلبہ کی کوشش کرنے والی جماعتوں پر تبصرہ کیا اور کہا کہ دو طریق کا رہیں، ایک یہ کہ اہل ایمان (حکومت کی) کرسیوں تک خود پہونچ جائیں (یعنی ان کو براہ راست اقتدار حاصل ہوجائے)۔ دوسرے یہ کہ ایمان ان کر سیوں تک پہونچ جائے (یعنی اہل حکومت دین کی دعوت قبول کر لیں اور اس کی ترویج و تنقید کا خود ذمہ لے لیں)۔ انہوں نے فرمایا کہ میں آپ کی کتابوں کے مطالعہ سے سمجھا ہوں کہ آپ اس دوسرے طریق کارہی کو ترجیح دیتے ہیں۔ میں نے اس سے اتفاق کیا اور کہا کہ ہمارے یہاں بر صغیر ہند میں حضرت مجدد الف ثانیؒ شیخ احمد فاروقیؒ (م۱۰۳۴ھ ) نے یہی طریق کار اختیار کیا تھا، اور اس کو جو کامیابی حاصل ہوئی وہ ہمارے علم میں عالمِ اسلام میں کسی انقلابی و اصلاحی تحریک کو حاصل نہیں ہوئی۔ پھر انہوں نے شمالی یمن کی موجودہ صورتِ حال، کام کے امکانات اور تقاضوں پر مختصر تبصرہ کیا۔ اس کے بعد مجلس برخواست ہوئی اور ہم لوگ ان سے رخصت ہوئے۔ معلوم ہوا کہ ان کا نام شیخ یٰسین عبدالعزیز ہے‘‘۔ (کاروان زندگی ج ۳ ص ۳۳ )
سائنسی تدبر کی بحث: مان کر نہ ماننے کی روش
ڈاکٹر محمد شہباز منج
عصرِ حاضر اور بالخصوص برصغیر کے اربابِ مذہب کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ اپنے فہمِ مذہب کو مذہی متن کی آخری و حتمی مراد سمجھنے میں کچھ زیادہ ہی حساس واقع ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اپنی تعبیرِ متنِ مذہب کے خلاف کوئی بات دیکھ پڑھ کر جذباتی صدمے سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ اپنی رائے سے کسی علمی اختلاف پر ان کا دل بیٹھ بیٹھ جاتا ہے کہ یہ تنقید کرنے والے کیسے لوگ ہیں، "قرآن و حدیث" کے خلاف دلائل دینے پر تلے ہیں۔
قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری اس بات کو جناب عبداللہ شارق سے ہماری بحث سے الگ کر کے دیکھ لیں، وہ پہلے ہی ہماری یاوہ گوئیوں سے رنجیدہ ہیں، انہیں ہماری گزارشات پڑھ کر دلی افسوس ہوا ہے۔ (الشریعہ اکتوبر 2014،ص 50) ہم یہاں ان کے حوالے سے انتہائی ہلکی پھلکی (Light) گفتگو کے موڈ میں ہیں، اور ہماری جس بات سے بھی ان کے دل کو "چوٹ" لگی ہے ہم اس پر معذرت خواہ ہیں۔ ہماری جنابِ شارق سے گزارش ہے کہ ہمارے درمیان کوئی "مسئلہ کشمیر" (ایضاً،ص40) حل طلب نہیں۔ ہمارا مسئلہ نہایت سادہ تھا اور وہ ماشاء اللہ حل ہو گیا ہے۔ آپ نے ہماری اس گذارش کو تسلیم کر لیا ہے کہ آپ کے پیش کردہ سائنسی و روحانی تدبر دریا کے دو کنارے نہیں جو مل نہ سکتے ہوں، ایک سے دوستی دوسرے سے دشمنی کا تقاضا نہیں کرتی۔ (دیکھیے الشریعہ اگست 2014 میں ہمارا مضمون " روحانی تدبرِ کائنات؟"،ص52) آپ نے فرمایا ہے:
"یہ تاثر لینا درست نہیں ہو گا کہ میرے نزدیک روحانی تدبر اور مادی اغراض کے لیے ہونے والے "سائنسی تدبر " کی آمیزش ناممکن ہے۔ کیونکہ ایک ہی تدبر میں روحانیت او ر مادیت کی یوں آمیزش ہو سکتی ہے کہ اس کا جتنا حصہ "روحانی " ہو گا وہ " قرآنی تدبرِ کائنات" کے فضائل کا مصداق ہوگا اور جو حصہ غیر روحانی ہو گا،اس کا حکم "سائنسی و مادی تدبر" والا ہی ہو گا۔یہ عین ممکن ہے کہ سائنسی تدبر ہی کے دوران ایک صاحبِ تدبر اپنا کام بھی کر رہا ہو اور توجہ الی اللہ کو بھی اپنے دل میں سموئے ہوئے ہو،طبیعی عوامل پر غور کرتے ہوئے بھی یادِ الٰہی سے غافل نہ ہواور اس کے سامنے سائنسی و تحقیقی منظر نامہ "حجاب" بننے کی بجائے معرفتِ الٰہی میں بڑھوتری ہی کا ایک ذریعہ ثابت ہو رہا ہو۔اب ظاہر ہے کہ اس صورت میں روحانی و سائنسی تدبر یکجا ہیں،اس میں جتنا حصہ اللہ کے لیے ہوگا ،اس کا اجر اسے اللہ کے ہاں ملے گا اور جو حصہ غیر روحانی ہوگا، وہ قرآنی تدبر کائنات کے فضائل کا مصداق نہیں ہوگا۔"(الشریعہ اگست 2014، ص 42)
ہم اس ڈر سے کہ کہیں آپ دلی افسوس میں مبتلا نہ ہو جائیں، اس بحث میں نہیں پڑتے کہ ایک ہی تدبر کی یہ دو باریک موضوعی تقسیمیں آپ کیسے کریں گے؟ ایک صاحبِ تدبر کے ایک ہی تدبر کا کونسا حصہ کب روحانی اور کب مادی قرار پائے گا؟صرف یہ کہنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ آپ کے اس ارشاد سے ہمارا یہ موقف ثابت ہوگیا کہ روحانی ومادی تدبر یکجا ہیں۔اور آپ کا الشریعہ ،جون 2014،ص38پر یہ ارشاد منسوخ ہو گیا کہ روحانی و مادی تدبر میں زمین و آسمان کا فاصلہ ہے۔اسی پر بس نہیں بلکہ آپ نے تو اب کے" روحانی تدبر" کو یہ کہہ کر" سائنسی تدبر" سے واصل کر دیا کہ "روحانی تدبر بھی ہمارے نزدیک تدبرِ کائنات کی ایک قسم ہونے کی وجہ سے حسی و مشاہداتی اور قابلِ تفہیم تدبر ہی ہے۔" (الشریعہ اکتوبر2014،ص45)
ہم نے عرض کیا تھا کہ جس تدبر کو آپ "سائنسی تدبر "کہہ کر غیر روحانی یا محض ایک مباح سرگرمی بنانے کے درپے ہیں وہ ،عین ممکن ہے کہ کسی صاحبِ تدبر کے لیے خدا کے عرفان و ایقان کا ذریعہ بن جائے۔ (دیکھیے "روحانی تدبر کائنات؟"،ص52) آپ نے بھی اقرار کر لیا ہے کہ "سائنسی تدبر" خدائی مطالب? تدبر کی تکمیل ہو سکتا ہے۔آپ کا ارشاد ہے:
"یہ ممکن ہے کہ کوئی سائنسدان مادی اغراض کے لیے ہونے والے اپنے مذکورہ تدبر کو قلب کی بیداری، ہوشیاری ،ابدی و بدیہی صداقتوں کی بازیابی ،ظلمتوں کی سرکوبی اور طاری غفلت کے ازالہ کے لیے استعمال کرے تو سائنسی تدبر کا یہ ملکوتی استعمال خدائی مطالبہ تدبر کی تکمیل کہلائے گا۔"(الشریعہ اکتوبر 2014، ص 51)
تدبر کو سائنسی اورروحانی خانوں میں تقسیم کرنے کی بنیاد دراصل یہ مفروضہ تھا کہ "سائنسی تدبر"، "روحانی تدبر " کی راہ میں رکاوٹ ہے۔اگر آدمی " سائنسی تدبر" میں منہمک ہو جائے تو وہ "روحانی تدبر" کی برکات سے محروم ہو جاتا ہے۔ اسی تناظر میں آپ نے استدلال کیا تھا کہ آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا رویہ " سائنسی تدبر" سے میل نہیں کھاتا۔ (الشریعہ جون 2014،ص38۔41)لیکن اب آپ نے یہ بھی تسلیم کر لیا ہے کہ "سائنسی تدبر" روحانی تدبر" کی راہ میں رکاوٹ نہیں۔آپ کے الفاظ ہیں :
"آپ جان چکے ہیں کہ ہم نے سائنسی تدبر کو مباح بلکہ مستحسن بھی لکھا ہے ،پس اگر یہ تدبر خدا نخواستہ مطلوب روحانی تدبر کی راہ میں کوئی رکاوٹ ہوتا جو کہ حکمِ خداوندی ہے تو ہم سائنس کو آخر کیوں مباح اور مستحسن کہتے،اس صورت میں تو ایک خداوندی حکم کی تعمیل میں رکاوٹ کی وجہ سے اسے واجب الترک اور قابلِ نفرین ہونا چاہیے تھا۔" (الشریعہ اکتوبر 2014، ص 43)
آپ نے صرف یہی حقیقت بیان نہیں کی کہ "سائنسی تدبر " "روحانی تدبر" کی راہ میں رکاوٹ نہیں بلکہ اس حقیقت کو بھی واضح کر دیا کہ جدید دور کے سائنسی انسان کے سائنسی تدبر سے اس کی روحانیت کو ئی خطرہ لا حق نہیں۔ آپ کا کہنا ہے :" ہمارا مقصد اپنے مضمون میں کہیں پر بھی یہ ثابت کرنا نہیں تھا کہ جدید دور کا سائنسی انسان جو سائنسی ورلڈ ویو رکھتا ہے، وہ روحانی تدبر کا اہل نہیں۔"(ایضاً)
ہمارا بحث میں ایک مدعا یہ تھا کہ سائنسی تدبر کو محض مباح سرگرمی قرار دینے سے اس کی مذہبی اہمیت ختم یا کم ہو جاتی ہے، حالانکہ اس کے بہت سے بدیہی نتائج کی غیر معمولی مذہبی اہمیت ناقابلِ انکار ہے۔اس مقدمے کے ثبوت میں ہم نے عرض کیا تھا:
"دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے حالاتِ زمانہ کے تحت توپیں ،بم اور ٹینک وغیرہ سامانِ حرب کی تیاری تقریباً تمام اہل علم کے نزدیک قرآن کی تعلیمِ اعدوا لھم ما استطعتم من قوۃ کی مصداق ہے۔کیا یہ اسی نہج پر تدبر کے بغیر ممکن ہے ؟ اور کیا اسلحہ کے لیے بے شمار انواع کے علوم و فنون کی ضرورت نہیں ،جو ظاہر ہے کہ تدبر ہی کی بنیاد پر استوار ہو سکتے ہیں۔ کیا اس تدبر کے نتیجے میں وجود پذیر ہونے والی چیزیں سائنسی دریافتیں نہیں کہلائیں گی ؟ان اشیا کے حوالے سے کیے گئے تدبر پر آپ کا فتویٰ کیا ہو گا؟روحانی تدبر یا سائنسی تدبر؟اگر روحانی تدبر ہے تو سائنسی دریافتیں روحانی ہو گئیں اور اگر سائنسی تدبر ہے تو واعدوا لھم ما استطعتم من قوۃ ایک مباح سرگرمی ٹھہری۔" ("روحانی تدبر کائنات؟"، ص 55)
آپ کو گو اس بات سے اتفاق نہیں کہ سائنسی تدبر کی کوئی مذہبی اہمیت ہو سکتی ہے،تاہم آپ کو یہ تسلیم ہے کہ یہ فضیلت والی اور مستحسن سرگرمی ہے۔آپ اپنے تازہ مضمون میں گذشتہ مضمون کے حوالے سے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :
"گذشتہ تحریر میں ہمارا مقصد صرف یہ واضح کرنا تھا کہ دنیاوی مقاصد و اغراض کے لیے اور مادی حقائق کو منکشف کرنے کے لیے کائنات میں کیا جانے والا تدبر جو کہ سائنسدان کرتے ہیں ،یہ ہماری اصطلاح میں سائنسی تدبر ہے اور یہ جائز ہے ،بلکہ نیک نیتی کے ساتھ ہو تو واعدوا لھم ما استطعتم من قوۃ جیسی آیات کی وجہ سے فی زمانہ امت مسلمہ کے لیے کسی درجہ مستحسن بھی ہو سکتا ہے۔" (الشریعہ اکتوبر 2014، ص 39)
ضمنی گزارش سے اگر ہمارے ممدوح تنقید نگار کبیدہ خاطر نہ ہوں تو عرض کیے دیتے ہیں کہ واعدوا لھم ما استطعتم من قوۃ کا حوالہ جناب نے اپنے گذشتہ مضمون میں کہیں نہیں دیا۔(دیکھیے: الشریعہ جون 2014، ص 37۔41) یہ حوالہ ہم نے اپنے مضمون "روحانی تدبرِ کائنات؟" میں دیا ہے،جیسا کہ ہمارے اوپر درج اقتباس سے واضح ہے۔ شاید اپنے مضمون پر ہماری تنقید سے ان کو یہ شبہ ہوا کہ یہ حوالہ انہوں نے دیا ہوگا۔بہر حال ہم اس سہو کو ناقابل گرفت سمجھتے ہیں۔ساتھ ہی ایک چھوٹی سی ضمنی گزارش یہ ہے کون سا تدبر نیک نیتی سے ہو رہا ہے اور کون سا بد نیتی سے، اس کا فیصلہ کرنے کا ہمارے پاس کوئی پیمانہ نہیں ،اسے اللہ کے اختیار ہی میں رہنے دیجیے۔ایسا کرنے سے ہم دوسروں کے بارے میں ایسے فیصلوں سے بچ جائیں گے جو دوسروں کے کردار و عمل سے متعلق حقائق کی بجائے ہمارے ان کے بارے میں تخمینوں ،مفروضوں اور بغض و نفرت پر مبنی ہوتے ہیں۔ (اس سے متعلق کچھ گزارش ہم آخر میں پیش کریں گے)۔ ہمارا مقصد جناب کے مذکورہ اقتباس سے یہ ہے کہ جناب نے اب سائنسی تدبر کو محض مباح اور فضیلت والی سرگرمی سے اٹھا کر مستحسن سرگرمی کے درجے پر فائز کر دیا ہے۔ سوجناب اگر لفظوں پر نہ جائیں تو اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ وہ سائنسی تدبر کی مذہبی اہمیت کو تسلیم کر رہے ہیں اور یہی ہماری بحث سے مقصود تھا۔
جہاں تک جناب عبداللہ شارق کے اس ارشاد کا تعلق ہے کہ ہماری "تنقید بعض ایسی وضاحتوں کی متقاضی ہے جو اگر کسی بچہ کے سامنے دینی ہوتیں تو حرج نہیں تھا ،لیکن الشریعہ کے صفحات پر ایسا کرتے ہوئے گھٹن پید ا ہوتی ہے۔" (الشریعہ اکتوبر 2014،ص50)اس پر ہم ان سے کوئی وضاحت طلب نہیں کریں گے کہ ہم گفتگو کو "لائیٹ" رکھنا چاہتے ہیں اور اپنے ممدوح کو پھر "سیریس "نہیں کرنا چاہتے۔لیکن اتنا عرض کریں گے کہ کم از کم الشریعہ کو، جتنا ہم جانتے ہیں، آپ کی وضاحتوں سے کوئی گھٹن محسوس نہیں ہو سکتی۔وہ ہم ایسے بچوں ہی کو تو بالغ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم میچور ہونے کو تیار ہی نہیں ہو رہے۔
ہماری ایک بات جو جناب کو گھٹن آمیز اور بچگانہ لگی ہے، وہ یہ کہ چونکہ ہم مذہب کے نام پر ایسے بہت سے کام کرتے ہیں جو آنجناب علیہ السلام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نہیں کیا کرتے تھے ،اور ہم ان کاموں کو غلط نہیں سمجھتے اس لیے ہمارا ایسا سائنسی تدبر جو وہ اصحاب نہیں کیا کرتے تھے ،غلط کیسے ہو سکتا ہے! لیکن اس بچگانہ بات کو ہم بالغ نظر سمجھنے سے یکسر قاصر ہیں ، اور پھر وہی دلیل دیتے ہیں کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں آنجناب? اور صحابہ نے ایسا کیو ں نہ کیا! جناب کی خدمت میں عرض ہے کہ ہمیں معلوم ہے کہ آپ ہر اس کام کو غلط نہیں سمجھتے جو حضور اور آپ کے اصحاب نے نہیں کیا، لیکن یہاں معاملہ یہ نہیں۔ یہاں بحث کسی کام کے مطلق رسول? اور اصحاب رسول کے بعد واقع ہونے کی نہیں بلکہ اس کی مذہبی اہمیت کی نفی یا اثبات کی ہے۔یہاں مسئلہ یہ ہے کہ کیا صرف اسی کام کی مذہبی اہمیت ہے جو بعینہ حضور اور صحابہ کے سے طور و انداز سے انجام پائے یا اس کے علاوہ بھی کوئی عمل مذہبی اہمیت کا سزاوار ہے؟ہمارا مقدمہ یہ ہے کہ بہت سے ایسے امور و اعمال بھی مسلمہ مذہبی اہمیت کے حامل ہیں جو ہ بعینہ حضور اور صحابہ کے سے طور و انداز سے انجام نہیں پاتے۔ جب ایسا ہے تو زیرِ بحث سائنسی تدبر اس سے مستثنیٰ کیسے ہو سکتا ہے!ہماری جس بات کو جناب عالی "سوال چنا جواب گندم" سے تعبیر فرما کر ہوا میں اڑا رہے ہیں وہ آپ کی اصل "مشکل کشا "ہے۔ آپ جس فہرست کو "وغیرہ وغیرہ کی ایک لمبی داستان"(ایضاً،ص50)کہہ کرفضول باور کرارہے ہیں،وہ ہم نے کچھ یوں بیان کی تھی:
"کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں وہ سرگرمیاں نظر آتی ہیں جو ہم اور آپ آج کل ببانگ دہل دین کی خدمت کے نام پر انجام دے رہے ہیں ؟کیا حضور اور آپ کے صحابہ ہماری طرح مضمون نگاری کیا کرتے تھے؟کیا انہوں نے بڑے بڑے مدارس اور اداروں کی ادارت سنبھال رکھی تھی ، اور ان کے لیے وہ نصاب وضع کر رکھا تھا جو ہمارے نزدیک قریب قریب الہامی ہے؟ کیا وہ اشعری ، ماتریدی ،حنفی ،شافعی ،دیوبندی ،بریلوی کہلایا کرتے تھے ؟ کیا وہ غزالی اور ابن رشد کی کلامی بحثوں پر وقت ضائع کیا کرتے تھے ؟ کیا ان میں سے بہت سی بحثیں کبھی صحابہ کے خواب و خیال میں بھی آئی تھیں ؟ انہوں نے ایسی مذہبی سیاسی جماعتیں بنا رکھی تھیں جو اسلام کی خدمت کے نام پر ان سیکولرلوگوں کے ساتھ مل کر حکومت کیا کرتی تھیں جن کی کرپشن اور اسلام دشمنی کا خود ہی ڈھنڈورا پیٹا کرتی تھیں ؟"
صحابہ نے تو آپ کے بقول " قرآنی لفظ "اب"کی تحقیقات کے لیے کمیٹیاں نہیں بنائی تھی "لیکن ہمارے فقہا اور متکلمین نے قرآن کے ایک ایک لفظ کے فقہی و کلامی مصداق ڈھونڈنے میں عمریں کھپا دیں ،ہم اس پر بھی مطمئن نہ ہوئے اور ان کی مزید کرید کے لیے تھوک کے حساب سے دارالافتا ،مفتی اور متکلم بنا دیے، اور مسلسل بنائے جا رہے ہیں۔ دفتروں کے دفتر سیاہ کر دیے اور کرتے جا رہے ہیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ نے کھجوروں سے مسجدیں بنائیں۔ ہم نے بھوک سے بلکتی مخلوق کی سنی ان سنی کر کے قومی دولت کو تزئین ممبر و محراب میں جھونک دیا۔ "شاگردانِ رسول نے مفتوحہ علاقوں میں پڑے کتا بوں کے انبار سے دلچسپی نہ لی" اور ہم ہیں کہ اپنی للہیت اور خدارسیدگی کو داو پر لگا کر مدارس اور کتب خانوں میں انواع واقسام کی کتابیں جمع کر تے رہتے ہیں ؛اوران کتابوں میں بہت سی ایسی بھی ہیں جن میں ہمارے عقائد کے لحاظ سے کفر بھرا ہوا ہوتاہے۔ یہ فہرست بہت طویل ہے۔یہ سب چیزیں اگر عہدِ نبوی و صحابہ میں موجود نہ ہونے کے باوجوددین و ملت کی خدمت ہیں تو سائنس بے چاری ؛جس نے آپ کی ان دینی خدمات کے لیے اپنی بہت سی سروسز پیش کی ہیں، اس سے متعلق غور و فکر ہی دشمنی ملت اور مخالفتِ قرآن کیوں ٹھہری!"
لیکن اس داستان کی کسی بات سے متعلق آپ یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ آج کل اس کی مذہبی اہمیت نہیں اور اس کے حامل وقائل اس کو اسلام کی مطلوب و مقصود بات خیال نہیں کرتے،حالانکہ حضور علیہ السلام اور آپ کے اصحاب کا اس میں کوئی کردار نہیں۔جب اس لمبی داستان کی ہر بات اسلام کا مطلوب و مقصود ہے تو اس کی آخری بات یعنی سائنسی تدبر کومحض مباح کہنے اور اسلام کا مقصود و مطلوب نہ ماننے کا بھی کوئی جواز نہیں ہو سکتا۔
آپ سائنسی تدبر کے حوالے سے ہمارے اس استدلال سے اتفاق کرتے ہیں کہ یہ مرغوب و پسندیدہ اور موافقِ قرآن ہے، لیکن آپ کو یہ ماننے میں تامل ہے کہ موافق قرآن پر آیاتِ قرآنی کا انطباق بھی ہو سکتا ہے۔ آپ نے ہمارے استدلال کے حوالے سے ہمیں مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’گزارش یہ ہے کہ جو چیزمباح اور کسی درجہ مستحسن ہو، وہ آپ ہی کے بقول خلافِ قرآن نہیں بلکہ موافقِ قرآن ہے اور اسی کے ہم قائل ہیں۔ لیکن یاد رکھیے کہ کسی چیز کے موافق قرآن ہونے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اب اس پر قرآن کی کوئی بھی آیت منطبق کر دینے کا کسی کو فری ہینڈ مل گیا ہے۔ مثلاً جسمانی ورزش ایک مباح و مستحسن سرگرمی ہے اور اس لیے اسے خلافِ قرآن بھی نہیں کہا جا سکتا، مگر اب اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ "اقیموا الصلوۃ" کے قرآنی حکم سے بھی یہی ورزش مراد لینا جائز ہے۔" (ایضاً، ص 51)
ہمارے لیے جناب عبداللہ شارق بہت محترم ہیں ،اس لیے ہم انہیں "سوال چنا جواب گندم" یا"بچگانہ وضاحتوں کی متقاضی تنقید" کا طعنہ نہیں دیں گے۔ ہم بڑے ادب سے گزارش کریں گے کہ جناب آیتوں کے مختلف مفاہیم پر انطباق کے لیے لوگوں کو فری ہینڈ دینے کا کوئی بھی قائل نہیں۔ہم تو بات اس تدبر کی کر رہے ہیں جس پر قرآن کی سینکڑوں آیات بڑے بڑے مفکرین قرآن کے نزدیک بالبداہت منطبق ہو رہی ہیں،لیکن آپ اس کا کوقرآن کی ضمنی مراد بھی ماننے کو تیار نہیں۔ آپ کو سمجھانے کی ضرورت نہیں کہ ضمنی مراد اور " یہی مراد" میں بہت فرق ہے۔ضمنی مراد اضافی ہوتی ہے اور اس سے متن کے بنیادی و اصلی مفہوم میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ضمنی مراد لینے والا کوئی بھی شخص کبھی یہ نہیں کہتا کہ متن کی یہی مراد ہے ،بلکہ وہ ہمیشہ یہ کہتا ہے کہ اس سے یہ مفہوم بھی نکل سکتا ہے۔
کسی بات کو قرآن کے نقطہ نظر سے مستحسن اور موافق قرآن مان لینے کے بعد یہ کہنے کی کوئی گنجایش ہی نہیں رہتی کہ وہ بات قرآن کی ضمنی مراد بھی نہیں ہو سکتی۔جو بات قرآن کی ضمنی مراد بھی نہ ہو اس کے مستحسن اور موافق قرآن ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔قرآن کے نقطہ نظر سے صرف اسی بات کو مستحسن اور موافقِ آیاتِ ربانی قرار دیا جاسکتا ہے جو اس کی آیاتِ بینات سے ثابت ہوتی ہو۔ اگرچہ "اقیموا الصلوۃ" سے جسمانی ورزش مراد لینے کی مثال کا تدبر سے متعلق سینکڑوں آیاتِ قرآنی سے سائنسی وتحقیقی تدبر مراد لینے سے کچھ علاقہ نہیں۔ تاہم اگر ہمارے ممدوح تنقید نگار گھٹن محسوس نہ کریں تو نماز کے قیام سے اللہ کی یہ ضمنی حکمت مراد لینے میں بھی کوئی امر مانع نہیں کہ نمازی جسمانی طور پر صحت مند وتوانارہیں، زندگی کو بھرپور انداز سے گزاریں،دشمن کا تر نوالہ نہ بنیں، عبادتِ الٰہی کو رغبت اور دلجمعی کے ساتھ ادا کرسکیں۔ جسمانی ورزش اگر مخالفِ قرآن نہیں اور مستحسن ہے تو اس کا قرآن کی اس نوع کی آیات سے ثابت ہونا کسی طرح بعید از قیاس نہیں۔ "اقیموا الصلوۃ" میں اگر اس حوالے سے آپ کو تکلف محسوس ہو تو "زادہ بسطۃ فی العلم والجسم" اور "واعدوا لہم ما استطعتم من قوۃ" وغیرہ بہت سی دیگر آیات سے استشہاد کیا جا سکتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ جناب عبداللہ شارق کے استدلالات سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ سائنسی و روحانی تدبر یکجا ہیں۔ سائنسی تدبر قرآن کے نقطہ نظر سے مستحسن ہے، اس کی مذہبی اہمیت مسلمہ ہے ،اورقرآن سے اس کا جواز فراہم ہوتا ہے،اور یہی ہمارا استدلال ہے۔ہمارے ممدوح تنقید نگار معناً تو ان باتوں کو صاف مان رہے ہیں، البتہ لفظاً وہ کہیں مان لیتے اور کہیں انکار کر دیتے ہیں۔ہم لفظوں پر نہیں جاتے اور سمجھتے ہیں کہ مقصود ومدعا کے اعتبار سے وہ ہمارے نقطہ نظر سے زیادہ دور نہیں۔انہیں مان کر نہ ماننے کی روش نہیں اپنانا چاہیے۔
تاہم ہمیں اس بات پر اصرار نہیں کہ وہ ہماری رائے کو لازماً تسلیم کریں۔ہم اپنے دیانتدرانہ فہمِ مذہب کی بنیاد پر اپنی رائے پیش کر چکے۔وہ جس رائے کو دیانتداری سے صحیح سمجھتے ہیں، اسے اختیار اور بیان کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ البتہ ضد اور اختلاف برائے اختلاف کی بنا پر نہ ماننا کسی طرح روا نہیں ،اور یہ فیصلہ ہر صاحبِ علم و ہوش مسلمان خو د کر سکتا ہے کہ وہ کسی بات کو ضد کی بنا پر نہیں مان رہا یا واقعی اس سے مختلف رائے کو مذہب کا منشا خیال کرتا ہے۔ پہلی صورت میں وہ مواخذے کا سزاوار ہے اور دوسری صورت میں منشا ے الہی تک پہنچنے کی دیانتدارانہ جد و جہد کے حوالے سے دی گئی ثواب کی نوید کی بنا پر اجر کا،لیکن یہ کام نیت سے عبارت ہے اور نیتوں کا حال اور اس پر فیصلے کا اختیار خدوندِ قدوس کا ہے۔ ہم نہ ان سے واقف ہو سکتے ہیں اور نہ اس بنیاد پر کوئی فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں۔
مکاتیب
ادارہ
(۱)
بخدمت محترم مولانا زاہد الراشدی، تمغہ امتیاز
بعد از سلام مسنون، فقیر کا نام بھی مبارک باد دینے والوں میں شامل کیجیے۔ دعا ہے کہ مبارک ہی رہے۔
ایوارڈ کی خبر عزیزم جعفر نے مجھے روزنامہ اسلام کا اداریہ بھیج کر دی۔اور اس سے ایک ایسی بات معلوم ہوئی کہ ذرا سا فکر میں ڈال گئی۔ اور وہ تھی مرحوم اوج صاحب کے بارے میں آپ کے خیالات۔ میں موصوف سے نام کو بھی واقف نہ تھا۔ ان سے اولین واقفیت ان کے ایک مضمون نے کرائی جو معارف اعظم گڈھ میں نکلا تھا اور دوماہ ہوئے، میرے دوست ڈاکٹر سید سلمان ندوی نے اس کی نقل مجھے بھیجی۔ مضمون اسلام میں باندیوں (ما ملکت اَیمانکْم) کے مسئلہ سے متعلق تھا اور سلمان صاحب نے مجھے یہ بھیج کر یہ چاہا تھا کہ میں جو اس سے مختلف رائے رکھتا ہوں جس کا علم بھی انھیں معارف ہی سے ہوا تھا، اس پر از سر نو غور کروں۔ میں نے یہ مضمون پڑھ کر ڈاکٹر سلمان صاحب کو جو جواب لکھا، آپ کی تحریر مجھے اس کے بارے میں پریشانی میں ڈال گئی۔ میرے جواب کی روسے اوج صاحب قابلِ توجہ ہی نہ تھے جبکہ آپ کی تحریر سے پتہ چلا کہ وہ تو بڑی ذی علم ہستی تھی۔ میں ممنون ہوں گا اگر آپ ذرا وقت نکلا ل کریہاں اٹیچ کردہ میرا خط پڑھ لیں اور میں نے جس بنیاد پر مرحوم کے خیالات کو رد کیا، اس کے بارے میں بے تکلف بتائیں کہ کیا میں اس میں غلطی کا مرتکب ہوا ہوں۔ ڈاکٹر سلمان صاحب نے اختلاف کیا نہیں، دبے لہجے میں مان ہی لیا۔ امید ہے زیادہ انتظار نہ کرنا پڑے گا۔
والسلام
نیازمند ، عتیق سنبھلی
(لندن)
(۲)
لندن ۲۴؍اگست ۲۰۱۴ء
بخدمت سیدِ والا جاہ محبِ مکرم مولانا ڈاکٹر سید سلمان ندوی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ،
میرا ای میل عریضہ مل گیا ہوگا۔ تو جناب وہ آپ کا مرسلہ مضمون ملا اورپڑھا گیا۔ آپ نے اس کے ساتھ یہ لکھ کر کہ آپ خود بھی اسی طرح سوچتے ہیں، مجھے مشکل میں ڈال دیا کہ اس مضمون کے بارے میں اپنا تأثر کیسے ظاہر کروں اور نہیں توکیسے نہ کروں۔ بہرحال عذاب ثواب آپ کے سر۔ مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجیے کہ ان پروفیسر صاحب نے ایک ایسی وادی میں قدم رکھ دیا ہے جس کی اہلیت نہیں بہم پہنچائی تھی۔ اس کی صرف ایک مثال کافی سمجھتا ہوں۔ وہ ہے موصوف کا ’’ما ملکت ایمانُکُم‘‘ میں صیغۂ ماضی سے اس دعوے پر استدلال کہ یہ ان باندیوں سے متعلق حکم ہے جو ماقبل اسلام سے چلی آرہی تھیں، ورنہ اسلامی جنگوں کے قیدیوں کو بھی اگرغلام باندی بنا کر رکھنا جائز ہوتا اور مسئلہ کا تعلق ان سے بھی ہوتاتو ماضی کے بجائے مضارع کا صیغہ لایا گیا ہوتا۔ مجھے لگتا ہے کہ آپ نے مضمون کو غور سے نہیں دیکھا، ورنہ یہ استدلال تو قرآن کی زبان سے بالکل بے خبری کا نتیجہ ہے۔ یہ اگر صحیح ہو تو جو لوگ قرآن نازل ہونے پر ایمان لائے، ماضی سے نہیں لائے ہوئے تھے، وہ تو قرآن کی اِنَّ الّذینَ اٰمَنُوا وعَمِلُوا الصٰلحات کے ذیل میں آنے سے رہے۔ ہم آپ کجا!کاش ان صاحب کو کوئی بتائے کہ قرآن تو مستقبل میں حشر و نشر اور جنت و دوزخ تک کے واقعات اور معاملات کے لیے ماضی کے صیغے استعمال کرتا ہے۔
سلمان صاحب! مجھے اگریہ نہ معلوم ہوتا کہ ارباب معارف بھی اسی طرح سوچتے ہیں تو میں کہتا کہ کیا معارف کا معیار اب یہ ہوگیا ہے کہ ایسے مضامین اس میں جگہ پائیں؟
یہ تو ہوئی پروفیسر صاحب سے متعلق گزارش۔ اب اجازت ہو تو آپ سے ایک سوال کی سورۂ مؤمنون کی آیت (۵) صریح طور پر قابلِ تمتّع عورتوں کی دو کیٹیگریز قائم کی گئی ہیں ۔اِلّا عَلیٰ ازواجِھِمْ او ما ملکتْ ایمانُھُم فَاِنَّھُم غَیرُ مَلومین آپ اس دوئی کو کس دلیل سے کالعدم کریں گے؟
والسلام
گستاخ نیازمند، عتیق
(۳)
باسمہ سبحانہ
محترمی حضرت مولانا عتیق الرحمن سنبھلی صاحب زیدت مکارمکم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مبارک باد کا شکریہ! دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اسے خیر کا ذریعہ بنا دیں۔ آمین
ڈاکٹر شکیل اوج مرحوم کے بارے میں ڈاکٹر سلمان ندوی صاحب کے نام آپ کا گرامی نامہ پڑھا۔ مجھے آیت کریمہ کے مصداق کے حوالے سے آپ کے موقف سے کلی اتفاق ہے اور میرا موقف بھی یہی ہے جس کا متعدد بار اظہار کر چکا ہوں، بلکہ کسی بھی قرآنی حکم پر جمہور اہل علم کے اجتماعی موقف سے انحراف کو درست نہیں سمجھتا۔
ڈاکٹر شکیل اوج صاحب کا تعلق بریلوی مکتب فکر سے تھا اور وہ یونیورسٹی کے ماحول میں کام کرنے والے ان حضرات میں سے تھے جو مطالعہ وتحقیق کا ذوق رکھتے ہیں اور اپنے ماحول کے مخصوص دائرہ سے باہر نکل کر کھلی فضا میں بھی افادہ واستفادہ کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ میری کمزوری یہ ہے کہ میں ایسے لوگوں کو غنیمت سمجھتا ہوں اور ان کی اس قسم کی فکری بے راہ روی پر گمراہی کا فتویٰ دینے کی بجائے افہام وتفہیم کے ذریعے رجوع کی طرف توجہ دلانے کو ترجیح دیتا ہوں جس پر بعض مفتیان کرام کے غیظ وغضب کا نشانہ بھی بنتا رہتا ہوں۔
میں نے ڈاکٹر صاحب مرحوم کے افکار کی تائید نہیں کی بلکہ ان کے مطالعہ وتحقیق کے ذوق اور قدرے کھلے ماحول میں بحث ومباحثہ کی سرگرمیوں کا ذکر کیا ہے، بالخصوص اس پس منظر میں کہ اس قسم کے ذوق اور محنت پر ’’واجب القتل‘‘ ہونے کے فتووں کی بجائے افہام وتفہیم کا راستہ ہی میرے نزدیک صحیح راستہ ہے۔ اس لیے میری گذارشات کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔
امید ہے کہ دعاؤں اور شفقتوں میں آئندہ بھی یاد رکھیں گے۔ شکریہ
والسلام
راشدی
۱۰؍ اکتوبر ۲۰۱۴ء
الشریعہ اکادمی کی سرگرمیاں
ادارہ
12 اکتوبر 2014ء بروز اتوار بعد نمازِ مغرب ’’تحریک انسدادِسود‘‘ کے مرکزی راہنمااور تنظیم اسلامی پاکستان کے امیر جناب حافظ عاکف سعید نے ’’سودی نظام کے خلاف جدوجہدکی موجودہ صورتحال‘‘ کے موضوع پر خطاب فرمایا۔
13 اکتوبر کو اکادمی کے زیر انتظام مدرسۃ الشریعہ میں عید الاضحی کی تعطیلات کے بعددوبارہ تعلیم کا آغاز ہوا۔
18 اکتوبر کو اکادمی کے زیر اہتمام مرکزی جامع مسجد شیرانوالا باغ،گوجرانوالہ میں دینی مدارس کے طلباء کے لیے چالیس روزہ’’عربی بول چال کورس‘‘ کا آغاز ہوا۔
19 اکتوبر کو جامع مسجد احمد،رتّہ روڈ میں سکول وکالج کے طلباء کے لیے ’’عربی بول چال کورس‘‘شروع ہوا جس کی کلاس ہفتے میں صرف دو دن،جمعہ اور اتوار کو ہوا کرے گی۔
20 اکتوبر کو مولانا زاہدالراشدی صاحب نے اس سال کی تیسری پندرہ روزہ فکری نشست میں’’قادیانی مسئلہ اور اس کی تحریک‘‘کے عنوان پر لیکچر دیا۔
23 اکتوبر کو ادارہ رحیمیہ لاہور کے سربراہ مولانا مفتی عبد الخالق آزاد الشریعہ اکادمی میں تشریف لائے اور اساتذہ وطلبہ سے گفتگو کی۔
نشہ اور اس کا سدباب
حکیم محمد عمران مغل
فی زمانہ نشہ کا مرض معاشرے میں بڑھتا جا رہا ہے۔ امام غزالی رحمہ اللہ نے نشہ کی تعریف اس طرح کی ہے کہ اگر کوئی شخص چاول کھانے کا عادی ہو اور اسے روٹی کھانی پڑ جائے اور اس سے وہ مشقت میں پڑ جائے تو یہ نشہ ہی ہے۔ ایسی عادت سے بچنا چاہیے۔
نشے میں عموماً ایسے لوگ مبتلا ہوتے ہیں جن میں قوت مدافعت ختم ہو چکی ہو۔ خانگی معاملات، اقتصادی ناہمواری، گھریلو لڑائی جھگڑے، ٹھیک نہ ہونے والی بیماری، اگر ایسی کوئی بھی صورت حال ایک عرصے تک قائم رہے تو اس سے اعضائے رئیسہ کمزور ہو جاتے ہیں اور طبیعت میں بوجھل پن آ جاتا ہے۔ اس کے کے ازالے کے لیے اور ذہنی سکون کے لیے کوئی چارہ کرنا پڑتا ہے۔ نشہ یہی کام کرتا ہے۔
اگر خدا نخواستہ شراب، افیون، چرس، بھنگ، سگریٹ یا نسوار نے آپ کو اپنے چنگل میں پھنسا لیا ہو تو اس سے چھٹکارے کے لیے اطباء کا بتایا ہوا ایک بے خطا اور انمول علاج پیش کرتا ہوں۔ ان شاء اللہ نشے کی عادت بہت جلد ختم ہو جائے گی۔ صرف خالص شہد مہیا کرنا ہوگا۔ اگر شہد خالص نہ ہو تو سارا کھیل بگڑ جائے گا۔
جب بھی نشے کی طلب محسوس ہو تو خالص شہد بچوں کی طرح ہتھیلی پر ڈال کر چاٹنا شروع کر دیں۔ دن میں تین چار بار تو ضرور ایسا کریں۔ ان شاء اللہ آپ کو محسوس بھی نہیں ہوگا اور نشہ آپ کا پیچھا چھوڑ دے گا۔ مگر شرط یہ ہے کہ شہد میں رائی برابر بھی ملاوٹ نہ ہو۔ یہی اصل محنت ہے اور شہد کو چاٹ کر استعمال کرنا شرط ہے۔
دسمبر ۲۰۱۴ء
جاگیرداری نظام اور سود کا خاتمہ ۔ مذہبی جماعتوں کی ترجیحات؟
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق نے مینار پاکستان گراؤنڈ لاہور میں منعقدہ جماعت اسلامی کے سالانہ اجتماع میں سودی نظام کے خلاف جنگ، جاگیرداری نظام کے خاتمے اور متناسب نمائندگی کی بنیاد پر انتخابات کے لیے جدوجہد کو اپنی آئندہ حکمت عملی اور جماعتی کاوشوں کا بنیادی ہدف قرار دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ باتیں ملک کی اکثر دینی اور محب وطن سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشوروں میں شامل چلی آ رہی ہیں۔ اگر ۱۹۷۰ء کے الیکشن کے موقع پر پیش کیے جانے والے انتخابی منشوروں کا جائزہ لیا جائے تو دیگر معاملات کے ساتھ یہ امور بھی ان میں نمایاں نظر آئیں گے، حتیٰ کہ جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے منشور کو تو جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف نمایاں جنگ کے باعث بعض حلقوں نے ’’سوشلسٹ مولویوں‘‘ کا دستور قرار دینا بھی شروع کر دیا تھا، لیکن پاکستان کی تقسیم اور نئے پاکستان کے مسائل نے سیاسی اور دینی جماعتو ں کی ترجیحات میں ایسی اکھاڑ پچھاڑ کی کہ سب کچھ الٹ پلٹ ہو کر رہ گیا۔ اس کے بعد سے میرے جیسے نظریاتی کارکنوں کا یہ انتظار حسرت میں ہی بدلتا چلا گیا کہ کوئی جماعت جاگیرداری نظام کے خاتمے کی بات کرے، کسی جماعت کی ترجیحات میں سرمایہ دارانہ نظام کے چنگل سے قوم کو نجات دلانے کی بات شامل ہو، کوئی جماعت ملک کے معاشی نظام کو سود کی لعنت سے پاک کرنے کا نعرۂ مستانہ بلند کرے اور کوئی پارٹی متناسب نمائندگی کی بنیاد پر انتخابات کی راہ ہموار کرتی ہوئی دکھائی دے۔
اس وقت پاکستان کے نظام میں تبدیلی کا ایک تصور وہ ہے جو بین الاقوامی سیکولر حلقے پیش کر رہے ہیں اور ملک کی سیکولر لابیاں اور دانش ور اس کے لیے مضطرب اور بے چین ہیں، جبکہ نظام کی تبدیلی کا دوسرا تصور وہ ہے جو دستور پاکستان کے اسلامی تشخص کا تقاضا ہے، قیام پاکستان کے مقصد کی تکمیل کی طرف لے جانے والا ہے اور پاکستان کے عوام کی غالب اکثریت کی خواہش ہے۔ ملک کے عوام کی اکثریت کیا چاہتی ہے؟ اس سلسلے میں ایک قومی اخبار میں ۱۹؍ نومبر کو شائع ہونے والی یہ خبر عوامی رجحانات سے آگاہی کے لیے کافی ہوگی کہ:
’’اسٹیٹ بنک آف پاکستان اور ڈی ایف آئی ڈی کے تعاون سے ہونے والی ایک منفرد تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں اسلامی بینکاری کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی ہے اور ۹۵ فیصد عوام کا مطالبہ ہے کہ سود پر پابندی ہونی چاہیے اور ساتھ ہی سود کے موجودہ سسٹم کو بھی ختم ہونا چاہیے۔ تحقیق میں اعتراف کیا گیا ہے کہ ملک میں اسلامی بینکاری کے موجودہ حجم سے ملک کی گھریلو اور کاروباری ضروریات پوری نہیں ہو سکتیں۔ رپورٹ میں اسٹیٹ بنک آف پاکستان سے کہا گیا ہے کہ وہ ایسی حکمت عملی مرتب کرے جس سے اسلامی بینکاری کی صنعت میں وسعت لائی جائے تاکہ اسلامی بینکاری سے متعلق مصنوعات میں اضافہ ہو سکے۔‘‘
سردست ہمیں اس سے بحث نہیں کہ یہ اسلامی بینکاری جو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے انتظام کے تحت چلائی جا رہی ہے، کس حد تک اسلامی ہے اور اسے مکمل اسلامی بینکاری کی منزل تک لے جانے کے لیے کن اقدامات کی ضرورت ہے، مگر یہ بات سب لوگوں کے لیے قابل توجہ ہے کہ ملک کے ۹۵ فیصد عوام سودی نظام سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ سود کی لعنت سے نجات حاصل کر کے ملک میں اسلامی بنیادوں پر معیشت کا نظام استوار کیا جائے۔ اسی سے باقی امور پر بھی عوامی خواہشات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے اور یہ واضح ہوتا ہے کہ عوام کی غالب اکثریت ملک کے نظام میں اس تبدیلی کی خواہش مند ہے جو دستورِ پاکستان کے اسلامی تشخص کی تکمیل کے لیے ہو اور قرآن وسنت کے احکام وقوانین کی موثر عمل داری کے لیے ہو۔
اس پس منظر میں ہم جناب سراج الحق کے اس اعلان کا خیر مقدم کرتے ہیں، مگر ہماری خواہش ہے کہ یہ نعرہ صرف ایک پارٹی کے سلوگن کے طور پر آگے نہ بڑھے، بلکہ ملک کی دینی اور سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر ان تین اہداف کے لیے مشترکہ جدوجہد کا اہتمام کیا جائے۔ خاص طور پر جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان اور مرکزی جمعیت اہل حدیث کے لیے تو ہم اسے بھولا ہوا سبق سمجھتے ہیں اور ان سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان مقاصد کے لیے تحریک ختم نبوت، تحریک تحفظ ناموس رسالت اور تحریک نظام مصطفی کی طرز پر قوم کو اجتماعی قیادت فراہم کریں تاکہ ملک کو فرسودہ نو آبادیاتی نظام سے نجات دلائی جا سکے اور قوم اپنی حقیقی منزل کی طرف پیش رفت کر سکے۔
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۲)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں
ڈاکٹر محی الدین غازی
(۲۲) أَحْسَنَ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ کا ترجمہ:
قرآن مجید میں کئی مقامات پر اعمال کا بدلہ دینے کی بات بڑے زور اور تاکید کے ساتھ کہی گئی ہے۔ اس مفہوم کی ادائیگی کے لئے بعض مقامات پرقرآن مجید میں جو اسلوب اختیار کیا گیاہے، اسے سمجھنے میں بعض مترجمین سے غلطی ہوئی ہے۔
جزی کا فعل عربی زبان میں کسی چیز کا بدلہ دینے یا کسی کا بدل بننے اور کام آنے کے مفہوم میں آتا ہے۔ اس فعل کے بعد وہ چیز ذکر ہوتی ہے جسے بطور بدلے کے دیا گیا اور وہ چیز بھی ذکر ہوتی ہے جس کا بدلہ دیا گیا۔ کبھی دونوں ساتھ ذکرہوتے ہیں اور کبھی کسی ایک پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
دونوں کے ذکر کی مثال ہے:
وَجَزَاہُم بِمَا صَبَرُوا جَنَّۃً وَحَرِیْرا۔ً (الانسان: ۱۲)
’’اور انہیں ان کے صبر کے بدلے جنت اور ریشمی لباس عطا فرمائے۔‘‘ (محمد جوناگڑھی)
فعل جزی کے استعمال کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں۔ اگر یہ کہنا ہو کہ ’’اس نے تمہیں بہترین بدلہ دیا‘‘ تو کہا جاتا ہے جزاک أحسن الجزاء۔ اگر کہنا ہو کہ ’’اس نے تمہیں تمہارے عمل کا صلہ دیا‘‘ تو کہا جاتا ہے: جزاک بما عملت۔ اگر کہنا ہو کہ ’’اس نے تمہیں تمہارے عمل کا بہترین بدلہ دیا‘‘ تو کہا جاتا ہے: جزاک بما عملت أحسن الجزاء۔ لیکن اگر یہ کہنا ہو کہ اس نے تمہیں تمہارے بہترین عمل کا صلہ دیا تو کہا جاتا ہے: جزاک بأحسن ما عملت۔ گویا اگر بہترین بدلہ کہنا ہو تو أحسن الجزاء کہیں گے، اور اگر بہترین عمل کہنا مقصود ہو تو عمل کی طرف احسن کی اضافت ہوگی، جیسے بأحسن ما کانوا یعملون۔ یہ آخری اسلوب قرآن مجید میں کئی مقامات پر آیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان سب مقامات پر بہترین عمل کا مفہوم اختیار کیا جاتا جو جملہ کی مذکورہ ترتیب سے متبادر ہے، لیکن اس کے بجائے بہت سارے لوگوں نے بہترین بدلے کا مفہوم اختیار کیا۔
اردو تراجم سے پہلے یہ غلطی عربی تفاسیر میں ملتی ہے۔ بہت سارے مفسرین نے بہترین بدلے والا مفہوم اختیار کیا، لیکن اس کے یے انہیں أحسن یا أسوأ کے بعد جزاء کو مضاف الیہ کے طور پر محذوف ماننا پڑا۔ ابو حیان کے الفاظ میں:
وَلَنَجزِیَنَّہْمَ أحسَنَ الَّذِی: أی أحسن جزاء أعمالہم۔ (البحر المحیط: ۸/۳۴۲)
حالانکہ محذوف ماننے کے اس تکلف کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ صحیح مفہوم وہی ہے جو بغیر محذوف مانے ادا ہورہا ہے۔ مشہور قدیم مفسرابن عطیہ غرناطی نے آیت کا مفہوم صحیح اختیار کیا مگر اس کی نحوی توجیہ کو ایک مضاف محذوف مان کرتکلف آمیز کردیا۔ وہ کہتے ہیں:
وفی قولہ عز وجل (ولنجزینہم أحسن) حذف مضاف تقدیرہ ثواب أحسن الذی کانوا یعملون۔ (المحرر الوجیز: ۵/۲۱۵)
حالانکہ ثواب کو مضاف کے طور پر محذوف ماننے کی ضرورت ہی نہیں ہے، کیونکہ جزی کے اندر ثواب کا مفہوم مکمل طور پر موجود ہوتا ہے، اور جزی کے بعد اس چیز کو راست ذکر کردیا جاتا ہے جس کا صلہ دینا مقصود ہوتا ہے۔
یہ بات بھی سامنے رہے کہ فعل جزی کے بعد کبھی اس چیز کا ذکر کیا جاتا ہے جس کی جزاء دی جاتی ہے اور اس پر کبھی باء لگتی ہے اور کبھی نہیں لگتی ہے، جیسے ہَلْ تُجْزَوْنَ إِلاَّ بِمَا کُنتُمْ تَکْسِبُونَ۔ (یونس: ۵۲) اور ہَلْ تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ۔ (النمل: ۹۰) اور کبھی نفس جزاء یا جزاء میں جو چیز دی جاتی ہے، اس کا ذکر کیا جاتا ہے، لیکن اس پر باء نہیں لگتی ہے۔ اب اگر قرآن مجید میں کہیں أحسن آیا ہے اور کہیں باء کے ساتھ بأحسن آیا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں نفس جزاء مراد نہیں ہے بلکہ وہ چیز مراد ہے جو جزاء کا سبب یا اس کا باعث ہے یعنی عمل۔ گویا درست ترجمہ ’’بہترین عمل کا اجر‘‘ ہوگا نہ کہ ’’عمل کا بہترین اجر‘‘۔
مذکورہ بالا وضاحت کے بعد ذیل میں وہ آیتیں ذکر کی جاتی ہیں جہاں بعض مترجمین نے کمزور مفہوم کو اختیار کیا۔
(۱) لِیَجْزِیَہُمُ اللّٰہُ أَحْسَنَ مَا کَانُواْ یَعْمَلُونَ۔ (التوبۃ : ۱۲۱)
’’تاکہ اللہ ان کو ان کے عمل کا اچھے سے اچھا بدلہ دے۔‘‘ (امین احسن اصلاحی، یہ ترجمہ کمزور ہے)
’’تاکہ اللہ ان کے اس اچھے کارنامے کا صلہ انہیں عطا کرے۔‘‘ (سید مودودی)
’’تاکہ اللہ ان کو ان کے بہترین عمل کا بدلہ دے۔‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)
(۲) وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ أَحْسَنَ الَّذِیْ کَانُوا یَعْمَلُونَ۔ (العنکبوت : ۷)
’’اور ان کو ان کے عمل کا بہترین بدلہ دیں گے۔‘‘ (امین احسن اصلاحی،یہ ترجمہ کمزور ہے)
’’اور انہیں ان کے نیک اعمال کے بہترین بدلے دیں گے۔‘‘ (محمدجوناگڑھی،یہ ترجمہ کمزور ہے)
’’اور ان کو ان کے اعمال کا بہت اچھا بدلہ دیں گے۔‘‘ (فتح محمدجالندھری،یہ ترجمہ کمزور ہے)
’’اور ان کو ان کے بہترین عمل کا بدلہ دیں گے۔‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)
(۳) لِیَجْزِیَہُمُ اللّٰہُ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا۔ (النور: ۳۸)
’’تاکہ خدا ان کو ان کے عملوں کا بہت اچھا بدلہ دے‘‘ (فتح محمدجالندھری،یہ ترجمہ کمزور ہے)
’’اس ارادے سے کہ اللہ انہیں ان کے اعمال کا بہترین بدلہ دے‘‘ (محمدجوناگڑھی،یہ ترجمہ کمزور ہے)
’’تاکہ اللہ ان کو ان کے بہترین عمل کا بدلہ دے۔‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)
(۴) وَلَنَجْزِیَنَّ الَّذِیْنَ صَبَرُوا أَجْرَہُم بِأَحْسَنِ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ۔ (النحل: ۹۶)
’’ہم ان کو جو کچھ وہ کرتے رہے، اس کا بہترین اجر دیں گے۔‘‘ (امین احسن اصلاحی،یہ ترجمہ کمزور ہے)
’’اور ہم یقیناًصبر کرنے والوں کو ان کے اعمال سے بہتر جزا عطا کریں گے۔‘‘ (علامہ جوادی،یہ ترجمہ کمزور ہے)
’’اور جن لوگوں نے صبر کیا، ہم اْن کو ان کے اعمال کا بہت اچھا بدلہ دیں گے۔‘‘ (فتح محمدجالندھری،یہ ترجمہ کمزور ہے)
’’اور صبر کرنے والوں کو ہم بھلے اعمال کا بہترین بدلہ ضرور عطا فرمائیں گے۔‘‘ (محمدجوناگڑھی،یہ ترجمہ کمزور ہے)
’’اور ہم ضرور صبر سے کام لینے والوں کو اُن کے اجر اُن کے بہترین اعمال کے مطابق دیں گے۔‘‘ (سید مودودی)
’’ہم ان کے بہترین عمل کا اجر دیں گے۔‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)
(۵) وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ أَجْرَہُم بِأَحْسَنِ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ۔ (النحل:۹۷)
’’اور (آخرت میں) اْن کے اعمال کا نہایت اچھا صلہ دیں گے۔‘‘ (فتح محمدجالندھری،یہ ترجمہ کمزور ہے)
’’اور انہیں ان اعمال سے بہتر جزا دیں گے جو وہ زندگی میں انجام دے رہے تھے۔‘‘ (علامہ جوادی،یہ ترجمہ کمزور ہے)
’’اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور ضرور دیں گے۔‘‘ (محمدجوناگڑھی،یہ ترجمہ کمزور ہے)
’’اورہم ان کے بہترین عمل کا اجر دیں گے۔‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)
(۶) وَیَجْزِیَہُمْ أَجْرَہُم بِأَحْسَنِ الَّذِیْ کَانُوا یَعْمَلُونَ۔ (الزمر : ۳۵)
’’اور ان کو ان کے کاموں کا اس سے خوب تر صلہ دے جو انھوں نے کیے۔‘‘ (امین احسن اصلاحی، اس ترجمہ میں کاموں کو مفضل علیہ قرار دیا گیا ہے جو کہ صحیح نہیں ہے۔)
’’اور ان کا اجر ان کے اعمال سے بہتر طور پر عطا کرے۔‘‘ (علامہ جوادی،یہ ترجمہ کمزور ہے)
’’اور ان کے اچھے سے اچھے کام کا بدلہ دے۔‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)
(۷) وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ أَسْوَأَ الَّذِیْ کَانُوا یَعْمَلُونَ۔ (فصلت : ۲۷)
’’اور انہیں ان کے اعمال کی بدترین سزادیں گے۔‘‘ (علامہ جوادی،یہ ترجمہ کمزور ہے)
’’اور ہم ان کو ان کے بدترین عمل کا صلہ دیں گے۔‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)
’’اور جو بدترین حرکات یہ کرتے رہے ہیں، ان کا پورا پورا بدلہ انہیں دیں گے۔‘‘ (سید مودودی)
(۸) وَلَا تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ۔ (یس : ۵۴)
’’اورتم کو بس وہی بدلے میں ملے گا جو تم کرتے رہے ہو۔‘‘ (امین احسن اصلاحی،یہ ترجمہ کمزور ہے)
’’اورتم کو بس اسی کا بدلہ ملے گا جو تم کرتے رہے ہو۔‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)
اسی سیاق میں ایک آیت پر خاص طور سے غور کرنے کی ضرورت ہے، اور وہ ہے:
(۹) لِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ أَسَاؤُوا بِمَا عَمِلُوا وَیَجْزِیَ الَّذِیْنَ أَحْسَنُوا بِالْحُسْنَی۔ (النجم : ۳۱)
’’کہ وہ بدلہ دے ان لوگوں کو جنھوں نے برے کام کیے ہیں ان کے کیے کا اور بدلہ دے ان لوگوں کوجنھوں نے اچھے کام کیے ہیں اچھا۔‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’تاکہ اللہ برائی کرنے والوں کو ان کے عمل کا بدلہ دے اور اْن لوگوں کو اچھی جزا سے نوازے جنہوں نے نیک رویہ اختیار کیا ہے۔‘‘ (سید مودودی)
’’تاکہ برائی کرنے والوں کو ان کے کیے کا بدلہ دے اور نیکی کرنے والوں کو نہایت اچھا صلہ عطا فرمائے۔‘‘ (احمد رضا خان)
آپ دیکھیں گے کہ اس مقام پر عموما مترجمین نے بالحسنی کا ترجمہ اچھی جزا کا کیا ہے۔ عربی تفاسیر میں بھی یہی نہج اختیار کیا گیا ہے، لیکن آیت کا اسلوب اور الحسنی پر باء کا داخل ہونا یہ بتاتا ہے کہ بالحسنی کا مفہوم یہاں بہترین جزا کے بجائے بہترین اعمال ہے، کیونکہ جس طرح آیت کے پہلے حصہ میں بما عملوا کہا گیا ہے، اسی طرح اس دوسرے حصہ میں بالحسنی کہا گیا ہے۔ ترجمہ یہ ہوگا: ’’تاکہ اللہ برائی کرنے والوں کو ان کے عمل کا بدلہ دے اور اْن لوگوں کو جنہوں نے نیک رویہ اختیار کیا ہے، بہترین اعمال کا بدلہ دے۔‘‘ گویا بالحسنی، بماعملوا کے مقابلہ میں آیا ہے۔
اس توجیہ کوزمخشری نے دوسرے نمبر پر ذکر کیا ہے: بِما عَمِلُوا بعقاب ما عملوا من السوء، وبِالحْسنی بالمثوبۃ الحسنی وھی الجنۃ۔ أو بسبب ما عملوا من السوء وبسبب الأعمال الحسنی۔ (تفسیر الکشاف:۴ / ۴۲۵)
سوال یہ ہے کہ اس مفہوم کو چھوڑ کر دوسرا مفہوم لینے کی وجہ کیا بنی؟ دراصل لوگوں کو اشکال یہ پیدا ہوا کہ اگر یہاں صرف بہترین اعمال کے بدلے کی بات ہے تو بہترین سے کم یعنی محض اچھے اعمال کے بدلے کا ذکر رہ جاتا ہے۔ ابوحیان کے الفاظ میں: وھذا التقدیر لا یسوغ، لأنہ یقتضی أن أولئک یجزون ثواب أحسن أعمالہم، وأما ثواب حسنہا فمسکوت عنہ، وہم یجزون ثواب الأحسن والحسن، الّا ان أخرجت أحسن عن بابہا من التفضیل، فیکون بمعنی حسن، فانہ یسوغ ذلک۔ (البحر المحیط: ۸/۳۴۲)
لیکن یہ اشکال صحیح نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ آدمی کو اپنے بہترین اعمال کے صلہ کی زیادہ فکر ہوتی ہے، کیونکہ نجات اور کامیابی کا اصل ذریعہ تو وہی ہوتے ہیں۔ اسی طرح اپنے بدترین اعمال سے زیادہ ڈر لگتا ہے، کیونکہ ان کی سزا زیادہ سخت ہوتی ہے اور ناکامی کا اصل سبب وہی بنتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ جو اللہ کا فرماں بردار بندہ ہوتا ہے، وہ ہر عمل کو احسن عمل بنانا چاہتا ہے اور ایسے بندوں کو اللہ محسنین کی صفت سے یاد کرتا ہے۔ اور جہاں تک بھرپور بدلے کی بات ہے تو وہ مفہوم لفظ جزی کے اندر از خود شامل ہے، کیونکہ جزی کہتے ہی ہیں بھر پور بدلہ دینے کو۔
مذکورہ آیتوں میں بہترین جزا کے بجائے بہترین عمل مراد ہے، اس کی بھر پور تائیدقرآن مجید کی حسب ذیل آیت سے ہوتی ہے:
أُوْلَئِکَ الَّذِیْنَ نَتَقَبَّلُ عَنْہُمْ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا۔ (الاحقاف : ۱۶)
’’اس طرح کے لوگوں سے ہم اْن کے بہترین اعمال کو قبول کرتے ہیں۔‘‘ (سید مودودی)
دراصل اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے، وہی بات دوسرے پیرائے میں مذکورہ بالا آیتوں میں کہی گئی ہے۔
(۲۳)کبھی ایک بات کا تعلق دوچیزوں سے ہوتا ہے مگر ایک سے ہی سمجھ لیا جاتا ہے:
مثال: ہَلْ أَدُلُّکَ عَلَی شَجَرَۃِ الْخُلْدِ وَمُلْکٍ لَّا یَبْلَی۔ (طہ :۱۲۰)
اس آیت میں غور طلب امر یہ ہے کہ شجرۃ کا تعلق الخلد اور ملک دونوں سے ہے یا صرف الخلد سے۔
متعددترجمہ کرنے والوں نے یہ مان کے ترجمہ کیا ہے کہ شیطان نے دو چیزوں کا سراغ دینے کی پیشکش کی تھی۔ ایک چیز زندگئ دوام کا درخت اور دوسری چیز بادشاہی کہ جس میں کبھی ضعف نہ آئے۔
(۱) ’’کیا میں تمہیں زندگئ دوام کے درخت اور ایسی بادشاہی کا سراغ دوں جس پر کبھی کہنگی نہ آئے‘‘ ( امین احسن اصلاحی)
(۲) ’’کیا میں تم کو ہمیشگی (کی خاصیت) کا درخت بتلاؤں اور ایسی بادشاہی کہ جس میں کبھی ضعف نہ آئے‘‘ (اشرف علی تھانوی)
(۳) ’’اے آدم! میں بتاؤں تجھ کو درخت سدا زندہ رہنے کااور باشاہی جو پرانی نہ ہو۔‘‘ (محمود الحسن)
لیکن اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ جو بات قرآن مجید میں مذکور ہے، وہ یہ کہ اس نے صرف ایک درخت کا سراغ دیا جس کی اس نے دوخاصیتیں بیان کیں، ایک زندگئ دوام اور دوسری بادشاہی جس پر کبھی کہنگی نہ آئے۔ درست ترجمہ یوں ہوگا:
’’کیا میں تمہیں زندگئ دوام اور ایسی بادشاہی جس پر کبھی کہنگی نہ آئے، کے درخت کا سراغ دوں۔‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)
اس مفہوم کے حق میں بہت واضح دلیل یہ آیت ہے:
فَوَسْوَسَ لَہُمَا الشَّیْْطَانُ لِیُبْدِیَ لَہُمَا مَا وُورِیَ عَنْہُمَا مِن سَوْءَ اتِہِمَا وَقَالَ مَا نَہَاکُمَا رَبُّکُمَا عَنْ ہَذِہِ الشَّجَرَۃِ إِلاَّ أَنْ تَکُونَا مَلَکَیْْنِ أَوْ تَکُونَا مِنَ الْخَالِدِیْنَ۔ (الاعراف: ۲۰)
’’پھر شیطان نے اْن کو بہکایا تاکہ ان کی شرمگاہیں جو ایک دوسرے سے چھپائی گئی تھیں، ان کے سامنے کھول دے۔ اس نے ان سے کہا: ’’تمہارے رب نے تمہیں جو اس درخت سے روکا ہے اس کی وجہ اِس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ، یا تمہیں ہمیشگی کی زندگی حاصل نہ ہو جائے‘‘۔ (سید مودودی)
اس آیت سے یہ واضح ہے کہ شیطان نے صرف درخت کی بات کی تھی جس سے آدم اور حوا کو روکا گیا تھا، اور اسی کی طرف اس نے مختلف خاصیتوں کو منسوب کیا تھا۔
(۲۴) اتخذ کے دو مفعولوں کا ترجمہ:
اتخذ کے جب دو مفعول آتے ہیں تو درحقیقت پہلا مفعول مبتدا اور دوسرا مفعول خبر کی جگہ پر ہوتا ہے۔ جیسے:
وَاتَّخَذَ اللّٰہُ إِبْرَاہِیْمَ خَلِیْلاً۔ (النساء: ۱۲۵)
’’اللہ نے ابراہیم کو دوست بنایا‘‘، نہ کہ ’’دوست کو ابراہیم بنایا‘‘۔
اسی طرح:
اتَّخَذُوا الشَّیَاطِیْنَ أَوْلِیَاءَ۔ (الاعراف: ۳۰)
الَّذِیْنَ اتَّخَذُوا دِیْنَہُمْ لَہْواً وَلَعِباً (الاعراف: ۵۱)
اتَّخَذُوا أَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ أَرْبَاباً مِّنْ دُونِ اللّٰہِ (التوبۃ: ۳۱)
إِنَّ قَوْمِیْ اتَّخَذُوا ہَذَا الْقُرْآنَ مَہْجُوراً (الفرقان:۳۰)
غرض قرآن مجید میں اس کی بہت ساری مثالیں ہیں کہ فعل اتخذ کے بعد دومفعول آئے ہیں اور ہر جگہ فاعل نے پہلے مفعول پر دوسرے مفعول کا اثر واقع کیا ہے اور ہر جگہ ترجمہ کرنے والوں نے اسی کے مطابق ترجمہ بھی کیا ہے، البتہ دومقامات پر لگتا ہے کہ یہ پہلو مترجمین اور ان سے پہلے مفسرین کی نگاہ سے اوجھل ہوگیا۔اور وہ مقامات حسب ذیل ہیں:
(۱) أَرَأَیْْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَہَہُ ہَوَاہُ (الفرقان : ۴۳)
(۲) أَفَرَأَیْْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَہَہُ ہَوَاہُ (الجاثیۃ : ۲۳)
ان دونوں آیتوں میں الھہ پہلا مفعول ہے اور ھواہ دوسرا مفعول ہے۔ مذکورہ بالا قاعدے کی رو سے ترجمہ یہ ہوگا کہ ’’اپنے معبود کو اپنی خواہش بنایا ہے‘‘، اور اس کی تاویل یہ ہوگی کہ اپنے معبود کو اپنی خواہش سے بنایا ہے یا اپنا معبود اپنی خواہش کے مطابق بنایا ہے۔ لیکن لوگوں نے مذکورہ بالا قاعدے کی رعایت نہ کرتے ہوئے اس طرح ترجمہ کیا ہے:
’’بھلا یہ جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنارکھا ہے۔‘‘ (امین احسن اصلاحی)
اور: ’’کیا دیکھا تم نے اس کو جس نے اپنی خواہش کو معبود بنارکھا ہے۔‘‘ (امین احسن اصلاحی)
مفہوم کے لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو مشرکین کا رویہ یہی تھا کہ وہ اپنی خواہش کے مطابق اپنے معبود بنایا کرتے تھے اور اس سلسلے میں وہ دلیل وبرہان کی کوئی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ وہ خواہش نفس کی پیروی کرتے تھے جس کے لیے قرآن میں اتباع ہوی کا ذکر ہے، لیکن خواہش نفس کو معبود بنانے کی بات قرآن مجید میں نہیں ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ مذکورہ دونوں مقامات پر دونوں مفعولوں میں مکانی لحاظ سے تقدیم وتاخیر ہوگئی ہے، لیکن اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ قرآن مجید میں فعل اتخذ دومفعولوں کے ساتھ پچیس سے زیادہ مقامات پر آیا ہے اور ہر جگہ پہلے مفعول کے اوپر دوسرے مفعول کا اثر واقع ہوا ہے، اس لیے کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہاں تقدیم وتاخیر مان کر مفعول اول کو مفعول ثانی مانا جائے۔
(۲۵) فعل تَبَدَّلَ:
فعل تَبَدَّلَ کا مطلب ہوتا ہے کسی چیز کو چھوڑ کر یا کسی چیز کے بدلے میں دوسری کوئی چیز لے لینا۔ جو چیز چھوڑی جاتی ہے، اس پر حرف باء داخل ہوتا ہے، اور جس چیز کو لے لیا جاتا ہے، وہ مفعول بہ کی صورت میں آتا ہے۔ اس کی واضح مثال ہے:
وَمَن یَتَبَدَّلِ الْکُفْرَ بِالإِیْمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِیْل۔ (البقرۃ: ۱۰۸)
’’اور جو کوئی کفر لیوے بدلے ایمان کے تو وہ بہکا سیدھی راہ سے۔‘‘ (محمود الحسن)
لیکن سورۃ النساء کی آیت ذیل میں متعدد مفسرین اور مترجمین اس فعل کے قواعد کی رعایت نہ کرسکے:
وَآتُوا الْیَتَامَی أَمْوَالَہُمْ وَلاَ تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّب (النساء: ۲)
اس آیت کا مفہوم یہ قرار دیا گیا کہ اپنے برے مال کو دے کر یتیموں کے عمدہ مال کو مت لے لو۔
’’نہ(اپنے) برے مال کو (ان کے ) اچھے مال سے بدلو۔‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’ان کے پاکیزہ (اور عمدہ) مال کو (اپنے ناقص اور) برے مال سے نہ بدلو۔‘‘ (فتح محمد جالندھری)
’’اچھے مال کو برے مال سے نہ بدل لو۔‘‘ (سید مودودی)
قواعد کے لحاظ سے صحیح ترجمہ یہ ہے:
’’اور حلال چیز کے بدلے ناپاک اور حرام چیز نہ لو۔‘‘ (محمدجوناگڑھی)
’’اور پاک مال کے بدلے ناپاک مال حاصل نہ کرو۔‘‘ (محمد حسین نجفی)
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا مال تمہارے لیے طیب ہے، یتیموں کا مال تمہارے لیے خبیث ہے، تو طیب مال چھوڑ کر خبیث مال مت اختیار کرو۔ بالفاظ دیگر یتیموں کا مال مت کھاؤ۔
(۲۶) ’’ضلال بعید‘‘ کا ترجمہ:
قرآن مجید میں ضلال بعید کا ذکر متعدد جگہ آیا ہے۔ ضلال کے معنی گمراہی اور بعید کے معنی دور کے ہوتے ہیں، یہ درست ہے۔ بعید، ضلال کی صفت ہے، یہ بھی درست ہے،تاہم واقعہ یہ ہے کہ کوئی بھی شخص راستہ بھٹک جانے کے بعد صحیح راستہ سے جس قدر دور چلاجاتا ہے، اسی قدر زیادہ گمراہ ہوتا جاتا ہے۔ گویا خود گمراہی دور یا قریب کی نہیں ہوتی ہے بلکہ گمراہ ہونے والا قریب یا دور ہوتا ہے۔ اس لیے ضلال بعید کا ترجمہ دور کی گمراہی موزوں نہیں ہے بلکہ گمراہی میں دور جاپڑنا موزوں ہے۔
مثال: فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِیْدًا۔ (النساء : ۱۳۶)
متعدد مترجمین نے ترجمہ دور کی گمراہی کا کیا ہے:
(۱) ’’تو وہ ضرور دور کی گمراہی میں پڑا۔‘‘ (احمد رضا خان)
(۲) ’’وہ تو بہت بڑی دور کی گمراہی میں جا پڑا۔‘‘ (محمد جوناگڑھی)
لیکن موزوں ترجمہ گمراہی میں دور جا پڑنا ہے:
(۱) ’’وہ گمراہی میں بھٹک کر بہت دور نکل گیا۔‘‘ (سید مودودی)
(۲) ’’وہ گمراہی میں دور جاپڑا۔‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)
مندرجہ ذیل مقامات پر بھی ترجمہ میں اس کی رعایت کی جائے گی:
قَدْ ضَلُّوا ضَلاَلاً بَعِیْداً۔ (النساء : ۱۶۷)
وَمَنْ یُشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِیْداً۔ (النساء : ۱۱۶)
وَیُرِیْدُ الشَّیْْطَانُ أَن یُضِلَّہُمْ ضَلاَلاً بَعِیْداً۔ (النساء : ۶۰)
أُوْلَءِکَ فِیْ ضَلاَلٍ بَعِیْدٍ۔ (ابراہیم : ۳)
إِنَّ الَّذِیْنَ یُمَارُونَ فِی السَّاعَۃِ لَفِیْ ضَلَالٍ بَعِیْدٍ۔ (الشوری : ۱۸)
وَلَکِنْ کَانَ فِیْ ضَلَالٍ بَعِیْدٍ (ق : ۲۷)
(۲۷) عَلیٰ أَعْقَابِہِمْ کا ترجمہ الٹے پاؤں یا پیٹھ پیچھے؟
عَقِبٌ کا مطلب پاؤں کی ایڑی ہوتا ہے۔ عام طور سے اہل لغت نے اس لفظ کا یہی مطلب بیان کیا ہے۔ یہ لفظ کہیں مثنی اور کہیں جمع کی صورت میں قرآن مجید میں کئی مقامات پر آیا ہے۔ مترجمین نے بھی عام طور سے اس کا ترجمہ ’’الٹے پاؤں‘‘ کیا ہے، لیکن امین احسن اصلاحی نے اس کا ترجمہ ’’پیٹھ پیچھے‘‘ کیا ہے جس کی عربی لغت سے کوئی تائید نہیں ملتی۔ پھر اس لفظ کا مثنی استعمال ہونا بھی یہی بتاتا ہے کہ یہاں پیٹھ نہیں بلکہ پاؤں کی ایڑیاں مراد ہیں۔ خیال ہوتا ہے کہ شاید موصوف نے اردو محاورہ کا لحاظ کیا ہے، لیکن اردو میں بھی الٹے پاؤں پھر جانا استعمال ہوتا ہے۔ پیٹھ پیچھے پھرجانا خود اردو کے لحاظ سے درست نہیں معلوم ہوتا۔ یہ ترجمہ صاحب تدبر نے کسی ایک مقام پر کرنے کے بجائے کئی جگہ کیا ہے، اس لیے اسے غلطی پر محمول کرنے کے بجائے ان کی سوچی سمجھی رائے قرار دینا مناسب ہوگا، لیکن یہ رائے ہنوز دلیل کی محتاج ہے۔
مثالیں حسب ذیل ہیں:
(۱) اِنْقَلَبْتُمْ عَلَی أَعْقَابِکُمْ وَمَن یَّنقَلِبْ عَلَی عَقِبَیْْہِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیْْءًا (آل عمران: ۱۴۴)
’’تو تم پیٹھ پیچھے پھر جاؤگے؟ جو پیٹھ پیچھے پھرے گا، وہ اللہ کا کچھ نہ بگاڑے گا۔‘‘ (امین احسن اصلاحی)
(۲) یَرُدُّوکُمْ عَلَی أَعْقَابِکُمْ (آل عمران : ۱۴۹)
’’تو یہ تمہیں پیٹھ پیچھے لوٹا کے رہیں گے۔‘‘ (امین احسن اصلاحی)
(۳) فَکُنتُمْ عَلَی أَعْقَابِکُمْ تَنکِصُونَ (المؤمنون : ۶۶)
تو تم پیٹھ پیچھے بھاگتے تھے۔ (امین احسن اصلاحی)
(۴) مِمَّن یَّنقَلِبُ عَلَی عَقِبَیْْہِ (البقرۃ : ۱۴۳)
’’ان لوگوں سے جو پیٹھ پیچھے پھر جانے والے ہیں۔‘‘ (امین احسن اصلاحی)
(۵) وَنُرَدُّ عَلَی أَعْقَابِنَا (الانعام : ۷۱)
’’اور ہم پیٹھ پیچھے پھینک دیے جائیں۔‘‘ (امین احسن اصلاحی)
البتہ ایک مقام پر لگتا ہے، موصوف نے نادانستہ طور سے عام ترجمہ کو اختیار کرلیا:
(۶) فَلَمَّا تَرَاءَتِ الْفِئَتَانِ نَکَصَ عَلَی عَقِبَیْْہِ (الانفال : ۴۸)
’’تو جب دونوں گروہ آمنے سامنے ہوئے تو وہ الٹے پاؤں بھاگا ۔‘‘ (مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ ’’الٹے پاؤں بھاگا‘‘ کے بجائے ’’الٹے پاؤں پھر گیا‘‘ ہونا چاہیے۔)
(۲۸) جملے کی موزوں ساخت:
کبھی ترجمہ تو بالکل درست ہوتا ہے، لیکن جملے کی ساخت کمزور ہوتی ہے یا ایک جملے کے مختلف حصوں کی ترتیب میں خلل رہ جاتا ہے۔ اس کے لیے ذیل کی مثال ملاحظہ کی جاسکتی ہے:
وَأَوْصَانِیْ بِالصَّلَاۃِ وَالزَّکَاۃِ مَا دُمْتُ حَیّاً (مریم : ۳۱)
اس آیت میں مَا دُمْتُ حَیّاً کا ترجمہ سب نے درست کیا ہے، لیکن اس کو کسی نے جملے کے شروع میں رکھ کر یہ ترجمہ کیا:
’’اور جب تک جیوں، اس نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کی ہدایت فرمائی ہے۔‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’اور جب تک زندہ ہوں، مجھ کو نماز اور زکوٰۃ کا ارشاد فرمایا ہے۔‘‘ (فتح محمد جالندھری)
اور کسی نے جملے کے آخر میں رکھ کر یہ ترجمہ کیا:
’’اور اس نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا جب تک میں (دنیا میں) زندہ رہوں۔‘‘ (اشرف علی تھانوی)
’’اور مجھے نماز و زکوٰۃ کی تاکید فرمائی جب تک جیوں۔‘‘ (احمد رضا خان)
دونوں ترجموں میں ’’جب تک جیوں والا‘‘ ٹکڑا الگ تھلگ ہوگیا ہے، حالانکہ جملے کی مناسب ساخت اور ترتیب یوں ہے:
’’اور مجھ کو حکم دیا کہ جب تک جیوں، نماز اور زکوٰۃ پر قائم رہوں۔‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)
(۲۹) إِنَّ اور أَنَّ میں فرق کی رعایت:
ہمزہ پر فتحہ اور کسرہ دونوں کے ساتھ إِنَّ اور أَنَّ کا استعمال ہوتا ہے۔ دونوں صورتوں میں جملہ میں تاکید کا مفہوم پیدا ہوجاتا ہے، البتہ کسرہ کی صورت میں وہ جملہ جو إِنَّ سے شروع ہوتا ہے، لفظی طور سے ایک مستقل جملہ ہوتا ہے۔ گوکہ سابق سے معنوی ربط پایا جاسکتاہے اور اس ربط کا علم سیاق کلام سے حاصل ہوسکتا ہے، لیکن اس کا اظہار لفظ سے نہیں ہوتا۔ جبکہ فتحہ کی صورت میں جو جملہ أَنَّ سے شروع ہوتا ہے، وہ لفظی طور سے پچھلے جملے کا جزء بنتا ہے۔ اس کا سابقہ کلام سے گہرا معنوی ربط ہوتا ہے اور اس کا اظہار خود اس لفظ سے ہوتا ہے۔ استعمالات کی روشنی میں یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ کسرہ کی صورت میں تاکید کا مفہوم لازمی طور پر پیدا ہوتا ہے، ترجمہ میں اس کا اظہار بھی ضروری معلوم ہوتا ہے، جبکہ فتحہ کی صورت میں تاکیدکے مفہوم کے مقابلے میں سابق سے ربط کا مفہوم غالب ہوتاہے۔
مختلف تراجم قرآن پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ مترجمین قرآن اکثر مقامات پر أَنَّ کی اس خاص معنویت کا خیال کرتے ہیں، لیکن بسا اوقات وہ ترجمہ کرتے ہوئے اس کے ساتھ إنّ والا معاملہ کردیتے ہیں جس سے پورے کلام کی معنویت متأثر ہوجاتی ہے۔ چند مثالیں پیش ہیں:
(۱) ذَلِکَ بِمَا قَدَّمَتْ یَدَاکَ وَأَنَّ اللّٰہَ لَیْْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ (الحج : ۱۰)
’’یہ تیرے ان اعمال کے باعث ہے جو تیرے ہاتھ آگے بھیج چکے تھے اور بے شک اللہ اپنے بندوں پر بالکل ظلم کرنے والا نہیں ہے‘‘۔ (طاہر القادری)
صاف واضح ہے کہ یہاں أَنَّ کے بجائے إِنّ کا ترجمہ کردیا گیا ہے۔
’’یہ ہے تیرا وہ مستقبل جو تیرے اپنے ہاتھوں نے تیرے لیے تیار کیا ہے، ورنہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے‘‘۔ (سیدمودودی)
اس ترجمہ میں ’’ورنہ‘‘ کا استعمال عجیب وغریب ہے۔
’’یہ اس کی وجہ سے جو بھیج چکے تیرے دو ہاتھ اور اس وجہ سے کہ اللہ نہیں ظلم کرتا بندوں پر‘‘۔ (محمود الحسن)
اس ترجمہ میں أَنَّ کی رعایت کی گئی ہے۔
(۲) ذَلِکَ لِیَعْلَمَ أَنِّیْ لَمْ أَخُنْہُ بِالْغَیْْبِ وَأَنَّ اللّٰہَ لاَ یَہْدِیْ کَیْْدَ الْخَائِنِیْنَ (یوسف:۵۲)
’’یہ اس واسطے کہ (عزیز) جان لے کہ میں نے اس کی پیٹھ پیچھے اس کی خیانت نہیں کی اور یہ بھی کہ اللہ دغابازوں کے ہتھکنڈے چلنے نہیں دیتا‘‘۔ (محمد جونا گڑھی)
اس ترجمہ میں أَنَّ کی رعایت کی گئی ہے۔
’’یہ اس لیے کہ وہ جان لے کہ میں نے پیٹھ پیچھے اس سے بے وفائی نہیں کی اور بے شک اللہ خائنوں کی چال کو چلنے نہیں دیتا‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
یہاں پہلے أَنَّ کا ترجمہ درست ہے لیکن دوسرے لفظ میں أَنَّ کے بجائے إِنّ کا ترجمہ کردیا گیا ہے۔
(۳) ذَلِکَ بِأَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْحَقُّ وَأَنَّہُ یُحْیِی الْمَوْتَی وَأَنَّہُ عَلَی کُلِّ شَیْْءٍ قَدِیْرٌ وَأَنَّ السَّاعَۃَ آتِیَۃٌ لَّا رَیْْبَ فِیْہَا وَأَنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُور (الحج : ۶،۷)
’’یہ اس لیے ہے کہ اللہ ہی حق ہے اور یہ کہ وہ مردے جِلائے گا اور یہ کہ وہ سب کچھ کرسکتا ہے اور اس لیے کہ قیامت آنے والی ہے، اس میں کچھ شک نہیں، اور یہ کہ اللہ اٹھائے گا انہیں جو قبروں میں ہیں‘‘۔ (احمد رضا خان)
اس ترجمہ میں أَنَّ کی رعایت کی گئی ہے۔
’’ان قدرتوں سے ظاہر ہے کہ خدا ہی (قادر مطلق ہے جو) برحق ہے اور یہ کہ وہ مردوں کو زندہ کردیتا ہے اور یہ کہ وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے اور یہ کہ قیامت آنے والی ہے، اس میں کچھ شک نہیں، اور یہ کہ خدا سب لوگوں کو جو قبروں میں ہیں، جلا اٹھائے گا ‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
اس ترجمہ میں بھی أَنَّ کی رعایت کی گئی ہے۔
’’یہ (سب کچھ) اس لیے (ہوتا رہتا) ہے کہ اللہ ہی سچا (خالق اور رب) ہے اور بیشک وہی مردوں (بے جان) کو زندہ (جان دار) کرتا ہے، اور یقیناًوہی ہر چیز پر بڑا قادر ہے، اور بیشک قیامت آنے والی ہے، اس میں کوئی شک نہیں، اور یقیناًاللہ ان لوگوں کو زندہ کر کے اٹھا دے گا جو قبروں میں ہوں گے‘‘(طاہر القادری)
یہاں أَنَّ کے بجائے إِنَّ کا ترجمہ کردیا گیا ہے۔
(۴) وَکَذَلِکَ أَنزَلْنَاہُ آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ وَّأَنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَن یُرِیْدُ (الحج : ۱۶)
’’اور ہم نے اسی طرح اس قرآن کو نہایت واضح دلیلوں کی صورت میں اتارا ہے (کہ لوگ ہدایت حاصل کریں) اور بے شک اللہ ہی ہدایت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے‘‘ (امین احسن اصلاحی)
یہاں أَنَّ کے بجائے إِنَّ کا ترجمہ کردیا گیا ہے۔
’’اور اسی طرح ہم نے اس (پورے قرآن) کو روشن دلائل کی صورت میں نازل فرمایا ہے اور بیشک اللہ جسے ارادہ فرماتا ہے ہدایت سے نوازتا ہے‘‘(طاہر القادری)
یہاں بھی أَنَّ کے بجائے إِنَّ کا ترجمہ کردیا گیا ہے۔
’’اور یوں اتارا ہم نے یہ قرآن کھلی باتیں اور یہ ہے کہ اللہ سجھادیتا ہے جس کو چاہے‘‘۔ (محمود الحسن)
اس ترجمہ میں أَنَّ کی رعایت کی گئی ہے۔
’’اور ہم نے اس قرآن کو اسی طرح اتارا ہے کھلی کھلی دلیلیں اور یہ کہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے۔‘‘ (اشرف علی تھانوی)
اس ترجمہ میں بھی أَنَّ کی رعایت کی گئی ہے۔
(۵) وَکَذَلِکَ حَقَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوا أَنَّہُمْ أَصْحَابُ النَّار (غافر:۶)
’’اور اسی طرح آپ کے رب کا فرمان اُن لوگوں پر پورا ہو کر رہا جنہوں نے کفر کیا تھا۔ بے شک وہ لوگ دوزخ والے ہیں‘‘ (طاہر القادری)
’’اور یونہی تمہارے رب کی بات کافروں پر ثابت ہوچکی ہے کہ وہ دوزخی ہیں‘‘(احمد رضا خان)
غور طلب بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس آیت میں أَنَّ کا ترجمہ بے شک کا کیا ہے، بالکل اسی اسلوب کی ایک اورآیت میں ایسا نہیں کرتے ہیں اور أَنَّ کی معنویت کا پورا پورا لحاظ کرتے ہیں، ملاحظہ ہو:
کَذَلِکَ حَقَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ عَلَی الَّذِیْنَ فَسَقُوا أَنَّہُمْ لاَ یُؤْمِنُون (یونس : ۳۳)
’’اس طرح نافرمانی اختیار کرنے والوں پر تمہارے رب کی بات صادق آ گئی کہ وہ مان کر نہ دیں گے‘‘ (سید مودودی)
’’اسی طرح آپ کے رب کا حکم نافرمانوں پر ثابت ہوکر رہا کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے‘‘(طاہر القادری)
’’اسی طرح تیرے رب کی بات ان لوگوں پر پوری ہوچکی ہے جنھوں نے نافرمانی کی ہے کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے‘‘(امین احسن اصلاحی)
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ أَنَّ کے ساتھ بعض مترجمین کامذکورہ رویہ ایک سوچا سمجھا موقف نہیں ہے بلکہ ذہن کے چوک جانے کا نتیجہ ہے۔
تدبر قرآن کے ترجمہ میں جو تفسیر کے ساتھ شائع ہوا ہے، اس طرح کی غلطی زیادہ ملتی ہے، البتہ جو ترجمہ تلخیص کے ساتھ شائع ہوا ہے اور جس میں نظر ثانی بھی کی گئی ہے، وہاں أَنَّ کے قبیل کی کچھ غلطیاں دور کردی گئی ہیں، گو کہ ابھی بھی بہت سارے مقامات تصحیح طلب ہیں۔ تصحیح کی ایک مثال یہاں ذکر کی جاتی ہے:
أَمْ لَمْ یُنَبَّأْ بِمَا فِیْ صُحُفِ مُوسَی، وَإِبْرَاہِیْمَ الَّذِیْ وَفَّی، أَلَّا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِزْرَ أُخْرَی، وَأَن لَّیْْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی، وَأَنَّ سَعْیَہُ سَوْفَ یُرَی، ثُمَّ یُجْزَاہُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَی، وَأَنَّ إِلَی رَبِّکَ الْمُنتَہَی، وَأَنَّہُ ہُوَ أَضْحَکَ وَأَبْکَی، وَأَنَّہُ ہُوَ أَمَاتَ وَأَحْیَا، وَأَنَّہُ خَلَقَ الزَّوْجَیْْنِ الذَّکَرَ وَالْأُنثَی، مِنْ نُّطْفَۃٍ إِذَا تُمْنَی، وَأَنَّ عَلَیْْہِ النَّشْأَۃَ الْأُخْرَی، وَأَنَّہُ ہُوَ أَغْنَی وَأَقْنَی، وَأَنَّہُ ہُوَ رَبُّ الشِّعْرَی، وَأَنَّہُ أَہْلَکَ عَاداًنِ الْأُولَی (سورۃ النجم: ۳۶۔۵۰)
تفسیر تدبر قرآن میں موجود یعنی نظر ثانی سے قبل کاترجمہ یہ ہے:
’’کیا اس کو خبر نہیں ملی اس بات کی جو موسیٰ اور ابراہیم ، جس نے اپنے قول پورے کردکھائے، کے صحیفوں میں ہے؟ کہ کوئی جان کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی، اور یہ کہ انسان کے لیے وہی ہے جو اس نے کمائی کی ہوگی، اور یہ کہ اس کی کمائی عنقریب ملاحظہ کی جائے گی، پھر اس کو پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، اور یہ کہ سب کا منتہی تیرے رب ہی کی طرف ہے، اور بے شک وہی ہے جو ہنساتا اور رلاتا ہے، اور وہی ہے جو مارتا اور زندہ کرتا ہے اور وہی ہے جس نے جوڑے کے دونوں فرد نر اور ناری پیدا کیے، ایک بوند سے جبکہ وہ ٹپکادی جاتی ہے، اور بے شک دوبارہ اٹھانا بھی اسی کی ذمہ داری ہے، اور اسی نے غنی اور سرمایہ دار کیا، اور وہی شعریٰ کا بھی رب ہے اور اسی نے ہلاک کیا عاد اول کو‘‘۔
تلخیص میں موجود ترجمہ یعنی نظر ثانی کے بعد کاترجمہ یہ ہے :
’’کیا اس کو خبر نہیں ملی اس بات کی جو موسیٰ اور ابراہیم ، جس نے اپنے قول پورے کردکھائے، کے صحیفوں میں ہے؟ کہ کوئی جان کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی، اور یہ کہ انسان کے لیے وہی ہے جو اس نے کمائی کی ہوگی، اور یہ کہ اس کی کمائی عنقریب ملاحظہ کی جائے گی، پھر اس کو پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، اور یہ کہ سب کا منتہی تیرے رب ہی کی طرف ہے، اور یہ کہ وہی ہے جو ہنساتا اور رلاتا ہے، اور یہ کہ وہی ہے جو مارتا اور زندہ کرتا ہے اور یہ کہ وہی ہے جس نے جوڑے کے دونوں فرد نر اور ناری پیدا کیے، ایک بوند سے جبکہ وہ ٹپکادی جاتی ہے، اور یہ کہ دوبارہ اٹھانا بھی اسی کی ذمہ داری ہے، اور یہ کہ وہی ہے جس نے غنی اور سرمایہ دار کیا، اور یہ کہ وہی شعریٰ کا بھی رب ہے اور اسی نے ہلاک کیا عاد اول کو‘‘۔
غور طلب بات یہ ہے کہ نظر ثانی کے بعد بھی آخری آیت کے ترجمہ میں تصحیح نہیں ہوسکی یعنی ’’اور اسی نے ہلاک کیا عاد اول کو‘‘ کے بجائے ’’اور یہ کہ اسی نے ہلاک کیا عاد اول کو‘‘ ہونا چاہیے۔
مذکورہ آیتوں کے ترجمہ میں ایک اور کمزوری یہ بھی ہے کہ عربی کے لحاظ سے ان آیتوں میں کہیں پر حصر کا اسلوب ہے اور کہیں پر حصر کا اسلوب نہیں ہے۔ ہوا یہ کہ جہاں پر حصر کا اسلوب نہیں ہے ،وہاں پربھی حصر کا ترجمہ کردیا گیاہے ، جیسے وہ کی جگہ پر وہی اور اس کی جگہ پر اسی۔
ان آیتوں کا ترجمہ مولانا امانت اللہ اصلاحی کی تصحیح کے بعد اس طرح ہے۔ دونوں ترجموں کا گہرا موازنہ قرآن مجید کے طالب علم کے لیے مفید ہوگا:
’’کیا اس کو خبر نہیں ملی اس بات کی جو موسیٰ اور ابراہیم ، جس نے اپنے قول پورے کردکھائے، کے صحیفوں میں ہے؟ کہ کوئی ہستی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی، اور یہ کہ انسان کے لیے وہی ہے جو اس نے کارکردگی کی ہوگی، اور یہ کہ اس کی کارکردگی کی نوعیت عنقریب سامنے آجائے گی، پھر اس کو اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، اور یہ کہ سب کا منتہی تیرے رب ہی کی طرف ہے، اور یہ کہ وہ ہے جو ہنساتا اور رلاتا ہے، اور یہ کہ وہ ہے جو مارتا اور زندہ کرتا ہے اور یہ کہ وہ ہے جس نے جوڑے کے دونوں فرد نر اور مادہ پیدا کیے، ایک بوند سے جبکہ وہ ٹپکادی جاتی ہے، اور یہ کہ دوبارہ اٹھانا بھی اسی کی ذمہ داری ہے، اور یہ کہ وہ ہے جس نے غنی اور سرمایہ دار کیا، اور یہ کہ وہی شعریٰ کا بھی رب ہے، اوریہ کہ اس نے ہلاک کیا عاد اول کو‘‘ ۔
(۳۰) لفظ ’’تغابن‘‘ کی حقیقت:
لفظ تغابن قرآن مجید میں صرف ایک مقام پر آیا ہے:
یَوْمَ یَجْمَعُکُمْ لِیَوْمِ الْجَمْعِ ذَلِکَ یَوْمُ التَّغَابُنِ (التغابن : ۹)
اس آیت میں تغابن کا ترجمہ بیشتر مترجمین نے ہار جیت کا کیا ہے۔آیت کے مذکورہ ٹکڑے کے کچھ ترجمے یہاں ذکر کیے جاتے ہیں:
’’اس دن (کو یاد رکھو جب ) اللہ اکٹھے کیے جانے کے دن کے لیے تم کو اکٹھا کرے گا۔ وہی دن در حقیقت ہار جیت کا دن ہوگا‘‘۔(امین احسن اصلاحی)
’’جس دن تم سب کو اس جمع ہونے کے دن جمع کرے گا، وہی دن ہے ہار جیت کا‘‘(محمد جونا گڑھی)
’’وہ دن ہوگا ایک دوسرے کے مقابلے میں لوگوں کی ہار جیت کا‘‘ (سید مودودی)
’’جس دن وہ تم کو اکھٹا ہونے (یعنی قیامت) کے دن اکھٹا کرے گا، وہ نقصان اٹھانے کا دن ہے‘‘ (فتح محمد جالندھری)
’’جس دن تم کو اکٹھا کرے گا جمع ہونے کے دن، وہ دن ہے ہار جیت کا‘‘(محمود الحسن)
’’جس دن وہ تمہیں جمع ہونے کے دن (میدانِ حشر میں) اکٹھا کرے گا، یہ ہار اور نقصان ظاہر ہونے کا دن ہے‘‘(طاہر القادری)
’’(اور اس دن کو یاد کرو) جس دن تم سب کو ایک جمع ہونے کے دن جمع کرے گا، یہی دن ہے سود و زیاں کا‘‘(اشرف علی تھانوی)
التغابن کا ترجمہ بعض لوگوں نے ہار جیت کیا ہے۔ لفظ کی حقیقت کے لحاظ سے یہ ترجمہ صحیح نہیں ہے۔ تغابن کا صحیح ترجمہ ’’سود وزیاں‘‘ یا ’’نفع ونقصان‘‘ ہے۔ تغابن، غبن سے نکلا ہے، اور یہ خرید وفروخت میں نقصان اٹھانے کے لیے استعمال ہوتا ہے، ہار جیت کا مفہوم اس لفظ میں نہیں پایا جاتا ہے۔
اہل لغت میں اس پر اختلاف ہے کہ تغابن میں اشتراک کا مفہوم ہے یا مبالغہ کا۔ پہلی صورت میں مطلب یہ نکلے گا کہ کسی کو فائدہ اور کسی کو نقصان پہنچنے والادن اور دوسری صورت میں مطلب ہوگا: بہت بڑے نقصان کا دن۔
آیت کے مذکورہ ترجموں پر غور کریں تو کچھ اور بھی کمزور پہلو سامنے آتے ہیں:
اول: بعض مترجمین نے یَوْمَ سے پہلے ایک فعل محذوف مقدر مانا ہے جس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ’’اس دن (کو یاد رکھو جب )‘‘ کہنے کے بجائے ’’جب ‘‘اور ’’جس دن‘‘ کہہ دینا کافی ہے۔ دراصل اس جملے میں یَوْمَ یَجْمَعُکُمْ لِیَوْمِ الْجَمْع مبتدا اول ہے، ذَلِکَ مبتدا ثانی ہے اور یَوْمُ التَّغَابُن اس کی خبر ہے اور یہ عربی کا بہت عام اسلوب ہے۔
دوم: لِیَوْمِ الْجَمْع کے لام کو بعض نے علت کا سمجھ کر ترجمہ اس طرح کیا ہے : ’’اکٹھے کیے جانے کے دن کے لیے تم کو اکٹھا کرے گا‘‘حالانکہ یہ لام ظرف کے لیے ہے اور ترجمہ یوں ہوگا: ’’اکٹھے کیے جانے کے دن تم کو اکٹھا کرے گا‘‘۔
سوم: یَوْمِ الْجَمْع کا ترجمہ بعض لوگوں نے ’’جمع ہونے کا دن‘‘ اور ’’اکٹھا ہونے کا دن‘‘ کیا ہے،جبکہ جَمْع فعل متعدی کا مصدر ہے، اور زیادہ مناسب ترجمہ ’’جمع کرنے کا دن‘‘ اور ’’اکٹھے کیے جانے‘‘ کا دن ہوگا۔
چہارم: ذَلِکَ کا ترجمہ کرتے ہوئے بعض مترجمین نے حصر کا مفہوم پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور ’’یہی دن‘‘ اور ’’وہی دن‘‘ جیسی تعبیرات کا استعمال کیا ہے، حالانکہ اسلوب کلام حصر کے مفہوم سے خالی ہے، اور ’’وہ دن‘‘کہہ دینا کافی ہے۔ صحیح ترجمہ یوں ہے:
’’جب اللہ اکٹھے کیے جانے کے دن تم کو اکٹھا کرے گا، وہ ہوگا نفع ونقصان ظاہر ہونے کا دن‘‘۔ (امانت اللہ اصلاحی)
(۳۱) ’’نشأ‘‘ کا مفہوم:
انشاء اور اس کے مشتقات کا قرآن مجید میں کئی جگہ استعمال ہوا ہے۔ لفظ انشاء کا مفہوم صرف پیدا کرنا نہیں ہے، بلکہ اصل میں نشوونما دینا اور پروان چڑھانا ہے۔ ساتھ میں پیدا کرنے کا مفہوم بھی شامل ہوجاتا ہے۔علامہ ابن فارس کے الفاظ میں:
(نشأ) النون والشین والہمزۃ أصل صحیح یدلّ علی ارتفاعٍ فی شئ وسموّ. ونَشأ السَّحابُ: ارتفع. وأنشأہ اللہ: رفعہ (معجم مقاییس اللغۃ لابن فارس)
علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں:
النشأ والنشأۃ: احداث الشئ وترتیبہ (مفردات القرآن)
ایک حدیث میں عرش کے سائے میں جگہ پانے والوں میں ایک نوجوان ہے جس کی نشوونما رب کی عبادت میں ہوئی ہو، اس کا تذکرہ ان لفظوں میں کیا گیا۔
وَشَابّ نَشأ فی عبادۃ ربہ (البخاری)
ذیل کی آیت جس میں خواتین کا ذکر ہے، زیربحث لفظ کی حقیقت بخوبی واضح کرتی ہے:
أَوَمَن یُنَشَّأُ فِی الْحِلْیَۃِ وَہُوَ فِی الْخِصَامِ غَیْْرُ مُبِیْنٍ (الزخرف : ۱۸)
اس آیت میں عام طور سے مترجمین نے یُنَشَّأُ کا ترجمہ پلنے اور پروان چڑھنے کا کیاہے۔
’’اور کیا وہ جو گہنے (زیور) میں پروان چڑھے اور بحث میں صاف بات نہ کرے‘‘(احمد رضاخان)
لیکن دوسرے بعض مقامات پر مختلف تراجم میں اس کا خیال نہیں کیا جاسکا اور اس لفظ کے مفہوم کو صرف پیدائش تک محدود کردیا گیا۔ چند مثالوں سے بات مزید واضح ہوسکے گی:
(۱) قُلْ ہُوَ الَّذِیْ أَنْشَأَکُمْ وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَۃَ قَلِیْلاً مَّا تَشْکُرُونَ (الملک :۲۳)
اس مقام پر عام طور سے مترجمین نے أَنْشَأَکُمْ کا ترجمہ پیدا کرنا کیا ہے۔
’’کہہ دیجیے کہ وہی (اللہ) ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہارے کان آنکھیں اور دل بنائے۔ تم بہت ہی کم شکر گزاری کرتے ہو‘‘ (محمد جوناگڑھی)
جبکہ شیخ الہند کا ترجمہ اس لفظ کی معنویت کوبھر پور طریقہ سے ظاہر کرتا ہے:
’’تو کہہ وہی ہے جس نے تم کو بنا کھڑا کیا، اور بنادیے تمہارے واسطے کان اور آنکھیں اور دل۔ تم بہت تھوڑا حق مانتے ہو‘‘۔ (محمود الحسن)
(۲) وَرَبُّکَ الْغَنِیُّ ذُو الرَّحْمَۃِ إِنْ یَّشَأْ یُذْہِبْکُمْ وَیَسْتَخْلِفْ مِن بَعْدِکُم مَّا یَشَاءُ کَمَا أَنشَأَکُمْ مِّن ذُرِّیَّۃِ قَوْمٍ آخَرِیْن (الانعام:۱۳۳)
شیخ الہند نے اس دوسرے مقام پردیگر مترجمین کی طرح ’’پیدا کیا‘‘ ترجمہ کیا ہے:
’’اور تیرا رب بے پرواہ ہے، رحمت والا اگر چاہے تو تم کو لے جاوے اور تمہارے پیچھے قائم کردے جس کو چاہے جیسا کہ تم کو پیدا کیا اوروں کی اولاد سے‘‘ (محمود الحسن)
ایک اور توجہ طلب امر یہ ہے کہ الْغَنِیُّ کا ترجمہ بے پروا کے بجائے بے نیاز کرنا صحیح ہے۔
’’اور تیرا رب بے نیاز، رحمت والا ہے۔ اگر وہ چاہے تم کو فنا کردے اور تمہارے بعد تمہاری جگہ جس کو چاہے لائے، جس طرح اس نے تم کو پیدا کیا دوسروں کی نسل سے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
اس مقام پر سید مودودی نے پیدا کرنے کے بجائے ’’اٹھانا‘‘ کیا ہے جو لفظ کی حقیقت سے زیادہ قریب ہے:
’’تمہارا رب بے نیاز ہے اور مہربانی اس کا شیوہ ہے۔ اگر و ہ چاہے تو تم لوگوں کو لے جائے اور تمہاری جگہ دوسرے جن لوگوں کو چاہے لے آئے جس طرح اُس نے تمہیں کچھ اور لوگوں کی نسل سے اٹھایا ہے‘‘(سید مودودی)
یہاں پر ایک اشکال یہ وارد ہوتا ہے کہ بجائے یہ کہنے کے کہ تم کو دوسرے لوگوں سے پیدا کیا، یہ کیوں کہا کہ دوسروں کی اولا د سے پیدا کیا؟ مولانا امانت اللہ اصلاحی نے جو مفہوم اختیار کیا ہے، اس سے یہ اشکال دور ہوجاتا ہے۔ ان کے مطابق یہاں مِنْ تجرید کا ہے۔ مطلب یہ ہوگا کہ ’’جس طرح سے تمہاری نشوونما کی ہے دوسروں کی اولاد کی صورت میں‘‘یا دوسروں کی اولاد بناکر۔ گویا مطلب یہ ہوا کہ جس طرح پہلے اس عالم گیتی میں دوسرے تھے جن کی تم اولاد ہو، وہ نہیں رہے اور ان کی جگہ تم ہو۔ اسی طرح اللہ جب چاہے تم کو نابود کرکے دوسروں کو تمہاری جگہ لا سکتا ہے۔
(۳) أَفَرَأَیْْتُمْ مَّا تُمْنُونَ، أَأَنتُمْ تَخْلُقُونَہُ أَمْ نَحْنُ الْخَالِقُونَ، نَحْنُ قَدَّرْنَا بَیْْنَکُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِیْنَ، عَلَی أَن نُّبَدِّلَ أَمْثَالَکُمْ وَنُنشِئَکُمْ فِیْ مَا لَا تَعْلَمُونَ، وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَۃَ الْأُولَی فَلَوْلَا تَذکَّرُونَ (الواقعہ: ۵۸۔۶۲)
’’ہم نے تمہارے درمیان موت کو تقسیم کیا ہے اور ہم اِس سے عاجز نہیں ہیں کہ تمہاری شکلیں بدل دیں اور کسی ایسی شکل میں تمہیں پیدا کر دیں جس کو تم نہیں جانتے۔اپنی پہلی پیدائش کو تو تم جانتے ہو، پھر کیوں سبق نہیں لیتے؟ ‘‘(سید مودودی)
’’ہم ٹھہراچکے ہیں تم میں مرنا، اور ہم عاجز نہیں اس بات سے کہ بدلے میں لے آئیں تمہاری طرح کے لوگ اور اٹھا کھڑا کریں تم کو وہاں جہاں تم نہیں جانتے۔ اور تم جان چکے ہو پہلا اٹھان، پھر یاد کیوں نہیں کرتے‘‘ (محمود الحسن)
پہلے ترجمہ میں کمزوری یہ ہے کہ پیدائش کا ترجمہ کیا گیا ہے، جبکہ مراد نشوونما ہے۔ مزید یہ کہ قَدَّرْنَا کا ترجمہ تقسیم کرنا کیا گیاہے، حالانکہ صحیح ترجمہ مقدر کرنا ہے۔ دوسرے ترجمہ میں کمزوری یہ ہے کہ نُبَدِّلَ أَمْثَالَکُم کا مطلب انسانوں کی جگہ دوسروں کو لانا لیا گیا ہے، جبکہ اس سے مراد انسانوں کی موجودہ شکل وہیئت بدل کر دوسری شکل وہیئت کے ساتھ انہیں نشوونما دینا ہے۔ درست ترجمہ حسب ذیل ہے:
’’ہم نے تمہارے درمیان موت مقدر کی ہے اور ہم عاجز رہنے والے نہیں ہیں اس بات سے کہ تمہاری شکل وصورت بدل دیں، اور تم کو نشوونما دیں ایسی صورت میں جسے تم نہیں جانتے۔ اور پہلی نشوونما تو تم جانتے ہی ہو تو سبق کیوں نہیں حاصل کرتے‘‘(امانت اللہ اصلاحی)
(۴) إِنَّا أَنشَأْنَاہُنَّ إِنشَاءً ا فَجَعَلْنَاہُنَّ أَبْکَارًا (الواقعہ: ۳۵، ۳۶)
یہاں بھی بعض مترجمین نے پیدا کرنے کے مفہوم کو اختیار کیا ہے، جیسے:
’’ہم نے ان (حوروں) کو پیدا کیا‘‘ (فتح محمد جالندھری، اس ترجمہ میں مفعول مطلق کا مفہوم بھی نہیں ادا ہوسکا)۔
’’ان کی بیویوں کو ہم خاص طور پر نئے سرے سے پیدا کریں گے‘‘ (سید مودودی)
اس ترجمہ میں فعل ماضی سے مستقبل کا مفہوم ادا کرنے کی کوشش غیر ضروری ہے۔
جبکہ بعض دوسرے مترجمین نے لفظ کا حق ادا کیا ہے جیسے:
’’بیشک ہم نے ان عورتوں کو اچھی اٹھان اٹھایا‘‘(احمد رضا خان)
’’ہم نے اٹھایا ان عورتوں کو اچھی اٹھان پر‘‘ (محمود الحسن)
’’(اور ان کی بیویاں ہوں گی) جن کو ہم نے ایک خاص اٹھان پر اٹھایا ہوگا، پس ہم ان کو رکھیں گے کنواریاں‘‘ (امین احسن اصلاحی)
اس ترجمہ میں ماضی کے دونوں افعال کو غیرضروری طور سے مستقبل کا معنی پہنانے کی کوشش کی گئی ہے جو درست نہیں ہے۔ صحیح ترجمہ ہوگا:
’’ان کو ہم نے ایک خاص اٹھان پر اٹھایا ہے، پس ہم نے انہیں بنادیاہے کنواریاں‘‘ (امانت اللہ اصلاحی)
(۳۲) زمین سے پیدائش یا زمین سے نشوونما؟
قرآن مجید میں بعض مقامات پر انسانوں کے سیاق میں إِنشَاء اور انبات کے عمل کو زمین سے جوڑا گیا ہے۔ اس کی تفسیر میں بعض لوگوں کا ذہن اس طرف گیا کہ انسان کے تکوینی عناصر وہی ہیں جو زمین میں پائے جاتے ہیں۔ اور بعض نے اس کی تفسیر قرآن مجید کے اس بیان کو سامنے رکھ کر کی جس میں انسان کو مٹی سے پیدا کرنے کی بات کی گئی ہے۔ انہوں نے یہ خیال کیا کہ طین سے پیدا کرنا اور ارض سے پیدا کرنا ایک ہی مفہوم کو ادا کرتا ہے۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہاں پیدائش نہیں بلکہ نشوونما کی طرف اشارہ ہے اور بتانا مقصود یہ ہے کہ انسان کو نشوونما کے لیے جن چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے، ان کا انتظام اللہ نے زمین میں فرمادیا ہے۔ مذکورہ آیتوں میں یہ اسلوب بیان ہوا ہے:
(۱) وَإِلَی ثَمُودَ أَخَاہُمْ صَالِحاً، قَالَ یَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُم مِّنْ إِلَہٍ غَیْْرُہُ، ہُوَ أَنشَأَکُم مِّنَ الأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَکُمْ فِیْہَا (ہود:۶۱)
عام طور سے مترجمین نے اس آیت میں پیدا کرنے کا ترجمہ کیا ہے، جیسے:
’’اور ثمود کی طرف ہم نے ان کے بھائی صالح کو بھیجا۔ اُس نے کہا، اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو، اُس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے۔ وہی ہے جس نے تم کو زمین سے پیدا کیا ہے اور یہاں تم کو بسایا ہے‘‘ (سید مودودی)
جبکہ یہاں ترجمہ ہونا چاہیے:
’’اسی نے تم کو زمین سے نشوونما دی‘‘(امانت اللہ اصلاحی)
(۲) ہُوَ أَعْلَمُ بِکُمْ إِذْ أَنشَأَکُمْ مِّنَ الْأَرْض (النجم:۳۲)
’’وہ تمہیں خوب جانتا ہے تمہیں مٹی سے پیدا کیا‘‘(احمد رضا خان)
’’وہ تمھیں اْس وقت سے خوب جانتا ہے جب اْس نے زمین سے تمہیں پیدا کیا ‘‘(سید مودودی)
’’وہ تمہیں خوب جانتا ہے جب اس نے تمہاری زندگی کی ابتداء اور نشو و نما زمین (یعنی مٹی) سے کی تھی‘‘(طاہر القادری)
’’وہ تم کو خوب جانتا ہے جب بنا نکالا تم کو زمین سے‘‘ (محمود الحسن)
یہاں بھی لفظ کی رعایت سے درست ترجمہ اس طرح ہوگا:
’’وہ تم کو خوب جانتا ہے جبکہ اس نے تمہیں نشوونما دی زمین سے‘‘(امانت اللہ اصلاحی)
(۳) وَاللّٰہُ أَنبَتَکُم مِّنَ الْأَرْضِ نَبَاتاً (نوح:۱۷)
اس آیت میں بعض لوگوں نے زمین سے اگانے کا تو بعض لوگوں نے زمین سے پیدا کرنے کا ترجمہ کیا ہے، جیسے:
’’اور اللہ نے تم کو زمین سے عجیب طرح اگایا‘‘(سید مودودی)
’’اور اللہ نے تمہیں سبزے کی طرح زمین سے اْگایا‘‘ (احمد رضا خان)
’’اور خدا ہی نے تم کو زمین سے پیدا کیا ہے ‘‘(فتح محمد جالندھری)
’’اور تم کو زمین سے ایک (خاص اہتمام سے) اگایا ہے (اور پیدا کیا ہے) ‘‘(محمد جوناگڑھی)
مولانا امانت اللہ اصلاحی اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں:
’’اور اللہ نے خاص انداز سے زمین سے تمہاری نشوونما فرمائی ‘‘
دراصل جس طرح إِنشَاء کا اصل مفہوم نشوونما دینا ہے، اسی طرح انبات کا بھی اصل مفہوم نشو ونما دینا ہی ہے۔ إِنشَاء اور انبات میں ہم معنی ہونے کے ساتھ خاص فرق یہ ہے کہ إِنشَاء جانداروں کے لیے خاص ہے اور بطور استعارہ نباتات کے لیے استعمال ہوتا ہے جبکہ انبات نباتات کے لیے خاص ہے اور بطور استعارہ غیر نباتات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ إِنشَاء کے بارے میں علامہ راغب لکھتے ہیں:
وأکثر ما یقال ذلک فی الحیوان۔ وقولہ تعالی: أَفَرَأَیْْتُمُ النَّارَ الَّتِیْ تُورُونَ، أَأَنتُمْ أَنشَأْتُمْ شَجَرَتَہَا أَمْ نَحْنُ الْمُنشِؤُونَ (الواقعۃ: ۷۱۔۷۲) فلتشبیہ ایجاد النار المستخرجۃ بایجاد الانسان (مفردات القرآن)
انبات کے بارے میں علامہ ابن فارس لکھتے ہیں:
النون والباء والتاء أصل واحد یدلّ علی نماءٍ فی مزروع، ثم یستعار. (معجم مقاییس اللغۃ)۔
انبات کا اصل مفہوم نشو ونما دینا ہے ، یہ ذیل کی آیت سے بہت اچھی طرح واضح ہوتا ہے:
فَتَقَبَّلَہَا رَبُّہَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنبَتَہَا نَبَاتاً حَسَنًا (آل عمران:۳۷)
یقینی طور پر اس آیت میں پیدا کرنے یا اگانے کا ترجمہ درست نہیں ہوگا۔
’’پس اسے اس کے پروردگار نے اچھی طرح قبول فرمایا اور اسے بہترین پرورش دی‘‘ (محمد جوناگڑھی)
’’تو اسے اس کے رب نے اچھی طرح قبول کیا اور اسے اچھا پروان چڑھایا‘‘ (احمد رضا خان)
’’تو پروردگار نے اس کو پسندیدگی کے ساتھ قبول فرمایا اور اسے اچھی طرح پرورش کیا‘‘(فتح محمد جالندھری)
بالکل اسی طرح سورہ نوح کی مذکورہ بالا آیت میں بھی پرورش کرنا مراد ہے، البتہ وہاں مِّنَ الْأَرْضِ کا اضافہ اس حقیقت کا بیان ہے کہ نشوونما کا انتظام جس طرح نباتات کے لیے زمین سے ہوتا ہے، اسی طرح انسانوں کی نشوونما کا انتظام بھی اللہ نے زمین میں کردیا ہے۔
(۳۳) فرض علیہ اور فرض لہ کے درمیان فرق:
فرض کے ساتھ جب علی آتا ہے تو اس کے معنی کسی پر کچھ فرض کرنے اور لازم کرنے کے ہوتے ہیں:
قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَیْْہِمْ فِیْ أَزْوَاجِہِمْ وَمَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُہُمْ (الأحزاب : ۵۰)
’’ہم کو اچھی طرح معلوم ہے جو کچھ ہم نے ان پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے باب میں فرض کیا ہے‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’ہم کو معلوم ہے کہ عام مومنوں پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں ہم نے کیا حدود عائد کیے ہیں‘‘ (سید مودودی)
صحیح بخاری کی حسب ذیل حدیث میں فرض علی دوبار آیا ہے اور دونوں جگہ اس کا مفہوم واجب کرنا ہے:
عن ابن عباس رضی اللہ عنھما أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لما بعث معاذا، رضي اللہ عنہ، علی الیمن، قال: انک تقدم علی قوم أھل الکتاب فلیکن اول ما تدعوھم الیہ عبادۃ اللہ، فاذا عرفوا اللہ فاخبرھم أن اللہ قد فرض علیھم خمس صلوات فی یومھم ولیلتھم، فاذا فعلوا فأخبرھم أن اللہ فرض علیھم زکاۃ (تؤخذ) من أموالھم وترد علی فقراءھم، فاذا أطاعوا بھا فخذ منھم وتوق کرائم أموال الناس۔
البتہ فرض کے ساتھ جب لام آتا ہے تو مفہوم کسی کے اوپر کچھ لازم کرنے اور عائد کرنے کا نہیں ہوتا، بلکہ کسی کے لیے کچھ مقرر کرنے کا ہوتا ہے۔ ذیل کی دومثالوں سے یہ واضح ہوتا ہے:
(الف) لَاجُنَاحَ عَلَیْْکُمْ إِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوہُنُّ أَوْ تَفْرِضُوا لَہُنَّ فَرِیْضَۃً (البقرۃ : ۲۳۶)
’’اور اگر تم عورتوں کو ان کے پاس جانے یا ان کا مہر مقرر کرنے سے پہلے طلاق دے دو تو تم پر کچھ گناہ نہیں‘‘ (جالندھری)
(ب) وَإِن طَلَّقْتُمُوہُنَّ مِن قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوہُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَہُنَّ فَرِیْضَۃً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُم (البقرۃ : ۲۳۷)
’’اور اگر تم عورتوں کو ان کے پاس جانے سے پہلے طلاق دے دو لیکن مہر مقرر کرچکے ہو تو آدھا مہر دینا ہوگا‘‘ (جالندھری)
دونوں مقامات پر عام طور سے مترجمین نے مہر مقرر کرنے کا مفہوم ذکر کیا ہے۔ تاہم فرض علی کے مقابلے میں فرض لہ کا یہ اہم فرق بعض ترجموں میں ملحوظ نہیں رکھا جاسکا۔ ذیل کی مثالوں میں یہ بات دیکھی جاسکتی ہے:
(۱) مَّا کَانَ عَلَی النَّبِیِّ مِنْ حَرَجٍ فِیْمَا فَرَضَ اللّٰہُ لَہ (الاحزاب : ۳۸)
’’اور نبی کے لیے اللہ نے جوکچھ فرض کیا، اس میں کوئی تنگی نہیں ہے‘‘(امین احسن اصلاحی)
’’اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس کام (کی انجام دہی) میں کوئی حرج نہیں ہے جو اللہ نے ان کے لیے فرض فرما دیا ہے‘‘(طاہر القادری)
’’نبی کے لیے خدا کے فرائض میں کوئی حرج نہیں ہے‘‘(جوادی)
غور طلب امر یہ ہے کہ یہاں بات کسی ایسے فرض کی نہیں ہورہی ہے جو نبی پر عائد کیا گیا ہو، بلکہ اللہ نے نبی کے لیے ایک بات مقرر کی ہے اور یہ بتایا جارہا ہے کہ اسے انجام دینے میں نبی کے لیے کوئی حرج نہیں ہے۔درست ترجمہ یہ ہے:
’’نبی پر کوئی حرج نہیں اس بات میں جو اللہ نے اس کے لیے مقرر فرمائی‘‘ (احمد رضا خان)
(۲) قَدْ فَرَضَ اللّٰہُ لَکُمْ تَحِلَّۃَ أَیْْمَانِکُمْ (التحریم :۲)
’’اللہ نے تمہاری (خلاف شرع) قسموں کا توڑ دینا تم پر فرض کردیا ہے‘‘ (امین احسن اصلاحی)
’’خدا نے فرض قرار دیا ہے کہ اپنی قسم کو کفارہ دے کر ختم کردیجیے‘‘(جوادی)
یہاں بھی یہ نہیں بتایا جارہا ہے کہ قسموں کو توڑنا فرض ہے، بلکہ یہ بتایا جارہا ہے کہ اللہ نے قسموں سے آزاد ہونے کا طریقہ بتادیا ہے، اس لیے آزادی کے ساتھ خدا کی شریعت پر عمل پیرا ہونے کے بجائے خود اپنی قسموں کی پابندی میں گرفتار رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ درست ترجمہ یہ ہے:
’’اللہ نے تم لوگوں کے لیے اپنی قسموں کی پابندی سے نکلنے کا طریقہ مقرر کر دیا ہے‘‘ (سید مودودی)
إِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْْکَ الْقُرْآنَ لَرَادُّکَ إِلَی مَعَادٍ (القصص :۸۵)
اس آیت میں فَرَضَ کے ساتھ علی آیا ہے، اس لیے اردو مترجمین میں سے بڑی تعداد نے ترجمہ ’’فرض کرنا‘‘ کیا ہے، جیسے:
’’اے نبی، یقین جانو کہ جس نے یہ قرآن تم پر فرض کیا ہے، وہ تمہیں ایک بہترین انجام کو پہنچانے والا ہے ‘‘(سید مودودی)
علامہ راغب اصفہانی نے یہی مفہوم اختیار کیا ہے:
وقال: إِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْْکَ الْقُرْآنَ (القصص: ۸۵)، أی: أوجب علیک العمل بہ۔ (مفردات القرآن)
البتہ بعض لوگوں نے اس کا ترجمہ نازل کرنا کیا ہے، جیسے:’’جس اللہ نے آپ پر قرآن نازل فرمایا ہے وہ آپ کو دوبارہ پہلی جگہ لانے والاہے ‘‘(محمد جوناگڑھی)
اس آیت میں فرض کامطلب نازل کرنا عرب مفسرین کے یہاں بھی ملتا ہے۔ امام قرطبی لکھتے ہیں: و’’فَرَضَ‘‘ معناہ أنزل۔ (تفسیر القرطبی: ۱۳؍۳۲۱)۔ لگتا ہے ان لوگوں کو یہ اشکال ہوا کہ قرآن پر فرض کیے جانے کا اطلاق کیسے کیا جائے، فرض کیے جانے کی چیز تو احکام ہوتے ہیں۔ تاہم علامہ طاہر بن عاشور کا خیال ہے کہ یہاں بھی فَرَضَ مقرر کرنے کے معنی میں ہے، اور علیٰ وجوب کا مفہوم ادا کرنے کے لیے نہیں ہے، بلکہ یہ بتانے کے لیے ہے کہ یہاں فعل انزل کی تضمین ہے جس کا صلہ علیٰ ہے جسے ذکر کردیا گیا ہے۔ گویا مطلب ہوگا اللہ نے تمہارے لیے قرآن کو منتخب کرکے تم پر نازل کیا۔علامہ لکھتے ہیں:
ومعنی (فَرَضَ عَلَیْْکَ الْقُرْآن) اختارہ لک من قولھم: فرض لہ کذا اذا عین لہ فرضا أی نصیبا۔ ولما ضمن (فرض) معنی (أنزل) لأن فرض القرآن ھو انزالہ عدی فرض بحرف (علی)۔ (التحریروالتنویر: ۲۰؍۱۲۰)
(جاری)
تہذیب مغرب: فلسفہ و نتائج (۲)
محمد انور عباسی
تحریکِ نسوان یا نسوانیت (Feminism) :
روشن خیالی کی تحریک سے قبل مغربی معاشرے میں عورت کو معاشرے کا کوئی مفید فرد تسلیم نہیں کیا جاتا تھا۔ ہیگل اور فرائیڈ دونوں نے عورت کے بارے میں کچھ مثبت رائے کا اظہار نہیں کیا۔ شوپنہار (Schopenhauer) نے تو صاف طور پر عورت کو انتہائی سادہ لوح اور کوتاہ نظر قرار دیا ہے۔ اس کے نزدیک عورت کو مکمل انسان نہیں کہا جا سکتا۔ (۱۰) اسی بنیاد پر عورت کو تو ووٹ کا بھی حق نہیں تھا۔ پروفیسر کرسٹن کے الفاظ میں:
"By the second wave of Feminism in the 1960s to 1970s most women in Western Countries had gained basic social and political rights such as the vote after considerable social dispute." (11)
یعنی۱۹۶۰ اور ۱۹۷۰ کے عشروں میں تحریکِ نسوانیت کے دوسرے دور میں مغربی ممالک میں بڑے جھگڑوں کے بعد اکثر خواتین کو بنیادی معاشرتی اور سیاسی حقوق مثلاً ووٹ حاصل ہوئے۔ عیسائیت نے بھی عورت کو ازلی گناہ کی اصل ذمہ دارقرار دیا ہے۔ ان حالات میں کئی اہل فکر سامنے آئے جنہوں نے عورت کے حق میں آواز اٹھائی۔
روشن خیالی کی تحریک نے جدیدیت کے فلسفے کی روشنی میں مغربی انسان کو دوسرا بڑا تحفہ جو دیا، وہ جنسی میدان میں تحریکِ نسوانیت کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ یہ امر دلچسپی کا باعث ہو گا کہ اس تحریک کا آغاز خواتین نے نہیں بلکہ مردوں نے کیا تھا۔ برطانیہ کا جریمی بینتھم (Jeremy Bentham..1791) غالباً ابتدائی مفکرین میں شمار ہوتا ہے جس نے مکمل مساواتِ مرد و زن کا نعرہ دیا۔ روشن خیالی کا سب سے بڑا اور پیارا نعرہ یہ تھا کہ انسان مکمل آزاد ہے، یعنی وہ ہر قسم کے خیالات، اعمال و افعال کو اپنا سکتا ہے ، اس کو پابند کرنے کے لیے کوئی مافوق الفطرت ہستی ہو ہی نہیں سکتی۔ تحریکِ نسوانیت میں عورتوں کو مکمل آزادی دینے سے قبل پہلے مرحلے میں ایک اور نعرہ دیا جانا مناسب سمجھا گیا کہ عورت اور مرد برابر ہیں۔ اسی کے ہم عصر مارکوس(Marques de Condorcet...1790) نے فرانس سے اسی قسم کے خیالات کا پرچار شروع کیا۔ اسی دور میں پہلی خاتون Mary Wollstonecraft نے تحریکِ نسواں میں بڑا نام پیدا کیا۔ صنعتی انقلاب کے بعد جب عورتوں کوگھروں سے نکلنا پڑا تو اٹھارویں صدی میں دیہاتوں سے شہروں کی جانب ہجرت کو جواز بخشنے کے لیے خوبصورت نعروں کی ضرورت پڑی۔ اس پس منظر میں مساواتِ مرد و زن بڑا ہی مقبول نعرہ ثابت ہوا۔ لیکن روشن خیالی کی تحریک اور hیومن ازم نے بھی عورت کو دوسرے درجے میں ہی رکھا ، اسے اوپر نہیں آنے دیا۔ سوزین پال(Suzanne Paul) نے بڑے کرب کا اظہار کرتے ہوئے بجا طور پر اس کا شکوہ کرتے ہوئے کہاکہ:
"If Humanist, male or female, embrace the Enlightenment position of rationality and humanism at its word and its starting point common respect then is due to all people because they are rational. However wowen have been unfairly excluded from the respect which they are due as human beings on the basis of an insidious assumption that we are less rational then men." (12)
اس کا کہنا ہے کہ ہیومنسٹ، مرد یا عورت جب روشن خیالی کی تحریک میں وابستہ ہوتے ہیں تو اس کی وجہ صرف یہ ہے تمام انسان عقل و شعور کے مالک ہیں۔لیکن عورتوں کو ایک غلط نا جائز اور عیارانہ طریقے سے اس اعزاز سے باہر رکھا گیا ہے کہ ہم عورتیں مردوں سے کم عقل و شعور رکھتی ہیں۔ یہ تو ہر فرد تسلیم کرے گا کہ فطری ساخت کے اعتبار سے عورت اور مردکی تخلیق میں فرق رکھا گیا ہے اور یہ کسی کی اپنی خواہش پر نہیں چھوڑا گیا۔ اب اس کا کیا کریں کہ اس فرق کی موجودگی میں ہیومن ازم اور روشن خیالی کی تحریک میں بھی عورتیں وہ ’’مقام‘‘ حاصل نہیں کر پا رہیں جس کی تڑپ انہیں مذہبی اخلاقیات اور خدا کو ترک کرنے پر مجبور کر رہی تھی۔ سوزین پال ایک نسخہ کیمیا ڈھونڈ لائی ہیں۔ ان کا ارشاد ہے کہ: ’’ اس اختلاف کو عورتوں کے ساتھ غیر مساویانہ سلوک کو جائز قرار دینے کے لیے استعمال کیا گیا۔ لہٰذا سرے سے اس اختلاف کو ہی نظری اور عملی طور پر ختم کرنا ہوگا تاکہ عورتیں معاشرے اور ہیومن ازم میں اپنا جائز مقام حاصل کر سکیں۔‘‘ (۱۳) یہ فطری اختلاف کس طرح ’’نظری اور عملی‘‘ طور پر ختم کیا جا رہا ہے اس کی ایک ہلکی سی جھلک ہم اس تحریر میں دیکھیں گے، تاہم عملی تصویر دیکھنے کے لیے مغربی معاشرے کو عمیق نظروں کی ضرورت ہے۔
ان اختلافات کو دور کرنے کے لیے مغرب میں چند عملی قدم اٹھائے گئے، لیکن ان کو جواز بخشنے کے لیے فلسفہ یا تھیوری کی ضرورت پڑتی ہے۔ چنانچہ ۱۹۹۰ ء میں Queer Theory سامنے لائی گئی جس میں یہ ثابت کرنے کی بھر پور کوشش کی گئی کہ جنسِ مخالف (Heterosexuality) کی کشش کوئی فطری جذبہ ہے ہی نہیں، محض انسان کی فطری ہیجان اور بھوک ہے جوانسانی جسم میں موجود حسی جذبات ابھارنے والی مشینری (Ocean of sensory stimuli: motion, color, texture, shape, heat, cold etc.) ہر دم تیار رہتی ہے۔ اس کو تسکین دینے کے لیے جنسِ مخالف ہی کیوں لازمی ہو؟ اس کے لیے کوئی بھی ہم جنس پرستی (Homosexuality) کی راہ اپنائی جا سکتی ہے۔ (۱۴) اس نظریے پر مبنی عملے معاشرے کے قیام کے لیے مغربی دنیا میں تقریباً ہر ملک میں قانون سازی ہو رہی ہے۔
تحریکِ نسواں کی تیسری لہر(Third wave) میں عورتوں کے کردار، حیثیت اور جنسی رویّوں کے متعلق بڑی انقلابی تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ اس عہد میں خاندان کی حیثیت وہ نہیں رہی جو کچھ عشرے قبل میں معروف تھی، وہ حیثیت رہ ہی نہیں سکتی تھی۔ عورتوں میں امتیازی جنسی رویوں کے خلاف وسیع پیمانے میں ردِّ عمل اور احتجاج سامنے آیا۔ اخلاقیات کا تو خیر اب سوال ہی کیا، وہ تو اب ایک قصہِ پارینہ تھا، آزادخیالات (Liberal) نظریات کے تحت، پوسٹ ماڈرن تحریک کے زیرِ اثر اب ہر بات درست سمجھی جانے لگی تھی۔پوسٹ ماڈرن تحریک کا سب سے بڑا تحفہ موضوعیت (Subjectivity) اور اضافیت (Relativity) ہے۔ جس میں ہر نظریہ، ہر قول درست مانا جاتا ہے ۔ اس کے متعلق پوسٹ ماڈرن مفکرین کے الفاظ میں:
"We can believe anything - or, what amounts to the same thing, believe nothing."
یعنی ہم ہربات پر یقین کر سکتے ہیں، دوسرے الفاظ میں ہم کسی بات پر بھی یقین نہیں رکھتے۔چنانچہ عورتوں نے شادی کے ادارے ہی کے خلاف آواز بلند کر دی، کہ یہ ادارہ دراصل عورتوں کو غلام بنانے کا ایک آلہ تھا۔ شادی اور بچوں کی پیدائش اور پرورش سے ہی عورتیں مردوں کی غلام بنتی ہیں۔چنانچہ شادی کے بغیر ناجائز بچوں کی پیدائش اور پرورش کی حوصلہ افزائی کی گئی ۔ Dean Koontz ایک ناجائز اولاد کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے:
"Be glad that you are illegitimate, baby, because that means you are free. Little bastard children don't have as many relatives clinging like psychic leaches and sucking away their souls." (Intensity: p.382)
یعنی برخوردار تمہیں خوش ہونا چاہیے کہ تم ایک ناجائز اولاد ہو، کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ تم آزاد ہو۔ حرامی بچوں کے اتنے رشتہ دار نہیں ہوتے جوجونکوں کی طرح ان کی روحوں کو چوس لیتے ہوں۔پہلے مرحلے میں تو یہی کچھ ہو سکتا تھا۔ اگلے مرحلے میں بچوں سے گلوخلاصی کی تدبیریں سوچی جانے لگیں۔
۱۹۷۰ء میں فائرسٹون نے اپنی کتابThe Dialectics of Sex: The case for Feminist Revolution میں لکھا کہ تحریکِ نسواں میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ عورتوں کے بارے میں غیر مساوی رویہ دراصل ان کے بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ اسی وجہ سے وہ مردوں کے ماتحت زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ مردوں کے برابر رتبہ حاصل کرنے کا بس ایک ہی علاج ہے کہ ٹسٹ ٹیوب بے بی کا سہارا لیا جائے۔ چنانچہ سائنس اور ٹیکنالوجی ہی عورتوں اور مردوں کے درمیان مساوات پیدا کر سکتی ہے۔
ان کے خیال میں شادی اور خاندان کا ادارہ عورت کو محکوم بنانے کو’ مردانہ سازش‘ تھی۔ اس سازش کے خلاف جنگ یوں جیتی جا سکتی تھی کہ عورت بیوی اور ماں بننے کے لیے ازدواجی حدود یکسر مسترد کر دیں اور ایک نعرہ بلند ہوا کہ’عورت کا جسم اس کی اپنی ملکیت ہے جس پر کسی دوسرے کا کوئی اختیار نہیں‘۔مردوں کے لیے یہ امر خوش کن تھا۔ عورت اور مرد دونوں اپنے اپنے گمان میں مسرور اور مطمئن ہو گئے۔ (۱۵) مشہور فیمینسٹ مصنفہ شیلا کرونن (Sheila Cronan)لکھتی ہے:
"Since marriage constitutes slavery for women, it is clear that women's movement must concentrate on attacking marriage."(16)
یعنی شادی عورتوں کے لیے غلامی کے ہم معنی ہے اس لیے عورتوں کی تحریک نسواں کو شادی کے ادارے پر حملوں کو مرکزی اہمیت دینی چاہیے۔ بیٹی فرائیڈین (Betty Friedan ،جو قومی تنظیم برائے خواتین کی بانی ہے، شادی کے ادارے کو’ آرام دہ کنسٹریشن کیمپ‘ کہہ کر پکارتی ہے جس سے عورتوں کو آزادی دلانا ضروری ہے۔ (۱۷) چنانچہ شادی شدہ عورتوں کو طلاق پر ابھارنے کے لیے بڑے بڑے فلسفے سامنے آئے۔ طلاق کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے Mel Krantzler نے دل لبھانے والے ادیبانہ جملے استعمال کرتے ہوئے اپنی مشہور کتابCreative Divorce میں لکھا:
"To say goodbye is to say hello....hello to a new life - to a new, freer, more self-assured you. Your diverce can turn out to be the very best thing that ever happened to you." ۔
کتاب کا نام ہی دل لبھانے والا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ طلاق دے کر خدا حافظ کر کے رخصت کر دینا در اصل ایک نئی نسبتاً زیادہ آزاد اور خود اعتماد والی زندگی کو خوش آمدید کہنا ہے۔ تمہاری یہ طلاق تمہاری زندگی کی بہترین چیز ثابت ہو سکتی ہے۔ اسی طرح معاشیات کے میدان میں کام کرنے والے مفکرین نے تحقیق کر کے ’’ثابت‘‘ کیا کہ طلاق کے بعد کس طرح فریقین کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوا ہے اور وہ نسبتاً بہتر زندگی بسر کرنے لگے ہیں۔ ۱۹۸۵ ء میں Weitzman کی ایک کتاب سامنے آئی جس کا نام ہے he Divorce Revolution T ۔ کتاب کا نام ہی یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ طلاق کوئی بری شے نہیں بلکہ یہ تو ایک انقلابی قدم ہے۔ اس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ طلاق کے بعد سابق شوہر کی آمدنی میں ۴۲% اضافہ ہوا ہے۔
گلوریا سٹینن نے پیٹر کولیر اور ڈیوڈ ہارووتھ کی کتاب سے تحریکِ نسواں کے علمبراروں کہ یہ جملہ نقل کیا ہے :
"We wan to destroy the three illars of Class and a caste society - the family, private property, and the state."(18)
کہ ہم ایک ذات پات پر مبنی معاشرے کے تینوں ستونوں ۔فیملی، نجی ملکیت اور ریاست۔ کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔عورتوں کو مکمل ’آزادی‘ دلانے کے لیے ان کو یہ احساس دلانا ضروری تھا جس کے لیے یہ فلسفہ گھڑا گیا، کہ عورتیں اپنے جسم کی خود مالک ہیں اور مردوں کو کنٹرول کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے جسم کو استعمال کریں۔گلوریا جو خود بھی تحریک نسواں کے کاروان میں شامل تھی ، بالآخر اس نتیجے پر پہنچی کہ امریکہ کے روایتی خاندانی ساخت پر حملوں کی وجہ سے تحریک ایک برائی کا خوفناک عفریت(Evil monster) ہے۔
Claire Mexwell Peter Aggleton 2009 کی رپورٹ میں کہا گیا کہ:
’’نوجوان عورتوں اپنے جنسی تجربات کرنے اور ایسی صلاحیت پیدا کرنے پر آمادہ کرتے ہوئے بولنے پر تیار کرنے کا راستہ یہ ہے کہ انہیں یہ احساس دلایا جائے کہ وہ اپنے جسم کا کنٹرول خود حاصل کر رہی ہیں یا وہ گم شدہ کنٹرول دوبارہ حاصل کر رہی ہیں۔‘‘(۱۹)
اس طرح ۱۹۶۰۔۱۹۷۰ میں مساواتِ مرد و زن سے آگے بڑھ کر تحریکِ نسواں کے مقاصدلبرل ازم کی برکت سے اپنے منطقی نتائج کی طرف آگے ہی بڑھتے چلے گئے۔جب مستقل اقدار(Permanent values) باقی نہ رہیں اور ہر چیز اضافی(Relative) بن جائے تو کچھ بھی باقی نہیں رہ سکتا۔ عورتوں نے یہ نام نہاد ’آزادی‘ حاصل تو کر لی مگر کس قیمت پر، یہ ابھی غالباً سوچنے کا موقع نہیں آیا۔ Sylvia Ann Hewlett نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے’ ایک کمتر زندگی: امریکہ میں عورتوں کی آزادی کا افسانہ‘۔
"A Lesser Life: The Myth of Women's Liberation in America"
اس میں عورتوں کے بارے میں چشم کشا واقعات بیان کئے گئے ہیں کہ خاندان کی تباہی کے بعد عورتیں نہ گھر کی رہیں نہ باہر کی۔افزائشِ نسل کے لیے عورتوں کا کردار مسلّم ہے لیکن بقول فائرسٹون بچوں کے متعلق سوچتے ہوئے ان کی پیدائش کا عمل ذہن میں فوراً ابھرتا ہے کہ وہ کیسے پیدا ہوتے ہیں۔جوں ہی اس عمل پیدائش میں عورتوں کے رول کو سامنے رکھیں گے` عورتوں کی ماتحتی اور غلامی کا تصورہی سامنے آئے گا۔ لہٰذا عورتوں کو اس سارے جھنجھٹ سے نکالنے کے لیے واحد راستہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی مدد سے ’’آسانی‘‘ فراہم کی گئی۔
پہلے مرحلے پر اسقاطِ حمل کو قانوناً جواز بخشنا تھا۔لیکن بحث کی خاطر لفظ ’آزادی اور انسانی حقوق‘ کے مارے ہوئے انفرادیت پسند ہمیں یہ دلیل دیتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں کہ اسقاطِ حمل میں مستقبل میں پیدا ہونے والے بچہ (Fetus) کا بھی تو کوئی حق ہوتا ہے، لہٰذا اس کی مرضی کے بغیر اس کو دنیا میں آنے سے کس طرح روکا جا سکتاہے! یہ تو سب ہی کو معلوم تھا کہ جنین میں پرورش پانے والا ایک گوشت کا لوتھڑا کس طرح اپنی مرضی کا اظہار کر سکتا ہے۔ اس کمزور دلیل کو سامنے لایا ہی اس لیے گیا تھا کہ اس کی دھجیاں بکھیر کر اسقاطِ حمل کی راہ ہموار کی جا سکے۔چنانچہ عین توقع کے مطابق اس دلیل کو رد کر دیا گیا ۔ Judith Jarvis Thomson نے لکھا کہ:
"If women have rights over their bodies, then they have right not to have their bodies used by others against their will."
یعنی یہ تو طے شدہ بات ہے کہ عورت اپنے جسم کی مالک ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر عورتوں کو اپنے جسم کے مالک ہونے کی حیثیت سے مکمل حقوق حاصل ہیں تو کسی دوسرے کو (یعنی پیدا ہونے والے بچے کو) ان کی مرضی کے خلاف ان کا جسم استعمال کرنے کا حق کس طرح دیا جا سکتا ہے۔ یعنی ماں کی مرضی کے خلاف اس کے جسم میں پرورش پانے والے بچے کا کوئی حق ہو ہی نہیں سکتا۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے ماں جب چاہے اس سے نجات حاصل کر سکتی ہے۔وہ اپنا جسم کسی کو استعمال کیوں کرنے دے! تاہم اگر کبھی اس کو بچے کی خواہش ہو جائے توکرائے کی ماں کا تصور دے کر اس کی ایک حل نکال لیا گیا، جسے Commercial Surrogacy کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے ایک عورت کا مسئلہ تو حل کر لیا لیکن دوسری عورت پھر بھی غلام کی غلام ہی رہی!
پہلے مرحلے میں مرد ، بچوں اور خاندان سے یوں گلوخلاصی کے بعد اگلا قدم مردوں سے مکمل آزادی تھا، چنانچہ عورت کی عورت سے شادی کا تصور اجاگر کیا گیا اور اس کے بعدبہرحال مغربی سرمایہ دارانہ کا بے قید و لبرل معاشرہ آزاد منڈی کے ذریعے مصنوعی آلات جنسی تسکین کے لیے سامنے لے آیا تاکہ کسی سے بھی شادی وغیرہ کے جھنجھٹ سے جان بچائی جا سکے۔ یہ سب رویّے اب مغربی معاشرے کا لازمی حصہ ہیں۔ہمارے مسلمان معاشرے میں ہمار لبرل طبقہ فی الحال اس حد تک نہیں گیا۔ مغرب میں بھی پہلے پہل بڑی احتیاط سے قدم رکھا گیا تھا۔ اسی طرح قدم پھونک پھونک کر رکھتے ہوئے یہ بھی کچھ ابتدائی نوعیت کے کام کا آغاز تو ہو ہی گیا ۔ اظہارِرائے کی آزادی کے نام پر یہاں بھی بہت کچھ ملنے کے آثار شروع ہو گئے ہیں۔
اسی نوعیت کا کچھ ابتدائی کام آغا خان فاؤنڈیشن نے آغا خان نرسنگ سکول کے صحت کے بارے میں گیارہ سال سے پندرہ سال کی طالبات سے سوالنامے سے ظاہر ہے۔ یہ سوالات ملاحظہ ہوں:
- کیا کسی مرد نے کبھی آپ کے جسم کو چھوا ہے، اگر ہاں تو یہ مرد کون تھا؟
- کیا کسی نے کبھی آپ کے پستان کو چھوا ہے؟
- کیا آپ جانتی ہیں کہ اپنی چھاتی کا خود معائنہ کس طرح کیا جاتا ہے؟
- کیا کسی لڑکی کو شادی سے پہلے جنسی تعلق رکھنا چاہیے، اگر ہاں تو کس عمر میں؟
- ایڈز غیر محفوظ جنسی تعلق سے ہوتا ہے۔ طوائف سے ہوتا ہے یا ہم جنس پرستی سے ہوتا ہے۔ آپ اس بات کو یقینی کس طرح بنائیں گی کہ آپ محفوظ جنسی تعلقات قائم کر رہی ہیں؟
- کیا آپ نے کبھی جنسی تعلقات قائم کیے؟ اگر ہاں تو کس عمر میں؟
- کیا شادی سے پہلے محبت کرنے والے لڑکے اور لڑکی کو ایک دوسرے سے جنسی تعلق قائم کرنا چاہیے؟
- جنسی تعلق سے زیادہ سے زیادہ تلذذ کس طرح ممکن ہے؟
- کیا آپ نے کبھی اپنی بہن کو بے لباس دیکھا ہے، اگر ہاں تو کس نوعیت کے جذبات آپ کے اندر پیدا ہوئے؟کیا آپ نے کبھی اس سے جنسی تعلق کے بارے میں سوچا؟
- کیا آپ کے باپ نے کبھی آپ سے جنسی تعلق قائم کیا ؟ کیا آپ کے بھائی نے کبھی ایسا کیا؟
- کیا بچپن میں آپ اپنی والدہ کے ساتھ سوتے رہے؟ کیا آپ نے کبھی سے برہنہ دیکھا ہے ، اگر ہاں تو کس نوعیت کے جذبات آپ میں پیدا ہوئے؟ (۲۰)
ان سوالات سے اندازہ ہو جانا چاہیے کہ تحریکِ نسواں کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے ہمارے لبرل اور سیکولر مفکرین ہمارے معاشرے کے بارے میں کیا نقشہ اپنے ذہن میں رکھتے ہیں۔
ما بعد جدیدیت (Post Modernism):
مغربی تہذیب کا یہ دورِ جدید دوسری جنگِ عظیم کے بعد ۱۹۴۵ ء سے شروع ہوا۔ جدیدیت اس دعوے کے ساتھ سامنے آئی تھی کہ وہ عقل سے عالمگیر صداقتوں کو دریافت کر سکتی ہے، انسان کے لیے دنیا میں بہترین نظام وضع کر سکتی ہے۔ اس نے عقل کے ذریعے بہترین انسانی معاشرے کی تشکیل کے لیے جو دو عملی نمونے دنیا کے سامنے پیش کئے ان کی ہلکی سی ایک جھلک ہم گذشتہ اوراق میں دیکھ چکے ہیں۔
جدیدیت یا ماڈرن ازم جب عملی طور پر کوئی قابل عمل اخلاقی نظام دینے میں ناکام رہی تو مابعد جدیدیت یہ نعرہ سامنے لے آئی کہ دنیا میں کسی مطلق سچائی(Absolute truth) کا وجود ہو ہی نہیں سکتا، یہی وجہ ہے کہ ماڈرن ازم کامیاب نہیں ہو سکی ہے کیونکہ وہ ایک موہوم امیدپر یقین کر کے ایک سعیِ لا حاصل کا فضول کام اپنے ذمے لے بیٹھی ہے۔بل کراؤز (Bill Crouse) نے اپنے ایک مقالے Post Modernism: A new Paradigm میں پوسٹ ماڈرن ازم کی تعریف اس طرح کی ہے:
"PM is a mood that succeeds Modernism or the Enlightenment. After two world Wars and two holocausts, Postmodernism no longer shared in the optimism of the past that reason would provide a foundation for human progress".
یعنی پوسٹ ماڈرن ازم محض ایک کیفیت کا نام ہے جس نے ماڈرن ازم اور روشن خیالی کی جگہ لے لی ہے۔ دو عالمی جنگوں اور تباہی کے بعد پوسٹ ماڈرن حضرات نے عقل اور استدلال کے متعلق یہ خوش گمانی ترک کر دی کہ وہ انسانی ترقی کے لیے کوئی بنیاد فراہم کر سکتے ہیں۔
اسی طرح ایک مشہور مفکر Larry J. Solomon نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ:
"Postmodernists like to attack modernists for their belief in objective truth and value. (In fact) nothing is any better than anything else." (21)
یعنی ماجدیدیتی مفکرین ، ماڈرنسٹ حضرات کے اس عقیدے پر زبردست تنقید کرتے ہیں کہ کسی مطلق سچائی یا اخلاقی قدر کا کوئی وجود پایا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کوئی اخلاقی قدر کسی دوسری سے بہتر نہیں ہو سکتی۔ دوسرے الفاظ میں دنیا میں تمام اخلاقی اقدار مساوی درجہ رکھتی ہیں۔ اس کی وجہ ان کے نزدیک بڑی سادہ سی ہے کہ وہ ہر سوچ، فکر،عقیدہ،قدر کو محض اضافی (Relative) سمجھتے ہیں ۔
Michael Werner نے ۱۹۹۱ء میں لکھاکہ:
’’سچائی اور حقیقت متعلق ہمارے سارے تصورات محض ہمارے ذہن کی پیداوار ہی تو ہیں۔ سچائی ایک معاشرتی تصور ہے۔ کسی بھی عقیدے کے لیے کوئی آخری بنیاد نہیں پائی جاتی۔ تمہارے جتنے بھی تصورات و عقائد ہیں وہ تمہارے معاشرے کے پیدا کردہ ہیں جو صرف طاقت اور کنٹرول کو جواز بخشنے کے لیے وضع کئے گئے ہیں۔ بعض پوسٹ ماڈرن مفکرین سرے سے فلسفے، روشن خیالی کی تحریک اور عقل و شعور کا خاتمہ سمجھتے ہیں۔ اس تحریک نے روشن خیالی کی اس رومانوی تحریک کو رد کر دیا جس کے نزدیک معاشرے میں ترقی یافتہ بہتر سوسائٹی وجود میں آ سکتی ہے۔‘‘ (۲۲)
یہی مصنف مابعد جدیدیت کی مزید تشریح اس طرح کرتے ہیں:"The Continental (European) Post-modernists argue that reality is pure illusion." (23) یعنی یورپین ما بعد جدیدیتی مفکرین کے نزدیک ’’حقیقت‘‘ محض ایک فریب اور دھوکا ہے۔ ماڈرنسٹ حضرات کے بالکل برعکس ان کا ارشاد ہے کہ"Since we cannot believe in any thing for certain, we should only believe in our intuitions and emotions." (24) یعنی چونکہ ہم یقینی طور پرکسی پر اعتماد نہیں کرسکتے اس لیے ہمیں صرف اپنے وجدان اور جذبات پر ہی اعتماد کرنا چاہیے۔ اس تصور کی بنیاد ڈیکارٹ(Rene Descartes) کے اس فلسفے میں دیکھ سکتے ہیں کہ "I think therefore I am". سادہ الفاظ میں ہر فرد دوسرے سے مختلف ہے اور ایک منفردسوچ رکھتا ہے۔ اس کی اس سوچ کو دوسرے فرد کی سوچ پر کس طرح ترجیح دی جا سکتی ہے ، یہ ممکن نہیں۔ ہر فکر، خیال، تصور،عقیدہ بنیادی طور پر ایک اضافی (Relative) اور موضوعی(Subjective) تصور ہے۔کوئی بھی عقیدہ یا خیال خارجی، حقیقی اور معروضی(Objective)نہیں ہو سکتا۔ وہ ایک داخلی احساس ہی ہو سکتا ہے۔
Jack Grassby اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ: ’’مابعد جدیدیت اور اضافیت کی اصطلاحیں ہمارے تمام تصورات کی موضوعی اور اضافی حیثیت سے روشناس کرواتی ہیں۔ ان کا مقصد کسی بھی عالمگیر سچائی کے انکار اور تمام مافوق الفطری عقائد اور نظریات کے رد پر ہے۔ ‘‘ (۲۵) اگر تمام عقائدو تصورات فی الحقیقت کوئی مطلق (Absolute) قدر نہیں رکھتے اور سب کچھ relative ہی ہے تو ظاہر ہے کہسب تصورات کو ایک ہی درجہ دینا ہوگا۔ عقلی استدلال چونکہ یہاں کوئی معنی ہی نہیں رکھتا، سب کچھ وجدان اور جذبات پر ہی انحصار کرتا ہے تو ہر اخلاقی قدر یکساں اہمیت اختیار کر لیتی ہے۔کوئی بھی کسی پر تنقید کر سکتا ہے نہ اعتراض۔ اس کی گنجائش بھی نکل سکتی۔ہر چیز کو اضافی قرار دینے والے حضرات کسی پر بھی یقین کر لینے کے لیے تیار ہو سکتے ہیں ۔ چنانچہ پوسٹ ماڈرنسٹ حضرات کے نزدیک
"All concepts, all values are of equal status and so relativists can believe in anything." (26)
یعنی تمام تصورات ، تمام اقدار یکساں درجہ اور اہمیت رکھتی ہیں، اس لیے وہ کسی پر بھی ایمان لا سکتے ہیں۔ اس کا دوسرا مطلب یہی ہے کہ وہ کسی پر بھی ایمان نہیں رکھتے جس طرح جیک گراسبی نے لکھا کہ
"We can believe any thing. Or what amounts to the same thing, believe nothing. " (28)
یعنی ہم کسی پر بھی یقین کر سکتے ہیں، جس کا دوسرا مطلب یہی ہے ہم کسی پر بھی یقین نہیں رکھتے!!
روشن خیالی کی تحریک کے زیرِاثرماڈرن ازم نے عقل اور سائنسی اندازِفکر کو بڑی ہی اہمیت دی تھی حتیٰ کہ یہ دعویٰ کر ڈالا کہ ہر وہ چیز جو ہمارے حواس میں نہ آ سکے وہ قابل رد ہے۔ پوسٹ ماڈرن ازم نے اسی فکر کو بنیاد بناتے ہوئے اس فکر کی دھجیاں بکھیر دیں۔ انہوں نے کہا کہ جب تمام تصورات و عقائد ہمارے حواس ہی کی پیداوار تو ایک کے حواس کو دوسرے کے حواس پر کسی قسم کی ترجیح کیوں کر دی جا سکتی ہے۔ ان کے خیال میں ’’سچائی‘‘ اور ’’حقیقت‘‘ کے تصورات اپنی اصل کے اعتبار سے انسانی تعبیرات ہی تو ہیں، جوانسانی دماغ کی پیداوار اور ہمارے جسمانی حسی اعضاء کا ماحول کے ردِّ عمل کا نتیجہ ہوتی ہیں۔یہ ظاہر ہے کہ انسانی دماغ کی ساخت، علم و تجربہ بالکل منفرد اور جدا ہوتا ہے ۔ ہر معاشرہ جدا، معاشرے کا ہر فرد جدا، اس کی سوچ و فکر جدا۔ لہٰذا اس کا منطقی نتیجہ تو یہی نکل سکتا ہے کہ تمام عقائد و تصورات جو بنیادی طور پر کسی خاص معاشرے کے کسی فرد کے دماغ سے ہی سامنے آتے ہیں، اس خاص معاشرے سے ہی وابستہ ہو سکتے ہیں جو کبھی بھی مطلق نہیں ہو سکتے، ہمیشہ اضافی اور موضوعی ہی ہو ں گے۔
ماڈرن ازم نے روشن خیالی کی تحریک سے شہ پا کر مذہبی اخلاقیات سے جان تو چھڑا لی اور اس کی جگہ عقل کو یہ مقام دے دیا کہ وہ انسان کے لیے ایک نئی اخلاقیات تلاش کر لائے، مگر اسی کے بطن سے پھوٹنے والی تحریک نے ماڈرن اور اس کی عقل پر مبنی اخلاقیات کے تصور کو ان ہی دلائل سے ٹھکرا دیا اوردوسری جنگ عظیم کے بعد مغربی دنیا نے جو اخلاقی نظام انسانیت کے لیے تجویز کیا اس کے مطابق:
"It is now generally recognized that reason alone cannot lead us to beliefs, values or ethics." (28)
جی ہاں۔ آج کل با لعموم یہ تسلیم کر لیا گیا ہے کہ عقل و استدلال سے ہمیں عقائد ، اقدار یا اخلاقیات کے اصول کے لیے کوئی راہنمائی نہیں مل سکتی۔ جب کہ ماڈرن ازم کا تو دعویٰ ہی یہ تھا کہ ہم عقل و استدلال سے ہی انسان کے لیے اخلاقیات کے اصول وضع کر سکتے ہیں جن سے ہمیں راہنمائی مل سکتی ہے نہ کہ کسی خدا یا مذہب سے۔ مشہور پوسٹ ماڈرن مفکر رچرڈ رورٹی(Richard Rorty) ماڈرن ازم کے خیالات کو رد کرتے ہوئے بر ملا کہا کہ’’فکری اور اخلاقی بنیادوں کی روایتی تلاش و جستجو بالکل بیکارِ محض ہے‘‘ (۲۹) یہ روایتی تلاش ماڈرن ازم نے روشن خیالی کی تحریک سے غذا حاصل کر کے ھیومن ازم کے جھنڈے تلے شروع کی تھی کہ ہم مذہب اور خدا کو ترک کر کے عقل و استدلال سے اخلاقی بنیادوں کو پا سکتے ہیں۔ پوسٹ ماڈرن ازم نے آکر سارا جھگڑا ہی ختم کر دیاکہ یہ تلاش ہی فضول اور ایک بے معنی حرکت ہے کیونکہ
"Our conceptual schemes, our sciences, our rationalities and our ethical beliefs all lack the absolute, objective grounding that the traditionalist philosophical project hoped to provide." (30)۔
ہماری تصوارتی تدبیریں، ہماری سائنس، ہماری قوتِ فیصلہ اور ہمارے اخلاقی عقائد سب کے سب کوئی معروضی بنیاد فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں جس کی امید روایتی فلاسفر (ماڈرن ازم کے علمبردار) کر رہے تھے۔
یہ تو درست تشخیص تھی کہ مغربی معاشرے میں ماڈرن ازم کے نام پر ہیومن ازم کے نئے مذہب نے جودعوے کیے تھے، وہ پورے نہیں ہو ئے تھے، ہو ہی نہیں سکتے تھے۔اس کی وجہ بڑی سادہ سی ہے کہ انسانی عقل، سائنس،فلسفہ وغیرہ اخلاقی اقدار وضع کر ہی نہیں سکتے۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ نکالناکہ سرے سے مطلق سچائی یا کسی اخلاقی قدر کا کوئی وجود ہی نہیں ہو تا اور ہر سوچ و فکر ایک اضافی تصور Relative) ( ایک انسانی ردِّ عمل تو ہو سکتا ہے جس کی عقل و منطق میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پوسٹ ماڈرن مفکرین کے فلسفہ میں عقل، استدلال اور منطق کی کوئی اہمیت ہی نہیں، نہ صرف اہمیت نہیں دی بلکہ عقل، استدلال اور منطق کے خلاف وسیع پیمانے پر مضامیں لکھے ۔ Larry J. Solomon نے بڑی وضاحت کے ساتھ لکھا کہ: ’’ پوسٹ ماڈرن مفکرین منطق اور عقلی استدلال پر زبردست تنقید کرتے ہیں۔ ان کے ہاں اب منطق کی جگہ سیاسی، نیم مذہبی لفّاظی (quasi-religious rhetoric) استعمال ہوتی ہے۔ ‘‘ (۳۱)
ہر تصور، فہم و ادراک کو اضافی قرار دے کر منطقی طور پر پوسٹ ماڈرنسٹ حضرات اس نتیجے پر پہنچے کہ کسی لٹریچر، کسی متن کی درست اور تعبیر اور توجیح ممکن ہی نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ
"Every thing is a text, and only subjective interpretation is possible. One can never know the intent of the author."
یعنی سب کچھ محض متن ہی ہے جس کی صرف موضوعی تعبیر ہی ممکن ہو سکتی ہے۔ کوئی بھی کسی مصنف کا قصد اور نیت معلوم نہیں کر سکتا کہ فی الحقیقت وہ کیا کہنا چاہتا ہے۔ ہمیں معلوم نہیں کہ اس تصور کے بعدانسان ایک دوسرے سے کیونکر تبادلہِ خیال کر سکتے ہیں۔ متن ہی کے ذریعے تو انسانوں کے درمیان ابلاغ ہوا ہے۔ آج تک تاریخ میں خطوط،فیکس، ای میل وغیرہ کے ذریعے ہی دور درازعلاقوں سے رابطہ ممکن تھا۔ لیکن جب ہم کسی متن کی درست تشریح کر ہی نہیں سکتے کہ پتہ نہیں لکھنے والے کا درست مدعا کیا ہے ، وہ کیا کہنا چاہ رہا ہے تو دنیا سے لٹریچر کا سارا ذخیرہ ہی دریا برد کرنے پڑے گا۔ادب اور شاعری کو تو چھوڑیں ایک طرف، بین الاقوامی تجارت وغیرہ کا سارا سلسلہ ہی ختم سمجھیں کہ اس میں آج تک تویہی دیکھنے سننے میں آیا تھا کہ متن ہی کے ذریعہ ہم اپنا مقصد دوسروں تک پہنچاتے تھے اور دوسرے بالکل وہی مقصد سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہو کر اس تجارت کو ممکن بناتے تھے۔اضافیت پسند(Relativist) عقلیت کا مارا ہوا فرد عقل و منطق کواستعمال کر کے خود اس کے خلاف دلائل فراہم کر کے اب خود پریشان ہے کہ اب کیا کیا جائے۔ اگر یہ فلسفہ درست ہو تو ایک دوسرے سے گفتگو ہی بے معنی ہو جائے۔
عقل، منطق اور استدلال پر تنقید کر کے اس سے بظاہر جان چھڑانا آسان لگتا ہے، مگربالبداہت یہ انتہائی نامعقول فکر ہے جو انسانی عقل نے ہی انسان کے سامنے رکھی ہے! عقل استعمال کر کے عقل کی مذمت کرناآج کے مغربی معاشرے کے پوسٹ ماڈرن ازم فلسفے کا طرہِ امتیاز ہے۔ پوسٹ ماڈرنسٹ حضرات کے ہاں چونکہ ہر خیال، عقیدہ، فکر کوئی مطلق قدر نہیں بلکہ ہر چیز موضوعی(Subjective)اور اضافی (Relative) ہے اس لیے یہ سب کو درست سمجھتے ہیں، اور ان کے حق میں ’’عقلی دلائل‘‘ استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں۔اس اندازِ فکر کو تھوڑے سے ہی عرصے میں بڑی مضحکہ خیز صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا۔
سائنس اور عقلی استدلال سے بالعموم ایک نتیجہ برآمد ہو جایا کرتا ہے۔ لیکن پوسٹ ماڈرن حضرات اس نتیجے کو محض چند لوگوں کے دماغ کی کارستانی قرار دے کر ایک اضافی نتیجہ قرار تو دیتے ہیں،لیکن اس کو غلط نہیں کہتے۔ ان کے اس خیال کی غلطی کو واضح کرنے کے لیے جون ۱۹۹۶ ء میں امریکہ میں ایک بڑا سکینڈل سامنے آیا جو The Sokal Hoax کے نام سے مشہور ہوا۔ نیویارک یونیورسٹی کے ایک مشہور عالمِ طبیعات Alan Sokal نے ایک مقالہ لکھا جس کا عنوان تھا ’’ "Transgressing the Boundries: Towards a Transformative Hermeneutics of Quantum Gravity".۔ یہ مقالہ اس نے ایک مشہور پوسٹ ماڈرنسٹ رسالے Social Text میں اشاعت کے لیے بھیجا۔ اس میں اُس نے جان بوجھ کر ایسی اصطلاحات استعمال کیں جو پوسٹ ماڈرن حضرات کے ہاں معروف و مقبول تھیں۔یہ اصطلاحات استعمال کر کے غلط سلط یہ ’’ثابت‘‘ کیا گیا تھا کہ ابھی تک ماڈرن فلسفے اور سائنس میں کششِ ثقل کی جو حقیقت بیان کی جاتی رہی ہے وہ بالکل غلط ہے۔ فی الحقیقت کششِ ثقل یعنی (Gravity)کا کوئی وجود ہی نہیں اور یہ محض چند سائنسدانوں کے ذہنوں کی پیداوار ہے۔ یہ کوئی مستقل، مطلق حقیقت نہیں، کیونکہ اس کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا! لہٰذا یہ ’’سائنسی حقیقت‘‘ ماڈرنسٹ سائنس دانوں کے ہاں ہی درست ہو سکتی ہے، کیونکہ یہ ایک relative تصور ہی تو ہے!! رسالے کے اڈیٹر حضرات نے اسے اپنے دور کی ایک اہم علمی پیش رفت اور کاوش قرار دے کر جون ۱۹۹۶ ء میں اپنے رسالے میں شائع کر دیا۔ ان کے نزد یک ا س سے ہر تصور و عقیدے کا اضافی(Relative) ہونا ثابت ہوتا ہے ! Allan Sokal کا یہ مذاق پوری تفصیل کے ساتھLingua Franca کی کتابThe Sokal Hoax, the Sham that shook the Academy میں شامل ہے،جس کو یونیورسٹی آف نیبراسکا پریس نے ۲۰۰۰ ء میں شائع کیا ہے۔ اس کی تفصیل بڑی آسانی سے انٹرنیٹ میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔
اس مذاق سے بہرحال ایک ہلکا سا اندازہ ہو جاتا ہے کہ جب عقل کو بالکل آزاد چھوڑ دیا جائے تو وہ کیا کیا گُل کھلا سکتی ہے۔ سمندر میں جہاز کو لنگر سے آزاد کر دیا جائے تو بہر حال سمندر کی لہریں اسے دائیں بائیں گھسیٹتے ہوئے ساحل سے بہت دور لے جا سکتی ہیں۔ عقل بھی جہاز کی مانند ہے جسے اللہ تعالیٰ کی وحی کے لنگر سے باندھنے کی ضرورت ہے۔
بل کراؤز نے پوسٹ ماڈرن ازم کی چند نمایاں خصوصیات کیا ہے جو اضافیت (Relativism) کے تصور نے اس میں پیدا کر دی ہیں۔ ان میں سے کچھ درجِ ذیل ہیں؛
۱۔غیر معقول رویّہ (Irrationality and irony):
پوسٹ ماڈرن حضرات چونکہ کسی ضابطے اور اصول کے تحت نہیں سوچتے اور نہ گفتگو کرتے ہیں اس لیے بسا اوقات وہ متضاد خیالات کے علمبردار بن جاتے ہیں۔ مثلاً سائنسی طرزِ استدلال کے قائل نہ ہونے کے باوجود جب دوسروں سے بات کریں گے تو عقلی دلیل ہی دیں گے کہ یہ چیز درست ہے اور فلاں غلط ہے۔ لیکن جب کوئی دوسرا یہی دلیل دے تو فوراً کہہ دیں گے کہ یہ علی الاطلاق درست نہیں ہو سکتا کیونکہ ہر خیال ایک اضافی(relative) تصور ہی تو ہے!! Michael Werner نے بالکل درست کہا کہ الفاظ اور منطق پوسٹ ماڈرن حضرات کے ہاں ایک جابرانہ ہتھکنڈہ ہے لیکن انہوں نے جتنی کتابیں لکھی ہیں ان میں منطق اور الفاظ ہی کا سہارا لیا ہے!!
۲۔عدمِ برداشت (Hostility and Intolerance):
اگرچہ برداشت بظاہر اس فکر میں ایک بڑی قدر کہلائی جاتی ہے ،مگر وہ اکثر انتہائی تنگ نظر اورغیر روادار پائے جاتے ہیں۔اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے دوسروں کے خیالات اور عقائد کو اضافی قرار دے کر ٹھکرانے والے کو اگر یہی دلیل دی جائے تو ان کا رویّہ دیدنی ہوتا ہے۔
۳۔متضاد اضافیت (Inconsistent Relativism):
پوسٹ ماڈرن ازم میں عدل و انصاف کا دعویٰ تو کیا جاتا ہے مگر اس کے لیے صحیح اور غلط کے معیارات کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ یہ لوگ روایتی اخلاقی معیارات کے خلاف لعنت و ملامت کرتے ہیں جوعالمگیر طور پر مانے جاتے ہیں لیکن ان کی جگہ نئے مطلق اخلاقی معیارات کو دوسروں پر لاگو کرنا چاہتے ہیں۔ Bill Watkins نے اپنی کتاب THE NEW ABSOLUTES میں بڑے خوبصورت انداز میں اضافیت کے تصور کو بے معنی اور امرِ محال ثابت کیا ہے۔(۳۲)
۴۔ تشدد میں اضافہ (Increase in violence):
اخلاقی اضافیت کا لازمی اور منطقی نتیجہ لاقانونیت اور تشدد ہے۔ یہ بالکل ظاہر سی بات ہے کہ جب کوئی اصول، کوئی ضابطہ،کوئی اخلاقی قدروجود ہی نہیں رکھتی تو معاشرے کے افرادکے ذہنوں میں مختلف بلکہ متضاد افکار جنم لیں گے۔کوئی کچھ کہہ اور سمجھ رہا ہو گا اور دوسرا کچھ اور۔ہر اپنے خیالات کو درست اور دوسرے کے خیالات کو اضافی قرار دے رہا ہو گا۔دلائل اور بحث و مباحثے میں دعویٰ یہ کیا جا رہا ہوگا کہ ہمیں وسیع الظرف اور وسیع القلب ہونا چاہیے تاکہ دوسروں کو برداشت کر سکیں۔ہم سب کو اپنا اپنا دماغ کھلا رکھنا چاہیے۔ اس کا مطلب صر ف یہ ہوتا ہے کہ ان کا مخاطب اپنا دماغ کھلا رکھے۔ اس فلسفے کے منطقی نتائج کو دیکھتے ہوئے مشہور پوسٹ ماڈرنسٹ مفکر Richard Rortyنے ایک تاریخی جملہ کہا کہ:"We should not become so open-minded that our brains fall out." یعنی ہمیں اتنا بھی کھلے دماغ والا نہیں بن جانا چاہیے کہ ہمارا سارا بھیجا ہی باہر نکل پڑے!
جی بالکل درست ! ہمارے مخاطب کو بہرحال وسیع القلب اور کھلے دماغ والا لازماً ہونا چاہیے، رہے ہم ، تو یہ حق ہم اپنے حق میں محفوظ رکھتے ہیں۔ مائیکل ویرنر پوسٹ ماڈرن ازم اور ھیومن ازم کے مستقبل کے بارے تجزیہ کرتے ہوئے جس نتیجے پر پہنچا وہ یہ ہے:
"We should not be deluded by the neoromantic siron song of Postmodernism's world utopianism. Beneath that loving facade lies a nihilistic relativism."(33)
یعنی ہمیں پوسٹ ماڈرن ازم کی نیم رومانوی دنیا کے خیالی بلند بانگ اور دلفریب راگ سے فریب نہیں کھانا چاہیے۔ اس خوبصورت چہرے کے نیچے اضافیت کی انارکی کی دنیا پھیلی ہوئی ہے۔
اضافیت کے خوبصورت چہرے کی فی الحقیقت اپنی اصل حیثیت کیا ہے اس کے متعلق DEREK PARFIT اپنی مشہور کتاب On What Matters میں لکھتا ہے :
"In many books and articles, Subjectivism is not even claimed to be the best of several views, but is presented as if it were the only possible view. So it is of great importance whether this view is true".(34)
یعنی بہت سی کتابوں اور مضامین میں یہ دعویٰ نہیں کیا گیا کہ اضافیت ہی سب سے بہترین نقطہ نظر ہے لیکن اس کو اس طرح ظاہر کیا جاتا ہے جیسے یہی ایک نقطہِ نظر ممکن ہے، لہذا اس کی بڑی اہمیت ہے کہ یہ دیکھا جائے آیا یہ درست بھی ہے یا نہیں۔ اس کے بعد بہت سے دلائل و شواہد کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ:Subjectivism is false (35). یعنی اضافیت کا نظریہ درست نہیں ہو سکتا۔اسی طرح Melford Spiro اپنی ایک کتاب میں لکھتا ہے کہ:
"And in any event the subjectivity of the human subject precludes the possibility of science discovering objective truth."(36)
یعنی اضافیت اس امکان کو ختم کر دیتی ہے کہ سائنس کوئی معروضی حقیقت کو دریافت کر سکے۔ اضافیت کا بنیادی طور پر دعویٰ یہ تھا کہ انسانی کردار، انسان کی شخصیت، اس کی وراثت اور اس کے ماحول کا نتیجہ ہے اسی لیے وہ جو نظریات و اخلاقیات اختیار کرتا ہے اپنے ایک خاص ماحول و داخلی کیفیات کے مطابق ہی ہو سکتے ہیں۔ اس کے مطابق یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی ایک شخص کی اخلاقی رائے دوسرے شخص کی اخلاقی رائے سے زیادہ بہتر، درست یا معقول کہلائی جا سکے۔ لیکن اس نقطہِ نظر کو رد کرتے ہوئے راشڈل کا خیال ہے کہ
"There is one absolute standard of values, which is the same for all rational beings, is just what morality means." (37) ۔
یعنی اقدار کاایک ہی مطلق پیمانہ ہے جو تمام ذی شعورمخلوق کے لیے یکساں حیثیت رکھتا ہے اور اخلاقیات کا صرف یہی مفہوم ہے۔ داخلیت یا اضافیت کے خلاف اس نے بڑے واضح الفاظ میں لکھا کہ’’ غیر مشروط اور خارج میں موجود اخلاقی قانون بطور ایک نفسیاتی حقیقت کے موجود ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم اپنے پاس کوئی خارجی دلیل نہیں رکھتے کہ دنیا کے سارے انسان کبھی اخلاقیات کے بارے میں ایک ہی نقطہِ نظر رکھیں گے، لیکن ہم یہ ضرور کہتے ہیں کہ قانونِ اخلاق (داخلیت کے بر عکس) اپنا ایک حقیقی وجود رکھتا ‘‘(۳۸)ولیم للی نے بھی دوٹوک انداز میں اضافیت یا داخلیت کے خلاف اپنی تحقیق ان الفاظ میں پیش کی کہ: ’’کوئی اخلاقی داخلیت کا نظریہ درست نہیں ہو سکتا اور یہ فرض کرنا نہایت ضروری ہے کہ ایک مطلق اخلاقی معیار ہو۔‘‘ (۳۹)۔
اضافیت کے خلاف ایک اہم اقتباس نقل کرکے ہم آگے بڑھتے ہیں۔ ایمٹ بارسلو نے بڑے خوبصورت انداز میں لکھا کہ: ’’ایک بات تو بالکل ظاہر ہے۔ اگر یہ دعویٰ کہ’دنیا میں ہر چیز اضافی ہے‘ اپنا وہی مفہوم رکھتا ہے جو اس سے ظاہر ہے تو اس کی زد میں باقی مفروضات کی طرح یہ دعویٰ بھی اسی طرح آ جاتا ہے۔ جس کا صاف مطلب یہ کہ ’ہر چیزاضافی ہے‘ کوئی معروضی حقیقت نہیں۔ یہ بعض اشخاص کے لیے ہی درست ہو سکتی ہے جو اس پر ایمان لے آئے ہوں، لہذا یہ دعویٰ خود اپنے اندر اپنی تباہی کا سامان رکھتا ہے۔‘‘(۴۰)
ماڈرن ازم اور پوسٹ ماڈرن ازم میں چند نمایاں فرق درجِ ذیل کے چارٹ سے ظاہر ہیں:
اس طرح کے کئی اور فرق ظاہر کیے گئے ہیں جن کی تفصیل لیسٹر فیگلے(Lestor Faigley) کی مشہور کتاب Fragments of Rationality میں دیکھی جا سکتی ہے۔
حاصلِ کلام:
مذہب سے جان چھڑانے کے بعدمغربی انسان کو اس بات کا یقین دلایا گیا تھا کہ اب ہر فکر،سوچ اور عمل کی بنیاد سائنسی اندازِ فکر اور عقل پر مبنی ہو گی۔کہا گیا تھا کہ مذہب تو انسانوں کو تقسیم کرتا ہے جب کہ انسان ہونے کے ناتے سب انسان برابر ہیں لہٰذا بشریت یا ہیومن ازم صحیح بنیادیں فراہم کر سکتا ہے۔ اس جدید مذہب نے جو عملی ’’فقہ‘‘ نافذ کی، وہ ماڈرن ازم اور پوسٹ ماڈرن ازم کے اصولوں پر مشتمل تھی۔ ماڈرن ازم کی عقلیت پرستی کے خلاف ، اسی ہیومن ازم کے مذہب کے تحت پوسٹ ماڈرن ازم نے علم بغاوت بلند کر دیا۔نوبت یہاں تک پہنچی کہ خود ہیومن ازم کے خلاف اعتراضات ابھر کر سامنے آ گئے۔ Levi-Strauss, Barthes, Foucault, and Lacan وغیرہ نے ہیومن ازم کو ایک فلسفی دھوکہ کر رد کر دیا۔ (rejected humanism as a philosophical illusion)۔ (۴۱)Baudrillard نے ان سب سے بڑھ کریہاں تک کہہ دیا کہ ہیومن ازم مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے لہذا اس کے لیے مزیدسعی لا حاصل ہو گی۔ (۴۲)
مذہب کے خلاف ہیومن ازم نے سائنس کا سہارا لے کر دعویٰ کیا تھا کہ ہم اس کی مدد سے حقیقت تک پہنچ سکتے ہیں اس لیے کسی مافوق الفطرت ہستی کی اہمیت ہے نہ ضرورت۔ لیکن پتہ چلا کہ ہیومن ازم خود ایک فلسفیانہ دھوکہ کے سوا کچھ بھی تو نہیں اور یہ مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے جس کی مزید سعی لا حاصل ہوگی۔ سائنس جس کے متعلق خیال ظاہر کیا گیا تھا کہ وہ نہ صرف خدا سے چھٹکارا دلانے میں مدد کرے گی، بلکہ زندگی گزارنے کے لیے بہترین نظام سے بھی متعارف کرائے گی، اس کے متعلق بھی اب یہی لوگ ہمیں یہ بتا رہے ہیں کہ:
"Science has destroyed even the refuge of the inner life. What was once a sheltering haven has become a place of terror." (43)
یعنی ’’سائنس نے تو ہماری قلبی زندگی کو بھی تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ کبھی جو ہمارے لیے خطرے سے بچنے کے لیے جائے پناہ تھا، اب خوف و دہشت کی جگہ بن کر رہ گیا ہے۔‘‘
لبرل ازم اور ماڈرن ازم نت نئے فلسفے لے کر سامنے آتے رہے لیکن اسی فلسفے کے بطن سے اس کے خلاف آوازیں اُٹھتی گئیں، ماڈرن ازم کے خلاف پوسٹ ماڈرن ازم اوراس کے بعد اضافیت(Relativism) کے خلاف مفکرین کے اعتراضات سے ہمیں بخوبی اندازہ ہو جانا چاہیے کہ مغربی انسان کے سامنے اب کوئی معیار ہی باقی نہیں رہا۔ C.G.Jung بڑی دلسوزی کے ساتھ فریاد کرتے ہوئے نظر آتا ہے کہ:’’مجھے اچھی طرح احساس ہو چکا ہے کہ میں دنیا کے لیے ایک معقول انتظام کے امکانات سے مایوس ہو چکا ہوں اور صدیوں کا پرانا خواب کہ جس میں امن و ہم آہنگی کا بول بالا ہو، اب زرد پڑتا جا رہا ہے۔‘‘(۴۴) مغربی معاشرے کی اس افراتفری ، خاندان کی تباہی اور اخلاقی اقدار کی پامالی پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک برطانوی مصنف چیخ اٹھے کہ:’’اس طویل انسانی تاریخ میں پہلی بار ایک تہذیب کو تخلیق کا اعزاز ہم اُنیسویں اور بیسویں صدی کے لوگوں کے حصے میں آیا ہے۔ صنعتی دور نے بہت سے فوائد پہنچائے ہیں، لیکن اس نے انسان کے لیے ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے جو دیکھنے میں ایک بھیانک خواب سے کم نہیں۔‘‘(۴۵)
علامہ اقبال نے کیا خوب کہا تھا: ع
تمہاری تہذیب اپنے خنجرسے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
اس فکری انتشار کے بعدبھی اگر کوئی مغربی معاشرے کو ہی اپنانا چاہتا ہو تو الگ بات ہے مگر ہم سب کو قرآن کا ایک آفاقی اصول ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہیے کہ: وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِےْشَۃً ضَنْکًا (۱۲۴/۲۰) کہ جو ہماری کتابِ ہدایت سے منہ موڑے گا، اس کے لیے سخت تنگ و ترش زندگی ہو گی۔
حواشی:
10. Heike Wrenn,English 428; The Woman in Modernism; (p.10)
11. Jack Grassby: Gender and Sexulaty; (p.31)
12. Suzanne Paul: Feminism/Postmodernism; (p.107)
13. ibid, p 107
14. Rhonda Hammar and Douglas Kellner: Third Wave Feminism; (p.7)
۱۵۔ ڈاکٹر محمد آفتاب خان/ریاض اختر: ماہنامہ ’ترجمان القرآن، دسمبر ۲۰۱۲ء، (ص ۹۳)
16. Gloria Steinen: The Impact of Feminism on the Family;
17. ibid
18. ibid
۱۹۔ مرزا محمد الیاس: قتلِ غیرت، (ص ۱۷۲)
۲۰۔ مرزا محمد الیاس: ہفت روزہ آئین مئی، ۲۰۰۵ ء ،(ص ۲۰۰)
21. Larry J. Solomon: What is Post-modernism?
22. Michael Werner,1991: Post Modernism and the Future of Humanism.
23. ibid
24. ibid
25. Jack Grassby: Post-Modernism Humanism; (p1)
26. ibid; (p.4)
27. ibid; (p.6)
28. ibid; (p.13)
29. Richard Rorty: Consequences of Pragmatism; (p.151)
30. Thomas W. Clark 1993 : Humanism and Post-Modernism - A Renconciliation
31. Larry J. Solomon: What is Post-modernism?
32. Bill Crouse: Post Modernism - a new paradigm.
33. Michael Werner,1991: Post Modernism and the Future of Humanism.
34. DEREK PARFIT: On What Matters; p.85.
35. ibid; pp.92, 96, .
36. Spiro, Melford E. (1996) Postmodernist Anthropology, Subjectivity, and Science. A Modernist Critique. In Comparative Studies in Society and History. V. p.759-780.
37. H. Rashdal: Theory of Good and Evil. vol.2, p.286
38. Ibid, p. 211
39. Williams Lillie: An Introduction to Ethics; p. 116.
40. Emmett Barcalow: An Introduction to Philosophy; p. 107.
41. Rhonda Hammar and Douglas Kellner: Third Wave Feminism; ???
42. ibid, (p.15)
43. C.G.Jung: Man in search of soul; p. 236.
44. ibid; p. 235.
45. Gai Eaton: King of the Castle; (p.109)
جمہوریت، جہاد اور غلبہ اسلام
محمد عمار خان ناصر
اسلام آباد میں قائم، ملک کے معروف تحقیقی ادارے پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (PIPS) نے حالیہ چند مہینوں میں اسلام، جمہوریت او رآئین پاکستان کے موضوع پر لاہور، کراچی اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں متعدد علمی وفکری مذاکروں کا اہتمام کیا اور ملک بھر سے مختلف حلقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے اہل فکر ودانش کو موضوع کے مختلف پہلوؤں پر اظہار خیال کے لیے جمع کیا۔ ان نشستوں کے انعقاد کا مقصد یہ تھا کہ نائن الیون جیسے واقعات کے تناظر میں جدید جمہوری اصولوں پر قائم نظم حکومت کو خلاف شریعت قرار دے کر ریاستی نظام کو بزور قوت تبدیل کرنے کی جو سوچ پیدا ہوئی ہے، اس کے فکری مقدمات اور اہم اعتراضات کا جائزہ لیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ نفاذ اسلام کے لیے جمہوری اصولوں کے تحت پرامن جدوجہد پر یقین رکھنے والے مذہبی طبقات اس ساری صورت حال کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ اگرچہ منتظمین کی طرف سے اس کی بھی کوشش کی گئی کہ ان مذاکروں میں مسلح جدوجہد پر یقین رکھنے والے عناصر کی بھی نمائندگی ہو اور دونوں نقطہ ہائے نظر کو باہمی مکالمہ کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا جائے، تاہم اس میں زیادہ کامیابی نہیں ہوئی اور منعقدہ مذاکروں میں زیادہ تر مین اسٹریم کے نمائندہ مذہبی اسکالرز نے ہی حصہ لیا۔ کچھ عرصہ قبل مذکورہ ادارے نے جدید مسلم ریاستوں کے خلاف مسلح جدوجہد کے موضوع پر بھی اسی نوعیت کے مذاکروں کی ایک سیریز منعقد کی تھی جس میں بڑی وقیع اور اہم بحثیں سامنے آئیں، تاہم اس موقع پر بھی عمومی صورت حال یہی رہی اور جمہوری نظم ریاست سے اختلاف رکھنے والے عناصر کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر رہی۔
بہرحال اسلام، جمہوریت اور آئین پاکستان کے موضوع پر حالیہ سلسلہ مجالس کی آخری نشست ۲۲ ستمبر ۲۰۱۴ء کو اسلام آباد میں منعقد ہوئی جس میں ڈاکٹر قبلہ ایاز، خورشید احمد ندیم، صاحبزادہ امانت رسول، مولانا احمد بنوری، مولانا اعجاز احمد صمدانی، مولانا محمد شفیع چترالی، ڈاکٹر رشید احمد، مولانا یاسین ظفر، جناب ثاقب اکبر، مولانا عبد الحق ہاشمی اور راقم الحروف نے شرکت کی۔ منتظمین کی طرف سے راقم کو ان تمام مذاکروں کی روشنی میں ابھر کر سامنے آنے والے متفقہ نکات مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی اور آخری اجلاس میں راقم کے مرتب کردہ درج ذیل نکات کو ’’متفقہ سفارشات‘‘ کی حیثیت سے منظور کیا گیا:
’’۱۔ اسلام کے سیاسی نظام میں حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔ مسلمان ریاست میں کوئی قانون شریعت کے خلاف نہیں بنایا جا سکتا۔ البتہ اجتہادی امور میں اجتماعی بصیرت اور غور وفکر سے قانون سازی کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ مجلس قانون ساز کا تصور بنیادی طور پر اسلام کے خلاف نہیں ہے۔
۲۔ اسلام کا سیاسی نظام شورائیت کے اصول پر مبنی ہے۔ مطلق العنان بادشاہی اور آمریت کا طرز حکومت اسلامی تصورات کے خلاف ہے۔
۳۔ حکمرانوں کو رائے عامہ کا اعتماد حاصل ہونا چاہیے۔ تاہم حکمران کے انتخاب کا کوئی لگا بندھا ضابطہ شریعت میں نہیں بتایا گیا۔ خلفائے راشدین کا انتخاب الگ الگ طریقوں سے کیا گیا۔ اس لیے بدلتے ہوئے حالات میں اس مقصد کے لیے کوئی بھی موزوں طریق کار اختیار کیا جا سکتا ہے۔
۴۔ اسلام کی رو سے امیدوار کا انتخاب ایمان، عمل صالح، اہلیت وصلاحیت اور دیانت وامانت کی بنیاد پر ہونا چاہیے، جیساکہ آئین پاکستان کی شق ۶۲ و ۶۳ میں بھی اس کی ضمانت دی گئی ہے۔ پاکستان میں نظام انتخابات کی اصلاح کے ضمن میں اقدامات وتجاویز کو قومی سطح پر موضوع بحث بنایا جائے اور مروجہ طریق کار کے ساتھ دیگر متبادل طریقہ ہائے کار مثلا متناسب نمائندگی وغیرہ کو بھی زیر غور لایا جائے۔
۵۔ ریاستی سطح پر طے ہونے والے اجتماعی معاملات میں اختلافات ونزاعات کے تصفیے کے لیے اکثریت کی رائے کو بنیاد بنائے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ اقلیت کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اپنے تصورات اکثریت پر مسلط کرے۔ یہی اصول شریعت کی تعبیر وتشریح کے باب میں بھی لاگو ہوگا اور اس کا فیصلہ منتخب پارلیمان کی سطح پر ہوگا۔
۶۔ اسلام اگرچہ مختلف سیاسی گروہوں کے وجود کی نفی نہیں کرتا، لیکن وہ اس پر اصرار کرتا ہے کہ حکمرانوں پر تنقید یا ان سے اختلاف کا مقصد نظام حکومت کی بہتری، انسانی حقوق کا تحفظ اور رفلاح عامہ ہونی چاہیے۔ اسلام دھڑے بندی اور اختلاف برائے اختلاف کے بجائے باہمی تعاون اور خیر خواہانہ محاسبہ وتنقید کو حکمرانوں اور رعایا کے باہمی تعلقات کی بنیاد تصور کرتا ہے۔
۷۔ پاکستان کا آئین ایک اسلامی آئین ہے جو علماء کی تائید سر مرتب کیا گیا ہے۔ اس میں قرارداد مقاصد دیباچے کے طور پر موجود ہے ، قوانین کو قرآن وسنت کے تابع رکھنے کی ضمانت دی گئی ہے اور خلاف شریعت قوانین کی تبدیلی کے لیے پورا طریق کار وضع کیا گیا ہے۔ اس کی حیثیت قومی اتفاق کی ہے جسے تمام نمائندہ طبقات کا اعتماد حاصل ہے۔
۸۔ آئین میں دی گئی ضمانتوں اور یقین دہانیوں کے باوجود ملک کے عملی نظام سے متعدد غیر اسلامی امور کا خاتمہ نہیں کیا جا سکا۔ اس پہلو پر خاص توجہ دینی چاہیے، کیونکہ یہ آئین میں کیے گئے عہد کا بھی تقاضا ہے اور حکومتوں کی طرف سے عملی کوتاہی اور تساہل کی وجہ سے فی نفسہ آئین اور دستور کے متعلق بھی منفی رجحانات جنم لے رہے ہیں۔
۹۔ ملکی قوانین کی شریعت کی روشنی میں اصلاح کے لیے آئین ادارے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو غور وخوض اور بحث کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ دستوری طور پر کونسل کی سفارشات کا پارلیمان کے سامنے پیش کیا جانا ضروری ہو۔
۱۰۔ دستور پاکستان کی حیثیت ایک قومی معاہدے کی ہے جس کی پاس داری اسلامی تعلیمات کی رو سے تمام فریقوں پر ضروری ہے۔ البتہ دستور کی ہیئت میں کسی تبدیلی یا متبادل تجاویز کے حوالے سے بحث ومباحثہ کا دروازہ کھلا رکھنا چاہیے۔ نہ تو دستور کی کسی شق سے نظری اختلاف کو غداری قرار دینا چاہیے اور نہ عملی طور پر دستور سے ہٹ کر بزور قوت ملکی نظام میں کوئی تبدیلی لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
۱۱۔ بعض طبقات کی طرف سے اسلامی اقدار کے منافی غیر ذمہ دارانہ رویوں کی وجہ سے رد عمل پیدا ہوتا ہے جو بسا اوقات تشدد پر منتج ہوتا ہے۔ اس رجحان کے سد باب کے لیے غیر اسلامی تصورات اور سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے اور مثبت اقدار کے فروغ کے لیے ریاست کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
۱۲۔ مسلمان معاشروں میں جمہوریت کا وہی تصور قابل قبول ہو سکتا ہے جو اسلامی نظام اقدار اور ضابطہ حیات سے ہم آہنگ ہو۔ مغربی قوتوں کو چاہیے کہ وہ مسلمان معاشروں کی مذہبی وثقافتی حساسیتوں اور ترجیحات کو پیش نظر رکھیں اور معاشرت کی تشکیل یا انتقال اقتدار کے حوالے سے مسلم رائے عامہ کے اکثریتی وجمہوری فیصلوں کا احترام کریں۔
۱۳۔ ایک نظریاتی اسلامی ریاست اور ایک قومی ریاست کی ترجیحات میں فرق کے حوالے سے پاکستان کے مختلف طبقات میں فکری ابہامات پائے جاتے ہیں جنھیں فکری سطح پر موضوع بنانے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں علمی وتحقیقی اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
۱۴۔ نفاذ اسلام کے لیے غیر جمہوری اور عسکری جدوجہد پر یقین رکھنے والے طبقات کے ساتھ اسلام اور جمہوریت نیز جہاد اور غلبہ دین جیسے اساسی تصورات کے حوالے سے براہ راست مکالمے کا اہتمام کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ اس ضمن میں موجود غلط فہمیوں اور ابہامات کا ازالہ کیا جا سکے۔‘‘
مذکورہ سفارشات کا آخری نکتہ خاص طور پر راقم الحروف نے اپنی گفتگو میں اٹھایا تھا اور یہ عرض کیا تھا کہ جو ذہن ’’جہاد‘‘ کے تصور کے زیر اثر پاکستان کے ریاستی نظام کے خلاف برسرپیکار ہے، اس کے ساتھ مکالمے کے لیے بنیادی سوالات وہ نہیں ہیں جن کا مذکورہ سفارشات میں جواب دیا گیا ہے۔ اس ذہن کے فکری مقدمات اور اس طرز جدوجہد کے محرکات کو درست طور پر سمجھنے اور اس کے ساتھ مکالمہ کرنے کے لیے محدود سطح کی آئینی وقانونی یا فقہی بحثیں غیر موثر اور غیر متعلق ہیں۔ اس کے لیے اعلیٰ فلسفیانہ اور فکری سطح پر تاریخ وتہذیب سے متعلق چند اساسی سوالات کو موضوع بحث بنانا ہوگا اور ایسی بحثیں اٹھانا ہوں گی جو مذہبی ذہن کو تاریخ انسانی میں اسلام کے کردار اور غلبہ دین جیسے تصورات پر نئے پہلوؤں سے غور کرنے میں مدد دیں۔ راقم نے اس ضمن میں غور وفکر اور مکالمہ کے لیے جن سوالات ومباحث کی طرف توجہ دلائی، وہ حسب ذیل ہیں:
۱۔ دنیا میں تہذیبی وسیاسی غلبے سے متعلق سنت الٰہی کیا ہے؟ کیا یہ معاملہ سرتا سر انسانی تدبیر سے متعلق ہے یا اس میں تکوینی فیصلے کارفرما ہوتے ہیں؟ اس ضمن میں تکوینی مشیت الٰہی اور انسانی تدبیر میں سے اصل اور اساس کی حیثیت کس کو حاصل ہے؟
۲۔ سنت الٰہی کی رو سے کسی قوم کو دنیا میں غلبہ واقتدار حق وباطل کے ساتھ وابستگی کی بنیاد پر دیا جاتا ہے یا اس کی بنیاد کسی دوسرے اصول پر ہے؟ پوری انسانی تاریخ میں جن جن قوموں اور تہذیبوں کو دنیا میں عالمی اقتدار حاصل رہا ہے، کیا وہ سب کی سب حق کی پیروکار تھیں؟ نیز ان قوموں کو یہ سیادت واقتدار کسی تکوینی سنت الٰہی کے تحت ملا تھا یا وہ مشیت الٰہی کے علی الرغم اس پر قابض ہو گئی تھیں؟
۳۔ کسی قوم کو سنت الٰہی کے تحت غلبہ واقتدار دیا جائے اور پھر وہ رو بہ زوال ہو جائے تو قانون الٰہی کے تحت اس کی بنیادی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ اس کے اسباب اصلاً داخلی ہوتے ہیں یا خارجی؟ کیا کوئی مخالف گروہ محض اپنی سازشوں کے ذریعے سے کسی سربلند قوم کو زوال سے ہم کنار کر سکتا ہے؟ (اس ضمن میں ذَالِکَ باَنَّ اللّٰہَ لَمْ یَکُ مَغَیِّرًا نِّعْمَۃً اَنْعَمَھَا عَلَی قَومٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوا مَا بِاَنْفُسِھِمْ کے اصول پر خاص توجہ کی ضرورت ہے۔)
۴۔ اگر کسی قوم کی، منصب سیادت سے معزولی کا فیصلہ اخلاقی اصولوں کے تحت تکوینی سطح پر ہوتا ہے تو کیا اس کو محض انسانی تدبیر سے بدلا جا سکتا ہے؟
۵۔ اگر کوئی قوم صدیوں کے عمل کے نتیجے میں زوال کا شکار ہوئی ہے تو کیا اس صورت حال کو سالوں کی جدوجہد سے بدلا جا سکتا ہے؟ دوسرے لفظوں میں انسانی تاریخ کی سطح پر رونما ہونے والے کسی ہمہ گیر اور جوہری تغیر کو محدود وقتی نوعیت کی حکمت عملی (short term strategy) کے ذریعے سے تبدیل کیا جا سکتا ہے؟
۶۔ اگر حق کی حامل کوئی قوم سنت الٰہی کے مطابق غلبہ وسیادت کے لیے مطلوبہ اوصاف سے محرومی کے بعد زوال سے ہم کنار کر دی جائے تو کیا محض ’جہاد‘ شروع کر دینے سے اسے دوبارہ غلبہ حاصل ہو جائے گا؟ دوسرے لفظوں میں ’جہاد‘ غلبہ وسیادت کی ایک مکمل اسکیم کا جزو اور حصہ ہے یا محض یہ ایک نکاتی ایجنڈا ہی مطلوبہ نتیجے تک پہنچا دینے کا ضامن ہے؟
۷۔ کیا کسی قوم کو اس کے تہذیبی وسیاسی غلبے کے دورِ عروج میں طاقت کے زور پر شکست دی جا سکتی ہے؟ اس ضمن میں انسانی تاریخ کے مسلسل واقعات ہماری کیا راہ نمائی کرتے ہیں؟
۸۔ مسلح تصادم کو بطور حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے نفع ونقصان کے تناسب اور طاقت کے توازن کے سوال کی اہمیت کتنی ہے؟ اس حوالے سے قرآن وسنت اور فقہ اسلامی ہماری کیا راہ نمائی کرتے ہیں؟
۹۔ روحانی سطح پر امت میں ایمان، یقین، اعلیٰ کردار اور بلند اخلاق کے اوصاف اجتماعی سطح پر پیدا کیے بغیر کیا محض عسکری جدوجہد سے مغرب کے غلبہ کو امت مسلمہ کے غلبے سے تبدیل کر دینا ممکن ہے؟
۱۰۔ امت مسلمہ میں داخلی سطح پر مذہبی، سیاسی اور نسلی تفریقات کی موجودگی میں اور ٹھوس سیاسی وعمرانی بنیادوں پر ان کا کوئی حل نکالے بغیر کیا بطور امت، مسلمانوں میں وہ وحدت پیدا ہو سکتی ہے جو بطور ایک تہذیب کے، مغرب کی سیادت کو چیلنج کرنے کے لیے درکار ہے؟
۱۱۔ کیا دنیا پر مغرب کا استیلا محض عسکری اور سیاسی واقتصادی ہے یا اس کے پیچھے فکر وفلسفہ کی قوت بھی کارفرما ہے؟ حیات وکائنات اور انسانی معاشرت سے متعلق مغرب نے مذہب کی نفی پر مبنی جو افکار ونظریات پیش کیے اور متنوع انسانی علوم وفنون کی مدد سے انھیں ایک طاقتور متبادل فلسفہ حیات کے طور پر منوا لیا ہے، ان کا سحر توڑے بغیر کیا محض عسکری میدان میں نبرد آزمائی سے مغرب کے استیلا کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے؟
۱۲۔ اگر حق کا حامل گروہ مخصوص حالات میں مغلوب ہو جائے تو انسانی تاریخ کی روشنی میں، کیا حق کے، باطل پر غالب آنے کی یہی ایک صورت ممکن ہے کہ مغلوب گروہ کو دوبارہ غلبہ حاصل ہو جائے یا اس سے مختلف صورتیں بھی ممکن ہیں؟ مثلاً یہ کہ باطل کا پیروکار گروہ طاقت کے میدان میں غالب رہتے ہوئے دعوتِ حق سے مغلوب ہو کر اس کی پیروی اختیار کر لے؟ (جیسے مسیحیت کی تاریخ میں رومۃ الکبریٰ کے مسیحی مذہب کو اختیار کر لینے سے اور اسلامی تاریخ میں تاتاریوں کے حلقہ بگوش اسلام ہو جانے کی صورت میں ہوا)
۱۳۔ دنیا میں اسلام کو دوبارہ غلبہ حاصل ہونے کے ضمن میں ظہور مہدی اور نزول مسیح علیہ السلام سے متعلق جن پیشین گوئیوں کی بنیاد پر ایک تصور مستقبل قائم کیا جاتا ہے، کیا وہ علمی وشرعی طور پر کسی حکمت عملی کا ماخذ بن سکتی ہیں؟ یعنی کیا اس چیز کو حکمت عملی کی بنیاد بنایا جا سکتا ہے کہ دنیا میں ایسے حالات پیدا کرنے کی سعی کی جائے جس میں مذکورہ شخصیات کا ظہور ہونا ہے؟ ان شخصیات کے ساتھ بلکہ ان سے پہلے دجال کے ظہور کی بات بھی روایات میں بیان ہوئی ہے جس سے تمام انبیاء پناہ مانگتے آئے ہیں۔ ایسی صورت میں ظہور دجال کے لیے حالات کو ہموار کرنے کی شعوری کوششوں کی دین وشریعت کے نقطہ نظر سے کیا حیثیت ہوگی؟
۱۴۔ مذکورہ واقعات سے متعلق روایات کیا اتنی واضح، مربوط اور مفصل ومنضبط ہیں کہ ان سے کسی مخصوص تاریخی دور کے ظہور اور واقعات کی ترتیب کا ایک واضح نقشہ اخذ کیا جا سکے ؟ کیا تمام متعلقہ روایات علم حدیث کی رو سے اس درجے کی ہیں اور ان میں بیان ہونے والے تمام تر اجزا اور ان کی زمانی وواقعاتی ترتیب اتنی قطعی اور واضح ہے کہ ان پر باقاعدہ ایک حکمت عملی کی بنیاد رکھی جا سکے؟
۱۵۔ کسی بھی صورت حال میں دینی جدوجہد کی ذمہ داری کی نوعیت اور اہداف طے شدہ ہیں یا اضافی؟ یعنی کیا اہل ایمان ہر طرح کی صورت حال میں پابند ہیں کہ ایک ہی طرح کے اہداف کے حصول کے لیے جدوجہد کو اپنی ذمہ داری تصور کریں یا یہ کہ اس کا تعلق حالات وظروف سے ہے؟ اس ضمن میں انبیائے سابقین میں سے، مثال کے طور پر، حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت مسیح علیہ السلام نے جو طریقہ اختیار فرمایا، وہ اسی طرح کے حالات میں امت محمدیہ کے لیے بھی قابل استفادہ ہے یانہیں؟ نیز کسی بھی صورت حال میں کسی ہدف کے حصول کے لیے جدوجہد کے لیے حکمت عملی کا مسئلہ منصوص، متعین او ربے لچک ہے یا اجتہادی؟
۱۶۔ کسی بھی صورت حال میں بحیثیت مجموعی پوری امت کے لیے یا کسی مخصوص خطے میں اس علاقے کے مسلمانوں کے لیے حکمت عملی متعین کرنے کا حق کس کو حاصل ہے؟ کیا یہ اہل ایمان کا اجتماعی حق ہے یا اس میں کسی مخصوص گروہ کو باقی امت کے مقابلے میں زیادہ فضیلت اور اختیار حاصل ہے؟ دوسرے لفظوں میں، کیا کسی گروہ کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے تئیں کسی ایسی حکمت عملی کا تعین کر کے اس پر عمل شروع کر دے جس کے نتائج عمومی طور پر مسلمانوں کو بھگتنا پڑیں، حالانکہ اقدام کرنے والے گروہ کو عمومی طور پر مسلمانوں کا اعتماد یا ان کی طرف سے امت کے اجتماعی فیصلے کرنے کا اختیار نہ دیا گیا ہو؟
راقم نے یہ تجویز دی کہ مذکورہ سوالات پر غور وفکر اور مباحثہ کے لیے ایک مستقل سلسلہ مجالس کا انعقاد کیا جائے اور اس میں ہر دو نقطہ ہائے نظر کے حامل اہل علم ودانش کو باہمی مکالمہ کا موقع فراہم کیا جائے۔ مجھے امید ہے کہ قومی سطح کے علمی وفکری ادارے اور ان کے علاوہ ہماری جامعات ان سوالات کو غور وفکر او رتحقیق کا موضوع بنانے کی ضرورت کا ادراک کریں گی، اس لیے کہ ان سوالات سے متعلق اپنے تصورات کو واضح اور یکسو کیے بغیر امت مسلمہ کے لیے دور جدید میں عالمی سطح پر کوئی کردار ادا کرنا تو درکنار، اپنے لیے کوئی اجتماعی سمت اور رخ متعین کرنا بھی ناممکن دکھائی دیتا ہے۔
دیوبندی جماعتوں کے مشترکہ پلیٹ فارم کا قیام
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ابن امیر شریعت مولانا حافظ سید عطاء المومن شاہ بخاری باہمت بزرگ ہیں جو بڑھاپے، ضعف اور علالت کے باوجود اہل حق کو جمع کرنے کے مشن پر گام زن اور اس کے لیے پرعزم ہیں۔ وہ علمائے دیوبند کی مختلف جماعتوں اور حلقوں کو ایک فورم پر متحد کرنے کے لیے محنت کر رہے ہیں۔ ۱۸؍ نومبر کو ان کی دعوت پر اسلام آباد مختلف دیوبندی جماعتوں، حلقوں اور مراکز کے سرکردہ حضرات جمع ہوئے اور علماء دیوبند کی جماعتوں، حلقوں اور مراکز کے درمیان رابطہ واشتراک عمل کے لیے حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر دامت برکاتہم کی سربراہی میں سپریم کونسل اور حافظ سید عطاء المومن شاہ بخاری کی سربراہی میں رابطہ کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ اس اعلان کے بعد سے ملک بھر سے احباب مسلسل پوچھ رہے ہیں کہ یہ تو بہت اچھا ہو گیا ہے اور ہمیں اس کا شدت سے انتظار تھا، مگر اب کرنا کیا ہے اور خاص طو رپر علاقائی اور مقامی سطح پر علماء کرام اور کارکنوں کوکس انداز میں کام کرنا چاہیے؟
اس کے بارے میں دو تین گذارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔
ایک یہ کہ اسلام آباد کے اجتماع میں مشترکہ جدوجہد کے لیے جو اہداف طے پائے ہیں، ان کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کی جائے۔ یہ رسمی امور نہیں ہیں، بلکہ طویل مشاورت اور غور وخوض کے بعد ان کا تعین کیا گیا ہے۔ ان سے ہر دیوبندی کا واقف ہونا اور ان کے مطابق اپنے منتشر فکر وعمل کو مجتمع کرنا ضروری ہے۔ یہ بات اس لیے بھی عرض کر رہا ہوں کہ چند سال قبل جامعہ اشرفیہ لاہور میں دیوبندی جماعتوں اور مراکز کا اس سے بڑا اور بھرپور نمائندہ اجتماع ہوا تھا اور کئی نشستوں کے مباحثہ اور غور وخوض کے بعد ایک اعلامیہ متفقہ طور پر طے پایا تھا جسے ملک بھر میں ایک ’’متوازن اور جامع اعلامیہ‘‘ کے طور پر سراہا گیا تھا، مگر اس کی ایک بار اشاعت کے بعد ہم اسے بھول ہی گئے ہیں حتیٰ کہ ہمارے بیشتر دینی جرائد نے بھی اس کی اشاعت کی ضرورت محسوس نہیں کی جس کی وجہ سے اس بھرپور اجتماع کے ثمرات وفوائد دیر پا ثابت نہیں ہوئے۔ اس لیے ہمارے خیال میں یہ سب سے زیادہ ضروری ہے کہ تبلیغی جماعت کے چھ نمبروں کی طرح ان آٹھ نکات کی بھی بار بار اور ہر سطح پر تشہیر کی جائے اور ہر دیوبندی کو ذہن نشین کرا دیا جائے کہ اس کی آئندہ جدوجہد کا دائرہ یہ آٹھ نکات ہیں جو درج ذیل ہیں:
۱۔ پاکستان کے اسلامی تشخص کا تحفظ اور اسلامی نظام کا نفاذ
۲۔ قومی خود مختاری اور ملکی سا لمیت ووحدت کا تحفظ، امریکہ اور دیگر طاغوتی قوتوں کے سیاسی ومعاشی غلبہ وتسلط سے نجات
۳۔ ۷۳ء کے دستور بالخصوص اسلامی دفعات کی عمل داری
۴۔ تحفظ ختم نبوت، تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے قوانین اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عمل داری کی جدوجہد
۵۔ مقام اہل بیت عظام وصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا تحفظ
۶۔ قومی تعلیمی نصاب میں غیر ملکی کلچر کے فروغ کی مذمت اور روک تھام
۷۔ فحاشی وعریانی اور مغربی کلچر کے فروغ کی مذمت اور روک تھام
۸۔ ملک میں فرقہ وارانہ نفرت انگیزی بالخصوص شیعہ سنی اختلافات کو فسادات کی صورت اختیار کرنے سے روکنا
ہمارے خیال میں سپریم کونسل میں شامل جماعتوں کے نام، ان کے سربراہوں کے اسماء گرامی، رابطہ کمیٹی کے ارکان کے نام اور مذکورہ بالا آٹھ نکات ایک پمفلٹ کی شکل میں شائع کر کے اس کی ملک بھر میں ہر سطح پر تشہیر کی جائے اور تمام دینی جرائد اسے شائع کر دیں تو یہ مقصد کسی حد تک پورا ہو سکتا ہے۔
دوسرے نمبر پر میں محترم حافظ سید عطاء المومن شاہ بخاری کے اس ارشاد کا اپنے مکمل اتفاق کے ساتھ ذکر کرنا چاہوں گا کہ مذکورہ بالا آٹھ نکات مسلکی سے کہیں زیادہ قومی اور ملی مقاصد کا درجہ رکھتے ہیں اور ان کے لیے قومی سطح پر جدوجہد کو منظم کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے دیگر مکاتب فکر کو اعتماد میں لینا اور انھیں ساتھ لے کر چلنا ناگزیر ہے۔ ہماری اب تک کی جدوجہد اپنے گھر کی اصلاح اور داخلی صف بندی کو درست کرنے کے لیے ہے تاکہ ہم پورے اعتماد، حوصلہ اور باہمی اتفاق کے ساتھ دوسرے مکاتب فکر سے بات کر سکیں اور مضبوط بنیادوں پر قومی جدوجہد کا لائحہ عمل تشکیل دے سکیں اور اس کام میں جس قدر جلد پیش رفت ہو سکے، اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔
تیسرے نمبر پر یہ عرض کرنا چاہوں گاکہ یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ سپریم کونسل تو جماعتوں کے سربراہوں پر مشتمل ہے جو سال میں ایک دو بار ہی مجتمع ہو سکے گی۔ عملی طور پر سارا کام رابطہ کمیٹی نے کرنا ہے، اس لیے جہاں یہ ضروری ہے کہ رابطہ کمیٹی کے ارکان اپنی ذمہ داری کو زیادہ اہمیت کے ساتھ محسوس کریں اور ملک بھر کے احباب کو مایوس ہونے سے بچائیں، وہاں تمام دینی وسیاسی جماعتوں، علمی مراکز، مسلکی حلقوں، علماء کرام اور کارکنوں کو بھی چاہیے کہ وہ رابطہ کمیٹی کو بھرپور اعتماد اور تعاون فراہم کریں اور رابطہ کمیٹی جو لائحہ عمل طے کرے، اس کے مطابق جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لیے ہر سطح پر محنت کریں تاکہ ہم سب مل کر اپنے ملی، دینی اور مسلکی فرائض کی تکمیل کے لیے آگے بڑھ سکیں۔
حافظ عبد الحمیدؒ کا انتقال
۲۴؍ نومبر کو میرے برادر نسبتی اور عزیزم عمار ناصر کے ماموں حافظ عبد الحمیدؒ انتقال کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ کافی عرصہ سے مختلف امراض کے باعث صاحب فراش تھے۔ اس سے تین روز قبل میں راولپنڈی کے ایک ہسپتال میں ان کی بیمار پرسی کے لیے گیا تھا تو اس وقت بھی حالت تشویش سے خالی نہیں تھی۔ قارئین سے درخواست ہے کہ وہ ان کے لیے مغفرت کی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ انھیں جنت الفردوس میں جگہ دیں اور پس ماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔
مکاتیب
ادارہ
(۱)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
لندن ۲۶؍اکتوبر ۱۴ٍ۲۰ء
بخدمت گرامی مرتبت مولا نا زاہد الراشدی دامت الطافہم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
راقم نے آپ کے جوابِ باصواب کی رسید دیتے ہوئے عرض کیا تھا کہ رسید کے علاوہ مجھے کچھ اور بھی کہنا ہے جو ذرا ٹھہر کر۔ یہ عریضہ اسی سلسلہ کا ہے۔ عرض یہ کرنا تھا کہ اپنا روزنامہ اسلام والا محولہ کالم ذرا دوبارہ ملاحظہ فرمائیں۔ میری نظرمیں تو وہ اوج صاحب کو واضح طور علمی اعتبار عطا کرتا تھا۔ اسی کے باعث تو مجھے اندیشہ ہوا تھا کہ میں نے اپنی تنقید میں کہیں جہالت کا ثبوت تو نہیں دے دیا۔
اس گزارش کا مقصد اوج صاحب کے مسئلہ سے بحث نہیں ہے، بلکہ عرض کرنا ہے کہ آپ اس طرح کے لوگوں کے معاملہ میں جس درجہ وسعتِ قلبی کا سلوک اپنے اخلاقِ عالیہ کے زیر اثر کرتے ہیں، وہ ہم جیسے محبین کی نظر میں بھی نظر ثانی کا متقاضی ہے۔ مولانا سلیم اللہ خاں صاحب سے آپ کو انتہاء پسندی کی شکایت ہو سکتی ہے (اور میں فی الجملہ اتفاق کروں گا) لیکن اس اوج صاحب ہی کے معاملہ کو سامنے رکھ کر غور فرمائیے کہ اس وقت کے سب سے بزرگ دیوبندی شیخ کی حیثیت سے (یہ الفاظ ملحوظ رہیں) ان پر اگر آپ کے اس طرح کے ’’فی الجملہ‘‘ انتہا پسندانہ رویہ کا رد عمل سخت ہوا تو کچھ ذمہ داری اس کی دوسری طرف بھی ہے کہ نہیں؟ اوج صاحب نے اپنے مضمون میں جس چیز کے خلاف دادِ تحقیق دی تھی، وہ موقفِ جمہور ہی نہیں، امر منصوص تھا۔ مگر آپ کے جواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ وسعتِ قلب اس کی سمائی کے لیے بھی تنگ نہ تھی۔
مولانا! محبانہ عرض ہے کہ ذرا نظر ثانی کی ضرورت سمجھیں۔ ہم تو خود اچھے خاصے آزاد خیال ہیں جس کا آپ کو ضرور اندازہ ہوگا، مگر پھر بھی آپ کے معاملہ میں ایسا محسوس کریں تو کچھ تو وجہ ہونی چاہیے۔ کوئی بات اپنی حد سے بڑھ کر لکھ دی ہو تو در گزر فرمائیے گا۔ گزارش کا محرک ’’الدین النصیحۃ‘‘ کے سوا کچھ نہیں۔ والسلام
نیازمند، عتیق سنبھلی
(۲)
باسمہ سبحانہ
محترمی حضرت مولانا عتیق الرحمن سنبھلی صاحب دامت فیوضکم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج گرامی؟
مکرر یاد فرمائی اور خیر خواہی کا صمیم قلب سے شکریہ!
آپ کا ارشاد میرے لیے مشورہ کا نہیں، بلکہ راہ نمائی کا درجہ رکھتا ہے جس کا آئندہ ان شاء اللہ لحاظ رکھا جائے گا۔ البتہ اس سے ہٹ کر اس حوالہ سے بھی راہ نمائی کا طالب ہوں کہ کیا گمراہی کی طرف جانے والوں کو جانے دینے کی بجائے واپس لانے کی کوشش زیادہ بہتر حکمت عملی نہیں ہے؟ تاریخ کے طالب علم کے طور پر میرے ذہن میں ایک بات مسلسل اٹکی ہوئی ہے کہ واصل بن عطا کو اگر امام التابعین حضرت حسن بصریؒ کی بجائے حضرت امام ابوحنیفہؒ کی مجلس میسر آ جاتی اور بحث ومباحثہ کا کھلا ماحول مل جاتا تو شاید اعتزل عنا کی نوبت نہ آتی۔ ہم نے اپنے دور میں اس کا مشاہدہ بھی کیا ہے کہ غلام احمد پرویز کو فتووں کا سامنا تھا اس لیے دوسری طرف لڑھک گئے، جبکہ ڈاکٹر غلام جیلانی برق مرحوم کو براہ راست فتوے کی جائے کسی حد تک مکالمہ کا ماحول میسر آ گیا تو رجوع کی صورت بن گئی۔
مجھے فقہاء عظامؒ کے اس ارشاد کے حوالے سے بھی کبھی کبھی الجھن ہونے لگتی ہے کہ ایک شخص مرتد ہو جائے اور اس کا ارتداد ثابت ہو جانے کے بعد سزا دینی کا فیصلہ ہو جائے، تب بھی اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ اسے توبہ کے لیے تین دن کی مہلت دی جائے اور اس کے شکوک وشبہات دور کرنے کے لیے اہل علم ماہرین فراہم کیے جائیں، مگر ہمارا حال یہ ہے کہ کسی کو اس سمت جاتا دیکھ کر ہی ’’خس کم جہاں پاک‘‘ کے نعرے لگانا شروع کر دیتے ہیں۔
بہرحال آپ کی راہ نمائی کا شکر گزار ہوں، اس امید کے ساتھ کہ آئندہ بھی نظر رکھیں گے اور اس قسم کی کوتاہیوں سے آگاہ فرماتے رہیں گے۔ شکریہ! والسلام
ابو عمار زاہد الراشدی
۷؍ نومبر ۲۰۱۴ء
(۳)
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
قدر افزائی کے لیے شکر گزار ہوں۔ میں تو اصولی طور پر آپ کا ہم خیال ہوں۔ بات حدود کی ہے اور اس میں ظاہر ہے میرا اور آپ کا من وعن ہم رائے ہونا ضروری نہیں۔
میرے یہاں ابھی الشریعہ نہیں آیا ہے۔ جعفر سلمہ نے انٹرنیٹ پر دیکھ کر خبر دی تھی اور اس سے پتہ چلا تھا کہ میرا آخری عریضہ شاید دیر سے ملا جو شامل نہیں ہوا۔ غالباً مع آپ کے جواب کے آئندہ آجائے گا۔
نیازمند، عتیق
(۴)
گذشتہ ماہ راولپنڈی میں تبلیغی جماعت کے بزرگ قاضی عبد المجید صاحب کی نمازِ جنازہ میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی۔ اس کا وسیلہ یوں بنا کہ حافظ صفوان محمد چوہان صاحب نے ملتان سے اسلام آباد جاتے ہوئے راستے میں ہمیں ایک شب کے لیے شرفِ مصاحبت و خدمت بخشا۔ اسی دوران قاضی صاحب کے انتقال کی خبر بھی ملی۔ حافظ صاحب کو اب ان کے جنازے میں بھی شریک ہونا تھا، ہمارا بھی ارادہ بن گیا۔ جامعہ امدادیہ کے پڑوسی اور فاضل حنظلہ شاہ صاحب اپنے بھائی حمزہ شاہ اور ایک دوست وقاص صاحب کا جنازے میں شرکت کا ارادہ بن گیا، بلکہ شاہ صاحبان نے اپنی گاڑی بھی پیش کردی۔
اسی کے ساتھ ایک حسن اتفاق یہ بھی ہوا کہ حافظ صاحب کی جنازے کے وقت سے پہلے جناب جاوید احمد غامدی صاحب سے ملاقات طے تھی جو مختصر عرصے کے لیے پاکستان آئے ہوئے تھے۔ میری پہلے کبھی غامدی صاحب سے باقاعدہ ملاقات نہیں ہوئی تھی، نہ ہی براہِ راست کوئی رابطہ تھا۔ حافظ صاحب نے یہ بھی بتلایا کہ جب انہوں نے میزبان جناب عامر عبد اللہ صاحب (جن سے فیس بک کے ذریعے شناسائی ہے) سے براستہ فیصل آباد آنے کا ذکر کیا تو انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ یہ طالب علم بھی حافظ صاحب کے ساتھ حاضر ہوجائے۔ جناب عامر عبد اللہ صاحب کی اس محبت کے لیے شکر گذار ہوں۔ بہر حال غامدی صاحب سے مختصر سی ملاقات ہوئی۔ ایک بات جو میں نے راستے میں بھی احباب سے عرض کی تھی ، اور مواقع پر بھی عرض کرتا رہتا ہوں، وہ جناب جاوید صاحب اور وہاں موجود ان کے حلقہ فکر کے چند احباب سے بھی عرض کی کہ دینی تعبیر کے حوالے سے مختلف الخیال حلقوں میں ایشوز اور مسائل پر بات چیت سے ہٹ کر محض سماجی روابط اور میل جول کا سلسلہ اگر شروع ہوجائے، بغیر کسی طے شدہ موضوعِ بحث اور ایجنڈے کے بس اکٹھے چائے پی لی جائے۔ سب نے ، خصوصاً غامدی صاحب نے اس بات کو پسند بھی فرمایا۔ بعض سابقہ کوششوں اور عملی مشکلات کا بھی ذکر ہوا ( مثلاً اہلِ علم کی مصروفیات، اور بڑے شہروں میں ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے کی مشکلات بذاتِ خود ایک مسئلہ ہیں)۔ بہر حال اس کی افادیت پر سب کا اتفاق تھا۔ مثلاً مولانا محمد تقی عثمانی اور جاوید صاحب جیسے حضرات اکٹھے کچھ دیر کے لیے بھی بیٹھ جائیں گے تو امت کے لیے خیر ہی کا کوئی پہلو نکلے گا۔ اسی طرح اس سطح سے نیچے کے حضرات۔ ویسے بھی کہیں بعض سلف کا یہ مقولہ پڑھا تھا کہ العلم رَحِم بین اھلہ، یعنی خیالات میں فرق اور اختلاف کے باوجود علم بذاتِ خود ایک رشتہ داری ہے، اور اہلِ علم ایک دوسرے کے رشتہ دار ہوتے ہیں اور ظاہر ہے کہ رشتے داروں کو ایک دوسرے سے ملتے جلتے رہنا چاہیے۔ خیال ہوا کہ اپنی یہ خواہش یہاں بھی شیئر کردوں۔ باقی اس مختصر ملاقات کا احوال موقع ملا تو پھر کبھی سہی۔
(فیس بک پر مولانا مفتی محمد زاہد (جامعہ امدادیہ، فیصل آباد) کی ایک پوسٹ)
تعارف و تبصرہ
ادارہ
’’باقیاتِ فتاویٰ رشیدیہ‘‘
نادر و نایاب چیزوں کے حصول پربے پناہ خوش ہونا ایک فطری بات ہے،پھراگر وہ نایاب خزانے علم کی دولت سے مالامال ہوں اوراُن کی نسبت ایسے اہل علم کی طرف ہوجن سے وابستگی کو انسان اپنے لیے باعث فخر اور آخرت کاسرمایہ شمار کرتا ہوتو خود اندازہ کیاجاسکتاہے کہ ایسے نایاب خزانے کے حصول پر ہم جیسے اکابر کی نسبتوں کواپنے لیے سرمایہ سمجھنے والے کس قدر خوش ہوئے ہوں گے!
ایسی ہی ایک خوشی کی بات خاص اُس وقت حاصل ہوئی جب ابوحنیفۂ عصر، قطب الاقطاب حضرت اقدس مولانارشیداحمد محدث گنگوہی قدس سرہ کے اب تک نادرونایاب اورغیرمطبوعہ، گوشہ گمنامی میں دبے رہنے والے فتاویٰ پر مشتمل تازہ علمی سوغات میرے ہاتھوں میں آئی اور میں کبھی اُس کے سرورق کو بغور دیکھتا تو کبھی اندرونی صفحات الٹتا پلٹتا ہوااُس میں کھوجاتا۔ ایسا کیوں نہ ؟ کیوں کہ حضرت گنگوہی قدس سرہ وہ عظیم شخصیت ہیں جن سے ہماری تمام نسبتیں خواہ وہ علمی ہوں یاجہادی، فقہی ہوں یاصوفیانہ ، سب انہیں سے جڑی ہوئی ہیں، ان کی ذات ہماری محبتوں اورعقیدتوں کامحور، ان کی فکرونظر ہمارے لیے بدعات کی تاریک اندھیروں میں رہنماقندیل، ان کی مخلصانہ، زاہدانہ اور بے لوث دینی خدمات میں ہمارے لیے آگے بڑھنے کے لیے مفیدسبق آموز باتیں، ان کی اصلاحی اورجہادی خدمات میں دینی غیرت وحمیت کی روشن کرنیں آج بھی ایسی تاثیررکھتی ہیں جن کے پڑھنے اورسننے سے ذوقِ علم کو آبیاری اور شوقِ عمل کومہمیز ملتی ہے۔
عجیب اتفاق یہ بھی ہے کہ یہ کتاب اُس وقت منظر عام پر آئی جب کہ حضرت کی وفات پر ایک صدی پوری ہورہی ہے، گویا نئی صدی کے آغاز پر دوبارہ حضرت گنگوہی قدس سرہ کے فیض کاآفتاب طلوع ہواہے۔ حضرت گنگوہی قدس سرہ کی خدمات کے حوالے سے یہ بات بلاتردید کہی جاسکتی ہے کہ برصغیرہندوپاکستان میں حضرت شاہ محمد اسماعیل شہید کے بعد اِتباع سنت اور رسوم وبدعات کی تردید میں کوئی اورآواز اس قدر طاقتوراور بلند بانگ نہیں تھی، جیسی حضرت مولانا گنگوہی کی تھی، حضرت مولانا نے اسی اندازو آہنگ میں ،اس پیام کی تجدید کی اور اس پیغام کو، جس پر زمانہ گزرنے کے ساتھ، کچھ میل ساآنے لگا تھا، اس شان سے زندہ کیا، کہ وہ پھر ایک نئی قوت، نئی طاقت اور مسلسل تحریک بن کر، متحرک اور رواں ہو گیا۔
حضرت مولانا گنگوہی اپنے وقت کے عظیم محدث بھی تھے اور بلند پایہ شیخ طریقت بھی، اسی لیے آپ کے حلقہ تربیت سے جو اَفراد اُٹھے، ان میں سے ایک بڑی تعداد ایسے علماء اور اَصحابِ معرفت کی تھی، جنہوں نے اس دعوت و پیام کو اپنا نصب العین بنا کر، اپنی زندگیاں اس کی جدوجہد اور اس کی تبلیغ و ترویج کے لئے وقف کردی تھیں اور اپنی سادگی، بے نفسی اور بے غرض کوشش سے، اسکی جڑیں بہت دورتک اور اس طرح گہرائی تک پہنچا دی تھیں، کہ ان سے خودبخود نئی نئی کو نپلیں،نئے نئے پودے، پھوٹتے اور پروان چڑھتے رہتے ہیں، فکرو عمل کے نئے گلستان آباد ہوتے رہتے ہیں، جس میں ایسی شادابی تازگی اور مہک ہوتی ہے، کہ اُمت کا ایک بڑا طبقہ اس کے فیض سے آراستہ ہوکر، ان خوشبوؤں سے اپنا دامن بھر لینا چاہتا ہے اور اس چمنستان سے ملتے تحفوں کو دوسروں تک پہنچانا، اپنی سعادت و خوش بختی خیال فرماتا ہے، یہ نئے افراد اس تحریک کے ایسے ہی پر جوش خادم بنتے ہیں اور راہ شریعت و سنت پراسی طرح قدم بہ قدم چلنے کی کوشش کرتے ہیں جس طرح ان کے بزرگوں اور اس خانوادہ کے اکابر علماء نے چلنے کی کوشش کی تھی۔
حضرت مولانا نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ، دین کی خدمت، تعلیم و تدریس،اصلاح و ارشاد اور معاشرہ کی برائیوں کو ختم کرنے میں گزارا،عقائد اور معالات کے بگاڑ کو دور کرنے کی کوشش کی، فقہی مسائل و مباحث میں عوام و خواص کی رہنمائی، ان کے سوالات کے جوابات لکھنا، ان کے علمی و قلبی سوالات ومشکلات کے حل کی جستجو اور بھٹکے ہوئے آہوکو بہتر سے بہتر طریقے اور عمدہ سے عمدہ ترین تدبیر کے ذریعہ سے، صحیح راستہ پر لانے کی دن رات بلکہ تمام عمر متواتر جدوجہدکی، جوحضرت مولانا کا طغرائے امتیاز ہے۔دارالعلوم دیوبند اور مدارس اِسلامیہ کی تاسیس کی جو روایت، قاسم العلوم حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کی مبارک شخصیت سے شروع ہوئی تھی، اُس کی سب سے زیادہ آبیاری اور سرپرستی حضرت مولانا گنگوہی سے ہوئی، ان مدارس کے ذریعہ سے علم وکمال اور خدمت قرآن و حدیث اور فقہ و شریعت کا جودریا جاری ہوا اور اتباع دین و شریعت کی جو فضا قائم ہوئی اور جو بادِ بہاری چلی، اس میں بھی حضرت والا کے رسوخ فی العلم اور دعوت واتباع سنت کے گہرے اثرات میں بہت بڑا بلکہ غیر معمولی حصہ ہے۔
حضرت مولانا کی ذات گرامی سے، جو بے شمار دینی منافع امت کو حاصل ہوئے، خصوصاً برصغیر پاک وہند بلکہ افغانستان وماوراء النہرکی ملت اسلامیہ کو جو رہنمائی ملی اور فکرو بصیرت کا جو خزانہ ہاتھ آیا، اس میں حضرت کی تصانیف و مؤ لفات اور تحریرات وفتاویٰ کے ساتھ، حضرت مولانا کے عالی مرتبت شاگردوں کا بھی، بہت بڑا حصہ ہے، یہ شاگرد اور تربیت یافتہ اصحاب کئی قسم کے تھے۔ بعض اصحاب حدیث شریف کی گرہ کشائی میں ماہرتھے ،تو بہت سے حضرات سلوک و طریقت میں کامل اوردینی شرعی مسائل کی واقفیت اور جواب دہی میں منفرد، ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں کہ ان میں سے کسی ایک فن میں یگانہ روزگار تھے، کچھ ایسے جن کو دو چیزوں میں کمال اور بصیرت حاصل تھی اور بیشتر ایسے جواِن میں سے ہر ایک منزل کے رہ نورد، ہر ایک دریا کے غوّاص اور حدیث و فقہ، یا سلوک و معرفت،ہر ایک کی ،اعلیٰ درجہ کی بصیرت و نظر سے سر فراز اور ہر ایک کی گرہ کشائی میں ،اپنے عصر کے لئے نشانِ راہ اور مینارۂ نور تھے۔
یوں تو حضرت مولانا کے شاگردوں اور مستفیدین کی ایک بڑی تعداد ہے مگر یہاں صرف اُن حضرات کے نام ذکر کئے جاتے ہیں ،جنہوں نے حضرت مولانا کی خدمت میں قیام کرکے یا ان سے استفادہ کرکے ایک مدت تک فقہ و فتاویٰ کی تعلیم حاصل کی،فتاویٰ نویسی کے اصول جانے، اسکی عملی مشق کی، اور بعد میں خود ایسے ثابت ہوئے، کہ ان اب کے نام اور ان کے کام (عظیم الشان خدمات کے علاوہ) اور فقہ و فتاویٰ کی دنیا میں ان کا ایسا بلند مرتبہ ہے کہ ان میں سے بعض کے فتاویٰ اور فقہی ہدایات کاایک پورا دبستان قائم ہوچکاہے۔ان شاگردوں کے کارناموں سے ہی حضرت گنگوہی قدس سرہ کے علوم وفیوض کاادراک ہوجاتاہے:
۱:مولانا حافظ احمد( خلف حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی)
۲:حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی:
۳: حضرت علامہ محدث العصر محمد انورشاہ کشمیری:
۴:حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب عثمانی دیوبندیؒ
۵: حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری،مہاجر مدنیؒ
۶: حضرت مولانا صدیق احمد کاندھلویؒ
۷:حضرت مولانا عبدالغفار صاحب اعظمیؒ
۸:حضرت مولانا مفتی عبدالکریم پنجابیؒ
۹:حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن عثمانی دیوبندیؒ
۱۰:حضرت مولانا محمد یحییٰ صاحب کاندھلویؒ (حوالہ: مقدمہ متذکرۂ بالاکتاب)
الغرض حضرت گنگوہی قدس سرہ نے تقریباً پینتالیس سال تک تحریرفتاویٰ میں بسر کئے اور آپ کے فتاوی اپنے زمانے میں نمایاں استنادی حیثیت رکھتے تھے مگر چونکہ اس وقت ان فتاوی کوجمع رکھنے کاکوئی انتظام نہ تھا اس لیے بلاشبہ ایک بہت بڑاذخیرہ زمانے کی دست برد کاشکار ہوکرضائع ہوگیا۔
مگر اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے کاندھلہ کے علمی خانوادے کے عالم باعمل صاحبِ تحقیق عالم دین حضرت مولانا نورالحسن راشدکاندھلوی صاحب کو جنہوں نے ہندوستان کے اجڑتے علمی خزانوں کوجمع کیا، انہوں نے اپنی زندگی اکابردیوبند اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے علمی خانوادے کی نادرونایاب اورغیرمطبوعہ تحریرات جمع کرنے کے لیے وقف کررکھی ہے۔ اس وقت پورے ہندوپاک میں اکابر کی نادرونایاب علمی تحقیقات کاجس قدر ضخیم ذخیرہ مولانا کے پاس جمع ہے شاید ہی کسی اور شخص کے پاس ہو،پھر مولانا نے ان خزائن علمیہ کو صرف تلاش کرنے اورجمع کرنے پراکتفاء نہیں کیا بلکہ ان پردن رات کی محنت صرف کرکے ان پرتحقیقی کام کیا، ان پرمفید توضیحی حواشی لکھے ،اور انہیں مختلف اہل علم کی نظروں سے گزار کرافادہ عام کے لیے ان کی اشاعت کاانتظام کیا۔
زیرتذکرہ کتاب جس کانام’’باقیات فتاویٰ رشیدیہ‘‘ ہے ایک ایسی ہی علمی اور تاریخی سوغات ہے جو ہندوستان میں چھپنے کے بعد اب پاکستان میں شائع ہوچکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب اکابردیوبند سے وابستگی رکھنے والے تمام اہل علم عموماً اور اصحاب فقہ وفتاویٰ کے لیے خصوصاً ایک بڑی خوش خبری اور نادرتحفہ ہے۔ اس میں حضرت گنگوہی قدس سرہ کے تقریباً ایک ہزار کے قریب ایسے فتاویٰ جمع کیے گئے ہیں جوپہلے سے موجود فتاویٰ رشیدیہ میں شامل نہیں تھے اور اب تک غیرمطبوعہ یاناپیدتھے۔ دارالعلوم دیوبندکے شیخ الحدیث وصدرالمدرسین مفتی سعیداحمد پالن پوری مدظلہ نے ان تمام فتاویٰ کولفظ بلفظ ملاحظہ فرمایاہے اور ان پر توضیحی حواشی بھی تحریرفرمائے ہیں اور بہت سے مقامات پر اصل تحریروں سے ان کاتقابل بھی کیاہے اوراستاذ محترم حضرت مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ العالی کی تقریظ نے اس کتاب کو مزیدقابل اعتناء اور لائق استنادبنادیاہے۔ہمارے ماحول میں عمومی طور پراکابر سے وابستگی کے بلندبانگ نعروں کے باوجود ان کے خزائن علمیہ سے بے رخی اوربے اعتنائی کی فضاطاری ہے اور تحقیق طلب کاموں کی طرف رغبت کاجوفقدان ہے، اس ماحول میں ایسی کاوش یقیناًنئے فضلاء اور علمی لگن رکھنے والوں کے لیے ایک بہترین نشان منزل ہے۔اللہ تعالیٰ اس کتاب کی تیاری اور منظر عام پر لانے میں کاوش کرنے والے تمام اصحاب علم وفضل کو جزائے خیر عطا فرمائے اور ان کی اس کاوش کواپنی بارگاہ میں مقبول ومنظور اور حضرت گنگوہی قدس سرہ کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔ آمین
(تبصرہ نگار: مدثرجمال تونسوی۔ بشکریہ ہفت روزہ ’’القلم‘‘)
’’قرآن پاک کے منظوم تراجم یا کلام اللہ کے ساتھ کھلواڑ‘‘
نام مصنف: ڈاکٹر رئیس احمد نعمانی
ناشر: گوشۂ مطالعات فارسی علی گڑھ (ہند)
ڈاکٹر رئیس احمد نعمانی کا تعلق علی گڑھ (ہندوستان) سے ہے، مگر پاک وہند اور ایران کے علمی وادبی حلقے نہ صرف یہ کہ آپ کے نام سے شناسا ہیں بلکہ آپ کے علمی وتخلیقی شہ پاروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اُردو اور فارسی میں درجن سے زائد نثری وشعری تخلیقات زیورِ طبع سے آراستہ ہوکر نذرِ قارئین ہوچکی ہیں۔ اس وقت راقمِ سطور کے پیشِ نظر ۲۴ صفحات پر مشتمل کتابچہ بہ عنوان ’’قرآن پاک کے منظوم تراجم یا کلام اللہ کے ساتھ کھلواڑ‘‘ ہے۔ جیساکہ عنوان سے ظاہر ہے، یہ کتابچہ قرآن مجید کے منظوم اُردو تراجم پر نقد ہے۔ ڈاکٹر رئیس نعمانی جہاں کہیں دینی حوالے سے کوئی منفی قلمی سرگرمی دیکھتے ہیں تو آپ کی دینی حمیت بے دار ہوجاتی ہے اور ہر قسم کی روادری کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اُس کے خلاف قلمی جہاد کو اپنے اوپر فرض قرار دیتے ہیں۔ برصغیر پاک وہند کے علمی وتحقیقی مجلات کے ان گنت صفحات پر آپ کے تنقیدی مضامین و مکاتیب اِس بات کا بین ثبوت ہیں۔ راقم الحروف کے پیشِ نظر کتابچہ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ اس مختصر مضمون میں آپ نے مولانا محمد حسن کے منظوم ترجمہ بہ عنوان ’’اُردو منظوم ترجمۂ قرآن مجید‘‘، عطا قاضی کے منظوم ترجمہ ’’مفہوم القرآن‘‘ پروفیسر سمیع اللہ اسد کے ’’قرآن منظوم‘‘ اور جناب انجم عرفانی کے ’’منظوم القرآن‘‘ پر نقد کیا ہے۔ اوّل الذکر کے ماسوا بقیہ تینوں تراجم راقمِ سطور کی ذاتی لائبریری میں موجود ہیں۔
جناب رئیس نعمانی نے اپنے کتابچہ میں اِن چاروں تراجم کے صرف سورۂ فاتحہ اور سورۂ بقرہ کے اوّل رکوع کے منظوم ترجمے کا تجزیہ پیش کیا ہے اور بقیہ ترجمۂ قرآن کو اسی پر قیاس کرنے کا کہا ہے۔ منظوم ترجمے کا تجزیہ کرتے ہوئے جناب نعمانی نے تین چیزوں کا خاص طور پر خیال رکھا ہے:
نمبر۱۔ کیا منظوم ترجمہ متن قرآن کی ترجمانی کرتا ہے یا نہیں؟
نمبر۲۔ ترجمہ زبان وبیان کے اعتبار سے درست ہے یا نہیں؟
نمبر۳۔ ترجمہ اوازن وبحور کے میزان پر پورا اترتا ہے یا نہیں؟
اس تجزیے کے بعد مصنف اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ قرآن پاک کو نظم کرنا اور ذہنی ورزش کے لیے سامانِ مشق بنانا قرآن پاک کے ساتھ کھلواڑ کے مترادف ہے۔فاضل مصنف سے بعض مقامات پر اختلافی رائے کے باوجود یہ کتابچہ تنقیدی ادب میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔
نثر میں ترجمۂ قرآن بہت احتیاط کا متقاضی ہے، نظم میں تو احتیاط کی اور زیادہ ضرورت ہوتی ہے؛ ایک طرف متن قرآن کے مفہوم کی پاسداری تو دوسری طرف وزن وبحر اور ردیف وقافیہ کی کڑی پابندی۔ ذرا سی لغزش بہ جائے اجر وثواب کے ضلالت وگمراہی اور ذلت وذلالت کا باعث بن سکتی ہے۔ اس لیے منظوم تراجم کی وادی میں صرف اُن صاحبانِ علم ودانش کو قدم رکھنا چاہیے جو ایک طرف تو علوم قرآنیہ پر مہارت تامہ رکھتے ہوں تو دوسری طرف فن شاعری پر کامل دستگاہ رکھتے ہوں؛ جہاں وہ اُردو زبان وبیان سے مکمل آگاہ ہوں وہاں عربیت سے بھی مکمل شناسائی رکھتے ہوں۔ بہ صورتِ دیگر انہیں قرآن مجید کے منظوم ترجمے کی جسارت سے گریز کرنا چاہیے۔
(تبصرہ نگار: محمد سعید شیخ۔ شعبہ اسلامیات
گونمنٹ شالیمار کالج، باغبان پورہ، لاہور)
الشریعہ اکادمی کی سرگرمیاں
ادارہ
۲۵ اکتوبر کو دعوۃ اکیڈمی،اسلام آباد سے آرمی کے خطباء پر مشتمل ۴۵ علماء کے وفد نے ’’الشریعہ اکیڈمی کا دورہ کیا۔ اس موقع پر اکادمی کے سربراہ علامہ زاہد الراشدی مدظلہ نے فکر انگیز اور دلسوز بیان فرمایا۔
۶ نومبر ’الشریعہ اکیڈمی‘‘ کے ۲۳ طلباء اورچار اساتذہ کا قافلہ رائے ونڈ کے سالانہ اجتماع میں شرکت کے لیے روانہ ہوا۔
۸ نومبر کو ’’الشریعہ اکیڈمی‘‘ کے سربراہ علامہ زاہد الرشدی نے سالانہ عالمی اجتماع، رائے ونڈ میں شرکت فرمائی اور وہاں چند اہم شخصیات سے ملاقات کے علاوہ’’ جامعہ نصرت العلوم‘‘ کے کیمپ کا دورہ بھی فرمایا۔
۱۰ نومبر کو پندرہ روزہ فکری نشست میں علامہ زاہد الراشدی مدظلہ نے’’قادیانی مسئلہ اور دستوری فیصلہ‘‘ کے عنوان پر گفتگو فرمائی۔
۲۰ نومبر کو عربی بول چال کورس کے اختتام پر طلبا کا امتحان لیا گیا اور کامیاب طلباء میں اسناد تقسیم کی گئیں۔
۲۳ نومبر کو اکادمی کی مجلس تعلیمی کی میٹنگ میں طے کیا گیا کہ آئندہ ربیع الاول کے دوران میں دینی مدارس اور کالجز کے طلبہ کے مابین ’’عہد نبوی میں بیت المال کا معاشرتی کردار‘‘ کے موضوع پر ایک تحریری مقابلہ منعقد کروایا جائے گا جس میں اول، دوم اور سوم آنے والے طلبہ کو ایک خصوصی تقریب میں انعامات دیے جائیں گے۔