2013

جنوری ۲۰۱۳ء

دینی مدارس کے نصاب و نظام میں اصلاح کی ضرورتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
معاہدۂ حدیبیہ اور اس کے سبق آموز پہلومولانا محمد جمیل اختر ندوی
محافل سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلممولانا وقار احمد
دو ہفتے پاکستان میںمولانا محمد عیسٰی منصوری
نابالغی کا نکاح اور سیدہ عائشہ کی عمر ۔ چند نئے زاویے (۲)مولانا محمد عبد اللہ شارق
’’شکست آرزو‘‘عرفان احمد بھٹی
سیمینار: ’’حفظ قرآن کریم کے طلبہ کی تربیت اور ذہن سازی‘‘ڈاکٹر حافظ محمد رشید
ہماری خوراکی بے اعتدالیاں اور کینسر کا مرضحکیم محمد عمران مغل

دینی مدارس کے نصاب و نظام میں اصلاح کی ضرورت

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

دینی مدارس کے نظام تعلیم اور نصاب میں ضروریات زمانہ کے تناظر میں رد و بدل اور حک و اضافہ کے بارے میں ایک عرصہ سے بحث جاری ہے جو اس لحاظ سے بہت مفید اور ضروری ہے کہ جہاں موجودہ نصاب کی اہمیت و افادیت کے بہت سے نئے پہلو اجاگر ہو رہے ہیں، وہاں عصر حاضر کی ضروریات کی طرف بھی توجہ مبذول ہونے لگی ہے اور صرف توجہ نہیں بلکہ بہت سے اداروں میں عصری تقاضوں کو دینی مدارس کے نصاب و نظام کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کا کام بھی خوش اسلوبی سے جاری ہے جس میں سر فہرست جامعۃ الرشید ہے اور اس کے علاوہ بہت سے دیگر دینی تعلیمی ادارے بھی اس کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ مختلف حوالوں سے یہ بحث و مباحثہ دیکھ کر مجھے قرن اول کا ایک مباحثہ یاد آگیا ہے جو حدیث و تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے کہ سیدنا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جب مسجد نبویؐ کو شہید کر کے اس کی جگہ پختہ اور وسیع مسجد تعمیر کرنے کا اعلان کیا تو اس پر چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں اور بعض حضرات کی طرف سے یہ اشکال سامنے آیا کہ یہ مسجد جو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے دست مبارک سے بنوائی ہے اور جس کی دیوار یں اور چھت جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں سے ڈالے گئے تھے، اسے آخر کس طرح شہید کیا جائے گا؟ یہ عقیدت و محبت کی بات تھی جو اپنے دائرہ میں بالکل درست تھی، لیکن دوسری طرف ضرورت کا دائرہ اس سے مختلف تھا کہ آبادی میں اضافہ اور نمازیوں کی کثرت کی وجہ سے مسجد میں توسیع ناگزیر ہوگئی تھی اور اردگرد پختہ اور مضبوط عمارتوں کے درمیان یہ کچی مسجد عجیب سی محسوس ہونے لگی تھی۔ اسی وجہ سے حضرت عثمانؓ نے پرانی مسجد کو گرا کر نئی، وسیع اور پختہ مسجد تعمیر کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
ایک طرف محبت، عقیدت اور تقدس و احترام کی بات تھی اور دوسری طرف اجتماعی ضرورت کا مسئلہ تھا، اس لیے حضرت عثمانؓ نے ایک روز خطبۂ جمعہ میں لوگوں کے تحفظات کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا کہ ’’لقد اکثرتم‘‘ تم نے بہت زیادہ باتیں شروع کر دی ہیں، لیکن میں نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنا ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کا گھر یعنی مسجد تعمیر کی، اللہ تعالیٰ اس کا اسی طرح کا گھر جنت میں بنائے گا۔ چنانچہ سیدنا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان تحفظات کو ایک طرف رکھتے ہوئے پرانی مسجد کو شہید کر کے وسیع بنیادوں پر پختہ مسجد تعمیر کردی جبکہ اس کے بعد سے مختلف ادوار میں مسجد نبویؐ کی عمارت میں توسیع کے ساتھ ساتھ اس کی پختگی اور تزئین میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے اور آج یہ دنیا کی عظیم الشان عمارتوں میں شمار ہوتی ہے۔ 
مجھے دینی مدارس کے نصاب تعلیم کے حوالہ سے ہونے والا یہ مباحثہ بھی کچھ اسی طرح کا محسوس ہوتا ہے۔ ایک طرف اکابر کے ساتھ محبت و عقیدت کا اظہار ہے جو اپنی جگہ درست اور قابل قدر ہے جبکہ دوسری طرف عصری تقاضوں اور ضروریات زمانہ مسلسل دامن گیر ہیں جن سے کوئی مفر نہیں ہے اور ہم کسی طرح بھی انہیں نظر انداز کر کے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ہمارے ہاں احناف میں بہت سے مسائل میں متاخرین نے متقدمین کے اقوال و آراء سے اختلاف کرتے ہوئے الگ موقف اختیار کیا ہے جو ظاہر ہے کہ اپنے زمانہ کے حالات و ضروریات کے تناظر میں تھا اور یہ بھی ظاہر ہے کہ متقدمین سے الگ موقف اختیار کرنے والے فقہاء کرام کے دور کے حالات کا تسلسل کا اب تک قائم رکھنا ضروری نہیں ہے کیونکہ حالات بدلتے رہتے ہیں اور ضروریات میں تغیر و تنوع کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ہے، اس لیے اگر کسی مسئلہ میں آج کے حالات و ضروریات متاخرین کی بجائے متقدمین کے موقف کی طرف واپس جانے کا تقاضہ کر رہے ہوں تو ہمیں اس میں کوئی حجاب محسوس نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی اسے مسئلہ بنا لینا چاہیے۔ حنفیت علمی بحث و مباحثہ کے نتیجے میں تشکیل پانے والی فقہ کا نام ہے اور اختلافِ رائے اس کا سب سے بڑا حُسن ہے، بعد کے ادوار میں اس فقہ پر نظر ثانی یا اس کی تدوینِ نو کی ضرورت پیش آنے پر بھی اجتماعی علمی بحث و مباحثہ کی طرز ہی اختیار کی گئی تھی جیسا کہ ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ اور ’’مجلۃ الاحکام العدلیۃ‘‘ کی صورت میں موجود ہے، اس لیے ہمیں علمی بحث و مباحثہ کی ضرورت سے صرف نظر نہیں کرنا چاہیے۔ 
ضرورت زمانہ اور عصری تقاضوں کو محسوس کرنا اور انہیں اپنے نظام کے ساتھ ایڈجسٹ کرنا خود ہمارے اکابر و اسلاف کی روایت چلا آرہا ہے حتیٰ کہ درس نظامی کا مروجہ نصاب اپنے دور کے عصری تقاضوں کو قبول کرنے کے نتیجہ میں ہی تشکیل پایا تھا، مثلاً فارسی زبان کا دینی حوالے سے ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، یہ ایران و فارس کی زبان تھی اور اسے درس نظامی میں شامل کرنے بلکہ اس کی بنیاد بنانے کی وجہ یہ تھی کہ مغل سلطنت کے دور میں برصغیر کی دفتری زبان فارسی تھی اور عدالتی زبان بھی فارسی تھی، اسے سیکھے بغیر ہم ملک کے نظام میں شریک نہیں ہو سکتے تھے اور نہ ہی ملی مقاصد میں اس سے استفادہ کر سکتے تھے، اس لیے فارسی زبان کو درس نظامی کا جزوِ لازم بنایا گیا مگر آج کی صورت حال یہ ہے کہ فارسی نہ ملک کی دفتری زبان ہے اور نہ ہی عدالتی زبان ہے، دونوں شعبوں میں اس کی جگہ انگریزی نے لے لی ہے، اس لیے ملک کے دفتری اور عدالتی نظام میں شرکت کے لیے آج انگریزی زبان سیکھنا اسی طرح ضروری ہے جس طرح مغلوں کے دور میں علماء و طلبہ کے لیے فارسی زبان سیکھنا ضروری ہوگیا تھا، آج فارسی کی ضرورت ہمارے دینی حلقوں میں صرف اس قدر باقی رہ گئی ہے کہ فارسی زبان میں لکھے گئے اس وسیع دینی لٹریچر کے ساتھ ہمارا تعلق باقی رہے جو اس زبان میں ہمارے بہت سے بزرگوں نے مختلف اداروں میں تحریر فرمایا تھا اور اسلامی علوم کا ایک معتد بہ ذخیرہ اس زبان میں موجود ہے، اس کے علاوہ فارسی زبان کا اور کوئی مصرف ہمارے ہاں نہیں ہے، اس کے باوجود جائز ضرورت کی حد تک فارسی زبان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ 
اسی طرح یونانی فلسفہ و منطق اپنے دور کا رائج الوقت فلسفہ تھا اور دنیا بھر میں گفتگو اور مباحثہ و مکالمہ کے دائرہ میں اسی کے اسلوب کی حکمرانی تھی، چنانچہ جب عباسی دور میں یونانی فلسفہ کی کتابوں کا عربی میں ترجمہ ہوا اور اس فلسفہ کی بنیاد پر معتزلہ نے اسلامی عقائد میں شکوک و شبہات پھیلانا شروع کیے تو دفاعی ضرورت کے لیے اس فلسفہ کا سیکھنا ضروری قرار پایا، ورنہ ابتداء میں اس فلسفہ کی زبان میں عقائد کی بات کرنے کو اس دور کے اکابر اہل علم و فضل نے ناپسند کیا تھا اور اسے بدعت قرار دینے سے بھی گریز نہیں کیا تھا، لیکن جب دنیا میں اس فلسفہ و منطق کا چلن عام ہوا اور معتزلہ وغیرہ نے اس سے غلط فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کے عقائد و نظریات کو خراب کرنا شروع کر دیا تو علماء اور فقہاء نے اس فلسفہ کی تعلیم کی ضرورت محسوس کی اور امام ابوالحسن اشعریؒ ، امام ابو منصور ماتریدیؒ ، امام غزالیؒ ، ابن رشدؒ اور ابن تیمیہؒ جیسے عظیم متکلمین نے اس فلسفہ پر عبور بلکہ گرفت حاصل کر کے اسلام کے نظام عقائد کو معتزلہ وغیرہ کی یلغار سے محفوظ رکھا۔ چنانچہ اسی وجہ سے یہ بزرگ عقائد کے باب میں ہمارے ائمہ اور مقتدا شمار کیے جاتے ہیں۔ 
درس نظامی میں یونانی فلسفہ و منطق کی شمولیت اسی ضرورت کے تحت لازمی سمجھی گئی تھی اور اس پس منظر میں یہ ایک حد تک آج بھی ضروری ہے لیکن اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ آج کی عالمی زبان اور بحث و مباحثہ کے اسلوب میں یونانی فلسفہ کا کوئی عمل دخل باقی نہیں رہا کیونکہ مغرب کے سیاسی، سائنسی اور صنعتی انقلاب کے بعد دنیا کی زبان، اسلوب اور منطق یکسر تبدیل ہوگئی ہے اور اب دنیا میں کہیں بھی یونانی فلسفہ میں بات کرنے کا اسلوب موجود نہیں ہے بلکہ اس کی جگہ ہیومینیٹی یعنی انسانی حقوق کے فلسفہ نے لے لی ہے اور اب دنیا میں ہر جگہ سیاسی، معاشرتی اور معاشی مسائل و معاملات پر گفتگو اسی نئے فلسفہ و اسلوب میں ہو رہی ہے۔ اس لیے اپنی ضرورت کی حد تک یونانی فلسفہ و منطق کو دینی مدارس کے نصاب میں شامل رکھنے کے ساتھ ساتھ اس نئے فلسفہ و منطق کو نصاب تعلیم میں شامل کرنا اسی طرح ضروری ہوگیا ہے جیسے یونانی فلسفہ و منطق کو ایک زمانہ میں عصری تقاضہ سمجھ کر نصاب کا حصہ بنایا گیا تھا۔ 
کمپیوٹر سائنسز کی صورت حال بھی اس سے مختلف نہیں ہے، باقی سارے شعبوں کو نظر انداز کر دیا جائے تو بھی آج کے زمینی حقائق اس حوالہ سے ہمارے سامنے ہیں کہ کتابیں کمپیوٹر پر منتقل ہو رہی ہیں اور جدید دور میں لائبریری کا تصور کتاب اور الماریوں کی صورت میں نہیں بلکہ کمپیوٹرائزڈ سٹوریج کی شکل میں ہے جن سے موبائل ڈیوائسز پر انٹرنیٹ کے ذریعہ سے استفادہ کیا جا رہا ہے۔ اس صورت حال میں اپنے طالب علم کو کمپیوٹر سائنس سے دور رکھنے کا مطلب اسے کتاب، علم اور لٹریچر کی ایک وسیع دنیا سے الگ رکھنا ہے جو کسی طرح بھی قرین انصاف نہیں ہے۔ 
اس لیے گزشتہ تین عشروں سے میری طالب علمانہ رائے مسلسل یہی چلی آرہی ہے کہ:
  • جہاں تک قرآن و سنت اور حدیث و فقہ کے علوم کا تعلق ہے اس میں تو رد و بدل کی کوئی گنجائش اور ضرورت نہیں ہے البتہ جدید تحقیقات اور عرف و تعامل کے حوالہ سے تغیر پذیر مسائل و احکام کو نصاب میں وقت کے ساتھ ساتھ سموتے رہنا ہر دور کی ضرورت رہا ہے جو اب بھی ہے۔ 
  • عربی زبان اور اپنے ملک کی قومی زبان یعنی اردو کی تعلیم دینی مدرسہ کے طلبہ کے لیے اس درجہ میں لازمی ہے کہ وہ فی البدیہہ گفتگو کر سکیں، مقالہ نویسی کی صلاحیت رکھتے ہوں، علمی و عوامی مباحثوں میں پورے اعتماد کے ساتھ شریک ہو سکیں اور فصاحت کے معروف معیار پر پورے اترتے ہوں۔ 
  • دفتری اور عدالتی زبان ہونے کی وجہ سے انگریزی کی تعلیم بھی اس وقت تک ضروری ہے جب تک اس کی یہ حیثیت تبدیل نہیں ہو جاتی اور اس کی جگہ عملی طور پر اردو رائج نہیں ہو جاتی۔ 
  • عالمی سطح پر دین کی دعوت، اسلامی عقائد و احکام و قوانین کی تشریح اور اسلام پر ہونے والے اعتراضات کے رد و جواب کے لیے انگریزی زبان کی ضرورت اپنی جگہ الگ طور پر موجود ہے۔
  • ابلاغ کا موثر ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ علمی سرمایے کی کمپیوٹر پر مسلسل منتقلی کے باعث کمپیوٹر کی تعلیم بھی علماء کرام اور دینی طلبہ کے لیے ایک ناگزیر ضرورت کا درجہ اختیار کرتی جا رہی ہے۔
  • آج کے اس عالمی فلسفہ اور اسلوب سے واقفیت بلکہ اس کے دائرے میں گفتگو اور مباحثہ کی صلاحیت بھی علماء کرام اور دینی طلبہ کی اہم ترین ضرورت ہے جس فلسفہ و اسلوب میں اسلام کے عقائد و احکام اور شریعت اسلامیہ کے مختلف قوانین پر اعتراضات کیے جا رہے ہیں کیونکہ اس کے بغیر اسلام کی دعوت اور اس کا دفاع اب ممکن نہیں رہا۔ 

دینی مدارس کے نصاب و نظام کے بارے میں بہت سے دوست مجھ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ اس حوالے سے آپ کے والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ تعالیٰ کا موقف اور طرز عمل کیا تھا؟ یہ سوال بہت سے ذہنوں میں آیا ہوگا، اس لیے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ تعالیٰ اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی نور اللہ مرقدہ کے تعلیمی رجحانات اور طریق کار کی بابت کچھ معروضات پیش کر رہا ہوں۔
اس حوالے سے پہلی گزارش تو یہ ہے کہ میری یہ مجبوری ہے جو بہت سے دوستوں کو سمجھ نہیں آرہی اور بعض دوستوں کو تو ہضم بھی نہیں ہو رہی کہ میں نے ان دو بزرگوں کے زیر سایہ تعلیم و تدریس اور فکری و ذہنی تربیت کے ماحول میں چار عشروں سے زیادہ وقت گزارا ہے اور سب سے زیادہ انہی سے استفادہ کیا ہے۔ ان کی جس خوبی نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے، وہ یہ ہے کہ وہ علمی مسائل میں اختلاف کا حق دیتے تھے، اس اختلاف کو سنتے تھے، برداشت کرتے تھے، بڑے تحمل کے ساتھ دلیل اور منطق کے ساتھ اپنا موقف سمجھانے کی کوشش کرتے تھے، اختلاف رائے کو اختلاف کے درجے میں رکھتے تھے اور اسے مسئلہ نہیں بنا لیتے تھے اور بحث و تمحیص اور تجربہ و مشاہدہ کی بنا پر اگر اپنے کسی موقف اور رائے سے رجوع کی ضرورت محسوس کرتے تھے تو اس میں کسی تامل سے کام نہیں لیتے تھے۔ 
چچا محترم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ کی یہ بات میں زندگی بھر نہیں بھول سکوں گا کہ جب حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی وفات کے بعد جمعیت علماء اسلام دو حصوں میں تقسیم ہوئی تو میں ’’درخواستی گروپ‘‘ کے متحرک ترین کارکنوں میں سے تھا اور حضرت درخواستیؒ کے موقف کے اظہار اور دفاع میں پیش پیش تھا۔ اس پر دوسرے گروپ کے بعض سرکردہ بزرگ میرے خلاف شکایت لے کر حضرت صوفی صاحبؒ کے پاس آئے تو حضرت صوفی صاحبؒ نے میرے بارے میں فرمایا کہ اگر اس نے کوئی اخلاقی یا مالی بد دیانتی کی ہے یا کسی بزرگ کی توہین کی ہے تو ابھی اسے آپ حضرات کے پاس بلا کر ڈانٹوں گا، لیکن اگر صرف رائے کی بات ہے تو رائے کا حق جیسے آپ حضرات کو ہے، اسے بھی وہی حق حاصل ہے۔ اس سلسلے میں اسے کچھ نہیں کہوں گا کیونکہ وہ اپنی رائے میں آزاد ہے۔ 
اس ضروری وضاحت کے بعد دوسری گزارش یہ ہے کہ والدِ محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ تعالیٰ کا اب سے نصف صدی قبل خیال تھا کہ درس نظامی کے مروّجہ نصاب میں قرآن کریم ترجمہ و تفسیر کے ساتھ شامل نہیں ہے۔ صرف اوپر کے درجوں میں جلالین اور بیضاوی کا کچھ حصہ پڑھا دینا کافی سمجھا جاتا ہے، حالانکہ سب سے زیادہ ضرورت قرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر کی ہے۔ اس لیے انہوں نے جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں ترجمہ قرآن کریم مناسب تفسیر کے ساتھ مستقل طور پر پڑھانے کا سلسلہ شروع کیا جس میں اس دور میں کافیہ کے درجہ سے اوپر تک کے طلبہ کی شرکت لازمی ہوتی تھی۔ باقاعدہ حاضری ہوتی تھی، غیر حاضری پر ہمارے طالب علمی کے دور میں جرمانہ ہوتا تھا جو چار آنے (پچیس پیسے) فی غیر حاضری ہوتا تھا اور مدرسہ میں تعلیم کا آغاز درس قرآن کریم کے اسی پیریڈ سے ہوتا تھا۔ بحمد اللہ تعالیٰ اب یہ سعادت میرے حصہ میں ہے اور ترجمہ قرآن کریم کے پون گھنٹے کے اس پیریڈ کے بعد باقی اسباق کی ترتیب شروع ہوتی ہے۔ مکمل ترجمہ قرآن کریم دو سال میں مکمل ہوتا ہے، پندرہ پارے ایک سال اور پندرہ پارے دوسرے سال میں پڑھائے جاتے ہیں۔ دورۂ حدیث اور اس کے بعد کے دو درجات کے طلبہ کی شرکت لازمی ہوتی ہے اور اس کی باقاعدہ حاضری لگتی ہے، البتہ جرمانے کا سلسلہ اب نہیں ہے۔ جرمانے کے سلسلے میں ایک لطیفہ یہ ہے کہ میں نے یہ ترجمہ طالب علمی کے دور میں کم از کم تین بار حضرت والد محترمؒ سے پڑھا ہے۔ اس دوران غیر حاضریاں بھی ہوتی تھیں اور جرمانہ بھی دینا پڑتا تھا۔ حضرت والد محترمؒ جب جرمانے والوں کے نام پکار کر جرمانے کی رقم کا اعلان کرتے تو فہرست میں عام طور پر میرا نام بھی ہوتا تھا۔ میں اپنے نام کے ساتھ جرمانے کا اعلان سن کر حضرت والدِ محترمؒ کے جیب کی طرف دیکھنا شروع کر دیتا کہ ادا تو وہیں سے ہونا ہے۔ اس پر تھوڑی بہت ڈانٹ پلا کر وہ جرمانہ ادا کر دیتے تھے۔
بعد میں ۱۹۷۶ء میں مدرسہ نصرۃ العلوم اور اس کی ملحقہ جامعہ مسجد نور کو محکمہ اوقات پنجاب نے سرکاری تحویل میں لینے کا اعلان کیا تو اس کے خلاف مزاحمتی تحریک کے دوران یہ ضرورت پیش آئی کہ شعبان اور رمضان المبارک کی تعطیلات میں مدرسہ خالی نہیں رہنا چاہیے۔ چنانچہ سالانہ تعطیلات کے دوران دورۂ تفسیر شروع کر دیا گیا جو پچیس برس تک مسلسل جاری رہا اور ہزاروں علماء کرام اور طلبہ نے اس سے استفادہ کیا۔ یہ دورۂ تفسیر حضرت والدِ محترمؒ کی آواز میں آڈیو سی ڈی کی صورت میں مکمل طور پر موجود و محفوظ ہے اور برادرِ عزیز مولانا عبد القدوس خان قارن اسے تحریری صورت میں مرتب کر رہے ہیں اور یہ قرآن کریم کی تعلیم و تدریس کا ذوق رکھنے والے علماء کرام اور طلبہ کے لیے ایک عظیم علمی تحفہ ہوگا۔ 
کم و بیش ربع صدی تک مسلسل پڑھانے کے بعد یہ سلسلہ حضرت والد محترمؒ نے ترک کر دیا تو بہت سے دیگر حضرات کے ساتھ ساتھ میں نے بھی ان سے عرض کیا کہ دورۂ تفسیر کا یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ میں اب معذور ہوگیا ہوں اور مسلسل پڑھانا میرے بس میں نہیں رہا۔ میں نے عرض کیا کہ چند پارے آپ پڑھا دیں، باقی میں اور قارن صاحب مکمل کر لیں گے۔ انہوں نے فرمایا کہ جو علماء اور طلبہ دورۂ تفسیر پڑھنے کے لیے آئیں گے، وہ اس اعتماد کے ساتھ آئیں گے کہ سارا قرآن کریم میں خود (یعنی حضرت شیخ ؒ ) پڑھاؤں گا۔ اگر میں نے چند پارے پڑھا کر چھوڑ دیا تو ان کا اعتماد مجروح ہوگا جو دیانت کے خلاف ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے فرمایا کہ اب چونکہ وفاق المدارس نے مکمل ترجمہ قرآن کریم نصاب میں شامل کر دیا ہے جو مختلف مراحل میں باقاعدہ پڑھایا جاتا ہے، اس لیے اب اس کی ضرورت بھی نہیں رہی۔ چنانچہ سالانہ دورۂ تفسیر کا سلسلہ موقوف ہوگیا جبکہ دو سال والا ترجمہ قرآن کریم وفاق المدارس کے ترجمہ قرآن کریم کے نصاب کے باوجود الگ طور پر اب بھی ہوتا ہے اور حضرت والدِ محترمؒ کی زندگی میں ہی ان کے حکم پر یہ سعادت میرے حصہ میں آگئی تھی جو مسلسل جاری ہے، فالحمد للہ علیٰ ذلک۔ 
میرے ساتھ ابتدائی سالوں میں حضرت مولانا قاضی مظہر حسین نور اللہ مرقدہ کے بھتیجے قاضی مشتاق احمد صاحب بھی شریک سبق رہے ہیں۔ غالباً شرح ملا جامی تک ہم نے اکٹھے پڑھا ہے۔ بڑے ذہین طالب علم تھے۔ بعض باتیں جو سبق کے دوران سمجھ میں نہیں آتی تھیں، میں تکرار کے دوران ان سے سمجھا کرتا تھا۔ انہوں نے پرائیویٹ طور پر میٹرک کا امتحان دیا اور فرسٹ ڈویژن میں کامیابی حاصل کی۔ یہ دیکھ کر مجھے بھی شوق ہوا اور میں نے میٹرک کا پرائیویٹ امتحان دینے کا ارادہ کر لیا۔ خیال تھا کہ انگریزی اور حساب کے علاوہ دوسرے مضامین میں کچھ زیادہ محنت درکار نہیں ہوگی، اس لیے پہلے مرحلہ میں انہیں کلیئر کرلیتا ہوں اور اگلے سال تیاری کر کے انگریزی اور حساب کا امتحان دے دوں گا۔ اس کے لیے میں نے داخلہ فارم حاصل کر لیا جس کا حضرت والد محترمؒ کو علم ہوا تو انہوں نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا حتیٰ کہ دھمکی دی کہ اگر تم نے امتحان دیا تو میں تم سے لا تعلقی اختیار کر لوں گا۔ چنانچہ میں نے ارادہ ترک کر دیا حتیٰ کہ جب میرے ساتھی قاضی مشتاق احمدؒ نے میٹرک کے امتحان میں بہتر پوزیشن حاصل کرنے پر تعلیمی لائن بدل کر سکول و کالج کی لائن اختیار کر لی تو مجھے حضرت والدِ محترمؒ کے اس فیصلے پر اطمینان بھی ہوگیا کہ ان کی ناراضگی اور دھمکی فراست و بصیرت پر مبنی تھی۔ 
لیکن اس کے بعد دو عشروں کا وقفہ نہیں گزرا تھا کہ ہم نے گوجرانوالہ میں جمعیۃ اہل سنت کے زیر اہتمام ’’شاہ ولی اللہ یونیورسٹی‘‘ کے قیام کا پروگرام بنا لیا جس کا ٹائٹل ’’دینی و عصری تعلیم کا حسین امتزاج‘‘ تھا اور اہداف میں یہ بات شامل تھی کہ علماء اور فضلاء کو یونیورسٹی سے بی اے اور ایم اے کے باقاعدہ امتحانات دلوائے جائیں اور دو تین سال تک ہم نے بہت سے فضلاء کو بی اے اور ایم اے کے امتحانات دلوائے۔ اس سارے پروگرام کی سرپرستی حضرت والدِ محترمؒ اور حضرت عم مکرمؒ فرما رہے تھے۔ دونوں بزرگ شاہ ولی اللہ ٹرسٹ کے رکن بلکہ باقاعدہ سرپرست تھے۔ اس کے اجلاس عام طور پر مدرسہ نصرۃ العلوم میں ہوتے تھے اور حضرت والد محترمؒ ان کی صدارت کیا کرتے تھے۔ اس دوران ایک بات یہ ہوئی کہ ۱۹۸۶ء میں جمعیۃ علماء برطانیہ کی دعوت پر حضرت والدِ محترمؒ اس کی ’’سالانہ توحید وسنت کانفرنس‘‘ میں شرکت کے لیے تشریف لے گئے تو تین ہفتے وہاں کے مختلف شہروں کا دورہ کیا۔ ہمارے محترم دوست اور حضرت والد محترمؒ کے عزیز شاگرد مولانا عبد الرؤف ربانی خطیب مکی مسجد رحیم یار خان ان کے رفیق سفر تھے۔ اس سفر سے واپسی پر ایک مجلس میں انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں مجھے فرمایا کہ ’’او خبطی!‘‘ تم ٹھیک کہتے تھے۔ انگریزی زبان اور جدید تعلیم بھی ضروری ہے۔ میں نے عرض کیا کہ یہ بات شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کے کسی پروگرام میں سب لوگوں کے سامنے فرما دیں۔ چنانچہ شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کی ایک عمومی طرز کی نشست میں حضرت والدِ محترمؒ نے نہ صرف یہ بات فرما دی بلکہ عصری تعلیم کی ضرورت پر پندرہ بیس منٹ تک گفتگو بھی فرمائی جو اس ادارے کی آئندہ تعلیمی پالیسی کی بنیاد بنی۔ 
یہ ہمارے بزرگوں کا ذوق اور مزاج ہے کہ دینی اور قومی حوالے سے وہ جس چیز کی ضرورت محسوس کر لیتے تھے، اسے نظرانداز نہیں کرتے تھے اور انہیں اس کے لیے اپنی سابقہ رائے سے رجوع کرنا پڑتا تو وہ اس سے گریز نہیں کرتے تھے۔ 
عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی قدس اللہ سرہ العزیز کا ذوق اس بارے میں یہ تھا کہ وہ درس نظامی کی تعلیم کے دوران جہاں خلا محسوس کرتے تھے، اسے پُر کرنے کی اپنے طور پر کوشش کرتے تھے، چنانچہ وہ دورۂ حدیث کے طلبہ کو حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی کتاب ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ سبقاً سبقاً پڑھاتے تھے۔ صبح کا دو سالہ ترجمہ قرآن کریم اور ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ کی تدریس بحمد اللہ تعالیٰ جامعہ نصرۃ العلوم کے نصاب تعلیم کے امتیازی شعبے ہیں جو ہمارے ان دو بزرگوں کے ذوق کی علامت اور ان کا صدقۂ جاریہ ہیں۔ حجۃ اللہ البالغہ دورۂ حدیث کے نصاب میں اب بھی شامل ہے اور یہ خدمت بھی میرے سپرد ہے۔ البتہ اب اس کے چند ابواب پڑھائے جاتے ہیں اور مکمل تدریس کی حسرت ہی رہتی ہے۔ 
اس سلسلہ میں میرا ذاتی ذوق اور نقطۂ نظر یہ ہے کہ (۱) عصر حاضر کے مسائل کے تناظر میں احکام القرآن (۲) طحاوی شریف اور (۳) حجۃ اللہ البالغۃ کی مکمل طور پر تدریس دورۂ حدیث سے قبل ہونی چاہیے کیونکہ اسی صورت میں دورۂ حدیث کے طلبہ احادیث نبویہؐ کے عظیم الشان ذخیرے سے صحیح طور پر استفادہ کر سکتے ہیں اور اگر پہلے نہ ہو سکے تو فضلاء درس نظامی کو فراغت کے بعد تکمیل یا تخصص کی صورت میں یہ کورس ضرور پڑھنا چاہیے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ اگر باذوق فضلاء کی ایک مناسب تعداد ایک سال کا وقت فارغ کر سکے تو آج کی عالمی فکری و تہذیبی کشمکش کے تناظر میں احکام القرآن کے ساتھ ساتھ حجۃ اللہ البالغۃ اور طحاوی شریف کی مکمل تدریس کا موقع اور سعادت حاصل کر لوں مگر ذوق و شوق، وسائل اور فکری و علمی استعداد میں مسلسل کمی کی وجہ سے اس کی کوئی صورت نہیں بن رہی۔ اپنے اس ذوق کی کسی حد تک تکمیل کے لیے میں نے دورۂ حدیث شریف میں حجۃ اللہ البالغۃ کے ساتھ ایک اور پیریڈ کے اضافے کی ’’بدعت‘‘ شروع کر رکھی ہے جو سالہا سال سے جاری ہے اور اس کے نصاب میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کا اسلامی احکام و قوانین کے ساتھ تقابلی مطالعہ اور دور حاضر کے معاصر ادیان و مذاہب کا اجمالی تعارف شامل ہے۔ یہ ہر جمعرات کو ہوتا ہے اور سال بھر کی پچیس نشستوں میں ’’خلاصۃ الخلاصۃ‘‘ کے درجے میں ان دو موضوعات کو سمیٹنے کی کوشش کرتا ہوں۔ 
حضرت صوفی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کا اس سلسلہ میں ایک ذوق یہ بھی تھا کہ وہ چند طلبہ کو منتخب کر کے انہیں نصاب سے ہٹ کر بعض کتابیں الگ طور پر پڑھاتے تھے۔ ان خوش نصیبوں میں میرا شمار بھی ہوتا ہے اور میں نے ملا علیّ القاریؒ کی شرح نقایہ، مقامات ہمدانی، کلیلہ و دمنہ، رسائل اخوان الصفاء، مصطفی لطفی منفلوطیؒ کی العبرات اور الأستاذ محمد خضری بک کی کتاب نور الیقین ان سے سبقاً سبقاً پڑھی ہے۔ نور الیقین سیرت نبویؐ کی کتاب ہے، حضرت صوفی صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے درس نظامی کے (اس وقت کے) نصاب میں سیرت النبیؐ اور سیرت الخلفاء شامل نہیں ہے، حالانکہ اس کی ضرورت ہے۔ چنانچہ انہوں نے کئی سال تک طلبہ کی متعدد کلاسوں کو ’’نور الیقین فی سیرت سید المرسلین‘‘ پڑھائی ہے۔ اس سلسلے میں لطیفہ کی بات یہ ہے کہ مدرسہ انوار العلوم میں تدریس کے دوران میں نے بعض طلبہ کو ’’ورغلا کر‘‘ سیرت النبیؐ کی ایک کتاب ’’عین الیقین‘‘ درساً پڑھائی جو مصری عالم عبد الحمید الخطیب کی تصنیف ہے اور مجھے وہ اس وقت اس مقصد کے لیے زیادہ موزوں محسوس ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی امام سیوطیؒ کی ’’تاریخ الخلفاء‘‘ کی تدریس بھی شروع کر دی مگر بمشکل ایک سال ایسا کر سکا اور اگلے سال کسی طالب علم کو ’’ورغلانے‘‘ میں مجھے کامیابی حاصل نہ ہوئی۔
یہاں ایک اہم وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ ہم نے جب گوجرانوالہ میں جدید اور قدیم علوم کے امتزاج کے ٹائٹل کے ساتھ ایک نئے تعلیمی ادارے کے قیام کا پروگرام بنایا تو اس کا ابتدائی نام ’’نصرۃ العلوم اسلامی یونیورسٹی‘‘ تھا اور اس منصوبے کا پہلا تعارف پمفلٹ اور اشتہارات کی صورت میں اسی نام سے شائع ہوا تھا، اس سے عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اختلاف کیا ۔ وہ جامعہ نصرۃ العلوم کے مہتمم تھے اور ہمارے اس نئے تعلیمی پروگرام کے سرپرست تھے، انہوں نے فرمایا کہ اس نئے تعلیمی نظام کے لیے الگ نام سے ادارہ بناؤ، یہ بہت ضروری کام ہے لیکن اس کے لیے جو تعلیمی نظام تسلسل کے ساتھ دینی مدارس میں چلا آرہا ہے اسے ڈسٹرب نہ کرو، ان کے اس اختلاف کی وجہ سے ہم نے اس کا نام تبدیل کر کے ’’فاروق اعظمؓ اسلامی یونیورسٹی‘‘ رکھا اور پروگرام کا دوسرا تعارف اس نام سے شائع ہوا۔ حضرت صوفی صاحبؒ نے اس سے بھی اختلاف کیا اور فرمایا کہ ’’بھائی ! جس کے مشن پر کام کرنا چاہتے ہو اس کا نام تمہیں کیوں یاد نہیں آرہا؟‘‘ ان کا اشارہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی طرف تھا جن کے علوم کے وہ اپنے دور کے متخصصین میں شمار ہوتے تھے اور حضرت شاہ صاحبؒ کی تعلیمات پر ان کی گہری نظر تھی۔ چنانچہ ہم نے اپنے اس نئے تعلیمی پروگرام کو شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کا نام دے دیا اور اس کے بعد کی پیش رفت گزشتہ کالم میں ذکر کر چکا ہوں۔ 
حضرت صوفی صاحبؒ کا موقف یہ تھا اور خود میرا ذاتی موقف بھی یہ ہے کہ دینی مدارس کا جو روایتی تعلیمی نظام تسلسل کے ساتھ چلا آرہا ہے اسے چھیڑنے کی ضرورت نہیں ہے البتہ عصری تقاضوں کے حوالہ سے ایک نئے تعلیمی تجربے کا اہتمام ضرور ہونا چاہیے جو بحمد اللہ تعالیٰ بہت سے اداروں کی صورت میں ہو رہا ہے، میرے نزدیک جس طرح عصری تقاضوں کو محسوس کرنا اور انہیں پورا کرنے کی محنت کرنا ضروری ہے اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ تعلیمی نظام کے روایتی تسلسل کو قائم رکھنا اور اس کا تحفظ کرنا بھی ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جامعہ نصرۃ العلوم کا ذمہ دار فرد ہونے کے باوجود ایسے علمی و فکری مباحث کے لیے میں نے ’’الشریعہ اکادمی‘‘ اور ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کے نام سے الگ فورم قائم کر رکھا ہے جن مباحث میں زیادہ سے زیادہ اور مختلف الخیال اصحابِ فکر کا شریک ہونا مجھے ضروری محسوس ہوتا ہے۔

معاہدۂ حدیبیہ اور اس کے سبق آموز پہلو

مولانا محمد جمیل اختر ندوی

مدینے آئے ہوئے چھ سال کا عرصہ بیت چکا تھا۔کعبہ سے دوری اور مہجوری پر چھ دور گزر چکے تھے۔ وطنِ عزیز کو چھوڑے ہوئے ایک لمبی مدت ہوچکی تھی۔ شوق گھڑیاں گن رہاتھا۔ امنگیں لمحے شمارکررہی تھیں۔ چاہت بڑھتی جا رہی تھی۔ خواہش دوچندہورہی تھی۔ جذبات کی تلاطم خیزی قنوط کی بندپرضربیں اوراحساس کی شدت صبرکے حصارپرٹھوکریں لگارہی تھیں کہ ایک رات شہِ لولاک نے خواب دیکھاکہ آپ ﷺپنے اصحاب کے ساتھ حلق کرائے ہوئے امن وسکون کے ساتھ مکہ داخل ہورہے ہیں۔ (دلائل النبوۃ للبیھقی، باب نزول سورۃ الفتح۔۔۔: ۴/۱۶۴ (حدیث نمبر: ۱۵۱۲)، السیرۃ الحلبیۃ، غزوۃ الحدیبیۃ: ۲/۶۸۸)
زبانِ نبوت سے خوابِ رحمانی کاتذکرہ سن کرصحابہؓ  خوش ہوگئے۔مہاجرین اس لیے کہ اُس شہرستان کادیدارنصیب ہوگا، جواُن کی جائے پیدائش رہی ہے، جہاں کے کوچے اورگلیاںآج تک اُن کی نگاہوں کے سامنے ہیں، جہاں کے پہاڑاوروادی آج تک ذہنوں پرچھائے ہوئے ہیں، جہاں کے پھولوں کی خوشبوسے ابھی تک دماغ میں تازگی ہے اورجہاں کاادنیٰ تذکرہ بھی دلوں کے لیے باعثِ سرورہے اورانصاراس لیے کہ نگاہوں کو اُس دیارکی رؤیت کی سعادت حاصل ہوگی، جواُن کے نبی کاوطن رہاہے، جہاں وہ کعبہ ہے، جسے روئے زمین پرپہلاگھرہونے کاشرف حاصل ہے اورجس کی طرف رخ کرکے آج تک نمازِ پنجگانہ کی ادائے گی کرتے رہے ہیں۔
سن چھ ہجری کی پہلی تاریخ کوحضور اکرم ﷺ نے اپنے چودہ سوقدسی صفات اصحابؓ کے ساتھ عمرہ کی غرض سے مکہ کے لیے رختِ سفرباندھا۔ مقامِ ذوالحلیفہ میں ساتھ میں لائے ہوئے ہدی کے جانوروں کوقلادہ پہناکراُن کااِشعار(کوہان کوزخمی کرکے خون نکالنا؛ تاکہ لوگوں کومعلوم ہوجائے کہ حرم لے جائے رہے ہیں)کیااورلبادۂ احرام پہنا۔بسربن سفیان کوقریش کے حالات سے آگاہی کے لیے پہلے روانہ فرمایا۔کاروانِ نبوت جب مقامِ عسفان میں پہنچاتواُنھوں نے یہ اطلاع بہم پہنچائی کہ قریش نے آپ کی آمدسن کرایک لشکرِجرارتیارکررکھاہے اوردخولِ مکہ سے آپ کوباز رکھنے کے لیے آپس میں عہدوپیمان باندھ لیاہے۔ یہ خبربھی گوش گزارکی کہ خالدبن الولید(جوابھی تک اسلام کی سعادت سے محروم تھے)ہراول دستے کے طورپردوسوشہ سواروں کے ہمراہ’’ غمیم‘‘ تک پہنچ چکے ہیں۔اِس خبرکے سنتے ہی آپ نے اپناراستہ بدل لیاکہ مقصودلڑائی نہیں؛ بل کہ سعادتِ عمرہ سے سرفراز ہوناتھا۔ (جوامع السیرۃ لإبن حزم، غزوۃ الحدیبیۃ: ۱/۲۰۷)
حدیبیہ کی سرزمین کے لیے یہ بخت بیداری کی گھڑی تھی اورقیامت تک تاریخ کے اوراق میں نسبتِ رسول کے ساتھ اُسے محفوظ رہناتھا؛ اس لیے آپ ﷺ کی سواری کے بڑھتے قدم وادی ہی میں رُک گئے۔ لوگوں نے ’’خلأت القصویٰ، خلأت القصویٰ‘‘ (اونٹنی بیٹھ گئی، اونٹنی بیٹھ گئی) کی آواز لگانی شروع کی، آپ نے فرمایا: ما خلأت القصویٰ، وماذاک لہا بخلق، ولکن حبسہا حابس الفیل ’’اونٹنی نہیں بیٹھی اورناہی اِس کی یہ عادت ہے؛ بل کہ اِسے اُس ذات نے روک لیاہے، جس نے ہاتھی کوروکاتھا‘‘۔پھرآپ نے فرمایا: والذی نفسی بیدہ! لایسألونّی خطّۃ یعظمون فیہا حرمات اللہ إلا أعطیتہم إیاہا’’ اُس ذات کی قسم، جس کے قبضہ میں میری جان ہے! اگروہ لوگ میرے سامنے کوئی ایسی تجویز رکھیں گے، جس میں اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کی تعظیم ہوتی ہوتومیں اُسے قبول کروں گا‘‘۔ پھراُونٹنی کوکوچادیاتووہ چل پڑی۔ اب آپ مقامِ حدیبیہ کے ایک سِرے پر خیمہ زن ہوئے، جہاں کم مقدارپانی والے کنوئیں میں آپ ﷺ کے ایک تیرڈالنے کی وجہ سے پانی کے جوش مارنے کا معجزہ ظاہرہوا۔ (بخاری، باب الشروط فی الجہاد والمصالحۃمع اہل الحرب وکتابۃ الشروط، حدیث نمبر: ۲۷۳۱)
یہاں سے آپ ﷺ نے خراش بن امیہ خزاعی ص کونامہ بربناکرقریش کے پاس اِس پیغام کے ساتھ بھیجاکہ ’’ہم فقط بیت اللہ کی زیارت کے لیے آئے ہیں، جنگ کے لیے نہیں‘‘؛ لیکن قریش نے ان کے اونٹ کوذبح کرڈالا اوراُن کے قتل کے بھی درپے ہوگئے۔ حضرت خراش اپنی جان بچاکرواپس آئے اورسارا ماجرا آپ کے روبروسنایا (الروض الأنف، غزوۃ الحدیبیۃ: ۴/۴۵)۔آپ نے حضرت عمرص کوپیغام بربناکربھیجنا چاہا؛ لیکن اُنھوں نے یہ کہتے ہوئے معذرت چاہی کہ’’ قریش مجھ سے بہت زیادہ برہم اورمیرے سخت دشمن ہیں۔ مزیدیہ کہ میرے قبیلہ کا کوئی شخص نہیں، جومجھے بچا سکے؛ اس لیے حضرت عثمان ص کوبھیجنازیادہ مناسب ہے کہ وہاں اُن کے اعزہ موجود ہیں(جوناگفتہ بہ حالت میں اُن کی حفاظت کریں گے)۔آپنے حضرت عمرص کی یہ رائے معقول سمجھی اورحضرت عثمان ص کو ابوسفیان (جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے)اوررؤسائے مکہ کے پاس اپناقاصد بناکر بھیجا، جب کہ وہاں پر موجود مسلمانوں کو یہ بشارت بھی بھجوائی کہ عنقریب اللہ تعالیٰ فتح نصیب کرے گااوراپنے دین کوغالب فرمائے گا۔
حضرت عثمان اپنے ایک عزیز ابان بن سعیدکی پناہ میں مکہ آئے اورقریشِ مکہ کوآپ کا پیغام اور وہاں موجود مسلمانوں کو خوش خبری سنائی۔حضرت عثمان کی زبانی آپ کاپیغام سن کراہالیانِ مکہ نے جواب دیاکہ ’’اس سال تو محمد مکہ میں داخل نہیں ہوسکتے، ہاں اگرتم تنہاطوافِ زیارت کی سعادت حاصل کرناچاہوتوکرسکتے ہو‘‘۔حضرت عثمان نے جواب دیاکہ’’میں تنہا کبھی اِس سعادت کوحاصل نہ کروں گا‘‘۔ قریش یہ جواب سن کرخاموش ہوگئے؛ لیکن حضرت عثمان کووہیں روک لیا۔اِدھرمسلمانوں میںیہ خبرمشہورہوگئی کہ حضرت عثمان قتل کر دیے گئے۔ جب قتل کی یہ خبرآپ کے کانوں تک پہنچی توآپ کی طبیعت میں تکدر پیدا ہوا اور آپ نے فرمایا: جب تک میں عثمان کابدلہ نہ لے لوں، یہاں سے حرکت نہیں کروں گا۔ پھروہیں ایک ببول کے درخت کے نیچے حضرت عثمان ص کے خون کابدلہ لینے پرتمام صحابہ سے بیعت لی، جوتاریخ وسیرکی کتابوں میں ’’بیعۃ الرضوان‘‘ کے نام سے مشہورہے؛ لیکن بعد میں اِس خبرکے غلط ہونے کی بات معلوم ہوئی (السیرۃ النبویۃ لإبن ہشام، غزوۃ الحدیبیۃ: ۲/۳۱۵)۔قریش کواِس بیعت کاحال معلوم ہواتووہ خوف زدہ ہوئے اورنامہ وپیام کا سلسلہ شروع کیا۔
مقامِ حدیبیہ میں قیام پذیری کے دوران مسلمانوں کے پرانے حلیف بنوخزاعہ (جوپہلے بھی آپ تک قریش کی خبریں پہنچایاکرتے تھے)کے سرداربُدیل بن ورقاء آپ کی خدمت میں حاضرہوئے اورعرض کیا: قریش کی ایک بھاری جمعیت مستعد کھڑی ہے، وہ آپ کوکعبہ میں جانے نہ دیں گے۔ آپ نے اُن سے فرمایا: اُنھیں جاکرکہہ دو کہ ہم صرف عمرہ کی غرض سے آئے ہیں، لڑائی ہمارے حاشےۂ خیال میں بھی نہیں۔ جنگ نے قریش کی حالت زارزارکردی ہے؛ اس لیے بہترہے کہ ہم سے ایک مدت تک کے لیے جنگ بندی کامعاہدہ کرلیں اورمجھے عربوں کے ہاتھوں چھوڑدیں۔ اگروہ اِس پرراضی نہیں توخدا کی قسم ! میں اُس وقت تک لڑتارہوں گا، جب تک میراسرتن سے جدانہ کردیاجائے۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی، باب المہادنۃ۔۔۔۔۔۔، حدیث نمبر: ۱۹۲۸۰)
بدیل نے قریش کے پاس آکرکہاکہ میں محمدکے پاس سے کچھ پیغام لے کرآیاہوں، اشرارنے سننے سے انکارکیا؛ لیکن سنجیدہ قسم کے افرادنے پیغام سنانے کی اجازت دی۔ اُنھوں نے آپ کا پیغام سنایا۔ عروہ بن مسعودثقفی نے اہلِ مجلس سے کہا: کیوں قریش! کیامیں تمہارے لیے باپ کے مقام اورتم میرے لیے بیٹوں کے درجہ میں نہیں؟ سبھوں نے کہا: ہاں! ایسا ہی ہے۔ پھراُس نے کہا: میری نسبت تمہیں کوئی بدگمانی تونہیں؟ جواب ملا: نہیں! اس نے کہا: پھرتومجھے خود محمدکے پاس جاکرمعاملہ طے کرنے کی اجازت دو، اس نے معقول تجویز رکھی ہے۔
عروہ بن مسعود آپ کی خدمت میں حاضرہوئے۔ آپ نے اُن سے بھی وہی باتیں کہیں، جوبدیل سے کہہ چکے تھے۔اُس وقت عروہ نے آپ کو مخاطب کرکے کہا: أی محمد! أرأیت إن استأصلت أمرقومک، ہل سمعت بأحد من العرب اجتاح أصلہ قبلک؟ وإن تکن الأخریٰ، فإنی واللہ لأری وجوہاً ، وإنی لأری أشواباً من الناس خلیقاً أن یفروا، ویدعوک ’’ائے محمد! اگرتم نے اپنی قوم کا استیصال کردیاتوکیااس کی بھی کوئی مثال ہے کہ کسی نے اپنی ہی قوم کا خاتمہ کردیاہو؟لیکن اگرلڑائی کارخ بدلا(اوراہلِ مکہ تم پرغالب آگئے)تومیں تمہارے ساتھ ایسے لوگوں کودیکھ رہاہوں، جوتمہیں چھوڑکربھاگ کھڑے ہوں گے‘‘۔ عروہ کی اِس بدگمانی پرحضرت ابوبکرص نے سخت درشت لہجہ اختیارکرتے ہوئے فرمایا: کیاہم محمد ﷺ کوچھوڑکربھاگ جائیں گے؟حضرت ابوبکرص کی سخت کلامی کوسن کرعروہ نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ لوگوں نے جواب دیا: ابوبکرہیں! عروہ نے کہا: اگرمجھ پر تمہارا (زمانۂ جاہلیت میں دیاہواوہ)احسان نہ ہوتا، جس کی میں نے ابھی مکافات نہیں کی ہے تومیں تمہیں اِس سخت کلامی کاجواب ضروردیتا۔
اب عروہ حضور ﷺ سے محوگفتگوہوئے اورعربوں کی عادت کے مطابق اثنائے کلام آپ کی داڑھی مبارک پربھی ہاتھ پھیرتے جاتے۔ عروہ کی اِس حرکت کوحضرت مغیرہ بن شعبہ ص جسارت تصورکیا اوراُن کے ہاتھ پرٹہوکادیااورکہا: أخر یدک من لحیۃ رسول اللہ’’ حضور ﷺ کی داڑھی مبارک سے اپنے ہاتھ دوررکھو‘‘۔ عروہ نے زرہ پوش حضرت مغیرہ ص کی طرف نگاہ اُٹھائی اورپوچھا: یہ کون ؟جواب ملا: مغیرہ بن شعبہ! یہ سن کرعروہ نے کہا: ارے اوغدار! کیا میں نے تمہاری اُس غداری کابدلہ نہیں دیاتھا (جوتم نے زمانۂ جاہلیت میں ایک قوم کے ساتھ کیاتھا؟)۔ پھردُزدِیدہ نگاہوں سے صدق وصفاکے پیکرعشاقِ رسول کودیکھنے لگے اورجاں نثارانِ رسول کی اِک اِک اداکاگہرائی کے ساتھ جائزہ لینے کے بعدقریش کے پاس لوٹے اوریہاں کاآنکھوں دیکھاحال اس طرح بیان کرنے لگے:’’ ائے اہلِ مجلس! بخدا میں نے بادشاہوں کے محلات اورقصورکے سیرکیے ہیں، میں نے کسریٰ اورقیصرکا درباربھی دیکھاہے؛ لیکن میں نے کسی بھی ایسے بادشاہ کونہیں دیکھا، جس کے لوگ اُس کی اِس قدرتعظیم کرتے ہیں، جس قدرتعظیم محمدکے ساتھی محمدکی کرتے ہیں۔ خداکی قسم! محمدکی ناک کی ریزش بھی زمین پرگرنے نہیں پاتی کہ اُس کے ساتھی اپنے ہاتھوں میں لے کر اپنے چہروں اوراپنے جسموں پرمل لیتے ہیں۔ وہ جب کسی کام کا حکم دیتے ہیں تواُس کے ساتھی اُس کام کوانجام دینے کے لیے لپک پڑتے ہیں۔ جب وہ وضوکرتے ہیں تووضوکے پانی کولینے کے لیے منافست پراترآتے ہیں۔ جب وہ گفتگو کرتے ہیں توتمام لوگ مہربہ لب ہوجاتے ہیں اورکوئی بھی شخص عظمت وجلال کی وجہ سے اُسے نگاہ بھرکربھی نہیں دیکھتا۔ یقیناً محمدکی طرف سے ایک مناسب تجویز آئی ہے، اُسے قبول کرلینا چاہیے‘‘۔ 
عروہ کی باتیں سن کربنوکنانہ کے ایک فرد نے آپ کے پاس آنے کی اجازت چاہی، قریش نے اُسے بھی جانے کی اجازت دے دی۔ جب وہ کاروانِ نبوت کے قریب پہنچاتوآپ نے صحابہ کو مخاطب کرکے فرمایا:’’دیکھو! فلاں آرہاہے، اِس کاتعلق ایسی قوم سے ، جوہدی کے جانوروں کوتعظیم کی نگاہ سے دیکھتی ہے، لہٰذا تم لوگ ہدی کے جانوروں کے ساتھ اِس کا استقبال کرو‘‘۔ صحابہ نے جانوروں کے ساتھ تلبیہ پڑھتے ہوئے خوش آمدیدکہا۔ جب اُس نے یہ کیفیت دیکھی توبے ساختہ پکارا: سبحان اللہ! ما ینبغی لہؤلاء أن یصدوا عن البیت ’’سبحان اللہ! ایسے لوگوں کو تو بیت اللہ سے نہیں روکاجاناچاہیے‘‘۔ پھر وہ قریش کے پاس لوٹ کرآیااوراُس نے اپنی یہی رائے پیش کی۔
اب مکرز بن حفص نے آنے کی اجازت لی۔ جب وہ آپ کے قریب پہنچاتوآپ نے فرمایا: ’’مکرزبن حفص آرہاہے، یہ بُراآدمی ہے‘‘۔پھراُس کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہوگئے۔ اِسی دوران قریش کی طرف سے وثیقۂ عہدتیارکرنے کے لیے آپ کے پاس سہیل بن عمروآیا۔ آپ نے حضرت علی ص کواملاء کے لیے بلایااورکہا: لکھو: (بسم اللہ الرحمٰن الرحیم)۔سہیل نے کہا: ’’ہم رحمان کونہیں جانتے؛ اِس لیے وہ لکھو، جوہم لکھتے چلے آرہے ہیں، یعنی: باسمک اللہم‘‘۔ آپ نے باسمک اللہم لکھوایا، پھرکہا: لکھو: ہذا ما قاضی علیہ محمد رسول اللہ ’’یہ وہ ہے، جس پراللہ کے رسول محمدنے مصالحت کی ہے‘‘۔ سہیل نے کہا: ’’خداکی قسم ! اگرہم آپ کواللہ کا رسول تسلیم ہی کرلیتے توبیت اللہ سے ہرگز نہ روکتے اور نا ہی آپ سے جنگ کرتے؛ اِس لیے محمدبن عبداللہ لکھئے‘‘۔ آپ نے اُس کی یہ بات سن کرفرمایا: ’’اللہ کی قسم! میں اللہ کارسول ہوں، اگرچہ کہ تم لوگ مجھے جھٹلاؤ‘‘۔پھرحضرت علی سے محمدبن عبداللہ ہی لکھنے کے لیے کہا۔
اب تحریری شکل کوآگے بڑھاتے ہوئے آپ نے املاکرایا: ’’یہ مصالحت اِس بات پرہے کہ تم لوگ بیت اللہ کے طواف سے ہمیں نہیں روکوگے‘‘۔ سہیل نے کہا: اس کی وجہ سے کہیں عرب یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ ہم نے دب کرصلح کی ہے؛ اِس لیے یہ آئندہ سال پراٹھارکھیں‘‘۔ آپ نے اُس کی یہ بات بھی مان لی۔اب سہیل نے اپنی طرف سے ایک شق لکھائی کہ’’ ہماراکوئی بھی مرد مسلمان ہوکرآپ کے پاس آجائے تو آپ اُسے ہمارے پاس لوٹادیں گے؛ لیکن اگرآپ کا کوئی ساتھی آپ کا دین چھوڑکرآئے توہم اُسے نہیں لوٹائیں گے‘‘۔ صحابہ نے کہا: سبحان اللہ! دائرۂ اسلام میں داخل ہونے کے بعدکسی کو کیسے لوٹایاجائے گا؟
معاہدہ کی اِس شق پربحث وتمحیص چل ہی رہی تھی کہ ابوجندل بن سہیل بن عمروقفسِ تعذیب سے فرار ہو کر بیڑیوں میں گھسٹتے ہوئے یہاں پہنچے۔سہیل نے اُنھیں دیکھتے ہی کہا:’’ معاہدہ کا نفاذ یہیں سے ہوگا‘‘۔ آپ نے فرمایا:’’ ابھی تو معاہدہ کی تکمیل بھی نہیں ہوئی‘‘۔ سہیل نے جواب دیا: ’’پھرتوکسی چیز پرمصالحت نہیں ہوسکتی‘‘۔ آپ نے فرمایا: ’’اچھا میری خاطراِسے چھوڑدو‘‘۔ اس نے کہا: ’’میں اِس پربھی تیارنہیں‘‘۔ (بخاری، باب الشروط فی الجہاد والمصالحۃ مع اہل الحرب وکتابۃ الشروط، حدیث نمبر: ۲۷۳۲) آپ نے اُس وقت حضرت ابوجندل ص کو مخاطب کرکے فرمایا: یا أبا جندل! إصبر واحتسب، فإن اللہ عز وجل جاعل لک ولمن معک من المستضعفین فرجاً ومخرجاً، إناقد عقدنا بیننا وبین القوم صلحاً، فأعطیناہم علی ذلک، وأعطونا علیہ عہداً، وإنا لن نغدربہم. (السنن الصغریٰ للبیہقی، باب المہادنۃ علی النظر للمسلمین، حدیث نمبر: ۳۷۷۲ (۸/۱۶۳)، مسند احمد، حدیث نمبر: ۱۸۹۱۰  (۳۱/۲۱۹) ’’اے ابوجندل! صبرکرواورامیدرکھو، اللہ تعالیٰ تمہارے اورتمہارے ساتھ دوسرے کمزوروں کے لیے ضرورکوئی سبیل نکالے گا۔ ہم نے قریش سے عقدصلح کرلیاہے اوراس پرزبان دیدی ہے اوران لوگوں نے بھی ہم سے عہدکیاہے اورہم ان غداری کے مرتکب نہیں ہوسکتے ‘‘اوراُنھیں واپس مکہ بھیج دیا۔
اِس معاہدہ کی وہ تمام شقیں، جن پرقریش راضی تھے، اِس طرح ہیں:
۱) دس سال تک حرب وضرب موقوف رہے گی۔
۲) قریش کا جومرد مسلمان ہوکراپنے اولیاء اورموالی کی اجازت کے بغیرمدینے آجائے، اُسے واپس کردیاجائے گا۔
۳) مسلمانوں میں سے جومرد(راہِ ارتداداختیارکے)مکہ آجائے، اُسے واپس نہ کیاجائے گا۔
۴) مدتِ معاہدہ میں کوئی دوسرے پرتلوارنہیں اُٹھائے گااورناہی کسی سے خیانت کرے گا۔
۵) محمد اس سال واپس چلے جائیں اورآئندہ سال مکہ میں صرف تین دن رہ کرعمرہ کرکے واپس ہوجائیں، سوائے تلواروں کے اورکوئی ہتھیارساتھ نہ ہواوروہ بھی نیام میں رہیں۔
۶) قبائلِ متحدہ جس کے حلیف بنناچاہیں، بن سکتے ہیں۔ (زادالمعاد، فصل فی قصۃ صلح الحدیبیۃ: ۳/۲۹۹، القول المبین فی سیرۃ سید المرسلین لمحمد الطیب النجار، صلح الحدیبیۃ: ۱/۳۱۶)
اِس معاہدہ میں آپ نے قریش کی وہ تمام شرطیں منظورکرلیں، جوبظاہرمسلمانوں کے خلاف تھیں، جس کی وجہ سے صحابہ ایک قسم کی اندرونی گھٹن میں مبتلاہوگئے؛ حتیٰ کہ حضرت عمر نے آپ کی خدمت میں حاضرہوکراِس طرح سوال کرناشروع کردیا: کیاآپ اللہ کے برحق نبی نہیں ہیں؟ کیاہم حق پراوردشمن باطل پرنہیں ہیں؟آپ نے ہرسوال کے جواب میں’’کیوں نہیں‘‘(یعنی ہاں! ہم حق پرہیں اورمیں اللہ کابرحق نبی ہوں) فرمایا۔تب حضرت عمر نے کہا: فلم نعطی الدنیئۃ فی دیننا إذن؟’’پھرہم دین میں کمی کیوں برداشت کریں؟‘‘۔ آپ نے جواب دیا: إنی رسول اللہ، ولست أعصیہ، وہو ناصری’’ میں اللہ کارسول ہوں، اس کی نافرمانی نہیں کرسکتا اور وہ میرا حامی و ناصرہے‘‘۔ حضرت عمر نے پھرسوال کیا: کیاآپ نے ہمیں نہیں بتایاتھاکہ ہم بیت اللہ جاکراُس کاطواف کریں گے؟ آپ نے جواب دیا: تو کیا میں نے تمہیںیہ بات بھی بتائی تھی کہ اِسی سال کریں گے؟تم ضرورجاؤگے اوربیت اللہ کاطواف کروگے۔
جب معاہدہ کی تکمیل ہوگئی توآپ نے صحابہؓ سے فرمایا: قوموا، وانحروا، ثم احلقوا ’’اُٹھو، اپنے جانوروں کانحرکرواورپھراپنے سروں کاحلق کراؤ‘‘۔گھٹن کی کیفیت میں مبتلاہونے کی وجہ سے کسی صحابی نے بھی جنبش نہ کی؛ حتیٰ کہ آپ نے تین مرتبہ یہی بات فرمائی۔ جب کسی نے حرکت نہیں کی توآپ حضرت ام سلمہ(رضی اللہ عنہا) کے پاس آئے اورلوگوں کے اِس ردعمل کا تذکرہ کیا۔حضرت ام سلمہ (رضی الہہ عنہا) نے فرمایا: یا نبی اللہ! أتحب ذاک؟ أخرج، ثم لا تکلم أحداً منہم کلمۃً؛ حتیٰ تنحر بدنک، وتدعو حالقک فیحلقک۔ اے اللہ کے نبی! کیاآپ یہی چاہتے ہیں؟ (اگرآپ یہ چاہتے ہیں)تونکلیے اورکسی سے ایک لفظ مت کہیے۔ بس سیدھے جاکراپنے ہدی کے جانور ذبح کردیجئے اورنائی کوبلواکرحلق کرواےئے‘‘۔ آپ نے حضرت ام سلمہ(رضی اللہ عنہا) کے مشورے پر عمل کیا۔ جب صحابہ نے آپ کوایساکرتے دیکھاتواُن لوگوں نے بھی اپنے جانورذبح کردئے اور(مارے گھٹن کے) ایک دوسرے کا اِس طرح حلق کرنے لگے، جیسے گردن ہی کاٹ ڈالیں گے۔ (بخاری، باب الشروط فی الجہاد والمصالحۃمع اہل الحرب وکتابۃ الشروط، حدیث نمبر: ۲۷۳۲)
حدیبیہ میں تقریباً دوہفتے قیام کرنے کے بعدآپ نے اپنے رفقا کے ساتھ واپسی کے لیے کجاوہ کسا۔ جب مکہ مکرمہ اورمدینہ کے درمیان پہنچے توسورۂ فتح نازل ہوئی۔ آپ نے صحابہ کوجمع فرما کر (إنا فتحنا لک فتحاً مبیناً) سنائی۔ صحابہ انگشت بدانداں رہ گئے اوردریافت کیا: ائے اللہ کے رسول! کیا یہ فتح ہے؟ آپ نے جواب دیا: قسم ہے اُس ذات کی، جس کے قبضے میں میری جان ہے! بے شک یہ عظیم الشان فتح ہے۔ (مسند احمد، حدیث مجمع بن جاریۃ، حدیث نمبر: ۱۵۴۷۰ (۲۴/۲۱۲) 
جب رسول اللہ ﷺ مدینہ پہنچ گئے توابوبصیرکفارقریش کی قیدسے بھاگ کرمدینہ پہنچے۔ قریش نے فوراًاِن کی واپسی کے لیے دولوگوں کومدینہ روانہ کیا۔ آپ نے ایفائے عہدکرتے ہوئے ابوبصیرکواُن کے ساتھ مکہ کے لیے روانہ کردیا۔ ابوبصیراُن کے ساتھ روانہ توگئے؛ لیکن راستہ میں اُن میں سے ایک کوقتل کردیا، جب دوسرے نے یہ حال دیکھاتوبھاگ کھڑاہوااورسیدھامدینہ آپ کی خدمت میں حاضرہوااورکہا: میراساتھی توماراگیااوراب میں بھی ماراجانے والا ہوں۔ اُسی کے پیچھے ابوبصیربھی مدینہ پہنچے اورحضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضرہوکرعرض کیا: ائے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ نے آپ کے عہدکوپوراکردیا۔ آپ نے تومجھے اُن کے حوالے کردیاتھا۔ پھراللہ تعالیٰ نے اُن سے نجات کی میرے لیے ایک سبیل مہیافرمادی ہے۔ میں نے یہ جوکچھ کیا، محض اس لیے کیاکہ میرے اوراِن کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: ویل أمہ! مسعر حرب. لو کان لہ أحد!’’ناس ہو! جنگ بھڑکانے والاہے۔ کاش! کوئی اِس کے ساتھ ہوتا‘‘۔ حضرت ابوبصیرسمجھ گئے کہ آپ کومیرایہاں ٹھہرناپسندنہیں؛ چنانچہ اُنھوں نے ساحلِ سمندرکوٹھکانہ بنایا۔  (بخاری، باب الشروط فی الجہاد۔۔۔ حدیث نمبر: ۲۷۳۲)۔ اب جوبھی مکہ سے فرارہوکرآتا، سیدھے ساحل پرپہنچتا، اِس طرح ستر(۷۰) یاتین سو(۳۰۰)لوگوں کی ایک بڑی تعداد اکٹھی ہوگئی۔ یہ ساحل مکہ سے شام جانے والے تاجرینِ قریش کی راہ میں پڑتاتھا؛ چنانچہ اِن لوگوں نے اُن کے مال واسباب کو اپنی غذائی قلت دورکرنے کاذریعہ بنایا۔ جب قریش اِن سے تنگ آگئے توآپ کواِن لوگوں کواپنے پاس بلالینے اجازت دیدی اوراِس طرح معاہدہ کی ایک شق کو اُن لوگوں نے خود ہی کالعدم قراردے دیا، جب کہ پورامعاہدہ اُس وقت اختتام پذیرہوا، جب قریش کے حلیف بنوبکر نے قریش کے ساتھ مل کربنوخزاعہ پرچشمۂ’’وتیر‘‘میں شب خوں مارااوراُن کے بہت سارے افرادکوموت کی نیندسُلادیا۔ چنانچہ عمروبن سالم خزاعی نے بنوخزاعہ کا ایک وفدلے کردربارِنبوت میں حاضرباش دُہائی دی، جس کو سن کرآپ نے فرمایا: نُصِرْتَ یاعمروبن سالم. (السنن الکبری للبیہقی، حدیث نمبر: ۱۹۳۳۱) ’’ائے عمروبن سالم! تمہاری مددکی جائے گی‘‘۔ پھرآپ نے بنوخزاعہ کی مددکی، جس کے نتیجہ میں مکہ فتح ہوا۔
یہ تھی رودادِ معاہدہ۔ اب آےئے اِس معاہدہ سے حاصل ہونے والے دروس واسباق پرنظرڈالتے چلیں:

معاہدہ کالحاظ

آپ نے کفارِقریش سے کیے ہوئے اِس معاہدہ کاپوراپورالحاظ فرمایااورمعاہدہ کے مطابق ہراُس کام کوانجام دیتے رہے، جومعاہدہ میں طے ہواتھا؛ چنانچہ مدینہ پہنچنے کے بعد جب ابوبصیرقیدوبندکی صعوبتوں سے چھٹکارا حاصل کرکے مدینے پہنچے اورمشرکینِ مکہ نے اِن کی واپسی کامطالبہ کیاتوآپ نے اِنھیں اُن کے بھیجے ہوئے آدمیوں کے حوالہ کردیااوراُس عہد کی پاسداری کا مکمل ثبوت دیا، جوآپ نے اُن سے حدیبیہ کے مقام پرکیاتھا۔
آج ہمیں اپناجائزہ لیناچاہیے کہ کیاہم بھی اپنے کیے ہوئے عہدکاایفاکرتے ہیں؟کیاہم وعدہ کرکے اپنی ادنیٰ منفعت کی وجہ سے اُس کی خلاف ورزی نہیں کربیٹھتے؟ کیاایسانہیں ہے کہ ہم نے معاہدہ کونقصان سے بچنے کا ایک ظاہری سبب بنارکھاہے اورپسِ پشت مُعاہِدْ(معاہدہ کرنے والا)کوضررپہنچانے کی تدبیریں نہیں کرتے رہتے؟ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے توغیرسے کیے ہوئے عہدکونباہ کرکے دکھادیااورہم اُسی کے امتی ہونے کے باوجود اپنوں سے کیے ہوئے پیمان کاپاس نہیں رکھتے۔کاش! آپ کے اِس عمل سے ہم نصیحت حاصل کرتے!

مقصد پر نظر

آپ جب مقامِ عسفان پہنچے توآپ کویہ اطلاع دی گئی کہ خالدبن الولید(جوابھی تک اسلام کی سعادت سے محروم تھے) ہراول دستے کے طورپردوسوشہ سواروں کے ہمراہ ’’غمیم‘‘ تک پہنچ چکے ہیں۔اِس خبرکے سنتے ہی آپ نے اپناراستہ بدل لیاکہ مقصودلڑائی نہیں؛ بل کہ سعادتِ عمرہ سے سرفراز ہوناتھا۔اگرآپ چاہتے تواُن کا مقابلہ کرکے بہ زورشمشیراُن سے راستہ خالی کروالیتے؛ لیکن چوں کہ آپ کا مقصد قطعاً لڑائی نہیں تھا؛ بلکہ آپ کا مقصد بیت اللہ شریف کی زیارت سے مشرف ہوناتھا؛ اس لیے آپ نے مقصدپرنظررکھتے ہوئے بذا تِ خوداپناراستہ بدل لیا۔
آج ہمیں اِس بات کاجائزہ لیناچاہیے کہ کیاہم بھی اپنے مقصدپرنظررکھ رہے ہیں؟ کیاہم بھی اپنے مقصد کے حصول کے لیے جھگڑا وفسادسے گریز کرتے ہیں؟ ہم توایسے ہیں کہ بلاوجہ اپنے بھائی کومقدمات کے گھن چکرمیں ڈال کراُس کی زندگی کے مقصدبھی اُسے محروم کردیتے ہیں۔ہم حقیقی مقصدکوچھوڑکراناکی جیت کومقصدکادرجہ دیتے ہیں۔کاش! معاہدۂ حدیبیہ کے اس واقعہ سے ہم ’’مقصدپرنظر‘‘رکھنے کا سبق حاصل کرسکیں۔

مصلحت اندیشی

آپ نے کفارقریش کے پاس سب سے پہلے یہ پیغام بھیجوایاکہ’’ ہم صرف عمرہ کی غرض سے آئے ہیں، لڑائی ہمارے حاشےۂ خیال میں بھی نہیں۔ جنگ نے قریش کی حالت زارزارکردی ہے؛ اس لیے بہترہے کہ ہم ایک مدت تک کے لیے جنگ بندی کامعاہدہ کرلیں اورمجھے عربوں کے ہاتھوں چھوڑدیں‘‘۔ یہ اِس مصلحت کے پیش نظرتھاکہ اگرایک مدت تک جنگ بندی ہوگئی تواِس طرف سے دھیان ہٹاکردعوتِ اسلام کی طرف پوری توجہ مرکوز کیجا سکتی ہے اورہوابھی یہی کہ معاہدہ کے بعدہی آپ ﷺ نے دیگربادشاہوں کے نام دعوتی خطوط لکھے۔
آج ہم اپنامحاسبہ کریں کہ کیاہمارے اندریہ مصلحت اندیشی پائی جارہی ہے؟ آج ہم صرف جوش کے ٹٹو پر سوار ہو کر نہ جانے کتنے بنتے کام بگاڑ دیتے ہیں! اورجہاں عزم وجزم کی ضرورت ہوتی ہے، وہاں دُبک کربیٹھ جاتے ہیں۔ خود ہمارے ملک میں ہماری مصلحت نااندیشیوں کی کئی مثالیں موجودہیں۔ قضےۂ بابری مسجدکے سلسلہ میں ایک بات یہ آئی تھی کہ اُسے آثارِ قدیمہ کے حوالے کردیاجائے؛ لیکن مشورہ دینے والے پرہی یہ الزام دھردیاگیاکہ یہ حکومت کا پٹھوہے۔ حالاں کہ آثارِقدیمہ کے حوالے کردینے کی بات مصلحت سے خالی نہیں تھی۔ جب مسجدکی چولیں ہل گئیں تب یہ بات سمجھ میںآئی۔ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ ہم اپنی کم ہمتی اوربزدلی کوضرور’’مصلحت اندیشی‘‘کانام دیتے ہیں۔ ہمیں آپ ﷺ کی اِس مصلحت اندیشی سے کچھ سیکھناچاہیے۔

صلح میں پہل

کفارِقریش کی طرف سے کسی پیش قدمی سے پہلے ہی آپ نے صلح ومعاہدہ کاپیغام اُنھیں بھجوایا۔یہ آپ ﷺ کی طرف سے دستِ صلح درازکرنے میں پہل کرنے کی ایک اعلیٰ مثال ہے____آج ہمیںیہ غورکرناچاہیے کہ کیاہم بھی کسی سے صلح کرنے میں پہل کرتے ہیں؟ آج ایسے بہت سارے نمونے ہمارے سامنے موجودہیں کہ ایک سگے بھائی کی چپقلش اپنے سگے بھائی سے برسوں سے چلی آرہی ہے۔ راہ چلتے ایک دوسرے سے منھ چراتے ہیں۔ نہ خوشی کی بزم میں شریک ہوتے ہیں اورناہی غم کی مجلس میں حاضر؛ بل کہ ایک دوجے کی دشمنی میں جلتے بھنتے رہتے ہیں۔ بہت سارے مواقع پرایک دوسرے سے بغل گیربھی ہوناچاہتے ہیں؛ لیکن مونچھ کی اکڑن اورناک کی اونچائی ایسا کرنے سے مانع بنتی ہے۔ کاش! آپ ﷺ کے اِس اُسوہ پرہم عمل پیراہوسکتے!

اہانتِ رسول پر ردعمل

جب عروہ آپ سے ہم کلام ہوئے اورعربوں کی عادت کے مطابق اثنائے کلام آپ کی داڑھی مبارک پربھی ہاتھ پھیرنے لگے تو عروہ کی اِس حرکت کوحضرت مغیرہ بن شعبہ نے جسارت اوراہانت تصورکیا اوراُن کے ہاتھ پر ٹہوکا دیا اور کہا: ’’حضور ﷺ کی داڑھی مبارک سے اپنے ہاتھ دوررکھو‘‘۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ ص کے اِس فعل سے ہمیں سبق ملتاہے کہ آپ کی شان میں ادنیٰ گستاخی بھی ہمارے لیے قابلِ قبول نہیں۔ آج دشمنانِ اسلام آپ کی شان میں طرح طرح کی گستاخیاں کررہے ہیں؛ لیکن ہم اُن گستاخیوں کاجواب بجز احتجاج کے اورکسی طرح نہیں دے رہے ہیں، ہمیں احتجاج سے آگے بڑھ کرایسے قوانین وضع کرنے کامطالبہ بھی کرناچاہیے، جس میں اِس طرح کی حرکت کرنے والوں کے لیے سخت ترین سزاؤں کی تعیین ہو اور اگر طاقت ہوتواُس مرتکبِ جرم کواُسی طرح ٹہوکادینے سے گریز نہ کریں، جس طرح حضرت مغیرہ بن شعبہ نے دیا تھا۔

بُرے کی بُرائی سے آگاہی

جب مکرز بن حفص آپ کے قریب پہنچاتوآپ نے صحابہ کومخاطب کرکے فرمایا: ’’مکرزبن حفص آرہاہے، یہ بُراآدمی ہے‘‘____آپ کے اِس عمل سے ہمیںیہ درس ملتاہے کہ ہم برے شخص کی برائی دوسروں کے سامنے واضح کردیں؛ تاکہ وہ اُس کی برائی سے محفوظ رہ سکے۔آج ہمارے درمیان بہت سارے ایسے لوگ ہیں، جوبروں کی برائی سے اپنے بھا ئی کواس لیے آگاہ نہیں کرتے کہ یہ اُس کا معاملہ ہے ، وہ سمجھے، مجھے اس سے کیاسروکار؟ خصوصاً رشتوں کے معاملے میں اِس طرح کے واقعات بکثرت پیش آتے ہیں۔ آپ کے اس عمل سے ہمیں نصیحت حاصل کرنی چاہیے اوربرے کی برائی سے دوسروں کوبھی محفوظ رکھناچاہیے۔

مستقبل پر نظر

معاہدہ کی تمام شقیں بہ ظاہرمسلمانوں کے خلاف تھیں؛ لیکن آپ نے تمام کومنظورفرمایا۔ دراصل آپ کے پیش نظرمستقبل تھاکہ ایک بارمعاہدہ ہوجانے کے بعدسکون واطمینان کے ساتھ دعوتِ دین کے فریضہ کی ادائے گی کی طرف توجہ دی جا سکے گی، جس کے نتیجہ میں دیگرقبائلِ عرب کے دائرۂ اسلام میں داخل ہونے کاقوی امکان تھا۔ہوابھی ایساہی۔ مدتِ معاہدہ میں اچھے خاصے لوگ حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے۔
آج ہماری نگاہ کسی بھی کام میں مستقبل کے بجائے حال پرہوتی ہے۔ ہم کام کم اورنتیجہ کی فکرزیادہ اورشِتاب کرتے ہیں؛ حالاں کہ عجلت پسندی کے نتیجہ میںآراستگی کم اوراُجاڑزیادہ ہوتاہے۔کسی بھی کام کی ابتدا ہمیںیہ سوچ کرنہیں کرنی چاہیے کہ اِس کاثمرہ پیش ازپیش حاصل ہوجائے؛ بلکہ مستقبل کوسامنے رکھناچاہیے۔ اسی سوچ کے ساتھ کوئی فعل یافیصلہ کرناچاہیے کہ صلح حدیبیہ کا ایک پیغام یہ بھی ہے۔

بیوی کے درست مشورے پرعمل

جب معاہدہ کی تکمیل ہوگئی توآپ نے صحابہ سے ہدی کے جانوروں کوذبح کرنے اوراپنے سروں کے حلق کرانے کاحکم دیا۔گھٹن کی کیفیت میں مبتلاہونے کی وجہ سے کسی صحابی نے بھی جنبش نہ کی؛ حتیٰ کہ آپ نے تین مرتبہ یہی بات فرمائی۔ جب کسی نے حرکت نہیں کی توآپ حضرت ام سلمہ (رضی اللہ عنہا)کے پاس آئے اورلوگوں کے اِس ردعمل کا تذکرہ کیا۔حضرت ام سلمہ (رضی اللہ عنہا)نے فرمایا: ’’اے اللہ کے نبی! کیاآپ یہی چاہتے ہیں؟ (اگرآپ یہ چاہتے ہیں) تو نکلیے اورکسی سے ایک لفظ کہے بنااپنے ہدی کے جانور ذبح کردیجئے اورنائی کوبلواکرحلق کرواےئے‘‘۔ آپ نے حضرت ام سلمہ کے درست مشورے پر عمل کیا۔ آج ہم اپنی بیویوں کے کسی بھی مشورے کوقبول کرنے کی نگاہ سے نہیں دیکھتے؛ حالاں کہ اُن کے بہت سارے مشورے راہِ صواب کی رہنمائی کرتے ہیں۔ آپ کے اِس عمل سے ہمیںیہ درس ملتاہے کہ اپنی بیویوں کے مشورے کوبھی قدر کی نگاہ سے دیکھیں، درست معلوم ہونے پراُس پرعمل کرنے سے صرف یہ سوچ کرنہ کترائیں کہ لوگ کہیں’’جوروکاغلام‘‘نہ کہنے لگیں۔

مسلمان کی جان کی قیمت

جب آپ کویہ معلوم ہوا کہ حضرت عثمان کوقتل کردیاگیاہے توآپ نے ان کے خون کا بدلہ لینے پرصحابہ سے بیعت لی اورفرمایا: جب تک میں عثمان کے خون کا بدلہ نہ لے لوں، اُس وقت تک یہاں سے حرکت نہیں کروں گا۔ اِس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ایک مسلمان کی جان کی قیمت کیاہے؟
آج ہم اپنے معاشرہ پرنظر دوڑائیں کتنے ایسے لوگ ہیں، جوایک مسلمان کے خون کواتنی اہمیت دیتے ہیں؟ جوگھریلولڑائی کے بدلہ اپنے حقیقی بھائی کے قتل کے درپے نہیں ہوجاتے؟ جوایک مسلمان کے خون ہوجانے کی خبرسن کربے چین ہوجاتے ہیں؟ آج مختلف ممالک میں خونِ مسلم کوپانی کی طرح بہایا جا رہا ہے، کیا ہمارا دل اِس پرمچل اُٹھتاہے؟ کاش! بیعۃ الرضوان سے یہ سبق ہم سیکھ سکتے!! 

محافل سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم

مولانا وقار احمد

ربیع الاول میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور قدسی ہوا ۔ اس مناسبت سے دنیا بھر میں مسلمان ربیع الاول میں میلاد النبی اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عنوانات سے محافل منعقد کرتے ہیں۔ ان محافل میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور کردار کو واضح کرنے کی اپنی سی سعی کی جاتی ہے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی عقیدت اور محبت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ ایسی محافل بہت ہی بابرکت اور بہترین ہیں کہ ان میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مبارک کیا جاتا ہے اور مبارک ہیں وہ قلوب جو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے لبریز ہیں۔
بلا شک و شبہ انسانیت کی معراج اور ایمان کی ابتدا و انتہا پیغمبر انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و عقیدت ہے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور ایمان باللہ آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ ارشاد ربانی ہے : وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ (بقرہ :۵۶۱) جو لوگ ایمان لائے ان کو اللہ سے شدید محبت ہے۔ اور محبت الٰہی کا مظہر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے۔ سورۂ آل عمران آیت نمبر ۱۳ میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کو محبت الٰہی کے لیے شرط قرار دیا ہے۔ جب اتباع پیغمبر محبت الٰہی کے لیے شرط ہے تو پھر محبت بطریق اولیٰ شرط ہو گی، کیونکہ بغیر محبت کے اتباع ممکن نہیں ہے۔
خود نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے۔ صحیحین کی روایت ہے : ’’ تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کو اس کے والدین ، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں‘‘۔ ایک موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: کہ خدا کی قسم، تم مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ مجھے اپنے آپ سے بھی زیادہ محبوب نہ رکھو۔
قرآن نے ایسے رویے اور انداز سے سختی کے ساتھ مسلمانوں کو منع کیا ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام ومرتبہ اور تعظیم کے منافی ہو اور ایسا رویہ اختیار کرنے والوں کو کم عقل اور بیوقوف قرار دیا ہے۔ ( الحجرات: ۴، ۵)
جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت جزو ایمان ہے تو پھر اس کا اظہار اور ذکر بھی لوازمات ایمان میں سے ہے، اس لیے ایسی تمام محافل بابرکت ہیں جو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کی مناسبت سے قائم کی جائے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم ان محافل اور مجالس سے مطلوبہ مقاصد و اہداف حاصل کرتے ہیں؟ کیا ان کے انعقاد کے لیے کوئی عظیم مقصد پیش نظر ہوتا ہے یا محض رسم زمانہ پوری کی جاتی ہے؟ کیا ان کے انعقاد کا طریق کار اسوہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہے؟ کہیں یہ مسلمانوں میں انتشار پھیلانے اور اپنے جتھے کو مضبوط کرنے اور جماعتی نمائش کے لیے تو منعقد نہیں ہوتی ہیں؟ کیا یہ محافل ہماری اجتماعی اور مجلسی قوتوں کو ضائع کرنے کا سبب تو نہیں بن رہیں؟
ان مجالس کا مقصد واحد اسوہ حسنہ کا بیان ہونا چاہیے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی کا تذکرہ ہونا چاہیے اور ایک مسلمان کی زندگی میں نبی معلم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا عملی نمونہ پیدا کرنے کی سعی وجہد ہی ان مجالس کا مقصد وحید ہونا چاہیے۔ اسی کی طرف قرآن رہنمائی کرتا ہے: لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ (الاحزاب: ۱۲) ’’بے شک تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اتباع کا بہترین نمونہ ہے۔‘‘ اگر اس مقصد کے تحت ان مجالس کو منعقد کیا جائے تو بلا شک و شبہ یہ مسلمانوں کے لیے فلاح دارین کا ذریعہ ہیں، مگر ہمارے ہاں یہ مقصد فوت ہو گیا ہے اور یہ مجالس محض رسم بن کر رہ گئی ہیں۔
ان مجالس کے انعقاد کے طریقہ کار پر نظر ڈالی جائے تو یہ کسی بھی صورت نبوی منہج سے میل نہیں کھاتیں۔ ان کے انعقاد کے لیے وسائل کی فراہمی میں حلت و حرمت سے بے توجہی، ساری رات محفل میں شرکت اور ترک فرائض، اسپیکر کا استعمال اور احترام انسانیت کا فقدان، کوئی بھی چیز تو اسوہ نبوی سے مناسبت نہیں رکھتی۔
مجالس میں بیان ہونے والے مواد کی حالت اس سے بھی زیادہ ناگفتہ بہ ہے۔ روایات ضعیفہ اور قصص موضوعہ سے تقاریر کو لچھے دار بنایا جاتا ہے۔ ان روایات کی صحت و عدم صحت پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی اور نہ اس بات پر توجہ دی جاتی ہے کہ یہ ہمارے مقاصد سے کس قدر مناسبت رکھتی ہیں۔ پیشہ ور مقررین اور نعت خوانوں کے پیش نظر تو کوئی بڑا مقصد ہوتا ہی نہیں۔ وہ محض گرمی محفل کے لیے یہ قصے بیان کرتے اور اپنے پیٹ کا دھندہ چلاتے ہیں۔ کس قدر تعجب کی بات ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم اسوہ حیات اور مقاصد بعثت کو چند قصص کے بیان پر قربان کر دیا جاتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم اسوہ پر محیر العقول قصص کا پردہ ڈال کر مسلمانوں کو عملی زندگی سے دور کر دیا جاتا ہے۔ قرون اولی کے مسلمانوں کی عظیم کامیابیوں کو کرامات کا حاصل قرار دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی خطیب ان خرافات کے بیان سے گریز کرے گا تو وہ مسلمانوں کے چند باہمی جزوی اختلافات کے بیان میں تمام قوتیں صرف کر دے گا اور محافل سیرت کو مسلمانوں کے مابین انتشار اور افتراق کا سبب بنا دے گا۔ اگر ان محافل کے انعقاد میں اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ملحوظ رکھا جائے اور مواد بیان کو حیات رسول کے مستند بیان تک محدود کر دیا جائے تو ان سے مسلمان بحیثیت مجموعی عظیم فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ یہ محافل مسلمانوں کی بہت بڑی اجتماعی قوت بن سکتی ہیں، اگر ان کو بامقصد بنایا جائے۔ مگر ہم اس وقت اس قوت کو ضائع کر رہے ہیں۔ 
ربیع الاول میں انتہائی جوش وخروش سے جشن آمد رسول منایا جاتا ہے۔ تمام انسانیت کے رہبر و رہنما کی پیدائش پر خوشی کا اظہار بجائے خود ایک اچھی بات ہے۔ مگر واضح رہے کہ ربیع الاول ہمارے لیے خوشی کا پیغام اس لیے تھا کہ اس مبارک ماہ میں وہ عظیم انسان آیا جس نے ظلم وجبر کے ماحول کو یکسر ختم کر دیا، اخوت اور بھائی چارے کی فضا کو عام کیا اور بندوں کو بندوں کی بندگی سے نکال کر ایک خدا کی بندگی میں دیا۔ کس قدر مقام تعجب ہے کہ آج ہم اس کی آمد کے مقصد کو یکسر نظر انداز کر کے اسی کی آمد کے جشن مناتے ہیں۔ نتیجتاً ہم دنیا میں غلاموں کا ایک ریوڑ بن چکے ہیں۔ ہمارے دل توحید کی لذت سے ناآشنا اور اعمال الٰہی نور سے محروم ہو چکے ہیں۔ دنیا ہمیں ستانے کے لیے ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرتی ہے اور ہم احتجاج و جشن منانے کے مرحلے سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ مسلمان اپنی حیات اجتماعی میں اسوہ رسول کو زندہ کرتے اور پھر جشن مناتے تو دنیا میں کامیاب و کامران ہوتے۔ تب دنیا کے کسی رزیل کو ان کے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرنے کی ہمت نہ ہوتی۔
ہماری ان محافل سیرت و میلاد پر مولانا عبید اللہ سندھیؒ کا تبصرہ کتنا جامع ہے۔ فرماتے ہیں: مروجہ سیرت کانفرنسیں امت کے لیے زہر کی میٹھی گولیاں ہیں۔

دو ہفتے پاکستان میں

مولانا محمد عیسٰی منصوری

بندہ تقریباً چار پانچ سال سے پاکستان نہیں جا سکا تھا۔ وجہ پاکستان کے دھماکہ خیز حالات، بدامنی، دہشت گردی، علاقائی ولسانی جھگڑے۔ ان چیزوں نے ملک کو کسی علمی، دینی، اصلاحی کام کے لیے ناساز گار بنا دیا ہے۔ دوسرے، بھارت و پاکستان کے درمیان کشیدگی وبے اعتمادی۔ دونوں طرف ایک چھوٹا سا طبقہ ہے جو نہایت طاقتور ہے اور وہ حالات کو بہتر ہوتے نہیں دیکھ سکتا اور بڑی عالمی طاقتوں کا مفاد بھی دنیا بھر کے ممالک و قوموں کے لڑانے میں ہے۔
بندہ نے ۲۰۱۱ء کے اواخر میں اس خیال سے ویزا لے لیاتھا کہ رائے ونڈ کے سالانہ تبلیغی اجتماع میں شرکت کرسکا تو چلا جاؤں گا۔ بھارت میں تقریباً سارے ہی احباب کایہی کہناتھا کہ آپ ہرگز نہ جائیں، اس لیے بندہ سفر کے متعلق شش وپنج میں تھا، کوئی فیصلہ نہیں کرپارہاتھا۔ اسی کشمکش کے عالم میں ۱۹ ؍ نومبر کو دہلی سے بذریعہ پی آئی اے لاہور روانہ ہوگیا۔ جہاز تقریباً دوگھنٹہ لیٹ چلا۔ رات تقریباً ۹بجے لاہور ائیر پورٹ پر حسب معمول جامعہ مدنیہ جدید سے مولانا محمود میاں دامت برکاتہم کی گاڑی موجود تھی جو وہاں ہمیشہ میرے میزبان رہے ہیں۔ ۱۰ بجے رات جامعہ مدنیہ پہنچ کر مولانا کے دولت کدہ پر آرام کیا۔ صبح میرے شیخ حضرت شاہ نفیس رقم ؒ کے خادم خاص جناب رضوان نفیس اپنے رفقا کے ساتھ تشریف لائے۔ میر ے ذہن میں کوئی مرتب پروگرام نہیں تھا۔ صرف احباب،دوستوں،اکابرین سے ملاقات اور کتابوں کی تلاش کا سوچاتھا۔ من جانب اللہ خود بخود اس طرح پروگرام بنتا گیا کہ شایدہم خود نہیں بناسکتے تھے۔ احباب کے اصرار پر سفر کے مختصرحالات نہایت اختصار سے پیش خدمت ہیں۔
یہ ہمارے دور کی بدنصیبی رہی ہے کہ کسی بڑی شخصیت کے بعد ان کا کام اور روحانی سلسلہ اختلاف کا شکار ہوجاتا ہے۔ حضرت (شاہ نفیس رقم ؒ ) کے بعد یہی صورتحال پیش آئی۔ حضرت کی خانقاہ ومزار پر حاضری پہلی خواہش تھی۔ وہاں حضرت کے جانشین وپوتے جناب زید نفیس صاحب کے علاوہ دونوں گروپوں کے ذمہ دار رضوان صاحب اور جناب اشعر صاحب موجود تھے۔ بندہ نے تفصیل سے عرض معروض کی اور زور دیا کہ خانقاہ سید احمد شہیدؒ کوذکر وفکر اور تعلیم و تعلّم سے آباد کرنے کی طرف خاص توجہ دیں۔ یہ خانقاہ حضرتؒ کی امیدوں کا مرکز اور زندگی بھر کی محنت کا ثمرہ ہے۔ حضرت کے آخری برسوں میں بے شمار لوگ یہاں سے مستفید ہوئے۔ آپ دونوں حضرات براہ راست ایک دوسرے سے ملیں اور خانقاہ کو علم وذکر سے آباد کرنے کے لیے منصوبہ بنائیں۔ ہر جگہ درمیانی واسطے ہی فساد اور خرابی کا باعث بنتے ہیں۔ آپ دونوں کو ایک دوسرے سے جوبھی شکایتیں ہوں، براہ راست گفتگو کریں۔ الحمد للہ دونوں حضرات اس پر آمادہ نظر آئے۔ اللہ کرے دونوں احباب شیر وشکر ہوکر خانقاہ ومدرسہ کی آباد کاری کرسکیں اور یہاں سے حضرت کا فیض جاری وساری رہے۔ پورے ملک میں ہر جگہ حضرت ؒ کے وابستگان نے بندہ کے ساتھ جس طرح شفقت ومحبت،اکرام واعزاز کا معاملہ فرمایا، واقعہ یہ ہے کہ بندہ اس کا ہرگز مستحق نہیں ہے۔ بندہ ہر جگہ عرض کرتارہا کہ بھائی میں پیر نہیں ہوں، مجھے پیر نہ بنائیں۔ میں دین و ملّت کے کچھ اور ہی شعبوں میں کوشاں ہوں، ا س لیے خدارا مجھ سے پیر جیسا معاملہ نہ کریں۔ حضرت ؒ کے روحانی جانشین اور پوتے جناب زید نفیس صاحب ابھی کم عمر ہیں، مگر لگتاہے حضرتؒ کی دعاؤں کے طفیل اللہ تعالیٰ نے صفات قبولیت سے نوازدیاہے۔ بندہ نے ان کو تفسیر، حدیث، فقہ، سیرت، تاریخ پر گہرے مطالعے کا مشورہ دیا اور رفیق محترم جناب مولانا زاہد الراشدی دامت برکاتہم کو مکلف کیا کہ ان کے لیے ایک جامع نصاب تیار کریں۔
لاہور میں جہاں میر اقیام تھا، اس سے چند کلومیڑ کے فاصلے پر رائے ونڈ کا سالانہ عظیم الشان اجتماع ہورہاتھا۔ آج کل مجمع کی کثرت کی وجہ سے یہ اجتماع تقریباً پورے عشرے کا ہوتا ہے۔ پہلے جمعہ،ہفتہ، اتوار کو ملک کے آدھے حصہ کا جوڑ، درمیان میں چار پانچ دن مذاکرے اور مشورے، پھر اگلے جمعہ،ہفتہ، اتوار کو باقی آدھے حصے کے لوگ جمع ہوتے ہیں۔ یہ حج کے بعد شاید دنیا میں سب سے عظیم الشان دینی ودعوتی اجتماع ہے۔ بندہ نے ازدحام سے بچنے کے لیے درمیانی دن میں حاضری دی۔ تمام بزرگوں اور دہلی، رائے ونڈاور دنیابھر کے احباب سے اطمینان سے مل سکے۔
واقعہ یہ ہے کہ تقریباً ایک صدی سے تبلیغی جماعت کی بدولت بر صغیر میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ ہوئی، عوام کا دینی واسلامی ذہن بنا، اسلامی تمدن ومعاشرت، مکاتب ومدارس خانقاہوں کو بے انتہا فائدہ پہنچا۔ حضرت مولانا الیاس کی شروع کردہ محنت کے سبب دین کے تمام شعبوں کو پانی پہنچا اور ا یہ ن کی تقویت وسرسبزی کا ذریعہ بنی، مگر آج کل یہ دیکھ کرافسوس ہوتاہے کہ کچھ عرصہ سے ایک خاص قسم کے مفاد پرست تنگ ذہن لوگ جنہیں بندہ اپنی اصطلاح میں ’’بنیا ذہن‘‘ کہتا ہے، ہر جگہ غلبہ پاتے جا رہے ہیں اور بہت سی جگہوں پر یہ لوگ دین کے دیگر شعبوں کے حریف بنتے جارہے ہیں۔ بندہ کو مولانا سعد صاحب سے بڑی توقعات تھیں، مگر کچھ عرصہ سے جو احوال سامنے آرہے ہیں، یہ توقع بھی ختم ہو گئی ہے۔ خداکرے، تبلیغ کاکام دوبارہ حضرت جی مولاناالیاسؒ اور حضرت مولانامحمد یوسف ؒ کے نہج اور طرز پرآجائے۔ بہرحال، ایک دن رائے ونڈ میں ملاقاتوں کے لیے رکھا تھا۔ صبح مولانا محمود میاں دامت برکاتہم نے گاڑی اور رہبرکاانتظام کردیا۔ رائے ونڈحاضر ی پر دنیابھرسے آئے ہوئے احباب سے اور خاص طور پر بھارت سے آئے ہوئے پندرہ بیس احباب اور انگلینڈکے دوستوں سے ملنا ہوا۔ بھائی عبدالوہاب صاحب (جوپاکستان میں تبلیغ کے روح رواں ہیں) کے ذہن وفکرپر ہمیشہ سے دعوت کا غلبہ رہاہے۔ اب وہ اس حالت میں ہیں کہ ان کی بات بھی بمشکل سمجھ میں آتی ہے۔ ان کی انتہائی نقاہت وکمزوری دیکھ کرصدمہ ہوا، مگر جوش اب بھی جوانوں کا ساہے مگر اب ان کی باتوں میں تبلیغ کے متعلق غلوصاف نظر آنے لگاہے۔ فرمایا، علمائے کرام کام (تبلیغ) کی طرف توجہ نہیں فرمارہے ہیں۔ بندہ نے عرض کیا، علما کو اپنا کام کرنے دیں۔ وہ آپ ہی کا کام کررہے ہیں۔ سب علماء کویہاں بلا کر کیا کرنا ہے؟ آپ کے پاس ایسے لوگ کتنے ہیں جو علماء کو سنبھال سکیں؟
حضرت جی مولانا یوسفؒ کو ایک بار ٹرین کے سفر میں کانپور اسٹیشن پر حضرت مفتی محمود الحسن گنگوہیؒ نظر آئے۔ فوراً آدمی دوڑا کر بلایا اور دو تین مسئلے جو اسی سفر میں پیش آئے تھے، دریافت کیے۔ پھر حسب عادت تبلیغ کے لیے وقت مانگا۔ مفتی صاحب ؒ نے فرمایا، اچھا، اب اپناکام نکلنے کے بعد تشکیل کرتے ہو! کچھ مولویوں کوچھوڑدیناچاہیے تاکہ بوقت ضرورت آپ کو مسئلہ بتاسکیں۔ جہاں تک تبلیغ کاکام ہے وہ ہم اپنے حصے کا پہلے ہی کرچکے ہیں۔ وہ اس طرح کہ طالب علمی کے زمانے میںآپ کی ساری توجہ مطالعہ و تحقیق، تصنیف وتالیف کی طرف تھی اور تبلیغ کے کام سے آپ گریزاں تھے۔ اس لیے حضرت مولانا الیاسؒ آپ کے بارے میں بہت فکرمند رہاکرتے تھے، چنانچہ حضرت مولانا الیاس ؒ نے یہ ڈیوٹی ہماری لگائی تھی کہ ہم کوشش کرکے آپ کو تبلیغ میں لگائیں۔ ہم نے محنت و کو شش کر کے حضرت مولاناالیاسؒ کا دیاہواکام پوراکردیا یعنی آپ کو تبلیغ میں لگادیا۔ اب آپ جانیں اور آپ کی تبلیغ! ہمیں حضرت مولانا الیاس ؒ نے جوکام سونپاتھا، وہ ہم پوراکرچکے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ علمائے کرام عام طورپر صرف ان اہل علم سے متاثرہوتے ہیں جنہیں تقویٰ وتعلق مع اللہ کے ساتھ رسوخ فی العلم بھی حاصل ہو نہ کہ کارگزاریوں کے نام پرکارناموں کی لا طائل داستانو ں سے۔ رفیق محترم مولانا زاہد الراشدی صاحب ہر سال رائے ونڈ کے سا لانہ اجتماع کے موقع پر ایک دن کے لیے رائے ونڈ ضرور پہنچتے ہیں۔ کہنے لگے، گزشتہ رات گھنٹہ بھر بھائی عبد الوہاب صاحب کا بیان پوری توجہ سے سننے کی کوشش کے باوجود ایک لفظ سمجھ میں نہیں آسکا۔ بد قسمتی سے ہمارے تقریباً تمام ہی دینی شعبوں اور تنظیموں سے ریٹائرمنٹ کی کوئی عمر ہی نہیں۔ جو جس جگہ گدی نشین ہوگیا، اب موت ہی اس کو ہٹاسکتی ہے، اس لیے سیکنڈ لائن (صف ثانی) کہیں تیار نہیں ہو رہی ہے او ر ہر حضرت کے بعد زبردست خلا اور قحط الرجال کا واویلا اور رونا رہتا ہے۔ گزشتہ دنوں ’’شرح ثمیری علی القدوری‘‘ کے مصنف مولاناثمیرالدین قاسمی (مقیم یوکے) نے بتایا کہ بھارت کے سفر میں ایک بہت بڑے مدرسے میں، جس کا شمار اُمّ الدارس میں ہوتاہے، ایک بزرگ استاذ کی زیارت کے لیے حاضر ہوئے۔ وہ عالمِ دین عمر کے اس حصہ میں ہیں کہ نہ بول پاتے ہیں نہ ان کی پوری بات سمجھ میں آتی ہے۔ ترمذی کادرس تھا۔ ایسی متعدد جگہوں پر جہاں طلبہ کو سمجھانے کی ضرورت تھی، طلبہ لفظی ترجمہ کرتے ہو ئے گزررہے تھے۔ کبھی کبھار حضرت ایک آدھا فتحہ فرمادیتے جو مجھے بالکل سمجھ نہیں آیا۔ ہم یہ کیوں نہیں کرتے کہ ایک عالم دین کی زندگی بھر کی علمی خدمت کی قدر دانی کے طورپر آخری عمر میں انہیں پڑھانے کی ذمہ داری سونپے بغیر اعزاز کے ساتھ تنخواہ دیں؟ اگر انہیں پڑھانے کا بہت ہی ذوق و شوق ہوتو چند باصلاحیت علماء ان سے استفادہ کریں۔ طلبہ کا حق کیوں مارا جائے اور ایک عالم دین کو روزی روٹی کے لیے کیوں اخیر وقت تک گھسٹ گھسٹ کر کام کرنا پڑے؟ اخیر عمر میں دنیاوی تعلیم گاہوں میں اعزاز کے ساتھ یکمشت رقم اور تاحیات پنشن دی جاتی ہے۔ سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین اپنی بھر پور قوت کے زمانہ میں رخصت ہوگئے۔ انہیں اس سلسلے میں اسوۃ حسنہ قائم کرنے کاموقع نہ مل سکاتو آج کے اکابرین بعد والوں کے لیے نمونہ قائم کر دیں۔
تبلیغی جماعت میں میر ے عزیر دوست مولانا فاروق صاحب (کراچی)مقیم سعودی عرب بڑی صفات کے مالک ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ حضر ت مولانا سعید احمد خان ؒ کے بعد عربوں کو اگر کو ئی شخص متاثر کر سکااور عرب علماء وعوام جھنڈ کے جھنڈ کسی کے گر د جمع ہوئے تو وہ صرف مولانا فاروق صاحب ہیں۔ انہیں جیسے ہی بندہ کے پاکستان آنے کی اطلاع ہوئی، دیوانہ وار قیام گاہ(جامعہ مدنیہ جدید) پہنچے۔ میں لیٹ گیاتھا۔ کسی نے کہہ دیا کہ سوگیاہے۔ وہ واپس ہوگئے۔ دوسری رات ۱۲ بجے کے قریب دوبارہ پہنچے۔ دل کھول کربات چیت ہوئی۔ ان کی دعوتی دیوانگی کی وجہ سے فون پر رابطہ نہیں ہوپاتا۔ اللہ کرے، پاکستان کے اہل تبلیغ اب بھی ان کی صحیح قدردانی کرلیں۔ مولاناطا رق جمیل صاحب کے ساتھ اہل رائے ونڈ کا روّیہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ماڈل ٹاؤن لاہور میں تقریباً ان سے گھنٹہ بھر ملاقات اور گفتگو رہی ۔ وہ بھی حضرت شاہ نفیس رقم ؒ کے مجاز ہیں۔ گویا اس نسبت سے بندہ کے پیر بھائی ہوئے اور حضرت کی خانقاہ کے نظام تعلیم کے ذمّہ دار بھی۔ اس سفر میں فیصل آباد میں ان کے مدرسہ میں جانے کا موقع ملا۔ وہاں کی تعلیم میں دعوتی ذہن کے ساتھ عربی زبان پر قدرت امتیازی چیز ہے۔
لاہور کا سب سے بڑا مدرسہ جامعہ اشرفیہ ہے۔ حضرت مولانافضل الرحیم صاحب دامت برکاتہم لندن میں دعوت دے کر آئے تھے۔ حضرت نے بنفس نفیس جامعہ کا تفصیلی معائنہ کروایا۔ وہاں کا نظام تعلیم اور کام دیکھ کر بڑی مسر ت ہوئی۔ جامعہ اشرفیہ پنجاب کی سب بڑی اسلامی یونیورسٹی ہے۔ یہاں دینی شعبوں کی اعلیٰ تعلیم(اختصاص) کے ساتھ ساتھ عصری ضرورتوں پر بھی کماحقہ توجہ دی جارہی ہے۔ کمپیوٹر، انگریزی بحیثیت زبان، عصری موضوعات پر افراد کی تیاری وغیرہ۔ مولانا فضل الرحیم صاحب کی جدیدطرز کی خانقاہ دیکھ کربڑی خوشی ہوئی۔ بندہ نے عرض کیا کہ آج ایسی ہی خانقاہوں کی ضرورت ہے۔ بندہ بھی کوشش کرے گا کہ انگلینڈسے ذکر فکر اور ترتیب کے لیے علماء و طلبہ کو بھیجا جائے۔ دوپہر کا کھانا جامعہ اشرفیہ کے ایک استاذ کے گھر تھا، نہایت پر تکلف۔ خاص بات یہ ہوئی کہ حضر ت مولانا عبد الرزاق اسکندر دامت برکاتہم مہتمم جامعہ بنوری ٹاون اور چند دیگراہم علماء کرام بھی کھانے میں ساتھ تھے ۔
حضرت مولانا محمد حنیف جالندھری صاحب مد ظلہ مہتمم جامعہ خیر المدارس ملتان اور ناظم وفاق المدارس نے اپنے لاہور کے سنٹر غالباً الخیر فاؤنڈیشن میں استقبالیہ دیا۔ یہ سنٹر نہایت خوشنما، جدید ضروریات سے آراستہ، عصری سہولیات اورتقاضوں کے اعتبار سے تیار کیا جا رہا ہے جہاں عصری موضوعات پر علماء کرام کو تیاری کرائی جائے گی۔ عصری چیلنجزسے نبرد آزما ہونے کے لیے ٹریننگ دی جائے گی۔ مولانا جالندھری دامت برکاتہم نہایت فعال، زیرک اور عصری شعور رکھنے والی شخصیت ہیں۔ بعض قدامت پسند بزرگوں کی وجہ سے سنبھل کر اور آہستہ آہستہ کام کر رہے ہیں، لیکن ان کے مستقبل کے منصوبے نہایت وسیع ہمہ گیر ہیں۔ فرمانے لگے کہ ہمارا رخ بھی اسی طرف ہے جس طرف آپ متوجہ کرتے رہے ہیں۔ اللہ کرے، مولانا کی کاوشیں بار آور ہوں۔
جامعہ مدنیہ قدیم کریم پارک کے مہتمم حضرت مولانا رشید میاں دامت برکاتہم نے بندہ کو لاہور اور اطراف کے اکابر علماء ومشائخ سے ملانے کے لیے تقریباً پچاس ساٹھ اہم شخصیات کو کھانے پر مدعو کیاوہاں انگلینڈ۔ کے بندہ کے کرم فرماحضرت مولانا جسٹس خالد محمود بھی تھے۔ بندہ نے دل کھول کر گفتگو کی۔ اندازہ ہوا کہ ہمارے بہت سے اکابر اور بزرگ حالات کی سنگینی،دینی شعبوں کی در ماندگی اور ان کے دن بدن غیر موثرہونے سے فکر مند اورپریشان ہیں۔ متعدد اکابر علماء اور بزرگوں نے اپنی پریشانی اور خدشات کا اظہار کیا۔ بندہ نے عرض کیا کہ دو باتیں نہایت تشویشناک ہیں: (۱) عوام علماء کرام سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ (۲)ہمارا فکری دائرہ سکڑتاجارہاہے یعنی پوری انسانیت اور پوری ملت کے بجائے ہماری سوچ وفکر کی حدوداپنا ملک،علاقہ، طبقہ بلکہ اپنے ا پنے ادارہ و تنظیم تک محدود ہوتی جارہی ہے۔ کچھ علماء تو ایسے ہوں جو پوری ملت اسلامیہ کواپنا جامعہ و ادارہ اور ملت کے مختلف طبقات( علماء کرام، جدید تعلیم یافتہ طبقہ، تاجر، کاشتکار، مزدور، طلبہوغیرہ)کو اپنی کلاسیں سمجھ کر ان سب کے لیے لائحہ عمل تیار کریں۔ ہمارے اکابرین نے انگریز سے لڑکر ہمیں سیاسی آزادی دلوائی تھی، مگر ہم دوبارہ مغرب کے ہمہ جہت(سیاسی، عسکری، معاشی ،تہذیبی ،عملی فکری) غلام بن چکے ہیں۔ اب ایک اور جنگ آزادی لڑنی ہوگی، ورنہ دن بدن ہم بے بس ہوکر حالات کے سامنے سپر اندازہوتے جائیں گے۔ 
تنظیم اسلامی کے ڈائریکٹرو امیر جناب مولاناعاطف صاحب نے (جو مشہور مفسر قرآن جناب ڈاکٹر اسرار احمدصاحب کے صاحبزادے اور جانشین ہیں) اپنے سنٹر میں اپنے مخصوص رفقا کے ساتھ استقبالیہ دیا۔ بندہ کے ساتھ جناب رضوان صاحب اور جناب ڈاکٹر عبدالماجد صاحب (شعبہ عربی، پنجاب یونیورسٹی) اور چند احباب تھے۔ تقریباً دو گھنٹہ باہمی گفتگو وتبادلہ خیالات رہا۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ڈاکٹر صاحبؒ کے بعد آپ کا مشن جاری وساری ہے۔ یہ معلوم کرکے بھی مسرت ہوئی کہ جناب عاطف صاحب نے اہل حق کے ایک سلسلہ میں بیعت بھی کرلی ہے۔ دعاہے کہ ڈاکٹر اسرار صاحب ؒ کے قرآن سمجھانے او رپھیلانے کا مشن اسی طرح ترقی کرتارہے۔ بندہ نے دیکھا کہ لاہور میں متعدد نوجوان علماء جدید شعبوں میں قابل قدر کام کررہے ہیں۔ ان میں ایک جناب رضا علی صاحب انٹرنیٹ کے ذریعے ایک ادارہ نافع برائے اسلامیات و اقتصادیات گلبرگ لاہور کے ذریعے تاجروں کی دینی رہنمائی کے لیے اہم کام کررہے ہیں۔ اسی طرح جناب ڈاکٹر عبد الماجد صاحب و غیرہ بھی دینی کاوشوں میں مصروف ہیں۔ کالج و یونیورسٹیوں کے طلبہ بڑی تعداد میں دین کی طرف راغب ومتوجہ ہو رہے ہیں۔ اقبال نے کہاتھا:
مسلماں کو مسلماں کردیا طوفانِ مغرب نے
واقعہ یہ ہے کہ مغرب کے استحصالی حربے، مسلمانوں کے ساتھ مسلسل نا انصافیاں، افغانستان، عراق، بوسنیا میں مظالم، اب شام میں اہل سنت کے متعلق مغرب کی منافقت نے نئی نسل کے سامنے مغرب کی اسلام دشمنی الم نشرح کردی ہے اور مغرب کی انسانیت دوستی،انسانی حقوق،مساوات و انصاف کی حقیقت کھول دی ہے اور نئی نسل کو اللہ ورسول کے دامن میں پناہ لینے پر مجبور کردیاہے۔ کاش علماء کرام اس نادر موقع سے فائدہ اٹھاکر ان کی صحیح ومثبت رہنمائی کرسکیں اور انہیں ردّعمل کے طور پر انتہاپسندی کی طرف جانے سے روک سکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عرب علما اور اخوان نے جس طرح دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف علمی وفکری کام کیاہے، وہ برصغیر میں نہیں ہوسکا۔ عرب ممالک کے حالیہ انقلابات میں وہاں کے تمام طبقات،تاجر، کاشتکار، ملازم پیشہ، جدید تعلیم یافتہ، مزدور حتٰی کہ اقلیتیں تک ان کے ساتھ میدان میں نکل آئیں جبکہ پاکستان میں افغانستان پر امریکی یلغار کے وقت جب دینی جماعتیں باہر نکلیں تو ان کے ساتھ صرف مدرسوں کے طلبہ اور کچھ دینی کارکن نظرآئے۔ شاید اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ نصف صدی میں عرب ممالک کی دینی جماعتوں (علماء و اخوان) وغیرہ نے کبھی عوام سے پیسہ اور چندہ نہیں مانگا بلکہ اپنی آمدنی کا پانچواں، چھٹا، ساتواں، آٹھواں حصہ حسب توفیق غریبو ں اور خدمت خلق کے کاموں میں خرچ کیا۔ ان کے رہنما ہمیشہ غریبوں میں رہے۔ ہمارے ہاں یہ صورت حال ہے کہ پیر ومشائخ ہوں یا مہتمم صاحبان یا تبلیغی امرا و اکابر، سب اہل ثروت میں گھرے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، غریب آدمی سے ملنے اور ان سے بات کرنے کے لیے کم ہی وقت نکال پاتے ہیں۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم آج ہندو پنڈتوں کی طرح دان دکھشنا(زکوٰۃ ،صدقات، ہدایا) پر راضی ومطمئن اور قانع ہوچکے ہیں۔ ملک کانظام اجتماعی تمام شعبے یہودونصاریٰ (مغرب) کی تیار کردہ قوتوں کے حوالے کردیے ہیں۔ ہمیں بس دان دکھشنا دیتے جاؤ، باقی ملک کو جس طرح چلاؤ ہمیں سروکارنہیں۔ اس ذہن کے ساتھ نہ ملک میں ترقی وتبدیلی لائی جاسکتی ہے نہ د ین کا غلبہ ہوسکتاہے۔ 
لاہور میں مشہور نقشبندی بزرگ جناب مقبول احمد نقشبندی دامت برکاتہم ملنے کے لیے تشریف لائے۔ کئی گھنٹے نشست رہی۔ آپ سلوک واحسان کی راہ سے بڑا کام کررہے ہیں۔ آپ کی جدوجہد مشرق بعید (انڈونیشیا، ملائشیا وغیرہ) تک وسیع ہے۔ بندہ ان کی سادگی و انکساری، شفقت ومحبت اور دینی تمام شعبوں کی قدردانی سے بہت متاثر ہوا، جبکہ سال گزشتہ بھارت میں ایک پاکستانی نقشبندی بزرگ برکۃ العصر و قطب الاقطاب بن کر نازل ہوئے اور پروپیگنڈے کی بھرمارسے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ دونوں میں زمین آسمان کا فرق نظر آیا۔
بندہ کے سفر پاکستان کا ایک بنیادی مقصد کتب کی تلاش تھا، خاص طور پر ایسی کتب جن سے معلوم ہو کہ آج عالمی دجّالی قوتیں پوری انسانیت بالخصوص ملت اسلامیہ کو کنٹرول اور بے بس کرنے کے لیے کیا کیا منصوبے (علمی، فکری، تبذیبی، عسکری، سیاسی) بنا رہی ہیں۔ دنیا میں قومیں ر یسرچ وتحقیق کی بدولت ترقی کرتی ہیں۔ آج مغربی اقوام اپنی قومی آمدنی ((GDPکا چار سے چھ فیصد ریسرچ وتحقیق پر خرچ کرکے پوری دنیا کو غلام بناچکی ہیں۔ ایک اسکالر پندرہ بیس سال جان توڑ محنت کرکے کسی موضوع پر ریسرچ کرتاہے، پھر کوئی تصنیف وجود میں آتی ہے۔ عرب علماء کی ذہنی بیداری کے سبب ایسی تحقیقی کتب جلدی عربی میں ترجمہ ہو جاتی ہیں جبکہ اردو میں بہت ہی کم کتب کا طویل عرصہ کے بعد تر جمہ ہوپاتاہے، وہ بھی جدید تعلیم یافتہ کچھ باذوق افراد کرتے ہیں۔
بندہ اپنے کرم فرمامولانا مسعود میاں صاحب کے ہمراہ انار کلی کے اردو بازار میں خاک چھانتارہا۔ ہمارے دینی مکتبے فضائل ومسائل، درسی کتب کی شروحات، مواعظ وملفوطات، سوانح، عقائد وقصص کی کتب سے بھرے پڑے ہیں، ریسرچ وتحقیق برصغیر سے تقریباً رخصت ہوچکی ہے۔ خاص طور پر عصر حاضر میں انسانیت کو درپیش مسائل و چیلنجز کے حوالے سے کوئی کام نہیں ہورہا۔ یہ سارے میدان کا فروں کے لیے مختص ہیں۔ بقول ایک ایرانی شاعر:
اے فرنگی ما مسلمانیم،جنت مالِ ماست
درقناعت حور و غلمان نازونعمت مالِ ماست 
اے فرنگی اتفاق وعلم وصنعت مالِ تو
عدل و قانون ومساوات وعدالت مالِ تو
شغل عالم گیری وجنگ وجلالت مالِ تو
اس سفر میں ایک دن کے لیے حضرت شاہ عبد القادر رائے پوری ؒ کی بستی ڈُھڈیاں ضلع سرگودھامیں بھی حاضری کا موقع ملا جہاں حضرت رائے پوری ؒ آرام فرماہیں اور آپ کے خاندان کے لوگ آباد ہیں۔ ڈھڈیاں نہایت ہی پرسکون، پرفضا بارونق، بر لبِ نہر ایک نہایت چھوٹی بستی ہے۔ دل چاہا کہ چند دن دنیا کے جھمیلوں سے ہٹ کر یہیں رہ پڑیں۔ حضرت کے موجودہ جانشین اور مدرسہ کے ذمہ داروں سے ملاقات ہوئی۔ بندہ کے ساتھ نہایت ہی محبت شفقت اعزازواکرام کا معاملہ فرمایا۔ حضرت رائے پوری ؒ کے مزار پر دیر تک سوچتا رہا کہ حضرت نہ مقرر تھے نہ مصنف، لیکن برصغیرکے دور آخرکے اکابرثلاثہ میں شمار ہے۔ تعلق مع اللہ، ملت کا درد وغم، وسعت ظرفی کی بدولت کیاکچھ کرگئے۔ جو درِ دولت پر پہنچ گیا، اس کے دل کی دنیاآباد ہوگئی۔ آج سب کچھ ہے، بڑے بڑے شاندار جامعات، ہزاروں لاکھوں کے اجتماعات، شعلہ بیان مقررین، تک مگردلوں کی بستی ویران۔
ایک دن کے لیے رفیق محترم مولانا زاہدالراشدی صاحب دامت برکاتہم کے ہاں گوجرانوالہ جانا ہوا۔ بندہ کے ساتھ کرم فرما رضوان نفیس صاحب، جناب عبدالماجدصاحب بھی تھے۔ مولانا نے الشریعہ اکیڈمی میں اجلاس رکھا تھا۔ تھوڑے وقت میں شہر واطراف کے چیدہ چیدہ لوگوں سے ملاقات ہوگئی۔ بندہ نے عصر حاضر کے مسائل پر گفتگو کی۔ معلومات کی حد تک برصغیر کے علماء میں مولانا زاہدالراشدی ایسی شخصیت ہیں جن کی تحریریں نئی نسل کے لیے شعور وآگہی اور راہِ عمل فراہم کرتی ہیں۔ مولانا راشدی صاحب کی سادگی، انکساری، تواضع لوگوں کے لیے حجاب بن گئی۔ آج کے عصری مسائل و چیلنجز پر مرتب ومرصع تحریروتقریر مولانا کا امتیاز ہے۔ قوتیں جب زوال کا شکار ہوتی ہیں تو اپنے صحیح لوگوں اور اپنے محسنوں کی ناقدری کرتی ہیں۔ برصغیر میں مولانا راشدی کی صفات والا شخص دُوردُور تک نظر نہیں آتا۔ اس بار عزیزی عمار ناصر صاحب میں کافی تبدیلی نظر آئی۔ ان میں پختگی کے ساتھ سنجیدگی ومتانت نظر آئی۔ ان کی تحریریں علم وتحقیق کا مرقع ہوتی ہیں۔ موضوع پر گرفت کے اعتبار سے برصغیر میں ان کے ہم عصروں میں کوئی ایسا نظر نہیں آتا۔ بندہ نے عمار صاحب سے ایک بار کہا کہ آج ضرورت دین کی نئی تعبیروتشریح کی نہیں، بلکہ تجدیدایمان کی ہے۔ ہر دور میں تجدید ایمان (ایمان میں اتنی قوت پیدا کر دی جائے کہ ہر حالت میں احکامات پر چل سکے) سے نشاۃ ثانیہ ہوئی ہے جیسے آخری دور میں سید احمد شہیدؒ ، مولانا الیاسؒ اور شیخ حسن البناء وغیرہ نے کیا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے والد اور دادا کے نقش قدم پر جمادے ۔
ایک دن کے لیے فیصل آبا د جانے کا موقع ملا۔ فیصل آباد پاکستان کا تیسرا بڑاشہر ہے۔ یہ صنعتی شہر پاکستان کا مانچسٹر کہلاتا ہے۔ وہاں کے دینی جامعات میں جانا ہوا۔ خاص طور پر حضرت مفتی زین العابدین،ؒ مولاناطارق جمیل صاحب اور میرے شیخ حضرت شاہ نفیسؒ کے متعلقین کے مدارس میں۔ میں ظہر کی نماز کے بعد فیصل آباد کے معروف جامعہ امدادیہ میں اساتذہ کرام اور طلبہ سے تفصیلی خطاب کا موقع ملا۔ جامعہ امدادیہ کا نظم ونسق، نظام تعلیم، طلبہ کے اخلاق و آداب، علم سے وابستگی دیکھ کرمسرت ہوئی۔ خاص طور پر مفتی محمد زاہد صاحب سے مل کر خوشی ہوئی جن کے مضامین عرصہ سے ’الشریعہ‘ میں پڑھ رہا تھا۔ صاحب مطالعہ اور محقق ہیں اور قلم پر اچھی دست رس ہے۔
لاہور میں اپنی قیام گاہ جامعہ مدنیہ جدید میں ایک دن صبح بھارت کے مظاہر العلوم کے مولاناشاہد صاحب مع رفقا کے تشریف لائے۔ ان سے وہاں ملاقات نعمت غیر مترقّبہ معلوم ہوئی۔ جامعہ کے مولانا محمود میاں صاحب دامت برکاتہم سے بندہ کی مناسبت اور دلی تعلق ہے۔ مولانا بندہ کی راحت رسانی اور ہر طرح کے انتظامات پر خصوصی توجہ فرماتے ہیں۔ جامعہ مدنیہ میں طلباء کرام سے ایک دن تفصیلی گفتگو کی۔ جامعہ کے متعدد اساتذہ کرام ملنے آتے رہے، خاص طور پر مولانا مفتی محمد حسن صاحب۔ اللہ تعالیٰ ان سب بزرگوں خاص طور پر مولانا محمود میاں دامت برکاتہم کو شایانِ شان جزائے خیر عطافرمائے اور ان کے فیوض وبرکات کو عام فرمائے، آمین۔ اسلام آباد کے لیے احباب اور کرم فرمادوستوں کا شدیداصرار رہا۔ مولانا فیض الرحمن صاحب میرے خاص کرم فرماہیں۔ باربار دعوت دی۔ خود مولانا راشدی صاحب چاہتے تھے کہ اسلام آباد کا سفر ضرور ہو، مگر وقت کی قلت کے سبب آئندہ کسی اور وقت کے لیے ملتوی کرنا پڑا، اس لیے کہ وہاں کے لیے کم ازکم تین یا چار دن چاہییں۔ اتناوقت بندہ کے پاس نہیں بچاتھا۔ اسلام آباد میں ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب ؒ کے ہاں تعزیت کرنی تھی، ان کے بھائی ڈاکٹر غزالی صاحب سے بعض موضوعات پر گفتگو کرنی تھی، انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی اور دعوہ اکیڈمی کی مطبوعات خاص طور پر بیسویں صدی کے عظیم اسکالر ڈاکٹر حمید اللہ(پیرس) کی مطبوعات خریدنی تھیں، وغیرہ وغیرہ۔ 
اسی طرح لاہور میں مجلس احرار کے مرکزی دفتر میں میر ے عزیز دوست اور احراری رہنماومجلس احرار کے سیکرٹری جنرل جناب عبدالطیف چیمہ صاحب نے دوستوں سے ملاقات اور باہمی تبادلہ خیالات کے لیے ایک شام نشست کا پروگرام ترتیب دیا۔ گفتگو کاموضوع تھا ’’ملت اسلامیہ کو درپیش چیلنجز اور ہماری ذمہ داریاں‘‘۔ بندہ نے تفصیل سے اظہار خیال کیا۔ اتفاق سے اسی مجلس میں شبیر احمد میواتی صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ انہوں نے قائد اعظم کی زندگی اور سیاسی سوچ پر ایک ضخیم تنقیدی کتاب ’’توصاحب منزل ہے کہ بھٹکاہوا راہی‘‘ (مصنف: نور محمد قریشی ایڈووکیٹ) پیش کی جو ان سے دوستی کا ذریعہ بن گئی۔ ملتان سے حضرت امیر شریعت ؒ کے نواسے اور میرے کرم فرما مولانا سید کفیل شاہ بخاری صاحب دامت برکاتہم اپنے رفقا کے ساتھ تشریف لائے۔ بندہ کو دو نہایت علمی تحفے عنایت کیے: (۱) ماہنامہ ’’احرار‘‘ کا حضرت مدنی ؒ نمبر (۲)ماہنامہ احرار ہی کا ’’امیرشریعت ؒ نمبر‘‘۔ تعجب ہے، احرار کا مشن غلامی کے دور میں نہایت ہمہ گیر ووسیع تھا۔ احرار مسلمانوں کے بڑے بڑے اجتماعی مسائل میں کوشاں رہی۔ (دیکھیے ’’تاریخ احرار‘‘ از جانباز مرزا) لیکن آزادی کے بعد احرار عقیدۂ ختم نبوت تک سکڑ کر رہ گئی، بجائے اس کے کہ مسلمانانِ پاکستان کے اجتماعی مسائل میں رہنمائی کرتی۔ آج کل برصغیر میں ہم لوگوں نے ملک وملت کے تمام سیاسی، معاشی، تعلیمی، تہذیبی مسائل مغرب کی دجاّلی طاقتوں کے ایجنٹوں کے سپرد کر دیے ہیں۔ تاریخ تلاوت کے لیے نہیں ہوتی، ماضی کے واقعات وطرز عمل سے سبق سیکھنے کے لیے اور مستقبل کے لیے راہِ عمل کی درستی کے لیے ہوتی ہے۔ ہم بڑی آسانی سے حضراتِ صحابہؓ سے اجتہادی غلطیوں کے صدور اور ائمہ اربعہ سے بے شمار فقہی مسائل میں خطاوغلطی کا احتمال تو تسلیم کرتے ہیں، مگرماضی قریب (بیسویں صدی) کے اکابرین سے کسی سیاسی یااجتماعی مسئلہ میں اجتہادی خطا کے احتمال کے تصور تک کو کفروگمراہی سے کم نہیں سمجھتے۔ پھر ماضی کی کسی غلطی کی درستی کی کیاصورت ہو؟
واقعہ یہ ہے کہ برصغیر میں جنگ آزادی میں سب سے زیادہ قربانیاں علماء حق نے دیں جس کے طفیل آزادی نصیب ہوئی، مگر انگریزکے نکلتے ہی یہ عجیب فیصلہ ہو اکہ ہم ملک کو آزاد کرکے اپنا کام کرچکے ہیں، اب ہم اپنے دینی شعبوں میں واپس جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ انگریز کے نکل جانے سے سارے مسائل خود بخود حل ہو گئے؟ انگریز سو سالہ نظام تعلیم سے جو کالے انگریز پیدا کرکے انہیں اپنا جانشین بناکرنکلا، کیا ان کا رخ اسلام کی طرف ہوگا؟ حقیقی مسائل تو اب آزادی کے بعد پیداہوئے تھے کہ ملک کی تعمیر وترقی کس نہج پر ہو، کس قوم وطبقہ کی کیاپوزیشن ہو، مستقبل میں ملک کا رخ کیا ہو! علماء حق جنہوں نے ڈیڑھ سوسالہ جنگ آزادی میں زبردست قربانیاں دیں، اسی طرح تحریک پاکستان میں جب تک اسلام کا نام استعمال نہیں ہوا اور علماء کی حمایت حاصل نہ ہوئی، لیگ کی د و سیٹوں کی بھی حیثیت نہیں تھی۔ آزادی کے بعد ملک کی صحیح تعمیر وترقی اور درست رخ پر رکھنے کے لیے علما ودینی قوتوں کا میدان میں رہناضرور ی تھایا میدان چھوڑجانا اور ملک کوپوری طرح لارڈ میکالے کی معنوی اولاد کے حوالے کردینا؟ انگریز کے نظام تعلیم نے ایسی پوری نسل تیار کر دی تھی جو رنگ ونسل کے اعتبار سے ہندوستانی، لیکن فکر وسوچ تہذیب ومعاشرت کے اعتبار سے انگریز تھی۔ اسلام وکفرکا معرکہ تاقیامت ہے۔ ٹھیک ہے، پاکستان کے مسئلے پر علماء لیگ سے ہار گئے تھے، لیکن کسی محاذ پر شکست کے بعد جنرل کو چاہیے کہ وہ میدان ہی چھوڑجائے یا اپنی کوتاہیوں کا جائزہ لے ازسر نوتیاری کرے؟ کیا ملک اور تمام مسائل کو کالے انگریز کے حوالے کردیناسادہ لوحی نہیں تھی؟ حالات اور نتائج دن بدن روز روشن کی طرح ثابت کرتے جارہے ہیں کہ میدان چھوڑدینے کافیصلہ نادرست تھا۔ ہم اس فیصلہ کو اجتہادی غلطی سے تعبیر کرسکتے ہیں جس میں مجتہد کو ایک اجر بہرحال ملتاہے، لیکن بعد والوں کے لیے ضروری ہے جو درست پہلوسامنے آجائے، اُسے اختیار کریں۔ جب سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر میں لڑائی کے مقام کے تعین اور قیدیوں کے بارے میں اپنی رائے کے بجائے بعض اصحاب کی رائے پر صاد کیا تو اب یہ کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ کسی بڑی شخصیت کی رائے پرہی تاقیامت اصرار کیوں؟
حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تن آسانی، راحت وآرام طلبی، عافیت کی خاطربعض ایسے بڑوں کے وقتی فیصلوں کوآڑ وبہانہ بنالیاہے جن کی پوری زندگی مجاہدہ ومیدان عمل میں گزری تھی تاکہ ہماری عافیت پسندی اور عیش وراحت میں خلل نہ آئے۔ انگریزکے دور میں وڈیرہ زمین دار جاگیردار بننے کے لیے اپنے ملک وقوم اور ملت سے غداری کر کے انگریز کے لیے کام کرنا پڑتاتھا۔ آج وڈیرہ وہ بھی اسلامی وڈیرہ بننے کا آسان نسخہ یہ ہے کہ کسی سلسلے کی خلافت یادینی جامعہ کا اہتمام مل جائے۔ عرب ممالک کی سب سے بڑی طاقت اخوان المسلمین کے سارے ادارے اور وسائل واثاثے جماعت کی ملکیت ہوتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً چلانے والے، منتظمین، ٹرسٹی، پرنسپل سب ہی بدلتے رہتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں تمام دینی ادارے، جامعات، تنظیمیں نسلاً بعد نسل خاندانی وراثت بن کررہ گئی ہیں جن پر خاص خاندانوں کی اجارہ داری وتسلط قائم ہے۔ کسی جگہ باصلاحیت افراد کی گنجائش نہیں، صرف خوشامدی ٹٹوؤں کا بول بالاہے۔ کیا کسی قوم وملت کے پنپنے کا یہی طریقہ ہے؟ جس اسلام نے سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان پراصرار نہیں کیا کہ وہی اقتدار پر فائز رہے تو بزرگوں کی اولاد ہی سب کچھ کیوں؟ یہ بنی اسرائیل کی امت نہیں کہ باپ کے بعد بیٹاہی ہو بلکہ امتِ محمدیہ ہے۔ یہاں کبھی عرب سے، کبھی عجم سے، کبھی مشرق سے، کبھی مغرب سے، کبھی کسی علاقے سے اور کبھی کسی خاندان وقبیلہ سے اٹھ اٹھ کر لوگ اسلام کا بول بالاکرتے رہیں گے۔
لاہورسے دوستوں اوراحباب کو الوداع کہہ کر بذریعہ پی آئی اے کراچی روانہ ہوا۔ حضرت مولانا محمود میاں صاحب دامت برکاتہم حسب معمول باوجود علالت طبع کے بنفس نفیس رخصت فرمانے ائیر پورٹ تشریف لائے۔ اللہ تعالیٰ ان کے احسانات کاشایانِ شان صلہ عطا فرمائے۔ کراچی ائیرپورٹ پر جامعۃ الرشید کے مولاناصادق صاحب منتظر تھے۔ ان کے ہمراہ بیس منٹ میں جامعۃ الرشید پہنچ گئے۔ جامعۃالرشید ایئر پورٹ اور شہر کے درمیان واقع ہے۔ جامعۃ الرشید کے متعلق متعدد احباب خاص طور سے مولانازاہدالراشدی سے بہت کچھ سن رکھاتھا کہ یہاں دینی و عصری تعلیم کی یکجائی کا منفرد تجربہ ہورہاہے۔ ایسے افراد تیار کیے جا رہے ہیں جو اعلیٰ دینی تعلیم اور ضروری عصری تعلیم کے حامل ہوں۔ حقیقت یہی ہے کہ ۱۲۰۰ سال تک ہماری اصل روایت یہی رہی ہے۔ دور نبوت صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر برصغیر پر انگریزی اقتدار تک ہماری درس گاہیں دینی وعصری تعلیم کے امتزاج کا مثالی نمونہ ہوتی تھیں۔ یہاں ایسے افراد تیار ہوتے تھے جو ملت اسلامیہ کی دینی ودنیوی تمام ضروریات پوری کرتے تھے۔ پوری بارہ سو سالہ تاریخ شاہد ہے کہ ہمیں کبھی بھی کسی دنیوی ضرورت کے لیے آج کی طرح کسی دوسرے ملک اور قوم کا محتاج نہیں ہونا پڑا۔ ہماری یہی درس گاہیں بہترین علما وفقہا،خطبا بھی پیدا کرتی تھیں اور دنیا کے بہترین طبیب، انجینئر، مورخین، جغرافیہ دان، سائنسدان، عسکری وانتظامی ماہرین بھی پیداکرتی تھیں۔ انگریز کے تسلط کے بعد جب اس نے برصغیر میں سیکولرنظام تعلیم کے ذریعے مسلمانوں کواسلام و قرآن سے بیگانہ کرکے عیسائی بنانے کی جدوجہد شروع کی تو اللہ ہمارے اکابرین کی قبروں کو نور سے بھر دے، انہوں نے بروقت دین و تہذیب کے تحفظ و بقا کے لیے مدارس کے ذریعے دینی نظام تعلیم کی بنیاد رکھی۔ یہ بڑامبارک اور صحیح فیصلہ تھا جس کی بدولت برصغیر دوسرا اسپین بننے سے بچ گیا، مگر ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ حالات کے جبر کے تحت دفاعی اور وقتی فیصلہ تھا۔ ان بزرگوں نے ساتھ ہی اسلام کے غلبہ اور انگریزکو نکال کر دوبارہ برصغیر کو اسلامی ملک بنانے کی جدوجہد بھی شروع کی جس میں وہ بوجوہ کا میاب نہ ہوسکے۔ اس وقتی پالیسی و فیصلہ کو بدقسمتی سے دائمی پالیسی اور ہمیشہ کے لیے طرزِعمل قرار دے دیا گیا اور ہم نے دائمی طور پردینی ودنیوی تعلیم کی تفریق کو قبول کرلی۔ ہمیں خوب سمجھنا چاہیے کہ یہ دینی وعصری تعلیم کی تفریق انگریز کی لعنت و نحوست کی باقیات ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے مذہبی طبقہ کبھی دنیا میں خلافت ارضی پر متمکن نہیں ہو سکتا۔ آج علوم میں دین ودنیاکی تفریق ہماری تباہی و ذلت کا اصل بنیادی سبب ہے اور جب تک ہم اس لعنت کو ختم نہیں کرتے، ہمیں محتاج، محتاج اور محتاج ہی رہناہے، نہ صرف مغرب اور کفریہ طاقتوں کا بلکہ اپنے ملکوں میں بھی انہی دجالی قوتوں کے ایجنٹوں کا۔ شترمرغ کی طرح ریت میں سر چھپا لینے سے خطرات ٹل نہیں جائیں گے بلکہ مردانہ وار اس چیلنج کا مقابلہ کرکے نظام تعلیم کواصل نہج پر لانا ہوگا جو دور نبوت سے کے لر انگریز کی آمد تک تھا۔
غرض تشریعی وتکوینی علوم کی یکجائی آج ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے اور جامعہ الرشید اس یکجائی کا بہترین نمونہ نظرآیا۔ جامعۃ الرشید کے مختلف شعبے مثلاً کلیۃ الشریعہ اور ذرائع ابلاغ کے مختلف شعبے دیکھے۔ یہاں شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ کی کتاب ’’برصغیرکو انگریز نے کس طرح لوٹا‘‘ پر ایک نہایت موثر ومعلوماتی ڈاکومنٹری دیکھی۔ اسے ہر عالم بلکہ ہر مسلمان کو ضرور دیکھنا چاہیے۔ کسی دینی درسگاہ نے پہلی بار ذرائع ابلاغ کی عصری تکنیک پر ایسی زبردست اہلیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ جامعۃ الرشید اپنی نظافت، حسن تعمیر، طلبہ کی تربیت وشائستگی، نظام تعلیم ہر اعتبار سے ممتاز نظر آیا۔ شاید بندہ کے ذوق کو سامنے رکھ کرہی مولانا راشدی نے میر ایہاں قیام تجویز کیاتھا۔ جامعۃ الرشید نے گزشتہ چند سالوں میں جس طرح برق رفتاری سے ترقی کی، یہ دینی مدارس کے لیے نیک فال ہے۔ یہاں بندہ کو متعدد بار گفتگو کا موقع ملا۔ جامعہ کی عظیم الشان مسجد میں تفصیلی خطاب کے علاوہ اساتذہ کرام، کلیۃالشریعہ کے طلبہ، فقہ المعاملات (اسلامک اکنامکس) کے طلبہ سے مفصل بات کی۔ اذان چینل نے تفصیلی انٹر ویو کیا۔ انورغازی صاحب روزنامہ جنگ اور روزنامہ اوصاف کے کالم نگار و صحافی ہیں اور ان کے کالم نہایت اثر انگیز ومعلوماتی ہوتے ہیں۔ بندہ سے ملنے کے لیے کئی بار تشریف لائے۔ اپنی متعد دتازہ تصانیف عنایت کیں اور بندہ کا تفصیلی انٹرویو کیا۔ کراچی قیام کے دوران رات کا قیام جامعۃ الرشیدہی میں رہا۔ یہیں سے ہر جگہ آنا جانا رہا۔ روزانہ رات گئے تک محفل سجتی جس میں متعدد طلبہ واساتذہ کرام تشریف لاتے۔ جامعۃ الرشید کے صدر مفتی مولانا محمد صاحب اور مولانا سفیر احمد ثاقب صاحب ہر وقت بندہ کے ساتھ رہے۔ 
کراچی پورا ایک ملک ہے۔ کوشش کی کہ کم سے کم وقت میں اہم اداروں اور شخصیات سے ملاقات ہو جائے۔ حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے وقت لے کر ملنے کے لیے ان دونوں حضرات (مفتی محمدصاحب اورمولانا سفیر احمد ثا قب صاحب) کے ساتھ دارالعلوم کورنگی پہنچا۔ گیٹ سے داخل ہوتے ہی محسوس ہوا گویا کسی عظیم الشان اسلامی یونیورسٹی میں پہنچ گئے ہوں۔ حضرت مولانا کچھ علیل تھے، دولت کدہ پر ہی حاضری دی۔ اور بھی چند مخصوص حضرات موجود تھے۔ تقریباً بیس پچیس منٹ ملاقات و استفادہ رہا۔ بلاشبہ حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم برصغیر کی منفرد شخصیت اور برصغیر کے علما کی آبرو وسرتاج ہیں۔ ملاقات کے بعد دارلعلوم کی وسیع و خوبصورت مسجد میں ظہر کی نماز ادا کی۔ حسن اتفاق سے بندہ کی پچھلی صف میں مولانا زبیراشرف صاحب (مفتی اعظم پاکستا ن حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی دامت برکاتہم کے اکلوتے صاحبزادے وجانشین اور دارالعلوم کے استاذِحدیث) تھے۔ نہایت ہی مسرت کا اظہار کیا اور فرمایا کہ آپ کی ملاقات خلاف توقع نعمت غیر مترقبہ ہے۔ زور دیا کہ آپ یہیں قیام کریں، یہاں ہر قسم کی سہولت وراحت میسر ہوگی اور نہایت اصرار سے اسی وقت کھانے کی دعوت دی۔ بندہ نے عذر کیا کہ ابھی حضرت مولاناسلیم اللہ خان صاحب دامت برکاتہم سے ملاقات طے ہے۔ فرمایا کہ کل دوپہر کی دعوت قبول کرنی ہی ہوگی۔ بندہ نے عرض کیا کہ شام تک بتادوں گا۔ دوسرے روز مفتی محمد صاحب اور مولانا سفیر احمد صاحب کے ہمراہ پرتکلف دعوت کا لطف اٹھایا۔ حضرت مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی دامت برکاتہم سفر میں تھے۔ فون پر بات کروائی گئی۔ حضر ت نے بندہ کی آمد پر نہایت مسرت کا اظہار فرماتے ہوئے اس سیاہ کارکے متعلق اس قدر بلند کلمات فرمائے جسے بندہ اپنے لیے ذخیرہ آخرت سمجھتاہے اور دعا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ محض اپنے کرم سے حضرت مفتی اعظم دامت برکاتہم کے حسن ظن کے مطابق بندہ کو ایسا بنادے، آمین۔ سہ پہر تین بجے کے قریب حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب دامت برکاتہم کے دولت کدے پر انہی دونوں رفقا کے ساتھ حاضری دی۔ حضر ت مولانا کی صحت کئی دنوں سے علیل چل رہی تھی۔ تین دنوں سے اسباق بھی بند تھے۔ حضرت مولانا نمونہ اسلاف اور اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہیں۔ حضرت کی عیادت کے بعد بندہ گفتگو کرتارہا جس کا موضوع علماء کرام کو جدید چیلنجز وتقاضوں سے واقفیت کی ضرورت، اسلام کی تعلیم ودعوت کے لیے جدید ترین ذرائع کے استعمال، دینی وعصری تعلیم کے فاصلوں کو کم کرنا وغیرہ وغیرہ تھے۔ تقریباً پچیس منٹ کے بعد دعائیں لے کر وا پسی ہوئی۔ حضرت دامت برکاتہم کی صحت انتہائی نحیف و کمزور نظر آئی۔ حضرت سے ملاقات پر اللہ کا شکرادا کیا۔ بعد میں پتہ نہیں وہاں آنا ہوسکے یا نہ ہوسکے۔ اللہ تعالیٰ حضرت کے سایہ کو تادیر امت کے سروں پر باقی رکھے، آمین۔
واپسی پر مفتی محمد صاحب نے فرمایا کہ آج تو معجزہ ہو گیا۔ بندہ نے پوچھا، وہ کیا؟ فرمایا، میں حضر ت کا شاگرد ہوں۔ جامعہ فاروقیہ ہی میں تعلیم حاصل کی۔ آپ جن موضوعات پر گفتگوکررہے تھے، حضرت ایک جملہ بھی نہیں سن سکتے۔ فوراً برا فروختہ ہوجاتے ہیں، مگر آج حضر ت نے نہایت بشاشت سے آپ کی پوری بات سنی اور آخر تک مسکراہٹ حضرت کے لبوں پر تھی اور آپ کو دعاؤں سے نوازا۔ بندہ نے عرض کیا کہ یہ بندہ پر اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے۔ اس دور کے تقریباً سارے ہی اکابرین سے بندہ کوایسا ہی دلی تعلق و محبت ہے۔ 
زوّار اکیڈمی کے ڈاکٹر عزیزالرحمن صاحب سے ملنے زوّار اکیڈمی پہنچے۔ ڈاکٹر صاحب سے مولاناراشدی اور ڈاکٹر محمود احمد غازی ؒ کی نسبت سے غائبانہ تعارف تھا۔ خاص طور سے ششماہی رسالہ ’’السیرۃ‘‘ کی وجہ سے ملنے کا اشتیاق تھا۔ نہایت محبت وشفقت سے پیش آئے۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ گفتگو رہی۔ زوّاراکیڈمی پورے برصغیر کاایک منفرد ادارہ ہے جہاں سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر گرانقدر علمی وتحقیقی کام ہو رہا ہے۔ ہرچھ ماہ بعد تقریباً چار پانچ سو صفحات پر مشتمل ایک ضخیم علمی وتحقیقی مجلّہ نکل جاتاہے۔ اب تک تیس کے قریب شمارے آچکے ہیں۔ گویا یہ اکیڈمی پورے برصغیر کے علماء کی طرف سے فرض کفایہ اداکررہی ہے۔ آج پیر پرستی اور گانا بجانے کے انداز کے مقررین کا دور ہے۔ ان حالات میں خالص علمی وتحقیقی ادارے خون جگر سے چلائے جاتے ہیں۔ اس سطحیت اور زوال علم کے دور میں علمی و تحقیقی کام پِتہ مارنے اور جانکاہی کا کا م ہے۔ اللہ تعالیٰ زوّار اکیڈمی کے منتظمین کو پوری امت کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے۔ ڈاکٹر صاحب سے بڑی مناسبت اور دلی تعلق پیداہوا۔ لندن پہنچ کر بھی برابر فون پر رابطہ ہے۔ بندہ کو اکیڈمی کی تمام تصانیف عنایت کیں۔ 
کراچی کا اسی طرح کا ایک قابل ذکر اور قابل قدر علمی ادارہ ’’مجلس علمی‘‘ بھی ہے جو حضرت بنوری ؒ کے داماد اور مشہور محقق و مصنف مولانا محمد طاسین صاحبؒ کی یادگارہے۔ اب آپ کے صاحبزادے علم وتحقیق کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔ بندہ کے ساتھ بڑی محبت و اکرام کا معاملہ فرمایا۔ مجلس علمی کا کتب خانہ قابل دید اورقابل استفادہ ہے۔ یہاں کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ کو علمی کام اور پی ایچ ڈی وغیرہ میں مطالعہ کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے خالص علمی و تحقیقی اداروں کی قدر کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ پاکستان شریعت کونسل کے صدر، بندہ کے محسن وکرم فرما حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی دامت برکاتہم کے جامعہ میں بھی حاضری دی اور اساتذہ کرام اور منتہی طلبہ سے گفتگو کی۔ اسی طرح جامعہ بنوری ٹاؤن، دفتر روزنامہ اسلام، بلڈبینک، دار الافتاء وغیرہ میں تھوڑی تھوڑی دیر حاضر ہوکر معائنہ و استفادہ ہوا۔ بہت سی جگہوں پرباوجود شدید اصرار اور خواہش کے نہیں جا سکا جس میں خاص طور پر مولاناجمیل فاروقی صاحب کا ادارہ جامعہ اسلامیہ کلفٹن اور صدیقی ٹرسٹ شامل ہیں۔
مفتی محمد صاحب اور مولاناسفیراحمد صاحب کے ہمراہ ایک یاد گار سفر حیدرآباد کا ہوا جہاں بندہ کے ایک خاص کرم فرما مشہور صحافی و مصنف ومفکرجناب مولانا موسیٰ بھٹو صاحب بڑا کام کر رہے ہیں۔ آپ ایک معیاری رسالہ ماہنامہ ’’بیداری‘‘ تقریباً پچیس تیس سال سے سندھی زبان میں اور گزشتہ کئی سال سے اردو میں نکال رہے ہیں۔ آپ کی کئی درجن ضخیم علمی و تحقیقی وفکری تصانیف ہیں۔ خاص طور پر بیسوی صدی کے علماء،مفکرین ،مشائخ پرمنفرد کام ہے۔ شروع جوانی میں جماعت اسلامی سے سے متاثر ووابستہ رہے، پھر ایسا ردّعمل ہواکہ غلو کی حد تک تصوف کی طرف جھکاؤ ہو گیا۔ کئی سال سے آپ کی تحریریں گویا تصوف کی دعوت تھیں۔ بندہ کوشاں رہا کہ اعتدال پر لایاجائے۔ اب کافی اعتدال پیدا ہو رہا ہے۔ مولانا موسیٰ بھٹو کی زندگی مسلسل ایک مشن ہے۔ شب وروزعملی، فکری دعوتی کام میں جتے ہوئے ہیں۔ کوئی معاون ومددگا ربھی نہیں۔ سوچنا، لکھنا، کمپوزکرنا، چھاپنا، لو گوں تک پہنچانا، ایک مشین کی طرح رات دن مصروف عمل۔ آپ کی ہستی پورے سندھ میں باطل افکار اور نظریات کے سامنے ڈٹی ہوئی ہے۔ کمیونسٹ، ترقی پسند، جی ایم سید کے حامی، قوم پرست، سوشلسٹ اوراپنوں میں جو مولانا عبیداللہ سندھی کی فکرکی غلط تشریح کرتے ہیں کہ حضرات انبیاء ؑ کی بعثت کا اصل وبنیادی مقصد مترفین (حکمران، اہل ثروت، استحصالی طبقہ) کو پست کرکے مستضعفین (کمزور طبقات اور غریبوں) کو ان کی جگہ اختیارات واقتدار سونپنا تھا وغیرہ۔ غرض موسیٰ بھٹو صاحب کی تقریباً نصف صدی سے تمام باطل نظریات و افکار کے خلاف چومکھی لڑائی جاری ہے۔ 
موسیٰ بھٹو صاحب نے پر تکلف ضیافت کی۔ دل کھول کرباتیں ہوئیں۔ سال بھر کے رسالوں کے علاوہ درجنوں تصانیف میرے دونوں رفقا کوبھی ہدیہ دیں۔ بندہ نے اپنے دونوں ہم سفروں سے کہا کہ اس آدمی کی قدر کریں، ان کے بعد ان کا کوئی نعم البدل پورے سندھ میں نہیں ملے گا۔ بندہ کے نزدیک اس وقت سب سے اہم کرنے کے کام تین ہیں: (۱) دعوت یعنی غیروں کو ایمان و اسلام پہنچانا۔ یہی سارے انبیاء ؑ کا اصل مشن تھا۔ (۲)تذکیر یعنی حضرت مولاناالیاسؒ نے جو کام کیا، مسلمانوں میں آخرت کی فکر پیداکرنا، زندگیوں کو خواہشات سے احکامات کی طرف لانا اور ان کا اللہ سے رشتہ جوڑنا۔ (۳)خدمت خلق جو سرورِدوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت ملنے سے تقریباََ پندرہ سال پہلے شروع فرمایا تھا، حتی کہ پورے عرب میں آپ کا عام تعارف وپہچان خدمت خلق کا بن گیا تھا۔ ان تین کاموں کے بعد ہی دین کے سارے شعبے ہیں اور دین کے دیگر شعبوں والوں کو بھی اپنے اپنے شعبے کے ساتھ ساتھ یہ تینوں کا م کرنے پڑیں گے، تب دین کے ان شعبوں میں روح اور صحیح تاثیر پیدا ہوگی۔
جامعۃ الرشید حضرت مولانامفتی رشید احمد لدھیانوی ؒ کی یاد گار ہے۔ بندہ کی بہت پہلے لندن میں حضرت سے ملاقات ہوئی تھی۔ بندہ نے مزاج میں کچھ سختی وشدت محسوس کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ سے اتنا عظیم وہمہ جہت کام لیا کہ عقل حیران ہے۔ عصر حاضر میں حضرت کے اخلاص کی مثال مشکل سے ہی ملے گی۔ آپ نے اپنے تمام کاموں، شعبوں، اثاثوں کو اپنی اولاد کے بجائے (جو ماشاء اللہ نہایت لائق، صالح اور عصری تعلیم میں ممتاز ہے) اپنے ہونہار اور باصلاحیت شاگردوں کے سپردکیا۔ ان میں سب سے بڑھ کر مفتی عبد الرحیم صاحب ہیں جن سے ملاقات کا اشتیاق رہ گیا کہ مفتی صاحب حجاز مقدّس میں تھے۔ احباب نے فون پر کئی بار بات کروائی۔ مفتی صاحب نے ہر بار یہی فرمایا کہ آپ تشریف لائے اور میں یہاں اتنی دُور ہوں۔ کتنے عرصے سے آپ سے ملاقات کا متمنی تھا۔ بندہ عرض کرتارہا کہ آپ قبولیت دعا کے مقامات پر ہیں، اس سیہ کار کے لیے دعا کردیجیے۔ لندن پہنچ کر فون پر بات ہوئی تو فرمایا کہ جامعۃ الرشید واپس پہنچ کر ہر طرف آپ کی خوشبو اور آپ کی باتوں کے چرچے ہیں۔ اللہ کرے مفتی صاحب سے جلدی ملاقات کی کوئی تقریب پیداہو۔
بندہ اس سفر میں نوجوان فاضل مولانا عدنان کاکاخیل کی صلاحیتوں اور قوّتِ عمل سے کافی متاثر ہوا۔ آپ اسیر مالٹا حضرت مولانا عزیرگل ؒ کے بھائی کے، جو خود بھی بڑے عالم اور فاضل دیوبند تھے، پوتے ہیں۔ حضرت مولانا عزیر گل ؒ حضرت شیخ الہندؒ کے خادمِ خاص، جید عالم دین اور مشہور مجاہد آزادی تھے۔ چند سال قبل جب عدنان کاکاخیل صاحب نے پاکستان کے ڈکٹیٹر وصدر جنرل مشرف کو بالمشافہہ اپنی تقریر میں للکاراتھا، وہ منظر بندہ نے انٹرنیٹ پر دیکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ انہیں نظر بد سے بچائے اور ان کی زبردست صلاحیتوں سے ملت اسلامیہ پاکستان کو فائدہ پہنچائے۔ آپ ہر ماہ تقریباََ تین ہفتے جامعہ فریدیہ اسلام آباد اور ایک ہفتہ جامعۃ الرشید (کراچی) کے مختلف شعبوں میں مصروف رہتے ہیں۔ ملاقات پر کہنے لگے کہ طویل عرصہ سے آپ سے ملنے کا متمنی تھا۔ جب آپ کا پہلا مضمون پڑھاتھا تو مولانا راشدی صاحب سے آپ کے متعلق دریافت کیا۔ انھوں نے فرمایا کہ شروع زندگی کا بڑا حصہ تبلیغی جماعت میں گزرا، مگر ’’جراثیم‘‘ ہمارے والے ہیں۔ کہنے لگے کہ آج ہی اسلام آباد واپسی کا دن ہے، مگر کچھ دن آپ کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔ غرض چار پانچ دن مزید بندہ کے ساتھ ٹھہرے رہے۔ لندن پہنچ کر بھی عدنان صاحب سے برابر رابطہ ہے۔ اسلام آباد میں کالج اور یونیورسٹیوں کے طلبہ میں دینی تعلیم کے لیے کوشاں ہیں۔ گزشتہ دنوں کہنے لگے کہ آج کل ایک ایسا فورم تشکیل دینے میں لگاہوا ہوں جہاں ملت کا درد اور فکررکھنے والے مختلف طبقات، مختلف مسالک کے اہل علم و اہل فکر سر جوڑکر بیٹھیں، غور و خوض کریں اور جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعے ملت اور انسانیت کو درپیش مسائل کا حل پیش کریں اور دنیاکواسلام کا مثبت پیغام پہنچائیں۔ دعاہے اللہ تعالیٰ عدنان صاحب کی کا وشوں کو بار آور فرمائے اور ان کو بہترین رفقائے کار فراہم کرے ۔ آمین یا رب العالمین۔

نابالغی کا نکاح اور سیدہ عائشہ کی عمر ۔ چند نئے زاویے (۲)

مولانا محمد عبد اللہ شارق

بلوغتِ سیدہؓ کے قائلین سے ایک سوال:

اول الذکر حضرات جو ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ کو بوقتِ نکاح بالغ ثابت کرنے پر مصر ہیں‘ ان کا مقصد بھی بالعموم یہی ہے کہ اس نکاح کا اخلاقی جواز ثابت کرکے اس پر ہونے والے اعتراضات کا دفعیہ کیا جائے۔ تاہم اپنی اس کاوش کی بنیاد انہوں نے اخلاقیات کے جدید معاشرتی تصورات پر رکھی ہے۔ تبھی تونابالغی کے نکاح کو بنیادی طور پرغیر اخلاقی تسلیم کرلیا ہے۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر موجودہ دور کی نئی معاشرتی اخلاقیات ہی ان حضرات کے نزدیک معیار اور کسوٹی قرار پائی ہیں تو انہیں دیکھ لینا چاہیے کہ کیا بوقتِ نکاح حضرت عائشہ ؓ کو بالغ ثابت کردینے سے یہ نکاح ہماری جدید سماجی وتہذیبی اخلاقیات سے ہم آہنگ ہو جائے گا؟ ہمارے خیال میں ’’ہنوز دلی دور است‘‘ ۔ جس مقصد کے لیے حضرت عائشہ ؓ کو بوقتِ نکاح بالغ ثابت کرنے کی سعیِ بلیغ کی گئی‘ وہ مقصد ابھی تک ہاتھ نہیں آیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر حضرت عائشہؓ کو بوقتِ نکاح بالغ ہی تسلیم کرلیا جائے تو ان کی عمر اس وقت زیادہ سے زیادہ کتنی رہی ہوگی؟ بلوغت کے قائلین کے اپنے قول کے مطابق زیادہ سے زیادہ یہی کوئی تقریباً پندرہ سال۔ دوسری طرف اس وقت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک تھی تقریباً پچاس سال۔یعنی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدہ عائشہؓ کی عمر کے درمیان تقریباً پینتیس سال کا تفاوت۔عمر کے اس تفاوت کے ساتھ ہونے والے نکاح کو ہمارے معاشرہ میں کس نظر سے دیکھا جاتا ہے؟ مکرر کہہ دیتا ہوں کہ ایک پختہ عمر کے مرد اور لڑکپن کی حدود سے گزرنے والی دوشیزہ کے باہم نکاح کو ہماری جدید گلوبل سوسائٹی میں کن نگاہوں دیکھا جاتا ہے؟اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ اب خود بتائیے کہ عمومی روایات کے برعکس حضرت عائشہؓ کو بوقتِ نکاح بالغ ثابت کرنے کا فائدہ کیا ہوا؟ اصل معاملہ تو جوں کا توں ہے۔ نہ حضرت عائشہؓ کا نکاح دورِ جدید کی سماجی ومعاشرتی اخلاقیات سے ہم آہنگ ہوا اور نہ ہی معترضین کے اعتراضات کا کما حقہ سدباب ہوا کیونکہ ان حضرات کی یہ کاوش معترضین کے لیے اطمینان کا کوئی سامان نہیں کرسکی۔ 

سیدہؓ کے نکاح میں پوشیدہ مصالح اور مقاصد:

جن حضرات کو حضرت عائشہؓ کے نابالغی کے نکاح پر کسی طور اطمینان نہیں ہوتا‘ ان کا ایک اعتراض یہ ہے کہ اتنی کم عمری میں حضرت عائشہؓ کے ساتھ عقدِ نکاح فرمانے میں پیغمبر کی آخر کیا حکمت اور مصلحت تھی؟ دوسرے حضرات کی طرف سے عموماً اس کی یہ توجیہات پیش کی جاتی ہیں:
  • حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ اخوت اور اپنائیت کے رشتہ میں گہرائی پیدا کرنے کے لیے آپ نے یہ نکاح فرمایا۔
  • علوم ومعارف کا جو خزانہ حضرت عائشہؓ ہی کے ذریعہ سے خدا کو امت تک پہنچانا مقصود تھا ‘ اس کے لیے ضروری تھا کہ سیدہ عائشہ ؓ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شب وروز کی رفیق اور شریکِ حیات بنتیں۔وغیرہ وغیرہ
تاہم اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ حضرت عائشہؓ کے ساتھ نکاح فرماتے ہوئے یقینی طور پر یہ مصالح آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اول الذکر حضرات کو یہ کہنے کا موقع ملتا ہے کہ بے شک حضرت عائشہؓ سے نکاح فرمانے کی بدولت یہ ثمرات حاصل ہوئے کہ حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ رشتہ کو بھی پائے داری ملی اور حضرت عائشہؓ کے ذریعہ علوم ومعارف کا خزانہ بھی امت کو منتقل ہوا، مگر اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ حضرت عائشہؓ کے ساتھ نکاح فرمانے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود بھی یہی تھا۔ نیز ان حضرات کے مطابق اس نکاح کی تجویز بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت ابوبکرؓ کی بجائے حضرت خولہ بنتِ حکیمؓ کی طرف سے آئی جس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ یہ مقاصد پیشگی طور پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر نہ تھے اور نہ ہی حضرت ابوبکرؓ کے سامنے تھے۔
حضرت خولہ بنتِ حکیمؓ کی تجویز والا نکتہ حال ہی میں جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنے ایک مضمون کے اندر اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر اس نکاح کی تجویز آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت ابوبکرؓ کی طرف سے سامنے آئی ہوتی تو کہا جاسکتا تھا کہ ان حضرات کے پیش نظر یہ مقاصد رہے ہوں گے، جبکہ ایسا نہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ غامدی صاحب کے اس نکتۂ نظر میں کوئی حقیقت پسندی نہیں پائی جاتی۔ بالکل سامنے کی بات ہے کہ حضرت خولہؓ نے تجویز تو پیش کی تھی، مگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ نکاح کرنے پر مجبور نہیں کیا تھا۔ یہ خیال اولاً آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ آیا تو کیا ہوا؟ حضرت خولہؓ کی اس تجویز کو آنحضور نے قبول تو اپنی ہی رضاو رغبت سے کیا ہوگا‘ کیا یہ ممکن نہیں کہ اس تجویز کو قبول کرتے ہوئے مذکورہ مصالح ومقاصد آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر رہے ہوں؟ اگر اس ایک پہلو پر غور کرلیا جائے تو امید ہے کہ غامدی صاحب کے مضمون میں اٹھائے گئے نکتہ کی بنیاد سرے سے ہی ختم ہوجائے گی۔ نیز غامدی صاحب نے اپنے مضمون میں لکھاہے کہ ’’سیدہ کے بارہ میں اگر کسی رؤیا کی بنا پر اس طرح(نکاح) کا کوئی خیال آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں رہا بھی ہو تو آپ نے ہرگز اس کا اظہار نہیں کیا۔ حدیث وسیرت کا ذخیرہ آپ کی طرف سے اس نوعیت کے کسی ایماء‘ اشارے یا تجویز سے بالکل خالی ہے۔‘‘ ان کا دعوی کہ ’’بالکل خالی ہے‘‘ درست نہیں۔ ایک ایسے رؤیا کا پتہ ملتا ہے کہ سیدہ کے ساتھ نکاح سے قبل ہی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہؓ کے ساتھ نکاح کی بشارت دے دی گئی تھی۔ ملاحظہ کیجیے:
’’عن عائشۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لہا: اریتک فی المنام مرتین ‘ اری انک فی سرقۃ من حریر ویقول الملک: ہذہ امرأتک فاکشف فاذا ہی انت ‘ فاقول ان یک ہذا من عند اللہ یمضہ‘‘ [صحیح البخاری حدیث نمبر ۳۸۹۵۔ ۵۰۷۸۔ ۵۱۲۵۔ ۷۰۱۱۔ ۷۰۱۲]
یعنی ’’حضرت عائشہؓ خود نقل کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بتایا کہ میں نے تمہیں دو دفعہ(بعض روایات کے مطابق تین دفعہ) خواب میں دیکھا کہ تم ریشم کے کپڑے میں لپٹی ہوئی ہو اور فرشتہ بتاتا ہے کہ یہ آپ کی بیوی ہے۔ میں کپڑا ہٹاتا ہوں تو وہ تم ہوتی ہو۔ پس میں سوچتا ہوں کہ اگر یہ خواب اللہ کی جانب سے ہے تو وہ خود ہی اسے ظاہر فرمادے گا۔‘‘صرف صحیح البخاری میں مکرر پانچ دفعہ آنے والی یہ حدیث غامدی صاحب کی نظر سے اوجھل رہ گئی ‘ عجیب بات یہ نہیں۔ عجیب ان کا یہ دعویٰ ہے کہ ’’سیدہ کے بارہ میں اگر کسی رؤیا کی بنا پر اس طرح(نکاح) کا کوئی خیال آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں رہا بھی ہو تو آپ نے ہرگز اس کا اظہار نہیں کیا۔ حدیث وسیرت کا ذخیرہ آپ کی طرف سے اس نوعیت کے کسی ایماء‘ اشارے یا تجویز سے بالکل خالی ہے۔‘‘ 
حاصلِ کلام یہ کہ اس امکان کو بالکلیہ رد نہیں کیا جاسکتا کہ حضرت عائشہؓ کے ساتھ نکاح فرماتے ہوئے یہ مصالح آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر رہے ہوں، بلکہ غالب امکان یہی ہے کہ رہے ہوں گے کیونکہ اس نکاح سے حاصل ہونے والے یہ فوائد اور مبارک ثمرات اتنے خفیہ نہیں تھے کہ نظر ہی نہ آتے۔ تاہم چونکہ اس کا کوئی قطعی ثبوت نہیں اس لیے اگر فرض کرلیا جائے کہ پیشگی طور پر سامنے نہیں رہے ہوں گے تو ایک اصولی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نکاح میں مضمر ان اضافی مصالح ومقاصد کومتعین کرنے کی آخر ہمیں ضرورت کیا آپڑی ہے؟ جب کم عمری کی شادی میں اصولی طور پر کوئی ناانصافی کی بات نہیں‘ صاحبانِ معاملہ اس پر مطمئن بلکہ مسرور ہیں ‘ رخصتی کے وقت لڑکی بھی حقوقِ زوجیت ادا کرنے کی عمر تک پہنچ چکی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ بات کہ یہ معاملہ اللہ جل مجدہ کی رضاء کے خلاف نہیں ہے تو اگر ہمیں اس نکاح کے اضافی مصالح اور مقاصد معلوم نہ بھی ہوں تو آخر اس بیاہ پر اعتراض کی کیا بنیاد باقی رہ جاتی ہے!

کم سن زوجہ۔ نبی کے بے داغ کردار کی برہان:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے جو پہلو اعجاز کے درجہ کو پہنچے ہوئے ہیں اور دنیا ان کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے، ان میں ایک پہلو آپ کی کھلی ہوئی بے پردہ زندگی کا ہے۔ آپ کی زندگی کا کوئی قابلِ ذکر گوشہ پردۂ خفا میں نہیں ہے۔ جلوت وخلوت کے سارے احوال اور اعمال کھلی کتاب کی طرح سب کے سامنے ہیں۔ آپ غور کیجئے !بڑے سے بڑاانسان بھی اپنی زندگی کے ذاتی ‘ نجی اور خانگی پہلو منظرِ عام پر لانے سے کنی کتراتا ہے۔ اگر اس کی سیرت اور اس کا کردار سر تاپا صداقت وامانت سے معمور ہو تو تب بھی اسے اپنی شخصیت کے پوشیدہ پہلو ؤں کو منظر پر لاتے ہوئے ایک خوف سا محسوس ہوتا ہے اور انہیں چھپانے کی شعوری یا غیرشعوری کوشش میں مصروف رہتا ہے۔اپنی ذاتی زندگی کو گھر کی چار دیوار ی کے اندر بند رکھنے میں ہی اسے اپنی عافیت اور اپنی بڑائی کی بقاء نظر آتی ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ بڑی بڑی تمام شخصیات اندر سے کچھ اور باہر سے کچھ ہوتی ہیں یا پبلک لائف میں ان کی شخصیت پر چڑھا ہوا خول ان کی اندرونی شخصیت سے متضاد ہوتا ہے۔ بے شک ایسا بہت سے لیڈروں کے ساتھ ہوگا‘ مگر سب کو اس پر قیاس کرنا درست نہیں۔ اس کارگاہِ عالم میں کچھ ایسے انمول تاریخی کردار بھی ہیں جنہیں منافقت او ردورنگی کا طعنہ نہیں دیا جاسکتا‘ ان کی ظاہری شخصیت پر کوئی بہروپ یا مصنوعی خول نہیں وتا‘ ان کا من بھی ان کے تن کی طرح صاف اور ان کی گھریلو زندگی ان کی بیرونی زندگی کی طرح اجلی اور بے داغ ہوتی ہے۔ لیکن یہ اخلاقی جراء ت کم لوگوں میں ہوتی ہے کہ وہ پورے وثوق اور اعتماد کے ساتھ اپنی کتابِ زندگی اٹھاکے تبصرے کے لیے لوگوں کے ہاتھوں میں تھما دیں اور اس میں کوئی باک یا ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔ 
یہ صفت ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم میں بطریقِ اتم پائی جاتی ہے۔ آپ نے نہ صرف یہ کہ کبھی اپنی زندگی کے کسی گوشہ کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش نہ کی‘ بلکہ ا س کے برعکس آپ کی طرف سے اپنے سب متعلقین کو اذنِ عام تھا کہ میری ذات اور میری زندگی میں جو کچھ دیکھو‘ اسے برملا دوسروں کے سامنے بیان کردو ۔ حدتو یہ ہے کہ بیوی جیسے حساس رشتہ میں بھی کبھی آپ نے پردہ داری نہیں برتی حالانکہ بیوی انسان کی شخصیت کے جمیع پہلوؤں سے انتہائی خطرناک حد تک واقف ہوتی ہے‘ بلکہ اس کے برعکس خود اپنی ازواج کو ہی اپنی گھریلو زندگی کا ترجمان بنادیا اور لوگ آکر ان سے آپ کی گھریلو زندگی کے بارے میں معلومات حاصل کرتے تھی۔اس سلسلہ میں آپ کو کبھی یہ خطرہ محسوس نہیں ہوا کہ اس طرح میرا کوئی کم زور یا قابلِ گرفت پہلو لوگوں کے سامنے آجائے گا‘ یا میرے کسی گھریلو معمول کو غلط طور پر سمجھ کر کم زور ایمان والوں کے ایمان میں دراڑ پڑ جائے گی یا پھر میری اپنی بیویاں ہی کسی وقت کسی وقتی رنجش کے زیرِ اثر میرے بارہ میں کوئی غلط تاثر لوگوں میں عام نہ کردیں۔ ہمالیہ جتنی بلندوبالا یہ خود اعتمادی کسی ایسے انسان کے اندر جگہ نہیں بناسکتی جس کی سیرت وکردار میں ذرا بھی جھول پایا جاتا ہو۔ اپنی بات مزید واضح کرنے کے لیے ہم سید سلیمان ندوی کے ’’خطباتِ مدراس‘‘ سے ایک اقتباس نقل کرتے ہیں: 
’’بڑے سے بڑا انسان جو ایک ہی بیوی کاشوہر ہو‘ وہ بھی یہ ہمت نہیں کرسکتا کہ وہ اس کو اذنِ عام دے کہ تم میری ہر بات ‘ ہر حالت او رہر واقعہ کو برملا کہہ دو اورجو کچھ چھپا ہے ‘ وہ سب پر ظاہر کردو مگر آنحضرت کی بیک وقت نو بیویاں تھی او ران میں ہر ایک کو یہ اذنِ عام تھا کہ خلوت میں مجھ کو جو کچھ دیکھو ‘ وہ دن کی روشنی میں ظاہر کردو‘ جو بند کوٹھڑیوں میں دیکھو‘ اس کو کھلی چھتوں پر پکار کر کہہ دو۔ اس اخلاقی وثوق اور اعتماد کی مثال کہیں اور مل سکتی ہے؟‘‘( صفحہ۶۸)ایک اور جگہ کہتے ہیں:’’ انسان کے عادات ‘ اخلاق اور اعمال کا بیوی سے بڑھ کر کوئی واقف کار نہیں ہوسکتا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نبوت کا دعویٰ کیاتو اس وقت حضرت خدیجہؓ کے نکاح کو پندرہ برس ہوچکے تھے اور یہ مدت اتنی بڑی ہے کہ جس میں ایک انسان دوسرے کی عادات وخصائل اور طورطریق سے اچھی طرح واقف ہوسکتا ہے۔ اس واقفیت کا اثر حضرت خدیجہؓ پر یہ پڑتا ہے کہ ادھر آپ کی زبان سے اپنی نبوت کی خبر نکلتی ہے‘ ادھر خدیجہؓ کا دل اس کی تصدیق کے لیے آمادہ ہوجاتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے بارِ گراں سے گھبراتے ہیں تو حضرت خدیجہؓ تسکین دیتی ہیں کہ یارسول اللہ ! اللہ آپ کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔۔۔۔۔۔آنحضرت کی تمام بیویوں میں حضرت خدیجہؓ کے بعد آپ کو سب سے زیادہ محبوب حضرت عائشہؓ تھیں۔ حضرت عائشہ ؓ نو برس تک متصل آپ کی صحبت میں رہیں۔ وہ گواہی دیتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت کسی کو برا بھلا کہنے کی نہ تھی۔ آپ برائی کے بدلہ میں برائی نہیں کرتے تھی‘ بلکہ معاف کردیتے تھے۔ آپ گناہوں کی بات سے کوسوں دور تھے۔ آپ نے کسی سے اپنا بدلہ کبھی نہیں لیا۔ آپ نے کبھی کسی غلام‘ لونڈی ‘ عورت یا خادم یہاں تک کہ کسی جان ور کو کبھی نہیں مارا۔‘‘ (صفحہ ۱۰۰)
جی ہاں! اپنی بیوی کو اپنے خلوت خانوں کا ترجمان بنانے کا خطرہ مول لینا تو دورکی بات ہے‘ اگر یہی بیوی جو اپنے شوہر کے کردار کی ہر اونچ نیچ سے واقف ہے ‘ ا س کی نہ صرف بڑائی اور عظمتِ کردار ‘ بلکہ الوہی منصب کی معترف ‘ مداح او رپرزور داعی بن جائے تو دنیا کی نظر میں یہی بات بھی اس کی صداقت او رعظمت کی ایک بہت بڑی دلیل ہے۔ خصوصاً جبکہ اس بیوی کی ایک سے لے کر آٹھ تک سوکنیں ہوں‘ ہفتہ گزرنے کے بعد ایک کی باری آتی ہو‘ پھر شوہر کا زیادہ وقت ذکر وعبادت ‘ تعلیمِ دین اور یادِالہی میں صرف ہوتا ہو‘ دعوت ‘ ہجرت او رجہاد کے لیے طویل سفر الگ درپیش رہتے ہوں‘ گھر بھی مالی اعتبار سے زیادہ خوش حال نہ ہو‘ کئی کئی دن تک فاقے رہتے ہوں‘ چولہا جلانے کی نوبت نہ آتی ہو‘ راتوں کو چراغ روشن کرنے کے لیے تیل تک نہ ہو‘ گھر کی کل کائنات ایک حجرہ ہو جس کا دروازہ خستہ حالی کے باعث کبھی بند نہ ہوپایا ہو‘ پانی اور چھوہارے پہ عموماً گزارہ رہتا ہو اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ بیوی ابھی لڑکپن کی حدود سے گزر رہی ہو جب لڑکیوں کا کام کاج سے زیادہ کھیل کود میں دل لگتا ہے‘ خانہ داری کی ذمہ داریاں ٹھیک طرح اٹھا نہیں پاتیں اور کھانے پکانے میں سو طرح کی غلطیاں ہوجاتی ہیں تو سوچئے کہ اس مخصوص صورتِ حال میں اس بیوی سے کتنی غلطیاں ہونے کا امکان ہے‘ انسان سوچتا ہے کہ ان میاں بیوی کے درمیان تو ہر وقت نوک جھونک رہتی ہوگی ‘ لڑکی کے ارمان پورے نہ ہوتے ہوں گے اور وہ دل سے کبھی بھی اپنے شوہر کی نہ ہوسکی ہوگی۔ اس بیوی کو اگر خاوند دنیا کے سامنے اپنی گھریلو زندگی اور خلوت کدوں کاترجمان بناکر بٹھادے تو اسے اپنے پیروں پہ خود کلہاڑا مارنے کے مترادف سمجھا جائے گا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر اس بیوی کی تمام خصوصیات حضرت عائشہؓ میں یکجا نظر آتی ہیں۔ (دیکھئے : سیرتِ عائشہؓ ‘سیدسلیمان ندویؒ ) مگر نتیجہ اس کا یہ ہے کہ وہ نہ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر فریفتہ اور صدقے قربان ہیں‘ بلکہ نبی کی دعوت کے حرف حرف پر ایمان رکھتی ہیں‘ انہیں دل و جان سے چاہتی ہیں‘ ان کے ساتھ دفن ہونے کی تمنا رکھتی ہیں(صحیح البخاری‘حدیث ۷۳۲۸) او ران کی تعلیمات کے رنگ میں اس حد تک رنگی ہوئی ہیں کہ حیرت انگیز طور پر ان کا رونا دھونا بھی اس کم عمری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سانچہ میں ڈھل گیا ہے۔روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت عائشہؓ رونے لگیں‘ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیوں رورہی ہو؟ تو جواب دیا کہ جہنم یاد آگئی تھی۔ (ابوداود‘ حدیث ۴۷۵۵)جی ہاں! اپنے شوہر اور پیغمبر کی سیرت وشخصیت اور صداقت سے اس حدتک متاثر ہیں اور ان کی ان دیکھی غیبی خبروں پر اس حد تک ایمان رکھتی ہیں کہ ان کی بتلائی ہوئی جہنم کو یاد کرکے بیٹھے بٹھائے رونا آگیا۔ اللہ اکبر! 
پھر بات اس ذاتی مرعوبیت اور ذاتی تاثر پر ختم نہیں ہوتی ‘ معاملہ کی اصل حساسیت ان کی ترجمانی میں ہے جس میں اصولی طور پر کئی خدشات نظر آتے ہیں۔ غور کیجئے کہ بچے تو بچے ہوتے ہیں جن سے ہر قدم پر ہزار غلطیاں ہوتی ہیں‘ پھر جب ایک کم سن بچی بیوی بھی ہو جو شوہر کے کردار کے تمام پہلوؤں سے واقف ہے اور پھر معاملہ ایک نبی کی صورت وسیرت اورشب وروز کی زندگی نقل کرنے کا ہوتو سوچئے کہ اس کے لیے کتنے محتاظ ترجمان کی ضرورت ہوگی‘ کس طرح ایک ایک قدم سوچ سوچ کر اٹھانے کی ضرورت ہوگی اور اس کم سن بیوی کو یہ فریضہ سونپنے کے نتیجہ میں کتنی بے اعتدالیوں کا خطرہ ہوگا! مگر یہاں ایسا نہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ وہ جس ہستی کی ترجمان بن رہی ہیں ‘ اس کی سیرت وکردار اور حیاتِ طیبہ کا ہر پہلو شفاف اور تابناک ہے۔ 
ایسا نہیں کہ وہ بچپن کی بھول چوک اور کمی بیشی سے بری تھیں‘ بقول سیدسلیمان ندویؒ : ’’ اس عقل وشعور کے باوجود جو فطرۃً فیاض قدرت کی طرف سے ان کو عطاہوا تھا‘ کم سنی کی غفلت او ربھول چوک سے بری نہ تھیں۔ گھر میں آٹا گوندھ کر رکھتیں او ربے خبر سو جاتیں‘ بکری آتی اور کھا جاتی۔دوسری عمر رسیدہ بیبیوں کے مقابلے میں کھانا بھی اچھا نہیں پکاتی تھیں۔(سیرتِ عائشہؓ ‘صفحہ ۳۵) اور ایسا بھی نہیں کہ کبھی ان کے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کسی بات پر اختلاف نہ ہوا ہو یا رنجش کا موقع نہ آیا ہو۔ ازواج مطہرات کے ساتھ پیش آنے والے ایسے چند موقعوں کی طرف اشارہ تو قرآن مجید میں کیا گیا ہے۔ (دیکھئے: سورۃ التحریم کی ابتدائی آیات‘ سورۃ الاحزاب آیت نمبر ۸۲ تا ۹۲۔)ایک دفعہ آپ ایسی ہی کسی رنجش کی بنا پر ایک ماہ کے لیے اپنی بیبیوں سے الگ رہے۔ میاں بیوی کے درمیان چلنے والی لطیف نوک جھوک بھی یہاں چلتی رہتی تھی۔ ان تمام تر پیچیدگیوں کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کو اپنا ترجمان بنانا اور حضرت عائشہؓ کا اس ترجمانی کے اندر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک ‘صاف شفاف زندگی اور عظیم وپرہیبت کردار کی برہان بن جانا حضرت عائشہؓ کا کمال بھی ہے، مگر اس سے بڑھ کر یہ ان کے سرتاج آقائے نام دار صلی اللہ علیہ وسلم کی بے داغ سیرت ‘ صداقت وراست گوئی اور نبوت وپیغمبری کی ایک دلیل ہے۔اگر نبی کی ذات میں کوئی کجی‘ عیب یا نقص ہوتا تونبی کی یہ محرمِ راز بیبیاں جن کا باہم سوکن کا رشتہ تھاوہ کبھی تو کسی کے سامنے اس کا ذکرکرتیں‘خصوصاً کم سن بیوی جن کی عمر ابھی لڑکپن کی ہے۔جہاں رشتہ سوکن کا ہو وہاں نہ ہوتے ہوئے بھی شوہر کی ذات میں بہت سے عیب نظر آنے لگتے ہیں۔ مگر ان بیبیوں کے بیانات کو دیکھیں تو یوں محسوس ہو کہ ان کا بال بال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن کردار‘ اعلی اخلاق اور معطر صفات کا گرویدہ ہے۔ خصوصاً سب سے کم سن بی بی نبی کی مدح وثناء میں سب سے زیادہ رطب اللسان ہیں۔ بیبیوں کا آپ کی گھریلو زندگی کاترجمان بننا اپنے اندر یقیناًاور بھی بہت سی حکمتیں رکھتا ہوگا ‘ لیکن یہ بھی اس معاملہ کاایک پہلو ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ 
یوں لگتا ہے کہ آپ کے کردار کی پاکیزگئ وطہارت اور صداقت وشفافیت کے دوسرے دلائل قائم کرنے کے ساتھ ساتھ ‘ اس کی گواہی بیبیوں کے ذریعہ دلوانا خود خدا کو مقصود تھا اور اللہ ہی کے تکوینی امر کے تحت آپ نے غریب وامیر‘ کم سن ومعمر اورکنواری وبیوہ ‘ غرض ہرطرح کی بیبیوں سے شادیاں فرمائیں اور خوب کثرت سے فرمائیں تاکہ خدا کی یہ حکمت اعلی درجہ میں پوری ہو اور دنیا کے سامنے آپ کے پاکیزہ اور بے داغ کردار کی یہ شہادت’’ امر‘‘ ہوجائے‘ مگر کم فہم اور بدنصیب لوگ آپ کی ازدواجی زندگی کی اس عظیم الشان شہادت سے بے خبر‘ سب سے زیادہ اعتراض بھی آپ کی ازدواجی زندگی کے ہی مختلف پہلوؤں پرکرتے ہیں۔ ان اعتراضات سے مرعوب ہوکر روایات کے سراسر برعکس‘ نبی کی کم سن محرمِ راز حضرت عائشہؓ کی کم سنی کا انکار کرنا ناقابلِ فہم اور نبی کے عظمتِ کردار کی اس برہان کی آب وتاب گھٹانے کے مترادف ہے۔جبکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ اقدامی عمل کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بے عیب زندگی کی اس تابناک برہان کو کامل خوداعتمادی کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا اور دنیا بھرکے سامنے ان کی نبوت وصداقت کی شہادت دی جاتی۔ صلی اللہ تبارک و تعالی علیہ و علی آلہ و ازواجہ وبارک وسلم تسلیماً کثیرا کثیرا!
[اس مقالہ کی تیاری میں سید سلیمان ندویؒ کی تصانیف سے خاصی مدد لی گئی ہے‘ اللہ تعالی ہماری طرف سے انہیں نیک جزاء عطا فرمائیں۔ آمین]

مآخذ

۱۔ القرآن الحکیم
۲۔ احکام القرآن‘ امام ابوبکر احمد الرازی الجصاص(وفات:۳۷۰ھ) ط: قدیمی کتب خانہ ‘ آرام باغ کراچی
۳۔ صحیح البخاری(معہ فتح الباری) ط: قدیمی کتب خانہ ‘ کراچی
۴۔ صحیح مسلم۔ ط: بیت الأفکار الدولیۃ
۵۔ سنن ابوداود۔ ط: بیت الأفکار الدولیۃ
۶۔ جامع الترمذی۔ ط: دارالأعلام
۷۔ فتح الباری‘ حافظ ابن حجر العسقلانی(وفات: ۸۵۲ھ)ط: قدیمی کتب خانہ ‘ آرام باغ کراچی
۸۔ کتاب الأم‘ امام شافعیؓ۔ ط:دارالوفاء 
۹۔ الہدایہ‘ برہان الدین علی بن ابی بکر المرغینانی۔ ط: مکتبۃ البشری‘ کراچی
۱۰۔ سیرتِ عائشہ معہ ضمیمہ’’ تحقیقِ عمرِ عائشہ‘‘ سید سلیمان ندوی۔ط:شمع بک ایجنسی ‘ لاہور
۱۱۔ خطباتِ مدراس‘ سید سلیمان ندوی۔ طارق اکیڈمی ‘ لاہور
۱۲۔ رخصتی کے وقت ام المؤمنین عائشہؓ کی عمر‘ حافظ عمار خان ناصر‘ شاملِ اشاعت : الشریعہ ( شمارہ اپریل 2012ء)

’’شکست آرزو‘‘

عرفان احمد بھٹی

مصنف: ڈاکٹر سید سجاد حسین
ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی، 35ڈی، بلاک 5فیڈرل بی ایریا کراچی، 75950
صفحات 352، قیمت درج نہیں
دسمبر سال کا آخری مہینہ ہوتا ہے‘ ٹھٹھرتی طویل راتیں سال بھر کی خوش گوار اور تلخ یادوں کو تازہ کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ ان خوش گوار راتوں‘ چمکتے سنہرے دنوں اور ماضی کی خوش گوار یادوں میں 16دسمبر اپنی ناخوشگوار اور تلخ یادوں کی وجہ سے اداس کرنے والا بھی ہوتا ہے، جب ایک نظریہ اور ملت کی بنیاد پر وجود میں آئی، نظریاتی مملکت دولخت ہوئی، اور اغیار نے یہ طعنہ دیا کہ ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ سنہری ریشوں کی سرزمین کا تاحد نظر آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے والا لہلہاتا بے داغ سبزہ اور اس کی سب بہاریں لسانی فتنہ کی نذر ہو گئیں۔ مہربان راتیں بے مہر ہو گئی تھیں۔ انھی بے مہر بے درد لمحوں کی روداد کو ڈھاکہ یونی ورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور انگریزی کے معروف ادیب ڈاکٹر سید سجاد نے اپنی تصنیف کردہ کتاب The wastes of Time میں بیان کیا ہے جس کا اردو ترجمہ ’’شکست آرزو‘‘ سقوط ڈھاکہ کے منظر اور پس منظر کا بہترین تجزیہ ہے۔ 
ڈاکٹر سید سجاد حسین بنگال کے ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے قیام پاکستان کی جدوجہد میں فعال کردار ادا کیا‘ بطور طالب علم بھی اور بطور استاد بھی، نظریہ پاکستان کی آب یاری کے لیے دی ایسٹ پاکستان سوسائٹی قائم کی اور ایک پندرہ روزہ سیاسی مجلہ’’پاکستان‘‘ جاری کیا۔ انھوں نے دو قومی نظریے کی ترویج کے لیے بطور صحافی بھی کام کیا اور روزنامہ آزاد کلکتہ اور ’’کامریڈ‘‘ میں بھی مضامین لکھتے رہے۔ 
زیر نظر کتاب میں انھوں نے تفصیل کے ساتھ دو قومی نظریے کے بارے جدوجہد اور بنگال میں تحریک پاکستان کے قائدین اور سیاست دانوں کے کردار‘ قیام پاکستان کے بعد کے 24سالوں پرمحیط ان کی کمزوریوں اور نظریہ پاکستان سے وابستگی کا جائزہ پیش کیا ہے اور ساتھ ساتھ ہی برطانوی راج سے مسلمانوں کی آزادی دو قومی نظریے اور اس کی خاطر کی جانے والی جدوجہد کی سرگزشت‘ مسلم لیگ کے قیام 1906سے 1947 تک شرح و بسط کے ساتھ بیان کی ہے۔ 
بنگالی زبان میں مسلمانوں کی ادب کے محاذ پر کمزوری، دینی اور تاریخی لٹریچر نہ ہونے کی وجہ سے بنگالی قوم پرستوں اور ہندوؤں نے تمام صورت حال کو دو قومی نظریے کے خلاف جس طرح استعمال کیا اس کی مکمل تفصیل دی اور ساتھ ہی تاریخی حوالوں اور منطقی دلائل سے ان کی تردید بھی پیش کی گئی ہے۔ انھوں نے بنگلہ قوم پرستی اور لسانی تعصبات کے حوالے سے قوم پرستوں کے بے بنیاد دلائل کے رد میں نہایت بیش قیمت علمی لوازمہ مہیا کیا ہے۔ 
یہ یادداشتیں انھوں نے 1973میں دوران قید قلم بند کیں، جب بقول آسکروائلڈ جیل کی زندگی انسان کے جذبات کو سخت کر کے پتھر بنا دیتی ہے۔ ابتدائی ابواب میں انھوں نے اپنے ساتھ روا رکھے گئے ظالمانہ سلوک، گھر سے گرفتاری، تشدد‘ جیل میں گزرے ایام، اردو بولنے والوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں، قتل و غارت، لوٹ مار کی تفصیلات اور وہاں موجود اہل کاروں کے رویے بیان کیے ہیں۔ ڈھاکہ جیل میں اتنی تعداد میں پڑھے لکھے لوگ پہلے کبھی قیدی نہیں ہوئے ہوں گے۔ ان قیدیوں میں اکثر لوگ پی ایچ ڈی‘ یونی ورسٹی کے اساتذہ، علمائے کرام، یونی ورسٹی اور کالجز کے طلبا شامل تھے۔ غیر بنگالی افراد کو وقتاً فوقتاً تشدد کا نشانہ بنایا جاتا، اس دوران بعض تو دم توڑ گئے۔ چھاپہ مار راہ نماؤں کے سامنے غیر بنگالیوں کی شناختی پریڈ ہوا کرتی تھی اور وہ جس کو چاہتے لے جاتے اور انھیں موت کے گھاٹ اتار دیتے۔ یہ سلسلہ 1972کے موسم گرما تک چلا۔ (ص نمبر71-70) 
جیل میں موجود اپنے ’’باغی‘‘ ساتھیوں کی ذہنی کیفیات‘ سیاسی افکار اور نظریہ پاکستان کے بارے ان کے جذبات و محسوسات پر نہایت شرح و بسط سے بحث کی ہے۔ ان ساتھیوں میں متحدہ پاکستان کے آخری سپیکر فضل القادر چوہدری، عبدا لصبور خان اور خواجہ خیر الدین سابق ڈپٹی سپیکر اے ٹی ایم عبدالمتین اور روزنامہ سنگرام کے ایڈیٹر اختر فاروق قابل ذکر ہیں۔ ان ساتھیوں میں ایک ایس بی زمان تھے جو کہ عوامی لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے لیکن بعد میں شیخ مجیب الرحمن کے انتہا پسندانہ اقدامات کے خلاف بغاوت کر گئے تھے اور پاکستان کے متحد رہنے پر زور دیتے تھے۔ (ص نمبر67) اسی طرح فضل القادر چوہدری جو ہمیشہ پاکستان کے خیر خواہ اور نظریہ پاکستان کے وفادار رہے اور جب ان کے خلاف مقدمہ شروع کیا گیا تو وہ اس قدر بدحواس ہوئے کہ مجیب الرحمن کے اعلان آزادی کی حمایت کر دی اور اس کے برعکس سابق گورنر عبدالمالک نظریہ پاکستان کے مزید قائل ہو گئے اور وہ سمجھتے تھے کہ ’’پاکستانیوں‘‘ نے نظریہ پاکستان سے انحراف کر کے بڑی غلطی یہ کی ہے۔ فاضل مصنف نے 4ابواب ان موضوعات پر لکھے اور ہر شخصیت پر تفصیلی بحث کی ہے۔ 
خواجہ ناظم الدین کے خانوادہ سے تعلق رکھنے والے سیاسی زعیم خواجہ خیر الدین جو طویل عرصہ تک ڈھاکہ کے وائس چیئرمین رہے‘ ڈھاکہ میں مجیب الرحمن مخالف حلقوں میں اہم کردار کے حامل تھے۔ انھوں نے اپنے اوپر عدالت میں لگائے گئے غداری کے الزام کا پوری جرات سے دفاع کرتے ہوئے پاکستان اور اسلام کے ساتھ اپنی وابستگی کو پورے عزم اور بے باکی کے ساتھ بیان کیا اور اس پر ثابت قدم رہے حالانکہ ان کے دوستوں نے ان سے عدالتی بیان میں ذرا نرمی سے کام لینے کے لیے کہاتھا مگر انھوں نے انکار کر دیا۔ 
مصنف کے خیال میں ڈھاکہ یونی ورسٹی کے طلبہ کے علاوہ بنگال کے عام دیہاتی افراد کو زبان کے معاملہ سے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی۔ ہندوؤں کے زیر اثر بنگلہ قوم پرست عناصر نے اس مسئلے کو ابھارا، دو قومی نظریے پر یقین رکھنے والے لوگوں کی کمزوری اور معذرت خواہانہ رویوں‘ مرکزی حکومتوں کی عدم دل چسپی اور نظر انداز کیے جانے والے اقدامات نے اس کو مہمیز کیا، جس کا واضح ترین ثبوت یہ ہے کہ بنگالی سیاست کے اہم ترین سیاسی کردار یعنی خواجہ ناظم الدین، اور حسن شہید سہروردی کو بنگلہ زبان سے معمولی واقفیت تھی۔ 
کتاب کے اہم ترین ابواب وہ ہیں جن میں مصنف نے لسانی مسئلے پر تفصیل کے ساتھ بحث کی اور واضح کیا کہ برصغیر میں وحدت اور یکجہتی ہمیشہ مذہبی بنیادوں پر ہی قائم رہی ہے۔ اگر نظریات اور مذہب کے بجائے لسانیت کی کوئی اہمیت ہوتی تو 1946 کے الیکشن میں ی رجحانات واضح ہو گئے تھے کہ اس موقع پر بنگال پر راج کرنے والے اہم ترین سیاست دان اے کے فضل الحق سیاسی منظر نامے سے مکمل طور پر صاف ہو گئے۔ لوگوں نے شخصیات کو چھوڑ کر ایک نظریہ کی خاطر مسلم لیگ کو ووٹ دیے۔ سہلٹ کے ریفرنڈم نے تو اس حقیقت کو مزید واضح کر دیا حالانکہ یہاں مولانا حسین احمد مدنی ؒ کا بہت اثر تھا وہ محض عالم دین ہی نہیں بلکہ نجی زندگی میں بھی لوگوں کے لیے انتہائی قابل احترام نمونہ تھے۔ اپنی کوشش کے باوجود بھی وہ لوگوں کو دو قومی نظریہ کے خلاف ووٹ دینے پر آمادہ نہ کر سکے۔ (ص217) مصنف نے اس بات کو دلائل کے ساتھ واضح کیا ہے کہ ہندوستان کے کروڑوں باشندوں کو ایک لڑی میں پرونے والی بنیاد ہمیشہ مذہب ہی رہا ہے خواہ وہ اسلام ہو یا ہندو مت۔ ریاستوں کی تشکیل میں اگر زبان اہم ہوتی تو پھر برصغیر میں جتنی زبانیں ہیں اتنی ہی ریاستیں ہونی چاہیے تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ جب حسین شہید سہروردی نے بنگال کو تقسیم کر کے پاکستان کا حصہ بنانے کے بجائے خود مختار متحدہ بنگال کی تجویز پیش کی تو کانگریس نے اس نقطہ نظر کو رد کر دیا تھا۔ انھیں اندازہ تھاکہ اگر لسانی بنیادوں پر تقسیم کو قبول کر لیا گیا تو پھر ہندوستان کو مزید ٹکڑوں میں بانٹنے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ (ص 213) مصنف کے خیال کے مطابق یہ حسین شہید سہروردی کے خیالات کا ٹیڑھا پن اور دو قومی نظریہ پر کمزور یقین کی علامت تھی کہ وہ خود مختار بنگال کو پاکستان کا متبادل سمجھنے لگے تھے، ان کا یہ موقف درحقیقت ہندوؤں اور مسلمانوں کے مشترکہ قومیت کے تصور کو قبول کرنے کا اعلان تھا۔ ان کے خیال میں پاکستان کو ٹکڑے کرنے کا بیج اس تصور نے رکھ دیا تھا۔ (ص نمبر 214,213) بنگال کے علاقوں کی ثقافت، زبان اور ادب کے حوالے سے انتہائی اہم معلومات اس کتاب میں پیش کی گئی ہیں۔ 
لسانی مسئلہ کے حوالے سے انھوں نے مسلم بنگالیوں کی اہم ترین کمزوری کی نشان دہی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ گزشتہ دو تین نسلوں کی ثقافتی لحاظ سے عربی اور فارسی سے عدم واقفیت ایسی کمزور تھی جسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے نتیجہ میں بنگال کے مسلمان دوسرے مسلمانوں سے کٹ کر رہ گئے تھے اور نادیدہ طور پر وہ غیر محسوس رشتہ ختم ہو گیا تھا جو انھیں روحانی طور پر امت مسلمہ سے جوڑے ہوئے تھا۔ عربی، فارسی سے نابلد مسلمان آہستہ آہستہ یہ احساس کھو دیتا ہے کہ وہ کسی بڑے وجود کا حصہ ہے۔ وہ تاریخ سے بے گانہ ہو جاتا ہے اور اپنے ملک سے باہر کے مسلمانوں کے کارناموں سے اس کے اندر کوئی احساس فخر پیدا نہیں ہوتا، جواہر لال نہرو نے اپنی خود نوشت میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اپنے ماضی کے کارناموں پرمشترکہ احساس فخر سے پیدا ہونے والا تعلق ہی مضبوط رشتہ کا باعث ہوتا ہے۔ تعلیم کے شعبہ میں عربی، فارسی کا رجحان ختم ہونے سے مشترکہ احساس تفاخر ختم ہو گیا‘ یہ رجحانات پورے ہندوستان کے تعلیمی نظام میں پروان چڑھے مگر بنگال میں اردو نہ ہونے کی وجہ سے یہ اثر زیادہ گہرا تھا، باقی ہندوستان میں اردو نے عربی فارسی کی اس کمی کو پورا کیے رکھا کیوں کہ مسلمانوں کی تاریخ اور اہم ترین دینی لٹریچر اردو میں منتقل ہو گیا تھا البتہ بنگالی زبان اس دینی لٹریچر اور تاریخی ورثہ سے محروم تھی۔ بنگالی زبان میں مسلمانوں کے لکھنے والوں کا وجود بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔ (ص223,24,25) 
ہندوؤں نے 1905 میں تقسیم بنگال کی مخالفت کی اور پھر بعدازاں1947 میں مسلم لیگ کو زچ کرنے اور مطالبہ پاکستان سے دستبرداری کے لیے بنگال کی تقسیم کا مطالبہ کر دیا، اگر بنگال کی تقسیم 1905میں غلط تھی تو 1947میں درست کیسے ہو گئی، بنگلہ زبان کے ان پچاریوں نے بھارت سے کیوں مطالبہ نہ کیا وہ مغربی بنگال کو بھی آزاد کر دے تاکہ بنگلہ زبان اور کلچر کا تحفظ ایک بنگالی ریاست خود کرے ۔ اس ضمن میں انھوں نے اشتراکی عناصر کے کردار پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی یہ ایجنڈا طے کر لیا گیا تھا کہ پاکستان کو دولخت کرنے اور اس کی نظریاتی بنیادوں کو منہدم کرنے کے لیے لسانی اور معاشی صورت حال کو ہوا دی جائے گی اور ہماری حکومتیں چین کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہاں ہونے کی وجہ سے اشتراکی عناصر کی سرگرمیوں سے صرف نظر کرتی رہیں اور بائیں بازو کے لوگ مضبوط ہوتے چلے گئے جو کہ نظریہ پاکستان کے مخالف تھے (ص86) کمیونسٹ پارٹی کی اس سازش کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے بنگالی راہ نما ابوالہاشم کے بیٹے بدرالدین عمر کی کتاب کا حوالہ دیا ہے کہ پاکستان کے قیام کے فوراً بعد کلکتہ میں کمیونسٹ پارٹی کا اجلاس ہوا تھا جہاں پاکستان کے بارے حکمت عملی طے کی گئی تھی اس میٹنگ میں شیخ مجیب الرحمن بھی ایک طالب علم کے طور پر شریک ہوئے تھے اور اس کا اظہار وہ ہمیشہ کرتے رہے کہ 1947کے بعد آنکھوں میں بسے خوابوں کی تعبیر مل گئی ہے۔ 
اگر یہ طے شدہ منصوبہ نہ ہوتا تو کیسے ممکن تھا۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد کوئی کھڑا ہو اور قائد اعظم کی تقریر میں ہنگامہ کرنے کی جسارت کرے۔ اس طرح عبدالرزاق جو مصنف کے قریبی ساتھی اور ڈھاکہ یونی ورسٹی کے استاد اور تحریک پاکستان میں ان کے ساتھی تھے۔ 3سال بعد ہی مایوسی کی باتیں کرنے لگے تھے، مصنف نے ان کو پاکستان کے دفاع میں دلائل دیتے ہوئے واضح کیا کہ 200سال کے انگریزی اقتدار اور ہندو سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے ظلم سے نجات کے لیے ہی ہم نے پاکستان حاصل کیا تھا کہ اب صرف چند سال بعد ہی ہم 200سال کی تلخیوں کو بھلا کر کیسے علیحدگی کی راہ پر چل پڑیں۔ (ص 57,52) دہلی یونی ورسٹی نے 1973میں انھی عبدالرزاق کو پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری سے نوازا۔ 
کمزور مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے قائد اعظم کے ساتھ طلبا کی اس جسارت کا نوٹس لینے کے بجائے اس واقعہ کو نظر انداز کیا بلکہ ان میں سے دو افراد تو بعد میں وفاقی حکومت کے سیکرٹری کے منصب تک بھی پہنچے۔ احساس محرومی ختم کرنے کے نام پر اسی طرح کے سازشی طلبا کو دھڑا دھڑ CSP آفیسرز کے طور پر بھرتی کیا گیا۔ مصنف کے خیال کے مطابق اگر حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انگریزی کو بطور دفتری زبان کی حیثیت سے برقرار رکھا جاتا تو زیادہ بہتر اور عملی قدم ہوتا کیوں کہ آج بھی تینوں ملکوں میں عملی حیثیت تو انگریزی کو ہی حاصل ہے اردو زبان پر اصرار بلاجواز تھا، اگر بعد میں اس کو دینی اور تہذیبی نقطہ نظر سے بتدریج پروان چڑھایا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔ اس صورت حال نے ان کے حوصلے بڑھائے اور وہ کھل کر علیحدگی کی باتیں کرنے لگے ورنہ 200 سال سے ہندو سرمایہ کار کے زیر تسلط سادہ لوح مسلمان کے لیے یہ کسی صورت ممکن نہ تھا کہ وہ ایک سال بعد ہی پاکستان سے مایوسی کا اظہار شروع کر دیتے۔ حقیقت میں تو یہ کمیونسٹ پارٹی کا ایجنڈا تھا جس کو ہندوؤں نے پروان چڑھایا، پاکستان کے نادان دوستوں اور ارباب بست و کشاد نے اپنے رویوں سے اس کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور 1949میں ہی اس پر کام شروع کر دیا گیا تھا۔ جب 1949 میں کرژن ہال لٹریری کانفرنس کے موقع پر ڈاکٹر شہید اللہ نے صدارتی تقریر میں بنگالی قوم پرستی کا تصور پیش کیا، اس کانفرنس میں کلکتہ سے بھی مندوب آئے تھے۔ ان میں ڈاکٹر عبدالودود بہت اہم تھے جو پاکستان کے قیام اور نظریہ کے مخالف تھے اور ڈھاکہ منتقل نہیں ہوئے تھے۔ 
مصنف نے ایوب خان دور کے دو اہم ترین بیوروکریٹس الطاف گوہر اور قدرت اللہ شہاب کے منفی کردار اور ان کی جانب سے بائیں بازو کی حمایت کا بھی تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔ (ص 237-38) رائٹرز گلڈ کے بارے‘ جس کے مصنف ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن تھے اور شہاب کے ایسے فیصلوں سے اختلاف کرتے تھے جو لسانی مسئلہ کو ابھارنے کے لیے بنیاد بنتے دکھائی دیتے تھے۔ مثلاً شہاب صاحب کا خیال تھا کہ گلڈ کی ایگزیکٹو کمیٹی میں ہر زبان کے لوگوں کو نمائندگی دی جائے عملاً یہ مغربی پاکستان کی بالادستی کا منصوبہ تھا جو کثیر لسانی خطہ ہے اور بعد میں قوم پرستوں کے ہاتھوں یہی ایک ہتھیار کے طور پر استعمال ہونے کا خدشہ تھا۔ مصنف نے اس خطرہ کو بھانپتے ہوئے اختلاف کیا جو بالآخر شہاب کو ناگوار گزرا لیکن ان کے اصرار پر بالآخر انھیں ہتھیار ڈالنا ہی پڑے لیکن اس اختلاف کی جسارت کی بنا پر شہاب نے 3سال بعد رکنیت ختم کروا کے ہی دم لیا۔ (ص241) 
معاشی مسائل پر بحث کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے کہ وسطی ہند کی دیگر ریاستوں کی طرح بنگال کے لوگ کبھی بھی معاشی لحاظ سے خوش حال نہیں رہے۔ خوش حالی کا تصور یہاں بس اتنا ہی رہا ہے کہ جو دو وقت کی روٹی اور ناشتہ کر لے وہی خوش حال ہے کیوں کہ بنگال کا خطہ ہمیشہ قحط اور سیلابوں کی زد میں رہا اور یہاں دولت کا تصور عام ہندوستانی علاقوں کے برعکس ہی رہا ہے۔ مٹی اور گھاس پھوس کے مکان، اردگرد پھلوں کے چند درخت۔ اعلیٰ معیار کی زندگی یہاں ہمیشہ چند لوگوں کو ہی میسر رہی ہے حتیٰ کہ میزبانی کا تصور بھی یہ تھا کہ مہمان کو دال چاول دیے جاتے وہ خود ہی پکا کر کھا لیتے۔ لیکن یہ باتیں اس شدت سے پھیلائی گئی تھیں کہ ہر خاص و عام نے ان کو قبول کر لیا اگر مشرقی بنگال میں بدحالی اور استحصال تھا تو اس کا ذمہ دار بھی یہی متعصب ہندو طبقہ تھا جو بنگال پر مسلط تھا جس کے لیے مسلمانوں نے تقسیم بنگال کروائی تھی اور پھر اسی طبقہ نے 1911میں تقسیم بنگال کی تنسیخ کے لیے دباؤ ڈالا اور اس کو منسوخ کروا کے ہی دم لیا اس بنا پر تمام تر صنعت کلکتہ کے نواح میں لگی اور اعلیٰ تعلیم کے ادارے بھی یہیں قائم کیے گئے۔ تعلیم کی صورت حال تو یہ تھی کہ 1930میں جب خواجہ ناظم الدین نے The Star of India کے نام سے ایک اخبار نکالا تو انھیں اخبار کے لیے مسلمان عملہ ہی دستیاب نہ ہو سکا، جس کے نتیجے میں ایک عیسائی کو اس کا ایڈیٹر مقرر کیا گیا۔ 1911میں تنسیخ بنگال کے وقت مسلمانوں سے وعدہ کیا گیا تھا کہ ڈھاکہ میں یونی ورسٹی قائم کی جائے گی۔ ہندوؤں سے یہ بھی برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ انھوں نے انگریزوں پر زور ڈالا کہ ڈھاکہ میں یونی ورسٹی کے قیام سے کلکتہ کی یونی ورسٹی متاثر ہو گی اس لیے اس فیصلہ کو بدل دیا جائے۔ بالآخر10 سال بعد 1921میں ڈھاکہ یونی ورسٹی قائم ہوئی اور یہاں بھی مسلمان سٹاف نہ ہونے کے برابر تھا اگر کوئی کلرک بھی بھرتی ہو جاتا تو یہ بہت بڑی کامیابی تصور کی جاتی، چند مسلمان اساتذہ جو انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے یہاں موجود تھے۔ اس تعصب کا ایک مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا کہ جب تقسیم کے وقت آزاد اور کامریڈ اخبار کے مالک مولانا اکرم خان نے کلکتہ سے شفٹ ہونے کے لیے حالات درست ہونے کا انتظار کیا، وہ اپنا اخباری سیٹ اپ ڈھاکہ لے جانا چاہتے تھے، مغربی بنگال کے وزیر اعلیٰ بدھان رائے ان کے ذاتی دوست تھے، اور ان کا خیال تھا کہ انھیں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی، اور وہ آسانی سے شفٹ کر جائیں گے، لیکن وزیر اعلیٰ نے کسی بھی اخباری پلانٹ کو کلکتہ سے باہر منتقل کرنے پر پابندی لگا دی اور مولانا کو تمام اثاثے چھوڑ کر ڈھاکہ آنا پڑا۔ 
مصنف نے دو قومی نظریہ کی اہم ترین بنیاد جداگانہ انتخاب کا ذکر کرتے ہوئے مسلم قیادت کی موقع پرستی اور گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے نظریات کا جائزہ بھی لیا ہے حالانکہ جداگانہ انتخاب مسلم لیگ کی بنیاد تھی۔ نظریاتی لحاظ سے ناپختہ اور کمزور یقین والے مسلم لیگی سیاست دانوں نے خود ہی جداگانہ طرز انتخاب کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا اور اس طرح عملاً دو قومی نظریے کو غلط ثابت کر دیا‘ حسین شہید سہروردی ہی جداگانہ انتخاب کے خلاف کھڑے ہوئے اور پاکستان میں مخلوط طرز انتخاب کو رواج دے دیا گیا۔ 
19ابواب پر مشتمل کتاب میں 12مختلف ضمیمے بھی شامل کیے گئے ہیں، جن میں قرارداد لاہور سے بنگال کی تاریخ اور تحریک آزادی پاکستان کے اہم سنگ ہائے میل بھی زیر بحث لائے گئے ہیں۔ 

سیمینار: ’’حفظ قرآن کریم کے طلبہ کی تربیت اور ذہن سازی‘‘

ڈاکٹر حافظ محمد رشید

الشریعہ اکادمی کنگنی والہ، گوجرانوالہ کی علمی و فکری سرگرمیوں میں ایک سرگرمی مختلف موضوعات پر ہونے والے سیمینار بھی ہیں جن میں متنوع اہم موضوعات پر اہل فکر و دانش کو اظہار خیال کے لیے دعوت دی جاتی ہے۔ رواں سال میں اکادمی میں جن موضوعات پر سیمینار منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا، ان میں سے پہلا موضوع ’’حفظ قرآن کریم کے طلبہ کی تربیت اور ذہن سازی‘‘ تھا۔ اس موضوع پر مؤرخہ ۲ دسمبر ۲۰۱۲ء بروز اتوار بعد از نماز مغرب سیمینار کا اہتمام کیا گیا جو عشا کی نماز تک جاری رہا۔ اس سیمینار میں حفظ کے اساتذہ مدعو تھے۔ سیمینار کی صدارت اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے کی۔ مقررین میں مدرسہ نصرۃ العلوم کے قرأت و تجوید کے مایہ ناز استاد قاری سعید احمد، صفہ اسلامک سنٹر کے بانی و سرپرست جناب سلیم رؤف، دارالعلوم گوجرانوالہ کے استاد قاری عبد الشکور اور سیمینار کے مہمان خصوصی مولانا جہانگیر محمود شامل تھے جو لاہور سے سیمینار میں شرکت کے لیے تشریف لائے تھے۔ تلاوت قرآن کریم اور نعت رسول مقبول کے بعد مولانا زاہد الراشدی نے افتتاحی کلمات میں سیمینار کے کا تعارف کرواتے ہوئے فرمایا : 
ہم وقتاً فوقتاً ان عملی مسائل پر گفتگو کا اہتمام کرتے رہتے ہیں جواساتذہ و طلبہ کو درپیش ہوتے ہیں۔ ان مسائل پر گفتگو کا مقصد ان مسائل کا قابل عمل حل تلاش کرنا، جو لوگ اس میدان میں سرگرم عمل ہیں، ان کے تجربات سے استفادہ کرنا اور یہ شعور پیدا کرنا ہوتا ہے کہ طلبہ و اساتذہ کس طرح اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے جدید دور کی مفید تحقیقات سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ آج کا موضوع حفظ کے طلبہ کے مسائل و مشکلات اور ان کی تربیت کے بہتر اسالیب کی نشاندہی ہے۔ میں نے سن ۱۹۶۰ء میں حفظ مکمل کیا تھا۔ مجھے حفظ کے طلبہ کے جو مسائل محسوس ہوتے ہیں، وہ مختصراً کچھ یوں ہیں: 
یہ مشاہدے کی بات ہے کہ حفظ کرنے والے بچوں میں سے ستر فیصد بعد میں حفظ کو سنبھال نہیں سکتے۔ میرے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہر طالب علم کو حفظ کروانا ضروری ہوتا ہے؟ میری رائے میں بچے کو ایک دوپارے حفظ کروا کر استاذ کو یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ کیا یہ بچہ حفظ مکمل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں۔ اگر وہ بچہ حفظ مکمل کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے تو اس کو آگے چلایا جائے، وگرنہ انہیں۔ ایک یا دو پاروں کو پختہ کروا کے بچے کو کسی اور کام کے لیے فارغ کر دینا چاہیے۔ بچے نے جو ایک یا دو پارے حفظ کر لیے ہیں، اتنا قرآن تو ویسے بھی ہر مسلمان کو یاد ہونا چاہیے۔ ایک مسئلہ حفظ کے طلبہ کی دینی و اخلاقی تربیت کا بھی ہے کہ بچہ نما زکا کتنا پابند ہے، اسے جھوٹ سے کتنی نفرت ہے، حلال و حرام کی تمیز ہے یا نہیں، چھوٹے بڑے کا فرق جانتا ہے یا نہیں۔عام طور پر گھر والوں کی طرف سے یہ شکایت آتی ہے کہ جب سے اس نے حفظ شروع کیا ہے، یہ گھر والوں کی کوئی بات مانتا ہی نہیں۔ اس طرح جب بچہ حفظ کر لیتا ہے تو اس کے اعمال و کردار میں کوئی ایسی بات نہیں ہوتی جو دوسروں کو ممتاز نظر آئے، بلکہ بسا اوقات تو حافظ صاحب جب حفظ سے فارغ ہوتے ہیں تو دوسروں سے بڑھ کر ایسی سرگرمیوں میں مصروف و منہمک ہو جاتے ہیں جن کی معاشرہ ان سے توقع بھی نہیں کر سکتا۔ نتیجہ یہ کہ ان حافظ صاحب کی وجہ سے لوگ اپنے بچوں کو حفظ یا دینی لائن میں لانے سے گریز کرتے ہیں۔ ان مسائل کا کیا حل ہے؟ اس کے علاوکیا یہ ممکن ہے کہ حفظ کے سخت معمولات کے ساتھ بچے میں فہم قرآن کا ذوق بھی پیدا کیا جا سکے اور اس مقصد کے لیے بچوں کو قرآن کریم کے کچھ حصے کا ترجمہ بھی پڑھا دیا جائے؟ پھر اگر بچہ حفظ مکمل کر لیتا ہے تو اس کے قرآن کریم یاد رکھنے کی کیا ترتیب اور نظم ہونا چاہیے؟ ایک بہت اہم سوال حفظ کے طلبہ کی بعد از حفظ تعلیمی لائن کا تعین ہے ۔ حفظ کے دوران بچے کے تین چار سال لگ جاتے ہیں اور اس کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ دوبارہ اس کے تعلیمی مستقبل کی تعیین میں ضائع کیا جائے، اس لیے دوران حفظ ہی بچے کی آئندہ تعلیمی لائن کا تعین ہو جانا ضروری ہے۔ اس کے لیے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں ؟ 
مولانا زاہد الراشدی کی افتتاحی گفتگو کے بعد قاری سعید احمد صاحب کو گفتگو کی دعوت دی گئی۔ ان کی گفتگو کا خلاصہ کچھ یوں ہے:
میں سب سے پہلے ان طلبہ و اساتذہ کو خراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں جو آج کے دور میں قرآن کریم کے پڑھنے اور پڑھانے میں مشغول ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مساعی میں برکت عطا فرمائے اور ان کو اس کام کا بہترین بدلہ عطا فرمائے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جتنا اونچا کام ہوتا ہے، اتنی ہی اس کی ذمہ داری بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے جہاں یہ لوگ اس دور میں قرآن کریم کی خدمت میں مصروفیت پر مبارک باد کے مستحق ہیں، وہیں ان کی ذمہ داری بھی زیادہ ہے ۔ ہم سب سے پہلے ان کوتاہیوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں جو عام طور پر حفظ کرواتے ہوئے دہرائی جاتی ہیں اور جن سے حفظ کے طلبہ کی استعداد پر برا اثر پڑتا ہے۔حفظ کی کلاس میں استاد کا ماہر ہونا انتہائی ضروری ہے، لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ اساتذہ جو حفظ کے طلبہ کو نورانی قاعدہ پڑھاتے ہیں، ان کا اپنا نورانی قاعدہ درست نہیں ہوتا۔ الفاظ کی ادائیگی قرآن کریم کی تعلیم میں بنیادی حیثیت کی حامل ہے اور اگر خود استاد کی ادائیگی درست نہ ہوگی تو وہ طلبہ کی ادائیگی کیسے درست کروائے گا؟ اسی طرح بعض جگہ نورانی قاعدہ جلدی پڑھا دیا جاتا ہے اور بعض جگہ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ نورانی قاعدہ پر ہی دو دو سال لگا دیے گئے۔ یہ بھی درست نہیں۔ ایک مناسب مدت میں نورانی قاعدہ مکمل کروا دینا چاہیے۔ نورانی قاعدہ مکمل کروا دینے کے فوراً بعد حفظ شروع کروا دینا بھی ٹھیک نہیں۔ پہلے عم پارہ ہجے کے ساتھ پڑھایا جائے۔ پھر دو یا تین پارے ناظرہ پڑھا کر پھر حفظ شروع کروا یا جانا چاہیے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مطالعہ اور سبق سننے میں کوتاہی کی جاتی ہے۔ مطالعہ اساتذہ خود نہیں سنتے اور نہ ہی سبق توجہ سے سنا جاتا ہے جس سے طلبہ کی غلطیاں پختہ ہو جاتی ہیں۔ استاد کو چاہیے کہ ہر طالب علم کا مطالعہ اور سبق خود فرداً فرداً سنے۔ اسی طرح سبقی اور منزل بھی ہر طالب علم کی فرداً فرداً سننی چاہیے۔ ہاں، اگر طلبہ زیادہ ہیں تو ذہین طلبہ کو اپنے دائیں بائیں بٹھا کر ان پر نظر رکھتے ہوئے ان کی منزل سن سکتا ہے۔ منزل کی مقدار بھی مناسب ہونی چاہیے۔ جب طالب علم کے دس پارے ہو جائیں تو اس کی صرف آدھا پارہ یا ایک پارہ منزل کافی نہیں، بلکہ منزل کی اتنی مقدار ہونی چاہیے جس سے جلدی پاروں کا دور مکمل ہو جائے۔ان سب باتوں کو یقینی بنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ استاد کو اس کی معاشی مشکلات سے آزاد کر دیا جائے تاکہ وہ توجہ کے ساتھ اپنا کام کر سکے۔ 
کلاس میں بچوں کو سزا دینے کا بھی کوئی مہذب طریقہ رائج ہونا چاہیے۔ اکثر اوقات یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ درس گاہ میں انتہائی درد ناک اور توہین آمیز طریقے سے سزا دی جاتی ہے جس سے ڈرتے ہوئے بعض بچے حفظ سے ہی توبہ کر جاتے ہیں۔ بچے کو سزا دینے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے کہ جب غلطی آئے تو اس پر نشان لگائے۔ دوسری مرتبہ غلطی آئے تو گول دائرہ لگا دے۔ تیسری مرتبہ غلطی آنے پر اس میں نقطہ لگا دے اور معمولی سزا دے اور سزا دینے میں ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہیے جس سے بچے کی اصلاح ہو نہ کہ وہ تعلیم سے ہی بد ظن ہو جائے۔ کلاس میں بچوں کی تعداد کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ بعض جگہوں پر کلاس میں ساٹھ ساٹھ بچے بھر دیے جاتے ہیں جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ کسی ایک بچے کو بھی منزل صحیح طرح یاد نہیں ہوتی۔ ایسی صورتحال سے بچنا چاہیے۔ میری رائے میں تین کتابیں ایسی ہیں جو حفظ کے ہر استاد کے پاس ہونی چاہییں۔ ۱۔ قواعد ہجاء القرآن مصنفہ قاری شکیل صاحب، ۲۔ رہنمائے مدرسین مصنفہ قاری رحیم بخش صاحب، ۳۔ تدریب المعلمین۔
قاری سعید احمد کے بعد جناب سلیم رؤف کو خیالات کے اظہار کی دعوت دی گئی ، انہوں نے کہا:
مولانا زاہد الراشدی صاحب نے جو حفظ کی تدریس کے بارے میں جو سوالات اٹھائے ہیں، نہایت اہم ہیں ، لیکن ان میں سے اکثر حفظ کے میدان میں ممکن نہیں۔ مثلاً یہ بات کہ بچے کو ایک دو پارے یاد کروانے کے بعد اس کے حفظ کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جائے اور اگر بچہ حفظ نہیں کر سکتا تو اس کو فارغ کر دیا جائے، اس کام میں سب سے بڑی رکاوٹ خود والدین ہیں۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ والدین نے کوئی منت مانی ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچے کو حفظ کروائیں گے۔ ایسی صورت میں بچے کو کلاس سے نکالنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ اکثر والدین کی حالت یہ ہوتی ہے کہ باپ خود تو نماز بھی نہیں پڑھتا اور بچے کے بارے میں اس کے ذہن میں ہوتا ہے کہ وہ ولی اللہ بن جائے، اس لیے حفظ تو لازمی کروانا ہے، چاہے اس میں سو سال لگ جائیں۔ اس حالت میں استاد ان کو کیسے باور کرائے کہ بچہ حفظ نہیں کر سکتا، اس لیے آپ اس کی تعلیم کا کوئی اور بندوبست کر لیں۔ اگر استاد کہہ بھی دے کہ یہ بچہ حفظ نہیں کر سکتا تو ایسی مثالیں بھی سامنے آئی ہیں کہ بچہ آیا اور آکر کہا گیا کہ اس بچے کو حفظ کروانا ہے۔ اس کا استاد کہتا ہے کہ یہ حفظ نہیں کر سکتا۔ اب یہ چیلنج ہے اور استاد کو دکھانا ہے کہ یہ حفظ کر سکتا ہے۔ اساتذہ کو اس صورت میں چاہیے کہ والدین کو مثالوں سے سمجھائیں کہ دنیا میں کتنے ہی ایسے لوگ موجود ہیں جو پورے قرآن کے حافظ نہیں ہیں، بلکہ ایک یا دو پارے ہی انہوں نے حفظ کیے ہیں۔ شاید بات ان کی سمجھ میں آجائے۔ ایسے بچے جب حفظ کی کلاس سے نکلتے ہیں تو بہت نقصان ہوتا ہے اور ان کی وہی حالت ہوتی ہے جس کا ذکر مولانا زاہد الراشدی نے اپنے سوالات میں کیا ہے۔
حافظ صاحب کے یہ رویہ اپنانے کی ایک وجہ بے جا سختی یا غلط طریقے سے سزا دینا بھی ہوتا ہے۔ اگر کسی بچے کو اس کے بڑے بھائی کی وجہ سے سزا ملے تو لازمی بات ہے کہ اس کے دل میں اپنے بڑے بھائی کی نفرت پیدا ہو جائے گی۔ اسی طرح اگر قرآن کی وجہ سے بچے کو سزا ملے گی تو اس کے دل میں قرآن سے نفرت پیدا ہو سکتی ہے اور جب وہ حفظ کی فیلڈ سے نکلتا ہے تو قرآن سے دور ہوتا جاتا ہے۔ اس کی ایک وجہ والدین کا رویہ بھی ہے۔ والدین عام طور پر اس بچے کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں جو اسکول وغیرہ کی تعلیم حاصل کر رہا ہو۔ اگر حفظ کرنے والے بچے نے ماں سے ناشتہ مانگا اور ماں نے کہا کہ تو صبر کر اور اس بچے کو جو سکول میں پڑھتا ہے، پہلے ناشتہ دیا تو حفظ کے طالب علم کے دل میں کیسے جذبات پیدا ہوں گے، اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اس لیے والدین کی بھی تربیت کرنی چاہیے۔ استاد اگر بچے کو اپنے ساتھ مانوس کر لے اور اسے پیار سے تعلیم دے تو طالب علم استاد کی بات کو دل و جان سے مانے گا اور تعلیم میں خاطر خواہ بہتری آ جائے گی۔میں نے اس کا کئی مرتبہ تجربہ کیا ہے کہ ایک بچہ عرصہ دراز سے اپنے والدین کی کوئی بات نہیں مان رہا، لیکن میرے یا اپنے استاد کے کہنے پر اپنی ضد چھوڑ کر اس کام کو کرنے پر آمادہ ہو گیا۔بچے کے آئندہ تعلیمی مستقبل کے بارے میں میری رائے یہ ہے کہ اگر چوتھی کلاس پڑھنے کے بعد بچے کو حفظ شروع کروایا جائے اور وہ تین سال بھی اگر حفظ میں لگا لے تو بعد میں اس کے پاس اتنا وقت بچ جاتا ہے کہ آٹھویں کلاس میں داخلہ لے سکے۔ 
جہاں تک تعلق ہے حافظ صاحب کے معاشرے میں ایسے برے کام کرنے کا جن کی وجہ سے اہل معاشرہ اس سے بدظن ہو جاتے ہیں تو میرے خیال میں یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر نقد وبال ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ معاشرے میں حاجی صاحب اور حافظ صاحب کے القاب بہت بدنام ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ یہ دونوں بہت بڑے کام ہیں، یہ کام کر کے(حج کر کے اور قرآن کریم کو اپنے دل میں محفوظ کر لینے کے بعد) بھی جب لوگ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں چھوڑتے تو اللہ تعالیٰ دنیا میں ان کو بدنام کر دیتا ہے۔ جہاں تک تعلق ہے حفظ کے طلبہ میں فہم قرآن پیدا کرنے کا تو اس میں بنیادی کردار استاد کا ہوتا ہے اور ۹۹ فیصد حفظ کے استاد ایسے ہیں کہ ان کو خود قرآن کا فہم حاصل نہیں ہوتا۔ صورتحال یہ بنتی ہے کہ استاد بچے کو پڑھا رہا ہے کہ پڑھو: لاَ تَنَابَزُوا بِالاَلْقَابِ اور قاف وغیرہ کے صحیح پڑھنے پر بڑا زور دے رہا ہے، لیکن بچے سے صحیح ادائیگی نہیں ہو رہی تو لاَ تَنَابَزُوا بِالاَلْقَابِ  پڑھانے والا استاد بچے کو کہتا ہے : او کتے، سؤر! صحیح پڑھ ۔ گویا جو پڑھا رہا ہے، اس کے خلاف اسی وقت خود عمل کر رہا ہے۔ یا مثلاً وہی بچہ گھر جا کر سبق یاد کرتا ہے: وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا  اور ماں اسے کہتی ہے کہ بیٹا جاؤ، ذرا بازار سے چینی تو لا دو۔ تو اسی وقت وہ کہتا ہے کہ میں نہیں جاتا کسی اور سے منگوا لو۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی پڑھتا جا رہا ہے: وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا۔اس لیے فہم قرآن پیدا کرنے والی تجویز پر عمل کرنا حفظ کے سخت شیڈول اور اساتذہ کی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے بہت مشکل ہے۔ 
اس بارے میں اپنے تجربے کی بنیاد پر میری رائے یہ ہے کہ اگر صبح پندرہ منٹ کی اسمبلی کا اہتما م کر لیا جائے اور اس میں بچوں کی تربیت کی محنت کی جائے تو بڑے اچھے نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ مثلاً مختلف قسم کے انعامات کا اعلان کر کے بچوں میں نیکی کے کاموں میں مقابلے کی فضا قائم کی جائے تاکہ ان میں نیکی عادت بن جائے۔ اسی طرح پورا ہفتہ ایک ہی موضوع پر بھر پور تیاری کے ساتھ اگر اسمبلی میں بچوں کو معلومات فراہم کی جائیں تو ان کے پاس کافی ذخیرہ جمع ہو جاتا ہے اور کئی باتیں ان کے عمل میں آجائیں گی، لیکن شرط یہ ہے کہ یہ کام مستقل مزاجی اور پوری محنت و تیاری کے ساتھ کیا جائے۔
دارالعلوم گوجرانوالہ کے استاد قاری عبد الشکور نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
حفظ کی تدریس بہت مشکل کام ہے۔ اس کی افادیت کا سارا دارومدار استاد پر ہوتا ہے۔ استاد کی اپنی تربیت ہونی چاہیے، خود بھی تعلیم یافتہ ہو، متقی ہو پرہیز گار ہو اور پڑھانا بھی جانتا ہو۔ مدارس کے ذمہ داران کو بھی اس بات کا خیال کرناچاہیے کہ وہ دیکھ بھال کر حفظ کی کلاس کسی کے حوالے کریں۔ استاد کا تجربہ کار اور محنتی ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر کسی استاد کے پاس بیس پچیس بچوں کی کلاس ہے تو وہ تقریباً سارا دن ان سے فارغ نہیں ہو سکتا۔ اگر ایسا استاد یہ کہتا ہے کہ میرے پاس فارغ وقت ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ استاد اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہا اور اپنے کام میں خیانت کر رہا ہے۔ استاد کوچاہیے کہ بچوں کو نورانی قاعدہ محنت سے پڑھائے ۔ ہر بچے کا تجوید سے مطالعہ سنے، پھر سبق یاد کروائے۔ ہمارے ہاں دار العلوم میں بچے صبح چار بجے اٹھ جاتے ہیں اور نماز فجر سے پہلے استاد کو سبق سنا دیتے ہیں۔ اس ترتیب میں استاد ۹ بجے تک منزل و سبقی سے فارغ ہو جاتا ہے۔ بچوں پر یہ پابندی ہونی چاہیے کہ وہ عشاء کی نماز تک یا عشاء کی نماز کے بعد اپنے ساتھی کو سبق یاد کر کے سنا دیں تاکہ صبح سبق سنانے میں دقت نہ ہو۔ بچے ایک تو منزل سناتے ہیں اور دوسرا منزل پڑھتے ہیں۔ منزل پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ ان پر پابندی ہے کہ وہ روزانہ اپنی منزل سنانے کے علاوہ پاروں کی ایک مخصوص مقدار پڑھیں، چار یا پانچ پارے۔ اس طرح منزل کا پارہ، سبقی کا پارہ اور ان کے علاوہ جو پارے وہ پڑھتا ہے، یہ سب ملا کر روزانہ کے تقریبا آٹھ، دس پارے بنتے ہیں ۔ اس طرح بچے کی منزل بہت پختہ ہو جاتی ہے اور قرآن بھولنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا ۔
سیمینار کے مہمان خصوصی مولانا جہانگیر محمود صاحب نے اپنے خطاب میں کہا:
آپ کا پروگرام بہت اچھا ہے، لیکن میری رائے یہ ہے کہ اس موضوع پر ہفتہ یا دس دن کا کوئی تربیتی پروگرام ترتیب دیا جائے تو زیادہ فائدہ ہو گا۔ مجھے ملک و بیرون ملک طریقہ تعلیم و تدریس پر گفتگو کا موقع ملا ہے، میں جدید فلسفہ تعلیم سے بہت متاثر ہوا ہوں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے خیال میں وہ لوگ اپنی ذاتی تحقیق سے اس قابل ہوگئے ہیں کہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ تعلیم کو ۶۰ فیصد تک اپنا چکے ہیں۔ ابھی سو فیصد تک تو نہیں پہنچ سکے، البتہ اپنی تحقیق اور محنت سے وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ تعلیم کا ساٹھ فیصد حصہ اپنا چکے ہیں۔ میں اس نشست میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ تعلیم پر بات کروں گا۔ تعلیم و تعلم میں استاد و طالب علم کا باہمی رشتہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ہم صحابہ کرامؓ کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے واقعات تو بہت مزے لے کر سنتے اور سناتے ہیں، لیکن عام طور پر اس بات پر غور نہیں کرتے کہ صحابہ کرامؓ کی یہ محبت اصل میں عمل نہیں بلکہ ردعمل تھا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان کے ساتھ محبت کا۔ ہمیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ استاد و معلم تھے، ان کو اپنے شاگردوں یعنی صحابہ کرامؓ کے ساتھ کس درجہ محبت تھی۔ میں اگر معلم کے طور پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی صفت منتخب کروں تو وہ سب سے اول آپ کی اپنے شاگردوں کے ساتھ شفقت و محبت ہو گی۔ آج ہم اپنے طلبہ کو یہ تو بتاتے ہیں کہ پہلے زمانے میں شاگرد اپنے استاد کے سامنے بولا بھی نہیں کرتے تھے، لیکن میں یہ نہیں بتاتا کہ استاد بھی اپنے طلبہ کے جوتے تک اٹھا لیا کرتے تھے۔ آپ نے احادیث کی کتابوں میں ایک جملہ پڑھا ہو گا کہ صحابہ کرام حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے فداک ابی و امی کے الفاظ استعمال کیا کرتے تھے، لیکن کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ یہ جملہ سب سے پہلے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے ایک صحابی کے لیے استعمال کیا تھا۔اس لیے ہمیں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا اس حوالے سے بھی مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے کہ بطور معلم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے شاگردوں کے ساتھ کیسا رویہ اوربرتاؤ تھا۔ اگر استاد اپنے شاگرد کی اصلاح کے لیے سخت سزا کا طریقہ اپناتا ہے تو بقول قاری رحیم بخش صاحب جو استاد اپنے شاگرد کی اصلاح کے لیے چالیس دن تک تہجد میں دعا نہیں کرتا، اس کو اسے مارنے کا بھی کوئی حق نہیں۔گویا استاد کی شفقت و محبت شاگرد کی اصلاح و تعلیم کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
جدید طریقہ تعلیم میں بھی اس عنصر کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ جدید فلسفہ تعلیم میں تعلیم کے ہر پہلو پر تحقیق ہو ئی ہے، حتی کہ بچے کا حوصلہ بڑھانے کے لیے اور شاباش کہنے کے ۱۰۱ طریقے متعارف ہوئے ہیں۔ بچوں کو ترغیب و تشویق دلانے کی کچھ مثالیں میرے بھائی جناب سلیم رؤف صاحب نے ذکر کیں اور میرے خیال میں ان کے ذہن میں اور مثالیں بھی لازمی ہوں گی جو کہ سامعین کے سامنے آنی چاہیےیں۔ ہم نے بھی اپنے ادارے میں ایک طریقہ اپنایا ہے۔ مثلاً ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ جب کوئی آدمی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک نقطہ لگ جاتا ہے۔ یہ حدیث ہمارے اس طریقہ کی بنیاد ہے۔ ہم نے اسکول میں دیوار کے ساتھ کاغذ کے علامتی دل بنا کر لگا دیے ہیں اور بچوں کو یہ بتایا ہے کہ جس بچے کا رویہ خراب ہو گا، اس کے دل پر ایک کالا نشان لگا دیا جائے گا اور سال کے اختتام پر دیکھا جائے گا کہ کس بچے کے دل پر کم کالے نشان ہیں۔ پھر اس کو انعام دیا جائے گا۔ سال کے آخر میں ہم ایک تقریب میں ایسے بچے کے والدین کو بلاتے ہیں اور اس کو سنہری رنگ کا علامتی دل پیش کرتے ہیں اور ساتھ یہ بتاتے ہیں کہ یہ آپ کے بچے کا دل ہے جو سارا سال صاف و شفاف رہا۔ اب بچے اس بات کی احتیاط کرتے ہیں اور دیکھتے رہتے ہیں کہ کہیں ہمارے دل پر کوئی نشان نہ لگ جائے۔ اس سے خود بخود ان کی تربیت ہوتی رہتی ہے۔ 
آج کل بچوں سے بات منوانے کے لیے عام طور پر سختی اور مار پیٹ سے کام لیا جاتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کی زندگیوں سے اس مار پیٹ کی کوئی مثال پیش کر کے دکھا دیں۔ آپ کہتے ہیں کہ آج کلاس میں چالیس چالیس بچے ہیں، اس لیے کام پورا نہیں ہوتا، مار پیٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ آپ کا کام پورا نہیں ہوتا تو نہ ہو، آپ یہ دیکھیں کہ آپ کی سختی اور مار پیٹ سے کیا یہ مزاج بچے کی شخصیت کا حصہ تو نہیں بن جاتا! اس مزاج کو لے کر جب وہ معاشرے میں جائے گا تو کیسا کردار ادا کرے گا؟ کیا آپ کے اس سلوک سے اس کی شخصیت تو نہیں بگڑ رہی؟ سختی سے آپ عادات تو بنا دیں گے، شخصیت کی تعمیر نہیں کر سکتے۔ اس لیے ہمیں خود پہلے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج اور انداز تربیت سیکھنے کی ضرورت ہے۔کلاس کی ترتیب و نظم کے لیے ہمیں غزوہ بدر کے واقعہ سے راہنمائی ملتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر قیدی کو دس مسلمان بچوں کو پڑھانے کا کہا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ صحیح تعلیم کے لیے دس طالب علموں کی ہی کلاس ہونی چاہیے۔ آج کا بین الاقوامی معیار آٹھ کا ہے۔ اس لیے آج کی میری گفتگو کا بنیادی اور مرکزی نقطہ یہ ہے کہ ہمیں طریقہ تعلیم اور انداز تدریس کے سلسلے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے راہنمائی لینی چاہیے اور پہلے خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ تعلیم کو سیکھنا چاہیے۔ اگر اہل مغرب اپنی محنت اور کوشش سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ تعلیم کے ۶۰ فیصد تک پہنچ سکتے ہیں اور اس کو استعمال کر کے انتہائی عمدہ نتائج حاصل کر سکتے ہیں تو ہم سب کچھ پاس ہوتے ہوئے بھی ان نتائج سے کیوں محروم ہیں۔ 
مولانا جہانگیر محمود کے خطاب کے بعد انھی کی دعا پر اس سیمینار کا اختتام کیا گیا۔ سیمینار کے بعد غیر رسمی نشست میں بھی اس موضوع پر تبادلہ خیال کیا گیا اور سب حضرات نے بچوں اور والدین کے رویے کے حوالے سے اپنے اپنے تجربات بیان کیے اور اس بات پر زور دیا گیا کہ والدین کی تربیت کا بھی کوئی انتظام ہونا چاہیے۔ اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ دینی تعلیم میں بہتری کے لیے جو حضرات اپنی اپنی جگہ انفرادی محنت کر رہے ہیں، ان کو ایک جگہ جمع کرنے اور ان کے تجربات سے استفادہ کا کوئی نظم ہونا چاہیے تاکہ دوسرے احباب بھی ان کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکیں۔

ہماری خوراکی بے اعتدالیاں اور کینسر کا مرض

حکیم محمد عمران مغل

خبردار! کینسر کا اژدہا آپ کی دہلیز پر پہنچ چکا ہے۔ شوگر، ہیپا ٹائٹس، گردوں کے امراض نے معاشرے کو اپنے چنگل میں جکڑ لیا ہے۔ اگر ان کا علاج اصول کے خلاف کیا گیا تو کینسر کا حملہ ہو سکتا ہے۔
ہماری خوراکی کمزوریاں لگاتار بڑھ رہی ہیں۔ آج سے ایک صدی پہلے کینسر کا نام ہی سنتے تھے، جبکہ اب آبادی کی اکثریت جلدی امرا ض میں مبتلا ہوتی جا رہی ہے۔ جرمن معالجین نے وضاحت سے بتایا ہے کہ گوشت خوری کی عادت نے جلدی امراض کے ساتھ کینسر کو بھی بڑھا دیا ہے۔ جرمن قوم جفاکش، محنتی اور خود دار ہے۔ اس قوم کی تحقیق یہ ہے کہ جوں جوں گوشت زیادہ کھایا جا رہا ہے، کینسر کا اژدہا بھی اتنی ہی تیز رفتاری سے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ 
ایک اخباری اطلاع کے مطابق مردار مرغیوں کے دو ٹرک راستے میں پکڑے گئے جو پنجاب سے کراچی لے جائے جا رہے تھے۔ ہماری خاطر تواضع اسی قسم کے گوشت سے ہو رہی ہے۔ خونی امراض، جگر کے امراض اورہیپا ٹائٹس تو فوراً کینسر کا رخ اختیار کرتے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ چالیس دن میں ایک دفعہ گوشت ضرور کھا لینا چاہیے۔ اس سے جگر کا مرض قابو میں رہتا ہے۔ مگر آج تو بکرے کی سالم ران اور مرغ مسلم ہر دستر خوان کی زینت ہے۔ اس کے بغیر دعوت مکمل نہیں سمجھی جاتی۔ اوپر سے بند بوتلوں کا تیزابی پانی!
اگر اللہ نے آپ کو مذکورہ امراض سے بچایا ہے تو پھر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے احتیاط سے زندگی گزاریں۔ کئی کئی دن کی باسی غذا اور بند ڈبوں کی خور ونوش کی خوراک سے پرہیز کریں۔ سردیوں میں کئی کئی ہفتے سے اسٹور کی ہوئی گلی سڑی مچھلیاں بھی کینسر کا باعث ہو سکتی ہیں۔ بے تحاشا گوشت خوری کی عادت آپ کو چاروں شانے چت گرا سکتی ہے۔

فروری ۲۰۱۳ء

چند اہم دینی شخصیات کا سانحہ ارتحالمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
اسلامی نظام کی جدوجہد اور اس کی حکمت عملیمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
جزا و عذاب قبر کی قرآنی بنیادیںمحمد زاہد صدیق مغل
مریم جمیلہؒ ۔ اسلام کی بے باک ترجمانپروفیسر خورشید احمد
نشے کی طلاق اور طلاق کے لیے عقل و ہوش کا مطلوبہ معیارمولانا مفتی محمد زاہد
ایک مجلس کی تین طلاقیں اور اصلاح کی گنجائشمولانا مفتی فضیل الرحمن عثمانی
طلاق کا وقوع اور نفاذ۔ چند اجتہاد طلب پہلومحمد عمار خان ناصر
نہ معرفت، نہ نگاہ!محمد دین جوہر
جماعت اسلامی کے ناقدین و مصلحینخواجہ امتیاز احمد
میڈیا کا محاذ اور ہماری ذمہ داریاںمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
الشریعہ اکادمی میں فکری نشستیںادارہ
ہماری خوراک اور دن بدن بڑھتے امراضحکیم محمد عمران مغل

چند اہم دینی شخصیات کا سانحہ ارتحال

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

گزشتہ ماہ کے دوران میں بہت سی اہم دینی وقومی شخصیات اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آئندہ سطور میں ان کا ایک مختصر تذکرہ کیا جائے گا۔

پروفیسر غفور احمدؒ 

پروفیسر غفور احمد اللہ کو پیارے ہوگئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اخبارات میں ان کی وفات کی خبر پڑھ کر ماضی کے بہت سے اوراق ذہن کی یادداشت میں کھلتے چلے گئے۔ ان کا نام پہلی بار ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے بعد سنا جب وہ کراچی سے جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ میرا تعلق جمعیۃ علماء اسلام پاکستان سے تھا اور اس دور میں جمعیۃ علماء اسلام اور جماعت اسلامی میں مخاصمت دینی اور سیاسی دونوں محاذوں پر عروج پر تھی۔ مجھے مولانا عبد اللہ درخواستیؒ ، مولانا عبید اللہ انورؒ ، مولانا مفتی محمودؒ اور مولانا غلام غوث ہزارویؒ کے قریبی کارکنوں میں شمار ہونے کا اعزاز حاصل تھا، اس لیے جماعت اسلامی کے منتخب ارکان اسمبلی کے حوالے سے کسی مثبت سوچ کا اس وقت کوئی امکان نہیں تھا، لیکن خدا گواہ ہے کہ جوں جوں پروفیسر غفور احمد پارلیمانی اور سیاسی محاذ پر آگے بڑھتے گئے، قلب و ذہن کے دریچے ان کے لیے کھلتے چلے گئے اور ان کی شرافت و متانت اور حوصلہ و تدبر دیکھ کر ان کے احترام کی طرف بتدریج مائل ہوتا رہا۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد باقی ماندہ پاکستان میں دستوری طور پر سب سے بڑا اور پہلا مرحلہ دستور سازی کا تھا۔ ۱۹۷۰ء میں منتخب ہونے والی قومی اسمبلی در اصل دستور سازی کے عنوان پر منتخب ہوئی تھی اور دستور سازی کا مرحلہ طے ہو جانے کے بعد اسے قانون ساز اسمبلی کی حیثیت اختیار کر لینا تھی۔ اس دستور ساز اسمبلی میں اپوزیشن عددی لحاظ سے کچھ قابل ذکر نہیں تھی، لیکن شخصیات کے حوالے سے اتنی مضبوط اپوزیشن شاید ہی قومی اسمبلی کو کبھی میسر آئی ہو ۔ خان عبد الولی خانؒ ، مولانا مفتی محمودؒ ، مولانا شاہ احمد نورانیؒ ، مولانا ظفر احمد انصاریؒ ، مولانا عبد الحقؒ ، چودھری ظہور الٰہی اور پروفیسر غفور احمد جیسی بھاری بھر کم شخصیات اس اپوزیشن کی قیادت کر رہی تھیں اور اسلامی سوشلزم کے نعرے پر الیکشن جیتنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کی اکثریت والے ایوان میں دستور کو واضح اسلامی بنیادوں پر استوار کرنے اور اسلام کو ملک کا سرکاری مذہب قرار دلوانے کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کو قانون سازی میں قرآن و سنت کے دائرے میں پابند بنانا ۱۹۷۳ء کے دستور کی وہ نمایاں خصوصیات ہیں جن پر آج بھی اس ایوان کو فخر ہونا چاہیے اور اس مقصد کے لیے دستور سازی کے ہوم ورک میں اپوزیشن کی طرف سے مولانا ظفر احمد انصاریؒ اور پروفیسر غفور احمد کی شبانہ روز محنت بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔
دستور کی منظوری اور نفاذ کے ساتھ ہی قومی اسمبلی کے سامنے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرر دینے کا مسئلہ پیش آگیا۔ اس مسئلے کی اپنی ایک طویل تاریخ ہے جس کا ذکر بات کو طویل کر دے گا، لیکن ہوا یہ کہ قادیانیوں کی اپنی ایک حماقت کی وجہ سے کہ چناب نگر (ربوہ) کے ریلوے سٹیشن پر نشتر میڈیکل کالج ملتان کے سٹوڈنٹس پر قادیانی نوجوانوں نے حملہ کر دیا، ملک بھر میں اس پر احتجاجی سلسلہ شروع ہوگیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس احتجاج نے بھرپور عوامی تحریک کی شکل اختیار کر لی اور قومی اسمبلی کو اس پر قانون سازی کرنا پڑی۔ مسئلہ ختم نبوت پر قانون سازی کے اس مرحلے میں بھی پروفیسر غفور احمد نے سرگرم حصہ لیا۔ پروفیسر صاحب کا مزاج عام طور پر ذہن سازی اور لابنگ کے ذریعے اپنی بات کو موثر بنانے کا ہوتا تھا اور وہ اس میں ہمیشہ کامیاب رہتے تھے۔
مجھے ان کے ساتھ قومی اتحاد میں ۱۹۷۷ء کے الیکشن اور تحریک نظام مصطفی کے دوران کام کرنے کا موقع ملا۔ پاکستان قومی اتحاد کے صدر مولانا مفتی محمودؒ تھے اور سیکرٹری جنرل چودھری رفیق احمد باجوہ مرحوم چنے گئے جن کا تعلق جمعیۃ العلمائے پاکستان سے تھا، جبکہ پنجاب میں قومی اتحاد کے صدر محترم حمزہ تھے اور سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی کے رہنما پیر محمد اشرف تھے۔ بعد میں ایک مرحلے میں رفیق احمد باجوہ اور پیر محمد اشرف دونوں ان مناصب سے کسی وجہ سے الگ ہوگئے تو مرکز میں پروفیسر غفور احمد اور پنجاب میں مجھے سیکرٹری جنرل بنا دیا گیا۔ اس حیثیت سے ہمارا رابطہ پاکستان قومی اتحاد کی تحلیل تک مسلسل رہا۔ پاکستان قومی اتحاد کے اجلاسوں کے علاوہ بھی تنظیمی حوالے سے ہمارا رابطہ رہتا تھا اور وقتاً فوقتاً ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں۔ اس دوران میں نے کراچی میں پروفیسر غفور احمد مرحوم کے گھر میں بھی حاضری دی اور ان سے مختلف مسائل پر گفتگو اور تبادلۂ خیالات کا سلسلہ چلتا رہا۔ ان کی سنجیدگی، متانت اور تدبر سے ان کا ہر ملنے والا متاثر تھا۔ مجھے بھی ان کے دھیمے رویے، مضبوط موقف اور سب کے احترام پر مبنی لہجے نے سب سے زیادہ متاثر کیا۔
۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفی میں، جو دراصل الیکشن میں دھاندلیوں کے خلاف احتجاجی تحریک تھی، لیکن چونکہ قومی اتحاد نے نظام مصطفی کے نفاذ کے نعرے پر انتخاب لڑا تھا ، اس لیے فطری طور پر اس تحریک نے بھی تحریک نظام مصطفیؐ کا عنوان اختیار کر لیا، اس تحریک کی قیادت میں مولانا مفتی محمود، نوابزادہ نصر اللہ خان، مولانا شاہ احمد نورانی، سردار شیر باز خان مزاری، چودھری ظہور الٰہی، پیر آف پگارہ شریف، سردار محمد عبد القیوم خان اور میاں طفیل مرحوم کے نام نمایاں تھے۔ لیکن اس کے تنظیمی اور دفتری معاملات کو کنٹرول کرنے والی ٹیم کو پروفیسر غفور احمد کی مدبرانہ رہنمائی میسر تھی جو اس تحریک کا ایک اہم کردار ہے۔ قومی اتحاد نے جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں وفاقی کابینہ میں شمولیت اختیار کی تو پروفیسر غفور احمد مرحوم بھی وفاقی وزیر بنے۔ اس سے قبل وہ ذوالفقار علی بھٹور مرحوم کے ساتھ مذاکرات میں پاکستان قومی اتحاد کے سہ رکنی وفد میں مولانا مفتی محمود اور نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم کے ساتھ شامل رہ چکے تھے۔ اس دور کی یادداشتیں کتابی شکل میں ’’پھر مارشل لاء آگیا‘‘ کے عنوان سے قلم بند کر کے انہوں نے شائع کر دی ہیں۔
پروفیسر غفور احمد کا شمار محب وطن، دیانت دار، با اصول اور حق گو سیاسی رہنماؤں میں ہوتا تھا۔ قحط الرجال کے اس دور میں ان کی وفات سے یقیناًبہت بڑا خلا پیدا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔

قاضی حسین احمدؒ 

محترم قاضی حسین احمد مرحوم کے ساتھ میرے تعلقات کی نوعیت دوستانہ تھی اور مختلف دینی و قومی تحریکات میں باہمی رفاقت نے اسے کسی حد تک بے تکلفی کا رنگ بھی دے رکھا تھا۔ ان کے ساتھ میرا تعارف اس دور میں ہوا جب وہ جماعت اسلامی پاکستان کے قیم تھے۔ پاکستان قومی اتحاد کے صوبائی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے مجھے اتحاد میں شامل جماعتوں کے راہ نماؤں کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھنا ہوتا تھا۔ یہ رابطہ انتخابی مہم میں بھی تھا اور تحریک نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے چلائی جانے والی اجتماعی تحریک میں بھی تھا۔ بعد میں جب سینیٹ آف پاکستان میں مولانا قاضی عبد اللطیفؒ اور مولانا سمیع الحق کے پیش کردہ ’’شریعت بل‘‘ کے لیے ملک گیر عوامی جدوجہد منظم کرنے کا مرحلہ سامنے آیا تو اس کے لیے قاضی حسین احمد صاحب پیش پیش تھے اور انہوں نے اس سلسلہ میں بہت متحرک اور بھرپور کردار ادا کیا۔ قاضی صاحب محترم کے ساتھ اس سے قبل ۱۹۸۴ء کی تحریک ختم نبوت میں بھی رفاقت رہی جس کے نتیجے میں امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری ہوا، اس میں قادیانیوں کو اسلام کا نام استعمال کرنے سے قانونًا روک دیا گیا ہے اور ان کے لیے اسلام کی مذہبی علامات اور اصطلاحات کے استعمال کو قانونی جرم قرار دیا گیا ہے۔ 
اس دوران ایک دلچسپ واقعہ ہوا۔ قاضی حسین احمد صاحبؒ نے جماعت اسلامی پاکستان کے قیم (سیکرٹری جنرل) کی حیثیت سے حضرت مولانا سید حامد میاںؒ سے رابطہ کیا کہ جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ اگر یہ قرارداد پاس کر دے کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے جن افکار و نظریات سے جمعیۃ علماء اسلام یا دوسرے حلقوں کو اختلاف ہے، جماعت اسلامی انہیں مولانا مودودیؒ کے تفردات سمجھتے ہوئے ان مسائل میں جمہور علماء اہل سنت کے ساتھ ہے تو کیا اس قرارداد کے بعد جمعیۃ علماء اسلام اور جماعت اسلامی دونوں مل کر ملک میں دینی جدوجہد کی پوزیشن میں ہوں گی؟ مولانا سید حامد میاںؒ نے اس مسئلہ پر مولانا محمد اجمل خانؒ سے بات کی۔ دونوں بزرگوں نے آپس میں مشورہ سے طے کیا کہ اس سوال کا کوئی حتمی جواب دینے سے پہلے مسلکی حوالہ سے تین بڑے بزرگوں حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ ، حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ اور حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود مدظلہ سے مشورہ کر لینا چاہیے۔ 
دونوں حضرات نے ان تینوں بزرگوں کے پاس حاضر ہو کر مشورہ کرنے کی ذمہ داری میرے سپرد کی اور میں نے حضرت مولانا سید حامد میاںؒ اور حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ کے نمائندے کے طور پر تینوں بزرگوں کے سامنے یہ سوال رکھا۔ اس پر تینوں بزرگوں کے جوابات مختلف تھے۔ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ نے جواب دیا کہ اگر جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ اس مفہوم کی قرارداد پاس کر دے تو پھر ہمارے پاس جماعت اسلامی کے ساتھ اختلاف باقی رکھنے کا کوئی شرعی اور اخلاقی جواز نہیں رہ جاتا۔ حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ نے ارشاد فرمایا کہ صرف اس مضمون کی قرارداد کافی نہیں ہوگی بلکہ جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کو مولانا مودودیؒ کی شخصیت کے بارے میں بھی اپنا موقف واضح کرنا ہوگا، جبکہ علامہ ڈاکٹر خالد محمود صاحب کا موقف یہ تھا کہ صرف قرارداد سے کام نہیں بنے گا، اس لیے کہ اصل اختلاف جماعت اسلامی کے دستور کی اس شق سے شروع ہوا تھا جس میں جماعت اسلامی کے رکن کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے کہ وہ رسول خدا کے سوا کسی کو معیار حق نہ سمجھے، کسی کو تنقید سے بالا تر نہ سمجھے اور کسی کی ذہنی غلامی میں مبتلا نہ ہو۔ اس پر حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ نے اعتراض کیا تھا کہ اس سے صحابہ کرامؓ کے معیار حق اور تنقید سے بالاتر ہونے کی نفی ہوتی ہے اور تقلید کی بھی نفی ہوتی ہے جو جمہور اہل سنت کے موقف سے انحراف ہے۔ اس سے اختلاف کا آغاز ہوا تھا، اس لیے اگر جماعت اسلامی اختلافات کو ختم کرنا چاہتی ہے تو اسے دستور کی اس شق میں علماء اہل سنت کے حسب منشا ترمیم کرنا ہوگی، ورنہ قرارداد کے بعد بھی اصل اختلاف جوں کا توں رہے گا۔ 
میں نے جب تینوں بزرگوں کے جوابات حضرت مولانا سید حامد میاںؒ اور حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ کو پہنچائے تو انہوں نے باہمی مشورہ سے علامہ ڈاکٹر خالد محمودؒ کے جواب کو زیادہ قرین قیاس قرار دیا اور مجھے یہ ذمہ داری سونپی کہ میں قاضی حسین احمد صاحب کو مل کر اس سے آگاہ کردوں۔ چنانچہ میں نے قاضی صاحب موصوف سے ملاقات کی اور انہیں یہ پیغام پہنچا دیا۔ قاضی صاحب نے فرمایا کہ مجلس شوریٰ میں قرارداد کی منظوری کی صورت تو میں کر سکتا ہوں، لیکن جماعتی دستور میں ترمیم کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ اس پر دونوں طرف سے خاموشی اختیار کر لی گئی۔ مگر تھوڑے عرصہ کے بعد قاضی حسین احمد صاحب جماعت اسلامی پاکستان کے امیر منتخب ہوگئے۔ یہ وہ دور تھا جب وہ متحدہ شریعت محاذ کے سیکرٹری جنرل تھے اور میں سیکرٹری اطلاعات تھا۔ گڑھی شاہو لاہور کے علامہ اقبالؒ روڈ پر ڈاکٹر اسرار احمد صاحب مرحوم کی تنظیم اسلامی پاکستان کے مرکزی دفتر میں متحدہ شریعت محاذ کی مرکزی کونسل کا اجلاس تھا۔ قاضی صاحب مرحوم جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہو چکے تھے، لیکن ابھی انہوں نے حلف نہیں اٹھایا تھا۔ اس اجلاس میں قاضی صاحب اور راقم الحروف ساتھ ساتھ بیٹھے تھے۔ میں نے انہیں جماعت کا امیر منتخب ہونے پر مبارک باد دی تو انہوں نے بے تکلفی سے میری ران پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا کہ اب تو میں ترمیم کی پوزیشن میں بھی آگیا ہوں، اب بات کرو! میں نے ہنستے ہوئے دل لگی کے انداز میں کہا کہ ’’رسم تاج پوشی کے بعد بات کریں گے‘‘۔ یعنی وہ جماعت اسلامی پاکستان کی امارت کا حلف اٹھا لیں تو اس کے بعد بات چلائیں گے۔ اس بات سے میں نے حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ اور حضرت مولانا سید حامد میاںؒ کو آگاہ کر دیا، لیکن اس سلسلہ میں اس کے بعد پھر کوئی بات کسی طرف سے بھی باضابطہ طور پر سامنے نہیں آئی اور یہ سارا قصہ تاریخ کی نذر ہوگیا۔ 
قاضی حسین احمد صاحبؒ کا خاندانی پس منظر جمعیۃ علماء ہند کا تھا۔ ان کے والد محترم حضرت مولانا قاضی عبد الرب صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ جمعیۃ علماء ہند کے صوبائی صدر تھے، دارالعلوم دیوبند کے فاضل تھے اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے شاگرد تھے۔ قاضی صاحبؒ کے بھائی مولانا عبد القدوسؒ بھی فاضل دیوبند تھے جو وفاقی شرعی عدالت کے جج رہے ہیں۔ قاضی صاحبؒ کا نام حسین احمد حضرت مدنیؒ کی نسبت سے رکھا گیا تھا اور قاضی صاحبؒ نے مجھے خود بتایا کہ وہ چھ سال کی عمر تک گفتگو نہیں کر سکتے تھے۔ ایک بار حضرت مدنیؒ ان کے گھر تشریف لائے تو ان کے والد محترمؒ نے حضرت مدنیؒ سے دعا اور دم کرنے کی درخواست کی۔ حضرت مدنیؒ نے دم کیا، دعا فرمائی اور قاضی حسین احمد صاحب کے منہ میں لعاب ڈالا۔ قاضی صاحب کہتے تھے کہ اس کے بعد میں نے بولنا شروع کر دیا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ میں حضرت مدنیؒ کی زندہ کرامت ہوں۔ 
اس سلسلہ میں ایک لطیفے کی بات یہ ہے کہ قاضی صاحب جب جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہوئے تو ان دنوں میں امریکہ گیا۔ وہاں میرے میزبان جماعت اسلامی کے ایک معروف راہ نما تھے۔ ان کے والد محترم بھی عالم دین تھے۔ وہ نیویارک کے جان ایف کینیڈی ایئرپورٹ پر مجھے لینے کے لیے آئے تو آمنا سامنا ہوتے ہی انہوں نے مجھے مبارک باد دی کہ مبارک ہو، جماعت اسلامی پر جمعیۃ علماء اسلام نے قبضہ کر لیا ہے۔ انہوں نے یہ بات اگرچہ دل لگی کے طور پر کہی تھی، مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ دوسری دینی جماعتوں کے ساتھ جماعت اسلامی کے مخصوص داخلی ماحول کی وجہ سے پیدا ہونے والے بُعد کو کم کرنے اور مل جل کر کام کرنے کا کھلا ماحول قائم کرنے میں قاضی صاحب مرحوم کا کردار بہت نمایاں رہا ہے۔
قاضی صاحب ملک میں نفاذ اسلام اور دیگر دینی و قومی تحریکات کے لیے دینی جماعتوں اور مختلف مکاتب فکر کے درمیان مشترکہ جدوجہد کی راہ ہموار کرنے میں ہمیشہ متحرک رہتے تھے۔ ان میں بات سننے کا حوصلہ تھا، اس لیے ہم ان سے بعض نازک معاملات پر بھی بے تکلفی سے بات کر لیا کرتے تھے۔ جن دنوں قاضی صاحبؒ کا لندن میں دل کا بائی پاس آپریشن ہوا، میں لندن میں تھا، ان کی بیمار پرسی کے لیے حاضر ہوا تو وہاں مجلس میں افغانستان کی خانہ جنگی زیر بحث تھی۔ ان دنوں انجینئر گلبدین حکمت یار اور انجینئر احمد شاہ مسعود کے دھڑوں میں سخت جنگ ہو رہی تھی۔ پروفیسر برہان الدین ربانی افغانستان کے صدر تھے۔ ان کے ساتھ انجینئر گلبدین حکمت یار کو وزیر اعظم بنایا گیا تھا، لیکن انہوں نے وزارت عظمیٰ قبول نہیں کی اور ان دونوں دھڑوں کے درمیان جنگ نے بہت تباہی پھیلائی۔ طالبان اسی خانہ جنگی کے رد عمل میں سامنے آئے تھے۔ میں نے اس مجلس میں قاضی صاحب مرحوم سے کہا کہ انجینئر حکمت یار اور پروفیسر ربانی کے درمیان ہونے والی خانہ جنگی کے مسلسل جاری رہنے کے ذمہ دار آپ ہیں۔ قاضی صاحب تھوڑے سے پریشانی ہوئے اور پوچھا وہ کیسے؟ میں نے کہا کہ یہ دونوں آپ کے سیاسی حلقہ کے لوگ ہیں، سیاسی فکر کے حوالہ سے دونوں کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے، آپ کو کس نے مشورہ دیا تھا کہ آپ گلبدین حکمت یار کے ساتھ فریق بن کر کھڑے ہو جائیں؟ آپ ہی ان میں صلح کرانے کی پوزیشن میں تھے، لیکن آپ نے حکمت یار کے حق میں فریق بن کر خود کو جانبدار بنا لیا ہے، اس لیے اب کون ان میں صلح کرائے گا؟ یہ بات سن کر قاضی صاحبؒ تو خاموش ہوگئے، لیکن مجلس کے دوسرے حضرات نے میری بات کی تائید کی۔ 
قاضی حسین احمدؒ ایک فکرمند، حوصلہ مند اور دردِ دل سے بہرہ ور راہ نما تھے، ان کی جدائی ہم سب کے لیے صدمہ کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں جگہ دیں اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔

مولانا عبد الستار تونسویؒ 

حضرت مولانا عبد الستار تونسویؒ بھی چل بسے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ابھی دو ہفتے قبل وہ گوجرانوالہ تشریف لائے تھے۔ ایک پروگرام میں شریک ہونے کے بعد جامعہ نصرۃ العلوم میں آرام فرمایا۔ میں صبح اسباق کے لیے مدرسہ میں پہنچا تو طلبہ نے بتایا کہ حضرت تونسویؒ صاحب تشریف لائے ہوئے ہیں اور مہمان خانے میں آرام فرما رہے ہیں۔ اسباق سے فارغ ہو کر میں مہمان خانے میں گیا تو وہ لحاف اوڑھے لیٹے ہوئے تھے مگر جاگ رہے تھے۔ میں نے سلام عرض کیا، مصافحہ کیا اور دعا کی درخواست کر کے واپس پلٹ گیا تاکہ ان کے آرام میں زیادہ خلل نہ آئے۔ دورہ حدیث کے طلبہ نے فرمائش کی کہ حضرت تونسوی صاحبؒ انہیں اپنی سند کے ساتھ حدیث روایت کرنے کی اجازت مرحمت فرما دیں۔ میں نے مولانا حاجی فیاض خان سواتی سے کہا کہ وہ مناسب موقع دیکھ کر حضرتؒ سے درخواست کردیں اور گھر واپس آگیا۔ یہ معلوم ہوتا کہ یہ حضرت تونسویؒ سے میری آخری ملاقات ہے تو شاید انہیں کچھ دیر کے لیے بے آرام بھی کر لیتا، مگر یہ علم اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے پاس ہی رکھا ہے کہ کس کی زندگی نے کب اور کہاں اس کا ساتھ چھوڑ جانا ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں۔
حضرت علامہ عبد الستار تونسویؒ کی زیارت پہلی بار غالباً طالب علمی کے دور میں قلعہ دیدار سنگھ کی مدینہ مسجد کے سالانہ اجلاس میں ہوئی تھی جہاں وہ اور ’’تنظیم اہل سنت‘‘ کے دیگر قائدین حضرت مولانا دوست محمد قریشیؒ ، حضرت مولانا قائم الدین عباسیؒ اور دیگر حضرات تشریف لایا کرتے تھے۔ اس کے بعد گزشتہ نصف صدی کے دوران متعدد مجالس اور پبلک جلسوں میں ان سے ملاقات رہی۔ مختلف تحریکات میں ان کے ساتھ شریک ہونے کا موقع ملا اور بہت سے مواقع پر ان سے استفادہ کی سعادت حاصل ہوئی۔ وہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ اور امام اہل سنت حضرت مولانا عبد الشکورلکھنویؒ کے ممتاز شاگردوں میں سے تھے۔ اہل سنت کے عقائد و مسلک کے تحفظ اور حضرات صحابہ کرامؓ کے ناموس و وقار کی سربلندی کے لیے حضرت مولانا عبد الشکور لکھنویؒ کی جدوجہد اور خدمات اس حوالہ سے تاریخ کے ایک مستقل باب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ انہوں نے لکھنو میں بیٹھ کر جو ہمیشہ اہل تشیع کا گڑھ رہا ہے، اہل سنت کے عقائد کا پرچار کیا، حضرات صحابہ کرامؓ کی عزت و ناموس کا پرچم بلند کیا، سنی مسلمانوں کے حقوق و مفادات کا تحفظ کیا اور اس مشن کے لیے برصغیر کے طول و عرض سے تعلق رکھنے والے ہزاروں علماء کرام کی تربیت کر کے انہیں تیار کیا۔ میرے چچا محترم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ بھی حضرت لکھنویؒ کے شاگردوں میں سے ہیں بلکہ ان کی وساطت سے ہماری سند حدیث ’’علماء فرنگی محل‘‘ کے ساتھ متصل ہو جاتی ہے۔ 
پاکستان بننے کے بعد جن علماء کرام نے حضرت مولانا عبد الشکور لکھنویؒ کے اس مشن کو ان کے سکھائے ہوئے طرز اور اسلوب کے مطابق سنبھالا اور مسلسل محنت کر کے اسے ایک مستقل تحریک کی حیثیت دی ان میں حضرت مولانا عبدالستار تونسویؒ ، حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ ، حضرت مولانا عبد اللطیف جہلمیؒ ، حضرت مولانا دوست محمد قریشیؒ ، حضرت مولانا سید نور الحسن شاہ بخاریؒ ، حضرت مولانا قائم الدین عباسیؒ ، حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود مدظلہ اور حضرت مولانا عبد الحئی جام پوریؒ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے ملتان میں تنظیم اہل سنت کے عنوان سے مرکز قائم کیا۔ ایک دور میں ’’دعوت‘‘ کے نام سے تنظیم اہل سنت کا مستقل جریدہ حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود مدظلہ کی ادارت میں شائع ہوتا رہا ہے جس نے اس مشن اور محاذ کے لیے دینی مدارس کے اساتذہ و طلبہ کی ذہن سازی میں اہم کردار ادا کیا۔ سرکردہ علماء کرام کے اس عظیم قافلہ کے ساتھ اس محاذ کے ایک اور عظیم مجاہد سردار احمد خان پتافیؒ اور ان کے علاوہ شاعر اہل سنت خان محمد کمتر مرحوم کا تذکرہ نہ کرنا نا انصافی کی بات ہوگی جن کی خدمات اس حوالہ سے بہت نمایاں ہیں۔ 
حضرت مولانا عبد الستار تونسویؒ کے تین بڑے محاذ تھے، وہ اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان اختلافی مسائل پر مباحثہ کے لیے اپنے وقت کے سب سے بڑے سنی مناظر تھے اور انہوں نے اس محاذ پر بڑے بڑے معرکے سر کیے ہیں۔ وہ پبلک جلسوں میں ناموس صحابہؓ اور عقائد اہل سنت کے اثبات و دفاع میں ایک کامیاب خطیب تھے جن کے محققانہ خطبات ہزاروں لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بنے ہیں اور دینی مدارس کے اساتذہ و طلبہ کو سنی شیعہ تنازعات پر مناظرہ کی تیاری کرانا اور سنی کاز کے لیے محنت کرنے کی تربیت دینا ان کا خصوصی مشغلہ تھا جس میں وہ نصف صدی سے زیادہ عرصہ تک مصروف رہے ہیں اور ان کے تربیت یافتہ ہزاروں علماء کرام نہ صرف پاکستان بلکہ بہت سے دوسرے ممالک میں بھی خدمات سر انجام دینے میں مصروف ہیں۔ 
ان کا سیاسی تعلق ہمیشہ جمعیۃ علماء اسلام کے ساتھ رہا ہے اور حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ ، حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ ، حضرت مولانا مفتی محمودؒ ، حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ اور دیگر اکابر جمعیۃ کے ساتھ ان کا مسلسل ربط و تعلق تھا۔ انہوں نے اپنے محاذ اور مشن کے ساتھ ساتھ تحریک تحفظ ختم نبوت، تحریک نفاذ شریعت، تحریک تحفظ ناموس رسالتؐ اور دیگر دینی تحریکات میں بھی متحرک کردار ادا کیا اور ان تحریکوں کی بھرپور سرپرستی کی۔ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ کے ساتھ ان کا گہرا تعلق تھا اور ان بزرگوں کی باہمی محبت و شفقت کے بہت سے مناظر نگاہوں کے سامنے گھوم رہے ہیں۔ 
حضرت مولانا عبد الشکور لکھنویؒ کا تربیت یافتہ یہ قافلہ ایک ایک کر کے ہم سے جدا ہوگیا ہے اور ان کے اسلوب و طرز کے حوالہ سے پیدا ہونے والا یہ عظیم خلا ہم جیسے حساس کارکنوں کو زندگی بھر پریشان کرتا رہے گا۔ ان میں سے اب صرف حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود مدظلہ حیات ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں صحت و عافیت کے ساتھ تادیر سلامت رکھیں اور حضرت تونسویؒ کی خدمات کو قبولیت سے نوازتے ہوئے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔ 

مولانا محمد اشرف ہمدانی ؒ 

۱۶ جنوری کو صبح نماز فجر کے بعد درس سے فارغ ہوا تھا کہ ڈاکٹر حامد اشرف ہمدانی نے فون پر بتایا کہ ان کے والد محترم مولانا محمد اشرف ہمدانیؒ کا فیصل آباد میں انتقال ہوگیا ہے۔ زبان پر بے ساختہ انا للہ وانا الیہ راجعون جاری ہوا اور ڈاکٹر صاحب موصوف سے تعزیت و تسلی کے چند کلمات کہے، مگر جنازے میں شریک نہ ہو سکا۔ 
مولانا محمد اشرف ہمدانیؒ کے ساتھ میرا پرانا تعلق تھا، وہ اس زمانے میں گوجرانوالہ کی پل لکڑ والا کی مسجد میں خطیب و امام تھے جب ہم نے گوجرانوالہ میں جمعیۃ علماء اسلام کی رکنیت سازی اور تنظیم کا کام شروع کیا تھا۔ میرا وہ طالب علمی کا آخری دور تھا اور ہمیں اس محنت میں مولانا محمد اشرف ہمدانیؒ کا بھرپور تعاون حاصل تھا۔ وہ اپنے دور کے ممتاز خطباء میں شمار ہوتے تھے اور ان کے خطبات جمعہ اور دروس گوجرانوالہ میں اور پھر فیصل آباد میں عام لوگوں کے لیے کشش اور استفادے کا ذریعہ ہوا کرتے تھے۔ میرا ان سے رابطہ شیرانوالہ لاہور کے حوالہ سے بھی تھا کہ وہ بھی میری طرح شیخ مکرم حضرت مولانا عبید اللہ انور قدس اللہ سرہ العزیز سے ادارت و عقیدت کا تعلق رکھتے تھے اور شیرانوالہ لاہور کی حاضری میں ہمارا اکثر ساتھ رہتا تھا۔
گوجرانوالہ میں چند سال خطابت کے جوہر دکھا کر وہ فیصل آباد چلے گئے اور جناح کالونی کی مرکزی جامع مسجد میں بطور خطیب خدمات سر انجام دینا شروع کیں، ان کی خطابت نے فیصل آباد میں اپنا رنگ جمایا اور دیوبندی مسلک کی ترجمانی اور ترویج کی جدوجہد میں حضرت مولانا مفتی زین العابدین، حضرت مولانا تاج محمودؒ اور حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ کے ساتھ ان کا نام بھی نمایاں ہوتا چلا گیا۔ تحریک ختم نبوت ان کا خصوصی میدان تھا، چنانچہ انہوں نے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے فورم پر نہ صرف اس محاذ پر مسلسل خدمات سر انجام دیں بلکہ ۱۹۷۳ء میں قادیانیوں کو دستوری طور پر غیر مسلم قرار دیے جانے کے بعد چناب نگر (ربوہ) میں قادیانیوں کی آبادی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو آباد کرانے، مسلم کالونی کی ترقی اور وہاں ختم نبوت کی مسجد و مرکز کی تعمیر میں متحرک کردار ادا کیا اور فیصل آباد کے علماء کرام اور تاجران کو اس اہم کام کی طرف متوجہ کرنے کے لیے حضرت مولانا تاج محمودؒ اور حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ کے ساتھ ان کے دست و بازو کے طور پر محنت کی۔ جناح کالونی کی مرکزی جامع مسجد سے الگ ہونے کے بعد انہوں نے ملت ٹاؤن میں جامع مسجد آمنہ اور اس کے ساتھ روحانی خانقاہ کا نظام قائم کرنے میں اپنی صلاحیتیں صرف کیں اور بہت سے لوگوں کے عقائد کی اصلاح اور دینی و روحانی تربیت کا ذریعہ بنے۔
شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ اور شیخ القرآن حضرت مولانا غلام اللہ خانؒ کے ساتھ خصوصی عقیدت رکھتے تھے اور ان کی گفتگو و خطابت میں ان بزرگوں کے فیوض کا اکثر تذکرہ رہتا تھا، والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے ساتھ بھی ان کا مسلسل ربط و تعلق رہا اور وہ ان کے خوشہ چینوں میں شمار ہوتے تھے۔ چند ہفتے قبل حافظ ریاض احمد قادری کے ہمراہ حاضر ہوا، بستر علالت پر تھے، ضعف کا غلبہ تھا مگر بذلہ سنجی اسی طرح تھی جیسے جوانی کے زمانے میں ہوا کرتی تھی، کھلے مزاج اور بے تکلفانہ گفتگو کے عادی تھے۔ اس روز بھی کھلے مزاج کے ساتھ اور کھلے ماحول میں بہت سی باتیں کیں، لطیفے بھی ہوئے اور چٹکلے بھی سنائے۔ مجھے خوشی ہوئی کہ بیماری اور ضعف نے ان کے مزاج کو متاثر نہیں کیا۔ وہ کم و بیش پچھتر برس کی زندگی گزار کر اپنے خالق حقیقی کے حضور پیش ہوگئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مولانا ہمدانی رحمہ اللہ تعالیٰ کو جنت الفردوس میں جگہ دیں اور پسماندگان کو ان کی حسنات جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔

اسلامی نظام کی جدوجہد اور اس کی حکمت عملی

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ہمارے ہاں پاکستان کی معروضی صورت حال میں نفاذِ اسلام کے حوالہ سے دو ذہن پائے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ سیاسی عمل اور پارلیمانی قوت کے ذریعہ اسلام نافذ ہو جائے گا اور دوسرا یہ کہ ہتھیار اٹھائے بغیر اور مقتدر قوتوں سے جنگ لڑے بغیر اسلام کا نفاذ ممکن نہیں ہے۔ ایک طرف صرف پارلیمانی قوت پر انحصار کیا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف ہتھیار اٹھا کر عسکری قوت کے ذریعہ مقتدر قوتوں سے جنگ لڑنے کو ضروری قرار دیا جا رہا ہے۔ میری طالب علمانہ رائے میں یہ دونوں طریقے ٹھیک نہیں ہیں۔ صرف الیکشن، جمہوریت اور پارلیمانی قوت کے ذریعہ نفاذ اسلام اس ملک میں موجودہ حالات میں ممکن نہیں ہے اور ہتھیار اٹھا کر حکمران طبقات کے ساتھ جنگ کرنا اس کے شرعی جواز یا عدم جواز کی بحث سے قطع نظر بھی عملاً موثر اور نتیجہ خیز نہیں ہے۔ یہ بحث اپنی جگہ ہے کہ کسی مسلم ریاست میں مسلمان حکمرانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی شرائط فقہاء کرامؒ نے کیا بیان کی ہیں اور خاص طور پر جمہور فقہائے احناف کا موقف اس سلسلہ میں کیا ہے۔ لیکن اس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کیا عسکری گروپوں کے لیے ملک کی فوج اور اسٹیبلشمنٹ سے جنگ لڑ کر کوئی علاقہ حاصل کر لینا اور اس پر قبضہ برقرار رکھ کر اس میں کوئی نظام نافذ کر لینا ممکن بھی ہے؟ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی ہوش مند شخص اس سوال کا جواب اثبات میں دے گا، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اس سلسلہ میں جدوجہد کے طریق کار کی حد تک ایران کے تجربہ سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ایران کی مذہبی قیادت نے شاہ ایران کی قیادت سے انحراف کر کے یونیورسٹیوں اور کالجوں کو ذہن سازی اور فکری بیداری کی جولانگاہ بنایا، مسلسل سترہ برس تک محنت کے ذریعے اگلی نسل کو اس کے لیے تیار کر کے اسے اپنی قوت بنایا اور اس قوت کے ذریعہ ہتھیار اٹھائے بغیر سٹریٹ پاور اور تحریکی قوت کے نتیجے میں شاہ ایران کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔
میں ایرانیوں کے مذہب کی نہیں بلکہ ان کی جدوجہد کے طریق کار کی بات کر رہا ہوں کہ ان کے کامیاب تجربہ کو سامنے رکھ کر کیا ہم اپنی جدوجہد کا طریق کار طے نہیں کر سکتے؟ اگر کچھ دوستوں کو یہ حوالہ میرے قلم سے پسند نہ آرہا ہو تو میں امریکہ کے سیاہ فاموں کی اس جدوجہد کا حوالہ دینا چاہوں گا جو اب سے صرف پون صدی قبل کالوں کو گوروں کے برابر شہری حقوق دلوانے کے لیے منظم کی گئی تھی، ایک مذہبی لیڈر مارٹن لوتھر کنگ نے سیاہ فاموں کی سٹریٹ پاور کو کو منظم کیا، پرُ امن احتجاجی تحریک کو آگے بڑھایا اور صرف دو عشروں میں ایک گولی چلائے بغیر ۱۹۶۴ء میں اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی سے سیاہ فام آبادی کے لیے سفید فاموں کے برابر شہری حقوق کی دستاویز پر دستخط کرانے میں کامیاب ہوگیا۔ 
میں نے دونوں تحریکوں کا مطالعہ کیا ہے، دونوں کے کے مراکز میں گیا ہوں، ان کے راہ نماؤں سے ملاقاتیں کی ہیں اور ان کی جدوجہد کے مختلف مراحل سے واقف ہوں، میں افغانستان بھی گیا ہوں، بار بار گیا ہوں، روسی استعمار کے خلاف جہاد میں مختلف جنگی محاذوں پر حاضری دی ہے، افغان مجاہدین کی روسی استعمار کے خلاف جنگ کو جہاد سمجھ کر اس میں شریک ہوا ہوں، امریکی استعمار کے خلاف ان کی جنگ کو بھی جہاد سمجھتا ہوں اور حتی الوسع اسے سپورٹ کرتا ہوں، لیکن پورے شرح صدر اور دیانت داری کے ساتھ یہ سمجھتا ہوں کہ دینی تصلب اور حمیت و غیرت میں تو بلاشبہ افغان مجاہدین اور افغان طالبان ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں لیکن نفاذ اسلام کی جدوجہد کے طریق کار کے حوالہ سے ہمیں ایران کی مذہبی تحریک کا مطالعہ کرنا ہوگا اور مارٹن لوتھر کنگ کی تحریک سے واقفیت حاصل کرنا ہوگی۔ اگر پُر امن عوامی تحریک اور رائے عامہ کی منظم قوت کے ذریعہ ’’امامت‘‘ کو دستوری شکل دے کر اسے نافذ کیا جا سکتا ہے تو ’’خلافت‘‘ کے احیاء و قیام کے لیے یہ قوت آخر کیوں کام میں نہیں لائی جا سکتی؟

جزا و عذاب قبر کی قرآنی بنیادیں

محمد زاہد صدیق مغل

موجودہ دور میں انکار و تخفیف سنت مختلف پیراؤں میں جلوہ گر ہوتی ہے جس کی ایک شکل یہ اصول اختیار کرنا ہے کہ حدیث و سنت کی بنیاد پر کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوسکتا۔ چند روز قبل راقم کو اسی قسم کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا جب ہمارے ایک عزیز نے دوران گفتگو یہ سوال کردیا کہ جناب، یہ عذاب قبر کا جو تصور ہمارے ہاں رائج ہے، اس کی شرعی بنیاد کیا ہے؟ سوال فی البدیہہ تھا، لہٰذا راقم نے چند احادیث کا حوالہ پیش کردیا، لیکن چونکہ آج کل تخفیف حدیث کی وبا عام ہے، لہٰذا جھٹ سے کہنے لگے کہ ’ قرآن میں کہاں ہے؟‘ جب ان صاحب کے استدلال کا تجزیہ کیا تو ان کی بنیادیں درج ذیل نظری مقدمات پر قائم تھیں: 
  • اس قسم کا کوئی تصور واضح طور پر قرآن مجید میں موجود نہیں۔
  • قرآن کے مطابق جزا و سزا کا فیصلہ روز آخرت میں ہوگا، لہٰذا حساب و کتاب سے قبل قبر میں عذاب دینا نہ صرف یہ کہ خلاف عقل و عدل ہے بلکہ یہ ’پنجاب پولیس‘ سے متاثر شدہ تصور ہے جو عدالت کے فیصلے سے قبل ہی ملزم کو زدو کوب کرنے لگتی ہے ۔
زیر بحث موضوع پر جب گفتگو کا دائرہ وسیع ہوا تو یہ بات واضح ہوئی کہ اس موضوع پر کوئی رائے قائم کرنے کے لیے تین سوالوں پر غور کرنا ضروری ہے : 
۱) اللہ تعالیٰ کے وضع کردہ جزا و سزا کے اصول کا دائرہ کار کیا ہے؟ کیا اس کا اطلاق صرف آخرت کے ساتھ مخصوص ہے؟ 
۲) کیا از روئے قرآن اس زندگی کی موت اور یوم آخرت کے درمیان (یعنی برزخ میں) کسی شعوری زندگی کا تصور موجود ہے؟ 
۳) کیا قرآن اس برزخ کی زندگی میں کسی قسم کی جزا و سزا کا تصور پیش کرتا ہے؟ 
اگر ان تینوں سوالات کا جواب اثبات میں ہو تو وہ تمام احادیث جن میں عذاب قبر کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں، انہیں ماننے میں کوئی مانع (سوائے ہٹ دھرمی کے) باقی نہیں رہ جاتا۔ اہمیت موضوع کے سبب (کہ یہ معاملات ایمان میں سے ہے)، ذیل میں ان تینوں سوالات پر ہونے والی گفتگو کا خلاصہ قارئین کے پیش نظر ہے۔ 

۱) قرآن کے قانون جزا و سزا کا اطلاق 

قرآن مجید کا محض سرسری مطالعہ ہی یہ بات واضح کردیتا ہے کہ اللہ تعالی کا وضع کردہ تصور جزا و سزا آخرت کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ اس کا اطلاق عالم برزخ تو کیا اس دنیا میں بھی جاری و ساری ہے۔ چنانچہ قرآن اپنے قاری کے سامنے یہ تصور بارہا اجاگر کرتا ہے کہ اس دنیا میں آنے والی تمام تکالیف و مصیبتیں یا تو بطور آزمائش ہوتی ہیں اور یا پھر انسان کے اپنے کرتوتوں کا ثمر۔ اس مقدمے پر درج ذیل قرآنی آیت بطور مثال پیش کی جا سکتی ہے: 
وَمَا أَصَابَکُم مِّن مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْ عَنْ کَثِیْرٍ (الشوریٰ: ۳۰)
’’جو مصیبت تمہیں پہنچتی ہے وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی کے سبب ہی پہنچتی ہے، جبکہ وہ (کریم رب) تمہارے بہت سے کرتوتوں سے درگزر فرمادیتا ہے‘‘ ۔
گویا اللہ تعالیٰ اس دنیا میں انسانوں کو انکی بد اعمالیوں کی سزا کا مزہ مصیبتوں کی صورت میں بھی چکھا دیتا ہے جبکہ اپنے لطف و کرم کی وجہ سے اکثر گناہوں سے در گزر سے بھی کام لیتا ہے۔ 
یہودیوں کے بارے میں قرآن یہ اعلان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت فرمائی، دنیا کی زندگی میں ان کے لیے ذلت مسلط کردی، ان کے دلوں کو سخت کردیا وغیرہ۔ (یہ تمام تفصیلات سورۃ بقرۃ، آل عمران، نساء و مائدۃ میں تفصیل کے ساتھ دیکھی جاسکتی ہیں)۔ ان تمام سزاؤں کی واحد وجہ قرآن نے ان کی بد اعمالیوں کو قرار دیا، یعنی: 
ذَلِکَ بِمَا عَصَوا وَّکَانُوا یَعْتَدُونَ (البقرۃ : ۶۱) 
’’یہ سب کچھ اس وجہ سے تھا کہ وہ نا فرمان تھے اور (اللہ کی مقرر کردہ) حد وں سے تجاوز کیا کرتے تھے ‘‘۔
یہودو نصاریٰ کی اس غلط فہمی کو کہ ’چونکہ وہ اللہ کی چہیتی مخلوق ہیں لہٰذاسزا سے بری ہیں‘ قرآن یوں رد فرماتا ہے: 
وَقَالَتِ الْیَہُودُ وَالنَّصَارَی نَحْنُ أَبْنَاءُ اللّٰہِ وَأَحِبَّاؤُہُ قُلْ فَلِمَ یُعَذِّبُکُم بِذُنُوبِکُم (المائدۃ :۱۸) 
’’یہود اور نصاری نے کہا ہم اللہ کی اولاد اور اس کے محبوب ہیں، آپ فرما دیجئے: (اگر تمہاری بات سچ ہے) تو وہ تمہارے گناہوں کی وجہ سے تمہیں عذاب کیوں دیتا ہے ؟‘‘ 
یہ آیت واضح طور پر دنیا میں عذاب بسبب گناہ کا اثبات کررہی ہے۔ نیز قران میں بے شمار اقوام (مثلاً عاد، ثمود وغیرہم) پر ان کے گناہوں کے سبب دنیا میں ہی سزا کا کوڑا برسنے کا ذکر موجود ہے۔ 
قرآن یہ حقیقت بھی عیاں کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی نا فرمانی نیز حق کے انکار کی سزا سلب توفیق اور دلوں پر زنگ لگ جانے کی صورت میں ملتی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: 
إِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَیْْہِمْ أَأَنذَرْتَہُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْہُمْ لاَ یُؤْمِنُونَ، خَتَمَ اللّٰہُ عَلَی قُلُوبِہمْ وَعَلَی سَمْعِہِمْ، وَعَلَی أَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃٌ (البقرۃ: ۵، ۶)
’’بے شک جنہوں نے کفر (کی روش کو) اپنا لیا ہے انکے لیے برابر ہے کہ آپ انہیں خبردار کریں یا نہ کریں، وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ (وہ اس لیے کہ) اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگادی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ (پڑ گیا) ہے‘‘ ۔
دلوں کا یوں زنگ آلود ہوجانا کہ حق اس پر اثر ہی نہ کرسکے بلا وجہ ہی نہیں بلکہ بد اعمالیوں کے سبب ہوا کرتا ہے: 
بَلْ رَانَ عَلَی قُلُوبِہِم مَّا کَانُوا یَکْسِبُونَ (المطففین: ۱۴)
’’بات اصل میں یہ ہے کہ ان کے دلوں پر ان اعمال بد کا رنگ چڑھ گیا ہے جو وہ کیا کرتے تھے‘‘ ۔
حق سے اغماض کی سزا درج ذیل صورتوں میں بھی نکلتی ہے: 
وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَإِنَّ لَہُ مَعِیْشَۃً ضَنکاً (طہ: ۱۲۴)
’’جس نے میرے ذکر سے منہ موڑا تو اس کے لیے دنیاوی معاش قلیل (scarce) کردیا جاتا ہے‘‘ ۔
وَمَن یَعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَہُ شَیْْطَاناً فَہُوَ لَہُ قَرِیْنٌ (الزخرف :۳۶)
’’جو شخص رحمان کے ذکر سے صرف نظر کرلے تو ہم اس کے لیے ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں جو ہر وقت اس کے ساتھ جڑا رہتا ہے‘‘ 
قرآن مجید بد اعمالیوں کے نتیجے میں یک طرفہ طور پر صرف سزا ہی نہیں بلکہ اس دنیا میں نیک اعمال کی مثبت جزا کا تصور بھی پیش کرتا ہے۔ مثلاً خوف و حزن کی کیفیت سے نجات یوم آخرت کے عظیم ترین احسانوں میں سے ایک ہے، لیکن سنیے، قرآن اس بارے میں کیا کہتا ہے: 
إِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَیْْہِمُ الْمَلَاءِکَۃُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنتُمْ تُوعَدُونَ، نَحْنُ أَوْلِیَاؤُکُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَۃِ (حم السجدۃ : ۲۰۔۲۱)
’’بے شک جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے پھر وہ اس پر ڈٹ گئے تو ان پر فرشتے اترتے ہیں (جو ان سے کہتے ہیں) کہ تم خوف نہ کرو اور نہ غم کرو، اور تم (اس ) جنت کی خوشیاں مناؤجس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست ہیں اور آخرت میں بھی‘‘۔
یعنی اس احسان عظیم کی کیفیات محض آخرت میں نہیں بلکہ نیک ارواح اس دنیا میں بھی محسوس کرتے ہیں۔ راہ راست اختیار کرنے والوں کے لیے اللہ کیسے خفیہ انتظامات کرتا ہے، اس آیت میں پڑھیے : 
وَمَن یَتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَل لَّہُ مَخْرَجاً وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْْثُ لَا یَحْتَسِبُ (الطلاق: ۲، ۳)
’’جو کوئی خدا خوفی (کی راہ پر چلتا) ہے تو اللہ اس کے لیے راستے کھول دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا‘‘ ۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا اہل ایمان سے یہ وعدہ ہے کہ اگر وہ ایمان کی راہوں پر گامزن رہیں گے تو نہ صرف یہ کہ اس دنیا میں انہیں خلافت ارضی عطا کی جائے گی (النور ۵۵) بلکہ وہی غالب بھی رہیں گے۔ (آل عمران ۱۳۹، نساء ۱۷۱)۔ 
یہ چند آیات بطور نمونہ پیش کی گئی ہیں، ورنہ اس مقدمے (کہ جزا و سزا کا قانون اس دنیا میں بھی لاگو ہے) پر دیگر بہت سی آیات قرآنی دال ہیں۔ 
اس موقع پر ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر جزاو سزا کا قانون اس دنیا میں بھی لاگو ہے تو آخرت میں حساب وکتاب نیز جزا و سزا کا کیا مطلب؟ قرآن مجید نے آخرت میں ملنے والی جزا و سزا کے بارے میں یہ تصور پیش کیا ہے کہ اس دن ہر شخص کو ’پورا پورا‘ اجر مل جائے گا۔ چنانچہ اس دن کے اجر کے بارے میں سے قرآن نے لفظ ’وفی یوفی‘ استعمال کیا ہے جس کا مطلب ’پورا پورا لینا یا دینا‘ ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: 
کُلُّ نَفْسٍ ذَآءِقَۃُ الْمَوْتِ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ (آل عمران : ۱۸۵)
’’ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور تمہارے اجر پورے کے پورے تو قیامت کے دن ہی دیے جائیں گے‘‘ 
(لفظ ’انما‘ چونکہ حصر کا تقاضا کرتا ہے اسی لیے درج بالا آیت کے ترجمے میں اس کا خیال رکھا گیا ہے)۔ اسی طرح ارشاد ہوا: 
فَکَیْْفَ إِذَا جَمَعْنَاہُمْ لِیَوْمٍ لاَّ رَیْْبَ فِیْہِ وَوُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَہُمْ لاَ یُظْلَمُونَ (آل عمران: ۲۵)
’’سو کیا حال ہوگا ان کا جب ہم انہیں جمع کریں گے اس دن جس (کے برپا ہونے ) میں کوئی شک نہیں اور ہر شخص کو جو اس نے کمایا ہے اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا ‘‘ ۔
یہی تصور آل عمران: ۵۷ نیز نساء: ۱۷۳ میں بھی پیش کیا گیا ہے۔ یعنی چونکہ اس عالم فانی میں کار فرما طبعی و اخلاقی قوانین کی محدودیت کی وجہ سے یہاں انسان کے اعمال کا پورا بدلہ دینا ممکن نہیں، لہٰذا اس کے لیے موت کے بعد ایک دوسری دنیا برپا کی جانے والی ہے (مثلاً جس شخص نے سو قتل کیے ہوں، اسے اس دنیا میں سو بار قتل کرنا ناممکن ہے) جہاں ہر شخص کو اس کے عمل کا پورا پورا بدلہ مل سکے گا تاکہ کسی پر ظلم نہ ہوسکے۔ 
درج بالا بحث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ مالک و مختار ہے، وہ جب اور جہاں چاہے اپنے بندے کو جزا یا سزا دے سکتاہے۔ نیز اس کا قانون اجر آخرت کے ساتھ مخصوص نہیں۔ لہٰذا ہمارے ناقدین کا یہ اعتراض کہ ’عذاب قبر خلاف عدل اور پنجاب پولیس سے اخذ کردہ تصور ہے‘ اپنے آپ رد ہوجاتاہے۔ اب آئیے دوسرے نکتے کی طرف۔ 

۲) عالم برزخ میں شعوری زندگی کا ثبوت 

قرآن مجید میں کئی مقامات پر ایسے قطعی قرائن موجود ہیں جن سے عالم برزخ میں نہ صرف یہ کہ ’محض‘ انسانی زندگی بلکہ ’شعوری ‘ زندگی کا تصور ثابت ہوتا ہے۔ عالم برزخ میں انسانی زندگی کا اشارہ اس آیت میں موجود ہے: 
کَیْْفَ تَکْفُرُونَ بِاللّٰہِ وَکُنتُمْ أَمْوَاتاً فَأَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ إِلَیْْہِ تُرْجَعُونَ (البقرۃ : ۲۸)
’’تم کیسے اللہ کا انکار (کرنے کی جسارت) کرتے ہو حالانکہ تم مردہ تھے۔ اس نے تمہیں زندگی بخشی، پھر تمہیں مارے گا، پھر تمہیں زندہ کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے‘‘ ۔
زیر مطالعہ آیت میں اس دنیاوی زندگی کی موت کے بعد جو حیات عطا ہوگی، وہ لوٹائے جانے سے قبل (یعنی عالم برزخ میں) ہوگی۔ نیز لفظ ثُمَّ کا استعمال بتا رہا ہے کہ یہ ’برزخی حیات‘ اور ’یوم آخرت کو اللہ کی طرف لوٹایا جانا ‘ دو الگ الگ واقعے ہیں جن میں زمانی مغایرت ہے۔ عالم برزخ میں زندگی کا ثبوت آیت شہداء میں بھی موجود ہے: 
وَلاَ تَقُولُوا لِمَنْ یُقْتَلُ فِیْ سَبیْلِ اللّٰہِ أَمْوَاتٌ، بَلْ أَحْیَاءٌ وَلَکِن لاَّ تَشْعُرُونَ (البقرۃ :۱۵۴)
’’جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ مت کہا کرو، (وہ مردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تم (ان کی زندگی کو) سمجھ نہیں سکتے‘‘ ۔
دوران بحث جب یہ آیت پیش کی گئی تو ہمارے عزیز نے عرض کیا کہ جناب یہاں حیات سے مراد معنوی حیات ہے، یعنی ’شہداء کی حیات کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگوں کے دلوں میں زندہ ہوتے ہیں یا یہ کہ اپنے نظریات و اعمال کی وجہ سے وہ معاشروں پر جو انمٹ اثرات چھوڑ جاتے ہیں، اسے حیات سے تعبیر کیا گیا ہے‘۔ مگر زیر مطالعہ آیت کے داخلی قرآئن کی رو سے اس میں بیان کردہ حیات کو معنوی حیات کہنا محل نظر ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شہدا کی حیات ایسی ہے کہ ’تم اس کا شعور نہیں رکھتے‘، جبکہ اس معنوی حیات کا شعور تو ہم رکھتے ہیں! یعنی اللہ تو کہہ رہا ہے کہ ہم شہدا کو ایسی زندگی دیتے ہیں جس کا تمہیں شعور نہیں، جبکہ آیت کو معنوی حیات پر محمول کرنے سے اس زندگی کا شعور ہمیں حاصل ہوجاتا ہے تو اللہ کا یہ فرمانا کہ ’تم اس کا شعور نہیں رکھتے‘ ایک بے معنی بات بن کر رہ جاتی ہے۔ 
عالم برزخ میں زندگی کے وجود پر مزید شرح صدر زیر بحث موضوع کے تیسرے نکتے سے بھی فراہم ہوگی۔ 

۳) عالم برزخ میں قانون جزا و سزاکا اطلاق 

اب آئیے اصل قابل نزع موضوع کی طرف یعنی کیا قرآن عالم برزخ میں جزا و سزا کے اطلاق کا کوئی تصور پیش کرتا ہے۔ فرض کریں کہ قرآن کی کوئی ایک آیت بھی اس مقدمے پر روشنی نہیں ڈالتی، تب بھی درج بالا بحث کے بعد یہ ماننا مشکل نہیں رہتا کہ اگر اللہ تعالیٰ اس دنیا کی زندگی میں انسانوں کو اعمال کا اجر دیتا ہے تو عالم برزخ میں ایسا کیوں نہیں کرسکتا؟ خصوصا کہ جب صحیح احادیث میں اسکا ثبوت بھی موجود ہو! اس قاعدے کے بعد اب آئیے قرآنی شواہد کی طرف۔ چنانچہ شہدا کے بارے میں ارشاد ہوا: 
وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَمْوَاتاً، بَلْ أَحْیَاءٌ عِندَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُونَ، فَرِحِیْنَ بِمَا آتَاہُمُ اللّٰہُ مِن فَضْلِہِ، وَیَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِیْنَ لَمْ یَلْحَقُوا بِہِم مِّنْ خَلْفِہِمْ أَلاَّ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُونَ، یَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَفَضْلٍ (آل عمران : ۱۶۹۔۱۷۱)
’’جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں، انہیں ہرگز مردہ خیال بھی مت کرنا، بلکہ وہ اپنے رب کے حضور زندہ ہیں اور رزق پارہے ہیں۔ جو نعمتیں اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا کررکھی ہیں، وہ ان پر شاداں ہیں، اور اپنے ان پچھلوں سے بھی جو (تاحال) ان سے نہیں مل سکے (انہیں راہ راست پر جان کر) خوش ہوتے ہیں کہ ان پر بھی نہ خوف ہوگا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے، وہ اللہ کی نعمت و فضل سے مسرور رہتے ہیں‘‘ ۔
اولاً، اس آیت کریمہ سے نہ صرف یہ کہ عالم برزخ کی حیات بلکہ شعوری حیات کا اثبات ہوتا ہے کیونکہ یہاں استبشار کے فاعل شہدا ہیں، یعنی جو خوش قسمت ان نعمتوں سے بہراور ہورہے ہیں انہیں اسکا پورا شعور ہے کہ یہ نعمتیں ہمارے رب کی عنایتیں ہیں ۔ دوسری بات یہ کہ اس آیت میں واضح طور پر عالم برزخ میں اجر ملنے کا تصور موجود ہے، کیونکہ یہ آیت حال کی خبردے رہی ہے نہ کہ قیامت کے کسی واقعے کی۔ 
عالم برزخ میں اجر و ثواب کا اشارہ سورۃ یس میں بیان کردہ اس شخص کے ذکر سے بھی ملتا ہے جسے کہا گیا: 
قِیْلَ ادْخُلِ الْجَنَّۃَ، قَالَ یَا لَیْْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُونَ بِمَا غَفَرَ لِیْ رَبِّیْ وَجَعَلَنِیْ مِنَ الْمُکْرَمِیْنَ (یس ۲۷۔۲۶)
’’اسے کہا گیا جا جنت میں داخل ہوجا، وہ بولا کاش میری قوم جان سکتی کہ میرے رب نے کس چیز کے سبب مجھے بخش دیا اور مجھے عزت والوں میں شامل کیا‘‘ ۔
یہ تو ذکر ہوا عالم برزخ میں اجرو ثواب کا، اب آئیے ذکر عذاب کی طرف۔ پہلی اصولی و منطقی بات یہ کہ اگر عالم برزخ میں ثواب کا اجرا ہو سکتا ہے تو عذاب ماننے میں کیا قباحت ہے؟ البتہ عذاب قوم فرعون کے بارے میں وارد ہونے والی آیت اس موضوع پر نص قطعی ہے : 
النَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْْہَا غُدُوّاً وَعَشِیّاً، وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَۃُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ (المومن :۴۶)
’’(دوزخ کی) آگ ہے جسے صبح و شام پر ان پر پیش کیا جاتا ہے، اور جب قیامت برپا ہوگی تو (حکم ہوگا) آل فرعون کو مزید سخت عذاب میں داخل کردو ‘‘ ۔
یہاں دو قرینے لائق توجہ ہیں۔ پہلا یہ کہ یہاں یوم قیامت برپا ہونے سے ’قبل ‘ آل فرعون پر عذاب کا ذکر ہے، دوسرا یہ کہ قیامت والے دن ’اشد‘ (مزید سخت) عذاب کی بات ہورہی ہے جو بذات خود ایک کمتر عذاب کا ثبوت ہے۔ 
الحمدللہ تینوں سوالات کا جواب آیات قرآنی سے اثبات میں ملا جس سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہوگئی کہ عذاب قبر کے ضمن میں مروی احادیث درج بالا قرآنی آیات کا بیان ہیں جنہیں رد کرنے یا مشکوک بنانے کے لیے کسی صاحب ایمان وعقل کے پاس کوئی حجت باقی نہیں رہ جاتی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے دلوں پر لگے قفل کھول ہے اور ہمیں حق سمجھنے اور اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

مریم جمیلہؒ ۔ اسلام کی بے باک ترجمان

پروفیسر خورشید احمد

میں اکتوبر کے مہینے میں لسٹر، انگلستان میں زیرعلاج تھا کہ ۳۱؍اکتوبر۲۰۱۲ء کو یہ غم ناک اطلاع ملی کہ ہماری محترم بہن اور دورِحاضر میں اسلام کی بے باک ترجمان محترمہ مریم جمیلہ صاحبہ کا انتقال ہوگیا ہے___ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔ اللہ تعالیٰ ان کی نصف صدی سے زیادہ پر پھیلی ہوئی دینی، علمی اور دعوتی خدمات کو قبول فرمائے اور ان کواپنے جوارِرحمت میں اعلیٰ مقامات سے نوازے۔ 
محترمہ مریم جمیلہ سے میرا تعارف ’’وائس آف اسلام‘‘ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے ان کے امریکا کے قیام کے دوران ہی ہوچکا تھا اور ہم ان کے مضامین شائع کر رہے تھے۔ پھر جون ۱۹۶۲ء میں پاکستان آمد کے موقع پر جن تین افراد نے کیماڑی کی بندرگاہ پر ان کا استقبال کیا، ان میں مَیں بھی شامل تھا۔ میرے ساتھ محترم چودھری غلام محمد صاحب اور برادر غلام حسین عباسی ایڈووکیٹ بھی تھے۔ ہم محترم مولانا مودودی کی ہدایت کے مطابق ان کو خوش آمدید کہنے کے لیے مامور تھے اور کراچی میں ان کے قیام اور پروگرام کے ذمہ دار تھے۔ انھوں نے نیویارک سے پاکستان کی ہجرت کا یہ سفر ایک مال بردار جہاز (cargo ship) میں طے کیا تھا اور غالباً کسٹم اور امیگریشن کی وجہ سے پہلے دن انھیں اترنے نہیں دیا گیا جس کے نتیجے میں انھیں ایک رات مزید جہاز پر ہی گزارنا پڑی۔ اگلے دن ہم انھیں گھر لے آئے۔ ان کے قیام کا انتظام برادرم غلام حسین عباسی کے بنگلے پر کیا گیا تھا اور اسی رات کا کھانا میرے گھر پر تھا۔ پھر مرحوم ابراہیم باوانی صاحب اور عباسی صاحب کے گھر پر کئی محفلیں ہوئیں۔ اس طرح ان سے وہ ربط جو علمی تعاون کے ذریعے قائم ہوا تھا، اب ذاتی واقفیت اور بالمشافہ تبادلۂ خیال اور ربط اور ملاقات کے دائرے میں داخل ہوگیا۔ 
کراچی میں ان کا قیام مختصر رہا اور وہ چند ہی دن میں لاہور منتقل ہوگئیں۔ جب تک وہ مولانا محترم کے گھر میں مقیم رہیں، لاہور کے ہرسفر کے دوران ان سے بات چیت ہوتی رہی۔ پھر عملاً ملاقات کا سلسلہ ٹوٹ گیا مگر علمی تعلق قائم رہا، اور ان کے انتقال سے چند ماہ قبل تک خط و کتابت کا سلسلہ رہا جس کا بڑا تعلق اسلامک فاؤنڈیشن لسٹر اور اس کے مجلے ’’مسلم ورلڈ بک ریویو‘‘ (MWBR) کے سلسلے میں ان کے قلمی تعاون سے رہا۔۵۰برس پر محیط ان تعلقات میں ذاتی سطح پر کبھی کوئی کشیدگی رُونما نہیں ہوئی۔ البتہ علمی امور پر ہمارے درمیان وسیع تر اتفاق راے کے ساتھ بڑا مفید اختلاف بھی رہا حتیٰ کہ اسلامک فاؤنڈیشن کے مجلے Encounter میں میرے ایک مضمون Man and Civilization in Islam پر انھوں نے ایک تنقیدی مقالہ لکھا جس کا مَیں نے اسی شمارے میں جواب بھی تحریر کیا۔ یہ سب بڑے دوستانہ ماحول میں ہوا اور الحمدللہ ہمارے باہمی اعتماد او ر تعاون کا رشتہ مضبوط اور خوش گوار رہا جو ہمارے پُرخلوص اور خالصتاً لِلّٰہ تعلق کی ایک روشن مثال ہے اور اُمت کے درمیان اختلاف کے رحمت ہونے کی نبوی بشارت کا ایک ادنیٰ مظہر ہے۔ ان کی آخری تحریر جو امریکا سے شائع ہونے والی ایک کتاب Children of Dust: A Portrait of a Muslim Youngman، از علی اعتراز (Ali Eteraz) پر ان کا تبصرہ ہے جو MWBR کے جنوری ۲۰۱۳ء کے شمارے میں شائع ہونے والا ہے اور جس کا آخری جملہ یہ ہے:
 "The semi - fiction of this story will certainly give the reader a negative picture of Pakistani youth today. 
(یہ نیم افسانوی کہانی یقیناًقاری کو آج کی پاکستانی نوجوان نسل کی منفی تصویر دکھائے گی)۔
اسی طرح ان کے شوہر برادرم محترم محمد یوسف خان صاحب سے بھی میرا تعلق ۱۹۵۱ء سے ہے جب میں جمعیت میں تھا اور وہ جماعت کے سرگرم رکن تھے۔ الحمدللہ یہ رشتہ بھی بڑا مستحکم رہا اور اس طرح شوہر اور بیوی دونوں ہی سے میرا تعلق خاطر رہا۔ محترمہ مریم جمیلہ صاحبہ میرے نام اپنے خطوط میں اپنے شوہر کا ذکر "My Khan Sahab" [میرے خان صاحب] سے کیا کرتی تھیں جو محبت اور مودّت کے جذبات کے ترجمان ہیں۔ ان خطوط میں ’’ترجمان القرآن‘‘ کے ’اشارات‘ کے بارے میں یوسف خان صاحب کے احساسات سے مجھے مطلع کرتی تھیں۔ یوسف خان صاحب کو ٹیلی فون پر تعزیتی جذبات پہنچانے کی کوشش کی لیکن وہ غم میں ایسے نڈھال تھے کہ بات نہ ہوسکی، البتہ ان کے صاحب زادے تک اپنے غم و اندوہ کے جذبات پہنچا دیے اور آج ان صفحات میں اس عظیم خاتون کے بارے میں اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کررہا ہوں۔
مریم جمیلہ جن کا ماں باپ کا دیا ہوا نام مارگریٹ مارکس تھا، نیویارک کے ایک سیکولر یہودی گھرانے میں ۲۳ مئی ۱۹۳۴ء میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم کے بعد انھوں نے روچسٹر یونی ورسٹی میں ۱۹۵۱ء میں داخلہ لیا۔ علم و ادب اور میوزک اور تصویرکشی (painting)سے طبعی شغف تھا۔ فلسفہ اور مذہب بڑی کم عمری ہی سے ان کے دل چسپی کے موضوعات تھے، بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ حق کی تلاش اور زندگی کی معنویت کی تفہیم ان کی فکری جستجو کا محور رہے۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ اسلام سے ان کا اولین تعارف یونی ورسٹی کے کورس کے ایک ابتدائی مضمون Judaism in Islam کے ذریعے ہوا، جو ایک یہودی استاد ابراہم اسحق کاٹش پڑھاتا تھا۔ اس کی کوشش تھی کہ اسلام کو یہودیت کا چربہ ثابت کرے لیکن تعلیم و تدریس کے اس عمل میں موت اور زندگی بعد موت کے مسئلے پر مریم جمیلہ اس کے خیالات سے خصوصی طور پر متاثر ہوئیں۔ اپنے ایک انٹرویو میں اس کا ذکر اس طرح کیا:
نومبر ۱۹۵۴ء کی ایک صبح، پروفیسر کاٹش نے اپنے لیکچر کے دوران ناقابلِ تردید دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حضرت موسٰی ؑ نے توحید کی جو تعلیمات دی ہیں اور جو الوہی قانون ان پر نازل ہوا ہے ناگزیر ہے۔ اگر اخلاقی قوانین خالصتاً انسان کے بنائے ہوئے ہوں، جیساکہ اخلاقی کلچر اور دیگر الحادی اور دہریت پر مبنی فلسفوں میں بیان کیا جاتا ہے، تو وہ محض ذاتی راے اور ذوق، متلون مزاجی ، سہولت اور ماحول کی بنا پر تبدیل ہوسکتے ہیں۔ اس کا نتیجہ مکمل انتشار ہوگا جس کے نتیجے میں انفرادی اور اجتماعی زوال برپا ہوسکتا ہے۔ آخرت پر ایمان، جیساکہ ربی تلمود میں بیان کرتے ہیں، پروفیسر کاٹش نے دلائل دیتے ہوئے کہا، کہ محض ایک خوش گمانی نہیں ہے بلکہ ایک اخلاقی تقاضا ہے۔ اس نے کہا کہ صرف وہ لوگ جو پختگی سے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک کو روزِ قیامت خدا کے حضور پیش ہونا ہے، اور زمین پر اپنی زندگی کے تمام اعمال کی جواب دہی کرنا ہوگی اور اس کے مطابق جزا و سزا کا سامنا کرنا ہوگا، صرف وہی اپنی ذات پر اتنا قابو رکھیں گے کہ اُخروی خوشنودی کے حصول کے لیے عارضی خوشیوں کو قربان اور مصائب کو برداشت کرسکیں۔
یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ جس طرح یہودی پروفیسر کے یہ الفاظ نوعمر مارگریٹ مارکس کے دل و دماغ پر مرتسم ہوگئے اور زندگی کا رُخ متعین کرنے میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کیا، اسی طرح مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے جس پہلے مضمون نے ان کے قلب و نظر کو روشن کیا وہ ’زندگی بعد موت‘ کا میرا کیا ہوا ترجمہ تھا، جو جنوبی افریقہ کے مجلے Muslim Digest میں شائع ہوا تھا۔ مریم جمیلہ کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان چیزوں کو اچھی طرح سمجھا جائے جو ان کی زندگی کا رُخ متعین کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں۔ ان کی اپنی بے تاب روح اور تلاشِ حق کی جستجو، اور حقیقت کی وہ تفہیم جو توحید اور آخرت کے تصور پر مبنی ہے، جس میں زندگی کو خانوں میں بانٹنے کی کوئی گنجایش نہیں اور جس کے نتیجے میں انسان ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً (تم پورے کے پورے اسلام میں آجاؤ۔البقرہ ۲:۲۰۸)کا نمونہ اور زمین پر اللہ کے خلیفہ کا کردار ادا کرنے میں زندگی کا لطف اور آخرت کی کامیابی تلاش کرتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو زندگی میں یکسوئی پیدا کرتی ہے۔ تبدیلی کے لیے انسان کو آمادہ ہی نہیں کرتی بلکہ مطلوب کو موجود بنانے ہی کو زندگی کا مشغلہ بنا دیتی ہے اور بڑی سے بڑی آزمایش میں اس کا سہارا بن جاتی ہے۔ مریم جمیلہ نے امریکا کی پُرآسایش زندگی کو چھوڑ کر پاکستان کی طرف ہجرت، اور بڑی سادہ اور مشکلات سے بھرپور لیکن دل کو اطمینان اور روح کو شادمانی دینے والے راستے کو اختیار کیا اور پوری مستعدی، استقامت اور خوش دلی کے ساتھ سفر حیات کو طے کیا۔ یہ سب اسی ایمان، آخرت کی کامیابی کے شوق، اور انسانی زندگی کو اللہ کے حوالے تصور کرنے کے جذبے کا کرشمہ ہے۔
محترمہ مریم جمیلہ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں بڑی کم عمری کے عالم میں مسلم دنیا کے علمی اُفق پر رُونما ہوئیں اور بہت جلد انھوں نے ایک معتبر مقام حاصل کرلیا۔ انھوں نے اسلام کے اس تصور کو جو قرآن و سنت کی اصل تعلیمات پر مبنی ہے اور جو زندگی کے ہرپہلو کی الہامی ہدایت کی روشنی میں تعمیروتشکیل کا داعی ہے، بڑے مدلل انداز میں پیش کیا اور وقت کے موضوعات اور اس دور کے فکری چیلنجوں کی روشنی میں کسی مداہنت کے بغیر اسلام کی دعوت کو پیش کیا ۔ اس باب میں ان کو یہ منفرد حیثیت حاصل تھی کہ وہ نہ صرف ایک مسلمان صاحبِ علم خاتون اور داعیہ تھیں، بلکہ امریکی ہونے کے ناتے مغربی تہذیب سے پوری طرح آشنا تھیں اور ان کی حیثیت Insider یعنی شاہدُ مِنھم کی تھی۔
ان کو موضوع اور زبان دونوں پر قدرت حاصل تھی اور وہ اپنی بات بڑے جچے تلے انداز میں مسکت دلائل کے ساتھ بڑی جرأت سے پیش کرتی تھیں۔ ۳۰ سے زیادہ کتابوں کی مصنفہ تھیں اور ان کے علاوہ بیسیوں مضامین اور تبصرے ان کے قلم سے نکلے۔ سیدولی نصر نے ’’دی اوکسفرڈ انسائیکلوپیڈیا آف اسلامک ورلڈ‘‘ میں ان پر اپنے مقالے میں بجا طور پر یہ لکھا ہے کہ اپنے پاکستان کے قیام کے دوران انھوں نے دورِجدید میں اسلام کے تحریکی تصور کی بڑی عمدگی کے ساتھ ترجمانی کی۔ خصوصیت سے اسلام اور مغربی تہذیب کے بنیادی فرق اور جداگانہ نقطہ ہاے نظر کو انھوں نے بڑی وضاحت کے ساتھ موضوع بنایا اور جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کے افکارونظریات کو متاثر کیا۔ ان کے الفاظ میں :
مریم جمیلہ نے ۱۹۶۲ء میں پاکستان کا سفر کیا اور لاہور میں مولانا مودودی کے گھرانے میں شامل ہوگئیں۔ جلد ہی انھوں نے جماعت اسلامی کے ایک رکن محمد یوسف خان سے بطور ان کی دوسری بیوی کے شادی کرلی۔ پاکستان میں سکونت اختیار کرنے کے بعد انھوں نے اپنی پوری زندگی میں بہت سی مؤثر کتابیں لکھیں جن میں جماعت اسلامی کے نظریے کو ایک منظم انداز سے بیان کیا۔ مریم جمیلہ کو اسلام اور مغرب کے درمیان بحث سے خصوصی دل چسپی تھی جو مولانا مودودی کی فکر کا مرکزی تصور نہ ہوتے ہوئے بھی اس کا ایک اہم پہلو ہے۔ انھوں نے مغرب کے خلاف اسلامی استدلال کو مزید اُجاگر کیا اور عیسائیت، یہودیت، اور سیکولر مغربی فکر پر احیائی تنقید کو منظم انداز سے بیان کیا۔ مریم جمیلہ کی اہمیت ان کے مشاہدات کے زور میں نہیں ہے بلکہ اس اسلوبِ بیان میں ہے جس میں وہ اندرونی طور پر ایک مربوط مثالیے کو مغرب کے احیائی استرداد کے لیے پیش کرتی ہیں۔ اس حوالے سے ان کے اثرات جماعت اسلامی کے دائرے سے بہت آگے تک جاتے ہیں۔پوری مسلم دنیا میں احیائی فکر کے ارتقا میں ان کا کردار بہت اہم رہا ہے۔
محترمہ مریم جمیلہ کی چند تعبیرات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے اور خود انھوں نے بھی اُن اہلِ علم سے کہیں کہیں اختلاف کیا ہے جن کے افکار و نظریات نے خود ان کے ذہن اور فکر کی تعمیر میں اہم حصہ لیا ہے، لیکن مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ بحیثیت مجموعی ان کی ۵۰سالہ علمی کاوش ہماری فکری تاریخ کا ایک روشن باب ہے، اور خصویت سے مغربی تہذیب پر ان کی تنقید ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کے قلم میں بڑی جان تھی اور انھوں نے ایمان اور یقین کے ساتھ دین کے پیغام کو پیش کیا اور تمام انسانوں کو کفر، الحاد، بے یقینی، اخلاقی بے راہ روی اور سماجی انتشار اور ظلم و طغیان کی تباہ کاریوں سے بچانے کے گہرے جذبۂ خیرخواہی کے ساتھ اس کام کو انجام دیا جو کارِرسالت کا طرۂ امتیاز ہے۔ قرآن نے رجال کے بارے میں جو شہادت دی ہے وہ نساء کے باب میں بھی اتنی ہی سچی ہے کہ :
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ ج فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا o (الاحزاب ۳۳:۲۳)
ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔
محترمہ مریم جمیلہ کی زندگی کے دو پہلو ہیں جن کو سمجھنا مفید ہوگا۔ ایک ان کی علمی شخصیت ہے جس میں بلاشبہہ انھوں نے اپنی مسلسل محنت اور سلاست فکر کے باعث ایک نمایاں مقام حاصل کیا۔ انھوں نے مغربی فکروتہذیب پر بڑے علمی انداز میں محاکمہ کیا اور اس کے طلسم کو توڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔ فلسفہ، مذہبیات اور عمرانیات کے اہم ترین موضوعات کے ساتھ انفرادی زندگی اور اجتماعی معاملات میں اسلام کی رہنمائی کو بڑے صاف الفاظ میں بیان کیا اور فکرِاسلامی کی ترویج و تبلیغ کے باب میں اہم خدمات انجام دیں۔ اس کے ساتھ ان کی کوشش تھی کہ اسلام کے پیغام کو ہرانسان تک پہنچائیں، اور اسے دنیا اور آخرت کی کامیابی کے راستے پر لانے کی کوشش کریں۔ اس طرح علمی اور فکری خدمات کے ساتھ ان کا دامن دعوتی اور تبلیغی مساعی سے بھی بھرا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں ان کا شاہکار وہ خط ہے جو انھوں نے اپنے والدین کو لکھا اور جس کا ایک ایک لفظ صداقت پر مبنی، دعوتِ حق کی تڑپ کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ ان کی شخصیت اور مقصدحیات کو سمجھنے کے لیے یہ خط بہترین کلید ہے۔ اس کا بڑا خوب صورت ترجمہ کرنل (ریٹائرڈ) اشفاق حسین نے مریم جمیلہ کے خطوط پر مبنی ایک طرح کی خودونوشت کے ترجمے ’’امریکا سے ہجرت‘‘ میں کیا ہے اور اس سے چند اقتباس ایک آئینہ ہے جن میں مریم جمیلہ کے فکروفن اور جذبے اور اخلاص کی حقیقی تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ 
مریم جمیلہ لکھتی ہیں:
’’آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ معاشرہ جس میں آپ کی پرورش ہوئی ہے اور جس میں آپ نے اپنی پوری زندگی گزار دی ہے، بڑی تیزی سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور مکمل تباہی کے قریب ہے۔ درحقیقت ہماری تہذیب کا زوال بھی جنگِ عظیم کے وقت ہی ظاہر ہوناشروع ہوگیا تھا لیکن دانش وروں اور ماہرین عمرانیات کے سوا کسی کو احساس نہیں ہوا کہ کیا ہو رہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے بعد اور خاص طور پر پچھلے دوعشروں میں یہ اتنی تیزی سے زوال کے اس مرحلے پر پہنچ چکی ہے کہ کوئی شخص اسے مزید نظرانداز نہیں کرسکتا۔
’’زندگی کے معاملات اور رویوں میں کسی قابلِ احترام اور قابلِ قبول معیار کے نہ ہونے کی وجہ سے اخلاقی بے راہ روی،تفریحی ذرائع ابلاغ پر مبنی کج روی، بوڑھوں سے ناروا سلوک، طلاق کی روزافزوں شرح جو اتنی بڑھ چکی ہے کہ نئی نسل کے لیے پایدار اور خوش گوار ازدواجی زندگی ایک خواب بن کر رہ گئی ہے۔ معصوم بچوں کے ساتھ غلط کاریاں، فطری ماحول کی تباہی، نایاب اور قیمتی وسائل کا بے محابا ضیاع، امراضِ خبیثہ اور ذہنی بیماریوں کی وبائیں، منشیات کی لت، شراب نوشی، خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان، جرائم، لُوٹ مار، حکومتی اداروں میں بے ایمانی اور قانون کا عدم احترام___ ان تمام خرابیوں کی ایک ہی وجہ ہے۔
’’اور وہ وجہ ہے لامذہبیت اور مادیت پر مبنی نظام کی ناکامی___، نیک ماورائی، اعلیٰ و ارفع مذہبی نظام سے دُوری اور اخلاقی قدروں کا ناپیدا ہونا___ اعمال کا دارومدار عقیدوں پر ہوتا ہے کیونکہ نیت ہی درست نہ ہو توعمل ہمیشہ ناکام ہوتا ہے.....
’’اگر زندگی ایک سفر ہے تو کیا یہ حماقت نہیں ہوگی کہ بندہ راستے میں آنے والی منزلوں پر آرام دہ ایام اور خوش گوار ٹھکانوں کی فکر تو کرے، لیکن سفر کے اختتام کے بارے میں کچھ نہ سوچے؟ آخر ہم کیوں پیدا ہوئے تھے؟ اس زندگی کا کیا مطلب ہے؟ کیا مقصد ہے؟ آخر ہمیں مرنا ہے اور ہم میں سے ہر ایک کے ساتھ موت کے بعد کیا معاملہ ہونا ہے؟
’’ابو! آپ نے ایک سے زائد بار مجھے بتایا ہے کہ آپ کسی روایتی مذہب کو اس لیے قبول نہیں کرسکتے کیونکہ آپ کو یقین ہے کہ الہامی مذہب جدید سائنس سے متضاد چیز ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سائنس اور ٹکنالوجی نے ہمیں ساری دنیا کے بارے میں بہت معلومات فراہم کی ہیں، ہمیں آرام و آسایشات اور سہولتیں فراہم کی ہیں، اس نے ہماری کارکردگی میں اضافہ کیا ہے اور ان بیماریوں کے علاج دریافت کیے ہیں جو جان لیوا ثابت ہوتی تھیں، لیکن سائنس ہمیں یہ نہیں بتاتی اور نہیں بتا سکتی کہ زندگی اور موت کا کیا مطلب ہے۔ سائنس ہمیں ’کیا اور کیسے‘ کا جواب تو دیتی ہے لیکن ’کیوں‘ کے سوال کاکبھی کوئی جواب نہیں دیتی۔ کیا سائنس کبھی یہ بتا سکتی ہے کہ کیا درست ہے اور کیا غلط؟ کیا نیکی ہے، کیا برائی؟ کیا خوب صورت ہے اور کیا بدصورت؟ ہم جو کچھ کرتے ہیں اس کے لیے کس کو جواب دہ ہیں؟ مذہب ان سارے سوالوں کے جواب دیتا ہے۔
’’آج امریکا کئی لحاظ سے قدیم روم کے زوال و شکست کے آخری مرحلوں سے گزر رہا ہے۔ سوچ اور فکر رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ لامذہبیت ہمارے معاشرتی نظام کی مستحکم بنیاد ثابت نہیں ہوسکی۔ وہ مضطرب ہوکر مختلف سمتوں میں اس بحران کا حل تلاش کر رہے ہیں لیکن انھیں ابھی تک نہیں پتا کہ یہ حل انھیں کہاں سے ملے گا۔ یہ تشویش چند ماہرین عمرانیات تک محدود نہیں ہے۔ قومی یک جہتی کی ٹوٹ پھوٹ کی بیماری براہِ راست آپ کو، مجھے اور ہم میں سے ہر ایک کو متاثر کررہی ہے.....
’’آج امریکی باشندے، جوان ہوں یا بوڑھے بڑی تندہی سے رہنمائی کی تلاش میں ہیں۔ تلخ تجربوں کے بعد انھیں پتا چلا ہے کہ زندگی کے کسی مقصد اور صراطِ مستقیم کی طرف قابلِ اعتماد رہنمائی کے بغیر شخصی آزادیاں اور وہ ساری سہولتیں جو امریکیوں کو حاصل ہیں، لایعنی اور اپنی ذات کی تباہی کے مترادف ہیں۔سیکولرازم اور مادیت امریکیوں کو ان کی انفرادی یا اجتماعی زندگی میں کسی طرح کی مثبت اور تعمیری، اخلاقی قدریں فراہم نہیں کرسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ عیسائیت اور صہیونیت کے ہاتھوں ناکامی کے بعد امریکا میں زیادہ سے زیادہ لوگ اسلام کی طرف مائل ہورہے ہیں۔ نومسلم اسلام میں ایک پاکیزہ، صحت مند، صاف ستھری اور دیانت دار زندگی کا سراغ پاتے ہیں۔ مسلمانوں کے نزدیک موت سے ہرچیز ختم نہیں ہوجاتی بلکہ وہ اس کے بعد آخرت میں ہمیشہ رہنے والی نعمتوں، پایدار ذہنی سکون اور دائمی خوشیوں کی توقع رکھتے ہیں۔
’’قرآن مقدس اور رسولِ خدا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی مستند احادیث میں پائی جانے والی یہ ہدایت و رہنمائی صدیوں سے مشرق کے دُورافتادہ علاقوں کی نسلوں تک محدود نہیں تھی، بلکہ آج مغرب کو جو معاشی، معاشرتی، اخلاقی اور سیاسی مسائل درپیش ہیں، ان کا حل بھی ہدایت کے انھی سرچشموں میں موجود ہے۔ علاوہ ازیں اسلام میں سردمہری، خالق سے دُوری یا خالق کی بے نیازی کے احساسات نہیں پائے جاتے۔ مسلمان ایک ایسے خدا پر یقین رکھتے ہیں جس میں اپنائیت ہے۔ جس نے نہ صرف اس کائنات کو پیدا کیا بلکہ وہ اس کے نظم و نسق کا بھی ذمہ دار ہے اور وہی اس کا حکمران ہے۔ وہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے اور ہم میں سے ہر ایک کا بہت خیال رکھتا ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ ہم سب سے ہر ایک کی شہ رگ سے بھی قریب ہے.....
’’آپ دونوں کافی طویل عمر پاچکے ہیں اور بہت کم مہلت باقی رہ گئی ہے۔ اگر آپ فوراً عمل کریں تو زیادہ تاخیر نہیں ہوگی۔ اگر آپ کا فیصلہ مثبت ہو تو پاکستان میں اپنے پیارے لوگوں سے آپ کا نہ صرف خونی رشتہ ہوگا بلکہ ایمان کا رشتہ بھی قائم ہوجائے گا۔ آپ نہ صرف اس دنیا میں ان سے محبت کرسکیں گے بلکہ ہمیشہ رہنے والی زندگی میں بھی آپ ہمارے ساتھ ہوں گے.....
’’میں ایک بیٹی کی حیثیت سے، جسے آپ سے محبت ہے، آخروقت تک چاہوں گی کہ آپ اس بُرے نصیب سے بچ جائیں لیکن فیصلہ صرف آپ کے ہاتھ میں ہے۔ آپ کو مکمل اختیار ہے کہ آپ اس دعوت کو قبول کریں یا مسترد کردیں۔ آپ کے مستقبل کا انحصار اس انتخاب پر ہے جو آپ نے اب کرنا ہے۔
اپنی ساری محبتوں اور نیک خواہشات کے ساتھ۔
آپ کی وفادار بیٹی، مریم جمیلہ‘‘۔ (امریکا سے ہجرت، ص ۲۰۔۲۵)
محترمہ مریم جمیلہ کی زندگی کا دوسرا پہلو ان کی شخصی زندگی ہے جو خود ایک روشن مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔ جب انھوں نے اسلام کی حقانیت کو پالیا اور اپنے آپ کو اس کے سانچے میں ڈھالنے کا عزم کرلیا تو پھر انھوں نے اپنے کو خود اپنوں کے درمیان اجنبی محسوس کیا۔ امریکا میں وہ اپنے کو انمل بے جوڑ محسوس کرنے لگیں اور مسلمان سوسائٹی اور اسلامی زندگی کی تلاش میں انھوں نے پاکستان ہجرت اسی جذبے سے کی جس جذبے سے مکہ کے مسلمانوں نے مدینہ کے لیے ہجرت کی تھی اور پھر مدینہ ہی کے ہوکر رہ گئے تھے۔ گو ان کی تمام توقعات پوری نہیں ہوئیں لیکن انھوں نے پاکستان کو اپنا گھر بنالیااور مڑ کر امریکا جانے کے بارے میں کبھی ایک بار بھی نہ سوچا، بلکہ برادرم یوسف خان صاحب نے ان کو بار بار مشورہ دیا مگر انھوں نے اس طرف ذرا بھی رغبت ظاہر نہ کی۔ امریکا میں ان کے رہن سہن کا معیار امریکی معیار سے بھی اوسط سے کچھ بہتر ہی تھا لیکن پاکستان میں جس عسرت اور سادگی سے انھوں نے زندگی گزاری اور صبروثبات کا جو مظاہرہ کیا وہ قرونِ اولیٰ کے لوگوں کی یاد تازہ کرتا ہے۔ ایک شادی شدہ شخص سے بخوشی رشتۂ ازدواج استوار کیا، اپنی ’سوکن‘ کے ساتھ اس طرح مل جل کر رہیں کہ یک جان اور دو قالب کا نمونہ پیش کیا۔ دونوں کے غالباً چودہ پندرہ بچے بھی ایک دوسرے سے شیروشکر رہے اور سب ہی بچے بڑی ماں (محترمہ شفیقہ صاحبہ) کو اماں اور چھوٹی ماں (محترمہ مریم جمیلہ) کو آپا کہتے تھے اور مریم جمیلہ نے وصیت کی کہ ان کی قبر بھی محترمہ شفیقہ صاحبہ، جن کا انتقال چند برس ہی قبل ہوا تھا، کی قبر کے پاس ہو۔ مادہ پرستی اور نام و نمود کی فراوانی کے اس دور میں درویشی اور اسلامی صلۂ رحمی کی ایسی مثال اسلام ہی کا ایک معجزہ ہے جس کی نظیر آج کے دور میں بھی دیکھنے کی توفیق اللہ تعالیٰ کی اس نیک بی بی کے طفیل ہم سب کو حاصل ہوئی
آسماں اس کی لحد پر شبنم افشانی کرے
(بشکریہ ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ لاہور)

نشے کی طلاق اور طلاق کے لیے عقل و ہوش کا مطلوبہ معیار

مولانا مفتی محمد زاہد

ذیل کی سطور آج سے پانچ چھ سال قبل لکھ کر ملک متعدد اہلِ افتا کی خدمت میں بھیجی گئی تھیں ٗ تاکہ اس کے ذریعے اس مسئلے پر غور کی دعوت دی جائے۔ تاہم ایک دو کے علاوہ کسی جگہ سے اب تک جواب سے سرفرازی نہیں ہوسکی۔ اب ان گذارشات کو اس لیے شائع کیا جارہا ہے کہ وسیع پیمانے پر اہلِ علم تک پہنچا کر ان کی آراء سے استفادہ کیا جاسکے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے: کل طلاق جائز الاطلاق المعتوہ المغلوب علی عقلہ (جامع الترمذی رقم : ۱۱۹۱)۔اگرچہ تکنیکی طور پر اس حدیث کی سند پر محدثانہ کلام ہوسکتی ہے اور خود امام ترمذی نے بھی اس حدیث کے ایک راوی عطاء بن عجلان جو اسے روایت کرنے میں متفرد ہیں بہت ضعیف ہیں، لیکن اہم بات یہ ہے کہ فقہا کے ہاں اس مضمون کو قبولِ عام حاصل ہے ۔ امام ترمذی نے اسے حدیث کو ضعیف قرار دینے کے بعد کہا ہے کہ اہلِ علم کا عمل اسی پر ہے۔ اس کے علاوہ یہی مضمون حضرت علیؓ سے موقوفا بھی نقل کیا گیا ہے اور وہ سند کے اعتبار سے بالکل صحیح ہے۔ امام بخاری نے بھی اسے تعلیقا ذکر کیا ہے۔
اس حدیث کی بنیاد پراس بات پرفقہاء کے درمیان اتفاق پایاجاتاہے کہ زوالِ عقل وقوعِ طلاق سے مانع ہے، یعنی جس کی عقل زائل ہوچکی ہو اس کی طلاق واقع نہیں ہوتی۔لیکن قابلِ غوربات یہ ہے کہ زوالِ عقل کاوہ کون سا درجہ ہے جوطلاق کے واقع ہونے سے مانع ہے، آیااس کے لیے بالکلیہ عقل کازائل ہوجانایعنی جنون کی حدتک پہنچ جانا شرط ہے یااس سے کم درجہ بھی کافی ہے، نشے کی حالت میں دی گئی طلاق کاحکم جاننے سے پہلے اس سوال کاجائزہ لے لینامناسب معلوم ہوتاہے۔
زیرِبحث مسئلے کے علاوہ متعدد مواقع ایسے ہیں جہاں فقہاء ، بالخصوص فقہائے حنفیہ نے زوالِ عقل کی وجہ سے طلاق نافذ نہ ہونے کاحکم لگایاہے،جوحسبِ ذیل ہیں۔

۱) معتوہ کی طلاق

جس طرح مجنون کی طلاق واقع نہیں ہوتی اسی طرح فقہاء بالخصوص فقہائے حنفیہ کی تصریح کے مطابق’’معتوہ‘‘کی طلاق بھی واقع نہیں ہوتی، (الدرالمختار ۳/۲۴۳ )۔ ’’عتہ‘‘ کی وضاحت کرتے صاحبِ درمختار نے لکھاہے: ’’ھو اختلال فی العقل‘‘۔ علامہ شامی نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے البحرالرائق کے حوالے سے نقل کیاہے کہ مجنون اورمعتوہ کے درمیان فرق کے سلسلے میں سب سے بہتر بات یہ ہے کہ معتوہ وہ ہوتاہے جس کی سمجھ بوجھ کم ہو، اس کی گفتگو غیر مربوط ہو اوراس کی تدبیر فاسدہو، البتہ وہ گالی گلوچ اورمارپیٹ نہ کرتاہو، جبکہ مجنون کی علامات اس سے مختلف ہوتی ہیں۔شامی کے نقل کردہ الفاظ یہ ہیں:
وأحسن الاقوال فی الفرق بینہما أن المعتوہ ہوقلیل الفہم، المختلط الکلام ، الفاسد التدبیر،لکن لایضرب ولایشتم ،بخلاف المجنون ۔ (حاشیہ ابن عابدین علی الدرالمختار ج۳ص ۲۴۳)

۲) جائز نشے کی حالت میں طلاق

اگرنشہ کسی ایسے سبب سے جوگناہ کاموجب نہ ہو ،مثلاًبعض ادویہ جن میں نشے کی تاثیر بھی ہوتی ہے انہیں دواکی نیت سے استعمال کیا،لیکن اتفاقاً نشہ آگیا اوراسی حالت میں طلاق دے دی تواکثرفقہاء کے نزدیک طلاق واقع نہیں ہوتی۔ لیکن اس نشے کی تعریف کیا ہے ، یا نشے کاکون سا درجہ مرادہے،توامام ابوحنیفہ سے نقل کیاگیاہے کہ’’سکران‘‘سے مراد وہ شخص ہے جس کی عقل اتنی زائل ہوچکی ہو کہ اسے زمین وآسمان اورمرد عورت کی تمییز باقی نہ رہے، جبکہ صاحبین کے نزدیک نشے کی حالت سے مراد ایسی کیفیت ہے جس میں آدمی بے ہودہ اوربے ربط سی باتیں کرتاہو۔یہاں اول تواکثرمشائخِ حنفیہ نے اس مسئلے میں صاحبین کے قول کو اختیار کیاہے، چنانچہ علامہ شامیؒ لکھتے ہیں:
ومال أکثرالمشائخ الی قولہما ، وہو قول الأئمۃ الثلاثۃ، واختاروہ للفتوی،لأنہ المتعارف،وتأیّد بقول علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ : ’’اذاسکر ہذی ‘‘۔۔۔ وبہ ظہر أن المختار قولہما فی جمیع الأبواب فافہم (حاشیہ ابن عابدین علی الدر المختار ج ۳، ص ۲۳۹)
دوسرے علامہ شامی نے ابن الہمام سے نقل کیاہے کہ امام صاحب نے نشے کے لیے جوشرط لگائی ہے کہ اسے زمین وآسمان کی تمییز نہ رہے اس سے مرادوہ نشہ ہے جس کی وجہ سے حد واجب ہوتی ہے، اس لیے کہ اگرنشہ اس سے کم درجے کاہے توشبہ پیدا ہوجائے گا اورشبہ کی وجہ سے حدساقط ہوجاتی ہے۔جہاں تک حد کے علاوہ باقی احکام کاتعلق ہے مثلاًاس کے تصرفات کانافذ نہ ہونا تواس کے لیے امام صاحب کے نزدیک بھی نشے کی وہی تعریف ہے جوصاحبین کے نزدیک ہے، ابن الہمام کے الفاظ یہ ہیں:
’’وأما تعریفہ عندہ فی غیر وجوب الحد من الأحکام فالمعتبر فیہ عندہ اختلاط الکلام والہذیان کقولہما‘‘۔
پچھلی عبارت میں اکثرمشائخ کی دلیل میں جوکہاگیاتھا’’لأنہ المتعارف‘‘اس سے معلوم ہواکہ کسی شخص کے نشے میں ہونے یانہ ہونے کامدار عرف پر ہے ۔ عرفاً جس شخص کو نشے میں سمجھا جائے وہ شرعاًبھی سکران ہوگا،یہی بات شافعیہ میں سے نووی نے کافی بحث کے بعد نقل کی ہے اور اسے اقرب قرار دیا ہے۔(روضۃ الطالبین ۸/۶۳)
اس سے معلوم ہواکہ طلاق کے عدمِ وقوع کے لیے زوالِ عقل کایہ درجہ شرط نہیں ہے کہ اسے اپنے آپ کا، اپنے اردگرد کا اوراپنی کہی ہوئی باتوں کاہی ہوش نہ ہو ،بلکہ اتناہی کافی ہے کہ اسے اپنی گفتگو پرکنٹرول نہ ہو۔ 

۳) نابالغ بچے کی طلاق

حنفیہ اوردیگر کئی فقہاء کے ہاں نابالغ کی طلاق بھی واقع نہیں ہوتی ،اگرچہ وہ قریب البلوغ ہویاصبی ممیز ہویعنی اسے طلاق وغیرہ ایسے تصرفات کی سمجھ ہو، اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے ابن الہمام لکھتے ہیں :
معلوم من کلیات الشریعۃ أن التصرفاتِ لاتنفذ الاممن لہ أہلیۃ التصرف،وأدرنا ہا بالعقل والبلوغ ،خصوصاماہو دائر بین الضرر والنفع ، خصوصا مالا یحل الا لانتفاء مصلحۃ ضدہ القائم کالطلاق ، فانہ یستدعی تمام العقل ، لیحکم بہ التمییز فی ذلک الأمر ولم یکفِ عقلُ الصبی العاقل لأنہ لم یبلغ الاعتدال۔۔۔(فتح القدیر ج ۳ ص ۴۸۷)
اس سے معلوم ہواکہ طلاق کے نفاذکے لیے عقل یاہوش وحواس کا فی ا لجملہ موجود ہونا کافی نہیں ہے بلکہ ’’تمام العقل ‘‘کاہونا یعنی ایسی ذہنی کیفیت کاہونا ضروری ہے جس میں وہ تصرف کرنے سے پہلے اورلفظ زبان سے نکالنے سے پہلے اس معاملے پر مرتب ہونے والے نفع ونقصان میں موازنہ کرنے کی پوزیشن میں ہو۔ 

۴) غصے کی حالت میں طلاق 

علامہ شامیؒ نے رد المحتار میں ’’طلاق المدہوش ‘‘اور’’طلاق الغضبان‘‘پرتفصیلی بحث کی ہے،انہوں نے ابن القیم ؒ کے رسالہ ’’طلاق الغضبان ‘‘ سے نقل کیاہے کہ غصے کی تین حالتیں ہیں۔ایک ابتدائی حالت ہے، جس میں آدمی کوپتا ہوتاہے کہ میں کیا کہ رہاہوں اورجوکچھ کہ رہاہوتاہے قصداور ارادے سے کہ رہاہوتاہے اس حالت میں دی گئی طلاق کے واقع ہونے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ ایک انتہائی حالت ہے کہ غصے کے غلبے کی وجہ سے اسے پتاہی نہ ہو کہ میں کیاکررہاہوں، اوربغیر قصدو ارادے کے اس کے منہ سے الفاظ نکل رہے ہوں، اس حالت میں دی گئی طلاق کے بلاشک وشبہ واقع نہ ہونے کاحکم لگایاجائے گا ۔تیسری حالت وہ ہے جومذکورہ ان دوکیفیتوں کے بین بین ہے ، اس صورت میں دی گئی طلاق کاحکم قابلِ غور ہوسکتاہے، دلائل کامقتضا یہاں بھی یہ معلوم ہوتاہے کہ طلاق واقع نہ ہو۔
ابن القیم کے حوالے سے مذکورہ بالاتفصیل نقل کرنے کے بعد علامہ شامیؒ نے اس پر وارد ہونے والے بعض اشکالات کاجواب دینے کے بعد ابن القیم کی رائے کی تائید کرتے ہوئے اس طرف رجحان ظاہر کیاہے کہ ’’مدہوش‘‘ اور ’’غضبان‘‘ کے بارے میں مذکورہ مثالوں میں فقہاء کی تصریحات اور تعلیلات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ طلاق کے واقع ہونے کے لیے طلاق دینے والے میں عقل کاجودرجہ ضروری ہے کہ اس میں صرف یہ شرط نہیں ہے کہ علم اورارادہ موجود ہو، بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ یہ تصرف سمجھ بوجھ کی حالت میں کیاہو۔ سمجھ بوجھ سے مرادیہ نہیں ہے کہ طلاق دینے والا بہت زیرک شخص ہو،نہ ہی یہ مراد ہے کہ وہ عملاًتمام عواقب ونتائج پراچھی طرح غورکرکے اس طرح کا قدم اٹھائے بلکہ مراد صرف یہ ہے کہ اس کی ذہنی حالت ایسی ہوکہ اپنی سمجھ بوجھ کو استعمال کرنا چاہے توکرسکتاہو ۔ اگر اس حوالے سے اس کی ذہنی حالت نارمل ہے توبغیر سوچے سمجھے طلاق دے دیتاہے تواس کی حماقت کے باوجود طلاق واقع ہو جائے گی۔ تاہم اگرکوئی ایسا عارضہ لاحق ہے جس کی وجہ سے اس کی ذہنی حالت غیر عادی اورابنا رمل ہوگئی ہے اوروہ سمجھ بوجھ کر بات نہیں کرسکتا جیسے سکران (بسبب جائز ) مدہوش،معتوہ، مجنون اورنائم وغیرہ میں ہوتاہے یااس کی سمجھ بوجھ شریعت کی نظر میں ابھی نشوونما کے مراحل میں ہے جیسے نابالغ میں ہوتاہے توطلاق واقع نہیں ہوگی۔ 
حاصل یہ کہ طلاق کے وقو ع کے لیے یہ ضروری ہے کہ طلاق دینے والا شرعی طورپر اکتمالِ عقل (بلوغ)کے بعد اسے استعمال کرنے کی پوزیشن میں ہو، خواہ عملاًاسے استعمال کرے یانہ کرے ۔دوسرے لفظوں میںیوں کہاجاسکتاہے کہ اس کی ذہنی حالت اس کے قابو میں ہو۔ حدیث کے الفاظ ’’المعتوہ المغلوب علی عقلہ ‘‘کا مقتضا بھی یہی ہے۔ کیونکہ حدیث میں جس کو وقوعِ طلاق سے مستثنیٰ کیا جارہا ہے وہ مفقود العقل نہیں بلکہ مغلوب العقل ہے۔ 
یہاں تک لکھنے کے بعد سرخسی کی ایک عبارت مل گئی جس میں وہ نشے کی حقیقت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
لأن بالسکر لایزول عقلہ وانما یعجز عن استعمالہ لغلبۃ السرورعلیہ ۔
اس میں بعینہ وہی بات کہی گئی ہے جو اوپر فقہا کے ذکر کردہ متفرق احکام سے مستنبط کی گئی تھی۔
اوریہ بات طے شدہ ہے کہ اگرنشہ حرام سبب سے نہ ہو تو طلاق واقع نہیں ہوتی ، معلوم ہواکہ عدمِ وقوع طلاق کے لیے آخری درجے کازوالِ عقل ضروری نہیں ، بلکہ اس کے استعمال سے عاجز ہونا کافی ہے۔ مدہوش اور غضبان دونوں میں طلاق واقع نہ ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ بد حواسی اس حد تک پہنچ جائے کہ اسے معلوم ہی نہ ہوکہ وہ کیاکررہاہے،بلکہ غلبۂ ہذیان اورسنجیدہ وغیر سنجیدہ گفتگو کاملاجلاہونا کافی ہے، تائید میں انہوں نے ’’سکران‘‘(جبکہ نشہ حرام سبب سے نہ ہو) کی مثال پیش کی ہے کہ اس میں حنفیہ کے مفتی بہ قول کے مطابق نشے کااتنا درجہ ہی کافی ہے، آگے چل کرعلامہ شامیؒ نے مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھاہے کہ اگرمدہوش ،غضبان اورسکران وغیرہ جوکچھ کہ رہے ہیں وہ انہیں معلوم بھی ہے اورکہ بھی قصدا اورارادے سے رہے ہیں لیکن عمومی گفتگو سے عقل کااختلال واضح ہورہاہے تب بھی طلاق واقع نہیں ہوگی، اس لیے کہ سمجھ بوجھ کے صحیح نہ ہونے کی وجہ سے ان کاقصد اورارادہ غیرمعتبر ہے جیساکہ صبی ممیز میں ہوتاہے کہ وہ اگرطلاق دے تواپنے قصداورارادے سے دیتاہے لیکن سمجھ بوجھ کے مکمل نہ ہونے کی وجہ سے اس کی طلاق واقع نہ ہوگی۔ 
علامہ شامی کی بحث کے چند اقتباسات یہاں پیش کیے جاتے ہیں ، وہ لکھتے ہیں:
’’والذی یظہر لی أن کلامن المدہوش والغضبان لایلزم فیہ أن یکون بحیث لایعلم مایقول،بل یکتفی فیہ بغلبۃ الہذیان واختلاط الجد بالہزل کما ہو المفتی بہ فی السکران علی مامر‘‘۔
وہ مزید لکھتے ہیں:
والذی ینبغی التعویل علیہ فی المدہوش ونحوہ إناطۃ الحکم بغلبۃ الخلل فی أقوالہ وأفعالہ، الخارجۃ عن عادتہ، وکذا یقال فیمن اختل عقلہ لکبر أو مرض أو لمصیبۃ فاجأتہ ،فما دام فی حال غلبۃ الخلل فی الأفعال والأقوال لاتعتبر أقوالہ، وان کان یعلمہا ویرید ہا، لأن ہذہ المعرفۃ والإرداۃ غیرہ معتبرۃ لعدم حصولہا عن إدراک صحیح کما لا تعتبر من الصبی العاقل۔ (شامی ج۳ص ۲۴۴)

۵) ذہنی مریض کی طلاق

مذکورہ تفصیل سے ایسے لوگوں کی طلاق کاحکم بھی معلوم ہوگیا جوڈیپریشن وغیرہ نفسیانی بیماریوں کے دورے کے دوران طلاق دے دیتے ہیں ، آج کل اس طرح کے نفسیاتی امراض بہت عام ہیں اوربہت سے حالات میں تو ان کاسبب ہی ازدواجی اورخاندانی مسائل ہوتے ہیں ،اگر کوئی دوسر ا سبب بھی ہوتب بھی ان نفسیاتی کیفیات کی تان زیادہ ترگھریلومعاملات پرہی ٹوٹتی ہے اورمریض اپنی بھڑاس یہاں نکالنے کوشاید زیادہ آسان سمجھتاہے ،اس لیے اس طرح کے مریض کے گھریلو معاملات پر تکرار کے دوران اس بات کے امکانات بڑھ جاتے ہیں کہ وہ خاص اشتعالی یادورے کی کیفیت میں ہو، اگرکوئی شخص واقعتاایسی کیفیت میں طلاق دے دیتاہے تومذکورہ بالاتفصیل سے معلوم ہوتاہے کہ اس کی طلاق واقع نہیں ہونی چاہیے ، اوپر ذکرکردہ علامہ شامی کی عبارت ’’وکذا یقال فیمن اختل عقلہ لکبر أو مرض أو لمصیبۃ فاجأتہ‘‘ سے یہی مستفاد ہوتاہے۔
آج کل دیکھا یہ گیاہے کہ بعض اوقات طلاق دینے والاواقعتانفسیاتی مریض اورنفسیاتی معالج کے زیرعلاج ہوتاہے۔ اس کے معالج کی اس بات پر تصدیق بھی ہوتی ہے کہ اس کی بیماری اس نوعیت کی ہے کہ ناگوار بات سننے یادیکھنے کی صورت میں اس کی ذہنی حالت قابو سے باہر ہوجاسکتی ہے اوروہ جو منہ میں آتاہے کہ ڈالتاہے ،اپنی سمجھ بوجھ کواستعمال کرنا اس کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود طلاق کے واقع ہونے کافتوی دے دیا جاتاہے ،جوکہ مذکورہ تفصیل کے مطابق خلافِ اصول ہے۔ 
البتہ یہ الگ معاملہ ہے کہ طلاق دینے والا یہ دعوی کرتاہے کہ اس کے طلاق دینے کے وقت یہی کیفیت تھی توکب اس کی بات تسلیم کی جائے گی کب نہیں، بہرحال اگریہ بات ثابت ہوجائے کہ وہ پہلے سے اس طرح کامریض چلاآرہاہے تواس کی یہ بات تسلیم کی جانی چاہیے۔ 
اس تفصیل کے بعد اب ہم آتے ہیں اصل مسئلے کی طرف، یعنی نشے کی حالت میں دی گئی طلاق کاحکم کیاہے، تواس سلسلے میں پہلے فقہاء کے مذاہب پر نظر ڈال لینا مناسب معلوم ہوتاہے۔ 
حنفیہ کے ہاں معروف اورمفتی بہ قول کے مطابق نشہ اگر ایسے سبب سے ہوجومعصیت نہ ہو توسکران کی طلاق واقع نہیں ہوگی، اور اگر نشہ کسی ایسے سبب سے ہے جومعصیت ہے تو نشے کی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہوجائے گی۔ اس دوسری قسم کے نشے میں خمر توبالاتفاق داخل ہے۔ دیگر ناجائز نشوں کے بارے میں متعدد مواقع پر اقوال کااختلاف بھی ہے ،بالخصوص غیرمائع نشہ آور چیزیں مثلاًبھنگ،افیون وغیرہ ، یاوہ مائع نشہ آورچیزیں جوانگور، کشمش ،کھجور اورچھوارے سے نہ بنی ہو۔، تاہم متأخرین کاعمومی رجحان ان چیزوں کے نشے میں بھی طلاق کے وقوع کی طرف ہے، الایہ کہ استعمال کرنے والے نے ان میں سے بطوردوااستعمال ہونے والی چیز بطور دواہی استعمال کی ہو۔ 
حنفیہ میں سے طحاوی اورکرخی نے ترجیح اس بات کو دی ہے کہ کسی بھی قسم کے نشے میں کی حالت میں طلاق واقع نہیں ہوگی، امام زفر اور محمد بن سلمہ کا مذہب بھی یہی نقل کیاگیاہے ،علامہ علاؤ الدین شامی کی ایک عبارت (تکملہ ج ۸ص ۱۹۷)سے معلوم ہوتاہے کہ حسن بن زیاد کا مذہب بھی یہی ہے ،امام غزالی نے الوسیط(۵/۳۹۰) میں امام ابویوسف کامذہب بھی یہی نقل کیاہے ،تاتارخانیہ میں بعض کتب سے اس کا مفتی بہ قول ہونا بھی نقل کیاہے ،لیکن شامی نے اسے عام متون کے خلاف قراردیاہے ۔
مالکیہ میں سے بعض حضرات کے نزدیک نشے کی حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی، لیکن مالکیہ کے ہاں معروف یہ ہے اورخودامام مالک کی تصریح بھی یہ ہے کہ یہ طلاق واقع ہوجائے گی، البتہ مالکیہ کے ہاں اس بارے میں اختلاف پایاجاتاہے کہ وقوعِ طلاق کی وجہ کیا ہے،ایک رائے یہ ہے کہ چونکہ نشے میں کی حالت میں عقل بالکل زائل نہیں ہوتی بلکہ کچھ نہ کچھ باقی رہتی ہے اس لیے اس کاتصرف نافذ ہوگا ۔اس قول کے مطابق اگرنشہ اپنی انتہاء کوپہنچ جائے اورعقل بالکلیہ زائل ہوجائے توطلاق واقع نہیں ہوگی۔ اس وجہ کے مطابق مالکی اورحنفی مذہبوں میں اصولی اختلاف ہوجائے گا،کہ حنفیہ کے نزدیک طلاق کے عدمِ نفاذ کے لیے زوالِ عقل شرط نہیں بلکہ اس کامغلوب ہوناہی کافی ہے ، جبکہ مالکیہ کی اس توجیہ کے مطابق عدمِ وقوعِ طلاق کے لیے زوالِ عقل ضروی ہوگا۔ مالکیہ کے ہاں طلاق واقع ہونے کی دوسری توجیہ یہ ہے کہ چونکہ اس نے اپنی ذہنی کیفیت خوداپنے اختیار سے حرام سبب سے پیداکی ہے اس لیے اس کااعتبار نہیں کیاجائے گا ، اوراس پر ہوش وحواس والے شخص کے احکام جاری ہوں گے ۔اس توجیہ کے مطابق اگرنشا اپنی انتہاء کو بھی پہنچا ہواہو، اس کی طلاق واقع ہوجائے گی۔ (الشرح الکبیر ج ۲ص ۳۶۵ ٗ التاج والاکلیل ج ۴ ص ۴۳)
شافعیہ کے ہاں اگرتونشہ کسی ایسے سبب سے ہوجس میں اس شخص کی تعدّی اورغلطی نہ ہوتوبالاتفاق طلاق نہ ہوگی ، اوراگرنشہ کسی ناجائز سبب سے ہو تو امام شافعی کے اس مسئلے میں دوقول ہیں،ایک یہ کہ طلاق واقع نہیں ہوئی ،دوسرایہ کہ طلاق واقع ہوجائے گی۔ پہلے قول کوقولِ قدیم قرادیاگیا ہے، اورابوثور،مزنی ، ابوسہل ، ابوطاہر الزیادی نے اسے ہی اختیار کیاہے اورامام غزالی نے اسے اقیس قرار دیاہے (الوسیط ج ۵ص ۳۹۰ ، روضۃ الطالبین ج۸ص۶۲) جبکہ دوسرے قول کو قولِ جدید قرار دیاگیا ہے اوربیشتر شافعیہ نے اسی کوترجیح دی ہے۔ 
سکران کے حکم بارے میں مرداوی نے الانصاف میں امام احمد سے پانچ روایتیں ذکر کی ہیں، ان میں تین کے مطابق طلاق واقع نہیں گی اور دوکے مطابق واقع ہوجائے گی، ترجیح میں بھی حنابلہ کے اقوال مختلف ہیں۔
صحابہ وتابعین میں سے سعید بن المسیب ،حسن بصری،ابراہیم نخعی ،زہری اورشعبی وغیرہ وقوعِ طلاق کے قائل ہیں، حضرت عمررضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح کافیصلہ نقل کیاجاتاہے ۔جبکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے سندِ صحیح کے ساتھ ثابت ہے کہ طلاق واقع نہیں ہوگی اوریہی مذہب منقول ہے القاسم بن محمد، طاؤس ،عکرمہ ،عطا اورابوالشعثاء وغیرہ سے ۔عمربن عبدالعزیز پہلے طلاق واقع ہونے کے قائل تھے،بعد میں رجوع کرلیاتھا اورواقع نہ ہونے کے قائل ہوگئے تھے۔ 
جوحضرات طلاق سمیت سکران کے اقوال کومعتبر اورنافذ مانتے ہیں انہوں نے اس مسئلے پرکوئی واضح نص پیش نہیں کی ،جن نصوص سے کسی درجے میں استدلال کیابھی ہے تووہ ان حضرات کے لیے مفید ثابت ہوسکتاہے جومطلقاًنشے کی حالت کومزیلِ اہلیت نہ مانتے ہوں اس لیے کہ اس میں عقل بالکلیہ زائل نہیں ہوتی خواہ نشہ جائز سبب سے ہومثلاً قرآنی آیت: یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَقْرَبُواْ الصَّلاَۃَ وَأَنتُمْ سُکَارَی [النساء ۴:۴۳] سے بعض فقہائے حنفیہ نے بھی استدلال کیاہے، قطع نظر اس امر کے کہ یہ استدلال کس حد تک واضح ہے اس پر یہ اشکال باقی رہتاہے کہ یہ آیت اس دور میں نازل ہوئی تھی جب شراب حرام نہیں ہوئی تھی اس لیے اس سے ثابت ہونے والے اصول کااطلاق جائز نشے کی حالت پربھی ہونا چاہیے جبکہ حنفیہ کے نزدیک ایسانہیں ہے ۔
دوسری طرف جن حضرات کے نزدیک نشے کی حالت میں اقوال نافذ اورمعتبر نہیں ہیں ان کاایک اہم استدلال ماعزسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے واقعات سے ہے کہ ان کے اقرار کرنے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سوال یہ بھی کیاکہ اس نے کہیں شراب تونہیں پی ہوئی ۔ اس سے معلوم ہواکہ نشے کی حالت میں کیاگیا اقرار معتبر نہیں ہے، اگرچہ اس پریہ کہاجاسکتاہے کہ حدود چونکہ شبہات کی وجہ سے ساقط ہوجاتی ہیں اورنشے کی حالت میں اقرار بھی شبہ سے خالی نہیں اس لیے اس اقرارکااعتبارنہیں کیاگیا۔ البتہ حدیث کے الفاظ’’المعتوہ المغلوب علی عقلہ‘‘ کا عموم ان حضرات کی اہم دلیل ہے کہ اس میں اس بات کی وجہ سے فرق نہیں کیاگیاکہ یہ غلبہ عقل جائز سبب سے ہویاناجائز سے۔ 
بہرحال مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوجاتی کہ جوحضرات حرام نشے کی حالت میں وقوعِ طلاق کے قائل ہیں بالخصوص حنیفہ اور شافعیہ ان کا مذہب کسی نص صریح پر مبنی نہیں ہے، اسی طرح ان حضرات کی یہ رائے قیاس اوراصول پربھی مبنی نہیں ہے،اس لیے کہ شروع میں ثابت کیا جاچکاہے کہ ان کے نزدیک اہلیتِ طلاق کے زائل ہونے کے لیے جنون کی کیفیت کاہونا ضروری نہیں بلکہ عقل کامغلوب ہوناہی کافی ہے اور یہ بات نشے میں ہوتی ہے جس کی ایک واضح دلیل یہ ہے کہ اسی طرح کانشہ اگرجائز سبب سے ہو توان حضرات کے نزدیک طلاق واقع نہیں ہوتی ۔ اس لیے اگرچہ بعض حنفیہ نے حرام نشے کی حالت میں طلاق کے و قوع پر اصول سے استدلال کی کوشش کی ہے لیکن ان سب استدلالات پر ایک عمومی اعتراض یہی کیا جاسکتاہے کہ ان دلائل کے مطابق حلال نشے کی حالت میں بھی طلاق واقع نہیں ہونی چاہیے ۔
ناجائز نشے میں دی گئی طلاق کے وقع ہونے کی اصل وجہ وہی ہے جوتقریباًتمام فقہائے حنفیہ اورشافعیہ نے ذکر کی ہے ،جس کاحاصل یہ ہے کہ اگرچہ نشے کی حالت بذاتِ خود طلاق کے واقع ہونے سے مانع ہے لیکن یہاں یہ مانعیت اپنا اثر اس لیے نہیں دکھائے گی کہ اس نے یہ حالت خود معصیت کے راستے سے پیدا کی ہے۔ گویا نہ صرف یہ کہ وقوعِ طلاق کافتویٰ اصول کامقتضا نہیں ہے بلکہ یہ فتویٰ ایک اصول کی تاثیر کونظرانداز کرکے گویا خلافِ قیاس دیاگیاہے۔
نشے کی حالت زوالِ اہلیت طلاق کاایک سبب ہے،لیکن یہاں طریق کار کے معصیت ہونے کی وجہ سے اس سبب کااثر مرتب نہیں ہوگا، تو کیا یہ بھی کوئی اصول ہے کہ معصیت کسی سبب کی تاثیر میں مانع بن جاتی ہے۔ توکم ازکم حنفیہ کے ہاں عموماایسانہیں ہوتا، اس کی ایک واضح مثال سفرِمعصیت میں قصرٗحالتِ حیض کی طلاق، اکٹھی تین طلاقیں ، ارض مغصوبہ میں نماز وغیرہ ہیں ۔ اسی طرح غصب وغیرہ کے کئی احکام سے اس کی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں ۔یہی اعتراض حافظ ابن حجر نے امام طحاوی کاوقوع طلاق کے قائلین پرنقل کیاہے۔(فتح الباری ۹/۱۹۳) اگربغوردیکھا جائے تووقوع طلاق کے قائلین کوامام طحاوی کی بات کی معقولیت سے بظاہر انکار نہیں ہوگا ۔ اس لیے کہ وقوعِ طلاق کے قائلین پر یہ اعتراض تب ہوتا جب وہ یہ کہہ رہے ہوتے کہ وقوعِِ طلاق کافیصلہ اصول اورقواعد یاقیاس کی بنیاد پر ہے، جبکہ ان حضرات کامنشایہ ہرگز معلوم نہیں ہوتا۔ ان حضرات نے جولفظ استعمال کیے ہیں وہ عموماًدوہیں ایک تغلیظ کا دوسرے زجر۔تغلیظ کے معنی یہ ہیں کہ اگرچہ وہ اصولی طورپر اس ’’رعایت‘‘کامستحق تھاکہ اس کی طلاق واقع نہ ہو لیکن اس کے غلط طریقِ کار کی وجہ سے بطور سزایہ رعایت اسے نہیں دی جائے گی۔ اورزجر کے معنی یہ ہیں کہ جب نشے کی حالت میں دی گئی طلاق ہم نافذکردیں گے تویہ خودبھی اوردوسرے لوگ بھی آئندہ نشہ کرنے سے گریز کریں گے۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کم از کم حنفیہ کے ہاں وقوعِ طلاق کا حکم محض انتظامی ہے اصولی یا منصوص نہیں ہے۔ مذکورہ بالابحث کامقصد بھی دلائل کے اعتبارسے کسی قول کوراجح یامرجوح قراردینا نہیں ہے۔بلکہ یہی دیکھنا ہے کہ وقوعِ طلاق کے قائلین کااصل منشاکیاہے، حقیقت یہ ہے کہ اگراس کوحکم انتظامی قرار نہ دیاجائے تواشکالات کاایک طویل سلسلہ شروع ہوجاتاہے۔ اورظاہر ہے کہ انتظامی نوعیت کے حکم کاانحصار حالات پربھی ہوتاہے جیسے سدّذریعہ وغیرہ پر مبنی احکام میں ہوتاہے، اس لیے حالات کی تبدیلی کی صورت میں ایسے احکام میں بھی تبدیلی ہوسکتی ہے۔ 
آج کے حالات کے پیشِ نظر نشے کی حالت میں دی گئی طلاق کا فتوی کئی وجوہ سے نظر ثانی کامحتاج معلوم ہوتاہے، مثلاً: 
۱)جیساکہ اوپر بیان ہوابیشتر فقہا ء بالخصوص فقہائے حنفیہ نے سکران کی طلاق کو ’’تغلیظاً‘‘، ’’عقوبۃً‘‘ اور ’’تشدیداً‘‘ نافذ قرار دیا ہے۔ اس مسئلے میں فقہاء کی عبارات اتنی کثرت سے ہیں کہ ان کا احاطہ دشوار ہے ،ظاہر ہے کہ ’’تغلیظ‘‘، ’’تشدید‘‘ اور ’’عقوبت‘‘ اسی شخص پرہونی چاہیے جس سے معصیت کاصدور ہواہے، اس سے معلوم ہوتاہے کہ ان فقہاء کے پیش نظر عموماًوہ صورتیں تھی جن میں وقوعِ طلاق کانقصان خاوند کوہوتا ہے ،جبکہ ہمارے زمانے میں بالخصوص برّصغیر کے سماجی حالات میں عموماً طلاق کے اثراتِ بد مرد سے کہیں زیادہ بیوی اوراس کے بچوں پر مرتب ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک کے کیے کی سزا دوسروں کودینا جبکہ جس حکم کے ذریعے سزادی جارہی وہ غیر منصوص ہو بلکہ نص (المغلوب علی عقلہ)کے عموم اورعام اصول کے بھی خلاف ہو،قرین مصلحت اورقرینِ انصاف نہیں ہے۔
۲)فقہاء نے وقوع طلاق کی ایک وجہ ’’زجر‘‘بیان کی ہے ،لیکن اول توہمارے زمانے میں یہ سوال اہم ہے کہ وقوع طلاق کے فتوے سے یہ مقصد حاصل ہوبھی رہاہے یانہیں، دوسرے اس کامطلب یہ ہواکہ یہ حکم ایک مصلحت کے حصول یاایک مفسدے کے ازالے کے لیے ہے، یعنی لوگ نشے سے بچ جائیں۔ نشہ بھی ایک مفسدہ ہے اورطلاق بھی ایک مفسدہ ہے ٗجسے ابغض الحلال قراردیاگیاہے اورحدیث شریف میں بتایا گیاہے کہ ابلیس اپنے اس چیلے کوزیادہ شاباش دیتاہے جو زوجین میں تفریق کراکے آیاہو، بالخصوص ہمارے ماحول میں اس کے مفاسد پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئے ہیں،معاشی تنگی، مفادپرستی اور خود غرضی کے ماحول کی وجہ سے بیوی بچوں کی کفالت کے بے شمار پیدا ہوجاتے ہیں اور بچوں کی صحیح تعلیم وتربیت کے حوالے سے پیداہونے والے مسائل اس سے بھی سنگین ہوتے ہیں۔ ان حالات میں وقوعِ طلاق اورعدم وقوع دونوں پرمرتب ہونے والے مفاسد کے توازن کومدنظر رکھ کر اس مسئلے پرازسرنو غورکی ضرورت ہے ۔بظاہر یہی معلوم ہوتاہے کہ عموماً وقوعِ طلاق کے مفاسد اس متوقع فائدے(زجرعن السکر)سے زیادہ ہوتے ہیں۔نیززجرکافائدہ محتمل ہے اوروقوعِ طلاق کے مفاسد یقینی ، اس لیے ہمارے زمانے میں عدمِ وقوع طلاق کافتوی ہی انسب معلوم ہوتاہے ۔ 
۳)یوں لگتاہے کہ سکران کی طلاق واقع کرنے میں فقہاء کے پیش نظراحتیاط کاپہلو بھی تھا،چنانچہ شہد یااناج سے بنے ہوئے نبیذ مسکر پربحث کرتے ہوئے ابن نجیم بزازیہ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں :
’’المختار فی زماننا لزوم الحد، لأن الفساق یجتمعون علیہ، وکذا المختار وقوع الطلاق، لأن الحد یُحتال لدرۂ والطلاق یحتاط فیہ، فلما وجب مایحتال لأن یقع مایحتاط أولی‘‘۔
اس سے یہ قاعدہ معلوم ہوتاہے کہ طلاق ان احکام میں سے ہے جنہیں فقہاء بطور احتیاط بھی ثابت کردیتے ہیں،ظاہر ہے کہ احتیاط کو اسی صورت میں اختیار کیاجاتاہے جبکہ اس پر دیگر مفاسد ومضار مرتب نہ ہورہے ہوں۔
۴) جیسا کہ اوپر ذکر ہواسکران کی طلاق واقع ہونے کاحکم منصوص یااصولی نہیں انتظامی ہے۔ اول تو لزومِ مفاسد وغیرہ کی وجہ سے ویسے ہی دوسرے مذہب کواختیار کرنے کی بیسیوں مثالیں فقہاء کے ہاں ملتی ہیں ۔حکم کے انتظامی ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ اورآسان ہوجاتاہے ، اورپھر اس وجہ سے بھی کہ خودحنفیہ میں سے بھی امام زفر، حسن بن زیاد، طحاوی اورکرخی جیسی شخصیات کی آراء عدمِ وقوع کی موجود ہیں۔ مزید برآں یہ کہ ہمارے زمانے میں نشہ یاتوغیرمائع چیزوں سے ہوتاہے یاایسے مائعات سے جوانگور یاکھجور سے بنے ہوئے نہ ہونے کی وجہ سے اشربہ اربعہ سے خارج ہوتے ہیں۔ ان نشوں کی حالت میں طلاق کے بارے میں مشائخِ حنفیہ کے اندرمزید اختلاف موجود ہیں اورتصحیح میں بھی اختلاف ہے۔ مثلاصاحب بحر نے قاضی خان سے عدمِ وقوع کی تصحیح نقل کی ہے، اس لیے عدمِ وقوع طلاق کافتویٰ دینے میں کوئی زیادہ خروج عن المذہب بھی نہیں پایا جا رہا ہے ، اس لیے وقوعِ طلاق والے حکم کی اصل حیثیت وتعلیل کو اورہمارے زمانے اور علاقوں کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے رجحان اس طرف ہورہاہے کہ طلاق واقع نہ ہونے کافتویٰ دیاجائے۔ البتہ اس میں نشے کی نوعیت کی تفصیل میں جانے سے اورقاضی خان وغیرہ کے قول اختیار کرنے کی صورت میں چونکہ بعض نشوں کی شناعت کم ہونے کااندیشہ ہے، اس لیے درست یہ معلوم ہوتاہے کہ امام زفر ،حسن بن زیاد ،طحاوی اورکرخی جیسے حضرات کی رائے اختیار کرتے ہوئے کہاجائے کہ نشے کی حالت میں طلاق واقع نہیں ہوتی، قطع نظرنشے کی نوعیت سے۔ واللہ تعالیٰ اعلم

ایک مجلس کی تین طلاقیں اور اصلاح کی گنجائش

مولانا مفتی فضیل الرحمن عثمانی

اس میں شک نہیں کہ ایک ہی دفعہ میں تین طلاقیں دینے کا مسئلہ بعض اوقات بڑی پیچیدگی پیدا کر دیتا ہے۔ عام طور پر لوگ مسائل سے واقف نہیں ہیں اور طلاق دینا اگر ضروری ہی ہو تو اس کا صحیح طریقہ کیا ہے، اس کو نہیں جانتے۔ 
ایک مجلس میں ایک دفعہ میں تین طلاقیں دی جائیں تو وہ واقع ہو جاتی ہیں۔ یہ مغلظہ طلاق ہے اور اس کا حکم یہ ہے کہ میاں بیوی کا تعلق ختم ہو کر دونوں ایک دوسرے کے لیے اجنبی اور ان میں میاں بیوی کا تعلق ناجائز ہو جاتا ہے۔ اس صورت حال میں اصلاح کی کتنی گنجائش ہے، اس پر نظر ڈالتے ہیں۔

پہلی صورت: تین دیں مگر نیت ایک طلاق کی، کی

اگر ایک ہی دفعہ ایک ہی مجلس میں کسی مرد نے اپنی بیوی کو، جس سے میاں بیوی کا رشتہ قائم ہو چکا تھا، تین طلاقیں دیں، مثلاً اس طرح کہا: ’’میں نے تجھے طلاق دی، طلاق دی، طلاق دی‘‘ اور شوہر یقین دلائے کہ میرا ارادہ ’’ایک ہی طلاق‘‘ دینے کا تھا، دوسری اور تیسری دفعہ کہنا پہلے جملے کی مضبوطی کے لیے تھا تو یہ گنجائش موجود ہے کہ اس کے بیان کو تسلیم کر کے ایک طلاق کا حکم لگایا جائے۔ (اسلامی قانون، دفعہ ۶۰) 
در مختار میں ہے کہ:
کرر لفظ الطلاق (بان قال للمدخولۃ انت طالق انت طالق انت طالق) وقع الکل، فان نوی التاکید دین (در مختار ج ۱، ص ۲۲۴)
’’لفظ طلاق کو دہرایا اور مدخولہ بیوی سے (جس سے میاں بیوی کا تعلق قائم ہو چکا ہے) اس طرح کہا: تجھ پر طلاق، تجھ پر طلاق، تجھ پر طلاق تو سب واقع ہو گئیں اور اگر صرف تاکید کی نیت کی تھی تو دیانتاً تسلیم کیا جائے گا۔‘‘
بعض دفعہ زور اور تاکید کے لیے بھی الفاظ دہرائے جاتے ہیں، جیسے ’’ہاں جاؤ، بھئی جاؤ، چلے جاؤ‘‘۔ یہاں تکرار کا منشا یہ نہیں کہ تین دفعہ جاؤ، بلکہ صرف تاکید اور شدتِ اظہار پیش نظر ہے۔ اس طرح ہو سکتا ہے کہ جوش کے عالم میں کوئی شخص طلاق دے اور بطور تاکید اُسے دہراتا جائے، ذہن میں یہ بالکل نہ ہو کہ ایک سے زائد طلاق دے رہا ہوں۔ یہ طلاق بھی ظاہراً تین ہیں، لیکن فی الحقیقت اس کی صحیح حقیقت نیت اور ارادے کا علم ہونے کے بعد ہی متعین ہوتی ہے۔ (اسلامی قانون صفحہ ۲۲۱۔ تشریح دفعہ ۶۰)
اسلامی قانون متعلق پرسنل لا، ترتیب مولانا منت اللہ رحمانی ، بانی جنرل سیکرٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ صفحہ ۱۸۱ دفعہ ۲۴ میں ہے کہ:
’’اگر طلاق دینے والا یہ کہتا ہے کہ اس کی نیت ایک ہی طلاق کی تھی اور اس نے محض زور پیدا کرنے کے لیے الفاظ طلاق دہرائے ہیں، اس کا مقصد ایک سے زائد طلاق دینا نہیں تھا تو اس کا یہ بیان حلف کے ساتھ تسلیم کیا جائے گا اور ایک ہی طلاق واقع ہوگی۔‘‘
بہشتی زیور مرتبہ مولانا اشرف علی تھانوی، حصہ چہارم میں طلاق دینے کا بیان، مسئلہ ۱۳ ہے کہ:
’’کسی نے تین دفعہ کہا کہ تجھ کو طلاق، طلاق، طلاق تو تینوں پڑ گئیں یا گول مول الفاظ میں تین مرتبہ کہا ، تب بھی تین پڑ گئیں، لیکن اگر نیت ایک ہی طلاق کی ہے، فقط مضبوطی کے لیے تین دفعہ کہا تھا کہ بات خوب پکی ہو جائے تو ایک ہی طلاق ہوئی۔‘‘
یہ اصول ہے کہ کہنے والے کے الفاظ کے چند احتمالات میں سے کسی ایک کی تعیین متکلم کی نیت سے ہوگی۔ شریعت میں اس کی نظیریں موجود ہیں۔ مثلاً یہ کہ چند الفاظ میں سے کسی ایک کی تعیین متکلم کی نیت سے کی جاتی ہے۔
اس پہلی صورت میں، جس کی تفصیل بیان ہوئی، ایک دفعہ کی تین طلاقوں کو ایک ماننے کی گنجائش موجود ہے۔

دوسری صورت: تین طلاقیں دیں، نیت کچھ بھی نہیں کی

دوسری صورت یہ ہے کہ طلاقیں تین دیں، مگر نیت کچھ بھی نہ تھی۔ نہ ایک کی، نہ دو یا تین کی تو اس صورت میں دیکھا جائے گا کہ عرف کیا ہے؟ اگر عرف میں تکرار کلام سے مقصد تاکید ہو تو اس کو تاکید ہی پر محمول کیا جائے گا۔ جیسے کوئی کہے ’’میں آتا ہوں، آتا ہوں، آتا ہوں‘‘ تو اس جملے میں عرفاً تین بار آنا مقصود نہیں، بلکہ مقصد محض تاکید ہے۔ (اسلامی قانون متعلق پرسنل لا، دفعہ ۲۴، صفحہ ۱۸۲)
اصول ہے کہ عرف کی رعایت کی جاتی ہے، اس لیے طلاق کی اس دوسری صورت میں عرف کا لحاظ رکھتے ہوئے یہ گنجائش موجود ہے کہ تین طلاقوں کو ایک طلاق مانا جائے۔

طلاق کی تیسری صورت: انتہائی غضب میں طلاق

انتہائی درجہ کا غضب جس میں عقل مغلوب ہو جائے اور انسان یہ نہ سمجھے کہ کیاکہہ رہا ہے اور کیا کر رہا ہے، یہ بھی وہ کیفیت ہے جس میں طلاق واقع نہیں ہوگی۔ (مجموعہ قوانین اسلامی، شائع کردہ مسلم پرسنل لا بورڈ، صفحہ ۱۳۳)
اسلامی قانون متعلق پرسنل لا میں ہے کہ:
’’دفعہ ۹ ۔۔۔ غصہ کی حالت میں دی ہوئی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ ہاں، اگر غصہ اس درجہ کا ہو کہ ہوش وحواس باقی نہ رہ گئے ہوں اور بوقت طلاق اسے اتنا بھی شعور نہ ہو کہ میری زبان سے کیا بات نکل رہی ہے تو اس حال میں دی ہوئی طلاق واقع نہ ہوگی۔
وللحافظ ابن قیم الحنبلی رسالۃ فی طلاق الغضبان قال فیہا انہ علی ثلاثۃ اقسام:
احدہا: ان یحصل لہ مبادئ الغضب بحیث لا یتغیر عقلہ ویعلم ما یقول ویقصدہ، وہذا لا اشکال فیہ۔
الثانی: ان یبلغ النہایۃ فلم یعلم ما یقول ولا یرہ، فہذا لا ریب انہ لا ینفذ شئ من اقوالہ۔
الثالث: من توسط بین المرتبتین بحیث لم یصر کالمجنون، فہذا محل النظر والادلۃ تدل علی عدم نفوذ اقوالہ، ملخصا من شرح النقایۃ الحنبلیۃ، لکن اشار فی الغایۃ الی مخالفتہ فی الثالث حیث قال: ویقع طلاق من غضب خلافا لابن القیم وہذا الموافق عندنا لما مر فی المدہوش (رد المحتار، کتاب الطلاق، صفحہ ۵۸۷، جلد ۲)
(اسلامی قانون متعلق پرسنل لا، صفحہ ۱۷۴)

طلاق کی چوتھی صورت: لا علمی

اوپر طلاق کی جو تین صورتیں بیان کی گئی ہیں، ان میں اصلاح کی کافی گنجائش ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص تین طلاقیں ایک مجلس میں یکجائی طور پر دے دے اور پھر دونوں چاہیں کہ میاں بیوی بن کر حسب سابق ایک ساتھ رہیں تو اس میں حلالے کی ناگوار صورتوں کے بغیر اصلاح کی صورتیں موجود ہیں اور اہل علم ونظر نے ان پر اپنی مہر ثبت کر دی ہے۔ طلاق کی چوتھی صورت جس سے عام طور پر سابقہ پیش آتا ہے، یہ ہے کہ لوگ طلاق کے مسئلوں سے ناواقف ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ طلاقیں ہوتی ہی تین ہیں۔ وہ رجعی، بائنہ، مغلظہ کی تفصیلات نہیں جانتے۔ یہ بات عام طو رپر مشہور ہو گئی ہے کہ تین دفعہ کہا جائے، تب ہی طلاق پڑتی ہے۔
شریعت نے عرف کا بڑا لحاظ رکھا ہے۔ عر ف بدلنے سے مسئلے کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ تو کیا اس عرف عام اور لاعلمی کا لحاظ رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ تین سے کم طلاقیں واقع ہوتی ہیں اور وہ دونوں میاں بیوی حسب سابق یک جا رہنا چاہتے ہیں تو کیا ایک طلاق واقع ہونے کا فتویٰ دیا جا سکتا ہے اور اس میں رجوع کرنے کی گنجائش ہے؟ اہل علم اور اصحاب فتویٰ سے درخواست ہے کہ ابتلائے عام کو دیکھتے ہوئے اس مسئلے پر غور فرمائیں۔
دلیل کے طور پر ہمارے سامنے ابتلائے عام، لوگوں کی لاعلمی اور یہ سمجھنا ہے کہ طلاقیں ہوتی ہی تین ہیں۔ لوگوں کو ایک بڑے گناہ سے بچانے کے لیے اس صورت پر غور کیا جا سکتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم واحکم
(بشکریہ: ماہنامہ ’’دار السلام‘‘، مالیر کوٹلہ، انڈیا)

طلاق کا وقوع اور نفاذ۔ چند اجتہاد طلب پہلو

محمد عمار خان ناصر

شریعت نے میاں بیوی کے مابین نباہ نہ ہونے کی صورت میں رشتۂ نکاح کو توڑنے کی اجازت دی ہے۔ شریعت کی نظر میں اس رشتے کی جو اہمیت ہے، وہ یہ تقاضا کرتی ہے کہ اس کو ختم کرنے کا معاملہ پورے غور وخوض کے بعد اور تمام ممکنہ پہلوؤں اور نتائج کو سامنے رکھ کر ہی انجام دیا جائے۔ چنانچہ اگر کوئی شخص نادانی، جذباتی کیفیت، مجبوری یا کسی بد نیتی کی بنیاد پر طلاق دے دے تو رشتۂ نکاح کے تقدس کے پیش نظر یہ مناسب، بلکہ بعض صورتوں میں ضروری ہوگا کہ اسے غیر موثر قرار دیا جائے یا اس پر عدالتی نظر ثانی کی گنجایش باقی رکھی جائے۔ 
فقہا کے ایک گروہ کے ہاں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ نکاح یا طلاق کے نافذ ہونے کے لیے کوئی شعوری اور سوچا سمجھا فیصلہ ضروری نہیں، بلکہ کسی بھی کیفیت یا حالت میں اگر طلاق کے الفاظ منہ سے نکل جائیں تو کسی دوسری معاشرتی یا قانونی مصلحت کا لحاظ کیے بغیر وہ لازماً موثر ہو جائیں گے۔ یہ خیال نبی صلی اللہ علیہ وسلم او ربعض صحابہ کی طرف منسوب ایک قول، یعنی ’ثلاث جدہن جد وہزلہن جد‘ (ترمذی، رقم ۱۱۰۴) کے صحیح محل کو نظر انداز کرنے سے پیدا ہوا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ نکاح، طلاق اور طلاق سے رجوع کرنے کا معاملہ سنجیدگی سے کیا جائے یا مذاق میں، وہ بہرحال نافذ ہو جائے گا۔ بعض روایات میں غلام کو آزاد کرنے کو بھی اسی ضمن میں شمار کیا گیا ہے۔ (نیل الاوطار ۷/۲۰۔ ۲۱) حنفی فقہا نے اس کو ایک عام اصول کی حیثیت دے دی ہے اور ان کے ہاں اس کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ کوئی شخص اگر جبر واکراہ کے تحت طلاق دے دے تو وہ اسے بھی موثر قرار دیتے ہیں، حالانکہ عقل وقیاس کے اعتبار سے مذکورہ قول کا صحیح محل یا تو یہ ہو سکتا ہے کہ اسے ایسے لوگوں سے متعلق مانا جائے جو پورے شعور اور ارادے کے ساتھ نکاح یا طلاق کا فیصلہ کرتے ہیں، لیکن بعد میں بدنیتی سے کام لیتے ہوئے یہ کہہ دیتے ہیں کہ انھوں نے ایسا محض مذاق میں کہا تھااوریایہ کہ اسے سد ذریعہ کی نوعیت کا ایک حکم سمجھا جائے جس کا مقصد لوگوں کو متنبہ اور خبردار کرنا ہے کہ وہ ان معاملات کے بارے میں ذہنی طور پر حساس رہیں اور انھیں معمولی اور غیر اہم سمجھتے ہوئے بے احتیاطی کا رویہ اختیار نہ کریں اور اگر وہ ایسا کریں گے تو انھیں اس کے نتائج سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جائے گا۔ 
اس حد تک یہ بات پوری طرح قابل فہم ہے، لیکن اس کو وسعت دیتے ہوئے یہ اصول قائم کر لینا کسی طرح درست نہیں کہ طلاق کے معاملے میں سوچ سمجھ کر اور پورے شعور کے ساتھ فیصلہ کرنا سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتا اور شوہر جس کیفیت اور حالت میں بھی طلاق کے الفاظ منہ سے نکال دے، وہ نافذ ہو جائے گی اور اس کی کسی مجبوری یا عذر کو کوئی وزن نہیں دیا جائے گا۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ شوہر سے جبراً لی گئی طلاق کو کوئی حیثیت نہیں دی، (سنن سعید بن منصور، رقم ۱۱۳۰۔ ۱۱۳۱) بلکہ ’اغلاق‘، یعنی دباؤ کی حالت میں دی گئی طلاق کو بھی غیر نافذ قرار دیا۔ (ابن ماجہ، رقم ۲۰۳۶) شارحین نے ’اغلاق‘ کا مصداق جبر واکراہ کو بھی قرار دیا ہے اور شدید غصے کی کیفیت کو بھی۔ میری رائے میں دونوں باتیں درست ہیں، اس لیے کہ نہ جبر واکراہ کی صورت میں خاوند کا حقیقی ارادہ اور عزم کارفرما ہوتا ہے اور نہ شدید غصے کی کیفیت میں۔ 
پھر یہ کہ کسی بھی صورت حال میں دی گئی طلاق کو خاوند کے دائرۂ اختیار کی حد تک موثر مان لیا جائے تو بھی اس سے عدالت کے نظر ثانی کے حق کی نفی لازم نہیں آتی۔ قاضی کو ’ولایت عامہ‘ کے تحت جس طرح تمام دوسرے معاملات میں فریقین کے مابین طے پانے والے کسی معاہدے یا کسی صاحب حق کے اپنے حق کو استعمال کرنے پر نظر ثانی کا اختیار حاصل ہے، اسی طرح طلاق کے معاملے میں بھی حاصل ہونا چاہیے اور اگر وہ قانون وانصاف اور مصلحت کے زاویے سے کسی طلاق کو کالعدم قرار دینا چاہے تو نصوص یا عقل وقیاس میں کوئی چیز اس کے خلاف نہیں پائی جاتی۔ اس کے حق میں نقلی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غلام کو آزاد کرنے کے فیصلے کو سنجیدگی اور مذاق میں یکساں موثر قرار دینے کے باوجود بعض مقدمات میں مالک کے، پورے شعور اور سنجیدگی کے ساتھ اپنے غلاموں کو آزاد کرنے کے فیصلے کو شرعی مصلحت کے منافی سمجھتے ہوئے اسے کالعدم قرار دے دیا۔ (مسلم، رقم ۳۱۵۴) اسی طرح ایک مقدمے میں خاوند نے بیوی کے مطالبے پر اسے کہا کہ طلاق کے معاملے میں جو اختیار مجھے حاصل ہے، وہ میں تمھیں تفویض کرتا ہوں۔ بیوی نے اس حق کو استعمال کرتے ہوئے اپنے آپ کو تین طلاقیں دے دیں، لیکن سیدنا عمر اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے یہ سارا معاملہ واقع ہو جانے کے بعد مصلحت کے اصول کے تحت یہ قرار دیا کہ خاوند کا تفویض کردہ حق صرف ایک طلاق کی حد تک موثر ہے۔ (طبرانی، المعجم الکبیر، رقم ۹۶۴۹۔ ۹۶۵۰)
ان مثالوں سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ حق طلاق کے غلط اور غیر حکیمانہ استعمال کی روک تھام اور قانون کے اطلاق کو موثر اور منصفانہ بنانے کے لیے اس نوع کی قانونی تحدیدات عائد کرنے کی نہ صرف پوری گنجایش موجود ہے، بلکہ یہ قانون کا ایک لازمی تقاضا ہے۔ معاصر تناظر میں دیکھا جائے تو کئی پہلووں سے اس نوعیت کی قانون سازی ضروری معلوم ہوتی ہے۔ شوہر کسی وقتی جذباتی کیفیت میں طلاق دے بیٹھے یا شعوری طور پر طلاق دینے کا فیصلہ کرے، عمومی طور پر اس کے مضر نتائج واثرات عورت اور بچوں ہی کو بھگتنا پڑتے ہیں۔ چنانچہ عورت اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے یہ ضروری ہے کہ خاوند کے حق طلاق کے نافذ اور موثر ہونے کو بعض قانونی پابندیوں کے ساتھ مقید کیا جائے۔ اسی طرح بعض صورتوں میں عورت بالکل جائز بنیادوں پر طلاق لینے کی خواہش مند ہوتی ہے، لیکن خاوند اس کے لیے آمادہ نہیں ہوتا، جبکہ عورت کسی جائز وجہ سے خاوند سے علیحدگی چاہتی ہو تو یہ اس کا حق ہے اور خاوند شرعاً اس کے اس مطالبے کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ اسی وجہ سے جب ایک ایسا مقدمہ سامنے آیا جس میں بیوی نے شوہر کی رضامندی سے طلاق لینے میں ناکامی کے بعد اس کی جان کو خطرے میں ڈال کر اس سے طلاق لے لی تھی تو سیدنا عمر نے، جو اصولی طور پر جبری طلاق کے غیر موثر ہونے کے قائل تھے، ( سنن سعید بن منصور، رقم ۱۱۲۸) عورت سے اس کا موقف سننے کے بعد اکراہ کے تحت لی گئی اس طلاق کو بھی نافذ قرار دے دیا۔ (سنن سعید بن منصور، رقم ۱۱۲۹) معاصر تناظر میں اس الجھن کا حل یہ ہو سکتا ہے کہ نکاح کے وقت طلاق کے حق کو مناسب شرائط کے ساتھ کسی ثالث یا خود عورت کو تفویض کر دینے کو قانونی طو رپر لازم کر دیا جائے یا یہ قرار دیا جائے کہ اگر عورت خاوند سے طلاق کا مطالبہ کرے تو ایک مخصوص مدت کے اندر شوہر بیوی کو مطمئن کرنے یا اسے طلاق دینے کا پابند ہوگا، ورنہ طلاق ازخود واقع ہو جائے گی۔ واللہ تعالیٰ اعلم

نہ معرفت، نہ نگاہ!

محمد دین جوہر

الشریعہ دسمبر ۲۱۰۲ء میں میاں انعام الرحمن صاحب نے ’’۔۔۔ اور کافری کیا ہے؟‘‘ کے عنوان سے راقم کے مضمون کا جواب دیا ہے۔ انہوں نے کافی محنت سے مضمون کا ایک درسی گوشوارہ مرتب کیا اور پھر اس کا شق وار قانونی جواب دے کر قارئین کی خدمت میں پیش کرنے میں بڑی محنت اٹھائی۔ اس کے لیے وہ یقیناًداد کے مستحق ہیں۔ اس جواب الجواب کی pedantry کا، صاف ظاہر ہے کہ ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ ان کے جواب سے ہمیں یہ اندازہ بخوبی ہو گیا ہے کہ میاں صاحب ہماری گزارشات اور سوالات کو register بھی نہیں کر پائے اور کسی دوسری طرف نکل کھڑے ہوئے۔ لفظوں کی گردانیں تو ہم نے سن رکھی ہیں، لیکن فقروں کی گردانیں بنا کے میاں صاحب نے ایک نئی چیز متعارف کرائی ہے۔ اس پر بھی ہم ان کے تہہ دل سے ممنون ہیں۔ 
اہم تر یہ امر ہے کہ میاں صاحب نے اپنے جواب کو بالکل ہی ذاتیات بنا دیا اور ما بہ النزاع فکری امور کی طرف ان کی توجہ نہ جا سکی۔ ادھر یہ حال ہے کہ ہمیں ذاتیات میں قطعی کوئی دلچسپی نہیں ہے اور نہ فتویٰ بازی ہی سے ہمیں کسی طرح کی طبعی مناسبت ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ علمی مکالمہ ذاتیات کی تنگنائے میں واقع نہیں ہو سکتا اور اس کے لیے طرفین کی مفاہمت سے قائم تہذیبی فضا کی ضرورت ہوتی ہے۔ مزید برآں، ہمیں اس بات کا بھی پورا احساس ہے کہ علم اور عقیدے کا تعلق بہت گہرا ہے اور اس کی نوعیت اور منہج سے بھی شناسائی رکھتے ہیں، لیکن ہم علمی بحث کو عقیدے پر فتویٰ بازی نہیں بناتے جس کا مظاہرہ میاں صاحب نے فرمایا ہے۔ ہمارا پختہ یقین ہے کہ مکالمہ اور گفتگو زیور تہذیب ہیں اور تہذیب ختم ہو جائے تو زیور کی تلاش بے سود ہے۔
جس طرح اوّلی مضمون ان کے علم کا اظہار تھا، بالکل اسی طرح یہ مضمون ان کے جدید مذہبی رویوں اور تہذیب کا اظہار ہے۔ پہلے وہ ملاحظہ فرما لیں، باقی گزارشات میں ٹھہر کے عرض کرتا ہوں۔ کفر و ایمان کا جھگڑا تو انہوں نے عنوان ہی میں صاف کر دیا کہ ’’۔۔۔ اور کافری کیا ہے؟‘‘ یعنی ہمارا مضمون تو کافری ہی کافری ہے اور بزعم خویش اسلام کے شارح اور ترجمان جناب موصوف خود ہیں۔ اس میں حیرت یہ ہے کہ اگر مخاطب کو کافر قرار دے ہی دیا ہے تو پھر مشرک قرار دینے کی کون سی دینی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ شاید ایسی ہی نئی ضروریات کی تکمیل کے لیے وہ کوئی نیا اسلامی اڈیشن تیار کرنا چاہ رہے ہیں۔ موصوف فرماتے ہیں کہ ’’قدیم دیسی شعور‘‘ [اس سے مراد راقم ہے] بھی تو بتوں سے امید لگائے بیٹھا ہے۔‘‘ یہ تو فاضل مضمون نگار کے جدید دینی رویے ہوئے۔ ہمیں کافر کہہ کر ان کی تسکین نہیں ہوئی تو ہم میاں صاحب سے عرض کریں گے کہ کیا مشرک قرار دے کر ان کی تالیف قلب ہو گئی؟ اگر نہیں ہوئی تو وہ ہمارے حوالے سے اپنی مستقل تالیف قلب بھی کرتے رہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ اب اس کفر و شرک کے طومار پر بھلا میں کیا تبصرہ کر سکتا ہوں؟ جیسی ان کی جدید دینی تعبیرات ہیں، ویسی ہی ان کی افتائی شطحیات ہیں۔
اب ان کی تہذیب بھی ملاحظہ فرما لیں: ’’اگر جوہر صاحب اپنے مفروضات کے جوہڑ سے باہر آئیں تو۔۔۔‘‘ میاں صاحب سے گزارش ہے کہ ہمیں کسی کو کافر، مشرک قرار دینے یا مخاطب کے نام میں تحقیری تصرفات کرنے میں تو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ یہ دینی رویے اور تہذیبی شعور انہیں اور الشریعہ کو مبارک ہو۔ ہم اس سے قطعی بری الذمہ ہیں۔ علمی اختلاف کو ذاتیات بنانے اور علمی بحث کو عقیدے کی بحث بنانے میں ہمیں چنداں دلچسپی نہیں اور نہ اس طرح کے فضول کاموں کے لیے ہمارے پاس کوئی وقت ہے۔ ہاں، جہاں تک ان کے جعلی مذہبی علوم کا تعلق ہے، ہم ان کی تحلیل، تجزیے اور پرزور رد کی بساط بھر کوشش کرتے رہیں گے۔ اگر وہ علمی گفتگو کو عقیدے اور نیت پر حملے کی آڑ بنا رہے ہیں تو ہمیں اس طرح کی دشنام گری سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ہم جواباً ان پر کفر و شرک تھوپنے یا انہیں بدنیت قرار دینے کے عمل ہی کو قابل مذمت سمجھتے ہیں، خود کیسے اس کا ارتکاب کر سکتے ہیں؟ وہ اگر چاہیں تو اپنی تالیف قلب کے لیے اور اپنے نئے اسلامی اڈیشن کی تشہیر کے لیے اور اس کی روشنی میں دریافت کردہ (نعوذباللہ) ہمارے کفر و شرک کا پورا محضر نامہ اپنے رسالے میں شائع کرواتے رہا کریں۔ ہم نیت اور عقیدے کا معاملہ اللہ پر چھوڑتے ہیں۔ ہمارا سروکار تو ان کے صرف اظہار دادہ خیالات تک ہی محدود ہے۔ میاں صاحب سے گزارش ہے کہ اگر ان کا نیا اسلامی اڈیشن تیار ہو گیا ہے تو وہ اس کی اشاعت کا مناسب بندوبست فرمائیں، فقروں کی گردانیں کر کے انشائی آملیٹ بنا کر قارئین کرام، خود اپنا اور ہمارا وقت ضائع نہ کریں۔
ان کی تہذیب کا ایک نمونہ اور بھی ملاحظہ فرما لیں: ’’جوہر صاحب کے روایتی اسلوب سے مراد اگر ’’دما دم مست قلندر‘‘ جیسے اسالیب ہیں۔۔۔‘‘ اب ایسی باتوں کا آدمی کیا جواب دے؟ دعا ہی کر سکتا ہے۔ علم اپنا دفاع کرتا ہے، غصہ صرف اظہار چاہتا ہے۔ اپنے جواب الجواب میں میاں صاحب نے صرف غصے کا اظہار ہی فرمایا ہے۔ اب اپنے غصے اور اپنی عقل سے دین کی جدید تعبیر کا جو بیڑا میاں صاحب نے اٹھایا ہے، اس کا علم اٹھانے کا حوصلہ تو صرف الشریعہ کے پاس ہے۔ ہمارے حصے میں تو صرف گالیاں ہی آئی ہیں۔
بہر حال کیا راقم اور کیا اس کی اوقات، یہاں تو عامۃ المسلمین کی عزت بھی محفوظ نہیں۔ ذرا ان کا ہٹیلا پن ملاحظہ فرمائیے: ’’جی ہاں! مذکور معنی میں مسلمان بے حیا اور بے غیرت ہیں۔ اس سلسلے میں ہم نے ایک دو مثالیں بھی پیش کی تھیں۔‘‘ یہ میاں صاحب کی بندہ نوازی ہے کہ انہوں نے ایک دو مثالوں سے حاصل ہونے والے تجربے کو قصص القرآن سے اخذ کردہ شرائط کی روشنی میں جس طرح ’’تاریخی تجربے‘‘ میں ڈھال کر مسلمانوں پر منطبق کیا ہے، اس سے ان کے جدید اسلامی اڈیشن کے اخلاقی پہلوؤں کو بڑی سربلندی اور رفعت حاصل ہوئی ہے۔ مسلمانوں کا مذہب یا اس کا ایک خاص اڈیشن بقول میاں صاحب موجودہ عمرانی صورت حال سے غیر متعلق ہو گیا ہے اور خود مسلمان بالعموم بے غیرت اور بے حیا ہیں۔ اب لے دے کے میاں صاحب ہی ان کا آخری سہارا اور امید ہیں، اس لیے ان سے گزارش ہے کہ وہ اپنے نئے اسلامی اڈیشن کی جلد رونمائی کا بندوبست فرمائیں تاکہ روایتی اسلام کی مکمل بیخ کنی کر کے صورت حال کو سنبھالا دیا جا سکے۔ میاں صاحب سے التماس ہے کہ خود ان کے تجزیے کے مطابق ہماری عمرانی صورت حال بہت خراب ہے، اس لیے ان کے نئے اڈیشن کی جلوہ افروزی میں تاخیر نقصان کا موجب ہو سکتی ہے، جو صاف ظاہر ہے ان کا منشا بھی نہیں ہے۔ پھر مسلمانوں کو بالعموم بے غیرت اور بے حیا قرار دیتے سمے ان کی ادعایت میں جارج بش کے لہجے کی جھلک صاف نظر آ رہی ہے۔ اس پر وہ مزید مبارک باد کے مستحق ہیں، کہ ماشاء اللہ جہاں سے تعبیرات آ رہی ہیں، وہاں سے لہجہ بھی مستعار ہے۔ 
میاں صاحب نے عمرانی کا لفظ کہیں پڑھا یا کسی جدید دانشور سے سن رکھا ہو گا اور امید ہے کہ وہ اس کا مطلب بھی جانتے ہوں گے، اس لیے اس بچارے عمرانی کو سر پر گھماتے ہوئے روایتی دین کا لنکا ڈھانے نکل کھڑے ہوئے۔ کیا انہوں نے سنا ہے کہ جدید سماجی علوم The Death of the Social کا اعلان بھی فرما چکے ہیں؟ جدید معاشرے کا تجزیہ جدید نظری علوم کس کس منہج پر کر رہے ہیں، یہ میاں صاحب کی بلا سے۔ اپنے نو دریافت شدہ عمرانی قمقمے سے ان کی ٹکٹکی ہٹے تو ادھر ادھر بھی کچھ سجھائی دے۔ اپنی ذہنی جھنجھلاہٹ اور چشمی چندھیاہٹ میں ہم پر خواہ مخواہ برس رہے ہیں۔ 
میاں صاحب کے جواب سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے انہوں نے اپنا اوّلی مضمون یونانی زبان میں لکھا تھا جو ہماری سمجھ میں نہیں آیا اور وہ اب اس کی تدریس مکرر کر رہے ہیں۔ وہ تسلی رکھیں، ہم ان کی اردو اور اس میں اظہار دادہ خیالات کو خوب سمجھتے ہیں، اور ویسے ہی سمجھتے ہیں جیسے وہ اظہار فرما رہے ہیں۔ ہم اپنی خوش فہمی میں یہ توقع لگائے بیٹھے تھے کہ اپنے جواب میں وہ فکری طور پر مربوط کسی جدید اسلامی اڈیشن کی توپ چلائیں گے، لیکن انہیں تو اپنی ذات کی تشویش لاحق ہو گئی اور وہ کسی ہار جیت کی نفسیات میں گفتگو کو آگے بڑھانا چاہ رہے ہیں۔ اگر جیت ہی ان کا مسئلہ ہے تو ہم عرض کیے دیتے ہیں کہ جدید تعبیرات والے تو جیتے جتائے لوگ ہیں، یہ تو بچارے دینی روایت سے جڑے ہوئے ہم جیسے لوگ ہیں جو محاصرے میں ہیں اور جن کے موقف کی گنجائش تو دور کی بات ہے، ان کے لیے روایت دین کا نام لینا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ میاں صاحب کی اجازت سے ان کا پسندیدہ لفظ استعمال کرتے ہوئے عرض کروں گا کہ علم کی ’’عمرانی‘‘ ٹہل سیوا کے ساتھ ساتھ انہوں نے مخاطب کا جو ’’دینی بندوبست‘‘ فرمایا ہے، اس سے اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ وہ فاتح طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو جدید تعبیرات پر اپنی اجارہ داری کو درپیش کوئی سوال برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں۔
میاں صاحب کے جواب الجواب کے علاوہ بھی کچھ احباب نے اپنے ردعمل مجھے براہ راست روانہ فرمائے۔ ان سب میں مشترک وہ شدید رد عمل تھا جو ان ایک دو باتوں پر ہوا جو راقم نے دینی روایت اور روایتی علما کے حوالے سے ضمناً عرض کی تھیں۔ مجھے اس قدر اندازہ نہیں تھا کہ دینی روایت اور روایتی علما کا نام لینے پر ہی جدید دانشوروں کو دورہ ہو جائے گا اور جدید تعبیرات دین کا اصل موضوع پس منظر میں چلا جائے گا۔ مجھے براہِ راست موصول ہونے والے رد عمل اسلاف کیلئے گالم گلوچ اور دریدہ دہنی سے پر تھے۔ ہمارا مقصد کسی کو برا بھلا کہنا تو ہر گز نہیں تھا، ہم تو کسی فکری اور علمی مکالمے کے انتظار میں تھے۔ بچارے روایتی مولوی تو چلیے ہر طرح سے فارغ البال ہیں، لیکن جدید مولویوں کے حالات تو بالکل ہی ناگفتہ بہ ہیں۔ اقبال کا یہ مصرع ‘‘نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ’’ اصل میں ان پر ہی صادق آتا ہے۔ 
ہمارے خیال میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ جدید مذہبی دانشوروں کا نام نہاد عقلی استدلال جب ہانپنے لگتا ہے تو یہ مذہبی استناد کو آڑ بنا کر کفر و شرک کے فتوے صادر فرماتے ہیں۔ جب ان کا ذہن مذہبی استناد کے سامنے متامل ہوتا ہے تو یہ عقلی استدلال کی طرف لپکتے ہیں۔ جدید تعبیرات دین میں کارفرما ذہن نہ عقلِ انکار کا حامل ہے، نہ عقلِ تسلیم کا نمائندہ ہے۔ یہ تو استعمار کا تعمیر کردہ ذہن بیمار ہے جو ذہن ہونے کی بنیادی تعریف پر ہی پورا نہیں اترتا، کیونکہ استعمار کی وجودی نوکری اور استشراق کی شعوری غلامی اس ذہن کا content نہیں ہے، بلکہ structure ہے۔ وجودی نوکری اور شعوری غلامی کے قطبین کے درمیان کارفرما یہ ذہن مذہبی استناد کے حوالے سے شبہات اور عقلی استدلال کے حوالے سے مہجوری کا شکار ہے۔ ارادے کی سطح پر اس شعور کا بنیادی ترین اظہار سازباز اور ذہن کی سطح پر خلط مبحث ہے۔ اس ذہن کے عقلی استدلال کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ جدید علوم نے عقائد کی بیخ کنی کیلئے جو بھی دلائل اور علوم کھڑے کیے ہیں، اور جنہیں استعمال کر کے جدید ذہن اور جدید تہذیب نے اپنے تمام مقاصد تک مکمل رسائی حاصل کی ہے، بعینہٖ وہی دلائل یہ عقائد کے دفاع میں لے کے آتا ہے۔
میاں صاحب نے گلا کیا ہے کہ ہم نے ان پر قرآن مجید کو خلاصۂ تاریخ کہنے کا الزام لگایا ہے۔ انہوں نے gist of historyقرآن کے داخل میں محفوظ کیے جانے کا نیا فلسفہ دریافت کیا ہے۔ داخل خارج کی بحث تو بعد میں کریں گے، چلیے وہ خود ہی ارشاد فرمائیں کہ اس کو اردو میں خلاصۂ تاریخ نہیں کہیں گے تو کیا کہیں گے؟ جدید مذہبی دانشور چونکہ ایک extreme colourized- subjectivity-کا شکار ہوتے ہیں، اس لیے ان کے ہاں نہ لفظ کی حرمت باقی رہتی ہے نہ کسی تصور کی سالمیت۔ فقروں کی گردانیں یہ اسی لیے شروع کرتے ہیں کہ اپنے مکمل طور پر ..subjective .. معنی کی قطع برید کرتے رہیں۔ 
اب آپ جناب موصوف کے عقلی سوالات ملاحظہ فرمائیں: ’’ہمارے پاس موجود قرآن مجید نزولی ترتیب کے مطابق نہیں ہے، سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اگر اللہ رب العزت کو حتمی ترتیب (موجودہ ترتیب) ہی مقصود تھی تو قرآن اسی ترتیب پر نازل کیوں نہیں کیا گیا؟ پھر نزولی ترتیب ہی کو باقی کیوں نہیں رکھا گیا؟ کیا یہ سوال اٹھانا جرم ہو گیا؟‘‘ ہم عرض کریں گے کہ بھئی جرم تو نہیں ہوا، البتہ جناب موصوف کا عقلی استدلال بہت مصبوط ہو گیا۔ اب مصنف کی ذمہ داری ہے کہ ان کی طرف سے اس کا کوئی عقلی جواب بھی آنا چاہئے، اور وہ کبھی آنے کا نہیں۔ ملاحظہ فرمائیے کہ سوالات میں کس قدر ہیر پھیر کر کے عقلی ہونے کا جھانسہ دیا گیا ہے۔ سوالات دراصل یہ ہیں کہ ’’اگر اللہ رب العزت کو حتمی ترتیب (موجودہ ترتیب) ہی مقصود تھی تو اس نے قرآن اسی ترتیب پر نازل کیوں نہیں کیا؟ پھر [اللہ رب العزت نے] نزولی ترتیب ہی کو باقی کیوں نہیں رکھا؟ یہ ’’کیا گیا‘‘ اور ’’رکھا گیا‘‘ کا مجہول صیغہ مطلق جعلساز دانشوری ہے۔ یہ سوال کتنے صحابہ کرام نے حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام سے پوچھا ہو گا؟ یا کتنے تابعین حکمت کے لیے اس طرح کی لغویات میں پڑے ہوں گے؟ ہمارا موقف ہے کہ یہ سوالات نہ عقلِ انکار کے ہیں نہ عقلِ تسلیم کے ہیں بلکہ ہمارے جدید مذہبی دانشوروں کے ہیں۔ اس سلسلے میں جدید مذہبی دانشوروں سے ہماری گزارش ہے کہ اس طرح کے سوالات تو نعوذ باللہ، اللہ تعالیٰ سے کانفرنس یا سیمینار کے بعد ہی حل ہو سکتے ہیں۔ عقل کا سوال تو صرف یہ ہے کہ بذریعہ وحی نزول قرآن کا کوئی عقلی امکان موجود ہے یا نہیں؟ یا عقلی طور پر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ رسالت کا عقلی امکان موجود ہے یا نہیں؟ اب ذرا میاں صاحب ان سوالوں سے مڈھ بھیڑ کریں تو ان کو معلوم ہو جائے گا کہ ان کا خود ساختہ جعلی عقلی استدلال کہاں تک ان کا ساتھ دیتا ہے۔ 
برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ دہریت کا علمی اور سائنسی نظریہ اب ایک طاقتور سماجی تحریک بھی بن چکا ہے اور اس تحریک کا بنیادی ترین آلۂ علم عقل اور اس کے پیدا کردہ سائنسی علوم ہیں۔ اب ان کے دلائل کا چربہ ہمارے ہاں کے جدید مذہبی دانشور مذہب کے دفاع میں لے کے آتے ہیں۔ اب میاں صاحب ذرا رچرڈ ڈاکن کی عقل اور اس کے دلائل کو ملاحظہ فرما لیں تو انہیں پتہ چل جائے گا کہ عقل کیا ہوتی ہے اور کس طرح کام کرتی ہے۔ اب اس طرح کی باتیں کرنے میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ جدید مذہبی دانشور چونکہ کوئی اخلاقیات بھی نہیں رکھتے، اس لیے فوراً ذاتیات پر اتر آتے ہیں اور فتوے بازی شروع کر دیتے ہیں کہ دیکھو جی دیکھو یہ دہریت والوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ جبکہ ہمارا موقف یہ ہے کہ بطور مسلمان ہماری علمی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اس طرح کے عقلی دلائل کا سامنا کر کے ان کو قطع کرنے کی کوشش کریں نہ کہ ان کا پس خوردہ اٹھا کے اسلام پر لاگو کرنا شروع کر دیں۔ اس وقت رچرڈ ڈاکن کا براہ راست ہدف اسلام ہے، لیکن اس کی علمی domain میں اس کا سامنا کرنے والی ایک آواز بھی پوری مسلم دنیا میں موجود نہیں ہے۔ رچرڈ ڈاکن تو صرف ایک مثال ہے، اور وہ بھی بہت گھٹیا۔ رچرڈ ڈاکن سے کہیں بڑے ذہن مغرب کے تین سو سال سے پروردہ ہلاکت آفریں علمی ترکش میں موجود ہیں۔ ہمارا ذہن ان کا جواب دینا تو دور کی بات ہے، ان کی ادنیٰ ترین فہم بھی پیدا نہیں کر سکا ہے۔ ہماری علمی مہمات اور دریافتیں صرف ان کے پس خوردہ کو اپنے مذہبی متون سے ثابت کرنے تک محدود ہیں۔ 
اسی طرح کے عقلی استدلال سے حاصل ہو نے والے چند انتاجات اور ملاحظہ فرمائیں: ’’جناب کی خدمت میں عرض ہے کہ علم اخلاق کے بغیر علم محض ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں علم کی بجائے علم نافع کے حصول کی ترغیب دی گئی ہے۔ اور علم اخلاقی دلالتوں کے بغیر نافع کی سرحدوں میں داخل نہیں ہوتا‘‘۔ اب ایک ہی سانس میں میاں صاحب نے علم، علم محض، اور علم نافع گنوائے ہیں۔ جناب نے علم کا جو علم بلند کر رکھا ہے اس کے نظارے کے بعد ہم یہ خوب جانتے ہیں کہ وہ علم محض اور علم نافع کی تفاصیل میں کیا کرشمے دکھائیں گے۔ علم نافع تو جدید مذہبی دانشوروں کا لے پالک ہے، جس کے چوغے سے یہ دانشور جدید سائنس اور اس کے نظریات نکال کر اسلامی بناتے ہیں۔ میاں صاحب چلیے یہی بتا دیں کہ علم محض کس چیستاں کا نام ہے اور علم کی اخلاقی دلالتیں کیا ہوتی ہیں؟ ابھی تو میاں صاحب کو علم ہی کا کوئی علم نہیں ہوا، اور اپنے ہاں غیر موجود چیز کی اخلاقی دلالتوں کا نعرہ انہوں نے خوب لگایا ہے۔ ہم نے تو ان سے نام نہاد ’’عمرانی تفہیم‘‘ کی علمی شرائط کی درخواست کی تھی، وہ ہمیں وعظ کرنے لگے۔ یہاں ہمارے سوال کا جواب آنا چاہیے تھا، یہ وعظ کا محل نہیں تھا۔ 
’’قرآن مجید نے قصص القرآن وغیرہ کے ضمن میں کسی تجربے کے تاریخی تجربے میں ڈھلنے کی شرائط و خصوصیات بیان کر دی ہیں۔‘‘ یہ کیا چیستاں ہیں؟ میاں صاحب سے گزارش ہے کہ اس طرح کی نعرہ بازی سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ وہ کچھ تو ارشاد فرمائیں کہ انسانی تجربے کی تعریف کیا ہے؟ ان کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی تجربہ غیر تاریخی ہوتا ہے جس کے تاریخی تجربہ بننے کی شرائط اور خصوصیات قصص القرآن میں بیان ہوئی ہیں۔ اب اگر کوئی آدمی یہ بات کہہ رہا ہے اور وہ یہ بھی دعویٰ کرتا ہے کہ اسے علم سے کوئی صاحب سلامت ہے تو یہ ہمارے ہاں کے جعلی مذہبی علوم میں تو ممکن ہے، مذہب یا علم میں ممکن نہیں ہے۔ اب کوئی ہے جو ان سے کہے کہ بھئی ایسی باتیں کرنا علم نہیں ہے، جنون ہے؟ ہمارے ہاں گزشتہ دو سو سال میں جو جدید جعلی مذہبی علوم پیدا ہوئے ہیں، ان سب کا انحصار اسی طرح کے قضایا پر ہے اور یہ قضایا اور ان سے رسنے والے جدید جعلی مذہبی علوم اسی منہج علم سے پیدا ہوئے ہیں جس کے حسین امتزاج کے میاں صاحب دعویدار ہیں۔ 
اب مذہب میں کارفرما جدید عقل کا سب سے بڑا کارنامہ ملاحظہ فرمائیے: ’’اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنی ذاتی اور بشری حیثیت میں صورت حال کا جواب نہیں دیتے رہے بلکہ جو جواب آپ کو پہنچایا گیا وہی جواب دیتے رہے۔‘‘ قارئین کرام جانتے ہیں کہ کھجور کو نر دینے والی حدیث مبارکہ کی آڑ میں جدید مذہبی دانش پورے دین کی بنیاد اکھاڑنے پر لگی ہوئی ہے۔ جدید دینی تعبیرات کی اصل الاساس یہ ہے کہ اس حدیث مبارکہ کی آڑ میں حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی ذات پاک میں پہلے حیثیتوں کا فرق تلاش کیا جائے اور ذاتی، بشری، نبوی، اور غیر نبوی حیثیتوں کے امتیازات قائم کیے جائیں کیونکہ جدید دانشورانہ اسلام میں نبی پاک صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی ذاتی بشری نبوی حیثتوں کے مابین تفریقات پیدا کرنے کو بہت مرکزی جگہ حاصل ہے۔ اسلام کی جدید تعبیرات انہیں تفریقات کو قائم کرنے، ان تفریقات کے بیچ اپنا راستہ بنانے اور پھر قلب ہدایت پر شب خون لگانے کا حاصل ہے۔ دین کی جدید تعبیرات حضور علیہ السلام کی ذات بابرکات میں اولاً دُوئی تلاش کیے بغیر ممکن ہی نہیں ہو سکتیں۔
اب میاں صاحب کا عقلی شاہکار ملاحظہ فرمائیں، شاہکار اس لیے کہ اسی ہیرے سے ایک تراشہ انہوں نے اپنے جواب الجواب کے عنوان کے طور پر سجا کر ہمیں خطاب کافری سے نوازا ہے۔ ’’سوال یہ ہے کہ بزرگوں کے تشکیل کردہ standard discources and diciplines-کو question کرنا اگر عیب چینی ہے اور پھر ایسی عیب چینی ہے جس سے دین و ایمان سنگین خطرے سے دوچار ہو جاتے ہیں تو پھر ۔۔۔ کافری کیا ہے؟ معلوم ہوتا ہے کہ فاضل نقاد چون و چرا کی آڑ میں ما فی الضمیر (بتوں سے امیدیں) دابے بیٹھے ہیں۔‘‘ سبحان اللہ! آتش بھی ہے، آب بھی ہے، باد بھی۔ دینی استناد اور عقلی استدلال کا حسین امتزاج بھی فراہم ہے۔ روایت بھی صاف ہے، مخاطب کافر و مشرک اور بدنیت و بد طینت بیک آن بھی ہے۔ غصہ علمی کلابے میں ہے اور عقل تعبیری فراٹے میں۔ میاں صاحب بڑی دور کی کوڑی لائے ہیں، لیکن ان کے اس کوڑی کے جعلی علمی غبارے کو صرف ایک پن ہی کافی ہے۔ ہمارے روایتی دینی علوم canonization کے عمل کا نتیجہ ہیں، اور ان کی تشکیل بالکل اسی طرح کی ہے جس طرح سے جمع قرآن کا عمل ہے۔ یہ ہدایت اور آثار ہدایت کو جمع کرنے کا عمل ہے، اور ہمارے سلف کی عقل تسلیم کے کرشمے اور کرامات ہیں۔ ان کی تشکیل کا طریقۂ کار اور نظری علوم کی تشکیل کا طریقۂ کار بالکل مختلف ہے۔ میاں صاحب کو خوش فہمی ہے کہ فقہ، حدیث اور سیرت کی تدوین اسی طرح ہوئی ہے جس طرح سے ان کی جعلی عمرانیات اور نچوڑی تاریخ کی ہوئی ہے۔ اس میں سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ وہ نظری علوم میں تو کسی طرح کے standard discources and diciplines کو جگہ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں، بزرگوں کی طرف دیکھیے کیسے لپکے ہیں۔ ان سے التماس ہے کہ اپنے جعلی علوم اور جعلی عقلی استدلال کو نظری علوم میں آزما کے ہمارے ساتھ یہ معاملہ نمٹا لیں، پھر کسی دوسری طرف کا رخ کریں۔ میں ان شاء اللہ انہیں ضرور بتا دوں گا کہ ان کے نام نہاد unarticulated intellectual discource کا stillborn infant کہاں دفن ہو گا۔ کمال یہ ہے کہ articulated discources knowlege کی تو انہیں کوئی سوجھ حاصل نہ ہو سکی، اور یہ unarticulated discourse کی دم انہوں نے خوب پکڑ لی۔ میاں صاحب سے گزارش ہے کہ مباحث پر گفتگو کی تہذیب کو برباد نہ کریں، پہلے اپنے غصہ جاتی مسائل حل کر لیں، علمی مسائل کے لیے کسی عالم سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ جن نام نہاد علمی خیالات کا انہوں نے اظہار فرمایا ہے وہ نہ دینی ہیں نہ عقلی ہیں وہ استعمار اور استشراق کے زیر سایہ پلنے والی محض ہفوات دیرینہ ہیں جو ہدایت پارینہ پر شبخون کی پیہم کوشش میں ہیں۔ ہمارا معاملہ صرف ان کی اظہاردادہ فکر تک ہے ان کی ذات سے ہرگز نہیں۔ میں نے ان کی تحریر کے اس معنی پر اپنے جواب کو منحصر کیا ہے جو غالب احتمال رکھتا ہے۔
اب ان کا ایک اور علمی و عقلی جواہر ریزہ ملاحظہ فرمائیں ’’ہم گزارش کریں گے کہ ہمارے مضمون میں برتا گیا طریقۂ علم مذہبی استناد اور عقلی استدلال کا امتزاج قرار دیا جا سکتا ہے‘‘ اس امتزاج کے حوالے سے میاں صاحب حسین کا لفظ لکھنا بھول گئے۔ دین کی نئی تعبیرات کی مہم میں جس طرح سے انہوں نے غصّے اور عقل کا حسین امتزاج دریافت کیا ہے بعینہٖ علم میں بھی انہوں نے مذہبی استناد اور عقلی استدلال کے حسین امتزاج کو دریافت کیا ہے۔ اگر میاں صاحب کو مذہبی استناد اور عقلی استدلال کے معانی اور مطالب کا اندازہ ہوتا تو وہ کبھی یہ فقرہ نہ لکھتے۔ ہاں اگر ذہن ہی باقی نہ رہا ہو تو پھر سب کچھ کہا اور لکھا جا سکتا ہے۔ آدمی یہ سوچنے میں حق بجانب ہے کہ ان کی تقویم میں اگر غصّے اور عقل کا امتزاج ممکن ہے تو مذہبی استناد اور عقلی استدلال کیوں ممکن نہیں ہیں؟ اگر انہیں علم سے کچھ مس ہوتا تو وہ اس طرح کی گفتگو سے یقیناً پرہیز کرتے۔ ہمارے جدید مذہبی دانشوروں کے پاس علم کے جھانسے، طاقت کی دھونس، اخلاقی ادعائیت اور اس سے پیدا ہونے والی incrimination اور recriminatioin، مستعمر خودی کے اکلی مروڑ اور استشراقی ذہن کے کھسوٹیاتی حربوں کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔ 
میاں صاحب کا ایک اور علمی جواہر ریزہ ملاحظہ فرمایئے: ’’ کہ question کرنے، redefine کرنے اور discover کرنے، reunderstand کرنے میں بال برابر نہیں، بلکہ زمین آسمان کا فرق ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ فاضل نقاد کی باریک بین نگاہوں سے یہ موٹا فرق پوشیدہ رہ گیا۔ اب علم و ادب کی درس گاہوں اور صاحبان فکر کو اپنی خیر منانی چاہیے کہ قرآن و سنت کی discovery اورre-understanding کا مطلب ’’عام مسلمانوں کے نزدیک‘‘ نبی پاک کی ذات گرامی پر question کرنا اور قرآن مجید کو redefine کرنا ہو گیا ہے۔‘‘ حیرت ہے کہ جناب موصوف صاحب علم ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں اور اس طرح کے ارشادات بھی فرماتے ہیں۔ discovery اور reunderstanding کا وہ کون سا عمل ہے جو question کیے بغیر وقوع پذیر ہو سکتا ہے؟ اگر وہ discovery اور reunderstanding کے معنی سے باخبر ہوتے تو وہ اس طرح کا مہمل پیراگراف رقم نہ فرماتے۔ اصل میں جدید مذہبی دانش وروں کا یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے اور ہم بار بار اسی کی طرف توجہ دلا رہے ہیں کہ وہ دین میں نئی discovery کرنا چاہتے ہیں یا پورے دین کو ازسرنو discover کرنا چاہتے ہیں یا فہم دین کے نئے اصول قائم کر کے دین کو reunderstand کرنا چاہتے ہیں یا کسی طرح کا کوئی نیا اڈیشن لانا چاہتے ہیں۔ ہمارے نیوٹن اور واٹسن کرک سارے کے سارے دین کی قلم رو میں دریافتوں کی مہمات پر نکلے ہوئے ہیں۔ ہمارے جدید اور جعلی مذہبی دانشور گزشتہ دو صدیوں سے اسی کام میں لگے ہوئے ہیں اور بڑی بڑی دریافتوں کا سہرا بھی ان کے سر ہے۔ اگر غور سے دیکھیں تو پندرہ بیس دریافتیں تو میاں صاحب کے گزشتہ مضمون ہی میں مل جائیں گی۔ چونکہ وہ طاقت ور ہیں، اس لئے کوئی ان سے یہ بھی عرض نہیں کر سکتا کہ بھئی کوئی ایک آدھ دریافت فزکس میں کر دیتے تو ہم بھی فخر کرتے۔ ہماری تو ان سے صرف ایک ہی گزارش ہے جس کو سنتے ہی ان کو دورہ ہو جاتا ہے کہ وہ ان سوالات کو تو سامنے لائیں جو انہیں نفس دین پر ہیں یا پرانے قانونی اڈیشن پر ہیں جس کی وجہ سے یہ نئی تاریخی صورت حال کو ایڈریس نہیں کر پا رہا۔ نعرے بازی سے کام نہیں چلے گا کہ یہ روایتی دین فلاں عمرانی اور ڈھمان نچوڑی کو address نہیں کر پا رہا۔ اس میں اب ان کی پوزیشن تو واضح ہے کہ وہ اسلام کے قانونی اڈیشن کو تبدیل کرنا چاہ رہے ہیں۔ ان کا بڑا احسان ہو گا اگر وہ دین فی نفسہٖ اور اسلام بطور قانونی اڈیشن میں پائے جانے والے امتیازات کی تفصیل ہی ارشاد فرما دیں۔ اہم تر یہ کہ کیا میاں صاحب یہ بتا سکتے ہیں کہ اسلام کے کون کون سے اڈیشن مستعمل رہے ہیں، اور یہ کہ اسلام کئی اڈیشنوں کی صورت میں موجود رہا ہے۔ ناچیز کی معلومات کی حد تک آج تک کوئی جدید مذھبی دانشور کھل کر ان سوالات کو قائم کر سکا ہے اور نہ ہرمانیوٹکس کا کوئی مربوط نظام سامنے لا سکا ہے۔ 
ہمارے جدید مذہبی دانشوروں کا پسندیدہ ترین شعبہ صحافت اور ابلاغیات ہیں، جو دراصل سیاسی طاقت کو mediate کرنے کی قلم رو ہے اور جہاں قول کا حق اور خیر سے امکانی تعلق بھی ختم ہو جاتا ہے۔ جدید صحافت طاقت کی گود میں پتلیوں کے تماشے کا نام ہے۔ یہاں ہر قول اور بات کا معرف طاقت کی ترجیحات ہیں۔ ان کی اس رغبت کی وجہ یہ ہے کہ آج کی دنیا میں ریاستی طاقت جدید مذہبی تعبیرات کی سب سے بڑی گاہگ ہے۔ اگر میاں صاحب بھی اپنی بات ذرا ڈھنگ سے کریں، ان کی تحریر کا کوئی سر پیر بھی ہو، اور وہ کچھ سلیقہ بھی سیکھ لیں تو ان کا نیا اسلامی اڈیشن چلنے کا کافی امکان موجود ہے۔
میاں صاحب نے ہماری اس بات پر شدید رد عمل ظاہر کیا ہے جو ہم نے standard discourse کے حوالے سے کی ہے۔ جدید مذہبی دانشور standard discourse کا نام سنتے ہی غصے اور غضب میں آ جاتے ہیں اور انہیں سوجھتا ہی نہیں کہ وہ کیا ارشادات فرما رہے ہیں۔ اب تو ہمارے ہاں صاحب علم کہتے ہی اسے ہیں جس کو standard disciplines and discources کی ہوا تک نہ لگی ہو اور جو ان کے وجود سے ہی انکار کر تا ہو۔ آج کل ہمارے ہاں جدید مذہبی دانشور یا محض دانشور کہتے ہی اسے ہیں جو الل ٹپ ہو، مثلاً ‘‘ہائی انرجی فزکس اور توحید’’، ‘‘انٹروپی اور قیامت’’، ‘‘نیورانز پر وضو کے اثرات’’ وغیرہ وغیرہ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم صرف نوکری کے حصول میں سنجیدہ ہوتے ہیں، اور پچھلے دو سو سال سے نوکری کے حصول کے لیے کسی نہ کسی discipline- standard- میں ڈگری کا حصول ہمارا سب سے بڑا انسانی اور تہذیبی آدرش ہے۔ یعنی ہمارے ہاں ریاستی اختیار رکھنے والے اہلکاروں کو بھی اس بات کا پتہ ہے کہ نوکری کے لیے کسی نہ کسی standard discipline میں ڈگری ہونا ضروری ہے۔ لیکن میاں صاحب کی طرح کے ہمارے اہل علم مباحث کی حرمت سے قطعاً بے خبر ہیں۔ ان کا رہنما قول یہ ہے کہ نوکری لینی ہو تو standard- discourse- میں گھس جاؤ، اور اگر علم بگھارنا ہو تو صحافت میں گھس جاؤ۔ یہ تو زور آوروں کے ہتھکنڈے ہیں جو ہر حال میں اور طاقت کے زور پر اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اسی تناظر میں میاں صاحب کا ایک جواہر ریزہ مزید ملاحظہ فرمائیں: ’’ایک طرف وہ standard discipline اور discourses کے مؤید اور حامی ہیں اور دوسری طرف علم کے استدلالی اور جدلیاتی عمل کی وکالت بھی فرما رہے ہیں‘‘۔ اب جس آدمی نے غصّے اور عقل کے ساتھ ساتھ مذہبی استناد اور عقلی استدلال کے حسین امتزاجات سے حاصل شدہ دریافتوں کا پشتارہ اٹھا رکھا ہو، اس سے اسی طرح کے جواہر ریزوں ہی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اس میں ہمارا موقف بہت واضح ہے کہ علم جدلیاتی عمل کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ جدلیاتی عمل standard discourses اور disciplines میں واقع ہوتا ہے۔ اس میں حتمی بات ہم نے عرض کر دی تھی کہ ’’جس استدلال سے نظری علوم قائم ہوتے ہیں، اسی سے منہدم بھی ہوتے ہیں۔‘‘ اب یہ بات پوری دیانت سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ فقرہ میاں صاحب کی امتزاجی سمجھ سے بالاتر ہے، لہٰذا ہم پر ان کی اسیری کا الزام کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اب یہ بات میاں صاحب کی خدمت میں کون عرض کرے کہ ہدایتِ حق اور نظری علوم میں بنیادی امتیازات قائم کیے بغیر علم کی کوئی گفتگو قائم نہیں ہو سکتی۔ مذہبی متون کو نظری علوم کے برابر کر دینا اور نظری علوم کا ہدایت سے خلطِ مبحث پیدا کرنا جدید مذہبی دانشوروں کا خاصّہ ہے۔ وہ ہدایت کو نظری علوم سمجھتے ہیں اور نظری علوم کو حق کا بیان سمجھتے ہیں۔ یہی وہ حسیں امتزاج ہے جس کا میاں صاحب نے اعتراف کیا ہے اور یہی ان کا کل سرمایہ ہے۔
اگر میاں صاحب اپنے غصّے پر قابو پاتے ہوئے ہماری ایک درخواست پر غور کر سکیں تو الطافِ عمیم ہو گا۔ بقول ان کے اسلام کا روایتی قانونی اڈیشن جدید عمرانی صورت حال کو اڈریس نہیں کر پا رہا۔ اگر وہ اس حوالے سے نقد قارئین کے سامنے لا سکیں، تو ان کی بڑی نوازش ہو گی۔ اس طرح ہمیں یہ معلوم ہو جائے گا کہ اسلام کا یہ قانونی اڈیشن ہماری کون کون سی ضروریات کو پورا نہیں کرتا اور میاں صاحب کا نیا اڈیشن ان ضروریات کو کس طرح سے پورا کرے گا۔ اس میں اہم تر بات یہ ہے کہ میاں صاحب نے اسلام کے قانونی اڈیشن پر جو اعتراضات اٹھائے ہیں، اگر وہی اعتراضات خود اسلام پر لائے جائیں، جیسا آج کل عام ہے، تو وہ اس کا کیا جواب دیں گے؟ لیکن یہ تو بڑے productive کام ہیں اور عرق ریزی کا تقاضا کرتے ہیں، اس لئے جدید مذہبی دانشور اس طرح کی چیستاں میں نہیں پڑتے۔ وہ بس کچھ لفظوں کو گیندوں کی طرح سروں اچھالتے رہتے ہیں تاکہ اپنے شعبدوں سے ناظرین کو متاثر کر سکیں۔ ہمارے تمام جدید اور جعلی مذہبی علوم بھلے وہ شریعت کی جدید تعبیرات ہوں یا جدید تصوف کی لغویات ہوں وہ سب اس لئے پیدا ہوئی ہیں کہ ہم نے علمی مباحث کی بنیادی شرائط کو نظر انداز نہیں کیا، بلکہ انہیں منہدم کر دیا ہے۔ مباحث کی موت دراصل انہدام شعور ہی کا دوسرا نام ہے۔ جدید مذہبی دانشوروں اور اسکالروں کے سامنے آپ standard discourses اور disciplines کا نام لیتے ہی مطعون ہو جاتے ہیں اور وہ خود ہذیان میں چلے جاتے ہیں۔ ان کا پسندیدہ ترین شعبہ صحافت اور ابلاغیات ہے جس میں ہر طرح کی لغویات، ہفوات، اباحیات اور شطحیات کا دور دورہ ہوتا ہے اور جہاں آج کا سچ کل کا جھوٹ اور کل کا جھوٹ آج کا سچ ہوتا ہے۔

جماعت اسلامی کے ناقدین و مصلحین

خواجہ امتیاز احمد

چودھری محمد یوسف ایڈووکیٹ سے میرا پہلا تعارف ۱۹۶۹ء میں ہوا۔ میں اس وقت مرکزی سیکرٹری داخلہ خواجہ محمد صدیق اکبر کے ساتھ اسٹوڈنٹس اسلامک فرنٹ میں بحیثیت چیئرمین ضلع گوجرانوالہ کام کر رہا تھا۔ انور چودھری صاحب ناظم حلقہ گجرات میرے پاس تشریف لائے اور مجھے جمعیت میں کام کرنے کی دعوت دی جو میں نے قبول کر لی۔ میر ے ساتھ چودھری محمد یوسف اور شیخ الحدیث مولانا محمد چراغ مرحوم کے فرزند حافظ محمد حنیف صاحب بھی شامل تھے۔ یہ دونوں مجھ سے سینئر تھے، لیکن مجھے ناظم چنا گیا۔ یہ میرا چودھری محمد یوسف صاحب سے پہلا تعارف تھا۔ چودھری صاحب جماعت اسلامی گوجرانوالہ کے ایک محترم رکن حکیم غلام محمد مرحوم کے فرزند ہیں۔ میرے والد خواجہ بشیر احمد مسلم لیگ امرتسر کے سیکرٹری تھے۔ بعد میں وہ مولانا سرفراز صفدرؒ اور صوفی عبد الحمید سواتی ؒ کے ساتھ جمعیت علمائے اسلام میں رہے۔ ۱۹۷۰ء کے عشرے میں ان کی ایک کتاب ’’جماعت اسلامی اہل حدیث کی نظر میں‘‘ بھی شائع ہوئی جو جماعت اسلامی کے خلاف تھی۔
پس منظر میں اس لیے جانا پڑا کہ پڑھنے والوں کویہ معلوم ہو سکے کہ چودھری محمد یوسف کو جماعت اسلامی وراثت میں ملی اور مجھے سوچ سمجھ اور پرکھ کر اس کا ساتھ دینا پڑا۔ قصہ مختصر، والد مرحوم نے مجھے ترجمہ قرآن شریف کے لیے صوفی عبد الحمید صاحبؒ کے پاس داخل کیا۔ صوفی صاحب نے کچھ عرصہ مجھے پڑھایا اور پھر حافظ عبد الرحمنؒ کے سپرد کر دیا کہ وہ مجھے پڑھائیں۔ صوفی صاحبؒ ، مولانا عبد القیوم صاحب، مولانا محمد خان مبلغ ختم نبوت او رمولانا محمد حیات مرحوم جو نصرت العلوم میں تشریف لاتے تھے، میرے سوالات سے کچھ گھبرا جاتے تھے۔ یہی وہ دن تھے جب میں ’’اسلامی جمعیت طلبہ‘‘ کا ناظم منتخب ہوا۔ چودھری یوسف صاحب ایک نہایت پرجوش، ان تھک اور محنتی کارکن تھے۔ ایسے لوگ ہر تحریک یا جماعت کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ ۷۰ء کے عشرے میں جب پاکستان ایک سخت بحران سے گزر رہا تھا، ہم نے اکٹھے کافی کام کیا۔ کئی تنظیمیں کھڑی کیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے الیکشن میں حافظ محمد ادریس، جاوید ہاشمی اور حفیظ خان کے لیے کام کیا۔ گوجرانوالہ میں مولانا عبدالحمید خان بھاشانی کی ہڑتال ناکام بنائی۔ جب زاہد الراشدی صاحب عوامی فکری محاذ کے ذریعے پیپلز پارٹی کو تقویت پہنچا رہے تھے تو ہم نے ان کے مقابلے میں اسلامی فکری محاذ کھڑا کیا تھا۔
اس کے بعد یہ ہوا کہ جناب چودھری صاحب جمعیت کے اجلاسوں میں ایک دوسرے شہر سے آئے ہوئے رفیق، محمد صدیق صاحب سے بحث مباحثے میں اس قدر الجھتے گئے کہ یہ دنگل ختم ہونے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ اجلاس اسی میں ختم ہو جاتا۔ جمعیت طلبہ کے رفیق اس صور ت حال سے سخت نالاں تھے، لہٰذا ناظم حلقہ گجرات لطیف مرزا سے رجوع کیا گیا۔ انھوں نے محمد صدیق اور چو دھری محمد یوسف صاحب کو جمعیت سے خارج کر دیا، مگر ہمارے ذاتی تعلقات میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اس کے بعد چودھری صاحب جماعت اسلامی میں شامل ہوئے۔ وہاں کے تفصیلی واقعات میرے علم میں نہیں، لیکن شیخ نور محمد صاحب سابق امیر جماعت اسلامی ضلع گوجرانوالہ نے انھیں جماعت اسلامی سے بھی نکال باہر کیا۔ الزامات تقریباً وہی تھے، یعنی بحث ومباحثہ۔ یہ جماعت اسلامی کی بھی بدقسمتی تھی اور چودھری صاحب کی بھی۔
کوئی دو ماہ پہلے چودھری صاحب نے مجھے ماہنامہ ’الشریعہ‘ کے اکتوبر اور نومبر ۲۰۱۲ء کے شمارے دیے جن میں ان کا مضمون ’’جماعت اسلامی کا داخلی نظم سید وصی مظہر ندوی کی نظر میں‘‘ شائع ہوا ہے۔ میں نے گہری نظر سے مضامین کو پڑھا تو مجھے ایسے لگا کہ جماعت کا داخلی نظم سید وصی مظہر ندویؒ سے زیادہ چودھری یوسف صاحب کی نظر میں ہے اور مظہر ندوی صاحب چودھری صاحب کے سامنے دب سے گئے ہیں۔ 
چودھری محمد یوسف صاحب کا کہنا ہے کہ جو اصحاب فکر ونظر وقتاً فوقتاً جماعت اسلامی سے علیحدہ ہوتے رہے، اس کی وجہ یہی اختلاف پر پابندی تھی۔ اس طرح جماعت اسلامی کی صفوں میں غیر فعال ارکان کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ کیا چودھری صاحب بتائیں گے کہ منظور نعمانی صاحبؒ ، امین احسن اصلاحی صاحبؒ ، کوثرنیازیؒ ، ارشاد احمد حقانیؒ ، وصی مظہر ندویؒ ، عبد الغفار حسنؒ اور سید جعفر شاہ پھلوارویؒ نے کس فعالیت کا مظاہرہ کیا؟ بعض نے وزارتوں کے مزے لوٹے (کوثرنیازی، وصی مظہر ندوی، ارشاد حقانی) اور باقی آرام سے گھروں میں بیٹھ گئے۔ عبد الرحیم اشرف صاحب نے اپنا کاروبار بڑھایا یا پھر اہل حدیث کی مدد کرتے رہے۔ صرف ڈاکٹر اسرار احمد نے سرگرمی اور فعالیت کا مظاہرہ کیا اور وہ چودھری صاحب کو اس لیے پسند نہیں کہ انھوں نے مولانا مرحوم اور جماعت کی بے جا مخالفت سے منہ موڑ لیا تھا۔ 
جنرل ضیاء الحق کے زیر سایہ مسلم لیگ کی حکومت میں شامل ہو کر وصی مظہر ندوی صاحب نے اسلام اور پاکستان کے لیے کیا کارنامے سر انجام دیے؟ ندوی صاحب نے عمران خان کو جو خط لکھا ہے، اس پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شاید وہ عمران خان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے تھے اور انھیں سیاست میں اپنا تجربہ بتا رہے تھے۔ یہ سوچنے کا مقام ہے کہ مولانا مودودیؒ کی قیادت کو چھوڑ کر وہ محمد خان جونیجو اور پھر عمران خان کے ساتھ کام کرنا چاہتے تھے۔ کیا یہاں ندوی صاحب کے تحفظات دور ہو گئے تھے؟ اس حکومت کو بر طرف کرتے ہوئے، جو نہ اسلامی تھی اور نہ فلاحی، جنرل ضیاء الحق نے بھرائی ہوئی آواز سے جس کرپشن اور اقربا پروری کا ذکر کیا، کیا وہ مولانا کی نظروں سے اوجھل تھی؟ اگر جماعت اسلامی کے لوگوں نے پی این اے کے فیصلے کے مطابق وزارتیں قبول کر کے غلط فیصلہ کیا تو کیا ندوی صاحب نے وزارت قبول کر کے اسلام کی خدمت کی؟
جماعت چھوڑ کر جانے والوں میں صرف ڈاکٹر اسرار احمدؒ ہی ایسی شخصیت تھے جنھوں نے مثبت طریقے سے کام کے لیے ایک تنظیم بنائی، اکیڈمی قائم کی اور پوری دنیا میں اسلام کی تبلیغ کے لیے محنت کی۔ ڈاکٹر صاحب اکثر کہا کرتے تھے کہ وہ مولانا شیخ الہند محمود حسن، امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد اور مولانا مودودی کی فکر سے متاثر ہیں اور اسی فکر کے تحت کام کرنا چاہتے ہیں۔ مولانا امین احسن اصلاحی کے ساتھ انھوں نے جماعت ضرور چھوڑی تھی، مگر ان کے ساتھ زیادہ عرصہ نہ چل سکے جماعت اسلامی اور مولانا مودودی سے اختلاف کے باجود ان کے خلاف منفی سرگرمیوں کا حصہ نہ بنے۔ اسی وجہ سے انھوں نے مولانا ندوی کو بھی اس حد تک جانے سے روکا۔
ڈاکٹر اسرار احمد نے مولانا امین احسن اصلاحی اور غامدی صاحب کی غلطیوں کی نشان دہی بھی کی، انھیں ٹوکا اور ٹی وی پر غامدی صاحب سے مناظرہ بھی کیا۔ اصلاحی صاحب اور ان کے شاگرد غامدی صاحب نے بعض مسائل میں قرآن وحدیث کی تشریحات کی ہیں، اس پر روایت پسند علماء سخت نالاں ہیں۔ حافظ صلاح الدین یوسف صاحب مولانا امین احسن اصلاحی کے متعلق لکھتے ہیں کہ ’’ان کے زبان وقلم سے بعض ایسی چیزیں منظر عام پر آئی ہیں جو صریح گمراہی پر مبنی ہیں، بلکہ اجماع امت سے انحراف کی وجہ سے ان پر کفر تک کا اطلاق ممکن ہے۔‘‘
چودھری صاحب کو شکایت ہے کہ ’’سید کے ہم مرتبہ لوگ جماعت کی تشکیل کے ایک دو سال بعد ہی جماعت سے الگ ہو گئے۔ جماعت کی تشکیل کے موقع پر جتنا زبردست ٹیلنٹ جمع ہوا تھا، وہ چھٹ گیا۔‘‘ چودھری صاحب جن کو برابر کا ٹیلنٹ کہتے ہیں، مولانا مودودی نے ان کی تالیف قلب کی پوری کوشش کی۔ کسی کو جماعت سے نہیں نکالا۔ ان حضرات نے خود جماعت کو چھوڑا۔ مولانا کی زبانی ہی سنیے:
’’مولانا امین احسن اصلاحی کے معاملہ میں بہت غور کر رہا ہوں، مگر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کی تالیف قلب کے لیے کیا کروں۔ متعین شکایت صرف ایک معلوم ہوئی اور اس کا فوری ازالہ کر دیا گیا۔ ۔۔۔ انھیں جماعت کے رفقاء سے ہی نہیں، بلکہ مجھ سے بھی سوء ظن ہے۔ یہ سوء ظن مجھے الہ آباد میں بھی مولانا کے بعض فقروں سے ہوا تھا، مگر میں نے تاویل کر کے اسے اپنے ذہن سے دور کر دیا تھا۔ اب آپ کی دی ہوئی خبروں سے نہ صرف اس کی تصدیق ہوئی، بلکہ زیادہ واضح طور پر پتہ چلا کہ ان کا ذہن مستقل بدگمانی کی راہ پر چل پڑا ہے۔‘‘ (خطوط مودودی، ص ۱۷۱)
مسعود عالم ندویؒ کے نام ایک خط میں مولانا لکھتے ہیں:
’’یہ آخر کیا آفت ہے؟ کیا یہ بچوں کا کھیل تھا کہ کل ایک جماعت بنائی۔ دعوے کیے کہ ہم خدا کا کلمہ بلند کریں گے۔ نگاہیں ہر طرف اٹھنے لگیں کہ دیکھیں، یہ جماعت کیا کرتی ہے اور ابھی دو قدم نہ چلے تھے کہ آپس میں ایک دوسرے پر بدگماناں کر کے، الزام رکھ رکھ کر اور روٹھ روٹھ کر الگ ہونے شروع ہو گئے۔ پھر نہ کسی صفائی کی کوشش کی، نہ تحقیق کی فکر، نہ خرابیوں کو سمجھ کر انھیں دور کرنے کی طرف توجہ۔ ۔۔۔ میں خود اس معاملے میں اپنے آپ کو بے بس پاتا ہوں کہ ہدف میری ذات کو بنا لیا گیا ہے۔‘‘ (خطوط مودودی، ص ۱۰۲)
مولانا مسعود عالم ندوی کے نام ایک اورخط میں فرماتے ہیں:
’’مولانا جعفر صاحب کو کپورتھلہ کی ریاست میں خطابت کا معاوضہ ۵۶ روپے ماہوار ملتا تھا۔ ۔۔۔ میں نے کہا کہ پچاس روپے مہینہ کی حد تک ادا کرنے کا وعدہ کرتا ہوں۔ مکان یہاں بلا کرایہ حاضر ہے۔ آپ ملازمت چھوڑکر آ جائیے۔ ۔۔۔ انھوں نے فرمایا کہ بھری تھالی (ریاست کپور تھلہ کی ملازمت) کو لات مارتے ہوئے مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں اللہ کے ہاں کفران نعمت میں نہ پکڑا جاؤں۔ پھر جب میں نے انھیں اطمینان دلایا کہ یہ کفران نعمت نہیں ہے، بلکہ خطابت وامامت کی تنخواہ سلف کی نگاہ میں سخت مکروہ ری ہے اور آپ کو اس مکروہ سے بچنے کا ایک موقع مل رہا ہے تو انھوں نے کچھ دن غور کرنے کی مہلت مانگی اور وہ مہلت آخر کار اس تحریر پر ختم ہوئی جو مولانا منظور صاحبؒ کے خط پر توثیقاً انھوں نے ثبت فرمائی ہے۔‘‘ (خطوط مودودی، ص ۱۱۰)
مولانا اور جماعت اسلامی کو کیسے کیسے ناقدین اور مصلحین ملے، اس کا اندازہ ایک واقعے سے کیجیے جو سید علی نقی نے اپنی کتاب ’’سید مودودی کا عہد‘‘ کے صفحہ ۳۷۰ پر بیان کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’ایک دن جمعہ کی نماز سے پہلے میں مولانا کے کمرے میں گیا۔ باتیں کرتے ہوئے دونوں باہر نکلے۔ ابھی مسجد تک نہیں پہنچے کہ مولانا نے فرمایا، میرا پاجامہ ادھڑا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ آپ چلیں، میں کپڑے بدل کر آتا ہوں۔ میں انتظار کرتا رہا۔ مولانا واپس آئے اور ہم دونوں ایک ساتھ مسجد میں داخل ہوئے۔ تقریباً ایک ہفتے بعد مولانا نے مجھے ایک خط دیا کہ اس کا جواب لکھ دیں۔ میں نے خط کھولا تو ایک طویل شکایت نامہ تھا۔ بڑے سخت الفاظ میں لکھنے والے نے لکھا تھا کہ میں آپ کی بڑی تعریف سن کر آیا تھا، لیکن آپ کو ایک جمعہ کے دن گھر سے صاف کپڑے پہنے نکلنے کے بعد واپس جاتے ہوئے اور پھر دوسرے صاف کپڑے پہن کر واپس آتے ہوئے دیکھا۔ مجھے بڑا دکھ ہوا کہ جس شخص کو بار بار صاف کپڑے پہن کر اپنی امارت اور نفاست کا رعب جمانے کا شوق ہو، وہ بھلا تحریک اسلامی کی کیا رہنمائی کرے گا۔ پس میں واپس ہو گیا۔‘‘
چودھری صاحب سے گزارش ہے کہ جماعت کی مخالفت میں اس حد تک مت جائیں کہ خود کو گم کر لیں۔ آپ کے دل میں اسلامی جمعیت اور جماعت اسلامی سے اخراج کا گہرا زخم ہے، لیکن آپ کی دو نسلوں نے جماعت کی بڑی خدمت کی ہے۔ اب بھی اگر مثبت تنقید سے کام لیں تو اس سے جماعت کی بھی اصلاح ہوگی اور آپ کا قد بھی بڑھے گا۔
جہاں تک ’’صریر خامہ‘‘ کا تعلق ہے تو اس پر، پروفیسر سلیم منصور خالد کے تبصرے سے اتفاق کرتے ہوئے اسی پر اپنی بات کو ختم کرتا ہوں:
’’ڈاکٹر محمد ارشد نے مولانا وصی مظہر ندویؒ کے مجموعہ مقالات ومکتوبات پر مبنی کتاب ’’صریر خامہ‘‘ مرتب کی ہے جو ان کی فکر کو سمجھنے کے لیے ایک مفید کتاب ہے۔ 
مولانا مسعود عالم ندویؒ فرماتے ہیں:
’’اگر تو کوئی رائے رکھتا ہے تو صاحب عزیمت بھی بن، کیونکہ ہر کام میں تردد رکھنا خرابی کی علامت ہے۔‘‘

میڈیا کا محاذ اور ہماری ذمہ داریاں

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

۲۳ جنوری ۲۰۱۲ء کو پریس کلب لاہور میں ایک سیمینار میں شرکت کا موقع ملا جس میں جناب امجد اسلام امجد، جسٹس (ر) نذیر غازی، جناب اوریاہ مقبول جان اور دیگر ممتاز دانش ور بھی شریک تھے۔ سیمینار میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس و حرمت کے حوالہ سے بنائی جانے والی ایک فلم زیر بحث تھی اور اس فلم کا ایک حصہ شرکاء کو دکھایا گیا، میں نے اس موقع پر جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔ 
بعد الحمد والصلوٰۃ ! اس فلم کے حوالہ سے دو پہلوؤں پر تو کچھ عرض نہیں کر سکوں گا۔ ایک اس کا فنی اور تکنیکی پہلو ہے جس کے بارے میں کوئی تبصرہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں، اس لیے کہ میں اس فن سے واقف نہیں ہوں اور نہ ہی اس کا ذوق رکھتا ہوں۔ دوسرا پہلو جواز اور عدمِ جواز کی بحث کا ہے، اس کے بارے میں بھی کوئی بات نہیں کہہ سکوں گا؛ اس لیے کہ یہ مفتیان کرام کا کام ہے اور میں مفتی نہیں ہوں۔ چنانچہ نہ تو اس سلسلہ میں کوئی فتویٰ دوں گا اور نہ ہی کسی فتوے سے اختلاف کرنا چاہوں گا۔ البتہ ایک اور پہلو سے کچھ معروضات پیش کروں گا اور وہ ہے ضرورت کا پہلو۔ 
چونکہ میں خود بھی اس محاذ کا آدمی ہوں، اس لیے محاذ کی ضروریات اور تقاضوں کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھوں گا۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب جنگ احزاب سے فارغ ہوئے تو آپ نے مسجد نبویؐ میں ایک اعلان فرمایا کہ اب قریشیوں کو ہمارے خلاف جنگ کے لیے یہاں آنے کی ہمت نہیں ہوگی، اب جب بھی جائیں گے ہم ہی جائیں گے۔ دوسری بات یہ فرمائی کہ اب یہ ہمارے خلاف زبان کی جنگ لڑیں گے اور خطابت و شاعری کا محاذ گرم کریں گے، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا بازار گرم کریں گے، پروپیگنڈہ کریں گے، کردار کشی کریں گے اور عرب قبائل کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکائیں گے۔ یہ فرما کر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ سے پوچھا کہ اس جنگ میں کون آگے بڑھے گا؟ اس موقع پر تین انصاری صحابیؓ حضرت حسان بن ثابتؓ، حضرت کعب بن مالکؓ اور حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ جنگ ہم لڑیں گے۔ چنانچہ ان تینوں نے شاعری کے محاذ پر جبکہ ایک اور انصاری صحابی حضرت ثابت بن قیسؓ نے خطابت کے محاذ پر یہ جنگ لڑی اور اس شان سے لڑی کہ حضرت حسان بن ثابتؓ مسجد نبویؐ میں منبر پر کھڑے ہو کر کفار کے ادبی حملوں کا جواب دیا کرتے تھے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدحت کے ساتھ ساتھ اسلام کی خوبیاں بیان کرتے تھے جبکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سامنے بیٹھے انہیں داد بھی دیتے تھے اور ان کے لیے دعا بھی فرماتے تھے۔ 
اسی طرح یہ واقعہ بھی بخاری شریف میں مذکور ہے کہ عمرۃ القضا کے موقع پر حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی مہار پکڑے جب مکہ مکرمہ میں داخل ہو رہے تھے تو احرام باندھے ہوئے تلبیہ پڑھنے کی بجائے رزمیہ اشعار پڑھتے جا رہے تھے۔ حضرت عمرؓ نے انہیں اس سے رک جانے کے لیے اشارہ کیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آواز دی کہ دعہ یا عمرؓ عمر! اسے پڑھنے دو؛ اس کے اشعار تمہارے تیروں سے زیادہ کافروں کے سینوں میں نشانے پر لگ رہے ہیں۔ 
اس کے ساتھ یہ واقعہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ بنو تمیم کا وفد جب مدینہ منورہ آیا تو انہوں نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو شعر و خطابت میں مقابلہ کی دعوت دے دی جو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمائی۔ اس کے لیے باقاعدہ مجلس بپا ہوئی جس میں بنو تمیم کے شاعر و خطیب نے اپنی خطابت اور شاعری کے جوہر دکھائے جس کے جواب میں حضرت ثابت بن قیسؓ نے خطابت اور حضرت حسان بن ثابتؓ نے شاعری میں اسلام کی دعوت اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدحت و تعارف پر بات کی، چنانچہ ان کی برتری کو تسلیم کرتے ہوئے بنو تمیم نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کر دیا۔ 
اس لیے ایک بات تو میں یہ عرض کروں گا کہ شعر و خطابت اس دور میں ابلاغ کے موثر ترین ذرائع تھے جنہیں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر انداز نہیں کیا بلکہ بھرپور طریقہ سے استعمال کیا، آج اس کا دائرہ وسیع ہوگیا ہے اور ابلاغ کے دیگر موثر ترین ذرائع بھی سامنے آگئے ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور ہمیں اسلام کی دعوت اور دفاع دونوں کے لیے ان کا بھرپور استعمال کرنا چاہیے۔ دوسری بات یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ حالت امن اور حالت جنگ کے قوانین میں فرق ہوتا ہے، بہت سی باتیں جو حالت امن میں درست نہیں ہوتیں مگر حالت جنگ میں انہیں مجبورًا اختیار کرنا پڑتا ہے۔ ایک شخص محاذ جنگ پر دشمن کے سامنے کھڑا ہے تو اسے یہ دیکھنا ہے کہ دشمن کے ہاتھ میں کون سا ہتھیار ہے اور وہ اس کے مقابلہ میں کون سا ہتھیار اختیار کر کے دشمن کو زیر کر سکتا ہے، اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ اس کی مثال عرض کروں گا کہ ایٹم بم کو اسلام کی جنگی اخلاقیات کی رو سے ایک جائز ہتھیار قرار نہیں دیا جا سکتا، اس لیے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ اور جہاد کے جو تقاضے اور دائرے بیان فرمائے ہیں کہ عورت کو قتل نہیں کرنا، بوڑھے کو قتل نہیں کرنا، غیر متعلقہ شخص کو قتل نہیں کرنا، بچے کو قتل نہیں کرنا اور دشمن کے اموال اور ملکیتوں کو بلا وجہ نقصان نہیں پہنچانا وغیرہ۔ ایٹم بم کے استعمال میں ان میں سے کسی بات کا لحاظ نہیں رکھا جا سکتا، اس لیے میری طالب علمانہ رائے میں اگر جنگ میں اسلامی اخلاقیات کا لحاظ رکھا جائے تو ایٹم بم ایک جائز ہتھیار نہیں ہے، لیکن ہم سب ایٹم بم کے بنانے پر زور دیتے ہیں اور ہم نے ایٹمی صلاحیت حاصل کی ہے اس لیے کہ جب دشمن کے پاس یہ ہتھیار موجود ہے تو ہمارے پاس اس کا موجود ہونا ضروری ہے ورنہ ہم دشمن سے مار کھا جائیں گے۔ اسے اضطراری حالت کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح حالتِ اضطرار میں جان بچانے کے لیے حرام کھانا جائز ہوجاتا ہے اسی طرح حالت جنگ میں جان بچانے کے لیے ایسے ہتھیار کا استعمال جائز بلکہ ضروری ہو جاتا ہے جو اسلامی اصولوں کی رو سے شاید جائز ہتھیار نہ ہو۔ 
میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جس طرح ہتھیاروں کی جنگ ہے اسی طرح میڈیا کی جنگ بھی ہے بلکہ آج کے دور میں میڈیا کی جنگ کا دائرہ ہتھیاروں کی جنگ سے زیادہ وسیع ہے اور میڈیا ہتھیار سے زیادہ دشمن پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس لیے جہاں ابلاغ کے ذرائع کا وقت کی ضرورت کے مطابق استعمال ضروری ہے وہاں اضطرار اور حالت جنگ کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ آج عالمی سطح پر جس طرح ’’میڈیا وار‘‘ جاری ہے اور اسلام، جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس و حرمت اور اسلامی تعلیمات و روایات جس طرح بین الاقوامی پروپیگنڈے اور کردار کشی کے ہتھیاروں کی زد میں ہیں، اس کے پیش نظر ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ اس ’’میڈیا وار‘‘ کو نظر انداز کرنے کی بجائے اس میں پوری قوت کے ساتھ شریک ہوں اور اسی طرح اس میں حصہ لیں جس طرح غزوۂ خندق کے بعد ذرائع ابلاغ، ادب و خطابت اور شاعری کی جنگ میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نامور صحابہ کرام حضرت حسان بن ثابتؓ، حضرت کعب بن مالکؓ، حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ اور حضرت ثابت بن قیسؓ نے کردار ادا کیا تھا۔ 

الشریعہ اکادمی میں فکری نشستیں

ادارہ

۳۰ دسمبر ۲۰۱۲ء کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی یاد میں فکری نشست منعقد ہوئی جس میں اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے اپنے مطالعہ اور تاثرات کا ماحصل کیا اور الشریعہ اکادمی کے طلبہ کے علاوہ شہر کے دیگر اصحابِ ذوق اس فکری نشست میں شریک ہوئے۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی شخصیت اور خدمات پر کی جانے والی گفتگو کا مختصر خلاصہ درج ذیل ہے:
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کا تعلق نانوتہ میں مقیم صدیقی خاندان سے تھا۔ انہوں نے خود اپنا نسب نامہ تحریر کیا ہے جس کے مطابق وہ حضرت قاسم بن محمدؒ کی اولاد میں سے ہیں جو حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پوتے تھے اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے نہ صرف بھتیجے تھے بلکہ ان کے علوم و فیوض کے ورثاء میں ان کا نام سرفہرست شمار ہوتا ہے اور وہ تابعینؒ کے دور کے سات بڑے فقہاء کرام میں شامل ہیں۔ حضرت نانوتویؒ ایک زمیندار گھرانے کے چشم و چراغ تھے، لیکن قدرت نے ان کی راہ نمائی دینی تعلیم کی طرف کی اور اپنے وقت کے اکابر علماء کرام و مشائخ مولانا شاہ عبد الغنیؒ ، مولانا مملوک علی نانوتویؒ ، مولانا احمد علی سہارنپوریؒ اور حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ جیسے بزرگوں سے فیض پا کر وہ خود بھی اپنے دور کے اکابر علماء کرام میں شمار ہوئے۔ انہوں نے ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں شاملی کے محاذ پر عملی حصہ لیا۔ ارتداد کے فتنوں کا مقابلہ کرکے پنڈت دیانند سرسوتی جیسے مناظرین کو میدان میں شکست دی۔ میلہ خدا شناسی کے نام پر منعقد ہونے والے مختلف مذاہب کے سرکردہ علماء کرام اور متکلمین کے مشترکہ اجتماع میں اسلام کی حقانیت پر معرکۃ الآراء خطاب کے ذریعہ اسلام کی حقانیت کا لوہا منوایا، وہ اپنے دور میں اسلام کے سب سے بڑے متکلم تھے اور وقت کے اسلوب کے مطابق اسلامی تعلیمات کو پیش کرنے میں ان کو کمال حاصل تھا، لیکن ان کا سب سے بڑا کارنامہ دارالعلوم دیوبند کا قیام سمجھا جاتا ہے کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد جب ایسٹ انڈیا کمپنی کی جگہ برطانوی حکومت نے براہ راست متحدہ ہندوستان پر اپنی حکومت قائم کی اور دفتری، عدالتی اور تعلیمی نظام یکسر تبدیل کر کے درس نظامی کے مدارس کو نہ صرف بند کر دیا بلکہ اس کے جاری رہنے کے سارے ظاہری امکانات کو ختم کر کے رکھ دیا۔ ہزاروں مدارس بند کر دیے گئے، ان کی جائیدادیں ضبط ہوگئیں، بہت سے مدارس بلڈوز ہوگئے، علماء کرام کی بڑی تعداد آزادی کی جنگ میں حصہ لینے کی پاداش میں شہید کر دی گئی، بے شمار علماء کرام گرفتار ہوگئے، مقدمات اور داروگیر کے وسیع سلسلہ نے علماء کرام اور دینی کارکنوں پر خوف و ہراس کی کیفیت طاری کر دی اور بظاہر اس کا کوئی امکان باقی نہ رہا کہ قرآن کریم، حدیث، فقہ، عربی زبان، فارسی اور دیگر دینی علوم کی تدریس و تعلیم کا کوئی سلسلہ یہاں باقی رہ سکے گا۔
اس ماحول میں دینی تعلیم کا سلسلہ از سرِ نو جاری کرنے اور مسلمانوں کی مدارس و مساجد کو آباد رکھنے کے لیے مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے اپنے دیگر رفقاء حاجی عابد حسینؒ ، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ ، مولانا ذوالفقار علی دیوبندیؒ اور دوسرے حضرات کی معاونت سے دیوبند کے قصبہ میں دینی مدرسہ کا آغاز کیا جس کی برکات سے آج پوری دنیا فیض یاب ہو رہی ہے۔ ایک گمنام سے قصبہ میں ۱۸۶۵ء میں شروع ہونے والے اس مدرسہ کی شاخیں پورے عالم میں اس طرح پھیلیں کہ آج دنیا کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہے جہاں اس شجر کے گھنے سائے اور متنوع پھل سے مسلمان فیض یاب نہ ہو رہے ہوں جبکہ عالمی استعمار فکری و تہذیبی دنیا میں دیوبند کو اپنا سب سے بڑا حریف اور اپنی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دینے پر مجبور ہے۔ 
مولانا راشدی نے کہا کہ جن بزرگوں کا ہم مسلسل نام لیتے ہیں، جن کی طرف نسبت کو ہم اپنے لیے باعث فخر سمجھتے ہیں اور جن کا تذکرہ کر کے ہم تاریخ میں عزت اور مقام حاصل کرتے ہیں، ان کی جدوجہد، خدمات اور مشن سے ہمیں واقف ضرور ہونا چاہیے تاکہ ان کے نقش قدم پر ہم صحیح طور پر چل سکیں۔

مولانا عبد الستار تونسوی کی یاد میں تعزیتی ریفرنس

۳۱؍ دسمبر کو اکادمی میں حضرت مولانا عبد الستار تونسویؒ کی وفات حسرت آیات پر تعزیتی ریفرنس کے طور پر ایک نشست ہوئی جس میں شہر کے علماء کرام کی ایک بڑی تعداد شریک ہوئی۔ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان (س) کے سیکرٹری جنرل مولانا عبد الرؤف فاروقی اس نشست کے مہمان خصوصی تھے۔ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے اپنی گفتگو میں کہا کہ اہل سنت کے عقائد و مذہب اور ناموس صحابہؓ کے تحفظ و دفاع کے لیے حضرت مجدد الف ثانیؒ ، حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کی علمی جدوجہد کو امام اہل سنت حضرت مولانا عبد الشکور لکھنویؒ نے جو منظم شکل دی تھی اور اس کے لیے ایک پورا تربیتی نظام قائم کیا تھا۔ پاکستان میں اس کے امین مولانا عبد الستار تونسویؒ ، مولانا دوست محمد قریشیؒ ، مولانا سید نور الحسن بخاریؒ ، مولانا قائم الدین عباسیؒ ، مولانا قاضی مظہر حسینؒ ، علامہ ڈاکٹر خالد محمود، مولانا عبد اللطیف جہلمیؒ ، مولانا عبد الحئی جام پوریؒ اور ان کے رفقاء تھے جنہوں نے اپنے اکابر کے طرز اور اسلوب کے مطابق مذہب اہل سنت کی خدمت اور عقائد اہل سنت کے فروغ کے محاذ کو قائم رکھا۔ آج مولانا عبد الستار تونسویؒ کی وفات سے تاریخ کا وہ باب مکمل ہوگیا ہے جبکہ آج اسی اسلوب اور طرز کو از سرِ نو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔
مولانا عبد الرؤف فاروقی نے مذہب اہل سنت کی تاریخ پر روشنی ڈالی اور اس کے پس منظر میں حضرت مولانا عبدالستار تونسویؒ اور ان کے رفقاء کی جدوجہد کی اہمیت کو واضح کیا۔ انہوں نے کہا کہ مولانا تونسویؒ اپنے وقت میں اس فن کے امام تھے اور انہوں نے ہزاروں علماء کرام کو اس مشن کے لیے تیار کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج ہمارے مدارس کے طلبہ کی غالب اکثریت کو مذہب اہل سنت کی علمی و فکری بنیادوں اور اپنے اکابر کے طرز و اسلوب سے شناسائی حاصل نہیں ہے اس لیے ضرورت ہے کہ مدارس دینیہ میں حضرت مولانا عبد الشکور لکھنویؒ کی طرز پر کام کیا جائے اور علماء و طلبہ کو علمی اور تحقیقی طور پر اس کے لیے تیار کیا جائے۔
تعزیتی نشست میں حضرت علامہ عبد الستار تونسویؒ کی وفات کو علمی و دینی حلقوں کے لیے ایک عظیم نقصان قرار دیتے ہوئے ان کی دینی و ملی خدمات پر خراج عقیدت پیش کیا گیا اور ان کی مغفرت و بلندئ درجات کی دعا کی گئی۔

’’عالمی رابطہ ادب اسلامی‘‘ کا سیمینار

’’عالمی رابطہ ادب اسلامی‘‘ کی تحریک برصغیر کے ممتاز مفکر اور دانش ور مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے کی تھی۔ ان کے توجہ دلانے پر مختلف ممالک کے اسلامی جذبہ رکھنے والے ادیبوں اور دانش وروں نے جنوری ۱۹۸۶ء کے دوران لکھنؤ (انڈیا) میں جمع ہو کر ’’عالمی رابطہ ادب اسلامی‘‘ کی بنیاد رکھی اور طے کیا کہ اسلام دوست ادیبوں کی تخلیقات کی اشاعت اور ان کے درمیان رابطوں کو فروغ دینے کے لیے اس عنوان کے ساتھ محنت کی جائے گی۔ اس جدوجہد کے اہم مراکز بھارت، بنگلہ دیش، پاکستان، ترکی اور سعودی عرب میں ہیں اور اب تک اس سلسلے میں مختلف سطحوں کے متعدد اجلاس کانفرنسیں اور سیمینارز منعقد ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں بھی اس کا حلقہ موجود و متحرک ہے جس میں مولانا فضل الرحیم، ڈاکٹر سعد صدیقی، ڈاکٹر محمود الحسن عارف، ڈاکٹر زاہد ملک، مولانا مفتی محمد زاہد، ڈاکٹر ظہور احمد اظہر، پروفیسر ڈاکٹر قاری محمد طاہر، ڈاکٹر زاہد اشرف، مجیب الرحمن انقلابی، ڈاکٹر حافظ سمیع اللہ فراز، ڈاکٹر محمد ارشد اور دیگر ارباب علم و دانش شامل ہیں۔ اس وقت ڈاکٹر سعد صدیقی ’’عالمی رابطہ ادب اسلامی‘‘ کے حلقۂ پاکستان کی صدارت اور ڈاکٹر محمود الحسن عارف سیکرٹری جنرل کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ اب اس فورم نے اپنا دائرہ لاہور کے علاوہ دوسرے شہروں تک وسیع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا آغاز ۳؍ جنوری ۲۰۱۲ء کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں منعقدہ ایک تقریب سے ہوا۔
یہ سیمینار رابطہ ادب اسلامی کے تعارف اور اس کی سرگرمیوں کے تذکرے کے لیے منعقد ہوا جس کی صدارت اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے کی، جبکہ برطانیہ سے تشریف لانے والے ممتاز عالم دین اور دانشور مولانا مفتی برکت اللہ مہمان خصوصی تھے۔ سیمینار سے مولانا مفتی برکت اللہ، مولانا مفتی محمد زاہد، ڈاکٹر سعد صدیقی، ڈاکٹر محمود الحسن عارف، ڈاکٹر محمد ارشد، ڈاکٹر پروفیسر محمد اکرم ورک، ڈاکٹر سمیع اللہ فراز اور جناب خالد صابر نے خطاب کیا۔ مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ اسلامی تعلیمات کے فروغ، اسلامی اقدار کے تحفظ، دین کی دعوت و ترویج اور قرآن و سنت کے احکام و قوانین کی تفہیم و تشریح کے لیے ادب کی مختلف اصناف اور ابلاغ کے موثر ذرائع کو اختیار کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے، اس کے لیے ایسا ذوق رکھنے والے علمائے کرام، ادیبوں اور شاعروں اور میڈیا و تعلیم کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین کو باہمی رابطہ و تعلق کا اہتمام کرنا چاہیے جس کے لیے ’’عالمی رابطہ ادب اسلامی‘‘ کام کر رہا ہے۔
اس موقع پر گوجرانوالہ ڈویژن میں رابطہ کی شاخ قائم کرنے کی ذمہ داری ڈاکٹر محمد اکرم ورک کو سونپی گئی جو وہ کنوینر کی حیثیت سے مختلف شعبوں کے اصحابِ فکر سے رابطے قائم کر کے رابطہ ادب اسلامی کو مقامی سطح پر منظم کرنے کا اہتمام کریں گے۔ مہمان خصوصی مولانا مفتی برکت اللہ نے اپنے خطاب میں علمائے کرام، ادیبوں، دانش وروں، شاعروں، اساتذہ اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے اصحابِ فکر پر زور دیا کہ وہ موجودہ عالمی تہذیبی و فکری کشمکش کا ادراک کرتے ہوئے اسلام کی خدمت کے راستے تلاش کریں اور باہمی مشورہ و رابطہ کے ساتھ فکری جدوجہد کو منظم کریں۔

ہماری خوراک اور دن بدن بڑھتے امراض

حکیم محمد عمران مغل

مشرقی تہذیب وتمدن میں جو امراض آج کل دیکھنے سننے میں آ رہے ہیں، طبی کتب میں ان کا تفصیل سے ذکر ہے، مگر عوامی سطح پر اکثر لوگ ان سے واقف نہیں تھے۔ اس کی ایک بڑی وجہ صحت اور اخلاق کی بلندی تھی ، مگر اب مشرقی معاشرے بھی پستی اور زوال کا شکار ہو چکے ہیں۔آج ہر مشرقی انگوٹھی پر مغربی نگینہ دور سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ہماری بود وباش، خور ونوش سب مغربی تہذیب وتمدن کے رنگ میں رنگی جا چکی ہے۔ صبح اٹھتے ہی آب حیات یعنی چائے نہ ملے تو ہمارے ہوش وحواس بحال نہیں ہو پاتے۔ میں نے وہ حضرات بھی دیکھے ہیں جنھیں چائے کی خوشبو سونگھتے ہی قے ہونی لگتی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ ہمیں رات کی باسی لسی اور باسی دہی نہ ملے تو دن بھر کام کاج کے قابل نہیں ہوتے۔ پھر انھی حضرات کا کہنا ہے کہ ہمارے سامنے نئی نسل باریک آٹے اور میدے سے بنی اشیا کھا کھا کر طرح طرح کے امراض کا شکار ہوتی جا رہی ہے اور ہم بے بس ہیں۔ باریک آٹے نے ہی شوگر کا پہاڑ کھڑا کر دیا ہے اور چھوٹا بڑا ہر کوئی شوگر کی بیماری میں جکڑا جا رہا ہے۔ امریکن شوگر سنٹر کے صدر اور امراض بچگان کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر فرانسس نے کہا ہے کہ پیزا، سینڈوچ یا میدہ کی بنی اشیا کے شوقین بچے میرے علاج سے تندرست نہ ہوئے تو تحقیق سے پتہ چلا کہ یہ سب باریک آٹے کی کارستانی ہے جس کی وجہ سے چھوٹے بچے بھی درجہ دوم کی شوگر کے مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
موٹاپے کا عذاب بھی شروع ہو چکا ہے۔ بند بوتلوں کے پانی، بند ڈبوں کی خوراک پر کافی تحقیق ہو چکی ہے۔ بزرگ اطبا نے صدیوں پہلے بتا دیا تھا کہ یہ زہر ہے۔ اس سے دل، دماغ، گردہ اور جگر تباہ ہو جائیں گے۔ آج جو لنگڑے لولے، اپاہج اور پولیو زدہ بچے پیدا ہو رہے ہیں، اس کی یہی وجہ ہے۔ بچوں کی پیدائش کے کیس بھی خراب ہو رہے ہیں۔ ماؤں میں بچے جنم دینے کی طاقت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارے ملک کی مایہ ناز ڈاکٹر خالدہ عثمانی بھی بارہا کہہ چکی ہیں کہ میدے کی اشیا سے بچیں اور مشرقی کھانوں کو رواج دیں۔

مارچ ۲۰۱۳ء

طالبان کے ساتھ مذاکرات ۔ ضرورت اور تقاضےمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
دینی مدارس میں عصری علوم ۔ محمد افضل کاسی کا مکتوبمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
دور حاضر کے تقاضے اور شعبہ اسلامیات پنجاب یونیورسٹیپروفیسر خالد ہمایوں
ریاست، معاشرہ اور مذہبی طبقات ۔ پاکستان کے تناظر میں اہم سوالات کے حوالے سے ایک گفتگومحمد عمار خان ناصر
امت کا فکری بحران ۔ تاریخی بیانیے کا ایک تنقیدی مطالعہپروفیسر میاں انعام الرحمن
مولانا عبد القیوم ہزارویؒ / مولانا قاری عبد الحئ عابدؒمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مکاتیبادارہ
دو قومی نظریہ اور امجد علی شاکرسید امتیاز احمد
’’رسول اکرم ﷺ کی مجلسی زندگی‘‘ ۔ مضمون نویسی کا انعامی مقابلہڈاکٹر حافظ محمد رشید

طالبان کے ساتھ مذاکرات ۔ ضرورت اور تقاضے

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

صدر اوبامہ نے دوسری مدت صدارت کی پہلی پالیسی تقریر میں ۲۰۱۴ء کے آخر تک افغان جنگ ختم کر دینے کا باضابطہ اعلان کر دیا ہے اور کہا ہے کہ القاعدہ کو غیر موثر بنانے کا ان کا ہدف پورا ہوگیا ہے، اس لیے اب جنگ کو مزید جاری نہیں رکھا جائے گا۔ 
یہ جنگ ’’القاعدہ‘‘ کے خلاف تھی یا ’’افغان طالبان‘‘ اس کا اصل ہدف تھے؟ جن افغان طالبان کی حکومت کو نیٹو افواج کی عسکری یلغار کے ذریعہ ختم کر دیا گیا تھا، ان سے مذاکرات کی مسلسل کوششیں اس جنگ میں امریکہ اور نیٹو افواج کی ’’کامیابی‘‘ کی اصل کہانی بخوبی بیان کر رہی ہیں اور اس سلسلہ میں ہمیں کچھ عرض کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہو رہی، جبکہ خطہ سے امریکی اور نیٹو افواج کے بڑے حصے کے انخلا کے بعد صورت حال کیا ہوگی؟ اس کے بارے میں کچھ کہنا شاید قبل از وقت ہو، البتہ پاکستان کی سیاسی اور فکری دانش کے بعض دائروں میں ممکنہ ’’خطرات و خدشات‘‘ پر جو واویلا بھی شروع ہوگیا ہے، اس کے بارے میں کچھ عرض کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ 
ہمارے بعض دانشوروں کو یہ خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ افغانستان میں افغان طالبان اپنی واپسی کی صورت میں پہلے سے زیادہ طاقت ور ہوں گے اور ایک بڑی قوت کے مقابلہ میں فتح کا احساس ان کی قوت کو دو آتشہ کر دے گا۔ اس لیے پاکستان پر ان کے فکر و فلسفہ کے اثر انداز ہونے کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، بالخصوص اس صورت میں کہ پاکستان میں طالبان کے فکر و فلسفہ کے حامل لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور بوقت ضرورت وہ ایک موثر قوت کی صورت اختیار کر سکتے ہیں۔ اس پس منظر میں ہمارے ان دانش وروں کو اے این پی کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کے اس متفقہ موقف کے بارے میں بھی تحفظات درپیش ہیں کہ پاکستانی طالبان کی طرف سے مذاکرات کی پیش کش کو قبول کیا جائے اور مذاکرات کے ذریعہ مسئلہ حل کر کے امن کے قیام کو ترجیح دی جائے۔ حالانکہ اے این پی کی اس اے پی سی کا یہ موقف پوری قوم کی دل کی آواز ہے اور موجودہ حالات کے تناظر میں باہمی جنگ و جدال کی دلدل سے نکلنے کا اس کے سوا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا لیکن دانش کی ایک سطح کو یہ خوف لاحق ہے کہ اس سے طالبان کو اپنی سوچ اور وژن کے مطابق نفاذِ اسلام میں پیش رفت کا موقع مل سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں مزید کچھ عرض کرنے سے قبل اس بات کی وضاحت ضروری محسوس ہوتی ہے کہ ہم نے اپنی گزارشات میں ہمیشہ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کے درمیان فرق کو ملحوظ رکھا ہے اور یہ فرق آج بھی پوری طرح ہمارے سامنے ہے۔ 
افغان طالبان جہادِ افغانستان میں روسی استعمار کی شکست اور سوویت فوجوں کی واپسی کے بعد رونما ہونے والی اس خانہ جنگی کے رد عمل میں منظر عام پر آئے تھے جو مغربی قوتوں نے جہادِ افغانستان کے ذریعے سوویت یونین کے خلاف اپنے مقاصد کے حصول کے بعد افغانستان کو تنہا چھوڑ دینے کی شعوری یا غیر شعوری پالیسی اختیار کر کے پیدا کی تھی اور جسے ختم کرنے کی کسی سنجیدہ کوشش کی بجائے افغان مجاہدین کی اتحادی قوتوں نے انہیں ان کے حال پر چھوڑ کر اس خانہ جنگی کی عملاً حوصلہ افزائی کی تھی۔
افغان طالبان نے جہاد افغانستان کے نظریاتی مقاصد کے حصول اور افغانستان کے اسلامی نظریاتی تشخص کے تحفظ کے لیے میدان میں قدم رکھا اور کامیابی حاصل کی جسے القاعدہ کی آڑ میں امریکہ اور نیٹو کی فوجوں نے عسکری یلغار کے ذریعہ ختم کر دیا۔ اس کے بعد سے وہ افغانستان پر غیر ملکی جارحیت کے خلاف آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور اسی جوش و جذبہ کے ساتھ لڑ رہے ہیں جس کے ساتھ انہوں نے سوویت یونین کی عسکری جارحیت کے خلاف جنگ لڑی تھی مگر پاکستانی طالبان کا دائرہ اس سے مختلف ہے۔ انہوں نے پاکستان میں نفاذ شریعت کے لیے ہتھیار اٹھائے اور ان کا آغاز حکومت پاکستان کے ساتھ نفاذ شریعت کے ایسے معاہدات سے ہوا تھا جو ملک کے دستوری فریم ورک کے اندر تھے مگر ان سے کیے گئے وعدوں کو عمدًا توڑ دیا گیا، ہم سمجھتے ہیں کہ اگر پہلے صوفی محمد کے ساتھ اور پھر پاکستانی طالبان کے ساتھ کیے جانے والے معاہدوں کی پاسداری کی جاتی تو آج یقیناًیہ صورت حال نہ ہوتی جو ہمارے ان دانش وروں کو پریشان کر رہی ہے۔ ہم نے پاکستانی طالبان کے ہتھیار اٹھانے کی کبھی حمایت نہیں کی اور نہ ہی اب اسے درست سمجھتے ہیں لیکن ان کے اس مطالبہ کی سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان کے ساتھ مختلف مواقع پر جو معاہدات کیے گئے ہیں ان کی پابندی کی جائے اور ان پر عملدرآمد کیا جائے بلکہ ہم اس سے آگے بڑھ کر یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ ریاست سوات، بہاول پور اور قلات کو پاکستان میں شامل کرتے وقت ان کے عدالتی نظام کے بارے میں جو معاہدے کیے گئے تھے اگر انہیں سرد خانے میں نہ ڈال دیا جاتا تو صوفی محمد یا پاکستانی طالبان اور عسکریت پسندوں کا دور دور تک کوئی وجود نہ ہوتا۔ اس لیے ہم اس تاریخی تسلسل کو کسی طرح نظر انداز نہیں کر سکتے کہ آج کی صورت حال ان مذکورہ معاہدات کی خلاف ورزی کا رد عمل اور منطقی نتیجہ ہے اور اس صورت حال سے نکلنے کے لیے قوم کو بحیثیت قوم ان معاہدات کی طرف واپس جانا ہوگا، اس کے بغیر ان خطرات و خدشات کے سدباب کی کوئی صورت ممکن نہیں ہے جس کا ہمارے دانش وروں کی طرف سے اظہار کیا جا رہا ہے۔ ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ بعد کی ساری باتیں چھوڑ دیجئے صرف ان معاہدوں کی گرد جھاڑ کر انہیں سامنے لائیے جو سوات، قلات اور بہاول پور کی ریاستوں کو پاکستان میں شامل کرتے وقت کیے گئے تھے اور ان پر عملدرآمد کا اہتمام کر لیجئے اس ساری شدت پسندی اور عسکریت کی ہوا اکھڑ جائے گی۔ 
باقی رہی بات نفاذ اسلام کے وژن کی، ہم اپنے محترم دانش وروں کو یاد دلانا چاہیں گے کہ پاکستان بننے کے بعد جمہور علماء اسلام نے علامہ اقبالؒ کا وژن قبول کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے ذریعہ نفاذ اسلام کا راستہ اختیار کیا تھا اور قادیانیوں کو مرتد قرار دے کر قتل کرنے کی بجائے ایک غیر مسلم اقلیت کے طور پر قبول کر لینے کا فیصلہ بھی اقبالؒ کے وژن پر ہی کیا گیا تھا مگر ہمارے ان مہربان دانشوروں نے جمہور علماء اسلام کے اس اجتہادی فیصلے کا کتنا احترام کیا ہے؟ قرارداد مقاصد، پاکستان کی اسلامی نظریاتی شناخت، قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا فیصلہ، ناموس رسالتؐ کے تحفظ کا قانون اور دستور کی دیگر اسلامی دفعات منتخب پارلیمنٹ کے فیصلے ہیں، اور ان میں سے بیشتر فیصلے پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی سرکردگی میں ہوئے ہیں۔ لیکن ہمارے بعض دانش وروں نے منتخب پارلیمنٹ کے ان جمہوری فیصلوں کے خلاف جو مورچہ لگا رکھا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ علماء کرام تو اقبالؒ کے وژن پر آگئے تھے، انہوں نے اقبالؒ کا وژن قبول کر کے اس کے مطابق جمہوری اسلامی ریاست کا راستہ اختیار کر لیا تھا اور جمہور علماء پاکستان آج بھی اس وژن پر قائم ہیں لیکن حکمران طبقوں اور سیکولر دانش وروں نے عوام کے منتخب نمائندوں کے جمہوری فیصلوں کے خلاف جو روش گزشتہ ساٹھ برس سے اختیار کر رکھی ہے اس کے رد عمل میں اس شدت پسندی اور عسکریت نے جنم لیا ہے جو پوری قوم کے لیے اضطراب کا باعث بنی ہوئی ہے۔ ہم ایک لمحہ کے لیے اس شدت پسندی اور عسکریت کے حامی نہیں ہیں لیکن جس روش نے حالات کو یہاں تک پہنچایا ہے اسے تبدیل کیے بغیر اس پر قابو آخر کیسے پایا جا سکتا ہے؟ اس شدت پسندی اور عسکریت کے سد باب کے لیے دستور کی اسلامی بنیادوں کو تسلیم کرنے کا اعلان کیجئے اور ان پر خلوص دل کے ساتھ عملدرآمد کا اہتمام کیجئے، شدت پسندی کا راستہ خود بخود بند ہو جائے گا اور ان کے لیے قوم کے اجتماعی فیصلے کے سامنے سرنڈر ہونے کے سوا کوئی آپشن باقی نہیں رہے گا۔ 

دینی مدارس میں عصری علوم ۔ محمد افضل کاسی کا مکتوب

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

دینی مدارس کے نصاب و نظام میں عصری علوم کو شامل کرنے کے حوالہ سے مختلف اصحابِ دانش نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اور اس مفید مباحثہ کے نتیجے میں بہت سے نئے پہلو سامنے آرہے ہیں جن پر غور و خوض یقیناً اس بحث کو مثبت طور پر آگے بڑھانے کا باعث ہوگا، اس سلسلہ میں جامعہ دارالعلوم کراچی کے ایک طالب علم محمد افضل کاسی آف کوئٹہ کا خط پیش خدمت ہے، راقم الحروف کے نام اس خط میں انہوں نے اس مسئلہ پر ایک طالب علم کے طور پر اپنے جذبات و تاثرات پیش کیے ہیں جو یقیناً قابل توجہ ہیں۔ ہماری ایک عرصہ سے یہ رائے چلی آرہی ہے جس کا مختلف محافل میں ہم نے اظہار کیا ہے اور بعض مضامین میں لکھا بھی ہے کہ ہمیں باہر کی آواز سننے کی زیادہ ضرورت نہیں ہے لیکن دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کی بات ضرور سننی چاہیے اور انہیں اس مباحثہ میں شریک کرنا چاہیے۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر دینی مدارس کے سینئر اساتذہ کے لیے ملک کے چند بڑے مدارس میں مشاورتی اجتماعات اور ورکشاپس کا اہتمام کیا جائے جن میں وہ دو تین روز شریک رہ کر دینی مدارس کے اساتذہ و طلبہ کو درپیش تعلیمی، تربیتی اور فکری مسائل پر کھلے دل کے ساتھ بحث و مباحثہ کر سکیں تو اس کے بہت مفید نتائج سامنے آئیں گے اور اس کے بارے میں کوئی واضح رخ متعین کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ پروگرام وفاق المدارس کے زیر انتظام ہوں تو زیادہ موثر اور محفوظ ہوں گے، کوئی اور فورم اس کا اہتمام کرے گا تو اس سے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ بہرحال اس سلسلہ میں ایک طالب علم کا نقطۂ نظر اور تجاویز ملاحظہ فرمائیں اور یہ دیکھیں کہ جو طبقہ اس معاملہ میں ’’مبتلیٰ بہ‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے اس کے اپنے جذبات اس حوالے سے کیا ہیں؟  
ابوعمار زاہد الراشدی

’’دینی مدارس میں دنیوی تعلیم کا امتزاج کرنے کے لیے کیا کیا جائے؟ اور کیا یہ صحیح بھی ہے یا نہیں؟ اور اگر یہ امتزاج کیا جائے تو کن خدشات کا سامنا کرنا پڑے گا؟ اس موضوع پر مختلف حضرات اپنی آراء دے چکے ہیں۔ اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے چند معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن چونکہ میں خود ایک طالب علم ہوں۔ اور طلبہ کے درمیان رہتے ہوئے ان کی دلی خواہشات اور حالات سے زیادہ شناسا ہوں اس وجہ سے اس موضوع پر بات کرنے سے پہلے میں طلبہ کے حالات اور ان کی سوچ کے حوالے سے بحث کروں گا۔ 
دینی مدارس میں بعض طلبہ تو صرف وقت گزاری کے لیے مدارس میں ہوتے ہیں ان میں سے اکثریت ان کی ہوتی ہے جنہیں والدین نے یا گھر کے کسی بڑے نے زبردستی مدرسے میں داخل کرایا ہوتا ہے۔ ایسے طلبہ کو نہ تو مدارس کے نصاب سے دلچسپی ہوتی ہے اور نہ ہی جدید علوم سے، البتہ یہ جدید علوم کو دینی تعلیم پر فوقیت دیتے ہیں اور مدارس میں یہ امتحان پاس کرنے کے لیے مجبوراً کچھ نہ کچھ پڑھ لیتے ہیں۔ بعض طلبہ کو دینی اور دنیوی تعلیم، دنوں کا شوق ہوتا ہے اور محنت بھی کرتے ہیں لیکن ان کی ذہنی استعداد اتنی نہیں ہوتی کہ وہ دونوں کو یکجا کر سکے لہٰذا ہوتا یہ ہے کہ جدید علوم حاصل کرنے کے چکر میں ان کے دینی تعلیم کا نقصان ہوتا ہے۔ اور بعض طلبہ صرف دینی تعلیم حاصل کرنے کو اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں اور جدید علوم کے متعلق بات کرنے کو بھی اخلاص کے منافی سمجھتے ہیں اور جو طلبہ عصری علوم حاصل کر رہے ہوتے ہیں ان پر دل کھول کر طعن و تشنیع کرتے ہیں۔ اور بعض طلبہ جو دینی و عصری علوم حاصل کرنے کے شوقین ہوتے ہیں اور دونوں کے ایک ساتھ حاصل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں مگر مدارس کے روایتی نظام الاوقات کی وجہ سے یا مدرسے کی بعض پابندیوں کی بنا پر جدید علوم سے رہ جاتے ہیں۔
طلبہ کے حالات جاننے کے بعد اب ہم دینی و عصری تعلیم کے امتزاج کی بحث کرتے ہیں جس میں سب سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ دینی علوم میں کمزوری پیدا ہو جائے گی اور اس کی طرف توجہ میں کمی واقع ہوگی۔ اس خدشے سے خلاصی اس صورت میں ممکن ہے کہ وہ طلبہ جو عصری علوم کی تحصیل کا شوق رکھتے ہو، ان کے لیے مدرسے کے امتحان میں اعلیٰ درجے سے کامیابی شرط قرار دی جائے جو طلبہ مذکورہ شرط پر پورا اترے ان کو عصری علوم حاصل کرنے کی نہ صرف اجازت دی جائے بلکہ ان کے لیے کلاسز اور تمام جدید وسائل کا انتظام کیا جائے۔ کیونکہ اگر اہل مدارس عصری علوم کے لیے خصوصی کلاسز کا بندوبست نہیں کریں گے تو جو طلبہ عصری تعلیم کے دلداتے ہیں وہ ہر صورت میں اسے حاصل کرنے کی کوشش کریں گے جس کے لیے ان کو مدارس سے باہر جانا پڑے گا اور بھاری فیسیں دینی پڑے گی اور دینی علوم کے گھنٹوں کو قربان کریں گے اس بنا پر ان کی دینی تعلیم متاثر ہوگی۔ اس کا مشاہدہ مدارس کے طلبہ سے مل کر ان کے حالات جان کر کیا جا سکتا ہے کہ چند طلبہ انگریزی سیکھنے اور بعض طلبہ کمپیوٹر ٹریننگ، اور چند طلبہ بی اے کی تیاری کے لیے اور بعض صحافت، خطابت، و فلکیات غرض مختلف کورس کرنے کے لیے مدارس سے باہر جاتے ہیں جس سے طلبہ کو شدید دقت ہوتی ہے۔ اگر اہل مدارس ان کورسز کے لیے دینی تعلیم کے گھنٹوں میں توازن برقرار رکھتے ہوئے خصوصی کلاسز کو انعقاد کریں اور سابقہ شرائط کے تحت طلبہ کو داخلہ دیا جائے تو طلبہ پر احسان عظیم ہوگا۔
چونکہ مدارس میں ان جدید علوم کے لیے کوئی خاص بندوبست نہیں اگر ہے بھی تو صرف تخصص کے طلبہ کے لیے، اس وجہ سے جو طلبہ کالج، یونیورسٹی وغیرہ سے پڑھ کر دعوت و تبلیغ یا کسی اور سبب کی بنا پر مدارس آتے ہیں وہ بھی کمپیوٹر اور انگریزی وغیرہ کے عدم استعمال کی وجہ سے سب کچھ نہ سہی مگر بہت کچھ بھول ہی جاتے ہیں کیونکہ آئے روز کمپیوٹر میں نت نئے پروگرامز آرہے ہیں اور انگریزی کے ذخیرہ الفاظ بھی تکلم و مطالعہ نہ ہونے کے سبب ذہن کے سکرین سے آہستہ آہستہ آؤٹ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ 
مدارس کے منتظمین اور اساتذہ سے درد مندانہ درخواست ہے کہ اگر جدید علوم کے تمام کورسز نہ سہی تو کم از کم انگریزی اور کمپیوٹر کی طرف توجہ فرمائیں۔
محمد افضل کاسی، کوئٹہ 

دور حاضر کے تقاضے اور شعبہ اسلامیات پنجاب یونیورسٹی

پروفیسر خالد ہمایوں

کوئی بیس بائیس برس پہلے کی بات ہے، میں نے ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ میں جماعت اسلامی کی فکر اور اُس کی سیاسی جدوجہد پر ایک تنقیدی جائزہ لکھا تو اس میں جماعت کی تمام کتابوں کی فہرست بھی شامل کی تھی۔ دکھانا یہ مقصود تھا کہ ان میں کوئی کتاب ایسی نہیں جس کا تعلق پاکستانی معاشرے کے عملی مسائل و معاملات سے ہو۔ کسی ایک کتاب میں بھی اُن چیلنجز کا جواب نہیں ملتا جو حصول آزادی کے بعد ہمیں پیش آتے رہے ہیں۔ یہ تمام لٹریچر بڑی حد تک نظری مباحث پر مشتمل ہے جو یہ بتاتا ہے کہ اسلام فی الواقع سچا اور بہترین دین ہے۔
جس وقت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، میاں طفیل محمد، امین احسن اصلاحی، نعیم صدیقی، ملک غلام علی، صدر الدین اصلاحی، پروفیسر خورشید احمد اور اسعد گیلانی یہ لٹریچر تیار کر رہے تھے تو اُس دور میں سوشلسٹ اور سیکولر فکر سے مسلمان نوجوان متاثر ہو رہے تھے۔ خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ ہماری اگلی نسلیں دہریت اور الحاد کا شکار ہو جائیں گی، چنانچہ جماعت کے خالص نظریاتی لٹریچر نے انہیں اسلام کی بنیادی سچائیوں پر یقین اور اعتماد عطا کیا تھا۔ لیکن چونکہ وہ لٹریچر معاصر معاشرتی اور ریاستی نظام کی بحث سے یکسر خالی تھا، اس لیے جنرل ضیاء الحق بڑی آسانی کے ساتھ جماعت کو فریب دینے میں کامیاب ہوگئے۔ انہوں نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے فورًا بعد اپنی پہلی تقریر خطبہ مسنونہ سے شروع کی تو اسلام پسند حلقوں کو یوں لگا جیسے وہ سحر طلوع ہوا چاہتی ہے جس کا مدت سے خواب دیکھا جا رہا تھا۔ گیارہ سال بعد محسوس یہ ہوا کہ سحر کیا طلوع ہوتی، اُلٹا تاریکیاں دبیز ہوتی چلی گئیں اور آج پاکستانی قوم انہی میں بھٹکتی پھر رہی ہے۔ نہ منزل سامنے ہے اور نہ کوئی بڑا دماغ راستہ دکھانے والا نظر آتا ہے۔ 
آج جب میں شعبہ اسلامیات پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے شائع ہونے والی تازہ کتاب ’’ارمغانِ علامہ علاؤ الدین صدیقی‘‘ کی ورق گردانی کر رہا ہوں تو میری مایوسی دوچند ہوگئی ہے۔ پہلے ’’ارمغان‘‘ کی وضاحت کر دوں۔ ارمغان کا مطلب ہے تحفہ۔ علمی برادری کبھی کسی بڑی علمی شخصیت کی خدمت میں اعلیٰ پایہ کے مضامین و مقالات کا مجموعہ بطور تحفہ پیش کرے تو اُسے ارمغان کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ گویا اُس شخصیت کی علمی خدمات کا اعتراف ہوتا ہے۔ علامہ علاؤ الدین صدیقی (۱۹۰۷ء تا ۱۹۷۷ء) بھی ایک صاحب علم شخصیت تھے۔ تعلیم میں ایم اے فارسی، ایم او ایل اور ایل ایل بی تھے۔ انہیں تحریک پاکستان میں شمولیت کا اعزاز حاصل تھا۔ ۱۹۳۵ء میں مسجد شاہ چراغ میں درسِ قرآن کا آغاز کیا۔ ۱۹۴۵ء میں انہیں اسلامیہ کالج (ریلوے روڈ) میں دینیات کے استاد کے طور پر مقرر کیا گیا۔ ۱۹۴۶ء میں مسلم لیگ صوبہ پنجاب کے جنرل سیکرٹری بنے۔ تقسیم کے بعد بھی صوبائی سیاست میں سرگرم رہے۔ ’ارمغان‘ کی مرتبہ ڈاکٹر جمیلہ شوکت کی روایت کے مطابق علامہ صاحب صوبہ پنجاب کی صداردور حاضر کے تقاضے اور شعبہ اسلامیات پنجاب یونیورسٹیت کے لیے ممتاز دولتانہ کے مقابلے میں کھڑے ہوئے۔ ایک متوسط خاندان کے فرد ہونے کی وجہ سے ایک با اثر زمیندار، سرمایہ طبقے کے فرد کا مقابلہ نہ کر سکے اور اس طرح دولتانہ جیت گئے۔ اس کے بعد علامہ صاحب کوچہ سیاست کو خیرباد کہہ کر تعلیم و تدریس میں مصروف ہوگئے۔
۱۹۵۰ء میں پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ اسلامیات قائم ہوا تو حکومت نے شعبے کی سربراہی سنبھالنے کے لیے علامہ محمد اسد (لیوپولڈ) کو دعوت دی، لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ اس کے بعد علامہ علاؤ الدین صدیقی کو بلایا گیا۔ علامہ صاحب ۱۹۶۴ء سے ۱۹۷۳ء تک اسلامی مشاورتی کونسل کے چیئرمین بھی رہے۔ ۱۹۶۹ء سے ۱۹۷۳ء تک وہ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے۔ علامہ صاحب کی کوئی تحقیقی کتاب ہماری نظر سے نہیں گزری۔ ارمغان میں البتہ ان کے تین انگریزی مقالات شامل ہیں جن کے عنوان ہیں:
1- Abraham and His Influence on History
2- Muhammad: The Universal Prophet
3- The Attitude of Islam Towards Other Religions
ارمغان کی مرتبہ محترمہ پروفیسر ڈاکٹر جمیلہ شوکت نے علامہ صاحب کے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کی تاریخ صفحہ ۱۸ پر ۱۹۳۲ء اور صفحہ ۲۱ پر ۱۹۳۵ء درج کی ہے۔ معلوم نہیں، درست کون سی ہے۔ خیر غلطی تو بڑی آسانی سے کمپوزر کے کھاتے میں ڈالی جا سکتی ہے۔ یہ کمپوزر ٹائپ لوگ تو شاید ہوتے ہی اس لیے ہیں کہ غلطیاں ہم کریں اور ملبہ اُن پر گرا دیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے علامہ صاحب کے کوائف زندگی لکھتے ہوئے یہ نہیں بتایا کہ اُن کے دور میں یونیورسٹی نے ترقی کی کتنی منزلیں طے کی تھیں۔
میں نے ’’ارمغان علامہ علاؤ الدین صدیقی‘‘ میں شامل علمی مقالات کے بارے میں جو مایوسی کا اظہار کیا ہے تو اس حوالے سے نہیں کیا کہ مقالات کا علمی معیار کمتر ہے، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ بلاشبہ ہر مقالہ بہت محنت سے لکھا گیا ہے، زبان و بیان کے سارے سلیقے برتے گئے ہیں۔ ان سب کا تعلق ادیان کے تقابلی مطالعے سے ہے۔ یہ علامہ صاحب کا پسندیدہ موضوع تھا۔ اس اعتبار سے ’’ارمغان‘‘ کی ایک اپنی قدر وقیمت بنتی ہے۔ میرا اعتراض یہ ہے کہ اگر علامہ صاحب مرحوم و مغفور کو کوئی علمی تحفہ پیش کرنا ہی تھا تو قومی زندگی کے کسی زندہ مسئلے پر لکھنے کے لیے سکالر حضرات کو زحمت دی جاتی۔
’’ارمغان‘‘ کے بعض صفحات پر شعبہ اسلامیات کے اساتذہ کی لکھی ہوئی کتابوں کی جو فہرستیں دی گئی ہیں، انہیں دیکھ کر شعبے کے اساتذہ کے علمی رجحان کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے شعبے نے آج کی دُنیا کے مسائل و افکار سے کوئی تعلق ہی نہیں رکھا ہوا۔ اس سے پہلے کہ میں اپنے نقطہ نظر کی مزید تشریح کروں، آپ اساتذہ کے تصنیفی سرمایے پر ایک نظر ڈال لیں، ممکن ہے آپ میری گزارشات بہتر طور سے سمجھ سکیں۔

پروفیسر ڈاکٹر جمیلہ شوکت:

(۱) مسند عائشہ صدیقہ: تحقیق و دراسۃ (۲) الامام جلال الدین سیوطی: تحقیق و تخریج (۳) تحفۃ الطالبین فی ترجمہ الامام النوری (۴) اشاریہ تفہیم القرآن (۵) سٹڈیز ان حدیث (انگریزی) (۶) اسحاق بن رواح: لائف اینڈ ورکس۔

پروفیسر ڈاکٹر خالد علوی:

(۱) المنہاج السوی فی ترجمۃ الامام النووی (۲) انسان کامل ﷺ (۳) حفاظتِ حدیث (۴) رسولِ رحمت ﷺ (۵) حضور ﷺ سے ہمارے تعلق کی بنیادیں (۶) پیغمبرانہ منہاج دعوت (۷) اصول الحدیث (۸) اسلام کا معاشرتی نظام (۹) اقبال اور احیائے دین (۱۰) اقامت الصلوٰۃ (۱۱) پیغمبرانہ دعائیں (۱۲) اسلام کے اصول تجارت (۱۳) خلق عظیم (۱۴) نظریہ پاکستان (۱۵) شرح اربعین نووی۔

پروفیسر ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی:

(۱) قرآن حکیم کی روشنی میں رسول کریمؐ کی شان و عظمت (۲) ورفعنا لک ذکرک (۳) خطبات جمعہ (۴) مثالی پیغمبرؐ (۵) فقہ حنفی اور اس کی خصوصیات (۶) ماڈرن ٹرینڈز ان تفسیر لٹریچر (۷) سید علی ہجویری، حالات و خدمات۔

پروفیسر ڈاکٹر ثمر فاطمہ: 

(۱) مشعل راہ (۲) اسلامی تہذیب و تمدن۔

ڈاکٹر حمید اللہ عبد القادر:

(۱) اصول حدیث (۲) مصباح الحدیث (۳) حدیث نبوی اور مستشرقین (۴) اللولووالمرجان (ترجمہ و تشریح) 

پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمود اختر:

(۱) استحکام مملکت اور بد امنی کا انسداد (تعلیمات نبوی ﷺ کی روشنی میں) (۲) مریض کا علاج اور تیمار داری اسلام کی نظر میں۔

حافظ عثمان احمد:

(۱) ’’اضطراب‘‘ (مجموعہ کلام) (۲) اللہ میاں کے نام اُداس خط۔

ڈاکٹر حافظہ شاہدہ پروین:

(۱) ریت کے گھروندے (۲) فہرست مقالات (۱۹۵۲ء تا ۲۰۰۹ء) بہ اشتراک۔

پروفیسر حافظ احمد یار خان:

(۱) یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ
شعبہ کے اساتذہ کی کتابوں کے عنوانات سے ظاہر ہوتا ہے جیسے یہ لوگ کسی غار میں رہ رہے ہیں۔ انہیں خبر ہی نہیں کہ دنیا کن تغیرات سے گزر رہی ہے اور ہمارا وطن عزیز کن مسائل کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ جن مقاصد کی خاطر یہ ملک معرض وجود میں آیا تھا اور برصغیر کے مسلمانوں نے آگ اور خون کے دریا پار کیے تھے، ان میں سے کوئی ایک مقصد بھی آج تک پورا نہیں ہوا۔ اگر پینسٹھ سال گزرنے کے بعد بھی اسلام کو ریاستی نظام میں عمل دخل حاصل نہیں ہو سکا تو آخر اس کے کچھ اسباب و محرکات تو ضرور ہوں گے۔ اساتذہ کرام کی توجہ اس موضوع کی طرف کیوں نہیں جاتی؟ پھر اس ملک کا دو لخت ہو جانا اسلامی تاریخ کا بہت بڑا سانحہ ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ کسی استاد کے دل میں کبھی اس حوالے سے درد نہیں اٹھا۔ کیا اساتذہ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ پاکستان کے قیام کا مقصد جدید تقاضوں کے مطابق اسلامی معاشرے کا قیام تھا۔ کاش کوئی استاد اس حوالے سے بھی قلم اٹھاتا کہ اس مملکت خداداد میں اسلام پر کیا گزری ہے! آخر ان قوتوں کی نشاندہی کون کرے گا کہ جن کی سازشوں سے اسلامی معاشرے کے قیام کا خواب آج تک شرمندۂ تعبیر نہیں ہوا؟ 
کاش یہ اساتذہ کوئی ایک کتاب اُن قوتوں کے جائزہ ہی پر مبنی لکھ دیتے جو اسلام کو مروجہ استحصالی نظام کے نزدیک آنے نہیں دیتیں۔ ان اساتذہ کے سامنے افسروں کے لاؤ لشکر پالیسیاں بناتے اور ان کا نفاذ کرتے ہیں۔ وہ ماشاء اللہ مسلمان بھی کہلاتے ہیں۔ آخر ان کے کیا مفادات ہوتے ہیں کہ وہ ملک کو غیروں کی محتاجی سے نہیں نکالتے؟ کیوں انہوں نے کئی قسموں کا نظام تعلیم رائج کر رکھا ہے؟ 
اسی پاکستان میں قانون کے محافظ جس جس انداز سے خود قانون ہی کی مٹی پلید کرتے اور مظلوم عوام کی کھالیں اُدھیڑتے ہیں، کیا ان کے احوال کا جائزہ لینا ان سکالروں کا کام نہیں؟ آخر اسلام نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے جو احکام دے رکھے ہیں اُن کا اطلاق کن لوگوں پر ہوتا ہے؟ قیام پاکستان کے فورًا بعد عوامی حلقوں سے مطالبہ اٹھا تھا کہ انگریزی دور کی یادگار جاگیرداریوں اور وڈیرہ شاہیوں کو ختم کیا جائے گا۔ یہ وڈیرے نہ پاکستان میں جمہوریت آنے دیں گے نہ اسلام۔ جائزہ لینے کی ضرورت تھی کہ اسلام میں ان جاگیرداروں اور وڈیروں کے لیے کیا حکم ہے۔ یہ اسلام پر سالوں سے لیکچر دینے اور روایتی ریسرچ کروانے اور بھاری مراعات سمیٹنے والے اساتذہ نے یہ کام نہیں کرنا تو آخر کس نے کرنا ہے؟ کیا یہ کام کرنے کے لیے آسمان سے فرشتے نازل ہوں گے؟ باہر عوام جس اسلامی نظام کے لیے دعائیں مانگتے اور گڑگڑاتے یا خودکشیاں کرتے ہیں، اُن بے چاروں کو خبر ہی نہیں کہ جن لوگوں نے عوام کو ان ظالموں سے نجات پانے کے لیے شعوری طور پر تیار کرنا ہے، وہ صدیوں پہلے کی فقہی موشگافیوں، فتاویٰ کے قلمی نسخوں اور تفسیروں کے تقابلی مطالعہ میں گم ہیں۔ 
پاکستان بننے کے بعد جب مزدور طبقہ بہت بڑے حجم کے ساتھ منظر عام پر ظہور پذیر ہوا تو اُس کو بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ فیکٹریاں، کارخانے لگانے والوں نے اُن سے اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام تو لیا مگر ان کے جائز حقوق سے آنکھیں بند کیے رکھیں۔ نہ اُن کی صحت کی فکر کی، نہ انہیں بونس دیے اور نہ اُن کی رہائش کا سوچا۔ جب مزدوروں نے اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائی تو انہیں سوشلسٹ اور کمیونسٹ قرار دے کر روکنے کی کوشش کی گئی۔ ساری انتظامی مشینری سرمایہ دار کا دست و بازو بن جاتی رہی۔ کیا ان اساتذہ نے کبھی نچلے طبقات کی محرومیوں کا بھی جائزہ لیا؟ کیا اسلام محروم طبقات کی بات نہیں کرتا؟ کیا ان اساتذہ نے قرآن مجید میں بیان ہونے والے اقوام سابقہ کے قصص پر تجزیاتی نظر ڈالی؟ کیا ان اساتذہ کو یہ معلوم نہیں کہ اقوام کے اندر مستضعفین اور مترفین کون تھے اور آج کے مستضعفین اور مترفین کون ہیں؟ 
پاکستان میں گزشتہ ایک ڈیڑھ عشرے سے میڈیا جو قباحتیں برپا کر رہا ہے، کیا اُس کے حسن و قبیح پر بھی اسلامیات کے اساتذہ کو کچھ سوچنا اور لکھنا چاہیے یا نہیں؟ یوں لگتا ہے جیسے انہیں معلوم ہی نہیں کہ میڈیا نام کی کوئی چیز کب کی ہمارے معاشرتی عمل میں شامل ہو چکی ہے اور زندگی کی ساری جہتوں پر بے پناہ اثرات مرتب کر رہی ہے۔ کوئی استاد اِن اثرات ہی کا جائزہ لے لے، یہ بھی تو اسلام ہی کی خدمت ہوگی۔
کیا اسلامیات کے ان اساتذہ کی نظر کبھی اے لیول اور اولیول کے تعلیمی نظام کی طرف نہیں گئی جو نظام ہر سال کتابوں اور امتحانوں کی فیسوں کے بدلے ہم سے اربوں روپے سمیٹ کر بیرونی طاقتوں کی تجوریاں بھر دیتا ہے۔ آخر اسلام ا س حوالے سے کچھ بتاتا ہے یا نہیں؟ کیا اس طرح کا تعلیمی نظام پاکستانی معاشرے میں کوئی یکجہتی پیدا کر سکتا ہے جہاں غریبوں یتیموں کے سکول الگ ہوں اور لاکھوں کی فیسیں بٹورنے والے الگ۔ پھر اس امر کا جائزہ کون لے گا کہ ان اونچے سکولوں سے پڑھ کر نکلنے والے کتنے بچے وطن اور اسلام پر قربان ہونے کا جذبہ اپنے سینوں میں رکھتے ہیں؟ کیا ان اساتذہ کو نظر نہیں آتا کہ سرمایہ دار طبقے نے پنجاب یونیورسٹی کو عوام کی یونیورسٹی سمجھتے ہوئے اپنی ضروریات کے مطابق الگ تعلیمی ادارے قائم کر لیے ہیں جہاں طلباء کو حصول ملازمت کا پورا پورا تحفظ حاصل ہے۔ 
کیا اُن اساتذہ نے کبھی ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کے احوال بھی معلوم کیے جہاں کرپشن نے ایسے ڈیرے ڈال رکھے ہیں کہ اس کی اصلاح کرنا آج دنیا کا مشکل ترین کام نظر آتا ہے۔ کاروباری طبقہ جس جس طرح سے افسروں اور کلرکوں کو رشوت کا عادی بناتا ہے، کیا ان گندے طور طریقوں پر تحقیقی کام کرنا غیر اسلامی فعل ہے؟ آج حرام کمانے کے جو ہزارہا طریقے رائج ہو چکے ہیں، کیا اُن کا جائزہ لینا وقت کی بہت بڑی ضرورت نہیں؟ کیا اسلام یہ کہتا ہے کہ یہ سب کچھ دیکھتے جاؤ اور قلم اٹھانے سے فرار اختیار کیے رکھو۔ ادیان کے تقابلی مطالعے کی بھی کچھ نہ کچھ اہمیت ضرور ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ شعبہ اسلامیات کے اساتذہ کرام کی توجہ عملی زندگی کی پیچیدگیوں کی طرف کیوں نہیں جاتی؟ کیا یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ ریسرچرز علامہ علاؤ الدین صدیقی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ایسا ’’ارمغان‘‘ مرتب کرتے جس کے لیے سوسائٹی کے کسی زندہ مسئلے سے متعلق کوئی عنوان دیا جاتا؟ لے دے کے صرف ایک استاد نے پاکستانی معاشرے کے ایک مسئلے پر کتابچہ تحریر کیا ہے اور وہ ہے ’’یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ‘‘۔ جنرل ایوب خان کے دور میں یہ مسئلہ پوری شدت سے اٹھا تھا اور اس پر بہت لے دے ہوئی تھی۔ ورنہ اساتذہ کرام کی کوئی ایک تحریر بھی اپنے ریاستی اور معاشرتی احوال سے اعتنا نہیں رکھتی۔
میرے نزدیک اسلامیات کے اساتذہ کی اس غفلت کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ وہ دین و مذہب کے علاوہ دیگر سماجی علوم مثلاً سماجیات، تاریخ، بشریات، نفسیات، سیاسیات، ابلاغ عامہ، بین الاقوامی تعلقات، قانون، معاشیات وغیرہ سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ اُن کی ذاتی لائبریریوں میں شاید ہی اس حوالے سے کوئی ایک بھی کتاب موجود ہو۔ عصر حاضر کے سماجی علوم سے بے رغبتی کی وجہ ہی سے انہوں نے جو نصابات بھی رائج کر رکھے ہیں، وہ بھی موجودہ دور سے کوئی مطابقت نہیں رکھتے۔ اس کے بعد پھر تبدیلی آئے تو کیسے آئے، محض دھرنے دینے سے تو یہ کام ہونے سے رہا۔ وما علینا الا البلاغ۔
(بشکریہ روزنامہ پاکستان، لاہور)

ریاست، معاشرہ اور مذہبی طبقات ۔ پاکستان کے تناظر میں اہم سوالات کے حوالے سے ایک گفتگو

محمد عمار خان ناصر

انٹرویو: مشعل سیف
(مارچ ۲۰۱۲ء میں نارتھ کیرو لائنا، امریکہ کی ڈیوک یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی اسکالر مشعل سیف نے پاکستانی ریاست کے ساتھ مذہب کے تعلق، مذہبی طبقات کے کردار اور مذہبی نظام تعلیم کے حوالے سے اہم سوالات پر مبنی راقم الحروف کا ایک تفصیلی انٹرویو کیا جسے ترتیب وتدوین کے بعد یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔ عمار ناصر)

مشعل سیف: میرا نام مشعل سیف ہے۔ میں ڈیوک یونیورسٹی امریکا سے پی ایچ ڈی کر رہی ہوں۔ آپ ویسے تو ماشاء اللہ بہت مشہور ہیں، لیکن اگر اپنا مختصر تعارف کرا دیں اور اپنی تعلیم کے بارے میں بتا دیں کہ آپ نے کہاں کہاں سے سندیں حاصل کی ہیں تو مناسب ہوگا۔
عمار ناصر: ہمارا جو خاندانی پس منظر ہے، وہ ایک مذہبی گھرانے کا ہے۔ میرے دادا اور میرے والد کے حوالے سے ہمارے خاندان کو ایک معروف مذہبی گھرانے کے طور پر جانا جاتاہے۔ اپنی خاندانی روایت کے مطابق، میں نے بچپن میں حفظ قرآن کی تعلیم مکمل کی۔ اس کے بعد درس نظامی کا ایک آٹھ سالہ کورس ہوتا ہے جس میں ہمارے روایتی دینی علوم قرآن، حدیث، فقہ وغیرہ پڑھائے جاتے ہیں۔ اس کے ابتدائی درجات کی تعلیم میں نے مدرسہ انوار العلوم گوجرانوالہ میں حاصل کی، جبکہ اس کی تکمیل مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں کی جو ملک کے بڑے مدارس میں شمار ہوتا ہے۔ اس وقت ہمارے دادا مولانا محمد سرفراز خان صفدر بقید حیات تھے اور وہاں پڑھاتے تھے۔ دورۂ حدیث جس میں حدیث کی کتابیں صحاح ستہ وغیرہ پڑھائی جاتی ہیں، وہ میں نے وہاں پڑھا ہے۔ بس یہ مختصراً میری دینی تعلیم کا پس منظر ہے۔ اس کے بعد میں دس گیارہ سال تک اسی مدرسے میں پڑھاتا بھی رہا ہوں۔ 
مشعل سیف: آپ مدرسے میں کون سے مضامین پڑھاتے تھے؟
عمار ناصر: مختلف مضامین ہوتے تھے۔ مدارس میں جو تعلیم کا نصاب ہے، اس میں عربی زبان بنیادی چیز ہوتی ہے۔ کلاسیکی عربی لٹریچر ہوتا ہے۔ قرآن کی تفسیر، حدیث، فقہ اور پھر ان کے ساتھ اصول فقہ اور اصول حدیث، یہ سارے مضامین ہوتے ہیں اور میں تقریباً یہ ساری چیزیں پڑھاتا رہا ہوں۔ ۲۰۰۶ء کے بعد سے میں باقاعدہ کسی مدرسے میں نہیں پڑھا رہا۔ اس سے کچھ پہلے اور اس کے بعد سے میری زیادہ توجہ تحریر وتصنیف پر مرکوز ہے۔ بہت سے ایشوز ہیں جن پر میں لکھتا رہتا ہوں۔ 
مشعل سیف: آپ کی کچھ کتابوں کا مطالعہ میں نے کیا ہے۔ ’’براہین‘‘ آپ نے لکھی ہے اور کونسل آف اسلامک آئیڈیالوجی نے بھی ایک کتاب ’’حدود وتعزیرات‘‘ پر آپ کی چھاپی ہوئی ہے۔ ایک سوال جو بہت زیادہ اٹھتا ہے، وہ یہ ہے کہ آپ کا کون سے مسلک سے تعلق ہے؟ شاید آپ جانتے ہوں گے کہ یہ ایک controversy بھی ہے۔ بعض علما کہتے ہیں کہ آپ کہا تو کرتے ہیں کہ آپ دیوبندی ہیں، لیکن آپ کے جو افکار ہیں، وہ عموماً جو دیوبندیوں کے افکار ہوتے ہیں، ان سے ہٹ کر ہیں۔ 
عمار ناصر: میرا جو فیملی بیک گراؤنڈ ہے، وہ تو بالکل typical دیوبندی بیک گراؤنڈ ہے اور ظاہر ہے کہ جب آدمی نے ایک خاص ماحول میں تعلیم اور پرورش پائی ہو تو وہ اس کے اثرات سے بالکل باہر شاید نہیں جا سکتا۔ اس لیے آپ بڑی حد تک کہہ سکتے ہیں کہ جو دیوبندی مزاج ہے، چیزوں کو دیکھنے کا جو زاویہ ہے، اس کے اثرات یقیناًمجھ پر ہوں گے، لیکن جن معنوں میں دیوبندی اہل علم define کرتے ہیں کہ دیوبندی وہ ہے جو دینی مسائل کی تحقیق میں دیوبندی علماء اور دیوبندی اکابر کی مجموعی فکر سے باہر نہ جائے اور ان سے ہٹ کر کوئی بات نہ کہے تو اس معنی میں شاید آپ مجھے دیوبندی نہیں کہہ سکتے۔ میرے اپنے سوچنے کے انداز میں اور غور فکر کے طریقے میں جو developmentہوئی ہے، اس کے بعد میں نہیں سمجھتا کہ کسی ایک خاص اسکول آف تھاٹ کا پابند ہو کر رہنا، یہ علمی طور پر کوئی مثبت چیز ہے۔ میں نے مختلف فکری دھاروں سے چیزیں سیکھی ہیں۔ مولانا موددی سے بھی بہت کچھ سیکھا ہے۔ جاوید احمد غامدی صاحب میرے استاذ بھی ہیں، ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ علم جو ہے، اسلام اس میں تو کسی تعصب کی تعلیم نہیں دیتا۔ علم کی بات آپ کو جہاں سے بھی ملے، غیر مسلم سے بھی ملے، وہ لے لینی چاہیے۔ تو میرے خیال میں یہ جھگڑا ایسے ہی چلتا رہے گا۔ کچھ لوگ کہیں گے کہ یہ دیوبندی ہے، کچھ کہیں گے کہ نہیں ہے۔ 
مشعل سیف: آپ اپنے آپ کو کیسے تسلیم کرتے ہیں؟
عمار ناصر: میں دیوبندی تعبیر دین کو بڑا متوازن اور عوام کی سطح پر دینی ضروریات کے لیے بہت مفید سمجھتا ہوں۔ ان کے مزاج میں، ان کے فکر میں ، دوسرے اسکولز آف تھاٹ کی بہ نسبت خاصا توسع ہے، وسعت نظر ہے۔ چیزوں کو دیکھنے کا جو زاویہ نظر ہے، وہ خاصا positive ہے، لیکن یہ پابندی کہ جو دیوبندی علما ہیں، جو دیوبندی اکابر ہیں، ان کی رائے ہی ہر معاملے میں یقیناًدرست ہوگی اور ان سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا، اس کو میں نہیں مانتا۔ 
مشعل سیف: میں پڑھ رہی تھی، آپ نے اپنے ماہنامہ ’الشریعہ‘ میں ۲۰۰۹ء میں ایک مضمون میں یہ واضح کیا تھا کہ آپ دیوبندیت کو کس طرح تصور کرتے ہیں۔ آپ نے لکھا تھا کہ یہ بہت وسیع مکتب فکر ہے۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ کون ہے جو اکابر کے طریقے پر چل رہا ہے اور کون اکابر کی باتوں کو تسلیم نہیں کر رہا، کیونکہ دیوبندیت میں بہت diversity ہے۔ 
عمار ناصر: جی، میں ایسے ہی تصور کرتا ہوں کہ دیوبندی اکابر کی جو آرا ہیں، ان سے اگر آپ اختلاف رکھتے ہیں تو میرے خیال میں آپ کے دیوبندی ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہ میرا اپنا نقطہ نظر ہے۔ لیکن بہرحال دیوبندی کون ہے اور کون نہیں ہے، یہ طے کرنے میں، میں کوئی اتھارٹی نہیں۔ یہ تو جو دیوبندی سمجھے جانے والے لوگ ہیں، مدارس ہیں، ادارے ہیں، وہی یہ حق رکھتے ہیں کہ اس کو متعین کریں۔ ان کے زاویہ نظر سے دیکھنا چاہیے۔ وہ اگر سمجھتے ہیں کہ فلاں آدمی ہمارے فریم ورک سے باہر جا رہا ہے اور وہ اسے دیوبندی تسلیم نہیں کرتے تو یہ ان کا حق ہے۔ یہ میرے لیے کوئی ایسا اہم مسئلہ نہیں ہے۔
مشعل سیف: لیکن آپ اپنے آپ کو دیوبندی کہیں گے، کسی حد تک؟
عمار ناصر: غالباً علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ہر معقول پسند مسلمان دیوبندی ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ ندوۃ العلماء کا حلقہ فکر بھی بحیثیت مجموعی دیوبندی ہی سمجھا جاتا ہے، اگرچہ ان کے ہاں ایک آزادانہ فکری روش بھی موجود ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ مولانا مناظر احسن گیلانی نے کوئی نصف صدی قبل تحریک دیوبند کی وسعت اور ہمہ گیر اثرات پر ایک مضمون لکھا تھا جس میں مولانا مودودی اور ان کی جماعت اسلامی کو بھی دیوبندی تحریک کی ایک شاخ قرار دیا تھا۔ سو اگر آپ اس مفہوم میں مجھے دیوبندی کہنا چاہیں تو میں انکار نہیں کروں گا، لیکن آپ نفی کرنا چاہیں تو میں اصرار بھی نہیں کروں گا۔ 
مشعل سیف: آپ نے جاوید احمد غامدی صاحب کا ذکر کیا۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ ان کے مسلک سے یا ان کے افکار سے کافی اتفاق کرتے ہیں۔ اس کے بارے میں کچھ بتانا چاہیں گے کہ آپ کا کب سے ان سے رابطہ ہے او ر کس طرح آپ ان کے اسٹوڈنٹ رہے ہیں؟
عمار ناصر: میرا ان سے تعارف تو غالباً ۱۹۹۰ء میں ان کے رسالے کے ذریعے سے ہوا تھا۔ ان کا رسالہ ہمارے پاس آتا تھا۔ میں ان کی لکھی ہوئی چیزیں پڑھتا رہا، لیکن ۲۰۰۱ء یا ۲۰۰۲ء تک زیادہ ملاقاتیں نہیں ہوئیں۔ اس دوران میں کوئی پانچ سات ملاقاتیں ہوئی ہوں گی۔ البتہ میں ان کے نتائج فکر پر خاصا غور کرتا رہا اور بہت سی باتوں نے مجھے اپیل بھی کیا۔ ۲۰۰۲ء کے بعد میں باقاعدہ ان کے ادارے کے ساتھ وابستہ ہوا اور ان کی جو علمی مجالس ہیں، ان میں شرکت کرتا رہا۔ ان کے ساتھ اور ان کے ادارے ’المورد‘ کے رفقا کے ساتھ میرا بہت اچھا اور بڑی محبت کا تعلق ہے۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ میرے فکر ونظر کی تربیت میں اور دین کو سمجھنے کا ایک زاویہ دینے میں جیسے میرے اپنے خاندانی ماحول کا اثر ہے اور جہاں عمومی مطالعے کے بہت سے اثرات ہیں، اسی طرح میں نے غامدی صاحب سے بھی بہت سیکھا ہے۔ باقی، آرا کا اختلاف یا اتفاق، یہ میری نظر میں زیادہ اہم چیز نہیں ہوتی۔ جاوید غامدی صاحب کی بہت سی آرا سے مجھے اتفاق بھی ہے اور بہت سی آرا سے اختلاف بھی ہے۔ آپ نے میری تحریروں میں دیکھا ہوگا، میں نے بہت سے اختلافات بیان بھی کیے ہیں۔ اصل میں آدمی کے سوچنے کا جو انداز ہے، وہ ساری زندگی develop ہوتا رہتا ہے۔ میں ان کو اپنے نہایت قابل احترام استاذ او راپنے معلم کا درجہ دیتا ہوں، لیکن کلی اتفاق کسی سے بھی ضروری نہیں۔ ان کی آرا سے بھی اختلاف ہو سکتا ہے، بلکہ میں نے اپنے اساتذہ میں علمی اختلاف کو جتنا encourage کرنے والا اور اپنے نقطہ نظر پر علمی تنقید کی دعوت دینے والا ان کو پایا ہے، کسی دوسرے کو نہیں پایا۔
مشعل سیف: آپ دیوبندیت کو اور طرح سے تصور کرتے ہیں۔ آپ کے خیال میں اس کے اندر لچک ہے اور آپ مختلف خیالات رکھتے ہوئے بھی دیوبندی ہو سکتے ہیں۔ آپ نے کہا کہ آپ کے خیال میں دیوبندی ہوتے ہوئے بھی آپ دیوبندی اکابر سے اختلاف کر سکتے ہیں، لیکن ساتھ ہی آپ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ آپ کسی کو دیوبندی کہنے یا نہ کہنے کا حق ان کو دیتے ہیں جو ان کے زیادہ ماننے والے ہیں؟
عمار ناصر: دیکھیں، سوسائٹی میں کوئی کمیونٹی ہوتی ہے تو اس کی ترجمانی کرنے والی جو شخصیات ہوتی ہیں یا ادارے ہوتے ہیں، فطری طور پر انھی کو یہ حق ہونا چاہیے۔ مثلاً دیکھیں، احمدی یہ کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور محمد رسول اللہ پر ایمان رکھتے ہیں۔ لیکن مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ احمدی ہم میں سے نہیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی جو پہلے سے ایک کمیونٹی موجود ہے، اس کو یہ حق ہے کہ وہ یہ طے کرے کہ وہ کس گروہ کو اپنے اندر میں سے شمار کرتے ہیں۔ سو احمدیوں کو خود سے الگ شمار کرنا یہ مسلمانوں کاحق ہے۔ اسی طرح دیوبندیت کی بطور مذہبی گروہ کے ایک Identity ہے۔ اس کی ترجمانی کرنے والی کمیونٹی موجود ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ فلاں نقطہ نظر یا فلاں رائے ہمارا جو انٹلکچول فریم ورک ہے، اس سے میل نہیں کھاتی اور اس سے باہر ہے تو اس کو یہ حق ہے کہ وہ یہ طے کرے کہ یہ ہم سے مختلف ہے۔ یہ ان کا حق ہے اور یہ جمہوریت کا تقاضا ہے۔ مجھے یا کسی بھی آدمی کو یہ نہیں کرنا چاہیے کہ ہم کسی حلقہ فکر کے فکری پیرا ڈائم یا اس کے مسلمات سے اختلاف بھی کریں اور پھر یہ خواہش بھی رکھیں کہ ہمیں ضرور اس کے اندر شمار کیا جائے۔ یہ رویہ تو اخلاقی جرات کے فقدان سے پیدا ہوتا ہے۔
مشعل سیف: مگر آپ کی سوچ مجھے interesting لگی کہ آپ خود کو اس طرح دیوبندی تصور کرتے ہیں کہ آپ کی پرورش ایک دیوبندی گھرانے میں ہوئی اور آپ کے افکار پر اس کا کافی حد تک Impact رہا ہے۔
عمار ناصر: ہاں، یہ ظاہر ہے۔ میں ’المورد‘ کے دوستوں میں اٹھتا بیٹھتا ہوں تو ان کا تاثر یہ ہے کہ میرے فکر یا زاویہ نظر پر دیوبندی اثرات زیادہ ہیں، سو وہ مجھے دیوبندی کہتے ہیں۔ یوں میں دو گھروں کا مہمان ہوں۔ دیوبندی میرے بارے میں یہ سمجھتے ہیں کہ یہ غامدی ہے اور المورد والے کہتے ہیں کہ یہ دیوبندی ہے۔ 
مشعل سیف: میں اپنے مقالے میں پاکستان کے علما پر تحقیق کر رہی ہوں۔ خاص طور پر یہ دیکھنا چاہ رہی ہوں کہ یہ لوگ کس طرح تصور کر رہے ہیں کہ آیا پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے یا نہیں۔ پاکستان کا آئین اس کو اسلامی جمہوریہ قرار دیتا ہے۔ اس موضوع پر آپ کا youtubeپر ایک لیکچر ہے جو آپ نے گجرات یونیورسٹی میں اقبال پر ہونے والے سیمینار میں دیا تھا۔ اس میں آپ نے اسلامی ریاست کے بارے میں بات کی تھی۔ اسی طرح آپ کی حدود وتعزیرات پرجو کتاب ہے، اس میں بھی آپ نے اس موضوع پر لکھا ہے۔ آپ نے بہت مختلف چیزیں کہی ہوئی ہیں۔ میں چاہ رہی تھی کہ آپ ان کو elaborate کر دیں۔ مجھے خاص طور سے جو سمجھ میں آیا ہے، وہ یہ ہے کہ آپ پاکستان کے بارے میں بات کرتے ہیں تو اس کو اسلامی ریاست کا درجہ دے کر بات کرتے ہیں۔ آپ نے اپنی کتاب ’’حدود وتعزیرات‘‘ میں بھی جو لکھا ہے تو اسلامی ریاست کہہ کر ہی اس کے بارے میں بات کی ہے۔ میں اور بھی بہت سے علما سے مل چکی ہوں۔ ان میں سے کافی ایسے ہیں جو پاکستان کو اسلامی ریاست تصور نہیں کرتے۔ تو آپ اس کی کچھ وضاحت کر دیجیے کہ آپ کے خیال میں اسلامی ریاست کیا ہے اور آیا پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے یا نہیں؟
عمار ناصر: اسلامی ریاست اور مسلم ریاست، یہ کافی کنفیوزنگ چیزیں ہیں۔ یہ جو فرق ہے کہ ایک اسلامی ریاست ہے اور ایک مسلم ریاست ہے، یہ بہت بعد میں پیدا ہوا ہے۔ اگر آپ شروع میں چلے جائیں تو ابتدائی دور میں اس طرح کا کوئی فرق فقہا کے ہاں نہیں ملتا۔ وہ یہی کہتے ہیں کہ وہ علاقہ جہاں مسلمانوں کی حکومت قائم ہو اور مسلمان اپنے قوانین کو نافذ کر سکتے ہوں تو وہ علاقہ دار الاسلام ہے، چاہے مسلمان عملاً کتنے ہی بدکردار ہوں، ان کے حکمران کتنے ہی بگڑے ہوئے ہوں، عملاً قانون شریعت کے مطابق فیصلے ہو رہے ہوں یا نہ ہو رہے ہوں۔ اگر کسی علاقے میں مسلمان رہتے ہیں اور وہ اسلام سے اپنی وابستگی کو قائم رکھتے ہیں اور ان کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ شریعت کونافذ کر سکتے ہیں تو ہماری کلاسیکی فقہی اصطلاح میں وہ علاقہ دار الاسلام ہے۔ یہ جو فرق ہے مسلم ریاست کا اور اسلامی ریاست کا، یہ اب دور جدید میں آکر اس تناظر میں پیدا ہوا ہے کہ ریاست کا ایک تصور مغرب سے ہمارے پاس آیا ہے جس میں آئیڈیل یہ ہے کہ مذہب کے معاملات سے ریاست کو کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ یہ مغربی تصور جمہوریت میں بنیادی چیز ہے۔ اب یہ تصور جب ہمارے ہاں آیا ہے تو مختلف مسلمان ملکوں میں اس تصور کو اسی طرح یا کچھ modify کر کے اختیار کرنے کی کوشش کی گئی، بلکہ ترکی میں تو مغرب سے بھی ایک ہاتھ آگے بڑھ کر اس کو اختیار کر لیا گیا۔ اس سے لوگوں کے دل میں یہ احساس پیدا ہوا کہ اسلام تو یہ چاہتا ہے کہ جو ریاست ہے، وہ مذہب کے معاملات میں بھی اپنی ذمہ داریاں قبول کرے اور اپنے فرائض کو ادا کرے، اس لیے جو جدید تصور ریاست ہے، وہ اسلامی ریاست کے تصور کے ساتھ compatible نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں فرق کرنا پڑے گا کہ کون سی ریاست ایک مسلم ریاست ہے او رکون سی ریاست اسلامی ریاست ہے۔ 
اس لحاظ سے لوگوں نے یہ سوال پیدا کیا ہے اور آپ دیکھیں کہ اس فرق کی ضرورت کا احساس پیدا ہونا، قابل فہم ہے۔ ایک ایسا عنصر شامل ہو گیا ہے کہ لوگ یہ فرق کرنا چاہتے ہیں اور اس کی ایک نظری بنیاد بھی موجود ہے کہ یہ فرق ہونا چاہیے۔ یعنی جب تک ریاست فی الواقع ان بنیادوں پر قائم نہ ہو جو ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن میں بیان ہوئی ہیں، حدیث میں بیان ہوئی ہیں تو اس وقت تک اس کو اسلامی ریاست نہیں کہنا چاہیے۔ بہت سے لوگ ایسا ہی سمجھتے ہیں اور ایک حد تک ان کی بات قابل فہم ہے۔ لیکن اس تصور کے حامل بہت سے لوگ اس سے آگے بڑھ کر یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ چونکہ یہ اسلامی ریاستیں نہیں ہیں، اس لیے ان ریاستوں میں جو نظام اطاعت قائم ہے، اس کی پابندی بھی مسلمانوں پر لازم نہیں جیسا کہ اسلامی ریاست کے قوانین کی پابندی لازم ہوتی ہے۔ چنانچہ اس طرح سوچنے والے بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ انقلاب کے ذریعے سے ہم نظام کو بدلیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ چونکہ یہ ایک اسلامی ریاست نہیں ہے، اس لیے یہاں پر جو ایک نظم قائم ہے اور جو بھی نظام بنا ہوا ہے حکومت کا، اس کی پابندی ہم پر لازم نہیں۔ 
یہ ایک قابل بحث بات ہے اور میرے خیال میں یہ نتیجہ درست نہیں۔ قرآن سے، سنت سے اور ہمارے فقہا کی جو تصریحات ہیں، ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ریاست یا حکومت کا نظام کتنا ہی بگڑا ہوا کیوں نہ ہو، قرآن وسنت سے عملاً ہٹا ہوا ہی کیوں نہ ہو، اگر وہ اس علاقے کے مسلمانوں کی رضامندی سے اور ان کے اپنے اختیار سے قائم کیا گیا ہے تو اس کو ایک عملی جواز حاصل ہوتا ہے اور اس میں اگر آپ رہ رہے ہیں تو اس پر چاہے آپ تنقید کریں، اس سے اختلاف کریں، اصلاح کی کوشش کریں، لیکن آپ کا ریاست کے ساتھ ایک معاہدہ ہے جس کی رو سے آپ اس نظام کی پابندی کرنے کے مکلف ہیں۔ شریعت پر قائم ہونا میرے خیال میں کسی نظام کی اطاعت کرنے یا نہ کرنے کا اور اس کے قوانین کی پابندی قبول کرنے یا نہ کرنے کا معیار نہیں ہے۔ آپ ایک خالص غیر مسلم ریاست میں رہ رہے ہیں جس کو ہماری کلاسیکی اصطلاح میں دار الحرب کہتے ہیں، یعنی ایسے کفار ہیں جو مسلمانوں کے ساتھ برسر جنگ ہیں، وہاں بھی اگر مستقل طو رپر رہ رہے ہیں تو قوانین کی پابندی لازم ہوگی۔ اسی طرح اگر آپ ایک معاہدے کے تحت گئے ہیں کہ آپ وہاں امن وامان کو نہیں چھیڑیں ہیں، وہاں کے قوانین کی پابندی کریں گے تو اس کی اطاعت بھی واجب ہے۔ اس معاہدے کی خلاف ورزی آپ نہیں کر سکتے۔ پر امن ممالک کے مقامی قوانین کی پابندی کرنا مزید اہم ہو جاتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید نے حضرت یوسف کے واقعے میں بیان کیا ہے کہ ان کے چھوٹے بھائی کو ان کے پاس مصر میں روکنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک خاص تدبیر فرمائی، کیونکہ وہ ملکی قانون (دین الملک) کے مطابق اسے اپنے پاس نہیں روک سکتے تھے۔ 
اسی اصول پر یہ دیکھنا چاہیے کہ اس وقت جو مسلم ریاستیں ہیں، ان کی شریعت سے وابستگی جتنی بھی ہو، جیسی بھی ہو، اس میں جو بھی نظری یا عملی مسائل ہوں، لیکن جب آپ وہاں رہ رہے ہیں تو وہاں کے قانون اور نظام کے پابند ہیں اور اس معاہدے کے تحت رہ رہے ہیں کہ ہم نظام کی پابندی کرتے ہوئے یہاں رہیں گے۔ معاہدے کو توڑنا جیسے ایک غیر مسلم ریاست میں جائز نہیں ہے، اسی طرح ایک مسلمان ریاست میں بھی جائز نہیں ہے۔ مثال کے طو رپر پاکستان ہے۔ یہاں آپ کو اسلامی شریعت کے مطابق ریاست قائم کرنی ہے تو اس کا طریقہ یہ ہرگز نہیں ہے کہ ایک گروہ اٹھے یا چند لوگ اٹھیں اور وہ کہیں کہ ہمارے ذہن میں اسلامی ریاست کا جو ماڈل ہے، وہ یہ ہے، اس لیے اس کو ہم بالجبر نافذ کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس کی اسلام میں اجازت نہیں ہے۔ یہاں پر حکومت کا نظام یہاں کے لوگوں نے جو اختیار کیا ہے، وہی ہوگا۔ لوگوں کی مرضی کے بغیر ہم ان پر کوئی نظام مسلط نہیں کر سکتے۔ ہاں، لوگوں کو اس پر قائل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں کہ جو نظام آپ نے اختیار کیا ہوا ہے، اس میں یہ خرابیاں ہیں، اس میں یہ خامیاں ہیں اور اس کا متبادل یہ ہے۔ آپ یہاں کی سیاسی جماعتوں کو آمادہ کریں کہ و ہ بہتر ماڈل کو اختیار کریں۔ آپ اپنی کوئی پولیٹیکل پارٹی بنائیں، لیکن اس نظام کے دائرے میں آپ کو جدوجہد کرنی ہے۔ اس سے باہر آپ جائیں گے تو اس سے بہت سے اصول شریعت کے بھی پامال ہوں گے اور اخلاقیات کے بھی پامال ہوں گے۔
میں اس معاملے کو ایسے دیکھتا ہوں۔ نظری سطح پر بحث رہے گی کہ اسلامی ریاست اور مسلم ریاست میں فرق ہے یا نہیں، لیکن عملاً ہمیں اس نظام کی پابندی کرنی ہے۔ اسلامی ریاست ہے، تب اس کی پابندی کرنی ہے اور اگر محض ایک مسلم ریاست ہے تو بھی ایک نظام بنا ہوا ہے، ہم یہاں کے شہری ہیں اور یہاں کے آئین کی پابندی ہم پر لازم ہے۔ ہمیں جو بھی جدوجہد کرنی ہے، اس کے دائرے میں کرنی ہے۔
مشعل سیف: آپ کے خیال میں ایک اسلامی ریاست کیا ہے؟ کس طرح تصور کریں گے اسلامی ریاست کو؟
عمار ۔ سادہ بات ہے۔ مسلمان فرد کے دو درجے ہیں۔ ایک ہے جس کو ہم قانونی درجہ کہتے ہیں کہ قانون کی نظر میں یہ آدمی مسلمان ہے۔ اس کے لیے تو اتنا کافی ہے کہ آدمی اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہو اور in principle یہ قبول کرتا ہو کہ میں اللہ کی دی ہوئی ہدایات کا پابند ہوں۔ یہ آدمی مسلمان ہو گیا۔ اب وہ عملاً جتنا بھی بدکردار ہے، عملاً وہ چاہے دین کے فرائض بھی پورے نہ کرتا ہو، وہ مسلمان ہے۔ البتہ جو ایک معیاری مسلمان کا درجہ ہے، وہ ظاہر ہے کہ یہ نہیں ہے۔ یہی معاملہ ریاست کا ہے۔ پاکستان کی ریاست اپنے عقیدے اور اپنے نظریے کو آئین میں واضح کر چکی ہے کہ یہ ایک اسلامی ریاست ہے جو شریعت کی پابندی کو قبول کرتی ہے۔ اس میں مختلف قسم کی gurantees دی گئی ہیں کہ قوانین کو اسلام کے مطابق بنایا جائے گا اور فلاں اور فلاں اقدامات کیے جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست قانونی درجے میں مسلمان ہو گئی ہے۔ لیکن عملاً اس کے پورے اسٹرکچر کو بدل کر اس معیار پر لانا کہ یہ اسلامی ریاست کی جو ذمہ داریاں ہیں، ان کو پورا کرے، خدا کے لحاظ سے بھی، مسلمانوں کے لحاظ سے بھی اور دنیا میں غیر مسلموں کو دعوت پہنچانے کے لحاظ سے بھی، تو یقیناًیہ اس وقت اس حالت میں نہیں ہے اور اس میں بہت اصلاح کی ضرورت ہے۔ 
تو فرد کی مثال سے ریاست کا معاملہ سمجھنا چاہیے۔ جیسے ہم ایک فرد کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ مسلمان ہے، لیکن بدعمل ہے، اسی طرح ہماری جو اس وقت مسلمانوں کی ریاستیں ہیں، وہ اگر شریعت کی پابندی کو اصولی طو رپر قبول کرتی ہیں تو وہ مسلمان ریاستیں ہیں اور قانونی طور پر اسلامی ریاستیں بھی ہیں۔ اب ان کو اپنے آپ کو اس معیار پر لانا ہے کہ وہ ایک صحیح اسلامی ریاست کی ذمہ داریاں انجام دے سکیں۔ یہ ظاہر ہے کہ صرف حکومتوں کا کام نہیں ہے۔ اس میں پوری سوسائٹی کو اس نہج پر ڈھالنا ہوگا۔ جمہوری دور میں تو خاص طور پر حکومت کا عمل دخل بہت کم ہو جاتا ہے۔ سوسائٹی کے جو دوسرے ادارے ہیں، مختلف طبقات ہیں، ان کی ذمہ داری زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ وہ سوسائٹی کو اس رخ پر لے کر جائیں کہ صحیح اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے راہ ہموار ہو۔
مشعل سیف: آپ نے اپنے گجرات یونیورسٹی کے لیکچر میں ایک اور بڑی اہم بات کہی ہے کہ آج کے دور میں ہم اسلامی ریاست کا جو تصور رکھتے ہیں، وہ کافی مختلف ہے اس سے جو قدیم دور میں اسلامی ریاست ہوتی تھی۔ آپ نے اس کے مختلف پہلو بیان کیے ہیں کہ مثلاً حکمران کافی دیر تک حکومت کرتا رہتا تھا اور اس کو ہٹانے کا کوئی طریقہ نہیں تھا، جبکہ آج ہمارا ایک الیکشن سسٹم ہوتا ہے۔ پھر دار الحرب اور دار الاسلام میں دنیا تقسیم ہوتی تھی، جبکہ آج ایک بہت مختلف بین الاقوامی نظام ہے۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ جب یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان اصولی طور پر ایک اسلامی ریاست ہے تو پھر اس کو ہم اسلامی ریاست کے قدیم تصور کے مطابق کیسے اسلامی ریاست سمجھیں گے؟ جبکہ آپ نے خود بہت سے ایسے پہلو بیان کیے ہیں جو اسلامی ریاست کے قدیم اور جدید تصور میں باہم مختلف ہیں۔ اس نکتے کی کچھ وضاحت کر دیں۔
عمار ناصر: دو الگ الگ باتیں ہیں۔ اسلامی ریاست وہ ہے جو شریعت کے نفاذ کو اور خدا کے دیے ہوئے قانون کی پابندی کو اصولی طو رپر قبول کر لے۔ اس کے بعد دو چیزیں آتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ شریعت کے جو مختلف احکام ہیں، ان کی تعبیر وتشریح میں یقیناًفرق موجود ہے۔ ہماری جو کلاسیکی فقہ ہے، وہ بہت سی چیزوں کو اور طرح سے دیکھتی ہے۔ اب ہم آج اس وقت دنیا میں بیٹھے ہیں تو آج کے اہل علم اور فقہا ان چیزوں کو اور طرح سے دیکھتے ہیں۔ اب ایسا نہیں ہے کہ اگر ہماری interpretation پرانے فقہا سے بدل گئی ہے تو ہم شریعت کی بالادستی کے منکر ہو گئے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ یہ شریعت کی تعبیر کا اختلاف ہے نہ کہ شریعت کی بالادستی کے اصول کا۔ میں نے جتنی چیزیں بھی اپنے لیکچر میں گنوائی ہیں کہ یہاں یہاں فرق ہے، قدیم ریاست کا اسٹرکچر اور ہے، جدید ریاست کا اور ہے، ان میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اسلامی ریاست کا جو بنیادی تصور ہے، اس کے ساتھ Incompatible ہو۔ یہ وہ تبدیلیاں ہیں جن کا تعلق حالات کے ساتھ ہے۔ یہ جو فرق آیا ہے، میں اس کو اسلامی ریاست کے تصو رکے خلاف نہیں سمجھتا۔ مثلاً آج اگر ہم غیر مسلموں کو مسلمانوں کے برابر سیاسی حقوق دیتے ہیں تو یہ اسلام کے کسی غیر متبدل اصول کے خلاف نہیں، اگرچہ ہمارے کلاسیکی فقہا نے اس معاملے کو اور طرح سے دیکھا ہے۔ یا آج اگر ہم خواتین کو معاشرتی وسیاسی زندگی میں اس سے زیادہ حقوق اور مواقع دیتے ہیں جو پہلے زمانے میں ان کو حاصل تھے تو اس میں اسلام کے ساتھ کوئی ٹکراؤ نہیں ہے، اگرچہ کلاسیکی دور کے فقہا کا زاویہ نظر مختلف ہے۔ 
تو اس بات کو بالکل واضح کرنا چاہیے کہ ہم جدید دور میں اسلامی قانون کے بہت سے مسائل کو بالکل نئے زاویے سے اور اگر میں فقہی اصطلاح استعمال کروں تو یہ کہنا چاہیے کہ اجتہاد مطلق کی سطح سے دیکھ رہے ہیں۔ ریاست کا اسٹرکچر کیا ہونا چاہیے، اس کو ہم قدیم دور کے فقہا سے بے حد مختلف طریقے سے دیکھ رہے ہیں، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس لیے کہ تعبیر کے اختلافات پہلے دور میں بھی رہے ہیں جو اس دور کے علماء کے مابین تھے۔ آج ہم یہی اختلاف دور اور زمانے کے فرق کے تناظر میں کر رہے ہیں۔ تو ایک بات تو یہ ہے کہ بعض چیزوں کی تعبیر وتشریح میں اگر اختلاف ہے تو اس سے شریعت کی بالادستی کے اصول کی نفی نہیں ہوتی۔
دوسری چیز یہ ہے کہ آپ کے سامنے اچھے اسلامی معاشرے کا ایک آئیڈیل ہے۔ اس آئیڈیل تک پہنچنے کے لیے سوسائٹی کو تیار کرنا ہوگا اور اس میں وقت لگے گا، بلکہ ہم اس کی کوئی ضمانت بھی نہیں دے سکتے کہ وہ جو آئیڈیل ہے، وہ کبھی achieve بھی ہو سکے گا۔ اس معاملے میں ہمیں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو حکمت عملی نظر آتی ہے اور بعد کے ادوار میں بھی مسلمان جہاں جہاں گئے ہیں، وہاں اسی حکمت عملی کو اختیار کیا گیا ہے، ویہ ہے کہ آپ کے سامنے جو آئیڈیل ہے، جو قرآن وسنت میں ہمیں ایک معیاری مسلم معاشرے کا نقشہ دیا گیا ہے اور جس کا نمونہ ہمیں خلفائے راشدین کے دور میں ملتا ہے، اس کا ہر جگہ قابل حصول ہونا عملاً ممکن نہیں اور شاید مطلوب بھی نہیں۔ ہمیں کوشش کرنی ہے۔ جیسے فرد کی سطح پر ایک مسلمان کے سامنے نمونہ تو ہے کہ ایک بہترین مسلمان ایسا ہوتا ہے، لیکن یہ ضروری نہیں بلکہ ممکن بھی نہیں کہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی اکثریت ساری زندگی کی محنت کے باوجود اس مقام پر آ جائے۔ ہم سب گنہ گار ہیں اور جب لوگ دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو اللہ سے یہی دعا مانگتے ہیں کہ وہ ہمارے گناہوں کو بخش دے اور جیسے کیسے بھی اعمال ہیں، انھیں قبول کر لے۔ اسی پر معاشرے کو بھی قیاس کرنا چاہیے۔ ایک فرد جب ایک معیاری جگہ پر نہیں پہنچ سکتا، بڑا مشکل ہے اور ہم اللہ سے رحمت ہی کی امید رکھتے ہیں تو معاشرے تو کہیں زیادہ پیچیدہ ہوتے ہیں۔ ان میں زیادہ complexities ہوتی ہیں، اس لیے ان کے متعلق یہ تصور کرنا کہ لازماً کوئی معاشرہ اس مطلوبہ معیار پر پہنچ جائے، تبھی ہم اس کو ایک اسلامی معاشرے کا سرٹیفکیٹ دیں گے، یا ریاست جب اس معیار پر پہنچ جائے گی جس کا نمونہ خلافت راشدہ کے دور میں دکھائی دیتا ہے، تبھی ہم اسے اسلامی ریاست قرار دیں گے، یہ ایک بہت تصوراتی سی بات ہے۔ ہمیں کوشش کرنی ہے، اپنے آپ کو بھی اچھا مسلمان بنانے کی اور معاشرے کو بھی اچھا مسلمان بنانے کی۔ کوشش ہم کرتے رہیں گے۔ جتنا ہو جائے گا، ہو جائے گا۔ جو نہیں ہو سکے گا، اللہ سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ہماری کوتاہیوں کو معاف فرمائے گا۔
مشعل سیف: آپ نے کہا کہ کلاسیکی فقہا کا جس طرح کا اسلامی ریاست کا تصور ہے، آج کے زمانے میں ہم اس سے کافی ہٹ کر تصور رکھتے ہیں، کیونکہ ہم ایک بہت مختلف دور میں ہیں۔ آپ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ کلاسیکی فقہا سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور کلاسیکی فقہا کی اپنی ایک سوچ تھی، ان کا اپنا ایک زمانہ تھا۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا اور آج ہم اس سے ہٹ کر سوچ سکتے ہیں۔ لیکن بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اختلاف کرنے کو پسند نہیں کرتے اور کلاسیکی فقہا کے تصور کے مطابق ہی اسلامی ریاست کو دیکھتے ہیں۔ اب جب وہ پاکستان کا جائزہ لیتے ہیں تو اسی سانچے میں لیتے ہیں جو انھوں نے کتابوں میں پڑھا ہوتا ہے۔ آپ نے بھی اپنے لیکچر میں یہ کہا تھا جو بالکل اہم اور صحیح ہے۔ میں جب بہت سے علماء سے ملتی ہوں یا اس موضوع پر ان کے فتاویٰ دیکھتی ہوں تو حوالہ انھی چیزوں کا دیا جاتا ہے جو انھوں نے کتابوں میں پڑھی ہیں۔ ان کا ایک بالکل مختلف تصور ہوتا ہے اسلامی ریاست کا۔ 
عمار ناصر: بالکل درست ہے۔ فکر کی یہ دونوں رَویں موجودہیں۔ دیکھیں، جو مسلم معاشرے سعودی عرب یا ایران کی طرز کے ہیں، جہاں تعبیر شریعت کی حتمی اتھارٹی علماء کو دے دی گئی ہے، وہاں سردست اس طرح کے مسائل سطح پر نمایاں نہیں، لیکن ایسے مسلم معاشرے جہاں ہم نے اسلام کو اپنی بنیاد قرار دیتے ہوئے اس کے ساتھ جمہوریت کو بھی قبول کیا ہے، وہاں کشمکش بہت نمایاں ہے۔ اسلامی ریاست جو ہے، وہ دنیا میں ایک مجرد اور تصوراتی شکل میں نہیں رہی۔ اس کی اپنی ایک tradition ہے۔ مسلمانوں کے ریاستی نظام اور مسلم معاشرے کے جو مختلف ادارے ہیں، ان کی ذمہ داریوں کے حوالے سے پورا لٹریچر موجود ہے۔ اسلامی فقہ ہے جو آپ کو ایک پورا ماڈل دیتی ہے۔ جدید مسلم ریاستوں میں اس کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ریاست کے ان دو مختلف ماڈلوں کا ایک synthesis وجود میں لایا جائے۔ پاکستان اس کی بڑی اچھی مثال ہے۔ ہماری جو اوپر کی سطح کی مذہبی قیادت ہے، وہ بہت سمجھ دار بھی ہے اور معاملہ فہم اور حقیقت پسند بھی۔ اس نے اس کو قابل عمل سمجھتے ہوئے اس کی تائید بھی کی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہوا کہ نظری سطح پر synthesis تو بنا لیا گیا اور آئین کی سطح پر اس کو اختیار بھی کر لیا گیا، لیکن اس سارے اجتہادی عمل کا analysis نہیں ہوا کہ ہم نے یہ کیا کیا ہے اور کس بنیاد پر کیا ہے۔ اس پر کوئی intellectual debates نہیں ہوئیں۔ اس وجہ سے من حیث المجموع جو مذہبی طبقہ ہے، وہ کوئی بھی ہو، اس میں کسی مکتب فکر کا کوئی فرق نہیں رہ جاتا، اس کا جو بحیثیت مجموعی mindset ہے، وہ اصل میں یہی ہے کہ ہم نے یہ مجبوری کی حالت میں کیا ہے۔ اصل میں تو ہمیں کوشش یہی کرنی ہے کہ اس کو بدل کر اس پرانے ماڈل کے مطابق بنائیں۔
تو یہ کنفیوژن موجود ہے اور جب تک اس پر باقاعدہ گفتگو نہیں ہوگی، ایک intellectual debate نہیں ہوگی اور یہ بتایا نہیں جائے گا کہ صورت حال میں اتنا فرق واقع ہو چکا ہے اور ایک اجتہادی زاویہ نظر اختیار کرتے ہوئے ہم نے چیزوں کو نئے سرے سے دیکھنا ہے، اس وقت تک یہ کنفیوژن موجود رہے گا۔ یہاں علامہ اقبال نے جو بحث کی ہے، وہ ساری relevant ہو جاتی ہے۔ اقبال نے یہی بتایا ہے کہ ریاست، مذہب سے لاتعلق نہیں ہو سکتی۔ یہ اسلام کی جو nature ہے، اس کے خلاف ہے۔ لیکن ہمیں اسلام کے اجتماعی نظام کے حوالے سے پرانے دور میں جو ایک تعبیر ملتی ہے، اس پر بہت سے معاشروں کے اور تاریخی حالات وتجربات کے بڑے گہرے اثرات ہیں۔ ملوکیت نے بڑے گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ آپ کے ہاں خلافت بھی ابتدائی کچھ سالوں کو چھوڑ کر ملوکیت ہی تھی۔ اس کے بڑے اثرات ہیں۔ فقہ نے ایک خاص دور میں آ کر بالکل جمود کی شکل اختیار کر لی تھی۔ اس کے زیر اثر کچھ attitudes اور کچھ فکری مقدمات پیدا ہوئے ہیں۔ تو ہمیں تاریخی طور پر جو ایک tradition ملی ہے، اس کا ایک burden ہے جو آپ کو آسانی سے اپنے نیچے سے ہلنے نہیں دیتا۔ یہاں پر اجتہاد کی ضرورت ہے اور اجتہاد محدود اور جزوی معنوں میں نہیں، بلکہ اپنے اصل اور حقیقی معنوں میں۔ علماء اصل میں کہتے ہیں کہ اجتہاد تو ہم کر رہے ہیں۔ جو بھی مسئلہ سامنے آتا ہے جو کتابوں میں نہیں ملتا، ہم اس کا حل پیش کر دیتے ہیں۔ ٹھیک ہے، یہ بھی اجتہاد ہے، لیکن بہت جزوی سطح کا اجتہاد ہے۔ اجتہاد ایک بہت بڑے canvas پر مطلوب ہے، کیونکہ پوری دنیا کا نقشہ بدل گیا ہے۔ دنیا میں مسلمانوں کا رول کیا ہونا چاہیے، مسلمان ریاست کا نقشہ کیا ہونا چاہیے، اس میں جو مختلف طبقات ہیں جن کے interests مختلف ہیں، جن کے رجحانات مختلف ہیں، ان کوہم کیسے آپس میں harmonize کریں تاکہ یہ مل جل کر قوم کی اجتماعی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالیں اور اپنی توانائیاں باہمی کھینچا تانی میں صرف نہ کرتے رہیں۔ یہ سارے سوالات بڑی گہری اور بنیادی سطح پر اجتہادی زاویہ نظر کا تقاضا کرتے ہیں۔
دیکھیں، اس وقت کیا ہو رہا ہے؟ ہر مسلم معاشرے میں قدیم اور جدید کی ایک کشمکش ہے جو آگے نہیں بڑھنے دے رہی۔ سب کوشش کر رہے ہیں کہ معاشرے کو کھینچ کر اپنے رخ پر لے جائیں۔ فکر کا ایک سانچہ ہمیں ورثے میں ملا ہے۔ فکر کا دوسرا سانچہ وہ ہے جو ہمیں مغرب سے ملا ہے اور یہ دونوں سانچے قوم کو اپنی اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چونکہ دونوں powerful ہیں، اس لیے قوم دونوں کے درمیان پھنسی ہوئی ہے۔ نہ ادھر جا رہی ہے اور نہ ادھر جا رہی ہے۔ یہ کھینچا تانی ختم ہونی چاہیے اور وہ سیاسی انداز سے ختم نہیں ہو سکتی۔ اس کا کوئی امکان نہیں کہ کبھی وہ وقت آئے گا کہ قدیم مذہبی عنصر اتنا حاوی ہو جائے کہ وہ اپنی سیاسی طاقت کے ذریعے سے نظام ریاست کو اپنے تصور کے مطابق ڈھال لے۔ اسی طرح جو سیکولر فکر ہے، وہ بھی کبھی اتنی طاقت ور نہیں ہو سکتی کہ مذہب سے بالکل لاتعلق ہو کر ایک سیکولر ریاست بنانے میں کامیاب ہو جائے۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ لازماً اس کا حل یہ ہے کہ یہ طبقات آپس میں dialogue کریں اور چیزوں کو intellectual debate کے ساتھ حل کریں۔ اس کے سوا کوئی حل نہیں کہ درمیان کی راہ اختیار کی جائے اور ہم بحیثیت قوم اعتدال کے ساتھ، روایت سے بھی وابستہ رہیں اور جو مغرب کے پیش کردہ مفید تصورات وتجربات ہیں جو اسلام کے ساتھ ہم آہنگ ہیں، ان سے بھی استفادہ کریں اور ایک اعتدال پسندی کی راہ سامنے آئے جس کو سوسائٹی کا عمومی اعتماد حاصل ہو جائے۔ اس وقت تو دو انتہا پسندوں کے مابین سوسائٹی پھنسی ہوئی ہے۔ 
تو میرے خیال میں سارے مسئلے کی جڑ یہ ہے کہ ہم نے یہاں پاکستان میں جو اجتہاد کیا ہے اسلام اور مغرب کے جمہوری نظام کو ملا کر ایک مرکب بنانے کا، اس کے بارے میں کسی بھی سطح پر، کسی بھی طبقے میں جو مکالمہ اور ڈائیلاگ ہونا چاہیے تھا، وہ نہیں ہوا۔ لوگوں کو سمجھانا چاہیے تھا کہ بھئی، پرانا اسٹرکچر یہ تھا، اس کی bases یہ تھیں۔ اب یہ تبدیلیاں آ چکی ہیں، اب ہمارے پاس یہ بنیادیں ہیں فیصلہ کرنے کی۔ اب ہم فقہ اور شریعت کے بہت سے مسائل کو نئے سرے سے دیکھ رہے ہیں۔ اب ہم نئے سرے سے نصوص کو دیکھ رہے ہیں اور ایک نئی interpretation کر رہے ہیں۔ جب تک بالکل واضح طریقے سے آپ یہ بات لوگوں کو نہیں بتائیں گے، اس وقت تک یہ کنفیوژن دور نہیں ہوگا اور معاملات یونہی چلتے رہیں گے۔ جدید ریاستی نظام کے حوالے سے ہماری اعلیٰ سطحی مذہبی قیادت نے جن چیزوں پر صاد کیا ہے، وہ کسی بھی طرح اجتہاد مطلق سے کم نہیں ہے۔ نہایت بنیادی ایشوز پر کلاسیکی تصور ریاست سے اختلاف کیا گیا ہے جو ایک مثبت طرز فکرہے، لیکن تضاد یہاں سے پیدا ہوتا ہے کہ سب کچھ کرنے کے باوجود علماء بطور ایک طبقے کے جو اپنا فکری مقدمہ پیش کرتے ہیں، وہ کلاسیکی فقہ ہی کو Idealize کرتا ہے۔ وہ یہ کہنے کی جرات نہیں رکھتے کہ ہاں، اجتہاد مطلق ہو سکتا ہے اور ہم نے عملاً کیا ہے۔ اس سے شاید انھیں خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ پھر معاملہ ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا۔
مشعل سیف: آپ نے جو حل بتایا ہے کہ ہمیں نئے سرے سے اجتہاد کرنا چاہیے تو کیا آپ کے خیال میں اس سلسلے میں مدارس میں جو تعلیمی نظام ہے، اس میں بھی کچھ تبدیلیاں لانی چاہییں؟
عمار ناصر: وہ تو بنیادی چیزہے، اس لیے کہ آپ کا جو قدیم تصور ریاست ہے، وہ اس وقت آپ کو بتا کون رہا ہے؟ وہ تو دنیا میں کہیں پڑھایا نہیں جا رہا اور نہ کہیں موجود ہے۔ وہ یہ مدارس ہی ہیں جو قدیم فقہ کو پڑھاتے ہیں اور وہی لوگوں کو اس کے متعلق بتاتے ہیں، لیکن ساتھ یہ نہیں بتاتے کہ اب حالات بدل گئے ہیں۔ چنانچہ لوگ وہیں سے فکری طور پر ایک ماڈل اخذ کرتے ہیں اور پھر جب وہ اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں تو انھیں پورا معاشرہ ایسے لگتا ہے جیسے یہ کوئی اجنبی معاشرہ ہے۔ ان کے اور لوگوں کے مابین ایک اجنبیت کی دیوار کھڑی ہو جاتی ہے۔ رفتہ رفتہ وہ پورے سسٹم کے بارے میں نظریاتی بنیادوں پر تحفظات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد جب کچھ ا س طرح کی پالیسیاں سامنے آتی ہیں جیسے افغانستان کے معاملے میں پاکستان نے اپنائیں اور امریکی جنگ کا حصہ بن گیا تو اس سے ایک ری ایکشن پیدا ہوا۔ اس میں ہماری اپنی غلط قسم کی سیاسی پالیسیوں کا بھی پورا پورا کردار ہے۔ جب ہم لوگوں کو ہتھیار پکڑا دیں گے تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا، بلکہ نکل چکا ہے کہ پورا ایک علاقہ اس تصور کی بنیاد پر ہتھیار لے کر اٹھ کھڑا ہوا کہ یہ سرے سے ایک اسلامی ریاست ہی نہیں اور جمہوریت کا یہ سارا نظام کفر ہے اور ہمیں یہاں اس کی جگہ شریعت کو نافذ کرنا ہے۔ تو کچھ مذہبی آئیڈیالوجی، کچھ قدیم تصور ریاست اور کچھ آپ کی غلط پالیسیوں پر غصہ اور رد عمل، یہ ساری چیزیں مل کر ان کو اس جگہ پر لے آئی ہیں کہ انھوں نے ہتھیار اٹھا لیے ہیں۔
مشعل سیف: تو کیا آپ کے خیال میں کلاسیکی فقہ کو پڑھاناہی نہیں چاہیے؟ کیا کرنا چاہیے؟
عمار ناصر: نہیں، یہ مطلب ہرگز نہیں ہے۔ کلاسیکی فقہ کو پڑھائیں، لازماً پڑھائیں، لیکن وسیع تر فکری اور عملی تناظر میں پڑھائیں۔ ہمارے ہاں تو مدارس میں مسئلہ یہ ہے کہ جو کلاسیکی فقہ ہے، اس کی جس طرح سے development ہوئی ہے، وہ بھی نہیں پڑھائی جاتی۔ مثلاً برصغیر کے مدارس میں فقہ کی جو سب سے مفصل کتاب پڑھائی جاتی ہے، وہ ہدایہ ہے جو پانچویں صدی کے حنفی عالم مرغینانی نے لکھی تھی۔ پانچویں صدی تک فقہ حنفی جس حد تک develop ہو چکی تھی، وہ آپ کو اس میں نظر آئے گی۔ وہ آپ کو پڑھا دی جاتی ہے۔ اس کے بعد کیا کچھ ہوا، نہ وہ پڑھایا جاتا ہے اور وہاں تک فقہ کیسے پہنچی، پہلے پانچ سو سال کا ارتقا بھی نہیں پڑھایا جاتا۔ گویا آپ طالب علم کو فقہ کا ایک بالکل Static View دے رہے ہیں۔ اس کے لیے وہی حرف آخر ہے جو اس نے اس میں پڑھ لیا ہے۔ اس تصور کے ساتھ آپ کیا توقع رکھتے ہیں کہ وہ اتنی بڑی تبدیلی کو سمجھ سکے گا جو اب ہر سطح پر دنیا میں رونما ہو چکی ہے؟ تو مدارس کے بنیادی نظام، تعلیم کے بنیادی تصورات اور نصاب تعلیم کی اصلاح، یہ پوری اسکیم ہے اور یہ بنیادی چیز ہے۔ وہاں اگر آپ اصلاح نہیں کریں گے تو باقی جتنی چاہیں discussions کر لیں، ٹاک شوز کر لیں، اخبارات میں لکھ لیں، جب تک وہ مائنڈ سیٹ produce ہوتا رہے گا اور اس کی اصلاح کے لیے آپ جڑ سے نہیں پکڑیں گے، معاملہ حل نہیں ہوگا۔
مشعل سیف: اس پر کچھ مزید روشنی ڈالیے کہ کس طرح کی تبدیلیاں لے کر آنی چاہییں تعلیمی نصاب میں۔ کیونکہ آپ یہ نہیں کہہ رہے کہ ہمیں کلاسیکی فقہ نہیں پڑھانی چاہیے۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں اس کو ضرور پڑھانا چاہیے، مگر ساتھ یہ بھی پڑھائیں کہ تاریخ میں کس طرح اس میں تبدیلیاں آئی ہیں اور ہمیں یہ بھی بتانا چاہیے کہ آج کل دنیا میں جس طرح کا پولیٹیکل اسٹرکچر ہے، وہ بہت مختلف ہے اور اس کی بھی تعلیم دینی چاہیے۔ تو سوال یہ ہے کہ پھر کلاسیکی فقہ پڑھانے کا آخر فائدہ کیا ہوا؟ کیا یہ اس لیے ہے کہ یہ تاریخی طور پر ہمارا ورثہ ہے، اگرچہ آج کل کے حالات میں یہ ہماری زیادہ مدد نہیں کرتی؟
عمار ناصر: دیکھیں، ہم اپنی علمی Tradition کو تو نظر انداز نہیں کر سکتے، نہ دست بردار ہو سکتے ہیں۔ آپ مغرب کو دیکھیں۔ وہ اپنے ہاں جو بھی علوم پڑھاتے ہیں، ان میں افلاطون اور ارسطو سے لے کر اب تک کی جو بھی روایت ہے، وہ آپ کو پڑھائیں گے تاکہ آپ کو معلوم ہو کہ وہ کہاں کہاں سے گزر کر اور کون کون سے مراحل طے کر کے آج یہاں پہنچے ہیں۔ تو اپنی روایت سے ہم کیسے دست بردار ہو سکتے ہیں؟ ہمیں اس سے راہ نمائی لینی ہے۔ مذہب اور شریعت کو اپنا بنیادی سرچشمہ مان کر چیزوں کو دیکھنے کا جو زاویہ نظر ہے، ہمیں وہ اسی سے ملے گا۔ کلاسیکی فقہ کے جو applied نتائج ہیں، ان سے آج ہم یقیناًاختلاف کریں گے، لیکن جو ایک Thinking Process ہے، قرآن وسنت سے چیزیں اخذ کرنے کا جو منہج ہے، اس کے اچھے نمونے اور نظائر تو ہمیں وہیں سے ملیں گے۔ وہ تو آپ کو Anglo-Saxon Law نہیں دے گا۔ کلاسیکی فقہ ہمارا ایک غیر معمولی ورثہ ہے۔ ہمیں اس کو پڑھنا ہے، اس کو گہرائی میں جا کر سمجھنا ہے۔ اس سے ہمیں دست بردار نہیں ہونا، اس کو لینا ہے، اس سے سیکھنا ہے اور اس کو حاصل کرنا ہے۔ اس پراسس کو سمجھ کر پھر ہم نے آج نئے سرے سے اسے apply کرنا ہے۔ اس کو لازماً پڑھانا چاہیے۔اس کے بغیر تو ہم اپنی روایت سے بالکل کٹ جائیں گے۔
ہماری جو Tradition ہے، جو پوری روایت ہے، اس میں اصول فقہ ہے، اصول تفسیر ہے، اصول حدیث ہے، دوسرے دینی علوم ہیں، ان کو وسیع تناظر میں دینی علوم کے طلبہ کو پڑھانا چاہیے اور اس کے ساتھ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں آج کے مغربی فلسفے اور سماجی علوم کو بھی اپنے نصاب میں شامل کرنا چاہیے۔ یہ بھی ہماری روایت کا حصہ ہی ہوگا، کیونکہ ہم نے قدیم دور میں جو اس وقت کی Greek Philosophy تھی، اس کو اپنے تعلیمی نصاب میں شامل کیا تھا، بلکہ لوگ کہتے ہیں کہ اس کو ہم نے Islamize بھی کر لیا اور اس میں ہمارے مفکرین نے اپنے اضافے کیے۔ تو علم میں کوئی تعصب نہیں ہے۔ جیسے ہم نے یونانی فلسفے میں بعض غلط تصورات کی اصلاح کی، آج ہم مغرب کے علوم کے ساتھ بھی یہ کر سکتے ہیں۔ ان سے ان کا فلسفہ سمجھیں، ان کے نتائج فکر پڑھیں، ان کے تجربات لیں اور اس میں جہاں بھی محسوس کرتے ہیں کہ یہاں اسلام سے ہٹی ہوئی کوئی بات ہے، اس میں اپنا Contribution دیں کہ یہ اس حوالے سے ایک متبادل زاویہ نظر ہے۔ ہمارے ہاں بہت سے لوگ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ مغربی فلسفے کے ساتھ شاید یہ نہیں کیا جا سکتا کہ اس کے حاصلات کو مغرب کے لادینی رجحانات سے الگ کر کے ایک دوسرے نظری اور اسلامی فریم ورک میں ڈھال لیا جائے۔ میرے خیال میں اس نقطہ نظر میں زیادہ گہرائی نہیں ہے اور یہ زیادہ تر تاثراتی ہے جس میں مغرب کی لادینیت کے خلاف رد عمل زیادہ جھلکتا ہے۔ 
مشعل سیف: آپ نے مائنڈ سیٹ کی بات کی کہ مدارس میں ایک خاص طرح کا مائنڈ سیٹ بنا دیا جاتا ہے جس میں کلاسیکی فقہ کا اس طرح احترام کرنا ہوتا ہے کہ آپ اسی کو حتمی اور حرف آخر تسلیم کر لیں۔ مگر آپ کی خود بھی جو پرورش ہوئی اور آپ نے جو دینی تعلیم حاصل کی، وہ انھی مدارس سے کی ہے۔ تو آپ کے اندر یہ جو مختلف رجحان اور فکر آئی، یہ کہاں سے آئی؟
عمار ناصر: دیکھیں، مدارس کے سسٹم میں اس کا پورا اہتمام ہوتا ہے کہ آپ کا ذہن ایک خاص سوچ کے دائرے میں محدود ہو جائے، لیکن ایسا تو نہیں ہے کہ آپ کسی بند کنویں میں رہتے ہیں۔ رہتے تو آپ دنیا میں ہی ہیں اور دیکھتے سنتے ہیں کہ ارد گرد کیا ہو رہا ہے۔ ذاتی طور پر مجھے یہ خیال ہوتا ہے کہ میرے اپنے گھر کا جو ماحول ہے، وہ تھوڑا مختلف ہے۔ میرے والد کا جو انداز نظر ہے اور ان میں جو ایک وسعت فکر ہے، اس کا اس میں بڑا کردار ہے۔ انھوں نے جمعیۃ علماء اسلام میں مفتی محمود صاحب کے ساتھ سیاسی کام کیا ہے۔ اس دائرے میں کام کرنے کی وجہ سے ان کے اپنے زاویہ نظر میں بڑی وسعت آئی۔ ہر طرح کے اور ہر طبقہ خیال سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ساتھ ان کو میل جول کا موقع ملا، بلکہ ان کے اپنے نہایت گہرے ذاتی دوستوں میں ایسے لوگ شامل رہے ہیں جنھیں عام طور پر مذہب دشمن اور Leftist سمجھا جاتا ہے۔ تو والد صاحب کا اپنا زاویہ نظر بڑا وسیع ہے اور انھوں نے ہمارے یعنی بچوں کے معاملے میں بھی کبھی فکری جبر کی یا کوئی خاص نقطہ نظر ٹھونسنے کی کوشش نہیں کی۔ 
میں نے اپنے تعلیمی دور کا زیادہ تر حصہ اپنے والد کے پاس اور اپنے گھر سے متصل مدرسہ انوار العلوم میں گزارا ہے۔ عام طور پر کسی بھی مذہبی طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ اس کا اہتمام کرتے ہیں کہ اپنے بچوں کو ایک خاص نوعیت کے مسلکی رنگ میں رنگنے کی کوشش کریں، لیکن میرے ساتھ یہ نہیں ہوا۔ مجھے بچپن سے ہر طرح کی چیزیں پڑھنے کی آزادی حاصل تھی، حتیٰ کہ دس بارہ سال کی عمر میں مجھے بائبل کا مطالعہ کرنے کی بھی آزادی تھی۔ مجھے اس زمانے میں یہ معلوم کرنے میں دلچسپی پیدا ہوئی کہ یہودیت او رمسیحیت، یہ کیسے مذاہب ہیں اور بائبل میں کیا لکھا ہوا ہے۔ میں مسیحی لٹریچر منگوا کر پڑھتا تھا اور انار کلی لاہور میں مسیحی اشاعت خانہ جا کر وہاں سے کتابیں لے کر آتا تھا۔ اس میں مجھ پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی۔ اسی طرح ہمارے ہاں ہر طرح کی مذہبی اور سیاسی سوچ رکھنے والے لوگ اور مختلف مکاتب فکر کے رسائل وجرائد آتے تھے۔ اس طرح مجھے بچپن سے ہی اس کا موقع ملا کہ میں مختلف قسم کی چیزیں پڑھوں۔ میرے خیال میں اس ماحول کا کافی اثر ہوا۔
مشعل سیف: بہت سے علماء کا یہ کہنا ہے کہ نائن الیون کے بعد پاکستان اسلامی ریاست نہیں رہا، کیونکہ اس واقعے کے بعد جو فیصلہ کیا گیا، اس سے واضح ہو گیا ہے کہ ہماری حکومتی پالیسیاں پوری طرح امریکہ کے کنٹرول میں ہیں۔ آپ اس پر کچھ تبصرہ کریں گے؟
عمار ناصر: نائن الیون کا واقعہ خاصا اہم تھا، سیاسی لحاظ سے بھی اور تہذیبی اعتبار سے بھی۔ اس نے دو تہذیبوں کے باہمی تعلق کو ایک خاص شکل دے دی ہے۔ اس واقعے کے تناظر میں پاکستان نے جو فیصلہ کیا، ا س کو القاعدہ کے لوگ تو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ پاکستان نے ریاست کی سطح پر مسلمانوں کے خلاف امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا جو ایک اسلامی ریاست نہیں کر سکتی۔ میرے خیال میں یہ استدلال کافی سادہ ہے اور ہمیں صورت میں جو بہت سی پیچیدگیاں ہیں، ان کو بھی سامنے رکھنا پڑے گا۔ مثلاً ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ کسی ریاست کی جو نظریاتی حیثیت ہے، وہ ہم اس کے آئین اور اس کے دستور سے اخذ کریں گے یا ہماری حکومت یا فوج نے ایک مخصوص صورت حال میں جو پالیسی اختیار کی، اس سے طے کریں گے؟ یہ ایک بنیادی سوال ہے۔ میں تو پہلی بات کو ہی صحیح سمجھتا ہوں۔ ہم نے آئین کی صورت میں جو ایک قومی میثاق کیا ہے، جس پر پوری قوم نے اتفاق کیا ہے، وہ اصل معیار ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک مسلمان کلمہ پڑھ لیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں۔ اس کے بعد وہ کام ایسے کرتا ہے جو اسلام کے خلاف ہیں تو اس کو ہم کافر نہیں کہتے۔ یہی اصول میرے نزدیک ریاست پر بھی لاگو ہوگا۔ اگر ہمارا آئین یہ کہتا ہے اور ہماری قوم کا اجتماعی ضمیر بھی یہی کہتا ہے کہ جو فیصلہ کیا گیا، وہ غلط تھا تو اس کا ذمہ دار پالیسی ساز اداروں کو تصور کرنا چاہیے، نہ کہ ریاست کی نظریاتی حیثیت کی نفی کر دینی چاہیے۔ 
پھر ایک اور پہلو بھی بڑا اہم ہے۔ یہ جو مقدمہ پیش کیا جاتا ہے کہ فوج نے مسلمانوں کے خلاف امریکہ کا ساتھ دے کر ارتداد کا ارتکاب کیا ہے، یہ بالکل یک طرفہ اور یک رخی بات ہے۔ یہ دیکھنا چاہیے کہ فوج نے کن حالات میں یہ فیصلہ کیا اور اس میں بنیادی ذمہ داری میرے نزدیک پاکستانی فوج پر نہیں ، بلکہ خود القاعدہ پر عائد ہوتی ہے، اس لیے کہ وہ سچویشن جس میں یہ فیصلہ کیا گیا، وہ القاعدہ نے پیدا کی تھی۔ القاعدہ نے افغانستان میں بھی اسلامی شریعت کے اصولوں کو violate کیا۔ اسلامی شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی کہ آپ مسلمانوں کے کسی ملک میں مہمان کے طو رپر رہ رہے ہوں اور وہاں کی حکومت اور لوگوں کے ہاتھ میں ہو، لیکن فیصلے آپ کرنے لگیں کہ ہم نے یہاں بیٹھ کر فلاں ملک پر حملہ کرنا ہے۔ ملا عمر اگر یہ فیصلہ کرتے کہ ہم نے امریکہ کے ساتھ جنگ چھیڑنی ہے تو چلیں، نتیجہ کیسا بھی ہوتا، کم سے کم وہ اس لحاظ سے تو justified ہوتا کہ ایک ملک کی ایک با اختیار اتھارٹی نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ لیکن یہ کیا بات ہوئی کہ امیر تو وہاں کے ملا عمر ہیں اور جنگ کرنے کا فیصلہ بن لادن کر رہے ہیں؟ اسلام کی نظر میں یہ بالکل جائز نہیں ہے۔ پھر یہ لوگ وہاں سے بھاگ کر پاکستان میں آ جاتے ہیں، جبکہ پاکستان یہ طے کر چکا تھا کہ ہم اس جنگ میں طالبان کے ساتھ نہیں ہیں۔ اسی سے قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں اور فوجی آپریشن جیسے مخمصوں نے جنم لیا۔ تو یہ دراصل القاعدہ کی غلط سوچ اور غلط حکمت عملی ہے جس کا خمیازہ افغانستان کو اور پاکستان کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اس جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ غلط ہونے کے باوجود اس کی بنیادی ذمہ داری پاکستانی فوج پر نہیں، بلکہ القاعدہ پر عائد ہوتی ہے۔
مشعل سیف: آپ نے پاکستان کے بارے میں کہا کہ یہ اصولی طور پر اسلامی ریاست ہے۔ اس کے علاوہ عملی طور پر بھی کچھ اقدامات کیے گئے ہیں۔ مثلاً اسلامی نظریاتی کونسل ہے اور وفاقی شرعی عدالت ہے۔ اس حوالے سے کچھ بتائیں کہ ان اداروں سے کس حد تک مدد مل سکتی ہے پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے میں؟
عمار ناصر: آپ کو معلوم ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کو آئین میں کوئی اتھارٹی حاصل نہیں ہے۔ وہ ایک مشاورتی ادارہ ہے۔ وہ ریاست نے اپنی سہولت کے لیے بنایا ہے کہ اگر اس نے اسلامی قانون سازی کرنی ہے تو ظاہر بات ہے کہ اس کے لیے کافی کام کرنا پڑے گا۔ ہر عالم سے آپ رائے تو لے سکتے ہیں، لیکن آپ کو قانون کو ایک Codified شکل دینی ہے تو اس کے لیے ایک خاص طرح کی سمجھ بوجھ اور Expertise چاہیے۔ ایسے لوگ چاہییں جو قانون کو، اس کی زبان کو، اس کے مسائل کو سمجھتے ہوں۔ نظریاتی کونسل اس مقصد کے لیے بنائی گئی ہے کہ قانون کی drafting میں وہ مدد کرے۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے انھوں نے ایک Criterion بھی بنایا ہے کہ ایسے لوگ اس میں شامل ہوں گے جن کا عمومی قانون کا یا اسلامی قانون کا پس منظر ہو۔ اس کا ایک بہت محدود، limited دائرہ ہے۔ اس کے باوجود جو کام اس ادارے نے اب تک کیا ہے، وہ میرے خیال میں مفید ہی ہے۔ اس نے مروجہ قوانین کا جائزہ لے کر اسلامی قانون کی روشنی میں اس میں تبدیلیاں تجویز کر دی ہیں اور بیشتر قوانین کے متبادل مسودات بھی تیار کر دیے ہیں۔ اس کے بعد ان کی تنفیذ حکومت کا کام ہے۔
مشعل سیف: بہت سے لوگ اسلامی نظریاتی کونسل پر یہ تنقید کرتے ہیں کہ اس میں حکومت اپنی پسند کے علماء کو مقرر کرتی ہے تاکہ وہ ان کی ترجیحات کے مطابق رائے دیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں؟
عمار ناصر: اصل جو مسئلہ ہے، اس کو اس کی اصل جگہ سے پکڑنا چاہیے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس طرح کے جو ادارے بنائے جاتے ہیں، ان کی Composition کے بارے میں وقتاً فوقتاً سوالات اٹھتے رہتے ہیں کہ آیا اس میں Genuine اہل علم کو مقرر کیا گیا ہے یا یہ جانب دارانہ تقرریاں ہیں۔ وہ مسئلہ کیا ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان معاشروں میں بہت سے جدید تغیرات آ چکے ہیں، ریاست کی سطح پر بھی اورمعاشرت کی سطح پر بھی اور یوں سمجھیں کہ ہم اس وقت دنیا میں مغرب کے بنائے ہوئے سیاسی نظام اور معاشرتی اقدار کے تحت رہ رہے ہیں۔ اب ہمارا جو قدیم اسٹرکچر ہے فکر کا، وہ اس سے بہت زیادہ ٹکراتا ہے۔ اس تضاد کو ہم دانش کی سطح (Intellectual Level) پر حل کرنے کی کوشش نہیں کر رہے۔ جب نہیں کر رہے تو ظاہر ہے کہ تضادات تو موجود ہیں۔ ایک پورا طبقہ ہے جو یہ چاہتا ہے کہ جیسے قدیم دور میں تھا، آج بھی علماء ہی دین وشریعت کی تعبیر میں حرف آخر سمجھے جائیں۔ اگرچہ اسلام میں تھیا کریسی نہیں ہے، لیکن بہرحال یہ تو ہے کہ دین کی تشریح کسی اہلیت رکھنے والے صاحب علم کو ہی کرنی چاہیے۔ اس لحاظ سے جو اپنے وقت کے علماء ہوتے تھے، انھی کو عام طور پر مرجع مانا جاتا تھا۔ اب یہ Ideally بڑی اچھی بات ہے کہ دین کی تعبیر وتشریح اسی کو کرنی چاہیے جس کے پاس دین کا گہرا علم ہو، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس اس وقت جو طبقہ ہے دین کو سمجھنے والا یا دین کی تعبیر کرنے والا، اس کو حرف آخر ماننے کے لیے جدید ذہن تیار نہیں جو خود دور جدید کے تغیرات کا تو ادراک رکھتا ہے، لیکن اس کے پاس دین کا علم نہیں ہے۔ وہ اس پر مطمئن نہیں ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ آج کے دور کے جو مسائل ہیں اور جو تبدیلیاں آئی ہیں، علماء کے فہم دین میں ان کو صحیح جگہ نہیں دی جا رہی۔ گویا علماء بحیثیت طبقے کے دور جدید کے تغیرات کا ادراک نہیں کر رہے،جبکہ یہ دوسرا جو طبقہ ہے جس کا ریاست کے معاملات پر زیادہ کنٹرول ہے، وہ علماء کو یہ مقام دینے کے لیے تیار نہیں کہ ان کی بات حرف آخر ہو، اس لیے کہ وہ ان کے فہم پر مطمئن نہیں ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ علماء بالکل قدیم دور میں کھڑے ہیں، اجتہاد کا زاویہ نظر ان کے ہاں نہیں ہے اور یہ جو تعبیرات پیش کر رہے ہیں، وہ ہمارے آج کے حالات کے لحاظ سے قابل عمل نہیں ہیں۔ 
یہ جو ایک بد اعتمادی ہے مسلمانوں کے ان دو بڑے طبقات کے مابین، یہ اصل میں دانش ورانہ مکالمہ کے ذریعے سے دور ہونی چاہیے۔ علماء کو چاہیے کہ اپنے زاویہ نظر میں اتنی وسعت پیدا کریں، اتنا اجتہادی زاویہ نگاہ پیدا کریں کہ آج کے حالات کے تناظر میں مسائل کا ایسا حل پیش کریں کہ وہ آج کی دانش کو appeal کرے اور آج کا ذہن اس پر مطمئن ہو۔ اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے تو تعبیر دین میں ان کی بات کا وزن خود بخود تسلیم کر لیا جائے گا۔ یہ اختیار کسی فرد یا طبقے کو استحقاقی دعوے کی بنیاد پر نہیں ملا کرتا۔ جو چیزیں فکر سے متعلق ہوتی ہیں، دانش سے متعلق ہوتی ہیں، ان میں اصل میں آپ کا جو استدلال ہوتا ہے اور آپ کے نقطہ نظر کی جو علمی وعقلی مضبوطی ہوتی ہے ، وہی آپ کو ایک اتھارٹی کی جگہ دے دیتی ہے۔ قدیم دور میں بھی دیکھیں، ایسا تو نہیں ہوتا تھاکہ علماء کو یہ کہہ کر اس منصب پر appoint کیا جائے کہ آپ اتھارٹی ہیں۔ نہیں، بلکہ علماء اپنے طور پر دین پر غور کرتے تھے، اس میں محنت کرتے تھے، اس کا فہم پیدا کرتے تھے۔ اس سے ان کو لوگوں کی نظر میں اتھارٹی مل جاتی تھی کہ حکمران بھی ان کی رائے کے خلاف کوئی اقدام نہیں کر سکتے تھے۔ آج بھی یہ ہے کہ جن مسائل میں علماء کی رائے میں وزن محسوس کیا جاتا ہے اور سوسائٹی ان پر اعتماد کرتی ہے، حکومت سارا زور لگانے کے باوجود اس کے برخلاف کچھ نہیں کر سکتی۔ 
میری نظر میں جب تک ہم اس مخمصے سے نہیں نکلتے، یہی ہوتا رہے گا کہ اسلامی نظریاتی کونسل جیسے ادارے بنیں گے اور اس میں پرویز مشرف صاحب اقتدار میں آئیں گے تو وہ جدید ذہن کے نمائندوں کو لے آئیں گے اور ضیاء الحق صاحب آئیں گے تو وہ قدیم فکر کے نمائندوں کو اس میں مقرر کر دیں گے۔ اس طرح کے ادارے جو اس مقصد کے لیے بنائے گئے ہیں کہ وہاں قوم اپنے اجتماعی قانونی فہم کو بروئے کار لائے، جب وہ بھی بد اعتمادی کا شکار ہو جائیں تو اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ پیچھے اصل مسائل کیا ہیں۔ اصل مسئلہ قدیم اور جدید فکر کا تضاد اور ان کی کشمکش ہے۔ ان کے مابین کوئی مکالمہ نہیں ہے۔ قدیم فکر کے لوگ اپنے زاویہ نظر کو وسیع کرنے کے لیے تیار نہیں اور جدید ذہن کے بھی بعض مسائل ہیں۔ یہ ہماری جو روایت ہے، بعض دفعہ اس سے بالکل ہٹ کر ایسی باتیں کرتا ہے جو ہمارے فکری سانچے سے بالکل میل نہیں کھاتی۔ یہ دو الگ الگ دھارے ہیں جو الگ الگ سمتوں میں معاشرے کو لے جانا چاہتے ہیں۔ ایک Conflict ہے جس کا کوئی Intellectual حل نہیں نکالا جا رہا۔ اس کی وجہ سے بہت سے مصنوعی اقدامات کر کے ہم کام چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
میرے خیال میں یہاں بھی مسئلہ وہی ہے اور اس کے حل کا راستہ بھی وہی ہے۔ ہمارے جو ایشوز ہیں، ہم اپنی تاریخ کو، اپنی فقہ کو، آج کے جو تغیرات ہیں، ان کو ایک سنجیدہ علمی مکالمے کا موضوع بنائیں اور ابہامات کو واضح کرنے کی کوشش کریں۔ تب یکسوئی پیدا ہوگی، ورنہ ایسے ہی سلسلہ چلتا رہے گا۔
مشعل سیف: اسلامی نظریاتی کونسل نے آپ کی ایک کتاب چھاپی ہے۔ آپ کا اس ادارے سے کوئی رابطہ رہتا ہے؟
عمار ناصر: میرا ادارے کی سطح پر تو کوئی رابطہ نہیں ہے۔ میں صرف ایک موقع پر ایک علمی نشست میں شرکت کے لیے وہاں گیا تھا۔ کتاب کی اشاعت کا پس منظر یہ تھاکہ ۲۰۰۷ء میں اسلامی نظریاتی کونسل نے حدود وتعزیرات سے متعلق چند سفارشات پیش کی تھیں جن میں اہم پہلوؤں سے متعلق کلاسیکی فقہی موقف سے مختلف نقطہ نظر پیش کیا گیا تھا۔ یہ سفارشات سامنے آنے سے اس ضرورت کا احساس ہوا کہ ان پر ایک تبصرہ لکھ کر واضح کیا جائے کہ ان آرا کی علمی بنیاد کیا ہے تاکہ ان مسائل پر غور وفکر کے لیے اور علمی مباحثہ کے لیے کچھ پیش رفت ہو سکے۔ میں نے اپنا تبصرہ اس پہلو سے لکھا تھا اور سفارشات پر ناقدانہ نظر ڈالتے ہوئے اپنے فہم کے مطابق بعض چیزوں کی تائید کی اور بعض سے اختلاف کیا تھا۔ اصلاً یہ کونسل کے کہنے پر یا اس کے اہتمام میں نہیں لکھا گیا تھا، لیکن جب میں نے لکھ دیا تو کونسل نے اس کو مفید سمجھتے ہوئے شائع کر دیا۔
مشعل سیف: وفاقی شرعی عدالت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
عمار ناصر: میں چونکہ شرعی عدالت کے فیصلوں کو باقاعدہ follow نہیں کرتا، اس لیے میں اس کے متعلق کچھ کہہ نہیں سکتا کہ دور جدید میں اسلامی قانون کی تعبیر میں یا ایک اجتہادی زاویہ نظر سے مسائل کو دیکھنے میں اس کا اب تک کیا کردار رہا ہے۔ البتہ یہ ادارہ ایک لحاظ سے اہم ہے اور اگر اس کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا جائے تو وہ بڑا useful ثابت ہو سکتا ہے۔ وہ یہ کہ اسلامی قانون کے اصولوں کی re-application کا جو معاملہ ہے اور اس کو دور جدید کے حالات ومسائل کے تناظر میں اور بدلتی ہوئی معاشرتی ضروریات کے لحاظ سے reinterpret کرنے کی جو ضرورت ہے، وہ اس عدالت کے فیصلوں کے ذریعے سے پوری کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ یقیناًاس نوعیت کا کام ہوا ہوگا، لیکن میں فیصلوں پر نظر نہ ہونے کے سبب کچھ کہہ نہیں سکتا۔ اصل میں تو جو ہمارے دینی اداروں کے دار الافتاء اور مفتی صاحبان ہیں، ان کو بھی یہی کرنا چاہیے، لیکن وہاں جمود کی گرفت بہت مضبوط ہے۔ وہاں بنیادی فقہی اصولوں کی روشنی میں نئے اجتہاد کا تو کیا سوال، قدیم فقہی ذخیرے سے استفادے کے لیے بھی کڑی تکنیکی شرائط کی پابندی کو زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے بہ نسبت معروضی صورت حال کی رعایت کے۔ اس لیے وہاں سے تو اطلاق وانطباق کی سطح پر فقہ اسلامی کی تجدید کی کوئی توقع نہیں۔ البتہ شرعی عدالت کے ادارے کو میں اس پہلو سے ایک مفید ادارہ سمجھتا ہوں کہ اس کے ذریعے سے یہ مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ 
میرے خیال میں شرعی عدالت کے فیصلوں سے استفادہ کا دائرہ اب تک بہت محدود رہا ہے، کیونکہ یہ صرف قانونی جریدے میں چھپتے ہیں۔ اس کا زیادہ فائدہ ہو سکتا ہے اگر اس ادارے میں پچھلے پچیس تیس سال میں جو اجتہادی عمل ہوا ہے، اس کا تجزیہ کیا جائے اور دیکھا جائے کہ ان میں کن ایشوز کو موضوع بنایا گیا ہے اور کس نوعیت کا اجتہادی زاویہ نظر اختیار کیا گیا ہے۔ ایسے فیصلوں کو عمومی علمی حلقوں کے سامنے لانا چاہیے۔ خاص طور پر جو روایتی علماء کا طبقہ ہے، ان تک انھیں پہنچایا جائے تاکہ انھیں اندازہ ہو کہ حقیقی فقہی فہم اصل میں نظری طور پر کتابی بحثیں پڑھنے سے حاصل نہیں ہوتا۔ عملی صورت حال میں کئی پیچیدگیاں involve ہوتی ہیں۔ عدالت کو ایک طرف شرعی نصوص کو دیکھنا ہوتا ہے اور دوسری طرف عملی مسائل کو بھی دیکھنا ہوتا ہے۔ اسے مقدمے کے فریقین اور ان کے پس منظر پر بھی نظر رکھنی ہوتی ہے۔ اس طریقے سے میرا خیال ہے کہ مذہبی لوگوں میں جو کسی مسئلے کو صرف فقہ کی پرانی کتابوں سے دیکھ کر اس کا حل ڈھونڈنے کا رجحان ہے، اس میں کچھ بہتری آ سکے گی اور انھیں اندازہ ہوگا کہ معاملے کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ کتاب میں لکھی ہوئی تشریح بھی ہوتی ہے اور وہ situation بھی ہوتی ہے جس میں بندہ کھڑا ہے۔ ان دونوں پہلوؤں کو آپ نے کیسے ملحوظ رکھ کر حل نکالنا ہے، اس کی تربیت ہوگی، اگر شرعی عدالت کے فیصلوں پر کچھ اس طرح کا کام کر لیا جائے۔ 
(جاری)

امت کا فکری بحران ۔ تاریخی بیانیے کا ایک تنقیدی مطالعہ

پروفیسر میاں انعام الرحمن

امتِ مسلمہ پچھلی کئی صدیوں سے زوال کا شکار ہے۔ زوال و انحطاط کی مدہوشی میں اس کے ہوش و حواس پر ایک ہی منظر چھایا ہوا ہے۔ اس منظر کا نام ’شان دار ماضی‘ ہے۔ شان دار ماضی میں اسلاف ہیں اور اسلاف کے عظیم کارنامے ہیں۔ یہ منظر اپنی مجموعی کلی حیثیت میں پورے کا پورا چھایا ہوا نہیں ہے۔ شان دار ماضی کے حصے بخرے ہو گئے ہیں۔ سیاست، معیشت، فلسفہ، قانون، تصوف، سائنس، عمرانیات، اخلاقیات، الہیات اور زندگی کے دیگر پہلوؤں میں حاصل کی گئیں کامیابیاں اور کامرانیاں الگ الگ خانوں میں بٹ چکی ہیں۔ اگر ان خانوں کو جدا جدا کرنے کا مقصد، انکشافِ حقیقت کی غرض سے یہ واضح کرنا ہو کہ ان کے مجموعے سے ایک کُل کی صورت گری ہوئی ہے جس کا نام ’’شان دار ماضی‘‘ ہے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ جیسے لمبائی، چوڑائی اور گہرائی بتانے سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ مکان (space) کو ٹھیک ٹھیک سمجھا جا سکے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ الگ الگ خانے یکساں طور پر توازن کے ساتھ شان دار ماضی کی تشکیل نہیں کر سکے ہیں۔ اس لیے شان دار ماضی کی مختلف جہات بغیر کسی معقول مناسبت کے، امت کے اجتماعی ضمیر کا حصہ بن چکی ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ آج کی صورتِ حال میں جب بھی شان دار ماضی، اسلاف اور اسلاف کے کارناموں کی بات ہوتی ہے تو کسی یک رخی مظہر کو مرکب کی صورت میں لے لیا جاتا ہے۔ یعنی زندگی کے گوناں گوں پہلوؤں اور اسلاف کے متنوع کارناموں میں سے چند ایک کو شان دار ماضی سے منسوب کیا جاتا ہے۔ یہ طور طریقہ تاریخ و تحقیق سے اغماض تو ہے ہی، بد دیانتی کے زمرے میں بھی آتا ہے۔
آج ہمارے عہد کے مصلحین، امت کا خون گرمانے کے لیے شان دار ماضی کا تذکرہ چھیڑتے ہیں تو معاشیات، عمرانیات، عسکریات،نفسیات، طبیعات، مابعدالطبیعات، فلکیات، ریاضیات،حیاتیات اور لسانیات،ادبیات، ارضیات،وغیرہ کا ذکر ہی نہیں کرتے، اگر کرتے ہیں تو اتنا سرسری کرتے ہیں کہ ایک جیتے جاگتے سماج میں ان علوم کی قدر و قیمت نہ صرف واضح نہیں ہوتی بلکہ یہ علوم سرے سے غیر ضروری معلوم ہوتے ہیں۔ اس لیے فی زمانہ، شان دار ماضی کی تشکیل میں ان ’غیر ضروری علوم‘ کا کسی قسم کا کوئی کردار نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ امت کے خطبا اور مقررین، فصاحت و بلاغت کے دریا بہاتے ہوئے گھوڑوں کی ٹاپوں کا ذکر کرتے رہتے ہیں جنھوں نے ساتوں برِ اعظموں کو روند ڈالا تھا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایسی شعلہ بیانی، عسکریات (war studies) کا نعم البدل نہیں ہو سکتی۔
(۲)
امت کے حالیہ بحران کی جڑیں تلاش کی جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اصل مسئلہ شان دار ماضی کی حکایت (narrative of past glory) کا علمی دیانت پر مبنی نہ ہونا ہے۔ شان دار ماضی کے بیانیے (narrative) میں بادشاہوں کے کارنامے شامل ہیں اور اصولیین و فقہا کی وکیلانہ طراریاں۔ ہمارے شان دار ماضی کا بس یہی کچا چٹھا ہے۔ بادشاہوں کے کارنامے (adventures) انتہائی سطحی اور جذباتی طور پر تاریخی داستانوں کا حصہ بنے ہیں، البتہ اصولیین کی فقہی موشگافیاں علم و استدلال کی رَو میں تاریخی بیانیے میں شامل ہوئی ہیں۔ 
لہٰذا عملی طور پر امتِ مسلمہ کے شان دار ماضی کے فقط دو حقیقی مظاہر ہیں اور شان دار ماضی کے نام پر یہی مظاہر امت کے ہوش و حواس پر بری طرح چھائے ہوئے ہیں۔ اس لیے شان دار ماضی سے جذباتی وابستگی ( مثال کے طور پر) یہ تو بتا دیتی ہے کہ اندلس پر مسلمانوں نے کئی سو سال حکومت کی، مسجدِ قرطبہ اور الحمرا جیسی پر شکوہ عمارتیں تعمیر کیں وغیرہ وغیرہ، لیکن یہ نہیں بتاتی کہ ان عظیم الشان عمارتوں کے لیے ترجیحی بنیادوں پر خطیر رقم کیسے اور کیوں فراہم کی گئی، فنِ تعمیر کے ماہرین کی تربیت گاہیں کہاں کہاں اور کس معیار کی تھیں، پھر یہ کہ اندلس کا معاشی نظام کیسا تھا، کاری گروں اور مزدوروں کی معاشی حالت کیسی تھی، تاجروں کے طور طریقے کیسے تھے، معاشی امور میں حکومتی مداخلت کس نوعیت کی تھی، دوسری اقوام و ملل سے لین دین و تجارتی معاہدات میں کون کون سے پہلوؤں کو اور کیوں کلیدی اہمیت دی گئی تھی، معاشرت اگر طبقاتی تھی تو اس طبقاتی اونچ نیچ کو مہمیز عطا کرنے والے عناصر کون کون سے تھے، عسکری شعبے میں کیسے کیونکر ایجادات ہوئیں، وغیرہ وغیرہ۔ آج ان موضوعات پر شاید ہی کوئی سنجیدہ علمی کتاب مل سکے۔ لیکن اندلسی حکم رانوں کی ظاہری فتوحات ان کی بہادری کی داستانیں بغیر کسی تجزیے کے، طومار کی صورت میں ملیں گی۔ اسی طرح حیاتیات، طبیعات، فلکیات، موسمیات، اور بشریات، ادبیات لسانیات وغیرہ کے متعلق ضمنی بیانات ’فرض کفایہ‘ ادا کرتے دکھائی دیں گے، لیکن اندلسی اصولیین و فقہا کے جواہر پارے تفصیلی استناد کے ساتھ رسائی میں ہوں گے۔ .......... سوال پیدا ہوتا ہے کہ شان دار ماضی کا ایسا بیانیہ کیا ماضی کو واقعی شان دار رہنے دیتا ہے؟ کیا ایسے یک رخے بیانیے سے (without contexture) امت کے ’حال‘ کی مثبت تعمیر کی جا سکتی ہے؟ 
(۳)
واقعہ یہ ہے کہ راہ سے بھٹکانے والی، شان دار ماضی کی اس ادھوری اور نا مکمل تصویر کے پیچھے اصولِ تاریخ سے انحراف کے علاوہ تلبیسِ تقدیس کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ اصولِ تاریخ سے انحراف کی گواہی، قرآنی تصورِ تاریخ کے ساتھ شان دار ماضی کی حکایت کے تقابلی جائزے میں مل جاتی ہے۔ جس کے مطابق: 
۱۔ قرآن کے تصورِ تاریخ کی بنیادی اکائیوں میں سے ایک، حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں کے تذکرے میں کسی بادشاہ یا سردار کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ یہ بنیادی طور پر دو بھائیوں کا قصہ ہے۔ 
۲۔ پھر جہاں کہیں قرآنی بیانیے میں بادشاہوں کے قصے چھڑے ہیں وہاں اقوام کے مجموعی احوال کے علاوہ مختلف رشتوں ناتوں اور انسان کی نفسیاتی پے چیدگیوں کا بھی بھر پور تذکرہ کیا گیا ہے۔
۳۔ اقوام کے مجموعی طرزِ عمل کے احوال میں (مثال کے طور پر) قومِ نوحؑ ، قومِ لوطؑ ، قومِ شعیبؑ اور قومِ عاد و ثمود، وغیرہ کے متعلق قرآنی آیات دیکھ لیجیے۔
۴۔ غور کیجیے کہ قرآن مجید نے کئی مقامات پر بادشاہوں اور عسکری کمانڈروں کے بجائے ترجیحی طور پر ’بنی اسرائیل‘ کو خطاب کیا ہے۔ 
۵۔ انسانوں کے باہمی رشتوں ناتوں کی مختلف پے چیدگیوں سے واقفیت کے لیے نوحؑ کے بیٹے اور ابراہیم علیہ السلام کے باپ کا تذکرہ پڑھیے۔ زوجہ نوح علیہ السلام اور عزیز مصر کی بیوی کا قصہ دیکھئے۔ برادرانِ یوسفؑ پرایک کڑی نظر کیجیے اور موسی ؑ و ہارون ؑ کے بھائی چارے کو بھی دیکھئے۔ 
۶۔ زندگی کے متنوع مظاہر کے ضمن میں طوفانِ نوحؑ ، کشتی نوحؑ اور واقعہ سبت ، اصحابِ کہف اور ان کے کتے (وغیرہ) کو دیکھ لیجیے۔ 
۷۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قصے میں جہاں ان کے کافر باپ آزر کا ذکر ہے وہاں ان کے دوعظیم بیٹوں اسماعیل علیہ السلام اور اسحاق علیہ السلام کا بیانیہ بھی رونق افروز ہے۔ حیات بعدالممات کا حق الیقین، خانہ کعبہ کی تعمیر اور ذبح عظیم جیسے واقعات اس قصے کو مزید تاب ناک کرتے ہیں۔ پھر تلاشِ حق کی جستجو اور نمرود سے دل چسپ مکالمے نے اس تاریخی بیانیے کو بہت پر اثر، معنی خیز اور ثمر آور بنا دیا ہے۔
ان سات نقاط میں، قرآنی قصص میں سے چند ایک کا انتہائی مختصراً اجمالی تعارف کروایا گیا ہے۔ لیکن ان تعارفی نقاط میں بھی قرآنی بیانیے کے اسالیب، قرآنی تصورِ تاریخ کی صراحت بہت عمدگی سے کر دیتے ہیں، کہ صرف بادشاہوں کے قصے کہانیاں ہی تاریخ نہیں ہیں۔ اب اسے المیہ قرار نہ دیا جائے تو کیا کہا جائے کہ بادشاہوں کی فتوحات کے وزن سے بوجھل، ہمارے شان دار ماضی کا یک رخا بیانیہ، قرآنی اصولِ تاریخ کی مطابقت میں نہیں ہے۔ شاید اسی لیے مستشرقین اور دیگر غیر مسلم سکالرز سمیت بعض مسلم سکالرز کو بھی یہ اعتراض کرنے کی پوری پوری گنجائش مل گئی ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے۔ 
واقعہ یہ ہے کہ گھوڑوں کی ٹاپوں اور تلواروں کی جھنکاروں سے مزین شان دار ماضی کا بیانیہ(narrative of past glory)، اب امتِ مسلمہ کی عمومی نفسیات کا حصہ بن چکا ہے۔ اس لیے پچھلی کئی صدیوں سے، اس بیانیے سے تربیت پائی نفسیات کے زیرِ اثر تاریخ دہرانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس سلسلے میں جاری جہادی کاروائیاں اس لیے بے سود رہی ہیں کیونکہ سماجیات، معاشیات، عسکریات اور اخلاقیات وغیرہ کو نظر انداز کر کے ماضی کی فتوحات کے فقط ظواہر کو لینے کا جانب دار جذباتی رویہ، ان عسکری مہم جوئیوں کے پس منظر میں کارفرما ہے۔ 
(۴)
مشرق و مغرب کی سرزمین پر اسلام کا جھنڈا لہرانے والی شاہی عسکری مہمات کے جلو میں، قرآنی اصولِ تاریخ سے انحراف پر مبنی شان دار ماضی کے بیانیے کی تکمیل اصولیین کی نا قابلِ شکست فقہی موشگافیوں کے روپ میں ہوئی ہے۔ یوں شان دار ماضی کے اس نام نہاد مکمل بیانیے سے، امتِ مسلمہ کے اجتماعی ذہن میں اسلام اور مردِ مومن کی جو تصویر نقش ہوئی ہے اس کے مطابق اسلام کی سربلندی کا خواہاں مردِ مومن ہمیشہ گھوڑے کی پیٹھ پر سوار رہتا ہے، جب گھوڑے کی پیٹھ چھوڑتا ہے تو فقہ کی باریکیاں سمجھ سمجھا کر اپنا وقت قیمتی بناتا رہتا ہے۔ 
شان دار ماضی کے اس نام نہاد مکمل بیانیے سے امت کی دلی جذباتی وابستگی اس آئینے میں نظر آتی ہے جس میں ایک طرف کئی صدیوں سے مار کھاتے مجاہدین کی تصویر منقش ہے اور دوسری طرف فروعی مسائل کے بھنور میں پھنسے علمائے دین کی۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ پچھلے تقریباً ایک ہزار سال میں اسلام کا سفر گھوڑے کی پیٹھ سے فروعی مسائل کی مسند تک کا سفر رہا ہے۔ اس سفر کا ’’حال‘‘ اب اتنا ترقی یافتہ ہو چکا ہے کہ گھوڑے پر سواری کا فیصلہ بھی، خیر سے فروعی برتری ثابت کرنے کے لیے فروعی تناظر میں کیا جاتا ہے۔ 
(۵)
شان دار ماضی کے بیانیے کی فقہی جہت کو قرآنی اصولوں پر پرکھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید نے فضول کی کرید اور بے سود باریک بینی سے مکمل احتراز برتا ہے۔ قرآن مجید، اپنے تاریخی بیانیے (قصص القرآن وغیرہ) کے خاکے میں لفظ برائے لفظ کے مباحث سے بے رنگی اور بے نوری نہیں بھرتا، بلکہ حرف و لفظ کی توں تکار سے مکمل بچتے ہوئے انسانی زندگی کے زندہ اور سنجیدہ احوال کے بہت قریب رہتا ہے۔ حتیٰ کہ سابقہ آسمانی صحائف اور کتب سماوی کے تذکرے میں بھی قرآنی بیان، قانونی قسم کا روکھا پھیکا اسلوب اختیار نہیں کرتا۔ اس لیے اس امر میں شک کی گنجائش نہیں رہتی کہ اپنی حقیقت میں قرآن پاک کا تاریخی بیانیہ، زندگی کے رنگارنگ جواہر پاروں سے مزین ہے۔ لہٰذا قرآنی بیانیے کے مطابق زندگی کے جواہر پارے، صرف مذہب و قانون کی اقلیم تک محدود نہیں ہیں۔ لیکن امتِ مسلمہ کے اجتماعی ضمیر نے اس قرآنی بیانیے سے انحراف کی روش اپناتے ہوئے اپنے شان دار ماضی کے بیانیے میں صرف مذہب و قانون کو ہی کُل زندگی قرار دیا ہے۔ اس لیے فقہی ذخیرے کو اگر دیانت داری سے کھنگالا جائے تو اس میں سے صرف اور صرف مذہب (نماز، روزہ، حج وغیرہ کے مسائل) اور قانون (انسانی معاملات وغیرہ کو نظم میں لانے کے اصول) برآمد ہوتے ہیں۔ 
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ماضی کی مسلم تہذیب میں (نام نہاد تاریخی بیانیے کے مطابق) صرف مذہب اور قانون ہی چھائے ہوئے تھے، تو یہ تہذیب زندگی کی کلیت اور تنوع کو دھتکارتے ہوئے بامِ عروج پر کیسے پہنچ گئی؟ بلکہ اس سے بھی بڑا سوال تو یہ ہے کہ مذہب و قانون کے اصول(یعنی فقہی استنباطات) فی نفسہٖ بلا شرکت غیرے (exclusively) کیسے ظہور میں آ گئے؟ حالاں کہ ایسا ہونا محال ہے۔
(۶)
مذہب و قانون کے اصول بجائے خود وجود میں نہیں آ سکتے، یہ سمجھنے کے لیے یہ مقدمہ سمجھنا ضروری ہے کہ انسانی زندگی، تکوینی طور پر خود رَو تسلسل سے عبارت ہے۔ زندگی کی یہ خاصیت اسے سفر میں رکھتی ہے۔ سفر کی تکان اتارنے کے لیے یہ کہیں کہیں پڑاؤ بھی ڈال لیتی ہے۔ لیکن صرف سستاتی ہے، سوتی نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ زندگی اگر کبھی مسافرت میں نہ بھی رہے تو پھر بھی کم از کم بیدار ضرور رہتی ہے۔ زندگی جاگتی رہتی ہے۔ 
انسانی زندگی جتنی مسافت طے کرتی ہے اس کا اظہار اپنی اقدار، اپنے اداروں اور اپنے علوم و فنون (تکوینی اعتبارات و حقائق) میں کرتی ہے۔ ہر آنے والا پڑاؤ، پچھلی مسافت کی ان نافع باقیات کو سنبھال لیتا ہے جو سفر کی دھول میں گم ہونے سے بچ جاتی ہیں۔لیکن ان بچ رہنے والی باقیات میں سے کچھ نہ کچھ کسی اگلی مسافت میں غیر نافع ثابت ہوتی ہیں اور یوں مسافت در مسافت کے عمل میں یہ باقیات آخر کار معدوم ہوتی جاتی ہیں۔غیر نافع باقیات کا مٹتے چلے جانا پتا دیتا رہتا ہے کہ زندگی جاگ رہی ہے۔
امتِ مسلمہ بھی ایک انسانی گروہ ہے۔ اپنی انسانی (اور تکوینی) حیثیت میں اس نے بھی، زندگی کی مسافرت کے دوران میں (باقیات کی مدد سے) مفید اور نافع علوم و فنون کا اضافہ کیا ہے۔ ان علوم و فنون میں سے اکثر و بیشتر ہزار سالہ مسافت کی نذر ہو گئے ہیں۔ اگرچہ ان کی نافع باقیات اگلی مسافت کو منتقل ہو گئی ہیں۔ جی ہاں! امرِ واقعہ یہ ہے کہ اُمتِ مرحومہ کے علوم و فنون کا جوہر (essence) عرصہ ہوا مغرب کو منتقل ہو چکا ہے۔
(۷)
اس مقدمے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے انسان کی تکوینی زندگی اور اس کے حاصلات کو خدائی نظم میں لانے کے لیے وقتاً فوقتاً انسانوں ہی میں سے کسی ایک کو انسانوں کے لیے ہی شریعت عطا کی ہے۔ نبی خاتم محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر عطائے شریعت کا یہ سلسلہ ختم ہو گیا ہے۔ بر سبیلِ تذکرہ! انسان کی تکوینی زندگی اور اس کے حاصلات کے تناظر میں حضرت آدم علیہ السلام کے حوالے سے یہ بحث کہ وہ نبی تو تھے ہی لیکن صاحبِ شریعت رسول تھے کہ نہیں، قابلِ فہم ہو جاتی ہے۔ بادی النظر میں معلوم یہی ہوتا ہے کہ ہبوطِ آدمؑ کے وقت انسانی زندگی تکوینی طور پر ابھی اتنی مسافت طے نہیں کر پائی تھی کہ اسے خدائی نظم میں لانے کے لیے شریعت کی ضرورت محسوس ہوتی۔ شاید اسی لیے آدم علیہ السلام کے بیٹوں کے قصے میں شرعی قانون کا اطلاق کہیں نظر نہیں آتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ شریعت کے نفاذ و اطلاق کے لیے انسان کی تکوینی زندگی کا ترقی یافتہ ہونا ضروری ہے۔ سطورِ بالا میں ذکر ہو چکا کہ انسان تکوینی طور پر اپنی ترقی کا اظہار مختلف اقدار، اداروں اور علوم و فنون میں کرتا ہے۔ انسانی ترقی کے یہ اظہاریے، انسانی زندگی سے نامیاتی طور پر جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ یعنی، اصل میں یہ انسانی زندگی کے تہ در تہ حقائق کے عکاس ہوتے ہیں۔ یہ حقائق فی نفسہٖ، ایک مطالبہ لیے ہوتے ہیں کہ انسانی زندگی کو افراط و تفریط سے بچانے کا اہتمام کیا جائے اور انھیں ایک (خدائی) نظم میں لایا جائے۔ یعنی اس مرحلے پر انسان کی تکوینی زندگی، کسی صاحبِ شریعت رسول کا تقاضا کرتی ہے۔
اس سرسری بحث سے یہ واضح ہو گیا کہ انسان کی تکوینی زندگی کی ترقی یافتہ شکل کو ہی تشریعی بنایا جاتا ہے اور انسان کی بنائی ہوئی اقدار، اس کے منظم کردہ ادارے اور اس کے وضع کردہ علوم و فنون، (یعنی تکوینی زندگی کے اعتبارات و حقائق) تشریعی ڈھانچے کا جواز بنتے ہیں۔ ان قدروں، اداروں اور علوم و فنون کی عدم موجودگی میں شریعت کے نفاذ کی کوشش خلا میں محلات تعمیر کرنے کے مترادف ہے، جو محال ہے(شاید اسی لیے ہر پیغمبر، صاحبِ شریعت نہیں تھا)۔ یہاں غور کرنے کا مقام ہے کہ جب شریعت اپنے اظہار اور نفاذ کے لیے، انسان کی تکوینی زندگی کے اعتبارات و حقائق کا مطالبہ کرتی ہے تو پھر شریعت سے ماخوذ فقہ ان اعتبارات و حقائق سے بے نیاز رہ کر کیسے اظہار پا سکتی ہے؟ اس لیے اس امر میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ فقہی استنباطات (یعنی، مذہب و قانون کے اصول) فی نفسہٖ بلا شرکت غیرے (exclusively) ظہور میں نہیں آ سکتے۔
(۸)
یہ حقیقت بھی نظر سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے کہ فقہ اپنی مبتدا و منتہٰی میں دیگر علوم و فنون کے مانند خالصاً بشری علم و فن ہے۔ اسے شریعت (قرآن و سنت) جیسی تقدیس سے نہیں نوازا گیا۔ ہوتا یوں ہے کہ زندگی کا تکوینی پہلو جب خود رَو تسلسل سے مختلف اقدار اور علوم و فنون وغیرہ میں منکشف ہوتا ہے تو اسے نظم میں لانے اور اس کے پیدا کردہ مسائل سے نمٹنے کے لیے شریعت سے مدد لی جاتی ہے۔ چونکہ شریعت بجنسہٖ اور بعینہٖ اپنی الوہی حیثیت میں نافذ نہیں ہو سکتی، اس لیے اس کے نفاذ کی خاطر انسان کو تردد کرنا پڑتا ہے۔ تردد کا یہ عمل، فقہانبھاتے ہیں۔ ایک اعتبار سے اصولیین اور فقہا، انسانی زندگی کی تکوینی جہت اور شریعتِ الہیہ کے درمیان پُل اور واسطے کا کام دیتے ہیں، ....... اور یوں فقہ کو ظہور میں لاتے ہیں۔
یہاں سمجھنے والی بات یہ ہے کہ اگرچہ شرعی احکام غیر متغیر اور غیر متبدل رہتے ہیں لیکن انسانی زندگی کا تکوینی پہلو خود رَو تسلسل سے کبھی بھی دست بردار نہیں ہوتا۔ انسانی زندگی کی یہ حرکی خاصیت، نئی اقدار، نئے اداروں اور نئے علوم و فنون کی تخلیق کرتی رہتی ہے، ...... کہ زندگی جاگتی رہتی ہے۔ اس تخلیقی سفر کے دوران میں جب بھی زندگی ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف بڑھتی ہے تو اس بڑھنے اور پھر مقام پر پہنچنے کے عمل پر فقہا کو بہت گہری اور عمیق نظر رکھنی ہوتی ہے۔ یعنی، ابھرتی ہوئی نئی اقدار نئے اداروں اور نئے علوم و فنون کی ماہیت اور پس منظر کے علاوہ ان کے ممکنہ مثبت و منفی اثرات کو انھیں بصیرت کی آنکھ سے دیکھنا ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے فقہ کی یہ جہت ایک پتے کی بات بتاتی ہے کہ اگر فقہ کو انسانی زندگی کے زندہ احوال کا حصہ بننا ہے تو اسے لازمی طور پر زندگی کے مذکورہ حرکی و تخلیقی پہلوؤں کے شانہ بشانہ آگے بڑھنا ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ فقہ بطور علم و فن، دیگر علوم و فنون کے مانند سفر میں رہتا ہے (بلکہ ان علوم کا ہم سفر رہتا ہے)، یہی وجہ ہے کہ کسی دَور کے فقہی مظاہر میں اس دَور کی قدروں، اداروں اور علوم و فنون کا پَرتَو جھلکتا رہتا ہے۔
اس بارے میں دو آرا نہیں ہو سکتیں کہ شریعت خلا میں نہیں بلکہ انسانوں پر نافذ ہوتی ہے، پھر یہ کہ شریعت خود کار انداز میں اپنے طور پر خود بخود نافذ نہیں ہو جاتی، اسے نافذ کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے انسانی زندگی کا یہ (ایک اعتبار سے جامد) تشریعی پہلو، تکوینی پہلو (کے خود رَو حرکی تسلسل) سے خاصا مختلف ہے۔تشریعی پہلو کی جمودی کیفیت، زندگی کے تکوینی پہلو کی تخلیقیت سے تعلقِ خاطر قائم کیے بغیر انسانی احوال کا حصہ بننے سے قاصرہوتی ہے۔اصولیین اور فقہا یہی تعلق پیدا کرتے ہیں اور فقہ کو ظہور میں لاتے ہیں، جس کے نتیجے میں (غیر متغیر اور جامد) شرعی احکام کے لیے نافذ ہونا ممکن ہو جاتا ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ ہوا کہ اصولاً، شریعت تو بعینہٖ نافذ ہی نہیں ہوتی اور نہ ہی ہو سکتی ہے، البتہ اس کے نام پر فقہ کی تنفیذ ضرور ہو جاتی ہے۔ 
(۹)
ہمارے شان دار ماضی کے بیانیے کی تکمیل، فقہی موشگافیوں کے روپ میں کیوں ہوئی ہے؟ اس کا جواب اس لطیف نکتے میں مل جاتا ہے کہ چونکہ شریعت تو نافذ ہی نہیں ہوتی، شریعت کے نام پر فقہ کی تنفیذ ہوتی ہے،اس لیے فقہ کی اس نیابتی حیثیت سے ناوافقیت کی بنا پر اسے ہی اصل(شریعت) سمجھ لیا گیا ہے اور فوراً سے پہلے تقدس کا جامہ پہنا کر شان دار ماضی کا کبیر بیانیہ (grand narrative of past glory) قرار دیا گیا ہے۔ 
یہ درست ہے کہ فقہ کی اساسی تشکیل میں شرعی احکامات کا بہت بنیادی کردار ہے کہ اپنے جامد اور محکم اعتبار کے ساتھ شریعت ایک ناقابلِ شکست پیمانہ ہے۔ اور یہ پیمانہ زندگی کے غیر محکم اور متغیر پہلو کی ہر دو (سلبی اور ایجابی) اعتبار سے حد بندی اور توسیع کرتے ہوئے فقہ کا قطب نما بھی قرار پاتا ہے۔ لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ شریعتِ محکم، اساس فراہم کرنے اور راہ دکھانے کے باوجود بعینہٖ نافذ نہیں ہو پاتی، بلکہ فقہ کو نیابتی ذمہ داری سونپ کر سبک دوش ہو جاتی ہے۔
شان دار ماضی کے بیانیے میں فقہ کو تقدس کا لبادہ اوڑھانے کے بجائے، چاہیے تو یہ کہ اس سوال پر غور کیا جائے کہ شارع نے شریعت کے بجنسہٖ اور بعینہٖ نفاذ کی کوئی صورت کیوں نہیں نکالی؟ کیا اسی لیے نہیں کہ زندگی کے اعتبارات اور حقائق، کہیں تقدس کی بھینٹ نہ چڑھ جائیں، جس کے نتیجے میں شریعت آخر کار خود بے اعتبار نہ ٹھہر جائے؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسانی زندگی کے تکوینی اعتبارات اور حقائق، لازمی طور پر اتنے اہم اور ناگزیر ہیں کہ ان کے اثبات کو ممکن بنانے کی غرض سے انھیں شریعت کی تقدیس سے آزاد رکھا گیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب شریعت کی تقدیس ان اعتبارات و حقائق کے آڑے نہیں آئی تو پھر بے چاری فقہ انھیں کیسے لگام دے سکتی ہے؟ لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ شان دار ماضی کے بیانیے میں فقہ نے غیر فطری اور مصنوعی طور پر، انسان کی تکوینی زندگی کے اعتبارات و حقائق کو مفلوج کرنے کی مذموم کوشش کی ہے۔
(۱۰)
اب تک کی بحث سے یہ بنیادی نکتہ سامنے آتا ہے کہ انسان کی تکوینی زندگی کے اعتبارات و حقائق کی غیر موجودگی میں شریعت غیر موثر ہو جاتی ہے۔ اس لیے شریعت نے (اصولی طور پر) کبھی بھی انسانی زندگی کے تکوینی اعتبارات و حقائق کی نفی نہیں کی، اور فقہ نے بھی شریعت کی نیابتی ذمہ داری نبھاتے ہوئے ان اعتبارات و حقائق کو مکمل جگہ (space) دی ہے، کیونکہ ان کے اثبات کے بغیر فقہ کی تشکیل ممکن ہی نہیں تھی۔ لیکن ہمارے شان دار ماضی کے کبیر بیانیے نے فقہ کی جو تصویر امتِ مسلمہ کے ذہن میں نقش کر دی ہے اس کے مطابق فقہ کا ظہور زندگی کے تکوینی اعتبارات و حقائق سے بے نیازی (بلکہ ان کی نفی) کی حالت میں ہوا ہے۔ اس لیے اس بیانیے میں سماجیات، معاشیات، ریاضیات، عسکریات، فلکیات، بشریات وغیرہ کا کوئی ذکر نہیں، البتہ الہیات، روحانیات اور اخلاقیات کو معمولی درجے میں قابلِ اعتنا ضرور سمجھا گیا ہے۔ 
المیہ یہ ہے کہ اسی یک رخے بیانیے کی بنیاد پر امتِ مسلمہ کے حال کی تعمیر ہوئی ہے۔ دینی اداروں میں دینی اعتبار صرف فقہ کو حاصل ہے۔ اس فقہ میں نماز روزہ حج وغیرہ کے مسائل و دلائل ہیں اور ماضی کی تکوینی زندگی کے اعتبارات و حقائق سے وابستہ قوانین ہیں۔ حالاں کہ اب انسان کی جدید زندگی نے خالصاً مذہبی مسائل کی بابت بھی سنجیدہ سوالات کھڑے کر دیے ہیں، چہ جائے کہ تکوینی زندگی کے عصری اعتبارات و حقائق کی نیرنگی اور بو قلمونی ہو۔ 
(۱۱)
اس وقت امتِ مسلمہ کے فکری بحران کا نمایاں پہلو یہ ہے کہ شان دار ماضی کے تکمیلی بیانیے یعنی فقہ کو بہ تکلف عصری زندگی کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں انسانی زندگی کا حرکی و تخلیقی پہلو مسلسل نظر انداز ہو رہا ہے۔ دین سے گہری وابستگی رکھنے والے لوگ، اصولیین اور فقہا کے ناموں اور کارناموں سے بخوبی واقف ہیں، لیکن جن موجدین اور تخلیق کاروں نے تکوینی زندگی کے اعتبارات و حقائق کو منکشف کیا، اور پھر ان انکشافات و ایجادات کی بدولت فقہ کو جواز بخشا، جس سے فقہ کی تشکیل ممکن ہو سکی، آج ان کے ناموں اور کارناموں سے کوئی واقف نہیں، کیونکہ وہ لوگ شان دار ماضی کے کبیر بیانیے میں کوئی مقام نہیں پا سکے۔ یہ بہت بڑی اور انتہائی سنگین فرو گزاشت ہے۔ 
اس وقت ہم عصر ماحول میں، انسان کی تکوینی زندگی جن اعتبارات و حقائق کو منکشف کر رہی ہے، شان دار ماضی کا بیانیہ ان کی مطابقت میں نہیں ہے اور اسے اصولاً ہونا بھی نہیں چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ فقہ کو انسان کی تکوینی زندگی کے اعتبارات و حقائق کے اکتشافات کے پہلو بہ پہلو آگے بڑھنا چاہیے تھا، کہ فقہ کا محکم اور منجمد پہلو، جو تکوینی زندگی کا پیمانہ بھی بنتا ہے، یعنی قرآن و سنت، وہ تو استقلال کے ساتھ قائم و دائم کھڑا ہے، ...... پھر فقہ زندگی کے متغیر (تکوینی) پہلو سے منحرف ہو کر جمودِ محض کی علامت بن کر رسوا ہی ہو سکتی ہے۔ اس لیے امتِ مسلمہ کا فکری بحران اس تضاد سے مزید گھمبیر ہوا ہے کہ فقہ (ذہنی اور نفسیاتی طور پر) اس کے شان دار ماضی کا تکمیلی بیانیہ ہے اور یہ بیانیہ عصری صورتِ حال میں (عملی طور پر) بری طرح پِٹ چکا ہے۔ 
حقیقت یہ ہے کہ امتِ مسلمہ کو فکری بحران کے گرداب سے نکالنے کے لیے فقہ کی بنیادی ساخت کو سمجھنا ہو گا۔ فقہ اپنی ساخت میں، محکم (تشریعی) اور متغیر (تکوینی) پہلوؤں کی حامل ہے۔ محکم پہلو، قرآن و سنت سے عبارت ہے اور متغیر پہلو زندگی کے تکوینی اعتبارات و حقائق سے مزین ہے۔ فقہ کا کام ان دونوں پہلوؤں کو مکمل طور پر سمجھنا ہے اور پھر متغیر پہلو کو محکم کے پیمانے پر پرکھتے ہوئے اس کی تحدید یا توسیع کو حتی الامکان ممکن بنانا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم عصر ماحول میں فقہ نے ایک پست درجے میں قرآن و سنت کو تو کچھ نہ کچھ سمجھنے کی کوشش ضرور کی ہے لیکن تکوینی زندگی کے عصری اعتبارات و حقائق اس کی دست گاہ میں نہیں رہے۔ اس لیے ایک لحاظ سے اس کی قرآن و سنت کو سمجھنے کی کوشش بھی لاحاصل ہو جاتی ہے کیونکہ اس پیمانے پر جس کو پرکھا جانا ہے وہ ہی سرے سے موجود نہیں۔ 
(۱۲)
اس طرح امتِ مسلمہ کے فکری بحران کی یہ واقعاتی شہادت سامنے آتی ہے کہ فقہ کے نام پر ایک بے جان غیر نافع اور کھوکھلے علم و فن کو سیکھا سکھایا جا رہا ہے۔ عملی طور پر غیر معتبر اور غیر نافع ہونے کے باوجود، یہ علم و فن ایک رجھانے والی نفسیاتی تسکین دے رہا ہے کیونکہ اس کے پیچھے شان دار ماضی کا کبیر بیانیہ موجود ہے جس میں فقہ، امت کی عظیم کامیابی اور معراج قرار پائی ہے۔
یہاں ایک سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ فقہ کی ساخت کے دو عناصر (تشریعی و تکوینی) میں سے تشریعی (قرآن و سنت) تو ہمارے عصری ماحول میں منتقل ہو چکا ہے، اور خود ان دو عناصر کا مجموعہ و امتزاج(فقہ) بھی، لیکن تکوینی عنصر تا حال بے دخل ہے، آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ وہ نقطہ ہے جہاں پر امتِ مسلمہ کے فکری بحران کی واقعاتی جڑ موجود ہے۔ 
واقعہ یہ ہے کہ عصری ماحول میں اگرچہ کسی نہ کسی درجے میں شریعت اور فقہ کو الگ الگ دیکھا جاتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی فقہ کو جامع العلوم سمجھنے کی غلطی بھی کی جاتی ہے۔ یہ غلطی اس وجہ سے ہوتی ہے کیونکہ فقہ کا دائرہ کُل انسانی زندگی کو محیط ہے اور تقریباً ہر شعبہ علم و فن سے اسے معاملہ کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے فقہ کی اس مخصوص نوعیت اور پھر شریعت کی نیابتی حیثیت نے، اسے نہ صرف مقدس بنایا ہے بلکہ کبیر بیانیے کے مقام سے بھی سرفراز کیا ہے۔ حالاں کہ اپنی حقیقت میں، جامع العلوم ہونا تو دور کی بات ہے، فقہ شاید مکمل علم بھی نہیں ہے۔ اس کے علم نہ ہونے کی وجہ یہ ہے اس کی اپنی آزاد، خود مختار اور خود کفیل حیثیت نہیں ہے۔ یہ اصلاً فن ہے اور ایسا فن ہے جس کے ذریعے علوم کے دو بڑے متوازی دھاروں (تشریعی اور تکوینی) کو قریب لایا جاتا ہے، اور ان کے باہمی میل ملاپ سے انفرادی اور اجتماعی نظم کا ایک ڈھانچہ تشکیل دیا جاتا ہے۔ عصری ماحول میں فقہ کو مخزن العلوم سمجھنے کے دو خطرناک اور سنگین نتائج برآمد ہوئے ہیں:
۱۔ انسان کی تکوینی زندگی کے عصری اعتبارات و حقائق(نئی قدریں، نئے ادارے، نئے علوم و فنون وغیرہ) انتہائی بے توجہی کا شکار ہو گئے ہیں۔ خاص طور پر دینی جامعات اس حوالے سے انتہائی غفلت کی مرتکب ہو رہی ہیں۔
۲۔ اس بے توجہی اور غفلت کے باوجود تکوینی زندگی کا خود رَو تسلسل، عصری اعتبارات و حقائق کو منکشف کر رہاہے، لیکن فقہ کی جامع العلوم حیثیت ان علوم کو اجنبی اور غیر ضروری قرار دیتے ہوئے، انھیں ایک الگ تھلگ دائرے میں محدود کر رہی ہے۔ 
اہم بات یہ ہے کہ یہ دو نتائج ایک بڑا مشترکہ نتیجہ یہ دیتے ہیں کہ واقعاتی سطح پر انسان کی عصری زندگی کے تکوینی اعتبارات و حقائق، تشریعی پیمانے کی رسائی میں نہیں رہے، اس لیے زندہ متحرک اور عصریات سے جڑی ہوئی فقہ ظہور میں نہیں آ رہی۔ تکوینی اعتبارات و حقائق اور شریعتِ الہیہ، جو فقہ کے دو بڑے داخلی عناصر ہیں، اب مختلف بلکہ متضاد سمتوں میں رواں دواں ہیں، ان کے دائرہ ہائے کار مکمل طور پر الگ الگ ہو گئے ہیں۔ اس لیے شریعت عملی طور پر معطل ہو کر رہ گئی ہے، کیونکہ انسان کی تکوینی زندگی سے بے نیازی کی حالت میں، یہ کسی بھی صورت میں اظہار نہیں پا سکتی۔ اب شریعتِ معطلہ کے سر پر ایک ایسی جعلی اور مصنوعی فقہ سوار ہے جو اپنے تےءں جامع و مانع ہے۔ 
(۱۳)
مذکورہ مباحث کے ضمن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر شان دار ماضی کے بیانیے میں فقہ ایک بہت برتر مقام پا چکی ہے اور اس کے دو داخلی عناصر میں سے ایک عنصر یعنی تشریعیت کا بھی عصری ماحول میں انتقال ہو چکا ہے، تو پھر دوسرا عنصر یعنی انسان کی زندگی کا تکوینی حوالہ، یکسر غائب کیوں ہے؟ اس کا بادی النظر میں جواب یہ ملتا ہے کہ ایک خاص عرصے تک مسلم تہذیب انسان کی تکوینی زندگی کے اعتبارات و حقائق منکشف کرتی رہی ہے، ان انکشافات کی بدولت اصولیین اور فقہا کے لیے یہ ممکن ہو سکا کہ انھیں تشریعی پیمانے پر مانپ کر، قواعد و ضوابط کے روپ میں فقہ کو ظہور میں لے آئیں۔ فقہ کے ظہور کے بعد، یہ بہت ضروری تھا کہ تکوینی اعتبارات و حقائق کے تغیرات کے پہلو بہ پہلوفقہی قواعد وغیرہ کو بھی حرکت میں رکھا جائے اور ان میں مطلوب تبدیلیاں مسلسل کی جاتی رہیں۔ لیکن ہوا یوں کہ فقہی قواعد و ضوابط اپنے زیریں مقام اور زیریں حیثیت سے بہت اوپر اٹھ آئے اور انھوں نے بجائے اپنے اندر تبدیلیاں کرنے کے، تکوینی زندگی کے اعتبارات و حقائق کو پابند کرنا شروع کر دیا۔ اس سے نئی قدروں، نئے اداروں اور نئے علوم و فنون کی ترویج رک گئی، زندگی رک گئی، ...... بلکہ روک دی گئی۔ 
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ فقہ اپنے زیریں مقام سے اتنا اوپر کیسے اُٹھ آئی؟ یہ ایک ذریعے کے درجے سے ترقی پاکر بجائے خود مقصد کیسے بن گئی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ فقہ چونکہ صرف معاملات یا دیگر دنیاوی قسم کے موضوعات ہی کو نہیں چھیڑتی، بلکہ عبادات مثلاً نماز روزہ حج وغیرہ سے بھی بھر پور تعرض کرتی ہے، اس لیے اس میں تقدیس شامل ہوتی گئی۔ اس پر طرہ یہ کہ اس کے ایک لازمی داخلی عنصر شریعت (قرآن و سنت) نے اس کی تقدیس پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی اور آخرکار...... فقہ ہی شریعت قرار پائی۔اس طرح اس سارے منظر کے عفریت نے تکوینی زندگی کے اعتبارات و حقائق کو بری طرح پچھاڑ کر رکھ دیا اور یہ آہستہ آہستہ معدوم ہوتے چلے گئے اور ایک اکلوتی فقہ مخزن العلوم کا تاج سر پر رکھے مسلم تہذیب کی گردن پر سوار ہو گئی اور اسے زوال کی پستیوں میں دھکیلتی چلی گئی۔ 
یہ بڑی دلچسپ حقیقت ہے کہ امت مسلمہ نے زوال آمادہ ہونے کے بعد، زوال کے اسباب پر غور کرنے کے بجائے دین کی محافظت کے نام پر فقہ کی حفاظت شروع کر دی، کیونکہ فقہ کی دینی حیثیت مسلّم ہو چکی تھی۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ درحقیقت فقہ کی اسی مسلّم حیثیت نے اُمہ کے تنقیدی شعور کے بال و پر کاٹ کر زوال کے اسباب پر غور کرنے کی ہر راہ مسدود کر دی جس کے نتیجے میں دین کے نام پر فقہ کی محافظت کی ( معذرت خواہانہ) نفسیات مزید پروان چڑھی اور بالآخر فقہ شان دار ماضی کا کبیر بیانیہ قرار پائی۔ 
(۱۴)
اس بحث سے اس تاریخی غلط فہمی کا ازالہ بھی ہو جاتا ہے کہ مسلم تہذیب میں نئے علوم و فنون کی کبھی بھی کسی بھی درجے میں مخالفت نہیں کی گئی۔ یہ درست ہے کہ اس مخالفت کی نوعیت، یورپ میں مسیحیت کی طرف سے نئے علوم و فنون کی، کی گئی مخالفت سے بہت مختلف ہے، لیکن بہرحال یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اُمہ کی، تکوینی اعتبارات و حقائق کے انکشافات پر مبنی علمی روایت، فقہ کے بوجھ تلے دم توڑ گئی اور فقہ علوم و فنون کے سنگھاسن پر براجمان ہو گئی۔ اس تاریخی حقیقت کی واقعاتی شہادت کے لیے دینی جامعات کے عصری نصاب کا ناقدانہ جائزہ لینا کافی ہے۔ 
واقعہ یہ ہے کہ نئے علوم و فنون کی مسیحی مخالفت، براہ راست مذہب کی جانب سے کی گئی۔ کلیسا کے کارپردازوں نے تکوینی زندگی کے اعتبارات و حقائق کو بائبل سے متصادم قرار دے دیا، لیکن تکوینی انکشافات نے اپنی واقعیت کے بل بوتے پر پادریوں کو ان کی خرافات سمیت لپیٹ کر رکھ دیا جس کے نتیجے میں مسیحیت سماجی فعالیت سے دست بردار ہو کر کلیسا کی چار دیواری میں مقید ہو کر رہ گئی۔ لیکن مسلم تہذیب میں تکوینی حقائق کی حوصلہ شکنی ایک تو براہ راست مذہب نے نہیں کی۔ دوسرا محرف بائبل کے بر خلاف قرآن مجید تکوینی انکشافات کے کبھی بھی آڑے نہیں آیا۔ تیسرا یہ کہ فقہ نے اپنی مسلّم دینی حیثیت سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ان انکشافات کو رد کرنے کبھی جرات نہیں کی، البتہ اتنا ضرور ہوا کہ فقہ میں تقدس در آنے سے، پہلے مرحلے میں دیگر علوم و فنون کی اہمیت ثانوی ہو گئی اور دوسرے مرحلے میں یہ علوم و فنون غیر ضروری قرار پائے۔
تکوینی زندگی کے اعتبارات و حقائق کو دبانے کی مسیحی اور مسلم تاریخ، اگرچہ مختلف نوعیت کی ہے لیکن ان دونوں نے تقریباً یکساں اور مماثل نتائج دیے ہیں۔ اگر مسیحیت چرچ تک محدود ہو گئی ہے تو اسلام بھی خیر سے مساجد و مدارس تک محدود ہے۔ اگر چرچ میں لوگ کم ہی جاتے ہیں تو مساجد کون سا کھچا کھچ بھری ہوئی ہوتی ہیں؟ اگر پادری اور وکیل اپنے اپنے کام میں مست ہیں تو مولوی اور وکیل بھی تو خیر سے اپنی اپنی اقلیم سنبھالے ہوئے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ دنیا بھر کی دینی جامعات سے فارغ التحصیل ’’وکلا‘‘ آخرکار مولوی ہی قرار پاتے ہیں اور تقریباً انھی معنوں میں جن معنوں میں پادری، وکلا سے مختلف سمجھے جاتے ہیں۔ 
البتہ مسیحیت اور اسلام میں یہ بنیادی فرق پایا جاتا ہے کہ مسیحیت نے خجالت سے تکوینی اعتبارات و حقائق کے آگے سر جھکا دیا ہے اور الگ راہ لی ہے، جس کی وجہ سے وہاں تکوینی انکشافات کی واقعیت نے خوب لوہا منوایا ہے۔ مسیحیت کے برعکس اسلام کو تکوینی اعتبارات کے ہاتھوں کوئی شرمندگی نہیں اٹھانی پڑی۔ اگر ایسا ہے اور واقعی ایسا ہی ہے تو پھر ہمارے یہاں تکوینی انکشافات کی بھر پور لہریں ٹھاٹھیں مارتی نظر آنی چاہییں تھیں جو کہ نظر نہیں آتیں۔ 
واقعہ یہ ہے کہ مسیحی، نظری اور عملی طور پر یک سُو ہیں۔ اگرانھوں نے عملی طور پر کلیسااور ریاست کو الگ الگ کر رکھا ہے تو نظری طور پر بھی وہ اس افتراق کے قائل ہیں۔ انتہائی افسوس اور معذرت کے ساتھ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ مسیحیوں کے برعکس، امتِ مسلمہ نظری اور عملی طور پر یک سُو نہیں ہے۔ اُمہ اس وقت انتہائی گھٹیا قسم کی منافقت کا شکار ہے۔ اُمہ، نظری طور پر تو دین و دنیا کی وحدت کی علم بردار ہے، لیکن اس کے ہاں عملی طور پر دین و دنیا الگ الگ ہو چکے ہیں۔ دین، قرآن و سنت کے نام پر فقہ کو قرار دیا گیا ہے اور دنیا، جو ایک لحاظ سے تکوینی زندگی کے انکشافات سے معمور ہے، دینی اقلیم سے عملی طور پر خارج ہو چکی ہے۔ یہ انتہائی منافقانہ طرزِ عمل ہے۔ اس طرزِ عمل نے امت کا بحران سنگین تر کر دیا ہے۔
(۱۵)
امت کے فکری بحران کی عصری صورتِ حال پر، کھسیانی بلی کھمبا نوچے، کا محاوہ صادق آتا ہے۔ اُمت اُمت کی رَٹ لگانے والے تکوینی اعتبارات کو اپنے نصاب وغیرہ میں تو جگہ نہیں دے پائے(کہ فقہ نے ان کے دماغ مفلوج کر دیے ہیں)، لیکن چونکہ تکوینی انکشافات کی واقعیت اپنا آپ منواتی ہے اس لیے یہ لوگ ذرا تردد سے، ہر نئے انکشاف کے سامنے یہ کہہ کر ہتھیار ڈال دیتے ہیں کہ صدیوں پہلے قرآن نے فلاں آیت میں اس کے متعلق آگاہ کر دیا تھا۔ ان کے ایسا کہنے سے ان کی اپنی نفسیاتی تشفی ہو جاتی ہے اور دوسروں کے زیرِ لب مسکراہٹ بکھر جاتی ہے۔ 
اُمت کے ان خیر خواہوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قرآن و سنت اور ایمان و یقین کا زندگی کے تکوینی اعتبارات سے کوئی براہ راست تعلق نہیں ہے۔ مثلاً، حضرت خالد بن ولیدؓ قبولِ اسلام سے پہلے بھی ایک عظیم جرنیل تھے، جس کا ثبوت غزوہ احد میں ان کی جنگی حکمت عملی سے ملتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قبولِ اسلام کے بعد ان کے فنِ حرب کی سند کیا قرآن میں تلاش کی جانی چاہیے تھی؟ صرف یہی ہونا چاہیے تھا ناں کہ ان کی زندگی کا یہ تکوینی پہلو، تشریعی ضابطے میں آ جائے؟ لیکن خیال رہے کہ تشریعی ضابطہ بجائے خود نہ تو ایسے علوم و فنون کی تخلیق کرتا ہے اور نہ ہی ان کی نفی کرتا ہے۔ لیکن تشریعی ضابطہ اپنے انطباق کے لیے، ایسے اعتبارات و حقائق کا اثبات بلکہ تقاضا ضرور کرتا ہے۔ ذرا غور کیجیے کہ قرآن و سنت کے علاوہ زندگی کی دیگر تمام سرگرمیاں معطل ہو کر رہ جائیں تو پھر قرآن و سنت آخر کس کو موضوع بنائیں گے؟ اس لیے تکوینی اعتبارات و حقائق کی سند قرآن و سنت میں نہیں تلاشنی چاہیے کہ یہ تو زندگی کے خودرَو تسلسل سے خود بخود برآمد ہوتے ہیں، البتہ برآمدگی کے بعد (اور بعض اوقات برآمدگی کے دوران میں) انھیں قرآن و سنت کے تشریعی ضابطے میں ضرور لایا جاتا ہے ، جیسا کہ پچھلے مباحث میں بیان ہو چکا، اصولیین اور فقہا یہی کام کرتے ہیں۔
امتِ مسلمہ کو اپنے جس علم و فن (فقہ) پر بہت ناز ہے، دیکھنے والی بات ہے کہ یہ علم و فن بغیر تکوینی حقائق سے میل کھائے، کیسے راہ پا سکتا ہے؟ جب تکوینی اعتبارات و حقائق خود اُمہ کے ہاں منکشف نہیں ہو رہے تو اس کے لازمی نتیجے کے طور پر فقہ راہ نہیں پاسکتی، اگر فقہ راہ پا رہی ہے تو وہ جعل سازی پر مبنی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس وقت ایک متروک فقہ کو عصریات کا لبادہ اوڑھا کر وسیع پیمانے پر جعل سازی کی جا رہی ہے۔ 
(۱۶)
ہم سمجھتے ہیں کہ قرآن و سنت اور فقہ کے دائرے میں مقید امتِ مسلمہ کو مغرب کا شکر گزار ہو نا چاہیے کہ اس نے اپنی مذہبیات کی قیمت پر تکوینی اعتبارات و حقائق کی ترویج کر کے امتِ مسلمہ کو زوال کی اتھاہ گہرائیوں میں گرنے سے بچا لیا ہے۔ سماجیات، معاشیات، نفسیات، طبیعات، فلکیات، بشریات،حیاتیات، ریاضیات، عسکریات وغیرہ وغیرہ کتنے ہی تکوینی اعتبارات ہیں، جو مغرب نے تکوینی زندگی کے عصری تناظر میں منکشف کیے ہیں۔ اُمہ کے ہاں فکری سطح پر تکوینی زندگی سے بے توجہی اور اس کی واقعیت کی کمی کا ازالہ (فی الواقعی) انھی مغربی انکشافات سے ہو ا ہے۔ لیکن اُمہ احسان مند اور شکر گزار ہونے کے بجائے نظری طور پر ان مغربی اکتشافاتِ جدیدہ کی ناقد ہے اور منافقت سے کام لیتے ہوئے عملی طور پر ان سے استفادہ بھی کر رہی ہے، ...... کہ تکوینی زندگی کی واقعیت سے فرار ممکن ہی نہیں ہے۔
امتِ مسلمہ کا فکری بحران اس منافقانہ طرزِ عمل سے دو چند ہوا ہے۔ آج ایک طرف مغربی اکتشافات کو (مجبوراً) تشریعی ضابطے میں لانے کی کوشش سے، دین کا انسان اور سماج سے رشتہ بحال ہو رہا ہے، کیونکہ اکتشافاتِ جدیدہ، زندگی کی واقعیت کے عکاس ہونے کے ناتے انسان اور سماج کے ساتھ مضبوطی سے جڑے ہوئے ہیں، اور یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ دین، انسان و سماج کی واقعیت کو مخاطب کیے بغیر اثر و نفوذ نہیں پا سکتا۔ لیکن دوسری طرف اکتشافاتِ جدیدہ کی مستعار واقعیت کو (فکری سطح پر غیر ضروری گردانتے ہوئے) رواج دینے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جارہی، بلکہ دینی علوم کے نام پر فرسودگی کی تعلیم دی جا رہی ہے۔
(۱۷)
واقعہ یہ ہے کہ آج کے عالم گیریت (Globalization) کے ماحول میں ، آہستہ روی کے ساتھ اور انتہائی غیر محسوس طور پر ایک بہت بڑا مظہر تشکیل پا رہا ہے۔ اس کا نام ہماری مروج اصطلاح میں ’’فقہ‘‘ ہے۔ اب ایک نئی فقہ کا ظہور ہو رہا ہے۔ اس فقہ کے بھی متروک فقہ کے مانند دو بڑے عناصر ترکیبی ہیں، تشریعی اور تکوینی۔ تشریعی عنصر اُمہ کے پاس ہے اور تکوینی عنصر مغرب کے پاس۔ کیونکہ زندگی کے تکوینی اعتبارات و حقائق سے منہ نہیں موڑا جا سکتا، اس لیے اُمہ زیریں سطح پر مغربی اکتشافات سے (بالفعل) مستفید ہو رہی ہے اور ایک ایسی نئی فقہ ترتیب دے رہی ہے جو مناسبِ حال بھی ہے اور مقاصدِ شریعہ سے ہم آہنگ بھی۔ کیونکہ رب، رب العالمین ہے اور قرآن، ذکر ہے عالمین کے لیے، اور نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم، رحمت ہیں عالمین کے لیے، اس لیے مغرب بھی اپنے تکوینی اکتشافات کو کسی اعلیٰ اخلاقی دائرے میں لانے کی غرض سے (بالفعل) شریعت اسلامیہ کی طرف رجوع کر رہا ہے، جس سے ایسی فقہ ظہور پا رہی ہے جو اپنے ظاہر میں سیکولر ہے لیکن مقاصدِ شریعہ سے کافی حد تک ہم آہنگ ہے۔ 
اس کا مطلب یہ ہوا کہ امتِ مسلمہ اور اہلِ مغرب ایک دوسرے سے بالفعل مستفید ہو رہے ہیں۔ بلکہ دیکھا جائے تو اُمہ ہی مغرب سے عملی فائدہ اٹھا رہی ہے، کیونکہ زندگی کے تکوینی اعتبارات و حقائق انسان کی دست رس میں ہیں، انھیں انسان نے اپنی کاوشوں سے منکشف کرنا ہوتا ہے، اُمہ یہ کام خود کرنے کے بجائے مستعار اکتشافاتِ جدیدہ پر انحصار کر رہی ہے، یعنی مغرب کی محنت و کاوش سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔ جبکہ دوسری طرف اگر مغرب کسی اعلیٰ اخلاقی دائرے کا متلاشی ہے اور شریعتِ اسلامیہ اس کی یہ ضرورت پوری کر رہی ہے تو اہلِ مغرب حقیقت میں امتِ مسلمہ سے فائدہ نہیں اٹھا رہے بلکہ قرآن و سنت کی عالم گیر حیثیت سے فیض پا رہے ہیں۔ 
دل چسپ اور لطیف نکتہ تو یہ ہے کہ نئی فقہ کے دونوں عناصر ترکیبی عالم گیر نوعیت کے ہیں۔ اگر قرآن و سنت آفاقی ہیں تو زندگی کی واقعیت کے مظاہر بھی آفاقی اور تمام انسانیت کا مشترکہ ورثہ قرار پائے ہیں۔ ایک دَور میں زندگی کی واقعیت، تکینکی پس ماندگی کی وجہ سے مقامیت کی حامل تھی۔ یعنی، کسی خاص انسانی گروہ یا قوم کی محنت سے حاصل کیے گئے اکتشافات وغیرہ تقریباً اُسی تک محدود رہتے تھے۔ لیکن پچھلے چند عشروں میں تکنیکی ترقی نے مکان (space) کو برق رفتاری سے اضافی بنا دیا ہے، جس کی وجہ سے اکتشافاتِ جدیدہ کی برکات مغرب تک محدود نہیں رہیں۔ لہذا اب ایک آفاقی شریعت کے متوازی آفاقی اکتشافات موجود ہیں، جنھیں آفاقی اذہان کے مالک اصولیین ہی آفاقی فقہ دے سکتے ہیں۔ 
(۱۸)
اب تک کے مباحث سے یہ واضح ہو گیا کہ اُمت کے فکری بحران کے باوجود، زندگی جاگ رہی ہے اور آگے بڑھ رہی ہے۔ اُمت بحیثیت مجموعی، طوعاً و کرہاً زندگی کے تشریعی اور تکوینی پہلوؤں کی آفاقیت کے پہلو بہ پہلو چلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہم دردی کے نام پر اُمت کی سست روی کو مزید سست کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ یہ کام وہ لوگ کر رہے ہیں جو واقعی اُمت کے ہم درد ہیں۔ آج دنیا بھر کی دینی جامعات میں شریعت کے نام پر قرآن ، سنت اور فقہی کلیات کی تعلیم دی جارہی ہے۔ حالاں کہ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ شریعت کے صرف اور صرف دو عناصر، قرآن اور سنت ہیں۔ شریعت میں ایک تیسرے خارجی عنصر یعنی فقہی کلیات کی شمولیت کے پیچھے شان دار ماضی کا کبیر بیانیہ (grand narrative of past glory) کارفرما ہے۔ دینی جامعات میں اس کبیر بیانیے کی گھن گرج جاری ہے جس کے نتیجے میں عصریات سے مجرمانہ غفلت برتتے ہوئے، فقہی کلیات کے تناظر میں قرآن و سنت کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ اسے اجتہاد کہا جاتا ہے۔ 
آہستہ روی سے ظہور پذیر نئی آفاقی فقہ کے مقابل، متروک فقہ کے حاملین کے بڑے بڑے گروہ دینی جامعات سے نکل رہے ہیں۔ ان گروہوں کی بقا، نئی آفاقی فقہ کی فنا میں پوشیدہ ہے۔ لیکن زمانہ گواہ ہے کہ ٹھہرنے والے ہی بالآخر فنا ہوتے ہیں اور جیسے تیسے قافلے کی ہم سفری اختیار کرنے والے منزلِ مقصود پر جا پہنچتے ہیں۔ اس لیے دینی جامعات کے کار پردازوں کو اس بنیادی حقیقت سے آگاہ ہونا چاہیے کہ فقہ اور وہ بھی متروک فقہ، سماجیات سیاسیات معاشیات نفسیات حیاتیات فلکیات وغیرہ کے ماہرین پیدا نہیں کر سکتی۔ البتہ قانون کے ماہرین مہیا کر دیتی ہے۔ تو کیا اُمت کے ان ہم دردوں کے نزدیک قانون کے ماہرین باقی شعبہ ہائے زندگی کی کفایت کر دیتے ہیں؟ المیہ تو یہ ہے کہ یہ قانون بھی الفاظ و مباحث تک محدود ہے کیونکہ عصریات سے کوسوں دور ہے۔ دینی جامعات کے فارغ التحصیل کتنے فی صد ’’وکلا‘‘ ریاستی عدالتوں میں پریکٹس کرتے ہیں؟ اگر دینی جامعات کا حاصل صرف وکلا ہیں اور پھر ایسے وکلا جنھیں پریکٹس کا کبھی موقع ہی نہیں ملتا ، تو پھر دینی جامعات آخر کس قسم کی سماجی خدمات سر انجام دے رہی ہیں؟ بس، مساجد اور جنازہ گاہوں کے امام ہی مہیا کررہی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سماجی اور ریاستی حوالے سے دینی جامعات کا دائرہ کار مسلسل محدود ہو رہا ہے۔ البتہ ریاست اپنے سیاسی مقاصد کے لیے انھیں اٹھائے پھرے تو الگ بات ہے ورنہ مستقبل قریب میں ان کی حیثیت میوزیم سے بڑھ کر نہیں رہے گی۔
(۱۹)
اختتامی کلمات کی طرف بڑھتے ہوئے ہم گزارش کریں گے کہ امت کے فکری بحران کے پیچھے شان دار ماضی کا ایسا بیانیہ موجود ہے جس نے فقہ کو جامع العلوم کے سنگھاسن پر براجمان کر رکھا ہے، حالاں کہ فقہ اصل میں فن ہے جو مختلف علوم اور شعبوں سے معاملہ کرتا ہے۔ چونکہ یہ فن تقریباً ہر علم اور ہر شعبہ سے معاملہ کرتا ہے، اس لیے اسے غلطی سے علم ہی نہیں بلکہ مخزن العلوم سمجھ لیا گیا ہے۔ ذرا غور کیجیے کہ جب فقہ کا حقیقی منصب مختلف علوم اور شعبوں سے معاملہ کرنا ہے تو اس کا لازمی مطلب یہ ہوا کہ مختلف علوم اور شعبے موجود ہونے چاہییں، تبھی تو فقہ معاملہ کر سکے گا۔ یعنی مواد (material) موجود ہو گا تواسے منضبط (disciplined)کرنا بہت مشکل یا نا ممکن نہیں رہے گا، لیکن خالی خولی انصرام و انضباط (discipline) میں سے مواد (material) نکالنا تو محال ہے۔ 
اس دَورِ زوال میں، اُمت کے ہم دردوں نے شان دار ماضی کے کبیر بیانیے سے شہ پا کر ایک مقبولِ عام جملے کو جنم دیا ہے کہ ’’اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے‘‘۔ واقعہ یہ ہے کہ اس جملے کے پیچھے بھی، فقہ کی تمام شعبہ ہائے زندگی سے معاملہ کرنے کی صلاحیت کارفرما ہے، اس لیے اُمت کے ہم دردوں سے ہم دردی کرتے ہوئے ہم یہ کہنے کی جسارت کریں گے کہ حیات (زندگی کے تکوینی اعتبارات و حقائق اور واقعیت) برق رفتاری سے بہت آگے نکل گئی ہے اور ضابطہ کہیں دُور بہت پیچھے گردِ راہ میں گم ہو گیا ہے۔ حیات کی ہم سفری کے لیے ضابطے کو تیزی سے اس کے تعاقب میں جانا ہو گا۔ لیکن خیال رہے کہ شان دار ماضی کے کبیر بیانیے کو revisit کیے بغیر یہ تعاقب بہت بوجھل اور تھکا دینے والا ثابت ہو گا۔

مولانا عبد القیوم ہزارویؒ / مولانا قاری عبد الحئ عابدؒ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مولانا عبد القیوم ہزارویؒ 

۷ فروری کو نمازِ مغرب کے بعد مری کے قریب ایک تعلیمی مرکز میں دوستوں کے ساتھ بیٹھا ان کی فرمائش پر اپنے دورِ طالب علمی کے کچھ واقعات کا تذکرہ کر رہا تھا اور استاذِ محترم حضرت عبد القیوم ہزارویؒ کا تذکرہ زبان پر تھا۔ میں دوستوں کو بتا رہا تھا کہ جن اساتذہ سے میں نے سب سے زیادہ پڑھا اوربہت کچھ سیکھا ہے، ان میں حضرت والد مکرم مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ کے بعد تیسرے بڑے استاذ حضرت مولانا عبد القیوم ہزارویؒ ہیں اور اس حوالے سے یہ عرض کر رہا تھا کہ میری ذہن سازی اور تربیت میں مسلک کے دائرے میں حضرت والدِ محترمؒ اور فکری محاذ پر حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ اور حضرت مولانا عبد القیوم ہزارویؒ کا اثر سب سے زیادہ ہے۔ میں ابھی یہ بات کر ہی رہا تھا کہ مجلس میں موجود ایک دوست کے موبائل فون کی بیل بجنے لگی وہ اٹھ کر باہر گئے اور واپس آکر بتایا کہ استاذِ محترم مولانا عبد القیوم ہزارویؒ کا انتقال ہوگیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
حضرت مولانا عبد القیوم ہزارویؒ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے آغاز سے ہی حضرت صوفی صاحبؒ کے رفیقِ کار تھے اور ہمارے طالب علمی کے دور میں حضرات شیخینؒ کے ساتھ وہ تیسرے بڑے استاذ کا درجہ رکھتے تھے۔ انہوں نے چار عشروں سے زیادہ عرصہ تک مسلسل نصرۃ العلوم میں تدریسی خدمات سر انجام دیں۔ میں نے زرّادی اور زنجانی سے لے کر دورۂ حدیث میں ابو داؤد شریف تک مختلف فنون کی بہت سی کتابیں ان سے پڑھی ہیں۔ معقولات کے اونچے درجے کے اساتذہ میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ مزاج کے سخت تھے اور عبارت وغیرہ میں نرمی اور کمزوری برداشت نہیں کرتے تھے، اس لیے ان کے سبق میں خاصی تیاری کر کے بیٹھنا پڑتا تھا۔ ابتدا میں ان کا طرز اَنّھی والے استاذ حضرت مولانا ولی اللہ صاحب نور اللہ مرقدہ والا ہوتا تھا۔ طالب علم کو خود مطالعہ کر کے اور سبق حل کر کے آنا ہوتا تھا۔ استاذ صرف سنتے تھے اور اگر کوئی بات ضروری ہوتی تو وضاحت کر دیتے تھے۔ میں نے نور الانوار سمیت بہت سی کتابیں اس طرز پر ان سے پڑھی ہیں۔ وہ کتاب پڑھانے کے ساتھ ساتھ طلبہ کی ذہن سازی کی طرف بھی خصوصی توجہ دیتے تھے۔ سیاسی طور پر حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ سے زیادہ قریب تھے اور زندگی بھر اسی فکر پر رہے۔ دینی اور روحانی حوالہ سے شیرانوالہ لاہور اور حضرت درخواستیؒ کے ساتھ گہری عقیدت رکھتے تھے۔ حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ کے ساتھ ان کی اکثر و بیشتر معاملات میں ذہنی ہم آہنگی ہوتی تھی۔ ایک دور میں مجلس احرار اسلام اور مجلس تحفظ ختم نبوت میں عملی طور پر متحرک رہے۔ جمعیۃ علماء اسلام کی تنظیم نو میں شریک تھے اور ایک مرحلہ میں شہر کے امیر بھی رہے ہیں۔
صدر ایوب خان مرحوم کے دور میں ان کی آمریت کے خلاف عوامی جدوجہد اور ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب کی فکری بے روی کے خلاف جمعیۃ علماء اسلام کی تحریک میں سرگرم کردار ادا کیا۔ متحدہ حزب اختلاف کے زیر اہتمام شیرانوالہ باغ میں ہونے والے اس عوامی جلسہ کی صدارت انہوں نے ہی کی تھی جس پر پولیس نے پہلے آنسو گیس پھینکی اور پھر فائرنگ کی تھی۔ اس فائرنگ میں غالباً دو نوجوان شہید ہوئے تھے اور گوجرانوالہ ایوبی آمریت کے خلاف عوامی تحریک کا اہم مرکز بن گیا تھا۔ یحییٰ خان کے مارشل لاء کے آغاز میں انہوں نے مسجد فاروقیہ پونڈانوالہ میں خطبۂ جمعہ کے دوران قادیانیوں کی تردید کی جس کے نتیجے میں وہ مارشل لاء کے تحت گرفتار ہوئے۔ اس کے علاوہ تحریک ختم نبوت کے دوران بھی گرفتار ہوئے اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ قادیانیوں کے خلاف تحریک میں وہ اس دور میں پورے جوش و جذبہ کے ساتھ سرگرم حصہ لیتے رہے جس دور میں کسی خطبہ یا تقریر میں قادیانیوں کا نام لینا بھی قانونی جرم سمجھا جاتا تھا اور اس پر مقدمہ درج ہو جایا کرتا تھا۔ 
استاذِ محترمؒ جامع مسجد فاروقیہ پونڈانوالہ کے ایک عرصہ تک خطیب رہے ہیں اور ان کے دور میں یہ مسجد مسلکی مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ تحریک ختم نبوت اور دیگر دینی تحریکات کا بھی مورچہ ہوتی تھی۔ صدر یحییٰ خان کے مارشل لاء میں خطبہ جمعۃ المبارک کے دوران قادیانیوں کے خلاف تقریر کے بعد وہ گرفتارر ہوگئے تو حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ نے مجھے طلب فرمایا کہ مولانا عبد القیومؒ گرفتار ہوگئے ہیں۔ اب اگر اگلے جمعہ پر اس مسجد میں قادیانیوں کے بارے میں کوئی بات نہ ہوئی تو اسے ہماری کمزوری سمجھا جائے گا اور اگر تقریر کرنے کے بعد دوسرا خطیب بھی گرفتار ہوگیا تو یہ سلسلہ تحریک کی صورت اختیار کر سکتا ہے جس کا ابھی موقع مناسب نہیں ہے۔ اس لیے یہ جمعہ مسجد فاروقیہ میں تم نے پڑھانا ہے، اس طرح کہ ختم نبوت پر بات بھی پوری ہو اور گرفتاری کی صورت بھی نہ بنے۔ میں اس وقت نصرۃ العلوم میں غالباً موقوف علیہ کے درجہ کا طالب علم تھا۔ حضرت مفتی صاحبؒ کے حکم پر میں نے یہ ذمہ داری قبول کر لی اور میں اسے حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ کی چند صحبتوں کا فیضان سمجھتا ہوں کہ عقیدۂ ختم نبوت پر ایک گھنٹہ خطاب کے باوجود گرفتاری سے محفوظ رہا۔ سی آئی ڈی میں ہمارے ایک دوست سید مہتاب علی شاہ مرحوم ہوتے تھے۔ انہوں نے بعد میں ایک موقع پر بتایا کہ محکمہ پولیس کے مقدمات کے انچارج پی ڈی ایس پی نے تین مرتبہ ٹیپ ریکارڈر سے آپ کی تقریر سنی ہے، لیکن وہ کوئی ایسی بات تلاش نہیں کر سکے جسے مقدمہ کی بنیاد بنایا جا سکے۔ یہ بات میں نے تحدیث نعمت کے لیے عرض کی ہے اور یہ بات بتانے کے لیے لکھی ہے کہ ہمارے بزرگ بالخصوص حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ ہمیں اس بات کی تلقین کرتے تھے اور تربیت دیا کرتے تھے کہ اپنی بات صحیح طریقہ سے پوری بیان کرنا تو ضروری ہے، لیکن پکڑے جانا ضروری نہیں ہے۔
عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ، ملک میں نفاذِ شریعت اور دیوبندی مسلک کے فروغ و تحفظ میں حضرت مولانا عبد القیوم ہزارویؒ اس دور میں ہمارے لیے راہ نما اور رہبر کی حیثیت رکھتے تھے اور میری سیاسی و تحریکی زندگی کا آغاز ان کی انگلی پکڑ کر ہوا تھا۔ بعد میں جمعیۃ علماء اسلام کی بعض پالیسیوں سے اختلاف کی وجہ سے جن کا اظہار وہ کھلم کھلا کرتے تھے، وہ رفتہ رفتہ پیچھے ہٹتے گئے جبکہ میری پیش رفت جاری رہی۔ وہ مجھے بھی سمجھایا کرتے تھے اور کبھی کبھی ناراض بھی ہو جاتے تھے جسے میں ان کا بزرگانہ حق سمجھ کر خاموشی کے ساتھ سن لیا کرتا تھا۔ مجھے مزاج اور ڈیلنگ کے حوالے سے بہت نرم سمجھا جاتا ہے اور کسی حد تک میں ہوں بھی، لیکن موقف اور پالیسی کے معاملہ میں ہمیشہ بے لچک رہا ہوں۔ سنتا سب کی ہوں مگر کرتا وہی ہوں جسے صحیح اور مناسب سمجھتا ہوں اور اسے بھی استاذِ محترم حضرت مولانا عبد القیوم ہزارویؒ کے فیض کا حصہ سمجھتا ہوں۔ کافی عرصہ سے علیل تھے، لیکن اس کے باوجود جامعہ محمدیہ چائنہ چوک اسلام آباد میں شیخ الحدیث کی حیثیت سے کئی سال تک انہوں نے تدریسی خدمات سر انجام دی ہیں۔ وہاں کئی بار ان کی خدمت میں حاضری کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ گزشتہ سال رمضان المبارک سے قبل مانسہرہ کے ایک سفر کے دوران تمبرکھولا حاضری ہوئی۔ ملاقات و زیارت کے ساتھ ساتھ ان کی دُعا اور شفقت سے بھی شاد کام ہوا۔ آج وہ ہم سے رخصت ہوگئے ہیں، لیکن ان کا فیض اور یادیں ہمیشہ زندہ رہیں گی اور ان کے صدقات جاریہ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ اور جامعہ محمدیہ اسلام آباد کے علاوہ ان کے ہزاروں شاگردوں کی صورت میں ان کے ذخیرۂ آخرت میں اضافے کا ذریعہ بنتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں اور پسماندگان کو صبر و حوصلہ کے ساتھ اس صدمہ سے عہدہ برآ ہونے کی توفیق دیں۔ آمین یا رب العالمین۔ 

مولانا قاری عبد الحئ عابدؒ 

حضرت مولانا قاری عبد الحئی عابدؒ طویل علالت کے بعد گزشتہ دنوں انتقال کر گئے ہیں اور اپنے ہزاروں سامعین، دوستوں اور عقیدت مندوں کو سوگوار چھوڑ گئے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ قاری صاحب محترمؒ اپنے وقت کے ایک بڑے خطیب حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ کے چھوٹے بھائی تھے اور خود بھی ایک بڑے خطیب تھے۔ ان دونوں بھائیوں نے کم و بیش نصف صدی تک پاکستان میں اپنی خطابت کا سکہ جمایا ہے اور صرف سامعین میں اپنا وسیع حلقہ قائم نہیں کیا بلکہ خطیب گر کے طور پر بیسیوں خطباء کو بھی اپنی لائن پر چلایا ہے۔
دونوں بھائیوں کا خطابت و وعظ کا اپنا منفرد انداز تھا اور ان کے دورِ عروج میں ہزاروں سامعین ان کے خطابات سننے کے لیے دور دراز سے جمع ہوا کرتے تھے، اکابر علماء دیوبند کا والہانہ انداز میں تذکرہ، توحید و سنت کا پرچار، عظمت صحابہ کرامؓ کا تذکرہ اور شرعت و بدعات کی مخصوص لہجے میں تردید و ابطال ان کی خطابت و وعظ کے سب سے نمایاں پہلو تھے۔
حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ وعظ و خطابت کے ساتھ ساتھ تحریکی ذوق بھی رکھتے تھے اور بہت سی دینی تحریکات میں انہوں نے سرگرم اور بھرپور کردار ادا کیا ہے جبکہ مولانا قاری عبد الحئی عابدؒ خطابت و وعظ کے ساتھ اصلاح و سلوک کے ذوق سے بہرہ ور تھے، ان کا روحانی تعلق شیرانوالہ لاہور سے تھا، ہمارے شیخ حضرت مولانا عبید اللہ انور قدس اللہ سرہ العزیز کے مجازین میں شامل تھے، اپنے عوامی خطابات میں ذکر خداوندی کی تلقین اور اس کا ورد عام طور پر کیا کرتے تھے اور اپنے سلسلہ کے سالانہ روحانی اجتماع کا بھی اہتمام کرتے تھے، دینی اور مسلکی حمیت میں اپنے بہت سے معاصرین میں ممتاز تھے اور دین و مسلک کے لیے ایثار و قربانی کا ہر موقع پر عملاً اظہار کرتے تھے۔
مجھے یاد نہیں کہ دونوں بھائیوں میں سے پہلے کس کی تقریر میں نے سنی ہے لیکن اتنا یاد ہے کہ طالب علمی کے دور میں ان کی بیسیوں تقریریں سن چکا تھا۔ پھر عملی زندگی میں ان کے ساتھ چار عشروں سے زیادہ عرصے تک رفاقت رہی ہے۔ مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ کا دو حوالوں سے میری جماعتی و تحریکی زندگی میں گہرا دخل ہے، جمعیۃ علماء اسلام میں ضلعی سطح پر میں طالب علمی کے دور میں ہی متحرک تھا اور ضلعی سیکرٹری اطلاعات کے طور پر کام کرتا تھا، مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ جب جمعیۃ علماء اسلام پنجاب کے سیکرٹری جنرل چنے گئے تو انہوں نے مجھے صوبائی سیکرٹری اطلاعات کے طور پر اپنی ٹیم میں شامل کیا اور میری جماعتی سرگرمیوں کا دائرہ پورے صوبے تک وسیع ہوگیا۔ جبکہ ۱۹۸۵ء کے دوران لندن میں منعقد ہونے والی پہلی سالانہ بین الاقوامی ختم نبوت کانفرنس میں میری شرکت کے پہلے محرک وہ تھے اور انہی کی ترغیب اور تحریک پر میں نے اس کانفرنس کے لیے لندن کا پہلا سفر کیا تھا۔ مولانا قاری عبد الحئی عابدؒ کے ساتھ میرا رابطہ شیرانوالہ لاہور کے حوالہ سے زیادہ تھا کہ میں بھی اسی روحانی مرکز سے وابستہ تھا اور حضرت الشیخ مولانا محمد عبید اللہ انور قدس اللہ سرہ العزیز کی محافل میں ہماری شرکت و رفاقت رہتی تھی۔
مولانا قاری عبد الحئی عابدؒ کچھ عرصہ مجلس احرار اسلام میں شامل رہے ہیں اور احرار راہ نماؤں کے ساتھ دینی تحریکات میں شریک کار رہے ہیں۔ حضرت والد مکرم مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے ساتھ دونوں بھائیوں کا گہرا تعلق تھا اور حضرت والد مکرمؒ بھی ان کی دینی سرگرمیوں اور خدمات کو سراہتے تھے۔ گکھڑ میں حضرت والد محترمؒ کی مسجد میں متعدد بار حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ اور حضرت مولانا قاری عبد الحئی عابدؒ نے دینی اجتماعات سے خطاب کیا ہے اور جس دور میں مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ جامعہ قاسمیہ فیصل آباد میں شعبان المعظم اور رمضان المبارک کے دوران علماء کرام کے لیے تربیتی کورس کا اہتمام کرتے تھے کئی سال تک حضرت والد محترمؒ علماء کرام کو مختلف مسائل کی تحقیق پڑھانے کے لیے فیصل آباد تشریف لے جاتے رہے ہیں۔ دونوں بھائی وقتاً فوقتاً گکھڑ آتے اور ملاقات کے ساتھ ساتھ مختلف مسائل میں حضرت والد محترمؒ سے مشورہ اور راہ نمائی حاصل کرتے تھے۔
دونوں بھائیوں کی خطابت کا انداز کم و بیش یکساں تھا البتہ مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ کی خطابت میں تحریکی گھن گرج کا پہلو نمایاں ہوتا تھا جبکہ قاری صاحبؒ حضرت سلطان باہوؒ اور حضرت بابا فریدؒ کا کلام مخصوص لہجے اور ترنم کے ساتھ پڑھنے کا ذوق زیادہ رکھتے تھے اور سامعین ان کی خطابت کے ساتھ ساتھ نعت و شعر کے ذوق اور ترنم سے محظوظ ہوا کرتے تھے۔ برطانیہ کے مختلف اسفار میں حضرت قاری صاحبؒ کے ساتھ میری رفاقت رہی ہے، وہاں بھی ان کے سامعین اور عقیدت مندوں کا بڑا حلقہ ہے جو بطور خاص انہیں سننے کے لیے جلسوں میں آیا کرتا تھا۔ دوست بنانے اور دوستی نبھانے کا ذوق دونوں بھائیوں میں بھرپور تھا جبکہ قاسمی صاحبؒ دوست نوازی اور دوستوں کو آگے بڑھانے میں ممتاز مقام رکھتے تھے۔
مجھے قاسمی صاحب محترمؒ کا وہ جملہ اکثر یاد آتا ہے جو میری تمام دینی حلقوں اور جماعتوں کے ساتھ یکساں رابطہ رکھنے کی کوشش کو دیکھ کر ’’رانجھا سب دا سانجھا‘‘ کہہ کر داد دیا کرتے تھے اور قاری صاحبؒ کا یہ دعائیہ جملہ مجھے نہیں بھولتا جو وہ کم و بیش ہر دوست کے لیے کہا کرتے تھے ’’جتھے پیر اوتھے خیر‘‘ (یعنی جہاں بھی قدم پڑے وہاں خیر ہو)۔ اللہ تعالیٰ دونوں بھائیوں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں اور ان کے پسماندگان کو ان کی روایات کا تسلسل جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔

مکاتیب

ادارہ

(۱)
محترم مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم
امید ہے خیریت سے ہوں گے۔ پچھلے چند سالوں سے الشریعہ زیر مطالعہ ہے۔ تقلید جامد اور علمی وفکری جمود کے دور عروج میں آپ کا رسالہ تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند ہے۔ علمی وفکری موضوعات پرمختلف بلکہ متضاد آرا کا سامنے آنا اس دور میں بہت غنیمت ہے۔
فروری ۲۰۱۳ء کے شمارے میں کلمہ حق میں آپ کی تحریر ’’میڈیا کا محاذ اور ہماری ذمہ داریاں‘‘ نظر سے گزری۔ اس حوالے سے چند گزارشات/ سوالات پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں: 
’’حالت امن اور حالت جنگ کے قوانین میں فرق ہوتا ہے، بہت سی باتیں جو حالت امن میں درست نہیں ہوتیں مگر حالت جنگ میں انہیں مجبورًا اختیار کرنا پڑتا ہے۔ ایک شخص محاذ جنگ پر دشمن کے سامنے کھڑا ہے تو اسے یہ دیکھنا ہے کہ دشمن کے ہاتھ میں کون سا ہتھیار ہے اور وہ اس کے مقابلہ میں کون سا ہتھیار اختیار کر کے دشمن کو زیر کر سکتا ہے، اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ اس کی مثال عرض کروں گا کہ ایٹم بم کو اسلام کی جنگی اخلاقیات کی رو سے ایک جائز ہتھیار قرار نہیں دیا جا سکتا، اس لیے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ اور جہاد کے جو تقاضے اور دائرے بیان فرمائے ہیں کہ عورت کو قتل نہیں کرنا، بوڑھے کو قتل نہیں کرنا، غیر متعلقہ شخص کو قتل نہیں کرنا، بچے کو قتل نہیں کرنا اور دشمن کے اموال اور ملکیتوں کو بلا وجہ نقصان نہیں پہنچانا وغیرہ۔ ایٹم بم کے استعمال میں ان میں سے کسی بات کا لحاظ نہیں رکھا جا سکتا، اس لیے میری طالب علمانہ رائے میں اگر جنگ میں اسلامی اخلاقیات کا لحاظ رکھا جائے تو ایٹم بم ایک جائز ہتھیار نہیں ہے، لیکن ہم سب ایٹم بم کے بنانے پر زور دیتے ہیں اور ہم نے ایٹمی صلاحیت حاصل کی ہے اس لیے کہ جب دشمن کے پاس یہ ہتھیار موجود ہے تو ہمارے پاس اس کا موجود ہونا ضروری ہے ورنہ ہم دشمن سے مار کھا جائیں گے۔ اسے اضطراری حالت کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح حالتِ اضطرار میں جان بچانے کے لیے حرام کھانا جائز ہوجاتا ہے اسی طرح حالت جنگ میں جان بچانے کے لیے ایسے ہتھیار کا استعمال جائز بلکہ ضروری ہو جاتا ہے جو اسلامی اصولوں کی رو سے شاید جائز ہتھیار نہ ہو۔‘‘
اس تحریر کو پڑھ کر میرے جیسا ایک عامی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اگر دین اسلام کی بیان کردہ انتہائی ’فطری‘، ’صریح‘، ’بدیہی‘ اور ’دائمی‘ اخلاقی تعلیمات آج کے دور میں ناقابل عمل قرار پاتی ہیں اور حالت جنگ میں قطعی ممنوع قرار دی جانے والی حرکات ’اضطرار‘ کے نام پر نہ صرف جائز بلکہ ’ضروری‘ ٹھہرتی ہیں تو پھر دین کے وہ کون سے ممنوعات اور حرام کام ہیں جن کو اسی دلیل سے جائز اور ضروری قرار نہیں دیا جا سکتا؟
سیدھی سی بات ہے کہ اگر دین کی کچھ تعلیمات حالت جنگ کے لیے دی گئی ہیں، جیسے عورت کو قتل نہیں کرنا، بوڑھے کو قتل نہیں کرنا، غیر متعلقہ شخص کو قتل نہیں کرنا، بچے کو قتل نہیں کرنا اور دشمن کے اموال اور ملکیتوں کو بلاوجہ نقصان نہیں پہنچانا وغیرہ تو ان کو اس دلیل سے آخر کیسے اضطراری بلکہ ضروری ٹھہرایا جا سکتا ہے کہ ’حالت امن اور حالت جنگ میں فرق ہو تا ہے‘ اور ’بہت سی باتیں جو حالت امن میں درست نہیں ہوتیں، مگر حالت جنگ میں انھیں مجبوراً اختیار کرنا پڑتا ہے۔‘ جب یہ ہدایات اور قوانین دیے ہی حالت جنگ سے متعلق گئے ہیں تو ظاہر ہے ان پر عمل کا دائرہ ہے ہی حالت جنگ۔ اگر تو یہ ہدایات حالت امن میں عمل کرنے کی دی گئی ہوتیں تو پھر بھی کسی حیلے بہانے سے اضطرار کے نام پر حالت جنگ میں استثنا نکالنے کا جواز پیدا ہو سکتا تھا، مگر حالت جنگ ہی کے لیے دیے گئے احکام کو حالت جنگ ہی کے لیے دیے گئے احکام کو حالت جنگ ہی کے لیے کس طرح اضطراری ٹھہرایا جا سکتا ہے؟
پھر جب خود آپ کی طالب علمانہ رائے میں ’اگر جنگ میں اسلامی اخلاقیات کا لحاظ رکھا جائے تو ایٹم بم ایک جائز ہتھیار نہیں ہے‘ تو کیا اس ناجائز ہتھیار کو صرف ان دلائل سے جائز اور ضروری قرار دیا جا سکتا ہے کہ ’اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکے گا‘ اور ’ہم سب ایٹم بم بنانے پر زور دیتے ہیں‘ اور’ہم نے ایٹمی صلاحیت حاصل کی ہے‘ اور ’جب دشمن کے پاس یہ ہتھیار موجود ہے تو ہمارے پاس اس کاموجود ہونا ضروری ہے‘۔ اگر ان’’عقل عام‘‘ پر مبنی دلائل کی بنیاد پر ایٹم بم جیسے اسلامی اخلاقیات کی رو سے قطعی ناجائز ہتھیار کو جائز اور ضروری ٹھہرایا جا سکتا ہے تو پھر نہ صرف حالت جنگ بلکہ حالت امن میں بھی وہ کون سا عمل، ترکیب، چال اور مکر وفرویب ہے جن کو انھی یا ان جیسے دوسرے دلائل کی رو سے جائز اور قرار نہیں دیا جا سکتا؟ پھر تو ایٹم بم ہی کیا، خود کش دھماکے، بم دھماکے، اغوا برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ، اپنی رائے سے اختلاف کرنے والے ہر فرد کا قتل وغیرہ وغیرہ ہر چیز جائز اور ضروری قرار دی جا سکتی ہے، بلکہ آپ اور ہم جانتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جائز اور ضروری قرار بھی دی جا چکی ہیں اور ہم عملاً ’جہاد‘، ’دفاع‘ اور ’ردعمل‘ کے نام پر عرصے سے یہ سب کچھ دیکھ اور بھگت رہے ہیں۔
اگر دشمن کا کسی ہتھیار یا چال کو استعمال کرنا ہمارے لیے بھی اس کے استعمال کو جائز بلکہ ضروری ٹھہرا سکتا ہے تو کیا دشمن اگر جنگ کے موقع پر عورتوں کی اجتماعی عصمت دری کو ایک جنگی ہتھیار کے طورپر استعمال کرے، جیسا کہ جنگوں میں یہ ایک معمول رہا ہے، تو کیا ہمارے لیے بھی یہ عمل جائز اور ضروری قرار پا سکتا ہے؟ اگر دشمن اپنے فوجیوں کی ’رفع حاجت‘ کے لیے انھیں طوائفیں مہیا کرے، جیسا کہ معمول ہے، تو کیا ہمارے لیے بھی جائز اور ضروری ہو سکتا ہے کہ ہم بھی اپنے فوجیوں کے لیے ایسا ہی کریں؟ علیٰ ہذا القیاس۔
مزید برآں،آپ کا جو اصل موضوع تھا یعنی ’میڈیا کا محاذ‘ کیا اس میں ایسا ہوسکتا ہے کہ اگر دشمن اس محاذ کو جس طرح چاہے ، تمام اخلاقی تعلیمات اور حدود سے ماورا ہوکر استعمال کرے، جیسا کہ معمول ہے ، تو کیا ہم بھی ’اضطرار‘ کے نام پر جھوٹے پروپیگنڈے، فحاشی و عریانی ، لایعنی و منفی تفریح وغیرہ کے لیے جیسے چاہیں میڈیا کو استعمال کریں؟ یا ہمیں بہرحال دشمن سے بے نیاز ہوکر دین کی بتائی ہوئی تعلیمات اور حدود کا پابند رہنا ہوگا؟ میں انتہائی معذرت کے ساتھ اپنے آپ کو یہ کہنے پر مجبور پاتا ہوں کہ آپ کی اس تحریر سے مجھ جیسے ایک عامی کو یہ تاثر ملتا ہے کہ ہمارے دین کی بعض بنیادی تعلیمات بھی ایسی ہیں جو آج کہ دور میں قطعی ناقابل عمل ہیں اور اگر ان پر عمل کے لیے اصرار کیا جائے تو نہ صرف انفرادی سطح پر بلکہ اجتماعی اور قومی سطح پر بھی ہمارا زندہ رہنا مشکل ہے اور اگر ہم ان تعلیمات پر عمل کرنے لگیں تو دشمن سے مار کھا جائیں گے۔ آپ کی یہ تحریر صاف صاف اس بات کا اعلان ہے کہ ہم آج کے دور میں شریعت کی پابندیوں پر عمل نہیں کرسکتے۔
میرا احساس ہے کہ دو صحابہ کا غزوہ بدر میں صرف اس لیے شریک نہ ہونا کہ وہ کفار سے جنگ میں شریک نہ ہونے کاعہد کرچکے تھے یا ایک جنگ میں سیدنا اسامہ بن زیدؓ کے ہاتھوں غلط فہمی کی بنا پر ایک مقاتل کے ہتھیار ڈال دینے کے باوجود اس کو قتل کر دینے پررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا شدید اظہار ناراضی یا صرف زبانی معاہدے کی بنیادپر ابو جندلؓ کو کفار کے حوالے کرنے کا معاملہ ہو یاسیدنا معاویہؓ کا دشمن سے کیے گئے ایک معاہدے کی بظاہر خلاف ورزی کے صرف ارادہ کرنے پر ایک صحابی رسول سیدنا عمرو بن عنبسہؓ کی سخت تنبیہ اور سیدنا معاویہؓ کا اس ارادے سے رجوع اور اس طرح کے سیکڑوں ہزاروں واقعات جن میں ہمارے اسلاف نے عین ’حالت جنگ‘ میں دین کی بتائی ہوئی اخلاقی حدود و تعلیمات کا خیال رکھا،،، یہ سب واقعات اب محض وعظ اور درس میں سنانے اور سر دھننے کے لیے رہ گئے ہیں ، اور ہمارا عمل حقیقتاً’’جو تم کرو گے، وہ ہم کریں گے ‘‘ کے فلسفے کے مطابق رہ گیا ہے۔ 
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ’الشریعہ‘ ہی کے مارچ ۲۰۱۲ء کے شمارے سے مولانا محمد یحییٰ نعمانی کے مضمون سے کچھ سطور یہاں نقل کردی جائیں:
’’جہاد کے بارے میں ہمیں کسی قسم کا کوئی معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ جہادی تعلیم اسلام کا وہ باب ہے جو اس کی حقانیت کی روشن دلیلوں میں سے ہے۔ ایک طرف انسانیت کی ایک شدید ضرورت کو پورا کرنے کے مقصد کی بلندی ہے۔ دوسری طرف اللہ کی رضا کی نیت کی پاکیزگی ہے۔ اور تیسری طرف مجاہدانہ اخلاقیات کا حسنِ جہاں آراو جہاں زیب۔ نورُُ علی نور۔ یہ جہاد دنیا کو زیبائش و آرائش بخشنے کے لیے ہی فرض کیا گیا ہے۔ اس کو کیا نسبت اس فساد و فتنہ اور غدرودغا سے جس پر مغربی تہذیب کے زیر سایہ موجودہ بین الاقوامی سیاست کا نظام قائم ہے۔ ایک ریاست دوسری ریاست سے معاہدوں میں ہاتھ بھی ڈالتی ہے، سفارتی تعلقات بھی قائم کرتی ہے اور پھر اپنی ایجنسیوں کے ذریعہ قتل وخونریزی کے واقعات بھی کراتی ہے۔ انسانیت کو مغربی تہذیب نے جو الم ناک ’’تحفے‘‘ دیے ہیں ان میں یہ خفیہ ایجنسیوں کا نظام بھی ہے۔ مگر اس وقت کچھ نا سمجھ مسلم نوجوانوں کو جہاد کے نام پر معاہدات کی پامالی کا سبق دینے لگے ہیں، یہ ان میں ایسا اشتعال پیدا کرتے ہیں کہ شریعت تو ٹوٹتی ہے ہی، اللہ کے حدودتو پامال ہوتے ہیں ہی، ساتھ ہی اسلام اور مسلمانوں کے مفاد کو بھی شدید نقصان پہنچتا ہے ۔۔۔ افسوس ! یہ شرعی ’’حدود‘‘ (قوانین) جو اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی صریح غیر مشکوک سنت سے ثابت ہیں ان کا ہمارے یہاں مذاکرہ نہیں ہوتا اور نتیجتاً ہم عصر حاضر کی صورتِ احوال میں اس کی تطبیق نہیں کر پاتے ۔ اس سلسلے میں بہت سے لوگ نہایت غیر محتاط بلکہ شرعی ضابطوں کو توڑنے والی رایوں کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ اگر یہ غلطیاں صرف وہ نوجوان کر رہے ہوتے جنہوں نے اس دور کے ظالموں کی چیرہ دستیوں سے عاجز آکر ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کا مظاہرہ کیا ہے تو کوئی زیادہ تعجب نہ ہوتا۔ مگر جب علمی قسم کے اداروں اور رسائل و مجلات کی طرف سے یہ بے احتیاطیاں ہوتی ہیں تو حیرت ہی نہیں، افسوس اور قلق بھی ہوتا ہے ‘‘۔
ڈاکٹر عبدالباری عتیقی، کراچی
drbari_atiqi@yahoo.com

(۲)

Dear Moulana Ammar Khan Nasir Sahab,
Assalamu 'Alikum.
I am very thankful to you and the Al-Shariah team for sending me in a copy of your magazine. I read the note by Mufti Fazeel al-Rahman Uthmani sahab about "three talaq in one session ..." and your note on talaq and have some observations to make:
  1. Mufti sahab has relied mostly on the book 'Islami Qanoon' from India but that book is NOT a 'masdar-i-Asli'. The learned author should have mentioned that the opinion in Islami Qanoon is based on Fatawa Qadi Khan and that the opinion of Qadi Khan is most probably based on hadith-i-Rukanah; that why Qadi Khan has mentioned that the opinion of the husband is accepted 'diyanatan', i.e. as far as the matter between him and Allah is concerned but not 'qada'an'. The Question to be asked and answered or at least attempted in such a discussion is why should not the opinion of such a husband be accepted by the qadi (court)? In my humble opinion since the Prophet SAW was acting as a judge, therefore, the opinion of the husband should be accepted by the court as well (wallahu 'alam). I have explained this somewhere.
  2. Unfortunately, the learned author (Mufti sb) did not mention the relevant law in Pakistan, i.e. section 7 of the Muslim Family Law Ordinance 1961 and its analysis and Islamicity or otherwise. The learned author could have also mentioned the position of other Muslim countries on this point. I have explained this somewhere.
  3. The learned author (Mufti sb) could have also analysed that section 7 has so many problems; that it is law legislated by a Muslim government a whether Muslims in Pakistan should follow it or not and what do Muslim jurists say about such a law and situation. This would have been a very good discussion.
  4. In your short note the first observation in my humble opinion is: first, when a husband delegates the right of talaq to his wife (see section 18 of the Nikah nama in Pakistan) and she exercises that right, she will divorce herself with one revocable talaq and she does not have the right to pronounce three talaq on herself. The reason is that she was delegated the right of divorce in specific words used for talaq which amounts only to one and NOT three if exercised. (I have written on this long ago).
  5. Your last opinion (the issue of automatic talaq) on page 39 is problematic. First, from which source is this opinion derived? Secondly, it would be better to mention that this is a very old issue in the subcontinent and that the great Sheikh and Hakeemul Ummat Moulana Ashraf 'Ali Thanavi (Rahmatullahi 'alihi) had done his best to provide battered Muslim women some remedies in the shape of Dissolution of Muslim Marriages Act 1939. His classic book Al-Heelah is available for its background. A lot is written on this issue.

Best regards,
Dr. Muhammad Munir,
Chairman Department of Law,
IIU, Islamabad
(۳)
جناب مدیر صاحب ماہنامہ الشریعہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج گرامی؟
ماہنامہ الشریعہ فروری ۲۰۱۳ء کے شمارے میں خواجہ امتیاز احمد صاحب سابق رکن اسلامی جمعیت طلبہ گوجرانوالہ کا ایک مضمون ’’جماعت اسلامی کے ناقدین ومصلحین‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے جس کے آغاز میں اپنا تعارف کراتے ہوئے انھوں نے اپنے استاذ، میرے استاذ اور آپ کے بھی استاذ کے متعلق ایک جملہ لکھا ہے جو ہماری سمجھ میں نہیں آ سکا۔ لکھتے ہیں: ’’صوفی صاحبؒ ، مولانا عبد القیوم صاحب، مولانا محمد خان مبلغ ختم نبوت او رمولانا محمد حیات مرحوم جو نصرۃ العلوم میں تشریف لاتے تھے، میرے سوالات سے کچھ گھبرا جاتے تھے۔‘‘ (ص ۴۹) یہ جملہ مجھے اور دیگر کئی احباب کی سمجھ میں نہیں آ سکا کہ وہ کون سے سوالات تھے جن سے یہ جبال علم گھبرا جاتے تھے اور وہ بھی ایک نو آموز اور مبتدی طالب علم سے!! ہماری معلومات تو اول الذکر دونوں بزرگوں کے متعلق یہ ہیں کہ وہ اعلاء کلمۃ الحق کے لیے کبھی کسی جابر سلطان کے سامنے بھی حق کہنے سے نہیں گھبرائے، اس لیے ہم الشریعہ کی وساطت سے خواجہ صاحب موصوف کی خدمت میں مودبانہ درخواست پیش کریں گے کہ اگر ان کی یادداشت صحیح کام کر رہی ہو تو براہ کرم ان سوالات کی لسٹ الشریعہ میں طبع کرا دیں تاکہ ہماری معلومات میں بھی اضافہ ہو سکے۔ عین ممکن ہے کہ خواجہ صاحب موصوف کو علم ہی نہ ہو اور یہ حضرات اپنی تحریروں، تقریروں اور مواعظ میں ایسے سوالات کے جوابات دے چکے ہوں۔ یہ تو بہرحال ان کے سوالات سامنے آنے پر ہی واضح ہو سکے گا۔
محمد فیاض خان سواتی
مہتمم جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ

دو قومی نظریہ اور امجد علی شاکر

سید امتیاز احمد

جہاں علمی ادارے، میڈیا اور ذہن سازی کے جملہ مراکز اور ذرائع نقطہ ہائے نظر کو تاریخی حقائق اور نظریات کو عقائد بنا کر پیش کرنے میں مصروف ہوں، جہاں سماعتیں آدھا سچ سننے اور بصارتیں ادھوری حقیقت پڑھنے کی اس حد تک عادی ہو چکی ہوں کہ پورے سچ اور مکمل حقیقت کے روبرو ہونے کی خواہش ہی موجود نہ رہے، وہاں اگر کوئی دیوانہ پکار اٹھے کہ ’’بادشاہ تو ننگا ہے‘‘، وہاں اگر کوئی مؤرخ، تعصبات سے بلند ہو کر تاریخ کا جائزہ لینے کا حوصلہ کر بیٹھے، وہاں اگر کوئی حقیقت کا متلاشی سچ کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے کسی کوئے ملامت میں جا نکلے، وہاں اگر کوئی دانش ور سرکاری نقطۂ نظر اور درباری تاریخ پر شک کا اظہار کر بیٹھے ۔۔۔ تو ہمارا اور آپ کا بھی فرض بنتا ہے کہ اس کی نیت پر حملہ آور ہونے سے قبل اس کی بات کو توجہ سے سن تو لیں، ذرا دیر کو ٹھہر کر اس کے موقف پر غور تو کر لیں۔ امجد علی شاکر کی کتاب ’’دو قومی نظریہ: ایک تاریخی جائزہ‘‘ بھی ہم سے کچھ ایسا ہی تقاضا کرتی ہے۔
یہاں یہ وضاحت شاید غیر ضروری نہ سمجھی جائے کہ یہ تاریخ کی کتاب نہیں، یہ ایک ایسے نظریے کا تنقیدی، تحقیقی اور تاریخی جائزہ ہے جو نہ صرف ہماری ماضی قریب کی تاریخ کی تشکیل پر اثر انداز ہوا ہے بلکہ آج بھی سوچنے سمجھنے والے ذہنوں کے لیے ایک معما بنا ہوا ہے۔ یہ نظریہ ہمارے لیے یوں بھی ایک ’’مجتمع الضدین‘‘ بن چکا ہے کہ اگر چھوڑتے ہیں تو اپنی (نصابی) تاریخ سے جاتے ہیں اور اگر رکھتے ہیں تو حال بے حال ہوتا ہے۔ یہی غالبًا اس موضوع کو شعوری طور پر نظر انداز کیے جانے کا سبب بھی ہے۔ یہ وضاحت تو خیر کتاب کے اجمال کا جواز فراہم کرنے کے لیے تھی، شاکر صاحب نے اب اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے تو بڑی حد تک حق بھی ادا کیا ہے۔
پہلی بات تو یہ کہ مصنف نے اس نظریے کے آغاز کو اس کے نو آبادیاتی تناظر میں رکھ کر سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ یہ بات ایک بڑی خوبی یوں بن جاتی ہے کہ ہم لوگ بالعموم نو آبادیت اور اس کے جملہ مضمرات سے بالعموم بے خبر ہی رکھے گئے ہیں۔ سبب وہی کہ اگر نو آبادیاتی استحصال کی تفصیل بیان کی جائے تو لامحالہ، اس استحصال کے خلاف احتجاج کرنے والوں کا ذکر بھی آئے گا۔ جنہیں ہم بوجوہ، مطعون و مغضوب ہی رکھنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف اس ظلم و استحصال میں استعمار کے دست و بازو بن کر مفادات حاصل کرنے والوں کا ذکر بھی ناگزیر ہوگا جو اس دور سے لے کر آج تک، ہمیشہ، اقتدار کی غلام گردشوں میں پائے گئے ہیں۔ نو آبادیاتی قوتوں کی مذمت گویا انہی کی مذمت بن جاتی لہٰذا اس موضوع کو یا کم از کم اس کی تفاصیل کو نصابی اور تاریخی کتابوں سے باہر رکھنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن ظاہر ہے، اس قسم کی کوششیں ایک حد تک ہی موثر ہوتی ہیں اور اتنی سامنے کی باتوں پر پردہ ڈالے رکھنا تو اور بھی مشکل ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ نو آبادیاتی اور سامراجی قوتیں اپنی مفتوحہ نو آبادیوں کے عوام و خواص کو محض سیاسی اور معاشی طور پر ہی تباہ و برباد کرنے پر قانع نہیں رہتیں، اس استحصال کی حدود محکوم اقوام کی علمیّات، ان کی تہذیب و ثقافت اور عقائد و نظریات تک کو اپنے گھیرے میں لے آتی ہیں۔ حاکم قوم کی تہذیبی اور علمی برتری کو تسلیم کروانے کی کوشش تو خیر سامنے کا پہلو ہے لیکن ہوتا یہ ہے کہ خالص مقامی مسائل اور ان کے حوالے سے تشکیل پانے والے نقطہ ہائے نظر و نظریات کو بھی صاحبانِ عالی شان کے ردّ و قبول کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جو نظریات غیر ملکی اقتدار کو دوام بخشنے میں ممّد و معان ہو سکتے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، بلکہ بوقتِ ضرورت ایسے مسائل خود بھی متعارف کروائے جاتے ہیں مثال کے طور پر ہندی اردو تنازعہ اس کے برعکس جو تصورات و نظریات نو آبادیاتی اقتدار کو کمزور کرنے اور محکوموں کو استعماری قوتوں کے استحصال سے آگاہ اور اس کے خلاف منظم کرنے کا باعث ہو سکتے ہیں، ان کے علم برداروں کے حصہ میں ایک طرف تو پھانسیاں، جائدادوں کی ضبطیاں اور حبسِ دوام بعبور دریائے شور آتے ہیں اور دوسری طرف الزام تراشی، بہتان طرازی اور کردار کشی۔ ہندوستان میں دو قومی نظریے بلکہ نو آبادیاتی دور میں سامنے آنے والے کسی بھی نظریے کے ظہور کا جائزہ لیتے ہوئے اس تناظر کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے اور اس کتاب میں بھی فاضل مصنف نے اسے پیش نظر رکھ کر ہی گفتگو کا آغاز کیا ہے۔
کتاب کا پہلا باب سر سید احمد خان کے حوالے سے ہے۔ اس نظریے کے بعض موئیدین کے جذباتی بیانات سے صرفِ نظر کیا جائے تو دو قومی نظریے کا تحریک پاکستان کے پس منظر میں باقاعدہ آغاز سر سید ہی سے کیا جاتا ہے، بالخصوص مولانا حالی کے نقل فرمودہ بیانات سے۔ مثال کے طور پر:
’’۔۔۔ مجھے یقین ہوگیا کہ اب ہندو مسلمانوں کا بطور ایک قوم کے ساتھ چلنا اور دونوں کو ملا کر سب کے لیے ساتھ ساتھ کوشش کرنا محال ہے۔‘‘
یہاں شاکر صاحب ایک بہت بڑی اور غالباً دانستہ پیدا کی گئی غلط فہمی کو دور کرتے ہیں، جب وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ بیان ۱۹۶۷ء کے ہندی اردو تنازعے کے حوالے سے دیا گیا تھا جب کہ اس کے بعد اپنی وفات سے چند ماہ قبل تک موصوف اس قسم کے بیانات دیتے رہے;
’’ ۔۔۔ پس مسلمانوں اور ہندوؤں میں کچھ مغائرت نہیں ہے۔ جس طرح آریا قوم کے لوگ ہندو کہلائے جاتے ہیں، اسی طرح مسلمان بھی ہندو یعنی ہندوستان کے رہنے والے کہلائے جا سکتے ہیں۔‘‘
اور محض بیانات ہی نہیں علی گڑھ کالج ہو یا ’’وفادار ہندوستانیوں کی ایسوسی ایشن‘‘ ہر جگہ وہ ہندوؤں کو (یا کم از کم اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کو) ساتھ لے کر ہی چلتے رہے۔ اس صورتِ حال میں سر سیّد کو دو قومی نظریے کا علم بردار قرار دینا، خلطِ مبحث پیدا کرنے کی شعوری کوشش ہی کہلائے گا۔ خیر کوششوں کا کیا گلہ کیا جائے کراچی کے ایک صاحب علم تو دو قومی نظریے کا اثبات قرآن و حدیث سے کرنے کی کوشش کرتے پائے گئے تھے۔ 
دوسرے باب کا عنوان ’’علامہ اقبال اور دو قومی نظریہ‘‘ ہے۔ علامہ سر محمد اقبال کو بہرحال دو قومی نظریہ کے باقاعدہ نظریہ سازوں میں شامل کیا جا سکتا ہے اور کیا جانا چاہیے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ انہوں نے برصغیر کے معروضی حالات اور زمینی حقائق کا جائزہ لینے کے بعد جملہ جزئیات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ایک باقاعدہ اور مکمل نظریے کی صورت میں یہ تصور پیش کیا تھا۔ انہوں نے متعدد سامنے کے پہلوؤں کو بھی نظر انداز کر دیا تھا۔ مثال کے طور پر ہندوستان میں رہ جانے والی مسلم اقلیت اور مسلمان ریاست میں رہنے والے غیر مسلموں کی قومیت کا مسئلہ اور دیگر ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کے ساتھ تعلق کی نوعیت کا مسئلہ وغیرہ۔ جہاں تک اسلام کے تصورِ ملت کی آفاقیت اور مقامی قومیتوں کے تصور میں مطابقت اور دونوں کے الگ الگ تقاضوں کی تفہیم کے مسئلے کا تعلق ہے، حیرت ہوتی ہے کہ وہ قوم اور ملت کی اصطلاحوں میں واضح نصوص کے باوجود کوئی فرق روا رکھنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ایک سامنے کی لیکن ضروری بات یہ بھی ہے کہ عملی طور پر اس صورت حال کے بہت سے پہلو، علامہ کی وفات کے بعد سامنے آئے یا واضح ہوئے، سو اب کیا کہا جا سکتا ہے کہ ان کے تصورات ارتقا پا کر کیا صورت اختیار کرتے اور بعد کی سیاسی پیش رفت کے دوران میں ان کا نقطہ نظر کیا ہوتا؟ پنجاب مسلم لیگ کے ساتھ ان کے تعلق کے مختلف مراحل اور اس دوران ان کے نقطہ نظر میں آنے والی تبدیلیاں ہمارے سامنے ہیں۔ 
جہاں تک خود بانئ پاکستان اور دو قومی نظریے کا تعلق ہے، صورت حال دلچسپ تر ہے۔ انہوں نے اس معاملے کے نظری پہلو پر کبھی تفصیل سے کلام کیا ہی نہیں۔ ان کی تقاریر کے اقتباسات اور بیانات ہی پیش کیے جاتے ہیں لیکن ان میں مختلف مواقع پر مختلف بلکہ متضاد تصورات پائے جاتے ہیں۔ غالبًا اس کا سبب تقاریر کے لکھنے والے ہو سکتے ہیں۔ اگر Speech Writer غلام احمد پرویز ہوں تو ان کی تقریر میں صرف قرآن سے رہنمائی لینے اور مرکز ملت کا تصور جھلکنے لگتا ہے۔ جب وہ اپنی تقریر خود لکھتے ہیں تو ۱۱ ۔اگست کا تاریخی خطاب سامنے آتا ہے، ان بیانات میں مطابقت پیدا کرنا جناح صاحب کے ہر سوانح نگار کے لیے ایک مسئلہ رہا ہے اور رہے گا۔ کتاب کا ایک معنیٰ خیز بلکہ بعض حضرات کے لیے چشم کشا باب ’’دو قومی نظریہ کے ہندو اور انگریز نظریہ ساز‘‘ ہے۔ لیکن اس سے پہلے وہ مودودی صاحب کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ مولانا مودودی اور جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے دیگر مصنفین کا تحریک آزادی، تحریک پاکستان اور دو قومی نظریے کے حوالے سے رویّہ دلچسپ اور تاریخی ہی نہیں، نفسیاتی مطالعے کا بھی سزاوار ہے۔ غالبًا یہی سبب ہے کہ فاضل مصنف نے ایک باب اس حوالے سے شامل کتاب کرنا ضروری سمجھا وگرنہ اس دور کی جماعت کا حجم اور مولانا مودودی کے اس وقت کے مقام و مرتبہ اور حلقۂ اثر کو پیش نظر رکھا جائے تو اس حوالے سے ان کا کوئی قابل ذکر اور موثر کردار ممکن ہی نہیں تھا۔ لہٰذا مجید نظامی کا انہیں پاکستان مخالف قرار دینا اور جماعتی حلقوں کی جانب سے انہیں محسنینِ تحریک پاکستان میں شامل کرنا افراط و تفریط ہی کہلائے گا۔ 
دو قومی نظریے کے شارحین کے بیان میں فاضل مصنف ایک اہم لیکن نسبتًا غیر معروف کردار فضل کریم درّانی کو بھی یاد کیا ہے۔ یہ صاحب ایک دور میں اتنے اہم تھے کہ محمد علی جناح اور علامہ اقبال کی ملاقاتوں میں موجود ہوتے تھے۔ ان کی کتاب The Future of Islam In India علامہ اقبال کے خطبۂ الٰہ آباد سے دو سال قبل شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب میں دو قومی نظریہ پوری تفصیل اور شدّت کے ساتھ موجود ہے۔ لہٰذا خورشید کمال عزیز کا یہ سوال بے جا نہیں کہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے اور باہم تعارف اور ملاقاتوں کے باوجود علامہ اقبال درانی صاحب کے خیالات سے متاثر یا کم از کم بخوبی آگاہ نہ ہو چکے ہوں۔
اس کے بعد ذکر آتا ہے تھانوی حلقہ کے علمائے کرام اور جناب جی اے پرویز کا۔ دونوں کا ذکر ایک ہی جملے میں کرتے ہوئے ہمیں بھی عجیب لگ رہا ہے اور یقیناًپڑھنے والوں کو بھی عجیب لگے گا لیکن یہ بھی تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی کو اعلاء السنن میں غلام احمد پرویز اور طلوع اسلام کا حوالہ دینا پڑے۔ 
کتاب میں اور بھی بہت کچھ ہے لیکن اصل سوال آج کے دور میں دو قومی نظریے کی ایسی معنویّت تلاش کرنے کا ہے جسے قبول کرنے کے بعد ۱۵۔ اگست ۱۹۴۷ء سے قبل بھی اس کا جواز برقرار رہے۔ کیا دو قومی نظریے کے علم برداروں میں سے کوئی ایسا کر پایا؟ آخری باب میں شاکر صاحب نے جناب جاوید اقبال کی خود نوشت سوانح ’’اپنا گریباں چاک‘‘ میں شامل ’’علامہ اقبال کے نام دوسرا خط‘‘ سے ایک اقتباس نقل کیا ہے، ہم اسی اقتباس کو درج کرتے ہوئے اپنی بات سمیٹ لیتے ہیں۔
’’اے پدرِ محترم! اگر اب ہماری اجتماعی شناخت کے لیے وہ علاقہ مختص ہوگیا ہے جسے پاکستان کہتے ہیں اور جس کا مفاد ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہے تو پھر مولانا حسین احمد کا قول کس اعتبار سے غلط ہوا؟ کیا ہمارے عمل سے یہ ثابت نہیں ہوگیا کہ قومی یا وطنی اعتبار سے تو ہم پاکستانی ہیں اور ملی اعتبار سے مسلم۔‘‘

’’رسول اکرم ﷺ کی مجلسی زندگی‘‘ ۔ مضمون نویسی کا انعامی مقابلہ

ڈاکٹر حافظ محمد رشید

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کی طرف سے شہر کے دینی مدارس کے طلبہ کے درمیان ’’رسول اکرمؐ کی مجلسی زندگی‘‘ کے عنوان پر اس سال مضمون نویسی کے انعامی مقابلہ کا اہتمام کیا گیا جس میں شہر کے دس مدارس کے ۲۲ طلبہ نے حصہ لیا۔ ان میں سے (۱) محمد اشرف علی، جامعہ حقانیہ (۲) حسن البناء ، جامعہ عربیہ (۳) عبد الغنی، جامعہ نصرۃ العلوم (۴) محمد عثمان، دارالعلوم نے بالترتیب اول، دوم، سوم اور چہارم پوزیشن حاصل کی جبکہ محمد حفیظ اللہ (مدرسہ ابو ایوب انصاریؓ ) اور عبد الوہاب (جامعہ نصرۃ العلوم) کو یکساں طور پر پنجم پوزیشن کا مستحق قرار دیا گیا۔ 
۳ فروری کو مغرب کے بعد اکادمی میں تقسیم انعامات کی تقریب منعقد ہوئی جس میں علماء کرام اور طلبہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ المشرق سائنس کالج کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر عبد الماجد حمید المشرقی مہمان خصوصی تھے، تقریب سے مہمان خصوصی کے علاوہ الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی، مولانا محمد عبد اللہ راتھر اور قطر سے تشریف لائے ہوئے معزز مہمان الشیخ عبد اللہ بن احمد عمانی نے بھی خطاب کیا اور مولانا داؤد احمد میواتی کی دعا پر یہ تقریب اختتام پذیر ہوئی۔ 
اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی صاحب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دینی مدارس کے طلبہ کے درمیان مختلف موضوعات پر وقتاً فوقتاً مضمون نویسی کے مقابلوں کا الشریعہ اکادمی کی طرف سے اہتمام کیا جاتا ہے جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ طلبہ میں لکھنے پڑھنے کا ذوق پیدا ہو اور وہ اپنے دور کے تقاضوں اور ضروریات کو سمجھتے ہوئے لوگوں میں دین کی بات کہنے اور لکھنے کے لیے اپنی صلاحیت کو اجاگر کریں۔ اس سال اس مقصد کے لیے ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلسی زندگی‘‘ کا انتخاب کیا گیا اور مختلف مدارس کے طلبہ نے اس میں حصہ لیا، ان طلبہ کے ساتھ اس عمل میں شریک ہونے کے لیے اس موضوع پر کچھ گزارشات پیش کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ 
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روز مرہ معمولات کا آغاز بھی مجلس سے ہوتا تھا اور اختتام بھی مجلس پر ہی ہوتا تھا، صبح نماز کے بعد عمومی مجلس ہوتی تھی اور رات کو عشاء کے بعد خواص کی محفل جمتی تھی جبکہ دن میں بھی مجلس کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ سیرت اور حدیث کی مختلف روایات میں بتایا گیا ہے کہ نماز فجر کے بعد جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں ہی اشراق کے وقت تک تشریف فرما ہوتے تھے، اس دوران وہ ساتھیوں کا حال احوال پوچھتے تھے، کسی نے خواب دیکھا ہوتا تو وہ بیان کرتا تھا اور تعبیر پوچھتا تھا، خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی خواب دیکھا ہوتا تو تعبیر کے ساتھ وہ خواب بیان فرماتے تھے، کوئی تازہ وحی نازل ہوتی تو اس کا ذکر کرتے تھے، کوئی اعلان کرنا ہوتا تو کرتے تھے۔ ا س موقع پر مجلس میں دورِ جاہلیت کے واقعات کا تذکرہ ہوتا تھا اور شعر و شاعری کا دور بھی چل جاتا تھا جن میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شریک نہیں ہوتے تھے لیکن سن کر مسکرا دیتے تھے۔ پھر سارا دن مجالس چلتی رہتی تھیں، احکام و مسائل کا تذکرہ ہوتا تھا، ہدایات ہوتی تھیں اور تلاوت اور ذکر و اذکار کا سلسلہ بھی ہوتا تھا جبکہ عشاء کے بعد خواص کی مجلس ہوتی تھی جس کا تذکرہ حضرت علیؓ نے شمائل ترمذی کی ایک روایت کے مطابق یوں کیا ہے کہ خاص خاص احباب عشاء کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حجرے میں جمع ہو جاتے تھے جہاں اس رات آپ کا قیام ہوتا تھا، اس میں مختلف علاقوں کی صورت حال پیش کی جاتی تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مختلف قبیلوں اور علاقوں کے حالات دریافت کرتے تھے اور لوگوں تک پہنچانے کے لیے پیغامات دیتے تھے، اس طرح مجموعی صورت حال پر باہمی مشاورت ہو جاتی تھی اور اگلے روز کی تیاری بھی ہوتی تھی۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ بہت سے لوگ جو اپنی حاجات اور ضروریات خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش نہیں کر پاتے تھے، ان کی ضروریات اور مسائل ہم لوگ رات کی مجلس میں پیش کر دیتے تھے۔ 
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجالس میں ہر طرح کی باتیں ہوتی تھیں اور بے تکلفی کے ماحول میں ہوتی تھیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب و احترام صحابہ کرامؓ کے دلوں میں حد سے زیادہ تھا لیکن اس کے باوجود مجلس کا ماحول کھلا رہتا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی خوش طبعی اور دل لگی فرماتے تھے اور صحابہ کرامؓ بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بے تکلفی اور خوش طبعی کر لیتے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی کا نام حضرت نعیمانؓ ہے، بدری صحابی تھے اور بہت خوش طبع آدمی تھے، ان کی دل لگی کے بہت سے واقعات ان کے تذکرہ میں ملتے ہیں حتیٰ کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی دل لگی کر لیتے تھے، ایک بار وہ مسجد میں آرہے تھے کہ راستہ میں ایک ریڑھی پر انگور دیکھے، بیچنے والے سے کچھ انگور لیے اور کہا کہ یہ مسجد میں لے جا رہا ہوں، اگر پسند نہ آئے تو واپس کر دوں گاورنہ تھوڑی دیر کے بعد تم مسجد میں آکر پیسے لے لینا، مسجد میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے۔ نعیمانؓ نے پوچھا یا رسول اللہ! انگور کھائیں گے؟ فرمایا کھا لیں گے۔ اس نے انگور حضورؐ کے سامنے رکھ دیے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھائے اور مجلس میں بیٹھے دوسرے لوگوں نے بھی کھائے۔ تھوڑی دیر میں انگوروں والے نے آکر پیسے مانگے تو نعیمانؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یا رسول اللہ! اس کو پیسے دے دیں۔ فرمایا کس بات کے؟ کہا یہ جو انگور کھائے ہیں ان کے پیسے۔ فرمایا کہ میں نے تو نہیں منگوائے تھے، نعیمانؓ نے کہا کہ کھائے تو ہیں نا! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیسے دے دیے تو نعیمانؓ نے کہا کہ میں نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے کہ اس کے بغیر آپؐ نے انگور کھانے نہیں تھے۔ غرضیکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سب دوستوں کے ساتھ بے تکلفانہ ہوتی تھی اور ہر قسم کا ذوق رکھنے والے کو اس میں اپنی تسکین کا سامان مل جاتا تھا۔

اپریل ۲۰۱۳ء

علم الکلام اور اس کے جدید مباحثمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
علماء اور جدید طبقوں میں ہم آہنگیمولانا مفتی محمد زاہد
شعبہ اسلامیات، جامعہ پنجاب کا علمی کامپروفیسر خالد ہمایوں
’’کافروں‘‘ کے دفاع میں جہادجان کائزر
ریاست، معاشرہ اور مذہبی طبقات ۔ پاکستان کے تناظر میں اہم سوالات کے حوالے سے ایک گفتگو (۲)محمد عمار خان ناصر
مکاتیبادارہ
فاسٹ فوڈ اور بڑھتے ہوئے امراضادارہ
شاہ ولی اللہؒ اور علامہ محمد اقبالؒمولانا ابوعمار زاہد الراشدی

علم الکلام اور اس کے جدید مباحث

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

علم العقائد اور علم الکلام کے حوالے سے اس وقت جو مواد ہمارے ہاں درس نظامی کے نصاب میں پڑھایا جاتا ہے، وہ اس بحث ومباحثہ کی ایک ارتقائی صورت ہے جس کا صحابہ کرامؓ کے ہاں عمومی دور میں کوئی وجود نہیں تھا اور اس کا آغاز اس وقت ہوا جب اسلام کا دائر ہ مختلف جہات میں پھیلنے کے ساتھ ساتھ ایرانی، یونانی، قبطی اور ہندی فلسفوں سے مسلمانوں کا تعارف شروع ہوا اور ان فلسفوں کے حوالے سے پیدا ہونے والے شکوک وسوالات نے مسلمان علما کو معقولات کی طرف متوجہ کیا۔ 
ابتدائی دور میں عقیدہ صرف اس بات کانام تھا کہ قرآن کریم نے ایک بات کہہ دی ہے یا جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بات ارشاد فرما دی ہے، بس اسی کو بے چون وچرا مان لینے کا نام عقیدہ ہے۔ ان عقائد کے حوالے سے صحابہ کرامؓ کو اس سے زیادہ کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی تھی کہ قرآن کریم نے یا جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بات فرما دی ہے اور نہ ہی انھیں اس بات سے کوئی غرض ہوتی تھی کہ وہ بات ہماری عقل وفہم کے دائرے میں آتی ہے یا نہیں یا ہمارے محسوسات ومشاہدات اس کو قبول کرتے ہیں یا نہیں اور وہ ان باتوں سے بے نیاز ہو کر قرآن وحدیث کی تصریحات پر ایمان رکھتے تھے بلکہ معقولات کے حوالے سے عقائد پر بحث ومباحثہ کو بھی پسند نہیں کیا کرتے تھے۔ البتہ بیرونی فلسفوں کے در آنے سے جب عقلی سوالات کھڑے ہوئے اور علماے اسلام کو ان سوالات کے جواب میں اسلامی عقائد کی وضاحت کی ضرورت پیش آئی تو صحابہ کرامؓ کے آخری دور میں اس قسم کے مباحثوں کا آغاز ہوا اور تابعین واتباع تابعین کے دور میں ہمیں یہ مباحث اپنے عروج پر نظر آتے ہیں۔ 
معقولات کے حوالے سے جب عقائد کے مختلف پہلووں پر بحث ومباحثہ شروع ہوا تو ایک دور تک اس کے مسائل کی نوعیت اس طرح تھی کہ اللہ تعالیٰ کی رویت ممکن ہے یا نہیں؟ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کا باہمی تعلق کیا ہے؟ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی صفت ہے یااس کی مخلوق ہے؟ کبیرہ گناہ کے ارتکاب سے کوئی مسلمان ایمان کے دائرے سے نکل جاتا ہے یا نہیں؟ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو جانے پر ان کی نیابت امامت کے حوالے سے ہوگی یا خلافت کے عنوان سے ہوگی؟ وغیر ذلک۔ اس دور میں اس علم یا فن کو ’’فقہ‘‘ کا حصہ تصور کیا جاتا تھا اور فقہ صرف احکام وقوانین تک محدود نہیں ہوتی تھی، بلکہ ایمانیات یعنی عقائدا ور وجدانیات یعنی تصوف وسلوک بھی فقہ ہی کے شعبے شمار ہوتے تھے، چنانچہ عقائد پر حضرت امام ابوحنیفہؒ کا رسالہ ’’الفقہ الاکبر‘‘ کہلاتا ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ عقائد کے اس عقلی مباحثے کو علم التوحید والصفات، علم النظر والاستدلال اور علم اصول الدین بھی کہا جاتا تھا۔ چونکہ ان مسائل پر عام طور پر بحث ومباحثہ ہوتا تھا اور اس مباحثہ میں معتزلہ پیش پیش ہوتے تھے، اس لیے شہرستانی کے بقول سب سے پہلے معتزلہ نے اسے ’’علم الکلام‘‘ کا نام دیا، مگر اہل سنت کے اکابر علما نے اسے پسند نہیں کیا، چنانچہ اصول فقہ کی متداول کتاب ’’التوضیح والتلویح‘‘ کے محشی نے نقل کیا ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ عمرو بن عبید کو تباہ کرے کہ اس نے کلام کا دروازہ کھولا ہے، امام ابو یوسفؒ نے فتویٰ دیا کہ متکلم کے پیچھے نماز جائز نہیں ہے، امام احمد بن حنبلؒ نے اس کی مذمت کی اور امام شافعیؒ نے اسے شرک کے بعد بدترین برائی سے تعبیر کیا۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ بحث ومباحثہ آگے بڑھتا گیا اور ان علماے اسلام نے بھی جو اس بحث وکلام کو پسند نہیں کرتے تھے، اسلامی عقائد کی عقلی وضاحت اور اثبات کی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے اسے اپنے علمی معمولات میں شامل کر لیا، چنانچہ علم الکلام کے نام سے ایک پورا نصاب اب ہمارے دینی مدارس میں پڑھایا جاتا ہے۔
قرآن وحدیث کے بیان کردہ عقائد پر عقلی بحث ومباحثہ اور ان کی عقلی توجیہات وتعبیرات کے نتیجے میں اس دور میں جو فرقے وجود میں آئے، ان میں معتزلہ، جبریہ، قدریہ، مرجۂ، خوارج، اہل تشیع اور اہل سنت وغیرہ کے نام معروف ہیں۔ ان میں سے اہل سنت اور اہل تشیع اب تک اپنے پورے تعارف کے ساتھ موجود چلے آ رہے ہیں جبکہ باقی فرقوں کا اپنے نام اور تعارف کے ساتھ وجود نظر نہیں آتا، البتہ ان کا ذہن اور سوچ کا انداز مختلف حوالوں سے اب بھی اس سابقہ تعارف اور تشخص کے بغیر امت میں پایا جاتا ہے۔ ان میں سے اہل السنۃ والجماعۃ خود کو امت کااجتماعی دھارا قرار دیتے ہیں جن کی بنیاد دو اصولوں پر ہے: ایک یہ کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دینیات بالخصوص عقائد کی کیا صورت ارشاد فرمائی ہے اور دوسری یہ کہ صحابہ کرامؓ نے اجتماعی طور پر اسے کیسے سمجھا ہے؟ اہل سنت کے نزدیک یہی وہ دو معیار ہیں جن کی بنیاد پر عقیدہ سمیت دین کی کسی بھی بات کو صحیح طور پر سمجھا جا سکتا ہے اور اسی وجہ سے وہ اہل السنۃ والجماعۃ کہلاتے ہیں۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کے مقدمہ میں اہل سنت کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے کہ اہل سنت وہ ہیں جو قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر اسی صورت میں ایمان رکھتے ہیں جیسا کہ انھوں نے فرمایا ہے اور وہ ان ارشادات کی عقلی توجیہ کو ضروری نہیں سمجھتے او رنہ ہی عقلی توجیہ وتعبیر کو قرآن وسنت کے کسی فرمان پر یقین کا معیار تصور کرتے ہیں، البتہ جہاں کسی عقیدہ کی وضاحت یا کسی عقلی سوال کے جواب کے لیے ضرورت محسوس کرتے ہیں، وہاں وضاحت کی حد تک اس عقلی بحث ومباحثہ کو ناجائز بھی نہیں سمجھتے اور ضرورت کے مطابق اس مباحثہ میں شریک ہوتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب نے یہ بھی فرمایا ہے کہ قرآن وسنت کی تصریحات کو ان کی ظاہری صورت میں تسلیم کرنے والے تمام لوگ اہل سنت ہیں، البتہ ظاہری صورت پر فی الجملہ ایمان رکھنے کے بعد اس کی تعبیر وتوضیح میں اختلافات خود اہل سنت کے اندر بھی موجود ہیں اور ایسے کسی اختلاف سے کوئی شخص اہل سنت کے دائرے سے خارج نہیں ہوتا۔ اہل سنت کے دائرے میں عقائد کی ایسی تعبیرات، تشریحات، توجیہات اور توضیحات کے حوالے سے جو مختلف مکاتب فکر موجود چلے آ رہے ہیں، ان میں اشاعرہ، ماتریدیہ اور ظواہر کے گروہ متعارف ہیں جو امام ابو الحسن اشعری، امام ابو منصور ماتریدی اور اما م ابن حزم ظاہری کے بیان کردہ اصولوں کی روشنی میں عقائد کی تعبیر وتشریح کرتے ہیں اور بہت سے امور میں ان کے درمیان اختلافات بھی پائے جاتے ہیں۔
یہ تو مختصر تعارف ہے اس علم الکلام کا جو ہمارے دینی نصاب کا باقاعدہ حصہ ہے اور اب تک انھی خطوط پر استوار ہے جن پر صدیوں قبل اس کی تشکیل ہوئی تھی۔ اب ہم ان تبدیلیوں اور ان کے حوالے سے پیدا ہونے والی ضروریات کی طرف آتے ہیں جو گزشتہ تین صدیوں کے دوران بتدریج رونما ہوئی ہیں اور ہمارے خیال میں ہم اپنے تنزل اور غلامی کے اس دور میں ’’تحفظات‘‘ کے دائرے میں محصور ہو جانے کی وجہ سے ان کی طرف توجہ نہیں دے سکے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا ’’علم العقائد والکلام‘‘ ان تبدیلیوں اور ضروریات کو اپنے ساتھ ایڈجسٹ نہیں کر سکا اور ہم آج کے عالمی تناظر میں ایمانیات وعقائد کے ضروری تقاضوں کے ساتھ اس کو ہم آہنگ نہیں پاتے جس کی طرف مختلف اصحاب فکر ودانش ہمیں وقتاً فوقتاً توجہ دلاتے رہتے ہیں، لیکن ہم ابھی تک اس کا پوری طرح احساس وادراک نہیں کر پا رہے۔ 
ہمارے ’’علم العقائد والکلام‘‘ کے بیشتر مباحث یونانی فلسفہ اور اس کے ساتھ ساتھ ایرانی، ہندی اور قبطی فلسفہ کے ساتھ ہمارے علمی تعارف کی پیداوار ہیں اور ہمارے ہاں اسے ’’معقولات‘‘ کے عنوان سے تعبیر کیا جاتا ہے جبکہ خود اس فلسفہ کی اپنی ہیئت تبدیل ہو چکی ہے اور ارتقائی مراحل نے اس کی شکل وصورت تک بدل کر رکھ دی ہے۔ مثلاً ماضی میں سائنس کو معقولات کا حصہ تصور کیا جا تا تھا اور وہ فلسفہ کا حصہ سمجھی جاتی تھی، چنانچہ ہمارے ہاں فلکیات اور طبعیات کو معقولات ہی کے ایک حصے کے طور پر پڑھایا جاتا تھا، جبکہ سائنس ایک عرصہ سے فلسفہ ومعقولات سے الگ ہو کر ایک مستقل علم کی شکل اختیار کر چکی ہے اور اب وہ معقولات اور فلسفہ کا حصہ نہیں ہے بلکہ مشاہدات ومحسوسات کے دائرے میں شامل ہو چکی ہے، لیکن ہم درس نظامی کے نصاب کے باب میں اس تبدیلی کا ابھی تک ادراک نہیں کر سکے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ فلسفہ اور سائنس کی علیحدگی کے باعث عقائد اوران کی تعبیرات کے ضمن میں جو نئے سوالات پیدا ہوئے ہیں، ہم ان کا جواب دینے کی سرے سے ضرورت ہی محسوس نہیں کر رہے۔ مثلاً فلکیات وطبیعیات جب تک فلسفہ ومعقولات کا حصہ تصور ہوتے تھے، ان کی کسی بات سے قرآن وسنت کے کسی ارشاد کے تعارض وتضاد کی صورت میں ہم آسانی سے یہ کہہ دیا کرتے تھے کہ ہماری عقل کا دائرہ محدود ہے، مگرمعقولات کا دائرہ اور اس کے امکانات بہت وسیع ہیں، اس لیے کوئی بات اگر ہماری معروضی اور محدود عقل کے دائرے میں نہیں آتی تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ معقولات کے وسیع دائرے اور اس کے مستقبل کے امکانات سے بھی متصادم ہے اور ہمارا یہ جواب نہ صرف یہ کہ اطمینان کی صورت بھی پیدا کر دیتا تھا بلکہ بہت سی صورتوں میں عملاً بھی ایسا ہو جاتا تھا، لیکن اسی بات کے عقل وفلسفہ کے دائرے سے نکل کر مشاہدات ومحسوسات کے زمرہ میں شامل ہو جانے کے بعد یہ جواب کافی نہیں ہے اور ہمیں ایسے سوالات کے جوابات کے لیے کوئی اور اسلوب اختیار کرنا ہوگا اور میری طالب علمانہ رائے میں آج کے دور میں ہمارے علم عقائد کے لیے یہ وقت کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔
اسی طرح یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ فلسفہ اور سائنس کے پہلو بہ پہلو ایک اور علم بھی بہت سے سوالات لیے ہمارے سامنے کھڑا ہے اور وہ عمرانیات اور سوشیالوجی کا علم ہے جس نے اس قدر ترقی کی ہے کہ جدید تہذیب اور گلوبل سولائزیشن میں اس نے وحی اور آسمانی تعلیمات کی جگہ حاصل کر رکھی ہے اور انسانی سوسائٹی کے بیشتر مسائل اب اسی کے حوالے سے طے ہوتے ہیں، مگر ہمارے ہاں اس سے بے اعتنائی کا یہ عالم ہے کہ ابن خلدونؒ اور شاہ ولی اللہؒ کے بعد اس درجہ کا کوئی اور عالم نظر نہیں آتا جس نے عمرانیات کو باقاعدہ موضوع بنا کر اس پر بحث کی ہو اور ہمارے دینی حلقوں کو اس علم سے متعارف کرانے کی کوشش کی ہو جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری نئی نسل کے ذہنوں میں عمرانیات اور سوسائٹی کے ارتقا کے حوالے سے سوالات اور شکوک کا ایک جنگل آباد ہے مگر ہمارے دینی حلقوں کے پاس ان سوالات کا نہ کوئی جواب ہے اور نہ ہی ان میں سے بیشتر کو سرے سے ان سوالات کا ادراک ہی حاصل ہے۔ 
اس لیے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ عالمی افق پر گزشتہ تین صدیوں کے درمیان رونما ہونے والی علمی تبدیلیوں اور خاص طور پر فلسفہ، سائنس اور عمرانیات کی انسانی ذہنوں پر حکمرانی سے پیدا شدہ صورت حال میں ہمیں ’’علم العقائد والکلام‘‘ کے نصاب کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا۔ اس کا مطلب عقائد میں تبدیلی نہیں ہے بلکہ ان کی تعبیرات وتشریحات کے اسالیب اور ترجیحات کی ازسرنو تشکیل ہے جو وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ماضی میں یونانی اور دیگر فلسفوں کی آمد پر ہم نے اپنے عقائد پر پوری دل جمعی کے ساتھ قائم رہتے ہوئے ان کی علمی وعقلی توجیہات وتعبیرات کا ایک نظام تشکیل دیا تھا جس کے ذریعے ہم نے اپنے عقائد وایمانیات کے خلاف فلسفہ ومعقولات کی یلغار کا رخ موڑ دیا تھا۔ آج بھی اسی کام کے احیا کی ضرورت ہے اور عقائد وایمانیات کے باب میں جدید فلسفہ، سائنس اور عمرانیات کے پیدا کردہ مسائل اور اشکالات کسی اشعری، ماتریدی، ابن حزم، غزالی، ابن رشد، ابن تیمیہ اور شاہ ولی اللہ کی تلاش میں ہیں جو ظاہر ہے کہ انھی مدارس کی کوکھ سے جنم لیں گے۔ اس لیے دینی مدارس کو اس پہلو سے اپنے ’’بانجھ پن‘‘ کے اسبا ب کا کھلے دل ودماغ کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے اور اس کے علاج کا اہتمام کرنا چاہیے کہ ان کے ذمہ آج کے دور کا سب سے بڑا قرض یہی ہے۔
اس کے ساتھ ہی بطور نمونہ عقائد وایمانیات سے تعلق رکھنے والے چند سوالات کا ذکر کرنا چاہوں گا جو آج کے علمی تناظر میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ذہنوں میں ڈیرہ جمائے ہوئے ہیں اور ان کے قابل اطمینان جوابات فراہم کرنا ہماری اسی طرح کی ذمہ داری ہے جس طرح ابو الحسن اشعری اور ابو منصور ماتریدی نے اپنے دور کے علمی چیلنج کا منطق واستدلال کے ساتھ سامنا کیا تھا:
  • انسان کو جب نفع ونقصان کے ادراک کے لیے عقل دی گئی ہے تو پھر مذہب کی ضرورت کیا باقی رہ جاتی ہے؟
  • وحی کی ماہیت کیا ہے اور کیا یہ انسانی عقل ووجدان سے ہٹ کر کوئی الگ چیز ہے؟ 
  • وحی اور عقل کا باہمی تعلق کیا ہے؟
  • انسانی سوسائٹی جب مسلسل ارتقا کی طرف بڑھ رہی ہے تو نبوت کا دروازہ درمیان میں کیوں بند ہو گیا ہے؟
  • سائنس اور مذہب کا باہمی جوڑ کیا ہے؟
  • مذاہب کی مشترکہ صداقتوں پر یکساں ایمان رکھنے اور ان کے مشترکہ مصالح پر مشتمل احکام پر عمل کرنے میں کیا حرج ہے اور کسی ایک مذہب کی پابندی کیوں ضروری ہے؟
  • سوسائٹی کے ارتقا اور تجربات کی بنیاد پر تشکیل پانے والے افکار ونظریات اور تہذیب کو مسترد کرنے کا کیا جواز ہے؟
  • قرآ ن وسنت کے معاشرتی احکام اس دو رکی عرب ثقافت یا رواجات کے پس منظر میں تھے یا اس سے مختلف ثقافتوں کے ماحول میں بھی واجب العمل ہیں؟
  • احکام وقوانین میں مصالح ومنافع اور اہداف ومقاصد معتبر ہیں یا ظاہری ڈھانچہ بھی ضروری ہے؟
  • اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خدا کا وجود بھی ہے یا نہیں؟ وغیر ذلک۔
یہ مسائل نئے نہیں ہیں، بلکہ ہر دور میں کسی نہ کسی عنوان سے زیر بحث رہے ہیں، لیکن آج کے عالمی تناظر میں یہ زیادہ ابھر کر سامنے آئے ہیں اور ایک مسلمان کو اسلامی اعتقادات وایمانیات کے معیار پر باقی رکھنے کے لیے ان سوالات اور ان جیسے دیگر بہت سے سوالات کے ایسے جوابات ضروری ہیں جو آج کے علمی تناظر اور ہمہ نوع معلومات کے افق میں قابل اطمینان ہوں۔

علماء اور جدید طبقوں میں ہم آہنگی

مولانا مفتی محمد زاہد

(سوسائٹی فار انٹر ایکشن آف ریلجین، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (SIRST) مانسہرہ کے زیر اہتمام ساتویں قومی سیمینار (منعقدہ دسمبر ۲۰۰۹ء) میں گفتگو۔)

میں سب سے پہلے تو جناب پروفیسر عبد الماجد صاحب اور ’’سرسٹ‘‘ میں ان کی پوری ٹیم کو اس دور افتادہ جگہ میں ایسی شاندار علمی و فکری محفل جمانے اور اس سطح کے اہل فکر و دانش کو جمع کرنے پر ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں اور ان کا شکر گزار بھی ہوں کہ انہوں نے مجھ جیسے طالب علم کو اس محفل میں شریک ہو کر مستفید ہونے اور اپنی گزارشات پیش کرنے کا موقع عطا فرمایا۔
یہ سیمینار انسانیت کے اجتماعی المیے کے حوالے سے چل رہا ہے، مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ انسانیت کو بحیثیت مجموعی موضوع بحث بنایا گیا، تمام انبیاء علیہم السلام بالخصوص خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا بنیادی موضوع انسانیت کی فلاح ہی رہا ہے، بلکہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کا دائرہ تو عالمین تک پھیلا ہوا ہے۔ قرآن حکیم نے عالم کی بجائے ’عالمین‘ کی جو بات کی ہے، اس کی صحیح حقیقت کا انکشاف تو شاید آنے والے کسی زمانے میں ہی ہو اور اس وقت پتا چلے کہ قرآن چودہ سو سال پہلے اکیسویں صدی کے سائنس فکشن سے بھی آگے کی بات کر رہا تھا۔ فی الحال اس طرح کی قرآنی تعلیمات اور تعبیرات کا اتنا اثر تو ہونا چاہیے کہ ہم اس کرہ ارضی پر بسنے والی انسانیت کو بحیثیت مجموعی موضوع بحث بنائیں۔ یقیناًجب بھی انسان پر ایک معاشرتی جاندار کی حیثیت سے بحث ہوگی تو دین و اخلاق کا حوالہ لازماً آئے گا۔ خاص طور پر دین اسلام کے نقطۂ نظر سے اس ایشو پر نظر ڈالے بغیر بحث ہی ادھوری اور نامکمل رہے گی اور ظاہر ہے کہ جب انسان کے اجتماعی المیے کے مسئلے کے ساتھ اسلام کے تعلق پر بات ہوگی تو اسلام کی تشریح و تعبیر سے تعلق رکھنے والے طبقات کا حوالہ بھی ناگزیر ہوگا۔ اسی تناظر میں مجھے علماء کی دیگر طبقات کے ساتھ ہم آہنگی کے فقدان پر عرض کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ 
ہمارے عرف میں جب علماء کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے عموماً دینی مدارس کے فضلاء مراد لیے جاتے ہیں۔ ان علماء کی جدید طبقے کے ساتھ ہم آہنگی کا سوال تو ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سے پہلا سوال ان کی معاشرے اور زندگی کے ساتھ ہم آہنگی کا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے مدارس میں تعلیم و تدریس کا انداز اور عمومی ماحول کچھ ایسا ہوتا ہے کہ جیتی جاگتی زندگی کے ساتھ ان کا تعلق نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں علماء اور دینی مدارس کے ذمہ داران کے لیے جو بات سب سے پہلے قابل توجہ معلوم ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ جب ان حضرات سے کسی طبقے کے ساتھ ہم آہنگی، روابط یا تعلقات کار بہتر بنانے کی بات کی جاتی ہے تو ان میں سے بعض حضرات کے رد عمل سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے ایسی درخواست یا گزارش کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ ان سے اپنے کچھ حقوق سے تنازل و دستبرداری یا اپنی ذمہ داریوں کے بارے میں کمپرومائز کی بات کی جا رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ یہ محسوس کر رہے ہوں کہ ان سے کسی اور طبقے کے لیے رعایت مانگی جا رہی ہے یا ان کے مد مقابل کے لیے ان کے سامنے وکالت کی جا رہی ہے یا یہ کہ انہیں اس طرح کی بات کہہ کر کسی مفاد کے حصول کے لیے راغب کیا جا رہا ہے جو ان کے خیال میں (بجا طور پر) اخلاقی پستی اور اپنے مشن سے انحراف کے زمرے میں آتا ہے۔ 
ہو سکتا ہے کہ کئی لوگ انہیں اس طرح کے مشورے واقعی اسی نقطہ نظر سے دیتے ہوں، لیکن عمومی طور پر حقیقت یہ ہے کہ اس نوعیت کے مشورے خود ان کے اپنے مشن کی بھی ضرورت ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر تو دینی علوم کو اس نقطہ نظر سے پڑھنا یا پڑھانا ہو کہ یہ دنیا میں پائے جانے والے چند علوم ہیں یا ایسے علوم ہیں جن سے کسی زمانے میں انسانوں کا ایک بڑا طبقہ اعتنا رکھتا تھا اور اب یہ انسانی تاریخ کا ایک حصہ ہیں، جیسا کہ مستشرقین نے عموماً اسلامی علوم کا اسی زاویہ نگاہ سے مطالعہ کیا اور اپنی تحقیقی کاوشیں علمی دنیا کے سامنے پیش کی ہیں، اگر اسلامی علوم کو اسی زاویہ نگاہ سے پڑھنا پڑھانا ہو جس زاویہ نگاہ سے انہیں مستشرقین نے پڑھا ہے یا آج بھی مغرب کے کئی جامعات میں پڑھے پڑھائے جاتے ہیں تو جیتی جاگتی عملی زندگی اور اپنے سماج سے تعلق کی نوعیت کا سوال اور اس کے بارے میں مشورے اور تجاویز سب غیر متعلق ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر ان علوم کو اس نقطہ نظر سے حاصل کرنا ہو کہ یہ انبیاء علیہم السلام کی وراثت ہیں تو مذکورہ سوالات اور تجاویز سے صرف نظر ممکن نہیں ہے، اس لیے کہ انبیاء علیہم السلام کا علم محض برائے علم نہیں ہوتا، علم برائے دعوت ہوتا ہے۔ ان کا علم اس لیے ہوتا ہے کہ انسانوں کی زندگی پر نافذ اور جاری ہو اور انسانوں کو فکری و عملی طور پر انہیں قبول کرنے اور اپنے اندر جذب کرنے کے لیے تیار کیا جائے۔ یقیناًدینی مدارس میں اسلامی علوم کا حصول اسی زاویہ نگاہ سے ہوتا ہے، اس لیے بنیادی طور پر یہ علماء کرام داعیانہ مشن کے حامل ہوتے ہیں اور داعی کی اپنی ضرورت ہوتی ہے، اپنے ذاتی مفاد کے لیے نہیں بلکہ اس کے مشن کے لیے کہ لوگوں کو اپنے قریب کرے اور خود ان کے قریب ہو، انہیں سمجھے اور اپنا آپ انہیں سمجھائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جو اوصاف قرآن میں مذکور ہیں ان میں ایک صفت من انفسھم کی بھی ہے جو اسی پہلو کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ 
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کا اگر جائزہ لیں تو ان سے بھی یہ بات بڑی وضاحت کے ساتھ سمجھ میں آتی ہے۔ مثلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما کو یمن کی طرف روانہ فرمایا تو انہیں کچھ نصیحتیں فرمائیں۔ یہ حضرات وہاں حاکم بن کر بھی جا رہے تھے، مفتی بھی، معلم دین اور مبلغ و داعی بھی، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحتیں ان سب شعبوں میں کام کرنے والوں سے متعلق ہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا : یسرا ولا تعسرا، لوگوں کے لیے آسانی کرنا، انہیں تنگی میں نہ ڈالنا۔ معلوم ہوا کہ مفتی کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کے لیے یسر اور سہولت کے پہلو کو مد نظر رکھے، معلم کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیم کو آسان سے آسان بنائے، حاکم کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ رعایا سے آسانی کا برتاؤ کرے اور انہیں تنگی اور مشقت میں نہ ڈالے۔ مبلغ و داعی کے لیے بھی یہی ہدایت ہے۔ ظاہر ہے کہ لوگوں سے روابط، ان سے تعلقات کار اور انہیں سمجھے بغیر ان کے لیے آسانی کا راستہ نہیں ڈھونڈا جا سکتا۔ اس سے اگلی ہدایت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے وہ اس معاملے میں اس سے بھی واضح ہے، آپ نے فرمایا : بشرا ولا تنفرا، دین کو اس انداز سے پیش کرو کہ وہ خوشی خوشی اسے قبول کرنے کے لیے تیار ہوں۔ بشرا  کا لفظ بشر سے نکلا ہے جس کا معنی جسم بالخصوص چہرے کے ظاہری حصے کے ہیں۔ تبشیر ایسا خوش کرنے کو کہا جاتا ہے جس سے انسان کا چہرہ دمک اٹھے اور اس کی شکل بتا رہی ہو کہ وہ خوش ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ دین ایسے انداز سے پیش کرو کہ جنہیں وہ پیش کیا جا رہا ہے وہ اسے انتہائی رضا و رغبت کے ساتھ قبول کریں، محض خاموشی نیم رضا والی بات بھی نہ ہو۔ اسی ہدایت کے دوسرے جملے میں فرمایا : ولا تنفرا  جس کا لفظی ترجمہ ہم کر سکتے ہیں: ’’انہیں بدکاؤ نہیں‘‘۔ یعنی ان سے ایسا برتاؤ نہ کرو، ان کے سامنے اپنی بات ایسے انداز سے نہ رکھو جس سے وہ تم سے اور تمہاری بات سے دور ہوں اور بدکنے لگیں اور تمہارے قریب آنا انہیں مشکل محسوس ہو۔ 
بات یہاں سے شروع کی گئی تھی کہ علماء کی جدید طبقے کے ساتھ ہم آہنگی کے فقدان پر بات کرنے کے لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان حضرات کے سوسائٹی کے ساتھ تعلق کے بارے میں بات کی جائے۔ بہت سے مسئلے اسی جڑ کو پکڑ کر درست کرنے سے حل ہو سکتے ہیں۔ اب تک جو عرض کیا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس طرح کی بحث اور گفتگو ضروری نہیں کہ انہیں یا ان کے شاگردں اور حلقہ اثر کو ’’دنیا دار‘‘ بنانے کے لیے ہو، بلکہ یہ بحث ان کے عظیم داعیانہ بلکہ قائدانہ منصب کا تقاضا ہے۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے ایک جگہ دینی مدرسے کا تعارف کراتے ہوئے بڑی خوبصورت بات کہی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ دینی مدرسہ در حقیقت وہ پائپ لائن ہے جو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض حاصل کرتی اور زندگی کو اس سے سیراب کرتی ہے، اس لیے اس کا کام تب پورا ہوتا ہے جب اس کا ایک سرا دربارِ رسالت سے جڑا ہوا ہو اور دوسرا سرا جیتی جاگتی عملی زندگی سے۔ اس پہلو سے اگر دیکھیں تو ہمارے مدارس کے فضلاء کے مزاج، رویے اور سوچ میں بہتری کی گنجائش اور ضرورت کے موجود ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اس سلسلے میں یہاں چند گزارشات پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ 
ہمارے مدارس کا نظام تعلیم و تربیت کچھ ایسا ہے کہ طالب علم شروع ہی سے اپنے ماحول اور معاشرے سے گھل مل نہیں پاتا۔ کم از کم آٹھ سالہ درس نظامی کے دوران سال کے تعلیمی ایام تو اسے گھر سے دور کسی مدرسے میں گزارنے ہی ہوتے ہیں۔ تقریباً دو ماہ کی سالانہ تعطیلات میں بھی بیشتر طلبہ کی اولین ترجیح اور خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ یہ ایام بھی کسی ’’دورہ‘‘ وغیرہ کے عنوان سے کسی مدرسے ہی میں گزاریں۔ یوں وہ تعلیم کے پورے عرصے کے دوران نہ صرف اپنے گاؤں، شہر اور معاشرے سے بلکہ اپنے خاندان تک سے کٹا رہتا ہے۔ (اسی لیے میں تو بیشتر طلبہ کو یہ مشورہ دیا کرتا ہوں کہ وہ تعطیلات اپنے گھر میں گزارنے کی کوشش کریں بلکہ کھیتی باڑی، کاروبار وغیرہ میں والدین کے کام میں کچھ ہاتھ بھی بٹائیں)۔ اوپر سے بعض اوقات جونہی ایک بچہ یا نوجوان دینی تعلیم کے حصول کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی جاتی ہے کہ اب وہ چونکہ ’’دنیادار‘‘ سے ’’دین دار‘‘ ہونے جا رہا ہے، اس لیے اسے یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ ’’دنیا داری‘‘ کے انتہائی گندے تالاب سے نکل کر ’’دین داری‘‘ کی انتہائی مقدس دنیا کی طرف جا رہا ہے، اب پچھلی دنیا سے اس کا کوئی واسطہ اور لینا دینا نہیں ہے۔ اگر کبھی اس نے پیچھے مڑ کر دیکھنا بھی ہے تو ان ’’دنیا دار‘‘ اور ’’گنہگار‘‘ لوگوں کو ’’ٹھیک‘‘ کرنے کے لیے۔ اس طرح اس میں اپنی سوسائٹی میں گھلنے ملنے اور سماج کی فکرمندیوں، غموں اور خوشیوں کا حصہ بننے، اپنے معاشرے اور ملک کے مسائل کو اپنے مسائل سمجھنے کا داعیہ پیدا نہیں ہو پاتا۔ اس طرح سے اس کی اور اس جیسے کچھ اور لوگوں کی ایک بالکل الگ ذہنی دنیا آباد ہوتی ہے جس سے باہر نکلنا وہ گوارا نہیں کرتا اور یہ صورت حال اس کے گاؤں کی سطح سے لے کر ملکی اور عالمی مسائل تک ہوتی ہے۔ فرض کریں، کبھی ملک میں عام انتخابات ہونے والے ہوں جس کے نتائج ملک کی سیاسی، معاشی اور بین الاقوامی تعلقات وغیرہ کے حوالہ سے فیصلہ کن اور گہرے دور رس اثرات مرتب کرنے والے ہوں، اتفاق سے انہی انتخابات میں کسی ایک آدھ نشست پر کسی دینی جماعت کے کوئی راہ نما بھی امیدوار ہوں اور وہاں کسی قدر فرقہ وارانہ نوعیت کا انتخابی معرکہ بپا ہو، ایسے ماحول میں آپ پورے ملک کے مدارس کا دورہ کر کے اور ان میں زیر تعلیم طلبہ کی الیکشن میں دلچسپیوں کے رخ کا جائزہ لے کر دیکھ لیں کہ ان میں سے کتنے لوگ اس پر بحث کر رہے ہیں کہ بحیثیت مجموعی کون سی جماعت کے برسر اقتدار آنے کی صورت میں ملک کے اندرونی و بیرونی معاملات پر کیا مثبت یا منفی اثرات ہوں گے اور ملکی پالیسیاں کیا رخ اختیار کریں گی، اور ان طلبہ میں کتنے ایسے ہوں گے جن کی ذہنی سوئی اسی ایک انتخابی نشست پر اٹکی ہوئی ہوگی جس کے بظاہر ملک کی عمومی صورت حال پر کوئی خاص اثرات مرتب ہونے والے نہیں ہوں گے۔ حاصل یہ کہ چھوٹے سے چھوٹے دائرے سے لے کر وسیع سے وسیع تر سطح پر دیکھیں تو ہمارے ان مدارس کے اندر تعلیم حاصل کرنے والوں میں من انفسھم  جیسے اہم نبیوں والے وصف کی جھلک بہت کم نظر آئے گی۔ دینی مدارس کے ذمہ داران کو اس صورت حال کے اسباب کا تجزیہ کر کے اس سے نکلنے کی کوئی صورت ضرور نکالنی چاہیے۔
علماء کرام کی جدید طبقے کے ساتھ ہم آہنگی بھی ایک حد تک اسی صورت حال کا شاخسانہ ہے۔ علماء کرام اور جدید طبقے کے تعلقات کی جب ہم بات کرتے ہیں تو ’’جدید طبقے‘‘ میں کئی قسم کے لوگوں کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ ایک وہ لوگ ہیں جو سرے سے مسلمان ہی نہیں ہیں۔ ایک وہ لوگ ہیں جو مسلمان ہونے کے باوجود اپنے کام اور شعبے میں ایسے منہمک ہیں کہ دین کی تشریح و تعبیر یا مسلم امہ کے عمومی مسائل سے انہیں کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ کچھ حضرات ایسے ہیں جنہوں نے باقاعدہ طور پر دینی مدارس کے نظام میں تعلیم نہیں پائی ہوتی یا اس میں تعلیم پانے کے باوجود ان کے فکری منہج سے وابستہ نہیں رہے ہوتے، تاہم دینی علوم ان کی محنتوں کا محور ہوتے ہیں لیکن دین کی تفہیم و تعبیر میں ان کا نقطہ نظر دینی مدارس کے حضرات سے مختلف ہوتا ہے۔ بعض حضرات ایسے بھی ہیں جو دینی علوم میں نہ تو مہارت کا دعویٰ کر سکتے ہیں اور نہ ہی ان میں اپنی آرا رکھتے اور ان کا اظہار کرتے ہیں، البتہ مسلم امت کو بحیثیت مجموعی درپیش مسائل اور چیلنجز کے بارے میں وہ سوچتے بھی ہیں اور ان ایشوز پر اپنی رائے بھی رکھتے ہیں اور بسا اوقات ان کے پیش کردہ حل اور تجاویز دینی مدارس کے علماء کی سوچ اور فکر سے مختلف ہوتی ہیں۔ اس وقت بنیادی طور پر ہم موخر الذکر دو طبقات کے ساتھ علماء کرام کے تعلقات کے حوالے سے بات کرنا چاہتے ہیں۔
یہ بات تو کافی حد تک درست ہے کہ ان طبقات اور علماء کرام میں ہم آہنگی کا فقدان ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ہم آہنگی پیدا کرنے کا مطلب کیا ہے؟ ہم آہنگی سے مراد یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ہر ہر ایشو پر سب کی رائے بالکل ایک ہو۔ ایسا ہونا نظام قدرت کے خلاف ہونے کے ساتھ تنوع سے پیدا ہونے والے حسن اور اختلاف رائے سے پیدا ہونے والے متبادل راستوں سے ہاتھ دھونے کا بھی باعث ہوگا۔ ہم آہنگی سے مراد یہ ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف تو ہو مخالفت نہ ہو، سب ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سننے اور گوارا کرنے کے لیے تیار ہوں۔ 
اس سلسلے میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ان تمام طبقات کو اس بات کا بھرپور ادراک ہونا چاہیے کہ ان کے تجویز کردہ راستے اگرچہ ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں، لیکن منزل سب کی ایک ہے۔ منزل ایک ہونے کا ادراک اپنے بارے میں بھی ہو اور دوسروں کے بارے میں۔ اپنے بارے میں اس معنی میں کہ منزل سے نظر ہٹ جانے کی وجہ سے اپنے تجویز کردہ راستے ہی کو منزل سمجھنے کی غلطی نہ ہو، اور دوسروں کے بارے میں اس معنی میں کہ ان کے بارے میں محض اپنے حریف ہونے کا تصور نہ ہو بلکہ ایک معنی میں ہم سفر ہونے یا ہم منزل ہونے کا ادراک بھی ہو اور ان طبقات سے ان کا فرق ملحوظ رہے جن کی منزل ہی بالکل الگ ہے۔ اس ادراک اور استحضا ر کی ذمہ داری صرف ایک خاص طبقے پر نہیں ڈالی جا سکتی، بلکہ یہ گزارش ان تمام طبقات سے کرنی ہوگی جن کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا مقصود ہے۔ 
دوسری بات اس سلسلے میں قابل گزارش یہ ہے کہ ہر طبقے کو چاہیے کہ وہ دوسرے طبقے سے ربط و تعلق، ان کی بات سننے اور اپنی بات سنانے اور ایک دوسرے کی بات پر سنجیدگی سے غور کرنے کو خود اپنی، اپنے مشن اور اپنے مقاصد کی ضرورت سمجھے۔ دو وجہ سے، ایک تو اس لیے کہ میں دیانت داری سے اگر ایک نقطہ نظر یا ایک تجویز کو درست سمجھتا ہوں اور میری یہ بھی دیانت دارانہ رائے ہے کہ دوسرا شخص بھی میری بات کو قبول کر لے تو اچھاہوگا، تو میں اس بات کا ایک طرح سے داعی بن گیا ہوں۔ اس لیے دعوتی رویہ اور انداز اپنانا میرے اپنے مقصد کی ضرورت ہے، اور جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا، داعی کا کام تبشیر ہے ، تنفیر اس مقصد کے لیے مضر ہے۔ داعی کا کام تقاضا کرتا ہے کہ وہ خود بھی دوسروں کے قریب ہو اور دوسروں کو اپنے قریب کرے۔ اگر میں کسی کی بات سننے ہی کا روادار نہیں ہوں گا تو اس کے میرے دعوتی مقاصد پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ جن طبقات کی ہم بات کر رہے ہیں، ان کی منزل اور بنیادی مقاصد ایک ہیں۔ اپنے مقصد اور اپنی منزل سے سچی لگن کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کے لیے بہتر سے بہتر راستے اور موثر سے موثر طریق کار کے لیے متلاشی رہے۔ اپنے مقاصد سے سچی لگن رکھنے والا کبھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے اس حصول کے لیے جو کچھ سوچا اور کیا ہے، وہی کافی ہے۔ اگر کسی اور کے ہاں اسے کوئی ایسی چیز ملے جو اسے مقصد کے قریب کر سکتی ہو تو وہ لازماً اس طرف توجہ دے گا اور اس سے محض اس وجہ سے منہ نہیں پھیرے گا کہ وہ بات ہمارے لوگوں کی نہیں ہے۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ دانائی کی بات مومن کی گم شدہ متاع ہے، جہاں سے بھی اسے ملے وہ اس کا حق دار ہے۔ اس حدیث مبارک میں در اصل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی معاشروں کے ایک دوسرے سے استفادے میں حائل ایک بہت بڑی نفسیاتی رکاوٹ کو دور فرمایا ہے۔ عموماً ہوتا یہ ہے کہ اگر اچھی بات اپنے کسی حریف اور مد مقابل کی طرف سے سامنے آئے تو اسے قبول کرنے میں انسان کی انا رکاوٹ بن جاتی ہے۔ وہ یہ سوچتا ہے کہ میں اس کی بات لے کر ایک طرح سے اس کے زیر احسان ہو جاؤں گا اور اس کی چیز استعمال کرنے والا بن جاؤں گا۔ یہ تصور اس کے دل میں اس کے استعمال کے بارے میں خاص قسم کی ہچکچاہٹ پیدا کرتا ہے۔ اگر میرے پاس اپنی گھڑی نہیں ہے اور کوئی دوسرا شخص کہہ دیتا ہے کہ میری گھڑی تم باندھ لو اور اپنے استعمال میں لے آؤ تو فطری بات ہے کہ مجھے اپنی کمتری کا ایک خاص قسم کا احساس ہوگا کہ میں فلاں کی چیز استعمال کر رہا ہوں، لیکن اگر مجھے یہ بتا دیا جائے کہ یہ چیز ہے ہی تمہاری، یا اس پر تمہارا بھی اتنا ہی حق بنتا ہے جتنا دوسرے کا تو ظاہر ہے کہ میری یہ خاص قسم کی ہچکچاہٹ ختم ہو جائے گی۔ 
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث مبارک میں اسی دکھتی ہوئی رگ پر ہاتھ رکھ کر مسئلے کو جڑ سے پکڑا ہے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم مومن کو یہ نہیں بتا رہے کہ دانائی کی بات کسی سے اگر ملتی ہے تو وہ ہے تو اسی کی مگر تم اسے لے لو، بلکہ آپ یہ فرما رہے ہیں کہ وہ تمہاری ہے، اس لیے اس کے لینے میں تمہیں کسی قسم کی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ دانائی کی کوئی بھی بات ہو انسان زیادہ سے زیادہ اسے دریافت کرتا ہے اس کا خالق نہیں ہوتا، اسے پیدا کرنے والے کی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے خاص فرد یا خاص قوم کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے پیدا کیا ہے، اس لیے اسے دریافت کرنے والے کو اس دریافت کا کریڈٹ اور صلہ تو ضرور ملنا چاہیے، لیکن اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ یہ دانائی ہے ہی اس دریافت کرنے والی کی، کوئی اور اگر اس سے فائدہ اٹھائے گا تو دوسرے کی چیز سے مستفید ہو کر اس کے مقابلے میں کم تر ہو جائے گا تو یہ غلط فہمی ہوگی۔ اس لیے کہ خالق کائنات نے یہ چیز جن کے لیے بنائی ہے، ان میں صرف اس کو دریافت کرنے والا ہی نہیں، استعمال کرنے والا بھی شامل ہے۔ حاصل یہ کہ مذکورہ بالا قدیم و جدید طبقات کو ایک دوسرے کی بات سننے کا تسلسل جاری رکھنا چاہیے، اپنی ضرورت سمجھ کر کہ ہو سکتا ہے کہ ہماری اپنی متاع دوسرے کے پاس موجود ہو اور اب تک ہم اسے حاصل نہ کر سکے ہوں، یہ ضرورت دونوں طبقوں کی ہے۔ طبقہ علما دیگر طبقات سے بہت کچھ حاصل کر سکتا ہے اور دیگر طبقات کے سیکھنے کے لیے طبقات علماء کے پاس بھی بہت کچھ موجود ہو سکتا ہے۔ 
یہاں دینی مدارس کے حلقوں کے دو معروف بزرگوں کی مثالیں ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ان میں ایک تو مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی شخصیت ہے جنہیں عموماً بانی دار العلوم دیوبند کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ مولانا مناظر احسن گیلانیؒ نے سوانح قاسمی میں دارالعلوم دیوبند کے جلسہ دستار بندی کے موقع پر دیا گیا مولانا نانوتوی کا ایک خطبہ نقل کیا ہے جس میں انہوں نے اس بات کا اظہار فرمایا ہے کہ ہم نے اپنا نصاب اس انداز سے تشکیل دیا ہے کہ یہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد طالب علم عصری تعلیمی اداروں کا رخ بھی کر سکے۔ دوسری مثال شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی زندگی کا وہ آخری خطبہ صدارت ہے جو ان کی طرف سے جامعہ ملیہ کے افتتاحی جلسے میں پڑھا گیا تھا۔ اس میں انہوں نے کھل کر اس بات کا اظہار فرمایا ہے کہ جب انہوں نے محسوس کیا کہ جس درد اور فکر کو وہ اٹھائے پھر رہے ہیں، اس میں ان کے ہمنوا بننے والے کالجز اور یونیورسٹیز کی لائن میں زیادہ لوگ مل سکتے ہیں تو انہیں خیال ہوا کہ ایک قدم اس طرف بھی بڑھا کر دیکھ لیا جائے۔ ان دو مثالوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دینی مدارس کی لائن کے بزرگوں کے پیش نظر یہ بات نہیں تھی کہ وہ باقی طبقات زندگی سے کٹی ہوئی کوئی مخلوق تیار کریں جو کسی اور کے قریب جانے یا کسی کو اپنے قریب کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔ 
تیسری گزارش میں یہاں پر یہ کرنا چاہوں گا کہ ایک دوسرے کی بات سننے اور سنانے کے نتیجے میں جہاں بعض باتوں پر اتفاق رائے ہو سکتا ہے، کئی مشترکہ و متفقہ نکات اور پہلو سامنے آسکتے ہیں یا ایک طبقے کے لوگ دوسرے طبقے کے بعض لوگوں کی کسی بات سے متفق ہو سکتے ہیں، وہیں ایک دوسرے کے نقطہ نظر سے اختلاف بھی ہو سکتا ہے اور اس اختلاف کا اظہار بھی ہو سکتا ہے۔ اتفاق ہو یا اختلاف رائے دونوں کے فوائد ناقابل انکار ہیں، لیکن ماضی میں ایک دوسرے طبقے کے ساتھ تخاطب میں دونوں طرف سے بعض ایسی غلطیاں بھی سرزد ہوئی ہیں جو ایک دوسرے کے قریب ہونے یا کم از کم ایک دوسرے کی بات پر سنجیدہ غور کرنے کی راہ میں حائل ہوگئی ہیں۔ بہت سی جگہوں پر اندازِ بیان حریفانہ ہوگیا ہے جو کہ ظاہر ہے کہ ایک ہی منزل کے راہیوں کے شایان شان نہیں ہے۔ بعض اوقات اندازِ تخاطب میں چبھن یا ایک دوسرے کی تحقیر بھی پیدا ہوگئی۔ مثلاً ایک طبقے کے بعض لوگوں کو کسی قدر استہزا کے انداز میں حالاتِ زمانہ سے ناواقف قرار دیا گیا، دوسرے طبقے کی طرف سے جواب میں پہلے کی نیت یا اسلام سے اس کے لگاؤ ہی پر شک کا اظہار کر دیا گیا، بعض حالات میں ایک دوسرے کی کسی موضوع پر رائے زنی کی اہلیت یا استحقاق ہی کو چیلنج کر دیا گیا گیا جس سے حریفانہ کشمکش میں اضافہ ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں طرف سے ہی اس طرح کے انداز خطاب نے دوریاں اور بد گمانیاں پیدا کرنے میں کردار ادا کیا ہے، اگرچہ دونوں طرف سے استثناء ات بھی کم نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں مزید احتیاط کی ضرورت ہے، اس لیے کہ اس طرح کے اختلافی امور پر بات یا تو مباحثے کے لیے ہوتی ہے یا دوسرے شخص کو اپنی بات کا قائل کرنے اور اسے دعوت دینے کے لیے۔ مذکورہ لب و لہجہ دونوں مقاصد کے منافی ہے، خاص طور پر ایک دوسرے کی نیت پر حملہ کرنے یا دوسرے فریق کی اس موضوع پر بات کرنے کی اہلیت ہی کو جلدی سے چیلنج کر دینے کا انداز مطلوبہ نتائج کے لیے بہت نقصان دہ ہوتا ہے۔ 
ہمارے ایک استاذ حضرت مولانا عبد المجید انور صاحبؒ اپنا ایک لطیفہ نما واقعہ سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ وہ کہیں سفر کے لیے ویگنوں کے اڈے پر گئے۔ جیسا کہ ہوتا ہے، مختلف ویگنوں اور بسوں والے ان کے پیچھے ہوگئے، کہاں جانا ہے، فلاں جگہ جانے کے لیے فلاں قسم کی سواری بالکل تیار ہے۔ ہر کوئی اپنی گاری کی طرف بلا رہا ہے، مولانا ان کی صداؤں کو نظر انداز کرتے تشریف لے جا رہے ہیں۔ اتنے میں ایک کنڈکٹر ان کے ہاتھ سے بیگ کھینچتے ہوئے اپنی گاڑی کی طرف لے جانے کی کوشش کرتا ہے۔ مولانا اپنے بیگ پر اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے اس سے کہتے ہیں کہ مجھے معلوم ہے کہاں جانا ہے اور کون سی گاڑی پر بیٹھنا ہے۔ وہ کارندہ مایوس ہو کر یہ کہتے ہوئے پیچھے ہٹ جاتا ہے: ’’تسیں مولویاں نے ہی ملک دا بیڑا غرق کیتا اے‘‘ (تم مولویوں نے ہی ملک کا بیڑا غرق کیا ہوا ہے)۔ مولانا فرماتے تھے کہ چونکہ میں اس کی گاڑی میں نہیں بیٹھا، اس لیے صرف میں نہیں، میرے جیسے سارے مولوی ہی ملک کا بیڑا غرق کرنے کے ذمہ دار ہوگئے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں ہم نے اپنی اپنی ویگنیں اور بسیں بنائی ہوئی ہیں اور جو ہماری بس میں نہ بیٹھے وہ ملک و ملت کا غدار ہے، وہ اس قابل نہیں کہ اس کی بات بھی سنی جائے۔ 
جس طرح میاں بیوی کے درمیان مزاج کی ہم آہنگی کا فقدان ہو تو بھی ایک چیز ایسی ہوتی ہے جو انہیں ایک دوسرے کے قریب رکھتی اور بنا کر رکھنے پر مجبور کرتی ہے، اور وہ چیز ہے ان کی اولاد۔ اس لیے کہ ان کی بہبود دونوں کا مشترکہ مسئلہ اور خواہش ہے، دونوں کا ان کے ساتھ لگاؤ بھی یکساں نوعیت کا ہے۔ جتنا ان کا اولاد کی طرف دھیان رہے گا، اتنا ہی ان کے باہمی اختلاف اور تنازعے میں کمی آئے گی اور جتنی یہ نظروں سے اوجھل ہوگی، اتنی ہی ان کی باہمی کش مکش اپنے اثرات زیادہ دکھائے گی۔ جن طبقوں کی یہاں ہم بات کر رہے ہیں، ان کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ یہاں بھی ایک چیز ایسی ہے جس کی طرف زیادہ توجہ کرنے سے ان دونوں میں قرب بڑھ سکتا ہے، اور وہ ہے امت کی مجموعی مشکلات و مسائل، اسے درپیش چیلنجز اور عام لوگوں کو دین پر عمل کے سلسلے میں پیش آنے والی دشواریاں۔ ان کی طرف توجہ مبذول ہونے کے لیے عملی اور زمینی حقیقتوں کا ادراک ضروری ہے۔ بعض اوقات دونوں طبقوں میں نظری قسم کی بحثیں زیادہ ہوتی ہیں جو انہیں ایک دوسرے سے زیادہ دور لے جاتی ہیں۔ اگر ان نظری بحثوں کے ساتھ عملی حقائق و واقعات اور لوگوں کی مشکلات، کسی خاص پالیسی، قانون یا حکم کے ان کی زندگی پر مرتب ہونے والے اثرات پر بھی نظر ہو تو یہ چیز ان کے درمیان فاصلے اسی طرح کم کر سکتی ہے جیسے اولاد میاں بیوی کے درمیان۔ 
اس سلسلے میں ہم یہاں مثال دے سکتے ہیں عائلی قوانین پر پچھلی صدی کے پچاس کے عشرے میں شروع ہونے والی بحث کی جس نے اپنی بحثوں کو نظریاتی چیزوں تک ہی محدود رکھا، کسی نے بھی بالتفصیل عملی حقائق معلوم کرنے اور یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ کس طرح کے قانون یا حکم سے لوگوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ بالخصوص عورتوں اور بچوں پر کس صورت پر کیا بیتے گی۔ حکومت کے مقرر کردہ عائلی کمیشن رپورٹ میں قرآن کی تشریح و تعبیر کے لیے نئے اجتہاد کی ضرورت جیسی عمومی بحثوں پر کئی صفحات موجود ہیں، لیکن حیرت کی بات ہے کہ زیر بحث خاندانی مسائل میں امر واقعہ کیا ہے؟ کس مسئلے میں کیا ہو رہا ہے؟ اور اس پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ اس بارے میں اعداد و شمار اور معلومات اس رپورٹ میں موجود ہی نہیں اور نہ ہی انہیں اکٹھا کرنے اور میدانی تحقیق (فیلڈ ورک) کرانے کی کوئی ضرورت محسوس کی گئی۔ جب تک معاشرے کے بارے میں جس پر مجوزہ قوانین لاگو ہونے ہیں، درست معلومات موجود نہیں ہوں گی، تب تک یہ فیصلہ کیسے کیا جا سکے گا کہ جو کچھ تجویز کیا جا رہا ہے، اس سے مطلوبہ نتائج برآمد ہوں گے۔ 
مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ آج تک ان مسئلوں پر بحث کسی نہ کسی سطح پر جاری ہے اور اس میں ایک فریق دوسرے کو یہ الزام دے رہا ہے کہ وہ معاشرے کو پیچھے کی طرف لے جانا چاہتا ہے اور دوسرا پہلے کو یہ الزام کہ وہ مطلوبہ رفتار سے زیادہ تیزی کے ساتھ آگے کی طرف بڑھ رہا ہے اور یہ کہ یہ تیز رفتاری خطرناک ہو سکتی ہے، لیکن معاشرے میں کیا ہو رہا ہے، کن کن علاقوں میں کتنے فیصد بچپن کے نکاح ہو رہے ہیں؟ ان کے محرکات اور عوامل کیا ہوتے ہیں؟ ان میں کتنے نکاحوں میں رخصتی تک نوبت پہنچتی ہے اور کتنوں میں رخصتی سے پہلے ہی پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں؟ رخصتی ہو جانے کے بعدان میں کتنے فیصد نکاح کامیاب ثابت ہوتے ہیں؟ یا مثلاً ہماری عورتیں خلع یا فسخِ نکاح کا دعویٰ لے کر عدالتوں میں آتی ہیں، اس کی وجوہات عموماً کیا ہوتی ہیں؟ وکیل کے تیار کیے ہوئے کیس اور حقیقی وجوہات میں کتنی یکسانیت ہوتی ہے؟ کتنے فیصد مقدمات میں واقعی بیوی اپنے خاوند سے علیحدگی چاہتی ہوتی ہے اور کتنے فیصد کیسوں میں وہ اپنے خاندان کی انا کی بھینٹ چڑھ کر دباؤ کے تحت عدالت میں بیان دے رہی ہوتی ہے؟ میاں بیوی کے درمیان تفریق کے بعد کیا ہوتا ہے اور کسے کس طرح کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے؟ اس طرح کے بے شمار سوالات ہیں جن کے بارے میں قابل اعتماد اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں، حالانکہ آج شماریات کا دور ہے، ہر کامیاب پالیسی کے پیچھے میدانی تحقیق (field research)، مصدقہ سروے اور اعداد و شمار ہوتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جدت پسندی کا دعویٰ کرنے والوں کو بھی اس طرح کے مسائل میں امرِ واقعہ جاننے اور اس کے لیے سائنٹیفک انداز اپنانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ حکومتی وسائل کے ساتھ اسلام پر کام کرنے والے اداروں نے اس طرح کا کام کروانے کی غالباً کبھی ضرورت محسوس نہیں کی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جدید دینی موضوعات پر ہماری بحثوں اور تحقیقات کی نوعیت نظری زیادہ اور عملی کم ہے، حالانکہ سائنسی انداز سے سامنے لائے جانے والے حقائق کا نہ تو انکار ممکن ہوتا ہے اور نہ کوئی اس سے صرف نظر کر سکتا ہے، ہم عملی صورت حال اور جیتی جاگتی زندگی سے جتنا متعلق ہوں گے، اتنا ہی ایک دوسرے کے قریب ہوں گے۔
بہرحال ہم آہنگی کی اساس یہی ہے کہ ایک دوسرے کی بات کو سنا اور سنایا جائے، اس پر غور کیا جائے۔ الحمد للہ آج کی صورت حال گزشتہ ایک آدھ عشرے کے مقابلے میں خاصی بہتر ہے۔ کئی ایسے فورم موجود ہیں جہاں دونوں طبقے کے لوگ اکٹھے ہوتے اور ایک دوسرے کی بات سنتے ہیں اور ایسے ہر پروگرام کے بعد ہر طبقے کے شرکا اس کی افادیت اور اس طرح کے پروگرام مزید ہونے کی ضرورت کا اعتراف کرتے ہیں۔ ’’سرسٹ‘‘ بھی اسی نوعیت کی اچھی کوشش ہے، دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے زیادہ سے زیادہ بار آور بنائیں۔ آمین۔ 
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
(بشکریہ مجلہ ’’سائنس ریلیجین ڈسکورس‘‘ ۲۰۱۰ء)

شعبہ اسلامیات، جامعہ پنجاب کا علمی کام

پروفیسر خالد ہمایوں

۸ فروری کو میرا ایک کالم ’’دور جدید کے تقاضے اور شعبہ اسلامیات پنجاب یونیورسٹی‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس میں، میں نے شعبہ کے اساتذہ کی تصانیف کی فہرست پیش کی تھی اور ساتھ عرض کیا تھا کہ اس میں سوائے ایک کتاب (یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ) کے کوئی دوسری کتاب ایسی نظر نہیں آتی جس میں ہمارے سماجی اور ریاستی نظام کو زیر بحث لایا گیا ہو۔ ماضی بعید یا قریب کے کسی مفسر، کسی محدث، کسی سیرت نگار اور کسی فقیہ کو تحقیق کا موضوع بنانا بھی بلا شبہ بہت اہم کام ہے۔ آخر ہم اپنے کلاسیکی دینی لٹریچر کو کیسے فراموش کر سکتے ہیں، وہ تو ہماری تہذیبی زندگی کی اساس ہے، لیکن میرے نزدیک اساتذہ کرام کی یہ روش کسی طرح بھی موزوں و مناسب نہیں کہ وہ آج کی پر مسائل اور پر مصائب زندگی سے آنکھیں پھیر لیں۔ اگر ہم اسلام کو زندگی کی تمام اطراف کے لیے راہنما دین مانتے ہیں تو پھر اس کی تشریح و توضیح عہد جدید کے تقاضوں کے مطابق کیوں نہ کریں۔ 
اساتذہ کرام کی کتابوں کے بعد جب مجھے شعبہ اسلامیات کے ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالات کی فہرست دیکھنے کا اتفاق ہوا تو سچی بات ہے میرا دل امید کی روشنی سے بھر گیا۔ یوں لگا جیسے راکھ میں ابھی کچھ چنگاریاں باقی ہیں۔ مذکورہ فہرست شعبہ کے اساتذہ ہی نے ترتیب دی اور شعبہ ہی نے اس کی اشاعت کا اہتمام کیا ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن 1990ء میں منظر عام پر آیا تھا، تب سے آج تک اس کے چھ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے علمی برادری میں بہت پذیرائی ملی ہے۔ یقیناًدیگر یونیورسٹیوں اور علمی اداروں میں اس سے بہت کچھ استفادہ کیا گیا ہوگا۔ طبع سوم میں فاضل مرتبین نے تعارفی نوٹ میں لکھا: ’’مقالات کے لکھوانے کا مقصد جہاں طلبہ و طالبات کی تخلیقی و تحقیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا ہے، وہاں اہم عصری و تہذیبی مسائل پر قرآن و سنت اور عصری علوم کی روشنی میں معاشرے کی رہنمائی بھی کرنا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ تحقیقات محض لائبریریوں کی زینت نہ بنی رہیں بلکہ اہل علم و محققین اور معاشرے کے دیگر طبقات کے سامنے بھی لائی جائیں تاکہ وہ اس سے رہنمائی حاصل کریں۔ مذکورہ فہرست کا ایک مقصد ارباب دانش کو اس تحقیقی کام کی اہمیت و افادیت کی طرف توجہ دلانا ہے۔‘‘
مذکورہ فہرست کے مطابق 1952ء سے 2009ء تک ایم اے کے 1634، ایم فل کے 88 اور پی ایچ ڈی کے 175 مقالات لکھے گئے ۔۔۔ (معلوم نہیں سرورق پر 2010ء - 1952ء کا دورانیہ کیوں ظاہر کیا گیا ہے) ۔۔۔ ایم اے کے بعض مقالات پنجاب یونیورسٹی سے ملحقہ کالجوں میں بھی لکھے گئے، لیکن مرتبین نے پیش لفظ میں یہ وضاحت نہیں دی۔ یہ وضاحت نہ دینے سے یوں لگتا ہے جیسے ایم اے کے تمام مقالات شعبہ ہی کے طلبہ و طالبات نے لکھے ہیں ۔۔۔ ’’فہرست مقالات‘‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے ہم بے شمار ایسے عنوانات سے متعارف ہوتے ہیں جن کا تعلق آج کے دور سے ہے۔ بعض مقالات کتابی صورت میں بھی اہل علم تک پہنچے ہیں۔ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں اساتذہ کے تصنیفی سرمایے پر جو اظہار خیال کیا تھا تو اس کا مقصد خدانخواستہ ان کے مقام و مرتبے کو گھٹانا نہ تھا بلکہ توجہ دلانا تھا کہ وہ معاصر ملی و عالمی مسائل کو بھی موضوع تحقیق بنائیں۔ فہرست مقالات نے شہادت دی ہے کہ اساتذہ کرام نے اپنے شاگردوں سے ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی ، تینوں سطحوں پر ایسے موضوعات پر بہت کام کروایا ہے۔ اس حوالے سے اُن کی مساعی یقیناًقابل قدر ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں اور زیادہ توفیق عطا کرے۔ یہاں گنجائش تو نہیں کہ مختلف النوع موضوعات پر لکھے گئے سبھی مقالات کا تعارف کرایا جائے، البتہ ایسے عنوانات کی فہرست قارئین کی نذر کی جاتی ہے جس میں قارئین ملی و ملکی اور عالم اسلام کے جدید ترین مسائل پر ہونے والے کام سے تعارف حاصل کر سکتے ہیں۔ 

ایم اے کے مقالات: 

اسلام میں انشورنس کی اہمیت اور پاکستان میں اس کے نفاذ کی تدابیر، موجودہ دور کی تعلیم یافتہ مسلمان عورت کی الجھنیں اور ان کا حل، پاکستان کی نسوانی تحریکیں، ٹیکس کا موجودہ نظام اور زکوٰۃ، سینما کی شرعی حیثیت، موجودہ جہیز۔ ایک غیر اسلامی معاشرتی خرابی، یونیورسٹی میں پردے کا مستقبل، میثاق استنبول، موجودہ مسلمان معاشرے میں لڑکی کی حیثیت، پاکستان کی دینی جماعتوں کا مختصر جائزہ، اسلام اور بہبودئ اطفال، دور حاضر میں عورت کی ملازمت کا مسئلہ، پاکستانی معیشت میں بلاسودی اسکیم کے نفاذ کا جائزہ، نجی سرمایہ کاری کے اسلامی اصول و ضوابط، شریعت بل، الجہاد فی افغانستان، پاکستانی معاشرے پر تہذیب جدید کے اثرات، انشورنس اور اسلام، پاکستان میں بے روزگاری کے عوامل اور اسلام کی روشنی میں انسداد، پاکستان میں نظام سرمایہ داری اور اسلام میں کشمکش، پاکستان میں نظام ٹیکس اور اسلام کے حوالے سے ناقدانہ جائزہ، عصر حاضر میں نابینا افراد کی بحالی اور اسلام، سقوط ڈھاکہ کے نظریاتی اسباب، قرآن و سنت کی روشنی میں مصوری اور مجسم سازی، اعضاء کی پیوند کاری اور انتقال خون، آئین 1973ء کی 8ویں ترمیم، منشیات کے بڑھتے ہوئے رجحانات، انتظامیہ اور عدلیہ کی علیحدگی کا عصری اور اسلامی تصور، ٹیسٹ ٹیوب کی شرعی حیثیت، تعلیمی پالیسی 1978ء کا تنقیدی جائزہ، پاکستان میں نظام انتخابات، حدود آرڈیننس کا جائزہ، نفسیاتی طریقۂ علاج۔ ایک جائزہ، نیو ورلڈ آرڈر، سانحہ بابری مسجد، نئی نسل کے مسائل، بچوں کی جبری مشقت، حقوق نسواں کی تحریکیں، شیئرز، پرائز بانڈ اور انعامی سکیمیں، مسئلہ ربا اور عصری تفاسیر، سٹاک ایکسچینج، موجودہ دور کے نفسیاتی مسائل، تعلیم یافتہ عورت کے مسائل، معاشی بدحالی کے اسباب و اثرات، کلوننگ کی شرعی حیثیت، دست شناسی، موجودہ نظام وکالت، پاکستان میں جاگیرداری نظام، عائلی زندگی کے مسائل، امریکہ اور اقوام متحدہ کے تعلقات عالم اسلام کے تناظر میں، طالبان کی بت شکنی، این جی اوز کا کردار، جیلوں میں دعوت و اصلاح کے امکانات، خاندانی منصوبہ بندی، فدائی حملے، 11 ستمبر 2001ء کا بحران، جرائم کی صورت حال، خواتین کی تفریحی سرگرمیاں، افغانستان پر امریکی حملے کے مضمرات، ملازمت پیشہ خواتین کے مسائل، الیکٹرانک میڈیا میں دینی پروگرامات، طلاق کے موجودہ رجحانات، بینکاری میں لیزنگ، بھارتی اقلیتوں کی حالت، دہشت گردی کے خلاف عالمی مہم، گلوبلائزیشن کے اثرات و نتائج، گداگری، زیردست لوگوں کی معاونت، سود کی جدید صورتیں، تعین اجرت کے اصول، طالبان کا نظام حکومت اور کوٹ میرج۔

ایم فل کے مقالات: 

عصر حاضر میں دین کی تفہیم۔ فکر مودودی کا مطالعہ، پاکستان میں دینی یکجہتی کے لیے کی گئی کاوشیں، عصری معاشری مسائل، بیسویں صدی کے اردو فتاویٰ کا تحقیقی و تقابلی مطالعہ، پاکستان میں غیر مسلموں کو دعوت دین۔ طریق کار اور عصری تقاضے، دینی مدارس کا نصاب تعلیم۔ عصری مسائل اور تقاضے، مختلف تجارتی صورتیں اور ادائیگی زکوٰۃ کا طریق کار، عالمی اقتصادی نظام کی تشکیل نو اور اسلامی تعلیمات، مغرب کی تہذیبی و ثقافتی یلغار۔ ذرائع ابلاغ کا کردار، اسلام میں عورت کی وراثت۔ عصری قوانین اور عملی صورت حال، پاکستان میں غیر مسلم اقلیتیں، پاکستان میں عدالتی بحران، پاکستان میں اسلامی بینکاری، کیرن آرمسٹرانگ کا اسلوب مطالعہ، غاصب حکمران کی حکمرانی کا مسئلہ، عالم اسلام کے قدرتی وسائل کے عالمی سیاست پر اثرات، پاکستان کا معاشی بحران اور اس کا اسلامی حل، سود سے متعلق عملی مسائل اور علمائے پاکستان،غلبۂ دین۔ تصور طریقہ کار اور عصر حاضر، معاشرتی اقدار پر ذرائع ابلاغ کے اثرات۔
آخر میں پی ایچ ڈی کی سطح کے تحقیقی کام میں سے اس حصے کو ملاحظہ فرمائیے جس میں دور جدید کے مسائل و افکار پر داد تحقیق دی گئی ہے: اسلامی قانون میں نظریۂ ضرورت کی اہمیت، مالدیپ کی مضاربت اور ادب پر اسلام کے اثرات، معاشرتی بہبود کا تصور، اسلام اور عصری افکار کی روشنی میں، افواج پاکستان کی دینی و نظریاتی تربیت، عورت کی حکمرانی قرآن و سنت اور عصر حاضر کے تناظر میں، فقہ حنفی میں مزارعت و مساقات برصغیر کے تناظر میں، پاکستان میں نفاذ اسلام کی کوششوں کا تنقیدی جائزہ، خانقاہی نظام کے اجتماعی زندگی پر اثرات، برصغیر کی خواتین کے مسائل اور ان کا حل۔کتب فتاویٰ کی روشنی میں، عصر میں سربراہ مملکت کے مالیاتی اختیارات قرآن و سنت کی روشنی میں، عصر حاضر کی جہادی تحریکات کے اثرات، عالمی اقتصادی صورت حال اور گردش دولت کے اسلامی اصول، جدید طبی سائنسی مسائل کے بارے میں اسلام کا نقطۂ نگاہ، حرام حیوانی اجزاء کے استعمالات اور فقہ اسلامی، عصری اسلامی مملکت کی خارجہ پالیسی۔
فہرست کے مرتبین نے لکھا ہے کہ ’’ہم نے شعبے کی طرف سے ہونے والے تحقیقی کام کی اشاعت کے لیے بعض علمی اداروں سے تعاون کی درخواست کی تو صرف ایک ادارے کی معاونت سے صرف ایک مقالہ کتابی صورت میں چھپ سکا۔‘‘ یہ ہماری تہذیبی زندگی کا بہت بڑا المیہ ہے کہ ایسے کاموں کی اشاعت میں نہ مخیر حضرات تعاون پر آمادہ ہوتے ہیں نہ ادارے ہی اس کار خیر کو درخور اعتنا سمجھتے ہیں۔ اسی سے اندازہ لگا لیجیے کہ ہم اجتماعی سطح پر علم کی قدر و قیمت سے ابھی تک کتنے بے خبر اور لا پروا واقع ہوئے ہیں۔ ہمارا کھاتا پیتا طبقہ فقط مسجدیں بنوانے یا مالی صدقہ و خیرات ہی کو کار ثواب سمجھتا ہے۔ ہمارے روایتی علما کی جامد سوچ کی وجہ سے ہماری قوم ابھی تک علمی تحقیق کو عبادت کے زمرے میں شمار نہیں کرتی۔
مجھے امید ہے کہ اس کالم سے میرے ان شکوہ سنج احباب کی تالیف قلب ہو جائے گی جن کا خیال ہے کہ میرے گزشتہ کالم سے اساتذہ کا امیج خراب ہوا ہے۔ یہ بہت غنیمت ہے کہ اساتذہ نے طلبہ و طالبات کو عصری تقاضوں کے مطابق موضوعات بھی دیے اور ان کی مناسب رہنمائی بھی کی۔ ان کا یہ رویہ یقیناًہماری تہذیبی و ثقافتی زندگی میں تبدیلی پیدا کرنے کا سبب بنے گا، ان شاء اللہ۔ 
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
(بشکریہ روزنامہ پاکستان، لاہور)

’’کافروں‘‘ کے دفاع میں جہاد

جان کائزر

(یہ مصنف کی کتاب ’’امیر عبد القادر الجزائری: سچے جہاد کی ایک داستان‘‘ (شائع کردہ: دار الکتاب، اردو بازار، لاہور) کا ایک باب ہے جو ۱۸۶۰ء میں دمشق میں رونما ہونے والے مسلم مسیحی فسادات کے دوران میں الجزائر کے مشہور مجاہد آزادی امیر عبد القادر کے جرات مندانہ کردار پر روشنی ڈالتا ہے۔ اسے سانحہ بادامی باغ لاہور اور اس جیسے دوسرے شرم ناک واقعات کے تناظر میں یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔ مدیر)

ہر طرف بہت بری افواہیں گردش کر رہی تھیں۔ تفصیلات بہت کم دستیاب تھیں، لیکن جب اڑتی اڑتی کچھ باتیں امیر کے کانوں تک پہنچیں تو وہ لرز کر رہ گیا۔ عیسائیوں کو اپنے کیے کا پھل بہت جلد ملنے والا تھا۔ ۵ مارچ ۱۸۶۰ء کو دمشق کے گورنر احمد پاشا نے اپنے محل میں کئی مقامی رہنماؤں کی میٹنگ طلب کی جس کے بارے میں بعد میں پتہ چلا کہ اس کا مقصد ’’ذمہ‘‘ کا قانون ختم کرنے والی اصلاحات کو بے اثر کرنا تھا۔ جن لیڈروں کو اجلاس میں مدعو کیا گیا تھا، ان میں دو دروز سرداروں سعید بے جنبلاط اور ولد العطرش کے علاوہ دمشق کے مفتی بھی شامل تھے۔ دروزوں نے لبنان میں پہلا مرحلہ مکمل کرنا تھا جہاں عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان ٹیکسوں اور مساوی حقوق کی نئی اصلاحات پر پہلے ہی ہر روز فسادات ہو رہے تھے۔ دمشق کا دھیان رکھنا احمد پاشا نے اپنے ذمے لیا تھا۔ اگر دمشق میں شورش کا آغاز ہوا تو ان کا خیال تھا کہ درستی کا عمل خود بخود حمص، حلب، لاذقیہ اور ایسے دیگر علاقوں تک پھیل جائے گا جہاں عیسائی آبادی رہتی ہے۔
عبدالقادر نے فرانس کے قائم مقام قونصلرلانوزے سے ملاقات کی۔ لانوزے ماہر عربیات تھا اور امیر کے فرانسیسی مداحوں کے غیر سرکاری ’’حلقہ قادریہ‘‘ کا رکن تھا۔ اسے امیر پر اتنا اعتماد تھا کہ اس نے فوراً دیگر ممالک کے سفیروں کو اکٹھا کرکے میٹنگ کی اور سب نے احمد پاشا سے مل کر زیر گردش افواہوں کے بارے میں براہ راست بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ پرسکون تاثرات والے گورنر نے بڑے وقار سے ان کا خیر مقدم کیا اور انہیں یقین دلایا کہ ساری افواہیں بے بنیاد ہیں۔ اس کی فوج عیسائیوں کی حفاظت کرے گی اور وہ اس پر پورا بھروسہ کر سکتے ہیں۔ فکر کی کوئی بات نہیں۔ سارے سفیر مطمئن ہو کر واپس چلے گئے۔ احمد پاشا نے فوراً دروز سرداروں کو پیغام بھیجا کہ منصوبے پر عمل درآمد فی الحال ملتوی کر دیا جائے۔ 
مئی کے ابتدائی دنوں میں عبدالقادر کو نئی اطلاع ملی کہ عیسائیوں کے خلاف سازش کا بازار ایک پھر گرم ہو گیا ہے۔ اس بار اطلاع دینے والے خود اس کے الجزائری لوگ تھے جن میں سے کچھ لوگوں سے اس سازش میں شامل ہونے کو کہا گیا تھا۔ عبدالقادر نے ان سے کہا کہ وہ منصوبہ بندی کرنے والوں میں شامل ہو جائیں اور اسے حالات سے باخبر رکھیں۔ امیر ایک بار پھر لانوزے کے پاس گیا۔ تھوڑی سی تگ ودو کے بعد لانوزے سفیروں کو اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوگیا تاکہ عیسائیوں کے قتل عام کی نئی سازش پر بات کی جائے۔ وہ سب دوسری بار گورنر سے ملنے سے ہچکچا رہے تھے کیونکہ ایسا کرنا گورنر کی نیک نیتی پر شک کرنے کے مترادف تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگراس طرح کا کوئی منصوبہ تھا بھی تو وہ یقیناًپہلے ہی رفع دفع ہو چکا ہے، لیکن لانوزے کی دلیل یہ تھی کہ اگر ان سب کی سوچ غلط ہوئی اور واقعی اس طرح کا واقعہ رونما ہوگیا تو پھر؟ گورنر سے دوسری بار ملاقات کے لیے جانے کی شرمندگی ہمیشہ رہنے والے اس پچھتاوے سے کم ہوگی جو اس کے خدشات درست ثابت ہونے کی صورت میں ملے گا۔ فرانسیسی قونصلرکی دلیل کام کر گئی اور گورنر کے ساتھ دوبارہ ملاقات کا اہتمام ہوگیا۔ اپنے شائستہ اور ملنسار رویے سے احمد پاشا نے ایک بار پھر سفیروں کو تسلی وتشفی دے کر مطمئن کرکے رخصت کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی ساز باز میں شریک ساتھیوں کو منصوبے پر عملدرآمد مزید مؤخر کرنے کا پیغام بھی بھیج دیا۔
جب ایسی اطلاعات آئیں کہ دروز گھڑ سوار دمشق کی حدود سے باہر موجود عیسائی بستیوں میں لوٹ مار کر رہے ہیں تو عبدالقادر نے دروز سرداروں کو خط لکھ کر انہیں پرسکون رہنے اور احتیاط سے کام لینے کی ترغیب دی۔ اس نے لکھا تھا: ’’اس طرح کی حرکتیں ایک ایسی کمیونٹی کو زیب نہیں دیتیں جو اپنی خوش خلقی اور دانش کی وجہ سے مشہور ہے۔‘‘ امیر نے دروزوں اور عیسائیوں کے درمیان پرانی دشمنی کی موجودگی کو تسلیم کیا اور لکھا کہ اسے گمان ہے کہ حکومت لبنان میں ہونے والی غلط کاریوں کی ساری ذمہ داری دروزوں پر نہیں ڈالے گی، لیکن جہاں تک دمشق کا تعلق ہے، امیر نے انہیں خبردار کیا کہ ’’اگر آپ ایک ایسے شہر کے باسیوں کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کریں گے جس کے ساتھ آپ کی کبھی بھی دشمنی نہیں رہی تو مجھے ڈر ہے کہ اس کا نتیجہ ترک حکومت کے ساتھ شدید بگاڑ کی صورت میں نکلے گا۔ ہم آپ کی اور آپ کے ہم وطنوں کی خیر وعافیت کے بارے میں فکر مند ہیں۔ .....دانش مند شخص پہلا قدم اٹھانے سے پہلے ہی اس کے عواقب کا اندازہ لگا لیتا ہے۔‘‘ امیر نے دمشق میں موجود علما اور اہم مسلم شخصیات کو بھی خطوط لکھے اور ان پر زور دیا کہ وہ معصوم لوگوں کو نقصان سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنا اثر ورسوخ استعمال کریں۔ امیر نے انہیں یہ بھی یاد دلایا کہ اقلیتوں بالخصوص اہل کتاب کو تحفظ فراہم کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔
مئی کے آخری دنوں میں ساری معلومات سمیت امیر ایک بار پھر لانوزے کے پاس پہنچ گیا۔ کوئی طوفان ضرور اٹھنے والا تھا۔ اس بار امیر کے پاس بالکل درست تفصیلات تھیں۔ یہ پتہ چلا تھا کہ احمد پاشا پہلے بھی ایک بار دمشق میں عیسائیوں کے خلاف کارروائی کی کوشش کر چکا تھا، لیکن مقامی رہنماؤں کی مخالفت کی وجہ سے اسے ارادہ ترک کرنا پڑا۔ منصوبہ یہ بنایا گیا تھا کہ ترک عیسائیوں کی جان ’’بچانے‘‘ کے لیے آئیں گے اور انہیں ’’حفاظت‘‘ کے لیے قلعے میں لے جایا جائے گا جہاں سازش میں شریک دروز انہیں قتل کر دیں گے۔ فرانسیسی قونصلرکے سفارت کار ساتھیوں کے پاس گورنر سے ایک بار ملاقات کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ لانوزے امیر کی تازہ ترین معلومات کو بہرحال اتنی سنجیدگی سے ضرور لے رہا تھا کہ اس نے اپنا سارا کیرئیر داؤ پر لگا دیا تھا۔ 
اس وقت فرانسیسی سفارت کاروں کو اجازت تھی کہ کوئی سنگین صورتحال پیدا ہونے کا خدشہ ہو تو وہ جتنا چاہے قرض لے لیں۔ لانوزے نے عبدالقادر کے ساتھ اس پر اتفاق کیا کہ اس کے ایک ہزار الجزائری ساتھیوں کو مسلح کر دیا جائے۔ اس کے لیے اس نے استنبول میں اپنے سفیر سے منظوری بھی نہیں لی جس کے مشیر ان افراد کو مسلح کرنے کے معاملے میں متذبذب تھے کیونکہ ان کے خیال میں یہ آدمی جتنی شدت کے ساتھ امیر سے محبت کرتے تھے، اتنی ہی شدت کے ساتھ فرانسیسیوں سے نفرت بھی کرتے تھے۔ 
دمشق سے باہر مقیم سات سو مسلح الجزائری افراد چھوٹے چھوٹے گروہوں کی شکل میں شہر کے اندر آکر ان تین سو لوگوں کے ساتھ شامل ہو گئے جو پہلے ہی شہر کے اندر رہ رہے تھے۔ امیر پر اعتبار کرتے ہوئے لانوزے نے انہیں انتہائی خفیہ طور ہر وہ ہتھیار رکھنے کی اجازت دے دی جسے رکھنا ممکن تھا۔
فرانسیسی قونصل نے ایک بار پھر گورنر سے ملاقات کی اور اس مرتبہ وہ اکیلا ہی اس سے ملنے گیا۔ لانوزے نے گورنر پر یہ واضح کیا کہ اسے سب پتہ ہے کہ کیا ہونے والا ہے اور یہ کہ یورپی قوتیں اس ساری کارروائی کا ذمہ دار احمد پاشا کو ٹھہرائیں گی۔ اس گفتگو کے ترک گورنر پر خاطر خواہ اثرات مرتب ہوئے اور اس نے ولد العطرش اور سعید بے جنبلاط کو ایک اور پیغام بھیجا جس میں سارے منصوبے کو ختم کرنے کا حکم دیا، لیکن اب بہت دیر ہو گئی تھی۔ دونوں سردار پہلے ہی سازش پر عملدرآمد کا آغاز کر چکے تھے۔
احمد پاشا نے اپنے حصے کا کردار تین ہفتے کی تاخیر سے ۸جولائی کو ادا کیا۔ چند مسلمان لڑکوں نے دمشق کی عیسائی بستیوں کے قریب سڑک پر صلیب اور مذہبی پیشوا کے عمامے کی تصویریں بنا کر پہلے ان پر تھوکا اور پھر کوڑا کرکٹ پھینکا۔ عیسائیت کی سر عام توہین کرنے پر احمد پاشا نے ان کے لیے ایسی سزا تجویز کی جس سے صورتحال پر کڑی نظر رکھنے والی یورپی طاقتوں کو یہ ثبوت ملتا کہ اصلاحات کے مطابق مسلمانوں سے اپنے عیسائی بھائیوں کا جس طرح احترام کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، اس پر عمل ہو رہا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اسے یہ بھی یقین تھا کہ اس فیصلے سے مسلمانوں میں شدید غم وغصے کی لہر پیدا ہوگی جو پہلے ہی اپنے داخلی معاملات میں مداخلت کی بنا پر یوریی ممالک سے نفرت کرتے تھے۔
نو جولائی کو مجرموں کی، جن کی حیثیت احمد پاشا کی ساری منصوبہ بندی میں چھوٹے مہروں سے زیادہ نہیں تھی، سرعام پٹائی کرنے کا حکم دیا گیا اور پھر انہیں مجبور کیا گیا کہ وہ ہاتھوں اور پیروں کے بل چلتے ہوئے ان سڑکوں کو اچھی طرح دھوئیں جن پر انہوں نے غلاظت پھینکی تھی۔ باقی سارا کام اشتعال انگیز عناصر نے خود کر دیا۔

امریکی نائب قونصل اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ رہا تھا۔ عینی شاہدین نے ساٹھ سالہ گول مٹول مائیکل مشاگا کو دیکھا کہ جب اس کا تعاقب کرنے والے بہت نزدیک پہنچ جاتے تو وہ ان کی توجہ بٹانے کے لیے زمین پر سکے اچھال دیتا۔ اس صورتحال میں وہ اکیلا نہیں تھا بلکہ سارے یورپی سفارت کاروں کی رہائش گاہیں اور سفارتخانے ہجوم کے غیظ وغضب کا پہلا ہدف تھے۔
لیکن مشاگا حقیقت میں امریکی نہیں تھا۔ وہ لبنانی پادری تھا جو شام میں پروٹسٹنٹ امریکی مشنریوں کا حامی بن گیا تھا۔ اس کی پیدائش یونانی کیتھولک چرچ میں ہوئی تھی، لیکن وہ اس کی تنگ نظری اور کرپشن سے نالاں تھا۔ اڑتالیس سال کی عمر میں مشاگا نے پروٹسٹنٹ مسلک اپنا لیا اور لاطینی چرچ کے لیے اپنی ناپسندیدگی کی وجہ سے ’’مشرق کا لوتھر‘‘ کے نام سے معروف ہوگیا۔ سفارت کار اور سیاستدان اس کی زبان دانی اور مختلف گروہوں مثلاً دروز، علاوی، یہودی، آرمینیائی، شیعہ، زرتشتی، قطبی، یہاں تک بعض یونانی اور لاطینی عیسائیوں کے ساتھ اچھے تعلقات کی بنا پر مشاگا کی بہت قدر کرتے تھے۔ اپنی اچھی ساکھ اور وسیع علم کی وجہ سے امریکہ نے اسے وہاں اپنا قونصل مقرر کیا تھا، لیکن یہ قدر ومنزلت تو اب اس کی جان کے درپے ہوگئی تھی۔
مشاگا نے اس وقت راہ فرار اختیار کی جب مشتعل ہجوم نے اس کے گھر پر حملہ کر دیا۔ عبدالقادر سے راہ ورسم رکھنے والے بہت سے دیگر سفارت کاروں کی طرح مشاگا نے بھی عیسائی علاقوں سے ملحق امیر کی رہائش گاہ کا رخ کیا۔ پچھلے پانچ سال کے دوران امیر اور مشاگا اچھے دوست بن گئے تھے۔ دونوں میں بہت سی دلچسپیوں کے اشتراک کے علاوہ عقیدے، استدلال اور خدا کو ماننے کے طریقوں میں تنوع کے معاملات میں بھی انداز فکر ایک ہی جیسا تھا۔ امیر کی طرح مشاگا کا علم بھی بہت وسیع تھا۔ وہ ایک میڈیکل ڈاکٹر بھی تھا، مذہبی اسکالر، ریاضی دان، موسیقار اور شوقیہ ماہر فلکیات بھی۔
مشاگا امیر کی رہائش گاہ کی طرف بھاگا جا رہا تھا اور ہتھیار لہراتا ہوا ہجوم اس کے تعاقب میں تھا۔ مشاگا نے وہاں پہنچ کر زور زور سے دروازہ دھڑ دھڑایا، لیکن جتنی دیر میں امیر کے ایک ملازم نے دروازہ کھول کر اسے اندر کھینچا، ایک درانتی اس کا کان چیرتی ہوئی نکل گئی۔ 
اندر پہنچ کر مشاگا نے دیکھا کہ امیر کی بیوی خیرا شدید خوفزدہ لوگوں کے ایک چھوٹے سے ہجوم کی بڑے پرسکون انداز میں تواضع کر رہی ہے جیسے وہ چائے کی دعوت پر آئے ہوں۔ البتہ انہیں وہاں کھانے کے لیے کھیرے اور روٹی پیش کی جا رہی تھی۔
لیکن نو جولائی کی صبح عبدالقادر کہاں تھا؟ ایک روز پہلے وہ گھوڑے پر سوار ہو کر شہر سے باہر اپنی جاگیر پر گیا تھا اور اس نے فوراً دمشق واپس پہنچنے کے پیغامات کا بھی کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ جب شہر میں کشیدگی بڑھ رہی تھی اور اس کا وہاں موجود ہونا اشد ضروری تھا تو پھر وہ شہر سے کیوں گیا؟
کیا یہ محض اتفاق تھا؟ یا پھر فرانسیسی قونصل کے ساتھ کی گئی کوئی ساز باز جس کا مقصد چند معصوم جانوں کی قربانی دینا تھا، جیسا کہ بعد میں کچھ لوگوں نے خیال ظاہر کیا؟ دونوں باتیں قرین قیاس نہیں لگتیں۔ چرچل نے اس کی غیر موجودگی کی بڑی قابل تعریف وضاحت پیش کی تھی۔ عبدالقادر کو پتہ چل گیا تھا کہ عیسائیوں کو حفاظت کے بہانے قلعے میں لے جا کر قتل کرنے کے منصوبے کی افواہیں درحقیقت درست تھیں۔ جب اسے یہ اطلاع ملی کہ دروز کیولری دمشق کی جانب بڑھ رہی ہے تو امیر نے اپنے بیٹوں محمد اور ہاشم کو ساتھ لیا اور دروزوں کا راستہ روکنے کے لیے گھوڑوں کو ایڑ لگائی۔ صحنایا کے نزدیک واقع اپنی حوش بلاس کی جاگیر سے عبدالقادر دروزوں کو بہتر طور پر روک سکتا تھا۔ اشرفیہ کے نزدیک امیر نے دیکھا کہ دروز سردار، احمد پاشا کی طرف سے شہر میں داخل ہونے کا اشارہ ملنے کے منتظر کھڑے تھے۔ وہاں امیر کی ان کے ساتھ دیر تک گفت وشنید ہوتی رہی جس کے بعد دروز اپنا گھناؤنا منصوبہ ترک کر کے واپس لوٹ گئے۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ امیر نے دروزوں کو کس ہتھیار سے زیر کیا ہوگا۔ جلد ہی یہ ہتھیار اسے اپنے ساتھیوں پر بھی آزمانا تھا۔ یہ ہتھیار تھا اس کا الوہی قانون اور جنت کا حقدار بننے کی شرائط کے بارے میں اس کا وسیع علم!

دس تاریخ کی سہ پہر کو دمشق واپسی کے بعد عبدالقادر سب سے پہلے عیسائیوں کے علاقے میں قائم فرانسیسی سفارتخانے گیا جہاں امیر کا آغا قارہ محمد اور چالیس سے زائد مسلح الجزائری لانوزے ارو اس کے عملے کی حفاظت کر رہے تھے۔ یہ انتظام امیر نے کسی ہنگامی صورتحال کے پیش نظر پہلے ہی کر دیا تھا۔ اپنے فرانسیسی سرپرستوں کی سلامتی کے بارے میں مطمئن ہونے کے بعد امیر دمشق کے مفتی کے پاس گیا تاکہ اسے اپنے اور اس کے مذہب اسلام کا واسطہ دے کر عیسائیوں کا تحفظ کرنے کی ذمہ داری پوری کرنے پر قائل کرے، لیکن جب وہ وہاں پہنچا تو ملازمین نے بتایا کہ مفتی موصوف سو رہے ہیں اور انہیں بے آرام نہیں کیا جا سکتا۔
تب ہی عبدالقادر کو یہ بھی پتہ چل گیا کہ جن ترک دستوں کو عوام کا تحفظ کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی، انہیں فصیل کے اندر ہی رہنے کا حکم دیا گیا تھا اور فسادات کے دوران جب گھروں کو جلایا اورعیسائیوں کو قتل کیا جا رہا تھا تو وہ خاموش بیٹھے تماشا دیکھ رہے تھے۔ عبدالقادر جب واپس فرانس کے سفارتخانے پہنچا تو دیکھا کہ اس کا گھیراؤ کرنے والا ہجوم مزید بڑا اور خطرناک ہو گیا ہے۔ اس پر عبدالقادر نے لانوزے کی حفاظت کا ذمہ اپنے اوپر لیتے ہوئے کہا:
’’آپ ہمیشہ کہتے تھے: ’’جہاں فرانس کا پرچم ہے، وہیں فرانس ہے‘‘۔ آپ اپنا جھنڈا ساتھ لیں اور اسے میرے گھر پر نصب کردیں۔ میرا گھر فرانس بن جائے گا۔ آپ اور آپ کا عملہ میرے مہمان ہوں گے اور پھر میں اپنے سپاہیوں کو، جو اس وقت یہاں آپ کی حفاظت کر رہے ہیں، دیگر عیسائیوں کے تحفظ کے لیے بہتر طریقے سے استعمال کر سکوں گا۔‘‘ 
جب لانوزے وہاں پہنچا تو اسے وہاں روسی، امریکی، ڈچ اور یونانی سفارت کار بھی ملے۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے اس وقت لانوزے کا بہت مذاق اڑایا تھا جب وہ عام لوگوں کی نفسیات کو سمجھنے میں عبدالقادر کی صلاحیت پر یقین رکھتے ہوئے بار بار گورنر سے ملنے کی کوشش کر رہا تھا۔
دس جولائی کی ساری سہ پہر عبدالقادر نے عیسائی بستیوں میں مچی بھگدڑ میں اپنے دو بیٹوں کے ساتھ یہ چلاتے ہوئے گزاری کہ: ’’عیسائیو! میرے ساتھ آؤ۔ میں عبدالقادر ہوں، محی الدین کا بیٹا، الجزائری! میرا اعتبار کرو۔ میں تمہاری حفاظت کروں گا۔‘‘ کئی گھنٹے تک امیر کے الجزائری باشندے متذبذب عیسائیوں کو لے جا کر حارۃ النقیب میں اس کے قلعہ نما گھر چھوڑ کر آتے رہے۔ یہ دو منزلہ عمارت اور اس کے کشادہ صحن پریشان حال عیسائیوں کی پناہ گاہ بن گئے تھے۔
چرچل نے لکھا ہے: 
’’رات کے وقت لوٹ مار کرنے والوں کے نئے جتھے جن میں کرد، عرب اور دروز سبھی شامل تھے، عیسائی علاقوں میں داخل ہوئے اور وہاں پہلے سے موجود غضبناک فسادیوں کے ہجوم کو مزید بڑا کر دیا جو نفرت کی آگ میں اندھا ہو کر خون کی پیاس سے مزید دیوانہ ہو رہا تھا۔ ہر عمر کے مرد اور لڑکوں کو زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا اور پھر وہیں ان کا ختنہ کر دیا گیا۔ ..... عورتوں کی عزت لوٹی گئی یا انہیں اٹھا کر دور دراز علاقوں میں پہنچا دیا گیا جہاں ان کا مسلمانوں کے ساتھ نکاح کر دیا گیا یا پھر حرم کی زینت بنا دیا گیا۔ اگر کوئی کہے کہ اس سارے قتل عام میں ترکوں نے کوئی حصہ نہیں لیا تو یہ مبالغہ آرائی ہوگی۔ انہوں نے سازش تیار کی، انہوں نے اسے چنگاری دکھائی اوراس میں حصہ لیا۔ اس وقت عبدالقادر واحد آدمی تھا جو زندگی اور موت کے درمیان کھڑا تھا۔‘‘
تھامس گیٹ کے نزدیک واقع فرانسسکن خانقاہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر عبدالقادر نے اپنا سارا زور بیان استعمال کیا، لیکن وہ ان نو راہبوں کو الجزائریوں پر اعتبار کرنے پر آمادہ نہیں کر سکا جنھوں نے خود کو خانقاہ کے اندر مقید کر لیا تھا۔ انہیں ڈر تھا کہ یہ انہیں دھوکہ دے رہے ہیں۔ عبدالقادر نے مایوس ہو کر انہیں ان کے حال پر چھوڑا اور ایک اور عیسائی کمیونٹی کو بچانے کی طرف متوجہ ہوا جو بچوں کے لیے کام کرنے کی وجہ سے اسے خاص طور پر بہت پیاری تھی۔
قتل وغارت شروع ہونے کے بعد ابتدا میں اس کمیونٹی کی طرف کسی کا دھیان نہیں گیا تھا جس کی وجہ شاید یہ تھی کہ یہ لوگ عیسائی علاقے سے باہر رہتے تھے جہاں امیر کے دوست فادر لیروئے نے چار سو یتیم بچوں کے لیے اسکول قائم کر رکھا تھا۔ امیر کی قیادت اور اس کے الجزائری مجاہدین کی حفاظت میں سارے بچے، چھ پادری اور سسٹرز آف چیریٹی کی گیارہ راہبائیں خون سے رنگین اور جانوروں کی لاشوں سے اٹی ٹیڑھی میڑھی گلیوں سے گزر کر نقیب ایلی پہنچ گئیں۔ فرانسسکن راہبوں کو مشتعل ہجوم نے عمارت کے اندر ہی زندہ جلا دیا۔ 
یہ خبر فسادیوں میں بھی پھیل گئی تھی کہ عبدالقادر عیسائیوں کو بچانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اگلے روز ہی جنونیوں کا ایک گروہ احتجاج کے لیے امیر کے دروازے پر اکٹھا ہوگیا۔ وہ سفارت کاروں کو پناہ دینے کی حد تک تو امیر کو برداشت کرنے کے لیے تیار تھے، لیکن ان کا مطالبہ تھا کہ عبدالقادر اپنے گھر میں چھپائے ہوئے مقامی عیسائیوں کو ان کے حوالے کرے۔ جب ہجوم زیادہ بڑا ہو گیا اور زیادہ بد تمیزی پر اتر آیا تو امیر دروازے پر آیا۔
’’عیسائیوں کو ہمارے حوالے کرو!‘‘، ہجوم نے چلانا شروع کردیا، لیکن جب وہ خاموشی سے کھڑا انہیں دیکھتا رہا تو لوگ خاموش ہوگئے۔
پھر وہ بولا: ’’میرے بھائیو، آپ کا رویہ خدا کے قانون کے منافی ہے۔ آپ کس بنا پر یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کے پاس معصوم لوگوں کو اندھا دھند قتل کرنے کا حق ہے؟ کیا آپ اتنے گر گئے ہیں کہ عورتوں اور بچوں کو ذبح کرنے پر اتر آئے؟ کیا آپ نے سنا نہیں کہ خدا نے ہماری مقدس کتاب میں کیا ارشاد فرمایا ہے، کہ جو کوئی بھی کسی ایسے انسان کو قتل کرے گا جس نے کوئی جرم نہ کیا ہو یا زمین پر فساد نہ پھیلایا ہو تو یہ پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف ہے؟‘‘
’’ہمیں عیسائی چاہئیں! عیسائیوں کو ہمارے حوالے کرو!‘‘
’’کیا خدا نے یہ نہیں کہا کہ مذہب میں کوئی جبر نہیں ہے؟‘‘، امیر نے اپنی بات جاری رکھی۔
ہجوم میں سے ایک شخص نے چیخ کر کہا: ’’او مجاہد! ہمیں تمہاری نصیحتوں کی ضرورت نہیں ہے۔ تم ہمارے کام میں ٹانگ کیوں اڑا رہے ہو؟‘‘
ایک اور شخص نے بلند آواز سے کہا: 
’’تم نے خود بھی عیسائیوں کو مارا ہے۔ اب تم ہمیں اپنی توہین کا بدلہ لینے سے کیسے روک سکتے ہو؟ تم خود بھی ان کافروں کی طرح ہوگئے ہو۔ چپ چاپ ان سب کو ہمارے سپرد کردو جنھیں تم نے اپنے گھر میں پناہ دے رکھی ہے، ورنہ ہم تمہارے ساتھ بھی وہی سلوک کریں گے جو ان سب کے ساتھ ہوگا۔‘‘
’’تم سب بے وقوف ہو! جن عیسائیوں کو میں نے مارا تھا، وہ سب حملہ آور اور غاصب تھے جو ہمارے ملک کو تاخت وتاراج کر رہے تھے۔ اگر تمہیں خدا کے قانون کی خلاف ورزی سے ڈر نہیں لگتا تو پھر اس سزا کے بارے میں سوچو جو تمہیں انسانوں کے ہاتھ سے ملے گی۔ میں تمھیں یقین دلاتا ہوں کہ وہ سزا بہت ہولناک ہوگی۔ اگر تم نے میری بات نہ سنی تو اس کا مطلب ہے کہ خدا نے تمہیں عقل نہیں دی۔ تم ایسے حیوان کی مانند ہو جو گھاس اور پانی دیکھ کر اچھلنے لگتا ہے۔‘‘
’’تم سفارت کاروں کو اپنے پاس رکھ لو۔ عیسائی ہمیں دے دو!‘‘ ہجوم نے پھر چلانا شروع کردیا۔ 
’’جب تک میرا ایک سپاہی بھی اپنے پاؤں پر کھڑا ہے، تم انہیں ہاتھ بھی نہیں لگا سکتے۔ وہ سب میرے مہمان ہیں۔ عورتوں اور بچوں کے قاتلو! گناہ کی اولاد! ان میں سے کسی کو ذرا چھونے کی کوشش تو کرکے دیکھو، پھر تمہیں اندازہ ہوگا کہ میرے سپاہی کتنا اچھا لڑتے ہیں۔‘‘ امیر نے غضبناک لہجے میں کہا اور مڑ کر قارہ محمد سے مخاطب ہوا: ’’میرے ہتھیار اور میرا گھوڑا لے کر آؤ۔ ہم سب ایک نیک مقصد کے لیے جنگ کریں گے، بالکل ویسے ہی جیسے ہم نے پہلے ایک نیک مقصد کے لیے جنگ کی تھی۔‘‘
ہجوم نے اللہ اکبر کے نعرے لگائے اور اپنی بندوقیں اور تلواریں لہرانا شروع کردیں، لیکن جونہی امیر کے لاتعداد جنگوں کی بھٹی میں تپ کر فولاد بنے ہوئے سپاہی نظر آئے تو سارا مجمع گالیاں بکتا ہوا تتر بتر ہوگیا۔

مقامی آبادی میں شمالی افریقہ کے باشندوں کے نام سے پکارے جانے والے الجزائریوں نے گلیوں اور سڑکوں پرگھوم پھر کر عیسائیوں کی تلاش جاری رکھی اور امیر کی رہائش گاہ پر ایک ہزار سے زائد عیسائی اکٹھے کر لیے۔ وہ جگہ اتنی بھر گئی کہ اب وہاں کسی کے بیٹھنے یا لیٹنے کی گنجائش بھی نہیں رہی تھی۔ پانی کی کمی تھی اور صفائی کے ناکافی انتظام کی وجہ سے پیچش یا طاعون پھیلنے کا بھی خطرہ تھا۔ سفارت کاروں کے ساتھ صلاح مشورہ کرنے کے بعد عبدالقادر نے پناہ گزینوں کو قلعے کے اندر بھجوانے کے لیے احمد پاشا کے پاس وفد بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ 
گورنر نے اعتراف کیا کہ اس کے دستوں پر زیادہ بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ ان میں بہت سے تو ایسے مجرم تھے جنھیں حال ہی میں جیل سے رہائی ملی تھی۔ آخر اس نے یہ مان لیا کہ عیسائیوں کو الجزائریوں کی حفاظت میں فصیل کے اندر پہنچا دیا جائے، لیکن نقیب ایلی میں ٹھنسے ہوئے ہجوم کے کانوں میں جب اس فیصلے کی بھنک پڑی تو انہوں نے خوش ہونے کی بجائے واویلا مچانا شروع کردیا: ’’ہمیں یہیں اپنے ہاتھوں مار ڈالو! ہم پر رحم کرو! ہمیں یوں زندہ ان جلادوں کے حوالے مت کرو!‘‘
سو افراد پر مشتمل پہلا گروپ اڑ گیا کہ وہ نہیں جائے گا، لیکن جب روس کے سفیر نے ضمانت کے طور پر ساتھ جانے کی حامی بھری تو لوگ مان گئے۔ جب ان کے بخیر وعافیت وہاں پہنچنے کی اطلاع ملی تو باقی سب بھی تعاون کرنے لگے۔ حالات معمول پر آنے کے بعد ایک روز امیر نے افسردگی کے ساتھ ایک فرانسیسی افسر سے کہا: ’’ان کے لیے اتنا کچھ کرنے کے باوجود انہیں اب بھی یقین ہے کہ میں انہیں ان قصائیوں کے حوالے کر سکتا ہوں۔‘‘
سب لوگوں کو قلعے میں منتقل کرنے کے بعد جب امیر کی رہائش گاہ خالی ہوگئی اور اس کی صفائی بھی کر دی گئی تو اس نے اعلان کرایا کہ جو کوئی بھی عیسائیوں کو اس کی رہائش گاہ پر پہنچائے گا، اسے ہر عیسائی کے بدلے پچاس پیاستر انعام دیا جائے گا۔ پانچ دن تک امیر کو سونے کا موقع بھی بہت کم ملا۔ جب تھوڑا سا وقت ملتا تو وہ گھاس پھونس سے بنی اسی چٹائی پر لیٹ کر آنکھ لگا لیتا جہاں بیٹھ کر وہ سارا دن پاس رکھی بوری میں سے رقم نکال کر تقسیم کرتا رہتا تھا۔ جونہی ایک سو عیسائی اکٹھے ہو جاتے، الجزائری سپاہی انہیں لے جا کر قلعے میں چھوڑ آتے۔
بعض سربر آوردہ عیسائی افراد مناسب جگہ کا انتخاب ہونے تک کئی ہفتے امیر کی رہائش گاہ پر ہی رکے رہے۔ آخر کار امیر اور اس کے ساتھی تین ہزار عیسائیوں کا ایک قافلہ لے کر بیروت گئے۔ ان میں بلڈ خاندان کے لوگ بھی تھے جو اس سارے قتل عام کے دوران امیر کی پناہ میں رہے تھے۔
جارج بلڈ ان میں نہیں تھا۔ ۱۸۵۷ء میں جب جارج نے محسوس کیا کہ اس نے عبدالقادر کا اعتماد کھو دیا ہے تو اس نے وزارت سے درخواست کی کہ اسے واپس بلا لیا جائے۔ ان کے باہمی تعلقات میں سرد مہری آگئی تھی۔ اگرچہ یہ واضح نہیں ہے کہ ایسا کیوں ہوا، لیکن ہو سکتا ہے کہ امیر بلڈ کے اشاروں پر چلتے چلتے تنگ آگیا ہو اور قونصل خانے میں فرانسیسی سفارت کاروں سے براہ راست رابطے میں آنا چاہتا ہو۔ بلڈ، دوما یا بواسونے جیسا بھی تو نہیں تھا جو خود بھی افریقہ میں بارود کی بو سے اچھی طرح آشنا تھے۔ بلڈ اگرچہ یہ سمجھتا تھا کہ عبدالقادر کے گرد تقدس کی فضا بہت گہری ہوگئی ہے اور جب دولت خود چل کر اس کے پاس آئی تو اس نے بے پروائی سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا، لیکن بہرحال بلڈ کی رائے امیر کے بارے میں بہت اچھی تھی۔ 
تشدد کا جو طوفان عیسائی بستیوں میں خون کے چھینٹے اڑاتا گزرا، وہ پانچ دن کے بعد اپنے پیچھے ہزاروں لاشیں چھوڑ گیا۔ خونریزی کی بھینٹ چڑھنے والوں کی تعداد کے بارے میں آرا مختلف تھیں۔ کچھ کا کہنا تھا پانچ سو اور کچھ دس ہزار کہتے تھے۔ 
لانوزے نے وزارت کو رپورٹ بھیجی کہ جب غدر مچا تو اس وقت دمشق کی عیسائی بستیوں میں انیس ہزار لوگ رہتے تھے جن میں وہ پناہ گزین بھی شامل ہیں جو موسم بہار میں فرار ہوکر لبنان چلے گئے۔ ان میں سے بیشتر لوگ قدیم شہر کی فصیل سے باہر بسے دیہات میں رہتے تھے۔ شہر کے اندر کی عیسائی بستی میں گنجائش کم اور کرایے بہت زیادہ تھے اور یہ جگہ آٹھ سے دس ہزار عیسائیوں کا مسکن تھی جن میں زیادہ تر یونانی عیسائی تھے۔ امیر نے کتنے لوگوں کی جان بچائی؟ اس کی گنتی کسی نے نہیں کی۔ اس کو دیکھ کر اور کتنے لوگوں کو ایسا کرنے کی ترغیب ملی؟ یہ بھی کوئی نہیں جانتا۔ عبدالقادر کے دوست لانوزے کے مطابق کم وبیش گیارہ ہزار لوگوں کی جان بچانے کا سہرا امیر کے سر جاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ قدیم شہر کے اندر موجود ہر عیسائی کی جان امیر کی وجہ سے بچی تھی۔

دل دہلا دینے والی یہ خبر فرانسیسی عوام تک اٹھارہ جولائی کو پہنچی۔ بلاد الشام (Levant) میں تعینات فرانسیسی بحریہ کے کمانڈر کے ارسال کردہ خط کے حوالے سے ’’لے مانٹئیر‘‘ نے رپورٹ شائع کی کہ ’’دمشق میں عیسائیوں پر حملوں کا آغاز نو تاریخ کی سہ پہر کو ہوا اور شام تک مردوں کی بڑی تعداد کو موت کے گھاٹ اتارا اور عورتوں کو حرم کی زینت بنایا جا چکا تھا۔ ....ترک حکام نے خطرے کا واضح خدشہ ہونے کے باوجود ناقابل توجیہ طور پر کاہلی کا مظاہرہ کیا جبکہ امیر نے علما اور اہم شخصیات کو عیسائیوں کو درپیش خطرے کے بارے میں فعال طریقے سے خبردار کرنے کی کوشش کی۔ .....سارے بحران کے دوران امیر کا رویہ قابل تحسین تھا۔ اس نے عام لوگوں کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے دن رات ایک کر دیا جو انسانیت کے لیے اس کی جاں نثاری اور قربانی کے جذبے کا ثبوت ہے۔‘‘
اگست میں اخبارات وجرائد نے مزید مضامین شائع کیے جو سبھی امیر کی مدح میں تھے۔ لاگزٹ دے فرانس (Le Gazette de France) نے بڑے جوش سے لکھا تھا کہ ’’امیر نے شام کے عیسائیوں کو حوصلہ مندی سے تحفظ فراہم کرکے خود کو لازوال بنا لیا ہے۔ انیسویں صدی کی تاریخ کے سب سے خوبصورت صفحات میں سے ایک صفحہ امیر سے منسوب ہو گا۔‘‘ لے پے ای جورنال دے لان پائر (Le Pays, Journal de l'Empire) نے لیزرسٹس (مقدس لیزرس سے منسوب ایک مسیحی گروہ کے افراد) کے حوالے سے لکھا تھا: ’’جب خون کی ہولی اپنے عروج پر تھی، تب امیر گلیوں ایسے میں نمودار ہوا جیسے اسے خدا نے بھیجا ہو۔‘‘ فرانس کا سارا پریس اسی طرح کی خبروں اور تحریروں سے بھرا پڑا تھا۔ بیس اکتوبر تک یہ اطلاعات امریکہ بھی پہنچ گئیں اور نیویارک ٹائمز نے اپنے مخصوص رجزیہ انداز میں لکھا: ’’بیس سال پہلے عرب امیر عالم مسیحیت کا دشمن تھا اور اس کے آبائی علاقے کی پہاڑیوں میں اس کا شکار کیا گیا، لیکن اب ساری عیسائی دنیا اسلام کے اس معزول شہزادے کی تکریم میں یک زبان ہے۔ اس انتہائی بے لوث جنگجو سورما نے اپنے قدیم دشمنوں کو، جنھوں نے اسے شکست دی اور اس کی نسل کے لوگوں اور اس کے مذہب کو اپنا مفتوح بنایا، غیظ وغضب اور موت سے بچایا۔ .....عبدالقادر کے لیے یہ یقیناًعظمت کا اور حقیقی شان وشوکت کا باب ہے۔ اس بات کو تاریخ میں رقم کرنا کوئی معمولی بات نہیں کہ مسلمانوں کی آزادی کے لیے لڑنے والا سب سے ثابت قدم سپاہی اپنے سیاسی زوال اور اپنی قوم کے ناگفتہ بہ حالات میں عیسائیوں کی زندگیوں اور حرمت کا سب سے نڈر نگہبان بن کر سامنے آیا۔ جن شکستوں نے الجزائر کو فرانس کے آگے جھکایا تھا، ان کا بدلہ بہت حیرت انگیز طریقے سے اور اعلیٰ ظرفی سے لیا گیا ہے۔‘‘
لیکن عبدالقادر نے ایسا کیوں کیا؟ اس بات پر بہت سے لوگ متعجب تھے۔ بعض لوگوں کو حیرانی تھی کہ مسلح مزاحمت کرنے والے سابق راہنما نے اس صورتحال کو ان تکالیف کا انتقام لینے کے لیے استعمال نہیں کیا جو فرانس نے اسے اور اس کے لوگوں کو دی تھیں۔ کچھ مسلمانوں کا خیال تھا کہ امیر فرانسیسیوں کے رنگ میں رنگا گیا ہے اور اب وہ عربوں کی نسبت فرانسیسیوں کے زیادہ نزدیک ہے۔ امیر کا اپنا موقف کیا تھا، اس کی رپورٹ لان پائر نے اکتوبر میں شائع کی جس میں دو بہت سادہ سی وجوہات بیان کی گئی تھیں۔ پہلی یہ کہ وہ تو محض خدا کی منشا کے مطابق کام کر رہا تھا، اور دوسری یہ کہ اس کی انسانیت کا تقاضا بھی یہی تھا۔ اس نے کہا تھا: ’’یہ ایک مقدس فرض کی ادائیگی کے مترادف تھا۔ میں تو صرف ایک کارندہ تھا۔ تعریف کرنی ہے تو اس خدا کی کرو جس نے مجھے یہ ہدایت دی، اور تمہارے سلطان کو بھی جو میرا سلطان بھی ہے۔‘‘
باقیوں کا یہ خیال تھا کہ امیر کی مداخلت اس کے مذہب کی پکار تھی۔ کیا بلڈ نے اپنی رپورٹ میں نہیں لکھا تھا کہ امیر اکثر کف افسوس ملتا ہے کہ اسلام ’’حقیقی مسلمانوں کی کمی‘‘کی وجہ سے دم توڑ رہا ہے؟ شاید اس مثال سے وہ دوسرے مسلمانوں کو دکھانا چاہتا تھا کہ حقیقی مسلمان ہونے سے کیا مراد ہے۔ الجزائر میں بشپ دوپش کے جانشین بشپ لوئی انتونی پیوی کی طرف سے اظہار ممنونیت کے خط کا جواب دیتے ہوئے بھی امیر نے بین السطور میں اسی قسم کی بات کی تھی۔ امیر کی اصل شخصیت اکثر اس وقت جھلکتی تھی جب وہ دوسرے مذاہب کے پیشواؤں کے نام کچھ تحریر کرتا تھا۔ 
’’ہم نے عیسائیوں کے لیے جو کچھ بھی کیا، محض اسلام کے قانون پر ایمان رکھنے اور انسانی حقوق کا احترام کرنے کی وجہ سے کیا۔ خدا کی ساری مخلوقات اس کا کنبہ ہیں اور خدا ان لوگوں سے سب سے زیادہ محبت کرتا ہے جو اس کے کنبے کی بہتری کے لیے سب سے اچھا کام کرتے ہیں۔ مقدس کتابوں پر ایمان رکھنے والے تمام مذاہب کی بنیاد دو اصولوں پر ہے : خدا کی تعریف کرنا اور اس کی مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔ .....محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت میں درد مندی اور رحم دلی کے علاوہ ہر اس بات کو عظیم اہمیت دی گئی ہے جس سے معاشرے میں اتفاق قائم رہے اور جو ہمیں نفاق سے محفوظ رکھے۔ لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مذہب سے تعلق رکھنے والوں نے اسے آلودہ کر دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب وہ راستے سے بھٹک جانے بھیڑ کی مانند ہوگئے ہیں۔ میرے لیے آپ کی دعاؤں اور خیر سگالی کے جذبات کا شکریہ۔ ‘‘
پریس میں امیر کے بارے میں رپورٹیں شائع ہونے کے بعد تو جیسے اعزازات کا انبار لگ گیا۔ فرانس کی حکومت نے اسے لیجن آف آنر عطا کیا جب کہ روس، اسپین، سارڈینیا، پروشیا، برطانیہ، رومی کیتھولک کلیسا، ترک سلطان اور صدر لنکن کی طرف سے اعزازات سے نوازا گیا۔ صدر لنکن نے، جو خود ایک قومی سانحے کے دہانے پر کھڑے تھے، ایک روز پہلے عبدالقادر کو امریکی انداز میں تحسین کی علامت کے طور پر کولٹ برانڈ کے دو پستول بھیجے جنھیں انتہائی نفاست سے خصوصی طور پر امیر کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ انہیں لکڑی کے ایک خوبصورت ڈبے میں بند کیا گیا تھا اور اس پر یہ عبارت کندہ کی گئی تھی: ’’ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر کی طرف سے عزت مآب جناب لارڈ عبدالقادر کے لیے، ۱۸۶۰ء۔‘‘
تاہم عبدالقادر کو عزت افزائی کا سب سے قابل قدر نشان اپنے جیسے ایک حریت پسند اور چیچنیا کے مجاہد محمد شامل کی طرف سے موصول ہوا۔ شامل کو بھی روسی سامراجیت کے خلاف کئی سال جدوجہد کے بعد جلا وطن کر کے ماسکو بھیج دیا گیا تھا۔ محمد شامل نے لکھا تھا:
’’تعریف اس خدا کی جس نے اپنے بندے، انصاف پسند عبد القادر کو طاقت اور ایمان عطا کیا۔ ..... بے حد مبارک۔ خدا کرے اس عزت اور امتیاز کے ثمرات ہمیشہ آپ کو ملتے رہیں۔‘‘
شامل نے ان مسلمانوں کی مذمت کی جنھوں نے عیسائیوں کے ساتھ اتنا قابل نفرت رویہ اپنایا اور اپنے مذہب کو بدنام کیا۔ ’’میں ان حکام کی کور چشمی پر بھونچکا رہ گیا جنھوں نے ایسی زیادتیاں کیں اور اپنے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث فراموش کردی کہ: ’’جس کسی نے بھی اپنے زیر امان رہنے والے کے ساتھ ناانصافی کی، جس کسی نے بھی اس کے خلاف کوئی غلط حرکت کی یا اس کی مرضی کے بغیر اس سے کوئی چیز لی، وہ جان لے کہ روز محشر میں خود اس کے خلاف مدعی بنوں گا۔‘‘آپ نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا عملی نمونہ پیش کیا ہے .....اور خود کو ان لوگوں سے الگ کر لیا ہے جو ان کے اسوے کو رد کرتے ہیں۔ .....خدا آپ کو ان کے شر سے محفوظ رکھے جو اس کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔‘‘
امیر کو امام شامل کی صورت میں ایک ایسے ہم مذہب کی تائید بھی ملی جو اپنے خیالات میں بالکل اسی جیسا تھا۔ اس کے جوابی خط میں وہی کچھ دہرایا گیا جو اس نے بشپ پیوی کو لکھا تھا اور جو وہ اکثر جارج بلڈ کے سامنے کہا کرتا تھا۔ امیر نے شامل کو لکھا:
’’میں نے جو کچھ بھی کیا، وہ محض ہمارے مقدس قانون اور انسانیت کے اصولوں کی تعمیل تھی۔ ..... اخلاق سے گری ہوئی حرکت کو تمام مذاہب میں برا کہا گیا ہے، کیونکہ برے اخلاق پر عمل کرنا اپنے ہاتھوں زہر پینے کے مترادف ہے اور یہ سارے بدن کو آلودہ کر دیتا ہے۔ .....اگر ہم یہ سوچتے ہیں کہ سچائی کے حقیقی علمبردار کتنے تھوڑے ہیں اور ایسے جاہلوں کو دیکھتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کا مطلب جبر، سختی، زیادتی اور وحشی پن ہے تو پھر وقت آگیا ہے کہ ان الفاظ کو بدل کر یوں ادا کیا جائے: تحمل خدائی صفت اور خدا کی ذات پر ایمان کا نام ہے۔‘‘
عیسائیوں کے قتل عام نے فرانس کو اپنے اس موقف پر زور دینے کا موقع فراہم کیا کہ سلطنت عثمانیہ میں رہنے والے عیسائیوں کو یورپی تحفظ کی ضرورت ہے۔ چھ ہزار کی نفری پر مشتمل فرانسیسی فوج بیروت کی طرف رواں دواں تھی جہاں اس کی آمد اگست کے وسط میں متوقع تھی۔
قتل وغارت گری تھمنے کے ایک ہفتہ بعد ۲۵جولائی کو غصے سے آگ بگولا ہو کریورپی طاقتوں نے فرانس اور یورپ کی مشترکہ فورس کو لبنان بھیجنے کا فیصلہ کیا جو دمشق کے اندر تک گھسنے کی صلاحیت بھی رکھتی تھی۔ الجزائر میں امیر کے ایک اور پرانے حریف جنرل بیوفو اوٹ پول (Beaufort d'Hautpoul) کی کمان میں شروع کی گئی اس مہم کا مقصد ’’انسانیت کے بنیادی فرائض‘‘ کو یقینی بنانا تھا۔ فرانسیسیوں کے پہنچنے سے پہلے سلطنت عثمانیہ کے وزیر خارجہ فواد پاشا کو، جو اصلاحات کا بڑا حامی اور برطانیہ کا منظور نظر تھا، فوراً لبنان سے تین ہزار فوجیوں کے ساتھ دمشق پہنچنے کا حکم ملا تاکہ فسادات کے مرتکب افراد کی نشاندہی کرکے انہیں سخت سزا دی جائے اور اس طرح فرانس کو اندرونی علاقوں میں مداخلت کے جواز سے محروم کر دیا جائے۔ 
فواد نے اپنے فوجی افسروں، عبدالقادر اور یورپی سفیروں کے ساتھ صلاح مشورہ کرنے کے علاوہ مقامی اکابرین کے ساتھ ملاقاتیں کیں اور پھر ایک غیر معمولی ٹربیونل تشکیل دیا۔ اس ٹربیونل نے زندہ بچ نکلنے والے عیسائیوں کو فسادات کی آگ بھڑکانے والوں کی فہرست تیار کرنے کی ذمہ داری تفویض کی، لیکن عیسائیوں کی اکثریت کو تو اندازہ ہی نہیں تھا کہ حقیقت میں ان پر حملہ کرنے والے کون لوگ تھے۔ جو زندہ بچ گئے تھے، انہیں صرف ان لوگوں کے چہرے یاد تھے جنھوں نے ان کی جان بچائی تھی۔ اس پر فواد پاشا نے مسلم علاقوں میں تعینات افسروں سے وہاں کے ایسے باشندوں کی فہرست بنانے کو کہا جنھیں قتل وغارت گری کے دوران مسلح دیکھا گیا تھا۔
تین اگست کو دمشق کی گورننگ کونسل نے دیگر مسلمان رہنماؤں سمیت فواد پاشا سے ملاقات کرکے اس فہرست کا جائزہ لیا تاکہ سزا کے مستوجب لوگوں کے ناموں کی تصدیق یا تردید کی جائے۔ اس ساری کارروائی کے دوران شہر کے دروازے بند رکھے گئے اور اشیائے خور ونوش اور دیگر ضروری سامان کی فراہمی کے سوا کسی کو اندر آنے یا باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ 
ٹربیونل نے ۴۶۰۰ ناموں کی فہرست میں سے ۳۵۰ ؍افراد کو گرفتار کیا۔ فہرست میں شامل بہت سے لوگ فرار ہوگئے تھے۔ کچھ پر الزامات ثابت نہیں ہوئے یا ناکافی شہادتوں کی بنیاد پر وہ بری کر دیے گئے۔ گرفتار ہونے والے ساڑھے تین سو افراد میں سے بارہ کے سوا سب ’’قتل وغارت پر اکسانے، قتل کرنے، آگ لگانے یا لوٹ مار کرنے‘‘جیسے جرائم کے مرتکب پائے گئے۔ مجرم قرار دیے جانے والے ۳۳۸ ؍افراد میں سے ۱۸۱ ؍کو گولی مار دی گئی یا پھانسی پر لٹکایا گیا جبکہ ۱۵۷؍کو ملک بدر کر دیا گیا۔ جن لوگوں کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا، ان میں گورنر احمد پاشا بھی شامل تھا۔ مشاگا کے چھ حملہ آوروں اور اس کے حلقے کے منتظم کو سولی چڑھا دیا گیا۔
بیاسی مجرموں کا تعلق ترکی کے نیم فوجی دستوں سے تھا۔ چونسٹھ افراد کو دمشق میں نووارد کے طور پر شناخت کیا گیا۔ ۱۲۳؍افراد کی شناخت ان کے پیشوں کے اعتبار سے کی گئی جن میں دکاندار، کاریگر، کسان اور اشرافیہ کے ارکان بھی شامل تھے، لیکن اس سارے قضیے کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا؟ اس سوال کے جواب میں انگلیاں مختلف سمتوں میں اٹھ رہی تھیں۔
فرانسیسی قونصل کا اشارہ انگریزوں کی طرف تھا اور اس نے توجہ دلائی کہ تمام یورپی سفارتخانوں میں صرف برطانیہ کا سفارتخانہ ایسا تھا جسے نذر آتش نہیں کیا گیا۔ (بعد میں پتہ چلا کہ اس کی حفاظت بھی عبدالقادر کے الجزائری جنگجو کر رہے تھے)۔ پھر انگریز ریورنڈ گراہم کے قاتل کی کہانی بھی بہت اہم تھی جس کا کہنا تھا کہ اس سے بہت بڑی خطا سرزد ہوئی تھی۔ دوسری طرف باقی ممالک کو اس معاملے میں فرانس کا ہاتھ ہونے کا شبہ تھا۔ فرانس کے بارے میں سب جانتے تھے کہ وہ شام پر قبضہ کرنے اور ریشم کے مقامی آڑھتیوں کو فارغ کرکے ان کی جگہ اپنے صنعت کاروں کو بٹھانے کے لیے بہانہ ڈھونڈ رہا ہے۔ استنبول میں اپنے سفیر کے ساتھ خط کتابت میں دمشق میں تعینات برطانوی قونصل نے عبدالقادر پر نائب قونصل لانوزے کے ساتھ ملی بھگت کرنے کا الزام عائد کیا اور اس طرح ہر وقت فرانسیسی منصوبوں سے ڈرے رہنے کی اس روایت کو دوبارہ زندہ کر دیا جو ۱۸۴۰ء میں اس وقت کے برطانوی قونصل نے یہ کہہ کر قائم کی تھی کہ فرانس مصر کے ساتھ گٹھ جوڑ کر رہا ہے۔ ’’حریص غیر ملکی ہاتھوں‘‘ کے ملوث ہونے کے بارے میں اسی طرح کی کچھ اور قیاس آرائیاں بھی تھیں۔
لیکن اصلی حقائق چرچل کی اس توضیح کو درست ثابت کرتے ہیں کہ یہ اصل میں اصلاحات کے مخالف مسلمانوں میں مغرور عیسائیوں کا ’’دماغ درست‘‘ کرنے کی خواہش تھی جس نے نفرت اور غصے سے بھرا یہ منصوبہ تیار کرایا۔ مشاگا نے چرچل کی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ساری منصوبہ بندی استنبول میں ہوئی تھی۔ عیسائی باشندے تو اپنے حقارت آمیز گھمنڈ اور قانون کی نافرمانی جیسے رویوں کی بنا پر ناپسندیدہ سمجھے جارہے تھے، لیکن دمشق کے مسلمان بھی ایسے ہی تھے جن کی اکثریت بے چین فطرت عربوں اور کردوں پر مشتمل تھی۔ ان کے بعض پرانے مجرمانہ رویوں مثلاً ٹیکس ادا نہ کرنے اور سامراجی وزیروں کے قتل کی سازش کرنے وغیر ہ پر ان کو بھی مزہ چکھانے کی ضرورت تھی۔ یہ گستاخی ہر جگہ تھی۔ زمانے کے سرد وگرم سے آشنا مشاگا نے لکھا ہے: ’’چنانچہ حکومت مسلمانوں کو عیسائیوں کے خلاف بھڑکا کر ایک تیر سے دو شکار کرتے ہوئے دونوں سے انتقام لینا چاہتی تھی۔‘‘
حالات وواقعات کی تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ فسادیوں کا ہجوم تھامس گیٹ سے اندر داخل ہوا اور سب سے پہلے روس کے سفارتخانے پر اور پھر خماریہ کے عیسائی علاقے میں قائم یورپ کے باقی سفارتخانوں پر حملہ کیا۔ یہودی بستی کو کسی نے نہیں چھیڑا۔ مشاگا نے بعض ایسے یہودیوں کے بارے میں بھی بتایا جو ترک ملیشیا کے ارکان کو گنے کا رس ملی برف پیش کر رہے تھے اور انہوں نے لٹیروں سے لوٹ کا مال بھی کوڑیوں کے مول خریدا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میدان کا علاقہ بھی، جہاں عیسائی اور مسلمان دونوں رہتے تھے، تشدد کی لہر سے محفوظ رہا۔ دمشق کے اس علاقے میں ریشم کے گنے چنے تاجر ہی رہتے تھے، لیکن یہ بڑی تعداد میں اناج کے تاجروں کی آماجگاہ تھا۔ میدان میں رہنے والی عیسائی اقلیت نے برسوں کی کوشش سے اپنے مسلم ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کر لیے تھے۔ وہ سب نرم خو تھے، مقامی حکام کا احترام کرتے تھے اور اپنے نئے حقوق پر اتراتے نہیں تھے۔
قتل وغارت اور لوٹ مار صرف خماریہ کی عیسائی بستیوں تک محدود رہی جہاں ریشم بننے والے ایسے عیسائی کاریگر رہتے تھے جو مسلمانوں سے زیادہ ہنر مند تھے۔ مسلمان کاریگروں میں، جنھیں جدید کھڈیوں تک رسائی حاصل نہیں تھی، تکنیکی کم تری کے احساس نے بھی دل میں رنج پیدا کیا تھا۔ بہت سے مسلمان یورپیوں کے مقروض تھے اور کارکن طبقہ اس موسم گرما میں اناج کی قلت کی وجہ سے اشیائے خور ونوش کی قیمتوں میں اضافے سے بھی پریشان تھا۔ بے چینی اور اضطراب پیدا کرنے والے اس طرح کے عوامل نے یورپیوں کی شہ پر لاگو ہونے والی اصلاحات کے خلاف نفرت کے ساتھ مل کر لاوے کو مزید دہکا دیا۔ اب ان بے شرم، گستاخ کافروں کو ’’درست‘‘ کرنے کے لیے ذرا سا اجتماعی اشتعال پیدا کرنے کی ضرورت تھی۔
اس طرح کی شورش کے نتائج ہمیشہ گندے ہوتے ہیں، لیکن حیرت ناک طور پر نو جولائی کو غیظ وغضب کا جو طوفان اٹھا تھا، وہ ایک خاص علاقے میں مرکوز رہا یعنی خماریہ میں محض ایک تہائی مربع میل کے اندر موجود عیسائی بستیوں سے باہر نہیں نکلا۔ بعد ازاں بڑی تعداد میں سزا پانے والے ملیشیا کے جوانوں اور باہر سے آنے والے لوگوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس اشتعال انگیزی کے لیے بیرونی مدد خریدی گئی تھی اور ایسا کرنے والوں کو مارے جانے والوں کے ساتھ کسی طرح کی کوئی ہمدردی یا تعلق نہیں تھا۔ مقامی لوگوں کی طرف سے ان کو ہلہ شیری ملی ، پھر تھوڑی سی لوٹ مار شروع ہوئی جس نے بالآخر قتل عام کی شکل اختیار کر لی۔ اس سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ سازش کرنے والوں نے اس جگہ کا انتخاب اس لیے کیا تھا کہ یہاں عیسائیوں کو آسانی سے پہچانا جا سکتا تھا اور حملہ آوروں کو مقامی عیسائیوں اور مسلمانوں میں امتیاز کرنے میں دقت کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
تحقیقات کرنے والوں نے میدان اور شغار کے محلوں میں رہنے والے مسلمانوں کی خاص طور پر تعریف کی جنھوں نے تشدد کی راہ اختیار کرنے کی بجائے اپنے عیسائی ہمسایوں کی حفاظت کی۔ عبدالقادر نے جو کچھ کیا، وہ بلا شبہ مثالی نوعیت کا تھا لیکن اس کی اتنی تعریف ہوئی کہ بہت سے دوسرے مسلمان جنھوں نے امیر ہی کی طرح عیسائیوں کو پناہ دے کر مشتعل ہجوم کے غضب کا نشانہ بننے کا خطرہ مول لیا تھا، منظر سے ہٹ گئے۔ مشاگا نے اپنی یادداشتوں ’’قتل، بھگدڑ، جلاؤ گھیراؤ اور لوٹ مار‘‘ میں بہت سے ایسے مسلمانوں کا ذکر کیا ہے جنھوں نے اپنے مذہبی قانون پر عمل کرتے ہوئے عیسائیوں کی جان بچائی۔ ان میں ایک معتبر عالم شخ سلیم عطار جبکہ میدان کے محلے میں صالح آغا المہایینی، سعید آغا النوری، عمر آغا العابد اور بہت سے دیگر لوگوں کے نام شامل ہیں۔ امیر عیسائیوں کا سب سے نڈر اور سب سے متحرک نجات دہندہ ضرور ہوگا، لیکن وہ تنہا نہیں تھا۔ اس کے علاوہ اور لوگ بھی عیسائیوں کی جان بچانے میں مصروف تھے۔
جب تحقیقاتی کمیشن نے امیر سے ان سارے واقعات کی بابت سوال کیا تو اس نے کیا رائے دی ہوگی؟ اس کا جواب ہمیشہ کی طرح دوسروں سے منفرد تھا۔ اس نے کہا کہ عیسائیوں کے محلے کو بچایا جا سکتا تھا ’’اگر گورنر کی نیت ہوتی۔‘‘ اس نے مزید وضاحت کرنے سے انکار کر دیا۔ ایک سال بعد آثار قدیمہ کے مشہور فرانسیسی ماہر اور مستشرق کومتے دے ووگ نے امیر سے ملاقات کی۔ امیر کے گھر کا ایک بار چکر لگانا تو جیسے یورپ سے آنے والے ہر مسافر پر فرض تھا۔ ملاقات کے دوران فرانسیسی مہمان نے دمشق کے لوگوں کے رویے کے بارے میں امیر کی رائے جاننے کی کوشش کی۔ اس پر جو جواب ملا، اس نے سارے ملاقاتیوں کو حیران کر دیا۔ ’’انہوں نے جس طرح اپنے حق کا استعمال کیا، وہ غلط تھا، لیکن ان کا عیسائیوں کو سزا دینے کا حق ناقابل تردید ہے۔ عیسائیوں نے استثنائی ٹیکس دینے سے انکار کر دیا تھا۔‘‘ امیر شاید مزید کچھ کہنا چاہتا ہو لیکن اس نے کہا نہیں کہ ایک جنگ زدہ عرب فیڈریشن کے سابق سربراہ کی حیثیت سے وہ ٹیکسوں کی اہمیت اور انہیں بہر صورت اکٹھا کرنے کی اہمیت سے بخوبی آگاہ تھا۔ 
عبدالقادر کی نظر میں قانون بالکل واضح تھا۔ عیسائی باشندے حفظ وامان میں لیے گئے لوگ تھے لیکن وہ بہر حال قانون کا احترام کرنے کے پابند تھے۔ قانون کی نافرمانی کے معاملے میں وہ غلطی پر تھے۔ وہ سرکشی اور بغاوت پر اتر آئے تھے اور انہیں سزا ملنا ضروری تھا۔ دوسری طرف مسلمانوں نے بھی اندھا دھند اور سفاکانہ طریقے سے انہیں ’’ٹھیک‘‘ کر کے غلط کیا۔ 
امیر یقیناً ایک باخبر شخص تھا۔ یورپی ممالک نے سلطنت عثمانیہ پر دباؤ ڈال کر جو اصلاحات نافذ کرائی تھیں، ان میں سرکاری طور پر عیسائیوں کے ’’ذمی‘‘ ہونے کی حیثیت ختم ہوگئی تھی اور جزیہ کا ٹیکس بھی ہٹا لیا گیا تھا۔ اس کی بجائے سب کے لیے ایک عالمگیر استثنائی ٹیکس متعارف کرایا گیا جو عسکری خدمات انجام نہ دینے کے خواہشمند عیسائیوں اور مسلمانوں دونوں کو ادا کرنا تھا۔ اب عیسائی اور ترک برابر ہوگئے تھے اور عیسائی بھی فوج میں خدمات انجام دینے کے پابند تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ عمومی طور پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ عیسائی سلطنت عثمانیہ کے لیے کام کرنے سے نفرت کرتے ہیں۔ ترک بھی عیسائیوں کو فوج میں نہیں لینا چاہتے تھے۔ لیکن اب مسئلہ یہ تھا کہ مسلمانوں کو تو فوج کی نوکری نہ کرنے کے عوض فی کس ایک سو لیرا ٹیکس دینا تھا جب کہ عیسائیوں پر صرف پچاس لیرا ٹیکس عائد کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود عیسائیوں نے وہ ٹیکس ادا کرنے سے انکار کردیا، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اگر وہ کہیں گے کہ ہم فوج میں نوکری کرنے کو تیار ہیں تو ترک انہیں مسترد کر دیں گے اور اس طرح ان کی ٹیکس ادا کرنے سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔ 
فرانسیسی ملاقاتی امیر کے منہ سے اس طرح کی سخت گیر باتیں سن کر بہت حیران ہوئے اور گمان غالب ہے کہ وہ ان نئی پیچیدگیوں سے آگاہ نہیں تھے جو ان اصلاحات سے پیدا ہوئی تھیں۔ فرانس میں عبدالقادر کی شخصیت کو اس کے پرستاروں نے ’’لبرل‘‘ کا جامہ اوڑھا دیا تھا، لیکن کومتے دے ووگ اگر امیر کے پروٹسٹنٹ دوست مائیکل مشاگا سے بھی بات کر لیتا تو اسے اسی طرح کے خیالات سننے کو ملتے۔ 
مشاگا کو اگر مقامی سطح پر ’’مشرق کا لوتھر‘‘کہا جاتا تھا تو یہ بالکل درست تھا۔ لوتھر کے ’’ہر صاحب ایمان کے لیے پادری بننے کا حق‘‘ کے انقلابی تصور نے مقدس رومن سلطنت کے جرمنی کے علاقے میں انتشار پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا تھا : ہر شخص کو، خواہ وہ کتنا ہی غیر تربیت یافتہ ہو، اپنا پادری خود بننے دو؛ خدا اور بندے کے درمیان کسی وسیلے کی ضرورت نہیں۔ جب لوتھر نے دیکھا کہ اس کے نظریات کو کتنا غلط طریقے سے استعمال کیا گیا ہے تو وہ دہل گیا اور سیکولر اتھارٹی کا پکا حامی بن گیا۔ پھر اس نے جو نتیجہ اخذ کیا، وہ یہ تھا کہ کوئی حکمران نہ ہونے سے برا حکمران بہتر ہے اور اس کی تائید اسے سینٹ پال کی تحریروں سے بھی ملی۔
جیسے تین سو سال پہلے لوتھر نے دیکھا تھا، اسی طرح مشاگا نے بھی سرکش روحوں یعنی عیسائیوں اور مسلمانوں کے بپا کردہ کشت وخون کا عینی شاہد بننے کی اذیت جھیلی۔ اپنی طویل یادداشتوں میں اس نے ان لوگوں کو خبردار کیا ہے جو مقررہ حکام کا فرمانبردار رہنے کی ضرورت سے انکار کرتے ہیں۔ ’’میری نیت اپنے حکمرانوں کے احکامات سے سرتابی کے نتائج سے روشناس کرانے اور اس کی وجوہات کی وضاحت کرنے کی تھی۔ .....کیونکہ ہم نے ابھی تک کوئی ایسی ریاست نہیں دیکھی جو احکامات کی تعمیل کرنے والی رعایا کے خلاف انتقامی کارروائی کرے۔‘‘ لوتھر کی طرح مشاگا بھی اکثر رومن کیتھولک حوالے دیتا تھا : ’’ہر انسان مقتدر حاکم کی رعیت ہے۔ حاکمیت صرف خدا کی ہے۔ .....حکمران اچھے کاموں کے خلاف نہیں بلکہ بدی کے خلاف خوف پیدا کرتے ہیں۔ ...... چنانچہ تمہیں ٹیکس ضرور ادا کرنے چاہئیں کیونکہ حکمران خدا کے نائب ہیں جو یہ کام کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ان کے سارے واجبات ادا کردو۔ .....کسی کا حق اپنے پاس نہ رکھو، سوائے اس کے کہ ایک دوسرے سے محبت کرو۔‘‘

ریاست، معاشرہ اور مذہبی طبقات ۔ پاکستان کے تناظر میں اہم سوالات کے حوالے سے ایک گفتگو (۲)

محمد عمار خان ناصر

انٹرویو: مشعل سیف

مشعل سیف: یہ بتائیے کہ آئین کو اور بہت سے قوانین کو Islamize کر لینے اور نظریاتی کونسل اور شرعی عدالت جیسے ادارے بنا لینے کے بعد پاکستان کو عملی طور پر اسلامی ریاست بنانے کے لیے اب مزید کن چیزوں کی ضرورت ہے اور آگے کس بات کی کوشش کرنی چاہیے؟
عمار ناصر: یہ بھی ایک بڑا اہم سوال ہے کہ عملی طور پر کیا ہو سکتاہے۔ میرے خیال میں جب بھی ہم اسلام کے نفاذ کی بات کرتے ہیں تو ہمارا سارا دھیان ریاست اور حکومت کے فیصلوں اور اقدامات پر مرکوز ہو جاتا ہے۔ میرے فہم کے مطابق قرآن وسنت میں جو مسلم معاشرے کا تصور ملتا ہے، اس میں ریاست اور حکومت کے معاملات بہت ثانوی چیز ہیں۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ مسلمانوں کا پورا معاشرہ عملاً مسلمان ہو۔ ریاست بھی مسلمان ہو، یہ اس کا ایک بہت محدود حصہ ہے۔ ریاست تو معاشرے ہی کا ایک حصہ ہے۔ جتنا معاشرہ مسلمان ہو چکا ہوگا، اتنی ہی ریاست بھی خودبخود ہو جائے گی۔ تو نفاذ اسلام کے تصور کی اصلاح ضروری ہے۔ آپ دیکھیں کہ معاشرے میں افراد کی اخلاقیات بگڑی ہوئی ہے، افرادکی وابستگی مذہب کے ساتھ صرف جذباتی ہے، عمل کا کوئی داعیہ ان کے اندر نہیں ہے۔ افراد بگڑے ہوئے ہیں، معاشرتی رسوم بگڑی ہوئی ہیں اور بری قدروں نے اسلام کی معاشرتی قدروں کو Replace کر دیا ہے۔ معاشرے میں ہم ہر جگہ لوگوں کو مادیت سکھا رہے ہیں اوران میں صرف اپنی دنیا کو بہتر بنانے کے جذبات بیدار کر رہے اور اس کے طریقے سکھا رہے ہیں۔ جو مذہب کے مطالبات ہیں، خدا کے ساتھ تعلق ہے، آخرت کے لیے تیاری ہے، اپنی اخلاقیات کو اللہ کی نظر میں بہتر بنانے کا معاملہ ہے، یہ احساس ہے کہ میرے کسی قول یا فعل سے کسی کی دل آزاری یا حق تلفی نہ ہو، کسی کو دکھ نہ پہنچے، کوئی نا انصافی نہ ہو، اصل میںیہ افراد تیار ہونے چاہییں۔ صحیح اسلامی معاشرہ وہ ہوگا جس میں افراد اور معاشرے میں رہنے والے انسان بحیثیت مجموعی اسلام کی قدروں کو اپنا لیں۔ اس کے بعد ریاست کا کردار تو بہت محدود ہوتا ہے۔ ریاست کیا کرتی ہے؟ وہ کچھ قوانین نافذ کر دے گی۔ چور کو پکڑے گی اور اسے سزا دے دے گی۔ اصل میں دین پر عمل نوے پچانوے فی صد معاشرے نے خود کرنا ہے۔ معاشرہ اگر تیار نہیں ہے، اس کے اندر اتنی جان نہیں ہے کہ وہ شریعت کی پابندیوں کو قبول کر لے تو ریاست وہاں کیا کرے گی؟
اس وقت یہی ہو رہا ہے۔ ہم نے پہیہ الٹا گھما دیا ہے۔ ہم نے سمجھا کہ اگر ریاست کو کلمہ پڑھا دیں گے اور کچھ قوانین منظور کر لیں گے اور کچھ اسلامی قسم کے ادارے بنا دیں گے تو اس کا اثر معاشرے پر پڑ جائے گا۔ یہ الٹ بات ہے۔ ایسا نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یا کسی بھی پیغمبر نے پہلے دن حکومت اور اقتدار کی سطح پر بات نہیں کی تھی۔ پہلے دن لوگوں کو مخاطب بنایا تھا، ان کو ایمان سکھایا تھا، لوگوں کو اخلاق بتائے تھے۔ پھر جب لوگوں میں قبولیت کی استعداد پیدا ہو گئی، تب یہ ہوا کہ ایک دن آپ نے اعلان کیا کہ شراب حرام ہے تو لوگوں نے ساری شراب اٹھا کر باہرپھینک دی۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ اگر پہلے دن آپ لوگوں سے یہ کہتے کہ شراب ممنوع ہے اور زنا حرام ہے تو کوئی بھی نہ مانتا۔ تو یہ الٹ ترتیب ہے جو ہم نے اختیار کی ہے۔ 
میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے جو مذہبی لوگ ہیں، جن کی یہ خواہش ہے کہ معاشرہ تبدیل ہو، انھیں اپنی ترجیحات درست کرنی چاہییں۔ اب تک ہم نے سارا زور ریاست پر لگایا ہے اور وہاں جتنا ہو سکتا تھا، اس میں ہم نے کامیابی حاصل کرلی ہے۔ آئین مسلمان ہو گیا ہے، ضمانتیں دے دی گئی ہیں اور کافی قوانین بھی بن گئے ہیں۔ اس سے زیادہ سردست وہاں کچھ نہیں ہو سکتا۔ اب ہمیں اپنی ترجیحات بدلنی چاہییں۔ ہمیں اپنے اخلاق بہتر بنانے ہیں۔ خود مذہبی لوگوں میں بڑے اخلاقی مسائل ہیں۔ ہم خود اسلام کا جتنا اچھا نمونہ پیش کرتے ہیں، اس کو دیکھیں تو سوسائٹی سے ہم کیا توقع رکھتے ہیں؟ اب ہم لوگوں کو مسلمان بنائیں، ان کے اخلاق کو بدلیں، لوگوں کو اس کے لیے تیار کریں۔ جتنا یہ معاشرہ بہتر ہو جائے گا، اتنا اسلام خود بخود آ جائے گا اور اس کے بعد وہ وقت بھی آئے گا کہ ہم حکومتوں سے توقع کریں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔ 
یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اسلام کی نظر میں قانون اور ریاست کا اور معاشرے کی جو اخلاقی صورت حال ہے، اس کا باہمی Relation کیا ہے۔ ہم ان چیزوں کو الگ الگ کر کے کسی ایک پر ذمہ داری نہیں ڈال سکتے کہ حکومت اور حکمران اگر ٹھیک ہو جائیں تو باقی سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ حکمران اگر تو آسمان سے اتر کر آئے ہیں تو پھر اور بات ہے۔ اگر حکمران ہم میں سے ہی کچھ لوگ ہیں اور وہ بھی انھی معاشرتی اقدار کے سانچے میں ڈھلے ہیں جن کی چھاپ پورے معاشرے پر ہے تو ہم ان سے کیا توقع کر سکتے ہیں؟
مشعل سیف: آپ bottom-up اپروچ کی بات کر رہے ہیں کہ اگرہم نچلی سطح پر تبدیلیاں لے کر آئیں تو بات eventually ریاست تک پہنچے گی، جبکہ دوسری اپروچ جس کا آپ ذکر کر رہے ہیں، یہ ہے کہ ہم top سے تبدیلی لے کر آئیں۔ یہ بتائیے کہ نیچے سے تبدیلی لانے کے لیے علماء کو معاشرے کے اندر، عام لوگوں میں اور سوسائٹی کے اندر لوگوں کا رجحان اسلام کی طرف کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ کیا تصانیف سے یا لیکچرز سے ایسا ہوگا یا کسی اور طریقے سے؟
عمار ناصر: یہ تو سب ابلاغ کے طریقے ہیں۔ آپ نے بات پہنچانی ہے، لوگوں کو نصیحت کرنی ہے تو یہ اس کے طریقے ہیں۔ آپ اس طریقے سے بھی کر سکتے ہیں اور جمعے کے خطبے اور لیکچر اور درس سے بھی کر سکتے ہیں۔ سب سے زیادہ موثر جو چیز ہے، جو ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سارے انبیاء کے طریقے میں ملتی ہے، وہ کردار کا نمونہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ لیکچر نہیں دیا کرتے تھے۔ ہمارے ہاں تو ہر نماز کے بعد کوئی نہ کوئی درس، کوئی نہ کوئی وعظ ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ تھا کہ جمعے کے علاوہ آپ عام طور پر پبلک اجتماع کا اہتمام نہیں کرتے تھے۔ ہفتے میں ایک دن رکھا ہوتا تھا جس میں لوگوں کو جمع کرتے اور وعظ ونصیحت کا اہتمام فرماتے تھے۔ اکابر صحابہ کا بھی یہی معمول رہا ہے۔ عبد اللہ بن مسعودؓ سے لوگوں نے کہا کہ آپ ہمیں کچھ زیادہ وقت دیا کریں۔ انھوں نے کہا کہ نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات ناپسند تھی کہ لوگوں کو باتیں سنا سنا کر اکتاہٹ میں ڈال دیا جائے۔ اصل میں انسان نمونے سے سیکھتا ہے۔ ہماری سوسائٹی کی بدقسمتی یہ ہے کہ اچھی سے اچھی تقریریں کرنے والے آپ کو بے شمار لوگ مل جائیں گے، کوئی اچھا نمونہ دکھانے والا نہیں ملے گا کہ یہ اسلام ہے، یہ اسلامی اخلاقیات ہے۔ آپ کو علماء میں، لیڈر شپ میں، اپنے ارد گرد کے لوگوں میں نمونہ نظر آئے گا تو آپ اس سے سیکھیں گے نا! تقریریں تو ہم سب کر لیتے ہیں۔
تو جو لوگ معاشرے کی اصلاح کے علم بردارہیں اور تبدیلی چاہتے ہیں، سب سے پہلے ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ عالم کی حیثیت سے، مذہب کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے ہماری جو اپنی اخلاقیات ہے اور فرد کی حیثیت سے سماج میں ہماری جو اخلاقیات ہے، اس کو بہتر بنائیں۔ ہماری ترجیحات کیا ہیں، ان سے نظر آئے کہ ایک مسلمان کو کیسا ہونا چاہیے۔ نمونے سے لوگ سیکھتے ہیں۔ پچھلے دور میں ہمارا ایک ادارہ ہوتا تھا تصوف کا، وہ تربیت کا ایک بڑا ا چھا مرکز تھا۔ اب وہ بدقسمتی سے بالکل برباد ہو گیا ہے۔ اب وہ ادارہ بھی ایک کاروباری ادارہ بن گیا ہے۔ اب ہمیں اچھے خدا والے، اچھے خدا پرست لوگ جن کے پاس بیٹھ کر ہم محسوس کریں کہ یہ دنیا کچھ نہیں ہے، وہ نہیں ملتے۔ یہ ہماری بڑی بدقسمتی ہے کہ ہمیں نمونہ نہیں ملتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی بتایا تھا کہ امت سے جب اللہ تعالیٰ اپنے دین کو اور اپنے دین کے علم کو اٹھانے کا فیصلہ کریں گے تو ایسا نہیں ہوگا کہ کتابیں ناپید ہو جائیں یا کتابوں کو پڑھنے والے لوگ ختم ہو جائیں۔ اصل میں وہ لوگ جو اس کا ایک عمدہ نمونہ ہوں گے، ان کو اللہ تعالیٰ اٹھا لیں گے۔ پھر لوگوں کو جیسے بھی لوگ ملیں گے، وہ انھی کے پیچھے چلیں گے۔ تو اصل چیز یہ ہے کہ ایسے نمونے ہمارے سامنے ہوں جو لوگوں کو زندہ اور چلتے پھرتے نظر آئیں۔ اسی سے لوگ سیکھیں گے۔
مشعل سیف: آپ کی بات سمجھ میں آ گئی، لیکن جو دوسری Top-down اپروچ ہے، جس کے متعلق کافی علما نے لکھا ہوا ہے، اس کے بارے میں کچھ اور بات کرنا چاہتی ہوں۔ آپ نے کہا کہ جو حکومت ہوتی ہے، وہ قوانین اور پالیسیاں وغیرہ بناتی ہے۔ حکومتی پالیسیوں کا ایک بہت اہم حصہ تعلیمی نظام ہوتا ہے۔ مثلاً ہمارے پبلک اسکولوں میں جو تعلیمی نصاب ہے، وہ ایک بہت اہم چیز ہے جس کے ذریعے سے معاشرے میں تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں۔ Top-down اپروچ یہ ہے کہ حکومت سے کہا جائے کہ آپ نظام تعلیم میں تبدیلیاں لے کر آئیں۔ علماء یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں جو تعلیمی اداروں میں اسلام کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے، اس میں تبدیلیاں لانی چاہییں۔ بہت سے علماء نے اس کے متعلق تجاویز دی ہیں۔ تو اس اپروچ کے متعلق کچھ بتائیے کہ اس کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
عمار ناصر: یہ بات بنیادی طور پر غلط نہیں ہے، لیکن ہم تھوڑی سی جگہ بدل کر بات کر رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ریاست کے پاس جو اختیار ہوتا ہے اور اس کے لیے کردار ادا کرنے کے جو مواقع ہوتے ہیں، ان کی اہمیت نہیں ہے۔ بہت سے کام ہیں جو وہی کر سکتی ہے۔ مثلاً اس وقت تعلیم کے دائرے میں ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پوری قوم کے اندر کوئی فکری یکسوئی نہیں ہے۔ درجن بھر تعلیمی نظام کام کر رہے ہیں۔ اگر آپ کو قوم میں بنیادی ایشوز کے حوالے سے فکری یکسوئی پیدا کرنی ہے تو آپ کو نظام تعلیم کو اس کا ذریعہ بنانا پڑے گا۔ اب یہ کون کر سکتا ہے؟ ظاہرہے کہ ریاست ہی کر سکتی ہے۔ میں اس وقت اس سے اختلاف نہیں کر رہا کہ ریاست کا معاشرے کی اصلاح میں ایک بنیادی اور غیر معمولی کردار ہے۔ میں جو بات عرض کر رہا ہوں، وہ یہ ہے کہ اس وقت ریاست میں اقتدار واختیار رکھنے والے وہ طبقات جنھوں نے یہ کردار ادا کرنا ہے، وہ اس کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ آپ ان کو محض suggest کر کے کہ یہ طریقہ ہے اور یہ طریقہ ہے، فلاں اقدام کریں تو یہ ہوگا اور یہ فیصلہ کریں تو وہ ہوگا، کچھ حاصل نہیں کر سکتے۔ یہ بے فائدہ ہے۔ ان کے اندر نہ اس کا داعیہ ہے، نہ جذبہ ہے، نہ کمٹ منٹ ہے اور نہ وژن ہے۔ کوئی شبہ نہیں کہ ریاست کو اپنا کردار ادا کرنا ہے، لیکن اس وقت مقتدر طبقات اس کے لیے تیار نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت آپ کو کیا کرنا ہے؟ اور اگر ان طبقات کو آپ اس سطح پر لانا چاہتے ہیں اور انھیں اس کردار کے لیے تیار کرنا چاہتے ہیں تو اس کی حکمت عملی کیا ہے؟ 
ہم حکمران طبقہ کوئی آسمان سے اتار کر تو لا نہیں سکتے۔ اصل میں ہم یہ فرق نہیں سمجھتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جو اسلامی ریاست قائم ہوئی، اس میں جن لوگوں کو اقتدار واختیار سونپا گیا، ان کے انتخاب کی اصل بنیاد ہمارے ہاں کے جمہوری طریقے کے مطابق لوگوں کی طرف سے اعتماد کاووٹ نہیں تھا۔ وہ تو براہ راست خدا کی نگرانی میں ایک ریاست قائم ہوئی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک خاص گروہ کو تربیت دی تھی اور ان کو اس معیار پر لے کر آئے تھے کہ جب وہ اس ریاست میں زمام اقتدار سنبھالیں تو ایک مثالی حکمران کا نمونہ پیش کر سکیں۔ ان کو اللہ نے امتحانوں اور آزمائشوں کی بھٹی سے گزار کر انعام کے طور پر اقتدار دیا تھا۔ وہاں تو یہ بات بالکل سمجھ میں آتی ہے کہ جو حکمران ہیں، ان کا اپنا ذاتی فعل، کردار، ان کا وژن اور ان کی ترجیحات اس جگہ پر ہیں جہاں انھیں ہونا چاہیے اور جب انھیں اقتدار ملا تو انھوں نے اس کو implement کر کے دکھا دیا۔ آج ہم تو اس صورت حال میں کھڑے نہیں ہیں۔
تو بات یہ نہیں کہ ریاست کو اختیار حاصل نہیں ہوتا یا اس کی کوئی ذمہ داری نہیں بنتی یا اس کا کردار غیر اہم ہوتا ہے۔ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو طبقہ اوپر بیٹھا ہوا ہے، وہ ہم میں سے ہی نکل کر گیا ہے۔ اخلاقی لحاظ سے جو پورے معاشرے کی ترجیحات ہیں، انھی کا اثر ان پر بھی ہے اور اقتدار واختیار کے حوالے سے وہ اسی نفسیات کا نمونہ پیش کرتے ہیں جو عمومی طور پر ہم سب کی ہے۔ ہمارے مذہبی معلمین اور مبلغین اور مصلحین کو چاہیے کہ اس حکمران طبقے کو Target کریں۔ ان کو مخاطب بنائیں اور کافی عرصے تک ان کو تیار کرنے کی کوشش کریں تاکہ ان کے اندر اسلام کا جذبہ اور اسلام کے نفاذ اور سوسائٹی کی اصلاح کا داعیہ پیدا ہو جائے۔ آپ عام لوگوں کو بھی مخاطب بنائیں تاکہ ان کے اندر ایمانی جذبہ اور قبولیت پیدا ہو اور آپ حکمرا ن طبقات اور مقتدر طبقات کو بھی اپنی دعوت وتبلیغ کا اور اصلاح کا ہدف بنائیں تاکہ وہ لوگ اپنی ذات میں ایک اچھا نمونہ بن سکیں، ان کے اندر یہ داعیہ پیدا ہو کہ ہمیں سوسائٹی میں جو مقام اور جو اثر ورسوخ حاصل ہے، اس کوہم نے اچھے مقصد کے لیے استعمال کرنا ہے۔ یہ وہ بات ہے جو میں عرض کر رہا ہوں۔ریاست کو جو اختیار یا طاقت حاصل ہوتی ہے یا اس کی جو ذمہ داریاں بنتی ہیں، ان کی نفی نہیں کر رہا۔
مشعل سیف: کچھ لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ علماء کو حکمران ہونا چاہیے، کیونکہ وہ اسلام کو بہتر سمجھتے ہیں اور وہی صحیح اسلامی ریاست قائم کر سکتے ہیں۔ کیا آپ کے خیال میں علما کو ہی حکمران طبقہ ہونا چاہیے؟ 
عمار ناصر: دیکھیں، جب آپ ’’طبقہ علما‘‘ کہتی ہیں تو اس کا مطلب بالکل اور بنتا ہے۔ اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ ہمارے ہاں جو علماء کے عنوان سے ایک خاص Class موجود ہے، اس کو حکمرانی کی ذمہ داریاں دے دی جائیں۔ اگر آپ کی یہ مراد ہے تو میں ہرگز یہ نہیں سمجھتا کہ حکومت اس طبقے کے سپرد کرنی چاہیے۔ ہاں، ایک دوسری بات ہے اور وہ یہ کہ جو حکمران ہے، وہ اسلام کا اتنا علم رکھتا ہو کہ وہ ایک عالم دین کے ہم پلہ ہو تو یہ بات درست ہے۔ Ideally مسلمانوں کے حکمران کو عالم ہونا چاہیے، بلکہ میں تو کہوں گاکہ وہ اتنا گہرا علم رکھتا ہو کہ خود اس کی اپنی ایک رائے ہو۔ یہ تو ہمارا خواب ہے کہ کبھی ایسا ہو جائے۔ لیکن آپ طبقہ علماء کو جو اس وقت ہمارے ہاں موجود ہے، اقتدار دینے کی بات کر رہی ہیں تو میرے خیال میں یہ اس کی بالکل اہلیت نہیں رکھتے۔ ان کے پاس وژن بھی نہیں ہے، ان کو معاشرے کے مسائل کا ادراک نہیں ہے اور عملاً ہم متحدہ مجلس عمل کو صوبہ سرحد میں ایک موقع دے کر دیکھ چکے ہیں کہ وہ اپنے دائرۂ اختیار میں بھی کچھ نہیں کر سکے۔ معاشرہ بہت پیچیدہ ہے۔ اس کے مسائل کو کیسے handle کرنا ہے، ہمارا موجودہ طبقہ علما اس سے بالکل نابلد ہے۔ 
مشعل سیف: یعنی آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ علماء کو حکمرانوں کو نصیحت کرنی چاہیے، انھیں خود حکمران بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے؟
عمار ناصر: بالکل کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ اور نصیحت بھی اس پہلو سے نہیں کرنی چاہیے کہ وہ حکومت کے معاملات کو کیسے چلائیں۔ یہ وہی بہتر سمجھتے ہیں۔ نصیحت اس پہلو سے کرنی چاہیے کہ ان کے اندر ایمانی جذبہ بیدار ہو جائے، ان کا اپنا اخلاق وکردار بہتر ہو جائے اور ایک مسلمان حکمران کے اندر جو احساس ذمہ داری ہونا چاہیے، وہ پیدا ہو جائے کہ مجھے اپنے اختیار کا غلط استعمال نہیں کرنا، کیونکہ یہ میرے پا س امانت ہے۔ اسی کو تذکیر کہتے ہیں۔علماء کا کام تذکیر ہے،یعنی کسی بھی آدمی کو اس بات کی یاد دہانی کرانا کہ وہ اللہ کے سامنے جواب دہی کے احساس سے اپنے کردار کا، اپنے قول وفعل کا جائزہ لے اور یہ تصور کرے کہ مجھے دنیا میں کچھ دنوں کا اقتدار مل گیا ہے تو میں فرعون نہ بن جاؤں۔ یہ جو ایمان کا جذبہ پیدا کرنا ہے، یہ ایک عام آدمی میں بھی بیدار کرنا ہے اور ایک حکمران میں بھی کرنا ہے تاکہ جس آدمی کو اللہ نے جہاں place کیا ہے، وہاں وہ اللہ کی مرضی اور اس کی منشا کے مطابق عمل کرے۔
یہاں میں یہ بات Stress کے ساتھ کہوں گا کہ علماء سے مراد صرف دین کا علم رکھنے والے لوگ نہیں۔ دین کی باتیں بتانے والے بہت ہیں، آپ کتابوں میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔ وہ لوگ مراد ہیں جو اپنے کردار سے اور اپنی سیرت کے حسن سے آپ کو Inspire کر سکیں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے دوست وہ ہیں جن کو تم دیکھو تو تمھیں خدا یاد آ جائے۔ ایسی کیفیات پیدا کرنے والے لوگ ہم میں ہونے چاہییں جو ہمیں اپنی اصلاح پر آمادہ کریں۔ تقریریں تو ہم روز سنتے رہتے ہیں، بلکہ میرے خیال میں یہ جو بہت زیادہ تقریریں سننا ہے، یہ بھی ہماری عمل کی حس کو بڑی حد تک دبا دیتا ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہفتے میں ایک ہی دن وعظ ونصیحت کرتے تھے۔ جب ہم ہر وقت باتیں سنتے اور کرتے رہتے ہیں تو ہماری حس مردہ ہو جاتی ہے اور ہم بے پروا ہو جاتے ہیں کہ یہ باتیں تو ہر وقت سنتے ہی رہتے ہیں۔ تو دعوت وتبلیغ سے مراد مذہبی تقریریں کرنا یا مذہبی اجتماعات منعقد کرنا نہیں۔ مقصد یہ ہے کہ انسان میں تبدیلی کیسے آئے اور نفس کے بندے کیسے خدا کے بندے بن جائیں۔ میرے اندر کیسے تبدیلی آئے، مخاطب کے اندر کیسے آئے اور ہم خدا کے صحیح مسلمان بندے بن جائیں، یہ مطلوب ہونا چاہیے۔
مشعل سیف: آپ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ معاشرے میں تبدیلی لانے کے لیے ہمیں نچلی سطح پر توجہ دینی چاہیے۔ یقیناًریاست ایک قوت اور طاقت ہوتی ہے اور وہ بھی معاشرے میں تبدیلی لا سکتی ہے اور نظام تعلیم بھی اس میں کردار ادا کرتا ہے، مگر آپ کے خیال میں پاکستان کے حالات میں زیادہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ علماء معاشرے میں تبدیلی لانے کے لیے محنت کریں۔ آپ بتائیں کہ کیا آپ نے یہ کام کیا ہے یا اگر موقع ملے تو آپ کن خطوط پر محنت کریں گے؟
عمار ناصر: دیکھیں، اس وقت جو کوشش ہونی چاہیے، وہ یہ ہے کہ جن طبقات کا اس وقت ریاست کا نظام چلانے میں بنیادی کردار ہے، اس میں آپ کے سیاست دان ہیں، افواج ہیں، عدلیہ ہے، بیورو کریسی ہے، میڈیا کے لوگ ہیں، سرمایہ دار طبقات ہیں۔ یہی ہیں جو اس وقت الٹا سیدھا جو بھی کر سکتے ہیں، کر رہے ہیں! سو طبقہ علماء کو یا معاشرے کی اصلاح چاہنے والے لوگوں کو چاہیے کہ ان افراد کو اپنی تعلیمی اور تبلیغی واصلاحی کوششوں کا خاص طور پر ہدف بنائیں۔ مثلاً میڈیا کی بہت بڑی طاقت ہے اور وہ لوگوں کے رجحان بنانے اور بگاڑنے میں بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے، لیکن وہاں جو افراد بیٹھے ہوئے ہیں، ان کا جو وژن ہے اور وہ میڈیا کو جیسے دیکھ رہے ہیں، ان کے سامنے سوسائٹی کا جو تصور ہے، وہ اسی کے لحاظ سے اپنا کام کریں گے۔ ان کے سامنے اگر کوئی وژن ہی نہیں ہے اور بس آزادی ہی آزادی کا تصور ہے یا سنسنی پھیلا کر ہر وقت لوگوں کو ٹی وی کے سامنے بٹھائے رکھنا ان کا ہدف ہے یا کمرشلائزیشن کا محرک کام کررہا ہے تو وہ اسی کے لحاظ سے اپنی پالیسیاں اور ترجیحات متعین کریں گے، اسی کے لحاظ سے اپنا content تیار کریں گے۔ اگر اس طرح کے لوگوں کو ہدف بنایا جا سکے تو اس کے کافی اثرات ہوں گے۔ تبلیغی جماعت ایک حد تک یہ کام کرنے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن اس کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بہت زیادہ Other-worldly ہو جاتی ہے اور ہماری سوسائٹی کے جو مسئلے ہیں، وہ اس کی دعوت کا موضوع نہیں۔ لیکن حکمت عملی ان کی درست ہے۔ آپ افراد تک، وہ جہاں بھی معاشرے میں پھیلے ہوئے ہیں، رسائی حاصل کریں۔ ان کے زاویہ نظر کو یا ان کے عمل کو، ان کے کردار کو بہتر بنانے کی کوشش کریں تاکہ جہاں بھی ان کو کام کرنے کا موقع ملے، وہ وہاں کام کریں۔ 
یہ اسٹریٹجی بنیادی طور پر ٹھیک ہے۔ اس کو اگر ذرا وسیع کر لیا جائے اور جو طبقے آپ کے مخاطب ہیں، ان کی نفسیات کے لحاظ سے ذرا tailor کرلیا جائے، ان کے مزاج سے ہم آہنگ کر لیا جائے تو میرے خیال میں یہ کام کرنے کا ہے۔ یہ مجدد الف ثانی او ران کے مرشد خواجہ باقی باللہ کا طریقہ ہے۔ انھوں نے عوام میں کوئی شور مچانے کے بجائے اور کوئی موومنٹ شروع کرنے کے بجائے اکبر کے بہت قریبی امرا کے ساتھ شخصی روابط قائم کیے۔ ان کے ہاں جو فکری کجی تھی، اس کو درست کیا اور اس سے ایک نتیجہ انھوں نے حاصل کیا۔ جب اکبر کو دین الٰہی کی تبلیغ کے لیے دست وبازو ہی نہ ملے تو بس وہ دربار تک محدود ہو کر رہ گیا۔ میرے خیال میںآج بھی علماء کو یہی کام کرنا چاہیے، لیکن یہ کام بالکل بے لوث ہو کر کیا جائے، تبھی ثمرات دے گا۔ اس وقت ہمارے مذہبی لوگ اہل اقتدار اور بارسوخ طبقات کے ساتھ تعلقات بناتے ہیں، لیکن وہ دعوت کے جذبے سے نہیں ہوتا۔ وہ زیادہ تر اپنا قد اونچا کرنے یا کچھ مفادات حاصل کرنے کے لیے ہوتا ہے۔
مشعل سیف: آپ بھی تعلقات بناتے ہیں ایسے لوگوں کے ساتھ؟
عمار ناصر: میں تو بالکل گوشہ نشین آدمی ہوں۔ اپنے محلے کے بھی سارے افراد کو نہیں جانتا۔
مشعل سیف: آپ نے کہا کہ ہمارے مدارس میں کلاسیکی فقہ تو پڑھائی جا رہی ہے، لیکن جدید مغربی علوم نہیں پڑھائے جا رہے اور اس کی وجہ سے وہاں قدامت پسند سوچ اور مائنڈ سیٹ پیدا ہو رہا ہے۔ آپ کے علم میں ہوگا کہ اتحاد تنظیمات مدارس نے کچھ عرصہ قبل حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا، لیکن اس میں یہ طے کیا گیا تھا کہ مدارس میں جدید علوم بھی پڑھائے جائیں گے۔ کیا اس طرح کے کسی معاہدے پر اگر عمل ہو تو آپ کے خیال میں یہ جو قدیم اور جدید فکر کے درمیان دوری کی صورت حال ہے، اس کے حل میں مدد ملے گی؟
عمار ناصر: دیکھیں، اس طرح کے جو معاہدے ہیں، یہ سب Political معاہدے ہیں۔ ان کے پیچھے نہ تو کوئی ایسا جذبہ ہے کہ ہمیں مدارس کے طلبہ کے وژن کو وسیع کرنا ہے اور نہ حقیقی ارادہ (Will) کار فرما ہے۔ یہ سیاسی معاہدے ہیں۔ مدارس پر بہت دباؤ ہے کہ یہ انتہا پسندی کو فر وغ دے رہے ہیں، یہ تنگ نظری پیدا کر رہے ہیں، یہ جدید علوم نہیں پڑھا رہے۔ تو اس دباؤ کو face کرنے کے لیے مدارس کچھ ایسے اقدامات کرنے کے لیے تیار ہیں جو دکھائے جا سکیں کہ دیکھیں، ہم نے یہ باتیں مان لی ہیں تاکہ دباؤ کچھ کم ہو سکے۔ یہ صرف اس حد تک ہے۔ اس کے پیچھے کوئی حقیقی عزم نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ جو جدید علوم آپ کے وژن کو وسیع کر سکتے ہیں، وہ ریاضی اور سائنس تو نہیں ہیں۔ وہ تو سوشل سائنسز ہوتی ہیں۔ سوشل سائنسز ہیں جو آپ کے انداز نظر کو بدلتی اور وسیع کرتی ہیں۔ ان کا تو یہاں کوئی ذکر ہی نہیں۔ آپ مدارس کے طلبہ کو اگر دسویں یا بارھویں جماعت تک انگریزی اور ریاضی پڑھا دیں گے تو اس سے ان کے وژن میں کیا وسعت آ جائے گی؟ 
اصل چیز بنیادی ذہنی رویہ ہے۔ مدارس کی قیادت اپنے ذہنی رویے میں محصور ہے۔ انھیں نہ خود اپنے محدود طبقاتی مفاد سے اوپر اٹھ کر سوچنا قبول ہے اور نہ اپنے طلبہ میں وہ یہ رجحان پیدا ہونے دینا چاہتے ہیں۔ اسی طرح ہماری جو حکومتیں ہیں، ان کا مفاد بھی اسی میں ہے کہ مدارس کے لوگ اور مذہبی لوگ سوسائٹی میں ایک محدود دائرے میں ہی اپنا کردار ادا کریں۔ آپ اس کا تجزیہ کیجیے گا۔ میری یہ سوچی سمجھی رائے ہے کہ مدارس کے لوگوں کو تعلیمی لحاظ سے اور اپنے فکری اثرات کے لحاظ سے ایک محدود دائرے میں رکھنا یہ مدارس کی جو قیادت ہے، اس کے بھی مفاد میں ہے، یہ حکومتوں کے مفاد میں بھی ہے اور یہ سیکولر طبقوں کے بھی مفاد میں ہے۔ وہ بھی یہی چاہتے ہیں کہ یہ اسی دائرے میں رہیں، اس لیے کہ ان کو اگر جدید علوم بھی حاصل ہوں گے تو لازمی طور پر ان میں سوسائٹی میں Peneteration کی زیادہ استعداد پیدا ہوگی اور اس سے ظاہر ہے کہ سیکولر لوگوں کا مقدمہ خراب ہو جائے گا۔ یہ سارے Stake holder کے اشتراک سے، مل جل کر ایک کام ہو رہا ہے۔ البتہ سوسائٹی کو مطمئن کرنے کے لیے یا باہر سے جو دباؤ آتا ہے، اس کو face کرنے کے لیے کچھ اس طرح کے کام وقتاً فوقتاً کر لیے جاتے ہیں۔ ان سے کسی حقیقی تبدیلی کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔
جنرل پرویز مشرف کے دور سے لے کر اس وقت تک جتنی بھی کوشش ہوئی ہے، اس کا محرک بنیادی طور پر تعلیمی اصلاح نہیں ہے۔ نہ حکومت کا اور نہ مدارس کے کارپردازان کا یہ مقصد ہے کہ ہم اپنے مدارس کے نظام تعلیم کو بہتر بنائیں تاکہ یہاں سے زیادہ باصلاحیت اور زیادہ اونچے calibre کے لوگ پیدا ہوں۔ یہ سارا سلسلہ بیرونی دنیا کے دباؤ کو faceکرنے کے لیے شروع کیا گیا ہے۔ اس سے مدارس کو سیاسی طور پر فائدہ ہوا۔ انھوں نے اپنی ایک متحدہ تنظیم بنا لی، دباؤ کا سامنا کرنے میں ان کو مدد مل گئی اور حکومت کو بھی بیرونی دنیا کے سامنے کچھ کہنے کے لیے مل گیا کہ دیکھیں، ہم یہ تبدیلیاں کروا رہے ہیں۔ اس حد تک تو اس کا فائدہ نظر آتا ہے، لیکن آپ یہ سمجھیں کہ اس سے کوئی بنیادی تبدیلی آئے گی تو ایسا بالکل نہیں ہے۔ اس کے لیے پہلے رویے بنتے ہیں، آپ کے اندر آمادگی پیدا ہوتی ہے کہ واقعی ہم نے اپنے ہاں سے بہتر لوگ پیدا کرنے ہیں۔ یہ آمادگی یا داعیہ ابھی تک پیدا نہیں ہوا۔ شاید آپ اس کو بدگمانی کہیں، لیکن میں پھر یہ کہوں گا کہ مدارس کی قیادت سمیت اس وقت جتنے بھی فریق ہیں، ان سب کا مفاد اسی میں ہے کہ یہ طبقہ ایک خاص سطح پر ہی رہے اور ایک محدود دائرے میں ہی اپنا کردار ادا کرتا رہے۔ کچھ طبقے شعوری طور پر ایسا چاہتے ہیں اور کچھ غیر شعوری طور پر، لیکن مفاد سب کا اسی میں ہے۔
مشعل سیف: کچھ عرصہ قبل مختلف وفاقوں کے سربراہوں پر مشتمل ایک وفد کو وزیر تعلیم کے ہمراہ مصر اور ترکی میں مذہبی تعلیم کا نظام دیکھنے کے لیے ایک مطالعاتی دورہ کروایا گیا تھا۔ آپ کے خیال میں اس سے کچھ فائدہ ہو سکتا ہے؟
عمار ناصر: دیکھیں، اگر تومدارس کی قیادت میں یہ will موجود ہے کہ ہمیں مثبت تبدیلیاں لانی ہیں تو پھر اس طرح کے جتنے بھی تعلیمی ماڈل دیکھے جا سکیں، وہ مفید ہوں گے اور مختلف ممالک میں کیے جانے والے تجربات سے راہنمائی ملے گی، لیکن مجھے معلوم ہے کہ ایسی کوئی will موجود نہیں۔ میں نے اس دورے کے منتظمین سے کہا تھا کہ یہ حضرات دوسرے ملکوں میں جا کر اچھی اچھی باتیں دیکھیں گے اور سنیں گے، لیکن واپس آ کر اگر آپ ان سے یہ کہیں گے کہ آپ بھی اپنے ہاں ا س طرح کی اصلاحات introduce کروائیں تو وہ کہیں گے کہ بھئی، یہ ہم نہیں کر سکتے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان میں یہ will ہی نہیں ہے اور will کے علاوہ یہ مسئلہ بھی ہے کہ پورے مذہبی طبقے کا جو مائنڈ سیٹ ہے، اس میں تبدیلی کی خواہش مستحکم بنیادوں پر اور وسیع پیمانے پر پیدا کیے بغیر کوئی عملی اقدام ممکن ہی نہیں۔ کیا آپ کے خیال میں وفاق المدارس العربیہ یا تنظیم المدارس کے جو سیکرٹری جنرل ہیں، ان کو یہ مینڈیٹ ملا ہوا ہے کہ وہ جیسی اصلاحات مناسب سمجھیں، قبول کر لیں؟ بالکل نہیں۔ یہ حضرات تو اپنے اپنے حلقے کی سوچ کی نمائندگی کرنے کے لیے ان مناصب پر مقرر کیے گئے ہیں۔ جو تبدیلیاں اور اصلاحات ان سے منوانے کی کوشش کی جا رہی ہے، وہ اگر مان بھی لیں تو نیچے کا طبقہ قبول نہیں کرے گا۔
مشعل سیف: آپ نے مذہبی لوگوں کو ایک دائرے میں محدود رکھنے کی جو بات کی، اس سے مجھے یاد آیا کہ Malika Zeghal ایک اسکالر ہیں جو پی ایچ ڈی ہیں اور مصر کے حالات پر تحقیق کرتی ہیں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ مصر کی حکومت کی علماء کے متعلق یہ پالیسی ہے کہ ان کے دائرۂ اثرکو محدود رکھتے ہوئے انھیں ایک حد تک حکومتی معاملات میں شریک رکھا جائے، اس لیے الازہر کے کچھ علماء کو ہمیشہ حکومتی مناصب میں حصہ دیا جاتا ہے۔ انھوں نے ا س کو مذہبی علماء کی domestication کا نام دیا ہے۔ کیا پاکستان میں بھی اسی طرح کی صورت حال نظر نہیں آتی؟ حکومت جانتی ہے کہ پاکستان میں بڑی تعداد میں لوگ ہیں جو اسلام سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے حکومت ان کو مطمئن کرنے کے لیے کچھ علماء کو اسلامی نظریاتی کونسل میں لے لیتی ہے تاکہ یہ بتایا جا سکے کہ ہم نے اسلام کے لیے بھی کچھ کام کیا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ علماء کو ایک دائرے میں محدود بھی رکھا جاتا ہے تاکہ وہ پالیسیوں پر زیادہ حاوی نہ ہونے پائیں؟
عمار ناصر: بالکل ایسے ہی ہے۔ پالیسی یہ ہے کہ علماء کے طبقے کی، جو مذہب کی نمائندگی کرتا ہے، اس پہلو سے تسکین ہوتی رہے کہ ہمارے لیے بھی اس نظام میں جگہ ہے۔ کوئی نظریاتی کونسل بنا دی جائے گی، کوئی رؤیت ہلال کمیٹی بن جائے گی، کوئی قرآن بورڈ تشکیل دے دیا جائے گا، سرکاری اہتمام میں کچھ علماء ومشائخ کانفرنسیں منعقد کر لی جائیں گی تاکہ طبقہ علماء کو مطمئن رکھا جائے کہ ایسا نہیں ہے کہ آپ کی کوئی قدر نہیں ہے، تاکہ اس کے بعد جو ایک عمومی نظام بنا ہوا ہے، یہ حضرات اس کے لیے کوئی مسئلہ نہ کھڑا کریں۔ اگر علماء کو engage نہیں کریں گے تو اس طبقے میں نظام سے بہت زیادہ alienation پیدا ہو جائے گی۔ مذہب تو موجود ہے سوسائٹی کی نفسیات میں اور اس کی ایک سماجی اور سیاسی طاقت بھی ہے۔ سو اس طبقے کو نظام پر حاوی کیے بغیر اسے ایک حد تک نمائندگی دے دی جائے، اس انڈرسٹینڈنگ کے ساتھ کہ بھئی، جو جگہ آپ کو دی گئی ہے، اس پر خوش رہیں اور اس سے آگے خواہ مخواہ باقی معاملات میں ٹانگ نہ اڑائیں۔ یہی اس وقت مصر اور پاکستان جیسے معاشروں میں حکومتی پالیسی ہے کہ طبقہ علماء کو اس طرح engage کیا جائے کہ ان کو اس بات کا زیادہ احساس نہ ہو کہ ہمیں sideline کر دیا گیا ہے۔ 
میں اس تجزیے سے ایک سو ایک فی صد اتفاق کرتا ہوں، لیکن میرے نزدیک اس میں دوش ارباب اقتدار کو نہیں، بلکہ خود مذہبی لیڈر شپ کو دینا چاہیے۔ ارباب اقتدار کو تو فطری طور پر ایسے ہی سوچنا چاہیے۔ یہ ان کی سیاست کا بھی تقاضا ہے اور مفاد کا بھی اور ایک لحاظ سے دیکھیں تو حکمت کا بھی۔ اصل میں تو سوال مذہبی لیڈر شپ پراٹھتا ہے کہ وہ کچھ perks and privileges پر راضی ہو کر اپنے طبقاتی مفاد اور وہ بھی زیادہ تر اوپر کی سطح کی قیادت کے مفاد کا تحفظ کرنے پر قناعت کر چکی ہے، جبکہ خدا کے دین کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے ان کی جو ذمہ داری بنتی ہے، وہ بالکل پس پشت ڈال دی گئی ہے۔ مذہب تو اپنی اصل روح کے اعتبار سے لوگوں کی زندگیاں بدلنے اور انسان کو اخلاقی خرابیوں سے پاک کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ ہم یہ نہیں کر رہے۔ سماجی کردار کے لحاظ سے دیکھیں تو ظلم وجبر اور استحصال پر مبنی ایک نظام میں مذہبی طبقے کا رویہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ وہ ایک Stake holder کی طرح بس اپنے مخصوص طبقاتی مفادات کے تحفظ کو مطمح نظر بنا لے، جبکہ ہم بعینہ یہی کر رہے ہیں۔
مشعل سیف: آپ کے حوالے سے ایک مسئلہ جو بہت Controversial رہا ہے، وہ ہے توہین رسالت پر سزا کا قانون۔ آپ کے افکار بہت سے علماء سے مختلف ہیں اور آپ پر اس حوالے سے کافی تنقید بھی کی گئی ہے۔
عمار ناصر: نہیں، میرے افکار کوئی اتنے مختلف نہیں ہے۔ جب آپ کسی معاملے کو politicize کر دیں تو پھر ایسا لگتا ہے۔ میرا نقطہ نظر زیادہ مختلف نہیں ہے۔ دیکھیں، مجھے اس سے پورا اتفاق ہے کہ توہین رسالت ایک جرم ہے۔ مجھے اس سے بھی اتفاق ہے کہ مسلمانوں کے ملک میں اس مسئلے کو قانون کا موضوع بننا چاہیے۔ جہاں مسلمانوں کی ریاست دوسرے جرائم کی روک تھام کے لیے قانون بناتی ہے، یہ بھی اس کی ذمہ داری ہے کہ اپنے پیغمبر کی عزت وناموس کی حفاظت کے لیے بھی قانون سازی کرے۔ اس معاملے سے ریاست لا تعلق نہیں رہ سکتی۔ مجھے اس سے بھی اتفاق ہے کہ اس جرم پر مجرم کے لیے موت کی سزا بھی قانون میں شامل کر لی جائے تو وہ بالکل درست ہے۔ اختلاف کس بات پر ہے؟ اختلاف صرف اتنی بات پر ہے کہ جرم کی نوعیت اور سوسائٹی میں مجرم کی حیثیت کیا ہے یا اس نے جو جرم کیا ہے، اس کا کتنا اثر سوسائٹی میں پھیلا ہے، کیا سزا دیتے ہوئے ان چیزوں کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے یا نہیں رکھنا چاہیے؟ میں نے جتنا بھی اسلامی شریعت کو، فقہ کو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور صحابہ کے فیصلوں کو پڑھا ہے، یہی واضح ہوتا ہے کہ آپ کو یہ سارے پہلو ملحوظ رکھ کر ہی مجرم کے خلاف اقدام کرنا چاہیے۔ ایسا نہیں ہے کہ ایک آدمی نے، چاہے وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو، کسی بھی کیفیت میں، کسی بھی سچویشن میں، ارادۃً یا بلا ارادہ اپنے منہ سے کوئی ایسا کلمہ نکال دیا جو توہین کو مستلزم ہے تو بس ہم اس کی گردن اڑانے کے ہی پابند ہیں۔ یہ اسلام نے نہیں کہا۔ آپ کو ملحوظ رکھنا ہوگا کہ اگر اس نے بلا ارادہ ایسا کیا ہے تو اسے توبہ کا موقع ملنا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ مسلمان تو ارادۃً ایسا نہیں کر سکتا۔ غیر مسلم نے اگر ارادۃً کیا ہے تو دیکھا جائے کہ کس سچویشن میں کیا ہے؟ کیا بات ہو رہی تھی؟ کیا گفتگو چل رہی تھی؟ عین ممکن ہے کہ مسلمان اور غیر مسلم آپس میں کوئی بحث کر رہے ہوں اور اس میں مسلمانوں نے کوئی سخت بات غیر مسلموں کے مذہب کے بارے میں کہہ دی ہو اور اس کے رد عمل میں غیر مسلم کے منہ سے بھی ایسی کوئی بات نکل جائے اور پھر وہ اس پر نادم ہو اور معذرت پیش کرنے کے لیے آمادہ ہو۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان ہر طرح کے حالات میں شریعت ہمیں پابند کرتی ہے کہ ہم ضرور اس کی گردن ہی اڑائیں؟ یہ ہرگز شریعت کا منشا نہیں ہے۔
میرا اختلاف صرف اتنا ہے کہ مجرم کے حالات کے لحاظ سے قانون میں موت سے کم تر سزا کی گنجائش بھی ہونی چاہیے اور خاص طور پر اگر مجرم اپنے جرم پر نادم ہو ، شرمندہ ہو اور معذرت پیش کر رہا ہو تو ا س کو توبہ کا موقع دینا چاہیے۔ یہی شریعت کا منشا ہے۔ اور یہ بات میں نے کوئی پہلی مرتبہ نہیں کہی۔ ہمیشہ سے فقہا میں یہ دونوں نقطہ نظر رہے ہیں۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے تلامذہ خاص طور پر اس کے قائل ہیں کہ آپ اس معاملے میں آخری حد تک مجرم کو توبہ ہی کا موقع دیں گے۔ ہاں، جب کوئی مجرم اس سطح پر آ جائے کہ وہ بار بار جرم کا ارتکاب کرتا ہے اور علانیہ کرتا ہے اور باز نہیں آتا، تب اس کے فساد سے بچنے کے لیے آپ اس کو موت کی سزا دے سکتے ہیں۔ 
ہمارے ہاں یہ مسئلہ دراصل politicize ہو چکا ہے۔ جو سیکولر لابی ہے، اس کی کوشش یہ ہے کہ سرے سے یہ قانون ہی ختم ہو جائے۔ اس کے رد عمل میں جو مذہبی لوگ ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ قانون جیسا ہے اور جیسا بھی بن گیا ہے، ا س کو بالکل نہ چھیڑا جائے۔ یہ ایک سیاسی کشمکش ہے اور میں اس میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ ا س جرم پر سزا کا قانون ہونا چاہیے، یہ لازم ہے۔ یہ اسلامی ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے۔ لیکن قانون میں اتنی لچک ہونی چاہیے جتنی لچک شریعت نے رکھی ہوئی ہے۔ تو یہ نقطہ نظر کا اتنا اختلاف نہیں ہے جتنا اس معاملے کے politicize ہو جانے کی وجہ سے دکھائی دیتا ہے۔
مشعل سیف: لیکن کافی علماء ہیں جو ا س معاملے میں لچک پر یقین نہیں رکھتے۔ وہ کہتے ہیں کہ لچک نہیں ہونی چاہیے۔
عمار ناصر: نقطہ نظر کا اختلاف تو موجود ہے۔ وہ اپنا نقطہ نظر رکھتے ہیں، لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ لچک کا ہونا یہ شریعت کے منشا کے زیادہ قریب ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ نہیں ہے تو ٹھیک ہے۔ میں نے اپنا نقطہ نظر پیش کیا ہے، وہ بھی اپنا نقطہ نظر پیش کر رہے ہیں۔ زبردستی اپنا موقف نہ میں enforce کر رہا ہوں نہ ان کو حق ہے کہ وہ enforce کریں۔
مشعل سیف: آپ کے اور دوسرے علماء کے درمیان ایک اور جو اختلاف ہے، وہ یہ کہ دوسرے علماء کافی حد تک یہ کہتے ہیں کہ جیسے ہی ایک شخص توہین رسالت کرتا ہے، وہ مباح الدم ہو جاتا ہے اور کوئی بھی اس کو قتل کر سکتا ہے، جبکہ آپ اس کے متعلق مختلف بات کہتے ہیں۔
عمار ناصر: بالکل نہیں۔ مباح الدم ہونے کا فیصلہ تبھی ہوگا جب کوئی با اختیار قانونی اتھارٹی یہ قرار دے دے گی کہ اس شخص کے جرم کی نوعیت فی الواقع ایسی ہے کہ اس کے بعد یہ کسی رعایت کا اور توبہ کا موقع دیے جانے کا مستحق نہیں رہا۔ مباح الد م ہونے کا یہ جو تصور ہے کہ جو بھی آدمی چاہے، اس کو اٹھ کر مار دے تو یہ کسی بھی طرح درست نہیں۔ مثلاً آپ دیکھیں کہ ایک آدمی نے کسی کو قتل کر دیا ہے۔اس کی سزا تو definitely یہ ہے کہ اس سے قصاص لیا جائے، لیکن کیا شریعت نے یہ کہا ہے کہ جو چاہے، اٹھ کر قاتل کو قتل کر دے؟ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ مقدمہ عدالت میں جائے گا، عدالت سارا کیس دیکھے گی اور وہی سزا دے گی۔ تو مباح الدم کا یہ جو تصور ہے کہ اس کے بعد وہ آدمی جس کے ہاتھ لگ جائے، وہ اسے مار دے، یہ بالکل کسی بھی لحاظ سے درست نہیں۔
مشعل سیف: اگر حکومت کچھ نہ کر رہی ہو، مثلاً ایک شخص نے توہین رسالت کردی ، مگر حکومت اس پر مقدمہ نہیں چلا رہی تو پھر کیا کیا جائے؟
عمار ناصر: اس کی ذمہ داری ہم پر نہیں ہے۔ ایک چیز ہمارے دائرۂ اختیار میں ہی نہیں ہے تو اس میں ہم مسؤل بھی نہیں ہیں۔ بنیادی بات یہ دیکھنے کی ہے کہ ہمیں کوئی اقدام آیا اس لیے کرنا ہے کہ اس سے ہمارے جذبات کی تسکین ہوتی ہے یا اس لیے کرنا ہے کہ اس سے خدا راضی ہوتا ہے اور ہم نے خدا کے سامنے اس کا جواب دینا ہے؟ اس وقت ہم فیصلے پہلی بنیاد پر کر رہے ہیں کہ اگر ہم اس بندے کو نہیں ماریں گے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہماری دینی غیرت مر گئی ہے۔ آپ مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھیں۔ مکہ کی ساری زندگی میں رسول اللہ کو گالیاں ہی دی جاتی رہیں۔ کیا وہاں مسلمانوں کو غصہ نہیں آتا تھا یا ان کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچتی تھی؟ لیکن شریعت نے روکا ہوا تھا کہ اس وقت اقدام کی اجازت نہیں ہے۔ اس وقت ان ساری خرافات کو گوارا کرنا اور سن کر اعراض کر لینا ہی دین وایمان کا تقاضا ہے۔ تو ہمیں اپنے جذبات کو بھی دین وشریعت کے تابع بنانا چاہیے۔
مشعل سیف: آپ اس جرم کو Crime against the state تصور کرتے ہیں اور آپ نے اپنی کتاب میں بھی یہ لکھا ہوا ہے، جبکہ دوسرے علماء اس کو ایسا تصور نہیں کرتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس نے ہر ہر مسلمان کے خلاف جرم کیا ہے اور وہ مباح الدم ہو چکا ہے تو اب کوئی بھی اسے مار سکتا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ حکومت ہی اقدام کرے۔
عمار ناصر: یہ بات تو ہماری جو کلاسیکی فقہ ہے، اس کے بھی بالکل خلاف ہے۔ فقہ میں کوئی امام بھی اس کا قائل نہیں ہے۔ جو بھی جرائم اسٹیٹ کے خلاف ہوتے ہیں، وہ اصل میں سوسائٹی کے خلاف ہوتے ہیں جس کی نمائندگی اسٹیٹ کر رہی ہوتی ہے۔ اس کا مطلب تو یہ بنے گا کہ اس نوعیت کے ہر جرم میں آپ ہر شخص کو سزا دینے کا اختیار دے رہے ہیں۔ پھر تو قانون ختم ہو جائے گا۔ اسلامی فقہ میں ہرگز توہین رسالت کے مجرم کو سزا دینے کا یہ طریقہ suggest نہیں کیا گیا اور نہ اس کو پسندیدہ کہا گیا ہے۔ فقہ میں صرف اتنی بات کہی گئی ہے کہ اگر کسی شخص نے گستاخی کی ہے اور کسی مسلمان نے مشتعل ہو کر، جذبات میں آ کر اسے قتل کر دیا اور پھر عدالت نے تحقیق کے بعد یہ دیکھاکہ مقتول نے واقعی یہ جرم کیا تھا اور مارنے والے نے واقعتا جذبات میں آ کر ایسا کیا ہے، کوئی اور motive نہیں تھا تو عدالت اس کو extenuating circumstances کی رعایت دے گی۔ صرف یہ بات کہی گئی ہے۔ یہ نہیں کہ positively یہ تجویز کیا گیا ہے کہ جو شخص چاہے، اس کا قصہ پاک کر دے۔
مشعل سیف: آپ نے توہین رسالت کے بارے میں جو کچھ لکھا، وہ ممتاز قادری کے کیس کے پس منظر میں لکھا۔ کیا یہ بات درست ہے؟
عمار ناصر: اصل میں کسی خاص واقعے کے نتیجے میں مسئلہ highlight ہو جاتا ہے، لوگوں کی توجہ اس کی طرف مبذول ہو جاتی ہے اور لوگ اپنی اپنی آرا بھی پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یوں ایک موقع بن جاتا ہے جس میں آپ کو اپنی بات کہنی پڑتی ہے، ورنہ ممتاز قادری کے کیس کی فی نفسہ میری نظر میں اتنی اہمیت نہیں ہے۔ اس نے ایک ایسا موقع بنا دیا کہ توہین رسالت کے قانون کے بارے میں بحث کھڑی ہو گئی اور اس کے حوالے سے مجھے بھی لکھنا پڑا۔
مشعل سیف: اگر آپ کے نقطہ نظر سے اس کیس کو دیکھا جائے تو پھر ممتاز قادری ایک مجرم ہے، کیونکہ اسے سزا دینے کا حق نہیں تھا۔ یہ توحکومت کا کام تھا۔
عمار ناصر: سب سے پہلے تو یہ دیکھنا چاہیے کہ کوئی بھی شخص آیا فی الواقع توہین رسالت کا مرتکب ہوا بھی ہے یا نہیں؟ یہ بنیادی سوال ہے۔ اگر کسی شخص کے بیان کی ایک سے زیادہ interpretations ممکن ہوں تو اس کے متعلق یہ مسلمہ اصول ہے کہ آدمی کو اپنی بات کی وضاحت خود کرنے کا حق ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ میں توہین رسالت کی حمایت نہیں کر رہا، بلکہ یہ کہہ رہا ہوں کہ ہمارے ہاں اس قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے، اگر ایک شخص اپنی بات کی وضاحت کر رہا ہے کہ وہ قانون کے غلط استعمال پر تنقید کر رہا ہے تو کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اس نے توہین رسالت کی ہے؟ 
فر ض کر لیں کہ کسی نے واقعی توہین رسالت کی تھی تو اس پر بھی ایک عام آدمی کو کیسے یہ اختیار دیا جا سکتا ہے کہ وہ اٹھے اور ازخود اس کے خلاف اقدام کر ڈالے؟ لیکن یہاں شاید عام آدمی کا اتنا قصور نہیں، اس لیے کہ وہ ایک سادہ ذہن کا مسلمان ہوتا ہے۔ اصل میں تو پکڑنا چاہیے ان لوگوں کو، ان شعلہ بیان مقرروں کو جو ازخود کسی کے بیان کی ایک interpretation کر کے لوگوں کو بھڑکاتے ہیں اور انھیں ترغیب دیتے ہیں کہ فلاں شخص کو مار دینا عشق رسالت کا تقاضا ہے۔ سو یہ جو بھی ہوا، اس کو دونوں حوالوں سے دیکھنا چاہیے۔ پہلے تو آدمی کو اپنی بات کی وضاحت کا حق دینا چاہیے اور اگر اس کی نیت واقعی توہین رسالت کی ہو تو سزا عدالت کے ذریعے سے ملنی چاہیے۔
مشعل سیف: اس معاملے میں آپ کی رائے پر خاصی تنقید کی گئی ہے۔ سنا ہے کہ آپ کو اس پر threats بھی ملیں؟
عمار ناصر: جی نہیں، کوئی threat نہیں آئی۔ میں نے بہت سے sensitive issues پر لکھا ہے اور بعض دفعہ یہ خیال بھی ہوتا ہے کہ کیا میں نے ہی ٹھیکہ لیا ہوا ہے ہر ایسے مسئلے پر لکھنے کا، لیکن بہرحال کوئی ایشو سامنے آتا ہے تو اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے لکھنا پڑتا ہے۔ اس کے باوجود مجھے اب تک کوئی براہ راست threat کسی بھی ایشو کے حوالے سے نہیں آیا۔
مشعل سیف: آپ ’الشریعہ‘ کے مدیر ہیں۔ اس ماہنامے کے متعلق کچھ بتائیے۔
عمار ناصر: الشریعہ کا اجرا والد گرامی نے ۱۹۸۹ء میں کیا تھا۔ اب اس کی ۲۴ ویں جلد چل رہی ہے۔ ہمارا خاندانی پس منظر اگرچہ وہی ہے جو میں نے آپ کو بتایا، لیکن والد گرامی کے اپنے فکر اور ذہنی ترجیحات میں مسلکی مسائل اور مذہبی اختلافات جگہ نہیں بنا سکے۔ شروع سے ہی ان کی دلچسپی کا اور غور وفکر کا دائرہ یہی رہا ہے کہ امت کا جو اجتماعی مفاد ہے اور جدید معاشرے کی جو فکری ضروریات ہیں، ان کے لحاظ سے آج کے دور میں کون سے مسائل ہماری توجہ کے طلب گارہیں۔ چونکہ ان کے اپنے وژن میں وسعت تھی تو ’الشریعہ‘ بھی شروع سے اسی دائرے کے موضوعات کو زیر بحث لاتا رہا ہے۔ کبھی اس میں روایتی مسلکی بحثیں نہیں چھپیں۔
میں پہلے دن سے اس رسالے کی ترتیب میں معاون کی حیثیت سے ان کے ساتھ شریک رہا ہوں اور تربیت لیتا رہا ہوں، لیکن ۲۰۰۱ء کے بعد اس کی ادارت باقاعدہ میرے سپرد ہو گئی اور اس کے بعد سے میں ہی اس کومرتب کرتا ہوں۔ اس کے لیے موضوعات اور مضامین کا انتخاب میں ہی کرتا ہوں، بلکہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس کو ایک خاص trend دینے میں بھی بڑی حد تک میرا ہی کردار ہے۔ اگرچہ والد گرامی کی پوری سرپرستی اور تائید مجھے حاصل ہے، لیکن ظاہر ہے کہ عملاً جو آدمی کام کرتا ہے، اس کی اپنی دلچسپیوں اور ترجیحات کا، کام کی عملی صورت اور نقشے پر خاصا اثر پڑتا ہے۔ میں ذاتی طور پر یہ چیز بڑی شدت سے محسوس کرتا ہوں کہ پوری قوم مختلف فکری compartments میں تقسیم ہے، ہر گروہ اپنے ہی خول میں بند کچھ باتیں سوچ کر بیٹھا ہوا ہے او راس سے باہر سوچنے کے لیے تیار نہیں۔ ڈائیلاگ بالکل نہیں، ایک دوسرے سے سیکھنے کا معاملہ بالکل نہیں ہے۔ ایک دوسرا آدمی کیسے کسی مسئلے کو دیکھتا ہے، اس کے پوائنٹ آف ویو کو سمجھنے کی بالکل کوئی کوشش نہیں۔ یہ صورت حال ہمارے بہت سے مسائل کی جڑ ہے۔ سو ہم نے ’الشریعہ‘ میں پچھلے دس بارہ سال سے اس کی کوشش کی ہے کہ یہ جو مختلف الخیال لوگ ہیں، ان کے مابین مکالمے کے لیے ایک فورم مہیا کیا جائے۔ 
اس کوشش میں ہم نے بے شمار sensitive ایشوز پر اور بڑے اہم مسائل پر کھلے مباحثے کا اہتمام کیا ہے اور اس پر ہمیں بڑی گالیاں بھی کھانی پڑی ہیں۔ والد صاحب کا جو اپنا حلقہ فکر ہے، وہ بالکل typical دیوبندی حلقہ فکر ہے۔ اس کی طرف سے انھیں سخت دباؤ کا سامنا کرنا پڑا کہ آپ کیوں ایسی چیزیں اس رسالے میں چھاپتے ہیں جو دیوبندی نقطہ نظر سے مختلف ہیں یا بحیثیت مجموعی مذہبی طبقے کی جو سوچ ہے، اس سے میل نہیں کھاتیں۔ لیکن ہم نے بحمد اللہ اس پالیسی کو بڑی استقامت سے continue رکھا ہے اور آئندہ بھی ان شاء اللہ عزم یہی ہے۔ جب تک ہم اس فضا کو نہیں بدلیں گے کہ ہم ایک دوسرے کی بات نہ سن سکتے ہیں، نہ اس پر غور کر سکتے ہیں، جب تک یہ فضا ہے، ہم اسی جمود کی کیفیت میں رہیں گے۔ یہ جو فکری barriers ہیں، ان کو توڑنا سب سے پہلے ضروری ہے۔ اس کے لیے ہم کوشش کر رہے ہیں اور اللہ کی مدد شامل رہی تو کرتے رہیں گے۔
مشعل سیف: آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے تفصیلی گفتگو کے لیے اتنا وقت نکالا۔
عمار ناصر: آپ کا بھی بے حد شکریہ!

مکاتیب

ادارہ

(۱)
جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مزاجِ گرامی بخیر!’’الشریعہ‘‘ کا سفر رواں دواں ہے۔ مشکور ہوں کہ آپ میرے خیالات کو ’’الشریعہ ‘‘ میں جگہ دیتے ہیں۔ حقیقی تعریف تو صرف اللہ کے لیے ہے اور باقی سب پانی کے بلبلے ہیں۔ بلبلہ کی اگر کوئی قدروقیمت ہے تو وہ محض سمندر کی وجہ سے ہے اور اگر کوئی کم زوری ہے تو وہ اس کی اپنی خامی ہے۔’’الشریعہ‘‘ میں بھی بہت سی خوبیاں اور خامیاں ہوں گی۔ مجھے ’’الشریعہ‘‘ کی جن خوبیوں نے متاثر کیا ہے ‘ وہ یہ ہیں۔ 
۱۔ اکثر مجلات کے ٹائٹل پہ ایک علامتی جملہ لکھا ہوتا ہے کہ ’’ادارہ کا مقالہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضرور ی نہیں‘‘ جبکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ اس رسالہ کی طرف سے اپنے مقالہ نگار کو بعض اوقات فروعی مسائل میں اختلاف کی گنجائش بھی نہیں دی جاتی۔ الشریعہ نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ اس میں واقعی ایسے افکار بھی چھپ سکتے ہیں جن سے خود رسالہ کی مجلسِ ادارت متفق نہ ہو۔ 
۲۔ الشریعہ کے قارئین کا حلقہ کہاں سے کہاں تک پھیلا ہوا ہے‘ اس کا اندازہ اس میں چھپنے والی شخصیات کے مضامین اور مکاتیب سے ہوتا رہتا ہے۔ 
۳۔ ایک اور چیز جو میں نے محسوس کی ہے‘ وہ یہ کہ الشریعہ کے قارئین ’’صم بکم‘‘ نہیں‘ انہیں بولنا آتا ہے اور وہ بہت اچھا بولتے ہیں۔وہ اختلاف کرنا بھی جانتے ہیں اور کسی کی بات سے متاثر ہوں تو کھلے دل سے اس کی تعریف بھی کر جانتے ہیں۔
۴۔’’ الشریعہ‘‘ کی ایڈیٹنگ کا نظام بھی بہت مہذب ہے۔ بعض مجلات اور جرائد میں مضامین کی کانٹ چھانٹ اس طرح کی جاتی ہے کہ لکھنا والے کو محسوس ہوتا ہے کہ شاید میرے قلم سے کسی اورکے فکر کی چاکری ہورہی ہے۔ ’’الشریعہ‘‘ کے مقالہ نگار کو یہ اطمینان ہوتا ہے کہ میری محنت کے ساتھ کم از کم یہ سلوک نہیں ہوگا۔ **
مارچ ۲۰۱۳ء کے شمارہ میں ڈاکٹر عبدالباری عتیقی کا مکتوب نظر سے گزرا ‘ مجھے اس حوالہ سے کچھ عرض کرنا ہے۔ 
قتال اور جہاد سے متعلق اسلام نے اپنے پیروکاروں کو چند اخلاقی آداب کی تعلیم دی ہے۔ مثلا یہ کہ دورانِ جنگ عورتوں‘ بچوں اور بے ضرر شہریوں کو گزند نہیں پہنچانی‘ کھیتوں اور درختوں کو نہیں اجاڑنا‘ طاقت و قوت کے بے مہار اور جنونی مظاہرے سے اجتناب کرنا ہے وغیرہ وغیرہ۔ کیااس سلسلہ میں کوئی حالتِ اضطرار بھی ہے جب مسلمانوں کے لیے ان آداب کی پابندی ساقط ہوجاتی ہو؟ ڈاکٹر عبدالباری عتیقی کے مکتوب سے محسوس ہوتا ہے کہ ایسی کوئی حالتِ اضطرار نہیں ہے ‘ مسلمانوں کے لیے ہر حال میں ان آداب کی پابندی ضروری ہے۔ 
میرے خیال میں یہ بات درست نہیں۔ خود عہد نبوی میں ایک مثال ایسی ملتی ہے جب مسلمان بامرِ مجبوری ان آداب کی پابندی نہ کرپائے جس پر مخالفین کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ مسلمان جنگی اخلاقیات کی رعایت بھی نہیں کرتے۔یہ موقع غزوۂ بنونضیر کا ہے جو ہجرت کے چوتھے سال ہوا۔ جب مدینہ میں مقیم یہود کے ایک قبیلہ بنو نضیر کی بدعہدیوں کی وجہ سے اس کو جلا وطن کرنے کا فیصلہ ہوا تو ان کے قلعہ کا محاصر ہ کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ قلعہ کے آس پاس بنونضیر کا ایک باغ تھا جو قلعہ کا محاصرہ کرنے میں رکاوٹ بن رہاتھا۔ مسلمانوں نے اس رکاوٹ کو دو رکرنے کے لیے کچھ درخت تو کاٹ ڈالے اور کچھ کو آگ لگا دی۔ دشمن کو اس پر یہ کہنے کا موقع ملا کہ مسلمان جنگی اخلاقیات کا لحاظ بھی نہیں کرتے‘ جس پر اللہ تعالی کی طرف سے یہ تبصرہ نازل ہوا: ’’ما قطعتم من لینۃ او ترکتموہا قائمۃ علی اصولہا فباذن اللہ ولیخزی الفاسقین‘‘ (سورۃ الحشر‘ آیت۵) یعنی ’’تم نے کھجور کے جن درختوں کو کاٹا اور جنہیں اپنی جڑوں پہ قائم رہنے دیاتو یہ سب اللہ کے حکم سے تھا اور اس لیے تھا کہ اللہ بدکرداروں کو رسوا کردے۔‘‘
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جنگی اخلاقیات بے شک حالتِ جنگ سے متعلق ہی ہیں‘ مگر حالتِ جنگ کی ہی بعض صورتیں حالتِ اضطرار کی ہوتی ہیں جب ان آداب کی پابندی میں قدرے نرمی ہوجاتی ہے۔ یہ حالتِ اضطرار تب ہوگی جب کسی کافر گروہ کا استیصال ضروری ہوجائے اور وہ استیصال اخلاقی پابندیوں کے ساتھ ناممکن ہو۔مذکورہ مثال کا تعلق صرف درختوں کو تلف کرنے کے ساتھ ہے‘ باقی آداب کے ساتھ نہیں۔ یوں بھی بے ضرر شہریوں کے خون بہانے کا معاملہ درخت کاٹنے جتنا ہلکا پھلکا نہیں۔ اس سلسلہ میں بہت زیادہ خوفِ خدا اور سخت احتیاط کی ضرورت ہے۔ خوں ریزی کی حساسیت کا یہ سبق بھی اسی غزوۂ بنونضیر سے ہی ہمیں ملتا ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنونضیر کو صرف جلا وطن کرنے پر اکتفاء کیا اور خوں ریزی کی نوبت نہیں آئی کیونکہ اصل مقصود ان کے شر سے بچنا تھا اور اس کے لیے اتنا ہی کافی تھا۔ تاہم خوں ریزی کی چند اضطراری صورتیں بھی فقہاء کے ہاں ملتی ہیں کہ مثال کے طور پر کفار کی کسی جماعت کا استیصال ناگزیر ہوگیا ہو اور وہ اپنے بچاؤ کے لیے بے ضرر شہریوں کو اپنے سامنے ڈھال اور آڑبنا رہے ہوں یا کوئی کافر عورت کمانڈو کا کام کررہی ہو تو بامرِ مجبور ی اور بقدرِ ضرورت ان سے بھی نمٹا جاسکتا ہے۔ (الہدایہ ‘ کتاب السیر)
البتہ ان کی یہ بات ٹھیک ہے کہ ہم نے دشمن سے بے نیاز ہوکر اپنے دین کی تعلیمات پر عمل پیر ا ہونا ہے اور نتائج کو اللہ کے سپرد کرنا ہے۔ دشمن اگر جنگی اخلاقیات کا لحاظ نہ کرے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ‘ ہم بہرحال اپنے دین کی تعلیمات کے پابند ہیں۔ ایک عربی مصنف کے یہ الفاظ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں (ترجمہ حسبِ ذیل ہے): ’’یہ جان لینا ہر یہودی کا حق ہے کہ وہ ہم پر جتنا بھی ظلم ڈھاتا ہے‘ جتنی بھی ہمارے معصوم بچوں کی جان لیتا ہے‘ جتنی بھی ہماری فصلیں تباہ اور ہماری بستیاں ویران کرتا ہے‘ مگر ہم اس کے ساتھ برتاؤ کرنے میں صرف اور صرف اپنی عادلانہ شریعت کے پابند ہوں گے جو اللہ نے ہماری ہدایت اور فلاح کے لیے ہم پر اتاری ہے۔ یہ نہیں کہ ہم اپنے غیظ وغضب کو بجھانے کی کوئی ناجائز کوشش کریں گے۔ ‘‘کافر تو ہے ہی نقیبِ باطل! وہ اگر حالتِ جنگ میں کوئی غیر شرعی یا غیر اخلاقی حرکت کرتا ہے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟ وہ جب باطل ہی کے لیے لڑ رہا ہے تو باطل طریقے اختیار کرنا اس کا حق ہے۔ دیکھا تو ہمیں جائے گا کہ ہم جو نقیبِ حق ہیں ‘ شرعی اور اخلاقی آداب کی کتنی پابندی کرتے ہیں۔ ایٹم بم اور اس جیسے ناپسندیدہ ہتھیاروں کو ایجاد کرنے اور محض ’’شو آف پاور‘‘ کے لیے اپنے پاس رکھنے میں بظاہر کوئی مضائقہ نہیں۔ خصوصاً جبکہ آنکھیں دکھانے والے کافر ہمسایوں کو مرعوب کرنے اور دباؤ میں رکھنے کے لیے ایسے ہتھیاروں کا حصول ناگزیر ہوجائے تو امید ہے کہ یہ جائز ہی نہیں‘ ضروری ہوجائے گا اور اس قرآنی تعلیم میں شامل ہوگا کہ ’’ولیجدوا فیکم غلظۃ‘‘ (سورۃ التوبۃ ‘ آیت ۱۲۳) یعنی ’’ ضروری ہے کہ تمہارے پڑوس میں رہنے والے کفار تمہارے اندر سختی محسوس کریں (اور تمہیں اپنے مقابلہ میں تر نوالہ نہ سمجھ لیں)‘‘البتہ اگر مساوی بنیادوں پر ایسے ہتھیاروں سے دنیاکو پاک کرنے کے لیے کوئی سرگرمی ہو تو اس میں حصہ لینا چاہئے۔جنگی اخلاقیات کی پابندیوں میں نرمی جینوئن اضطرار کی حالت میں ہوسکتی ہے‘ مگر محض دشمن کا غیر اخلاقی حرکتوں کا ارتکاب کرناہمارے لیے وجہِ جواز نہیں کہ ہم بھی اس کی اندھی نقالی شروع کردیں۔ 
عورت کو بطور جنگی ہتھیار کے استعمال کرنا یا اپنے فوجیوں کو رنگ رلیوں کے مواقع فراہم کرناایسے امور ہیں جن کو کسی بھی طرح جنگی آداب پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ جنگی آداب میں تو حالتِ اضطرار کی مثالیں موجود ہیں‘ مگر ایسے محرمات کے ارتکاب کی کیا وجہِ جواز ہوسکتی ہے جسے حالتِ اضطرار کہا جاسکے؟واللہ اعلم
محمد عبداللہ شارق 
مدیر مرکز احیاء التراث، قدیر آباد ملتان
mabdullah_87@hotmail.com
(۲)
ماہ فروری کے الشریعۃ میں زاہد صدیق مغل صاحب کا مضمون ’’جزا اور عذاب قبر کی قرآنی بنیادیں‘‘ پڑھا۔ احساس ہوا کہ آں محترم نے شاید قرآن مجید پر اس معاملہ میں تدبر نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے مقالہ میں تین سوال قائم کر کے ان سے عذاب برزخ ثابت کیا ہے۔ پہلے سوال میں اللہ تعالیٰ کے جزا و سزا کے قانون کے دائرہ کار کے حوالہ سے آیات قرآنی پیش کی ہیں جو یہ ہیں: شوریٰ آیت 30، مائدہ آیت 18، بقرہ آیت 6-5، مطففین آیت 14، طہٰ آیت124، زخرف آیت36، حم السجدہ آیات 21-20، طلاق آیت 2-3، آل عمران 25اور 185۔ ان آیات سے آخرت میں اعمال کا پورا بدلہ ملنا ثابت کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے کسی کو بھی اختلاف نہیں۔ یہ تو متفق علیہ مسئلہ ہے۔ 
دوسرا سوال ہے، عالم برزخ میں شعوری زندگی کا ثبوت! مغل صاحب لکھتے ہیں کہ ’’قرآن مجید میں کئی مقامات پر ایسے قطعی شواہد موجود ہیں جن سے عالم برزخ میں نہ صرف یہ کہ محض انسانی زندگی بلکہ شعوری زندگی کا تصور ثابت ہوتا ہے۔ عالم برزخ میں انسانی زندگی کا اشارہ اس آیت میں موجود ہے:
کَیْْفَ تَکْفُرُونَ بِاللّٰہِ وَکُنتُمْ أَمْوَاتاً فَأَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ إِلَیْْہِ تُرْجَعُونَ (البقرہ:28) 
ترجمہ’’ تم کیسے اللہ کا انکار کرتے ہو۔ حالانکہ تم مردہ تھے اس نے تمہیں زندگی بخشی پھر تمہیں مارے گا پھر تمہیں زندہ کرے گا پھر تم اس کی طرف لوٹائے جاؤ گے‘‘۔
اس کی شرح میں لکھتے ہیں ’’زیر مطالعہ آیت میں دنیوی زندگی کے بعد جو حیات عطا ہوگی وہ لوٹائے جانے سے قبل (یعنی عالم برزخ) میں ہوگی۔ نیز ثم کا استعمال بتا رہا ہے کہ یہ برزخی حیات اور یوم آخرت کو اللہ کی طرف لوٹایا جانا دو الگ واقع ہیں جن میں زمانی مغائرت ہے۔ ‘‘
ناچیز طالب علم کا کہنا ہے کہ اس آیت میں بھی صرف دو موتوں اور دو زندگیوں کا بتایا گیا ہے۔ پہلے موت، پھر حیات، پھر موت اور پھر حیات۔ آخری حیات سے قیامت کے دن زندہ کیا جانا مراد ہے، نہ کہ عالم برزخ میں۔ کی تشریح سورۃ مومن کی آیت 11 سے ہوتی ہے جس میں منکرین اللہ تعالیٰ سے کہہ رہے ہیں:
قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَیْْنِ وَأَحْیَیْْتَنَا اثْنَتَیْْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَہَلْ إِلَی خُرُوجٍ مِّن سَبِیْلٍ (المومن 11) 
’’وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب تو نے ہمیں دو مرتبہ موت دی اور دو دفعہ جان دی۔ ہمیں اپنے گناہوں کا اقرار ہے کیا نکلنے کی کوئی سبیل ہے؟‘‘ 
بقرہ 28کو مومن 11کے ساتھ پڑھیں تو صاف علم ہوگا کہ قرآن کسی بھی تیسری زندگی اور تیسری جگہ ’’عالم برزخ‘‘ کا انکار کرتا ہے اور سورۃ بقرہ کی آیت 28میں کسی بھی عالم برزخ کا کوئی ذکر نہیں۔ 
مغل صاحب نے لکھا ہے کہ ’’عالم برزخ میں زندگی کا ثبوت آیت شہدا میں بھی موجود ہے: وَلاَ تَقُولُوا لِمَنْ یُقْتَلُ فِیْ سَبیْلِ اللّٰہِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْیَاءٌ وَلَکِن لاَّ تَشْعُرُونَ (البقرہ154)
سورۃ بقرہ کی آیت 154 میں جس میں مقتول فی سبیل اللہ کو زندہ کہا گیا ہے اور ان آیات میں جو سورہ آل عمران میں آئی ہیں، کسی برزخی زندگی کا ذکر نہیں، نہ ہی ان آیات میں عالم برزخ کا ذکر ہے اور نہ ہی ان آیات سے جزا و سزا کا قانون کشید کیا جا سکتا ہے۔ یہ قیامت کے دن انھیں ملنے والی زندگی اور نعمتوں کا بیان ہے۔ جیسے قرآن میں رسول اللہ کو کہا گیا ہے کہ: انک میت، یعنی آپ بھی مریں گے۔ ایسے ہی مقتول فی سبیل اللہ کے لئے احیاء آیا ہے۔ اس کا معنی نظائر قرآن کی روشنی میں (قیامت کے دن) ’’زندہ کیے جائیں گے‘‘ بنتا ہے۔ 
مقتول فی سبیل اللہ کو زندہ کہا گیا ہے اور زندہ کو نعمتیں ملنا مانا جا سکتا ہے بلکہ ملتی ہیں۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ جنہیں قرآن ’’امواتا غیر احیاء‘‘ کہہ رہا ہے، انہیں کیسے عالم برزخ میں زندہ مان لیا جائے؟ یعنی اللہ تعالیٰ تو کہے: اموات غیر احیاء اور ہم کہیں: احیاء غیر اموات!! قرآن سے ثابت ہے کہ بلا کسی استثنا کے تمام انسان جو پیدا ہوئے ہیں، وہ قیامت کو زندہ ہوں گے۔ ان میں مقتول فی سبیل اللہ بھی شامل ہیں۔ بالفرض مقتول فی سبیل اللہ کی روایتی تشریح بھی مانیں (جس کی وجہ سے شرح قرآن میں تضاد واقع ہوتا ہے کہ کہیں قرآن کہتا ہے سب لوگ قیامت کو دوبارہ پیدا ہوں گے اور کہیں کہتا ہے کہ مقتول فی سبیل اللہ زندہ ہیں) تب بھی اسے حیات برزخی کہنے کی کوئی اصل قرآن میں نہیں بلکہ پھر استثنائی طور پر مقتولین فی سبیل کے لیے زندگی ماننی پڑے گی اور زندہ کو نعمتیں ملنا قابل تسلیم ہے۔ اس سے عام قانون کشید کیا ہی نہیں جا سکتا کیونکہ دوبارہ زندگی کا ملنا قیامت سے سے متعلق ہی بیان ہوا ہے: ثُمَّ إِنَّکُمْ بَعْدَ ذَلِکَ لَمَیِّتُونَ، ثُمَّ إِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ تُبْعَثُونَ (المومنون 15، 16) اور أَمْواتٌ غَیْْرُ أَحْیَاء وَمَا یَشْعُرُونَ أَیَّانَ یُبْعَثُونَ (النحل 21) 
اگر کسی صاحب علم کو مقتول فی سبیل اللہ کے بارے میں ہمارے دلائل سے اختلاف ہو تو وہ آل عمران 195، حج58، سورہ محمد4تا6جیسی آیات سے ہمارے استدلال کی غلطی ہم پر دلیل سے واضح کرے۔ قرآن میں یہ جو کہا گیا کہ تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں تو قرآن نے کسی جگہ کا نام نہیں لیا کہ مقتول فی سبیل اللہ کہاں زندہ ہیں۔ آخر علین و سجین میں نامہ اعمال کا ہونا بھی تو قرآن نے بتایا ہے تو مقتول فی سبیل اللہ کے لیے کسی جگہ کا نام بتانے میں کیا استبعاد تھا؟ اصل بات یہی ہے کہ مقتول فی سبیل اللہ کا جو اکرام دوبارہ جی اٹھنے پر ہوگا، اس کا اس دنیا میں شعور تک نہیں کیا جا سکتا۔ 
سورہ نحل آیت 28-29میں ہر ظالم آدمی کو بوقت وفات ملائکہ جہنم کی وعید سناتے ہیں نہ کہ برزخی عذاب کی اور آیت 32میں پاک لوگوں کو جنت کی بشارت سناتے ہیں نہ کہ برزخی حیات کی قرآن کا یہ مقام ہی فیصلہ کن ہے کہ مرنے کے بعد اگلی منزل انسانی یا جنت ہے یا جہنم۔آیات یوں ہیں:
’الَّذِیْنَ تَتَوَفَّاہُمُ الْمَلاءِکَۃُ ظَالِمِیْ أَنفُسِہِمْ فَأَلْقَوُا السَّلَمَ مَا کُنَّا نَعْمَلُ مِن سُوءٍ بَلَی إِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ، فَادْخُلُواْ أَبْوَابَ جَہَنَّمَ خَالِدِیْنَ فِیْہَا فَلَبِءْسَ مَثْوَی الْمُتَکَبِّرِیْنَ‘‘
’’(ان کا حال یہ ہے کہ ) جب فرشتے ان کو وفات دیتے ہیں اور وہ اپنے حق میں ظلم کرنے والے ہوتے ہیں، اس وقت وہ جھک جاتے ہیں کہ ہم برائی نہیں کرتے تھے۔ کیوں نہیں! اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا ہے جو کچھ تم کرتے تھے۔ پس اب تو ہمیشگی کے طور پر تم جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ۔ پس کیاہی برا ٹھکانا ہے غرور کرنے والوں کا‘‘ ۔
اور آیت 32میں ہے:
الَّذِیْنَ تَتَوَفَّاہُمُ الْمَلآءِکَۃُ طَیِّبِیْنَ یَقُولُونَ سَلامٌ عَلَیْْکُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ
’’وہ جن کو فرشتے اس حالت میں وفات دیتے ہیں کہ ۔ ان سے کہتے ہیں کہ تم پر سلامتی ہو۔ اپنے ان اعمال کے بدلے میں جو تم کرتے تھے جنت میں داخل ہو جاؤ‘‘ ۔
یہ نصوص قطعی ہیں کہ مرنے کے بعد اگلی منزل جہنم یا جنت ہے نہ کہ کوئی مزعومہ عالم برزخ۔ مزید غور فرمائیں انسانی جسم تو مرنے کے بعد خاک میں مل کر خاک ہو جاتا ہے تو عذاب و ثواب کیسے اور کیسے ہو سکتا ہے؟ 
قرآن میں روح کا وہ تصور موجود نہیں جو علما کے ہاں پایا جاتا ہے۔ قرآن میں لفظ ’’روح‘‘ وحی اور اللہ کے حکم کے لیے آیا ہے۔ سورۃ نحل آیت 02، المومن آیت 15 اور الشوریٰ آیت 52میں روح کا وہی معنی آیا ہے جو خاکسار نے بیان کیا ہے۔ سورۃ بنی اسرائیل آیت 85میں جو ’’وَیَسْأَلُونَکَ عَنِ الرُّوحِ‘‘ آیا ہے، وہاں بھی الروح سے مراد قرآنی وحی ہی ہے جیسا کہ اس مقام کے سیاق و سباق سے ظاہر ہے اور امین احسن رحمہ اللہ نے تدبر قرآن میں لکھا بھی ہے۔ سورۃ سجدہ اور سوۂ ص میں انسان میں نفخ روح کا ذکر آیا ہے۔ اول تو دونوں مقامات پر یہ عمل، تسویہ کے بعد ہوا یعنی انسان کے مکمل بن چکنے کے بعد۔ اس طرح روح سے مراد جان ڈالنا نہیں ہو سکتا کیونکہ جان تو پہلے دن سے ہی تھی جب نطفہ علقہ بنا تھا۔ اگر جرثومہ بے جان ہو تو انسان پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ دوسرے ان دونوں آیات (سجدہ 09 اور ص 72) پر روح کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے: ’’فَإِذَا سَوَّیْْتُہُ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِن رُّوحِیْ‘‘ یعنی ’’جب اس کو درست کر لوں اور اس میں اپنی روح میں سے پھونکوں‘‘۔ تو قرآن میں تو کسی انسانی روح کا اشارہ تک نہیں۔ یہ روح جو اللہ کا حکم ہے، وحی ہے، یہ تو اللہ کی ہے۔ تیسرے پورے قرآن میں کہیں بھی روح نکلنے کا ذکر نہیں۔ توفی یا اخراج نفس کا ذکر ہے اور نفس اور روح دونوں الگ الگ ہیں۔ نفس کو موت بھی آتی ہے، قتل بھی ہوتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ روح تو وحی ہے اورامر رب ہے، اس لیے یہ تمام سوالات غلط ہیں کہ مرنے کے بعد روح کہاں جاتی ہے اور یہ کہ برزخ میں اسی روح کو عذاب و ثواب ہوتا ہے۔ قرآن کی نص ہے کہ اہل جہنم کی کھالیں جلنے کے بعددوبارہ آجائیں گی تاکہ عذاب چکھیں۔ (نساء آیت 56)۔ میڈیکل سائنس کو غالباً1926میں علم ہوا ہے کہ کھال میں حس (Feeling) ہوتی ہے، مگر قرآن میں ڈیڑھ ہزار سال پہلے یہ بات آنا قرآن کے کلام اللہ ہونے کی دلیل ہے۔ اب روح کی تو کھال ہوتی نہیں جو اسے عذاب دیا جائے۔ 
آخر میں سورہ مومن آیت 45، 46سے بھی، جس میں فرعون اور آل فرعون کو عذاب دیے جانے کا ذکر ہوا ہے، قائلین عذاب برزخ کے استدلال پر بھی چند سطور لکھتا ہوں۔ 
فَوَقَاہُ اللّٰہُ سَیِّءَاتِ مَا مَکَرُوا وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ، النَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْْہَا غُدُوّاً وَعَشِیّاً، وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَۃُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ
جیسا کہ عرض کیا، سورہ یونس آیت 4سے تمام انسانوں کا بلا استثنا قیامت کو دوبارہ پیدا ہونا ثابت ہے تو اب تمام انسانوں میں فرعون اور اس کی آل بھی داخل ہے۔ سورۃ مومن کی آیت 46کا جو ترجمہ شاہ رفیع الدین نے کیا ہے، وہی نظائر قرآن کی روشنی میں درست ہے۔ آیت میں یعرضون  مضارع کا صیغہ ہے جو حال اور مستقبل دونوں کا معنی دیتا ہے، یعنی ’’آگ ہے جس پر آل فرعون صبح شام پیش کی جاتی ہے‘‘ یا ’’آگ ہے جس پر آل فرعون صبح شام پیش کی جائے گی‘‘۔ ترجمے دونوں درست ہیں، مگر وہی ترجمہ اس مقام پر مانا جائے گا جس کے تائیدی دلائل قرآن میں ہوں۔ سب سے پہلی بات یہ کہ قرآن سزا کے لیے دنیا یا آخرت تجویز کرتا ہے۔ (سورۃ بقرہ آیت 85، 217۔آل عمران 21-22)۔ دوسری بات یہ کہ قرآن میں النار کل 126مرتبہ آیا ہے اور 125جگہ تمام مفسرین نے اس ’’النار‘‘ سے جہنم مراد لی ہے۔ ظاہر ہے 126ویں جگہ بھی جہنم ہی مراد ہوگی۔ سورۃ مومن میں آٹھ بار ’’النار‘‘ کا لفظ آیا ہے۔ سات بار تمام مفسرین نے اس سے جہنم مرادلی ہے تو آٹھویں بار بھی جہنم ہی مراد ہونا چاہیے۔ تیسری بات یہ کہ یہ عرض علی النار بھی قیامت کو ہی ہوگا جیسا کہ سورۃ احقاف آیات20تا34سے ثابت ہے : ’’وَیَوْمَ یُعْرَضُ الَّذِیْنَ کَفَرُوا عَلَی النَّارِ‘‘ اور جس دن کافر دوزخ کے سامنے پیش کیے جائیں گے‘‘۔ چوتھی بات یہ کہ فرعون مصر میں موجود ہے تو عذاب کسے ہو رہا ہے؟ فرعون کی روح کو عذاب کے قائلین کو پہلے انسانی روح ثابت کرنی ہوگی۔ ظاہر ہے قرآن میں کسی انسانی روح کا ذکر ہی موجود نہیں۔ 
حقیقت یہ ہے کہ فرعون کے لیے بھی قرآن سے صرف دو ہی عذاب ثابت ہیں۔ سورۃ مومن آیت 45میں ہے: ’’غرض اللہ نے (موسیٰ کو ) ان لوگوں کی تدبیروں سے محفوظ رکھا اور فرعون والوں کو برے عذاب نے آگھیرا‘‘۔ اس آیت میں سوء العذاب سے ڈوبنے کا عذاب مراد ہے۔ اس کے بعد آیت 46میں ہے: ’’(یعنی) آتش جہنم کہ صبح شام اس کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں اور جس روز قیامت برپا ہوگی، (حکم ہوگا) فرعون والوں کو سخت عذاب میں داخل کرو‘‘۔ اس آیت میں اشد العذاب  سے مراد بالاتفاق مفسرین عذاب جہنم مراد ہے اور یہ سوء العذاب کے مقابل آیا ہے۔ یہاں سے ثابت ہوا کہ فرعون کے لیے بھی صرف دو ہی عذاب ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ فتح محمد جالندھری صاحب نے بھی یہاں النار  سے مراد جہنم لی ہے، مگر بات صحیح طرح سمجھ نہ سکے۔ 
اس تفسیر کی روشنی میں سورہ مومن آیت 46کا وہی معنی درست ثابت ہوتا ہے جو شاہ رفیع الدین ، مولانا اسلم جے راجپوری اور عبداللہ یوسف علی نے کیا ہے، یعنی یعرضون کے صیغہ مضارع کو مستقبل کے معنی میں لیا ہے جو شواہد و نظائر قرآنی کے عین مطابق ہے۔ ترجمہ یوں ہے’’ وہ آگ ہے کہ حاضر کیے جاویں گے اوپر اس کے صبح و شام اور جس دن قیامت قائم ہوگی، کہا جاوے گا کہ داخل کرو فرعون والوں کو سخت عذاب میں‘‘۔ اس طرح اس آیت میں و او مغایرت کے لیے نہیں، بلکہ تفسیر کے معنی میں آیا ہے۔ اس ترجمہ سے اختلاف رکھنے والے حضرات پر لازم ہے کہ وہ قرآن سے پیش کیے ہمارے شواہد کا دلیل سے جواب دیں۔ ان پر یہ بھی لازم ہے کہ فرعون تو قبر میں گیا ہی نہیں تو عذاب کسے اور کہاں ہو رہا ہے۔ وہ جو بھی کہیں، انہیں دلیل پیش کرنا ہوگی۔
مغل صاحب لکھتے ہیں: ’’عالم برزخ میں اجر و ثواب کا اشارہ سورہ یٰسین میں بیان کردہ اس شخص کے ذکر سے بھی ملتا ہے جسے کہا گیا: ’’قِیْلَ ادْخُلِ الْجَنَّۃَ قَالَ یَا لَیْْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُونَ، بِمَا غَفَرَ لِیْ رَبِّیْ وَجَعَلَنِیْ مِنَ الْمُکْرَمِیْنَ‘‘۔ اسے کہا گیا جا، جنت میں داخل ہو جا۔ وہ بولا کاش میری قوم جان سکتی کہ میرے رب نے کس چیز کے سبب مجھے بخش دیا اور مجھے عزت والوں میں شامل کیا‘‘۔ اس آیت میں لفظ ’’الجنۃ‘‘ فاضل مقالہ نگار کے استدلال کی تردید کر رہا ہے۔ یعنی اس مومن کو تو اس آیت میں جنت کی بشارت دی جا رہی ہے اور ہمارے دوست اس کو عالم برزخ میں بھیج رہے ہیں۔ سورہ یٰسین کے اس مقام پر ایک مومن کے خاتمہ بالخیر کی خبر دی گئی ہے یعنی بوقت وفات اسے فرشتوں نے جنت کا مژدہ جاں فزا سنایا۔ اسی طرح سورہ نحل آیت 32میں ہر مومن کو بوقت وفات فرشتوں کا جنت کا مژدہ سنانا بتایا گیا ہے: ’’الَّذِیْنَ تَتَوَفَّاہُمُ الْمَلآءِکَۃُ طَیِّبِیْنَ یَقُولُونَ سَلامٌ عَلَیْْکُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ‘‘ (ان کی کیفیت یہ ہے کہ ) جب فرشتے انہیں وفات دیتے ہیں اور یہ (کفر و شرک سے) پاک ہوتے ہیں تو سلام علیکم کہتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) جو عمل تم کیا کرتے تھے ان کے بدلے میں بہشت میں داخل ہو جاؤ‘‘۔ یوں قرآن کے ایک مقام نے دوسرے مقام پر ہمیں بتا دیا کہ مرنے والے مومنین کو مرتے وقت ان کا مجمل انجام (جنت) بتا دیا جاتا ہے۔ 
خلاصے کے طور پر یہ کم علم محمد زاہد صدیق مغل صاحب کے تین سوالوں کے جواب یوں دیتا ہے:
۱۔ کیا جزاء و سزا کا اطلاق صرف آخرت کے ساتھ مخصوص ہے؟
جواب: جی نہیں دنیا اور آخرت میں جزاء و سزا کا ملنا قرآن میں مذکور ہے۔
۲۔ کیا زندگی اور موت کے درمیان (یعنی برزخ میں) کسی شعوری زندگی کا تصور موجود ہے؟
جواب: جی نہیں قرآن میں کسی برزخی زندگی سے متعلق کسی آیت میں ذکر ہے اور نہ ہی قرآن کوئی ایسا تصور پیش کرتا ہے۔ اس کے برعکس قرآن اس دنیا کے بعد دوسری دنیا یعنی قیامت سے زندگی دوبارہ شروع ہونے کا یقینی علم دیتا ہے۔
۳۔ کیا قرآن برزخ کی زندگی میں کسی قسم کی جزاء و سزا کا تصور پیش کرتا ہے؟
جواب: جی نہیں، قرآن میں برزخی زندگی کا کوئی تصور موجود نہیں بلکہ قرآن اس دینوی زندگی کے بعد قیامت کے قائم ہونے تک کے وقفہ کو موت کا نام دیتا ہے۔ 
عجیب بات ہے جسے قرآن میں موت کہا گیا ہے، اسے ہمارے اہل علم زندگی قرار دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے صمیم قلب سے دعا ہے ہمیں فہم قرآن صحیح صحیح عطا ہو۔ ہم مقام قرآن سے آگاہ ہوں اور پھر اس پر عمل پیرا بھی ہو سکیں۔ 
محمد امتیاز عثمانی
راولپنڈی

فاسٹ فوڈ اور بڑھتے ہوئے امراض

ادارہ

فاسٹ فوڈ کے نام پر تمام زہروں کو یکجا کر کے انسانی صحت کو برباد کیا جا رہا ہے اور ہم ہیں کہ ہر بری چیز کو آنکھیں بند کر کے قبول کرتے جا رہے ہیں۔ موجودہ امراض ہیپا ٹائیٹس، معدہ اور گردہ کے امراض، جگر کی مختلف بیماریاں، جوڑوں کا درد، قبض، پتہ، مثانہ کی بیماریاں پہلے بھی تھیں، مگر ان کی نوعیت یہ نہیں تھی جو آج دیکھنے سننے میں آرہی ہیں۔ ان امراض کی وجہ سے انسانوں کے چہرے اور دیگر جسمانی اعضا کی شکل بھی بدل چکی ہے۔ خصوصاً شوگر کے آنے کے بعد کے تو حالات بہت بھیانک ہوتے جا رہے ہیں۔ مذکورہ امراض پہلے بھی تھے، مگر فاسٹ فوڈ کی گہما گہمی نے ان کو دو آتشہ کر دیا ہے۔ 
بند، ڈبل روٹی، کیک،، بسکٹ، باقر خانی، حلوہ پوری، کچوری اور حلوائیوں کی مٹھائیوں نے صحت مند معاشرہ کو چاروں شانے چت گرا دیا ہے۔ طبی تحقیقات بتاتی ہیں کہ کوکاکولا میں استعمال ہونے والا رنگ کینسر کا باعث بنتا ہے۔ جن گھرانوں میں کوکاکولا یا بوتلوں کا بند پانی استعمال ہوتا ہے، وہاں امراض گردہ، جوڑوں کا درد شدت سے پھیل چکا ہے۔ کھانے کے بعد بوتلوں کا کھاری پانی پینے سے پیدا ہونے والے ناگفتہ بہ امراض نے ہمارے معاشرے کو کھوکھلا کر دیا ہے اور مریضوں کے حالات سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ الغرض میدہ اور باریک آٹا بالکل استعمال نہ کریں، یہ انسانی انتڑیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللہ نے اپنے ہاں میدہ کا استعمال ممنوع قرار کر دیا تھا۔ یاد رکھیں، فاسٹ فوڈ کا دوسرا نام ہیپا ٹائیٹس، امراض جگر اور شوگر ہے۔ صبح شام کوئی کڑوی دوا ضرور استعمال کریں۔ یہ نہیں تو کالی زیری کھانے کے بعد ایک چٹکی کھانے سے جسمانی مشینری خوب کام کرتی رہے گی۔ آج کل چاٹی کی لسی پینا آب حیات سے کم نہیں، اس سے بلڈ پریشر کا نام و نشان مٹ جاتا ہے۔ ہاضمہ کا فعل بھی تیز ہو جاتا ہے اور تیزابیت بھی اپنی سطح پر آجاتی ہے۔ نیند بھی خوب آنے لگتی ہے۔ الغرض مشرقی طریق علاج میں ایک ایک تیر سے کئی شکار کیے جاتے ہیں اور بیماریوں کا زور ٹوٹنے لگتا ہے۔ 

شاہ ولی اللہؒ اور علامہ محمد اقبالؒ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اور علامہ اقبالؒ جنوبی ایشیا کے ممتاز مسلمان مفکرین میں سے تھے۔ دونوں کے درمیان دو صدیوں کا فاصلہ ہے اور دونوں نے اپنے اپنے دور میں ملت اسلامیہ کی بیداری کے لیے نمایاں اور سیاسی خدمات سر انجام دی ہیں، شاہ ولی اللہؒ کا دور وہ ہے جب اورنگزیب عالمگیرؒ کی نصف صدی کی حکمرانی کے بعد مغل اقتدار کے دورِ زوال کا آغاز ہوگیا تھا اور شاہ ولی اللہؒ کو دکھائی دے رہا تھا کہ ایک طرف برطانوی استعمار اس خطہ میں پیش قدمی کر رہا ہے اور دوسری طرف جنوبی ہند کی مرہٹہ قوت دہلی کے تخت کی طرف بڑھنے لگی ہے، جبکہ علامہ اقبالؒ کو اس دور کا سامنا تھا جب انگریزوں کی غلامی کا طویل عرصہ گزارنے کے بعد برصغیر کے باشندے اس سے آزادی کی جدوجہد میں مصروف تھے۔ گویا شاہ ولی اللہؒ غلامی کے امکانات کو دیکھتے ہوئے اسے روکنے کی کوشش کر رہے تھے اور علامہ اقبالؒ غلامی کو بھگتتے ہوئے اس سے قوم کو آزادی دلانے کی جدوجہد میں مصروف عمل تھے۔
شاہ ولی اللہؒ کو یہ خطرہ درپیش تھا کہ جنوبی ہند کے مرہٹے دہلی کے اقتدار کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں، اس کا سدّ باب انہوں نے یوں کیا کہ افغانستان کے فرمانروا احمد شاہ ابدالیؒ کو برصغیر کے مسلمانوں کی مدد کے لیے دعوت دی جس کے نتیجے میں پانی پت کی خوفناک جنگ میں مرہٹوں کو فیصلہ کن شکست ہوئی اور شمالی ہند مسلمانوں کے لیے محفوظ ہوگیا، جبکہ علامہ اقبال ؒ اس پریشانی سے دوچار تھے کہ برطانوی استعمار سے آزادی کے بعد اس خطے کا مستقبل ووٹ اور سیاسی عمل کے ذریعہ تشکیل پائے گا جس میں ہندو کی واضح اکثریت مسلمانوں کے سیاسی مستقبل کو مخدوش کر سکتی ہے، اس کا حل انہوں نے پاکستان کے نام سے مسلمانوں کی الگ ریاست کی شکل میں نکالا اور برصغیر کی تقسیم کی تجویز پیش کر کے مسلمانوں کو سیاسی طور پر محفوظ کرنے کی کوشش کی۔ گویا خطرہ دونوں کو ایک ہی طرح کا درپیش تھا لیکن دونوں نے اس کا حل اپنے اپنے دور کے تقاضوں اور حالات کی روشنی میں الگ الگ تجویز کیا۔
شاہ ولی اللہؒ کو اپنے دور میں فقہی جمود کا سامنا تھا اور اس جمود کو توڑنے کے لیے انہوں نے نہ صرف مسلمانوں کو قرآن و حدیث سے براہ راست استفادہ کرنے کی دعوت دی بلکہ قرآن کریم اور حدیث نبویؐ کی تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری کیا اور فقہ میں انہوں نے فقہ حنفی کے اصولی دائرہ کو قائم رکھتے ہوئے توسع اور اجتہاد کو فروغ دینے کی بات کی۔
علامہ اقبالؒ کو بھی اسی قسم کے فقہی جمود سے سابقہ تھا، انہوں نے اپنے طور پر اس کا حل یہ نکالا کہ مسلمان ’’اجتہادِ مطلق‘‘ کے دور کی طرف واپس لوٹ جائیں، چنانچہ ’’تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ‘‘ کے عنوان سے اپنے خطابات میں انہوں نے اہل علم و دانش کو اسی بات کی دعوت دی ہے۔ علامہ اقبالؒ کے یہ خطبات دینی حلقوں میں ایک عرصہ سے زیر بحث ہیں، ان کے بارے میں بہت سے تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے اور خود میرے بھی بعض تحفظات ہیں لیکن میرے خیال میں اسے اس نقطۂ نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ علامہ اقبالؒ نے یہ خطبات بحث و مباحثہ کے ایجنڈے کے طور پر پیش کیے تھے جن پر علمی و تحقیقی کام نہیں ہو سکا۔
شاہ ولی اللہ دہلویؒ خود علوم قرآن و حدیث کے متبحرِ عالم تھے، انہیں اپنے لائق فرزندوں اور قابل فخر شاگردوں کی صورت میں علمی کام کرنے والی ایک مضبوط ٹیم میسر تھی اس لیے ان کے ایجنڈے نے ایک باقاعدہ علمی حلقے کی شکل اختیار کر لی اور جنوبی ایشیا کی دینی فکر پر ابھی تک اسی کا سکہ چل رہا ہے، مگر علامہ اقبالؒ کو یہ سہولت میسر نہ ہو سکی اور وہ اس معاملہ میں بالکل تنہا نظر آتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ کا ایک دور میں یہ خیال تھا کہ اگر علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ لاہور آجائیں تو وہ دونوں مل کر اس علمی و فکری ایجنڈے کو ایک مستقل علمی و فکری کام کی بنیاد بنا سکتے ہیں اور میری طالب علمانہ رائے یہ ہے کہ اگر ایسا ہو جاتا تو آج کی علمی و فکری دنیا کا نقشہ ہی مختلف ہوتا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ پھر علامہ اقبالؒ نے سید سلمان ندویؒ اور دوسرے علماء کرام کو اس طرف آمادہ کرنے کی کوشش کی جو کامیاب نہ ہو سکی، حتیٰ کہ پٹھانکوٹ میں دار الاسلام کا قیام اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی وہاں آمد بھی بنیادی طور پر علامہ اقبالؒ کی سوچ کا نتیجہ لگتی ہے لیکن کام اس رخ پر آگے نہ بڑھ سکا جو علامہ اقبالؒ کے پیش نظر تھا۔ 
یہ بات درست ہے کہ فقہی جمود کو ختم کرنے اور آزادئ فکر کو اجتہاد کے ذریعہ نشو و نما دینے کی جو صورت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے سامنے تھی علامہ اقبالؒ کی آزادئ فکر اور اجتہاد کے دائرے اس سے مختلف تھے لیکن دونوں کے توسع اور آزادئ فکر کے دائرے بہت مختلف ہونے کے باوجود بنیادی طور پر دونوں کو ایک ہی مسئلہ کا سامنا تھا کہ امت کو اس بے لچک فقہی جمود کے دائرے سے نکالا جائے جو فکری اور علمی ارتقاء اور سماجی ترقی میں ان کے خیال میں رکاوٹ تھے۔ البتہ شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا تصور اجتہاد اور فکری آزادی مسلّمہ فقہی اصولوں کی حدود میں تھی جبکہ علامہ اقبالؒ انہی مسلّمہ فقہی اصولوں پر نظر ثانی کی بات کر رہے تھے۔ میرا یہ خیال ہے کہ اگر علامہ اقبالؒ کو شاہ ولی اللہؒ کی طرح کی علمی ٹیم اور مواقع میسر آجاتے تو ان کی فقہی سوچ کے بارے میں دینی حلقوں کے تحفظات یقیناًتوازن کی صورت اختیار کر لیتے لیکن ان کے خطبات صرف ایجنڈا ہی رہے اور اس ایجنڈے پر علمی و تحقیقی کام کا خواب تعبیر کی شکل اختیار نہ کر سکا۔ مجھے اس موقع پر آغا شورش کاشمیری مرحوم کا یہ جملہ یاد آرہا ہے جو ان کا اپنا ہے یا شاید کسی اور دانش ور کے قول کے طور پر انہوں نے نقل کیا تھا کہ ’’اقبالؒ وہ شبلی نعمانی ؒ ہے جسے کوئی سید سلمان ندویؒ میسر نہ آسکا۔‘‘
میرے نزدیک فکرِ اقبالؒ کا اصل المیہ یہی ہے اور اس کا حل آج بھی یہی ہے کہ اقبالؒ اور انور شاہؒ مل کر بیٹھیں اور قدیم اور جدید ایک دوسرے کی نفی کرنے کی بجائے ایک دوسرے کا وجود اور ضرورت تسلیم کرتے ہوئے باہمی مشاورت اور اشتراک کے ساتھ امت مسلمہ کی علمی و فکری راہ نمائی کریں۔ اقبالؒ کے تصورِ اجتہاد کے سب پہلوؤں سے اتفاق نہ ہونے کے باوجود میں اسے ایک ایجنڈا تصور کرتے ہوئے اس پر علمی و تحقیقی کام کو آج کی ایک اہم ضرورت سمجھتا ہوں اور امت مسلمہ کی صحیح سمت راہ نمائی کے لیے قدیم و جدید کے متوازن امتزاج کو وقت کا ایک ناگزیر تقاضا تصور کرتا ہوں۔

مئی ۲۰۱۳ء

قومی نصاب تعلیم میں اصلاح و ترمیم کا مسئلہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
عمار خان ناصر اور اس کے ناقدینمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
امام شافعیؒ اور ان کا تجدیدی کارنامہڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی
مسلم نشاۃ ثانیہ: اصلاحِ مفاہیماحمد جاوید
امیر عبد القادر الجزائریؒ کون تھے؟ادارہ
جعلی مجاہد کی اصلی داستانمفتی ابو لبابہ شاہ منصور
الجزائری کی داستان حیات: چند توضیحاتمحمد عمار خان ناصر
مکاتیبادارہ
الشریعہ اکادمی کا دورۂ تفسیر ۔ مشاہدات و تاثراتمحمد بلال فاروقی
’’صاحب قرآن‘‘ادارہ
خسرہ کا مجرب علاجحکیم محمد عمران مغل

قومی نصاب تعلیم میں اصلاح و ترمیم کا مسئلہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

۲۲ اپریل ۲۰۱۳ء کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں ایک سیمینار کا اہتمام کیا گیا جس کا موضوع قومی نصاب تعلیم میں اسلامیات کے مضامین اور مواد کو کم کرنے اور نصابِ تعلیم کو مبینہ طور پر سیکولر نصابِ تعلیم کی شکل دینے کے بارے میں بعض اخباری رپورٹوں کا جائزہ لینا تھا۔ ممتاز ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر عبد الماجد حمید المشرقی نے سیمینار کی صدارت کی اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی راہ نما مولانا اللہ وسایا مہمان خصوصی تھے۔ سیمینار میں مذکورہ بالا حضرات کے علاوہ مولانا محمد قاسم، مولانا غلام نبی، مولانا محمد عثمان، حافظ محمد عمار خان ناصر، مولانا محمد فخر عالم، مولانا محمد عبد اللہ راتھر، پروفیسر حافظ محمد رشید اور راقم الحروف نے بھی گفتگو کی جبکہ مجموعی طور پر اس گفتگو میں مندرجہ ذیل نکات سامنے لائے گئے:
  • نصاب تعلیم کے حوالے سے جن امور کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے، ان کے مختلف دائرے ہیں۔ ایک یہ کہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے اور قومی نصاب تعلیم کس حد تک ملک کی نظریاتی اساس کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ دوسرا یہ کہ ہماری قومی تعلیمی ضروریات کیا ہیں اور مذہب و ثقافت کے ساتھ ساتھ سائنس، ٹیکنالوجی، سول سروس، ملٹری، معیشت اور دیگر شعبوں کے تقاضوں کو یہ تعلیمی نصاب و نظام کس حد تک پورا کرتا ہے، اور تیسرا یہ کہ موجودہ عالمی تناظر میں ملک و قوم کی بین الاقوامی ضروریات کیا ہیں اور ان کے مثبت اور منفی پہلوؤں کو پورا کرنے میں یہ قومی نصاب تعلیم کیا کردار ادا کر رہا ہے؟
    اس کے بعد دوسری سطح یہ ہے کہ متعدد حوالوں سے تعلیمی نصاب و نظام کے بارے میں مختلف حلقوں کی طرف سے جو شکایات وقتاً فوقتاً سامنے آتی رہتی ہیں اور اس وقت بھی قومی اخبارات میں موضوع بحث بنی ہوئی ہیں، ان کی اصل صورت حال کیا ہے اور ان کے بارے میں اعتدال و توازن کی راہ کیا ہے؟
  • قومی نصاب تعلیم کے بارے میں اس وقت دو قسم کی کشمکش چل رہی ہے، ایک کشمکش تو مذہبی اور سیکولر حلقوں کے درمیان ہے جو قیام پاکستان کے بعد سے مسلسل جاری ہے۔ دونوں حلقے اس سلسلہ میں اپنی قوت اور اثر و رسوخ کا اظہار کرتے رہتے ہیں اور اب بھی یہ کشمکش عروج پر ہے۔ دوسری کشمکش وفاق اور صوبوں کے درمیان ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد نصابِ تعلیم کا معاملہ صوبوں کے سپرد ہوا ہے جو پہلے وفاق کی ذمہ داری اور اختیار کا حصہ تھا۔ صوبوں کو منتقل ہو جانے کے بعد بھی وفاق ان معاملات کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی کوشش کر رہا ہے مگر صوبوں کا کہنا ہے کہ جب تعلیمی نظام کے معاملات دستور کے مطابق صوبوں کو منتقل ہو چکے ہیں تو انہیں پوری آزادی کے ساتھ اس بارے میں کردار ادا کرنے کا موقع دیا جائے۔ محسوس ہوتا ہے کہ یہ کشمکش کچھ عرصہ تو چلتی رہے گی مگر بالآخر یہ معاملات صوبوں کے دائرہ اختیار میں آجائیں گے۔ ہمیں تعلیمی مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے ان پہلوؤں کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔
  • بسا اوقات تبدیلی اور ترمیم کرنے والوں کے ذہنوں میں وہ بات نہیں ہوتی جو اس پر اعتراض کرنے والوں کی طرف سے پیش کی جاتی ہے۔ مثلاً خیبر پختون خواہ کی سابقہ حکومت کے دور میں نویں دسویں کے نصاب سے سورۃ الانفال اور سورۃ التوبہ کو نکالنے والوں کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ ہم نے ان سورتوں کو نصاب سے خارج کرنے کی بات نہیں کی بلکہ ترتیب بدلنے کی بات کی ہے کہ اس سطح پر سورۃ الحجرات کی تعلیم زیادہ مناسب ہے اور اس کے اوپر کے درجات میں یعنی انٹرمیڈیٹ کی سطح پر سورۃ الانفال اور سورۃ التوبہ کو نصابِ تعلیم کا حصہ بنایا جانا چاہیے۔ اگر فی الواقع ایسی بات ہے تو اس پر اعتراض کرنے کی بجائے اس کی افادیت اور موزونیت کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
  • ہمارے نصاب تعلیم کے بارے میں بین الاقوامی ایجنڈا اور اس کے لیے مسلسل دباؤ بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ باخبر حضرات کے مطابق عالمی اداروں کی طرف سے تعلیمی شعبہ میں جو امداد دی جاتی ہے اس کے ساتھ متعین شرائط ہوتی ہیں کہ یہ امداد تعلیمی نصاب و نظام میں حسب شرائط تبدیلیوں کی صورت میں ہی ملے گی۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے بھی اربابِ حل و عقد کو بعض تبدیلیاں کرنی پڑتی ہیں، ایسی شرائط کا جائزہ لینا اور یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ان میں سے کونسی شرائط اور تبدیلیاں ہمارے دینی اور قومی تقاضوں سے متصادم ہیں۔ ان کی نشان دہی اور ان کی روک تھام کے لیے قوم کی راہ نمائی اور مناسب تدابیر بھی ضروری ہیں۔
  • دینی مدارس کے نصاب و نظام کے حوالہ سے عصری و قومی تعلیمی ادارے مسلسل اپنی رائے دیتے رہتے ہیں اور دینی مدارس کے وفاقوں کو اپنے تعلیمی نظام و نصاب کے بارے میں قومی تعلیمی اداروں کو اعتماد میں لینا پڑتا ہے جو ایک اچھی بات ہے۔ اسی طرح قومی تعلیمی نظام و نصاب تشکیل دینے والوں کے لیے بھی یہ ضروری قرار دیا جائے کہ وہ تعلیمی نصاب کے دینی پہلوؤں کے حوالہ سے دینی مدارس کے وفاقوں کو اعتماد میں لیں اور ان کی مشاورت کے ساتھ یہ معاملات طے کریں تاکہ باہمی اعتماد میں اضافے کے ساتھ ساتھ متعلقہ معاملات بھی صحیح رخ اختیار کر سکیں۔ 
  • جب سے پرائیویٹ پبلشرز کی شائع کردہ کتابیں نصاب تعلیم کا حصہ بننے لگی ہیں، اس خلفشار میں اضافہ ہوا ہے۔ بڑے پبلشرز نے اپنے اپنے تعلیمی بورڈ بنا رکھے ہیں جو کتابیں مرتب کرتے ہیں اور جس کی کتاب سکولوں میں چل جاتی ہے، وہ اس دوڑ میں آگے نکل جاتے ہیں۔ اس سے تعلیمی نصاب میں ہم آہنگی مفقود ہوجاتی ہے، کیونکہ ہر پبلشنگ ادارے کے تعلیمی بورڈ کی اپنی پالیسی اور ذوق ہوتا ہے۔ اس صورت حال کو بھی کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ہر سطح پر مشترکہ تعلیمی کمیٹیوں کا قیام مناسب بات ہوگی۔
  • اندرونی حلقوں کے مطابق بسا اوقات ملازمین کے بعض ذاتی معاملات کی وجہ سے اس قسم کی شکایات سامنے آتی ہیں اور انہیں اجاگر کیا جاتا ہے، اس لیے یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ایسی شکایات کا داخلی پس منظر کیا ہے اور حقیقی صورت حال کیا ہے۔ 
  • نصابِ تعلیم کے اسلامی مضامین اور دینی مواد کے ساتھ ساتھ دوسرے مضامین کے مواد کے بارے میں بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ مثلاً کائنات کی تخلیق اور ارتقاء اور مغربی فلسفہ کے دوسرے بہت سے پہلوؤں کا ہمارے اعتقاد و ایمان کے ساتھ گہرا تعلق ہے اور بعض مضامین ایسے پڑھائے جا رہے ہیں جو مسلّمہ اسلامی اعتقادات سے ٹکراتے ہیں جس سے مسلم طلبہ کے ذہنوں میں کنفیوژن پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے جائزہ میں قومی نصاب تعلیم کے تمام شعبوں کو شامل کرنا چاہیے اور ایسے امور کی نشاندہی کرنی چاہیے۔
  • اس سلسلے میں ملک کے مختلف شہروں میں کام ہو رہا ہے اور بہت سے ارباب دانش محنت اور ذہن سازی کر رہے ہیں، ان کے درمیان باہمی رابطہ ضروری ہے تاکہ ایک دوسرے کی محنت اور کام سے استفادہ کر کے ایک مجموعی موقف سامنے لایا جائے اور پھر اس کے لیے مربوط جدوجہد کا لائحہ عمل طے کیا جائے، وغیر ذلک۔
شرکاء کی طرف سے اظہار خیال کے بعد سیمینار میں یہ طے پایا کہ (۱) پروفیسر حافظ عبد الرشید (مرے کالج سیالکوٹ) (۲) مولانا محمد فخر عالم (مسلم سٹوڈنٹس آرگنائزیشن) اور (۳) جناب علی رضا شیخ ایڈووکیٹ (پریمیئر لاء کالج گوجرانوالہ) پر مشتمل ورکنگ گروپ قائم کیا جائے گا جو پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم ورک، پروفیسر ڈاکٹر عبد الماجد حمید المشرقی اور حافظ محمد عمار خان ناصر کی نگرانی میں ان امور کا جائزہ لے کر ایک جامع رپورٹ مرتب کرے گا اور اس رپورٹ کی بنیاد پر ملک کے سرکردہ اربابِ علم و دانش اور علمی و فکری اداروں کے ساتھ رابطہ و مشاورت کی کوئی عملی صورت اختیار کی جائے گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

عمار خان ناصر اور اس کے ناقدین

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’محترمی ومکرمی ومخدومی وحبی!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ وبعد!
کچھ عرصہ سے اخبارات اور جرائد میں حضرت والا کے فرزند ارجمند کے نظریات ورجحانات پر کچھ علماء واہل قلم اپنے اپنے انداز میں تحفظات بلکہ واضح انداز میں تنقید واعتراضات رقم کر رہے ہیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ ان محررین کی آپ کے صاحبزادے سے ملاقات اور آمنے سامنے گفتگو بھی ہوئی یا نہیں، کیونکہ حق تو یہ ہے کہ صاحب کلام سے اس کے کلام کی توضیح پوچھی جائے، لیکن یہ بات بھی مسلم ہے کہ ’’عیاں را چہ بیاں‘‘ اور صریح بات میں نیت نہیں پوچھی جاتی۔ ممکن ہے کہ ناقدین وجارحین نے صاحبزادہ کے کلام میں اسی وجہ سے ان سے وضاحت لینے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی ہو، لیکن بہر صورت ’صاحب البیت ادریٰ بما فیہ‘ کے تحت اس سب کچھ کو آپ سے بڑھ کوئی نہیں جان سکتا۔
آپ حضرات کی دعاؤں سے بندہ کی یہ طبیعت ہے کہ ایسے کسی مسئلہ میں جب تک خود صاحب واقعہ یا اس کے انتہائی قریبی شناسا سے بات چیت نہ ہو جائے، اپنی حتمی رائے قائم نہیں کرتا بلکہ سرے سے اس میں گفتگو اور بحث ومباحثہ ہی نہیں کرتا۔ آج کل مدارس میں بین الاساتذہ وبین الطلبہ یہ گفتگو کثرت سے چل رہی ہے۔ بندہ ہمیشہ ہی خاموشی سے ایک طرف اور کنارہ کش ہو جاتا ہے، لیکن دل میں کسک بہرحال رہتی ہے۔ امید ہے کہ آپ کے ذریعے سے یہ بھی ختم ہو جائے گی۔
بندہ عبد الرحمن عفا اللہ عنہ
مدرس جامعہ حنفیہ، بورے والا‘‘

’’محترمی مولانا عبد الرحمن صاحب
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
گزارش ہے کہ ہمارے ہاں بد قسمتی سے یہ مزاج پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ رائے کا اختلاف، تحقیق سے پیدا ہونے والا اختلاف اور علمی مسائل میں تحقیق وتجزیہ کا معاملہ ذاتی پسند وناپسند اور مخالفت وعناد کی صورت اختیار کر جاتا ہے اور ہم جس سے کسی مسئلہ پر اختلاف کرتے ہیں، اسے کسی نہ کسی دشمن کا ایجنٹ اور گماشتہ قرار دیے بغیر خود اپنے موقف کی سچائی پر ہمارا اعتماد قائم نہیں ہوتا۔
تحریک پاکستان میں قیام پاکستان کی حمایت ومخالفت میں دونوں طرف ہمارے بزرگ تھے اور ارباب علم وفضل تھے، مگر اس دور کا لٹریچر ایسے الزامات سے بھرا پڑا ہے جس میں ایک جانب کے بزرگوں کو ہندوؤں کا ایجنٹ کہا گیا اور دوسری طرف کے بزرگوں کو انگریزوں کا آلہ کار قرار دیا گیا ہے۔ ۷۰ء کے انتخابات کے موقع پر ذو الفقار علی بھٹو مرحوم نے ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کا نعرہ لگایا جس پر بہت سے بزرگوں نے کفر کا فتویٰ صادر کر دیا۔ اس فتویٰ سے حضر ت مولانا غلام غوث ہزارویؒ ، حضرت مولانا مفتی محمودؒ اور دیگر سیکڑوں علماء کرام نے اختلاف کیا کہ اسے اصطلاح وتعبیر کی غلطی تو کہا جا سکتا ہے، مگر اسے کفر قرار دینا درست نہیں ہے۔ اس اختلاف پر ہمارے ان بزرگوں کو ’’سوشلسٹ علماء‘‘، ’’سرخ ملا‘‘ اور کمیونسٹوں کے ایجنٹ کے جن خطابات سے نوازا گیا، اس کی بھرمار کی ایک جھلک اس دور کے دینی جرائد میں دیکھی جا سکتی ہے۔
ابھی چند سال قبل حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے اسلامی بینکاری کے بارے میں اپنا اجتہادی نقطہ نظر پیش کیا تو اسلامی نظریاتی کونسل کے ایک سیمینار میں ملک کے ایک مقتدر دانش ور نے ان کے نقطہ نظر سے اختلاف کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ عالمی یہودی سرمایہ داروں کے ایجنٹ کا کردار ادا کر رہے ہیں جس پر میں نے اسی محفل میں اس طرز عمل سے اختلاف کیا کہ کسی علمی اختلاف پر اس قسم کا رویہ اختیار کرنا درست نہیں ہے اور الزام تراشی اور طعن وتشنیع کی زبان قطعی طور پر علمی زبان نہیں ہے، مگر یہ رویہ جو قطعی طور پر غیر علمی اور غیر شریفانہ طرز عمل ہے، ہمارے ہاں مزید پختہ ہوتا جا رہا ہے اور اسے ہمارے بعض جرائد پروان چڑھانے میں فخر محسوس کر رہے ہیں۔
عزیز م عمار خان سلمہ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کتاب کی دنیا کا آدمی ہے، مطالعہ وتحقیق اس کا ذوق ہے اور علمی مسائل پر گفتگو اس کا معمول ہے۔ ظاہر ہے کہ جو شخص اس کوچے میں قدم رکھے گا اور آگے بڑھے گا، اسے کسی مسئلہ پر اختلاف بھی ہوگا اور وہ اس کا اظہار بھی کرے گا۔ اس کا حل طعن وتشنیع، فتویٰ بازی اور الزام تراشی نہیں ہے بلکہ علم وتحقیق کی زبان میں اس سے اختلاف کرنا ہے اور میں خود بھی بعض مواقع پر اس سے اختلاف کرتا ہوں۔
میرا ذوق یہ ہے کہ جہاں خود اختلاف کا حق استعمال کرتا ہوں، وہاں دوسروں کو بھی اختلاف کا حق دیتا ہوں۔ رائے کے اختلاف کو رائے کے اختلاف تک محدود رکھتا ہوں اور اسے ذاتی مخالفت یا دشمنی تک آگے نہیں جانے دیتا۔ مجھے اس کوچے میں نصف صدی گزر گئی ہے اور سب دوست جانتے ہیں کہ میں نے اختلاف کا حق استعمال کرنے یا دوسروں کو اختلاف کا حق دینے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک۔ سادہ سی بات ہے کہ جب میں علمی دنیا کے ہر شخص کو اختلاف کا حق دیتا ہوں اور اس کا احترام کرتا ہوں تو عمار خان کو اس حق سے صرف اس لیے محروم نہیں کر سکتا کہ وہ میرا بیٹا ہے۔
عمار خان سلمہ کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ میرے بعض دوستوں اور عزیزوں کو اصل اختلاف میرے کسی طرز عمل سے ہوتا ہے اور نجی محفلوں میں وہ اس کا اظہار بھی کرتے ہیں، لیکن مجھ سے براہ راست اختلاف کرنے یا میرے بارے میں اپنی مخصوص زبان استعمال کرنے کی بجائے وہ یہ نزلہ بھی عمار خان پر گرا دیتے ہیں، اس لیے اسے دوہرے دباؤ کا سامنا رہتا ہے۔
بہرحال عمار خان کی بعض آرا سے دوسرے دوستوں کی طرح مجھے بھی اختلاف ہوتا ہے، لیکن وہ صرف اختلاف ہوتا ہے، اسی طرح کا اختلاف جیسا اختلاف میں خود والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ ، عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی ؒ ، قائد محترم حضرت مولانا مفتی محمودؒ اور مجاہد ملت حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ سمیت اپنے بہت سے بزرگوں سے کیا کرتا تھا۔ یہ سیاسی مسائل میں بھی ہوتا تھا، علمی معاملات میں بھی ہوتا تھا اور دینی تعبیرات میں بھی ہوتا تھا اور یہ بزرگ اس اختلاف کو سنتے تھے، دلیل کے ساتھ بحث کرتے تھے، جو بات انھیں قبول نہیں ہوتی تھی، اس کے بارے میں کہہ دیتے تھے کہ انھیں اس سے اتفاق نہیں ہے، لیکن انھوں نے کبھی اختلاف کی حوصلہ شکنی نہیں کی، طعن و تشنیع کی زبان استعمال نہیں کی اور اپنا نقطہ نظر مسلط کرنے میں سختی نہیں کی۔ وکفی بہم قدوۃ!
میری سب ناقدین سے گزارش ہے کہ وہ ضرور اختلاف کریں، تنقید کریں اور اپنے موقف کا کھل کر اظہار کریں جس کے لیے ’’الشریعہ‘‘ کے صفحات بھی ہمیشہ کی طرح حاضر ہیں، مگر صرف ایک چھوٹی سی درخواست کے ساتھ کہ
اے شیخ گفتگو تو شریفانہ چاہیے
ابوعمار زاہد الراشدی

امام شافعیؒ اور ان کا تجدیدی کارنامہ

ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

(۶، ۷ جنوری ۲۱۰۳ء کوہندوستان میں فقہ شافعی پر اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیااورجامعہ حسینہ شری وردھن کے اشتراک سے منعقدہونے والے دوروزہ قومی سیمینارمیں پیش کیا گیا۔)

اللہ تعالیٰ نے دنیاکے لیے جس دین کوپسندکیااوربندوں کوجس کا مکلف بنایاہے، وہ ابدی حقائق پر مشتمل ہے۔ اس کے عقائدومسلمات کو خلودعطاکیاگیاہے، مگرساتھ ہی وہ بھی زندگی سے بھرااورحرکت ونشاط سے معمورہے۔’’یہ دین چونکہ آخری اورعالمگیردین ہے اوریہ امت آخری اورعالمگیرامت ہے، اس لیے یہ بالکل قدرتی بات ہے کہ دنیاکے مختلف انسانوں اورمختلف زمانوں سے اس امت کا واسطہ رہے گا ۔۔۔اس امت کوجوزمانہ دیاگیاہے وہ سب سے زیادہ پرا زتغیرات اورپراز انقلابات ہے ‘‘۔(۱ ) مولاناسیدابوالحسن علی حسنی ندوی کے بقول زمان ومکان کی تبدیلیوں سے عہدۂ برآ ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے دوانتظامات فرمائے ہیں۔ ایک یہ کہ اس کی تعلیم جامع وکامل اورزندہ ہے اوردوسرے اس دین کو ہر دور میں ایسے زندہ رجالِ کارعطاہوتے رہے ہیں جواس کی تجدیدکرتے ہیں۔ امام شافعی بھی ایسے ہی رجال اللہ اورمجددین اسلام میں سے ہیں جو اپنے تعلق باللہ ،زبان دانی ،اخلاص وللہیت،قانونی فہم، علمی انہماک اورخدمت دین میں ممتازہیں۔
اسلام کی تاریخ میں ائمہ اربعہ کا ظہورایک معجزہ تھا۔ ان میں امام ثالث حضرت امام شافعی کا امتیاز یہ ہے کہ وہ افقہ الامۃ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ ؒ اورامام دارا لہجرت امام مالک ؒ کے بعدآئے اوردونوں کے مدرسہائے فکراورمناہج فقہ کی خوبیوں کے جامع ہوئے ۔انہوں نے دونوں ہی مکاتب فکرسے خوشہ چینی کی ۔ ان کے علاوہ انہوں نے تقریباً انیس شیوخ سے علم اخذکیاجن میں فقیہ الشام امام اوزاعی کے شاگرد عمر بن ابی سلمہ اورفقیہ مصرلیث بن سعدکے شاگردیحییٰ بن حسان شامل ہیں۔ وہ امام لیث کی فقاہت سے بہت متاثرہوئے یہاں تک کہ انہوں نے کہا کہ: اللیث افقہ من مالک الاان اصحابہ لم یقوموا بہ: لیث مالک سے بڑے فقیہ ہیں مگران کے شاگردوں نے ان کواٹھایانہیں۔ (۲) شافعی کے شیوخ میں یمنی ،کوفی ،بصری اورمکی ،بغدادی استادوں کے نام بھی آتے ہیں۔امام مالک کے سامنے توان کوبنفس نفیس زانوئے تلمذطے کرنے کا شرف ملا۔فقہ حجاز یامدرسۃ الحدیث سے استفادہ کے بعدوہ عراق گئے جہاں مدرسۂ کوفہ یامدرسۃ اہل الرائے (۳) کے قریب آئے اورانہوں نے فقہ حنفی کے محررامام محمدؒ بن الحسن سے کسب فیض کیا۔ یوں وہ حدیث وفقہ دونوں کے جامع بنے اوراپنی شاداب عقل ،زرخیز دماغ ،بحث واستدلال اورکلام ومنطق کی زبر دست اورخداداد صلاحیتوں کے باعث دونوں ہی سابق فقہوں سے اپنی الگ راہ نکالی اورتیسرے مذہب فقہ کے بانی ومؤسس ہوئے۔

سوانح زندگی

 نام محمد، والدکا نام ادریس بن عباس بن عثمان بن شافع تھا۔ نسبی تعلق قریش کے بنو عبد المطلب سے تھا۔ عبدمناف میں آکر حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کا نسب مل جاتاہے۔فلسطین کے شہرغزہ میں سنہ ۱۵۰ ھ میں پیداہوئے۔ خداکی شان ہے کہ اسی دن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ ؒ کی وفات ہوئی تھی۔ شافعی کے والدکا سایہ بچپن میں ہی سرسے اٹھ گیا، ان کی پرورش تمام تروالدہ نے کی ۔جب دوسال کے ہوئے تووالدہ محترمہ ان کولے کران کے گھروالوں کے پاس مکہ آگئیں۔ عسرت ،یتیمی وتنگ دستی کے باوجودخاندانی وقارکی حفاظت اوراعلیٰ اخلاق پر تعلیم وتربیت ہوئی ۔امام شافعی کو غیر معمولی ذہانت، جفاکشی، دور اندیشی کے ساتھ ہی غضب کا حافظہ عطاہواتھا۔شعروادب میں بھی طاق ہوگئے کہ مدتوں تک مکہ سے دورصحرا میں بنوہذیل کے درمیان رہ کرعربی لغت، محاورے اورفصاحت وبلاغت سیکھی تھی۔ ساتھ ہی تیر اندازی میں بھی حذاقت تامہ حاصل کرلی۔بنوہذیل کے ہاں سے واپس آکرمکہ کے علماء کے پاس قرآن حفظ کیااورحدیث وفتویٰ کی تعلیم حاصل کی ۔ ان کے استادمسلم بن خالدزنجی نے ان کی قابلیت کی شہادت دیتے ہوئے فرمایا: اے ابوعبداللہ، اب تم فتوی دو، کیونکہ فتوی دینے کے اہل ہوچکے ہو ‘‘ ۔ (۴) مگرشافعی کومزیدعلم کا شوق تھاچنانچہ انہوں نے اما م مالک ؒ کے درس حدیث اوران کی کتاب مؤطاکا شہرہ سنا تو مدینہ کی راہ لی۔ والئ مکہ نے ان کے لیے ایک سفارشی خط امام مالکؒ کی خدمت میں لکھ دیا۔ مگرمالک کی خدمت میں حاضری دینے سے پہلے ہی مکہ کے کسی عالم سے مؤطا لے کرپوری پڑھ لی بلکہ حفظ کرلی۔ اس کے بعدمدینہ حضرت امام مالک کی خدمت میں حاضرہوئے جس کا حال یوں لکھاہے : ’’میں صبح سویرے امام مالک کی خدمت میں پہنچ گیااورمؤطازبانی پڑھنی شروع کردی حالانکہ کتاب میرے ہاتھ میں تھی۔ امام صاحب سننے لگے۔ جب مجھے خیال آیاکہ امام مالک تھک گئے ہوں گے تومیں نے قرأت روکنی چاہی، مگرحضرت امام کومیری قرأتِ مؤطااتنی پسندآئی تھی کہ انہوں نے فرمایا: اے نوجوان اورپڑھ،چنانچہ یوں میں نے چنددنوں میں پوری مؤطاان کوسنائی اورختم کرلی۔‘‘ (۵) اس کے بعدشافعی فقہ وحدیث میں امام مالک سے مستفیدہونے لگے یہاں تک کہ اصحابِ مالک میں شمارہونے لگے اوران کی وفات(۱۷۹ھ)تک ان کے سرچشمۂ علم سے سیراب ہوتے رہے ۔
پھریمن کے گورنرشافعی کواپنے ساتھ لے گئے اور علاقۂ نجران کا قاضی مقررکردیا جہاں آپ پوری جرأت ،عدل وانصاف اورخوفِ خداکے ساتھ اپنے فرائض انجام دینے لگے ،تاہم اس گورنرکے بعض عمال ومقربین کی زیادتیوں پر کھلی اورشدیدتنقیدنے اس کوآپ سے ناراض کردیا۔اس نے آپ سے یوں انتقام لیاکہ خلیفہ کی خدمت میں آپ کی شکایت لکھ بھیجی کہ یہاں کئی علوی لوگ ہیں اورایک قریشی نوجوان ان کا حمایتی ہے۔یہ لوگ خلافت پرخروج کا ارادہ رکھتے ہیں اورمیرے قابومیں نہیں آ رہے ۔خلیفہ عباسی ہارون الرشیدنے ان سب لوگوں کواپنے دربار بغداد بلا بھیجا۔ امام شافعی علویوں سے محبت رکھتے تھے، مگران پربغاوت کا الزام بالکل غلط تھا۔بہرحال اپنی باری آنے پرانہوں نے اپنی طلاقت لسانی اورزوربیان کے بل پر اپنے کیس کی وکالت کی اورخلیفہ کے قاضی امام محمدؒ بن الحسن تلمیذرشیدابوحنیفہ ؒ کی سفارش پر چھوڑدیے گئے۔یہیں سے وہ امام محمدؒ کے رابطہ میں آئے اور انہوں نے امام محمدکے علم وتفقہ سے فیض اٹھایا،ان سے مذاکرے کیے اورعراقی مکتب فکراوراس کے منہج سے براہ راست واقفیت حاصل کی۔
یہاں سے فارغ ہوکرشافعی مکہ گئے جہاں انہوں نے حرم مکی میں نوسال تک درس دیا۔امام احمدبن حنبل ؒ نے مکہ ہی میں ان کے آگے زانوے تلمذ تہہ کیاہے اور جب ۱۹۵ھ میں شافعی دوبارہ بغدادآئے تو امام احمدنے ان کا بڑا اکرام کیا۔ بغداد کے اس سفرمیں انہوں نے فقہ مالک اورفقہ حنفی سے الگ اپنی فقہی رایوں کااظہارشروع کیااوربغدادکے علماء وفقہاء سے ان کے مذاکرے ہوئے ۔ بغدادمیں انہوں نے جوفتوے دیے، انہی کوفقہ شافعی میں قول قدیم کہاجاتاہے۔ 
مصربھی اس وقت اہل علم کا مرکزتھاجہاں امام مالک کے بہت سے تلامذہ استادکی فقہ کوعام کررہے تھے۔ مصرہی میں امام لیث بن سعدتھے جن سے شافعی کی مراسلت ہوئی تھی۔۱۹۹ھ میں شافعی مصرگئے جہاں انہوں نے اپنامذہب فقہی باقاعدہ قائم کیا۔ وہاں ان کوبہت سے تلامذہ میسرآئے ۔مصرمیں انہوں نے اپنے بہت سے خیالات کی تنقیح کی اور بہت سی سابق رایوں سے رجوع کیااورنئی رائے پر فتوے دیے جن کوقول جدید کہا جاتاہے۔ ۲۰۴ھ میں مصر میں ہی شافعی کی وفات بھی ہوئی جس کے مختلف اسباب بتائے جاتے ہیں ۔ ( ۶ ) ان کے تلامذہ بویطی ،سلیمان بن الربیع وغیرہ نے مصرمیں ان کے مسائل وفتاوی کومدون کیااوریہیں سے شافعی مسلک کی عالم اسلام کے مختلف خطوں میں اشاعت ہوئی ۔
امام شافعیؒ اوران کی فقہ کا بڑاکمال یہ ہے کہ انہوں نے حدیث وفقہ کوجمع کیاہے اوربعض اہل علم کہتے ہیں کہ فقہ شافعی میں اصح ما فی الباب (یعنی کسی مسئلہ کے سلسلے میں سب سے صحیح حدیث) سے اخذواستفادہ کا رجحان ہے۔ شافعی کا بہت بڑااورتجدیدی کارنامہ اورمجموعی طورپر اسلامی فقہ پر ان کا زبردست احسان ہے کہ انہوں نے فقہ اسلامی کے اصول مدون کیے،فروعی مسائل اورجزئیات کومنضبط کرنے والے جامع قواعدوکلیات کا استنباط کیااوراپنی ’الرسالہ‘ اور’الام‘ کے ذریعہ علم وفکرکی ایک نئی دنیا آبادکردی۔کتاب وسنت کے نصوص سے شرعی مسائل کا استنباط اپنی جگہ ایک عظیم الشان کام ہے۔تاہم اس مسائل کی اصول سازی اورنظریہ سازی اس سے بھی بڑاکام ہے اوریہ شافعی کی عبقریت ہے کہ انہوں نے دونوں کام کیے اوراس راہ میں طریق معتدل کی دریافت کی۔ مثال کے طورپر اپنے بہت سے معاصرین کی افراط وتفریط کے درمیان انہوں نے کہاکہ قرآن اصلِ شرع ہے (۷)شافعی کے لفظوں میں:
’’اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں جوکچھ بھی اپنی رحمت کے طورپر اوربندوں پرحجت کے لیے نازل فرمایا،اس کا عالم عالم ہے اورجواس کونہیں جانتاوہ جاہل ہے ۔اس کونہ جاننے والے کوعالم نہیں کہ سکتے اوراس کے جاننے والے کوجاہل نہیں کہ سکتے ۔اورعلم کے اندر لوگوں کے درحات مختلف ہیں۔اورجتناکوئی قرآن کا علم رکھتاہے اتناہی اس کا رتبہ سِواہے اس لیے طالبانِ علم پر لازم ہے کہ وہ اس کا زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنے کی بھرپورجدوجہدکریں اوراس راہ میں جو کچھ بھی پیش آئے اس کو برداشت کریں اورنص یااستنباط سے قرآن کے علم کے حصول میں نیت خالص اللہ کے لیے رکھیں۔‘‘ 
یعنی قرآن شافعی کے نزدیک بیانِ کلی ہے اور سنت اس کی تبیین۔ (۸ ) صحابہ بھی اسی کے قائل تھے چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں: من جمع القرآن فقد حمل امراعظیما و لقد ادرجت النبوۃ بین جنبیہ ال اانہ لایوحی الیہ: جس کے پاس قرآن کا علم ہے تووہ ایک امرعظیم کا حامل ہے ،گویاکہ اس کے سینہ میں نبوت دے دی گئی ہے، اگرچہ اس کے پاس وحی نہیں آتی۔ (۹) ابن حزمؒ اس بنیادپر کہتے ہیں کہ: کل ابواب الفقہ لیس منہا باب الا ولہ اصل فی الکتاب، والسنۃ تعلنہ۔ فقہ کا کوئی باب ایسانہیں جس کی اصل کتاب اللہ میں نہ ہو، سنت اس کی تفصیل سے وضاحت کرتی ہے ۔اس کے بعدشافعیؒ نے بیانِ قرآن کی دوقسمیں کی ہیں:
۱۔وہ آیات جوخوداپنی شرح ہیں اورجن کو مزید تفسیر کی ضرورت نہیں، مثلاًصوم اورلعان کا بیان۔
۲۔ قرآن کی دوسری قسم وہ ہے جس کوانہوں نے القسم الذی من القرآن لایکون نص فی الموضوع بل البیان فیہ یحتاج الی السنۃ کہاہے یعنی وہ قسم جو موضوع پر خوددلالت نہ کرے بلکہ اس کے بیان کے لیے سنت کی ضرورت پڑے۔ (۱۰)
اسی طرح یہ مسئلہ ہے کہ قرآن کے فرائض وواجبات کے بارے میں صحیح نقطۂ اعتدال کیاہے؟شافعی نے قرآن کے متعددنصوص میں غورو فکر کرکے فرض کو دو وجہوں پر تقسیم کیاہے: فرض عین اورفرض کفایہ۔ وہ فرض کفایہ کو المطلوب علیٰ وجہ الکفایۃ یراد بہ العام ویدخلہ الخصوص ( ایساعام فرض جوکچھ لوگوں سے مطلوب ہو) سے تعبیرکرتے ہیں۔ (۱۱)امام شاطبی نے اس کی بے حدمعنی خیز تفصیل کی ہے اوراس کوفرض عین پر ایک گونہ فوقیت دی ہے۔ ابوزہرہ کی کتا ب میں اس کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے ۔چونکہ امام شافعی نے خوداصول و قواعدکا استخراج کیااوران کی تدوین کی، اس لیے بقول ابوزہرہؒ ان کے تلامذہ اور بعد کے لوگوں کو مذہب شافعی پر تخریج (کسی اصل سے مزیدمسئلہ نکالنا)کے لیے اصول ثابتہ مقررہ میسرآگئے، جبکہ یہ چیز دوسرے مذاہبِ فقہ میں نہیں پائی جاتی کیونکہ شافعی کے علاوہ کسی اورامام سے یہ منقول نہیں کہ انہوں نے شافعی کی طرح قواعدبیان فرمائے ہوں۔ (۱۲)
امام شافعی کا دوسراکارنامہ حجیت حدیث کا اثبات ہے ۔موجودہ زمانہ میں انکارحدیث کا جوفتنہ پیداہواہے ،عموماً اس کے بارے میں خیال کیاجاتاہے کہ یہ ایک نیا ظاہرہ Phenomenon  ہے، مگرامام صاحب کی دونوں کتابوں الرسالہ اور الام کے ایک سرسری مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ ایسانہیں ہے بلکہ یہ فتنہ نہایت قدیم ہے ۔شافعی کے زمانہ میں تین طرح کے منکرین حدیث موجودتھے جن سے ان کی گفتگوئیں بھی ہوئیں اورجن کی آرا کواپنی تحریروں میں نقل کرکے انہوں نے ان پرتفصیل سے محاکمہ بھی فرمایاہے۔ الام کی کتاب جماع العلم میں شافعی نے تفصیل سے منکرین سنت کے بارے میں بیان کیاہے ۔ (الرسالہ میں حجیت حدیث کا اثبات ہے اورالام میں منکرین سے مناظرہ اوران کے استدلال کا تفصیلی ردہے ۔) شافعی ؒ کے مطابق حدیث کا انکارکرنے والے فی الجملہ تین طرح کے لوگ ہیں :
پہلے تووہ لوگ ہیں جوبالکل ہی سنت کا انکارکرتے ہیں ۔الرسالہ میں امام صاحب نے ان لوگوں کا پورااستدلال نقل کرکے ان کو جواب دیاہے۔ان کے الفاظ میں ان کے استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ : وجملۃ قبولہم واحتجاجہم لہ ان الکتاب فیہ تبیان لکل شیئی، وان الکتاب عربی، لایحتاج الی بیان غیر معرفۃ اللسان العربی والاسلوب العربی الذی جاء القرآن بہ، ولیس وراء بیانہ بیان (۱۳) ای السنۃ لایمکن ان تاتی بشرع زائدعلی مافی الکتاب اللہ  (ابوزہرۃ )مطلب یہ ہے کہ قرآن عربی میں نازل ہواہے اورعربی کلام کوسمجھنے کے لیے عربی اورزبان اورعربی اسلوب کے علاوہ کسی اورچیز کی ضرورت کیوں پڑنے لگی ۔اسی سنت قرآن کے کسی حکم پر اضافہ بھی نہیں کرسکتی۔ان کے استدلال کا جواب امام شافعی نے بہت تفصیل سے دیاہے جس کی تلخیص ابو زہرہ نے کردی ہے۔
دوسرے وہ لوگ ہیں جو صرف انہیں حدیثوں کولیتے ہیں جن کے مطابق قرآن میں کوئی حکم پایاجاتاہے۔ یہ خبر واحد کوقبول نہیں کرتے۔(ما کان فیہ قرآن یقبل فیہ الخبر) اورتیسرے نمبرپر وہ لوگ ہیں جوبس انہی احادیث کومانتے ہیں جومتواترومستفیض ہیں اور خبر واحد کی حجیت کے قائل نہیں ہے۔ (وثالث المذاہب المخالفۃ للجماعۃ مذھب الذین ینکرون حجیۃ خبرالآحاد جملۃ ولایعتبرون الا الاخبار المتواترۃ المستفیضہ (۱۴) پہلاگروہ توامت سے بالکل ہی خارج ہے (وقائل ذلک لیس من الاسلام فی شیء) (۱۵) اوردوسرے گروپ کے بارے میں تفصیل ہے کہ ان کے قول کے دومطلب نکلتے ہیں:ایک لحاظ سے یہ بھی پہلے ہی گروپ سے تعلق رکھتے ہیں، لہٰذاانہیں میں سے شمارہوں گے اوراگران کے قول کا مطلب یہ ہے کہ قرآن وحدیث میں تعارض نہیں ہوسکتاتویہ بات درست ہے اوراس لحاظ سے اگریہ خبرواحدمیں شک کرتے ہیں توان کو خارج عن الامۃ (امت سے باہر) نہیں سمجھاجائے گا۔
پہلے گروپ کوامام صاحب زنادقہ ،خوارج اوربعض معتزلہ کی طرف منسوب کرتے ہیں جنہوں نے اپنی تائیدمیں ایک حدیث بھی گڑھ لی تھی کہ: جب تمہارے پاس کوئی حدیث آئے تواس کوکتاب اللہ پرپیش کرو۔ اس کے موافق ہوتوسمجھوکہ وہ میراہی قول ہے اوراس کے خلاف ہوتوسمجھوکہ وہ میراقول نہیں ہے کہ قرآن مجھ ہی پراتراہے، اسی سے اللہ نے مجھے ہدایت دی تومیراقول اس کے خلاف کیسے ہوگا۔ (ما اتاکم منی فاعرضوہ علی کتاب اللہ، فان وافق کتاب اللہ فانا قلتہ وان خالف کتاب اللہ فلم اقلہ، وکیف اخالف کتاب اللہ وبہ ہدانی اللہ)۔ اس حدیث کے سلسلہ میں عبدالرحمن بن مہدی نے فرمایاکہ اس کوزنادقہ اور خوارج نے گھڑا ہے۔ (۱۶)
آج کے منکرین حدیث بھی کم وبیش انہی خیالا ت کی جگالی کرتے رہتے ہیں۔ ان کے استدلال بھی تقریباً یہی رنگ لیے ہوتے ہیں۔ امام شافعی ایک ایسے عہدمیں پیداہوئے تھے جب روایات کی کثرت تھی ،واضعین حدیث اورمنکرین سنت کی مذموم کوششوں سے اہل علم کے لیے سنت کے حوالہ سے ایک بڑاعلمی چیلنج پیداکردیاتھا۔وضعی حدیثوں کا ایک سیلاب تھا،ایسے میں شافعی جیسے عبقری نے وقت کے ا س چیلنج کا جواب دیا ۔ آپؒ نے واضح کیاکہ سنت صحیحہ ثابتہ قرآن سے باہرنہیں ہے، وہ قرآن ہی مستنبط ہے۔ اس کی اصل قرآن میں موجودہے اورسنت اس کی مستند ترین شرح وتفسیرہے۔ اسی کتاب میں آپ نے ثابت کیاکہ قرآن میں کئی جگہ الکتاب والحکمۃ ساتھ ساتھ آیاہے۔ (مثلاً البقرہ :۱۲۹ ) جس میں کتاب سے مرادقرآن اورحکمت سے مراداس کی نبوی تفسیر(حدیث ) ہے (الکتاب ہو القرآن والحکمۃ ھی السنۃ النبویۃ (۱۷) ظاہرہے کہ حکمت منزل من اللہ وحی اوراسوۂ نبوی کا عمل کی دنیامیں کامل ترین اظہارہے ،یہ وہ دانش نورانی ہے جس کو و ما ینطق عن الہوی ان ہو الاوحی یوحی (النجم:۳، ۴) کی تائیدربانی حاصل ہے ۔الرسالہ میں انہوں نے تینوں فریقوں کے جواب دیے ہیں اوراسی وجہ سے مکہ ،بغداد اور مصروغیرہ میں شافعی کوناصرالسنۃ اورحافظ حدیث کہاجاتاتھا۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ شافعی بغیرکسی تعصب کے حق کی حمایت کرتے تھے۔
امام شافعی سے پہلے اہل الرائے، اصحاب الحدیث پر اپنے منطقی طرز استدلال کے ذریعہ غالب آجایاکرتے جبکہ اصحاب الحدیث ذخیرۂ آثاروروایات میں ان کودبالیتے تھے۔ جب شافعی آئے تووہ ان دونوں ہی ہتھیاروں سے لیس تھے۔ چنانچہ ان سے دونوں مدرسہاءأفکر کے جس آدمی نے بھی بحث مباحثہ کیا، کوئی بھی شافعی کے سامنے نہ ٹک سکا۔ حق کے سلسلے میں بلاخوف لومۃ لائم امام شافعی نے اپنی آرا کا اظہار کیا۔ چنانچہ امام مالک سے محبت کے باوجود انہوں نے ’’خلاف مالک‘‘ لکھی جس میں اپنے استاذکی بہت سی رایوں پر تنقیدتھی۔اسی طرح اپنے دوسرے استادامام محمدسے بھی مناقشہ کیااوربصرہ کے علماء سے مناظرہ کیااورسب میں غالب رہے۔ مگربراہومسلکی تعصب کا کہ جب امام صاحب مصر گئے تووہاں کے مالکیوں نے ’’خلاف مالک‘‘ لکھنے کی وجہ سے والئ مصرسے ان کی شکایت کی اوران کو مصر سے نکلوادینے کی کوشش کی!! حالانکہ ان کا اختلاف صرف مالک سے ہی نہ تھا بلکہ حنفیہ اوردوسرے ائمہ فقہ سے بھی تھا۔ مثال کے طورپرامام شافعی خبر واحد کو اہمیت دیتے ہیں اورقرآن کے عام کی تخصیص خبر واحدسے جائزقراردیتے ہیں۔ اس بارے میں حنفیہ کا ان سے اختلاف ہے کیونکہ حنفیہ کہتے ہیں کہ قرآن قطعی الثبوت ہے اورخبرواحدظنی الثبوت،اس لیے ظنی سے قطعی کی تخصیص نہیں ہوسکتی (۱۸) سوائے اس صورت کے کہ اس عام کی پہلے ہی کسی اورسے تخصیص ہوچکی ہو۔ 
واضح رہے کہ ابوزہرہ کی تحقیق میں شافعی خودعقیدہ کے اثبات میں خبرواحدکوکافی نہیں سمجھتے ۔ انہوں نے خبرواحدکی حجیت تو ثابت کی ہے تاہم وہ خبر واحد کو، جیساکہ ابوزہرہ لکھتے ہیں، قرآن کے یاخبر متواترومستفیض کے درجہ میں نہیں رکھتے اور ابوزہرہ کے لفظوں میں: بہذا تراہ یضع الامور فی مواضعہا فھو یجعل الآحادحجۃ فی العمل دون الاعتقاد، فیقرر ان الشک فیہ لاعقاب علیہ (۱۹) اس کے بعدامام صاحب نے خبرالواحد (روایات الخاصۃ ) کے قبول کے دقیق شرائط بیان کیے ہیں اوریہ سب شرطیں وہی ہیں جن کوماہرین مصطلح الحدیث نے قبول کیاا ور ان سے اتفاق کیاہے ۔خبرواحدکے علاوہ امام شافعی نے مرسل کوبھی بعض کڑی شرائط کے ساتھ قبول کیاہے، مثلاً یہ کہ مرسل کبارتابعین کی ہو، اس مرسل کی کسی اورمتصل روایت سے تائیدہوتی ہویاقول صحابی اس کے مطابق ہووغیرہ ۔
اسوۂ متواترہ مکشوفہ و مروجہ کا سب سے بڑااظہارامام مالک کے نزدیک عمل اہل مدینہ ہے، لیکن یہ تاریخی حقیقت ہے کہ خلافت راشدہ اور خصوصا حضرت عمربن الخطابؓ کے بعداجلۂ صحابہ کی بڑی تعدادجہاد،نشرعلم اوردعوتی مقاصدکے تحت مختلف بلادوامصادمیں پھیل گئی تھی اورمدینہ کاعلمی اختصاص بڑی حدتک ختم ہوگیاتھااوراس حقیقت کوخودامام مالک بھی تسلیم کرتے تھے۔ جبھی توانہوں نے خلیفہ منصورکواس بات سے روک دیاتھاکہ مؤطاکوپورے عالم اسلام کا دستورالعمل بنادیاجائے ۔انہوں نے خلیفہ کوخودیہی دلیل دی تھی کہ صحابہؓ کے علم کے حامل مختلف بلادمیں پھیل گئے ہیں اور وہاں لوگ ان کے فتووں پر عمل کر رہے ہیں، اگر ان کوایک ہی مدرسۂ فکرکا تابع بنادیاجائے گاتوبڑی مشکل پیدا ہو جائے گی۔اسی دلیل کوآگے بڑھاتے ہوئے امام شافعی نے جواستدلال کیا اس کا مفادیہ ہے کہ سنت قولی جومتعدداہل علم صحابہ جیسے ابوہریرہؓ، عائشہؓ اور ابو سعید خدریؓ سے مروی ہے، اس کوعمل اہل مدینہ پرترجیج ہوگی ۔الرسالہ میں شافعی نے اصولی طورپر یہ ثابت کردیاکہ قولی حدیثوں سے مروجہ سنت (مدینہ میں)کی تصحیح وتنقیدکاکام لیاجائے گا۔ الرسالہ جو اصول حدیث، فقہ اوراسلام کی مذہبی تاریخ پر اولین تصنیف ہے، اس نے آنے والے دنوں میں فکراسلامی پرگہرے اثرات مرتب کیے۔
ہمارے زمانہ میں کچھ لوگ بڑی شدت سے تقلیدکے خلاف آواز بلندکررہے ہیں حالانکہ جس تقلیدجامدکی مخالفت کا ان کودعویٰ ہے، اس کا رستہ توخودائمہ متبوعین نے خودہی بندکردیاہے۔ چنانچہ ہرامام تقلیدجامدکے بالکل خلاف تھا اورسبھی حریت فکر کے قائل تھے۔ امام شافعی کا بھی اس کلیہ سے کوئی استثنا نہیں۔ جس طرح انہوں نے دلائل کے ساتھ اپنے اساتذہ اورمعاصرین سے اختلاف فرمایا، اپنے شاگردوں کوبھی اسی کی تربیت دی کہ وہ ان کی جامدتقلیدنہ کریں، چنانچہ شافعی نے فرمایا: اذا صح الحدیث فہو مذھبی واضربوا بقولی عرض الحائط ( جب صحیح حدیث مل جائے تووہی میرا مذہب ہے اوراس کے ہوتے ہوئے میرے قول کودیوارپر ماردینا)۔ تمام ائمہ سے اسی طرح کے اقوال منقول ہیں اورامام ابوحنیفہ کے اسکول کا تویہ امتیاز ہے کہ انہوں نے اپنے تلامذہ کو زبردست حریت فکری عطاکی تھی۔ اسی وجہ سے کہاگہاہے کہ ان کے ارشدتلامذہ نے امام ابوحنیفہ کی دو تہائی آرا سے اختلاف کیاہے۔ (۲۰) یہی آزادئ رائے امام شافعی کے ہاں بھی بدرجۂ اتم موجودہے۔چنانچہ ان کے ہاں یہ ہے کہ اگرشافعی کے قول کے خلاف کوئی حدیث مل جاتی ہے اوران کے قول کوچھوڑکرحدیث کو اختیارکرلیاجاتاہے تویہ مذہب سے خروج شمارنہیں ہوتا۔ بس شرط یہ ہے کہ جولوگ مذہبِ امام سے باہرجائیں، وہ رتبۂ اجتہادکوپہنچ گئے ہوں ۔ (۲۱)چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مذہب شافعی میں تخریجات کرنے والے علما ء دوطرح کے تھے ۔وہ مخرّج جواصول شافعی سے باہرنہیں نکلتے جیسے شیخ ابو حامداورقفال۔ دوسرے وہ مخرّج جومذہب شافعی سے اصول وفروع دونوں میں باہرچلے جاتے ہیں، اس لیے کہ وہ خود اجتہاد مطلق کے درجہ پر فائز ہیں۔ مثال کے طورمحمدّون (محمدنام کے علماء )جن سے مرادہیں: محمدبن نصر،محمدبن جریرطبری، محمدبن خزیمہ اورمحمدبن المنذر، لیکن چونکہ انہوں نے کسی الگ فقہی مکتب فکرکی بنیادنہیں ڈالی اورشافعی ہی رہے، اس لیے ان کوبھی شافعی مذہب کے اندرہی شمار کیا جاتا ہے۔البتہ بعض کی رائے میں ان کے تفردات کوشافعی مسلک سے باہرسمجھاجائے گا۔(۲۲)
اسی طرح اسلامی فکرمیں قرآن ،سنت ،اجماع اورقیاس کے اصول اربعہ کوبھی امام شافعی نے الرسالہ میں مضبوط استدلالی بنیادوں پر قائم کردیاہے ۔تاہم ان کی تحریروں سے یہ مترشح ہوتاہے کہ اجماع سے مرادان کی صحابہ کااجماع ہے اوراس کے بعدکااجماع ان کے نزدیک ثابت نہیں۔اس کی توضیح یہ ہے کہ اگر صحابہ کسی امرپر متفق ہوں تووہ تمام فقہاء کے نزدیک اجماع ہے اوراس پر عمل واجب۔ اس میں فقہاء اوراہل الحدیث کسی کا کوئی اختلاف نہیں۔اس کے بعد اگراہل مدینہ کا کسی امرپر اجماع ہے تواس کوامام مالک ایک دلیل شرعی مانتے ہیں اوراس کی مخالف صحیح حدیث کوردکردیتے ہیں کہ ان کے نزدیک عمل اہل مدینہ کے خلاف ہوناحدیث میں قادح ہے۔امام شافعی کے زمانہ میں صورت حال یہ تھی کہ ہرفریق اپنی رائے پر اجماع کا دعویٰ کررہاتھا۔ایسے میں شافعی نے اصولی طورپر اجماع کوشرعی حجت تسلیم کیا۔کتاب وسنت میں اس کی بنیاددریافت کی ،اس کے مبادی منضبط کیے ۔تاہم عملی سطح پر انہوں نے یہ بھی کہاکہ ہرمسئلہ پر اجماع کا دعویٰ کرناغلط ہے، کیونکہ ہمارے پاس اجماع کے عملاً وقوع کی کوئی دلیل نہیں ۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ اجماع کامرتبہ کتاب وسنت کے بعد ہوگا اور وہ ان کے تابع ہوگا۔ اس معاملہ میں فریق مخالف کی انہوں نے شدت سے مخالفت کرتے ہوئے یہاں تک کہ دیاکہ: دعوی الاجماع خلاف الاجماع (اجماع کا دعوی کرنا خود اجماع کے خلاف ہے )اورآگے اس کوجواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ : اجماع کے عیب کے لیے تویہی کافی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدلوگوں کی زبانوں پر تمہارے اس زمانہ کے علاوہ کبھی اس کا نام نہیں آیا۔(۲۳) یوں شافعی بعض اجماع کے قائل ہیں، من کل الوجوہ اس کا انکارنہیں کرتے۔
اجماع کے علاوہ رائے ،قیاس (یااجتہاد) کوانہوں نے منضبط کیاہے مگراستحسان پر تنقیدکی ہے جس کا اعتبارمالکیہ وحنفیہ دونوں کے ہاں ہوتاہے۔کتاب الام میں اس کے ردمیں انہوں نے جوکچھ لکھاہے اس کاخلاصہ یوں کیا جا سکتا ہے کہ چونکہ قیاس یارائے (اجتہاد)ایک اصولی فریم ورک کے اندر operate کرتاہے، اس لیے وہ درست ہے، جبکہ استحسان کوکسی کلیہ کے تحت لانا دشوار ہوتا ہے، اس لیے استحسان کودلیل شرعی نہیں سمجھا جائے گا ۔ چنانچہ اس بارے میں انہوں نے اپنے استادامام محمدسے اختلاف کیاہے جس طرح عمل اہل مدینہ کے سلسلہ میں انہوں نے اپنے دوسرے استادو شیخ مالک سے بھی اختلاف کیاتھا۔تاہم قیاس کوشافعی اجماع کی نگرانی میں دینے کے حامی ہیں۔ظاہرہے کہ اس کا مطلب ہے کہ نئی تعبیری اورفکری کوششوں کوفکراسلامی کے محورکے گردرکھاجائے ۔
واضح رہے کہ شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ نے اس خیال کا اظہارکیاہے کہ مذاہب اربعہ بنیادی طوردومذاہب یعنی فقہ شافعی اورحنفی کے اندرضم ہو جاتے ہیں اورانہوں نے التفہیمات الالٰہیہ میں کہاہے کہ میراطریقہ جہاں تک ممکن ہے ان دونوں مذاہب کے درمیان جمع وتطبیق کرناہے ۔فرماتے ہیں:
 ونحن ناخذ من الفروع مااتفق علیہ العلماء ولاسیما ھاتان الفرقتان العظیمتان الحنفیۃ والشافعیۃ وخصوصاً في الطہارۃ والصلاۃ فأن لم یتیسر الاتفاق واختلفوا فنا خذ بمایشہد لہ ظاہرالحدیث ومعروفہ ونحن لانزدری احداً من العلماء فالکل طالب الحق ولا نعقدالعصمۃ في احدغیر النبیی صلی اللہ علیہ وسلم(۲۴)
’’ فروع میں ہم علما کے متفق علیہ مسئلہ کو لیتے ہیں خاص کر حنفی و شافعی مسلک کے اتفاق کو کہ یہ عظیم فرقے ہیں اور وہ بھی طہارت و نماز کے سلسلہ میں خصوصاً۔اگر اتفاق نہ حاصل ہو اور علما مختلف ہوں تو پھر جس مسئلہ کی تائید ظاہر حدیث سے ہوتی ہے، ہم اسے اختیار کرتے ہیں ۔ ہم علما میں سے کسی کی بھی اہانت نہیں کرتے کہ سبھی حق کے طالب ہیں، البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اور کسی کے لیے عصمت کا اعتقاد نہیں رکھتے۔‘‘
امام شافعی پر نئے نئے مطالعات جاری ہیں۔ مثال کے طورپرڈاکٹرطٰہٰ جابرعلوانی نے اس کا اظہارکیاہے کہ امام شافعی کے نزدیک ’’نص شرعی ‘‘صرف اورصرف قرآن کوکہاجاسکتاہے ۔اس میں کوئی اورچیز اس کی شریک نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے الام کے بہت سے اقتباسات اورفقرے نقل کرکے اس تحقیق کوپیش کیاہے ۔البتہ یہ وضاحت کردی ہے کہ صحیح اورثابت سنت بہرحال اس کی شرح وتفسیرہے۔(۲۵) 
امام شافعی کا ظہورعصرعباسی کے دوسرے مرحلہ میں ہوا جب مختلف اسلامی علوم وفنون کی تدوین زوروشورسے ہورہی تھی۔ علم کلام اورمتکلمین میدان میں تھے۔ یونانی، سنسکرت ،فارسی اوردوسری زبانوں سے عربی میں ترجمہ کی تحریک برگ وبارلارہی تھی۔ مسلمانوں میں بھی طرح طرح کے فقہی ،کلامی اورشیعہ فرقے وجودپذیرتھے۔فقہ حنفی ومالکی کی نشوونماہورہی تھی ۔اس عہدمیں انہوں نے آنکھ کھولی اوراپنے عہدکے ان سبھی حالات ،وقائع اورچیلنجوں سے واقفیت حاصل کی۔ امام صاحب قوی الحجت، زبان آور، فصیح وبلیغ ، اور استدلالی اندازومنطقی اسلوب تکلم کے مالک تھے۔چنانچہ اپنی کتابوں الرسالہ اورالام وغیرہ میں انہوں نے جومقدمات قائم کیے ،اورجس انداز میں فقہ ،فقہ حدیث اوراصول فقہ کے سلسلہ میں اپنے استدلالات کی بنیادرکھی اورجونتائج نکالے، ان سے ایک زمانے نے اتفاق کیا۔امام مالک نے مؤطاکے ذریعہ حدیث ،اقوالِ صحابہؓ اورعلماء مدینہ کی رایوں (عمل اہل مدینہ )اوراپنے فتاویٰ کوجمع کر دیا تھا۔ شافعی مؤطا سے بہت متاثرتھے اورسب سے پہلے اس کوانہوں نے ہی اصح کتاب بعدکتاب اللہ کا معزز نام دیاتھا۔ امام اعظم ابوحنیفہ ؒ نئے نئے مسائل کے حل کے سلسلہ میں اجتماعی اجتہاد، بحث ومناقشہ کے بعد مسائل کے استنباط واستخراج کی عظیم نظیرقائم کرچکے تھے ۔ان دونوں اماموں کے بعدان دونوں کے علمی فکری اورفقہی سرمایہ سے کام لے کرامام شافعی نے اصول فقہ کی تدوین کی اورادلۂ شرعیہ سے اخذ واستنباط کا ایک واضح منہاج قائم کردیاجس کے لیے قیامت تک امت ان کے زیر بار احسان رہے گی ۔ 

مراجع وحواشی

(۱) مولاناسیدابوالحسن علی ندوی تاریخ دعوت وعزیمت ،حصہ اول ،مجلس تحقیقات ونشریات اسلام لکھنؤ 1992، صفحہ 18
(۲) الامام محمدابوزہرہ ، الشافعی حیاتہ وعصرہ فقہہ وآراۂ طبع ثانی دارالفکرالعربی 1978، ص 47)
(۳) اہل الرائے اوراہل الحدیث محض تغلیباہے۔رائے سے مرادہے کہ قرآن وحدیث میں اگرکسی مسئلہ میں صریح حکم نہیں مل رہاہے تو اجتہادکیاجائے ،جیساکہ فقہاء عراق کرتے تھے ،مگرایسی صورت حال میں فقہاء حجاز اجتہادکارحجان کم رکھتے تھے ۔تاہم ایسانہیں ہے کہ مدرسۃ اہل الرائے یعنی مدرسۂ کوفہ حدیث کوچھوڑکررائے پرعمل کرتاتھا اورنہ ہی یہ مطلب ہے کہ مدرسۃ اہل الحدیث (مدینۃ ) میں رائے اورتفقہ سے کام ہی نہیں لیا جا تا تھا۔فرق صرف کم وبیش کا ہے اوران دونوں ہی رجحانوں کی دلیل اسوۂ نبوی میں ملتی ہے ۔اس کے معنی یہ ہیں کہ اہل الرائے اوراہل الحدیث کا استعمال تغلیباہوتاہے اوردومختلف مناہج فکرکوبتانے کے لیے ہوتاہے ۔ اور یہاں اہل الحدیث سے مرادہمارے زمانہ کافرقہ اہل حدیث توہرگز مرادنہیں ہے ،جس پر ظاہریت کی چھاپ اورآج کل ائمہ فقہ اورخاص کرفقہ حنفی سے عداوت کا غلبہ ہے ۔
(۴) الامام محمدابوزہرہ ، الشافعی حیاتہ وعصرہ فقہہ وآراۂ طبع ثانی دارالفکرالعربی 1978 اوراجتباء ندوی ،تاریخ فکر اسلامی، المرکزالعلمی نئی دہلی 1998)
(۵) حوالۂ سابق ،اور اجتباء ندوی ،تاریخ فکراسلامی ،المرکزالعلمی نئی دہلی 1998)
(۶) مشہور قول کے مطابق بواسیرکے مرض سے بعمر54سال امام شافعی کی وفات ہوئی اورمعجم یاقوت کی روایت کے مطابق کسی فتیان نامی متعصب مالکی سے ان کا مناظرہ ہوا جس میں شافعی نے اس کولاجواب کردیا۔اس نے امام صاحب سے بدسلوکی کی ،جس کی شکایت کسی نے والئ مصرسے کردی ،جس پراس نے فتیان کوسزادلوائی ۔ جذبۂ انتقام میں اس کے ساتھی امام صاحب کے حلقہ میں پہنچ گئے اورجب آپ کے سب تلامذہ اوراصحاب چلے گئے توآپ پرحملہ کردیا۔ان کے زدوکوب کرنے سے آپ زخمی ہوگئے جن کی تاب نہ لاکرچنددن بعدانتقال فرماگئے ۔ الامام محمدابوزہرہ ، الشافعی (32)
(۷) ایضا (211)
(۸) ایضا (211)
(۹) ایضا (210) 
(۱۰) ایضا (214)
(۱۱) (202)
۱۲۔ (379)
۱۳۔ (218)
۱۴۔ (220)
۱۵۔ (219)
۱۶۔ (دیکھیں ابوزہرہ : الامام الشافعی : صفحہ 219)
۱۷۔ (222)
۱۸۔ (208)
۱۹۔ (232)
۲۰۔ امام محمدؒ امام ابوحنیفہ ؒ کے شاگردہیں اورفقہ حنفی کے اساطین میں سے ہیں مگراپنے استاذ سے نہ صرف فروع میں بلکہ اصول میں بھی سینکڑوں مسائل میں اختلاف کیا۔ سبکیؒ نے ان کے بارے میں لکھاہے : فانہمایخالفان اصول صاحبہما،طبقات الشافعیہ1/243امام الحرمین الجوینیؒ کہتے ہیں کہ ان دونوں نے مسلک حنفی کے 2/3حصہ میں امام ابوحنیفہ سے اختلاف کیا اور امام شافعی کا قول اختیارکیاہے۔ ملاحظہ ہو: صلاح الدین مقبول احمد، زوابع فی وجہ السنۃ قدیماوحدیثا،مجمع البحوث الاسلامیہ ،الطبعۃ الاولی 1411ھ1991جوگابائی 1/8نئی دہلی ۵۲۰۰۱۱صفحہ ۴۲۲
۲۱۔ (دیکھیں ابوزہرہ : الامام الشافعی،383)
۲۲۔ (صفحہ 382) 
۲۳۔ (87) 
۲۴۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ، (تفہیمات ۲؍ ۲۴۲ اکادمیۃ الشاہ ولی اللہ دہلوی باکستان
۲۵۔ ملاحظہ ہوکتاب :مفاہیم محوریہ فی المنہح والمنھجیہ دوسراباب مفہوم النص دارالسلام ،القاہرہ ،الطبعۃ الاولی، 2009)

مسلم نشاۃ ثانیہ: اصلاحِ مفاہیم

احمد جاوید

۱۔ اس بات کا شعور بہت ضروری ہے کہ نشاۃ الثانیہ کی اصطلاح مسلمانوں کے لیے وہ معانی نہیں رکھتی جو یورپ کی تحریک نشاۃ الثانیہ کی بنیاد بنا تھا۔ مغرب میں نشاۃ الثانیہ کے تمام نتائج دین کے مخالف رخ پر نکلے اور اس تحریک میں ایک رَو اسلام دشمنی کی بھی تھی۔ ایک تہذیبی تناظر میں یورپ نشاۃ الثانیہ میں اسلام دشمنی کے کسی عنصر کی موجودگی ہمارے لیے کوئی بڑا انتباہ نہیں ہے، بشرطیکہ وہ تحریک عیسائیت کے کسی مذہبی تصور کے دفاع اور اس کی تشکیل و تجدید کے لیے اٹھتی، لیکن ایسا کچھ نہیں تھا۔ اس تحریک نے عیسائیت کے مذہبی جوہر کو منہا کر کے یونانی انداز تعقل کو نئے سرے سے اختیار کیا اور اس فلسفیانہ عقل پرستی کو مذہبی مابعد الطبیعی مباحث اور حقائق کی شناخت کا واحد مستند ذریعہ قرار دے دیا۔ اس کا جو نتیجہ نکلنا تھا وہ نکلا اور اس تحریک کو جس مقصد کاحصول درکار تھا، وہ مقصد بھی حاصل ہوگیا یعنی دین اور دنیا کی جدائی۔ جدید مغرب اسی تحریک کے شجر کا پھل ہے۔ مسلم نشاۃ الثانیہ، ظاہر ہے کہ ان محرکات اور نتائج کو کسی ادنیٰ درجے میں بھی قبول نہیں کر سکتی۔
۲۔ رہا یہ سوال کہ مسلم نشاۃ الثانیہ کے تصور کا حقیقی سیاق و سباق کیا ہے تو اس معاملے میں ہمیں بہت احتیاط اور تفکر کے ساتھ اپنے وسائل اور مقاصد متعین کرنے پڑیں گے۔ سردست یہ ایک سیاسی تصور بن گیا ہے اور اس میں رومانویت کی آمیزش زیادہ ہے۔ نشاۃ الثانیہ کا مروجہ تصور، جس سے ہم بہت زیادہ مانوس ہو چکے ہیں، یہ ہے کہ ملت اسلامیہ اقوام عالم پر اپنی بالادستی، نظام زندگی کے ہر شعبے میں نہ صرف یہ کہ ثابت کر دے بلکہ ماضی میں جس طرح یہ حاصل تھی، اسے پھر سے قائم کر کے دکھا دے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ مسلم نشاۃ ثانیہ کا تصور رکھنے والے تمام اذہان اس کی مذکورہ بالا تعبیر تک محدود ہیں، لیکن جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ دیگر تصورات پوری طرح مکمل ہو کر نہ تو بیان ہوئے ہیں اور نہ وسیع پیمانے پر معروف ہو سکے ہیں تو ہمیں اپنا یہ خیال درست محسوس ہونے لگتا ہے کہ اس تصور سے موافقت رکھنے والا ذہن بنیادی طور پر سیاسی ہے۔ مثلاً احیاء خلافت کا تصور یعنی خلافت راشدہ کو اس کی سوچ کے مطابق دوبارہ رو بعمل لانا۔ اس تصور کا اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو اس میں خلافت راشدہ کی ساری حیثیت اور حقیقت سیاسی رنگ لیے ہوئے ہے۔ 
اسی طرح نشاۃ الثانیہ کا ایک دوسرا تصور یہ ہے کہ ہم سائنس، ٹیکنالوجی اور مختلف علوم و فنون میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے زوال کا شکار ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان شعبوں پر ترقی یافتہ اقوام کی طرح دسترس حاصل کریں اور خود کو ان اقوام کی صف میں لانے کی کوشش کریں۔ یہ تصور مذہبی حلقوں سے باہر پایا جاتا ہے اور لوگوں میں اس کی مقبولیت پہلے نظریے کے مقابلے میں زیادہ ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ہماری رائے میں نشاۃ الثانیہ کی یہ دونوں تعبیرات جزوی فائدے اور کلی نقصان پر منتج ہو سکتی ہے۔ 
۳۔ یہ بات نشاۃ الثانیہ کی ترکیب سے ظاہر ہے کہ مسلمان امت تاریخ کے کسی مرحلے پر کمال یافتہ تھی اور اب حالت زوال سے نکل کر اسے وہی کمال دوبارہ مطلوب ہے۔ یہاں تک پوری بات ٹھیک ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر پہلے ہی قدم پر یہ طے کرنا ہوگا کہ اس امت کو جو کمال حاصل تھا، اس کے واقعی اسباب کیا تھے؟ ان اسباب کی بالکل کلینیکل انداز میں تشخیص ہونی چاہیے۔
۴۔ ایک اور ضروری نکتہ یہ ہے کہ عروج زوال کے تاریخی عوامل کیا ہمیں بعض مظاہر عروج کی باز آفرینی کا موقع دیں گے؟ مذہبی ذہن قوانین تاریخ سے مناسبت نہ رکھنے کی وجہ سے اکثر ناگزیر اور بدیہی رکاوٹوں کی طرف سے آنکھ بند کر لیتا ہے۔ اس روش کا ازالہ کیے بغیر نشاۃ الثانیہ محض ایک خواہش کی سطح سے اوپر نہیں اٹھ سکتی۔ 
۵۔ زندگی کے نئے اسالیب خصوصاً انسان کی جدید تہذیبی اور نفسیاتی ساخت کسی عقیدے یا نظریے کی لفظی اور قانونی تعمیم کو قبول نہیں کر سکتی۔ قبول نہ کر سکنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی مستقل عقیدے یا نظریے کی طرف ذہنی میلان ہو بھی جائے تو بھی زندگی کے موجودہ اسالیب و اطوار اس عقیدے کو ذہن سے نکال کر اپنے اندر سرایت کرجانے کا راستہ نہیں دیں گے۔ اس صورت حال میں نشاۃ الثانیہ کے کسی بھی تصور کو عملی صورت دینے کی کوشش کرتے وقت اس عالمگیر مجبوری کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، یعنی اس فکر کے حاملین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مزاحمت یا عدم قبولیت کا پیشگی ازالہ کرنے کی کوئی واضح صورت نکالیں، ورنہ دیگر تصورات کی طرح یہ تصور بھی اپنے اطلاق کے امکان کو مستقلاً گنوا بیٹھے گا۔
۶۔ مسلمانوں میں نشاۃ الثانیہ کا حقیقی مقصود یہ ہے کہ آدمی اپنی بنیادوں کی طرف واپس لوٹے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ترقی و خوشحالی کا کوئی گزشتہ دور واپس آجائے۔ بالفاظ دیگر مسلمانوں میں نشاۃ الثانیہ کا ہر وہ تصور بے معنی ہے جس کا مقصود مسلم ماڈل کی نئی تشکیل کے علاوہ کوئی بات ہو، یعنی ہماری اصل ضرورت عمرؓ ہیں نہ کہ ان کا دور حکومت۔ 
۷۔ خود مغربی نشاۃ الثانیہ کی تحریک آدمی کی تبدیلی کی تحریک تھی جو بڑی حد تک کامیاب ہوگئی۔ وہ لوگ جانتے تھے کہ انسان میں تبدیلی لائے بغیر حالات کو نہیں بدلا جا سکتا۔ ہمارا سادہ لوح دماغ اس وہم میں مبتلا ہے کہ حالات کو انتظامی، سیاسی یا معاشی طور پر بدل کر یعنی خلافت راشدہ جیسا نظام حکومت لا کر آدمی خود بخود بدل جائے گا جب کہ بات اس کے برعکس ہے۔ آدمی بدلے گا تو حالات بدلیں گے۔ یہ بات ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مجموعی اسوۂ مبارکہ کو پیش نظر رکھ کر کہہ رہے ہیں اور اس کے علاوہ انسانوں میں تجدید و احیاء وغیرہ کی جتنی کامیاب تحریکیں چلی ہیں، ان کے طریق کار سے بھی اس کے علاوہ کچھ بھی ثابت نہیں ہوتا۔ 
۸۔ جدید مسلم ذہن تاریخ کا کوئی واضح تصور نہیں رکھتا۔ اس کے علاوہ یا اس کی وجہ سے ہم حیات انسانی کے مکینیکل مظاہر (یعنی وہ چیزیں جو زندگی میں خود بخود دَر آتی ہیں) پر بھی کوئی موقف نہیں رکھتے۔ تہذیب، علم، دنیا، عروج و زوال، نفسیات وغیرہ کے بارے میں ہم اگر کچھ کچے پکے تصورات رکھتے بھی ہیں تو انہیں اپنی اساس ہستی اور اپنے مقاصد حیات سے کسی بلند سطح پر ہم آہنگ نہیں کر پاتے یا اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔ اس کمی کے ہمیں کم از کم دو بڑے نقصانات اٹھانے پڑے۔ ایک تو یہ کہ ہمارا تصور دین سطحی اور یک رُخا ہو کر رہ گیا۔ دوسرے یہ کہ ہم کوئی ایسا تصور انسان قائم اور پیش کرنے کے قابل نہیں رہے جو انسان کو موضوع بنانے والے کسی بھی علم کے مقابلے میں رکھا جا سکے۔ مثال کے طور پر جدید فلسفۂ قانون پڑھ لیں تو ہمارا موجودہ فقہی ذہن اور اس کا تخلیق کردہ لٹریچر بچوں کا کھیل معلوم ہوتا ہے۔ اسی طرح علم بشریات، نفسیات اور بیشتر سماجی علوم انسان کی واقعی حقیقت کی جن گہرائیوں تک عملاً پہنچ چکے ہیں، وہ ہمارے لیے یکسر نا معلوم اور اجنبی ہیں، حالانکہ ان گہرائیوں کی دریافت ہمارا کام ہونا چاہیے تھا تاکہ ہم انسان تک دین کی رسائی کا بڑا دائرہ بنا سکتے۔ ایسے پس ماندہ ذہن میں بننے والے تصورات فطری طور پر تصور کی حیثیت سے بھی ناقص ہوتے ہیں اور علمی جہت سے بھی ناممکن العمل ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نشاۃ الثانیہ کا تخیل بھی ذرا سے غور کے بعد خواب کی طرح معلوم ہوتا ہے جس سے تھوڑی دیر کو سکون تو مل جاتا ہے، لیکن اس کی طرف عملی پیش رفت خود اس خواب میں رہنے والے کے لیے ناممکن ہوتی ہے۔ 
۹۔ ہماری رائے میں نشاۃ الثانیہ کا کوئی تصور اس وقت تک مسلمانوں کے لیے بامعنی نہیں ہے جب تک اس کے اندر مندرجہ ذیل امور کا ادراک نہ پایا جائے:
  • عقیدے اور تاریخ کا تعلق
  • انسان میں تبدیلی کی صلاحیت
  • انسان کا وہ مرکز جو کسی بات کو قبول کر کے اسے تمام سطحوں پر محفوظ کر لیتا ہے اور حالات کی تبدیلی سے متاثر نہیں ہوتا
  • تہذیب کے اصول تشکیل اور ان کا دین سے تعلق
  • بنی نوع انسان میں انفرادیت اور اجتماعیت کا نقطۂ اشتراک
  • فضائل انسانی اور ان کی Manifestation کا تنوع
  • انسانی زندگی اور قانون
  • انسان کی مستقل اور عارضی ضروریات
  • تقدیر اور تاریخ
  • تقدیر اور انسانی اختیار کے حدود
  • انسانی اختیار اور تاریخ کا قانون جبر و تغیر
  • انسانوں کے اجتماعی نظام کی معنویت
  • نظام زندگی: استقلال اور لچک
  • نفس انسانی: استعداد اور محرکات
  • دین کا مقصد اصلی
۱۰۔ مندرجہ بالا امور پر ایسا دینی موقف اختیار کرنا جو مبنی بر واقعیت ہو، اس کے لیے ضروری ہے کہ ان مباحث کی طرف علمی سفر سے آغاز کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ اس علم کو ایک نظام تربیت بنایا جائے۔ اس کے بعد کہیں جا کر نشاۃ الثانیہ کا عمل خارج میں اظہار پذیر ہونا شروع ہوگا۔ لہٰذا پہلی ضرورت یہ ہے کہ ہمارا نظام تعلیم پوری طرح بدلا جائے اور تعلیم کے مقاصد کو دنیا سے منقطع کیے بغیر دین کے تابع رکھا جائے۔ 
۱۱۔ موجودہ دور چھوڑی بڑی تمام چیزوں کو ایک نظریاتی کل اور نامیاتی وحدت میں اس طرح ڈھالنا چاہتا ہے کہ ایک ہی تعریف (Definition) سب پر صادق آسکے۔ اقوام متحدہ کے زیادہ تر منصوبے مثلاً گلوبلائزیشن وغیرہ دراصل اسی ہمہ گیر تقاضے کے مظاہر ہیں۔ اس کے علاوہ مغربی استعمار کی طرف سے دیگر اقوام کو اپنے تابع کرنے کی جو نہایت باضابطہ کوششیں کی جا رہی ہیں، وہ محض اس لیے نہیں ہیں کہ ان کے چند سیاسی یا معاشی مفادات کا حصول ممکن ہو جائے، بلکہ اس کے پیچھے ایک نظریہ کار فرما ہے۔ وہ نظریہ یہ ہے کہ انسان اور اس کے تمام متعلقات یعنی علم، تہذیب وغیرہ کو ایک ہی اصل پر مبنی اور ایک ہی مقصود سے وابستہ ہونا چاہیے۔ اس میں پہلی ضرورت یہ ہے کہ جو ترقی یافتہ اقوام اس اصل اور مقصود کا ادراک رکھتی ہیں یا انہیں وضع کر چکی ہیں، وہ پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ قوموں کو اپنے برابر لانے کی بجائے اپنے بنائے ہوئے دائرے میں رکھنا چاہتی ہیں اور اس کے لیے ان کی ہر نظریاتی اور تہذیبی تحدید کو توڑنے کے درپے ہو چکی ہیں۔ کیونکہ ان کی نظر میں قوموں کی سطح پر نظریاتی اور تمدنی انفرادیت کا اظہار اور اس پر اصرار بنی نوع انسان کی ہم اصلی اور ہم مقصدی کے اس تصور کو عمل میں نہیں لانے دے گا جو ان طاقتور اقوام کے پیش نظر ہے۔ عالم اسلام میں اس خطرے کا احساس اور ادراک بالکل مفقود تو نہیں ہے لیکن جس سطح پر ہے، وہ قطعی غیر موثر ہے اور زندگی کی کسی نظریاتی تشکیل میں کوئی با معنی کردار ادا کرنے کے قابل نہیں ہے۔ ہمارا بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے نظریۂ زندگی اور زندگی میں مطابقت کا ہر پہلو غیر موجود ہے۔ ظاہر ہے کہ انسان نظریے یا عقیدے اور زندگی کی پوری عدم مطابقت کو زیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھ سکتا۔ اسے ان دو غیر متعلق امور میں سے ایک کو لازماً چھوڑنا پڑتا ہے۔ ابھی وہ صورت حال تو نہیں آئی کہ ہم ترک و قبول کے عمل میں ایک حتمی مقام پر پہنچ گئے ہوں، تاہم ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کا رخ جس طرف ہو چکا ہے، اس کے پیش نظر یہ بات بہت بعید از قیاس نہیں ہے کہ ہم محض زندہ رہنے پر قانع ہو جائیں اور زندگی کے بارے میں تصورات کو فراموش کر دیں۔ موجودہ حالات میں ایسا ہو جانا تقریباً یقینی دکھائی دیتا ہے اور تاریخ و انسان کے مطالعے کا کوئی طریقہ ہمارے اس خوف کو زائل نہیں کرتا کہ مستقبل میں ہم دنیا کو اپنا علانیہ مقصود بنا کر دین کو ایک غیر ضروری رکاوٹ قرار دے کر اسے عین اس طرح نظر انداز کر بیٹھیں جس طرح جدید مغرب نے عیسائیت کو کر رکھا ہے۔ اس رویے میں دین کی اتنی بھی وقعت نہیں پائی جاتی کہ اس کا انکار کرنے کا تکلف پالا جائے بلکہ اتنا ہی کافی ہے کہ اسے فرد کا ذاتی مسئلہ قرار دے کر زندگی کے مرکزی دھارے سے الگ کر دیا جائے۔ 
فی زماننا جدید مسلم ذہن اسی روش پر چلنے پر راضی نظر آتا ہے کہ دین ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے اور اسے کاروبار زندگی میں مخل نہیں ہونے دینا چاہیے۔ مشکل یہ ہے کہ ہماری مذہبی فکر اس بات کا ایک تحکمانہ قانونی اور سیاسی جواب دے کر مطمئن ہو جاتی ہے اور یہ نہیں دیکھتی کہ جس ذہن میں ایسا خیال آسکتا ہے، وہ بھلا فتوے یا خطاب کو قبول کرے گا؟ احیائے امت کی کسی بھی کوشش میں ابتدائی طور پر ہی اس روز افزوں ذہنیت کامکمل تجزیہ کر کے اسے ایک گمراہی کی بجائے ایک مرض کے طور پر دیکھنا ہوگا اور اس کے ازالے کا طریق کار بھی مناظرے کی جگہ معالجے پر مبنی رکھنا ہوگا۔ یہاں معالجے کا مطلب وعظ و نصیحت نہیں ہے بلکہ کسی خرابی کے بنیادی اسباب کی تشخیص کے بعد ان اسباب کا ایسا ازالہ کرنا ہے کہ ان کی دوبارہ پیدائش کا احتمال نہ رہے اور ان کی کشش انسانوں کے اندر سے ختم ہو جائے۔ انسان کا خاصہ یہ ہے کہ اس کی عمومی زندگی کے تقریباً تمام اہداف حق و باطل اور صحیح و غلط کے معیارات پر اتنے استوار نہیں ہوتے جتنے کہ پسند و ناپسند پر ہوتے ہیں۔ زندگی انسان کی جس استعداد یا سطح سے فوری اور فطری مناسبت رکھتی ہے، وہ ذہن نہیں ہے بلکہ طبیعت ہے۔ یہ قانون مسلمانوں کے لیے بدل نہیں جاتا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ مسلمات کی قبیل میں رکھ کر اس کی اپنے نظریات کے مطابق تراش خراش کی جائے یعنی مسلم نشاۃ الثانیہ اگر ایک سلسلہ عمل ہے تو اس سلسلے کی ابتدائی کڑیوں میں سے ایک کڑی یہ ہے کہ زندگی اور طبیعت کا جبری تلازم پورے انسان اور پوری زندگی پر حاوی نہ آجائے یعنی مسلمان اپنے منہاج حیات میں طبیعت تک محدود نہ ہو کر رہ جائے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ طبیعت کو نظر انداز کر کے آدمی کے اندر ذہنی یا اخلاقی مقاصد سے مستقلاً وابستہ رہنے کی قوت باقی نہیں رہتی، چونکہ طبیعت منہا ہو جائے تو بڑی سے بڑی چیز بھی اپنی کشش کھو بیٹھتی ہے اور محض اس کی بڑائی کا ادراک انسان کو اس کے ساتھ جوڑے نہیں رکھ سکتا۔ ہماری اولین ذمہ داری یہ ہونی چاہیے کہ ہم اپنے عقیدے کے عملی اور اطلاقی مظاہر کو انسانی نفس اور طبیعت کے لیے ہی قابل قبول بنا دیں تاکہ حق کے ساتھ ہماری وابستگی کی قوت میں ضعف نہ پیدا ہو جائے۔ 
اس انتہائی بنیادی ضرورت سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ مندرجہ ذیل امور کو خوب غور و فکر کے ساتھ پیش نظر رکھا جائے:
  • دین کی دنیاوی افادیت بھی ثابت کی جائے، علمی سطح پر بھی اور عملی سطح پر بھی۔ 
  • قرآن و سنت سے بلا تاویل مستنبط ہونے والے تصور انسان کو انسان فہمی کے مروجہ معیارات پر حقیقی بنا کر دکھایا جائے اور انسانیت کے اس ٹائپ کو معاشرے میں مدار فضیلت بنایا جائے۔
  • وہ علوم جو کائنات اور انسان کی حقیقت سے بحث کرتے ہیں، انہیں دین کی ثابت شدہ غایات اور مقاصد کے اس طرح تابع رکھا جائے کہ ان علوم کے اپنے اپنے معیارات پر کوئی ضرب نہ لگے۔ مثال کے طور پر نفسیات وغیرہ میں ان تحقیقات کی کوئی حیثیت نہیں جو اس علم کے مسلمہ معیار سے کمتر ہیں۔ ہمارے دور میں اسلامائزیشن آف نالج کی کوششیں اسی لیے دین کی سبکی کا سبب بنی ہیں کہ انہوں نے تمام علوم پر اناڑیوں کی طرح دست اندازی کی ہے۔ انسان کی دنیاوی فلاح کے لیے قائم کیا جانے والا ہر نظام واضح طور پر دینی اساس پر مبنی ہونا چاہیے اور وہ اساس محض قانون کے دائرے تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔ 
  • مسلم نشاۃ الثانیہ کا تصور جن اغراض سے پھوٹا ہے، ان میں ایک کڑی غرض مسلمانوں کے مفوضہ کائناتی کردار کی باز آفرینی ہے یعنی ہم ساری دنیا کے لیے داعی الی الحق بنیں۔ اس دعوت کی داخلی بناوٹ علمی سے زیادہ عملی اور نظریاتی سے زیادہ معاشرتی ہونی چاہیے۔ دین کو معاشرت میں منتقل کیے بغیر نشاۃ الثانیہ کا ہر تصور مہمل ہے۔ 
۱۲۔ احیائے امت کی کسی بھی تحریک کا انحصار اسی آزمودہ منہج پر ہونا چاہیے جس پر اس کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اس منہج کے دو پہلو ہیں، علمی اور عملی۔ علمی منہج جس کی بنیاد عقیدہ ہے، اس کے ضروری اجزا یہ ہیں:
  • تقویم امت کے حقیقی اصول کی معرفت
  • اس سوال کا جواب کہ امت کیا ہے اور مسلمانوں کی مختلف تہذیبی اور قومی وحدتیں امت کی وحدت میں ضم ہوتی ہیں یا ہو سکتی ہیں۔
  • اسلام اور مسلمانوں کے موجودہ حالات کی درست تشخیص اور ان کے محرکات
  • اسلام اور اہل اسلام کو درپیش مخالفتوں، مزاحمتوں اور مجبوریوں کی شناخت اور ان کا تجزیہ۔ اس تجزیے کے نتائج کو عروج و زوال کے تاریخی اور نقص و کمال کے اخلاقی قوانین کے اندر رہتے ہوئے مطلوبہ نتائج کے حصول کی ذہنی اور عملی کوششوں کی بنیاد بنانا۔ 
عملی منہج جس کی بنیاد اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع ہے، اس کے بنیادی عناصر یہ ہیں:
  • زندگی کے موجودہ مقاصد اور دین کے مطلوبہ مقاصد کے درمیان پیدا ہو جانے اولے فاصلے کو ختم کرنا
  • دین کی کلچرلائزیشن
  • موجودہ معاشرتی اور دین کے نظام فضائل میں ہم آہنگی پیدا کرنا
  • غربت اور نا انصافی کا ازالہ اور بے تحاشا امارت و غیر محدود ملکیت کا خاتمہ
  • عورتوں میں مظلومیت اور بے حیائی دونوں کا علاج
۱۳۔ یہ تمام مناہج جس علمی قانون اور اخلاقی اصول پر مبنی ہیں، ان کا تقاضا ہے کہ مسلم نشاۃ الثانیہ کے عمل میں فرد اور اجتماع دونوں کی یکساں ذمہ داریاں ہیں جن میں بعض مشترک ہیں اور بعض منفرد۔ علمی ذمہ داریوں کا اکثر حصہ افراد سے تعلق رکھتا ہے، قانونی فرائض بیشتر اجتماعی نوعیت کے ہیں اور اخلاقی ذمہ داریاں دونوں میں مشترک ہیں، یعنی نشاۃ الثانیہ کی تیاری جس درست علم، محکم ارادے اور خالص نیت پر موقوف ہے، انہیں حاصل کرنے کے عمل میں خود کو ڈالے بغیر ہم اپنے مطلوبہ نتائج کی طرف پہلا قدم بھی نہیں اٹھا سکیں گے۔
خلاصہ یہ کہ مسلم نشاۃ الثانیہ صدر اول کے حالات کی بازیابی کا نام نہیں ہے بلکہ اس انسان کے حصول کا نام ہے جسے صدر اول نے ایک مستقل نمونے کے طور پر عملاً تشکیل دیا تھا۔ گویا جب ہم نشاۃ الثانیہ کی آرزو کرتے ہیں تو اس کا واحد مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنے موجود ہونے کی تمام بنیادوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ کر کے انہیں زندگی کے تمام شعبوں میں حالات کی یکسر تبدیلی کے باوجود فنکشنل بنانا چاہتے ہیں۔ نشاۃ الثانیہ کا یہ محرک اتنا جامع اور مانع ہے کہ اس میں کسی چیز کمی کی جا سکتی ہے نہ اضافہ۔

امیر عبد القادر الجزائریؒ کون تھے؟

ادارہ

(امیر عبد القادر الجزائری کی شخصیت اور جدوجہد سے متعلق ’الشریعہ‘ کے رئیس التحریر مولانا زاہد الراشدی، ماہنامہ ’’القاسم‘‘ نوشہرہ کے مدیر مولانا عبد القیوم حقانی اور راقم الحروف کی درج ذیل تحریریں اس سے پہلے ’الشریعہ‘ کے مارچ ۲۰۱۲ء کے شمارے میں شائع ہو چکی ہیں جنھیں اس موضوع پر حالیہ مباحثے کے تناظر میں دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔ مدیر)

لاہور کے معروف اشاعتی ادارے ’’دار الکتاب‘‘ نے اپنی تازہ ترین مطبوعات میں امریکی مصنف جان ڈبلیو کائزر کی کتاب کا اردو ترجمہ ’’امیر عبد القادر الجزائری: سچے جہاد کی ایک داستان‘‘ کے عنوان سے پیش کیا ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی کے دوران مسلم ممالک پر یورپ کے مختلف ممالک کی استعماری یلغار کے خلاف ان مسلم ممالک میں جن لوگوں نے مزاحمت کا پرچم بلند کیا اور ایک عرصہ تک جہاد آزادی کے عنوان سے داد شجاعت دیتے رہے، ان میں الجزائر کے امیر عبد القادر الجزائریؒ کا نام صف اول کے مجاہدین آزادی میں شمار ہوتا ہے جن کی جرات واستقلال، عزیمت واستقامت اور حوصلہ وتدبر کو ان کے دشمنوں نے بھی سراہا اور ان کا نام تاریخ میں ہمیشہ کے لیے ثبت ہو گیا۔
امیر عبد القادر مئی ۱۸۰۷ء میں الجزائر میں، قیطنہ نامی بستی میں ایک عالم دین اور روحانی راہنما الشیخ محی الدینؒ کے ہاں پیدا ہوئے اور اپنے والد محترم سے اور ان کے زیر سایہ دیگر مختلف علماء کرام سے ضروری دینی وعصری تعلیم حاصل کی اور ان کے ساتھ ۱۸۲۵ء میں حج بیت اللہ کی سعادت سے بھی بہرہ ور ہوئے۔ 
یہ وہ دور تھا جب مغرب کے استعماری ممالک ’’انقلاب فرانس‘‘ کی کوکھ سے جنم لینے والی جدید مغربی تہذیب وثقافت کی برتری کے نشے سے سرشار تھے اور سائنسی ترقی سے حاصل ہونے والی عسکری قوت اور ٹیکنالوجی کی صلاحیت نے انھیں پوری دنیا پر حکمرانی کا شوق دلا دیا تھا۔ عالم اسلام کی دو بڑی قوتیں خلافت عثمانیہ اور مغل بادشاہت ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھیں، چنانچہ برطانیہ، فرانس، اٹلی، ہالینڈ، پرتگال اور دوسرے ممالک نے ان دونوں قوتوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے مختلف اطراف میں یلغار کی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ افریقہ اور ایشیا کے ایک بڑے حصے کو نو آبادیات میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ خلافت عثمانیہ اور مغل بادشاہت کا سب سے بڑا المیہ یہ تھا کہ وہ سائنسی ترقی اور دنیا میں ہونے والی تہذیبی ومعاشرتی اور سیاسی تبدیلیوں کا بروقت ادراک نہ کر سکیں اور ان کی یہ غفلت استعماری یلغار کے سامنے عالم اسلام کے ایک بڑے علاقے کے سرنڈر ہونے کے اسباب میں ایک اہم سبب ثابت ہوئی۔
بہرحال جب بہت سے مسلم ممالک نے مختلف یورپی ممالک کی نوآبادیاتی غلامی کا طوق گردنوں میں پہنا تو ہر جگہ حریت پسندوں اور آزادی کے متوالوں نے حالات کے اس جبر کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور بہت دیر تک بغاوت اور سرکشی کا محاذ گرم رکھا۔ الجزائر پر فرانس کے تسلط کا آغاز انیسویں صدی کی تیسری دہائی کے آخر میں ہوا۔ یہ وہ دور تھا جب جنوبی ایشیا میں برطانوی تسلط ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے ہو چکا تھا اور امام ولی اللہ دہلویؒ کے مکتب فکر بلکہ خانوادے سے تعلق رکھنے والے مجاہدین کا ایک گروہ سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کی قیادت میں پشاور کے علاقے میں جہادی سرگرمیوں میں مصروف تھا۔ ان کا وقتی سامنا اگرچہ سکھوں سے تھا، لیکن اپنے عزائم اور اہداف کے حوالے سے وہ برطانوی استعمار کے تسلط کے خلاف جہاد کے لیے بیس کیمپ حاصل کرنے میں مصروف تھے۔ اس قافلہ حریت نے ۱۸۳۰ء میں پشاور کے صوبہ پر قبضہ اور کم وبیش سات ماہ حکومت کرنے کے بعد ۶؍ مئی ۱۸۳۱ء کو بالاکوٹ میں جام شہادت نوش کیا تھا۔
الجزائر میں جب ۱۸۳۰ء میں فرانس نے تسلط قائم کرنے کی کوشش کی تو علماء کرام اور مجاہدین کی ایک جماعت نے امیر عبد القادرؒ کے والد محترم الشیخ محی الدینؒ کی قیادت میں تحریک مزاحمت کا آغاز کیا، مگر دو سال کے بعد ۱۸۳۲ء میں یہ دیکھتے ہوئے کہ اس مزاحمت کا سلسلہ بہت دیر تک قائم رہ سکتا ہے، تحریک مزاحمت کی مستقل منصوبہ بندی کی گئی اور الشیخ محی الدین کے جواں سال اور جواں ہمت بیٹے امیر عبد القادر کو باقاعدہ امیر منتخب کر کے مزاحمت کی جدوجہد کو مستقل بنیادوں پر جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔
امیر عبد القادرؒ جذبہ جہاد کے ساتھ ساتھ فراست وتدبر کی نعمت سے بھی مالامال تھے، اس لیے انھوں نے اپنی تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے الجزائری عوام اور قبائل کو اعتماد میں لیا، وسیع تر مشاورت کا سلسلہ قائم کیا، آزادی کی فوج کو وقت کے ہتھیاروں اور جنگ کی نئی تکنیک سے مسلح کیا اور ایک باقاعدہ فوج منظم کر کے الجزائر پر حملہ آور فرانسیسی فوجوں کے خلاف میدان جنگ میں نبرد آزما رہے۔ انھوں نے ۱۸۳۲ء سے ۱۸۴۷ء تک مسلسل سولہ سال تک فرانسیسی فوجوں کے خلاف جنگ لڑی، بہت سے معرکوں میں فرانسیسی فوجوں کو شکست سے دوچار کیا اور ایک بڑے علاقے پر کنٹرول حاصل کر کے امارت شرعیہ کا نظام قائم کیا۔ وہ اس وقت تک لڑتے رہے جب تک الجزائری عوام اور اسباب ووسائل نے ان کا ساتھ دیا اور جب حالات کی نامساعدت نے انھیں بالکل تنہا کر دیا اور الجزائر کے قبائل ایک ایک کر کے الگ ہوتے گئے تو ۱۸۴۸ء میں انھوں نے اور کوئی چارۂ کار نہ دیکھتے ہوئے ہتھیار ڈال دیے۔
انھیں گرفتار کر کے ۱۸۵۳ء تک فرانس کے مختلف قلعوں میں محبوس رکھا گیا اور پھر آزاد کر کے دمشق کی طرف جلاوطن کر دیا گیا۔ انھوں نے ۲۳؍ دسمبر ۱۸۴۷ء کو ایک مشروط معاہدے کے تحت خود کو فرانسیسیوں کے حوالے کیا تھا، مگر ان کی شرائط کو قبول کیے جانے کے بعد بھی حسب معمول بالاے طاق رکھ دیا گیا تو ایک موقع پر انھوں نے اس حسرت کا اظہار کیا کہ:
’’اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ ہمارے ساتھ یہ کچھ ہونا ہے جو ہو رہا ہے تو ہم جنگ ترک نہ کرتے اور مرتے دم تک لڑتے ہی رہتے۔‘‘
وہ پہلے استنبول گئے اور پھر خلافت عثمانیہ کی ہدایت پر دمشق آ گئے جہاں انھوں نے درس وتدریس کا سلسلہ شروع کر دیا۔ وہ مالکی فقہ کے بڑے علما میں سے تھے اور تصوف میں الشیخ الاکبر محی الدین بن عربیؒ کے پیروکار اور ان کے علوم کے شارح تھے۔ دمشق میں قیام کے دوران انھیں ایک اور معرکے سے سابقہ درپیش ہوا کہ خلافت عثمانیہ کی طرف سے شام میں مقیم مسیحیوں پر جزیہ کا قانون تبدیل کیے جانے کے بعد اس مسئلے پر مسلم مسیحی کشمکش کا آغاز ہوا اور بہت سے حلقوں کی طرف سے قانون کی اس تبدیلی کو ناکام بنانے کے لیے مسیحیوں کے خلاف مسلمان عوام کو بھڑکانے کا سلسلہ شروع کیا گیا جس پر امیر عبد القادر الجزائریؒ نے مسیحیوں کے خلاف اس یلغار کی مخالفت کی اور ان کی حمایت وتحفظ کے لیے کمربستہ ہو گئے۔ اس وقت غصے میں بپھرے ہوئے عوام کے لیے امیر عبد القادر کا یہ اقدام قابل اعتراض تھا، لیکن وہ اپنے اس موقف پر قائم رہے کہ بے گناہ مسیحیوں کی جانیں بچانا ان کا شرعی فریضہ ہے اور وہ ایسا کر کے اپنے اسلامی فرض کی تکمیل کر رہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ امیر عبد القادر الجزائری کے اس جرات مندانہ اقدام کی وجہ سے کم وبیش پندرہ ہزار مسیحیوں کی جانیں بچیں جس کی وجہ سے انھیں مغربی دنیا میں بھی تحسین کی نظر سے دیکھا جانے لگا اور انھیں ’’امن کا ہیرو‘‘ قرار دے کر مغرب کے چوٹی کے سیاسی راہ نماؤں اور دانش وروں نے خراج تحسین پیش کیا، جبکہ نیو یارک ٹائمز نے ان کے کردار کی عظمت کا اعتراف ان الفاظ میں کیا کہ 
’’عبدالقادر کے لیے یہ یقیناًعظمت کا اور حقیقی شان وشوکت کا باب ہے۔ اس بات کو تاریخ میں رقم کرنا کوئی معمولی بات نہیں کہ مسلمانوں کی آزادی کے لیے لڑنے والا سب سے ثابت قدم سپاہی اپنے سیاسی زوال اور اپنی قوم کے ناگفتہ بہ حالات میں عیسائیوں کی زندگیوں اور حرمت کا سب سے نڈر نگہبان بن کر سامنے آیا۔ جن شکستوں نے الجزائر کو فرانس کے آگے جھکایا تھا، ان کا بدلہ بہت حیرت انگیز طریقے سے اور اعلیٰ ظرفی سے لے لیا گیا ہے۔‘‘
امیر عبد القادر الجزائری کا یہ کردار دیکھ کر مجھے متحدہ ہندوستان کی تحریک آزادی کے ایک بڑے لیڈر مولانا عبید اللہ سندھیؒ یاد آ جاتے ہیں اور مجھے ان دونوں بزرگوں میں مماثلت کے بعض پہلو بہت نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ مثلاً مولانا عبید اللہ سندھیؒ اگرچہ میدان جنگ کے نہیں، بلکہ میدان فکر وسیاست کے جرنیل تھے، مگر ان کی سوچ یہ تھی کہ ہمیں سیاست وجنگ کے روایتی طریقوں پر قناعت کرنے کی بجائے ان جدید اسالیب، تکنیک اور ہتھیاروں کو سیاست اور جنگ کے دونوں میدانوں میں اختیار کرنا چاہیے اور وہ عمر بھر اسی کے داعی رہے۔ 
انھوں نے جب دیکھا کہ وہ حرب وجنگ کے ذریعے سے برطانوی تسلط کے خلاف جنگ جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تو انھوں نے اس معروضی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی جدوجہد کے لیے عدم تشدد کا راستہ اختیار کر لیا اور بقیہ عمر پرامن جدوجہد میں بسر کر دی۔
امیر عبد القادر کی طرح مولانا سندھی نے بھی عملی تگ وتاز کے میدان کو اپنے لیے ہموار نہ پاتے ہوئے تعلیم وتدریس کا راستہ اختیار کیا اور ہندوستان واپسی کے بعد دہلی اور دوسرے مقامات میں قرآن کریم کے تعلیمی حلقے قائم کر کے اپنے فکر وفلسفہ کی تدریس وتعلیم میں مصروف ہو گئے۔
مولانا سندھیؒ مغربی تہذیب وثقافت اور تکنیک وصلاحیت کی ہر بات کو مسترد کر دینے کے قائل نہیں تھے، بلکہ اس کی ان باتوں کو اپنانے کے حامی تھے جو اسلامی اصولوں سے متصادم نہیں ہیں اور ہمارے لیے ضروری ہیں۔ اس کی وجہ سے انھیں بہت سے حلقوں کی طرف سے مطعون بھی ہونا پڑا۔
امیر عبد القادر الجزائری کو شیخ اکبر محی الدین ابن عربیؒ کا پیروکار، ان کے علوم کا شارح اور ان کے فلسفہ وحدت الوجود کا قائل ہونے کی وجہ سے ان کے فکر کے ڈانڈے ’’وحدت ادیان‘‘ کے تصور سے ملانے کی کوشش کی گئی (جس کی جھلک جان کائزر کی زیر نظر کتاب میں بھی دکھائی دیتی ہے)، حالانکہ وحدت الوجود اور وحدت ادیان میں زمین وآسمان کا فرق ہے اور شیخ اکبرؒ کے نظریہ وحدت الوجود کا مطلب وحدت ادیان ہرگز نہیں ہے۔ اسی طرح مولانا عبید اللہ سندھی کو بھی فرنگی تسلط کے خلاف سیاسی طور پر ہندوستانی اقوام کے ’’متحدہ قومیت‘‘ کے نظریہ پر ہدف تنقید بنایا گیا اور انھیں ’‘وحدت ادیان‘‘ سے جوڑنے کی کوشش کی گئی۔
امیر عبد القادر الجزائریؒ مغربی استعمار کے تسلط کے خلاف مسلمانوں کے جذبہ حریت اور جوش ومزاحمت کی علامت تھے اور وہ اپنی جدوجہد میں جہاد کے شرعی واخلاقی اصولوں کی پاس داری اور اپنے اعلیٰ کردار کے حوالے سے امت مسلمہ کے محسنین میں سے ہیں۔ ان کے سوانح وافکار اور عملی جدوجہد کے بارے میں جان کائزر کی یہ تصنیف نئی پود کو ان کی شخصیت اور جدوجہد سے واقف کرانے میں یقیناًمفید ثابت ہوگی۔ ایسی شخصیات کے ساتھ نئی نسل کا تعارف اور ان کے کردار اور افکار وتعلیمات سے آگاہی استعماری تسلط اور یلغار کے آج کے تازہ عالمی منظر میں مسلم امہ کے لیے راہ نمائی کا ذریعہ ہے اور اس سمت میں کوئی بھی مثبت پیش رفت ہمارے لیے ملی ضرورت کی حیثیت رکھتی ہے۔ 
(ابو عمار زاہد الراشدی)

جان ڈبلیو کائزر ایک معروف امریکی مصنف ہیں۔ تین چار سال قبل ان کی طرف سے Commander of the Faithful (امیر المومنین) کے زیر عنوان ان کی ایک تصنیف کا انگریزی مسودہ تنقیدی جائزہ کی غرض سے مجھے موصول ہوا۔ یہ کتاب انیسویں صدی کے نصف اول میں الجزائر میں فرانس کے استعماری تسلط کے خلاف آزادی کی جدوجہد کرنے والے نامور مسلمان راہ نما امیر عبد القادر الجزائری کی سوانح حیات سے متعلق ہے اور بحیثیت مجموعی مستند تاریخی واقعات پر مبنی ہوتے ہوئے کسی حد تک ناول کے انداز میں لکھی گئی ہے۔ مجھے اس سے قبل امیر عبد القادر کی حیات اور ان کی جدوجہد سے متعلق زیادہ تفصیل سے پڑھنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ کائزر کے ارسال کردہ مسودے نے اس کی تحریک پیدا کی اور میں نے ان کی کتاب کا تفصیلی جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ امیر عبد القادر کی حیات کے بارے میں عربی اور انگریزی میں میسر دیگر مواد کا بھی مطالعہ کیا جو میرے لیے ایک ایمان افروز تجربہ تھا۔
میں نے کتاب سے متعلق اپنے مختصر تاثرات مصنف کو بھجوائے تو اس میں یہ تجویز بھی دی کہ اس کتاب کا عربی، اردو اور دیگر مشرقی زبانوں میں ترجمہ ہونا چاہیے، کیونکہ امیر عبد القادر کو جن حالات کا سامنا تھا اور انھوں نے جن شرعی واخلاقی اصولوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک غاصب استعماری طاقت کے خلاف جدوجہد کی، وہ نہ صرف یہ کہ اسلام کے تصور جہاد کی بڑی حد تک درست ترجمانی کرتی ہے، بلکہ اس میں عصر حاضر کے ان جہادی عناصر کے لیے بھی راہ نمائی کا بڑا سامان موجود ہے جو بدقسمتی سے اشتعال اور انتقام کے جذبات سے مغلوب ہو کر جہاد سے متعلق واضح شرعی وفقہی اصولوں کو نظر انداز اور پامال کرنے پر اتر آئے ہیں اور یوں اپنی جدوجہد سے الٹا اسلام اور امت مسلمہ کے لیے بدنامی اور نقصان کا باعث بن رہے ہیں۔ مختلف زبانوں میں کتاب کے ترجمے کا خیال غالباً پہلے سے کائزر کے ذہن میں تھا۔ بہرحال اس کی طرف پیش رفت ہوئی اور ایک فاضل مترجم نے (جن کا نام میرے علم میں نہیں) اسے اردو میں منتقل کر دیا۔ 
اردو ترجمے پر نظر ثانی اور ا س کی تسہیل کے لیے مسودہ دوبارہ مجھے بھجوایا گیا اور بحمد اللہ اس کے اردو متن کو آخری شکل دینے اور پھر پاکستان میں اس کی اشاعت کا انتظام کرنے میں مجھے بھی حصہ ڈالنے کا موقع ملا۔ اردو بازار، لاہور کے اشاعتی ادارے، دارالکتاب کے مالک اور ہمارے دوست حافظ محمد ندیم صاحب نے ازراہ عنایت اس کی اشاعت کے لیے آمادگی ظاہر کی اور چند ماہ قبل یہ کتاب ’’امیر عبد القادر الجزائری: سچے جہاد کی ایک داستان‘‘ کے عنوان سے دارالکتاب کے زیر اہتمام شائع ہو کر منظر عام پر آ چکی ہے۔
انیسویں صدی میں عالم اسلام کی وہ شخصیات جنھوں نے مسلم ممالک پر یورپ کے مختلف ممالک کی استعماری یلغار کے خلاف مزاحمانہ جدوجہد کی، ان میں الجزائر کے امیر عبد القادر الجزائریؒ کا نام اس حوالے سے ممتاز ہے کہ ان کی جرات واستقلال، عزیمت واستقامت، حوصلہ وتدبر اور فکر وکردار کی عظمت کو ان کے دشمنوں نے بھی سراہا اور ان کا نام تاریخ میں ہمیشہ کے لیے ثبت ہو گیا۔ امیر عبد القادر نے انیسویں صدی کی چوتھی اور پانچویں دہائی میں الجزائر میں فرانسیسی استعمار کے خلاف آزادی کی جدوجہد کی اور ایک ایسا نمونہ پیش کیا جسے بلاشبہ اسلام کے تصور جہاد اور جنگی اخلاقیات کا ایک درست اور بڑی حد تک معیاری نمونہ کہا جا سکتا ہے۔ امیر عبد القادر کے تصور جہاد کے اہم اور نمایاں پہلو حسب ذیل ہیں:
۱۔ ان کے نزدیک مسلمانوں کے ملک پر کسی غیر مسلم طاقت کے تسلط کی صورت میں اس سے آزادی حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنا ایک شرعی اور دینی فریضے کی حیثیت رکھتا ہے،چنانچہ انھوں نے اسی جذبے سے روحانی غور وفکر اور تعلیم وتدریس کی زندگی کو ترک کر کے فرانس کے خلاف مسلح جدوجہد آزادی کو منظم کیا۔
۲۔ ان کے ہاں جہاد کا مقصد طاقت یا اقتدار کا حصول نہیں تھا، چنانچہ انھوں نے جدوجہد آزادی کی قیادت خود سنبھالنے سے قبل بھی شاہ مراکش سے درخواست کی کہ وہ اس جدوجہد کی سرپرستی اور راہ نمائی کریں اور پھر جب ایسا نہ ہو سکنے کی وجہ سے انھیں خود اس جدوجہد کی قیادت کی ذمہ داری سنبھالنا پڑی تو الجزائر کے ایک وسیع علاقے میں اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کے بعد انھوں نے دوبارہ شاہ مراکش کو خط لکھا کہ وہ اس الجزائر کو اپنی سلطنت کا حصہ بنا لیں اور یہاں کے معاملات کو چلانے کے لیے اپنا کوئی نمائندہ مقرر کر دیں۔
۳۔ امیر کے ہاں اس امر کا احساس بھی بہت واضح ہے کہ کسی غیر ملکی طاقت کے خلاف جدوجہد آزادی چند لازمی شرائط کے پورا ہونے پر منحصر ہے اور ان کو پورا کیے بغیر کامیابی کا حصول ناممکن ہے۔ مثال کے طور پر انھوں نے نہایت دانش مندی سے یہ سمجھا کہ مسلح جدوجہد کا فیصلہ کسی فرد یا کسی گروہ کو اپنے طور پر نہیں بلکہ پوری قوم کے اتفاق رائے سے کرنا چاہیے تاکہ جدوجہد مضبوط اخلاقی اور نفسیاتی بنیادوں پر قائم ہو اور اسے قوم کی اجتماعی تائید حاصل ہو، کیونکہ اگر قوم ہی اس جدوجہد کے نتائج کا سامنا کرنے اور اس کے لیے درکار جانی اور مالی قربانی دینے کے حوصلے سے محروم ہو تو کوئی گروہ اپنے بل بوتے پر اسے کامیابی سے ہم کنار نہیں کر سکتا۔ اسی وجہ سے امیر نے فرانس کے خلاف لڑائی شروع کرنے سے پہلے الجزائر کے بڑے بڑے قبائل کے سرداروں سے مشاورت کر کے ان کی تائید اور حمایت کو یقینی بنایا۔ اسی طرح امیر نے یہ بات بھی وضاحت سے کہی کہ ایک منظم فوج کے خلاف جنگ کسی دوسری منظم طاقت کی سرپرستی کے بغیر نہیں لڑی جا سکتی، چنانچہ انھوں نے ابتدا شاہ مراکش سے اس جدوجہد کی سیاسی سرپرستی کی درخواست کی اور پھر اس میں ناکامی کے بعد الجزائر کی نمائندہ قبائلی طاقتوں کی تائید سے اپنی امارت قائم کرنے کے بعد ہی عملی جدوجہد کا آغاز کیا۔ 
۴۔امیر عبد القادر نے اس بدیہی حقیقت کا بھی ادراک کیا کہ جنگ میں فریقین کے مابین طاقت کے ایک خاص توازن اور عسکری تربیت میں دشمن کی برابری حاصل کیے بغیر زیادہ دیر تک میدان جنگ میں نہیں ٹھہرا جا سکتا،چنانچہ انھوں نے اپنی فوج کو مغربی طرز پر منظم کیا اور جدید طرز کی اسلحہ سازی کے لیے مغربی ملکوں سے مطلوبہ سامان اور ماہرین فراہم کرنے کی طرف بھرپور توجہ دی۔ امیر کی حکمت عملی کا یہ پہلو بھی بے حد قابل توجہ ہے کہ انھوں نے اپنی جدوجہد کا ہدف کسی نظری آئیڈیل کی روشنی میں نہیں بلکہ زمینی حقائق کی روشنی میں متعین کیا اور الجزائر کی سرزمین سے فرانس کو کلیتاً بے دخل کر دینے کو اپنا ہدف قرار دینے کے بجائے اس بات کو قبول کیا کہ فرانس کی عمل داری ساحلی شہروں تک محدود رہے جبکہ الجزائر کے باقی علاقے میں مسلمانوں کی ایک آزاد امارت قائم ہو۔
۵۔امیر کے ہاں عملی حقائق کے ادراک کا ایک ممتاز پہلو یہ بھی ہے کہ انھوں نے عالمی حالات اور دنیا کے تہذیبی ارتقا پر نظر رکھتے ہوئے درست طور پر یہ سمجھا کہ مغربی اقوام نے تمدن اور سائنس کے میدان میں جو ترقی کی ہے،وہ درحقیقت انسانیت کی مشترکہ میراث ہے اور مسلمان بھی اس سے پوری طرح مستفید ہو سکتے ہیں،چنانچہ انھوں نے نہ صرف فرانسیسی حکمرانوں کے نام خطوط میں جابجا اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ فرانس اور الجزائر کے مابین دشمنی کے بجائے دوستی کا تعلق قائم ہونا چاہیے تاکہ دونوں قومیں مفادات کے اشتراک کی بنیاد پر ایک دوسرے کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا سکیں،بلکہ عملاً بھی اپنی امارت کے تحت الجزائری قوم کی تنظیم نو میں امیر نے مغرب کے تجربات سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ 
۶۔ امیر کی جدوجہد سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ وہ مسلمانوں کے جان ومال کو جنگ میں بے فائدہ ضائع کروانے اور ایک لاحاصل جدوجہد کو جاری رکھنے کو شرعی تقاضا نہیں سمجھتے اور ان کے نزدیک کسی غیر مسلم قابض کے خلاف جہاد کی ذمہ داری اسی وقت تک عائد ہوتی ہے جب تک اس کی کامیابی کے لیے درکار عملی اسباب ووسائل میسر اور امکانات موجود ہوں۔ چنانچہ انھوں نے اپنی جدوجہد کے آخری مرحلے پر جب یہ دیکھا کہ الجزائری قوم ان کا ساتھ چھوڑ کر فرانسیسی کیمپ کا حصہ بن چکی ہے اور خود ان کے ساتھ وابستہ ایک چھوٹا سا گروہ بھی مسلسل خطرے میں ہے تو انھوں نے کسی جھجھک کے بغیر نہایت جرات سے یہ فیصلہ کر لیا کہ الجزائر کی سرزمین پر فرانس کی حکمرانی خدا کی منشا ہے اور اس کو تسلیم کر لینا ہی دانش مندی ہے۔
۷۔ امیر عبد القادر کے تصور جہاد کا ایک نہایت اہم پہلو اسلام کی جنگی اخلاقیات کی پابندی کرنا ہے اور اس ضمن میں ان کا پیش کردہ نمونہ ہی دراصل مغربی دنیا میں ان کے تعارف اور تعظیم واحترام کی اصل وجہ ہے۔ امیر نے نہ صرف جدوجہد آزادی کے دوران میں فرانسیسی قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی مذہبی ضروریات کا فراخ دلی اور اعلیٰ ظرفی سے بندوبست کیا بلکہ دمشق میں رہائش کے زمانے میں ۱۸۶۰ میں ہونے والے مسلم مسیحی فسادات میں بھی ہزاروں مسیحی باشندوں کی حفاظت کے لیے عملی کردار ادا کر کے اسلامی اخلاقیات کی ایک معیاری اور قابل تقلید مثال پیش کی۔ 
میں سمجھتا ہوں کہ مذکورہ تمام حوالوں سے امیر عبد القادر کی جدوجہد عصر حاضر میں مغرب کے سیاسی واقتصادی تسلط کے خلاف عسکری جدوجہد کرنے والوں گروہوں کے لیے اپنے اندر راہ نمائی کا بڑا سامان رکھتی ہے اور امیر عبد القادر کے فلسفہ جنگ اور طرز جدوجہد کے ان پہلووں کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ 
(محمد عمار خان ناصر)

امیر عبد القادر الجزائری (۱۸۰۷ء۔۱۸۸۳ء) تحریک آزادئ الجزائر کے عظیم مجاہد اور سرفروش قائد وراہنما تھے۔ انھوں نے انیسویں صدی عیسوی کے ابتدائی عشروں میں الجزائر پر فرانس کے غاصبانہ قبضے کے خلاف علم جہاد بلند کیا اور الجزائری قوم میں اسلامیت کی لہر دوڑا دی۔ الجزائر کے مختلف قبائل کو متحد کیا اور ایک اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی۔ وہ تیرہ سال تک اس اسلامی مملکت کے امیر رہے۔ اس دوران انھوں نے کئی بار فرانسیسی افواج کو ناکوں چنے چبوائے، مگر اپنوں کی غداری کی وجہ سے انھیں بالآخر فرانس کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہونا پڑا۔ کچھ شرائط کے ساتھ معاہدہ ہوا اور امیر نے خود کو فرانسیسیوں کے حوالے کر دیا جنھوں نے اپنے وعدوں کی پاس داری نہ کرتے ہوئے انھیں برس ہا برس تک قید میں رکھا۔ پھر فرانس لے جائے گئے اور وہاں نظر بند رہے اور آخر رہا کر کے جلا وطن کر دیے گئے۔ عمر کا آخری حصہ دمشق میں گزرا تا آنکہ وقت آخر آ گیا۔
امریکی مصنف جان ڈبلیو کائزر کی یہ کتاب (اردو ترجمہ) اسی مرد مجاہد کے سچے جہاد کی داستان ہے جس کے مطالعہ سے انسانی فکر ونظر کے تغیر وتبدیل اور ارتقا کا اندازہ ہوتا ہے اور پتہ چلتا ہے، مسلمان کس قدر سادہ اور اعتماد کرنے والا ہوتا ہے جبکہ اہل یورپ کس قدر عیار اور بدعہد ہوتے ہیں۔ وہ معاہدوں کی پاس داری نہیں کرتے، بلکہ معاہدے کرتے ہی اس لیے ہیں کہ انھیں توڑا جائے اور کمزور کی بے بسی اور بے سروسامانی کے مزے لیے جائیں۔
یہ کتاب انسانی زندگی کے نشیب وفراز کی کہانی ہے کہ جوانی میں انسانی رگوں میں خون نہیں، سیال فولاد دوڑتا ہے۔ وہ پہاڑوں سے ٹکراتا اور سمندروں کوپھلانگتا ہے، مگر جب عمر ڈھلتی ہے تو پھر اس کی سوچ بدل جاتی ہے اور پھر کچھ ایسا کرنا چاہتا ہے جس سے دوسروں کو سکھ اور چین میسر آ ئے۔ امیر عبد القادر نے جب فرانس کی بھرپور حربی طاقت کے مقابلے میں اپنی فوجی قوت کا جائزہ لیا تو مکمل تباہی کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔ ایسے وقت میں انھوں نے ایک دانش مندانہ فیصلہ کیا اور اپنے ہم وطنوں اور ساتھیوں کو مروانے کے بجائے زندہ رکھنے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے اپنی قیمت پر اپنی قوم کو زندگی دی۔ ایک دانش مند قائد کی یہی نشانی ہوتی ہے کہ وہ اپنی فکر کی بجائے قوم کے مستقبل کی فکر کرتا ہے۔
کتاب کا مطالعہ بتاتا ہے کہ مسلمانوں نے جب بھی اہل یورپ سے شکست کھائی، اپنے ہی گھر کے چراغوں کی غداری سے کھائی اور یہ بھی یورپی ممالک کس طرح دوسرے ممالک کے قائدین، تحریکوں اور نظریات کے بارے میں اپنے عوام کو اندھیرے میں رکھ کر جھوٹ بولتے ہیں۔ یہ کتاب یورپی اور مغربی نفسیات کا پتہ دیتی ہے۔ یہ کتاب بتاتی ہے کہ تاریخ میں ’’امیر عبد القادر‘‘ کی صورت میں رہ کر بھی زندہ رہا جا سکتا ہے اور مسلمان صرف مسلمانوں کا ہی نہیں، انسانوں کا خیر خواہ ہوتا ہے۔
ایک وہ وقت تھا جب امیر یورپ کی نظروں میں وقت کے سب سے بڑے دہشت گرد تھے اور جب انھوں نے دمشق میں قیام کے دوران مسلم عیسائی فسادات میں پندرہ ہزار عیسائیوں کی جانیں بچائیں تو انھیں امن کا عظیم علمبردار اور دیوتا قرار دے دیا گیا۔
یہ کتاب معروضی حالات سے آنکھیں بند کر کے محض جوش سے کام لینے والے روایتی دوستوں کو شاید پسند نہ آئے، مگر سعید روحوں کے لیے اس میں بڑے سبق ہیں۔ سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ جب حالات موافق نہ ہوں تو خود کو اور اپنی قوم کو بچا لینا سب سے بڑی بہادری ہوتی ہے۔ امیر صرف جنگجو رہنما ہی نہ تھے، ایک جید عالم دین اور صوفی بزرگ بھی تھے۔ ان کے یہ الفاظ ہم سب کے لیے بالعموم اور وراثت پیغمبر کے حاملین کے لیے خاص پیغام رکھتے ہیں:
’’پیغمبر ایک دوسرے کی تردید نہیں کرتے، کم از کم بنیادی اصولوں کی حد تک تو نہیں کرتے۔ ان سب کا ایک ہی پیغام ہے کہ اللہ کی بڑائی بیان کرو اور مخلوق کے ساتھ رحم دلی سے پیش آؤ۔‘‘ (ص: ۳۸۵)
اہل علم کو سوچنا چاہیے کہ کیا واقعی ان کے شب وروز اپنے ہی لوگوں کی تردید وتغلیط میں نہیں جا رہے؟ اس کتاب کا مقدمہ مولانا زاہد الراشدی صاحب نے لکھا ہے اور امیر کا تعارف کروایا ہے جو بجائے خود ایک معرکۃ الآرا مقالہ ہے۔ دار الکتاب لاہور کے حافظ محمد ندیم صاحب نے یہ کتاب شائع کر کے ایک کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ ’’القاسم‘‘ محسوس کرتا ہے کہ اگر کتاب کا مطالعہ اس کی روح کے مطابق کیا جائے تو ذہنوں میں انقلاب آئے گا جو آج کے دور میں امت مسلمہ کے لیے بہت مفید ثابت ہوگا۔ بہ حیثیت مسلمان ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہر ایک سے جنگ وجدل، مخالفت اور مخاصمت نے ہمیں کیا دیا ہے؟ کیا ہم ’’مسلمان‘‘ بن کر نہیں رہ سکتے؟
(تبصرہ نگار: مولانا عبد القیوم حقانی، ماہنامہ ’’القاسم‘‘، نوشہرہ)

جعلی مجاہد کی اصلی داستان

مفتی ابو لبابہ شاہ منصور

قارئین کرام! آپ کو علم ہوگا کہ ضرب مومن میں کتابوں پر تبصرے شائع نہیں کیے جاتے یا بہت ہی کم شائع کیے جاتے ہیں۔ نیز یہ بھی علم ہوگا (راقم الحروف پہلے بھی لکھ چکا ہے) کہ احقر کتابوں کا تعارف یا تقریظ لکھنے سے حتی الامکان کتراتا ہے۔ اپنی کتابوں پر بھی اپنے بڑوں کو تقریظ لکھنے کی زحمت دینا اچھا نہیں سمجھتا۔ مروجہ تقاریظ، کتاب، مصنف اور صاحب تقریظ سب کی ساکھ گرانے کا باعث لگتی ہیں۔ کتاب چاولوں کی دیگ نہیں کہ چند چاول دیکھ کر ساری دیگ کو دم لگ جانے کی خوشخبری سنا دی جائے، لیکن آج ا س اصول کو توڑتے ہوئے ہم اپنے آپ کو ایک انوکھی مجرمانہ کتاب کا تعارف کروانے پر مجبور پاتے ہیں۔ اس کتاب پر تبصرے کا خیال بھی ہمیں پیدا نہ ہوتا اگر ہمیں پاکستان میں جدید شرعی واخلاقی اقدار کے علمبردار چند سو کا عدد اشاعت رکھنے والے ایک رسالے کا تازہ شمارہ دیکھنے کو نہ ملتا جس میں خیر سے ایک ’’سچے مجاہد کی داستان حیات‘‘ قسط وار دی گئی ہے جو ایک ایسی کتاب سے ماخوذ ہے جس کے مترجم وناشر اس کے نسب کی ذمہ داری قبول کرنے پر تیار نہ تھے، لیکن آخر کار یہ تہمت ثبوتوں کے ساتھ سچی ثابت ہوئی اور یہ ناجائز تخلیق ان کے ذمہ لگ رہی۔
یہ کتاب ہمیں کچھ عرصے پہلے ایک مہربان دوست خالد جامعی صاحب نے دکھائی جو مطالعے کے انتہائی شوقین ہیں۔ خود کئی کتابوں کے مصنف ومترجم ہیں اور لکھنا پڑھنا ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ بندہ نے پہلی نظر میں بھانپ لیا کہ انگریزی میں لکھی گئی اس کتاب کا مصنف ایوارڈ یافتہ فری میسن ایجنٹ ہے۔ کتاب کا موضوع جو شخصیت ہے، وہ بھی سند یافتہ فری میسن ایجنٹ ہے۔ کتاب کے مترجم کا نام غائب ہے اور اسے جس ناشر نے چھاپا ہے، اس سے رابطہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ کتاب اس کے ادارے کے نام سے کسی اور نے چھاپی ہے اور وہ نہیں جانتے کہ شائع کنندگان کے مقاصد کیا ہیں؟ مزید کھوج لگائی گئی تو پتا چلا کہ اس کتاب کی تعارفی تقریب لاہور کے ایک ہوٹل میں امریکی سفارت خانے کے سیکنڈ سیکرٹری کی سربراہی میں منعقد ہوئی تھی اور تقریب کی نظامت ہمارے ممدوح ’’غامدی اصغر‘‘ کر رہے تھے۔ وہی اس کتاب کے ناشر ہیں اور انھوں نے اپنی ایک اور ناجائز تخلیق جو مسجد اقصیٰ کے حوالے سے ہے، بھی اس ادارے کے نام سے اسی جبری نام لگوائی والے طریق کار کے تحت چھپوائی ہے۔
راقم کو اس پر ذرا بھی تعجب نہیں ہوا، کیونکہ وہ ایک انھی صاحبزادے کو نہیں، صاحبزادگان کی ایک ایسی کھیپ کو جانتا ہے جو ’’اس جیسے کام اس جیسے انداز میں‘‘ انجام دینے کے لیے بیرونی سفارت کاروں کی سرپرستی میں پروان چڑھ رہی ہے، البتہ تعجب اس ڈھٹائی اور بے باکی پر ہوا کہ غامدیت کے اس نوخیز ترجمان نے پچھلے دنوں اپنے تحریفی اقدار کے علمبردار رسالے میں یہ بحث شائع کی تھی کہ افغانستان کا جہاد اعلیٰ اخلاقی اقدار کے تحت کیا جانے والا جہاد نہیں ہے، موجودہ شمارے میں اسی کتاب میں ’’سچے مجاہد کی داستان‘‘ کو قسط وار کیسے شائع کر دیا؟ کیا قلم کی دنیا اور علم کی قلم رو میں شرم ومروت کا اتنا بھی گزر نہیں رہا کہ انسان اپنے پڑوس میں ہونے والے جہاد عظیم کے بارے میں دو اچھے لفظ نہ کہے اور پچھلی صدی میں مصدقہ یہودی گماشتے [اس کی ناقابل تردید تصدیقات خود زیر نظر کتاب سے بھی آ رہی ہیں] کے شکست خوردہ جہاد کو ’‘سچے جہاد‘‘ کا نام دے۔ یہودیت کی خانہ ساز غامدیت کے علمبردارو! خدا کا واسطہ ہے، کچھ تو لحاظ کرو۔ کوئلوں کی دلالی میں کیوں اپنا آپ کالا کرتے ہو؟؟
جو بھی شخص دنیا میں ایسے واقعات کے پیچھے نادیدہ ہاتھ تلاش کرتا ہے جو سمجھ میں آ کے نہیں دیتے، اسے دنیا کو مصائب وآلام میں مبتلا کرنے والی پھٹکاری تنظیم ’’فری میسن‘‘ تک سراغ جاتے دکھائی دیتے ہیں اور جو شخص بھی فری میسن کی آلہ کار شخصیات سے واقفیت رکھتا ہے، وہ جانتا ہے کہ امیر عبد القادر جزائری نام کا نام نہاد مجاہد فری میسن ایجنٹ بن گیا تھا۔ یہودی آلہ کاروں پر کام کرنے والے ایک سے زیادہ محققین کا حوالہ میرے پاس ہے جنھوں نے اسے یہود کا گماشتہ لکھا ہے۔ مجھے ان کو پیش کرنے کی ضرورت پڑتی تو ان کے استناد پر بحث شروع ہو جاتی، لیکن خدا کا کرنا یہ کہ ’’سچے جہاد کی داستان‘‘ نامی اس کتاب میں ہی اس کی تصدیق مل گئی ہے، لہٰذا اب اس کی خارجی توثیق کی ضرورت نہیں۔ غامدی صاحبان شاید کتاب دیکھے بغیر اس کی ’’سمساری‘‘ قبول کر لیتے ہیں اور پھر حق نمک ادا کیے بغیر اس کا جائزہ لینے سے پہلے چھاپ بھی دیتے ہیں تاکہ ان کی حماقت اور خیانت کی سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔
کتاب کے وقیع پیش لفظ میں ہماری ایک انتہائی موقر علمی شخصیت نے اس کتاب کا بے نام ونسب اردو ترجمہ پاکستان میں شائع کرنے کے مقاصد بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
 ’’امیر عبد القادر الجزائریؒ مغربی استعمار کے تسلط کے خلاف مسلمانوں کے جذبہ حریت اور جوش ومزاحمت کی علامت تھے اور وہ اپنی جدوجہد میں جہاد کے شرعی واخلاقی اصولوں کی پاس داری اور اپنے اعلیٰ کردار کے حوالے سے امت مسلمہ کے محسنین میں سے ہیں۔ ان کے سوانح وافکار اور عملی جدوجہد کے بارے میں جان کائزر کی یہ تصنیف نئی پود کو ان کی شخصیت اور جدوجہد سے واقف کرانے میں یقیناًمفید ثابت ہوگی۔ ‘‘ (ص ۱۱)
آئیے، دیکھتے ہیں جہاد کے شرعی واخلاقی اصولوں کا پاسدار امت مسلمہ کا یہ محسن کون تھا؟ اور نئی پود کو ان کی شخصیت اور جدوجہد سے واقف کروانے کے مقاصد کیا ہیں؟ ہم دور نہیں جاتے، اسی کتاب کے ص ۴۳۸ پر سچے مجاہد کے پیچھے موجود جھوٹے پشت پناہوں کا صاف ستھرا سراغ ملتا ہے۔ مصنف رقم طراز ہے: ’’جب جنرل اوٹ پول اپنے تصور میں امیر کے مستقبل کی منصوبہ بندی کر رہا تھا تو پیرس میں فرانسیسی میسونی لاج ’’ہنری چہارم‘‘ کی ایک کمیٹی بڑی احتیاط سے امیر کے نام ایک خط تیار کر رہی تھی اور اس کے ساتھ موزوں عبارت والا ایک قیمتی زیور بھی منتخب کیا جارہا تھا۔ تقریباً ایک مہینے کی عرق ریزی کے بعد سولہ نومبر کو میسونی تنظیم کی علامت سے ڈھکے سبز جڑاؤ تمغے کے ہمراہ یہ خط ’’انتہائی عزت مآب جناب عبدالقادر‘‘کی خدمت میں ڈاک سے روانہ کر دیا گیا۔ تنظیم کا نشان دائرے کے اندر دو چوکھٹوں پر مشتمل تھا جس سے ایک ہشت پہلو شکل بنتی تھی جس سے روشنی کی شعاعیں خارج ہو رہی تھیں۔ عین درمیان میں فیثا غورث کی مساوات کندہ تھی۔‘‘ [یہودیوں کی مخصوص پسندیدہ علامت اس مساوات کا کچھ بیان آگے چل کر آئے گا]۔
مسجع ومقفع انداز میں لکھی گئی عبارت کے آخر میں امیر کو تنظیم کا رکن بننے کی دعوت دی گئی تھی:
 ’’بہت سے دل ایسے ہیں جو آپ کے دل کے ساتھ دھڑکتے ہیں، بہت سے بھائی ایسے ہیں جو آپ کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ سے محبت کرتے ہیں اور اگر وہ آپ کو اپنی تنظیم کا رکن شمار کر سکیں تو انہیں بہت فخر ہوگا۔‘‘ (ص ۴۳۸، ۴۳۹)
’’عالمی برادری‘‘ میں شمولیت کی اس دعوت کو قبول کرنے میں سچے غامدی مجاہد نے دیر نہیں لگائی۔ چنانچہ ’’۱۸۶۴ء میں امیر کو دمشق میں شام کے میسونی لاج کا اعزازی گرینڈ ماسٹر نامزد کیا گیا۔ اس کے ایک برس بعد جب عبدالقادر فرانس گیا تو اسے فرانسیسی لاج ’’ہنری چہارم‘‘ میں شامل کر لیا گیا جس میں بنجمن فرینکلن، لاپلاس، لافاییٹ، وولٹیئر، سوٹ، مونجے، تالے راں، پرودوں اور دیگر ایسی ممتاز ہستیاں موجود تھیں جن کے لیے مظاہر فطرت، عقل اور اخلاقی قانون سب ایک الوہی تخلیق کار کے باہم موافقت رکھنے والے مظاہر تھے۔ ‘‘ (ص ۴۴۱)
ملاحظہ فرمائیے! عالمی سطح پر مسلم دشمن بلکہ انسانیت دشمن بدنام زمانہ تنظیم کے گرینڈ ماسٹر کو سچا مجاہد بنا کر پیش کرنے والے ’’فہم دین‘‘ اور ’’تفہیم شریعت‘‘ کے داعیوں کے متعلق اگر کوئی یہ سمجھے کہ وہ بھی ’’مظاہر فطرت، عقل اور اخلاقی قانون کے الوہی تخلیق کار کے باہم موافقت رکھنے والے مظاہر‘‘ میں سے ہیں تو کیا یہ غلط گمان ہوگا؟
راقم جب مصر گیا تو نہر سوئز دیکھنے کے لیے پاپڑ بیل کر پہنچ ہی گیا۔ غرض فقط اتنی ہی تھی کہ وہاں کھڑے ہو کر امرؤ القیس کے دوستوں کی طرح دو آنسو بہائے۔ شاید ہمارے اجتماعی گناہوں کو دھو ڈالیں۔ نہ پوچھیے، حسرت اور کرب کا کیا عالم تھا؟ بات صرف اتنی نہ تھی کہ دنیا کی یہ معاشی شہ رگ ایک مسلمان ملک میں ہوتے ہوئے غیر مسلموں کے قبضے میں ہے۔ دکھ اس کا تھا کہ یہ درحقیقت امریکا، برطانیہ، فرانس کے قبضے میں نہیں، قوم یہود کے قبضے میں ہے۔ ہماری غامدی برادری کے ممدوح سچے مجاہد کی اس داستان سے اس کا بھی ثبوت مل گیا کہ اس نہر کی تعمیر میں ایک مخصوص برادری بھی شریک تھی جو الجزائر سے لاہور تک ایجنٹ تلاش کرتی رہتی ہے۔ یہ عبارت ملاحظہ فرمائیے جیسے سمجھنے کے لیے چور کے ہاتھ میں دھرے چراغ کی روشنی اسے پہچاننے کا کام دے رہی ہے۔
’’سترہ نومبر ۱۸۶۹ء کو جب نہر سویز کھولنے کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی تو امیر کو بھی گرینڈ پیولین میں نپولین کی بیوی، ملکہ یوجین، آرچ ڈیوک وکٹر آف آسٹریا، شاہ ہنگری اور ساری دنیا سے آئے ہوئے سفیروں اور اہم شخصیات کے ساتھ بٹھایا گیا۔ ۔۔۔ مشرق اور مغرب کے سمندروں کو آپس میں ملانے کا خواب پورا کرنے میں عبدالقادر نے فرانس کے فردیناں دے لیسپس (Ferdinand de Lesseps) کی کچھ کم مدد نہیں کی تھی۔ ۔۔۔ امیر کے یہ کردار ادا کرنے پر آمادہ ہونے کی بہت سی وجوہات تھیں۔ ۔۔۔لیکن سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ نہر سویز کی تشہیر کرنے والوں میں بھائی چارے کا احساس نظر آتا تھا۔ ان میں بہت سے مقدس سائمن کے پیروکار اور میسونی تھے جن کے مقامی لاج کے طرف سے لہرائے جانے والے بینرز پر ’’پرخلوص دوستی‘‘، ’’پیار اور سچائی‘‘ اور ’’سمندروں کا اتحاد‘‘ جیسے الفاظ درج تھے۔ ۔۔۔ تقریب میں دوستی اور تمام لوگوں کے مابین بھائی چارے کے گیت گائے گئے۔ یہ مقدس سائمن کے اور میسونی نظریات تھے جو عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان پل تعمیر کرنے اور یورپی مادہ پرستی کو اسلام کی روحانیت سے متوازن کرنے کی عبدالقادر اپنی خواہش سے مکمل مطابقت رکھتے تھے۔ ممکن ہے چار سال پہلے پیرس کا دورہ کرتے ہوئے میسونی لاج ’’ہنری چہارم‘‘ میں باقاعدہ شمولیت اختیار کرنے کی بڑی وجہ یہی رہی ہو۔‘‘ (ص ۴۴۲، ۴۴۴)
عالمی میڈیا امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد بارک اللہ فی حیاتہ کو امیر کہنا پسند نہیں کرتا، لیکن امیر عبد القادر کی کتابیں جن کا ترجمہ نگار اپنا نام نسب ظاہر کرنے سے شرماتا ہے، کی کتابیں شائع کر کے سستے داموں پھیلاتا ہے؟ آخر کیوں؟ اس لیے کہ ملا عمر مجاہد نے آخری دم تک دشمنوں کے آگے سر نہ جھکایا، جبکہ الجزائری امیر نے تو اپنی مہر میں بھی یہودی نشان بنا رکھا تھا۔ مذکورہ کتاب کے پشتی سرورق پر اس مہر کا نقش موجود ہے جس میں چھ کونوں والا ستارہ پکار پکار کر تحریک غامدیت پر مہر یہودیت ثبت کر رہا ہے۔ کتاب کے ص ۲۸۵ کے حاشیے پر لکھا ہے:
’’ امیر کی مہر دو مثلثوں پر مشتمل تھی جن میں ایک سیدھی اور دوسری معکوس تھی۔ دونوں مثلثیں ایک دوسرے کے اوپر تھیں جس سے چھ کونوں والے ستارے کی شکل بن جاتی تھی۔ ان کے ارد گرد ایک دائرہ تھا۔ اوپر کی طرف نوک والی مثلث روحانی طاقت کی علامت تھی جب کہ نیچے کی طرف نوک والی مثلث دنیاوی اقتدار کی نمائندگی کرتی تھی۔ دائرہ الوہی رحمت کی علامت تھا۔‘‘ 
جب فری میسنری کی غلامی قبول کر لی گئی تو یہودی سرمایہ دار ایسے شخص کی حمایت سے کیوں پیچھے رہتے؟ مشہور زمانہ یہودی خاندان ’’روتھ شیلڈ‘‘ ہمارے ممدوح مجاہد کی مدد کو آ گیا۔ سنیے اور سر دھنیے: ’’وقت گزرنے کے ساتھ فرانسیسی حکومت کی مدد سے عبدالقادر نے زرعی زمینیں حاصل کر لیں تاکہ اپنے الجزائری لوگوں کی مدد کے لیے پیسے کمائے جائیں۔ پھر ایک وقت آیا جب وہ اتنی بڑی زرعی جاگیر کا مالک بن گیا جو مغرب میں بحیرہ طبریہ (Sea of Galilee)تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس نے دمشق اور بیروت کے درمیان پل تعمیر کرایا اور جیمز روتھ شیلڈ کی شراکت سے محصول چونگی بھی قائم کی۔‘‘ (ص ۴۰۶)
کتاب کے عالمانہ تعارف میں اس کی اشاعت کی ایک اور غرض بھی بیان کی گئی ہے:
 ’’ایسی شخصیات کے ساتھ نئی نسل کا تعارف اور ان کے کردار اور افکار وتعلیمات سے آگاہی استعماری تسلط اور یلغار کے آج کے تازہ عالمی منظر میں مسلم امہ کے لیے راہ نمائی کا ذریعہ ہے اور اس سمت میں کوئی بھی مثبت پیش رفت ہمارے لیے ملی ضرورت کی حیثیت رکھتی ہے۔‘‘ (ص ۱۱)
آئیے دیکھتے ہیں وہ کون سا کردار ہے جو آج کے تازہ عالمی منظر میں مسلم امہ کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہے؟ اور فحاشی وبے حیائی کی اس سمت میں ہم مثبت پیش رفت کریں تو کس اہم ملی ضرورت کو پورا کر سکیں گے؟ اس حوالے سے اس کتاب کی چند عبارتیں بلا تبصرہ پیش خدمت ہیں۔ ان سے معلوم ہوگاکہ ہم میں فقط امریکہ نظریہ جہاد سے ہی متعارف نہیں کروایا جا رہا، بلکہ ہماری نئی نسل کو شہوت پرستی، نسوانیت پرستی اور زنخا پرستی میں بے دریغ دھکیلا جا رہا ہے۔ سچے مجاہد کی حد سے بڑھی ہوئی شہوت پرستی کو یوں بیان کیا گیا ہے:
 ’’ایسا لگتا تھا کہ اپنی ذات کی سختی سے نفی کرنے والے عبدالقادر کی زندگی میں واحد استثنا عورت تھی اور اس کا مسلسل وسیع ہوتا ہوا حرم سفارت کاروں کے لیے تھوڑے بہت نہیں بلکہ شدید حسد کا باعث تھا۔‘‘ (ص ۳۹۱)
مسلسل وسیع ہونے والے حرم کا اندرونی حال بھی سن لیجیے: 
’’اسے ایک بار امیر کے حرم کا جائزہ لینے کا بھی موقع ملا۔ یہ افواہ گرم تھی کہ امیر ہر سال نئی شادی کرتا ہے جو عموماً سرکیشیائی لڑکیاں ہوتی ہیں جن کی عمر پندرہ سال سے زیادہ نہیں ہوتی، لیکن جین کی رپورٹ یہ تھی کہ اگر اس نے ان میں سے بیشتر کو طلاق دے کر رخصت نہیں کر دیا تو پھر یہ افواہ غلط ہے۔ اسے وہاں صرف پانچ بیویاں نظر آئی تھیں*، لیکن یہ تعداد بھی اسلامی شریعت میں دی گئی اجازت کی حد سے ایک زیادہ بنتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی بیوی خیرا کے بارے میں، جس کی امیر سب سے زیادہ قدر کرتا تھا، جین کا کہنا تھا کہ ’’انتہائی موٹی اور جسمانی طور پر بدصورت تھی، لیکن وہ پورے وقار اور پرسکون تحکم کے ساتھ حرم کی سربراہی کرتی تھی۔‘‘ (ص ۴۵۱)
کوئی کہہ سکتا ہے کہ پانچویں عورت بیوی نہیں، لونڈی ہوگی، لیکن اس کا کیا کریں کہ ایسی عورتوں سے تعلقات کے ثبوت بھی اس سچی داستان میں موجود ہیں جو انگلستان جیسے مادر پدر آزاد ماحول میں بھی بدنام تھیں:
 ’’عبدالقادر برطانیہ کی دو ایسی شخصیات کا دوست اور معترف تھا جو اپنی ثقافت سے باغی تھیں۔ ایک وہ آزاد خیال روایت شکن جس نے مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی کوششوں میں تعاون کیا اور جس کے پسندیدہ موضوعات میں پرشہوت عورتیں، جسم فروشی اور زنخا بنانے کے طریقے شامل تھے، جب کہ دوسری شخصیت اخلاق باختہ سمجھی جانے والی ایک خود پسند اور بدنام عورت تھی جس نے اپنی جنسی مہم جوئی کے لیے اپنا بچہ تک چھوڑ دیا۔‘‘ (ص ۴۵۲)
جنسی مہم جوئی کے لیے اپنا سگا بچہ چھوڑنے والی ہمارے سچے مجاہد صاحب سے کیا تعلق رکھتی تھی اور ان کے ڈیرے پر باقاعدگی سے کس لیے حاضری دیتے تھی؟ ملاحظہ فرمائیں:
 ’’جین ڈھلتی ہوئی عمر کے عبدالقادر کی بھی منظور نظر بن گئی تھی جس نے احتیاط سے خضاب لگی ہوئی سیاہ داڑھی کے ساتھ اپنی جوانی کا تاثر قائم رکھا ہوا تھا۔ جین باقاعدگی سے نقیب ایلی آنے والے مہمانوں میں شامل تھی اور گرمیوں میں اکثر ان مہمانوں میں شامل ہوتی تھی جو امیر کی رہائش گاہ پر دریائے برادا کا نظارہ کرتے ہوئے پودینے کی چائے سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ جین نے اپنے شوہر میدجوئیل المرزگ کے ساتھ یہ معاہدہ کیا تھا کہ وہ سال میں چھ ماہ یورپی طرز کے مطابق زندگی بسر کرے گی۔ ۔۔۔ میدجوئل المرزگ کے ساتھ شادی نے ڈگبی جین کی اس دھماکہ خیز رومانی زندگی کا خاتمہ کردیا جس نے اسے سارے انگلینڈ میں بدنام کر رکھا تھا۔ ‘‘ (ص ۴۴۹، ۴۵۰)
اس کتاب کے ذریعے ہمیں کون سے اسلام اور کس طرح کی شریعت اپنانے کی ترغیب دی جا رہی ہے، اس کا کچھ اندازہ ذیل کی عبارت سے ہو جاتا ہے:
 ’’امیر کے پاس تو صرف ایک ہی سمت نما تھا اور وہ تھا اسلام۔ تنگ نظری پر مبنی فرقہ وارانہ اسلام نہیں بلکہ اس سے کہیں وسیع تراسلام، فطرت کا اسلام ، ہر اس جاندار کا اسلام جو خدا کے قانون کے آگے سر جھکا دے۔ امیر کا اسلام ایک ایسے خدا پر یقین رکھتا تھا جو ’’عظیم تر‘‘ تھا، جو اس کے حقیر بندوں اور اسلام سمیت اس کے کسی بھی مذہب کے تصور سے بھی عظیم تھا۔ ’’ہر شخص اسے اپنے مخصوص انداز میں جانتا اور اس کی عبادت کرتا ہے اور وہ دوسرے طریقوں سے مکمل طور پر لاعلم رہتا ہے۔‘‘ دوسرے لفظوں میں ہم سب غلط ہیں۔ اب عبدالقادر کے ذہن پر صرف ایک ہی دھن سوار تھی کہ خدا کی وحدانیت کو ان طریقوں کے تنوع کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے جن سے اس کے پیدا کیے ہوئے بندے اس کی عبادت کرتے ہیں۔‘‘ (ص ۳۷۶)
اب ہم ایک آخری حوالہ نقل کر کے رخصت چاہیں گے۔ اس سے معلوم ہوگا کہ اس کتاب کے ذریعے ہمیں اسلام کی جو تعبیر اور قرآن کی جو تشریح سکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے، یہ ’’برادری‘‘ کا پرانا حربہ ہے۔ خدا ان لوگوں کو ہدایت دے جو ایسے لوگوں کے آلہ کار بن کر اپنا نام چھپاتے اور کارنامے گنواتے پھرتے ہیں: ’’۱۸۶۰ء کے موسم خزاں میں پیرس میں سولہ صفحات پر مشتمل ایک پمفلٹ گردش کر رہا تھا جس کا عنوان تھا: ’’عبدالقادر، عرب شہنشاہ‘‘۔ اس کتابچے میں لکھا تھا کہ عظیم تر شام کے تخت پر بٹھانے کے لیے عربوں کو حقیقی صلاحیتوں کا مالک ایک رہنما چاہیے اور اس کے لیے عبدالقادر کا نام تجویز کیا گیا تھا۔ اس تحریر کے مطابق عبدالقادر مغرب اور مسلمانوں کو یہ سکھائے گا کہ ’’قرآن کے الفاظ کی صحیح تشریح کیا ہے اور ایک سچے مومن کو ان کی تعبیر کس طرح کرنی چاہیے۔‘‘ (ص ۴۳۵)

جھوٹے مجاہد کے جعلی ترجمان

’’امیر عبد القادر الجزائری‘‘ کے حالات پر مشتمل جان ڈبلیو کائزر کی کتاب کا ترجمہ ’’دار الکتاب‘‘ لاہور کے نام سے شائع کیا گیا ہے۔ ’’دار الکتاب‘‘ لاہور علمائے دیوبند کی فکری کا وارث ہے اور انقلابی جہادی تحریکوں سے متعلق کتابیں شائع کرتا ہے، لہٰذا یہ بات ہمارے لیے ناقابل یقین تھی کہ انقلابی مجاہدین کے جہادی کارناموں کو عام کرنے والا ادارہ ایک ایسی کتاب کیسے شائع کر سکتا ہے جو جہادی تحریکات کا تمسخر اڑاتی ہو، مجاہدین کو دہشت گرد اور مسلمانوں کو خونی درندے ثابت کرتی ہو۔ لہٰذا ہم نے اس بات کی تحقیق ضروری سمجھی کہ جہاد کی مخالفت کرنے والی اور مجاہدین کو دشمن انسان اور دشمن انسانیت اور دشمن رحمت ورافت ثابت کرنے والی کتاب کس نے شائع کروائی۔
اس سلسلے میں ۱۹؍ اپریل بروز جمعہ دن ۱۱ بجے دار الکتاب کے مالک سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے ہمارے ایک مہربان بزرگ جناب خالد جامعی صاحب کو یہ بتایا کہ امیر عبد القادر الجزائری والی کتاب پر ان کے ادارے کا نام تو ضرور ہے، لیکن وہ نہ تو اس کتاب کے ناشر ہیں اور نہ ہی انھیں اس بات کا علم ہے کہ ترجمہ کس نے کیا، نیز شائع کرنے والوں کے مقاصد کیا ہیں؟ ان سے جب گفتگو کی تفصیلات معلوم کی گئیں تو انھوں نے بتایا کہ یہ کتاب عمار خان ناصر صاحب نے شائع کروائی اور ہمیں فون پر اطلاع دے دی کہ یہ کتاب ہم نے آپ کے نام پر شائع کروائی ہے۔ بالکل اسی طرح عمار خان ناصر کی کتاب ’’براہین‘‘ بھی جبراً شائع ہوئی۔ کتاب عمار ناصر نے خود چھپوائی اور اس پر ہمارا نام شائع کروا دیا۔
ہمارے ایک اور دوست نے بتایا کہ امیر عبد القادر والی کتاب کی تعارفی تقریب لاہور کے ایک ہوٹل میں منعقد ہوئی جس کے مہمان خصوصی امریکی سفارت خانے کے سیکنڈ سیکرٹری تھے۔ نظامت کے فرائص عمار خان ناصر انجام دے رہے تھے۔ اس تفصیل کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ کتاب پر تبصرہ سے پہلے کتاب کی اشاعت وطباعت وترسیل وتقسیم کی طلسماتی کہانی خود ہی اس کتاب کی حقیقت، ماہیت، حیثیت، پس منظر، پیش منظر اور تہہ منظر کو بتانے کے لیے کافی اور شافی ہے۔
کتاب کے سرورق کی پشت پر ایک ویب سائٹ کا نام دیا گیا ہے: www.truejihad.com ۔ اس ویب سائٹ کا نام ہی مغرب کے مقاصد، اہداف، ارادوں اور عزائم کی ترجمانی کرتا ہے۔ جہاد تو جہاد ہوتا ہے۔ True Jihad  کیا ہوتا ہے؟ عصر حاضر میں جب بھی کوئی یہ کہے کہ ’’حقیقی اسلام، حقیقی جہاد،حقیقی فقہ، حقیقی اجتہاد‘‘ تو اس کا مطلب صرف اور صرف یہ ہوتا ہے کہ غیر حقیقی اسلام، غیر حقیقی جہاد، ایسا اسلام اور ایسا جہاد جو صرف اور صرف مغرب کے استعماری غلبے، عالمی تسلط اور مسلمانوں کی تباہی وبربادی کو ممکن بنا سکے۔ 
بروز جمعہ ۱۹؍ اپریل ۲۰۱۳ء کو ۳۰:۱۱ بجے ہم نے truejihad  نامی ویب سائٹ کا مطالعہ کیا تو اس ویب سائٹ سے ہمیں دو مضامین میسر آئے۔ 
(۱) Some words about true and false jihad جو A4 سائز کے بارہ صفحات پر مشتمل ہے۔
(۲) The Abd el-Kader Education project 2011 in Review جو A4 سائز کے 7صفحات پر مشتمل ہے۔ ان کے مطالعہ کے بغیر اس کتاب کی حقیقت آشکار نہیں ہو سکتی۔
عبد القادر ایجوکیشن پراجیکٹ کا تعارف کراتے ہوئے اس پروجیکٹ کے پس منظر کے بارے میں درج ذیل معلومات مہیا کی گئی ہیں۔ ان معلومات پر کسی قسم کے تبصرے کی کوئی ضرورت نہیں۔
امیر عبد القادر الجزائری کی خدمات کے اعتراف کے سلسلے میں Iowa سینٹر) امریکہ کے شہر Iowa City میں قائم کیا گیا۔ 
بنیادی سوال یہ ہے کہ مجاہد عالم اسلام کا ہے اور اس کی تقدیس، تکریم، تحسین اور تشہیر امریکا والے کر رہے ہیں۔ این چہ بو العجبی است؟ 
امیر عبد القادر کی یاد منانے کے لیے ’’القادر اوپیرا ہاؤس‘‘ میں مقررین خطاب فرماتے ہیں اور اس کے بعد روایتی مغربی تفریحات کا اہتمام ہوتا ہے۔ انٹرنیٹ پر ایک اور ویب سائٹ www.abdelkaderproject.org  موجود ہے۔ اس ویب سائٹ کا مقصد دنیا کے تمام تعلیمی اداروں کو امیر عبد القادر کے بارے میں معلومات اور نصابی مواد مہیا کرنا ہے تاکہ اسکول میں امیر عبد القادر نصاب کا حصہ بن جائے۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل عبارت ملاحظہ کیجیے:
Provides learning tools & curriculum materials to help educators in corporate abdel-kader's stay & his example in the days's calm zoom.
بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر مسلمان کسی مجاہد یا عظیم ہستی کو اپنے اسکول یا مدرسے کے ہر طالب علم کو واقف کرانا پسند کریں تو دو مجاہدوں کو کسی قیمت پر فراموش نہیں کر سکتا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ، یہ ایسے مجاہدین تھے جن کے صرف اسلام پر ہی نہیں، پوری تاریخ انسانیت پر بے شمار احسانات ہیں۔ مغرب نے ان دو سپہ سالاروں کو منتخب کرنے اور ان کی تعلیمات اور طرز زندگی کو طلبہ تک پہنچانے کے بجائے امیر عبد القادر کا انتخاب کیوں کیا؟ یہ بہت سادہ سا مسئلہ ہے۔ 
امریکا کے Iowa شہر کے اور ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جو Elkader کے نام سے موسوم ہے۔
آخر امریکی جو مسلمانوں پر آگ اور خون کی بارش برسانے میں سب سے آگے ہیں، ایک مسلمان کو اتنی عزت دینے پر کیوں مجبور ہو گئے؟اس فراخ دلی کا راز ہر صاحب عقل پر آشکارا ہے۔ امیر عبد القادر الجزائری جس قسم کے مجاہد تھے، امریکا اور اس کے مغربی حمایتی اسی قسم کے کرزئی مجاہدین کو آگے لانا چاہتے ہیں جنھیں جب چاہیں، ماڈرن اسلام اور ماڈرن جہاد کے مثالی نمونے کے طور پر پیش کیا جا سکے۔ وہ ہرگز نہیں چاہتے کہ امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد حفظہ اللہ اور شہید المومنین شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ جیسی صاحب عزیمت واستقامت شخصیات، مجاہدین کے آئیڈیل بن سکیں۔ مغرب کی اس ذہنیت کے تناظر میں ان حضرت کے ذہنی ونظریاتی رشتوں کو بھی سمجھا جا سکتا ہے جو اس قسم کی کتابیں شائع کرا کر ہمارے یہاں ’’سچے جہاد‘‘ کی اشاعت چاہتے ہیں۔ 
(بشکریہ ہفت روزہ ’’ضرب مومن‘‘ کراچی)

الجزائری کی داستان حیات: چند توضیحات

محمد عمار خان ناصر

کوئی دو سال قبل مجھے امریکی مصنف جان کائزر کی ایک کتاب کے توسط سے انیسویں صدی میں فرانس کی استعماری طاقت کے خلاف الجزائر میں جذبہ حریت بیدا ر کرنے اور کم وبیش دو دہائیوں تک میدان کارزار میں عملاً داد شجاعت دینے والی عظیم شخصیت، امیر عبد القادر الجزائری کی شخصیت سے تفصیلی تعارف کا موقع ملا تو فطری طور پر یہ خواہش پیدا ہوئی کہ ان کی داستان حیات اور خاص طو رپر ان کے تصور جہاد سے پاکستان کی نئی نسل کو بھی آگاہی پہنچانی چاہیے تاکہ ہمارے ہاں شرعی جہاد کا مسخ شدہ اور شرعی اصولوں کے بجائے ہمارے اخلاقی، تہذیبی اور نفسیاتی زوال کی عکاسی کرنے والا جو تصور پروان چڑھ رہا ہے، اس کا کسی حد تک مداوا ہو سکے اور ماضی قریب کی تاریخ سے ایک ایسا نمونہ لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے جس سے ہم عزم وہمت اور جرات وحوصلہ کے ساتھ ساتھ حقیقت پسندی، معروضیت اور بلند اخلاقی کا سبق بھی سیکھ سکیں۔ اس ضمن میں، مجھے ابتدا ہی سے اس بات کا پورا اندازہ تھا کہ امیر الجزائری کی شخصیت اور طرز جدوجہد سے حکمت وفراست اور اخلاقی اصولوں کی پاس داری کا جو نقشہ سامنے آتا ہے، ہمارے ہاں کا جہادی ذہن یقیناًاس سے بدکے گا اور رد عمل میں لازماً اس انداز کی کوششیں ہوں گی کہ اپنے پسندیدہ جہادی ہیروؤں کے مقابلے میں امیر کی شخصیت کی قدر وقیمت کو گھٹایا اور ان کی ذات کو دینی واخلاقی لحاظ سے مجروح کیا جا سکے۔ میرا یہ اندازہ درست ثابت ہوا ہے اور کراچی سے شائع ہونے والے ہفت روزہ اخبار ’’ضرب مومن‘‘ کے ایک حالیہ شمارے میں مفتی ابو لبابہ شاہ منصور صاحب نے امیر عبد القادر الجزائری کی شخصیت اور ان کی داستان حیات سے متعلق جان کائزر کی کتاب کے اردو ترجمے کی پاکستان میں اشاعت کے حوالے سے، جس میں راقم الحروف کی سعی وکاوش بھی شامل رہی ہے، اپنے خیالات کا اظہار فرمایا ہے۔ مفتی صاحب نے اس حوالے سے بعض ’’خفیہ حقائق‘‘ سے قارئین کو آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے جو وضاحت کا تقاضا کرتے ہیں، اس لیے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ ان سے متعلق اپنی مختصر معروضات قارئین کے سامنے پیش کر دوں۔
پہلی بات کتاب کے اردو ترجمے کی اشاعت کے لیے لاہور کے معروف اشاعتی ادارے ’’دار الکتاب‘‘ کا نام استعمال کرنے سے متعلق ہے۔ مفتی صاحب نے فرمایا ہے کہ راقم الحروف نے جان کائزر کی کتاب ’’امیر عبد القادر الجزائری‘‘ اور اس کے علاوہ اپنے مقالات کا مجموعہ ’’براہین‘‘ دار الکتاب کے مالکان سے اجازت لیے بلکہ انھیں پیشگی اطلاع دیے بغیر ’’جبراً‘‘ ان کے نام سے شائع کی ہیں۔ یہ بات خلاف واقعہ ہونے کے ساتھ ساتھ بدیہی طور پر مضحکہ خیز بھی ہے، کیونکہ اول تو ایک جانے پہچانے اور معروف ادارے کے ساتھ اس طرح کا کوئی ’’ہاتھ‘‘ کرنا ممکن ہی نہیں اور فرض کریں کہ ایسا کیا جائے تو بھی کتاب کی اشاعت کے بعد وہ ادارہ حقیقت حال کی وضاحت کرنے اور قانونی چارہ جوئی کا پورا اختیار رکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دار الکتاب کے مالک حافظ محمد ندیم صاحب کے ساتھ کافی عرصے سے راقم کے ذاتی مراسم کے علاوہ اشاعتی کاموں میں باہمی تعاون کا تعلق بھی ہے اور اس سے قبل بھی ہم ۲۰۰۷ء میں دینی مدارس کے نظام تعلیم سے متعلق دو کتابیں الشریعہ اکادمی اور دار الکتاب کے مشترکہ اہتمام میں شائع کر چکے ہیں، جبکہ اسی نوعیت کے دوسرے منصوبوں پر بھی مشورہ اور گفت وشنید کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ ’’الجزائری‘‘ اور ’’براہین‘‘، دونوں کی اشاعت کے ضمن میں حافظ محمد ندیم صاحب کو پوری طرح اعتماد میں لیا گیا تھا اور ان کی پیشگی اجازت کے بعد ہی یہ کتابیں دار الکتاب کے نام سے شائع کی گئی تھیں اور اشاعت کے بعد سے اب تک دار الکتاب کے واسطے سے مسلسل قارئین تک پہنچ رہی ہیں۔ البتہ یہ بات ملحوظ رہنی چاہیے کہ چونکہ مذکورہ کتب اور خاص طور پر ’’براہین‘‘ کی اشاعت اصلاً دار الکتاب کی تجویز نہیں تھی، اس لیے ان کے مندرجات سے ان کا متفق ہونا بھی ضروری نہیں۔ دارالکتاب نے ان کتب کو شائع کرنے کی اجازت اتفاق رائے کے اصول پر نہیں، بلکہ دوستانہ مراسم کے تناظر میں رواداری کے اصول پر دی تھی جس کے لیے میں ان کا شکر گزار ہوں۔ جو حضرات ان معروضات کی تصدیق کرنا چاہیں، وہ حافظ ندیم صاحب سے ان کے فون نمبر 0300-8099774 پر براہ راست رابطہ کر سکتے ہیں۔
مفتی صاحب نے اس کتاب کی اشاعت کے سلسلے میں میری دلچسپی اور سعی وکاوش کو اس انداز سے آشکارا کرنے کی کوشش کی ہے جیسے انھوں نے کوئی انتہائی خفیہ ’’سازش‘‘ گہری صحافیانہ تحقیق کے بعد دریافت کی ہو، حالانکہ میں اس کتاب کے مصنف جان کائزر کے ساتھ رابطے، کتاب کے انگریزی متن پر نظر ثانی، اردو ترجمے کی ترتیب وتدوین اور پھر اس کی اشاعت کے سلسلے میں اپنی دلچسپی اور کوششوں کی پوری تفصیل خود اپنے قلم سے ماہنامہ الشریعہ کے مارچ ۲۰۱۲ء کے شمارے میں لکھ چکا ہوں۔ مجھے جان کائزر کی کتاب سے امیر عبد القادر کی شخصیت کے متعلق پہلی مرتبہ علم ہوا اور میں نے ان کی داستان حیات سے اردو قارئین کو واقفیت بہم پہنچانے میں دلچسپی محسوس کی اور اس کے لیے بساط بھر جو کچھ کر سکا، کیا۔ یہ ایک بالکل کھلی ہوئی اور علانیہ بات ہے جس میں نہ سازش کا کوئی پہلو ہے اور نہ خفیہ منصوبہ بندی کا۔ 
مفتی صاحب نے لاہور کے ایک ہوٹل میں منعقد ہونے والی تقریب کا ذکر بھی کیا ہے جس میں امریکی سفارت خانے کے ایک عہدے دار شریک ہوئے تھے۔ اس ضمن میں بھی بعض معلومات کی تصحیح ضروری ہے۔ یہ تقریب جان کائزر کی کتاب کے تعارف کے حوالے سے نہیں، بلکہ اس کی اشاعت سے بہت پہلے امیر عبد القادر کی شخصیت کے تعارف کے حوالے سے میزونٹ ہوٹل میں منعقد ہوئی تھی۔ اس کا اہتمام جناب عبد القدیر خاموش نے کیا تھا جو ’’مسلم کرسچین انٹرفیتھ ڈائیلاگ‘‘ کے زیر عنوان بین المذاہب افہام وتفہیم کے حوالے سے اس طرح کی تقاریب منعقد کرتے رہتے ہیں۔ میں نے اس تقریب میں نظامت کی ذمہ داری انجام نہیں دی تھی، بلکہ محض امیر کی شخصیت کے حوالے سے ایک لیکچر دیا تھا۔ امریکی سفارت خانے کے ایک عہدے دار (جن کا نام اور منصب مجھے بالکل یاد نہیں) اس میں مہمان خصوصی نہیں تھے، بلکہ مختصر دورانیے کے لیے شریک ہوئے تھے۔ جہاں تک اس طرح کی تقاریب میں شرکت کا تعلق ہے تو تحفظاتی ذہن رکھنے والے حضرات یقیناًاس پر معترض ہو سکتے ہیں اور اس کے ڈانڈے یہود وہنود کی خفیہ سازشوں سے بھی جوڑ سکتے ہیں، لیکن ایسی تقاریب جن کا موضوع سخن مختلف مذاہب کی باہمی دلچسپی سے تعلق رکھتا ہو اور خاص طور پر ان کا مقصد اسلام سے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ ہو، ان میں غیر ملکی حکومتوں کے نمائندوں کی شرکت کسی بھی طرح کوئی ناقابل فہم بات نہیں، بلکہ اس نوعیت کی تقریبات میں ہمارے ہاں کا عام معمول ہے۔ اس زاویہ نظر سے کم از کم میں ایسی تقریبات میں شریک ہونے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا اور نہ اس پر کسی قسم کی معذرت خواہی یا صفائی پیش کرنے کی ضرورت محسوس کرتا ہوں۔
مفتی صاحب نے امیر عبد القادر کی شخصیت کے بارے میں بھی اپنے منفی تاثرات کو بڑی وضاحت سے پیش کیا ہے اور یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ ان کے اس منفی تاثر کی بنیاد امیر عبد القادرکا ’’شکست خوردہ‘‘ جہاد ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ امیر عبد القادر نے کم وبیش سولہ سال تک فرانسیسی استعمار کے خلاف میدان کارزار میں سرگرم رہنے کے بعد جب یہ دیکھا کہ پوری الجزائری قوم رفتہ رفتہ فرانسیسی کیمپ کا حصہ بن چکی ہے اور ان کے ساتھ بس چند سو کی تعداد پر مشتمل جاں نثار ساتھیوں کی ایک چھوٹی سی جماعت رہ گئی ہے تو انھوں نے اپنی جماعت کو اس بے حاصل کشمکش کی نذر کرنے کے بجائے فرانس کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھانے کا فیصلہ کر لیا اور اپنی جماعت کو بحفاظت جلا وطن کر دیے جانے کی شرط پر فرانس کے ساتھ مصالحت کر لی۔ امیر کی اس حکمت عملی سے اختلاف کرنے والے اختلاف کر سکتے ہیں اور ہر قیمت پر لڑتے رہنے کو ’’عزیمت‘‘ کا عنوان دے کر جہاد کی آئیڈیل صورت بھی قرار دے سکتے ہیں، لیکن یہ حقیقت نظروں سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے کہ اسلامی تاریخ میں اس طرز عمل کے نمونے بھی موجود ہیں جو امیر الجزائری نے اختیار کیا۔ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ایک جنگ میں پے در پے شکست سے دوچار ہونے کے بعد جب اپنے ساتھیوں کو بحفاظت میدان جنگ سے نکال کر واپس مدینہ منورہ لے آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس عمل کی تحسین فرمائی تھی۔ خود ہمارے ہاں ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں شکست کے بعد بعض اکابر نے جلا وطنی اختیار کر لی تھی اور دوسروں نے جنگ سے کنارہ کش ہو کر تعلیم وتدریس کے میدان کا انتخاب کر لیا تھا اور اس کے بعد سے، تحریک ریشمی رومال کے استثنا کے ساتھ، دیوبندی تحریک نے بالعموم انگریزی حکومت کے ساتھ تصادم کے بجائے پرامن سیاسی جدوجہد کا طریقہ ہی اختیار کیے رکھا ہے۔ 
یہ معروضی صورت حال میں مناسب حکمت عملی کے انتخاب کا مسئلہ ہے جس میں وہی فریق بہتر فیصلہ کر سکتا ہے جو اْس صورت حال میں کھڑا ہو۔ یہ کوئی ایسا جرم نہیں کہ اس پر مطعون کرتے ہوئے امیر عبد القادر کو نہ صرف ’’یہود کا گماشتہ‘‘ قرار دے دیا جائے، بلکہ ان کی ذاتی زندگی کے حوالے سے بھی بے بنیاد الزامات عائد کرنے کی کوشش کی جائے۔ 
مفتی صاحب کی طرف سے امیر کو ’’یہود کا گماشتہ‘‘ قرار دینے کی بنیاد اس نکتے پر ہے کہ انھوں نے ایک دور میں فری میسن تنظیم کی رکنیت قبول کر لی تھی۔ یہ بات درست ہے اور کوئی ڈھکی چھپی نہیں، بلکہ معلوم ومعروف بات ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ امیر نے یہ رکنیت جس حسن تاثر اور جس اعلیٰ جذبے کے تحت قبول کی تھی، بعد میں اس کے حوالے سے عدم اطمینان ہونے پر انھوں نے اس سے علیحدگی بھی اختیار کر لی تھی۔ افسوس ہے کہ مفتی صاحب نے جان کائزر کی کتاب سے وہ اقتباسات تو نقل کر دیے ہیں جو فری میسن سے وابستگی کی تفصیلات بتاتے ہیں، لیکن انھی صفحات پر موجود یہ اطلاع انھوں نے کمالِ دیانت سے حذف کر دی ہے کہ انھوں نے اس تحریک سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ پھر یہ کہ فری میسن سے وابستگی ان کی زندگی کے آخری دور میں دمشق کے قیام کے دوران کا واقعہ ہے، جبکہ فرانس کے خلاف جہاد اور پھر صلح کے معاملات اس سے کئی دہائیاں پہلے گزر چکے تھے جب امیر کو فری میسن کے بارے میں سرے سے کوئی خبر ہی نہیں تھی۔ اس لیے جہاد سے دست برداری کے معاملے میں ان کے طرز عمل کو ان کے ’’یہودی گماشتہ‘‘ہونے سے وابستہ کرنا کسی بھی منطق کی رو سے درست نہیں ہو سکتا۔
مفتی صاحب نے امیر عبد القادر کو ’’ماڈرن جہاد‘‘ کا نمائندہ ثابت کرنے کے لیے یہ نکتہ بھی پیش کیا ہے کہ ان کی تعریف وتوصیف میں اہل مغرب رطب اللسان ہیں، ان کے نام پر امریکہ کی ریاست Iowa میں ایک قصبے کو موسوم کیا گیا ہے اور وہاں کے پبلک اسکولوں میں طلبہ کو امیر کی شخصیت سے واقف کرانے کے لیے ایک مستقل تعلیمی پروگرام چل رہا ہے۔ مفتی صاحب کا سوال یہ ہے کہ آخر ایک ’’سچے مجاہد‘‘ کے ساتھ اہل مغرب اس طرح کا تعلق خاطر کیونکر رکھ سکتے ہیں؟
یہ سوال اہل مغرب کے ہاں امیر کی مقبولیت کے اصل پس منظر کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہے۔ اہل مغرب کے ہاں امیر کی تکریم وتعظیم کا سبب ان کا ’’مجاہد‘‘ ہونا نہیں، بلکہ ایک تو ان کا وہ اخلاقی طرز عمل ہے جو انھوں نے فرانسیسی قیدیوں کی دیکھ بھال اور ان کے جسمانی ومذہبی حقوق کے احترام کے حوالے سے اختیار کیا اور دوسرا بلکہ اصلی سبب ان کا اور ان کے ساتھیوں کا وہ جرات مندانہ کردار ہے جو انھوں نے ۱۸۶۰ء میں دمشق میں مسلم مسیحی فسادات کے موقع پر بے گناہ مسیحیوں کو مسلمانوں کے مشتعل ہجوم سے، جو ان سب کو تہہ تیغ کر دینا چاہتا تھا، بچانے کے لیے ادا کیا تھا۔ درحقیقت امیر کا یہی وہ کردار ہے جس نے اس وقت کے نمایاں ترین مغربی قائدین اور اخبارات وجرائد کو ان کی تعریف میں یک زبان کر دیا اور انھیں مغرب میں اعلیٰ مذہبی اخلاقیات کے ایک مجسم نمونے کے طور پر جانا جانے لگا۔ امریکہ کی ریاست Iowa میں ایک قصبے کو ان کے نام پر موسوم کرنے اور طلبہ کو ان کی شخصیت سے متعارف کرانے کا پس منظر یہی ہے۔ میرے نزدیک اس پہلو سے امیر کی شخصیت نہ صرف آج کے مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ہے، بلکہ اہل مغرب کے سامنے اسلام کے تصور جہاد کے درست تعارف کے لیے بھی ایک گراں قدر اثاثے کی حیثیت رکھتی ہے۔ افسوس ہے کہ ہم دعوتی ذہن کے تحت ان جیسی شخصیت کی قدر وقیمت محسوس کرنے کے بجائے نفسیاتی شدت احساس کے زیر اثر انھیں مجروح کرنے اور ان کے مقابلے میں فکری واخلاقی بونوں کا امیج بلند کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مفتی صاحب نے امیر الجزائری پر ’’حد سے بڑھی ہوئی شہوت پرستی‘‘ کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ یہاں بھی ، افسوس ہے کہ انھوں نے سخت غیر اخلاقی طرز عمل اختیار کیا ہے۔ انھوں نے جان کائزر کی کتاب سے امیر سے میل ملاقات رکھنے والی ایک مغربی خاتون جین ڈگبی کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ امیر کے حرم میں پانچ بیویاں تھیں، لیکن حاشیے میں مصنف کا یہ نوٹ نظر انداز کر دیا ہے کہ جین ڈگبی کی اس اطلاع کی کسی دوسرے ذریعے سے تصدیق نہیں ہوتی اور یہ کہ جین کا یہ بیان محض قیاس آرائی بھی ہو سکتا ہے۔ مفتی صاحب نے مزید ستم یہ کیا ہے کہ خود جین ڈگبی کو، جو امیر کی مجلسوں میں شریک ہونے اور ان سے قریبی سماجی تعلقات رکھنے والے بہت سے مغربی افراد میں سے ایک تھی، امیر کے ساتھ ناجائز تعلقات میں ملوث دکھانے کی کوشش کی ہے۔ میرے لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ استنتاج ایک منفی زاویہ نظر سے بعض معلومات کو پڑھنے کا نتیجہ ہے یا اس میں بالقصد اتہام طرازی کا عنصر بھی پایا جاتا ہے۔ حقیقت حال جو بھی ہو، بہرحال یہ ایک نہایت افسوس ناک طرز تحریر ہے جسے میں کسی تردد کے بغیر سطحی اور پراپیگنڈا صحافت کا ایک نمونہ قرار دوں گا۔ قارئین، کتاب کے متعلقہ حصوں کے مطالعے سے خود معلوم کر سکتے ہیں کہ نہ تو مصنف کے پیش نظر امیر اور جین ڈگبی کے مابین ناجائز تعلقات کی نشان دہی ہے اور نہ درج کردہ معلومات سے استدلال کے کسی بھی اصول کے تحت یہ نتیجہ یا اس کی طرف کوئی اشارہ ہی اخذ کیا جا سکتا ہے۔ فرض کریں، امیر کی زندگی میں اس قسم کا کوئی پہلو پایا جاتا ہو تو بھی ایسی کسی بات کا زیر نظر کتاب میں درج ہونا خود مفتی صاحب کے مفروضے کی رو سے بھی ناقابل فہم ہے، کیونکہ اگر یہ کتاب کسی سازش کے تحت مسلمانوں میں ’’جعلی‘‘ مجاہد کو ’’حقیقی‘‘ اسلام کے نمائندے کے طور پر متعارف کروانے کے لیے لکھی گئی ہے تو اس کا مصنف اتنا بے وقوف تو نہیں ہو سکتا کہ مسلمانوں میں اخلاقیات کے تصور سے بالکل ناواقف ہو اور امیر کی شخصیت کا ایک ایسا پہلو کتاب میں بیان کر دے جس سے کتاب کا سارا مقصد ہی سرے سے فوت ہو جاتا ہو۔ انسان بعض دفعہ سازشی مفروضوں کے گھوڑے پر ایسا سوار ہوتا ہے کہ کامن سینس کو بھی پس پشت ڈال دیتا اور بالکل سامنے کی چیزوں کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ مفتی صاحب کو اس اتہام طرازی کے لیے روز قیامت کو اللہ تعالیٰ اور امیر عبد القادر کے سامنے جواب دہی نہ کرنی پڑے۔ 
آخری گزارش کے طور پر یہی عرض کرنا چاہوں گا کہ کسی بھی شخص کے آرا وافکار یا حکمت عملی سے اختلاف کوئی ناپسندیدہ بات نہیں، لیکن اختلاف کا حسن یہی ہے کہ آپ اخلاقی اصولوں اور آداب اختلاف کو ملحوظ رکھتے ہوئے تنقید کریں۔ تحریر میں سطحی اور گمراہ کن ہتھکنڈے استعمال کر تے ہوئے سنسنی کی فضا پیدا کر کے وقتی طور پر تو قارئین میں مقبولیت حاصل کی جا سکتی ہے، لیکن اس طرز تحریر سے وجود میں آنے والے لٹریچر کی عمر اس دنیا میں بھی زیادہ نہیں ہوتی اور آخرت تو ہے ہی اسی لیے کہ وہ دنیا میں لوگوں کی نظروں میں ’مزین‘ کر دیے جانے والے اعمال کی قلعی کھول کر رکھ دے!! اللہم احسن عاقبتنا فی الامور کلہا واجرنا من خزی الدنیا وعذاب الآخرۃ۔

مکاتیب

ادارہ

(۱)
۱۹ اپریل ۲۰۱۳ء
مکرمی ومحترمی جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
گزشتہ مہینے آپ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں میرے دفتر میں تشریف لائے اور مجھے ملاقات کی سعادت نصیب فرمائی۔ اس کے لیے میں آپ کا تہ دل سے ممنون ہوں۔ میرے لیے وہ دن یقیناًبے حد خوشی کا دن تھا۔ آپ سے ملاقات کے دو تین بعد آپ کی عنایت سے آپ کے چند کالم، ’’الشریعہ‘‘ اور ’’نصرۃ العلوم‘‘ کے تازہ شمارے بھی ملے جن کے لیے میں آپ کا بے حد مشکور ہوں۔
آپ کو معلوم ہے کہ میں آپ اور عزیزم محمد عمار خان ناصر کی تحریروں کا ایک مدت سے مداح ہوں۔ خصوصاً اس وجہ سے کہ آپ دونوں کے خیالات میں جو توازن اور اعتدال پایا جاتا ہے، وہ ہمارے مذہبی (اور دیگر حلقوں میں) آج کل ناپید ہے۔ تاہم پورے احترام اور عقیدت کے ساتھ میں ’’نصرۃ العلوم‘‘ کے مارچ ۱۲۰۳ء کے شمارے میں آپ کے قلم سے لکھے ہوئے اداریے کے بارے میں اپنی مایوسی اور شکایت کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ آپ جیسے معتدل مزاج عالم دین سے مجھے ہرگز توقع نہیں تھی کہ آپ شیخ الازہر ڈاکٹر احمد الطیب کے اس متعصبانہ بیان کی تائید کریں گے جو موصوف نے ایران کے صدر جناب محمد احمدی نژزاد کے سامنے دیا۔ مجھے شیخ الازہر سے بھی ہرگز یہ توقع نہیں تھی کہ مہمان نوازی کی اخلاقیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وہ اپنے گھر آئے مہمان کو اس طرح ڈانٹ پلائیں گے جیسا کہ ان کے بیان سے عیاں ہے۔
اس سلسلے میں دو تین باتیں سامنے رکھنا ضروری ہے:
۱۔ شیخ الازہر کا یہ شکوہ کہ ایران خلیج کی ریاستوں اور خصوصاً ’’برادر ہمسایہ عرب ملک‘‘ بحرین کے معاملات میں مداخلت کر رہا ہے، صریحاً غلط بینی اور یک طرفہ فیصلے کے مترادف ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں، بحرین میں اہل تشیع کی اکثریت ہے اور اس کے باوجود انھیں نہ شہری حقوق حاصل ہیں اور نہ ہی ووٹ دینے کا حق۔ گزشتہ دو سال سے وہاں شہری حقوق اور سیاسی آزادیوں کے لیے ایک تحریک چل رہی ہے۔ اس تحریک میں یقیناًاہل تشیع کی اکثریت ہے، لیکن اس میں بحرین کے جمہوریت پسند سنی بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ یہ تحریک پرامن تحریک تھی، لیکن اس کو کچلنے کے لیے جس بے رحمی سے فائرنگ کر کے درجنوں شیعوں کو ہلاک کیا گیا اور سینکڑوں لوگوں کو جیل میں ڈالا گیا، حتیٰ کہ ان ڈاکٹروں اور نرسوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا جنھوں نے زخمی مظاہرین کی مرہم پٹی کی تھی۔ یہ سب کچھ بین الاقوامی پریس میں اور خود ہمارے اخبارات میں مسلسل رپورٹ ہوتا رہا ہے۔ شیخ الازہر شکایت کرتے ہیں (اور آپ اس کی تائید کرتے ہیں) کہ ایران، بحرین کے داخلی امور میں مداخلت کر رہا ہے، حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ بحرین کے شاہی نظام کی حفاظت کے لیے ایران نے نہیں، بلکہ ’’برادر عرب ملک‘‘ نے اپنی فوج بھیجی تھی۔
۲۔ میرے علم کی حد تک حکومت ایران کی جانب سے نہ تو سنی ممالک میں شیعہ مذہب کو پھیلانے کی کوئی باقاعدہ کوشش ہو رہی ہے اور نہ ہی، جیسا کہ شیخ الازہر نے الزام لگایا ہے، ’’اہل سنت کے مسلک کو گزند پہنچانے‘‘ کی کوئی مہم چلائی جا رہی ہے۔ ۱۹۷۹ء کے انقلاب کے فوراً بعد یقیناًایران کی مذہبی قیادت میں مسلکی جوش وخروش کی فراوانی تھی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسے اندازہ ہو گیا تھاکہ جس چیز کو اولیت حاصل ہے، وہ ایران کے قومی مفادات ہیں، مسلکی ترجیحات نہیں۔
’’الامام الاکبر‘‘ صاحب کو اتنی بات تو معلوم ہونی چاہیے کہ خطے میں گزشتہ تیس سال سے مختلف ملکوں کے درمیان اقتدار کی جو جنگ جاری ہے، اس میں دوسرے ملکوں کی طرح ایران بھی ایک اہم کردار ہے۔ مشرق وسطیٰ اور خلیج میں جو ملک آج برسرپیکار ہیں، وہ شیعہ اور سنی مسلک کے لیے نہیں، عراق، شام، لبنان اور مقبوضہ فلسطین میں اپنا اپنا اثر ورسوخ بڑھانے کے لیے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اقتدار کی اس جنگ کو شیعہ سنی تنازعے سے تعبیر کرنا ایسا ہی ہے جیسے صدام حسین کا ۱۹۹۱ء میں یہ دعویٰ کہ وہ اہل عرب اور اہل سنت کی بالادستی کے لیے ایران پر حملہ آور ہوا تھا یا امریکہ کا دعویٰ کہ اس نے ۲۰۰۳ء میں جمہوریت کے فروغ کے لیے عراق پر حملہ کیا تھا۔ بلاشبہ ایران کی خارجہ پالیسی، دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح، تضادات کا مجموعہ ہے اور اس کی بنیادی وجہ ایران کے قومی مفادات ہیں جن کی ترجیحات حالات کے مطابق بدلتی رہتی ہیں۔ اخلاقیات، مسلک اور مذہبی رجحانات کی حیثیت خارجہ پالیسی میں اکثر وبیشتر ثانوی ہوتی ہے۔
۳۔ جہاں تک الازہر کے شیوخ کی علمی دیانت اور اسلامی Integrity کا تعلق ہے تو میرے خیال میں یہ بات جاننے کے لیے گوگل سرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ گزشتہ پچاس سال سے ان حضرات (الا ما شاء اللہ) صدر جمال عبد الناصر، انوار سادات اور حسنی مبارک اور ان کی پالیسیوں کے حق میں کتنے فتوے دیے ہیں اور ہر آمر کی کن کن حیلوں سے ہاں میں ہاں ملائی ہے۔
۴۔ اداریے کے آخر میں آپ کا یہ ارشاد کہ ’’شیخ الازہر آگے بڑھ کر اس مسئلہ پر عالم اسلام کے علمی حلقوں کی باہمی مشاورت کا بھی اہتمام کریں تاکہ اجتماعی طور پر اس سلسلے میں کوئی لائحہ عمل اختیار کیا جا سکے‘‘ ایک نہایت خطرناک تجویز ہے جس کا مطلب اس کے علاوہ اور کچھ نہیں لیا جا سکتا کہ شیعوں کے خلاف ایک عالمی سنی محاذ بنایا جائے۔ امید ہے، آپ میری معروضات پر ناراض نہیں ہوں گے اور اپنے اس اداریے کے خطرناک مضمرات پر غور فرمائیں گے۔
کل کی طرح آج بھی آپ کا نیاز مند
(ڈاکٹر) ممتاز احمد
[صدر] بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد
(۲)
محترم مدیر ماہنامہ الشریعہ
السلام علیکم۔ اللہ آپ سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور نظر بد سے محفوظ رکھے۔
آپ بحث و مباحثہ، حالات و واقعات اور مکالموں میں اپنے نظریات پر قائم رہتے ہوئے دوسروں کا نقطہ نظر پیش کرتے ہیں جو اس سے پہلے دیکھنے میں نہیں آیا۔ یہ ہی اعتدال کی راہ ہے اور قوم کو تنگ نظری سے نکالنے کا راستہ ہے۔
چودھری محمد یوسف ایڈووکیٹ کے ’’صریر خامہ‘‘ پر تبصرہ کے جواب میں میرا ایک مضمون ’’جماعت اسلامی کے ناقدین و مصلحین‘‘ ماہنامہ الشریعہ کے شمارے فروری میں شائع ہوا جس کی نوک پلک سنوارنے اور ایڈٹ کا فریضہ ادا کرنے سے جہاں مضمون کے حسن کو چار چاند لگ گئے وہاں کچھ ابہام بھی پیدا ہوگئے۔ مثلاً مجھے اسلامی جمعیۃ طلبہ کینٹ کا رکن لکھا گیا جبکہ میں شروع سے آخر تک ناظم ہی رہا۔ اس وقت کینٹ کا وجود ہی نہیں تھا، میں گوجرانوالہ کا ناظم تھا۔ کینٹ میں عارضی طور پر مقیم ہوں، میری رہائش پیپلز کالونی میں ہے۔ شاید اس فقرے سے بھی ابہام پیدا ہوا کہ چودھری یوسف صاحب کو جماعت وراثت میں ملی اور مجھے سوچ سمجھ اور پرکھ کر اس کا ساتھ دینا پڑا۔ مگر میں آج تک جماعت اسلامی کا نہ رکن نہ رفیق نہ متفق رہا۔ اگرچہ ایوب خان کے خلاف پی۔ڈی۔ایم کے پلیٹ فارم سے جاتا رہا، گرفتاری کے فورًا بعد کم عمری کی بنا پر چھوڑ دیا گیا، پاکستان قومی اتحاد کی تحریک میں شریک رہا، گوجرانوالہ کی تحریک کے دوران سب سے بڑا مقدمہ مجھ پر درج ہوا، شاہی قلعہ میں میاں محمد عثمان جو کہ دو دفعہ ایم۔این۔اے رہے اور ایک دفعہ ڈپٹی میئر لاہور رہے، طارق چودھری ۱۲ سال سینیٹر رہے، حافظ ڈاکٹر عبد الرحمن مکی لشکر طیبہ کے ساتھ بھی شاہی قلعہ میں رہا، بہاولپور جیل میں میاں طفیل محمدؒ اور ایئر مارشل اصغر خان کے ساتھ رہا، وہ بھی بہاولپور جیل میں تھے۔ ہم نے شاید بہت سے لوگوں سے زیادہ جیلیں کاٹی ہیں، یہ سب کلمہ حق کہنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔
میرے استاد محترم صوفی عبد الحمید سواتیؒ ، جن کا مقام اور مرتبہ میرے نزدیک مولانا مودودیؒ سے کم نہیں ہے، کے جانشین محترم مولانا فیاض خان سواتی نے کچھ سوالات اٹھائے ہیں۔ فرماتے ہیں:
’’وہ کون سے سوالات تھے جن سے یہ جبال علم گھبرا جاتے تھے، وہ بھی ایک نو آموز اور مبتدی طالب علم سے۔ ہماری تو معلومات اول الذکر دونوں بزرگوں کے متعلق یہ ہیں کہ وہ اعلاء کلمۃ الحق کے لیے کبھی کسی جابر سلطان کے سامنے بھی حق کہنے سے نہیں گھبرائے، اس لیے الشریعہ کی وساطت سے خواجہ صاحب موصوف کی خدمت میں مؤدبانہ درخواست پیش کریں گے کہ اگر ان کی یادداشت صحیح کام کر رہی ہو تو براہ کرم ان سوالات کی لسٹ الشریعہ میں طبع کرا دیں تا کہ ہماری معلومات میں بھی اضافہ ہو سکے۔ عین ممکن ہے خواجہ صاحب موصوف کو علم ہی نہ ہو اور یہ حضرات اپنی تحریروں تقریروں اور مواعظ میں ایسے سوالات کے جوابات دے چکے ہوں۔ یہ تو بہرحال ان کے سوالات سامنے آنے پر ہی واضح ہو سکے گا۔‘‘
جب میں صوفی عبد الحمید سواتیؒ کے پاس پڑھنے جایا کرتا تھا، میرا ذہن بالکل صاف تھا۔ تاریخ کا مطالعہ ضرورت سے زیادہ ہی کرتا تھا اور مولانا غلام غوثؒ ہزاروی جو نصرۃ العلوم جامع مسجد شیرانوالہ باغ اور شیرانوالہ باغ میں اکثر آکر تقاریر فرمایا کرتے تھے۔ ان کا بہت معتقد تھا، بلکہ گھر کی مستورات کو بھی ان کی تقاریر سننے کے لیے لے جایا کرتا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بقول حضرت عائشہ صدیقہؓ قرآن حکیم کے بتائے گئے اخلاق کا جیتا جاگتا نمونہ تھے اور اُن کے یہ پیروکار جب اُن کے منبر پر بیٹھ کر مخالفین پر جو زبان استعمال کرتے، اس وجہ سے میں ان سے دور ہوتا گیا۔ یہ ہی سوال میں محترم صوفی عبد الحمید سواتیؒ سے کرتا کہ یہ بد اخلاقی کہاں اور کس مذہب میں جائز ہے؟ 
سوال نمبر ۱: مودودی کی لڑکیاں مخلوط اداروں میں جیب میں ایف۔ایل ڈال کر لڑکوں کے ساتھ پڑھتی ہیں۔
سوال نمبر ۲: مودودی کہتا ہے میں نے سرجمال خان لغاری کو کہا ہے کہ لڑکیوں کا دھیان رکھے، اس نے اچھا ہی دھیان رکھا ہوگا۔ 
سوال نمبر ۳: جب ۱۹۷۰ء میں ۳۱۳ علماء کا یہ فتویٰ آیا کہ سوشلزم، کمیونزم، نیشنل ازم، سرمایہ داری سب کفر ہیں تو فتویٰ دینے والوں میں تمام فرقوں کے جید علمائے کرام شامل تھے جن میں مولانا رسول خانؒ ہزاروی بھی تھے جو کہ مولانا غلام غوثؒ ہزاروی کے استاد بھی تھے، مگر مولانا نے سب کو فتویٰ فروش کہا۔
سوال نمبر ۴: ایئر مارشل اصغر خان کا ذکر کرتے ہوئے مولانا نے فرمایا: لوگ شاہین پاکستان کہتے ہیں، میں چیل پاکستان کہوں گا۔ میجر جنرل سرفراز مرحوم کو لوگ محاذ لاہور کا ہیرو کہتے تھے، مولانا غلام غوثؒ نے فرمایا کہ میں تو ہیر کہوں گا۔ 
سوال نمبر ۵: سابق اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل آل انڈیا مسلم لیگ مولانا ظفر احمد انصاریؒ کو جن کی ایک ٹانگ خراب تھی، لنگڑا مودودیا کہا کرتے تھے۔ 
سوال نمبر ۶: شیخ الحدیث مولانا محمد چراغ ؒ کو سیاہ دل کہا کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ چراغ باہر روشنی دیتا ہے، اندر سے سیاہ ہوتا ہے۔ 
سوال نمبر ۷: مولانا ضیاء القاسمیؒ اپنی تقریروں میں اکبر الٰہ آبادی کا مشہور شعر یوں سنایا کرتے تھے:
میں نے کہا کہ پردہ تمہارا وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مودودی کے پڑ گیا
سوال نمبر ۸: مدینہ کتاب گھر کے سامنے حاجی صدر دین مرحوم ہوا کرتے تھے جو عوامی لیگ (مجیب الرحمن) کے لیڈروں میں سے تھے۔ ان کے بیٹے انعام الحق مرحوم خود کافی لوگوں کو بتا چکے ہیں کہ اُن کو اِس حد تک مشتعل کیا کہ وہ لاہور مولانا مودودیؒ کے گھر جہاں وہ عصر کے بعد درس دیا کرتے تھے چلے گئے اور مولانا سے ان کی بیٹی کا رشتہ مانگا، مگر مولانا مودودیؒ مرحوم نے جس تحمل سے اسے جواب دیا، وہ اس دن سے مولانا کا گرویدہ ہوگیا۔ 
اگر میں لکھتا چلا جاؤں تو بہت کچھ اور بھی آئے گا۔ ان باتوں کا استاد محترم صوفی عبد الحمید ؒ سواتی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ آپ کی مسجد نور سے اسلامیہ کالج جاتے ہوئے سامنے کی طرف درزیوں کی کوٹھی مشہور ہے، وہاں ایک لیڈی ڈاکٹر توحید اخترؒ ہوا کرتی تھیں۔ یہ مولانا مودودیؒ کے گھر اکثر جایا آیا کرتی تھیں اور مولانا مودودیؒ کی بیٹیوں سے دوستانہ بھی تھا۔ ان کے کلینک کے آگے گلی نمبر ۱ گوبندھ گڑھ میں دوسرا مکان ان کا تھا۔ یہ پردہ نماز روزہ کی سخت پابند خاتون تھیں۔ ہمارے گھر آیا کرتی تھیں اور میری خالہ زاد بہن کی دوست بھی تھیں۔ مولانا غلام غوثؒ کی تمام باتوں کی تردید کرتی تھیں۔ اس سے مجھ پر وارثانِ محراب منبر کا یہ پہلو بھی آشکار ہوا۔ مفتی محمودؒ جب ولی خان کے اتحادی تھے اور مولانا غلام غوثؒ ہزاروی اُن سے علیحدہ ہوئے تو اُن کے گروپ کو ہزاروی گروپ کہا جانے لگا تو انہوں نے فرمایا جو مجھے ہزاروی گروپ کہے گا میں اسے مریم جمیلہ گروپ کہوں گا۔ پھر یہ کہنا کہ مریم جمیلہ مجھے فون کرتی ہے کہ مجھے مودودی سے بچاؤ۔ ان سوالات کا دفاع کون کرے گا؟
جہاں تک مولانا عبد القیوم ہزارویؒ کا تعلق ہے، مجھے چودھری منظور صاحب جو ان دنوں جمعیۃ العلمائے اسلام کے نیشنل گارڈ کے سالار اعلیٰ تھے، پونڈاں والا مسجد میں ان کے پاس لے گئے۔ مولانا عبد القیومؒ مسجد کے صحن میں دھوپ میں بیٹھے ہوئے تھے اور آگے حدیث شریف کی ایک کتاب رکھی ہوئی تھی۔ میں نے اسے اٹھا کر اونچا رکھنے کو کہا تو اہل حدیث حضرات کے خلاف سخت الفاظ بولنے لگے۔ منظور صاحب نے کچھ خلافت و ملوکیت کے متعلق مجھ سے بات کرنے کو کہا مگر ان کا غصہ اترنے کا نام نہیں لیتا تھا۔ اس کے بعد ان سے کچھ کہنا اور سننا فضول تھا۔ 
الشریعہ کے اسی شمارے میں صفحہ ۶ پر زاہد الراشدی صاحب ان کے متعلق لکھتے ہیں کہ ’’مزاج کے سخت تھے اور مولانا غلام غوث ہزاروی کے زیادہ قریب تھے اور زندگی بھر اسی فکر پر رہے‘‘۔ اسی سختی کی وجہ سے جب پونڈاں والا کی مسجد پر بریلی مکتب فکر کے لوگوں نے قبضہ کیا تو اردگرد سے ایک بھی بندے کی حمایت مولانا کو حاصل نہ تھی۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں۔
یعقوب طاہر مرحوم جماعت اسلامی کے ایک رکن تھے جو جامع مسجد نور میں نماز جمعہ پڑھنے کے لیے آیا کرتے تھے۔ جب صوفی عبد الحمید سواتیؒ صاحب کبھی مولانا مودودیؒ پر تنقید کیا کرتے تو وہ جواب دینے کی کوشش کرتے۔ انہوں نے قاضی مظہر حسینؒ چکوال اور سید نور الحسن بخاریؒ کی خلافت و ملوکیت پر تنقید کا جواب بھی کتابی صورت میں دیا تھا۔ انہیں پکڑ کر مسجد سے نکال دیا جاتا۔ جب آپ اعتراض کرتے ہیں تو جواب بھی سن لینا چاہیے۔ 
پیرزادہ عطاء الحق قاسمی جوکہ مشہور کالم نگار بھی ہیں، انہوں نے اپنے ایک کالم میں جس کا عنوان تھا ’’دولے شاہ کے چوہے‘‘ لکھا ہے کہ ہر مکتبہ فکر کے لوگوں نے اپنے اپنے مدرسوں میں طالب علموں کے بڑے بڑے دماغوں کو یوں جکڑ رکھا ہوتا ہے اور یوں برین واشنگ کی ہوتی ہے کہ وہ دولے شاہ کے چوہوں سے بھی چھوٹے رہ جاتے ہیں۔ یہی بات محترم حافظ عمار ناصر صاحب نے اس شمارے میں صفحہ نمبر ۲۷ پر مشعل سیف کو انٹرویو کے دوران کہی ہے:
’’عام طور پر کسی بھی مذہبی طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ اس کا اہتمام کرتے ہیں کہ اپنے بچوں کو ایک خاص نوعیت کے مسلکی رنگ میں رنگنے کی کوشش کریں۔‘‘ 
فیاض خان سواتی صاحب بھی میرے لیے محترم ہیں۔ ان کے کہنے پر کچھ سوالات لکھ دیے ہیں، اب اس پر مزید کچھ نہیں لکھوں گا۔ صوفی عبد الحمیدؒ سواتی صاحب پاکستان کے جید، باکردار اور صاحب عمل علماء میں سے تھے۔ ہمارے دل میں ان کا بہت مقام ہے۔ سوالات پوچھنا، غلط فہمیاں دور کرنا اور مطمئن ہونا ہر طالب علم کا حق ہوتا ہے جو مدرسے والے استعمال نہیں کرنے دیتے۔ اگر میں نے یہ کام کیا تو کوئی جرم نہیں کیا۔ 
خواجہ امتیاز احمد 
سابق ناظم اسلامی جمعیۃ طلبہ گوجرانوالہ

الشریعہ اکادمی کا دورۂ تفسیر ۔ مشاہدات و تاثرات

محمد بلال فاروقی

قرآن مجید اللہ کا آخری پیغام اور کتاب ہدایت ہے۔ قرآن کریم کا اعجاز ہے کہ یہ نسل انسانی کے تمام طبقات سے خطاب کرتا ہے۔ ایک طرف اس کے معانی و مطالب اتنے وسیع اور گہرے ہیں کہ ذکی تر ین آدمی ان میں عواصی کرکے احکام و مسائل اور حقائق کے لعل و جوہر نکالتا ہے۔ دوسری طرف قرآن کا دعوتی و تذکیری پہلو ایک عام انسان کی بھی بڑے دل نواز انداز میں راہنمائی کرتا ہے۔بنیادی عقائد (تو حید، رسالت، آخرت) کو ایسے سادہ پیرایے میں بیان کرتا ہے کہ ہر انسان اس کے موثر اسلوب سے اپنے ظرف کے بقدر استفادہ کر سکتا ہے۔ قرآن کریم کے حقائق و معانی اور احکام و مسائل کا استنباط و استخراج تو وہی لوگ کرسکتے ہیں جنہوں نے علوم اسلامیہ کی تحصیل و تکمیل کی ہو اور قرآن کے فہم و مطالعہ میں عمر کا ایک معتدبہ حصہ گزارا ہو، البتہ اس کے دعوتی و تذکیری پہلو سے ہر آدمی استفادہ کرتا ہے۔

خاندان ولی اللہی کی خدمات قرآنیہ

بارہویں صدی ہجری میں مسلمانوں کے سیاسی و مذہبی حالات انتہائی دگر گوں تھے۔ سیادت و حکومت نا اہل اور عیاش لوگوں کے ہاتھ میں تھی تو مذہبی تعلیم میں قرآن و حدیث کے بجائے علوم عقلیہ مہارت کا معیار تھے۔ قرآن و حدیث کی طرف علماء کی توجہ بہت کم تھی ۔ حفاظ اگرچہ ہوتے تھے، لیکن قرآن مجید کے ترجمہ سے مناسبت صرف علماء کو ہوتی تھی۔ اس زمانہ میں امام شاہ ولی اللہ ؒ نے مسلمانوں کی دینی تعمیر و ترقی کے لیے ایک اصلاحی تحریک شروع فرمائی۔ ایک ہمہ گیراصلاحی تحریک کے لیے ضروری تھا کہ اس کی بنیاد وحی الٰہی کتاب اللہ کو قرار دیا جائے، اس لیے شاہ صاحب نے لوگوں کا تعلق قرآن مجید سے جوڑنے کے لیے کوششیں شروع فرمائیں۔ تمام تر مخالفت کے باوجود شاہ ولی اللہؒ نے قرآن مجید کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا۔ شاہ صاحب نے اپنے مدرسے کے نصاب میں ترمیم کی اور درس قرآن کو تعلیم کا لازمی جزو بنایا۔ 
اس سلسلے کو بعد میں شاہ صاحب کے صاحبزادوں نے جاری رکھا۔ حضرت شاہ صاحب کی وفات کے بعد ان کے بڑے صاحب زادے حضرت شاہ عبدالعزیز نے تفسیر عزیزی لکھی ۔ جب فارسی کا دائرہ محدود ہونے لگا اور عوام میں اردو زبان ترویج پانے لگی تو شاہ صاحب کے دو صاحبزادوں نے اردو میں قرآنی خدمات سرانجام دینا شروع کیں۔ حضرت شاہ رفیع الدین ؒ نے قرآن مجید کا لفظی ترجمہ کیا اور حضرت شاہ عبدالقادر ؒ نے موضح قرآن کے نام سے ترجمہ ومختصر حواشی لکھے۔ یہ ترجمہ و تفسیر علامہ شاہ ولی اللہ کی اصلاحی تحریک کے بڑے کارناموں میں سے ہے۔ ان تراجم کے بارے میں شیخ الہندؒ فرماتے ہیں :
’’مولانا شاہ ولی اللہ، مولانا رفیع الدینؒ اور مولانا شاہ عبدالقادر ؒ کے تراجم کو جب غور سے دیکھا تو یہ امر بلا تامل معلوم ہو گیا کہ اگر متقدمین اکابر قرآن مجید کی اس خدمت کو انجام نہ دیتے تو اس شدت ضرورت کے وقت ترجمہ کرنا بہت دشوار ہوتا۔ علماء کو صحیح ترجمہ اور معتبر ترجمہ کرنے کے لیے متعدد تفاسیر کا مطالعہ کرنا پڑتا اور بہت سی فکر کرنا ہوتی۔ ان وقتوں کے بعد بھی شاید ایسا ترجمہ نہ کرسکتے۔‘‘ (مقدمہ ترجمہ قرآن)

حضرت شیخ الہند کی خدمات قرآنیہ

۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں شکست کے بعد انگریز مسلم دشمنی میں حد سے گزر گئے۔ مسلمانو ں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ ے گئے۔ مسلمانوں میں جذبہ جہاد ختم کرنے اور انھیں قرآن سے دور کرنے کے لیے انگریزی تعلیمی اداروں اور مشنریوں کا جال بچھا دیا گیا۔ اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے شاہ ولی اللہ کی تحریک کے اس وقت کے امام، قاسم العلوم و الخیرات مولانا محمد قاسم نانو توی نے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی جس نے وہ کارہائے نمایاں انجام دیے جس کی اس خطے میں کوئی مثال نہیں۔ دارالعلوم دیوبند کے پہلے شاگرد حضرت شیخ الہند نے اس تحریک کو بام عروج تک پہنچایا اور جگہ جگہ مکاتب قرآنیہ قائم فرمائے ۔ دیوبند کے فضلاء کی ایک باقاعدہ تنظیم جمعیت الانصار اس مقصد کے لیے قائم فرمائی جبکہ دہلی میں ادارہ نظارۃ معارف قرآنیہ قائم فرمایا۔ حضرت مدنی فرماتے ہیں کہ نظارہ معارف قرآنیہ کا مقصد یہ تھا کہ انگریزی تعلیم سے نو جوانان اسلام کے خیالات و عقائد پرجو بے دینی اور الحاد کا زہریلا اثر شروع ہے، اس کو زائل کیا جائے اور قرآن کی تعلیم اس طرح دی جائے کہ ان کے شکوک و شبہات دین اسلام سے دور ہو جائیں اور وہ سچے اور پکے مسلمان بن جائیں۔ (نقش حیات، صفحہ نمبر ۵۵۵) 
حضرت شیخ الہند ؒ نے خدمات قرآنیہ کے حوالے سے دو بڑے کارنامے انجام دیے ۔ ایک آپ کا ترجمہ قرآن ہے جو بعد میں ہونے والے تقریباً تمام اردو تراجم کے لیے بنیاد بنا اور دوسرا آپ نے اپنے شاگردوں کے اندر قرآنی تعلیمات کو عام کرنے کا جذبہ پیدا فرمایا۔ مالٹا سے واپسی پر مسلمانوں کے اسباب زوال میں سے قرآن سے دوری کو بڑا سبب قرار دے کر اپنے شاگردوں کو قرآنی تعلیمات عام کرنے کا حکم دیا۔ آپ کے شاگرد جہاں بھی گئے، وہاں محفل قرآن سجادی۔ حضرت سندھی دہلی گئے تو نظارہ معارف قرآنیہ وجود میں آیا۔ حضرت مدنی نے جیل میں حلقہ درس لگا دیا۔ حضرت تھانوی نے تھانہ بھون میں محفل جمائی۔
قیام پاکستان کے بعد اس اصلاحی تحریک کے کارکنوں نے مسلمانان پاکستان میں تعلیمات قرآنیہ عام کرنے کے لیے دورۂ تفسیر کا آغاز فرمایا۔ حضرت لاہوری ؒ نے ( جو خود نظارہ معارف قرآنیہ کے فاضل تھے) نے لاہور میں، حضرت درخواستی نے خانپور میں، مولانا محمد سرفراز خان صفدر نے گوجرانوالہ میں، ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم نے لاہور میں، ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب نے صوبہ سرحد میں اور دوسرے بہت سے حضرات نے مختلف مقامات پر پر دورۂ تفسیر کا اجرا فرمایا۔

امام اہل سنت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

امام شاہ ولی اللہؒ کے دو سلسلوں (بواسطہ شیخ الہند اور بواسطہ حضرت مولانا حسین علی) کے جامع، اما م اہل سنت شیخ الحدیث والتفسیر مولانا سرفراز خان صفدر ؒ دیوبند سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد گکھڑ میں آئے اور قرآن کریم کی ایسی خدمت کی جو شاید ہی کسی دوسرے کے حصے میںآئی ہو۔ ۱۹۴۳ء سے ۲۰۰۱ء تک یعنی پورے ۵۸ برس اپنی مسجد میں درس قرآن دیا، جبکہ ۱۹۴۳ء سے ۲۰۰۱ء تک گورنمنٹ ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ گکھڑ میں درس قرآن دیتے رہے جس میں اسکول و کالج کے اساتذہ و پروفیسر حضرات شریک درس ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ ۱۹۷۶ء سے ۱۹۹۶ء تک جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں شعبان ورمضان کی سالانہ تعطیلات میں دورۂ تفسیر بھی پڑھاتے رہے۔ درس قرآن کے حوالے سے حضرت شیخ کا تجدیدی کارنامہ مدرسہ نصرۃ العلوم گوجر انوالہ میں ترجمہ و تفسیر کا مستقل سبق شروع کرنا ہے۔ اس کا طریقہ کار یہ تھا کہ صبح سب سے پہلا سبق ترجمہ و تفسیر کا ہوتا تھا جس میں درجہ ثالثہ سے دورۂ حدیث تک کے تمام طلبہ شریک ہوتے۔ ۴۵ منٹ کا پیریڈ ہوتا اور ایک سال میں پندرہ پارے مکمل فرماتے۔ چونکہ اس سبق میں روزانہ رکوع سوا رکوع کا درس ہوتا تھا، اس لیے حضرت تفصیل سے تفسیری نکات بیان فرماتے تھے۔ باوجود ضعف و علالت کے یہ سلسلہ ۲۰۰۱ء تک چلتا رہا۔
حلقہ ہائے درس میں آپ مخاطبین کی ذہنی سطح کا لحاظ رکھتے تھے ۔ اگر سامعین عوام ہیں تو انداز بیان سادہ اور ناصحانہ ہوتا۔ اگر مجمع طلبہ و علماء کا ہوتا تو محققانہ ابحاث ارشاد فرماتے ۔ ہر بات با حوالہ بیان کرتے تھے اور ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے سامع کسی بڑی لائبریری میں بیٹھا ہے۔ باوجود پٹھان ہونے کے آپ عوام کے لیے پنجابی میں درس ارشاد فرماتے تھے اور عقائد کی تصحیح اور بدعات و رسوم کی اصلاح پر آپ کی خاص توجہ ہوتی تھی۔ 
جب آپ آئے توگکھڑ شرک و بدعت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا، لیکن آپ کی محنت سے توحید کی شمع روشن ہوئی۔ اس جدوجہد میں آپ پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا، لیکن آپ پامردی سے اپنا فریضہ ادا کرتے رہے ۔ ہمیشہ داعیانہ و ناصحانہ انداز اختیار فرماتے تھے، کبھی مناظرانہ اسلوب اختیار نہیں فرمایا ۔ عبادات کے بعد آپ معاملات و معاشرت کی اصلاح پر خصوصی توجہ دیتے۔ حقوق العباد کی اہمیت سمجھانے کے لیے آپ اکثر ایک واقعہ شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے حوالے سے سنایا کرتے تھے۔ وہ یہ کہ ایک آدمی فوت ہو گیا۔ خواب میں اسے کسی نے دیکھا تو پوچھا، بھئی کیا معاملہ ہوا؟ اس نے جواباً کہا کہ سزا تو نہیں ملی، لیکن جنت کا دروازہ ابھی تک بند ہے ۔ پوچھا گیا کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ کہا کہ میں نے کپڑے سینے کے لیے اپنے ہمسایے سے ایک سوئی لی تھی جو واپس نہیں کی۔ جب تک میرے ورثا واپس نہیں کریں گے، تب تک میں جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔
علماء و طلبہ کے حلقہ میںآپ ہرموضوع پر محققانہ بحث فرماتے۔لغات قرآن کے حل کے لیے قاموس، تاج العروس اور منتہی الارب جیسی کتابوں کے حوالے دیتے۔صرفی ونحوی اشکالات کو سہل انداز میں حل فرماتے۔ شاذ و مردود اقوال کو بیان کر کے ان کے شاذ اور مردود ہونے کی وجہ بھی بیان فرماتے۔ قرآن کریم کے بیان کردہ جغرافیائی مقامات کی وضاحت تاریخ ارض قرآن (سید سلیمان ندویؒ ) یا قصص القرآن(مولانا حفظ الرحمن سیو ہارویؒ ) سے فرماتے۔ اس کے علاوہ یہ دروس بے شمار خصوصیات کے حامل ہوتے جن سے ہر کوئی اپنے ظرف کے بقدر فیض پاتا رہا۔ (ملخص از ’’حضرت شیخ الحدیث کا تفسیری ذوق اور خدمات‘‘‘ از مولانا محمد یوسف صاحب، ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘، امام اہل سنت نمبر) 

مفسر اعظم حضرت مولانا صوفی عبدالحمید سواتی ؒ

آپ کے برادر صغیرمولانا عبدالحمید سواتی شارح علوم ولی اللہی بھی اپنے بڑے بھائی سے پیچھے نہ رہے۔ دیوبند سے فراغت کے بعد امام اہل سنت مولانا عبدالشکور لکھنوی سے تقابل ادیان پڑھا اور طب کی تعلیم طبیہ کالج حیدرآباد دکن سے حاصل کی۔ روحانی و جسمانی بیماریوں کے اس معالج نے ۱۹۵۲ء میں گوجرانوالہ میں مسجد نور اور مدرسہ نصرۃ العلوم کی بنیاد رکھی اور قرآنی خدمات میں مشغول ہو گئے۔ مسجد نور میں آپ نے عوام الناس کے لیے درس قرآن کے سلسلے کا آغاز کیا۔ یہ دروس اب ’’معالم العرفان فی دروس القرآن‘‘ کے نام سے چھپ چکے ہیں۔ حضرت مولانا یوسف لدھیانوی ؒ کا ان دروس پر تبصرہ یہ ہے کہ ’’جس توسع سے آیات کریمہ کی تشریح کی گئی ہے، اس پر تفسیر عزیزی کا گمان ہوتا ہے ۔‘‘
حضرت سواتی ؒ اپنے دروس میں قرآن کریم کو بطور فلسفہ حیات پیش فرماتے ہیں۔ جملہ نظام ہائے زندگی پر بحث کرتے ہیں۔ معاشیات ہو یا سیاسیات، جمہوریت ہو یا ملوکیت، سرمایہ دارانہ نظام ہو یا جاگیردارانہ، تمام نظاموں کی خرابیوں کو طشت ازبام کرکے قرآن کریم کو بطور نظام زندگی پیش کرتے ہیں اور قرآن کے انقلابی پروگرام سے روگردانی کے بھیانک نتائج سے آگاہ کرتے ہیں۔ امام ولی اللہ اور مولانا عبیداللہ سندھی ؒ کے انداز میں حکمت و فلسفہ سمجھاتے ہیں۔ انداز بیان سادہ اور پیرایہ دلنشین ہوتا ہے۔ دوران درس اقوام عالم کے عروج و زوال کے اسباب و علل پر خصوصی توجہ دیتے ہیں اور موجودہ سیاسی و سماجی حالات پر جامع تبصرہ فرماتے ہیں۔ ادبی وکلامی مباحث کے بجائے وہ قرآن کے دعوتی و تذکیری پہلو پر توجہ دیتے نظر آئے ہیں۔ متنازعہ افکار و اقوال سے گریز کرتے ہوئے فقہی مسائل و احکام میں برداشت و تحمل کی دعوت دیتے ہیں۔ (ملخص از مقالہ ایم فل مولانا وقار احمد صاحب)

مفکر اسلام حضرت مولانا زاہد الراشدی

مولانا سرفراز خان صفدر ؒ کے صاحبزادے اورمولانا سواتی ؒ کے بھتیجے مولانا زاہد الراشدی ان دونوں شخصیات کے حقیقی جانشیں ہیں۔ تحریک، تحریراور تدریس کے شاہ سوار ہیں۔ عصر حاضر کے موضوعات ومباحث کا خصوصی ذوق رکھتے ہیں اور اس حوالے سے اخبارات وجرائد میں ہزاروں صفحات سپرد قلم کر چکے ہیں۔ ۲۰۰۱ء کے بعدسے آپ جامعہ نصرۃالعلوم گوجرانوالہ کے تین بڑے مناصب (شیخ الحدیث، ناظم تعلیمات، صدر مدرس) کے عہدہ پر فائز ہیں اور بخاری شریف، طحاوی شریف اور حجۃ اللہ البالغہ کے اسباق پڑھاتے ہیں ۔ 

الشریعہ اکادمی کا دورۂ تفسیر

شیخ الحدیث مولانا سرفراز خان صفدر نے جامعہ نصرۃ العلوم میں ترجمہ و تفسیرکا جو سبق طلبہ کے لیے شروع کیا تھا، ۲۰۰۱ء کے بعد سے وہ مولانا زاہد الراشدی کے ذمے ہے۔ گزشتہ دو سال سے علامہ زاہد الراشدی نے ۱۹۹۶ء سے ٹوٹے ہوئے سالانہ دورۂ تفسیر کے سلسلے کو دوبارہ جوڑا ہے اور اپنے ادارے الشریعہ اکادمی میں دورۂ تفسیر کا آغاز فرمایا ہے جو کامیابی سے جاری و ساری ہے۔ اپنے ذوق کے مطابق حضرت نے دورہ کی افادیت کو بڑھانے کے لیے اس میں کئی نئے اور مفید پہلو شامل کیے ہیں۔ راقم الحروف کو بھی اکادمی کے دورۂ تفسیر میں شرکت کا موقع ملا ۔ ذیل میں، اپنے مشاہدات کی روشنی میں ترجمہ وتفسیر کے اساتذہ اور ان کے ذوق تفسیر کا اجمالی تعارف اور محاضرات قرآنیہ کا مختصر تذکرہ کیا جائے گا۔
عام طور پر دورۂ ہائے تفسیر میں ایک ہی بزرگ عالم دین پورے قرآن مجید کا ترجمہ و تفسیر پڑھاتے ہیں جس میں صرف ایک ہی طرز کے منہج تفسیر اورذوق کا پتہ چلتا ہے۔ الشریعہ اکادمی کے دورہ تفسیر میں چار پانچ اساتذہ تدریس کرتے ہیں جس کی وجہ سے مختلف مناہج سے آگاہی حاصل ہوتی ہے اورمختلف اذواق کا پتہ چلتا ہے۔ اکادمی کے دورۂ تفسیر میں محاضرات علوم قرآنیہ کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا ہے ۔ صبح ترجمہ و تفسیر کا سبق ہوتا ہے جبکہ ظہر کے بعد علوم قرآنیہ میں سے کسی موضوع پر محاضرہ ہوتا ہے جس میں علوم قرآنیہ کا تعارف پیش کیا جاتا ہے۔ 
مفکر اسلام مولانا زاہد الراشدی قرآن کریم کا عمومی ترجمہ و تفسیر اپنے والد محترم کے طرز پر سمجھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ قرآن کریم پر مستشرقین کے اعتراضات اور اہل مغرب کے فکری مغالطوں کا مدلل جواب ارشادفرماتے ہیں۔ احکام القرآن اور عالمی قوانین کا موازنہ کرتے ہیں۔ عالمی قوانین کی کمزوریوں کو افشا کرتے اور قرآن کے احکام کو دلائل سے قابل عمل ثابت کرتے ہیں۔ مغربی انسانی حقوق کے بالمقابل اسلامی انسانی حقوق کا تصور پیش کرتے ہیں۔ حقوق النساء کے حوالے سے پیداکی جانے والی گمراہیوں کا مدلل انداز محاکمہ کرتے ہیں۔ احکام القرآن کے ضمن میں پاکستان اور پوری دنیا میں کی جانے والی علماء کی جدوجہد کا تذکرہ بھی کرتے ہیں۔
مولانا ظفر فیاض صاحب گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ درس نظامی کی تکمیل جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ سے کی اور یہیں دینی علوم کی تدریس بھی کر رہے ہیں۔ انھوں نے تفسیر مولانا سرفراز خان صفدر ؒ سے اور ولی اللہی علوم حضرت سواتی سے پڑھے ہیں۔ قدیم و جدید موضوعات کا یکساں مطالعہ رکھتے ہیں۔ دوران درس ترجمہ سمجھانے پر خصوصی توجہ دیتے ہیں اور سلیس اور عام فہم ترجمہ اور مختصر لیکن جامع تفسیر بیان کرتے ہیں۔ امام اہل سنت کی طرز پر آیات اور سورتوں کا ربط بیان فرماتے ہیں۔
مولانا فضل الہادی صاحب بٹگرام سے تعلق رکھتے ہیں اور مانسہرہ میں ہی تدریس کرتے ہیں ۔ تعلیم کا اکثر عرصہ مدرسہ نصرۃالعلوم میں گزارا اور سند فراغت جامعہ دارالعلوم کراچی سے حاصل کی۔ تفسیر اجمالاً (سالانہ دورۂ تفسیر میں) و تفصیلاً (دوران سال میں ترجمہ و تفسیر) امام اہل سنت مولانا سرفراز خان صفدر سے پڑھی ہے۔ عربی زبان و ادب میں مہارت رکھتے ہیں۔ فی البدیہہ عربی نظمیں اور قصائد کہتے ہیں اور علم میراث توان کی جیب کی گھڑی ہے۔ پیچیدہ ترین مسائل منٹوں میں حل فرما دیتے ہیں۔ سبق ایسے پڑھاتے ہیں کہ کلاس میں ہی طلبہ کو یاد ہوجاتا ہے ۔ حضرت نے ہمیں پہلے دس پارے پڑھائے ۔ پہلے حافظ الحدیث حضرت درخواستی ؒ کے طرز پر مضامین قرآنیہ کی تقسیم فرماتے ہیں۔ مثلاً سورۃ بقرۃکے مضامین کی تقسیم یوں فرمائی: ایک مقدمہ، تین مقاصد اور ایک خاتمہ پر مشتمل ہے۔ پھر مقاصد کو آگے ابواب میں تقسیم کرکے پوری سورت کا خلاصہ بیان فرما دیتے ہیں۔ اس کے بعد عمومی تفسیر و ترجمہ حضرت امام اہل سنت کے طرز پر سمجھاتے ہیں۔ شاہ ولی اللہ کے علوم خمسہ (علم الاحکام، علم مجادلہ، تذکیر بآلأاللہ، تذکیر باایام اللہ، تذکیر بذکر الآخرۃ) کے مطابق ہرآیت کا عنوان بتاتے ہیں۔ ما قبل سے ربط حضرت مولانا سرفراز صفدر ؒ اور حضرت تھانوی ؒ کے حوالے سے بیان فرماتے ہیں۔ ہم نے استا ذ مکرم کی علم میراث پر مہارت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نماز مغرب کے بعد سراجی بھی پڑھ لی ۔ 
مولانا محمد عمار خان ناصر، مولانا سرفراز خان صفدر کے پوتے اور علامہ زاہد الراشدی کے بیٹے ہیں۔ انتہائی قابل،وسیع المطالعہ اور ذی فہم مدرس ہیں۔ حدیث و تفسیر، فقہ و کلام، منطق و فلسفہ قدیم و جدید پر یکساں عبور رکھتے ہیں۔ دس سال سے زائد عرصہ تک جامعہ نصرۃ العلوم میں تدریس کی ۔آج کل گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ میں ایم فل کے طلبہ کو تدریس کے علاوہ تصنیف و تالیف میں مشغول ہیں۔ اس کے علاوہ ماہنامہ الشریعہ جیسے علمی و تحقیقی مجلہ کے منصب ادارت پر فائز ہیں۔ مولانا، نظم قرآنی پرمہارت رکھتے ہیں۔ مضامین قرآنی کو ایسی ترتیب سے بیان کرتے ہیں جیسا کہ موتیوں کی لڑی ہو۔ عربی واردو ادب پر دسترس رکھنے کی وجہ سے ترجمہ انتہائی سلیس اور عام فہم کرتے ہیں۔ بلاغت قرآنی کو بڑے سہل انداز میں سمجھاتے ہیں ۔ آیات کی تفسیر متقدمین مفسرین کے منہج کے مطابق بیان فرماتے ہیں ۔ ان کے درس کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ دوران سبق میں تدبر قرآنی کی عملی تربیت بھی دیتے ہیں۔ 
مولانا محمد یوسف صاحب، شیخ الحدیث مولانا سرفراز خان صفدر سے فیض یافتہ اور جامعہ نصرۃ العلوم کے فاضل ہیں۔ ترجمہ و تفسیر میں امام اہل سنت کا طرز اختیار فرماتے ہیں۔ ربط بھی حضرت کے حوالے سے ارشاد فرماتے ہیں۔ اس کے علاوہ حضرت کا خصوصی ذوق تفسیر بالحدیث ہے۔ تقریباً ہرآیت کی تفسیر میں حدیث ذکر کرتے ہیں اور اس میں اکثر تفسیر ابن کثیر کا حوالہ ارشاد فرماتے ہیں۔

محاضرات قرآنیہ

الشریعہ اکادمی کے دورۂ تفسیر کی دوسری خصوصیت محاضرات علوم قرآنیہ ہیں۔ نماز ظہر کے بعد ہر ہفتے میں دو یا تین محاضرات ہوتے ہیں۔ دورہ تفسیر کے پہلے سال قرآ ن کا دعوتی و تذکیری پہلو، مناہج تفسیر ، قرآن کریم پر مستشرقین کے اعتراضات، ختم نبوت، انسانی حقوق کا عالمی چارٹر، شیخ الہند اور ان کے رفقاء کی خدمات قرآنیہ، ناسخ و منسوخ اور اصول فقہ کے موضوعات پر محاضرات کا اہتمام کیا گیا۔
’’قرآن کریم کا دعوتی و تذکیری پہلو‘‘ کے عنوان پر محاضرہ میں مولانا عمار خان ناصر نے یہ نکتہ واضح فرمایا کہ قرآن مجید کا مطالعہ کرنے والے شخص کے پیش نظر یہ بات رہنی چاہیے کہ قرآن کریم بنیادی طور پر ایک کتاب تذکیر ہے اور اس سے تذکیر حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم قرآن کے متن پر توجہ مرکوز رکھیں اور زائد تفصیلات میں الجھنے سے حتی الامکان گریز کریں۔ مولانا نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعے کی مثال دی کہ اگر اس کو قصہ و کہانی کے انداز میں دیکھا جائے تو کئی پہلو تشنہ رہ جاتے ہیں، لیکن قرآن کریم صرف ان پہلوؤں کو ذکر کرتا ہے جو تذکیر کے پہلے سے مقصود ہیں ۔ اسی طرح حضرت یوسف ؑ کا واقعہ اگرچہ تفصیلی ہے، لیکن وہی امور مذکور ہیں جن سے انسان کی تربیت مقصود ہے۔
ڈاکٹر اکرم ورک صاحب نے ’’قرآن کریم پر مستشرقین کے اعتراضات ‘‘ کے عنوان پر لیکچر دیا۔ ڈاکٹر اکرم ورک صاحب الشریعہ اکادمی کے قدیم رفقاء میں سے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی سے اسلامیات میں ڈاکٹریٹ کر چکے ہیں اور مستشرقین کے نظریات ان کے مطالعہ وتحقیق کا خاص موضوع ہے۔ ان کا وقیع مقالہ ’’متون حدیث پر جدید ذہن کے اشکالا ت‘‘ کے زیر عنوان کتابی صورت میں چھپ چکا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے پہلے استشراق کی تاریخ کو بیان کیا۔ اس کے بعد چند مغربی مستشرقین اور ان کی کتب کا تعارف کروایا اور طلبہ میں اس موضوع پر مطالعہ کا شوق پیدا کرنے کی کوشش کی ۔
مولانا سید متین شاہ صاحب، جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد کے فاضل اور ادارۂ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد سے وابستہ ہیں ۔نہایت وسیع المطالعہ نوجوان عالم دین ہیں۔ مولانا نے تقریباً دس مناہج تفسیر مثلاً (اصلاحی، کلامی، بلاغی وغیرہ) کا تعارف کرایا اورپھر ان مناہج پر لکھی جانے والی کم از کم تین تین تفاسیر کا ذکر کیا۔ ڈیڑھ پونے دو گھنٹے کا یہ محاضرہ اتنا مدلل اور پر مغز اور انداز بیان اتنا خوبصورت تھا کہ وقت گزرنے کا احساس اس وقت ہو ا جب عصر کی اذان شروع ہوئی اور مولانا کو محاضرہ ختم کرنا پڑا۔
مولانا مشتاق احمد چنیوٹی صاحب نے ’’ختم نبوت‘‘ کے موضوع پر دو محاضرے ارشاد فرمائے۔ مولانا، حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی صاحب کے ادارہ مرکزیہ دعوۃ و الارشاد میں تخصص فی رد القادنیۃ کے نگران ہیں اور اس موضوع پر کئی کتابیں لکھ چکے ہیں۔ مولانا نے مرزا کی شخصیت، اس کے دعاوی، حیات عیسیٰ اور مرزا قادیانی کے قرآن سے استدلالات کے حوالے سے مفصل گفتگو فرمائی۔
استاذ مکرم حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب نے ’’انسانی حقوق کا عالمی چارٹر‘‘ کے موضوع پہ بیان فرمایا۔ استاذ محترم اس موضوع پر اتھارٹی ہیں۔ اس موضوع پر آپ درجنوں محاضرات اور تفصیلی مضامین لکھ چکے ہیں۔ مولانا نے چارٹر کی ان شقوں کو اپنا موضوع بنایا جو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ ان کی کمزوری کو بیان کیا اور پھر اسلامی نظریہ کو دلائل سے قابل عمل اور راجح ثابت کیا۔
حافظ نصیر احمد احرار صاحب جامعہ اشرفیہ کے فاضل ہیں اور جمعیت طلبہ اسلام کے مرکزی صدر رہ چکے ہیں ۔ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ پر وسعت مطالعہ کے حامل ہیں۔ انھوں جماعت شیخ الہند کی خدمات قرآنیہ کو تفصیلاً بیان فرمایا۔ محاضرہ کے بعد سوال و جواب کی نشست ہوئی جس میں دو قومی نظریہ کے حوالے سے دلچسپ مباحثہ ہوا۔
مولانا وقار احمد صاحب مدرسہ نصرۃالعلوم کے فاضل ہیں اور اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے مولانا عبدالحمید سواتی ؒ کی تفسیری خدمات پر مقالہ لکھ کر ایم فل کی ڈگری بھی حاصل کر چکے ہیں ۔ مولانا، الشریعہ اکادمی کے دورۂ تفسیر کے ناظم بھی ہیں۔ مولانا نے نسخ کی تعریف، مقصد اور فلسفہ بیان کرنے کے بعد متعلقہ آیات کے حوالے سے متاخرین علماء میں سے امام شاہ ولی اللہ کی بیان کردہ توجیہات کو سمجھایا۔
مولانا حافظ محمد رشید صاحب اکادمی کے پرانے رفقاء میں سے ہیں۔ دارالعلوم کراچی کے فاضل ہیں اور گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ سے علوم اسلامیہ میں ایم فل کر چکے ہیں۔ مولانا نے ’’حضرت مولانا سرفراز خان صفدر ؒ کی تصانیف میں اصول فقہ کی مباحث‘‘ کے موضوع پر مقالہ لکھا ہے ۔ اپنے مقالہ کی روشنی میں اصول فقہ کی مبادیات کا ذکر کرنے کے بعد مولانا سرفراز خان صفدر کی تصانیف میں سے متعلقہ مباحث کی تلخیص بیان فرمائی ہے۔
جامعہ ابو ہریرہ، نوشہرہ کے مہتمم اور معروف مصنف ومحقق حضرت مولانا عبدالقیوم حقانی صاحب کا ایک محاضرہ طے تھا، لیکن وہ کسی عذر کی بنا پر تشریف نہ لاسکے، البتہ انہوں نے اپنی کتابوں کا سیٹ طلبہ کے لیے بھجوایا۔
دورۂ تفسیر کے ضمن میں ایک سعادت یہ بھی حاصل ہوئی کہ مولانا زاہد الراشدی صاحب مدظلہ نے احادیث مسلسلات کی اجازت ہمیں عنایت فرمائی۔ 
اکادمی کی انتظامیہ نے طلبہ کے لیے اہل علم سے ملاقاتوں کا اہتمام بھی کیا۔ ایک موقع پر طلبہ، حضرت مولانا مفتی محمدعیسیٰ صاحب گورمانی (دامت برکاتہم العالیہ )کے پاس حاضر ہوئے۔ باوجود ضعف و علالت کے حضرت نے عصر سے مغرب تک ہمارے ساتھ گفتگو فرمائی اور کئی نصائح ارشاد فرمائے۔ حضرت مولانا مفتی محمودؒ ، مولانا سرفراز خان صفدر ؒ اور مولانا سواتی ؒ کے ساتھ گزرے وقت کی یادیں بھی بیان فرمائیں۔ آخر میں دعاؤں کے ساتھ رخصت فرمایا۔ اس کے بعد شرکاء دورۂ تفسیر کو جامعہ نصرۃ العلوم لے جایا گیا جہاں حضرت مولانا عبدالقدوس قارن صاحب سے ملاقات ہوئی۔ حضرت بڑے تپاک سے ملے۔ ان دنوں حضرت کی طبیعت ناساز تھی۔ ہمیں بھی دعاؤں کے لیے کہا اور خود ہمارے لیے بھی دعائیں کیں۔ مولانا قارن سے اجازت لے کر ہم جامعہ کے مہتمم حضرت مولانا فیاض خان سواتی صاحب کے پاس حاضر ہوئے ۔حضرت نے کمال شفقت سے سب کا تعارف پوچھا اور حال احوال دریافت کیا ۔ آخر میں اپنے تحریر کردہ دو رسائل ہمیں عطا فرمائے۔ 
اکادمی کی انتظامیہ کا رویہ طلبہ کے ساتھ انتہائی مشفقانہ اور دوستانہ تھا۔ مولانا وقار احمد صاحب (ناظم دورہ تفسیر) اور مولانا محمد رشید صاحب طلبہ کی حوصلہ افزائی فرماتے،مطالعہ کا شوق ابھارتے اور طلبہ کے آرام کا مکمل خیال رکھتے ہیں، یہاں تک کہ کھانے کا مینو بھی طلبہ کے مشورہ سے مقرر کیا جاتا ہے۔
دورۂ تفسیر کے اختتام پر ایک سادہ اور پر وقار تقریب منعقد ہوئی جس میں استاد مکرم حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب نے بیان فرمایا اور طلبہ کو اکا دمی کی مطبوعات کا ایک ایک سیٹ عنایت فرمایا۔ اکادمی کی یہ کوشش انتہائی قابل قدر اور مبارک ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو جاری و ساری رکھے اور اس کے فیض کو پھیلاتا رہے۔ (آمین)

’’صاحب قرآن‘‘

ادارہ

مصنف: ڈاکٹر محمد شکیل اوج
ناشر: شعبہ سیرت، جامعہ کراچی۔ (مکتبہ امام اہل سنت پر دستیاب ہے)
صفحات: ۔ قیمت: ۳۵۰۔
آج کی دنیا میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت وسنت کے ہمارے لیے سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ بھٹکی ہوئی بلکہ مسلسل بھٹکتی ہوئی انسانی سوسائٹی کو آسمانی تعلیمات اور فطرت سلیمہ کی طرف واپس لانے کے لیے قرآن کریم اور سنت نبوی کو عصر حاضر کی زبان واسلوب اور نفسیات وضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے پورے شعور وادراک کے ساتھ پیش کیا جائے اور لادینی تہذیب وتعلیم نے قرآن وسنت کی تعلیمات کے گرد شکوک وشبہات کا جو وسیع جال پھیلا رکھا ہے، انسانی ذہن کو حکمت وتدبر کے ساتھ اس دام ہم رنگ زمین سے نکالنے کی جدوجہد کی جائے۔ 
محترم ڈاکٹر محمد شکیل اوج کی علمی وفکری کاوشیں وقتاً فوقتاً نظر سے گزرتی رہتی ہیں اور خوشی ہوتی ہے کہ وہ بھی ارباب فکر ودانش کے اس قافلے میں شامل ہیں جو اس شعور سے نہ صرف بہرہ ور ہے بلکہ اس کے مطابق پیش رفت بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ زیر نظر کتاب ’’صاحب قرآن‘‘ ان کے چند مضامین ومقالات کا مجموعہ ہے جو جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے بعض پہلوؤں کے بارے میں ہیں اور ان کے حسن ذوق اور سعی ومحنت کے آئینہ دار ہیں۔ میں نے ان پر ایک نظر ڈالنے کی سعادت حاصل کی ہے اور یہ دیکھ کر میری مسرت میں اضافہ ہوا ہے کہ نتائج فکر کے بعض پہلوؤں سے اختلاف کی گنجائش کے باوجود ان کی تحقیق وجستجو کا رخ صحیح سمت میں ہے اور عصر حاضر کی ضروریات اور تقاضوں کے ادراک کا پس منظر رکھتا ہے۔
سیرت طیبہ کے بارے میں کوئی بھی علمی کاوش حرف آخر کا درجہ نہیں رکھتی اور اس میدان میں خوب سے خوب تر کی گنجائش ہمیشہ موجود رہے گی، لیکن مبارک باد کے مستحق ہیں وہ اصحاب علم ودانش جو اس خوب تر کی تلاش میں آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت وعقیدت کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ نسل انسانی کی راہ نمائی کا سامان فراہم کرنے کی کوشش بھی کرتے رہتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب موصوف کی اس کاوش کو قبولیت سے نوازیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے راہ نمائی کا ذریعہ بنائیں۔ آمین یا رب العالمین۔
(ابو عمار زاہد الراشدی)

خسرہ کا مجرب علاج

حکیم محمد عمران مغل

خسرہ ایک متعدی مرض ہے۔ اس کا تعلق ایک مخصوص وائرس سے ہوتا ہے۔ صفراوی مزاج رکھنے والے بچے فوری اس کی زد میں آتے ہیں۔ اس کے ساتھ بخار بھی لازمی ہوتا ہے۔ نزلہ، زکام، کھانسی کی شکایت ہوتی ہے۔ پھر چوتھے دن جسم پر خشخاش یا باجرہ نما باریک دانے ظاہر ہوتے ہیں جو آپس میں ملے ہوئے ہوتے ہیں۔ زبان پر سفید تہہ جم جاتی ہے۔ کسی کو کم اور کسی کو زیادہ ابکائیاں آنے لگتی ہیں۔ مزاج حد درجہ چڑچڑا ہو جاتا ہے اور بھوک ختم ہو جاتی ہے۔ تین دن کے یہ دانے ڈھلنے لگتے ہیں۔ دانے ختم ہونے کے بعد باریک بھوسی جسم سے اترنے لگتی ہے۔ بچے کا پیشاب گاڑھا اور سرخ ہو جاتا ہے۔
اس کا علاج یہ ہے کہ اگر بچے کو سردی لگ جائے تو پہلے اس کا تدارک کریں اور درج ذیل مقوی قلب ادویہ دیں: خمیرہ مروارید، چھوٹا چمچ نصف صبح شام سادہ پانی یا عرق گاؤزبان سے دیں۔ کھانسی بار بار ستائے تو لعوق سپستان آدھا چمچ دن میں چار مرتبہ چٹائیں۔ یہ تیار شدہ ادویہ ہیں جو آپ سفر وحضر میں بلا خوف دے سکتے ہیں۔
ذیل میں میرا ایک مجرب نسخہ درج ہے۔ اسے خود تیار کر کے بچے کو دیں۔ 
ہو الشافی: خاکسی، ایک چھوٹا چمچ۔ یہ خشخاش کی طرح باریک باریک دانے ہوتے ہیں۔ تھوڑی سی ملٹھی، تقریباً ایک آدھ انچ۔ دو سے چار دانے عناب کے (توڑ کر)۔ یہ سب چیزیں ایک یا ڈیڑھ گلاس پانی میں دو تین جوش دے کر ٹھنڈا کر لیں۔ مناسب سمجھیں تو شہد یا چینی سے مزید میٹھا کر لیں اور سوتے وقت پلا دیں۔ صبح اللہ کے فضل سے کملایا ہوا پھول کھلکھلایا ہوا لگے گا۔ خوراک دن میں دو بار بھی دے سکتے ہیں۔ قرشی یا کسی بھی اچھے دوا خانہ کے شربت عناب کا بڑا چمچ صبح شام پلا دیا کریں۔
یہ نسخہ پرانے اطبا نے زندگی بھر کی محنت شاقہ سے ترتیب دیا ہے۔ میں تیس سال سے صرف اور صرف یہی نسخہ استعمال کر رہا ہوں۔ آج تک اللہ نے ناکامی نہیں دکھائی۔ یاد رکھیں، کھانسی، نزلہ، زکام، بخار، خسرہ اگر خدا نخواستہ بگڑ گیا تو بچے کی ساری زندگی برباد ہو جائے گی۔ دوران مرض میں ہوا اور پانی کی تبدیلی بلا وجہ نہ کریں اور عام جسمانی کمزوری کا بھی خیال رکھیں۔ مرطوب ہوا بھی نہ ہو۔ خمیرہ مروارید آب حیات سمجھ کر دیتے رہیں۔ دلیہ، ساگو دانہ، کھچڑی، کالے چنے، جس چیز میں بھی بچہ رغبت محسوس کرے، دے دیں۔ خمیرہ ابریشم حکیم ارشد والا سونے پر سہاگہ ہے۔ مریض کو بازار کی کوئی چیز نہ دیں۔ جب مرض کی شدت ختم ہو جائے تو بکرے کی اوجھڑی کا سالن دیں۔ 

جون ۲۰۱۳ء

’’الشریعہ‘‘ بنام ’’ضرب مومن‘‘مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
بر صغیر کی دینی روایت میں برداشت کا عنصر (۱)مولانا مفتی محمد زاہد
مغربی اجتماعیت : اعلیٰ اخلاق یا سرمایہ دارانہ ڈسپلن کا مظہر؟ (۱)محمد زاہد صدیق مغل
عہد نبوی کے یہود اور رسول اللہ کی رسالت کا اعتراف / امیر عبد القادر الجزائری: شخصیت وکردار کا معروضی مطالعہمحمد عمار خان ناصر
مکاتیبادارہ

’’الشریعہ‘‘ بنام ’’ضرب مومن‘‘

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مولانا مفتی ابو لبابہ شاہ منصور نے کچھ عرصہ سے ’’ضرب مومن‘‘ اور ’’اسلام‘‘ میں ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ گوجرانوالہ کے خلاف باقاعدہ مورچہ قائم کر رکھا ہے اور وہ خوب ’’داد شجاعت‘‘ پا رہے ہیں۔ ہم نے دینی وعلمی مسائل پر اختلافات کی حدود کے اندر باہمی مکالمہ کی ضرورت کا ایک عرصے سے احساس دلانا شروع کر رکھا ہے اور اس میں بحمد اللہ تعالیٰ ہمیں اس حد تک کامیابی ضرور حاصل ہوئی ہے کہ باہمی بحث ومباحثہ کا دائرہ وسیع ہونے لگا ہے اور پیش آمدہ مسائل ومعاملات کے تجزیہ وتحقیق اور تنقیح وتحلیل کے ذریعے اصل صورت حال معلوم کرنے کا ذوق بیدار ہو رہا ہے اور یہی ہمارا مقصد بھی ہے۔
ہم نے بحمد اللہ تعالیٰ شروع سے یہ روش رکھی ہوئی ہے کہ اسے مکالمہ کے دائرے میں رکھا جائے اور زبان واسلوب کے لحاظ سے اسے ’’مورچہ ومحاذ‘‘ بنانے سے گریز کیا جائے، لیکن ظاہر بات ہے کہ ہر شخص اسی زبان اور لہجے میں بات کرے گا جس کی اس نے تربیت حاصل کر رکھی ہے اور جو اس کی زندگی کا معمول ہے۔ عادت کیسی بھی ہو، اس کو بدلنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتا ہے۔ مفتی صاحب محترم کا لہجہ واسلوب قارئین ملاحظہ کر چکے ہیں اور ہم اس میں انھیں معذور سمجھتے ہوئے ایک دو دیگر حوالوں سے اس سلسلے میں کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں۔
مفتی صاحب کو یہ سہولت حاصل ہے کہ وہ جب چاہیں، جو چاہیں اور جس لہجے میں چاہیں لکھیں اور ہفت روزہ ’’ضرب مومن‘‘ اور روزنامہ ’’اسلام‘‘ ان کے ارشادات کو من وعن شائع کرنے کے پابند ہیں جبکہ ہم فقیروں کی صورت حال یہ ہے کہ روزنامہ ’’اسلام‘‘ میں ہمارا ایک کالم جو باقاعدہ شائع ہوتا ہے، اس میں اس قسم کی کوئی بات ہلکے پھلکے انداز میں بھی لکھ دیں تو وہ حذف ہو جاتی ہے اور یہ کہہ کر اس کی اشاعت سے انکار کر دیا جاتا ہے کہ ’’متنازعہ امور پر مضامین شائع کرنا ہماری پالیسی نہیں ہے۔‘‘ مختلف مواقع پر مختلف حوالوں سے ایسا ہوا ہے اور اس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ الیکشن سے ایک روز قبل شائع ہونے والے ہمارے کالم ’’نوائے حق‘‘ میں دینی جماعتوں کے امیدواروں میں مصالحت کے سلسلے میں حضرت مولانا پیر عزیز الرحمن ہزاروی کی جدوجہد کا ذکر کرتے ہوئے آخر میں درج ذیل نوٹ اس کالم میں شامل کیا گیا تھا جسے حذف کر دیا گیا اور اب مجبوراً ہمیں وہ نوٹ ’’الشریعہ‘‘ میں شائع کرنا پڑ رہا ہے:
ایک نظر ادھر بھی
’’محترم مفتی ابولبابہ شاہ منصور صاحب کے تازہ ارشادات (اسلام میں) قارئین نے پڑھ لیے ہوں گے۔ میری نظر سے بھی گزر چکے ہیں۔ میں اس سلسلے میں ایک تجویز پیش کرنا چاہوں گا کہ زیر بحث مسائل پر ایک علمی مباحثہ کھلے دل ودماغ کے ساتھ ہو جانا چاہیے جس کے خد وخال میرے ذہن میں کچھ اس طرح سے ہیں کہ:
  • مفتی صاحب موصوف الشریعہ اکادمی اور ماہنامہ الشریعہ کے حوالے سے اپنے اشکالات مرتب شکل میں پیش فرما دیں، ’الشریعہ‘ کی طرف سے ان کی وضاحت کی خدمت میں سرانجام دے دوں گا۔
  • ان اشکالات اور میری طرف سے ان کی وضاحت کے بعد اگر کچھ باتیں دونوں طرف سے مزید وضاحت طلب ہوں تو ا س مکالمہ کو آگے بھی بڑھایا جا سکتا ہے۔
  • روزنامہ ’’اسلام‘‘ یا ہفت روزہ ’’ضرب مومن‘‘ میں سے کسی ایک کو اس مکالمہ کے لیے منتخب کر لیا جائے تاکہ قارئین کو دونوں طرف کا موقف ایک جگہ پڑھنے کی سہولت مل جائے۔
  • مکالمہ دوستانہ ماحول میں باہمی افہام وتفہیم اور قارئین کی درست سمت میں راہ نمائی کی غرض سے ہو اور زبان واسلوب میں امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے طرز کی پابندی کی جائے۔
  • اس مکالمہ کے نتیجے میں فریقین میں سے جس کسی کی کوئی غلطی سامنے آ جائے، وہ اس سلسلے میں رجوع اور معذرت سے گریز نہ کرے۔
میرے خیال میں اس طرح اس بحث کو مثبت انداز میں سمیٹا جا سکتا ہے اور علما وطلبہ کے ایک بڑے حلقے میں پائے جانے والے اضطراب کو دور کیا جا سکتا ہے۔ امید ہے کہ محترم مفتی ابولبابہ شاہ منصور صاحب میری اس تجویز کے مثبت جواب اور اپنی تجاویز سے جلد نوازیں گے۔‘‘
میں نہیں سمجھ پایا کہ میرے کالم سے اس نوٹ کو حذف کرنے میں روزنامہ ’’اسلام‘‘ کے مدیر محترم کی کون سی مصلحت پنہاں تھی جبکہ مفتی ابولبابہ صاحب کی تحریریں اس کے بعد بھی مسلسل ’’ضرب مومن‘‘ میں شائع ہو رہی ہیں۔
اسی طرح ۲۴؍ مئی کو ’’اسلام‘‘ میں شائع ہونے والے کالم ’’نوائے حق‘‘ میں جہاں میں نے گوجرانوالہ میں مسلم مسیحی فساد کا راستہ روکنے کی کوشش پر بشپ آف پاکستان کے شکریے کا ذکر کیا ہے، وہاں یہ جملہ بھی مسودہ میں شامل تھا کہ:
’’میں نے بشپ آف پاکستان کے اس شکریے کا ذکر تو کر دیا ہے، مگر اب اس انتظار میں ہوں کہ عظیم عرب مجاہد امیر عبد القادر الجزائری رحمہ اللہ تعالیٰ کی طرح مجھ پر بھی ’’عیسائیوں کا گماشتہ‘‘ ہونے کا فتویٰ کب صادر ہوتا ہے؟‘‘
’’اسلام‘‘ کے مدیر محترم کی طبع نازک پر یہ جملہ بھی گراں گزرا ہے اور ان کی قینچی کی نذر ہو گیا ہے۔
’’ضرب مومن‘‘ کے کار پردازان کا رویہ اس سے بھی زیادہ افسوس ناک ہے۔ ۸؍ مئی کو روزنامہ اسلام میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں، میں نے امیر عبد القادر الجزائری کی شخصیت وکردار کے حوالے سے ’’ضرب مومن‘‘ کے مضامین کا ذکر کر کے گزارش کی تھی کہ:
’’اس بحث میں میری بعض تحریرات پر بھی اعتراض کیا گیا ہے۔ میں نے اس سلسلہ میں اپنے موقف کی وضاحت دو مفصل مضامین کی صورت میں کر دی ہے۔ ۔۔۔ اگر ’’ضرب مومن‘‘ بھی میرے ان دو مضامین کو شائع کر دے تو خود اس کے اپنے قارئین کو متعلقہ مسئلہ کے دونوں پہلوؤں سے واقفیت حاصل ہو جائے گی اور وہ یک طرفہ موقف پر الجھن کا شکار رہنے سے محفوظ رہیں گے۔‘‘
تاہم میری اس گزارش کو کسی بھی درجے میں قابل اعتنا نہیں سمجھا گیا، بلکہ عزیزم عمار ناصر پر دار الکتاب کی پیشگی اجازت کے بغیر ان کے نام سے کتاب شائع کرنے کا جو بے بنیاد الزام لگایا گیا تھا، عمار خان کی طرف سے اس سے متعلق حقیقی صورت حال کی وضاحت ’’ضرب مومن‘‘ کو بھیجی گئی جس کی اشاعت صحافیانہ اخلاقیات کی رو سے ’’ضرب مومن‘‘ کی ذمہ داری تھی تو مفتی صاحب نے اگلے کالم میں اس کے جواب میں فرمایا کہ ’’ہمارے صفحات میں ایسے حضرات کی کوئی جگہ نہیں، نہ ہمیں شوق ہے کہ کسی کا نرخ اونچا کرتے پھریں۔‘‘
میں سمجھتا ہوں کہ بے بنیاد الزامات اور یک طرفہ پراپیگنڈے کا یہ رویہ ایک ذمہ دار دینی ادارے کی طرف سے شائع ہونے والے اخبار کو کسی بھی لحاظ سے زیب نہیں دیتا اور اخبار کی انتظامیہ کو اپنی اس پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ بہرحال میں سنجیدہ ومباحثہ کی پیش کش پر اب بھی قائم ہوں اور (۱) غامدی صاحب کے افکار (۲) ناموس رسالت کے قانون (۳) مسجد اقصیٰ کی تولیت (۴) عمار ناصر کی مبینہ انفرادی آرا اور (۵) امیر عبد القادر الجزائری سمیت ہر اس مسئلہ پر کھلے دل کے ساتھ بحث ومباحثہ کے لیے تیار ہوں جس کی نشان دہی مفتی ابو لبابہ صاحب فرمائیں گے اور اگر ہماری طرف سے مفتی صاحب محترم کی کسی تحریر پر اشکال کی کوئی بات ہوگی تو مفتی صاحب کو بھی اسی طرح کھلے دل کے ساتھ تیار رہنا چاہیے، مگر اس کے لیے یہ ضروری ہوگا کہ:
  • مفتی صاحب بحث ومباحثہ کی اخلاقیات اور گفتگو کے ضروری آداب کی پابندی قبول کریں۔
  • اگر یہ بحث ’’اسلام‘‘ یا ’’ضرب مومن‘‘ کے صفحات پر ہونی ہے تو یہ دونوں جرائد اپنی یک طرفہ پالیسی پر نظر ثانی کریں جس کا شرعاً، دیانتاً اور اخلاقاً کوئی جواز نہیں۔ بصورت دیگر اس مقصد کے لیے ’’الشریعہ‘‘ کے صفحات حاضر ہیں۔
دوسری بات جو اس حوالے سے عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں، یہ ہے کہ مفتی صاحب محترم نے اپنی تحریر کے لیے ’’امام اہل سنت کی بارگاہ میں‘‘ کا گمراہ کن عنوان اختیار کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے موقف یا طرز عمل کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ یہ بات نہ صرف ناقابل قبول ہے بلکہ ناقابل برداشت بھی ہے، اس لیے کہ امام اہل سنتؒ کی نہ یہ زبان تھی جو مفتی صاحب نے اپنا رکھی ہے، نہ ان کا یہ طرز عمل تھا جو محدود اور تنگ نظر مسلکی سوچ رکھنے والے کچھ دوستوں کی طرف سے ان کی طرف منسوب کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اور نہ ہی علمی وفکری معاملات میں ان کا یہ معمول تھا جو ان کے سر مسلسل تھوپا جا رہا ہے۔
میں مختلف مواقع پر ان امور کے بارے میں حضرت امام اہل سنت کے طرز عمل اور اسلوب کی متعدد بار وضاحت کر چکا ہوں اور اس موقع پر بھی چند ضروری باتیں دوبارہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔

علمی وفکری مسائل میں طرز عمل

فقہی، علمی وفکری مسائل میں باہمی اختلاف ایک فطری عمل ہے اور ہر دور میں ارباب علم ودانش کا معمول رہا ہے کہ وہ اختلاف رائے کے حق کا احترام کرتے تھے اور دلیل ومنطق کے ساتھ اس اختلاف کا اظہار کرتے تھے۔ حضرت امام اہل سنتؒ کا طرز عمل بھی یہ تھا کہ وہ اختلاف کو اختلاف کے دائرے میں رکھتے تھے اور طعن وتشنیع اور مخالفت کا رخ اختیار نہیں کرنے دیتے تھے۔ اس کی بھی چند جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں:
  • میں نے طالب علمی کے دور میں، جبکہ میں موقوف علیہ کے سال میں تھا، ہفت روزہ ترجمان اسلام میں ’’مزارعت اور بٹائی‘‘ پر ایک تفصیلی مضمون لکھا جو کئی قسطوں میں شائع ہوا۔ میں نے اس میں حضرت امام ابوحنیفہؒ کے اس موقف کی وکالت کی کہ مزارعت جائز نہیں ہے۔ یہ معروف بات ہے کہ بٹائی یعنی حصے پر زمین دینا حضرت امام اعظمؒ کے نزدیک جائز نہیں ہے اور صاحبین یعنی حضرت امام ابو یوسفؒ اور حضرت امام محمدؒ اسے جائز قرار دیتے ہیں۔ احناف کا مفتی بہ قول صاحبین والا ہے، مگر میں نے اس تفصیلی مضمون میں یہ موقف اختیار کیا کہ حضرت ملا علی القاریؒ نے لکھا ہے کہ دلائل امام صاحب کے مضبوط ہیں، جبکہ مصلحت عامہ صاحبین کے موقف میں ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اگر ماضی میں صاحبین کا موقف مصلحت عامہ کی وجہ سے اختیار کیا گیا تھا تو آج اگر مصلحت عامہ امام صاحبؒ کا قول اختیار کرنے میں ہو تو اس سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ یہ موقف جمہور احناف کے موقف او رمفتی بہ قول کے خلاف تھا اور اس پر مجھے ’’کمیونسٹ‘‘ اور ’’سوشلسٹ‘‘ مولوی ہونے کے طعنے بھی ملے، مگر حضرت امام اہل سنت نے جب یہ مضمون پڑھا تو اس پر صرف ایک جملہ کہا کہ ’’احناف کا مفتی بہ قول یہ نہیں ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا کہ مجھے معلوم ہے۔ اس کے بعد زندگی بھر ہمارے درمیان اس حوالے سے کوئی گفتگو نہیں ہوئی۔
  • حضرت امام اہل سنتؒ نماز عید سے قبل تقریر کو صراحتاً بدعت کہتے تھے، جبکہ مدرسہ نصرۃ العلوم میں حضرت صوفی صاحبؒ کا اور عیدگاہ گراؤنڈ گوجرانوالہ میں ہمارا معمول شروع سے نماز سے قبل تقریر کا چلا آ رہا ہے۔ یہ بات ان کو معلوم تھی اور کبھی کبھی ہمارے درمیان گفتگو بھی ہو جاتی تھی، مگر کبھی ہلکی پھلکی گفتگو سے بات آگے نہیں بڑھی۔
  • رمضان المبارک میں تراویح اور نوافل کے بعد اجتماعی دعا کو وہ بدعت کہتے تھے جبکہ مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں ان کے استاذ محترم حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ کے ہاں اس دعا کا معمول تھا اور میں نے اسی معمول کو اپنایا ہوا ہے۔ حضرت والد محترم کو اس کا علم تھا اور وہ وقتاً فوقتاً بات بھی کرتے تھے، لیکن بات صرف ہلکی پھلکی گفتگو تک رہتی تھی۔
  • اہل تشیع اوربریلوی حضرات کی علی الاطلاق تکفیر کے حوالے سے حضرت والد محترم، حضرت عم مکرم مولانا صوفی عبدالحمید سواتی اور راقم الحروف کے نقطہ نظر کا فرق سب احباب کو معلوم ہے، لیکن یہ مسئلہ کبھی ہمارے درمیان نزاع کا باعث نہیں بنا۔
  • حضرت مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی مدظلہ فارمی مرغی کو ’’جلالہ‘‘ کے دائرے میں شامل کرتے ہیں اور اسے حلال نہیں سمجھتے۔ حضرت والد محترم کے علم میں یہ بات تھی اور وہ کبھی کبھی دل لگی میں کچھ کہہ بھی دیتے تھے، لیکن یہ بات کبھی مسئلہ نہیں بنی اور اس دور میں بھی نہیں بنی جب حضرت مفتی صاحب مدظلہ جامعہ نصرۃ العلوم کے دار الافتاء کے سربراہ تھے۔
  • کیمرے اور ٹی وی وغیرہ کی تصویر کے بارے میں حضرت امام اہل سنتؒ کا موقف عدم جواز کا تھا، جبکہ میرا طالب علمانہ رجحان ’’موطا امام محمد‘‘ میں حضرت امام محمدؒ کے قول کی روشنی میں اس کے جواز کی طرف ہے۔ میری یہ رائے حضرت والد محترم کے علم میں تھی، لیکن انھوں نے کبھی اس پر ’’حرام کو حلال کرنے‘‘ کا فتویٰ نہیں لگایا اور نہ اس حوالے سے کبھی مجھ سے کوئی بازپرس کی۔
  • استاذ محترم حضرت مولانا عبد القیوم ہزارویؒ کا اپنا انداز فکر تھا اور ان کے بھی بعض تفردات ہوتے تھے جن کا وہ اپنے سبق کے دوران پوری شدت کے ساتھ اظہار بھی کرتے تھے، لیکن ان کی کوئی اختلافی رائے کبھی مدرسے میں مسئلہ نہیں بنی۔
حضرت امام اہل سنتؒ کا مزاج، رویہ اور ذوق یہ تھا کہ وہ اختلاف رائے کا حق دیتے تھے، اس کا احترام کرتے تھے اور کسی اختلاف کو مسئلہ بنا لینے کی بجائے اسے اس کی حدود میں رکھتے تھے۔

طرز تکلم اور اسلوب بیان

حضرت والد محترم سے تعلیم حاصل کرنے والے سب شاگرد جانتے ہیں کہ وہ اس بات کی اکثر تلقین کیا کرتے تھے کہ اپنا موقف مضبوط رکھو، لیکن بیان کے لیے الفاظ نرم اختیار کرو اور خیر خواہانہ لہجہ اپناؤ۔ وہ سخت کلامی اور سخت بیانی سے نہ صرف خود گریز کرتے تھے بلکہ اسے برداشت بھی نہیں کرتے تھے اور ٹوک دیتے تھے۔ اس سلسلے میں اپنے دو ذاتی واقعات کا ذکر کرنا چاہوں گا۔
میرا طالب علمی کا ابتدائی دور تھا۔ گکھڑ میں حضرت مولانا قاری سید محمد حسن شاہؒ کا خطاب تھا۔ میرے استاذ محترم جناب قاری محمد انور صاحب نے مجھے چند جملے رٹا کر ان سے پہلے تقریر کے لیے کھڑا کر دیا۔ میں نے مائیک کے سامنے کھڑے ہوتے ہی آؤ دیکھا نہ تاؤ، مرزا غلام احمد قادیانی کا نام لے کر بے نقط سنانا شروع کر دیں۔ حضرت والد محترم اسٹیج پر موجود تھے۔ انھوں نے مجھے گریبان سے پکڑ کر پیچھے ہٹایا اور مائیک پر کھڑے ہو کر باقاعدہ معذرت کی کہ بچہ ہے، جوش میں غلط باتیں کر گیا ہے۔
اسی طرح ایک بار میں نے زمانہ طالب علمی میں بزرگ اہل حدیث عالم مولانا حافظ عبد القادر روپڑیؒ کے کسی مضمون کا جواب لکھا جس میں یہ انداز اختیار کیا کہ ’’حافظ عبد القادر یہ کہتا ہے‘‘۔ حضرت والد محترم کو یہ مضمون چیک کرنے کے لیے دیا تو الٹے ہاتھ کا تھپڑ میرے منہ کی طرف آیا کہ تمھارا چھوٹا بھائی ہے جو یوں لکھ رہے ہو؟ ہو سکتا ہے، تمھارے باپ سے بھی بڑا ہو۔ یوں لکھو کہ مولانا حافظ عبد القادر روپڑیؒ یوں لکھتے ہیں اور مجھے ان کی بات سے اتفاق نہیں ہے۔

معاشرتی وسماجی تعلقات

حضرت والد محترم کا معاشرتی رویہ بھی ماضی کے اہل علم کی طرح مثالی اور آئیڈیل تھا۔ وہ مسلکی اور علمی اختلاف کی وجہ سے باہمی میل جول، ملاقات اور خوشی غمی میں شرکت ترک نہیں کر دیتے تھے۔ اس کی چند مثالیں پیش کرنا چاہوں گا۔
  • حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفیؒ اہل حدیث مکتب فکر کے بزرگ عالم دین تھے۔ ان کی وفات ہوئی تو ان کے جنازے میں حضرت والد محترمؒ اور حضرت عم مکرمؒ کے ساتھ میں نے بھی شرکت کی۔
  • ایک اور اہل حدیث بزرگ عالم دین حضرت مولانا حافظ محمد گوندلویؒ کی وفات پر حضرت والد محترمؒ کو بروقت اطلاع نہ مل سکی تو وہ دوستوں سے سخت ناراض ہوئے کہ انھوں نے بتایا کیوں نہیں، وہ ان کے جنازے میں شریک ہونا چاہتے تھے۔
  • مسئلہ حیات النبی پر حضرت والد محترمؒ ، حضرت صوفی صاحبؒ اور حضرت مولانا قاضی شمس الدینؒ کی ایک دوسرے کے جواب میں تصانیف سے کون واقف نہیں؟ لیکن اس کے باوجود ہمارا قاضی خاندان کے ساتھ میل جول کا تعلق شروع سے قائم ہے اور بحمد اللہ اب بھی ہے۔ حضرت مولانا قاضی شمس الدین صاحب فراش تھے تو والد محترم مجھے اور عمار خان کو ساتھ لے کر ان کی عیادت کے لیے ان کے گھر گئے۔ اس موقع پر یہ عجیب سی بات ہوئی کہ میں نے حضرت قاضی صاحبؒ سے جب یہ عرض کیا کہ ’’حضرت! تین پشتیں حاضر ہیں‘‘ تو وہ رونے لگ گئے۔
  • حضرت مولانا قاضی شمس الدین صاحب کے جنازے میں حضرت والد محترمؒ او رحضرت صوفی صاحبؒ کے ساتھ راقم الحروف اور ہمارے خاندان کے دیگر افراد نے بھی شرکت کی۔
  • حضرت مولانا قاضی عصمت اللہؒ کی والدہ محترمہ کا انتقال ہوا تو حضرت امام اہل سنت نے نہ صرف ان کے جنازے میں شرکت کی بلکہ خود جنازہ پڑھایا۔ 
  • حضرت والد محترم کی بیماری کے دوران حضرت مولانا قاضی عصمت اللہ صاحبؒ کی بیمار پرسی کے لیے متعدد بار تشریف لائے۔ حضرت قاضی صاحب بیمار ہوئے تو میں ان کی بیمار پرسی کے لیے جاتا رہا اور بحمد اللہ تعالیٰ ان کے جنازے میں شرکت کی سعادت بھی حاصل کی۔ اب بھی ہم دونوں خاندان ایک دوسرے کی خوشی غمی میں حسب موقع شریک ہوتے ہیں اور اگر کہیں ملاقات ہو جائے تو ماتھے پر تیوریاں چڑھا کر ادھر ادھر نہیں دیکھنے لگ جاتے، بلکہ محبت واحترام کے ساتھ ملتے ہیں، ایک دوسرے کا حال پوچھتے ہیں اور ایک دوسرے کو دعا دیتے ہیں۔
  • خود ہمارے خالو محترم مولانا عبد الحمید قریشی مرحوم جمعیۃ اشاعۃ التوحید والسنۃ کے سرگرم راہ نما تھے، لیکن اس کے باوجود حضرت والد محترم نے ان کے ساتھ خاندانی روابط میں کوئی فرق نہیں آنے دیا۔ انھیں خوشی غمی کے ہر موقع پر شرکت کی دعوت دی جاتی تھی اور ان کے ہاں خوشی غمی کے مواقع پر حضرت والد محترم اپنے اہل خانہ کی طرف سے نمائندگی کو یقینی بناتے تھے۔

مشترکہ سیاسی وتحریکی جدوجہد 

امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر اجتماعی دینی وقومی مسائل کے دائرے میں مختلف مکاتب فکر کی مشترکہ جدوجہد میں شریک رہے ہیں اور بھرپور تحریکی وسیاسی زندگی گزاری ہے جس کی چند جھلکیاں درج ذیل ہیں:
  • وہ تحریک پاکستان سے قبل جمعیۃ علماء ہند اور مجلس احرار اسلام کے باقاعدہ کارکن تھے اور ان کی تحریکی سرگرمیوں میں شریک ہوتے رہے ہیں۔ وہ اس دور میں مجلس احرار اسلام کے رکن بلکہ رضا کار رہے ہیں جب اس کی قیادت میں امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ اور حضرت مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ کے ساتھ ساتھ مولانا سید محمد داؤد غزنویؒ ، مولانا مظہر علی اظہرؒ اور صاحب زادہ سید فیض الحسنؒ بھی شامل تھے۔
  • وہ کم وبیش ربع صدی تک جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے ضلعی امیر رہے ہیں اور جمعیۃ کے مرکزی اجلاسوں میں شرکت کے لیے انھوں نے ڈھاکہ تک کے اسفار کیے ہیں۔ اس دوران جمعیۃ ملک کے جس سیاسی یا دینی متحدہ محاذ میں شامل رہی ہے، وہ اس کا حصہ اور متحرک کردار رہے ہیں۔ اس میں پاکستان قومی اتحاد، آل پارٹیز مجلس عمل تحفظ ختم نبوت اور متحدہ مجلس عمل بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
  • انھوں نے ۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں آل پارٹیز مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے خود گرفتاری پیش کی تھی اور کم وبیش دس ماہ جیل میں رہے تھے۔ اس وقت مجلس عمل کے صدر بریلوی مکتب فکر کے مقتدر راہ نما مولانا سید ابو الحسنات قادریؒ تھے۔
  • جب مجاہد اسلام حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ اور قائد اہل سنت حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ نے متحدہ محاذوں میں شرکت سے اختلاف کرتے ہوئے الگ راستہ اختیار کیا تو امام اہل سنت نے ان بزرگوں کے تمام تر احترام کے باوجود ان کا ساتھ نہیں دیا، بلکہ جمعیۃ علماء اسلام کے ساتھ تمام متحدہ محاذوں کا حصہ رہے اور تحریکوں میں کردار ادا کرتے رہے۔
  • انھوں نے پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کی اپنے علاقے میں قیادت کی اور فائرنگ کی ڈیڈ لائن کو عبور کرتے ہوئے اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ لیا اور پھر کم وبیش ایک ماہ جیل میں رہے۔
  • اپنی زندگی کے آخری دنوں میں جب وہ مسلسل بستر علالت پر تھے، انھوں نے متحدہ مجلس عمل کا ساتھ دیا اور گکھڑ سے قومی اسمبلی کے لیے ایم ایم اے کے امیدوار جناب بلال قدرت بٹ کی کھلم کھلا حمایت کی جو جماعت اسلامی کے ضلعی امیر تھے۔ بٹ صاحب الیکشن تو نہ جیت سکے، لیکن حضرت امام اہل سنت کی اس علانیہ حمایت کی وجہ سے گکھڑ میں انھوں نے سب سے زیادہ ووٹ لیے۔ اس کی صدائے بازگشت حالیہ انتخابات میں بھی سنی گئی۔ بلال قدرت بٹ اس بار جماعت اسلامی کی طرف سے قومی اسمبلی کے امیدوار تھے۔ ان کے حریف پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار جناب میاں طارق محمود نے گکھڑ میں انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بلال قدرت بٹ سے مخاطب ہو کر کہا کہ پچھلی بار تو تمھیں مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ نے یہاں سے ووٹ دلوا دیے تھے، اب دیکھتا ہوں تمھیں کون ووٹ دیتا ہے!
حضرت امام اہل سنت کے حوالے سے یہ چند باتیں میں نے نکتہ واضح کرنے کے لیے تحریر کر دی ہیں کہ ان کا اسلوب گفتگو، طرز عمل اور ذوق ومزاج ہرگز وہ نہیں تھا جس کو ان کی طرف منسوب کرنے یا ان کے ’’زیر سایہ‘‘ اختیار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دوستوں سے گزارش ہے کہ وہ اپنی بات اپنی ذمہ داری پر کریں اور اپنی فائرنگ کے لیے حضرت امام اہل سنت کا کندھا استعمال کرنے سے گریز کریں۔

بر صغیر کی دینی روایت میں برداشت کا عنصر (۱)

مولانا مفتی محمد زاہد

ایشیا کا وہ خطہ جو بر صغیر کہلاتا ہے ، بالخصوص اس کے وہ علاقے جن میں مسلمان اکثریت میں ہیں یا بڑی تعداد میں آباد ہیں یہ ہمیشہ سے ہی مختلف تہذیبوں کی آماج گاہ اور ان کی آمد و رفت کا راستہ رہے ہیں۔ اس لیے تہذیبی اور ثقافتی تنوع یا اختلافات کا ذائقہ یہ خطے چکھتے چلے آئے ہیں اس کے جو اثرات اس خطے کی اجتماعی نفسیات پر بھی پڑے ہیں وہ ایک مستقل مطالعے کا موضوع ہوسکتے ہیں، یہاں بر صغیر میں صرف مسلمانوں کی دینی روایت کے حوالے سے بات کرنا مقصود ہے۔ 
بر صغیر میں مسلمانوں کی دینی روایت کو اگر دیکھا جائے تو اس میں فرقہ وارانہ تقسیم ، عدمِ برداشت کے بھی بہت سے مناظر نظر آتے ہیں جن کی متعدد تاریخی وجوہ بھی ہوسکتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ یہاں کے مسلمانوں کو یہاں کے مقامی مذاہب اور تہذبیوں میں خودکو مدغم ہونے سے بچانے کے لیے بہت زیادہ تگ ود کرنا پڑی۔ اس چیز نے انہیں اپنی شناخت اور پہچان کے حوالے سے حساس بنادیا اور اسی کے اثرات ان کی اندر کی فرقہ وارانہ تقسیم پر بھی پڑے ہوں۔ نیز بر صغیر میں شخصیات اور مقامات کے ساتھ الحاق اور تعلق کی خاص روایت رہی ہے۔یہ چیز بھی ۔اگر اسے اعتدال پر نہ رکھا جائے۔ اختلاف آراء کو تقسیم کا باعث بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری بھی غلو اور جذباتیت کو یہاں کے عمومی مزاج کا ایک حصہ قرار دیتے ہیں۔ خلیق ابراہیم ان کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں 
’’مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری تین چار بار ہمارے ہاں آئے۔ وہ بڑی دلچسپ باتیں کرتے تھے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے قومی مزاج کی بات ہورہی تھی ، کہنے لگے : ’’ اس سے زیادہ جذباتی قوم دنیا کے پردے پر نہیں ہوگی ۔اس کے دین نے اسے اعتدال اور حقیقت پسندی کا راستہ دکھایا ہے ، اور سول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ دین میں غلو نہ کرو۔ مگر اس نے [ہندوستان کی مسلمان قوم نے] دین کو مشعلِ راہ بنانے کی بجائے [اسے] اپنے اعصاب پر سوار کرلیاہے۔اس کے جذبات میں کنکری ڈالو تو لہریں پیدا نہیں ہوں گی بلکہ ایک دم ابال آجائے گا‘‘۔ (۱) 
یعنی مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری دین کے بارے میں حد سے بڑھی ہوئی اور اعتدال سے نکلی ہوئی حساسیت کو اعصاب پر سوارکرنے سے تعبیر کرتے ہوئے اسے غلو اور جذباتیت کا سبب قرار دے رہے ہیں۔اس کی وجہ بھی شاید وہی خطرے کا احساس ہو جو اتنی بڑی غیر مسلم آبادی کے درمیان موجود ہونے کی وجہ سے پیدا ہوا اور پھر تاریخی طور پر ہمارے جینیاتی نظام کا حصہ بن گیا اور شاہ صاحب کے الفاظ میں ہم نے دین سے اپنی زندگیوں میں راہ نمائی اور روشنی حاصل کرنے کی بجائے اسے اپنے اعصاب پر سوار کرلیا۔
خیر! تاریخی توجیہ جو بھی ہو بر صغیر میں مسلمانوں کی دینی روایت میں تقسیم و تفریق کا عنصر موجود ضرور رہاہے۔ لیکن اسی کے ساتھ اس خطے میں مسلمانوں کی دینی روایت میں برداشت اور تنوع کو قبول کرنے کے مظاہر بھی کم نہیں ہیں۔ پاکستان کے حالیہ کچھ عرصے کے مخصوص دینی ماحول نے اس روایت کے اس عنصر اور پہلو کو گہنا سا دیا ہے اور موجودہ حالات کو دیکھ کر بادی النظر میں یہ تاثر ابھرتا ہے کہ یہاں کے دینی حلقے اور ان کے اکابر ہمیشہ سے ایک دوسرے سے برسرِ پیکار رہے ہیں۔ اس تاثر کے ازالے اور تصویر کا دوسرا رخ سامنے لانے کے لیے یہ سطور تحریر کی جارہی ہیں۔
برصغیر میں اہل السنۃ والجماعۃ ہمیشہ اکثریت میں رہے ہیں۔ تاہم اہلِ تشیع کا بھی ہمیشہ قابلِ ذکر وجود رہا ہے۔ بعض علاقوں میں ان کی تعداد خاصی زیادہ رہی ہے۔ بعض جگہوں پرمقامی حکمران یا نواب وغیرہ اہل تشیع میں سے رہے ہیں۔نظریاتی طور پراہل السنۃ اور اہل تشیع کے درمیان بڑے نازک مسائل میں اختلاف موجود رہا ہے۔ ان مسائل پر بحث مباحثہ اور کتابیں لکھنے کا سلسلہ بھی رہاہے۔لیکن سوائے چند استثنائی مثالوں کے یہ اختلاف کبھی ایک دوسرے کے لیے جانی خطرات کا باعث نہیں بنا۔جن مسائل میں فریقین کے درمیان اختلاف رہا ہے وہ بنیادی طور پر تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد کی تاریخ کے پیدا کردہ ہیں ، تاہم ان کے ساتھ چونکہ کئی مقدس اور محترم شخصیات کے ساتھ عقیدت کا معاملہ آگیا ہے اس لیے انہوں نے بہت زیادہ نزاکت اور حساسیت اختیار کرلی اور اس اختلاف کی حیثیت اصولی اختلاف کی بن گئی۔ اگرچہ اب بھی فریقین کے درمیان بہت سے مشترکات موجود ہیں ، دین کے اصل الاصول امور میں کوئی خاص اختلاف نہیں ہے۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ بر صغیر کی درس و تدریس کی روایت میں اہلِ سنت کے ہاں اہلِ تشیع کی کئی کتابیں پڑھی پڑھائی جاتی رہی ہیں۔نحو میں کافیہ پر رضی کی شرح کسی زمانے میں یہاں داخلِ درس رہی ہے۔ کافیہ کے مصنف معروف سنی مالکی فقیہ و اصولی اور نحوی ہیں اس کے شارح رضی شیعہ ہیں۔ لیکن متن اور شرح دونوں کہیں نہ کہیں اہل سنت اور اہل تشیع دونوں کے ہاں داخلِ درس نظر آتی ہیں۔ درس نظامی میں شامل منطق کی ایک معروف کتاب شرح تہذیب کے مصنف شیعہ ہیں۔ جبکہ خود تہذیب کے مصنف علامہ تفتازانی سنی ہیں۔ اور متن اور شرح دونوں حلقہ ہائے درس میں پڑھی پڑھائی جاتی رہی ہیں۔
اور تو اور برِ صغیر میں غیر مسلموں کے ساتھ رواداری اور اچھے میل جول کی جو مثالیں ملتی ہیں ہو وہ ہماری تاریخ کا سنہری حصہ ہیں۔ برصغیر میں مسلمانوں کو چونکہ غیر مسلموں سے واسطہ زیادہ پڑتا رہا ہے اس لیے یہاں اس کی مثالیں زیادہ ملتی ہیں اس پر مواد اگر جمع کیا جائے تو وہ پوری ایک کتاب کا مواد بن سکتاہے۔ یہ بات تو بر صغیر کی تاریخ کا ادنی طالب علم بھی جانتا ہے کہ یہاں صوفیائے کرام کے دروازے ہر ایک کے لیے خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم ہو کھلے ہوتے تھے۔ مولانا حسین احمد مدنیؒ نے اپنے ایک مکتوب (مکتوب نمبر : ۶۳ ) میں اس موضوع پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے کہ مسلمانوں کی ہندوستان جب آمد ہوئی تو یہاں باہمی اختلاط کا جو ماحول تھا اس سے اسلام اور مسلمانوں کو کیا فائدہ پہنچا ، اور یہ کہ عموماً مسلمان بادشاہوں کی طرف سے ہر مسئلے کا حل طاقت سے کرنے کی پالیسی سے کیسے نقصان پہنچا۔ دیگر مذاہب کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے اکبر کی پالیسی پر اگرچہ عام طور پر دینی حلقوں میں تنقید کی جاتی ہے اور اس تنقید کی جائز وجوہ اپنی جگہ موجود ہیں تاہم مولانا مدنی کا نقطۂ نظر اس سے قدرے مختلف ہے۔ وہ اکبر کی پالیسی کو بعض پہلوؤں سے فائدہ مند قرار دیتے ہیں۔ مولانا مدنی کا یہ مکتوب اگرچہ طویل ہے تاہم اس کے چند اقتباسات نقل کرنا مناسب معلوم ہوتاہے۔مولانا لکھتے ہیں : 
’’پادشاہانِ اسلام نے اولا تو اس طرف توجہ ہی نہیں کی۔ بلکہ وہ تمام باتوں کا قوت سے مقابلہ کرتے رہے۔ مگر شاہانِ مغلیہ کو ضرور اس طرف التفات ہوا۔ خصوصاً اکبرنے ۔۔۔ اگر اس [اکبر] کے جیسے چند بادشاہ اور بھی ہو جاتے یا کم ازکم اس کی جاری کردہ پالیسی جاری رہنے پاتی تو ضرور بالضرور برہمنوں کی یہ چال[کہ نفرت کی فضا پیدا کرکے لوگوں کو اسلام سے روکا جائے] مدفون ہوجاتی اور اسلام کے دلدادہ آج ہندوستان میں اکثریت میں ہوتے ، اکبر نے نہ صرف اشخاص پرقبضہ کیا تھا ، بلکہ عام ہندو ذہنیت اور منافرت کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا تھا ، مگر ادھر تو اکبر نے نفسِ دینِ اسلام میں کچھ غلطیاں کیں جن سے مسلم طبقہ میں اس سے بدظنی ہوئی ، اگرچہ بہت سے بد ظنی کرنے والے غافل اور کم سمجھ تھے ، ادھر برہمنوں کے غیظ وغضب میں اپنی ناکامیاں دیکھ کر اشتعال پیدا ہوا، ادھر یورپین قومیں خصوصاً انگلستان کو اپنے مقاصد میں کامیابی کا ذریعہ تلاش کرنا پڑا اور سب سے بڑا ذریعہ اس کے لیے منافرت بین الاقوام تھا اور ہے‘‘۔
آگے چل کر اسی پالیسی کی تائید میں دلائل دیتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں : 
’’آپ کو معلوم ہے کہ صلح حدیبیہ ہی فتح مکہ اور فتحِ عرب کا پیش خیمہ ہے۔اور جس روز صلح حدیبیہ تمام وکمال کو پہنچی ہے اسی روز إنا فتحنا الآیہ نازل ہوتی ہے جس پر حضرت عمر تعجب کرتے ہوئے استفسار فرماتے ہیں أوفتح ہو یا رسول اللہ؟ آپس میں اختلاط ہونا ، نفرت میں کمی آنا ، مسلمانوں کے اخلاق اور ان کی تعلیمات کا معائنہ کرنا ، دلوں سے ہٹ اور ضد کا اٹھ جانا ، یہی امور تھے جنہوں نے افلاذ اکباد قریش کو کھینچ [کر ] صلحِ حدیبیہ کے بعد مسلمان بناتے ہوئے مکہ سے مدینے کو پہنچا دیا ، حضرت خالدبن ولید ، عمرو بن العاص اس طرح حلقہ بگوش اسلام بن گئے کہ قریش کی ہستی فنا ہو گئی۔
’’الغرض اختلاط باعثِ عدمِ تنافر ہے ، اور وہ اقوام کو اسلام کی طرف لانے والا اور تنافر باعثِ ضد اور ہٹ اور عدمِ اطلاع علی المحاسن ہے اور وہ [تنافر] اسلامی ترقی میں سدِّ راہ ہونے والا، اور چونکہ اسلام تبلیغی مذہب ہے اس لیے اس کا فریضہ ہے کہ جس قدر ہوسکے غیر کو اپنے میں ہضم کرے نہ یہ کہ ان کو دور کرے ، اس لیے اگر ہمسایہ قومیں ہم سے نفرت کریں تو ہم کو ان کے ساتھ نفرت نہ کرناچاہیے ، اگر وہ ہم کو نجس اور ملچھ کہیں تو ہم کو ان کو یہ نہ کہنا چاہیے ، اگر وہ ہم سے چھوت چھات کریں ہم کو ان سے ایسا نہ کرنا چاہیے، وہ ہم سے ظالمانہ برتاؤ کریں ہم کو ان سے ظالمانہ غیر منصفانہ برتاؤ نہ کرنا چاہیے، اسلام پدرِ شفیق ہے ، اسلام مادرِ مہربان ہے ، اسلام ناصحِ خیر خواہ ہے ، اسلام جالبِ اقوام ہے ، اسلام ہمدردِ نوعِ بنی انسان ہے ، اس کو غیروں سے جزاء سیءۃ سیءۃ مثلہا پر کار بند ہونا شایاں نہیں ، بلکہ اس کی غرض [ تبلیغ] کے لیے سدّ یاجوج ہے ، کفر نے کبھی اسلام سے عدل وانصاف نہیں کیا ، [کیف و]إن یظہروا علیکم لا یرقبوا فیکم إلا ولا ذمۃ الخ وغیرہ شاہدِ عدل ہیں ، مگر اسلام نے انصاف عدل واحسان کو کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑا اور نہ چھوڑنا مناسب تھا ، اگرچہ جذباتِ انتقامیہ بہت کچھ چاہتے تھے‘‘۔
اسی مکتوب کے حاشیے میں مرتبِ مکتوبات مولانا نجم الدین اصلاحی ؒ وصیت نامہ شہنشاہ بابر بنام شہزادہ نصیر الدین ہمایوں کا اقتباس نقل کرتے ہیں ۔ یہ ایک اقتباس محض ایک بادشاہ کی وصیت کے طور پر یہاں پیش نہیں کیا جارہا بلکہ اس لیے بھی کہ ایک مستند عالم اسے بنظر استحسان نقل کر رہے ہیں: 
’’اے پسر! ہندوستان مختلف مذاہب سے پُر ہے ۔ الحمد للہ اس نے بادشاہت تمہیں عطا فرمائی ہے۔تمہیں لازم ہے کہ تم تعصبات مذہبی کو لوحِ دل سے دھو ڈالواور عدل وانصاف کرنے میں ہر مذہب وملت کے طریق کار کا لحاظ رکھو ۔۔۔ عدل و انصاف ایسا کرو کہ رعایا بادشاہ سے خوش رہے ، ظلم وستم کی نسبت احسان اور اور لطف کی تلوار سے اسلام زیادہ ترقی پاتاہے۔ شیعہ سنی کے جھگڑوں سے چشم پوشی کرو ، ورنہ اسلام کمزور ہوجائے گا۔‘‘
مولانا میاں اصغر حسین صاحب دیوبند کے بڑے اساتذۂ حدیث میں شمار ہوتے ہیں۔ صاحبِ دل اور صاحب کشف و کرامات بزرگ تھے۔ ان کے ہاں غیر مسلموں کے ساتھ کیا معاملہ ہوتا تھا اسے ایک اور صاحبِ باطن بزرگ مولانا احمدعلی لاہوریؒ بیان کرتے ہیں۔ یہاں پورا اقتباس نقل کرنا مناسب معلوم ہوتاہے تاکہ اصل بات کے ساتھ ان کے باطنی مرتبے کابھی اندازہ ہو اور آخر میں ذکر کی جانے والی بات کی اہمیت سامنے آئے۔ مولانا عبید اللہ انورؒ اپنے والد مولانا احمد علی لاہوریؒ سے نقل کرتے ہیں کہ میاں صاحب نے انہیں اپنے ہاں دیوبند میں تین دن قیام کے لیے بلایا:
’’تین دن میں جو وہاں رہا ہوں تو دن رات ایک لمحہ نہیں سویا ، ہر وقت ذکر میں مشغول رہا۔ ایک لمحہ بے وضو نہیں ہوا ، اور ایک لمحہ بھی غافل نہیں ہوا۔ حضرت میاں صاحبؒ نے فرمایا کہ آپ جیسے مہمان کے آنے سے دل کو راحت ہوتی ہے۔ او ر فرمایا کہ اب میں دنیا سے جارہاہوں ۔ جو اللہ نے تعالی نے مجھے دے رکھا ہے کچھ تحفے میں چاہتاہوں کہ ساتھ نہ لے جاؤں بلکہ یہ فیض جاری رہے۔ جو مانگتے ہیں وہ اہل نہیں اور جو اہل ہیں وہ مانگتے نہیں۔ ۔۔۔حضرت میاں اصغر حسین ؒ اس قدر عبادت کرتے تھے کہ جس کا کوئی ٹھکانا نہیں۔ ایسے ایسے واقعات ہیں کہ سنیں تو رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔ ہر وقت ان کے پاس ہندو ، عیسائی ، مسلمان غرض مندوں کا ہجوم رہتاتھا۔ گھر کا ایک کمرہ غیر مسلموں کے لیے عبادت گاہ کے لیے مخصوص کر رکھا تھا۔‘‘ (۲)
یہ کہنا تو شاید خالی از مبالغہ نہ ہو کہ بر صغیر میں اہل السنۃ اور اہل تشیع کے تعلقات بہت مثالی اورقابلِ رشک رہے ہیں ، لیکن یہ کہنا ضرور درست ہوگا کہ ان میں کبھی اتنا زیادہ اور اتنے طویل عرصے کا تناؤ نہیں رہا جتنا ہمارے ہاں اسّی کی دہائی کے بعد سے نظر آرہاہے۔
کچھ عرصے سے یہ تاثر عام سا ہوگیا ہے کہ اہلِ تشیع کو تمام علمائے اہل السنۃ کافر قرار دیتے ہیں اور یہ کہ یہ ان کا متفقہ فتویٰ ہے۔ یہاں فتاوی کی تفصیل میں جانے کا تو موقع نہیں ہے لیکن یہ غلط فہمی ضرور دور ہوجانی چاہیے اور یہ بات سامنے آنی چاہیے کہ تکفیرِِ شیعہ کا کوئی متفقہ فتویٰ موجود نہیں ہے بلکہ یہ مسئلہ اہل السنۃ والجماعہ کے نزدیک ہمیشہ مختلف فیہ رہاہے۔ اگرچہ متاخر زمانے میں اہلِ تشیع کی بطور فرقہ عمومی تکفیر کوبعض حلقوں کی طرف سے بہت زیادہ شد و مد سے بیان کیا گیاہے، لیکن اس رائے سے اختلاف رکھنے والے بھی خاصی تعداد میں موجود رہے ہیں۔ جن حضرات نے تکفیر کی ہے ان کی ایک بڑی تعداد نے بھی درحقیقت بطور فرقہ تمام اہلِ تشیع کی تکفیر کرنے کی بجائے بعض عقائد کی تکفیر کی ہے ، جس جس کے یہ عقائد ہوں وہ مسلمان نہیں ہے ، مثلاً یہ کہ وہ حضرت علی رضی اللہ کو نعوذ باللہ خدا مانتا ہو ، قرآن کو نہ مانتا ہووغیرہ وغیرہ۔ یہ درحقیقت کسی فرقے کی تکفیر نہیں ہے ، اس لیے کہ یہی عقیدہ شیعہ کے علاوہ کسی بھی فرقے کا شخص اختیار کرے، اس پر یہی حکم لاگو ہوگا۔ فقہ حنفی کی متاخرین کی کتب میں ان کفریہ عقائد کے حاملین کے لیے غالی شیعہ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ غالی شیعہ کے حوالے سے جو عقائد ذکر کیے گئے ہیں، آج کل کے عام شیعہ حضرات انہیں اپنے عقائد تسلیم نہیں کرتے۔ مثلاً حضرت علی کا خدا ہونا ، حضرت جبریل علیہ السلام سے وحی لانے میں غلطی ہونا کہ اصل میں حضرت علی کے پاس وحی لانی تھی، لیکن غلطی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے، تحریفِ قرآن کا قائل ہونا۔ آج شیعہ حضرات ان عقائد کی اپنی طرف نسبت کو غلط قراردیتے ہیں۔ گویا کہ آج کے مین سٹریم کے بہت سے شیعہ حضرات پر فقہاء کی اصطلاح ’’ غالی شیعہ ‘‘ صادق نہیں آتی۔ 
مولانا عبد الحی لکھنوی فرنگی محلی متاخرین میں فقہ حنفی کا بہت معروف نام ہیں۔ وہ لکھنو کے رہنے والے تھے جو اہلِ تشیع کا گڑھ سمجھا جاتاتھا، مولانا عبد الحی کا کثرتِ مطالعہ بھی ضرب المثل ہے، اس لیے یہ بات بعید سی ہے کہ لکھنو جیسے شہر میں رہتے ہوئے وہ شیعہ مذہب سے ناواقف ہوں۔ مولانا لکھنوی کے مجموعۃ الفتاوی میں بڑی تعداد میں ایسے فتاوی میں موجود ہیں جن میں انہوں نے عام اہلِ تشیع کی تکفیر کا فتوی نہیں دیا۔ بلکہ جو شیعہ سبّ صحابہ کا مرتکب ہو یعنی صحابہ کے بارے میں نامناسب باتیں کہے یا حضرات شیخین (حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ )کی خلافت کونہ مانتا ہو اس کے بارے میں بھی محققین کا قول عدمِ تکفیر کا قرار دیا ہے اور عدمِ تکفیر ہی کو اصح اور مفتی بہ قرار دیا ہے، اور جن حضرات نے ایسے شیعہ حضرات کی تکفیر کی ہے ان سے مفصل دلائل کے ساتھ اختلاف کیا ہے۔ 
مثلاً ایک استفتا میں امت کے تہتر فرقوں میں بٹنے والی حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے پوچھا گیا کہ ’’بعضے صاحب فرماتے ہیں کہ رافضی کہ شیخین کی شان میں بے ادبی کرتے ہیں کافر ہوگئے ، بعضے کہتے کہ سب اہل اہوا [اہلِ سنت کے علاوہ دیگر فرقے] کافر ہیں ، ایک فرقہ مسلمان ہے جس کو اہلِ سنت وجماعت کہتے ہیں اور بعضے صاحب فرماتے ہیں کہ رافضی کی توبہ قبول نہیں بلکہ اس کو قتل کرنا واجب ہے، جو شرع شریف میں لکھا ہو ارقام فرمائیں‘‘۔ اس کے جواب میں مولانا عبد الحی لکھنوی نے لکھا (ان فتاوی کی زبان اگرچہ پرانی ہے ، لیکن زبان کو آسان بنانے کی بجائے مولانا کی عبارات کو بعینہ نقل کیا گیا ہے):
’’کتابوں عقائد اور فقہ میں اس طرح لکھا ہے کہ بہتّرفرقہ جو اہلِ اہوا ہیں ایک بھی کافر نہیں ہے، چنانچہ عبارت ان کتابوں جو یہاں موجود ہیں بعینہ مفصلہ ذیل میں لکھی جاتی ہیں، اور عبارت فتاوی کی کہ سب الشیخین کفر ہے اس کا جواب بھی لکھا جاتا ہے بغور ملاحظہ فرمائیں۔ بلکہ اعتقاد کفر کا اہلِ اہوا جو بدعتی ہیں ان کی طرف رکھنا بھی کفر ہے‘‘۔ (۳)
مولانا لکھنویؒ سے پوچھا گیا کہ ہندہ ایک سنی خاتون ہے ، اس کا نکاح زید کے ساتھ ہوا جو شیعہ ہے ۔ نکاح بھی شیعہ طریقے کے مطابق ہوا۔ ایک دفعہ رخصتی بھی ہوچکی ہے۔ لیکن اب ہندہ اپنے خاوندکے گھر دوبارہ جانے سے انکاری ہے اور اس کا مطالبہ ہے پہلے مہر معجل ادا کیا جائے پھر جاؤں گی۔ جبکہ شیعہ مذہب میں خاوند مہر معجل کی ادائیگی کے بغیر بھی اسے لے جاسکتا ہے ، جبکہ فقہ حنفی کی عبارات مختلف ہیں۔ اب کیا کیا جائے۔ اس کے جواب مولانا عبد الحی لکھنویؒ نے لکھا ’’ اس صورت میں شوہر ہندہ کو قبل ادا کرنے مہر معجل کے لاسکتا ہے ، موافق قول صاحب بحر رائق کے‘‘(۴)۔
اسی طرح ان سے یہ سوال کیا گیا کہ ایک حنفی شخص کا انتقال ہوگیا ہے۔ اس کی ایک بیٹی مذہب امامیہ اختیارکیے ہوئے ہے۔کیا اس بیٹی کو وراثت میں حصہ ملے گا تو مولانا لکھنویؒ نے جواب میں لکھا ہے اس لڑکی کو بھی وراثت میں اپنا حصہ ملے گا۔
مولانا اشرف علی تھانویؒ سے سوال کیا گیاکہ ایک شیعہ لڑکے نے سنی لڑکی کو دھوکا دے کر نکاح کرلیا۔ اسے اس نے یہ باور کرایا کہ میں سنی ہوں جبکہ حقیقت میں وہ شیعہ تھا۔ حقیقتِ حال واضح ہونے کے بعد نکاح کے حکم کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اس نکاح کو نافذ قرار دیا ، البتہ یہ قرار دیا کہ شیعہ سنی چونکہ ایک دوسرے کے کفو نہیں ہیں ، اور نکاح کے وقت غیر کفو ہونے کا علم نہیں تھا اس لیے اس نکاح کو عدمِ کفاء ت کی بنیاد پر فسخ کرایا جاسکتا ہے۔ گویا محض لڑکے کے شیعہ ہونے کی وجہ سے نکاح کو باطل قرار نہیں دیا۔ مولانا تھانویؒ چند فقہی عبارات ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
ان روایات سے معلوم ہواکہ صورتِ مسؤلہ میں ولی منکوحہ اور اسی طرح بعد بلوغ خود منکوحہ کو بھی اس نکاح کے فسخ کرانے کا اختیار حاصل ہے۔ اور یہ فسخ بحکم حاکم ہوگا [یعنی اپنے طور پر میاں بیوی جدائی اختیار کرکے عورت دوسری جگہ نکاح نہیں کرسکتی] جو کہ علاقہ حیدرآ باد میں آسان ہے(۵)۔
اسی طرح کا ایک فتوی مفتی محمد شفیعؒ کا بحیثیت مفتی دارالعلوم دیوبند موجود ہے ،یہاں بھی مفتی صاحب نے شیعہ کے کافر ہونے کو بنیاد بناکر نکاح از ابتدا باطل قرار نہیں دیا بلکہ دھوکا دہی کی وجہ سے دوسرے فریق کو فسخ کرانے کا اختیار دیا ہے۔ سوال وجواب دونوں ملاحظہ ہوں :
سوال : زیدسنی کی لڑکی کو دھوکا سے عمر شیعہ اپنے نکاح میں لایا، یہ نکاح جائز ہے یا نہیں؟ اور عمرشیعہ زید کو کندھا دے سکتا ہے یا نہیں؟ عمر کو زید کے قبرستان میں مردہ دفن کرنا جائز ہے یا نہیں؟
الجواب : اگر عمر نے اپنے آپ کو مثلاً سنی حنفی ظاہر کرکے زید کو دھوکا دے کر اپنا نکاح زید کی لڑکی سے کرلیا اور واقعۃً عمر شیعہ ہے تو اس صورت میں عورت اور اس کے اولیاء کو فسخ نکاح کا حق حاصل ہے ۔۔۔ اور عمر زید کے جنازے کو کندھا دے سکتا ہے اور عمر کو زید کے قبرستان میں دفن کرنا بھی جائز ہے۔ اس طرح کے امور میں جھگڑا فساد کرنا نہیں چاہیے۔‘‘ (۶)
دارالعلوم دیوبند کے مفتی محمود الحسن گنگوہیؒ سے پوچھا گیا کہ لداخ کے علاقے میں اکثر شیعہ ہوتے ہیں اور اکثر ہوٹل بھی انہی کے ہوتے ہیں ، ان کے ذبیحہ کا کیا حکم ہوگا ، تو انہوں جواب میں لکھا:
’’اگر ان کے متعلق یہ تحقیق نہیں کہ ان کے عقائد قرآن کریم کے خلاف ہیں تو ان کے ہوٹل میں اور ان کا ذبیحہ کھانے کی گنجائش ہے۔‘‘ (۷)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مفتی محمود الحسن گنگوہی ؒ کے خیال میں ایسے شیعہ بھی ہوتے ہیں جن کے عقائد قرآن کریم کے خلاف نہ ہوں۔
مولانا میاں اصغر حسین ؒ جو دار العلوم دیوبند کے بڑے اساتذہ میں سے اور صاحبِ کشف و کرامت بزرگ تھے، جن کا ذکر پہلے بھی گذر چکا ، انہوں نے میراث کے احکام پر عام مسلمانوں کے لیے ایک کتاب لکھی ، جس کا نام ’’مفید الوارثین‘‘ ہے۔ اس کے مقدمے میں وہ فرماتے ہیں : 
’’اثنائے تحریرِ رسالہ ایک معتبر کتاب مذہبِ شیعہ کی مل گئی تھی۔ ارادہ تھا کہ حاشیہ پر جا بجا اہل سنت اور شیعوں کا اختلاف ظاہر کردوں ، تاکہ ساتھ ساتھ دو فرقوں کے فرائض [احکامِ میراث] کا بیان ہوجائے، لیکن چونکہ رسالہ پہلے ہی سے بہت طویل ہوگیا تھااس لیے کچھ ارادہ ڈھیلا ہوا۔ پھر اس خیال نے بالکل ہی ارادہ فسخ کرادیا کہ اہلِ سنت کو اس کی ضرورت نہیں اور شیعہ صاحب میرے لکھے ہوئے کا کیوں اعتبار کریں گے‘‘۔ (۸)
اسی کتاب میں جہاں یہ مسئلہ بیان ہوا ہے کہ مسلمان اور غیر مسلم شرعاً ایک دوسرے کے وارث نہیں بنتے اور مسلمان رشتہ دار ایک دوسرے کے وارث ہوتے ہیں ، وہاں لکھتے ہیں: 
’’شیعہ وسنی میں اکثر علما کے نزدیک میراث جاری ہوتی ہے۔یعنی سنی میت کے شیعہ وارث میراث سے محروم نہ ہوں گے ، اسی طرح شیعہ کے ترکہ میں اہلِ سنت حسبِ قاعدہ میراث اور حصہ پائیں گے۔‘‘(۹)
اسی کے حاشیے میں لکھتے ہیں: 
’’میراث المسلمین میں یہ مسئلہ دیکھ کر ایک صاحب بہت خفا ہوئے تھے۔ پھر کسی کو اگر شک ہو تو در مختار و شامی و فتح القدیر کی وہ عبارتیں دیکھ لیں جو مولانا عبد العلی بحر العلوم نے مسلم الثبوت کی شرح میں نقل فرمائیں ہیں۔ یا شامی نے جو باب المرتدین میں تحقیق و تفصیل فرمائی ہے ملاحظہ فرمالیں۔ البتہ وہ شیعہ جو بالکل کفریہ عقائد رکھتا ہو تو اس کا حال مثل کافروں کے سمجھا جائے گا۔‘‘
اب آخری زمانے میں مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ کے بارے میں ماہنامہ الشریعہ کی متعدد اشاعتوں میں یہ بات آچکی ہے وہ بھی تکفیرِ شیعہ کے قائل نہیں تھے۔ عام طور پر تکفیرِ شیعہ کی ایک بنیاد تحریفِ قرآن کو قرار دیا جاتا ہے جبکہ علامہ شمس الحق افغانیؒ نے علوم القرآن میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ شیعہ بھی تحریفِ قرآن کے قائل نہیں ہیں ، یہی بات اس سے بہت پہلے مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ ردِ عیسائیت پر اپنی معروف کتاب ’’اظہار الحق ‘‘ میں فرما چکے ہیں۔
یہاں مقصود فتاوی جات کا احاطہ یا ان میں راجح مرجوح کا فیصلہ کرنا نہیں ہے۔ بلکہ اصل مقصود یہ دکھانا ہے کہ یہ جو مشہور ہوگیا ہے کہ بطور فرقہ شیعہ کو کافر کہنا اہلِ سنت کا متفقہ موقف ہے یہ درست نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بر صغیر میں جب بھی مسلمان طبقات اور فرقوں کو یکجا کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو وہاں اہلِ تشیع کو بھی مسلمانوں ہی کا ایک فرقہ سمجھ کر ساتھ شامل کیا گیا۔مولانا سید فرید الوحیدی مولانا حسین احمد مدنی ؒ کی سوانح حیات میں لکھتے ہیں : 
’’۱۹۲۹ء میں مولانا ابو الکلام آزاد نے تیس دوسرے قوم پر ور مسلمان لیڈروں کے ساتھ ’’نیشنلسٹ مسلم کانفرنس‘‘ قائم کی ۔ اگرچہ ان کی سرگرمیوں کا اصل مرکز بدستور کانگریس کا کام رہا۔ نیشنلسٹ مسلم کانفرنس اپنی کوئی مستقل جداگانہ تنظیم قائم نہیں کرسکی ، لیکن قوم پرور مسلمانوں کی مختلف جماعتوں جمعیت علماء ، شیعہ پولیٹکل کانفرنس، مجلس احرار ور خاں عبد الغفار خاں کی تنظیم کے لیے مشترک پلیٹ فارم کا کام دیتی رہی۔‘‘(۱۰)
یہاں شیعہ پولیٹیکل کانفرنس کو مسلمانوں ہی کی ایک تنظیم کے طور پر لیا جارہاہے۔
پاکستان بن جانے کے بعد یہ سوال اٹھا کہ ملک میں اگر اسلام نافذ کیا جائے تو کون سے فرقے کا۔ اس چیز کو نفاذِ اسلام سے گریز کا ایک بہانہ بنا لیا گیا تو ضرورت محسوس ہوئی کہ مسلمانوں کے تمام مکاتبِ فکر کے علما حکومتِ وقت اور ریاستی اداروں کو اپنے کچھ مشترکہ اور متفقہ اصول بتادیں۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے ایک مشاورت کے نتیجے میں علما نے دستور سازی میں راہ نمائی کے لیے بائیس متفقہ نکات پیش کیے ۔ ان نکات کی تیاری اور ان پر دستخط کرنے والوں میں تمام مکاتبِ فکر کے علما شامل تھے۔ شیعہ حضرات کی طرف سے دو نام یہاں قابلِ ذکر ہیں ، مفتی جعفر حسین مجتہد رکن بورڈ تعلیمات اسلام اور مفتی کفایت حسین مجتہد ادارہ عالیہ تحفظ حقوق شیعہ پاکستان۔ گویا اس سارے معاملے میں اہل تشیع باقی مکاتبِ فکر کے ساتھ چل رہے ہیں اور باقی مکاتب فکر بھی انہیں مسلمانوں کا ہی ایک طبقہ اور مکتبِ فکر سمجھ کر معاملہ کررہے ہیں۔
ختمِ نبوت کی تمام تحریکوں میں شیعہ حضرات باقی مکاتبِ فکر کے ساتھ شریک رہے ہیں۔ ۱۹۷۴ء کی مجلس عمل تحفظِ ختم نبوت جس کے صدر مولانا محمد یوسف بنوریؒ تھے اس کے دو نائب صدر مولانا عبد الستار نیازی اور اور سید مظفر علی شمسی (شیعہ) تھے(۱۱)۔ نوے کی دہائی میں جب ملی یک جہتی کونسل بنی تو اس میں بھی شیعہ حضرات شامل تھے۔ اسی طرح اب پاکستان کے دینی مدارس کی تنظیموں کا ایک اتحاد ’’اتحاد تنظیماتِ مدارسِ دینیہ‘‘ موجود اور فعال ہے ، جس میں شیعہ حضرات کا وفاق المدارس بھی شامل ہے۔ یاد رہے کہ یہ محض مذہبی تعلیمی اداروں کا اتحاد نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے دینی تعلیم کے اداروں کا اتحاد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی مسیحی یا قادیانی دینی درس گاہ کے اس اتحادمیں شامل ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
پھر ان دونوں فرقوں میں بحث مباحثوں اور مناظروں کا بازار بھی اگرچہ گرم رہا ، لیکن خود ان مباحثوں میں حصہ لینے والے حضرات میں کئی سنجیدہ شخصیات کا یہ احساس رہا کہ یہ مباحثے شائستگی کی حدود سے باہر نہیں نکلنے چاہئیں اور انہیں ماحول میں تلخی اور افتراق و انتشار کا باعث نہیں بننا چاہیے۔ پاکستان میں مولانا قاضی مظہر حسین چکوالویؒ کا نام اہل تشیع کی تردید میں لکھنے کے حوالے سے بہت معروف ہے۔ ان کے والد مولانا قاضی کرم الدین دبیرؒ بھی اسی میدان کے شہسوار تھے۔ لیکن ان کے احساسات ان کے چند اقتباسات کی شکل میں پیش کیے جاتے ہیں، تاکہ اندازہ ہو کہ ہر مکتبِ فکرمیں ہمیشہ ایسے حضرات موجود رہے ہیں جو ماحول کو تلخی تک پہنچانے سے گریزاں رہتے تھے۔ آگے ذکر کردہ اقتباسات کا پس منظر یہ ہے کہ ان کے زمانے کے احمد شاہ نامی ایک شیعہ عالم جو پہلے سنی تھے نے ایک اشتہار شائع کیا تھا جس میں خلفاء ثلاثہ ( حضرت صدیق اکبرؓ ، حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت عثمانؓ ) پر اعتراضات کیے گئے اورنامناسب زبان استعمال کی گئی تھی۔ اس کے جواب میں مولانا کرم الدین دبیر (والد مولانا قاضی مظہر حسینؒ ) نے السیف المسلول کے نام سے ایک رسالہ لکھا۔ یہ ذہن میں رہے کہ احمد شاہ ہی کے نام کے ایک عیسائی ہوجانے والے شخص نے نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات کے بارے میں ایک تکلیف رسالہ لکھا تھا ، جس کا ذکر دبیر صاحب کی بعض عبارات میں موجود ہے۔دبیر صاحب اپنی کتاب کے مقدمے میں لکھتے ہیں :
’’مشتہر صاحب [احمد شاہ] نے محض فرقہ اہل سنت والجماعت کا دل دکھانے اور دونوں فرقوں (شیعہ وسنی) کے مابین تخم نفاق بونے کی غرض سے یہ اشتہار لکھ دیا ہے۔۔۔ افسوس کہ آج کل انقلاب زمانہ سے ایسا تو کوئی مردِ خدا دنیا میں ڈھونڈنے سے نہیں ملتا جو بنی نوع انسان میں اتفاق اور اتحاد بڑھانے کی سبیل پیدا کرنے کی سعی کرے۔لیکن اختلاف ڈالنے اور تفرقہ پیدا کرنے والے ہزاروں پہلوان ہر طرف گونجتے پھرتے ہیں ‘‘۔
یہ کسی سیاسی مصلح یا یکسو مدرس کے الفاظ نہیں بلکہ ایک میدانِ مناظرہ کے شہسوار کے احساسات ہیں ۔ مزید لکھتے ہیں : 
’’چاہیے تو یہ تھاکہ ہمارے دوست احمد شاہ جو فرقہ اہل سنت والجماعت کے گھر میں پیدا ہوئے اور انہی کے گھر میں پرورش پاکر علم سیکھا ہے اب اگر کسی مصلحت یا اتفاق سے وہ فرقہ شیعہ میں جاملے ہیں، وہ اس بات کی کوشش کرتے کہ دونوں فرقوں میں رابطہ اتحاد پیدا ہو اور باہمی اتفاق و محبت کی صورت قائم ہو۔‘‘
احمد شاہ عیسائی کے ساتھ ان شیعہ صاحب کا تقابل کرتے ہوئے موخر الذکر سے شکوہ کناں ہیں کہ انہیں مسلمان ہوکر ایسا اقدام نہیں کرنا چاہیے تھا، اس کے بعد لکھتے ہیں:
’’شیعہ وسنی دونوں فرقے ایک خدا کی پرستش کرنے والے ایک نبی ، ایک قرآن پر ایمان لانے والے اور ایک قبلہ کی طرف سر جھکانے والے ہیں ۔ پھر افسوس ان دو متحد المقاصد فرقوں میں احمد شاہ شیعی جیسے ریکروٹ نئے بھرتی ہونے والے حضرات اتحاد قائم نہیں رہنے دیتے ۔‘‘
پھر اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہ ہر فرقے میں اس طرح کے جذباتی لوگ ہوتے ہیں جو ماحول کی خرابی کا باعث بنتے ہیں ، لکھتے ہیں :
’’صاحبان! جب تک دونوں فرقوں میں ایسے مجذوب الخیال اور مسلوب الحواس لوگ چن چن کر ’’کالا پانی‘‘ نہ بھیج دیے جائیں ان دونوں فرقوں میں یکجہتی اور اتحاد قائم ہونا مشکل ہے‘‘۔ 
کالا پانی یا جزائر انڈمین وہ جگہ تھی جہاں انگریزی دور میں مجرموں بالخصوص ’’باغیوں‘‘ کو سزا بھگتنے کے لیے بھیجاجاتا تھا۔یہ پھر ذہن میں رہے یہ ایک ایسی شخصیت کی تحریر ہے جو خود اہلِ تشیع کی تردید کے حوالے سے معروف ومشہور ہیں۔ مقصد ذکر کرنے کا یہ ہے کہ فرقہ وارانہ مباحثوں میں دلچسپی لینے والی شخصیات میں بھی ایسے لوگ موجود رہے ہیں جو اختلاف کو اختلاف ہی رکھنا چاہتے تھے ، جھگڑا نہیں بنانا چاہتے تھے۔ 
اپنی اس کتاب کے مقدمے میں صرف خود کو ہی امن کے خواہش مند کے طور پر پیش نہیں کیا بلکہ اس بات کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے کہ دوسری طرف بھی اسی طرح کے جذبات رکھنے والے لوگ موجود ہیں، چنانچہ لکھتے ہیں :
’’میں کبھی باور نہیں کرسکتا کہ کہ دونوں فرقوں کے مہذب اور اولی الابصار لوگ ایسی نفاق انگیز تحریروں کو وقعت کی نگاہ سے دیکھتے ہوں گے۔ بلکہ وہ تو ایسی مفسدہ تحریریں پڑھ کر جل بھُن جاتے ہوں گے۔ مگر کیا کریں یہ لوگ کسی کے قابو میں نہیں کہ اپنے یا بیگانے کسی کی سنیں۔
’’مجھے یاد ہے کہ اسی اشتہار کی نسبت پچھلے دنوں ایک شیعہ بزرگ مولوی مہر محمد شاہ خوش نویس جہلم نے ’’سراج الاخبار‘‘ میں ایک مضمون شائع کروایا تھا جس میں انہوں نے مُشتہر (احمد شاہ)صاحب کو بہت کچھ پھٹکار کی۔ اور ایسے شرمناک اشتہار کی اشاعت پر بہت افسوس ظاہر کیااور اصحاب ثلاثہؓ کا ایمان بروئے آیاتِ قرآنی ثابت کرکے مشتہر صاحب کو نادم کیا اور بڑے زور سے دعوت دی کہ اگر اس کو اس بارہ میں کچھ شک ہے تو ان سے زبانی مباحثہ کرکے اپنا اطمینان کرلیں۔‘‘
اس اقتباس میں ایک قابل توجہ بات تو یہ ہے کہ دوسرے فرقے کے پیشوا کو بھی ’’بزرگ‘‘ کے لقب سے یاد کیا جارہاہے۔ دوسرے اس بیان سے اس تاثر کی بھی نفی ہوگئی کہ ہر ہر شیعہ حضراتِ خلفاء ثلاثہ کو برا بھلا کہتا یا اسے استحسان کی نظر سے دیکھتاہے۔ بلکہ اس کے بر عکس معلوم ہوا کہ اہلِ تشیع میں بھی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے بعض لوگوں کے غلو کی اصلاح کرتے ہیں اور خلفاء ثلاثہ کا ایک ایمان قرآن سے ثابت کرتے ہیں۔ اس کی ایک تازہ ترین مثال یہ ہے کہ جب کویت کے یاسر نامی ایک عرب نے نعوذ باللہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں بعض افترا پردازیاں کیں تو ایران کی اعلی ترین قیادت نے بھی اس کی سختی سے تردید کی اور صراحتاً یہ کہا کہ اس طرح کا الزام نہ صرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر لگانا غلط ہے بلکہ کسی بھی نبی کی بیوی کے بارے میں اس طرح کی لب کشائی جائز نہیں ہے۔ 
(جاری)

حواشی
(۱)ماہ نامہ ’’ نقیبِ ختمِ نبوت‘‘ جون ۲۰۱۱ء ماخوذ از : خلیق ابراہیم خلیق : منزلیں گرد کی مانند ص ۲۷۳
(۲)حاکم علی : مولانا احمد علی لاہویؒ کے حیرت انگیز واقعات بیت العلم کراچی ص ۲۵۴
(۳)مجموعۃ الفتاوی ، عمر فاروق اکیڈمی لاہور ۱/۸۹ استفتاء نمبر ۱۰۲۔ آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ تمام اہل اہوء (غیر سنی فرقوں) کو کافر قرار دینے سے خود اپنے کفر کا خدشہ پیدا ہوجاتا ہے ، غالبا اس حدیث کی طرف اشارہ ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص کو کسی کو کافر کہتا ہے تو یہ بات دونوں میں سے کسی ایک پر ضرور لگتی ہے۔
(۴) مجموعۃ الفتاوی عمر فاروق اکیڈمی لاہور ۱/۲۴۰ استفتاء نمبر ۱۹۷
(۵)امداد الفتاوی ۲/ ۲۲۹ مکتبہ دار العلوم کراچی]
(۶)فتاوی دارالعلوم دیوبند (امداد المفتین) ص ۵۰۶
(۷)فتاوی محمودیہ ۱۷/ ۲۳۶ فتوی نمبر : ۸۳۳۴مطبوعہ جامعہ فاروقیہ کراچی]
(۸)مفید الوارثین ص ۳
(۹)مفید الوارثین ص ۶۸
(۱۰)شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی : ایک تاریخی وسوانحی مطالعہ ص ۳۳۵
(۱۱) طاہر رزاق : مرگِ مرزائیت ص

مغربی اجتماعیت : اعلیٰ اخلاق یا سرمایہ دارانہ ڈسپلن کا مظہر؟ (۱)

محمد زاہد صدیق مغل

مغربی اثرات کے تحت اسلامی دنیا میں بیسویں صدی کے دوران جو فکری مواد لکھا گیا اس کا ایک مفروضہ یہ بھی ہے کہ ’مغرب کی اجتماعی زندگی چند اعلی انسانی اخلاقی اقدار کا مظہر ہے، لہٰذا مغرب ہم سے بہتر مسلمان ہے بس کلمہ پڑھنے کی دیر ہے‘۔ یہی دعویٰ ان الفاظ میں بھی دہرایا جاتا ہے کہ ’اجتماعی زندگی کی تشکیل کے معاملے میں مغرب ہم سے بہت بہتر اقدار کا حامل ہے، البتہ ذاتی معاملات (مثلاً بدکاری، شراب نوشی وغیرہ کے استعمال ) میں کچھ نا ہمواریاں پائی جاتی ہیں‘۔ دوسرے لفظوں میں یہ دعویٰ کرنے والے حضرات یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مغرب کا اجتماعی نظم ’اسلامی تعلیمات کی روح ‘ کا عکاس ہے۔ اس دلیل کو درست ماننے کے نتائج یہ نکلتے ہیں کہ (۱) ہم مغرب کے نظم اجتماعی کی اسلامی توجیہ پیش کرکے اسے اپنانے کا اسلامی جواز پیش کرتے ہیں اور (۲) ساتھ ہی ساتھ مغربی انفرادیت کی برائیوں کو ثانوی قرار دے کر نئی آنے والی نسل کے لیے انہیں برداشت اور قبول کرنے کا راستہ کھولتے ہیں۔ 
درج بالا دعوے کی کمزوری یہ ہے کہ اس کی روشنی میں مغربی معاشرے کے ان تضادات کو سمجھنا انتہائی مشکل ہے جو بڑی آسانی سے دیکھے جاسکتے ہیں۔ مثلاً عام طور پر یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مغرب احترام انسانیت کا بہت قائل ہے، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر مغربی انسان نے ماں باپ کو اولڈ ہاوسز کے حوالے کیوں کردیا ہے۔ ظاہر ہے احترام انسانیت کا سب سے پہلا حق دار انسان کے ماں باپ ہیں تو مغرب میں یہ احترام کیوں نہیں پایا جاتا؟ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ مغرب میں قانون کی پاسداری ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہی مغربی انسان جونہی اپنے ملک کی سرحدوں سے باہر قدم رکھ کر کمزور ملکوں کی سرحدوں میں داخل ہوتا ہے تو کیوں کر ہر طرح کی کرپشن، ناانصافی، قتل و غارت گری کو روا سمجھتا ہے؟ درحقیقت درج بالا تجزیہ پیش کرنے والے مفکرین مباحث اخلاقیات نیز morality اورethics کے فرق سے ناواقف ہیں اور اسی فکری خلجان کی بنا پر یہ لوگ ’سرمایہ دارانہ ڈسپلن‘ (capitalist disciplines) کو اخلاق کے ساتھ خلط ملط کردیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مغرب کا اجتماعی نظم اعلیٰ اخلاق کا نہیں بلکہ انتہائی رزیل انسانی احساسات پر مبنی عقلیت (حرص ، حسد، شہوت، غضب، طول امل، حب جاہ، دنیا و مال) اور اس پر قائم ہونے والی ادارتی صف بندی (مارکیٹ اور ریاست) کے قیام کے لیے مطلوب نظم کی پابندی کا غماز ہے جس میں اعلیٰ اخلاق (مثلاً للہیت، عشق رسول، شوق عبادت، خوف آخرت ،طہارت، تقوی، عفت ،حیا، ایثار، شوق شہادت، توکل، صبر، شکر، زہد، فقر، قناعت ، عزیمت وغیرہ) پنپنے کا کوئی امکان موجود نہیں رہتا۔ اس مضمون میں ہم مختصرا نہی حقائق پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ درج بالا مباحث کو سمجھنے کے لیے جن مقدمات کا پیش نظر ہونا ضروری ہے ہم انہیں ترتیب وار بیان کرتے ہیں، وما توفیقی الا باللہ 

نیکی کے بجائے لذت پرستی (Utility maximization / Happiness) 

مذہب کی بنیاد پر قائم ہونے والی معاشرت و ریاست کا مقصد ایسی ادارتی صف بندی وجود میں لانا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں فرد کے لیے نیک زندگی (virtous life) گزارنا ممکن ہو سکے، یعنی اسے ثواب کمانے نیز گناہ سے بچنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع میسر آسکیں، تاکہ مرنے کے بعد وہ جنت کا حق دار بن سکے۔ دوسرے لفظوں میں مذہبی معاشرت و ریاست کی بنیاد یہ اصول ہوتا ہے کہ کس طرح ایسا معاشرہ قائم کیا جائے جس میں زندگی گزارنے کے بعد ایک فرد کے لیے حق عبدیت ادا کرنا نیز جنت کا حصول آسان تر اور حصول جہنم مشکل سے مشکل تر بن جائے۔ پندرہویں صدی سے قبل یورپ میں جو عیسائی معاشرے قائم تھے ان کی بنیاد کے طور پر بھی یہی اصول تھا۔ البتہ عیسائیت کی داخلی کمزوریوں، یونانی فلسفے کے اثرات کے تحت ابھرنے والی تحاریک نشاۃ ثانیہ واصلاح مذہب ، سرمایہ دارانہ سیاسی انقلابات اور بالآخر تحریک تنویر و رومانویت (یعنی رد مذہب ) و سائنسی علمیت کے غلبے کے نتیجے میں یورپی معاشروں نے نیکی (عبدیت) کے بجائے حصول آزادی (happiness) کو مطمع نظر بنا لیا۔ اپنے گمراہ کن تصورات کو فروغ دینے کے لیے مغربی مفکرین نے یہ خوش کن عذر پیش کیا کہ نیکی ایک مبہم تصور ہے (کیونکہ خدا کیا چاہتا ہے اس میں اہل مذہب کا اختلاف ہے، اس لیے یہ کبھی معلوم نہیں کیا جا سکتا) لہٰذا اس قدر کی بنیاد پر قائم ہونے والے معاشرے اختلاف اور افتراق کا شکار رہتے ہیں۔ ان کے خیال میں انسانی عقل کا بدیہی تقاضا آزادی ( حصول لذت ) کو زندگی کا مقصد مان لینا ہے اور انسان آزاد کیسے ہوتا ہے اس کے لیے سائنسی طریقہ علم کو اپنانے کی ضرورت ہے نہ کہ خدا کی کتاب کی طرف رجوع کرنے کی۔ 

آزادی کا معنی سرمایے میں اضافہ 

مغربی علمیت کے مطابق انسان اصولاً آزاد ہے، ان معنی میں کہ وہ اپنے اندر یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ قائم بالذات بن جائے، لیکن عملاً وہ آزاد نہیں کیونکہ بالفعل اس کی آزادی کو مادی اور سماجی دونوں طرح کی قوتیں محدود کرتی ہیں (مثلاً آج وہ نظام شمسی سے باہر نہیں جا سکتا، زلزلے یا طوفان کو روک نہیں سکتا، ماں باپ کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتا، یورپ و امریکہ میں دو شادیاں نہیں کر سکتا، کیوبا میں زمین نہیں خرید سکتا، ایران یا سعودی عرب میں سرے عام بدکاری نہیں کر سکتا وغیرہ)۔ سرمایہ داری ان مادی اور سماجی پابندیوں کے خلاف جدوجہد کا نظام ہے جو ارادہ انسانی کی متصور اصولی آزادی پر لگی ہوئی ہیں یا لگائی گئی ہیں۔ انسان کی اس اصولی مطلق العنان ربوبیت کی عملی تشریح کا وسیلہ سرمایہ کاری ہے کیونکہ آزادی کا معنی ذرائع (سرمایے) میں لامحدود اضافہ کرنا ہے، سرمایہ وہ شے ہے جو فرد کے لیے جو وہ چاہنا چاہتا ہے چاہنا اور پانا ممکن بناتا ہے۔ آزادی کا معنی لامحدود خواہشات کی تکمیل کو عقل کا تقاضا ماننا ہے اور اس جدوجہد پر قدغن لگانے والی شے سرمایہ ہے۔ چنانچہ حصول آزادی بطور قدر کا سرمایے کی چاہت کے علاوہ کوئی دوسرا مطلب نہ کبھی تھا اور نہ ہی ہو سکتا ہے۔ سرمایہ کارانہ عملیات (processes) میں حصہ لینے پر ہر وہ شخص مجبور ہوتا ہے جو آزادی پر ایمان لاتا ہے (انہی معنی میں آزادی کا متوالا عبد الدرہم و دینار ہوتا ہے)۔ سرمایہ دارانہ نظم کا بنیادی وظیفہ ایک ایسی معاشرتی و ریاستی ترتیب وجود میں لانا ہے جو فرد کے لیے حصول سرمایے کے مواقع کو زیادہ سے زیادہ ممکن بنا سکے۔ مغربی علمیت کا مفروضہ ہے کہ چونکہ ہر انسان فطری (جائز) طور پر حریص ہے لہٰذا دنیا کا ہر انسان سرمایے کی چاہت کو دیگر تمام چاہتوں پر فطری طور پر ترجیح دینا چاہتا ہے، اور اگر وہ ایسا نہیں کررہا یا کرنے پر راضی نہیں تو یقیناًکافر ، بدعقیدہ، جاہل و گمراہ ہے۔ ایسے کافر و گمراہ انسان کی یا تو (بذریعہ تعلیم وترغیب، ماحول وجبر) اصلاح کرنے کی ضرورت ہے اور ناقابل اصلاح ہونے کی صورت میں اس کی سزا پہلے معاشرتی اخراج (social marginalization) اور پھر موت ہے۔ 

سرمایے کا مطلب مارکیٹ 

البتہ مغربی مفکرین کے درمیان اس امر پر سخت اختلاف ہے کہ انسان آزادی کا مکلف کس نظم معاشرت کے ذریعے ہوپاتا ہے۔ اس سوال پر ان لوگوں کے اختلافات درحقیقت انتہائی شدید اور بدنما نوعیت کے ہیں اور ان کے سبب جتنے انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیااور جتنے لوگوں کا معاشی و سماجی استحصال کیا گیا، اس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ دور حاضر میں اس سوال کا جو جواب مقبول اور غالب ہے اسے مارکیٹ اکانومی کہتے ہیں، جو ایک معنی میں اس سوال کا تاریخی طور پر پہلا نظریہ بھی تھا۔ جن مفکرین کے خیال میں فرد کو سب زیادہ آزاد زندگی گزارنے (یعنی سرمایہ جمع کرنے) کے مواقع مارکیٹ اکانومی فراہم کرتی ہے انہیں لبرل سرمایہ دار (liberal capitalists) کہا جاتا ہے۔ لبرل مفکرین کے خیال میں جب ہر شخص اپنی اپنی ذاتی اغراض و مقاصد کے لیے جدوجہد کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ معاشرہ خود بخود بحیثیت مجموعی تمام افراد کے لیے ویلفیئر کا باعث بنتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ان کے خیال میں ذاتی اغراض اور لذت کا حصول سوشل ویلفیئر یا مجموعی لذت کی بڑھوتری کا بنیادی سبب و محرک ہے، معاشرے کی مجموعی لذت کا انحصار اس امر پر نہیں کہ لوگ ’مجموعی ‘ لذت یا مجموعی سرمایے کے لیے شعوری جدوجہد کریں، بلکہ اس امر پر ہے کہ لوگ حصول سرمایے کی جدوجہد اپنی ذاتی اغراض کی تسکین کے لیے کریں۔ چنانچہ لبرل مفکرین معاشرے کو مارکیٹ بنانے کے خواہاں ہیں۔ دھیان رہے کہ مارکیٹ سے مراد محض اشیاء کی لین دین نہیں ہوتا، بلکہ اس سے مراد وہ تمام تعلقات ہیں جن کا مقصد ذاتی اغراض کا حصول ہوتا ہے یا جو ذاتی اغراض کی تکمیل کی عقلیت کے تحت قائم کیے جاتے ہیں۔ ان معنی میں ہمارے جدید اسکول، یونیورسٹیاں، ہسپتال وغیرہ سب مارکیٹ بن چکے ہیں۔ انہی معنی میں ہمارے خاندان، بازار، مسجد، مدرسے ،مذہبی و صوفی حلقے مارکیٹ نہیں ہوتے کہ تعلقات کے یہ تانے بانے اغراض نہیں بلکہ محبت، صلہ رحمی واخوت کی عقلیت کے تحت قائم کیے جاتے ہیں۔ لبرلز کی شدید خواہش ہے کہ مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے ان اداروں کو بھی مارکیٹ نظم کے اندر سمو لیا جائے (جس طرح یورپ وغیرہ میں یہ دخول تقریبا مکمل ہونے کو ہے)۔ لذت پرستی کے حصول کے لیے دیگر نظریات بھی پیش کیے گئے البتہ اس مضمون میں تمام نظریات کا احاطہ کرنا ہمارا مقصد نہیں، لہٰذا ہم دور حاضر کے غالب نظریے پر ہی اکتفا کریں گے۔ 

مارکیٹ نظم کی ضروریات و مضمرات 

لبرل نظریات اور انڈسٹریل انقلاب کے تحت جب روایتی عیسائی مغربی معاشرے مارکیٹ میں تبدیل ہونا شروع ہوئے تو ایک طرف روایت پسند عیسائی اقدار پر مبنی معاشرت و ریاست (system of obedience) تحلیل ہونے لگی اور دوسری طرف ایک نئی طرز کی صف بندی وجود میں آنے لگی۔ مارکیٹ پر مبنی یہ نئی قسم کی سرمایہ دارانہ صف بندی لوگوں سے ایک نئے قسم کے نظم کی پابندی کا تقاضا کرتی تھی۔ اس نئے قسم کی پابندی نظم کو ہم سرمایہ دارانہ ڈسپلن (capitalist public discipline) کہتے ہیں، اور اسے سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم مارکیٹ کے پھیلاؤکے نتیجے میں پیدا ہونے والی معاشرتی تبدیلیوں پر ذیل میں کچھ روشنی ڈالیں۔ 

نفع خوری پر مبنی عمل پیداوار (For-profit business enterprise) کا فروغ:

سرمایہ دارانہ پیداواری نظم کے نتیجے میں عمل پیداوار میں ایک بنیادی نوعیت کی تبدیلی رونما ہوئی اور وہ یہ کہ روایتی مذہبی معاشروں کے برعکس اب عمل پیداوار حصول جنت ، صلہ رحمی و اخوت نہیں بلکہ نفع خوری کی بنیاد پر استوار ہونے لگا۔ غیر سرمایہ دارانہ معاشروں میں اکثریت کے روزگار کا انحصار نفع خوری پر چلنے والے کاروبار اور سرمایہ کاری پر نہیں ہوتا تھا۔ اس نظام پیداوار کی چند بنیادی خصوصیات ہوتی تھیں: 
الف) پیداواری عمل کا بنیادی یونٹ فرم (firm) نہیں بلکہ خاندان، برادری یا قبیلے ہوتے اور پیداواری عمل سے حاصل شدہ پیداوار مشترکہ طور پر صرف (consume) کی جاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ غیر سرمایہ دارانہ نظام پیداوار میں غربت کی شرح اور آمدنیوں کا تفاوت انتہائی کم ہوتا تھا۔ پیداواری عمل کا مقصد efficiency (زیادہ سے زیادہ اضافی پیداوار کا حصول) نہیں بلکہ خاندان کی کفالت اور صلہ رحمی و محبت کو برقرار رکھنا ہوتا تھا، اسی لیے تنخواہ دار لیبر (wage-labor) کا وجود نہ ہونے کے برابر ہوتا، کسی دوسرے کے لیے کام کرنے کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا اور لوگ اپنے خاندانی پیشوں سے منسلک ہونے کو بالعموم پسند کرتے تھے 
ب) معاشروں پر حرص و حسد کے بجائے قناعت اور شکر گزاری کی عقلیت غالب رہتی اور لوگ زیادہ سے زیادہ صرف کرنے کو زندگی کا مقصد نہ گردانتے۔ دنیاوی زندگی کو ضروریات کی حد تک محدود رکھا جاتا۔ عمل پیداوار کا مقصد خاندان یا قبیلے کی ضروریات کی تکمیل ہوتا نہ کہ اضافی (surplus) پیداوار کے حصول کے ذریعے مزید سرمایے کے حصول کا چکر بڑھاتے چلے جانا۔ دوسرے لفظوں میں ان معاشروں میں ترقی (سرمایے میں مسلسل اضافہ) کوئی پسندیدہ قدر نہ سمجھی جاتی، اشیاء بنیادی طور پر بیچنے کے لیے نہیں بلکہ صرف کرنے کے لیے پیدا کی جاتی تھیں 
ج) مسجد، مدرسہ، خانقاہ اور بازار لوگوں کی روز مرہ اجتماعی معاشرت کی تشکیل کے بنیادی ادارے ہوتے تھے جن میں شمولیت کے ذریعے لوگ خود کو سوشلائز کرتے۔ 
سرمایہ دارانہ ریاستی اور انڈسٹریل انقلابات (جس کی بنیاد ہی اضافی پیداوار کا مسلسل اور لا متناہی حصول تھا) کے نتیجے میں پیداواری عمل خاندانی کفالت و صلہ رحمی کے بجائے نفع خوری (حرص و حسد) کی عقلیت کے تابع ہونے لگا اور یوں دولت سرمایے میں تبدیل ہونے کی ابتداء ہوئی۔ سرمایہ دولت کا استحصال اور اس کانا جائز استعمال ہے، جب دولت کا مقصد بذات خود اس میں مسلسل اضافہ بن جائے تو دولت سرمایہ بن جاتی ہے۔ انہی معنی میں کارپوریشن سرمایے کی عملی تجسیم ہے کہ اس کامقصد وجود ہی سرمایے میں اضافہ ہے۔ اب پیداواری عمل کا مطمع نظر مزید اضافی پیداوار کے حصول کے لیے اضافی پیداوار (production of surplus for the sake of more surplus production) کا حصول بن گیااور کارپوریشنز وجود میں آنے لگیں۔ ریاستی جبر ، بڑی صنعتوں کو فروغ دینے والی پالیسیوں اورنظام بینکاری کے پھیلاؤ کے نتیجے میں ذرائع کھنچ کھنچ کر کارپوریشنز کے قبضے میں آنے لگے، خاندان کی سطح پر موجود چھوٹے کاروبار کا وجود سکڑنے لگا، تنخواہ دار لیبر عام ہونا شروع ہوئی، لوگ آہستہ آہستہ زیادہ تنخواہ کی لالچ اور چھوٹے کاروبار کے خاتمے کے باعث خاندانوں سے دور شہری علاقوں میں آکربسنے لگے جہاں ان کے آپسی تعلقات کی بنیاد صلہ رحمی و بھائی چارہ نہیں بلکہ اغراض ہوتی تھی۔ یوں معاشروں کی مارکیٹ سازی (marketization) کا عمل شروع ہوا۔ 

نئے نظام جبر (system of obedience)کی تشکیل:

 انڈسٹریل پیداوار ی عمل کا تقاضا یہ تھا کہ مسلسل کام کیا جائے تاکہ لاگت کم سے کم اور نفع زیادہ سے زیادہ ہو۔ بھاری لاگت سے تیار کردہ مشینوں کو بغیر کام چھوڑا نہیں جا سکتا تھا، لہٰذا ’کام کے اوقات ‘ میں غیر ضروری گفتگو ، چہل پہل، دیر سے کام پر پہنچنا یا آرام وغیرہ کرنا سرمایہ دارانہ منطق (efficiency) کے خلاف تھا۔ لہٰذا جو لوگ دوران کام ان باتوں کا خیال نہ رکھتے انہیں مختلف قسم کی سزائیں دی جاتیں (مثلاً جسمانی، تنخواہ میں کٹوتی، زیادہ کام کی ذمہ داری، کام کے اوقات میں اضافہ )، کون کب آتا اور جاتا ہے اور کام کے دوران کون کیا کرتا ہے اس پر کڑی نظر رکھی جاتی۔ دھیان رہے غیر سرمایہ دارانہ پیداواری عمل اس قسم کی نگرانی (survelience) کا متقاضی نہ ہوتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ انڈسٹریلائزیشن کے ابتدائی دور میں کمپنی مالکان کو لیبر تلاش کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا کیونکہ لوگ اس قسم کی ’پابندیوں اور نگرانی ‘ کے عادی نہ تھے اور نہ ہی اسے اچھا سمجھتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مل مالکان نے مزدوروں کی پیداواری صلاحیت ماپنے اور survelience کے قدرے پیچیدہ طریقے ایجاد کرنا شروع کر دیے (موجودہ دور میں Annual Performance Report اسی کی ترقی یافتہ شکل ہے)۔ 
نیا سرمایہ دارانہ پیداواری عمل محض مسلسل کام نہیں بلکہ ’وقت‘ کی پابندی کا بھی سختی سے متقاضی تھا۔ صبح فلاں وقت پر ڈیوٹی شروع ہوگی، اس لیے مخصوص وقت پر اٹھنا ہے، فلاں وقت پر اتنی دیر کھانے کا وقفہ ہوگا۔ یہی وہ دور ہے جب گھڑیاں رکھنے کا رواج عام ہونا شروع ہوا کیونکہ روایتی معاشروں میں کوئی ’گھڑی کے اوقات‘ (clock time) کے بارے میں حساس نہ ہوتا (اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ پہلے لوگ نماز کی جماعت بھی آج کی طرح گھڑی دیکھ کر ادا نہیں کرتے تھے)۔ مزدور باقاعدہ فیکٹری مالکان کی گھڑیاں چرا لیتے تھے تاکہ وہ لوگوں کے آنے جانے کے اوقات کا اندازہ نہ رکھ سکیں۔ جوں جوں معاشروں کی مارکیٹ سازی کا عمل آگے بڑھا، نئی قسم کی معاشرتی صف بندی کو ممکن بنانے والے جدید اداروں (مثلاً اسکول، ہسپتال) کی صف بندی بھی اسی ’فیکٹری ڈسپلن‘ پر استوار کی گئی (روایتی معاشرے کا حکیم ’مخصوص اوقات ‘ کے جبر کا پابند نہ ہوتاتھا) اور ان اداروں میں خود کو سمونے کے لیے لوگوں نے خود کو اس نئے نظام جبر کے ساتھ ہم آہنگ کرنا شروع کردیا۔ چنانچہ جیسے جیسے معاشروں کی مارکیٹ سازی وسیع تر ہوتی چلی جاتی ہے افراد اسی قدر خود کو سرمایہ دارانہ یا مارکیٹ ڈسپلن کا عادی بنانے پر مجبور ہوتے چلے جاتے ہیں بصورت دیگر سرمایہ دارانہ نظام انہیں سزا دیتا ہے (جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اس میں جگہ بنانا ان کے لیے مشکل سے مشکل تر ہو جاتا ہے)۔ مشہور فلسفی Focault کی کتب (مثلاً Birth of Clinic, Discipline and Punish, Order of Things) میں سرمایہ دارانہ ڈسپلن کے ارتقا کی دلچسپ مثالیں دیکھی جاسکتی ہیں۔ 
’ڈسپلن کے پابند ‘ سرمایہ دارانہ پیداواری نظام نے ’آرام کے اوقات ‘ (Leisure) کا ایک مخصوص احساس اور تصور بھی پیدا کیا۔ کڑی نگرانی، بڑھتی ہوئی تخصیص کاری (specialization) اور دوران کام دیگر تما م کاموں سے قطع تعلق کا نتیجہ کام سے اکتاہٹ اور بیزاری کی صورت میں نکلا، اور لوگوں میں یہ احساس پیدا ہونا شروع ہوا کہ کام سے چھٹی کے بعد زندگی کے وہ لمحات شروع ہوتے ہیں جہاں ہم بغیر کسی کی نگرانی اپنی مرضی کے مالک ہوتے ہیں کیونکہ سرمایہ دارانہ ورک ڈسپلن دوران کام ان کی یہ آزادی مکمل طور پر سلب کرلیتا ہے۔ اس ڈسپلن ماحول کی وجہ سے مزدور کو کام سے نفرت ہونے لگتی ہے اور وہ کام نہ کرکے خوشی محسوس کرتا ہے (اسی چیز کو مارکس Alienization سے تعبیر کرتا ہے، یعنی اس کے خیال میں انسان کی فطرت ’پیداواری عمل کا حصہ بننا ہی ہے چونکہ اسی کے ذریعے وہ اپنی انسانیت کا اظہار کرتا ہے‘ مگر سرمایہ دارانہ عمل مزدور کو اپنی فطرت سے متنفر کردیتا ہے)۔ انہی معنی میں سرمایہ داری نے غلامی کی ایک جدید صورت متعارف کروائی جہاں ایک فرد اپنے زندگی کے بہترین اوقات، دن کا وقت، سرمایے کی غلامی میں صرف کرنے پر مجبور ہوتا ہے (ذہن نشین رہے کہ سرمایہ داری کے ابتدائی دور میں کام کے اوقات چودہ سے سولہ گھنٹے تک ہوتے) اور سرمایہ داری اس غلامی کو آفاقی بنا دیتی ہے (کہ اس کے علاوہ روز گار کمانے کے دیگر مواقع معدوم ہوتے چلے جاتے ہیں)۔ عام طور پر لیژر (leisure) کی شکلیں شام کے اوقات ،ہفتہ وار اور سالانہ چھٹیاں وغیرہ ہوتیں اور لیژر کے یہ اوقات بذات خود ریاستی قانون سازی کا حصہ بننے لگے۔ 
سرمایہ داری چونکہ ایک نظام زندگی ہے (ان معنی میں کہ یہ زندگی کے ہر شعبے پر غلبہ پانا چاہتی ہے) لہٰذا سرمایے میں اضافے کے لیے لیژر کی کمرشلائزیشن (commercialization of leisure) عمل میں لائی گئی، یعنی بجائے اس سے کہ لوگ لیژر کے اوقات اپنی مرضی سے استعمال کریں ایسے کاموں کو فروغ دیا جانے لگا جن کے ذریعے لیژر کے اوقات کو نفع خوری اور سرمایے میں اضافے کے لیے استعمال کیا جاسکے۔ خاندانی زندگی سے دور اور کام سے اکتاہٹ کے مارے مزدوروں کی لیے ریلوے کمپنیوں نے اپنے سرمایے میں اضافے کی خاطر سستے پکنک ٹرپس اور سیر سپاٹے کے مواقع اور سہولیا ت فراہم کرنا شروع کیں (چنانچہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارے دادا کی نسل کے لوگ عموماً پکنک میں کوئی رغبت نہیں رکھتے کیونکہ وہ اس ڈسپلن ورک کے مارے ہوئے نہ تھے)، اسی کے زیر اثر کھیل تماشوں اور گانے بجانے کی انڈسٹریز کو فروغ ملنا شروع ہوا (جو اب ٹریلین ڈالر انڈسٹریز کی صورت اختیار کر چکی ہیں)۔ ایسے روایتی کھیل اور ثقافتی تہوار جو سرمایے میں اضافے کے ڈسپلن کا حصہ نہ بن سکے آہستہ آہستہ معدوم ہوتے چلے گئے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہر سرمایہ دارانہ معاشرے میں زندگی گزارنے والی ننانوے فیصد اکثریت کی صبح اور شام سرمایہ دارانہ تعلقات سے گہری ہوئی ہے، چنانچہ دن کے وقت یہ لوگ کسی کارپوریشن وغیرہ کے لیے کام کرتے ہیں اور شام کے اوقات ٹی وی (جو بذات خود ایک سرمایہ دارانہ اداراہ ہے) دیکھ کر گزارتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں سرمایہ دارنہ پیداواری عمل نے پوری طرح انہیں جکڑ رکھا ہے (مگر پھر بھی وہ اس دھوکے کا شکار ہیں کہ وہ جو کرنا چاہیں کرنے کے لیے ’آزاد ‘ ہیں!)۔ 

خاندان کی تباہی اور اس کے نتائج:

 سرمایہ دارانہ پیداواری عمل سے نہ صرف لوگوں کی ذاتی عادات و اطوار متاثر ہوئیں، بلکہ تمام انسانی تہذیبوں کا مشترکہ و قدیم ترین معاشرتی ادارہ یعنی خاندان بھی اس کے اثرات بد سے محفوظ نہ رہا۔ انڈسٹریلائزیشن اور سرمایہ دارانہ مسابقتی عمل اس ادارے کی تباہی کے متقاضی تھے۔ چنانچہ ایک طرف بڑھتی ہوئی پیداواری صلاحیت (production capacity) زیادہ مزدوروں کی متقاضی تھی مگر دوسری طرف مسابقتی عمل قیمتوں میں کمی کا باعث بن رہا تھا۔ اس کا ایک آسان حل سستی لیبر (عورتوں اور بچوں) کو پیداواری عمل میں شامل کرلینا تھا۔ عورت کی مارکیٹ کاری (marketization) کے اس عمل کو سہل بنانے میں ذیل عناصر نے بنیادی کردار ادا کیا: 
  • کمپنیاں عورتوں کو مارکیٹ میں شمولیت پر اکسانے کے لیے آسان شرائط پر نوکریوں کی پیش کش کرنے کے لیے ایک دوسرے سے سبقت حاصل کرنے کی کوشش کرتیں 
  • عورت کی مارکیٹ سازی کے عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ بچوں کی پیدائش اور اسکی تربیت سے متعلقہ ذمہ داریاں تھیں، اس کے حل کے لیے ضبط تولید اور خاندانی منصوبہ بندی جیسے نظریات کو فروغ دیا گیا (اس عمل کے لیے Malthus کے گمراہ کن نظریات نے فکری جواز فراہم کیا ) تاکہ خواتین طویل عرصے تک مارکیٹ کا حصہ رہ سکیں اور اس مارکیٹ سازی کے نتیجے میں خواتین کی سرمایہ دارانہ بنیادوں پر تربیت کی جاسکے 
  • تنویری فکر کے زیر اثر مساوات مرد و زن جیسے خوشنما نعروں نیز گھریلو ذمہ داریوں کو حقیر سمجھنے کی روش کا فروغ۔ خواتین کی مارکیٹ کاری کے عمل کو تیز تر بنانے کے لیے ضروری تھا کہ ان کی گھریلوذمہ داریوں کابوجھ کم ہوجائے ، اس ضرورت کو سرمایہ دارانہ پیداواری عمل کو مزید بڑھوتری دینے کے لیے استعمال کیا گیا جس کے زیر اثر فاسٹ فوڈ، بے بی نیپی، خشک دودھ، واشنگ مشین اور دیگر انڈسٹریز کو فروغ ملا۔
  • بڑھتی ہوئی خواہشات و معیار زندگی کو پورا کرنا اکیلے مرد کے بس کی بات نہ رہی اور عورتوں کو بھی بڑھتے ہوئے اخراجات کا بوجھ اٹھانا پڑا (درحقیقت انسانی تاریخ میں عورت پر ہونے والا یہ سب سے بڑا ظلم تھا) ۔
رہائشی لاگت کم رکھنے کے لیے مل مالکان فلیٹ بنانے کو ترجیح دیتے جس کے نتیجے میں پانی، گندگی اور اس جیسے دیگر مسائل کے حل کے لیے انتظامات کرنا بھی ضروری ٹھرے۔ خواتین کی مارکیٹ کاری کے نتیجے میں فواحش و بدکاری عام ہوئے، طلاق کی شرح میں اضافہ ہوااور بچوں کی تربیت کا خاندانی نظام درہم برہم ہوگیا۔ اپنے آبائی خاندانوں سے دور شہروں میں رہنے کے نتیجے میں نئی نسلوں میں اجتماعی زندگی کی اخلاقی قدریں (محبت، حفظ مراتب، صلہ رحمی، پڑوس وغیرہ) منتقل نہ ہوسکیں، اور خاندان کا تصور ’میاں، بیوی اور بچے‘ تک محدود ہوگیا۔ اس عمل کے نتیجے میں ایسی شہری زندگی وجود میں آئی جہاں لوگ ایک دوسرے کو اپنی ذاتی اغراض کے سواء اور کسی بنیاد پر نہیں پہچانتے تھے۔ 
عورتوں کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے بے بی ڈے کئیر سینٹرز بھی وجود میں آئے۔ ظاہر بات ہے روایتی معاشروں کو ایسے کسی ادارے کی ضرورت نہ تھی، اگر وہاں عورت کام کرتی تب بھی اسے بچے کے حوالے سے کوئی پریشانی نہ ہوتی کیونکہ اس کی ساتھی کوئی نہ کوئی عورت (مثلاً ساس، نند، بھاوج وغیرہ ) ضرور اس کے بچے کی کفالت کرلیتی۔ درحقیقت قبائلی یا خاندانی معاشروں میں ایک فرد خود کو قبائلی و خاندانی تعلقات کے تانے بانے میں محفوظ پاتا ہے، اور اسے اپنی حفاظت اور ضروریات کے لیے ریاستی اداروں کی بہت کم ضرورت پڑتی ہے۔ مثلاً بیمار ہونے کی صورت میں اسے کسی ایسے بیرونی ادارے کے معالجاتی نظام (caring system) کی ضرورت نہیں ہوتی جہاں مریض کے پہنچنے کے بعد ہسپتال کا عملہ خود کار طریقے کے تحت اس کاخیا ل رکھے کیونکہ اس کی تیمار داری کے لیے اس کے عزیز و اقارب کا خود کار نظام موجود ہوتا ہے۔ اسی طرح مرجانے کی صورت میں اسے کسی تدفینی ادارے پر انحصار نہیں کرنا پڑتا، بلکہ اس کی یہ ضرورت خاندانی نظام پورا کرتا ہے۔ لیکن جیسے جیسے خاندانی نظام درہم برہم ہوا، انفرادیت پسندانہ طرز زندگی عام ہوئی، فرد اپنی حفاظت اور ضروریات کی کفالت کے لیے نئے تعلقات کا محتاج ہوگیا۔ سرمایہ دارانہ نظام نے فرد کے یہ مسئلے مارکیٹ (یعنی ذاتی اغراض) پر مبنی تعلقات کی بنیادوں پر استوار کیے، جس کے تحت خود کار معالجاتی نظام (caring system) کی طرز پر ہسپتال اور ریسکیو سینٹرز وجود میں آئے جہاں عزیز و اقارب کے بجائے پروفیشنل لوگ فرد کی حفاظت پر معمور ہوتے، اسی طرح مردے کی کارپوریٹائزیشن کے لیے مرنے کے بعد میت کو ٹھکانے لگانے والے ادارے وجود میں آئے۔ 
(جاری)

عہد نبوی کے یہود اور رسول اللہ کی رسالت کا اعتراف / امیر عبد القادر الجزائری: شخصیت وکردار کا معروضی مطالعہ

محمد عمار خان ناصر

عہد نبوی کے یہود اور رسول اللہ کی رسالت کا اعتراف

دینی مدارس کے طلبہ واساتذہ کے متعلق عام طور پر یہ شکایت کی جاتی ہے کہ وہ جدید علوم سے واقفیت حاصل نہیں کرتے اور نتیجتاً دور جدید کے ذہنی مزاج اور عصری تقاضوں کے ادراک سے محروم رہ جاتے ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے، لیکن میرے نزدیک اس طبقے کا زیادہ بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ خود اپنی علمی روایت، وسیع علمی ذخیرے اور اپنے اسلاف کی آرا وافکار اور متنوع تحقیقی رجحانات سے بھی نابلد ہے۔ اس علمی تنگ دامنی کے نتیجے میں ا س طبقے میں جو ذہنی رویہ پیدا ہوتا ہے، وہ بڑا دلچسپ اور عجیب ہے۔ یہ حضرات اپنے محدود علمی ماحول میں جو باتیں سنتے اور مطالعے کے لیے اپنے اساتذہ کی طرف سے بڑی احتیاط سے منتخب کردہ کتب میں جو چیزیں پڑھتے ہیں، اس کے علاوہ انھیں ہر چیز گمراہی اور بے راہ روی محسوس ہوتی ہے اور یہ غیر شعوری طو رپر نہیں ہوتا، بلکہ اس کی باقاعدہ ذہن سازی کی جاتی ہے۔ میرا بارہا کا تجربہ ہے کہ کوئی علمی بات یا نکتہ اس ماحول کے تربیت یافتہ حضرات کے سامنے پیش کیا جائے تو پہلے کہیں پڑھا یا سنا نہ ہونے کی وجہ سے ان کا فوری تاثر یہ ہوتا ہے کہ یہ تو اکابر سے ہٹ کر دین میں ایک ’’نئی بات‘‘ کہی جا رہی ہے اور اگر معاملہ ذرا حساسیت کا حامل ہو تو فوراً اس پر گمراہی اور ضلالت کے فتوے بھی لگنے شروع ہو جاتے ہیں۔ اس امکان کی طرف ان کا ذہن متوجہ ہی نہیں ہوتا کہ ایسی کسی بات پر کوئی رد عمل ظاہر کرنے سے پہلے ماضی کے علمی ذخیرے کی مراجعت کرتے ہوئے اس بات کی تحقیق کر لی جائے کہ ہم نے جو بات اب تک پڑھ یا سن رکھی ہے، اس سے مختلف بھی کوئی رائے اس ذخیرے میں ملتی ہے یا نہیں۔ یوں یہ حضرات اپنے ارد گرد کے چند گنے چنے اکابر سے سنی ہوئی باتوں کو ہی علم کی کل کائنات سمجھتے اور کوئی بھی نئی بات سامنے آنے پر، اپنے اپنے حوصلے اور وسعت دَہن کے مطابق، اس پر گمراہی، تحریف اور تاویل باطل وغیرہ کے فتوے جڑنے میں ذرا جھجھک محسوس نہیں کرتے۔
اس علمی اُتھلے پن کی ایک دلچسپ مثال راقم الحروف پر کی جانے والی بعض حالیہ تنقیدوں میں سامنے آئی ہے۔ میں نے کافی عرصہ قبل مسجد اقصیٰ کی بحث کے ضمن میں عہد نبوی کی دعوتی حکمت عملی پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا تھا کہ:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی راہنمائی میں تدبیری لحاظ سے بھی ایسی حکمت عملی اختیار فرمائی کہ اہل کتاب میں مسلمانوں کے ساتھ قرب و اشتراک کا احساس پیدا ہو اور انبیاے بنی اسرائیل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مابین اتحاد اور یگانگت کے پہلو اجاگر ہو جائیں۔ ۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان تدبیری کوششوں کی وجہ سے اہل کتاب کو تعصبات اور نفسیاتی الجھنوں سے صاف ماحول میں پوری ذہنی آزادی کے ساتھ آپ کی دعوت کو سمجھنے کا موقع ملا اور آپ کے دعواے نبوت کی حقانیت ان پر پوری طرح واضح ہو گئی، چنانچہ وہ اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، البتہ وہ آپ کو صرف بنی اسماعیل کا نبی قرار دیتے ہوئے خود کو آپ پر ایمان لانے کے حکم سے مستثنیٰ قرار دیتے تھے۔‘‘ (براہین ص ۳۸۶، ۳۹۸)
اقتباس کے آخری خط کشیدہ جملے کے ماخذ کے طور پر راقم نے سورۂ بقرہ کی آیات ۷۶ اور ۹۱ کا حوالہ دیا ہے۔ یہ آیات، بالترتیب، حسب ذیل ہیں:
وَإِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا، وَإِذَا خَلاَ بَعْضُہُمْ إِلَیَ بَعْضٍ قَالُوا أَتُحَدِّثُونَہُم بِمَا فَتَحَ اللّٰہُ عَلَیْْکُمْ لِیُحَآجُّوکُم بِہِ عِندَ رَبِّکُمْ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ
’’اور جب یہ اہل ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم ایمان لائے۔ اور جب باہم تنہا ہوتے ہیں تو (ایک دوسرے سے) کہتے ہیں کہ کیا تم ان لوگوں کو وہ باتیں بتا دیتے ہو جو اللہ نے تم پر کھولی ہیں تاکہ یہ اس کے ذریعے سے تمھارے رب کے ہاں تمھارے خلاف حجت پیش کر سکیں؟ کیا تم عقل نہیں رکھتے؟‘‘
وَإِذَا قِیْلَ لَہُمْ آمِنُوا بِمَا أَنزَلَ اللّٰہُ قَالُوا نُؤْمِنُ بِمَا أُنزِلَ عَلَیْْنَا وَیَکْفُرونَ بِمَا وَرَاءَ ہُ
’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ اللہ نے اتارا ہے، اس پر ایمان لاؤ تو کہتے ہیں کہ ہم تو اس پر ایمان لاتے ہیں جو ہم پر اتارا گیا اور اس کے علاوہ (اللہ کے اتارے ہوئے باقی کلام) کا انکار کر دیتے ہیں۔‘‘
گویا میری رائے میں مذکورہ دونوں آیتوں میں یہود کے کسی منافق گروہ کا نہیں، بلکہ اس مخصوص گروہ کا ذکر ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا سچا نبی تسلیم کرتے ہوئے یہ استدلال پیش کر کے خود کو آپ کی پیروی سے مستثنیٰ قرار دیتا تھا کہ آپ کی بعثت خاص طور عرب کے امیوں کی طرف ہوئی ہے، جبکہ یہود تورات کی پیروی کو چھوڑ کر آپ پر ایمان لانے کے مکلف نہیں ہیں۔ پہلی آیت میں ’قَالُوا آمَنَّا‘ کا مطلب یہ ہے کہ یہود کا یہ گروہ مسلمانوں کے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے، اللہ کا رسول ہونے کا اقرار کرتا تھا جس پر اسے اپنے ہم مذہبوں کی طرف سے زجر وتوبیخ کا سامنا کرنا پڑتا تھا، جبکہ دوسری آیت میں ’نُؤْمِنُ بِمَا أُنزِلَ عَلَیْْنَا‘ کا جملہ اس گروہ کے اس استدلال کو واضح کرتا ہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول تسلیم کرتے ہوئے خود کو صرف تورات کی اتباع کا مکلف تصور کرتے اور اس سے ہٹ کر قرآن مجید کی اتباع قبول کرنے کا پابند نہیں سمجھتے تھے۔
میری اس رائے پر نقد کرتے ہوئے ایک تو اس کو یہ مفہوم پہنایا گیا ہے کہ جیسے میں یہود کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار وتکذیب کے جرم سے بری ثابت کرنے اور یوں ان کی ایک خوبی اجاگر کرنے کی کوشش کر رہا ہوں، حالانکہ اوپر نقل کردہ اقتباس سے صاف واضح ہے کہ یہاں مقصود یہود کی کوئی خوبی یا ان کی ایمان داری کا وصف بیان کرنا نہیں، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتی حکمت عملی کا یہ پہلو اجاگر کرنا مقصود ہے کہ آپ نے حق بات کو اپنے مخاطبین تک پہنچانے اور ان پر اتمام حجت کرنے کا ایسا حکیمانہ اسلوب اختیار کیا کہ اس کے نتیجے میں یہود کے ایک گروہ کے لیے آپ کی صریح تکذیب ممکن نہ رہی اور انھیں یہ تسلیم کرتے ہی بنی کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ 
بہرحال، اس اقتباس میں کہی گئی یہ بات کہ عہد رسالت کے بعض یہود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی اسماعیل کی طرف اللہ کا رسول تسلیم کرتے ہوئے خود کو آپ کی اتباع سے مستثنیٰ تصور کرتا تھا، صاحب تنقید کے لیے ایک نئی بات ہے اور اتنی نئی ہے کہ اس کے لیے انھیں ’’تحریف‘‘ سے کم تر کوئی عنوان نہیں سوجھا۔ ملاحظہ فرمائیں:
’’احقر نے جب وہ آیت کھولی جس سے خان صاحب نے یہ استدلال کیا تو وہ حزن انگیز انکشاف ہوا جس کا اوپر تذکرہ ہوا۔ میں تسلیم نہیں کرسکتا کہ کوئی بھی صاحب علم بقائمی ہوش وحواس اس آیت کا یہ متضاد ترین مطلب لے سکتا ہے۔ یہ یقیناً ’’یحرّفون الکلم عن مواضعہ‘‘والی برادری کا کارنامہ ہے۔ آپ بھی یہ آیت پڑھیے جس میں قرآن کریم یہود کے کفرونفاق پر حجت قائم کررہا ہے اور برملا اطلاع دے رہا ہے کہ ان کا ایمان کا دعویٰ خالص فریب ونفاق ہے اور خان صاحب اسی آیت سے یہ ثابت کررہے ہیں کہ یہود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول تسلیم کرتے تھے۔‘‘ (’’بولتے نقشے‘‘، ہفت روزہ ضرب مومن، ؟؟ اپریل ۲۰۱۳ء)
دوسری آیت کے حوالے سے فرمایا گیا ہے:
’’قرآن پاک کی یہ آیت بھی۔۔۔ جس سے خان صاحب نے قارئین کو یہ باور کرانا چاہا کہ یہود آپ کو نبی سمجھتے تھے لیکن صرف بنی اسماعیل کا۔۔۔ یہود کے کفر کی صریح گواہی دے رہی ہے اور صاف بتارہی ہے کہ وہ نہ بنی اسماعیل میں آنے والے نبی کو مانتے ہیں نہ بنی اسرائیل میں آنے والے انبیائے کرام کو، ورنہ انہیں قتل کیوں کرتے؟ گویا قرآن پاک کی جو آیت یہود کے جس دعوے کی تردید دلائل کے ساتھ کررہی ہے، خان صاحب اسی دعویٰ کی تصدیق اسی آیت سے کرنے کی سعی فرمارہے ہیں۔‘‘ (ایضاً)
یہاں دو نکتے توضیح طلب ہیں:
ایک یہ کہ کیا عہد رسالت میں یہود کا کوئی ایسا گروہ موجود تھا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی تو تسلیم کرتا ہو، لیکن خود کو آپ پر ایمان لانے سے مستثنیٰ قرار دیتا ہو؟ 
دوسرا یہ کہ کیا سورۂ بقرہ کی محولہ بالا آیات میں اسی گروہ کی طرف اشارہ ہے؟
اگر صاحب تنقید ان دونوں نکتوں کی تحقیق کے لیے نادر ونایاب مآخذ کی نہیں، بلکہ صرف تفسیر طبری اور صحیح بخاری کی مراجعت کر لیتے تو اس علمی نکتے سے ان کی ذہنی اجنبیت کم سے کم اتنی نہ رہتی کہ وہ اس پر چھوٹتے ہی ’’تحریف‘‘ کا الزام عائد کر دیں۔ 
صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن صیاد یہودی سے (جو اس وقت تک اسلام نہیں لایا تھا) یہ پوچھا کہ کیا تم یہ گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ جواب میں ابن صیاد نے کہا:
اشہد انک رسول الامیین (بخاری، رقم ۵۸۲۱) 
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امیوں کے رسول ہیں۔‘‘
اس کی شرح میں حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
فیہ اشعار بان الیہود الذین کان ابن صیاد منہم کانوا معترفین ببعثۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، لکن یدعون انہا مخصوصۃ بالعرب (فتح الباری، ۶/۱۱۹)
’’اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی، جن سے ابن صیاد کا تعلق تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے کا اعتراف کرتے تھے، لیکن ساتھ یہ دعویٰ کرتے تھے کہ آپ کی نبوت اہل عرب کے ساتھ مخصوص ہے۔‘‘
جہاں تک قرآن مجید کی مذکورہ آیات میں اس گروہ کی طرف اشارے کا تعلق ہے تو اگرچہ مفسرین نے عام طور پر ’قالوا آمنا‘ کو یہود میں سے ایک منافق گروہ کا مقولہ قرار دیا ہے جو اہل ایمان کو دھوکہ دینے کے لیے ان کے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اعتراف کر لیتا تھا، لیکن امام طبری نے اسی آیت کی ایک دوسری تفسیر کے طور پر حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا درج ذیل قول بھی نقل کیا ہے:
عن ابن عباس: و اذا لقوا الذین آمنوا قالوا آمنا ای بصاحبکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولکنہ الیکم خاصۃ (طبری، سورۃ البقرۃ، آیت ۷۶)
’’ابن عباس سے و اذا لقوا الذین آمنوا کی تفسیر یہ مروی ہے کہ یہودی یہ کہتے تھے کہ ہم تمھارے صاحب، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں (یعنی انھیں نبی تسلیم کرتے ہیں)، لیکن ان کی بعثت خاص طور پر تمھاری (یعنی اہل عرب کی) طرف ہوئی ہے۔‘‘
میری طالب علمانہ رائے میں بقرہ کی آیت ۹۱ میں ’نُؤْمِنُ بِمَا أُنزِلَ عَلَیْْنَا وَیَکْفُرونَ بِمَا وَرَاءَہُ‘ کے الفاظ بھی اسی گروہ کے موقف کو بیان کرتے ہیں، نہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا مطلقاً انکار کرنے والے یہود کے موقف کو۔ اس کا قرینہ یہ ہے کہ آیت میں آمِنُوا بِمَا أَنزَلَ اللّٰہُ کے الفاظ سے انھیں قرآن مجید سمیت اللہ کی تمام کتابوں پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے۔ اس کے جواب میں ’نُؤْمِنُ بِمَا أُنزِلَ عَلَیْْنَا‘ کا جملہ اسی صورت میں موزوں ہو سکتا ہے جب وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا بالکلیہ انکار نہ کرتے ہوں، کیونکہ اگر وہ قرآن مجید کو سرے سے اللہ کا نازل کردہ کلام ہی تسلیم نہ کرتے تو یہ کہتے کہ ہم تو اللہ کے اتارے ہوئے ہر کلام پر ایمان رکھتے ہیں، لیکن چونکہ قرآن منزل من اللہ نہیں ہے، اس لیے ہم اس پر ایمان نہیں لاتے۔ اس کے بجائے ان کا یہ کہنا کہ ہم تو بس اپنی طرف نازل کردہ کلام پر ایمان لاتے ہیں، میری ناقص رائے میں یہ مفہوم رکھتا ہے کہ اللہ کے اتارے ہوئے ہر کلام کی پیروی ہم پر لازم نہیں، بلکہ ہم صرف اس کلام یعنی تورات کی اتباع کے پابند ہیں جو ہماری طرف نازل کیا گیا ہے۔ واللہ اعلم

امیر عبد القادر الجزائری: شخصیت وکردار کا معروضی مطالعہ 

کچھ عرصہ قبل راقم الحروف نے انیسویں صدی میں الجزائر کے عظیم مجاہد آزادی، عالم اور صوفی، امیر عبد القادر علیہ الرحمہ کی شخصیت کو اردو دان قارئین کے ہاں متعارف کروانے کے لیے جان کائزر کی کتاب کے اردو ترجمے کی اشاعت کے حوالے سے جو قدم اٹھایا تھا، بحمد اللہ اس کے ثمرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں اور نہ صرف یہ کہ قارئین کا ایک بہت بڑا حلقہ، جو اس سے قبل ان کا نام بھی نہیں جانتا تھا، ان کی شخصیت سے فی الجملہ متعارف ہو چکا ہے، بلکہ ان کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے اور ان کے تاریخی کردار سے زیادہ گہری آگاہی حاصل کی خواہش بھی بڑے پیمانے پر پیدا ہو چکی ہے۔ خدا کا کرنا یہ ہے کہ اس تعارف کو وسیع پیمانے پر عام کرنے اور الجزائری کے متعلق تحقیق وتجسس کے جذبے کو ابھارنے میں بے حد اہم کردار حال میں سامنے آنے والی بعض ایسی معاندانہ تحریریں ادا کر رہی ہیں جن میں الزام تراشی اور افترا پردازی کی صلاحیت کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے الجزائری کی شخصیت کو مجروح کرنے اور ایڑی چوٹی کا زور لگا کر انھیں تاریخ کا ایک یکسر ناقابل اعتنا اور بے وقعت کردار ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ 
جہاں تک الجزائری کی شخصیت، افکار ونظریات اور تاریخی کردار کے مختلف پہلوؤں کے تنقیدی جائزے کا سوال ہے تو ظاہر ہے کہ اس کی ضرورت واہمیت اور افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ چیز تاریخی شخصیات کے مطالعے کے عمل کا ایک ناگزیر حصہ ہے اور خود راقم الحروف نے الجزائری کے تصور جہاد کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتے اور ان کے طرز جدوجہد کو اسلام کی معیاری تعلیمات کا نمونہ قرار دیتے ہوئے بہت سوچ سمجھ کر اور بہ تکرار ’’بڑی حد تک‘‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ بعض پہلو ایسے بھی ہیں جن پر میں خود اطمینان محسوس نہیں کرتا اور کسی مثبت اور مناسب علمی فضا میں گفتگو ہو رہی ہو تو مجھے ان پہلوؤں کی نشان دہی میں بھی کوئی جھجھک نہیں ہوگی۔ تاہم زیر بحث تنقیدیں الجزائری کی شخصیت کے موضوعی مطالعے یا غیر جانب دارانہ ومنصفانہ تجزیے کے جذبے سے پیدا نہیں ہوئیں۔ ان کا واحد محرک یہ خوف ہے کہ ہمارے ہاں ایک خاص جذباتی فضا میں ایک مخصوص طبقے کی طرف سے جن حضرات کوشخصیت وکردار کی ذاتی بلندی کے بجائے اصلاً امریکہ دشمنی کے جذبات کے زیر اثر جہادی ہیروؤں کا درجہ دے دیا گیا ہے، ان کا قد الجزائری کی شخصیت کے سامنے بے حد پستہ دکھائی دینے لگے گا اور جہادی مساعی کا کوئی بھی ایسا نمونہ سامنے آنے سے جس میں اولو العزمی کے ساتھ ساتھ حکمت وفراست، معروضی حالات کے فہم اور جنگی اخلاقیات کی پاس داری کے اصول نمایاں ہوتے ہوں، جہاد کے اس مسخ شدہ تصور پر زد پڑے گی جو اول وآخر سطحیت اور جذباتیت سے عبارت ہے اور قدم قدم پر شرعی اصولوں اور اعلیٰ انسانی اخلاق وکردار کی پامالی کے ناقابل دفاع نمونے پیش کرتا ہے۔
جو طبقہ اس وقت الجزائری کی داستان سے سامنے آنے والے تصور جہاد سے نفور محسوس کر رہا ہے، اس کی ذہنی ونفسیاتی ساخت کو سمجھنے کے لیے اس تصور جہاد کو سامنے رکھنا ضروری ہے جس سے یہ طبقہ مانوس ہے اور اس سے ہٹ کر جہاد کے کسی تصور میں اپنے غصے اور انتقام کے جذبات کی تسکین کا سامان نہیں پاتا۔ اس تصور جہاد کے نمایاں خط وخال یہ ہیں: مسلمانوں کی ایک ریاست میں بیٹھ کر وہاں کے ارباب حل وعقد کی اجازت اور رضامندی کے بغیر ایک غیر مسلم ملک کے خلاف عسکری کارروائیاں کرنا، دشمن کی فوجی طاقت کو ہدف بنانے کی صلاحیت کے فقدان کا بدلہ دشمن کی عام آبادی کو نشانہ بنا کر لینا اور اس کے لیے احمقانہ شرعی جواز گھڑنا، چند برخود غلط جہادی نظریہ سازوں کا اپنی ذات کو لاکھوں مسلمانوں کی جان ومال سے زیادہ اہم سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو قربانی کے لیے پیش کرنے کے بجائے پوری کی پوری قوم کو جنگ کے بے پناہ مصائب وآلام کا شکار بنا دینا، عالمی طاقتوں کو اس ملک پر حملہ آور ہونے کا موقع فراہم کرنے کے بعد اپنے غیور میزبانوں کے ساتھ میدان جنگ میں ٹھہرنے اور ان کے شانہ بشانہ دشمن سے لڑنے کے بجائے وہاں سے فرار ہو کر ایک پڑوسی ملک میں پناہ لے لینا اور اس طرح اپنے وجود نامسعود سے اس ملک کے عوام اور فوج کو بھی جنگ کے شعلوں کی نذر کر دینا، پھر اپنی اور اپنے ہم نوا عناصر کی موجودگی کے خلاف اس ملک کی افواج کی طرف سے مجبوراً فوجی آپریشن کیے جانے پر پوری فوج کو مرتد قرار دینا اور اس بنیاد پر وہاں کے عوام کو اپنی ہی فوج کے خلاف برسر پیکار کر دینا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دو مسلمان ملکوں میں قتل وغارت اور فساد کی یہ ساری آگ لگانے کے بعد خود ’’شہادت ہے مطلوب ومقصود مومن‘‘ کی تصویر بن کر بیوی بچوں سمیت کسی پرفضا مقام کی خفیہ سکونت اختیار کر لینا۔
ظاہر ہے کہ اس فکری واخلاقی سطح کے تصور جہاد سے متاثر کوئی ذہن اگر الجزائری یا ان جیسی کسی دوسری شخصیت پر تنقید کا بیڑہ اٹھائے گا تو یہ توقع رکھنا کہ وہ تنقید تاریخی شخصیات کے معروضی مطالعے کے اصول وقوانین اور علمی اخلاقیات پر مبنی ہوگی، محض ایک بے کار توقع ہوگی۔ ایسے ذہن سے اگر توقع کی جا سکتی ہے تو اسی طرز تنقید کی جس کا نمونہ ہمیں الجزائری سے متعلق زیر بحث تنقیدوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ مثلاً یہ کہ الجزائری ایک عیاش اور بد کردار انسان تھے جنھوں نے نہ صرف اپنے حرم میں چار سے زیادہ بیویاں رکھی ہوئی تھیں، بلکہ اخلاق باختہ اور آوارہ مغربی عورتوں کے ساتھ بھی ناجائز تعلقات میں ملوث تھے، یہ کہ وہ دراصل ایک یہودی گماشتہ تھے اور ان کی ساری جدوجہد اسی وابستگی سے متاثر اور اسی وفاداری کا عکاسی کرتی ہے اور یہ کہ انھوں نے جدوجہد کے آخری مرحلے میں فرانس کے مقابلے میں شکست تسلیم کرتے ہوئے باقی زندگی کے لیے فرانس کی شہریت اور وفاداری اختیار کر کے الجزائر کی جدوجہد آزادی کے ساتھ ’’غداری‘‘ کی (اور گویا یہ الجزائری قوم کی نری کم عقلی ہے کہ وہ انھیں اپنا قومی ہیرو تصور کرتی ہے، انھیں جدید الجزائر کا بانی قرار دیا جاتا ہے، الجزائر کی حکومت بڑے فخر کے ساتھ ان کا تعارف قیدیوں کے حقوق سے متعلق جدید بین الاقوامی قوانین کے پیش رَو کے طور پر کراتی ہے، اقوام متحدہ میں الجزائر کا سفارتی مشن ان کی حیات وخدمات کے تعارف کے لیے عالمی نمائش منعقد کرتا ہے، حکومت الجزائر کے تحت امیر کی حیات سے متعلق ایک تاریخی فلم کی تیاری کے منصوبے پر کام ہو رہا ہے، صدر الجزائر کی زیر نگرانی بین الاقوامی انسانی قانون کے میدان میں امیر کی خدمات کے تعارف کے لیے ایک مستقل ویب سائٹ http://emirabdelkaderdih.com/ قائم ہے اور الجزائر کی وزارۃ التعلیم العالی کے زیر انتظام قسنطینہ میں ان کی یاد میں ایک مستقل یونیورسٹی ’’جامعۃ الامیر عبد القاد ر للعلوم الاسلامیۃ‘‘ کے نام سے کام کر رہی ہے)۔ 
الزامات کی اس فہرست میں جو تازہ اضافہ کیا گیا ہے، وہ بھی اسی طرز فکر کا عکاس ہے۔ الجزائری کے تصور جہاد کا ذکر کرتے ہوئے جان کائزر نے اپنی کتاب میں ان کے اور ان کے ساتھیوں کے اس جرات مندانہ کردار پر روشنی ڈالی ہے جو انھوں نے ۱۸۶۰ء میں دمشق میں مسلم مسیحی فسادات کے موقع پر ہزاروں بے گناہ مسیحیوں کو مسلمانوں کے مشتعل ہجوم سے بچانے کے لیے ادا کیا تھا۔ اس واقعے میں امیر کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے جو کچھ ارشاد فرمایا گیا ہے، اس کا حاصل یہ ہے کہ امیر عبد القادر نے جن مسیحیوں کو بچانے کی کوشش کی، وہ ’’جزیہ‘‘ کی ادائیگی سے انکار کرنے کی وجہ سے ’’باغی‘‘ تھے (اور گویا مسلمانوں کے مشتعل ہجوم کے ہاتھوں اجتماعی قتل کے پورے پورے حق دار تھے)، جبکہ الجزائری نے ان کے دفاع کے لیے جو کردار ادا کیا، وہ بالکل غلط تھا اور اس سے الجزائری کے، مغربی طاقتوں کا آلہ کار ہونے پر مہر تصدیق ثبت ہو جاتی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے: 
’’موصوف کا تیسرا کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے کافروں کے خلاف جہاد نہ کرنے کا عہد کر لینے کے بعد ’’کافروں کے دفاع میں جہاد‘‘ شروع کر دیا تھا اور یہی وہ چیز ہے جو آج کل عالمی غاصب مغربی طاقتیں چاہتی ہیں۔ ۔۔۔ شام کے عیسائیوں کے پیچھے (غزوۂ تبوک کے پس منظر کی طرح آج بھی) یورپی طاقتیں تھیں اور ترک حکمران عیسائیوں کو ان کی سرکشی کی سزا دینا چاہتے تھے۔ ان دنوں میں ممدوح موصوف نے بالکل ویسے ہی عیسائیوں کے تحفظ کے لیے بے مثال خدمات پیش کیں جیسے برصغیر میں ۱۸۵۷ء کے جہاد آزادی کے دوران انگریزوں کے تحفظ کے لیے ڈپٹی نذیر احمد دہلوی نے پیش کی تھیں۔‘‘ (’’بولتے نقشے‘‘، ہفت روزہ ضرب مومن، ۹ ؍مئی ۲۰۱۳ء)
میں یہاں اس حوالے سے کوئی شرعی وفقہی اور قانونی بحث نہیں اٹھاؤں گا کہ کیا مسیحیوں کی طرف سے ٹیکس کی ادائیگی سے انکار فی الواقع کسی ایسی ’’بغاوت‘‘ کا حکم رکھتا تھا جس پر انھیں قتل کر دینا شرعاً جائز ہو یا یہ کہ ان ’’باغیوں‘‘ کو سزا دینے کا فیصلہ ترک حکام کی طرف سے قانونی اور سرکاری سطح پر کیا گیا تھا جس کی راہ میں امیر عبد القادر بلا وجہ رکاوٹ بن گئے یا، اس کے برعکس، عوام کا ایک مشتعل ہجوم خون کی ہولی کھیلنا چاہتا تھا جسے روکنے کے لیے امیر نے نہایت ذمہ دارانہ کردار ادا کیا یا پھر یہ کہ ’’باغیوں‘‘ کو سزا دیتے ہوئے بلا امتیاز عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور راہبوں تک کو قتل کر دینا آخر کس شریعت کی رو سے جائز ہے جو اس موقع پر باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا۔ میں یہ سب سوالات اس لیے نہیں اٹھاؤں گا کہ جو ذہن اس وقت مخاطب ہے، اس کے ہاں اس طرح کے سوالات کی سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں۔ اس کی نظر میں واحد قابل لحاظ نکتہ یہ ہے کہ اس کشمکش میں ایک طرف مسیحی تھے جن کی پشت پناہی مغربی طاقتیں کر رہی تھیں اور دوسری طرف مسلمان تھے جو سیاسی وقانونی حقوق کے ضمن میں مسیحیوں کے بڑھتے ہوئے مطالبات پر نالاں تھے، اس لیے اس ذہن کے نزدیک اسلامی غیرت وحمیت کا تقاضا اس کے علاوہ کوئی ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ مسلمان جس طریقے سے بھی ان سرکش مسیحیوں کو ’’ٹھیک‘‘ کرنا چاہتے، امیر عبدالقادر ان کا ساتھ دیتے اور ہزاروں مسیحیوں کا قتل عام کر کے اسلام کی سربلندی کی ایک درخشاں مثال قائم کر دیتے۔
مذکورہ سوالات کو رکھیے ایک طرف اور یہ دیکھیے کہ مذکورہ صورت حال میں امیر کے موقف اور کردار کو واضح کرنے کے لیے علمی دیانت کا کس درجے میں اہتمام گیا ہے۔ کائزر نے متعلقہ باب میں جہاں مسیحیوں کو قتل وغارت سے بچانے کے لیے امیر کے جرات مندانہ کردار کا ذکر کیا ہے، وہاں یہ بھی واضح کیا ہے کہ وہ ان کی طرف سے ٹیکس دینے سے انکار کو درست نہیں سمجھتے تھے، بلکہ اسے قابل تعزیر جرم تصور کرتے تھے، البتہ انھیں اس طریقے سے اختلاف تھا جو احمق اور عاقبت نا اندیش ترک حکام مسلمان عوام کو مشتعل کر کے ان کے ہاتھوں مسیحیوں کے قتل عام کی صورت میں تجویز کر رہے تھے۔ یہ سطور ملاحظہ کیجیے:
’’عبدالقادر کی نظر میں قانون بالکل واضح تھا۔ عیسائی باشندے حفظ وامان میں لیے گئے لوگ تھے، لیکن وہ بہر حال قانون کا احترام کرنے کے پابند تھے۔ قانون کی نافرمانی کے معاملے میں وہ غلطی پر تھے۔ وہ سرکشی اور بغاوت پر اتر آئے تھے اور انہیں سزا ملنا ضروری تھا۔ دوسری طرف مسلمانوں نے بھی اندھا دھند اور سفاکانہ طریقے سے انہیں ’’ٹھیک‘‘ کر کے غلط کیا۔۔۔۔ فرانسیسی ملاقاتی امیر کے منہ سے اس طرح کی سخت گیر باتیں سن کر بہت حیران ہوئے اور گمان غالب ہے کہ وہ ان نئی پیچیدگیوں سے آگاہ نہیں تھے جو ان اصلاحات سے پیدا ہوئی تھیں۔‘‘ (ص ۴۳۳)
چونکہ الجزائری کو اس واقعے میں مغربی طاقتوں کا آلہ کار ثابت کرنا مقصود ہے، اس لیے ان کا یہ پورا موقف دانستہ قارئین کے سامنے نہیں لایا جاتا اور قلم کار مطمئن ہے کہ آخر قارئین میں سے کون اتنا فارغ ہوگا جو اس کے لکھے پر اکتفا نہ کرتے ہوئے اپنے طو رپر بھی تحقیق کی ضرورت محسوس کرے۔ اسی طرز تحقیق کو آگے بڑھاتے ہوئے قارئین کو یہ بھی باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ صرف یورپی دنیا تھی جس نے اس موقع پر امیر کے پر عظمت کردار کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں خراج تحسین پیش کیا۔ مجال ہے کہ قاری کو اس بات کی بھنک بھی پڑنے دی جائے کہ کائزر کی اسی کتاب میں الجزائری کے معاصر اور وسطی ایشیا کے عظیم مجاہد امام شامل کے اس خط کا اقتباس بھی نقل کیا گیا ہے جس میں انھوں نے اس واقعے میں الجزائری کے کردار کی تحسین اور مسلمانوں کے عمومی طرز عمل کی پرزور الفاظ میں مذمت کی تھی: 
’’شامل نے ان مسلمانوں کی مذمت کی جنھوں نے عیسائیوں کے ساتھ اتنا قابل نفرت رویہ اپنایا اور اپنے مذہب کو بدنام کیا: ’’میں ان حکام کی کور چشمی پر بھونچکا رہ گیا جنھوں نے ایسی زیادتیاں کیں اور اپنے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث فراموش کردی کہ: ’’جس کسی نے بھی اپنے زیر امان رہنے والے کے ساتھ ناانصافی کی، جس کسی نے بھی اس کے خلاف کوئی غلط حرکت کی یا اس کی مرضی کے بغیر اس سے کوئی چیز لی، وہ جان لے کہ روز محشر میں خود اس کے خلاف مدعی بنوں گا۔‘‘آپ نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا عملی نمونہ پیش کیا ہے ..... اور خود کو ان لوگوں سے الگ کر لیا ہے جو ان کے اسوے کو رد کرتے ہیں۔ ..... خدا آپ کو ان کے شر سے محفوظ رکھے جو اس کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔‘‘ (ص ۴۲۷)
یہاں یہ ذکر کرنا بھی مناسب ہوگا کہ الجزائری کے اس کردار کی تعریف میں امام شامل کی آواز کوئی تنہا آواز نہیں، بلکہ اسے گزشتہ ڈیڑھ صدیوں میں اسلامی وغیر اسلامی دنیا میں مسلمہ پذیرائی حاصل رہی ہے اور الجزائری کی حیات وخدمات پر گفتگو کرنے والا کوئی مسلم یا غیر مسلم قلم کار ان کے اس روشن کردار کی تعریف وتوصیف کیے بغیر آگے نہیں بڑھتا۔ مثلاً دیار عرب کی عظیم احیائی تحریک ’’الاخوان المسلمون‘‘ کی سرکاری ویب سائٹ پر جو انسائیکلوپیڈیا فراہم کیا گیا ہے، اس میں ’’اعلام الحرکۃ الاسلامیۃ‘‘ کے سلسلے کے تحت امیر عبدالقادر الجزائری کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور دمشق کے مسیحیوں کو قتل عام سے بچانے کے ضمن میں ان کی مساعی کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا گیا ہے:
’’اس شورش میں امیر عبد القادر کے اسلامی اور انسانی کردار کی بازگشت عالمی حلقوں میں سنائی دی اور دنیا بھر کے بادشاہوں اور عالمی ممالک کے سربراہوں کی طرف سے انھیں تمغوں اور نشانات اعزاز کے ساتھ شکریے کے خطوط موصول ہوئے۔ بڑے بڑے عالمی اخبارات نے ان کو خراج تحسین پیش کیا اور ان کے عالی اخلاق اور انسان دوست کردار کی تعریف کی۔ امیر کے، مسیحیوں کی حفاظت کا کارنامہ انجام دینے کا محرک محض اپنے دین کی تعلیمات کی پیروی تھا جو مسلمانوں پر ان کے ملک میں مقیم اہل ذمہ کی حفاظت کو لازم ٹھہراتا ہے۔ امیر عبد القادر دین کا گہرا فہم رکھتے، اللہ کے اتارے ہوئے احکام کو جانتے اور اہل ذمہ کے حوالے سے مسلمانوں کی ذمہ داریوں سے پوری طرح واقف تھے، یعنی ان کو پرامن ماحول اور حفاظت مہیا کرنا اور ان کی جانوں، اموال، عزت وآبرو، عبادت گاہوں اور ہر اس چیز کی حفاظت کرنا جو معاہدۂ ذمہ میں طے کی گئی ہوں۔‘‘ 
(عبد_ القادر_ الجزائری=http://www.ikhwanwiki.com/index.php?title)
ہمارے ہاں پنجاب یونیورسٹی کا شائع کردہ ’’اردو دائرۂ معارف اسلامیہ‘‘ اسلام اور عالم اسلام کے حوالے سے ایک مستند علمی ماخذ کا درجہ رکھتا ہے۔ ’’عبد القادر بن محی الدین‘‘ کے عنوان کے تحت مذکورہ واقعے میں امیر عبد القادر کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے لکھا گیا ہے:
’’انھوں نے (اپنی نیک دلی اور عالی ظرفی) کا عملی ثبوت اس طرح پیش کیا کہ جب دروز قبائل عیسائیوں کا قتل عام کرنے پر کمربستہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے تو انھوں نے فرانسیسی قونصل کو ان کے پنجے سے نجات دلائی اور کئی ہزار اشخاص کی جان بچائی۔‘‘ (ج ۱۲، ص ۹۲۳)

الجزائری کی شخصیت وکردار کے ناقدانہ مطالعے کی یہ سطحی کوششیں، جیسا کہ میں نے واضح کیا، ایک منفی ذہن اور خوف کی نفسیات کی پیداوار ہیں، اس لیے ان میں معروضیت، دیانت یا توازن کی توقع کرنا بدیہی طو رپر بے کار ہے۔ ان کی جگہ تاریخ کا کوڑا دان (dust bin) ہے اور چند دنوں میں ان کا ’ہباء ا منثورا‘ ہو جانا نوشتہ دیوار۔ تاہم الجزائری کی داستان حیات کے سنجیدہ، معروضی اور متوازن تنقیدی مطالعات کی نہ صرف گنجائش بلکہ اہمیت وافادیت مسلم ہے اور حالیہ بحث ومباحثہ کے نتیجے میں سنجیدہ اہل فکر جس طرح اس موضوع کی طرف متوجہ ہوئے ہیں، اس سے مجھے مستقبل میں الجزائری کی شخصیت کے، تجزیہ وتنقید کے معروضی اصولوں کے تحت موضوع بحث بنائے جانے کے امکانات بہت روشن دکھائی دیتے ہیں۔ خود راقم الحروف کو اس موضوع پر مزید کام کرنے کی فرصت اور موقع میسر ہوا تو ان شاء اللہ میں بھی اپنا حصہ ضرور ڈالوں گا، تاہم اس موضوع کی طرف متوجہ ہونے والے دیگر اہل فکر کے سامنے چند گزارشات پیش کرنا اس مرحلے پر مناسب خیال کرتا ہوں۔
ایک یہ کہ کسی بھی شخصیت کے طرز فکر سے استفادہ کرنے اور اس کے کردار کی عظمت تسلیم کرنے کے لیے یہ ہرگز ضروری نہیں کہ وہ انسانی کردار کے ہر ہر پہلو کے لحاظ سے معصوم عن الخطا ہو اور اس کی داستان حیات میں کہیں بھی انگلی رکھنے کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ پیغمبروں کے علاوہ کسی بھی دوسرے انسان کی شخصیت کو عظمت کے اس معیار پر پرکھنے کی کوشش کسی بھی لحاظ سے دانش مندی یا قرین انصاف نہیں کہلا سکتی۔ عام انسانی شخصیات کے فکر اور کردار کے مطالعے کا درست طریقہ یہ ہے کہ انھیں خوبیوں اور خامیوں، کمالات اور نقائص، اور پختگی اور کمزوری، دونوں طرح کے عناصر کا مجموعہ سمجھا جائے اور کسی بھی شخصیت کے مقام ومرتبہ اور تاریخی کردار کا مجموعی وزن ان دونوں عناصر کے باہمی تناسب کی روشنی میں متعین کیا جائے۔ کسی شخصیت کو ہر طرح کی کمزوری اور خامی سے پاک دکھانا اور اس کی ہر ہر بات کے دفاع پر کمر کس لینا یا اس کے برعکس بعض ناہمواریوں کی بنا پر پوری شخصیت کو ناقابل اعتبار اور مجروح ٹھہرانا، یہ دونوں روشیں حقیقت پسندی اور معروضیت کے خلاف ہیں اور غیر متوازن طرز فکر کی نشان دہی کرتی ہیں۔
اس ضمن میں مثال کے طور پر سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی شخصیت کا حوالہ دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ سیدنا خالد بن ولید کو خود زبان رسالت سے ’’سیف من سیوف اللہ‘‘ کا لقب عطا ہوا، جبکہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مواقع پر ان کے جنگی اقدامات سے یوں براءت ظاہر کی کہ ’اللہم انی ابرا الیک مما صنع خالد بن الولید‘ ،’’اے اللہ! خالد بن ولید نے جو کچھ کیا، میں اس سے تیرے سامنے براء ت ظاہر کرتا ہوں‘‘۔ اس کا پس منظر یہ تھا کہ فتح مکہ کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بنو جذیمہ کی طرف دعوت اسلام کے لیے بھیجا۔ آپ نے انھیں ان کے خلاف جنگ کا حکم نہیں دیا تھا، لیکن خالد بن ولید نے ان کی طرف سے ہتھیار ڈال دینے اور قبول اسلام پر آمادگی ظاہر کرنے کے باوجود انھیں باندھ کر قتل کر دیا۔ (صحیح بخاری، رقم ۶۷۶۶۔ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۲/۳۶۳)
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے اسی نوعیت کے بعض دیگر اقدامات بھی تاریخ وسیرت کی کتابوں میں نقل ہوئے ہیں۔ (مثلاً مالک بن نویرہ کے قتل کا واقعہ۔ دیکھیے: ابن کثیر ، البدایہ والنہایہ ۶/۳۲۲)
اب بڑا نادان ہوگا وہ شخص جو خالد بن ولید کی شخصیت کے اس پہلو کے پیش نظر ان کے اس عظیم مجاہدانہ کردار ہی کی نفی کر دے جو انھوں نے ’’سیف اللہ‘‘کی حیثیت سے اسلام کی سربلندی کے لیے انجام دیا اور اسلام کے ایک جلیل القدر ہیرو کے طور پر ان کی تعریف وتوصیف سن کر یہ اعتراض کرنے لگے کہ اچھا، تم ایسے شخص کو آئیڈیل بنا کر پیش کر رہے ہو جس کے ہاتھ بے گناہوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں!!
میری دوسری گزارش یہ ہے کہ انسانی طبائع اس قدر گوناگوں، تاریخی حالات اس قدر رنگا رنگ اور انسانی فیصلوں کے لیے بنیاد بننے والے نفسیاتی و واقعاتی عوامل اور مذہبی واخلاقی اصول اس قدر متنوع ہیں کہ ہر طرح کے افراد کے لیے ہر طرح کے حالات میں اپنے لیے لائحہ عمل متعین کرنے کا کوئی یک رنگ معیار اور کوئی بے لچک ضابطہ وضع کرنا ممکن ہی نہیں۔ مثلاً دیکھیے، انبیائے بنی اسرائیل میں ہمیں سیدنا سلیمان علیہ السلام جیسی شاہانہ جلال اور شان وشکوہ رکھنے والی شخصیت بھی نظر آتی ہے جو قوم سبا کی ملکہ کی طرف سے بھیجے جانے والے قیمتی تحائف کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیتے ہیں کہ مجھے ان کی ضرورت نہیں اور ملکہ کے بذات خود میرے دربار میں حاضر ہونے سے کم تر کوئی بات قبول نہیں اور ان کی ایک دھمکی پر ملکہ سبا اپنی پوری کابینہ کے ساتھ ان کے دربار میں حاضر ہو جانے میں ہی عافیت محسوس کرتی ہے، جبکہ انھی انبیائے بنی اسرائیل میں سیدنا مسیح علیہ السلام بھی شامل ہیں جو اس دور میں پیدا ہوتے ہیں جب رومیوں کے ہاتھوں بنی اسرائیل کی خود مختار حکومت کا مکمل خاتمہ ہو چکا تھا اور اس سوال کے جواب میں کہ کیا قیصر کو جزیہ دینا روا ہے یا نہیں، یہ فرما کر بنی اسرائیل کو رومی سلطنت کی اطاعت اور وفاداری کی تعلیم دیتے ہیں کہ ’’جو قیصر کا ہے، وہ قیصر کو اور جو خدا کا ہے، وہ خدا کو دو‘‘۔ بدیہی طور پر یہ حالات کا فرق ہے جو بنی اسرائیل کے ایک پیغمبر کے لیے ایک طرح کے جبکہ اسی قوم کے ایک دوسرے پیغمبر کے لیے دوسری طرح کے طرز عمل کا جواز مہیا کرتا ہے۔
پھر یہ کہ کسی مخصوص صورت حال میں لائحہ عمل کی تعیین میں اذواق وطبائع اور زاویہ نگاہ کے فرق کے پیش نظر اجتہادی اختلاف بھی ہو سکتا ہے۔ میرے نزدیک تاریخی شخصیات اور ان کے حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے اس نکتے کی اہمیت غیر معمولی ہے اور اسے کسی حال میں نظروں سے اوجھل نہیں ہونا چاہیے۔ مثلاً ہماری ماضی قریب کی تاریخ میں برصغیر میں جہاں علماء کی ایک بہت بڑی جماعت انگریزی حکومت کے ساتھ مصالحانہ روش اختیار کرنے کے خلاف تھی، وہاں سرسید احمد خان جیسے حضرات بھی موجود تھے جنھوں نے انگریزی سرکار کی وفاداری کا دم بھرنے اور مسلمانوں کو بحیثیت قوم اس طرز فکر کی طرف مائل کرنے کو اپنا مقصد حیات قرار دے رکھا تھا۔ سرسید کے اس مسلک سے یقیناًسخت اختلاف کیا جا سکتا ہے اور اس کی وجہ سے ان کے مخالفین کی زبان طعن ہمیشہ ان پر دراز رہی ہے، تاہم مولانا اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں:
’’سید احمد بڑے حوصلے کا آدمی تھا، مگر انھوں نے خواہ مخواہ دین میں ٹانگ اڑا کر اپنے آپ کو بدنام کیا، ورنہ ان کو تو لوگ دنیا کا تو ضرور ہی پیشوا بنا لیتے۔ بڑے محب قوم تھے۔ دین میں رخنہ اندازی کرنے کی وجہ سے لوگ ان سے نفرت کرنے لگے تھے۔ اسی سے نقصان ہوا۔ ....... یہ جو مشہور ہے کہ وہ انگریزوں کا خیر خواہ تھا، یہ غلط ہے بلکہ بڑا دانش مند تھا۔ یہ سمجھتا تھا کہ انگریز برسر حکومت ہیں۔ ان سے بگاڑ کر کسی قسم کا فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ ان سے مل کر فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔‘‘ (ملفوظات حکیم الامت، ج ۱۱، ص ۲۶۷۔ ۲۶۹)
دلچسپ بات یہ ہے کہ سرسید کے زاویہ نظر کی تائید کرنے والے حضرات خود علماء کی صفوں میں بھی موجود تھے۔ ذرا درج ذیل اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’اگر غور کر کے دیکھو تو فی الحقیقت جس زمانہ میں انگریز ہندوستان میں آتے ہیں، اس وقت اسلامی سلطنت ہندوستان میں برائے نام رہ چکی تھی اور پنجاب میں سکھوں کا نہایت تسلط ہو گیا تھا۔ اگر انگریز ان کا قلع قمع نہ کرتے تو آج تمام ہندوستان میں سکھوں کا ڈنکا بجتا۔ ان کا طرز حکومت جو کچھ تھا اور جو کچھ وہ اسلام اور اسلامیات کی مزاحمت کرتے تھے، وہ آپ سے مخفی نہیں۔ اگر خدا نخواستہ ہندوستان پر ان کی سلطنت ہو جاتی تو آج مسلمانوں سے بھنگیوں اور چماروں کی طرح بیگار لی جاتی۔ میرے خیال میں تو خدا کی رحمت مسلمانوں پر ہوئی کہ انگریز آئے اور انھوں نے سکھوں کا قلع قمع کیا اور ایک مہذب سلطنت قائم ہو گئی جس نے مذہب کی آزادی کو اپنا اولیں فرض قرار دیا۔ یہ تو آپ کو بھی معلوم ہے کہ اس زمانہ میں مسلمانوں کے دماغ سلطنت کے قابل نہ رہے تھے اور اگر عام مسلمانوں نے کچھ قلیل سی کوشش کی بھی ، کیونکہ تقدیر موافق نہیں تھی، کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی۔‘‘
یہ اقتباس، جس میں انگریزی حکومت کو ’’خدا کی رحمت‘‘ قرار دیا گیا ہے، انگریزی تہذیب سے مرعوب کسی تجدد زدہ شخص کی تحریر سے نہیں، حلقہ دیوبند کے نامور محدث اور سنن ابی داود کے شارح مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ کے ایک خط سے ماخوذ ہے۔ اس کا حوالہ دینے سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ صورت حال کو سرسید کی نظر سے دیکھنے والے حضرات خود علماء کے اندر بھی موجود تھے اور اس زاویہ نظر کی تائید نہیں تو کم سے کم ان کی پوزیشن کو ہمدردی سے سمجھ کر انھیں ’’انگریز کا ایجنٹ‘‘ کہنے سے گریز کرنے والے تو تھے ہی، جیسا کہ مولانا اشرف علی تھانوی نے سرسید مرحوم کے متعلق لکھا ہے۔ 
حقیقت یہ ہے کہ ہر بات کا اپنا ایک محل ہوتا ہے اور وہ اپنے محل میں ہی اچھی لگتی اور جچتی ہے۔ پھر اس بات میں انسانی طبائع اور فہم کے لحاظ سے اختلاف بھی ہو سکتا ہے کہ کون سا موقع غیرت وشجاعت اور عزم وہمت کے اظہار کا ہے اور کون سا حکمت اور تحمل سے کام لینے کا اور تدبیر سے زیادہ تقدیر پر بھروسہ کرنے کا۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ جب تک کسی واضح اخلاقی وشرعی اصول کی پامالی کا مسئلہ نہ ہو، ہم لوگوں کے لیے اپنے اپنے حالات اور اپنے اپنے طبائع کے لحاظ سے اپنی حکمت عملی خود متعین کرنے کا حق تسلیم کریں اور خواہ خواہ اپنے آپ کو ’’حکم‘‘ کے منصب پر فائز کرنا ضروری نہ سمجھیں۔
تیسرا اور آخری نکتہ یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ الجزائری کی داستان حیات پر کائزر کی کتاب کوئی حرف آخر نہیں، بلکہ صرف ’’ایک‘‘ کاوش کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ سامنے کی بات ہے کہ کوئی بھی مصنف جب کسی شخصیت کی داستان حیات لکھتا ہے تو واقعات کی تحقیق اور شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے میں اپنے فکری پس منظر، ذاتی رجحانات وتعصبات اور پسند وناپسند سے بالاتر نہیں ہو سکتا۔ کائزر بھی اس اصول سے مستثنیٰ نہیں۔ وہ ایک مغربی اور مسیحی پس منظر رکھنے والے مصنف ہیں اور بنیادی طور پر یہ کتاب بھی مغربی قارئین کے فکر ومزاج کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے۔ اس لحاظ سے ان کا الجزائری کی شخصیت اور طرز فکر میں ایسے پہلو تلاش کرنا اور انھیں اجاگر کرنے کی کوشش کرنا جو رواداری اور وسعت نظر کے مغربی انداز فکر کے قریب تر ہوں، بدیہی طور پر قابل فہم ہے۔ مثال کے طور پر انھوں نے ابن عربی کے فلسفہ وحدت الوجود سے الجزائری کی دلچسپی کے تناظر میں ان کے افکار سے یہ تاثر لیا ہے کہ وہ وحدت ادیان یعنی سارے مذاہب کے یکساں طور پر برحق ہونے کے نقطہ نظر کے قائل تھے۔ یہ ظاہر ہے کہ ایک ایسا استنتاج ہے جس کی توثیق الجزائری کی اصل تحریرات اور افکار کی مراجعت کیے بغیر نہیں کی جا سکتی۔ والد گرامی مولانا زاہد الراشدی نے اسی تناظر میں کائزر کی کتاب کے مقدمے میں اپنا اختلافی نوٹ ان الفاظ میں درج فرمایا ہے کہ:
’’امیر عبد القادر الجزائری کو شیخ اکبر محی الدین ابن عربیؒ کا پیروکار، ان کے علوم کا شارح اور ان کے فلسفہ وحدت الوجود کا قائل ہونے کی وجہ سے ان کے فکر کے ڈانڈے ’’وحدت ادیان‘‘ کے تصور سے ملانے کی کوشش کی گئی (جس کی جھلک جان کائزر کی زیر نظر کتاب میں بھی دکھائی دیتی ہے)، حالانکہ وحدت الوجود اور وحدت ادیان میں زمین وآسمان کا فرق ہے اور شیخ اکبرؒ کے نظریہ وحدت الوجود کا مطلب وحدت ادیان ہرگز نہیں ہے۔‘‘
اس نوعیت کی اور بھی بہت سی باتیں ہیں جو اردو ترجمے پر نظر ثانی کرتے ہوئے مجھے کھٹکی تھیں، لیکن علمی دیانت داری کا تقاضا یہ تھا کہ کائزر نے الجزائری کی شخصیت کو جیسے سمجھا اور پیش کیا ہے، اسے اسی طرح رہنے دیا جائے اور اس میں اپنے خیالات کی آمیزش نہ کی جائے۔ مزید برآں اس نکتے کو بھی ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے کہ کائزر نے الجزائری کی داستان حیات کو ایک دلچسپ قصے یا یوں کہہ لیجیے کہ ناول کے انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے جس کے، بطور ایک ادبی صنف کے، اپنے کچھ تقاضے اور ضروریات ہوتی ہیں۔ ملتان سے شائع ہونے والے ماہنامہ ’’نقیب ختم نبوت‘‘ میں کائزر کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ یہ کوئی مستند واقعاتی کتاب نہیں، بلکہ ایک ناول ہے۔ مجھے اس بات سے کلی اتفاق تو نہیں، لیکن اتنی بات میں نے بھی اپنی تعارفی تحریر میں لکھی ہے کہ یہ کتاب بحیثیت مجموعی مستند واقعات پر مبنی ہوتے ہوئے ’’کسی حد تک ناول کے انداز میں‘‘ لکھی گئی ہے۔ اب یہ اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے محققین کا کام ہے کہ وہ الجزائری کی داستان حیات کے اصل مآخذ سے رجوع کریں اور اپنی تحقیق کے نتائج قارئین کے سامنے لائیں کہ علم وتحقیق کی دنیا میں پڑھنے والوں کی درست تر نتائج تک راہ نمائی کا طریقہ یہی ہے۔
مجھے امید ہے کہ اگر امیر عبد القادر الجزائری یا کسی بھی تاریخی شخصیت کے طرز فکر اور کردار کا مطالعہ ان گزارشات کو ملحوظ رکھ کر کیا جائے گا تو مطالعے کے نتائج حقیقت پسندی اور معروضیت سے قریب تر ہوں گے اور اس سے ہمیں اس شخصیت کا ایک بہتر اور متوازن تجزیہ کرنے میں مدد ملے گی۔ 

مکاتیب

ادارہ

(۱)
مکرمی جناب مدیر صاحب ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے ماہنامہ کی وساطت سے محترم جناب خواجہ امتیاز احمد صاحب سابق ناظم اسلامی جمعیۃ طلبہ اسلام گوجرانوالہ نے ہمارے استفسار پر اپنے سوالات کا اظہار فرمایا۔ ہم ان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے قارئین کو تذبذب اور ابہام کی کیفیت سے نکالا ہے، کیونکہ ان کے پہلے اجمالی بیان سے یہ تاثر پیدا ہوا تھا کہ شاید وہ کوئی ایسے علمی سوالات تھے جن کا جواب مفسر قرآن ؒ نہیں دے سکے تھے یا خدانخواستہ بلاوجہ انہوں نے جواب نہ دے کر اپنے منصب سے بے وفائی کی تھی۔ لیکن مئی کے شمارے میں محترم خواجہ صاحب نے اپنے بیان میں حیرت انگیز تبدیلی کرتے ہوئے اس عقدہ کو حل کر دیا ہے اور یہ اقرار بھی کر لیا ہے کہ ’’مفسر قرآنؒ ایک جید، با کردار اور صاحب عمل علماء میں سے تھے، ہمارے دل میں ان کا بہت مقام ہے، میرے استاد محترم صوفی عبد الحمید سواتی ؒ جن کا مقام و مرتبہ میرے نزدیک مولانا مودودیؒ سے کم نہیں ہے‘‘۔ 
قارئین کرام نے ان کے اٹھائے ہوئے سوالات کو پڑھ کر خود ہی محسوس فرمالیا ہوگا کہ ان تمام باتوں کا جواب براہ راست مفسر قرآنؒ کے ذمے بنتا ہی نہیں تھا کیونکہ ہر آدمی صرف اپنے قول و فعل کا ذمہ دار ہوتا ہے، دوسروں کا نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان بھی ہے: ولا تزر وازرۃ وزر اخریٰ  کوئی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اور جناب نبی اکرمؐ نے بھی اپنے خطبہ حجۃ الوداع میں زمانہ جاہلیت کی رسم کو ختم کرتے ہوئے اعلان کر دیا: الا، لا یجنی جان الا علیٰ نفسہ ہر جنایت کرنے والا خود ذمہ دار ہوگا۔ اور مشہور محاورہ بھی ہے کہ ’’جو کرے وہی بھرے‘‘۔ اور جس نے ایسا کام کیا ہی نہ ہو، اسے ’’جرم نا کردہ کی سزا‘‘ دینا روا نہیں ہے۔ یہ تو ’’کرے کوئی اور بھرے کوئی‘‘ والا معاملہ بن جاتا ہے۔ 
آپ نے جتنے سوالات اٹھائے ہیں، ان کا تعلق سیاسی بیانات سے ہے۔ مفسر قرآنؒ کا تعلق علماء حق کی اس جماعت سے تھا جو مذہبی، نظریاتی اور سیاسی اختلاف میں دلیل کی زبان سے بات کرنے کے قائل تھے۔ تہذیب و اخلاق کے دائرہ کو کبھی کراس نہیں کرتے تھے اور ایسے اختلافات میں وہ ذاتیات پر نہ تو خود اٹیک کرتے تھے اور نہ ہی اسے پسند کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایسی ابحاث سے بھی اجتناب کرتے تھے۔ ان کے اس رویے کا ایک جہان گواہ اور مداح ہے۔ مودودی صاحب اور جماعت اسلامی سے بھی انہوں نے اپنے اکابرین کی طرح اختلاف کیا ہے۔ مودوی صاحب نے ’’تفہیم القرآن‘‘ کے جن جن مقامات میں ٹھوکریں کھائی ہیں، ان کا مدلل اور مہذب رد آپ ’’معالم العرفان فی دروس القرآن‘‘ میں ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ حضرت مدنی ؒ کے ’’خطبات صدارت‘‘ کے لیے لکھا ہوا ان کا مقدمہ جس میں مودودی صاحب پر انہوں نے عالمانہ تنقید کی ہے، پڑھنے کے قابل ہے۔ جماعت اسلامی کے ایک فرد حافظ عبید اللہ صاحب نے خط لکھ کر مفسر قرآنؒ سے جامعہ نصرۃ العلوم میں داخلہ کے لیے مشورہ اور فارم طلب کیا جس میں جامعہ نصرۃ العلوم کا دو ٹوک مسلک لکھا ہواہے۔ حافظ صاحب موصوف نے خیانت کرتے ہوئے اسے ۲۲ مارچ ۱۹۶۸ء کے ’’آئین‘‘ میں تنقیدی نظر سے شائع کیا جس کے جواب میں مفسر قرآنؒ نے ایک طویل خط انہیں ارسال فرمایا۔ اس خط کی ایک کاپی ہمارے پاس محفوظ تھی۔ اسے ’’مقالات سواتی‘‘ میں بعنوان ’’مودودی صاحب کے بعض نظریات دین کے لیے نقصان دہ ہیں‘‘ شائع کیا گیا ہے۔ وہ خط بھی مطالعہ کے لائق ہے۔ اس میں وہ برملا لکھتے ہیں: 
’’محترم! آپ اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ ہم لوگ مودودی صاحب کے ساتھ کسی قسم کا ذاتی عناد نہیں رکھتے اور نہ سیاسی دھڑا بندی کی بنا پر ان کی مخالفت کرتے ہیں۔ ذاتی بغض و عناد یا دھڑا بندی اور دنیاوی مفاد کی خاطر کسی شخص سے عناد رکھنا ہم حرام سمجھتے ہیں۔ مودودی صاحب سے جو اختلاف ہے، وہ دین، شریعت اور آخرت کی وجہ سے ہے اور ہم مودودی صاحب کو مسلمان سمجھتے، لیکن ’’ضال و مضل‘‘ کہتے ہیں اور یہ ان کے خاص عقائد و خیالات اور مسائل و تعبیرات کی وجہ سے ہے جو انہوں نے جمہور علماء سلف و خلف کے خلاف لکھے ہیں اور پھر باوجود اس کے کہ مختلف علماء نے ان کو خبردار کیا، متنبہ کیا لیکن انہوں نے اپنی روش میں قطعاً تبدیلی نہیں کی اور مختلف غلط مسائل میں انہوں نے ہر جگہ تاویلات کے دامن میں پناہ لینے کی کوشش کی ہے ۔۔۔۔۔۔ میں نے ’’جماعت اسلامی‘‘ کے یوم ولادت سے لے کر آج تک اکثر تحریریں خود پڑھی ہیں اور پورے سیاق و سباق کو ملحوظ رکھتے ہوئے ’’محض شنید‘‘ پر مدار نہیں رکھا۔‘‘ (ص ۲۱۵، ۲۱۶)
اس سے آپ کو یہ تو پتہ چل گیا ہوگا کہ آپ کے استاذ محترمؒ کو مودودی صاحب اور جماعت اسلامی کے بارے میں کس قدر گہری معلومات حاصل تھیں اور وہ ہر سنی سنائی بات پر یقین نہیں رکھتے تھے بلکہ صرف مصدقہ بات کی تائید یا تردید فرماتے تھے۔ 
آپ کے اٹھائے ہوئے سوالات کا جواب دینا ہمارے ذمہ ضروری تو نہیں ہے، لیکن ان کے منظر عام پر آنے سے چونکہ علماء حق خصوصاً مجاہد ملت حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ کی حیثیت مجروح ہوئی ہے، اس لیے ہم ان سوالات کے مختصراور صرف الزامی جواب عرض کرنا چاہتے ہیں۔ بطور تمہید کے عرض ہے کہ آپ نے جتنے بھی سوالات اٹھائے ہیں، ان سب کے جواب میں قدر مشترک یہ ہے کہ یہ من و عن کسی نقل صحیح سے ثابت نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے حوالے کے طور پر جتنے بھی لوگوں کو پیش کیا ہے، وہ سب آنجہانی ہیں۔ اگر یہ باتیں آپ کسی معتمد کتاب سے نقل کرتے تو ان کی کوئی حیثیت بھی ہوتی۔ صرف آپ کی بات پر، وہ بھی سنی سنائی جو ایک سے دس تک منتقل ہوتے ہوئے کچھ سے کچھ بن جاتی ہے، اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ بالخصوص جبکہ آپ کو ان لوگوں کے ساتھ کوئی خوش عقیدگی بھی نہیں ہے اور آپ ان کی مخالف جماعت کے ایک اہم عہدہ دار بھی رہے ہیں۔ عربی کا شعر ہے کہ ؂
حبک الشیی یعمی و یصم
وبغضک الشیی یعمی و یصم
کسی چیز کی محبت اور کسی چیز سے بغض انسان کو اندھا اور بہرہ کر دیتا ہے۔ 
ہاں یہ بات بھی ضرور یاد رہے کہ مودودی صاحب اور ان کی جماعت اسلامی کے صرف علماء ہی مخالف نہیں تھے جس کا سارا غصہ آپ نے ’’نزلہ بر عضو ضعیف می ریزد‘‘ کے مصداق صرف علماء پر گرا دیا ہے۔ چنانچہ مودودی صاحب کا دفاع کرنے والے جناب عاصم نعمانی صاحب نے اس بات کا برملا اقرار کیا ہے جو ان کی کتاب ’’مولانا مودودی پر جھوٹے الزامات اور ان کے مدلل جوابات‘‘ میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’ان مخالفین میں مغرب زدہ لوگ، الحاد و دہریت پسند، ہر رنگ کے بے دین، سرمایہ داری کے حامی، سوشلسٹ اور کمیونسٹ، قادیانی اور منکرین سنت وغیرہ سبھی شامل ہیں اور ان میں سے ہر گروہ اپنی اپنی بساط کے مطابق مولانا مودودی کو لوگوں کی نظروں سے گرانے اور انہیں بدنام کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ افسوس ہے کہ ان میں کچھ ایسے علماء حضرات بھی شامل ہوگئے ہیں جو خود تو خدا کے دین کے لیے کچھ کرنے کی ہمت اور توفیق نہیں پاتے تھے، لیکن سید مودودی کو متحرک اور سرگرم عمل دیکھ کر ان کے اندر ایک ناقابل فہم حسد اور بغض پیدا ہوگیا ہے اور وہ مولانا کے دوسرے بے دین مخالفوں کے شانہ بشانہ کھڑے مولانا پر الزامات اور بہتانات کی گولہ باری کر رہے ہیں۔‘‘ (ص ۱۱)
اس سے معلوم ہوا کہ جماعت اسلامی اور مودودی صاحب کے مخالفین میں تمام اسلامی غیر اسلامی، مذہبی اور سیاسی جماعتیں تھیں۔ ان تمام کے الزامات و اتہامات اور ان کے طرز بیان کو صرف علماء پر چسپاں کر دینا کہاں کا انصاف ہے؟ جب مودودی صاحب سے یہ اختلافات ابتدائی دور میں چل رہے تھے، اس وقت علماء حق کی نمائندہ جماعت ’’جمعیۃ علماء اسلام‘‘ کے امیر امام الاولیاء شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ نے برملا ایک اعلان جاری کیا تھا جو ان کی کتاب ‘‘حق پرست علماء کی مودودیت سے ناراضگی کے اسباب‘‘ میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ لکھتے ہیں: 
’’خدا کی قسم! مجھے مودودی صاحب سے کوئی عداوت نہیں ہے میں نے جو کچھ ان کے متعلق تحریر کیا ہے، وہ محض ساڑھے تیرہ سو سالہ اسلام کی مخالفت اور اس کے علمبرداروں کی توہین و تحقیر جو انہوں نے کی ہے، اسے برداشت نہیں کر سکا اور چونکہ وہ اپنے خیالات کا پراپیگنڈہ اپنی جماعت کے اخبارات و رسائل میں کر رہے ہیں، اس لیے قاعدہ یہ ہے کہ جو حربہ مخالف کے ہاتھ میں ہو، وہی حربہ ہمارے ہاتھ میں بھی ہونا چاہیے۔ اس لیے ان کی غلط روش سے مسلمانوں کو آگاہ کرنے کے لیے اپنے خیالات کی اشاعت اخبار میں مناسب بلکہ ضروری سمجھی۔‘‘ (ص ۸۴)
اب ذرا ان اسباب پر بھی غور فرما لیجیے جن کی وجہ سے مودودی صاحب کے مخالفین نے مثبت یا منفی رویہ اختیار کیا۔
(۱) آپ کے سوال نمبر ۱ اور نمبر ۲ کا تعلق اسی سے ہے۔ مودودی صاحب نے امہات المومنین حضرت حفصہؓ اور حضرت عائشہؓ کے بارے میں ہفت روزہ ایشیا لاہور ۱۹ نومبر ۶۷ء میں یہ لکھا کہ: 
’’نبی کے مقابلہ میں کچھ زیادہ جری ہوگئی تھیں اور حضورؐ سے زبان درازی کرنے لگی تھیں۔‘‘ الخ  (بحوالہ علمی محاسبہ صفحہ ۳۲۶ از حضرت مولاناقاضی مظہر حسینؒ)
جب علماء نے اس پر پکڑ کی اور سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ توہین آمیز جملہ ہے تو وہ تاویلات کا سہارا لینے لگے اور اپنی بات پر آخر تک مصر رہے اور’’تفہیم القرآن‘‘ میں پھر دوبارہ یہی لکھا کہ ’’حضورؐ سے زبان درازی نہ کیا کرو۔‘‘ (ج ۶ ص ۲۴)
اس کے جواب میں علما نے اپنے اپنے انداز میں ان کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن علما کے علاوہ ان کے عام مخالفین نے مودودی صاحب کی اپنی بیٹیوں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ ہمارے نزدیک مودودی صاحب کا اور ان کے ایسے مخالفین دونوں ہی کا طرز بیان غلط تھا، لیکن عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ مودودی صاحب کے اپنے ہی رویے کا رد عمل تھا۔ مودودی صاحب اپنے سیاسی مخالفوں کی خواتین کو بھی برا بھلا کہنے سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ جناب حکیم عبد القوی دریابادی نے اپنی کتاب ’’معاصرین حضرت مولانا عبد الماجد دریابادی ؒ ‘‘ میں برملا لکھا ہے کہ :
’’جب صدر پاکستان کے الیکشن کا مسئلہ چھڑا اور سردار ایوب خان (صدر پاکستان) سے خفا ہوئے تو فرما دیا کہ ایک طرف ان میں کوئی خوبی اس کے سوا نہیں کہ وہ مرد ہیں اور دوسری طرف ان کے مقابل میں فاطمہ جناح ہیں جن میں کوئی برائی نہیں سوا اس کے کہ وہ عورت ہیں۔ زبان کی اس درجہ بے احتیاطی بجائے خود ایک قہر الٰہی ہے۔ اللہ اپنے اس قہر سے ہر مسلمان کو محفوظ فرمائے۔‘‘ (ص ۱۷۴)
ذرا غور فرمائیے، مودودی صاحب نے عورت کو مطلقاً برائی سے تعبیر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود مودودی صاحب کے اپنے ہی فرزند ارجمند سید حیدر فاروق مودودی صاحب نے روزنامہ پاکستان ۲۶ جولائی ۱۹۹۷ء میں انٹرویو دیا تھا جو سارے کا سارا پڑھنے کے قابل ہے، اس میں انہوں نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ ’’جماعت اسلامی نے ہمیشہ منفی کام کیے ہیں۔ میں نے پچاس سال جماعت کو اندر باہر سے دیکھا ہے۔ یہ مذہب کے نام پر فساد کرتی ہے، آج بھی اس میں (ہسٹری شیئڑز) کو چن چن کر آگے لایا جا رہا ہے۔ روزنامہ پاکستان میں انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ مولانا مودودی کو صرف علمی کام کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے جتنا سیاسی کام کیا، وہ تمام منفی تھا۔ علمی اور سیاسی جدوجہد کے تقاضے الگ الگ ہیں۔ جیل، جلسہ، جلوس اور کاغذ قلم کو بیک وقت ساتھ لے کر چلنا صرف انہی کا خاصہ ہے۔ اسی وجہ سے مولانا نے سیاسی مجبوری کے تحت بہت سی ایسی باتیں کہہ دیں جو نہیں کہنا چاہیے تھیں۔‘‘
یہ مقام عبرت ہے کہ مودودی صاحب نے دوسروں کی خواتین کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا، قدرت نے ان کی اپنی اولاد کو ان کے خلاف کھڑا کر دیا۔ اسی صاحب زادہ نے ۷۔ اپریل ۱۹۸۳ء کے روزنامہ جنگ راولپنڈی کے پریس ریکارڈ پر موجود اس بیان میں مودودی صاحب کے درون خانہ کی قلعی یوں کھولی ہے :
’’مولانا مودودی مرحوم کے صاحبزادے سید حیدر فاروق مودودی نے اپنی والدہ محمودہ بیگم کے خلاف ۸۳ ہزار ۹۸۳ روپے کی عدم ادائیگی کا دعویٰ دائر کر دیا ہے۔ مدعی نے اپنے دعویٰ میں لکھا ہے کہ اس کی والدہ جانشینی کے سرٹیفکیٹ کے تحت اپنے والد کے ترکے میں سے اس کا حصہ ادا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ مولانا مودودی کی بنکوں میں چھوڑی ہوئی رقم دس لاکھ ۳۷ ہزار روپے میں سے اس کا حصہ ایک لاکھ بیس ہزار ۹۸۳ روپے بنتا ہے جس میں سے اسے صرف ۳۷ ہزار روپے ادا کیا گیا ہے باقی رقم کی ادائیگی کا اہتمام کیا جائے۔‘‘ (بحوالہ دو بھائی ابوالاعلیٰ مودودی اور امام خمینی سنسنی خیز انکشافات ص ۴۸) 
فاعتبروا یا اولی الابصار۔ 
آپ نے مودودی صاحب کی بیٹیوں سے متعلق جو سوال لکھے ہیں، یہ ’’بات سے بتنگڑ‘‘ کی صورت اختیار کیے ہوئے ہیں، اس لیے کہ یہی اعتراض جناب عاصم نعمانی صاحب نے بھی اپنی سابقہ مذکورہ کتاب کے صفحہ ۲۵ میں نقل کیے ہیں۔ ان کے نقل کردہ اعتراضات اور آپ کے نقل کردہ سوالات میں بون بعید ہے۔ اس لیے حکم شریعت ہے کہ سنی سنائی باتوں پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے، اور حضورؐ نے تو کفی بالمرء کذبا ان یحدث بکل ما سمع  سے وعید بھی فرمائی ہے کہ انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو آگے بیان کر دے۔ ان کے نقل کردہ الزامات اور اپنے نقل کردہ سوالات کا ذرا موازنہ کر لیں، وہ نقل کرتے ہیں: 
’’الزام: مودودی صاحب نے اپنی تحریروں میں مخلوط تعلیم کی سخت مذمت کی ہے مگر اپنی بیٹیوں کو انہوں نے مخلوط تعلیم کی درسگاہوں میں تعلیم دلوائی ہے اور اب بھی یونیورسٹی میں مخلوط تعلیم دلوا رہے ہیں۔ ان کی لڑکیاں مخلوط کلاسوں میں پڑھتی ہیں‘‘۔ 
’’الزام: مولانا مودودی صاحب کی لڑکیاں اور بیوی پردہ نہیں کرتیں‘‘۔ 
ایسے اعتراض کرنے والے مودودی صاحب کے جملہ مخالفین تھے جسے آپ نے صرف علماء کے ذمہ لگا دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہدایت نصیب فرمائے۔ اب غور فرمائیں اگر لوگ مودودی صاحب کی بیٹیوں پر اعتراض کریں تو آپ ناراض ہوں، لیکن وہی مودودی صاحب دوسروں کی عورتوں پر اعتراض کریں تو یہ کس اخلاق اور شریعت میں جائز ہوگا؟ حقیقت یہ ہے کہ ان باتوں کے لیے اسباب مودودی صاحب نے خود فراہم کیے تھے۔ دراصل مودودی صاحب کی لڑکیوں پر ان کے مخالفین کے اعتراض کی بنیادی وجہ ان کی اپنی ایک تحریر ہے۔ ’’ رسائل و مسائل حصہ اول ص ۱۳۲ بعنوان فقہیات میں لکھتے ہیں:
’’ آج کل کے میڈیکل کالجوں اور نرسنگ کی تربیت گاہوں اور ہسپتالوں میں مسلمان لڑکیوں کو بھیجنے سے لاکھ درجے بہتر یہ ہے کہ ان کو قبروں میں دفن کر دیا جائے۔ رائج الوقت گرلز کالجوں میں جا کر تعلیم حاصل کرنے اور پھر معلمات بننے کا معاملہ بھی اس سے کچھ بہت مختلف نہیں ہے۔‘‘ 
مخالفین کا اعتراض یہ تھا کہ جب لڑکیوں کو گرلز کالجوں میں تعلیم دلوانے سے زندہ درگور کرنا ہی بہتر ہے تو جناب والا کی اپنی بچیوں کے لیے اس کا جواز کیسے ہوگیا، یا یہ فرمان صرف ما و شما کی بچیوں کے لیے تھا؟ بعد ازاں ان کے عام مخالفین نے اس میں نمک مرچ لگا کر مخلوط تعلیم اور بے پردگی وغیرہ کی باتیں بھی ساتھ شامل کر لیں جسے ہم قطعاً درست نہیں سمجھتے۔ مذہبی یا سیاسی مخاصمت میں کسی کی ماں، بہن، بیٹی، بیوی یا کسی بھی خاتون پر ایسے اتہام لگانا بالکل ناروا ہے اوراسی طرح اس کا الزام صرف علماء پر لگانا اس سے بھی کہیں بڑا جرم ہے۔ 
(۲) آپ کے سوال نمبر ۳ سے متعلق عرض ہے کہ بد قسمتی سے ہمارے ملک پاکستان میں سیاسی مخالفین ایک دوسرے کو بہت ہی قبیح طریقے سے پکارتے ہیں اور اس میں کوئی بھی بچا ہوا نہیں ہے، الا ماشاء اللہ۔ یہ طریقہ سراسر غلط ہے، لیکن اس میں بھی صرف کسی ایک کو نشانہ بنانا اور دوسروں کو اسی جرم میں چھوڑ دینا کہاں کا انصاف ہے؟ مولانا عبدالصمد رحمانی صاحب اپنی کتاب ’’جماعت اسلامی کے دعوے، خدمات اور طریقۂ کار کا جائزہ‘‘ کے صفحہ ۳۵۳ پر لکھتے ہیں:
’’مولانا مودودی کا فتویٰ :
’’جو لوگ دستور جماعت اسلامی کے حدود سے باہر ہیں وہ دائرہ امت مسلمہ سے باہر ہیں۔‘‘
’’جو گروہ قرآن کی نصوص قطعیہ سے مرتب کیے ہوئے اس دستور جماعت اسلامی کی حدود کے اندر ہیں انہیں ہم امت مسلمہ کے اندر شمار کرتے ہیں، اور جن لوگوں نے ان حدود کو پھاند لیا ہے انہیں دائرہ امت کے باہر سمجھنے پر مجبور ہیں۔‘‘ (ترجمان القرآن ج ۲۶، ص ۲۷۷)
لیجیے آپ تو صرف فتویٰ فروشی کے لفظ سے چیں بجبیں ہو رہے ہیں، یہاں تو جماعت اسلامی کے علاوہ سب کو امت سے ہی خارج کر دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی آپ کی نظر میں نہ تو وہ فتویٰ فروش ہیں اور نہ ہی قصور وار ہیں، فیا للعجب۔ 
(۳) اس کا تعلق آپ کے سوال نمبر ۴ سے ہے۔ معروف صحافی جناب ممتاز علی عاصی صاحب اپنی کتاب ’’مولانا مودودی اور جماعت اسلامی ایک جائزہ‘‘ کے صفحہ نمبر ۱۹۷ میں لکھتے ہیں:
’’خود نمائی میں بعض دفعہ مولانا (مودودی)سوقیانہ باتوں پر اتر آتے تھے۔ مثلاً اس انٹرویو کا آخری پیرا پڑھیے جس میں لکھا ہے کہ جب ان سے تذکرہ کیا گیا کہ ’’حکمران‘‘ طبقہ آپ کے لٹریچر سے استفادہ توکرتا ہے، لیکن اس کا اقرار کرتے ہوئے ہچکچاتا ہے تو مولانا نے فرمایا ’’ان کی پوزیشن ان ہندو دیویوں جیسی ہے جو اپنے خاوندوں کا نام لیتے ہوئے شرماتی ہیں‘‘۔ کیا یہ الفاظ ایک عالم دین بلکہ اس زمانے کے بزعم خود (بہت بڑے مصلح) کے ہو سکتے ہیں۔ اس کا فیصلہ خود قاری کر سکتے ہیں۔‘‘ (نوائے وقت لاہور ۷ نومبر ۱۹۶۳ء)
لیجئے مودودی صاحب نے حکمران طبقہ کو ہندوؤں کی دیویاں اور اپنے آپ کو ان کا خاوند بنا لیا ہے، آپ چیل اور ہیر کا مسئلہ لیے بیٹھے ہیں۔
(۳) اس کا تعلق آپ کے سوال نمبر ۵ سے ہے۔ معروف صحافی جناب ممتاز علی عاصی صاحب اپنی کتاب ’’مولانا مودودی اور جماعت اسلامی ایک جائزہ‘‘ کے صفحہ نمبر ۵۷ میں لکھتے ہیں:
’’مولانا اور ادھر ان کے رفقاء کار مختلف رسائل، کتابچوں، خطبات اور تقریروں میں پاکستان پر اظہار خیال کر رہے تھے، مثلاً مضامین کے دو عنوان ملاحظہ ہوں: (۱)۔۔۔۔۔۔(۲) لنگڑا پاکستان‘‘ (کوثر لاہور ۱۳ جون ۱۹۴۷ء)
مولانا محمد عبد اللہ صاحب اپنی کتاب ’’صحابہ کرامؓ اور ان پر تنقید‘‘ کے حاشیہ صفحہ نمبر ۱۳۰ میں لکھتے ہیں:
’’مولانا مودودی کی زبان کی شستگی اور پاکیزگی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے حضرات زحمت گوارا فرما کر ’’ترجمان القرآن‘‘ کے ان اوراق کا مطالعہ فرمائیں جن میں انہوں نے اپنے مخالف علماء کے حق میں کمینہ قسم کے مخالف، متعصب، حاسد، کینہ توز، کم ہمت، نا اہل، مناع للخیر، الزام اور بہتان تراش، غرض پرست اور دنی وغیرہ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔‘‘
آپ صرف لنگڑا مودودیا سننے سے ہی گھبرا گئے، ادھر تو سارے پاکستان کو لنگڑا اور علماء کو طرح طرح کے القابات سے نوازا گیا ہے جس پر آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔
(۴) اس کا تعلق آپ کے سوال نمبر ۶ سے ہے۔جناب سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب لکھتے ہیں۔
’’پھر جو لوگ مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے اٹھتے ہیں، ان کی زندگی میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی ادنیٰ جھلک تک نظر نہیں آتی، کہیں مکمل فرنگیت ہے، کہیں نہرو اور گاندھی کا اتباع ہے، کہیں جبوں اور عماموں میں سیاہ دل اور گندے اخلاق لپٹے ہوئے ہیں، زبان سے وعظ، عمل میں بدکاریاں، ظاہر میں خدمت دین اور باطن میں خیانتیں، غداریاں، نفسانی اغراض کی بندگیاں‘‘۔(تحریک آزادی ہند اور مسلمان(مشتمل برمسلمان اور موجودہ سیاسی کشمش حصہ اول و دوم اور مسئلہ قومیت ص ۱۰۳)
لیجئے، سیاہ دل ایک نہیں ساری امت کے علماء کو بغیر کسی امتیاز کے بیک جنبش قلم سیاہ دل قرار دے دیا گیا ہے، لیکن آپ کو اعتراض پھر بھی نہیں ہے۔ 
حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ اور مولانا محمد چراغ مرحوم دارالعلوم دیوبند میں کلاس فیلو تھے۔ دونوں نے محدث العصر حضرت مولانا محمد انور شاہ کشمیریؒ سے ۱۹۱۸ء میں دورہ حدیث پڑھا تھا۔ مولانا ہزارویؒ مولانا چراغ مرحوم سے علم میں فائق بھی تھے۔ ان کی کلاس میں اول انڈیا کے ایک عالم جبکہ دوسرے نمبر پر مولانا ہزارویؒ آئے تھے۔ اسی وجہ سے انہیں کچھ عرصہ دارالعلوم دیوبند میں مدرس بھی متعین کیا گیا تھا اور پھر دارالعلوم نے اپنے نمائندہ کے طور پر قاضی کے عہدہ پر انہیں حیدر آباد بھیجا تھا۔ وہ مولانا چراغ مرحوم کو جتنا قریب سے جانتے تھے، ما و شما نہیں جانتے۔ مولانا غلام غوث ہزارویؒ کی علمی پوزیشن کے بارے میں بریگیڈیئر جناب فیوض الرحمن جدون اپنی کتاب ’’مشاہیر علماء ج ۲ ص ۵۴۷‘‘میں لکھتے ہیں:
’’ایک رسالہ پوسٹ مارٹم بھی لکھا جس میں جناب مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کی تحریروں پر مضبوط علمی گرفت کی، ان میں سے بعض تحریروں سے مولانا نے رجوع فرما لیا ہے۔‘‘ 
(۵) آپ کے سوال نمبر ۷ کا اس سے تعلق ہے۔ مودودی صاحب کے فرزند ارجمند جناب سید حیدر فاروق مودودی صاحب روزنامہ پاکستان ۲۶ جولائی ۱۹۹۷ء کو انٹرویو دیتے ہوئے فرماتے ہیں: 
’’مولانا (مودودی)نے اپنی سیاسی مجبوریوں کی خاطر اپنی تحریر ’’دین میں حکمت عملی کا مقام‘‘ میں لکھا ہے کہ ایک اسلامی تحریک کے قائد کو حکمت عملی کے تقاضوں کے تحت یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ جائز کو ناجائز اور ناجائز کو جائز ٹھہرا سکے اور شریعت کے کسی بھی حکم کو مقدم یا موخر قرار دے سکے۔ حیدرفاروق مودودی نے کہا یہ حق تو اللہ نے اپنے انبیاء کو بھی نہیں دیا جو مولانا مودودی کسی اسلامی تحریک کے قائد کو دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اب انجمن ستائش باہمی کی شوریٰ بن کر رہ گئی ہے۔ اس کی تمام لیڈر شپ ’’تنخواہ دار‘‘ ہے جو قوم کے چندوں پر پل رہے ہیں۔‘‘
ایسے ہی افکار و نظریات کے بارے میں مولانا ضیاء القاسمیؒ نے اپنی تقریروں میں اکبر الٰہ آبادی کے مشہور شعر میں انتحال و تظمین کرتے ہوئے کیا ہی خوب اور بجا فرمایا: ؂
میں نے کہا کہ پردہ تمہارا وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مودودی کے پڑ گیا
(۶) آپ کے سوال نمبر ۸ سے اس کا تعلق ہے۔ انعام الحق مرحوم نے جو حرکت کی اس کا ذمہ علماء پر ڈالنا نہایت بے انصافی کی بات ہے۔ بلکہ کسی عام آدمی کے ابھارنے پر اس کا یہ حرکت کرنا تو اس کے ذہنی خلل کی غمازی کرتا ہے کہ وہ اپنے لیے ایسی صفات کی لڑکی کا رشتہ طلب کر رہا ہے اور پھر اپنے والدین کا اعتماد حاصل کیے بغیر جا کر مودودی صاحب سے ان کی بیٹی کا رشتہ خود ہی پوچھتا ہے۔ لا حول ولا قوۃ الا باللہ۔
  •  سیاسی نوک جھونک میں مولانا ہزارویؒ کا اپنے مخالفین کو ’’مریم جمیلہ گروپ‘‘ کہنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے جماعت اسلامی کے مولانا نعیم صدیقی صاحب نے اپنی کتاب ’’اسلامی سیاست‘‘ صفحہ نمبر ۱۳۱ پر علماء کا تمسخر اڑاتے ہوئے ’’مولوی رجمنٹ‘‘ لکھا ہے۔ (جماعت اسلامی کے دعوے، خدمات اور طریقۂ کار کا جائزہ۔ ص ۳۱۴)
    کیا مولانا ہزارویؒ کا فون نمبر مریم جمیلہ صاحبہ کے پاس تھا؟ یہ سوچنے کی بات ہے۔ کیونکہ اس دور میں فون کا اتنا رواج نہ تھا اور پھر مولانا ہزارویؒ کے گھر یا دفتر میں اس کی سہولت موجود نہ تھی اور پھر وہ کسی ایک جگہ قیام بھی نہیں کرتے تھے۔ ان کی تجارت طب تھی جو ایک تھیلے میں چند دوائیوں کی صورت میں ہر وقت ان کے ہاتھ میں رہتی تھی۔ وہ مرد قلندر جب فوت ہوا تو مقروض تھا۔ میں نے جماعت اسلامی کے لوگوں کو مولانا ہزارویؒ کو نہایت قبیح الفاظ سے کوستے ہوئے بھی سنا ہے۔حویلیاں میں مودودیوں نے مولانا ہزاروی ؒ پر قاتلانہ حملہ بھی کیا، العیاذ باللہ۔ یاد رہے کہ مریم جمیلہ صاحبہ کا اس سلسلہ میں اپنا بیان جسے عاصم نعمانی صاحب نے اپنی مذکورہ سابقہ کتاب کے آغاز میں نقل کیا، ہے آپ کے بیان سے بہت مختلف ہے ،انہوں نے شخصی طور پر کسی پر الزام نہیں لگایا۔
  • مولانا عبد القیوم ہزارویؒ کے بارے میں جو آپ نے تاثر دیا ہے کہ وہ خوامخواہ غصے میں آجاتے تھے، یہ قرین انصاف نہیں ہے۔ یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آئی کہ آپ ان کے پاس گئے اور وہ بلا وجہ غصے میں آگئے۔ مخالفت میں اتنا بھی حد سے نہیں گزر جانا چاہیے۔ باقی پونڈاں والی مسجد کے بارے میں آپ کی معلومات نہایت ناقص ہیں، اس مسجد کے بارے میں دو دفعہ ہائی کورٹ سے دیوبندی مسلک کے حق میں فیصلہ ہو چکا ہے گو فریق مخالف کا جارحانہ قبضہ برقرار ہے اور تادم آخر پونڈاں والی مسجد کے نمازی مولانا ہزاروی ؒ سے ملنے کے لیے آتے رہے ہیں۔ 
  • مفسر قرآن ؒ کا نصف صدی تک معمول تھا کہ وہ جمعہ کے خطبہ کے اختتام پر موقع دیتے تھے کہ کسی نے کوئی بات پوچھنی ہو تو وہ چٹ لکھ کر پوچھ سکتا ہے۔ اس کے باوجودجماعت اسلامی کے یعقوب طاہر مرحوم کا جامع مسجد نور میں عین جمعہ کے خطبہ کے دوران اٹھ کر کھڑے ہونا اور پھر مفسر قرآنؒ کے رد میں اپنا بیان شروع کر دینا، کیا اسے عقلمندی قرار دیا جا سکتا ہے؟ کوئی ذی شعور آدمی ایسی حرکت نہیں کر سکتا۔ کسی کی بات کا جواب دینے کے لیے اسے کون مہذب طریقہ قرار دے گا۔ آپ خود بھی تو مفسر قرآنؒ سے سوالات کرتے رہتے تھے۔ کیا آپ کو کبھی انہوں نے اپنی مجلس سے نکالا تھا؟ اگر آپ کو کبھی انہوں نے اپنی مجلس سے نہیں نکالا تو یعقوب طاہر مرحوم کے بارے میں آپ کیسے تصور کر سکتے ہیں کہ انہوں نے اسے مسجد سے باہر نکلوایا ہوگا؟ ہاں کسی نمازی نے ان کی ایسی بے ہودہ حرکت پر از خود پکڑ کر بٹھا دیا ہو یا باہر نکال دیا ہو تو یہ اس کا اپنا عمل ہے۔ آپ کی طرف سے جواب دینے کے لیے ایسے طریقے کی حوصلہ افزائی بجائے خود مضحکہ خیز ہے۔ 
  • مدارس کے طلبہ کے متعلق آپ نے پیرزادہ عطاء الحق قاسمی صاحب کے کندھے پر بندوق رکھ کر نہایت رکیک حملہ کیا ہے کہ مدارس والوں نے ان کی ایسی برین واشنگ کی ہوتی ہے کہ ان کے دماغ دولے شاہ کے چوہوں سے بھی چھوٹے رہ جاتے ہیں۔ میں ایک حوالہ پیش کر رہا ہوں اس سے آپ اندازہ لگا لیں گے کہ یہ مثال خود آپ کی جماعت پر کیسے فٹ آتی ہے جسے میں یوں تعبیر کروں گا کہ ’’گرو سے چیلے دو قدم آگے نکل گئے۔‘‘ مدیر ایشیا نصر اللہ خان عزیز صاحب جسے مودودی سٹیٹ کا وزیر داخلہ بنایا جانا تھا، اس نے امام الاولیاء حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے بارے میں لکھا ہے: (الاعتصام لاہور مورخہ ۱۸ نومبر ۵۵ء بحوالہ ایشیا)
    ’’جاہل، بہتان طراز، مفتری، اخلاقی تعلیمات سے بے بہرہ، تقویٰ، تقدس، للہیت اور تقرب الی اللہ کا ڈھونگ رچانے والے، غیر معقول مسمسی صورت والے، فریبی، جھوٹے تقدس و تقویٰ کی دھونس رچانے والے، مذبوحی حرکتیں کرنے والے، علم و اخلاق سے بے تعلق، فاسد ذہنیت کے مالک، پیشہ ور دیندار، عقل کے اندھے، غیر ذمے دار، قرآن کی فہم سے عاری، ناخدا ترس، بے حس، خدا اور مخلوق کی شرم سے بے بہرہ، بے حیا، بے وقوف گھناؤنے اور مکروہ اخلاق کے مالک، دیوبند کی چراگاہ سے نکلے ہوئے فریبی، دجل و کذب کے مالک، شور مچانے والے کفن چور، افیونی، شوریدہ سر۔ ‘‘ (نصر اللہ خان عزیز مدیر ایشیا لاہور، ماخوذ از ’’تحریک جماعت اسلامی اور مسلک اہل حدیث‘‘) (انکشافات ص ۱۱۲، ۱۱۳)
    حقیقت یہ ہے کہ آپ کے اٹھائے ہوئے تمام سوالات کے جواب میں صرف یہ ہی ایک حوالہ کافی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ آپ کو ان بیانات اور تحریرات کے متعلق کبھی اخلاقی اور اسلامی اقدار معلوم کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ 
  • غلط فہمیاں دور کرنے کا حق مدارس والے نہیں دیتے، یہ بھی آپ کا اتہام ہے۔ آپ کے مضامین ’’ماہنامہ الشریعہ‘‘ میں طبع ہونا یہ مدارس ہی کا فیض ہے اور بجائے خود آپ کے دعویٰ کا ردہے۔ 
آپ کے والد محترم خواجہ بشیر احمد مرحوم مفسر قرآنؒ اور احقر کے مقتدی رہے ہیں، بہت نفیس مزاج، صاحب مطالعہ اور با اخلاق انسان تھے۔ انہوں نے جماعت اسلامی کے خلاف کتاب بھی لکھی تھی۔ یقیناً انہوں نے آپ کو بھی اس سلسلہ میں سمجھانے کی اپنی ذمہ داری پوری پوری ادا کی ہوگی۔ 
اللہ تعالیٰ صراط مستقیم کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
محمد فیاض خان سواتی
مہتمم جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ

(۲)
(آئندہ سطور میں جناب عبد الفتاح محمد کے ایک عربی مکتوب کی تلخیص پیش کی گئی ہے جو انھوں نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد کے صدر جناب ڈاکٹر ممتاز احمد کے خط (شائع شدہ ’الشریعہ‘، مئی ۲۰۱۳ء) کے جواب میں تحریر کیا ہے۔ خط کا پورا عربی متن اگلے صفحات میں شائع کیا جا رہا ہے۔)
۱۔ شیخ الازہر ڈاکٹر احمد الطیب نے ایرانی صدر احمدی نژاد کے ساتھ آداب میزبانی کے خلاف کوئی گفتگو نہیں کی۔ انھوں نے صرف اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ ایرانی قیادت تقیے سے کام لیتے ہوئے اسلامی اخوت اور اتحاد بین المسلمین جیسے نعرے لگا کر، جن پر وہ دل سے یقین نہیں رکھتے، مسلمانوں کو دھوکہ دینے کی کوشش نہ کریں، کیونکہ شیعہ عقیدے کی رو سے غیر شیعہ، ان کے بھائی نہیں ہو سکتے اور نہ قابل احترام ہیں۔ ان پر لعن طعن، زبان درازی اور ان کے عیوب بیان کرنا شیعہ مذہب کا لازمی حصہ ہے۔ 
۲۔ ایرانی دستور کی رو سے ایران کی صدارت کا منصب اثنا عشریوں کے لیے خاص ہے، جبکہ طے شدہ حکومتی پالیسی کے تحت اثنا عشریوں کے علاوہ دوسرے مذہبی گروہ سے تعلق رکھنے والے افراد کا کسی بلدیہ کی سربراہی کے منصب پر فائز ہونا بھی ممنوع ہے۔ بیشتر ایرانی شہروں میں اہل سنت کو مساجد بنانے کی اجازت نہیں، جبکہ بعض مقامات پر،مثلاً مشہد اور مغربی آذربیجان کے شہر سلماس میں سنی مساجد کو منہدم بھی کیا گیا ہے۔ اپنے ملک میں اہل سنت کو مذہبی وسیاسی حقوق نہ دینا اور دنیا کے دوسرے ممالک میں مظلوموں کی مدد کا ڈھنڈورا پیٹنا ایرانی قیادت کا ایک منافقانہ رویہ ہے۔
۳۔ ایرانی ذرائع ابلاغ مسلمانوں کے مابین نفرت وعداوت کے جذبات کو برانگیختہ کرنے میں مسلسل مصروف ہیں۔ مثال کے طو رپر سیدہ فاطمہ زہراء کی شہادت کی مناسبت سے جو پروگرام نشر کیے جاتے ہیں، ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نہایت قریبی ساتھیوں کو ان کی شہادت کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا اور ان سے انتقام لینے کا جذبہ ابھارا جاتا ہے۔ پاکستان، تاجکستان، افغانستان، ترکی، شام، مصر، الجزائر اور تونس، ان تمام ممالک میں حتیٰ کہ غیر مسلم ممالک میں بھی ایرانی قیادت کی پالیسی یہی ہے کہ شیعہ سنی تفریق کو بڑھایا جائے۔
۴۔ صدر جامعہ نے لکھا ہے کہ ایران کو دوسرے ممالک اور خاص طور پر خلیجی ممالک (بحرین وغیرہ) کے داخلی معاملات میں دخل اندازی کا الزام دینا غلط ہے اور یہ کہ اہل سنت کے ممالک میں تشیع کو فروغ دینا ایرانی حکومت کی پالیسی نہیں ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ ایران خطے میں اپنے مذہبی وسیاسی مفادات، دونوں کو بڑھانے کے لیے پورے جوش وجذبے سے سرگرم ہے۔ ایرانی قائدین، جن میں رفسنجانی، خاتمی اور احمدی نجاد شامل ہیں، متعدد مواقع پر یہ اظہار کر چکے ہیں کہ امریکا کے لیے افغانستان اور عراق پر قبضہ کرنا ان کی مدد کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ ایرانی قیادت علانیہ یہ بھی کہتی ہے کہ عراق اور افغانستان میں معاملات کی درستی ایران کی رضامندی کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ ایران نے ہمیشہ خلیجی ممالک کو خوف زدہ کرنے کی پالیسی اختیار کیے رکھی ہے جس کی وجہ سے وہ امریکا کی گود میں جا بیٹھنے اور اس سے بھاری رقم کے عوض اسلحہ خریدنے پر مجبور ہیں۔ 
۵۔ بحرین کے لوگوں کے اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہونے میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں، لیکن اس کو ایک مخصوص مذہبی گروہ کی جدوجہد کا رنگ دینا جس کا فائدہ ایران کو پہنچے، درست نہیں۔ بحرین کے معاملات میں ایران کی دلچسپی بالکل کھلی ہوئی بات ہے۔ ایران ستمبر ۲۰۱۱ء اور اس کے بعد دسمبر ۲۰۱۲ء اور اب حال ہی میں اپریل ۲۰۱۳ء میں ’’اسلامی بیداری‘‘ کے نام سے عالمی میلے منعقد کر کے بحرین کی سیاسی تبدیلیوں کو دنیا کے سامنے لانے اور اہل تشیع کے مفادات کو تائید مہیا کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ شیعہ عناصر ۱۴۰۶ھ، ۱۴۰۷ھ اور ۱۴۰۹ھ میں مکہ مکرمہ میں دھماکے کرنے میں ملوث تھے۔ یمن میں حکومت کے باغی حوثیوں کو بھیجے جانے والے اسلحہ کے جہازوں کا پکڑا جانا اور حزب اللہ اور ایران کے پاس داران انقلاب سے تعلق رکھنے والے فوجیوں کا یمن میں موجود ہونا ساری دنیا کو معلوم ہے۔ 
۶۔ سنی اکثریت کے ممالک میں ہر جگہ شیعہ اقلیت اپنے جداگانہ مذہبی تشخص کو اجاگر کرنے کی بھرپور کوشش کرتی ہے۔ افغانستان میں شیعہ پانچ فی صد سے زیادہ نہیں، لیکن سال کے مخصوص دنوں میں پورا افغانی دار الحکومت سیاہ رنگ میں ملبوس دکھائی دیتا ہے۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ پر شیعہ قابض ہیں۔ ایران میں چوبیس مختلف زبانوں میں ٹی وی چینل کام کر رہے ہیں اور ۲۵ سے زائد چینل صرف عربی زبان میں ہیں۔ ایرانی قائدین جب کہتے ہیں کہ وہ ایران کے بجٹ کا ستر فی صد حصہ انقلاب کی برآمد پر خرچ کرتے ہیں تو آخر اس کا کیا مطلب ہے؟
۷۔ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں خانہ فرہنگ ایران ثقافتی سرگرمیوں کے عنوان سے متحرک ہے۔ صرف اسلام آباد میں سات شیعہ جامعات کام کر رہی ہیں اور شہر کے قلب میں واقع جامعۃ الکو ثر کے زیر اہتمام ’’الکوثر‘‘ ہی کے نام سے ایک ٹی وی چینل بھی قائم ہے۔ ایران کی طرف سے تعلیمی امداد کے تحت شیعہ طلبہ کو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں تعلیم دلوائی جاتی ہے اور اس کے بعد انھیں تکمیل تعلیم کے لیے ایران بھیج دیا جاتا ہے۔ یوں ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت ایرانی انقلاب کے کارندے تیار کیے جا رہے ہیں۔
۸۔ ایرانی قیادت، شیعہ مرجعیت کو ایران میں محدود کرنے پر تلی ہوئی ہے اور اس نے نجف اشرف سمیت تمام ممالک میں شیعہ مراجع کی مذہبی حیثیت کا خاتمہ کر دیا ہے۔ آخر عرب، ہندوستان، پاکستان اور افغانستان کے اہل تشیع اپنے اپنے مقامی مراجع مقرر کرنے کا حق کیوں نہیں رکھتے؟ شیعہ مذہب میں ’مرجع‘ کا جو مقام اور اختیارات ہیں، اس کی روشنی میں صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایران اپنے علاوہ کسی کو شیعہ دنیا کا قبلہ اور مرکز نہیں دیکھنا چاہتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کے شیعہ دراصل پاکستان کے نہیں، بلکہ ایران کے وفادار ہیں اور اگر خدانخواستہ دونوں ملکوں میں جنگ ہو جائے تو وہ ایران کی طرف سے جنگ میں شامل ہوں گے۔
۹۔ اس سوال کا جواب بھی معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ برصغیر میں اہل تشیع اور اہل سنت ہمیشہ سے پرامن فضا میں رہتے چلے آ رہے تھے اور دونوں کے مابین مذہبی مباحثات کی ایک مثبت علمی فضا قائم تھی۔ ان کی آپس کی خانہ جنگی، مساجد اور امام بارگاہوں پر حملوں اور باہمی قتل وغارت کا سلسلہ آخر ایران میں شیعہ انقلاب کے بعد ہی کیوں شروع ہوا ہے؟

جولائی ۲۰۱۳ء

طالبان اور امریکہ کے مذاکراتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
اراکان کے مظلوم مسلمانوں کی حالت زارمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
آزادی فکر و نظر اور مسلم معاشرے کی صورت حالمولانا محمد وارث مظہری
بر صغیر کی دینی روایت میں برداشت کا عنصر (۲)مولانا مفتی محمد زاہد
تحفظ ناموس رسالتڈاکٹر قاری محمد طاہر
مغربی اجتماعیت : اعلیٰ اخلاق یا سرمایہ دارانہ ڈسپلن کا مظہر؟ (۲)محمد زاہد صدیق مغل
مولانا مودودیؒ اور مولانا ہزارویؒ کے حوالے سے مباحثہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
چراغ علم و حکمتمولانا حافظ محمد عارف
مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحبؒ / مولانا قاضی مقبول الرحمنؒمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مکاتیبادارہ
بعض مسائل کے حوالے سے امام اہل سنتؒ کا موقفمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
خسرہ کا مجرب علاجحکیم محمد عمران مغل

طالبان اور امریکہ کے مذاکرات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

قطر میں افغان طالبان کا سیاسی دفتر کھلنے کے ساتھ ہی امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوتا دکھائی دینے لگا ہے اور دونوں طرف سے تحفظات کے اظہار کے باوجود یہ بات یقینی نظر آرہی ہے کہ مذاکرات بہرحال ہوں گے، کیونکہ اس کے سوا اب کوئی اور آپشن باقی نہیں رہا اور دونوں فریقوں کو افغانستان کے مستقبل اور اس کے امن و استحکام کے لیے کسی نہ کسی فارمولے پر بالآخر اتفاق رائے کرنا ہی ہوگا۔ 
افغانستان میں امریکی افواج اور نیٹو کی عسکری یلغار کے بعد ہم نے اس وقت بھی عرض کر دیا تھا اور اس کے بعد بھی وقتاً فوقتاً یہ گزارش کرتے آرہے ہیں کہ مداخلت کار قوتوں کو بالآخر طالبان کا وجود تسلیم کرنا ہوگا اور ان کے ساتھ مذاکرات کی میز سجانا ہوگی، اس کے لیے کوئی لمبی چوڑی فراست درکار نہیں تھی کیونکہ تاریخ کا عمل اسی کو کہتے ہیں اور تاریخ پر نظر رکھنے والے کسی بھی شخص کی رائے اس سے مختلف نہیں ہو سکتی۔ 
یہ مذاکرات ابھی وقت لیں گے، مذاکرات کے دوران بلکہ اس سے پہلے بھی روٹھنے اور منائے جانے کے کئی مراحل درمیان میں آئیں گے، بلکہ بعض مناظر مایوسی کے بھی دکھائی دینے لگیں گے، مختلف حوالوں سے ایک دوسرے کے بارے میں بے اعتمادی اور تحفظات کا اظہار ہوگا، یہ مذاکرات کئی بار ٹوٹتے ٹوٹتے جڑیں گے اور جڑتے جڑتے ٹوٹیں گے، لیکن یہ بات اب نوشتۂ تقدیر ہے کہ آخر کار یہ مذاکرات منطقی نتیجہ تک پہنچیں گے اور نہ صرف یہ کہ افغانستان مکمل آزادی اور خود مختاری کی منزل سے ہمکنار ہوگا بلکہ امریکہ اور نیٹو افواج بھی کسی نئے ہدف کی تلاش میں خود کو آزاد محسوس کریں گی۔ 
افغان طالبان افغانستان سے امریکہ اور نیٹو کی افواج کے انخلا کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں جبکہ اس سے قبل افغان مجاہدین اپنی سرزمین سے سوویت یونین کی فوجوں کے انخلا کے لیے جنگ لڑ چکے ہیں۔ اس وقت افغان قوم کے سامنے ہدف یہ تھا کہ سوویت یونین کی فوجیں افغانستان کی سرزمین سے نکل جائیں اور اب اس حریت پسند قوم کا ہدف یہ ہے کہ امریکہ اور نیٹو کی افواج افغانستان کا علاقہ خالی کر دیں۔ مگر ایک فرق واضح ہے کہ اُس وقت انہیں عالمی برادری حتیٰ کہ امریکہ کی بھی حمایت و امداد حاصل تھی جبکہ اب وہ تنہا ہیں اور کوئی ان کے ساتھ کھڑا ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔ درپردہ امداد و حمایت کی بات الگ ہے، مگر ظاہری منظر یہی نظر آرہا ہے کہ سوویت یونین کے خلاف تو عسکری جنگ کے ساتھ ساتھ سفارتی جنگ میں بھی عالمی برادری ان کی پشت پر تھی مگر امریکہ اور نیٹو کے خلاف جنگ میں میدان جنگ کے علاوہ سفارتی محاذ پر بھی وہ اکیلے کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ اس لیے یہ افغان طالبان کی ذہانت و فراست کا بہت کڑا امتحان ہے اور اگر انہوں نے گزشتہ عشرے کے دوران اپنی کشمکش کے پس منظر اور پیش منظر سے کچھ سبق حاصل کر لیا ہے اور زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر حقیقت پسندی کی بنیاد پر حکمت و تدبر کے ساتھ آگے بڑھنے کا عزم رکھتے ہیں تو ہمیں یقین ہے کہ وہ اس امتحان میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے میں کامیاب ہوں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ 
مذاکرات کے عمل کے دوران افغان طالبان کی ایک بڑی ضرورت یہ بھی ہوگی کہ مذاکرات کو صحیح نتائج تک لے جانے کے لیے ان کا عسکری دباؤ کمزور نہ ہونے پائے، اس مقصد کے لیے ان کے ساتھ پاکستان کے علماء کرام، دینی کارکن اور اصحابِ خیر اس فیصلہ کن مرحلہ میں جو بھی تعاون کر سکتے ہوں، اس سے گریز نہ کیا جائے۔ مثال کے طور پر:
  • افغان طالبان کو عمومی سیاسی و اخلاقی حمایت مہیا کی جائے اور نہ صرف ملکی رائے عامہ بلکہ عالمی رائے عامہ کو بھی ان کے جائز موقف کی طرف توجہ دلانے کا اہتمام کیا جائے۔
  • بین الاقوامی اداروں اور خاص طور پر عالم اسلام کے بین الاقوامی اداروں میں افغانستان کی آزادی و خود مختاری اور اس کے اسلامی تشخص کی بحالی و تحفظ کے لیے لابنگ اور ذہن سازی کی قابل عمل صورتیں نکالی جائیں۔
  • افغان طالبان کی جدوجہد اور پاکستان کے قبائلی علاقوں کی صورت حال کے فرق کو واضح کیا جائے اور پاکستان کی داخلی کشمکش کی ذمہ داری سے افغان طالبان کو بری الذمہ قرار دینے اور اصل زمینی حقائق کے اظہار کے لیے علمی و فکری محنت کی جائے۔

اراکان کے مظلوم مسلمانوں کی حالت زار

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

این۔این۔آئی کے حوالہ سے ’’پاکستان‘‘ (۲۰ جون کو) میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ نے برما (میانمار) سے مطالبہ کیا ہے کہ اقلیتی روہنگیا مسلمانوں کی شہریت اور طویل مدتی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے معاملات کا تعین کیا جائے جن میں لاکھوں افراد نسلی تشدد کے واقعات کے نتیجے میں پناہ گزین خیموں میں رہائش پر مجبور ہوئے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد سے متعلق ادارے نے بتایا ہے کہ برما کی مغربی ریاست راکھین (اراکان) میں ایک لاکھ چالیس ہزار افراد بے گھر ہیں۔ ایک برس سے جاری بودھ مسلمان فسادات کے باعث تقریباً دو ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ یہ خطہ مذہبی اور نسلی بنیادوں پر بٹ چکا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ضرورت مندوں کو اب روزانہ کی بنیاد پر خوراک تقسیم ہوتی ہے اور اکہتر ہزار سے زائد افراد کو پناہ دینے کے لیے عارضی خیمے قائم ہیں۔ عالمی ادارے نے متنبہ کیا ہے کہ تناؤ کی بنیادی وجوہات ختم کیے بغیر دیرپا امن اور ہم آہنگی قائم نہیں ہو سکتی۔ رپورٹ میں کم و بیش آٹھ لاکھ مسلمانوں کی شہریت کے تعین کے معاملے کو حل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ 
میانمار (برما) کی مغربی ریاست اراکان کے بارے میں اس قسم کی رپورٹیں کم و بیش ایک سال سے تسلسل کے ساتھ اخبارات کی زینت بن رہی ہیں اور اقوام متحدہ اور او۔آئی۔سی سمیت عالمی اداروں کی طرف سے احتجاج اور برما کی حکومت سے اصلاح احوال کے مطابات بھی نظر سے گزرتے رہتے ہیں، لیکن صورت حال میں بہتری کی کوئی صورت سامنے نہیں آرہی بلکہ اراکانی مسلمانوں کی اس بے رحمانہ خونریزی کو بودھ مسلم فسادات یا نسلی فسادات کا عنوان دے کر فریقین کے درمیان کشمکش بتایا جا رہا ہے حالانکہ یہ سب کچھ یکطرفہ ہے۔ قتل بھی صرف مسلمان ہو رہے ہیں، مکانات صرف ان کے جل رہے ہیں، وہی جلا وطن ہو رہے ہیں، پناہ گزینوں کے کیمپوں میں صرف ان کا بسیرا ہے اور انہی پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا ہے۔ 
ہم سمجھتے ہیں کہ اراکان کے ان مسلمانوں کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں، ایک اسلامی ریاست کا پس منظر رکھتے ہیں اور بد قسمتی سے بودھ اکثریت کے ملک برما (میانمار) کا حصہ بن گئے ہیں، جبکہ ان کا اس سے بھی بڑا جرم یہ ہے کہ انہوں نے برصغیر کی تقسیم کے وقت پاکستان میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ سے ملاقات کر کے ان سے اس کی درخواست بھی کر دی جو بوجوہ قبول نہ کی جا سکی۔ اس لیے ہمارے خیال میں یہ مسئلہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے ’’مسئلہ کشمیر‘‘ سے مختلف نہیں ہے۔ گزشتہ برس ہم نے مولانا فضل الرحمن سے جو اس وقت پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین تھے، ملاقات کر کے درخواست کی تھی کہ مسئلہ کشمیر کے ساتھ اراکان کے مسئلہ کو بھی حکومت پاکستان کے ایجنڈے کا حصہ بنایا جائے اور اس کے لیے عالمی سطح پر آواز اٹھائی جائے۔ مولانا موصوف نے قومی اسمبلی میں اور مختلف بین الاقوامی اداروں میں برما کے ان مظلوم مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھائی ہے اور اس کے اثرات بھی سامنے آئے ہیں، لیکن اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ او آئی سی اس سلسلہ میں زیادہ سنجیدگی کے ساتھ توجہ دے، بنگلہ دیش کی حکومت اسے باقاعدہ اپنے ایجنڈے میں شامل کرے اور حکومت پاکستان بھی اسے ترجیحات کا حصہ بنائے۔ اراکانی مسلمان صدیوں تک ایک آزاد اسلامی ریاست کا پس منظر رکھنے کے باوجود آج مسلسل مظالم اور بے بسی کا شکار ہیں تو ان کے حق میں آواز اٹھانا اور عالمی رائے عامہ اور اداروں کو برما (میانمار) کی حکومت پر موثر دباؤ ڈالنے کے لیے آمادہ کرنے کے ساتھ ساتھ مظلوم مسلمانوں کی امداد کا اہتمام کرنا بہرحال ہماری دینی اور قومی ذمہ داری بنتی ہے۔

آزادی فکر و نظر اور مسلم معاشرے کی صورت حال

مولانا محمد وارث مظہری

(یہ مقالہ اسلامک فقہ اکیڈمی،انڈیا کی طرف سے 12-13 اکتوبر 2013 کو ’’تصور آزادی اور فقہ اسلامی میں اس کی تطبیق‘‘ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار میں پیش کیا گیا۔)

آزادی فکر ونظر انسانی فطرت کا لازمی تقاضا ہے۔انسان حیوان ناطق ہے۔اسے عقل اور قوت تفکیر سے نوازا گیا ہے جس کے ذریعے وہ خیر وشر میں تمیز کرتا ہے اور جس کی بنیاد پر اس سے فطرت کا مطالبہ ہے کہ وہ خود اپنی ذات وکائنات میں غور کرکے اپنے وجود کے مقصد کی دریافت کرے ۔قرآن میں درجنوں مقامات پر تقلیدی روش اختیار کرنے کے بجائے انسان کو عقل کے استعمال پر ابھارا گیا ہے اور عقل وفکر کو پس پشت ڈال دینے والوں کو اس معاملے میں جانوروں بلکہ ان سے بھی بدتر قرار دیا گیا ہے۔(الاعراف: 179) اس لحاظ سے دوسرے تمام قابل ذکر مذاہب کے مقابلے میں اسلام کو عقل و فکر کا مذہب قرار دیا جا سکتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اسلام سے قبل انسانی عقل تقلید وروایت پرستی اور اساطیر و اوہام کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی۔تاریخ انسانی میں یہ سہرا بلا شبہ اسلام کے سر ہی جاتا ہے کہ اس نے اس کوان زنجیروں سے آزاد کیا۔اسلام میں اقدامی سطح پر جس فتنے کے استیصال کے لیے جہاد و قتال کی اجازت دی گئی، وہ در اصل مذہبی تعذیب کی وہ صو رت حال تھی جو وقت کی مطلق العنان طاقتوں نے ہر اس شحص کے لیے روا رکھی تھی جو’’الناس علی دین ملوکہم‘‘ کے کلیے سے انحراف وانکار کی روش اختیار کرتے ہوئے فکروعقیدے کی آزادی کا قائل ہو۔اسلام نے ہر فر د مسلم کو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا مکلف بنایا ہے اس کا بھی تقاضا ہے کہ اس کو اظہار راے کی مکمل آزادی حاصل ہو۔رسول اللہ نے سلطان جائرکے سامنے کلہ حق بلند کرنے اور اس کوراہ حق کی طرف تلقین کو افضل جہاد قرار دیا ہے۔(1)
اسلام کی نظر میں فکری تکثیریت، خواہ اس کا تعلق انسان کے حیات وکائنا ت کے نظر یے (world view)یا بالفاظ دیگر عقیدے سے ہی کیوں نہ ہو،انسانی فطرت کا اقتضا اوراس کائنات کے بنائے ہوئے نقشے کے عین مطابق ہے، اس لیے اس نقشے کو نہ توچیلنج کرنا ممکن ہے اور نہ چینج کرنا۔ قرآن کی متعدد آیات میں اس پہلو کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: قل الحق من ربکم فمن شاء فلیؤمن ومن شاء فلیکفر۔’’کہہ دیجیے کہ حق اللہ کی طرف سے ہے۔ تو جوچاہے ایمان کا راستہ اختیارکرے اور جو چاہے کفر کا‘‘۔( الکہف: 29)۔ لو شاء ربک لامن من فی الارض کلہم جمیعا افانت تکرہ الناس حتی یکونوا مؤمنین ’’اگر آپ کا رب چاہتا تو دنیا کے تمام لوگ ایمان قبول کرلیتے۔ کیا لوگوں کو مومن بنانے کے لیے آپ ان کے ساتھ زبردستی کریں گے؟‘‘ ( یونس:99)) دوسری جگہ کہا گیا ہے: ولو شاء اللہ لجعلکم امۃ واحدۃ ’’اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام لوگوں کو صرف ایک امت بنادیتا۔‘‘(المائدہ:48) ہو الذی خلقکم فمنکم کافر ومنکم مؤمن’’اللہ نے ہی تمہاری تخلیق کی ہے تو تم میں کچھ لوگ مومن ہیں اور کچھ لوگ منکر‘‘( التغابن:2)۔ اس طرح مومن کے ساتھ منکر ہونے کو ایک ابدی اور فطری حقیقت کے طور پر خود قرآن میں تسلیم کیا گیا ہے۔
اسلام میں فکرورائے کی ایک اہم اساس مشورہ کا اصول ہے جس کے متعدد روشن نمونے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ملتے ہیں۔ آپ اجتماعی معاملات میں اپنے اصحاب سے مشورہ کرتے تھے ۔مختلف جنگوں کے مواقع پر آپ نے صحابہ کرام کے مشوروں پر عمل کیا۔یہاں تک کہ آپ اپنی ازواج مطہرات سے بھی مشورہ کرتے تھے۔(2) چناں چہ صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ نے اپنی زوجہ مکرمہ ام سلمہ کے مشورے پر عمل کیا۔ مختلف احادیث میں رسول اللہ نے مشورہ کرنے اور مشورہ کے مطابق اقدام پر زوردیا۔ مشورے کے علاوہ رسول اللہ کا ایک اسوہ اصحاب کرام کواجتہاد کی روش اختیار کرنے کی ترغیب دینا تھا۔ حضرت معاذ بن جبل سے تعلق رکھنے والا مشہور واقعہ ہے کہ آپ نے انہیں یمن روانہ کرتے وقت دریافت کیا کہ تم کس طرح فیصلہ کرو گے؟ انہوں نے کہا کہ کتاب اللہ کی روشنی میں۔ آپ نے پوچھا کہ اگر تمہیں کتاب اللہ میں متعلقہ حکم نہ ملے تو؟ انہوں نے فرمایا اللہ کے رسول کی سنت میں۔آپ نے سوال کیا کہ اگر اس میں بھی تم وہ مسئلہ نہ پاؤ تو کیا کروگے؟ حضرت معاذ نے جواب دیا پھرمیں اجتہاد کروں گا اور اس میں کوئی کسرنہیں چھوڑوں گا (اجتہد ولا آلو)۔اس پرآپ نے ان کے سینے پرہاتھ مار کر فرمایا :’’ اللہ کے لیے ہی تمام تعریفیں ہیں جس نے اللہ کے رسول کے رسول کوتوفیق سے نوازا‘‘۔(3)
اس طرح آپ نے عقبہ بن عامر اوران کے ساتھ ایک دوسرے صحابی سے فرمایا کہ : اجتہدوا فان اصبتما فلکم عشر حسنات وان اخطأتما فلکما حسنۃ’’ (4) ’’تم اجتہاد کرو، اس میں اگرتم نے صحیح اجتہاد کیا تو تم کو دس نیکیاں ملیں گی اور اگرتم سے اس میں خطا سرزد ہوئی تب بھی تمہیں ایک نیکی ملے گی۔‘‘ ذخیرہ احادیث میں اس مفہوم کی متعدد روایات ہیں۔
ڈاکٹر طہ جابر جابر علوانی لکھتے ہیں کہ حریت عقیدہ کی قرآن کی کم ازکم دو سو آیات میں ضمانت دی گئی ہے۔(5) حریت عقیدہ کے تعلق سے سب زیادہ بحث ومناقشے کا موضوع اسلامی فقہ میں ارتداد کی سزا کا مسئلہ ہے۔ علما کی ایک جماعت اس بات کی قائل رہی ہے کہ ہرصورت میں ارتداد کی سزا قتل نہیں ہے، لیکن غالب موقف بہرحال یہی رہا ہے کہ ارتداد کی راہ اختیارکرنے والا شخص قابل قتل ہے۔ تاہم رسول اللہ کے تعلق سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ آپ نے کسی کو اس جرم میں قتل نہیں کرایا۔ ڈاکٹرعلوانی لکھتے ہیں: انہ من الثابت المستفیض انہ لم یقتل مرتد ا طیلۃ حیاتہ الشریفۃ ’’یہ بات پورے طور پر ثابت ہے کہ رسول اللہ نے اپنی پوری زندگی میں کسی کو ارتداد کے جرم میں قتل نہیں کرایا‘‘۔(6) ابن الطلاع کا قول ہے کہ کسی مشہور کتاب میں یہ مذکور نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مرتد یا زندیق کوقتل کرایا ہو۔(7) اس لیے صحابہ میں حضرت عمر فاروق اور فقہا میں امام نخعی اور سفیان ثوری کی رائے یہ رہی ہے کہ ان سے ہمیشہ توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا ،انہیں قتل نہیں کیا جائے گا: یستتاب ابدا ولایقتل۔ (8) یوسف قرضاوی کے نزدیک ارتداد کی دوقسمیں ہیں: ۱۔ خاموش ارتداد (ردۃ صامتۃ) جس کا وبال فرد کی اپنی ذات تک محدود ہو اور ۲۔ علانیہ اور ددسروں کو اپنی طر ف دعوت دینے والا (ردۃ مجاہرۃ داعیہ)۔ان میں سے دوسری قسم کے مرتدین قابل قتل ہیں۔ پہلی قسم کے مرتدین سے تعرض نہیں کیا جائے گا۔(9) نیز اس بات پر فقہا کے درمیان اتفاق ہے کہ ارتداد میں ملوث ہونے والی عورتوں کو بہر حال قتل نہیں کیا جائے گا۔اس سے بھی اس موقف کوتقویت ملتی ہے کہ وہ ارتداد موجب قتل ہے جو محاربہ کے ہم معنی ہو۔ اس لیے یہ موضوع بہرحا ل غور و فکر کا متقاضی ہے۔یہاں اس مسئلے کے دوسرے پہلوؤوں پر تفصیل سے بحث ممکن نہیں ہے۔
رسول اللہ کی سیرت طیبہ میں ایسے متعدد واقعات ملتے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ فرد کو فکر ورائے کی مکمل آزادی دیتے تھے اور خاص طور پر عقیدے کے باب میں کسی قسم کے جبر کو پسند نہیں کرتے تھے۔ دین میں جبر واکراہ کوممنوع قرار دینے والی مشہور آیت :لا اکراہ فی الدین کا شان نزول حضرت ابن عباس سے یہ بیا ن کیا جاتا ہے کہ: مدینہ کی ایسی عورتیں جن کو اولاد نہیں ہوتی تھی وہ اس بات کی نذر مان لیتی تھیں کہ اگر انہیں اولاد ہوئی تو وہ اس کویہودی بنا دیں گی ۔چناں چہ جب قبیلہ بنونظیر کو مدینہ سے جلاوطن کیا گیا تو مدینہ کے ایسے مسلمان جواس طرح یہودی بن گئے تھے، ان کے والدین رسول اللہ کے پاس آئے اور انہوں نے آپ سے کہا کہ ہم ایسا جاہلیت میں اس وقت کرتے تھے جب ہم یہود کے مذہب کو اپنے سے بالا وبرتر سمجھتے تھے، لیکن اب جب کہ اسلام کی شکل میں حق ہمارے پاس آچکا ہے تواب ہم اپنے بچوں کو کیوں نہ مجبور کریں کہ وہ اسلام قبول کرلیں۔اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(10)

اسلامی تہذیب کی شاندارروایت

عہد نبوی کے علاوہ صحابہ و تابعین اور ان کے بعد مسلمانوں کے دور زریں میں اور تہذیبی عروج کے زمانے میں حریت فکر ونظر اورآزادی اظہار رائے کی نہایت اعلی مثالیں ملتی ہیں۔ صحابہ کرام میں حضرت عمر کے تعلق سے آزادی اظہار رائے کے متعدد نادر واقعات مشہور ہیں جن کے اعادے کی یہاں ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ ایک واقعہ جو حضرت امام ابو یوسف نے کتاب الخراج میں لکھا ہے، یہ ہے کہ :ایک شخص نے حضرت عمر کومخاطب کرتے ہوئے کہا :اے عمر! اللہ سے ڈرو۔اور بار بار اس کو دہرایا۔حاضرین میں سے کسی نے اس شخص کواس پرٹوکا کہ اب چپ ہوجاؤ امیرالمؤمنین کو بہت کچھ کہہ چکے ۔حضرت عمرنے اس پر جوجملہ ارشاد فرمایا، وہ آب زرسے لکھے جانے کے قابل ہے ۔آپ نے فرمایا:’’اس کوکہنے دو۔اس لیے کہ تم میں کوئی خیر نہیں اگر تم ایسی بات مجھ سے نہ کہو اور ہمارے اندر کوئی خیر نہیں اگرہم اس کو قبول نہ کریں‘‘(لا خیر فیکم ان لم تقولوھا ولا خیر فینا ان لم نسمعھا)۔(11)
یہ نہایت قابل غور پہلو ہے کہ صحابہ اور ائمہ محدثین میں سے جلیل القدر شخصیات سے ایسے اقوال و فرمودات مشہور ہیں جن کے حاملین پر آج آسانی کے ساتھ بدعت وزندقہ سے اوپر بڑھ کر نعوذ باللہ کفر کا حکم چسپاں کیا جاسکتا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ قرآن کی آخری دونوں سورتوں (معوذتین) کو قرآن کی سورت تسلیم نہیں کرتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ دعا ہے جو جھاڑ پھونک کے لیے نازل کی گئی تھی۔(12)حضرت عبدا للہ ابن عمر کتابیہ سے نکاح کے قائل نہیں تھے۔ حالا ں کہ یہ نص قرآنی سے ثابت ہے۔حضرت ابو طلحہ روزے کی حالت میں اولہ کھانے کو ،حضرت ابوحذیفہ سورج نکلنے تک سحری کھانے کوجائز سمجھتے تھے ۔(13) حضرت عمر،عبداللہ ابن مسعود،ؓ ابوہریرہ ، عبد اللہ ابن عباس، ابوسعید اور تابعین میں اما م شعبی اور اور بعد کے اہم علما میں ابن تیمیہ اور ابن قیم اس بات کے قائل تھے کہ ایک دن جہنم کوفنا کردیا جائے گا اور بالآخر کفار بھی جنت میں داخل کر دئے جائیں گے۔(14)۔حضرت ابوذر غفاری ایک دن سے زائد مال جمع کرنے کو کنز تصور کرتے تھے اور اسے حرام و ناجائز سمجھتے تھے۔ ابن قیم نے اعلام المؤقعین میں لکھا ہے کہ عبداللہ ابن مسعود نے تقریبا سو مسائل میں حضرت عمر فاروق سے اختلاف کیا۔(15) لیکن اس کے باوجود عمر ان کو علم وفقہ سے بھرا ہوا پیالہ (کنیف مُلیءَ فقہا وعلما) سمجھتے تھے۔
اسلام کے عہد زریں میں باطل فرقوں کی کثرت تھی۔معتزلہ، جہمیہ حشویہ ، قدریہ ان سب میں سب سے زیادہ شدت پسند فرقہ خوارج کا تھا، لیکن اہل سنت والجماعت کے علما نے ان کی تکفیر نہیں کی۔ بلکہ امام تیمیہ سے منقول ہے کہ امام احمد بن حنبل ان فرقوں کے ائمہ کے پیچھے نماز تک پڑھ لیتے تھے:
قد نقل ابن تیمیہ ان الامام احمد بن حنبل لم یکفر ھذہ الفرق(القدریۃ والجہمیۃ وغیرہا) بل صلی(احمد بن حنبل) رضی اللہ عنہ خلف بعض الجہمیۃ و بعض القدریۃ وان اکبر ما توصف بہ کل تلک الفرق عند ابن تیمیہ ہو الفسق۔
’’امام ابن تیمیہ سے منقول ہے کہ امام احمد بن حنبل نے (جہمیہ اورقدریہ جیسے) گمراہ فرقوں کی کبھی تکفیر نہیں کی ۔بلکہ انہوں نے بسااوقات جہمیہ یا قدریہ کے پیچھے نماز تک ادا کی۔زیادہ سے ابن تیمیہ ان فرقوں کوفاسق قرار دیتے تھے‘‘۔(16)
محدثین و مفسرین کی رواداری کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے ان کی روایات تک اپنی کتابوں میں شامل کی ہیں۔ان میں خود اما م بخاری بھی شامل ہیں ۔انہوں نے اہل بدعت اور شیعہ راویوں کی روایتیں اپنی الجامع الصحیح میں شامل کی ہیں۔ اس کی متعدد حیرت انگیز مثالوں میں سے ایک مثال یہ ہے کہ عمران بن حطان بخاری کے رواۃ میں سے ہیں۔یہ اپنے ہم مسلک خو ارج کے سردار اورخارجیت کے اتنے بڑے علم بردار تھے کہ جب ابن ملجم نے حضرت علی کو قتل کیا تواس پر انہوں نے نہایت مسرت انبساط کا اظہارکیا۔ابن ملجم کی موت پرانہوں نے اس کا مرثیہ لکھا جس کے دو اشعار سے حضرت علیؓ سے ان کی نفرت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے:
یا ضربۃٌ مِّنْ تقیِّ ما ارادَ بھا
الا لیَبْلُغَ مِنْ ذی العرشِ رِضوانا
’’واہ! اس پرہیز گار نے کیا وار کیا ہے۔یہ وار کرنے والے کی اس سے کوئی غرض نہیں تھی سوائے اس کے اس نیکی سے عرش کا مالک خدا راضی ہوجائے‘‘۔
انِّی لأذکرہ یوما فأحْسِبُہ
أوفَی البریِّۃِ عند اللہِ میزانا 
’’میں جب اس وار کویاد کرتا ہوں توسوچتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں اس(ابن ملجم) کی یہ نیکی تمام نیکیوں سے بڑھ جائے گی۔‘‘(17) 
غور کرنے کی بات ہے کہ عمران بن حطان کی دو روایتیں بخاری کتاب اللباس میں موجود ہیں (18)۔ اسی طرح ابوداؤد اوراما م نسائی نے بھی ان کی روایتیں اپنی سنن میں لی ہیں۔ پاکستان کے مفتی سعید خان صاحب لکھتے ہیں:
’’بدعتیوں کے تمام فرقہ باطلہ خوارج ،شیعہ، قدریہ ،مرجۂ ،معتزلہ اورجہمیہ وغیرہ سے اہل السنت والجماعت کے ائمہ حدیث ،تفسیراورفقہ وتاریخ نے ان گنت روایات لی ہیں اوریہ ایسی حقیقت ہے کہ کوئی بھی صاحب مطالعہ مفسر، محدث ،فقیہ یا مؤرخ اس کا انکارنہیں کرسکتا۔اسماء الرجال کی کتابوں میں اگرکوئی ابان بن تغلب،سعید بن فیروز ،سعید بن عمرو ہمدانی،عبداللہ بن عیسی کوفی ، عدی بن ثابت ،محمد بن جحادہ اور زاذان کندی وغیرہ کے حالات کا مطالعہ کرے گا توہماری گزارشات کی تصدیق ہوجائے گی‘‘۔(19)
ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری کے مقدمے ’’ہدی الساری‘‘ میں اٹھارہ ایسے روات کا تذکرہ کیا ہے جو شیعہ تھے اور ان کی روایات بخاری (20)میں موجود ہیں۔(21)۔بخاری میں کم ازکم ایک رافضی کی بھی روایت موجود ہے، حالاں کہ عام طورپر محدثین نے تشیع اوررفض میں فرق کرتے ہوئے اہل تشیع کی روایات تو قبول کی ہیں، لیکن رافضی کی روایات کو لینے سے احتراز کیا ہے۔یہ رافضی راوی عباد بن یعقوب الرواجنی الکوفی ابو سعید ہیں۔ابن حجر نے ان کے بارے میں جو کچھ فتح الباری کے مقدمے ہدی الساری میں لکھا ہے، وہ بے کم وکاست یہاں نقل کردینا کافی ہے۔لکھتے ہیں:
رافضی مشہور الا انہ کان صدوقا وثقہ ابو حاتم،وقال الحاکم کان ابن خزیمہ اذا حدث عنہ یقول حدثنا الثقۃ فی روایتہ، المتہم فی رأیہ عباد بن یعقوب۔وقال ابن حبان کان رافضیا داعیۃ وقال صالح بن محمد کان یشتم عثمانؓ ۔قلت روی عنہ البخاری فی کتاب التوحید حدیثا واحدا مقرونا و ہوحدیث ابن مسعود ای العمل افضل ولہ عند البخاری طرق اخری من روایۃ غیرہ (22) 
غور کرنے کی بات ہے کہ حدیث کی سب سے عظیم ومہتم بالشان کتاب صحیح بخاری کی سب سے مہتم بالشان حصے کتاب التوحید میں ایک رافضی کی روایت موجود ہے۔محدثین نے اہل بدعت و ہوی کی روایات اس اصول کے تحت اپنی کتابوں میں لی ہیں کہ وہ جھوٹ سے بچنے والا اور صادق اللسان ہو(صدوق) اور اپنے مذہب کا داعی نہ ہو۔ابن حجر نے اس تعلق سے محدثین اوراصحاب علم کے متعدد اقوال نقل کیے ہیں۔ایک قول یہ نقل کیا ہے:
ان یکون داعیۃ لبدعتہ او غیر داعیۃ،فیقبل غیر داعیۃ و یرد حدیث الداعیۃ۔وہذا المذہب ہو الاعدل وصارت الیہ طوائف من الائمۃ و ادعی ابن حبان اجماع اہل النقل علیہ لکن فی دعوی ذلک نظر۔(23)

مسلم معاشرے کی موجودہ صورت حال

اہم سوال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں آزادی فکر ونظر کی صورت حال کیا ہے؟ اس میں شک نہیں کہ اسلام فکر ونظر کی آزادی کا داعی ونقیب ہے۔اسلام کے دور زریں میں اس کی نہایت شاندار روایت قائم رہی ہے ۔معاصر اور بعد میں ظہور میں آنے والی تہذیبوں پر اس کے غیر معمولی اثرات قائم ہوئے۔تاہم جہاں تک معاصر مسلم معاشرے کامعاملہ ہے ،حقیقت یہ ہے کہ وہ خود اپنی ہموار کردہ راہ پر چلنے سے گریزاں ہے۔ یہاں سیاسی اور فکری دونوں طرح کی آزادی کی صورت حال نہایت مخدوش ہے۔جہاں تک سیاسی صورت حال کی بات ہے،اس تعلق سے مسلم ممالک کی صورت حال دنیا کے دوسرے تمام ممالک کے مقابلے میں نہایت ناگفتہ بہ ہے۔ مغرب کی ماد ر پدر آزادی کے تصور کو نشانہ تنقید بنانے کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے گھرکی اس صورت حال کا بھی جائزہ لینا چاہیے۔فکری حلقوں کی صورت حال یہ ہے کہ اس بات کوتقریباً خاموشی کے ساتھ تسلیم کرلیا گیا ہے کہ اسلاف کرام جیسی صلاحیت رکھنے والے لوگوں کی پیدائش کا سلسلہ اللہ تعالی نے بند کردیا ہے کیوں کہ ایسی صلاحیت رکھنے والے لوگوں کی اب ضرورت باقی نہیں رہی۔ اس لیے کہ سادہ لوح دین پسند اذہان کے مطابق دین وشریعت کا کوئی ایسا گوشہ نہیں جو سلف صالحین کی فکر و نظر کا مرکزنہ بنا ہو اور جس میں انہوں نے بعد میںآنے والوں کے لیے کوئی خلا یا گنجائش چھوڑی ہو۔اس تعلق سے یہ مقولہ مشہور ہے کہ بھلا علمائے سلف نے پچھلوں کے لیے کام کی گنجائش چھوڑی ہی کہاں ہے؟اجتہاد کی مزعومہ قفل بندی کے بعد یہ نظر یہ آخری حد تک مستحکم ہوگیا کہ: ما اغلقہ السلف لا یفتحہ الخلف۔’’اسلاف کرام نے اجتہاد کے جس راستے کوبند کردیا ہے، اس کوان کے بعد آنے والے لوگ کھول نہیں سکتے‘‘۔اسلامی حلقوں کے اس غالب رجحان کے مطابق، گویا اصل مسئلہ سرے سے فکر کا ہے ہی نہیں! مسئلہ صرف عمل کا ہے۔ یہ دراصل ہماری عملی کوتاہیاں ہیں جنہوں نے ہمیں عروج کے میناروں سے اٹھا کر زوال کی کھائیوں میں پھینک دیا ہے۔ حالاں کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد آیات سے اس کا اشارہ ملتا ہے کہ امت مسلمہ کے مسائل کا اصل سرچشمہ وہ فکری انحراف وانتشار ہے جو امت کے اندر دور زوال میں پیدا ہوجائے گا۔چناں چہ رسول اللہ کی مشہور حدیث ہے کہ آپ نے فرمایا : لتتبعن سنن من کا ن قبلکم شبرا شبر و ذراعا بذراع حتی لو دخلوا جحرضب تبعتموہ’’ تم لوگ گزشتہ لوگو ں کی بالشت در بالشت اور دست در دست پیروی کروگے حتی کہ اگر وہ گوہ کے بل میں گھس جائیں تو تم بھی ایسا ہی کروگے‘‘۔(24 )۔بعض احایث میں علم اٹھالینے اورجہل پھیلنے کی بات کہی گئی ہے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ آپ کوئی بھی بات غالب فکر سے ہٹ کر کہنے کی جرأت نہیں کرسکتے۔ اگر آپ کی طرف سے ایسی جرأت کا اظہار ہوتا ہے تونہ صرف آپ پرکفر وزندقے کا الزام عائد ہوتا ہے بلکہ آپ کو اسلام اور اہل اسلام کا باغی تصور کیا جاتا ہے۔ 
عالم اسلام کے مختلف خطوں خصو صاً مصر میں ایک طرف جماعۃالتکفیروالہجرۃ اور اس طرح کی بعض دوسری جماعتوں کی تکفیری ذہنیت اور دوسری طرف فکری اباحیت پسندوں کے ایک طبقے کی طرف سے دین کے بعض اہم مسلمات پر زبان درازی کی وجہ سے مختلف مصنفین اور قلم کاروں سے متعلق تنازعات پیدا ہوتے رہے ہیں۔بعض لوگ جن میں فرج فودہ (مصر)، مہدی عامل اورحسین مروہ (لبنان )وغیرہ شامل ہیں، کا قتل ناگہانی بھی کیا گیا اوربعض دوسرے لوگوں پر کفر وزندقہ کا ملزم قرار دے کر انہیں ملک سے چھوڑ دینے کے لیے مجبورکردیا گیا۔ اس میں شک نہیں کہ ایسے بہت سے معاملات میں فکری ا باحیت کے شکار لوگوں کی فکری جارحیت ہی فساد کا باعث ہوتی ہے۔ خود ان مذکورہ قلم کاروں میں کوئی بھی ایسا نہیں جوفکری اباحیت کا شکار نہ ہو، لیکن ایسے مسئلے پر زیادہ شدت پسندانہ رخ اختیارکرنے کی وجہ سے اسلام اورمسلمانوں کی شبیہ خراب ہوتی ہے۔ایسے بہت سے مسائل کے ساتھ ازہرکے بالغ نظر علما نے نہایت حکمت اوردانائی کے ساتھ تعامل کیا اور اس کے نہایت شاندار نتائج سامنے آئے۔اس کی مثالیں طہ جابر علوانی کی ’’اشکالیۃ الردۃ والمرتدین‘‘ اوردوسری کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ 1937میں ایک مصری مصنف اسماعیل ادہم نے ’’ لماذا انا ملحد‘‘( میں ملحد کیوں ہوں؟) کے نام سے کتاب لکھی۔ اس کا جواب سنجیدہ طور پر علماے ازہر نے کتاب لکھ کرہی دیا ۔ مصرکے حسن حنفی اور نجیب محفوظ کے تعلق سے بھی دانش مندی کی روش اختیارکرتے ہوئے مصر کے اصحاب علم وفکر نے عوام کویہ موقع نہیں دیا کہ وہ ان کی جان کونشانہ بنائیں اورمسئلے سے سنجیدہ طور پر نمٹنے کی کوشش کی۔
ہندوستان میں بعض شخصیات کوان کے بعض علمی واجتہادی نقطہ نظر کی بنا پر ملک کے بعض اہم دینی اداروں سے برطرف کر دیے جانے کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ایک قابل ذکرعالم ومصنف کو رجم کے حد شرعی نہ ہونے کے موقف پر کتاب لکھنے کی پاداش میں ایک بڑے دینی ادارے کے منصب تدریس سے مستعفی ہوکر جنوبی ہند میں پناہ لینا پڑی۔ اس نوع کی بہت سی مثالیں ہیں۔بعض شخصیات پر جان لیوا حملے کیے جانے اور علمی حلقوں میں انہیں تقریبا اچھوت بنا دئے جانے کی بھی مثالیں موجود ہیں۔
ہمارے معاشرے میںیہ روایت بالکل نئی نہیں ہے۔ اس کی مثالیں اسلام کے دور زریں میں بھی ملتی ہیں، لیکن اس کی وجہ سے سماج میں انتشار پیدا نہیں ہوتا تھا۔اس کا توازن نہیں بگڑتا تھا۔ آپس کے تعلقات متاثرنہیں ہوتے تھے۔ حضرت امام شافعی کے بارے میںیونس صدقی کہتے ہیں کہ میں نے امام شافعی سے زیادہ عقل مند اور روادار کسی کو نہیں دیکھا۔ ہم نے ایک دوسرے کے ساتھ مناظرہ کیا، پھر الگ ہوگئے۔ پھر ایک دن جب ان سے میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:اے ابوموسیٰ، کیا یہ بہترنہیں ہے کہ ہم آپس میں بھائی بھا ئی رہیں، خواہ کسی مسئلے میں بھی متفق نہ ہوں۔(الا یستقیم ان یکون اخوانا وان لم نتفق فی مسئلۃ) (26)
لیکن آج کی صورت حال یہ ہے کہ آج یہ تسلیم کرلیا گیا ہے کہ جس کی فکر ہماری فکر سے ہم آہنگ نہیں ہے، وہ ہم سے نہیں۔ ہندوستان کے دینی حلقوں سے اس وقت بلاشبہ سیکڑوں رسائل مجلات شائع ہوتے ہیں ،جن میں ایسے رسائل ومجلات کی تعداد شاید انگلیوں پر گنے جانے کے بھی قابل نہ ہو جوتعدد فکرکے حامی و مؤید ہوں۔اکثر رسائل میں خطوط تک کی اشاعت میںیہ اہتمام کیا جاتا ہے کہ ان میں متعلقہ حلقے کی فکر سے متصادم کوئی بات نہ کہی گئی ہو، حالاں کہ ان رسائل میں بھی یہ روایتی جملہ زیب قرطاس ہوتا ہے کہ ’’ مقالہ نگار کی رائے سے ادارے کا اتفاق ضروری نہیں ہے۔‘‘

دینی مدارس کی صورت حال

دینی مدارس نظری سطح پر اس بات کی تعلیم دیتے رہے ہیں کہ امت کا اختلاف رحمت ہے (اختلاف امتی رحمۃ)۔ ادب اختلاف پر تقریروں اورتحریروں کے ضمن میں اسلام کے صدر اول کی نیم افسانوی حد تک نظرآنے والی استعجاب انگیز مثالوں سے محفل سخن میں گرمی لانے کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن عملی سطح پر آپ کو اس کی اجازت نہیں کہ آپ خالص مجتہد فیہ مسائل میں بھی اپنے حلقے کے موجودہ اکابر کی کسی رائے سے اختلاف کی جرأت کرسکیں۔ہاں، فقہی مباحث میں آپ کو نہ صرف اس کی اجازت حاصل ہے بلکہ آپ کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے کہ آپ اپنے مسلکی نقطہ نظر کی توجیہ و ترجیح میں دوسرے مکاتب فقہ کے صف اول کے ائمہ و محدثین پر پوری شدت کے ساتھ رد وقدح کریں اور انہیں ہدف تنقید بنائیں۔یہاں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ دیگر فقہا اور ائمہ ومحدثین کی آرا کوزیر بحث لاتے ہوئے ان پر تنقید کے ضمن میں ان کااحترام ملحوظ رکھا جاتا ہے،اگرچہ یہ بات کلی طور پر درست نہیں ،تاہم سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں اپنے حلقے کی اہم شخصیات کے فقہی و علمی مواقف وآرا پر اسی درجے میں زبان کھولنے اور ردوقدح کی اجازت حاصل ہے جس درجے میں دوسرے مکاتب فقہ کی اکابر شخصیات کے خلاف اس کو جائز اور قابل ثواب تصور کیا جاتا ہے؟ ظاہر ہے، اس کا جواب نفی میں ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ خالص علمی و اجتہادی مسائل میں بھی یہ در اصل ہمارے حلقے کی نمائندہ اور مقتدا شخصیات ہیں جنہیں اصلاً دلائل وبراہین کی جگہ حاصل ہوگئی ہے۔ہمارے دینی و علمی حلقوں میں انظروا الی ماقال کے بجائے انظروا الی من قال  کی روایت نہایت پختہ اورمستحکم ہوچکی ہے۔امام غزالی نے مظاہر تکفیر کی رد میں لکھی جانے والی اپنی کتاب’’ فیصل التفرقۃ بین الاسلام والزندقۃ ‘‘میں لکھا ہے کہ حق سے دوراور نظریاتی افراط کا شکارہوجا نے کا ایک بڑا ذریعہ شخصیت پرستی ہے جس میں حق کو ایک شخص کے ساتھ محصورسمجھ لیا جاتا ہے۔ ان کے الفاظ میں :’’اگرتم انصاف سے کام لو گے توتمہیں اس بات کا علم ہوجائے گا کہ بعینہ کسی ایک صاحب نظر پرحق کو موقوف کردینے والا کفر اور تناقض سے زیادہ قریب ہے‘‘۔ (ان انصفت علمت ان من جعل الحقائق و قفا علی واحد من النظار بعینہ فھو الی الکفر والتناقض اقرب) (27)
اس المیے پر غور کیجیے، ہندوستان کے ایک عظیم و نامور علمی ادارے کے ایک فاضل کواس جرم میں اس کی تحقیقی اکیڈمی سے نکا ل دیا گیا کہ اس نے ایک اخبار میں ادارے کے نصاب میں تبدیلی کی ضرورت پر مراسلہ لکھ دیا تھا۔اسی طرح اس واقعے سے سیکڑوں لوگ واقف ہیں کہ اسی ادارے کے ناظم تعلیم نے ایک صحافی کو ایک اجتماع عام کے بعد عمومی دسترخوان سے اس جرم و گستاخی کی بنا پر کھدیڑ کر بھگا دیا گیا کہ اس نے دہلی کے ایک اردو ماہنامے میں ادار ے کے نصاب میں تبدیلی کی ضرورت پر مضمون لکھ دیا تھا۔بہت سے مدارس میں دوسرے مکاتب فکر کی کتابیں تک رکھنا اور پڑھنا ممنوعات میں سے ہے۔ دراصل مدارس میں حریت فکر ونظر کے خاتمے میں سب سے بڑا دخل اس مسلکی کش مکش کو ہے جس کا سلسلہ انیسویں صدی کے اواخر سے اب تک جاری ہے۔مثالوں سے قطع نظر بظاہر ایسی کوئی علامت نظر نہیں آتی جس سے یہ امید قائم ہوتی ہو کہ مسلکی شدت پسندی اور تناؤ میں فی زمانہ کوئی کمی آئی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوپاک میں پابندی فکرونظر کی موجودہ صورت حال میں اس وقت تک نمایاں سطح پر تبدیلی نہیںآسکتی جب تک کہ وہاں ایک متعین فقہ پر ترکیز کے بجائے یا اس کے ساتھ خالص اسلامی فقہ یافقہ مقارن کو پڑھانے کا التزام نہ کیا جائے اور اس تناظر میں مدارس کے نصا ب میں مناسب تبدیلی نہ لائی جائے۔نیز ان کی مجموعی فضا پر حلقہ واریت کے بجائے اسلامیت کے رنگ کوپختہ کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔

تکفیر کا ظاہرہ

دور حاضر میں ہمارے علمی ودینی حلقوں میںآزادی فکرونظر کو پابند سلاسل کرنے اور اس پرقدغن لگانے کی جو کوششیں کی جاتی رہی ہیں،اس کا ایک نہایت خطرناک مظہر تکفیرکی صورت حال ہے۔اسلامی تاریخ میں صحابہ کرام کے مثالی دور میں اس کے واقعات نہیں ملتے، حالاں کہ ان کے درمیان مختلف دینی امور میں شدید ترین نظریاتی اختلافات پائے جاتے تھے۔ کبھی یہ اختلافات شدید تر بھی ہوجاتے تھے۔ حضرت قدامہ بن مظعون نے جو بدری صحابی اور ام المؤمنین حفصہ کے ماموں تھے، شراب پی اور حضرت عمر کی طرف سے اس بابت سوال اور محاسبے پر اپنے اس فعل حرام کے جواز میں قرآن کی اس آیت سے استدلال کیا: لیس علی الذین آمنوا وعملوا الصالحات جناح فیما طعموا اذا ما اتقوا (28) صحابہ کرام کے مشورے سے جس میں حضرت علی اور عبد اللہ ابن عباس شامل تھے، حضرت عمرؓ نے ان پر حد جاری کی لیکن ان کی تکفیر نہیں کی۔ سیاسی سطح پر حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے اختلافات نے تاریخ کے دھارے کو بدل کر رکھ دیا، لیکن ان نظری و سیاسی اختلافات نے کبھی تکفیر کی شکل اختیار نہیں کی۔ خوارج حضرت علیؓ، حضرت عثمانؓ سمیت اکثر صحابہ کی تکفیر کرتے اور انہیں مباح الدم سمجھتے تھے، لیکن حضرت علیؓ نے ان کی تکفیر نہیں کی۔ اس تعلق سے ایک شخص کے سوال کے جواب میں انھوں نے فرمایا کہ وہ کفر سے ہی تو بھاگے ہیں۔ (من الکفر فروا) جب ان سے پوچھا گیا کہ پھر ان پر کیا حکم لگایا جائے توانہوں نے فرمایا: اخواننا بغوا علینا‘‘،وہ ہمارے بھائی ہیں جو ہمارے خلاف باغی ہوگئے ہیں‘‘۔ (29)۔۔فقہا و محدثین کی جماعت میں اس تعلق سے احتیاط کی روش پائی جاتی تھی۔ وہ حکمِ شرعی کا اطلاق فرد کی ظاہری حالت پر کرتے ہوئے باطن کی کیفیت کو خدا پر چھوڑنے کے قائل تھے۔ اسلاف کا مسلک تھا کہ ہم ظاہر حال پر حکم لگاتے ہیں اور چھپے ہوئے احوال کو اللہ کے حوالے کردیتے ہیں۔(نحن نحکم بالظواہر ونولی الی اللہ السرائر) اس لیے جو لوگ دین کے اساسی اعتقادات پر ایمان لاتے ہوئے خود کو مسلمان کہتے تھے، انھیں مسلمان سمجھا جا تا تھا۔ یہی وجہ ہے جیسا کہ اوپرگزرا، خوارج، معتزلہ،جمہیہ، یا قدریہ جیسی جماعتوں کے ضلال وانحراف کے اظہر من الشمس ہوجانے اور ان سے ہر طرح اختلاف کے باوجود علما ئے اہل سنت اس نکتے پر متفق رہے کہ ان کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔
البتہ متاخرین فقہا میں جب تقلیدی جمود پیدا ہوا، ان کے ایک طبقے میں دنیا داری سرایت کرگئی اور اس نے بڑے بڑے سرکاری مناصب کے حصول کے لیے فقہ کو پڑھنا شروع کردیا جس پر امام غزالیؒ جیسے لوگوں نے شدید تنقید کی ہے۔ (30) اس سے علما کے درمیان حلقہ بندی میں شدت پیدا ہوئی۔ فقہ میں انتشار کی کیفیت جو بعد کے ادوار میں پیدا ہوگئی تھی، اس میں سنگین اضافہ ہوگیا اور یہ شعبہ انحطاط کا شکار ہوتا چلا گیا۔ باہمی کشمکش کے اس ماحول میں تکفیر کو ایک اہم ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ ’’الاقتصاد فی الاعتقاد‘‘ میں غزالی نے لکھا ہے کہ: ’’غلطی سے ایک ہزار کفار کو چھوڑدینا اس کے مقابلے میں ہلکا ہے کہ غلطی سے ایک مسلمان کا (اس پر کفر کے اطلاق کے بعد مرتد کی سزا کے طور پر)خون بہا یا جائے‘‘(31)فیصل التفرقۃ میں انہوں نے یہ بامعنی بات لکھی ہے کہ تکفیر میں تو خطرہ ہے، لیکن سکوت میں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ (32)
پس چہ باید کرد!
ہمارے علمی ودینی حلقوں میں فکر ونظر اور اظہار رائے کی آزادی کے تصورکی عملی سطح پر بحالی کے لیے مختلف سطحوں پر اقدامات کی ضرورت ہے ۔حقیقت یہ کہ ہم اصولی سطح پر اس کے جتنے بھی حامی و مدعی ہوں،لیکن عملی سطح پر ہم اس کے لیے تیار وآمادہ نہیں ہیں۔ہمارے علمی دوینی حلقے اس خوف واندیشے میں مبتلا ہیں کہ فکرونظر اور اظہار رائے کی آزادی مسلم معاشرے کومغرب کی راہوں پر ڈال دینے کاباعث ہوگی جس کے نتیجے میں مغرب کے نمونے پر مسلم معاشرے میں فکری اباحیت کا دروازہ کھل جائے گا۔اس میں شک نہیں کہ مغرب کے طرز پر فکرونظر کی مکمل آزادی مکمل اباحیت کا دوسرا نام ہے۔اس سلسلے میں مغرب کی تقلید نہ صرف مذہبی بلکہ انسانی اقدارو روایات اورشرافت وتہذیب کے معیارات کو بھی ملیامیٹ کرکے رکھ دے گی۔ تاہم اہمیت کی بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں خود اسلامی تہذیب کا ورثہ نہایت متمول اوروسیع ہے۔ممکن ہے اس کے بعض ادوار میں چنداں افراط و تفریط کی صورتیں بھی پائی جاتی ہوں لیکن فی نفسہ اس میں بہت حدتک اعتدال نظر آتا ہے۔عباسی دور میں مانوی،دیصانی،راوندی جیسے باطل فرقوں کی وہ کثرت تھی کہ عباسی حکم راں مہدی کوباضابطہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکوتی سطح پر الگ سے ایک شعبہ قائم کرنا پڑاجس کے تحت ایک طرف ا ن کے خلاف مقدمات قائم کیے جاتے تھے، لیکن دوسری طرف باضابطہ اہل علم سے کتابیں لکھواکر فکری سطح پران کے رد کی بھی کوشش کی جاتی تھی۔(33) ۔اس دور کے مشہور زنادقہ میں حماد عجرد، حماد الراویہ ،مطیع ابن ایاس، ابن ابی العوجاء، صالح بن عبدالقدوس اوربابک خرمی جیسوں کی ایک طویل فہرست ہے۔(34) یہ لوگ ہندوعجم کے افکارسے متاثر ہوکر اسلامی مسلمات کونشانہ بناتے تھے، لیکن اللہ کی بنائی ہوئی فطرت’’اما الزبد فیذہب جفاء واما ما ینفع الناس فیمکث فی الارض‘‘ کے تحت ان کی کتابیں فنا کے گھاٹ اترگئیں یاپھروہ آج محض تحقیق ومطالعہ کے لیے لائبریریوں کی زینت ہیں۔اسلامی سماج پران کے اثرات بعد میں باقی نہیں رہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے علمی حلقوں خصوصا مدارس و جامعات اورفکری اداروں میں آزادی فکرونظر کی روایت کودوبارہ بحال کرنے کو مرکز توجہ بنایا جائے ۔تنقید ذات (self criticism ) کو رواج دینے او رپوری جرأت وحوصلہ مندی کے ساتھ اپنے علمی وتہذیبی ورثے کی تنقیح وتنقید کی کوشش کی جائے۔یہ کام عقل و فکر اور اظہار رائے کی آزادی کے بغیرممکن نہیں ہے۔عرب ممالک کی موجودہ صورت حال طہ جابر علوانی (35) اورنجات اللہ صدیقی (36)کے مشاہدات وتجربات کی روشنی میںیہ ہے کہ وہاں طلبہ کوعلمی وفکری موضوعات پراس بات کی اجازت ہی حاصل نہیں ہے کہ وہ کھل کر ان میں غوروفکر کرسکیں اور اپنی رائے قائم کرسکیں۔ان کے لیے کسی بھی صورت میں یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ یہ لکھ سکیں کہ فلاں مسئلے میں میری رائے یہ ہے۔پی ایچ ڈی کے مناقشوں میں اس طرح کی جرأت مندی کا اظہار کرنے والوں کے مقالے کورد کردیا جاتا ہے۔ ہندوپاک کے علمی حلقوں میں بھی غالب صورت حال تقریباً یہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس صورت حال میں جب تک اعتدا ل کے ساتھ خوش گوار تبدیلی نہ آئے،اس وقت تک ہمار ا فکری قافلہ اپنی راہ پرآگے نہیں بڑھ سکتا اورہم یہ توقع نہیں کرسکتے کہ امت مسلمہ خود مسلط کردہ تہذیبی زوال کے دائروں سے خود کونکال پائے گی۔ 

حواشی وحوالہ جات

(1) رسول اللہ کی مشہور حدیث ہے: افضل الجہاد کلمۃ حق عند سلطان جائر۔ مسلم
(2) رسول اور اصحا ب رسو ل کی سیرت کے مقابلے میں یہ موضوع حدیث امت میں پھیلانے کی کوشش کی گئی کہ: عورتوں سے مشورہ اور وہ جوکچھ وہ مشورہ دیں ان کے خلاف کرو (شاوروہن وخالفوہن)
(3) احمد بن حنبل : جلد 5مسند احمد، بیروت، دارالکتب العلمیہ،2008،ص،236
(4) ابو حامد الغزالی :المستصفی ج: 2 ،بیروت :دارالکتب العلمیہ،1413ص،355
(5) طہ جابر علوانی: اشکالیۃ الرد ۃ و المرتدین من صدر الاسلام الی الیوم ۔قاہرہ،مکتبہ الشروق الدولیہ، ،2006 ص،138
(6) : ایضا ص165
(7) ایضا ص،166بحوالہ عمدۃ القاری ج، ۱۱ ص،235۔
(8) یوسف قرضاوی :فی فقہ الاولویات : قاہرہ، مکتبہ وہبہ2005 ص140
(9) ایضا
(10) قرطبی: الجامع لاحکام القرآن: دارالکتب العلمیہ،بیروت،1988،ج،3 ص182-183
(11) ابویوسف:کتاب الخراج ،مکتبہ مشکا ۃ الاسلامیۃ روایت نمبر32 ص12،یہ کتاب ہم نے نیٹ سے ڈاؤن لوڈ کی ہے اور اس نسخے میں دیگرتفصیلات درج نہیں ہیں۔
(12) قرطبی :ج،20 ص،172
(13 ابن تیمیہ : قاعدۃ جلیلہ فی التوسل والوسیلہ لاہور: ادارہ ترجمان السنۃ بدون سنہ ص103-104
(14) ابن قیم : حادی الارواح الی بلاد الافراح مکتبہ المتنبی ،قاہرہ بدون سن ص،247 - ابن قیم نے اپنے استاذ علامہ ابن تیمیہ اور اپنے موقف کی حمایت میں اس کتاب میں نہایت تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے۔یہ موقف جمہورامت سے یقیناًہٹا ہوا ہے، لیکن ابن قیم کی اس موضوع پر بحث (دیکھیے مذکورہ کتاب ص،246 تا 271) پڑھنے کے لائق ہے۔یوسف قرضاوی :فتاوی یوسف قرضاوی ،(اردو ترجمہ ’’فتاوی معاصرہ ‘‘ مترجم سید زاہد اصغر فلاحی)، دہلی : مرکزی مکتبہ اسلامی ،2005ص62
(15) طہ جابر علوانی : ادب الخلاف، ورجینیا،امریکا، المعہد العالمی للفکر الاسلامی 1991 ص،63
(16) جمال بنا: حریۃ الفکر والاعتقاد فی الاسلام، قاہرہ: دارالفکر الاسلامی، بدون سنہ
(17) سیر اعلام النبلاء: بحوالہ http://ar.wikisource.org 
مزید تفصیل اس سائٹ پر موجود ہے: http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showthread.php?t=283236
(18)محمد بن اسماعیل البخاری : الجامع الصحیح :کتاب اللباس ،باب لبس الحریر وافتراشہ للرجال وقدر مایجوز منہ ،دار عالم الکتب ،ریاض1996 جلد ،7ص،45۔فتح الباری میں ابن حجر نے اس روایت کے تحت عمران بن حطان پرگفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے:
و عمران ہوالسدوسی کان احد الخوارج من العقدیۃ بل ہو رئیسہم وشاعرہم و ہو الذی مدح ابن ملجم قاتل علی بالابیات المشہورۃ و ابو حطان... وانما اخرج لہ البخاری علی قاعدتہ فی تخریج احادیث المبتدع اذا کان صادق اللہجۃ متدینا وقد قیل ان عمران تاب من بدعتہ وہو بعید۔ (فتح الباری بشرح صحیح البخاری، ج،8 ص،338 ۔دیوبند:مکتبہ شیخ الہند،2006) 
اہل بدعت کے تعلق سے محدثین کے موقف پرابو داؤد کے اس قول سے روشنی پڑتی ہے: امام ابو داؤد نے فرمایا: 
’’لیس فی اہل الاہواء اصح حدیثا من الخوارج‘‘اہل ہویٰ کے اندر حدیث کی روایت میں خوارج سے زیادہ صحیح فرقہ کوئی اور نہیں ہے۔ (سیر اعلام النبلا ء، ج ۴ ص، 214 موسسہ الرسالہ ط ۳ 1985) 
(19) مقالہ’’ اہل بدعت کی روایات‘‘: ماہنامہ الندوۃ،اسلام آباد،دسمبر2011 ص،11
(20) الصحیح البخاری ،حدیث نمبر3197
(21) ہدی الساری مقدمہ فتح الباری، دیوبند :مکتبۃ شیخ الہند،2006 دیکھیے الفصل التاسع ص،535-540 
(22) ایضا،ص،465-466
(23) ایضا ص،455
(24) بخاری کتاب الفتن باب ظہور الفتن ج،8 ص،89
(25) اس کتاب کے مصنف محمد عیسی انصاری ہیں۔کتاب مکتبہ فہم قرآن وسنہ ،لاہور، سے 2011 میں شائع ہوئی ہے۔
(26) سیر اعلام النبلاء ج،10 ص،16
(27) ابو حامدغزالی : فیصل التفرقہ بین الاسلام والزندقہ،تعلیق و تخریج: محمود بیجو، مکتبہ دار البیروتی ، ط:1، ۱۹۹۲، ص،61 ص،23
(28) قرطبی:ج،ص،192
(29) ابوبکر عبدالرزاق بن الہمام: مصنف عبد الرزاق ج،10، المجلس العلمی ،جنوب افریقیاص، 150
(30) غزالی:احیاء العلوم،مکتبہ مطبعہ کریاتہ فوترا،سماروغ ،اندونیشیا،بدون سن ج،1،ص،22
(31) الاقتصاد فی الاعتقاد، (ضبطہ و قدم لہ :مونس الفوزی الجسر) ط،1،1994، ص، 211
(32) فیصل التفرقہ بین الاسلام والزندقہ۔ 61 ۔ تکفیر کے مسئلے پر علما ے سلف میں غزالی نے نہایت متوازن اور روادارانہ موقف اس کتاب میں اختیار کیا ہے۔ غزالی کے موقف پر تجزیاتی مطالعہ کے لیے دیکھیے راقم کا مضمون: ’’غزالی اور مسئلہ تکفیر‘‘، سالنامہ کتابی سلسلہ ’’ الاحسان ‘‘ الہ اباد:شاہ صفی اکیڈمی 2012
(33) احمد امین :ضحی الاسلام ،قاہرہ ،مکتبہ النہضۃ المصریۃ بدون سنہ ج،۱ ص۔140-141
(34) ایضا 
35۔ طہ جابر علوانی: ’’جدید فکری بحران نشاند ہی اور حل‘‘ اردو ترجمہ :عبدالحفیظ رحمانی، نئی دہلی :قاضی پبلشرز،1994 ،ص 41-42
36۔ حوالے کے لیے دیکھیے انٹرویو: یوگیندر سکنداز نجات اللہ صدیقی 
http://www.lubnaa.com/article.php?id=65

بر صغیر کی دینی روایت میں برداشت کا عنصر (۲)

مولانا مفتی محمد زاہد

بر صغیر میں فرقہ وارانہ تقسیم کا ایک اہم زاویہ حنفی اور اہلِ حدیث تقسیم ہے۔ اگرچہ دونوں طرف کے حضرات کے درمیان مناظرہ بازی اور کبھی کبھار دشنام بازی بھی ہوتی رہی ہے، لیکن دونوں طرف کے سنجیدہ اور راسخ علم رکھنے والی شخصیات نے ہمیشہ نہ صرف یہ کہ اس اختلاف کو اپنی حدود میں رکھنے کی کوشش کی بلکہ ایک دوسرے کے احترام کی مثالیں بھی قائم کیں۔ اس سلسلے میں چند واقعات کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔
حنفی، اہلِ حدیث اختلاف کا ایک اثر جو دینی مدارس میں درس و تدریس کے ماحول پرمرتب ہوا اور پھر عوامی ماحول بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا، یہ تھا کہ درس و تدریس بالخصوص حدیث کی تدریس کا ایک بڑا حصہ نمازمیں رفع یدین ، آمین بالجہر جیسے چند ایسے مسائل پر صرف ہونے لگا کہ جن میں عہدِ صحابہ سے دونوں طرح کے عمل چلے آرہے ہیں اور دونوں طرف حدیثیں بھی موجود ہیں۔ ان مسائل پر بحث اس انداز ہونے لگی کہ ہر فریق یہ ثابت کرنے کی کوشش میں لگارہا کہ ذخیرۂ حدیث صرف اور صرف اسی کے موقف کی ترجمان ہے، دوسرے فریق کے پاس کچھ موجود نہیں۔ دوسرا فریق جن احادیث کو اپنی دلیل سمجھ رہا ہے، یہ محض اس کی خام خیالی ہے جبکہ یہ بات حقیقت کے بالکل خلاف ہے۔ تاہم درس و تدریس کے حلقوں میں اصل حقیقت کا ادراک بھی موجود رہاہے۔ مولانا مناظر احسن گیلانی اپنے استاذ شیخ الہند مولانا محمود حسن ؒ کا طرزِ تدریسِ حدیث بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’جب کوئی ایسی حدیث آجاتی جو بظاہر مفہوم کے لحاظ سے قطعی طور پر حنفی مذہب کے خلاف ہوتی اور پڑھنے والا طالب علم خود رک کر دریافت کرتایا دوسرے طلبہ پوچھتے ’’حضرت یہ حدیث تو امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے قطعاً خلاف ہے‘‘۔ جواب میں مسکراتے ہوئے بے ساختہ شیخ الہندؒ کی زبانِ مبارک سے یہ الفاظ نکلتے ’’ خلاف تو ہے بھائی! میں کیا کروں ؟ہاں آگے چلیے‘‘(۲۵)۔
بظاہر کہنے کامقصدیہ تھاکہ یہ کوئی اچنھے کی بات نہیں ہے ۔اجتہادی اختلافی مسائل میں توایساہوتاہی ہے کرہرفریق کے پاس کوئی نہ کوئی دلیل ہوتی ہے اورہرفریق کی دلیل بظاہر دوسرے فریق کے خلاف ہوتی ہے، اس لیے ایسے مسائل میں یہ توقع رکھناکہ ہمارے خلاف کوئی دلیل نہ ہو، اس کامطلب یہ بنتاہے کہ دلیل صرف ہمارے پاس ہو، دوسرے فریق کے پاس نہ ہو۔ اگرایساہوتاتو اس مسئلے میں اختلاف ہی کیوں ہوتا۔
مولانا اشرف علی تھانویؒ متصلب اور متبحر حنفی علما میں شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے فقہ حنفی کی تائید میں اعلاء السنن جیسی ضخیم کتاب بھی تالیف کروائی۔ اس کے باوجود بعض اہلِ حدیث حضرات ان کے حلقۂ ارادت میں شامل تھے اور مولانا تھانوی کی طرف سے ان کی خانقاہ میں رفع یدین وغیرہ پرکوئی پابندی نہیں تھی ۔ اہلِ حدیث اور حنفی حضرات میں جن مسائل پر بحث مباحثے کا بازار گرم رہتاہے، یہ وہ مسائل ہیں جو عہدِ صحابہ و تابعین اور ائمہ مجتہدین کے دور ہی سے مختلف فیہ چلے آرہے ہیں۔ مولانا تھانوی ان مسائل کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں، اس کے بارے میں ان کے ایک وعظ سے اقتباس ملاحظہ ہو : 
’’یہ بھی وجہ ہے ہندوستان میں تقلیدِ مذہبِ حنفی کے وجوب کی کہ یہاں رہ کر کسی دوسرے مذہب پر صحیح عمل نہیں ہوسکتا، کیونکہ ہندوستان کے اکثر علما حنفی ہیں، اور یہاں کتابیں بھی فقہِ حنفی کی زیادہ ملتی ہیں۔ اساتذہ بھی اسی فقہ کے میسر ہو سکتے ہیں، دوسرے فقہ کی نہ زیادہ کتابیں یہاں موجود ہیں ، نہ ان کے پڑھانے والے میسر آسکتے ہیں ، تو عمل کی کیا صورت ہو ۔ ہمارے ایک مہربان مکہ مکرمہ جاکر شافعی بن آئے ہیں۔ یہ تو کوئی ملامت و طعن کی بات نہیں تھی۔ اگر تحقیق کے ساتھ دوسرے مذہب کو اختیار کیا جائے تو کچھ مضائقہ نہیں۔ مذاہبِ اربعہ سب حق ہیں۔ ہاں، تلعب بالمذاہب البتہ حرام ہے کہ اس کو کھیل بنا لیا جائے‘‘ (۲۶)۔
اس سے زیادہ وضاحت کے ساتھ یہ بات مولانا تھانوی ہی کے ایک فیض یافتہ مولانا حبیب احمد کیرانوی نے انہی کی سرپرستی میں لکھی جانے والی کتاب ’’إعلاء السنن ‘‘ کے فقہی مقدمے میں لکھی ہے ۔ مولانا حبیب احمد کیرانوی نے پہلے تو مختلف فقہوں کے مقلدین کے اس دعوے اور دلیلوں کو ذکر کیا ہے کہ ان کے بقول ان کے امام کی فقہ سب سے افضل ہے۔ یہ باتیں نقل کرنے کے بعد مولانا نے بڑی وضاحت کے ساتھ ان کی تردید کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ بذاتِ کسی امام کی فقہ کو دسرے امام کی فقہ پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے۔ اسی سلسلے میں وہ فرماتے ہیں : 
والحق أن الأئمۃ المقتدی بہم فی الدین کلّہم علی ہدی مستقیم ، فأیّ مذہب من مذاہبہم کان شائعا فی بلد من البلاد وفی العلماء بہ کثرۃ یجب علی العامی اتباعہ، ولا یجوز لہ تقلید إمام لیس مذہبہ شائعا فی بلدہ ولا فی العلماء بہ کثرۃ؛ لتعذر الوقوف علی مذہب ذلک الإمام فی جمیع الأحکام والحال ہذہ، فافہم، فإن الحق لایتجاوز عنہ إن شاء اللہ تعالی، ولو شاعت المذاہب کلّہا فی بلد من البلاد واشتہرت، وفیہ من العلماء بکل مذہب عدد کثیر جاز للعامی تقلید أیّ مذہب من المذاہب شاء، وکلُّہا فی حقہ سواء، ولہ أن لا یتمذہب بمذہب معین، ویستفتی من شاء من علماء المذاہب، ہذا مرۃ وذلک أخری، کما کان علیہ السلف الصالح رضی اللہ عنہم، بشرط أن لا یلفّق بین مذہبین فی عمل واحد، ولا یتتبع الرخص متبعا ہواہ، لأن ذلک من التلہی وہو حرام بالنصوص 
’’صحیح بات یہ ہے کہ جن ائمہ کی بھی اقتدا کی جاتی ہے، وہ سارے کے سارے سیدھے راستے پر ہیں ، لہٰذا ان کے مذاہب میں سے جس کا مذہب بھی کسی علاقے میں مروّج ہو اور وہاں اس مذہب کے جاننے والوں کی کثرت ہو تو عامی پر اس مذہب کی اتباع واجب ہے ، اور اس کے لیے ایسے امام کی تقلید درست نہیں ہے جس کا مذہب وہاں عام نہ ہو اور اس مذہب کے جاننے والے کثرت سے موجود نہ ہوں، اس لیے کہ ایسی حالت میں تمام احکام میں اس امام کے مذہب کو جاننا انتہائی دشوار ہوگا۔ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لو ، اس لیے کہ ان شاء اللہ حق اس سے متجاوز نہیں ہوگا ۔ اور اگر کسی علاقے میں تمام مذاہب رائج اور مشہور ہوں اور ہر مذہب کے جاننے والے علما بھی وہاں کثیر تعداد میں موجود ہوں تو عامی کے لیے بھی جائز ہے کہ وہ ان مذاہب میں سے جس مذہب کی چاہے تقلید کرلے ، اور یہ سارے مذاہب اس کے حق میں برابر ہیں ، اور اس کے لیے یہ بھی جائز ہے کہ کسی متعین مذہب کو اختیار نہ کرے ، بلکہ مختلف مذاہب کے علما میں سے جس سے چاہے مسئلہ دریافت کرلے ، کبھی اِ س سے ، کبھی اُس سے ، جیسا کہ سلفِ صالحین کا طریقہ تھا ، بشرطیکہ ایک ہی عمل میں دو مذہبوں کے درمیان تلفیق نہ کرے اور اپنی خواہشات کی پیروی کی خاطر رخصتوں کا متلاشی نہ بنے ، اس لیے کہ یہ دین کو کھلونا بنانا ہے، جو نصوص کی رو سے ناجائز ہے۔‘‘ (۲۷) 
یہاں ایک معروف حنفی عالم مولانا احمد علی لاہوریؒ اور ایک اہلِ حدیث عالم مولانا سید داؤد غزنویؒ کا واقعہ قابل ذکر معلوم ہوتا ہے۔ مولانا لاہوری کے جاری کردہ جریدے ’’خدام الدین‘‘ سے اسے بعینہ یہاں نقل کیا جاتا ہے:
’’اہلِ حدیث عالم حضرت مولانا سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ نے ایک دفعہ اطلاع بھجوائی کہ فلاں روز وہ اپنے رفقا کے ساتھ شیرانوالا تشریف لائیں گے ۔ حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ نے اپنے مریدین تلامذہ اور عقیدت مندوں کو حکم فرمایا کہ مولانا سید داؤد غزنوی صاحب اور ان کے ساتھی جس نماز میں ہمارے ساتھ شامل ہوں تو آپ سب لوگ ان کے مسلک کے احترام میں رفعِ یدین کریں اور آمین بالجہر کہیں تاکہ ہمارے مہمانوں کو یہاں کوئی اجنبیت محسوس نہ ہو۔ جبکہ مولانا سید داؤد غزنوی پہلے ہی اپنے ساتھیوں کو تاکید فرما چکے تھے کہ شیرانوالا میں میرے ساتھ نماز پڑھتے ہوئے آپ لوگ نہ رفع یدین کریں، نہ اونچی آواز سے آمین کہیں، کیونکہ مولانا احمد علی حنفی مسلک ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس رواداری اور احترامِ مسلک کا یہ عجیب منظر دیکھا کہ حنفی مسلک نمازی رفع یدین کررہے ہیں اور آمین بلند آواز سے پڑھ رہے ہیں جبکہ اہلِ حدیث مہمانوں نے اپنے میزبان کے اکرام میں نہ رفعِ یدین کیا نہ آمین بالجہر پڑھی۔‘‘ (۲۸)
ایک معروف صاحبِ دل اہلِ حدیث عالم مولانا ابوبکر غزنوی کے جماعتِ اہلِ حدیث سے ایک خطاب کے کچھ اقتباسات نقل کرنا بھی مناسب معلوم ہوتاہے۔ عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ اپنے مخاطبین سے وہی باتیں کی جاتی ہیں جو وہ سننا چاہیں تاکہ ان کی نظر میں مقبولیت میں کمی واقع نہ ہو، اس لیے عموماً دوسرے فرقے کی خامیاں زیادہ بیان کی جاتی ہیں۔ لیکن اس خطاب میں مولانا ابوبکر غزنوی نے دوسرا انداز اختیار کیا ہے۔ یہ اقتباس پیش کرکے دکھانا یہ مقصود ہے کہ ہر مکتبِ فکر میں ایسے سنجیدہ علما موجود رہے ہیں جو دوسروں پر طعن وتشنیع کرنے کی بجائے اپنے حلقوں میں پائی جانے والی کوتاہیوں کی نشان دہی کرتے ہیں۔ یہ کام اگرچہ مشکل ہے لیکن اگر علما کی بڑی اکثریت وہ طرز اختیار کرلے جو مولانا غزنوی کی آنے والی دل سوز عبارتوں سے واضح ہوتا ہے تو بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں : 
’’دوستو! وعظ کیا ہے ، روحانی اور اخلاقی بیماریوں کی تشخیص کرنا اور دوا دینا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دوا تلخ ہوتی ہے اور بیمار ناک بھوں چڑھاتا ہے، لیکن مشفق طبیب کو چاہیے کہ دوا کو حلق میں انڈیل دے۔ مریض کو جب شفا ہوجاتی ہے تو دعا دیتاہے۔ دوستو! اگر مریض کو زکام ہو اور طبیب اسے معدے کی دوا دے تو اس کی نااہلی میں شک وشبہ کی کیا گنجائش باقی رہتی ہے؟اپنی اور سامعین کی جو بیماریاں ہوں انہیں ڈھونڈھنا اور ان کی دوا دینا یہ وعظ ہے۔ ۔۔وہ واعظ دنیا دار ہے جس کا منتہائے نظر یہ ہو کہ دھواں دھار تقریر کی جائے، جذبات کو بھڑکا دیا جائے نہ اپنے کو فائدہ نہ دوسرے کو فائدہ۔آج کل تو سر دُھننا ، وجد میں آنا، نعرے لگانا، ہاؤ ہو کرناوعظ کے لوازمات بن کررہ گئے ہیں۔ میری نظر میں وعظ تو یہ ہے کہ بیماریوں کو چن چن کر بیان کیا جائے اور ان کا علاج کیا جائے۔‘‘ 
اپنے حلقۂ خطاب یعنی جماعتِ اہلِ حدیث کو توحید کے حقیقی تقاضوں کی طرف متوجہ کرنے کے بعد فرماتے ہیں : 
’’ووسری بات یہ عرض کرتا ہوں کہ موحد ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی بے مہار ہوجائے ۔ رسیاں تڑوا بیٹھے۔ بے ادب اور گستاخ ہوجائے ۔ اہل اللہ کی شان میں گستاخیاں کرے ۔ محسنوں کا گریبان پھاڑے اور سمجھے کہ میں توحید کے تقاضے پورے کررہاہوں۔ دوستو! میرا کام مرض کی تشخیص اور اس کا علاج ہے۔ گو مریض چیخے ، چلائے ، ناک بھوں چڑھائے۔ مشفق ڈاکٹر وہ ہے جو حلق میں دوا انڈیل دے۔ آج تم کسمساؤگے ، مضطرب ہو گے، زانو بدلوگے۔ مگر کچھ عرصے کے بعد مجھے دعا دو گے اور کہوگے کہ بات ٹھیک کہہ گیا تھا۔ جب مریض شفا یاب ہوجاتا ہے تو کڑوی دوا دینے والے کو بھی دعا دیتا ہے۔
’’دوستو! کچھ حدیثیں ایک مسجد میں بیان ہوتی ہیں ، کچھ دوسری مسجد میں بیان ہوتی ہیں۔ اور کچھ ایسی ہیں جو کہیں بیان نہیں ہوتیں۔ اس لیے کہ ان کا بیان کرنا فرقہ وارانہ مصلحت کے خلاف سمجھتے ہیں۔‘‘ 
اس کے بعد مولانا غزنوی نے تفصیل سے وہ حدیثیں پیش کی ہیں جن سے صحابہ کرام کی ادب اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ والہانہ لگاؤ کی شان سمجھ آتی ہے تاکہ اپنے مخاطبین کو اس طرف متوجہ فرمائیں۔ اس کے بعد ’’ارواحِ ثلثہ‘‘ اور دیگر کتب کے حوالے سے بڑوں اور بزرگانِ دین کے ادب کے حوالے سے اپنے اکابر کے واقعات بیان فرمائے ہیں۔ یاد رہے کہ ’’ارواح ثلاثہ‘‘ مولانا اشرف علی تھانوی کی تالیف ہے جس میں اولیائے امت بالخصوص برصغیر کے آخری دور کے بزرگوں کے واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ عام تاثر یہ ہے کہ اہلِ حدیث حضرات اس طرح کی کتابوں کا مذاق اڑاتے ہیں ، لیکن مولانا غزنوی کا مذکورہ بیان پورا پڑھنے سے اس تاثر کی بالکلیہ نفی ہوتی ہے۔
اس کے بعد مزید فرماتے ہیں : 
’’دوستو! یہ فقرہ غور سے سنیں۔ موحد ہوتے ہوئے مؤدب ہونا اور مؤدب ہوتے ہوئے موحد ہونا بہت بڑی سعادت ہے۔ کچھ لوگوں کو توحید کی شد بد ہوتی ہے تو ادب کی لطافتوں اور باریکیوں سے محروم ہوتے ہیں۔ اور کچھ لوگوں کو ادب کی شد بد ہوتی ہے تو توحید کے معارف سے محروم ہوتے ہیں۔ مؤدب ہوتے ہوئے موحد ہونا اور موحد ہوتے ہوئے مؤدب ہونا یہ بہت بڑی سعادت ہے۔ دوستو! اور میں خدا سے اس سعادت کی بھیک مانگتاہوں۔‘‘
مزید فرماتے ہیں: 
’’اور ہم جو اتباعِ سنت پر زور دیتے ہیں تو کیا سچ مچ سنت کی پیروی ہمارا شعار ہے؟ کیا چند فروعی مسائل پر جھگڑا اتباعِ سنت ہے؟‘‘
اپنے حلقے کے لوگوں کو ذکر اللہ کی اہمیت کی طرف متوجہ کرتے ہوئے ، اس حوالے سے ہونے والی سستی اور کوتاہی کا شکوہ کرتے ہوئے اور اپنے بزرگوں کے اہتمامِ ذکر اور استغراق فی الذکر کے واقعات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’یہ تھے ہمارے اسلاف۔ ہم تو دنگا فساد لڑائی جھگڑے میں پڑگئے۔ میں نے دیکھا کہ ایک آدمی دوسرے کی کھِلّی اڑارہا تھا اور اس پر پھبتی کس رہا تھا کہ تمہارا درود غیر مسنون ہے او رتم بدعتی ہو۔ میں نے اسے کہا کہ بھائی آج جمعہ تھا۔ خود تم نے کتنا درود پڑھا؟ یہ تو تم نے کہا کہ اس نے غلط درود پڑھا، مگر تمہاری اپنی زبان بھی ساکت وصامت تھی۔ مسنون درود پڑھنے کی تمہیں ایک بار بھی توفیق نہیں ہوئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اکثروا علی الصلاۃ یوم الجمعۃ (جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو‘‘ (۲۹)۔
اب آتے ہیں دوسری طرف۔ مولانا علامہ انور شاہ کشمیریؒ کا قریب کے زمانے کے محدثین میں جو مقام ہے، وہ اسلامی علوم کے کسی بھی طالب علم سے مخفی نہیں۔علمِ حدیث کے علاوہ کے فقہ حنفی پر بھی ان کے احسانات محتاجِ بیان نہیں۔ دینی مدارس میں علمِ حدیث کی تدریس کے دوران عموماً زیادہ زور ائمہ مجتہدین کے درمیان مختلف فیہ مسائل پر دیا جاتا ہے۔انہی میں کچھ مسائل وہ ہیں جو حنفی اور اہلِ حدیث حضرات کے درمیان بحث مباحثے کا موضوع بنتے رہتے ہیں۔ یقیناًشاہ صاحب ؒ نے ان مسائل پر مفصل بحثیں کیں۔ اگرچہ شاہ صاحب نے کبھی انصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا، پھر بھی ان تمام بحثوں کے بارے میں ان کے احساسات کیا تھے، اس کا اندازہ انہی کے شاگردِ مولانا مفتی محمد شفیع ؒ کے بیان سے ہوسکتاہے جو انہی کے الفاظ میں یہاں نقل کیا جارہا ہے:
’’قادیان میں ہر سال ہمارا جلسہ ہوا کرتا تھااور سیدی حضرت مولانا سید محمد انور شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی اس میں شرکت فرمایا کرتے تھے۔ ایک سال اسی جلسہ پر تشریف لائے۔ میں بھی آپ کے ساتھ تھا۔ ایک صبح نمازِ فجر کے وقت اندھیرے میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ حضرت سر پکڑے ہوئے بہت مغموم بیٹھے ہیں۔ میں نے پوچھا حضرت کیسا مزاج ہے۔ کہا ، ہاں ! ٹھیک ہی ہے۔ میاں مزاج کیا پوچھتے ہو۔عمر ضائع کردی۔
میں نے عرض کیا حضرت! آپ کی ساری عمر علم کی خدمت میں دین کی اشاعت میں گذری ہے ، ہزاروں آپ کے شاگرد علماء ہیں، مشاہیر ہیں جو آپ سے مستفید ہوئے اور خدمتِ دین میں لگے ہوئے ہیں۔ آپ کی عمر اگر ضائع ہوئی تو پھر کس کی عمر کام لگی؟
فرمایا: میں تمہیں صحیح کہتا ہوں ، عمر ضائع کردی۔
میں نے عرض کیا : حضرت بات کیا ہے؟
فرمایا ہماری عمر ، ہماری تقریروں کا ، ہماری ساری کد وکاش خلاصہ یہ رہا کہ دوسرے مسلکوں پر حنفیت کی ترجیح قائم کردیں۔ امام ابو حنیفہ کے مسائل کے دلائل تلاش کریں۔ یہ رہا ہے محور ہماری کوششوں کا ، تقریروں کا اور علمی زندگی کا۔
اب غور کرتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ کس چیز میں عمر برباد کی ۔ ابو حنیفہؒ ہماری ترجیح کے محتاج ہیں کہ ہم ان پر احسان کریں؟ اللہ تعالیٰ نے انہیں جو مقام دیا ہے، وہ مقام لوگوں سے خود اپنا لوہا منوائے گا۔ وہ تو ہمارے محتاج نہیں۔۔۔
پھر فرمایا :
ارے میاں اس کا تو حشر میں راز نہیں کھلے گا کہ کونسا مسلک صواب تھا اور کون سا خطا اجتہادی مسائل۔ صرف یہی نہیں کہ دنیا میں ان کا فیصلہ نہیں ہوسکتا ، دنیا میں بھی ہم تمام تر تتحقیق و کاوش کے بعد یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ بھی صحیح یا یہ یہ صحیح ہے ، لیکن احتمال موجود ہے کہ یہ خطا ہو ۔ اور وہ خطا ہے کہ اس احتمال کے ساتھ کہ صواب ہو۔ دنیا میں تو یہ ہے ہی ، قبر میں منکر نکیر نہیں پوچھیں گے کہ رفع یدین حق تھا یا ترکِ رفع یدین حق تھا۔ آمین بالجہر حق تھی یا بالسرحق تھی۔ برزخ میں بھی اس کے متعلق سوال نہیں کیا جائے گا۔اور قبر میں بھی یہ سوال نہیں ہوگا۔
اللہ تعالی شافعی کو رسوا کرے گا نہ ابو حنیفہ کو نہ مالک کو نہ احمد بن حنبل کو۔ جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کے علم کا انعام دیا ہے ، جن کے ساتھ اپنی مخلوق کا بہت بڑے حصے کو لگا دیا ہے ، جنہوں نے نورِ ہدایت چار سو پھیلایا ہے، جن کی زندگیاں سنت کا نور پھیلانے میں گزریں ، اللہ تعالی ان میں سے کسی کو رسوا نہیں کرے گا۔ وہاں میدان محشر میں کھڑا کر کے یہ معلوم کرے کہ ابو حنیفہ نے صحیح کہا تھا یا شافعی نے غلط کہا تھایا اس کے بر عکس، ایسا نہیں ہو گا۔
تو جس چیز کو نہ دنیا میں نکھرنا ہے ، نہ برزخ میں ، نہ محشر میں، اسی کے پیچھے پڑ کر ہم نے اپنی عمر ضائع کردی۔ اپنی قوت صرف کردی اور جو صحیح اسلام کی دعوت تھی مجمع علیہ اور سبھی کے مابین جو مسائل متفقہ تھے اور دین کی جو ضروریات سبھی کے نزدیک اہم تھیں، جن کی دعوت انبیائے کرام لے کر آئے تھے ، جن کی دعوت کو عام کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا تھا اور وہ منکرات جن کو مٹانے کا کی کوشش ہم پر کی گئی تھی، آج یہ دعوت تو نہیں دی جارہی، یہ ضروریاتِ دین تو لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل رہی ہیں، اور اپنے و اغیار ان کے چہرے کو مسخ کررہے ہیں، اور وہ منکرات جن کو مٹانے میں ہمیں لگے ہونا چاہیے تھا، وہ پھیل رہے ہیں اور گمراہی پھیل رہی ہے ، الحاد آرہاہے، شرک وبت پرستی چل رہی ہے، حرام وحلال کا امتیاز اٹھ رہا ہے، لیکن ہم لگے ہوئے ہیں ان فروعی بحثوں میں۔
شاہ صاحب نے فرمایا: یوں میں غمگین بیٹھا ہوں اور محسوس کررہاہوں کہ عمر ضائع کردی۔‘‘ (۳۰)
خود حنفی حضرات میں اختلاف کا ایک دائرہ دیوبندی بریلوی اختلاف ہے۔ اس اختلاف کے بنیادی طور پر تین محور ہیں۔ ایک یہ کہ بعض رسوم وعادات کو اکثر دیوبندی علما نے بدعت سمجھتے ہوئے اپنے پیرو کاروں کو ان سے منع کیا ہے، جبکہ بریلوی علما ان رسوم وعادات کو بدعت نہیں سمجھتے بلکہ متعدد مصالح کی بنیاد پر انہیں اختیار کیے ہوئے ہیں۔ جن علما نے ان کاموں کاموں کو بدعت قراردیا، اس کا مطلب بھی یہ تھا کہ جو لوگ ہماری تحقیق اور رائے پر عمل کرنا چاہیں، وہ ان سے گریز کریں نہ یہ کہ دوسروں کو بھی زبردستی ان سے روکنے کی کوشش کی جائے۔اس لیے کہ جو لوگ یہ کام کرتے ہیں وہ انہیں بدعت سمجھ کر نہیں کرتے اور شروع میں سلف کا یہ مزاج بیان کیا جاچکاہے کہ اپنی رائے کو دوسرے پر مسلط نہیں کیا جاتا۔ راقم الحروف نے بعض ثقہ راویوں سے سنا ہے کہ ایک دفعہ کچھ حضرات مولانا مفتی محمد حسنؒ بانی جامعہ اشرفیہ لاہورکے پاس ایک فتویٰ تصدیق کرانے کے لیے لائے جس کا حاصل یہ تھا کہ بارہ ربیع الاول کو نکالا جانے والا جلوس بدعت ہے۔ بظاہر وہ لوگ اس فتوے کی رو سے اس جلوس کو رکوانا چاہتے ہوں گے۔ مفتی صاحبؒ نے اس پر دستخط کرنے سے یہ کہتے ہوئے انکار فرمادیا کہ بھائی اس دور جو جس طریقے سے بھی اللہ رسول کا نام لیتا ہے، اسے لینے دو۔
دیوبندی اور بریلوی اختلاف کا دوسرا محور بعض نظریاتی مسائل ہیں ، جیسے حاضر و ناظر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عالم الغیب ہونے کا مسئلہ۔ ان مسائل میں بھی اگر دونوں طرف کے جید علما کی تحریروں کو سامنے رکھا جائے تو شاید اختلاف اتنا گہرا نہیں ہوگا جتنا تاثر پیدا ہوگیاہے۔
اس اختلاف کا تیسرا محور تکفیر کا فتویٰ ہے۔ مولانا احمد رضا خاں بریلوی نے علمائے دیوبند کی بعض عبارات کو بنیاد بنا کر ان پر کفر کا فتویٰ جاری کیا۔ دوسری طرف دیوبندیوں میں بھی بعض حضرات ایسے موجود رہے ہوں گے جو بریلویوں کو مشرک قرار دیتے ہوں گے۔ یہ یقیناًبڑا سنگین معاملہ ہے۔ اس لیے کہ ایک دوسرے کے ایمان پر شکوک وشبہات پیدا کردینا کوئی معمولی بات نہیں، لیکن اس کے باوجود یہ خوش گوار حیرت کی بات ہے کہ یہ اختلاف بھی دونوں طرف کے سنجیدہ علما کے تلخی اور کشیدگی کا باعث نہیں بنا۔ چنانچہ بریلوی علما مولانا احمد رضا خاں بریلوی کو اپنا مقتدا مانتے اور ان کی بہت زیادہ عزت وتوقیر کرتے ہیں ، اس کے باوجود عملی طور پر ان کے فتوی تکفیرسے متفق نظر نہیں آتے۔ اس لیے سنجیدہ بریلوی علما دیوبندیوں کے ساتھ کافروں والا برتاؤ اور معاملہ کبھی نہیں کرتے۔
اسی طرح جن کے خلاف تکفیر کے یہ فتوے جاری کیے گئے تھے، انہوں نے بھی اسے مناسب محمل پر محمول کرکے بات کو زیادہ بگڑنے نہیں دیا۔ مثال کے طور پر جن کے خلاف تکفیر کے فتوے دیے گئے، ان میں ایک نام مولانا اشرف علی تھانویؒ کا ہے۔ راقم الحروف نے مولانا تھانویؒ کے متعدد خلفا سے سنا کہ مولانا تھانوی فرمایا کرتے تھے کہ جنہوں نے واقعی مجھے کستاخِ رسول سمجھ کر میرے خلاف فتوے دیے ہیں ، اگرچہ یہ بات امرِ واقعہ کے خلاف ہے لیکن ان کو بہر حال غلط فہمی ہوگئی، اس لیے میں انہیں اس میں معذور سمجھتاہوں ، نہ صرف معذور بلکہ ماجور سمجھتا ہوں۔ یعنی انہیں اس فتوے پر بھی اجر ملے گا۔ اس حوالے مولانا تھانوی کے دوخلفا مولانا مفتی محمد حسن ؒ اور حاجی محمد شریف ؒ کا مکالمہ پیش خدمت ہے۔ حاجی محمد شریف ؒ لکھتے ہیں:
’’ایک دفعہ میں لاہور میں حضرت مفتی صاحب ؒ کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا ۔ عصر کی اذان ہوئی اور تمام حضرات اٹھ گئے۔ مجھے عصر کے بعد فیصل آباد جانا تھا۔ مصافحہ کے لیے آگے بڑھا، سلام کیااور عرض کیا نماز کے بعد مجھے جانا ہے ۔ اس پر حضرت مفتی صاحب نے میرا ہاتھ اپنے دستِ مبارک میں لے لیا اور دیر تک دباتے رہے اور فرمایا : دیکھو! میرے ایک سوال کا جواب دو۔ تم حضرت (تھانوی) کی خدمت میں بہت رہے ہو۔ یہ لوگ جو حضرت والا کی مخالفت کرتے ہیں، کیا حضرت کی زبان مبارک سے بھی تم نے ان کے متعلق کوئی بات سنی؟
میں نے عرض کیا کہ میں نے تو حضرت کی زبان مبارک سے ان کی کبھی بھی برائی نہیں سنی۔ بلکہ ایک دفعہ کسی صاحب کے سوال پر حضرت نے فرمایا تھا : دیکھنا یہ چاہیے کہ یہ لوگ جو میری مخالفت کرتے ہیں، اس مخالفت کا منشا کیا ہے۔اگر منشا حب رسول ہے تو میں نہ ان کو معذور بلکہ ماجور سمجھتا ہوں۔ یہ میری مخالفت کی وجہ سے ان کو اجر ملے گا۔اس پر حضرت مفتی صاحب نے فرمایا کہ اورمیں تو حضرت کی خدمت میں بہت زیادہ رہاہوں ، مجھے ایک واقعہ بھی یاد نہیں کہ حضرت نے ان کو برائی سے یاد کیا ہو۔‘‘(۳۱) 
مولانا قاضی مظہر حسینؒ کے والد مولانا قاضی محمد کرم الدین دبیر نے جب باطنی استفادے کے سلسلے میں مولانا حسین احمد مدنیؒ سے رجوع کیا تو اس سے پہلے وہ سیال شریف کی گدی سے منسلک اور وابستہ تھے جہاں کا ذوق ظاہر ہے کہ علمائے دیوبند کے مزاج سے مکمل ہم آہنگ نہیں تھا۔ اس کے باوجود مولانا مدنی ؒ نے دبیر صاحبؒ کو اسی گدی سے منسلک رہنے کامشورہ دیتے ہوئے تحریر فرمایا :
’’تجدیدِ بیعت کی ضرورت نہیں، آپ اپنے سابق شیخ کے تلقین کردہ وظیفہ پر عمل کریں ، میں آپ کے لیے اور آپ کے عزیر کے لیے حسنِ خاتمہ کی دعا کرتا ہوں‘‘(۳۲) ۔
اس کے علاوہ علمائے دیوبند اور پنجاب سمیت بر صغیر کے مختلف علاقوں کی معروف خانقاہوں او رگدیوں کے درمیاں جو اچھے تعلقات رہے، وہ ایک مستقل تاریخ ہیں جس کا کچھ نمونہ سید نفیس شاہ صاحبؒ نے ’’حکایت مہر وفا‘‘ میں بیان کردیا ہے۔ معروف کالم نگار عطاء الحق قاسمی کے والد مولانا بہاؤ الحق قاسمی ؒ نے بھی مختلف فرقوں کی آویزش کم کرنے کے لیے ’’اسوۂ اکابر‘‘ کے نام سے اسی طرح کاایک رسالہ لکھا تھا۔ انہیں دو رسالوں سے یہاں ایک دو مثالیں نقل کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
مولانا میاں شیر محمد شرق پوری کا نامِ نامی محتاجِ تعارف نہیں۔ شرق پور شریف کا شمارپنجاب کی چند اہم خانقاہوں اور گدیوں میں ہوتاہے۔ میاں شیرمحمد ؒ کے خلیفہ صوفی محمد ابراہیم قصوریؒ نے ان کے حالاتِ زندگی پر ایک کتاب ’’خزینۂ معرفت‘‘ لکھی ہے۔ اس میں انہوں نے میاں صاحبؒ اور مولانا انورشاہ کشمیریؒ کے تعلقات کا واقعہ لکھاہے جو سید نفیس شاہ صاحب نے بھی اسی کتاب کے حوالے سے لکھا ہے۔ مولانابہاؤ الحق قاسمی نے یہ واقعہ ذرا تفصیل سے لکھا ہے۔ یہاں سیدنفیس شاہ صاحب کی کتاب ’’حکایت مہر و وفا‘‘ سے صوفی محمد ابراہیم کے الفاظ میں نقل کیا جاتاہے:
’’مولانا انور علی شاہ صدر مدرسہ دیوبند ہمراہ مولوی احمد علی صاحب مہاجر لاہوری شرق پور شریف حاضر ہوئے اور حضرت میاں صاحبؒ کو بڑی ارادت سے ملے۔ آپ ان سے کچھ باتیں کرتے رہے اور شاہ صاحب خاموش رہے۔ پھر آپ نے مولانا انور شاہ صاحب کو بڑی عزت سے رخصت کیا۔ موٹر کے اڈے تک حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ خود سوار کرانے کے لیے ساتھ تشریف لائے۔ شاہ صاحب (علامہ انور شاہ) نے میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے کہا ’’آپ میر کمر پر ہاتھ پھیر دیں‘‘۔ آپ نے ایسا ہی کیا اور رخصت کرکے واپس مکان پر تشریف لائے۔ بعد ازاں آپ نے بندہ (صوفی محمد ابراہیم) سے فرمایا: شاہ صاحب بڑے عالم ہوکر میرے جیسے خاکسار سے فرمارہے تھے کہ میری کمر پر ہاتھ پھیردیں۔ اور میاں صاحب نے فرمایا کہ دیوبند میں چار نوری وجود ہیں۔ ان میں ایک شاہ صاحب بھی ہیں‘‘(۳۳)۔
پیر سید جماعت علی شاہ صاحب ؒ کا ایک واقعہ بھی ’’حکایت مہر و وفا‘‘ سے پیش کیا جاتا ہے:
’’حضرت مولانا سید محمد اسلم صاحب خطیب مسجد قادری لائل پور نے خود راقمِ سطور (سید نفیس شاہ صاحبؒ) سے بیان فرمایا کہ میں نے علی پور شریف میں اپنے استاذ محترم حضرت صاحبزادہ محمد حسین شاہ صاحب (خلف الرشید حضرت پیر حافظ سید جماعت علی شاہ صاحب علی پوری) سے دورہ حدیث سے پہلے کی کتابیں پڑھی تھیں۔ ایک روز میرے والد صاحب حضرت مولانا عبد الغنی شاہ صاحب (م: ۱۹۴۰) خلیفہ اعظم زبدۃ العارفین حضرت سید جماعت علی شاہ صاحب ثانی علی پوری رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا : میرا خیال ہے تم اپنی تعلیم مکمل کرلو۔ دورہ حدیث شریف کے لیے دو جگہیں ہیں۔ دارالعلوم دیوبند اور منظر اسلام بریلی۔ جہاں تمہارا جی چاہے وہاں چلے جاؤ اور تکمیل کرلو۔ میں نے عرض کیا میں کہ میں اپنے استاد حضرت صاحبزادہ محمد حسین شاہ صاحب کے مشورے سے کوئی فیصلہ کروں گا۔ ۔۔۔حضرت صاحبزادہ صاحب نے دارالعلوم دیوبند کا مشورہ دیا۔۔۔اس زمانے میں مرشدی ومولائی حضرت اقدس ثانی صاحب علی پوری ابھی حیات تھے۔ ان کی خدمت میں حاضر ہوکر دعا کی درخواست کی ، انہوں نے دارالعلوم دیوبند جانے پر بشاشت ظاہر فرمائی اور دعواتِ صالحہ سے مجھے رخصت کیا۔‘‘
خط کشیدہ عبارت سے معلوم ہوا کہ ان حضرات کی نظر میں اصل مقصود حدیث پڑھنا تھا، اس کے لیے دیوبند اور بریلی برابر تھے، بلکہ اختلافِ مشرب کے باوجود دیوبند کے انتخاب پر خوشی کا اظہار فرمایا جارہا ہے۔
ایک آخری واقعہ عرض کرکے اس بات کو ختم کیا جاتاہے۔ راقم الحروف نے خود مولانا مجاہد الحسینی حفظہ اللہ سے جو سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے رفیق و خادم تھے، متعدد بار سنا کہ جب ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت کے سلسلے میں تحریک کی مرکزی قیادت لاہور جیل میں تھی ، ان میں سید عطاء اللہ شاہ صاحب بھی تھے اور بریلوی مکتبِ فکر کے مولانا ابو الحسنات بدایونی بھی تھے۔مولانا مجاہد الحسینی بتلاتے ہیں کہ میں نے یہ منظر بھی دیکھا کہ مولانا ابو الحسنات قضائے حاجت کے تشریف لے گئے ہیں اور سید عطاء اللہ شاہ بخاری ان کی خدمت کے لیے وضو کے پانی کا لوٹالے کر باہر کھڑے ہیں۔ 
فرقہ وارانہ بنیادوں کے علاوہ بر صغیر فکری اختلافات کا وجود بھی رہاہے۔ خاص طور پر دو حوالوں سے ، ایک تو تعلیمی نظام کے حوالے سے ، اس سلسلے میں دیوبند اور علی گڑھ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ دوسرے سیاسی پالیسی کے حوالے سے ، خاص طور انگریزوں کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کے اعتبارسے۔ دونوں سطحوں پر سرسید احمد خاں نے مسلمانوں کو وہ مشورے دیے جو عام علما بالخصوص علمائے دیوبند کی سوچ سے مختلف تھے۔ لیکن اس کے باوجود ان مختلف حلقہ ہائے فکر میں منافرت کی وہ فضا نہیں تھی جس کا تأثر آج کل بعض تحریروں یا بیانات سے ملتا ہے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ سرسید احمد کی دین کی تعبیر وتشریح کے سلسلے کی کاوشیں اور ان کی تعلیمی اور سیاسی فکر دو الگ چیزیں ہیں۔ جہاں تک اول الذکر کا تعلق ہے، وہ سرسید احمد خاں کی خالص ذاتی آرا ہیں جن سے خود ان اپنے حلقۂ فکر میں بہت کم اتفاق کیا گیاہے، تاہم تعلیمی اور سیاسی سوچ کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ فکری سطح کے اختلاف کے باوجود دونوں طرف سے ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ احترام کا رشتہ برقرار رہاہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے امداد الفتاویٰ میں سرسید احمد خاں کی دینی فکر پر شدید تنقید کی ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مولانا تھانویؒ ہی نے اپنے مواعظ و ملفوظات میں نہ صرف سرسید احمد خاں کی ذاتی خوبیوں کا اعتراف کیا ہے بلکہ اختلافِ رائے کے باوجود ان کے حسن نیت کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے اخلاق اور مروّت کے واقعات تفصیل سے بیان فرمائے ہیں جنہیں اگر مولاناتھانویؒ کے مواعظ و ملفوظات وغیرہ سے یکجا کیا جائے تو شاید ایک کتابچہ تیار ہوجائے۔
دیوبند اور علی گڑھ دو الگ نظام ہائے تعلیم تھے جو اپنی سمجھ کے مطابق مسلمانوں کی مختلف نوعیت کے ضروریات کو پورا کر رہے تھے،لیکن دونوں جگہوں کے نہ صرف یہ کہ بہت اچھے مراسم اور روابط تھے بلکہ ایک دوسرے سے استفادے کی ضرورت کا احساس بھی موجود تھا۔ چنانچہ دارالعلوم دیوبند کے ابتدائی جلسہ ہائے تقسیم اسناد میں سے ایک میں علی گڑھ کالج کی طرف سے نمائندگی کے طور پر صاحبزادہ آفتاب احمد شریک ہوئے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ دارالعلوم کے تعلیم یافتہ علی گڑھ کالج انگریزی پڑھنے جایا کریں۔ (۳۵)اسی طرح اسی جلسے میں اپنے خطاب کے دوران مولانا نانوتویؒ نے دارالعلوم کے نصاب کی خصوصیات اور اس کے مقاصد بیان کرتے ہوئے فرمایا :
’’اس کے بعد (یعنی دارالعلوم کے تعلیمی نصاب سے فارغ ہونے کے بعد) اگر طلبہ مدسہ ہذا، مدارس سرکاری میں جاکر علومِ جدیدہ حاصل کریں تو ان کے کمال میں یہ بات زیادہ مؤید ثابت ہوگی‘‘ (۳۶)۔
اسی طرح انگریزحکومت کے ساتھ تعلقات یا ان کے بارے میں رویہ کیا ہونا چاہیے، یہ عام طور پر بڑا حساس موضوع رہاہے۔ لیکن آزادی سے پہلے کی تاریخ اٹھاکر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس حوالے سے اختلاف افکار کی موجودگی کے باوجود ایک دوسرے کے احترام کی روایت موجود تھی ، یہ نہیں تھا کہ پالیسی معاملات میں جس کی رائے مختلف ہو وہ غدار اور نہ معلوم کن کن القاب کا مستحق ٹھہرے۔
اس سلسلے میں ایک مثال راقم الحروف اپنے ہی ایک سابقہ مضمون سے بعینہ نقل کرنا مناسب سمجھتا ہے۔ 
جب شیخ الہند مولانامحمودحسن ؒ مالٹا کی اسارت سے واپس آئے توان سے ملاقات کرنے والوں اورانہیں انگریز کے خلاف جدوجہد سے الگ ہونے کامشورہ دینے والوں میں ایک نام مولانارحیم بخش ؒ کابھی ہے۔ مولاناسید حسین احمد مدنیؒ کے سوانح نگارمولانافریدالوحیدی ان کے تعارف میں لکھتے ہیں:’’ریاست بہاولپورکے مدارالمہام تھے ،حضرت گنگوہی کے متوسلین میں اورعلماء کرام کے بڑے معتقدتھے ، تاہم حکومتِ برطانیہ کے خیرخواہ اورمعتمد تھے‘‘(۳۷)۔انہی مولانارحیم بخش کے بارے میں مولانا مدنی کے والد ماجد مولوی سید حبیب اللہ صاحبؒ کے حالات میں لکھا ہے:
’’اتفاق سے اسی زمانے میں نواب صاحب بہاولپور بھی حج وزیارت کے لیے حاضر ہوئے ۔ان کے وزیراعظم مولانارحیم بخش صاحب بڑے عالم،متقی اورباخداشخص تھے اورحضرت قطب عالم گنگوہی ؒ کے متوسلین میں سے تھے۔ انتظامات کے لیے وہ نواب صاحب کی آمد سے پہلے ہی مدینہ طیبہ حاضر ہوئے۔ قدرتی طورپران کومولوی صاحب (مولوی حبیب اللہ) اوران کے حضرت گنگوہی کے خلفا صاحبزادگا ن سے خصوصی تعلق اورعقیدت ہوگئی اورنواب صاحب آئے توموصوف نے ان کی جانب سے دس روپیہ ماہوار کاوظیفہ مقررکرا دیا،یہ ساری مستقل آمدنیاں تھیں‘‘۔ (۳۸)
گویاایک طرف تو مولانا رحیم بخش حکومتِ برطانیہ کے’’ خیر خواہ اور معتمد ‘‘تھے، دوسری طرف وہ ’’بڑے عالم، متقی اورباخداشخص‘‘ تھے اور ان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت وہ ہے جواقتباس بالاسے سمجھ میں آرہی ہے ۔
مولانا ابو الکلام آزاد نے اپنی آپ بیتی India Wins Freedom کے آغاز ہی میں اس بات کا اظہار کیا ہے کہ انہوں نے اپنے ’’آزاد‘‘ تخلص کا انتخاب سرسید احمد خاں کی تحریروں سے متاثر ہوکر کیا ۔ مولانا نے غبارِ خاطر میں موسیقی کے بارے میں اپنی بہت نرم رائے کا اظہار کیا ہے۔ اتاترک کے اصلاحات کے بارے میں مولانا کا نقطۂ نظر بیان کرتے ہوئے اصغر علی انجینئر صاحب لکھتے ہیں : 
’’جب کمال پاشا نے ترکی میں بغاوت کی اور خلافت کو اقتدار سے بے دخل کردیا اور خلافت کے ادارے کو فرسودہ قرار دیا تھا مولانا (ابو الکلام آزاد) نے اتاترک کی جدید اصلاحات کا استقبال کیا تھااور مسلمانوں کو خلافت کے ادارے کی حفاظت کی کوششوں کو ترک کردینے کا مشورہ دیا تھاجس سے ترکی لیڈران خود دست بردار ہوگئے تھے۔‘‘ (۳۹)
مولانا آزاد کی اس رائے سے اتفاق یا اختلاف تو الگ معاملہ ہے، لیکن یہ ظاہر ہے کہ یہ رائے علماء کے عام حلقوں میں مروجہ رائے سے بالکل ہٹ کر ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس طرح کی باتوں کے باوجود ان حلقوں میں مولانا آزاد کے لیے پائے جانے احترام میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔

حواشی

(۲۵) مولانا مناظر احسن گیلانی : ص ۱۱۸مکتبہ عمر فاروق کراچی
(۲۶) وعظ الہدی و المغفرۃ ص ۵۰ مطبوعہ مکتبہ تھانوی کراچی در مجموعہ مواعظ اشرفیہ
(۲۷) کیرانوی ، حبیب احمد ، مقدمۃ إعلاء السنن ( قواعد فی علوم الفقہ ) إدارۃ القرآن والعلوم الإسلامیۃ ، ص ۲۲۴ .
(۲۸) مولانا احمد علی لاہوری کے حیرت انگیز واقعات ص ۲۵۶ ماخوذ از خدام الدین ۲۴ مئی ۱۹۹۶ء
(۲۹) خطبات و مقالات سید ابوبکر غزنوی رحمہ اللہ ، ترتیب و تخریج میاں طاہر ناشر طارق اکیڈمی فیصل آباد ص ۲۴۵۔ ۲۶۲
(۳۰) مفتی محمد شفیع : وحدتِ امت ، دار الاشاعت کراچی ص ۱۵
(۳۱) حاجی محمد شریف ملتان : اصلاحِ دل ، ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان ص ۲۵۴
(۳۲) عبد الجبار سلفی : احوال دبیر ، قاضی کرم الدین دبیر اکیڈمی پاکستان ص ۶۲
(۳۳) سید نفیس شاہ الحسینی : حکایت مہر ووفا ، دار النفائس لاہور ص۱۹
(۳۴) حوالہ بالا ص ۲۷ 
(۳۵) مولانا مناظر احسن گیلانی : سوانح قاسمی ، مکتبہ رحمانیہ لاہو۲/۲۹۶
(۳۶) حوالہ بالا ص ۲۸۱
(۳۷) فرید الوحیدی،مولانا،شیخ الاسلام مولاناحسین احمدمدنی :ایک تاریخی وسوانحی مطالعہ ص۲۱۷مکتبہ محمودیہ لاہور۱۹۹۵ء۔ 
(۳۸) حوالہ بالاص۵۵۔
(۳۹) http://newageislam.com/urdu-section

تحفظ ناموس رسالت

ڈاکٹر قاری محمد طاہر

مولانا زاہد الراشدی بہت بالغ نظر عالم ہیں۔ ان کی نظر میں بلوغت ہی نہیں بلکہ گہرائی و گیرائی بھی ہے۔ حالات کو وسیع تناظر میں دیکھتے ہیں۔ بین السطور معاملہ پڑھ لینے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں اور جلد معاملے کی تہہ تک پہنچ جانا ان کا وصف ہے۔ مولانا ناخن گرہ کشا بھی رکھتے ہیں جن کی وجہ سے بڑی بڑی پیچیدہ اور الجھی گتھیاں سلجھتی چلی جاتی ہیں۔ پچھلے دنوں آزاد کشمیر میں تھے۔ جہاں توہین قرآن کے حوالے سے حالات نازک ہو گئے۔ مولانا کی گرہ کشائی کی صلاحیت بروقت کام آئی اور معاملات کنٹرول میں آگئے۔ وگرنہ ضلعی انتظامیہ، پولیس اور دیگر لوگوں کے لیے حالات بہت گھمبیر ہونے کا خدشہ تھا۔ 
آگ لگانا آسان ہے لیکن آگ بجھانے کے لیے بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ بندھی رسی پر بغیر سہارے چلنا شاید آسان ہو لیکن بگڑے حالات کو قابو میں لانا تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے۔ اس کام کے لیے دل بھی چاہیے اور دل کے ساتھ گردے بھی توانا ہونے ضروری ہیں۔ مولانا موصوف نے آزاد کشمیر میں یہی فریضہ سر انجام دیا اور حالات سنبھل گئے۔ جسے اس واقعہ کی تفصیل جاننا ہو وہ ۲۷ مئی ۲۰۱۳ء کے روزنامہ پاکستان میں مولانا کا کالم بعنوان ’’تحفظ ناموس رسالت‘‘ پڑھ لے۔ مولانا موصوف نے بڑی جرأت سے کام لیا۔ جو کام انتظامیہ کے بس کا نہ تھا آپ نے آسانی سے کر دکھایا۔ مولانا ماضی میں بھی ایسے مثبت کام سر انجام دیتے رہے ہیں۔ ایک موقعہ پر مولانا کی ایسی ہی خدمات پر بشپ آف پاکستان ڈاکٹر الیگزینڈر نے مولانا کا شکریہ ادا کیا۔ مولانا نے اپنے کالم میں اس کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’میں نے بشپ آف پاکستان کے اس شکریے کا ذکر تو کر دیا ہے مگر اس انتظار میں ہوں کہ عظیم عرب مجاہد امیر عبدالقادر الجزائریؒ کی طرح مجھ پر بھی (عیسائیوں کا گماشتہ) ہونے کا فتویٰ کب صادر ہوتا ہے‘‘۔ 
ہم مولانا سے عرض کریں گے ’’گھبرائیے نہیں اس طرح تو ہوتا ہی ہے اس طرح کے کاموں میں‘‘۔ 
تقریباً سال بھر ادھر کی بات ہے، ملک میں قرآنی اوراق سوزی کے واقعات رونما ہوئے۔ اخبارات نے خوب سرخیاں جمائیں، توڑ پھوڑ بھی ہوئی۔ دل سوزی کے بعد گر سوزی کے واقعات بھی سامنے آئے۔ ہم نے اس حوالے سے ایک کالم لکھا، لیکن کالم کی طباعت سے باز رہے۔ مبادا بھڑکتے جذبات میں چھڑکا ہوا پانی تیل ہی ثابت ہو اور مزید شعلے بھڑک اٹھیں۔ مولانا زاہد الراشدی کے کالم کے تناظر میں وہ کالم اب طباعت کے لیے بھیجنے کا حوصلہ کر رہے ہیں۔ 
’’نور حسین ایک سیدھا سادا آدمی تھا۔ بچپن میں اس کے والدین نے اسے تعلیم دلانے کی بہت کوشش کی لیکن اس کی طبیعت اس طرف نہ آسکی۔ حتّٰی کہ وہ قرآن مجید بھی نہ پڑھ سکا۔ جب بڑا ہوا تو اسے اپنی اس محرومی کا بے حد احساس ہوا۔ اس کا دل اسے کچوکے دیتا۔ کاش میں قرآن مجید کو پڑھ سکتا۔ روزانہ تلاوت کر لیا کرتا۔ اس احساس نے اس کے دل میں قرآن سے بے پناہ محبت پیدا کر دی۔ جو کوئی قرآن پڑھتا وہ اس کے پاس بیٹھ کر نہایت محبت سے سنتا۔ ریڈیو پر تلاوت آتی تو بہت انہماک سے سننے لگتا۔ قرآن مجید کی تلاوت کے کیسٹ لگا کر گھنٹوں سنتا رہتا۔ یہی اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ ایک روز راستہ چلتے ہوئے اس نے ایک کاغذ سڑک پر گرا دیکھا ۔ اس پر قرآنی آیات لکھی ہوئی تھیں۔ اس نے بڑھ کر اٹھایا ، چوما، ماتھے سے لگایا اور گھر لا کر الماری کے اوپر والے پھٹے پر رکھ دیا کہ اﷲ کا قرآن ہے ۔ اس کی بے حرمتی نہیں ہونی چاہیے۔ اب اس نے یہ عادت بنا لی۔ وہ ہر گرے پڑے کاغذ کو دیکھا کرتا۔ اگر اس پر کوئی قرآنی آیت لکھی ہوتی تو وہ اٹھاتا، چومتا ، گھر لے آتا۔ کرتے کرتے دو بوریاں بھر گئیں۔ ان کا مصرف کیا ہو؟ وہ ان بوریوں کا کیا کرے ؟ کہاں رکھے؟ مزید اوراق قرآنی کس طرح جمع کرے؟ 
جب یہ اوراق بہت زیادہ ہو گئے اور رکھنے کی جگہ بھی نہ رہی تو اسے پریشانی لاحق ہوئی کہ ان اوراق کا کیا کرے؟ اس پریشانی کا حل تلاش کرنے کے لیے وہ ایک روز شہر کے مفتی صاحب کے پاس گیا۔ وہ بڑے عالم تھے۔ ان کے سامنے نور حسین نے اپنا مسئلہ رکھا ۔ مفتی صاحب نے نور حسین کی بات غور سے سنی اور جواب میں فرمایا کہ ان اوراق کو بہتی ندی میں بہا دو۔ بہتا پانی پاک ہوتا ہے۔ نور حسین نے بوسیدہ اوراق قرآنی سے بھری بوریاں سر پر اٹھائیں ۔ ہانپتا کانپتا ان کو ندی کنارے لے گیا۔ وہاں اس نے ان اوراق کو پانی میں بہانا شروع کیا۔ چند اسلام کے متوالوں نے دیکھ لیا۔ اسے پکڑ کر مارنے لگے۔ یہ صورت حال دیکھ کر کچھ لوگ آگے بڑھے ، بیچ بچاؤ کرا دیا۔ وجہ نزاع معلوم کی ، پتہ چلا کہ یہ قرآن کی بے حرمتی کر رہا تھا۔ قرآن مجید کے اوراق کو دریا برد کر رہا ہے۔ سننے والوں نے بھی مارنا شروع کیا۔ اگلے دن اخبارات میں سرخیاں لگ گئیں ۔ ایک شخص قرآن کی بے حرمتی کرتا ہوا پکڑا گیا۔ لوگوں نے اس کو بروقت دیکھ لیا اور پولیس کے حوالے کر دیا۔ نور حسین پر اس جرم کی پاداش میں مقدمہ چلا ۔ مقدمہ کی کاروائی کے دوران وہ جیل ہی میں رہا۔ کسی نے اس کی ضمانت تک نہ کرائی۔ لیکن اس کی قسمت اچھی تھی۔ وہ مقدمہ میں بری ہو گیا۔ 
اس کو قرآن سے محبت تھی۔ اس نے پھر قرآن کے بوسیدہ اوراق اکٹھے کرنا شروع کر دیے۔ جب بہت زیادہ جمع ہو گئے تو اس نے پھر مفتی صاحب سے مسئلہ پوچھا۔ اور اپنی بپتا بھی بیان کی اور کہا کہ مفتی صاحب میں اب بوسیدہ اوراق کو ندی میں نہیں بہاؤں گا ۔ مجھے اس کا کوئی اور حل بتلائیے۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ بہتر ہے ان اوراق کو قبرستان میں گڑھا کھود کر دفن کر دوکہ فقہی طور پر اس کی اجازت ہے۔ وہ مفتی صاحب کی بات سن کر خوش ہوا ۔ گھر آگیا۔ اس نے احتیاط برتی ۔ وہ رات کے اندھیرے میں قبرستان گیا تاکہ اسے کوئی دیکھ نہ سکے اور پھر پہلے جیسی نوبت نہ آجائے ۔ اس نے گڑھا کھودا اور تمام اوارق دفن کر دیے، گھر لوٹ آیا ۔چند دن بعد کچھ گورگن قبر کھود رہے تھے کہ یہی اوراق اور بوسیدہ قرآن مجید وہاں سے برآمد ہوئے۔ یہ دیکھنتے ہی لوگوں میں غصہ کی لہر دوڑ گئی۔ سب لوگ فوراً تھانے گئے اور نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج ہو گیا۔ اخباروں میں سرخیاں لگ گئیں۔ کسی بدبخت نے قرآن مجید کی بے حرمتی کی ہے۔ قبر کھودتے ہوئے بے شمار قرآن مجید گڑھے میں گرے ہوئے ملے۔ شہر کے شرفا سراپا احتجاج ہیں ۔ سنسنی خیز انکشافات کی توقع ہے۔ 
پھر کیا تھا،پولیس مستعد ہوئی۔ نور حسین گرفتار ہو گیا۔ مقدمہ چلا ، سزا ہوئی ، جیل کاٹ کر گھر آگیا۔ محلے کے لوگ دوست احباب اور دیگر تعلق والے ملنے آئے اور کہا اب تم ایسا کوئی کام نہ کرنا۔ لیکن اسے تو قرآن سے عشق کی حد تک محبت تھی۔ وہ قرآن کی بے حرمتی کسی صورت برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے پھر قرآن کے بوسیدہ اوراق جمع کرنا شروع کر دیے۔ پھر دو بوریاں بھر گئیں۔ پھر مفتی صاحب کے پاس گیا۔ کہنے لگا کوئی اور صورت بتائیں۔ اب میں ان بوسیدہ اوراق کو نہ تو ندی میں بہاؤں گا ، نہ قبرستان میں دفن کروں گا۔ کوئی اور ترکیب بتلائیے۔ مفتی صاحب نے سوچ بچار کے بعد کہا کہ ایسا کرو ان بوسیدہ اوراق کو ندی کنارے لے جا کر جلا دو۔ اور ان کی راکھ پانی میں بہا دو۔ وہ جواب سن کر تھوڑا سا ٹھٹھکا۔ کہنے لگا میں ان بوسیدہ اوراق کو آگ لگاؤں۔ یہ تو اچھی بات نہیں۔ مفتی صاحب بولے یہ عمل حضرت عثمان غنی ؓ سے ثابت ہے۔ انہوں نے قرآن مجید کے بعض حصوں کو آگ لگا کر راکھ پانی میں بہا دی تھی۔ اس لیے ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ 
نور حسین نے دونوں بوریاں اٹھائیں اور رات کے وقت شہر سے دور ویرانے میں نہر کنارے چلا گیا۔ وہاں اس نے ان اوراق بوسیدہ کو ایک ایک کر کے جلانا شروع کیا۔ کچھ جیالے قسم کے نوجوان سگریٹ کے مرغولے ایک دوسرے پر چھوڑتے اٹھکیلیاں کرتے سیٹیاں بجاتے قہقہے لگاتے ادھر سے گزر رہے تھے ۔بولے او بھئی کیا کر رہے ہو؟ نور حسین خاموش رہا۔ وہ آگے بڑھے اور اوراق قرآن دیکھ کر ایک دم طیش میں آگئے اور اسے مارنے لگے ۔ تمہیں شرم نہیں آتی قرآن کے اوراق جلا رہے ہو۔ نور حسین بیچارہ چیختا رہا ۔ میں نے فتویٰ ۔۔۔تویٰ۔۔۔تویٰ۔۔۔ پوچھا ہے۔ مگراس کی کون سنتا ۔ اس شور شرابے میں دیگر راہ گیر اور اکٹھے ہو ئے ۔ انہوں نے بھی نور حسین کو مارکر ثواب حاصل کرنے کی کوشش کی اور قرآن سے محبت کا ثبوت بہم پہنچایا۔ نور حسین بیچارہ کیا کرتا ۔مار کھا کر گھر آگیا۔ 
اگلے روز اخبارات میں سرخیاں جم گئیں ’’ایک بدبخت نہر کنارے قرآن کو آگ لگا کر بھاگ گیا۔ مقدمہ درج ہو چکا ہے۔ پولیس تعاقب کر رہی ہے۔ مجرم کو جلد پکڑ لیا جائے گا اور اس کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ عوام مشتعل نہ ہوں‘‘۔ 
علامہ اقبال کو اس دنیا سے رخصت ہوئے تقریباً پون صدی ہو چکی ہے۔ لیکن جانے انہیں کس طرح اپنی زندگی ہی میں نور حسین کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی خبر ہو گئی تھی ۔ اس لیے وہ پہلے ہی قرآن کی عظمت کے رکھوالوں اور متوالوں کے بارے میں فرما گئے:
مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبیعت 
کرلے کہیں منزل تو گزرتا ہے بہت جلد
تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا
ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد
تاویل کا پھندا کوئی صیاد لگا دے
یہ شاخ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد‘‘

مغربی اجتماعیت : اعلیٰ اخلاق یا سرمایہ دارانہ ڈسپلن کا مظہر؟ (۲)

محمد زاہد صدیق مغل

غربت اور افلاس کا فروغ اور اس کے مجوزہ حل

ذرائع پیداوار پر مارکیٹ ڈسپلن کے غلبے کے نتیجے میں غربت و افلاس ،معاشی و سماجی ناہمواریوں اور استحصال نے جنم لیا۔ (یہاں اس بات کا دھیان رہے کہ اگرچہ سرمایہ دارانہ نظام میں لوگوں کی مطلق آمدن (absolute income) میں اضافہ ہونے کی بنا پر مطلق (absolute) غربت تو کم ہوجاتی ہے، البتہ اضافی (relative) آمدنیوں کا تفاوت اور اضافی غربت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سرمایہ دارانہ معاشرے میں لوگوں کی آمدنیوں میں مسلسل اضافے کے باوجود ۹۸ فیصد لوگ خود کو محروم اور ناخوش محسوس کرتے ہیں)۔ اس کی بنیادی طور پر چند وجوہات ہیں: 
  • روایتی معاشروں میں عمل صرف اجتماعی (shared) ہوا کرتا تھا، یعنی خاندان یا قبیلہ جتنی دولت پیدا کرتا، سب لوگ اس میں یکساں حصہ دار سمجھے جاتے (اس کی جھلک ہمارے موجودہ خاندانی نظام میں بھی دیکھی جاسکتی ہے)، لہٰذا کوئی شخص نہ تو غریب ہوتا اور نہ ہی افلاس کی وجہ سے بنیادی ضروریات زندگی سے محروم رہتا۔ ان معاشروں میں ایک شخص کا عمل صرف اس کی پیداواری صلاحیت سے منسلک نہ تھا۔ لیکن مارکیٹ نظم کے بعد جب یہ نظام منتشر ہوا اور انفرادیت پسندانہ نظم غالب آنے لگا تو عمل صرف فر دکی پیدواری صلاحیت کے ساتھ براہ راست منسلک ہوگیا۔ مارکیٹ نظم میں ایک شخص کا کل پیداوار میں حصہ اس اصول سے متعین ہوتا ہے کہ وہ نفع خوری پر مبنی پیداواری عمل میں کتنا اضافہ کرنے (نیز اس پر سودے بازی کی کتنی )صلاحیت رکھتا ہے، جو شخص زیادہ efficient ہوگا مارکیٹ اس کی صلاحیتوں کی اسی قدر زیادہ قدر متعین کرے گی اور مجموعی پیداوار میں اس کاحصہ اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ چنانچہ آبادی کی وہ عظیم اکثریت جو سرمایے میں اضافے کے لائق نہ تھی ان کے روز گار کے مواقع ناپید ہوتے چلے گئے اور خاندانی و قبائلی حفاظت نہ ہونے کی بنا پر وہ افلاس کی چکی میں پسنے لگے ۔
  • چونکہ لوگوں کی پیداواری اور سودے بازی کی صلاحیتوں میں تفاوت پایا جاتا ہے، لہٰذا ایک سرمایہ دارانہ معاشرے میں تقسیم وسائل لازماً غیر مساویانہ ہوتی ہے (ایک نہایت قلیل اقلیت بہت امیر ہوتی ہے اور غالب اکثریت غربت و افلاس کا شکار ہوتی ہے)۔ درحقیقت سرمایے کی بڑھوتری و گردش کا چکر سرمایے کے ارتکاز (concentration of capital) کا عمل ہے، یعنی سرمایہ بے شمار جگہوں اور ملکیتوں سے کھنچ کھنچ کر مستقلاً چند مقامات اور چند کارپوریشنوں کے زیر تسلط جمع ہوتا رہتا ہے۔ چنانچہ جیسے جیسے سرمایہ دارانہ نظام فروغ پاتا ہے معاشرتی، معاشی و سیاسی نامساویت (inequality) بڑھتی چلی جاتی ہے، بے روز گار لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے 
  • درحقیقت مارکیٹ میں قیمتوں اور اجرتوں کا تعین اجتماعی سودے بازی کی صلاحیت اور طبقاتی کشمکش کی قوتوں سے ہوتا ہے۔ چونکہ سرمایہ دارانہ پیداواری عمل سرمایے کو چند ہاتھوں میں مرتکز کردیتا ہے لہٰذا ان معاشروں میں سیاسی و سماجی قوت بھی انہی چند ہاتھوں میں سمٹ جاتی ہے۔ نتیجتاً کارپوریشنوں اور بڑے کاروبار مالکان کو لاکھوں مزدوروں کے استحصال کا موقع ہاتھ آجاتا ہے۔ انڈسٹریل انقلاب کے ابتدائی ایام کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یورپ و امریکہ کے حالات کچھ ایسے تھے: ورکنگ ڈے سولہ گھنٹے طویل ہوتا ، فیکٹریوں میں بچوں اور عورتوں سے کام کروایا جاتا، افریقی غلاموں کو روٹی اور کپڑے کے عوض تمام عمر کے لیے ان فیکٹریوں میں جھونک دیا جاتا (مگر بے شرمی کی انتہا یہ ہے کہ یورپی مفکرین ہم سے پوچھتے ہیں کہ اسلام میں غلامی کیوں روا رکھی گئی)، مزدوروں کے کوئی سوشل حقوق نہ ہوتے (مثلاً اگر دوران کام کسی مزدور کا ہاتھ کٹ گیا تو مل مالک اس کی کفالت کا ذمہ دار نہیں)، فیکٹریوں میں کام کا ماحول اتنا خراب ہوتا کہ مزدور دمے کے مرض سے مر جاتے۔
یہ وہ مظالم تھے جو سرمایہ دارانہ نظام کے فروغ اور استحکام کے منطقی نتیجے کے طور پر سامنے آئے۔ ظاہر بات ہے کہ مارکیٹ نظم کے اندر ان مظالم (غربت، افلاس، استحصال، معاشی ناہمواریوں، سماجی اخراج) کے حل کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں، کیونکہ مارکیٹ ذاتی نفع خوری (private profit maximization) کے تحت کام کرتی ہے۔ اس اصول کے تحت سرمایہ وہیں جائے گا جہاں اس میں مزید اضافے کا امکان ہو۔ ان مظالم کو کم کرنے کے لیے سرمایہ دارانہ اشتراکی اور سوشل ڈیموکریٹ ریاستوں نے سوشل رائٹس (social rights) کا تصور پیش کیا۔ اہم ترین سوشل رائٹس یہ ہیں: 
الف) اجتماعی سودے بازی (collective bargaining) کا حق۔ اشتراکی اور سوشل ڈیموکریٹ مفکرین اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام میں سب سے نمایاں نا مساویت مزدور اور مینجمنٹ (management) کے درمیان تقسیم اختیار اور قوت کے ضمن میں پائی جاتی ہے (مثلاً ایک عام مزدور کمپنی مینجمنٹ کے سامنے بالکل بے بس ہوتا ہے)، لہٰذا مزدور یونیوں کو مینجمنٹ کے عمل میں شرکت اور اجرتوں کے تعین میں اختیارات کے مواقع ملنا چاہیے (تاکہ وہ فیکٹری کے ورکنگ ماحول کو بہتر بنانے نیز مزدوروں کے سوشل حقوق وغیرہ منوانے کے لیے مزدوروں کی پر زور نمائندگی کرسکیں) ۔
ب) غربت، افلاس اور سماجی اخراج ذدہ طبقے کے لیے دوسرا اہم سوشل رائٹ سرمایہ دارانہ ریاستوں سے یہ مطالبہ تھا کہ وہ عوام کو ویلفئیر حقوق کی فراہمی یقینی بنائے، جن کے ذریعے ہر سٹیزن مسلسل بڑھتی ہوئی آمدنی، صحت، تعلیم اور رہائش حاصل کر سکے (غور کیجیے روایتی نظم معاشرت میں یا تو یہ مظالم سرے سے تھے ہی نہیں اور اس قسم کی ضروریات کے حصول کے لیے فرد ریاست کا محتاج نہیں تھا، جو مفکرین یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ’یورپی ریاستوں نے جو ویلفیئر رائٹس اپنی عوام کو دیے وہ مغل سلطنت کیوں نہ دیتی تھی ‘ وہ درحقیقت سرمایہ دارانہ اور غیر سرمایہ دارانہ نظم معاشرت و ریاست کے فرق سے نا واقف ہیں)۔ ان سوشل رائٹس کا مقصد فرد کو مارکیٹ نظم میں شرکت کے لائق بنانا تھا، مارکیٹ سوسائٹی میں ایک شخص یا تو صارف اور یا پھر سرمایہ کار کی حیثیت سے شرکت کرتا ہے، جس شخص کے پاس نہ سرمایہ دارانہ علم ہو، نہ صحت ہو اور نہ خرچ کرنے کے لیے آمدن ہو تو ظاہر بات ہے اس میں مارکیٹ (یعنی سوسائٹی) میں شرکت کرنے کی صلاحیت (capability) ہی نہیں۔ لہٰذا یہ ضروری سمجھا گیا کہ سرمایہ دارانہ ریاست بڑھوتری سرمایے کے عمل کو اس طرح ترتیب دے کہ اس کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ لوگ سرمایے میں اضافے سے مستفیذ ہو سکیں۔ 

مذہب کی مارکیٹ کاری اور اس کے ثمرات 

سرمایہ دارانہ معاشرہ ہر اس شے کو اپنے اندر سمونے کی خواہش اور صلاحیت رکھتا ہے جس کے ذریعے سرمایے میں اضافہ کرنا ممکن ہو، اور مذہبی شعائر بھی اس اصول سے مستثنی نہیں۔ سرمایہ داری کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ ہر معاشرے میں وہاں کے عمومی غالب نظریات کے ذریعے اپنا راستہ بناتی ہے۔ یورپ میں اس کا راستہ ہموار کرنے کے لیے پروٹسٹنٹ ازم نے خاص کردار ادا کیا جس نے پوپ کی اجتماعیت کو رد کرکے مذہب کی انفرادیت پسندانہ تشریحات کا علمی جواز پیش کیا۔ چونکہ یہ بالکل ظاہر ہے کہ علوم لدنی سے بے بہرہ شخص کی عقل نفسانی خواہشات ہی کی غلام ہوتی ہے، لہٰذا ہر شخص کو کتاب الٰہی کی تشریح کا حق دینے کا لازمی مطلب وحی الٰہی کو نفسانی خواہشات کے تابع کردینا ہے، یعنی یہ وہ طریقہ کار ہے جس کے ذریعے ایک فرد کتاب الہی سے محض اپنی خواہشات کا جواز حاصل کرنے کے لیے رجوع کرتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ پروٹسٹنٹ ازم نے سرمایہ دارانہ ورک ایتھکس (work-ethics) (مثلاً جو دنیا میں زیادہ کامیاب ہے وہی آخرت میں کامیاب ہے، حصول دولت حصول آخرت کا ذریعہ ہے، اصل عبادت چرچ جانا یا ذکر و ازکار کرنا نہیں بلکہ دنیا کے کام زیادہ انہماک سے کرنا ہے، نیز فطرت کا مطا لعہ بھی اتنا ہی اہم ہے کہ جتنا بائبل کا وغیرہ) کا مذہبی جواز بھی فراہم کیا۔ سرمایہ دارانہ ریاست روایتی معاشروں میں مذہب کی ایسی تشریحات کو بھر پور فروغ دیتی ہے جن کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ اداروں کا جواز اور ورک ڈسپلن مستحکم ہوسکے۔ موجودہ دور میں اسلامی بینکاری ، اسلامی جمہوریت و اسلامی سائنس کے فکری منہج کی یہی وہ نظریاتی خدمت ہے جس کی بنا پر انہیں سرمایہ دارانہ استعمار کی پشت پناہی حاصل ہے۔ اسی طرح سرمایہ داری سے ہم آہنگ انفرادی مذہبی اخلاقیات (مثلاً سچ بولنا، ایمانداری، وقت کی پابندی وغیرہ) کی اہمیت بھی خوب اجاگر کی جاتی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر ایسے مذہبی اخلاقیات کے پابند شخص کی نگرانی (survelience) کرنے کی ضرورت نسبتاً کم ہوتی ہے ( کیونکہ وہ اپنے ایمانی تقاضے کی بنا پر اپنا کام پوری مستعدی یعنی efficiency سے کرتا ہے)، ایسا شخص بالعموم ہڑتال وغیرہ کے ذریعے کمپنی مینیجنٹ کے لیے مسائل پیدا نہیں کرتا نیز سرمایہ دارانہ وظائف (وقت پر آنا جانا، کام کے اوقات میں کام کرنا، قرض کی وقت پر ادائیگی وغیرہ) کو بخوبی سر انجام دیتا ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشرت و ریاست کے استحکام کے لیے ان مذہبی اخلاقیات کے فروغ کی ضرورت کو جدید ماہرین معاشیات نے خوب اچھی طرح بھانپ لیا ہے اور اسی کے زیر اثر آجکل economics and ethics, economics and religioin جیسی شاخیں وجود میں آرہی ہیں۔ مذہب کی اس مارکیٹ سازی کا مقصد سرمایہ دارانہ مظالم کم کرنا بھی ہوتاہے۔ چنانچہ دنیا کی ایسی کوئی سرمایہ دارانہ ریاست نہیں جو تمام سٹیزنز کو مارکیٹ کے مظالم سے چھٹکارا دلانے کی صلاحیت رکھتی ہو، اسی لیے ایسے انفرادی مذہبی اخلاقیات کو اپنانے کی ترغیب دلائی جاتی ہے جو ذاتی نفع خوری پر مبنی عمومی نظم اجتماعی کے ظلم و جبر کو نسبتاً کم کرسکیں (مثلاً خیرات کرنے کا جذبہ اس لیے اجاگر کیا جاتا ہے تاکہ افلاس کے شکار لوگوں کا بندوبست ہوسکے وغیرہ)۔ مذہب کی مارکیٹ سازی میں سب سے اہم کردار ٹی وی ادا کرتا ہے جس کی ایک مثال امریکہ میں اونجلیکل (evangelical) عیسائیت کے ساتھ ہونے والا سلوک ہے (اس کی تفصیل کے لیے دیکھئے ہمارا مضمون ’ٹی وی اور تبلیغ اسلام‘ ماہنامہ محدث لاہور، شمارہ اگست ۲۰۰۸)۔ 

علم کی مارکیٹ کاری

مذہبی تہذیبوں میں علم سے مراد خدا کی مرضی جان کر اس کے مطابق عمل کرنا سمجھا جاتاہے، اس کے مقابلے میں لذت پرستانہ تصور زندگی کے مطابق علم سے مراد ایسی بات جاننا ہے جس کے ذریعے انسان اس چیز پر قادر ہو جا ئے کہ اس کے ارادے کی تکمیل کیسے ہوسکتی ہے۔ وہ علم جو انسان کو یہ بتا تا ہے کہ کائنات پر اس کے ارادے کا تسلط کیسے ممکن ہے اسے ’سائنس ‘ کہتے ہیں ۔ لہٰذا لذت پرستی و ترقی کا اصل معنی علم کو سائنس کے ہم معنی قرار دینا ہے، یعنی ترقی سے مراد ان معلومات میں اضافہ ہے جو انسانی ارادے کی تکمیل کو ممکن بناتی ہوں ۔ گویا مغربی تہذیب میں ’ارادے و خواہشات کی تکمیل ‘ ہی معلومات کے مجموعے اور عالم (knower)کے درمیان تعلق کی بنیاد ٹھہر ا۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی تہذیب میں علم وہ چیز جاننا نہیں ہے کہ جس سے انسان اپنے رب کی رضا جان لے ( یعنی علم یہ نہیں کہ مجھے وضو یا غسل وغیرہ کرنے کا طریقہ اور مسائل معلوم ہو جائیں) بلکہ علم تو یہ ہے کہ میں یہ جان لوں کہ پنکھا کیسے چلتا ہے، بجلی کیسے دوڑتی ہے، جہاز کیسے اڑتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ گویا اب علم رضا ئے الہی کے حصول کا طریقہ جان لینا نہیں، بلکہ تسخیر کا ئنا ت یا با الفاظ دیگر انسانی ارادے کے کائناتی قوتوں پر تسلط قائم کرنے کا طریقہ جان لینے کے ہم معنی بن گیا ۔ دوسرے لفظوں میں یہاں علم اللہ تعالی کی رضا نہیں بلکہ نفس انسانی کی رضا اور اس کی تکمیل کا سامان فراہم کرنے والی معلومات کا نام پڑ گیا۔ تصور علم کی یہ تبدیلی انسانی تاریخ میں اپنی نوعیت کی پہلی تبدیلی تھی جس نے انسان کی کامیابی کو کسی خدا کی اطا عت (obedience) کے ساتھ نہیں بلکہ لا متناہی خواہشات انسانی کی تکمیل و ارادہ انسانی کے تسلط (dominance) کے ساتھ مشروط کر دیا۔ اس تصور علم میں فطرت ان معنوں میں انسا ن کی حریف ٹھہری کہ یہ انسانی ارادے کی تکمیل پر حد بندی کرتی ہے اور اسے تسخیر کرکے انسا نی ارادے و خوا ہشات کی تکمیل کے لیے استعمال کرنا ضروری ٹھہرا۔ آج بھی مو جودہ سائنسی علمیت کا یہ جنون ہے کہ انسانی عقل کو استعمال کر کے فطرت کے تمام رازوں سے پردہ اٹھا نا نیز انسانی ارادے کو خود اس کے اپنے سواء ہر بالا تر قوت سے آزاد کرنا عین ممکن ہے ۔ 
پس جدیدی فلسفیوں کے بقول سرمایہ دارانہ (یا سائنسی علمیت ) کی اقداری حقیقت ’خرید وفروخت‘ کے معنی خیز الفاظ میں بیان کی جا سکتی ہے۔ چونکہ آزادی کا مطلب سرمایے میں اضافہ ہے، لہٰذا علم بھی اسی کے ہم معنی ٹھرا۔ سرمایے کی بڑھوتری کا عمل اسی وقت ظہور پزیر اور قوی ہوتا ہے جب علم بذات خود نفع خوری (profit-maximization) کے نظم (Discipline) کا پابند اور اس کے تابع ہوجائے ، یعنی علم تعمیر کیا جائے ’بیچنے‘ کے لیے اور اسے ’خریدا ‘ جائے صرف (consumption) کرنے کے لیے [knowledge is produced for sale, and purchased for consumption]۔ دوسرے لفظوں میں لذت پرستی کی ذہنیت علم کو خریدوفروخت میں تبدیل کردیتی ہے اور خرید و فروخت کی یہ ذہنیت ہی سرمایہ دارانہ علمیت (طبعی و عمرانی سائنسز) کا اصل جوہر (essence) ہے۔ چنانچہ سرمایہ دارانہ معاشروں میں سائنس و ٹیکنالوجی کی ایجادات سے لیکر سوشل و بزنس سائنسز کی تحقیقات تک خرید وفروخت کے اسی عمل کے اظہار کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ مثلاً جب ایک یونیورسٹی میں کمپیوٹر یا بزنس سائنس کا طالب علم چار سال کی محنت شاقہ کے بعد اپنے تعلیمی کیرئیر کے آخری سال میں اپنا تحقیقی کام (Research project) کرنے لگتا ہے تو اس کے اساتذہ اس کے پلے یہ ہدایت نامہ باندھتے ہیں: ’بیٹا ایسا کام کرو جس کی کوئی مارکیٹ میں مانگ (Market value) ہو ، فضول کاموں میں وقت برباد مت کرو‘۔ درحقیقت یہی نصیحت تمام تر علم اور ٹیکنالوجی کا نقطہ آغاز و انتہا ہوتا ہے۔ تعلیم، تحقیق اور کنسلٹنسی (consultancy) کے تمام تر ادارے اسی اصول پر اور ایسا ہی علم تعمیر کرتے ہیں جسے زیادہ متوقع منافع و آمدنی کے ساتھ کمپنیوں کو بیچنا ممکن ہو، اور کمپنیاں ایسے ہی علم کو خریدتی ہیں جسے وہ اپنے پیداواری عمل میں استعمال کرکے مزید اشیاء بیچ کر زیادہ سے زیادہ منافع کما سکیں۔ خرید و فروخت کے اس علم کی پروان کے ساتھ معاشروں کی ’مارکیٹ کاری ‘ مستحکم تر ہوجاتی ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کسی معاشرے میں سائنسی علوم عام ہوں اور افراد میں ذاتی اغراض اور حرص و حسد نیز دیگر اخلاق رزیلہ پروان نہ چڑھیں۔ یہ تعلق بالکل ایسا ہی ہے جیسے مذہبی علوم کا مقصد افراد میں زہد، تقوی ، عزیمت ، عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم وفنا جیسی صفات عام کرنا ہے۔ سرمایہ دارانہ علوم کی بالا دستی کا مطلب در حقیقت افراد کی ذہنیت اور معاشروں کو خرید وفروخت کے نظم میں شامل اور تابع کرنے کا دوسرا نام ہے۔ ایسے علوم (مثلاًمذہبی علم) جو خریدوفروخت کی کسوٹی پر پورا نہ اترتے ہوں یعنی جنہیں خریدنے اور بیچنے کے نتیجے میں سرمایے کی بڑہوتری کے مواقع کم ہوں ان کے پنپنے کے مواقع بھی اتنے ہی کم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ 
سرمایہ دارانہ علم کے اس جا ہلانہ تصور کو عوام الناس میں رائج کرنے کے لیے ضروری تھا کہ اس وقت کے معاشروں میں پائے جانے والے مقبول عام تصور علم کو غیر معتبر اور لا یعنی ثا بت کیا جائے۔ قرون وسطی میں موجود علمیت کوئی اور نہیں بلکہ عیسائی علمیت تھی جسے ہر طرح کے جھوٹے پروپیگنڈوں اور نام نہاد عقل پرستی کے دعووں کی آڑ میں حقارت سے دیکھا جا نے لگا۔ اس ضمن میں اہم بات یہ کہ عوام الناس کا عیسائی علمیت سے ایمان کمزور کرنے کے لیے سب سے ضروری یہ تھا کہ اس علمیت کے حا مل فرد یعنی پوپ (اور ہمارے معاشروں میں مولوی) کی شخصیت کو متنازع اور مشکوک بنا یا جائے۔ اس کامقصد یہ ہوتا ہے کہ عوام الناس کا رابطہ ان مذہبی پیشواوں سے ٹوٹ جائے جہاں سے انہیں دنیا کے دارا لا متحان ہونے اور آخرت کی تیاری کا سبق ملتا ہے تاکہ جدیدیت کے حامی ان کے قلوب میں دنیا داری کے بیج بو سکیں۔ جدیدیت دنیا کے جس ملک میں بھی گئی اس نے مذہبی پیشواؤں کے عوامی اثر و رسوخ کم کرنے کے تمام حربے استعمال کیے ۔ 
دھیان رہے یہ تمام تر تبدیلیاں سرمایہ دارانہ پیداواری عمل میں زیادہ سے زیادہ افراد کو سمونے کے لیے سرمایہ دارانہ بنیادوں (for-profit business enterprise) کے تحت رونما ہوئیں۔ تنویری مفکرین (اور ان کے زیر اثر لبرل مسلم مفکرین) یہ پراپیگنڈہ کرتے ہیں کہ سرما یہ دارانہ نظام فرد کو یہ آزادی دیتا ہے کہ وہ جیسی زندگی گزارنا چاہے گزار سکتا ہے، مگر یہ سراسر جھوٹ ہے۔ درج بالا تجزئیے کی روشنی میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح سرمایہ دارانہ پیداواری عمل نے انسانی زندگی کے انتہائی پاکیزہ ترین اداروں کو تباہ و برباد کرکے فرد کو مارکیٹ ڈسپلن اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔ سرمایہ دارانہ نظام اس حد تک فرد کی ذاتی زندگی میں مداخلت کرتا ہے کہ ’اس کے بچوں کی تعداد‘ اور ’ان کی تربیت کے پیمانوں ‘ تک کے فیصلے مارکیٹ نظم کے تابع ہوکر رہ جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام فرد کو ایک ایسی زندگی گذارنے پر مجبور کردیتا ہے جس میں وہ سرمایے کی غلامی کے سواء کچھ اور کرنے کے لائق نہیں رہتا۔ اس حقیقت کو یوں بیان کیا جاتا ہے کہ Market is a totalizer (یعنی مارکیٹ فردکی ذاتی و اجتماعی زندگی پر پوری طرح حاوی ہوجاتی ہے)۔ 

نتائج

درج بالا تفصیلات سے ہم ان نتائج پر پہنچتے ہیں کہ: 
۱) مغربی نظم اجتماعی اور ادارے اس مارکیٹ ڈسپلن کا اظہار ہے جو ذاتی اغراض پر مبنی سرمایہ دارانہ پیدواری عمل کے قیام، تشکیل و استحکام کے لیے لازمی حیثیت رکھتا تھا۔ مغربی معاشروں میں سڑکوں پرٹریفک سگنلز کی پابندی، ہسپتالوں میں مریضوں کے خیال کا نظام، قطاروں میں اپنی باری کا انتظار وغیرہ اخلاقیات نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظم ڈسپلن کی پابندی اورsurvelience کا نتیجہ ہے (یہ ایسی چیزیں ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کے قیام کے لوازمات ہیں اور ایک سٹیزن کے اس ذمہ دارانہ سرمایہ دارانہ شعور (mature capitalist subjectivity) کا اظہار ہے جو سٹیزن کے اندر ایک سرمایہ دارانہ نظم میں زندگی گزارنے کے بعد ارتقاء پزیر ہوتا ہے)۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ جیسے جیسے سرمایہ دارانہ پیداواری نظام ہمارے معاشروں کو اپنی جکڑ میں لیتا جا رہا ہے (جیسے شہروں کو) ویسے ویسے ہماری عوام بھی سرمایہ دارانہ ایتھکس (ethics) کے پابند ہوتے چلے جارہے (مثلاً اب ہمارے ہاں بھی لوگ اطمینان کے ساتھ گھنٹوں قطار میں CNG کے لیے اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں)۔ یہیں سے ایتھکس (ethics) اور اخلاقیات (morality) کا فرق سمجھا جا سکتا ہے۔ ایتھکس (ethics) کا مطلب کسی بھی کام کو اس کے منطقی لوازمات و مضمرات کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ سر انجام دینا ہوتا ہے۔ اس بات کو اس دلچسپ مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ ہماری نظر سے ایک کتاب گزری جس کا عنوان تھا Ethical guide for call girls (جس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی تھی کہ جسم فروشی کے پروفیشن سے منسلک خواتین کی procedural ذمہ داریاں کیا ہیں)۔ اس کے برعکس اخلاقیات (morality) کا مطلب یہ ہے کہ فرد خواہشات میں ترجیحات کا پیمانہ قائم کرسکے، یعنی یہ سوال اٹھائے کہ قدر ( اچھا اور برا) کیا ہے۔ یہ سوال کہ انسا ن کو کس چیز کی خواہش کرنا چاہیے تنویری یا سرمایہ دارانہ نقطہ نگاہ سے ایک ناقابل تفہیم سوال ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ تنویری مفکرین کے مطابق حصول آزادی واحد مقصد حیات ہے اور چونکہ وہ ہر انسان کو اس حق کا مکلف گردانتے ہیں، لہٰذا ان کے نزدیک ہر شخص کو مساوی حق ہے کہ وہ جو چاہنا چاہتا ہے چاہے۔ یہی وجہ ہے کہ تنویری فکر کسی ابدی اخلاقیات کی نشاندہی کرنے سے قاصر ہے، اس کا مقصد حصول آزادی کی جستجو ہے اور چونکہ آزادی لا حاصل (درحقیقت کچھ نہیں محض خلا ) ہے، لہٰذا قدر کا اثبات کرنے سے قاصر ہے۔ چنانچہ ایتھکس (ethics) کا تعلق کسی فعل کی ادائیگی و تنفیذ کے لیے اس کی داخلی prodecural consistency (عملی ہم آہنگی) سے ہوتا ہے، جبکہ اخلاقیات کا تعلق کسی فعل کی قدر سے متعلق سوال اٹھانا ہے۔ قدر کا مطلب یہ ہے کہ انسان یہ سوال اٹھاس کے کہ اسے کیا چاہنا چاہیے اور کیا نہیں، کیا اہم ہے اور کیا غیر اہم۔ چونکہ تنویری فکر میں اخلاقیات کی بنیاد صرف انسانی خواہشات ہیں، لہٰذا اخلاقی قدروں کا تعین وہاں ناممکن ہے کیونکہ یہ بالکل واضح ہے کہ نفس لوامہ خواہشات کو صرف احکام الہی کے سامنے تول کر ہی پرکھ سکتا ہے اور اگر احکامات الہی سے انکار کرکے انسان خدا بن بیٹھے تو نفس امارہ نفس لوامہ پر غالب آجاتا ہے۔ ہائیڈیگر کہتا ہے کہ مغربی علمی تناظر میں ’نفس لوامہ کی بحث صرف خاموشی ہے‘ (discourse of discriminatury self is pure silence)۔ وہ نفس جس کے احکام کی بنیاد خواہشات ہوں، قدر کی پہچان اور علم و عرفان کے حصول سے قاصر رہتا ہے۔ قدر کا تعین صرف احکام الہی کی بنیاد پر ممکن ہے۔ یہی وہ بات ہے جسے امام اشعری و غزالی نے صدیوں پہلے بیان فرما دیا تھا کہ خیر و شر اعمال کے ذاتی نہیں بلکہ شرعی اوصاف ہیں، انسانی عقل، وجدان یا فطرت میں صلاحیت نہیں کہ انکا ادراک کر سکے۔ 
ایتھکس (ethics) اور اخلاق کا فرق ایک اور مثال سے سمجھا جا سکتا ہے، اگر یہ سوال اٹھایا جائے کہ کھانا کس طرح کھایا جائے تو ظاہر بات ہے اس فعل کو سر انجام دینے کے بے شمار ممکنہ طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں ( مثلاً کھڑے ہوکر، چلتے ہوئے، بیٹھ کر، لیٹ کر، جانور کی طرح کھانے میں منہ مار کر، رکابی میں ڈال کر، ہاتھ سے، چمچ کانٹے سے، زمین پر بیٹھ کر، کرسی پر بیٹھ کر وغیرہ)۔ ان میں سے جو بھی طریقہ کار اختیار کیا جائے گا ہر طریقہ کار کی ادائیگی کے چند جداگانہ عملی لوازمات ہوں گے جن کے بغیر اس کی ادائیگی نامکمل تصور کی جائے گی، چنانچہ ان بے شمار ممکنہ طریقوں میں سے کسی ایک طریقہ کار کو اپنا کر اسے اس کے منطقی لوازمات کے ساتھ ادا کرنا ایتھکس (ethics) ہے (انہی معنی میں کرسی میز پر بیٹھ کر کھانے کی ایتھکس (ethics) چلتے پھرتے یا بیٹھ کر کھانے کی ایتھکس سے مختلف ہوگی)۔ اس کے مقابلے میں اخلاقیات کا مطلب یہ سوال اٹھانا ہے کہ ان بے شمار ممکنہ طریقوں میں سے کون سا طریقہ بہتر و افضل ہے، ظاہر بات ہے عقل یا وجدان کی روشنی میں اس کاکوئی جواب دینا ممکن نہیں اور یہاں قول فیصل یہی ہوگا کہ حضور پر نور ﷺ نے کس طرح کھانا کھایا اور درحقیقت یہی طریقہ اخلاقیات کا مظہر ہے (حدیث شریف انما بعثت لا تمم مکارم الاخلاق یعنی ’مجھے بہترین اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہے‘ کا معنی یہی ہے)۔ اس طریقہ کار کے سواء دیگر طریقے ethical تو ہو سکتے ہیں مگر moral نہیں۔ اسی طرح بدکاری کو فروغ دینے کے بہت سے ethical طریقے تجویز کیے جا سکتے ہیں لیکن حقیقتاً یہ سب غیر اخلاقی (immoral) ہوں گے۔ انہی معنوں میں مغربی اجتماعیت ethical تو ہے (کہ وہاں سرمایہ دارانہ نظم ڈسپلن داخلی ہم آہنگی کے ساتھ ہمارے معاشروں کے مقابلے میں قدرے بہتر طور پر نافذ ہے)، البتہ یہ کسی طور اخلاقی نہیں (بلکہ اخلاق بد کا مظہر ہے) ۔ اسی لیے ہم پورے شرح صدر کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ ’مغرب کا اجتماعی نظم اعلی اخلاق نہیں بلکہ انتہائی رزیل انسانی احساسات پر مبنی عقلیت (حرص، حسد، شہوت، غضب، طول امل، حب جاہ دنیا و مال) اور اس پر قائم ہونے والی ادارتی صف بندی (مارکیٹ و ریاست) کے قیام کے لیے مطلوب نظم کی پابندی کا غماز ہے‘۔ یہی وجہ ہے کہ کسی سرمایہ دارانہ معاشرے میں اعلی اخلاق (مثلاً للہیت، عشق رسول، شوق عبادت، خوف آخرت ،طہارت، تقوی، عفت، حیا، ایثار، محبت، شوق شہادت، توکل، صبر، شکر، زہد، فقر، قناعت ، عزیمت وغیرہ) نہیں پنپتے۔ جو مسلم مفکرین ethics اور morality کے اس فرق سے واقف نہیں اور مغربی اجتماعیت کو اسلامی اقدار کا غماز قرار دینے کی غلط فہمی کا شکار ہیں وہ اس بات کا کوئی تشفی بخش جواب نہیں دے سکتے کہ آخر مغرب میں (اور جہاں کہیں یہ نظام پروان چڑھتا ہے وہاں) درج بالا اخلاقی قدریں کیوں نا پید ہوجاتی ہیں۔ 
۲) مغرب میں جسے rule of law اور سوشل رائٹس کہا جاتا ہے ان کی فراہمی کا مقصد سٹیزن کو اس قابل بنانا تھا کہ وہ مارکیٹ نظم میں شامل ہو کر سرمایے کی بڑھوتری کے عمل میں اپنا کردار ادا کرسکے اور اس عمل میں شرکت کے ذریعے اپنی خواہشات نفسانی کی تکمیل کرسکے (یعنی لذات کو فروغ دینے کا مکلف بن سکے)۔ یہی سرمایہ دارانہ عدل ہے اور سرمایہ داری کی تاریخ اسی عدل کے حصول کی جدوجہد سے عبارت ہے۔ اس سرمایہ دارانہ عدل (جو درحقیقت ظلم ہے) کی فراہمی کو خلافت کا مظہر سمجھنا ناسمجھی کے سواء اور کچھ نہیں کیونکہ نفس پرستی کے فروغ کے نتیجے میں عبدیت ہرگز پروان نہیں چڑھتی۔
۳) جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ’مغرب ہم سے بہتر مسلمان ہے‘ وہ درحقیقت سرمایہ داری کو بطور نظام زندگی نہیں پہچانتے اور نہ ہی انہیں مغرب میں اس کے معاشرتی ارتقا و لوازمات کا ادراک ہے۔ حقیقت یہ نہیں کہ مغرب ہم سے بہتر مسلمان ہے بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے یعنی ’ہم مغرب سے برے سرمایہ دار ہیں‘۔ مغرب میں چونکہ سرمایہ دارانہ نظام دو صدیاں قبل مستحکم ہونا شروع ہوگیا تھا لہٰذا ان کے ہاں سرمایہ دارانہ ڈسپلن اور ادارے پختہ ہو چکے ہیں، ان کی معاشرت و ریاست خاندانی تعلقات کے تانے بانے (web of relationships) سے نکل کر مارکیٹ نظم میں پوری طرح سمو چکی ہے۔ اس کے برعکس ہمارے یہاں دو نظاموں کے درمیان کشمکش کا دور ہے، تہذیبی تبدیلیوں کے معاملے میں ایسے دور کو عبوری دور (transitionary phase) کہا جاتا ہے۔ اس دور کی خصوصیت یہی ہوتی ہے کہ ایک نظام تحلیل ہورہا ہوتا ہے اور اس کی جگہ دوسرا نظام اپنی جگہ بنانے کی کوشش کررہا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے معاشرے توڑ پھوڑ کے عمل کا شکار ہوتے ہیں اور نتیجتاً فرد کو نہ تو پرانے نظام کا عدل اور نہ ہی نئے نظام کا عدل پوری طرح میسر ہو پاتا ہے اور وہ گونا گوں نفاق کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتا ہے (یعنی جسے پسند نہیں کرتا کرسکتا وہی ہے ، اور جسے پسند کرتا ہے اسے کرنے کے مواقع نہیں پاتا)۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں سرمایہ دارانہ ڈسپلن کی پابندی اور اداروں کی کارکردگی نسبتاً خراب ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مغرب میں سرمایہ دارانہ مظالم ہمارے معاشروں کے مقابلے میں نسبتاً کم ہیں اور وہاں سٹیزن کے لیے سرمایہ دارانہ عدل کی فراہمی نسبتاً بہتر ہے ]حضرت علیؓ کی طرف ایک مشہور قول منسوب ہے کہ ’کفر کے ساتھ حکومت کی جاسکتی ہے مگر ظلم کے ساتھ نہیں‘۔ اگر واقعی یہ نسبت درست ہے تو ہمارے نزدیک اس قول میں ظلم کفر کے مقابلے میں استعمال نہیں ہوا کیونکہ کفر بذات خود ظلم ہے اور حضرت علیؓ جیسی علمی شخصیت سے بعید ہے کہ وہ کفر کو ظلم سے علیحدہ قرار دیں گے، اس قول کا معنی یہ ہیں کہ اگر کفر بھی اپنا تصور عدل( جو درحقیقت ظلم ہی ہوتا ہے) پیہم فراہم کرنا شروع کردے تو اس کی حکومت بھی قائم رہ سکتی ہے (جیسے سرمایہ دارانہ حکومتیں قائم ہیں) اور اگر اہل حق اپنے تصور عدل کی تنفیذ سے پھر جائیں (یعنی اس کے ساتھ ظلم کریں) تو ان کی حکومت بھی قائم نہ رہے گی۔ دوسرے لفظوں میں ایک ظالمانہ نظام عدل (مثلاً سرمایہ دارانہ عدل) اگر بھر پور طریقے سے فراہم کیا جائے تو وہ بھی قائم رہ سکتا ہے اور اگر ایک منصفانہ نظام عدل کے ساتھ ظلم کیا جائے (یعنی اسے فراہم نہ کیا جائے) تو وہ بھی دنیاوی اعتبار سے مغلوب ہو جائے گا، گویا حضرت علیؓ اس قول میں اہل ایمان کو یہ تلقین فرما رہے ہیں کہ اسلامی تصور عدل کی محض تبلیغ ہی کافی نہیں بلکہ اس کانفاذ بھی ضروری ہے کیونکہ اگر تم اپنے عدل کی تنفیذ نہ کرکے اس کے ساتھ ظلم کرو گے تو کافر اپنے ظلم کی تنفیذ کرکے تمہیں زیر کر سکتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہی تشریح حضرت علیؓ جیسی بالغ النظر شخصیت کے شایا ن شان ہے نہ کہ وہ غلط تشریح جو عام طور پر بیان کی جاتی ہے[۔ 
۴) جیسا کہ عرض کیا گیا کہ سرمایہ دارانہ عدل ظلم ہے کیونکہ یہ عبدیت نہیں بلکہ آزادی یعنی لذت پرستی کے فروغ کا دوسرا نام ہے۔ جب اسلامی تحریکات مغربی اجتماعی نظم کو اسلامی اقدار کا عکاس فرض کرکے اسلامی معاشروں کو مغربی آدرشوں (آزادی، مساوات، ترقی، ہیومن رائٹس، سوشل رائٹس) اور ادارتی صف بندی (سائنس، جمہوریت، مارکیٹ، بینکاری، سول سوسائٹی) پر استوار کرنے کی جدوجہد کرتی ہیں تو درحقیقت وہ سرمایہ دارانہ عدل کے قیام کا اسلامی جواز فراہم کرتی ہیں (جو ایک انتہائی فاسد فکری رویہ اور خطرناک حکمت عملی ہے)۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج بیشتر سیاسی اسلامی تحریکات نے سرمایہ دارانہ نظم ڈسپلن کو ٹیکنیکل اور غیر اقداری ڈھانچہ فرض کرکے اسے مقاصد شریعت کے حصول کا ذریعہ سمجھ لیا ہے اور ان کے خیال میں اس ملحدانہ ڈھانچے کے نفاذ کے ذریعے ضروریات دین کی تکمیل کرنا ممکن ہے۔ یہی وہ فاسد خیال ہے جس کی وجہ سے ہمیں سکینڈنیوین (scandinavian) ممالک کی سرمایہ دارانہ ویلفیئر ریاستوں میں خلافت راشدہ کی جھلک دکھا ئی دیتی ہے، فیا للعجب (گویا یا تو ان حضرات کا یہ مفروضہ ہے کہ ان مما لک میں بسنے والے لوگ مانند صحابہ ایمان و کردار کے حامل ہیں اور یا پھر ان کے خیال میں خلافت راشدہ کے قیام کے لیے صحابہ جیسا ایمان و کردار سرے سے درکار ہی نہیں)۔ 
۵) اگر یہ سوال اٹھایا جائے کہ مغربی معاشروں میں بھلائی (مثلاً خیرات کرنا، چرچ جانا وغیرہ) کے جو چند شعائر ہمیں دکھائی دیتے ہیں ان کی کیا توجیہ کی جائے، تو اس کاجواب یہ ہے کہ ایک فرد بیک وقت دو مختلف اور متضاد عقلیتوں (rationalities) کا شکار ہو سکتا ہے اور ایسا اکثر ہوتا ہے کہ زندگی کے کسی ایک گوشے میں وہ ایک عقلیت سے اور دوسرے حصے میں دوسری عقلیت سے متاثر ہوکر فیصلے کرتا ہے۔ مغربی فرد بھی کسی حد تک اسی مخمصے کا شکار ہے، چنانچہ ایک طرف وہ قدیم عیسائی شناخت کا وارث ہے (یہ اور بات ہے کہ اس کی شناخت کا یہ شعور اس کی زندگی کے بیشتر معاملات میں لایعنی ہو چکا ہے) مگر ساتھ ہی ساتھ وہ ایک غالب ملحدانہ سرمایہ دارانہ انفرادیت کے قالب میں خود کو ڈھال چکا ہے۔ گو کہ عیسائی انفرادیت اور عصبیت مغربی ممالک میں نہایت کمزور ہو چکی ہے البتہ یہ پوری طرح ختم نہیں ہوگئی (ظاہر بات ہے انسان کبھی بھی پوری طرح شیطان کی مانند شر محض نہیں بن جاتا بلکہ بد سے بد تر انسان میں بھی خیر کا کوئی نہ کوئی پہلو بہرحال موجود رہتا ہے)۔ پس مغربی فرد کے شعور پر جس حد تک ایک محدود عیسائی انفرادیت و شناخت کے اثرات باقی ہیں اسی قدر ان معاشروں میں خیر کے چند مظاہر ابھی تک باقی ہیں۔ یہ بات بھی دھیان میں رہنی چاہیے کہ سرمایہ داری مذہب کو مکمل طور پر نیست و نابود نہیں کردیتی بلکہ فرد کو اس کی ایک ایسی تشریح قبول کرنے پر راضی کرتی ہے جس کے ذریعے وہ بارضا ورغبت سرمایہ دارانہ ڈسپلن اختیار کرلے نیز سرمایہ دارانہ نظام کے مظالم کا مداوا کیا جا سکے (جیسا کہ اوپر بتایا گیا)۔ 
۶) سرمایہ دارانہ خطوط پر معاشروں کی مارکیٹ کاری خود بخو دکسی فطری قانون کے تحت رونما نہیں ہوجاتی بلکہ اس کے لیے بھرپور سرمایہ دارانہ ریاستی جبر درکار ہوتا ہے (یعنی سرمایہ داری evolution نہیں بلکہ engineering کے نتیجہ میں بر آمد ہوتی ہے)۔ اس ضمن میں سرمایہ دارانہ ریاست کی ذمہ داریوں کا خلاصہ ذیل میں دیا گیا ہے۔ 

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں چیزیں جیسی کہ وہ ہیں سمجھنے کی صلاحیت عطا فرما دے، آمین۔ 

مولانا مودودیؒ اور مولانا ہزارویؒ کے حوالے سے مباحثہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ، مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ اور مولانا محمد چراغؒ کے حوالے سے کچھ عرصے سے ’’الشریعہ‘‘ کے صفحات پر بحث جاری ہے اور چونکہ اب یہ بحث مکالمہ کے بجائے مورچہ بندی کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے، اس لیے مزید تکرار سے بچنے کے لیے ہم نے اس کو یہیں ختم کر دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ جیسا کہ کئی بار عرض کیا جا چکا ہے، ’’الشریعہ‘‘ کو علمی، فکری، تاریخی اور دیگر متعلقہ مسائل پر باہمی مباحثہ ومکالمہ کا فورم ضرور بنایا گیا ہے، لیکن ہم اسے صرف مکالمہ کی حد تک رکھنا چاہتے ہیں اور مناظرہ ومحاذ آرائی کا رنگ نہیں دینا چاہتے۔ کسی مسئلہ پر متعلقہ فریقوں کا موقف کیا ہے اور اس کے بنیادی دلائل کیا ہیں؟ یہ امور تو ضرور زیر بحث آنے چاہییں، لیکن طعن وتشنیع اور تحقیر واستہزا سے ہماے خیال میں خود دلیل کا وزن کم ہو جاتا ہے۔
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودویؒ کے بعض افکار ونظریات اور دینی تعبیرات سے جمہور علما کو اختلاف رہا ہے۔ اس کا اظہار شدت اور نرم روی کے دونوں لہجوں میں خاصا ہوا ہے اور اس کے دفاع میں بھی دونوں اسلوب یکساں کار فرما چلے آ رہے ہیں، جبکہ ہم اس معاملے میں موقف کے حوالے سے بہرحال جمہور اہل علم کے ساتھ ہیں۔ البتہ یہ حضرات چونکہ دنیا سے جا چکے ہیں اور ان کا معاملہ اب اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے، اس لیے اگر کسی دینی ضرورت کے تحت ان کے باہمی مباحث کا اعادہ ناگزیر ہو تو ان کی معاصرانہ چشمک اور باہمی فقرہ بازی کو نظر انداز کرتے ہوئے موقف اور دلائل کا تذکرہ ہی زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔
مولانا محمد چراغ علیہ الرحمہ کے علم وفضل کی ایک دنیا معترف ہے۔ ہم خود بھی ان کے نیاز مندوں میں سے ہیں، اس لیے ان کے ایک معاصر مولانا غلام غوث ہزارویؒ نے ان کے نام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک معروف اردو محاورے ’‘چراغ تلے اندھیرا‘‘ کا اپنے مخصوص لہجے میں مناسب یا نامناسب ترجمہ کر دیا تو اسے معاصرانہ چشمک کے دائرے میں ہی رکھنا بہتر تھا اور باقاعدہ کسی تحقیقی مضمون کا عنوان بنانے کی شاید ضرورت نہیں تھی۔ بہرحال، مولانا حافظ محمد عارف صاحب ہمارے محترم دوست ہیں۔ انھوں نے اپنے استاذ محترم کے دفاع میں جن جذبات کے ساتھ قلم اٹھایا ہے، وہ استاذ اور شاگرد کے رشتے کے حوالے سے قابل قدر ہیں۔ انھی جذبات کے احترام میں ان کا یہ مضمون مولانا محمد فیاض خان سواتی کے ایک وضاحتی نوٹ کے ساتھ شائع کر تے ہوئے ہم اس بحث کا باب بند کر رہے ہیں۔

چراغ علم و حکمت

مولانا حافظ محمد عارف

ماہنامہ الشریعہ کے فروری 2013ء کے شمارہ میں خواجہ امتیاز احمد صاحب (سابق ناظم اسلامی جمعیت طلبہ گوجرانوالہ )کا ایک مضمون شائع ہوا، جو چوہدری محمد یوسف صاحب ایڈووکیٹ (سابق رکن جماعت اسلامی)کے مضمون کے جواب میں تھا۔ جس میں جماعت اسلامی کے بارے میں اظہار خیال کیا گیا تھا۔خواجہ امتیاز احمد صاحب نے اپنے مضمون کے شائع ہونے کے بعد مئی 2013ء کے شمارہ میں ایک مکتوب کے ذریعے مولانا فیاض صاحب کے استفسار پر چند وضاحتیں کیں۔ جن میں مولانا غلام غوث ہزاروی علیہ الرحمۃ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا کہ
’’وہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد چراغ رحمہ اللہ کو سیاہ دل کہا کرتے تھے اورکہتے تھے چراغ باہر روشنی دیتا ہے، اندر سے سیاہ ہوتا ہے ۔ ‘‘
اس مکتوب کے جواب میں مولانا محمد فیاض خاں سواتی مد ظلہ نے الشریعہ کے جون 2013 ء کے شمارہ میں ایک طویل مضمون لکھا ہے، جس میں جماعت اسلامی ، مولانا مودودی رحمہ اللہ اور مولانامحمد چراغ رحمہ اللہ کے بارے میں خامہ فرسائی کی گئی ہے۔ اپنے مضمون میں انہوں نے حضرت مولانا محمد چراغ کے بارے میں جس قسم کا اظہار کیا ہے وہ نہ صرف یہ کہ مولانا فیاض صاحب کے شایان شان نہیں ۔ بلکہ وہ اس کی معلومات کے ناقص ہونے پر دلالت کرتا ہے ۔ اس لیے صرف دو باتوں کی وضاحت ضروری محسوس کرتے ہوئے چند گزارشات پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں ۔ 
مگر ان گزارشات سے پہلے ذرا مولانا فیاض خاں سواتی صاحب کے الفاظ ملاحظہ فرمائیے۔جو انہوں نے حضرت مولانا محمد چراغ رحمہ اللہ اورمولانا غلام غوث رحمہ اللہ کا تقابل کرتے ہوئے تحریر فرمائے ہیں ۔
’’حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی اورمولانا محمد چراغ دار العلوم دیو بند میں کلاس فیلو تھے، دونوں نے محدث العصر حضرت مولانا محمد انور شاہ کشمیریؒ سے ۱۹۱۸ء میں دورۂ حدیث پڑھا تھا۔ مولانا ہزاروی مولانا محمد چراغ مرحوم سے علم میں فائق بھی تھے ۔ ان کی کلاس میں اوّل انڈیا کے ایک عالم جبکہ دوسرے نمبر ہر مولانا ہزاروی آئے تھے ۔ اسی وجہ سے کچھ عرصہ دار العلوم دیو بند میں مدرس بھی متعین کیا گیا تھا، اورپھر دار العلوم نے اپنے نمائندہ کے طور پر قاضی کے عہدہ پر انہیں حیدر آباد بھیجا تھا۔ وہ مولانا چراغ مرحوم کو جتنا قریب سے جانتے تھے ، ماوشمانہیں جانتے تھے۔مولانا غلام غوث ہزاروی کی علمی پوزیشن کے بارے میں بریگیڈیر جناب فیوض الرحمن جدوں اپنی کتاب مشاہیر علماء ج ۲ ص ۵۴۷ میں لکھتے ہیں: ایک رسالہ پوسٹ مارٹم بھی لکھا جس میں جناب مولانا سید ابوالاعلی مودودی صاحب کی تحریروں پر مضبوط گرفت کی ، ان میں سے بعض تحریروں سے مولانا نے رجوع فرما لیا ہے۔‘‘
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ بالکل غلط اورخلافِ واقعہ ہے کہ مولانا غلام غوث ہزاروی ؒ اورمولانا محمد چراغ صاحب رحمہ اللہ دیوبند میں کلاس فیلو تھے۔ کیونکہ حضرت مولانا محمد چراغ صاحب رحمہ اللہ مولانا قاری محمد طیب رحمہ اللہ کے کلاس فیلو تھے اورانہوں نے ۱۹۱۸ء میں دورۂ حدیث کیا جس طرح فیاض صاحب نے اپنی تحریر میں ذکر کیا ہے ، جبکہ مولانا غلام غوث ہزاروی رحمہ اللہ نے ۱۹۱۹ء میں دورۂ حدیث کیا۔ 
جیسا کہ ماہنامہ الشریعہ کی خصوصی اشاعت بیاد امام اہلِ سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خاں صفدر رحمہ اللہ (شمارہ جولائی --اکتوبر۲۰۰۹)کے صفحہ ۶۷ مضمون : حضرت شیخ الحدیث(مولانا محمد سرفراز خاں صفدر رحمہ اللہ )کے اساتذہ کا اجمالی تعارف از مولانا حافظ محمد یوسف (رفیق شعبہ تصنیف و تالیف الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ )میں حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ کے متعلق درج ہے:
’’۱۳۳۷ھ مطابق ۱۹۱۹ء میں حضرت کشمیری ،حضرت مولانا غلام رسول(صحیح مولانا رسول خاں ) علامہ شبیر احمد عثمانی اورحضرت مولانا ابرہیم بلیاوی سے دورۂ حدیث پڑھ کر سند حاصل کی۔‘‘
نیز ماہنامہ الرشید دارالعلوم دیوبند نمبر شمارہ فروری ،مارچ۱۹۷۶ء میں علماء دیوبند سرحدکی تصنیفی خدمات کے عنوان کے تحت قاری فیوض الرحمن صاحب جدون مولانا غلام غوث ہزارویؒ کے تذکرہ میں لکھتے ہیں:
’’۱۳۳۷ھ /۱۹۱۹ء میں امام العصر مولانا انورشاہ کشمیری ؒ سے دورۂ حدیث پڑھ کر سند الفراغ حاصل کی‘‘ (ص:۴۴۳)
مزید حوالے کے لیے دیکھئے سوانح مجاہد ملت حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی ؒ تالیف عبدالقیوم حقانی ،ص:۳۰ کہ اس میں بھی سنِ فراغت ۱۹۱۹ء درج ہے۔ 
دوسری گزارش یہ ہے کہ بہتر ہوتا مولانا فیاض صاحب مولانا غلام غوث ہزارویؒ کے اس قول کا بوجھ اپنے سر نہ لیتے ، جیسا کہ انہوں نے اپنے مضمون کے شروع میں لکھا ہے:
’’ہر آدمی صرف اپنے قول و فعل کا ذمہ دار ہوتا ہے، دوسروں کا نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان بھی ہے:(ولا تزر وازرۃ وزر اخری) ’’کوئی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا‘‘اورجناب نبی اکرم ؐ نے بھی اپنے خطبۂ حجۃ الوادع میں زمانۂ جاہلیت کی رسم کو ختم کرتے ہوئے اعلان کر دیا: (الا، لا یجنی جان الا علی نفسہٖ) ’’ہر جنایت کرنے والا خود ذمہ دار ہو گا‘‘اورمشہور محاروہ بھی ہے :’’جو کرے وہی بھرے‘‘۔
مگر انہوں نے اپنے ہی اصول کی نہ صرف خلاف ورزی کی ہے بلکہ حضرت مولانا محمد چراغ کے بارے میں مولانا ہزاروی ؒ کے قول کی بالواسطہ تائیدکر کے مولانا محمد چراغ کے ہزاروں تلامذہ اورعقیدت مندوں کے دلوں کو مجروح کیا ہے۔ 
مولانا غلام غوث ہزاروی رحمہ اللہ نے اگر حضرت مولانا محمد چراغ رحمہ اللہ کو ’’سیاہ دل ‘‘کہا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ صریح بد گمانی ہے ۔ اس لیے کہ اولاً دلوں کا حال اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ نبی ؐ نے حضرت اسامہ ابن زیدؓ سے ایک نو مسلم کے قتل کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے عرض کیا :’’حضور ! اس نے صرف جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھا تھا‘‘ تو آپ نے فرمایا: افلا شققت عن قلبہ  (صحیح مسلم) پھر آپ نے فرمایا: من لک بلا الٰہ الا اللہ یوم القیامۃ  (سنن ابی داؤد) اس پر حضرت اسامہ بن زید سخت نادم ہوئے اورفرماتے ہیں کہ میں تمنا کرنے لگا کہ کاش میں آج ہی اسلام قبول کرتا کہ میرا یہ گناہ بھی اسلام لانے کی وجہ سے معاف ہوجاتا ۔ 
اور ثانیاً بد گمانی کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ایاکم و الظن فان الظن اکذب الحدیث) ’’بدگمانی سے بچو کیونکہ یہ سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے ‘‘۔ (صحیح بخاری)
جہاں تک محترم مولانا فیاض صاحب کے اس قول کا تعلق ہے کہ ’’مولانا ہزارویؒ مولانا چراغ مرحوم سے علم میں بھی فائق تھے۔۔۔ وہ مولانا چراغ مرحوم کو جتنا قریب سے جانتے تھے ، ما و شما نہیں جانتے تھے۔‘‘
معلوم نہیں مولانا فیاض صاحب کو کس نے اس منصب پر فائز کیا ہے کہ وہ ان دونوں بزرگوں کا علمی محاکمہ کر کے اپنا فیصلہ صادر فرمائیں ۔ کیا وہ ان دونوں بزرگوں سے بڑے عالم ہیں یاانہوں نے ان دونوں بزرگوں سے براہ راست اکتساب فیض کیا ہے اوران کی علمی مجالس میں شرکت کی ہے کہ وہ اپنا حکم جاری کریں۔ 
معلوم ہوتا ہے وہ ولئ کامل عالمِ بے بدل شیخ التفسیر والحدیث استاذ العلماء حضرت مولانا محمد چراغ صاحب رحمہ اللہ کے علمی مرتبہ سے آگاہ نہیں ۔ اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مولانا محمد چراغ صاحب رحمہ اللہ کے علمی مرتبہ کے بارے میں چند باتیں’’مشتے نمونہ از خروارے‘‘کے طور پر عرض کر دی جائیں:

تعلیم و تربیت

حضرت مولانا محمد چراغ رحمہ اللہ نے اپنی مختصر خود نوشت سوانح میں لکھا ہے :
’’میری تعلیم و تربیت میں تین اساتذہ کا بہت بڑا حصہ ہے ، اورمیں جو کچھ ہو انہیں بزرگوں کا فیضان نظر ہوں ۔ 1 ۔ حضرت مولانا سلطان احمد صاحب گنجویؒ (تلمیذ رشید شیخ الہند رحمہ اللہ )2۔ حضرت مولانا ولی اللہ صاحب رحمہ اللہ (انہی شریف)، 3۔ محدث العصر حضرت مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ‘‘

مولانا محمد الیاس رحمہ اللہ کی طرف سے تحسین

آپ دورِ طالب علمی میں ہی کتنے ذہین و فطین اورقابل تھے ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب آپ مدرسہ مظاہر العلوم (سہارنپور ، انڈیا )میں پڑھنے کے لیے گئے اورحضرت مولانا محمد الیاس صاحبؒ بانی تبلیغی جماعت کے درس میں شریک ہوئے تو انہوں نے کنزالدقائق کے مقدمہ میں چند الفاظ کے بارے میں پوچھا ، انہیں کس طرح پڑھا جائے ، بتائیے؟مگر کوئی پنجابی طالب علم ابھی نہ بولے۔ اب کسی نے کچھ پڑھا کسی نے کچھ۔ پھر آپ نے فرمایا : ہاں اب کوئی پنجابی بولے ۔ اس پر مولانا محمد چراغ رحمہ اللہ نے درست عبارت پڑھی ۔ تو آپ نے شاباش دی اورذہانت کی تعریف کی۔ 
آپ سے پوچھا گیا: حضرت نے پنجابیوں کو کیوں خاموش رہنے کا کہا؟ آپ نے فرمایا: پنجابی طالب علم عموماً حضرت مولانا ولی اللہ صاحبؒ انہی شریف والوں کے مدرسے میں پڑھ کر آتے ہیں ۔ اس لیے ان کو وہاں صرف ونحو کے قواعد میں طاق کر دیا جاتا ہے کہ عربی عبارت فرفر پڑھ لیتے ہیں ۔ آپ نے موقوف علیہ تک مولانا ولی اللہ ؒ سے ہی تعلیم حاصل کی۔ مزید فرمایا: دار العلوم دیوبند میں داخلہ کے لیے طلبہ کا ٹیسٹ ہوتا لیکن انہی شریف کے فارغ التحصیل طلبہ اس سے مستثنیٰ تھے۔ ایک موقع پر حضرت شاہ صاحب (مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ )نے فرمایا: ’’انہی والے مولوی صاحب کا ہم پر احسان ہے کہ وہ ایسے ذی سِواد(صاحب استعداد)طالب علم بھیج دیتے ہیں جو ہماری باتوں کو سمجھ سکتے ہیں۔ ‘‘

محدث العصر حضرت مولانا سید انور شاہ کشمیریؒ اورمولانا محمد چراغ ؒ

جب آپ دورۂ حدیث کے لیے دار العلوم دیو بند تشریف لے گئے تو محدث العصر حضرت مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کے درس بخاری کو دورانِ درس اردوسے عربی میں منتقل کر کے محفوظ کیا۔ حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ کے افادات کے اس مجموعہ کا نام آپ نے ’’السیح الجاری الی جنۃ البخاری‘‘ رکھا۔ عراق کے ایک شیخ (عبدالغفور موصلی )نے حضرت سے درخواست کی کہ آپ مجھے بھی اس کی ایک نقل دے دیں ۔ وہ دور فوٹو اسٹیٹ کا نہیں تھا ۔ آپ نے امتحان کے دنوں میں اس کی نقل تیار کر کے انہیں دے دی۔ حضرت شاہ صاحبؒ عراقی شیخ سے بہت محبت کرتے تھے ۔ ایک دفعہ وہ ملاقات کے لیے حاضر ہوئے تو آپ نے پوچھا : آپ کے ہاتھ میں یہ کاغذات کیسے ہیں؟انہوں نے کہا یہ آپ کے درس بخاری کے افادات ہیں جو سراج بنجابی (مولانا محمد چراغ رحمہ اللہ )نے جمع کیے ہیں ۔ آپ نے دیکھ کر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ’’میں نہیں سمجھتا تھا کہ اس زمانے میں بھی ایسے ذی سِواد (صاحب استعداد)ہوتے ہیں۔‘‘ پھر آپ نے آئندہ سال کے لیے حضرت مولانا محمد چراغ صاحب کو بلا کر اپنی تقریر ترمذی نوٹ کرنے کا کہا جو بعد میں العرف الشذی کے نام سے چار دانگ عالم میں مشہور ہوئی۔ اس کے بارے میں علامہ خالد محمود صاحب لکھتے ہیں:
’’حضرت شاہ صاحب کی ’’العرف الشذی ‘‘سے حدیث کا کوئی مدرس مستغنی نہیں رہ سکتا ۔ اللہ تعالیٰ نے اسے عجیب مقبولیت بخشی۔‘‘ (ماہنامہ الرشید دار العلوم دیو بند نمبر، ص: ۱۱۴،جلد ۴ شمار ۲،۳فروری ،مارچ ۱۹۷۶ء)
حضرت مولانا محمد چراغ رحمہ اللہ تو اپنے شیخ (مولانا محمد انور شاہ کشمیریؒ )سے عشق کی حد تک لگاؤ رکھتے تھے اوران کی باتیں لطف لے لے کر بیان کرتے تھے۔ حضرت شیخ کے نز دیک اپنے شاگرد کا کیا مرتبہ تھا، اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے جس کے راوی مولانا محمد یوسف مرحوم (امرہ کلاں گجرات) ہیں۔
’’حضرت مولانا سید محمد انور شاہ صاحب مرحوم جامع مسجد گوجرانوالہ تشریف لائے، ان کے تلامذہ اوردیگر عقیدت مند لوگ اورعلماء جوق در جوق بغرضِ ملاقات آنا شروع ہوگئے ۔ حضرت شاہ صاحب مرحوم سب سے بیٹھے بیٹھے مصافحہ کر رہے تھے ۔ حضرت مولانا محمد چراغ صاحب ؒ جب حاضرہوئے تو فرمایا: ٹھہرو مجھے پان لگالینے دو پھر پان منہ میں رکھا ، ہاتھ صاف کیے اور کھڑے ہو کر آپ کے ساتھ معانقہ کیا۔‘‘ (ماہنامہ چراغ اسلام ، اپریل ، مئی ص:۲۴۷،۲۰۱۱ء)

پیر سید جماعت علی شاہ صاحب رحمہ اللہ کی نظر انتخاب

پیر سید جماعت علی شاہ صاحب (۱۸۴۵ء--۱۹۵۱ء، علی پورسیداں ، ضلع سیالکوٹ)جوخود بھی بہت بڑے عالم تھے۔ (جن کے بارے میں محمد خالد متین اپنی کتاب تحفظ ختم نبوت اہمیت اورفضیلت میں لکھتے ہیں : امیر ملت حضرت پیر سید جماعت علی شاہ ؒ ان عظیم بزرگوں میں شامل ہیں جن کی زندگی کا مقصد صرف تحفظ ناموسِ رسالتؐ تھا اوراس مشن کی تکمیل کے لیے انہوں نے شب و روز ایک کر دئیے تھے، تحفظ ختم نبوت اورفتنۂ قادیانیت کی سرکوبی کے سلسلہ میں آپ کی خدمات جلیلہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں )انہوں نے اپنے صاحبزادے سید محمد حسین کی تعلیم و تربیت کے لیے آپ کو انتہائی ادب و احترام سے علی پور سیداں مدعو کیا ۔ چنانچہ آپ نے سید محمد حسین صاحب کو تعلیم سے بہرہ یاب فرمایا ۔ بعد ازاں وہ دورۂ حدیث کے لیے دار العلوم دیو بند تشریف لے گئے۔ 

حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ کے نزدیک مولانا محمد چراغ رحمہ اللہ کا مقام

حضرت مولانا احمدعلی لاہوری رحمہ اللہ نے قرآن مجید کے تفسیری حواشی پر جن علماء کرام سے تقاریظ لکھوائیں ان میں مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری، مولانا قاری محمد طیب ، مولانا مفتی کفایت اللہ کے ساتھ حضرت مولانا محمد چراغ ؒ سے بھی تقریظ لکھوائی ۔ جو آپ کے استاذ بھی ہیں اورشاگرد بھی۔

امیر شریعت حضرت مولانا عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری رحمہ اللہ کا اعتماد

امیر شریعت حضرت مولانا عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری رحمہ اللہ آپ کے گہرے دوستوں میں سے تھے۔ جیل میں کافی عرصہ اکٹھے رہے ۔ انہوں نے حضرت(مولانا محمد چراغ ؒ )سے کہا : میں چاہتا ہوں کہ میری بچیاں آپ کے گھر رہ کر آپ سے تعلیم حاصل کریں ،مگر آپ نے یہ ذمہ داری اٹھانے سے معذرت کر لی۔

آپ ؒ کے تلامذہ

مولانا غلام محمد (مرہانہ ، ڈسکہ ضلع سیالکوٹ والے)جن کے پاس امامِ اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خاں صاحب رحمہ اللہ بھی پڑھنے کے لیے گئے مگر داخلہ نہ مل سکا۔ وہ حضرتؒ کے خود بھی شاگردِ خاص تھے ۔ ان کے بیٹے، پوتے اورپڑپوتے بھی حضرت کے شاگردوں میں شامل ہیں۔ آپ کے شاگردوں کی فہرست تیار کی جائے تو ایک چراغ سے ہزاروں چراغ روشن ہوئے ہیں جن میں مولانا مفتی عبدالواحد (مرکزی مسجد شیرانوالہ باغ) جو مولانا فیاض صاحب کے دادا استاذ ہیں، مولانا محمدحیات ، فاتح قادیان ، قاضی عصمت اللہ (قلعہ دیدار سنگھ)، مولانا عبد الخالق طارق (مولانا ولی اللہؒ کے پوتے، یوگنڈا) مولانا عبداللطیف (جہلم ) مولانا منظوراحمد چنیوٹی، حضرت مولانا مفتی نذیر احمدؐ (سابق شیخ الحدیث جامعہ عربیہ )اوردیگر بہت سے علماء قابل ذکر ہیں۔ 

ردّ قادیانیت کے سلسلے میں آپ کی خدمات

پھر ردّ قادیانیت اورمرزائیت کے ردّ میں جو آپ کی خدمات ہیں ان سے کون واقف نہیں ۔ آپ نے مرزا قادیانی کی تمام کتب کا بالاستیعاب مطالعہ کیا اورا س کے تضادات کو جمع کر کے ایسا مواد ترتیب دیا کہ مرزا قادیانی کو جھوٹا قرار دینے کے لیے ان کی اپنی تحریں کافی ہیں۔ چنانچہ حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’بندۂ ناچیز اس میدان میں جو کچھ بھی ٹوٹی پھوٹی خدمت اندورن ملک اوربیرون ملک سر انجام دے رہا ہے یا جو کچھ معلومات رکھتا ہے، یہ فاتح قادیان حضرت مولانا محمد حیات کا تمام تر فیض ہے ۔ اوربالواسطہ حضرت الاستاذ مولانا محمد چراغ مولف’’چراغ ہدایت‘‘کا فیض ہے۔ حضرت موصوف مدظلہ العالی (رحمہ اللہ) میرے دادا استاد ہیں۔ جہاں جہاں حضرت استاد کا فیض افادہ کار فرما رہا، آپ نے وہاں قادیانیت کے خلاف ایک عملی روح پھونکی ، اس الحاد کے خلاف فکری چراغ جلائے۔ جماعت اسلامی کے حلقوں میں بھی جہاں کہیں آپ کو قادیانیت کے خلاف کوئی کام ملے گا ، اس کے پیچھے حضرت مولانا محمد چراغ صاحب رحمہ اللہ کی علمی اورفکری قوت ملے گی جو اپنے استاد حضرت مولانا سید انور شاہ کشمیری سے پائی تھی۔ ‘‘(مقدمہ چراغ ہدایت ، ص:۳۷،۳۸)
حضرت مولانا فیاض صاحب حضرت رحمہ اللہ کے بارے میں کچھ جانیں یا نہ جانیں ، ان کو ایک دنیا جانتی ہے ۔ ان کے تفقہ فی الدین ،تفہیم دین، تقویٰ ، دیانت ، خودی ، اخلاص اورعلمی کارناموں کی بہترین مثالوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ 
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے
باغ تو سارا جانے ہے
مضمون کی طوالت کا خوف ہے، ورنہ اس موضوع پر مواد کا اتنا بڑا ذخیرہ ہے کہ پورا رسالہ بھی تنگئ داماں کی شکایت کرے۔ 
مولانا محمد فیاض نے قاری فیوض الرحمن کی اس تحریر کا حوالہ دیا ہے کہ 
’’حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی رحمہ اللہ نے ایک رسالہ پوسٹ مارٹم لکھاجس میں جناب مولانا سید ابوالاعلیٰ مودوی صاحب ؒ کی تحریروں پر مضبوط کی گرفت کی، ان میں سے بعض تحریروں سے مولانا نے رجوع فرما لیا ہے۔‘‘
شکر ہے یہ بات تو تسلیم کر لی گئی ، مولانا مودودی رحمہ اللہ اپنی غلطی کو تسلیم کر کے رجوع کر لیا کرتے تھے۔دوسرے نمبر پران کے نزدیک اس بات کی بڑی اہمیت ہے کہ مولانا مودودی جیسے بڑے عالم پر حضرت مولانا ہزاروی ؒ نے گرفت کی جو ان کے بڑا عالم ہونے کی دلیل ہے۔ اگرچہ اس کی کوئی مثال نہیں دی گئی مگر مولانا محمد چراغ صاحب رحمہ اللہ کے خطوط شائع ہو چکے ہیں جس میں اس امر کی کئی مثالیں موجود ہیں کہ مولانا مودودی رحمہ اللہ نے حضرت مولانا محمد چراغ صاحب رحمہ اللہ کے توجہ دلانے پر اپنی رائے سے رجوع کیا ۔
میرا مقصد قطعاً حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی رحمہ اللہ کی تنقیص نہیں ہے۔ اورنہ میں نے کوئی ایسا جملہ لکھا ہے جس میں کسی قسم کی توہین یا تنقیص پائی جائے۔مولانا محمد فیاض صاحب بھی ہمارے محترم ہیں۔ میں صرف احقاقِ حق کرنا چاہتا ہوں اورحضرت مولانا محمد چراغ صاحب رحمہ اللہ کے علمی مرتبہ کے بارے میں بعض لوگوں کی غلط فہمی دور کرنا چاہتا ہوں۔ کاش انہوں نے حضرت کی شاگردی کی ہوتی تو انہیں پتہ چلتا کہ فصیح عربی ادب کا ٹھیٹھ پنجابی ادب میں کس طرح ترجمہ کیا جاتا ہے ۔ اورعربوں کے محاورات کی تفسیرو توضیح کس طرح کی جاتی ہے۔ اورترجمہ ہی اس طرح کیا جائے کہ تشریح سے مستغنی کر دے۔
آخر میں ایک واقعہ------ جو مولانا محمد اشرف قریشی صاحب نے اپنی کتاب ’’ہجرت کشمیر‘‘ میں تحریر کیا ہے------بلاتبصرہ نقل کرتا ہوں ۔ قارئین خود ہی فیصلہ کرلیں کہ کون فائق ہے۔
’’حضرت استاذ اخبار و رسائل کا بالاستیعاب مطالعہ فرمایا کرتے تھے اورطلبہ کی سہولت کے لیے اہم مضمون یا خبر پر سرخ لائن لگا دیتے تھے۔ علامہ عامر عثمانی کے ماہنامہ تجلی دیو بند کا ایک سلسلہ وار مضمون ’’مسجد سے میخانے تک‘‘کا انتظار رہتا ، اسی طرح شورش کاشمیری ؒ کا ہفت روزہ چٹان ہم طلبہ بھی شوق سے دیکھتے ۔ ایک دفعہ شورش کاشمیری مرحوم نے لکھ دیا کہ مولانا غلام غوث ہزاروی کو کسی بے قاعدگی کی پاداش میں دار العلوم دیو بند سے بغیر سند دئیے نکال دیا گیا تھا۔حقیقت کا علم تو اللہ کے پاس ہے مگرمولانا ہزاروی اورشورش چوں کہ اکٹھے رہ چکے تھے اورپورے ملک میں شورش کاشمیری ہی مولانا ہزاروی کے انداز میں انہیں للکارا کرتے ۔ اوراگرچہ اس پُر فتن دور کا یہ ایک اہم انکشاف تھا مگر حضرت استاذ رحمہ اللہ نے اس پر سرخ نشان نہیں لگایا۔جب رسالہ ہم تک پہنچا تو ہم نے بھی پڑھ لیا ، اوردوسرے روز جب ہدایہ پڑھنے کے لیے حضرت کی کلاس میں گئے تو طلبہ کے ساتھ پہلے سے مشاورت کی بناپر میں نے حضرت سے شکایت کی کہ آپ نے اپنے ہم جماعت (ہم مکتب)کی پردہ پوشی فرمائی ہے اوراتنے اہم انکشاف پر سرخ نشان نہیں لگایا؟اتنا عرض کرنا تھا کہ حضرت کو خلاف معمول جلال آگیا اورفرمایا:اس طرح کی حرکتیں وہ لوگ کرتے ہیں جو اپنے آپ کو اللہ کے ہاں جواب دہ تصور نہیں کرتے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو یہ تعلیم نہیں دی ،اورشورش نے انتہائی غلط حرکت کی ہے۔مولانا ہزاروی اپنے رویہ کے لیے اللہ کے ہاں خود ذمہ دار ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اس قسم کی حرکتیں کرنا شروع کردیں ۔اس کے بعد آپ نے فرمایا:یہ سیاست یا اخلاق نہیں بلکہ اخلاقی جرم ہے ،اورمیں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ کبھی اس قسم کی باتوں میں دلچسپی نہ لینا، اورپھر آپ نے چند مثالیں دے کر سمجھایا۔‘‘ (ص: ۴۷۵)
اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے:(ومن اصدق من اللہ قیلا)’’اور اللہ کے فرمان سے زیادہ سچا قول کس کا ہو سکتا ہے ‘‘(انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء) ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو (حقیقی) علماء ہوں ‘‘۔


مولانا محمد فیاض خان سواتی کا وضاحتی نوٹ

’’تاریخ دار العلوم دیوبند‘‘ ص ۱۰ پر پیش لفظ میں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ لکھتے ہیں:
’’(سید محبوب رضوی) جنھیں ذمہ داران دار العلوم نے اس خدمت کے لیے منتخب کیا، انھوں نے تاریخ دار العلوم پر نہایت خوش اسلوبی، جامعیت اور تحقیق کے ساتھ قلم اٹھا کر اپنی سعی ومحنت کی حد تک اس موضوع کا حق ادا کر دیا ہے۔‘‘ 
سید محبوب رضوی لکھتے ہیں:
’’مولانا غلام غوث ہزارویؒ ۱۳۳۷ھ میں دار العلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہوئے۔‘‘ (ج ۲ ص ۱۳۹)
’’مولانا محمد چراغ گوجرانوالوی ۱۳۳۷ھ میں دار العلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہوئے۔‘‘ (ج ۲ ص ۱۳۶)
یاد رہے کہ ۱۳۳۷ھ، یہ ۱۹۱۸ء کا سال ہے۔ اس کی تعیین بھی اسی کتاب میں قاری محمد طیب صاحبؒ کے تذکرے میں موجود ہے کہ قاری صاحب نے 
’’۱۳۳۷ھ/۱۹۱۸ء میں فراغت اور سند فضیلت حاصل کی۔‘‘ (ج ۲ ص ۱۳۳)
اس میں یہ امکان بھی نہیں ہے کہ مورخ کو یہ تاریخ لکھنے میں کوئی سہو ہوا ہے، کیونکہ انھوں نے یہی تاریخ اپنی اسی کتاب میں آگے جا کر دوبارہ بھی لکھی ہے:  ۱۳۳۷ھ (یعنی) ۱۹۱۸ء (ملاحظہ فرمائیں ج ۲ ص ۲۳۶)
اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ قاری محمد طیب صاحبؒ نے اپنے قلم سے خود لکھا ہے:
’’مولانا غلام غوث ہزارویؒ نے ۱۳۳۷ھ میں علوم دینیہ سے فراغت حاصل کی۔‘‘ (دار العلوم دیوبند کی صد سالہ زندگی ص ۷۶)۔ 

نیز یہ کہ 

’’احقر کے ہم سبق رہے ہیں۔‘‘ (ایضاً، ص ۷۸)
اب یا تو تاریخ دار العلوم دیوبند غلط ہے یا مولانا عارف صاحب۔ اس کا فیصلہ قارئین خود فرما لیں۔ 

مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحبؒ / مولانا قاضی مقبول الرحمنؒ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر رحمہ اللہ تعالیٰ ملک کے بزرگ صوفیاء کرام میں سے تھے جن کی ساری زندگی سلوک و تصوف کے ماحول میں گزری اور ایک دنیا کو اللہ اللہ کے ذکر کی تلقین کرتے ہوئے طویل علالت کے بعد گزشتہ ہفتے کراچی میں انتقال کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کا روحانی تعلق حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس اللہ سرہ العزیز کے حلقہ کے تین بڑے بزرگوں حضرت مولانا محمد احمد پرتاب گڑھیؒ ، حضرت مولانا شاہ عبد الغنی پھول پوریؒ اور حضرت مولانا شاہ ابرار الحق آف ہر دوئیؒ سے تھا۔ وہ ان بزرگوں کے علوم و فیوض کے امین تھے اور زندگی بھر ان فیوض و برکات کو لوگوں میں تقسیم کرتے رہے۔ ان کا حلقۂ ارادت پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سے باہر جنوبی افریقہ، برطانیہ اور دیگر ممالک تک وسیع تھا اور بلا مبالغہ لاکھوں مسلمانوں نے ان سے روحانی استفادہ کیا۔ علماء کرام کی ایک بڑی تعداد ان سے بیعت تھی اور انہیں اہل علم کے مرجع کا مقام حاصل تھا۔
مجھے مولانا محمد عیسیٰ منصوری کے ہمراہ لندن کی بالہم مسجد میں ایک بار ان کی صحبت میں حاضری کا اتفاق ہوا تھا اور اس مجلس کی تروتازگی اور بہار ابھی تک ذہن میں نقش ہے۔ باغ و بہار شخصیت تھے، سخن فہمی کے ساتھ ساتھ شعر گوئی کا کمال بھی رکھتے تھے اور با ذوق صوفیاء کرامؒ کی طرح انہیں محبت الٰہی اور عشق رسولؐ کے حوالہ سے دلی جذبات کی تپش کو اشعار کی صورت میں ڈھالنے کا بھرپور ذوق اور ملکہ حاصل تھا۔ گلشن اقبال کراچی میں ایک بڑی دینی درسگاہ اور خانقاہ قائم کی جہاں سے ہزاروں علماء کرام نے علمی و روحانی فیض حاصل کیا۔ اب ان کے فرزند جانشین مولانا حکیم محمد مظہر صاحب اس مرکز کا نظام چلا رہے ہیں اور اپنے عظیم باپ کے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لاہور میں اس خانقاہ کی شاخ چڑیا گھر کی مسجد میں مصروف عمل ہے اور ہمارے محترم دوست ڈاکٹر عبد المقیم اپنے شیخؒ کی روحانی برکات لوگوں میں بانٹ رہے ہیں۔
ہماری دینی اور معاشرتی زندگی میں خانقاہ کا ایک مستقل مقام اور نظام ہے جہاں سے لوگوں کو روحانی فیض، اللہ اللہ کے ذکر کی تلقین اور محبت رسولؐ کی حلاوت کے ساتھ ساتھ نفسیاتی سکون بھی ملتا ہے۔ اگرچہ دوسرے بہت سے اداروں کی طرح یہ ادارہ بھی کمرشل ازم سے بہت متاثر ہوا ہے لیکن شاہ حکیم محمد اخترؒ جیسے باخدا بزرگوں کی صورت میں قدرت ایزدی نے اس عظیم ادارے کی آبرو اور بھرم کو قائم رکھا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت حکیم صاحبؒ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں اور ان کے لگائے ہوئے علمی و روحانی گلشن کو ہمیشہ آباد رکھیں۔ آمین یا رب العالمین۔ 

مولانا قاضی مقبول الرحمنؒ

دوسرے بزرگ میرپور آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے مولانا قاضی مقبول الرحمن قاسمیؒ ہیں جو گزشتہ عشرہ کے دوران اپنے رب کو پیارے ہوگئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کا آبائی تعلق آزاد کشمیر کے علاقہ باغ سے تھا۔ مدرسہ رحمانیہ ہری پور اور مدرسہ انوار العلوم مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ سمیت مختلف مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد جامعہ اشرفیہ لاہور میں ۱۹۶۶ء میں دورۂ حدیث کر کے فراغت حاصل کی اور وہیں تدریس کے فرائض سر انجام دینے لگے۔ آزاد کشمیر میں سردار محمد عبد القیوم خان صاحب نے جب اسلامی حدود و تعزیرات کے نفاذ کا فیصلہ کیا اور سیشن جج صاحبان کے ساتھ جید علماء کرام کو قاضی کے طور پر بٹھا کر مشترکہ عدالتی نظام کا آغاز کیا تو اس پر مختلف حلقوں کی طرف سے شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا اور اس مشترکہ عدالتی نظام کی کامیابی کو مشکوک سمجھا جانے لگا، لیکن تحفظات کی اس فضا کو ختم کرنے اور نئے نظام کو کامیاب بنانے میں جن علماء نے تدبر و فراست کے ساتھ محنت کی اور اپنے علم و فضل کے کمال کے ساتھ ساتھ حوصلہ و جرأت اور دیانت و امانت کی اعلیٰ مثال پیش کر کے جدید تعلیم یافتہ حلقہ کے تحفظات کو دور کیا اور اسلامی قوانین کے علاوہ علماء کرام کی علمی و عدالتی استعداد و صلاحیت کا سکہ منوایا۔ ان میں قاضی مقبول الرحمن قاسمیؒ کا نام نمایاں ہے جنہوں نے کم و بیش ربع صدی تک آزاد کشمیر کے مختلف اضلاع میں ضلع قاضی کے طور پر فرائض سر انجام دیے۔ آزاد کشمیر کے علماء کرام کو اس مرحلہ میں دو بڑے چیلنج درپیش تھے۔ ایک یہ کہ اسلامی قوانین و احکام آج کے عالمی تناظر اور معاشرتی ضروریات میں کس طرح قابل عمل ہو سکتے ہیں، اور دوسرا یہ کہ جدید ترقی یافتہ عدالتی نظام میں دینی مدارس سے تعلیم حاصل کرنے والے علماء کرام کو کس طرح ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے؟
محترم سردار محمد عبد القیوم خان صاحب نے، جو اب صاحبِ فراش ہیں، مجھے متعدد ملاقاتوں میں بتایا کہ آزاد کشمیر کے علماء کرام کی ایک بڑی تعداد نے بڑے حوصلہ اور تدبر کے ساتھ ان چیلنجوں کا سامنا کیا جس کی وجہ سے آج بھی آزاد کشمیر میں ضلع اور تحصیل کی سطح پر جج صاحبان اور قاضی حضرات کی مشترکہ عدالتیں کامیابی کے ساتھ چل رہی ہیں۔ لیکن سردار صاحب محترم اس سلسلہ میں تین علماء کرام کا نام بطور خاص لیتے ہیں، حضرت مولانا محمد یوسف خان آف پلندریؒ ، مولانا قاضی بشیر احمدؒ اور مولانا قاضی مقبول الرحمن قاسمیؒ ۔ سردار صاحب کا کہنا ہے کہ ان تین علماء کرام کے علم، دیانت اور محنت نے علماء کرام کا بھرم قائم کیا اور ان کی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ان تینوں میں سے مولانا قاضی مقبول الرحمن قاسمیؒ حیات تھے جن کا گزشتہ ہفتے میرپور میں انتقال ہوگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب بزرگوں کو جوارِ رحمت میں جگہ دیں اور سردار محمد عبد القیوم خان کو صحت و سلامتی سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔ 

مکاتیب

ادارہ

(۱)
محترم جناب مدیر الشریعہ، گوجرانوالہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے موقر مجلے کے تازہ شمارے میں ڈاکٹر ممتاز احمد صاحب (صدر اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد) کے ایک خط کے جواب میں عبد الفتاح محمد صاحب کا عربی مکتوب پڑھا۔ مکتوب نگار نے پاکستان کے اہل تشیع کے خلاف غم وغصے کا اظہار کیا ہے اور اسلام آباد میں شیعہ مدارس کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے کہ ’’اسلام آباد میں سات شیعہ جامعات قائم ہیں جن میں سے سب سے چھوٹے جامعہ کا حجم بھی اہل سنت کی سب سے بڑی یونی ورسٹی سے کئی گنا زیادہ ہے۔ دارالحکومت کے وسط میں جامعۃ الکوثر قائم ہے جو اردو میں الکوثر ہی کے نام سے ایک ٹی وی چینل بھی چلا رہا ہے۔‘‘
میں اس خط کے ان مندرجات کے حوالے سے گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں جن کا تعلق ہم سے ہے۔ اپنے علاوہ دوسروں کے اعمال کی وضاحت یا دفاع سے ہمیں غرض نہیں۔ میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے متعلق جو باتیں کہی گئی ہیں، وہ خلاف حقیقت ہیں:
۱۔ میں اسلام آباد میں قائم دو مدارس کا مہتمم ہوں۔ ان میں سے جامعہ اہل بیت کا قیام ۱۹۷۵ء میں جبکہ جامعہ کوثر کا قیام ۱۹۹۲ء میں عمل میں آیا تھا۔ ان دونوں مدرسوں اور دو ٹی وی چینلوں ’’ہادی‘‘ اور ’’کوثر‘‘ کا سیاسی یا مالی یا انتظامی، کسی بھی لحاظ سے کسی غیر ملکی قوت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ جامعہ الکوثر کی تعمیر کے لیے فنڈ دینے والے اصحاب خیر کے نام جامعہ کی دیواروں پر لکھے ہوئے ہیں۔
۲۔ مکتوب نگار نے لکھا ہے کہ ایرانی قیادت، شیعہ مرجعیت کو ایران میں محدود کرنے پر تلی ہوئی ہے اور اس نے نجف اشرف سمیت تمام ممالک میں شیعہ مراجع کی مذہبی حیثیت کا خاتمہ کر دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی دینی مرجع کی حیثیت کو ختم کرنا کسی کے اختیار میں ہی نہیں، کیونکہ اہل تشیع کے ہاں دینی مراجع کسی سیاسی طاقت کے تحت نہیں ہوتے۔ شیعہ کے سب سے اونچے رتبہ کے دینی مرجع آج بھی عراق میں نجف اشرف میں ہیں۔
۳۔ ہماری اگر بیرون ملک کہیں نسبت ہے تو وہ عراق کے مرجع کے ساتھ ہے اور ہم عراق کے مرجع کی اجازت سے عوام سے شرعی اموال جمع کر کے ان سے دینی مدارس کا انتظام وانصرام چلاتے ہیں۔ یہ ایسی ہی نسبت ہے جیسے دیوبندی مدارس دینی علوم میں اعلیٰ مقام اور پختگی کے حوالے سے اپنی نسبت دار العلوم دیوبند کی کرتے ہیں اور وہاں کے علماء سے راہ نمائی لیتے ہیں۔
۴۔ مکتوب نگار نے لکھا ہے کہ ’’پاکستان کے شیعہ دراصل پاکستان کے نہیں، بلکہ ایران کے وفادار ہیں‘‘۔ میں اس پر اس کے سوا کیا تبصرہ کروں کہ انا للہ وانا الیہ راجعون! بخدا، ہم اپنے وطن عزیز پاکستان سے محبت رکھتے ہیں جو سب سے پیارا وطن ہے اور نواصب کو چھوڑ کر ہم یہاں کے رہنے والوں سے بھی محبت رکھتے ہیں۔ پاکستان اور ا س کی مخالف قوتوں کے درمیان جنگیں چھڑنے پر ہماری پیش کردہ قربانیاں کسی طرح بھی دیگر باشندگان وطن سے کم نہیں اور اس وطن کی تعمیر میں بھی ہمارا حصہ بہت وافر ہے۔
مکتوب نگار کا یہ کہنا کہ ’’اگر خدانخواستہ دونوں ملکوں میں جنگ ہو جائے تو وہ (پاکستان کے شیعہ) ایران کی طرف سے جنگ میں شامل ہوں گے‘‘ محض ان کے تخیل کی اپج اور بد گمانی کا کرشمہ ہے۔ یہ ایک بالکل بازاری سطح کی بات ہے جہاں نہ تو امانت داری کا کوئی لحاظ ہوتا ہے اور نہ خدا کا خوف۔ یہ ایک ایسا مفروضہ ہے جو نہ کبھی پہلے رونما ہوا اور نہ آئندہ کبھی ہوگا۔ اہل تشیع قرآن پر ایمان رکھتے ہیں اور قرآن اہل ایمان کے مابین جنگ چھڑنے پر دونوں گروہوں میں صلح کرانے یا زیادتی کرنے والے گروہ کے مقابلے میں کھڑے ہو جانے کی تعلیم دیتا ہے۔ البتہ کسی مخصوص صورت حال کے تجزیے میں غلطی یا خطا کا ہو جانا ممکن ہے۔
۵۔ ہمیں پاکستان سے تعلق رکھنے والی کسی عسکری تنظیم کا علم نہیں جو شام میں جا کر لڑ رہی ہو۔ اگر ایسی کوئی مفروضہ تنظیمیں ہوتیں تو وہ پاکستان میں دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کا دفاع کرتیں اور خود کش حملہ آوروں کے خلاف لڑتیں جو بے گناہ عورتوں اور بچوں کا خو،ن بہاتے رہتے ہیں اور مسلمانوں ، خاص طور پر اہل تشیع کی مسجدوں اور گھروں کی حرمت کو پامال کرتے رہتے ہیں۔
۵۔ مکتوب نگار نے دہشت گردی اور تکفیر کی نسبت بھی اہل تشیع کی طرف کی ہے جس سے لگتا ہے کہ وہ اپنے عالم تصور میں چیزوں کو بالکل الٹا دیکھتے ہیں۔
فاضل مکتوب نگار کے لیے مناسب تھا کہ وہ آداب تنقید کو ملحوظ رکھتے اور گفتگو کا مہذب لہجہ اختیار کرتے۔ ان کے قلم کے ناخنوں سے تو گویا خون کی بو آتی ہے۔
آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں حقائق کو جاننے کی توفیق دے اور حقائق کو مسخ کرنے کی جسارت سے ہمیں دور رکھے۔ اے اللہ! ہمیں افترا پردازی اور خواہشات کی پیروی سے محفوظ رکھ اور کینہ اور بغض کی بیماری میں مبتلا نہ فرما۔ بے شک تو دعاؤں کو سننے والا ہے۔
محسن علی نجفی
مہتمم جامعۃ الکوثر، اسلام آباد
(۲)
واجب الاحترام برادر مکرم حضرت علامہ زاہد الراشدی صاحب، دام مجدہم جانشین حضرت امام اہل سنتؒ 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ نے پہلے بھی ایک مضمون میں تحریر فرمایا تھا اور حالیہ ایک مضمون میں بھی اسی کو دہرایا کہ حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ عید سے پہلے تقریر کو اور تراویح کے بعد دعاء کو بدعت سمجھتے تھے، حالانکہ یہ درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ وہ عید سے پہلے تقریر کو بدعت نہیں بلکہ غیر اولیٰ سمجھتے تھے۔ انہوں نے کسی بھی تقریر یا تحریر میں اس کو بدعت نہیں کہا۔ بدعت کے معاملہ میں تو وہ بڑے متشدد تھے جبکہ عید سے پہلے تقریر کے معاملہ میں وہ اپنے قریبی احباب کو بھی سختی سے منع نہیں فرماتے تھے جس کا اظہار آپ نے خود بھی فرمایا ہے۔ اسی طرح تراویح کے بعد دعاء کو علی الاطلاق بدعت نہیں فرماتے تھے بلکہ فرض نمازوں کے بعد کی جانے والی دعاء کی طرح التزام کو بدعت کہتے تھے۔ میں نے بفضلہ تعالیٰ چار دفعہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی موجودگی میں جامع مسجد بوہڑ والی گکھڑ میں تراویح میں قرآن کریم سنایا۔ میں کبھی کبھی دعاء کیا کرتا تھا، کبھی انہوں نے نہیں روکا۔ بلکہ ایک دفعہ محترم جناب حاجی اللہ دتہ بٹ صاحب مرحوم بیمار تھے تو جب میں تراویح سے فارغ ہوا تو حضرت نے خود فرمایا کہ بٹ صاحب کے لیے دعاء کریں۔ اور ختم قرآن کریم کے موقع پر تو ہر دفعہ دعاء ہوتی تھی آخر وہ بھی تو تراویح کے بعد ہوتی تھی۔ حضرت نے اس بارہ میں فتاویٰ رشیدیہ کے حوالہ سے تحریر فرمایا بعد ختم قرآن کے دعاء مانگنا مستحب ہے خواہ تراویح میں ختم ہوا ہو خواہ نوافل میں۔ خواہ خارج نماز پڑھا ہو کہ بعد عبادت کے نماز ہو یا ذکر ہو اجابت کی توقع ہے۔ پھر اس کے بعد آگے لکھا بعد سنن و نوافل کے خاص التزام کے ساتھ دعاء مانگنا اس کا ثبوت حدیث شریف اور فقہ کی کسی کتاب میں نہیں بلکہ اس کا التزام بدعت ہے اس کا ترک ضروری ہے۔ (خزائن السنن ج ۲ ص ۱۳۸، ۱۳۹) اس لیے حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی جانب یہ نسبت کرنا کہ وہ تراویح کے بعد دعاء کو علی الاطلاق بدعت کہتے تھے تو یہ درست نہیں ہے۔ 
اسی طرح آپ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہوائی جہاز میں نماز کو ناجائز کہتے تھے تو یہ بھی درست نہیں ہے، اس لیے کہ میں نے خود کوئٹہ سے واپسی پر حضرت کے ساتھ باجماعت عصر کی نماز جہاز میں پڑھی اور بخاری شریف پڑھاتے ہوئے حضرت نے اپنے ایک سفر کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے ہوائی جہاز میں باجماعت نماز ادا کی۔ بخاری شریف کی کیسٹوں میں اس کو سنا جا سکتا ہے۔ 
برادر مکرم! آپ حضرت والا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے جانشین ہیں، اس لیے حضرت کے نظریہ کی صحیح ترجمانی آپ کا فریضہ ہے۔ اس میں بے توجہی کا نتیجہ خلفشار پیدا کرتا ہے۔ اس لیے احقر نے ان مسائل کی جانب توجہ دلانا ضروری سمجھا۔ 
مخالفین کے بارے میں حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے طرز عمل کو پیش کر کے عزیزم عمارخان ناصر کے بے اعتدالی کی راہ پر چل کر اختیار کردہ نظریات کو تحفظ فراہم کرنا بھی درست نہیں ہے، اس لیے کہ حضرت نے کبھی آزاد خیال نظریات کے حامل لوگوں کی تائید نہیں فرمائی بلکہ حتی الوسع تردید ہی فرمائی۔ مودودی صاحب اور ان جیسے حضرات کی کھلم کھلا تردید اس کا بیّن ثبوت ہے۔ یہی نہیں بلکہ جب عزیزم عمار خان ناصر نے چند فقہی مسائل میں اپنے آزاد نظریہ کا اظہار ایک رسالہ میں کیا تو حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے اس کی تردید لکھنے کا حکم فرمایا۔ میں نے ایک مضمون تیار کر کے ان ہی دنوں عزیزم عمار کو بھیجا، مگر حیرانگی کی بات ہے کہ عزیزم عمار موافق و مخالف ہر طرح کے مضامین شائع کر دیتے ہیں، مگر میرا وہ مضمون ایسے انداز سے ردی کی ٹوکری میں پھینکا کہ اپنے کسی قریبی کو بھی اس کی خبر نہ ہونے دی۔ 
حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی وفات سے چند دن قبل جب آخری ملاقات ہوئی تو مجھ سے پہلے حضرت کے پاس کچھ حضرات حاضر ہوئے، انہوں نے عزیزم عمار کے بارہ میں کچھ باتیں کیں۔ جب میں حاضر ہوا تو حضرت پریشان تھے اور فرمانے لگے: ’’ایہہ ناصر کیہڑے پاسے ٹر پیا اے؟ تسی اینوں روکدے کیوں نئیں؟ توں تے اوہدا استاد وی ایں، اونوں سختی نال روکو۔‘‘ (یہ ناصر کس طرف چل نکلا ہے؟ تم اسے روکتے کیوں نہیں؟ تم تو اس کے استاد بھی ہو، اس کو سختی سے روکو)۔ عزیزم عمار سے جب بھی ملاقات ہوئی، اس کو اس راہ سے واپس لوٹنے کی تلقین کی، مگر سختی سے روکنا میرے بس کی بات نہیں۔ عزیزم عمار نے پہلے چند فقہی مسائل میں اپنے آزاد نظریہ کا اظہار کیا۔ پھر آگے بڑھ کر امت کی متفقہ آراء کے برخلاف نظریات پیش کیے۔ بے اعتدالی کی راہ پر اس کے قدم دن بدن آگے ہی بڑھتے جا رہے ہیں، اس لیے خطرہ ہے کہ کہیں وہ مسلمہ اصول و عقائد پر بھی پنجہ نہ مار دے۔ اس صورت حال میں حکمت و مصلحت کو ملحوظ رکھ کر اس کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے کی ضرورت ہے جس کی اولین ذمہ داری حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے جانشین اور عزیزم عمار کے والد محترم اور مسلکی ذمہ دار عالم دین کی حیثیت سے آپ پر عائد ہوتی ہے۔ آپ کسی حد تک اس ذمہ داری کو نباہ بھی رہے ہیں، معلوم ہوتا رہتا ہے کہ آپ وقتاً فوقتاً مناسب انداز میں اس کو سمجھاتے رہتے ہیں اور اس کے مضامین پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی فرماتے ہیں۔ کاش آپ صرف تحفظات کہہ دینے پر اکتفا نہ کرتے بلکہ تحفظات کی تفصیل بیان کرنے کے بعد اپنے نظریہ کی وضاحت فرما دیتے تو بہت حد تک مسئلہ حل ہو جاتا اور چہ می گوئیوں کا سدّباب ہو جاتا اور بدخواہوں کے منہ بند ہو جاتے۔ اللہ تعالیٰ آپ کا سایہ صحت و عافیت کے ساتھ تا دیر سلامت رکھے اور عزیزم عمار کو جلد سے جلد بے اعتدالی کی راہ چھوڑ کر راہ راست پر آنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی خداداد صلاحیتوں کو صحیح راہ پر صرف کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا الٰہ العالمین۔
اگر میری یہ تحریر طبیعت پر ناگوار گزرے تو معذرت خواہ ہوں، مناسب سمجھیں تو شائع فرما دیں ورنہ مجھے مطلع فرما دیں۔
حافظ عبد القدوس قارن
مدرس مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ
یکم جون ۲۰۱۳ء‘‘
(۳)
استاذ محترم وعم مکرم جناب حضرت مولانا عبد القدوس خان قارن صاحب زید مجدکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
والد گرامی کے نام آپ کا حالیہ خط مجھے بھی دیکھنے کا موقع ملا۔ اس میں ایک بات کی وضاحت مجھ سے متعلق ہے، اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ وہ آپ کی خدمت میں عرض کر دوں۔ وہ یہ کہ آپ نے چند فقہی مسائل کے ضمن میں میرے ایک مضمون پر اپنی تنقیدی تحریر کا ذکر ایسے انداز میں فرمایا ہے جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ میں نے آپ کی اس تنقید کو چھپانے کی کوشش کی، حالانکہ حقیقت حال اس سے بالکل مختلف ہے۔ میرا یہ مضمون’’فقہ اسلامی میں غیر منصوص مسائل کا حل ‘‘ کے زیر عنوان ’الشریعہ‘ کے اگست ۲۰۰۱ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ اس پر آپ نے ایک خط کی صورت میں، جو میرے نام لکھا گیا تھا اور آپ ہی کی طرف سے اس کی نقل دوسرے ذمہ دار حضرات کو بھی بھجوائی گئی تھی، اس بات کی نشان دہی فرمائی کہ بعض مسائل کے ضمن میں جس فقہی رائے کو ترجیح دی گئی ہے، وہ دیوبندی اکابر کی معروف آرا کے خلاف ہے۔ یہی مضمون انھی دنوں میں حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کی نظر سے بھی گزرا تھا جو اس وقت ماشاء اللہ بقید صحت تھے۔ چنانچہ انھوں نے مجھے طلب کر کے فقہ اور اجتہاد کے ضمن میں اکابر دیوبند کی آراکی پابندی کے حوالے سے اپنا اصولی موقف سمجھایا اور میری طرف سے نظر ثانی پر آمادگی ظاہر کرنے پر ہدایت فرمائی کہ میں آئندہ شمارے میں ان چند امور کی وضاحت کر دوں اور بہ تاکید فرمایا کہ وضاحتی تحریر میں خود اپنے قلم سے تحریر کروں۔ یہ کم وبیش وہی مسائل تھے جن کا آپ نے اپنے خط میں ذکر فرمایا تھا۔ حضرت رحمہ اللہ کے حکم کی تعمیل میں، میں نے ایک تحریر لکھی جو ’الشریعہ‘ کے اگلے شمارے (ستمبر ۲۰۰۱ء) میں ’’چند علمی مسائل کی وضاحت‘‘ کے عنوان سے شائع ہو گئی۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس واقعاتی پس منظر میں میرے حوالے سے آپ کی تنقید کو چھپانے اور ’’کسی قریبی کو بھی اس کی ہوا نہ لگنے‘‘ دینے کی شکایت درست ہو سکتی ہے، جبکہ خود آپ ہی کی طرف سے اس کی نقل متعدد حضرات کو بھجوا دی گئی تھی اور میں نے انھی مسائل کی وضاحت حضرت شیخ الحدیث کے حوالے سے آئندہ شمارے میں کر دی تھی۔ البتہ اگر آپ کا شکوہ یہ ہے کہ یہ وضاحت صرف حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کے حوالے سے کیوں کی گئی اور اس میں آپ کا ذکر کیوں نہیں آیا تو یہ شکوہ یقیناًبجا ہے اور اس کے لیے میں دلی معذرت پیش کرتا ہوں۔
امید ہے، نیک دعاؤں میں یاد فرماتے رہیں گے۔
محمد عمار خان ناصر
(۴)
جناب مولانا عمار خان ناصر صاحب مدظلہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
راقم کو حال ہی میں الشریعہ، مارچ ۲۰۱۲ء کا شمارہ، جو کہ جہاد کے موضوع پر ہے، تفصیل سے مطالعہ کرنے کا موقع میسر آیا۔ اس میں مندرجہ ذیل سوالات میں حضرت مولانا زاہد الراشدی مدظلہ کی رائے معلوم کرنا مقصود ہے۔ بے شک جوابات اختصار کے ساتھ فرما دیے جائیں:
۱۔ قتال کی علت کیا ہے؟ (کفر، شوکت کفر، یا محاربہ اور فساد؟)
۲۔ کیا قتال اقدامی زمان ومکان کے حوالے سے محدود ہے یا نہیں؟ (یعنی جہاد اقدامی عہد رسالت وصحابہ اور جزیرۃ العرب کے ساتھ محدود ہے یا نہیں؟)
۳۔ علت قتال کے حوالے سے جزیرۂ عرب کے اندر اور باہر میں فرق ہے یا نہیں؟ (جزیرۃ العرب کے اندر علت ’’کفر‘‘ اور باہر ’’شوکت کفر یا محاربہ‘‘)
۴۔ شوکت کفر کے خاتمے کے لیے کافر کا ذمی بن کر جزیہ ادا کرنا ہی ضروری ہے یا امن معاہدہ بھی کافی ہے؟
۵۔ کافر حکومت کی طرف سے صلح کی پیش کش پر مسلمان حکومت کے لیے جہاد اقدامی کی استعداد رکھتے ہوئے کفار سے صلح کرنا ضروری ہے یا نہیں؟ اگر ضروری نہیں تو استعداد اور مصلحت نہ ہونے کی صورت میں بھی صلح کی جا سکتی ہے یا نہیں؟
۶۔ اگر صلح کی جا سکتی ہے تو دائمی یا عارضی؟ مشروط یا مطلق؟
۷۔ جزیہ کفر کی سزا ہے یا ذی کے جان ومال کی حفاظت کا معاوضہ؟
۸۔ قتال اور جزیہ میں اصل کیا ہے؟
۹۔ کیا اتمام حجت ہو چکا ہے یا نہیں؟ (کیونکہ تبلیغی جماعت کے احباب کے نزدیک اتمام حجت نہیں ہوا، جبکہ مولانا تقی عثمانی دامت برکاتہم کے نزدیک اتمام حجت ہو چکا)۔
۱۰۔ کیا رسول اللہ اور صحابہ کرام کے جہاد اقدامی کے اہداف محدود تھے یا نہیں؟
۱۱۔ کیا عہد رسالت وصحابہ میں غلبہ دین اور اس کی تکمیل ہو چکی ہے یا قرب قیامت میں مہدی اور عیسیٰ علیہما السلام کے ہاتھوں ہوگی؟ نیز غلبہ دین کا وعدہ کسی مخصوص خطے کے لیے تھا یا ہے یا پورے کرۂ ارض کے لیے ہے؟
۱۲۔ کیا جبر واکراہ کی مخالفت اور جہاد اقدامی کے احکام باہم معارض نہیں، اگر جہاد اقدامی قیامت تک کے لیے اور پورے کرۂ ارض کے لیے مشروع ہو تو؟
(نوٹ) الشریعہ میں ’’مکاتیب‘‘ کے عنوان کے تحت شائع فرما دیجیے گا۔
محمود الحسن عفی عنہ
جامعہ اشرفیہ ، القباء
جوہر ٹاؤن، لاہور

بعض مسائل کے حوالے سے امام اہل سنتؒ کا موقف

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

برادر عزیز مولانا عبد القدوس خان قارن سلمہ نے ایک خط میں، جو ’الشریعہ‘ کے اسی شمارے میں شامل اشاعت ہے، اس طرف توجہ دلائی ہے کہ گزشتہ شمارے کے ’کلمہ حق‘ میں عید کی نماز سے پہلے تقریر، ہوائی جہاز میں نماز اور نمازِ تراویح کے بعد اجتماعی دعا کے حوالے حضرت والد محترم نور اللہ مرقدہ کے موقف کی درست ترجمانی نہیں کی گئی۔ اس حوالے سے میری گزارشات حسب ذیل ہیں:
  • عید سے پہلے تقریر کے بارے میں ایک مختصر سا مکالمہ درج کر دیتا ہوں جو حضرت والد محترمؒ کی وفات سے چند ماہ پہلے کا ہے اور برادرم مولانا قاری حماد الزھراوی سلّمہ کی موجودگی میں ہوا تھا۔ عید سے دو تین روز بعد میں حضرت والد محترمؒ سے ملاقات کے لیے حاضر ہوا۔ قاری حماد صاحب سے میں نے پوچھا کہ آپ نے عید کی نماز کس وقت پڑھی ہے؟ وہ گکھڑ میں حضرت والد محترمؒ کی جگہ ان کی حیات میں ہی ان کی مسجد میں خطابت و امامت کے فرائض سر انجام دیتے رہے ہیں اور اب بھی یہ فریضہ انہی کے ذمہ ہے۔ انہوں نے وقت بتایا اور مجھ سے پوچھا کہ آپ نے کس وقت نماز پڑھی ہے؟ میں نے وقت بتایا جو ان کے وقت سے ایک گھنٹہ بعد کا تھا۔ حضرت والد محترمؒ یہ گفتگو سن رہے تھے۔ انہوں نے متوجہ ہو کر فرمایا کہ بہت دیر سے پڑھائی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ ہم نے پہلے تقریر بھی کرنی ہوتی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ یہ بدعت ہے۔ میں نے عرض کیا کہ بعد میں لوگ سنتے نہیں ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ مروان بن الحکمؒ بھی یہی کہتے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ وہ عربی خطبہ کے بارے میں کہتے تھے، جبکہ ہم عربی خطبہ نماز کے بعد ہی پڑھتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ لوگ تقریر کو بھی خطبہ کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اس موقع پر گفتگو کا رُخ کسی اور طرف مڑ گیا اور اس کے بعد نہ انہوں نے کچھ فرمایا نہ میں نے کچھ عرض کیا۔
  • ہوائی جہاز میں نماز کا مسئلہ اپنے پس منظر کے لحاظ سے کچھ مختلف سا ہے جو میں دورۂ حدیث کے طلبہ کے سامنے کئی بار بیان کر چکا ہوں اور شاید کہیں لکھا بھی ہے کہ میری بیرونی اسفار میں بسا اوقات حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کے ساتھ رفاقت رہتی تھی۔ ان کا ذوق یہ تھا کہ وہ جہاز میں نماز کا وقت ہونے پر جس کیفیت میں ہوتے تھے، نماز پڑھ لیتے تھے اور پوری طرح اطمینان نہ ہونے کی صورت میں بعد میں نماز کا اعادہ کر لیتے تھے۔ ایک دو دفعہ مجھے بھی انہوں نے فرمایا، مگر مجھے اس پر اطمینان نہیں تھا۔ انہوں نے کسی بڑے بزرگ کے فتوے کا حوالہ بھی دیا۔ میں نے اس کے بارے میں حضرت والد محترمؒ سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ تم ایسی صورت میں نماز نہیں پڑھو گے، اس لیے کہ تم مولوی صاحب نظر آتے ہو۔ تم تو نماز کا بعد میں اعادہ کر لو گے، لیکن تمہیں دیکھ کر دوسرا کوئی شخص نماز پڑھے گا تو وہ اعادہ نہیں کرے گا۔ میں اس واقعہ کو حضرت والد محترمؒ کے ’’تفقہ‘‘ کی مثال کی صورت میں بیان کیا کرتا ہوں۔
  • جہاں تک نماز تراویح کے بعد اجتماعی دعا کا تعلق ہے، وہ دُعا یا اس کے التزام جس کو بھی بدعت کہتے تھے، اس سے منع بھی فرمایا کرتے تھے۔ مجھے اس کی تفصیل سے غرض نہیں، میں نے صرف اتنی بات عرض کی ہے کہ وہ جس بات کو غلط سمجھتے تھے، اس کا اظہار بھی کرتے تھے اور اس سے منع بھی کرتے تھے، لیکن اسے مسئلہ نہیں بناتے تھے بلکہ دلیل کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کرتے تھے، اختلاف کو سنتے تھے اور اسے اختلاف کے دائرے میں رکھتے تھے۔ میری شکایت ان حضرات سے ہے جو اپنے ذہن میں موجود موقف یا اپنے اردگرد محدود ماحول میں پائے جانے والے کسی موقف کے خلاف کوئی بات سنتے ہیں تو ان کی حالت ایسی ہو جاتی ہے جیسے کسی نے سیون اپ کی بوتل کھولتے ہی اس میں نمک کی چٹکی ڈال دی ہو۔ میں اس رویے کو شرعی، علمی اور اخلاقی تینوں حوالوں سے درست نہیں سمجھتا، اس کے خلاف مسلسل لکھتا رہتا ہوں اور آئندہ بھی یہ فریضہ سر انجام دیتا رہوں گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

خسرہ کا مجرب علاج

حکیم محمد عمران مغل

خسرہ ایک متعدی مرض ہے۔ اس کا تعلق ایک مخصوص وائرس سے ہوتا ہے۔ صفراوی مزاج رکھنے والے بچے فوری اس کی زد میں آتے ہیں۔ اس کے ساتھ بخار بھی لازمی ہوتا ہے۔ نزلہ، زکام، کھانسی کی شکایت ہوتی ہے۔ پھر چوتھے دن جسم پر خشخاش یا باجرہ نما باریک دانے ظاہر ہوتے ہیں جو آپس میں ملے ہوئے ہوتے ہیں۔ زبان پر سفید تہہ جم جاتی ہے۔ کسی کو کم اور کسی کو زیادہ ابکائیاں آنے لگتی ہیں۔ مزاج حد درجہ چڑچڑا ہو جاتا ہے اور بھوک ختم ہو جاتی ہے۔ تین دن کے یہ دانے ڈھلنے لگتے ہیں۔ دانے ختم ہونے کے بعد باریک بھوسی جسم سے اترنے لگتی ہے۔ بچے کا پیشاب گاڑھا اور سرخ ہو جاتا ہے۔
اس کا علاج یہ ہے کہ اگر بچے کو سردی لگ جائے تو پہلے اس کا تدارک کریں اور درج ذیل مقوی قلب ادویہ دیں: خمیرہ مروارید، چھوٹا چمچ نصف صبح شام سادہ پانی یا عرق گاؤزبان سے دیں۔ کھانسی بار بار ستائے تو لعوق سپستان آدھا چمچ دن میں چار مرتبہ چٹائیں۔ یہ تیار شدہ ادویہ ہیں جو آپ سفر وحضر میں بلا خوف دے سکتے ہیں۔
ذیل میں میرا ایک مجرب نسخہ درج ہے۔ اسے خود تیار کر کے بچے کو دیں۔ 
ہو الشافی: خاکسی، ایک چھوٹا چمچ۔ یہ خشخاش کی طرح باریک باریک دانے ہوتے ہیں۔ تھوڑی سی ملٹھی، تقریباً ایک آدھ انچ۔ دو سے چار دانے عناب کے (توڑ کر)۔ یہ سب چیزیں ایک یا ڈیڑھ گلاس پانی میں دو تین جوش دے کر ٹھنڈا کر لیں۔ مناسب سمجھیں تو شہد یا چینی سے مزید میٹھا کر لیں اور سوتے وقت پلا دیں۔ صبح اللہ کے فضل سے کملایا ہوا پھول کھلکھلایا ہوا لگے گا۔ خوراک دن میں دو بار بھی دے سکتے ہیں۔ قرشی یا کسی بھی اچھے دوا خانہ کے شربت عناب کا بڑا چمچ صبح شام پلا دیا کریں۔
یہ نسخہ پرانے اطبا نے زندگی بھر کی محنت شاقہ سے ترتیب دیا ہے۔ میں تیس سال سے صرف اور صرف یہی نسخہ استعمال کر رہا ہوں۔ آج تک اللہ نے ناکامی نہیں دکھائی۔ یاد رکھیں، کھانسی، نزلہ، زکام، بخار، خسرہ اگر خدا نخواستہ بگڑ گیا تو بچے کی ساری زندگی برباد ہو جائے گی۔ دوران مرض میں ہوا اور پانی کی تبدیلی بلا وجہ نہ کریں اور عام جسمانی کمزوری کا بھی خیال رکھیں۔ مرطوب ہوا بھی نہ ہو۔ خمیرہ مروارید آب حیات سمجھ کر دیتے رہیں۔ دلیہ، ساگو دانہ، کھچڑی، کالے چنے، جس چیز میں بھی بچہ رغبت محسوس کرے، دے دیں۔ خمیرہ ابریشم حکیم ارشد والا سونے پر سہاگہ ہے۔ مریض کو بازار کی کوئی چیز نہ دیں۔ جب مرض کی شدت ختم ہو جائے تو بکرے کی اوجھڑی کا سالن دیں۔ 

اگست ۲۰۱۳ء

اختلاف رائے کے دائرے، حدود اور آدابمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مصر میں الاخوان المسلمون کی حکومت کا خاتمہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
علامہ محمد اسدؒ اور ان کی دینی و علمی خدماتڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی
اسلام کا تصورِ جہاد ۔ تفہیم نو کی ضرورتمحمد عمار خان ناصر
اسلامی نظریاتی کونسل اور ڈی این اے ٹیسٹڈاکٹر عبد الباری عتیقی
مفتی محمد زاہد صاحب کے موقف پر ایک تحقیقی نظر (۱)مولانا عبد الجبار سلفی
مکاتیبادارہ
سالانہ دورۂ تفسیر و محاضرات قرآنی ۲۰۱۳ءادارہ
امراض دل اور بلڈ پریشر کا علاجحکیم محمد عمران مغل

اختلاف رائے کے دائرے، حدود اور آداب

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کے زیر اہتمام ۱۷۔۱۸ جون کو ’’معاشرہ میں باہمی احترام اور رواداری کے فروغ میں ائمہ و خطبا کا کردار‘‘ کے عنوان پر منعقدہ سیمینار کی آخری نشست میں گفتگو۔)

بعد الحمد والصلوٰۃ! اگرچہ میری گفتگو کا عنوان ’’مختلف فقہی مذاہب سے استفادہ کی صورتیں‘‘ بتایا گیا ہے لیکن میں اس ورکشاپ کے عمومی موضوع کے حوالہ سے بھی کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔ معاشرہ میں باہمی احترام اور رواداری کے فروغ میں علماء کرام اور ائمہ و خطباء کے کردار کے ایک پہلو کے بارے میں شرکاء محفل کو توجہ دلانا مناسب سمجھتا ہوں کہ اگر ہم اختلافات کی حدود اور ان کی مختلف سطحوں کے بارے میں آگاہی حاصل کر لیں اور اختلافات کو ان کے دائرہ اور سطح تک محدود رکھنے کی روایت کو فروغ دیں تو باہمی احترام اور رواداری کے حوالہ سے پیدا ہونے والے بہت سے مسائل پیدا ہی نہ ہوں۔ اس لیے کہ ہمارا عمومی مزاج یہ بن گیا ہے کہ کسی اختلاف کی اصل سطح اور دائرہ کو پیش نظر رکھے بغیر ہر اختلاف میں ایک ہی طرح کا طرز عمل اختیار کر لیا جاتا ہے جس سے اختلافات اکثر اوقات تنازعات کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ اس لیے میں مذہبی اختلافات کی مختلف سطحوں اور دائروں کے بارے میں اپنے طالب علمانہ مطالعہ کی روشنی میں کچھ امور کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں:
  • مذہبی اختلافات کا ایک دائرہ ایمان اور کفر کا ہے اور ادیان و مذاہب کی سطح کا ہے جیسا کہ مسلمان، مسیحی، یہودی، سکھ، ہندو اور بدھ مت وغیرہ مذاہب کے درمیان ہے۔
  • ایک دائرہ حق و باطل کا ہے جسے حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ اہل قبلہ کے مختلف گروہوں کا باہمی اختلاف کہتے ہیں۔ یہ اہل سنت، معتزلہ، خوارج، روافض اور منکرین حدیث کے درمیان اختلافات کا دائرہ ہے جو اپنی تمام تر شدت اور سنگینی کے باوجود بہرحال پہلے دائرہ سے مختلف ہے اور میں اسے حق و باطل کے اختلافات سے تعبیر کیا کرتا ہوں۔
  • تیسرا دائرہ اہل سنت کے اپنے داخلی ماحول میں فقہاء کرامؒ کے اختلافات کا ہے جس کا تعلق احکام و مسائل سے ہے مثلاً احناف، شوافع، مالکیہ، حنابلہ اور ظواہر کے باہمی فقہی اختلافات ہزاروں مسائل میں ہیں لیکن یہ اختلافات ایمان و کفر اور حق و باطل کی سطح کے نہیں ہیں بلکہ خطا و صواب کے دائرے کے ہیں۔ کیونکہ فقہ و اجتہاد کے باب میں اہل السنۃ کا مسلّمہ اصول یہ ہے کہ کسی مسئلہ میں جو موقف ہم میں سے کسی نے اختیار کیا ہے وہ صواب ہے جبکہ دوسری طرف کا موقف خطاء پر مبنی ہے (ولکن یحتمل الصواب) مگر اس میں صواب کا احتمال بھی موجود ہے۔ 
  • چوتھا دائرہ اولیٰ و غیر اولیٰ کا ہے جو ایک ہی فقہ کے پیروکاروں کے درمیان اکثر موجود رہا ہے اور یہ اتنا معمولی ہوتا ہے کہ اسے خطا و صواب سے تعبیر کرنے کی گنجائش بھی بسا اوقات نہیں ہوتی۔
  • پانچواں دائرہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی تشریحات کے مطابق عقائد کی تعبیرات کا ہے، حضرت شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ مسلّمہ عقائد کے باب میں کسی عقیدہ سے اختلاف کی وجہ سے تو اختلاف کرنے والوں کو اہل السنۃ کے دائرہ سے خارج قرار دیا جا سکتا ہے لیکن نفس عقیدہ کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی تعبیر میں اختلاف کرنے والوں کو اہل السنۃ سے خارج قرار دینے کو وہ درست نہیں سمجھتے۔ مختلف عقائد کی تعبیرات کے بارے میں اشاعرہ، ماتریدیہ اور ظواھر کے بیسیوں باہمی اختلافات اسی زمرہ سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کے باوجود یہ تینوں گروہ اہل السنۃ والجماعۃ کا حصہ شمار ہوتے ہیں۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اختلافات کے مختلف دائروں اور سطحوں کو باہم گڈمڈ کر رکھا ہے۔ بات اولیٰ اور غیر اولیٰ کی ہوتی ہے جبکہ ہم کفر و اسلام کے ہتھیاروں کے ساتھ جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں، بات خطا و صواب کی ہوتی ہے مگر ہم حق و باطل کے پرچم اٹھائے ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار دکھائی دینے لگتے ہیں۔ اگر ہم اختلافات کے دائروں اور سطحوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہر اختلاف کو اس کے اصل دائرہ میں رکھیں تو بہت سے تنازعات خودبخود حل ہو جائیں اور باہمی احترام اور رواداری کا ماحول بھی فروغ پانے لگے۔
اس کے بعد میں اپنے اصل موضوع کی طرف آتا ہوں کہ مختلف فقہی مذاہب سے استفادہ کی صورتیں آج کے دور میں کیا ہو سکتی ہیں۔ ہماری یہ روایت چلی آرہی ہے کہ ہم اپنے اپنے فقہی مذہب پر کاربند رہتے ہوئے ضرورت کے مقامات پر دوسرے فقہی مذاہب سے استفادہ کرتے ہیں۔ اس حوالہ سے اصول فقہ میں ’’تلفیق‘‘ کی صورت بیان کی گئی ہے جس کی کچھ شرائط ہیں اور ان شرائط کے ساتھ مفتی کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ جہاں اس نوعیت اور درجہ کی ضرورت محسوس کرے وہاں وہ دوسرے فقہی مذہب سے بھی استفادہ کر سکتا ہے لیکن اس کے لیے مفتی اور ضرورت دونوں کے درجہ اور سطح کو ملحوظ رکھا جاتا ہے اور اس کے مطابق مذاہب میں ایک دوسرے سے استفادہ کی صورت اختیار کی جاتی ہے۔ میں ’’تلفیق‘‘ کے ان اصولوں اور دائروں کا پوری طرح احترام کرتا ہوں اور خود بھی ان کی پابندی کرتا ہوں لیکن یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ یہ معاملہ اس صورت میں ہوتا ہے جب ایک فقہی مذہب کے پیروکاروں کو کسی خاص مسئلہ میں دوسرے مذہب کے فقہی اقوال و جزئیات سے استفادہ کی ضرورت محسوس ہو اور وہ اسے سامنے رکھ کر اپنا مسئلہ حل کر لیں۔ 
لیکن حالات کے تغیر اور معاشرت کے ارتقاء کے باعث کچھ ایسی صورتیں اب سامنے آرہی ہیں جن میں ہمیں اس سے آگے بھی کچھ سوچنا ہوگا اور ایسے اجتماعی مسائل کے حل کی کچھ صورتیں نکالنا ہوں گی جو ’’تلفیق‘‘ کے مسلّمہ دائروں سے مختلف دکھائی دیتی ہیں، مثلاً:
  • جہاں ایسی سوسائٹیاں وجود میں آرہی ہیں بالخصوص مغربی ممالک میں جہاں احناف، شوافع، مالکیہ اور حنابلہ وغیرہ مشترکہ طور پر رہتے ہیں اور مسجد یا کسی ادارے کا مشترکہ طور پر نظام چلا رہے ہیں، یعنی مسجد، مدرسہ یا مسلم سکول بناتے اور اس کا نظام چلانے میں حنفی، شافعی، ظاہری وغیرہ مشترکہ طور پر شریک ہیں وہاں کوئی ایسا مشترکہ فارمولا تشکیل دینا ناگزیر حد تک ضروری ہو جاتا ہے جس میں تمام متعلقہ فقہی مذاہب کا لحاظ رکھا گیا ہو۔ یہ بہت سے مقامات پر آج کی ایک اہم ضرورت کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
  • بسا اوقات فقہی دائروں اور سطحوں سے بالاتر ایسے ملّی مسائل سامنے آجاتے ہیں جن میں مشترکہ سوچ کو اپنانا لازمی ہو تا ہے۔ مثلاً پاکستان بننے کے بعد ہمیں دو بڑے مسائل درپیش آئے تھے جن کے لیے ہمیں اجتماعی فیصلہ کرنا تھا۔ ایک یہ کہ پاکستان کا نظام حکومت کیا ہوگا اور کسی فرد یا گروہ کو اقتدار سونپنے کی وجہ جواز کی ہوگی؟ اور دوسرا یہ کہ عقیدۂ ختم نبوت کے منکر قادیانی گروہ کی معاشرتی حیثیت کیا ہوگی؟ ہم نے ان دونوں مسائل کا فیصلہ اجتماعی اجتہاد کے ذریعہ کیا اور طے کیا کہ پاکستان میں حکمرانی کا حق اسے حاصل ہوگا جسے عوام کا اعتماد حاصل ہوگا، جبکہ حکومت قرآن و سنت کی پابند ہوگی۔ اور قادیانیوں کے بارے میں ہم نے فیصلہ کیا کہ انہیں غیر مسلم اقلیت کے طور پر اسلامی ریاست میں معاشرتی تحفظ فراہم کیا جائے گا۔
  • اس مسئلہ کے ایک اور پہلو کی طرف بھی توجہ دلانا چاہوں گا کہ آج کل عالمی مارکیٹ میں ’’حلال فوڈ‘: کی مانگ بڑھتی جا رہی ہے اور مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم بھی حلال کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں فراہم کی جانے والی حلال خوراک کے ’’حلال‘‘ ہونے کی ضمانت فراہم کی جائے جو ظاہر ہے کہ مسلمان حکومتوں کی طرف سے ہی فراہم کی جا سکتی ہے۔ بعض ممالک میں حکومتی سطح پر ایسے ادارے موجود ہیں جو کسی فوڈ کے حلال ہونے کے لیے تسلی کرنے کے بعد ’’حلال فوڈ‘‘ کی اسٹیمپ لگا دیتے ہیں جس سے عالمی مارکیٹ میں یہ ضمانت میسر آجاتی ہے۔ پاکستان میں یہ مسئلہ ابھی غور و فکر کے مراحل میں ہے، دو سال قبل لاہور کے ایک ہوٹل میں بین الاقوامی سطح کا سیمینار منعقد ہوا جس میں مجھے بھی شرکت اور گفتگو کا موقع ملا، اس کی جس نشست میں مجھے معروضات پیش کرنا تھیں اس کی صدارت اتفاق سے برادر مسلم ملک انڈونیشیا کے سفیر محترم کر رہے تھے۔ میں نے اپنی گفتگو میں اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ ہمیں بین الاقوامی مارکیٹ میں حلال فوڈ کی گارنٹی فراہم کرنے سے پہلے آپس میں حلال و حرام کا کوئی مشترکہ فارمولا طے کرنا ہوگا۔ اس لیے کہ انڈونیشیا اور ملائشیا میں غالب اکثریت شوافع کی ہے جن کے نزدیک سمندر کا ہر جانور حلال ہے اور اتفاق سے شوافع کی بہت بڑی اکثریت جزیروں میں آباد ہے جہاں چاروں طرف سمندر ہی سمندر ہے۔ جبکہ احناف کے نزدیک مچھلی کی اقسام کے علاوہ سمندر کی کوئی جاندار مخلوق حلال نہیں ہے۔ ہم دونوں جب حلال فوڈ کی گارنٹی لے کر بین الاقوامی مارکیٹ میں جا رہے ہیں تو ہمیں آپس میں اس حوالہ سے ’’حلال و حرام‘‘ کے کسی متفقہ موقف پر آنا ہوگا ورنہ عالمی مارکیٹ میں مذاق بن جائے گا کہ یہ پاکستانی حلال ہے اور یہ انڈونیشین حلال ہے، ہمیں ایسی صورت حال پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ میری اس گزارش سے مجلس میں اتفاق کیا گیا اور ان معاملات میں باہمی اتفاق رائے کی ضرورت کو محسوس کیا گیا۔ 
گزارش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں کم از کم اہل السنۃ کے دائرہ کے فقہی مذاہب یعنی حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اور ظاہری فقہی مکاتب فکر سے واقفیت اور باہمی تبادلہ خیالات اور استفادہ کا ماحول پیدا کرنا چاہیے۔ میں اس بات کا پوری طرح قائل بلکہ داعی ہوں کہ کسی ملک میں جس فقہی مذہب کے پیروکاروں کی اکثریت ہے وہاں اسی فقہ کا عملی نفاذ ہو۔ حنفی اکثریت کے ملک میں حنفی فقہ کو قانون کی بنیاد ہونا چاہیے، شافعی اکثریت کے ملک میں فقہ شافعی کا نفاذ ہی صحیح بات ہے اور مالکی اکثریت کے ملک کو اپنے دستور و قانون میں مالکی فقہ سے ہی استفادہ کرنا چاہیے، لیکن جہاں مشترکہ ماحول ہو وہاں اشتراک عمل کی قابل عمل فقہی صورتیں ضرور نکالنی چاہئیں اور بین الاقوامی فورم پر ہمیں مل جل کر باہمی مفاہمت اور ہم آہنگی کے ساتھ جانا چاہیے۔ عالمی اداروں، بین الاقوامی رائے عامہ اور مشترکہ علمی و فکری چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ہمیں حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اور ظاہری سے بالاتر ہو کر ایک دوسرے سے استفادہ کی ایسی صورتیں ضرور نکالنی چاہئیں جو آج کی دنیا میں اسلام کے جامع اور صحیح تعارف کے لیے ضروری ہیں۔ 
میری طالب علمانہ رائے میں اس کے لیے زیادہ مناسب بات یہ ہوگی کہ اجتماعی اور مشاورتی اجتہاد کو فروغ دیا جائے۔ یہ فقہ حنفی کی اساس اور روایت بھی ہے کہ حضرت امام اعظمؒ نے شخصی فقہ کی بجائے مشاورتی اور اجتماعی فقہ کی روایت کا آغاز کیا اور ہمارے دو بڑے فقہی ذخیروں ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ اور ’’مجلۃ الاحکام العدلیۃ‘‘ کی بنیاد بھی اجتماعی مشاورت پر ہے۔ اس لیے ہم اگر اجتماعی اور مشاورتی فقہی ماحول دوبارہ بحال کر لیں تو نہ صرف حضرت امام اعظمؒ کی روایت زندہ ہو جائے گی بلکہ آج کے بہت سے مسائل کے حل کی راہ بھی ہموار ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔

محترم ڈاکٹر محمد امین صاحب نے ’’البرہان‘‘ کے حالیہ شمارے میں ’’الشریعہ‘‘ اور ’’ضرب مومن‘‘ کے مباحثے کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:
’’ہم سے ایک قاری نے سوال کیا ہے کہ عبد القادر الجزائری کے حوالے سے جو بحث ماہنامہ ’الشریعہ‘ گوجرانوالہ اور ’ضرب مومن‘ میں جاری ہے، ا س کے بارے میں ہماری رائے کیا ہے؟ مختصراً عرض ہے کہ مفتی ابولبابہ صاحب کا موقف صحیح ہے، لیکن ان کا اسلوبِ اظہار روایتی اور جذباتی ہے۔ جاوید غامدی صاحب اور عمار ناصر صاحب کے خلاف لکھنے والے بعض دیگر احباب جیسے سید خالد جامعی صاحب اور محمد رفیق چودھری صاحب کا اور بعض جرائد جیسے ماہنامہ محدث، ماہنامہ صفدر، ماہنامہ ساحل ۔۔۔ کا انداز نگارش بھی جذباتی ہوتا ہے۔ اگرچہ قارئین کا ایک حلقہ اسے پسند کرتا ہے، لیکن سنجیدہ اہل علم اس کے مقابلے میں غیر جذباتی اور مدلل انداز کو ترجیح دیتے ہیں۔ خصوصاً اس صورت میں کہ خود غامدی صاحب اور عمار ناصر صاحب غیر جذباتی، شائستہ اور مدلل انداز میں لکھتے ہیں۔ ‘‘
ہم ڈاکٹر صاحب محترم کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ہمارے اس موقف سے اتفاق کیا ہے کہ کسی بھی مسئلہ پر اختلاف کا اظہار دلیل اور شائستگی کے ساتھ ہونا چاہیے، تاہم اس کے بعد وہ یوٹرن لے کر فرماتے ہیں کہ ’’اگرچہ اسلام بالعموم بدزبانی کی مذمت کرتا ہے‘‘، لیکن مسئلہ ان کے خیال میں خاص نوعیت کا ہو تو اشتعال انگیزی، الزام تراشی، بدزبانی، طعن و تشنیع اور نفرت خیزی سب کچھ جائز ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب محترم نے سوال کیا ہے کہ اختلاف کی حدود کیا ہیں؟ فرماتے ہیں:
’’ہم مولانا راشدی صاحب سے متفق ہیں کہ علمی اختلاف رائے میں تحمل و برداشت سے کام لینا چاہیے اور دلیل کا جواب دلیل ہی سے دینا چاہیے، لیکن ہم مولانا محترم سے پوچھتے ہیں کہ اس علمی اختلاف رائے کی حدود کیا ہیں اور اس کا منبع کیا ہے؟ ایک بات میں اختلاف، دوسری بات میں اختلاف، احناف سے اختلاف، ائمہ اربعہ سے اختلاف، اجماع امت سے اختلاف، فقہاء سے اختلاف، محدثین سے اختلاف اور محقق صوفیا سے اختلاف۔‘‘ 
ہم سب سے پہلے اس پر کچھ معروضات پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری طالب علمانہ رائے میں مذہبی اختلافات کے الگ الگ دائرے ہیں:
  • ایمان و کفر کا دائرہ جو مسلمانوں، یہودیوں، مسیحیوں، ہندوؤں اور دیگر مذاہب و ادیان کے درمیان ہے۔
  • حق و باطل کا دائرہ جو اہل السنۃ، خوارج، معتزلہ اور روافض وغیرہ کے درمیان ہے، اور حضرت شاہ ولی اللہؒ اسے اہل قبلہ کے باہمی اختلافات سے تعبیر کرتے ہیں۔
  • خطا و صواب کا دائرہ جو فقہاء کرام کے درمیان ہے اور احناف، مالکیہ، شوافع، حنابلہ اور ظواہر کے تمام تر فقہی اختلافات اسی دائرہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
  • اولیٰ و غیر اولیٰ کا دائرہ جو ایک ہی فقہی مذہب کے پیروکاروں کے درمیان بھی اکثر موجود رہتا ہے۔ 
عقائد کے باب میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ میں صراحت سے لکھا ہے کہ وہ عقائد کے اختلاف پر تو اہل السنۃ سے کسی کو خارج سمجھتے ہیں، لیکن نفس عقیدہ کو تسلیم کرتے ہوئے صرف تعبیر کے اختلاف پر کسی کو اہل السنۃ سے خارج قرار دینے کے لیے تیار نہیں ہیں، جیسا کہ اشاعرہ، ماتریدیہ اور ظواہر کے درمیان بہت سے عقائد کی تعبیرات کے حوالہ سے اختلاف موجود ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ سب اہل السنۃ کا حصہ شمار ہوتے ہیں۔ اس بنیاد پر عقائد کے باب میں اشاعرہ، ماتریدیہ اور ظواہر کی الگ الگ تعبیرات اور مسائل میں احناف، مالکیہ، شوافع، حنابلہ اور ظواہر کے اختلاف خطا و صواب کے دائرہ میں شمار ہوتے ہیں اور انہیں حق و باطل کے ترازو پر تولنا کسی طرح بھی انصاف کی بات نہیں ہے، جبکہ ہمارا ماحول یہ بن چکا ہے کہ اولیٰ اور غیر اولیٰ کے اختلافات میں بھی ہم کفر و اسلام اور حق و باطل کے ہتھیاروں سے مسلح ہو کر ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہوتے ہیں اور معمولی سے فقہی اختلاف پر بھی دوسرے فریق کو کفر و ارتداد کی حدود میں دھکیل دینے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ 
ہمارے اس موقف سے خود ڈاکٹر محمد امین صاحب بھی ’’ملی مجلس شرعی‘‘ کے فورم پر پوری طرح متفق ہیں اور اس کا اظہار ہم ملی مجلس شرعی کی دستاویزات میں متعدد بار کر چکے ہیں۔ اس موقع پر قارئین کو اس بات سے آگاہ کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ ’’ملی مجلس شرعی‘‘ کے عنوان سے ہمارا ایک مشترکہ علمی و فکری فورم موجود ہے جس میں بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث مکتب فکر کے سرکردہ علماء کرام شامل ہیں۔ مولانا مفتی محمد خان قادری اس کے صدر ہیں جبکہ مجھے سینئر نائب صدر کی ذمہ داریاں ان دوستوں نے سونپ رکھی ہیں۔ ڈاکٹر محمد امین صاحب سیکرٹری جنرل ہیں اور ہمارے رفقاء میں مولانا عبد الغفار روپڑی، مولانا ڈاکٹر حسن مدنی، مولانا عبد المالک خان، مولانا احمد علی قصوری، مولانا عبد الرؤف فاروقی اور ڈاکٹر فرید پراچہ بھی شامل ہیں۔ 
ملی مجلس شرعی کے فورم پر ہم سب کا موقف وہی ہے جو میں نے عرض کیا ہے کہ علمی، مسلکی اور فقہی اختلافات کو ان کی علمی حدود میں رکھا جائے اور ان میں مبالغہ آرائی کر کے انہیں باہمی تنافر و تنازع کا ذریعہ نہ بننے دیا جائے۔ البتہ ’’البرہان‘‘ میں ڈاکٹر محمد امین صاحب کا ذوق اس سے کچھ مختلف نظر آتا ہے جو ظاہر ہے کہ ان کا حق بھی ہے کہ وہ اپنے جذبات اور موقف کا جس لہجے میں چاہیں اظہار فرمائیں۔ 
ڈاکٹر صاحب نے جس بحث کے تناظر میں ’’بد زبانی‘‘ کا جواز پیش کیا ہے، انھیں اس کی نوعیت پر بھی غور کرنا چاہیے۔ امیر عبد القادر الجزائری کی شخصیت اور کردار سے متعلق اختلاف کا تعلق تاریخ سے ہے، فقہ و عقائد کے باب سے نہیں۔ جن حضرات کے نزدیک وہ روایات قابل قبول ہیں جو ان کے بارے میں پھیلائی گئی ہیں، وہ ان کے بارے میں جو چاہیں رائے قائم کریں، مگر ہمارا موقف یہ ہے کہ جب الجزائری قوم انہیں اپنا ہیرو سمجھتی ہے، ان کے معاصر عظیم مجاہد امام شاملؒ ان کے مجاہدانہ کردار کو تسلیم کرتے ہیں اور عرب دنیا میں انھیں انتہائی عزت واحترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے تو ہم بھی انہیں وہی مقام دیتے ہیں اور اس کردار کے خلاف افسانوی قصوں اور قیاس آرائی پر مبنی بد گمانیوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں (اور اس معاملے میں ہم اپنے موقف کو اس بنا پر نہیں چھوڑ سکتے کہ اس سے مغرب کے کسی نظریے کی تائید ہوتی ہے)۔
ہمارے اختلاف رائے کے طرز عمل پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ:
’’ایک بات میں اختلاف، دوسری بات میں اختلاف، احناف سے اختلاف، ائمہ اربعہ سے اختلاف، اجماع امت سے اختلاف، فقہاء سے اختلاف، محدثین سے اختلاف اور محقق صوفیاء سے اختلاف۔‘‘
ہم ڈاکٹر صاحب سے گزارش کریں گے کہ وہ اپنے ان الزامات کی بنیاد پر ان امور کی نشاندہی فرما دیں جن میں ہم ان الزامات کے مستحق قرار پائے ہیں اور ازراہِ کرم درج ذیل سوالات کا جواب بھی مرحمت فرما دیں:
  •  کیا ہزاروں بلکہ لاکھوں مسائل میں فقہاء کرام اور مفتیانِ کرام کے اختلافات ایک دوسرے سے اختلاف نہیں ہے، اور کیا یہ بات بات پر اختلاف نہیں ہے؟
  •  کیا احناف میں باہمی اختلافات موجود نہیں ہیں اور کیا آج کے بیسیوں حنفی دارالافتاء سینکڑوں مسائل میں ایک دوسرے سے اختلاف نہیں کر رہے؟
  • کیا ائمہ اربعہ سے خود ان کے ماننے والوں نے بھی بہت سے مسائل میں اختلاف نہیں کیا؟
  • کیا محدثین اور صوفیاء کرام کے مابین اختلافات کا وسیع سلسلہ موجود نہیں ہے؟ 
آپ اس اختلاف کا دروازہ آخر کیسے بند کر رہے ہیں اور کس دلیل سے کر رہے ہیں؟ 
یہاں ایک اور بات کا تذکرہ بھی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ہمارے ایک فاضل دوست نے ایک فکری نشست میں اختلافات اور بحث و مباحثہ کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے ہاں تحقیق کا مطلب حق کی تلاش نہیں ہوتا بلکہ حق کو ثابت کرنا ہوتا ہے کہ جو حق ہمارے پاس موجود ہے اس کو ثابت کرنے کے لیے دلائل دیں اور اس کے خلاف پائے جانے والے شکوک و شبہات کے ازالہ کی علمی محنت کریں۔ 
مجھے نصوص صریحہ کی حد تک اس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ جو بات قرآن کریم اور حدیث و سنت سے اللہ تعالیٰ اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی صورت میں یقینی طور پر ثابت ہو جائے، وہ بہرحال حق ہے اور اسے دلائل کے ساتھ ثابت کرنا ہی ہماری دینی و علمی ذمہ داری ہے، لیکن کیا غیر منصوص اور غیر صریح احکام و مسائل کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے؟ مجھے اس میں کلام ہے، اس لیے کہ غیر منصوص اور غیر صریح احکام و مسائل میں حکم، مصداق اور تعبیر کا تعین رائے اور اجتہاد سے ہوتا ہے۔ رائے اور اجتہاد کا دائرہ یہ ہے کہ پیغمبر علیہ السلام کے سوا کسی بھی شخصیت کی رائے اور تعبیر سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور کیا جاتا رہا ہے۔ سینکڑوں فقہاء کرامؒ نے اس دائرہ میں ایک دوسرے سے اختلاف کیا ہے اور بڑے بڑے اکابر فقہاء کرامؒ نے بہت سے مسائل میں ایک رائے قائم کرنے کے بعد اس سے رجوع کیا ہے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔ اس لیے یہ کہنا کہ کسی غیر منصوص اور اجتہادی مسئلہ میں ہمارے ذہن میں جو رائے قائم ہوگئی ہے، حق اسی میں بند ہوگیا ہے، حق کی تلاش کی مزید تحقیق کی گنجائش باقی نہیں رہی اور ہم نے اس کے بعد جو تحقیق کرنی ہے، اسی کو ثابت کرنے کے لیے کرنی ہے، درست بات نہیں ہے۔ 

مصر میں الاخوان المسلمون کی حکومت کا خاتمہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

بعض دوستوں کو اس بات پر تعجب ہو رہا ہے کہ مصر میں صدر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹنے میں اس قدر جلدی کیوں کی گئی ہے اور اسے ایک سال تک بھی برداشت نہیں کیا گیا جبکہ ہمیں حیرت ہے کہ ایک سال تک اسے برداشت کیسے کر لیا گیا ہے؟ ربع صدی قبل الجزائر کے عوام نے ’’اسلامک سالویشن فرنٹ‘‘ کو انتخابات کے پہلے مرحلہ میں اَسّی فی صد ووٹوں کا اعتماد دیا تھا تو اسے دوسرے مرحلہ کا موقع نہیں دیا گیا تھا اور فوجی مداخلت کے ذریعہ نہ صرف انتخابات کے دوسرے مرحلہ کو منسوخ کر دیا گیا تھا بلکہ ’’متحدہ اسلامی محاذ‘‘ کو خانہ جنگی میں الجھا کر ایک دوسرے کے خلاف اس طرح دست و گریبان کر دیا گیا تھا کہ کم و بیش ایک لاکھ الجزائری مسلمان ایک دوسرے کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر گئے تھے۔ 
مغرب نے اٹھارویں صدی کے اختتام پر انقلاب فرانس کے ذریعہ مذہب کے معاشرتی کردار کی نفی کر کے سول سوسائٹی کے نام پر لا مذہبی سیاست و معاشرت کے دور کا آغاز کیا تھا تو مغرب میں بادشاہت، جاگیرداری اور پاپائیت کے صدیوں پر محیط مشترکہ ظلم و جبر کے پس منظر میں بات کچھ سمجھ میں آرہی تھی، لیکن جب اس فکر و فلسفہ کو پوری دنیا تک پھیلانے اور بالخصوص عالم اسلام کو اس کی لپیٹ میں لانے کی مہم کا آغاز کیا گیا تو بات سمجھ سے بالاتر ہوگئی اور عقل و شعور نے اس کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ اس لیے کہ بادشاہت، جاگیرداری اور پاپائیت کی تکون کا جو مشترکہ ظالمانہ کردار ’’تاریک صدیوں‘‘ کی صورت میں بیان کیا جاتا ہے، عالم اسلام اس پس منظر سے یکسر خالی تھا۔ جس رد عمل کا اظہار یورپ کی سول وسائٹی نے ’’انقلاب فرانس‘‘ کی صورت میں کیا تھا وہ امت مسلمہ کی سرے سے ضرورت نہیں تھی، اس لیے کہ عالم اسلام میں مذہب کا کردار ہمیشہ غریب دوستی، عدل و انصاف اور حق پرستی کا رہا ہے۔ بالخصوص اسلام کے عدالتی نظام نے بادشاہت اور حکمران طبقوں کے خلاف عوام کو جو انصاف اور تحفظ مسلسل بارہ سو برس تک فراہم کیا ہے اس کی مثال دنیا کی پوری تاریخ میں نہیں ملتی۔ لیکن مغرب نے اپنا مخصوص معاشرتی پس منظر اور اس پر اپنا ہی مخصوص رد عمل عالم اسلام پر بھی مسلط کرنے کی کوشش شروع کر دی تو امت مسلمہ اور مغرب کے درمیان اس کشمکش کا آغاز ہوگیا جسے ’’ثقافتی جنگ‘‘ کہنے سے ابھی تک انکار کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس کے پرت جوں جوں کھلتے جا رہے ہیں مغرب کا ثقافتی تعصب اور مغربی تہذیب و فلسفہ کو پوری دنیا پر مسلط کرنے کی خواہش بے نقاب ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اب تو ’’عالمی تہذیب و ثقافت‘‘ کے تحفظ کے نام پر اقوام و ممالک کی خود مختاری کو پامال کرنے، لاکھوں افراد کے قتل عام اور مسلسل ڈرون حملوں تک بات جا پہنچی ہے، جبکہ اس سب کچھ کے پیچھے یہی خواہش اور ضد کار فرما ہے کہ مذہب کے معاشرتی کردار کی نفی کو پوری دنیا سے منوایا جائے، اور خاص طور پر مسلمانوں کو ان کے مذہب کے قومی و سیاسی کردار اور ان کی تہذیب و ثقافت سے محروم کر کے مغرب کے ’’مذہب کے معاشرتی کردار کی نفی‘‘ پر مبنی فلسفہ و نظام ان سے منوایا جائے۔ 
مغرب نے ’’انقلاب فرانس‘‘ کے ذریعہ دنیا کو پیغام دیا تھا کہ اب سول سوسائٹی ہی سب کچھ ہے اور کسی بھی ملک کے نظام و ثقافت کی بنیاد صرف اسی بات پر ہوگی کہ اس ملک کی سول سوسائٹی کی خواہش کیا ہے۔ مغرب اس ’’خوشنما ڈھول‘‘ کو دو صدیوں سے مسلسل پیٹے جا رہا ہے، لیکن عالم اسلام اسی سول سوسائٹی کے ذریعہ مذہب کے سیاسی و معاشرتی کردار کو واپس لا رہا ہے تو مغرب کے لیے یہ بات ناقابل برداشت ہوگئی ہے اور وہ اس کو روکنے کے لیے ہر حربہ اختیار کرنے پر اتر آیا ہے۔ یہ بات پوری طرح واضح ہوگئی ہے کہ اس ساری جنگ کا اصل مقصد اور ہدف صرف یہ ہے کہ عالم اسلام میں مذہب کے سیاسی و معاشرتی کردار کی واپسی کو روکا جائے، حتیٰ کہ ہمارے پاکستانی معاشرے میں مغرب کے ’’بوسٹر‘‘ اب یہ آوازیں دینے لگے ہیں کہ پاکستان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک نے ’’قرارداد مقاصد‘‘ کے ذریعہ جس نظریاتی سفر کا آغاز کیا تھا اور اس پر قومی زندگی کے اصولوں کی بنیاد رکھی تھی اسے ریورس گیئر میں لایا جائے اور ’’قیام پاکستان‘‘ کو انقلاب فرانس کے ساتھ ہم آہنگی کا ’’اعزاز‘‘ بخشتے ہوئے اس دستور و قانون سے مذہب کے اثرات و نشانات کو محو کر دیا جائے۔ 
الجزائر کا مسئلہ بھی یہی تھا اور مصر کا مسئلہ بھی یہی ہے، نو آبادیاتی قوتوں نے مسلم ممالک پر قبضہ کے دوران اسی دن کے لیے ہر ملک میں ایک ہی طرز کی اسٹیبلشمنٹ تیار کی تھی جو اپنا کردار پوری وفاداری کے ساتھ ادا کر رہی ہے اور وفاداری کی آخری حد تک جانے کے لیے تیار نظر آتی ہے۔ صدر محمد مرسی کا قصور صرف یہ ہے کہ انہوں نے اور ان کی جماعت نے رائے عامہ کو اور سول سوسائٹی کو اپنی جدوجہد کا ذریعہ بنایا اور انتخابات میں واضح کامیابی حاصل کر کے دنیا کو ایک بار پھر بتا دیا کہ عالم اسلام میں شریعت اسلامیہ کا نفاذ صرف دینی حلقوں کا مسئلہ نہیں بلکہ عوام کی آواز ہے اور سول سوسائٹی کی خواہش اور طلب ہے۔ الجزائر میں بھی یہی ہوا تھا اور دنیا کے جس مسلمان ملک میں عوام کی خواہش کو آزادانہ طور پر معلوم کرنے کا دیانتدارانہ اہتمام کیا جائے گا اس کا نتیجہ الجزائر اور مصر سے مختلف نہیں ہوگا۔ لیکن مغرب کا مسئلہ ’’سول سوسائٹی‘‘ نہیں رہا بلکہ اب اس کے تمام تر ’’امور و مسائل‘‘ اسی ایک نکتہ پر مرکوز ہوتے جا رہے ہیں کہ عالم اسلام میں اسلام کے معاشرتی و سیاسی کردار کی واپسی کو کیسے روکا جائے؟ اس نے جبر و تشدد، لالچ، لابنگ اور دباؤ کے تمام وسائل اسی کام کے لیے وقف کر دیے ہیں اور ہر مسلمان ملک میں اس کے ’’بوسٹر‘‘ یہی راگ الاپ رہے ہیں۔ لیکن وہ مغالطہ کا شکار ہیں اور اسلام اور مسیحیت کے فرق کو محسوس نہیں کر رہے۔ اسلام ایک زندہ مذہب ہے، اس کی اوریجنل تعلیمات محفوظ حالت میں مسلمانوں کے پاس موجود ہیں۔ انسانی معاشرت کے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت آج بھی ان میں موجود اور تازہ ہے جبکہ اسلامی تعلیمات اور معاشرتی شعور سے بہرہ ور ارباب علم و فضل کی کھیپ عالم اسلام میں سول سوسائٹی کی قیادت کے لیے دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہی ہے۔ اس لیے صدر محمد مرسی کی منتخب حکومت کے خلاف فوجی بغاوت سے ہمیں دکھ ضرور پہنچا ہے، لیکن مایوسی نہیں ہے اس لیے کہ عالم اسلام میں بیداری کی جو لہر آگے بڑھ رہی ہے اس کا راستہ روکنا اب کسی کے بس میں نہیں رہا۔

علامہ محمد اسدؒ اور ان کی دینی و علمی خدمات

ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

مغرب کے وہ اسکالر جو مشرف بہ اسلام ہوئے اور انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کی بیش بہا خدمات انجام دیں، ان میں محمد اسدؒ کا ایک بڑا نام ہے ۔جنہوں نے اسلامیات میں بڑا درک پیداکیاتھا اور قرآن پاک کاانگریزی ترجمہ (مع تفسیری نوٹس) بھی کیا تھا۔ان کا انگریزی ترجمہ قرآن مستند ماناجاتاہے،اس کے علاوہ اسلامیات اور فکر اسلامی پر بھی ان کی تحریروں کو وقعت کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے۔ذیل میں علامہ محمد اسد کے حالات زندگی پر مختصر سی روشنی ڈالی جارہی ہے۔ 
محمد اسد نے پولینڈ کے ایک یہودی گھرانے میں لمبرگ (موجودہ یوکرائن) میں /2جولائی1990ء کو آنکھ کھولی۔ان کا خاندانی نام Leopold Weissرکھاگیا۔ ابھی نوْخیزہی تھے کہ مذہبی صحائف اور عبرانی کی تعلیم کے بعد پہلی جنگ عظیم کا طوفان انہیں آسٹریلیائی فوج میں لے گیا۔ فوجی زندگی کے تجربے نے زیادہ طول نہیں کھینچا اور وہ جلد اپنی تعلیم کی طرف لوٹ آئے اورانہوں نے ویانایونیورسٹی میں فلسفہ، تاریخ، آرٹ، طبیعات اور کیمیا کی تعلیم حاصل کی۔ مشرقی اور ایشیائی مطالعات میں دل چسپی لی اور اسلامیات کا گہرامطالعہ کیاجس نے ان کو اسلام کی حقانیت کا قائل کردیا۔تاہم اسلام انہوں نے بعد میں قبول کیا۔
محمد اسد حصول علم ،فکرکی پختگی،اور علمی تبحر میں تو معروف ہیں ہی، ساتھ ہی ان کو سیر وسیاحت کا بھی بڑا شوق تھا چنانچہ وہ بعد کی زندگی میں وہ ایک بڑے سیاح ثابت ہوئے کہ ایک بار سفر شروع ہوا تو پھر تو انہوں نے رکنے کا نام ہی نہیں لیا۔1922ء میں پہلی بار مشرق وسطی کا سفر کیا اور مصر، اردن، فلسطین، شام اور ترکی کے اسفار کیے۔ 1924ء کے دوسرے سفر میں انہوں نے مصر، عمان، شام ٹریپولی، عراق، ایران، افغانستان، وسط ایشیا کی سیاحت کی۔عرب دنیاکی سیاحت کے دوران وہ عرب کلچراور عرب اخلاقیات سے بے حد متاثر ہوئے جس کا تذکرہ انہوں نے اپنی کتاب ’’دی روڈ ٹو مکہ ‘‘میں کیاہے ۔اپنے طویل تجربے اور مشاہدے اور مسلسل مطالعے کے بعد انہوں نے 1926ء میں برلن میں اسلام قبول کیا اور اپنا اسلامی نام محمد اسد رکھا۔ 
قبول اسلام کے بعدحج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی اور قاہرہ میں رشتہ ازدواج منسلک ہوئے۔ وہ عالمی صحافت سے متعلق تھے اور اس حیثیت میں دنیا کا ایک بڑا حصہ دیکھنے کے بعد 1932ء میں ہندوستان آئے۔یہاں ان کا قیام ملک کے مختلف علاقوں اور مشہور شہروں امرت سر، لاہور، سری نگر، دہلی اور حیدرآبا دکن میں رہا۔ اسی دوران محمد اسدعلامہ اقبالؒ سے ملے اور ان سے تبادلہ خیال کیا۔علامہ اقبال نے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ اسلامیہ کالج لاہور میں نسل نو کو اسلامیات کا درس دیں۔سید نذیر نیازی کے نام 1934ء کے متعدد خطوط میں محمد اسد کے حوالے سے علامہ اقبال کا اظہار خیال موجود ہے۔ اسی سال محمد اسدکی کتاب (Islam at the Cross Road) شائع ہوئی، جس کے بارے میں علامہ اقبال نے لکھا:
This work is extremely interesting. I have no doubt that coming as it does' from a highly cultured European convert to Islam will prove an eye-opener to our younger generation
(یہ بہت ہی دلچسپ چیز ہے، مجھے ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ ایک اعلیٰ درجہ کے تعلیم یافتہ نومسلم یوروپین کے قلم سے منظر عام پر آنے سے ہماری نسل کے لیے چشم کشا ثابت ہوگی۔) 
یہ مختصر سی کتاب نئی اسلامی ادبیات میں خصوصی اہمیت کی حامل ہے،چنانچہ اس کے ترجمے عربی اور اردو زبانوں میں ہوئے ،عربی ترجمہ الاسلام علی مفترق الطرق کے نام سے چھپا اور عالم عرب میں کافی مقبول ہوامولانا علی میاں ندویؒ اس کتاب کی تعریف میں رطب اللسان رہتے تھے۔انھی کی تحریک پر اس کا اردو ترجمہ’’ اسلام دوراہے پر‘‘کے نام سے ایک ندوی فاضل کے قلم سے نکلااور مجلس صحافت و نشریات اسلام ندوۃالعلماء لکھنؤ سے شایع ہوا ۔
جس وقت محمداسدہندوستان آئے ،اس وقت آزادی کی تحریک جاری تھی ۔دوسری طرف مسلم کی قیادت میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد جناح اور لیگ کی جذباتی سیاست کے زیر اثر پاکستان کے حصول کے لیے میدان میں آچکی تھی اور یہ صاف محسوس ہورہاتھا کہ ہند کی دوحصوں میں تقسیم ہوکررہے گی۔ علامہ اقبال سے ملاقات کے بعدمحمد اسدؒ نے برصغیر میں ایک آزاد اسلامی ریاست کے قیام کو اپنا نصب العین بنا لیا، اس کے بعد وہ اپنی تحریروں میں اسی نصب العین کے حصول کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔انہوں نے پاکستان بننے کے بعداس آزاد مملکت کے لیے اسلامی دستور کے راہ نما اصو ل کی ترتیب میں بھی حصہ لیا۔ ان کی انہی خدمات کے باعث انہیں Intellectual Co-founder of Pakistanبھی کہا گیا ہے۔ قیام پاکستان، محمد اسد کے خوابوں کی تعبیر تھا، اپنے خوابوں کی اس تعبیر کے بارے میں خود انہوں نے بھی ایک جگہ لکھا ہے۔
For which I my self had worked and striven since 1993
(وہ مقصد جس کے لیے میں خود بھی 1939ء سے سرگرم رہا ہوں۔) 
1935 ء میں محمداسد نے حدیث کی سب سے مشہورومستند کتاب صحیح بخاری کے انگریزی ترجمے اور تشریح کی اشاعت کا کام شروع کیا اور اس کے پانچ اجزاء شائع کیے۔ جنوری 1937ء میں حیدرآباد دکن سے نکلنے والے رسالے Islamic Cultureکے مدیر مقرر ہوئے۔ یہ رسالہ اکتوبر 1938ء تک ان کی ادارت میں شائع ہوتا رہا۔ دوسری جنگ عظیم کے زمانے (یکم ستمبر 1939ء تا/14اگست 1945ء) میں برطانوی حکومت نے انہیں گرفتار کرلیا۔ طویل عرصہ تک صعوبتیں جھیلنے اور صدمے اٹھانے کے بعد رہا ہوئے اور 1946ء میں ایک ماہانہ رسالے ’’عرفات‘‘ کا اجرا کیا۔ 1947ء میں قیام پاکستان کے موقع پر ڈلہوزی سے لاہور آگئے اور ماڈل ٹاؤن میں مقیم ہوئے۔
علمی وتحقیقی کارناموں کے ساتھ ہی عالمی صحافت پر گہری نظر اور پختہ سیاسی شعور کے باعث انہوں نے بحیثیت سفارت کا ر بھی اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کا خوب مظاہرہ کیا۔چنانچہ قیام پاکستان کے بعد محمد اسد کو اسلامی تعمیر نو کے ایک نئے محکمے Deparment of Islamic Reconstructionکا ڈائریکٹر بنایا گیا ۔ انہوں نے وزارت خارجہ میں ڈپٹی سیکریٹری اور مڈل ایسٹ ڈویژن کے انچارج کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کرتے رہے۔ 1951ء میں حکومت پاکستان کے نمائندے کے طور پر سعودی عرب گئے۔ اگلے برس انہیں اقوام متحدہ میں پاکستان کا سفیر مقرر کیا گیا جہاں انہوں نے Committee on Information from Non-Self Govt. Territoriesکے چےئر مین اور Disamament Commission of the Security Coundilکے رکن کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ 1953 ء میں ان کی مشہور کتاب The Road to Makkahشائع ہوئی۔اس کتاب کا عربی ترجمہ الطریق الی مکۃ کے نام سے شائع ہوا۔ اس کتاب کی بھی عالم اسلام میں خاصی پذیرائی ہوئی، حتی کہ مولاناعلی میاں ندوی ؒ نے اسی کتاب کے اوپر اپنی ایک مشہور کتاب کانام ہی الطریق الی المدینۃ رکھاہے۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کی سفارت سے مستعفی ہونے کے بعدمحمداسدؒ نے سوئزر لینڈ، بیروت، شارجہ اور لبنان کے اسفار کیے۔ 1961ء میں ان کی کتاب The Principles of State and Govt. in Islamشائع ہوئی۔ 1946ء میں انہوں نے مراکش میں رہائش اختیار کرلی جہاں وہ 1981ء تک مقیم رہے۔ 1980ء میں قرآن کریم کے ترجمے اور تشریحات پر مبنی ان کی کتاب The Message of The Quranشائع ہوئی۔ 1983ء میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے نفاذ اسلام کے سلسلے میں راہ نمائی لینے کے لیے ایک بار پھر انہیں پاکستان بلایا اور انہوں نے انصاری کمیشن کے اجلاس میں شرکت کی۔ اس کمیشن کے سربراہ مولانا ظفر احمد انصاری تھے ،جو ملک کی ایک بڑی مقتدر شخصیت تھے ۔محمد اسد کے تعلقات پاکستان کے اکثر مشاہیر سے تھے۔ مولانا مودودی، مولانا ظفر احمد انصاری، مولانا امین احسن اصلاحی وغیرہم سے اکثر ان کی ملاقاتیں اور تبادلہ خیال ہواکرتا۔
کہاجاتاہے کہ حصول آزادی کے بعد وہ پہلے شخص تھے جنہیں پاکستانی پاسپورٹ جاری کیا گیا ۔ پہلے پاکستانی پاسپورٹ کے حامل اس آفاقی شخص کا یہ آخری سفر پاکستان ثابت ہوا۔ کیونکہ پاکستان سے /3اگست 1983ء کو لندن چلے گئے تھے جہاں سے انہوں نے پرتگال کا سفر اختیار کیا۔ 1987ء میں وہ ہسپانیہ لوٹے (اسی سال ان کی آخری کتاب The law of Ours and Other Essaysشائع ہوئی) ۔
جیسا کہ سطور ماقبل سے ظاہر ہے، عالمی سطح کے ایک نامور دانشور اور علوم اسلامی کے ایک ماہر کی حیثیت سے پاکستان نے ان کی خدمات سے استفادہ کیا۔ملک کی قدیم ترین اور بزرگ ترین جامعہ، پنجاب یونیورسٹی، نے علامہ اسد کے علم و فضل سے استفادے کی راہیں کشادہ کیں۔ 
علامہ محمد اسد پر اب تک تھوڑا بہت تحقیقی کام سامنے آچکا ہے۔ علامہ محمداسد کی پہلی سوانح (Leopold Weiss alias Muhammad Asad) جرمن زبان میں لکھی گئی ہے جو کہ صرف 1927ء تک کے احوال سے بحث کرتی ہے، اس کے بعد حال ہی میں The Truth Societyکی طرف سے علامہ اسد کے احوال و آثار اور ان کے بارے میں لکھے جانے والے مضامین، دو ضخیم مجلدات کی صورت میں شائع ہوئے ہیں۔ ایک ہزار سے زائد صفحات کے اس مجموعے میں بھی جہاں علامہ اسد کی زندگی کے بیشتر پہلو زیر بحث آگئے ہیں، اقبال اور محمد اسد، محمد اسد اورخیری برادران وغیرہ جیسے باہم مربوط موضوعات پر بھی کلام کیا گیا ہے۔ علامہ محمد اسد کے افکار کے حوالے سے پی۔ ایچ۔ ڈی کی سطح کا ایک مقالہ بھی تحریر کیا جاچکا ہے۔محمد اسد کی حیات وخدمات پر ایک مختصر کتاب انگریزی میں ہندوستان کے معروف اسلامی پبلشر گڈورڈ نے بھی شایع کی ہے۔جرمن اسلامی اسکالر اور مفکرمراد ہوفمان نے اپنی ڈائری میں ان کا مختصر تذکرہ کیا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ موجودہ دورمیں مشرق کے علماء و مفکرین کے پہلوبہ پہلو مغرب کے مسلم علماء، اسکالروں اور دانشوروں کی خدمات بھی اسلامیات کے میدان خاصی اہمیت رکھتی ہیں۔ ان مسلم مغربی علماء میں تین قسم کے لوگ ہیں۔ ایک تو عرب علماء واسکالر جو عرب دنیا سے ہجرت کرکے مغرب کو منتقل ہوگئے اور وہیں رہ کر علمی فکری اور دعوتی اور ادبی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ان علماء میں معروف فکری ادارہ المعہد العالمی للفکر الاسلامی واشنگٹن کے وابستگان ہیں جن میں اسماعیل راجی الفاروقیؒ شہید،ڈاکٹر طٰہٰ جابر العلوانی اور ان کے رفقائے خاص ہیں۔ دوسرے وہ محققین، داعی اورعلماء ہیں جو برصغیر سے ہجرت کرگئے تھے۔ ان میں سب سے بڑا علمی مقام علامہ ڈاکٹرمحمد حمیداللہ ؒ (آف پیرس) کا ہے۔ تیسرے وہ علما واسکالر ہیں جو مغرب کے ہی باشندے ہیں، جنہوں نے اسلام قبول کیا اور دین کی بیش بہا خدمات انجام دی ہیں۔ مثال کے طور پر فرانس کے اسکالر رینے گینوں، رجاء جارودی ( یہ پہلے مارکسی تھے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد اسرائیل اور صہیونی تحریک پر کئی معرکۃ الآرا کتابیں لگھیں۔ ان کے بعض خیالات میں شذوذ پایا جاتا ہے ،اس لیے بعض عرب علماء نے ان کے بارے میں بڑی سخت رائے دی ہے،البتہ علامہ یوسف القرضاوی نے معتدل رائے کا اظہار کیا ہے ۔ملاحظہ ہو: القدس قضےۃ کل مسلم) مارٹن لنگز ،محمد اسد اور دوسرے دانشور۔ ضرورت ہے کہ ان مغربی علماء واسکالروں کی علمی وفکری خدمات کا تجزیاتی مطالعہ کیاجائے۔
محمد اسدؒ مفسر،مترجم،مصنف،صحافی اور سفارت کار تو اعلی درجہ کے تھے ہی ،ساتھ ہی درس وتدریس کے میدان میں بھی انہوں نے خدمات انجام دیں۔اس ضمن میں شعبہ اسلامیات پنجاب یونیورسٹی کی صدارت بھی ان کی خدمات میں سرفہرست ہے۔ قیام پاکستان کے بعد نئے ملک کی اسلامی شناخت کے سلسلے میں جو اقدامات کیے گئے، ان میں ایک، ملک کی قدیم ترین جامعہ، پنجاب یونیورسٹی میں علوم اسلامی کے شعبے کا قیام بھی شامل تھا۔ پنجاب یونیورسٹی کاقیام 1882ء میں ہوگیا تھا، لیکن ہنوز اس میں علوم اسلامی کا کوئی شعبہ موجود نہیں تھا۔ اس حقیقت اور نئے وطن کے تقاضوں کے پیش نظر پنجاب یونیوسٹی کی سنڈیکیٹ نے اپنے اجلاس /5فروری 1949ء میں یہ فیصلہ کیا کہ یونیورسٹی میں اسلامیات کا ایک شعبہ قائم کیا جائے۔ جامعات میں جب نئے شعبے قائم کیے جاتے ہیں تو ان میں تدریس اور سربراہی کے لیے اس مضمون کی رسمی سند رکھنے والے اکثرمہیا نہیں ہوپاتے، البتہ ان مقاصد کے لیے ایسے علماء کا انتخاب کرلیاجاتا ہے جو اس شعبہ علم میں درجہ کمال پر فائز ہوں۔ چنانچہ اسی سلسلہ میں یونیورسٹی نے محمد اسد کی خدمات لینے کا فیصلہ کیا۔
علامہ محمد اسد 1926ء میں قبول اسلام کے بعد علوم اسلامی سے سنجیدگی کے ساتھ وابستہ رہے۔ اور انہوں نے اتنا کمال بہم پہنچایا کہ جب پنجاب یونیورسٹی نے علوم اسلامی کا شعبہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کی مسند صدارت کے لیے حکام کی نگاہ انتخاب علامہ محمد اسد پر پڑی۔ پنجا ب یونیورسٹی سنڈیکیٹ کے جس اجلاس (/5فروری1949ء) کا ابھی ذکر ہوا۔ اس میں وائس چانسلر نے شعبہ اسلامیات کی صدارت کے لیے علامہ محمد اسد کا نام تجویز کیا۔ اس وقت پنجاب یونیورسٹی نے ایک خط کے ذریعے علامہ محمد اسد کو اس پیش کش سے مطلع کیا۔ یہ اطلاع رجسٹرار کیپٹن محمد بشیر کی طرف سے مراسلہ نمبر /1243جی ایم مورخہ /8فروری1949ء کو دی گئی۔
یہ مراسلہ ملنے پر علامہ محمد اسد نے اس پیش کش کو قبول کیا جس کا اظہار ان کے ایک خط سے ہوا جس میں انہوں نے یونیورسٹی رجسٹرار کے منقولہ خط کی رسید دیتے ہوئے یونیورسٹی کا شکر یہ ادا کیا۔ علامہ محمد اسد 11ماہ تک اس عہدہ پر رہے۔ پھربعض وجوہات کے پیش نظر وہ یورپ چلے گئے۔ کچھ عرصہ کے بعد پھر پاکستان آئے، ملک کی سفارتی خدمات انجام دیں اور بیرون ملک بھی ان کے اسفارہوتے رہے۔ تاہم پنجاب یونیورسٹی پاکستان سے ان کا تعلق کسی نہ کسی حیثیت سے برقرار رہا، بلکہ۱۹۸۰ء کے بعد اس کے ذریعہ منعقدہ عالم اسلامی کلوکلیم کے انعقاد کی ذمہ داری بھی ان کو دی گئی تھی۔ اس کے لیے وہ ایک بار پھر پاکستان آئے۔ البتہ اس علمی مذاکرہ کے انعقاد سے پہلے ہی یونیورسٹی انتظامیہ سے اختلاف کے باعث وہ ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ اس کے بعد پھرمحمد اسدکبھی پاکستان نہیں آئے۔ زندگی کے آخری ایام میں وہ ہسپانیہ چلے گئے تھے جہاں 20فروری 1992ء کو انہوں نے زندگی کی آخر ی سانس لی۔تدفین کے لیے محمد اسد کو فلسطین لایاگیا۔ اب وہ غزہ کے مسلم قبرستان میں آرام فرما ہیں۔

اسلام کا تصورِ جہاد ۔ تفہیم نو کی ضرورت

محمد عمار خان ناصر

امیر عبد القادر الجزائری علیہ الرحمہ کے طرز جدوجہد پر گفتگو کرتے ہوئے میں نے بار بار یہ نکتہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اگر معروضی حالات میں جدوجہد کے بے نتیجہ ہونے کا یقین ہو جائے تو شکست تسلیم کر کے مسلمانوں کے جان ومال کو ضیاع سے بچا لینا، یہ شرعی تصور جہاد ہی کا ایک حصہ اور حکمت ودانش کا تقاضا ہے۔ فقہا ایسے حالات میں کفار کو خراج تک ادا کرنے کی شرط قبول کر کے ان کے ساتھ مصالحت کی اجازت دیتے ہیں۔ یہی کام ہمارے ہاں ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد اکابر علماء نے بھی کیا تھا اور عسکری جدوجہد ترک کر کے معروضی حالات میں انگریزی حکومت کی عمل داری کو قبول کر کے مناسب وقت پر سیاسی جدوجہد کے ذریعے آزادی حاصل کرنے کا طریقہ اختیار کر لیا تھا۔ 
جہاں تک مصالحت یا تسلیم شکست کی عملی صورت کا تعلق ہے تو اس کا تعلق عملی حالات سے ہوتا ہے۔ الجزائری نے اصلاً ہتھیار ڈالنے کے لیے جو شرط رکھی تھی، وہ ایک دوسرے مسلمان ملک کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت تھی۔ یہ فرانس کی بدعہدی تھی کہ یہ شرط پوری کرنے کے بجائے انھیں اور ان کے ساتھیوں کو فرانس میں لے جا کر محبوس کر دیا گیا۔ جب تک وہ محبوس رہے، مسلسل فرانسیسی حکام سے ایفاے عہد کا مطالبہ کرتے رہے۔ اسی دوران میں ان کے فرانسیسی حکام کے ساتھ ذاتی تعلقات اور روابط بھی قائم ہو گئے جس نے انھیں فرانس کی شہریت قبول کر لینے پر آمادہ کر دیا۔ فرانس کی طرف سے وظیفہ قبول کرنے کی وجہ بھی پوری طرح سمجھ میں آتی ہے۔ امیر کے تعلقات ترک حکام کے ساتھ دوستانہ نہیں تھے اور اس دور میں ترکی کے زیر نگیں دوسری مسلمان اقوام کی طرح الجزائر کے لوگ بھی ترکوں کے طرز حکومت، متکبرانہ رویے اور بد نظمی کی وجہ سے ان سے متنفر ہو رہے تھے۔ ان حالات میں الجزائری کے لیے دو ہی راستے تھے: یا تو وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ باقی زندگی کے لیے دربدر پھرنے پر راضی ہو جائیں اور یا پھر فرانسیسی حکام کی طرف سے وظیفے کی پیش کش کو قبول کر لیں۔ امیر نے دوسرے فیصلے کو ترجیح دی تو اپنے حالا ت کے لحاظ سے انھیں اس کا پورا حق تھا۔ 
اس تناظر میں یہاں الجزائری کی معاصر تاریخ کے دو مزید کرداروں کا ذکر بھی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ 

اکابر علمائے دیوبند اور ’’ترکِ جہاد‘‘

۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں شکست ہو جانے کے بعد دیوبندی جماعت کے اکابر نے بالعموم برطانوی اقتدار کے خلاف عسکری مزاحمت کا راستہ ترک کر کے تعلیم اور عوامی اصلاح کو اپنی جدوجہد کا میدان بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کے بعد انھوں نے ہندوستان پر برطانیہ کے اقتدار کی قانونی وفقہی حیثیت اور برطانوی حکومت کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات کی نوعیت پر بھی ازسرنو غور کیا۔ اس حوالے سے میں یہاں مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ کا ایک اہم فتویٰ نقل کرنا چاہوں گا جسے انڈیا کے معروف محقق مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی نے اپنے مرتب کردہ ’’باقیات فتاویٰ رشیدیہ‘‘ میں درج کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
’’سوال: یہ ملک ہندوستان جو سو برس سے زیادہ سے مملوکہ ومقبوضہ حکام مسیحی ہے اور ان کی رعایا میں ہنود وغیرہ مختلف مذاہب کے لوگ آباد ہیں اور ہم لوگ مسلمان بھی زیر حکومت آباد ہیں تو مسلمانوں کو اس ملک میں رعایا حکام بن کر رہنا چاہیے یا نہیں اور ہم مسلمانوں کو ان حکام کے ساتھ کیا معاملہ کرنا چاہیے اور نیز ہنود وغیرہ رعایا حکام کے ساتھ کیا معاملہ کرنا چاہیے؟
الجواب: ۱۔ چونکہ قدیم سے مذہب اور قانون جملہ مسیحی لوگوں کا یہ ہے کہ کسی کی ملت اور مذہب سے پرخاش اور مخالفت نہیں کرتے، او رنہ کسی مذہبی آزادی میں دست اندازی کرتے ہیں اور اپنی رعایا کو ہر طرح سے امن وحفاظت میں رکھتے ہیں، لہٰذا مسلمانوں کو یہاں ہندوستان میں جو کہ مملوکہ ومقبوضہ اہل مسیحی ہے رہنا اور ان کا رعیت بننا درست ہے۔ چنانچہ جب مشرکین مکہ معظمہ نے مسلمانوں کو تکلیفیں اور اذیتیں پہنچائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ملک حبشہ میں جو مقبوضہ نصاریٰ تھا، بھیج دیا اور یہ صرف اس وجہ سے ہوا کہ وہ کسی کے مذہب میں دست اندازی نہیں کرتے تھے۔
۲۔ اور جب مسلمان رعایا بن کر ہندوستان میں رہے اور حکام سے عہد وپیمان کر چکے کہ کسی حاکم یا رعایا حکام کے جان اور مال میں دست اندازی نہ کریں گے اور کوئی امر خلاف اطاعت نہ کریں گے تو مسلمانوں کو خلاف عہد وپیمان کرنا یا کسی قسم کی خیانت ومخالفت حکام کرنا ہرگز درست نہیں اور نہ کسی قسم کی خیانت اور خلاف عہد کرنا رعایا حکام یعنی ہنود وغیرہ کے ساتھ کرنا درست ہے۔ عہد کے پورا کرنے کی مسلمانوں کے مذہب میں اس قدر تاکید ہے کہ شاید کسی دوسرے مذہب میں نہ ہو۔
قال اللہ تعالیٰ: وَأَوْفُواْ بِالْعَہْدِ إِنَّ الْعَہْدَ کَانَ مَسْؤُولاً (بنی اسرائیل ۳۴)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ عہد کو پورا کرو، کیونکہ عہد کے بارے میں بروز قیامت باز پرس ہوگی۔
عہد شکنی کی سخت ممانعت ہے اور کسی سے عہد کر کے اس کے خلاف کرنے پر بہت دھمکی دی گئی ہے۔
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: الا من ظلم معاہدا او انتقصہ او کلفہ فوق طاقتہ او اخذ منہ شیئا بغیر طیب نفس فانا حجیجہ یوم القیامۃ 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام امت کو فرماتے ہیں، جو کسی غیر مذہب سے عہد کر کے اس پر ظلم کرے یا ان کو کوئی عیب لگاوے اور اس کی بلاوجہ توہین کرے یا اس پر مشقت زائد ڈالے یا اس کے مال میں سے کوئی چیز بلا رضامندی لے لیوے تو قیامت کے دن اللہ کے روبرو میں اس سے جھگڑا کروں گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی نائبوں کو عام تعلیم یہ ہوتی تھی: لا تغدروا۔ یعنی خلاف عہد مت کرو! 
ایک حدیث میں ارشاد ہے:
ذمۃ المسلمین واحدۃ یسعی بہا ادناہم، فمن اخفر مسلما فی ذمتہ فعلیہ لعنۃ اللہ والناس اجمعین، لا یقبل اللہ یوم القیامۃ صرفا وعدلا 
یعنی مسلمانوں کا ذمہ اور عہد ایک ہے۔ اگر ایک مسلمان کسی غیر مذہب والے سے معاہدہ کر لے گا تو سب مسلمانوں پر اس کا پورا کرنا لازم ہے۔ اگر کسی مسلمان کے عہد کو جو اس نے کسی کے ساتھ کیا تھا، کوئی دوسرا مسلمان توڑنا چاہے تو اس پر اللہ کی اور فرشتوں کی اور آدمیوں کی لعنت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس عہد شکن کی کوئی عبادت فرض یا نفل ہرگز قبول نہ کرے گا۔
۳۔ اسی طرح کسی کو بے گناہ اور بلاوجہ قتل کر دینا، خواہ وہ مسمان ہو یا غیر مسلمان، حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔ قال اللہ تعالیٰ:
وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّہُ إِلاَّ بِالحَقِّ (بنی اسرائیل ۳۳)
یعنی جس جان کے قتل کو خدا تعالیٰ نے حرام کر دیا، اس کو ناحق نہ مار ڈالو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:
من قتل معاہدا بغیر کنہ لم یرح رائحۃ الجنۃ
یعنی جس نے کسی کے ساتھ عہد کر کے اس کو قتل کیا، وہ جنت کی بو بھی نہ سونگھے گا۔
علیٰ ہذا فقہ کی تمام کتابیں ان مسئلوں اور روایات سے بھری ہوئی ہیں۔ پس مسلمانوں کو اپنے عہد کے موافق حکام کی تابع داری کرنا جس میں کچھ معصیت نہ ہو، ضروری ہے اور کسی قسم کی بغاوت اور مخالفت اور مقابلہ اور خیانت جائز نہیں۔
۴۔ اگر کوئی قوم مسلمان یا غیر مسلمان، جو ممالک مقبوضہ ہمارے حکام سے خارج ہیں، ان ہمارے حکام کے ساتھ مقابلہ اور لڑائی کرنے اور ان پر حملہ کر کے آویں، تو ہم کو اس قوم کے ساتھ ہونا اور ان کو مدد دینا بھی ہرگز درست نہیں، کیونکہ یہ بھی خلاف عہد ہے:
قال اللہ تعالیٰ: وَإِنِ اسْتَنصَرُوکُمْ فِی الدِّیْنِ فَعَلَیْْکُمُ النَّصْرُ إِلاَّ عَلَی قَوْمٍ بَیْْنَکُمْ وَبَیْْنَہُم مِّیْثَاقٌ (سورۃ الانفال ۷۲)
یعنی اگر اہل اسلام مدد چاہیں تم سے دین کے معاملے میں، پس تمھارے اوپر مدد کرنا ضروری ہے، مگر اس قوم کے معاملے میں کہ تمھارے اور ان کے درمیان عہد ہو چکا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان کا ان لوگوں سے مقابلہ ہو جن سے تم عہد وپیمان کر چکے ہو تو مسلمانوں کا ساتھ مت دو۔ پس مسلمانوں کو ہر حال اپنے عہد کی رعایت کرنی چاہیے۔ نہ خود مخالفت کریں، نہ کسی مخالفت کی اعانت کریں۔ اگر اس کے خلاف کریں گے تو سخت گنہگار اور مستحق عذاب ہوں گے۔ واللہ اعلم‘‘ 
(’’باقیات فتاویٰ رشیدیہ‘‘، مرتبہ مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی، ص ۴۳۷ تا ۴۴۰)
مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی نے اس پر اپنی تعلیق میں لکھا ہے کہ:
’’یہ فتویٰ حضرت مولانا تھانوی نے اپنی بیاض میں بھی نقل کیا ہے۔ اس سے پہلے لکھا ہے کہ:
’’یہ فتویٰ مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور کے سالانہ جلسہ منعقدہ میں مولانا عنایت اللہ صاحب (مہتمم مدرسہ) نے پڑھ کر سنایا تھا۔‘‘ (الطرائف والظرائف ص ۳۵ تا ۳۸ (طبع اول، تھانہ بھون: ۱۹۲۹ء)
گویا اس فتوے کو اس اجتماع میں شریک علماء کی تائید حاصل تھی اور اسے ایک اجتماعی موقف کے طو رپر پیش کیا گیا تھا۔

امام شاملؒ ۔ ایک اور ’’جعلی مجاہد‘‘

دوسرا تاریخی کردار جس کا ذکر میں کرنا چاہوں گا، وہ اسی دور کے وسط ایشیا کے عظیم مجاہد اور امیر عبد القادر الجزائری کے دوست، امام شاملؒ ہیں۔ جب تیس سال تک (۱۸۳۰ء تا ۱۸۵۹ء) روسی استعمار کے خلاف داد شجاعت دینے اور روسی فوج کو ناکوں چنے چبوانے کے بعد ایک مرحلے پر انھیں شکست تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ دکھائی نہ دیا تو نہ صرف یہ کہ انھوں نے شکست قبول کر لی، بلکہ باقی زندگی کے لیے روسی حکومت کی طرف سے سرکاری وظیفے کی پیش کش بھی قبول کی اور اسی کے سہارے اپنی باقی زندگی بسر کی۔
لاہور کے معروف اشاعتی ادارے ’’نشریات‘‘ کی شائع کردہ کتاب ’’امام شامل‘‘ (مصنفہ ڈاکٹر محمد حامد) میں اس عظیم مجاہد کی جدوجہد کے آخری مرحلے کی منظر کشی یوں کی گئی ہے: 
’’امام کو کئی جگہ میدان جنگ میں شکست ہو چکی تھی۔ ان کے نائبین ایک ایک کر کے جام شہادت نوش کر چکے تھے اور کئی اضلاع نے روسیوں کی غیر مشروط اطاعت بھی قبول کر لی تھی، لیکن پھر بھی امام جیسے باصلاحیت لیڈر کے لیے، جن کے پاس اب بھی خاصی تعداد میں مریدوں کی فوج موجود تھی، جنگلوں سے ڈھکے ہوئے پہاڑوں میں ہمت کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کرنا مشکل نہ تھا۔ صرف ایک شرط تھی اور وہ یہ کہ مقامی آبادی ان کا ساتھ دے اور حوصلہ نہ ہارنے کے ساتھ اپنے تمام وسائل کو امام کے سپرد کر دے۔ یہ آخری بات ہی ایسی تھی جس نے امام کا ساتھ نہ دیا۔ ۔۔۔
کہا جاتا ہے کہ امام کو درے پر روسی قبضے کی اطلاع دی گئی تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ انھیں اندازہ ہو گیا تھا کہ اب آخری وقت آن پہنچا ہے۔ اس وقت بھی مریدین کی اچھی خاصی جمعیت ان کے ساتھ تھی۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ انھوں نے جوابی حملے کی کوشش کیوں نہیں کی! کئی ہزار داغستانی اب بھی ان کا ساتھ دینے کے لیے تیار تھے اور اس سے پہلے کی روسی اس تمام علاقے کو مفتوح کر لیتے، امام روسیوں کو شکست دینے کی اہلیت رکھتے تھے، لیکن امام نے کچھ نہیں کیا۔ ۔۔۔
تیس سال پہلے انھوں نے اسلام کی سربلندی کے لیے اس علاقے میں کام شروع کیا تھا۔ روسیوں کا سر کچلنے کے لیے وہ ایک طویل عرصے تک جدوجہد کرتے رہے تھے۔ انھیں اپنے مقاصد میں ایک بڑی حد تک کامیابی بھی ہوئی تھی، لیکن اب انجام ان کے سامنے تھا۔ انھیں شہادت کی منزل قریب نظر آ رہی تھی، لیکن انھوں نے آخر دم تک دفاع کی ٹھان رکھی تھی۔ انھوں نے شروع سے لے کر آج کے دن تک اس عظیم مقصد کے لیے زندگی کا ایک ایک لمحہ وقف کیے رکھا تھا۔ انھیں شدید ناکامیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا اور کامیابیوں نے بھی ان کے قدم چومے تھے۔ انھوں نے روسیوں کو عبرت ناک شکستیں بھی دی تھیں او رخود بھی کئی بار شکست کا سامنا کیا تھا۔ پہلے امام کی زندگی میں انھوں نے پوری تن دہی اور جانفشانی سے کام کیا تھا اور یہ معجزہ ہی تھا کہ وہ بچ نکلے تھے اور امام کے ساتھ شہید نہیں ہوئے تھے۔ وہ ہمزادکے دور میں بھی اسی طرح وفادار رہے اور اگر وہ چاہتے تو خود امام سنبھال سکتے تھے، لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ ۱۸۳۴ء سے اب تک انھوں نے خود مریدین کی قیادت کی تھی اور پورے داغستان پر حکومت کرتے رہے تھے۔ اب جب کہ عمر بھی کی جدوجہد اور سالہا سال کی ان تھک کوششوں کے بعد ان کا سامنا روس کی لاتعداد افواج سے ہو رہا تھا اور انھیں شکست یقینی نظر آ رہی تھی، ان کا ضمیر مطمئن تھا کہ انھوں نے اپنے مقصد کی راہ میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کی۔ ان کے ضمیر کی اس گواہی پر ہر غیر جانب دار مورخ ان کا ساتھ دے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی تحریک کی ناکامی ان کی کسی ذاتی کوتاہی کا نتیجہ نہیں تھی۔ حالات ہی ایسا رخ اختیار کر چکے تھے کہ ان کا کوئی مداوا نہیں ہو سکتا تھا۔
امام بظاہر ناکام ہوئے، لیکن ان کی ظاہری ناکامی پر ہزاروں کامیابیاں نچھاور کی جا سکتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ان کی مخالف قوتوں کا اندازہ لگایا جائے تو اتنے طویل عرصے تک ان کا تحریک کو لے چلنا ہی خاصی حیرت انگیز بات لگتیہے۔ ان کے مقابلے میں خارجی عوامل ہی نہیں تھے، داخلی صورت حال بھی ان کے مزاحم تھی۔ انھیں روس کی طاقت ہی کا سامنا نہیں تھا جس کے پاس بے شمار وسائل اور بے شمار فوجیں تھیں، بلکہ انھیں اندرونی کش مکش اور قبائل کی آویزشوں سے بھی نمٹنا تھا اور حالات ایسے تھے کہ وہ نہ ایک طاقت پر قابو پا سکتے تھے اور نہ دوسرے کا سر کچل سکتے تھے۔ ۔۔۔
امام اچھی طرح سمجھتے تھے کہ شریعت کے احکامات کے نفاذ کے بغیر قبائل میں اتحاد کسی صورت پیدا نہیں ہو سکتا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انھیں سختی سے بھی کام لینا پڑا۔ انھوں نے تبلیغ بھی کی۔ قبائل کو ساتھ ملانے کے لیے انھیں کئی بار قوت کا استعمال بھی کرنا پڑا۔ انھیں اس مقصد میں خاصی کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں، لیکن ان کی کامیابیوں کے زمانہ عروج میں اندر ہی اندر انتشار کی قوتیں بھی منظم ہو رہی تھیں۔ بظاہر اگرچہ کسی قسم کا انتشار محسوس نہیں ہوتا تھا اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ فتح اور کامرانی ہی کا دور دورہ ہے، لیکن نفاق اندر ہی اندر گھن کی طرح کھائے چلا جا رہا تھا۔ وہ لوگ جو اپنے قبیلے کے رسوم ورواج ہی پر ساری عمر چلتے رہے تھے، انھیں شریعت کے احکامات کی پابندی ایک بوجھ محسو س ہوتا تھا۔ امام کے نائبین کی طرف سے کی جانے والی سختیاں بھی انھیں ناگوار گزرتی تھیں۔ پھر جنگ اس درجہ طویل ہو چکی تھی کہ لوگ تنگ آ چکے تھے۔ شاید ہی کوئی گاؤں بلکہ شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جہاں خاوند، باپ اور بھائی شہید نہ ہو چکے ہوں۔ خاندانوں کے خاندان ختم ہو چکے تھے۔ پوری کی پوری بستیاں برباد کی جا چکی تھیں۔ کھیتوں میں مدتوں سے ہل نہیں چلا تھا۔ پھل دار درختوں کی طرف کسی نے کوئی توجہ نہیں دی تھی۔ ۔۔۔
بیریا ٹنکی چاہتا تھا کہ امام کو زندہ گرفتار کیا جائے، اسی لیے اس نے دیہات پر حملے سے پہلے ہتھیار رکھوانے کی ایک بار پھر کوشش کی۔ امام تنہا ہوتے تو ممکن تھا وہ اسی طرح شہید ہو جاتے جیسے قاضی ملا، غمری کے مقام پر شہید ہو گئے تھے، لیکن یہاں ان کے ہمراہ ان کے بیوی بچوں کے علاوہ وہ وفادار دیہاتی اور ان کے خاندان کے افراد بھی تھے جنھوں نے امام کو آخر دم تک بچانے کا فیصلہ کر رکھا تھا۔ اس وقت جب کہ امام کے لیے پورا داغستان اور چیچنیا دشمن بن چکا تھا اور لوگ ان کی جان اور مال کے درپے تھے، ان بہادر دہقانوں نے انھیں پناہ دی تھی۔ پھر یہی نہیں، امام کے ساتھ دفاعی انتظامات میں دن رات ایک کر دیا تھا۔ اگر عام حملہ ہو جاتا تو شاید ان میں سے ایک ایک شخص امام کے ساتھ شہید ہو جاتا اور گاؤں کا ایک فرد بھی زندہ نہ بچتا۔ امام کو اپنے ان وفادار ساتھیوں، بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کا خیال آ گیا اور انھوں نے دو ساتھیوں کو شرائط طے کرنے کے لیے روسیوں کے پاس بھیجا۔
روسیوں نے غیر مشروط ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا، لیکن امام ااس کو کسی طرح ماننے کو تیار نہیں تھے۔ بالآخر کانرل لازاروف جو امام کو ذاتی طور پر جانتا تھا، خود گاؤں میں آیا اور یہ وعدہ کیا کہ نہ صرف ان کی جان بخشی ہوگی، بلکہ ان کے تمام ساتھیوں کو بھی امان دے دی جائے گی۔ امام گھوڑے پر سوار ہو کر آگے بڑھے، لیکن کچھ ہی دور گئے ہوں گے کہ روسیوں نے اپنے دشمن کو اس حالت میں دیکھ کر تالیاں بجانی شروع کر دیں۔ امام رک گئے۔ باگیں کھینچیں اور گاؤں کی طرف پلٹنے لگے، لیکن کرنل لازاروف یہ دیکھتے ہی ان کی طرف لپکا اور کہا کہ ان تالیوں کا مقصد عزت افزائی ہے اور یہ آپ کے استقبال کے لیے بجائی جا رہی تھیں۔ کرنل انھیں منا کر پھر لے آیا۔ ان کے ہمراہ ۵۰ مرید تھے۔ ہزاروں کی تعداد میں مریدین کے لشکروں میں سے اب صرف یہی رہ گئے تھے۔ جب وہ بیریا ٹنکی کے پاس پہنچے تو ان کی اور ان کے خاندان اور ساتھیوں کی حفاظت کا یقین دلایا گیا۔ امام کا چہرہ تنا ہوا تھا اور ان کی عقابی آنکھوں میں چمک تھی۔ دوسرے دن وہ شورا بھجوا دیے گئے جہاں سے انھیں روس بھیج دیا گیا۔ بعد میں ان کا خاندان بھی ان کے پاس پہنچا دیا گیا۔ اس جنگ میں روسیوں کے ۱۸۰ سپاہی ہلاک اور زخمی ہوئے جبکہ دوسری طرف ۴۰۰ مریدوں میں سے صرف ۵۰ باقی بچے تھے۔ 
امام ۱۸۶۹ء تک کلوگا میں رہے او ربعد میں انھیں ان کی خواہش کے مطابق خیوا منتقل کر دیا گیا۔ یہاں سے انھیں حج پر جانے کی اجازت مل گئی۔ بالآخر ۴؍ فروری ۱۸۷۱ء کو مدینہ منورہ میں ان کا انتقال ہو گیا۔‘‘ (ص )
یہ بھی ذہن میں رہے کہ امام شامل نے روس کے مقابلے میں شکست تسلیم کر لینے کے بعد اپنے ہم وطنوں کو، جو جدوجہد آزادی رکھنا چاہتے تھے، اس سے منع کرنے کی کوشش کی تھی۔ امام شامل اس وقت روس کے ’’وظیفہ خوار‘‘ تھے، لیکن ان کا اپنے اہل وطن کو ترک جہاد کا مشورہ اس وظیفہ خواری کا صلہ نہیں تھا، بلکہ معروضی صورت حال کے دیانت دارانہ فہم پر مبنی ان کی ایک رائے تھی۔ سطحی اور جذباتی ذہن اس پر ’’جعلی مجاہد‘‘ کی پھبتیاں کسنا چاہے تو کس سکتا ہے، ۔ 

تاتاریوں کی یلغار اور مسلم مورخین کا معروضی انداز نظر

قرون وسطیٰ میں تاتاریوں نے عالم اسلام پر جو تباہی مسلط کی، اس کا ظاہری سبب یہ تھا کہ ایران میں خوارزم شاہ کے مقرر کردہ حاکم نے چنگیز خان کے بھیجے ہوئے چند تاجروں کا مال واسباب لوٹ کر انھیں قتل کر دیا اور خوارزم شاہ نے اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔ اس پر چنگیز خان نے خوارزم شاہ کے پاس اپنا سفیر بھیجا اور اس سے مطالبہ کیا کہ وہ متعلقہ حاکم کے خلاف کارروائی کرے۔ جواب میں خوارزم شاہ نے چنگیز خان کے سفیر کو بھی قتل کروا دیا اور اس کے بعد عالم اسلام پر تاتاریوں کی تباہ کن یلغار کا جو سلسلہ شروع ہوا، وہ محتاج بیان نہیں۔
اس پورے حادثے کا مطالعہ اور تجزیہ کرتے ہوئے اہم اور قابل توجہ نکتہ مسلم مورخین کا معروضی انداز نظر ہے۔ تاتاریوں نے جس وسیع پیمانے پر عالم اسلام میں عمومی تباہی پھیلائی، ظاہر ہے اس کا کوئی جواز نہیں تھا، لیکن مسلم مورخین اس کی یک طرفہ مذمت کرنے کے بجائے تباہی کا بنیادی ذمہ دار خوارزم شاہ کو قرار دیتے اور سخت الفاظ میں اس کی حماقت اور شوریدہ سری پر تبصرے کرتے رہے ہیں۔ چند ایک نمونے ملاحظہ فرمائیں۔
علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
وقد قتل من الخلائق ما لا یعلم عددہم الا الذی خلقہم ولکن کان البداء ۃ من خوارزم شاہ فانہ لما ارسل جنکز خان تجارا من جہتہ معہم بضائع کثیرۃ من بلادہ فانتہوا الی ایران فقتلہم نائبہا من جہۃ خوارزم شاہ وہو والد زوجتہ کشلی خان واخذ جمیع ما کان معہم، فارسل جنکز خان الی خوارزم شاہ یستعلمہ ہل وقع ہذا الامر عن رضا منہ او انہ لم یعلم بہ فانکرہ، وقال لہ فی ما ارسل الیہ: من المعہود من الملوک ان التجار لا یقتلون لانہم عمارۃ الاقالیم وہم الذین یحملون الی الملوک التحف والاشیاء النفیسۃ، ثم ان ہولاء التجار کانوا علی دینک فقتلہم نائبک، فان کان امرا انکرتہ والا طلبنا بدماۂم، فلما سمع خوارزم شاہ ذلک من رسول جنکز خان لم یکن لہ جواب سوی انہ امر بضرب عنقہ، فاساء التدبیر وقد کان خرف وکبرت سنہ وقد ورد الحدیث: اترکوا الترک ما ترکوکم، فلما بلغ ذلک جنکز خان تجہز لقتالہ واخذ بلادہ فکان بقدر اللہ تعالیٰ ما کان من الامور التی لم یسمع باغرب منہا ولا ابشع (البدایہ والنہایہ ۱۷/۱۶۳، ۱۶۴)
مطلب یہ ہے کہ سفیر کے معاملے کی ابتدا خوارزم شاہ کی طرف سے ہوئی تھی جس نے چنگیز خان کے سفیر کے معقول مطالبات کا جواب دینے سے عاجز ہو کر اسے قتل کرا دیا اور اس وقت وہ دراصل بڑھاپے کی وجہ سے سٹھیا چکا تھا۔
علامہ ذہبی ’’تاریخ الاسلام‘‘ میں لکھتے ہیں:
فوردت رسل جنکز خان الی خوارزم شاہ تقول: انک اعطیت امانک للتجار فغدرت، والغدر قبیح وہو من سلطان الاسلام اقبح، فان زعمت ان الذی فعلہ خالط بغیر امرک فسلمہ الینا والا فسوف تشاہد منی ما تعرفنی بہ، فحصل عند خوارزم شاہ من الرعب ما خامر عقلہ فتجلد وامر بقتل الرسل فقتلوا! فیا لہا حرکۃ لما ہدرت من دماء الاسلام اجرت بکل نقطۃ سیلا من الدم (۲۲/۴۴) 
یعنی خوارزم شاہ کی عقل پر پردہ پڑ گیا اور اس نے بزعم خویش بڑی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے سفیروں کو قتل کر دیا اور ایک ایسی حماقت کا ارتکاب کیا جس کی وجہ سے چنگیز خان کے سفیروں کے خون کے ایک ایک قطرے کے بدلے میں مسلمانوں کے خون کے دریا بہا دیے گئے۔ ع لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزا پائی۔

کیا یہ رویہ مسلمانوں کی خیر خواہی کا ہے؟

ربیعہ بن امیہ، قریش کے مشہور سردار امیہ بن خلف کا بیٹا تھا۔ فتح مکہ کے موقع پر اس نے اسلام قبول کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع میں شریک ہوا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اس نے شراب پی تو امیر المومنین نے اسے کوڑے لگوانے کے ساتھ ساتھ اسے تعزیراً علاقہ بدر کر کے خیبر کی طرف بھیج دیا۔ اس بات پر ربیعہ ناراض ہو کر رومی بادشاہ قیصر کے پاس چلا گیا اور نصرانی مذہب اختیار کر لیا۔ 
امیر المومنین نے کوئی غیر شرعی کام نہیں کیا تھا، بلکہ اپنے جائز اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ربیعہ کو علاقہ بدری کی سزا دی تھی، لیکن اس کا نتیجہ ایک مسلمان کے مرتد ہو جانے کی صورت میں نکلا تو سیدنا عمر کو اپنے فیصلے پر سخت ندامت ہوئی اور انھوں نے یہ اعلان کر دیا کہ ’لا اغرب بعدہ مسلما ابدا‘۔ یعنی آج کے بعد میں کبھی کسی مسلمان کو علاقہ بدر نہیں کروں گا۔ (نسائی، رقم ۵۶۷۶)
یہ منظر سامنے رکھیے اور اس کے تقابل میں اب ایک دوسرے منظر پر نگاہ ڈالیے:
جذبہ جہاد سے سرشار چند لوگ امارت اسلامیہ افغانستان میں بیٹھ کر وہاں کی اسلامی حکومت کی اجاز ت کے بغیر، بلکہ موثق اطلاعات کے مطابق ان کی طرف سے مخالفت کے باوجود، یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ وہ امریکہ کی اقتصادی طاقت کو توڑنے کے لیے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ کریں گے۔ اس کے لیے حکمت عملی تیار کی گئی جو کامیاب رہی۔ سنٹر تباہ ہوا اور امریکہ کی پوری دنیا کی نظروں میں سبکی ہوئی۔ امریکہ نے طالبان حکومت سے القاعدہ کی قیادت کو اس کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا جسے طالبان حکومت نے اپنے خیال کے مطابق اسلامی حمیت اور آداب میزبانی کے منافی سمجھتے ہوئے مسترد کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ افغانستان میں قائم طالبان حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا اور لاکھوں مسلمانوں کو جنگ، ہجرت اور تباہی وبربادی کا سامنا کرنا پڑا۔
افغانستان میں محفوظ پناہ گاہ چھن جانے کے بعد ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ کی منصوبہ بندی کرنے والے جہادی نظریہ ساز پاکستان کے علاقے میں آ گئے، جبکہ پاکستان یہ واضح کر چکا تھا کہ وہ اس جنگ میں افغان طالبان کے ساتھ نہیں ہے۔ بین الاقوامی طاقتوں نے مطالبہ کیا کہ پاکستان ان کے خلاف کارروائی کرے۔ پاکستانی فوج نے جہاں تک ممکن تھا، دباؤ برداشت کیا اور قبائلی علاقوں میں جنگ چھیڑنے سے گریز کیا، لیکن جب یہ خطرہ ہوا کہ اس کے نتیجے میں بین الاقوامی طاقتیں پناہ گزینوں کا پیچھا کرتے ہوئے پاکستان کی حدود میں داخل ہو سکتی ہیں تو مجبوراً اسے خود اپنے علاقے میں ان پناہ گزینوں کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کے شہریوں کے خلاف بھی فوجی آپریشن کا فیصلہ کرنا پڑا۔
امیر المومنین سیدنا عمر کا جو واقعہ اوپر نقل کیا گیا ہے، اس کی روشنی میں تو چاہیے یہ تھا کہ اس پورے خطے کے مسلمانوں کو ابتلا وآزمائش میں ڈال دینے والا یہ گروہ ان نتائج کو دیکھ کر اپنے کیے پر ندامت محسوس کرے اور آئندہ کے لیے اس نوعیت کے تباہ کن اور احمقانہ اقدامات سے باز آ جانے کا عزم کر لے جو ایک مسلمان ملک کی پوری کی پوری فوج کو ’’ارتداد‘‘ کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیں، لیکن ایسی صورت حال میں یہ کیفیت، ظاہر ہے ایک ایسے ذہن میں ہی پیدا ہو سکتی تھی جس میں سیدنا عمر کی طرح مسلمانوں کی حقیقی خیر خواہی اور انھیں کسی دینی یا دنیاوی آزمائش سے محفوظ رکھنے کا جذبہ راسخ ہو۔ یہاں تو عقل وفہم کی لگام اندھے انتقام کے جذبے کے ہاتھ میں دے دی گئی تھی جس کی تسکین اپنے کیے پر نادم ہونے سے نہیں، بلکہ ’’خارجیت‘‘ کا طرز فکر اور فلسفہ اپنانے سے ہی ہو سکتی تھی، چنانچہ بے دھڑک یہ فتویٰ صادر فرمایا گیا کہ امریکہ کا ساتھ دینے کی وجہ سے پاکستانی فوج ’’مرتد‘‘ ہو گئی ہے اور اس کے جوانوں کو مارنا بھی ایسا ہی کار ثواب ہے جیسا امریکی فوجیوں کو جہنم رسید کرنا!! 
کس نے اپنے آشیاں کے چار تنکوں کے لیے
برق کی زد میں گلستاں کا گلستاں رکھ دیا

اسلامی نظریاتی کونسل اور ڈی این اے ٹیسٹ

ڈاکٹر عبد الباری عتیقی

پچھلے دنوں اسلامی نظریاتی کونسل نے کچھ سفارشات پیش کی ہیں جن میں ’’زنا بالجبر‘‘کے کیس میں DNA ٹیسٹ کو ثبوت کے طور پر پیش کرنے کے حوالے سے ایک سفارش بھی شامل ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ’زنا بالجبر‘‘ کا کیس ثابت کرنے کے لیے DNA ٹیسٹ قابل بھروسہ نہیں ہے، البتہ اسے ثانوی ثبوت کے طور پر مد نظر رکھا جا سکتا ہے۔ہم اس حوالے سے کچھ گزارشات پیش کرنا چاہتے ہیں۔
ہماری روایتی دینی تعبیر میں زنا ’’مستوجبِ حد‘‘ (چاہے وہ بالرضا ہو یا بالجبر) کے جرم کو ثابت کرنے کے لیے جو واحد طریقہ کار قابل قبول ہے وہ یہ ہے کہ چار مسلمان، عاقل ، بالغ، تزکیۃالشہود کے معیار پر پورا اترنے والے مرد یہ گواہی دیں کہ انہوں نے یہ جرم اپنی آنکھوں سے ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس سے کم تر یا مختلف کسی طریقے سے یہ جرم ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ جدید ذہن کے لیے یہ چیز قابل قبول نہیں ہے۔ خصوصاََ ’’زنا بالجبر‘‘ کے جرم کو تو اس طریقہ کار سے کبھی ثابت ہی نہیں کیا جا سکتا۔اسی وجہ سے یہ مسئلہ ہمارے یہاں طویل عرصے سے باعثِ نزاع بنا ہوا ہے۔
ہماری رائے میں روایتی دینی تعبیر میں اس حوالے سے ایک بنیادی غلطی پائی جاتی ہے۔ وہ غلطی یہ ہے کہ اس میں زنا کو دو قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک ’’زنا بالرضا‘‘ اور دوسر ی ’’زنا بالجبر‘‘۔ پھر ان دونوں قسموں کو وقوع، ثبوت اور سزا کے حوالے سے بالکل ایک درجے میں رکھ دیا گیا ہے۔ یہ بات بالبداہت غلط ہے۔ اصولاََ ’’زنا‘‘ کا اطلاق صرف اس عمل پر ہوتا ہے جو دونوں فریقوں کی رضا مندی سے کیا گیا ہو۔ اس لیے اسے ’’زنا بالرضا‘‘ کہنا نہ صرف یہ کہ غیر ضروری ہے بلکہ غلط فہمی کا موجب بھی ہے۔ اور ’’زنا بالجبر‘‘ کی اصطلاح تو بالکل ہی الجھانے والی اور Self Contradictory ہے۔ اصل میں یہ اصطلاح جس جرم کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے اس کے لیے صحیح لفظ ’’عصمت دری ‘‘ (Rape) ہے۔ یہ دونوں جرائم یعنی زنا اور Rape اپنے وقوع، نفسیات، اثرات، نتائج ہر حوالے سے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں ۔ لوگوں نے محض ظاہری مماثلت کی بنا پر ان دونوں جرائم کو ایک ہی Category میں شامل کر دیا ہے۔ اور اس وجہ سے یہ ساری غلط فہمی پیدا ہوتی ہے۔ شریعت میں جہاں بھی زنا، اس کی سزا یا اس کو ثابت کرنے کے مخصوص طریقہ کار کا ذکر ہے وہاں اس سے مراد ’’زنا‘‘ کا جرم ہے۔ رہا Rape یا عصمت دری کا معاملہ تو یہ براہ راست کہیں زیر بحث نہیں رہا۔رسول اکرمﷺ نے جن مجرموں کو رجم کی سزا دی ہے وہ اصل میں ’’زنا‘‘ کے مجرم نہیں تھے بلکہ Rape ، عصمت دری، قحبہ گری وغیرہ کے مجرم تھے۔ روایات میں ان مقدمات کی جو تفصیلات بیا ن ہوئی ہیں وہ اگرچہ کہ اتنی مبہم، ناقص، نامکمل اور بعض اوقات متضاد ہیں کہ محض ان کی بنیاد پر کوئی قطعی بات کہنا مشکل ہے لیکن اگر ان مقدمات پر تدبر کی نگاہ ڈالی جائے تو اتنا ضرور واضح ہو جاتا ہے کہ یہ محض ’’زنا‘‘ کے جرائم نہیں تھے بلکہRape ، عصمت در ی اور قحبہ گری وغیرہ کے واقعات تھے۔ ان مجرموں کو رسول اکرمﷺنے رجم کی جو سزا دی وہ، ہماری رائے میں، سورہ مائدہ کی آیتِ محاربہ سے ماخوذ ہے۔ آیت کا ترجمہ یہ ہے:
’’وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور ملک میں فسادبرپا کرنے کے لیے تگ و دو کرتے ہیں، ان کی سزا بس یہ ہے کہ عبرت ناک طریقے سے قتل کیے جائیںیا سولی پر چڑھائے جائیںیا ان کے ہاتھ پاؤں بے ترتیب کاٹ ڈالے جائیں یا جلا وطن کر دیے جائیں۔‘‘ (المائدہ ۵: ۳۳)
رسول اکرمﷺنے ان جرائم پر فساد فی الارض کا اطلاق کیا اور ان مجرموں کو آیت میں بیان کردہ حکم اَنْ یُقَتََّلُوْا  (بدترین طریقے سے قتل) کے تحت رجم کرادیا۔اسی طرح اس جرم (Rape) کو ثابت کرنے کے لیے بھی شریعت نے ہمیں کسی مخصوص طریقے کا پابند نہیں کیا ہے۔ہر دور کے تمدن اور حالات کے مطابق جس قسم کے ثبوت اور شواہد سے عدالت اس بات پر مطمئن ہوجائے کے جرم واقع ہوا ہے ، وہی جرم کے مکمل ثبوت کے لیے کافی ہے۔ ہمارے علما کا اصرار ،کہ Rape کا جرم بھی اسی طرح ثابت ہوگا جس طرح شریعت میں ’’زنا‘‘ کے جرم کو ثابت کرنے کی شرائط رکھی گئی ہیں(یعنی چار عینی شاہدین)، نہ تو دین کے درست فہم کے مطابق ہے اور نہ تمدن صدیوں کے سفر کے بعد جہاں پہنچ چکا ہے، اس کا ہی صحیح ادراک ہے۔یہی وجہ ہے کہ DNA ٹیسٹ جیسا تقریباََ یقینی ثبوت بھی ہمارے علما کی نظر میں ناقابل اعتبار ٹھہرتاہے۔ یہ رویہ’’تقلید‘‘ کے نام پر روا رکھا جائے یا ’’تحفظِ دین‘‘کے نام پر، یہ بہرحال لوگوں کو دین سے متنفر کرنے اور جگ ہنسائی کے سوا کوئی نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا۔
اسی سے جڑی ایک اور بات بھی ہم یہاں بیان کر دینا مناسب سمجھتے ہیں۔’’شریعت‘‘ اور ’’فقہ‘‘ کے حوالے سے ہماری یہاں زبردست لاعلمی اور افراط و تفریط پائی جاتی ہے اور لوگ عموماََ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں کرتے۔’’شریعت‘‘ وہ قوانین ہیں جو پروردگار عالم نے انسانوں کے لیے خود متعین اور مقرر کر دیے ہیں۔ زمان و مکان کی تبدیلی سے ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ یہ قیامت تک ہر انسان کے لیے واجب الاطاعت ہیں۔ لیکن یہ شریعت اللہ تعالیٰ نے عموماََان معاملات میں دی ہے جن میں انسان خود اپنی عقل اور تجربے سے کوئی فیصلہ نہیں کرسکتااور اس کے ٹھوکر کھانے کے امکانات یقینی ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا کرم اور احسان ہے کہ اس نے ان معاملات میں انسانوں کو بغیر ہدایت کے نہیں چھوڑا اور خود ان کی رہنمائی کر دی ہے ۔ یہ شریعت اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے۔ باقی تمام معاملات اللہ تعالیٰ نے اصلاََ انسانوں کی اس فطرت، عقل اور تجربے پر چھوڑ دیے ہیں جو دراصل اللہ تعالیٰ ہی کی عطا ہیں۔ یہ کا م مسلمانوں کے نظم اجتماعی اور ارباب حل و عقد کا ہے کہ وہ ان معاملات میں فیصلہ کریں، اس شرط کے ساتھ کہ ان میں دین کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہ ہوتی ہو۔’’فقہ‘‘ درحقیقت اس سارے ’’انسانی کام ‘‘ کا نام ہے جو اس حوالے سے کیے جاتے ہیں۔ مسلمانوں کی تاریخ میں یہ کام صدیوں تک ہوتا رہا ہے اور اس کے نتیجے میں جو علمی اور قانونی ذخیرہ وجود میں آیا ہے اسی کا اصطلاحی نام’’فقہ‘‘ ہے۔ مثال کے طور پر ’’زنا‘‘ کے علاوہ کسی اور جرم کو ثابت کرنے کے لیے کوئی مخصوص طریقہ شریعت میں لازم نہیں کیا گیا ہے۔ فقہا نے اپنے دور کے حساب سے مثلاََ قتل، چوری، شراب نوشی کو ثابت کرنے کے لیے عینی شاہدین کی ایک مخصوص تعدادکا قانون بنا دیا۔ اپنے دور کے حساب سے یہ بالکل در ست قانون رہا ہوگا کیونکہ اس زمانے میں اس سے بہتراور قابل اعتماد کوئی ذریعہ موجود ہی نہیں تھا۔ ہمارے علما کی غلطی یہ ہے کہ وہ اب بھی صدیوں پہلے کے انسانی طریقہ کار کو من و عن جاری رکھنے پر اصرار کرتے ہیں اور اسے شریعت کا لازمی تقاضہ سمجھتے ہیں۔ شریعت اور فقہ میں یہ فرق مد نظر رکھنا لازمی ہے کہ اول الذکر الہامی، ابدی اور غیر متبدل ہے جب کہ ثانی الذکر انسانی، غیر ابدی اور زمان و مکان کی تبدیلیوں کے ساتھ تبدیل ہو جانے والی ہے۔ اگر ہم ’صنوبر باغ میں آذاد بھی ہے پابگِل بھی ہے‘ کے مصداق ’ثبات‘ اور ’ تغیر‘ کے اس متوازن امتزاج کے منہج پر قائم رہتے تو آج دنیا کانقشہ اور مسلمانوں کا مقام ہی کچھ اور ہوتا۔ بد قسمتی سے ہم نے ’’فقہ‘‘ کو ’’شریعت ‘‘ کے مقام پر رکھ دیا ہے بلکہ عملاََشریعت کو فقہ کا اسیر بنادیاہے۔ آج دینی لحاظ سے ہمارے زیادہ تر علمی اور عملی مسائل اسی سوء فہم کا نتیجہ ہیں۔ہمارے مسائل اس وقت تک حل نہیں ہو سکتے جب تک ہم وحی پر مبنی شریعت کو انسانی فہم پر مبنی فقہ کی بیڑیوں سے آزاد نہیں کرا دیتے۔ ہمیں فقہی ذخیرے سے استفادہ تو ضرور کرنا چاہیے لیکن اسے پاؤں کی زنجیر نہیں بننے دینا چاہیے۔

مفتی محمد زاہد صاحب کے موقف پر ایک تحقیقی نظر (۱)

مولانا عبد الجبار سلفی

معاصر ماہ نامہ الشریعہ گوجرانوالہ، بابت جون ۲۰۱۳ء میں جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد کے شیخ الحدیث مولانا مفتی محمد زاہد صاحب کا ایک مضمون بعنوان ’’برصغیر کی دینی روایت میں برداشت کا عنصر ’’پہلی قسط کے طور پر شائع ہوا۔ فاضل مضمون نگار نے برصغیر پاک و ہند کی مذہبی و دینی روایات میں عدمِ برداشت، اشتعال اور فرقہ وارانہ تقسیم پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ عدمِ برداشت کا تعلق فقط مذہب، مسلک، فرقہ اور عقائد و نظریات سے ہے یا علاقائی، موسمی، خاندانی اور ذاتی مزاج بھی اس میں مدخل ہیں، ہمیں فاضل مضمون نگار کے عنوان اور زیر عنوان کی نگارشات میں مماثلت کی کوئی جھلک نظر نہیں آئی۔ فقط ایک ہی مسئلے پر قلم کشائی کی گئی ہے کہ علماء امت نے شیعیت کی تکفیر کا متفقہ فتویٰ جاری نہیں کیا۔ مبادلۂ افکار و خیالات کی رُو سے پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا خطۂ برصغیر میں فقط شیعہ، سنی کش مکش ہی میں عدم برداشت پایا جاتا ہے؟ کیا دیوبندی و بریلوی، حنفی وغیر مقلد، مرزائی و مسلمان، حیاتی و مماتی، ملا و صوفی حتیٰ کہ مدنی و تھانوی تک کے دائروں میں برداشت، تحمل، وسعتِ نظر اور باوقار اختلاف موجود ہے؟ جب عدم برداشت معاشرے کے ہر ہر فرد کے لہو میں سرایت کر کے خاکم بدہن بلڈکینسر کا روپ دھار چکا ہے تو پھر شیعیت ہی موضوعِ سخن کیوں؟ اور اس ضمن میں قائد اہل سنت حضرت اقدس مولانا قاضی مظہر حسینؒ اور آپ کے والد گرامی ابوالفضل مولانا قاضی کرم الدین دبیرؒ کا بطور اہتمام ذکر کرنا اور ان کی کتب سے اپنے خیالات کشید کرتے ہوئے ادھورے اقتباسات پیش کر کے تکلف اُٹھانا بلاوجہ ہلاکت آمیز نتائج نکالنے کے مترادف ہے۔ تاہم دلی مسرت محسوس کرتے ہوئے ہم اس امر کا اظہار کرتے ہیں کہ اہلِ علم نے ایک پیچیدہ اور دبے ہوئے موضوع پر کافی عرصے کے بعد اپنے خیالات کی نکاسی کی ہے اور اسی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہمیں بھی اپنی طالب علمانہ معروضات ملک و ملت کے سامنے رکھنے کا موقع مل رہا ہے۔
فاضل مضمون نگار کو اپنے خیالات کے اظہار کا مکمل حق ہے اور ہمیں ان کے خیالات سے اختلاف پیش کرنے کا پورا استحقاق! اپنے دماغ میں جنم لینے والی باتوں کو ’’خیالات‘‘ قرار دینا اور دوسروں کے سنجیدہ اختلاف کوانا کا مسئلہ بنا لینا اہل تحقیق کا شیوہ نہیں ہے کیونکہ علم کی اپنی آبرو ہوتی ہے اور آبرو باختہ طبائع کا علمی مزاج سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ سو فاضل مضمون نگار کی خدمت میں پیشگی معذرت اور قلبی تعظیم کے باوجود ہم ان کی کاوشِ فکر پر ایک تحقیقی اور طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔ امید ہے کہ اس متانت آمیز اختلاف سے قارئین کی ذہنی رسائیوں کو وُسعت ملے گی۔
فاضل مضمون نگار کا پہلا اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔
’’برصغیر میں اہل السنۃ والجماعت ہمیشہ اکثریت میں رہے ہیں۔ تاہم اہل تشیع کا بھی ہمیشہ قابل ذکر وجود رہا ہے۔ بعض علاقوں میں ان کی تعداد خاصی زیادہ رہی ہے بعض جگہوں پر مقامی حکمران یا نواب وغیرہ اہل تشیع میں سے رہے ہیں۔ نظریاتی طور پر اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان بڑے نازک مسائل میں اختلاف موجود رہا ہے۔ ان مسائل پر بحث، مباحثہ، اور کتابیں لکھنے کا سلسلہ بھی رہا ہے لیکن سوائے چند استثنائی مثالوں کے اختلاف کبھی ایک دوسرے کے لیے جانی خطرات کا باعث نہیں بنا۔ جن مسائل میں فریقین کے درمیان اختلاف رہا ہے، وہ بنیادی طور پر تو حضور اقدس eکی رحلت کے بعد کی تاریخ کے پیدا کردہ ہیں، تاہم ان کے ساتھ چونکہ کئی مقدس اور محترم شخصیات کے ساتھ عقیدت کا معاملہ آگیا ہے، اس لیے انہوں نے بہت زیادہ نزاکت اور حساسیت اختیار کر لی اور اس اختلاف کی حیثیت اصولی اختلاف کی بن گئی۔ اگرچہ اب بھی فریقین کے درمیان بہت سے مشترکات موجود ہیں۔ دین کے اصل الاصول امور میں کوئی خاص اختلاف نہیں ہے ‘‘ (’’الشریعہ‘‘ صفحہ نمبر ۱۰)

تبصرہ

ہمیں فاضل مضمون نگار کے اس ایک اقتباس میں حقیقت سے گُریز پائی کا عنصر دکھائی دے رہا ہے اور فکری تذبذب کے ساتھ ساتھ لفظ بلفظ تضادات و تشکیک کے کانٹے بکھرے نظر آ رہے ہیں۔۔۔اگر ہم اس مکمل اقتباس کی تلخیص درج کر دیں تو شاید زیادہ تبصرے کی حاجت بھی نہ رہے اور صاحبانِ فکر و نظر بڑی آسانی سے کوئی نتیجہ اَخذ کر سکیں۔ اس عبارت کا خلاصہ یہ ہے۔
  • اہل سنت اور اہل تشیع میں نازک مسائل میں اختلاف رہا ہے۔
  • یہ اختلافات کبھی جانی خطرات کا باعث نہیں بنے ۔
  • مقدس شخصیات کی عقیدت کی وجہ سے اس اختلاف نے اصولی اختلاف کی حیثیت اختیار کر لی۔
  • فریقین میں بہت سے مشترکات اب بھی موجود ہیں۔
  • اصل الاصول میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
اربابِ فکر و نظر ذرا ان ارشادات پر غور فرمائیں کہ شیعہ و سنی میں اُصولی اختلافات ہیں، مگر ان میں بہت سی مشترکات بھی ہیں۔ اصولی اختلاف اور پھر اشتراک؟ یاللعجب! اور اس سے زیادہ تعجب یہ کہ ’’اصل الاصول میں کوئی اختلاف نہیں‘‘ فیا للعجب
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
فاضل مضمون نگار بخوبی جانتے ہوں گے کہ جب کوئی فرقہ اصولوں کی بناء پر اسلام سے ہٹ جاتا ہے تو پھر اس کے ساتھ اشتراک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی اور یہ بھی پیش نظر رہے کہ جن مقدس شخصیات سے تعلق کو ’’عقیدت‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ وہ دراصل ’’عقیدے‘‘ کا معاملہ ہے عقیدت اور عقیدے میں وہی فرق ہے جو خود شیعہ و سنی میں ہے اور یہ راز بھی فاضل مضمون نگار کی اپنی عبارت میں مضمرہے کیونکہ وہ خود کہتے ہیں کہ ’’مقدس شخصیات کے ساتھ عقیدت کے معاملہ کی وجہ سے یہ اختلاف، اصولی اختلاف کی حیثیت اختیار کر گئے‘‘
حضورِ والا! اصولی اختلاف عقیدے کے ٹکراؤ سے وجود میں آتے ہیں نہ کہ عقیدت کے ٹکراؤ سے۔۔۔ کون نہیں جانتا کہ صحابہ کرام رشد و ہدایت کی وہ مشعلیں ہیں جن کی کرنیں دور دور تک ضیاپاش ہوئیں جب پورے کا پورا معاشرہ ظلم و سرکشی اور تمرّد کی آفتوں میں گھرا ہوا تھا اور انسانوں کے حیاء سوز افعالِ قبیحہ ماحول کو بدبودار کیے ہوئے تھے، وہ صحابہ ہی تھے جن کے زہد و ایقان کی خوشبوؤں نے پورے عالم پر مُشکِ نافہ کا چھڑکاؤ کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب قرآن مجید نے اُن پر جمالِ الٰہی کی چادریں تان دیں اور نبوت نے انہیں اپنی آغوش میں لے لیا تو یہ جماعتِ مقدس امت کا ’’عقیدہ‘‘ بن گئی نہ کہ محض مرکزِ عقیدت ۔۔۔شارح ہدایہ علامہ ابن ہمام کی ایمانی جلالت یونہی تو نہیں کہہ اُٹھی کہ
’’ان من فضل علیاً علی الثلاثۃ فمبتدع وان انکر خلافۃ الصدیق اوعمر رضی اللہ عنہما فھو کافر‘‘۔ (فتح القدیر جلد اول صفحہ نمبر ۳۰۴)
ترجمہ: ’’جو حضرت علی کو حضرات ثلٰثہ پر ترجیح دے، وہ بدعتی ہے اور جو حضراتِ ابوبکر و عمر کو خلیفہ نہ مانے، وہ کافر ہے‘‘۔
اور کون نہیں جانتا کہ اہل تشیع نہ صرف خلفاء کی خلافت کا انکار کرتے ہیں، بلکہ انہیں خلافت غصب کرنے والا اور آلِ رسول پر ظلم کرنے والا قرار دے کر نفرتوں کے وہ بھبھکے اُڑاتے ہیں کہ اس پر ایک ہزار سال کا لٹریچر شاہد ہے۔ کسی صدی کا کوئی مہذب سے مہذب شیعہ مجتہد یا عالم پیش کیجیے جس نے اصحاب رسول کی بھداڑانے میں اپنے شب و روز صرف نہ کیے ہوں؟
تاہم شیعہ و سنی اختلاف کی بنیاد مقدس شخصیات نہیں ہیں بلکہ مسئلہ امامت ہے۔ اسلام نے حضور اکرم کی رحلت کے بعد تصور خلافت دیا ہے اور اہل تشیع نے اس کے مقابل عقیدہ امامت کا خود ساختہ نظریہ پیش کیا ہے۔ یہی وہ اصولی اختلاف تھا جس کی بناء پر اہل اسلام اور اہل تشیع کی راہیں جدا جدا ہوگئیں اور اس کے بعد شیعیت میں جتنابگاڑ آیا ہے، وہ اسی عقیدۂ امامت کی وجہ سے آیا ہے اور یہ عقیدۂ امامت شیعہ کے ہاں منصب نبوت سے بڑھ کر ہے ۔اس لیے فاضل مضمون نگار مذہب شیعہ کے متقدمین ہی نہیں، بلکہ متاخرین کی کتب بھی پڑھیں تو یکسانیت ملے گی۔ اگر ہمارے مخاطب ایک معروف عالم دین اور منصب افتاء پر فائز نہ ہوتے تو ہم چند حوالہ جات درج بھی کر دیتے، لہٰذا طوالت کے خوف سے ہم انہیں نظر انداز کر رہے ہیں اور ویسے بھی شیعہ عقیدۂ امامت اب اتنا آشکارا ہوچکا ہے کہ ہر جگہ اس پر شواہد دینے کی ضرورت ہی نہیں رہی البتہ دو حوالے پڑھتے جائیے۔
عصر حاضر کے معروف شیعہ مجتہد محمد حسین ڈھکو فاضل نجف اشرف عراق لکھتے ہیں:
’’تمام شیعہ امامیہ اس کے قائل ہیں کہ امام کو نبی کی طرح اول عمر سے آخر عمر تک تمام صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے اور احکام میں ہرقسم کی خطاء و لغزش سے منزہ و مبرّہ اور معصوم ہونا ضروری ہے۔‘‘ (اثبات الامامت، صفحہ نمبر ۲۳، ناشر مکتبہ السبطین سٹیلائٹ ٹاؤن، سرگودھا) 
اور اس سے پہلے خمینی صاحب بھی لکھ آئے ہیں۔
’’ہمارے ضروریاتِ مذہب میں یہ بات داخل ہے کہ کوئی بھی ائمہ کے مقامِ معنویت تک نہیں پہنچ سکتا، چاہے وہ ملک مقرب یا نبئ مرسل ہو، وہ بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتا۔ ‘‘ (حکومت اسلامی، ناشر کتاب مرکز، شمالی ناظم آباد ، کراچی)
خمینی صاحب صرف مذہبی نہیں، بلکہ ملتِ شیعہ کے سیاسی راہنما تھے اور انہوں نے یہ بات ضروریات مذہب میں شامل کی ہے کہ انبیاء و مرسلین تک بھی آئمہ کے رتبے کو نہیں پہنچ سکتے۔ اب بطور تقیہ اہل تشیع ختم نبوت کا اقرار بھی کر لیں تو وہ ناقابل قبول ہے کیونکہ انبیاء علیہم السلام کے بعد عصمت کا اجراء منصب ختم نبوت پر ضرب کاری ہے۔ اسی بناء پر حضرت شاہ ولی اللہ نے ’’تفہیمات الٰہیہ‘‘ میں اہل تشیع کو ختم نبوت کا منکر قرار دیا ہے اور علماء اہل سنت نے اسی بنیادی عقیدے کی بناء پر فیصلہ صادر فرمایا ہے کہ شیعیت اور اسلام دو مختلف اور جُدا چیزیں ہیں۔ اثنا عشری شیعہ ہوں یا اسماعیلی یا پھر نُصیری، (اس وقت یہی تین فرقے دنیا میں پائے جاتے ہیں) ان تینوں سے اہل السنۃ والجماعت کااصولی اختلاف ہے اور اصولی اختلاف کے فاصلے کبھی نہیں مٹتے۔ نیز اصولوں پر سودے بازی یا پھر اصولی مخالفین سے ’‘اشتراک‘‘ کی راہیں تلاش کرنا ہر دیدۂ بینا کے لیے وجۂ صدا ستعجاب ہے۔
فاضل مضمون نگار اگر خطاء و صواب، اور حق و باطل کے معیار پر غور کرتے تو وہ اس خوش فہمی یا غلط فہمی کا شکار کبھی نہ ہوتے۔فروعی اختلافات میں خطاء و صواب کی خلیج ہوتی ہے اور اصولی مخالفین سے حق و باطل کا معرکہ ہوتا ہے۔ حق و باطل کی محاذ آرائی میں اشتراکی راہیں ڈھونڈنا مچھلی کے منہ میں زبان ڈھونڈنے کے مترادف ہے یا دراز گوش کے سر سے سینگ!!

اہلِ تشیع کے عقائدِ ثمانیہ

جو حضرات شیعیت کے ہر تیور پر نگاہ رکھتے ہیں اور ان کی زندگیاں اسی دشت کی آبلہ پائی میں گذر گئی ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اہل تشیع کے آٹھ عقائد ایسے ہیں جو متصادم دین اسلام ہیں۔
1۔ عصمت کا اجراء تسلیم کر کے ایک گونہ مفہوم ختم نبوت سے انحراف۔
2۔ قرآن مجید کی محفوظیت سے انکار اور محرفین کو کافر نہ کہنا۔
3۔ عقیدۂ رجعت، یعنی آخرت سے پہلے عالم دنیا میں ایک بار پھر لوٹناہے۔
4۔ ائمہ کو افضل قرار دے کر افضیلت انبیاء کا انکار کرنا۔
5۔ حضراتِ شیخینؓ کی صحابیت اور خلافت سے انکار، جب کہ ان کا اللہ و رسول سے رضا یافتہ ہوتا امر قطعی ہے۔
6۔ ام المومنین سیدہ عائشہؓؓ سمیت ماسوائے سیدہ خدیجۃ الکبریؓ، جملہ ازواجِ رسول کے متعلق منافرت پھیلانا۔
7۔ حضور اکرم کو اپنے نبوی مشن میں ناکام قرار دینا۔ جیسا کہ خمینی صاحب نے بھی صراحت سے کہہ دیا ہے۔ (اتحاد ویکجہتی ، ص ۱۵)
8۔ حضور اکرم کے بعد بلافصل خلافت کے قیام کا خدائی دعویٰ اور وعدہ تسلیم نہ کرنا، جب کہ یہ وعدہ قرآن مجید کی آیتِ استخلاف میں موجود ہے۔
سلطان العلماء حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود، جن کی علمی تندرستی کا یہ حال ہے کہ رگ رگ سے ارغوانی موجیں تلاطم خیز ہیں، یوں رقمطراز ہیں:
’’حضراتِ محققین نے انہیں (شیعہ کو) ان کے عقائد ثمانیہ (آٹھ عقیدوں) کے باعث ہمیشہ دائرہ اسلام سے باہر سمجھا ہے۔ یہ نہیں کہ انہیں اسلام سے باہر کیا ہے۔ یہ عقائد اسلام میں تھے ہی کب کہ انہیں باہر کیا جائے؟ جو عقیدہ دائرۂ اسلام کے اندر ہو اسے کوئی باہر نہیں نکال سکتا اور جو اسلام کے قطعی عقیدوں سے معارض ہو، اسے اپنے اندر کوئی مسلمان جگہ نہیں دے سکتا۔ لزوم اور الزام اور بات ہے اور جو بات کفر ہو اس کا التزام اور اقرار اور بات ہے۔ ان دونوں صورتوں میں حکم بدل جاتا ہے۔ شیعوں کے ان عقائد کا ان کے ہاں بار بار اقرار ہے اور یہ لوگ اس کا برملا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ ان عقائد ثمانیہ کی بناء پر علماءِ حق نے ہمیشہ انہیں مسلمانوں سے باہر سمجھا ہے ‘‘ (عبقات جلد دوم، صفحہ نمبر ۲۰۸)
باقی فاضل مضمون نگار کا یہ کہنا کہ ’’اہل سنت کے ہاں اہل تشیع کی کئی کتابیں پڑھائی جاتی رہیں ہیں جیسے نحو میں کافیہ پر رضی کی شرح یا منطق میں شرح تہذیب وغیرہ‘‘ تو اس کی علمی حیثیت کوئی نہیں ہے۔ علومِ خادمہ میں سے صَرف و نحو ہوںیا فلسفہ و منطق، اس کا تعلق ادیان یا مذاہب کے تقارب سے قطعاً نہیں ہے ۔ اس کا تعلق معلومات کے ساتھ ہے اور معلومات میں نظریاتی سرحدیں رکاوٹ نہیں ہوتیں۔ فاضل مضمون نگار نے علم، معلومات اور عقیدے کو گڈمڈ کر کے اچھا خاصا چڑیا گھر تیار کر دیا ہے۔ ثانیاً عرض ہے کہ علماء اہل سنت کی علمِ کلام یا منطق کی کتب پر جو شیعہ علماء نے شروحات لکھی ہیں، یہ اہل سنت کی علمی عظمت کی دلیل ہے۔ کسی شیعی کتاب کو سُنی معتبر عالم دین نے علمی حیثیت دی ہو تو پیش کیجیے؟ الحمدللہ! علماء اہل سنت کے علوم و فیوض کے سینہ دوز دفینے قیامت تک چشمِ حیرت میں سُرمہ بصیرت ڈالتے رہیں گے۔ فاضل مضمون نگار اگر شیعیت کے تبلیغی مزاج اور تدریسی رجحان کا مشاہدہ کرتے تو انہیں اندازہ ہوتا کہ شیعہ علماء کی کُل کائنات علم منطق ہے۔ ان کے ذاکر اگر جاہلانہ اور عامیانہ لہجے میں اصحابِ رسول پر تبرا بازی کرتے ہیں تو علماء شیعہ فلسفیانہ انداز میں تبرا بازی کرتے ہیں دور حاضر کے رافضی علماء میں سے علامہ طالب جوہری، غضنفر عباس، عقیل الغروی، عبدالحکیم بوترابی، اور ضمیر نقوی وغیرہ اسی قبیل سے ہیں۔ فاضل مضمون نگار سے بصد احترام عرض ہے کہ آپ کے دعوے کے مطابق ’’نحو میں کافیہ پر رضی کی شرح کسی زمانے میں یہاں داخل درس رہی‘‘ اور سنی عالم علامہ تفتازانی کی ’’تہذیب‘‘ کی شیعی شرح تہذیب بھی ‘‘۔۔۔اور اس پیرے کی ابتدا میں آپ نے لکھا ہے ’’اہل تشیع کی کئی کتابیں سنیوں کے ہاں پڑھائی جاتی رہیں۔‘‘ ایک دو شروحات اور لفظ ’’کئی‘‘ ؟؟ مبالغہ آمیزی سے ترازو کا پلڑا جھکاکر بھلا کب کوئی فاتح بن پایا ہے؟
آنکھوں والا تیرے جوبن کا تماشا دیکھے
دیدۂ کور کو کیا آئے نظر کیا دیکھے؟

علماءِ اہل سنت کا فتویٰ تکفیر

فاضل مضمون نگار نے مندرجہ ذیل موقف اپنایا ہے:
’’کچھ عرصے سے یہ تاثر عام ہوگیا ہے کہ اہل تشیع کو تمام علمائے اہل السنۃ کا فر قرار دیتے ہیں اور یہ کہ یہ ان کامتفقہ فتوی ہے۔ یہاں فتاوی کی تفصیل میں جانے کا موقع نہیں ہے، لیکن یہ غلط فہمی ضرور دور ہوجانی چاہیے اور یہ بات سامنے آنی چاہیے کہ تکفیرِ شیعہ کا کوئی متفقہ فتویٰ موجود نہیں ہے۔۔۔جن حضرات نے تکفیر کی ہے ان کی ایک بڑی تعداد نے بھی درحقیقت بطورِ فرقہ تمام اہل تشیع کی تکفیر کرنے کی بجائے بعض عقائد کی تکفیر کی ہے‘‘۔ (’’الشریعہ‘‘ صفحہ نمبر ۱۳)

تبصرہ

اگر یہ کہا جاتا کہ کچھ عرصے سے تکفیرِ شیعہ بطور اعلان اور غوغہ عام ہوگیا ہے تو اس سے اتفاق کیا جاسکتا تھا مگر فتویٰ تکفیر کچھ عرصے کا تاثر نہیں، صدیاں بیت رہی ہیں، فاضل مضمون نگار کس صدی میں جانا چاہتے ہیں؟
کسی دور میں لفظِ شیعہ مشترک المعنی لفظ رہا ہے اور ان کی بطور تنظیم ،فرقہ وہ شکل نہیں تھی جو بعد میں ظاہر ہوئی، ان کی مذہبی کتب عام دستیاب نہیں تھیں اور مذہبی شعار ’’تقیہ‘‘ ہونے کی وجہ سے ان کا کوئی رُخ اور متعین سمت نہ تھی۔ علماء اہل سنت ہر قسم کا فتویٰ دینے میں اور خصوصاً فتویٰ تکفیر دینے میں بے حد محتاط ہوتے تھے جب کسی فرقے کا بنیادی مآخذ موجود نہ ہو، یا موجود تو ہو مگر زمانے کے اہل علم کی رسائی نہ ہو، اور تقیہ کی آڑ میں وہ گرگٹ کے بدلتے رنگوں کی طرح اپنے نظریات بدلتے رہتے ہوں تو ان حالات میں کوئی فتویٰ تکفیر کیسے دے؟ یہ کوئی مولانا احمد رضا خان صاحب والا بارُودی مزاج تھوڑا ہی تھاکہ جہاں نگاہ پڑی کافر بنا دیا مگر جن علماء کرام نے اپنی جملہ توانائیاں شیعیت کی کھود کُرید میں وقف کر دیں، ان کے مآخذِ علمیہ تک رسائی حاصل کی ا ور ان کے مذہبی مدوجزر کا مشاہدہ کیا پھر براہ راست ان سے مباحثے کیے۔ اُن سے بڑھ کر اہل تشیع کا واقف کون ہوسکتا ہے؟ لہٰذا فتویٰ اور رائے بھی انہی علماء کی معتبر ہوگی۔ 
علامہ خالد محمود پھر یا د آگئے ۔ پڑھیے:
’’جن علماء نے اثنا عشری عقائد کا ان کے اصل ماخذوں سے مطالعہ نہیں کیا وہ محض سوال کی عبارت پر ان کے بارے میں فتویٰ دیتے رہے۔ سو ان کا فتویٰ اُن کے حق میں معتبر نہیں ہوسکتا۔ اس باب میں ان علماء کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے، جنہوں نے ان لوگوں کا قریب سے مطالعہ کیا ہے یا انہوں نے ان کے اصل ماخذوں پر اطلاع پائی ہے‘‘ (عبقات جلددوم، ص۲۰۸)
علم و فضل کے بحرِ ذخار امام شعبیؒ (متوفیٰ ۱۰۴ھ) سے جب کبھی پوچھا جاتا کہ اہل تشیع کو کیا آپ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں؟ تو وہ جواب میں فرماتے کہ یہ اسلام میں گُھسے ہی کب تھے؟ امام شعبی کے اقوال اور فتوے علامہ ابن تیمیہ اپنی قابل فخر کتاب ’’منہاج السنۃ‘‘ میں جا بجا درج کرتے ہیں حالانکہ ابن تیمیہ جیسا انسان اتنی آسانی سے کسی صاحبِ علم کا نام نہیں لیتا۔۔۔ ایسا ہی ایک قول ابن تیمیہ درج کرتے ہیں۔
قال الشعبی: اخدرکم اہل ھذہ الاھواء المضلۃ، وشرھا الرافضۃ لم یدخلو فی الاسلام رغبۃً ولا رھبۃً۔ (منہاج السنۃ جلد اول صفحہ ۸، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت)
ترجمہ: ’’امام شعبی نے فرمایا کہ میں تمہیں راہ راست سے بہکانے والے اہل بدعت سے ڈراتا ہوں اور ان میں سے سب سے بدتر رافضی ہیں، یہ لوگ رغبت اور خوفِ خدا کے ساتھ اسلام میں داخل نہیں ہوئے‘‘
قارئین کرام ! ایک ایک جملے پر غور کیجیے! خاموش آتش کی طرح سُلگتی شیعیت کی چنگاریوں سے بچنے کی کس دردِ دل سے دعوت دی جارہی ہے؟ یہ دعوت دینے والے کون ہیں؟ امام شعبی، اور اس کو نقل کرنے والے کون ہیں؟ ابن تیمیہ۔
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لیئم
تو نے وہ گنج ہائے گرانمایہ کیا کیے؟
علامہ سرخسی کے تبحر علمی سے بھلا کون ناواقف ہے؟ کئی افلاطونوں کے دماغ علامہ سرخسی کی قبر کے ایک ایک ذرے پر نچھاور کیے جاسکتے ہیں انہوں نے شیعیت کے داغوں کا مشاہدہ کیا، ان کے مذہبی عقائد پر تحقیق کی اور پھر بولے تو کیا بولے؟ پڑھیے۔
فمن طعن فیھم فھو ملحد، منابذ للاسلام و دواءہُ السیف ان لم یتب۔ (اصول سرخسی، جلد ۲، ص ۱۳۴)
ترجمہ: ’’جو صحابہؓ پر تنقید کے نشتر چلائے وہ الحاد کا مریض ہے اس نے اسلام کی چادر گویا اتار پھینکی، اور اگر وہ توبہ نہ کرے تو اس کا علاج تلوار ہے۔‘‘
ہمارے پاس بھی فاضل مضمون نگار کی طرح فتاوی کی تفصیل درج کرنے کا موقع نہیں ہے جب کبھی وہ موقع پالیں گے تو ان شاء اللہ ہم بھی شیعیت کے متعلق دس صدیوں کا ریکارڈ پیش کردیں گے۔ یہاں ہم اپنے اسی موقف کا اعادہ کرتے ہیں کہ لکل فن رجال  کے ضابطہ کے تحت تکفیر شیعہ کا مسئلہ ہو یا کوئی اور معرکہ درپیش ہو، اس میدان کے لوگوں کی رائے کو ترجیح دی جائے گی۔ آج بھی آپ کسی بڑے دارالعلوم میں جا کر کسی عالم دین سے کوئی فتویٰ مانگیں تو وہ دارالعلوم میں موجود دارالافتاء کی طرف آپ کی راہنمائی کر دے گا۔ مولانا محمد منظور نعمانی نے حکیم الامت مولانا محمد اشرف علی تھانوی سے اپنی ایک ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حضرت تھانوی نے مجھ سے پوچھا، مولانا احمد رضا صاحب نے جو ہم پر تکفیری گولہ داغا ہے، کیا ان کو واقعتا غلط فہمی ہوئی یا دیدۂ و دانستہ انہوں نے کام کیا؟ حضرت تھانوی اپنی سلیم فطرت اور خوفِ خدا سے مزین ضمیر کے مطابق فرماتے تھے کہ کوئی مسلمان اتنی بڑی جرأت نہیں کر سکتا ، ضرور ان کو غلط فہمی ہوئی جب کہ مولانا محمد منظور نعمانی کی زندگی اس موضوع پر مناظروں میں گذر گئی تھی۔ وہ خان صاحب کے طوفانی مزاج اور بعض بریلوی حضرات کی نیتوں سے آگاہ تھے۔ مولانا نعمانی کا موقف یہ تھا کہ مولانا احمد رضا صاحب نے ضد بازی، آتشِ حسد، اور مخصوص اشتعالی مزاج کی بنا ء پر کفر کے فتوے لگائے۔ چنانچہ مولانا محمد منظور نعمانی نے حضرت حکیم الامت تھانوی کے اس حُسنِ ظن اور ملائمت کی ایک وجہ یہ بھی لکھی ہے :
’’اس عاجز کا خیال ہے کہ اگر حضرت (تھانوی) نے ان کی کتابیں ملاحظہ فرمائی ہوتیں تو ان کو بھی یہ شُبہ غالباً نہ ہوتا‘‘ (بریلوی فتنہ کا نیا روپ، صفحہ نمبر ۱۴، مصنفہ مولانا محمد عارف سنبھلی)
معلوم ہوا کسی بھی طبقے کے مآخذ تک رسائی حاصل کیے بغیر محض سنی سنائی باتوں پر (خواہ وہ کتنی ہی ثقہ ہوں) کوئی حتمی رائے دینا مشکل ہوتا ہے اور حضرت تھانوی کا یہ جملہ تو ان کے متعدد ملفوظات میں ملتا ہے کہ جب کوئی مجھ سے شیعیت کے متعلق تفصیل طلب کرتا ہے تو میں اس کو مولانا عبدالشکور صاحب لکھنوی کے پاس بھیج دیتا ہوں کہ وہ اس میدان کے آدمی ہیں۔ فاضل مضمون نگار کی مذکورہ سطر ’’علماء نے بطور فرقہ تمام شیعہ کی تکفیر کرنے کی بجائے بعض عقائد کی تکفیر کی ہے۔‘‘ سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ اس سے بطور فرقہ تکفیر لازم نہیں آتی، ہم سمجھتے ہیں شدید غلط فہمی ہے۔ جب عقائد پر تکفیر یا تفسیق کی جاتی ہے تو کافر یا فاسق تو فاعل ہوتا ہے۔ جو ان عقائد پر عمل پیرا ہوتا ہے۔ آج اگر کہا جائے کہ جو طبقہ حضور اکرم کے بعد کسی کو نبی مانے تو وہ کافر ہے، اگر سائل پوچھے کہ کون کس کو نبی مانتا ہے؟ تو اس بات کا جواب سوائے اس کے کیا ہوگا کہ وہ فرقہ قادیانی ہے، اب نتیجہ کیا نکلا؟ کہ قادیانی کافر ہیں۔
اگر کہا جائے کہ حجیتِ حدیث کا انکار کرنے والے اسلام سے خارج ہیں؟ اگر سوال کیا جائے کس نے حجیتِ حدیث کا انکار کیا؟ تو لامحالہ عبداللہ چکڑالوی، غلام احمد پرویز یا دیگر ان لوگوں کے نام بتائیں جائیں گے جو صراحتاً منکرین حدیث تھے۔
اگر کہا جائے کہ تقلید ائمہ کے بغیر عوام کے لیے دین پر چلنا مشکل ہے اور تارکینِ تقلید گمراہ ہیں، اس پر جب تارکین تقلید کی نشاندہی کروائی جائے گی تو سوائے غیر مقلدین کے کس کا نام لیا جائے گا؟ جنہیں اہل حدیث کہا جاتا ہے اسی طرح اگر کہا جائے کہ حضور اقدس کی بعد از وفات برزخی حیات پر پوری امت کا اجماع ہے اور اس کا انکار نظریۂ اہل سنت سے مفروری ہے اور جب پوچھا جائے گا کہ کون لوگ ہیں جو انبیاء علیہم السلام کی برزخی حیات کے منکر ہیں؟ تو کم از کم ہمارے وطن (پاکستان) میں مولانا سید عنایت اللہ شاہ صاحب بخاری اور ان کے غالی معتقدین کا نام لیا جائے گا ۔ بعینہٖ جب علمائے اہل سنت نے مشروط فتویٰ دیا تھا کہ ایسے عقائد رکھنے والے دائرہ اسلام سے خارج ہیں مثلاً افک عائشہ صدیقہؓ، یا قرآن مجید میں کمی واقع ہونے کا عقیدہ یا غلط فی الوحی، یا حلت تبرا یعنی سبّ و شتم وغیرہ، یا جیسے مولانا مفتی محمد کفایت اللہ کا فتویٰ موجود ہے کہ:
’’اگر نذیر احمد غالی شیعہ ہوگیا ہے یعنی حضرت عائشہؓ پر تہمت کا قائل ہے یا قرآن مجید کو صحیح اور کامل نہیں سمجھتا یا حضرت ابوبکر صدیق کی صحبت کا منکر ہے یا حضرت علی کو وحی کا اصل مستحق سمجھتا ہے یا حضرت علی کی الوہیت کا قائل ہے تو بے شک وہ کافر ہے‘‘ (کفایت المفتی جلد اول، صفحہ نمبر ۲۸۰)
اب فاضل مضمون نگار ہی بتائیں کہ یہ عقائد کن لوگوں کے ہیں؟ قادیانیوں کے، دیوبندیوں کے، بریلویوں کے یا اہل حدیثوں کے؟ ایک ہی جواب آئے گا کہ یہ عقائد اثنا عشری شیعوں کے ہیں، اور اس وقت دنیا میں اکثریتی آبادی بمقابلہ اسماعیلی و نصیری انہی کی ہے۔ اگرچہ ان کے عقائد بھی خلاف اسلام ہیں۔
آج دنیا گلوبل ویلج کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے ہر فرقے اور ہر مسلک کی تقریریں، تحریریں اور لب و لہجہ ایک چھت کے نیچے فراہم کر دیا ہے۔ اب نہ تو وہ زمانہ رہا ہے جب علامہ ابن عابدین شامی کو شیعہ لٹریچر نہیں ملتا تھا اور نہ وہ دن رہے جب مولانا محمد منظور نعمانی انڈیا سے حضرت اقدس مولانا قاضی مظہر حسین کو خط لکھ کر شیعہ مذہب کی کتابیں منگواتے تھے کہ یہاں انڈیا میں اکثر نایاب ہیں۔۔۔ آج بحث و تمحیص کے بازار گرم ہیں، جب کوئی پڑھا لکھا مسلمان شیعہ علماء کی کتابوں میں صحابہ پر غلیظ الزامات دیکھتاہے، تقریروں میں تبرا سُنتا ہے۔ ترجمہ مقبول میں ’’شراب خور خلفاء کی خاطر قرآن بدل دیا گیا‘‘ جیسے رکیک جملے پڑھتا ہے۔ ’’تجلیاتِ صداقت‘‘ میں ’’اصحابِ رسول ایمان سے تہی دامن تھے‘‘ جیسی عبارتیں پڑھتا ہے۔ غلام حسین نجفی، عبدالکریم مشتاق، اشتیاق کاظمی، محمد حسین ڈھکو، اور دنیا بھر کے شیعہ علماء کی عربی، اردو اور فارسی زبان میں سوقیانہ اور واضح خلافِ اسلام باتیں پڑھ سُن کر جب ہمارے مفتیانِ عظام کے ایسے مضامین پر نگاہ ڈالتا ہے تو دونتائج سامنے آتے ہیں، تیسرا کوئی نہیں۔
1۔ یا تو اس کے جذبات مزید مجروح ہوتے ہیں، پہلے وہ شیعیت سے بدظن تھا، اب سُنیوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا کہ ایسے صریح کفریہ عقائد رکھنے والے مسلمان ہیں تو پھر کُفر کس مگر مچھ کا نام ہے؟
2 ۔ یا وہ بھی دھنیاپی کر اعتقادی خرابیوں میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ جب یہ سب کچھ کفر نہیں تو پھر ہمیں بھی صحابہ کے گریبانوں میں ہاتھ ڈال کر طبع آزمائی کر لینی چاہیے۔ پھر یہ تشکیک کے جراثیم بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ کاش فاضل مضمون نگار محض ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کو نہ دیکھتے، زمینی حقائق، نفسیاتی تلاطم، عملی و اعتقادی خرابیوں کے نتائج اور موقع و ماحول کے تقاضوں کو اہلِ افتاء نہیں سمجھیں گے تو کیا ہم بے لگام خطیبوں سے یہ توقع رکھیں؟ فتویٰ دینے کا اہل کون ہے؟ بصد معذت ہم یہاں اپنے قارئین سے مخاطب ہیں نہ کہ فاضل مضمون نگار سے، مولانا مفتی محمد کفایت اللہ صاحب نے آج سے چھہتر سال پہلے ۱۹۳۷ء میں لکھا تھا۔
’’فتویٰ دینے والے کے لیے لازم ہے کہ وہ عالم، صاحبِ بصیرت، کثیر المطالعہ، وسیع النظر، احوالِ زمانہ سے واقف ہو‘‘۔ (کفایت المفتی جلد ۲، ص ۲۳۶)
یہ دو سطریں گویا ’’دریا بہ کوزہ‘‘ کا مصداق ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امام شعبی سے لے کر محدثین دہلی تک، خاندانِ شاہ ولی اللہ سے لے کر مولانا محمد قاسم نانوتوی تک، امام اہل سنت مولانا عبدالشکور لکھنوی سے لے کر حضرت اقدس مولانا قاضی مظہر حسین تک سب کے سب رفض و بدعت کے خلاف ایک ہی نہج پہ چلے ہیں، ان میں برداشت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی مگر غیرت غالب تھی۔ ہمارے آج کے فلاسفر اور دانشور فرصت نکال کر عدمِ برداشت اور غیرتِ دینی کے مابین فرق کو بھی ذرا واضح کر دیں تو احسان ہوگا۔
حجۃ الاسلام قاسم العلوم والخیرات مولانا محمد قاسم نانوتوی تحمل و برداشت کا کوہِ گراں تھے۔ اگر ان میں جذباتیت، اور عدمِ برداشت کا عنصر ہوتا تو آج فکرِ دیوبند سکہ رائج الوقت نہ ہوتی۔ آج ہندو پاک میں علوم و فیوض کے جو چشمے بہہ رہے ہیں، ان کا سرچشمہ حضرت نانوتوی کی عالی ظرفی ہی تو ہے، مگر یہی سراپائے علم جب شیعیت کے خلاف قلم اُٹھاتا ہے تو پھر یوں بھی لکھا نظر آتا ہے۔
’’اصحابِ ثلثہ کو اول تو مولوی عمار علی صاحب (شیعہ ، ناقل) جیسوں کی اہانت یا برا کہنے سے کیا نقصان؟ بلکہ الٹا باعثِ رفعتِ شان ہے۔ چاند، سورج کی طرح وہ روشن ہوئے تو کتے ان پر بھونکے ، اوروں پر کیوں نہ بھونکے‘‘۔ (ہدیۃ الشیعہ، صفحہ نمبر ۲۲۳)
حکیم الامت مولانا محمد اشرف علی تھانوی سے آغا خانی شیعوں کے عقائد لکھ کر فتویٰ مانگا گیا کہ آیا ہم انہیں مسلمان کہہ سکتے ہیں؟ تو حضرت تھانوی نے تفصیلی فتویٰ جاری فرمایا اور اس کی آخری سطور مندرجہ ذیل ہیں:
’’خلاصہ یہ ہے کہ جب ان کفریات کے ہوتے ہوئے کسی کو مسلمان کہا جائے گا تو ناواقف مسلمانوں کی نظر میں ان کفریات کا قبح خفیف ہوجائے گا اور وہ آسانی سے ایسے گمراہوں کا شکار ہوسکیں گے تو کافروں کو اسلام میں داخل کہنے کا انجام یہ ہوگا کہ بہت سے مسلمان اسلام سے خارج ہوجائیں گے۔ کیا کوئی مصلحت اس مفسدہ کی مقاومت کر سکے گی۔‘‘ الخ (بوادرالنوادر، صفحہ نمبر ۷۴۱)
نوٹ۔ یہ کتاب حضرت تھانوی کی زندگی کی آخری تصنیف ہے اور آخری اعمال و اقوال کا پہلوں کے مقابلہ میں معتبر ہونا مسلَّمہ ہے۔ 
(جاری)

مکاتیب

ادارہ

(۱)
محترم جناب محمد عمار خان ناصر صاحب 
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
’’خاطرات‘‘ کے سلسلے میں ماشاء اللہ نہایت اہم اور فکر انگیز تحریریں شائع ہو رہی ہیں ۔ربِّ کریم آپ کو اس کے تسلسل اور دین کے حوالے سے سامنے آنے والے جدید چیلنجز کے مقابلہ کی ہمت ارزانی فرمائے ۔’’الشریعہ‘‘ جون ۲۰۱۳ء کے خاطرات میںآپ نے ’’عہد نبوی کے یہود اور رسول اللہ کی رسالت کا اعتراف ‘‘ کے زیر عنوان دینی مدارس کے طلبہ و اساتذہ کے اس المیے کا تذکرہ کیا ہے کہ وہ نہ صرف بالعموم جدید علوم سے واقفیت حاصل نہیں کرتے بلکہ اپنے روایتی علمی ذخیرے سے بھی نا بلد ہیں۔ان کے سامنے جب کوئی ایسی علمی بات کی جاتی ہے جو ان کی محدود نصابی آموخت سے مختلف ہوتی ہے تووہ اسے فوراً گمراہی،بے راہ روی اور بدعت وتحریف پر محمول کرنے لگتے ہیں،اور اس طرف ان کا ذہن ہی نہیں جاتا کہ یہ بات قدیم علماے اسلام کے ہاں بھی موجود ہو سکتی ہے۔ وہ اپنے ارد گرد کے چند گنے چنے علماہی کو علم کی کل کائنات سمجھتے ہیں۔یہ بات آپ نے اس تناظر میں کہی ہے کہ مسجد اقصی کی بحث میں آپ نے سورہ البقرہ کی آیات ۷۶ اور ۹۱کی روشنی یہ ذکر کیا تھا کہ عہد نبوی کے بعض یہود حضور کو بنی اسماعیل کا نبی تسلیم کرتے تھے اور تنقید نگارنے اسلامی ذخیرہ علم سے عدم واقفیت کی بنا پر اس کو تحریف سے تعبیر کیا ہے۔پھر آپ نے بخاری ،فتح الباری اور طبری کے حوالے سے اپنے موقف کو موکد کیا ہے۔
محترم عمار صاحب !آ پ تو اسلاف کے ہاں موجود کسی ایسے تفسیری نکتے کو ماننے کی بات کر رہے ہیں جو ہمارے علما کے ہا ں معلوم و معروف نہ ہو ۔ ذرا غور کیجیے کہ اس تفسیری نکتے سے متعلق ان کا رویہ کیا ہو گا جواسلاف کے ہاں موجود نہ ہو۔حالانکہ راقم الحروف کی ناقص رائے میں دلائل موجود ہوں توایسے کسی نکتے سے بھی ابا ضروری نہیں۔ 
اگر،جیسا کہ ہمارے علما بھی بیان کرتے ہوئے نہیں تھکتے،قرآن ہر زمانے اور قیامت تک کے تمام بنی نوع انسان کے لیے رہنمائی کا سامان ہے ۔اور اقبال کا یہ بیان حقیقت ہے کہ قرآن کی حکمت قدیم و لا یزال ہے(آں کتابِ زندہ قرآنِ حکیم ۔حکمتِ او لا یزال است وقدیم)،اس کی آیات میں سینکڑو ں نئے جہان موجود اور اس کے لمحات میں ان گنت زمانے بند ہیں (صد جہانِ تازہ در آیاتِ اوست ۔عصر ہا پیچیدہ درآناتِ اوست)، تو پھر اس سے نئے زمانے میں کسی نئے نکتے کے اخذکرنے پر ناک بھوں چڑھانے کی کیا گنجائش ہے!
قرآن نے دو چار مرتبہ نہیں سینکڑوں مرتبہ غور وفکر کرنے ،عقل و فکر کی قوتوں کو کام میں لانے اور انفس وآفاق اور آیاتِ قرآنی میں تدبر پر زور دیا ہے ۔(مثال کے طور پر دیکھیے:البقرہ۲:۱۶۳؛ النسا۴:۸۲؛ العنکبوت۲۹:۲۰؛ الذاریت ۵۱:۲۰۔۲۱ و مقاماتِ عدیدہ)وہ اللہ کے بندوں کی ایک نہایت اہم صفت یہ بیان کرتا ہے کہ اِِذَا ذُکِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّہِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْہَا صُمًّا وَّعُمْیَانًا ۔(الفرقان ۲۵:۷۳) یہی نہیں بلکہ بلکہ وہ عقل سے کام نہ لینے والوں کو بد ترین خلائق قرا دیتا ہے۔(اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰہِ الصُّمُّ الْبُکْمُ الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُوْنَ۔الانفال۸:۲۲) قواے حسی کو مشاہد ہ فطرت اور ذہنوں کوتدبر و تفکر کے لیے استعمال نہ کرنے والوں کو حیوانوں سے بھی بدتر اور جہنم کے سزاوارٹھراتاہے (وَ لَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَھَنَّمَ کَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ لَھُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ بِھَا وَ لَھُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِھَا وَ لَھُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِھَا اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْن۔الاعراف۷:۱۷۹)تو کیا آیاتِ قرآنی میں تدبرکے ذریعے ہدایت و رہنمائی کا حصول صرف بزرگانِ سلف تک محدود ہ ہے اور اخلاف کے لیے کتاب و سنت کی روشنی میں ان میں آزادانہ غور و فکر ممنوع ہے۔ظاہر ہے کہ ہر گز نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو متاخرین میں شاہ ولی اللہ،اقبال اور دیگر متعدد نامور اور عظیم مفکرین کا وجود ناپید ہوتا۔
آپ نے اپنے ناقد کے جواب میں درست فرمایا کہ یہ کہہ کرکہ عہدِ نبوی کے بعض یہود حضور کو بنی اسماعیل کا نبی مانتے تھے ،آپ ان یہود کی کوئی خوبی اجاگر نہیں کر رہے تھے بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتی حکتِ عملی کو کا یہ پہلو اجاگر کر رہے تھے کہ آپ نے حق بات کو اپنے مخاطبین تک پہنچانے اور ان پر اتمام حجت کرنے کا ایسا حکیمانہ اسلوب اختیار کیا کہ یہود کے ایک گروہ کے لیے آپ کی صریح تکذیب ممکن نہ رہی۔لیکن راقم کے خیال میں اگر آپ یہود کی کسی خوبی کو اجاگر کر دیتے تو یہ بات بھی قرآن کے خلاف نہ ہوتی،کیونکہ قرآن حکیم میں اس کی واضح بنیادیں موجود ہیں۔درج ذیل آیات ملاحظہ کیجیے:
وَ مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ مَنْ اِنْ تَاْمَنْہُ بِقِنْطَارٍ یُّؤَدِّہٖٓ اِلَیْکَ وَ مِنْھُمْ مَّنْ اِنْ تَاْمَنْہُ بِدِیْنَارٍ لَّا یُؤَدِّہٖٓ اِلَیْکََ۔(آل عمران۳:۷۵) 
لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَھُوْدَ وَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا وَ لَتَجِدَنَّ اَقْرَبَھُمْ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرٰی ذٰلِکَ بِاَنَّ مِنْھُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَ رُھْبَانًا وَّ اَنَّھُمْ لَا یَسْتَکْبِرُوْن۔ وَ اِذَا سَمِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَی الرَّسُوْلِ تَرٰٓی اَعْیُنَھُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ (المائدہ ۵:۸۲۔۸۳)
پہلی آیت میں اہل کتاب کے منفی رویے کے ذکر کے ساتھ ساتھ ان کے بعض لوگوں کے دیانتداری پر مبنی رویے کی تعریف کی گئی ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ وہ ڈھیروں کی امانت میں بھی خیانت نہیں کریں گے اور دوسری آیات میں یہود اور مشرکین کی نسبت نصاری کے اہلِ اسلام سے قریب تر ہونے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اس میں علما و مشائخ موجود ہیں جو تکبر نہیں کرتے اور جب رسول اللہ پر نازل ہونے والے کلامِ ربانی کو سنتے ہیں تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔اس لیے کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا۔
قرآن کے نقطہ نظر سے بات بھی کسی طرح قرین انصاف نہیں کہ اہل اسلام تمام غیر مسلموں کو ایک ہی عینک سے دیکھیں۔انہیں قرآن کی ان آیات کو پیش نگا رکھنا چاہیے جن میں بے لاگ انصاف کا حکم دیا گیا اور اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ کسی قوم کی دشمنی انہیں نا انصافی پر آمادہ نہ کرے۔(مثلاً:المائدہ۵:۸)
آپ نے سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی جس دعوتی حکمتِ عملی کا تذکرہ فرما یاہے وہ بلا شک و شبہ ہر زمانے کے داعیانِ اسلام کے لیے مشعل راہ ہے۔لیکن جانے عصر حا ضر کے زیر بحث قبیل کے جذباتی علما ے کرام اسلام کی بہی خواہی کے بلند بانگ دعاوی کے باوصف حضور کے اسوہ حسنہ کہ اس پہلو کو کیوں یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں !آج کے دور میں کوئی مسلمان اسلام کی تبلیغ اور اس کی انسانیت پسندی کے تعارف کے حوالے سے دیگر مذاہب کے لوگوں کی توجہ ان سے متعلق روادارانہ اور مثبت رویہ اپنائے بغیر حاصل نہیں کر سکتا۔اگرمسلمان غیر مسلموں سے خوہ مخواہ کا تعصب برتیں گے تو ان کے حوالے سے یہ کہنا نہایت آسان ہوگا کہ وہ تمام غیر مسلموں کو اپنا دشمن خیا ل کرتے ہیں اور ان سے دشمنی اور مخالفت کے سوا کچھ توقع نہیں رکھتے اور اس چیز کا اسلام اور اس کی دعوت اور مسلمانوں کے حوالے سے ضر ررساں ہونا محتاجِ دلیل نہیں۔
بعض یہود کی طرف سے حضور کو بنی اسماعیل کا نبی تسلیم کرنے کی تصویب کے ضمن میں ایک دلچسپ بات یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یہ امر صرف عہدِ نبوی کے اہل کتاب تک محدود نہیں،عصر حاضر کے اہل کتاب میں سے بھی بعض نمایاں لوگ یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نبی تو ہیں لیکن اہل عرب کے لیے۔مشہور مستشرق منٹگمری واٹ کا نام اسلام اور مستشرقین کے موضوع سے ادنی دلچسپی رکھنے والوں کے لیے بھی اجنبی نہیں۔انہوں نے Companion to the Quran کے نظر ثانی شدہ ایڈیشن کے دیباچے میں لکھا ہے کہ گو میں ہمیشہ سے یہ سمجھتاتھا کہ محمد [صلی اللہ علیہ وسلم] صدق دل سے اپنے اوپر وحی الہی کے قائل تھے، تاہم مجھے ایک عرصہ تک آپ [صلی اللہ علیہ وسلم] کو پیغمبر تسلیم کرنے میں تامل رہا۔ اب البتہ میں یہ علی الاعلان کہتا ہوں کہ آپ [صلی اللہ علیہ وسلم] عہد نامہ قدیم کے پیغمبروں کی طرح کے پیغمبر تھے۔ وہ مختلف قصصِ قرآنی کا قصصِ بائبل سے تقابل کرکے واضح کرتے ہیں کہ قصص قرآنی کو بائبل کی بعینہ نقل قرار دینا کسی بھی طرح درست نہیں۔قصصِ بائبل اور قرآنی قصص میں اس نوعیت کا بنیادی اختلاف ہے کہ اس کی توجیہ بغیر اس کے کوئی نہیں ہو سکتی کہ محمد [صلی اللہ علیہ وسلم] پر عہد نامہ عتیق کے انبیا کی مانند وحی آتی تھی۔البتہ عہد نا مہ قدیم کے پیغمبر اپنے اپنے ادوار کے مذاہب کو ہدف تنقید بناتے تھے اور محمد [صلی اللہ علیہ وسلم] کا مقصدِ بعثت ان لوگوں کو ایمان باللہ کی دعوت دینا تھا جو کسی بھی دین کو ماننے کے روادار نہ تھے۔اس د یباچے میں منٹگمری واٹ نے مشہور مستشرق مترجمِ قرآن آرتھر جے آربری کے حوالے سے جوکچھ لکھا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ مسٹر آربری بھی حضور پر وحی الہی کے قائل تھے۔مسٹر واٹ لکھتے ہیں کہ آربری نے اپناترجمہ قرآن اس زمانے میں کیا جب وہ ذاتی نوعیت کے پریشانیوں اور مسائل سے دوچار تھے۔ترجمہ کی تکمیل کے بعد انہیں سکونِ قلب اور اطمینان کی دولت میسر آئی جس پر انہوں شکریے کا اظہار کیااور واضح کیا کہ یہ شکریہ وہ اس قوتِِ مطلقہ کا ادا کررہے ہیں جس نے نبی [صلی اللہ علیہ وسلم] پر وحی نازل فر مائی۔
ڈاکٹر محمد شہباز منج
شعبہ اسلامیات،یونیورسٹی آف سرگودھا، سرگودھا 
(۲)
محترم جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
امیر عبد القادر الجزائری کے بارے میں ’’الشریعہ‘‘ اور’’ ضربِ مؤمن‘‘ کے درمیان جاری مکالمہ بہت دلچسپی سے پڑھا۔چند باتیں ذہن میں ہیں جو گوش گذار کرنا چاہتا ہوں۔
(۱) مفتی ابو لبابہ صاحب نے جو کچھ لکھا ہے آپ کی تائید کردہ کتاب سے لکھا ہے اور با حوالہ لکھا ہے، اس میں اس کا عورتوں کے ساتھ اختلاط ، مہمانوں کو شیمپئین پیش کرنا، کفار سے بڑی بڑی تنخواہیں وصول کرنا، غیراللہ کے نام کی قسمیں کھانا، بالفاظِ خود’’ایک بچے کی طرح‘‘اپنے آپ کو کفار کے حوالے کردینا، یہودیوں اور عیسائیوں کو مسلمان سمجھنا، پردے کو محض عربوں کا رواج کہنا، ، ان کی خوشامد کرکے معافیاں مانگنا وغیرہ خود آپ کی پسند فرمودہ کتاب سے ثابت ہے۔ اب آپ یا تو اقرار کریں کہ امیر عبد القادر الجزائری واقعی اسی چال چلن کا آدمی تھا اور یا پھر تسلیم کریں کہ کائزر نے اس کے بارے میں غلط بیانی کی ہے، اس صورت میں آپ بھی تقریظ لکھنے کی بناء پر کائزر کی غلط بیانی میں شریک ٹھہرائے جائیں گے۔
(۲) آپ نے مفتی صاحب کے اعتراضات کا جواب دینے کی بجائے ان پر یہ الزام لگانے پر اکتفاء کیا ہے کہ ان کا لب و لہجہ ٹھیک نہیں ہے ، ان کا انداز سخت ہے وغیرہ، اس کے جواب میں آپ اسی شمارے میں اپنے فرزند عمار خان ناصر کا شیخ اسامہ بن لادنؒ کے بارے میں لب و لہجہ ملاحظہ فرما لیں کہ دنیا سے رخصت ہو چکنے کے بعدشیخ کے بارے میں اس نوعیت کی الزام تراشی اور طعنہ بازی یہ کس قسم کی اخلاقیات ہے؟
(۳) آپ نے حضرت امامِ اہل سنتؒ کی ترجمانی کے مفتی صاحب کے دعویٰ کی سختی سے تردید کی ہے ، اسے ناقابلِ برداشت بتایا ہے اور گمراہ کن قرار دیا ہے، عجیب بات ہے کہ جنہیں حضرت امامِ اہل سنتؒ کافر کہتے تھے، انہیں آپ مسلمان کہتے ہیں، جنہیں انہوں نے گمراہ قراردیا انہیں آپ اہلِ علم میں شمار کرتے ہیں، جن نظریات کوانہوں نے بدعت و گمراہی سمجھا انہیں آپ ’’تفرد‘‘ خیال فرماتے ہیں، جن چیزوں کو وہ ’’حرام ‘‘کہتے تھے انہیں آپ’’ ضروری ‘‘قرار دیتے ہیں۔ اس کے باوجود آپ ان کے نہ صرف ترجمان ہیں بلکہ آپ کے انداز سے ہٹ کر ان کی ترجمانی کا دعویٰ کرنے والا ’’گمراہ‘‘ ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب عقائد و نظریات اور اصول فروع میں امامِ اہل سنتؒ سے اختلاف کے باوجود آپ ان کے ترجمان بلکہ جانشین ہیں تو محض لب و لہجہ کے اختلاف کے ساتھ مفتی صاحب کا امامِ اہل سنتؒ کی ترجمانی کا دعویٰ کیوں گمراہ کن اور ناقابلِ برداشت ہے؟حضرت امامِ اہلِ سنتؒ کے ہزاروں شاگرد اس وقت موجود ہیں جو حضرت کے مسلکی تصلب اور’’ قدامت پسندی‘‘ کے گواہ ہیں،حضرتؒ کی اپنے ہر شاگرد، مرید اور ملنے والے کو ’’اپنے اکابر کا دامن نہ چھوڑنا‘‘ کی نصیحت آج بھی ان سب کو خون کے آنسو رلاتی ہے،ان سب حضرات کی موجودگی میں جناب عمار خان ناصر نے الشریعہ کے امامِ اہلِ سنت نمبر میں حضرت کے مسلک و مشرب کو جس بے دردی سے مسخ کیا ہے وہ سب تحقیق ہے اور مفتی صاحب اگر حضرت امامِ اہلِ سنت ؒ کے مؤقف کو ان کا مؤقف بتاتے ہیں تو یہ بات گمراہ کن اور ناقابلِ برداشت ہے؟
(۴)آپ نے اپنے طرزِ عمل کے حق میں حضرت امامِ اہلِ سنت اور دیگر اکابر کے متعدد حوالہ جات و واقعات پیش فرمائے ہیں، جب آپ اپنی مرضی کے خلاف حضرت امامِ اہلِ سنت ؒ اور دیگر اکابر کے کسی بھی فیصلے کو قبول کرنا لازم نہیں سمجھتے تو اپنے حق میں ان کی عبارات کو پیش کرنے کا آپ کو کیا حق ہے؟ آپ نے ’’علمی و فکری مسائل میں طرزِ عمل‘‘ کے عنوان سے بہت سے واقعات لکھے ہیں جن سب کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت امامِ اہلِ سنت کو بیشتر مسائل میں آپ سے اختلاف تھا اور وہ آپ کو سمجھانے کی کوشش بھی کرتے تھے،آپ کے مؤقف کو ناجائز اور آپ کے افعال کو بدعت تک کہتے تھے، جبکہ آپ اکثر اوقات ان کی بات نہیں مانتے تھے، اور اب ان باتوں سے اس طرح استدلال فرما رہے ہیں کہ ’’کبھی ہلکی پھلکی گفتگو سے بات آگے نہیں بڑھی‘‘۔آپ ہی فرمائیں کہ وہ آپ کو منع کرتے تھے، سمجھاتے تھے، اس کے علاوہ وہ کر بھی کیا سکتے تھے؟ کیا یہ آپ کی سعادت مندی کی نشانی ہے؟
(۵)اسی طرح آپ نے ’’معاشرتی و سماجی تعلقات‘‘ کے عنوان سے بھی بہت سی باتیں ذکر کی ہیں جن میں بعض فرقوں سے تعلق رکھنے والے بعض افراد کے جنازے وغیرہ میں آپؒ کی شرکت کا ذکر ہے، جبکہ دیگر فرقوں مثلا شیعہ وغیرہ سے تعلقات میں انتہائی شدت و سختی اختیار فرمانے کا کوئی ذکر نہیں۔ کیا یہ بد دیانتی نہیں؟ اس عنوان کے تحت آپ نے مولانا قاضی شمس الدین صاحب اور قاضی عصمت اللہ صاحب کے حوالے سے بھی بعض واقعات کا ذکر کیا ہے جبکہ خود حضرت شیخ کی تصریح کے مطابق یہ دونوں حضرات مماتی نہیں تھے، چنانچہ حضرت شیخ، ابو طاہر فتح خان صاحب کے خط کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:
’’حضرت قاضی نور محمد صاحب، حضرت قاضی شمس الدین صاحب اور حضرت مولانا غلام اللہ خان صاحب رحمہم اللہ وغیرہ حضرات کا عند القبر صلوۃ و سلام کے سماع کا وہی عقیدہ تھا جو راقم کا ہے۔‘‘
اور مماتیوں کے پیچھے نماز کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’راقم کا وہی جواب ہے جو دارالعلوم کے صدر مفتی حضرت مولانا سید مہدی حسن صاحب رحمہ اللہ وغیرہ کا ہے، (کہ نماز مکروہ ہے) جو تسکین الصدور کی ابتداء میں درج ہے۔‘‘ (مجلہ المصطفیٰ امامِ اہل سنت نمبر ص۷۴۴)
اہلِ بدعت کے بارے میں حضرت شیخ فرماتے ہیں:
’’ان لوگوں نے شرک کے ساتھ مساجد کو بھی پلید کردیا ہے۔ ان کے عقائد خراب ہیں، ان کے پیچھے نماز قطعاً نہیں ہوتی‘‘ (ذخیرۃ الجنان ج۱۳ ص۲۷۵)
حضرت کی اس قسم کی بے شمار تحریرات و واقعات کو چھپانا اور اپنی مرضی کے واقعات بیان کرنا، کیا دیانت اسی کو کہتے ہیں؟
(۶) یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ آپ ایک مخصوص طرزِ تکلم اور اندازِ بیان کو مکالمہ کے لیے لازم قرار دے کر اس سے انحراف کو بدتہذیبی قرار دے کر مسترد کردیتے ہیں جبکہ عقائد و نظریات، مسائل و معاملات، اور اصول و فروع میں ہر شخص کوہر بات کہنے کی آزادی دیتے ہیں اور اجماعی مسائل میں اختلاف کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ انتہائی ادب سے گذارش ہے کہ جب باقی تمام مسائل میں کوئی بھی شخص کوئی بھی رائے اختیار کرسکتا ہے تو اخلاق و تہذیب میں وہ کون سا فارمولا ہے جس پر ’’اجماع‘‘ منعقد ہوچکا ہے اور جس سے روگردانی قابلِ تعزیر جرم ہے؟اگرقرآن پاک میں فمثلہ کمثل الکلب، اؤلئک کالانعام بل ہم اضل، اؤلئک علیھم لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس اجمعین، کمثل الحمار یحمل اسفارا، اور حدیث شریف سے ’’امصص بظراللات‘‘، یا اخوۃ القردۃ والخنازیر اور ابو الحکم کو ابو جہل کا نام دینا وغیرہ سے استدلال کرکے کوئی شخص اپنی تحریر میں کسی کو کتا، جانور، لعنتی، گدھا وغیرہ لکھے تو کس’’اجماعی‘‘ دلیل سے وہ بد تہذیب کہلایا جائے گا؟
(۷) اسی طرح آپ فرماتے ہیں کہ امامِ اہلِ سنت کی نہ یہ زبان تھی جو مفتی صاحب نے اپنا رکھی ہے..... آپ کا یہ کہنا، کہ حضرت امامِ اہل سنت ہمیشہ نرم لب و لہجہ ہی اختیار کرتے تھے، درست نہیں۔ وہ جس طرح عموماً نرم اور دھیمے لہجے میں اپنا مؤقف سمجھاتے تھے، اسی طرح بوقت ضرورت ان کا لہجہ انتہائی تلخ اور شدید بھی ہوجاتا تھا، آپ خود ان کو پڑھیں توانہوں نے بسا اوقات ’’جنونی مولوی صاحب‘‘ (مجلہ صفدر امام اہل سنت نمبر ص۷۵۶)، خمینی بھینگے نے... (ارشاد الشیعہ ص۱۲۵) خمینی صاحب عقلی اندھے بھی ہیں(ایضاً ص۱۳۱) افسوس ہے اس اسلام دشمنی اور عیسائیت پرستی پر (صرف ایک اسلام ص۱۵) جن سیاہ بختوں کو...(ایضاً ص۱۰۳) اپنی بدباطنی اور بری فطرت کا ثبوت دیا ہے....(ایضاً ص۱۴۱) برق صاحب نے شقاوتِ قلبی کا ثبوت دیا ہے...(ایضاً س۱۷۶) خان صاحب کے تعصب و ہٹ دھرمی کا ثبوت..(عباراتِ اکابر ص۱۸) شرم و حیا کو بالائے طاق رکھ کرکس دریدہ دہنی کا ثبوت خانصاحب نے دیا ہے..(عبارات اکابرص ۲۵) مجنونانہ بڑھ..(ایضاً ص ۱۲۷)او بے حیا حکمرانو! تم سے زیادہ بے حیا اور بے غیرت کون ہے کہ ابھی تک ان کے دم چھلا بنے ہوئے ہو(ذخیرۃ الجنان ج۱۳ص ۱۵۰)وغیرہ الفاظ استعمال فرمائے ہیں تو کیا کسی کو جنونی، بھینگا، اندھا،اسلام دشمن، عیسائیت پرست،سیاہ بخت، بدباطن، شقی القلب، متعصب، ہٹ دھرم، دریدہ دہن، مجنون، بے غیرت، بے حیا، وغیرہ کہنا جائز ہے اور امام اہل سنت کے کردار کے مطابق ہے؟ نہیں معلوم کہ اب آپ مفتی صاحب کو بدتہذیب قرار دینے سے رجوع کرتے ہیں یا حضرت امام اہل سنت پر بد اخلاقی کا فتویٰ لگاتے ہیں۔
(۸) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ آپ کے مضامین کو ضربِ مؤمن میں شائع کرنا ضربِ مؤمن والوں کی اخلاقی ذمہ داری تھی اور انہیں شائع نہ کرکے گویا ضربِ مؤمن والوں نے صحافتی بددیانتی کا ثبوت دیا ہے۔ فی الواقع میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کس قانونِ اخلاق کے تحت آپ کے مضامین و خیالات کو شائع کرنا ضربِ مؤمن والوں پر واجب ہے ۔ہر شخص اپنے مؤقف کو خود شائع کرتا ہے، آپ خود تو ’’آزاد فورم‘‘ کا دعویٰ کرنے کے باوجود مولانا عبد الحق خان بشیر صاحب کا عمار خان ناصر صاحب کے جواب میں تحریر کیا گیا مضمون شائع کرنے کے بعد بھی اگلے ایڈیشن سے نکال دینے میں حق بجانب اور صحافتی اخلاقیات کے علمبردار ہیں جبکہ ضربِ مؤمن والے ’’آزاد فورم‘‘ کا دعویٰ نہ کرنے کے باوجود بھی آپ کے مضامین اپنے اخبار میں شائع کرنے کے پابند۔۔۔آخر معاملہ کیا ہے؟ 
(۹)آپ نے مفتی صاحب کو یہ چیلنج بھی دیا ہے کہ وہ جس موضوع پر چاہیں آپ کے ساتھ مباحثہ کریں، لیکن اس کے لیے آپ نے شرط لگائی ہے کہ اگر یہ بحث ضربِ مؤمن یا اسلام کے صفحات پر ہونی ہے تو آپ کے مضامین بھی ان میں شائع کئے جائیں، بصورتِ دیگر یہ مباحثہ الشریعہ میں ہو، اس پرپیچ شرط کے پیچ و خم کھولے جائیں تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ’’یا تو مفتی صاحب آپ کے مضامین بھی ’’ضربِ مؤمن‘‘ میں شائع کریں اور یا پھر اپنے مضامین بھی اس میں شائع نہ کریں‘‘ کیا اس نرالی دیانت داری کی اس سے پہلے بھی کوئی مثال ملتی ہے؟ پہلے بھی ’’الشریعہ‘‘ کے مختلف جرائد ورسائل کے ساتھ مباحثے چلتے رہے ہیں، کیا ان کے لیے بھی یہ عجیب و غریب شرط عائد کی گئی ہے؟ اگر نہیں تو ’’ضربِ مؤمن‘‘ پر ہی یہ شفقت کیوں؟
(۱۰)آپ کا فرمان ہے کہ الجزائری کی سوانح کے دار الکتاب سے جبرا شائع کروائے جانے کے معاملے میں ضربِ مؤمن نے غلط بیانی کی تھی اور اس غلط بیانی پر ضربِ مؤمن کو معافی مانگنی چاہئے، بجا۔۔ لیکن آپ کی توجہ ایک اور معاملے کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ جناب عمار خان ناصر کے ایک مضمون کی بنیاد پر مولانا عبد القیوم حقانی نے ان پر قادیانیت نوازی کا الزام لگایا اور انہیں اس سے باز رہنے کی تلقین فرمائی، آپ نے اس پر شدید ناراضی کا اظہار فرماتے ہوئے اسے ’’دینی جد و جہد کی اخلاقیات‘‘ کی خلاف ورزی قرار دیا ،بلکہ ظلم کی انتہا کرتے ہوئے بعض ختمِ نبوت کے مرحوم اکابر بزرگوں کے’’دینی جد و جہد کی اخلاقیات ‘‘ سے عاری ہونے کے بھی کچھ واقعات ذکر کردئیے۔ مگرالشریعہ مئی ۲۰۱۲ میں خاطرات کے عنوان سے جناب عمار خان ناصر نے خوداپنے قلم سے یہ اعتراف کرلیا کہ وہ در حقیقت اس سے پہلے قادیانیوں کو مسلمان سمجھتے تھے اور اب انہوں نے اپنے اس قول سے رجوع کرلیا ہے، اس کا مطلب ہے کہ جناب مولانا عبد القیوم حقانی نے جب عمار خان ناصر پر تنقیدکی تھی تب عمار خان ناصرواقعی قادیانیوں کو مسلمان سمجھتے تھے اور حقانی صاحب کی ان پر تنقید بالکل درست اور بر محل تھی ، چاہئے تھا کہ اس حقیقت کے واضح ہوجانے کے بعد آپ واضح الفاظ میں حقانی صاحب سے معذرت کرتے اور قارئین کو بتاتے کہ اس وقت عمار خان صاحب کو قادیانی نواز بتانے میں جناب حقانی صاحب بالکل برحق تھے اور آپ نے ان پر حقائق کو توڑنے موڑنے کا جو الزام لگایا تھا وہ غلط تھا، لیکن افسوس کہ آپ نے اس اہم معاملہ پر بالکل چپ سادھ لی گویا کچھ ہوا ہی نہیں اور پھر بھی آپ اب تک ساری دنیا کو تنگ نظر اور اخلاقیات سے عاری بتانے کی اسی پرانی روِش کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
(۱۱) امیر عبد القادر الجزائری پر لگنے والے اخلاقی الزامات کی جناب عمار خان ناصر نے جوتوجیہ کی ہے وہ بھی پڑھنے کے لائق ہے،خلاصہ یہ ہے کہ جیسے حضرت خالد بن ولیدؓ کی بعض خطاؤں پر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تنبیہ کے باوجودان کی شان میں کوئی فرق نہیں پڑتا، اسی طرح امیر عبد القادر الجزائری کی غلطیوں سے بھی اس کی عظمت و شان میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کاش کہ جناب عمار خان ناصر اپنی اس خداداد ذہانت و نکتہ آفرینی کو الجزائری کے دفاع میں تاویلیں تلاش کرنے کی بجائے حق بات کوسمجھنے کے لیے استعمال کرتے تو ان پر واضح ہوجاتا کہ حضرت خالد بن ولیدؓکی اجتہادی خطا اور امیر عبد القادر الجزائری کی غلطیوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے، حضرت خالد بن ولیدؓ سے جو خطا سرزد ہوئی وہ ان کی لا علمی کی بنا پر تھی، الجزائری کے غیر محرم عورتوں کے ساتھ چہل قدمیاں کرنے، مہمانوں کو شیمپئین پیش کرنے، یہود و نصاریٰ کا بغل بچہ بن جانے کو حضرت خالد بن ولیدؓ کے ساتھ تشبیہ دینا ظلمِ عظیم ہے۔ نجانے جناب عمار خان ناصر کو روزِ قیامت اللہ جل شانہ اور حضرت خالد بن ولیدؓ کی بارگاہ میں جوابدہی کا خوف کیوں نہیں آیا۔
(۱۲)امیر عبد القادر الجزائری کے شام کے عیسائیوں کی مدد کرنے کے عمل کو صحیح یا غلط قرار دینے سے پہلے ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ الجزائری کے شکست کھا جانے، اس شکست کو دل و جان سے قبول کر لینے، اور پھر تا حیات جہاد سے توبہ کرلینے کے بعد اسے بہت بڑا اور عظیم مجاہد قرار دینا جہاد کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہے۔ اس کے دیگر نیک کارناموں کی بناء پر، اگر وہ کارنامے نیک تھے، اسے ایک عظیم الشان صوفی قرار دیا جاتا تو شائد بر موقع ہوتا، اگر الجزائری اپنے ان ’’نیک کاموں‘‘ کی بھاری تنخواہ ساری عمر وصول نہ کرتے رہتے۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اگر جناب الجزائری اتنی ہی عظیم شخصیت تھے جتنا انہیں ثابت کیا جا رہا ہے تو اس عظیم ترین شخصیت کی پاکستان میں ’’رونمائی‘‘ جناب جان ڈبلیو کائزر کے واسطے سے ہی کیوں ہوئی؟ اسلامی تاریخ میں کوئی اور کتاب ایسی نہیں تھی جو اس عظیم کارنامے کے لیے موزوں ہوتی؟ ایسا تو نہیں ہے کہ جنابِ کائزر نے ا پنے خیالات و افکار کو جناب عبد القادر الجزائری کی شکل میں ڈھال کر اشاعت کے ثواب کے لیے آنجناب کے حوالے کر دیا ہو اور اب صفائیاں دینے کے لیے آپ کو میدان میں چھوڑ دیا ہو؟
(۱۳)آخر میں جناب عمار خان ناصر نے دبے دبے لفظوں میں گھومتے گھماتے یہ اقرار کر ہی لیا ہے کہ جان ڈبلیو کائزر نے اپنی کتاب میں اگر اپنے فکری پسِ منظر، ذاتی رجحانات، اور تعصبات کو ملحوظ رکھ کر صاحبِ سوانح کے کردار میں تبدیلی کردی ہو تو کچھ بعید نہیں ہے، لیکن پھر سوال یہ ہے کہ جناب عمار خان ناصر نے اس کی نشاندہی یا اصلاح کیوں نہیں کی؟ جواب سنیے! فرماتے ہیں کہ:’’علمی دیانت کا تقاضا یہ تھا کہ کائزر نے الجزائری کی شخصیت کو جس طرح سمجھا اور پیش کیا ہے، اسے اسی طرح رہنے دیا جائے‘‘۔ سبحان اللہ! یعنی اگر کوئی شخص اپنے ذاتی رجحانات و تعصبات کی خاطر دوسرے کی شخصیت کو مسخ کرکے پیش کرتا ہے تو اس کی اس کاوِش کو سر آنکھوں پر رکھا جائے، اسے عام کیا جائے، تاہم ’’علمی دیانت‘‘ کی خاطر اس کی اس فریب کاری کا پردہ بالکل چاک نہ کیا جائے۔ جناب مولانا زاہد الراشدی اور جناب عمار خان ناصر، دونوں نے اس کتاب کا تفصیل سے مطالعہ کیا ہے، مولانا راشدی صاحب نے صرف کائزر کی ایک خیانت کا ذکر کیا ہے جبکہ جناب عمار خان ناصر نے دورانِ مطالعہ ’’کھٹکنے‘‘ والی ایک بات کا بھی ذکر نہیں فرمایا اور ایک کافر امریکی کی لکھی ہوئی کتاب کو ’’پوری دیانت داری ‘‘ کے ساتھ عوام الناس کی خدمت میں پیش کردیا ہے۔ کیا اس عمل کو ’’غیر ذمہ داری‘‘ سے کم بھی کوئی عنوان دیا جا سکتا ہے؟
(۱۴) جناب مولانا زاہد الراشدی نے کائزر کی کتاب کے مقدمے میں فرمایا ہے کہ کائزر نے جناب عبد القادر الجزائری کے فلسفہ وحدۃ الوجود کو وحدتِ ادیان کی شکل میں پیش کیا ہے۔ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ جناب کائزر نے ہی ایسا کیا ہے اور در حقیقت جناب الجزائری کے نظریات وہ نہیں ہیں جو کتاب میں پیش کیے گئے ہیں، جن میں یہودیوں اور عیسائیوں کو مسلمان کہا گیا ہے؟کیا اس بارے میں الجزائری کے صحیح خیالات و افکار کسی مستند حوالے سے پیش کیے جا سکتے ہیں؟ 
امید ہے ان گذارشات پر ضرور غور فرمائیں گے۔
محمد یامین، اسلام آباد
m.yameen2013@hotmail.com
(۳)
جناب عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
آپ کے زیر ادارت چلنے والے ماہنامہ الشریعہ کے امسال جولائی والے شمارے میں محسن علی نجفی صاحب کا مکتوب کھٹکتا ہوانظر سے گزرا۔تعجب خیز باتوں سے بھرا ہوا یہ مکتوب میں ہضم نہ کر سکا۔اس مکتوب میں کتنا جھوٹ ،کتنا سچ ہے؟ اس بارے میں چند باتیں عرض کرنی ہیں۔
۱......میرے خیال میں شیعہ ذمہ داران کو یہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں کہ انہیں صرف عوام کا تعاون حاصل ہے،اور فلاں فلاں’’صاحب خیر‘‘ ہمارا حامی و مددگارہے۔کیونکہ ایرانی سفارتخانے کی سرگرمیاں ،پاکستان کی صدارتی ٹیم کی بالخصوص اور سابقہ حکمران پارلیمانی ٹیم کے بالعموم ،ایرانی حکومت کیساتھ تعلقات،اورپاڑاچنار کے فسادات میں ایران کا مالی اورجانی طور پراہل تشیع کی مدد کرنا ساری دنیا کے سامنے ہے۔ویسے بھی اگر ایران کے ستر فیصد بجٹ کے درامدِ انقلاب والی بات [گزشتہ ماہ کے عربی مکتوب بطور حوالہ ملاحظہ کریں] پر غور کریں تو ہمارا مندرجہ بالا دعویٰ آشکارا ہو جائے گا۔گزشتہ کچھ عرصہ میں جب اہم صدارتی شخصیات کے دورہ ایرا ن اور خامنہ ای صاحب کے ’’دربار عالیہ‘‘ میں موجودگی کی جو تصویریں انٹر نیٹ پر گردش کرتی رہیں ہیں،اگر ان کا معائنہ کیا جائے تو ان تصاویر میںآپ کو صدر مملکت اور ان کے صاحبزادے بصد احترام،ننگے پاؤں سرجھکائے نظر آئیں گے،اور ان کے بالمقابل بیٹھے خامنہ ای صاحب اعلیٰ ترین مناصب پر فائزاپنے روحانی بیٹوں کے سامنے سر اٹھائے محوِ گفتگونظر آئیں گے ۔
ویسے اگر شیعہ اداروں کو امداد پہنچانے کے لیے اگر چند نمائشی’’مخیرحضرات‘‘کا ذریعہ استعمال کیا جاتا ہو توبھی ’’غیر ملکی قوت ‘‘سے موصول ہونے والی امداد کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ظاہر ہے کہ جس ملک کے سربراہان شیعہ جیسی حساس اقلیت سے تعلق رکھتے ہوں ،وہاں ’’جامعہ الکوثر‘‘جیسے بڑے بڑے اداروں کی موجودگی ناگزیر ہے۔
۲.......شیعہ مکتوب نگارنے پاکستان کے شیعوں کی ایران سے وفاداری کا انکار کیا ہے۔شیعہ اگر اپنے روحانی مرکز کی، جس نے ہمیشہ ہر معاملے پر پشت پناہی کی ہے،وفاداری نہیں کریں گے تو کس سے کریں گے؟مزید لکھاہے کہ’’نواصب کو چھوڑ کر ہم یہاں کے رہنے والوں سے بھی محبت رکھتے ہیں‘‘۔ بالکل سچ فرمایا، سنّی مسلمان، جنہیں آپ عموماً نواصب کے لقب سے یاد کرتے ہیں، ان کے علاوہ آپ ہر ہندو، سکھ، عیسائی سے محبت کرسکتے ہیں لیکن سنّی مسلمان سے آپ کی محبت؟ ناممکن... نواصب سے کون مراد ہیں؟ میں آپ کے ’’شیخ الاسلام‘‘ ملا باقر مجلسی کا حوالہ عرض کرتا ہوں، ملا باقر مجلسی لکھتے ہیں:
’’جو شخص حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کو حضرت علی سے پہلے خلیفہ مانتا ہو، وہ ناصبی ہے۔‘‘(حق الیقین ص ۵۲۱)
نیز سنّی مسلمان کی جو قدر قیمت آپ حضرات کے یہاں ہے وہ بھی انہی ’’شیخ الاسلام‘‘ صاحب کی زبانی بیان ہو جائے تو بہت مناسب ہے۔ لکھتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے کتّے سے بدتر مخلوق پیدا نہیں کی، اور ناصبی خدا تعالیٰ کے نزدیک کتے سے بھی بدتر ہے‘‘۔(حق الیقین ص ۵۱۶)
یہ ملا باقر مجلسی وہ صاحب ہیں جنہیں شیعہ کے ہاں قدوۃ المحدثین، عمدۃ المجتہدین اور شیخ الاسلام کا درجہ حاصل ہے اور جن کی کتب کے مطالعہ کی جناب خمینی نے شیعہ حضرات کو بارہا تاکید فرمائی ہے۔تعجب ہے کہ اب بھی آپ سنّی حضرات کو اپنی ’’محبت‘‘ کا جھانسہ دینے کی کوشش کرتے ہیں:
وعدہ کوئی جھوٹا، کوئی جھوٹی سی تسلّی
دل کیسے کھلونوں سے بہلنے کے لیے ہے
محترم مدیر صاحب !میں آپ کے توسط سے شیعہ مکتوب نگار کو یاد دلانا چاہوں گا کہ پاڑا چنار میں سینکڑوں اہل سنت بشمول بچوں اور عورتوں کا قتل عام،ناموس صحابہؓ کے عنوان سے کام کرنے والے بیسیوں علماء کرام اور ہزاروں مذہبی کارکنوں کی سپاہ محمد کے ہاتھوں شہادتوں اور گزشتہ کچھ عرصہ میں چکوال ،جہلم اور جھنگ میں اہل سنت کی مقدس شخصیات کی سر عام کیجانیوالی توہین کے واقعات بھی ملت تشیع کی جانب سے ’’والہانہ محبت‘‘ کے مظاہر ہیں ۔مکتوب نگار لکھتے ہیں’’اس وطن کی تعمیرمیں ہمارا بھی بہت وافر حصہ ہے‘‘۔اس جملے پر صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ جناب محسن علی نجفی صاحب!سکندر مرزا،آصف علی زرداری اور الطاف حسین جیسی کٹر شیعہ شخصیات کا واقعتاپاکستان کی’’ تعمیروترقی‘‘میں بہت وافر حصہ ہے۔
۳......اگر تو شیعہ مکتوب نگار کا موقف یہ ہے کہ پاکستان اور ایران کے مابین کبھی جنگ چھڑ ہی نہیں سکتی،تو میرے خیال میں یہ ان کے’’ تخیل کی اپچ اور بدگمانی کا کرشمہ‘‘ ہے۔اگر زمینی حقائق کے لحاظ سے دیکھا جائے توپاکستان اور ایران نظریاتی طور پر ایک دوسرے کے بالکل الٹ ،بلکہ دشمن کہیں تو زیادہ حقیقت پسندانہ بات ہوگی۔یہی وجہ ہے کہ سرحدات پر ان دو مختلف نظریات کا ٹکراؤ بد امنی اورتخریب کاری کا باعث بنا رہتا ہے،اور ان دو مختلف عقائدو نظریات کی کشمکش کسی بھی بڑی جنگ کا باعث بن سکتی ہے۔مثال کے طور پر بیسیوں میں سے چند واقعات پیش کروں گا۔
ا.....۲۷ جنوری ۲۰۱۲کو ایرانی فوجی دستوں نے پاکستانی سرحدات میں بلا اشتعال شدیدفائرنگ کی،جس کے نتیجے میں ۶ پاکستانی افراد شہید اور ۴ شدید زخمی ہوگئے تھے۔
ب.....۸دسمبر ۲۰۱۱ کو ایرانی فوجی دستوں نے پاکستانی بحری سرحد میں فائیرنگ کرکے ۳مچھیروں کو شہید اور ۲ کو شدیدزخمی کردیا تھا۔
پ....اس سے قبل مشرف دور میں ایرانی فوج کی جانب سے پاکستانی سرحد میں راکٹ فائر کرنے کے کئی واقعات ہوئے،اور اب بھی کشیدگی کے باعث پاک ایران سرحد بند ہے۔
۴.....شیعہ مکتوب نگار کا یہ لکھنا کہ’’اہل تشیع قرآن پر ایمان رکھتے ہیں اوراور قرآن اہل ایمان کے مابین جنگ چھڑنے پر دونوں گروہوں کے درمیان صلح کرانے یا زیادتی کرنے والے گروہ کے مقابلے میں کھڑے ہوجانے کی تعلیم دیتا ہے‘‘ بھی کافی غور طلب ہے،کیا شیعہ قرآن پر ایمان رکھتے ہیں؟ میں صدیوں پہلے کی شیعہ کتب کے حوالے نہیں دیتا، اسی پاکستان سے شائع ہونے والے مشہور شیعہ ماہنامے ’’خیر العمل‘‘ کے اقتباس بقل کرتا ہوں جو صفِ اوّل کے شیعہ مجلات میں سے ایک ہے۔ اس ماہنامہ کے شمارہ نومبر ۱۹۸۷ء میں اسی ماہنامہ کے مدیرِ اعلی ڈاکٹر حسن عسکری صاحب لکھتے ہیں:
(۱) اگرچہ حضرت علی کے مرتب کئے ہوئے قرآن کو سرکاری طور پر مسترد کردیا گیا تھا، مگر انہوں نے اپنی ظاہری خلافت کے دور میں بھی اسے رائج کرنے کی کوشش نہ فرمائی مگر انہوں نے یہ ضرور کیا کہ مفسرین قرآن کی ایک جماعت بنائی جس نے قرآن مجید کے معانی و مطالب کو ماثورہ روایات و احادیث سے محفوظ کرلیا۔ اور وہ بتلاتے چلے گئے کہ اس جمع شدہ قرآن میں ترکیب و ترتیب اور آیات کی تقدیم و تاخیر میں کیا کیا خرابی ہوئی ہے۔
(۲) یہ الٹ پلٹ اتفاقاً ہوئی یا غفلتاً، عمداً یا التزاماً، مگر اس سے کلام اللہ میں مبحث خلط ملط ہو کر رہ گئے۔
قرآن پاک نے کفار کو جو چیلنج دیا ہے کہ اس قرآن کے مثل کوئی ایک سورت بھی بنا کر دکھاؤ تو اس کے متعلق لکھتے ہیں:
(۳) آج بھی اللہ کا یہ چیلنج قرآن و اللہ و رسول اللہ ﷺ کی تکذیب کرنے والوں کے لیے قائم ہے مگر جامعین قرآن کی غلط ترتیب سے یہ غیر منطقی بلکہ قدرے مضحکہ خیزبن گیا ہے۔ (نعوذ باللہ من ذالک)
(۴) الٹا غیر منطقی ہونے کا الزام اللہ تعالیٰ پر دھرنے کی بجائے یہی بہتر ہے کہ جامعین و مرتبین قرآن پر اسے دھرا جائے جنہوں نے اِدھر کی آیت کو اُدھر جوڑ دیا اور اُدھر والی کو اِدھر۔
(۵) قرآن بین الدفتین جمع کرنے والوں اور اس پر اعراب و اوقاف لگانے والوں کا مطمحِ نظر بڑی آسانی سے سمجھ میں آجاتا ہے جب یہ سمجھ لیں کہ سقیفائی خلافتوں (چونکہ حضرت ابوبکرؓ کی خلافت سقیفہ بنو ساعدہ میں منعقد ہوئی تھی اس لئے حضرات شیعہ خلفائے ثلاثہ کے لیے سقیفائی خلافت کا لفظ استعمال کرتے ہیں) کی مدِ مقابل وہی شخصیت تھی جسے آنحضرت رسول اللہ ﷺ نے اپنے بعد خلافت پر نصب و مقرر کیا تھا یعنی علی بن ابی طالب علیہ السلام، لہذا ان کے متعلق آیات پر ہی سقیفائی رندہ پھیرا گیا اور ایک مؤطا قرآن تیار کیا گیا جس میں فضائلِ علی کی صفائی کی گئی۔
(۶) تنزیل قرآن میں بنو امیہ اور دوسرے قریش کے ستر منافقین کے بد نام نازل ہوئے تھے جو مصحف عثمانی سے مفقود ہیں۔
کیا اب بھی جناب نجفی صاحب یہ راگنی گائیں گے کہ وہ قرآن پر ایمان رکھتے ہیں؟ 
جناب نجفی صاحب! کیاشام میں ایک لاکھ سے زائد اہل سنت کے قتل عام میں شامی نصیری حکومت و فوج،ایرانی فوج اور حزب اللہ ملوث نہیں؟کیا حافظ الاسد نے اپنے دور میں حماہ شہر کی گلیوں کو پچاس ہزار اہل سنت کے خون سے رنگین نہیں کیا؟کیاعراقی شیعہ حکومت ہزاروں اہل سنت کے قتل کی ذمہ دار نہیں؟کیا ایرانی حکومت اہل سنت کے حقوق چھیننے کی ذمہ دار نہیں؟کیا ایرانی فضائیہ نے حضرت خالد ابن ولیدؓ کے مزار پر بمباری نہیں کی؟کیا حضرت ثابت بن قیسؓ کے مزار مبارک اور جسد اطہرکی بیحرمتی کاندھوں پر افسری کے تمغے سجائے شامی فوجی افسران نے نہیں کی؟کیا پاڑا چنار میں سینکڑوں اہل سنت کے قتل کی ذمہ دارمقامی شیعہ آبادی نہیں؟کیا حج کے موقع پر دھماکے اور بدامنی پھیلانے کا ذمہ دار ایران نہیں؟ابھی میں جب یہ سطور لکھ رہا ہوں،شام کے اہل سنت اکثریت والے شہر حمص کے شامی فوج کی جانب سے کیے جانیوالے محاصرے کو ایک سال سے زائد عرصہ ہونے کو ہے،روزانہ کئی افراد بھوک کی وجہ سے شہید ہو رہے ہیں،مقامی علماء نے اس حالت میں بلی اور گھوڑے کا گوشت کھانے کی اجازت دے دی ہے،اورمقامی اہل سنت صرف حضرت خالد ابن ولیدؓ کے مزار اور جسد کو نصیری فوج کے انتقام سے بچانے کی خاطر حمص شہر شیعہ فوج کے حوالے کرنے کو تیار نہیں۔اللہ اکبر!محسن علی نجفی صاحب!کیا وجہ ہے ہزارہ کے شیعہ کا نقصان ہوتا ہے ،یا بحرین میں شیعہ کے خلاف کریک ڈاؤن تو ساری ملت شیعہ پاکستان کی سڑکوں پر سراپا احتجاج نظر آتی ہے،مگر ایرانی،عراقی اور شامی حکومتوں کے جرائم پر اتنی خاموشی؟ اگر شیعہ ، سنیوں کو بھی مسلمان اور اپنا بھائی سمجھتے ہیں تو ان کے اوپر ہونے والے دلدوز مظالم پر اتنی بے حسی اور خاموشی کیوں؟کیا اکابرین شیعہ نے ان حکومتوں کے جرائم کے خلاف فتوے جاری کئے؟کیا عراق کے مرجع کے جس کے ساتھ آپ کی نسبت ہے نے ان جرائم کی روک تھام کیلئے کوئی اقدام کیا؟زیادتی کرنے والے گروہ کا مقابلہ کرنا تو دور کی بات،اکابرین شیعہ تو ان حکومتوں کی تعریف و توصیف میں مگن ہیں۔ظلم تو یہ ہے کہ معتبرشیعہ علماء کی سرپرستی میں کام کرنے والا ادارہ’’پیام اسلامی ثقافتی مرکز‘‘تو حزب اللہ کے مثالی اور قابل تقلید طرز عمل کی تشہیر اور ادارہ’’ سچ ٹی وی‘‘ شامی حکومت کی صفائیاں پیش کرتا رہا ہے۔پس قوم شیعہ کے اس طرز عمل پتا چلتا ہے کہ یا تو اہل تشیع کا قرآن پر ایمان نہیں ہے،یا پھر وہ اہل سنت کو اہل ایمان سمجھتے نہیں۔
۵.....شیعہ مکتوب نگارنے اپنی تحریر میںیہ موقف اختیار کیا ہے کہ انہیں پاکستان سے تعلق رکھنے والی کسی شیعہ عسکری تنظیم کاعلم نہیں جو شام میں جاکر لڑرہی ہو،اور اگر کوئی ایسی مفروضہ تنظیمیں ہوتیں تو وہ پاکستان میں دہشت گردی کا شکارہونے والوں کا دفاع کرتیں،وغیرہ وغیرہ۔تو عرض یہ ہے کہ اہل تشیع کو ایران کے علاوہ تقریبا وہ تمام مسلم خطے جہاں شیعہ کی ایک معقول آبادی موجود ہے ،ایسی نام نہاد’’ دہشت گردی‘‘ کاسامناہے،مگر شام کا مسئلہ ملت شیعہ کے لیے خطے میں قائم فوجی برتری کی بقاء کا مسئلہ ہے ۔اسی لیئے ملت شیعہ ہر قسم کی چھوٹی موٹی مشکلات کو بالائے طاق رکھ کر شامی نصیری حکومت کو بچانے کے لیے میدان میں کود پڑی ہے۔مثال کے طور پر:-
ا-لبنان میں شیعوں کو شیخ احمد الاسیر کے سنی پیرو کاروں کی طرف سے شدید چیلنجز کاسامنارہتا ہے۔خصوصاََلبنان کے سرحدی شہر طرابلس اکثر حزب اللہ اورسنیوں کے درمیان میدان جنگ بنا رہتا ہے۔لیکن اس کے باوجود شام کے شہر القصیر کی جنگ میں حزب اللہ نے خصوصی طور پر شرکت کی تھی ۔حزب اللہ نے اس جنگ کو کتنی اہمیت دی؟اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے حزب اللہ کے دستوں کی کمان حسن نصر اللہ کے بھائی خضر نصر اللہ کے ہاتھ میں تھی جو کہ اس جنگ میں مارا گیا تھا۔اس کے جنازے کی انٹرنیٹ پر موجود ویڈیو اس بات کی شاہد ہے۔
ب-عراق میں شیعی حکومت کے مظالم کے جواب میں القاعدہ کے ارکان اکثر شیعہ عسکری قوتوں پر حملے کرتے رہتے ہیں،اور اب تو بہت سے سنی قبائل نے بھی ان مظالم کے جواب میں القائدہ کے شانہ بشانہ اس لڑائی میں حصہ لینا شروع کردیا ہے۔بہت سے قبائلی علاقوں میں کسی بھی شیعہ یا حکومت سے متعلق شخص کا داخلہ ممنوع ہے۔لیکن اس سب کے باوجودعراقی شیعہ تنظیموں،ابو فضل عباس بریگیڈ اور جیش المہدی کے سیکڑوں اہلکار دمشق کے علاقے میں مارے جا چکے اور کئی حریت پسندوں کی حراست میں ہیں ۔
پ-یمن میں جب سے حوثی قبیلہ سے تعلق رکھنے والے اہل تشیع نے ایرانی اسلحہ کے بل بوتے پر اپنے اڑوس پڑوس میں اہل سنت پر حملے شروع کیے ہیں،تب سے القاعدہ کے ارکان کئی حملوں میں حوثیوں کو شدید نقصان پہنچا چکے ہیں۔یہاں تک کہ حوثیوں کی اعلیٰ ترین قیاد ت یعنی حو ثی سردار ،بد ر الدین حوثی اور حسین الدین حوثی بھی ایک خودکش حملے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔لیکن اس کے باوجود بہت سے یمنی شیعوں کی شام میں ہلاکتوں کی خبریں آچکی ہیں۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کے محسن علی نجفی صاحب کواگر پاکستانی شیعوں کی شام میں موجودگی کی خبر دی گئی ہے تو انہیں ’’ہمیں علم نہیں‘‘اور’’ اگر مفروضہ تنظیمیں ہوتیں تو اپنے ہم وطن شیعوں کا دفاع کرتیں‘‘ جیسی بے وجہ تاویلات کرکے جان چھڑانے اور حیران ہونے کے بجائے تسلیم کرلینا چاہیے تھا۔مگر ظاہر ہے کہ اگر پیشوایانِ شیعہ حقیقت کو تسلیم کر لیں گے تو اپنے مذہب کا وجود کیسے برقراررکھ پائیں گے؟۔سب سے بڑھ کر یہ کہ حقیقت اور انصاف پسندی جیسے جذبات سے عاری اپنی عوام کو کیا منہ دکھائیں گے؟
۶....شیعہ مکتوب نگارنے اپنے پانچویں نمبر کے تحت دہشت گردی کی اپنی ملت کی طرف نسبت کا انکار کیا ہے۔مندرجہ بالا سطور میں ہم نے ملت شیعہ کی موجودہ دور میں کی گئی دہشت گردی کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔اس کے علاوہ اگرماضی میں ملت شیعہ کی مسلمانوں سے کی گئی غداریوں کا مطالعہ کیا جائے تو ان کا ایمان بالقرآن کا مفروضہ مزید واضع ہو جائے گا ۔علاوہ ازیں مکتوب نگار نے تکفیر کی نسبت کا بھی انکار کیا ہے،حالانکہ اہل سنت کی تکفیر کی بیماری ان کے ہاں عام ہے۔اصحابِ رسول اللہ ﷺ کی تکفیر تو بہت سے علماء کے خطبات کا لازمی جزو اور ان کے سینکڑوں سالہ لٹریچر کی شان اور جان ہے۔نعوذ باللہ!نجانے اصول کافی اور انوار البحارجیسی بیسیوں کتب میں تکفیر کے زہر بھرے تیر کن بدنصیبوں کی قسمت کا حصہ بنائے گئے ہیں۔پس، ثابت ہوا کہ شیعہ مکتوب نگا ر نے دہشت گردی اور تکفیر کے’’ تِلک‘‘کو اپنے ماتھے سے ہٹانے کی ناکام کوشش کی اورلگتا یہ ہے کہ ’’وہ اپنے عالم تصور میں چیزوں کو بالکل الٹا دیکھتے ہیں‘‘۔
آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں حقائق کو جاننے کی توفیق دے اور حقائق کومسخ کرنے کی جسارت سے ہمیں دور رکھے۔اے اللہ! تو ہمیں منافقوں سے اور اسلام کے پردے میں چھپے اسلام کے دشمنوں سے بچا۔بیشک تو دعاؤں کو سننے والا ہے۔
محمد حمزہ بلال ہنجرا ( بھوانہ، چنیوٹ)
hamzah.hanjra@gmail.com
(۴)
(گزشتہ شمارے میں جامعۃ الکوثر کے مدیر شیخ محسن علی نجفی صاحب کے ایک مکتوب کا اردو ترجمہ شائع کیا گیا تھا۔ صاحب مکتوب کی خواہش پر اس کا اصل عربی متن بھی یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ مدیر)
قرات رسالۃ باللغۃ العربیۃ فی مجلتکم الموقرۃ ردا علی رسالۃ الدکتور ممتاز احمد رئیس الجامعۃ الاسلامیۃ العالمیۃ اسلام آباد تثور علی شیعۃ باکستان وتذکر مدارس الشیعۃ فی اسلام آباد۔ یقول کاتب الرسالۃ فی لحن بما یلیقہ ’’ان فی اسلام آباد سبع جامعات شیعیۃ کبیرۃ اصغرہا تفوق اکبر جامعۃ سنیۃ بمراحل وجامعۃ الکوثر فی قلب العاصمۃ تدیر قناۃ بالاردیۃ بنفس الاسم‘‘۔
اقرا ہذہ العبارۃ ’’اصغرہا تفوق اکبر جامعۃ سنیۃ بمراحل‘‘۔
اقدم الیکم ملاحظاتی علی ہذہ الرسالۃ ونلفت نظرکم بان غرضی من تقدیم ہذہ الرسالۃ ہو بیان عدم مصداقیۃ النکات التی تتعلق بنا ولیس غرضی الدفاع عن اعمال غیرنا۔
۱۔ انی ادیر مدرستین فی اسلام آباد: جامعۃ اہل البیت اسست سنۃ ۱۹۷۵ء وجامعۃ الکوثر اسست سنۃ ۱۹۹۲ء ولیست لہاتین المدرستین ولقناۃ (ہادی) ولیس (الکوثر) ایۃ صلۃ مع ای جہۃ اجنبیۃ لا سیاسیا ولا اقتصادیا ولا اداریا علی الاطلاق، وان اسماء المتبرعین لبناء جامعۃ الکوثر مکتوبۃ علی جدران الجامعۃ۔
۲۔ یقول کاتب الرسالۃ ’’لماذا قضت ایران علی جمیع المراجع الشیعیۃ وسحبت البساط من تحت اقدام نجف‘‘۔
لیس فی وسع احد القضاء علی المرجعیۃ الدینیۃ لانہا عندنا لیست تابعۃ لای سیاسۃ کما ان المرجع الاعلی للشیعۃ الآن فی العراق فی النجف الاشرف۔
۳۔ وان کان ہناک انتماء فاننا ننتمی الی المرجعیۃ فی العراق وباذن من المرجع فی العراق ناخذ الاموال الشرعیۃ من الناس وتدار المدارس الدینیۃ بہا، کما ان الدیوبندی ینتمی الی جامعۃ دیوبند الاسلامیۃ ویراجع الی علماۂا لما لہا من الاصالۃ والاتقان۔
۴۔ یقول کاتب الرسالۃ ’’قل لی بربک ہل یوالی شیعۃ بلدک باکستان بلدہم ام یوالون ایران؟‘‘
ماذا اعلق علی ہذہ الکلمات سوی ان اقول: انا للہ وانا الیہ راجعون؟ اننا نحب بربنا وطننا العزیز باکستان وانہ احلی وطن واننا نحب اہل ہذا الوطن سوی النواصب۔ واننا قدمنا تضحیات لیست باقل من ای مواطن آخر عندما نشبت الحروب بین باکستان وبین اعداۂا، وان سہمنا اوفر فی بناء ہذا الوطن۔
واما قولہ ’’واذا لا سمح اللہ نشبت حرب بین البلدین الا یقاتلون فی خندق ایران؟‘‘ فہو ولید زعمہ وسوء ظنہ بل ہو مما یقولہ السوقۃ حیث لا تکون امانۃ فی النقل ولا حاجز من تقوی اللہ، ولانہ تنبئ منہ بما لم یقع ولن یقع من الذین یؤمنون بالقرآن اذ القرآن یحکم بوجوب القیام بالاصلاح او القیام بوجہ المعتدی عند نشوب حرب بین المومنین، ویمکن ان یکون ہناک اخطاء فی تشخیص الموضوع۔
۵۔ اننا لا نعرف ملیشیات شیعیۃ باکستانیۃ تقاتل فی سوریۃ۔ الیس کان من الواجب علی ہولاء الملیشیات المزعومۃ ان تدافع عن ضحایا الارہاب فی باکستان وان تقاتل الذین یقومون بعملیات انتحاریۃ بین حین وآخر ویسفکون دماء الابریاء العزل من النساء والصبیان ویہتکون حرمات المساجد وبیوت المسلمین، خاصۃ الشیعۃ منہم؟
۶۔ ومما یضحک بہ الثکلی نسبۃ کاتب الرسالۃ الارہاب والتکفیر الی الآخرین، کانہ یری الاشیاء فی عالم الخیال معکوسا۔
۷۔ الم یکن من المناسب لکتاب الرسالۃ المثقف مراعاۃ ادب النقد واختیار اسلوب حضاری فی الخطاب؟ وکانی اشم رائحۃ ....... من اظافر قلمہ۔
ہذہ ملاحظاتی علی النکات التی تتعلق بنا ومن ہو اعرف بامورنا منا۔
واخیرا نسئل المولی سبحانہ ان یوفقنا للوصول الی الحقائق ونعوذ بہ من ان نرتکب بقلب الحقائق۔ اللہم جنبنا من الافتراء ومتابعۃ الاہواء ولا تفتنا بالحقد والبغضاء، انک سمیع الدعاء۔
والسلام علی من اتبع الہدی وخشی عواقب الردی۔
محسن علی
مدیر جامعۃ الکوثر، اسلام آباد

سالانہ دورۂ تفسیر و محاضرات قرآنی ۲۰۱۳ء

ادارہ

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے زیر اہتمام حسب سابق امسال بھی شعبان ورمضان کی تعطیلات میں دینی مدارس کے منتہی طلبہ کے لیے سالانہ دورۂ تفسیر ومحاضرات قرآنی کا اہتما م کیا گیا جو ۸ شعبان/۱۷ جون سے شروع ہو کر ۱۱ رمضان/ ۲۱ جولائی تک جاری رہا۔ جید اساتذہ کرام کی ایک جماعت نے اپنے اپنے ذوق کے مطابق شرکاء کو تفسیر کا درس دیا، جبکہ مختلف علمی اداروں سے تعلق رکھنے والے اہل علم کو علوم قرآنی کے مختلف پہلووں پر محاضرات کے لیے مدعو کیا گیا۔
قرآن مجید کے مختلف حصوں کی تدریس کی ذمہ داری انجام دینے والے اساتذہ کی تفصیل حسب ذیل ہے:

۱۔ مولانا زاہد الراشدی
شیخ الحدیث مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ
سورۃ الفاتحہ تا سورۃ الاعراف۔ الانفال والتوبہ

۲۔ مولانا فضل الہادی
استاذ الحدیث مدرسہ اشاعت الاسلام، مانسہرہ
سورۃ الاعراف۔ سورۂ یونس تا بنی اسرائیل۔ سورۃ الانبیاء تا النور

۳۔ مولانا ظفر فیاض 
استاذ الحدیث مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ
سورۃ الکہف تا الانبیاء ۔ سورۃ الفرقان تا فاطر

۴۔ مولانا محمد یوسف
مہتمم مدرسہ ابو ایوب انصاری، گوجرانوالہ
سورۃ یس تا سورۃ الحجرات

۵۔ مولانا وقار احمد
لیکچرر گورنمنٹ کالج، خان پور، ہری پور
سورۃ ق تا سورۃ القمر

۶۔ مولانا حافظ محمد رشید
لیکچرر گورنمنٹ کالج، ڈسکہ
سورۃ الرحمن تا سورۃ التحریم

۷۔ مولانا عمار خان ناصر
ڈپٹی ڈائریکٹر الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ
سورۃ الملک تا سورۃ الناس

درج ذیل حضرات نے مختلف موضوعات سے متعلق علمی محاضرات پیش کیے:

۱۔ مولانا زاہد الراشدی
الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ
احکام القرآن اور جدید وضعی قوانین کا تقابل (۲۰ محاضرات)

۲۔ مولانا مفتی محمد زاہد
جامعہ اسلامیہ امدادیہ، فیصل آباد
فہم قرآن میں حدیث وسنت سے استفادہ کے مختلف پہلو

۳۔ مولانا عمار خان ناصر
الشریعہ اکادمی، گوجرانوالہ
۱۔ مکی ومدنی سورتوں میں مضامین اور اسلوب کا فرق
۲۔ مختلف تفسیری اقوال میں ترجیح کے اصول مع تدریب (۲ محاضرات)

۴۔ حافظ نصیر احمد احرار
شیخ الہند اکادمی، لاہور
شیخ الہند ؒ اور ترجمہ قرآن

۵۔ ڈاکٹر فیروز شاہ کھگہ
سرگودھا یونیورسٹی، سرگودھا
قرآن کریم سے متعلق مستشرقین کے مختلف اعتراضات کا جائزہ

۶۔ میاں انعام الرحمن
اسلامیہ کالج، گوجرانوالہ
مروجہ سیاسی وحکومتی نظام کا تعارف

۷۔ مولانا وقار احمد
گورنمنٹ کالج، خانپور، ہری پور
مولانا محمد قاسم نانوتوی کا مسلکی اعتدال

۸۔ ڈاکٹر عبد الماجد المشرقی
المشرق سائنس کالج، گوجرانوالہ
جدید طبقات میں درس قرآن کے اصول

۹۔ مولانا محمد سلیمان اسدی
گورنمنٹ کالج، پسرور
تاریخ تفسیر ومفسرین

۱۰۔ مولانا محمد سرور خان
پیاس یونیورسٹی، اسلام آباد
اصول تحقیق، موضوع تحقیق کا انتخاب 

۱۱۔ مولانا حافظ محمد رشید
گورنمنٹ کالج، ڈسکہ
اصول تحقیق کا تعارف (۳ محاضرات)

۱۲۔ مولانا سید متین احمد شاہ
ادارۂ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد
۱۔ قرآن کریم کا بلاغی اعجاز
۲۔ قرآن کریم کی سائنسی تفسیر، اصول وارتقا

دورۂ تفسیر میں ملک کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے تین درجن کے قریب طلبہ نے شرکت کی۔ کامیابی سے دورۂ تفسیر کی تکمیل کے بعد سند حاصل کرنے والے طلبہ کے نام اور پتے حسب ذیل ہیں:

۱۔ ذو الفقار احمد بن محمد ایوب قریشی
جامع مسجد تقویٰ، مانسہرہ

۲۔ حسن علی الحسینی بن محمد شریف
کلورکوٹ، ضلع بھکر

۳۔ فتح اللہ بن سیف اللہ
تحصیل الائی، ضلع بٹگرام

۴۔ عبید اللہ بن محمد امین
مکڑ ہامیانہ، ضلع مانسہرہ

۵۔ محمد اویس بن محمد حسن معاویہ
نیو سول لائن، گوجرانوالہ

۶۔ محمد فاروق بن محمد انور
کامونکی، ضلع گوجرانوالہ

۷۔ محمد عمر بن محمد یونس
شاہدرہ، لاہور

۸۔ شوکت علی بن حاجی حضرت نور
ٹل، ضلع مانسہرہ

۹۔ حمید صادق بن 
بیس بن، ضلع خان پور

۱۰۔ عبد السلام بن عبد الخالق عباسی
دھیر کوٹ، آزاد کشمیر

۱۱۔ محمد عابد بن عبد القیوم
خاکی، ضلع مانسہرہ

۱۲۔ خبیب الرحمن بن مولانا جمیل الرحمن 
باغبان پورہ، لاہور

۱۳۔ محمد شفیق بن محمد رفیق
میرا بالا، ضلع مانسہر

۱۴۔ محمد عامر بن اورنگ زیب
تابوال، ضلع ایبٹ آباد

۱۵۔ عثمان فاروق بن فاروق حسین
گوجر خان، ضلع راول پنڈی

۱۶۔ اورنگ زیب بن شاہ عالم
ٹیکسلا، ضلع راول پنڈی

۱۷۔ محمد طیب بن ینو خان
ڈڈیال، ضلع میر پور

۱۸۔ محمد نواز بن امیر نواز
معروف خیل، ضلع چارسدہ

۱۹۔ عبد الرحمن بن محمد رفیق
کنگنی والا، گوجرانوالہ

۲۰۔ عبد البصیر بن علی حیدر
بیلہ، ضلع ہری پور

۲۱۔ شبیر احمد بن محمد رفیق
تاجل، مانسہر

۲۲۔ امرؤ اللہ بن محمد انور
الائی، ضلع بٹگرام

۲۳۔ محمد اسد بن محمد نواز
جھنگڑ، ضلع مانسہر

۲۴۔ اختر عبد الرحمن بن رحمن بادشاہ
خانپور، ضلع شیخوپورہ

۲۵۔ نقیب اللہ بن علی محمد
کوئٹہ، بلوچستان

۲۶۔ تحمید جان بن عبد الغفار
نیموڑے، ضلع چارسدہ

۲۷۔ شبیر احمد بن منتظر
گانگو، ضلع چارسدہ

۲۸۔ عثمان حیدر بن اشتیاق احمد
کروڑ لعل عیسن، ضلع لیہ

۲۹۔ محمد ایوب بن محمد اسماعیل
خانپور، ضلع رحیم یار خان

۳۰۔ عثمان حیدر بن محمد رؤف عثمانی
کروڑ لعل عیسن، ضلع لیہ

۳۱۔ حنیف سید شیرازی بن نواب سید
کنشائی شیراز آباد، ضلع بٹگرام

۳۲۔ ندیم اقبال بن محمد اقبال
صابوکی دندیاں، ضلع گوجرانوالہ

۳۳۔ خورشید الاسلام بن محمد اسلم
میرا مظفر، ضلع ایبٹ آباد

۳۴۔ محمد بلال فاروقی بن محمد ریاض
کینٹ، لاہور

طلبہ کے مابین علوم قرآنی کے حوالے سے ایک تحریری انعامی مقابلہ بھی منعقد کروایا گیا جس میں شرکت کرتے ہوئے گیارہ طلبہ نے مختلف موضوعات پر مختصر مقالات تحریر کیے۔ دورۂ تفسیر سے متعلق تعلیمی امورکی نگرانی کا فریضہ مولانا وقار احمد نے انجام دیا۔ دیگر انتظامی معاملات کی دیکھ بھال مولانا محمد عثمان (ناظم الشریعہ اکادمی) اور مولانا حافظ محمد رشید (استاذ الشریعہ اکادمی) کے سپرد تھی، جبکہ مولانا نذیر احمد اور قاری شبیر احمد (اساتذہ الشریعہ اکادمی) نے ان کی معاونت کی۔ انتظامی امور کی انجام دہی میں منتظمین کو محمد امجد، محمد مجاہد اور الشریعہ اکادمی کے طلبہ کا تعاون حاصل رہا۔
دورۂ تفسیر کی اختتامی تقریب ۲۱ جولائی ؍ ۱۱ رمضان کو بعد از نماز عصر الشریعہ اکادمی میں مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی (مہتمم مدرسہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ) کی زیر صدارت منعقد ہوئی جس میں مولانا داؤد احمد (شیخ الحدیث مدرسہ انوار العلوم گوجرانوالہ) اور ڈاکٹر عبد الماجد حمید المشرقی (المشرق سائنس کالج، گوجرانوالہ) نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ دورۂ تفسیر کے شرکاء میں سے مولانا تحمید جان (فاضل دار العلوم حقانیہ، اکوڑہ خٹک) نے دیگر شرکاء کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ مہمانان خصوصی نے دورۂ تفسیر کے شرکاء کو اسناد اور انعامی مقابلے میں شرکت کرنے والوں کو انعامات تقسیم کیے۔ تقریب میں حاضرین کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی کی دعا پر تقریب کا اختتام ہوا جس کے بعد حاضرین نے روزہ افطار کیا۔

امراض دل اور بلڈ پریشر کا علاج

حکیم محمد عمران مغل

اسلامی کلچر کو جن چیزوں پر فخر ہے، ان میں نظام طب سرفہرست ہے۔ مسلم اطبا نے خصوصاً عباسی دور حکومت میں اس علاج کو نہ صرف بام عروج پر پہنچایا، بلکہ عرب وعجم کے کونے کونے تک پہنچا دیا۔ مغربی اقوام آج درپردہ اس علم کو تیزی سے اپنا رہی ہیں۔ ہمارے اطبا اپنی کم علمی کی بنا پر اس میں پیوند کاری کر کے بھی عوام کے سامنے سرخ رو نہ ہو سکے۔ ہمارے اسلاف نے جس علم طب کو بڑی جانفشانی سے ہم تک پہنچایا تھا، وہ مکمل طور پر غیروں کے ہاں جا چکا ہے۔ ہماری علاج گاہوں اور گھروں میں جب تک مشرقی قندیلیں روشن رہیں، امراض ہم سے کوسوں دور رہے۔ جونہی مغربی چراغ جلنے لگے تو صحت کی مشرقی قندیلیں بجھنے لگیں۔
مشرق کی ایک سو کے قریب قندیلیں جنھیں ہم بجھا چکے ہیں، مغربی اقوام نے ان کے نام بدل کر اپنے ہاں سے نہ صرف امراض ختم کر دیے ہیں، بلکہ اربوں روپے کا زر مبادلہ بھی کما رہے ہیں۔ ان میں درخت ارجن کی مسیحائی قابل ذکر ہے۔ قدرت نے سارے ملک میں ارجن درخت وافر مقدار میں پیدا فرمایا ہے جو بلڈ پریشر اور امراض دل کا حتمی علاج ہے۔اس کے استعمال سے دل کے امراض اور بلڈ پریشر آناً فاناً کافور ہوتے دیکھے گئے۔ سڑکوں کے کنارے ارجن کا موٹا تناور درخت جابجا ملتا ہے۔ باہر سے اس کی چھال سفید اور اندر سے سرخ ہوتی ہے۔ چھال کو خشک کر کے شہد یا گڑ سے اس کی گولیاں بنا لیں۔ صبح شام سادہ پانی سے دو دو کھائیں۔ ایک ہفتے میں دل کا پھیلنا، دھڑکن، دل کا ابتدائی ہلکا سوراخ ختم۔ اطبا کا فرمان ہے کہ کورامین اس کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ آیور ویدک کا مایہ ناز نسخہ ہے۔ خزائن الادویہ کے مطابق جڑیں، چھال، پتے، پھل سب دوائی خصوصیات کے حامل ہیں۔ اس کا پھل مدھانی کی طرح کا ہوتا ہے۔ خشک ہونے پر سخت ہو جاتا ہے۔ خزائن الادویہ کے مطابق یہ زہروں کا تریاق ہے۔ اس میں پوٹاس، کیلشیم، میگنیشم، چونا، کاربن، گندھک، فاسورس جیسی قیمتی دھاتیں شامل ہیں۔ جوشاندہ بنا کر نوش کرنے کے علاوہ برابر وزن گندم کے آٹے سے حلوہ بھی گڑ ڈال کر کھا سکتے ہیں۔
اس سے پھیپھڑے کا زخم، دق، امراض پیشاب، امراض خون ختم ہو جاتے ہیں۔ جریان احتلام اور بادی بلغمی امراض کو جڑ سے ختم کر کے ٹوٹی ہڈی کو جوڑتا ہے۔ ایک سے تین ماشہ خوراک ہے۔ اس کی چھال کا شربت بھی تیار کرتے ہیں اور اس کی مسواک بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔

ستمبر ۲۰۱۳ء

’’میری علمی و مطالعاتی زندگی‘‘ (ڈاکٹر زاہد منیر عامر)عرفان احمد
پاکستانی طالبان ۔ غلبے کے اسبابمحمد اظہار الحق
مفتی محمد زاہد صاحب کے موقف پر ایک تحقیقی نظر (۲)مولانا عبد الجبار سلفی
عذابِ قبر اور قرآنِ کریم (۱)مولانا محمد عبد اللہ شارق
مکاتیبادارہ
’’میری تحریکی یاد داشتیں‘‘ (چوہدری محمد اسلم کی خود نوشت)چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ
جگر کے امراضحکیم محمد عمران مغل
مشرق وسطیٰ کی سیاسی و مذہبی کشمکشمولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’میری علمی و مطالعاتی زندگی‘‘ (ڈاکٹر زاہد منیر عامر)

عرفان احمد

(عرفان احمد بھٹی اور عبد الرؤف کے مرتب کردہ سوال نامہ کے جواب میں لکھا گیا۔)

میری مطالعاتی زندگی کی ابتدا ایک ’’چھن‘‘ سے ہوتی ہے۔ متوسط درجے کے گھرانوں کے بچے اُکھڑے ہوئے فرش والے کلاس روم میں ریشہ ریشہ وردیدہ ٹاٹوں پر بیٹھے ہیں، سرکاری اسکول کے استاد میز پر ٹانگیں رکھے سگریٹ پینے میں مشغول ہیں، دھوئیں کے مرغولے اڑ رہے ہیں، ان کا ایک مستقل مہمان میز پر بیٹھا ان سے باتیں کررہا ہے۔ اچانک ’’چھن‘‘کی ایک آواز ابھرتی ہے۔ استاد محترم جو اپنے مہمان کی بات بھی کم ہی سن رہے تھے، چونک کرسگریٹ کے دھوئیں کوفضامیں بکھیرتے ہیں اور غضب ناک ہو کر پوچھتے ہیں ’’ یہ آواز کہاں سے آئی ہے۔۔۔؟‘‘
لڑکوں کو سانپ سونگھ جاتا ہے، ساری کلاس سر جھکا کر کتابیں دیکھنے لگتی ہے گویا بہت دل جمعی سے مطالعہ ہو رہا تھا۔ استاد صاحب لڑکوں کی شان میں کچھ ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں یہ تحریر جن کا بار اٹھانے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ’’چھن‘‘ کی یہ آواز ایک روز تو ’چھناکے ‘ میں بدل گئی جب استادِ محترم نے کلاس روم کے دروازے کی اندر سے کنڈی چڑھا دی۔ طالب علموں کی نالائقی اور استادوں کا احترام نہ کرنے پر لیکچر دیا، سگریٹ نوشی کے طویل دورانیے میں لیکچر کا یہ وقفہ خلافِ معمول تھا۔ دراصل ہوا یہ تھا کہ کسی نے ان کمرہ جماعت میں سگریٹ نوشی کی بابت ہیڈماسٹر صاحب کو مطلع کردیا تھا جس پر غالباً ہیڈ ماسٹر صاحب خفا ہوئے ہوں گے، اس کا بدلہ وہ طالب علموں کو Scapegoatکر کے لینا چاہتے تھے، مکالمہ یہ تھا۔ 
اگر آپ سے کوئی کلاس میں آکر پوچھے کہ شاہ صاحب کیسا پڑھاتے ہیں تو آپ کو کیا کہنا ہے۔۔۔؟ردِ عمل میں خاموشی پا کر وہ خود جواب سمجھاتے ہیں:
بہت اچھا۔ بہت کی ’’ہ ‘‘کو کھنچتے ہوئے۔ 
سوال دہرایا جاتا ہے۔ اب جو اب طلبی پرساری جماعت بیک آواز’’ ہ‘‘ کو کھینچ کر بہت اچھا پکارتی ہے۔
کیا کلاس میں ان کے مہمان بھی آتے ہیں۔۔۔؟
طالب علم اس سوال کا کیا جواب دیتے جب کہ ان کے مہمان اس وقت بھی کمرہ جماعت میں موجود تھے۔ ایک بار پھر خاموشی چھا جاتی ہے۔ استاد صاحب جواب سمجھاتے ہیں:
جی نہیں۔ جی کی ’ی‘ کو طول دیتے ہوئے۔
سوال دہرایا جاتا ہے ،اب جماعت بیک آواز جواب دیتی ہے جی ی ی نہیں
کیا شاہ صاحب کلاس میں سگریٹ بھی پیتے ہیں۔۔۔؟
جی نہیں۔ جی کی ی کو کھینچ کر’’جی نہیں‘‘ بعدمیں’’کبھی نہیں‘‘ کا اضافہ کرتے ہوئے۔ 
یہ مڈل اسکول کے زمانے کا قصہ ہے۔ اسی کلاس روم کی عقبی دیوار کے ساتھ لوہے کی کچھ الماریاں اوندھے منہ کھڑی رہتی تھیں جن کا مصرف فقط یہ تھا کہ شرارتی طالب علم کلاس روم کے ٹوٹے پھوٹے فرش سے کنکر اکھیڑ کر چپکے سے پیچھے کی سمت اچھالتے اور یہ کنکرالماریوں کی پشت سے ٹکرا کر ’’چھن‘‘کی آواز پیدا کیا کرتے تھے۔ اس آواز پر استاد سیخ پا ہو جاتے اور اس حرکت پر سزا دینے کے لیے ساری کلاس کو للکارتے لیکن طلبا سر جھکا کر یہ وقت گزار دیتے تھے۔ میرے ذہن میں یہ سوال جنم لیتا کہ آخر کلاس روم میں یہ الماریاں رکھنے کا مقصد کیا ہے۔۔۔؟ الماریوں کے دروازے کمرے کی عقبی دیوار کے ساتھ جڑے ہوئے تھے، ان میں کبھی کسی کو کچھ رکھتے یا نکالتے نہیں دیکھا گیا تھا۔ میں نے ایک روز جرأت کر کے ان الماریوں میں جھانکا تو پتہ چلا کہ یہ الماریاں کتابوں سے بھری ہوئی ہیں۔ حیرت اور تعجب سے یہ بات دوسروں کو بتائی تو پتہ چلا کہ یہ تو اسکول کی لائبریری ہے جو جانے کب سے یوں اوندھے منہ دیوار سے لگی کھڑی ہے۔ میں نے ایک مہربان استاد سے یہ لائبریری دیکھنے کی خواہش ظاہر کی ۔ میں اپنے ان استادِ محترم کا آج بھی ممنون ہوں جنھوں نے کمالِ شفقت سے مجھے یہ لائبریری دیکھنے کا موقع فراہم کیا۔ میں نے اس لائبریری سے جو تین کتابیں اپنے نام جاری کروائیں، وہ مجھے آج بھی یاد ہیں۔ یہ تین مطبوعات ’’سیارہ ڈائجسٹ‘‘ کا رسول نمبر‘‘، ’’دیوانِ مولانا محمد علی جوہر‘‘ اور ’’مارشل لا سے مارشل لا تک‘‘ تھیں۔ گویا اس کم سنی میں مذہب، ادب اور تاریخ نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا تھا، آج پلٹ کر دیکھتا ہوں تو یہ حیران کن حقیقت سامنے آتی ہے کہ بعد کے زمانے میں جتنا کچھ پڑھنے لکھنے کا موقع ملا، اس سب کا تعلق علم کے انھی تین دائروں سے ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بچپن کی باتیں بعد کی زندگی اور دلچسپیوں پر کس قدر اثر انداز ہوا کرتی ہیں۔ 
کتابوں سے دوستی کا یہ عالم ہو گیا تھا کہ صبح گھر سے سکول جاتے ہوئے وہ راستہ اختیار کرتا تھا جس میں عید گاہ راہ میں پڑتی ہے۔ عید گاہ کی ویرانی میں راہ چلتے کوئی کتاب پڑھتا رہتا تھا۔ عید گاہ کے ایک سرے سے داخل ہو کر دوسرے انتہائی سرے تک مطالعہ اور سفر جاری رہتا۔ سکول میں خالی پیریڈ اور وقفۂ تفریح کے اوقات بھی مختلف کتابچوں اور کتابوں کے مطالعہ میں گزرتے۔ اسکول سے نکلتا تو قریب ہی واقع اردو بازار کی دکانوں میں کتابوں کی سیر کرتاجس کتاب کو خریدنے کی قدرت ہوتی وہ خرید لیتا باقی دکان دار کے پاس محفوظ(Reserve) کروادیتا تاکہ اس کی قیمت کے بقدر پیسے جمع ہو جانے پر اسے خرید سکوں۔ اس زمانے کی سیرِ کتب کے ثمرات اب بھی اپنی زندگی میں محسوس کرتا ہوں۔ 
ہائی اسکول کے زمانے میں ایک سکاؤٹ کے طور پر پہلی بار لاہور آنے کا موقع ملا۔ ہمارے گروپ نے باغِ جناح میں ایک ٹیبلوکے بعد ہمیں شہر میں گھومنے پھرنے کی اجازت دے دی گئی۔۔۔ میں نے سن رکھا تھا کہ انار کلی بازار میں سستی کتابیں ملتی ہیں، میں اپنے ایک ہم جماعت دوست کے ساتھ ڈان باسکو ہائی سکول سے نکلا اور ایمپریس روڈ پر آکر راہ گیروں سے انار کلی کا راستہ دریافت کرنے لگا، کسی نے بتایا کہ فلاں ویگن انار کلی جاتی ہے۔ اتنے میں ایک ویگن آکر رکی جس کا کنڈیکٹر ساندے، ’’مفت جاندے‘‘کی آوازیں لگا رہا تھا، یہی وہ ویگن تھی جسے انار کلی بازار سے گزرنا تھا۔ مفت جاندے‘ تو صرف قافیہ پورا کرنے کے لیے تھا، میرے پاس اس وقت پچاس روپے تھے۔ اس زمانے میں یہ ایک بڑی رقم تھی۔ دونوں دوستوں کا کرایہ دینے کے بعد جتنے پیسے بچے وہ سب انار کلی کے کہنہ فروشوں سے پرانی کتابیں خریدنے کے کام آئے۔ ان دنوں مجھے جسٹس منیر مرحوم کی ۱۹۵۳ء کے فساداتِ پنجاب پر تحقیقاتی رپورٹ پڑھنے کی بہت خواہش تھی۔ سرگودھا میں یہ رپورٹ کہاں مل سکتی تھی، انار کلی کے ایک فٹ پاتھ پر یہ رپورٹ نظرآگئی، اس بوگس رپورٹ کو پالینے سے جو خوشی ہوئی تھی وہ بیان میں نہیں آسکتی۔ ایوب خان کی خود نوشت Friends Not Mastersکا اردو روپ’’جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‘‘ اپنی پرواز کو تاہ کر کے جگہ جگہ خاک نشین تھا۔ دس روپے کے عوض یہ کتاب بھی خریدی، المیہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے کچھ کتابیں خریدیں، اخبار ’’سیاست‘‘ کے مدیر سید حبیب کے ’’سفر نامہ یورپ‘ کا پہلا ایڈیشن بھی ملا جو غالباً پیسہ اخبار کے مطبع سے شائع ہوا تھا، لیکن کہنہ فروش نے اس کی قیمت میری ہمت سے زیادہ بتائی جس کے باعث میں اسے خرید نہ سکا، بعد میں دیر تک اس نادر کتاب سے محرومی کا افسوس رہا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر اسکول کے ایک طالب علم کو ان کتابوں سے کیوں دلچسپی ہوئی ہو گی، یہ سوال طبعی ہے لیکن جواب خلافِ توقع۔ دراصل اسکول کے زمانہ طالب علمی ہی میں مجھ پر ایک کتاب لکھنے کا خیال مسلط ہو گیا تھا۔ یہ کتاب تحریک آزادی کے ایک خاص گوشے کی وضاحت کے لیے لکھنا چاہتا تھا، منیر انکوائری کمیشن کی رپورٹ وغیرہ کتب اسی ضمن میں مطلوب تھیں، میٹرک کے زمانے اور اس کے بعد ہونے والی چھٹیوں میں میں نے یہ کتاب لکھ لی جو میرے سال اوّل میں پہنچنے تک زیور طبع سے بھی آراستہ ہو گئی۔ 
اب اگر مجھ سے یہ پوچھا جائے کہ آخر مجھے ایسے خشک موضوع سے دلچسپی کیسے ہوئی تو میں اگر کوئی جواب دے سکتا ہوں تو فقط یہ کہ میرا ابتدائی شوق اخبار بینی تھا، اسکول کے زمانے میں جب تک روزانہ دو اخباروں کا مطالعہ نہ کر لیتا سو نہیں سکتا تھا۔ اخبارات کے اداریے،ادارتی صفحے کے مضامین اور اسپیشل ایڈیشن خاص شوق اور توجہ سے دیکھتا اور پڑھتا تھا۔ اخباروں کو سنبھال کر رکھنے کا بھی شوق تھا ،اخبارات کی خاص خاص اشاعتیں جمع کر کے ان کی جلد بندھوالیا کرتا تھا۔ اس شوق کے طفیل بعض بہت قدیم اخبارات بھی تلاش کرلیے تھے اور ان سب کو بڑے جہازی سائز کی جلدوں میں محفوظ کرنے کی دُھن سوار رہتی تھی۔ یہ جلدیں رکھنے کے لیے گھر میں کوئی موزوں جگہ نہ تھی چنانچہ خود لکڑی کا ایک بہت بڑا صندوق تیار کیا جس میں سیدھے اخباروں کی جلدیں پوری آتی تھیں اور اس صندوق پر ریگزین چڑھا کر بریف کیس کی طرح کے تالے لگا دیے تھے تاکہ یہ قیمتی اخبارات دوسروں کی دست برُد سے محفوظ رہیں۔ 
اسکول ہی کے زمانے میں سرگودھا کے ایک جلد ساز کے ہاں ۱۹۷۰ء کے ہنگامہ خیز انتخابات کے زمانے کے کچھ ہفت روزے مل گئے، اپنی قدرت کے مطابق جیب خرچ سے ایک ایک کر کے یہ تمام رسالے خرید لیے،انھیں پڑھ کر ۱۹۷۰ء کا سارا ملکی منظر نامہ نگاہوں پر آئینہ ہو گیا، اس المیے کی تفصیلات سے آگاہی نے دل اداس کردیا، حب وطن کے جذبے میں اضافہ ہو گیا۔ بعد میں ان رسالوں کی فائلیں مکمل کرنے کاخیال دامن گیرِ دل ہو گیا، یہ مہم بھی سر کرڈالی، اب ان کی تجلید کی فکر ہوئی، اس سے پہلے ان رسائل کے مندرجات ومضامین کی فہرست سازی ضروری محسوس ہوئی سو کر ڈالی اور فہرستوں اور اشاریوں کے ساتھ جلدیں بندھوائیں ، ان جلدوں کے مطابق خانوں کی حامل الماریاں نہ تھیں، چنانچہ ان کے سائز کے مطابق الماریاں خود بنائیں۔ 
اوپر مولانا محمد علی جوہر کے دیوان کا ذکر ہوا تھا، یہ دیوان مولانا کے دستِ خط میں لکھی گئی غزنوی اور سامنے ان کی کتابت کے ساتھ شائع ہوا تھا، یہ نادر کتاب اس سے پہلے کسی جگہ دیکھ چکا تھا جہاں سے اسے حاصل نہیں کیا جا سکتا تھا، مولانا کے ہاتھ کی لکھی ہوئی غزلوں کی کشش تھی کہ دل میں اس کتاب کی طلب کی شمع روشن ہو گئی تھی، نویں جماعت میں میں سائنس کا طالب علم تھا لیکن آرٹس کے طالب علموں سے اردو اعلیٰ کی کتاب مستعار لے کر پڑھتا رہتا اور اس میں سے اردو شعرا کی غزلیں اور ان کے حالات نوٹ کیا کرتاتھا، اس مقصد کے لیے ایک الگ نوٹ بک بنالی تھی جس میں شاعر کی تصویر لگا کر اس کے حالات زندگی، پھر کچھ انتخابات کلام اور تبصرہ لکھتا بعد ازاں اس میں مفکر ،ادیب، سیاست دان اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے نام اور اصحاب شامل ہوتے گئے اور اس مقصد کے لیے نام ور لوگوں کی تصویروں اور ان کے احوال کی جستجو رہنے لگی گویا یہ ایک طرح کا تذکرہ تھا جوتذکرہ نگاری کے شعور کے بغیر لکھا جا رہا تھا۔ ٹکٹیں جمع کرنے کا شوق ہوا تو دنیا جہان کی ٹکٹیں جمع کرڈالیں اور پھر ان کے بارے میں حاصل ہونے والی معلومات پر مبنی ایک کتابچہ ٹکٹوں کی دنیا کے عنوان سے لکھ ڈالا جس کاآخری جملہ یہ تھا کہ ’’دیکھا آپ نے’’ ٹکٹوں کی دنیا‘‘ کتنی خوبصورت ہے۔‘‘ کالج میں پہنچنے تک علمی دلچسپیوں کے دائرے میں وسعت آئی، جدید شاعری سے آشنائی ہوئی اور ساتھ ساتھ علمی دنیاسے شغف بڑھتا گیا، اب نہیں یاد کہ کیسے چھٹی صدی ہجری کے محدّث اور امامِ لُغت امام رضی الدین حسن الصنعانیسے دلچسپی پیدا ہو گئی، ان کے احوال کی تحقیق میں بہت وقت صرف کیا، ان سے متعلق کم وبیش تمام مصادر عربی میں تھے ،عربی نہ جاننے کے باوجود عربی کی امہات الکتب سے رجوع کرتا رہا۔ کچھ نہ کچھ سمجھ ہی لیتا تھا، البتہ بعد میں کسی اہل علم سے اپنے سمجھے ہوئے مطالب کی تصحیح کروالیا کرتا تھا۔ اسی دور میں یہ منصوبہ بھی پیش نظر رہا کہ حدیث کی ترویج میں اردو زبان کی خدمات کا جائزہ لیا جائے، اس مقصد کے لیے سرگودھا کے کتب خانوں کا جائزہ مکمل کرنے کے بعد شہر سے نکلا اور لاہور اور کراچی تک کے کتب خانے چھان ڈالے۔ اس زمانے کے بنائے ہوئے سینکڑوں کارڈ آج بھی میرے گھر کے سازوسامان میں منتقل ہوتے ہیں۔ اسی زمانے میں کسی ایسی کتاب کے مطالعہ کی خواہش نے جنم لیا جو میرے ان دنوں کے مسائل ومعاملات سے بحث کرتی ہو، کتابوں اور کتاب خانوں سے بے حد تعلق کے باوجود ایسی کوئی کتاب نہ مل سکی، پھر خیال پیدا ہوا کہ اگر آج تک کسی نے ایسی کتاب نہیں لکھی تو کیوں نہ میں ہی ایسی کتاب لکھوں، یہ درست ہے کہ میرا رسمی طالب علمی کا زمانہ تو ختم ہو جائے گا لیکن ہر زمانے کی نئی نسلیں تو طالب علم بن بن کر آتی رہیں گے۔ اگر مجھے اپنے بزرگوں سے ایسی کوئی راہنمائی مل سکی جو میرے آج کے مسائل ومعاملات سے بحث کرتی ہو تو کیوں نہ میں آنے والوں کے لیے ایسی تحریر چھوڑ جاؤں، چنانچہ اس خیال سے میں نے’’ لمحوں کا قرض‘‘ اور’’ اپنی دنیا آپ پیدا کر‘‘نا می کتابیں لکھیں جو میرے کالج کے زمانہ طالب علمی میں ہی شائع ہو گئیں۔ بلکہ میں وہ کانووکیشن کیسے بھلا سکتا ہوں جس میں مجھے بی۔ اے کی ڈگری کے ساتھ میری ہی کتاب’’ لمحوں کا قرض ‘‘انعام میں دی گئی تھی۔ 
اب تک کی تفصیلات سے آپ جان چکے ہوں گے کہ میرا ذوقِ مطالعہ کبھی تفریح نہیں رہا، میں نے ہمیشہ بامقصد مطالعہ کیا، محنت سے مضامین کا حصر کیا، اپنی بساط کے مطابق نتائج اخذ کرنے کی کوشش کی اور جو کچھ سمجھا اُسے پوری دیانت داری کے ساتھ سینہ، قرطاس پر منتقل کیا۔ کتابوں کے حصول کے سلسلے میں میرے تجربات بہت دلچسپ ہیں۔ جب میں ایک کم سواد طالب علم تھا (حالانکہ اب بھی ایک کم سواد طالب علم ہوں) تو لوگ کتاب دینے میں بہت خِست سے کام لیتے تھے، بعض تجربات تو بہت ہی تکلیف دہ ہیں لیکن بعد کے زمانے میں وہی لوگ نیاز مندانہ ملنے لگے اور مجھے خدا جانے کیا کیا مقام دینے لگے۔ میں ان تجربات سے گزرنے کے باوجود کتاب دینے کے معاملے میں بخیل نہیں رہا، میرا خیال یہ رہا کہ کتاب ایک جاری کردہ ہے جسے آگے سے آگے بڑھنا چاہیے۔ ایک عمر کے تجربے کے بعد اب البتہ احتیاط کرنے لگا ہوں کیونکہ کتاب کے سب طلب گار کتاب دوست نہیں ہوتے۔ میرا مجموعہ کتب فقط میری دلچسپی کی کتابوں پر مشتمل ہے جس میں قرآن وسیرت، شعروادب، تاریخ تذکرے، سوانح اور خطوط شامل ہیں۔ یہ کتابیں تعداد میں اتنی ہیں کہ اگر آپ فراخ دل ہوں تو انھیں میری ذاتی لائبریری بھی کہہ سکتے ہیں، یہ کتب میں نے بہت محنت اور صرفِ کثیر سے مہیا کی ہیں ۔اب ایک عرصے سے مجھے اطراف واکناف سے بہت زیادہ کتب ورسائل تحفتاً موصول ہوتے ہیں، ان سب کو دیکھتاہوں لیکن اپنی دلچسپی کی چیزوں کے علاوہ باقی مطبوعات اپنے پاس نہیں رکھتا اگر ایسا کروں تو گھر میں رہنے کو جگہ باتی نہ رہے، یوں بھی میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ لائبریری بنانا افراد کا کام نہیں، یہ اداروں اور حکومتوں کا کام ہے، انفرادی طور پر بنائی گئی لائبریری میں آپ جتنا بڑا مجموعہ کتب بھی مہیا کرلیں تو بھی کسی باقاعدہ لائبریری سے بے نیاز نہیں ہوا جا سکتا، جب محتاجی قائم ہی رہنی ہے تو پھر انفرادی طور پر رسالوں کے فائل مرتب کرنے، ہر نوع کی کتابوں کا مجموعہ بنانے دوراور دیر کے امکان پر تعداد کتب بڑھانے سے کیا حاصل۔۔۔؟
میں حافظ کی طرح فراغتے وکتابے وگوشہء چمنے کا قائل ہوں لیکن زندگی میں مثالی صورتیں کہاں ملتی ہیں جب اور جیسا وقت ملے پڑھتا ہوں، میرا کوئی سفر کتاب کے بغیر نہیں ہوتا، بچپن میں راہ چلتے کتابیں پڑھا کرتا تھا، بعد میں جب سلامتی کے اصول پڑھے تو یہ روش ترک کر دی لیکن دورانِ سفر اب بھی پڑھتا ہوں ،اگرچہ میڈیکل سائنس اس کی بھی اجازت نہیں دیتی۔ میں نے زندگی میں جو کچھ سیکھا اور سمجھا اس کا مآخذ مطالعے کو تجربے سے آمیز کر کے دیکھنا بھی سیکھا۔ اس سے تصورات دولخت ہوئے لیکن میری عملیت پسندی مثالیت پسندی پر غالب آگئی، میرا خیال ہے کہ بچوں کوکتاب دوستی کی طرف مائل کرنا چاہیے، الیکٹرونک میڈیا نے آج بچوں کے ہاتھوں سے کتابیں چھین لی ہیں، یہ سوچ کہ سی ڈی، ڈی وی ڈی، انٹرنیٹ کتاب کا نعم البدل ہیں میرے نزدیک یہ خام ہے، میری دانست میں کتاب لامسہ، باصرہ، خیال، حافظہ، واہمہ متصرفہ اورحِس مشترک کو شاد کرتی ہے، الیکٹرونک میڈیا بیک وقت یہ سب کچھ نہیں کرسکتا۔ اس لیے میری رائے میں کتاب زندہ رہے گی اور لکھا ہوا لفظ ہوا میں تحلیل ہوجانے والے الفاظ پر غالب رہے گا۔ 

پاکستانی طالبان ۔ غلبے کے اسباب

محمد اظہار الحق

بنوں اور پھر ڈی آئی خان جیل کی مہمات کامیابی سے سر ہونے کے بعد اس حقیقت سے شاید ہی کوئی انکار کرسکے کہ پاکستانی طالبان غلبہ حاصل کرچکے ہیں اور جہاں چاہیں اپنی مرضی کی کارروائی کرسکتے ہیں۔
تحریک طالبان پاکستان مافوق الفطرت انسانوں پر مشتمل نہیں‘ نہ ہی اس کے پاس ہتھیاروں کی کوئی ایسی قسم ہے جو حکومت پاکستان کے لیے انوکھی ہو۔ اس کے غلبے اور حکومت پاکستان کی مسلسل ناکامیوں کے اسباب وہی ہیں جو دنیا میں ہمیشہ سے چلے آرہے ہیں۔ خدا کی سنت وہی ہے جو بیان کردہ اصولوں کے مطابق کچھ کو تفوق اور کچھ کو زیردستی سے ہم کنار کرتی ہے۔ اگر خدا کی سنت کے بجائے کچھ لوگ تاریخ کے پروسیس کا نام لیتے ہیں تو اس سے حقیقت حال تبدیل نہیں ہوتی! اس کالم نگار کے تجزیہ کے مطابق طالبان کی بالادستی کے پانچ اسباب ہیں۔
اول۔ وہ اپنے نصب العین اور نظریات کے بارے میں کسی ابہام یا ذہنی کشمکش کا شکار نہیں۔ ہم انہیں غلط سمجھیں یا صحیح، یہ اور بات ہے۔ مگر وہ جس بات کو درست گردانتے ہیں، اس پر مجتمع ہیں اور اس پر انہیں شرحِ صدرحاصل ہے۔ یہ ذہنی یکسوئی ان کی مادی قوت کو زیادہ موثر کردیتی ہے۔ جس راستے کو وہ جنت کا راستہ سمجھ رہے ہیں، اس پر چلنا ان کے لیے آسان ہے اس لیے کہ ان کا اپنے نظریات پر پختہ یقین ہے۔ اس کے مقابلے میں حکومت پاکستان کو معلوم ہی نہیں کہ وہ کیا کرنا چاہتی ہے۔ جس طرح پورے ملک میں بہت سے لوگ طالبان کے حامی ہیں، اسی تناسب سے ان کے ہمدرد سارے شعبوں میں بھی موجود ہیں۔ کوئی بھی اپنے مقاصد کے بارے میں واضح نہیں۔ چار افراد طالبان کو غلط سمجھتے ہیں تو دو صحیح کہتے ہیں۔ طالبان کا مقابلہ کرنے والے خبروں میں سنتے ہیں کہ کچھ طالبان اچھے ہیں اور کچھ برے ہیں۔ کبھی انہیں معلوم ہوتا ہے کہ حکومت طالبان سے گفت وشنید کرنے کی تیاریاں کررہی ہے آپ اس کا مقابلہ پاکستان اور بھارت کی جنگ سے کرلیں۔ قوم کے ہرفرد کو معلوم ہوتا ہے کہ بھارت دشمن ہے اور بقا اس میں ہے کہ اس کا مقابلہ کیا جائے اور فتح حاصل کی جائے۔ یہ یقین، یہ برہنہ تلوار جیسا ایمان طالبان کا مقابلہ کرنے والوں کے دلوں میں مفقود ہے۔(اس کا سبب آگے چل کر بتایا جائے گا )۔
دوم۔ جنگ میں فتح حاصل کرنے کے لیے لازم ہے کہ احکام کا منبع ایک ہو۔ اسے Unity of Command کہتے ہیں۔ طالبان کو یہ یونٹی آف کمانڈ پوری طرح حاصل ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ پالیسی کہاں طے ہورہی ہے اور حملے کا فیصلہ کس نے کرنا ہے۔ اس کے مقابلے میں حکومت کو خودمعلوم نہیں کہ فیصلہ کس نے کرنا ہے اور پالیسی کس نے بنانا ہے۔ ڈی آئی خان کاواقعہ دیکھ لیجیے۔ متعلقہ اداروں کو معلوم ہی نہیں کہ وہ کس اتھارٹی کو متنبہ کریں۔ چنانچہ انہوں نے متعلقہ وزیر، پولیس کے اعلیٰ افسر، انتظامیہ کے انچارج‘ سب کو اطلاعات فراہم کیں۔ لیکن کوئی ایک اتھارٹی ایسی تھی ہی نہیں جو معاملے کو اپنے ہاتھ میں لیتی اور فیصلے صادر کرکے احکام نافذ کرتی۔ اس کنفیوڑن کے مارے لوگ طالبان کا مقابلہ کسی صورت میں نہیں کرسکتے۔
سوم۔طالبان کی بالا دستی کی سب سے بڑی وجہ پاکستان کے سرکاری محکموں کی نااہلی، کرپشن اور بددیانتی ہے۔ جنگ صرف فوج اور پولیس نہیں لڑتی ، حکومت کا ہر شعبہ حصہ لیتا ہے اور اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ ہرشعبہ اپنا کام سوفی صد درست کرے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ افریقہ اور لاطینی امریکہ کے چند ملکوں کو چھوڑکر حکومت پاکستان کی نااہلی کرپشن اور بدیانتی کی کوئی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی۔ بارڈرز پر جولوگ متعین ہیں، وہ چند سکوں کی خاطر سب کچھ کررہے ہیں۔ لاکھوں شناختی گارڈ اور پاسپورٹ رشوت لے کر ان لوگوں کو جاری کیے گئے اور کیے جارہے ہیں جن کا ان دستاویزات پر کوئی حق نہیں۔ جعلی ڈومی سائل سرٹیفکیٹ لینے کے لیے آپ نے کچہری کے کسی بدنیت اہلکار کو چند سرسراتے نوٹ دکھانے ہیں اور بس۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ کچہریوں میں ننانوے فی صد معاملات رشوت سے طے ہورہے ہیں اور یہ سچائی سب کے علم میں ہے۔ پولیس اور جیل کے وہ اہلکار طالبان جیسی تازہ دم قوت کا مقابلہ کس طرح کرسکتے ہیں جن کی تعیناتی، بھرتیاں، تبادلے اور ترقیاں سفارش اور رشوت سے طے ہوتی ہیں۔ جس ملک کی پولیس اغواکاروں اور بھتہ خوروں کو اطلاعات فروخت کرے، وہ کسی حملہ آور کا مقابلہ کرنے کا سوچ ہی نہیں سکتی۔ 
آپ نااہلی کی انتہا دیکھیے کہ پولیس کے جس سربراہ کو اس رسواکن شکست پر مستعفی ہونا چاہیے تھا، وہ خوش مذاقی کے موڈ میں ہے اور اس کا یہ دلچسپ بیان میڈیا میں چھپا ہے کہ طالبان اور پولیس کا تعلق بیٹنگ اور باؤلنگ کا ہے اور یہ کہ کبھی ہم چھکا لگاتے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ ایسی مہمل اور مضحکہ خیز باتیں کرنے والے لوگ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال سکتے ہیں ؟ اور ان لوگوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں جو پھٹے ہوئے کپڑے پہن کر زمین پر سوتے ہیں ؟ کیا پولیس کا یہ سربراہ قوم کو بتائے گا کہ اس کی، اس کے محل کی اور اس کے اہل خانہ کی حفاظت پر کتنے اہلکار متعین ہیں ؟ ان کے پاس کتنا اسلحہ ہے اور اس پر حکومت کا کتنا روپیہ خرچ ہورہا ہے ؟ کیا طالبان کو نہیں معلوم کہ یہ شہزادے میدان کے شیر نہیں، محض سرکاری شیر ہیں اور سرکاری شیر کاغذی شیروں سے بھی زیادہ کمزور ہوتے ہیں ؟ جس حکومت کے افسر اور اہلکار کسی واضح پالیسی کے بغیر، ہرچند ماہ کے بعد تبدیل کردیئے جائیں اور انہیں اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کا علم ہو نہ یہ معلوم ہوکہ ان کے اہل خانہ سر کہاں چھپائیں گے ، وہ کسی برتے پر اپنے سینے گولیوں کے سامنے رکھیں گے ؟ اس وقت نااہلی اور بددیانتی اس درجہ ہے کہ اگر کسی دفتر کو فوٹو کاپی مشین مہیا کرنی ہوتو اس میں مہینے لگ جاتے ہیں۔ 
آپ نااہلی کی ایک اور مثال دیکھیے۔ چودھری نثار علی خان وزیر داخلہ بنے تو انہوں نے دعویٰ کیا کہ دارالحکومت کا ٹریفک کا نظام درست کردیا جائے گا۔ مہینے گزر چکے ہیں دارالحکومت کی بڑی شاہراہ پر‘ جوکنونشن سنٹر اور لیک ویو پارک کے درمیان ہے، آوارہ مویشیوں کے‘ گَلّوں کے گَلّے چہل قدمی کررہے ہیں۔ یہیں سے ن لیگ کے قائداور ملک کے وزیراعظم اکثر وبیشتر مری جانے کے لیے گزرتے ہیں۔ جس ملک کے دارالحکومت کی بڑی شاہراہوں پر آوارہ ڈھور ڈنگر کھلے عام پھررہے ہوں، اس ملک کے سرکاری اہلکار طالبان کا کیا مقابلہ کریں گے !
خودکش حملوں کے بارے میں حکومت کا موقف یہ ہے کہ ایک ایک شخص کی تلاشی ممکن نہیں۔ یہ ایک لغو دلیل ہے۔ آخر امریکہ برطانیہ اور یورپ کے دوسرے ملکوں میں دہشت گردوں کی کارروائی کو کس طرح روکا گیا ہے ؟آخر حکومت صدر، وزیراعظم اور وزراء اعلیٰ کی حفاظت کامیابی سے کیسے کرلیتی ہے ؟آخر خودکش حملہ آور ان بڑے لوگوں تک کیوں نہیں پہنچ پاتے ؟اس کا جواب آسان ہے۔ امریکہ اور برطانیہ جیسے ملکوں میں ہر شہری کی حفاظت اس طرح کی جاتی ہے جیسے ہمارے ہاں نام نہاد وی آئی پی کی‘ کی جاتی ہے۔ آج اگر وہ انتظامات جو ایک شہر میں حکمرانوں کی حفاظت کے لیے کیے جارہے ہیں، پورے شہر کے لیے کیے جائیں تو حکمرانوں کے لیے الگ انتظامات کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔
ہم طالبان کی بالادستی کے اسباب کی طرف واپس آتے ہیں۔ آپ طالبان کی چستی اور حاضر دماغی دیکھیے! ڈی آئی خان میں انہوں نے جو جنگی چالیں چلیں، پولیس ان کا خواب میں بھی نہیں سوچ سکتی۔ انہوں نے اپنی تیرہ گاڑیاں جیل سے دور ٹاؤن ہال کے پاس پارک کیں تاکہ ان پر حملہ نہ ہوسکے۔ ان کا ہراول دستہ جواٹھارہ افراد پر مشتمل تھا، پولیس کی وردی میں آیا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ کسی نے انہیں شہر میں روکا نہ جیل کے اندر جانے سے۔ انہوں نے جیل کی بجلی کاٹ دی جس سے مکمل بدانتظامی پھیل گئی جب کہ خود طالبان کے پاس تاریکی میں دیکھنے والی عینکیں تھیں۔ پولیس کے افراد وائرلیس پر جوگفتگو کرتے تھے وہ طالبان سن سکتے تھے۔ انہوں نے کنفیوڑن پھیلانے کے لیے وائرلیس پر کچھ اس طرح کی گفتگو کی کہ ان کا اگلا نشانہ فوجی چھاؤنی ہے۔ یہ اس لیے تھا کہ فوجی چھاؤنی والے جیل کا رخ کرنے کے بجائے اپنی حفاظت کی فکر کرنے لگ جائیں۔ طالبان کو معلوم تھا کہ یہ کرکٹ کا میچ نہیں، جنگ ہے جب کہ پولیس کے افسروں کا خیال یہ تھا کہ یہ تو باؤلنگ اور بیٹنگ کا مسئلہ ہے جو بہت سادہ اور آسان ہے !
طالبان کے غلبے کی چوتھی وجہ یہ ہے کہ پاکستانیوں کی کثیر تعداد انہیں نجات دہندہ سمجھتی ہے۔ طالبان کے حامیوں کی ایک قسم وہ ہے جو نظریاتی حوالے سے انہیں اپنے قریب سمجھتی ہے لیکن ایسے حامیوں کی تعداد بھی کم نہیں جنہیں طالبان کے نظریات اور طرز حکومت سے کوئی دلچسپی نہیں مگر پاکستانی ریاست، پاکستانی حکومتوں اور بالائی طبقے کے ظلم و ستم سے وہ اس قدر عاجز آچکے ہیں کہ بالآخر انہیں طالبان جیسا نجات دہندہ بھی قبول ہے۔ پٹواری، تھانیدار، واپڈا اہلکار، سوئی گیس کے راشی ملازم، ملاوٹ کرنے والے بددیانت تاجر، تجاوزات کے ذریعے ماحول کو گندا کرنے والے دکاندار، راہگیروں کو کچلنے والے بدمست ڈرائیور، فرعونیت کے لہجے میں بات کرنے والے سرکاری عّمال، اقربا پروری ا ور دوست نوازی کرنے والے عوامی نمائندے ان عوام کو کمّی کمین سمجھتے ہیں۔ ایک ایک گلی پکی کرانے ا ور ایک ایک کنکشن لینے کے لیے شرفا کو برسوں پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ کوئی سیاسی جماعت، کوئی حکومت، کوئی مارشل لاء4 ، عوام کے دکھوں کا مداوا نہیں کرسکا۔ ہر نیا سال نئے ظلم لاتا ہے۔ مخصوص گروہوں کے کام کرانے والا ایک ٹولہ پارلیمنٹ سے نکلتا ہے تو دوسرا ٹولہ آ کر دوسرے گروہوں کے کام کرانا شروع کر دیتا ہے۔
پاکستانی عوام اس اشرافیہ سے عاجز آچکے ہیں جس پر قانون کا اطلاق نہیں ہوتا، جس کی گاڑیوں کے شیشے کالے ہی رہتے ہیں اور جو اسلحہ کی نوک پر سارے غلط کام آسانی سے کروا لیتی ہے۔ پاکستانی عوام نوکر شاہی کے ان گماشتوں سے خدا کی پناہ مانگ رہے ہیں جن سے ملاقات کرنا تو کجا، ٹیلیفون پر بات کرنا بھی ناممکن ہے اور جن کے دربان اور پی اے سائلوں کو نہ صرف دھتکارتے ہیں بلکہ موقع ملے تو ٹھڈے بھی مارتے ہیں۔ پاکستانی عوام ان حکمرانوں کو ہاتھ اٹھا اٹھا کر بددعائیں دے رہے ہیں جو خود تو چھینک آنے پر بھی اپنی تین تین بیگمات کے ساتھ لندن کا رخ کرتے ہیں لیکن کسی گاؤں میں عام آدمی کے لیے ڈسپنسری قائم کرنی ہو تو بیس لاکھ روپے پر بھی سانپ بن کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ظلم اور ناانصافی کے ڈسے ہوئے یہ مظلوم بے کس اور بے بس عوام جب سنتے ہیں کہ طالبان اپنی عدالتیں لگا کر مجرموں کو سزائیں دیتے ہیں اور مظلوموں کو انصاف بہم پہنچاتے ہیں تو ان کے دلوں میں طالبان سے ہمدردی پیدا ہوتی ہے۔ طالبان کا مقابلہ کرنے والے سرکاری اہلکاروں سے آخر عوام کو کیا ہمدردی ہوسکتی ہے؟ یہی اہلکار اور ان کے افسر ہی تو ہیں جنہوں نے ان کی زندگیوں کو جہنم بنا رکھا ہے۔ عوام خواب دیکھ رہے ہیں کہ کیا عجب کل طالبان کو مکمل غلبہ حاصل ہوجائے تو وہ بددیانت راشی سرکاری ملازموں کو درختوں سے لٹکا کر پھانسیاں دیں۔ بجلی اور گیس سے عوام کو محروم کرنے والوں کو درّے ماریں۔ خوراک‘ ادویات اور معصوم بچوں کے دودھ میں ملاوٹ کرنے والے ’’حاجیوں‘‘ کو جلتے تنوروں میں پھینکیں۔ فساد معاشرے میں جس طرح پھیل چکا ہے اس کا علاج باریاں بدلنے والے کھرب پتی سیاستدانوں کے بس کی بات نہیں، نہ ہیان کی نیت ہے۔ 
یہ ظلم طالبان جیسے جنونی اور سودائی ہی ختم کر سکتے ہیں۔پانچواں سبب یہ ہے کہ طالبان کو پاکستانیوں کی ایک اچھی خاصی تعداد نظریاتی کمک پہنچا رہی ہے۔ اس کا سبب اسلام کی ایک خاص تعبیر ہے جو پاکستان اور افغانستان سے باہر دنیائے اسلام میں شاید ہی کہیں نظر آئے۔ اسلام کی اس خاص تعبیر میں افغانستان اور پاکستان کی مقامی ثقافتوں کا عمل دخل ہے اور مقامی ثقافت کے ان مظاہر کو بھی اسلام کا لبادہ پہنا دیا گیا ہے جو افغانستان اور پاکستان کے باہر کے مسلمانوں کے لیے اجنبی ہیں۔ پھر بدقسمتی سے اس مذہبی گروہ کا ہیڈکوارٹر بھی پاکستان میں ہے جو دین کو صرف ظاہری ہیئت کے حوالے سے دیکھتا ہے، حقوق العباد سے مکمل روگردانی کرتا ہے۔ایک خاص کتاب کو [ معاذاللہ] سب کچھ سمجھتا ہے۔ لوگوں کو تلقین کرتا ہے کہ بس اسی کتاب کو پڑھیں ، سنیں اور سنائیں۔ یہ گروہ لوگوں کو یہ تک کہتا ہے کہقران کو سمجھ کر پڑھنا صرف علما کا کام ہے۔ان تمام عوامل کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عوام کی کثیر تعداد اسلام کو محض عبادات کا مجموعہ سمجھنے لگی ہے۔ عملی زندگی سے اسلام کا عمل دخل ختم ہوچکا ہے۔ نمازیں پڑھنے، روزے رکھنے اور حج کرنے کے باوجود اکثریت اکل حلال اور صدق مقال سے محروم ہے۔ وعدہ خلافی اور جھوٹ کو برائی سمجھا ہی نہیں جارہا۔ ملاوٹ، ٹیکس چوری، ناروا تجاوزات اور نقص چھپا کر مال فروخت کرنا ان لوگوں کا معمول ہے جو ظاہری لحاظ سے مذہبی نظر آتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کے بالائی طبقات میں بھی طالبان کے حامی موجود ہیں۔ سید منور حسن، جنرل حمید گل ،جنرل مرزا اسلم بیگ، عمران خان اورلال مسجد کے با اثر خطیب مولانا عبدالعزیز جیسے طاقتور افراد طالبان کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔ نہیں معلوم اگر طالبان کو اقتدار مل گیا تو یہ سابق جرنیل ا پنی ظاہری وضع قطع میں ان کی پیروی کریں گے یا نہیں اور اپنا وہ معیار زندگی ترک کریں گے یا نہیں جس کا پاکستانی عوام کی اکثریت خواب میں بھی تصور نہیں کرسکتی مگر بہرطور یہ حضرات طالبان کے نظریاتی حامی ہیں اور یہ اکیلے نہیں، ان کے لاکھوں ہم خیال، پیروکار اور معتقدین ہیں۔ طالبان کے ہمدرد لامحالہ تمام اداروں میں بھی ہوں گے۔ جب کسی تحریک کے حامی پیدا ہوتے ہیں تو وہ صرف ایک خاص علاقے تک محدود نہیں ہوتے نہ کسی خاص انکم گروپ سے تعلق رکھتے ہیں نہ کوئی خاص زبان بولتے ہیں۔ یہ حامی تمام طبقات اور تمام علاقوں میں موجود ہوتے ہیں۔
ہم میں سے جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ طالبان دنیا اور دنیا کے حالات سے بے خبر ہیں، غیر تعلیم یافتہ ہیں اور معاشرتی حرکیات (DYNAMICS) سے ناآشنا ہیں، غلطی پر ہیں۔ ان کی پیش قدمی سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف پاکستان کے ظاہری بلکہ غیر ظاہری حالات سے بھی آگاہی رکھتے ہیں۔

مفتی محمد زاہد صاحب کے موقف پر ایک تحقیقی نظر (۲)

مولانا عبد الجبار سلفی

فاضل مضمون نگار نے مولانا عبدالحئی فرنگی محلی کے متعلق لکھا ہے کہ وہ لکھنؤ کے باسی تھے جو اہل تشیع کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ مولانا عبدالحئی کا کثرتِ مطالعہ بھی ضرب المثل ہے، اس لیے یہ بات بعید سی ہے کہ لکھنؤ جیسے شہر میں رہتے ہوئے وہ شیعہ مذہب سے ناواقف ہوں۔ مولانا لکھنوی کے مجموعۃ الفتاوی میں بڑی تعداد میں ایسے فتاوی موجود ہیں، جن میں انہوں نے عام اہل تشیع کی تکفیر کا فتویٰ نہیں دیا۔ الخ

تبصرہ

مبالغہ آرائی اہلِ علم کے وقار کو بہت دھچکا لگاتی ہے۔ عدم تکفیر پر مولانا عبدالحئی لکھنوی کے ’’بڑی تعداد‘‘ کے فتاویٰ میں سے کوئی تھوڑی سی تعداد اگر پیش کر دی جاتی تو ماہ نامہ الشریعہ کے صفحات یقیناًیہ بوجھ اُٹھا ہی لیتے اور جو عبارات دی گئی ہیں، ہم سمجھتے ہیں ان کا فاضل مضمون نگار کے موقف سے کوئی تعلق نہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ لکھنؤ کے مولانا عبدالحئی لکھنوی پر سو فیصد اعتماد ہے، مگر انہی کے قابل فخر شاگرد مولانا سید عین القضاۃ رد شیعیت کے لیے اپنے محبوب شاگرد مولانا علامہ عبدالشکور لکھنوی کو اس میدان میں نہ صرف اتارتے ہیں بلکہ ان کی استعدادِ علمی، اور کمالِ فن مناظرہ سے متاثر ہو کر انہیں ’‘امام اہل سنت‘‘ کا خطاب بھی دیتے ہیں۔ تو نہ مولانا عین القضاۃ کا تذکرہ اور نہ علامہ عبدالشکور لکھنوی کا ذکر، جن کی پوری زندگی اسی محاذ پر صرف ہوئی۔ مولانا عبدالحئی لکھنوی اگرچہ کثیر المطالعہ تھے مگر مطالعے کے لیے بھی تو کتابیں چاہئیں؟ اور یہ بات تاریخ کے ماتھے پہ درج ہے کہ ردِ رفض پر کام کرنے کے لیے علماء اہل سنت نے جب قلم اُٹھانا چاہا ، کتابوں کی عدم دستیابی آڑے آ گئی۔ مولانا محمد قاسم نانوتوی کی ’’ہدیۃ الشیعہ‘‘ کا ابتدائیہ پڑھ لیجیے۔ آپ نے لکھا ہے کہ کتبِ شیعہ ہاتھ نہ آسکیں، آخر کار ’’تحفہ اثنا عشریہ‘‘ میں لکھے گئے شیعی عقائد کا عقلی و نقلی انداز میں ردْ لکھا گیاہے۔ کسی شہر کے باسی کا وہاں کے جملہ افکار و نظریات کے حامل افراد یا ان کی فکر سے مطلع نہ ہونا فاضل مضمون نگار کو ’’بعیدسی‘‘ بات محسوس ہوتی ہے۔ حالانکہ یہ کوئی ایسی کباب کی ہڈی نہیں جو گلے سے نہ اُتر سکے۔ ہر شخص کا ’’ہر فن مولا‘‘ ہونا تو نظامِ فطرت کے بھی خلاف ہے۔ چلیں سو سنار کی ایک لوہار کی، علامہ عبدالشکور لکھنوی بھی تو لکھنؤ کے باسی تھے اور رات دن ان کا مشغلہ ہی تردیدِ رفض تھا۔ ماہ نامہ ’’النجم‘‘ کی فائلیں، چھوٹی بڑی درجنوں کتابیں صرف اسی موضوع پر لکھی گئیں، ہر تقریر، ہر مباحثہ اور ہر نجی محفل میں شیعیت ہی موضوعِ سخن ہوتی۔ آپ علی الاطلاق تکفیر شیعہ کے قائل تھے تو کیوں نہ علمِ حدیث، فنِ اسماء الرجال اور تاریخی معلومات کے اعتبار سے ہم مولانا عبدالحئی لکھنوی پر اعتماد کر لیتے ہیں اور تکفیر شیعہ کے مسئلے پر امام اہل سنت علامہ عبدالشکور لکھنوی کی تحقیق پر اعتماد کر لیتے ہیں اور اعتماد کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مزید تحقیق کے دروازے بندکر دیے جائیں۔
شیعیت ہمیشہ سے نشۂ قوت کی بدمستی کا شکار رہی ہے
فاضل مضمون نگار نے مندرجہ بالا بحث کے ضمن میں یہ بھی لکھا ہے کہ :
’’یہ کہنا تو شاید خالی از مبالغہ نہ ہو کہ برصغیر میں اہل السنۃ اور اہل تشیع کے تعلقات بہت مثالی اور قابل رشک رہے ہیں لیکن یہ کہنا ضرور درست ہوگا کہ ان میں کبھی اتنا زیادہ اور اتنے طویل عرصے کا تناؤ نہیں رہا، جتنا ہمارے ہاں اسّی کی دہائی کے بعد سے نظر آرہا ہے‘‘۔

تبصرہ

ہمیں خوشی ہے کہ یہاں آکر فاضل مضمون نگار کو ’’مبالغہ آرائی‘‘ کے مُضر اثرات کا ادراک ہوا ہے۔ مگر یہ المیہ بہرحال ہے کہ وہ ہوا میں چلائے ہوئے فائر کو ’’یہ کہنا ضرور درست ہوگا‘‘ کہہ کر خوش فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ چڑیا کیا، عقاب شکار ہوچکا ہوگا۔
جناب من! شیعیت کی خون آشامیوں سے تو ہزاروں آبادیاں کھنڈرات بن کر لٹی عظمتوں کے زندہ مرثیے بن چکی ہیں۔ علامہ سید انور شاہ کشمیری سے ہی سُن لیجیے۔ رقمطراز ہیں:
’’واکثر تخریب السلطنت الاسلامیۃ کان علی ایدی الروافض خذلھم اللہ تعالیٰ۔ (فیض الباری جلد اوّل صفحہ نمبر ۱۷۲)
’’اور اسلامی سلطنت کی زیادہ تر بربادی روافض کے ہاتھوں سے ہوئی ہے۔ خدا انہیں رسوا کرے‘‘
شیعیت نے ہمیشہ اہل اقتدار کے زیر سایہ پروان چڑھ کر آگ و خون کا کھیل کھیلا ہے خلیفہ معتصم باللہ کے وزیر ابن علقمی نے بغاوت کر کے بغداد میں تقریباً سولہ لاکھ افراد قتل کروا دئیے۔ تاتاریوں کا یہ ظلم ایک جگر گداز سانحہ ہے جس کے متعلق حضرت شیخ سعدی نے گلستان کے اندر کہا ہے۔
آسماں را حق رَسد کہ خوں ببارد بر زمیں
بر زوال ملک معتصم امیرالمومنین
علاوہ ازیں شام، خراسان، عراق، الجزائر وغیرہ میں شیعیت نے کیا کیا مظالم ڈھائے، علامہ ابن تیمیہ کی منہاج السنۃ پڑھ لیجیے جس میں انہوں نے ان دلگداز سانحات کا تذکرہ کیا ہے۔ آج بھی ملک شام میں نصیری شیعوں کے ہاتھوں ظلم کا بازار گرم ہے۔ بشارالاسد نُصیری شیعہ حکمران ہے اور اہل تشیع کا یہ فرقہ حضرت علی کی الوہیت کاقائل ہے۔ اب پاکستان میں بھی اس فرقہ کے لوگ سراُٹھا رہے ہیں۔ ان کے باقاعدہ مقررین ہیں اور مجلسیں بھی ہورہی ہیں۔ اس فرقہ کے ایک مقرر علامہ غضنفر عباس کی تقریرمیں علانیہ ’’علی اللہ ، علی اللہ، کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔
اور اگر عالمی حالات سے قطع نظر ۸۰ء کے بعد پاکستان کے حالات کا تجزیہ مقصود ہے تو پھر فاضل مضمون نگار بتائیں کہ ۸۰ء کے بعد کی بدامنی کا ذمہ دار کون ہے؟ اگر تو یہ خیال ہے کہ ۷۹ء میں ایرانی انقلاب کے بعد پاکستان میں حالات خراب کیے گئے۔ صحابہ کرام کے خلاف گھٹیا لٹریچر دھڑا دھڑ تقسیم ہوا۔ اور ایرانی اشیر باد پر پاکستانی شیعیت نے اہل سنت کا قتلِ عام کیا، ردعمل میں پھر سُنی نوجوان بھی کنٹرول میں نہ رہے اور نتیجتاً شیعہ، سنی خطرناک تصادم سامنے آیا یہ تو درست ہے اور حقیقت بھی یہی ہے لیکن فاضل مضمون نگار کا غالباً یہ خیال نہیں ہے کیونکہ وہ تو پہلے کہہ آئے ہیں کہ فریقین کے مابین جنگ و جدل کے واقعات پیش نہیں آئے اور ان میں اشتراک پایا جاتا ہے۔ ظنِ غالب یہ ہے کہ اُن کا اشارہ مولانا حق نواز جھنگوی کی جانب ہے۔ اس لیے ہم عرض کریں گے کہ جہاں تک سنی شیعہ قتل و غارت کا تعلق ہے، جب کبھی اس میں ریاستی طاقتیں اثر انداز ہوتی ہیں تو یہ مناظر سامنے آتے ہیں۔ مگر اس سے پہلے بھی لڑائی جھگڑے اور سرپھٹول کے واقعات بے شمار پیش آئے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جب یہ نزاعی مسائل پہ لڑتے تھے تو سر پھٹتے تھے اور جب ریاستی طاقتیں مدخل ہوئیں تو سرکٹنے لگ گئے۔ کیونکہ تحمل و رواداری قیادت اور اہل علم میں ہوتی ہے۔ عوام کا کوئی اسٹیشن نہیں ہوتا۔ اس لیے فاضل مضمون نگار اگر شیعہ ، سنی مناظروں کی رودادیں مطالعہ فرمائیں تو انہیں نظر آئے گا کہ ہلکے پھلکے تصادم ہر دور میں کہیں نہ کہیں رہے ہیں۔
مولانا حق نواز جھنگوی شہید کے طریقۂ کار سے اتفاق نہیں ہوسکتا اور ان کی جاری کردہ تحریک کا فلسفۂ تشدد بھی ہمیشہ زیر بحث رہا۔ مگر ۸۰ء کے بعد کے ناگفتہ بہ حالات کی ذمہ داری اُن پر ڈال دینا بہت بڑی زیادتی ہوگی۔ اُن کے خلوص اور عظمتِ صحابہ کے لیے مثالی جدوجہد کا انکار کسی زندہ ضمیر مسلمان سے نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے اپنے خون سے منقبتِ صحابہ کا قصیدہ لکھا اور مکروفریب کے چلمنی پردوں سے رفض و بدعت کے خائن دلوں کی دھڑکنوں کو بھانپ کر اُنہیں دبوچا اور اس حال میں مست ہو کر اپنی جان تک کی بازی لگا دی۔
راہ الفت میں جو مرتے ہیں فنا ہوتے نہیں
کشتگانِ عشق کا ، عمرِ ابد ہے خون بہا
ہاں سپاہ صحابہ کی جذباتی نوجوانوں کی وہ پالیسیاں جو اپنوں سے منافرت ، شدت اور انتہا پسندی پر مشتمل ہیں۔ان سے یقیناًاتفاق نہیں کیا جاسکتا۔ اصل میں فاضل مضمون نگار نے اپنے خیالات کا بالکل آٹا گوندھ دیا ہے نہ صرف یہ کہ ان کے دعاوی اور دلائل میں مطابقت نظر نہیں آتی بلکہ سطر بہ سطر تفاوت اور تضادات بھی نظر آتے ہیں۔

مسئلہ تحریفِ قرآن

فاضل مضمون نگار لکھتے ہیں:
’’عام طور پر تکفیر شیعہ کی ایک بنیاد تحریفِ قرآن کو قرار دیا جاتا ہے جب کہ علامہ شمس الحق افغانی نے علوم القرآن میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ شیعہ بھی تحریف قرآن کے قائل نہیں ہیں۔ یہی بات اس سے بہت پہلے مولانا رحمت اللہ کیرانوی ردِّ عیسائیت پر اپنی معروف کتاب ’’اظہار الحق‘‘ میں فرما چکے ہیں۔۔۔ یہ جو مشہور ہوگیا ہے کہ بطور فرقہ شیعہ کو کافر کہنا اہل سنت کا متفقہ موقف ہے۔ یہ درست نہیں۔‘‘

تبصرہ

اگر فاضل مضمون نگار کو علامہ افغانی اور علامہ کیرانوی کے پائے کے ہی اہل علم ایسے لاتعداد مل جائیں جو شیعوں کو محرفِ قرآن مانتے ہیں تو پھر فاضل موصوف کس کا موقف اختیار کریں گے؟ ہمیں اسی بات پر بار بار حیرت ہورہی ہے کہ دل تو تکفیر و عدم تکفیر جیسے مسائل پر بحث کو بے تاب ہورہا ہے اور پاؤں کے نیچے محض ریت ہی نہیں، پورا صحرا ہے۔
فاضل مضمون نگار کو چاہیے تھا کہ وہ پہلے شیعہ علماء کی ان کتب اور روایات کا مطالعہ کرتے جن میں تحریف قرآن کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ پھر ان شیعہ علماء کی عبارات پڑھتے جنہوں نے اپنے علماء سے اختلاف کیا، اس تقابلی مطالعے کے بعد وہ متقدمین اہل سنت کا نظریہ پیش نظر رکھتے ، پھر متاخرین کے دعاؤی و ثبوت کا متقدمین کی آراء سے تقابل کرتے، اس دوران زمینی حقائق، روزمرہ کے مشاہدات، اور قائلین کی مراد کا بھی تجزیہ ہوتا، تب کہیں جا کر وہ کوئی بڑا دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں آتے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ فاضل مضمون نگار کی یہ محنت روح افزاء ثابت ہوگی، اتنی بے باکی اور عجلت سے تو اہل تشیع بھی خود کو قرآن کے ماننے والوں کی صف میں کھڑا نہیں کر سکتے، جتنی جلدی فاضل موصوف نے ان پر احسان کر دیا ہے۔ علامہ رحمت اللہ کیرانوی کا میدان تردید عیسائیت تھا۔ اظہار الحق میں وہ عیسائیوں کو الزامی و تحقیقی جوابات دے رہے تھے۔ موقع اور محل کے تقاضوں کو وہی سمجھ سکتا ہے جو میدان میں کھڑا ہو۔ عافیت کدوں میں بیٹھ کر پَر تلاش کرنا اور پھر خود ہی ان پَروں میں طوطے، کوے لگا کر خیالی فضاؤں میں چھوڑتے رہنا اہلِ تحقیق کے مزاج کے بالکل خلاف ہے۔ اگر کسی ایسے ماحول میں انسان چلا جائے جہاں سارے ہندو یا عیسائی ہوں، اور عیسائی ہم سے تکفیر شیعہ کی بحث چھیڑ دیں تو ظاہری بات ہے اس ماحول میں ہم نے بچھو کو چھوڑ کر سانپ کا ہی تعاقب کرنا ہے۔
علامہ شمس الحق افغانی کی علوم القرآن والی عبارت پر ہمارے حضرت اقدس مولانا قاضی مظہر حسین نے انہیں تفصیلی خط لکھا تھا جس میں اہل تشیع کے عقیدۂ تحریفِ قرآن کے دلائل اُنہی کی کتب سے پیش کیے تھے۔ اس پر علامہ افغانی نے رجوع فرما لیا تھا اور اس بات کا اعتراف فرمایا کہ چیزیں میرے علم میں پہلی بار آئی ہیں۔ وہ تفصیلی مضامین اور مکتوب عنقریب کتابی شکل میں شائع ہونے والے ہیں۔

علامہ تونسوی کا مکتوب اور علامہ افغانی کا رجوع 

مولانا رحمت اللہ ارشد (بہاولپور) علامہ شمس الحق افغانی کے شاگرد تھے۔ انہوں نے ایک مرتبہ مولانا عبدالستار تونسوی سے کہا تھا کہ ہمارے استاذ محترم فرمایا کرتے تھے کہ شیعوں کے سنجیدہ لوگ تحریف قرآن کے قائل نہیں ہیں۔ کیا یہ بات درست ہے؟ تو علامہ تونسوی نے فرمایا شیعہ کے ائمہ معصومین، جمہور، محدثین اور مجتہدین سے زیادہ سنجیدہ کون ہوسکتا ہے؟ وہ سب کے سب اس پر متفق ہیں کہ موجودہ قرآن محرّ ف و مبدّل ہے۔ شیعہ کتب میں دو ہزار سے زائد روایات اس پر صراحتاً دال ہیں۔ البتہ صرف چار آدمیوں نے شیعہ فرقہ میں سے تحریف کا انکار کیا ہے، ان چار کے نام یہ ہیں۔
شریف المرتضیٰ، علامہ ابوجعفر طوسی، شیخ ابوعلی طبرسی، شیخ صدوق۔ اور یہ ان کی ذاتی رائے ہیں۔ آئمہ معصومین کی روایات کے مقابلہ میں ان کی کیا اہمیت ہے؟ اس لیے جمہور شیعہ علماء نے ان چار کی رائے کو کوئی اہمیت نہ دی۔ چنانچہ اس کے بعد علامہ عبدالستار تونسوی نے مولانا شمس الحق افغانی کو خط لکھ کر اس ساری تفصیل سے آگاہ فرمایا۔ علامہ افغانی نے علامہ تونسوی کے نام جوابی خط میں لکھا۔
’’مجھے آپ کی تحقیق پر پورا اعتماد ہے، میں ان شاء اللہ اپنی کتاب کے نئے اڈیشن میں اس بات کی تصحیح کر دوں گا‘‘ (بحوالہ، نقوش زندگی، صفحہ نمبر ۳۱۹)
نوٹ: یاد رہے کہ ’’نقوشِ زندگی‘‘ مولانا عبدالستار تونسوی کی سوانح حیات ہے جواُن کے نواسہ مولانا عبدالحمید تونسوی مدظلہ نے لکھی ہے اور یہ سوانح علامہ تونسوی کی نگرانی میں لکھی گئی اور اُن کی زندگی میں ہی طبع ہوگئی تھی۔ اس کتاب کی طباعت کے دس بارہ سال بعد علامہ تونسوی کا انتقال ہوا، اس لحاظ سے یہ بات دستارِ اعتبار کا پورا حق رکھتی ہے۔ حضرت اقدس مولانا قاضی مظہر حسین اور علامہ عبدالستار تونسوی کے آگاہ کرنے پر علامہ شمس الحق افغانی نے اپنے موقف سے رجوع فرما کر یہ ثابت کر دیا کہ جو جس شعبے میں ماہر ہو، اسی کی بات معتبر ہوتی ہے مگر ہمارے فاضل مضمون نگار کمر کے مُہروں کا علاج سُنار سے کروانے چلے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ اپنے اس فیصلے پر پوری طرح مطمئن ہیں۔
سر کاٹ کے ڈلوا دئیے، انداز تو دیکھو
پامال ہے سب خلقِ جہاں، ناز تو دیکھو
تفسیر قمی شیعہ مذہب کی معتبر تفسیر ہے۔ الجزائر کے معروف شیعہ عالم علامہ طیب موسوی الجزائری کے مقدمہ کے ساتھ یہ تفسیر اس وقت ہمارے پیش نظر ہے مقدمہ میں طیب الجزائری نے کلینی، برقی، عیاشی، احمد بن ابی طالب، باقر مجلسی، نعمت اللہ الجزائری، حرعاملی، علامہ فتونی اور سید بحرانی جیسے بڑے نام لکھے ہیں کہ یہ سب علماءِ شیعہ تحریف قرآن کے قائل تھے اور لکھا ہے کہ ان حضرات نے تحریف قرآن پر ایسی ایسی روایات اور ثبوت پیش کر دیے ہیں کہ ’’لا یمکن الاغماض منہا‘‘ اُن سے چشم پوشی ناممکن ہے۔ (مقدمہ تفسیر قمی جلد اول صفحہ نمبر ۲۴، مطبوعہ قُم۔ایران)
علاوہ ازیں حسین بن محمد النوری الطبرسی نے تو تحریف قرآن پر باقاعدہ کتاب لکھی ہے جس کا نام ’’فصل الخطاب فی اثبات تحریف کتاب رب الارباب‘‘ ہے یہ کتاب ۱۲۹۸ھ میں لکھی گئی تھی اور اس لیے اہل تشیع نے اس کتاب کے مصنف کو بعد از وفات مشہدِ مرتضوی میں دفن کر کے اعزاز بخشا تھا۔ یہ کتاب دو کم ۴۰۰ صفحات پر مشتمل ہے۔
اس لیے ہم ایک بار پھر معذرت کے ساتھ عرض کریں گے کہ ہمارے مخاطب فاضل مضمون نگار تحقیقی و علمی براہین سے محروم ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے گرد و پیش کے کسی ماحول سے منفی اثر لے کر بلاوجہ نفسِ موضوع کو نشانہ بنا لیا ہے۔ اُن کا فقط یہی اعزاز نظر آرہا ہے کہ یہ مضمون ماہ نامہ الشریعہ میں شائع ہوگیا ہے۔

دینی تحریکوں میں اہل تشیع کی شمولیت

فاضل مضمون نگار نے بڑا عامیانہ تاثر لے کر یہ رائے قائم کی ہے کہ ہمارے ہاں دینی تحریکوں میں اہل تشیع کی شمولیت اس بات کی دلیل ہے کہ یہ بھی امت مسلمہ کا حصہ ہیں۔ اس سلسلہ میں انہوں نے مفتی جعفر حسین، سید مظفر حسین شمسی اور تحریک ختم نبوت کا حوالہ دیا ہے۔ جس میں بقدرِ اشکِ بُلبل اہل تشیع نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ ملی یکجہتی کونسل اور ’’اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ‘‘ کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔

تبصرہ

کفار مجاہرین اور کفار منافقین ، یہ کفار کی دو قسمیں ہیں، کھلے طور پر اسلام کی صفوں میں داخل نہ ہونے والوں کو کفار مجاہرین کہا جاتا ہے اور جو دائرہ اسلام میں گھس کر اسلام کے آفاقی اور اصولی فیصلوں کو تسلیم نہیں کرتے، انہیں کفار منافقین کہا جاتا ہے۔ دوسری قسم کے کفار کو حسبِ مصلحت وقتی طور پر شاملِ اتحاد کیا جاسکتا ہے۔ اگرچہ امت کے وسیع تر نظریاتی عقائد کی حفاظت کے لیے حساس اہلِ علم اس کے بھی قائل نہیں ہیں۔ ہمارے حضرت اقدس قاضی صاحب کا شمار انہی علماءِ کرام میں ہوتا تھا اور آج بھی تحریک خدام اہل سنت اہلِ کفر و الحاد سے کسی قسم کا کوئی اشتراک برداشت نہیں کرتی۔
ایسے لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کی حکمت صرف یہ ہوتی ہے کہ یہ کہیں علانیہ کفر کرنے والے لوگوں سے نہ جاملیں۔ یہ ایک سیاسی حکمت عملی ہے جو کبھی کامیاب رہتی ہے کبھی ناکام۔ مظفر علی شمسی جیسے شیعہ تو ہمارے اکابر کے ساتھ رہ کر شیعیت سے تقریباً دور ہوچکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مولانا عبیداللہ انور سے جنازہ پڑھوانے کی وصیّت کی تھی۔ 
مولانا مظہر علی اظہر تو اس حد تک اہل سنت کے ساتھ گُھل مل گئے تھے کہ اہل تشیع ان کو بطور طنز ’’مولانا اِدھر علی اُدھر‘‘ کہا کرتے تھے۔ فاضل مضمون نگار بتائیں کہ اہل تشیع کو اتحادوں میں شامل کرنے سے آج تک کسی شیعہ کو اپنے مذہب کی ترویج کے لیے سنی اسٹیج استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے؟ اور یہ بھی ہمارے بزرگوں کی مصلحت کے تحت ایک وقتی پالیسی تھی۔ وگرنہ بٹالہ ضلع گورداسپور میں حضرت اقدس مولانا قاضی مظہر حسین کے والد گرامی ایک جلسۂ عام میں اہل تشیع کی کتب اٹھا اٹھا کر اُن کے کفریہ عقائد پیش کر رہے تھے اور امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری بھی تشریف فرما تھے۔ امیر شریعت کی تقریر بعد میں تھی۔ آپ نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ جب مولانا کرم الدین دبیر شیعوں کے عقائد بیان کر رہے تھے تو میرے سینے پر گویا ہتھوڑے برس رہے تھے کہ جن کے ایسے ایسے عقائد ہوں، تو انہیں اپنے ساتھ ملاتا ہے، یہ واقعہ مولانا کرم الدین دبیر نے خود اپنے فرزندِ سعادت مند کو سنایا تھا۔ (بحوالہ، کشفِ خارجیت طبع اول صفحہ نمبر ۱۰۴، مصنفہ حضرت اقدس قاضی صاحب)
اور یہ بھی یاد رہے کہ مولانا کرم الدین کی ردِّ شیعیت پر بے مثال تصنیف ’’آفتابِ ہدایت‘‘ امیر شریعت نے اپنی صاحبزادی کو جہیز میں دی تھی۔ کہاں اکابر کی خلوص بھری مصلحتیں اور کہاں نفرت آمیز غیر مستند اور ہوائی باتیں؟ ہم اپنے مخاطب کے کون کون سے ’’فکری شگوفوں‘‘ کو موضوعِ بحث بنائیں؟ کیونکہ
مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا

اکابرین عالمی مجلس اور فتنۂ رفض

۱۹۵۷ء میں مولانا محمد علی جالندھری نے مولانا لعل حسین اختر اور مولانا محمد حیات جیسے حضرات کو چوکیرہ ضلع سرگودھا میں امام پاکستان علامہ احمد شاہ چوکیروی کے پاس بھیجا تھا اور علامہ چوکیروی سے کہا کہ یہ علماء آپ کے طلبہ کو فتنۂ مرزائیت کے خلاف تیاری کروائیں گے اور آپ ان علماء کرام کو ردِّشیعیت پر تیاری کروائیں۔ اس واقعہ کے راوی اور عینی گواہ علامہ چوکیروی کے فرزند مولانا سید قاسم شاہ صاحب بقیدِ حیات ہیں۔ ان سے تحقیق کی جاسکتی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے اکابرین کو مرزائیت کے ساتھ ساتھ فتنۂ رفض کی سرکوبی کا کتنا درد اور احساس تھا۔ ختم نبوت کے تاج و تخت کا تحفظ بھی ہم نے کرنا ہے اور ان شاء اللہ صحابہؓ کے جُوتے اپنے رخساروں پر بھی ہم ہی مَلیں گے۔

مسئلہ تکفیر، مولانا کرم الدین دبیر کی عبارت اور مفتی زاہد صاحب کی کم شعوری

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ حضرت مولانا کرم الدین دبیر اور ان کے فرزند سعادت مند حضرت اقدس قاضی صاحب نے اعتدال، ملائمت اور حکمت و بصیرت سے سُنی مذہب کی خدمت کی ہے لیکن اس سے یہ مفہوم اَخذ کرنا کہ وہ کسی لامذہب فرقے کی تکفیر کے قائل نہیں تھے، عدم معلومات کا نتیجہ ہے۔ فاضل مضمون نگار نے مولانا کرم الدین دبیر کی کتاب ’’السیف المسلول لاعداء خلفاءِ الرسول‘‘ کی مذکورہ عبارت سے اپنا من چاہا مطلب نکالنے کی غیر سنجیدہ اور بعید از علم حرکت کی ہے۔
’’شیعہ و سنی دونوں فرقے ایک خدا کی پرستش کرنے والے ایک نبی، ایک قرآن پر ایمان لانے والے اور ایک قبلہ کی طرف سرجھکانے والے ہیں۔ پھر افسوس ان دو متحد المقا صد فرقوں میں احمد شاہ شیعی جیسے ریکروٹ نئے بھرتی ہونے والے حضرات اتحاد قائم نہیں رہنے دیتے‘‘ (الشریعہ ۱۷)

تبصرہ

ابوالفضل مولانا کرم الدین دبیر کی یہ کتاب ۱۸۹۹ء میں پہلی بار چھپی تھی۔ جس میں احمد شاہ شیعہ کے اعتراضات کا جواب اور خلفاءِ راشدین کا قرآن مجید کی چالیس آیات کی روشنی میں دفاع کیا گیا ہے۔ دوسری بار یہ کتاب ۱۹۲۹ء میں مصنف نے اپنی نگرانی میں طبع کروائی۔ اور پھر تیسری مرتبہ تقریباً بیاسی سال کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے قاضی کرم الدین دبیر اکیڈمی کی جانب سے یہ اکتوبر ۲۰۱۱ء میں راقم الحروف کے مقدمہ و حواشی کے ساتھ نہایت خوبصورت انداز میں شائع ہوئی ہے۔ ۱۹۲۹ء میں جب یہ چھپی تو مولانا کرم الدین دبیر نے مذکورہ عبارت کے نیچے یہ حاشیہ اضافی لگایا۔
’’یہ اس وقت کا خیال ہے، جب بوقتِ تصنیف رسالہ ھذا، کتب شیعہ اور ان کے عقائد و مسائل پر پورا عبور نہ تھا۔ لیکن بعد مطالعہ کتبِ اصول و فروعِ شیعہ، اب معلوم ہوا کہ شیعوں کا قرآن پاک پر بھی ایمان نہیں ہے۔ ایسی حالت میں اسلام سے ان کو کچھ واسطہ اور تعلق ہی نہیں ہوسکتا‘‘۔
ہم حیران ہیں کہ فاضل مضمون نگار یہ حاشیہ اتنی آسانی سے کیسے ہضم کر گئے؟ یہ دانستہ کیا گیا ہے یا نادانستہ؟ اگر دانستہ ہے تو پھر نیتوں کے کھوٹ سے تحقیقی کام کبھی پروان نہیں چڑھتے۔ اور اگر نادانستہ ہے تو بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک ہی صفحے پر اتنا واضح حاشیہ نظر کیوں نہیں آیا؟ ہمیں سو فیصد یقین ہے کہ مضمون نگار کے پیش نظر یہی تیسرا اڈیشن ہے اور یہ تو اتنا صاف سُتھرا اور نفیس و جلی کمپوزنگ سے لکھا ہے کہ دماغی فتور کے علاوہ اس سے صَرف نظر ناممکن ہے اور ہم نے باقاعدہ اس توضیحی حاشیہ کے آگے مصنف کا نام بریکٹ میں لکھا ہے تاکہ ہمارے حواشی سے التباس نہ ہوسکے۔ اور فاضل مضمون نگار اگر مولانا کرم الدین کی دیگر کتب بھی پڑھ لیتے تو شک و شبے کی کوئی گنجائش نہ رہتی۔ ’’آفتابِ ہدایت‘‘ میں تکفیر روافض پر باقاعدہ فتوی شامل اشاعت ہے اور جابجا ابحاث میں مصنف ان کی تکفیر کرتے ہیں۔ جولائی ۱۹۱۱ء میں مولانا کرم الدین کی ایک یادگار تصنیف ’’تازیانۂ سنت‘‘ ردِّاہل رفض و بدعت‘‘ شائع ہوئی تھی۔ اب ٹھیک ایک سو سال کے بعد محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کی جدید طباعت کروائی گئی ہے۔ اس میں بھی صراحتاً تکفیر شیعہ ثابت ہے۔ مولانا دبیر اور آپ کے فرزند سعادت مند حضرت اقدس مولانا قاضی مظہر حسین نے کبھی رفض و بدعت کے خلاف لچک کا مظاہرہ نہیں کیا۔۔۔ ہمیں اس پر بھی حیرت ہے کہ مصنف نے اہل تشیع کا دفاع کرتے ہوئے ہمارے ان بزرگوں کو موضوعِ سخن کیوں بنایا ہے؟ جبکہ ان حضرات کی زندگی کا ایک ایک پل عظمتِ صحابہ کے دفاع اور رفض وبدعت کی بیخ کنی میں گذرا ہے۔ یہ دونوں باپ بیٹا عظمتوں کے تاج سر پر سجا کر عقبیٰ میں حضراتِ ابوبکرؓ و عمرؓ کے جلوؤں کے مزے لوٹ رہے ہیں اور ان کی قبر کاایک ایک ذرہ چراغ نہیں بلکہ سورج بن کر گم گشتگان وادئ ضلالت کی راہنمائی کر کے انہیں صحابہ کا سچا سپاہی بنا رہا ہے۔ اور ان شاء اللہ قیامت تک ان کا فیضانِ جاری رہے گا۔ آپ اپنے خیالات اور جذبات کا علمی اصولوں کے مطابق ضرور اظہار کیجیے۔ مگر یاد رکھیے ان حضرات کی محنتوں کو اپنے خود ساختہ اور کچے نظریات سے تخت و تاراج کرنے کی ہر سازش بے نقاب کر دی جائے گی۔ ہم جگنو نہیں ہیں کہ روشنی دے سکیں، مگر پروانے ضرور ہیں جو روشنی پہ مرسکیں۔
پروانہ اک پتنگا، جنگو بھی اک پتنگا 
وہ روشنی کا طالب ، یہ روشنی سراپا

آخری گزارش 

فاضل مضمون نگار اور ماہ نامہ الشریعہ کی مجلس منتظمہ سے ہماری آخری گزارش یہ ہے کہ فتوے کی زبان سے ہٹ کر اور تکفیر و عدم تکفیر کی بحثوں میں الجھے بغیر ہمیں یہ بتایا جائے کہ شیعہ مذہب ایک گمراہ ترین مذہب ہے یا نہیں؟ کیونکہ کفر پر دستاویزی ثبوت ہیں جو اس میدان کے لوگ ہی جانتے ہیں مگر گمراہ ترین ہونے پر تو واقعاتی اور مشاہداتی دستاویزات سب کے سامنے ہیں جب آپ بلاوجہ اس عنوان کو نرم کر کے اور ان کے دفاع میں گفتگو کریں گے تو کیا اہل سنت والجماعت کے سادہ لوح لوگ آپ کی ان باتوں سے تاثر لے کر شیعیت کا شکار نہیں ہوں گے؟ کیا آپ کی اس پالیسی سے عظمتِ صحابہ کا ایمانی مسئلہ مجروح نہیں ہوگا؟ کیا اس قسم کے مضامین ایک عام قاری کو ایک ہزار سال کے محققینِ اہل سنت کی کاوشوں سے برگشتہ نہیں کریں گے؟
اگر غیروں کو قریب کرنے کے غیر فطری عمل سے آپ کے فطری متعلقین آپ سے کٹ گئے تو کیا یہ دین کی خدمت ہے؟ اگر اڑتی چڑیوں کو پکڑنے کی چاہ میں آپ ہاتھوں کی چڑیاں اڑا بیٹھیں تو کیا یہ دانش مندی ہے؟ اور اگر آپ واقعی مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد کی خواہش رکھتے ہیں تو اس کے لیے بڑے بڑے معرکے گرم ہیں، جہاں آپ خدمات پیش کر کے کوئی مثبت خدمت کا فریضہ سرانجام دے سکتے ہیں۔ اور بطور باشندگانِ وطن اگر آپ شیعہ، سنی تصادم ختم کرنا چاہتے ہیں تو اس کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ آپ ان کی وکالت کرنے بیٹھ جائیں، کیونکہ تصادم ختم کیا جاسکتا ہے، اختلاف نہیں۔ معاف کیجیے گا، آپ حضرات کی انہی لایعنی اور بے روح باتوں نے اہل سنت کو ’’سپاہ صحابہ‘‘ جیسی جماعتیں بنوا کر تشدد کے موڑ پر لاکھڑا کیا ہے۔ ہم اس وقت ایک خطرناک دوراہے پر کھڑے ہیں۔ اب ہم نے دشمنوں کا تعاقب بھی کرنا ہے اور اپنوں کی جان و آبرو کی حفاظت بھی کر نی ہے۔
ہم آپ کو دعوتِ فکر دیتے ہیں کہ آئیے! سب مل کر دفاعِ اسلام اور دفاع صحابہ کے محاذ پر بذریعہ تقریر، تحریر، تدریس یا ہر مثبت ذریعہ بروئے کار لاکر یہ مقدس فریضہ سرانجام دیتے ہیں اور اگر آپ کے شکم مبارک کے مروڑ صرف اسی صورت میں ختم ہوسکتے ہیں کہ آپ نے رفض کو مسلمانوں کی قطاروں میں ہی دیکھنا ہے تو پھر سرکردہ علماء کرام کا ایک ثالثی بورڈ تشکیل دیجیے اور اس موضوع پر یعنی اہل تشیع کے خلاف گرم و نرم رویہ رکھنے والے فریقین کا باحوالہ موقف سُنیے۔۔۔ اور اس کے بعد کوئی رائے قائم کیجیے اور معذرت کے ساتھ، اگر آپ نے محض ’’دماغی عیاشی‘‘ کرنی ہے اور بغیر کسی تحقیق و تفہیم کے پانی میں ہی مدھانی چلانی ہے تو پھر ماہ نامہ ’’الشریعہ‘‘ حاضر ہے۔ آپ جیسے حضرات کے دم قدم سے ہی ہمارے اس اکلوتے ماہ نامہ کی رونقیں ہیں۔ فکرِ آخرت یا خدا خوفی کی دعوت ہم آپ کو دے نہیں سکتے کہ آپ خود علماء دین ہیں۔ وقال اللہ تعالیٰ ۔ اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَآء ۔
البتہ اتنا ضرور کہیں گے کہ عالم دین کی فکری و اصولی لغزش بانجھ پن کی مریض نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ غلطیوں پر غلطیاں جنم دیتی چلی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔ وطن عزیز میں نظام خلفاءِ راشدین کے عملی نفاذ کے جذبے کے ساتھ دفاعِ صحابہ کا جذبہ نصیب ہو۔ اور دین اسلام کے آفاقی دستور کی حفاظت کے لیے ہر فتنے کے سامنے سرسکندری بننے کا من جانب اللہ اعزاز حاصل ہوجائے۔آمین ثم آمین
ٹپک اے شمع! آنسو بن کے پروانے کی آنکھوں میں
سراپا درد ہوں، حسرت بھری ہے داستاں میری

عذابِ قبر اور قرآنِ کریم (۱)

مولانا محمد عبد اللہ شارق

یہ حقیقت ہمیں تسلیم کرنی چاہئے کہ اسلام نے جتنا زور بعث بعدالموت اور آخرت کی زندگی پر دیا ہے، اتنی شدومد سے قبر کے احوال کو بیان نہیں کیا۔ قرآنِ مجید نے عموماً ’الیوم الآخر‘ (روزِ قیامت) کا ذکر کیا ہے ، اسی پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے، اسی سے ڈرنے اور اس کی فکر کرنے کی تلقین کی ہے، اسی کے احوال کو پھیر پھیر کر بیان کیا ہے اور ایمان کی تعریف میں رب، رسول، ملائکہ اور کتبِ الہیہ کے ساتھ ساتھ صرف ’الیوم الآخر‘ اور بعث بعد الموت کا ذکر کیا گیاہے۔ حتی کہ روایت ہے کہ’جب ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یہودی عذابِ قبر کا ذکر کرتے ہیں، کیا یہ بات درست ہے کہ قبر میں عذاب ہوتا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہودی غلط کہتے ہیں۔ قیامت سے پہلے کوئی عذاب نہیں۔‘ ( مسند احمد، حدیث ۲۴۵۲۰) حافظ ابنِ حجر نے اس حدیث کی سند کو بخاری کے معیار کی سند قرار دیا ہے۔ (فتح الباری ۳/ ۳۰۲) یوں تو حضرت عائشہ کا اس بابت استفسار کرنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ قبر کی جزاؤ سزا کا قرآن اور وحیِ الہی نے اتنا ذکر نہیں کیا کہ ہر خاص وعام کے علم میں یہ بات ہوتی، ورنہ حضرت عائشہؓ جیسی عالم اورفقیہہ تو کم ازکم اس سے ہرگز لاعلم نہ ہوتیں۔ لیکن یہاں تو اس سے بھی دوقدم آگے بڑھ کر یہ نظر آتا ہے کہ خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں بھی پہلے یہ بات نہ تھی۔ تاہم جب بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں یہ بات آگئی توآپ نے ایک اور موقع پر اس کی وضاحت بھی فرمادی۔ (مسند احمد حوالہ مذکور، صحیح البخاری، حدیث۱۳۷۲) حافظ ابنِ حجر اور ابنِ کثیر نے قرائن سے اندازہ لگایا ہے کہ مدنی دورکے بھی آخر میں آپ کو عذابِ قبر کا علم ہوا، اس سے پہلے آپ کو اس کا علم نہیں تھا۔ تاہم ابنِ حجر نے خیال ظاہر کیاہے کہ یہ لاعلمی صرف مؤمنین کے عذابِ قبر کے حوالہ سے ہوگی، ورنہ کفار کے لیے برزخی عذاب کا ذکر مکہ میں نازل ہونے والی دو آیات میں ہی ملتا ہے۔ (فتح البار ی حوالہ مذکور) 
راقم کی نظر میں یہ خیال بظاہر درست نہیں کیونکہ اگر کفار کے لیے عذابِ قبر کا آپ کو پہلے سے علم ہوتا تو حضرت عائشہؓ کے جواب میں آپ اس کی وضاحت فرماتے اور عذابِ قبر کا مطلقًا انکار نہ کرتے۔ باقی رہیں وہ دو آیات جن کے بارہ میں اشکال کیا گیا ہے کہ وہ مکہ میں نازل ہوئیں اور ان میں برزخی جزاؤ سزا کا ذکر ہے تو وہ دو آیات یہ ہیں: (۱)المومن: ۴۶(۲) ابراہیم: ۲۷ ۔ ان میں سے پہلی آیت کے اندر آلِ فرعون کو صبح وشام جہنم کے روبرو پیش کیے جانے کا ذکر ہے، جبکہ دوسری آیت میں یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالی دنیا وآخرت میں اپنے مومن بندوں کو کلمہ توحید کے ساتھ ثابت قدمی عطا فرمائے گا(اور پھسلنے سے ان کی حفاظت فرمائے گا) جبکہ کافروں کو بھٹکا دے گا۔ پہلی آیت سے بظاہر صرف آلِ فرعون کے بارہ میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ قیامت سے پہلے ہی ایک اذیت ناک عذاب میں مبتلا ہیں، کافروں کے لیے عذابِ قبر کا مطلق اثبات اس سے نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ ممکن ہے کہ پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس آیت کا علم تو رہا ہو، مگر مطلق عذابِ قبر کا نہیں۔دوسری آیت میں جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں، برزخ کے جزاؤ سزا کا کوئی صریح بلکہ مبہم اشارہ بھی نہیں ہے جو عقل کی مدد سے معلوم ہوسکے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ابنِ کثیر نے مذکورہ اشکال صرف اول الذکر آیت کی بنیاد پر اٹھایا ہے اور دوسری آیت کا حوالہ اس ضمن میں دیا ہی نہیں کہ اس سے بھی عذابِ قبر کا اثبات ہوتا ہے۔(تفسیر ابنِ کثیر، المومن:۴۶) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احوال قبر اور منکر ونکیر کے سوال وجواب کا ذکر فرمانے کے بعد بعض احادیث میں جس طرح یہ آیت تلاوت فرمائی، اس سے محسوس ہوتا ہے کہ آپ اس کو حیاتِ برزخ یا عذابِ قبر کے اثبات کے لیے تلاوت نہیں فرمارہے، بلکہ محض یہ بتانے کے لیے تلاوت فرمارہے ہیں کہ اللہ تعالی نے جو دنیاو آخرت میں مسلمان کو ثابت قدم رکھنے کا وعدہ فرمایا ہے، وہ قبر میں منکر نکیر کی آمد پر بھی پورا ہوگاجو آخرت کی گھاٹیوں میں سے پہلی گھاٹی ہے اوراسی طرح کافروں کے بارہ میں مدد نہ کرنے کا جو فیصلہ فرمایا ہے ، وہ بھی قبر میں بھی پورا ہوگا کہ کافر منکر ونکیر کے امتحان میں ناکام ہوگا۔ 
باقی صحیح البخاری (حدیث۱۳۶۹) وغیرہ میں جو یہ مذکور ہے کہ ’نزلت فی عذاب القبر‘ یعنی ’ یہ آیت عذابِ قبر کے بارہ میں نازل ہوئی ‘ تو علوم القرآن کی کتابوں میں یہ اصول بیان کیا گیا ہے کہ ’نزلت فی کذا‘ یعنی ’ یہ آیت فلاں معاملہ میں نازل ہوئی‘ کا اسلوب کسی آیت کے بارہ میں صریحاً یہ نہیں بتاتا کہ اس آیت کا شان نزول بھی یہی معاملہ ہے اور یہ آیت اسی معاملہ کے اثبات کے لیے نازل ہوئی، بلکہ علامہ زرکشی کے مطابق تو صحابہ و تابعین کی عادت ہی یہ تھی کہ وہ ’نزلت فی کذا‘ کا اسلو ب وہاں اختیار کرتے تھے جہاں مذکورہ معاملہ آیت کا شانِ نزول نہ ہوتا،بلکہ صرف یہ بتانا مقصود ہوتا کہ آیت کے مفہوم کا فلاں معاملہ پر بھی اطلاق ہوتا ہے۔ (التبیان۔ صفحہ۲۳) اس لیے ضروری نہیں کہ جب آیت نازل ہوئی ہو تو’نزلت فی کذا‘ کے ساتھ بیان کیا گیا مخصوص معاملہ بھی اسی وقت ثابت ہوگیا ہو، بلکہ یہ عین ممکن ہے کہ وہ معاملہ اس وقت کسی کے حاشیۂ خیال میں بھی نہ رہا ہو۔’نزلت فی کذا‘ کی ایسی کئی مثالیں علوم القرآن کی کتابوں میں موجود ہیں۔ (الاتقان ۱/۳۲) لہذا یہ ممکن ہے کہ سورۃ ابراہیم کی آیت۲۷ تو پہلے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں رہی ہو، مگر عذابِ قبر پہلے آپ کے علم میں نہ رہا ہو۔ بعد میں جب آپ کے علم میں یہ بات آگئی تو آپ نے احوال قبر کے ساتھ اس آیت کو تلاوت کرکے محض یہ بتا یا کہ آیت میں مومنوں کی مدد اور کافروں کی ہلاکت کا جو فیصلہ کیا گیا ہے وہ قبر میں بھی پورا ہوگا اور منکرو نکیر کے امتحان میں مسلمان کامیاب جبکہ کافر ناکام ہوگا۔ ’نزلت فی عذاب القبر‘ کو بھی اسی پر محمول کرنا چاہئے۔ اگر ’نزلت فی عذاب القبر‘ کا یہ معنی ہوتا کہ آیت کا شان نزول بھی عذاب قبر ہے اور آیت کے اترتے ہی عذابِ قبر کا علم بھی حاصل ہوگیا ہوگا تو کم ازکم’اسباب النزول‘ کی مخصوص کتابوں (لباب النقول وغیر ہ ) میں بھی مذکورہ آیت کے ساتھ اس کا یہ شانِ نزول بیان ہوتا ، لیکن اسباب النزول کی کتابوں میں اس آیت کے ساتھ ’نزلت فی عذاب القبر‘ کا ذکر نہ ہونااس بات کا قرینہ ہے کہ ان کے ہاں بھی ’نزلت فی عذاب القبر‘ کا معنی آیت کا شانِ نزول نہیں سمجھا گیا۔ واللہ اعلم 
خیر ، ثابت یہ کرنا مقصود ہے کہ اسلام نے قبروبرزخ کے احوال پر وہ زور نہیں دیا جو پہلے ہی دن سے قیامت، آخرت اور بعث بعد الموت پر دیا ہے۔ اسلام کی کامل پیروی اسی میں ہے کہ اسلام نے جس چیز کا بار بار تکرار کیا ہے، اس کا تکرار اور بار بار مذاکرہ کیا جائے جبکہ جس چیز کو نسبتاً کم دفعہ بیان کیا ہے، ہمیں بھی اس کو بہت زیادہ دفعہ بیان نہیں کرنا چاہئے۔ اس کے بعد مطلوبہ تنائج کو اللہ کے سپرد کردینا چاہئے۔ اگر اللہ نے چاہا تو اس سے اسلام کے مٹے ہوئے نقوش اور شعائر خودبخود زندہ ہونے لگیں گے۔ (یہ نکتہ قدرے زیادہ تفصیل سے میرے ایک اور مضمون میں بیان ہوگا۔)حساب وکتاب کا احساس اور خوف پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ زیادہ کثرت سے وہ مضامین بیان کیے جائیں جن پر خود اسلام نے پہلے دن سے زیادہ زور دیا ہے اور اسلوب بدل بدل کر ان کو قرآن میں بیان کیا ہے تاکہ ان کی تلاوت کی جائے، بار بار پڑھا جائے، سنا جائے اور تکرار کیا جائے۔ قبر کی جزاؤ سزا کا علم بھی ہمیں قرآن وحدیث کے ذریعہ ملا ہے، لیکن اسلام میں اس کے احوال پر وہ زور نہیں جو احوالِ قیامت پر دیا گیا ہے۔ اصل مسئلہ افراط وتفریط سے پیدا ہوا۔ بعض لوگوں نے یہ سمجھ لیاکہ اگر قبر کی زندگی کی کوئی حقیقت ہوتی تو قرآن عموماً صرف آخرت پرہی کیوں زور دیتا ہے؟ اس کے نتیجہ میں وہ انکارِ حدیث تک جا پہنچے۔ دوسری طرف بعض لوگوں نے جب دیکھا کہ انسان کے لیے جزاؤسزا کا سلسلہ قبر سے ہی شروع ہورہا ہے تو انہوں نے قیامت سے زیادہ قبر پر ہی زور دینا شروع کردیا۔ اسی کے احوال کو اس کثرت اور شدومد کے ساتھ بیان کیا ، جس شدومد اور کثرت کے ساتھ قرآن قیامت کی احوال پر زور دیتا ہے۔

عذابِ قبر اور منکرین کے شبہات

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ قبر اور برزخ کو ہم ایک ہی مفہوم میں استعمال کریں گے۔ موت کے بعد صورِ اسرافیل تک جو دورانیہ ہے ، قرآن میں اس کے لیے برزخ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ (المومنون:۱۰۰) ’برزخ‘ کے معنی حدفاصل کے ہیں۔ چونکہ یہ دورانیہ دنیا کی زندگی اور بعث بعد الموت کے بعد حاصل ہونے والی زندگی کے درمیان حائل حد فاصل ہے، اس لیے اسے برزخ کہا گیا ہے۔ احادیث میں جو اس دورانیہ کے دوران رونما ہونے والی کیفیات کو قبر کی طرف منسوب کیا گیا ہے جیسے عذابِ قبر وغیرہ، تو وہ تغلیباً ہے کیونکہ اکثر لوگوں کا یہ دورانیہ قبر میں ہی گزرتا ہے۔ واللہ اعلم! ورنہ اسی دورانیہ کے کئی احوال قرآن وحدیث میں ایسے مذکور ہیں، جن کے ساتھ قبر کا قطعا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اسی طرح یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ قرآن وحدیث میں قبر کے عذاب کے ساتھ ساتھ اس کی نیک جزاء کا بھی ذکر ہے۔ فریقین کے درمیان تنازعہ کا عنوان اگر چہ عذابِ قبر رہا ہے، مگر یہ تنازعہ صرف عذابِ قبر کے بارہ میں نہیں۔ جو عذابِ قبر کو مانتے ہیں، وہ قبروبرزخ کے باقی احوال کو اور اس کی نیک جزاء کو بھی مانتے ہیں۔ جبکہ جو لوگ عذابِ قبر کا انکار کرتے ہیں، وہ باقی احوال کا اور اس دورانیہ کی نیک جزاء کا بھی انکار کرتے ہیں۔ 
احوال برزخ اور قبر کے عذاب وجزاء کا انکار کوئی آج کی بات نہیں، صدیوں پہلے روافض، خوارج اور بعض معتزلہ بھی اس کے منکر رہے ہیں۔ ان کے اعتراضات جو ابنِ قیم کی کتاب ’الروح‘ سے نقل کیے گئے ہیں، کچھ اس طرح کے تھے:
(۱) جو احوالِ برزخ احادیث میں تفصیل سے مذکور ہیں، وہ قرآن میں کیوں مذکور نہیں؟ (الروح۔ صفحہ ۷۱)
(۲) قبر کے جزاؤ سزا کا تصور نہ صرف یہ کہ قرآن میں نہیں ہے، بلکہ یہ قرآن کے خلاف بھی ہے کیونکہ جزاؤ سزا کے احساس کے لیے زندگی ضروری ہے اور قرآن کی رو سے زندگیاں صرف دو ہیں۔ ایک دنیا میں اور دوسری صورِ اسرافیل کے بعد جو تاابد جاری رہے گی اور جسے بعث بعد الموت کا نام دیا گیا ہے۔ عذابِ قبر کا اثبات دراصل ایک تیسری زندگی کا اثبات ہے، جوکہ قرآن کے خلاف ہے۔ (صفحہ۴۲)
(۳) قبر کے احوال جو احادیث میں مذکور ہیں، وہ خلافِ عقل بھی ہیں کیونکہ اگر میت کو دفن کرنے کے کچھ عرصہ بعد قبر کو کھولا جائے تو میت کو جیسے دفن کیا گیا ہوتا ہے، وہ ویسے کا ویسے پڑا ہوتا ہے۔ جزاؤ عذاب کی جن کیفیات کا ذکر احادیث میں ہے ، ان میں سے کوئی بھی کیفیت وہاں نظر آتی ہے اور نہ ہی اس کے کوئی آثار ملتے ہیں۔ (صفحہ۵۹)
(۴) اگر قبر میں جزاؤ عذاب کا تصور حق ہے تو جولوگ پانی میں ڈوب کر، پھانسی پہ چڑھ کریا کسی جان ور کے پیٹ کی غذاء بن کر مرجاتے ہیں اور انہیں دفن کرنے کی نوبت ہی نہیں آتی تو منکر نکیر ان سے سوال کیسے کریں گے اور انہیں جزاؤ سزا کا احساس کیسے ہوگا۔ (صفحہ۶۹)
آج کے دور میں جو لوگ عذابِ قبر کا کلیتاً انکار کرتے ہیں، وہ بھی کم وبیش یہی اعتراضات کرتے ہیں۔ چنانچہ الشریعہ کے شمارہ اپریل ۲۰۱۳ء میں شائع ہونے والے امتیاز احمد عثمانی کے مکتوب کو دیکھا جاسکتا ہے ، جس کی ساری گفتگو انہی نکات کے گرد گھومتی ہے۔ اگریہ انکار اس وجہ سے ہوتا کہ ان لوگوں تک نبوی احادیث نہیں پہنچیں تو ان کا یہ انکار کسی حدتک قابلِ فہم ہوتا، مگر یہاں ایسی کوئی بات نہیں۔ صریح احادیث کے پہنچنے کے بعد ان کا انکار کیا جارہاہے۔ ذہنِ جدید کی الجھنوں کو سامنے رکھتے ہوئے اب ہم ان سوالات پر بالترتیب غور کرتے ہیں جو منکرینِ برزخ (عذابِ قبر کے منکرین) کی طرف سے اٹھائے جاتے ہیں۔ 

پہلا سوال

اس سوال کا جواب دینے سے پہلے اس کے پسِ پردہ کارفرما سوچ کا مختصر محاکمہ ضروری ہے۔ عموماً جو لوگ سنت کی تخفیف کرتے ہیں اور ہر بات کا حوالہ قرآن سے مانگتے ہیں، ان کا نکتۂ اعتراض یہ ہوتا ہے کہ احادیث ’وحی‘ نہیں، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قرآن فہمی کا نتیجہ ہیں، لہذا اصل چیز قرآن ہے۔ پس حدیث کی صحت وسقم کو جانچنے کا اصول ان کے نزدیک یہ ہے کہ جس حدیث کا ماخذ انہیں (بزعمِ خود) قرآن میں مل جائے ، اس کو تو حدیث تسلیم کرلیا جاتا ہے اور نبوی قرآن فہمی کی حیثیت سے اسے دیکھا جاتا ہے، جبکہ جس حدیث کا ماخذ انہیں قرآن میں نہ ملے، اس کے بارہ میں باور کرلیا جاتا ہے کہ راویوں نے یہ حدیث غلط طور پر آنحضور کی طرف منسوب کردی ہے۔ ہمارے خیال میں اس نکتہ کی کوئی وقعت نہیں۔ یوں تو ہمیں خود قرآن نے جس طرح نبی کی غیر مشروط اطاعت کا حکم دیا ہے، اس کے بعد ہمیں اس بات سے سروکار نہیں ہونا چاہئے کہ نبی کی کونسی بات کیسے اور کون سے ذریعہ سے ماخوذ ہے؟ آیا قرآن سے ؟ کسی خواب سے؟ یا کسی فرشتہ کے اطلاع دینے سے ؟ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اگر فرض کر لیا جائے کہ نبی کی ساری احادیث محض ’’قرآن فہمی‘‘ کا درجہ ہی رکھتی ہیں (اگر چہ اس مفروضہ کی کوئی دلیل نہیں اور فضائلِ اعمال کی اکثر احادیث اس مفروضہ کی نفی کرتی ہیں)تو پھر بھی ضروری نہیں کہ نبی کے ہر فرمان کا ماخذ صاف صاف ہمیں بھی قرآن میں نظر آجائے۔ یہ عین ممکن ہے کہ نبی نے اپنی شانِ عبدیت اور خداداد بصیرت کے ساتھ اپنے رب کے کلام سے کوئی ایسی بات سمجھی ہوجو ہم جیسے سیاہ کار اور دنیادار رہتی دنیا تک نہ سمجھ سکیں اور نبی کی قرآن فہمی کوئی معمولی قرآن فہمی نہیں کہ مودودی اوراصلاحی کی قرآن فہمی کی طرح اس سے اختلاف کیا جاسکے۔ لہذا صحیح سند سے ثابت ہونے والی اور تاریخی تنقید کے اصولوں پر پورا اترنے والی کسی حدیث کو محض اس وجہ سے مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ ہمیں اس کا ماخذ اور مستنبط قرآن میں نہیں مل رہا۔ باقی یہ پہلو بھی قابلِ توجہ ہے کہ قرآن میں کسی بات کا مذکور نہ ہونا اور قرآن کا کسی بات کی مخالفت کرنا‘ دو الگ الگ باتیں ہیں۔ اگر ایک بات کا ذکر قرآن میں نہیں ہے تو ضروری نہیں کہ قرآن اس کا منکر اور مخالف بھی ہو۔ 
چنانچہ اگر فرض کرلیا جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروبرزخ کے تمام احوال قرآن ہی سے سمجھے، مگر ہمیں یہ استدلال اور استنباط سمجھ نہیں آرہا یا پھر واقعی قرآن میں قبروبرزخ کے جزاؤ عذاب کا کوئی ذکر نہیں ہے، مگر قرآن اس کا انکار بھی نہیں کرتاتو ان دونوں صورتوں میں قرآن ہی کی پیروی کا یہ تقاضا ہے کہ احوالِ برزخ کو نبی پر اعتماد کرتے ہوئے تسلیم کیا جائے یا کم ازکم اس حوالہ سے سکوت اختیار کیا جائے جس طرح کہ ’’اہلِ قرآن‘‘ کو قرآن اس حوالہ سے ساکت نظر آتا ہے۔ ان دونوں صورتوں میں قرآن کے نام پر برزخی جزاؤ عذاب کے انکار کی کوئی گنجائش نہیں۔ 
اس ابتدائی تمہید کے بعد ہم اصل سوال کی طرف لوٹتے ہیں۔ اگر چہ کسی چیز کا اس وجہ سے انکار کرنا درست نہیں کہ اس کا ذکر صرف احادیث میں کیوں ہے اور قرآن میں کیوں نہیں، مگر عذابِ قبر اور برزخی جزاؤ سزا کے بارہ میں حقیقت یہ ہے کہ قرآن بھی ان کے ذکر سے خالی نہیں، لیکن انداز ایسا ہے کہ بقول سیدسلیمان ندوی’اس سے عذابِ قبر کی طرف ذہن بتصریح منتقل نہیں ہوتا۔‘ (سیرتِ سیدہ عائشہ۔صفحہ۱۹۵)تاہم جن لوگوں کو احادیث کے مفاہیم قرآن میں تلاش کرنے کا شدید شوق لاحق ہے، انہیں اِ ن آیات پر ضرور غور کرنا چاہئے۔ 
(۱) ’النار یعرضون علیہا غدوا وعشیا ویوم تقوم الساعۃ أدخلوا آل فرعون أشد العذاب‘ (المومن:۴۶)
یعنی ’آلِ فرعون صبح و شام جہنم کے روبرو پیش کیے جاتے ہیں اور جب قیامت واقع ہوگی تو کہا جائے گاکہ آلِ فرعون کو جہنم میں ڈال دو۔‘ 
آیت کے اپنے الفاظ صاف گواہی دے رہے ہیں کہ جہنم کے روبرو پیش کیے جانے کا عذاب قیامت سے پہلے ہی آلِ فرعون کو ہورہا ہے تو ظاہر ہے کہ اس کا تعلق برزخ کے دورانیہ سے ہی ہے۔ آیت میں اگر چہ صرف آلِ فرعون کے لیے عذابِ برزخ کا ذکر ہے، مگر منکرینِ برزخ آلِ فرعون کے حق میں بھی اس عذاب کو تسلیم نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ آیت کے ترجمہ میں ’ پیش کیے جاتے ہیں‘ کی بجائے ’پیش کیے جائیں گے‘ کہا جائے اور پھر ’پیش کیے جائیں گے‘ کا معنی ’قیامت کے دن پیش کیے جائیں گے‘لیا جائے۔ دلیل میں شاہ رفیع الدین ؒ وغیرہ کا ترجمہ بھی پیش کیا گیا ہے کہ انہوں نے بھی ’پیش کیے جائیں گے‘ کا ترجمہ کیا ہے۔نیز سورۃ الاحقاف کی آیت۲۰،۳۴ کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے کہ وہاں قیامت کے دن کافروں کو جہنم کے روبرو پیش کیے جانے کا ذکر ہے، لہذا مذکورہ آیت میں بھی پیشی سے مراد قیامت کے دن کی پیشی مراد ہونی چاہئے۔ (دیکھئے : الشریعہ اپریل ۲۰۱۳ء۔صفحہ ۵۴)
ان حضرات کی خدمت میں گذارش ہے کہ شاہ رفیع الدین نہ عذابِ قبر کے منکر ہیں اور نہ ہی منکرحدیث، جبکہ احادیث (جن کو منکرینِ حدیث مجبوراً نبوی فہمِ قرآن کہتے ہیں)میں آیت کا یہی معنی لیا گیا ہے کہ آلِ فرعون کو جہنم کے روبرو پیش کیے جانے کا عذاب قیامت سے پہلے ہی ہورہا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر) لہذا شاہ رفیع الدین کے ترجمہ میں کوئی توجیہ کرنی چاہئے جو ان توجیہات میں سے کوئی بھی توجیہ ہوسکتی ہے:
  • اردوایک نوزائیدہ زبان ہے۔ اب اگرچہ یہ کافی ترقی کرچکی ہے، لیکن شاہ رفیع الدین کے زمانہ تک اس کے قواعد ضوابط زیادہ منضبط نہیں تھے۔ اس لیے اس دور کی غیر ادبی اردو میں معمولی اونچ نیچ کی مثالیں مل جاتی ہیں۔ ان کے ترجمہ میں اگر ’پیش کیے جائیں گے‘ کا مطلب ’پیش کیے جاتے رہیں گے (قیامت تک)‘ لیا جائے تو یہ زیادہ مناسب ہے۔ 
  • کاتب کے سہو کے امکان کوبھی رد نہیں کیا جاسکتا کہ اصل میں جملہ ’پیش کیے جاتے رہیں گے‘ ہی ہو ، مگر کاتب کی غلطی سے ’پیش کیے جاویں گے‘ بن گیا ہو۔ 
  • ممکن ہے کہ واقعاتی انداز اختیار کرتے ہوئے یہ ترجمہ کیا گیا ہو۔ واقعاتی اندا ز میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ قاری ماضی کے ایک واقعہ کو سنتے ہوئے گویا خود بھی اس واقعہ کا حصہ بن گیا ہے اور ماضی میں پہنچ گیا ہے۔ چونکہ آیت مذکورہ سے پہلے موسی علیہ السلام، ان کے ساتھی اور فرعون کا قصہ بیان ہورہا ہے اور آخر میں ان کا انجام بیان کیا گیا ہے،لہذا واقعاتی انداز اختیار کرتے ہوئے آخری آیات کا ترجمہ یوں ہوسکتا ہے کہ ’اللہ نے موسی کے ساتھی کو فرعونیوں کی سازشوں کے شر سے محفوظ فرمایا اور آلِ فرعون پر برا عذاب نازل ہوا، (اب قیامت تک کے لیے) دوزخ ہے جس پر وہ صبح شام پیش کیے جائیں گے اور جب قیامت واقع ہوگی تو کہا ۔۔۔‘ اس توجیہ کی رو سے مستقبل کا معنی لینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ 
  • فرض کیجئے کہ آیت کا ترجمہ لکھتے وقت وہ برزخی عذاب کے منکر بھی رہے ہوں اور نظمِ قرآنی کو سمجھنے میں ان سے چوک رہ گئی ہو تو یہ اس وجہ سے ہوگا کہ تب تک ان کے علم میں صریح احادیث نہیں آئی ہوں گی۔ 
شاہ رفیع الدین کے علاوہ بھی جس کسی نے مستقبل کا معنی لیا ہے اور وہ منکرِ حدیث نہیں ہے تو اس کے بارہ میں بھی انہی توجیہات میں سے کوئی کار آمد توجیہ اختیار کی جاسکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ احادیث سے صرفِ نظر کر کے بھی دیکھا جائے تو آیتِ مذکورہ کے اندر قیامت کا ذکر بعد میں الگ سے ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ جہنم کے رو برو پیش کیے جانے کا عذاب وقوعِ قیامت سے پہلے ہی ہورہا ہے ورنہ اس عذاب کے ذکر کے بعد یہ کہنا کیا معنی رکھتا ہے کہ ’اور جب قیامت واقع ہوگی تو کہا جائے گا کہ ۔۔۔‘ اگر دونوں عذابوں کا تعلق روزِ قیامت سے ہے تو وقوعِ قیامت کی بات دونوں عذابوں کے ذکر سے پہلے ہونی چاہئے تھی۔ اسی طرح اگر جہنم کے روبرو پیش ہونے کے عذاب کا تعلق روزِ قیامت سے ہو تو ’صبح شام پیش کیے جائیں گے ‘ کا کیا مطلب؟ کیا قیامت کی صبح وشام مراد ہے؟ اگر ہاں تو اب آیت کا ترجمہ یوں ہوگا کہ ’آلِ فرعون قیامت کے دن صبح شام جہنم کے روبروپیش کیے جائیں گے اور جب قیامت واقع ہوگی تو کہا جائے گا کہ آلِ فرعون کو جہنم میں ڈال دو۔‘ اگر قیامت کی صبح سے لے کر شام تک آلِ فرعون کو صرف جہنم کے روبرو پیش کیے جانے کاعذاب ہی ہوگا تو اگلی کلام پھر یوں ہونی چاہئے تھی کہ ’اور جب قیامت کی شام بھی ڈوب جائے گی تو ۔۔۔‘ اگر کوئی سمجھنا چاہے تو اس کے لیے یہی وضاحت ہی کافی ہے اور جو نہیں سمجھنا چاہتا تو اسے نہ قرآن کا اپنا اسلوب مطمئن کرسکتا ہے اور نہ ہی احادیث۔بس اس کی جمع پونجی وہی مفروضات ہیں جو اس نے اپنے دماغ میں قائم کر رکھے ہیں۔جو لوگ منکرِ حدیث نہیں ، وہ نہ صرف یہ کہ آلِ فرعون کے لیے برزخی عذاب کو تسلیم کریں گے، بلکہ وہ تو اس حدیث کو بھی تسلیم کریں گے کہ نہ صرف آلِ فرعون ، بلکہ ہر مومن اور ہر کافر کو مرنے کے بعد اور وقوعِ قیامت سے پہلے جنت یا جہنم میں اپنا مخصوص ٹھکانہ صبح وشام دکھایا جاتا ہے اور وہ اس کے روبروپیش کیا جاتا ہے۔ (صحیح البخاری۔ حدیث۳۲۴۰) باقی سورۃ الاحقاف کی آیت۲۰ اور ۳۴ یعنی ’ویوم یعرض الذین کفروا علی النار‘ میں جو کافروں کو جہنم کے روبروپیش کیے جانے کا ذکر ہے تو نہ وہاں صبح شام کا ذکر ہے اور نہ ہی اس ’’پیشی‘‘ کے بعد قیامت کا الگ سے ذکر کیا گیا ہے۔ وہاں کوئی ایسا قرینہ نہیں جو مجبور کرے کہ اس ’پیشی‘ سے ’برزخی پیشی‘ ہی مراد لی جائے، اس لیے وہاں قیامت کے دن کی پیشی بھی مراد ہوسکتی ہے کیونکہ بہرحال جہنم میں گرائے جانے سے قبل کفار کو جہنم کے روبرو ہی پیش ہونا ہوگا۔ تاہم ضروری نہیں کہ اگر سورۃ الاحقاف کی آیت میں روزِ قیامت کی پیشی مراد ہے تو آلِ فرعون کے لیے بھی یہی پیشی مراد ہو۔ ایسا سمجھنے والوں کی ’قرآن دانی‘ اور ’عربی دانی‘ ہمارے فہم سے بالاتر ہے۔ سادہ سی بات ہے کہ دونوں مقامات پر آیات کے اپنے اسلوب کی رعایت کی جائے گی اور صاحبِ قرآن کی احادیث کو بھی دیکھا جائے گا جو قرآن ہی کی تائید کرتی ہیں۔ ’آلِ فرعون‘ والی آیت سے ان لوگوں کے شبہ کا بخوبی ازالہ ہوجاتا ہے جو برزخی عذاب کی کلیتا تردید کرتے ہیں۔
(۲) حیاتِ شہداء والی آیات (البقرۃ:۱۵۴، آل عمران:۱۶۹) بھی اپنے مضمون میں بالکل واضح ہیں کہ’ اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کو مردہ مت کہو، وہ زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس ہیں، کھلائے پلائے جاتے ہیں، اللہ کی عنایت پر خوش ہیں، پیچھے رہنے والے اپنے ساتھیوں کے بارہ میں تسلی رکھتے ہیں کہ ان کے لیے بھی اچھا انجام ہے۔‘ اگر خالی الذہن ہوکر دیکھا جائے تو آیت کا اپنا اسلوب بتار ہا ہے کہ اللہ کے ہاں ان کا اعزاز واکرام قیامت سے قبل ہی ہورہا ہے توظاہر ہے کہ اس کا تعلق بھی برزخ سے ہوگا۔ آیت میں اگرچہ صرف شہداء کے لیے برزخی انعام واکرام کا ذکر ہے ،مگر منکرینِ برزخ شہداء کے حق میں بھی اس اعزاز واکرام کو تسلیم نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ قرآن سے کہیں ثابت نہیں کہ صورِ اسرفیل پر ہونے والے بعث بعد الموت سے شہداء مستثنی ہیں اور عمومی بعث بعد الموت سے پہلے ہی ان کو زندگی مل چکی ہے۔ لہذا جب شہداء کی زندگی بھی بعث بعد الموت کے بعد شروع ہوگی تو آیتِ شہداء میں اسی زندگی کا ذکر ہے جو بعث بعد الموت کے بعد ان کو حاصل ہوگی۔ اب مذکورہ آیات کے ترجمہ میں ’زندہ ہیں‘ کی بجائے ’زندہ ہوں گے (مستقبل میں)‘ کہا جائے۔ (الشریعہ اپریل ۲۰۱۳ء۔ صفحہ ۵۱) 
نہ جانے اس قبیل کے لوگوں کو حدیثِ نبوی سے کیا چڑ ہوتی ہے کہ وہ اس کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے؟یہ بات ٹھیک ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو صرف دو زندگیاں عطا فرمائی ہیں، ایک دنیاوی اور دوسری صورِ اسرافیل کے بعد۔ (اس پر تفصیلی کلام ان شاء اللہ دوسرے سوال کے جواب میں ہوگی)اسی طرح یہ بھی ٹھیک ہے کہ شہداء عمومی بعث بعد الموت میں باقی لوگوں کے ساتھ کھڑے کیے جائیں گے اور ان کے لیے بھی دو ہی زندگیاں ہیں جن کا ذکر قرآن میں کیا گیا ہے۔ احادیث بھی اسی کی تائید کرتی ہیں۔ ابن عساکر کی روایت میں صراحت ہے کہ اللہ تعالی قیامت کے دن شہید کو بھی زندہ فرمائیں گے (کنز العمال، حدیث۱۱۷۳۸) جس سے اس بات کی نفی ہوتی ہے کہ شہداء عمومی بعث بعد الموت سے مستثنی ہیں۔ اس کے بعد اگر امتیاز عثمانی صاحب کے دل میں اشکال پیدا ہوتا ہے کہ آیتِ شہداء میں شہداء کے لیے تیسری زندگی کا ذکر کہاں سے آگیاتو اس اشکال کا حل یہ نہیں کہ شہداء کی حیاتِ برزخی کا انکا رکردیا جائے جس کا اعلان آیتِ شہداء کر رہی ہے۔ بعث بعد الموت اور دو زندگیوں کا ذکر اگر قرآن میں ہے تو صورِ اسرافیل سے قبل شہداء کو حاصل زندگی کا غیر مبہم بیان بھی اسی قرآن میں ہے۔ ’نظائرِ قرآنی‘ کے نام پر ہمیں قرآن کی پیوند کاری سے باز رہنا چاہئے۔ اجمالی ایمان کے لیے تو اتنی بات کافی ہے کہ قرآن میں دونوں باتوں کا ذکر ہے لہذا دونوں ہی حق ہیں، لیکن اگر برزخی جزاؤ سزا کا انکا ر کرنے والوں کو اس پہ کوئی اشکال ہے ہی تو انہیں اپنے اس اشکال کا جواب حدیثِ نبوی میں مل سکتا تھا ، بشرطیکہ وہ احادیث کو دیکھ لینے کے ہی روا دار ہوتے۔ قرآن میں جن دو زندگیوں کا ذکر ہے، ان سے مراد جیتی جاگتی انسانی زندگیاں ہیں، جبکہ احادیث بتاتی ہیں کہ شہداء کی برزخی حیات سے مراد کوئی جیتی جاگتی انسانی زندگی نہیں، بلکہ یہ ہے کہ اللہ تعالی ان کی ارواح کو سبز رنگ کے پرندوں میں ڈال کر جنت میں گھومنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔(صحیح مسلم۔ حدیث۱۸۸۷) لہذا یہ اعتراض ختم ہوجاتا ہے کہ قرآن میں تو دو زندگیوں کا ذکر ہے، جبکہ حیاتِ شہداء سے ایک تیسری زندگی کا اثبات ہوتا ہے۔ آیت کے ترجمہ میں ’بل أحیاء‘ کا معنی ’زندہ ہیں‘ کی بجائے’زندہ ہوں گے‘ بھی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس کے بعد جو ان کے باقی احوال بتائے گئے ہیں، ان میں ایک حال یہ بھی ہے کہ ’پیچھے رہنے والے اپنے ساتھیوں کے بارہ میں وہ تسلی رکھتے ہیں کہ ان کے لیے بھی اچھا انجام ہے۔‘ ظاہر ہے کہ پیچھے رہنے والوں کے بارہ میں یہ تاثر برزخ میں ہوسکتا ہے، صورِ اسرافیل کے بعد نہیں جب سب لوگ ہی دوبارہ زندہ ہوچکے ہوں گے اور’پیچھے رہنے والے ساتھی‘کوئی نہیں ہوں گے جن کے بارہ میں یہ تاثر پیدا ہوسکے۔
امتیاز صاحب نہ تو قرآن کے مفہوم کو اس کے اپنے الفاظ سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی قرآن فہمی کے لیے احادیث کو دیکھنے کے روا دار ہیں۔ آلِ فرعون کے عذاب سے متعلق گذشتہ آیت کے بعد اب آیتِ شہداء کے ضمن میں بھی ان کاطرزِ فکر کھل کر نظر آرہا ہے کہ قرآن مجید بعث بعدالموت سے پہلے ہی شہداء کو حاصل زندگی کو ظاہر کرتا ہے، مگر ان کو اس ظاہر وبارز مفہوم پر اشکال ہے۔ پھر اس اشکال کا جواب جو حدیث میں ملتا ہے، وہ بھی ان کے حلق سے نہیں اترتا۔ آخر وہ چاہتے کیا ہیں کہ قرآنی مضامین کو ان کے عقلِ سلیم اور قلبِ منیب کے سہارے چھوڑ دیا جائے؟مجھے امتیاز صاحب سے ہمدردی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ان کا شمار ان لوگوں میں نہ ہو جو حدیث کانام سنتے ہی بدک جاتے ہیں۔
گذشتہ دونوں آیات سے ثابت ہوا کہ برزخ کے عذاب وجزاء کا کلیتا انکار کرنے والوں کا یہ دعوی درست نہیں کہ برزخی جزاؤ سزا کا ذکر قرآن میں بالکل نہیں ہے۔ اہلِ سنت نے اگر چہ برزخی عذاب وجزا کے اثبات کے لیے بعض دیگر قرآنی آیات سے بھی استدلال کیا ہے، مگر میرے خیال میں ان دو آیات سے زیادہ صریح آیت شاید کوئی نہ ہو۔ اس لیے ہم انہی دو پر قناعت کرتے ہیں۔ زاہد صدیق مغل صاحب نے ’الشریعہ فروری ۲۰۱۳ء‘ میں برزخی جزاؤسزا کے اثبات کے لیے البقرۃ کی آیت ۲۸ سے استدلال کیا ہے جو ہماری نظر میں بالکل درست نہیں۔ (واللہ اعلم) اس استدلال پر تفصیلی گفتگو ہم چند سطروں بعد کریں گے۔ 

دوسرا سوال

یہ بات درست ہے کہ جو حدیث قرآن کے خلاف ہو، وہ قابلِ قبول نہیں۔ لیکن اس کے ساتھ یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے خلاف کوئی بات ارشاد نہیں فرما سکتے۔ کسی روایت کو خلافِ قرآن کہنے سے مقصود اس کے راوی کو قصور وار ٹھہرانا ہوتا ہے کہ وہ جھوٹا ہے، یا وہ پوری روایت کو محفوظ نہیں رکھ سکا یا پھر ’غیر حدیث‘‘ کو غلطی سے حدیث سمجھ بیٹھا۔ معاذ اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ الزام عائد نہیں کیا جارہا ہوتا کہ انہوں نے کوئی بات قرآن کے خلاف کہہ دی۔ اس کے بعد یہ نکتہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ راوی اور ناقل کو نقلِ روایت میں تبھی قصور وار ٹھہرایا جاسکتا ہے کہ جب وہاں قصور رہ جانے کا امکان بھی ہو۔ مثلا یہ کہ اس کے راوی اکا دکا ہوں جسے ’خبرِ واحد‘ کہا جاتا ہے اور یہ ممکن ہو کہ وہ راوی جھوٹ پر اتفاق کر لیں یا انہیں ’غیرِ حدیث‘ کو حدیث سمجھنے کا ایک جیسا مغالطہ لاحق ہوجائے۔ لیکن اگر فرض کیجئے کہ اس کے راوی اتنی تعداد میں ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس حدیث اور معاملہ کی نسبت تواتر اور قطعیت کے ساتھ ثابت ہوجائے اور کثیر التعداد راویوں کے بارہ میں یہ تصور کرنا عقل سے بعید ہو کہ انہوں نے ایک جھوٹ کو پھیلانے پر اتفاق کرلیا ہوگا یا ان سب کو حدیث کے سمجھنے میں ایک جیسی غلطی لگی ہوگی تو اس صورت میں اس حدیث اور معاملہ کو خلافِ قرآن کہنے کا مطلب براہِ راست نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قصوروار ٹھہرانا ہوگا کیونکہ نبی کی طرف اس بات کی نسبت قطعیت سے ثابت ہوچکی ہے اور واقعہ کی دنیا میں ایسے کسی معاملہ کے اندر راویوں سے قصور رہ جانے کا امکان نہیں ہوتا۔
خلاصہ یہ کہ اگر روایت متواتر ہو تو اس صورت میں اس کو خلافِ قرآن کہنے کا مطلب نبی کوقصور وار ٹھہرانا ہوگا کیونکہ جب خبر حد تواتر تک پہنچ جائے تو راویوں اور ناقلوں کو غلط بیانی اور غلط فہمی کا ذمہ درا نہیں ٹھہرایا جاتا۔اس صورت میں اگر کسی کو اس حدیث کے ساتھ اختلاف ہوتو سیدھے لفظوں میں یہ نبی کے ساتھ اختلاف ہوگا۔ پس کسی حدیث یااحادیث سے ثابت کسی معاملہ کو ’خلافِ قرآن‘ کہنے سے پہلے یہ دیکھ لینا چاہئے کہ وہ حدیث یا معاملہ متواتر تو نہیں اورکہیں اس روایت کی نسبت آنحضور کی طرف قطعیت کے ساتھ تو ثابت نہیں ہوچکی۔ اگر ایسی صورت میں کسی کو قرآن اور حدیثِ متواتر کے درمیان تضاد محسوس ہوتا ہی ہے تو احترامِ رسول کا تقاضاہے کہ وہ حتی المقدور ان کے درمیان تطبیق کی صورت پیدا کرے یا تقابلی جائزہ کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنے فہم کو قصور وار ٹھہرائے اور دونوں پر اجمالی ایمان رکھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا کبھی ہوگا ہی نہیں کہ قرآن اور حدیثِ متواتر کے درمیان کوئی ایسا اختلاف پیدا ہوجائے جس کو دور کرنے کے لیے تطبیق کی کوئی صورت ہی نہ ہو، بشرطیکہ دیکھنے والے کی بنیادی نفسیات درست ہو۔ 
احادیث میں مذکور برزخی جزاؤ سزا اور دیگر احوالِ برزخ کا معاملہ یہ ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ ثابت ہیں۔ایک ایک جزئی روایت تو شاید متواتر نہیں، مگر ان کا مجموعی مفہوم اور ان کی قدرِ مشترک (جس کا انکار منکرینِ برزخ کرتے ہیں) وہ تواتر کی حد تک پہنچتا ہے۔ چنانچہ صرف صحابہ میں سے جن افراد نے احوالِ برزخ کوروایت کیا ہے، ان کی تعداد ایک اندازہ کے مطابق ۱۹؍ تک پہنچتی ہے اور ان کے نام یہ ہیں:۔۔۔ ۱۔حضرت عمر۲۔ حضرت عثمان ۳۔ انس بن مالک ۴۔ براء بن عازب ۵۔ تمیم داری ۶۔ ثوبان ۷۔ جابر بن عبداللہ ۸۔ حذیفہ بن یمان ۹۔ عبادۃ بن صامت ۱۰۔ عبداللہ بن رواحہ ۱۱۔ عبداللہ بن عباس ۱۲۔ عبداللہ بن عمر ۱۳۔ عبداللہ بن مسعود ۱۴۔ عمرو بن عاص ۱۵۔ معاذ بن جبل ۱۶۔ ابو امامہ ۱۷۔ ابو الدرداء ۱۸۔ ابوہریرہ۱۹۔ حضرت عائشہ (النبراس۔ صفحہ ۳۲۰) تحقیق کی جائے تو شاید اس تعداد میں مزید بھی اضافہ ہوجائے۔ پھر یہ تعداد صرف صحابہ کی ہے، بعد میں ان سے نقل کرنے والوں کی تعداد تدریجاً بے حدوبے حساب ہوتی چلی جاتی ہے۔ ظاہر ہے ان سب راویوں کے بارہ میں یہ تصور کرلینا کہ انہوں نے ایک ہی جھوٹ پر ایکا کرلیا ہوگایا سب کو ادھوری حدیث یادر ہ گئی ہوگی یا سب ہی لوگ عذاب قبر کے بارہ میں ’’غیر احادیث‘‘ کو احادیث سمجھنے کے ایک جیسے مغالطہ کا شکار ہوئے ہوں گے، یہ ممکن نہیں۔ اگر کوئی ان سب روایات کو ’خلافِ قرآن‘ کہتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ بالواسطہ آنحضور کو قصور وار ٹھہرا رہا ہے کہ انہوں نے قرآن کے خلاف کئی باتیں کہہ دیں حالانکہ نبی کی بات کتاب اللہ کے خلاف نہیں ہوسکتی۔ 
اجمالی ایمان کے لیے تو اتنی بات ہی کافی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بے شمار احادیث میں قبر کے جزاؤ عذاب کا ذکر ہے، اس لیے وہ حق اور سچ ہے۔ اگر قرآن سے تقابلی مطالعہ کا ضرور ہی شوق ہو تو جو آدمی احادیث کو قرآن کے مطابق دیکھنا ناپسند نہیں کرتا، اسے قرآن میں بھی اس کے کئی اشارے مل جائیں گے جیسا کہ اہلِ سنت کو ملتے رہے ہیں اور گذشتہ سطور میں ہم نے بھی ان میں سے دو ناقابلِ تردید آیات نقل کی ہیں۔ لیکن اگر خدانخواستہ نفسیات ہی یہ بن چکی ہو کہ اپنے عقلی مفروضات سے قرآن کی مطابقت پیدا کرنے کے لیے تو قرآنی مضامین میں جیسی تیسی تاویل بھی کردینی ہے او راحادیث سے قرآن کی مطابقت کو سمجھنے کے لیے قرآن کے تائیدی اشاروں کو بھی قبول نہیں کرنا، بلکہ کسی ایسی آیت کا مطالبہ جاری رکھنا ہے جو سو فی صد وہ بات کہہ رہی ہو جو حدیث میں گئی ہے، تو ایسی نفسیات کا کیا علاج ہوسکتا ہے؟ برزخی جزاؤ سزا کے بارہ میں قرآن کے تائیدی اشاروں کو در خورِ اعتناء نہ سمجھنے والے امتیاز صاحب ایک سائنسی انکشاف کی قرآن سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے کس طرح قرآن میں تاویل کرتے ہیں، ذرا دیکھئے: ’روح سے مراد جان ڈالنا نہیں ہوسکتا کیونکہ جان تو پہلے ہی دن سے تھی جب نطفہ علقہ بنا تھا۔ اگر جرثومہ بے جان ہو تو انسان پیدا ہی نہیں ہوسکتا۔ ‘ ( الشریعہ اپریل ۲۰۱۳ء۔ صفحہ۵۳)
(باقی)

مکاتیب

ادارہ

(۱)
بسم اللہ
لندن، ۲۹ جولائی ۲۰۱۳ء
مکرم ومحترم مولانا زاہد الراشدی،السلام علیکم ورحمۃ اللہ 
جون کا شمارہ پاکر میاں عمار صاحب کو لکھا تھا کہ بھئی یہ زاہد صدیق مغل صاحب (جو مغربی اخلاق پر لکھ رہے ہیں)یہی تو نہیں تھے جنھوں نے مولانا تقی عثمانی صاحب اور اسلامی بینکنگ پر کافی لکھا تھا؟یہ تو بس یونہی خیال آیا تو پوچھ لیا ورنہ کوئی خاص مقصد نہ تھا ۔بہرحال، وہ ہوں یا کوئی دوسرے صاحب ، 
یہ مضمون چونکہ ہم ’’مغرب باسیوں‘‘ سے گہرا تعلق رکھتا ہے اس لیے پرھنے میں دلچسپی ہوئی ۔مگریہ Morality اور Ethics  کی اصطلاحوں میں بات سے مضمون کاجو مطالبہ ہم لوگوں اور تمام ان لوگوں سے ہے جو مغرب کی بعض اخلاقیا ت کی تعریف یا اعتراف کیا کرتے ہیں اس پر تو علامہ اقبال کا شعر ؂ 
الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں ہیں دانا
غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے 
یاد آنے لگتا ہے۔ ہمیں ان کے اخلاق سے مطلب ہے کہ ان کی اخلاقیات کے پس منظر سے؟ہمارا ان کا کوئی معاشرتی تعلق تو ابھی تک بنا نہیں ہے۔ زیادہ تر بس وقتی باہمی رابطہ کی نوبت مختلف صورتوں رہتی ہے اورا س میں جو ان کے اخلاق یا Behaviour کا پہلو سامنے آتا ہے تو بالکل قطعی بات ہے کہ اس میں مجموعی طور پر وہ ہمارے لوگوں سے فائق ٹھہرتے ہیں۔اور یہ کہتے ہوئے شرمانا نہیں چاہئے کہ ان ’’کفار‘‘ نے ہمیں اپنی بہت سی بھولی باتیں یا د دلائی ہیں۔
موصوف فرماتے ہیں کہ :
’’مغرب کا اجتماعی نظم اعلیٰ اخلاق کا نہیں بلکہ انتہائی رزیل انسانی احساسات پر مبنی(حرص، حسد، شہوت، غضب ، طولِ امل،حبِ جاہ، دنیا و مال) اور اس پر قائم ہونے والی ادارتی صف بندی۔۔۔۔۔ کے قیام کے لیے مطلوب نظم کی پا بندی کا غماز ہے۔ جس میں اعلیٰ اخلاق (مثلًا للٰہیت،عشقِ رسول ،شوقِ عبادت، خوفِ آخرت، طہارت۔تقویٰ،عفت، حیا، ایثار، (وغیرہ وغیرہ) کے پنپنے کا کوئی امکان موجود نہیں رہتا۔ ‘‘ (ص۱۹۔۲۰)
یہ اعلیٰ اخلاق کی جو مثالیں مصنف دے رہے ہیں،یہ عام انسانوں سے متعلق ہیں یا خاص ایمان باللہ والوں سے! مغربی اخلاق کی تعریف کرنے والا وہ کون مسلمان ہے جو اِن خاص مؤمنانہ اخلاق کے مفہوم میں مغربیوں کو سندِ اخلاق دیتا ہو،جس کو رد کرنے کے لیے موصوف نے اتنے طویل اور دقیق مضمون کی ضرورت محسوس فرمائی؟ اور پھر یہ بھی سمجھ سے بالکل ہی باہر قسم کی بات ہے کہ کسی اخلاقیات کا تعلق ’’حرص، حسد، شہوت، غضب ، طولِ امل وغیرہ جیسی چیزوں سے ہو ۔ پتہ نہیں مصنف کس عالم کی بات کرتے ہیں!
حضرت علیؓ کی طرف ایک سیدھا سا قول منسوب ہے کہ حکومت کفر کے ساتھ قائم رہ سکتی ہے ظلم کے ساتھ نہیں۔ اور یہ وہ سچائی ہے جسے سارے زمانے دیکھتے آرہے ہیں۔ مگر یہ مقولہ ہمارے مصنف کے خاص خیالات سے (جن کا اظہار اوپرکے اقتباس سے ہورہا ہے) ٹکراجاتا ہے ،تو اس کی تأویل و توجیہ میں موصوف نے جو کچھ لکھا ہے وہ عدمِ توازن کی ایسی مثال ہے جس کے بعد کچھ اور کہنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔ پتہ نہیں کہاں سے مصنف کے ذہن وہ کچھ خیالات سماگئے ہیں کہ انھوں نے پھرا یسی عجیب باتوں میں کوئی تأمل ان کے لیے نہیں رہنے دیا ۔ یہ سوال بالکل صحیح ہے کہ مغرب کی انسانیت جو اندرونی اخلاق میں نظر آتی ہے وہ ان کے اپنے ملک سے باہر نکلتے ہی کہاں چلی جاتی ہے۔ کہ سب غیر انسانی حرکات میں بے مہار ہو جاتے ہیں ۔ مگر اس سے تووہ بھی اختلاف نہیں کرتے جو اندرون ملک ان کے بہتر اخلاقی رویہ کو سراہتے ہیں۔اور اس کا جواب مغرب کے ذمہ ہے جو اپنی مطلق برتری کا دعویٰ کرتی ہے۔ اسی ضمن میں ایک سوال مصنف نے اور اُٹھایا کہ اولاد بوڑھے ماں باپ کی خود خبر گیری کے بجائے انھیں اولڈ پیوپلز ہومز کے حوالے کیوں کرتی ہے؟ اس کے بارے میں مصنف کو اگر یہ معلوم ہو جائے کہ ان ملکوں میں لڑکا یا لڑکی جہاں بلوغ کی عمر(۱۶یا ۱۸ سال) کو پہنچے یہاں کے معاشرتی دستور میں ان کی رہایش پھر ماں باپ کے ساتھ نہیں رہتی۔ پرندوں کے بچوں کی طرح کہ جہاں پر نکلے اپنا آب و دانہ خود تلاش کرتے اور الگ ٹھکانہ بناتے ہیں۔اس کو ذہن میں رکھئے تو پھریہاں کا یہ چلن ان لوگوں کے عدمِ انسانیت کا ثبوت شاید نہیں بنتا۔
محترم مولانا راشدی صاحب،میں ان دنوں اپنے سلسلۂ محفلِ قرآن کی تیسری جلد تیار کرنے میں ایسا مصروف ہوں کہ کسی اور بات میں حصہ لینے کو نہ وقت نکلتا ہے نہ دل دماغ میں طاقت رہتی ہے۔ مگریہاں کی زندگی میں یہاں کے نظامِ اجتماعی سے جو آرام اور فائدہ اٹھائے ہیں اور ان کا سلسلہ جاری ہے، بس ان کے خیال سے ارشادِ نبوی ’’مَن لّمْ یشکرِ الناس لم یشُکرِ اللہ ‘‘  کا تقاضہ نظر آیا کہ یہاں والوں کے ساتھ زیادتی دیکھی جائے تو اس کے بارے میں بقدرِ ضرورت اپنے احساس کا اظہار کردیا جائے۔ والسلام
مخلص، عتیق الرحمن (سنبھلی)، لندن
(۲)
الشریعہ کے تازہ شمارے (اگست ۲۰۱۳ء) میں مولانا عبد الجبار سلفی ڈائریکٹر ختم نبوت اکیڈمی لاہور کا شیعوں کے کفریہ عقائد کی وضاحت پر ایک مضمون شائع ہوا ہے جو ان کی ایمانی غیرت اور دینی حمیت کا غماز ہے۔ لیکن اس میں ان کا ایک پیرا پڑھ کر سخت تعجب ہوا کیونکہ وہ واقعے کے خلاف ہے۔ وہ پیرا حسب ذیل ہے۔
’’اگر کہا جائے کہ تقلید ائمہ کے بغیر عوام کے لیے دین پر چلنا مشکل ہے اور تارکین تقلید گمراہ ہیں، اس پر جب تارکین تقلید کی نشاندہی کروائی جائے گی تو سوائے غیر مقلدین کے کس کا نام لیا جائے گا؟ جنہیں اہل حدیث کہا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر کہا جائے کہ حضور اقدس کی بعد از وفات برزخی حیات پر پوری امت کا اجماع ہے اور اس کا انکار نظریۂ اہل سنت سے مفروری ہے اور جب پوچھا جائے گا کہ یہ کون لوگ ہیں جو انبیاء علیہم السلام کی برزخی حیات کے منکر ہیں؟ تو کم از کم ہمارے وطن (پاکستان) میں مولانا سید عنایت اللہ شاہ صاحب بخاری اور ان کے غالی معتقدین کا نام لیا جائے گا۔‘‘ (ص ۳۳)
اس پیرے میں اہل حدیث پر جو کرم فرمائی کی گئی ہے، اس پر گفتگو مقصود نہیں ہے، اہل حدیث پر یہ کرم فرمائیاں صدیوں سے جاری ہیں، البتہ اس میں شدت ڈیڑھ صدی قبل جب دارالعلوم دیوبند کا قیام عمل میں آیا، اس وقت سے آئی ہے۔ تاہم فاضل مضمون نگار سے ایک سوال کرنے کو ضرور جی چاہتا ہے۔
صحابہ و تابعین کے دور میں کیا تقلید کا وجود تھا؟ اگر نہیں تھا اور یقیناًنہیں تھا تو کیا اس وقت عام لوگوں نے دین پر مکمل عمل نہیں کیا؟ کیا دین پر عمل کرنے میں ان کو واقعی مشکلات پیش آئیں، محض اس وجہ سے کہ اس وقت تقلید ائمہ کا سلسلہ نہیں تھا؟ اور آج بھی الحمد للہ کروڑوں اہل حدیث تقلید ائمہ کے بغیر دین پر بغیر کسی مشکل کے مکمل عمل کر رہے ہیں، کیونکہ دین پر عمل کرنے کے لیے تقلید شخصی ضروری نہیں، صرف علمائے دین کی طرف مراجعت ضروری ہے اور یہ عوام کے لیے ناگزیر ہے اور اہل حدیث عوام فَاسْءَلُوا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْن کے تحت علماء سے دینی معلومات حاصل کر کے دین پر عمل کرتے ہیں۔
صحابہ کرام و تابعین عظام کے دور کے لوگوں کا یہی طرز عمل تھا جس پر اہل حدیث عمل پیرا ہیں، اس کا نام اگر گمراہی ہے تو سوچ لیجئے اس کی زد میں سب سے پہلے کون لوگ آئیں گے؟ اہل حدیث کے بارے میں آپ حضرات نے جو تصورات قائم کیے ہوئے ہیں جن کی بنا پر آپ بغیر کسی تأمل کے گمراہ ہونے کا فتویٰ عائد کر دیتے ہیں، وہ سب خلاف واقعہ، توہمات و مفروضات کا شاخسانہ اور ان کے عمل بالحدیث کے خلاف تعصب کا نتیجہ ہے۔ دنیا میں تو اس کا فیصلہ ہونے سے رہا کہ کُلُّ حِزْبٖ بِّمَا لَدَیْھِمْ فَرِحُوْن۔ تاہم روز قیامت بارگاہ الٰہی میں یہ فیصلہ ضرور ہوگا کہ گمراہ کون تھا؟
تاہم اس مراسلے کی ضرورت مسلک اہل حدیث کی وضاحت کے لیے پیش نہیں آئی بلکہ اس کے بعد انبیاء علیہم السلام کی حیات برزخی کی بابت فاضل مضمون نگار کی غلط بیانی یا غلط فہمی اس کی اصل وجہ ہی ہے۔ فاضل مضمون نگار نے سید عنایت اللہ شاہ بخاری اور ان کے غالی معتقدین کو حیات برزخی کا منکر قرار دیا ہے جب کہ حیات برزخی پر امت کا اجماع ہے۔ 
بلاشبہ حیات برزخی پر امت کا اجماع ہے، لیکن راقم کی معلومات کے مطابق سید عنایت اللہ شاہ بخاری اور ان کے ہم نوا حیاتِ برزخی کے منکر قطعًا نہیں ہیں۔ ان کا اختلاف اپنے ہی ہم مسلک دوسرے دیوبندی علماء سے یہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے ابدی قانون کے مطابق موت سے ہم کنار ہو کر دنیا سے چلے گئے، اب دنیا سے ان کا کوئی تعلق باقی نہیں رہا۔ البتہ حیات برزخی ان کو حاصل ہے لیکن اس حیات کی نوعیت اللہ ہی جانتا ہے، ہم اس کی نوعیت و کیفیت سے نہ آگاہ ہیں اور نہ ہو ہی سکتے ہیں۔
اس کے برعکس دوسرے دیوبندی علماء کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد بھی ان کو اسی طرح کی زندگی حاصل ہے جس طرح ان کو دنیا میں حاصل تھی بلکہ اس سے بھی زیادہ حقیقی زندگی آپ کو حاصل ہے۔ مولانا سید احمد مدنی مرحوم لکھتے ہیں:
’’آپ کی حیات نہ صرف روحانی ہے جو کہ عام مومنین و شہداء کو حاصل ہے بلکہ جسمانی بھی ہے اور اَز قبیل حیات دنیوی، بلکہ بہت سی وجوہ سے اس سے قوی تر ہے۔‘‘ 
اور جب ایسا ہے تو اس کے ڈانڈے بھی بریلویت سے جا ملتے ہیں، چنانچہ اگلے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:
’’آپ سے توسل نہ صرف وجود ظاہری کے زمانے میں کیا جاتا تھا بلکہ اس برزخی وجود میں بھی کیا جانا چاہیے، محبوب حقیقی تک وصال اور اس کی رضامندی آپ ہی کے ذریعے سے اور وسیلے سے ہو سکتی ہے، اسی وجہ سے میرے نزدیک یہی ہے کہ حج سے پہلے مدینہ منورہ جانا چاہیے اور آپ کے توسل سے نعمت قبولیت حج و عمرہ کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے۔‘‘ (مکتوبات شیخ الاسلام، ج ۱، ص ۱۲۰، طبع لاہور)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعد از وفات، حیات (بلکہ برتر از حیاتِ دنیا) کا یہ عقیدہ جسے علمائے دیوبند کی اکثریت نے اپنایا ہوا ہے اور اس عقیدے کے تحت اب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے توسل نہ صرف جائز ہے بلکہ کرنا چاہیے حتیٰ کہ حج کرنے سے بھی پہلے آپ کی قبر مبارک پر حاضر ہو کر قبولیت حج کی کوشش کرنی چاہیے۔ مولانا عنایت اللہ شاہ بخاری اور ان کے معتقدین کو اِس عقیدۂ حیات النبی سے انکار تھا اور ہے نہ کہ حیات برزخی سے۔
علمائے دیوبند میں سے وہ حضرات جو سید عنایت اللہ شاہ بخاری مرحوم کے مذکورہ مسلک کے ہم نوا ہیں، جن کو فاضل مضمون نگار نے ’’غالی معتقدین‘‘ کا نام دیا ہے، ان سے گزارش ہے کہ راقم نے سید صاحب کے بارے میں جو وضاحت کی ہے، اگر وہ صحیح ہے تو وہ اس کی تصویب فرما دیں۔ بصورت دیگر ان کے مسلک کی صحیح نوعیت واضح فرما دیں۔ 
حافظ صلاح الدین یوسف
مدیر: شعبہ تحقیق و تالیف دارالسلام لاہور۔

’’میری تحریکی یاد داشتیں‘‘ (چوہدری محمد اسلم کی خود نوشت)

چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ

پبلشر: ادارہ معارف اسلامی منصور، لاہور
صفحات : ۳۴۴۔ سال اشاعت: ۲۰۱۰ء ۔قیمت : ۲۵۰روپے
خود نوشت سوانح انتہائی دلچسپ فن ہے۔ ایسی بے شمار سوانح پڑھ چکا ہوں۔ اسلوبِ بیان ہر سوانح میں مختلف ہو سکتا ہے۔ خود نوشت میں عام طور پر صاحبِ تالیف اپنی زندگی کے واقعات بیان کرتا ہے۔ بیان میں سیاق و سباق اتنا مربوط ہوتا ہے کہ بیان کی درستی کا تاثر ہمیشہ گہراہوتا ہے۔ اس کے باوجود یہ گمان باقی رہے گا کہ واقعات کے بیان میں مولف نے اپنے آپ کو صاف طور پر پیش کرنے کی شعوری کوشش کی ہے۔ اس طرح بیان میں ڈنڈی مارنے کی کسی حد تک گنجائش بھی ہوتی ہے۔ لیکن بعض مولفین نے اپنی زندگی کے ایسے پہلو بھی بیان کئے ہیں جو تحریر کی صورت میں لانے سے اجتناب کو ہی انسانی وقار اور قدر کا تقاضا سمجھا جاتا ہے۔ ان میں جوش ملیح آبادی کی ’’یادوں کی بارات‘‘ اور ڈاکٹر جاوید اقبال کی ’’چاکِ گریباں اپنا‘‘ قابل ذکر ہیں۔ یہ کتابیں استثنائی حیثیت رکھتی ہیں۔ البتہ ان کتابوں کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مولفین نے اپنا آپ کھول کر ظاہر کر دیا ہے۔ یہ مشکل کام ہے۔ اپنی کوتاہیوں کو چھپانا کسی حد تک فطری چیز ہے۔ پردہ داری میں واقعات کی تعبیر اور تفصیل بڑی اہم ہوتی ہے۔ مگر واقعات و حالات کو سرے سے ہی گول کر جانا کسی طرح پسندیدہ اور معیار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ سوانح نگاری کے فن میں ایسی کوتاہی تالیف کی قدر کو گھٹا دیتی ہے۔
البتہ پیش لفظ میں مولف اگر یہ لکھے کہ’’میرے احباب کا یاد داشتیں مرتب کرنے کا تقاضا حد سے بڑھاتو میں نے بسم اللہ کر کے اس کام کا بیڑا اٹھا لیا۔ اس طرح کئی ماہ کی محنت شاقہ کے بعدمیں نے اپنی داستانِ حیات کو بالآخر قلم بند کر لیا۔ اپنی سرگذشت بیان کرتے وقت واقعات کو بلا لاگ لپیٹ بیان کیا گیا ہے، ۔۔۔ تحریر میں حافظے پر انحصار کیا گیا ہے، لہٰذا اگر کوئی صاحب کسی غلطی کی نشاندہی فرمائیں تو آئندہ اشاعت میں اس کو درست کر دیا جائے گا اور راقم ان کا شکر گزار بھی ہو گا‘‘ اور تقدیم میں اشاعتی ادارہ کے ڈائریکٹر جناب حافظ محمد ادریس جیسے ثقہ اور کہنہ مشق مولف یہ ضمانت دیں کہ ’’چوہدری محمد اسلم صاحب کی یاد داشتوں کو موجودہ صورت دینے کے لیے ادارہ معارف اسلامی کے رفقا پروفیسر ظفر حجازی اور شیخ افتخار احمد نے بہت محنت کی ہے‘‘ تو ہمارے لیے کتاب کے بلند معیار کا جو تصور قائم ہو جاتا ہے، اس کا اندازہ تو ادارہ معارف اسلامی کے قیام اور اس کے متعینہ مقاصد اور ادارہ کی دیگر پروڈکٹس کو سامنے رکھتے ہوئے بخوبی ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر جناب آباد شاہپوری کی دو جلدوں میں تاریخ جماعت اسلامی اور محمد علی قصوری کی مشاہداتِ کابل و یاغستان واقعتا شاہکار ہیں۔ ایسے میں کتاب پر تنقیدی نگاہ ڈالنا کس قدر مشکل ہو جاتا ہے، مگر جوئندہ یابندہ کے مصداق کتاب کو بغور پڑھا تو کام کافی آسان محسوس ہوا۔ 
مولف نے ایک باب کا عنوان ’’قید و بند کی آزمائشیں‘‘ قائم کیا ہے۔ یہ باب صفحہ ۱۸۱ سے شروع ہوتا ہے۔ صفحہ ۱۹۸ پر اپنی چوتھی گرفتاری کا بیان ہے۔ یہ گرفتاری ۶ جنوری ۱۹۶۴ کو جماعت اسلامی کے خلاف قانون قرار دینے کے ساتھ ہی عمل میں لائی گئی۔ جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ، پوری کی پوری گرفتار کی گئی۔ ایک ممبر کو چھوڑا گیا۔ وہ کوثر نیازی تھے۔ ان کے بارے میں شورش کاشمیری نے انکشاف کیا کہ وہ ۸۰ روز تک حکومت کو جماعت کی ڈائری دیتے رہے۔ گرفتار صاحبان کو مختلف جیلوں میں نظر بند کر دیا گیا۔ گرفتاری کے بعد دو ماہ کے اندر اندر، نظر بندوں کو ریویو بورڈ کے سامنے پیش کرنے کے لیے لاہور کی ڈسٹرکٹ جیل میں جمع کیا گیا۔ یہاں گزرے دنوں کے احوال بیان کرتے ہوئے چوہدری محمد اسلم صاحب، صفحہ ۲۰۴ پر لکھتے ہیں:
’’بورڈ کے فیصلے کے بعد کم و بیش ایک ماہ تک جماعت کی اعلیٰ قیادت اور جملہ ارکان مرکزی شوریٰ کو ڈسٹرکٹ جیل لاہور میں یک جا رہنے کا موقع میسر آیا۔ رفقائے شوریٰ کے لیے یہ خدا داد موقع بہت غنیمت تھا۔ نماز با جماعت اور درسِ قرآن و حدیث کا باقاعدہ اہتمام تھا۔ درسِ قرآن عام طور پر سید ابوالاعلیٰ مودودی دیتے اور جماعت کی امامت بھی آپ ہی فرماتے تھے۔ مولانا امین احسن اصلاحی درسِ حدیث دیتے تھے۔ ‘‘
۱۹۶۴ء میں جماعت پر پابندی کے زمانے میں قید، جماعتی زعما میں، مولانا امین احسن اصلاحی کا درسِ حدیث دینا، چوہدری محمد اسلم صاحب کی بھول یا خواب ہو سکتا ہے مگر ادارہ معارف اسلامی کے ذمہ داران کی محنت کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہے۔ ادارہ کے ذمہ داران میں سے جناب پروفیسر ظفر حجازی صاحب کا میں ذاتی طور پر مداح ہوں۔ شیخ افتخار احمد صاحب سے میری ملاقات نہیں۔ البتہ روئداد ہائے شوریٰ کی تازہ شائع شدہ دو جلدیں میری نظر سے گزری ہیں۔ وہ جناب شیخ نے مرتب کی ہیں۔ ان کی شائع شدہ شکل میں منظوری تو ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی نے دی ہے۔ اس کمیٹی میں عرش نشیں لوگوں کی اکثریت ہے ۔ لہٰذا میں روئداد پر رائے دینے سے پرہیز کروں گا۔ البتہ ادارہ معارف اسلامی کے ڈائریکٹر جناب حافظ محمد ادریس صاحب کی تقدیم میں دی گئی ضمانتوں کو شک کی نگاہ کے علاوہ کسی اور نگاہ سے دیکھنا، کم از کم میرے لیے مشکل ہو جاتاہے۔ تاریخ سے متعلقہ امور میں بیان کا ذمہ دارانہ ہونا لازم ہے۔ 
چوہدری محمد اسلم صاحب میرے بزرگ ہیں۔ پیش لفظ میں ان کا یہ کہہ دینا کہ حافظے پر انحصار کی بنا پر بیان میں غلطی محتاجِ درستی ہو گی، اس کے بعد ان سے شکایت کا بظاہر کوئی جواز نہیں رہتا۔ عمر کے اعتبارسے وہ جس مرحلہ میں ہیں، وہ ہر طرح رعایت کے حقدار ہیں۔ ان کے اپنے بیان کے مطابق ان کی تاریخ پیدائش ۱۷۔جنوری ۱۹۲۰ء ہے۔ اس طرح ان کی عمر ۹۲ سال سے زیادہ ہے۔ سالِ اشاعت کے لحاظ سے دو سال کم ہو سکتے ہیں۔ اس عمر میں یادداشتوں کوجمع کر کے لکھ دینا یا لکھوا دینا کوئی معمولی بات نہیں۔ مجھے ان سے ملاقات کے مواقع بھی میسر نہیں کہ ان کی ذہنی کیفیت کا اندازہ کر سکوں۔ مجھے جو کچھ بھی کہنا ہے، وہ کتاب کے متن اور ترتیب پر انحصار کر کے کہنا ہے۔ میرا منشا یہ ہے کہ چوہدری صاحب سے بیان میں ایسی غلطیوں کا امکان بہرصورت رہتا ہے۔ میں چوہدری محمد اسلم صاحب کے ایک نیاز مند کے طور پر ایسی بلکہ اس سے بھی بڑی غلطیوں کی نشاندہی کرنا اپنا فرض سمجھوں گا اور اس کے لیے ان کی جانب سے شکریہ کا حق مانگوں گا اور نہ ہی اگلی اشاعت میں درستی کو ضروری سمجھوں گا۔ وجہ یہ ہے کہ ہماری نیاز مندی بے لوث ہے۔ یہ نیاز مندی تو میرے اسکول کے زمانے سے چلی آ رہی ہے۔
اس کتاب کے صفحہ نمبر ۱۸۹ پر چوہدری محمد اسلم صاحب اپنے خلاف ایک سنگین سیاسی مقدمے میں گرفتار ہونے کے بعد کے مرحلے کے ذکر میں تحریر فرماتے ہیں:
’’کیس کی سنگین نوعیت کے پیش نظر جماعت کے رہنماؤں نے دو وکلا صاحبان جناب عطا اللہ سجاد (بطور سینئر وکیل) اور جناب محمد رفیق تارڑ (بطور جونیئر وکیل) کی خدمات حاصل کر لیں۔ انہوں نے کیس کا مطالعہ کیا اور اس کے سنگین ہونے کی تصدیق کی۔ واضح رہے کہ چودھری محمد رفیق تارڑ صاحب نے ابھی نئی نئی پریکٹس شروع کی تھی۔ بڑے سمارٹ، محنتی اور دیندارنوجوان تھے۔‘‘
جناب رفیق تارڑ صاحب کے بارے میں چوہدری محمد اسلم صاحب کا یہ لکھنا کہ وہ دین دار نوجوان تھے، چوہدری صاحب کی بے خبری کی دلیل ہے۔ رفیق صاحب کے جج بننے سے پہلے کی زندگی اور جج بننے کے بعد کی زندگی میں جو واضح فرق ہوا، اس کی شہادت دینے والے لوگ ابھی تک زندہ ہیں۔ وہ خودبھی شاید جوانی کے دور کو فراموش نہیں کرتے ہوں گے۔ بلا شبہہ جج بن کر انہوں نے جس طرح اپنے آپ کو بدلا۔ وہ اوسط درجے کی پیشہ وارانہ مہارت رکھنے کے ساتھ ساتھ ایک دیانت دار اور دیندار جج کا کردار ادا کرتے رہے مگر ان سے جو آخری گناہ سرزدہوا، وہ جسٹس سجاد علی شاہ کے زمانے میں سپریم کورٹ کو تقسیم کرنا تھا۔ اس کے لیے انہوں نے بریف کیس لے کر جس طرح چیف جسٹس کے خلاف سپریم کورٹ کے ججوں کو خریدا، چوہدری محمد اسلم صاحب کسی طرح اس اعلیٰ کردار سے بے خبر نہیں ہوں گے۔ اگر رفیق تارڑ صاحب اس وقت اس طرح کا کردار ادا نہ کرتے تو شاید ہماری عدالتی تاریخ میں جسٹس سجاد علی شاہ اس انقلاب کی طرح ڈال دیتے جو کم و بیش ایک عشرے کے بعد جناب جسٹس افتخار چوہدری نے ڈالی ہے۔
جناب رفیق تارڑ صاحب کا چوہدری محمد اسلم صاحب نے اپنی تالیف میں ایک آدھ دیگر مقام پر بھی اچھے لفظوں میں ذکر کیا ہے۔ ہم اس ذکر سے متفق ہیں مگر کسی شخصیت کے تذکرے میں اس کے مجموعی کردار کو لینا چاہیے۔ کوئی شخص خامیوں سے مبرا نہیں ہو سکتا۔ کسی شخص کا ادھورا اور یکطرفہ ذکر، بیان کی دیانت اور ثقاہت کو متاثر کرے گا۔
چوہدری محمد اسلم صاحب بڑی صلاحیتوں کے مالک شخص تھے۔ اس کتاب میں ان کے بدلتے ہوئے اسلوبِ بیان سے بھی ان کی متنوع صلاحیتوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔ بعض مقامات پر اسلوب اتنا سادہ اور سلیس ہے کہ بے ساختہ داد دینا پڑتی ہے۔ لیکن اکثر و بیشتر اسلوب میں مشکل پسندی، بوجھل تراکیب اور ثقیل محاورں کا بر محل اور بے محل استعمال اور سیاق و سباق کے بغیر خطابت اور خود کلامی سے مغلوب بے معنی بلکہ لا یعنی پن حیران کر دیتا ہے۔ ایک مثال کے طور پر ذیل کا اقتباس کافی ہے:
’’حضرت مولانا کا آخری کارنامہ جو شاید سب سے زیادہ اہم ہے، جامعہ عربیہ کا آغاز ہے۔ ۱۹۳۶ء میں جس جامعہ عربیہ کی حضرت نے ابتداکی تھی،پون صدی کے بعد مجھے تو اب یہ جامعہ بمعنی یونی ورسٹی نظر آتا ہے۔ کہاں محلے کی ایک دور افتادہ چھوٹی سی مسجد میں ایک ابتدائی مدرسہ اورکہاں یہ یونی ورسٹی نما جامعہ عربیہ۔ میں اس جامعہ کا سنگ بنیاد (۱۹۶۷ء) میں رکھنے والوں، اعلی حضرت استاذ کل حضرت ولی اللہ صاحب اور مہمان خصوصی حضرت مولانا احتشام الحق تھانوی صاحب جیسے نابغہ روز گار علما کودیکھوں یا اپنے استاذ حضرت مولانا محمد چراغ رحمت اللہ علیہ کی خدا ترسی خلوص اور توکل پر غور کروں۔ میں اس جامعہ کی لب نہر اور لب شاہراہ (جی ٹی روڈ) کی عالیشان اور پر شکوہ عمارت کو دیکھوں یا اس میں دی جانے والی قال اللہ قال الرسول کی تعلیم اور اس کے جدید کمپوٹرائزڈ شعبے پر غور کروں یا حضرت صاحب مرحوم و مغفور کے پوتوں کی جوڑی کوچشم تصور میں لاؤں جو مجھے ہیروں کی جوڑی (نظر بد دور) نظر آتے ہیں۔ یا ان سینکڑوں طالبان اور تشنگان علم کا تصور کروں جو دور دراز علاقوں سے علم دین کی پیاس بجھانے کے لیے یہاں جمع ہوتے ہیں۔ مجھے تو جامعہ عربیہ کا ہر پہلو اپنی طرف کھینچتا اور متوجہ کرتا ہے کہ ’جا ایں جا است‘۔ پھر وہ مدرستہ البنات جو حوا کی بیٹیوں کی سیرتوں کی تعمیر میں کوشاں ہے، ہر لحاظ سے قابل قدر اور قابل ذکر اور قابل ستایش کاوش ہے۔ یہ اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ کی طرف سے ایساصدقہ جاریہ ہے کہ جس کی توصیف الفاظ میں نہیں کی جاسکتی۔ حضرت کا یہ کارنامہ آپ کے تمام کارناموں پر فوقیت کا حامل نظر آتا ہے۔‘‘
بیان بھی ہفت زبان ہے۔ فارسی، عربی اور انگریزی کے الفاظ کا بے محابہ استعمال بیان کو کس قدر حسین بنا رہا ہے، دیکھنے اور پڑھنے کی چیز ہے۔ انگریزی زدہ اردو تو الٹر اماڈرن ڈراموں کی زبان معلوم ہوتی ہے۔ اندازِ بیان اگر کہنے کی اجازت ہو تو اسے نوابانہ کہنا پڑے گا ۔ آخر ریاست کپور تھلہ کے مہتمم اعلیٰ (چیف سیکریٹری یا وزیر اعظم) کے فرزند اور we are seven میں سے واحد چوہدری، باقی چھ کے چھ بھائی تو عمر بھر سرکار کی نوکری کرتے رہے۔ نوکری بقول ان کے نہایت عزت اور دیانت داری سے کی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد تمام کے تمام جماعت کے رکن بنے۔ زمانے بھر کو جماعت میں شامل کرنے کی جد و جہد کرتے رہے۔ البتہ اپنی اولاد پر جماعت کے اثرات کے بارے میں کتاب میں مکمل خاموشی اختیار کی گئی ہے۔ یہاں نوح کی اولاد کی مثال قائم رکھنا بھی تو سنتِ انبیاء ہے۔ کتاب میں بے شمار دوستوں اور بزرگوں کا ذکر ہے، مگر مشکل ہی کسی کے نام کے ساتھ تکلفاً ہی جناب یا صاحب لکھنا گوارا کیا۔ کتاب میں بیان کی ایک صریح غلطی تو ہم نے شروع میں ذکر کر دی ہے۔ مزید اغلاط کا ذکر کریں تو ساتھ مطالبہ کرنا پڑے گاکہ موجودہ ایڈیشن کو ادارہ واپس لے۔ اس لیے میں ساری اغلاط کا ذکر نہیں کروں گا۔ چند ایک کے ذکر پر اکتفا کروں گا۔ لیکن کتاب میں مشکل اسلوب بیان کے حوالے سے محاوروں کے بے محابہ استعمال کی چند مثالوں کو اولیت دے کرآگے چلیں گے۔
کتاب میں محاوروں کی بھر مار ہے۔ سب سے زیادہ استعمال ہونے والا محاورہ رطب اللسان ہونا ہے۔ صفحہ نمبر ۲۵۸ پر تحریر ہے کہ’’ تقریر کے اختتام پر سامعین جہاں چوہدری محمد علی صاحب کے علم و فضل اور حضرت علامہ اقبال کے حیات بخش کلام کی تعریف میں رطب اللسان تھے، وہیں ایوبی حکومت کے جبر واستبداد پر نفرین کر رہے تھے۔‘‘ صفحہ نمبر ۳۱۵ پر ’’کسی بھی گاؤں میں چلے جائیں توعام لوگوں کومیرے بارے میں رطب اللسان پائیں گے۔‘‘صفحہ نمبر ۳۱۲ پر ’’میں حتی الوسع لوگوں کے جائز کاموں میں مختلف محکموں اور تھانے کچہری میں جائز سفارش کر کے ان کے کام کروا دیتاتھا جس کی وجہ سے وہ مشکور ہو جاتے اوررطب اللسان رہتے تھے۔‘‘ خودستائی میں محاورہ کا یہ استعمال کمیاب ہی ہے۔ مہمان نوازی سے استفادہ (۱۰۲)، نیند کی آغوش میں چلے جانا (۲۰۲)، ’’میں نے باقاعدہ کرسی صدارت نہیں سنبھالی تھی اور فرش مسجد کو ترجیح دی تھی، اس لیے افسران نے غص بصر سے کام لیتے ہوئے مجوزہ لسٹ سے میرا نام حذف کردیا اوریوں میں گرفتار ہوتے ہوتے بچ نکلا‘‘، حکمت عملی سے استفادہ (۲۵۲)، پر تکلف دعوت عصرانہ سے استفادہ(۲۶۳)، تباہ شدہ مکانوں کے ملبے میں کہیں کہیں سیڑھیاںیا دوسری سخت جان دیواریں ایسی تھیں جو بمباری کے صدمے سے جانبرہوگئی تھی، محفوظ تھیں(۲۶۳)، ملک ایک بارپھرفوجی طالع آزما جنرل ضیا الحق کے چنگل میں پھنس گیا اور عوام کوایک بار پھر میرے ہم وطنو والا خطاب سننا پڑا۔ تفوبر تواے چرخ گردوں تفو (۲۸۴)۔ محاورے استعمال ہوئے مگر اسلوب بیان میں ثقالت بڑھ گئی معلوم ہوتی ہے اور موقع کے لحاظ سے مناسبت بھی کچھ کم ہی لگتی ہے۔ یہ اسلوب آج کے دور میں خاصا متروک سا ہے۔
اب ہم کتاب کے متن میں پائی جانے والی واقعاتی غلطیوں کی جانب آتے ہیں۔
چوہدری محمد اسلم صاحب نے کتاب کے صفحہ نمبر ۵۰ پر ایوب خانی دور کی بنیادی جمہوریتوں کا ذکر کیا ہے۔ وہ بی ڈی ممبرز کی کل تعداد چالیس ہزار بیان کرتے ہیں، جب کہ شروع دن ہی سے یہ تعداد اسی ہزار رہی۔ ایوب اور مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے صدارتی معرکے کے حوالے سے کتاب کے صفحہ نمبر ۵۴ پر لکھتے ہیں کہ
’’مادر ملت نے مرکزی قیادت اور پی ڈی ایم اور ان کے احباب و اعوان کے جلو میں پورے ملک کے بڑے بڑے شہروں کا دورہ کیا۔‘‘
جب کہ اس معرکے کے لیے اپوزیشن کا جو فورم تھا، اسے متحدہ حزب اختلاف (COP ) کہا جاتا تھا۔ پی ڈی ایم کی تشکیل تو فروری ۱۹۶۶ء میں ہونے والی نیشنل کانفرنس میں ہوئی تھی۔ جب کہ صدارتی انتخاب کا یہ معرکہ ۲۔جنوری ۱۹۶۵ء کو ہوا۔
صفحہ نمبر ۵۷ پر جناب چوہدری صاحب رقم طراز ہیں:
’’معاہدہ تاشقند کے چند ماہ بعد ایوب خان نے مسٹر بھٹو کو اپنی کابینہ سے نکال باہر کیا، لیکن اب ان کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔ متحدہ اپوزیشن جو پہلے پی ڈی ایم کے نام سے منظم تھی اس میں مزید دو پارٹیاں شامل ہو گئیں اور اسے ڈی اے سی کا نام دے دیا گیا۔ اس طرح تمام اپوزیشن پارٹیاں ایوب خان کے خلاف متحد ہو گئیں۔ ادھر مشرقی پاکستان میں اگرتلہ سازش کیس سامنے آیا۔ جس میں ایوب خان کے خلاف طاقت کے بل پر شیخ مجیب الرحمان کی قیادت میں انقلاب کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ مشرقی پاکستان ہی میں مولانا عبدالحمید بھاشانی نے حکومت کے خلاف گھیراؤ جلاؤ کا پروگرام لانچ کر رکھا تھا۔ بھٹو صاحب بھی وزارت سے علحدگی کے بعد خم ٹھونک کر ایوب خان کے خلاف میدانِ کارزار میں اتر آئے۔ ان حالات میں ایوب خان بالکل تنہا اور زچ ہو گئے۔ اس پر مزید اضافہ یہ ہوا کہ اپوزیشن نے آل پاکستان نیشنل کانفرنس منعقد کر کے ماحول کو ایوب خان کے خلاف مزید سرگرم کر دیا۔‘‘
یہاں واقعات کی ترتیب الٹ دی گئی ہے۔ اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ فروری ۱۹۶۶ء میں نیشل کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس میں پی ڈی ایم (پاکستان تحریک جمہوریت)قائم ہوئی۔ یہ کانفرنس لاہور میں چوہدری محمد علی سابق وزیر اعظم پاکستان کی کوٹھی پر منعقد ہوئی۔ اسی کانفرنس میں جماعت کے ساہیوال سے صوبائی اسمبلی کے ممبر جناب راؤ خورشید علی خان نے گرما گرم تقریر کی اور بعد میں جماعت سے علحدگی اختیار کر لی تھی۔ ڈی اے سی (جمہوری مجلس عمل)اور مجیب کا منصوبہ اور بھاشانی کا جلاؤ گھیراؤ بعد کے واقعات ہیں۔ ان کے بعد تو ایوب خان نے گول میز کانفرنس بلوا کر مذاکرات کئے تھے۔
چوہدری صاحب کتاب کے صفحہ نمبر ۷۲ پر لکھتے ہیں کہ:
’’جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت نے بھی ڈاکٹر نذیر احمد صاحب کو حکومت کے بگڑے ہوئے تیوروں اور لب و لہجے کی طرف توجہ دلائی اور انہیں آگاہ کیا کہ حکومت آپ کے درپئے آزار ہے اور یہ بھی کہ آپ کی جان خطرے میں ہے، لیکن ڈاکٹر نذیر احمد شہید پر احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کا جذبہ مسلط تھا۔ اس لیے انہوں نے کسی مداہنت سے کام لینے یا امرِ بالمعروف اور نہیِ عن ا لمنکر سے اغماض برتنے سے صاف انکار کر دیا۔ چنانچہ کھر (غلام مصطفےٰ)صاحب کے اشارے پر انہیں کسی پولیس افسر نے دورانِ نمازِ مغرب شہید کر دیا۔ ‘‘
’’ڈاکٹر نذیر احمد شہید پر احقاق حق اور ابطال باطل کا جذبہ مسلط تھا‘‘ میں لفط مسلط تکلیف دہ ہے۔ بہر حال جماعت میں عزیمت اور رخصت کے دونوں نقطہ نظر موجود ہیں۔ چوہدری صاحب کا نقطہ نظر کچھ بھی ہو، لفظ ’’مسلط‘‘ زیادتی ہے۔ البتہ یہ کہنا کہ ڈاکٹر صاحب کو دورانِ نمارِ مغرب کسی پولیس افسرنے شہید کر دیا، بالکل غلط اور خلافِ واقعات ہے۔ وقوعہ کا وقت بھی غلط ہے۔ یہ کہنا بھی درست نہیں کہ ان پر حملہ دوران نماز مغرب ہوا۔ ڈاکٹر نذیر شہید پر حملہ آور پولیس افسر نہیں تھا۔ قاتل ایک سپرنٹر سکوٹر پر سوار ہو کر آئے۔ ان میں سے ایک شاہنواز کو موقع پر اور دوسرے شخص کو بعد میں بطور اللہ وسایا شناخت کیا گیا۔ دونوں بستہ الف کے نامی گرامی بدمعاش تھے۔ وقوعہ ۸ جون ۱۹۷۲ء کو رات کے ساڑھے آٹھ بجے ہوا۔ ڈاکٹر صاحب ہسپتال جا کر رات کے نو بج کر پچاس منٹ پر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ حملہ آور پولیس ملازم نہیں تھا۔ البتہ ضیا ء الحق دور میں نامکمل تفتیش میں اس دور کے ڈیرہ غازی خان کے ایس پی قمرالزماں اور پولیس ملازمین شاہنواز کے ساتھ قتل کی سازش میں شریک ثابت ہوئے۔ جماعت اسلامی کے امیر صوبہ سید اسعد گیلانی قتل کیس میں باقاعدہ گواہ تھے۔ کیس میں بڑے ملزم قمرالزماں کا وقوعہ کے بعد گوجرانوالہ میں تبادلہ ہوا۔ وہ یہاں ایس پی کے طور پر کام کرتے رہے۔ یہ امکان ہو سکتا ہے کہ چوہدری محمد اسلم صاحب کی گوجرانوالہ تعیناتی سے پہلے یا دوران ملاقات رہی ہو۔ ڈاکٹر نذیر شہید قتل کیس کے بڑے ملزم کے طور پر قمرالزماں کو فراموش کر دینے میں بھول جانے کا امکان،حالات کے سیاق و سباق میں معتبر نظر نہیں آتا۔
کتاب کے صفحہ نمبر ۷۳ پر نواب محمد احمد خان کے مقدمہ قتل کے حوالے سے تحریر کیا گیا ہے کہ 
’’بھٹو صاحب کے خلاف قتل کی ایف آئی آر درج ہوئی جو seal کر دی گئی۔ یہی FIRضیا الحق کے دور میں قتل کے مقدمے کی بنیاد بنی۔‘‘
ایف آئی آر seal نہیں ہوئی تھی، بلکہ کیس untraced file ہوا تھا۔
جناب چوہدری صاحب کتاب کے صفحہ نمبر ۹۸ پر پٹھانکوٹ میں ہونے والی تربیت گاہ میں اپنی شرکت اور اس میں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کے درسِ قرآن کے ذکر میں لکھتے ہیں:
’’ابو صالح اصلاحی نے ان کے سامنے یہ سوال پیش کر دیا کہ آپ قرآن مجید کے اس مقام کی یوں تفسیر فرما رہے ہیں جب کہ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب نے یوں فرمایا ہے۔ ان الفاظ کا سننا تھا کہ مولانا امین احسن اصلاحی طیش میں آگئے اور غصے میں لال پیلے ہو گئے اور جذبہِ جلال سے اس قدر مغلوب ہو ئے کہ بڑے جوش اور غضب ناک لہجے میں فرمایا، میں اس معاملے میں امام رازی، امام غزالی اور فلاں اور فلاں امام کو خاطر میں نہیں لاتا تم میرے سامنے مودودی کو پیش کرتے ہو؟
تربیت گاہ کے شرکا اس فرمان کو سن کر سناٹے میں آگئے اور ماحول خاصا کشیدہ اور سوگوار ہو گیا۔ سید صاحب موصوف نے بھی جو ساتھ والے کمرے میں نوشت و خواند میں مصروف تھے، مولانا امین احسن اصلاحی کا ’’شگفتہ تبصرہ‘‘سنا اور پی گئے اور ان کے لب شیریں سے گالیاں سن کر بھی بے مزہ نہ ہوئے۔‘‘
اصلاحی صاحب کے تبصرے پر سوگوار ہونا تو مبالغے اور غلو کے ذیل میں آ سکتا ہے مگر اس پر ’’لب شیریں سے گالیاں سن کر بھی بے مزہ نہ ہونے ‘‘کی پھبتی، نوے سالہ بزرگ اور گوجرانوالہ میں دینی اور جماعتی اور سیاسی حلقوں میں کوہ گراں کا سا وقار پانے والے شخص کے زیادہ ہی شایانِ شان ہو سکتا ہے۔
صفحہ ۸۰ پر لکھا گیا کہ :
’’بالآخر تیسری طاقت نے شب خون مار کر ۴ جولائی کو ملک پر غاصبانہ قبضہ جما لیا۔‘‘
صفحہ نمبر ۸۲ پر فرماتے ہیں:
’’پی این اے کے نمایاں رہنما ائر مارشل اصغر خان نے ایک خفیہ مکتوب کے ذریعے سے افواج پاکستان کو فوجی انقلاب برپا کرنے کی دعوت دی۔ ائر مارشل اصغر خان آس لگائے بیٹھے تھے کہ فوج انقلاب برپا کر کے اقتدار بطور سینئر عسکری قائد ان کے سپرد کر دے گی اور وہ آسانی سے مسند اقتدار پر براجمان ہو جائیں گے لیکن ’اے بسا آرزو کہ خاک شد‘ کے مصداق انہیں اس مکروہ سازش سے کوئی فائدہ نہ ہوا البتہ پی این اے سے غداری کا لیبل ضرور ان پر چسپاں ہو گیا۔‘‘
یہاں یہ سوال ہے کہ اس غاصبانہ مارشل لا میں خاکی وردی اور جرنیلی چھڑی تلے جماعت کے چار وزرا نے نو دس مہینے شامل ہو کر پی این اے کو مضبوط کیا اور کیا یہ غصب اقتدار میں شرکت نہیں تھی؟ اصغر خان پر چوہدری صاحب بہت بر ہم ہیں مگر جماعت کے فیصلوں پر بھی کچھ کہتے۔ جہاں تک ائر مارشل کے خط کا تعلق ہے، اس کے متن کو دیکھنا چاہیے۔ حقیقی صورت حال واضح ہو جائے گی۔
صفحہ ۸۸ پر ہے:
’’انتخابات کے انعقاد کا بہانہ بنا کر وزرا کو فارغ کر دیا۔‘‘
حالانکہ پی این اے کے وزرا انتخابات کے اعلان کے پیش نظر خود الگ ہوئے۔
جناب چوہدری محمد اسلم صاحب کتاب کے صفحہ ۹۸ پر فرماتے ہیں کہ میرے بعد مولانا عبیدا لرحمان جماعت اسلامی ضلع گوجرانوالہ کے امیر ہوئے۔ حالانکہ چوہدری صاحب کے بعد امیر ضلع شیخ محمد انور صاحب ہوئے۔ وہ پانچ سال تک اس منصب پر فائز رہے۔ پھر مدنی صاحب کی باری آئی۔
صفحہ نمبر ۱۴۴ پر تحریر ہے کہ :
’’میرے آخری زمانہ امارت میں شہر میں ارکان جماعت کی تعداد ۵۵، ۶۰ کے قریب تھی۔‘‘
یہ تعداد کسی طرح درست نہیں۔ ارکان شہر کی تعداد ۴۰، ۳۵ تھی۔ چوہدری صاحب کا جملہ بھی انتہائی مہمل بلکہ بے معنی ہے۔ ۵۵، ۶۰کی تعداد بیان کرنا تو بیان کا ایک مسلمہ ڈھنگ ہے۔ اس کے ساتھ لفظ قریب لگا دینا بیان کو غیر یقینی پن سے دوچار کرنے کی کوشش معلوم ہوتی ہے۔ منشا در اصل اپنے بارے میں پائے جانے والے عام تاثر کا سدباب ہے۔ یہ جملہ بظاہر بڑا معصوم ہے، مگر حقیقت میں معصومیت سے مکمل عاری نظر آتا ہے۔یہاں یہ بھی سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ بیس لاکھ کی آبادی کے شہر میں ۵۵ تا ۶۰ ارکان کی کیا حیثیت ہے۔ ضلعی اور شہری جماعت پر تیس سال کا ہمہ اقتدار جماعتی توسیع میں اتنا ہی ساز گار ہوا، زمین بنجر تھی یا حضرت کاشتکار ہی کچھ ایسے تھے۔
صفحہ مذکورہ پر ہی خالد محمود قریشی کو ایڈووکیٹ قرار دیا گیا ہے، حالانکہ وہ بی اے بھی نہ کر سکے۔ وہ ہمیشہ سے کاشتکاری سے منسلک ہیں۔ البتہ ان کے بڑے بھائی منور حسین ہاشمی وکالت کر رہے ہیں۔
صفحہ نمبر ۱۵۹ پر مولانا امین احسن اصلاحی کے داماد نعمان شبلی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ صوبائی حکومت کے اسسٹنٹ انجینئر تھے۔ جماعت کے رکن تھے۔ حکومت نے انہیں جماعت کی رکنیت یا ملازمت میں سے ایک رکھنے کانوٹس دیا۔ انہوں نے ملازمت سے دستبرداری اختیار کر لی اوررکنیت کو ترجیح دی۔ چوہدری صاحب نعمان شبلی صاحب کی عزیمت کی تحسین فرماتے ہیں، لیکن منیر احمد صاحب کے سلسلے میں ان کا طرز عمل اس کے بالکل بر عکس تھا۔ ہم یہاں منیر صاحب کے قصے کو درج کر دینا بہت متعلقہ سمجھتے ہیں۔
ان کے اکتیس سالہ دور امارتِ ضلع کے دوران، شہر گوجرانوالہ کے کسی با صلاحیت رکن کو سکون میسر نہ آیا۔ جو بھی اپنی کارکردگی کی بنا پر نمایاں ہوا تو چوہدری صاحب کو کھٹکنے لگا۔ آخر کار اسے کسی نہ کسی طرح ٹھکانے لگانے میں کامیاب ہوئے۔ اس دور میں شہری جماعت کے ارکان کی تعداد بیس تیس کے لگ بھگ رہی۔ ۱۹۸۳ء میں تعداد پینتیس تھی۔ ۱۹۷۰ء میں منیر احمد صاحب امیر شہر تھے۔ نوجوان، فعال اور بلا کے محنتی۔ ایم اے عربی تھے۔ صنعت کارانہ پس منظر کو چھوڑ کر سکول کے مدرس ہو گئے۔ ملت ہائی سکول کی انجمن کے چوہدی محمد اسلم صاحب صدر تھے۔ منیر احمد صاحب سکول میں استاد تھے۔ تدریس اور امارتِ شہر کی دونوں ذمہ داریاں بحسن و خوبی انجام دے رہے تھے۔ شہری جماعت میں اس حیثیت سے بڑے مقبول ہو رہے تھے۔ پڑھے لکھے تو تھے ہی مگر حقیقی علمی ذوق رکھتے تھے۔ عربی زبان اور عربی علوم، خاص طور پر کتبِ حدیث پر خاصا درک رکھتے تھے۔ اس طرح امیر ضلع کے لیے صورت حال کافی پریشانی کا باعث بن رہی تھی۔ امیر ضلع کا استصواب دو سال کے بعد ہوتا ہے۔ ضلع میں گوجرانوالہ کی شہری جماعت کے ارکان کی تعداد بڑی موثر تھی۔ ضلع کے کل ارکان پچاس ساٹھ ہو گی۔ منیر احمد صاحب میں ضلعی سطح تک متبادل قیادت کے طور پر ابھرنے کا بڑا امکان نظر آتا تھا۔ صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے لیے امیر ضلع کو کوئی موقع کوشش کے باوجود ہاتھ نہیں آ رہا تھا۔ ۱۹۷۲ء میں بھٹو صاحب نے پرائیویٹ سکولوں کو قومیا لیا تو ملت ہائی سکول بھی سرکار کے کنٹرول میں چلا گیا۔ اس مرحلے میں جماعت کے ارکان اساتذہ کے لیے مشکل صورت کے امکانات پیدا ہوئے۔ سرکاری تحویل میں آنے والے اسکول کے استاد کے طور پر جماعت کی رکنیت رکھنا ایک الجھن ہو سکتی تھی۔ مرکز جماعت کی طرف سے ایک سرکلر کے ذریعے ایسے مدرس ارکان کو مشورہ دیا گیا کہ وہ اپنے روز گار کے بارے میں پریشانی سے بچنے کے لیے جماعت کی رکنیت سے الگ ہو جائیں۔ اس سرکلر نے چوہدری محمد اسلم صاحب کو موقع فراہم کر دیا۔ چنانچہ انہوں نے منیر صاحب سے جماعت کی رکنیت ترک کر دینے کا مطالبہ شروع کر دیا۔ منیر احمد صاحب نے یہ موقف اختیار کیا کہ وہ روز گار پر جماعت سے اپنی وابستگی کو ترجیح دیں گے۔ ان کے لیے سکول کی ملازمت چھین لی گئی تو کوئی پریشانی نہیں ہو گی، وہ اپنی روزی کئی دیگر طریقوں سے حاصل کر لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جماعت کی خدمت ان کا مشن ہے وہ اسے ترک کرنا نہیں چاہتے۔ اسکول کی ملازمت قربان کی جاسکتی ہے۔ ہوس و عشق کا یہ معرکہ گرم ہوتا رہا۔ نامہ و پیغام سے خطوط کا ایک پلندہ تیار ہو گیا۔ بالائی نظم تک بات پہنچی۔ امیر صوبہ، امیر ضلع اور امیر شہر کی باہم آویزش میں اپنے آپ کو جلد فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں سمجھتے ہوں گے۔ ایسی صورت میں معاملے کو لٹکانے کی حکمت عملی ہمیشہ موثر ہوا کرتی ہے۔ صورت حال میں ایک پیچیدگی بھی ہے۔ امیر ضلع صوبائی اور مرکزی شوریٰ کے رکن بھی تھے اور امیر صوبہ سے ان کے روابط امیر شہر کے مقابلے پر کہیں موثر تھے۔ ادھر امیر شہر اور امیر ضلع کی آویزش مقامی ماحول کو خراب کر رہی تھی۔ امیر ضلع پیچھے ہٹتے تو ان کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوتا۔ امیر شہر اپنے موقف کی صداقت پر قائم رہنے پر بوجوہ مجبور تھے۔ ضلعی شوریٰ کے لوگ ان دو بڑوں کی لڑائی میں تماشائی سے زیادہ رول ادا کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔ کوئی بزرگ ایسا نہ تھا جو جماعتی مصالح کے تحت ہی سلجھاؤ کے لیے کچھ کر سکتا۔ یہ تناؤ دن بدن تلخ ہوتا جا رہا تھا۔ اس مرحلہ میں منیر احمد صاحب نے امیرِ جماعت اسلامی پاکستان جناب میاں طفیل محمد کو ایک خط لکھا۔ خط میں انہوں نے امیرصوبہ کی جانب سے معاملے کو موخر رکھنے کے بار ے میں اپنے احساسات کا کھل کر اظہار کیا۔ اس میں انہوں نے اس بد گمانی کا اظہار کرتے ہوئے یہاں تک لکھ دیا کہ امیر صوبہ سے ان کو انصاف کی توقع نہیں۔ اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ بے لاگ انصاف کی توقع تو وہ امیر جماعت سے بھی نہیں رکھتے لیکن آخر معاملہ کسی طور پر طے تو ہونا ہی ہے۔
یہ صورت حال امیر ضلع صاحب کے لیے بڑی ہی ساز گار ہو گئی۔ امیر جماعت نے فیصلہ فرمایا۔ انہوں نے قرار دیا کہ متنازعہ امر میں موقف منیر احمد صاحب (امیر شہر)کا درست ہے۔ چوہدری محمد اسلم صاحب (امیر ضلع) کا موقف غلط ہے۔ لیکن امیر شہرنے امیر صوبہ پر ہی نہیں امیر جماعت پر بھی بد اعتمادی کا اظہار کر کے نظم کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس طرح امیرِ شہر کو معذرت کے لیے موقع دیا گیا۔ فیصلہ میں لکھا گیا کہ اگر امیر شہر نے معذرت کے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے معذرت نہ کی تو ان کے خلاف نظم کی خلاف ورزی کی بنا پر کارروائی ہو گی۔ امیر شہر نے معذرت نہ کی اور نتیجہ کے طور پر نظم کی خلاف ورزی پر جماعت کی بنیادی رکنیت سے فارغ کر دئیے گئے۔ اس طرح امیر ضلع کی راہ کا کانٹا چن دیا گیا۔
امیر ضلع کی راہ صاف ہو گئی۔ نقصان کس کا ہوا؟ جماعت کا۔ امیر ضلع اور رکنیت سے فارغ کئے جانے والے امیر شہر، دونوں فائدے میں رہے۔ دونوں کی انا کی تسکین ہوئی۔ امیر ضلع کا منصب محفوظ رہا۔ ان کی انا قائم رہی۔ امیر شہر کو پرائیویٹ کارو بار کا موقع ملا اور وہ گوجرانوالہ سے لاہور منتقل ہو کر پبلشنگ کے کام میں یکسو ہو گئے لاکھوں میں کھیلتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ بیس پچیس ارکان کی جماعت کو اتنا فعال اور با صلاحیت امیر شہر، قدیم و جدید تعلیم سے آراستہ، ایک طویل مدت تک میسر نہ آیا۔
کتاب کے صفحہ نمبر ۱۵۶ اور ۱۵۷ پر ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں چوہدری صاحب کے قومی اسمبلی کے امیدوار بننے، بیٹھنے اور پھر کھڑے ہونے کی تفصیل بیان کی ہے۔ میں اس اٹھک بیٹھک کا گواہ ہوں۔ چوہدری صاحب نے نظم کی اطاعت کے حوالے سے اپنے طرز عمل کو کھل کر، خود تعریفی کے انداز میں بیان کیا ہے۔ کارکنوں کے نظم کے خلاف جذبات کا ذکر بھی کیا اور ساتھ ہی راولپنڈی سے مولا نا فتح محمد صاحب کی جانب سے ائر مارشل اصغر خان کے حق میں بیٹھنے سے گریز کے لیے ضلعی شوریٰ کی قرارداد کو نہایت دانشمندی قرار دیا ہے۔ اپنی اطاعت کا چرچا اور مولانا فتح محمد کی ضلعی شوریٰ کی مدد سے عدم اطاعت کو دانشمندی قرار دے کر قاری کو کس مخمصے میں ڈال رہے ہیں، اس کا جواب تو ادارہِ معارف اسلامی کے ڈائریکٹر جناب حافظ ادریس ہی دے سکتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ قاضی حسین احمد صاحب نے حافظ صاحب کو امیر صوبہ بنانے کے لیے مولانا فتح محمدکو امارت صوبہ سے مستعفی ہونے کے لیے مجبور کردیا تھا، حالانکہ ان کی مدتِ تقرری باقی تھی۔
کتاب کے صفحہ نمبر ۱۶۲ پر لکھتے ہیں کہ ملک محمد رفیق صاحب جوانی میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ میں ملک صاحب کے جنازے میں شریک ہواتھا۔ چوہدری محمد اسلم صاحب کو جنازے میں شریک نہیں دیکھا۔ ملک صاحب کی وفاتِ حسرت آیات کو جوانی کی موت کہا جائے تو یہ ماننا پڑے گا کہ چوہدری صاحب بانوے سال کی عمر میں بھی جوان ہیں۔ میرے پاس ان کو جوان قرار دینے کا جواز اس وجہ سے بھی ہے کہ وہ ہر سال گرمیوں میں میرے والد مرحوم سے ’’ٹھنڈک‘‘ بنوایا کرتے تھے۔ شاید اس معاملے میں ملک رفیق صاحب سے ان کی کوئی قدر مشترک ہو۔ بہر حال ملک رفیق صاحب کافی بزرگی کو پہنچ کر فوت ہوئے۔ میری ان سے نیاز مندی رہی۔ بڑے پیار سے ملتے تھے۔ ان کے جنازے میں شیخ احمد اللہ ظفر صاحب ملے۔ وہ بہت ضعیف ہو چکے تھے۔ مجھے پہچان کر فرمانے لگے کہ کبھی کبھی ملنے کے لیے آ جایا کرو۔
کتاب میں صفحہ نمبر ۱۶۳ پر خالد احمد شیخ کو پروفیسر لکھاگیا ہے۔ حالانکہ ان کے بھائی زاہد احمد شیخ پروفیسر ہیں۔
صفحہ نمبر ۱۸۸ پر transportation for life کا ترجمہ ’سزائے موت‘ لکھا گیا ہے جب کہ عمر قید ہونا چاہیے۔ 
چوہدری صاحب اپنے کہنے کے مطابق، رشوت کے مخالف رہے اور ہمیشہ اس سے بچتے رہے۔ سفارش اسی طرح کی چیزہے۔ دونوں میں فرق نہیں۔ سفارش کرتے رہے۔ یہاں تک کے عدالتوں کے ججوں کو بھی سفارش کرنے کے کئی واقعات کتاب میں درج کئے ہیں۔
صفحہ ۲۷۴ پر لکھا ہے کہ :
’’تمیز الدین خان صدر دستور سازاسمبلی نے دستورسازاسمبلی توڑنے کے حکم کو چیلنج کیا لیکن سپریم کورٹ نے ان کی استدعامستردکردی۔‘‘
یادرہے کہ اس زمانے میں سپریم کورٹ کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ فیڈرل کورٹ تھی۔
بھول چوک بھی کئی قسم کی ہوتی ہے۔ رفیق تارڑ اورائر مارشل اصغر خان کے حوالے سے چوہدری صاحب کے بیان میں ان کی پسند ناپسند غالب نظر آتی ہے۔ جماعت اسلامی شہر گوجرانوالہ کے نمایاں ارکان کے ذکر میں بھی ان کی بھول چوک پسند نا پسند میں پھنسی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ ملت ہائی سکول کا کتاب میں دو دفعہ ذکر کیا۔ اسکول کی انتظامی مجلس کے خود صدر اور ملک امین کے سیکریٹری ہونے کا کئی دفعہ بطور اہتمام ذکر کیا۔ 
ملت ہائی سکول کے اجرا کے مرحلے میں چوہدری محمد اسلم صاحب نے شیخ احمد اللہ ظفر (ناظم دفتر جماعت شہر گوجرانوالہ) کی وساطت سے شیخ عبد اللطیف صاحب کو واہ کینٹ سے گوجرانوالہ واپس بلوا کر سکول کا ہیڈ ماسٹر مقرر کیا۔ انہوں نے جماعت کی رکنیت بھی اختیار کی۔ ایک سال کے بعد امیر حلقہ (ڈویژن) جناب بہاول خان ناگرہ کو اسکول کے معائینہ کے لیے دعوت دی۔ ناگرہ صاحب محکمہ تعلیم کے اونچے منصب سے ریٹائر شدہ تھے۔ انہوں نے اسکول کا تفصیلی جائزہ لے کر اسکول کی کار کردگی کو اطمینان بخش قرار دیا۔ اس پر چوہدری محمد اسلم صاحب خوش ہونے کے بجائے برہم ہوئے ۔ انہوں نے فرمایا کہ، ناگرہ صاحب ہم تو چاہتے تھے کہ آپ ایسی رپورٹ دیں کہ اسکول والوں کی گردنیں ناپنے کا موقع ملتا۔
اس کے بعد شیخ صاحب سکول کے ہیڈ ماسٹر رہتے؟وہ خاموشی سے الگ ہو گئے اور اپنا اسکول (تعمیر نو مسلم ہائی اسکول) کھول لیا، لیکن ان کا ذکر نہیں کیا۔ وہ جماعت کے رکن بھی بنے اور ۱۹۶۸ء میں امیر شہر بھی ہوئے۔ ان کا ذکر بالکل بھول گئے ہیں۔ حکیم نذیر احمد صاحب شہر کے بڑے معروف و مستند طبیب تھے۔ نہایت فاضل عالم دین بھی تھے۔ اکثر ہفتہ وار اجتماع میں درس قرآن ارشاد فرماتے تھے۔ جماعت کے باقاعدہ رکن تھے۔ اہلحدیث مسلک سے تعلق بھی تھا۔ ڈاکٹر منظور الحق ڈار بھی اہم رکن رہے۔ شہری و ضلعی شوریٰ کے رکن رہے۔ ان کا تذکرہ بھی فراموش ہوا ہے۔ معلوم یوں ہوتا ہے کہ اختلاف کرنے والے شخص کو بھولنے میں چوہدری صاحب زیادہ مستعد واقع ہوئے ہیں۔
شیخ عبدالرشید امرتسر جماعت کے رکن تھے۔ محکمہ ڈاکخانہ جات میں ملازم تھے۔ جماعت نے ارکان جماعت کے لیے سرکاری ملازمت کو ممنوع قرار دیا تو ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ قیام پاکستان کے بعد گوجرانوالہ شہر منتقل ہو گئے۔ گوجرانوالہ کے ارکان میں سینئر ترین رکن ہوں گے۔ طویل عرصہ جماعت کے ناظم مالیات رہے۔ بڑے نرم خو مگر صاحبِ مطالعہ تھے۔ گوجرانوالہ میں مولانا محمد چراغ کے علاوہ ان کے پاس ماہنامہ ترجمان القرآن کی مکمل فائل موجود تھی۔ مولانا چراغ رکن نہیں تھے۔ شیخ صاحب رکن جماعت تھے۔ چوہدری صاحب ان کا ذکر بھی بھول گئے ہیں۔
چوہدری محمد اسلم صاحب نے ۱۹۵۱ء کے صوبائی انتخابات میں پنڈی بھٹیاں کے حلقے سے انتخاب لڑا۔ حافظ آباد کی نشست سے جماعت کے ایک اور امید وار بھی تھے۔ یہ محکمہ ایکسائز میں انسکپٹرتھے۔ علیگڑھ یونیورسٹی سے ایم اے ایل ایل بی تھے۔ مولانا کے حکم پر انہوں نے چوبیس گھنٹے کے نوٹس پر ایکسائز انسپکٹری سے استعفا دے کر انتخاب لڑا۔ مولانا مودودی نے ان کے انتخابی جلسہ سے خطاب کیا۔ بعد میں گوجرانوالہ منتقل ہوئے۔ گورنمنٹ اسلامیہ کالج گوجرانوالہ سے وائس پرنسپل کے طور پر ریٹائرہوئے۔ چوہدری محمد اسلم صاحب کے محلہ دارتھے۔ جس زمانے میں جماعت کا ہفت روزہ اجتماع دال بازار کی مسجد اہلحدیث گوجرانوالہ میں ہواکرتاتھاتواسرار صاحب اجتماع میں حالات حاضرہ پر تبصرہ کیا کرتے تھے۔ کئی کتابوں کے مصنف رہے۔ حلقہ ادب اسلامی کے مرکزی رہنماؤں میں سے تھے۔ چوہدری صاحب سے ان کا ذکر بھی فراموش ہوا ہے۔
جناب چوہدری محمد اسلم صاحب کتاب کے صفحہ نمبر ۳۱۵ پر دعویٰ کرتے ہیں:
’’جن پندرہ دیہات میں میں نے کاشت پٹے پر کی ہے، ان کے نام میرے پاس محفوظ ہیں۔ میرا یہ دعویٰ ہے اگر کوئی صاحب ان دیہات میں سے کسی گاؤں میں چلے جائیں توعام لوگوں کومیرے بارے میں رطب اللسان پائیں گے۔ میں نے زائد ادائیگی کر دی لیکن کبھی کسی سے مالی جھگڑا نہیں کیا، کسی کا حق نہیں مارا۔ مزدوروں کو اجرت دوسرے لوگوں سے ہمیشہ سوائی ڈیوڑھی دی اور اجرت کی ادائیگی میں کبھی تاخیر نہیں کی۔ ان پندرہ سولہ دیہات میں کوئی شخص میرے معاملات کی شکایت کرنے والاآپ کو یا کسی دوسرے شخص کو نہیں ملے گا۔ انشا ء اللہ۔‘‘
مسلمان کی شان عجزوانکساری میں ہے ۔وہ ہمیشہ اپنی تقصیر کا اعتراف کرتا ہے ۔ دعویٰ عجز و انکساری کی نفی ہے۔ بہرحال چوہدری صاحب نے یہ دعویٰ کیا ہے توسوال یہ ہے کہ اس کتاب میں اس دعوے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ دعویٰ کا کسی نے مطالبہ کیا؟ کیا بغیر مطالبے کے قسم اٹھانے کے بارے میں حدیث رسول واضح نہیں؟ پھر اس دعوے میں پندرہ دیہات کی تخصیص کیوں؟ دعوے کی ضرورت کسی وجہ سے مان لی جائے تو سب سے پہلے تو جماعتی ساتھیوں کے ہاں دعویٰ کیا جانا چاہیے تھا۔ ۱۹۵۲ء سے ۱۹۸۲ء تک جن پر حکمرانی کی ان سے حسن معاملت کا دعویٰ ہونا چاہیے تھا۔ پھر ان کے ساتھ معاملات بھی رہے۔ چوہدری احمد سعید صاحب اور چوہدری اسلم صاحب کے مابین تنازعے میں تو میرے والد صاحب ثالث رہے۔ اس کتاب کے ایک دیگر باب میں بہت سے دوستوں کے بارے میں اپنی معلومات درج کر چکا ہوں۔ چوہدری صاحب کا طویل عرصے تک ذمہ دارانہ حیثیت میں رہنا اور اس میں ان سے کسی کو شکایت کا نہ ہونا ایک نا ممکن کام ہے۔ کوئی شخص بشری کمزوریوں سے مبرا نہیں۔ لہٰذا دعویٰ کسی درجے میں بھی مستحب نہیں ہو سکتا۔ بہرحال چوہدری صاحب کو سیٹلائٹ ٹاؤن سے لے کر کالی صوبہ، چناب سے لے کر کھوڑی تک، کون نہیں جانتا، مگر جماعت چھوڑی، شہر چھوڑا، وہ بھی اس طرح کہ نام و نشان تک نہ رہے؟ ضلع بھر کے محلے، گاؤں، درودیوار، سڑکیں اور پکڈنڈیاں بھی پوچھتی ہیں کہ یہ فراق کیسے ہوا اور کیوں ہوا۔ آپ کو جماعت سے کسی نے نکالا تو نہیں تھا، خودہی استعفا دیا تو کیوں دیا؟اگر کسی وجہ سے ایسا ضروری تھا تو سیٹلائٹ ٹاؤن کا پیرگودڑی کے قریب والا مکان کیوں فروخت کیا؟ پھر جتنی دیر شہر میں رہے، شہریوں سے ناطہ توڑ کررہے۔ آخر کار گوجرانوالہ شہر پر ۱۹۵۲ء سے لے کر ۱۹۸۲ء تک حکمرانی کرنے کے بعد، اس شہر کے باسیوں سے کیا قصور ہوا کہ آپ لاہور سدھار گئے۔ 
اپنی تحریکی یاد داشتوں کے پیش لفظ میں آپ نے اپنے آپ کو سابق امیر جماعت اسلامی ضلع گوجرانوالہ و رکن مرکزی مجلس شوریٰ تحریر کیا ہے۔ گوجرانوالہ کے ارکان آپ کو سابق کرنے والے تو نہ تھے۔ آپ سابق کیوں ہوئے؟ آپ نے رکنیت سے استعفا دیا تو آپ ذہنی طور پر اس وقت بھی جوان و توانا تھے۔ مقامی شوریٰ میں میں نے خود چوہدری صاحب کی صلاحیتوں کا مشاہدہ کیا ہے ۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اگر آپ خود پیچھے نہ ہٹتے، لاہور کو گلے نہ لگاتے تو کم از کم بیس سال اور بھی امیر ضلع رہ سکتے تھے۔ آپ مرد میدان تھے۔ شیخ محمد انور، عبید الرحمان مدنی، امان اللہ بٹ، بلال قدرت بٹ اور عبیداللہ گوہر کی آپ کے مقابلے پر کیا حیثیت ! ان یادداشتوں کے لکھنے کے بجائے آپ اپنی تگ و تاز میں مصروف ہوتے۔ یادداشتیں تو اس وقت لکھی جاتی ہیں جب کوئی کام نہ رہے۔ اگر یادداشتوں کا لکھنا پھر بھی ضروری ہوتا تو اس میں جس بھول چوک کی نشاندہی مجھ جیسے کوتاہ شخص نے کی ہے، یہ بھول چوک کبھی واقع نہ ہوتی۔ 
میں اپنے اسکول کے زمانے سے چوہدری صاحب کی جہدِ مسلسل کا شاہد و مداح ہوں۔ آپ نے کتاب میں اس جدو جہد کے بارے میں بہت کچھ بالکل سچ سچ لکھا ہے۔ لیکن یہ سوال تشنہ جواب کیوں چھوڑ دیا۔ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ آپ شہر کا وقار تھے۔ آپ جیسی قد آور شخصیت شہر سے خاموشی کے ساتھ رخصت ہو گئی تو کیوں؟چلیے شہر چھوڑنا ہی تھا تو کسی کو بتائے بغیر؟یہ جواب تو آپ کو ہی دینا ہو گا کہ یہ شہر کن لوگوں کے ہاتھوں دے کر آپ لاہور کے ہو گئے؟ یہ کیوں ہوا؟کیسے ہوا؟میں اس کا جواب کس سے لوں؟ 
چوہدری محمد اسلم صاحب کی طویل اور بھر پور تحریکی زندگی یقیناًتحریک کی امانت ہے۔ اسے بھرپور طور پر منتقل کیا جاتا توادارہ معارف اسلامی کی خدمت ہوتی۔ افسوس سے کہنا پڑے گاکہ بظاہر کتاب میں ادھورے پن کا اہتمام کرنے کے لیے واقعتا بڑی محنت کی گئی ہے۔ چوہدری اسلم صاحب کی کئی مہینوں کی محنت شاقہ اور ادارہ کے رفقا کے تجربہ اور محنت کا نتیجہ ادھورے پن کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ کتاب میں تکرار بھی کافی زیادہ کھٹکتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ تکرار کو قرآن کے اسلوب کے طور پر اختیار کیا گیا ہو۔ البتہ ادھورے پن کا کوئی جواز میں پوری ذہنی استعداد لگاکر بھی تلاش نہیں کر سکا۔ چوہدری صاحب نے کتاب میں ضلعی امارت ۱۹۵۲ء سے ۱۹۸۲ء کے دور پر کتاب کو مرکوز رکھا ہے۔ زمانہ رکنیت کاتذکرہ برائے نام ہے۔ مولانامودودی سے کیسے متاثر ہوئے؟ اس کی تفصیل کی کتاب میں کمی محسوس ہوتی ہے۔ ۱۹۸۲ء کے بعد جماعت سے مستعفی ہوئے۔ استعفا کیوں دیا؟ یاد داشتوں سے محو ہے۔ کتاب میں یہ خلا بہت کھٹکتا ہے۔ محترم چوہدری صاحب بھول گئے یا انہوں نے یہ خلا ارادی طور پر رکھا۔ اس سوال پر چوہدری صاحب کے دور کے لوگ، اپنی معلومات اور ذہن کے مطابق رائے قائم کر سکتے ہیں۔ مگر ادارہ معارف اسلامی کے ذمہ داران بھی اس خلا کے ذمہ دار ٹھہرتے ہیں۔ اس طرح مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ہمیں یہ نتیجہ اخذ کرنا پڑے گاکہ کچھ تو دال میں کالا ہے جو اتنی پردہ داری کااہتمام ہے۔ 
استعفا کے بعد ربع صدی گذارنے کے بعدیاد داشتیں لکھی گئی ہیں۔ ربع صدی کی یادداشتیں بالکل غائب ہیں۔ لاہور کے لیے گوجرانوالہ کو داغ مفارقت دینے کے باوجود گوجرانوالہ کے تحریکی اور سیاسی لوگ ان کی زندگی کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں اٹھنے بیٹھنے کے مرحلے میں ہی کارکن جذباتی نہیں تھے بلکہ اب بھی متجسس ہیں۔ کتاب اس پہلو سے بالکل ادھوری ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ وہ دوبارہ جماعت کے رکن بن گئے ہیں۔ ان کا جماعت سے استعفا کاسوال ابھی محتاجِ جواب ہے لیکن دوبارہ رکن بننا خوشی کا باعث ہونے کے باوجود تجسس کا باعث ہو گا۔ سنا ہے آج کل امریکہ میں ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ رکنیت کا حلف اٹھانے کے بعد امریکہ یاترا ضروری ہوگئی ہوگی۔ یقیناًجماعت کے لیے امریکہ سے تارے توڑ کرلانے گئے ہوں گے۔ 
ادھوری کہانی کو نیاز مند لوگوں کو مکمل کرنے کے لیے جس تجسس میں مبتلاکیا گیا ہے وہ نیاز مندوں کی سخت آزمائش ہے۔ مولف اور ادارہ نے تو شاید ساری محنت اور صلاحیت کتاب میں ادھورے پن کو قائم کرنے پر صرف کی ہے۔ کتاب میں مہمل اور غیر یقیناًپن اسی لیے اختیار کیا گیا ہے۔ میں یہاں تک کہوں گاکہ کتاب میں بیان کی غلطیاں بھی دفاعی نوعیت کی اور ارادی ہیں۔ آخر میں پندرہ دیہات میں کاشتکاری کے حوالے سے اپنی معاملت کے شفاف ہونے کا جو دعویٰ کیا گیا ہے، یہ دعویٰ بھی پھیلی ہوئی ایک خاص کہانی کی صفائی کرنے کے لیے ہے۔ اس کہانی کا تانا بانا ۱۹۸۲ء کے بعد جماعت کی رکنیت سے استعفا سے جا کر ملتا ہے۔ حال ہی میں جماعت کی دوبارہ رکنیت کا حصول بھی صفائی کی اسی مہم کا حصہ ہے۔ در اصل صورت حال یہ تھی کہ گوجرانوالہ کے شہری اور جماعت کے لوگ آج بھی چوہدری صاحب کو بد قسمتی سے پیدا ہونے والی صورت حال سے بری الذمہ خیال کرتے ہیں۔ چوہدری صاحب کے دو بیٹوں کے بارے میں گناہ گارہونے کاتاثر تو بہت گہراہے، مگر چوہدری صاحب کو لوگ بے قصور خیال کرتے ہیں۔ اس میں چوہدری صاحب کے بارے میں عام پایا جانے والا حسن ظن بڑا طاقت ور ہے۔ مگر حقائق میں اتر کر دیکھا جائے تو یہ ماننا پڑے گاکہ دولت کے سیلاب کے سامنے چوہدری صاحب کی بھاری بھرکم شخصیت ٹھہرنہ سکی۔ نتیجتاً ڈسکہ تحصیل کے گاؤں میں چوہدری صاحب نے اپنے حق میں تحصیل کی تاریخ کا سب سے بڑا بیع نامہ رجسٹر کروایا۔ یہ بیع نامہ چوہدری صاحب نے خود تحریر و تکمیل کرایا۔ اس میں شناخت کنندہ وکیل صاحب ہماری بار کے ممبر اور بقید حیات ہیں۔ جب سیلاب زر کا پس منظر جرائم کے انسدادی ادراوں کے ہاتھ لگا تو چوہدری صاحب نے اپنا دامن بچایا اور نہ جماعت کو بچانے کی کوشش کی۔ البتہ جماعت کی رکنیت سے استعفا دے دیا۔ اپنے بچوں کا پورا بچاؤ کیا۔ جب لوگ عمومی طور پر صورت حال کو بھول گئے تو پھر دوبارہ رکنیت بھی حاصل کر لی اور اپنی یادداشتیں بھی لکھنے بیٹھ گئے۔ یاداشتوں میں بول بھلیوں کا سا انداز اختیار کر کے پوتر ہوکر نکلنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بھلکڑوں کا سا اسلوب ایسا ہی معلوم ہوتا ہے جیسے جناب آصف علی زرداری نے سوس کورٹ میں اپنے پاگل ہونے کی کہانی ثابت کی۔ 
ادارہ معارف اسلامی چوہدری صاحب کی اس شعوری کاوش میں، ان کا ہر طرح سے معاون ہوا ہے۔ یہ معاونت شعوری اور غیر شعوری دونوں طرح کی ہو سکتی ہے۔ زیادہ امکان غیر شعوری کا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جماعت کے اندر شعور کا امکان کافی کم ہوتا ہے۔ البتہ جناب پروفیسر ظفر حجازی صاحب کی معاونت کا امکان کم ہے۔ وہ بیچارے تو اپنی شرافت کی وجہ سے whitener کے طور پر بھی کس حد تک کام آ رہے ہیں، تحقیق کا موضوع ہو سکتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب، ذہانت و مہارت کا کمال، ہوش و حواس کو عاجز کر دینے کے لیے کافی معلوم ہوتا ہے۔ اس غرض کے لیے انتہائی اونچی درجے کی اجتہادی بصیرت سے کام لیا گیا ہے ۔ چوہدری صاحب کی نسل اس بصیرت کی وارث بنی۔ انہوں نے اس بصیرت کو برؤے کار لا کر، ہیروئن کی سمگلنگ کو اسلامیانے کا عظیم کارنامہ انجام دیا۔ میں اس کار نامے پر ریاست کپور تھلہ کے مقتدر و مقدس خون کو آنئدہ کئی نسلوں کی جانب سے داد و تحسین کا حقدار قرار دیتا ہوں۔ باقی رہی مکافات عمل تو اس پرکسی کا اختیار ہے اور نہ ہی انسان کبھی اس کو سمجھ سکاہے۔
تحریک کے لیے چوہدری صاحب کی لگن، محنت اور جانفشانی سے انکار کرنا بھی چاہیں تو انہیں جاننے والا انکار نہیں کر سکتا۔ انہوں نے ہمیشہ ذہانت اور جرات مندی سے بھی خوب خوب کام لیا۔ بلا شبہہ انہوں نے محنت و جانفشانی میں کارکن کی ادنیٰ سے ادنیٰ سطح تک جا کر بھی کام کیا۔ البتہ ایک سوال بڑا اہم ہے کہ طویل ترین کیریر میں انہوں نے پورے ضلع میں کسی ایک بھی موثر شخص کوجماعت میں شامل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ وہ برابری میں اپنے قریب کی سطح کی کسی شخصیت کو جماعت میں لا سکے۔ اپنی کتاب میں انہوں نے بے شمار بڑے اور چھوٹے لوگوں کا ذکر کیا ہے۔ ان کے ذکر کافائدہ۔ یہ لوگ جماعت میں نہ آئیں، دیگرجماعتوں میں چلے جائیں، یا باہربیٹھ کر صرف سرمایہ فراہم کرتے رہیں۔ سرمایہ فراہم کرتے ہوئے سرمایہ کاری کے ذہن کو ہاتھ سے جانے نہ دیں، تربیت جمعیت سے پائیں اور دنیاوی داری میں کھو جائیں۔ سوچنا چاہیے، تیس سال کی جانفشانی میں کچھ تو کمی ہے، بے شک چوہدری اسلم صاحب جیسا با صلاحیت اور جذبے والا شخص تیس سال کے بعد بھی آج تک کوئی نہیں آیا۔ ساٹھ سال کی تاریخ کا حاصل ضرب نکالنے کی ضرورت ہے۔ چوہدری اسلم صاحب کو اپنی یاد داشتوں میں یہ حاصل ضرب پیش کرنا چاہیے تھا۔
کیوں ہجوم ہے شراب خانے میں
فقط یہ بات کہ ساقی ہے مرد خلیق
میرا مطلب یہ ہے کہ تیس تیس سال منصب داری کے اہتمام والا نظام ہمیشہ قحط الرجالی کا ذریعہ بنے گا۔ساٹھ سال کا حاضل ضرب یہ ہے کہ چوہدری محمد اسلم صاحب نے جماعت کی تنظیمی وسعت کو پورے اہتمام سے روکا۔ مقصود امیر ضلع رہ کر اپنے سیاسی مقاصدکے حصول کے لیے جماعتی وسائل کو خوب خوب بروئے کار لانا تھا۔ وہ اپنے اس طرزعمل پر کار بندرہے۔ شہر میں چوہدری صاحب کے سیاسی اثرات پھیلتے رہے۔ یہاں تک کہ قدرت نے سب کچھ سمیٹ دیا اوران کو امار ت ضلع کے منصب سے پیچھے ہٹنے پر مجبورہونا پڑا۔ ان کو کسی نے مجبور نہ کیا۔ وہ خود ہی مجبورہوئے۔ در اصل مکافات عمل نے اپنا آپ دکھا دیا۔ مخلص کارکنوں کو نمایاں کارکردگی کی بنا پر ابھرتے دیکھ کر ان کو جماعت سے باہر دھکیلنے کی روش خمیازہ دیے بغیر کب تک رہتی۔ منیر احمد صاحب کا قصہ اوپر بیان ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر منظور الحق ڈار صاحب اور اقبال بٹ صاحب کے واقعات کا چوہدری صاحب نے ذکر تک نہیں کیا۔ یہاں تفصیل درج کی جاتی ہے۔ 
ڈاکٹر محمد منظور الحق ڈار صاحب گوجرانوالہ کے ایک معروف ہومیو پیتھک ڈاکٹر تھے۔ ریلوے سے مستعفی ہونے کے بعدہومیو پیتھک پریکٹس کرنے لگے۔ بڑے خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ، اعلیٰ ذوق مطالعہ رکھنے کے علاوہ نہایت باریک بین شخص تھے۔ بڑے منضبط معمولات رکھتے تھے۔ وقت کے نہایت پابند۔ جماعت کے رکن تھے۔ ضلعی شوریٰ کے رکن بھی رہے۔ ضیا ء الحق کے دور میں سیاسی جماعتوں پر پابندی تھی۔ اس کے باوجود دائیں بازو کی جماعتیں اپنی سرگرمیاں علانیہ طور پر جاری رکھی ہوئی تھیں اور حکومت چشم پوشی سے کام لے رہی تھی۔ حقیقتاً پابندی کا اطلاق پیپلز پارٹی پرتھا۔ اصولی جماعت ہوتے ہوئے بھی جماعت اس پابندی کے باوجود پوری طرح سر گرم تھی۔ یہاں تک کے اس کے اپنے انتخابات بھی ہوئے۔ اجتماعات ہوتے اور جماعت کے ہر سطح کے ذمہ داران کے اخبارات میں بیانات بھی چھپتے۔ بظاہر یہ دو عملی تھی کہ جماعت پر قانونی طور پر پابندی ہو مگر عملاً سب کچھ ہو رہا ہو۔ جماعت حکومت سے مطالبات بھی کرتی رہے۔ ڈاکٹر منظور صاحب کو اس صورت حال سے اطمینان نہیں تھا۔ ان کے خیال میں قانونی طور پر پابندی کا احترام ہونا چاہیے تھا۔ ڈاکٹر صاحب اپنے اس عدمِ اطمینان کا ساتھیوں کے ساتھ بحث و اظہار بھی کرتے رہتے تھے۔ 
امیر جماعت اسلامی پاکستان جناب میاں طفیل محمد گوجرانوالہ تشریف لائے۔ جامعہ عربیہ میں ارکان کی نشست تھی۔ ڈاکٹر صاحب بھی تشریف رکھتے تھے۔ ڈاکٹر ڈار صاحب کے بڑے ہی چہیتے شاگرد جناب امان اللہ غازی صاحب نے موقع دیکھ کر میاں صاحب کا ان سے اس ایشو پرمکالمہ کروا دیا۔ ڈاکٹر صاحب اپنے منطقی انداز میں اشکالات پیش کرتے رہے۔ خاص طور پر میاں صاحب کا ایک بیان زیر بحث تھا۔ کسی سیاسی مسئلہ پر پریس نے میاں صاحب سے جماعت کا موقف پوچھا تو میاں صاحب نے کہا کہ جماعتوں پر پابندی ہے۔ پابندی ختم ہو گی اور شوریٰ کا اجلاس ہو گا تو جماعت کا موقف طے ہو گا تو پوچھا بھی جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ جماعت عملاً قائم ہے۔ انتخاب و استصواب اور اجتماعات کے سلسلے بھی چل رہے ہیں۔ کسی اہم مسئلے پر موقف پوچھا جائے تو سوال ٹالنے کا یہ طریقہ کار درست نہیں۔ یہ واقعات اور حقائق کے خلاف ہے۔ شوریٰ بھی قائم ہے۔ اجلاس بھی ہوتے ہیں۔ موقف بھی واضح ہے سوال کا جواب قانونی پابندی کی آڑ میں ٹالنا غلط بیانی کے زمرے میں آتا ہے۔ بحث جاری رہی۔ طول پکڑی تو میاں صاحب ڈاکٹر صاحب کا اطمینان نہ کراسکے۔ گفتگو کے دوران ڈاکٹر نے کچھ اس قسم کی بات کی کہ جماعت کا اس مسئلے پر طرز عمل منافقانہ ہے۔ میاں صاحب پابندی کے سائے میں جاری سرگرمیوں کو صورت حال میں بالکل جائز سمجھتے تھے۔ گفتگو میں بے بس ہو کر میاں صاحب نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ اتنے متقی شخص کو جماعت سے مستعفی ہو جانا چاہیے تھا۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے جماعت کی رکنیت سے اپنا استعفیٰ ٰتحریر کر کے بھجوا دیا۔ ان کا استعفیٰ کبھی منظور تو نہ ہوا مگر امیر ضلع کی ایک نہایت زیرک نقاد سے خلاصی ہو گئی۔ ارباب نظم کی صفوں میں اطمینان قلب وذہنی سکون اپنی اتنہائی حدوں کو پہنچ رہا تھا۔ 
جناب غازی صاحب کو گلا رہا کہ ڈاکٹر صاحب ہر معاملے میں ان سے مشورہ کرتے ہیں اور استعفیٰ دینے میں مشورہ نہیں کیا۔ وہ پشیمان رہے۔ چاہتے تھے کہ اگر ارباب نظم میں کوئی استعفیٰ واپس لینے کا مطالبہ کرتا تو وہ واپس آ جاتے۔ غازی صاحب کا نہایت دکھ سے کہنا ہے کہ کسی نے بھی ان کو واپسی استعفیٰ کے لیے رسماً بھی نہیں کہا۔ غازی صاحب کتنے سادہ ہیں۔ ہمیشہ ارباب نظم کے دائیں بائیں رہنے کے باوجود ان کو پہچان نہیں سکے۔ جن اربابِ نظم کے قلب و دماغ میں خوشی حدوں سے پار ہوئی جاتی ہے وہ ڈاکٹر صاحب کو واپس آنے کے لیے کہتے۔ در اصل یہی وہ موقع ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو ذاتی انا قربان کر دینا چاہیے تھی اور اپنی غلطی خود تسلیم کر کے استعفا واپس لے لینا چاہیے تھا۔ در اصل انہوں نے میاں طفیل صاحب کے مشورہ کو بھی زیادہ سنجیدگی سے لیا۔ بظاہر میاں صاحب نے صورت حال کو ٹالنے کے لیے کہا تھا۔ انہوں نے ڈاکٹر صاحب سے استعفا کے مطالبہ نہیں کیا تھا۔ نظم کی اطاعت کے تصور میں غلو چونکہ مامورین کے ذہنوں پر چھایا رہتا ہے اس لیے ڈار صاحب نے استعفا کے مشورہ کو حکم کے طور پر لیا۔ بہر حال مصلحتیں ارباب نظم کی ہی غالب آتی ہیں غازی صاحب کا گلا اور صدمہ باقی رہے گا۔ مجھے معلوم نہیں غازی صاحب اس طرح کے کتنے صدمے اٹھا چکے ہیں۔ بظاہر تو ایک ہی صدمہ نظر آتا ہے۔ میرے سامنے تو صدمات کا ہجوم ہے۔
جناب اقبال بٹ صاحب کا قصہ اس طرح ہے کہ چوہدری اسلم صاحب امیر ضلع نہیں رہے تھے۔ ان کا نظم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ جماعت کے عام رکن تھے۔ ۱۹۸۴ء کا ذکر ہے۔ شہری جماعت کے ایک رکن شیخ محمد اقبال بٹ صاحب تھے۔ ریلوے اکاوئنٹس لاہور میں ملازمت سے ریٹائر ہوئے۔ صاف ستھری سروس کی۔ ملازمت کے زمانے سے ہی جماعت کے کارکن تھے۔ مطالعے کے عادی اور شوقین تھے۔ ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں لاہور ڈیوٹی کے لیے جاتے، حاضری لگا کر واپس گوجرانوالہ آ جاتے اور جماعت کی انتخابی مہم میں رات گئے تک مصروف رہتے۔ چوہدری محمد اسلم صاحب قومی اسمبلی کے لیے جماعت کے امید وار تھے۔ وہ ان کی مہم میں شرکت کو جہاد اکبر کے درجہ کی چیز سمجھتے ہوں گے۔ اس غرض کے لیے لاہور میں اپنے دفتر میں حاضری لگا کر گوجرانوالہ واپس آ جانا ان کے نزدیک اخلاقی اور قانونی طور پر کسی طرح برا نہیں تھا۔ اس واضح مس کنڈکٹ پر، ان کو کسی نے ٹوکا بھی نہیں ہو گا۔ نہ ٹوکنے کی وجہ یہی کہ ہر کوئی اسے تقویٰ اور صالحیت کا تقاضا خیال کرتے ہوئے ثواب عظیم کا ذریعہ سمجھتا ہو گا۔ بہر حال اقبال بٹ صاحب بہت خوش طبع اور مجلسی شخص تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد رکن بنے۔ ایک مقامی اجتماع میں شریک تھے۔ میں بھی موجود تھا۔ امیر شہر مولانا عبیداللہ عبید اجتماع کی صدارت فرما رہے تھے۔ ہر رکن جماعت اپنے اپنے مقامی حلقے، یعنی محلے کی رپورٹ دے رہے تھے۔ اقبال بٹ صاحب نے اپنے محلے کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے تفصیل بتائی کہ ہفتہ وار اجتماع میں ایک ہی ساتھی تشریف لاتے ہیں اور کوئی نہیں آتا۔ اس پر عبدالجبار گکھڑ صاحب نے کچھ طنزیہ انداز میں تبصرہ کیا۔ بٹ صاحب نے امیر شہر سے کہا کہ کیا آپ نے گکھڑ صاحب کو اپنے لیفٹیننٹ کے طور پر رکھا ہوا ہے۔ اس پر گکھڑ صاحب تلخ ہوئے۔ نوبت تکرار تک پہنچنے لگی۔ اس مرحلہ پر عبدالجبار گکھڑ صاحب نے صورت حال بے جا مداخلت کر کے خراب کی تھی۔ مگر امیر شہر نے گکھڑ صاحب کے بجائے، بٹ صاحب کو اجتماع سے باہر چلے جانے کے لیے کہا۔ بٹ صاحب خاموشی سے اٹھ کر چلے گئے۔ 
اس کے بعد بٹ صاحب نے شہری جماعت کے ہفتہ وار اجتماعات میں شرکت کے لیے آنا بند کر دیا۔ چند غیر حاضریوں کے بعد امیر شہر نے ان کی رکنیت کے اخراج کا نوٹس جاری کر دیا۔ نوٹس کا جواب آیا تو جواب کو غیر تسلی بخش قرار دے کر اخراج کی سفارش امیر ضلع کو ارسال کر دی۔ امیر ضلع شیخ محمد انور صاحب نے رپورٹ اخراج ضلعی شوریٰ کے سامنے پیش کر دی۔ شوریٰ نے جوابِ نوٹس کے پیش نظر مقامی شوریٰ کے ذریعے انکوائری کی ہدایت جاری کر دی۔ اس طرح انکوائری کمیٹی بنی اور راقم الحروف کو اس کمیٹی کا کنوینر بنا دیا گیا۔ میں نے بہت معذرت کی مگر امیر شہر مجھے کمیٹی کی سربراہی سے فارغ کرنے کو تیار نہ ہوئے۔ کمیٹی میں تین دیگر ارکانِ شوریٰ مجھ سے ہر لحاظ سے سینئر تھے۔ حافظ محمد انور قاسمی، قاضی محمد فاضل اور حکیم احمد دین اعوان۔ قاضی محمد فاضل صاحب میرے سکول کے استاد تھے۔ ان بزرگوں کی کمیٹی کی سربراہی سے مجھے گریز تھا۔ بہر حال ہمیں انکوائری کرنا پڑی۔ ہم نے باقاعدہ شواہد ریکارڈ کئے اور متفقہ طور پر انکوائری میں بٹ صاحب کو الزامات سے بری کر دیا اور صورت حال میں مقامی نظم پر معاملہ نا فہمی کا بوجھ ڈال دیا۔ خاص طور پر امیر شہر کو کوتاہی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ ہم نے مفصل رپورٹ تحریر کر کے امیر شہر کی وساطت سے ضلعی شوریٰ کو بھجوادی۔ ہماری رپورٹ پر عام تبصرے ہونے لگے، حالانکہ رپورٹ پر ضلعی شوری کے فیصلے تک اسے اوپن نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔ ناظمِ دفتر چوہدری محمد ایوب صاحب نے فرمایا کہ ’’کمیٹی کو بھینس کے نیچے چھوڑا گیا تھا مگر یہ کٹے کے نیچے چلی گئی‘‘۔ امیر ضلع نے رپورٹ چوہدری محمد اسلم صاحب کو بھجوائی۔ ان سے کہا گیا کہ ان کو رپورٹ سے بچاؤ کا راستہ بھی بتائیں اور اقبال بٹ صاحب سے بھی جان چھڑوائیں۔ ذرا سی صورت حال بنی تو ان سے خلاصی کا فیصلہ کر لیا گیا۔ 
اقبال بٹ صاحب چوہدری محمد اسلم صاحب کے ہم عصر اور جماعت کے دیرینہ سرگرم کارکن تھے۔ چوہدری صاحب نے اقبال بٹ صاحب کو اپنے گھر پر بلوایا اور ان پر واضح کیا کہ کمیٹی کی رپورٹ میں ان کی بریت کے باوجود ان کا اخراج ہو سکتا ہے۔ اربابِ نظم نے آپس میں معاملات طے کرنے ہوتے ہیں۔ انکوائری میں بریت پر ان کو خوش نہیں ہونا چاہیے۔ جب نظم ان کو رکن نہیں رکھنا چاہتا تو ان کو مستعفی ہونا چاہیے۔ اقبال بٹ صاحب چوہدری صاحب کی گفتگو سے دلبرداشتہ ہو کر آئے اور رکنیتِ جماعت سے استعفا لکھ کر بھیج دیا۔ استعفے کی زبان احتجاجی نوعیت کی تھی۔ وہ سخت ذہنی اذیت میں تھے۔ استعفے کی ایک نقل کمیٹی کے کنوینر کے طور پر مجھے ارسال کی۔ میں نے نقل کمیٹی کے دیگر ارکان کو دکھائی اور میرے سمیت جملہ ارکان کمیٹی نے مقامی شوریٰ کی رکنیت سے احتجاجاًاستعفا پیش کر دیا۔ ہمارا احتجاج اس وجہ تھا کہ ہماری رپورٹ پر فیصلہ کی مجاذ ضلعی شوریٰ تھی۔ چوہدری محمد اسلم صاحب کی مداخلت اور بٹ صاحب پر دباؤ ڈال کر مستعفی ہونے پر آمادہ کرنا بڑا غیر مناسب تھا۔ اربابِ نظم استعفے کے منتظر تھے۔ اس کے لیے ان کی کیفیت تو یہ تھی کہ
دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے
کسی نے استعفے کی احتجاجی زبان کا لحاظ نہیں کیا۔ فوراً ہی اسے منظور کر کے بٹ صاحب کی رکنیت ختم کر دی۔ 
آج غور کرتا ہوں تو اس سارے واقعے میں واضح طور پر مکافات عمل کار فرما نظر آتی ہے۔ اقبال بٹ صاحب سروس میں انتہائی فرض شناس اور ڈسپلن کے پابند رہے۔ ساری سروس میں کبھی explanation  کا موقع بھی نہ آیا۔ ایک مشن کی آڑ میں انتخابی مہم کا مرحلہ آیا تو جعلی حاضری مارک کر کے جس شخص کے لیے شریک مہم ہوتے رہے، اس غرض کے لیے بابو ٹرین کے ذریعے لاہور جاتے اور دس گیارہ بجے واپس گوجرانوالہ آ جاتے اور جس خلوص سے رات گئے تک انتخابی کام میں مصروف رہتے، مصروف کیا رہتے، بس جماعت کے دفتر میں انتخابی گپ شپ میں سارا وقت گذر جاتا۔ اسی شخص کے ہاتھوں بغیر کسی کوتاہی کے جماعت سے باہر کا رستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔ 
سخت ہیں فطرت کی تعزیریں
چوہدری صاحب نے اپنی امارت کی آخری مدت ختم ہونے سے چند ماہ پہلے شیخ محمد انور صاحب کو قائم مقام امیر ضلع نامزد کر دیا۔ اس طرح استصواب میں شیخ صاحب کے امیر ضلع منتخب ہونے کی راہ صاف ہوگئی۔ مگر یہ سب کچھ چوہدری صاحب کی یاد داشتوں سے غائب ہے۔ یہ تسلیم کرنا بہت مشکل ہے کہ یہ ان کی یادوں سے بھی محو ہوا ہو۔ اس دورکے ابتدائی ارکان کے ذہنوں میں موجود ہے، چوہدری صاحب کے ذہن سے کیسے نکل سکتا ہے۔ 
کتاب کی تقدیم میں صفحہ نمبر ۹ پر جناب حافظ محمد ادریس صاحب نے تحریر فرمایا ہے،
’’حق واضح ہو جانے کے بعد ان تمام لوگوں نے محسوس کیا کہ کوئی اور اقامت دین کا یہ فریضہ اداکرنے کی کوشش کرے یا نہ کرے، انہیں تو بہر حال یہ فریضہ اداکرنا ہے۔‘‘
حقیقی مرض کی بنیاد اس جملے کے پیچھے چھپی ہوئی ہے۔ اتفاق سے اسی سے ملتا جلتا جملہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے بھی کئی بار ارشاد فرمایا ہے۔ اس جملے میں نفسیاتی طور پر دوسروں کو ساتھ لینے کی خواہش اور جذبے کی عملاً نفی ہو جاتی ہے۔ البتہ اپنے مقاصد کے حصول میں زمینی حقائق کو نظر انداز کرنے اور جلد بازی کا بے تدبیری کی حد تک پایا جانے والا مزاج چوہدری صاحب کی زندگی میں پوری طرح راسخ نظر آتا ہے۔ تاریخ نے اس بارے میں خود فیصلہ کر دیا ہے۔ 
چوہدری محمد اسلم صاحب ان تھک شخص تھے۔ سخت سے سخت کام بھی کر لینے کی ہمت رکھتے تھے۔ زندگی بھر انہوں نے بلند ہمتی کا ثبوت دیا۔ انہوں نے کبھی کمزوری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ہم نے سیاسی لوگوں کے حوصلے دیکھے ہیں۔ چوہدری صاحب نے گوجرانوالہ کی ڈسٹرکٹ بار کے صدر کی چوہدری محمد علی کی یوم اقبال کی تقریب سے غائب ہو نے کا ذکر کیا ہے۔ چوہدری محمد اسلم صاحب نے بار کے صدر صاحب کا نام نہیں لیا۔ نام لیتے تو اچھا ہوتا۔ اسی طرح کا ایک واقعہ ہم نے بھی مشاہدہ کیا۔ چوہدری جلیل احمد خان ڈسٹرکٹ بار کے صدر تھے۔ بار کے جماعتی دوستوں کی تحریک پر قاضی حسین احمد کو بار میں خطاب کی دعوت دی گئی۔ ضیا الحق کا زمانہ تھا۔ ضیا صاحب سے جماعت کا بگاڑ پیدا ہو چکا تھا۔ بار کے صدر صاحب پر دباؤ آیا تو چوہدری جلیل احمد خان نے خطاب کی دعوت واپس لے لی۔ اس پر جماعتی دوستوں نے بار کا اجلاس بلوایا۔ اجلاس میں صدر صاحب کی مذمت کی گئی۔ انہوں نے معذرت کی اور قاضی صاحب کو خطاب کی دوبارہ دعوت دی گئی۔ اس طرح یہ معاملہ درست ہوا۔ در اصل بار کا فورم نہایت مضبوط اور جاندار فورم ہے۔ وہاں نا معقولیت پر اصرار ممکن نہیں۔ بار کے فورم کے مقابلے پر جماعت اسلامی جو کہ منظم ترین جماعت سمجھی جاتی ہے، ایک نظریاتی اور دینی تحریک ہے۔ تحریکی یادداشتوں کی روشنی میں معقولیت کی کس سطح پر کھڑی معلوم ہوتی ہے، ہمارا یہ تبصرہ شاید اس کا اندازہ کرنے میں معاون ہو سکے۔ ہم یہ واضح کرنے پر مجبور ہیں کہ مولف کا پیش لفظ میں یہ دعویٰ کہ انہوں نے سب کچھ بلا لاگ لپیٹ بیان کیا ہے، کتاب کے مندرجات کو مولف کے دعویٰ کے لحاظ سے دیکھاجائے تویہ دعویٰ بے بنیاد معلوم ہوتا ہے۔ کتاب میں لاگ لپیٹ کا پورا پورااہتمام پایا جاتا ہے۔

جگر کے امراض

حکیم محمد عمران مغل

انسان جتنے زہر کھاتا ہے، ان کے تدارک کے لیے قدرت نے جگر کو پیدا فرما کر انسان پر احسان عظیم فرمایا ہے۔ یوں تو انسان کا ہر عضو اپنی مثال آپ ہے، مگر انسانی جگر کو ایک خاص مقام اور اہمیت حاصل ہے۔ ایک انسان نے اپنی زندگی کے خاتمے کے لیے زہر کھا لیا، وہ کافی دنوں تک زندہ رہا۔ دوسرے نے زہر کھاتے ہی زندگی سے منہ موڑ لیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پہلے انسان میں قوت مدافعت زیادہ تھی، اس لیے کہ اس کا جگر کام کر رہا تھا۔ ہیپاٹائٹس کا بھی یہی حال ہے۔ جتنا جگر تنومند ہوگا، اتنا ہی ہیپاٹائٹس کا مریض کافی عرصہ زندہ رہے گا یا اس پر اس کا حملہ ہی نہیں ہوگا۔ جگر کی خرابی کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ہم کھڑے کھڑے کوئی مشروب یا پانی پی لیں اور جب جسم پسینہ سے لبریز ہو تو پھر اس کی خرابی کی گویا ضمانت مل جاتی ہے کہ یہ کمزور ہونا شروع ہوگیا ہے۔ جگر گرم رہے گا تو انسانی مشینری کام کرتی رہے گی۔ آج صحت مند معاشرہ ملنا اور دیکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ مرجھائے موئے کاغذی چہرے بڑھتے جا رہے ہیں۔ صبح سے رات تک یخ ٹھنڈے مشروبات پیے جا رہے ہیں۔ جتنی ٹھنڈک ہم استعمال کر رہے ہیں، تاریخ انسانی میں ہم سے پہلے اس کی مثال نہیں ملتی۔ 
چین میں کھانے کے بعد سادہ یا نیم گرم پانی پیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں کثرت آبادی کی وجہ سے کٹر کے پانی کا پینے والے پانی میں شامل ہو جانا کافی عرصہ سے جاری ہے۔ حفظان صحت کے اصول سے ہم بالکل بے بہرہ ہو چکے ہیں۔ تجربہ کرنا چاہیں تو ایک بڑا جگ پانی سے بھر کر کے کسی تانبا یا لوہے کے برتن میں دس پندرہ منٹ ابال کر رکھ دیں۔ آپ دیکھیں گے کہ ہیرے موتی جواہرات کے علاوہ تمام اقسام کے وٹامنز یکجا ملیں گے۔ یہی ہیرے موتیوں کا کچرا ہمارے گردوں میں پتھریاں پیدا کر کے ہمیں ڈائیلسز کی دہلیز پر پہنچا تا ہے۔ ایک صدی پرانا انسان اپنے تمام کام فرش پر بیٹھ کر اپنے ہاتھوں سے انجام دیتا تھا جبکہ ہم وہ سارے کام بجائے فرش کے عرش پر انجام دے رہے ہیں۔ بہرحال ’’جگر کے بل پر ہے انسان جیتا‘‘ کے اصول کو اپنے خاندان میں رواج دیں جس کے لیے پہلا اور حتمی نسخہ یہ ہے کہ پانی ہمیشہ ابال کر پیتے رہیں۔ دوسرا نسخہ چٹنی کے نام سے مشہور ہے۔ انار دانہ اور ادرک یا سونٹھ اور پودینہ کو ہم وزن باریک کر کے رکھ لیں۔ یہ پاؤڈر کی شکل اختیار کرے گا۔ اس میں پانی یا نمک مرچ دیگر کوئی چیز نہیں ملانی۔ کھانے والا ڈیڑھ چمچ صبح شام کھانے کے بعد کھا لیا کریں۔ تین ماہ کے استعمال کے بعد دل گردہ جگر کے تمام امراض کے علاوہ نظام انہضام کے تمام نقائص ان شاء اللہ بالکل ختم۔ دل گردہ کے آپریشن کے منتظر حضرات بھی تین ماہ بعد ہشاش بشاش ہوں گے، لیکن مضر صحت اشیاء اور عادات سے پرہیز شرط اول ہے۔ 

مشرق وسطیٰ کی سیاسی و مذہبی کشمکش

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مصر میں اخوان المسلمون کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے والے فوجی حکمرانوں کی سیاسی و اخلاقی تائید کے ساتھ ساتھ اربوں روپے کی صورت میں ان کی مالی امداد کر کے سعودی حکومت نے اپنے بارے میں بہت سے سوالات کھڑے کر لیے ہیں۔ اگرچہ یہ سوالات نئے نہیں ہیں لیکن آج کی نسل کے لیے ضرور نئے ہیں اور اپنے ماضی سے بے خبری کے باعث علم و دانش کا سطحی اور معروضی ماحول حیرت اورشش و پنج کی کیفیت سے دوچار ہے۔ 
سعودی حکومت اسلامی نظام کی عملداری اور قرآن و سنت کی حکمرانی کی علمبردار ہے اور اس نے اپنی مملکت کی حدود میں ایک حد تک اس کا اہتمام بھی کر رکھا ہے، جبکہ مصر میں اخوان المسلمون کا ایجنڈا بھی یہی ہے اور وہ گزشتہ پون صدی سے اس کے لیے مسلسل سرگرم عمل ہے۔ اخوان نے سول سوسائٹی اور رائے عامہ کی مدد سے حسنی مبارک کی جس حکومت بلکہ آمریت سے نجات حاصل کی ہے اور مصر کے عوام کو جبر کے جس تیس سالہ طویل دور سے نجات دلائی ہے، اس کا ایجنڈا سیکولر ازم، مغرب نوازی، اسرائیل دوستی اور جبر و تشدد کے ذریعہ حکمرانی کا رہا ہے۔ حسنی مبارک کا طویل دورِ حکمرانی اس کا شاہد ہے، اس لیے جب مصر کے عوام نے سڑکوں پر آ کر قربانی اور جدوجہد کے ذریعہ حسنی مبارک کے آہنی شکنجے کو توڑا اور محمد مرسی کو بھاری اکثریت کے ساتھ منتخب کر کے ایوانِ صدر میں پہنچایا تو نہ صرف مصر کے عوام نے اطمینان کا سانس لیا بلکہ عالم اسلام کی وہ دینی تحریکات بھی مطمئن ہوئیں جو پُر امن اور عدم تشدد پر مبنی سیاسی جدوجہد کے ذریعہ اپنے اپنے ملک میں نفاذِ اسلام کے لیے کوشاں ہیں۔ لیکن ہمیں خدشہ تھا کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ، عرب دنیا کی رولنگ کلاس اور مصر کے اردگرد کے ماحول کے لیے اخوان المسلمون کی یہ کامیابی ہضم ہونے والی چیز نہیں ہے۔ چنانچہ صدر مرسی کے اقتدار سنبھالنے کے ٹھیک ایک سال بعد فوجی مداخلت کے ذریعہ ان کی حکومت کا تختہ الٹ کر انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ اس موقع پر توقع کی جا رہی تھی کہ دنیا بھر کی پُر امن اسلامی تحریکیں اور اسلام کی حکمرانی پر یقین رکھنے والے حلقے اخوان کی آواز میں آواز ملائیں گے اور ان کی پشت پناہی کریں گے۔ لیکن سعودی عرب کی طرف سے مصر کے فوجی انقلاب کی حمایت اور فوجی حکمرانوں کی خطیر مالی امداد کا اچانک اعلان ایک ایسا بریکر ثابت ہوا جس نے توقعات اور امیدوں کا یہ سارا نظام تہہ و بالا کر کے رکھ دیا ہے۔ 
ہمارے ایک فاضل دوست اور ملک کے معروف عسکری تجزیہ نگار لیفٹیننٹ جنرل (ر) غلام جیلانی خان صاحب نے روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں شائع ہونے والے دو کالموں میں اس صورت حال پر تفصیل کے ساتھ اظہار خیال کیا ہے۔ انہیں یہ شکایت ہے کہ آج کی نسل کو اپنے ماضی بلکہ ماضی قریب کی بھی خبر نہیں ہے اور وہ خلافت عثمانیہ کے زوال میں عرب دنیا کے کردار، آل سعود کے سیاسی و تاریخی پس منظر، جنگ عظیم اول کے بعد نئی عرب ریاستوں کے ساتھ برطانیہ و امریکہ کے معاہدات اور موجودہ عالمی نیٹ ورک میں عرب ریاستوں کی حیثیت و مقام سے بالکل بے خبر ہیں، جس کی وجہ سے ہم نہ صرف یہ کہ معروضی حالات کے اصل تناظر اور زمینی حقائق سے آگاہی حاصل نہیں کر پاتے بلکہ کسی مسئلہ میں صحیح موقف اور طرز عمل اختیار کرنا بھی ہمارے لیے ممکن نہیں رہتا۔ 
ہمیں خان صاحب محترم کے اس ارشاد سے مکمل طور پر اتفاق ہے بلکہ ہم خود متعدد بار یہ عرض کر چکے ہیں کہ یہ ’’بے خبری‘‘ ہماری نئی نسل کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، لیکن اس سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ ’’بے خبری‘‘ محض اتفاقی اور صرف نئی نسل کی بے پروائی کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ ’’انجینئرڈ بے خبری‘‘ ہے جس کا ماحول پیدا کرنے کے لیے ہمارے متعلقہ سرکاری اور غیر سرکاری ادارے قیام پاکستان کے بعد سے مسلسل مصروف عمل ہیں۔ اس شعبہ میں ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ یونیورسٹیوں کے اساتذہ، دینی مدارس کے مدرسین، سیاسی جماعتوں کے راہ نماؤں اور ربع صدی سے زیادہ عرصہ تک خطابت و امامت کے فرائض سر انجام دینے والے علماء کرام سے یہ پوچھ لیں کہ خلافت عثمانیہ کا دائرہ کار کیا تھا اور اس کے زوال کے اسباب کیا تھے؟ یا اسرائیل کیسے وجود میں آیا اور اس میں کس کس نے کیا کیا کردار ادا کیا ہے؟ تو قوم کی سیاسی، دینی اور علمی قیادت کا مقام رکھنے والے ان چاروں طبقوں کی غالب اکثریت کے پاس بغلیں جھانکنے کے سوا اس سوال کا کوئی جواب موجود نہیں ہوگا۔ فیا أسفاہ و یا ویلاہ۔
خان صاحب محترم کو شکوہ ہے کہ مڈل ایسٹ میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان سنی شیعہ کشمکش کے حوالہ سے ’’پراکسی وار‘‘ چل رہی ہے اور پاکستان میں جاری فرقہ وارانہ کشیدگی اس کا حصہ ہے جس کو سعودی عرب ہوا دے رہا ہے۔ ہمیں ان کی اس بات سے بھی اختلاف نہیں ہے البتہ یہ ضرور عرض کریں گے کہ یہ یکطرفہ اور ادھوری بات ہے۔ 
یہ منظر اب ہر ایک کو نظر آرہا ہے کہ مڈل ایسٹ میں سنی شیعہ کشمکش دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور اس نے مذہبی دائرے سے بڑھ کر سیاسی و عسکری دائروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور یہ بات بھی حقیقت ہے کہ اس کشمکش کے دائرے میں پاکستان بھی شامل ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس مذہبی کشمکش نے سیاسی اور عسکری رُخ کب سے اختیار کیا ہے؟ اس حقیقت کا اظہار کتنا ہی تلخ کیوں نہ ہو، مگر اس کے حقیقت ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایران کے مذہبی انقلاب کے بعد پاکستان میں اس کی نمائندگی کے عنوان سے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ وجود میں آئی اور اس کی طرف سے اپنے فرقہ وارانہ مطالبات کے لیے وفاقی سول سیکرٹریٹ کا گھیراؤ کیا گیا جس کے رد عمل کے طور پر سنی شدت پسند تحریکوں نے جنم لیا اور معاملات بڑھتے بڑھتے مذہبی خانہ جنگی کی افسوسناک صورت اختیار کر گئے۔ 
اسی طرح مڈل ایسٹ کی ریاستوں میں ایران کے مذہبی انقلاب کے اثرات نے پیش رفت شروع کی، اس عمل اور اس کے رد عمل نے مشرق وسطیٰ کی بہت سی ریاستوں کے داخلی ماحول کو لپیٹ میں لے لیا اور اب حالات یہ رُخ اختیار کرتے جا رہے ہیں کہ غلام جیلانی خان صاحب نے اپنے مضمون میں خلافت عباسیہ کے خاتمہ کے بعد قائم ہونے والی جس فاطمی حکومت کا تذکرہ کیا ہے، اگر کوئی مضبوط رکاوٹ نہ ہوئی تو وہ فاطمی حکومت ایک بار پھر خدانخواستہ مشرق وسطیٰ میں اپنا پرچم لہراتی ہوئی دکھائی دینے لگی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ یہ صورت حال پورے خطے کی سنی اکثریت کے لیے قابل قبول نہیں ہوگی اور وہ اس سے بچنے کے لیے کچھ نہ کچھ ہاتھ پاؤں تو ضرور مارے گی۔ 
ہماری خان صاحب محترم سے گزارش ہے کہ وہ اس صورت حال پر تشویش کا اظہار ضرور کریں، ہم بھی ان کے ساتھ اس تشویش میں شریک ہیں، لیکن تصویر کے صرف ایک رُخ پر اکتفا کرنے کی بجائے اس کا دوسرا رُخ بھی سامنے رکھیں اور دونوں پہلو سامنے رکھتے ہوئے اس مخمصہ سے نکلنے کے لیے قوم کی راہ نمائی کریں۔
خان صاحب محترم نے شکوہ کیا ہے کہ سعودی حکومت نے مصر کے فوجی انقلاب کی تو خطیر رقم کے ساتھ مالی امداد کی ہے لیکن پاکستان جس کو اس وقت مالی امداد کی سخت ترین ضرورت ہے اسے صرف ائمہ حرمین کے دوروں کی خوش خبری پر ٹرخایا جا رہا ہے۔
خان صاحب نے پاکستان کی مالی امداد کی طرف توجہ نہ دینے پر جو شکوہ کیا ہے، وہ بالکل بجا ہے اور سعودی حکومت سے ہمارا شکوہ بھی یہی ہے۔ لیکن انہوں نے ائمہ حرمین کے پاکستان کے دوروں کا اس کے تقابل میں جس انداز میں تذکرہ کیا ہے، وہ بہرحال محل نظر ہے۔ ائمہ حرمین شریفین کی پاکستان تشریف آوری ہمارے لیے ہمیشہ باعث برکت رہی ہے، وہ کبھی فرقہ وارانہ کشمکش کا حصہ نہیں بنے، حتیٰ کہ حرمین شریفین میں ان کے خطبات جمعہ و عیدین میں بھی فرقہ واریت کا مواد عام طور پر موجود نہیں ہوتا۔ جبکہ ائمہ حرمین بالخصوص فضلیۃ الشیخ السدیس حفظہ اللہ تعالیٰ اپنے خطبات میں وحدت امت اور مذہبی رواداری کے ساتھ ساتھ امت کے دینی، علمی، فکری اور معاشرتی مسائل کی طرف مسلمانوں کی جو راہ نمائی کرتے ہیں، وہ ریکارڈ کا حصہ ہے۔
ویسے بھی سعودی عرب کے علماء کرام کا اپنا ایک کردار ہے۔ سعودی حکومت کے مذہبی دائروں کو قائم رکھنے میں آل شیخ کا مسلسل کردار چلا آرہا ہے۔ سعودی نظام کی اصلاح کے لیے سعودی عرب کے سابق چیف جسٹس الشیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے اور فتاویٰ مسلم ممالک کی عدلیہ کے لیے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ خلیج عرب میں امریکی افواج کی آمد پر سعودی عرب کے چوٹی کے دو سو علماء کرام نے جو عرضداشت ’’مذکرۃ النصیحۃ‘‘ کے عنوان سے سعودی فرمانروا کو پیش کی تھی اور جس کے نتیجے میں بہت سے علماء کرام جیلوں میں گئے تھے اور بعض جلا وطن بھی ہوئے، وہ نفاذِ اسلام کی تحریکات کے لیے گائیڈ لائن کا درجہ رکھتی ہے۔ اس لیے ہماری درخواست ہے کہ سعودی حکومت کے سیاسی فیصلوں پر ضرور تنقید کی جائے اور ان سے اختلاف بلکہ احتجاج کا حق بھی استعمال کیا جائے، لیکن ائمہ حرمین شریفین اور سعودی عرب کے علماء کرام کو اس دائرے سے الگ رکھا جائے اور انہیں خواہ مخواہ اس کے ساتھ لپیٹنے سے احتراز کیا جائے، اس لیے کہ اُن کا اِن معاملات کی ذمہ داری میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ 
جہاں تک ’’آل سعود‘‘ کے تاریخی پس منظر اور سیاسی کردار کا تعلق ہے ہم نے کچھ عرصہ قبل ’’پاکستان‘‘ میں ہی اس کا مختصر تذکرہ کیا تھا اور سعودی عرب کے بانی شاہ عبد العزیز مرحوم اور لارڈ چیمسفورڈ کے درمیان ہونے والے اس تیرہ نکاتی معاہدے کا ذکر بھی کیا تھا جس میں برطانیہ عظمیٰ نے سعودی عرب میں آل سعود کے نسل در نسل حکمرانی کے حق کو تسلیم کیا تھا، جبکہ آل سعود کی طرف سے عالمی سطح پر برطانوی مفادات کے خلاف نہ جانے کا عہد کیا گیا تھا اور اس معاہدہ کے نتیجے میں سعودی عرب کی ریاست وجود میں آئی تھی۔ اس میں صرف یہ فرق آیا ہے کہ عالمی سطح پر برطانیہ کی جگہ امریکہ نے لے لی ہے جبکہ باقی معاملات جوں کے توں چل رہے ہیں۔ 
ہمارا خیال ہے کہ جس طرح ائمہ حرمین شریفین اور علماء سعودی عرب کو ’’آل سعود‘‘ کے سیاسی کردار کے ساتھ نتھی کرنا مناسب نہیں ہے اسی طرح ’’آل سعود‘‘ کے سیاسی کردار کو حرمین شریفین کے تقدس کی آڑ میں رکھنا بھی درست طرز عمل نہیں ہے بلکہ اس پر کھلے دل کے ساتھ بحث و مباحثہ کی ضرورت ہے۔ مگر ہم پہلے مرحلہ میں یہ چاہیں گے کہ غلام جیلانی خان صاحب محترم اپنے مخصوص انداز میں خلافت عثمانیہ کے عروج و زوال، اسرائیل کے قیام کے پس منظر، ہاشمی خاندان اور آل سعود کے تاریخی تناظر، پہلی جنگ عظیم کے بعد خلافت عثمانیہ کی شکست و ریخت کے نتیجے میں وجود میں آنے والی عرب ریاستوں کے ساتھ برطانیہ، فرانس اور امریکہ وغیرہ کے معاہدات اور مشرقی وسطیٰ کی موجودہ صورت حال کے ’’معاہداتی پس منظر‘‘ پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالیں۔ ان کے پاس معلومات کے ذرائع بھی زیادہ ہیں، وہ بات کو خوبصورت انداز میں کہنے اور پھر اسے اپنے لہجے میں ڈھالنے کا سلیقہ بھی رکھتے ہیں۔ اس لیے اس داستان کو نئی نسل کے سامنے پیش کرنے کا حق وہ زیادہ رکھتے ہیں، البتہ کہیں منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے ہمیں مداخلت کی ضرورت محسوس ہوئی تو ہم اس سے گریز نہیں کریں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

اکتوبر ۲۰۱۳ء

برصغیر کے فقہی و اجتہادی رجحانات کا ایک جائزہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
اخلاقیات کی غیر الہامی بنیادوں کا داخلی محاکمہمحمد زاہد صدیق مغل
مغرب میں مطالعہ اسلام کی روایت / قصاص کے معاملے میں ریاست کا اختیارمحمد عمار خان ناصر
دو مرحوم بزرگوں کا تذکرہڈاکٹر قاری محمد طاہر
سزائے موت۔ ایک نئی بحثخورشید احمد ندیم
عذابِ قبر اور قرآنِ کریم (۲)مولانا محمد عبد اللہ شارق
برصغیر میں برداشت کا عنصر ۔ دو وضاحتیںمولانا مفتی محمد زاہد
مکاتیبادارہ
شہوانی جذبات میں اضافے کی وجوہاتحکیم محمد عمران مغل

برصغیر کے فقہی و اجتہادی رجحانات کا ایک جائزہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

۱۸۵۷ء کے معرکہ حریت میں جب مجاہدین آزادی کی پسپائی نے جنوبی ایشیا کی سیاسی تقدیر کو برٹش حکمرانوں کے سپرد کیا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی جگہ تاج برطانیہ نے براہ راست اس خطے کی زمام اقتدار سنبھال لی تو یہ خطہ زمین زندگی کے تمام شعبوں میں ہمہ گیر اور انقلابی تبدیلیوں سے دوچار ہوا اور برصغیر کے مسلمانوں کے فقہی رجحانات بھی ان تبدیلیوں کی زدمیں آئے بغیر نہ رہ سکے۔ تغیر وتبدل کا یہ عمل تاج برطانیہ کے نوے سالہ دور اقتدار میں مسلسل جاری رہا، مگر اس پر کچھ عرض کرنے سے پہلے ۱۸۵۷ء سے قبل کے فقہی دائروں اور رجحانات پر ایک نظر ڈالنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔
۱۸۵۷ء سے پہلے برصغیر (پاک وہند وبنگلہ دیش وبرما وغیرہ) کے قانونی نظام پر فقہ حنفی کی حکمرانی تھی اور اورنگ زیب عالمگیر کے دورمیں مرتب کیا جانے والا ’’فتاویٰ ہندیہ‘‘ قانون کی دنیا میں اس ملک کے دستور وقانون کی حیثیت رکھتا تھا۔ مسلم عوام کی اکثریت فقہ حنفی کی پیروکار تھی، حتیٰ کہ قانون کی عمل داری کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے غیر مسلم بھی فقہ حنفی اور فتاویٰ عالمگیری کے ذریعے ہی اس عمل میں درجہ بدرجہ شریک ہوتے تھے، البتہ اس اجتماعی رجحان کے ماحول میں کچھ مستثنیات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا:
  • امام ولی اللہ دہلویؒ نے جو خود اپنے ارشاد کے مطابق حنفی فقہ میں ’’مجتہد فی المذہب‘‘ کا مقام رکھتے تھے، فقہی حلقوں میں پائے جانے والے روایتی جمود کو توڑنے میں اس طرح پہل کی کہ فقہ حنفی کے اصولی دائرے کو قائم رکھتے ہوئے جزئیات میں اجتہادی عمل کی حوصلہ افزائی کی اور علما وفقہا پر زور دیا کہ وہ جزئیات وفروعات میں وقت کی ضروریات کے مطابق اجتہاد کے عمل کو آگے بڑھائیں اور مکمل جمود کے ماحول سے باہر نکلیں۔
  • ۱۸۳۱ء کے معرکہ بالاکوٹ کے بعد امام ولی اللہ دہلویؒ کی درس گاہ کے مسند نشیں حضرت شاہ محمد اسحاق محدث دہلویؒ اور حضرت شاہ عبد الغنی محدث دہلویؒ کے حجاز مقدس ہجرت کر جانے پر دہلی میں درس حدیث کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے حضرت مولانا سید نذیر حسین دہلویؒ کی پیش رفت نے علما کی ایک جماعت کو فقہ اور تقلید کا راستہ ترک کرنے کے رخ پر ڈالا اور یہی تغیر آگے چل کر ’’اہل حدیث‘‘ کے نام سے ایک مستقل مکتب فکر کا نقطہ آغاز ثابت ہوا جس میں مولانا محمد حسین بٹالویؒ اور نواب صدیق حسن خانؒ کی مساعی کو کلیدی مقام حاصل ہے۔
  • بمبئی کے ساحلی علاقوں میں شوافع کا وجود قدیم دور سے چلا آ رہا تھا اور فقہ شافعی کے پیروکار اس خطے میں مسلسل موجود رہے ہیں۔ میں نے لندن میں ایک عالم دین دوست کے پاس فارسی زبان میں فقہ شافعی کی مالابد منہ (شافعی) دیکھی ہے جو بالکل حنفی مالابد منہ کی طرز پر اور اسی حجم میں ہے اور یہ مالابد منہ بمبئی کے ان علاقوں میں فقہ شافعی کے متن کے طورپر پڑھائی جاتی رہی ہے۔
  • بہت سے علاقوں بالخصوص لکھنو میں فقہ جعفریہ کے پیروکار بھی موجود تھے اور ان کے علماے کرام اس فقہ کے دائرے میں ان کی راہ نمائی کر رہے تھے اور اب بھی مسلسل کر رہے ہیں۔
لیکن ان استثنائی رجحانات کے باوجود ملک کے عمومی ماحول پراصول وفروع کے دونوں دائروں میں فقہ حنفی کی بالادستی تھی اور اس کا معیار اپنی تمام تر تفصیلات سمیت فتاویٰ عالمگیری ہی تھا۔
۱۸۵۷ء کے بعد تاج برطانیہ نے برصغیر کا نظام براہ راست اپنے کنٹرول میں لے کر یہاں کا قانونی نظام تبدیل کیا اور عدالتوں میں فتاویٰ عالمگیریہ کی قانونی حیثیت کو ختم کر کے برٹش قوانین نافذ کرنے کا اعلان کیا تو اس خطے میں فقہ حنفی اور فتاویٰ عالمگیری کا قانونی حصار ٹوٹ گیا اور تمام فقہی رجحانات کو آزادانہ ماحول میں نئی صف بندی کا موقع ملا۔ اگرچہ یہ نئی صف بندی اس خطے کے مسلمان عوام کی غالب اکثریت کی فقہ حنفی کے ساتھ وابستگی پر کچھ زیادہ اثر انداز نہیں ہو سکی، کیونکہ کم وبیش ڈیڑھ سو سال کا طویل عرصہ گزر جانے اور اس دوران فقہ حنفی کے دائرے سے ہٹ کر علمی وفقہی پیش رفت کرنے والے مختلف حلقوں کی مسلسل کوششوں کے باوجود پاکستان، بنگلہ دیش، برما اور بھارت کے مسلمانوں کی غالب اکثریت آج بھی فقہ حنفی سے وابستہ ہے، البتہ اس حقیقت سے انکار کی بھی کوئی گنجایش نہیں ہے کہ غیر حنفی فقہی رجحانات نے اس دوران اپنے اہداف کی طرف خاصی پیش رفت کی ہے اور وہ ایک حد تک حنفی فقہی رجحانات پربھی اثر انداز ہوئے ہیں۔
۱۸۵۷ء کے بعد فقہی رجحانات نے جو نئی کروٹ لی ہے، اسے ہم مندرجہ ذیل صورتوں میں بیان کر سکتے ہیں:
  • فقہ حنفی کے روایتی حلقے میں دو الگ مکاتب فکر سامنے آئے۔ ایک بریلوی مکتب فکر جس کے بانی مولانا احمد رضا خان بریلویؒ تھے اور دوسرا دیوبندی مکتب فکر جس کے امتیازی رخ کو متعین کرنے کا سہرا مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے سر ہے۔ ان دونوں مکاتب فکر میں بنیادی اختلاف بعض عقائد کی تعبیر وتشریح اور بعض علماے کرام کی عبارات پر اعتراضات کی بنیاد پر ان کے خلاف مولانا احمد رضا خان بریلویؒ اور ان کے رفقا کی طرف سے لگائے جانے والے کفر کے فتوے پر ہے، جبکہ فقہی فتاویٰ میں دونوں کا بنیادی ماخذ فتاویٰ عالمگیری اور فتاویٰ شامی ہی چلا آ رہا ہے، لیکن ایک فرق کسی حد تک بہرحال موجود ہے کہ دیوبندی مکتب فکر حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی اس اصلاحی تحریک کی نمائندگی کرتا ہے جس کا مقصد یہ تھاکہ مکمل فقہی جمود کے دائرے سے نکل کر قرآن کریم اور احادیث نبویہ کی تعلیمات اور ان سے استفادہ کے رجحان کو عام کیا جائے اور فقہ کو اس کے بعد مسائل واحکام کے تیسرے بڑے ماخذ کے درجے میں رکھا جائے، جبکہ مولانا احمد رضا خان بریلویؒ اور ان کے رفقا نے اس طرف زیادہ توجہ نہیں دی۔
    احناف کے ہاں ایک عرصہ تک اسلوب یہ رہا ہے اور کسی حد تک اب بھی ہے کہ کسی مسئلہ کی دلیل میں بنیادی طور پر فقہی جزئیہ پیش کیا جاتا ہے اور اس کی تائید میں قرآن کریم اور حدیث نبوی سے حسب ضرورت شہادت لائی جاتی ہے۔ میری طالب علمانہ رائے میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے دراصل اس ترتیب کو بدلنے کی تحریک کی تھی۔ وہ فقہ حنفی کے دائرے سے بالکل نکل جانے کے حق میں نہیں تھے، البتہ جزئیات وفروعات میں ضرورت سے زیادہ تصلب کے قائل نہیں تھے۔ میں بحمد اللہ تعالیٰ ایک شعوری حنفی ہوں اور حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے اس اسلوب کو زیادہ قرین قیاس اور قرین انصاف سمجھتا ہوں۔ میرے نزدیک فقہاے احناف میں سے امام ابوجعفر طحاویؒ کا یہ اسلوب زیادہ آئیڈیل حیثیت رکھتا ہے کہ وہ کسی مسئلہ میں احناف کے موقف کی وضاحت یہ کہہ کر نہیں کرتے کہ امام ابوحنیفہؒ کا یہ فتویٰ ہے اور قرآن وحدیث اس کی یوں تائیدکرتے ہیں، بلکہ وہ متعلقہ مسئلہ میں قرآن وحدیث سے تمام میسر آیات وروایات کو سامنے لاتے ہیں، ان سے پیدا ہونے والے ممکنہ پہلووں کا تعین کرتے ہیں، ان کا تجزیہ وتنقیح کرکے ترجیحات قائم کرتے ہیں اور پھر ایک پہلو کو ترجیح دے کر یہ کہتے ہیں کہ یہ بات جو انھوں نے قرآن کریم اور احادیث نبویہ سے دلائل کے ساتھ ثابت کی ہے، امام ابوحنیفہ کا بھی یہی قول ہے۔
    بہرحال یہ ایک ضمنی بات تھی جو درمیان میں آ گئی ہے۔ ہم دراصل ۱۸۵۷ء کے بعد احناف کے دائرے میں سامنے آنے والے دو مکاتب فکر یعنی دیوبندی اور بریلوی کے فقہی رجحانات میں فرق کی بات کر رہے تھے جو اگرچہ عملاً زیادہ نمایاں دکھائی نہیں دیتا، لیکن اس حد تک ضرور موجود ہے کہ دیوبندی مکتب فکر حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی اصلاحی تحریک سے وابستگی کا کھلم کھلا اظہار کرتا ہے، مگر بریلوی مکتب فکر نہ صرف یہ کہ اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتا، بلکہ وہ اس قدیمی فقہی اور سماجی روایت کی مکمل نمائندگی کا دعویدار ہے جو حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی اصلاحی تحریک سے قطع نظر برصغیر میں پہلے سے چلی آ رہی تھی، البتہ فقہی دائروں میں اس اصولی ہم آہنگی اور عملی تنوع کے باوجود بعض عقائد کی تعبیر وتشریح اور بعض اکابر علما کی عبارات کی توجیہ وتطبیق میں دیوبندی اور بریلوی مکاتب فکر کا شدید اختلاف آج بھی کفر واسلام کا معرکہ سمجھا جاتا ہے۔
    یہاں اسی دائرے کے ایک اور فقہی رجحان کا تذکرہ بھی ضروری محسوس ہوتا ہے جسے فرنگی محلی مکتب فکر کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ علماے فرنگی محل بھی حنفی تھی اور انھوں نے حنفی فقہ کی بہت علمی خدمت کی ہے اور یہ اعزاز انھی کے حصے میں جاتا ہے کہ درس نظامی کے نام سے جو نصاب تعلیم آج برصغیر کے دیوبندی، بریلوی بلکہ اہل حدیث مدارس میں بھی پڑھایا جاتا ہے، اس کا بنیادی ڈھانچہ فرنگی محل ہی کے ایک عالم دین ملا نظام الدین سہالویؒ کا طے کردہ ہے۔ ۱۸۵۷ء کے بعد اس فقہی رجحان کی نمائندگی میں حضرت مولانا عبد الحئ لکھنویؒ کا نام سب سے نمایاں رہا، لیکن مولانا عبد الحئ لکھنوی کے بعد اس فقہی مکتب فکر کو اس سطح کی کوئی علمی شخصیت میسر نہ آ سکی جو اس کے الگ تشخص کو قائم رکھ سکتی، اس لیے یہ آہستہ آہستہ دیوبندی مکتب فکر میں ضم ہوتا چلا گیا۔
  • فقہ حنفی سے انحراف پر ایک نئے مکتب فکر کی بنیاد ۱۸۵۷ء سے پہلے ہی رکھی جا چکی تھی جب حضرت شاہ محمد اسحاق محدث دہلویؒ کی حجاز مقدس ہجرت کے بعد دہلی میں حضرت مولانا میاں نذیر حسین دہلویؒ نے تقلید ترک کرنے کا اعلان کیا اور دہلی میں درس حدیث دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ اہل حدیث حضرات اسی بنا پر اپنے اس مکتب فکر کو حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی اصلاحی تحریک کا تسلسل قرار دیتے ہیں۔ اس مکتب فکر نے بعد میں باقاعدہ طور پر اپنے لیے ’’اہل حدیث‘‘ کا عنوان اختیار کیا اور اسی عنوان کے ساتھ یہ مکتب فکر اب تک کام کر رہا ہے، جبکہ حضرت شاہ محمد اسحاق دہلویؒ اور حضرت شاہ عبد الغنی محدث دہلویؒ کے تلامذہ میں سے حضرت مولانا احمد علی سہارنپوریؒ اور حضرت مولانامملوک علی نانوتویؒ کے حلقہ نے اپنا مورچہ دیوبند میں لگایا اور حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی اصلاحی تحریک کے تسلسل کو (بالخصوص فکری اور سیاسی محاذ پر) آگے بڑھانے کا اعلان کیا۔ دیوبند میں مدرسہ عربیہ کے نام سے ۱۸۶۵ء میں جس مدرسہ کا آغاز ہوا، اس کے بانیوں میں مولانا محمد قاسم نانوتویؒ ، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور حاجی عابد حسینؒ نے اپنے اس نئے مدرسے میں، جو بعد میں دار العلوم دیوبند کے نام سے دنیا بھر میں متعارف ہوا، نصاب تعلیم کی بنیاد درس نظامی پر رکھی، لیکن اس میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی تعلیمی اصلاحات اور سلسلہ چشتیہ کے عظیم بزرگ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجرمکیؒ کے روحانی تربیتی ذوق کو بھی شامل کر لیا، چنانچہ ان تینوں کے امتزاج سے ایک مستقل فقہی مکتب فکر وجود میں آ گیا جس کے اثرات وثمرات آج دنیا بھر میں بالخصوص برصغیر پاک وہند وبنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے علمی، دینی اور تعلیمی حلقوں میں نمایاں دکھائی دے رہے ہیں۔
    دوسری طرف اہل حدیث مکتب فکر کا دائرہ بھی برابر پھیلتا جا رہا ہے اور دنیا کے بیشتر حصوں میں اس کے پیروکار موجودہیں۔ اہل حدیث مکتب فکر نے حنفی فقہ سے انحراف کرتے ہوئے الگ تشخص قائم کرنے کے لیے چند مسائل مثلاً ترک تقلید، فاتحہ خلف الامام، آمین بالجہر، رفع یدین، طلاق ثلاثہ اور دیگر بعض جزوی مسائل کو بنیاد بنایا اور قرآن وحدیث سے اپنے ذوق کے مطابق ان کے دلائل پیش کرنا شروع کیے تو اس کے جواب میں حنفی بالخصوص دیوبندی علما نے بھی احادیث کی تدریس وتعلیم میں فقہ حنفی کے دفاع کا راستہ اختیار کیا۔ رفتہ رفتہ اس مبحث میں تشدد اور فتویٰ بازی بھی در آئی جس سے احادیث نبویہ کی تدریس میں فقہ حنفی کے مسائل واحکام کے اثبات یا ان کے رد نے ایک مستقل معرکہ کی صورت اختیار کر لی۔ اس کا آغاز حضرت مولانا میاں نذیر حسین محدث دہلویؒ نے کیا۔ اس کے جواب میں حضرت مولانااحمد علی سہارنپوریؒ اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ نے فقہ حنفی کے دفاع کامورچہ سنبھالا اور پھر ایک طرف سے مولانا محمد حسین بٹالویؒ ، مولانا محمد جونا گڑھیؒ اور نواب صدیق حسن خانؒ جبکہ دوسری طرف سے شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ ، علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ اور حضرت مولانا سید حسین احمدؒ مدنی جیسے سربرآوردہ علماے کرام اور ان کے تلامذہ نے اس علمی معرکہ آرائی کو ایسی مستقل حیثیت دی کہ آج بھی دینی مدارس میں صحاح ستہ کی تدریس وتعلیم میں اسی بحث ومباحثہ کا بازار گرم رہتا ہے۔
    میری طالب علمانہ رائے میں اس بحث کے آغاز کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے کہ اہل حدیث علماے کرام کو اپنے الگ تشخص کے اظہار کے لیے اس کی ضرورت تھی جبکہ حنفی علما کے لیے فقہ حنفی کے دفاع کے لیے یہ ضروری ہو گیا تھا، مگر اب جبکہ دونوں کی طرف پوزیشن، موقف، دلائل اور علمی مباحث پوری طرح واضح ہو چکے ہیں، دورۂ حدیث کی تدریس میں دونوں فریقوں کا سارا زور انھی مباحث پر اس حد تک صرف ہوتے چلے جانا کہ باقی بہت سے ضروری مباحث نظر انداز ہو رہے ہیں، کم از کم میری سمجھ سے بالاتر ہے، لیکن بہرحال یہ صورت حال اب تک قائم ہے اور اس میں کسی بنیادی تبدیلی کے امکانات سردست دکھائی نہیں دے رہے۔
  • ۱۸۵۷ء کے بعد ایک اور فقہی اور فکری مکتب فکر سامنے آیا جس نے فقہ کے ساتھ ساتھ حدیث نبوی کو بھی احکام ومسائل کا ماخذ بنانے سے گریز کرتے ہوئے صرف قرآن کریم کو عقائد واحکام کی بنیاد قراردینے کا اعلان کیا۔ یہ سرسید احمد خان مرحوم کا مکتب فکر ہے جس نے حدیث نبوی کو نہ صرف یہ کہ احکام وقوانین کا مستقل ماخذ تسلیم نہیں کیا، بلکہ قرآن کریم کی تشریح میں بھی حدیث نبوی کو اتھارٹی ماننے سے انکار کر دیا اور کامن سینس کی بنیاد پر قرآن کریم کی تشریح کو بنیاد بنا کر اسلامی عقائد اور احکام وقوانین کی ازسرنو تشریح وتعبیر کو مطمح نظر بنا لیا۔ یہ مکتب فکر بھی موجود ومتحرک ہے اور ہمارے دور میں اس کی نمائندگی میں چودھری غلام احمد پرویز صاحب نے سب سے زیادہ شہرت پائی ہے۔ بعض حلقے مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کو بھی اسی مکتب فکر سے وابستہ قرار دیتے ہیں، لیکن میری طالب علمانہ رائے میں یہ بات درست نہیں ہے، اس لیے کہ علامہ اقبالؒ جس طرح جابجا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا حوالہ دیتے ہیں اور ان سے استدلال کرتے ہیں، اس کے پیش نظر انھیں حدیث نبوی کی حجیت کا انکار کرنے والوں یا اس کی حیثیت کو کم کرنے والوں میں شمار کرنا علامہ محمد اقبالؒ کے ساتھ سراسرزیادتی ہے۔ 
  • ایک اور فقہی رجحان اور علمی اسلوب بھی اس دوران سامنے آیا ہے جسے نظر اندازنہیں کیا جا سکتا۔ اس مکتب فکر نے فقہ سے بغاوت اور اس کی مذمت کرنے کے بجائے اس کی افادیت کو تسلیم کیا، البتہ فقہ حنفی کی پابندی کو ضروری نہ سمجھتے ہوئے قرآن وسنت سے براہ راست استدلال اور اس کے بعد چاروں فقہی مذاہب مثلاً حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی بلکہ ظاہری مذہبسے بھی حسب ضرورت استفادہ کو ترجیح دی۔ میں سمجھتا ہوں کہ مولانا شبلی نعمانیؒ ، مولانا ابو الکلام آزادؒ ، مولانا حمید الدین فراہیؒ اور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کو اسی زمرہ میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ چند امتیازی مسائل سے ہٹ کر اہل حدیث علماے کرام اور مفتیان کرام کا عمومی اور عملی اسلوب بھی یہی ہے، لیکن بعض اکابر اہل حدیث علماے کرام کی طرف سے فقہ کی مذمت اور اسے مطلقاً مسترد کر دینے کی واضح تصریحات کے باعث مذکورہ بالا اصحاب علم کا ان سے ہٹ کر الگ تذکرہ میں نے ضروری سمجھا ہے۔
یہ تو طالب علمانہ تاثرات ہیں ان فقہی رجحانات کے بارے میں جو ۱۸۵۷ء کے بعد سامنے آئے اور جن کی کارفرمائی نہ صرف ۱۹۴۷ء تک قائم رہی بلکہ وہ اس کے بعد بھی ہمارے معاشرے میں موجود ہیں اور اپنے اپنے دائروں میں پوری طرح مصروف عمل ہیں۔ اب ہم آتے ہیں ان اجتہادی کوششوں اور اجتہادی مساعی کے اس ارتقائی عمل کی طرف جو ۱۸۵۷ء کے بعد شروع ہوا اور مختلف دائروں میں اجتہاد کے نام پر یہ عمل آج بھی جاری ہے، لیکن اس کے عملی پہلووں پر گفتگو سے قبل ان مختلف فکری دائروں پرایک نظر ڈالنا ضروری ہے جو ان اجتہادی کوششوں اور اجتہادی عمل کی بنیاد بنے۔
  • اجتہاد کا ایک فکری دائرہ تو یہ تھا اور اب بھی ہے کہ جس طرح یورپ میں مذہبی اصلاحات کی تحریک مارٹن لوتھر کی راہ نمائی میں چلی اور اس نے بائبل کی تشریح میں پاپاے روم اور چرچ کو فائنل اتھارٹی ماننے سے انکار کر کے پروٹسٹنٹ ازم کے عنوان سے مذہب کی تشریح نو بلکہ ری کنسٹرکشن کا راستہ اختیار کیا، اسی طرح ہم بھی پورے مذہبی ڈھانچے کی تشکیل نو کریں اور ماضی کے تمام اجتہادات کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف قرآن کریم کی بنیاد پر اسلام کا نیا اعتقادی، عملی اور اخلاقی ڈھانچہ طے کریں۔ اس گروہ کے نزدیک ’’اجتہاد‘‘ صرف اس انتہائی عمل کا نام ہے اور اس سے کم وہ کسی درجہ کے عمل کو اجتہاد تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
  • اجتہاد کا دوسرا دائرۂ فکر یہ سامنے آیا کہ فقہی مذاہب کے حصار کو ختم کر کے قرآن وحدیث سے براہ راست استنباط واستدلال کیا جائے، البتہ ثانوی درجے میں کسی خاص فقہی مذہب کی پابندی نہ کرتے ہوئے بوقت ضرورت کسی بھی فقہی مذہب سے استدلال کر لیا جائے۔
  • اجتہاد کے نام پر ایک سوچ اور فکر یہ بھی پائی جاتی ہے کہ امت میں ’’اجتہاد مطلق‘‘ کا دروازہ بند ہو جانے کا جو نظریہ پایا جاتا ہے، اسے مسترد کر کے فقہ کی تشکیل نو کا کام اسی ’’زیرو پوائنٹ‘‘ سے دوبارہ شروع کیا جائے جہاں سے حضرات صحابہ کرامؓ اور تابعین نے اس کا آغاز کیا تھا۔
  • اجتہاد کا ایک نظریہ یہ بھی سامنے آیا کہ فقہ حنفی کے اصولی دائرے کا قائم رکھتے ہوئے فروعات وجزئیات میں دوسری مسلمہ فقہوں سے بھی بوقت ضرورت استفادہ کیا جائے۔
  • ایک سوچ یہ بھی ہے کہ اصول وفروع دونوں میں فقہ حنفی کی پابندی کو بہرصورت قائم رکھا جائے اورجہاں حالات اور ضروریات کا تقاضا ہو، وہاں فقہ حنفی کے اصولوں کے تحت ہی فروعات وجزئیات کے درجے میں اجتہاد کیا جائے۔
  • جعفری اور زیدی فقہ کے علماے کرام کے ہاں ان دو فقہوں کے الگ اصول وضوابط ہیں جن کے تحت وہ اجتہادی عمل کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
  • بہت سے ذہنوں میں اجتہاد کے بارے میں یہ تصور بھی پایا جاتا ہے کہ اجتہاد کسی علمی، استنباطی اور استدلالی سعی وکاوش کا نام نہیں، بلکہ پاپاے روم کی طرح کا کوئی صواب دیدی اختیار علماے کرام کو حاصل ہے اور انھیں سوسائٹی کی ضروریات اور مطالبات کو پورا کرنے کے لیے یہ صواب دیدی اختیار استعمال کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔
یہ اجتہاد کے مختلف مفہوم ہیں جو مختلف حلقوں اور طبقات کے ذہنوں میں ہیں اور ہر طبقہ کا ’’اجتہاد‘‘ ایک الگ اور مستقل مفہوم کا حامل ہے۔ ان تمام امور کو سامنے رکھتے ہوئے اب ہم ان عملی کاوشوں میں سے مثال کے طور پر چند ایک کا تذکرہ کرنا چاہیں گے جن سے اس خطے کے مسلمان عوام نے ۱۸۵۷ء اور ۱۹۴۷ء کے درمیان عرصے میں استفادہ کیا:
  • ۱۸۵۷ء کے بعد ایک عملی مسئلہ یہ درپیش ہوا کہ حنفی فقہ میں جمعہ کی نماز اجتماعی طور پر ادا کرنے کے لیے یہ شرط ہے کہ امام حکومت کی طرف سے مقرر کردہ ہو جبکہ دہلی کے اقتدار پر تاج برطانیہ کا قبضہ ہو جانے کے بعد کوئی مجاز حکومت موجود نہیں رہی تھی جو امام وخطیب کا تقررکر سکے یا جس کا باضابطہ نمائندہ نماز جمعہ میں خطبہ وامامت کا فریضہ سرانجام دے سکے تو اب نماز جمعہ کی ادائیگی کیسے ہوگی؟ اس پر علماے کرام نے اجتماعی طور پر یہ راستہ اختیار کیا کہ کسی امام پر مسلمانوں کی اکثریت کی رضامندی کو اسلامی حکومت کی طرف سے تقرری کا قائم مقام قرار دیتے ہوئے اس شرط میں لچک پیدا کی اور جمعۃ المبارک کو ساقط کرنے کے بجائے اس کا تسلسل باقی رہنے دیا۔ یہ بلاشبہ ایک اجتہادی عمل تھا جو ۱۸۵۷ء کے بعد سامنے آیا جبکہ بعض حلقوں میں اس صورت میں جمعہ کی ادائیگی کے ساتھ احتیاطاً ظہر کی نماز کی ادائیگی کو بھی ضروری سمجھا جاتا ہے۔ 
  • ملک کا قانونی نظام یکسر تبدیل ہو جانے کے باعث مسلمانوں کو سب سے زیادہ مشکل خاندانی معاملات مثلاً نکاح وطلاق اور وراثت وکفالت وغیرہ میں پیش آئی کہ ان خالص مذہبی معاملات میں غیر اسلامی قانون اورغیر اسلامی عدالتوں کے فیصلوں کو کیسے قبول کیا جا سکے گا؟ اس پر ایک طرف تو برطانوی حکومت نے یہ سہولت دے دی کہ مسلمانوں کے شخصی قوانین میں ’’محمڈن لا‘‘ یعنی اسلامی شرعی قوانین کی اہمیت کو تسلیم کیا اور عدالتوں میں انھی قوانین کی پابندی کو لازمی قرار دیا، دوسری طرف علماے کرام نے ایسے تنازعات میں ’’قضا‘‘ کا راستہ بنددیکھ کر ’’تحکیم‘‘ کے شرعی اصول کی طرف توجہ دی اور برصغیر کے مختلف علاقوں بالخصوص صوبہ بہار میں ’’امارت شرعیہ‘‘ یا ا س سے ملتے جلتے ناموں کے ساتھ اس عمل کو آگے بڑھایا جس سے عام مسلمانوں کو یہ سہولت حاصل رہی کہ وہ اگر اپنے تنازعات کا فیصلہ خالصتاً شرعی بنیادوں پر کرانا چاہتے ہیں تو وہ ایسے اداروں سے استفادہ کر سکیں۔
  • برطانوی استعمار کے قبضہ کے بعد برصغیر پاک وہند وبنگلہ دیش کی آزادی کے لیے بہت سے اکابر علماے کرام نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں ہی ہندوستان کو دار الحرب قرار دے کر آزادی کے حصول کے لیے جہاد کو شرعی فریضہ قرار دے دیا تھا اور اس فتویٰ کی بنیاد پر درجنوں مسلح تحریکوں نے برطانوی استعمار کے خلاف جنگ لڑی ہے، لیکن ایک مرحلہ آیا کہ اس طریق کار پر نظر ثانی کی ضرورت پیش آئی تو علماے کرام نے مسلح جدوجہد کا راستہ ترک کر کے پرامن سیاسی تحریک کا طرز عمل اپنایا اور حصول آزادی کے لیے پرامن سیاسی جدوجہد کو ہی ’’جہاد آزادی‘‘ کا قائم مقام قرار دے کر اپنی تمام تر صلاحیتیں اور توانائیاں اس کے لیے وقف کر دیں۔ میری طالب علمانہ رائے میں یہ بھی ایک اجتہادی عمل تھا جو برصغیر کے علماے کرام کی اجتہادی بصیرت کا آئینہ دار ہے۔
  • مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا اوربرطانوی استعمار کے زیر سایہ ایک نئی امت پروان چڑھائی گئی تو ان کے ساتھ معاملات اور معاشرتی تعلقات کے تعین کا مسئلہ درپیش ہوا۔ ایسی صورت میں فقہی احکام وقوانین کا ایک مستقل دائرہ موجود ہے جو ماضی کی اسلامی حکومتوں میں رو بہ عمل بھی رہا ہے، لیکن معروضی حالات میں ان احکام وقوانین پر عمل دشوار تھا۔ اس لیے مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کی اس تجویز کو علماے کرام نے اجتماعی طور پر قبول کر لیا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے پیروکاروں پر فقہی احکام کا اطلاق کرنے کی بجائے انھیں مسلمانوں سے الگ ایک غیر مسلم گروہ کے طور پر قبول کر کے ان کا اس حیثیت سے معاشرتی درجہ طے کیا جائے۔ میری طالب علمانہ رائے میں یہ بھی علماے کرام کا ایک اجتہادی عمل تھا جس پر وہ پاکستان بن جانے کے بعد بھی قائم رہے اور قادیانیوں پر فقہی احکام کے اطلاق کا مطالبہ کرنے کے بجائے انھوں نے انھیں دستوری طور پر غیر مسلم اقلیت قراردینے کے فیصلے پر قناعت کرلی۔
  • تحریک آزادی اور تحریک پاکستان میں شریک علماے کرام کے لیے ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ آزادی کے بعد مسلمانوں کی حکومت قائم ہوگی تو اس کی شرعی حیثیت اور اس کا شرعی ڈھانچہ کیا ہوگا؟ اس کے بارے میں بھی فقہی احکام وقوانین کے مستقل ابواب موجود ہیں اور مغل بادشاہت اور عثمانی خلافت کے نظائر بھی تاریخ کے ریکارڈ پر ہیں، لیکن یہ دونوں صورتیں دور جدید کے لیے قابل قبول نہیں تھیں، اس لیے علماے کرام نے ایک اسلامی حکومت کی تشکیل کے لیے فقہی احکام وقوانین کے من وعن اطلاق پر اصرار نہیں کیا بلکہ قرآن وسنت کی پابندی کی شرط کے ساتھ جمہوری حکومت کے تصورکو قبول کر لیا جو بلاشبہ ایک اجتہادی عمل تھا جس کے تحت قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی طرف سے پاکستان میں جمہوری حکومت اور قرآن وسنت کی بالادستی کی یقین دہانی پر اعتماد کرتے ہوئے علماے کرام کی ایک بڑی تعداد تحریک پاکستان میں شامل ہوئی اور قیام پاکستان کے بعد بھی قرارداد مقاصد، تمام مکاتب فکر کے ۳۱ سرکردہ علماے کرام کے ۲۲ متفقہ دستور ی نکات اور ۷۳ء کے دستور کی اسلامی دفعات کی صورت میں اسی اجتہادی سوچ اور عمل کو آگے بڑھایا گیا۔
یہ چند مثالیں اجتماعی اور قومی سطح کے ان اجتہادات کی ہیں جو ۱۸۵۷ء سے ۱۹۴۷ء تک کے درمیانی عرصہ میں اس خطے میں عملاً رونما ہوئے جبکہ جزوی اجتہادات کا دامن بھی بہت وسیع رہا جس کا مشاہدہ مختلف مکاتب فکر کے بیسیوں بڑے مفتی صاحبان کے فتاویٰ اور مراکز فتاویٰ کے علمی فیصلوں کی صورت میں کیا جا سکتا ہے۔ دار الافتاء کے نام سے قائم ان مراکز کا شمار سیکڑوں میں ہے مگر ان میں بیسیوں ایسے ہیں جو خود علماے کرام اور علمی حلقوں کے لیے مراجع کی حیثیت رکھے ہیں اور ایسے علمی مراکز پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت اور برما میں مختلف فقہی مکاتب فکر اور مذاہب کے حوالے سے مسلسل مصروف کار ہیں۔ ان مراکز کے جاری کردہ ہزاروں بلکہ لاکھوں فتاویٰ کا جائزہ لیا جائے تو ان میں سیکڑوں ایسے فتاویٰ ملیں گے جن میں مفتیان کرام نے ماضی کے فتاویٰ سے ہٹ کر زمانے کی ضروریات کے پیش نظر اجتہادی راستہ اختیار کیاہے، البتہ ان میں اجتہادی دائرہ وہی ہے کہ اپنے اپنے فقہی مذاہب کے دائرے میں رہتے ہوئے اسی کے اصولوں کی روشنی میں نئے فتوے دیے گئے ہیں جبکہ بعض فتاویٰ میں فقہی مذاہب کے حصار کو کراس کرنے میں بھی مضائقہ نہیں سمجھا گیا۔ مثال کے طور پر دو مسئلوں کا حوالہ دینا چاہوں گا:
  • ایک یہ کہ رؤیت ہلال میں اختلاف مطالع کا اعتبار ہے یا نہیں؟ اس میں احناف متقدمین کا موقف شروع سے یہ چلا آ رہا ہے کہ اختلاف مطالع کا وجود تو ہے لیکن رؤیت ہلال میں شرعاً اس کا اعتبار نہیں ہے اور کسی جگہ بھی چاند نظر آ جانے کے شرعی ثبوت اور مصدقہ خبر پر باقی سب مقامات پر روزے اور عید کا اعلان ضروری ہے یا کم از کم یہ ہے کہ ایسا کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ پوزیشن بریلوی مکتب فکر کے بانی مولانا احمد رضا خان بریلوی اور دار العلوم دیوبند کے صدر مفتی مولانا مفتی عزیز الرحمن دیوبندی تک اسی طرح رہی ہے، لیکن اس کے بعد جب اختلاف مطالع کا اعتبار کرنے کا فتویٰ دیا گیا تو متقدمین احناف کے موقف اور فتویٰ کی پابندی کو ضروری نہیں سمجھا گیا۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ مفقود الخبر خاوند کی زوجہ کو نکاح ثانی کی اجازت کے بارے میں حضرت امام ابوحنیفہؒ کے قول کی بجائے عمومی ضرورت کی بنا پر مالکیہ کے قول پر فتویٰ دیا گیا ہے۔ یہ دو مسئلے میں نے مثال کے طور پرذ کرکیے ہیں۔ اگر اس رخ پر گزشتہ صدی کے ذمہ دار مفتیان کرام کے فتاویٰ کا جائزہ لیا جائے تو سیکڑوں ایسے فتاویٰ مل جائیں گے جن میں یہ صورت اختیار کی گئی ہے اوریہ عمل محدود پیمانے پر ہی سہی، مگر بہرحال اجتہاد ہی کا عمل ہے۔ 
  • مسلمانوں کے تنازعات ومقدمات کے شرعی قوانین کے مطابق فیصلوں کے لیے قضا، تحکیم اور افتا کے تین ادارے ہیں جن میں سے قضا کے پاس تنفیذ کی قانونی قوت اور تحکیم کے پاس اس کی اخلاقی قوت موجود ہوتی ہے جبکہ افتا کا کام صرف مسئلہ کی شرعی پوزیشن کو واضح کر دینا ہے۔ ۱۸۵۷ء کے بعد ملک کے عمومی قانونی نظام میں ’’قضا‘‘ کا شرعی ادارہ موجود نہیں رہا تھا، لیکن اندرونی طور پر نیم خود مختار مسلم ریاستوں میں قضا کا یہ ادارہ بھی کام کرتا رہا ہے۔ مثلاً بہاول پور، قلات، سوات اور دیگر ایسی ریاستوں میں ان کے دائرۂ اختیار کی حدود میں قضا کا شعبہ قائم تھا اور ان میں فقہی احکام وضوابط کے مطابق ریاست کے مقرر کردہ قاضی مقدمات کے فیصلے کرتے تھے۔ ان ریاستوں میں قضا کا یہ ادارہ ان کے پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق تک موجود رہا ہے، جبکہ تحکیم کے شعبہ نے مختلف علاقوں میں اس خلا کو بعض معاملات میں پر کرنے کی کوشش کی ہے اور اس سے ہٹ کر بعض خطوں میں ’’امارت شرعیہ‘‘ کا باضابطہ نظام بھی موجود رہا ہے، البتہ فتویٰ کا شعبہ ۱۸۵۷ء سے ۱۹۴۷ء تک برصغیر کے ہر علاقے میں اور ہر سطح پر قائم رہا ہے جس سے عام مسلمانوں کو کسی بھی معاملے میں شریعت کا حکم معلوم کرنے کی سہولت حاصل رہی ہے اور مسلمانوں کی غالب اکثریت مسلسل اس سہولت سے استفادہ کرتی چلی آ رہی ہے۔

اخلاقیات کی غیر الہامی بنیادوں کا داخلی محاکمہ

محمد زاہد صدیق مغل

جدید زمانے کے مذہب مخالفین، خود کو عقل پرست کہنے والے اور چند سیکولر لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ اخلاقیات (خیرو شر، اہم و غیر اہم)یعنی قدر کا منبع الہامی کتاب نہیں ہونا چاھئے (کیوں؟ بعض کے نزدیک اس لیے کہ مذہبی اخلاقیات ڈاگمیٹک ہوتی ہیں، بعض کے نزدیک اس لیے کہ ان کی عقلی توجیہہ نہیں ہوتی اور بعض کے نزدیک اس لیے کہ وہ سرے سے وحی کو علم ہی نہیں مانتے، مگر یہ ’کیوں‘ فی الحال ہمارے لیے اہم نہیں )۔ جب ان سے پوچھا جائے کہ اچھا یہ بتاؤ کہ پھر اخلاقیات کی بنیاد کیا ہے تو انکے مختلف لوگ مختلف دعوے کرتے ہیں۔ اس مختصر مضمون میں ہم اخلاقیات کی انہی معروف غیر الہامی بنیادوں کے اصولی مسائل اور داخلی تضادات پر روشنی ڈالیں گے، وما توفیقی الا باللہ 

۱) سائنس سے اخلاقیات کشید کرنے والوں کی خدمت میں 

ہمارے یہاں کے ملحدین اور عقل پرستوں میں سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر اخلاقیات یا قدر کا اثبات کرنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ اس کی سرے سے کوئی بنیاد ہے ہی نہیں۔ جو لوگ اخلاقی معاملات طے کرنے کیلیے سائنسی تحقیقات پیش کرتے ہیں انہیں اتنی بنیادی بات کی خبر بھی نہیں کہ سائنسی تجربات کا دائرہ ’کیا ہے‘ (what is)جبکہ اخلاقیات کا ’کیا ہونا چاہئے‘ (what ought to be) ہے (یہ الگ بحث ہے کہ سائنس کی بذات خود اپنی اقدار بھی ہیں مگر یہاں ہم بحث کو پیچیدہ نہیں کرنا چاہتے)۔ بنیادی منطق پڑھے لوگ بھی اس امر سے واقف ہیں کہ ’کیا ہے‘ کے دعوے سے ’کیا ہونا چاہیے‘ کا دعویٰ منطقی طور پراخذ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ دو الگ دائرے (categories)ہیں (بالکل اسی طرح جیسے ’ایک کلو ‘ کا موازنہ ’ایک فٹ ‘ سے نہیں کیا جا سکتا)۔ دوسرے لفظوں میں ’کیا ہے‘ کا دعوی ’کیا ہونا چاہئے‘ کی دلیل بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ ’کیا ہونا چاہئے‘ کا دعوی اخذ کرنے کیلیے دلیل میں لازما ایک نارمیٹو (normative) یعنی ’کیا ہونا چاھئے‘ کا دعوی موجود ہونا ضروری ہے، بصورت دیگر ایسا استدلال دو ناقابل موازنہ دعووں کا غیر منطقی مجموعہ ہوگا۔ مثال کے طور پر یہ دعوی لیجئے کہ ’چرس کے استعمال سے انسانی موت واقع ہوجاتی ہے‘ (ایک پوزیٹو یا مثبت دعویٰ)۔ کیا اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ ’چرس نہیں پینی یا نہیں اگانی چاہئے‘ (نارمیٹو یا اخلاقی دعویٰ)؟ ہرگز نہیں، جب تک دلیل میں پہلے دعوے کے ساتھ یہ نارمیٹو دعویٰ ’فرض‘ نہ کرلیا جائے کہ ’انسانی زندگی کو تلف نہیں کرنا چاہئے یا انسان کو بچانا چاہیے‘ اس وقت تک اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ ’چرس پینی چاہئے یا نہیں‘۔ چنانچہ عقلاً ایسا کوئی اخلاقی دعوی نہیں دکھا یا جا سکتا جس کی پشت پر ایک مفروضہ نارمیٹو دعویٰ موجود نہ ہو (اس اصول کا ایک اہم نتیجہ ذیل میں عقل کی بحث کے ضمن میں بیان ہو گا جس سے یہ دلیل مکمل ہو گی)۔ 
اس اصولی گفتگو سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ جو عقل پرست لوگ سائنسی تحقیقات کا حوالہ دیکر کسی فعل کے صحیح یا غلط ہونے کا اخلاقی جواز دینے کی کوشش کرتے ہیں وہ کیسی فاش اور مضحکہ خیز منطقی غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ سمجھنا کہ قدر کے سوال میں سائنس ہماری رہنمائی کرے گی ایک غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں، سائنسی تحقیقات اس حوالے سے عقل پرستوں کو کہیں نہیں لے جاسکتی، ’انسان کو قتل کرنا چاہئے یا نہیں‘ سائنس اس بات کا جواب دینے کیلیے کلیتاً بے کار شے ہے (یہ الگ بات ہے کہ ہم سائنس کی مفروضہ اخلاقیات کو پہلے مان لیں، مگر اس صورت میں پھر اس اخلاقی چوائس اور ترجیح کا جواز پیش کرنا ہوگا)۔ 

۲) تاریخی عمل سے اخلاقیات کشید کرنے والوں کی خدمت میں 

جب اخلاقیات کیلیے سائنسی بنیاد کو منہدم کردیا جائے تو یہ عقل پرست اخلاقی قضیوں کے جواز کیلیے ’تاریخی عمل سے تشکیل پانے والے انسان کے اجتماعی شعور‘ کا حوالہ دینے لگتے ہیں۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ انسان اپنی تاریخ اور اجتماعی شعور سے اخلاقی سبق سیکھتا رہتا ہے کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح، کیا فائدہ مند ہے اور کیا نقصاندہ وغیرہ (یعنی سچ بولنا، انسانیت کا احترام وغیرہ یہ سب تاریخی عمل سے سیکھے ہوئے اخلاقی تصورات ہیں)۔ اس اجتماعی شعور کے نتیجے میں انسان غلط کو ترک کرتا اور صحیح کو اختیار کرتا چلا جاتا ہے۔ انکے خیال میں اس تاریخی عمل میں مذہب بھی کسی طور ان معنی میں شامل کیا جا سکتا ہے کہ مخصوص دور تک کے انسانوں نے اپنے تاریخی تجربات سے جو کچھ سیکھ لیا تھا چند اچھے اور بھلے لوگوں (جنہیں اہل مذہب انبیا ء کہتے ہیں) نے ان اقدار کو معاشرے میں بطور عقیدہ متعارف کروادیا، مگر چونکہ انسانی شعور کی تعمیر کا یہ سفر جاری و ساری ہے لہذا انسان کو ماضی کے ان اقداری تصورات کو قصہ پارینہ سمجھ کر بھول جانا چاھئے اور دور حاضر کی علمیت (یعنی سائنس و سوشل سائنس) کی روشنی میں اقدار اختیار کرنا چاہئے۔ یہ دلیل بلکہ کہانی سنا کر وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے ساری اخلاقی گتھیاں ہمیشہ کیلیے سلجھا دی ہیں۔ 
مگر یہ کہانی اپنے اندر اس قدر غیر منطقی، باہم متضاد اور غیر ثابت شدہ مفروضات سموئے ہوئے ہے کہ انکا احاطہ کرنے کیلیے ایک مستقل مضمون درکار ہے۔ خوف طوالت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہاں چند ایک کی نشاندہی کئے لیتے ہیں: 
۱) انسانی تاریخ ایک مسلسل عمل (continuous process) اور سفر کا نام ہے۔ ظاہر ہے یہ صرف ایک مفروضہ ہے جسے چند ایک فلسفیوں کے سواء دیگر فلسفی نہیں مانتے 
۲) یہ تاریخی عمل یک جہتی خط مستقیم (linear path) پر سفر کرتا ہوا ایک عمل ہے، یعنی تاریخی عمل ہمیشہ پیچھے سے آگے کی طرف بڑھتا ہے نیز یہ سفر کبھی معکوس سمت میں نہیں چل سکتا۔ یہ بھی محض ایک مفروضہ ہے نیز اسکے خلاف بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ مثلا ہم دیکھتے ہیں کہ یونانی فخریہ انداز سے برہنہ حالت میں کھیلوں کا مظاہرہ کیا کرتے تھے مگر پھر عیسائیت کے غلبے کے بعد لوگوں نے ایک طویل عرصے تک ایسا کرنا چھوڑ ے رکھا یہاں تک کہ تنویری فکر کے غلبے کے بعد یورپی اور امریکی معاشروں میں یہ فعل دوبارہ راسخ ہونا شروع ہوگیا۔ اسی طرح دور جاہلیت کے عرب شرم کے باعث اپنی بچیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے، پھر ایک عرصے تک اسے برا سمجھا جاتا رہا یہاں تک کہ یہ فعل دنیا میں دوبارہ ابورشن کے حق کے نام پر لوٹ آیا (آج انڈیا میں کئی ایسے گاؤں ہیں جہاں لڑکیاں معدوم ہوتی جارہی ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ خواتین پیدائش سے قبل بچے کی جنس لڑکی معلوم ہونے پر اسقاط حمل کرالیتی ہیں)۔ اسی طرح سود کی اخلاقی شناعت کے حوالے سے معکوس سمت میں تبدیل ہوتے انسانی اخلاقی رویوں کی مثال بھی پیش کی جاسکتی ہے۔ 
۳) کیا اس دنیا میں مطالعہ تاریخ اور اس سے نتائج اخذ کرنے کا ایک ہی مخصوص طریقہ کار اور نظریہ ہے؟ ظاہر ہے ایسا تو ہرگز بھی نہیں، مثلا ہیگل، مارکس، کومٹے، سپنسر، فوکو وغیرہ مختلف نظریات اور مفروضوں کی بنیاد پر تاریخی عمل کا مطالعہ کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایک طرز عمل ایک مفکر کے مطابق اخلاقاً درست ہوتا ہے جبکہ دوسرے کے مطابق غیر اخلاقی قرار پاتا ہے۔ مثلا ’جذبہ مسابقت‘ کو لیجئے، مارکس کے نزدیک یہ ظلم اور استحصال کو فروغ دیتا ہے جبکہ سپنسر اور دیگر سوشل ڈارونسٹ مفکرین کے خیال میں یہ انسانی فطرت کا عمدہ اور جائز ترین اظہار ہے 
۴) ان میں سے جو بھی منہج اختیار کرلیا جائے اسکی علمی حیثیت ایک رائے (perspective) سے زیادہ اور کچھ نہیں ہوگی، اور یہ رائے کسی صورت غیر اقداری یا نیوٹرل نہیں ہوگی کیونکہ آپ اسکے ’اندر رہتے ہوئے ‘ تاریخ کو دیکھ رہے ہیں۔ ظاہر ہے تاریخ کے مختلف ادوار اور دھاروں کے اندر رہنے والے لوگ تاریخ کو چند دیگر نظریات و آراء سے دیکھ کر مختلف نتیجے نکالیں گے نیز ان میں سے ہر ایک کو اپنے نظریہ سے نکلنے والی تاریخ ہم آہنگ دکھائی دے گی اور دوسرے کی لایعنی (یہ درحقیقت استقراء کا ایک بنیادی مسئلہ ہے کہ ایک ہی قسم کے مشاہدات کی توجیہہ ایک سے زیادہ مفروضات کے ذریعے کرنا ممکن ہوتا ہے) 
۵) مطالعہ تاریخی عمل اور اس سے نتیجہ نکالنے کے مختلف مناہیج میں سے کونسا منہج درست ہے اسکا فیصلہ کیسے کیا جائے گا، یہ فیصلہ کون اور کس بنیاد پر کرے گا؟ پھر کیا اس فیصلہ کرنے کا پیمانہ تاریخی عمل کے اندر ہوگا یا اس سے باہر؟ اگر کہا جائے کہ وہ پیمانہ تاریخی عمل کے اندر ہوگا تو یہ باہم متضاد بات ہے، اس لیے کہ جب ’تاریخ کیا ہے‘ بذات خود ایک منہج سے طے ہوتا ہے اور مختلف مناہیج و نظریات ’تاریخ کے مختلف تصورات ‘ پیش کرتے ہیں تو یہ تاریخ اور اسکے مختلف تصورات بذات خود ان مناہیج پر فیصل حیثیت کیسے اختیار کرسکتے ہیں، یہ تو خود ان سے نکلے (outcome)ہیں؟ اور اگر یہ کہا جائے کہ وہ پیمانہ تاریخی عمل سے باہر ہوگا تو وہ کہاں سے آئے گا اور کون دیگا؟ نیز یہ بھی باہم متناقض بات ہے کہ ایک طرف تو آپ یہ دعوی کررہے ہیں کہ علم تاریخی عمل سے ائے گا مگر اسکی صحت طے کرنے کا پیمانہ اس سے باہر ہے، سوال یہ ہے کہ جب امکانِ علم ہی تاریخ سے آتا تو اس سے باہر جانے کا امکان کہاں سے آیا؟ 
۶) اگر کوئی ایک منہج طے کرہی لیا جائے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ تاریخی عمل درست سمت میں جارہا ہے یا غلط سمت میں، اسکا فیصلہ کیسے ہوگا؟ ظاہر ہے تاریخی عمل سے وجود میں آنے والا اجتماعی شعور بذات خود اپنا جواز نہیں بن سکتا جب تک کہ یہ ’فرض ‘ نہ کرلیا جائے کہ ’یہ ٹھیک ہوتا ہے اسے مان لو‘۔ پس جب کسی پیمانے پر یہ طے ہی نہیں کیا جا سکتا کہ یہ عمل ٹھیک سمت میں جارہا ہے یا نہیں، تو تاریخی عمل کو اخلاقی اعمال کے جواز کے طور پر پیش کرنا کیسے درست ہو سکتا ہے؟ 
۷) فرض کرلیں اگر یہ تاریخی عمل درست ہے بھی، تب بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ مجھے بطور فرد اسے کیوں قبول اور اختیار کر لینا چاہئے؟ آخر بطور آزاد ہستی میں اسے رد کرکے اسکے خلاف رویہ کیوں نہ اختیار کروں ( خصوصا اس صورت میں کہ جب یہ معلوم ہی نہیں کہ حاضروموجود درست ہے بھی یا نہیں )؟ 

۳) ’تصورفطرت ‘ سے اخلاقیات کشید کرنے والوں کی خدمت میں 

بہت سے عقل پرست انسانی فطرت کو بھی اخلاقی اعمال کے جواز کے طور پر پیش کرتے ہیں (یعنی فلاں عمل فطرت کا تقاضا ہے یا فطرت کے خلاف ہے، لہذا ایسا کرنا یا نہیں کرنا چاہئے وغیرہ)۔ آگے بڑھنے سے قبل یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ لفظ ’فطرت‘ دو معنی میں استعمال ہوتا ہے، ایک پوزیٹو (مثبت ) دوسرا نا رمیٹو (معیاری)۔ پوزیٹو معنی میں فطرت سے مراد ’کسی کام کو کرنے کی صلاحیت‘ (ability to do something)ہوتی ہے، ان معنی میں سچ بولنا، محبت کرنا، کسی کی مدد کرنا، دوسرے انسان کی جان لے لینا، محرم رشتوں سے بدکاری کرنا ، جھوٹ بولنا، نفرت کرنا، دھوکہ دینا وغیرہ تمام فطری کام ہیں اس لیے کہ انسان میں یہ سب کرنے کی ’صلاحیت‘ موجود ہے۔ نارمیٹو معنی میں فطرت سے مراد ’نارمل، معیاری یا جائز رویہ‘ ہوتا ہے، یعنی یہ سوال اٹھا یا جائے کہ سچ بولنا نارمل ہے یا جھوٹ، محبت جائز عمل ہے یا نفرت، کسی کو قتل کردینا اہم ہے یا بچا لینا، محرم رشتوں کا تقدس ہونا چاہئے یا ان کے ساتھ بدکاری، مزامیر سے پر موسیقی کی سماعت درست ہے یا اسکا نہ سننا وغیرہ۔ چنانچہ جب اخلاقی اعمال کا جواز فطرت سے پیش کیا جاتا ہے تو لفظ فطرت اس دوسرے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے، یعنی یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ ’نارمل و ابنارمل، معیاری و غیرمعیاری، جائز و ناجائزانسانی رویوں اور احساسات کا فیصلہ مطالعہ فطرت کی روشنی میں کرنا ممکن ہے‘۔ 
مگر انسانی فطرت کو ماخذ اخلاق پیش کرنے میں نہایت بنیادی نوعیت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس انسانی فطرت کی روشنی میں خیروشر، جائز و ناجائز کا فیصلہ کرنے کا دعوی کیا جارہا ہے وہ ’انسانی فطرت کیا ہے‘ اسکا تعین کیسے ہوتا ہے؟ اسکی تعیین کا ایک طریقہ وہ ہے جو اجتماعیت پسند مفکرین بتاتے ہیں کہ فطرت انسانی کا فیصلہ تاریخی عمل سے وجود میں آنے والے انسانی شعور سے ہوتا ہے، مگر اس فکر کی بنیادی خامیاں اوپر بیان کردی گئیں۔ اسکا دوسرا طریقہ وہ ہے جو انفرادیت پسند مفکرین پیش کرتے ہیں جنکے خیال میں انسانی فطرت کا تعین انسان کو زمان و مکان سے ماوراء (asocial and ahistorical) تصور کرکے کیا جا سکتا ہے۔ یعنی یہ حضرات کہتے ہیں کہ اگر ہم انسان کو معاشرے اور وقت سے ماقبل اور ماوراء اورا ن سے علیحدہ کر کے ایک آزاد ہستی کے طور پر تصور کریں تو وہ اسکی ’حالت اصلی ‘ یا ’فطری حالت ‘ ہوگی، اس اصلی حالت میں انسان جو کرے گا یا کرنا چاہے گا وہی اسکی فطرت کا جائز اظہار ہوگا (اس طریقے کے تحت انسانی فطرت کی تمیز قائم کرنے کی ایک کوشش مشہور فلسفی جان رالز کی کتاب Theory of Justice میں ملتی ہے، مگر اجتماعیت پرست مفکرین کے نقد کے بعد رالز کو اپنی اس پوزیشن سے رجوع کرنا پڑا، اس دلچسپ بحث کے مطالعے کیلیے دیکھئے کتاب Liberals and Communitarians by Stephen Mulhall and Adam Swift)۔ یہ دلیل دینے والوں کا مقصد یہ کہنا ہوتا ہے کہ چونکہ معاشرے میں رہنے کی وجہ سے انسان کی فطرت بہت سے خیالات، میلانات ، معاشرتی رویوں اور سیاسی جکڑ بندیوں کی وجہ سے مسخ ہوجاتی ہے لہذا اصل فطرت کی دریافت کیلیے ضروری ہے کہ اسے معاشرے سے علیحدہ کرکے اور کاٹ کر دیکھا جائے۔ اس طریقہ مطالعہ میں بہت سی بنیادی نوعیت کی خامیاں و کمزوریاں ہیں: 
۱) سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ طریقہ ایک ایسی شے جو کٹی ہوئی ہے ہی نہیں اسے کٹی ہوئی فرض کرکے نتیجے نکالنے کی کوشش کرتا ہے، یعنی جو ہے ہی جزو اسے کلیت سے علیحدہ فرض کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ ایک لامتصور شے کو متصور کرنے کی لاحاصل کوشش کے سواء کچھ نہیں۔ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسان کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی معاشرے کی، ماقبل معاشرہ انسان کا نہ تو کوئی تاریخی ریکارڈ موجود ہے کہ جسکی روشنی میں یہ طے کیا جا سکے کہ وہ ’اصلی انسان‘ کیسا تھا اور نہ ہی ایسا فرض کرنے کی کوئی علمی بنیاد ہمارے پاس موجود ہے۔ معلوم انسانی تاریخ میں تو انسان ہمیشہ معاشرے کے اندر ہی پایا گیا ہے اور اسی کے اندر سے وہ اپنی شناخت، نظریات ورجحانات دریافت کرتا رہاہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ کے مختلف ادوار اور مختلف قسم کے معاشروں میں پیدا ہونے والے لوگوں کے ’فطری و غیر فطری ‘ کے رجحانات و میلانات مختلف ہوتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہزارہا سال کی انسانی تاریخ اور معاشرتی و سیاسی عمل سے گزر جانے اور ان سے نجانے کن کن طریقوں سے متاثر ہوجانے کے بعد آج کون سا شخص اور کس بنیاد پر یہ دعوی کر سکتا ہے کہ فطرت نے اسے کیسا بنایا تھا؟ آخر ’کون‘ اور ’کس بنیاد پر‘ یہ طے کرے گا کہ ’ اسکے‘ میلانات اور رجحانات ’فطری‘ (بمعنی حالت اصلی کا اظہار) ہیں؟ یہ کس طر ح طے ہوگا کہ آج جو ہمارے میلانات ہیں ان میں سے ’کونسے ‘ میلانات اور ’کس حد تک ‘ اصلی ہیں جبکہ دیگر معاشرتی حالات کی پیداوار ہیں؟ درحقیقت معاشرے سے ماقبل انسان کا تصور بدیہی طور پر ایک لغو (absurd) تصور ہے 
۲) درحقیقت اپنی مخصوص تاریخی و معاشرتی جکڑ بندیوں کا شکار ہر شخص اس طریقہ کار کے تحت اپنی ’حالت اصلی‘ کا ایک مختلف تصور قائم کرے گا اور ان مختلف تصورات ’حالت اصلی‘ میں تمیز قائم کرنے کی کوئی علمی بنیاد نہیں ہوسکتی۔ مثلا رالز ہی کی مثال لیں، اسکے خیال میں انسان کی اصلی حالت یہ ہے کہ وہ خود کو ’ آزاد، قائم بالذات، اپنے ذاتی مفادات کے حصول کا حریص انسان تصور کرے‘۔ ظاہر ہے اس تصور کو اصلی کہنے کی کوئی علمی دلیل نہیں، رالز نے انسان کی حالت اصلی کے بارے میں یہ رائے اس لیے قائم کی کیونکہ وہ جس مغربی معاشرے میں پیدا ہوا وہاں فرد کی آزادی اور مفادات کے تحفظ کو بنیادی فوقیت دی جاتی ہے لہذا رالز نے اسی کو حالت اصلی ’فرض‘ کرلیا۔ اسکے برعکس ایک قبائلی معاشرت کے انسان کیلیے ذاتی آزادی اور مفاد کوئی معنی نہیں رکھتے، وہ خود کو قبیلے کا رکن تصور کرتا ہے اور اسی کو حالت اصلی سمجھے گا۔ اسی طرح رالز کی ملحدانہ عقل کے برعکس ایک مسلمان کی عقل اسے یہ بتاتی ہے کہ اسکی حالت اصلی (فطرت) ’خدا کا بندہ ‘ ہونا ہے (وہ الست بربکم قالوا بلی کا نعرہ بلند کرتا ہے)۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان عقل پرستوں کے پاس آخر وہ کونسا علمی پیمانہ و بنیاد ہے جس کے ذریعے یہ ان مختلف تصورات فطرت میں تمیز قائم کرکے ’اصلی حالت‘ کاتعین کرسکتے ہیں؟ اور جب ایسا کوئی پیمانہ ہے ہی نہیں تو پھر اس دعوے سے زیادہ لغو بات اور کیا ہوگی کہ ’فلاں کام انسانی فطرت کے مطابق یا خلاف ہے، لہٰذا اسے کرنا یا نہیں کرنا چاہئے‘؟ 

۴) ’عقلیت ‘ سے اخلاقیات کشید کرنے والوں کی خدمت میں

درج بالا گفتگو کے بعد اس قضئے پر تفصیلی بحث کی کوئی خاص ضرورت نہیں رہتی، البتہ ایک اصولی بات سمجھ لینی چاہئے کہ تصورِ عقل دو معنی میں استعمال ہوتا ہے ، جوہری اور آلاتی(substantive and instrumental rationality)۔ جوہری عقلیت کا معنی یہ ہے کہ ہم عقل کے سامنے یہ سوال رکھیں کہ خیر و شر کیا ہے، حقیقت کا سراغ کیسے لگایا جائے، مقاصدِ حیات کی تعیین و ترتیب کس طرح طے ہو۔ اسکے مقابلے میں آلاتی عقل کا معنی یہ ہے کہ عقل سے کسی ’طے شدہ ‘ مقصد کے حصول کا طریقہ معلوم کیا جائے۔ چنانچہ یہ خوب سمجھ لینا چاہئے کہ دماغی عقل میں جوہری عقلیت کی صلاحیت نہیں، یعنی وہ اس بات کا کوئی تشفی بخش جواب نہیں دے سکتی کہ خیر وشر کیا ہے نیز مقاصد حیات اور انکی باہمی ترتیب کیا ہو۔ دماغی عقل کیلیے صرف یہ ممکن ہے کہ آپ اسے کسی طے شدہ مقصد کے ’ذریعہ حصول ‘ کے طور پر استعمال کریں، یعنی عقل یہ تو نہیں طے کر سکتی کہ مقصد ادائیگی حج ہو یا فٹ بال کھیلنا، البتہ عقل اس امر میں ضرور مدد گار ہو سکتی ہے کہ ادائیگی حج یا فٹ بال کا بہترین انتظام کیسے ہو۔ اسی بات کو امام اشعریؒ و غزالیؒ نے فتنہ اعتزال کے تناظر میں صدیوں پہلے بتا دیا تھا کہ عقل خیر وشر کے تعین کی اہلیت نہیں رکھتی یہ خالصتاً شرعی اوصاف ہیں۔ یعنی جو بات مغربی فلسفیوں کو بیسویں صدی میں سمجھ آئی، امام غزالیؒ نے ہزار سال قبل ہی اسکی وضاحت کردی تھی۔ 
چند مغربی فلسفیوں نے اخلاقیات کی خالصتاً عقلی توجیہات پیش کرنے کی کوشش بھی کی ہے جن میں سرفہرت نام کانٹ کا ہے۔ اسکی فکر کا حاصل یہ ہے کہ ہر وہ خواہش جسے ایک انسان مقصد میں ٹکراؤ آئے بغیر سب کو پورا کرنے کی اجازت دے سکتا ہے وہ جائز ہے۔ مگر کانٹ کی فکر کی بنیادی کمزوری یہ ہے کہ یہ آزادی کو مفروضے کے طور پر قبول کرتی ہے نیز یہ محض ایک ساخت ہے جس کے اندر سوائے انسانی خواہشات کسی شے کا گزر نہیں ، دوسرے لفظوں میں کانٹ کے خیال میں اخلاقیات کا مافیہ ہم آہنگی کے ساتھ خواہشات کا حصول ہے۔ پھر کانٹ کے اس فریم ورک میں خواہشات کی ترتیب قائم کرنے کا کوئی پیمانہ نہیں، یعنی یہ اصول فرد کو یہ نہیں بتاتا کہ ’ اسے کیا چاہنا چاہئے‘، یہ بس اتنا بتاتا ہے کہ ہر وہ فعل جو ہم آہنگی کے ساتھ حاصل کیا جا سکتا ہے وہ جائز ہے۔ یہ اور اس قسم کی مزید خامیوں کی بنا پر کانٹ کے اخلاقی فلسفے کو علمی دنیا میں اصولاً رد کردیا گیا (یہ اور بات ہے کہ عملاً اسے قانون کے دائرے میں اب بھی کسی نہ کسی درجے میں برتا جارہا ہے)۔ 
عقل سے اخلاقیات اخذ کرنے کی مشکلات کو ایک مزید زاویے سے دیکھیں۔ اوپر اس بات کی وضاحت کی گئی کہ اخلاقی دعوی اخذ کرنے کیلیے دلیل میں اخلاقی دعوی موجود ہونا ضروری ہے۔ چنانچہ اگر ایک نارمیٹو دعوے کے اثبات کیلیے آپ کو دوسرا نارمیٹو دعوی چاہئے، پھر اس دوسرے کا جواز آپ تیسرے سے دیتے ہیں، اور اگر آپ ہر پچھلے نارمیٹو دعوے پر ’یہ کیوں مانا جائے‘ (what is its justification?) کا سوال اٹھاتے چلے جائیں تو آخر میں ایک ایسا نارمیٹو دعوی بچے گا جسے آپکی عقل بدیہی (self-evident، یعنی اپنی دلیل ازخود ) ماننے پر مجبور ہوگی، یعنی آپ کہیں گے کہ ’اسے تو بس ہونا چاہئے، یہ تو واضح بات ہے‘ وغیرہ۔ یہ بدیہی دعوی ہر دوسرے دعوے کی دلیل تو ہوگا لیکن خود اسکی دلیل نہیں ہوگی۔ درحقیقت یہی بدیہی دعوی ایک شخص کا ایمان ہوتا ہے جسے وہ ’عقل ‘ اور ’اخلاق کے پیمانے ‘ کے طور پر مانتا ہے۔ درحقیقت جب عقل پرست مذہبی لوگوں کو کہتے ہیں تم عقل کی بات نہیں مانتے تو اسکا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ ’تم ہماری عقل کی طے کردہ تعریف کیوں نہیں مان رہے؟‘ ۔ ان عقل پرستوں کے ہاں عقل کا معنی انسان کو قائم بالذات اور اسکی لامتناہی خواہشات کی تسکین کو مقصد حیات مان لینا ہے، یہی کلمہ خبیثہ انکی مزعومہ اخلاقیات کی اصل بنیاد ہے، جو انکی اس خود ساختہ عقل کی تعریف کو نہ مانے یہ اس پر جاہل، وحشی، غیر مہذب اور غیر عقلی کے القابات چسپاں کردیتے ہیں۔ انکے یہاں عقل اور قدر کا مطلب انسانی آزادی میں اضافہ ہے اور چونکہ آزادی کی عملی شکل اور تجسیم سرمایہ (capital)ہے لہذا سرمایہ ہی انکے یہاں ہر عمل کی قدر متعین کرنے کا اصلی پیمانہ ہے۔ جو خواہشات اور اعمال بڑھوتری سرمائے میں زیادہ ممد و مددگار ہوتی ہیں مغربی (سرمایہ دارانہ) معاشروں میں انکی قدرقیمت زیادہ ہوتی ہے اور ان کا اجتماعی نظم فرد کو انہی خواہشات و اعمال کو اختیار کرنے پر راغب اور مجبور کرتا ہے۔ خواہشات کی جو ترتیب فرد کو حصول سرمائے کا مکلف نہیں بناتی یہ نظام ایسی ترتیبِ خواہشات رکھنے والے شخص کو سزا دیتا ہے (جس کی شکلیں آمدن میں انتہائی حد تک کمی، معاشرتی اخراج، معاشرے میں شمولیت کے مواقع میں کمی وغیرہ کی صورت ہوتی ہے)۔ چونکہ سرمائے میں اضافے کی یہ جدوجہد حرص و حسد کے عمومی فروغ کے بغیر ممکن العمل نہیں، لہذا حرص و حسد اور شہوت کا فروغ ہی انکے نزدیک فطری انسانی کیفیات ہیں اور یہی عقلیت کا وہ پیمانہ ہیں جنہیں اختیار کرکے فرد اپنا مقصد (آزادی میں اضافہ) حاصل کرنے لائق بنتا چلا جاتا ہے۔ جو جتنا زیادہ حریص، دنیا پرست اور شہوت سے مغلوب ہوتا ہے ان معاشروں میں اتنی ہی زیادہ کامیابی سے ہمکنار ہوتا چلا جاتا ہے۔ 

جدید انسان کی سرکشی کی عجیب کہانی 

اٹھارویں صدی کے ملحد فلاسفہ نے یہ بلند و بانگ دعوی کرکے مذہب کو رد کردیا تھا کہ ہم حقیقت، سچ، معنی، قدر، عدل اور حسن کو وحی کی بنیاد پر قبول کرنے کے بجائے انسانی عقل پر تعمیر کریں گے، انکا دعوی تھا کہ حقیقت، سچ، معنی، قدر، عدل اور حسن کی جو تشریح ہم دریافت کرکے بیان کریں گے چونکہ وہ عقلی ہوگی، کسی مفروضے پر نہیں بلکہ حقائق پر مبنی ہوگی، لہٰذا دنیا کے سب انسان اسے ماننے پر مجبور ہونگے۔ مگر پھر کیا ہوا، دو سو سال کی فلسفیانہ لم ٹٹول اور نتیجہ: ’’ انسان اپنے کلیات سے حقیقت، سچ، معنی، قدر، عدل اور حسن جان ہی نہیں سکتا‘‘۔ 
اس مقام پر انسان کو اصولا اپنی علمی کم مائیگی اور دامن کی تنگی کو پہچان کر اپنے رب کے حضور جبین نیاز خم کردینی چاہئے تھی کہ اس نے اپنے پالن ہار کے آگے سرکشی کرکے خود خدا بننے کا جو دعوی کیا تھا اس دعوے کے حصول میں وہ چاروں شانے چت ہوگیا تھا۔ مگر یہ کیسا عجیب معاملہ ہے کہ جو شکست اسکی آنکھیں کھول دینے کیلیے بہت کافی ہوجانی چاہئے تھی اس نے اپنے رب کی اسی نشانی کو اپنی سرکشی میں مزید اضافے کا ذریعہ بنا لیا۔ بجائے اپنی شکست قبول کرنے کے آج کا جدید انسان اب یہ کہتا ہے کہ حقیقت، سچ، معنی، قدر، عدل اور حسن نامی کوئی شے ہوتی ہی نہیں، یہ محض اضافی وبے معنی تصورات ہیں۔ وہ زندگی کو ایک بے معنی کھیل تماشا سمجھتا ہے مگر یہ غور نہیں کرتا کہ زندگی کو کھیل تماشا سمجھنا بذات خود ایک ایمان ہی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ حقیقت اور سچ کچھ نہیں مگر یہ نہیں سمجھ رہا کہ اسکا مطلب یہ دعوی کرنا ہے کہ سب کچھ ٹھیک اور سچ ہے (یعنی جو بھی چاہو اور کرلو وہ ٹھیک ہے)۔ اسی ’بے معنویت‘ کی طرف وہ انسانیت کو دعویٰ دیتا ہے۔ آج اپنے اس لغو دعوے کو وہ اپنی ’تلاش‘ قرار دے رہا ہے، جبکہ فی الحقیقت یہ دعوی صرف اور صرف اس کی ’شکست‘ (retreat) کا باغیانہ اعتراف ہے۔ مگر اسے یاد رکھنا چاہئے کہ موت اٹل ہے، اپنے رب کے حضور اسکی حاضری کا وقت بالکل قریب ہے، پھر کیا حال ہوگا اس وقت کہ جب اپنے دفاع کیلیے اسے پورا موقع دیا جائے گا مگر کہنے کیلیے اسکے پاس الفاظ ہی نہ ہونگے؟..... ہاں توبہ کا دروازہ ہر آن کھلا ہے اور اسکا رب بڑا کریم اور رحیم ہے۔

مغرب میں مطالعہ اسلام کی روایت / قصاص کے معاملے میں ریاست کا اختیار

محمد عمار خان ناصر

مغرب میں مطالعہ اسلام کی روایت

گزشتہ دو تین صدیوں میں مغربی اہل علم اور محققین اپنی مسلسل اور اَن تھک کوششوں کے نتیجے میں اسلام، اسلامی تاریخ اور مسلم تہذیب ومعاشرت کے مطالعہ وتجزیہ کے ضمن میں ایک مستقل علمی روایت کو تشکیل دینے میں کامیاب رہے ہیں جو اہل مغرب کے اپنے تہذیبی وفکری پس منظر اور ان کے مخصوص زاویہ نگاہ کی عکاسی کرتی ہے اور جسے نہایت بنیادی حوالوں سے خود مسلمانوں کی اپنی علمی روایت کے بالمقابل ایک متوازی علمی روایت قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ روایت مسلمانوں کی تاریخ وتہذیب اور مذہب وثقافت سے متعلق جملہ دائروں کا احاطہ کرتی ہے اور خالص مذہبی موضوعات (قرآن، تفسیر، حدیث، فقہ،اصول فقہ ، فلسفہ وکلام وغیرہ) سے لے کر مسلمانوں کی سیاست، مسلم ممالک کی معاشرتی وثقافتی خصوصیات اور فکری وذہنی رجحانات تک کوئی بھی چیز مغربی محققین کے مطالعہ وتحقیق اور تجزیہ کے دائرے سے باہر نہیں رہی۔ اپنے مخصوص علمی اسالیب، تجزیہ وتحقیق کے بظاہر معروضی وسائل اور اہل مغرب کے سیاسی ومعاشی غلبہ جیسے عوامل کے تحت مطالعہ اسلام کی یہ مغربی روایت معاصر دنیا میں اپنے غیرمعمولی فکری اثرات رکھتی ہے اور یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ آج بین الاقوامی سطح پر اسلام، اسلامی تاریخ اور معاصر مسلم معاشروں کا مطالعہ جس علمی فریم ورک میں کیا جا رہا ہے، وہ بنیادی طور پر مغربی مطالعات کی روشنی میں تشکیل پایا ہے۔ 
معاصر علمی دنیا پر مطالعہ اسلام کی مغربی روایت کے اثرات کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ خود عالم اسلام کے اہل علم اور تحقیقی ادارے بھی مطالعہ اسلام کے ا س خاص تناظر کو ملحوظ رکھنے پر مجبور ہیں اور خاص طور پر اہل مغرب نے معاشرتی وتاریخی موضوعات کے مطالعہ کے لیے جو مخصوص تجزیاتی اسالیب فراہم کیے ہیں، وہ بہرحال مستند اور راسخ الاعتقاد مسلمان اہل علم کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ چنانچہ مولانا عبد الماجد دریابادی مرحوم نے مشہور مستشرق منٹگمری واٹ کی کتاب ’’محمد اَیٹ مکہ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ مصنف کے نتائج فکر سے اختلاف کی پور ی پوری گنجائش کے باوجود اس کتاب سے مطالعہ سیرت کے ایسے ایسے زاویے سامنے آتے ہیں جو شاید کسی مسلمان سیرت نگار کے وہم وگمان میں بھی نہیں آ سکتے تھے، جبکہ انڈیا کے بزرگ عالم دین مولانا عتیق الرحمن سنبھلی نے دیوبندی تحریک سے متعلق معاصر مغربی اسکالر باربرا مٹکاف کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مصنفہ نے ایسے ایسے پہلوؤں سے دیوبندی تحریک کا جائزہ لیا ہے کہ ہم جیسے پشتینی دیوبندیوں کے لیے بھی اس میں سیکھنے کا بہت سا سامان موجود ہے۔
مغرب میں مطالعہ اسلام کی یہ روایت خاصی وسیع اور رنگا رنگ ہے اور ہر علمی روایت کی طرح اس میں بھی متنوع اور متضاد رجحانات موجود ہیں۔ چنانچہ جہاں اسلام کے متعصب ناقدین موجود ہیں جن کا واحد مطمح نظر مسلمانوں کی پوری علمی روایت اور اس کے حاصلات کی نفی کرنا یا اس کی قدر وقیمت کو گھٹانا ہے، وہاں نسبتاً متوازن اور ہمدردانہ زاویہ نگاہ رکھنے والے حلقے بھی موجود ہیں، اگرچہ بدیہی طور پر انھیں پوری طرح مسلمانوں کے نقطہ نظر اور زاویہ نگاہ کا ترجمان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگر اہل مغرب کے سامنے علم ودانش اور مطالعہ وتحقیق کی سطح پر اسلام اور ملت اسلامیہ کے مقدمہ کو پیش کرنا مقصود ہو تو مذکورہ دونوں طرح کے رجحانات اور زاویہ ہائے فکر کا مطالعہ وتجزیہ یکساں اہمیت اور افادیت کا حامل ہے، کیونکہ اس روایت میں پیدا ہونے والی ہر ذہنی رَو بہرحال ان مخصوص ذہنی مقدمات اور تہذیبی رجحانات کی لازماً عکاسی کرتی ہے جن کے زیر اثر اہل مغرب مطالعہ وتحقیق کا عمل انجام دیتے ہیں۔ یوں نتائج سے قطع نظر کرتے ہوئے، ان تمام رجحانات کا سنجیدہ تجزیہ اہل مغرب کی نفسیات اور تہذیبی فکر کے ساتھ ساتھ مطالعہ وتحقیق کے ان فکری سانچوں سے واقفیت حاصل کرنے میں بھی مدد دیتا ہے جن میں اس پوری روایت نے تشکیل پائی ہے اور جن کو سامنے رکھ کر ہی علم ودانش کی سطح پر مغربی روایت کی متبادل علمی روایت وجود میں لائی جا سکتی ہے۔ 
دوسری طرف یہ ایک حقیقت ہے کہ اہل مغرب کے علمی حاصلات اور زاویہ ہائے نظر کا سنجیدہ علمی وتحقیقی مطالعہ کرنے اور معروضی انداز میں اس کا تجزیہ وتنقید کرنے کی روایت ہمارے ہاں علمی حلقوں میں ابھی تک جڑ نہیں پکڑ سکی جس کے نتیجے میں مسلمان اہل علم خود اپنے مذہب اور اپنی ہی تاریخ وتہذیب کے حوالے سے علم وتحقیق کے میدان میں اپنا مقدمہ موثر انداز میں پیش کرنے میں ناکام ہیں۔ اس بے اعتنائی اور بے توجہی کی ایک بڑی وجہ مطالعہ اسلام کی مغربی روایت سے براہ راست آشنائی کا فقدان اور مغربی اہل علم کے ہاں جاری علمی مباحثات اور علمی دنیا پر ان سے مرتب ہونے والے اثرات پر نظر نہ ہونا ہے۔ یوں مطالعہ اسلام کی ایک مستقل اور متوازی علمی روایت، جو ایک طرف اپنے اندر مثبت استفادہ کے بہت سے امکانات رکھتی ہے اور دوسری طرف اپنے اٹھائے ہوئے تنقیدی سوالات کا جواب چاہتی ہے، مسلمان اہل علم کی کماحقہ علمی وفکری توجہ حاصل کرنے سے ابھی تک قاصر ہے۔
اس پس منظر میں، یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مطالعہ اسلام کے ضمن میں اہل مغرب کی تشکیل کردہ علمی روایت کے سنجیدہ اور معروضی مطالعہ کے لیے ایک علمی مجلہ کا اجرا اس وقت کی اہم ترین علمی ضروریات میں سے ایک ہے جس میں اسلام، اسلامی علوم وفنون، تاریخ وتہذیب، معاشرہ وثقافت اور سیاست ومعیشت کے حوالے سے اہل مغرب کے علمی رجحانات اور نتائج فکر کے تعارف وتلخیص پر مبنی مقالات ومضامین پیش کیے جائیں اور مطالعہ اسلام کی مغربی روایت کے حاصلات کو ایک تسلسل کے ساتھ علمی انداز میں تجزیہ وتنقید کا موضوع بھی بنایا جائے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ ہماری جامعات اور علمی وتحقیقی ادارے اس ضرورت کا احساس کریں گے اور اس کی تکمیل کے لیے حتی الوسع کوششیں بروئے کار لائی جائیں گی۔

قصاص کے معاملے میں ریاست کا اختیار

شرعی نصوص میں اولیائے مقتول کے لیے اسقاط قصاص کے حق کا ذکر جس تناظر میں ہوا ہے، وہ اصلاً عمومی حالات میں قتل کی سادہ صورت ہے جس میں کسی دوسرے پہلو سے شناعت یا سنگینی کا کوئی اضافی پہلو نہ پایا جاتا ہو اور جس میں قاتل کو معافی دینا قانون کے عمومی اصولوں اور معاشرتی مصلحتوں کے منافی نہ ہو۔ اگر کوئی بھی ایسی اضافی وجہ پائی جائے جو قاتل کو معافی کی اس رعایت سے محروم کرنے کا تقاضا کرتی ہو تو یقیناًاولیا کی دی گئی معافی کو غیر موثر قرار دیا جا سکتا ہے۔ 
مثال کے طور پر ورثا کسی دباؤ، جبر یا خوف کی بنا پر قصاص کے حق سے دست بردار ہونے کا فیصلہ کریں تو ان کی معافی کو غیر موثر قرار دینا چاہیے۔ یہ بات کہ عدالت کو اولیا کے اعلان معافی کے بارے میں یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ کسی دباؤ یا جبر کے تحت تو نہیں کیا گیا، نہ صرف معقول ہے، بلکہ بعض آثار سے بھی ثابت ہے۔ سیدنا علی نے ایک ذمی کے قتل کے مقدمے میں مسلمان قاتل کو قتل کرنے کا حکم دیا تو مقتول کے بھائی نے حاضر ہو کر ان سے کہا کہ میں نے اس کو معاف کر دیا ہے۔ امیر المومنین نے کہا کہ شاید ان لوگوں نے تمھیں ڈرایا دھمکایا ہے؟ اس نے کہا: نہیں، بلکہ بات یہ ہے کہ قاتل کو قتل کر دینے سے میرا بھائی واپس نہیں آ جائے گا، جبکہ ان لوگوں نے مجھے دیت دینے کی پیش کش کی ہے جس پر میں راضی ہوں۔ سیدنا علی نے فرمایا: اچھا پھر تم جانو۔ ۱؂ 
ورثااگر سرے سے مقتول کے معاملے میں دلچسپی ہی نہ رکھتے ہوں یا ان کی ہمدردی الٹا قاتل کے ساتھ وابستہ ہو جائے، جیسا کہ جاگیردارانہ نظام میں کاروکاری اور قتل غیرت کے معاملات میں بالعموم ہوتا ہے تو انھیں حق قصاص سے محروم کر دینا بھی فقہی اصولوں کے خلاف نہیں ہو گا۔ اسی طرح یہ بھی غلط نہیں ہوگا کہ قتل کی جن صورتوں مثلاً، کاروکاری وغیرہ میں رسم و رواج ورثا کے مدعی بننے کی راہ میں حائل ہوں یا قاتل کے اثر ورسوخ کی وجہ سے ورثا کے دباؤ میں آ کر صلح کر لینے کی عمومی صورت حال پائی جاتی ہو، ان کو سد ذریعہ کے اصول پر ناقابل صلح ( non-compoundable) قرار دے دیا جائے۔ اس ضمن میں یہ ضابطہ بھی بنایا جا سکتا ہے کہ قتل کے ہر مقدمے میں عدالت اس امر کا جائزہ لے گی کہ آیا معافی کا فیصلہ ورثا کی آزادانہ رضامندی سے کیا گیا ہے؟ اور یہ کہ کہیں اس معافی کو قبول کرنے سے انصاف کے تقاضے اور معاشرے میں جان کے تحفظ کا حق تو مجروح نہیں ہوگا؟
عدالت جرم کی سنگینی اور شناعت کے پیش نظر بھی مجرم کو معافی کی صورت میں ملنے والی رعایت دینے سے انکار کر سکتی ہے۔ چنانچہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو وارث اپنے مقتول کی دیت لے لینے کے بعد قاتل کو قتل کرے گا، اس کے لیے معافی کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ ۲؂ آپ سے بعض ایسے واقعات بھی منقول ہیں جن میں آپ نے، اپنے عام معمول کے برعکس، جرم کی سنگینی کے پیش نظر قاتل سے قصاص لینا ہی پسند کیا اور اولیاے مقتول سے رسماً بھی نہیں پوچھا کہ آیا وہ قاتل کو معاف کرنا چاہتے ہیں یا نہیں؟ مثال کے طور پر حارث بن سوید نے زمانۂ جاہلیت میں قتل ہونے والے اپنے والد کا بدلہ لینے کے لیے غزوۂ احد کے موقع پر دھوکے سے اپنے والد کے قاتل مجذر بن زیاد کو قتل کر دیا جو اس وقت مسلمان ہو چکے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے سے اس کی اطلاع ملی تو آپ نے حارث کی آہ وزاری اور فریاد اور عذر معذرت کے باوجود اسے قتل کرنے کا حکم دے دیا۔ اس موقع پر مجذر کے اولیا موجود تھے، لیکن آپ نے اس معاملے میں ان سے کوئی گفتگو نہیں کی۔ ۳؂ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر جن اشخاص کے بارے میں متعین طورپر یہ حکم دیا تھا کہ وہ اگر کعبے کے غلاف کے ساتھ بھی چمٹے ہوئے ہوں تو انھیں قتل کر دیا جائے، ان میں ایک مقیس بن صبابہ بھی تھا جس کا جرم یہ تھا کہ اس نے مدینہ منورہ آکر اسلام قبول کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مطالبے پر اسے اس کے مقتول بھائی کی دیت دلوائی، لیکن اس نے اپنے بھائی کے قاتل سے دیت وصول کرنے کے بعد اسے قتل کر دیا اور مرتد ہو کر مکہ مکرمہ چلا آیا۔ ۴؂ قرائن سے واضح ہے کہ مقیس کو ان افراد میں شمار کرنے کی وجہ محض اس کا مرتد ہو جانا نہیں، بلکہ اس کا مذکورہ جرم تھا۔ قتادہ اور عکرمہ سے منقول ہے کہ وہ قاتل سے دیت لینے کے بعد اسے قتل کرنے والے کے لیے معافی کے قائل نہیں تھے، ۵؂ جبکہ ابن جریج اور عمر بن عبد العزیز سے مروی ہے کہ اگر کوئی شخص جارح سے قصاص یا دیت لے لینے کے بعد اس پر زیادتی کرے تو اسے معاف کرنے کا حتمی اختیار صاحب حق یا اس کے اولیا کو نہیں، بلکہ حکمران کو ہوگا۔ ۶؂ 
امام ابو یوسف کی رائے یہ ہے کہ اگر کوئی شخص گلا گھونٹ کر کسی کو قتل کرنے کا بار بار مرتکب ہو تو اس کے لیے معافی کی گنجایش ختم ہو جائے گی اور اسے قتل کرنا لازم ہوگا۔ ۷؂ اسحاق بن راہویہ اور فقہاے مالکیہ کا موقف یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو دھوکے سے کسی ویران جگہ پر لے جا کر قتل کر دے تو اس صورت کے حرابہ کے تحت آ جانے کی وجہ سے حق قصاص ریاست سے متعلق ہو جائے گا اور ورثا کو معافی کا اختیار نہیں ہوگا۔ ۸؂ فقہاے شافعیہ یہ قرار دیتے ہیں کہ اگر کوئی شخص مسلمانوں کے حکمران کو قتل کر دے تو اس کے لیے معافی کی کوئی گنجایش نہیں اور اسے لازماً قتل کیا جائے گا۔۹؂
مذکورہ تمام آرا جرم کی سنگینی کے تناظر میں معافی کے امکان کو کالعدم قرار دینے کی مثال ہیں۔ ہماری راے میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کسی شخص کی جان لے لینا، جتھے کی صورت میں کسی آدمی پر حملہ آور ہو کر اسے قتل کر ڈالنا، آگ لگا کر یا تیزاب ڈال کر ہلاک کرنا، خونخوار درندے کو کسی شخص پر چھوڑ دینا، اذیت دے دے کر کسی کی جان لینا، معصوم بچے کو درندگی کا نشانہ بنانا، کوئی ناجائز مطالبہ پورا نہ کرنے یا اپنے جائز حق کو استعمال کرنے سے روکنے کے لیے کسی کی زندگی چھین لینا، بہت سے افراد کو اجتماعی طور پر موت کے گھاٹ اتار دینا یا قتل کی کوئی بھی دوسری پر تشدد شکلیں اختیارکرنا، سب اسی دائرے میں آنی چاہییں۔ اسی طرح ایک سے زیادہ مرتبہ قتل کے مرتکب کے لیے بھی یہی قانون بنایا جا سکتا ہے۔
امام شافعی نے بعض اہل علم کا یہ موقف نقل کیا ہے کہ اگر قاتل اور مقتول کے مابین کوئی ذاتی مخاصمت نہ پائی جاتی ہو اور قاتل نے کسی اور محرک کے تحت قتل کا ارتکاب کیا ہو تو ایسی صورت میں حق قصاص مقتول کے ولی کے بجاے حکومت کو حاصل ہوگا۔ ۱۰؂ ہمارے نزدیک اجرتی قاتلوں یا کسی دوسرے کے ترغیب یا اشتعال دلانے پر کسی کو قتل کرنے والوں کے معاملے میں بھی اولیا کے حق معافی کو اسی اصول پر غیر موثر قرار دیا جا سکتا ہے۔ 
اس ضمن میں یہ نکتہ بالخصوص ملحوظ رہنا چاہیے کہ قبائلی طرز زندگی کے خاتمے سے قرابت اور مراحمت کے اس تعلق میں جو قدیم معاشرت کی ایک امتیازی خصوصیت سمجھا جاتا ہے، بدیہی طور پر رخنہ پڑا ہے اور جدید معاشرے میں گوناگوں عوامل کے تحت قصاص اور انتقام کا جذبۂ محرکہ نسبتاً کمزور پڑ گیا ہے۔ اس کے مقابلے میں ریاست کے تصور کے ارتقا کے ساتھ اس کے قانونی اختیارات بھی بڑھ گئے ہیں اور اسی تناسب سے شہریوں کے جان ومال کے تحفظ کے حوالے سے اس کی ذمہ داریاں بھی زیادہ ہو گئی ہیں۔ اس صورت حال میں قصاص کے قانون کو زندہ رکھنے کے لیے افراد کے بجاے ریاست کو زیادہ بنیادی کردار سونپنا اگر کوئی مفید اور نتیجہ خیز اقدام ثابت ہو سکتا ہے تو ایسا کرنا قانون کی علت یا حکمت کے منافی نہیں ہوگا، تاہم اس سارے معاملے میں حالات کی عملی صورت کو نظر انداز کرنا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہوگا۔ کسی بھی معاشرے میں ریاست کو کوئی اختیار سونپنے سے پہلے اس امر کا اطمینان حاصل کرنا ضروری ہے کہ ریاستی مشینری اپنے اخلاص اور خدمت معاشرہ کے جذبے کے لحاظ سے اس ذمہ داری کو اٹھانے کی پوری اہلیت رکھتی ہے اور اس میں نظام انصاف قابل اعتماد صورت میں موجود ہے۔ بصورت دیگر ریاست کا حق قصاص الٹا بے گناہوں یا رعایت کے مستحق خطا کاروں پر زیادتی اور ان کی حق تلفی پر بھی منتج ہو سکتا ہے۔

حوالہ جات

۱؂ بیہقی، السنن الکبریٰ، رقم ۱۵۷۱۲۔
۲؂ ابوداؤد، رقم ۳۹۰۸۔
۳؂ بیہقی، السنن الکبریٰ، رقم ۱۵۸۳۰۔
۴؂ ابن ہشام، السیرۃ النبویہ ۴/۲۵۶۔ ۲۵۷، ۵/۷۱۔
۵؂ جصاص، احکام القرآن ۱/۱۱۵۱۔ طبری، جامع البیان۲/۱۱۲۔
۶؂ مصنف عبد الرزاق، رقم۱۸۲۰۴۔ طبری، جامع البیان۲/۱۱۳۔
۷؂ الماوردی، الحاوی الکبیر ۱۲/۳۸۔
۸؂ مسائل الامام احمد بن حنبل واسحاق بن راہویہ ۲/۲۳۰، ۲۷۲۔ حاشیہ الدسوقی ۴/۲۳۸۔وہبہ الزحیلی، الفقہ الاسلامی وادلتہ ۶/۲۷۲۔
۹؂ الماوردی، الحاوی الکبیر ۱۲/۱۰۳۔
۱۰؂ الشافعی، الام ۴/۳۱۷۔
(’’حدود وتعزیرات۔ چند اہم مباحث‘‘ سے اقتباس)

دو مرحوم بزرگوں کا تذکرہ

ڈاکٹر قاری محمد طاہر

مفتی سید سیاح الدین کاکاخیلؒ

مفتی سید سیاح الدین قافلہ محدثین کی ایک فراموش شدہ شخصیت کا نام ہے۔ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ فیصل آباد میں گزرا۔ وہ کم و بیش نصف صدی تک اسی شہر میں قال اللہ و قال رسول کی علمی روایت کو آگے بڑھاتے رہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگاکہ موجودہ فیصل آباد ہمیشہ سے فیصل آباد نہ تھا بلکہ پہلے لائل پور کہلاتا تھا۔ لائل پور سے فیصل آباد کا سفر تقریباً پون صدی میں طے ہوا۔ 
لائل پور کی ابتدا چناب کینال کالونی کے نام سے ہوئی۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور کے پہلے وائس چانسلر سر جیمز براڈوڈ لائل تھے۔ انہی کے نام پر اس کا نام لائلپور رکھا گیا۔ پہلے یہ ضلع جھنگ کی تحصیل تھی۔ ۱۹۰۴ء میں اس کو ضلع کا درجہ دیا گیا۔ لائل پور کے بعض لوگوں کی خواہش پر یکم ستمبر ۱۹۷۷ء کو لائلپور کا نام فیصل آباد رکھا گیا۔ لائل پور میں بھی رسول اللہ ﷺ کے پاکیزہ فرامین کی صدائیں قیام لائل پور ہی سے گونجنے لگی تھیں۔ کیونکہ اس شہر کے آباد ہوتے ہی یہاں پہلا دینی مدرسہ اشاعت العلوم کے نام سے قائم ہوا۔ 
محدث جلیل مفتی سید سیاح الدین کی پیدائش ۸ شوال ۱۳۳۴ھ مطابق ۸ اگست ۱۹۱۶ء کو ہوئی۔ آپ کے والد حکیم حافظ محمد سعد گل تھے۔ آپ کے نانا کا نام محمد مطہر ہے۔ دونوں جید عالم تھے۔ ننہال اور ددھال دونوں طرف سے موصوف کو علمی ماحول ملا۔ 
سید سیاح الدین کو علم حدیث سے خاص مناسبت تھی۔ یہ مناسبت ان عظیم اور اجلہ اساتذہ کی وجہ سے پیدا ہوئی جو علم حدیث میں آپ کے براہ راست استاد رہ چکے تھے۔ ان حضرات کا مختصر تذکرہ اس جگہ ضروری ہے تاکہ موصوف کے دل میں علم حدیث کی جوت جگانے والے اکابر کا علم ہو سکے۔ ان میں پہلا نام مولانا عبدالحق نافع ؒ کا ہے جودارالعلوم دیوبند کے اجلہ اساتذہ میں سے تھے۔ ان کا تقرر ۱۹۳۳ء میں بحثیت مدرس اعلیٰ دارالعلوم دیوبند میں ہوا۔ موصوف سید سیاح الدینؒ کے بزرگ رشتہ داروں میں سے تھے۔ ان کی علمی کشش مولانا سیاح الدین کو دارالعلوم دیوبند لے گئی۔ چنانچہ آپ جنوری ۱۹۳۴ء مطابق شوال ۱۳۵۲ھ میں دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے۔ یہاں آپ نے مطول شرح عقائد نسفیہ مولانا نافع سے دیوان متبنّی مولانا اعزاز علی اور ہدایہ اولین کا درس مفتی ریاض الدین صاحب سے لیا۔ آپ شعبان ۱۳۵۳ھ نومبر ۱۹۳۴ء میں امتحان دے کر اعلیٰ نمبروں میں کامیاب ہوئے۔ تعطیلات میں گھر واپس آگئے۔ 
۱۳۵۳ھ ہی میں آپ دوبارہ دارالعلوم دیوبند آئے اور دیوان حماسہ مولانا اعزاز علی توضیح و تلوبح مولانا ابراہیم علیبادیؒ سے، تیسر زاہد اورغلام یحیٰی مولانا عبدالسمیع سے اور جلالین مفتی ریاض الدین سے پڑھیں۔ ۱۳۵۵ھ میں آپ نے دارالعلوم دیوبند سے دورۂ حدیث کی تکمیل کی۔ دورۂ حدیث میں آپ کے اساتذہ شیخ الاسلام و شیخ الحدیث مولانا حسین احمد مدنی، مولانا اعزاز علیؒ ، مولانا میاں اصغرؒ ، مولانا مفتی محمد شفیعؒ ، قاری محمد طیب مہتمم دارالعلوم دیوبند، استاد مفتی ریاض الدین اور مولانا شمس الحق افغانی جیسے اکابر شامل تھے۔ 
۱۳۵۶ھ مطابق اکتوبر ۱۹۳۷ء میں آپ نے امتحان دیا اور تمام پرچے عربی زبان میں حل کئے اور ایک سو پچاس طلباء میں اوّل آئے۔ یہاں ایک لطیفہ کا تذکرہ بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ اس زمانے میں دارالعلوم دیو بند میں ہر کتاب کے نمبر پچاس ہوتے تھے۔ اگر ممتحن کسی پرچے کو بہت عمدہ خیال کرتا تو پچاس نمبر دینے کے بعد ایک دو نمبر مزید بھی دے دیا کرتا۔ جو طالب علم کے لیے بڑا اعزاز ہوتا۔ مولانا سید سیاح الدین کو آٹھ کتابوں میں پچاس کی بجائے باون باون نمبرملے اور مؤطا امام مالک اور نسائی میں تریپن تریپن نمبر دیئے گئے۔ 
راقم الحروف پنجاب یونیورسٹی کا طالب علم تھا۔ ہمارے استاد پروفیسر امان اللہ تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارا امتحان ہوا۔ ہمارے ممتحن محدث عصر مولانا محمد ادریس کاندھلوی مقرر ہوئے۔ انہوں نے بعض طلباء کی اچھی استعداد کو دیکھ کر دارالعلوم دیوبند کی طرز پر کل نمبروں سے دو تین نمبر زیادہ دیے۔ پنجاب یونیورسٹی میں ایک پرچے کے نمبر سو ہوتے تھے۔ انہوں نے ایک سو تین ایک سو دو تک دے دیئے۔ جب نتیجہ کا کاغذ جسے ایوارڈ لسٹ کہا جاتا ہے متعلقہ لوگوں تک پہنچی تو انہوں نے سخت اعتراض کیا اور مولانا سے باز پرس بھی کی۔ مولانا نے جواب دیا میں صدر ممتحن ہوں کیا، مجھے یہ اختیار بھی نہیں کہ اپنی طرف سے کچھ نمبر دے دوں۔ میں کاہے کا ممتحن؟ یہ کہہ کر آپ نے آئندہ پنجاب یونیورسٹی کا ممتحن بننے سے انکار کر دیا۔ 
۱۳۵۷ھ میں جب دارالعلوم دیوبند کا سالانہ جلسہ تقسیم اسناد منعقد ہوا تو مولانا حسین احمد مدنیؒ نے سید سیاح الدینؒ کے نمبر تعریف کے ساتھ سنائے اور ساتھ ہی فرمایا: ’’سیاح الدین دارالعلوم دیوبند کے استاد مولانا عبدالحق نافع کے عزیز ہیں۔ ان کے انعامات میں حضرت نافع ہی کو دے رہا ہوں‘‘ اور بہت سی قیمتی کتب بطور انعامات اپنے دست مبارک سے عطا فرمائیں۔ راقم نے مولانا سید سیاح الدین کے ایک ہم عصر سے خود یہ بات سنی کہ شیخ الاسلام حضرت حسین احمد مدنیؒ نے اپنے ہونہار شاگرد سید سیاح الدین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جس نے چلتا پھرتا ولی دیکھنا ہو، وہ سید سیاح الدین کو دیکھ لے۔ برصغیر پاک و ہند بلکہ دنیائے اسلام کی اس عظیم شخصیت کی طرف سے ان اعزازی الفاظ کا ملنا موصوف کے لیے ایسا اعزاز ہے جس کی نظیر پیش کرنے میں بڑی سے بڑی سند بھی ہیچ ہے۔ 
۱۹۴۳ء میں آپ کو پیشکش ہوئی کہ آپ دارالعلوم دیوبند میں تدریسی ذمہ داری سنبھالیں۔ آپ نے یہ پیشکش قبول کی اور آپ نے دارالعلوم دیو بند میں ہدایہ اولین، عقائد نسفیہ، مرئاۃ المنطق وغیرہ پڑھائیں۔ ۱۹۴۶ء میں آپ مدرسہ اشاعت العلوم لائل پور بطور صدر مدرس تشریف لائے۔ آپ کی تشریف آوری لائلپور ہی کے ایک عالم مولانا عبدالغنی ؒ فاضل دیوبند کی کوششوں سے ہوئی۔ مدرسہ اشاعت العلوم لائلپور آنے سے قبل آپ دارالعلوم دارالعلوم بھرہ میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ بھیرہ کا دارالعلوم وہی ہے جہاں سے قطب الاقتاب عارف ربانی حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوریؒ نے بھی کسب فیض کیا۔ آپ نے مدرسہ اشاعت العلوم میں ترمذی شریف، مشکوٰ ۃ ، مؤطا امام مالک کے علاوہ دیگر کتب بھی مدۃ العمر پڑھائیں۔ 
مولانا محمد ادریس میرٹھی وفاق المدارس کے ناظم اعلیٰ تھے۔ انہوں نے مولانا سیاح الدینؒ کی میدان حدیث میں صلاحیت کو بھانپ لیا اور انتظامیہ مدرسہ اشاعت العلوم سے کہا کہ مدرسہ میں دورۂ حدیث کا اجراء کیا جائے اور مفتی سیاح الدین کی فن حدیث میں مہارت سے فائدہ اٹھایا جائے اور اگر اشاعت العلوم کی انتظامیہ کسی وجہ سے ایسا نہ کرسکے تو مفتی سیاح الدین کو اجازت دی جائے کہ وہ جامعہ اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی تشریف لے آئیں اور حدیث کی کتب پڑھائیں۔ چنانچہ ۱۹۶۶ء میں انجمن اشاعت العلوم نے دورۂ حدیث کے اجراء کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ شوال ۱۳۸۶ھ مطابق ۱۹۶۷ء میں اشاعت العلوم میں دورۂ حدیث کا آغاز ہوا۔ اس کے افتتاح کے لیے حضرت مولانا مفتی محمد شفیع کراچی سے اور مولانا خیر محمد ملتان سے بطور خاص تشریف لائے۔ 
اس طرح موصوف ترمذی شریف اور بخاری شریف ہر سال اوّل تا آخر پڑھاتے رہے۔ اگرچہ مدرسہ کے طلباء تو آپ سے درس حدیث لیتے ہی تھے لیکن اس کے علاوہ آپ باذوق لوگوں کو اس کی ترغیب دیتے اور مدرسہ کے اوقات کے بعد ان کو سبقاً سبقاً مشکوٰۃ پڑھاتے تھے۔ اس کلاس میں عموماًکالجوں کے پروفیسر، لیکچرر، سکولوں کے ہیڈ ماسٹر اور اساتذہ شریک ہوتے تھے۔ ایک کلاس میں پاکستان ماڈل ہائی سکول فیصل آباد کے ہیڈ ماسٹر چودھری عبدالحق، فیصل آباد کی معروف علمی شخصیت مولانا محمد امین، پروفیسر ڈاکٹر چودھری محمد نواز، پروفیسر آغا سلیم اور اس طرح کے دیگر بہت سے حضرات نے آپ سے مشکوٰۃ شریف کا تکمیلی درس لیا۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ مرحوم انتہائی ذوق سے مشکوٰۃ پڑھاتے۔ عموماً یہ کلاس بعد از نماز عصر جامع مسجد کلاں کے ہال میں لگتی تھی۔ رسول اللہ ﷺ کی ذات کے حوالے سے آپ ادب و احترام کا بہت اہتمام فرماتے۔ الفاظ کا استعمال بھی بہت محتاط ہوتا تھا۔ 
حدیث شریف میں یہ واقعہ ملتا ہے کہ ایک مرتبہ ایک گدھا رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں آیا اور اس نے آپ کے سامنے اپنا سر رکھ دیا۔ یعنی سجدہ کیا اور کچھ بڑبڑایا۔ پھر اٹھا اور چلا گیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ یہ گدھا مجھے یہ کہہ کر گیا ہے کہ اے اللہ کے نبی آپ سلسلہ نبوت کے آخری نبی ہیں۔ میرے ساتھ کے سارے گدھے مر چکے ہیں۔ میں ان میں اکیلا رہ گیا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ آپ مجھے اپنی سواری کے لیے قبول فرمالیں۔ میری بڑی خوش بختی ہوگی۔ قرائن بتلاتے ہیں کہ آپ نے یہ سعادت اسے عطا کی۔ اس کا نام یعفور رکھا گیا۔ 
مفتی سیاح الدین جب یہ حدیث پڑھانے لگے تو آپ کی زبان رک گئی۔ آپ حضور ﷺ کی خدمت میں آنے والے جانور کے لیے لفظ گدھا استعمال نہ کرنا چاہتے تھے۔ تھوڑی دیر توقف کے بعد آپ نے فرمایا: ایک دراز گوش آپ کی خدمت میں آیا۔ حضور ﷺ کی سواری کے لیے جہاں بھی یہ ذکر آتا آپ ہمیشہ دراز گوش کا لفظ ہی استعمال فرمایا کرتے۔ روایت میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ اس دنیا سے تشریف لے گئے تو یعفور مدینہ کی گلیوں میں اداس پھرتا رہتا۔ نہ کچھ کھاتا نہ پیتااور تین دن اسی طرح گزر گئے۔ بالآخر اسی غم میں مر گیا۔ 
رسول اللہ ﷺ کے بارے میں علم غیب کا مسئلہ بریلوی علماء اور غیر بریلوی علماء میں مابہ النزاع رہا ہے۔ بریلوی حضرات کا کہنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو علم غیب تھا، جبکہ بقیہ حضرات اس کے قائل نہیں۔ ایک زمانے میں اس موضوع پر بڑے مناظرے ہوتے تھے۔ مناظرے نہ بھی ہوں تو ایک دوسرے کو مناظرے کا چیلنج دیا جانا معمول بن گیا تھا۔ غیر بریلوی حضرات علاوہ دیگر دلائل کے یہ دلیل بھی دیتے کہ ایک مرتبہ سفر کے دوران حضرت عائشہ قافلہ سے پیچھے رہ گئیں۔ بعد میں ایک صحابی ان کو اپنے اونٹ پر بٹھا کر لائے۔ کفار نے اس واقعے کو خوب اچھالا۔ حضور ﷺ کو اس پر بہت قلق ہوا۔ پھر اللہ نے حضرت عائشہؓ کی براۃ کے لیے قرآن میں آیات نازل فرمائیں۔ غیر بریلوی علماء کا کہنا ہے کہ اگر رسول اللہ ﷺ کو علم غیب ہوتا تو آپ اپنی زوجہ کے بارے میں کم از کم مسلمانوں کو تو بتلاتے۔ لیکن آپ تو حضرت عائشہؓ سے بھی کبیدہ خاطر رہنے لگے تھے۔ مولانا سید سیاح الدین اس دلیل کو ہرگز پسند نہ کرتے اور دوران تدریس برملا فرماتے، آج کے دور میں بھی کوئی اپنی والدہ کے بارے میں ایسی بات سننا پسند نہیں کرتا۔ اپنے استاد کے بارے میں بھی غلط تذکرہ کسی کو اچھا نہیں لگتا تو اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے اماں عائشہؑ کے اس واقعہ کا سہارا کیوں لیا جاتا ہے جبکہ ان کی برأۃ قرآن مجید میں بھی آچکی ہے۔ یہ بے ادبی کی بات ہے۔
ایک مرتبہ دوران تدریس صلح حدیبیہ کا تذکرہ آیا کہ جب صلح نامے پر نام لکھا جانے لگا تو حضرت علیؓ نے لکھا محمد رسول اللہ۔ اس پر کفار کے نمائندے نے اعتراض کیا کہ محمد ﷺ کے ساتھ ہم رسول اللہ نہیں لکھنے دیں گے۔ کیونکہ ہمارے اور تمہارے درمیان جھگڑا تو محمد کے رسول ہونے پر ہی ہے۔ محمد ابن عبد اللہ تو مابہ النزاع ہے ہی نہیں۔ حضرت علیؓ کی غیرت نے گوارا نہ کیا کہ وہ اپنے ہاتھ سے رسول اللہ کا لفظ کاٹ دیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے بتاؤ وہ لفظ کہاں ہے اور آپ نے اپنے ہاتھ سے یہ لفظ قلم زن کیا۔ ایک طالب علم بول اٹھا، کہنے لگا، کیا رسول اللہ ﷺ کو اتنا علم بھی نہیں تھا۔ یہ سنتے ہی مفتی صاحب ناراض ہوئے۔ بولے رسول اللہ ﷺ کے حوالے سے الفاظ ادا کرتے ہوئے بہت ہی احتیاط برتنی چاہئے۔ اگر تمہارے سامنے کوئی شخص میرے بارے میں کہے کہ تمہارے استاد کو تو اتنا بھی پتہ نہیں تو تمہیں غصہ آجائے گا۔ چہ جائیکہ یہ لفظ ہادی عالم جناب محمد ﷺ کے بارے میں استعمال کیا جائے۔ 
آپ کو وفاق المدارس کی طرف سے حدیث کا ممتحن مقرر کیا جاتا اور ترمذی کا امتحان لینے کے لیے عموماً سابقہ صوبہ سرحد میں تشریف لے جاتے۔ صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق رحمۃ اللہ علیہ کو آپ کی صلاحیتوں کا علم ہوا تو آپ کو اسلامی نظریاتی کونسل کا رکن نامزد کیا۔ اس حوالے سے آپ کی خدمات مثالی ہیں اور کونسل کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ مفتی صاحب نے بعض اصولی علمی اختلافات کے باعث کونسل کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔ اپنے استعفیٰ میں ان وجوہات کا ذکر بھی کیا جو استعفیٰ کا سبب بنی لیکن ضیاء الحق مرحوم نے مفتی صاحب کو دوبارہ رکن بنایا۔ 
سید سیاح الدین کے علمی مقام و مرتبہ کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی ہوتا ہے کہ مولانا مفتی محمد شفیع (صاحب معارف القرآن)سید سیاح الدین کے استاد تھے۔ آپ نے ان سے دارالعلوم دیوبند میں حدیث کی کتاب ابو داؤد جلد ثانی اور مؤطا امام مالکؒ کا اکثر حصہ پڑھا تھا۔ (تفہیم الاحکام ، ص ۲۲)
اللہ تعالیٰ نے سید سیاح الدین کو یہ علمی مقام و مرتبہ عطا فرمایا کہ ان کے استاد مفتی محمد شفیع بھی ان کی تفقہ فی الدین کا اعتراف کرتے۔ صرف اعتراف ہی نہیں بلکہ آپ بعض امور میں سید سیاح الدین کی رائے کو پیش نظر رکھ کر اپنی رائے سے بھی رجوع کیا اور اپنے اس رجوع کا باقاعدہ تحریری اعلان بھی فرماتے۔ ہم آپ کے اعلان کو اس جگہ نقل کر رہے ہیں۔ 
’’۴ ذی الحجہ ۱۳۸۵ھ کو دارالعلوم میں ایک سوال یہ آیا تھا کہ زید نے چار بیویوں کے ہوتے ہوئے پانچویں عورت سے شادی کر لی اور اس سے اولاد بھی ہوگئی۔ اب زید کا انتقال ہوگیا تو پانچویں سے پیدا ہونے والی اولادزید کے ترکہ میں سے حصہ وراثت کی مستحق ہے یا نہیں۔ اس کے جواب میں تحفۃ الفقہاء وغیرہ کتب فقہ کی عبارات، جن میں بطلان نکاح کے الفاظ مذکور ہیں اور نکاح باطل کا مشہور حکم یہی ہے کہ نسب اور وراثت نہیں ہوتی، اس پر نظر کرتے ہوئے یہ جواب دے دیا گیا کہ پانچویں بیوی کی اولاد ثابت النسب نہیں ہے اس لیے ترکہ میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔ مگر مولانا مفتی سیاح الدین کاکا خیل صاحب نے لائل پور (فیصل آباد) سے اس پر تفصیلی تنقید لکھی جس کو دیکھنے کے بعد احقر نے بھی کوشش کی کہ کوئی صریح جزئیہ اس کا مل جائے، وہ تو نہیں ملا، مگر مجموعی حیثیت سے مولانا موصوف کی تحقیق اس کے نظائر و اضحہ کی بنا پر درست معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے میں اپنے مذکورہ سابق فتویٰ سے رجوع کرتا ہوں۔ اب میرے نزدیک بھی صحیح یہی ہے کہ نسب اور وراثت ہوگی۔ پانچویں بیوی کی اولاد بھی حسب حصہ شریعہ زید کے ترکہ سے حصہ پائے گی۔ واللہ تعالیٰ اعلم!‘‘
ہمارے نزدیک رجوع نامے سے جہاں مفتی سید سیاح الدین کے تیجر علمی اور تلاش گہر، وسعت مطالعہ اور صلابت رائے کا اظہار ہوتا ہے وہاں مفتی محمد شفیع ؒ کے عظمت اور علومرتبہ کا پتہ بھی چلتا ہے کہ انہوں نے اپنے ہی طالب علم کی رائے کو صحیح محسوس کیا توا پنی رائے کو تبدیل کر لیا۔ حالانکہ سید سیاح الدین علمی میدان میں مفتی شفیعؒ کے خوشہ چین تھے اور ان سے دارالعلوم دیوبند میں پڑھتے بھی رہے تھے۔ 
مفتی سید سیاح الدین امر بالمعروف کا فریضہ تو سرانجام دیتے ہی تھے لیکن برسوں کی خدمت حدیث نے آپ کے اندر نھی عن المنکر کا جذبہ بدرجہ اتم پیدا کر دیا تھا۔ اس فریضہ کی ادائیگی کے لیے ہمیشہ آپ مستعد رہتے اور اپنی عزت تک کو بھی داؤ پر لگا نے سے دریغ نہ کرتے۔ عجیب اتفاق ہے کہ شہر کی جامع مسجد کلاں کچہری بازار سے چند قدم کے فاصلے پر چنیوٹ بازار میں بازار حسن بھی موجود تھا۔ سارا دن ویران رہتا لیکن عین سر شام اس کی رونقیں لوٹ آتیں اور رات کے بھیگتے ہی عروج پر پہنچ جاتیں۔ شہر کے اوباش ہوس کے پجاری جنس کے بیوپاری رات ہوتے ہی ادھر کا رخ کرتے۔ عصمتوں کے سودے ہوتے، کسی کی بہو کسی کی بیٹی اور بہن کا جسم اور حسن دونوں شو کیس میں سجا دیئے جاتے۔ قصاب آتے گردوں کپوروں کاجائزہ لیتے۔ کتنے جسموں کو پیسے کے بل بوتے پر پہلے سونگھتے پھر بھنبھوڑتے۔ جب ہو س کی تسکین ہو جاتی تو صبح دم اپنے گھروں کی راہ لیتے۔ حوا کی بیٹیاں چند ٹکوں کی خاطر اپنی اصل متاع لٹا دیتیں ا ور اگلی رات پھر کسی دوسرے کے انتظار میں رہتی تھیں۔ 
مدرسہ اشاعت العلوم اور بازارحسن کا فاصلہ چند گز ہی کا تھا۔ اسی مدرسہ کی چھت پر فرمودات رسول ﷺ کے امین مفتی سید سیاح الدین کا گھر بھی تھا۔ آپ کے دل کو جانے کب سے ٹھیس پہنچی، ضمیر نے کچوکا دیا۔ سید سیاح الدین اللہ کو قیامت کے روز کیا جواب دے گا۔ چند قدم پر مسلمان بیٹیاں عصمتوں کے سودے کرتی رہیں تو نے مسجد میں پناہ لیے رکھی، تو مطمئن رہا، ’’میں نے تو آج کی نمازیں ادا کر لیں، طلباء کو دین کا درس بھی دے دیا، کیا ہوا سب فرض ادا ہو گئے‘‘؟
اسی جذبہ نے آپ کا چین چھین لیا۔ نور الدین زندگی کی طرح بستر سے اٹھ بیٹھے۔ ایک طالب علم کو ساتھ لیا، تانگے پر لاؤڈ سپیکرنصب کیا۔ بازارِ حسن کے بیچ پہنچ گئے، کچھ خیال نہ کیا کہ ستھری عبا داغ دار ہوگی، شفاف جبے پر چھینٹے اڑیں گے، دستار کے پیچ و خم نکل جائیں گے، لوگ انگلیاں اٹھائیں گے، جو بھی کہیں ، انہیں کچھ پروا نہ تھی۔ 
پکارے، تم مسلمان گھرانوں کی آبرو ہو، تمہیں کیا ہوگیا؟ تمہاری پاک باز ماؤں نے تمہیں جنم دیا، ہر گرم و سرد سے تمہیں بچایا، تمہاری حفاظت کی۔ آج تم کس غلاظت میں غوطہ زن ہو، اپنی متاع اصلی کو بازار کی جنس خیال کرتی ہو اور بازار میں بکنے پر لگاتی ہو اور ہر روز نئے خریدار کے انتظار میں رہتی ہو۔ بے غیرت تم نہیں یہ مرد ہیں جو اچھے اور سستے مال کی تلاش میں تم پر ٹوٹے پڑ رہے ہیں۔میری مانو، میری نہیں پیارے نبی کی مانو جس نے عورت کے سر پر حیا کی چادردی، غیرت کا غازہ بخشا۔ اس دھندے کو چھوڑو، محل عفت میں رہو۔اسی میں آبرو ہے اسی میں عزت ہے۔
عورتوں نے ان کی باتوں کو سنا، بیشتر نے اپنے کواڑ بند کر لیے۔ حکومت کان کھلے رکھتی ہے۔ ہرکاروں نے یہ واقعہ اعلیٰ حکام تک پہنچایا۔ اس وقت کے مغربی پاکستان کے غیرت مند گورنر نواب امیر محمد خان آف کالا باغ کے کانوں تک بھی یہ بات پہنچی۔ فوراً حکم نامہ جاری کیا۔ پورے مغربی پاکستان کے تمام بازار حسن بند کر دیئے جائیں۔ عورتوں کو باعزت روزگار مہیا کیا جائے۔ پورا مغربی پاکستان یعنی آج کا پورا پاکستان اس غلاظت سے پاک ہوا۔ اس اہم اقدام میں مفتی سید سیاح الدین کی مساعی شامل ہیں یہ ان کا بڑا کارنامہ ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ انسان نھی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دینے کا پختہ ارادہ کرے تو الہٰی مدد ضرور آتی ہے۔ اس حوالے سے موجودہ پاکستان میں زنا کاری کی لعنت کو ختم کرنے میں مفتی سید سیاح الدین کی جرأت مندانہ کوشش کا بڑا دخل ہے۔ جو ان کی حسنات میں ہمیشہ اضافہ کا سبب بنے گا۔
۲۳ اپریل ۱۹۸۷ء کا دن پاکستان کی تاریخ کا پریشان کن دن ثابت ہوا۔ موصوف نے ایک کانفرنس میں شرکت کرنا تھی۔ صبح پانچ بجے پشاور سے بذریعہ کار اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئے۔ حسن ابدال کے قریب آپ کی کار کو حادثہ پیش آیا جس کے نتیجے میں سرزمین فیصل آباد کا یہ عظیم فقیہ، عظیم محدث واصل بحق ہوگیا۔ ان کے انتقال پر ان کے شاگردوں نے آنسو بہائے لیکن قومی سطح پر اس عظیم نقصان کا ملال کسی کو نہ ہوا۔ اگر کوئی فنکار دنیا سے رخصت ہو جائے تو ذرائع ابلاغ سال ہا سال اس کے یوم وفات پر پروگرم کرتے ہیں۔ اعلان ہوتا ہے فلاں فنکار کو ہم سے بچھڑے ۲۰ برس ہو گئے۔ لیکن یہ عظیم محدث ، عظیم فتیہ کسی کی یادوں کا حصہ نہیں۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے ایک ہونہار شاگرد نے تفہیم الاحکام کے نام سے کتاب لکھی جس میں مفتی صاحب کے فتاویٰ کو جمع کیا گیا۔ یہ کتاب دو جلدوں میں ہے اور مفتی سید سیاح الدین کے لیے صدقہ جاریہ کا درجہ رکھتی ہے۔ 
مفتی سیدسیاح الدین کے وہ مضامین جو آپ نے دارالعلوم بھیرہ کے رسالہ شمس الاسلام می تحریر کئے بڑا علمی سرمایہ ہیں۔ اسی طرح اسلامی نظریاتی کونسل میں آپ کی تحقیقات بھی بڑا علمی شاہکار ہیں۔ کاش کوئی قلم کا دھنی اس طرف توجہ کرے اور اس علمی سرمایہ کو جمع کرے تاکہ اس سرمایہ سے اہل علم مزید روشنی کا سامان مہیا کر سکیں۔ 

مفتی جعفر حسین مرحوم

ڈاکیہ آیا،اگست کا ’’پیام‘‘ لایا۔ ایک مضمون مولانا محمد اسحاق بھٹی کا تھا۔ عنوان تھا ’’مفتی جعفر حسین‘‘۔ یہ مضمون اسحاق بھٹی صاحب کی کتاب ’بزم ارجمندان‘ سے مقتبس تھا۔ بزم ارجمندان ہم نے پہلے بھی دیکھ رکھی تھی لیکن تکراری لذت کا اپنا ہی مزا ہے۔ لوگ صحافتی زبان میں اسے قند مکرر کا نام دیتے ہیں۔ بھٹی صاحب متعدل فکر، معتدل سوچ رکھنے والے عالم ہیں۔ قلم کے ساتھ ان کا رشتہ کافی مضبوط ہے۔ یہ رشتہ آج کا نہیں نصف صدی پرانا ہے۔ کئی کتابیں ان کے قلم سے نکلیں۔ مسلکاً اہل حدیث ہیں لیکن ذہن میں سختی اور تشبّخ نہیں۔ کھرے کو کھرا کہنے میں باک نہیں رکھتے۔ مجال نہیں کہ کھوٹے کو کھرا کہہ دیں لیکن کھوٹے کو کھوٹا کہنے کا سلیقہ ضرور رکھتے ہیں۔ اس معاملے میں حکمت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ 
مفتی جعفر حسین کے بارے میں ان کا مضمون پڑھا تو ماضی کے مضراب پر ضرب لگی اور بہت سے خیالی ساز وآواز نے ذہن کی تاروں کو چھیڑ دیا۔ مفتی جعفر حسین کے حوالے سے یہ چند سطریں یاد ماضی کا حصہ ہیں۔ ۱۹۶۲ء یعنی ساٹھ کی دہائی کی بات ہے۔ میں ملکی فضا میں فرقہ واریت نے ارتعاش کی کیفیت پیدا کر دی تھی۔ تمام اکابر اس لگی کو بجھانے، ٹھنڈا کرنے کی فکر میں تھے۔ ہمارے استاد علامہ علاء الدین صدیقی پنجاب یوینورسٹی میں شعبہ علوم اسلامیہ کے بانی صدر تھے۔ انہوں نے لاہور موچی درازہ میں تین روزہ سیرت النبی کانفرنس منعقد کرائی۔ جس میں شیعہ ، سنی، دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث مکاتب فکر کے چوٹی کے علماء کو دعوت بیان دی گئی۔ مقصد اتحاد بین المسلمین کی فضا پیدا کرنا تھا۔ 
علامہ علاء الدین صدیقی مولانا احمد علی لاہوری کے شاگرد رشید اور راست فکر عالم تھے۔ ماضی میں بازار سیاست میں اپنی صلاحیتوں کا سکہ جما چکے تھے۔ تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا۔ مسلم لیگ کے راہ نما تھے۔ میاں ممتاز دولتانہ کے مقابلہ میں پنجاب مسلم لیگ کا الیکشن بھی لڑا۔ آپ بعد میں پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے۔ پھر اس وقت کے صدر پاکستان جنرل محمد ایوب خان نے ان کو اسلامی نظریاتی کونسل کا سربراہ مقرر کیا۔ آپ اتحاد بین المسلمین کے نقیب تھے۔ 
مذکورہ کانفرنس انہوں نے سلگتی پر پانی ڈالنے کے لیے منعقد کرائی۔ کانفرس بڑی بھرپور تھی۔ راقم نے مفتی جعفر حسین کو پہلی مرتبہ اس کانفرنس میں دیکھا اور ملاقات کی بھی کی۔ آپ انتہائی دھیمے انداز میں شستہ گفتگو کرتے تھے۔ کہنے کو گوجرانوالہ کے تھے لیکن اردو لہجہ میں لکھنوی انداز کا غلبہ تھا۔ ہم نے ان کو اہل زبان ہی خیال کیا۔ لیکن بھٹی صاحب کے مضمون سے معلوم ہوا کہ ان کا جم پل پنجابی زبان کے گڑھ گوجرانوالہ کا تھا۔ لیکن ان کی گفتگو میں گوجرانوالہ کی ٹکسالی زبان کا دور دور تک نشان نہ ملا۔ زبان کی چاشنی اسی جمال ہم نشین در من اثر کرد کا نتیجہ تھی۔ آپ تحصیل علم کی غرض سے کافی عرصہ لکھنو میں رہے۔ 
ان کی تقریر سے قبل جناب آغا شورش کاشمیری کی تقریر تھی۔ آغا صاحب شہنشاہ خطابت تھے۔ تحریر و تقریر میں ان کا سکہ چلتا تھا۔ ہفت روزہ چٹان کے ایڈیٹر تھے۔ تقریر کرتے مجمع باندھ دیتے۔ تقریر میں گھن گرج کے علاوہ بر محل اشعار سے تقریر کو مزین کرنا ان کا کمال تھا۔ نادر الفاظ اور تراکیب کے استعمال میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ الفاظ کی مالا ان کے گرد ہالہ کئے دست بستہ کھڑی ہے۔ ان کی تقریر کے دوران پورے مجمع پر سناٹا طاری ہوگیا۔ عموماً ان کی تقریر آخر میں ہوتی، کیونکہ لوگ ان کی تقریر کے بعد کسی اور مقرر کو سننا پسند ہی نہ کرتے۔ اتفاق سے ان کی تقریر کے دوران ہلکی سی آندھی آئی اور شامیانے ہوا کے دباؤ سے اڑنے لگے۔ 
شورش مرحوم کی تقریر کے بعد سٹیج سے مفتی جعفر حسینؒ کا نام پکارا گیا لیکن مجمع ہل گیا۔ لوگ جانے لگے۔ مفتی صاحب مرحوم سٹیج پر آئے۔ خطبہ مسنونہ اہل تشیع کے انداز میں پڑھا۔ لوگ کہاں ٹھہرتے۔ مفتی صاحب نے پر اعتماد انداز میں تقریر شروع کی۔ کہنے لگے، ابھی میرے بھائی آغا شورش کاشمیری تقریر کر رہے تھے تو سائبان ہلنے لگے تھے۔ میری باری آئی ہے تو صاحبان بھی ہلنے لگے۔ بس اس ادبی جملے نے جادو کا اثر کیا۔ لوگ جہاں تھے وہیں بیٹھ گئے۔ مفتی صاحب نے قریباًآدھا گھنٹہ تقریر کی۔ سیرت کے حوالے سے انتہائی نادر نکات پیش کئے۔ ان کی تقریر کے کچھ حصے اب تک ذہن میں محفوظ ہیں۔ فرمانے لگے، اللہ نے دنیا سجائی تھی۔ اپنے نائب آدم ؑ کو پیدا کیا۔ جنت میں بھیجا۔ فرمایا یہ میری جنت ہے یہاں رہو مزے کرو۔ جہاں چاہو گھومو پھرو۔ بس ایک پابندی ہے۔ اس درخت کے قریب نہ پھٹکنا۔ شیطان آدم کا ازلی دشمن تھا۔ اس نے ورغلایا اور ان کو ممنوعہ درخت کا پھل کھلا دیا، پھل نے تاثیر دکھلا دی۔ جنت کا لباس فاخرہ تار تار ہوگیا۔ اللہ نے فرمایا، تم جنت میں رہنے کی صلاحیت کو کھو بیٹھے ہو۔ لہٰذا اب یہاں نہیں رہ سکتے، زمین پر جاؤ۔ زمین پر آئے تو آدم کے بیٹے نے دوسرے بھائی کو قتل کر دیا۔ ناحق خون سے زمین ناپاک ہوگئی۔ خون کے چھینٹوں نے زمین گندی کردی۔ اللہ نے نوحؑ کو بھیجا۔ جاؤ زمین کو دھو کر پاک کراؤ۔ نوحؑ کے سیلاب نے زمین دھو کر صاف کر دیا۔ زمین پاک ہوگئی۔ پھر اللہ نے ابراہیم ؑ کو زمین پر بھیجا۔ زمین کو پھلواری گھاس کے ذریعے خوبصورت بناؤ۔ 
قلنا یا نار کونی بردًا وسلاماً علی ابراہیم 
بس پھر کیا تھا، زمین گل و گلزار ہو گئی۔ اب خطرہ تھا کوئی موذی کوئی دشمن گھاس اور باغیچہ میں چھپا نہ بیٹھا ہو کہ گزند پہنچائے۔ اللہ نے موسٰی ؑ کو بھیجا۔ ایک ہاتھ میں ڈنڈا تھا دوسرے ہاتھ میں ٹارچ تھما دی۔ تاکہ اچھی طرح کونے کھدرے میں دیکھیں کوئی چھپا نہ بیٹھا ہو۔ ایک موذی فرعون پایا گیا۔ موسٰی ؑ نے مار بھگایا۔ پھر رب نے عیسٰی ؑ کو بھیجا کہ اچھی طرح جائزہ لیں اور واپس آکر خبر دیں کہ سب ٹھیک ہے۔ یہ سارا اہتمام بس ایک شخصیت کی تشریف آوری کے لیے تھا۔ طوفان نوح سے زمین کا پاک کروانا، زمین کو گل و گلزار بنانا۔ موسٰی ؑ کے ذریعے سارا جائزہ لینا، یہ سب اہتمام محمد ﷺ کی تشریف آوری کے لیے تھا۔ جب سب بندوبست ہوگیا تو اللہ نے جناب محمد رسول اللہ ﷺ کو بھیج دیا۔ ساتھ ہی قرآن بھی اتارا اور اعلان کر دیا، قرآن میرا آخری پیغام ہے۔ محمد ﷺ میرا آخری نبی ہے۔ قرآن کے بعد کوئی کتاب نہیں، محمد ﷺ کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں۔
یہ تقریر جادو اثر ثابت ہوئی۔ لوگ مبہوت دم بخود بیٹھے رہے۔ اس کانفرنس کو منعقد کرانے والے، تقاریر کرنے والے سب کردار زمین بوس ہو گئے۔ منوں مٹی کے نیچے جا چکے۔ وہاں جاچکے جہاں سے کبھی کوئی واپس نہ آیا۔ اللھم اغفرلھم وارحمھم

سزائے موت۔ ایک نئی بحث

خورشید احمد ندیم

شکنجہ سخت ہو رہا ہے۔ معاملہ صرف معیشت یا سیاست کا نہیں، تہذیب کا بھی ہے۔ عالمگیریت ایک سمندر ہے اور اس میں جزیرے نہیں بن سکتے۔ آنکھ کھول کے دیکھیے! ہمارے چاروں طرف کیا ہو رہا ہے؟
چند روز پہلے یورپی یونین کا ایک وفد پاکستان کے دورے پر تھا۔ آنے والے ایک ایسے ادارے سے متعلق تھے جس کا موضوع ’’ انسانی حقوق‘‘ ہیں۔ اس وقت دنیا کی غالب آبادی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ سزائے موت انسانی حقوق سے متصادم ہے۔ وفد ہمیں باور کرانے آیا تھا کہ اگر ہم یورپی یونین سے تجارتی مراعات(GSP_Plus status) چاہتے ہیں تو ہمیں سزائے موت کو ختم کرنا ہوگا۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو پھر کسی رعایت کے مستحق نہیں ہوں گے۔ اگلا قدم پابندیاں ہوگا اور یوں یہ سلسلہ دراز ہوتا جائے گا۔ اس وقت اقوامِ متحدہ کے 105 ارکان ممالک سزائے موت کے خاتمے کا فیصلہ کر چکے۔ ہم نے اگر ایسا نہ کیا تو ہم عالمی برادری سے بچھڑ جائیں گے۔
صدر زرداری ہی نہیں نواز شریف صاحب بھی جانتے ہیں کہ دنیا میں تنہا رہنا ممکن نہیں ۔ انسانی سمندرمیں اب کوئی جزیرہ آباد نہیں ہو سکتا۔زرداری صاحب نے پانچ سال تک سزائے موت کو معطل رکھا۔ میاں صاحب نے جون میں یہ پابندی اٹھا دی۔ اب عالمی برادری کے تیور دیکھے تو اسے ’’ عارضی‘‘ طور پر معطل کر دیا ہے۔ یورپی یونین نے اس کا خیر مقدم کیا ہے۔پاکستان میں ای یوکے سفیر نے اگرچہ اس کی تردیدکی ہے کہ مراعات کا سزائے موت سے کوئی تعلق ہے لیکن وفد کے خیالات غیر مبہم ہیں۔
سزائے موت ہونی چاہیے یا نہیں؟ اسلام کا نقطہ نظر، اس باب میں کیا ہے؟ میں ان سوالات سے دانستہ صرفِ نظر کر رہا ہوں۔ میرے سامنے اس معاملے کا ایک دوسرا پہلو ہے اور میں اس سارے قضیے کو اس تناظرمیں دیکھ رہا ہوں۔ اس کا عنوان وہی ہے جس کا میں نے ابتدا میں ذکر کیا۔۔۔عالمگیریت۔ یہ ایک نظامِ اقدار کا نام ہے جس پر ان قوتوں کا اتفاق ہے جن کے ہاتھ میں دنیا کا اقتدار ہے۔ وہ اس نظامِ اقدار کو ساری دنیا پر غالب دیکھنا چاہتی ہیں۔ جو اس سے انحراف کرے گا، اسے ’’ راہ راست‘‘ پر رکھنے کے بہت سے طریقے انہوں نے دریافت کرلیے ہیں۔ سب سے مؤثر تو اقتصادی طریقہ ہے۔ جو اس نظامِ اقدار کو قبول نہ کرے، اس پر معیشت کا دروازے بند کر دیے جائیں، یہاں تک کہ بھوک اور افلاس اسے گھٹنے ٹیکنے پرمجبور کردیں۔
’’انسانی حقوق ‘‘ اس نظام اقدار کا ایک جزو ہے۔ یہ نظامِ اقدار جن بنیادوں پر کھڑاہے، اس میں سب سے اہم ’’ انسانی آزادی‘‘ ہے۔ انسان اپنے معاملات کے تعین میں خود مختار ہے۔ کوئی مذہب ، کوئی الہام، کوئی اتھارٹی اس کی خود مختاری پر کوئی پابندی نہیں لگا سکتی۔ جینے کا حق چونکہ اس تصور کے تحت بنیادی انسانی حق ہے، اس لیے قتل کا مجرم بھی اس حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا ان کے خیال میں سزائے موت بنیادی طور پر انسانی حقوق سے متصادم ہے اور اسے گوارا نہیں کیا جا سکتا۔ جو ملک اس کا التزام نہیں کرے گا، وہ انسانی حقوق سے منحرف قرار پائے گا اور اس کے بعد عالمی برادری اسے سزا دینے کا حق رکھتی ہے۔ چین اس حوالہ سے ہمیشہ زیرِ عتاب رہا ہے۔اب وہ لوگ اس کا ہدف بنیں گے جہاں سزائے موت نافذ ہے۔ انسانی حقوق کے دائرے میں محض سزائے موت شامل نہیں ہے۔ خواتین کے حقوق، ازدواجی حقوق اور دوسرے بہت سے حقوق شامل ہیں۔ یہ واضح ہے کہ ان حقوق کی وہی تعریف قابلِ قبول ہوگی جو اس غالب نظامِ اقدار کے تحت کی جائے گی۔ آپ خواتین کے حقوق کا کوئی ایسا تصور رکھتے ہیں جو اس غالب خیال سے مختلف ہے تو وہ قابلِ قبول نہیں ہوگا۔
میرے نزدیک آنے والے دنوں میں نظام ہائے اقدار کا تصادم مختلف معاشروں کے مابین ایک نئی معرکہ آرائی کی بنیاد بننے والا ہے۔ یہ کچھ بعید نہیں کہ نکاح کا روایتی ادارہ براہِ راست اس کی زدمیں ہو۔بعض ممالک میں ہم جنسی کو نکاح کی ایک صورت کے طور پر قبول کرلیا گیا ہے۔ جہاں جہاں اس کی مخالفت ہے وہاں وہاں اس کی مزاحمت میں شدت آرہی ہے۔ اسے بڑی حد تک بنیادی انسانی حقوق کا مسئلہ مان لیا گیا ہے۔ یہ دائرہ اگر وسیع تر ہوتا گیا تو ان نظام ہائے کی بقا خطرات میں گھر جائے گی جو غالب تصور سے مختلف ہیں۔
اس وقت عالمگیریت کا یہ نظام پوری طرح غالب نہیں آیا۔ اس کی بعض مجبوریاں ہیں جن کی وجہ سے وہ بہت سی باتیں گوارا کر رہا ہے۔ جمہوریت، مثال کے طور پر اس نظامِ اقدار کا اہم جزو ہے۔ جمہوریت کا یہ تصور سیکولرزم ہی کی سیاسی توسیع ہے۔آج مشرقِ وسطیٰ وغیرہ میں اس نظام نے شہنشاہیت کو اگر گوار کیا ہوا ہے تو یہ اس کی سیاسی مجبوریوں کے باعث ہے۔ جب یہ مجبوریاں کم ہوں گی، شہنشاہیت پر دباؤ میں اضافہ ہو جائے گا۔ اس طرح جہاں جمہوریت سیکولرزم کے تابع نہیں ہو جاتی وہاں بھی تصادم جاری رہے گا۔
پاکستان فکری پراگندگی میں مبتلا ایک سماج ہے۔ یہی نہیں، یہاں تضادات ہیں اور ابہام۔ ہم اس وقت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ایسا سماج ظاہر ہے کہ کسی دباؤ کا سامنا نہیں کر سکتا۔ نہ اقتصادی نہ تہذیبی۔ اس میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ عالمی نظامِ اقدار کی مزاحمت کرے۔ سزائے موت کی معطلی سے یہ بات پوری طرح واضح ہے۔ میرے نزدیک یہ بہت سنجیدہ مسئلہ ہے، بد قسمتی سے جو غورو فکر کا موضوع نہیں بن رہا۔ ہمیں اگر اپنی معاشی سیاسی آزادی عزیز ہے اور ہم اپنی تہذیبی شناخت کے بارے میں حساس ہیں تو اس پر غور کرنا ہوگا کہ اس تہذیبی دباؤ کا سامنا ہم کیسے کر سکتے ہیں؟
تصادم میرے نزدیک کوئی راستہ نہیں ہے۔ ہمیں مکالمے کے میدان میں اترنا ہوگا۔ خوش قسمتی سے اس نظامِ اقدارہی میں وہ جگہ(room) موجود ہے، جہاں سے ہم اپنی بات کہہ سکتے ہیں۔مثال کے طور پر یہ نظام کثیرالمدنیت(pluralism) کی بات کرتا ہے۔تہذیبی غلبے کی کوشش اس تصور سے متصادم ہے۔یا پھر اس میں جمہوریت کا راگ الاپاجاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر کسی ملک کی اکثریت اس بات پر اتفاق کر لیتی ہے کہ وہ اپنی اجتماعیت کی تشکیل کے لیے وحی کو ماخذ مانے گی تو اکثریت کا یہ حق کیوں قابلِ قبول نہیں۔
ہمارے پاس اس وقت یہی راستہ ہے کہ ہم مکالمے کے میدان میں اتریں اور باہر کی دنیا میں اپنے ہم نوا تلاش کریں۔ میرا خیال ہے کہ خاندان کے ادارے اور ہم جنس پرستی جیسے بے شمار معاملات ایسے ہیں جن پر کلیسا بھی وہی بات کہہ رہا ہے جو ہمارے محراب و منبر سے کہی جا رہی ہے۔اسی طرح سنگاپور اور جاپان میں سزائے موت کی سزا مو جود ہے۔میرے لیے تشویش کی بات یہ ہے کہ سماج کے اہل الرائے ابھی تک معاملے کی سنگینی سے واقف نہیں ہیں۔ اگر کوئی آگاہی موجود ہے تو وہ محض سیاسی ہے اورتصادم کی آب یاری کر رہی ہے۔ بصیرت کا تقاضا یہ ہے کہ جنگ اس میدان میں لڑی جائے جہاں آپ مضبوط جگہ پر کھڑے ہوں۔ فکر و نظر کی دنیا ایسی ہے، جہاں ہماری فتح کا روشن امکان ہے۔ ہمارے مفاد میں یہ ہے کہ اقدار کا معرکہ علم و فکر کی وادی میں برپا ہو۔ سزائے موت کے حوالہ سے یورپی یونین کی تنبیہ ہمیں ایک نئی معرکہ آرائی کی جانب متوجہ کررہی ہے۔
(بشکریہ روزنامہ ’’دنیا‘‘) 

عذابِ قبر اور قرآنِ کریم (۲)

مولانا محمد عبد اللہ شارق

برزخ میں زندگی؟

عذابِ قبر اور قرآن میں تضاد دکھانے کے لیے منکرین نے جو سوال اٹھایا ہے کہ قرآن سے تو انسان کی صرف دو زندگیاں ثابت ہوتی ہیں جبکہ عذابِ قبر سے ایک تیسری زندگی کا اثبات ہوتا ہے ، آئیے اب ذرا ایک نظر اس کو دیکھتے ہیں۔ منکرینِ برزخ کی اس بات سے ہم اتفاق کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے انسان کو صرف دو ہی زندگیاں عطا فرمائی ہیں جن کا ذکر سورۃ البقرۃ کی آیت۲۸ اور سورۃ المومن کی آیت ۱۱ میں ہے۔ اس سے بظاہر کسی تیسری زندگی کی نفی ہوتی ہے اور یہی بات درست ہے۔ اہلِ سنت جو منکرین کے مقابلہ میں ہمیشہ عذابِ قبر کے قائل رہے ہیں، وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ پہلی زندگی موت پر ختم ہوگی اور دوسری زندگی صورِ اسرافیل کے بعد شروع ہوگی۔ سوائے ایک آدھ غیر معروف عالم کے ان میں سے کسی سے بھی یہ منقول نہیں کہ قبر اور برزخ کے دورانیہ میں انسان کو کوئی تیسری جیتی جاگتی زندگی حاصل ہوتی ہے جو باقی دو زندگیوں کی طرح حقیقی زندگی ہوتی ہے۔ (تفسیر طبری، البقرۃ:۲۸) ایک غیر معروف عالم سے جو اس کے خلاف منقول ہے، وہ بھی محض ایک آیت کی تفسیر کے ضمن میں اس طرح نقل کیا گیا ہے کہ اسی عالم سے اس آیت کی مختلف توجیہات منقول ہیں جن میں سے ایک توجیہ کی رو سے تین زندگیوں کا اثبات ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خودا س عالم کو بھی تین زندگیوں کے اثبات پر اصرار نہیں، یہی وجہ ہے کہ خود اس سے منقول اگر آیت کی ایک توجیہ کی رو سے تین زندگیوں کا اثبات ہوتا ہے تو دوسری توجیہ بھی اسی سے منقول ہے جس کے قائل جمہور ہیں اور جس کی رو سے تیسری زندگی کی نفی بھی ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ علم العقائد کی بڑی کتابوں ’شرح العقیدۃ الطحاویۃ‘ اور ’النبراس‘ وغیرہ میں جہاں احوالِ برزخ پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے، وہاں خود اہلِ سنت کے کئی قول نقل کیے گئے ہیں کہ اس دوران انسان کو کس طرح کا شعور اور احساس حاصل ہوگا، مگر اس قول سے متعلق ایک لفظ بھی نہیں لکھا گیا ۔ اسی طرح بعث بعد الموت کا مطلب بھی ان کے ہاں یہی لیا جاتا ہے کہ دنیا میں موت آنے کے بعد انسان صورِ اسرافیل پر دوبارہ کھڑا کیا جائے گا۔ اگر مرنے کے فوراً بعد ان کے نزدیک برزخ میں ہی حقیقی زندگی دوبارہ شروع ہوجاتی تو ان کے نزدیک بعث بعد الموت کا محل صورِ اسرافیل کی بجائے قبرو برزخ ہوتے۔ 
صدیق مغل صاحب نے عذابِ قبر کے اثبات کے لیے جس طرح البقرۃ کی آیت ۲۸ سے استدلال کیا ہے ، اس سے محسوس ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک برزخ میں ہی انسان کو ایک مکمل زندگی حاصل ہوجاتی ہے۔ آیت یہ ہے: ’کنتم أمواتا فأحیاکم ثم یمیتکم ثم یحییکم ثم ألیہ ترجعون‘ اللہ تعالی نے اس میں انسان کی دو موتوں اور دو زندگیوں کا ذکر فرمایا ہے۔ پہلی موت سے مراد پیدائش سے قبل کا زمانہ اور دوسری سے مراد دنیا میں آنے والی موت ہے، جبکہ پہلی زندگی سے مراد دنیا کی زندگی اور دوسری زندگی سے مراد بعث بعد الموت کی زندگی ہے۔ دوسری زندگی کے بعد فرمایا ہے : ’ثم الیہ ترجعون‘ یعنی ’پھر اس دوسری زندگی کے بعد تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘ مغل صاحب کہتے ہیں کہ ’دوسری موت (دنیاوی موت) کے بعد جس دوسری زندگی کا ذکر ہے، وہ لوٹائے جانے سے قبل (عالمِ برزخ) میں ہوگی۔‘ دلیل دیتے ہیں کہ’لفظ ’ثم‘ کا استعمال بتا رہا ہے کہ یہ برزخی حیات اور یومِ آخرت کو اللہ کی طرف لوٹایا جانا دو الگ الگ واقعے ہیں جن میں زمانی مغایرت ہے۔‘ اب ان کو خود ہی بتانا چاہئے کہ اگر یہ زندگی وہی زندگی ہے جو تاابد جاری رہے گی تو کیا ان کے نزدیک بعث بعد الموت کا محل قبر ہے؟ کیونکہ بعث بعد الموت سے حاصل ہونے والی زندگی ہی تاابد جاری رہے گی۔ حالانکہ اہلِ سنت ، بلکہ تمام مسلم فرقوں میں سے شاید کوئی بھی اس کا قائل نہیں۔ اگر یہ وہ زندگی نہیں ہے اور بعث بعد الموت کا وقت ان کے نزدیک بھی صورِ اسرافیل ہی ہے تو کیا ان کے نزدیک انسان کودو کی بجائے تین دفعہ موت او رحیات کا سامنا کرنا پڑے گا؟ یہ بات مذکورہ آیت کی ایک توجیہ کے ضمن میں ایک عالم ابوصالح (گذشتہ سطروں میں جس غیر معروف عالم کا ذکر ہوا ہے ، ان سے مراد بھی یہی ابو صالح ہیں) سے منقول ضرور ہے، مگر خود اہلِ سنت ہی اس پر شروع سے تنقید کرتے آرہے ہیں اور وہ اس کو سورۃ المومن کی آیت ۱۱ سے متصادم قرار دیتے ہیں جس میں صراحتاً صرف دو موتوں اور دو زندگیوں کا ذکر ہے۔ اگر’ثم الیہ ترجعون‘ کا مطلب تیسری زندگی ہے تو اس سے پہلے ایک تیسری موت کا ذکر بھی ہونا چاہئے تھا جس سے دوسری زندگی ختم ہوکر تیسری زندگی شروع ہوگی، اس کا ذکر کیوں نہیں؟ صرف ’ثم‘ کا سہارالینے سے کام نہیں چلے گا۔ ’ثم‘ دو ایسے واقعات کے درمیان آتا ہے جن کے درمیان وقفہ ہو، لیکن اس کے لیے معمولی وقفہ بھی کافی ہوتا ہے، لہذا ’ثم‘ کی رو سے یہ ممکن ہے کہ صورِ اسرافیل کے بعد دوسری زندگی ملتے ہی اللہ کی طرف لوٹائے جانے کاعمل شروع ہوجائے۔ آخر وہ مفسرین کرام جو دوسری زندگی سے ہمیشہ بعث بعد الموت کی زندگے مراد لیتے رہے، وہ بھی تو ’ثم‘ کا کوئی معنی لیتے تھے۔ ابوصالح نے اگرچہ جمہور کے برخلاف اپنی متنازعہ توجیہ کی روسے مذکورہ آیت سے عذابِ قبر کا اثبات کیا ہے، مگر وہ بھی اس طر ح نہیں جس طرح صدیق مغل صاحب کر رہے ہیں، بلکہ اس طرح کہ پہلی زندگی سے انہوں نے دنیاوی زندگی کی بجائے قبر کی زندگی اور دوسری زندگی سے آخرت کی زندگی مراد لی ہے، لیکن جیسا کہ ہم نے لکھا ہے، خود اہلِ سنت کے محققین نے ہی اس پر صریح لفظوں میں تنقید کی ہے۔ (تفسیر طبری) علامہ آلوسی نے اس توجیہ کو آیت کی دیگر تمام توجیہات سے زیادہ ناگوار اور ناقابلِ فہم قرار دیا ہے۔ علم العقائد کی کتابوں میں اس قول کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔پھر انہی ابوصالح کے بارہ میں بھی گزر چکا ہے کہ انہیں بھی آیت کی صرف اس ایک توجیہ پر اصرار نہیں، بلکہ انہوں نے آیت کی مختلف توجیہات کے ضمن میں اس کو محض ایک ممکنہ توجیہ کے طور پر ذکر کیا ہے۔ (تفسیرِ طبری)واللہ اعلم
اسی طرح بعث بعد الموت کے معنی ہیں’موت کے بعد دوبارہ زندگی ملنا۔‘ اگر یہ زندگی قبر میں مل جاتی تو کم از کم بعث بعد الموت کا پہلا مصداق یہی زندگی کہلاتی، حالانکہ اسلام اس کا ہرگز دعوے دار نہیں۔ قرآن میں کئی جگہ کفار کا اعتراض نقل کیا گیا ہے:’مرنے کے بعد جب ہم بوسیدہ ہڈیاں ہوجائیں گے تو ہمیں کون کھڑا کرے گا، کیا برسوں پہلے مرنے والے ہمارے آباؤ اجداد بھی پھر زندہ ہوں گے؟‘ سادہ سی بات ہے کہ اگر قبر کا دورانیہ کوئی جیتی جاگتی زندگی کا دورانیہ ہوتا تو بعث بعد الموت سے قرآن کی یہی مراد ہوتی اور ان کے اعتراض کا جواب یوں دیا جاتا کہ’تمہارے آباؤ اجداد کب سے زندہ ہوچکے ہیں لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں، اسی طرح تمہاری بھی ہڈیاں بوسیدہ ہونے کی نوبت نہیں آئے گی اور اس سے پہلے زندہ ہوجاؤگے۔‘ مگر قرآن کبھی بھی یہ انداز اختیار نہیں کرتا ، بلکہ یوں اثبات کا انداز اختیار کرتا ہے کہ ہاں! (ہڈیاں بکھر جانے کے بعد تم بھی زندہ کیے جاؤ گے اور تمہارے آباؤ اجداد بھی) اور ان کے جوا ب میں قیامت کے نقشے کھینچنے لگتا ہے۔اگر بعث بعد الموت یعنی موت کے بعد زندگی کا سلسلہ قبرو برزخ سے ہی دوبارہ شروع ہوجاتا تو دل پہ ہاتھ رکھ کے بتائیے کہ کیا پھر کفار کے اعتراض کا یہی جواب ہوتا؟اسی طرح قرآن میں اور خود اہلِ سنت کے ہاں جس طرح اس دورانیہ کے لیے ’برزخ‘ یعنی حدفاصل کا لفظ استعمال ہوتا ہے ، اس سے بھی یہی محسوس ہوتا ہے کہ قرآن او رخود اہلِ سنت کے ہاں اس دورانیہ میں انسان کو زندگی جیسی کوئی زندگی حاصل نہیں ہوتی، بلکہ وہ اس کو الٹا دو زندگیوں کے درمیان حائل حد فاصل سمجھتے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ صدیق مغل صاحب اپنے استدلال سے رجوع کرلیں۔
قرآن وسنت کی ساری نصوص اسی بات کی تائید کرتی ہیں او راہلِ سنت بھی اسی کے قائل ہیں کہ قبرو برزخ کا دورانیہ کوئی جیتی جاگتی انسانی زندگی کا دورانیہ نہیں۔ حقیقی اور کامل زندگیاں صرف دو ہیں جن کا ذکر قرآن میں بھی ہے اور حدیث میں بھی۔ جبکہ قبرو برزخ کا دورانیہ فی الجملہ موت کی کیفیت میں ہی گزرے گا۔ البتہ ایک حدیث یہاں ایسی ہے جو وضاحت طلب ہے۔ اس میں فرمایا گیا ہے کہ ’میت کو قبر میں رکھ کر جب لوگ واپس چلے جاتے ہیں تو منکر ونکیر اس کے پاس آتے ہیں اور سوال وجواب کے لیے میت میں روح لوٹائی جاتی ہے۔‘ (ابوداود۔حدیث۴۷۵۵) محدثین کا اختلاف ہے کہ سند کی رو سے یہ حدیث صحیح بھی ہے یا نہیں۔ ابنِ حزم ظاہری لکھتے ہیں: ’یہ سمجھنا کہ میت قبر میں جاکر قیامت سے پہلے ہی زندہ ہوجاتا ہے، یہ غلط ہے۔ قرآنی آیات اس کی نفی کرتی ہیں کیونکہ اس صورت میں تین زندگیوں اورتین موتوں کا عقیدہ رکھنا ہوگا۔‘ مزید لکھتے ہیں: ’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی صحیح حدیث میں یہ منقول نہیں کہ منکرونکیر سے سوال وجواب کے وقت مردوں میں ان کی ارواح لوٹا دی جاتی ہیں۔ اگر یہ بات صحیح سند سے ثابت ہوجائے تو ہم بھی اسی کو تسلیم کریں گے۔ روح لوٹائے جانے کی بات کا اضافہ صرف منہال بن عمرو کی روایت میں ہے، باقی روایات میں نہیں اور منہال بن عمرو قوی نہیں۔‘ مزید لکھتے ہیں: ’یہ بات جو ہم نے لکھی ہے۔ یہی صحابہ سے بھی ثابت ہے۔‘ (الملل والنحل۴/۱۱۸۔۱۱۹) حافظ ابنِ قیم نے ابنِ حزم کی مکمل عبارت نقل کرکے لکھا ہے کہ ’روح لوٹائے جانے کی حدیث کو ضعیف کہنا درست نہیں ہے، منہال بن عمرو کے علاوہ بھی کئی لوگ اس کے راوی ہیں اور خود منہال بھی ضعیف نہیں،بلکہ مستند اورثقہ راوی ہے۔‘ (الروح۔ صفحہ۴۴، ۴۷) تاہم اس کے باوجود وہ روح لوٹائے جانے کا معنی کیا لیتے ہیں؟ وہ قابلِ غور ہے: ’’جس طرح کی زندگی ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ انسان تدبر وتصرف کرتاہے اور کھانے ، پینے ولباس کا محتاج ہوتا ہے، اگر ابنِ حزم برزخ میں ایسی زندگی کی نفی کرتے ہیں تو واقعی ایسی زندگی کو برزخ میں ثابت سمجھنا غلط ہے، حس اور عقل کے ساتھ ساتھ قرآن وسنت کی نصوص بھی اس کی نفی کرتی ہیں ( کیونکہ ایسی زندگی صرف دنیا میں اور پھر صورِ اسرافیل کے بعد حاصل ہوگی) لیکن اگر ابنِ حزم اس دیکھی بھالی زندگی کے علاوہ کسی بھی قسم کی زندگی کی بھی نفی کرتے ہیں تو ان کی بات ٹھیک نہیں۔ 
حدیث میں جور وح لوٹائے جانے کا ذکر ہے اس سے مراد یہی مختلف قسم کی کوئی زندگی ہے جو آزمائش اور سوال وجواب کے لیے اس میں لوٹائی جاتی ہے۔ اس پر یہ اعتراض نہیں ہونا چاہئے کہ اللہ نے تو قرآن میں دو زندگیوں کا ذکر کیا ہے ، پھر یہ تیسری زندگی کہاں سے آگئی؟ کیونکہ یہ زندگی تھوڑے سے وقفہ کے لیے ہوگی اور تھوڑے سے وقفہ کے لیے تو اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کے اس مقتول کو بھی زندہ فرمایا تھا جس کے قاتل کا پتہ نہ چل رہا تھا (اسی طرح قرآن سے ثابت ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام بھی بطورِ معجزہ کے بعض مردوں کو زندہ فرمایا کرتے تھے، البقرۃ کی آیت ۲۵۹کی رو سے مردہ بستی کے کھنڈرات پر گزرنے والے اس آدمی کو بھی اللہ نے ایک سو سال تک موت کی نیند سلا کر دوبارہ زندہ کردیا تھاجس نے تعجب سے کہا تھا کہ اللہ اس مردہ بستی کو پھر کیسے زندہ کرے گا؟ نیز البقرۃ کی آیت ۲۴۳ کی رو سے اللہ نے ایک گناہ کی وجہ سے کسی قوم کو موت دی اور پھر توبہ کا موقع دینے کے لیے محض اپنی رحمت سے ان کو دوبارہ زندہ کردیا) اگر قرآن میں مذکور ان مثالوں پریہ اعتراض نہیں ہوتا کہ مذکورہ انسانوں کو خلافِ ضابطہ تیسری زندگی کیسے حاصل ہوگئی تھی تو روح لوٹائے جانے کی حدیث پر بھی یہ اعتراض نہیں ہونا چاہئے کیونکہ روح کا یہ لوٹنا بھی بالکل معمولی سے وقفہ کے لیے ہوگا۔‘ (الروح۔ صفحہ۴۲، ۲۰۹) بلکہ مذکورہ قرآنی مثالوں میں حاصل ہونے والی ’تیسری‘ زندگی تو پھر بھی عام فہم ،جیتی جاگتی اور حرکت کرتی زندگی تھی اور اس پہ اعتراض نہیں ہوتا، جبکہ قبر میں روح لوٹائے جانے کا معنی تو خود ابنِ قیم ہی کے بقول ’اس طرح کی زندگی نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد کوئی ناقابلِ فہم ، غیر مرئی اور ضعیف قسم کی زندگی ہے جیسے بے ہوش اور سوئے ہوئے کی زندگی ہوتی ہے اسی وجہ سے عین ممکن ہے کہ وہ میت جس کو دفن کرنے کی نوبت ہی نہیں آئی اور وہ ہماری آنکھوں کے سامنے گل سڑ گیا ہے ، ڈوب گیا ہے، جل گیا ہے یا کسی جان ور کے پیٹ کی غذا بن گیا ہے، اللہ سوال وجواب کے لیے اس کے باقی ماندہ اجزاء میں بھی روح لوٹائیں مگر کسی کو کچھ نظر نہ آئے (اور یہی وجہ ہے کہ قبر کو کھول کر دیکھا جائے تو میت پر بھی تھوڑی دیر پہلے ہلنے جلنے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے)۔ ‘ (الروح۔ صفحہ۶۹) اسی طرح علامہ ابن ابی العز الحنفی لکھتے ہیں: ’وارد ہے کہ سلام کہنے والا جب سلام کہتا ہے تو میت کی روح اس کے بدن میں لوٹ آتی ہے اور یہ بھی وارد ہے کہ دفن کرنے والے جب منہ موڑ کر جانے لگتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز بھی سنتا ہے(لہذا اس موقع پر روح لوٹ آتی ہوگی جیساکہ سلام سننے کے لیے لوٹ آتی ہے) روح کے اس لوٹنے سے کوئی خاص قسم کا لوٹنا مراد ہے، یہ نہیں کہ قیامت سے پہلے اس کوکوئی (تیسری) بدنی زندگی حاصل ہوجاتی ہے۔‘ ( شرح العقیدۃ الطحاویۃ۔ صفحہ۳۹۹) 
علامہ کی اس گفتگو پر کچھ اشکالات ہیں ، جن کو میں خود محسوس کر رہا ہوں۔ لیکن میرا مقصود ان حوالہ جات سے صرف یہ ثابت کرنا ہے کہ جو حضرات برزخ کے بعض موقعوں پر روح لوٹنے کے قائل ہیں، وہ بھی اس سے کوئی ناقابلِ فہم قسم کا لوٹنا مراد لیتے ہیں، جیتی جاگتی زندگی کا شاید کوئی بھی قائل نہیں ہے۔ مولانا عبدالعزیز پرہاروی نے ’النبراس‘ میں جو کچھ لکھا ہے، اس کا خلاصہ بھی یہی ہے کہ ’منکر ونکیر کے سوال کے وقت اگرچہ مردہ میں روح لوٹ آتی ہے، مگر یہ کم زور قسم کی زندگی ہوتی ہے (جس کو تیسری زندگی اور ) جس کے دوبارہ زوال کو موت نہیں کہا جاسکتا۔ سورۃ الدخان کی آیت ۵۶ کے مطابق انسان کو موت کا ذائقہ صرف ایک ہی بار دنیا میں چکھنا ہے ( اور صحیح البخاری کی حدیث۳۶۶۷ سے بھی یہی کچھ ثابت ہوتا ہے)یہ ساری کیفیات دنیا میں آنے والی موت کا ضمیمہ ہیں جس کے بعد کوئی اورموت یا زندگی نہیں ہے، صرف بعث بعد الموت کے بعد ایک آخری زندگی حاصل ہونی ہے۔ برزخ کے بعض موقعوں پر روح لوٹنے کو زندگی اور اس کے خاتمہ کو موت ا س لیے نہیں کہہ سکتے کہ روح لوٹنے سے کوئی حیاتِ کامل مرادنہیں ہے۔‘ ( صفحہ۳۲۲) حافظ ابنِ حجر بھی منکر ونکیر کی آمد پر روح لوٹ آنے کے قائل ہیں۔ وہ بھی اس سے کم زور قسم کی زندگی مراد لیتے ہیں اورگذشتہ سب بزرگوں سے بھی بڑھ کر یہ کہتے ہیں: ’حدیث سے بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ خود روح کا لوٹنا ہی پورے جسم میں نہیں، بلکہ صرف اوپر کے آدھے دھڑ میں ہوگا۔‘ (النبراس۔ صفحہ۳۲۲) 
خلاصہ یہ کہ اس کا تو قائل نہیں کہ قبرو برزخ کا پورا دورانیہ ایک زندگی کی صورت میں گزرتا ہے۔ صرف بعض موقعوں پر روح لوٹ آنے کا جو معاملہ ہے، اس کو بھی بعض تو تسلیم نہیں کرتے اور اکثر علماء جو تسلیم کرتے ہیں، وہ بھی ایک تو تھوڑے سے وقفہ کے لیے روح لوٹنے کے قائل ہیں اور دوسرا اس روح لوٹنے سے بھی کوئی خاص قسم کا لوٹنا مراد لیتے ہیں۔ کامل حیات کا کوئی قائل نہیں، یہ صرف دنیا میں حاصل ہے یا پھر صورِ اسرافیل کے بعد حاصل ہوگی۔واللہ اعلم

بغیر زندگی کے عذاب و جزا کا احساس کیسے ہوگا؟

اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ اگر قبرو برزخ کا دورانیہ بدون زندگی کے ہی گزرے گا تو عذاب وجزاء کی ان کیفیات کااحساس کیسے ہوگاجن کا ذکر احادیث میں ملتا ہے؟ منکرین تو انکاراس وجہ سے کرتے تھے کہ عذاب وجزاء کے احساس کے لیے زندگی ضروری ہے۔ جب قرآن کی رو سے زندگیاں صرف دو ہیں اور برزخ میں کوئی زندگی نہیں تو برزخ میں عذاب وجزاء کی بات بھی غلط ہے۔ یہ تو تھا اس فریق کا استدلال۔ اب حیرت کی بات یہ ہے کہ مغل صاحب جو عذابِ قبر کا عقیدہ رکھتے ہیں، وہ بھی عذاب وجزاء کے احساس کے لیے زندگی ضروری سمجھتے ہیں، تبھی تو البقرۃ کی آیت ۲۸ سے استدلال کرتے ہیں۔ بس فرق یہ ہے کہ پہلا فریق جب اس زندگی کے وجود سے انکار کرتا ہے تو عذابِ قبر کا بھی انکار کرتا ہے اور دوسرا فریق جب عذابِ قبر کو تسلیم کرتا ہے تو اس زندگی کے وجود کو بھی تسلیم کرتا ہے۔ جب بنیاد غلط رکھی گئی تو استدلال کا نتیجہ بھی غلط نکلا۔
حقیقت یہ ہے کہ عذاب وجزاء کے احساس کے لیے جیتی جاگتی زندگی کا ہونا ضروری نہیں۔ چنانچہ نہ اہلِ سنت میں سے کوئی برزخ کی جیتی جاگتی زندگی کا قائل ہے او رنہ ہی قرآن وسنت اس کے دعوی دار ہیں۔ عذابِ قبر کا تصور جس قرآن وحدیث سے ثابت ہے، دو زندگیوں کا تصور بھی اسی قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ لہذا ایک تصور کو دوسرے پہ ترجیح دینے کی کوئی وجہ نہیں۔ بہتر تو یہی ہے کہ دونوں باتوں کو من وعن تسلیم کیا جائے، ان کے مطابق اپنے کردار وعمل کی اصلاح کی جائے اور غیر ضروری تدقیقات سے احتراز کیا جائے۔ ہم ایمان اس لیے نہیں لائے کہ غیبی حقائق کی اصل ماہیت کو عدسہ لگا کر دریافت کر نا شروع کردیں گے۔ ایمان بالغیب کا معنی ہے کہ نبی کے فرامین کو چپ چاپ تسلیم کیا جائے۔ جو اللہ کو اللہ سمجھتا ہے اور رسول کو رسول سمجھتا ہے، اس کو ان سب باتوں پر ایمان لانے میں ہرگز تردد نہیں ہوگا۔ یہ جہان اسرار کا جہان ہے۔ اس میں کئی سربستہ راز ایسے ہیں ، جن کو ہم لاکھ سرپٹخیں، اگر اللہ نہ چاہے تو ان کے سایہ کو بھی نہیں پاسکتے۔ انسانی آنکھ اور ٹیلی اسکوپ کی حیثیت کیا ہے؟ سائنس خود اپنے کئی مفروضات کو غلط ثابت کرچکی ہے اور آج بھی تسلیم کرتی ہے کہ اس کائنات کا جو کچھ حصہ ہم نے دیکھا ہے ، وہ اس کا عشر عشیر بھی نہیں جو نہیں دیکھا۔ موت بھی اس کائنات کے سربستہ رازوں میں سے ایک راز ہے۔ عقلیت پسندوں کے لیے یہ بات ایک معمہ رہی ہے کہ موت کے بعد انسان کے احساس، وجدان، شعور اور ’خودی‘ کا کیا بنتا ہے؟ دیکھئے ’خطباتِ اقبال‘ میں خودی کی بحث۔ یہ ہم نے کہاں سے معلوم کر لیا ہے کہ موت کے بعد انسان میں تمام قسم کے احساسات فنا ہوجاتے ہیں؟ یہ عین ممکن ہے کہ بغیر زندگی کے اور موت کی کیفیت میں رہتے ہوئے بھی انسان جزاؤ عذاب کو محسوس کرتا رہے۔ باقی رہا یہ سوال کہ کیسے کرتا ہے؟ تو بہتر یہی ہے کہ اس بحث میں نہ الجھا جائے۔ اگر زبانِ رسول پر ہمیں اعتماد ہے تو خاموشی سے سرِ تسلیم خم کرنا چاہئے اور غیبیات کی اصل ماہیت کو اللہ کے سپر د کرنا چاہئے۔ یہی سلامتی کا راستہ ہے۔ امام ابوجنیفہ کا نکتۂ نظر بھی یہی ہے کہ برزخی شعور کی اصل کیفیت کے بارہ میں سکوت اختیار کیا جائے۔ (شرح العقیدۃ الطحاویہ للغنیمی۔ صفحہ۱۱۷) نجم الدین نسفی نے ’العقائد النسفیۃ‘ میں ، ابن ابی العز الحنفی نے ’شرح العقیدۃ الطحاویہ‘ (صفحہ ۳۹۹) میں ،شیخ عبدالوہاب شعرانی نے’الیواقیت والجواہر‘ (صفحہ۴۲۰) میں ، مولانا عبدالعزیز پرہاروی نے ’النبراس‘ (صفحہ۳۱۵) میں اور دیگر کئی علماء نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے کہ برزخی احساس(جسے مجازاً حیات بھی کہا جاتا ہے) کی کیفیت کے بارہ میں کوئی قیاس آرائی نہ کی جائے اور سکوت اختیار کیا جائے۔ اللہ کی قدرت کے نمونے ہماری آنکھوں کے سامنے ہی اتنے پھیلے ہوئے ہیں کہ ان کو دیکھتے ہوئے یہ چیز اس کی قدرت سے ہرگز بعید معلوم نہیں ہوتی کہ موت کے بعد بھی وہ انسان کے شعور اور احساس کو کسی غیر مرئی طریقہ پر برقرار رکھے۔ 
تاہم بعض اہلِ سنت نے شاید منکرین کے سوالات کا زور توڑنے کے لیے اس کیفیت کا قرائن سے اندازہ لگا نے کی کوشش بھی کی ہے ، لیکن چونکہ یہ معاملہ غیر منصوص ہے ، اس لیے خود ان کے ہاں ہی اس میں اختلاف دیکھنے کو ملتا ہے کہ آیا جزاؤ عذاب کا ا حساس میت کے بے جان جسم کو ہوتا ہے؟ صرف روح کو؟ یا دونوں کو؟ اگر دونوں کو تو اس کی نوعیت کیا ہوتی ہے؟
(۱) تفسیر بالحدیث کے امام ، ابنِ جریر طبری کی رائے یہ ہے کہ عذاب میت کے بے جان جسم کو ہوتا ہے اور اللہ کی قدرت سے یہ چیز بعید نہیں۔ قرآن ہی سے ثابت ہے کہ کائنات کی ہر چیز اللہ کی تسبیح کرتی ہے جس میں جمادات بھی شامل ہیں، پتھر خدا کے خوف سے روتے اور گر پڑتے ہیں، شجر و حجر اللہ کو سجدہ کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اگر خدا کی قدرت ان جمادات میں اتنا احساس اور شعور پیدا کرسکتی ہے کہ وہ اس کی تسبیح کریں، اس کے خوف سے روئیں اور اوپر سے نیچے آگریں تو میت کے بے جان جسم میں جزاؤ عذاب کا احساس پیدا کرنا بھی اس کی قدرت سے بعید نہیں ہونا چاہئے۔ (النبراس۔ صفحہ۳۲۱)
(۲) فقہِ ظاہری کے امام، ابنِ حزم کی رائے یہ ہے کہ جزاؤ عذاب کا تعلق صرف میت کی روح کے ساتھ ہے۔ (الملل والنحل۴/۱۱۸) منکرینِ برزخ انسانی روح کے وجود سے بھی انکار کرتے ہیں اور وجہ یہ بتاتے ہیں کہ قرآن میں اس کا کہیں ذکر نہیں ہے اور کہیں ہوا ہے تو وہ اس مفہوم میں نہیں جوہمارے ہاں ’الروح‘ کا مفہوم سمجھا جاتاہے۔ گو قرآن میں ’الروح‘ کا لفظ اس مفہوم میں استعمال ہوا ہے جو ہمارے ہاں سمجھا جاتا ہے اور خود عربوں کے ہاں بھی سمجھا جاتا تھا، چنانچہ جمہور کے مطابق سورۃ بنی اسرائیل کی آیت ۸۵ میں ’ویسئلونک عن الروح‘ کے اندر ’الروح‘ سے یہی مراد ہے اور جمہور کا قول ہی درست محسوس ہوتا ہے، لیکن اگر فرض کرلیا جائے کہ قرآن میں واقعی انسانی روح کا ذکر نہیں ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ کیا قرآن نے انسانی روح کے وجود سے انکار بھی کیا ہے؟ کسی بات کا ذکر نہ کرنا اور کسی بات کا انکار کرنا دو الگ الگ باتیں ہیں۔ ’اہلِ قرآن‘ کواگر قرآن میں کہیں انسانی روح کا تصور نہیں ملتا تو ان کا حق یہ ہے کہ وہ بھی قرآن کی طرح اس معاملہ میں سکوت اختیار کریں ، نہ یہ کہ انکار اور نفی شروع کردیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی روح کا تصور نبوی احادیث میں صراحتاً موجود ہے کہ یہ جسم اوربدن سے الگ ایک وجود ہے۔ منکرینِ حدیث کہتے تو ہمیشہ یہی ہیں کہ ہم صرف ان احادیث کا انکار کرتے ہیں جو قرآن کے خلاف ہوں، لیکن ان کا طرزِ عمل اس سے متضاد تصویر پیش کرتا ہے۔ اب دیکھ لیجئے کہ انسانی روح کے وجود سے انکا رکیا جاتا ہے ، حالانکہ اس کا ذکر احادیث میں صراحتاً موجود ہے اور خود ان کے اپنے اعتراف کے مطابق قرآن میں اس کی کہیں نفی بھی نہیں ہے۔ مولانا اصلاحی کے بارہ میں یہ تاثر دینا درست نہیں کہ وہ انسانی روح کے وجود سے منکر ہیں، سورۃ بنی اسرائیل کی آیت ۸۵ میں اگرچہ انہوں نے ’الروح‘ سے مراد انسانی روح کی بجائے ’قرآن‘ لیا ہے، لیکن وہ فی الجملہ انسانی روح کے ماثور تصور کے منکر نہیں۔ چنانچہ مذکورہ آیت ہی کی تفسیر کے ضمن میں ان کا ایک جملہ ہے کہ ’جس طرح جسم کی زندگی روح سے ہے، اسی طرح روح و عقل اور دل کی زندگی وحیِ الہی سے ہے۔‘ (تدبرِ قرآن۴/۵۳۹) منکرین تو جسم کے ساتھ کسی روح کے وجود کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔ باقی آیتِ مذکورہ کی تفسیر میں مولانا اصلاحی سے پہلے ماضی بعید کے کئی مفسرین بھی جمہور کے برعکس ’الروح‘ سے مراد قرآن لیتے رہے ہیں۔ دیکھئے: تفسیرطبری، بغوی اور روح المعانی وغیرہ۔
(۳)اہلِ سنت کے بہت سے حضرات کے نزدیک عذابِ قبر کا تعلق جسم یا جسم کے باقی ماندہ حصہ اور روح کے ساتھ ہے ۔ ان کے نزدیک موت کے بعد بھی جسم یا اس کے باقی ماندہ حصہ کے ساتھ ساتھ روح کا تعلق باقی رہتا ہے۔ تاہم یہ تعلق جیتی جاگتی زندگی کی طرح کامل اورمضبوط نہیں ہوتا بلکہ نیند کی طرح ہوتا ہے جس میں روح کا جسم کے ساتھ تعلق ہوتا بھی ہے اور نہیں بھی ہوتا۔ یعنی موت کے بعد بھی روح جسم سے بالکل بے تعلق نہیں ہوجاتی مگر یہ تعلق ایسا بھی نہیں ہوتا کہ اس پر زندگی کا اطلاق ہوسکے، بلکہ وہ موت کی کیفیت ہی ہوتی ہے۔ 
یہ سب اقوال دراصل ممکنہ صورتیں ہیںیہ سمجھنے کے لیے کہ بغیر زندگی کے بھی انسان کو کیسے اور کیسے عذاب و جزاء کا احساس ہوسکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ حقیقتا عذاب وجزاء کی صورت انہی میں سے کوئی ایک ہو۔ ان ممکنہ صورتوں کے بیان سے اس اعتراض کا دفعیہ ہوجاتا ہے کہ بغیر زندگی کے عذاب وجزاء کا احساس ممکن نہیں۔
جسم اور روح کی بحث میں پڑے بغیر ،مجھے خود قرآن وحدیث کے بعض اشاروں سے جوکچھ محسوس ہوا ہے وہ یہ ہے کہ موت کی کیفیت دراصل نیند سے ملتی جلتی کوئی کیفیت ہے، جس میں شعور اور احساس باوجود زندگی نہ ہونے کے ’خواب وخیال ‘ کے انداز میں کسی قدر باقی رہتا ہے۔ چند اشارے ملاحظہ کریں: 
(۱) ’ونفخ فی الصور فاذاہم من الأجداث الی ربہم الی ینسلون قالوا یا ویلنا من بعثنا من مرقدنا‘ یعنی ’صور پھونکا جائے گا تو یکایک یہ اپنے رب کی بارگاہ میں پیش ہونے کے لیے قبر سے نکل کھڑے ہوں گے، (گھبر ا کر) کہیں گے کہ ہائے! ہمیں کس نے ہماری خواب گاہ سے اٹھا دیا‘ (یس:۵۱) کافروں کا صورِ اسرافیل پر جی اٹھنے کے بعد یہ کہنا کہ ’ہمیں کس نے ہماری خواب گاہ سے اٹھا دیا‘ برزخ میں گزرنے والے دورانیہ کو نیند سے تعبیر کرنا اور قرآنِ مجید میں ان کے احساس کا ان الفاظ میں ذکرہونا اشارہ دے رہا ہے کہ قبر وبرزخ اور صورِ اسرافیل سے پہلے کا دورانیہ نیند کی سی کیفیت میں گزرے گا اور جی اٹھنے کے بعد ایک خواب کی طرح ان کو یاد آئے گا۔
(۲) ’أو کالذی مر علی قریۃ وہی خاویۃ علی عروشہا قال أنی یحیی ہذہ اللہ بعد موتہا فأماتہ اللہ ماءۃ عام ثم بعثہ قال کم لبثت قال لبثت یوما أو بعض یوم قال بل لبثت مائۃ عام ‘ یعنی ’وہ شخص جو ایک بستی پر سے گزرا اور وہ کھنڈر بنی ہوئی تھی، کہنے لگا کہ اللہ اس مردہ بستی کو پھر کیسے زندہ کرے گا، پس اللہ نے ایک سو سال تک کے لیے اسے موت دے دی اور پھر اسے زندہ کرکے پوچھا کہ کتنا عرصہ یہاں پڑے رہے، وہ کہنے لگا کہ ایک دن یا اس سے بھی کم، اللہ نے فرمایا کہ تم ایک سو سال یہاں پڑے رہے ہو‘ (البقرۃ: ۲۵۹)آیت کے کامل سیاق وسباق کو بغور دیکھنے سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ آدمی موت کے دورانیہ کو نیند سمجھ رہا تھا، تبھی تو جی اٹھنے کے بعد یہاں گزرے وقت کو ایک دن یا دن کا کچھ حصہ سمجھ رہا تھا اور اس کو یہ وہم بھی نہیں گزرا کہ میں سو سال تک موت کی کیفیت میں رہا اور اب مرکر اٹھا ہوں تاآنکہ اللہ تعالی نے خود یہ وضاحت فرمائی۔ آیت کے الفاظ سے یہی کچھ محسوس ہوتا ہے۔ 
(۳) ’اللہ یتوفی الأنفس حین موتہا والتی لم تمت فی منامہا فیمسک التی قضی علیہا الموت ویرسل الأخری الی أجل مسمی‘ یعنی ’اللہ روحوں کو موت کے وقت قبض فرما لیتا ہے او ران ارواح کو نیند کے وقت جو مرے نہیں، پھر جن ارواح کے لیے موت کا فیصلہ فرمایا ہے، ان کی ارواح روک لیتا ہے اور باقی (نیند والی ارواح) کو(بیدار ہونے پر) موت تک کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ ‘ (الزمر: ۴۲)اس آیت سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے کہ موت کی کیفیت نیند اور خواب سے ملتی جلتی کوئی کیفیت ہے، بس فرق یہ ہے کہ نیند کی کیفیت بیداری پر بدل جاتی ہے اور مرنے والے کی مخصوص کیفیت وقتِ مقرر یعنی صورِ اسرافیل تک باقی رہتی ہے۔ 
(۴)نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’النوم اخو الموت‘ یعنی ’ نیند موت سے ملتی جلتی چیز ہے۔‘ (شعب الایمان۔ حدیث ۴۷۴۵) اس سے بھی ضمنا یہی اندازہ ہوتا ہے کہ مردہ سوئے ہوئے کی طرح خواب وخیال کی کیفیت میں ہوتا ہے۔ 
چنانچہ جس طرح سویا ہوا انسان خواب دیکھتا ہے، کسی بات پہ فرحت اور کسی بات پہ رنج محسوس کرتا ہے، ڈر بھی جاتا ہے، کھانے پینے کے مزے لیتا ہے، سردی گرمی کو محسوس کرتا ہے، دوستوں سے ملاقات کرکے لطف اندوز ہوتا ہے، باوجودیکہ کسی بیدار کھڑے انسان کو سوئے ہوئے کے جسم پر یہ ساری کیفیات نظر آتی ہیں اورنہ ہی وہ منظر نظر آتے ہیں جو سوئے ہوئے کو نظر آرہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح یہ عین ممکن ہے کہ مرجانے والے کے احساس اور شعور کو بھی اللہ تعالی باقی رکھیں، نیند والے خواب سے زیادہ گہرے اور مضبوط خواب کی کوئی صورت پیدا کردیں اور مرنے والا اسی کیفیت میں رہتے ہوئے بغیر زندگی کے جزاؤ عذاب کے سارے احساسات سے گزرتا رہے۔ ابنِ حجر نے فتح الباری (۳/۳۰۱)میں، ابن قیم نے الروح (صفحہ۶۱) میں ، ابن ابی العز الحنفی نے شرح العقیدۃ الطحاویۃ (صفحہ۳۹۹) میں، عبدالوہاب شعرانی نے الیواقیت والجواہر (صفحہ۴۱۸) میں اور دیگر کئی علماء نے جس طرح منکرین کے اعتراض کو دفع کرنے کے لیے برزخی دورانیہ کے شعور کو نیند کے شعور سے مثال دے کر ثابت کیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان سب کے نزدیک موت کی کیفیت نیند سے ملتی جلتی کوئی کیفیت ہے اور اس دوران جزاؤ عذاب کا احساس ان کے نزدیک خواب یا اس سے ملتی جلتی کسی کیفیت میں ہوتا رہتا ہے۔ 
اب تک کی گفتگو سے یہ بات واضح ہوگئی کہ حقیقی اور جیتی جاگتی زندگیاں صرف دو ہیں او راسلام میں کسی تیسری زندگی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ عذابِ قبر کے لیے جیتی جاگتی زندگی کا ہونا ضروری نہیں ، بلکہ اس کے بغیر بھی اللہ تعالی مردہ کے اندر عذاب وجزاء کا احساس پیدا کرسکتے ہیں۔ لہذا احادیث میں مذکور احوالِ برزخ کو خلافِ قرآن کہنے کا کوئی جواز نہیں۔ قبرو آخرت اور غیبیات کے بارہ میں اسلام کی جتنی تعلیمات ہیں، بہتر یہی ہے کہ ان کومن وعن تسلیم کیا جائے اور ان کی اصل کیفیت کو اللہ کے سپرد کیا جائے، اسی کا نام اسلام اور اسی کا نام ایمان بالغیب ہے۔ 

تیسرا سوال

احادیث کے اپنے بیانات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ احوالِ برزخ اور میت کی تمام تر کیفیات وحرکات انسانی حواس کے ادراک سے ماو راء ہیں اور غیر مرئی ہیں۔ نیز جیسا کہ ابھی بیان ہوا ہے، احادیث میں مذکور احوالِ برزخ کسی حرکت کرتی اور جیتی جاگتی زندگی کو مستلزم نہیں اور نہ ہی احادیث کسی کامل برزخی حیات کی مدعی ہیں۔ لہذا احوالِ برزخ کی صداقت کو جانچنے کے لیے قبر کو کھولنے کا تکلف کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، جب وہ غیر مرئی ہی ہیں تو نظر کیسے آسکتے ہیں؟ اگر کچھ زیادہ ہی شوق ہو تو ان کی صداقت کو جانچنے کے لیے قبر کو کھولنا کافی نہیں، بلکہ مر کر دیکھنا ضروری ہے کیونکہ دنیا کی اس زندگی میں انسان کی آنکھ میں وہ بلب نہیں جو برزخی کیفیات کا ادراک کرنے کے لیے درکار ہے۔ 
ایک حدیث ہے کہ ’لوگ جب میت کو لے کر قبرستان کی طرف چلتے ہیں تو نیک میت کہہ رہا ہوتا ہے کہ مجھے جلدی لے چلو اور بدکار گھبراہٹ کے یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ مجھے کہاں لے کر جارہے ہو؟ میت کی یہ آواز انسان کے علاوہ ہر چیز سنتی ہے۔‘ (صحیح البخاری۔ حدیث۱۳۱۴) ایک اور حدیث ہے کہ ’کافر جب منکر ونکیر کے امتحان میں ناکام ہوتا ہے تو اسے زور سے لوہے کا گرز مارا جاتا ہے اور وہ ایک چیخ مارتا ہے جسے جنوں اور انسانوں کے علاوہ آس پاس کی ہر مخلوق سنتی ہے۔ ‘ (صحیح البخاری۔ حدیث۱۳۷۴) یہ دو احادیث بڑی وضاحت سے بتار ہی ہیں کہ احوالِ برزخ غیر مرئی ہیں اور انسانی ادراک سے ماوراء ہیں۔ 
برزخی احوال کانظر نہ آنا ان کے جھوٹ ہونے کی دلیل نہیں، بلکہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ غیر مرئی ہیں اور یہ کہ احوالِ برزخ کسی تیسری حیات کو مستلزم نہیں جس میں انسان کو جیتی جاگتی اور حرکت کرتی زندگی حاصل ہو۔ منکرین مذکورہ جس سوال کو اشکال اور اعتراض بنا کر انکارِ حدیث کے لیے استعمال کر رہے ہیں، اسی سوال کو حدیث کے صحیح فہم کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا تھا۔ اس سے دوسرا اعتراض بھی رفع ہوسکتا تھا ، تیسرابھی اور چوتھا بھی۔ 

چوتھا سوال

جواب اس کا بھی وہی ہے کہ احوالِ برزخ جب غیر مرئی ہیں تو ہمیں ان کا ادراک کیسے ہوسکتا ہے۔ جو آدمی ڈوب کر مرگیا ہے، کسی جان ور کی غذا بن گیا ہے، جل کر راکھ ہوگیا ہے، ہماری آنکھوں کے سامنے گل سڑ کر خاک ہوگیا ہے یا فرعون کی ممی کی صورت میں عرصۂ دراز سے ہمارے سامنے پڑا ہے، اللہ تعالی چاہیں تو ان سب کے باقی ماندہ اجزاء میں شعور نما پیدا کرکے، اس کی روح سے یا کسی اور ناقابلِ فہم قسم کی صورت میں اس سے سوال وجواب بھی فرمالیں، جزاؤ عذاب کا احساس پیدا کردیں اور دیکھنے والوں کی آنکھوں کے سامنے یہ سب کچھ ہو مگر انہیں کچھ نظرنہ آئے۔ اس لیے کہ انسان صرف وہی کچھ دیکھ اور پہچان سکتا ہے جسے دیکھنے کی اجازت اللہ تعالی انسان کے حواس کو دیں۔ ہمارا ایمان ہے او رقرآن سے ثابت ہے کہ فرشتے اور شیاطین ہمارے آس پاس موجود رہتے ہیں، مگر ہمیں نظر نہیں آتے تو کیا اس وجہ سے ہم ان کے وجود سے انکار کرسکتے ہیں؟ اگر دنیا میں ہی غیبیات ہمیں نظر آنا شروع ہوجائیں تو ایمان بالغیب کا مقصد فوت ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالی کی منشاء ہی یہ ہے کہ میرے بندے میری قدرت کو دیکھ کر، میرے اتارے گئے معجزات او رمیرے رسول کی صداقت کو سمجھ کر غیبیات پر بن دیکھے ایمان لے آئیں۔ ورنہ اگر اللہ تعالی چاہیں تو آسمان سے کوئی ایسی نشانی بھی نازل کر سکتے ہیں جسے دیکھ کر سب انسانوں کی گردنیں جھک جائیں۔ (الشعراء: ۴) اگر احوالِ برزخ اس دنیامیں ہی نظر آنا شروع ہوجائیں تو یہ ایک ایسی نشانی ہوگی جو اسلام کی صداقت کے آگے گردن جھکانے پر مجبور کردے گی جو کہ منشاءِ خداوندی کے خلاف ہے۔ اس صورت میں ایمان بالغیب اور اس قرآنی اصول کا کیا معنی رہ جائے گا کہ اللہ تعالی گردنوں کو جھکانے والی اور مجبور کردینے والی کسی نشانی کو قصداً نہیں اتار رہے؟ اللہ تعالی کی قدرت کو اپنی حقیر سی عقل کے ساتھ نہیں ناپنا چاہئے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کتنے ہی جان ور اور پرندے ایسے ہیں جو اندھیرے میں دیکھتے ہیں، لیکن انسان کی آنکھیں اندھیرے میں اندھی ہوجاتی ہیں۔ اسی طرح سوئے ہوئے انسان کو وہ کچھ خواب میں نظر آتا ہے جو بیدار کھڑے انسان کو نظر نہیں آتا۔ اگر احوالِ برزخ کو دیکھنے والی روشنی بھی خدا نے انسانی آنکھ میں نہ رکھی ہو تو یہ کوئی ناقابلِ فہم بات نہیں۔ جو آدمی ایمان بالغیب کا دعوی بھی رکھتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ احوالِ برزخ مجھے نظر نہیں آتے لہذا میں ان کو نہیں مانتا تو اسے چاہئے کہ کسی عربی لغت میں ایمان بالغیب کا معنی دوبارہ دیکھ لے۔ میری تمنا ہے کہ امتیاز احمد عثمانی حق کی طرف رجوع کرنے میں پہل کریں اور باقیوں کے لیے مثال قائم کریں۔ 
ضروری وضاحت:میرے مضمون میں برزخی احساس وشعور کو نیند اور خواب کے ساتھ جو تشبیہ دی گئی ہے، اس سے مقصود محض ایک تکنیکی وضاحت ہے۔ خواب وخیال کہہ کر برزخی جزاؤ عذاب کی اہمیت کو گھٹانا مقصود نہیں اور نہ ہی یہ ضروری ہے کہ برزخ میں جزاؤ عذاب خواب کی سی کیفیت میں ہی ہو۔ جس جزاؤ سزا کو اللہ کے رسول نے فکر مندی پیدا کرنے کے لیے بیان فرمایا ہے، اس کی اہمیت ہمارے دلوں میں کم نہیں ہونی چاہئے۔ اگر کسی کو مذکورہ بحث سے کوئی ایسا تاثر ملا ہو تو بہتر ہے کہ وہ اس کا ازالہ کرلے۔ قبرو برزخ آخرت کی گھاٹیوں میں سے پہلی گھاٹی اور آخرت کا دیباچہ ہے۔ جو اس گھاٹی میں کامیاب ہوجائے گا، اس کی آخرت بھی ان شاء اللہ خوش گوار ہوگی اور جو اس مرحلہ میں ناکام ہوجائے گا، اس کو آخرت میں خسارہ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 

مراجع

۱۔ القرآن الکریم 
۲۔ترجمہ قرآن، شاہ رفیع الدین 
۳۔تفسیر طبری۔ ط:مؤسسۃ الرسالۃ
۴۔ تفسیر ابن کثیر۔ ط:دار طیبۃ 
۵۔ روح المعانی، علامہ آلوسی۔ ط: دار احیاء التراث العربی
۶۔تفسیر بغوی۔ ط: دار احیاء التراث العربی
۷۔ لباب النقول، سیوطی۔ ط: دار احیاء العلوم 
۸۔ تدبرِ قرآن، امین احسن اصلاحی۔ ط:فاران پبلشرز 
۹۔ الاتقان، سیوطی۔ ط: مطبعۃ حجازی 
۱۰۔ التبیان ، محمد علی الصابونی۔ ط: مکتبۃ الغزالی
۱۱۔ صحیح البخاری۔ ط: دار طوق النجاۃ 
۱۲۔ صحیح مسلم۔ ط:دار الغرب الاسلامی 
۱۳۔ سنن ابواود۔ ط: دار الکتاب العربی 
۱۴۔ مسند احمد۔ ط:مؤسسۃ قرطبۃ
۱۵۔ شعب الایمان، بیہقی۔ ط: دار الکتب العلمیہ 
۱۵۔ کنز العمال، علی المتقی۔ ط:مؤسسۃ الرسالۃ
۱۶۔ فتح الباری، ابن حجر۔ ط: قدیمی کتب خانہ کراچی
۱۷۔ الملل والنحل، ابن حزم۔ ط: دار الجیل 
۱۸۔ الروح، ابن قیم۔ ط:دار الحدیث 
۱۹۔ شرح العقیدۃ الطحاویۃ، ابن ابی العز الحنفی۔ ط:مکتبہ حقانیہ 
۲۰۔ العقائد النسفیہ مع شرح النبراس، نجم الدین نسفی۔ ط:مؤسسۃ الشرف 
۲۱۔الیواقیت والجواہر، علامہ شعرانی۔ ط:دار الکتب العلمیہ 
۲۲۔ شرح العقیدۃ الطحاویۃ، عبد الغنی الغنیمی۔ ط: زمزم پبلشرز
۲۳۔ النبراس، عبدالعزیز پرہاروی۔ ط: مؤسسۃ الشرف
۲۴۔ سیرتِ عائشہ، سید سلیمان ندوی۔ ط: شمع بک کمپنی 
۲۵۔ خطباتِ اقبال، ترجمہ شہزاد احمدط: علم وعرفان ببلشرز
۲۶۔ الشریعہ، فروری، اپریل۲۰۱۳ء

برصغیر میں برداشت کا عنصر ۔ دو وضاحتیں

مولانا مفتی محمد زاہد

’’بر صغیر کی دینی روایت میں برداشت کا عنصر‘‘ کے عنوان سے میرا ایک مضمون دو قسطوں میں الشریعہ میں شائع ہوا جو در حقیقت پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کی طرف سے شائع ہونے والے ایک کتابچے کا ابتدائی حصے کے علاوہ باقی حصہ تھا۔ الحمد للہ اس کتابچے اور مضمون کو بہت پذیرائی ملی، بلکہ اتنی پذیرائی کہ مجھے خیال ہونے لگا کہ میں نے ایک فضول کام کیا ہے۔ اس لیے کہ جس بات کو سب مان رہے ہیں، اسے ثابت کرنا تحصیل حاصل کی طرح ہے۔ پذیرائی اور حوصلہ افزائی کرنے والے تمام حضرات کا شکریہ۔ تاہم بہت جلد اس وقت یہ احساس ہوا کہ واقعی یہ باتیں عرض کرنے کی ضرورت تھی جب یک دم اس پر ایک خاص مہم شروع ہوگئی اور موبائل اور دیگر سوشل میڈیا کے ذریعے ناقابلِ بیان قسم کے پی ٹی آئیٍ ٹائپ پیغامات آنے لگے۔ مجھے ان سے بھی کوئی گِلا نہیں، اس لیے کہ جس طرح کی ان نوجونوں کی ذہنی تربیت ہوئی ہے، اس کے مطابق یہ سب کچھ دینی حمیت کے تقاضے سمجھ کر ہی کررہے ہوتے ہیں اور کان إثمہ علی من أفتاہ کے مطابق معذور ہوتے ہیں۔ اس میں میرے لیے یہ پہلو اطمینان کا ہے کہ ایک بے عمل انسان کو مفت میں ان کی حسناتِ مقبولہ حاصل ہوگئیں۔ اللہ تعالی مزید نیکیاں عافیت ہی کے راستے سے عطا فرمائیں۔ 
اسی سلسلے کی ایک کڑی ایک نوجوان اور جوشیلے عالم اور لکھاری کی وہ تحریر ہے جو دیگر ماہناموں کے علاوہ الشریعۃ میں بھی شائع ہوئی ہے۔ مجھے اس طرح کی تحریروں کا جواب لکھنے کی عادت نہیں ہے، اس لیے کہ جہاں اپنی ذات کے دفاع کا تاثر بھی پیدا ہوجائے وہاں کچھ عرض کرنا اچھا نہیں لگتا۔ دوسرے میری کمزوری یہ ہے کہ میں نے قلم میں روشنائی بھرنا ہی سیکھا ہے، بارود نہیں ۔ اس سے پہلے بھی میرے ساتھ اس طرح کی ’’وارداتیں‘‘ ہوچکی ہیں۔چند سال پہلے جب تصویر کی حرمت کا ’’متفقہ فتویٰ‘‘ آیا تو میں نے صرف یہ عرض کرنے کا گناہ کرلیا تھا کہ تصویر کے کئی پہلو صحابہ و تابعین کے زمانے سے مختلف فیہ چلے آرہے ہیں اور اب تک ہیں، اس لیے ترجیح جسے چاہیں دیں ، تمام آراء کا احترام ملحوظ رہے۔ اس پر اسی طرح کا ایک جوابی مضمون متعدد مجلات میں شائع ہوا تھا ، بلکہ ایک مجلے کے مدیر نے تو فون پر معذرت بھی کی ہم آپ کی بات سے متفق ہیں، لیکن فلاں بڑی شخصیت کے دباؤ کی وجہ سے یہ شائع کرنا پڑا۔ اس وقت بھی میں نے جواب دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی ، اب بھی حالیہ تردیدی مضمون کا جواب دینے کا ارادہ نہیں ۔ ایسی تحریروں کے لیے میرا مختصر جواب یہی ہوتا ہے کہ میرے اصل مضمون کو دوبارہ توجہ اور غور سے پڑھ لیا جائے ۔البتہ جو ایشوز اس تردیدی مضمون میں اٹھائے گئے ہیں اگرچہ وہ یہاں غیر متعلقہ ہیں تاہم کسی اور فرصت میں اگر ارادہ بنا اور ضرورت محسوس ہوئی تو ان پر بھی اپنی طالب علمانہ گذارشات مستقل طور پر پیش کی جاسکتی ہیں۔ اصل میں مسئلے کا ایک پہلو مناظرانہ ہے۔ اس کے تحت کئی بزرگ خاصا کام فرما چکے ہیں اور یہ کہا جاتا ہے کہ ان حضرات نے تقیہ کی چادر اتار کر پھینک دی ہے۔ دوسرا فقہی ، اصولی اور کلامی ہے کہ اس مواد کے سامنے کی بعد کیا تکفیر کے لیے درکار شرائط پوری ہوجاتی ہیں، اس دوسرے پہلو پر تفصیلی کام نہ ہونے کے برابر ہے، اس لیے بذاتِ خود کئی یہ موضوع توجہ طلب تو ہے لیکن میرے مذکورہ مضمون کا اصل موضوع یہ نہیں ہے۔ یہ توقع بھی نہ رکھی جائے کہ ایک شعلہ افگن مضمون کے جواب میں میں کسی بحث میں پڑ جاؤں گا۔
البتہ یہاں دو باتوں کی وضاحت ضروری محسوس ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ سلفی صاحب نے یہ کہا ہے کہ مولانا شمس الحق افغانیؒ نے علوم القرآن میں لکھی گئی اپنی بات سے رجوع کرلیا ہے۔ لیکن اس کے ثبوت کے لیے جس مکتوب کا مختصر سا اقتباس پیش کیا ہے اس میں صرف تصحیح کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ تصحیح کے ارادے ، عملاً تصحیح کرنے اور رجوع میں فرق کے علاوہ یہاں یہ بات اہم ہے کہ حضرت افغانیؒ نے اس سلسلے میں اپنی کتاب میں کیا تبدیلی فرمائی۔ کیا یہ پورا حصہ حذف کردیا، یہ فرمادیا کہ یہ حوالے غلط ثابت ہوئے (جو کہ بظاہر ناممکن ہے) ، کسی حاشیے کا اضافہ فرمایا ، یا ناشرین کو کوئی اور ہدایت فرمائی، یا تصحیح کا ارادہ ظاہر کرنے کے بعد رائے تبدیل ہوگئی ۔ جب تک یہ سامنے نہ ہو تب تک کچھ کہنا مشکل ہے۔ میں نے اپنے طور پر بازار سے پتا کرایا تو پتا چلا کہ اب تک یہ حصہ حسبِ سابق ہی چھپ رہا ہے۔ کسی کے پاس واقعی مولانا کا تصیح شدہ کوئی نسخہ ہو تو اس سے ضرور آگاہ فرمائیں ، ان کی مہربانی ہوگی۔ بالفرض مان لیا جائے کہ انہوں نے علوم القرآن کی یہ پوری کی فصل ہی واپس لینے کا اعلان اور اسے آئندہ شائع نہ کرنے کی ہدایت فرمائی ہوتو تب بھی میری بحث پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایک شخصیت کی بجائے کسی اور کا حوالہ آجائے گا وہ بھی تب جبکہ مولانا افغانی کی اس طرح کی تحریر دستیاب ہوجائے جس میں انہوں نے اپنی بات میں جزوی تصحیح یا توضیح کی بجائے اس سے مکمل رجوع کرلیا ہو ۔ اگر مولاناسلفی کے پاس ایسی تحریر موجود تھی تو اسے اپنے مضمون میں ذکر کرنے کی وجہ سمجھ میں نہیں آسکی۔
دوسری بات یہ ہے کہ میں نے مولانا کرم الدین دبیر (والد مولانا قاضی مظہر حسین رحمہ اللہ) کے کچھ اقباسات پیش کئے ہیں۔ یہاں بھی’’ حمیتِ دینی‘‘ کے غلبے میں سلفی صاحب کو یہ غلطی لگ گئی ہے کہ میں ان کی طرف شیعہ کی عدمِ تکفیر کا قول منسوب کرنا چاہتاہوں۔ اس خاندان کا تکفیر کا قائل ہونا اظہر من الشمس ہے۔ میرے حواس ابھی اتنے صحیح سالم ضرور ہیں کہ میں ایسی غلط بیانی سے بچوں جو چل ہی نہ سکتی ہو اور اس کا غلط ہونا ہر ایک کو معلوم ہو۔ ویسے مولانا دبیر بڑے آدمی ہیں ، لیکن فتوے کی دنیا میں اتنابڑا نام نہیں ہیں کہ تکفیر کے حوالے سے مجھے ان کی بات سے دور از کار استدلال کی ضرورت ہوتی ۔ ان کی بجائے اور کئی نام بآسانی لیے جاسکتے تھے۔ چلتے چلتے ایک مثال اور عرض کردوں، علامہ بحر العلوم ، ملانظام الدین بانی درس نظامی کے صاحبزادے ہیں، لکھنؤ میں رہتے تھے لیکن اہل تشیع کے ساتھ اختلاف بلکہ جھکڑے اور جان کے خطرے کی وجہ سے انہیں لکھنو چھوڑنا پڑا، ان کے لقب بحر العلوم ہی سے ان کے علمی مرتبے کا اندازہ ہوجاتا ہے، ان کی دیگر تصانیف کے علاوہ اصول فقہ پر ایک معروف کتاب ہے فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت ، اس میں وہ عموماً اہل تشیع کا تذکرہ سخت الفاظ میں کرتے ہیں، لیکن جہاں ان کی تکفیر کی بحث آئی ہے وہاں انہوں نے عدمِ تکفیر کومدلل انداز سے ترجیح دی ہے، یہاں ان کی مثال صرف ضمناً یہ عرض کرنے کے لیے دی ہے کہ اگر تکفیر ہی کے حوالے سے کسی کا نام لینا ہوتا تو علامہ بحر العلوم کا لے لیتا جو اہل تشیع کے ڈسے ہوئے بھی ہیں اور فقہی دنیا میں مولانا دبیر کے مقابلے میں بہت بڑا نام ہیں۔ لیکن یہاں مدعا ہی اور ہے۔ میں نے مولانا کرم الدین دبیر کی عبارتیں اس سیاق میں پیش کی ہیں کہ جو حضرات اہلِ تشیع کے خلاف مناظرے کرتے رہے ان میں بھی سنجیدہ حضرات ایسے بھی تھے جن کی بھر پور یہ خواہش ہوتی تھی کہ ماحول میں کشیدگی پیدا نہ ہو۔ میرے اس مدعا پر مولانا کرم الدین کی عبارتیں واضح طور پر دلالت کر رہی ہیں۔ اگر اس کے ساتھ یہ ملا لیا جائے کہ وہ بعد میں تکفیر کے بھی قائل ہوگئے تھے (اگرچہ حاشیے میں انہوں نے کفر کا لفظ استعمال نہیں کیا، اسلام سے واسطہ نہ ہونے کے لازمی معنی تکفیر کے نہیں ہوتے، تاہم ویسے حقیقت یہی ہے کہ وہ اور ان کے صاحبزادے تکفیر کے قائل تھے) تو میرا استدلال اور پختہ ہوجاتا ہے کہ اہل تشیع سے مناظرے کرنے اور تکفیر کا فتوی رکھنے کے باوجود وہ کہہ رہے ہیں کہ ماحول میں تلخی پیدا نہ ہونے پائے ، اب ذرا یہ بات ذہن میں رکھ کر وہ شیعوں کے کفر کے قائل تھے درجِ ذیل اقتباسات دوبارہ پڑھئے ، ان کا مزا بڑھ جائے گااورماحول کو تلخی سے بچانے کے حوالے سے میرا استدلال اور مضبوط ہوتا نظر آئے گا کہ یہ باتیں وہ شخص کہہ رہا ہے جو ان کی تکفیر کاقائل ہے:
’’افسوس کہ آج کل انقلاب زمانہ سے ایسا تو کوئی مردِ خدا دنیا میں ڈھونڈنے سے نہیں ملتا جو بنی نوع انسان [بنی نوع انسان کا لفظ اہم ہے ]میں اتفاق اور اتحاد بڑھانے کی سبیل پیدا کرنے کی سعی کرے۔لیکن اختلاف ڈالنے اور تفرقہ پیدا کرنے والے ہزاروں پہلوان ہر طرف گونجتے پھرتے ہیں ‘‘
’’صاحبان! جب تک دونوں فرقوں میں ایسے مجذوب الخیال اور مسلوب الحواس لوگ چن چن کر ’’کالا پانی‘‘ نہ بھیج دیے جائیں ان دونوں فرقوں میں یکجہتی اور اتحاد قائم ہونا مشکل ہے‘‘۔ 
میرا خیال ہے کہ مولانا کرم الدین کے پیروکاروں کو میرے جیسے غریب طالب علموں کی خبر لینے کی بجائے ان کی اس تجویز پر عمل کی کوئی سبیل ڈھونڈنی چاہیے۔
بہر حال میں نے شیعہ سنی مسئلے کے حوالے سے تاریخی تناظر میں تین باتیں کہیں۔ ایک یہ کہ بطور فرقہ شیعہ کی تکفیر اہل السنت کا متفقہ فتوی نہیں ہے ۔ دوسرے یہ کہ ملی تحریکات میں وہ شامل رہے ہیں(شامل کرنا چاہئے یا نہیں یہ میرا موضوع اور مسئلہ نہیں ہے، یہ ان قائدین کے فیصلے کا کام ہے جو میدان میں ہیں، میرے مضمون کا مقصد تو تاریخ کا یہ گوشہ واضح کرنا تھاکہ ایسا بھی ہوتا رہا ہے) تیسرے یہ کہ جو حضرات شیعوں کے کام خلاف کرتے رہے ہیں وہ بھی اس طرح کے ماحول کے روادرا نہیں تھے جو آج کل بنا ہوا ہے (موجود ماحول کے اسباب اور ذمہ داری کا تعین بھی میرے مضمون کے موضوع سے خارج ہے) ، تیسری بات کے سلسلے میں مولانا کرم الدین کے حوالے میں میں نے نقل کئے ہیں، ان حوالوں کا پہلی بات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔پہلی اور تیسری بات کے درمیان متعدد صفحات کا فاصلہ ہے۔ قارئین سے گذارش ہے کہ میرے مضمون میں جہاں سے مولانا کرم الدین کے حوالے شروع ہورہے ہیں وہاں سے میری تمہید ایک مرتبہ پھر دیکھ لیں۔
تاہم ایک جگہ میرے الفاظ ہیں’’احمد شاہ عیسائی کے ساتھ ان شیعہ صاحب کا تقابل کرتے ہوئے مؤخر الذکر سے شکوہ کناں ہیں کہ انہیں مسلمان ہو کر ایسا اقدام نہیں کرنا چاہئے تھا‘‘ یہاں مسلمان کا لفظ بھی تکفیر عدمِ تکفیر کے حوالے سے نہیں بلکہ شیعہ بمقابلہ عیسائی ہے۔ تاہم پھر بھی اگر سلفی صاحب کی تسلی نہ ہو تو خط کشیدہ لفظ کی جگہ ’’مسلمان کہلا کر‘‘ پڑھ لیا جائے تب بھی میرا مدعا حاصل ہے۔جو صاحب بھی آئندہ میری تحریر شائع کریں وہ یہی متبادل لفظ اختیار فرمالیں۔ بس اتنی سی بات تھی۔ ۔۔خاص اس عبارت کی نشان دہی بھی سلفی صاحب نے نہیں کی، میں نے ازخود ڈھونڈی ہے۔۔ اس لفظ کے علاوہ پورے مضمون میں ایک لفظ بھی ایسا نہیں ہے جس سے وہ اعتراض پیدا ہوتا ہو جس کی عمارت خواہ مخواہ کھڑی کرلی گئی۔ اگر سیاق وسباق پر غور کرنے میں دقت ہورہی تھی تو ایک چھوٹے سے خط کے ذریعے ہی پوچھ لیتے تو مسئلہ حل ہوجاتا۔
یہاں یہ بھی عرض کردوں کہ شیعہ سنی مسئلے پر تاریخی تناظر میں جو تین باتیں میں نے کہی ہیں، ان پر پورے شرح صدر کے ساتھ اب بھی قائم ہوں۔ سنا ہے کہ ایک طریقۂ واردات یہ بھی چلتا ہے بعض اوقات خود ہی یہ مشہور کردیا جائے کہ فلاں صاحب نے میرے کہنے پر رجوع کرلیا ہے۔ جیسے میڈیا والے کہتے ہیں کہ ہماری خبر پر فلاں حاکم نے فلاں معاملے کا نوٹس لے لیا ہے۔ اگر اپنی غلطی سمجھ آجائے تو اس سے رجوع کرنا انسان کا فرض ہے، لیکن میں تا حال ان تینوں باتوں پر پورے شرح صدر کے ساتھ قائم ہوں۔ میری طرف اس طرح کا کوئی وارداتی رجوع منسوب نہ کیا جائے۔
بات قدرے لمبی ہوگئی ، ہمارے جوشیلے عزیز (اللہ ان کا جوش و جذبہ مثبت کاموں میں استعمال کرائے) نے جو لفظ میرے لیے جا بجا استعمال فرمائے ہیں، ان کے ہوتے ہوئے ان سے تو توقع نہیں کہ وہ میرے مشورے کو کوئی اہمیت دیں گے۔ تاہم دیگر نوجوانوں سے گذارش ہے جب آپ کو کسی کی تحریر پڑھ غصہ آنے لگے اور جواب لکھنے کے لیے جوش پیدا ہو تو ہمیشہ تھوڑا سا توقف کرلیں، اور الگ الگ مجلسوں میں اس تحریر کو ٹھنڈے انداز سے متعدد بار پڑھیں۔ پھر سوچنا شروع کریں کہ اس میں کون سی باتیں قابلِ اعتراض ہیں اور کیا لکھنا ہے ، وگرنہ آپ سے ایسی غلطیاں سرزد ہونے کا امکان ہے جو خود آپ کے لیے پشیمانی کاباعث بنیں گی۔
بس آج اتناہی۔ جوشیلے اور غصیلے مضمون کے باقی اجزا کے بارے میں شیخ سعدی کے لفظوں میں بس یہی کہ:
ندانی کہ مارا سرِ جنگ نیست 
وگرنہ مجالِ سخن تنگ نیست

مکاتیب

ادارہ

(۱)
محترم حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج گرامی؟
میں ایک عرصہ سے ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کا قاری اور آپ کا عقیدت مند ہوں ۔ دینی موضوعات پر ’’الشریعہ‘‘ نے بحث ومذاکرہ کی لائق تحسین روایت قائم کی۔ اللہ کرے یہ جاری وساری رہے۔ البتہ گزشتہ کچھ شماروں میں حضرت مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا چراغ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو جس طرح بلا جواز تنقید کا نشانہ بنایا گیا، اس سے سخت دلی صدمہ ہوا۔ چوہدری محمد اسلم صاحب کی یادداشتوں پر جس طرح محمد یوسف صاحب ایڈووکیٹ نے خامہ فرسائی کرتے ہوئے تحقیقی مجلہ کے ۵۶ میں سے ۱۸ صفحات سیاہ کیے ہیں، وہ بھی لائق توجہ اور ’’الشریعہ‘‘ کے شعار ’’و حدت امت کا داعی اور غلبہ اسلام کا علمبردار‘‘ کے قطعاً مغائر ہے۔
علمی بحث سوچ اور فکر کے دروازے کھولتی ہے۔ یقیناًاس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے، لیکن شخصیات اور جماعتوں کے حوالے سے ذاتی عناد کج بحثی کی شکل اختیار کرے اور ’’الشریعہ‘‘ جیسا تحقیقی مجلہ اس رجحان کی حوصلہ افزائی کرے تو بہرحال اسے ’’الشریعہ‘‘ کے شایان شان نہ سمجھا جائے گا۔ اللہ ہمارا حامی وناصر ہو۔
عبد الرشید ترابی
امیر جماعت اسلامی، آزاد جموں وکشمیر
(۲)
محترمی ابو عمار زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم
یہ حقیقت ہے کہ ایسے دینی، علمی اور ادبی رسائل کی تعداد بہت کم ہے جن کا ہر مہینے کے آغاز ہی سے انتظار کی صبر آزما گھڑیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ ان جرائد میں آپ کا شائع کردہ ’’الشریعۃ‘‘ بھی شامل ہے جو کچھ عرصے سے باقاعدگی سے پہنچ رہا ہے۔ 
’’الشریعۃ‘‘ کے تازہ شمارہ بابت اگست ۲۰۱۳ء میں ڈاکٹر محمد تمطریف شہباز ندوی (ڈائرکٹر فاؤنڈیشن فار اسلامک اسٹڈیز، نئی دہلی) کا مضمون بعنوان ’’علامہ محمد اسد اور ان کی دینی و علمی خدمات‘‘ شائع ہوا ہے، جس کی نوعیت تعارفی ہے۔ ممکن ہے، عام قارئین کے لیے یہ مفید ہو، لیکن اس میں چند ایسی باتوں کا ذکر کیاگیا ہے، جو وضاحت طلب ، تصحیح طلب یا سیاق و سباق کے بغیر ان کی تفہیم قدرے مشکل ہے۔ سطور ذیل میں انہی چند امور کی جانب بالاختصار نشاندہی کی گئی ہے۔ 
سب سے پہلے چند طباعتی اغلاط، یعنی ان کا سال ولادت ۱۹۹۰ء نہیں بلکہ ۱۹۰۰ء ہے اور ان کی قومیت آسٹریلیائی نہیں بلکہ آسٹریائی ہے۔ ان کے علاوہ چند اور اغلاط بھی پائی جاتی ہیں، لیکن ان سے صرفِ نظر کیا جا سکتاہے، کیونکہ بالعموم ان کا ذمہ دار ناشرہی کو ٹھہرایا جاتاہے۔ 
۱) مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ ’’علامہ محمد اسد پر اب تک تھوڑا بہت تحقیقی کام سامنے آ چکا ہے۔‘‘ اس کے ذیل میں انہوں نے راقم کی دو جلدوں پر مشتمل انگریزی کتاب کا حوالہ دیاہے، جو ۲۰۰۶ء میں منظر عام پر آئی تھی۔ حیرت ہے کہ انہوں نے اس کتاب کو شائع کرنے والی سوسائٹی کا تو ذکر کر دیا ہے، لیکن اس کے مرتب کا نام لکھنا مناسب نہیں سمجھا۔ محمد اسد کی ایک جرمن سوانح کا بھی ذکر کیا ہے، حالانکہ یہ سوانح نہیں بلکہ محمد اسد کی ولادت سے سعودی عرب میں ورود (۱۹۲۷ء) تک کے حالات و واقعات کو مستند دستاویزات اور اساسی منابع کی بنیاد پر قلمبند کیاگیاہے۔ مزید برآں اسد پر ڈاکٹریٹ کے مقالہ خصوصی کا حوالہ دیا گیا ہے، لیکن اس کے مؤلف اور متعلقہ دانشگاہ کا نام تک نہیں لکھا گیا۔ اسی طرح محمد اسد کی حیات، خدمات پر ایک مختصر سی انگریزی کتاب اور نو مسلم جرمن اسکالر مراد ہافمان کے روزنامچہ کا حوالہ دیا ہے، لیکن قاری کی سہولت کے لیے ان کے ناشرین وغیرہ کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔
متذکرہ بالا فقرے میں دو لفظ ’’تھوڑ ا بہت‘‘ استعمال ہوئے ہیں۔ اول تو یہ الفاظ کسی سنجیدہ تحریر میں بری طرح کھٹکتے ہیں پھر بھی مضمون نگار نے ’’تھوڑا‘‘ ذکر تو کر دیا ہے۔ ’’بہت‘‘ کا تذکرہ اجمالاً راقم پیش کر دیتا ہے۔ یہ درست ہے کہ محمد اسد کی بیشتر انگریزی کتب بالخصوص ’’شاہراہ مکہ‘‘ اور قرآن کا انگریزی ترجمہ و تفسیر متعدد بار اشاعت پذیر ہو چکا ہے اور اب تو دنیا کی تقریباً سبھی بڑی زبانوں میں ان کے تراجم بھی چھپ چکے ہیں۔ محمد اسد اپنی تقریباً تمام کتب کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے ناشر بھی تھے۔ تقسیم سے قبل انہوں نے ’عرفات‘ کے نام سے اپنا مطبع قائم کیا تھا اور یہیں سے ’’صحیح بخاری‘‘ کے انگریزی ترجمہ و تشریح کے پانچ حصے طبع ہوئے تھے۔ جنگ عظیم دوم کے اختتام پر انہوں نے ڈلہوزی میں قائم کردہ اسی نام کے مطبع سے ’’عرفات‘‘ کے نام سے سہ ماہی مجلہ کے نو شمارے شائع کیے۔ بعد میں انہوں نے دارالجبرالٹر کے نام سے اشاعت گھر کی بنیاد رکھی اور اپنی وفات تک ان کی تمام کتابوں کے نئے ایڈیشن اسی مطبع کی جانب سے شائع ہوتے رہے (مع ترامیم و اضافات)۔ ان کی رحلت کے بعد بالخصوص برصغیر میں ان کی مقبول ترین کتابوں کی بلا اجازت طباعتوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ اور یہ غیر قانونی دھندا کہیں رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ یہ صورت حال قابل مذمت تو ہے، لیکن یہ ان کی کتابوں کی مقبولیت کا ایک ناقابل تردید ثبوت بھی ہے۔ محمد اسد کی کتابوں کی مسلسل اشاعت اور ان کے تراجم تو تواتر سے چھپ ہی رہے ہیں، لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان کے سوانح حیات اور ان کی علمی ، دینی اور سیاسی خدمات کا محققانہ اور ناقدانہ تجزیہ اور غیر جانبدارانہ محاکمہ پر کوئی ڈھب کی تحریر نظر نہیں آتی۔ ثقہ قارئین بھی اس کمی کو شدت سے محسوس کرتے تھے۔ چنانچہ ان کے پرزور اصرار پر محمد اسد کی حیات و تصانیف پر ایک منصوبے کا آگاز ہوا، جس کے تحت اب تک راقم کی چھ کتابیں (چار انگریزی اور دو اردو) زیور طبع سے آراستہ ہو چکی ہیں۔ ایک کا ذکر تو مضمون نگار نے کر دیاہے۔ اس کے علاوہ ’’محمد اسد۔ایک یورپین بدوی‘‘ (مشتمل بر متفرق مقالات )، ’’محمد اسد۔بندۂ صحرائی‘‘ چھپ چکی ہیں۔ محمد اسد کی ’’شاہراہ مکہ‘‘ ابتدا سے سعودی عرب سے روانگی (۱۹۳۲ء) تک کے حالات پر مبنی ہے۔ اس کا دوسرا حصہ، جو برصغیر میں ان کی آمد (۱۹۳۲ء) سے لے کر وفات تک کے انتہائی اہم حالات پر مشتمل ہے، پہلی بار Home-coming of the Heartکے عنوان کے تحت شائع ہواہے۔ برصغیر کی تحریک آزادی، تشکیل پاکستان اور اس نئی مملکت کے ابتدائی چند برسوں کی سیاسی اتار چڑھاؤ پر ایک مستند دستاویز ہے۔ پانچویں کتاب محمد اسد کے ترجمہ قرآن اور ان کے تفسیری حواشی پر نقد و تبصرہ پر مشتمل ہے (انگریزی) اور آخری یعنی چھٹی کتاب میں مختلف اسلامی موضوعات پر ان کے تحریر کردہ جرمن مقالات کے انگریزی ترجمہ اور ان کی بعض انتہائی نایاب تحریروں کو یکجا کیاگیاہے۔ ان کتابوں کے علاوہ محمد اسد کی زندگی اور ان کی علمی خدمات پر راقم کے انگریزی اور اردو مقالات برصغیر کے مؤقر جرائد اور اخبارات میں بھی چھپ چکے ہیں۔ 
یورپی ممالک میں محمد اسد کو موضوع تحقیق و تدقیق بنانے کے حوالے سے آسٹریا سرفہرست ہے۔ ان دنوں اسد کی جائے ولادت یوکرین میں ہے، لیکن ان کی پیدائش کے وقت یہ علاقہ آسٹروہنگیرین ایمپائر کا حصہ تھا۔ انہوں نے ویانا یونیورسٹی ہی سے اپنی تعلیم مکمل کی۔ یوں ان کی ابتدائی زندگی، خاندانی حالات اور مکمل تعلیمی کوائف یہیں کے نوادر خانوں میں محفوظ ہیں۔ انہی کی بنیاد پر آسٹریا ہی کے ایک اسکالر گیونتر ونڈہاگرنے وہ کتاب سپرد قلم کی (۲۰۰۲ء) جس کا مضمون نگار نے حوالہ دیا ہے۔ اب اسی اسکالر نے اپنا مقالہ خصوصی برائے ڈاکٹریٹ مکمل کیا ہے، جس کا موضوع محمد اسد ، ایک ولندیزی اخبار کے نامہ نگار کی حیثیت سے ہے (بزبان جرمن، ۲۰۰۵ء)۔ دو سال قبل اس کتاب کا عربی ترجمہ بھی سعودی عرب کی وزارت تعلیم نے شائع کیا ہے (۲۰۱۱ء)۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ چند سال قبل آسٹریا کی حکومت نے محمد اسد کی زندگی پر دستاویزی فلم بنوانے کے لیے کثیر رقم مختص کی اور اس فلم کی تیاری کی ذمہ داری ویانا ہی کی ایک معروف کمپنی کو سونپی۔ نوے منٹ پر محیط یہ فلم چار سال میں مکمل ہوئی اور سات ممالک بشمول پاکستان میں اس کی شوٹنگ ہوئی۔ ۲۰۰۸ء میں یہ دستاویزی فلم یورپ کے تقریباً سبھی بڑے سینما گھروں میں دکھائی گئی۔ اس فلم کی زبان جرمن ہے، لیکن اب یہ انگریزی ترجمہ کے ساتھ بھی دستیاب ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ غیر مناسب نہ ہو گا کہ اس دستاویزی فلم کی رونمائی کے موقع پر ان کے بیٹے طلال اسد آسٹریا کی حکومت کی خصوصی دعوت پر ویانا تشریف لائے۔ اس شہر کے میئر نے یو این او سٹی کے مقابل گزرنے والی سڑک کو محمد اسد کے نام سے موسوم کیا۔
عرصہ دراز سے مشرق وسطیٰ کے ممالک میں محمد اسد کی بعض مقبول کتب خاص طور پر ’’شاہراہ مکہ‘‘ کے عربی تارجم شائع ہو رہے ہیں۔ اس ضمن میں سعودی عرب کو دیگر تمام ممالک پر فوقیت حاصل ہے۔ اس ملک کے اولین فرمانروا عبدالعزیز ابن سعود اور شاہی خاندان کے سبھی مقتدر شخصیات سے ان کے قریبی تعلقات تھے۔ پانچ سالہ قیام (۱۹۲۷ء۔۱۹۳۲ء) کے دوران محمد اسد نے یہاں کے تاریخی، سیاسی اور معاشرتی پہلوؤں پر بیسیوں مضامین (بزبان جرمن) لکھے۔ ایک معروف قبیلہ کی خاتون سے شادی کی۔ دور دراز علاقوں میں رہائش پذیر قبائل میں رہ کر قدیم عربی بول چال سے شناسائی پیدا کی۔ بالآخر یہیں سے ان کے ترجمۂ قرآن کا ایک حصہ جو ابتدائی نو سورتوں پر مشتمل تھا، شائع ہوا (۱۹۶۶ء)، لیکن بعض علمائے دین کی آراء کی روشنی میں اس پر پابندی عائد کر دی گئی۔ لیکن اب یہ صورت حال خاصی تبدیل ہو گئی ہے ۔ اس کابیّن ثبوت وہ بین الاقوامی سیمینار تھا، جو ۱۲ اپریل ۲۰۱۱ء میں فیصل فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ریاض میں منعقد ہوا۔ اس علمی اجتماع کا موضوع محمد اسد اور ان کی دینی خدمات تھا۔ راقم کے علاوہ محمد اسد کے آسٹروی سوانح نگار ونڈہاکر اور معروف نو مسلم جرمن اسکالر مراد ہافمان بھی شریک ہوئے۔ محمد اسد کے واحد فرزند طلال اسد اپنی مصروفیات کے باعث خود تشریف نہ لا سکے، البتہ انہوں نے اپنا مقالہ ارسال کر دیا، جو ان کی اہم یادداشتوں اور معلومات پر مشتمل ہے۔ 
۲) محمد اسد طبعاً سیر و سیاحت کا دلدادہ تھا اور ان کے لیے کہیں جم کر بیٹھنا ناممکن تھا۔ مقالہ نگار نے مشرق وسطیٰ کے جن ممالک کے اسفار کاذکرکیا ہے، وہ ان کے سیاحتی ذو ق و شوق سے زیادہ ان کی صحافتی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا تھا۔ انہوں نے ویانا یونیورسٹی سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد فرینکفرٹ کے معروف روزنامہ ’’فرانکفورٹر تسائی تونگ‘‘ (جو اب بھی نام کے ایک لفظ کے ساتھ شائع ہو رہاہے) میں بطور نامہ نگار برائے ممالک مشرق وسطیٰ ملازمت اختیار کر لی اور اس حیثیت سے انہوں نے بیروت سے افغانستان تک دو بار سفر کیے۔ پہلے ۱۹۲۲ء ۔۱۹۲۳ء اور پھر ۱۹۲۴ء۔۱۹۲۶ء میں اور ہر ملک سے ارسال کردہ رپورٹیں اسی اخبار میں شائع ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ ان کی پہلی جرمن کتاب ’’غیر رومانوی مشرق‘‘ کی بنیاد یہی روزنامہ ہے(مطبوعہ ۱۹۲۴ء)۔ جس کا چند سال قبل انگریزی ترجمہ بھی شائع ہوا ہے (لاہور/کوالالمپور ۲۰۰۴ء)
۳) مضمون نگار کے مطابق محمد اسد نے ’’قبول اسلام کے بعد حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی اور قاہرہ میں رشتۂ ازدواج ]میں[ منسلک ہوئے۔ ‘‘ یہ دونوں باتیں مصدقہ ہیں، لیکن ان میں انتہائی اختصار سے کام لیاگیا ہے اور دوسرے ان کو آگے پیچھے کر دیا گیا ہے۔ ان کے متذکرہ بالا آسٹروی سوانح نگار کی تحقیق کے مطابق وہ پہلے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ ان کی پہلی بیوی جرمن تھی نام ایلسا شیمان تھا اور جانی پہچانی مصورہ تھی۔ سال ولادت ۱۸۷۸ء یعنی محمد اسد سے اس کی عمر بائیس سال زیادہ تھی۔ طلاق یافتہ تھی اور پہلے شوہر سے اس کا ایک بیٹا بھی تھا جو اس کے ساتھ ہی رہتا تھا۔ محمد اسد نے پہلے برلین میں عبدالستار خیری کی موجودگی میں اسلام قبول کرنے کا اقرار کیا اور وہیں ان کا اسلامی نام رکھا گیا۔ ان کی زوجہ یعنی ایلسا اور سوتیلے بیٹے ایک ہفتہ بعد دائرہ اسلام میں داخل ہوئے اور ان کے بالترتیب عزیزہ اور رکھے گئے (سابقہ نام ہائنرخ شیمان تھا)۔ کچھ دنوں بعد اس نو مسلم جوڑے نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ کسی اسلامی ملک میں جا کر اپنے قبول اسلام کا بھی اعلان کریں۔ چنانچہ وہ اپنے سوتیلے بیٹے سمیت قاہرہ پہنچے اور یہاں جامعہ الازہر کے سربراہ دیگر علماء اور حاضرین کی کثیر تعداد کی موجودگی میں اپنے مسلمان ہونے کا اقرار کیا۔ جب قاہرہ کے اخباروں میں اس واقعہ کی تفصیلی رپورٹ شائع ہوئی تو اس کو پڑھ کر سعودی عرب کے بانی فرمانروا عبدالعزیز ابن سعود نے انہیں فریضہ حج ادا کرنے کی خصوصی دعوت دی۔ یوں وہ قاہرہ سے سعودی عرب پہنچے اور پہلی بار حج کی سعادت حاصل کی۔ عزیزہ یعنی محمد اسد کی بیوی یہاں کی شدید گرمی برداشت نہ کر سکی اور مکہ میں انتقال کر گئیں اور یہیں انہیں دفن کر دیاگیا (۱۹۲۷ء) ۔ اس کے بعد محمد اسد اور اس کا نوعمر سوتیلا بیٹا چند ماہ اکٹھے رہے، پھر احمد کو بھی واپس آسٹریابھجوا دیا گیا۔ 
۴) محمد اسد نے برصغیر آنے کے بعد لاہور میں مختلف اسلامی موضوعات پر لیکچر دیئے اور پھر انہیں مناسب اضافوں اود تبدیلیوں کے ساتھ کتابی صورت میں ’’اسلام دوراہے پر‘‘ (بزبان انگریزی) کے عنوان کے تحت شائع کرایا (۱۹۳۴ء)۔ مضمون نگار کا کہنا ہے کہ مولانا ابوالحسن علی ندوی (م۔۹۹۹ء) اس کتاب کے معترف تھے اور انہیں کی خواہش پر اس کا اردو ترجمہ شائع کیا گیا۔ بلاشبہ محمد اسد کی اس پہلی کتاب کے اب تک متعدد تراجم منظر عام پر آ چکے ہیں، لیکن مولانا موصوف کی فرمائش پر محمد اسد کی جس کتاب کو اردو میں منتقل کیا گیا، وہ ’’اسلام دوراہے پر‘‘نہیں، وہ ’’شاہراہ مکہ ‘‘ تھی۔ یہ ملخص اردو ترجمہ ’’طوفان سے ساحل تک‘‘ کے زیر عنوان ندوۃ العلماء (لکھنؤ) سے طبع ہوا اور دو تین بار پاکستان سے بھی چھپا۔ اس کا پیش لفظ مولانا موصوف کا تحریر کردہ ہے اور اس کے مطالعہ سے ان کی نظر میں محمد اسد کی علمی و دینی خدمات کی قدر و قیمت کا بخوبی اندازہ ہو جاتاہے۔ مولانا علی میاں کا یہ اہم مضمون راقم کی کتاب ’’محمد اسد۔ایک یورپین بدوی‘‘ (طبع دوم، ۲۰۱۲ء) میں شامل ہے۔ 
۵)پنجاب یونیورسٹی کے زیر اہتمام عالمی اسلامی کلوکیم منعقد ہوا (۲۹ دسمبر ۱۹۵۷ء تا ۸ جنوری ۱۹۵۸ء)۔ اس کے انعقاد اور دیگر انتظامات کے لیے وزارت خزانہ نے مالی اعانت کی ۔ صدر پاکستان نے اس کا افتتاح کیا۔ برصغیر کے ممتاز علمائے دین کے علاوہ مشرق وسطیٰ ، یورپ اور امریکہ کے اسکالروں نے شرکت کی۔ ۱۹۵۷ء کے اوائل میں اس پُروقار علمی اجتماع کے لیے محمد اسد کو خصوصی طور پر بلایا گیا اور وہ اپنی امریکی نومسلم بیوی پولا کے ہمراہ تقریباً سات آٹھ ماہ اس کانفرنس کو کامیاب کرنے میں شبانہ روز مصروف رہے۔ پنجاب یونیورسٹی ہی میں ان کے لیے الگ دفتر قائم کیا گیا، جہاں ان کی بیگم بلامعاوضہ سیکرٹری کے فرائض سر انجام دیتی رہیں۔ جب تمام انتظامات خوش اسلوبی سے طے پا گئے، حتیٰ کہ مندوبین کو ہوائی ٹکٹ بھی ارسال کر دیئے گئے کہ بعض ناگزیر وجوہ کے باعث محمد اسد اپنے عہدہ سے مستعفی ہو گئے۔ حیرت ہے کہ جب اس کانفرنس کی کارروائی پر مشتمل جلد شائع ہوئی (۱۹۶۰ء) تو اس میں محمد اسد کا نام تک موجود نہیں۔ تعجب ہے کہ مضمون نگار کے مطابق یہ کلوکیم ۱۹۸۰ء کے بعد منعقد ہوا۔ نیز اس سے متعلق بہت سی معلومات میں گڈ مڈ کردیاگیاہے۔ 
۶) محمد اسد نے اپنی زندگی کا آخری حصہ سپین کے شہر میخاس میں گزارا اور یہیں ۱۹۹۲ء میں وفات پائی، لیکن انہیں غرناطہ کے مسلمانوں کے قدیم قبرستان میں دفنایا گیا۔ محمد اسد کی حیات و تصانیف کے اولیں محقق اور معروف اسکالر جناب مظفر اقبال (حال مقیم کینیڈا) ان کی امریکی رفیقہ حیات پولا حمیدہ اسد (سنہ وفات ۲۰۰۷ء) سے ملنے کے بعد دعائے مغفرت کے لیے محمد اسد کی قبر پر پہنچے اور اس کی تصویر بھی کھینچی۔ راقم نے یہی تصویر اپنی انگریزی کتاب کے جلد دوم میں ان کے شکریے کے ساتھ شائع کی۔ حیرت ہے، اس کے باوجود مقالہ نگار لکھتے ہیں کہ ’’تدفین کے لیے محمد اسد کو فلسطین لایاگیا ۔ اب وہ غزہ کے مسلم قبرستان میں آرام فرما ہیں۔‘‘
۷) درجہ بالا تسامحات، مصدقہ روایات کی تقدیم و تاخیر اور واقعاتی فروگذاشتوں کے علی الرغم مقالہ نگار نے بعض مصنفین کی دریافت کردہ دستاویزات اور ان کی بنیاد پر تحقیقی نتائج کو بغیر حوالہ دیئے بیان کر دیاہے۔ اس کی واضح ترین مثال محمد اسد کا پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ علوم اسلامیہ کے اولیں سربراہ کی تقرری ہے۔ محمداسد کی زندگی کے اس مخفی گوشے پر سب سے پہلے ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے روشنی ڈالی اور یونیورسٹی ریکارڈ کی قلمی دستاویزوں سے استفادہ کیا۔ حیرت ہے کہ مقالہ نگار نے ان تمام تفصیلات کو ڈاکٹر موصوف کا نام لکھے بغیر من و عن اپنے مضمون کا حصہ بنا لیا، حالانکہ ان کا یہ معلوماتی مقالہ ان کے مجموعہ مقالات بعنوان ’’چلچراغ‘‘ (لاہور، ۲۰۰۷ء، صفحہ ۱۴۱۔۱۷۰) میں شامل ہے۔ علاوہ ازیں اس مقالے کے بیشتر عبارات کو جوں کا توں نقل کر دیاہے۔ مقالہ نگار کا یہ ’’وسیع استفادہ‘‘ علمی دیانتداری کے مسلمہ تقاضوں کے منافی ہے۔ رہی سہی کسر انہوں نے راقم کی انگریزی کتاب (مشتمل بر دو جلد) سے پوری کر دی ہے، جس کے متعلق سوائے اس کے اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ ع ناطقہ گریباں ہے کیا کہیے۔
محمد اکرام چغتائی 
لاہور
(۳)
بخدمت گرامی مولانا حافظ محمد عمار خان صاحب ناصر
السلام علیکم ورحمۃ اللہ !
اگست اور ستمبر کے شماروں میں راقم الحروف کا دو قسطوں میں تکفیرِ شیعہ پر مقالہ شائع کرنے کا نہایت شکریہ ۔ 
ستمبر کے شمارہ میں محترم مولانا حافظ صلاح الدین یوسف صاحب نے اپنے مکتوب میں ہمارے موقف کو دینی حمیت اور ایمانی غیرت قرار دیا ہے، اس لیے ان کا شکریہ ادا کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ حافظ صاحب نے ہمارے مضمون میں شائع ہونے والی چند بر سبیلِ تذکرہ باتوں پر بھی اظہار خیال کیا ہے ۔ مثلاً وہ لکھتے ہیں: ’’دین پر عمل کرنے کے لیے تقلید شخصی ضروری نہیں ۔ صرف علمائے دین کی طرف مراجعت ضروری ہے اور یہ عوام کے لیے ناگزیر ہے اور اہل حدیث عوام فَاسئلو اہل الذکر ان کنتم لاتعلمون کے تحت علماء سے دینی معلومات حاصل کر کے دین پر عمل کرتے ہیں‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ محترم حافظ صاحب نے اس اقتباس میں تقلید کی ضرورت خود بیان کر دی ہے۔ علمائے دین کی طرف مراجعت ، لاعلمی کی حالت میں اہل علم سے سوال کرنے کے حکم الٰہی سے استدلال اور اہل دین سے راہنمائی حاصل کرنے کو عوام کے لیے ناگزیر کہنا تقلید نہیں تو اور کیا ہے؟ 
مکتوب نگار نے مولانا سید عنایت اللہ شاہ بخاری اور ان کے نظریہ سے متعلق ہمارے موقف پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’بلاشبہ حیات برزخی پر امت کا اجماع ہے، لیکن راقم کی معلومات کے مطابق سید عنا یت اللہ شاہ بخاری اور ان کے ہم نوا حیاتِ برزخی کے منکر قطعاً نہیں ہیں۔‘‘ 
اس کے متعلق عرض ہے کہ علمائے اہل سنت کا مسلک یہ ہے کہ حضور اقدس ﷺ کے جسم اطہر کے ساتھ روح مبارکہ کو ایک خاص تعلق حاصل ہے اور اسی تعلق کی بنا پر آپ اپنے روضہ انور پر پڑھا جانے والا صلوٰ ۃ و سلام سماعت فرماتے ہیں اور بالکل یہی بات اہل حدیث عالم مولانا نذیر حسین دہلویؒ نے لکھی ہے کہ ’’حضراتِ انبیاء علیہم السلام اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں خصوصاً آنحضرت ﷺ کہ فرماتے ہیں جو کوئی عند القبر درود بھیجتا ہے میں سنتا ہوں‘‘۔ (فتاویٰ نذیریہ جلد ۳صفحہ ۵۵) جب کہ مولانا سید عنایت اللہ شاہ بخاری ؒ آنحضرت ﷺ کے جسد اطہر کو تو روضہ مبارک میں صحیح و سالم تسلیم کرتے تھے، مگر روح کے تعلق کے منکر تھے اور اسی انکار کی بنا پر صلوٰۃ و سلام کے سماع کا بھی انکار کرتے رہے اور زور و شور سے تقریریں کرتے تھے ۔ 
شاہ صاحب کے نظریے کے متعلق آج سے تقریباً پچاس سال پہلے مولانا محمد اسماعیل سلفی ؒ کوجو مغالطہ ہوا تھا، وہ آج بھی اہل حدیث علماء کو اپنے چکمے میں لیے ہوئے ہے ۔مولانا محمد اسماعیل سلفی مرحوم نے شاہ صاحب کے موقف کو صحیح اور باقی علمائے دیوبند کے مسلک کو کمزور قرار دیا تھا جس کے جواب میں مولانا سید امین الحق شاہ ؒ (شاگردِ رشید علامہ انور شاہ کاشمیریؒ ) نے ایک مستقل کتاب ’’تنبیہ الا غبیاء علیٰ حیاتِ الانبیاء ‘‘تصنیف فرمائی تھی ۔ اب تو اس موضوع پر ڈیڑھ سو کے لگ بھگ کتب وجود میں آچکی ہیں، اس لیے مولانا اسماعیل سلفی مرحوم والے مغالطے کا آج بھی اہل حدیث دوستوں میں موجود رہنا قابل تعجب ہے۔ 
باقی مکتوب نگار کا یہ کہنا کہ ’’دارالعلوم دیوبند کے قیام کے بعد اہل حدیث پر کرم فرمائیاں شدت سے ہونے لگیں‘‘ تو یہ ایک ایسا افسوسناک الزام ہے جس کی ایک عالم دین سے ہمیں توقع نہیں تھی۔ اس بات میں چونکہ سنجیدگی کم اور مسلکی جانب داری زیادہ جھلک رہی ہے، اس لیے ہم اس کو موضوعِ سخن نہیں بناتے۔
حافظ عبد الجبار سلفی
ادارہ مظہر التحقیق ملتان روڈ ‘لاہور
(۴)
تقریبا دوسال قبل ایک دوست کا ایس ایم ایس موصول ہوا کہ علماء کرام کی زیرنگرانی حلال اور پاکیزہ کاروبار مضاربت میں اپنی رقم انویسٹ کریں اور ماہانہ چار سے پانچ ہزار روپے منافع حاصل کریں۔ یہ بات میرے لیے بہت حیران کن بھی تھی اور باعث مسرت بھی میں نے اس دوست سے رابطہ کیا اور مزید تفصیلات معلوم کرنا چاہیں تو پہلے سے زیادہ عجیب اور حیرت انگیز معلومات حاصل ہوئیں۔ اس دوست نے کہا کہ اگر تمہارے پاس اپنے پیسے نہیں تو اپنے جاننے والوں سے کم از کم ایک ایک لاکھ روپے اکٹھے کرکے ہمارے ساتھ کاروبار میں لگوا دو، اس طرح انہیں بھی پورا پورا منافع ملے گا اور تمہیں بھی ہرمہینے ایک لاکھ پر تین سو روپے کمیشن ملے گا۔ اس نے بتایا کہ میں نے اب تک تقریبا نوے لاکھ روپے لوگوں کے اس کاروبار میں لگائے ہوئے ہیں۔ میں نے پوچھا کاروبار کیا ہے؟ اس نے کہا اسکریپ اور ہول سیل کا کاروبار ہے۔
چونکہ اس دوست نے علماء کی زیر نگرانی کاروبار کی بات کی تھی، اس لیے میرا ذہن اس طرف گیا ہی نہیں کہ آیا یہ حلال ہے یا حرام۔ چنانچہ میں نے وقتی طور پر فیصلہ کرلیا کہ لوگوں سے رقم اکھٹی کرکے اس کاروبار میں لگانی چاہیے،لیکن صرف چند ہی دنوں بعد ایک اور پرانے جاننے والے سے ملاقات ہوئی تو اس نے بھی اسی طرح کی آفر کی کہ اپنے زیورات، زمین وغیرہ بیچ کر رقم انویسٹ کرو یا لوگوں سے رقم اکھٹی کرکے ہمیں دو۔ اس صورت میں ایک لاکھ پر پانچ سو روپے کمیشن دوں گا۔ چنانچہ میں نے پہلے والے دوست کو چھوڑ کراس کے پاس لوگوں کی رقم انویسٹ کرنے کا ارادہ کرلیا۔ اسی دوران میری ملاقات ایک تیسرے دوست سے ہوئی۔ اس نے بھی اسی طرح کی آفر کی۔ میں نے پوچھا آپ کا کیا کاروبار ہے ؟ اس نے کہا ہم شہد،زیتون کا تیل اور جوس تیار کرکے انگلینڈ ایکسپورٹ کرتے ہیں۔ مجھے اس بات پر بہت خوشی ہوئی کہ شکر ہے پاکستانی تاجر اس قابل ہوگئے کہ اب ان کا تیار کردہ جوس گورے نوش کریں گے۔
چونکہ یہ بہت حیران کن انکشافات تھے، اس لیے میں نے اس میں مزید دلچسپی لیتے ہوئے معلومات اکٹھی کرنا شروع کردیں۔ انھی دنوں مختلف شہروں میں ’’میزبان‘‘ نام کے اسٹور کھلنا شروع ہوگئے۔ دوست نے بتایا کہ یہ ہمارے سٹور ہیں۔ یہی ہمارا کاروبار ہے اور اسی سے کما کر ہم ہر مہینے لوگوں کو منافع دیتے ہیں، چنانچہ میں نے تحقیقات اور معلومات اکھٹی کرنے کا دائرہ وسیع کردیا۔ کچھ ہی عرصے بعد اطلاع ملی کے کراچی میں کچھ ایسے لوگ جن کے نام کے ساتھ مفتی اور عالم کے سابقے لاحقے لگے ہوئے ہیں، وہ ہر مہینے بیس ہزار منافع دے رہے ہیں۔ یہی وہ پوائنٹ تھا جہاں سے میری تحقیقات کا رُخ دوسری طرف ہوگیا، کیونکہ یہ بات ناقابل یقین تھی کہ ایک لاکھ پر ہر مہینے باقاعدگی کے ساتھ بیس ہزار کی آمدن کیسے ہوسکتی ہے۔ تقریبا پانچ چھ ماہ کی محنت اور معلومات اکٹھی کرنے کے بعد میں جس نتیجے پر پہنچا، اسے میں نے ایک سال قبل اپنے ایک اخباری مضمون میں لکھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ یہ ایک بہت بڑی گیم ہے جس کے پیچھے ملکی اور غیر ملکی ذہین ترین سٹہ باز ہیں۔ چونکہ ائمہ کرام پر لوگ اعتماد کرتے ہیں، اس لیے انہوں نے ان کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں سے رقم اکٹھی کرنا شروع کردی ہے۔ یہ لوگ نئی جمع ہونے والی رقم میں سے ہی کچھ منافع کے نام پر واپس لوٹا دیتے ہیں اور باقی اپنے اکاؤنٹس میں منتقل کردیتے ہیں، چنانچہ ائمہ کرام کو دست بستہ اپیل کی کہ خدا را اس گھناؤنے کھیل سے باہر آجائیں۔ یہ کھیل اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک نئے نئے لوگ پیسے جمع کروا رہے ہیں۔ جس دن نئے جمع کروانے والے کم ہوئے، اس دن یہ گیم ختم ہو جائے گئی، چنانچہ ٹھیک ایک سال بعد ایسا ہی ہوا۔
آج جو صورت حال ہے، وہ آپ حضرات کے سامنے ہے۔ بڑے سٹہ باز بھاگ چکے ہیں، جبکہ دوسری کیٹگری کے کچھ روپوش ہیں اور کچھ گرفتار ہیں، جب کہ تیسری کیٹگری کے ائمہ اور علماء کرام عوام کو منہ دکھانے کے قابل نہیں۔ کئی مدرسوں کو تالے لگا کر بھاگ گئے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں۔ اسی طرح کے ایک شخص کو ایبٹ آباد میں لوگوں نے سرعام مارا پیٹا اور پھر سر،داڑھی،بھنویں مونڈ کر سڑکوں پر گھمایا۔ اس سارے معاملے میں سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ کھربوں روپے کے اس سکینڈل میں حکومت اور عدالتیں بالکل خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں، اور اصل کردار ایک ایک کرکے ملک سے فرار ہورہے ہیں۔ اگرچہ اکثر علمائے کرام اپنی ناسمجھی اور بیوقوفی کی وجہ سے اس گیم میں پھنسے ہیں، لیکن کراچی کے ایک جامعہ سے تعلق رکھنے والے بعض ایسے ناخلف مفتی بھی ہیں جن کو پہلے دبئی کی سیر کرائی گئی۔ پھر واپس آکر انہوں نے نہ صرف اس ناجائز کام کے حق میں فتوے دیے بلکہ مخالفت کرنے والے جید علمائے کرام (بنوری ٹاؤن، وفاق المدارس)پر کڑی تنقید بھی کی اور پھر اس مسند پر بیٹھ کرجہاں ان کو دین اسلام کی ترجمانی اور تشریح کے لیے بٹھایا گیا تھا، اس ناجائز کاروبار کا لین دین بھی کرتے رہے۔ حکومت کو چاہیے کہ فوراً تمام مجرموں کو نہ صرف گرفتار کیا کرے بلکہ قرار واقعی سزا دینے کے ساتھ ساتھ غریبوں کی رقم بھی وصول کرے۔
سید عبد الوہاب شیرازی
mymedia.pk@gmail.com
(۵)
استاد محترم مولانا عمار صاحب نے الشریعہ کے گزشتہ شمارے کے ’’خاطرات‘‘ میں امام شامل‘ کو امیر عبد القادر الجزائری کے ساتھ ملاتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ امام شاملؒ روس کے وظیفہ خوار تھے اور وہ اپنے اہل وطن کو ترک جہاد کا مشورہ دیتے رہے۔ بادی النظر میں استادمحترم سے یہاں بھول ہوئی ہے۔ امام شاملؒ اور امیر عبد القادر کی جہاد کے بعد والی زندگی کا اگر ہم موازنہ کریں تو بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ امام شاملؒ اپنی جہادی زندگی کو سرمایہ افتخار سمجھتے ہیں اور بعد والی زندگی میں انھوں نے اس پر کسی پشیمانی کا اظہار بھی نہیں کیا اور نہ ہی سابقہ جہاد کی تلافی کے سلسلے میں امت کو جہاد سے روکنے کی کوششیں کیں۔ امام نے اپنے ساتھیوں کو جہاد چھوڑنے کی دعوت دی، اس کا ثبوت بہرحال امام کے کردار سے نہیں ملتا۔ ممکن ہے یہ بات دشمن نے امام کی طرف منسوب کی ہو اور دوران جنگ میں اس طرح کی افواہیں پھیلانا دشمن کا پرانا وتیرہ ہے۔ بالفرض اگر اس بات کو تسلیم بھی کر لیں، پھر بھی یہ بات زندگی میں صرف ایک بار ہوئی۔ امام نے اس بات کو امیر عبد القادر کی طرح زندگی کا مشن نہیں بنا لیا تھا اور قید کے دوران قیدی اگر دشمن کے حق میں کوئی بات کہہ دے تو اس کو اس کے ضمیر کی آواز نہیں کہا جاتا۔ البتہ اگر کوئی شخص اپنے کردار وعمل سے اپنے دل اور زبان سے اپنے دشمن کا ہم نوا ہو جائے تو وہ اصلی زیاں کار اور بد نصیب ہوتا ہے۔ امیر عبد القادر کے ساتھ یہی المیہ پیش آیا۔
امیر عبد القادر کی حیات کو سامنے رکھیں تو واضح پتہ چلتا ہے کہ وہ سابقہ جہاد کی تلافی کے سلسلے میں تاحیات امت کو ترک جہاد کا سبق پڑھاتے رہے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ بعد میں امیر عبد القادر کے بیٹے نے اگراپنے طورپر جہاد کرنا شروع کیا تو امیر نے اس کو عاق کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کی۔ دوسری طرف امام شامل جب سلطان عبد العزیز کے پاس پہنچے تو وہاں جا کر سب سے پہلی بات ہی جہاد کے سلسلے میں کہی اور سلطان کو ڈانٹا کہ تم نے جہاد میں ہمارا ساتھ نہیں دیا جس کی وجہ سے آج مسلمانوں کو شکست کے یہ دن دیکھنے پڑے۔
امیر عبد القادر ترک جہاد کے بعد آزادانہ ہر طرف گھومتے پھرتے تھے، حتیٰ کہ دشمن کی مجلسوں میں آنا جانا اور وہاں نامحرم عورتوں سے دوستیاں لگانا اور امام شامل جتنا عرصہ جہاد کے بعد زندہ رہے، حج پر جانے تک مسلسل نظر بند رہے۔ یہ بات سچ ہے کہ نظر بندی کے دوران کچھ عرصہ تک امام شامل کو دشمن نے اچھی خوراک اور رہائش مہیا کی، لیکن نظر بند کو اچھی خوراک سے کیا لینا دینا؟وہ تو نظر بندی کے دکھ سہہ رہا ہے۔ امام کو حج پر جانے کے لیے جو اجازت ملی، وہ اس شرط پر ملی کہ وہ اپنے بیٹوں کو دشمن کی تحویل میں دے کر جائیں گے۔
امام شامل کو دشمن کا وظیفہ خوار ہونے کا جو طعنہ دیا جاتا ہے، وہ بھی بالکل غلط ہے۔ امام جب خیوا میں نظر بند تھے تو مرکزی حکومت شہری حکام کو رقم دیتی تھی۔ شہری حکام اس رقم سے جہاں امام کی ضروریات کو پورا کرتے تھے، وہاں وہ اس رقم سے امام کے اوپر مخبر بھی مسلط کرتے تھے اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ قیدیوں اور نظر بند افراد پر حکومتیں جو اخراجات کرتی ہیں، اس کو وظیفہ خواری نہیں کہا جاتا۔ دوسری طرف امیر عبد القادرکو فرانس گورنمنٹ کی طرف سے سالانہ ایک لاکھ فرانک ملتا تھا جو کہ عیسائی شدت پسندوں کی حفاظت کرنے کے صلے میں ڈیڑھ لاکھ فرانک ہو گیا تھا۔ اس کو وظیفہ، صلہ اور انعام کہتے ہیں۔
امام شاملؒ اور امیر عبد القادر کے درمیان فرق اس لحاظ سے بھی بڑا واضح ہے کہ امام شامل کے جانشین آج بھی کوہ قاف کے پہاڑوں پر روسی فوج کے خلاف جہاد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں او راپنے گرم ومشک بار لہو سے شجاعتوں کی داستانیں رقم کر رہے ہیں اور امیر عبد القادر کو آج چند غیر مسلموں اور ذہنی طور پر پریشان لوگوں کے سوا کوئی جانتا بھی نہیں۔
محمد شفیع (فاضل جامعہ عبیدیہ، فیصل آباد)

شہوانی جذبات میں اضافے کی وجوہات

حکیم محمد عمران مغل

کچھ عرصہ قبل کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور کے نیک دل ڈاکٹر صاحبان یہ دیکھ کر تڑپ کر رہ گئے کہ ہمارے معاشرے میں نئی نسل کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور اسے کیسی خوراک کھلائی جا رہی ہے۔ انھوں نے دنیا بھر سے چیدہ چیدہ ڈاکٹر صاحبان کو اکٹھا کر کے اس پر غور وخوض کیا۔ ان کی کوشش رنگ لائی اور شہید صدر ضیاء الحق کو دنیا بھر کے ان ڈاکٹر صاحبان کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔ جنرل صاحب کو بتایا گیا کہ گوالے چوپایوں کا دودھ دوہنے سے پہلے اسے ایک انجکشن لگاتے ہیں جس سے جانور فوراً سارا دودھ پھینکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹروں نے ضیاء مرحوم کی خدمت میں یہ بھی عرض کیا کہ اس دودھ پر پلنے والا کوئی بچہ جب بالغ ہوگا تو رات کو اسے اپنے شہوانی جذبات کی تسکین کیے بغیر نیند نہیں آئے گی۔ اس انجکشن کا نام آکسی ٹاکسین ہے او ریہ بے حد سستا مل جاتا ہے۔ 
اس کے علاوہ ایک دوسرا کیمیاوی مرکب جسے عرف عام میں وٹامن اے اور وٹامن ڈی کا مرکب کہا جاتا ہے، یعنی ڈالڈا گھی، وہ بھی یہی اثرات پیدا کرتا ہے۔ صابر ملتانی مرحوم نے فرمایا تھا کہ ڈالڈا گھی استعمال کرنے والی قوم ایک دن روئے گی۔ رنگ برنگے کولڈ ڈرنکس اور گرمیوں میں دودھ سوڈے کا استعمال اس پر مزید ہے۔ قرشی دواخانہ کے نامی گرامی معالجین نے اس دودھ کو زہر کا پیالہ بتایا ہے۔ پھر ہفتہ ہفتہ کے پکے ہوئے باسی پکوان جنھیں فریزر میں محفوظ کر لیا جاتا ہے، جبکہ ان کی افادیت ختم ہو چکی ہوتی ہے۔ چار گھنٹے تک رکھا جانے والا دودھ اپنی اصلیت کھو دیتا ہے۔ اب تو پیکٹ کا دودھ آ گیا ہے جس میں پتہ نہیں کیسے کیسے کیمیاوی مادے ملائے جاتے ہیں۔ فصلوں میں کھاد ملائی جا رہی ہے۔ عام شنید یہی ہے کہ جب سے ڈالی گئی کھاد، تب سے صحت ہوئی برباد۔ شوگر کے مرض نے بھی تب سے ہی سر اٹھایا ہے۔
جہاں تک ہو سکے، ان اشیاء سے بچیں۔ میں نے جن حضرات کو ڈالڈا کی بجائے چوپایوں کی چربی اور سرسوں کے تیل سے تیار شدہ کھانا کھانے کا کہا، انھیں شروع میں تو کچھ تکلیف محسوس ہوئی، لیکن رفتہ رفتہ وہ کافی بہتری محسوس کر رہے ہیں۔ پرہیز کے ساتھ ساتھ کسی اچھے معالج یا دواخانہ کی تیار کردہ جوارش جالینوس آدھا چمچ کسی کھانے کے بعد عرق سونف یا پانی سے استعمال کرتے رہیں۔ ان شاء اللہ زندگی کی گاڑی رواں دواں رہے گی۔ کھانے کے ساتھ دہی لازماً استعمال کیا جائے۔

نومبر ۲۰۱۳ء

الشریعہ اور ہائیڈ پارکمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
بین الاقوامی قوانین اور اسلامی تعلیماتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
دعوت دین اور انبیاء کرام علیہم السلام کا طریق کارمولانا امین احسن اصلاحیؒ
فقہ شافعی اور ندوۃ العلماءمولانا عبد السلام خطیب بھٹکلی ندوی
اسلام، جمہوریت اور مسلم ممالکقاضی محمد رویس خان ایوبی
’’میری علمی و مطالعاتی زندگی‘‘ (ڈاکٹر اسلم فرخی)عرفان احمد
نفاذ اسلام کے لیے مسلح جدوجہد کا راستہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مکاتیبادارہ
’’حیات ابوالمآثر علامہ حبیب الرحمان الاعظمیؒ‘‘ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

الشریعہ اور ہائیڈ پارک

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ہمارے انتہائی مہربان اور فاضل دوست پروفیسر ڈاکٹر محمد امین صاحب کی زیر ادارت لاہور سے شائع ہونے والے اہم علمی و فکری جریدہ ماہنامہ ’’البرہان‘‘ کے ستمبر ۲۰۱۳ء کے شمارے میں جامعہ ہمدرد کراچی کے ایک فاضل بزرگ جناب فصیح احمد کا مضمون ’’تار عنکبوت‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے مولانا وحید الدین خان کے بعض افکار کا ناقدانہ جائزہ لیا ہے اور اس میں ’’الشریعہ‘‘ کی پالیسی کے حوالہ سے بھی کچھ ارشاد فرمایا ہے جو درج ذیل ہے:
’’ایک بات ہم مدیر البرہان ڈاکٹر محمد امین صاحب کی خدمت میں بصد احترام عرض کرنا چاہتے ہیں کہ البرہان ایک نظریاتی، تحقیقی اور علمی رسالہ ہے لہٰذا اس رسالے میں مضامین کا چناؤ اور مضامین کی اشاعت کے حوالہ سے بھی علمی تحقیقی رویہ اپنانا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ قارئین کو علمی و فکری انتشار سے بچایا جائے۔ انتشار ذہنی سے بچنے کے لیے اس بات کی کوشش کی جائے کہ ایسے گمراہ کن اور غیر علمی مضمون کو رسالے میں چھاپنے کی ضرورت ہی نہیں اور اگر کسی مصلحت کے تحت کبھی شائع کرنا ضروری ہو تو پہلے کسی اہل علم کو وہ مضمون بھجوا دیا جائے اور ان سے جواب لکھوایا جائے۔ مضمون کا جواب ملنے کے بعد اس مضمون کے ساتھ اس جواب کو بھی شائع کر دیا جائے تاکہ قارئین دونوں کے موقف کو سامنے رکھ کر رائے قائم کر سکیں، کیونکہ بسا اوقات قاری ایک ماہ کا رسالہ پڑھنے کے بعد دوسرے ماہ اس کا جواب کسی وجہ سے نہیں پڑھ سکا تو اس قاری کے فکری انتشار یا گمراہی کا ذمہ دار کون ہوگا؟ ہم سمجھتے ہیں کہ قارئین البرہان کو علمی و فکری انتشار سے بچانے کا اس سے بہتر اور مناسب کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔ ہماری عاجزانہ رائے یہ ہے کہ البرہان کو ہائیڈپارک نہیں بننا چاہیے۔ دینی علمی رسالوں کو ہائیڈ پارک میں تبدیل کرنے کا کام مولانا زاہد الراشدی صاحب نے الشریعہ کے ذریعہ بخوبی انجام دیا ہے۔ دنیا بھر کی غلط سلط تحریریں نہایت کروفر کے ساتھ الشریعہ میں شائع ہوتی ہیں۔ انتشار پھیلانے کے اس عمل کو وہ آزادانہ رائے اور علمی ترقی کہتے ہیں۔ موصوف جاوید غامدی صاحب کے نظریات اپنے صاحبزادے کے سائے میں پھیلانے کا کام کر رہے ہیں، تجدیدِ دین کے نام پر تجدد عام ہو رہا ہے۔‘‘
’’الشریعہ‘‘ کے بارے میں جناب فصیح احمد کے ارشادات پر کچھ معروضات پیش کرنے سے پہلے ہم ان کا تہہ دل سے شکریہ ا دا کرتے ہیں کہ انہوں نے علمی و فکری مسائل پر باہمی تبادلۂ خیالات اور مباحثہ و مکالمہ کی اہمیت و افادیت کے ساتھ ساتھ دونوں طرف کے مضامین کو ایک ہی فورم پر شائع کرنے کی ضرورت بیان کر کے ہمارے اس موقف کی اصولی طور پر تائید فرما دی ہے کہ علمی و فکری مسائل پر مکالمہ و مباحثہ ہونا چاہیے اور کوئی ایسا فورم بھی ضرور موجود ہونا چاہیے جہاں کسی مسئلہ پر مختلف موقف رکھنے والے دو یا دو سے زائد فریقوں کا موقف یک جا شائع ہو تاکہ قارئین کو سب لوگوں کا موقف سامنے رکھ کر رائے قائم کرنے میں آسانی رہے۔ الشریعہ گزشتہ ربع صدی سے یہی خدمت سر انجام دے رہا ہے اور ہمیں خوشی ہے کہ ہماری پالیسی پر ناقدانہ نظر رکھنے والے علمی حلقوں میں بھی اس کی اہمیت و ضرورت کا احساس پیدا ہو رہا ہے، فالحمد للہ علیٰ ذلک۔
البتہ محترم جناب فصیح احمد کے ان تحفظات کے حوالہ سے کچھ عرض کرنا بھی ضروری ہے جن کا اظہار انہوں نے اس ارشاد گرامی میں کیا ہے۔ مثلاً انہوں نے فرمایا ہے کہ الشریعۃ نے ’’ہائیڈ پارک‘‘ کا کردار ادا کرنا شروع کر رکھا ہے۔ ہمارے خیال میں انہیں اس تشبیہ کے لیے لندن کا طویل سفر کرنے کی ضرورت نہیں تھی، لاہور کا ’’موچی دروازہ‘‘ ان کے جذبات کے اظہار کے لیے کافی تھا۔ باغ بیرون موچی دروازہ یا ملک کے مختلف حصوں میں منعقد ہونے والے مذہبی اور سیاسی جلسوں میں ہمارے ہاں ایک دوسرے کے خلاف جو زبان استعمال ہوتی آرہی ہے، اسے سامنے رکھتے ہوئے ’’ہائیڈ پارک‘‘ کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ ہم اس معاملہ میں خود کفیل نظر آتے ہیں۔ 
ہمیں اعتراف ہے کہ ’’الشریعہ‘‘ میں گزشتہ ربع صدی کے دوران شائع ہونے والے بہت سے مضامین کی زبان ’’ہائیڈ پارک‘‘ اور ’’موچی دروازہ‘‘ سے مختلف نہیں ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ زبان کس نے استعمال کی ہے؟ اگر یہ زبان اور لہجہ و اسلوب ’’الشریعہ‘‘ کی طرف سے اختیار کیا گیا ہے تو ہم مجرم ہیں۔ جناب فصیح احمد الشریعہ کی گزشتہ فائلیں چیک کر کے جہاں جہاں نشان دہی کریں گے، ہم اس پر کھلے دل سے معافی مانگیں گے۔ لیکن اگر ایسے مضامین ہم نے خود جناب فصیح احمد کی بیان کردہ ضرورت کے مطابق جوابی موقف کے طور پر مجبورًا شائع کیے ہیں تو اس کا بار ’’الشریعہ‘‘ پر ڈالنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ہماری یہ معاشرتی مجبوری بن گئی ہے کہ ہم علمی، فکری اور تحقیقی مباحث میں بھی (چند مستثنیات کے ساتھ) ہائیڈ پارک کی زبان بولنے اور موچی دروازے کا لہجہ و اسلوب اپنانے کے عادی ہیں۔ ’’الشریعہ‘‘ اسی منفی معاشرتی رویے کو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور ارباب علم و فضل کے عمومی ماحول کو یہ احساس دلانے کی سعی میں مصروف ہے کہ علمی و فکری مسائل میں علمی و فکری اسلوب اور زبان اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ جناب فصیح احمد جیسے اصحابِ دانش پر تعجب ہوتا ہے کہ وہ ’’ہائیڈ پارک ‘‘ میں کھڑے لوگوں سے تو کچھ کہنے کی ضرورت محسوس نہیں کر رہے ،ہیں لیکن انہیں ’’ہائیڈ پارک‘‘ کے ماحول سے باہر آنے کی دعوت دینے والوں پر ان کی ناراضگی کا سارا نزلہ گر رہا ہے۔
رہی بات مضامین کے معیار اور انتخاب کی تو اس سلسلہ میں دو باتیں قابل توجہ ہیں، ایک یہ کہ ہم متعدد بار ’’الشریعہ‘‘ کے صفحات میں یہ اپیل کر چکے ہیں کہ مضمون نگار حضرات علمی و تحقیقی لہجہ میں بات کریں اور باہمی الزام تراشی اور طعن و تشنیع سے گریز کرتے ہوئے علمی اندا زمیں اپنا موقف بیان کریں۔ ہماری اس اپیل کا دھیرے دھیرے اثر ہو رہا ہے اور بحمد اللہ تعالیٰ پہلے سے ’’افاقہ‘‘ دکھائی دینے لگا ہے۔ لیکن اس میں بہرحال وقت لگے گا اور ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ تعالیٰ علمی مباحث میں علمی زبان و اسلوب کا ماحول عام کرنے میں ضرور کامیابی ہوگی۔ ہماری مجبوری یہ ہے کہ ایک طرف کا موقف شائع ہوا ہے تو دوسری طرف کا موقف شائع کرنا بھی ضروری ہے، لیکن وہ موقف ایسے لہجے اور اسلوب میں ہے کہ جناب فصیح احمد صاحب کے معیار پر پورا نہیں اترتا تو ہماری ترجیح یہ ہوتی ہے کہ زبان و اسلوب کی کمزوری کو نظر انداز کرتے ہوئے موقف کو شائع کر دیا جائے، ہو سکتا ہے دونوں مضامین کے تقابل میں خود صاحب مضمون کو اس بات کا احساس ہو جائے۔ 
دوسری بات یہ کہ کن عنوانات پر بات ہونی چاہیے اور کن موضوعات کو نظر انداز کر دینا چاہیے؟ ہماری رائے یہ ہے کہ اسلام کی تعبیر و تشریح اور نفاذِ اسلام کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں عالمی اور قومی سطح پر جو امور زیر بحث آتے ہیں ان پر بات ضرور ہونی چاہیے اور مختلف علمی مکاتب فکر کے نقطۂ نظر کو قارئین کے سامنے آنا چاہیے۔ 
ہماری ایک معاشرتی اور نفسیاتی مجبوری یہ بھی ہے کہ وقت کی ضروریات کا تعین اپنے اپنے دائروں میں ہم خود ہی کر لیتے ہیں، حالانکہ وقت نہ اپنی رفتار میں ہمارا انتظار کر رہا ہوتا ہے اور نہ اپنی ضروریات کا تعین ہم سے پوچھ کر کرتا ہے، اس کی رفتار بھی اپنی ہوتی ہے اور ضروریات کا دائرہ بھی اپنا ہوتا ہے، مگر ہماری الجھن یہ ہے کہ جو بات ہماری ترجیحات میں شامل ہو جاتی ہے وہ وقت کی ضرورت کا درجہ اختیار کر لیتی ہے، اور جو عنوان یا موضوع ہماری ذاتی یا گروہی ترجیحات کا حصہ نہیں بن پاتا، اسے ہم سرے سے وقت کی ضروریات کے دائرے سے خارج قرار دینے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں۔ 
اس سلسلے میں بسا اوقات عجیب و غریب لطیفے رونما ہو جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ہمارے ہاں یہ بحث چلی کہ گستاخ رسولؐ کے لیے توبہ کی گنجائش ہے یا نہیں؟ ملک کے علماء کرام نے عمومی طور پر یہ موقف اختیار کیا کہ موجودہ حالات میں اس کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ ہم نے بھی اس سے اختلاف نہیں کیا، لیکن جب اس بات کو علمی موقف کے طور پر بیان کیا جانے لگا تو یہ کہا گیا کہ احناف کا موقف بھی یہ ہے۔ ہم نے اس سے اختلاف کیا اور عرض کیا کہ احناف کا متفقہ موقف یہ نہیں ہے اس لیے کہ امام ابو یوسفؒ اور امام ابوجعفر طحاویؒ نے گستاخ رسولؐ کے لیے صراحتاً توبہ کی گنجائش لکھی ہے جبکہ علامہ ابن عابدین شامیؒ نے اس پر مستقل رسالہ تحریر کیا ہے کہ گستاخ رسولؐ کے لیے توبہ کی گنجائش کا نہ ہونا احناف کا متفقہ موقف نہیں ہے۔ اس لیے اگر حالات کے تقاضے کے تحت اس موقف کو اختیار کرنا ضروری ہو تو اس میں مضائقہ نہیں، لیکن اسے احناف کا متفقہ موقف نہ کہا جائے۔ اس پر ہمارے بہت سے دوست چیں بہ جبیں ہوئے اور بعض احباب نے تو چائے کی پیالی میں طوفان کھڑا کرنے کی کوشش بھی فرمائی۔ لطیفے کی بات یہ ہے کہ ایک انتہائی مہربان اور صاحب علم دوست نے ذاتی ملاقات میں ہم سے فرمایا کہ بات تو آپ کی ٹھیک ہے، مگر اسے اس وقت بیان کرنے اور لکھنے کی ضرورت نہیں تھی، ہم نے عرض کیا کہ اگر اس وقت ضرورت نہیں تھی تو احناف کے موقف کی صحیح پوزیشن بیان کرنے کی ضرورت کیا قیامت کے دن پیش آئے گی؟ 
اسی طرح یہ مسئلہ کہ کیا پاکستان میں نفاذِ اسلام کے لیے ہتھیار اٹھانا درست ہے یا نہیں؟ ہم ایک عرصہ سے گزارش کر رہے ہیں کہ نفاذِ اسلام کی جدوجہد کی ضرورت ہے اور اس کے لیے پر امن جدوجہد کا ہر حربہ اختیار کرنا ہمارے لیے دینی فریضہ کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن ہتھیار بدست ہو کر اس مقصد کے لیے عسکری جنگ لڑنا درست نہیں ہے۔ اس پر ہمارے ایک انتہائی مہربان دوست جن کی دینی و جہادی خدمات کے ہم ہمیشہ معترف رہے ہیں، دور دراز سفر کر کے گوجرانوالہ تشریف لائے اور بڑے خلوص و خیر خواہی کے ساتھ فرمایا کہ آپ کا موقف درست ہو سکتا ہے، لیکن اس کے اظہار کا وقت یہ نہیں ہے، اس لیے ابھی اس بارے میں خاموشی اختیار کر لیں۔ میں نے عرض کیا کہ میرے بھائی! اس وقت نہ صرف پاکستان میں بلکہ پورے عالم اسلام میں اس موضوع پر بحث جاری ہے کہ نفاذِ اسلام کے لیے عسکری جدوجہد جائز ہے یا نہیں؟ اس لیے میرے خیال میں یہی وقت ہے کہ ہم اپنے موقف کا وضاحت کے ساتھ اظہار کریں۔ آپ ہمارے موقف سے اختلاف کریں، لیکن ہمیں اپنے موقف کے اظہار کے حق سے تو محروم نہ کریں۔ 
اس سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی کی وفات پر منعقد ہونے والی مجالس میں حاضری میرا معمول نہیں ہے، اکثر اوقات معذرت کر دیتا ہوں، لیکن اگر کہیں عمومی دینی مصلحت کے پیش نظر شریک ہونا ضروری ہو جاتا ہے تو وہاں اپنی گفتگو میں یہ وضاحت کر دیتا ہوں کہ اس قسم کی مجالس محض رسمی ہوتی ہیں، ان کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہوتی بلکہ اگر انہیں شرعی حیثیت دی جائے تو یہ بدعت کا درجہ اختیار کر لیتی ہیں۔ ایسی ہی ایک محفل میں یہ بات میں نے قدرے وضاحت سے بیان کی تو ایک دوست نے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ لوگ غم کے لیے جمع تھے، یہاں یہ بات کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ میں نے عرض کیا کہ کیا یہ بات مجھے شادی کی کسی محفل میں بیان کرنی چاہیے تھی؟ میرے بھائی! بات وہیں کہی جائے گی جو اس کا موقع ہوگا اور جہاں اس کی ضرورت ہوگی۔ 
اس لیے ہمارا موقف یہ ہے کہ اسلام کے حوالے سے عالمی اور ملکی سطح پر یا معاشرتی ماحول میں جس مسئلہ پر گفتگو چل رہی ہو یا جو سوال سامنے آجائے، اس پر اظہار خیال اہل دین کی ذمہ داری بن جاتا ہے اور کسی موضوع سے یہ کہہ کر گریز کرنا درست نہ ہوگا کہ وہ ہماری گروہی یا مسلکی ترجیحات میں شامل نہیں ہے، البتہ ایک دوسرے کے موقف اور دلائل سے ضرور واقف ہونا چاہیے اور موقف کے اظہار کے لیے زبان اور اسلوب و لہجہ کو متوازن رکھنا چاہیے۔ 
محترم فصیح احمد صاحب نے جناب جاوید احمد غامدی اور ان کے حلقۂ فکر کے بعض احباب کے مضامین کی ’’الشریعہ‘‘ میں اشاعت کا ’’طعنہ‘‘ بھی دیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی نظر صرف ان مضامین پر پڑی ہے اور انہی صفحات میں ان کے جواب میں شائع ہونے والے بیسیوں مضامین ان کی نظر کی توجہ حاصل نہیں کر سکے۔ حالانکہ غامدی صاحب کے بہت سے افکار پر متعدد اصحابِ قلم نے ناقدانہ قلم اٹھایا ہے اور ’’الشریعہ‘‘ نے تفصیل و اہتمام کے ساتھ انہیں شائع کیا ہے۔ خود راقم الحروف کے ایک درجن سے زائد مضامین ’’الشریعہ‘‘ میں شائع ہوئے ہیں جن میں غامدی صاحب کے افکار پر نقد کیا گیا ہے، حتیٰ کہ عمار خان سلّمہ نے بھی (جسے غامدی صاحب کے افکار کے فروغ کا ذریعہ قرار دینے کی ’’زیادتی‘‘ جناب فصیح احمد صاحب نے بھی بلاتکلف فرما دی ہے) ’’الشریعہ‘‘ کے انہی صفحات میں غامدی صاحب کے متعدد افکار سے اختلاف کیا ہے اور ان پر ’’علمی نقد‘‘ کیا ہے، مگر یک طرفہ مطالعہ کے خوگر دوستوں کو یہ سائیڈ دکھائی ہی نہیں دیتی اور وہ یک طرفہ طور پر ان یحدث بکل ما سمع کا ورد کیے چلے جا رہے ہیں۔ 
ہمارے ہاں شوقین مزاج نوجوان ’’یوم آزادی‘‘ یا دوسرے مواقع پر جب زیادہ موج میں ہوتے ہیں تو موٹرسائیکلوں کے سائلنسر اتار کر ’’ون ویلنگ‘‘ کرتے ہوئے گلیوں بازاروں میں شہریوں کی قوت سماعت کا امتحان لینا شروع کر دیتے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ علمی اور دینی مباحث اس ماحول سے باہر نکلیں اور ہم جب کسی علمی اور فکری گفتگو اور مکالمہ کے دائرے میں داخل ہوں تو اپنے سائلنسر اور ویل چیک کر لیا کریں۔ بس اس سے زیادہ ہم کچھ نہیں چاہتے۔ 
؂ شاید کہ اترجائے ’’کسی‘‘ دل میں مری بات

بین الاقوامی قوانین اور اسلامی تعلیمات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(۲۳ ستمبر ۲۰۱۳ء کو اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل میں بین الاقوامی ریڈکراس کمیٹی کے زیر اہتمام معروف عرب سکالر ڈاکٹر عامر الزمالی کی مرتب کردہ کتاب ’’بین الاقوامی قوانین انسانیت اور اسلام‘‘ (مترجم: پروفیسر محمد مشتاق احمد، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد) کی تقریب رونمائی کے موقع پر کی جانے والی گفتگو کا خلاصہ۔)

بعد الحمد والصلوٰۃ! ڈاکٹر عامر الزمالی کی کتاب کا اردو ترجمہ اس وقت ہمارے سامنے ہے جو مختلف اصحابِ علم کے مقالات کا مجموعہ ہے۔ پروفیسر محمد مشتاق احمد نے انتہائی مہارت اور ذوق کے ساتھ اسے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے اور آج کے دور کی ایک اہم ضرورت کو پورا کیا ہے جس پر وہ اور بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی ہم سب کی طرف سے شکریہ کے مستحق ہیں۔ بین الاقوامی قوانین و معاہدات کا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مطالعہ اور مطابقت و اختلاف کے پہلوؤں کی نشاندہی ہماری اس دور کی اہم ضرورت ہے جس کی طرف ہماری توجہ نہیں ہے۔ ہمارے انتہائی محترم اور فاضل دوست ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں خاصا کام کیا تھا اور اب پروفیسر محمد مشتاق احمد کی اس طرف توجہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ خدا کرے کہ دیگر اصحابِ علم بھی اس طرف متوجہ ہوں۔ 
مجھ سے قبل جناب خورشید احمد ندیم نے اپنے خطاب میں بین الاقوامی قوانین و معاہدات کے مطالعہ اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ان کے تجزیہ و تحقیق کی ضرورت کا ذکر کیا ہے اور اس کے لیے مطالعہ اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ان کے تجزیہ و تحقیق کی ضرورت کا ذکر کیا ہے اور اس کے لیے مکالمہ و مباحثہ کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ مجھے ان کی اس بات سے اتفاق ہے اور اسی بات کو آگے بڑھانا چاہوں گا۔ لیکن گفتگو کے آغاز میں دو سال قبل لاہور میں منعقد ہونے والے بین الاقوامی ریڈکراس کمیٹی کے ایک سیمینار کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ مجھے بعض چہرے یہاں دکھائی دے رہے ہیں جو اس سیمینار میں بھی موجود تھے، اس لیے یاد دہانی کے طور پر اپنی گزارش کا اعادہ کروں گا۔ میں نے اس سیمینار میں عرض کیا تھا کہ بین الاقوامی معاہدات بالخصوص جنگوں سے متاثرہ افراد دیکھ بھال اور ان کے حقوق و مفادات کے بارے میں وضع کیے گئے قوانین کا اسلامی تعلیمات کے ساتھ تقابلی مطالعہ بہت بہتر بات ہے اور وقت کی ضرورت ہے، لیکن اگر اس ضرورت کا احساس ان قوانین کی ترتیب اور معاہدات کی تشکیل کے وقت کر لیا جاتا اور اسلام کو ایک زندہ معاشرتی حقیقت تسلم کرتے ہوئے معاہدات و قوانین کی تشکیل و تدوین میں اس کے احکام و قوانین کو سامنے رکھا جاتا تو آج کی صورت حال بالکل مختلف ہوتی اور یہ کاوشیں جو آج ہم کر رہے ہیں ان کی نوبت ہی نہ آتی۔ لیکن اس وقت اس ضرورت کو محسوس نہیں کیا گیا بلکہ نظر انداز کر دیا گیا جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر مشکلات پیدا ہو رہی ہیں اور ان کو حل کرنے کے لیے ہمیں اس مکالمہ کی طرف آنا پڑ رہا ہے۔
اس حوالہ سے آج یہ بحث جن نکات کے گرد گھوم رہی ہے وہ یہ ہیں کہ:
  • کیا آج کے بین الاقوامی معاہدات و قوانین اسلام سے بالکل متصادم ہیں؟
  • کیا یہ معاہدات و قوانین اسلامی تعلیمات سے مکمل موافقت رکھتے ہیں؟
  • کیا ان معاہدات و قوانین کی بنیاد اسلامی تصورات پر رکھی گئی ہے؟ اور
  • کیا ان معاہدات و قوانین کو اسلامی تعلیمات پر یا اسلامی تعلیمات کو معاہدات و قوانین پر برتری حاصل ہے؟
میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان نکات کے گرد گھومنے والی یہ ساری بحث محض تکلف ہے اور مفروضات پر مبنی ہے۔ ہمیں مفروضات کے دائرے سے ہٹ کر زمینی حقائق کی روشنی میں ان مسائل پر مکالمہ کرنا ہوگا اور معروضی صورت حال میں پیش آمدہ مشکلات کا حل نکالنا ہوگا۔ 
میری طالب علمانہ رائے میں آج کے بین الاقوامی معاہدات و قوانین کا پس منظر صرف اور صرف مغربی ہے۔ مغرب میں تاریک صدیوں کے دوران بادشاہت، جاگیرداری اور پاپائیت کی تکون کے جبر کا شکار ہونے والا معاشرتی ماحول ان معاہدات اور قوانین کا حقیقی پس منظر ہے، جبکہ مسلمانوں کا ایک ہزار سال سے زائد عرصہ کا معاشرتی ماحول اور ان کا تہذیبی پس منظر اس میں قطعی طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اس وقت یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ جس طرح مغربی سوسائٹی مسیحیت کے معاشرتی کردار سے دست بردار ہوگئی ہے، اسی طرح مسلم سوسائٹی بھی آہستہ آہستہ اپنے دین کے معاشرتی کردار سے دستبردار ہو جائے گی اور لادینی سوچ پر مبنی نئے فلسفہ و نظام کو سب سے منوانا آسان ہو جائے گا۔ لیکن یہ مغالطہ تھا کیونکہ اسلامی دنیا کو مذہب سے بے گانہ کرنے کے لیے کم و بیش دو صدیوں کی مسلسل منفی محنت کے باوجود مسلمان آج بھی دنیا میں ہر جگہ دین کے ساتھ اپنی کمٹمنٹ پر قائم ہے اور دینی تعلیمات سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور آج اسلام اور بین الاقوامی معاہدات کے حوالہ سے مکالمہ کی جس ضرورت کا احساس و اظہار کیا جا رہا ہے، وہ بھی اسی حقیقت کا غماز ہے۔ اس لیے میں یہ کہتا ہوں کہ جب یہ معاہدات تشکیل پا رہے تھے اور قوانین کی ترتیب قائم کی جا رہی تھی اگر اس وقت اسلام اور مسلمانوں کو نظر انداز نہ کیا جاتا تو صورت حال یہ نہ ہوتی جس سے آج ہم دوچار ہیں۔ مگر اس وقت اسلام اور مسلمانوں کو محض رسمی طور پر ثانوی درجہ میں شریک کار بنانے کا طرز عمل اختیار کیا گیا جس کے نتائج آج سب کے سامنے ہیں۔
ڈاکٹر عامر الزمالی کی اسی کتاب میں شامل جیمس کوکین کے تفصیلی مقالہ کو ایک نظر دیکھ لیا جائے تو بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو ان معاہدات اور قوانین کی تشکیل و تدوین کے مرحلہ میں کس طرح پس منظر میں رکھنے کی مسلسل کوشش کی گئی۔ مجھے اس کتاب میں وہ مقالہ سب سے زیادہ دلچسپ لگا ہے اور میں نے اسے بغور پڑھا ہے۔ اس موقع پر ریڈکراس کا کام اور اس کا نشان تک جس انداز میں زیر بحث آیا اور ہلال احمر اور سرخ سورج کے نشانات پر بحث ہوئی، اس کشمکش کا تذکرہ اس کتاب میں بطور خاص پڑھنے کے لائق ہے۔ اس کے باوجود ہم اس بنیادی خلا کی بات کرتے ہوئے آج یہ نہیں کہتے کہ جو کچھ ہو چکا ہے، اسے بالکل ختم کر کے زیرو پوائنٹ پر واپس جایا جائے۔ یہ تو قابل عمل بات نہیں ہوگی مگر ہم یہ ضرور کہیں گے کہ اس خلا کو محسوس کیا جائے اور اس بات کو تسلیم کیا جائے کہ بین الاقوامی معاہدات و قوانین کی تشکیل میں مسلمانوں کو ان کا حصہ اور کردار نہیں دیا گیا۔ پھر ان حقائق کے اعتراف کے ساتھ اس پورے عمل کا جائزہ لیتے ہوئے باہمی مکالمہ اور مباحثہ کے ذریعہ اس بات کا تعین کیا جائے کہ اسلام کی بنیادی تعلیمات اور آج کے بین الاقوامی معاہدات و قوانین میں تعارض و اختلاف کے نکات کون سے ہیں اور ان پر نظر ثانی کر کے قابل قبول ایڈجسٹمنٹ کا ماحول کیسے قائم کیا جا سکتا ہے؟ 
میں سمجھتا ہوں کہ ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم مہاتیر محمد نے جب وہ او۔آئی۔سی کے سربراہ تھے، اقوام متحدہ کی پالیسی سازی کے نظام اور انسانی حقوق کے عالمی چارٹر وغیرہ پر نظر ثانی کی جو بات کی تھی، وہ اسی حقیقت کی طرف توجہ دلانے کے لیے تھی مگر عالمی ادارے تو رہے ایک طرف، اس تجویز کو خود مسلمان حکومتوں نے قابل توجہ نہیں سمجھا تھا۔ 
میں اس سلسلہ میں ایک اور خلا کی طرف بھی توجہ دلانا چاہوں گا کہ بین الاقوامی معاہدات و قوانین اور اسلامی تعلیمات کے درمیان مکالمہ میں اسلامی تعلیمات کی طرف سے جن لوگوں کو نمائندہ سمجھا جاتا رہا ہے، وہ خود اس کنفیوژن کا ایک بڑا سبب ہیں کیونکہ وہ لوگ اپنی حکومتوں اور قوموں کی نمائندگی ضرور کر رہے ہوں گے، لیکن انہیں اسلام اور اسلامی تعلیمات کا نمائندہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ چند سال قبل مسیحیوں کے پروٹسٹنٹ فرقہ کے عالمی سربراہ آرچ بشپ آف کنٹربری ڈاکٹر روون ولیمز اسلام اباد تشریف لائے تو ان کے سامنے مذاکرات اور مکالمہ کے لیے جناب شوکت عزیز تشریف فرما تھے۔ میں نے اس وقت بھی یہ سوال اٹھایا تھا کہ آرچ بشپ آف کنٹر بری تو پروٹسٹنٹ مسیحیوں کی نمائندگی کر رہے ہیں، یہ شوکت عزیز صاحب مسلمانوں کے کون سے مکتب فکر کے نمائندہ ہیں؟ چنانچہ ہمارے ساتھ یہ دھاندلی بھی ہو رہی ہے۔ 
اس لیے میں ڈاکٹر عامر الزمالی کی اس کتاب اور بین الاقوامی ریڈکراس کمیٹی کی طرف سے ان معاہدات و قوانین کے حوالہ سے مکالمہ کی ضرورت کے احساس و ادراک کا خیر مقدم کرتا ہوں اور اس کتاب کی اشاعت کو اس سلسلہ میں ایک اہم پیش رفت سمجھتا ہوں۔ لیکن یہ گزارش کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ اس مکالمہ کا فائدہ اسی صورت میں ہوگا جب ہم مفروضات کے دائروں سے نکل کر معروضی صورت حال، تاریخی پس منظر اور زمینی حقائق کی بنیاد پر حقیقت پسندی کے ساتھ اس مکالمہ اور تحقیق کو آگے بڑھائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح سمت کام کرنے کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔

دعوت دین اور انبیاء کرام علیہم السلام کا طریق کار

مولانا امین احسن اصلاحیؒ

انبیاء علیہم السلام نے جس طرح طہارت و عبادت اور معاشرت و معیشت سے متعلق ہماری رہنمائی کے لیے اپنی سنتیں چھوڑی ہیں، اسی طرح اصلاح معاشرہ، اقامت دین یا اسلامی نظام کے طریقہ قیام سے متعلق بھی اپنی نہایت واضح سنتیں چھوڑی ہیں جن کو اختیار کیے بغیر اقامت دین کے نصب العین کے لیے کوئی نتیجہ خیز کام نہیں کیا جا سکتا۔ ان سے ہٹ کر جو کوشش بھی اس مقصد کے لیے کی جائے گی، وہ بالکل بے برکت اور بے نتیجہ ثابت ہوگی۔ ۔۔۔ یہاں ہم اس موضوع پر تفصیل کے ساتھ لکھنے کے لیے گنجائش نہیں رکھتے۔ صرف چند اصولی باتوں کی طرف اشارہ کریں گے جس سے فی الجملہ یہ اندازہ ہو سکے گا کہ انبیاء علیہم السلام کا طریقہ کار کن خاص پہلوؤں سے اہل سیاست کے طریقوں سے مختلف ہوتا ہے۔

پہلی خصوصیت: قول اور عمل کا توافق 

سب سے پہلی چیز جو انبیاء علیہم السلام اور ان کے طریق کار کو دوسروں سے الگ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ انبیاء جن باتوں کے داعی بن کر اٹھتے ہیں، ان کے سب سے بڑے عملی مظہر وہ خود ہوتے ہیں۔ وہ جن نیکیوں کے مبلغ ہوتے ہیں اگر دوسروں سے ان پر پاؤ سیر عمل کا مطالبہ کرتے ہیں تو خود ان پر پورا سیر بھر عمل کرتے ہیں۔ اسی طرح جن برائیوں سے لوگوں کو بچنے کی تلقین کرتے ہیں ان کے بارے میں وہ دوسروں سے اگر صرف یہ چاہتے ہیں کہ لوگ ان سے احتراز کریں تو اپنے لیے ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ان کی پرچھائیں بھی ان پر نہ پڑنے پائے۔ برعکس اس کے اہل سیاست کا عام طریقہ سیدنا مسیح علیہ السلام کے بقول یہ ہوتا ہے کہ جس بوجھ کے اٹھانے میں وہ اپنی انگلی کا بھی سہارا نہیں دینا چاہتے اس کو وہ پورے کا پورا دوسروں کی کمر پر لاد دیتے ہیں۔ قرآن کریم نے علمائے یہود کے بارے میں فرمایا ہے کہ کہ تم دوسروں کو تو نیکی کا درس دیتے ہو لیکن خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو۔ اسی طرح اہل سیاست جن باتوں سے خود کوسوں دور ہوتے ہیں ان کی منادی وہ اپنی ہر تحریر اور تقریر میں کرتے پھرتے ہیں، وہ اپنے قول ہی کو عمل کا قائم مقام سمجھتے ہیں اور محض زبان کے پھاگ سے وہ ثمرات و نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں جو نتائج خون اور پسینہ ایک کر دینے سے حاصل ہوتے ہیں اور جن کے لیے آدمی کو اپنے ایک ایک بن مُو کو گواہ بنانا پڑتا ہے۔ اگر آپ ایمانداری سے اپنے حالات کا جائزہ لیں گے تو ہماری اس رائے سے اتفاق کریں گے کہ ہماری قوم کو ایک مدت دراز سے ایسے ہی طبیبوں سے سابقہ ہے جو خود سو مریضوں کے مریض ہونے کے باوجود قوم کے علاج کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور جو اپنی آنکھوں میں بڑے بڑے شہتیر چھپائے رکھنے کے باوجود دوسروں کی آنکھوں کے تنکے تلاش کرنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں ___ ایسے طبیبوں کی سعی علاج کا جو نتیجہ برآمد ہو سکتا ہے وہ معلوم ہے۔ 

دوسری خصوصیت: سیاسی تبدیلی سے پہلے معاشرے کی اصلاح 

دوسری چیز جو حضرات انبیاء کے طریقہ کو دوسروں کے طریقہ سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ انبیاء سیاسی اقتدار کے حصول پر اصلاحِ معاشرہ کے کام کو منحصر نہیں قرار دیتے بلکہ معاشرہ کی اصلاح کو نظام سیاسی کی اصلاح کا ذریعہ بناتے ہیں۔ ان کے طریقہ کار میں اصل اہمیت جس چیز کو حاصل ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ لوگوں کے دل و دماغ اور اعمال و اخلاق تبدیل ہوں اور برائی سے لڑنے اور بھلائی کو قائم کرنے کے لیے ان کے ضمیر پوری طرح بیدار ہو جائیں۔ یہ بیداری پیدا کرنے کے لیے وہ جدوجہد کرتے ہیں اور یہ جدوجہد وہ مسلسل جاری رکھتے ہیں یہاں تک کہ دو باتوں میں سے کوئی ایک بات ظاہر ہو کر رہی ہے۔ یا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی کوششوں سے ایک صالح معاشرہ کھڑا کر دیا اور اس معاشرہ کے ہاتھوں ایک صالح نظام قائم ہوگیا ہے یا اسی مقدس کام میں ان کی زندگیاں ختم ہوگئیں اور چند نفوس کے سوا کسی نے بھی ان کا ساتھ نہیں دیا۔ حضرات انبیاء کی زندگیوں میں ان دونوں ہی چیزوں کی کی مثالیں ملتی ہیں اور اس دوسری چیز کی مثالیں کم نہیں بلکہ پہلی چیز کے مقابل میں کچھ زیادہ ہی ملتی ہیں لیکن کسی ایک نبی کی زندگی میں بھی اس بات کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ اس نے معاشرہ کی اصلاح کو نظام کی اصلاح کا ذریعہ بنانے کے بجائے اس مقصد کے لیے دعوت دینا شروع کر دی ہو کہ پہلے جس طرح بنے اقتدار پر قبضہ کرو اور پھر اس اقتدار کو اصلاح معاشرہ کا ذریعہ بناؤ۔
اس کے بالکل برعکس سیاسی طور پر کام کرنے والوں کی ساری بھاگ دوڑ حصول اقتدار کے لیے ہوتی ہے، بعض اس اقتدار کے حصول کے لیے آئینی طریقے اختیار کرتے ہیں، بعض غیر آئینی راستے اختیار کرنے میں بھی کوئی قباحت نہیں محسوس کرتے۔ جو لوگ آئینی طریقے اختیار کرتے ہیں ان کا سارا اعتماد اس بات پر ہوتا ہے کہ ووٹروں کی زیادہ سے زیادہ تعداد ان کے ساتھ ہو۔ اس وجہ سے ان کی توجہ رات دن ووٹروں کے ساتھ جوڑ توڑ پر صرف ہوتی ہے۔ ان کو ساتھ ملانے کے لیے وہ سارے جتن کر ڈالتے ہیں، یہاں تک کہ اس سرگرمی میں وہ جائز اور ناجائز کی بھی کچھ زیادہ پرواہ نہیں کرتے۔ کوئی بات اگر انہیں ناجائز محسوس ہوتی بھی ہے تو یہ خیال کر کے اپنے اس ناجائز کو بنا لیتے ہیں کہ کسی بڑے مقصد کے لیے کسی چھوٹے ناجائز کو جائز کر لینے میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ ووٹروں سے ان کا سارا یارانہ ووٹ حاصل کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ ان کے خیر و شر سے انہیں کوئی دل چسپی نہیں ہوتی۔ اگر وہ اپنے ووٹ انہیں دے دیں تو ان کے نقطہ نظر سے وہ معاشرہ کے بہترین افراد ہیں اگرچہ وہ فی الواقع اتنے برے ہوں کہ ان کے فتنوں سے شیطان بھی پناہ مانگتا ہو۔ اس طرز کے لوگ اگر معاشرہ کی خدمت اور اصلاح کا کوئی چھوٹا بڑا کام کرتے بھی ہیں تو اس میں بھی خلوص اور للہیت کا حصہ بہت کم ہوتا ہے۔ اصل پیش نظر مقصد وہی ہوتا ہے جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے، یعنی یہ کہ ان کی ان خدمتوں سے متاثر ہو کر انتخابات میں لوگ اپنے ووٹ ان کے حق میں استعمال کریں۔ یہ مقصد اس گروہ پر اتنا غالب ہوتا ہے کہ اگر کہا جائے کہ یہ حضرات اپنے انتخابی حلقوں میں نماز بھی اگر پڑھتے ہیں تو اس ووٹ کے مقصد ہی سے پڑھتے ہیں تو شاید اس میں بھی کوئی مبالغہ نہ ہو۔ پھر خاص بات یہ ہے کہ ان سیاسی کار فرماؤں کا سارا جوش کار صرف اس وقت تک باقی رہتا ہے، جب تک ان کے لیے برطانوی طرز کا پارلیمانی نظام ملک میں قائم رہے۔ اگر یہ نظام قائم نہ ہو تو ان کا سارا جوشِ جہاد و اصلاح اس طرح ٹھنڈا پڑ جاتا ہے گویا سو مُردوں کے یہ ایک مردہ ہیں۔ یہ ساری خرابی در حقیقت ان کے طریق کار کی ہے ورنہ انبیاء علیہم السلام اس بات کے محتاج کب رہے ہیں کہ ملک میں امریکی یا انگریزی طرز کا نظام ہو تب وہ کام کریں ورنہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں۔ 
یہ ذکر آئینی طریقہ پر کام کرنے والوں کا تھا، جو لوگ غیر آئینی طریقہ پر کام کرتے ہیں ان کا اعتماد خفیہ سازشوں پر ہوتا ہے۔ وہ اپنے نظریات کھلے میدان میں عقل اور استدلال کی راہ سے منوانے پر اعتماد نہیں رکھتے، اس وجہ سے سازشی طریقے اختیار کرتے ہیں۔ اس راہ سے اقتدار حاصل کرنے میں اگر ان کو کامیابی ہو جاتی ہے تو پھرسیاسی جبر کے ذریعے سے وہ معاشرہ پر اپنے نظریات مسلط کر دیتے ہیں۔ اشتراکیت کے علمبرداروں کا طریق کار یہی ہے۔ ظاہر ہے یہ طریق کار انبیاء کے طریق کار سے پہلے طریقہ سے بھی زیادہ دور ہے، اس لیے کہ اس کی بنیاد جبر پر ہے اور انبیاء کے طریقہ میں جبر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ خواہ یہ جبر آئین کے ذریعہ سے حاصل کردہ اقتدار کے ہاتھوں استعمال ہو یا سازش کے ذریعہ سے حاصل کردہ اقتدار کے ذریعہ سے۔ ہاتھوں کے اختلاف سے اصل حقیقت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ اسلامی نظام کوئی مجبوری کا سودا نہیں ہے بلکہ آزادانہ ایمان و اسلام کا معاملہ ہے اور اس کے لیے واحد پسندیدہ طریقہ یہی ہے کہ ایک آزاد اسلامی معاشرہ میں اس کی آزادانہ مرضی اور آزادانہ رائے سے قائم ہو۔ وہ لوگ اس کو قائم کریں جنہوں نے عقل سے اس کو قبول کیا ہو، دل سے اس کو مانا ہو اور عمل سے اس کی گواہی دے رہے ہوں۔ 
بعض لوگوں کو یہ شبہ ہوتا ہے کہ اگر اسلامی نظام کا قیام معاشرہ کی اصلاح ہی پر منحصر ہے اور اس کے لیے اہل سیاست کے سے طریقے نہیں اختیار کیے جا سکتے تو پھر یہ بیل کبھی منڈھے نہیں چڑھ سکتی۔ ان کے خیال میں یہ طریق کار اتنی طویل مدت چاہتا ہے کہ جب تک معاشرہ کی اصلاح ہوگی، اس وقت تک جو خرابیاں آج پاؤ سیر ہیں موجودہ نظام کے زیر سایہ پرورش پا کر من بھر ہو جائیں گی۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ آج اگر اسلام کا نام لینے کا موقع ہے تو کل یہ نام لینے کا بھی امکان باقی نہیں رہے گا۔ یہ بات بہت سے لوگوں کو دھوکے میں ڈالے ہوئے ہے لیکن ہمارے خیال میں اس میں کئی مغالطے چھپے ہوئے ہیں۔ 
اس میں پہلا مغالطہ تو یہ ہے کہ یہ حضرات اس بات کو محسوس نہیں کرتے کہ اگر ایک صحیح کام صحیح طریقہ پر کرنے میں بہت دیر لگنے کا اندیشہ ہے تو اس کی تلافی کا یہ کون سا دانشمندانہ طریقہ ہے کہ ایک غلط کام بالکل غلط طریقہ ہی پر کر ڈالا جائے، غلط کام بہرحال غلط ہے۔ وہ اس وجہ سے صحیح نہیں بن جائے گا کہ وہ جلدی سے انجام پاجاتا ہے۔ ہر کام کی ایک مخصوص فطرت ہوتی ہے اور وہ نتیجہ خیز اسی صورت میں ہوتا ہے، جب اس کو اس کے مخصوص ڈھب پر انجام دیا جائے، اگرچہ اس میں کتنا ہی وقت لگے۔ 
دوسرا مغالطہ یہ ہے کہ بعض لوگ زبان کے پھاگ اور عمل کے جہاد میں اثرات و نتائج کے لحاظ سے جو فرق ہے اس کو نہیں سمجھتے۔ اگر اسلامی نظام کا دعویٰ محض زبان اور قلم پر ہو، عملی زندگی اسلام کے حقیقی رنگ میں رنگی ہوئی نہ ہو تو اسلامی نظام تا قیامت قائم نہیں ہو سکتا، اگرچہ آپ کو سیاسی اقتدار حاصل ہی کیوں نہ ہو جائے۔ سیاسی اقتدار دنیا میں اسلام کے بہت سے مدعیوں کو حاصل ہوا لیکن اسلام کے لیے وہ اگر کچھ مفید ہوا تو اسی شکل میں ہوا جب اقتدار والوں کی عملی زندگیوں میں اسلام کا کچھ اثر رہا۔ برخلاف اس کے ہم نے اپنی آنکھوں سے ایسے اشخاص دیکھے ہیں، جنہوں نے چند سالوں کے اندر اندر معاشرہ کے معاشرہ کو اپنے رنگ میں رنگ ڈالا اور ملکوں اور قوموں کی قسمتیں بدل دیں۔ حالانکہ جب انہوں نے یہ کام کیے ان کو سیاسی اقتدار حاصل نہیں تھا۔ اگر ان کو کوئی چیز حاصل تھی تو صرف یہ تھی کہ وہ اپنے اصولوں، نظریات اور اپنے دعاویٰ کے فی الواقع عملی مظہر تھے۔ اگرچہ ہمارے نزدیک ان کے بہت سے نظریات صحیح نہیں تھے، لیکن کردار کا جادو وہ چیز ہے کہ بسا اوقات یہ کنجشک فرومایہ کو بھی عقاب و شاہین کی سرعت بخش دیتا ہے۔ 
تیسرا مغالطہ یہ ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر اقتدار پر قبضہ کر کے برائی کے پھیلانے والے طاقتور ہاتھوں کو معطل نہ کر دیا جائے تو بھلائی کے پھیلانے کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رہ جاتا۔ ہمارے نزدیک یہ بات بھی صحیح نہیں ہے۔ کسی معاشرہ میں برائی پھیلنے کی اصل وجہ یہ نہیں ہوتی کہ برائی پھیلانے والے ہاتھ بڑ ے زور دار اور مؤثر ہیں، بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہوا کرتی ہے کہ ان برائیوں کی برائی سے لوگوں کو آگاہ کرنے والے یا تو موجود ہی نہیں ہوتے یا موجود تو ہوتے ہیں لیکن ان میں اخلاص، دلسوزی، درد مندی اور عزیمت نہیں ہوتی۔ اگر کسی معاشرہ کے اندر معاشرہ کا سچا درد رکھنے والے، برائیوں پر تڑپ جانے والے، علم و دلیل کے ساتھ بات کرنے والے اور ہر برائی کے مقابل میں صداقت و عزیمت کے ساتھ ڈٹ جانے والے موجود ہوں تو وہ کسی سیاسی طاقت کے بغیر برائی کے طاقتور سے طاقتور ہاتھوں کو بھی معطل کر کے رکھ دیتے ہیں۔ ایسے مردانِ حق کے سامنے برائی خود کتنے ہی زور اور دبدبہ کے ساتھ آئے لیکن وہ بھلائی کو مغلوب کرنے کے بجائے خود اپنے آپ کو عریاں کرتی ہے اور بالآخر اسے میدان سے پسپا ہونا پڑتا ہے۔ اس کے خلاف اگر کوئی شہادت ہمیں ملتی ہے تو صرف ایسے معاشرہ کے اندر ملتی ہے جس کا فساد اس قدر بڑھ چکا ہو کہ قدرت کی طرف سے اس کے لیے ہلاکت مقدر ہو چکی ہو ورنہ معاشرہ کے اندر اگر زندگی کی کوئی رمق باقی ہے تو صحیح طور پر کام کرنے والوں نے ان مظالم کو بھی حق کے لیے غذا بنا دیا ہے، جو طاقتور ہاتھوں نے باطل کی حمایت میں کیے ہیں۔ تنور میں آگ زوردار ہو تو گیلی لکڑی بھی اس کو بجھانے کے بجائے اس کے لیے ایندھن کا کام دے جاتی ہے۔ 

تیسری خصوصیت: الحب للہ والبغض للہ 

انبیاء علیہم السلام کے طریق کار کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ ان کی مخالفت و موافقت جو کچھ بھی ہوتی ہے للہ و فی اللہ ہوتی ہے۔ ان کی محبت بھی اللہ کے لیے ہوتی ہے اور دشمنی بھی صرف اللہ کے لیے، وہ حق کے ساتھی ہیں، خواہ ان کے دشمن ہی کے اندر پایا جائے اور باطل کے وہ مخالف ہوتے ہیں، اگرچہ وہ ان کے کسی ہواخواہ کے اندر ہی کیوں نہ پایا جائے۔ انہیں کسی خاندان، کسی گروہ، کسی پارٹی اور کسی قوم سے محض اس کے ایک مخصوص گروہ یا خاندان یا پارٹی ہونے کے سبب سے نہ دشمنی ہوئی اور نہ دوستی۔ دشمنی اور دوستی جو کچھ انہیں ہوتی ہے وہ اصول و عقائد اور اعمال و اخلاق کی بناء پر ہوتی ہے۔ وہ اپنے مخالف کی خوبیوں کا بھی اسی فیاضی کے ساتھ اعتراف کرتے ہیں جس فیاضی کے ساتھ اپنے موافق کی خوبیوں کا اعتراف کرتے ہیں، اور اسی طرح اپنے موافق کی برائیوں پر بھی اسی شدت کے ساتھ نکیر کرتے ہیں جس شدت کے ساتھ اپنے کسی مخالف کی برائیوں پر نکیر کرتے ہیں۔
برعکس اس کے جو لوگ سیاسی طریقوں پر کام کرتے ہیں، ان کی دوستی اور دشمنی ان کے گروہی مفاد اور سیاسی مصالح و اغراض پر مبنی ہوتی ہے۔ ان کی تمام جدوجہد کا محور صرف اقتدار ہوتا ہے، اس وجہ سے ان کی یہ فطرت بن جاتی ہے کہ جو اقتدار سے محروم ہوں وہ اصحاب اقتدار کے اندر کسی خوبی کا اقرار نہ کریں اگرچہ وہ خوبی سورج کی طرح روشن ہو اور جو اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوں وہ اقتدار سے محروم جماعتوں کی کسی خوبی کا اعتراف نہ کریں اگرچہ وہ خوبی اندھوں کو بھی نظر آرہی ہو۔ جس طرح ہم نے آج تک کسی ہڈی کی موجودگی میں دو کتوں کو ایک دوسرے کے لیے انصاف پسند اور خیر خواہ نہیں پایا اسی طرح اقتدار کی استخوان نزاع کی موجودگی میں اقتدار کے حاملین اور اقتدار سے محرومین کو کبھی ایک دوسرے کے لیے خیر خواہ اور انصاف پسند نہیں پایا۔ اختلاف برائے اختلاف ان کا دین ہوتا ہے اور اپنے اس دین کی پیروی وہ بہ حالت ہوش و حواس اور بہ ثبات عقل و اختیار کرتے ہیں اور اس احمقانہ رویّہ کو اپنی سیاسی زندگی کی ایسی ناگزیر ضرورت بتاتے ہیں جس سے ان کے نزدیک مفر کی کوئی صورت ہی باقی نہیں ہے۔ 

چوتھی خصوصیت: اصل نہج تبلیغ و شہادت 

انبیاء علیہم السلام دنیا میں اللہ کا دین قائم کرنے کے لیے آئے، اور اس مقصد کے لیے جس چیز کو انہوں نے ذریعہ اور وسیلہ بنایا وہ تبلیغ و شہادت ہے۔ تبلیغ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو دین ان پر اتارا، انہوں نے بغیر کسی کمی بیشی، بغیر کسی دخل و تصرف اور بغیر کسی رد و بدل کے پوری وضاحت و صراحت کے ساتھ خلق خدا کو پہنچا دیا۔ نہ اس کے مزاج میں کوئی تغیر ہونے دیا، نہ اس کے مواد میں، نہ اس کے انداز میں کوئی تبدیلی پیدا کی، نہ اس کی تدریج میں۔ وہ اللہ کے دین کے امین تھے، اس کے موجد اور مصنف نہیں تھے۔ اس وجہ سے اپنی ذمہ داری انہوں نے ہر طرح کے حالات میں صرف یہ سمجھی کہ اس کے پیغام کو لوگوں تک پہنچائیں۔ انہوں نے اس بات کی پروا کبھی نہیں کی کہ اس دین کی تبلیغ حالات و مصالح کے مطابق ہے یا نہیں اور لوگ اس کو رد کریں گے یا قبول کریں گے۔ اگر مصلحت کے پرستاروں کی طرف سے کبھی یہ اصرار کیا گیا کہ فلاں بات میں اگر یہ ترمیم و اصلاح کر دی جائے تو وہ پورے دین کو بخوشی قبول کر لیں گے تو انہوں نے صاف کہہ دیا کہ ہم اپنی جانب سے اس میں کسی رد و بدل کے مجاز نہیں ہیں جس کا جی چاہے اس کو قبول کرے، جس کا جی نہ چاہے وہ رد کر دے۔ 
شہادت کا مطلب یہ ہے کہ دل سے، زبان سے، قول سے، عمل سے، خلوت سے، جلوت سے، زندگی سے، موت سے، غرض اپنی ایک ایک ادا سے انہوں نے اسی دین کی گواہی دی جس کے وہ داعی بن کر آئے۔ ان کی زندگی کی کتاب اور ان کی دعوت کی کتاب میں کوئی فرق نہیں ہوا۔ انہوں نے جس چیز سے دوسروں کو روکا، اس سے پوری شدت کے ساتھ خود پرہیز کیا۔ جس چیز کا دوسروں کو حکم دیا اس پر خود پوری قوت و عزیمت کے ساتھ عمل کیا۔ ان کی دعوت اور ان کی زندگی کی یہی مکمل مطابقت در حقیقت ان کی دعوت کی صداقت کی وہ دلیل بنی جس کو ان کے کٹر سے کٹر دشمن بھی جھٹلانے کی جرأت نہ کر سکے۔ 
اس کے بالکل برعکس معاملہ اہل سیاست کا ہے۔ اہل سیاست خدا کا دین نہیں قائم کرتے بلکہ تحریک چلاتے ہیں۔ اگر وہ دین کا نام لیتے بھی ہیں تو وہ دین بھی ان کی تحریک ہی کا ایک جزو ہوتا ہے۔ اس وجہ سے جس وادی میں ان کی تحریک ٹھوکریں کھاتی پھرتی ہے، ان ساری وادیوں میں ان کا دین بھی بھٹکتا پھرتا ہے۔ ایک تحریک کے لیے تبلیغ اور شہادت کے معصوم ذریعے بالکل بیکار ہیں۔ اس لیے اہل سیاست کا سارا اعتماد اپنے مقصد کی کامیابی کی راہ میں پروپیگنڈے پر ہوتا ہے۔ پروپیگنڈے اور تبلیغ میں صرف انگریزی اور عربی ہی کا فرق نہیں ہے بلکہ روح اور جوہر کا بھی فرق ہے۔ تبلیغ تو جیسا کہ واضح ہو چکا ہے صرف اللہ کے دین کو پورا پورا پہنچا دینا ہے، لیکن پروپیگنڈے کا مقصود پیش نظر تحریک کو کامیاب بنانا ہوتا ہے، یہ کامیابی جس طرح بھی حاصل ہو۔ پروپیگنڈا ایک مستقل فن ہے جس کو زمانہ حال کی سیاسی تحریکات نے جنم دیا ہے، اور اس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ان تمام اخلاقی حدود و قیود سے بالکل آزاد ہوتا ہے جن کی پابندی حضرات انبیاء علیہم السلام نے اپنے اقامت دین کے کام میں واجب سمجھی ہے۔ 
مناسب ہوگا کہ ہم مختصر طور پر پروپیگنڈے کی چند خصوصیات کی طرف بھی اشارہ کر دیں تاکہ سیاسی تحریکات کے اس سب سے بڑے وسیلۂ کار اور تبلیغ کے درمیان جو فرق ہے، وہ واضح ہو کر سامنے آجائے۔ 
پروپیگنڈے کے اجزائے ترکیبی پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ اس کے اندر جزو اکبر کی حیثیت مبالغہ کو حاصل ہوتی ہے۔ بات کا بتنگڑ اور رائی کا پربت بنانا اس کا ادنیٰ کرشمہ ہے۔ کوئی مجمع ۵ سو کا ہوگا تو وہ اس کی بدولت اخبارات کی شہ سرخیوں میں ۵ ہزار کا بن جائے گا۔ کسی کا استقبال دس آدمی کریں گے تو یہ دس آدمی اس پروپیگنڈے کی کرشمہ سازی سے دس ہزار بن جائیں گے۔ کسی بستی یا شہر کے دو چار آدمی اگر کسی مسلک سیاسی کے ساتھ ذرا سی ہمدردی کا بھی اظہار کر دیں گے تو اس مسلک کے حامی اپنے اخبارات و رسائل میں یوں ظاہر کریں گے کہ گویا وہ پورے کا پورا شہر ان کی تائید و حمایت میں دیوانہ وار اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اگر کسی باہر کے ملک سے تائید و ہمدردی کا ایک کارڈ بھی آجائے گا تو پریس میں اس کی تشہیر یوں ہوگی کہ فلاں ملک کو فلاں تحریک نے بالکل مسخر کر لیا ہے۔ اگر کوئی خدمت حقیقت کے ترازو میں چھٹانک ہوگی تو پروپیگنڈے کی مشینری کا یہ فرض ہے کہ وہ اس کو کم از کم من بھر دکھائے۔ اس جھوٹ اور مبالغہ آرائی کو موجودہ زمانہ میں ہمارے اہل سیاست نے اس طرح اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے کہ اب اس کے برائی ہونے کا شاید لوگوں کے اندر احساس بھی مردہ ہوگیا ہے۔ اس کوچہ میں بدنام تو اکیلا غریب گوئبلز ہے (اور اس کی یہ بدنامی بھی پروپیگنڈے ہی کا کرشمہ ہے) لیکن حقیقت اور انصاف یہ ہے کہ اس سیاست کے حمام میں سب کو گوئبلز ہی کے اسوہ کی پیروی کرنی پڑتی ہے۔ خواہ کوئی شخص دنیا کا نام لیتا ہوا اس میں داخل ہوا یا دین کا کلمہ پڑھتا ہوا داخل ہوا۔ 
اس جھوٹ اور مبالغہ ہی کا ایک پہلو یہ ہے کہ اپنے موافق کو مدح و توصیف سے آسمان پر پہنچایا جائے، اور جس کو مخالف قرار دے لیا جائے اس کے خلاف اتنے جھوٹ اور اتنی تہمتیں تراشی جائیں کہ وہ کہیں منہ دکھانے کے قابل نہ رہ جائے۔ اسلام میں تو مدح و ذم اور تعریف و ہجو دونوں کے لیے سخت حدود و قیود ہیں، اور کوئی شخص دین سے بے قید ہوئے بغیر اپنے آپ کو ان حدود و قیود سے آزاد نہیں کر سکتا۔ لیکن سیاست میں صرف ایک ہی اصول چلتا ہے، وہ یہ کہ اپنے موافق کو آسمان پر پہنچاؤ اور اپنے مخالف کو تحت الثرٰی میں گراؤ۔ اور اس مقصد کے لیے جس قسم کے جھوٹ اور جس نوع کے افترا کی ضرورت پیش آئے اس کو بے تکلف گھڑو اور بالکل بے خوف ہو کر اس کو لوگوں میں پھیلاؤ۔ صحیح اسلامی نقطہ نظر سے یہ بات کتنی ہی بے حیائی اور بے شرمی کی سمجھی جائے، لیکن اہل سیاست اپنی تحریکات کی کامیابی کے لیے اس چیز کو ناگزیر خیال کرتے ہیں، ان کے نزدیک اسی طرح وہ اشخاص اٹھتے ہیں جو تحریک کی گاڑی کو چلاتے ہیں، اور اسی طرح وہ اشخاص گرتے ہیں جو تحریک کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ یہ خفض و رفع کا فلسفہ ایک مستقل فلسفہ ہے جس کے تحت کتنے بے علم ہیں جو مولانا اور علامہ کا مقام حاصل کر لیتے ہیں، اور کتنے صاحب علم و تقویٰ ہیں جن کی پگڑیاں اچھلتی رہتی ہیں۔ 

پانچویں خصوصیت: مقصودِ حقیقی صرف فلاح اخروی

ایک اور چیز جو انبیاء علیہم السلام کے طریق کار کو عام اہل دنیا کے طریقہ ہائے کار سے نمایاں کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ان کی تمام جدوجہد میں مطلوب و مقصود کی حیثیت صرف خدا کی خوشنودی اور آخرت کی کامیابی کو حاصل ہوتی ہے۔ اس چیز کے سوا کوئی اور چیز ان کے پیش نظر نہیں ہوتی۔ اگرچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کی جدوجہد کی کامیابی سے اللہ کے دین کو اور دین کے لیے کام کرنے والوں کو دنیا میں بھی غلبہ اور تفوق حاصل ہوتا ہے۔ لیکن وہ اس بات کی دعوت کبھی نہیں دیتے کہ آؤ حکومت الٰہیہ قائم کرو یا اقتدار حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرو۔ بلکہ دعوت صرف اللہ کے دین پر چلنے اور اس پر چلانے ہی کی دیتے ہیں۔ اس لیے کہ آخرت کی کامیابی حاصل کرنے کے لیے خدا کے دین پر چلنا اور اسی پر دوسروں کو بھی چلنے کی دعوت دینا شرط ضروری ہے۔
اس کے برعکس اہل سیاست کی ساری تگ و دو کا مقصود اقتدار کا حصول ہوتا ہے۔ وہ اسی اقتدار کے حصول کے لیے اپنی تنظیم کرتے ہیں، اور اسی کے لیے لوگوں کو دعوت دیتے ہیں۔ یہ مقصود ایک خاص دنیوی مقصود ہے لیکن بعض لوگ اس پر دین کا ملمع کر کے اس چیز کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ وہ یہ اقتدار اپنے لیے نہیں چاہتے بلکہ خدا کے لیے یا اس کے دین کے لیے چاہتے ہیں، ضروری نہیں ہے کہ ان کی نیتوں پر شبہ کیا جائے، ہو سکتا ہے کہ وہ جس اقتدار کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، وہ خدا ہی کے لیے استعمال کریں، لیکن اس سے جدوجہد کا نصب العین بالکل تبدیل ہو جاتا ہے اور اس نصب العین کی تبدیلی کا جدوجہد کی مزاجی خصوصیات پر برا اثر پڑتا ہے بلکہ سچ پوچھئے تو یہ نصب العین کی تبدیلی سارے کام ہی کو بالکل درہم برہم کر کے رکھ دیتی ہے۔
ہم جس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں وہ اچھی طرح واضح اس طرح ہوتی ہے کہ اہل سیاست جس دنیوی اقتدار کے حصول کو تمام خیر و فلاح کا ضامن سمجھتے ہیں، یہاں تک کہ دین کی خدمت کا کوئی کام بھی ان کے نزدیک اس وقت تک انجام ہی نہیں دیا جا سکتا جب تک اقتدار حاصل نہ ہو جائے۔ اس اقتدار کو انبیاء علیہم السلام نے اس نصب العین کے لیے نہایت خطرناک سمجھا ہے جس کے داعی وہ خود رہے ہیں۔ چنانچہ متعدد احادیث سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ آپؐ نے صحابہؓ کو اس بات سے آگاہ فرمایا کہ میں تمہارے لیے فقر و غربت سے نہیں ڈرتا بلکہ اس بات سے ڈرتا ہوں کہ دنیا کی عزت و ثروت تمہیں حاصل ہوگی اور تم اس کے انہماک میں اصل نصب العین یعنی آخرت کو بھول جاؤ گے۔ آپ کا ارشاد ہے، خدا کی قسم میں تمہارے لیے فقر سے نہیں ڈرتا، بلکہ جس بات سے ڈرتا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ دنیا جس طرح تم سے پہلے والوں کے لیے کھول دی گئی، اسی طرح تمہارے لیے بھی کھول دی جائے گی، پھر جس طرح وہ اس کی بھاگ دوڑ میں مصروف ہوگئے، اسی طرح تم بھی اس کے لیے بھاگ دوڑ میں مبتلا ہو جاؤ گے۔ پھر یہ تمہیں بھی اسی طرح ہلاک کر چھوڑے گی جس طرح اس نے تمہارے پہلوں کو ہلاک کر چھوڑا۔
مذکورہ حدیث سے یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی جدوجہد میں اصل مطمح نظر کی حیثیت آخرت کو حاصل ہوتی ہے۔ دنیا کا اقتدار اس نصب العین کے لیے مفید بھی ہو سکتا ہے اور مضر بھی، بلکہ مضر ہونا زیادہ اقرب ہے۔ اس وجہ سے جو لوگ انبیاء علیہم السلام کے طریقہ پر کام کرتے ہیں وہ اس اقتدار کو بھی خدا کی ایک بہت بڑی آزمائش سمجھتے ہیں، اور ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ جس طرح غربت اور فقر کے دور میں انہیں آخرت کے لیے کام کرنے کی توفیق حاصل ہوئی ہے، اسی طرح امارت و سیادت کے دور میں بھی اس نصب العین پر قائم رہنے کی سعادت حاصل ہو۔ انبیاء علیہم السلام کی دعوت میں اس امر کا کوئی ادنیٰ نشان بھی نہیں ملتا کہ اقتدار کو انہوں نے اصل نصب العین سمجھا ہو یا اصل نصب العین کے لیے اس کو کوئی بڑی سازگار چیز سمجھا ہو۔
ہماری اس تقریر سے کسی صاحب کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ہم یہ رہبانیت کی دعوت دے رہے ہیں۔ ہم رہبانیت کی دعوت نہیں دے رہے ہیں بلکہ اس حقیقت کو واضح کرنا چاہتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کی تمام جدوجہد کا مقصود آخرت ہوتی ہے، وہ اسی کے لیے خلق خدا کو دعوت دیتے ہیں، اسی کے لیے لوگوں کو منظم کرتے ہیں، اسی کے لیے جیتے ہیں، اور اسی کے لیے مرتے ہیں، اسی چیز سے ان کی جدوجہد کا آغاز ہوتا ہے، اور اسی چیز پر اس کی انتہا ہوتی ہے، ان کی تمام سرگرمیوں میں محرک کی حیثیت بھی اسی چیز کو حاصل ہوتی ہے، اور غایت و مقصود کی حیثیت بھی اسی کو حاصل ہوتی ہے، وہ دنیا کو آخرت کے منافی نہیں قرار دیتے، بلکہ دنیا کو آخرت کی کھیتی قرار دیتے ہیں۔ ان کی دعوت یہ نہیں ہوتی کہ لوگ دنیا کو چھوڑ دیں، بلکہ اس بات کے لیے ہوتی ہے کہ وہ اس دنیا کو آخرت کے لیے استعمال کریں۔
ان کے ہر کام پر ان کے اس نصب العین کے حاوی ہونے کا خاص اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی جدوجہد میں کسی ایسی چیز کو کبھی گوارا نہیں کرتے جو ان کے اس اعلیٰ نصب العین کی عزت و حرمت کو بٹہ لگانے والی ہو۔ ان کے مقصد کی طرح ان کے وسائل و ذرائع بھی نہایت پاکیزہ ہوتے ہیں۔ وہ کامیابی حاصل کرنے کی دھن میں کبھی ایسی چیزوں کا سہارا حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے، جن کی پاکیزگی مشتبہ اور مشکوک ہو۔ ان کی کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ کرنے والی میزان بھی چونکہ اس دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں ہے، اسی وجہ سے ان کی کامیابی اور ناکامی کے معیارات بھی عام اہل سیاست کے معیارات سے بالکل مختلف ہیں۔ اہل سیاست کے ہاں تو کامیابی کا معیار ان کے نصب العین کے لحاظ سے یہ ہے کہ ان کو دنیا میں اقتدار حاصل ہو جائے۔ اگر یہ چیز ان کو حاصل نہ ہو سکے تو پھر وہ ناکام و نامراد ہیں، لیکن انبیاء کے طریقہ پر جو لوگ کام کرتے ہیں ان کی کامیابی کے لیے صرف یہ شرط ہے کہ وہ اللہ کے بتائے ہوئے طریقہ پر صرف اللہ ہی کی رضا کے لیے کام کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ اسی حالت پر ان کا خاتمہ ہو جائے۔ اگر یہ چیز ان کو حاصل ہوگئی تو وہ کامیاب ہیں، اگرچہ ان کے سایہ کے سوا کوئی ایک متنفس بھی اس دنیا میں ان کا ساتھ دینے والا نہ بن سکا ہو، اور اگر یہ چیز ان کو حاصل نہ ہو سکی تو وہ ناکام ہیں، اگرچہ انہوں نے تمام عرب و عجم کو اپنے اردگرد اکٹھا کر لیا ہو۔ 
بہرحال ہمارے نزدیک اسلام اور اسلامی زندگی کے احیاء کے لیے کام کرنے والوں کو اہل سیاست کے طریقوں سے کلیۃً پرہیز کرنا چاہیے۔ انہیں حصول اقتدار کی خواہش، ووٹ حاصل کرنے کی غرض اور سیاسی جوڑ توڑ کے ہر شعبہ سے پاک اور بالاتر ہو کر عوام کے پاس صرف ان کی خدمت اور ان کی مذہبی و اخلاقی اصلاح کے لیے جانا چاہیے۔ جو برائیاں اس وقت معاشرے میں عام ہو رہی ہیں ان کے دنیوی اور اخروی نقصانات دلسوزی اور ہمدردی کے ساتھ انہیں بتانے چاہئیں۔ جن فضول قسم کے مذہبی مناقشات میں اس وقت ہمارا دینی طبقہ الجھا ہوا ہے، علماء اور عوام دونوں کو ان کے مضر نتائج سے آگاہ کرنا چاہیے، اور یہ کام ان لوگوں کو کرنا چاہیے جو خود دینی رنگ میں گہرے طور پر رنگے ہوئے ہوں، اسلام کا نام محض ان کی زبانوں ہی پر نہ ہو بلکہ ان کے دلوں میں بھی اترا ہوا ہو، اور جو صرف لٹریچر اور پروپیگنڈے ہی کو حصول مقصود کا ذریعہ نہ بنائیں بلکہ اپنے عمل اور اپنے کردار سے لوگوں کے دلوں کو مسخر کر لیں۔

اس وقت کرنے کا کام 

اس وقت سب سے اہم کام کرنے کا یہ ہے کہ جدید فکر و فلسفہ کی بدولت اسلام کے خلاف خود مسلمانوں ہی کے ایک طبقہ کے اندر جو ذہنی اور عملی بغاوت پھل رہی ہے، اس کو روکنے کی ہر ممکن سعی کی جائے۔ اس کو روکنے کے لیے کوئی ہنگامی اور وقتی تدبیر کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے ایک سے زیادہ ایسے علمی و تحقیقی اداروں کی ضرورت ہے جو اسلام کی خدمت کے لیے ذہین اور صالح فطرت نوجوانوں کی تربیت بھی کریں اور جو ان تمام مسائل پر بلند پایہ علمی اور تحقیقی لٹریچر بھی تیار کریں جو مغربی فکر و فلسفہ کی فتنہ انگیزیوں سے اسلام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، اور جن سے ہمارا پورا جدید تعلیم یافتہ طبقہ اس وقت بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے جس کا اب ہمیں اعتراف کر لینا چاہیے کہ ہمارے موجودہ مذہبی طبقے کے اندر اس فتنہ کے مقابلہ کی کوئی صلاحیت نہیں ہے۔ اس کام کے لیے، ایسے رجال فکر تیار کرنے کی ضرورت ہے، جو اسلام کی حمایت و مدافعت کے لیے جدید اسلحہ سے مسلح ہوں۔ اگر اس قسم کے اشخاص پیدا کرنے کا جلدی سے جلدی کوئی انتظام نہ ہوا تو ہم یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ اس ملک میں اسلام کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ یہ بات اگرچہ نہایت ہی درد انگیز ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے، اس وجہ سے ہمیں کہنی پڑتی ہے، اور خاص طور پر اس وجہ سے کہنی پڑتی ہے کہ جس چیز پر اس ملک میں اسلام کا انحصار ہے، اس کے لیے کوئی عملی اقدام تو درکنار اب تک اس کا کوئی احساس بھی ہماری قوم کے اندر نہیں پایا جاتا۔ 
اس چیز کے مفید تر بنانے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ یہ کام ایسے لوگوں کے ہاتھوں انجام پائے، جن پر کسی خاص پارٹی یا جماعت کا لیبل لگا ہوا نہ ہو ، تاکہ ہماری قوم کا ہر طبقہ بغیر کسی شک اور بد گمانی کے اس سے فائدہ اٹھا سکے۔ بسا اوقات ہم نے دیکھا ہے کہ نہایت اعلیٰ مذہبی اور عملی خدمات محض اس وجہ سے شکوک اور بد گمانیوں کی نذر ہو جاتی ہیں، اور لوگوں کے اندر ان کے خلاف تعصبات پیدا ہو جاتے ہیں کہ ان خدمات کے انجام دینے والوں پر کسی خاص پارٹی یا جماعت کا لیبل لگا ہوا ہوتا ہے۔ بعض حالات میں اس بدگمانی کے لیے نہایت معقول اسباب بھی ہوتے ہیں، تجربہ گواہ ہے کہ پارٹیوں اور جماعتوں کے ساتھ وابستہ ہوجانے کے بعد پارٹی کے طرز فکر اور جماعت کے مخصوص رجحانات کا اتنا غلبہ ہو جاتا ہے کہ آدمی کے سوچنے کا انداز علمی کی بجائے بالکل سیاسی ہو جاتا ہے۔ اس کے متعلق یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ اس کے فکر کا کتنا حصہ بے آمیز اور خالص ہے اور کتنا اس کے اپنے جماعتی رنگ میں رنگا ہوا ہے۔ جماعتی عصبیت کے مریضوں نے حقائق کو مسخ کرنے اور ہر چیز کو (یہاں تک کہ اللہ و رسول کو بھی) اپنے رنگ میں دکھانے کی ایسی مکروہ کوششیں کی ہیں کہ ان کے کسی کام کو بھی جنبہ داری سے بالاتر سمجھنا مشکل ہوگیا ہے۔ 
ممکن ہے کسی کے ذہن میں اس مقام پر یہ شبہ پیدا ہو کہ یہ فکر دینے والا گروہ اگر ہر قسم کی سیاسی تنظیمات سے بالکل الگ تھلگ رہے تو اس فکر سے اجتماعی زندگی متاثر کس طرح ہوگی اور اس سے کوئی انقلاب کس طرح رونما ہوگا؟ یہ شبہ جن لوگوں کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے وہ دنیا کے انقلابات کی تاریخ اور ان کی حقیقت سے بالکل بے خبر ہیں۔ یہ بالکل ضروری نہیں ہے کہ جو اشخاص فکر دیں، وہی انقلاب کا چکر بھی گھمائیں، ایک صحت مند اور طاقت ور فکر خود اپنے حامی اور علمبردار پیدا کر لیتی ہے اور وقت آنے پر اس کے لیے کام کرنے اور اس کو عملاً برپا کر دینے والے خود بخود پیدا ہو جاتے ہیں۔ روح انسانی آج جس چیز کے لیے بے چین ہے، آپ اس کے مہیا کرنے کا سامان کیجیے، اس میں اگر زندگی ہوگی تو قبرستان کے مردوں کو بھی اپنی حمایت میں اٹھ کھڑا کرے گی۔
ملک کے حالات پر جن لوگوں کی نظر ہے وہ اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ آج ہر چیز نہایت تیزی سے بدل رہی ہے، معاشرے کی اخلاقی و مذہبی حالت روز بروز گرتی جا رہی ہے۔ ہماری زندگی کے ہر شعبہ پر مغربی رنگ چھائے جا رہا ہے۔ تعلیم میں، تمدن میں، معاشرت میں، معیشت میں مذہب کا عنصر کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ساری چیزیں قابل توجہ ہیں، اس دور میں اگر توجہ کی جائے، جبکہ ہر چیز ایک نئے سانچہ میں ڈھل رہی ہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ ان کی تشکیل میں کچھ حصہ اہل دین کا بھی شامل ہو جائے گا، لیکن جب ہر چیز ڈھل ڈھلا کر ایک خاص صورت قبول کر چکے گی اور ایک مخصوص ہیئت پر وہ پختہ ہو جائے گی تو اس وقت آپ کا متوجہ ہونا بالکل بعد از وقت ہوگا۔ آج تو یہ ممکن ہے کہ ایک بات ہمدردانہ مشورہ دینے ہی سے درست ہو جائے، لیکن کل جب کہ وہ پختہ ہو جائے گی تو سر دے کر بھی شاید آپ اس کو درست کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ 
اس مقصد کے لیے وسائل و ذرائع کا بھی سوال ہے اور ساتھ ہی اشخاص و رجال کا بھی۔ اس میں شبہ نہیں کہ پیش نظر کام کے لیے نہ تو موزوں آدمی ہی نظر آتے ہیں اور نہ ضرورت کے مطابق سرمایہ ہی حاصل ہونے کی موجودہ حالت میں کوئی امید بندھتی ہے۔ اس مشکل کے حل ہونے کی صرف ایک ہی تدبیر ہے وہ یہ کہ جو لوگ اس مقصد کی اہمیت کو سمجھ چکے ہیں، وہ باہم مل کر یکجہتی کے ساتھ کوئی جامع پروگرام بنائیں اور اپنی طاقتیں، اپنے وسائل، الگ الگ نشانوں پر ضائع کرنے کے بجائے ایک ہی نشانہ اور ایک ہی مرکز پر صرف کریں۔ اس ملک میں ایسے اصحاب وسائل ہیں جو اس مقصد کے لیے روپیہ صرف کرنا چاہتے ہیں، اسی طرح ایسے اشخاص بھی ہیں جو اس نصب العین کے لیے اپنی قابلیتیں اور صلاحیتیں وقف کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن ان کی راہ میں جو مشکل ہے، وہ یہ ہے کہ یہ سب کے سب اپنے اپنے مقامی بندھنوں کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔ اس پابندی کے سبب سے ان سب کا باہم دگر جڑنا دشوار ہو رہا ہے اور آپس میں جڑے بغیر ان کا ایسی کوئی موثر طاقت بننا محال ہے جس سے اسلام اور مسلمانوں کی کوئی مفید اور قابل ذکر خدمت انجام پا سکے۔ 
اگر یہی صورت حال قائم رہے تو یہ اسلام کے جتنے بھی درد مند ہیں، سب اپنے اخلاص اور اپنی درد مندی کے باوجود اپنی اپنی جگہوں پر یا تو ٹھنڈی آہیں بھرتے رہیں گے یا اپنے مال اور اپنی صلاحیتیں نہایت ہی حقیر کاموں پر ضائع کرتے رہیں گے جس سے اسلام کو کوئی نفع نہیں پہنچے گا۔ اگر یہ حضرات فی الواقع اس دور غربت میں اسلام کی کوئی مفید خدمت انجام دینا چاہتے ہیں تو اس کی صرف ایک ہی راہ ہے، وہ یہ کہ سب لوگ اپنے مقامی علائق سے اپنے اپنے ذہنوں کو آزاد کر کے اس بات پر آمادہ ہو جائیں کہ باہمی مشورہ سے اسلام کی خدمت کے لیے اس وقت جو کام جس جگہ کرنا طے پا جائے گا، اپنے اپنے وسائل اور اپنی اپنی صلاحیتیں للہ و فی اللہ سب اس کی نذر کر دیں گے۔ اگر یہ شکل بن جائے تو ہم توقع رکھتے ہیں کہ معاشرہ کی اخلاقی و مذہبی اصلاح کا ایک نظام بھی قائم ہو سکتا ہے۔ وسیع پیمانہ پر ذی صلاحیت نوجوانوں کی تربیت کا ادارہ بھی قائم ہو سکتا ہے اور فکری اصلاح کے لیے تحقیقات اور ریسرچ کے کام بھی انجام دیے جا سکتے ہیں۔

فقہ شافعی اور ندوۃ العلماء

مولانا عبد السلام خطیب بھٹکلی ندوی

ندوۃ العلماء ایک علمی، اصلاحی و دعوتی تحریک کا نام ہے جس کی خشتِ اول ۱۳۱۰ھ مطابق ۱۸۹۲ء میں مدرسہ فیضِ عام کانپور کے ایک جلسہ دستار بندی میں اس وقت کے زمانہ شناس اور نباضِ دہر علماء نے رکھی، جن میں سر فہرست حضرت مولانا سید محمد علی مونگیریؒ کی شخصیت تھی۔ اس کے اہم مقاصد میں:
(۱) علوم اسلامیہ کے نصاب درس میں دور رَس اور بنیادی اصلاحات اور نئے نصاب کی تیاری۔
(۲) ایسے علماء پیدا کرنا جو کتاب و سنت کے وسیع و عمیق علم کے ساتھ جدید خیالات سے بخوبی واقف اور زمانہ کے نبض شناس ہوں۔
(۳) اتحاد ملی اور اخوت اسلامی کے جذبات کو فروغ دینا۔
(۴) اسلامی تعلیمات کی اشاعت بالخصوص برادرانِ وطن کو اس کی خوبیوں سے روشناس کرانا۔ ۱؂
اس تحریک کے تعارف کا سب سے پہلا جلسہ ۱۳۱۱ھ مطابق ۱۸۹۴ء میں مدرسہ فیض کانپور ہی میں ہوا۔ پھر یہ تحریک آہستہ آہستہ آگے بڑھی اور اپنے متعین کردہ اہداف کے مطابق کام کرتی رہی، اس کے متعین کردہ اہداف و پالیسیوں میں ایک اہم شق رفع نزاعِ باہمی یعنی اتحاد ملی اور اخوت اسلامی کے جذبات کو فروغ دینا تھا۔ اس کے لیے ندوۃ العلماء کے زیر سرپرستی منعقد ہونے والے جلسوں اور پروگراموں کی رودادوں کا ایک نظر مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ ندوہ کے اجلاس میں ہمیشہ غیر منقسم ہندوستان کے مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے افراد کی نمائندگی رہی۔ ندوۃ کے اسٹیج پر اگر ایک طرف علمائے کرام تشریف فرما ہوتے تو ان کے شانہ بشانہ سوٹڈ بوٹڈ عصری تعلیم یافتہ حضرات بھی بیٹھے نظر آئے۔ اگر خانقاہ کے سجادہ نشیں حاضر جلسہ ہوئے تو دوسری طرف درس و تدریس سے متعلق اساتذہ بھی۔ حنفی حضرات کی ایک خاصی تعداد ہوئی تو اپنے دور کے عامل بالحدیث افراد بھی حاضر رہتے۔ فقیہ العصر جناب مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ تحریر فرماتے ہیں:
’’ندوۃ کے پلیٹ فارم نے احناف اور اہل حدیث، علماء دیوبند اور علمائے بدایوں، مدارس و خانقاہوں سے نکلنے والے مشائخ اور عصری جامعات کے فضلاء کو ایک جگہ بٹھایا۔ ‘‘ ۲؂
بانیانِ ندوۃ کے سامنے وہ ذلت آمیز رسوا کن حالات تھے جو مسلمانوں کی حکومت و سلطنت کے ختم ہوجانے اور انگریزوں کی غلامی میں زندگی گزارتے ہوئے پیدا ہوگئے تھے کہ چھوٹے چھوٹے فروعی مسائل، ایسے اختلافات اور ایسی لڑائیاں کہ الامان والحفیظ۔ علماء و اہل مدارس اپنے پڑھے لکھے جدید تعلیم یافتہ طبقے کی نگاہوں میں ذلیل و بے حیثیت ہو رہے تھے تو غیروں کی نگاہوں میں بے وقعت و بیکار۔ خاص کر شمالی ہندوستان میں کہ یہاں پر احناف اور اہل حدیث حضرات کی مخلوط و ملی جلی آبادی تھی، تو ان کے رفع یدین اور آمین بالجہر کے اختلافات، کورٹ کچہریوں تک پہونچ گئے تھے کہ اب مسائل کا شرعی حل غیر مسلم جج صاحبان کے حوالے تھا۔ 
تو اس عہد میں تحریک ندوۃ العلماء کا سب سے بڑا فائدہ بقول حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی زید مجدہ:
’’یہ ہوا کہ مختلف الفکر لوگوں کے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے کی وجہ سے فاصلے کم ہوگئے، اختلاف رائے کو برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا ہوئی، اور مخالف نقطہ نظر کے احترام کا جذبہ بیدار ہوا اور اس کی وجہ سے اہل علم کے ایک طبقہ میں وسیع الفکری اور وسیع المشربی کا مزاج پروان چڑھا۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جہاں بھی فکر میں وسعت اور اختلاف رائے میں تحمل پیدا ہوگی وہاں اعتدال اور میانہ روی پیدا ہوگی اور افراط و تفریط سے بچنا ممکن ہوگا۔ اسی لیے فقہ کے میدان میں بھی ندوۃ العلماء کی پہچان اس کا اعتدال اور فروعی مسائل میں غلو سے اجتناب ہے۔‘‘ ۳؂
چونکہ مسلمانوں کے اس طرح کے بیشتر اختلافات کی جڑ یا تو تعلیم کے میدان میں قدیم و جدید کی تقسیم یا فقہی فروعی اختلافات میں تشدد و غلو تھا، اس لیے ندوۃ العلماء نے (ایک طرف) اصلاحِ نصاب کے ذریعہ قدیمِ صالح و جدیدِ نافع کو جمع کرنے کی کوشش کی تو دوسری طرف اختلافات فقہیہ میں اعتدال کی راہ دکھائی۔ اور اس سلسلہ میں مسند الہند حضرت شاہ ولی اللہؒ کا نقطہ نظر ہی ندوۃ العلماء کی پہچان رہا، کہ شاہ صاحبؒ کے یہاں جو فکری و فقہی وسعت و توسع پایا جاتا ہے وہ برصغیر میں کم از کم اس وقت ناپید تھا۔ اور ندوۃ نے اس سلسلے میں صرف اجمالی رہنمائی اور اشارتی گفتگو ہی نہیں کی بلکہ فقہ کی تعلیم اور دارالافتاء کے قیام کے ذریعہ سے اس کو عملی شکل دینے کی بھی مکمل کوشش کی۔ اسی لیے سب سے پہلے ناظم ندوۃ العلماء حضرت مولانا سید محمد علی مونگیریؒ نے قیام ندوہ کے ابتدائی دور سے ہی دارالافتاء کے قیام کی کوشش کی اور بہت جلدی ہی اس سلسلے میں ندوۃ کی طرف رجوع ہونے لگا۔ اور اب تو ماشاء اللہ ندوہ کا دارالافتاء و دار القضاء ہندوستان کے گنتی کے چند اہم اداروں میں شمار کیا جاتا ہے اور ہند و بیرونِ ہند مختلف ممالک سے استفتاء ات آتے ہیں اور اس کے جوابات دیے جاتے ہیں اور دارالقضاء کے ذریعہ مختلف معاشرتی و سماجی مسائل کا تصفیہ کرایا جاتا ہے۔ 
اسی طرح سے فقہی منہج و مزاج میں توازن و اعتدال پیدا کرنے کے لیے علمائے ندوہ نے اپنے طلباء و مستفدین کی اعتدالی تربیت کا بھی بڑا خیال رکھا۔ علامہ سید سلیمان ندویؒ اپنے ایک عامل بالحدیث شاگرد کو ایک خط کے جواب میں نصیحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’وہابیت میں غلو اور تشدد نہ چاہیے، تصلب اور تعصب حکمِ دین میں چاہیے نہ کہ اشخاص اور ان کے مسالک میں، خواہ حنفیت ہو یا وہابیت بل ملۃ ابراھیم حنیفًا وماکان من المشرکین۔‘‘ ۴؂
ایک دوسری جگہ اپنے فقہی مزاج کی نشاندہی کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’مذہبی مسائل کی تحقیقات میں میرا یہ عمل رہا ہے کہ عقائد میں سلف صالحین کے مسلک سے علیحدگی نہ ہو البتہ فقہیات میں کسی ایک مجتہد کی تقلید بتمامہ نہیں ہو سکی بلکہ اپنی بساط بھر دلائل کی تنقید کے بعد فقہاء کے کسی ایک مسلک کو ترجیح دی ہے، لیکن کبھی کوئی ایسی رائے نہیں اختیار کی جس کی تائید ائمہ حق میں سے کسی ایک نے بھی نہ کی ہو، خصوصیت کے ساتھ مسائل کی تشریح میں حافظ ابن تیمیہؒ ، حافظ ابن قیمؒ اور حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی تحقیقات پر اکثر اعتماد کیا ہے۔‘‘ ۵؂
اسی طرح ایک مرتبہ اپنے ایک شاگرد کو لکھا کہ:
’’اور مسائلِ فقہیہ میں فقہائے محدثین کے طرز کو اختیار کیا جائے۔‘‘ ۶؂
علامہ نے اپنے فقہی مقالات اور ریاستِ بھوپال کے چیف قاضی کی حیثیت سے دیے گئے فیصلوں میں اس کا بڑا خیال بھی رکھا۔ اسی لیے ایک ندوی فاضل نے آپ کے فقہی مزاج و مسلک کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’مولانا سید سلیمان ندوی حنفی ضرور تھے مگر تقلید کی وجہ سے نہیں بلکہ تحقیق کی بناء پر، لیکن وہ اس انتساب کا ذکر و تذکرہ نہیں کرتے اور نہ ہی اس نسبت سے وہ اپنا تعارف کراتے ہیں، ان کے پیش نظر اسلام تھا، اور ان کی تمام تر خدمات اسلام اور مسلمانوں سے تعلق رکھتی ہیں، ان کے نزدیک ملت کے لیے وہی نام بس ہے جو حضرات ابراہیم ؑ کی طرف سے تجویز ہوا۔ ھو سمّا کم المسلمین۔‘‘۷؂
یہ حضرت علامہ سید سلیمان ندویؒ کی تربیت کا انداز اور ان کا فقہی مزاج تھا جو ندوۃ کے ابتدائی دور کا سب سے کامیاب ترین پھل اور نتیجہ تھے۔ پھر جیسے جیسے ندوۃ اپنی ترقی کے مراحل طے کرتا گیا اسی طرح اس میں علمی و عملی میدان میں ترقی ہوتی گئی۔ 
ندوۃ کی دوسری سب سے اہم و ممتاز شخصیت حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی ہے جو کہ شیخ العرب والعجم کہلائے۔ ان کے دور میں تو ندوہ کا تعارف بھی ہندوستان و بیرون ہند میں زبردست ہوا اور ندوۃ میں مختلف علاقوں اور ملکوں سے کسب فیض کے لیے آنے والوں کی تعداد خوب بڑھی۔ حضرت مولانا علی میاںؒ نے بھی فقہ کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی لیکن باین معنئ عام آپ نہ مفتی کی حیثیت سے مشہور ہوئے اور نہ اپنے آپ کو مفتی ثابت کرنے کی کوشش کی۔ لیکن وہ فقیہ النفس، نباضِ زمانہ اور امت مسلمہ کے ایک مقبول و ممتاز رہبر و رہنما تھے۔ مولاناؒ نے اپنے دور میں جدید پیش آمدہ مسائل کے علمی و فقہی حل کے لیے علماء و مفتیانِ کرام پر مشتمل چند افراد کی ایک کمیٹی ’’مجلس تحقیقات شرعیہ‘‘ کے نام سے قائم کی جو اس وقت کا ایک بڑا ہی جرأت مندانہ و مجتہدانہ قدم تھا۔ اس مجلس کے ذریعہ اجتماعی طور پر بہت سے جدید مسائل کو حل کرنے کی منظم کوششیں کی گئیں اور اب تو عالم اسلام اور ہندوستان میں فقہ اکیڈمی وغیرہ اس طرح کے مسائل کو الحمد للہ حل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ 

فقہ شافعی اور ندوۃ العلماء

حضرت مولانا علی میاںؒ کے دور میں تھائی لینڈ، ملیشیا، انڈونیشیا اور بعض دوسرے ممالک سے طلبہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے ندوہ آئے تھے، اس کا سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ اسی طرح بھٹکل، کیرالہ، کوکن و مدراس کے بھی طلبہ کی آمد کا سلسلہ ندوہ میں شروع سے رہا۔ بھٹکل سے تو بڑے منظم و مرتب انداز میں طلبہ آتے رہے اور الحمد للہ روز افزوں ترقی پر ہے۔ تو مولانا علی میاں صاحبؒ نے ان طلبہ کی فقہ کی تعلیم کے لیے ندوہ کے عام نظام کے اندر ہی فقہ حنفی کے بجائے ان کے لیے فقہ شافعی کو پڑھانے کا انتظام کیا تاکہ یہ طلبہ واپس جا کر اپنے معاشرے کے لیے نامانوس نہ رہیں اور معاشرے کی صحیح رہنمائی کا فریضہ انجام دے سکیں۔ اس کے لیے حضرت مولانا علی میاں صاحبؒ نے فقہ شافعی کے علماء و مدارس کے فقہ شافعی کے نصاب کو دیکھتے ہوئے ندوہ میں پڑھنے والے شافعی طلبہ کے لیے فقہ شافعی کی اہم درسی کتابوں کو نصاب میں داخل کیا اور فقہ شافعی سے تعلق رکھنے والے اساتذہ کی ایک اچھی تعداد کو ندوہ میں استاذ مقرر کیا۔ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر ایک شافعی ندوی عالم کو شام کے ایک ممتاز فقیہ کے پاس شافعی کے اختصاص کے لیے بھیجا۔ اسی طرح ندوہ سے متعلق مدارس میں ان مدارس کو جو شوافع کے علاقے میں قائم ہیں، ان کو پوری آزادی دی کہ فقہ کے تعلق سے وہ اپنے علاقے کے نظام و مسلک سے وابستہ رہیں۔ ندوہ کے بہت سے شافعی فارغین نے اپنی تصنیفات کے ذریعہ سے بھی فقہ شافعی کی خدمت کی، جن کی بھٹکل، کیرالہ اور دوسرے علاقوں میں ایک خاص تعداد ہے۔ ابھی چند ماہ پیشتر راقم کو تھائی لینڈ کے سفر میں وہاں جو ندوی فضلاء کی ایک بڑی تعداد اور ان کا عوام و علاقے کے اہم مدارس و مراکز سے جڑے رہنے کو دیکھنے کا موقع ملا تو اندازہ ہوا کہ ندوہ میں فقہ شافعی کے پڑھنے کی برکات کا اس میں بڑا دخل ہے کہ عوام کے مانوس مسلک سے ہٹ کر انہوں نے فتویٰ نہیں دیا اور عوام سے دور نہ رہے۔ 
اسی طرح بھٹکل اور اطراف کے علاقہ کا ندوہ سے جڑے رہنے میں بھی ندوہ کی بہت سی خوبیوں کے ساتھ اس کے فقہی مزاج کے اعتدال و توسع اور باقاعدہ عملی طور پر شوافع کے لیے فقہ شافعی کی عملی تعلیم کے انتظام کرنے کا بڑا دخل ہے۔ بلکہ ندوہ سے ملحق بعض مدارس میں بھی چند شافعی طلبہ اگر پہونچ جاتے ہیں تو ان کے بھی فقہ کو پڑھانے کا یہ حضرات اہتمام کرتے ہیں جس کی بہترین مثال خود حضرت مولاناؒ کے وطن ہی میں قائم مدرسہ ضیاء العلوم ہے کہ وہاں دو شافعی ممتاز علماء تدریس کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، شافعی نواں کے لیے فقہ حنفی کے پڑھانے کا مستقل انتظام کیا جاتا ہے۔ جامعہ اسلامیہ بھٹکل و مدرسہ ضیاء العلوم اور بعض دوسرے ندوی شافعی فضلاء کے قائم کردہ اداروں میں علمائے شوافع اور فقہ شافعی پر بھی جو کام ہوا یا ہو رہا ہے اس میں ندوہ کی سر پرستی اور اس کے فقہی اعتدال و توسع کا ضرور اثر پایا جائے گا۔
اس وقت ناظم ندوۃ حضرت مولانا سید محمد رابع صاحب حسنی ندوی دامت برکاتہم جو اپنے استاد و مرشد پیش رو حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ہی کے صفات کے حامل اور انہی کے پرداختہ و پروردہ ہیں، ان میں بھی اسی طرح کا اعتدال و جامعیت، فقاہت و دانشمندی اور امت کی رہنمائی و رہبری کے صفات پائے جاتے ہیں۔ ان کے دور میں تو حدیث میں اختصاص کرنے والے شافعی طلبہ کے لیے بخاری شریف کی جگہ باقاعدہ سنن بیہقی کے وہی ابواب داخل نصاب کیے گئے ہیں، اور اس سے شافعی طلبہ کو اپنے مسلک کے دلائل و ترجیحات کے معلوم کرنے کے سلسلے میں بڑا فائدہ ہو رہاہے۔ اسی طرح ندوہ کے دارالافتاء سے بھی فقہ شافعی سے متعلق سوالات پوچھے جاتے ہیں تو ان کا بھی اس کے اعتبار سے جواب دیا جاتا ہے۔ ندوہ کے مختلف دارالمطالعوں اور ندوہ کے علامہ شبلی لائبریری میں فقہ شافعی کے مصادر و مراجع بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح دارالمصنفین میں مقیم ندوی فضلاء نے بھی امام شافعیؒ اور فقہائے شافعیہ کے سیرت و حالات پر بعض کتابیں لکھیں۔ اسی طرح ندوے سے متعلق ایک اہم ادارے جامعہ اسلامیہ بھٹکل کی تاسیس پر نصف صدی گزرنے پر گزشتہ سال ۲۰۱۲ء میں جو علمی و دعوتی پروگرام ہوئے اس میں بھی نوجوان ندوی فضلاء جن میں سے اکثر ندوہ میں تعلیم حاصل کر رہے تھے، انہوں نے بھی قدیم فقہائے شافعیہ کے حالات پر اردو میں مختصر و جامع کتابیں لکھیں۔ ندوہ کی جامع مسجد میں جو ائمہ حضرات مہتمم ندوہ حضرت مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن صاحب الاعظمی الندوی کی نگرانی میں نماز پڑھاتے ہیں، ان میں بھی ایک شافعی امام ہیں، نیز مسجد ندوہ میں عموماً شافعی طلبہ کی بڑی رعایت کی جاتی ہے۔ 

حوالہ جات

۱۔ تاریخ ندوۃ العلماء (جلد ۱)
۲۔ ندوۃ العلماء کا فقہی مزاج اور ابنائے ندوہ کی فقہی خدمات (ص ۲۶)
۳۔ ایضاً 
۴۔ مطالعہ سلیمانی (ص ۱۲۰)
۵۔ مطالعہ سلیمانی (ص ۱۱۷)
۶۔ مطالعہ سلیمانی (ص ۱۲۲)
۷۔ مطالعہ سلیمانی (ص ۱۲۴)
(بشکریہ ماہنامہ ’’بانگ حرا‘‘ لکھنؤ جون ۲۰۱۳ء)

اسلام، جمہوریت اور مسلم ممالک

قاضی محمد رویس خان ایوبی

ترجمہ: قاضی محمد رویس خان ایوبی

۱۹۹۹ء میں Center For Study Of Islam And Democracy  مسلم اور غیر مسلم دانشوروں کے باہمی اشتراک سے قائم کیا گیا ۔ اس کا بنیادی مقصد اسلام او ر جمہوریت کے بارے میں تحقیقاتی مباحث تیار کرنا اور مسلمان ملکوں میں جمہوریت کے فروغ کے لیے جدوجہد کرنا ہے اور یہ کہ دور جدید کی اسلامی جمہوری ریاست کا قیام کس طرح عمل میں لایا جا سکتا ہے۔ اس ادارہ کے زیر اہتمام مختلف اوقات میں تربیتی ، تحقیقاتی ، پروگرام منعقد ہوتے رہتے ہیں جن کا موضوع اسلام اور حقوق انسانی اور امن عالم ہوتا ہے۔ یہ ادارہ ہمہ وقت اس کوشش میں مصروف ہے کہ عالم اسلام اور امریکہ دنیا میں قیام امن کے لیے مشترکہ جدوجہد کریں۔ راقم الحروف کو اس ادارے کے زیر اہتمام ۱۸؍جون ۲۰۰۲ء کو منعقد ہونے والے سیمینار میں شرکت کا موقع ملا جس کی رپورٹ کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے۔ (مترجم)

جمہوریت اور اسلام 

تمہید : عموماً لوگوں میں یہ خیال عا م طو ر پر پایا جاتا ہے کہ جمہوریت ایک مغربی اصطلاح ہے۔ اسے مذہبی اعتبار سے سیاسی اعتبا ر سے بھی مغرب ہی کے مفکرین نے پروان چڑھایا اوریہی وجہ ہے کہ جمہوریت اسلام کی تعلیمات اور اس کے بنیادی عقائد سے قطعی طور پر ایک مختلف نظام حکومت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربیت کے اس لیبل کی وجہ سے جمہوریت کو دنیا میں پچپن (۵۵) اسلامی ممالک کے کروڑوں باشندوں میں مقبولیت حاصل نہ ہوسکی اور اکثر اسلامی ممالک جبرواستبداد اور آمریت کے خوفناک شکنجے میں کسے ہوئے ہیں اور مسلمانوں کے ذہن میں یہ بات راسخ کر دی گئی ہے کہ تم جمہوریت چاہتے ہو یا سلام؟ گویا جمہوریت اوراسلام دو متضاد نظام ہیں جو اکٹھے نہیں چل سکتے ۔ علامہ رضوان معموری نے اس خلیج کو پاٹنے کی کوشش کی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ اسلام اور جمہوریت میں کوئی تضاد نہیں ۔ اسلام کے سیاسی ضوابط اور جمہوریت میں تضاد ہے۔ بلکہ اس کے متعدد عوامل ہیں، تاریخی، اقتصادی، سیاسی ، ثقافتی عوامل نے ہی اسلامی ممالک کو جمہوریت کی راہ پر نہیں چلنے دیا۔ دین اسلام جمہوریت کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہم مذکورہ بالاعوامل کی باریکیوں پر بحث کرتے رہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم وہ ذرائع اور اسلوب اختیار کریں جن کے ذریعے ہم موجودہ صورتحال سے نکل سکیں۔ امریکی شہری ہونے کے ناطے اور امریکن مسلمان ہونے کے ناطے وہ کون سے وسائل ہیں جنہیں اختیار کرکے ہم اسلامی ممالک میں جمہوری عمل کو فروغ د ے سکتے ہیں۔ امریکی انتظامیہ نے یہ طے کر رکھا ہے کہ وہ ان تمام مسلمان اداروں کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دے گی جو امریکی مفادات کو اپنے ملکوں میں تحفظ فراہم کریں گے۔ قطع نظر اس بات کے کہ ان کی انسانی حقوق اور جمہوری اداروں او ر سیاسی امور کی پالیسیاں کس ڈگر پر چل رہی ہیں؟ 
معموری نے اپنے مقالہ میں استفسار کیا ہے کہ’’ ہم نے اس بات پر سمجھوتہ کر لیا ہے کہ ہم اس وقت تک عالم اسلام کے ان جابر حکمرانوں کی پشت پناہی کرتے رہیں گے۔ جب تک وہ امریکی مفادات کے لیے کام کرتے رہیں گے اور ہمارے بندہ بے دام بن کر ہماری ہاں میں ملاتے رہیں گے۔ لیکن اس سیاست کے اسلامی دنیا پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟کیا یہ ممکن نہیں کہ اس طرح کی سودے بازی امریکہ کے خلاف مزید نفرتوں اور دشمنیوں اور دہشت گردی کو فروغ دے گی؟ اور اگر ہم اس طرز عمل کو بد ل ڈالیں اور اسلامی دنیا میں جمہوریت کے فروغ کے لیے کام کریں تو کیا اس صورت میںیہ ممکن ہے کہ جمہوری عمل کا قیا م پر امن طریقے سے عمل میں لایا جائے اور اسلامی دنیا میں اس تبدیلی سے مقامی وملکی حالات میں کوئی گڑبڑ اور فساد نہ ہو؟ اور زمام حکومت انتہاء پسندوں کے ہاتھ چلی جائے۔ کیا استحکام اور جمہوریت میں سے ہم کسے اختیار کریں تاکہ ہمارے مقاصد پورے ہو سکیں یا کوئی اور ایسا طریقہ اختیار کیا جائے جس سے کسی فتنہ وفساد کے بغیر جمہوریت کو فروغ دیا جا سکے۔ 

مسلم دنیا میں جمہوریت کے لیے مشکلات 

لیث lath cobbaنے اپنی تقریر میں واضح کیا ہے کہ اسلامی ممالک میں جمہوریت کی بحالی ایک مشکل اور تکلیف دہ مرحلہ ہے۔ کسی معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا اور ترقی پسند اداروں کا قیام اور نچلی سطح سے تبدیلی کا آغاز نہایت سست رفتاری سے اور نہایت محدود طریقے سے ہوتا ہے۔ جمہوری اقدار تاہنوز ظلم وجبر او رروایتی کلچر کو اسلامی ممالک سے ختم نہیں کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان ملکوں میں فوجی ٹولہ، چند سرمایہ دار، قبائلی سردار اور رجعت پسند لیڈر ہی کرسی اقتدار پر ہمہ وقت براجمان رہتے ہیں۔ اس کے برعکس مغربی ممالک میں سیاسی تشدد، انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور سرکاری مناصب کا غلط استعمال بہت کم ہوتا ہے، بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اکثر اسلامی ممالک بالکل جمود کی حالت میں ہیں جو ممالک بددیانت بیوروکریسی اور ظالم ڈکٹیٹر شپ کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ وہاں کسی قسم کی اصلاح اور تبدیلی ناممکن ہے جس کا نتیجہ جوابی تشدد اور انتہاپسندی ہے۔ اس طرح اسلام کے نام پر لادین عناصر سیاست کا کاروبار کر رہے ہیں، جبکہ معتدل اسلا می جماعتیں جوکہ لوگوں کوقابل قبول ہیں۔ وہ مذکورہ بالافوجی سرداروں اور نسلی اقتدار پرستوں کے ظلم وجبر کا شکار ہیں۔ 
لیث کبہ نے زور دے کر کہا کہ ’’ بیشتر اسلامی ممالک اور غیر ترقی یافتہ ممالک کے لوگ پوری قوت سے جدید تہذیب، ترقی اور منتشر وسائل کو مجتمع کر نے کی جدوجہد کر ر ہے ہیں اور مقامی اقوام کی خواہشات کو شاندار مستقبل سے وابستہ کرکے ایک مرکزی حکومت کی تشکیل میں مصروف ہیں۔ جہاں اصلاحات کا آغاز اوپر سے فرسودہ نظام سے نچلی سطح تک لاکر جدید خطوط پر استوار کیا جائے۔ بہت سارے سیاسی مفکرین کا خیال ہے کہ یہی وہ بہترین طریقہ ہے جس سے ہم جمہوری انداز میں تعمیر وترقی کے زینے پر چڑھ سکتے ہیں۔ تاہم اس کام کے لیے پیچیدہ اورمشکل آغاز سے راہ فرار اختیار کرنا ناممکن نہ ہوگا۔ اس کام کے لیے ایک ایسا نظام متعارف کروانا ہوگا جہاں متعدد تنظیمیں سرگرم عمل ہوں اور پبلک کا عام آدمی بھی بھر پور شرکت کرسکے ۔ نیز اس کے لیے فرد کی مکمل آزادی اور لبرل ازم کو فروغ دینا ہوگا۔ 
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ لادین قوتوں نے معاشرے کی ضروریات کو پورا کرنے میں قطعی طور پر کوئی مثبت پیش رفت نہیں کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ۱۹۷۹ء میں ایرانی انقلاب نے لوگوں کی توجہ اسلام پسند قوتوں کی طرف مبذول کردی۔ اس وقت سے اسلام جو کہ ہر معاشرے میں جذب ہونے اور معاشرتی اقدار کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، ایک خطرناک ہتھیار کے طور پر اپوزیشن اور برسراقتدار گروہ کے ہاتھ لگ گیا، تجدد پسند گروہ ہوںیا قدامت پرست، دونوں نے اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ بایاں بازو اور دایاں بازو، دونوں اسے ایک سیاسی نظام سمجھنے لگے۔ علاوہ ازیں تمام اسلامی تحریکیں ایک لادینی نظام کے بجائے اسلامی سیاسی نظام کے لیے کوشاں ہو گئیں۔ تاہم ان کے افکار وجمہوریت اور آمریت کے بارے میں مختلف ہیں۔ گزشتہ دو عشروں میں تعلیم یافتہ مسلمان جمہوریت اور انسانی حقوق کی جدوجہد میں مصروف ہیں، کیونکہ اشتراکیت کا بوریا بستر گول ہوگیا ہے اوراب میدان خالی ہے۔ لادین نظام حکومت اور اسلامی ادارے اقتصادی، اجتماعی ضروریات پوری کرنے سے قاصر رہے۔ یہ جدید طرز فکر صرف تعمیر وترقی کی طرف گامزن کرنے کے لیے نہیں بلکہ اصل جدوجہد اسلامی سرگرمیوں کو فروغ دینا ہے۔ 
کبہ کے خیال میں اسلامی دنیا میں جمہوریت کے معدوم ہونے کے اسباب صرف مسلمانوں کے کردار کا مطالعہ سے معلوم نہیں کیے جاسکتے بلکہ ان کی ثقافتی ، تمدنی اور سیاسی ضروریات پر گہرا غور وخوض کرنے کے بعد ہی معلوم کیے جا سکتے ہیں۔ اسلام کو ریاست اور دین معاشرت سب کے لیے یکساں طور پر بغیرکسی نظم وضبط اور ترتیب کے شافی علاج قرار دینااس کی صورت کی مسخ کر دینے کے مترادف ہے۔ اگرچہ مذکورہ مشکلات کے حل کے لیے ہمیں کسی حد تک اسلام کی طرف رجوع کرنا پڑے گا اور اس کے مختلف مسلک کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔ تاہم مسلمانوں کے اہم اور بڑے بڑے مسائل کاتعلق اسلام سے نہیں بلکہ خود مسلم کمیونٹی سے ہے۔ ان مسائل کومذہب کے ساتھ نتھی کرنے سے ہی دراصل مشکلات پیداہوتی ہیں اور یہ مسائل جدید تمدنی انقلاب نے پیدا کیے ہیں۔ اسلام صرف ایک عنصر ہے ان مجموعی عناصر میں سے جن سے اسلام کی اورمسلمانوں کی تاریخ اور تمدن اور ثقافت وجود میں آئی۔ صاف ظاہر ہے کہ اس وقت ۵۵ اسلامی ممالک ہیں۔ ان میں اکثر کا تمدن وثقافت زبان ایک دوسرے سے مختلف ہے جو کہ جغرافیائی اعتبار سے دنیاکے مختلف خطوں میں واقع ہیں، لیکن اس کے باوجود ان ممالک کے باشندے اسلامی تعلیمات کی تاثیر رکھتے ہیں۔ ثقافتی اعتبار سے یہ ایک دوسرے سے اسی طرح مختلف ہیں جس طرح عیسائی مذہب والے لوگ لاطینی امریکہ سے لے کر فلپائن تک مختلف ثقافتی اقدار کے مالک ہیں۔ اگرچہ اسلامی ممالک کی مجموعی صورتحال حوصلہ افزا نہیں تاہم مسٹر کبہ کے خیال میں تعلیمی معیار بلند کرنے سے حالات تبدیل ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح میڈیا کے ذریعے اسلامی معاشرے میں تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں جو کہ مختلف ثقافتی اقدار کو اسلامی معاشرے میں منتقل کر رہا ہے، جب کہ اسلامی ریاستیں بھی یہی چاہتی ہیں کہ ان میں بنیادی تبدیلیاں واقع ہوں اور اصحاب اقتدار اور رعیت کے درمیان فاصلے کم ہوں۔ 
کب نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے کہاکہ ہم مستقبل سے مایوس نہیں ہیں اور ہمیں پوری امید ہے کہ اگر اس طرح کے مذاکرات اور سیمینار جاری رہے تو اسلامی دنیا کو اسلامی تمدن کے باقی رکھتے ہوئے جدید خطوط پر استوار کیاجا سکتا ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ اس طرح کے مذاکرات سے ہم اسلامی دنیا میں جمہوریت کے قیام اور انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے کام کر سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم مقامی حالات کو مدنظر رکھ کر کام کریں۔ 

اسلام اور جمہوریت میں مطابقت 

مسٹر مقتدر خان نے اپنے خطاب میں اس نظریے کو قطعی طور پر مسترد کر دیا کہ اسلامی دنیا میں جمہوریت سرے سے نہیں اور انہوں نے واضح کیا کہ ۷۵فی صد مسلمان بنگلہ دیش ، ہندوستان، انڈونیشیا ، یورپ، شمالی امریکہ، اسرائیل، ایران وغیرہ میں جمہوری اداروں کے تحت ہی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس پر مزید اضافہ کر لیجیے کہ اسلامی تاریخ میں ہمیں علماء دین کو کشمکش اقتدار میں شریک ہوتے نہیں دیکھا، سوائے ایران کے انقلاب کے، جبکہ گزشتہ پندرہ سو سال سے ظہور اسلام سے لے کر آج تک اسلامی ممالک میں اقتدار سیکولر منتخب لوگوں کے ہاتھوں میں رہا۔ 
اسلام اور جمہوریت کے درمیان عدم مطابقت کا دعوی بالکل دو متضاد فکر رکھنے والے گروپوں کے درمیان تنازعہ ہے۔ بعض مغربی مفکرین کا خیال ہے کہ اسلامی بنیادی طورپر جمہوری نظام کے خلاف ہے اور یہ مذہب دراصل استبدادی نظام پر استوار ہے جس سے دراصل یہ ثابت کرنا مقصو د ہے کہ اسلام کی اصل تصویر کو مسخ کردیاجائے اور بتایاجائے کہ مغربی لبرل ازم کے مقابلے میں اسلام کی کوئی حیثیت نہیں اور یہ اسلام جدید تمدن اور ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس فکر کے حاملین دراصل اسرائیل کے گماشتے ہیں جو یہ ثابت کرناچاہتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں صرف اسرائیل ہی جمہوریت کاعلم بردار ہے۔ دوسری طرف بہت سارے جدید فکر کے حامل مسلمان لادین حکومت اور اقتدار کو غلط معانی پہنا لیتے ہیں تاکہ جمہوریت کی نفی کی جاسکے تاکہ لوگوں کو یہ باور کرایاجا سکے کہ عوام کی حکومت دراصل حاکمیت الٰہیہ کے مقابلہ میں گھڑی گئی ہے جوکہ سراسر شرک ہے جبکہ ان کا یہ خیال قطعی طور پر غلط ہے کہ لادین حکومت اور جمہوریت دونوں ایک ہی چیز ہیں۔ جب کہ سیدھی سی بات ہے کہ جمہوریت اورسیکولرازم لازم وملزوم نہیں اور ضروری نہیں کہ ایک جمہوری حکومت لادین حکومت ہو۔ عین ممکن ہے کہ دین جمہوری حکومت میں اہم کردار ادا کرے جیساکہ اہم امریکہ میں دیکھتے ہیں۔ 
مسٹر خان نے اپنے خطبہ میں یاد دلایا کہ مسلم مفکرین اس بات پر متفق ہیں کہ شورائی نظام اسلام کی اساس ہے۔ تاہم نظام شورائیت اور جمہوریت میں بعض اختلافات موجود ہیں۔ مثلاً ’’شوریٰ‘‘ کانظام یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی فیصلہ کرنے سے قبل باہمی مشاورت کرنا ہے اور ایساکرنا واجب ہے۔ کیوں کہ قرآن کریم میں ارشاد ’’وشاورہم فی الامر‘‘ امروجوب کے لیے ہے، لہٰذا شوریٰ کے ’’ مشورہ‘‘ کے بغیرکوئی فیصلہ قابل عمل نہ ہوگا اور شوری کے فیصلوں پر عمل کرنا واجب ہوگا۔ جب کہ دوسرا گروہ قرآن کی دوسری آیت سے استدلال کرتا ہے کہ ’’امرہم شوری بینہم‘‘۔ مشورہ کرنا چاہیے، لیکن مجلس شوریٰ کے فیصلے پرعمل درآمد ضروری نہیں ۔ لہٰذا اساسی طور رپر شوریٰ نظام حکومت کاحصہ توہے لیکن بعض کے نزدیک اس کی حیثیت صرف مشاورت کی ہے۔ نفاذ کااختیار شوریٰ کونہیں اور بعض کے نزدیک شوریٰ کا فیصلہ بہرطور نافذ ہونا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی قسم کے سرکاری فیصلوں کے لیے شوری کا ہونا ضروری ہے۔ لیکن کیا حکومت شوریٰ کے فیصلوں کی پابند ہے اور کیا شوریٰ کے فیصلوں سے انحراف کرنے والی حکومت غیر قانونی حکومت کہلائے گی؟ سر دست ان سوالوں کا جواب کافی مشکل ہے۔ 
بہت سے مفکرین یہ کہتے ہیں کہ شوریٰ نظام سے بہتر نظام ہے، لیکن فقہاے اسلام کا موقف اس سلسلہ میں واضح نہیں ۔ ان میں بہت سے فقہا غیر شورائی نظام کو درست سمجھتے ہیں تاکہ انہیں روزگار کی سہولتیں حاصل رہیں اور آمرانہ حکومتوں نے ان کو جو سہولتیں دے رکھی ہیں وہ برقرار رہیں۔ اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ شورائی نظام جمہوری نظام کی تائید کرتا ہے تاہم یہ کہنامشکل ہوگاکہ شورائی نظام اور جمہوری نظام ایک ہیں۔ 
مسٹر خان کا خیال ہے کہ ہمیں اس میدان میں مسلسل فکری کاوشوں کی ضرورت ہے تاکہ ہم شورائی نظام کے مزاج اور اس کے جمہوری نظام سے تعلق کی حد بندی کر سکیں اور یہ معلوم کرسکیں کہ اس کااسلام کے اساسی نظام سے کیا تعلق ہے۔ مسٹر خان نے زور دے کر کہاکہ اب میدان سیاست میں بے شمار تحریکیں کود پڑی ہیں جن کی نظر میں اسلامی اقتدار بنیادی نقطہ ہے اور ان کے خیال میں جمہوری نظام کاقیام اور اسلامی نظام کا قیام دو متضاد نظریے ہیں۔ قرآن کریم میں اقتدار کا مفہوم کسی خاص جغرافیائی حدبندی کا متقاضی نہیں، بلکہ وہ بشری توسط سے ایک با لاتر چیز ہے۔ یہ ایک ایسا کامل نظام ہے جس کو تقسیم نہیں کیاجاسکتا۔ یہ ایک انسانی نظام بھی ہے جسے انسانیت سے الگ نہیں رکھا جاسکتا۔ اس کا مفہوم کلی یہ ہے کہ اقتدار اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ ہی کا ہے اور قانون سازی کا حق بھی صرف اللہ ہی کو ہے۔ ریاست اور خلیفہ صرف اس کے نفاذ کے وسائل ہیں جنہیں جزوی طور پر نفاذ قانون کی ذمہ داریاں پورا کرنا ہیں ۔ فکری اعتبار سے جدت پسندی اور اسلامی حاکمیت کے تصور میں کوئی فرق نہیں، تاہم عملی اعتبار سے اس میں خاصا اضطراب ہے۔
اسلامی ممالک کی نوجوان نسل کا خیال ہے کہ جمہوریت اس نظام حکومت کا نام ہے جس میں قوانین کا نفاذ اور ان کا صدور انسانی خواہشات کے مطابق ہوتا ہے جب کہ اسلامی مبادیات اور اس کی اساس قوانین الٰہیہ پر مشتمل ہے جس چیز کو یہ لوگ نظر انداز کر دیتے ہیں، وہ یہ ہے کہ جمہوریت دراصل حکومت کے جبرواستبداد کے روکنے کا راستہ ہے۔ اس کا تعلق صرف قانون سازی سے نہیں۔ فکری اعتبارسے اقتدار اور حکومت کس کاکام ہے۔ قطع نظر اس بات کے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ عملاً ملک کے اندر حکومت ہی تمام تبدیلیاں لاتی ہے۔ مثلاً افغانستان میں طالبان نے حکومت الٰہیہ کاقیام کا اعلان کیا، لیکن عملی طور پر تو خود طالبان ہی تمام نظام کو کنٹرول کر رہے تھے اور وہاں کی حاکمیت ملا عمر کی تھی۔ خدا خود تو حکومت نہیں چلا رہا تھا۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ حکومت چلانا بندوں کا کام ہے چاہے وہ جمہوری نظام ہو یا اسلامی نظام۔ پس سوال یہ نہیں کہ انسان کو حکومت کرنے کا حق ہے یا نہیں؟ اصل سوال یہ ہے کہ انسانی حکومت کو ہم کس طرح قوانین کاپابند کر سکتے ہیں کیوں کہ اسلامی نظام حکومت ہو یا جمہوری ، بہرحال دونوں نظاموں میں فیصلہ صادر کرنے کا اختیار بندوں کے پاس ہوتا ہے۔ 
جمہوریت ایک ایسانظام ہے جس کی غرض وغایت حکومت کے اختیارات کو محدود کرنا، ریاستی ذمہ داریوں کابوجھ اٹھانا اور اختیار واقتدار میں توازن برقرار رکھنا عدلیہ کوانتظامیہ سے الگ کرنا ؍رکھنا اور صاف ستھرے فیصلہ صادر کرنا اور ناجائز اختیارات کوپوری قوت سے استعمال کرناہے۔ اسلامی دنیا کے مطلق العنان انسانی حکمرانوں اور فوجی طالع آزماؤں او ر ڈکٹیٹروں اور بادشاہوں کور اہ راست پر لانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کی آمریت کونہ صرف محدود کیا جائے بلکہ اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ 
ڈاکٹر خان نے کہا کہ اسلامی نظام میں انسان خداکانمائندہ ہے جو اس کے دیے ہوئے قوانین کو نافذ کرنے کا پابند ہے۔ وہ خود شارع نہیں کہ اپنی مرضی سے تشریع (قانون سازی) کرتا پھرے۔ اسلامی نظام کا اصل ہدف یہ ہے کہ نوع انسانی کی بھلائی کے لیے خدا کی طرف سے دی گئی امانت اقتدار کوکس طرح استعمال کیا جائے کہ انسانیت کا مستقبل اور حال روشن ہو۔ ہماری اس دنیا میں حقیقی حکومت تو صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ انسان تو صرف اس کی حاکمیت کو عملی طور پر نافذ کرنے کے لیے اس کا نمائندہ ہے۔ حکومت انیبیہ کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آمراور بادشاہ ایسے جبرواستبداد کو فروغ دیں جس سے نوع انسانی بلبلا اٹھے اور یہ ظالم محض اللہ کے نام پر استحصال کرتے رہیں اور کسی کے سامنے بھی جواب دہ نہ ہوں۔ 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کہ اسلامی جمہوری نظام کاایک مکمل نمونہ نظر آتی ہے جیساکہ آپ میثاق مدینہ کے احکامات میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ ۶۲۲ ء میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد نقشہ عالم میں پہلی مرتبہ اسلامی ریاست کی داغ بیل ڈالی آپ ہی اس ریاست کے سربراہ تھے۔ آپ ہی امت اسلامیہ کے قائد اور رہنماتھے۔ آپ ہی سیاسی لیڈرتھے۔ مسلسل دس سال تک مدینہ کے تین سیاسی اور مذہبی عناصر کوساتھ لے کر چلتے رہے ۔ مہاجرین ، انصار، یہود اگر چہ میثاق مدینہ کو دورحاضر کے نقطہ نظر سے ریاستی دستور کانام نہیں دیا جاسکتا، تاہم یہ میثاق دور حاضر میں ایک شاندار گائیڈ کا کام دے سکتا ہے۔ 
میثاق مدینہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ آسمانی ہدایت اور زمینی دستور میں کس طرح توازن رکھاجا سکتا ہے۔ یہ بات ممکن تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمام مسلمانوں کوحکم دیتے کہ جو کچھ بذریعہ وحی نازل ہوگا اس کا تسلیم کرناسب پر واجب ہوگا اور ہر غیر مسلم وحی آسمانی پر پابند ہوگا، لیکن جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمہوری روح پیدا کرنے کے لیے میثاق مدینہ ، اصحابؓ کے مشورہ سے تحریر فرمایا جس پر یہود کے دستخط بھی تھے اور مسلمان زعما کے دستخط بھی۔ یہ طرز فکر آج کل مسلمانوں میں مفقود ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرریاست مدینہ کے لیے وحی آسمانی کو دستور قرار دیا تو عین اسی وقت مدینہ میں رہنے والے تمام انسانوں کوبھی میثاق مدینہ کے ذریعے اس ریاست کے معزز شہری کی حیثیت دی، قطع نظر اس کے کسی کامذہب کیا ہے۔ اس میثاق سے ایک سوشل ویلفیئر ریاست وجود میں آئی جس میں ؟؟ نے بلا لحاظ مذہب اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح اپنا حاکم تسلیم کیا، جس طرح مسلمانوں نے۔ کاش کہ آج بھی مسلمان حکمران اسی طرز عمل کو اپناتے تو انہیں ذلت اور خواری اور عوام دشمنی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ 
میثاق مدینہ عوام کی مرضی اور حکومت اور عوام مسلم دونوں کومساوی حقوق حاصل تھے۔ تمام مذاہب کو اپنے اپنے مذہبی عقائد کے مطابق اعمال کرنے کی اجازت تھی۔ مساوات ، عوامی رائے کا احترام، مختلف النوع افراد او ر قبائل کا باہمی اتفاق واتحاد میثاق مدینہ کی روح تھی۔ ڈاکٹر خان نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی بلند ترین اخلاقی اقدار کی حامل تھی۔ درگزر، معافی، رحمت اور شفقت کا اعلی ترین نمونہ تھی جبکہ موجودہ میں بعض لوگ قرآن کی تشریح کرتے ہوئے ان اعلیٰ اقدار کو نظر انداز کرتے ہوئے محض جبروتشدد ہی کو اسلام سمجھنے لگے ہیں۔ یہ غلط اور محض غلط الزام تراشی ہے جیسے طالبان نے افغانستان میں کیا۔ 

اسلام اور انسانی حقوق

انسانی حقوق کے اعتبار سے ہم مسلم مفکرین کوتین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ 
پہلی قسم وہ لوگ ہیں جواسلام کی ان اقدار پر سختی سے کاربند رہناچاہتے ہیں جوانہیں اسلام کے ابتدائی یا درمیانی د ور میں ملتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ معاشرہ افراد کے مجموعے کانام ہے ۔ اگر فرد درست نہ ہوں گے تو معاشرہ درست نہیں ہو سکتا۔ ان کے نزدیک عورت کاحجاب اور اس کابے باک نگاہوں سے مردوں کے سامنے آنا بھی معاشرہ میں فساد کا سبب ہے۔ یہ لوگ دعوت دین کے معاملے میں بھی لگی بندھی روایتی رسومات کے پابند ہیں ۔ ایسے لوگوں کاکہناہے کہ مغربی دنیا اسلامی حقوق کے نام پر اسلامی دنیا پر قبضہ کے خواب دیکھتی ہے۔ اس کو انسانی حقوق سے زیادہ اسلامی دنیا کے مادی وسائل پر قبضہ سے دلچسپی ہے تاکہ اسلامی معاشرے کوانسانی حقوق کی خوبصورت چھتری مہیا کر کے اسے دینی بندھنوں سے آزاد کرکے آوارہ ،جنس پرست بنا کر ان کے وسائل ہتھیالیے جائیں۔ یہ گروہ اس اعلان کی سختی سے مخالفت کرتا ہے جس کی دفعہ ۱۶، ۱۸ میں میاں بیوی کو برابر کے حقوق دیے گئے ہیں، جن میں کہا گیاہے کہ میاں بیوی دونوں کوحقوق حاصل ہے کہ وہ جو دین بھی اختیار کریں، ان پر کوئی پابندی نہیں۔ بالخصوص عورتوں کے سلسلہ میں بنائے گئے بین الاقوامی قوانین جن میں مردو زن کی کلی مساوات کا ذکرہے، اسے یہ لوگ تسلیم نہیں کرتے۔ خاص طور پر ان کے نزدیک کسی عورت کو کسی غیرمسلم سے شادی کاحق نہیں۔ ان کے نزدیک جو شخص اسلام کو ترک کر کے کوئی دوسرا مذہب اختیار کرلے، واجب القتل ہے۔ اس گروہ کے لوگ اس امر کو نہیں مانتے کہ ’’عقل‘‘ اخلاقی اقدار کا مصدر رہے بلکہ ان کے نزدیک قدیم ورثہ مذہب ہی اصل ہے اور ہمیں اپنی وراثت قدیمہ کوترک نہیں کرنا چاہیے ۔اس گروہ کے دورحاضر کے سرخیل حسب ذیل حضرات ہیں: ابوالاعلیٰ مودودی (م۱۹۷۹ء)، حسن البناء، سید قطب (۱۹۶۶ء)، امام خمینی (م ۱۹۸۹ء) ۔
دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتے ہیں اور جدید افکار ونظریات کے ذریعے اصلاحات کا عمل دورحاضر کے مطابق جاری رکھنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ غیر اسلامی اوراسلامی افکار میں تفریق کے قائل نہیں۔ ان کے خیال میں ترقی کے لیے اسلامی حدود میں رہ کر ہر طرح کے وسائل اختیار کرنا درست ہے۔ یہ لوگ اسلامی مبادیات کے تحفظ کی بات بھی کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ان کا خیال بھی ہے کہ اسلامی روایات تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ انہیں جدید معاشرے کے مطابق ڈھالنے کے لیے تبدیلی ضروری ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کو وقتی تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا سکے ۔اس اختلاف کاتجزیہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اصلاح پسندوں کے خیال میں قدامت پسند طبقہ جن قوانین کو قانون الٰہی کا درجہ دیتا ہے، یہ اصل میں مختلف اسلامی مفکرین کی تعبیرات ہیں جنہیں اسلامی قانون کا درجہ دے دیا گیا ہے جب کہ علم الٰہی کے ماہرین کی تعداد بہت کم تھی جنہوں نے بہت عرصہ قبل ان تشریحات کو مدون کر دیا تھا۔ سروش نے یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ دین کی نصوص کی تشریح کے سلسلے میں کسی ایک فرقہ کی اجارہ داری یا کسی جماعت، گروہ، فرد کی اجارہ داری کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا ،بلکہ اس سلسلہ میں ضرورت اس بات کی ہے کہ علماء دین اور دیگر مفکرین اور دانش وروں کے درمیان کھلے عام کھلے ذہن کے ساتھ بحث وتمحیص ہو۔ سروش کے خیال میں انسانی حقوق کے مسائل کا فقہی معاملات سے رسمی سا تعلق ہے۔ انسانی حقوق کا تعلق تو فلسفہ، علم کلام، یعنی عقل ، آزادی فکر اور اسلامی جمہوریت سے ہے۔ (عبدالکریم سروش کے مضامین، جامعہ آکسفورڈ نمبر ۱۲۸ )۔
سروش اپنے مضامین میں باربار اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ بعض معاملات ایسے ہیں جنہیں مذہب سے اخذ نہیں کیا جا سکتا ۔ انہی معاملات میں سے انسانی حقوق کے مسائل ہیں۔ اس دین کی زبان اور قانون دین کی زبان فرائض وواجبات، Dutiesکی زبان ہے۔ اس میں حقوق کا کوئی تذکرہ نہیں، جب کہ شیخ راشد غنوشی جو کہ تونس میں اسلامی انقلاب کے قائد ہیں، ان کا خیال ہے کہ ہمیں ایسی جمہوریت ایسی آزادی فکر کی ضرورت ہے جوکہ امت اسلامیہ کوپستی اور غیر ترقی یافتہ اقوام کی صف سے نکال کر ترقی یافتہ اقوام کے شانہ بشانہ کھڑا کرسکے، لیکن یہ آزادی فکری اور یہ جمہوریت اسلام کے بنیادی اصولوں سے ہم آہنگ ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ فرد کے ساتھ معاشرہ مجموعی طور پر وہ اصلی زمینی حقیقت ہے جس کے بغیر کسی قسم کے تصورات کو عملی جامہ پہنایا جاسکتا ۔ جمہوریت، آزادی، دو ایسے وسیلے ہیں جنہیں اختیار کر کے امت مسلمہ اپنی خودمختاری اور اپنے مفادات کا تحفظ کر سکتی ہے۔ ( اسلام اور جمہوریت سیکولرازم کا چیلنج جلد ۷ ، شمارہ ۲۰، ص ۶، ۱۹۹۶ء ) 
تیسری قسم ان مسلمانوں کی ہے جو کہ مسلمان تو ہیں مگر سیکولرازم کے قائل ہیں جن کے خیال میں مغربی سیکولرازم کو اپناکر مسلم قوم کو ترقی سے ہم کنار کیا جا سکتا ہے ۔ یہ گروہ دنیا میں ہونے والی عملی تبدیلیوں اور زمینی حقائق کے مطابق فیصلہ کرنے کے قائل ہیں۔ ان کے خیال میں شرعی قوانین کو انسانی قوانین کی جگہ نافذ کرنا ناممکن نظر آتا ہے۔ ان کے خیال میں اسلام کے سیاسی نظام شوریٰ اور بیعت خلافت نے فرد کی اصلاح کے لیے کچھ نہ کیا اور نہ اس نظام میں ایساکرنے کی صلاحیت ہے اور نہ ہی اس نظام میں لوگوں کوحکومت کامحاسبہ کرنے کاحق حاصل ہے۔ یہی وہ ہے کہ اس وقت عالم اسلام میں لادین قوتیں ہی بر سراقتدار ہیں۔ 
ایران ۱۹۷۹ء سے، سوڈان ۱۹۸۹ء اور طالبان حکومت ۱۹۹۵ء سے (جو کہ اب ختم ہو چکی ہے) صرف یہی حکومتیں مذہبی بنیادوں پر قائم ہیں۔ باقی سارا عالم دین لادین عناصرکے زیر تسلط ہے۔ (یہ کہنا غلط ہے اس لیے کہ برائے نام ہی سہی، پاکستان ؍ آزاد کشمیر ، یمن، سعودی عرب، میں بھی کسی حد تک اسلامی نظام قائم ہے اوران ملکوں میں اسلام کو نہ صرف سرکاری مذہب قرار دیا گیا ہے بلکہ بہت سارے اسلامی قوانین بھی نافذ ہیں۔ مترجم)
اس میں کوئی شک نہیں کہ عالم اسلام اس وقت ایک عبوری دور سے گزر رہا ہے۔ نوجوان طبقہ قدامت پسندوں اور تجدد پسندوں اور لادین عناصر کے درمیان پس رہا ہے اور اسے کچھ سجھائی نہیں دیتا کہ وہ کدھر جائے جبکہ اس کا سیاسی نظام افرا تفری کا شکار ہے۔ لہٰذا انسانی حقوق کا مسئلہ اسلامی دنیا میں دینی مسئلہ نہیں اور نہ یہ فلسفیانہ علم کلام سے حل ہوگا۔ یہ خالص سیاسی مسئلہ ہے۔ 
مسلمان جن خطرات سے دو چارہیں، وہ مندرجہ ذیل ہیں: 
سیاسی ، ثقافتی ، اقتصادی اور تعلیمی ترقی کاایک مربوط نظام ان کے ہاں مفقود ہے۔ جب کہ دنیا انگڑائی لے کر اٹھ چکی ہے اور نئے افق دنیا کے سامنے روشن ہیں، جبکہ مسلمان دنیا اس کے صرف خواب دیکھ رہی ہے۔ نوجوان، خواتین کی تنظیمیں، صحافتی حلقے، تعلیم یافتہ طبقہ اور اصلاح پسند علماء دورحاضر کو ترقی وتمدن کا دور سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ہمیں بین الاقوامی دھارے میں شامل ہو کر ہی ترقی کی منازل نصیب ہو سکتی ہیں۔ 
باوجود اس کے اسلامی دنیا میں انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں، تاہم کچھ خواتین تنظیمیں اپنے نسوانی حقوق کے حوالے سے علم بغاوت بلند کر چکی ہیں اور فرسودہ نظام سے چھٹکارے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ نوجوانوں کی کچھ تنظیمیں بھی حکومتوں کے ظلم واستبداد کے خلاف آواز بلند کرتی نظر آئی ہیں ۔ا ن تحریکوں سے یہ امر سامنے آجاتا ہے کہ انسانی حقوق کے حصول کے لیے یہ تحریکیں نہایت موثر کردار ادا کریں گی۔ 
منشی پوری ( ایک محقق تجدد پسند عالم) کہتا ہے کہ مسلمان دانشوروں کو چاہیے کہ وہ اسلامی تعلیمات کو دور حاضر کی ضروریات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں تاکہ دنیا کو یہ بتا سکیں کہ اسلامی نظام اور عقائد اقوام متحدہ کے منظور شدہ چارٹر کے مطابق دیے گئے انسانی حقوق سے متصادم نہیں۔ مغربی دنیا کافرض ہے کہ وہ ایسے مسلم دانشوروں کی سرپرستی کرے اور اصلاح پسندوں کی ہر طرح امداد کرے اور حقوق انسانی کے حوالے سے ایسی تحریکوں کو بین الاقوامی دھارے میں شامل کرے ۔ منشی پوری نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ اسلامی دنیامیں انسانی حقوق کی پامالی میں اسلام کا کوئی کردار نہیں۔ یہ تو مسلم دنیا کے اقتصادی اور معاشی مسائل کے سبب پیدا ہوئی ہے۔ نیز انسانی حقوق کے حصول میں ناکامی یا کامیابی کا تعلق مقامی حالات سے ہے۔ امت مسلمہ کے صاحبان اقتدار کے لیے ضروری ہے کہ وہ انسانی حقوق کی طرف توجہ کواولیت دیں۔ 
یہ نکتہ بھی قابل اعتراض ہے کہ جن ملکوں میں جبر واستبداد ریاستی سرپرستی میں ہوتا ہے اور جہاں عدالتی نظام غریب کو انصاف مہیا کرنے سے قاصر ہے۔ دہشت گردی کی تحریکیں ایسی ہی سرزمین سے جنم لیتی ہیں۔ اس لیے مغربی دنیا اگرسنجیدگی سے دہشت گردی کوختم کرنا چاہتی ہے تو اسے اور ان ملکوں کے عدالتی نظام کی تبدیلی کی کوشش کرنا ہوگی، ناانصافی کا خاتمہ کرنا ہوگا،۔ ایسی تنظیموں اور جماعتوں کی مدد کرناہوگی جوریاستی جبر کے خلاف مزاحمت کررہی ہیں ۔ مغربی دنیاکو ایسے ممالک کی اقتصادی امداد بند کرناہوگی جہاں ظلم واستبداد اورریاستی دہشت گردی عوام کا مقدر بنی ہوئی ہے تاکہ ایسی حکومتیں اپنی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیاں لائیں۔ 

ا مریکہ کو کیا کردار کرناچاہیے؟

مسٹر ہیکس نے اپنے بیان میں کہا کہ اگرچہ حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کے خلاف اور جمہوری طرزعمل کے حق میں امریکہ سرکاری طور پر اپنے حلیف ملکوں کے ساتھ تعاون کررہا ہے ، لیکن ان تمام مساعی کے باوجود امریکی انتظامی عرب دنیا کے ان جابر حکمرانوں کی حمایت پر مجبور ہے جوامریکہ کے حلیف بھی ہیں اور اپنے عوام کے حقوق بھی غصب کر رہے ہیں اور امریکی انتظامیہ اس صورت حال کو صرف اس لیے قابل قبول سمجھتی ہے کہ موجود ہ حکمران اپنے عوام کے لیے بے شک ظالم اور جابر ہیں مگر وہ امریکی بغل بچے ہیں اور وہ پوری دنیا میں امریکی مفادات کا تحفظ کررہے ہیں۔ لہٰذا اگر امریکہ ان ملکوں میں جمہوری طریقے سے تبدیلی لائے تو ممکن ہے۔ عوامی رائے سے آنے والے لوگ امریکی مفادات کے لیے آلہ کار نہ بن سکیں۔یہ جابر حکمران اور مطلق العنان ڈکٹیٹر انتظامیہ کوہمیشہ یہ باور کراتے آئے ہیں کہ صرف وہی امریکی مفادات کے محافظ ہیں۔ اگر انہیں اقتدار سے ہٹایا گیا تو خطے میں ا مریکی مفادات کوخطرہ لاحق ہو جائے گا۔ اس طرح یہ حکمران امریکی حکومت کے لیے بھی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ دراصل یہ لوگ اسلامی شدت پسندوں کے خطرے کا ہوا کھڑا کر کے امریکہ کو ڈراتے ہیں کہ اگر ہم نہ ہوتے تو اسلامی انتہا پسند اقتدار میں آجائیں گے، لہٰذا ہماری غلط پالیسیوں کی بھی حمایت کی جانی چاہیے تاکہ امریکی مفادات کو تحفظ فراہم کیا جاسکے۔ 
امریکہ نے ان جابر اور ظالم حکمرانوں کے سامنے صرف اس لیے گھٹنے ٹیک دیے ہیں کہ انہوں نے اسلامی شدت پسندی ، کوایک خطرناک ہتھیار کے طو ر پر متعارف کروایا ہے۔ انہوں نے امریکہ کو باور کروایا ہے کہ ہم نہ ہوں گے تو اسلامی شدت پسند، بر سرا قتدارآکر امریکی مفادات او رمغربی تہذیب وتمدن کو مٹا ڈالیں گے ۔ حکمرانوں کو اس ہولناک اور ہمہ گیر پروپیگنڈے سے متاثرہو کر امریکہ نے طے کر لیاہے کہ اسلامی تحریکوں کو کچلنے کے لیے ہر طریقہ اختیار کی جانا چاہیے، تاکہ مغربی مفادات کاعموماً اور امریکی مفادات کاخصوصاً تحفظ کیا جا سکے۔ ہیکس نے اپنے بیان میں کہاکہ تونس میں تمام بنیادی حقوق ختم کر دیے گئے ہیں اور اسلامی انتہا پسندی کوکچلنے کے بہانے عوام کی آزادیاں سلب کرلی گئی ہیں ۔ یہی صورت حال مصراور دوسرے عرب ممالک کی ہے، یہی طرزعمل ملائیشیا ،الجزائر اور ترکی میں اختیار کیا گیا ہے (اور یہی مشرف حکومت نے پاکستان میں اختیار کررکھاہے اور اسی طرزعمل کی دہائی دے کر بے نظیر امریکہ سے اقتدار کی بھیگ مانگ رہی ہے۔ مترجم)
اس طرزعمل نے درگزر، سیاسی فکراور آزادی رائے کو معدوم کردیا جو کہ جمہوری طرزعمل کی اساس ہے۔ اس طرزعمل نے آزادی انصاف کو مجروح کردیا ۔سیاسی جماعتوں کی تشکیل، سول رائٹس اور انتظامیہ اور عدلیہ کی علیحدہ علیحدہ شناخت کوختم کر دیا۔ اس کا نتیجہ برآمد ہواکہ زیرزمین سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ، لوگ اپنی محرومیوں کا بدلہ لینے کے لیے دہشت گردی کی راہ اختیار کی ۔ اسلام نے جس حریت فکر کی بنیاد ڈالی تھی، اسے اسلام ہی کے نام پر ختم کردیا ، کیوں کہ خیر سے یہ سارے کارنامے مسلم حکمران انجام دیتے ہیں۔ اس طرح اسلام خود مسلمان ملکوں میں حزب مخالف کے طور پر ابھرا، حکمرانوں کاطرزعمل اور ہوگیا اور مسلمانوں کا طرزعمل اور ہوگیا ۔ مسلم علماء کو بدنام کیاگیا اور متوازن فکروالے لوگ حکمرانوں کے طرزعمل سے بد دل ہو گئے اور الگ تھلگ ہوگئے۔ 
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے دوستوں نے جمہوریت کی راہ میں روڑے اٹکائے ان پر مغربی ملکوں نے تنقید کی ۔ ادھر امریکہ جن ملکوں کا مخالف ہے، ان پر وہ بھی جمہوریت ہی کے مقدس نام سے نہ صرف تنقید کر رہا ہے بلکہ ان حکومتوں کو الٹنے کے درپے ہے جوامریکی خوشنودی کے لیے کام کرنے کے لیے تیار نہیں چنانچہ ایسے لوگوں کے بجائے ظلم اور دشمن ممالک کو پسند ہیں جوامریکہ کے لیے کام کریں اور جمہوریت کے نام پر اپنے عوام کا استحصال کریں اور وہ لوگ امریکہ کی نظر میں ناقابل قبول ہیں جواگرچہ جمہوری اقدار کے حامل ہیں مگر امریکہ آشیر باد اوراس کی پشت پناہی کے بغیر اقتدار میں آگئے، چاہے وہ عوام کے ووٹوں سے ہی کیوں نہ منتخب ہوئے ہوں، جیسے ایران سے خمینی، ازم جسے عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ جیسے سوڈان کی اسلامک نیشنل فرنٹ اسی طرح امریکہ نے انسانی حقوق کانام ونہاد پرچم بلندکر کے اب صدام کو بھی برائی کامحور قراردے دیاہے۔ ( اس وقت صدام برسراقتدار تھے اور امریکہ حملہ کے لیے تیارتھا) 
مسٹر ہیکس کہتے ہیں:
امریکہ کی اس دوغلی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ اب دنیاکا اعتماد امریکہ سے اٹھ گیا ہے۔ امریکہ کو ایران اور افغانستان میں خواتین کے حقوق پامال ہوتے نظر آتے ہیں مگر اسے سعودی عرب کی خواتین کی مشکلات سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اگر امریکہ کو عراقی عوام سے اتنی محبت ہے کہ عوام کے آزادانہ ووٹ کے لیے صدام کے خلاف خوفناک جنگ کا آغاز کررہا ہے تو امریکہ یہی جنگ مصرا ورتیونس کے خلاف کیوں نہیں کرتا جہاں ظلم وجبر پرقائم نظام عوام کے لیے وبال جان بنا ہوا ہے؟ (اور اس سے بدترین نظام آمریت سعودی عرب، مراکش، لیبیا، پاکستان اور الجزائر میں ہے مگر امریکہ کو وہاں جمہوریت سے کوئی دلچسپی نہیں ۔مترجم)
اسی طرح افغانستان میں جب افغانیوں نے روس کے خلاف مزاحمت شروع کی تو امریکہ نے افغانستان میں کسی قسم کی جمہوریت نہ ہونے کے باوجود مجاہدین کی بھرپور مدد کی اور جب طالبان گورنمنٹ قائم ہوئی تو امریکہ نے دہشت گردی کی آڑ میں اسی افغانستان کومٹی کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا جو کہ روس کی تباہی کا سبب بناتھا۔ گویا امریکہ نے اپنے ہی دوستوں کو صرف اس لیے کچل ڈالا کہ وہ امریکہ کے سامنے سجدہ ریزی کے لیے تیار نہ تھے۔ 
کتنا تضاد ہے کہ امریکہ انسانی حقوق کا چمپئن بنا ہوا ہے اور وہ پوری دنیا میں جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے، لیکن جہاں جمہوریت کونیست ونابود کرنے والی قوتیں امریکہ کی حلیف بن جاتی ہیں، وہاں امریکہ کو جمہوری اقدار کی پامالی نظر نہیں آتی، جیسے پاکستان میں فوجی حکومت کی حمایت، سعودی عرب میں بادشاہت کی حمایت، الجزائر میں فوجی حکومت کی حمایت، اسرائیلی مظالم کی تائید اور مصر کے ظالمانہ نظام کی حمایت جب کہ اسرائیل اور مصر دونوں انسانی حقوق کی رو سے بین الاقوامی مجرم ہیں۔ ( یہ حال امریکہ کی پالیسی کاہندوستان کے بارے میں ہے جہاں مسلمانوں کو ذبح کیا جارہا ہے۔ گجرات کشمیر کے مظالم امریکہ کونظر نہیں آتے۔ وہ ہندوستان کو ایشیا میں اپنے مفادات کا نگران کہتا ہے۔ مترجم)
اس کے بر عکس امریکہ سوڈان، لیبیا اورعراق پر پابندیاں لگا کر معصوم بچوں کی خوراک اور دوائیوں سے محروم کررہا ہے ۔ مسٹر ہیکس نے اپنے خطاب میں بش ، کلنٹن انتظامیہ کے اس کردار پر تبصرہ کیا جووہ مشرق وسطی میں قیام امن کے لیے کردار کر رہے ہیں۔ امریکہ کی تمام تر مساعی کے باوجود مشرق وسطی میں جمہوری عمل اس لیے فروغ نہیں پا رہاکہ اسرائیل جمہوری اقدا ر اور انسانی حقوق کی پامالی میں بین الاقوامی معاہدات کی دھجیاں بکھیر رہا ہے۔ اوسلوا دور اور میڈرڈ کے تمام معاہدے ناکام ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے امریکی ساکھ دنیا میں گر گئی ہے ۔ اسرائیلی مظالم پر امریکی خاموشی بلکہ امریکی تائید نے امریکہ کو پوری دنیا میں تنہا کردیا ہے۔ دوسری طرف عرب ممالک جوکہ امریکہ کی آنکھ کاتارا ہیں اور جنہوں نے امریکہ کواپنی گود میں بٹھایا ہوا ہے، وہ اپنی رعایا پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑرہے ہیں اوران کی پالیسیاں انسانی حقوق کے لیے زہر قاتل ہیں۔ مگر امریکہ اپنے دوستوں کو اس ظلم سے باز رکھنے کے لیے ادنیٰ سی کوشش بھی بروے کار نہیں لارہا۔
لہٰذا عالمی رائے عامہ کاامریکہ کے خلاف ہونا فطرتی عمل ہے۔ یہ کوئی حادثاتی عمل نہیں ، امریکہ کے دوہرے معیارنے اسے دنیا میں مکمل طو رپر تنہاکردیا، اسی لیے اسلامی دنیا میں انسانی حقوق اور جمہوریت کے لیے کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ جمہوریت انسانی حقوق کے نعرے سراب سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ کیوں کہ امریکہ ان قوتوں کاسرپرست ہے جوجمہوریت کی دشمن اور انسانی حقوق کے نام پر صرف اس لیے آواز نہیں ا ٹھ رہی کہ یہ نعرے امریکہ کے ایجاد کردہ ہیں جس کی عملی طور پر امریکہ نفی کررہاہے، لہٰذا عام طور پر اسلامی دنیا میں اب ان نعروں سے نفرت کرنے لگی ہے۔ اس ضمن میں مسٹر ہیکس نے حسب ذیل تجاویز پیش کی ہیں:
امریکہ کو چاہیے کہ وہ اسلامی دنیا میں جمہوری اقدار کے فروغ کے لیے ان اداروں کی زیادہ سے زیادہ مالی مدد کرے جو جمہوریت کے لیے کام کر رہے ہیں، لیکن اس امداد کے لیے چیک اینڈ بیلنس کا نظام بھی ہونا چاہیے تاکہ لاکھوں ڈالرلوگوں کی جیب کی نذر نہ ہو جائیں۔ نیز حکومتیں ان رقوم کو مخالفین کے کچلنے کے لیے استعمال نہ کریں۔( ملاحظہ فرمایا آپ نے مالی امداد دے کر مسلم دنیا کے حکمرانوں کے کان کھینچنے کا طریقہ بھی سکھایا جا رہا ہے۔ مترجم)
۲۔ ایسے پریشر گروپ تشکیل دیے جائیں جو مسلم ممالک میں امریکی مفادات کا تحفظ بھی کریں اور اپنے ملک میں جمہوری اداروں کے استحکام کے لیے بھی کام کریں، اس لیے ضروری ہے کہ امریکی انتظامیہ ایسے اسلامی ملکوں کو سختی سے حسب ذیل امور پر عمل درآمد کی پابند کرے: 
مساوات مردوزن ، حریت فکر ، آزادی صحافت ،عدلیہ کی مکمل آزادی ،سیاسی تنظیم سازی کی آزادی، سیاسی جماعتوں کے معاملات میں حکومت کی عدم مداخلت۔ 
اس کام کے لیے صرف مالی امداد پر ہی اکتفا کرنا مناسب نہ ہوگا بلکہ مسلم ممالک کو ثقافتی، تجارتی، تعلیمی میدان میں بھی مغرب کوعموماً اور امریکہ کوخصوصاً شریک کرناہوگا تاکہ مسلم ممالک مغرب کے وسیع تر تہذیبی ، ثقافتی، تجارتی ،سیاسی دھارے میں شامل ہوکر اندرون ملک اور بیرون ملک تبدیلیوں سے مستفید ہوسکیں۔ اس کی بہترین مثال ترکی ہے جو اسلامی ملک ہونے کے باوجود یورپی یونین میں شامل ہوکر عالمی منڈی میں رسائی حاصل کرچکا ہے اوریہی وجہ ہے کہ ترکی اپنے ملک میں مغربی افکار کوعملاً نافذ کرنے میں کامیاب ہوچکا ہے۔ (اندازہ فرمائیے کس طرح جمہوریت کے نام پر لیکچر جھاڑنے والے مسلم دنیاکو جمہوریت کی افیون کھلاکر پورے ملک کومغربی تہذیب کی گودمیں ڈالنا چاہتے ہیں اور بین الاقوامی دھارے کے خوبصورت الفاظ میں مسلم دنیا کااسلا می تشخص ختم کرنے کے لیے کیسی کیسی خوبصورت ترکیبیں بتائی جارہی ہیں۔ شاید انھی تجاویز پر عمل ہورہاہے کہ پاکستان اور عرب دنیا میں اسی نام نہاد دھارے میں شامل ہو کر اپنا تشخص کھو چکے ہیں اور وہ کسی بھی ایسے مظلوم ملک کی مدد کرنے سے قاصرہیں جو کہ امریکہ کے خوفناک ہتھیاروں کانشانہ ہیں۔ مترجم) 
۳۔ اسلامی ممالک سے ان بین الاقوامی معاملات پر عمل در آمد کروایا جائے جن پر مسلم ممالک نے یو این او کے تحت دستخط کر رکھے ہیں اور جن میں تمام ممالک پر زور دیاگیا ہے کہ وہ اپنے عوام کے بنیادی حقوق، آزادی نسواں کو یقینی بنائیں، لیکن ایسا تب ہی ممکن ہے جب کہ امریکہ مسلم دنیا سے مسلمانوں کومطمئن کرے تاکہ عالم اسلام میں امریکہ کے خلاف نفرت ختم ہو سکے ۔ مسلمان ممالک کے خلاف امتیازی سلوک کو ختم کیاجائے اور مسلمانوں کی آزادی کی تحریکوں کی حمایت ہی نہیں بلکہ سرپرستی بھی کرے۔ 
امریکہ کو چاہیے کہ وہ حلیف ممالک میں اس امر کا جائزہ لے کہ :
الف۔ کیا ان ملکوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی تونہیں ہورہی۔
ب۔ سیاسی مخالفین کوانتقامی کارروائیوں کا نشانہ تو نہیں بنایاجا رہا۔
ج۔ سیاسی مخالفین کوجیلوں میں تونہیں ڈالا جاتا، ان کی املاک کو توضبط نہیں کیا جاتا۔ 
اس کام کے لیے امریکہ کو بین الاقوامی شہرت یافتہ صحافیوں، دانشوروں ، تجزیہ نگاروں کی خدمات حاصل کرنا ہوں گی۔ انہیں معقول معاوضہ د ے کر تحقیقاتی رپورٹس تیار کروائی جاسکتی ہیں۔ 

نظام احتساب

بیشتر اسلامی ممالک میں حکمرانوں کے احتساب کا کوئی واضح نظام نہیں جس کی وجہ سے حکمران طبقہ اپنی من مانی کر کے عوام کے حقوق غصب کر رہا ہے۔ امریکہ کو چاہیے کہ وہ اسلامی عالمی تنظیموں کے ساتھ مل کر مسلمان ملکوں کے حکمرانوں کے خلاف احتساب جاری کرے تاکہ مطلق العنا ن آمریت کا خاتمہ ہو سکے۔ اس ضمن میں عرب لیگ اور اوآئی سی کواستعمال کیاجاسکتا ہے۔ ترکی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے جہاں جمہوریت قائم ہے اور ترکی نے اپنے تمام شہریوں کو یورپی یونین کی عدالت میں شکایت کا حق دے رکھا ہے اور ترکی نے اس معاہدے پر دستخط کر ا رکھے ہیں جس کی روسے یورپی یونین کے عدالتی فیصلوں کی پابندی ترکی کے لیے ضروری ہے۔

(ترکی کو باربار اس لیے نمونہ پیش کیا جار ہا ہے کہ ترکی نے مغربی تہذیب کو جبراً اپنے ملک میں نافذ کرکے اسے یورپ کے مادر پدر آزاد معاشرے میں ضم کردیاہے۔ اسلامی اقدارکی پابندی کرنا ترکی میں قابل دست اندازی پولیس جرم ہے، حجاب پر پابندی ہے ،نماز پڑھنے والے او ر باریش افسروں کو فوج سے باہر نکال دیا گیا ہے، سکارف پر پابندی لگاکر پردے کی دھجیاں مغربی تہذیب کی دہلیز پر بکھیر دی گئی ہیں۔ گویا مغربی مفکرین کے نزدیک مغربی تہذیب وقوانین کو ڈنڈے کے زور پر نافذ کرنا عین جمہوریت ہے اور اس مقصد کے لیے انسانی حقوق، آزادی ضمیر کو تہس نہس کرنا جائز ہی نہیں بلکہ ضروری ہے جیسا کہ ترکی میں ہورہا ہے۔ وہاں اسلام پر عمل کرنا جرم ہے مگرا سے مذہبی آزاد ی کے منافی اس لیے نہیں سمجھا جاتا کہ مغربی مفکرین کا اصل ہدف ہی اسلام اور اسلامی تہذیب ہے۔ جہاں مسلمانوں نے نظام اسلام کے نفاذ کی بات کی، وہیں مغرب کے پیٹ میں جمہوریت، آزادی، عدلیہ کامروڑ اٹھنا شروع ہو جاتا ہے اور جن ملکوں میں علما کو پابند سلاسل کیا جائے، پردہ نشیں خواتین کو ہراساں کیا جائے، دینی مدارس پر قدغن لگائی جائے، مذہبی عناصر کا جینا محال کر دیاجائے، وہاں مغربی ممالک مالی امداد بھی فراہم کرتے ہیں اورایسے ملکوں کی مکمل سرپرستی کرتے ہیں جہاں نام نہاد مسلم حکمران مسلمان کا گلا گھونٹنے اوراہل علم کو کچلنے میں مشغول ہیں۔ گویا مذہبی لوگ نہ تو انسا نی حقوق کے حق دار ہیں نہ انہیں آزادی رائے کا حق دیا جا سکتا ہے۔ یہ ہے وہ فکر جو مغرب برآمد کرکے اسلامی دنیا کوذلت وخواری کے عمیق گڑھے میں دھکیلنا چاہتا ہے۔ فتدبروا ۔ مترجم) 

’’میری علمی و مطالعاتی زندگی‘‘ (ڈاکٹر اسلم فرخی)

عرفان احمد

(عرفان احمد بھٹی اور عبد الرؤف کے مرتب کردہ سوال نامہ کے جواب میں لکھا گیا۔)

اگرمیں بیان کرناشروع کروں گا تو آج کا دن کل کے دن میں بدل جائے گا لیکن میرے دل کا حال پھر بھی بیان نہیں ہو سکے گا، چونکہ ہرآدمی جومیری عمرکاہے اور جس نے لمبی زندگی گزاری ہے، اُسے اپنی عمر کے آخری حصے میں پہنچ کرماضی کی بازیافت سے بہت دلچسپی پیداہوجاتی ہے۔ میں تو عملاً کبھی اپنے حالات زندگی کے بارے میں گفتگو نہیں کرتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اپنے بارے میں کچھ کہنا نہایت مشکل بات ہے۔ اگرصحیح بات کہوں تو سننے والے یہ کہتے ہیں کہ صاحب بڑی تعلیٰ سے کام لیا اوربہت غلوسے کام لیا۔ اختصار برتوں توسننے والے کچھ اور سوچیں گے۔ 
بہت مختصر بیان کرناچاہوں تو اتنا کافی ہے کہ میں23اکتوبر1924ء کولکھنو میں پیداہوا۔ میں نے ابتدائی تعلیم بھی وہیں حاصل کی۔ میری ننھیال لکھنو ہی میں تھی اور میرے نانا وہاں رہتے تھے اور میں چونکہ اُن کی بڑی بیٹی کابڑابیٹا تھا اور اُن کے ہاں کوئی اولاد نرینہ نہیں تھی، اس لیے انہوں نے مجھے بیٹے کی طرح پالا اورچاہا۔ جب میں بڑا ہوگیا تو میں اپنے والد کے پاس فتح گڑھ آگیا جو ضلع فرخ آباد کاصدرمقام ہے۔ میرے نانااور میرے دادا دونوں کاخاندانی کام کتابوں کی اشاعت کا تھااوردونوں کے پریس تھے، تو نانانے بہت سی کتابیں شائع کیں اورمشہورشاعرداغ دہلوی کے وہ تمام مجموعے جورام پورمیں مرتب ہوئے، اُن کے حقوق میرے نانا کے پاس تھے۔ گلزار داغ، آفتاب داغ اور فریاد داغ وغیرہ۔ پھراُس کے علاوہ ایک اورسلسلہ تھا جس میں آھا نظم گائی جاتی تھی۔و ہ ایک خاص لے میں گائی جاتی تھی اور اچھے پڑھنے والے وہ نظم پڑھتے تھے۔ مسلمانوں نے بھی ایک نظم لکھی جس کانام تھااسلام کھنڈ اوراُس میں غزوات کے بارے میں اُسی زبان میں شاعری کی گئی تھی۔ وہ بھی بڑے شوق سے گائی جاتی تھی، لوگ سنتے تھے اور اُس سے محظوظ ہوتے تھے۔ یہ کتاب بھی بڑی مشہور ہوئی۔
اس کے علاوہ پریس کاکام تھا۔ اُس زمانے میںHandپریس ہوتے تھے۔اب تومنٹوں میں چیزیں چھپتی ہیں، جب کہ اس وقت پتھرسے چھپائی کی جاتی تھی۔ کاتب پہلے کاغذ پر ایک خاص قسم کی روشنائی سے لکھتے تھے اور وہ پتھر پہُ اتاری جاتی تھی اورلکھنو میں بعض ایسے کاتب تھے جوکاپی نہیں لکھتے تھے بلکہ وہ معکوس رقم کہلاتے تھے۔ پتھر ان کے سامنے ایک چھوٹی میز پر رکھ دیا جاتا تھا اور وہ اُلٹے رخ پر لکھتے جاتے تھے یعنی معکوس انداز میں لکھتے جاتے تھے۔ عبدالحلیم شررکاجورسالہ تھا دل گداز، وہ اسی طرح پتھر پہ لکھا جاتا تھا۔ میں نے دیکھا ہمارے ہاں کاتب صبح نوبجے آئے، ایک میزاُن کے سامنے رکھی گئی اورپتھر اُس پہ جمایا گیا اور دن بھر لکھتے رہے۔ ہمارے پردادا کے ہاں بھی پریس تھا۔ وہ بھی کتابیں چھاپتے تھے اورمصنف بھی تھے۔ انہوں نے بعض اچھی کتابیں بھی چھاپیں۔مثلاً اُن کی چھاپی ہوئی کتاب تاریخ فرخ آباد بہت مشہور ہوئی۔ توکہنے کامقصد یہ ہے کہ مجھے بچپن ہی سے علم وادب کاماحول ملا۔
یہ کتابیں کیسے لکھی جاتی ہیں، کتابیں لکھنے والے کون ہوتے ہیں، کتاب پڑھنے والے کون ہوتے ہیں، ان کے بارے میں تفصیل سے باتیں بعد میں ہوں گی۔ پہلے ذرا تحریک پاکستان کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ میں قصبے کی مسلم لیگ کاسیکرٹری رہا۔ 1946ء کے الیکشن میں بھرپور حصہ لیا، گاؤں گاؤں پھرا۔ طالب علموں کا ایک گروہ تھاجویہ کام کرتے تھے۔ سارے یوپی میں جومسلمان طالب علم تھے، وہ یہی کام کرتے تھے۔ توپھر نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان قائم ہوگیا۔ 
میں ستمبر1947ء یہاں آیا اورستمبر1947ء ہی سے میں کراچی میں مقیم ہوں۔ یہاں میری نئی زندگی شروع ہوتی ہے۔ مجھے لکھنے پڑھنے کاشوق تھا۔ اُس زمانے کی مقبول تحریک ترقی پسند تحریک تھی۔مجھے اُس تحریک کے اغراض و مقاصد سے دلچسپی تھی۔ اپنے قصبے میں اُس تحریک کی ایک شاخ میں نے بھی قائم کررکھی تھی۔یہاں آگیا تویہاں ساری سرگرمیاں اس لیے ماندپڑگئیں کہ میں ریڈیومیں مسودہ نگارکی حیثیت سے چلاگیا اور نظم اورنثرساری چیزیں ریڈیوکے لیے وقف ہوگئیں۔ پانچ سال میں ریڈیو میں رہا اور اس دوران بہت کچھ لکھا۔نظمیں لکھیں،غزلیں لکھیں،فیچرلکھے،گیت لکھے، تقریریں لکھیں، بچوں کی تقریریں لکھیں اور جب ریڈیوپاکستان سے سکول براڈکاسٹ کاپروگرام شروع ہواتو اُس کے بہت سے پروگرام لکھے۔ افسوس یہ ہے کہ کوئی چیزمحفوظ نہیں ہے۔ بعض فیچرایسے تھے جومجھے خودپسند تھے۔ مثلاً خلیفہ اول حضرت ابوبکرصدیق ؓ کے بارے میں رفیق رسول ﷺ کے عنوان سے فیچرلکھا تھااور بڑی محنت سے لکھا تھا۔ بہت پسندکیاگیا تھااورآفتاب عظیم ٹیلی ویژن کے ایک پروڈیوسرتھے، وہ جب ملتے تھے توکہتے تھے کہ میں اس کی ایک ویڈیو کیسٹ بناؤں گا۔ وہ بھی مصروف ہوگئے، میرے پاس اب کچھ ریکارڈ بھی نہیں ہے۔ لیکن کبھی کبھی یاد آتا ہے کہ وہ بہت اچھا لکھا تھا۔ اس طرح واجد علی شاہ، بہادرشاہ ظفر پر فیچر تھے۔ 
فیچروں کے علاوہ ڈرامے بھی بہت سے لکھے۔ یہ سلسلہ چلتا رہا، لیکن میرایہ ارادہ تھاکہ میں ریڈیو میں زندگی نہیں گزاروں گا۔ مجھے تدریس کاشوق تھا۔ میرے والد نے جب میٹرک پاس کیاتواُن کو گورنمنٹ سکول میں جگہ مل گئی اور وہاں پڑھاتے رہے۔ لیکن اس دوران میں تحریک خلافت اورعدم تعاون کی تحریک شروع ہوئی اورمسلمانوں میں یہ تحریک چلی کہ انگریزوں کی ملازمت ترک کر دینا چاہیے تو انہوں نے ملازمت ترک کردی، اس لیے یوں کہناچاہیے کہ تدریس میرے خون میں شامل ہے۔میں یہ سوچتا تھا کہ میں ان شاء اﷲ تعالیٰ کسی کالج یایونیورسٹی میں پڑھاؤں گا تومجھے سندھ مسلم کالج میں جگہ مل گئی۔ اُس زمانے میں کالج بھی کم تھے اور تعلیم کاماحول بھی ایسا نہیں تھا۔ سندھ مسلم کالج میں جگہ مل گئی، میں چلا گیا۔ بہت اچھا وقت گزرا۔غلام مصطفی شاہ صاحب پرنسپل تھے اوروہ بڑی زبردست شخصیت کے حامل تھے۔ ہمدردتھے۔ جب تک زندہ رہے اُن سے تعلقات رہے اور میری طرح بہت سے نوجوانوں لوگ تھے جوپڑھارہے تھے۔
پھر یہ ہواکہ مرکزی حکومت نے سنٹرل گورنمنٹ کالج قائم کیا جو اب بھی ہے تواُس کالج میں پبلک سروس کمیشن نے اساتذہ کا تقرر کیا۔ تو اُس میں میرا بھی تقررہوگیا، میں بھی وہاں چلاگیا۔نیاکالج تھا اورپڑھانے والے بھی نئے تھے۔ آدھا حصہ مغربی پاکستان اورآدھا حصہ بنگالی اساتذہ کاتھا مگریہ کہ روابط ایسے تھے کہ بنگالی اورغیربنگالی میں کوئی فرق نہیں تھا۔ اتنے اچھے اور بے تکلف تعلقات تھے اوروہ اس طرح گھل مل گئے تھے کہ دن رات اُن کے گھروں میں جانا اور اُن کاہمارے ہاں آنا۔ساری باتیں تھیں۔ وہیں میں نے ’’محمدحسین آزاد کی حیات اورتصانیف‘‘ کے عنوان سے اپنی پی ایچ ڈی کاThesisلکھا۔یہ دوجلدوں میں تھا اورمجھے بعدمیں آدم جی ایوارڈ بھی ملا تھا۔ پھر گورنمنٹ کالج سے میں کراچی یونیورسٹی آگیا ۔شعبہ اردومیں آگیا، بہت خوش رہا، بہت اچھا ماحول تھا۔ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی تھے۔ڈاکٹر ابوالخیرکشفی تھے، ڈاکٹر شاہ علی تھے، ڈاکٹر فرمان فتح پوری تھے، اساتذہ کاایک پوراگلدستہ تھا۔ کراچی یونیورسٹی اُس زمانے میں اعلیٰ تعلیم کاایک بہت بڑااوربہت اچھا مرکز بھی تھی۔ ہرشعبے میں ایسے اساتذہ تھے جوبین الاقوامی سطح پرنامی گرامی سمجھے جاتے تھے۔مثلاً تاریخ کے شعبے میں ڈاکٹراشتیاق حسن قریشی اور ڈاکٹر محمود حسین تھے۔ ڈاکٹریوسف تھے جو عربی کے بہت بڑے اسکالرتھے۔ فارسی میں ڈاکٹرغلام سرور تھے، ڈاکٹر ملیع الامام عابد علی خان تھے یہ جونام میں آپ کوگنوارہا ہوں، یہ وہ لوگ تھے جنہیں اپنے موضوع پربہت بڑاعالم اورمستند سمجھا جاتا تھا۔ لکھنے پڑھنے کابہت عمدہ دور گزرا۔ 
یہاں میں شعبہ تصنیف وتالیف کاناظم رہا اور آخرمیں یونیورسٹی کارجسٹرارہوگیا تھا، حالانکہ وہ ایک انتظامی کام ہے۔ چونکہ میں سینٹرٹیچر تھا، لہٰذا ہرمعاملے میں ٹھیک سمجھا جاتا تھا۔بڑاکامیاب رہا۔وہاں سے نکلا توایک دن بھی گھرمیں فالتو بیٹھنا نصیب نہیں ہوا۔ نورالحسن جعفری انجمن ترقی اردو کے ناظم تھے۔انہوں نے کہاکہ آپ کل سے انجمن میں آجائیں۔ میں نے کہاکہ ایک آدھ مہینے آرام کروں توانہوں نے کہا کہ صاحب آپ کو کل آنا ہے توانجمن میں مشیرکی حیثیت سے چلاگیا۔ وہاں کام کرتارہاآٹھ دس سال۔ پھراُس کے بعدصحت خراب ہوگئی تھی۔ گھرمیں بیٹھ گیا۔ میرے حساب سے کوئی چاربرس ہوئے ہوں گے کہ اردو یونیورسٹی کی سینٹ کاممبربن گیا۔سینٹ نے مجھ سے یہ کہا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے ایک بڑی گرانٹ اس لیے دی ہے کہ اردومیں سائنس کی درسی کتابیں تیارکی جائیں۔ اردویونیورسٹی توبن گئی ہے اوریونیورسٹی بن جانے کامطلب ہے کہ تدریس اردو میں ہو۔ سائنس بھی اردو میں پڑھائی جائے تومیں نے کہا کہ میری صحت اجازت نہیں دیتی، لیکن مجھے دودفعہ کہا گیا تو مجھے قبول کرناپڑا اس طرح شعبہ تصنیف وتالیف کا اعزازی نگران اعلیٰ بن گیا۔ ایم ایس سی اور آنرز کی سطح کے لیے سائنس کی درسی کتابیں لکھواتا رہا ہوں۔ کتابیں شائع کیں، لیکن مجھے بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک میں کتاب لکھنے کا کوئی تصورنہیں ہے۔ کتابیں توبہت ہیں، لیکن بعض بنیادی باتیں قابل توجہ ہیں اوروہ یہ ہیں کہ ادب اورشعرکی کتابیں توآپ لکھتے ہیں اورسینکڑوں کی تعداد میں شائع ہوتی ہیں، لیکن علمی کتابیں بہت کم لکھی جاتی ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایک مستند مکمل کتاب لکھنے کے لیے مصنف کا پوری طرح اپنے مضمون پرحاوی ہونا ضروری ہے۔ اگروہ اپنے مضمون پر کامل دستگاہ نہیں رکھتا اوراُس کاعلمUpto dateنہیں ہے تووہ ٹیکسٹ بک نہیں لکھ سکتا۔چنانچہ بیشتراساتذہ ٹیکسٹ بک لکھنے سے گھبراتے ہیں۔میں نے سارے ملک میں دورے کیے۔ جامعات اور کالجوں میں گیا، سائنسی اداروں میں گیا۔جوخوشامد کرسکتا تھا کی کہ یہ علم کے فروغ کامسئلہ ہے، مگرکسی نے کتاب لکھنے کی حامی نہیں بھری اوراب بھی یہی حال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی علمی اور تحقیقی کتابوں کی اشاعت کی رفتار بہت سست ہے۔
بچوں کی کتابیں بہت پڑھیں۔دارالاشاعت پنجاب کاایک ادارہ تھا، وہ ایک رسالہ ’’پھول‘‘ چھاپتے تھے، وہ پڑھا کرتا تھا۔ میری پہلی کہانی اس میں چھپی تھی۔ مجھے کتنی خوشی ہوئی تھی۔ کراچی آنے کے بعد میں نے شمس تبریزی کے ساتھ مل کر بچوں کا ایک رسالہ ’’میرا رسالہ‘‘ شائع کرنا شروع کیا۔ برسوں جاری رہا۔ ایک ادبی رسالہ ’’نقش‘‘ بھی شمس صاحب کے ساتھ جاری کیا۔ اُس سے آگے بڑھے توجوکتاب ہاتھ لگی پڑھی۔آب حیات اورنیرنگ خیال میں نے بچپن میں پڑھی۔ تب سے محمدحسین آزاد سے دلچسپی پیدا ہو گئی تواب تک یادہے کہ نیزنگ خیال جوتھی وہ لمبے سائز پرتھی اورآب حیات بھی بڑے سائز پرتھی۔ میں نے پچاسوں بارپڑھی۔ اسی طرح درباراکبری بھی پچاسوں بار پڑھی۔ 
شاعری کی بہت سی کتابیں پڑھیں، بچوں کی بھی، بڑوں کی بھی۔ میرے والد کوچونکہ انگریزی کی کتابیں پڑھنے کا غیرمعمولی شوق تھا، وہ جوکتاب پڑھتے تھے میں دیکھتا تھا اور اس سے میرے شوق کو مہمیز ملتی تھی اور میں بھی اس کتاب کا مطالعہ کرتا تھا۔ ایک بات اوربھی ہے کہ کتابوں کے حوالے سے طلسم ہوشربا کا کلچر بھی تھا۔ وہ ہمارے یہاں اس طرح تھاکہ جوہمارے مولوی صاحب تھے، وہ ہمارے یہاں رہتے تھے اورشام کواُن کے دوست احباب اُن سے ملنے آتے تھے اورچونکہ وہ خود بھی شوق رکھتے تھے، اس لیے لالٹین روشن کی جاتی تھی۔ مولوی صاحب بہ آواز بلندطلسم ہوشرباپڑھتے تھے اور وہ بہت سے لوگ جو وہاں جمع ہوتے تھے، اسے سنتے تھے۔ بہت دفعہ میں بھی وہاں جاکربیٹھا اورسنتا رہا۔طلسم ہوشرباکوخود بھی پڑھنے کی کوشش تھی۔ اُس کی سات جلدیں تھیں اور پانچویں کی دوجلدیں ہیں، پنجم اول اور پنجم دوم۔ میں نے یہ کتاب اپنے لڑکپن میں پڑھ لی اور یہ دعویٰ تونہیں کرتا کہ وہ سمجھ میں آئی۔ وہ روانی، وہ اسلوب، سجا ہوا مرصع طرزبیان لیکن پڑھا سب اوربڑا لطف حاصل کیااوراُس کا بڑا اثر رہا۔ وہ ایک بڑی اہم کتاب رہی۔ دوسری داستانیں بھی تھیں طلسم نورپیکر ہے۔ طلسم نور افشاں ہے۔ اول نامہ، ایرج نامہ، بہت پڑھا اوربہت یادرکھا اورمیراخیال یہ ہے کہ اگر اُس کوآسان زبان میں لکھ کربچوں کے لیے ایک کتاب تیارکی جائے توبہت دلچسپ رہے۔
میرے والد انگریزی میں کتابیں منگواتے رہتے تھے۔بعض کتابوں کی کہانیاں انہوں نے مجھے سنائیں۔ مثلاً Victor Hugoکی کتاب Les Miserables کی کہانی میں نے انہی سے سنی تھی اورپھرمجھے یاد ہوگئی تھی اور پھرمیں نے خود بھی پڑھی۔ اوربہت سی کہانیاں بھی سنیں جومیں نے بعدمیں پڑھیں۔ انگریزی ناول پڑھنے کا جو سلسلہ شروع ہوا، وہ اب تک جاری ہے۔ اس طرح کی کتابیں بھی پڑھیں۔ پھرMob lickپڑھی۔ بہت مشکل کتاب تھی، میری سمجھ سے ماورا تھی، لیکن پھر بھی میں نے پڑھی۔پھرمیں نے اس کوباربار پڑھا اورپھر اُس پرایک ریڈیوPlayبھی لکھا۔ ڈارمے سے بڑی دلچسپی رہی۔ نئے ڈرامہ نگاروں کوپڑھا ۔اُن کے ڈراموں سے استفادہ کیا۔ تنقید پڑھی، تنقیدنگاروں سے استفادہ کیا۔انگریزی شاعروں سے استفادہ کیا۔ یہ پوراسلسلہ ہے جوآج تک جاری ہے۔
ادب کا شوق مجھے اپنے والد سے ورثے میں ملا، سارے خاندان کو ملا۔ میری ایک چھوٹی بہن تنقید بہت اچھی لکھتی تھیں۔ میرے ایک چھوٹے بھائی انور احسن صدیقی معروف ادیب شاعر اور صحافی ہیں۔ میرے بچے اور پوتا پوتی ادبی وراثت کے حصہ دار ہیں۔ میری بیوی ڈپٹی نذیر احمد کی پڑپوتی ہیں۔ انہوں نے شاہد احمد دہلوی کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے۔ ایک کتاب خدیجہ مستور کے بارے میں ہے۔ ایک کتاب ڈپٹی نذیر احمد کے بارے میں زیر طبع ہے۔ میرے بچوں کو ان کی ادبی وراثت سے بھی حصہ ملا ہے۔ 
محمدحسین آزاد کے ساتھیوں میں ڈپٹی نذیراحمد کا نام قابل ذکر ہے۔ میراخیال ہے کہ جیسی گٹھی ہوئی نثرنذیراحمد نے لکھی ہے، اردوکے کسی انشا برداز نے نہیں لکھی۔زبان پر، چہرہ نگاری پر، انسان کے کردار کو بیان کرنے پراور تیز جس مزاح کے ساتھ وہ لاجواب اسلوب تحریر اور انداز نگارش کے حامل تھے۔ کیونکہ اُن کے سامنے ایک مقصدتھا، لہٰذا انہوں نے اپنی کتابوں میں اُس مقصد کوپوراہوتا ہوا دیکھا۔ مولانا شبلی کی سیرت النبیؐ اعلیٰ کتاب ہے۔شبلی کی سیرت النبیؐ کا جو پہلا ایڈیشن تھا، وہ میرے پاس ہے اور اتنے بڑے سائز پرپہلا اور دوسرا ایڈیشن تھا کہ اب اتنے بڑے سائز پر کتابوں کی اشاعت کا رواج نہیں رہا۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ ایڈیشن اگرنایاب نہیں توکم یاب ضرورہے۔ بہت بڑے اہتمام سے شائع ہواتھا۔اسی طرح اور کچھ کتابوں کے پہلے ایڈیشن تھے، وہ لوگوں کے پاس سے میرے پاس بھی آئے۔
مشتاق احمد یوسفی صاحب کی نثرنہایت اعلیٰ قسم کی نثر ہے اوراردو اسلوب کے اعتبارسے یوسفی صاحب کااردونثر میں بہت اہم مقام ہے۔ محمدحسن عسکری کی نثرایک صاحب اسلوب کی نثرتھی اور جو نثر اختصار، اجمال، جامعیت اوراستعجاب کا نمونہ ہے، وہ سعادت حسن منٹو کی نثر ہے اور عصمت چغتائی کی نثر ہے۔خدیجہ مستورکی نثر ہے۔بڑی کاٹ داربڑی چبھنے والی۔ ہمارا اردو ادب اچھے نثرگاروں سے خالی نہیں تھا۔ شاہد احمد دہلوی سے میں نے نثر لکھنا سیکھی۔ ان کی شخصیت اور فن کا میری زندگی پر گہرا اثر ہے۔ 
نام سے جھگڑے پیداہوتے ہیں کہ صاحب اُس کے افسانے کواچھا کہہ دیا۔ بہت سے نام اور بھی ہیں۔ انتظار صاحب جو ہمارے عہد کے بڑے افسانہ نگار ہیں، انہوں نے اردو افسانے کو نئی جہت دی ہے۔ راجندرسنگھ بیدی نے کراچی کے فسادات پر بعض بہت اچھے افسانے لکھے۔ قاسمی صاحب اشفاق احمد کااضافہ کرلیجیے۔ خالدہ حسین کااضافہ کرلیجیے۔ یہ بہت اچھے اوراعلیٰ درجے کے افسانہ نگار ہیں۔ بعض اور افسانہ نگار بھی ہیں۔ نام کہاں تک گنواؤں۔ 
بیسویں صدی میں اتنابڑاناول ’’آگ کادریا‘‘ لکھاگیا ۔خدیجہ مستورنے آنگن لکھا۔آنگن اتناخوبصورت اور مکمل بھرپور ناول ہے۔ قیام پاکستان کے پورے عمل کو، اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کے جذبات کو، اُن کی کوشش کواوراُن کے مجاہدے کو، اُن کے جوش وخروش کوخدیجہ مستور نے جس طرح ظاہر کردیا ہے، وہ بڑے کمال کی بات ہے۔اسی طرح کا ٹیڑھی لکیر ہے، اداس نسلیں ہے، علی پور کاایلی ہے، راجہ گدھ ہے۔ سب اچھے ناول ہیں۔ اور آگ کا دریا ہے، قرۃ العین حیدر کے دوسرے ناول اور افسانے ہیں۔ زندگی اور وقت کا پورا طلسم ہے۔ شمس الرحمن فاروقی کا ’’کیسے چاند تھے سرآسماں‘‘ زبردست ناول ہے۔ فاروقی صاحب ناول، افسانے اور تنقید کا بہت بڑا نام ہیں۔ عہد ساز اور رجحان ساز ادیب ہیں۔ ہمہ جہت ادیب ہیں۔ 
مولانا امین حسن کی تفسیر تدبر قرآن مجھے بہت پسند ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد کی مطالب القرآن جتنی بھی شائع ہوئی، بڑی زبردست اور فکر انگریز کتاب ہے۔ میں اس کتاب سے بہت متاثر ہوا۔ 
بات یہ ہے کہ سیرت کی کتب بڑی عقیدت سے لکھی گئی ہیں بڑی لگن سے لکھی گئی ہیں لیکن ہم سب کو اس پہ غور کرناچاہیے کہ ابھی تک سیرت نگاری کا حق ادانہیں ہوا۔ مسلمان قوم ہی دنیا بھر میں وہ قوم ہے جس نے تاریخ کے علم کوعلمی حیثیت دی ہے۔ مگر ہمارے ہاں تاریخ کاصحیح افادہ نہیں ہوا۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی تفسیر میں نے پڑھی ہے اور میں اُن کی ذہانت اوراُن کے علم اوراُن کے طرز بیان کا مداح ہوں۔ اُن کے خطوط کامجموعہ غبار خاطر اردو نثر کا اعلیٰ نمونہ ہے اوراُن کی جوتفسیر ہے، بہت اچھی تفسیر ہے۔ اسی طرح مولانا مودودیؒ کی تفسیر ہے۔ میں مذہبی سکالر یا دانش ور کی لیاقت اور قابلیت پر رائے دینے کااہل نہیں ہوں۔ مولانا مودودی کااسلوب بڑاسادہ اوربڑا پرکشش ہے۔اُن کی پوری تفسیر میں آپ کو بڑی کامیاب نثرنگاری کااحساس ہوتاہے۔
تصوف سے دلچسپی اپنے نانا کی وجہ سے پیداہوئی۔ انہیں بزرگان کرام سے بڑی دلچسپی تھی اوروہ بالعموم عرسوں میں شرکت کرتے تھے۔ نہ صرف میرے نانا جان عرسوں میں حاضری دیا کرتے تھے بلکہ ہمارے خاندان کے اور افراد بھی مزارات پر جایا کرتے تھے۔ اس طرح صوفیا سے دلچسپی مجھے وراثت میں ملی اور نتیجتاً میں نے امیرخسروکاخصوصی مطالعہ کیا تو پھر میرا ذہن منتقل ہوا حضرت نظام الدین اولیاء کی طرف۔ خواجہ محبوب الٰہی کاخصوصی مطالعہ کیااورمیں بڑامتاثرہوا اورمیں اُن کی درگاہ میں سترہ سال تک مسلسل حاضرہوا۔ میراخیال ہے کہ میرا جوحاصل زندگی ہے، وہ میری کتاب ’’دبستان نظام‘‘ ہے۔ پانچ سو صفحے کی یہ کتاب اس مقصد کی خاطر لکھی گئی ہے کہ لوگ عام طورپر یہ تصور کرتے ہیں کہ صوفیائے کرام کے ہاں کرامتیں تھیں اور روحانی تجلیات تھیں۔ کبھی کسی نے یہ غور نہیں کیا کہ یہ سب کے سب جتنے بھی تھے، اپنے عہد کے عالم اورمعاشرتی مصلح بھی تھے۔ان لوگوں نے اپنی مثالی زندگیوں سے معاشرے میں اصلاح کا کام کیا۔ مثلاً حضرت نظام الدین اولیاء کے حوالے سے تاریخ فیروز شاہی میں ضیاالدین برنی نے لکھا ہے کہ کیفیت یہ ہوگئی تھی کہ لوگ مضافات سے حضرت کے دیدار کے لیے آتے تھے تولوگوں نے راستے میں جگہ جگہ چھپر ڈلوا دیے تھے اور وضو کے لیے لوٹے رکھوادیے تھے۔ مصلے بچھوا دیے تھے تاکہ وہ نماز اداکریں اورلوگ ایک دوسرے سے یہ پوچھتے تھے کہ بھائی فلاں نماز میں حضرت صاحب کون سی سورہ پڑھتے ہیں اور فلاں نماز میں کون سی سورہ پڑھتے ہیں۔ شام کوکیا ورد ہوتا ہے اورصبح کوکیاورد ہوتا ہے اوراس بات کی کوشش کرتے تھے کہ کون کون سے گناہ سے بچیں۔ توصاحب اگرآپ کرامات کے قائل نہیں ہیں، تب بھی یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ انسانوں کے قلوب کونیکی فلاح کی طرف راغب کیا اوردوسری بات یہ ہے کہ یہ بزرگ علمی و ادبی اعتبار سے ایک بڑے دبستاں کی حیثیت رکھتے تھے۔ ایک بہت بڑاادارہ ایک بہت بڑا Institutionتھے۔ دبستان نظام کاپہلا باب جوہے، وہ حضرت سلطان جی رحمتہ اﷲ علیہ کی معلومات کی گہرائی ظاہر کرتا ہے۔ مثلاًیہ کہ اتنا حاضر علم تھا کہ کسی نے قرآن مجید کی کسی آیت کاکوئی لفظ منہ سے نکالا توآپ نے وہ آیت پڑھ دی۔ کسی نے کسی حدیث کاتذکرہ چھیڑا توآپ نے اُس حدیث کی روایت بیان کر دی۔ کسی نے کسی شعر کا مصرع پڑھا تو آپ نے پورا شعرپڑھ دیا۔ تویہ چیزجوہے یہ برجستگی اور تیزی یہ حافظہ یہ یادداشت، اس پہ قربان جانے کو دل چاہتا ہے۔
اسی انداز پر امیر خسرو کوتربیت حاصل ہوئی تو پھر انیس برس کی عمرمیں انہوں نے پہلا دیوان مرتب کیا اور حضرت کی خدمت میں آئے۔ مسودہ دیا۔ حضرت نے ملاحظہ فرمایا اورکہاکہ بھائی اصفہانیوں کی طرح لکھا کرو اور پھرسمجھا یاکہ اصفہانیوں کی طرح لکھنے کامطلب کیاہے اوراُن کی نظم ونثرکی اصلاح ہوتی رہی۔ کوئی کتاب امیرخسرو کی ایسی نہیں ہے جو حضرت سلطان جی کے ذکرسے معمورنہ ہو۔حضرت امیرخسرو کی موسیقی کو چمکانے والے حضرت سلطان جی ہیں۔پھرحسن سجنر جو امیرخسرو کی ٹکر کے شاعرتھے۔ شبلی نے لکھاہے کہ حسن اس پانے کے شاعر تھے کہ خسرو کواُن پر ترجیح نہیں دی جا سکتی۔ وہ برجستگی میں خسرو سے بڑے ہیں۔ خواجہ حسن سجنر نے وہ کام کردیا جویاد گارہے۔ حضرت سلطان جی کے ملفوظات فوائد الفواد کے عنوان سے مرتب کیے۔ پندرہ سال کے فوائدلکھے ہیں۔ وہ کتاب ایسی ہے جوملفوظات کا پہلا مستند مجموعہ ہے اور میراخیال یہ ہے کہ ہندوستان میں بنگلہ دیش میں، ایران میں، افغانستان میں، وسط ایشیا میں ہرجگہ بڑی دلچسپی سے پڑھی جاتی ہے۔ پھرخواجہ ضیاء الدین برنی تاریخ فیروزشاہی والے نے تاریخ کاہنراوراندازحضرت سلطان ہی سے سیکھا۔ امیر خرد جنھوں نے ’’سیرالاولیاء‘‘ جیسی کتاب زبردست لکھی، ایسی جوچشتیہ سلسلے کی انسائیکلوپیڈیا ہے۔جس ذات گرامی نے اِن لوگوں کی تربیت کی، وہ علم وادب کانہایت اعلیٰ اورنہایت مستحکم دبستان تھا۔ میری کتاب دبستان نظام جس کے لکھنے میں، میں نے تین برس لگائے، اس کتاب کولکھنے میں اس کاابتدائیہ حضرت کی درگاہ دلی میں لکھا تھا۔ اس کااختتامیہ مدینہ منورہ میں لکھا اورمیں سمجھتا ہوں کہ میری زندگی کا اگرکوئی کام ہے تو یہی ہے۔ تصوف کے بارے میں پیر و مرشد ڈاکٹر غلام مصطفی خان نے میرے بے ربط خیالات کی تہذیب کی، ان کا فیض میرے لیے بڑی نعمت تھا۔ 
فارسی میں ایک ہی کتاب کاحوالہ دیتاہوں اور وہ فوائد الفواد ہے۔شاعری جوہے وہ وقت کے ساتھ ساتھ آدمی کو Hauntکرتی ہے۔ مثلاً یہ کہ آج امیرخسرو کاشعر پڑھیں توآپ ہفتوں سردھنتے ہیں۔ حافظ کاکوئی شعرپڑھا، کسی اور شاعر کاکوئی شعر پڑھا، اقبال کاکوئی شعرپڑھا، اُسی کوگنگنا رہے ہیں۔ توہرشاعرکاکوئی نہ کوئی شعراچھا لگتاہے۔نظیری ہوں، فیض ہوں، بیدل، غالب ہوں، خسروہوں اورصاحب! آپ کے بڑے اچھے شاعر جنہیں آپ نہیں پڑھتے، وہ واقف لاہوری ہیں۔ کیا اچھی غزل ہے۔
ہر غنچہ بشگقت الادل من
اے وادل من صدا دل من 
اوربیدل توبہت ہی بڑاشاعرہے۔غنیمت کی مثنوی نیرنگ عشق پہلے پڑھائی جاتی تھی۔ بیدل بڑے شاعرتھے اور ہمارے اپنے زمانے کی اقبال کی جوغزلیں ہیں جاوید نامہ میں، وہ اپنی جگہ ایک شاہ کار کی حیثیت رکھتی ہیں مگرافسوس یہ ہے کہ ہمارے ملک سے فارسی کاچلن اُٹھ گیاہے اورہم اپنے ادبی اورثقافتی سرمایے کے بڑے حصے سے محروم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ 
جدید شاعروں میں جوبڑے شاعرہیں، وہ سب بہت اچھے شاعر ہیں۔ میں جوش کوبھی پڑھتا ہوں، فیض کوبھی پڑھتا ہوں، منیر نیازی کواوراپنے دوست احمد فراز کو بھی، قاسمی صاحب کوبھی، زہرہ نگاہ، کشور ناہید اور فہمیدہ ریاض، فاطمہ حسن اور شاہدہ حسن کوبھی پڑھتاہوں بلکہ فہمیدہ ریاض میں تو تصوف کی ایک لگن پائی جاتی ہے۔ مولانا روم کی جن غزلوں کااردو میں ترجمہ کیا، وہ توایک بہت ہی نادر اور نفیس تجربہ ہے۔ مولانا روم کی مثنوی فارسی میں بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ 
ایک تو فوائد الفواد میری زندگی میں سب سے بڑی کتاب ہے۔میرے گھرکے ہرکمرے میں آپ کویہ کتاب ملے گی۔ میری صبح کا آغاز ایک سپارے کی تلاوت اور فوائد الفواد کی ایک مجلس کے مطالعے سے ہوتا ہے۔ میں روزنامہ ڈان باقاعدہ پڑھتا ہوں۔ ورنہ1942ء سے لے کرآج (8مئی 2011) تک کے اخبارات باقاعدہ پڑھے اور ہندوستان میں دلی سے مسلم لیگ کا ایک اخبارنکلا کرتا تھا جس کانام تھا منشور۔ حسن ریاض ایڈیٹر تھے، ان کی کتاب ’’پاکستان ناگزیر تھا‘‘ تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ وہ پڑھتا رہا، کراچی کے اردو اخبار بھی پڑھتا ہوں۔ 
دوران سفر چھوٹے چھوٹے سفرکے لیے کبھی کوئی اور کبھی کوئی کتاب ساتھ رکھ لیتا ہوں اور حقیقت تو یہ ہے کہ اب ایک ہی سفر کرنا باقی رہ گیا ہے جس میں مطالعے کا کوئی تصور نہیں ہے۔ دوران سفراخبار پڑھ لیا، رسالہ پڑھ لیا۔ مطالعے کے لیے انسان کواپنی پوری صلاحیتوں کو مجتمع کرناپڑتا ہے۔ مجھے ہزاروں شعریادہیں اور واقعی یہ بات بالکل صحیح ہے کہ مجھے بے شمار شعر یادہیں، تاریخیں یادہیں، واقعات یاد ہیں، نثر کے ٹکڑے یادہیں۔ حافظہ اچھا ہے۔ مثلاً کسی کا ٹیلی فون آیاکہ صاحب یہ شعر بتا دیجیے توکہتے یہ ہیں کہ غالب کے دیوان میں ڈھونڈناپڑے گا، آپ سے فوراً معلوم ہوجائے گا۔ اس طرح کے ٹیلی فون مسلسل آتے ہیں۔ اشعار یاد رکھنے کا ملکہ مجھے اپنے والد سے ورثے میں ملا ہے۔ انہیں ہزاروں شعر یاد تھے۔ 
میرے ذوق مطالعہ کا میرے بچوں پہ بہت اچھا اثر ہواہے۔ میرے بڑے بیٹے آمد کاجدید ادبیات میں مطالعہ مجھ سے بہت زیادہ ہے۔ وہ انگریزی میں بھی لکھتے ہیں اور ہم دونوں ادبی موضوعات پرتبادلہ خیال کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے استفادہ کرتے ہیں۔ وہ کوئی کتاب پڑھتے ہیں تومجھے بتاتے ہیں، میں کوئی نئی کتاب پڑھتا ہوں تومیں اُن کوبتاتا ہوں۔ پھر اُس کے بعدگفتگو ہوتی ہے، مکالمہ ہوتاہے۔ افسوس ہے کہ ضعف بصارت کی وجہ سے پڑھنا برائے نام رہ گیا ہے۔ آئے روز ایک نئی کتاب مجھے دکھاتے ہیں، مگر میں پڑھ نہیں سکتا، صرف افسوس کر سکتا ہوں۔ 
ہمارے ہاں کا دستور تھا لڑکوں کاایک گروہ تھاجو چھپ کر گھٹیا جاسوسی ناول پڑھتے تھے ایک مصنف تھے جن کانام تھا منشی ندیم صبہانی فیروز پوری۔چار آنے میں اُن کاناول آتاتھا۔ پیسے جمع کرکے اُن کاناول لاکے پڑھتے تھے۔پھرہم نے اورضمیرالدین احمد نے جو ہمارے دوست تھے یہ طے کیا کہ دلی جاکر منشی ندیم صبایی فیروز پوری سے ملاقات کرتا چاہے بعدمیں یہ عقدہ کھلا کہ وہ اور جتنے اس طرح کے لکھنے والے تھے وہ اصل میں کاتب تھے اور وہ کتابت کی ہوئی کتاب بالعموم دس روپے پندرہ روپے میں پبلشرز کو دے دیتے تھے اب اُس زمانے میں پانچویں چھٹی جماعت میں وہ بہرام ڈاکو اورجاسوسوں کے کارنامے بڑے اچھے محسوس ہوتے تھے۔بعدمیں خیال آتاہے کہ یہ کیا حماقت اور لغویت تھی۔
ذاتی لائبریری ہے توسہی لیکن مرتب نہیں کیونکہ کتابیں رکھنے کے لیے جگہ نہیں ہے۔میرے بزرگوں نے بہت کتابیں جمع کی تھیں۔ میں نے آپ کوبتایا کہ 16-15ہزارکتابیں تھیں جوبعدمیں ہندوستانی حکومت نے گھر کے سارے سامان کے ساتھ ضبط کر لی تھیں اور مجھے بڑا دکھ ہوا اورساری زندگی رہے گا کہ وہ کتب خانہ صرف ساٹھ روپے میں نیلام ہوگیا تھا۔ بہت دن تک یہاں آکر کتابوں کو جمع نہیں کیا پھرجمع کرناشروع کیا ۔یہاں جگہ نہیں ہے بہت سی کتابیں میں کتب خانوں کودے دیتاہوں۔ میں نے ایک دن اندازہ لگایا تومجھے یہ خیال آیاکہ کم ازکم اب تک تیس چالیں برس میں میں ہزاروں کتابیں مختلف کتب خانوں کودے چکاہوں۔انگلش Fictionکابہت بڑاCollectionتھا۔توپھرآہستہ آہستہ اب صورت حال یہ ہے کہ اس گھرکے ہرکمرے میں کتابیں ہی کتابیں ہیں کتابیں اتنی ہوگئی ہیں کہ سارے گھروالے تنگ آگئے ہیں اور یہ بھی سچی بات ہے کہ اُن کوجداکرنے کودل بھی نہیں چاہتا۔مثلاً میں نے ابھی آپ کے سامنے تذکرہ کیاکہ سیرت النبیؐ کاجوپہلا ایڈیشن ہے وہ ہے میرے پاس، اب جی نہیں چاہتا کہ وہ ایڈیشن کسی کودے دوں۔ بہت بڑا اطمینان ہے اوروہ اطمینان یہ ہے کہ میری کتابیں کباڑیوں کے ہاں نہیں جائیں گی کیوں کہ میری ساری کتابیں آصف سنبھال لیں گے ان کاگھربھی اسی طرح کی کتابوں سے بھراہواہے اوریہ کہ اُن سے کہا ہے کہ تم جس کتب خانے کوبہترسمجھواُسے دے دینا۔
سینکڑوں کتابیں ضائع ہوئیں۔افسوس ہوتاہے جولے گیا اُس نے واپس نہیں کی مگریہ کہ ایک شاگردہے اُسے ضرورت ہے توکتاب تو دینا پڑے گی۔ بعض اچھی ہیں ایسی ہیں مثلاً محمدحسین آزاد کی کتابوں کاپوراسیٹ میرے پاس ہے۔ اُن میں سے اگر کوئی کتاب ضائع ہوجائے تووہ پھر مل نہیں سکتی۔
باقی زندگی کے لیے جو تین کتابیں پسند کرنے کی بات ہے، ان میں ایک تو فوائد الفواد ہوگی، دوسری کتاب دیوان غالب ہوگی اورتیسری کتاب یا دبستان نظام ہو گی۔ 
بہت سی ایسی تحریریں ہیں جن سے اشتعال پیدا ہوتا ہے۔ ایک تحریر تھوڑی ہے، بے شمار تحریریں ہیں ۔ لوگ دل آزاری سے باز نہیں آتے۔ شائستگی کومدنظرنہیں رکھتے۔ مجھے سفید رنگ پسند ہے۔ آپ کوکوئی دوسرا رنگ پسند ہے تو بھائی اس کی ضرورت نہیں ہے کہ مجھ میں اورآپ میں تکرار ہو اور آپ میری دل آزاری کے لیے سفید رنگ کو برا کہیں۔ یہ آج کی دنیا میں جودل آزارچیزیں لکھی جارہی ہیں اوران کے پیچھے عصبیتیں ہوتی ہیں، وہ قابل نفرت ہوتی ہیں۔ 
اشتعال انگیز تحریریں نفرت پھیلانے اور خبث باطن کے اظہار کے لیے لکھی جاتی ہیں۔ دل آزاری کے لیے لکھی جاتی ہیں، فساد کرانے کے لیے لکھی جاتی ہیں۔ ہماری تعلیم تو یہ ہے کہ کسی کو برا نہ کہو، ہر بزرگ ہمارا بزرگ ہے۔ اس کی عزت کرو، یہ کیا کہ دوسرے بزرگوں کی مذمت شروع کر دی کوئی کارٹون بنانے لگا کوئی ناول لکھنے لگا، یہ سب نہایت تکلیف دہ باتیں ہیں اور خبث باطن کا اظہار ہیں۔ پھرادب میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جوایک دوسرے کے خلاف لکھتے ہیں۔تووہ جوخلاف لکھتے ہیں تواُن کوحق ہے کہ ضرور لکھیں کہ صاحب غالب جوتھا بڑا گھٹیا شاعرتھا۔ ٹھیک ہے صاحب بالکل ٹھیک ہے اگرآپ کی رائے ہے تواس میںآپ اپنی رائے پرقائم رہیں۔میں اپنی رائے پرقائم رہوں گا کہ غالب اچھے شاعرتھے۔مگرآپ اگریہ کہیں کہ فلاں شاعر یانثرنگارتوذلیل آدمی تھا کمینہ تھا قلاش تھا تویہ تودل آزاری کی بات ہوگی اور اس دل آزاری سے فضا اور ماحول خراب ہو گا، نفرت پھیلے گی۔اگر آپ کسی شخص کی علمی یا ادبی حیثیت کے منکر ہیں توآپ انکارکیجیے کوئی حرج نہیں لیکن گستاخی نہ کیجیے۔
میرے مطالعے کے اوقات مقرر نہیں۔ ہر وقت اور ہر جگہ یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ میں کتاب پر نشان نہیں لگاتا جو کچھ پڑھتا ہوں اسے ذہن میں محفوظ رکھتا ہوں اور حسب ضرورت اس سے فائدہ اٹھاتا ہوں۔ یہ سب باتیں اس وقت کی ہیں جب آتس جواں تھا۔ اب دنیا کے ستم جاد نہ اپنی ہی وفا یاد۔ یہ خواب و خیال وہ گیا۔ نہ کسی سے شکوہ ہے نہ کسی سے کوئی گلہ، سب اچھے ہیں۔ سارے لکھنے والے لائق تحسین ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو خوش رکھے۔

نفاذ اسلام کے لیے مسلح جدوجہد کا راستہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

گزشتہ دنوں بعض عسکریت پسند گروہوں کی طرف سے اس مضمون کے بیانات اخبارات میں شائع ہوئے کہ حکومت پاکستان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے آئین کی بات کرتی ہے جبکہ ہم شریعت کی بات کرتے ہیں۔ اس سے یہ بات محسوس ہوتی ہے کہ بہت سے عسکریت پسند گروپوں کے نزدیک دستور پاکستان اور شریعت اسلامیہ ایک دوسرے کے مد مقابل اور حریف ہیں جبکہ یہ خیال درست نہیں ہے اور اس مغالطے کو فوری طور پر دور کرنے کی شدید ضرورت ہے۔
دستور پاکستان کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ شریعت اسلامیہ سے متصادم ہے، دستور پاکستان سے ناواقفیت کی علامت ہے۔ اس لیے کہ دستور پاکستان کی بنیاد عوام کی حاکمیت اعلیٰ کے مغربی جمہوری تصور پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کے اسلامی تصور پر ہے جس پر دستور کی بہت سی دفعات شاہد و ناطق ہیں۔ دستور پر عمل نہ ہونا یا اس بارے میں رولنگ کلاس کی دوغلی پالیسی ضرور ایک اہم مسئلہ ہے لیکن اس سے دستور کی اسلامی حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اہل السنۃ والجماعۃ کا اصول ہے کہ کوئی شخص کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جائے اور دینی مسلمات میں سے کسی بات سے انکار نہ کرے تو اس کی بے عملی یا بد عملی کی وجہ سے اسے کافر قرار نہیں دیا جائے گا اور وہ فاسق و فاجر کہلانے کے باوجود مسلمان ہی شمار ہوگا۔ اس لیے رولنگ کلاس کی بے عملی یا دوغلے پن کی وجہ سے دستور کو غیر اسلامی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ 
اس سلسلہ میں دوسری گزارش یہ ہے کہ یہ دستور اس وقت پاکستان کی وحدت کی اساس ہے، خدانخواستہ اس دستور کی نفی کر دی جائے تو ملک کو متحد رکھنے کی اور کوئی بنیاد باقی نہیں رہے گی اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وحدت و سا لمیت کو خدانخواستہ داؤ پر لگانے کا کسی مسلمان کو رسک نہیں لینا چاہیے۔ 
جبکہ تیسری گزارش ہم یہ کرنا چاہیں گے کہ اس دستور کی تشکیل و تدوین میں ملک کی تمام دینی و سیاسی قوتیں شریک رہی ہیں اور اب بھی وہ اس پر متحد و متفق ہیں۔ یہ دستور جب 1973ء کے دوران ترتیب دیا جا رہا تھا اس وقت اسے مرتب و مدون کرنے میں دوسرے بہت سے قومی راہ نماؤں کے ساتھ دستور ساز اسمبلی کے ارکان کے طور پر حضرت مولانا عبد الحقؒ آف اکوڑہ خٹک، حضرت مولانا مفتی محمودؒ ، حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ ، حضرت مولانا نعمت اللہؒ آف کوہاٹ، حضرت مولانا صدر الشہیدؒ آف بنوں، حضرت مولانا عبد الحکیم ہزارویؒ اور حضرت مولانا عبد الحقؒ آف کوئٹہ بھی شامل تھے اور ان سب بزرگوں کے اس پر دستخط ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اس وقت عسکریت پسندوں کی بہت بڑی اکثریت ان میں سے کسی نہ کسی بزرگ کی بالواسطہ یا بلاواسطہ شاگرد ہے، اس لیے انہیں اپنے ان عظیم المرتبت اساتذہ کے موقف سے انحراف اور ان کی کاوشوں کی نفی کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے اور البرکۃ مع اکابرکم کا خیال رکھتے ہوئے دستور پاکستان کی پاسداری کا واضح اعلان کرنا چاہیے۔ 
ہم متعدد بار یہ لکھ چکے ہیں کہ ایک مسلمان ریاست میں حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھانا جسے فقہی اصطلاح میں ’’خروج‘‘ کہتے ہیں، حکمرانوں کی طرف سے ’’کفر بواح‘‘ یعنی کھلے کفر کے اعلان کے سوا شرعاً جائز نہیں ہے اور جب تک ہمارا کوئی حکمران گروہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نظریاتی تشخص اور دستور کی اسلامی بنیادوں سے خدانخواستہ صراحتاً انکار نہیں کرتا، اس پر ’’کفر بواح‘‘ کا فتویٰ لگا دینا درست نہیں ہے بلکہ اگر ’’خروج‘‘ کے جواز کا کسی درجہ میں ماحول دکھائی دیتا ہو تو بھی اس کے قابل عمل ہونے کو فقہائے احناف نے جواز کی شرائط میں شامل کیا ہے، کیونکہ قابل عمل ہونے کے غالب امکان کے بغیر حنفی فقہاء کسی مسلم حکومت کے خلاف خروج کو بعض دوسری شرائط کے پائے جانے کے باوجود شرعاً درست قرار نہیں دیتے۔ جبکہ پاکستان کے معروضی حالات میں اس کا کسی درجہ میں کوئی امکان نہیں ہے کہ کوئی مسلح گروہ ملک کے کسی حصے پر قبضہ کر کے وہاں اپنی حکومت قائم کر سکے اور اس میں اپنی مرضی کا نظام نافذ کر لے۔ اس لیے ہم نے نفاذِ شریعت کے خواہش مند اور اس کے لیے جدوجہد کرنے والے مسلح عناصر سے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ وہ مسلح جدوجہد کا راستہ ترک کر کے پُر امن جدوجہد کا طریقِ کار اختیار کریں اور اس کے لیے جمہور علماء امت کو اعتماد میں لیں۔ 
ہمارے نزدیک نفاذِ اسلام کی جدوجہد کا اصل راستہ وہی ہے جو ہمارے بزرگوں نے شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی مالٹا کی قید سے واپسی پر ان کی راہ نمائی میں اختیار کیا تھا اور آزادی کی جدوجہد کے لیے پُر امن عوامی سیاسی تحریک کے ذریعہ برطانوی استعمار کے خلاف عدم تشدد پر مبنی مزاحمت کی صبر آزما محنت کر کے اسے یہاں سے رخصت ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ تحریک خلافت، جمعیۃ علماء ہند، مسلم لیگ اور مجلس احرار اسلام کی تحریکات اس کی زندۂ جاوید تاریخی شہادتیں ہیں اور ہمارے لیے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس لیے ہم نہ مسلح جدوجہد کے طریقِ کار کی حمایت کرتے ہیں اور نہ ہی صرف الیکشن پر قناعت کرنے کو نفاذِ اسلام کی جدوجہد کا درست طریق کار سمجھتے ہیں۔ نفاذِ اسلام کے لیے بین الاقوامی اور ملکی اسٹیبلیشمنٹ کے منافقانہ کردار اور دوغلے رویے کے خلاف شدید عوامی مزاحمت درکار ہے کیونکہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانا کرتے، البتہ یہ مزاحمت اسلحہ اور ہتھیار کی بجائے اسٹریٹ پاور، سول سوسائٹی، پر امن عوامی تحریک اور منظم احتجاجی قوت کے ذریعہ ہونی چاہیے۔ 
قبائلی علاقہ جات کی کالعدم تحریک طالبان سمیت بہت سے دیگر دینی حلقوں کو یہ شکوہ ہے کہ ملک کے جمہور علماء ان کی دینی جدوجہد میں ان کا ساتھ نہیں دے رہے، جبکہ ہمارا تجربہ اس سے مختلف ہے۔ راقم الحروف کو بھی تحریکی دنیا کا کارکن سمجھا جاتا ہے، درجنوں تحریکوں میں مختلف سطحوں پر متحرک کردار ادا کرنے کی سعادت بحمد اللہ تعالیٰ حاصل کر چکا ہوں اور اسے اپنے لیے باعث نجات سمجھتا ہوں۔ ہمارا تجربہ یہ ہے کہ دینی جدوجہد کے جس مرحلہ میں بھی جمہور علماء کرام اور ان کی علمی و فکری قیادتوں کو اعتماد میں لے کر ان کی مشاورت سے کسی تحریک کا پروگرام طے کیا گیا ہے، جمہور علماء بلکہ عوام نے بھی کبھی مایوس نہیں کیا۔ تحریک ختم نبوت، تحریک نظام مصطفیؐ اور شریعت بل کی تحریکات اس پر شاہد ہیں، البتہ ملک کے کسی بھی دینی طبقہ اور جماعت نے کسی بھی دینی جدوجہد کا پروگرام اگر از خود طے کیا ہے، اس کے اہداف، ترجیحات اور طریق کار کے تعین میں جمہور علماء کی قیادتوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور سب کچھ از خود طے کر کے جمہور علماء کو اپنے پیچھے چلنے کی دعوت دی ہے تو اسے بہرحال مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اور یہ ایک فطری بات ہے، اس لیے کہ اگر جمہور علماء دینی جدوجہد کے عنوان سے ہر آواز کی طرف لپکنا شروع کر دیں تو ملک کے عمومی دینی ماحول کی رہی سہی اجتماعیت بھی داؤ پر لگ جائے گی جو کسی طور بھی دین اور ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔ 
ہمیں دین کے لیے کسی بھی حوالہ سے جدوجہد کرنے والوں کے خلوص، قربانیوں اور سعی و محنت سے انکار نہیں ہے، لیکن ملک کے عمومی دینی ماحول کا تعاون حاصل کرنے کے لیے جمہور علماء کرام بلکہ مختلف مکاتب فکر کی دینی، علمی اور فکری قیادتوں کو جدوجہد کے مقاصد، ترجیحات اور طریق کار کے بارے میں اگر اعتماد میں نہیں لیا جائے گا تو ان سے عدم تعاون کا شکوہ کرنے کا بھی کوئی جواز نہیں ہوگا۔

مکاتیب

ادارہ

(۱)
بعد از سلام مسنون
میں شاید ان دنوں پچھلے دو تین سالوں کے الشریعہ کی ورق گردانی کی بات لکھ چکا ہوں۔ اسی ضمن میں نومبر ۲۰۱۱ء کے شمارہ میں محمد اظہار الحق صاحب کا مضمون پڑھنے میں آیا۔ دلچسپ نکلا۔ اظہار صاحب نے اس میں صفحہ ۴۷ پر سوال اٹھایا ہے کہ فلاں خط میں فلاں صاحب کے متعلق ایسے ایسے ناملائم الفاظ کی بہتات ہے۔ سمجھ میں نہیں آیا کہ ’’اس کی اشاعت ایک دینی پرچہ میں کیوں ضروری تھی اور اس کے شائع نہ ہونے سے کون سی صحافتی اقدار مجروح ہو رہی تھیں۔‘‘ مجھے یاد آیا کہ بارہا مجھے خیال ہوا کہ آپ کو اور مولانا کو لکھا جائے کہ آپ اپنے بارے یہ فراخ حوصلگی رکھتے ہیں تو رکھیں کہ مکاتیب نگار جو کچھ بھی مناسب نامناسب آپ کے بارے میں لکھیں، وہ آپ من وعن چھاپ دیں، لیکن دوسروں کے حق میں تو اس فراخی کا مجاز اپنے آپ کو نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ ایڈیٹر اگر ایسے امور میں بھی ایڈیٹنگ نہ کرے تو وہ ایڈیٹر کس معنی کا۔ الغرض یہ فرض جو اب تک کوتاہی کی نذر رہا، اظہار الحق صاحب کی ’’برکت‘‘ سے آج ادا ہو جاتا ہے۔
(مولانا) عتیق الرحمن سنبھلی (لندن)
(۲)
عزیز گرامی محمد عمار خان ناصر سلمک اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حافظ عبد الجبار سلفی صاحب نے راقم کی وضاحت پر پھر خامہ فرسائی کرنی ضروری سمجھی ہے، حالانکہ ان کے اصل مضمون میں جو دو غلطیاں یا غلط فہمیاں تھیں، راقم نے ان کی بابت حقیقت واقعی کی وضاحت کی تھی جس میں بحث وتکرار کی قطعاً ضرورت نہیں تھی، لیکن ذہنی جمود مخالف کے نقطہ نظر کو سمجھنے میں مانع بن جاتا ہے۔ یہی حادثہ ان کے ساتھ بھی پیش آیا ہے۔
راقم نے عرض کیا تھا کہ عدم تقلید کو گمراہی قرار دینا یکسر غلط ہے۔ اس فتوائے گمراہی کی زد میں صرف اہل حدیث ہی نہیں آتے، بلکہ خیر القرون کے صحابہ وتابعین بھی اس کی زد میں آ جاتے ہیں۔ ان کا جو طرز عمل تھا، اہل حدیث کا طرز فکر وعمل اسی کے مطابق ہے اور اسلاف کا یہی منہج، منہج حق ہے۔ اصل گمراہی منہج سلف سے انحراف ہے۔ اس کی بابت موصوف نے کوئی وضاحت نہیں فرمائی اور راقم نے صحابہ وتابعین کے طرز عمل کی جو وضاحت کی تھی اور قرآن کریم کی ایک آیت بھی پیش کی تھی، اس کو انھوں نے تقلید کی حمایت قرار دے دیا، حالانکہ اس سے تقلید شخصی کا اثبات نہیں ہوتا بلکہ صرف اہل علم کی طرف مراجعت کا حکم ہے۔ تقلید اور اتباع دونوں کو یکساں قرار دینا کسی صاحب علم سے اس کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ پھر قرآن کریم کی آیت فاسئلوا اہل الذکر سے تقلید شخصی کا اثبات تو ستم ظریفی کی انتہا ہے۔ 
تقلید کا مطلب ہے امام کی بات کو بلا دلیل مان لینا۔ اس میں مقلد کو سرے سے دلیل پوچھنے کا حق ہی نہیں ہے، قول امام ہی دلیل ہے۔ اور تقلید شخصی کا مطلب ہے ایک ہی امام اور ایک ہی فقہ کی بات کو ماننا، کسی بھی دوسرے امام یا فقہ کی بات نہ ماننا۔ کسی امام اور فقہ کے پابند عوام کو اپنے مقلد علماء سے دلیل پوچھنے کی اجازت ہے نہ جرات۔ اور اگر کوئی یہ جرات کر بیٹھتا ہے تو اس کو دلیل کے بجائے جھڑک اور ڈانٹ ملتی ہے۔ الحمد للہ اہل حدیث عوام اور علماء میں اتبا ع کا طریقہ تائج ہے جو صحابہ وتابعین کا بھی منہج ہے۔ عوام یقیناًدینی مسائل میں رہنمائی کے لیے علماء کی طرف رجوع کرتے ہیں اور علماء ان کی رہنمائی کرتے ہیں، لیکن عوام کے ذہن میں بھی یہی ہوتا ہے کہ ان کو صرف اللہ رسول کی بات بتلائی جائے اور علماء بھی پوری دیانت داری سے اپنے فہم او رمعلومات کی روشنی میں اللہ رسول ہی کی بات بتلاتے ہیں۔ وہ نہ کسی امام کی رائے یا فقہ کی روشنی میں فتویٰ دیتے ہیں اور نہ اپنے ہی کسی بڑے بزرگ کی رائے کے مطابق۔ اور قرآن کی محولہ آیت سے بھی اسی طریقے کا اثبات ہوتا ہے نہ کہ تقلید کا۔
دوسرا مسئلہ حیات النبی کا ہے جس کی بابت عرض کیا گیا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر مبارک میں جو زندگی حاصل ہے، وہ برزخی ہے جس کی نوعیت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے نہ جان ہی سکتا ہے۔ دنیوی زندگی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہی مسلک دیوبندی علماء میں سے مولانا عنایت اللہ شاہ بخاری مرحوم کا تھا اور یہی مسلک اہل حدیث کا ہے، جبکہ عام دیوبندی علماء کا عقیدہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر میں جو زندگی حاصل ہے، وہ دنیوی زندگی ہی کی طرح بلکہ اس سے بھی قوی ہے، اس لیے جس طر ح ان سے زندگی میں توسل جائز ہے، اسی طرح اب بھی آپ سے توسل جائز ہے۔ یعنی قبر مبارک پر جا کر آپ سے درخواست کرنا، جائز ہے۔ اسی لیے مولانا حسین احمد مدنی نے حج پر جانے والوں کو یہ تاکید کی ہے کہ مکہ جانے سے پہلے مدینہ جا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبولیت حج کی استدعا کی جائے۔ یہ عقیدہ قرآن وحدیث کی نصوص صریحہ کے خلاف ہے، اس لیے سید عنایت اللہ شاہ بخاری اس سے انکار کرتے تھے اور اہل حدیث بھی اس مسئلے کو اسی طرح ہی مانتے ہیں۔
جہاں تک فاضل موصوف کی یہ بات ہے کہ ’’حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر کے ساتھ روح مبارکہ کو ایک خاص تعلق حاصل ہے‘‘ یہ بالکل صحیح ہے، لیکن اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ آپ کی برزخی زندگی بالکل دنیوی زندگی کی طرح حقیقی بلکہ اس سے بھی قوی زندگی ہے؟ روح اور جسم کا معنوی تعلق بھی تو برزخ ہی کی زندگی کی ایک صورت ہے جس سے کسی کو انکار نہیں ہے، لیکن اسے دنیوی زندگی کی طرح کیونکر کہا جا سکتا ہے جو آپ حضرات کا عقید ہ ہے؟ بنا بریں اس صحیح بات پر یہ عقیدہ کیونکر متفرع ہو سکتا ہے جو آپ نے کیا ہے کہ ’’اسی تعلق کی بنا پر آپ اپنے روضہ انور پر پڑھا جانے والا صلوٰۃ وسلام سماعت فرماتے ہیں۔‘‘ سماعت کا یہ عقیدہ اس وقت تک صحیح قرار نہیں دیا جا سکتا جب تک آپ جسم وروح کے معنوی تعلق کو دنیوی زندگی کی طرح حقیقی زندگی ثابت نہیں کر دیتے اور اس کے اثبات کے لیے نص صریح کی ضرورت ہے۔ وہ آپ پیش فرمائیں، وہ آپ کے اکابر کے اپنے بیان کردہ عقیدوں سے ثابت نہیں ہوگی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی قرآن کے اس عموم میں داخل ہیں کہ فوت شدگان کو کوئی اپنی بات نہیں سنوا سکتا۔ الا یہ کہ کسی نص صحیح وصریح سے آپ کا (عند القبر) سننا ثابت نہ کر دیا جائے، جیسے حدیث میں آتا ہے کہ جب مردے کو دفنا کر لوگ واپس ہوتے ہیں تو فوت شدہ جانے والوں کے قدموں (جوتوں) کی آہٹ سنتا ہے۔ مردے کا یہ سننا ایک استثناء (تخصیص) ہے جو حدیث صحیح وصریح سے ثابت ہے، اس لیے اس پر ہمارا ایمان ہے، لیکن یہ تخصیص اس حد تک ہی محدود رہے گی جس کی صراحت حدیث میں ہے، اسے عام نہیں کیا جا سکتا۔ اس حدیث سے یہ استدلال جائز نہیں ہوگا کہ فوت شدگان ہر بات سن سکتے ہیں، جیسا کہ بعض لوگوں نے اس حدیث سے مطلقاً سماع موتی کا جواز ثابت کر کے غیر اللہ سے استمداد واستعانت (شرک) کا راستہ کھول رکھا ہے۔
(عند القبر درود و سلام سننے کا مطلب تو یہ بنتا ہے کہ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اللہ کی صفت سمیع سے متصف ہیں۔ جس طرح اللہ تعالیٰ مافوق الاسباب طریقے سے سننے پر قادر ہے، اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی مافوق الاسباب طریقے سے لوگوں کی درخواستیں سن سکتے ہیں۔ ظاہر اسباب کے مطابق ایک فوت شدہ شخص گھر کے اندر بھی، جب کہ ابھی اس کو دفنایا نہ گیا ہو، کوئی بات نہیں سن سکتا، لیکن اس کو منوں مٹی کے نیچے دفنانے کے بعد یہ عقیدہ رکھا جائے کہ وہ اب بھی ہماری بات سن سکتا ہے تو اس کا یہ سننا (بالفرض اگر وہ سنتا ہے) ظاہری اسباب کے مطابق کہلائے گا یا مافوق الاسباب؟ ظاہر بات ہے یہ سننا ماورائے اسباب ہی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی نص قرآنی کے مطابق وفات پا چکے ہیں اور صحابہ نے عام انسانوں کی طرح آپ کو بھی لحد مبارک میں دفنایا ہے۔ آپ کی وفات کے بعد کسی صحابی نے آپ کی قبر پر جا کر آپ سے توسل یا استشفاع نہیں کیا۔ اب یہ کہنا کہ آپ روضہ انور کے پاس کھڑے ہو کر پڑھے جانے والا صلوٰۃ وسلام بھی سنتے ہیں اور ہر قسم کی درخواستیں بھی تو یہ سننا مافوق الاسباب قوت سماعت کے بغیر ممکن نہیں۔ جب تک کسی نص صریح سے یہ ثابت نہیں کر دیا جائے گا کہ آپ بھی اللہ تعالیٰ کی طرح مافوق الاسباب طریقے سے قوت سماعت سے متصف تھے اور اب بھی ہیں، اس وقت تک دیوبندی عقیدہ بھی بے بنیاد ہے اور وہ تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ بریلویوں کے مماثل ہے۔
ہمارے ناقص علم کے مطابق محولہ حدیث جس کے الفاظ ہیں: من صلی علی عند قبری، ضعیف ہی نہیں، موضوع ہے۔ اس کی اسنادی بحث کے لیے ملاحظہ ہو: السلسلۃ الضعیفۃ للالبانی جلد ۱، ص ۲۳۹، رقم الحدیث ۲۰۳ اور ’’تحقیقی وعلمی مقالات‘‘ از حافظ زبیر علی زئی، جلد ۱، ص ۲۵، ۶۶، مکتبہ اسلامیہ لاہور۔ اس لیے اس سے زیر بحث مسئلہ ثابت نہیں ہو سکتا۔ علاوہ ازیں اس کے لیے کسی بھی بڑے سے بڑے عالم یا بزرگ کی کتاب یا فتویٰ یا رائے کا حوالہ کافی نہیں ہے، چاہے اہل حدیث کے ہاں بھی اس کی علمی حیثیت مسلمہ ہو، کیونکہ حدیث کی صحت کے لیے یہ بات کافی نہیں ہے کہ فلاں بزرگ نے اس سے استدلال کیا یا اس کو صحیح کہا یا اپنی کتاب میں درج کیا ہے۔ مسلمہ اصول حدیث کے مطابق اس کی صحت کا اثبات ضروری ہے۔
موصوف فرماتے ہیں کہ ’’بالکل یہی بات اہل حدیث عالم مولانا نذیر حسین دہلوی نے لکھی ہے۔‘‘ 
اہل حدیث کے نزدیک سید نذیر حسین یا اور دیگر کبار علمائے اہل حدیث اپنے علم وفضل اور خدمات کے پیش نظر یقیناًقابل احترام ہیں، لیکن اہل حدیث چونکہ اکابر پرستی اور غلو عقیدت سے پاک ہیں، اس لیے وہ معصوم صرف نبی مفترض الطاعت کو مانتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ کسی کو معصوم سمجھتے ہیں نہ مانتے ہیں، اس لیے کئی مسائل میں وہ سید نذیر حسین کی رائے اور فتوے کو بھی غلط قرار دیتے ہیں۔ محولہ عبارت بھی اگر واقعی ان کے فتاویٰ یا کسی کتاب میں لکھی ہوئی ہے تو وہ ہمارے نزدیک غلط اور ناقابل حجت ہے۔ 
ثانیاً، واقعہ یہ ہے کہ محولہ عبارت نہ صرف یہ کہ محولہ مقام پر نہیں ہے، بلکہ فتاویٰ نذیریہ کی تینوں جلدوں میں یہ عبارت تمام مظان دیکھنے کے باوجود ہمیں نہیں ملی۔ یہ عبارت اگرچہ مدار استدلال نہیں، لیکن ہماری یہ خواہش ضرور ہے کہ اس عبارت کا اتا پتا ہمیں معلوم ہو تاکہ اس کا سیاق وسباق دیکھا جا سکے۔
فاضل موصوف نے مولانا سید نذیر حسین محدث دہلوی کی طرف عند القبر صلاۃ وسلام کے سماع کا فتویٰ منسوب کیا ہے، حالانکہ ان کا یہ فتویٰ ان کے فتاویٰ میں ہمیں کہیں نہیں ملا۔ ان کا اصل فتویٰ ملاحظہ فرمائیں۔ اصل فتویٰ فارسی میں ہے، اس کا اردو ترجمہ جو اس کے حاشیے ہی میں درج ہے، حسب ذیل ہے:
’’اور نبی یا کسی دوسرے کو ندا (یا  کے لفظ سے خطاب کرنا) یا درود اور غیر درود میں ندا کرنے کا جو فرق کیا جاتا ہے، وہ ہماری سمجھ سے تو بالاتر ہے کیونکہ ندا (یا) تو حاضر کے لیے ہوتی ہے اور نبی بھی حاضر نہیں ہوتا، نہ درود کے وقت اور نہ کسی دوسرے وقت۔ اور درود کے متعلق صرف اتنا ثابت ہے کہ اس کو فرشتے پہنچا دیتے ہیں۔ پس ندا (یا) حاضر ہونے کے عقیدے کی طرف اشارہ کرتی ہے اور یہ عقیدہ شرک ہے تو ایسے الفاظ شرکیہ سے پرہیز کرنا نہایت ضروری ہے۔‘‘ (فتاویٰ نذیریہ جلد اول ص ۱۶۰)
یہاں درود کے بارے میں واضح طور پر یہ لکھا ہے کہ صرف اتنا ثابت ہے کہ اس کو فرشتے پہنچاتے ہیں۔ یہ لفظ انھوں نے مطلقاً لکھے ہیں، یہ درود پڑھنا عند القبر ہو یا کسی اور جگہ سے ہو۔ ہر دو صورتوں میں فرشتے ہی پہنچاتے ہیں، جیسے حدیث میں ہے: ان للہ ملائکۃ سیاحین فی الارض یبلغونی عن امتی السلام (موارد الظمآن، حدیث ۲۳۹۲)
یہ چند گزارشات بادل نخواستہ اس لیے پیش کی گئی ہیں کہ اہل حدیث کی بابت یکسر خلاف واقعہ الزام تراشی اور نہایت غلط تاثرات کا اظہار کیا گیا ہے، اس لیے انھی صفحات پر ان کا ازالہ ووضاحت ضروری تھی۔ امید ہے کہ آئندہ ایسی صورت حال پیش نہیں آئے گی (کم از کم الشریعہ کے صفحات پر) کہ ہمیں پھر یہ ناخوش گوار فریضہ ادا کرنے کی ضرورت پیش آئے۔ وما علینا الا البلاغ
حافظ صلاح الدین یو سف
مدیر شعبہ تحقیق وتالیف دار السلام لاہور
(۳)
(اہل تشیع کی تکفیر کے حوالے سے اس بحث میں دونوں طرف کا موقف متعدد بار تفصیل کے ساتھ سامنے آ چکا ہے اور اب یہ مباحثہ تکرار اور مناظرے کی حدود میں داخل ہوتا نظر آ رہا ہے، اس لیے اس خط کی اشاعت کے ساتھ اس سلسلے کو یہیں ختم کیا جا رہا ہے۔ کسی دوسرے موقع پر کوئی نیا علمی یا فکری تقاضا سامنے آنے کی صورت میں اس موضوع پر گفتگو کے لیے ’’الشریعہ‘‘ کے صفحات پھر سے حاضر ہوں گے۔ مدیر)
مفتی محمد زاہد صاحب کا مضمون ’’برصغیر میں برداشت کا عنصر‘‘ماہ نامہ الشریعہ میں شائع ہوا ۔ اس میں فاضل مضمون نے تین دعوے کیے تھے :
۱۔ بطور فرقہ شیعہ کی تکفیر اہل سنت کا متفقہ فتویٰ نہیں ہے ۔
۲۔ اہل تشیع ملی تحریکات میں شامل رہے ۔ 
۳۔ جو حضرات شیعوں کے خلاف کام کرتے رہے، وہ بھی موجود ہ ماحول کے روادار نہیں تھے ۔
ہم نے اپنے سابقہ مضمون میں ان تینوں باتوں کاتفصیلی جواب دیا۔ ہمارے موقف کا لب لبا ب یہ تھا کہ :
۱ ۔ جنہوں نے شیعیت کے مدو جزر پر مستقل نگار رکھی ہے، انہوں نے علی الاطلاق بطور فرقہ تکفیر کی ہے اور اس مسئلہ پر رائے بھی انہی کی معتبر ہو گی ۔ 
۲۔ ملی تحریکات سے نظریاتی اختلاف کے فاصلے نہیں سمٹتے، نیز ہمارے اسلاف نے انہیں شامل کرنے کے باوجود موقع بہ موقع علمی تعاقب جاری رکھا ۔ 
۳۔ موجود ہ مذہبی ماحول لاریب اسلاف کے مزاج کے خلاف ہے اور ہم نے پوری دیانت کے ساتھ اس پر بحث کر دی ہے ، مگر اس کا ذمہ دار کوئی ایک جماعت یا طبقہ نہیں ہے اور نہ ہی اس ماحول کے کالے بادل دور کرنے کے لیے کسی گمراہ فرقے کی وکالت ضروری ہے۔
اس کے جواب میں فاضل مضمون نگار اپنی حالیہ تحریر میں یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ انہوں نے برصغیر کے مذہبی ماحول میں برداشت کے عنصر کے حوالہ سے بحث کی ہے ، حالانکہ یہ تاثر غلط ہے۔ انہوں نے اہل تشیع اور اہل تسنن کے ضمن میں کلیتاً اہل تشیع کا دفاع کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ صراحتاً یہ باور کرایا گیا تھا کہ ان کا ملت اسلامیہ کے ساتھ کوئی بڑا اختلاف نہیں ہے اورساری تگ و تاز اہل تشیع کے دفاع پر تھی۔ ہمیں اس سے غرض نہ تھی کہ تکفیرِ شیعہ پر اکابرین امت کا اجماع ہے یا نہیں۔ ہم نے تو فاضل مضمون نگار کی اس روش کی تردید کی ہے کہ علی الاطلاق تکفیر نہ کرنے والوں نے بھی کبھی اس گمراہ ترین فرقے کی وکالت نہیں کی۔ ملتِ اسلامیہ کے جن جہابذۂ روزگار اہل علم نے پوری متانت اور فکرِ بیدار کے ساتھ رفض کے نشیب وفراز کا مشاہدہ کیا، انہوں نے ان کی تکفیر کی اور جنہیں غور کرنے کے لیے دیگر خدماتِ دینیہ کے انہما ک نے موقع نہیں دیا، انہوں نے بھی اس فرقہ کو ’’گمراہ ترین‘‘ ضرور کہا ہے اور مشروط تکفیر کرنے سے انہوں نے بھی دریغ نہیں کیا۔جو سود ا آپ کے دماغ میں سمایا ہے، یہ اہل دانش و بینش کے علمی مزا ج کے برعکس ہے ۔ 
کسی متشدد طبقے کی مخالفت میں نفسِ مسئلہ کا ہی انکار کر دینا کہاں کی علمی دانش ہے ؟ کل کلاں اگر جذباتی نوجوان مرزائیوں کے خلاف تشدد پر اتر آئے تو آپ مرزائیوں کی ترجمانی کرنے بیٹھ جائیں گے؟ فاضل مضمون نگار کو فتوے اور رائے میں تمیز ملحوظ نظر رکھ کر قلم اٹھانا چاہیے تھا۔ سو فاضل مضمون نگار نے جب شیعہ ، سنی نزاعی مسائل پر علمی ذوق استعمال کر نے کے بجائے محض ایک فرقہ کو مسلمانوں کی قطار میں کھڑا کر نا چا ہا تو ہم نے امت کے ان اکابر کی تحقیق پیش کر دی جنہوں نے پوری چھان بین کے بعد علی الاطلاق اہل تشیع کے تین فرقوں یعنی ۱۔ اثنا عشریہ ۲۔ اسماعیلی اور۳۔ نصیری پر فتویٰ تکفیر دیا۔ 
ہمارا یہ مضمون ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘، ماہنامہ ’’حق چار یا ر‘‘ اور ماہنامہ’’ صفدر‘‘ کے ذریعے جب اہل ذوق کے ہاتھوں میں پہنچا تو دادو تحسین کے ڈونگرے برس پڑے ۔ کیا علماء اور کیا وکلا ء بلکہ مقتدر مفتیانِ عظام نے باضابطہ فون کے ذریعہ حوصلہ افزائی فرمائی اور ان کے جذبات یہ تھے کہ آپ نے اکابرینِ اہل سنت کی ترجمانی کی ہے۔ 
تحریفِ قرآن پر فاضل مضمون کا دعویٰ یہ تھا کہ اہل تشیع اس کے قائل نہیں ہیں اور دلیل کے طور پر انہوں نے مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ اور علامہ شمس الحق افغانیؒ کے حوالہ جات پیش کیے ۔ ہم نے اس ضمن میں جو بحث کی ہے، اس کا دوبارہ یہاں اندارج ضرور ی نہیں ۔ تاہم حیرت اس امر کی ہے کہ موصوف نے اس ساری بحث کو ہضم فرما محض ایک ہی نکتہ اٹھایا کہ مولانا شمس الحق افغانیؒ کا رجوع ثابت کرنے کے لیے جس مکتوب کا مختصر سا اقتباس پیش کیا گیا ہے، اس میں صرف تصحیح کرنے کا وعدہ ہے۔ تصحیح کے وعدے ، تصحیح کے ارادے ، عملاً تصحیح کرنے اور رجوع میں فرق ہے ۔ علاوہ ازیں یہ کہ اس وقت مارکیٹ میں موجود ’’علوم القرآن ‘‘میں وہ عبارت جوں کی توں موجود ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مشاغل علمی اور ہجومِ کار نے علامہ افغانی ؒ کو ممکن ہے اپنی زیر نگرانی تصحیح کا موقع نہ دیا ہو ۔ کیونکہ کسی بھی کتاب کا پہلا ایڈیشن ختم ہوتا ہے تو دوسرا شائع ہوتا ہے۔ اس وقت تک ان کو صحت، یادداشت نے موقع نہیں دیا ہوگا۔ اور اس کی تاریخ میں ایک نہیں، بے شمار مثالیں موجود ہیں ۔ مولانا ابو الکلام آزادؒ اور مولانا عبد الماجد دریا بادی ؒ کی زندگی میں کئی اتارچڑھاؤ آئے،جمہور اہل سنت کے نظریات سے ہٹ کر کی گئی لاتعداد باتوں سے ان حضرات نے عملاً رجوع کیا ۔ مگر ان کی کتابوں میں کئی ایک مقامات پر سابقہ نظریہ موجود ہے ، بلکہ ڈاکٹر غلام جیلانی برق مرحوم کی انکارِ حدیث اور دیگر لایعنی موضوعات پر آج بھی کتابیں مارکیٹ میں دستیاب ہیں جبکہ انہوں نے زندگی کے اواخر میں ’’تاریخ حدیث‘‘ لکھ کر اپنے سابقہ عقیدے سے رجوع کر لیا تھا، مگر پیشہ ور تجار اب بھی ان کی کتابیں شائع کر رہے ہیں ۔ 
فاضل مضمون نگار لکھتے ہیں کہ علامہ بحر العلوم نے ’’فواتح الرحمو ت شرح مسلم الثبوت‘‘ میں جہاں شیعہ کی تکفیر کی بحث آتی ہے، وہاں انہوں نے عدمِ تکفیر کو مدلل انداز سے ترجیح دی ہے ۔ 
علامہ بحر العلوم نے شیعہ مفسر علامہ ابو علی طبرسی کی تفسیر ’’مجمع البیان‘‘پڑھ کر ان کے عقیدہ تحریف قرآن پر غور کیا تو صاف الفاظ میں شیعوں کی تکفیر کی۔ ملاحظہ ہو فواتح الرحمو ت شرح مسلم الثبوت صفحہ ۴۱۷۔ امام اہل سنت علامہ عبد الشکور لکھنویؒ نے ’’فقہی نظر سے مختتم فیصلہ‘‘ کے زیر عنوان علامہ بحرالعلوم کے اس فتویٰ تکفیر کو تفصیل سے بیان فرمایا تھا اور ساتھ یہ بھی لکھا کہ میں نے بھی کسی زمانہ میں شیعوں کے ساتھ مناکحت کا جواز لکھا تھا، لیکن جب کتب شیعہ پر عبور ہوا تو اس فتوے سے رجو ع کر لیا جیسا کہ علامہ بحر العلوم نے رجوع فرمایا تھا ۔ (ملاحظہ ہو: ’’النجم ‘‘لکھنو ۷شوال ۱۳۴۵ھ) 
فاضل مضمون نگار اپنے حالیہ مضمون میں مولانا کرم الدین دبیرؒ کے متعلق لکھتے ہیں ’’ویسے مولانا دبیر ؒ بڑے آدمی ہیں، لیکن فتوے کی دنیا میں اتنا بڑا نام نہیں کہ تکفیر کے حوالے سے مجھے ان کی بات سے دو ر از کار استدلال کی ضرورت ہوتی۔‘‘ فاضل مضمون نگار کو غلط فہمی ہو رہی ہے کہ مولانا دبیر مفتی نہیں تھے۔ وہ اپنے زمانہ میں ایک مدقق ، صاحب نظراور فقہی باریکیوں پر نگاہ رکھنے والے منصب افتاء پر فائز تھے اور شرعی و فقہی روشنی میں لوگوں کے نکاح و طلاق اور دیگر معاشرتی و سماجی فیصلے صاد ر فرماتے تھے اور اسی منصب کی وجہ سے وہ’’ قاضی‘‘مشہور ہو گئے تھے، ورنہ ان کی ذات تو ’’اعوان‘‘ تھی۔ تاہم فاضل مضمون نگار کی مہربانی ہے کہ وہ مولانا دبیرؒ اور حضرت اقدس قاضی صاحب کے متعلق فرماتے ہیں کہ ’’اس خاندان کا تکفیر کا قائل ہونا اظہر من الشمس ہے‘‘۔ ایک اور جگہ لکھتے ہیں ’’تاہم ویسے حقیقت یہی ہے کہ وہ (مولانا دبیرؒ )‘ اوران کے صاحبزادے تکفیر کے قائل تھے ۔‘‘
فاضل مضمون نگار تو ہم سے مایوس ہیں، مگر ہم ان سے مطمئن ہیں اور درخواست کرتے ہیں کہ آپ اپنے اور میرے مضامین کو ٹھنڈے دل کے ساتھ بار بار نظر نواز کیجیے اور غصہ تھوک دیجیے۔ 
بس آج اتنا ہی۔ اپنے ناراض بزرگ عالم دین کی خدمت میں حافظ شیرازیؒ کا ایک شعر بھرپور امیدوں کے ساتھ پیش خدمت ہے : 
آہِ من گراثرے داشتے
یار من بکویم گزرے داشتے 
(اگر میری آہ میں کوئی اثر ہے تو میرے دوست کا میری گلی سے ضرور گزر ہوگا)
حافظ عبد الجبار سلفی، لاہور

’’حیات ابوالمآثر علامہ حبیب الرحمان الاعظمیؒ‘‘

ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

مصنف : ڈاکٹر مسعود احمد الاعظمی 
ناشر: مرکز تحقیقات وخدمات علمیہ (مدرسہ مرقاۃ العلوم) مؤیوپی
دوجلد: صفحات قریباً :۱۵۰۰ قیمت : ندارد
علامہ حبیب الرحمن اعظمیؒ نے مؤ میں آنکھ کھولی، اس کے قدیم اور تاریخی مدرسہ دارالعلوم اور پھر مفتاح العلوم سے تعلیم حاصل کی۔ خدا کی شان یہ کہ دوبار دارالعلوم دیوبند میں پڑھنے کے لیے داخل کیے گئے مگر دونوں ہی بار کچھ عوارض خاص کر طبیعت کی ناسازی کے ایسے پیش آئے کہ ان کو دارالعلوم سے فراغت کا موقع نہیں ملا۔ غالباً مشیتِ الٰہی تھی کہ ایک چھوٹی سی جگہ سے پڑھ کر مؤ کی خاک سے جو ذرہ اٹھے وہ علوم اسلامیہ اور بطور خاص علم حدیث کا نیر تاباں بن کر عالم اسلام کو منور کرجائے۔ ایسی بار عب ، پر ہیبت اور جلیل القدر شخصیات کم ہی ہوتی ہیں جن کے علمی جاہ و جلال کا ڈنکا ہر طرف بج جائے جیسا کہ حضرت اعظمیؒ تھے۔ جن کی زیارت کے لیے علامۃ الشام شیخ عبدالفتاح ابوغدہؒ تین تین بار مؤ جیسے دور افتادہ قصبے میں تشریف لائے۔ جن کی خدمت میں مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ جیسے مشاہیرنیاز مندوں کی طرح پیش آتے تھے۔ جن کو شیخ الازہر امام اکبر شیخ عبدالحلیم محمود نے اکبر علما العالم الاسلامی (دنیاکے سب سے بڑے عالم )کا خطاب دیا۔ جنہوں نے اپنی پہلی ملاقات میں انا حبیب الرحمن الاعظمی من الہند کہہ کر تعارف کرایا توان کے لیے علامۂ نجد شیخ عبدا لعزیربن بازاحترامااپنی کرسی سے کھڑے ہوگئے اور اس پر آپ کو بٹھادیا۔ جن کوعلامہ یوسف القرضاوی جیسے بڑے فقیہ نے دوحہ قطرکے اپنے مرکزبحوث ودراسات السیرۃ میں تشریف لانے کی دعوت دی ۔مولانا سعید احمد اکبر آبادیؒ جیسے جدید وقدیم کے جامع جن سے استفادہ کرنے میں فخر جانتے تھے ۔ جن سے سید الطائفہ سلیمان ندوی ؒ عمرمیں ان سے بڑے ہونے کے باوجود علمی مسائل میں صرف استفادہ ہی نہیں بلکہ اپنی کتابوں پر نظرثانی کی گزارش کرتے تھے۔جن کوشیخ الاسلام مولانا حسین احمدمدنیؒ ، حضرت مولانااشرف علی تھانویؒ اور شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا ؒ جیسے اکابرکا اعتمادحاصل ہوا۔جن کو ڈاکٹر محمد حمیداللہ ؒ نے شاہ ولی اللہ ثانی کہا۔اس کتاب کو پڑھ کر میری زبان سے نکلا کہ حق یہ ہے کہ محدث عمربن عبسہؒ کا وہ جملہ دہرایاجائے جو انہوں نے مشہورتابعی ابوقلابہؒ کے بارے میں حضرت عمربن عبدالعزیزؒ کی مجلس میں کہاتھاکہ ’’ہذا الجند بخیر مادام ھذا الشیخ بین اظہرہم‘‘ (اہل شام خیرکے ساتھ رہیں گے جب تک یہ شیخ ان کے درمیان موجودہیں)۔
کتاب کا پہلا حصہ ۱۲؍ابواب پر مشتمل ہے اس میں فاضل مصنف جوحضرت اعظمی کے نواسے ہیں،نے حضرت اعظمی کے وطن ، خاندان، پیدائش ، نشوونما، اساتذہ ، تلامذہ، تدریسی وتالیفی خدمات، اسفار، سیاسی مصروفیت، نثر و نظم ، اعیان کی وفیات پر حضرت کے تاثرات، خانگی زندگی اخلاق و عادات علامہ اور تصوف، مبشرات و کرامات، علامہ اعظمی ؒ اہل علم کی نظر میں وغیرہ جیسے مباحث پر تفصیل سے قلم اٹھایا آثار قلم کے ایک الگ عنوان سے مولانا کے تمام مضامین کے نام اور حوالے اوران کی وفات پر جو مراثی تحریر کیے گئے ان سب کو جمع کیا گیا ہے۔ فہرست مراجع اور رسائل وغیرہ کا اشاریہ دیاگیا ہے۔ یوں اس جامع مرقع کو پڑھنے کے بعد یہ فیصلہ کرنا آسان ہوجاتا ہے کہ محدث کبیرؒ کی شخصیت اس قدر متنوع اور مختلف الجہات تھی کہ سید العلماء سید سلیمان ندویؒ نے بجا طور پر ان کو ہندوستان کے دوائر علم میں شمار کیا تھا۔ ڈاکٹر مسعود الاعظمی قابل مبارکباد ہیں کہ انہوں نے نہایت محنت سے حضرت العلامہ کی حیات و خدمات سے متعلق مباحث اور تحریروں کو بڑی عرق ریزی سے جمع کیا اوران کو ایک جاندار تذکر ہ اور ایک دلکش سوانحی مرقع کی صورت میں پیش کردیا ہے۔کتاب کا دوسرا حصہ حضرت اعظمی ؒ کی علمی خدمات کے تعارف و تلخیص پر مشتمل ہے۔ یہ دراصل ایک ار مغان علمی ہے جس میں نہایت جامعیت وکمال کے ساتھ علامہ اعظمی کی وسیع الاطراف خدمات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس میں حضرت محدث اعظمی کتابوں کی حیرت انگیز معلومات، مخطوطات سے شغف، تفسیر واصول تفسیر ، حدیث، اصول حدیث، متون و رجالِ حدیث کی مہارت، فقہی مرجعیت ، عربی زبان و ادب اوردیگرمروجہ علوم اسلامیہ پر علامہ کی مہارت کو بیان کیاگیا ہے۔ اس کے بعد علامہ اعظمی فتنوں کے تعاقب میں کے تحت رد سلفیت، رد شیعیت، ردرضا خانیت اور فتنہ انکار حدیث پر روشنی ڈالی ہے ۔علامہ کے ردودکی خاصیت یہ ہے کہ وہ علمی دنیاکے مسلمہ اصولوں پر بھی پورے اترتے ہیں اوراپنے اسلوب اورزبان وبیان کے اعتبارسے بھی چاشنی لیے ہوئے ہیں ۔ساتھ ہی خوش گوارطنزیہ جملوں نے ان کو نہایت کاٹ داربنادیاہے ۔یہی وجہ ہے کہ مذکورہ معاندین حضرت کے علمی تعاقب کے آگے ڈھیرہوجاتے تھے اورکسی کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ اس جبل العلم سے ٹکرائے ۔
علامہ ناصرالدین البانیؒ نے حدیث کی مختلف کتابوں کی تحقیق ،تعلیق اورتحشیہ سے پوری عرب دنیامیں ایک غلغلہ ڈال رکھاتھا ۔اوران کے شذوذ اورنارواحملوں سے حضرت امام اعظم ؒ اوردوسرے حنفی ائمہ بھی محفوظ نہیں تھے ۔ قارئین کویاددلادوں کہ باوجوداپنے تمام ادعائے علم وتحقیق اوردعوائے عدم تقلیدکے البانیؒ صاحب نے اپنی الضعیفہ میں امام ابوحنیفہ ؒ کے بارے میں خطیب بغدادی کی اڑائی ہوئی اس ہفوات پر جزم ویقین کرلیاکہ امام صاحب کوکل 17حدیثیں پہنچی تھیں۔یہ اوراسی طرح کے بہت سے الزامات حنفی ائمہ پرانہوں نے لگائے ہیں۔جن کا جواب باصواب علامہ اعظمیؒ نے الابانی اخطاۂ وشذوذہ  لکھ کردیا۔اوراس کتاب کا کوئی جواب البانی یاان کے تلامدہ سے نہیں بن پڑا۔مخطوطات ومسودات کی چند عکسی تصاویر اور ردودِ مذکورہ کی تفصیل کے ساتھ فقہیات میں محدث اعظمی ؒ کی خدمات بھی اہم باب ہے۔ جس میں انساب و کفائت کی شرعی حیثیت ہمارے علماء وفقہاء اور اربابِ افتاء کے لیے نہایت چشم کشا بحث ہے۔کیونکہ ہمارے بہت سے مفتیان کرام اورمصنفین اس باب میں افراط وتفریط کا شکارہوگئے ہیں۔قابل ذکر ہے کہ اس باب میں حضرت اعظمی نے مفتی محمد شفیعؒ اور مولانا تھانویؒ پربھی نقد فرمایا ہے۔ دست کار اہل شرف بھی اسی موضوع سے ملتی جلتی کتاب ہے اور اس لائق ہے کہ نسب فروشی کے سارے دوکان دار اسے پڑھیں ۔ اموی دور خلافت اور خاص کر سید نا معاویہؓ اور ان کے بیٹے یزید پر لعن طعن کیاجاتاہے۔ حضرت محدث اس وادی میں بھی افراط و تفریط سے ہٹ کر گزرے ہیں اور اس سلسلہ میں مہتم دارالعلوم دیوبندقاری محمد طیبؒ اور مولانا اطہر مبار کپوری ؒ پر گرفت فرمائی ہے۔ کہنے کا مطلب ہے کہ محدث اعظمی کے سامنے اصل چیز احقاقِ حق ہے ،اوراس کے لیے انہیں اگراپنی جماعت کے بزرگوںیااپنے احبا ب پر بھی تنقیدکرنے پڑے تواس سے قدم پیچھے نہیں ہٹاتے اوراس میں کسی جنبہ داری یاجماعتی تعصب کوراہ نہیں دیتے ۔
اس کے بعد عربی تصانیف و مضامین کے تحت مولف نے علامہ اعظمیؒ کے حدیثی کا ر ناموں کا ذکر کیا ہے جن میں مسند حمیدی، کتاب الزہد، سنن سعید بن منصور، مصنف عبدا لرزاق ، مختصر الترغیب وا لترہیب، المطالب العالیہ، کشف الاستار ، کتاب الثقات لابن شاہین ، استدرا کات قاسم قطلوبغا ، رسائل شاہ ولی اللہ ، حیاۃ الصحابہ ،فتح المغیث ، اورجزء خطبات النبی اہم ہیں۔ راقم کے نزدیک یہی حصہ اس کتاب کیا مغز ہے اوراس سے پتہ چلتاہے کہ حدیث کی ان عظیم کتابوں کی خدمت کے سلسلہ میں محدث اعظمی نے کتنی جان فشانی کی ہے اورکس طرح محنت ومشقت سے وسائل نہ ہونے کے باوجودایک چھوٹے سے قصبہ میں بیٹھ کراس فردفریدنے وہ کام کردیاجس کویوروپ میں بڑی بڑی اکیڈمیاں کیاکرتی ہیں۔ہمارے علمی حلقے اورخاص کرعلماء کے طبقہ کوجس میں تن آسانی اب عام ہوچکی ہے ،اس کتاب کوضرورپڑھناچاہیے کہ ان کوپتہ چلے کہ ان کی صفوں میں کیسے کیسے گوہرنایاب ہوگزرے ہیں اوراب وہ خوداس کس حال میں ہیں۔ کتاب کے آخر میں مصنف نے علامہ کے چند مکاتیب دے کر اس میں چار چاند لگادیے ہیں۔ غرض یہ کہ کتاب کیا ہے پورا کتب خانہ ہے جس کو فاضل مصنف نے ۷۵۸ صفحات میں جامعیت کے ساتھ لکھا ہے اور یوں حضرت ابوا لمآثر کی مفصل سوانح عمری اورا ن کی علمی و فکری خدمات پردو ضخیم جلدیں لکھ کرعلماء ہندپر سے ایک بڑاقرض اتاردیاہے ۔ توقع ہے کہ کتاب مقبول ہوگی اور محدث اعظمی کے مطالعات کی نئی راہیں کھلیں گی ۔ کیااچھاہواگراس کتاب کا عربی اورانگریزی ترجمہ بھی کروادیاجائے ۔عرب دنیاکے علاوہ مستشرقین اورمغرب کے لوگ بھی آپ کے حالات سے کماحقہ واقف ہوسکیں۔

دسمبر ۲۰۱۳ء

راولپنڈی کا الم ناک سانحہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
شہید کون؟ کی بحثمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
فقہائے احناف اور ان کا منہج استنباطمولانا خالد سیف اللہ رحمانی
اسلامی جمہوریت کا فلسفہ ۔ شریعت اور مقاصد شریعت کی روشنی میں (۱)مولانا سمیع اللہ سعدی
مکاتیبادارہ
’’اسلام، جمہوریت اور پاکستان‘‘مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا حافظ مہر محمد میانوالویؒ کا انتقالمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
امام اہل سنتؒ کے دورۂ برطانیہ کی ایک جھلکمولانا عبد الرؤف ربانی
مولانا عبد المتینؒ ۔ حیات و خدمات کا مختصر تذکرہمحمد عثمان فاروق
تعارف و تبصرہادارہ
نسوانیت کا دشمن لیکوریاحکیم محمد عمران مغل

راولپنڈی کا الم ناک سانحہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

۱۰ محرم الحرام کا دن امید و یاس کی کیفیت میں گزارنے کے بعد رات کو بستر پر لیٹا تو خوشی اور اطمینان کے تاثرات ذہن و قلب پر غالب تھے اور مطمئن تھا کہ جو دن بہت سے خطرات و خدشات جلو میں لیے صبح طلوع ہوا تھا، وہ کم از کم ہمارے شہر میں امن و سکون کی کیفت کے ساتھ گزر چکا ہے، اس لیے بھی کہ محرم الحرام کے آغاز میں گوجرانوالہ کی ایک امام بارگاہ میں تین افراد ایک حملہ میں جاں بحق ہو چکے تھے اور ۱۰ محترم جمعۃ المبارک کے روز ہونے کی وجہ سے بد اَمنی کے امکانات زیادہ نظر آرہے تھے۔ مگر صبح نماز فجر کے لیے اٹھا تو موبائل فون کی سکرین پر موجود اس میسج نے سارا سکون غارت کر دیا جس میں سانحہ راولپنڈی کے وقوع کی خبر دی گئی تھی۔ نماز سے فارغ ہو کر راولپنڈی اور اسلام آباد کے احباب سے فون پر رابطہ شروع کیا تو سبھی فون بند ملے حتیٰ کہ سارا دن کچھ پتہ نہ چل سکا کہ کیا ہوا ہے اور تازہ صورت حال کیا ہے؟ مختلف اطراف سے پے در پے وصول ہونے والی اضطراب انگیز اطلاعات لمحہ بہ لمحہ پریشانی اور رنج و غم میں اضافہ کرتے چلے جا رہی تھیں، جبکہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر طوفان بپا کر دینے والا میڈیا حیرت انگیز طور پر خاموش تھا۔ راولپنڈی اور اسلام آباد کی فون سروس معطل تھی اور کوئی قابل اعتماد ذریعہ میسر نہیں آرہا تھا جس سے اصل صورت حال معلوم کی جا سکے۔ 
اس فضا میں ۱۲؍ محرم اتوار کو مرکزی جامع مسجد میں شہر کے علماء کرام اور تاجر راہ نماؤں کا مشترکہ اجلاس ہوا جس میں اس وقت تک معلوم ہونے والی صورت حال کے مطابق مقررین نے اپنے جذبات و تاثرات کا اظہار کیا جن میں غم و غصہ اور اضطراب و بے چینی کا پہلو نمایاں تھا اور اس حوالہ سے سامنے آنے والی دہشت گردی اور درندگی پر ہر شخص نفرت و غصہ کا اپنے اپنے انداز میں بھرپور اظہار کر رہا تھا۔ مگر ایک بات سب راہ نماؤں کی زبانوں پر مشترک تھی کہ امن عامہ کے لیے بد اَمنی اور تباہی کا باعث بننے والے مذہبی جلوسوں کو عام شاہراہوں اور گلیوں بازاروں میں لانے کا کوئی جواز نہیں ہے اور اس پر حکومت کو بہرحال نظر ثانی کرنا ہوگی۔ ایسے جلوس اگر عبادت ہیں تو انہیں عبادت گاہوں تک محدود کر دینے کی ضرورت ہے اور اس طرح ہر سال سیکیورٹی کے نام پر پورے قومی نظام اور سرکاری اداروں کو مسلسل ایک عشرے تک معطل کیے رکھنا کوئی معقولیت نہیں رکھتا۔ اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعہ مطالبہ کیا گیا کہ حکومت اس سلسلہ میں کوئی واضح حکمت عملی طے کرے اور امن عامہ کے لیے خطرہ بن جانے والے جلوسوں کو چار دیواری میں محدود کرنے کے لیے قانون سازی کرے۔ 
اسی تناظر میں ۱۹؍ نومبر کو فیصل آباد میں پاکستان شریعت کونسل کے ایک اجلاس میں موجودہ حالات کے تناظر میں پاکستان شریعت کونسل کا جو موقف طے کیا گیا، وہ درج ذیل ہے:
  • سانحۂ راولپنڈی ہر لحاظ سے انتہائی قابل مذمت ہے اور تشدد و بربریت کی بد ترین مثال ہے جس کا سنجیدگی کے ساتھ نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔
  • حکومت نے اس سانحہ کی انکوائری کے لیے جوڈیشل کمیشن قائم کیا ہے جو ایک مناسب قدم ہے، مگر پاکستان شریعت کونسل کی رائے میں اس کمیشن کو سانحۂ راولپنڈی کے اسباب و عوامل کے تعین اور اس کے ذمہ دار حضرات کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ سنی شیعہ کشیدگی میں مسلسل اضافہ اور اس کے ملک کے امن کے لیے تباہ کن صورت اختیار کرجانے کے اسباب و عوامل اور پس پردہ محرکات کا جائزہ لے کر ان کے سدباب کے لیے بھی سفارشات پیش کرنی چاہئیں۔ اس لیے پاکستان شریعت کونسل حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ جوڈیشل کمیشن کے دائرہ کار کو وسعت دی جائے اور سنی شیعہ کشمکش میں خوفناک اضافے کے اسباب و عوامل کے تعین کو بھی اس کی ذمہ داری میں شامل کیا جائے۔
  • مسجد و مدرسہ اور مارکیٹ کی سرکاری خرچ پر تعمیر جلد از جلد شروع کی جائے اور ان اداروں کے ذمہ دار حضرات کو اعتماد میں لے کر تعمیر نو کا پروگرام طے کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان شریعت کونسل یہ مطالبہ کرتی ہے کہ مدینہ کلاتھ مارکیٹ کو محکمہ اوقاف سے واگزار کر کے اسے دارالعلوم تعلیم القرآن کو واپس کیا جائے۔
  • محرم الحرام کے ان جلوسوں کی وجہ سے پورے ملک کی انتظامی مشنری مسلسل دس دن تک اسی کام کے لیے وقف رہتی ہے۔ بہت سے ضروری امور معطل ہو جاتے ہیں، کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں اور کم و بیش دو ہفتے تک خطرات و خدشات کی دھند ملک بھر کی فضا میں چھائی رہتی ہے۔ اس مسئلہ کا مستقل حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے ورنہ پہلے سے زیادہ خطرات اور بد اَمنی کو فروغ حاصل ہوتا رہے گا۔ اس لیے پاکستان شریعت کونسل تجویز کرتی ہے کہ بد اَمنی، خوف و ہراس اور فرقہ وارانہ تصادم کا باعث بننے والے جلوسوں کو عبادت گاہوں اور چار دیواری کے دائرہ میں محدود کیا جائے اور گلیوں بازاروں میں ایسے مذہبی جلوسوں کے گزرنے پر مکمل پابندی عائد کر دی جائے۔ 
  • اس سانحہ میں دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ ضلعی حکام کی غفلت بھی اس کا بڑا سبب ہے اس لیے سانحہ کے ملزمان اور پس پردہ افراد و محرکات کے ساتھ ضلعی حکام کی کارکردگی کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے اور حکومت کو تمام ملزمان اور ذمہ دار حضرات کے خلاف سخت کاروائی کرنی چاہیے۔ سانحۂ راولپنڈی کے موقع پر حالات کو کنٹرول کرنے اور رائے عامہ کی صحیح راہ نمائی کے لیے اسلام آباد اور راولپنڈی کے علماء کرام، وفاق المدارس العربیہ پاکستان، جمعیۃ علماء اسلام پاکستان، اہل السنۃ والجماعۃ پاکستان اور جمعیۃ اشاعت التوحید والسنۃ کے راہ نماؤں نے جس بیدار مغزی اور حوصلہ و محنت کے ساتھ کردار کیا ہے وہ قابل تعریف ہے اور پاکستان شریعت کونسل ملک کے تمام دینی حلقوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ ان اداروں اور جماعتوں کے ساتھ اس سلسلہ میں بھرپور تعاون جاری رکھیں۔ 
  • اجلاس میں میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ رویہ کا بھی نوٹس لیا گیا اور کہا گیا کہ ملک بھر میں اضطراب و بے چینی پھیلنے اور مختلف شہروں میں بد اَمنی کی فضا پیدا ہونے میں نیشنل میڈیا کی غفلت اور سوشل میڈیا کی غیر ذمہ دارانہ روش کا بھی بڑا دخل ہے، اس لیے اس بات کا نوٹس لینے کی بھی ضرورت ہے۔
  • پاکستان شریعت کونسل محسوس کرتی ہے کہ تمام مکاتب فکر کو سانحۂ راولپنڈی سے پیدا شدہ صورت حال میں ہم آہنگی اور باہمی مفاہمت کے ساتھ قوم کی راہ نمائی کرنی چاہیے اور خاص طور پر دیوبندی مسلک کی جماعتوں اور مراکز کے درمیان ہم آہنگی اور رابطہ و مشاورت کی انتہائی ضرورت ہے اور تمام جماعتوں کے راہ نماؤں کو اس بارے میں خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
پاکستان شریعت کونسل کے مذکورہ اجلاس میں مختلف مکاتبِ فکر کی طرف سے ’’تحریک انسدادِ سود پاکستان‘‘ کے مشترکہ فورم کے قیام کا خیر مقدم کیا گیا اور ایک قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ملک کی معیشت کو اسلامی اصولوں پر استوار کرنے اور سودی نظام سے نجات دلانے کے لیے ایسی تحریک کی ضرورت ایک عرصہ سے محسوس کی جا رہی ہے اور مختلف مکاتب فکر کے زعماء کا یہ فیصلہ قابل تحسین ہے۔پاکستان شریعت کونسل اس فورم کے ساتھ بھرپور تعاون کرے گی اور اس کی کامیابی کے لیے ہر ممکن کردار ادا کرے گی۔ راقم الحروف نے ’’تحریک انسدادِ سود پاکستان‘‘ کی رابطہ کمیٹی کے کنوینر کے طور پر تحریک کے مرحلہ وار پروگرام کے مختلف مراحل سے شرکاء کو آگاہ کیا اور اس موقع پر فیصل آباد کے ممتاز دانش ور جناب میاں محمد طاہر نے بھی سودی نظام کے خلاف جدوجہد کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔

شہید کون؟ کی بحث

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

جس طرح امریکہ نے ڈرون حملہ کے ذریعہ حکیم اللہ محسود کو قتل کر کے یہ بات ایک بار پھر واضح کر دی ہے کہ وہ حکومت پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات کی کسی کوشش کو کامیاب نہیں دیکھنا چاہتا، اسی طرح پاکستانی میڈیا کے بعض سرکردہ لوگوں نے بھی اپنی اس پوزیشن کا رہا سہا ابہام دور کر دیا ہے کہ ان کی ترجیحات میں سسپنس پیدا کرنے اور ذہنی و فکری خلفشار فروغ دینے کو سب باتوں پر فوقیت حاصل ہے۔ حتیٰ کہ ملک و قوم کے مجموعی مفاد کو بھی وہ سب کچھ کر گزرنے کے بعد ہی دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ اس موقع پر شہید یا غیر شہید بحث چھیڑنے کا مقصد (یا کم از کم نتیجہ) اس کے سوا اور کیا ہے کہ اصل معاملات سے عوام کی توجہ ہٹا کر غیر ضروری بحثوں میں ان کو الجھا دیا جائے اور اس فضا میں مذاکرات کی جو موہوم سی امید باقی رہ گئی ہے، اسے اس بحث کے دھندلکوں میں غائب کر دیا جائے۔
جہاں تک مذاکرات کا تعلق ہے، وہ تو فریقین کی مجبوری بن چکے ہیں، اس لیے کہ نہ تو ریاستی اداروں کے لیے یہ ممکن نظر آتا ہے کہ وہ عسکریت پسندوں کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیں اور نہ ہی عسکریت پسندوں کے بس میں ہے کہ وہ ریاست اور فوج سے ٹکرا کر ملک پر قبضہ کر لیں یا ملک کا کوئی حصہ اپنی الگ ریاست قائم کرنے کے لیے خدانخواستہ اس سے جدا کر لیں۔ یہ جنگ جو گزشتہ ایک عشرے سے جاری ہے، خدا نہ کرے مزید ایک عشرہ جاری رہے، تب بھی بات بہرحال مذاکرات کی میز پر ہی طے ہوگی۔ یہ بات کسی دلیل کی محتاج نہیں ہے اور پوری قوم اجتماعی فیصلہ دے چکی تھی کہ مذاکرات کے ذریعہ مسئلہ کو حل کر کے پاکستان کے داخلی امن کو بحال کیا جائے۔ حکومت بھی اس کے لیے تیار تھی اور طالبان نے بھی آمادگی کا اظہار کر دیا تھا، بلکہ مذاکرات کے لیے درمیان کے لوگوں کی فہرست پر بھی اتفاق ہوگیا تھا، اتنے میں ایک تیسرے فریق نے درمیان میں اپنا ’لُچ‘ تل دیا۔ سوال یہ ہے کہ حیلوں بہانوں سے بلا ضرورت سوالات کھڑے کر کے شہید غیر شہید کی بحث چھیڑنے والوں نے ان تینوں میں سے کس فریق کو سپورٹ کیا ہے اور کس کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا ہے؟ 
حکیم اللہ محسود اگر پاک فوج سے لڑتے ہوئے مارا گیا ہوتا تو کسی بحث کی ضرورت اور گنجائش نہیں تھی، لیکن وہ پاک فوج (حکومت پاکستان) کے ساتھ مصالحت کی طرف بڑھتے ہوئے امریکی ڈرون حملے میں جاں بحق ہوا ہے۔ اگر کچھ دوستوں کو امریکن ڈرون حملوں اور پاک فوج کے آپریشن میں کوئی فرق دکھائی نہیں دے رہا یا ان کے نزدیک یہ دونوں ایک ہی چیز ہیں تو ہم ان کے لیے دعا اور ان کے ساتھ ہمدردی کے اظہار کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ حکیم اللہ محسود شہید ہے یا نہیں؟ ہم اس بحث میں نہیں پڑتے، لیکن اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ وہ پاک فوج کے آپریشن میں نہیں بلکہ امریکی ڈرون حملے میں جاں بحق ہوا ہے اور پاک فوج کے آپریشن کے ساتھ امریکی ڈرون حملے کو ایک درجہ میں رکھنا عقل و حکمت کے ساتھ ساتھ حب الوطنی کے تقاضوں کے ساتھ بھی مناسبت نہیں رکھتا۔ 
البتہ اپنے ماضی سے اگر اس سلسلہ میں ہم راہ نمائی حاصل کرنا چاہیں تو ہمیں واضح راہ نمائی ملتی ہے کہ حضرات صحابہ کرامؓ کے دور میں آپس کی دو جنگیں ہوئی تھیں۔ امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جب خلافت راشدہ کا منصب سنبھالا تو ام المومنین حضرت عائشہؓ اور ان کے ساتھ بعض دیگر جلیل القدر صحابہ کرامؓ نے ان سے حضرت عثمانؓ کے قاتلوں سے فوری قصاص لینے کا مطالبہ کر دیا اور حالات نے ایسا رُخ اختیار کر لیا کہ دونوں بزرگ جنگ جمل میں ایک دوسرے کے مقابل آگئے، جنگ ہوئی اور دونوں طرف سے بہت سے افراد شہید ہوئے۔ اس کے بعد حضرت علیؓ نے شام کے گورنر حضرت معاویہؓ سے اطاعت کا مطالبہ کیا تو انہوں نے بھی حضرت عثمانؓ کے قاتلوں سے قصاص کا مطالبہ کرتے ہوئے اس وقت تک حضرت علیؓ کی بیعت سے انکار کر دیا جس کے نتیجے میں ان دونوں بزرگوں کے درمیان صفین کا معرکہ بپا ہوا اور یہاں بھی دونوں طرف سے بہت سے لوگ شہید ہوئے۔ 
آج کی اصطلاحات کے حوالے سے دیکھا جائے تو حضرت عائشہؓ کی حضرت علیؓ کے ساتھ جنگ چند مطالبات پر تھی اور حضرت معاویہؓ کے خلاف حضرت علیؓ کی جنگ اپنی رٹ قائم کرنے اور خلافت کو ان سے تسلیم کرانے کے لیے تھی۔ ان دو جنگوں کے اسباب اور نتائج ہماری گفتگو کا موضوع نہیں ہیں، ہم صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ان دونوں جنگوں کے خاتمہ پر دونوں طرف کے مقتولین کے جنازے حضرت علیؓ نے خود پڑھائے، دونوں کو آپس میں مسلمان بھائی بھائی قرار دیتے ہوئے ان کے لیے دعائے مغفرت فرمائی، خود ان کی اپنی نگرانی میں تدفین کروائی اور مسلمانوں کی باہمی جنگ کے حوالہ سے ایک راہ نما اصول طے کر دیا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ طرز عمل آج کے دور اور حالات میں بھی ہمارے لیے راہ نمائی کا سر چشمہ ہے۔
اس لیے ہم انتہائی درد دل کے ساتھ سب دوستوں سے گزارش کرنا چاہیں گے کہ خدا کے لیے ملک کے امن کے لیے سوچیں، قوم کو فکری ہم آہنگی کے دھارے کی طرف لانے کی کوشش کریں اور پیشہ وارانہ مسابقت کے جوش میں کسی بھی ایسی بات سے گریز کریں جو خلفشار کو بڑھانے اور بد اَمنی کے سایوں کو مزید پھیلانے کا باعث بن سکتی ہو۔

فقہائے احناف اور ان کا منہج استنباط

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

(مولانا قاری عبد الباسط (جدہ) کی تصنیف ’’طریقہ نماز‘‘ کے مقدمے سے ماخوذ۔)

اس بات کو پیش نظر رکھنا مناسب ہوگا کہ آیات و احادیث سے احکام شرعیہ کے اخذ کرنے میں فقہاء حنفیہ کا منہج کیا ہے۔ اصل یہ ہے کہ شروع ہی سے کتاب و سنت سے استنباط میں دو مکاتب فکر ہیں، ایک طبقہ وہ تھا جو حدیث کی حفظ و روایت کے پہلو سے غور کرتا تھا۔ دوسرا گروہ وہ تھا جس نے قرآن و حدیث سے احکام کے استنباط پر زیادہ توجہ دی۔ وہ محض الفاظ حدیث کے ظاہری مفہوم پر اکتفاء کرنے کے بجائے اس کے معانی و مقاصد میں بھی غواصی کرتا تھا اور روایات کو خارجی قرائن کی روشنی میں بھی پرکھتا تھا۔ پہلا گروہ ’’اصحاب الحدیث‘‘ کہلایا اور دوسرا گروہ ’’اصحاب الرائے‘‘۔ اس لیے یہ لقب متقدمین کے نزدیک وجہ تعریف تھا نہ کہ باعث مذمت، جیسا کہ آج کل بعض کوتاہ بین سمجھتے ہیں۔
ائمہ اربعہ میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اس لقب کے زیادہ مستحق تھے اور اسی لیے حنفیہ اور مالکیہ کی فقہ میں قربت بھی زیادہ ہے، حالاں کہ خود امام مالک کا اپنا مزاج اصحاب الحدیث سے قریب تھا، لیکن ان کے استاذ ’’ربیعہ‘‘ اصحاب الرائے سے تھے اور اسی لیے بطور تعریف و تکریم ’’ربیعۃ الرائے‘‘ کہلاتے تھے۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی ذہانت و طباعی کا حال یہ تھا کہ لوگ ان کو أعقل أھل الزمان  اور أعلم أھل الزمان  کہتے تھے، اس لیے وہ بھی اصحاب الرائے میں شمار کیے گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’اصحاب الرائے‘‘ اور ’’اصحاب الحدیث‘‘ کے گروہ عہد صحابہؓ ہی سے تھے۔ حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عائشہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم وغیرہ کا شمار اصحاب الرائے میں تھا اور حضرت ابو ہریرہ،ؓ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ وغیرہ اصحاب الحدیث میں تھے، اس کا اندازہ ان مناقشوں سے ہوتا ہے جو صحابہؓ کے درمیان پیش آتے رہے ہیں۔
مثلاً حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ آگ میں پکی ہوئی چیز کے کھانے سے وضو کیا جائے۔ تَوَضَّؤُوْا مِمَّا مَسَّتْہُ النَّارُ  (آگ میں پکی ہوئی چیز سے وضوء کرو)۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: 
أرأیت لو توضأت بماء سخن أکنت تتوضأ منہ؟ أو رأیت لو أدھن أھلک بدھن فأدھنت بہ شاربک أکنت تتوضأ منہ۔ (اصول السرخسی ۱/۳۴۰، باب: الکلام فی قبول اخبار الآحاد والعمل بھا، فصل: فی اقسام الرواۃ الذین یکون خبرھم حجۃ)
’’اگر آپ گرم پانی سے وضو کریں تو کیا اس کی وجہ سے دوبارہ وضو کریں گے؟ اگر آپ کے اہل خانہ نے تیل تیار کیا اور آپ نے مونچھ میں تیل لگایا تو کیا آپ اس کی وجہ سے وضو کریں گے؟ ‘‘
اسی طرح حضرت ابو ہریرہؓ نے روایت کیا: 
من حمل جنازۃ فلیتوضأ۔ (حوالہ مذکور)
’’جو جنازہ اُٹھائے وہ وضو کرے۔‘‘ 
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: 
أیلزمنا الوضوء في حمل عیدان یابسۃ۔ (حوالہ مذکور)
’’کیا خشک لکڑیوں کے اُٹھانے کی وجہ سے ہم پر وضو ضروری ہوگا؟‘‘
اسی طرح سیدنا ابو ہریرہؓ سے ایک اور روایت ہے:
ان ولد الزنا شر الثلاثۃ۔ (حوالہ مذکور)
’’ولد الزنا تین میں سے ایک شر ہے۔‘‘
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے سنا تو فرمایا:
کیف یصح ھذا: وقد قال اللّٰہ تعالیٰ: ولا تزر وازرۃ وزر أخرٰی۔ (حوالہ مذکور)
’’یہ کہنا کیوں کر درست ہوگا؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ایک شخص پر دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہیں ہوگا۔‘‘
پس حضرت ابو ہریرہؓ کا طریق استنباط اس انداز فکر کی نشاندہی کرتا ہے جو ’’اصحاب الحدیث‘‘ کا تھا، جس میں نصوص کے ظاہر ہی پر انحصار کی کیفیت تھی، اور حضرت عائشہ اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کا طریق ’’اصحاب الرائے‘‘ کے طریقۂ اجتہاد و فکر کی نمائندگی کرتا ہے، جس میں تعمق فکر اور غواصی پائی جاتی ہے، اسی لیے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی فقہ میں حضرت عمر، حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم کی آراء سے بڑی موافقت پائی جاتی ہے اور اگر ان صحابہؓ کے فتاویٰ کو جمع کیا جائے تو شاید دس فی صد (%10)مسائل بھی فقہ حنفی کے اس سے باہر نہ جائیں۔ فقہ مالکی میں بھی چونکہ حضرت عمرؓ کی آراء اور فتاویٰ سے بہت استفادہ کیا گیا ہے، اسی لیے اس فقہ میں عام فقہاء حجاز کی طرح ظاہریت نہیں پائی جاتی۔ واللہ اعلم۔
فقہ حنفی کے طریقۂ استدلال کا امتیازی پہلو یہ ہے کہ اس میں حدیث کو قبول و رد کرنے اور متعارض نصوص میں سے ایک دوسرے پر ترجیح دینے میں محض راویوں کی ثقاہت ہی کو پیش نظر نہیں رکھا گیا ہے ،بلکہ خارجی قرائن و شواہد کو بھی اس باب میں خصوصی اہمیت دی گئی ہے، جہاں سندِ حدیث کو اُصولِ روایت کی کسوٹی پر پرکھا گیا ہے، وہیں متن حدیث کے قبول و رَد کرنے میں تقاضائے درایت کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں چند اُمور خاص طور پر قابل ذکر ہیں:
(۱) یہ ظاہر ہے کہ قرآن مجید کا حرف حرف نص قطعی ہے اور اپنے ثبوت کے اعتبار سے ہر شک و شبہ سے بالاتر، احادیث میں سوائے احادیث متواترہ کے کوئی اس درجہ صحت و قوت کے ساتھ ثابت نہیں، اس لیے حنیفہ کے یہاں حدیث کے مقبول اور نا مقبول ہونے میں قرآن مجید سے اس کی موافقت کو بڑا دخل ہے، امام سرخسیؒ فرماتے ہیں:
اذا کان الحدیث مخالفًا لکتاب اللّٰہ فانہ لا یکون مقبولا ولا حجۃ للعمل بہ، عامّۃً کانت الآیۃ أو خاصّۃً، نصًّا أو ظاھرا عندنا، علی ما بینا أن تخصیص العام بخبر الواحد لا یجوز ابتداء، وکذلک ترک الظاھر فیہ، والعمل علی نوع من المجاز لا یجوز بخبر الواحد عندنا، خلافا للشافعي۔ (اصول السرخسی: ۱/۳۶۴، باب: الکلام فی قبول أخبار الآحاد والعمل بھا، فصل: فی بیان وجوہ الانقطاع)
’’جب حدیث کتاب اللہ کے خلاف ہو تو ہمارے نزدیک مقبول اور عمل کے لیے حجت نہیں ہوگی، چاہے آیت عام ہو یا خاص، نص ہو یا ظاہر، جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ خبر واحد سے عام کو خاص کرنا ابتداءً جائز نہیں، اسی طرح خبر واحد کی وجہ سے ظاہری معنٰی کو چھوڑ دینا اور مجاز کی صورت پر عمل کرنا جائز نہیں، بخلاف امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے۔‘‘
اسی لیے بعض اوقات ایک حدیث سند کے اعتبار سے قوی ہوتی ہے، لیکن قرآن کو اصل بنا کر اس حدیث میں تاویل کی جاتی ہے اور اس کا ایسا مصداق متعین کیا جاتا ہے کہ قرآن مجید سے اس کا تعارض نہ رہے۔ مثلاً فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مروی ہے کہ مطلقہ بائنہ کے لیے نہ نفقہ ہے نہ سکنیٰ۔ لا نفقۃ و لا سکنٰی للمبتوتۃ لیکن حدیث بظاہر سورۂ طلاق کی آیت ۶ سے متعارض ہے جس میں فرمایا گیا ہے وَأَسْکِنُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ سَکَنْتُم  اور اِنْ کُنَّ اُولَاتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَیْھِنَّ حَتّٰی یَضَعْنَ حَمْلَھُنَّ، اس لیے حنفیہ کا نقطۂ نظر ہے کہ حضرت فاطمہؓ کی حدیث ایک استثنائی واقعہ ہے اور مطلقہ بائنہ ہو یا رجعیہ، دونوں ہی کے لیے نفقۂ عدت واجب ہے۔ 
اسی طرح بعض روایتیں جو سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں، اس لیے قبول کر لی جاتی ہیں کہ وہ معنًا قرآن سے مطابقت رکھتی ہیں جیسے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا:
من جمع بین صلٰوتین من غیر عذر فقد أتی بابًا من أبواب الکبائر۔ (سنن الترمذی: ۱/۹۳، باب : ماجاء فی الجمع بین الصلاتین، أبواب الصلاۃ)
’’جس نے بلا عذر دو نمازیں جمع کیں، اس نے گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کیا۔‘‘
اس روایت کا مدار، حنش بن قیس ہیں جو ضعیف ہیں، لیکن آیت قرآنی إِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَاباً مَّوْقُوْتاً۔ (النساء : ۱۰۳) سے فی الجملہ اس کی تائید ہوتی ہے کہ نمازیں اپنے مقررہ اوقات ہی پر ادا کی جائیں، اس لیے حنفیہ کے یہاں معناً یہ روایت مقبول ہے۔ 
متعارض احادیث کی ترجیح میں بھی حنفیہ کے یہاں اس اُصول کو خوب برتا گیا ہے کہ جو روایت اپنے معنٰی و مصداق کے اعتبار سے قرآن مجید سے موافقت اور قربت رکھتی ہو، اسے ترجیح دی جائے گی، چنانچہ احکام صلوٰۃ سے متعلق اکثر مشہور مسائل جن میں حنفیہ اور فقہاء حجاز کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے پر غور کیا جائے تو حنفیہ کا نقطۂ نظر اسی اُصول پر مبنی نظر آتا ہے، مثلاً ’’امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے‘‘ ہی کا مسئلہ ہے، حضرت عبادہ بن صامتؓ کی روایت لا صلٰوۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب  (جس نے سورہ فاتحہ نہیں پڑھی، اس کی نماز نہیں ہوئی) کے عموم سے مقتدی کے لیے قرأت کا وجوب ثابت ہوتا ہے، دوسری طرف آپؐ کا ارشاد بھی منقول ہے کہ:
انما جعل الامام لیؤتم بہ، فاذا کبر فکبروا واذا قرأ فانصتوا۔
’’امام اس لیے ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے، چنانچہ جب وہ ’’اللہ اکبر‘‘ کہے تو تم بھی ’’اللہ اکبر‘‘ کہو، اور جب وہ قرأت کرے تو تم خاموش رہو۔‘‘
یہ دونوں روایتیں بظاہر متعارض ہیں، فقہاء حجاز نے عام طور پر پہلی روایت کو ترجیح دیا ہے، اور سِرّی اور بعضوں نے جہری نمازوں میں بھی مقتدی کے لیے قرأت فاتحہ کو واجب یا کم سے کم مشروع قرار دیا ہے، حنفیہ نے دوسری حدیث کو ترجیح دی، اس لیے کہ ارشاد خداوندی ہے: اِذَا قُرِأَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا (الاعراف: ۱۰۴) سے یہی حدیث مطابقت رکھتی ہے اور پہلی روایت کو منفرد اور امام سے متعلق قرار دیا۔
اسی طرح آمین کے مسئلہ کو لے لیجئے! آمین بالجہر اور آمین بالسرّ، دونوں روایتیں صراحتاً حضرت وائل بن حجرؓ سے مروی ہیں، شعبہ سے سِرّ کی روایت منقول ہے اور سفیان سے جہر کی۔ حنفیہ نے شعبہ کی روایت کو ترجیح دی، کیونکہ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ آمین دعاء ہے اور قرآن مجید نے دعاء کا ادب یہ بتایا ہے کہ دعاء کرتے وقت قلب میں فروتنی و عاجزی کی کیفیت ہو اور آواز میں اخفاء: اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَۃً۔ (الاعراف : ۵۵) 
قرآن سے موافقت کی بناء پر حدیث کا مقبول و نا مقبول ہونا، یا متعارض روایات میں اس کی بناء پر ترجیح دینے کے اُصول کو گو حنفیہ نے زیادہ برتا ہے، لیکن یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ یہ احناف کا طبع زاد اُصول ہے اور وہ اس میں متفرد ہیں، بلکہ اصولی طور پر دوسرے اہل علم نے بھی اسے تسلیم کیا ہے، چنانچہ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے: 
وقال أبو الحسن ابن الحضار فی تقریب المدارک علی موطا مالک، قد یعلم الفقیہ صحۃ الحدیث اذا لم یکن فی سندہ کذاب بموافقۃ آیۃ من کتاب اللّٰہ أو بعض أصول الشریعۃ فیحملہ ذلک علٰی قبولہ والعمل بہ۔ (تدریب الراوی: ۱/۴۸، ط: دارالکتاب العربی، بیروت) 
’’ابوالحسن بن حضار نے ’’تقریب المدارک علی موطا مالک‘‘ میں کہا ہے کہ بعض اوقات فقیہ ایسی حدیث جس کی سند میں کوئی جھوٹا راوی نہ ہو، کے صحیح ہونے پر قرآن مجید کی آیت یا شریعت کے بعض اصول سے موافقت کی وجہ سے مطمئن ہو جاتا ہے، یہ بات اسے اس کے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔‘‘
کتب حدیث میں اس طرح کی بہت سی مثالیں مل جائیں گی، مثلاً نماز حاجت کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن ابی اوفٰیؓ کی جو روایت منقول ہے وہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہے، امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر ان الفاظ میں نقد کیا ہے: 
قال أبو عیسٰی: ھذا حدیث غریب و فی اسنادہ مقال: فائدۃ بن عبد الرحمٰن یضعف فی الحدیث۔ (ترمذی: ۱/۱۰۹، باب ماجاء فی صلاۃ الحاجۃ: ط: دیوبند)
’’امام ترمذی نے فرمایا کہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند میں کلام ہے، فائدہ بن عبد الرحمن حدیث میں ضعیف ہیں۔‘‘
لیکن تمام ہی فقہاء نے غالبًا ارشاد ربانی: استعینوا بالصبر والصلٰوۃ۔ (البقرۃ: ۴۵) ’’صبر اور نماز کے ذریعہ سے اللہ سے مدد چاہو‘‘ کی روشنی میں اس حدیث کو تسلیم کیا ہے۔ 
بلکہ خود عہد صحابہؓ میں بھی جو حضرات اصحاب الرائے کہلاتے تھے، باوجودیکہ سند حدیث کی تحقیق کی ان کو کوئی حاجت نہیں تھی، انہوں نے اس اصول کو بعض احادیث کے قبول اور رَد کرنے میں معیار بنایا ہے، چنانچہ مطلقہ کے نفقہ و عدت کے سلسلہ میں حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی مذکورہ روایت جب حضرت عمرؓ کو پہنچی تو آپ نے اسے قبول نہیں کیا اور ارشاد فرمایا:
لا ندع کتاب ربنا و سنۃ نبینا لقول امرأۃ۔ (سنن بیہقی: ۷/۵۷۴)
’’ہم اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبیؐ کی سنت کی سنت کو ایک عورت کی بات کی وجہ سے نہیں چھوڑ سکتے۔‘‘
اسی طرح مشہور روایت: ان المیت لیعذب ببکاء أھلہ علیہ۔ (بخاری: باب :ماجاء فی البکاء علی المیت) ’’میت پر اس کے لوگوں کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے‘‘ پر ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے رَد فرمایا اور قرآن مجید کی اس آیت سے استدلال کیا کہ لا تزر وازرۃ وزر اخرٰی۔ (الانعام: ۱۶۴) ’’ایک شخص پر دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہیں۔‘‘ پس، گو حنفیہ نے اپنے اجتہادات میں اس اُصول کو زیادہ ملحوظ رکھا ہے، لیکن در حقیقت اُصولی طور پر تمام ہی اہل علم کو اس سے اتفاق ہے۔ 
(۲) حنفیہ کے طریقۂ استدلال کے سلسلہ میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ان کے یہاں روایات کے مقبول اور نا مقبول ہونے میں اس بات کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہے کہ جو روایت شریعت کے عمومی مزاج و مذاق اور اصول و قواعد سے مطابقت رکھتی ہے، بعض اوقات سند میں ضعف کے باوجود مقبول ہوتی ہے اور بعض روایتیں گو سند کے اعتبار سے قوی ہوتی ہیں، لیکن چوں کہ اپنے مضمون اور متن کے اعتبار سے شریعت کے عام اور مسلمہ اصول و مبادی کے خلاف ہیں، اس لیے ایسی حدیثیں رَد کر دی جاتی ہیں۔ چنانچہ قاضی ابو زید دبوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
الأصل عند أصحابنا أن خبر الآحاد متٰی ورد مخالفًا لنفس الأصول لم یقبل (تاسیس النظر: ۷۷)
’’ہمارے اصحاب کے نزدیک اصول یہ ہے کہ خبر واحد نفس اصول کے خلاف ہو تو اس کو قبول نہیں کیا جائے۔‘‘
حنفیہ کے یہاں بہت سے مسائل ہیں جو بظاہر اس اصول پر منطبق ہیں، جیسے حیوانات کے فضلہ کا ناپاک ہونا، عورت کے یا شرم گاہ کے چھونے کا ناقضِ وضو نہ ہونا، پتھر سے استنجاء میں تین پتھروں کا واجب نہ ہونا اور جس جانور کا دودھ تھن میں روک رکھا گیا ہو (مصراۃ) کو فروخت کرنے کے مسئلہ میں حدیث کی ظاہری مراد پر عمل کرنے کے بجائے تاویل و توجیہ کی راہ اختیار کرنا، اور اس طرح کے کتنے ہی مسائل ہیں جن میں نمایاں طور پر اس قاعدہ کا اثر محسوس ہوتا ہے۔
متعارض احادیث کی ترجیح میں بھی حنفیہ نے اس اصول سے فائدہ اٹھایا ہے، جیسے صلوٰۃ کسوف (سورج گہن کی نماز) ہی سے متعلق روایتوں کو دیکھئے جن میں ایک رکعت میں ایک رکوع سے پانچ رکوع تک کی تعداد مروی ہے، جمہور نے سند کے قوی ہونے پر نگاہ رکھتے ہوئے اس روایت کو ترجیح دیا جس میں ایک رکعت میں دو رکوع کا تذکرہ ہے، حنفیہ نے ان روایتوں کو ترجیح دیا جس میں ایک رکوع کا اشارہ ملتا ہے، کیونکہ یہ نماز کی عمومی کیفیت سے زیادہ مطابقت رکھتی ہے۔ 
حنفیہ کے بعد غالباً مالکیہ کے یہاں اس اصول کو زیادہ برتا گیا ہے، علامہ شاطبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر روشنی ڈالی ہے:
اذا جاء خبر الواحد معارضًا لقاعدۃ من قواعد الشرع ھل یجوز العمل بہ؟ قال أبو حنیفۃ: لا یجوز العمل بہ وقال الشافعي: یجوز، وتردد مالک في المسئلۃ، قال: والمشھور والذي علیہ المعول ان عضدتہ قاعدۃ أخری قال بہ وان کان وحدہ ترک۔ (مالک: ۲۵۷، لأبی زہرہ)
’’خبر واحد شریعت کے قواعد میں سے کسی قاعدہ کے معارض ہو تو کیا اس پر عمل کرنا جائز ہوگا؟ امام ابو حنیفہؒ نے کہا کہ اس پر عمل کرنا جائز نہیں، امام شافعی ؒ نے کہا جائز ہے، اور امام مالکؒ کو اس میں تردد ہے، اور مشہور قول جس کو قبول کیا گیا ہے، یہ ہے کہ اگر دوسرا قاعدہ اس کی تائید میں ہو تو اسے قبول کیا جائے گا اور اگر خبر واحد تنہا ہو تو اسے چھوڑ دیا جائے گا۔‘‘
حنفیہ اور مالکیہ کے یہاں واقعہ ہے کہ اصول کی رعایت زیادہ ہے، لیکن یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ محدثین نے اس کو بالکل ہی نا قابل اعتناء سمجھا ہے، خود امام بخاریؒ کے یہاں ایسی متعدد مثالیں ملتی ہیں کہ انہوں نے اخبار آحاد کے مقابلہ میں شریعت کے قواعد عامہ کو مقدم رکھا ہے، امام ترمذیؒ نے کتنی ہی روایتیں نقل کی ہیں اور اس کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ اسی پر اہل علم کا عمل ہے، اور بعض ایسی روایتیں بھی ہیں کہ ان کی توثیق بھی کرتے ہیں اور اس کے بھی معترف ہیں کہ اہل علم کے یہاں اس پر عمل نہیں ہے۔
اسی لیے علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اصولی بات لکھی ہے کہ:
وعلٰی کل حال فالتقیید بالاسناد لیس صریحًا في صحۃ المتن وضعفہ بل ھو علی الاحتمال۔ (فتح المغیث: ۱/۱۰۶)
’’بہرحال، اسناد کی قید کے ساتھ (کسی حدیث کو صحیح یا ضعیف قرار دینا، یعنی یہ کہنا کہ اس کی سند صحیح ہے، یا اس کی سند ضعیف ہے) مضمون حدیث (متن) کے صحیح یا ضعیف ہونے کی دلیل نہیں، بلکہ اس میں احتمال ہے۔‘‘
پھر آگے لکھا ہے:
وکذا أورد الحاکم فی مستدرکہ غیر حدیث یحکم علی اسنادہ بالصحۃ وعلی المتن بالوھاء بعلۃ أو شذوذ الی غیرھما من المتقدمین وکذا من المتأخرین کالمزني حیث تکرر منہ الحکم بصلاحیۃ الاسناد ونکارۃ المتن۔ (فتح المغیث: ۱/۱۰۷)
اسی طرح متقدمین میں سے امام حاکم مستدرک میں متعدد حدیثیں نقل کرتے ہیں، جن کی سند پر صحیح ہونے کا اور متن پر علت یا شذوذ کی وجہ سے ضعیف ہونے کا حکم لگاتے ہیں، اور اسی طرح متأخرین میں سے امام مزنی وغیرہ سے بھی بار بار یہ بات پیش آئی ہے کہ وہ سند کے معتبر اور متن کے منکر ہونے کا حکم لگاتے ہیں۔‘‘
(۳) حدیث کے مقبول ہونے کے سلسلہ میں حنفیہ کے یہاں ایک اہم اصول یہ ہے کہ حدیث کا صحابہ و تابعین اور ائمہ مجتہدین کے درمیان درجۂ قبول حاصل کر لینا بجائے خود اس کے معتبر و مقبول ہونے کی دلیل ہے، اسی کو اہل علم نے ’’تلقی بالقبول‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ ’’تلقی بالقبول‘‘ کی وجہ سے بعض روایتیں سند کے اعتبار سے ضعیف ہونے کے باوجود اہل علم کے یہاں پایۂ قبول حاصل کر لیتی ہیں اور اگر صحیح یا حسن ہیں تو ان کے استناد و اعتبار میں اضافہ ہو جاتا ہے، لیکن بعض محققین کے نزدیک تو وہ تواتر کے درجہ میں آجاتی ہیں، چنانچہ حضرت عائشہؓ اور حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے طلاق الأمۃ ثنتان وعدتھا حیضتان والی روایت منقول ہے، ابوبکر جصاص رازی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر کلام کرتے ہوئے لکھا ہے: 
وان کان واردۃ من طریق الآحاد، فصار في حیز التواتر لأن ما تلقاہ الناس من أخبار الآحاد بالقبول فھو عندنا في معنٰی المتواتر لما بیناہ۔ (أحکام القرآن للجصاص: ۲/۱۳۰)
’’اگرچہ یہ خبر واحد کے طریقہ پر وارد ہوئی ہے، لیکن یہ تواتر کے درجہ میں ہے، اس لیے کہ جب خبر واحد کو لوگ قبول کر لیں، وہ ہمارے نزدیک تواتر کے حکم میں ہے، اسی بناء پر جو ہم بیان کر چکے ہیں۔‘‘
مولانا ظفر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ اس موضوع پر بحث کے بعد رقم طراز ہیں:
بل الحدیث اذا تلقتہ الأمۃ بالقبول فھو عندنا في معنی التواتر۔ (قواعد فی علوم الحدیث: ۶۲)
’’بلکہ حدیث کو جب امت میں قبول عام حاصل ہو جائے تو ہمارے نزدیک وہ تواتر کے معنٰی میں ہے۔‘‘
اسی طرح جیسا کہ مذکور ہوا، ’’اہل علم کے نزدیک قبول عام‘‘ (تلقی بالقبول) کی وجہ سے سند کے اعتبار سے ضعیف روایتیں بھی صحت کے درجہ میں آجاتی ہیں، حضرت عائشہؓ اور حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی مذکورہ روایت کی بابت علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
وما تصح الحدیث أیضًا ھو عمل العلماء علی وفقہ۔ (فتح القدیر)
’’جو بات اس حدیث کو صحیح قرار دیتی ہے، وہ علماء کا اس کے موافق عمل کرنا ہے۔‘‘
نیز مولانا عبد الحئی فرنگی محلی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے:
وکذا اذا تلقت الأمۃ الضعیف بالقبول یعمل بہ علی الصحیح۔ (الأجوبۃ الفاضلۃ: ۵۱)
’’جب امت حدیث ضعیف کو قبول کر لے تو اس پر صحیح قول کے مطابق عمل کیا جائے گا۔‘‘
بعض حضرات کے نزدیک خاص صورتوں میں خبر واحد قیاس کے مقابلہ میں رد کر دی جاتی ہے، لیکن اسے تلقی بالقبول حاصل ہو تو وہ ان کے نزدیک بھی قابل عمل ہے، علامہ سرخسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
وما خالف القیاس، فان تلقتہ الأمۃ بالقبول فھو معمول بہ۔ (اصول السرخسی : ۱/۳۴۱)
’’جو حدیث قیاس کے خلاف ہو، اگر اُمت میں اُسے قبولِ عام حاصل ہوگیا ہو تو اس پر عمل کیا جائے گا۔‘‘
حنفیہ کے یہاں اس اصول کو زیادہ ملحوظ رکھا گیا ہے، بلکہ حنفیہ کے یہاں حدیث اور خبر واحد کے درمیان حدیث کی ایک اور قسم ’’خبر مشہور‘‘ کی اصطلاح پر غور کیا جائے تو غالباً اسی اصول پر مبنی ہے۔ فخر الاسلام بزدوی رحمۃ اللہ علیہ نے خبر واحد کی تعریف اس طرح کی ہے: 
المشھور ماکان من الآحاد في الأصل ثم انتشر فصار منقلۃ قوم لا یتوھم تواطؤھم علی الکذب وھم القرن الثاني بعد الصحابۃ رضی اللّٰہ عنھم من بعدھم۔ (اصول البزدوی: ۲/۶۷۴)
’’حدیث مشہور وہ ہے جو اصل میں خبر واحد ہو، پھر اہل علم میں پھیل جائے، یہاں تک کہ اتنے لوگ اس کے نقل کرنے والے ہوں کہ ان کا جھوٹ پر اتفاق ممکن نہ ہو، یعنی صحابہؓ کے بعد دوسری صدی کے ناقلین۔‘‘
گویا خبر مشہور وہ ہے جو گو عہد صحابہ میں اخبار آحاد کے قبیل سے ہو، لیکن تابعین اور تبع تابعین کے عہد میں اسے قبول عام حاصل ہوگیا ہو۔ علامہ نسفی رحمۃ اللہ علیہ نے اس طرف اشارہ کیا ہے، چنانچہ خبر مشہور کے ذریعہ کتاب اللہ پر زیادتی کے درست ہونے کی وجوہ پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
لأن الأمۃ تلقتہ بالقبول واتفاقھم علی القبول لا یکون الا بجماع جمعھم علی ذلک۔ (المنار مع کشف الاسرار: ۲/۱۳)
’’اس لیے کہ علماء کے درمیان قبول عام اور قبولیت پر اتفاق کسی ایسے سبب سے ہی ہو سکتا ہے، جس نے ان سب کو اس پر متفق کیا ہو۔‘‘
حالانکہ حنفیہ کے یہاں خبر واحد سے کتاب اللہ کے عام کی تخصیص اور مطلق کی تقیید نہیں کی جا سکتی، لیکن متعدد روایتیں ہیں کہ احناف نے ان کے ذریعہ تخصیص و تقیید کی ہے، جیسے: القاتل لا یرث ’’قاتل (مقتول کا) وارث نہیں ہو سکتا۔‘‘
یقید الأب من ابنہ ولا یقید الابن من أبیہ۔
’’باپ بیٹے سے قصاص لے گا، بیٹا باپ سے قصاص نہیں لے سکتا۔‘‘
لا زکٰوۃ في مال حتّٰی یحول علیہ الحول۔
’’مال میں زکوٰۃ نہیں، جب تک کہ اس پر سال نہ گزر جائے۔‘‘
اسی لیے کہ یہ اور اس طرح کی اخبار آحاد نے قبول عام کی وجہ سے ایک خصوصی درجۂ استناد و اعتبار حاصل کر لیا ہے۔ 
حنفیہ کے یہاں حدیث کی تحقیق و تنقیح میں چوں کہ درایت کا استعمال زیادہ ہے، اس لیے انہوں نے اس قاعدہ سے بھی زیادہ مدد لی ہے، لیکن اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ دوسرے فقہاء محدثین کے نزدیک اس کا کوئی اعتبار نہیں، فقہاء مالکیہ میں علامہ ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث ھو الطھور ماءہ ’’سمندر کا پانی پاک ہے‘‘ پر کلام کرتے ہوئے لکھا ہے: 
لٰکن الحدیث عندي صحیح لأن العلماء تلقوہ بالقبول۔ (تدریب الراوی: ۱/۴۷، ط: دارالکتاب العربی، بیروت)
’’لیکن میرے نزدیک یہ حدیث صحیح ہے، اس لیے کہ علماء نے اسے قبول کر لیا ہے۔‘‘
ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ نے تمہید میں الدینار أربعۃ و عشرون قیراطًا ’’دینار چوبیس قیراط کا ہوتا ہے‘‘ پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے: 
واجماع الناس علی معنی غني عن الاسناد فیہ۔ (حوالہ سابق)
’’لوگوں کا اس بات پر اتفاق، اسے سند سے بے نیاز کر دیتا ہے۔‘‘
ابو اسحاق اسفرائنی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے: 
تعرف صحۃ الحدیث اذا اشتھر عند أئمۃ الحدیث بغیر نکیر منھم۔ (تدریب الراوی: ۱/۴۷، ط: دارالکتاب العربی، بیروت)
’’جب ائمہ حدیث کے نزدیک کوئی حدیث بلا نکیر مشہور ہو، تو تم اس طرح اس حدیث کے صحیح ہونے کو جان سکتے ہو۔‘‘
علامہ ابراہیم شبرخیتی مالکی رحمۃ اللہ علیہ نے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کی ’’اربعین‘‘ کی شرح میں لکھا ہے: 
محل کونہ لا یعمل بالضعیف في الأحکام مالم یکن تلقتہ الناس بالقبول فان کان ذلک تعین و صار حجۃ یعمل بہ في الاحکام وغیرھا کما قال الشافعي۔ (دیکھئے: التحفۃ المرضیۃ: ۳۶۴)
’’احکام میں ضعیف حدیث پر عمل نہ کیے جانے کی بات اس وقت ہے جب کہ لوگوں نے اس کو قبول نہ کیا ہو، پس اگر اسے قبول عام حاصل ہو ۔۔۔ تو وہ حجت ہو جائے گی، جس پر احکام اور دوسرے اُمور میں عمل کیا جائے گا، جیسا کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے۔‘‘
فقہاء شوافع میں علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلہ میں بڑی وضاحت سے لکھا ہے، فرماتے ہیں:
وکذا اذا تلقت الأمۃ الضعیف بالقبول یعمل بہ علی الصحیح، حتی أنہ ینزل منزلۃ المتواتر في أنہ ینسخ المقطوع بہ ولھٰذا قال الشافعي رحمہ اللّٰہ فی حدیث ’’لا وصیۃ لوارث‘‘ أنہ لا یثبتہ أھل الحدیث ولکن العامۃ تلقتہ بالقبول وعملوا بہ حتی جعلوہ ناسخًا لآیۃ الوصیۃ لہ۔ (فتح المغیث للسخاوی: ۱/۳۳۳)
’’جب امت حدیث ضعیف کو قبول کر لے تو صحیح قول کے مطابق اس پر عمل کیا جائے گا، یہاں تک کہ وہ اس دلیل قطعی کے لیے ناسخ ہونے میں وہ متواتر کے درجہ میں ہو جائے گی، چنانچہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث لا وصیۃ لوارث ’’وارث کے لیے وصیت کا اعتبار نہیں‘‘ کے بارے میں کہا ہے کہ علماء حدیث اسے مستند قرار نہیں دیتے، لیکن عام طور پر اہل علم نے اس کو قبول کیا ہے اور اس پر عمل کیا ہے، یہاں تک کہ اس کو آیت وصیت کے لیے ناسخ قرار دیا ہے۔‘‘
علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ ’’شرح نظم الدر‘‘ میں رقمطراز ہیں:
المقبول ما تلقاہ العلماء بالقبول وان لم یکن لہ اسناد صحیح أو اشتھر عند أئمۃ الحدیث بغیر نکیر عنھم۔ (دیکھئے: التحفۃ المرضیۃ: ۲۶۴)
’’حدیث مقبول وہ ہے جس کو علماء نے قبول کیا ہو، اگرچہ اس کی کوئی صحیح سند موجود نہ ہو، یا وہ حدیث ائمۂ حدیث کے نزدیک کسی نکیر کے بغیر مشہور ہو۔‘‘
علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’التعقبات علی الموضوعات‘‘ میں لکھا ہے: 
وقد صرح غیر واحد بأن من دلیل صحۃ الحدیث قول أھل العلم بہ وان لم یکن لہ اسناد یعتمد علی مثلہ۔ (دیکھئے: تحقیق الأجوبۃ الفاضلۃ للشیخ أبی غدۃ: ۲۲۹)
’’متعدد اہل علم نے صراحت کی ہے کہ اہل علم کا کسی حدیث کا قائل ہونا اس کے صحیح ہونے کی دلیل ہے، گو اس کی کوئی قابل اعتماد سند نہ ہو۔‘‘
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ ’’الافصاح علی نکت ابن صلاح‘‘ میں لکھتے ہیں:
ومن جملۃ صفات القبول التي لم یتعرض لھا شیخنا یعنی الحافظ زین الدین العراقي أن یتفق العلماء علی العمل بمدلول حدیث، فانہ یقبل حتی یجب العمل بہ وقد صرح بذلک جماعۃ من أئمۃ الأصول۔ (الأجوبۃ الفاضلۃ: ۲۳۲)
’’قبول حدیث کی جن صفات کا ہمارے استاذ علامہ زین الدین عراقی رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر نہیں کیا ہے، ان میں ایک یہ ہے کہ علماء اس حدیث کے مدلول پر عمل کرنے کی بابت متفق ہوں، کہ وہ مقبول ہوگی اور اس پر عمل کرنا واجب ہوگا اور ائمۂ اُصول کی ایک جماعت نے اس کی صراحت کی ہے۔‘‘
نیز علامہ بزدوی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے:
والیہ ذھب بعض أصحاب الشافعي فقد ذکر في القواطع خبر الواحد الذي تلقتہ الأمۃ بالقبول یقطع بصدقہ۔ (کشف الاسرار للبزدوی: ۲/۶۷۴)
’’اور بعض فقہاء شوافع بھی اسی طرف گئے ہیں، چنانچہ انہوں نے قطعی دلیلوں میں اس خبر واحد کو بھی ذکر کیا ہے، جس کو امت میں قبول عام حاصل ہو، کہ اس کہ درست ہونے کا یقین کیا جائے۔‘‘
فقہ حنبلی کے معروف ترجمان حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ ’’کتاب الروح‘‘ میں ایک ضعیف روایت پر کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
فھذا الحدیث وان لم یثبت فاتصال العمل بہ في سائر الأمصار والأعصار من غیر انکار کاف في العمل بہ۔ (التحفۃ المرضیۃ: ۲۶۶)
’’یہ حدیث اگرچہ ثابت نہیں ہے، لیکن اس پر تمام شہروں اور زمانوں میں بلا نکیر عمل اس کے قابل عمل ہونے کے لیے کافی ہے۔‘‘
سلفی مکتبہ فکر کے صاحب نظر عالم علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:
وھکذا خبر الواحد اذا تلقتہ الأمۃ بالقبول فکانوا بین عامل بہ و متاول۔ (ارشاد الفحول)
’’اسی طرح خبر واحد کو جب امت میں قبول حاصل ہو جائے، کچھ لوگ اس پر عمل کریں اور کچھ لوگ اس کی تاویل کریں۔‘‘
اس سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ ’’تلقی بالقبول‘‘ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام لوگ اس حدیث پر عمل ہی کرنے لگیں، بلکہ جو لوگ اس حدیث میں تاویل سے کام لیتے ہوں وہ بھی دراصل ان لوگوں میں داخل ہیں جو حدیث کو قبول کر رہے ہیں، جیسا کہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت بین عامل بہ و متاول سے ظاہر ہے۔
پس تلقی بالقبول ان اسباب میں سے ہے جو ضعیف حدیث کو درجۂ اعتبار عطا کرتا اور صحیح حدیثوں کی قوت و صحت میں اضافہ کا موجب ہوتا ہے اور ایک متفق علیہ اُصول ہے۔ لیکن احناف نیز مالکیہ نے اس اُصول کو زیادہ برتا ہے، مالکیہ کے نزدیک تعامل اہل مدینہ کو جو اہمیت اور اولیت حاصل ہے وہ در اصل اسی اصول کو برتنے سے عبارت ہے، بلکہ غور کیا جائے تو بخاری و مسلم کو حدیث کی دنیا میں جو درجۂ اعتبار و استناد حاصل ہوا ہے وہ اس لیے نہیں کہ اس کی تمام اسناد اہم درجہ ہیں اور کہیں انگلی رکھنے کی جگہ نہیں، اہل علم کے لیے یہ بات محتاج اظہار نہیں کہ بخاری کے سو سے زیادہ راویوں پر تو تشیع کی تہمت ہے اور ناصبیت نیز دوسرے باطل فرقوں کی طرف منسوب راویوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے، لیکن یہ اُمت کی طرف سے قبول عام ہی ہے جس کی وجہ سے ان کتابوں کی احادیث کو مقبول مانا جاتا ہے، چنانچہ ابن صلاح رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ شیخین کی روایت سے علم یقینی نظری حاصل ہوتا ہے اور وجہ یہی ہے کہ انما تلقتہ الأمۃ بالقبول۔(مقدمۃ ابن صلاح: ۱۲)
یہاں اس بات کا ذکر مناسب ہوگا کہ گو اس موضوع پر اصول حدیث و فقہ کی کتابوں میں جا بجا اشارے کیے گئے ہیں، لیکن محدث حسین بن محسن یمانی رحمۃ اللہ علیہ (م : ۳۲۷ھ) کا رسالہ ’’التحفۃ المرضیۃ فی بعض المشکلات الحدیثۃ‘‘ اس مسئلہ پر ایک بے نظیر تحریر ہے جو ’’المعجم الصغیر للطبرانی‘‘ کے ساتھ طبع ہو چکا ہے، اس رسالہ میں در اصل اس سوال کا جواب دیا گیا ہے کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ بعض روایتوں کو ضعیف قرار دینے کے باوجود لکھا کرتے ہیں کہ اسی پر اہل علم کا عمل ہے: العمل علی ھذا الحدیث عند أھل العلم  تو روایت کے ضعیف ہونے کے باوجود اس پر کیوں عمل کیا جاتا ہے؟ مشہور محدث و محقق شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ’’الأجوبۃ الفاضلۃ‘‘ کے اخیر میں اس موضوع پر اپنی تحقیقات رقم فرمائی ہیں جو بڑی چشم کشا اور قابل مطالعہ ہیں۔
یہ تو چند اہم پہلو تھے جو حنفیہ کے یہاں احادیث کے رد و قبول میں خاص طور پر ملحوظ ہیں، لیکن حنفیہ نے متن حدیث پر صحت و ضعف کا حکم لگانے یا متعارض روایات کو ایک دوسرے پر ترجیح دینے میں مزید جن قرائن و شواہد سے فائدہ اٹھایا ہے اور اصول درایت کو برتنے کی کوشش کی ہے، ان میں سے چند کی طرف اشارہ کر دینا بھی مناسب ہوگا۔ 
(۴) حدیث کے اولین راوی چوں کہ صحابہ کرامؓ ہیں اور وہ سب کے سب عادل و ثقہ ہیں اور ان کی عدالت و ثقاہت پر خود حدیث نبوی شاہد عدل ہے، اس لیے کسی حدیث کے بارے میں صحابہؓ نے جو رویہ اختیار کیا ہے، حنفیہ کے یہاں اس کو خصوصی اہمیت حاصل ہے، چنانچہ:
(الف) اگر کوئی حدیث ایسے مسئلہ سے متعلق ہو جس میں عہد صحابہ میں اختلاف رائے رہا ہو اور اس حدیث سے کسی نے استدلال نہیں کیا ہو تو علامہ سرخسی رحمۃ اللہ علیہ کی زبان میں یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس حدیث میں کہیں کوئی کھوٹ موجود ہے اور یا تو یہ بعد کے راویوں کا سہو ہے یا پھر یہ حدیث منسوخ ہے۔ (اصول السرخسی : ۱/۳۶۹) جیسے عہد صحابہ میں اس بابت اختلاف تھا کہ جو باندی آزاد کے نکاح میں ہو، اس کی طلاق تین ہوگی یا دو؟ لیکن حدیث الطلاق بالرجال والعدۃ بالنساء ’’طلاق میں مردوں کا اور عدت میں عورتوں کا اعتبار ہوگا‘‘ سے استدلال نہیں کیا، اسی طرح نابالغ بچوں کے مال میں زکوٰۃ واجب ہونے کا مسئلہ صحابہ کے درمیان بھی اختلافی رہا ہے، لیکن حدیث ابتغوا فی أموال الیتامٰی خیرًا کیلا تأکلھا الصدقۃ سے استدلال کرنا کسی صحابیؓ سے منقول نہیں، اسی لیے حنفیہ کے یہاں ان احادیث کی تاویل کی گئی ہے۔ 
(ب) کسی روایت پر صحابہؓ کے عہد میں عمل نہ کیا گیا ہو، یا علانیہ اسے ترک کر دیا گیا ہو تو یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ اس حدیث کا ظاہری مفہوم و مصداق مطلوب نہیں ہے، جیسے زنا کی سزا کے سلسلہ میں ’’جَلد‘‘ (کوڑے لگانے) کے ساتھ ’’تغریب عام‘‘ (ایک سال کے لیے شہر بدر کرنے) کی سزا صحیح احادیث میں منقول ہے (بخاری : ۲/۱۰۰۸۔ ابوداؤد: ۲/۶۱۰) لیکن حضرت عمرؓ نے ایک خاص واقعہ کے پس منظر میں فرمایا کہ آئندہ میں کسی کو شہر بدر کرنے کی سزا نہیں دوں گا۔ اس لیے حنفیہ نے اس حدیث کے ظاہر پر عمل کرنے کے بجائے یہ نقطہ نظر اختیار کیا کہ ’’ایک سال شہر بدر کرنے‘‘ کی سزا سیاست شرعیہ کی قبیل سے ہے اور قاضی و امیر کی صوابدید پر ہے، اسی طرح فتح خیبر کی نظیر حضرات صحابہؓ کے سامنے تھی، پھر بھی حضرت عمرؓ نے فتح عراق کے موقع سے اراضی عراق کی تقسیم نہ فرمائی، اس لیے حنفیہ کے نزدیک اراضی مفتوحہ کی بابت فیصلہ کرنے میں حکومت مصالح کے تحت فیصلہ کرنے کی مجاز ہے۔ 
(ج) اسی طرح صحابہؓ نے کسی روایت کو نقل کیا ہو، جو اپنے معنٰی و مصداق کے اعتبار سے واضح ہو، اس کے باوجود خود اس صحابی کا فتویٰ یا عمل اس روایت کے خلاف ہو تو حنفیہ کے یہاں ایسی روایت بھی نامقبول ہے، جیسے: حضرت ابو ہریرہؓ سے ’’کتے کے جھوٹے‘‘ کے سلسلہ میں سات دفعہ دھونے کی حدیث مروی ہے (صحیح مسلم، باب : حکم ولوغ الکلب) لیکن خود ان کا فتویٰ تین دفعہ دھونے کا ہے (طحاوی: باب : سور الکلب) حنفیہ نے اس حدیث کو اصل بنایا اور سات بار والی روایت کو استحباب پر محمول کیا۔
اسی طرح ترمذی نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر اکثر وتر ادا فرمایا کرتے تھے (ترمذی: ۱/۱۰۸) لیکن خود حضرت عبد اللہؓ کا معمول نقل کیا گیا ہے کہ وتر ادا کرنے کے لیے سواری سے نیچے اتر آتے تھے، لہٰذا حنفیہ نے اسی پر عمل کیا، اور جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر پڑھنے کا ذکر ہے، اسے تہجد پر محمول کیا، کیونکہ حدیث میں وتر کا لفظ تہجد کے لیے بھی استعمال ہوا ہے۔ 
اسی طرح حضرت عائشہؓ سے وہ روایت منقول ہے جس میں عورت کے نکاح کے لیے ولی کو ضروری قرار دیا گیا ہے لا نکاح الا بولی  لیکن خود حضرت عائشہؓ نے اپنی بھتیجی یعنی حضرت عبد الرحمن بن ابی بکرؓ کی لڑکی کا نکاح والد کی عدم موجودگی میں خود کیا ہے (المبسوط: ۵/۱۲) اسی لیے حنفیہ کے نزدیک بالغ لڑکی پر اولیاء کی ولایت استحبابی ہوگی نہ کہ وجوبی۔ 
البتہ اس سلسلہ میں دو باتیں قابل توجہ ہیں: اول یہ کہ اگر صحابیؓ کا عمل یا فتویٰ کسی حدیث کے خلاف ہو اور وہ حدیث ایسے مسئلہ سے تعلق رکھتی ہو کہ بعض لوگوں پر اس کا مخفی رہ جانا ناقابل قیاس نہ ہو، تو یہ اس حدیث کے مقبول ہونے میں مانع نہیں ہے، جیسے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس بات کے قائل نہ تھے کہ حائضہ طوافِ وداع ترک کر سکتی ہے، یا حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی رائے منقول ہے کہ نماز کی حالت میں قہقہہ ناقضِ وضو نہیں، علامہ سرخسی نے لکھا ہے کہ یہ ایسے ہی مسائل میں ہے۔ (اصول السرخسی: ۲/۸)
دوسرے: اگر کسی حدیث میں ایک سے زیادہ معنوں کی گنجائش ہو اور کسی صحابی نے اپنے اجتہاد سے ایک معنٰی مراد لیا تو یہ حجت نہیں، کیونکہ اس کی بنیاد اجتہاد ہے نہ کہ نص، فالعبرۃ لما روی لا لما رأی  چنانچہ خرید و فروخت کے بارے میں المتبایعان بالخیار مالم یتفرقا  مروی ہے، یہاں جمہور کے نزدیک تفرق أبدان  مراد ہے، یعنی جب تک ایجاب کے بعد قبول کا اظہار نہ ہو جائے بیع کو رد کرنے کا اختیار حاصل ہے، حالانکہ خود حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اس حدیث کے وہی معنٰی مراد لینا ثابت ہے جو جمہور نے لیا ہے، لیکن چونکہ خود اس حدیث کے الفاظ میں ان دونوں معنوں کی گنجائش ہے، اس لیے حنفیہ کے یہاں روایت کے الفاظ زیادہ قابل لحاظ ہیں نہ کہ راوی کا اپنا اجتہاد۔ 
(۵) احناف کے یہاں بعض کتب اصول میں خبر واحد کے مقبول ہونے کے لیے یہ شرط بھی لگائی گئی ہے کہ اس کے رُواۃ مقبول ہوں، لیکن حضرت الامام کے مجتہدات پر غور کیا جائے تو اس کی تصدیق دشوار ہے، کیونکہ کتنے ہی مسائل ہیں جن میں حنفیہ نے ایسے راویوں کی روایت کو لیا ہے جو تفقہ میں معروف نہ تھے، ہاں یہ ضرور ہے کہ اگر دو حدیثیں متعارض ہوں اور سند کے اعتبار سے دونوں ہی صحیح ہوں تو امام صاحب ایسی روایت کو ترجیح دیتے ہیں جن کو ’’اصحاب فقہ راویوں‘‘ نے نقل کیا ہے، اس کی بہترین مثال امام ابو حنیفہ رحمۃا للہ علیہ اور امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ کے درمیان دارالحناطین مکہ میں رفع یدین کے مسئلہ پر ہونے والا مناقشہ ہے، جس میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے راویوں کے تفقہ کو ملحوظ رکھ کر ’’حماد عن ابراہیم عن علقمہ و اسود عن عبد اللہ بن مسعود‘‘ کی سند کو ’’زہری عن سالم عن عبد اللہ بن عمر‘‘ پر ترجیح دی اور واسطوں کے کم ہونے کے مقابلہ میں، راوی کے تفقہ کو آپ نے زیادہ اہم سمجھا۔ 
علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناقشہ کا ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے: 
فرجح بفقہ الرُواۃ کما رجح الأوزاعي بعلو الاسناد وھو المذھب المنصور عندنا۔ (فتح القدیر : ۱۱/۳)
’’امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے راویوں کے تفقہ کی بنا پر حدیث کو ترجیح دی جیسا کہ امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ نے سند کے عالی ہونے کی بنا پر اور یہی (تفقہ کی بنا پر ترجیح) ہمارے نزدیک مذہبِ منصور ہے۔‘‘
علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ نے ’’تحریر الاصول‘‘ میں بھی وجوہِ ترجیح میں اس کا شمار کیا ہے اور اس سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ نکاح محرم کے مسئلہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کو ابو رافع رضی اللہ عنہ کی روایت پر ترجیح ہوگی۔ (دیکھئے تیسیر التحریر: ۳/۱۶۷)
بعض حضرات نے اس پر نقد کیا ہے کہ روایت حدیث کا تعلق بنیادی طور پر حفظ سے ہے، اس لیے روایت حدیث میں حفظ پر تفقہ کو ترجیح دینا قرین صواب نہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ روایات زیادہ تر بالمعنی مروی ہیں نہ کہ باللفظ، اور معانئ حدیث کی حفاظت وہی کر سکتا ہے جو فہم بلیغ اور قلب عقول بھی رکھتا ہو، علامہ رازی رحمۃ اللہ علیہ بھی فی الجملہ راوی کے تفقہ کو وجۂ ترجیح قرار دیتے ہیں: ان تفقہ الراوي مرجح بحال۔ (المحصول : ۲/۴۵۴) اور علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس نقطۂ نظر کی معقولیت کا احساس کرتے ہوئے فرماتے ہیں: لأنہ أعرف بمدلولات الألفاظ  (ارشاد الفحول: ۲۶۷)
حنفیہ کے علاوہ بعض دوسرے ائمۂ حدیث و فقہ نے بھی اس اُصول کو تسلیم کیا ہے، امام وکیع نے ایک صاحب سے دریافت کیا کہ تم أعمش عن أبی وائل عن عبد اللّٰہ بن مسعود اور سفیان عن منصور عن ابراہیم عن علقمہ عن ابن مسعود  میں سے کس سند کو ترجیح دیتے ہو؟ ان صاحب نے کہا: اعمش کی سند کو۔ وکیع نے اظہارِ حیرت کرتے ہوئے کہا کہ اعمش و ابو وائل شیوخ ہیں، اور سفیان، منصور، ابراہیم اور علقمہ فقہاء ، اور جس حدیث کے راوی فقہاء ہوں، وہ اس حدیث سے بہتر ہے جس کو شیوخ نے نقل کیا ہو، حدیث یتداولھا الفقہاء خیر من أن یتداولھا الشیوخ۔
(۶) اس طرح یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ جہاں محدثین نے اصول روایت کے اعتبار سے ذخیرۂ حدیث کو پرکھا ہے اور اس کے لیے تحقیق رجال کا وہ عظیم الشان کام سر انجام دیا ہے کہ تاریخ مذاہب میں اس کی مثال نہیں مل سکتی اور مستشرقین تک نے اس کا اعتراف کیا ہے، وہاں فقہاء اور بالخصوص فقہاء احناف نے متن حدیث کو کتاب اللہ، شریعت کے عمومی اہداف و مقاصد اور مزاج و مذاق نیز جو واقعات مروی ہیں، ان کے تاریخی پس منظر کی روشنی میں پرکھنے کی جو کوشش کی ہے اور درایت حدیث کے جو اُصول و قواعد قائم کیے ہیں، ان کی داد نہ دینا بھی نا انصافی ہوگی، لیکن افسوس کہ تحقیق حدیث کے اس پہلو کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا، بلکہ فقہاء حنفیہ کو ان کی اس سعی مسعود پر بعض کوتاہ فہم اور کوتاہ بین اہل قلم نے، تارک حدیث اور متبع رائے ٹھہرایا، حالانکہ یہ ایسا ظلم ہے کہ علم کی دنیا میں کم ایسا ظلم روا رکھا گیا ہوگا۔ 
اگر بہ نظر انصاف دیکھا جائے تو بہ مقابلہ دوسرے مکاتب فقہ کے حنفیہ کے یہاں احادیث سے اعتناء زیادہ نظر آتا ہے، اس سلسلہ میں فقہاء کے دو اُصولی اختلاف کی طرف اشارہ کرنا مناسب محسوس ہوتا ہے، اول یہ کہ تابعین کی مرسل روایات میں درمیان کے واسطوں کو حذف کرکے براہ راست آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی گئی روایات، حنفیہ اور مالکیہ کے نزدیک حجت ہیں، بشرطیکہ راوی کے بارے میں معلوم ہو کہ عام طور پر وہ ثقہ راویوں ہی سے روایت لیتا ہے (قفو الاثر: ۶۷) امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور بعد کے اہل علم نے عام طور پر سند میں انقطاع کی وجہ سے مراسیل کے قبول نہیں کیا ہے، حنفیہ نے مرسل روایات اور خاص کر امام ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ کی مراسیل سے بہ کثرت استدلال کیا ہے، جس کا اندازہ امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ کی ’’کتاب الاثار‘‘ سے کیا جا سکتا ہے۔ 
احناف کا مرسل کو قبول کرنا جہاں ان کی اس فکر کا غماز ہے کہ ’’دین میں نقل پر عمل بہرحال عقل کو راہ دینے سے بہتر ہے‘‘، وہیں یہ حقیقت بھی پیش نظر ہے کہ بہت سے محدثین حدیث کو اس وقت مرسلًا نقل کرتے تھے جب متعدد شیوخ کے ذریعہ ان تک بہ کمال اعتبار و استناد یہ روایت پہنچتی تھی، حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جب کسی صحابی کی روایت مجھ تک چار اصحاب کے ذریعہ پہنچتی ہے تو میں ارسالًا روایت کرتا ہوں، اذا اجتمع لي اربعۃ من الصحابۃ علی حدیث أرسلہ ارسالًا (اصول السرخسی: ۱/۳۶۱) ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ کہا کرتے تھے کہ جب میں کسی حدیث کو براہ راست حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کروں تو سمجھنا چاہیے کہ میں نے ایک سے زیادہ لوگوں سے یہ حدیث سنی ہے: اذا قلت قال عبد اللّٰہ فھو عن غیر واحد عن عبد اللّٰہ (تدریب الراوی: ۱/۱۶۹) اسی لیے حنفیہ نے نماز میں قہقہہ کے ناقضِ وضو ہونے کے مسئلہ میں ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ کی مرسل روایت ہی کو اصل بنایا ہے۔ (سنن دار قطنی : ۱/۱۷۱)
(۷) دوسرے جن مسائل میں احادیث مرفوعہ موجود نہ ہوں، کہا جا سکتا ہے کہ ان میں حنفیہ کے یہاں صحابہ کے فتاویٰ کی حیثیت قول آخر کی ہے اور عام طور پر وہ اس سے تجاوز نہیں کرتے، حنفیہ کے علاوہ حنابلہ کے سوا شاید ہی کسی دبستانِ فقہ میں آثارِ صحابہؓ کو اس درجہ اہمیت دی گئی ہو، چنانچہ اس سلسلہ میں حنفیہ کی رائے کا خلاصہ یہ ہے کہ:
i) کوئی ایسا مسئلہ ہو جس میں قیاس کو دخل نہ ہو اور اس سلسلہ میں ایک ہی صحابی کا قول منقول ہو، صحابہ کے درمیان اختلاف نقل نہ کیا گیا ہو تو قول پر عمل کرنا واجب ہے: 
ولا خلاف بین أصحابنا المتقدمین والمتأخرین أن قول الواحد من الصحابۃ حجۃ في مالا مدخل للقیاس في معرفۃ الحکم فیہ۔ (اصول السرخسی : ۲/۱۱، نیز دیکھئے: التقریر والتحبیر: ۲/۳۱۱)
’’ہمارے متقدمین و متاخرین اصحاب کے درمیان اس بابت کوئی اختلاف نہیں کہ ایک صحابی کا قول بھی ان مسائل میں حجت ہے، جن کا حکم جاننے میں قیاس کا کوئی دخل نہیں۔‘‘
چنانچہ حضرت انسؓ کے قول پر حیض کی کم سے کم مدت تین دن اور زیادہ سے زیادہ دس دن، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن ابی العاصؓ کے قول پر نفاس کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن، حضرت عائشہؓ کے قول پر حمل کی زیادہ سے زیادہ مدت دو سال اور حضرت علیؓ کے قول پر مہر کی کم سے کم مقدار دس درہم حنفیہ نے مقرر کی ہے، کیوں کہ مقدار اور مدت کی تعیین میں اجتہاد کو کوئی دخل نہیں۔
ii) کوئی ایسا مسئلہ ہو جس میں اجتہاد کی گنجائش ہو اور ایک ہی صحابی کا قول منقول ہو، اس صورت میں اختلاف ہے، ابوبکر جصاص رازی، ابو سعید بردعی، فخر الاسلام بزدوی، شمس الائمہ سرخسی اور ابو الیسر رحمہم اللہ وغیرہ کی رائے پر اس صورت میں بھی قول صحابی حجت ہے اور اس پر عمل واجب ہے۔ (التقریر والتحبیر : ۲/۳۱۰) اور نسفی کا بیان ہے کہ : علی ھذا أدرکنا مشائخنا (کشف الاسرار مع نور الأنوار: ۲/۱۷۴)
یہی رائے مالکیہ کی ہے، یہی ایک قول امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا ہے اور یہی امام شافعی رحمۃ اللہ کا قول قدیم تھا۔ (التقریر والتحبیر: ۲/۳۱۰)
امام کرخی اور قاضی ابو زید دبوسی کا خیال ہے کہ ایسی صورت میں قول صحابی حجت نہیں، بلکہ قیاس پر عمل کیا جائے گا (حوالہ سابق، نیز دیکھئے الاقوال الاصولیۃ للکرخی: ۹۲، باب قول الصحابی) یہی امام شافعی رحمۃ اللہ کا قول جدید ہے۔ (دیکھئے: الاحکام فی اصول الاحکام للآمدی: ۲/۳۵۷) گو اس حقیر کا خیال ہے کہ خود امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے اجتہادات سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی، پہلے نقطۂ نظر اور اس کے دلائل پر امام سرخسی نے شرح و بسط کے ساتھ روشنی ڈالی ہے (اصول السرخسی: ۲/۱۰۸) اور دوسرے نقطۂ نظر کو کرخی نے دلائل و براہین کی قوت کے ساتھ واضح کیا ہے۔ (دیکھئے : الاقوال الاصولیۃ للامام الکرخی: ۹۲)
سرخسی نے اس صورت میں بھی قول صحابی کے معتبر ہونے کے سلسلہ میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور صاحبین رحمۃ اللہ علیہما کا نقطۂ نظر اس طرح نقل کیا ہے: 
  • قیاس کا تقاضا تھا کہ وضو اور غسلِ جنابت دونوں ہی میں کلی اور ناک میں پانی ڈالنا سنت ہو، لیکن عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کی بناء پر قیاس کو ترک کر دیا گیا اور وضو میں سنت اور غسل میں واجب قرار دیا گیا۔ 
  • قیاس کا تقاضا تھا کہ خون زخم پر ظاہر ہو اور اپنی جگہ سے نہ بہہ پایا ہو تب بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے، لیکن عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کی بناء پر ہم نے اس صورت کو ناقص وضو قرار نہیں دیا۔ 
  • اگر کسی شخص کی ایک شب و روز یا اس سے کم نمازیں بے ہوشی کی حالت میں گزر جائیں تو از روئے قیاس قضا واجب نہ ہونی چاہیے ، لیکن حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کے قول کی بنا پر قضا واجب قرار دی گئی۔
  • از روئے قیاس مریض موت کا اپنے وارث کے حق میں اقرار معتبر ہونا چاہیے، لیکن حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عہنما کے قول پر اس کو نا معتبر قرار دیا گیا۔
  • کوئی شخص اس طرح خرید و فروخت کا معاملہ طے کرے کہ اگر میں تین دنوں تک قیمت ادا نہ کر پایا تو ہمارے درمیان بیع نہیں، تو قیاس کا تقاضا ہے کہ یہ معاملہ فاسد ہو، لیکن امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علہما نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عہنما کے قول پر اس معاملہ کو درست قرار دیا ہے۔ 
  • اگر ’’اجیر مشترک‘‘ کے پاس سے سامان کسی ایسے سبب سے ضائع ہوگیا جس سے بچنا بھی ممکن تھا، تو قیاس یہ ہے کہ اجیر پر اس کا ضمان نہ ہو، لیکن امام ابو یوسف اور امام محمد رحمۃ اللہ علہما نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول کی بنا پر اس کو ضامن قرار دیا۔
  • امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے محض عبد اللہ بن مسعود اور حضرت جابرؓ کے قول کی بنا پر حاملہ عورت کو ایک سے زیادہ طلاق دینے کو خلاف سنت قرار دیا۔ (ملخص از: اصول السرخسی: ۲/۶۔۱۰۵)
حقیقت یہ ہے کہ یہ محض چند مثالیں ہیں، ورنہ فقہ حنفی میں اس کی بہت سی نظیریں ملتی ہیں کہ قیاس و اجتہاد کے بجائے ’’اقوالِ صحابہ‘‘ کو مشعل راہ بنایا گیا اور عقل پر بہرحال نقل کو ترجیح دی گئی ہے، فقہ حنفی کے اس مزاج و مذاق اور مسلک و طریق پر خود امام صاحب کا قول شاہد عدل ہے کہ:
ان لم أجد في کتاب اللّٰہ ولا سنۃ رسول اللّٰہ آخذ بقول من شئت وأدع من شئت منھم، ولا أخرج من قولھم الی قول غیرھم۔
’’اگر قرآن و حدیث میں حکم نہ ملے تو صحابہ میں سے جس کا قول مناسب سمجھتا ہوں لیتا ہوں اور جس کا مناسب خیال کرتا ہوں چھوڑتا ہوں، لیکن ان کے قول سے باہر نہیں جاتا۔‘‘
اب اگر کسی خاص مسئلہ میں امام صاحب نے قول صحابی کو نہ لیا ہو تو سمجھنا چاہیے کہ اس کی کوئی اور وجہ ہوگی یا صحابہ میں اس مسئلہ میں ایک سے زیادہ رائیں رہی ہوں گی جو امام صاحب کے علم میں آئی ہوں گی، انہیں میں آپ نے ترجیح کا راستہ اختیار کیا ہوگا۔ 
iii) اگر کسی مسئلہ میں صحابہ کے ایک سے زیادہ اقوال ہوں تو پھر امام صاحب ان میں سے انتخاب کرتے ہیں اور جو قول قرآن سے قریب تر اور مزاجِ دین سے موافق تر محسوس ہوتا ہو اس کو اختیار کرتے ہیں۔
iv) فقہ حنفی کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام صاحب بعض اوقات آثار صحابہ سے خبر واحد میں تخصیص کے بھی قائل ہیں، مثلًا حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ:
لیس علی المسلم في عبدہ ولا فرسہ صدقۃ۔
’’مسلمان پر اس کے غلام اور گھوڑے میں زکوٰۃ نہیں ہے۔‘‘
اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عہنما سے مروی ہے کہ گھوڑوں میں زکوٰۃ کا واجب نہ ہونا ان گھوڑوں کے ساتھ مخصوص ہے جو جہاد کے لیے استعمال کیے جائیں۔ (البحر المحیط: ۴/۳۹۸) ایسے ہی مرتد کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: من بدّل دینہ فاقتلوہ  (جس نے اپنا دین بدل لیا، اس کو قتل کر دو) ۔ اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ہی سے یہ بھی مروی ہے کہ عورت مرتد ہو جائے تو اسے قتل نہ کیا جائے، چنانچہ حنفیہ نے عورت کو ارتداد کی بنا پر سزائے قتل سے مستثنیٰ کیا ہے، ان کے نزدیک اسے قید میں رکھا جائے گا تا آں کہ وہ تائب ہو جائے۔ 
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
اذا أقیمت الصلاۃ فلا صلاۃ الا المکتوبۃ۔ (ترمذی: ۲/۲۸۲، باب : ماجاء اذا اقیمت الصلاۃ)
’’جب نماز قائم کی جائے تو سوائے فرض نماز کے نماز نہیں پڑھی جائے۔‘‘
لیکن حضرت عبد اللہ بن مسعود، عبد اللہ بن عباس، عبد اللہ بن عمر اور ابوالدرداء رضی اللہ عنہم سے خاص طور پر نماز فجر میں اقامت نماز کے بعد بھی سنت پڑھنا ثابت ہے، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسی کو اختیار کیا ہے۔
(۸) حنفیہ کے یہاں حدیث پر عمل کا اس درجہ اہتمام ہے کہ ان کے یہاں یہ بات اُصول کے درجہ میں ہے کہ جن مسائل میں کوئی حدیث موجود نہ ہو، لیکن ایسی ضعیف روایات موجود ہوں جن کے راوی پر کذب کی تہمت نہ ہو تو بمقابلہ قیاس کے ایسی ضعیف احادیث پر عمل کیا جائے گا۔ مشہور محدث اور فقیہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے حنفیہ کا مذہب اس طرح بیان کیا ہے: 
ان مذھبھم تقدیم الحدیث الضعیف علی القیاس المجرد الذی یحتمل التزییف۔ (مرقاۃ المفاتیح: ۱/۳)
’’حنفیہ کا مذہب یہ ہے کہ حدیثِ ضعیف کو مجرد قیاس پر جو کھوٹ کا احتمال رکھتا ہے مقدم رکھا جائے۔‘‘
علامہ حصکفی رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث ضعیف پر عمل کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے:
شرط العمل بالحدیث الضعیف عدم شدۃ ضعفہ، وأن لا یعتقد سنیۃ ذلک الحدیث۔
’’حدیث ضعیف پر عمل کرنے کی شرط یہ ہے کہ اس کا ضعف شدید نہ ہو، اور اس کے سنت سے ثابت ہونے کا اعتقاد نہیں رکھے۔‘‘
اور شامی رحمۃ اللہ علیہ ’’شدت ضعف‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے رقمطرز ہیں :
شدید الضعف ھو الذی لا یخلو طریق من طرقہ عن کذاب أو متھم بالکذب۔ (رد المختار: ۱/۸۷)
’’شدید ضعف سے مراد یہ ہے کہ اس کی کوئی سند جھوٹے یا جھوٹ سے متہم راوی سے خالی نہ ہو۔‘‘
نہ صرف حدیث کے قبول و رد بلکہ اس کی توجیہ و تاویل کے باب میں بھی علامہ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کیسی شمشیر بے نیام ہیں، وہ محتاج اظہار نہیں، لیکن انہیں بھی اعتراف ہے کہ:
جمیع الحنفیۃ مجمعون علی أن مذھب أبی حنیفۃ ھی أن ضعیف الحدیث عندہ أولی من الرأی۔ (مقدمۃ علوم الحدیث للتھانوی: ۶۹)
’’تمام احناف اس بات پر متفق ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب یہ ہے کہ ان کے نزدیک ضعیف حدیث بھی قیاس سے بڑھ کر ہے۔‘‘
اور علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں:
وأصحاب أبي حنیفۃ مجمعون علی أن مذھب أبي حنیفۃ أن ضعیف الحدیث عندہ أولی من القیاس والرأی، وعلی ذلک مبني مذھبہ کما قدم حدیث القھقھۃ مع ضعفہ علی القیاس والرأی۔ (اعلام الموقعین: ۱/۷۷)
’’حنفیہ اس بات پر متفق ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب یہ ہے کہ ضعیف حدیث ان کے نزدیک قیاس اور رائے پر مقدم ہے، اور اسی پر ان کے مذہب کی بنیاد ہے، جیسا کہ انہوں نے قہقہہ کی حدیث کو اس کے ضعیف ہونے کے باوجود قیاس اور رائے پر ترجیح دی ہے۔‘‘
اس لیے حنفیہ کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ اپنی رائے کے مقابلہ میں صحیح و ثابت احادیث کو نظر انداز کر دیتے ہیں، یا تو ان کے منہج استدلال سے ناواقفیت کے باعث ہے، اور یہ منہج اُصولی طور پر محدثین و سلف صالحین کے نزدیک قریب قریب متفق علیہ ہے، یہ اور بات ہے کہ دوسرے مکاتب فقہ میں اُصولِ روایت پر قناعت کیا گیا اور وجوہِ درایت پر کم توجہ دی گئی اور حنفیہ نے عملی طور پر اس کو برتا ہے، یا پھر یہ بہتان عظیم اور کذبِ اثیم ہے۔ والی اللّٰہ المشتکي۔

اسلامی جمہوریت کا فلسفہ ۔ شریعت اور مقاصد شریعت کی روشنی میں (۱)

مولانا سمیع اللہ سعدی

سولہویں صدی میں مارٹن لوتھر کی اصلاح مذہب کی تحریک مغربی دنیا میں انقلابات اور تبدیلیوں کا نکتہ آغاز ثابت ہوئی اور مغربی دنیا انقلاب ،تبدیلی ،جدیدیت،پرانے تصورات و مفروضات کی بیخ کنی،مذہب پرستی اور کسی مابعد الطبیعی طاقت کوماننے کی بجائے انسانیت پرستی اور عقل پرستی کی ایک ایسی شاہراہ پر گامزن ہوئی، جس نے حیاتِ انسانی کا ہر شعبہ مکمل طور پر تبدیل کیا۔مغربی مفکرین و فلاسفہ نے انسانیت پرستی،مساوات ،ترقی،آزادی اور عقل پرستی کا نعرہ کچھ اس انداز سے لگایا کہ مغربی دنیا کا ہر فرد اپنے ماضی سے لاتعلقی،مذہب سے بیزاری اور ان مفکرین کے طے کردہ خود ساختہ اصولوں کے مطابق اپنی زندگی کو مکمل طور پر تبدیل کرنے پر آمادہ ہوا۔
مخصوص اسباب اور پس منظر کی بنا پر اس نعرے کی تاثیر اور جاذبیت اتنی زیادہ تھی کہ بقیہ دنیا بھی آہستہ آہستہ مغرب کی ہم نوا بنتی گئی،چناچہ مغربی مفکرین کے خود ساختہ اصولوں کی آفاقیت اورجامعیت ایک طے شدہ اصول اور مسلمہ نظریہ بنتا گیا۔
مغربی دنیا نے اپنے خودساختہ اصولوں اور مسلمات کی بنیاد پر زندگی کا ہر شعبہ از سرنو مرتب کیا۔ آزادی، مساوات،ترقی،عقل پرستی اور انسان کی مکمل خود مختاری کی بنیاد پر حکومت و ریاست کے لیے جو نظام تجویز ہوا،وہ لبرل جمہوریت کا تصور تھا۔لبرل مغربی جمہوریت کی ظاہری ابتدا انقلاب فرانس سے ہو ئی ،لیکن تعجب اور حیرت کی بات یہ ہے کہ حیاتِ انسانی کے لیے مغرب کے بنائے ہوئے دیگر نظاموں کی بنسبت لبرل جمہوریت کی مقبولیت کی رفتار کافی سست رہی ۔ اور انقلاب فرانس 1789سے لیکر جنگ عظیم اول 1914تک صرف چند مغربی ممالک نے لبرل جمہوریت کو ریاست وحکومت کے لیے بطورِ نظام اختیار کیا تھا۔ البتہ جنگ عظیم اول کے نتیجے میں جب خلافت عثمانیہ شکست و ریخت کا شکار ہوئی اور خلافت عثمانیہ کے مختلف خطے نافرمان اولاد کی طرح اپنے مرکز سے سازشوں کا شکار ہو کر جدا ہوئے ،تو مغرب نے لبرل جمہوریت کو جدید دنیا کے لیئے بطورِ نظام متعارف کروانے کے لئے کو ششیں تیز ترکردیں۔ سفارتی ،سیاسی ، عسکری ، فکری ،غرض ہر سطح پر لبرل جمہو ریت کو عام کرنے پر کچھ اس انداز سے محنت ہوئی کہ چند عشروں میں آدھی سے زائد دنیا نے لبرل مغربی جمہوریت کو قبول کیا ۔ اقوام متحدہ کے ادارے نے جہاں دیگر مغربی خود ساختہ اصولوں کو آفاقیت عطا کی ، وہاں ریاست وحکومت کے لئے لبرل جمہوریت کے نظام کو جدید دنیا کامتفقہ و مسلمہ نظریہ بنایااور آج اکیسویں صدی میں جمہوریت کو اتنا تقدس، عظمت اور احترام حاصل ہے کہ جمہوریت کے قیام کے لئے اقوام متحدہ دنیا کے ہر ملک میں مغربی اور امریکی جنگ کو قانونی جواز تک فراہم کرتا ہے ۔

لبرل مغربی جمہوریت کے بنیادی خدوخال اور اصول

اس سے پہلے کہ لبرل جمہوریت کی اسلام کاری اور اسلامی جمہوریت کے فلسفے پر بحث ہو لبرل مغربی جمہوریت کے بنیادی اصول ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے تاکہ اس بات کا تجزیہ آسان ہو کہ اسلامی دنیا میں لبرل مغربی جمہوریت کے کن اصولوں کی اسلام کاری کس انداز سے کی گئی اور ان صولوں میں ترمیم و تبدیل سے جمہوریت کا نظام کس طرح اسلامی تعلیمات اور مقاصدِ شریعت کے ہم آہنگ ہو گیا ۔

۱۔عوام کی حاکمیت

لبرل مغربی جمہوریت کا بنیادی اور اساسی رکن عوام کی کلی حاکمیت اور خود مختاری کا تصور ہے کہ کسی بھی ریاست کے عوام کو اپنی مرضی کے قوانین بنانے ،اپنی پسند کے نمائندے چننے اور اپنی چاہت و خواہشاات کے مطابق اپنے ملک کا نظام چلانے کا مکمل اختیار ہے ۔

۲ ۔عوامی نمائندوں کا تصور

لبرل مغربی جمہوریت میں عوامی نمائندگی پارلیمنٹ کی شکل میں ہوتی ہے کہ ریاست کے ہرہر فرد کو چونکہ ملکی معاملات میں شریک کرنا ایک ناممکن سی بات ہے اس لئے اس کا طریقہ یہ اختیار کیا گیا کہ ملکی عوام اپنے نمائندے کثرت کی بنیاد پر منتخب کریں گے اور پارلیمنٹ کی صورت میں یہ ارکان عوامی نمائندگی کا فریضہ سرانجام دیں گے۔

۳۔پارلیمنٹ کے لا محدود اختیارات

لبرل مغربی جمہوریت میں چونکہ پارلیمنٹ ریاست کے جملہ افراد کی نمائندگی کرتا ہے اس لئے پارلیمنٹ ملک کا سپریم اور طاقت ور ادارہ ہوتا ہے اور ملک میں ہر قسم کی قانون سازی ،تبدیلی اور اصلاحات کا اختیار پارلیمنٹ کے ارکان کے پاس ہوتا ہے اور ارکانِ پارلیمنٹ اکثریت کی بنیاد پر ہر قسم کا فیصلہ کرنے اور ہر قسم کی قانون سازی کا مجاز ہوتے ہیں۔

۴۔ آئین و دستور کی بالادستی اور تقدس

لبرل مغربی جمہوریت میں عوامی نمائندے قانون کا ایک مجموعہ مرتب کرتے ہیں جو اس ملک کا آئین اور دستور کہلاتا ہے ۔یہ ملکی دستور عوامی نمائندوں کی کثرت کی بنیاد پرمنظور ہوتاہے۔ آئین کو انتہائی تقدس اور عظمت کا درجہ ملتا ہے اور ملک کا کوئی بھی فرد خواہ وہ صدر ہو یا عام آدمی، دستور اور آئین کے خلاف کسی قسم کی لب کشائی نہیں کر سکتا اور نہ ہی ملکی عداتیں دستور اور آئین کے خلاف کسی قسم کا فیصلہ کر سکتی ہیں۔ ملک کے تمام جھگڑوں ،تنازعات اور اختلافات میں آئین کو مرجعیت اور فیصلہ کن حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ 

۵۔ بالغ رائے دہی کا تصور اور سیاسی مساوات

لبرل مغربی جمہوریت میں ملک کا ہر بالغ فرد رائے دہی اور ووٹنگ کا اہل ہوتا ہے تعلیم یافتہ ہو یا جاہل،مرد ہویا عورت،دیہی علاقے کا ہو یا شہری، اسی طرح ملک کے جملہ افراد کے ووٹ کی یکساں قیمت اور اہمیت ہوتی ہے اور ملک کے کسی بھی فرد کے ووٹ کو دوسرے فرد کے ووٹ پر برتری حاصل نہیں ہوتی ۔نیزملک کا ہر فرد پارلیمنٹ کا ممبر اور امیدوار بن سکتا ہے۔بعض ممالک میں مخصوص تعلیم کی اہلیت کی شرط ہے لیکن جمہوریت کی روح اور اس کا فلسفہ یہی کہتا ہے کہ ملک کے ہر فرد کو پارلیمنٹ کا ممبر بننے کا بنیادی حق حاصل ہے ۔جمہوریت کی اصطلاح میں اسے سیاسی مساوات کہتے ہیں۔

۶۔ کثرتِ رائے کا تصور

لبرل مغربی جمہوریت میں ووٹنگ کاعمل ہو یا پارلیمنٹ میں قانون سازی تمام فیصلے اکثریت کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں اور اکثریت کا فیصلہ حتمی شمار ہوتا ہے اکثریت کے فیصلے سے رو گردانی جمہوریت کی بنیادوں سے انحراف سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی کسی جمہوری نظام میں اکثریت کے فیصلے کو رد کرنے کا کسی کو اختیار ہوتا ہے ۔

۷۔سیاسی جماعتوں اور حزبِ اختلاف کا تصور

جمہوری نظام میں ملک کے افرادانفرادی حیثیت میں بھی پارلیمنٹ کا ممبر بننے کے لئے تگ و دو کر سکتے ہیں اور لسانی ،علاقائی،طبقاتی نظریاتی اور دیگر اشتراکات کی بنیاد پرایک جماعت بھی تشکیل دے سکتے ہیں ۔سیاسی جماعت بندی کی کوئی حد متعین نہیں ہوتی۔پھر انتخابات کے بعد اکثریت جماعت کو حکومت بنانے کا حق مل جاتا ہے اور وہ ملک کا نظم و نسق چلانے کا بیڑااٹھا لیتی ہے ۔جبکہ دیگر جماعتیں حزبِ اختلاف بن جاتی ہیں اور یوں ملک کی سیاسی جماعتیں حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف میں تقسیم ہوجاتی ہیں ۔حزبِ اختلاف کا اصل تصور تو یہ ہے کہ اہلِ اقتدار کے لئے وہ پریشر گروپ کا کردار ادا کرتا رہے تاکہ اہلِ اقتدار حکومت و اختیار کے بل بوتے پر ملک وملت کے لئے نقصان دہ معاملات کرنے سے باز رہے لیکن عمومی طور پر جمہوری ملکوں میں حزبِ اختلاف کی وجہ سے پروپیگنڈے،بد اعتمادی اور حکومت کے خلاف افواہوں اور تبصروں کا ایک بازار گرم ہوتا ہے ۔نیز سیاسی جماعتوں کی وجہ سے ملک کے عوام ایک دائمی تقسیم کا شکار ہوتے ہیں۔بعض ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں دو جماعتی نظام رائج ہے ایک حزبِ اقتدار میں ہوتی ہے جبکہ دوسری جماعت حزبِ اختلاف کا کردار ادا کرتی ہے ۔

۸۔مساوات اور آزادی

جنسی ،سیاسی،مذہبی مساوات اور اپنے نظریات اور رائے کے اظہار کی مکمل آزادی جمہوریت کے بنیادی اصولوں میں سے ہے۔ ریاست کی نظر میں تمام افراد برابر سمجھے جاتے ہیں۔ ہر ایک کو اپنے مذہب پر عمل اور مذہب کی تبلیغ اور نشر واشاعت کا مکمل اختیار ہو تا ہے سب کو یکساں سیاسی حقوق حاصل ہو تے ہیں۔خلاصہ یہ کہ جمہوری نظام کا فلسفہ کہتا ہے کہ ریاست افراد کے درمیان مذہب، جنس یا کسی اور وجہ سے کسی قسم کی کوئی تفریق نہیں کرے گی۔ 

۹۔ مذہب اور ریاست کی علا حدگی یعنی لبرلزم وسیکولرزم

لبرل مغربی جمہوریت کی پوری عمارت سیکولرزم کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ سیکولرزم کا سادہ اور آسان مفہوم یہ ہے کہ مذہب خواہ کوئی بھی ہو ،ریاستی معاملات اور امور میں دخل انداز اور اثر انداز نہیں ہو گا۔مذہب افراد کا نجی معاملہ ہے ۔ ریاست کے تمام امور مذہب سے بالکل لا تعلق رہیں گے۔ریاست کے قوانین کے مذہب کی بنیاد پر نہیں بنائے جائیں گے۔

۱۰۔ اختیارات کی تقسیم اور حکومت کی مدت

لبرل مغربی جمہوریت میں اختیارات تقسیم ہو تے ہیں ۔ملک کا نظم ونسق چلانے کاکام انتظامیہ کے سپرد ہو تا ہے۔ قانون سازی کا فریضہ پارلیمنٹ کا ادارہ سر انجام دیتا ہے اور دستور کے مطابق فیصلے کرنے اور دستور کی تشریح عدالتوں کا کام ہو تا ہے۔یہ تینوں ادارے آپس میں بالکل مساوی ؔ حیثیت رکھتے ہیں۔ہر ایک کا اپنا دائرہ کار ہو تا ہے ، کوئی دوسرے پر حاکم اور بالادست نہیں ہوتا۔اس کے علاوہ جمہوری نظام میں حکومت کی مدت مقرر ہو تی ہے ہر پانچ یا چار سال بعد دوبارہ انتخابات ہو تے ہیں اور ان انتخابات کے نتیجے میں ز سرِنو حکومت بنتی ہے۔

لبرل مغربی جمہوریت کی اسلام کاری کی بحث

لبرل مغربی جمہوریت کی اسلام کاری پر بحث کے لئے اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ لبرل مغربی جمہوریت کے بنیادی اصولوں اور اسلامی تعلیمات میں کتنا تضاد ہے اور کتنی ہم آہنگی؟لبرل مغربی جمہوریت اور اسلامی تعلیمات میں خصوصاً وہ تعلیمات جو حکومت و ریاست سے متعلق ہیں ،مشترک اصول کتنے ہیں؟ ظاہر ہے اگر لبرل مغربی جمہوریت اور اسلامی تعلیمات میں موافقت زیادہ ہے تو اس نظام کو اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ کرنا آسان ہو گا۔ البتہ یہ بات پھر بھی قابل بحث رہے گی کہ جمہوریت کو مکمل اسلامی بنانے کے بعد یہ نظامِِ حکو مت مقاصد شریعت سے کتنی مطابقت رکھتا ہے ؟ اور لبرل جمہوریت کی ’’اسلامی شکل ‘‘سے وہ مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں؟لیکن اگر جمہوریت کے سارے یا اکثر اصول اسلامی تعلیمات سے متصادم ہیں تو محض ایک یا دو چیزوں میں ترمیم کرنے سے لبرل جمہوریت اسلامی نہیں بن سکتی اور جزوی ترمیم سے اس پر اسلامی کا لیبل لگانا درست نہیں ہو گا ،کیونکہ یہ اصول ہے کہ اسلامی اور غیر اسلامی کا آمیزہ غیر اسلامی ہی کہلاتا ہے ۔اسی کو ٹھیٹھ علمی اصطلاح میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ کسی چیز کا اسلامی ہونا موجبہ کلیہ ہے ،جبکہ غیر اسلامی ہو نا سالبہ جزئیہ ہے ۔ 
اب ہم لبرل مغربی جمہوریت کے مذکورہ بنیادی اور اساسی اصولوں کا شریعت کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں ۔اسکے بعد اس پر بحث کریں گے کہ اسلامی ممالک نے جمہوریت کو کن ترمیمات کے ساتھ بطورِ نظام کے قبول کیا،خصوصا پاکستان میں رائج جمہوری نظام پر اسلامی نکتہ نظر سے بحث کریں گے۔

لبرل مغربی جمہوریت کے اصول شریعت کے روشنی میں عوام کی کلی حاکمیت کا تصور

عوام کی کلی حاکمیت اور خود مختاری کا اصول اسلامی تعلیمات سے کلی طور پر متصادم ہے ۔ نصوص اللہ کی کلی حاکمیت اور احکامِِ خداوندی کی ہر اعتبار سے بالا دستی پر دلالت کرتے ہیں، ان الحکم الا للہ ، الا لہ الخلق والامر، ان الدین عند اللہ الا الاسلام، ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلں یقبل منہ، اور اس جیسی آیتیں تقاضا کرتی ہیں کہ بالادستی صرف اور صرف اللہ کے نازل کردہ دین کے لئے ہے ۔ لہذا اسلامی ریاست میں قانون سازی اللہ کی منشاء اور چاہت کے مطابق ہوگی اور دنیا میں اللہ کی چاہت کا مظہر صرف دینِ اسلام ہے ، اس لئے لبرل مغربی جمہوریت کی اسلام کاری کرتے وقت عوام کی جزوی و کلی حاکمیت کے تصور کی بیخ کنی کرنی ہو گی اور ایسی ترمیم کرنی ہوگی کہ حکمران عوامی نمائندہ ہونے کی بجائے اللہ اوراس کے رسول کا نمائندہ ہو اور عوامی خواہشات کی بجائے اللہ اور اس کے رسول کی رضا اور خوشی کو مد نظر رکھے۔

پالیمنٹ کو قانون سازی کے لامحدود اختیارات

یہ اصول بھی شریعت سے متصادم اور اسلامی تعلیمات کے منافی ہے ۔اسلامی ریاست میں قانون سازی صرف مباحات اور انتظامی امور میں ہو تی ہے ، مسائل منصوصہ اور متفق علیہامسائل بلا ترمیم و تبدیلی کے لاگو ہو تے ہیں ، البتہ مسائل اجتہادیہ میں اہل اجتہاد اور اسلامی علوم کے ماہرین یعنی فقہا اور علماء حالات کے مطابق مخصوص حدود کے اندر رہتے ہوئے قانون سازی کر سکتے ہیں ۔ لہذا جمہوریت کی اسلام کاری کرتے وقت پارلیمنٹ کے لا محدود اختیارات پر قد غن لگانا ہو گی ، اس کے لئے علاوہ پارلیمنٹ چونکہ قانون ساز مجلس ہے ،اس لئے اس کی اہلیت کے لئے وہی شرائط ہو ں گی جو مسائل و نصوص میں بحث کے لئے ہو تی ہیں ، کیو نکہ اسلامی تعلیمات کی رو سے عوم اور شرعی علوم سے بے بہرہ افراد کے لئے تقلید و اتباع کا حکم ہے ۔ خلاصہ یہ کہ اسلامی جمہوریت میں پارلیمنٹ سے متعلق دو باتیں طے کرنی ہوں گی:
ایک، پارلیمنٹ کے اختیارات کے حدود و قیود طے کرنا
دوم، پارلیمنٹ کے ممبر بننے کے لئے مخصوص شرائط لگانا

آئین و دستور کی ہر صورت میں بالادستی اور تقدس

آئین و دستور کی بالا دستی ،تقدس اور کلی حاکمیت کا اصول بھی شریعت کے منافی ہے۔ قرآن و حدیث کے مطابق ہر صورت میں بالا دستی صرف اور صرف اللہ کی نازل کردہ شریعت اور دین اسلام کی ہے ۔ ہر ایسا اصول ،قانون اور دستور جو شریعت کے متناقض ہو، دینِ اسلام کے مقابلے میں اس کی کچھ بھی حیثیت نہیں ہے ، خواہ ملک کے تمام افراد بلا کسی اختلاف کے اسے قانون بنائیں لہذا جمہوریت کی اسلام کاری کے وقت ایک تو آئین اور دستور کو مکمل اسلامی شکل میں ڈھالنا ہوگا اور اس کے بعد بھی ایسا نظام بنانا ہوگا جس کی رو سے آئین اور دستور اسی وقت تک محترم و مقدس سمجھا جائے گا جب تک وہ شرعی تعلیمات پر مشتمل ہو۔اگر آئین اوردستور کی کوئی بھی شق شریعت کے خلاف ہوتو اسے ہر صورت میں کالعدم سمجھا جائے گا۔اسے کالعدم قرار دینے کے لئے نہ کسی سفارش کی ضرورت ہو گی اور نہ پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت کی۔نیز پارلیمنٹ کا ہر ایسا پاس کیا ہوا قانون نا قابلِ قبول ہو گا جو شریعت سے متصادم ہو۔

بالغ رائے دہی اور سیاسی مساوات کا تصور

اس اصول کا خلاصہ دو باتیں ہیں : 
نمبر ۱ ۔انتخابِ امیر کا حق ملک کے ہر بالغ فرد کو حاصل ہے ۔
نمبر ۲۔۔ تمام افراد کی رائے کلی طور پر مساوی ہے۔
اس اصول کے دوسرے حصے کے بطلان پر نقل کے ساتھ عقل بھی واضح دلالت کرتی ہے کہ ہر آدمی کی رائے اور ہر آدمی کا مشورہ یکساں نہیں ہے ۔کیا عالم اور جاہل کی رائے برابر ہے؟کیا عقل مند، صاحبِ حکمت اور فہم اور شعور رکھنے والے اور اجڈ ،گنوار اور عقل و خرد سے عاری ایک انسان کی رائے یکساں ہو سکتی ہے؟ نیز عقل کے ساتھ یہ اصول شریعت کے بھی خلاف ہے ۔قرآن پاک میں ہے: ’’ قل ہل یستوی الذین یعلمون والذین لایعلمون، افمن کان مؤمناً کمن کان فاسقاً‘‘ اور اس جیسی آیتیں نیک و بد ، عالم و جاہل اور کافر و مومن کے فرق پر دلالت کرتی ہیں۔
اسی طرح آپ نے شیخین کے بارے میں فرمایا: ’’لو اجتمعتما ما خالفتکما‘‘ (مسند احمد)‘‘یعنی جب تم اتفاق کر لیتے ہو تو میں اس کی مخالفت نہیں کرتا‘‘۔
گویا اس حدیث میں شیخین کی رائے کو باقی تمام صحابہ کی رائے پر فضیلت دی ہے۔
اس اصول کے پہلے حصے کے بارے میں چند باتیں پیشِ خدمت ہیں :
نمبر ۱۔ اسلامی تعلیمات کی رو سے انتخابِ امیر میں مشورہ ضروری ہے البتہ اسلامی سیاست پر لکھنے والے تقریباً تمام مفکرین کا اتفاق ہے کہ مشورہ ہرہر فرد سے لینے کی بجائے صرف اہلِ حل و عقد سے لیا جائے یعنی معاشرے کے وہ با اثر افراد جو دینی،دنیاوی اور علمی وجاہت رکھتے ہوں، لوگوں کی نظر میں محترم سمجھے جاتے ہوں اور لوگ ان کی بات اور رائے کو وقعت دیتے ہیں۔ اس بات پر تو بحث کی گنجائش ہے کہ اہلِ حل و عقد کو متعین کرنے کی صورتیں کیا کیا ہو سکتی ہیں ؟ویسے بھی معاشرے میں ذی وجاہت لوگ تقریباً ممتاز اور متعین ہوتے ہیں، تھوڑی سی چھان بین سے مزید ممتاز ہو سکتے ہیں۔البتہ اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ انتخابِ امیر اہلِ حل و عقد کریں گے اور بقیہ تمام امت اس منتخب شدہ امیر کی اطاعت کی بیعت کرے گی۔
علامہ ماوردی الاحکام السلطانیہ میں لکھتے ہیں:
فان اجاب الیھا بایعوہ علیھاوانعقدت ببیعتھم لہ الامامۃ فلزم کافۃ الامۃ الدخول فی بیعتہ والانقیاد لطاعتہ (صفحہ ۸)
اسی بات کو علامہ ابو یعلی نے الاحکام السلطانیہ میں(صفحہ 4 2 (علامہ جوینی نے غیاثی میں)صفحہ 46)ابنِ خلدون نے مقدمہ میں (صفحہ 161)او ردیگر فقہاء نے کتاب الا مارہ کے تحت ذکر کیا ہے۔
بلکہ مشہور محدث علامہ نووی نے تو اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ اہلِ حل وعد سے امامت منعقد ہو جائے گی ۔
چنانچہ شرح مسلم میں لکھتے ہیں:
واجمعواعلی انعقاد الخلافۃ باالاستخلاف وعلی انعقادھا بعقد اہلِ الحل والعقدلانسان اذالم یستخلف الخلیفۃ۔
نمبر ۲۔ فقھاء کی تصریحات کے ساتھ خلفاء راشدین کا طریقہ انتخاب بھی اس کی تائید کرتا ہے ،کیونکہ حضرت ابوبکر،حضرت عثمان اور حضرت علی کی خلافت اہلِ حل و عقد کی بیعت سے منعقد ہو گئی ،پھر بقیہ امت نے بیعتِ طاعت کی ۔بلکہ حضرت علی کو جب باغی ٹولے نے خلافت کی پیش کش کی تو حضرت علی نے فرمایا : 
لیس ذلک الیکم انما ہو لاہل الشوری و اہل بدر (الامامہ و السیاسہ لابن قتیبہ) 
خلفاء راشدین کے انتخاب میں اس وقت کے سرکردہ افراد کے علاوہ بقیہ تمام سلطنت میں سے کسی شخص کی رائے نہیں لی گئی ،اگر اسلامی تعلیمات کی رو سے انتخابِ امیر ہر شخص کا حق ہے ،تو خلفاء راشدین امت کے اس حق کو کیسے پامال کر سکتے تھے۔نیز اس زمانے میں پوری اسلامی قلم رو سے کسی نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا ۔خلفاء راشدین اور صحابہ کرام کا طرزِ عمل دلالت کرتا ہے ،کہ انتخاب امیر ہر شخص کا حق نہیں ہے ،بلکہ امت کے ذی شعور،عقل مند اور علم سے بہر ور افراد اسلامی تعلیمات کی روشنی میں خلیفہ کا انتخاب کریں گے۔
نمبر ۳۔۔بعض معاصرین نے اس بارے میں یہ رائے اختیار کی ہے کہ اہلِ حل و عقد کا فریضہ انتخاب کی بجائے محض نامزدگی ہے کہ وہ اپنے فہم سے خلافت کے لئے شخص کو نامزد کرتے ہیں ،پھر بقیہ امت کی بیعت سے اس کی امامت منعقد ہوتی ہے ۔لیکن یہ نظریہ محض نظریہ ہے۔خلفاء راشدین کا طریقہ انتخاب اور فقہاء کی تصریحات اس کی تائید نہیں کرتیں۔اگر واقعی بات ایسی ہے ،تو فقھاء اہلِ حل و عقد کی بیعت کو بیعتِ انعقاد اور بقیہ امت کی بیعت کو بیعتِ طاعت کیوں کہتے ہیں؟ نیزعلامہ ماوردی اور دیگر مفکرین کی عبارات واضح دلالت کرتی ہیں کہ اہلِ حل و عقد کی بیعت سے خلافت منعقد ہو جاتی ہے ،بلکہ امام جوینی نے باقا عدہ ان افراد کوالگ عنوان کے تحت ذکر کیا جو انتخابِ امام کے اہل نہیں ہیں(دیکھئے صفحہ46 تا صفحہ (50اور بقیہ امت پر اس امام کی اطاعت کی بیعت لازم ہو جاتی ہے۔
نمبر۵۔سیاسیاتِ اسلامیہ پر لکھنے والے کچھ معاصر مفکرین نے جو مذکورہ نظریہ اختیار کیا ہے اس کی اصل وجہ یہ ہے ،کہ ان کے بقول انعقاد کا حق صرف اہلِ حل و عقد کو دینا اور بقیہ امت کے افراد کو محروم کرنا ایک قسم کا استبداد ہے اور یہ طریقہ کار عوام کی غلامی اور مقہوریت کی ایک شکل ہے۔حالانکہ اسلام ہر فرد کو اپنی رائے کے جائز اظہار میں مکمل آزادی فراہم کرتا ہے ،لیکن اس قسم کے شبھات محض نظری ہیں ۔کیونکہ اہلِ حل و عقد کوئی خاص طبقہ ،خاص جماعت اور خاص گروہ کا نام نہیں بلکہ امتِ مسلمہ کے زیرک ،باشعور اور دینی و دنیاوی وجاہت والے افراد کو اہلِ حل و عقد کہا جاتا ہے ،خواہ ان کا تعلق کسی بھی خطے سے ہو ۔ہر فرد کو انتخاب کا حق دینے سے عام طور پر اہلیت رکھنے والا شخص منتخب نہیں ہوتا ،کیونکہ عوام کی اکثریت فہم و شعور ،علم وادراک اور صحیح افرادکی پہچان سے قاصر ہوتی ہے۔نیزمعاشرے کے ذی وجاہت لوگوں کی رائے عموماً پورے معاشرے کی رائے سمجھی جاتی ہے۔لہذا جب ہر علاقے ،ہر صوبے اور ہر خطے کے معاملہ فہم افراد انتخاب میں شریک ہیں تو یہ استبداد کے زمرے میں کیسے آتا ہے؟ اگر یہ استبداد ہے تو استبداد کی یہ شکل لبرل مغربی جمہوریت میں بھی پائی جا تی ہے کہ پارلیمانی نظام میں وزیرِ اعظم کے انتخاب کا فیصلہ ارکانِ پارلیمنٹ کرتے ہیں اور ملکی عوام براہِ راست اس انتخاب میں حصہ نہیں لیتے۔
خلاصہ یہ نکلا جمہوریت کی اسلام کاری میں اس اصول میں ایک تو یہ ترمیم کرنی ہو گی ،کہ انتخابِ امیر اور ملکی نظم و نسق اہلِ حل و عقد کے مشورے سے چلانا ہوگا۔البتہ اہلِ حل وعقد پر مبنی مجلسِ شوریٰ میں عوام سے مشورہ لیا جا سکتا ہے ،لیکن عوام کی رائے لازم نہیں ہو گی۔اس میں عوام کی رائے کے علاوہ دیگر شرائطِ اہلیت کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا۔نیز اسلامی تعلیمات کی رو سے چو نکہ اپنا تزکیہ ،اپنی اہلیت اور اپنی دین داری کا دعویٰ کرنا نہایت غیر مستحسن امر ہے۔اس لئے اہلِ حل و عقد کے مجلس شوریٰ کا رکن بننے کے لئے جو فرد مطالبہ کرے، اس پر اشتہاری مہم چلائے اور اپنی نامزدگی کے بارے میں پروپیگنڈہ کرے ،تو اس کی اہلیت محلِ نظر ہو گی۔اس کی مثال یوں ہے کہ لبرل مغربی جمہوریت میں جب نگران وزیرِ اعظم کا معاملہ آتا ہے، تو اگر کوئی خود نگران وزیرِ اعظم بننے کا مطالبہ کرے ،اس پر دلائل دے اور اپنی غیر جانبداری کا پروپیگنڈہ کرے، تو اس کو رد کیا جاتا ہے ،بلکہ ایک ایسے شخص کو نگران وزیرِ اعظم نامزد کیا جاتا ہے، جس کی غیر جانبداری کی گواہی دوسرے لوگ دیں ۔اس کے علاوہ مشورہ دینا چونکہ اہلِ حل و عقد کی ایک ذمہ داری اور ایک امانت ہے، اس لئے اس پر وہ بھاری بھرکم معاوضات کے مستحق بھی نہیں ہوں گے، اس لئے اسلامی جمہوریت میں اہلِ حل و عقد محض خیر خواہی اور امتِ مسلمہ کی بہتری کے لئے مشورہ اور رائے دیں گے۔جب یہ منصب مالی فوائد سے خالی ہو گا ،تو مقاصدِ شریعت مزید بہتر انداز میں حاصل ہوں گے ،کیونکہ مالی فوائد کے نہ ہونے کی وجہ سے اس کی طرف ہر کسی کی رغبت بھی نہیں ہو گی اور یوں درست افراد کے انتخاب تک رسائی زیادہ بہتر اور آسان ہو گی۔ 
خلاصہ یہ کہ جمہوریت کی اسلام کاری میں اس اصول میں درجہ ذیل ترمیمات کرنی ھوگی ۔
نمبر ۱۔ انتخاب امیر کا حق صرف اہل حل و عقد کو ہو گا ،ملک کا ہر شخص اس میں حصہ دار نہیں ہوگا۔
نمبر ۲۔ اہل حل و عقدصرف مشورہ اور رائے کا فریضہ سر انجام دیں گے ۔اس کام پر نہ تو ان کو معاوضہ دیا جائے گا اور نہ وہ اکثریت کے بل بوتے پر حکومت پر اثر انداز ہوں گے۔
نمبر ۳ ۔ایک مرتبہ جب اہل حل و عقد متعین ہو جائے تو مختلف عوامل کی بنیاد پر اس میں کمی بیشی تو ہو گی ،لیکن یہ اصول درست نہیں ہو گا کہ ایک مخصوص مدت تک تو وہ اہل حل و عقد ہوں ،ان کی عقل ، ان کا فہم ،مسلم ہو،پھر دوسری مدت میں ان کی عقل مندی کالعدم ہوجائے اور نئے اہل حل و عقد کی تلاش شروع ہو جائے۔باقی قانون سازی تو اہل حل و عقد میں سے صرف و ہی لو گ کریں گے جو دینی علوم کے ماہر ہوں ،اگرچہ دنیاوی معاملات میں ماہرین سے حقیقت حال معلوم کر کے ہی اس پر کوئی شرعی حکم لگایا جائے گا۔
یعنی جمہوریت کی اسلام کاری میں بالغ رائے دہی اور ہر رائے کی برابری کے اصول میں اسلامی تعلیمات اور مقاصدِ شریعت کے مطابق مناسب ترمیمات کرنی ہو گی ۔

کثرتِ رائے کی حتمیت کا اصول

کثرتِ رائے نہ تو اتنی بری چیز ہے کہ کسی بھی اعتبار سے قابلِ التفات نہیں ہے اور نہ اتنی اچھی ہے کہ ہر حال میں، ہر صورت میں اس کو ماننا لازمی اور حتمی ہے۔ اسلام کا اصول تو یہ ہے کہ الحق احق ان یتبع کہ اختلافِ رائے کے وقت دلائل اور قرائن سے جو رائے حق کے قریب ہو ،اسی کو اختیار کیا جائے خواہ اقلیت کی رائے ہو یا اکثریت کی ۔کسی رائے کے حق میں کثرت کی موافقت بھی اگرچہ اس کے حق اور درست ہو نے کے قرائن میں سے ایک قرینہ ہے ،لیکن یہی آخری اور حتمی قرینہ نہیں ہے ۔ در حقیقت لبرل مغربی جمہوریت کا یہی وہ اصول ہے جس کی مدد سے ملک میں خلافِ عقل ، خلافِ تہذیب اور خلافِ انسانیت اور اغراض پر مبنی ہر قسم کی قانون سازی ہو سکتی ہے ۔ اسی اصول کا کرشمہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں افراد کے کردار ، فہم و شعور اور تعلیم و تربیت کی بجائے کثرت اور محض کثرت کے لئے کوشاں رہتی ہیں اور یوں ملک میں مفاد پرستوں کا ایک ایسا ٹولہ وجود میں آجاتا ہے جو اقتدار و حکومت کے لئے اپنی پارٹیاں اور وفاداریاں ہر مدت کے بعد تبدیل کرتا ہے ، کیونکہ جمہوریت کا نظام صرف اور صرف کثرت کی صورت میں سیاسی جماعتوں اور شخصیات کی رائے کو وقعت دیتا ہے نہ کہ دلائل ، قرائن اور دیگر عوامل کی بنیاد بنا پر۔لہذا لبرل جمہوریت کی اسلام کاری کرتے وقت اس اصول میں یہ ترمیمات کرنی ہو گی ۔
۱۔مسائلِ منصوصہ اور متفقہ مسائل میں کثرتِ رائے کا کوئی اعتبار نہیں ہو گا ۔
۲۔مسائلِ اجتہادیہ اور انتظامی امور میں کثرتِ رائے کا اعتبار کیا جائے گا ،البتہ حالات اور دلائل کے اعتبار سے اقلیت کی رائے بھی اختیار کی جا سکے گی۔
۳۔کثرتِ رائے کو ماننا قانوناً لازمی اور حتمی نہیں ہو گا۔
غرض کوئی ایسا طریقہ اپنا یا جائے گا جس کی رو سے کثرتِ رائے کی حتمیت اور لزوم ختم ہو جائے ،کیو نکہ کثرتِ رائے کی ہر اعتبار سے حتمیت اسلامی تعلیمات اور مقاصد الشریعہ سے کسی طرح سے ہم آہنگ نہیں ہے۔

سیاسی جماعتوں اور حزبِ اختلاف کا تصور

لبرل مغربی جمہوریت میں حصولِ اقتدار کے لئے نسلی ، لسانی،علاقائی، ثقافتی اور نظریاتی بنیادوں پر مختلف سیاسی جماعتیں بنتی ہیں ۔ پھر جو جماعتیں دو تہائی اکثریت حاصل کرلیتی ہیں ۔وہ اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہو جاتی ہیں اور بقیہ جماعتیں حزبِ اختلاف کا کردار ادا کرتی ہیں ۔ جمہوریت کی اسلام کاری میں یہ سوال نہایت اہمیت رکھتا ہے کہ کیا اسلامی تعلیمات کی رو سے اسلامی ریاست میں مختلف سیاسی جماعتوں کی گنجائش ہے یا نہیں؟نیز اسلامی ریاست میں حزبِ اختلاف کا تصور کس حد تک درست ہے ؟ گویا یہاں دو باتیں قابلِ تنقیح ہیں ۔
نمبر ۱۔حصول ِ اقتدار کے لئے مختلف بنیادوں پر سیاسی جماعتیں بنانا
نمبر ۲۔حزبِ اختلاف کاحکم
جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے ،تو لبرل مغربی جمہوریت میں سیاسی جماعتیں بنانے کی ضرورت اس لئے پیش آتی ہے کہ پارلیمنٹ ایک مکمل خود مختار قانون ساز ادارہ ہو تا ہے اور عمومی طور پر جمہوری ملکوں میں جس قسم کے لوگوں کی کثرت ہوتی ہے ، وہ ایسی قانون سازی کی کوشش کرتے ہیں ،جن سے ان کے خاص مقاصد زیادہ سے زیادہ حاصل ہو۔ اس کا نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ اس سے ملک کے دیگر طبقات کے فوائد ، مقاصد اور اور نظریات پر منفی اثر پڑتا ہے ، اس لئے ہر زبان ، ہر نسل ، ہر علاقے اور ہر طبقے والوں کی کوشش ہو تی ہے کہ سیاسی جماعتیں بنا کر پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرے تا کہ ان کے مفادت متاثر نہ ہوں ۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ پارلیمنٹ کی قانون سازی کے اعتبار سے مکمل خود مختاری اور کثرتِ رائے کا حتمی ہونا ہی دراصل ملک میں مختلف سیاسی جماعتوں کی بنیاد بنتا ہے۔ جبکہ صحیح اسلامی ریاست میں سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہی نہیں ہوتی ، کیونکہ مجلسِ شوری کو مسائل منصوصہ اور متفقہ میں ترمیم کا اختیار نہیں ہو تا۔ مسائل اجتہادیہ اور انتظامی امور میں بھی قانون سازی شریعت کے مقرر کردہ حدود اور قیود کے اندر ہو تی ہے ، اس لئے عموماً ملک کے کسی طبقے کے فوائد پر خاص اثر نہیں پڑتا ، کیونکہ اسلامی قوانین اور اصول کسی خاص طبقے کی سوچ اور فکر کا نتیجہ نہیں ،بلکہ احکم الحاکمین کی طرف سے مقرر کردہ ہیں ۔ ان میں انسانیت کے ہر طبقے کی ضروریات و حوائج کا مکمل لحاظ رکھا گیا ہے۔ اس لئے اگر اسلامی تعلیمات کے مطابق ادارہ پارلیمنٹ اور کثرتِ رائے کا اصول کی اصلاح کی جائے تو سیاسی جماعتوں کی ضرورت خود بخود ختم ہو جاتی ہے ۔
لیکن یہ بحث پھر بھی رہ جاتی ہے کہ اسلامی نکتہ نظر سے ایک اسلامی ریاست میں مختلف بنیادوں پر سیاسی جماعتیں بنانے کا کیا حکم ہے ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ نسلی ، علاقائی ، لسانی ثقافتی اور نظریاتی اعتبارات سے سیاسی جماعتیں بنانا اسلامی تعلیمات اور مقاصدِ شریعت سے مختلف وجوہ سے ہم آہنگ نہیں ہے ۔
۱۔ مسلمان بحیثیت امت ایک گروہ اور جماعت شمار ہوتے ہیں اور ان بنیادوں پر سیاسی جماعتیں بنانااتحادِ امت کو پارہ پارہ کر دیتی ہے ، جبکہ امت کا اتحاد و اتفاق برقراررکھنا شریعت کے اعظم مقاصد میں سے ہے۔
۲۔مختلف بنیادوں پر سیاسی جماعتوں کی وجہ سے عصبیت اور قومیت کے جذ بات ابھرتے ہیں اور اسلام اس عصبیت ، رنگ و نسل کے اعتبار سے تفریق اور رنگ ونسل کی بنیاد پر گروہ بندی کا شدت کے ساتھ رد کرتا ہے ۔
۳۔سیاسی جماعتوں میں عام طور پر جذبہ رقابت کی بنیاد پر نفرت اور ایک دوسرے سے بغض و عناد ہوتا ہے ،جس کی وجہ سے آپس میں گالی گلوچ،طعنہ زنی ،بہتان تراشی ،اورا یک دوسرے کی غیبت کا بازار گرم ہوتا ہے اور بسا اوقات قتل و غارت تک نوبت پہنچ جاتی ہے خصوصاً الیکشن کے قریب پورا معاشرہ ان برائیوں کی لپیٹ میں آجاتا ہے جیسا کہ عام مشاہدہ ہے۔جبکہ مسلم معاشرے سے یہ مفاسد اور ان کو جنم دینے والے ذرائع کو جڑ سے اکھاڑنا شریعت کے اعظم مقاصد میں سے ہے۔
۴۔ جب ہر سیاسی جماعت کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طریقے سے اقتدار تک پہنچ جائے ،تو بسا اوقات کچھ جماعتیں اس مقصد کے حصول کی خاطر کفریہ طاقتوں اور عالمی استعمار کی آلہ کار بھی بن جاتی ہیں اور یوں اسلامی معاشرے کے اندر سے منافقین اور کفریہ طاقتوں کے مقاصد پورا کرنے لوگ پیدا ہوتے ہیں ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کی اسلامی ریاست اور مسلم معاشرہ طرح کی مشکلات اور سازشوں کا شکار رہتا ہے ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ مسلم ممالک میں پھیلے سازشوں کے جال در جال میں سیاسی شخصیات اور جماعتوں کا بڑا کردار ہے ۔
۵۔ ہماری پوری اسلامی تاریخ اس قسم کی سیاسی جماعتوں کے وجود سے خالی ہے اور اسلامی تاریخ اور اسلامی تہذیب بھی کسی چیز کے مقاصدِ شریعت سے ہم آہنگ ہونے یا نہ ہونے پر واضح قرینہ ہے۔ماضی میں اس کی کسی قسم کی نظیر نہ ملنا دلالت کرتا ہے کہ اسلامی معاشرے میں مختلف بنیادوں پر سیاسی جماعتیں بنانا مقاصدِ شریعت سے ہم آہنگی نہیں رکھتا۔باقی ثقیفہ بنی ساعدہ کے مباحث، مہاجرین و انصار کے گروہ،جنگِ صفین اور جنگِ جمل کے واقعات اور واقعہ کربلا سے استشہاد دراصل سیاسی جماعتوں کے مفہوم ،مقصد اور ان تاریخی واقعات کے اصل پسِ منظر سے ناواقفیت پر مبنی ہے ۔عصرِ حاضر کی سیاسی جماعتوں اور ان تاریخی حوادث میں کسی طرح سے مماثلت نہیں ہے ۔
۶۔ بعض معاصرین کی رائے یہ ہے کہ امارت و حکومت تک پہنچنے کے لئے تو سیاسی جماعتوں کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ کام اہلِ حل و عقد سر انجام دیں گے، البتہ مختلف وزارتوں اور مختلف علاقوں کی ولایت اور سربراہی کے لئے سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہے تاکہ امیر پوری ریاست میں صرف اپنی پسند کے لوگوں کو تعینات نہ کرے ،لیکن ظاہر ہے کہ جب سیاسی جماعتیں بنیں گی خواہ حکومت کے لئے ہو یا وزارت کے لئے، مذکورہ مفاسد اور برائیاں خود بخود پیدا ہوں گی اس لئے وزارت اورصوبوں کے سربراہ چننے کے لئے کوئی اور ایسا طریقہ کا راختیار کیا جا سکتا ہے ،جس میں مذکورہ مفاسد نہ ہوں مثلاً اہلِ حل و عقد جس طرح انتخابِ امیر کا کام کرتا ہے اسی طرح یہ کام بھی ان کے سپرد ہو۔اس میں بھی کوئی خلافِ شریعت بات نہیں وغیرہ۔غرض سیاسی جماعتوں سے مسلم معاشرے کو پاک کرنا مختلف وجوہ کی بناء پر اسلامی ریاست کے لئے بہت ضروری ہے ۔
اس کے بعدمرحلہ آتا ہے حزبِ اختلاف کا کہ اسلامی تعلیمات کی رو سے حزبِ اختلاف کا تصور کیا ہے؟ تو اس بارے میں چند باتیں پیشِ خدمت ہیں۔
۱۔ لبرل جمہوری ملکوں میں حزبِ اختلاف کا کردار الیکشن میں ہاری ہوئی جماعتیں ادا کرتی ہیں۔ جب اسلامی ریاست میں اس قسم کی سیاسی جماعتوں کا تصور نہیں ہے تو حزبِ اختلاف بھی نہیں رہے گا۔
۲۔ امیر اور خلیفہ کی اطاعت اور اسلامی ریاست میں انار کی نہ پھیلانا شہریت کے بڑے مقاصد میں سے ہے۔اس پر امیر کی اطاعت پر دلالت کرنے والے نصوص اور مسلمانوں کی اجتماعیت کو برقرار رکھنے والی روایات شاہد ہیں۔جبکہ حزبِ اختلاف کا تصور ان مقاصد کے حصول میں رکاوٹ ہے ۔اس لئے حزبِ اختلاف اسلامی ریاست سے میل نہیں کھاتا۔
۳۔ زیادہ سے زیادہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جب پریشر گروپ نہیں ہو گا تو حکمران مطلق العنان نہ بن جائیں، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام میں اس کا حل امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی صورت میں موجود ہے۔اور سلطانِ جائر کے سامنے کلمہ حق کہنا شریعت کی رو سے افضل جہاد ہے، اس لئے اسلامی معاشرے میں نیک،نڈر اور اسلامی غیرت سے سرشار لوگ یہ فریضہ اور جہاد خود بخود کرتے رہتے ہیں ،خواہ اس کے لئے ادارتی حد بندی نہ ہو۔ہماری تاریخ اس قسم کی مثالوں اور واقعات سے مزین ہے۔
۴۔ اسلامی ریاست میں فسق،غیر شرعی امور اور ظلم سے امیر مستحق عزل ہوتا ہے اور بعض حالات میں اہلِ حل و عقد اسے معزول بھی کر سکتے ہیں۔ تو عزل کی تلوار بھی حکمران کی مطلق العنانیت کے لئے مانع ہوتی ہے۔اس لئے الگ حزبِ اختلاف قائم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
۵۔ عام طور پر حزبِ اختلاف حکومت پر نکتہ چینی خیر خواہی کی بنیاد پر نہیں کرتابلکہ اگلی مدت میں اقتدارکے حصول کے لئے عوام کو حکمرانوں سے بد ظن کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس لئے عام طور پر حزبِ اختلاف کے پروپیگنڈے اور افواہوں میں سچائی کا عنصر کافی کم ہوتا ہے ۔خلاصہ یہ کہ حزبِ اختلاف کی وجہ سے معاشرہ ہمیشہ اپنے حکمرانوں سے شاکی رہتا ہے اور پورے معاشرے میں بے یقینی کی کیفیت سی رہتی ہے، جیسا کہ ہمارے ملک میں اس کا عام مشاہدہ ہے۔
الغرض حزبِ اختلاف کا تصور خالص لبرل جمہوریت کی دین ہے۔ اسلامی تعلیمات میں اس کے مثالی متبادل موجود ہیں، اس لئے جمہوریت کی اسلام کاری کرتے وقت حزبِ اختلاف کے موجودہ تصور اور نظام کو مکمل طور پر تبدیل کرنا ہوگا۔
(جاری)

مکاتیب

ادارہ

(۱)
۲۲ نومبر۲۰۱۳ء
بگرامی خدمت محترم مولانا زاہد الراشدی زیدت مکارمہٗ
مولانا! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
جی تونومبر کے الشریعہ میں ’’۔۔۔ ہائڈ پارک ‘‘والا کلمہ حق پڑھ کر کچھ لکھنے کو چاہا تھا مگر اس کے لئے استخارے کی ضرورت تھی جو میں نہیں کرسکا،حتیٰ کہ نومبر کا نقیبِ ختمَِ نبوت آپہنچا ۔اس میں میرے والدِ ماجد ؒ کے ایک مضمو ن کے ساتھ آنجناب کے والدِماجدؒ کاایک فتویٰ بھی یزید کے بار ے میں چھپا ہے، اپنا جو نقطہ نظر یزید کے بارے میں ہے یہ فتویٰ تو اپنے الفاظ سے اسے بہت ہی تائید بہم پہنچاتا ہے ، کہ آجکل کے اعتبار سے تو وہ ولی تھا، مگر میں ان الفاظ کو ذرا وضاحت طلب پارہاہوں کہ ایک زمانہ کا’’ فاسق‘‘ کسی دوسرے زمانے میں فاسق کے بجائے ’’ولی‘‘ کہلانے کا مستحق ہو۔ مجھے کوئی شبہ نہیں حضرت ؒ نے یہ بات از روئے علم فرمائی ہوگی، مگر مجھ کم علم پر وہ عالما نہ نکتہ نہیں کھل رہا ہے، آپ سے بجا طور پر امید ہے کہ اسے کھول سکیں گے۔اور ایک بڑا نکتہ ہاتھ آئے گا۔ والسلام
نیازمند، عتیق سنبھلی 
(۲)
عزیز گرامی محمد عمار خان ناصر ! سلمک اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
گزارش ہے کہ ماہ نومبر کے ادارتی صفحات میں آپ کے گرامی قدر والد محترم مولانا زاہد الراشدی صاحب حفظ اللہ نے ’’الشریعۃ‘‘ کے مستقل عنوان ’’مباحثہ و مکالمہ‘‘ پر ایک معترض کے اعتراض کا جواب تحریر کرتے ہوئے اس پہلو کو اجاگر کیا ہے کہ اس کی اہمیت و افادیت اسی وقت ہے جب طرفین کی رائے ایک ہی جگہ شائع ہو تاکہ قارئین کو فیصلہ کرنے میں آسانی ہو۔ اس تحریر کا مطلب یہ ہے کہ ایک فریق کا موقف تو مکمل طور پر بیان کر دیا جائے، لیکن اس کی وضاحت میں دوسرا فریق اپنا موقف شائع کرنے کے لیے بھیجے تو وہ قطع و برید کی نذر ہو جائے اور اس کے دلائل کا معتد بہ حصہ شائع نہ کیا جائے، یہ مباحثہ و مکالمہ کی روح کے بھی خلاف ہے اور اس سے اس کالم کی افادیت و اہمیت بھی ختم ہو جاتی ہے۔
راقم کا جو مضمون نومبر کے حصۂ مکاتیب میں (جو مباحثہ و مکالمہ پر مشتمل ہے) شائع ہوا ہے، ’’الشریعۃ‘‘ کے مدیر محترم نے اس کے ساتھ یہی معاملہ کیا ہے۔ اس کے بہت سے دلائل حذف کر دیے گئے ہیں اور بعض جگہ عبارت میں بھی جھول اور بے ربطی پیدا ہوگئی ہے۔ یہ مضمون اہل حدیث پر لگائے گئے جھوٹے الزامات کی وضاحت پر مشتمل تھا۔ جواب میں ظاہر بات ہے، جواب آں غزل کے طور پر مسلک دیوبند بھی زیر بحث آنا تھا کہ اس کے بغیر لگائے گئے الزامات کی صفائی ناممکن تھی۔ یہ ’اس نے غزل چھیڑی میں نے ساز چھیڑا‘ کا آئینہ دار تھا۔ تاہم راقم نے اپنے مضمون میں پوری کوشش کی کہ گفتگو سنجیدگی اور متانت کے دائرے سے نہ نکلے اور لب و لہجہ ایسا شوخ نہ ہو کہ فاضل مدیر کو ’’ایڈیٹنگ‘‘ کی ضرورت محسوس ہو۔ لیکن پھر بھی چونکہ یہ مدحت نگاری نہیں بلکہ تنقید نگاری تھی اور تنقید میں دلائل بھی تلخ ہی محسوس ہوتے ہیں، لیکن یہ تلخی ایسی ہوتی ہے جو علمی گفتگو میں ناقابل برداشت نہیں ہوتی اور فریق مخالف کو یہ جرعۂ تلخ نوش کرنا ہی پڑتا ہے، کیونکہ اس کے بغیر مکالمہ و مباحثہ کا مقصد ہی پورا نہیں ہوتا۔ اس لیے فاضل مدیر کو راقم کے دلائل میں (لہجے میں نہیں) تلخی محسوس ہوئی تو ان کو حذف کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا بلکہ اس کو بقول حافظ شیرازی :
جواب تلخ می زیبد لب لعل و شکر خارا
کا مصداق سمجھنا چاہیے تھا۔
راقم کے مضمون میں زیر بحث قطع و برید کی حیثیت ایسے ہی ہے جیسے پرندے کے پر کاٹ کر اس کو بلی کے آگے چھوڑ دیا جائے یا ایک فریق کے ہاتھ باندھ کر فریق مقابل کے روبرو کھڑا کر دیا جائے۔ حافظ عبد الجبار سلفی صاحب اور فاضل مدیر دونوں ہم مسلک ہیں۔ راقم کے مضمون سے دلائل کے حذف سے یہ تاثر ملتا ہے کہ فاضل مدیر نے مسلکی جانبداری کا مظاہرہ بھی کیا ہے اور علمی دیانت کا خون بھی۔ کیا فاضل مدیر اپنے مباحثہ و مکالمہ کے کالم کے حوالے سے اپنے بارے میں اس تاثر کو پسند کریں گے؟
بنا بریں فاضل مدیر سے استدعا ہے کہ وہ راقم کا مضمون مکمل طور پر شائع کریں، پھر اس کے جواب میں سلفی صاحب کا موقف بھی مکمل شائع کریں۔ اس علمی مباحثے کو قارئین کے لیے مفید اور نتیجہ خیز بنانے کا صحیح طریقہ یہی ہے۔ راقم کے مضمون کو مکمل طور پر شائع کیے بغیر فریق ثانی کے جواب کی اشاعت مسلکی جانبداری بھی ہوگی اور علمی دیانت کے منافی بھی۔ البتہ راقم کے مضمون میں کوئی نازیبا، ناشائستہ اور اخلاق سے گرا ہوا لفظ ہو تو اسے کاٹنے کا حق یقیناًآپ کو حاصل ہے۔ لیکن راقم کے مضمون میں خوردبین لگا کر بھی دیکھنے سے ایسا کوئی لفظ نہیں ملے گا جس کو آج کل کی اصطلاح میں غیر پارلیمانی کہا جا سکے۔ 
فاضل مدیر کانٹ چھانٹ کے جواز کے لیے ایک دلیل یا عذر ’’اختصار‘‘ کا بھی پیش کر سکتے ہیں لیکن اختصار کا جواز بھی اسی وقت ہو سکتا ہے جب مضمون میں غیر ضروری طوالت یا غیر متعلقہ چیزیں ہوں، ایک فریق کے پیش کردہ دلائل کو نہ طوالت قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ غیر متعلقہ چیز، کیونکہ موقف کی وضاحت کے لیے حسب ضرورت مواد پیش کرنا ناگزیر ہے۔
راقم ادارتی ذمے داریوں سے بخوبی واقف ہے۔ تقریباً ربع صدی کا عرصہ راقم نے اسی دشت کی سیاحی میں گزرا ہے۔ راقم ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ کا ۲۳، ۲۴ سال مدیر رہا ہے اور اس پر وہ فخر کر سکتا ہے کہ اس کے مؤقر قارئین میں ’’الشریعۃ‘‘ کے رئیس التحریر اور آپ کے والد محترم حفظہ اللہ بھی رہے ہیں جس کی آپ ان سے تصدیق فرما سکتے ہیں۔
مولانا زاہد الراشدی سے راقم کا ربط و تعلق تب سے ہی ہے جب آتش جواں تھا اور گاہے بگاہے دینی مکاتب فکر کی مشترکہ میٹنگوں اور علمی سیمیناروں میں مسلسل ملاقاتیں بھی ہوتی رہی ہیں جس کا سلسلہ کچھ عرصے سے راقم کی صحت کی خرابی کی وجہ سے موقوف ہے۔ راقم ان کو اپنا دوست بھی سمجھتا ہے اور بزرگ بھی، کیونکہ اس وقت وہ قلم و قرطاس اور دیگر علمی محاذوں پر جو خدمت سر انجام دے رہے ہیں، وہ نہایت وقیع اور بہت قابل قدر ہیں۔ متعنا اللّٰہ بطول عمرہ۔ اور وہ بھی راقم کو یقیناًدوست ہی نہیں، بزرگ بھی سمجھتے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہماری اس دینی محبت کو برقرار رکھے اور اس کو ذریعۂ قرب الٰہی بنائے (جیسا کہ احادیث میں یہ بشارت دی گئی ہے)۔
بہرحال بزرگوار محترم کا ذکر تو استطراداً نوک قلم پر آگیا، اس ذکر سے راقم کسی ’’مخصوص رعایت‘‘ کا طالب نہیں، البتہ صحافتی برادری کا ایک فرد ہونے کے حوالے سے ’’الشریعۃ‘‘ کے مدیر سے اپنے اس حق کا خواہش مند ضرور ہے کہ وہ صحافتی ذمے داریوں کے تقاضوں کے پیش نظر راقم کا مضمون مکمل شکل میں شائع فرمائیں۔ بصورت دیگر اس بحث کی بساط لپیٹ دی جائے اور فریق ثانی کی بھی جوابی تحریر کو ہرگز شائع نہ کیا جائے، کیونکہ یہ ’’ون وے ٹریفک‘‘ علمی دیانت کے یکسر خلاف ہوگا۔ 
حافظ صلاح الدین یوسف
مدیر: شعبۂ تحقیق و تالیف دارالسلام لاہور
(۳)
بزرگوارم جناب مولانا حافظ صلاح الدین یوسف صاحب زید مجدہم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
’الشریعہ‘ کے لیے آنجناب کی تحریریں اور شائع شدہ تحریروں کے حوالے سے آپ کا شکوہ نامہ موصول ہوا۔ اس بزرگانہ مواخذہ کے لیے بہت ممنون ہوں۔ 
’الشریعہ‘ جیسے کھلے بحث ومباحثہ کے فورم کے مدیر کے لیے کسی تحریر میں ایڈیٹنگ کا حق استعمال کرنے اور نہ کرنے، ہر دو صورتوں میں شکووں اور شکایتوں سے کوئی مفر نہیں۔ ہماری عمومی پالیسی یہی ہے کہ کم سے کم ایڈیٹنگ کی جائے، تاہم بعض صورتوں میں مخصوص وجوہ سے ایسا کرنا ہی پڑتا ہے۔ آپ نے اپنے مکاتیب میں جن مسائل: تقلید شخصی اور حیاۃ الانبیاء وغیرہ کو موضوع بنایا ہے، وہ بنیادی طور پر ’الشریعہ‘ کی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں اور نہ ان مسائل کو ہماری طرف سے بحث ومباحثہ کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ برادرم مولانا عبدالجبار سلفی صاحب نے اہل تشیع پر ایک مضمون میں ضمنی طور پر ان مسائل پر چند جملے لکھے تھے۔ اس کے جواب میں آپ نے اہل حدیث کے نقطہ نظر کی وضاحت فرمائی جو آپ کا حق تھا اور اس کی اشاعت ہماری ذمہ داری۔ تاہم آپ کے دوسرے تفصیلی مکتوب میں گفتگو کا دائرہ موقف کی وضاحت تک محدود نہیں رہا تھا، بلکہ اس میں ایسے پہلو بھی چھیڑے گئے تھے جو ایک fully-fledged  بحث کی تمہید بن سکتے تھے، جبکہ آپ جانتے ہیں کہ اس نوعیت کے فروعی وکلامی اور مناظرانہ بحثوں کا موضوع بننے والے مسائل کو الشریعہ میں الا اللمم  کے درجے میں ہی جگہ دی جاتی ہے۔ اس وجہ سے آپ کے مکتوب کے بعض وہ حصے حذف کرنے کی جسارت کرنا پڑی جو دوسری طرف سے اسی طرح کی تفصیلی جوابی تحریروں کو دعوت دے رہے تھے۔ 
اس ضمن میں مجھ پر ’’مسلکی جانبداری‘‘ کی بدگمانی کم سے کم آنجناب کی طرف سے بالکل سمجھ میں نہیں آئی۔ آپ نے اپنی بعض حالیہ تحریروں میں میری نسبت جس مکتب فکر کی طرف کی ہے اور مجھے اس کی ’’ملحدانہ فکر‘‘ (غالباً یہی الفاظ ہیں) کا علم بردار قرار دیا ہے، وہ یقیناًآپ کو یاد ہوگا۔ ایسے آدمی کے بارے میں یہ الزام کہ اس نے تقلید شخصی اور حیاۃ الانبیاء جیسے مسائل میں مسلکی جانب داری سے کام لیتے ہوئے آپ کی تحریر کو استدلالی قوت سے محروم کرنے کی کوشش کی ہے، بڑی ہی حیرت انگیز بات ہے۔ ایک بالکل سادہ ذہن شخص بھی سمجھ سکتا ہے کہ ’’الحادی‘‘ رجحان کی ہمدردی اگر ہو سکتی ہے تو ان مسائل میں آپ کے موقف سے ہو سکتی ہے، نہ کہ تقلید اور حیاۃ الانبیاء فی القبور کے موقف کو تقویت پہنچانے سے!!
آپ کے شکایت نامہ کے جواب میں یہ چند معروضات پیش کرنا مناسب محسوس ہوا۔ اگر پھر بھی شکایت باقی رہے تو میں نہایت مودبانہ طور پر معافی کا خواست گار ہوں۔
اپنی نیک دعاؤں میں یاد فرماتے رہیے۔ بے حد شکریہ!
محمد عمار خان ناصر
۲۴؍ نومبر ۲۰۱۳ء
(۴)
پاکستان کی دینی جماعتوں کی ناکامی کا سب سے بڑا سبب خود ان کے اندر موجود ہے، لیکن افسوس وہ اسے باہر تلاش کرتی پھرتی ہیں۔ہماری دینی جماعتوں کی ناکامی کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ ان کے قول و فعل کا تضاد ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہماری یہ محترم جماعتیں جس عدل وقسط کوسارے ملک اور ساری دنیاپہ نافذ کرنے کی علمبردار ہیں، افسوس صد افسوس وہ اس عدل و قسط کو اپنی نہایت محدود جماعتی سطح پر نافذ کرنے کے لیے تیار نہیں۔یہ وہ بنیادی ترین جرم ہے جس کی پاداش میں پاکستان کی دینی جماعتیں بدترین ناکامی سے دوچار ہیں اورگزشتہ 66سال سے تلاش منزل کے لیے بھٹک رہی ہیں۔
ہماری ان جماعتوں کا یہ وہ بھیانک جرم ہے جس نے نہ صرف پاکستان میں نفاذ اسلام کی راہ کو کھوٹا کیاہوا ہے بلکہ اسی نحوست کی وجہ سے قدرت نے ’’اطمینان قلب اور روحانی سرور‘‘کی عظیم ترین دولت کے معاملہ میں انہیں قلاش اور مفلس کرکے رکھ دیا ہے۔سارے ملک اور سارے جہاں پر عدل وقسط اور نظام عدل اجتماعی قائم کرنے کے دعووں کے باوجود ہماری یہ جماعتیں(ان جماعتوں کے ذمہ دار) اپنے اندرونی معاملات اور اپنے باہمی اختلافات و نزاعات میں عدل و قسط سے راہ فرار اختیار کرتے ہیں اورجبر،جھوٹ اور بلفنگ کے ناپاک ہتھکنڈے استعمال کرنے کے بعد وہی طرز عمل اختیار کرتے ہیں جو یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اختیار کیا تھا یعنی اپنی ذات یاذاتی اغراض کی تسکین کے لیے ظلم، دھوکہ اور جھوٹ کا بے دھڑک ارتکاب کرنا اور بعد میں نیکو کار بن جانے کی اداکاری کرنا۔کیا یوسف علیہ السلام کے احسن القصص میں ہماری دینی جماعتوں (کے ذمہ داروں)کے لیے کوئی سبق اور کوئی نصیحت نہیں؟
معاف کیجئے گا، ہمارا یہ نہایت تلخ مگر حقیقت پسندانہ تبصرہ پاکستان کی ان دینی جماعتوں (کے ذمہ داروں) کے بارے میں ہے جنہیں ہم پسند کرتے ہیں، جو ہمارے خیال میں قرآن و سنت کے زیادہ قریب رہ کر دعوت و اقامت دین کا کام کرنے کے داعی ہیں، یا دوسرے لفظوں میں جن میں بگاڑ کا لیول باقی دینی جماعتوں کے مقابلہ میں کم ہے۔عدل و قسط کے بیج کو اپنی محدود جماعتی سطح پر ہی کچل دینے کا اولین اظہار ہماری دینی جماعتیں اس طرح کرتی ہیں کہ ’’خوداحتسابی‘‘ اور اس کے حق میں اٹھنے والی ہر آواز کو اپنی محدود جماعتی سطح پر ہی خاموش کرادیتی ہیں اور خوداحتسابی کے ماحول کو پنپنے اور پھلنے پھولنے نہیں دیتیں۔ہم پورے خلوص اور دردمندی سے اس حقیقت کا اظہار کررہے ہیں کہ جس عدل اجتماعی اور نظام عدل و قسط کو ہماری یہ محترم جماعتیں پورے ملک اور پورے عالم پر غالب و نافذ کرنے کی داعی وعلمبردار ہیں،اپنی محدود جماعتی سطح پر اسی ’’عدل وقسط‘‘ کے ننھے پودے کو مسلسل کچلتی اور برباد کرتی رہتی ہیں۔ان جماعتوں میں مخلص افراد کے اخلاص و معصومیت کا بے دریغ قتل کیاجاتا ہے۔ہم حیرت اور تاسف کے ناختم ہونے والے احساس میں ڈوب جاتے ہیں جب ہم یہ سوچتے ہیں کہ جس اقامت دین اور نظام عدل وقسط کا پورا درخت ملک کے وسیع وعریض رقبے پر گاڑھ دینے کے شوق میں ہماری یہ محترم جماعتیں جنون کی حد تک مبتلا ہیں، اسی نظام عدل وقسط کے ننھے منے پودوں کو ہرروزیہ اپنی محدود جماعتی سطح پر نہایت بے دردی، بے رحمی اور بے حسی سے روندتی چلی جارہی ہیں۔
افراد ہو یا جماعتیں خود احتسابی کے بغیر ترقی اور روحانی ترفع ناممکن ہے۔مگر خوداحتسابی کے لیے تو ایک نہایت بیدار اور طاقتور ضمیرکی ضرورت ہوتی ہے۔جبکہ جماعتوں اور معاشروں کا ضمیر وہ صالح افراد ہوا کرتے ہیں جو جماعتوں اور معاشروں کے قول و فعل کے تضادات اور انحرافات کی دکھتی رگوں پر ہاتھ رکھ دیتے ہیں اوراس کی اصلاح کے لیے قول حق کا فریضہ پوری دیانتداری سے ادا کرتے ہیں۔خوش نصیب ہیں وہ معاشرے اور وہ جماعتیں جو اپنے ضمیر(قول حق کا فریضہ ادا کرنے والے اصحاب خیراور جماعتوں کے بگاڑ سے لڑنے والے اصحاب عزیمت)کا گلا گھونٹنے سے نہ صرف اجتناب برتتے ہیں بلکہ اس ’’مبارک ضمیر‘‘کو،بگاڑ کے آگے بند باندھنے اور اصلاح کی راہ ہموار کرنے کے لیے،اپنا فریضہ اداکرنے کی مکمل آزادی عطا کرتے ہیں۔اور خوش نصیبی سے محروم ہیں وہ معاشرے اور جماعتیں جواس ’’ضمیر‘‘کی آواز کو دبانے کی کوشش کرتی ہیں، اپنے تضادات اور انحرافات کو منطق کے زور پر منوانے کی کوشش کرتی ہیں اور اصلاح کی ہر آواز کو اجنبی جان کر اسے ’’شہر بدر‘‘یا کم از کم ’’جماعت بدر‘‘ کرنا اپنا حق سمجھتی ہیں۔
ہم نہایت کرب اور اذیت سے اپنے آپ کویہ عرض کرنے پر مجبورپاتے ہیں کہ پاکستانی معاشرہ اور اس کی تمام جماعتیں بشمول دینی ومذہبی جماعتیں’’ضمیر کی آواز دبانے ‘‘کے اسی المیہ سے دوچار ہیں۔پاکستان میں اسلام کی ترویج اور اس کے غلبہ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قول و فعل کا تضاد( عدل و قسط کے بیج کو اپنی محدود جماعتی سطح پر ہی مار دینا اور کچل دینا ) اور ضمیر کی آواز دبانے کا یہی مرض ہے۔یہ وہ منحوس بیماری ہے جو کسی بھی معاشرے کو عام دنیاوی فوائداور نعمتوں سے بھی محروم کرکے رکھ دیتی ہے۔اس کی سب سے بڑی مثال عالم اسلام اور تیسری دنیا کے ممالک ہیں جہاں ہر تعمیری اور اصلاحی آواز کا گلا گھونٹ دیاجاتا ہے۔چنانچہ ان معاشروں میں غربت، جہالت، بیماریاں، بے روزگاری، جرائم، ملاوٹ، غذائی بحران،بھوک، افلاس، قانون شکنی، تعصب، تنگ نظری، گروہ بندیاں۔۔۔غرض فساد اور بگاڑکا ایک ناختم ہونے والا سلسلہ ہے۔جو’’بیماری‘‘ اور ’’نحوست‘‘ کسی معاشرے کو عام دنیاوی فوائد ونعمتوں سے محروم کرکے رکھ دیتی ہے، بھلا اس کے ہوتے ہوئے کائنات کی اعلیٰ ترین نعمت’’ہدایت اور اسلام‘‘کے غلبہ کی راہ کیسے ہموار ہوسکتی ہے؟پاکستان کے دینی قائدین اور جماعتیں جب تک اس روگ اور اس منحوس بیماری سے جان نہیں چھڑاتیں اس وقت تک پاکستان میں اسلام کے غلبہ اور احیاء کی ان کی ہر آواز سوائے خود فریبی ، ذہنی عیاشی اور ضیاع اوقات کے اور کچھ بھی نہیں۔
ہماری مذہبی و دینی قیادت کو یا توقول و فعل کے تضادات اور ضمیر (اصلاح سیرت و کردار اور جماعتی لیول پرعدل و قسط کے لیے اٹھنے والی ہر مخلصانہ آواز)کا گلا گھونٹنے کی منحوس عادات سے جلد سے جلد جان چھڑا لینا چاہیے یا پھر اگر وہ ایسا نہیں کرسکتے تو پھر وہ دینی قیادت کا منصب چھوڑ کر کوئی سا بھی دنیاوی کاروبار سنبھال لیں کہ اس سے روز آخرت کم از کم اسلام کی راہ روکنے اور اسلام کی بدنامی کے سنگین جرائم کی فرد جرم سے تو وہ بچ جائیں گے۔اگرچہ ہمیں اس بات کا افسوس ہوگا کہ دینی خدمت کے اعلیٰ منصب کو چھوڑ کر یہ محترم شخصیات دنیاوی کاروبار میں مشغول ہوجائیں گی۔تاہم دنیاوی کاروبار میں ضمیر کا گلا دبانے کی سزا کے مقابلے میں جب ہم دین کے کام میں ضمیر واصلاح کی آوازکا گلا دبانے کے سنگین جرم کے دنیاوی واخروی بھیانک سزا کا تصور کرتے ہیں تو ہم پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے۔
آخر میں ہم یہ واضح کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ معروضات کسی خاص جماعت، کسی خاص گروہ یا کسی خاص شخصیت کے لیے پیش نہیں کی جارہیں بلکہ قرآن حکیم اور سیرت رسولﷺ کے ایک نہایت ادنیٰ طالب علم کا اپنی زندگی کے گزشتہ بیس سال پر محیط پاکستانی معاشرے کے ناختم ہونے والے اخلاقی،ایمانی، معاشرتی،معاشی،سیاسی،تعلیمی اور مذہبی بگاڑ،فساد اور تنزل پر کڑھن ، کرب اور دینی ومذہبی جماعتوں کے تجربہ اور مطالعہ کا ماحصل ہے۔ ہم تمام دینی (خصوصاً قرآن وسنت کے نفاذ کی علمبردار) جماعتوں اور قائدین کا احترام کرتے ہیں اور ان سے دلی ہمدردی رکھتے ہیں۔ اسی احترام اور دلی ہمدردی ہی کا مخلصانہ تقاضا وہ قول حق ہے جس کا اظہار ہم نے سابقہ سطور میں کیا ہے۔
محمد رشید
(abu_munzir1999@yahoo.com)
(۵)
جناب رئیس التحریر ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ نے علامہ محمد اسد پر میرا مضمون الشریعہ کے ماہ اگست ۲۰۱۳ء کے شمارے میں شائع کیا۔ شکریہ! اس سلسلے میں جناب محمد اکرام چغتائی صاحب نے اکتوبر کے شمارے میں جو طویل تبصرہ فرمایا ہے، اس کے بارے میں گزارش یہ ہے کہ حقیقت میں اس تحریر میں پنجاب یونیورسٹی سے محمد اسدکی وابستگی کے سلسلے میں ڈاکٹر زاہد منیر صاحب کے مضمون سے استفادہ کیا گیا تھا۔ ان کے نام اور ان کے مضمون کا حوالہ رہ جانا ایک فاش غلطی ہے جس کا مجھے اعتراف ہے اور اب اس کودرست کر دیا جائے گا۔ یہی مضمون کچھ اضافوں کے ساتھ میری کتاب ’’عالم اسلام کے بعض مشاہیر‘‘ میں شامل کیا جا رہا ہے جو عنقریب منظر عام پر آ جائے گی۔ اصل میں بہت مدت ہوئی، یہ مضمون ایک اخباری کالم کے طور پر لکھا گیا تھا۔ اس کے بعد راقم نے اس میں کافی تبدیلیاں کی تھیں۔ غلطی یہ ہوئی کہ الشریعہ میں اشاعت کے لیے وہی پرانا ورژن ارسال کر دیا گیا۔ بہرحال یہ علطی کسی اور کی نہیں، میری ہے اور میں اس کا اعتراف صاف طور پر کرتا ہوں اور اس کی اصلاح کر رہا ہوں۔
محترم چغتائی صاحب نے جو دوسری غلطیوں اور کمیوں کی نشان دہی فرمائی ہے تو مجھے کہنا چاہیے کہ یہ میری معلومات کی کمی کا شاخسانہ ہیں۔ میرے مضمون پر اتنے تفصیلی اور ناقدانہ اظہار خیال کے لیے میں ان کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں اور ان کے اس فاضلانہ مراسلے کو سامنے رکھ کر ان کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی کوتاہ علمی اور قلت معلومات کی تلافی کی پوری کوشش کروں گا۔ ان شاء اللہ
رومی پر ایک مقالہ تیار کرتے وقت محمد اکرام چغتائی صاحب کی کئی کتابیں بالاستیعاب پڑھنے کا موقع راقم کو ملا ہے۔ بہرحال انھوں نے جن نکات کی طرف توجہ دلائی ہے، وہ بہت اہم ہیں جن سے مجھے اپنے مقالہ کی اصلاح اور اس کو مزید بہتر اور ثروت مند بنانے میں خاصی مدد ملے گی۔ 
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی
mohammad.ghitreef@gmail.com

’’اسلام، جمہوریت اور پاکستان‘‘

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

۱۹۶۲ء کی بات ہے جب صدر محمد ایوب خان مرحوم نے مارشل لا ختم کرتے وقت نئے دستور کی تشکیل وترتیب کے کام کا آغاز کیا تھا اور پاکستان کے نام سے ’’اسلامی‘‘ کا لفظ حذف کر کے اسے صرف ’’جمہوریہ پاکستان‘‘ قرار دینے کی تجویز سامنے آئی تھی تو دینی وعوامی حلقوں نے اس پر شدید احتجاج کرتے ہوئے حکومت کو یہ تجویز واپس لینے پر مجبور کر دیا تھا۔ میری عمر اس وقت چودہ برس تھی اور میں نے بھی بحمد اللہ تعالیٰ اس جدوجہد میں اس طور پر حصہ لیا تھا کہ اپنے آبائی قصبہ گکھڑ میں نظام العلماء پاکستان کی دستوری تجاویز پر لوگوں سے دستخط کرائے تھے اور اس مہم میں شریک ہوا تھا۔ اس دوران اس حوالے سے ہونے والے عوامی جلسوں میں سعید علی ضیاء مرحوم کی ایک نظم بہت مقبول ہوئی تھی جس کا ایک شعر مجھے اب تک یاد ہے کہ 
ملک سے نام اسلام کا غائب، مرکز ہے اسلام آباد
پاک حکمران زندہ باد، پاک حکمران زندہ باد
تب سے اب تک ملک میں نفاذ اسلام کی جدوجہد کا کارکن چلا آ رہا ہوں، ہر تحریک میں کسی نہ کسی سطح پر شریک رہا ہوں اور اب بھی حسب موقع اور حتی الوسع اس کا حصہ ہوں۔ کسی دینی جدوجہد کے نتائج وثمرات تک پہنچنا ہر کارکن کے لیے ضروری نہیں ہوتا، البتہ صحیح رخ پر محنت کرتے رہنا اس کی تگ ودو کا محور ضرور رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ مرتے دم تک اس جادۂ مستقیم پر قائم رہنے کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین
اس جدوجہد میں مجھے جن اکابر کی رفاقت کا شرف حاصل ہوا ہے، ان میں مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ ، مولانا مفتی محمودؒ ، مولانا عبید اللہ انورؒ ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ ، مولانا عبد الحقؒ آف اکوڑہ خٹک، مولانا پیر محسن الدین احمدؒ ، مولانا شاہ احمد نورانیؒ ، مولانا عبد الستار خان نیازیؒ ، مولانا مفتی ظفر علی نعمانیؒ ، مولانا معین الدین لکھویؒ ، قاضی حسین احمدؒ اور والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ عوامی جلسوں، جلوسوں، قید وبند کے مراحل اور احتجاجی مظاہروں میں شرکت کے ساتھ ساتھ قلم وقرطاس کا میدان بھی میری جولان گاہ رہا ہیاور نفاذ اسلام کی جدوجہد کے بیسیوں پہلوؤں پر اخبارات وجرائد میں سیکڑوں مضامین لکھنے کی سعادت مجھے حاصل ہوئی ہے۔
عزیزم حافظ محمد عمار خان ناصر سلمہ نے موجودہ حالات کے تناظر میں میری ان تحریری گزارشات کا ایک جامع انتخاب ’’اسلام، جمہوریت اور پاکستان‘‘ کے عنوان مرتب کیا ہے جو نفاذ اسلام کی جدوجہد کے معروضی تقاضوں کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ نفاذ اسلام کی جدوجہد میں میرا کوئی الگ فکری یا علمی تعارف نہیں ہے اور میں اس کے کم وبیش تمام پہلوؤں میں انھی بزرگوں اور جمہور علماء کی نمائندگی کرتا ہوں جن میں سے چند بزرگوں کا میں نے سطور بالا میں تذکرہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات جنت الفردوس میں بلند سے بلند فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین
اسلامی نظام اور موجودہ دور کے تقاضوں اور ضروریات کے مختلف پہلوؤں پر ایک نظر ڈال لی جائے تو غور و فکر کے لیے مندرجہ ذیل بنیادی امور سامنے آتے ہیں اور ’’اسلام، جمہوریت اور پاکستان‘‘ کے زیر عنوان اس مجموعے میں انھی کو موضوع گفتگوبنایا گیا ہے:
۱۔ اسلام کا تصور ریاست وحکومت کیا ہے اور اسلام حاکمیت اور اقتدار کا سرچشمہ کس چیز کو قرار دیتا ہے؟
۲۔ حکومت کی تشکیل میں عوام کی نمائندگی اور عوامی رائے کی کیا اہمیت ہے؟
۳۔ تاریخی تناظر میں اسلام کا سیاسی نظا م کن کن مراحل سے گزرا ہے؟
۴۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے وجود، امیدواری اور بالغ رائے دہی سے متعلق اسلام کا نقطہ نظر کیا ہے؟
۵۔ اسلامی ریاست میں قانون سازی کا طریق کار کیا ہے؟
۶۔ مغرب کے پیش کردہ جمہوری فلسفے اور نظام کا اسلام کی نظر میں کیا مقام ہے؟
۷۔ پاکستان میں نفاذ اسلام کی جدوجہد کے بنیادی اصول کیا رہے ہیں اور اس ضمن میں اب تک کیا پیش رفت ہو چکی ہے؟
۸۔ پاکستان کے تناظر میں نفاذ شریعت کے لیے ریاست کے ساتھ تصادم اور مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
میں نے قرآن و حدیث اور فقہ اسلامی کے ایک طالب علم کی حیثیت سے اپنے مطالعہ کی روشنی میں، ان امور پر کچھ معروضات پیش کرنے کی جسارت کی ہے، اس امید کے ساتھ کہ اصحاب علم و دانش ان پر سنجیدہ توجہ دیں گے اور یہ گزارشات اس موضوع پر بحث کو آگے بڑھانے میں مدد دیں گے۔
یہ مجموعہ اسلام آباد کے ایک تحقیقی ادارے پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (PIPS) کے زیر اہتمام شائع ہوا ہے۔ میں اس کی اشاعت پر پاک انسٹی ٹیوٹ کے ذمہ داران کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے ان طالب علمانہ گزارشات کو لوگوں تک پہنچانے کو مناسب خیال کیا۔ اللہ تعالیٰ انھیں جزائے خیر عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین

مولانا حافظ مہر محمد میانوالویؒ کا انتقال

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

یہ خبر ملک بھر کے دینی، علمی اور مسلکی حلقوں میں انتہائی رنج و غم کے ساتھ پڑھی جائے گی کہ اہل سنت کے نامور محقق اور درویش صفت بزرگ عالم دین حضرت مولانا حافظ مہر محمد میانوالوی کا گزشتہ روز انتقال ہوگیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کا تعلق میانوالی کے علاقہ بَن حافظ جی سے تھا اور وہ جامعہ نصرۃ العلوم کے پرانے فضلاء میں سے تھے۔ میں جب مدرسہ نصرۃ العلوم میں درس نظامی کی تعلیم کے لیے داخل ہوا تو حافظ مہر محمد ؒ بڑی کلاسوں میں تھے جبکہ ان کے بھائی مولانا حافظ شیر محمد بھی بعد میں آگئے اور وہ میرے مختلف کتابوں میں ہم سبق رہے ہیں۔ ترجمہ قران کریم میں حضرت حافظ صاحب مرحوم کے ساتھ بھی میری رفاقت رہی ہے۔ 
والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ کے ساتھ ان کا گہرا تعلق تھا اور یہ دونوں بزرگ بھی ان کا بہت خیال رکھتے تھے۔ حافظ صاحب محترمؒ مدرسہ نصرۃ العلوم میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد کراچی چلے گئے اور محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری قدس اللہ سرہ العزیز سے شرف تلمذ حاصل کیا۔ اہل سنت کے عقائد کی وضاحت اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ناموس و وقار کا تحفظ ان کا خصوصی موضوع تھا اور انہوں نے عدالت صحابہؓ پر جو وقیع مقالہ تحریر کیا، اس سے انہیں پورے ملک میں اس حوالہ سے تعارف حاصل ہوا، جس کے بعد وہ اس میدان میں آگے بڑھتے چلے گئے۔ انہووں نے شیخ القرآن حضرت مولانا غلام اللہ خان رحمہ اللہ تعالیٰ کے مرکز دارالعلوم تعلیم القرآن راجہ بازار راولپنڈی کے ترجمان ماہنامہ ’’تعلیم القرآن‘‘ کی ادارت کے فرائض بھی کچھ عرصہ سر انجام دیے۔ اس طرح انہیں حضرت شیخ القرآنؒ کے زیر سایہ کام کرنے کا موقع ملا۔ ان کا ذوق تحقیق و مناظرہ کا تھا لیکن وہ یہ سارا کام تحریر کے میدان میں کرتے تھے۔ اہل تشیع کے پیدا کردہ شکوک و شبہات اور اہل سنت کے عقائد و روایات پر ان کے اعتراضات کا علمی و تحقیقی جواب دینا زندگی بھر اُن کا مشغلہ رہا، وہ اس کے لیے کتابی دنیا میں بہت محنت کرتے تھے اور نئے نئے نکات و معارف سامنے لاتے رہتے تھے۔
گوجرانوالہ کے محلہ نور باوا کی ایک مسجد میں کئی برس خطابت و امامت کے فرائض سر انجام دیتے رہے اور اس دوران مختلف دینی تحریکات میں ہمارے ساتھ شریک رہے۔ انہوں نے گوجرانوالہ میں تنظیم اہل سنت پاکستان کا حلقہ قائم کرنے کے لیے کچھ عرصہ کام کیا مگر تنظیمی مزاج کے بزرگ نہیں تھے، اس لیے زیادہ مصروفیات کتاب اور تحقیق کے دائرہ میں ہی رہتی تھیں۔ قرآن کریم بہت اچھے لہجے میں پڑھتے تھے اور ان کی اقتدا میں نماز پڑھ کر بہت لطف آتا تھا۔
امام اہل سنت حضرت مولانا عبد الشکور لکھنویؒ کے ذوق اور اسلوب کے مطابق کام کرنے کو ترجیح دیتے تھے اور غالباً ایک یا دو مواقع پر حضرت لکھنویؒ کے مرکز لکھنو میں جانے کی سعادت بھی انہوں نے حاصل کی۔ میری دانست کے مطابق پاکستان میں اس ذوق و اسلوب کے حامل وہ آخری بزرگ باقی رہ گئے تھے ۔
؂ اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لے کر
انہوں نے اہل سنت کے عقائد کے تحفظ و دفاع اور حضرات صحابہ کرامؓ کے ناموس کے حاولہ سے بیسیوں کتابیں اور رسالے تحریر کیے جو دینی حلقوں میں ان موضوعات پر بہت معلوماتی ذخیرہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کا تعلق کتاب، دلیل، تحقیق اور افہام و تفہیم کی دنیا سے تھا۔ یہ ذوق اب بہت کم ہوتا جا رہا ہے۔ دینی مدارس کے ماحول بالخصوص اساتذہ و طلبہ کے ذہنی رجحانات میں تحریکی جوش کے غلبہ نے دلیل و کتاب کے ساتھ ہمارا تعلق پہلے ہی بہت کمزور کر رکھا تھا کہ ہم کتاب اور تحقیق کی طرف بہت کم توجہ دیتے ہیں۔ بلکہ خالصتاً علمی و فقہی مسائل کو بھی تحریکی تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کا رجحان ہمارے اجتماعی دینی مزاج کا حصہ بن گیا ہے، جبکہ انٹرنیٹ کی ’’فاسٹ فوڈ‘‘ نے کتاب فہمی اور تحقیق و استدلال کا رہا سہا ذوق بھی ہم سے چھین لیا ہے۔ اس حوالہ سے حضرت مولانا حافظ مہر محمدؒ کی جدائی ہمارے لیے ایک المیہ سے کم نہیں ہے۔
پاکستان شریعت کونسل کے قیام کے وقت سے وہ ہمارے ساتھ شریک تھے۔ ضعف و علالت اور مصروفیات کے باوجود کونسل کے اجلاسوں میں اہتمام کے ساتھ شریک ہوتے تھے اور وفات کے وقت وہ ہمارے مرکزی نائب امیر تھے۔ انہوں نے پاکستان شریعت کونسل کے عنوان کے ساتھ بہت سے مضامین اور پمفلٹ شائع کیے جن کا بنیادی موضوع ملک میں خلافتِ راشدہ کے نظام کا قیام اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ناموس و وقار کا تحفظ و دفاع تھا۔ وہ وقتاً فوقتاً مطبوعہ خطوط کے ذریعہ حکمرانوں اور ارکان اسمبلی کو ان امور کی طرف توجہ دلاتے رہتے تھے اور علماء کرام کو بھی ان معاملات میں متوجہ کرتے تھے۔
اپنے آبائی گاؤں بن حافظ جی تحصیل میانوالی میں انہوں نے کافی عرصہ سے ’’جامعہ توحید و سنت‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کر رکھا تھا جس کے انتظام و انصرام کی ذمہ داری ان کے فرزند اور ہمارے عزیز شاگرد مولانا محمد عمر فاروق سلّمہ (فاضل نصرۃ العلوم) سر انجام دے رہے ہیں۔ پاکستان شریعت کونسل کے امیر حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی اور راقم الحروف نے ایک موقع پر جامعہ توحید و سنت میں جانے کی سعادت حاصل کی ہے۔ ہماری حاضری پر حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کی خوشی قابل دید تھی۔ 
مولانا حافظ مہر محمد میانوالویؒ پوری زندگی دین کی خدمت میں بسر کرتے ہوئے ہم سے رخصت ہوگئے ہیں مگر ان کا تحریر کردہ لٹریچر، ان کا قائم کردہ جامعہ توحید و سنت، ان کے فرزند مولانا حافظ محمد عمر فاروق اور ان کے خاندان کی دینی خدمات یقیناًان کے لیے صدقہ جاریہ ہیں اور ان کے ذریعہ حافظ صاحبؒ کی یاد تادیر قائم رہے گی۔ اللہ تعالیٰ انہیں جوارِ رحمت میں جگہ دیں اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔

امام اہل سنتؒ کے دورۂ برطانیہ کی ایک جھلک

مولانا عبد الرؤف ربانی

(امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر قدس اللہ سرہ العزیز نے 1986ء کے دوران ’’جمعیۃ علماء برطانیہ‘‘ کی دعوت پر ’’سالانہ توحید و سنت کانفرنس‘‘ میں شرکت کے لیے برطانیہ کا دورہ کیا اور مذکورہ کانفرنس کے علاوہ مختلف شہروں میں متعدد دینی اجتماعات سے بھی خطاب فرمایا۔ ان کے ایک شاگرد مولانا عبد الرؤف ربانی (خطیب مکی مسجد، رحیم یار خان) ان کے رفیق سفر تھے۔ انہوں نے ہماری درخواست پر اس سفر کے کچھ تاثرات مختصراً قلم بند فرمائے ہیں۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ حضرت امام اہل سنتؒ کی ’’سوانح حیات‘‘ کے لیے ان کے بیرونی اسفار کی تفصیلات زیادہ سے زیادہ حاصل کی جائیں تاکہ یہ سوانح جلد از جلد منظر عام پر آسکے۔ احباب سے درخواست ہے کہ اس سلسلہ میں جس دوست کے پاس معلومات ہوں وہ ہمیں مہیا فرمائیں تاکہ یہ کارِ خیر جلد پایہ تکمیل تک پہنچ سکے۔ راشدی)

راقم الحروف کو حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے فرزند ارجمند مولانا زاہد الراشدی کا فون آیا کہ میرے والد گرامی برطانیہ کے تبلیغی دورہ پر وہاں کے مسلمانوں کے شدید اصرار پر تشریف لے جا رہے ہیں۔ چونکہ آپ برطانیہ جاتے رہتے ہیں اور آپ کے خاندان کے افراد بلکہ پورے علاقہ چھچھ کے لوگ برطانیہ میں مقیم ہیں، میری خواہش ہے کہ آپ والد گرامی کے ساتھ بطور خادم ضرور جائیں۔ اس لیے بھی کہ آپ والد گرامی کے شاگرد اور مدرسہ نصرۃ العلوم کے فارغ التحصیل ہیں۔ یقیناًمیرے لیے زندگی کی یہ سب سے بڑی متاع اور خوشی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ سعادت نصیب فرمائی کہ میں اپنے شفیق استاذ محترم کا ہم سفر بنوں اور اُن کی رفاقت میں خدمت کا کچھ موقع میسر آسکے۔ چنانچہ حسب پروگرام رخت سفر باندھا، جانے کے لیے تیاری کر لی۔ حضرت کا سامان اٹھایا، برطانیہ جانے کے لیے ایئرپورٹ پہنچے، دس گھنٹے کی مسافت کے بعد ہیتھرو ایئرپورٹ پر طیارے نے لینڈ کیا اور خیریت سے لندن پہنچ گئے۔ ایئرپورٹ پر حضرت مولانا کے استقبال کے لیے آئے ہوئے علماء کرام کا جم غفیر تھا۔ حضرت نے حسب مدارج و مراتب تمام علماء کرام اور دیگر استقبال کے لیے آئے ہوئے لوگوں سے معانقہ و مصافحہ کیا۔ 
وہاں کے تمام بڑے بڑے شہروں میں پروگرام پہلے سے ترتیب دیے گئے تھے۔ حضرت امام اہل سنت جہاں جہاں تشریف لے جاتے علماء اور دیندار طبقہ کے لوگ کثیر تعداد میں پہنچ جاتے۔ حضرت شیخ الحدیث اردو زبان میں قرآن و حدیث کے حوالہ جات دے کر بڑا مربوط و مبسوط خطاب فرماتے۔ آپ کی تقریر دلپذیر سن کر لوگوں کی آنکھیں نم ہو جاتیں۔ حضرت صاحب کا پرتاثیر بیان جو ان کے علم و عمل کی غمازی کرتا تھا، ان کے ذہن و قلب پر نقش ہوتا ہوا محسوس ہوتا۔ زمانہ طالب علمی میں جمعیۃ طلباء اسلام کا مرکزی اور صوبائی عہدیدار رہنے کی وجہ سے میرا سیاسی مزاج تھا، اس لیے میں استاذ محترم کے سفر، سکونت، اخلاق، علمیت اور بالخصوص عملی زندگی کا بغور مشاہدہ کرتا رہا۔ میں آج تک ورطۂ حیرت میں ہوں کہ اس پورے سفر کے دوران میں نے حضرت کا کوئی عمل ایسا نہیں دیکھا جو خلاف سنت ہو۔ ایک حیران کن چیز میرے مشاہدے میں آئی کہ حضرت شیخ الحدیث جس مدرسہ میں جاتے تو وہاں کے کتب خانہ میں جو کتاب بھی اٹھاتے، بس پہلی مرتبہ کتاب کھولتے۔ اسی صفحہ میں سے ایک چھوٹے سے علیحدہ کاغذ کے ٹکڑے پر کچھ تحریر فرماتے اور پھر وہ کاغذ جیب میں رکھ لیتے۔ غرضیکہ جو صفحہ بھی پہلی مرتبہ کھولتے، اسی صفحہ سے دو چار الفاظ لکھ کر اپنے پاس محفوظ فرمالیتے، کبھی اوراق پلٹنے کی نوبت نہ آتی۔ 
برطانیہ کی ایک مسجد میں تقریر کے دوران ایک شخص مجمع میں سے کھڑا ہوا او ر اس نے نہایت عقیدت کے ساتھ آپ کے مدرسہ کے لیے کچھ رقم دینے کا اعلان کیا۔ حضرت فرمانے لگے کہ کسی اور مدرسہ کو دے دو، میں تو صرف برطانیہ کے مسلمانوں سے ملنے آیا ہوں۔ وہاں پر انڈیا کے شہر گجرات کے مسلمانوں نے حضرت کے کھانے کی دعوت کی، بڑی پر تکلف دعوت تھی۔ ایک صاحب نے بڑی محبت کے ساتھ حضرت کی پلیٹ میں سالن ڈالا اور پلیٹ بھر دی۔ حضرت جتنا کھا سکتے تھے، کھا لیا۔ پلیٹ میں سالن چونکہ بہت زیادہ تھا۔ حضرت کم خوراک کھانے والے تھے۔ صوفی مزاج کا وہ گجراتی محبت سے کہنے لگا، حضرت! سنت پوری کریں۔ حضرت نے برجستہ جواب دیا کہ جان کی حفاظت فرض ہے۔ 
مولانا محمد اقبال رنگونی جو کہ برما کے شہر رنگون سے تعلق رکھتے تھے، برطانیہ کے مشہور عالم دین اور صاحب تحریر ہیں، مختلف رسائل میں معلومات سے بھرپور علمی مضامین لکھتے رہتے ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی مولانا بلال احمد جو کہ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاؒ کے غالباً آخری خلیفہ ہیں، اس وقت وہ بالکل نوجوان تھے اور انتہائی اچھے عالم تصور کیے جاتے تھے۔ انہوں نے بڑی عقیدت کے ساتھ حضرت ممدوح کو اپنے ہاں ٹھہرایا۔ حضرت کے معمولات میں تھا کہ رات گئے تک لکھنے میں مصروف رہتے۔ مولانا بلال رنگونی کے ہاں حسب عادت بیٹھے لکھ رہے تھے۔ میں بھی قریب دوسرے بستر پر لیٹا ہوا لحاف میں سے حضرت صاحبؒ کو دیکھ رہا تھا، تاکہ اگر انہیں کوئی ضرورت ہو تو میں خدمت انجام دوں۔ دیکھا کہ حضرت جس قلم سے لکھ رہے ہیں، اس میں سے سیاہی ختم ہوگئی۔ اب حضرت بار بار قلم جھٹکتے لیکن سیاہی نہ ہونے کے باعث قلم نے لکھنے سے جواب دے دیا۔ یہ منظر دیکھ کر میں نے عرض کیا کہ حضرت سامنے سیاہی کی دوات موجود ہے، قلم میں سیاہی بھر لیتے ہیں۔ حضرت کمال تقویٰ سے فرمانے لگے، مولوی بلال سے پوچھا نہیں۔ میں نے عرض کیا کہ اس قدر محبت سے مولانا بلال صاحب نے ٹھہرایا ہے، اس کو تو خوشی ہوگی۔ فرمانے لگے کہ اس سے اجازت نہیں لی۔ میرے اصرار کے باوجود حضرت نے قلم میں سیاہی نہیں ڈالی، یہ ان کے تقویٰ کی اعلیٰ مثال ہے۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ جیسی حزم واحتیاط آج کے دور میں عنقا ہے۔ 
انہوں نے تدریس، تصنیف، تقریر اور تصوف کے میدان میں شاندار خدمات سر انجام دی ہیں۔ ان کا قلم دین کی سربلندی، خلق خدا کی اصلاح اور مختلف فتنوں (قادیانیت، شیعیت، شرک و بدعت اور باطل قوتوں) کی بیخ کنی اور ان کے رد میں تا دم حیات سرگرم عمل رہا۔ ان کی تصنیفات اور تالیفات میں گو ناگوں موضوعات کا تنوع ہے۔ 
ہمارے 1977،1978ء کے دور طالب علمی میں حضرت گکھڑ سے روزانہ بس میں سفر کر کے دورہ حدیث پڑھانے کے لیے مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ آتے تھے۔ مدرسہ انتظامیہ نے حضرت کے آمد و رفت کی مشکلات دیکھتے ہوئے انہیں لانے لے جانے کے لیے کار لے لی۔ ایک روز گوجرانوالہ کے قریب ڈسکہ میں جلسہ تھا جس میں آپ نے شرکت کرنا تھی۔ فرمانے لگے کہ وہاں بس میں جانا ہے، کار میں نہیں۔ فرمانے لگے کہ مجھے کار پڑھانے کی سہولت کے لیے دی گئی ہے، ذاتی دوروں کے لیے نہیں۔ 
اللہ تعالیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی تمام کوششوں، کاوشوں کو قبول فرمائے اور اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ حضرت کی مسند حدیث، مسند تفسیر کو ہمیشہ قائم و دائم رکھے۔ ہم سب کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

مولانا عبد المتینؒ ۔ حیات و خدمات کا مختصر تذکرہ

محمد عثمان فاروق

24 ستمبر 2013ء بروز منگل حضرت مولانا عبد المتین حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپؒ نے 76 برس کی طویل عمر پائی اور زندگی کا ایک ایک لمحہ ذکر خداوندی، ذوق عبادت، حسن معاشرت اور خلق کو خالق کی طرف دعوت دینے میں بسر کیا۔ حسن ظن، اخلاص و بے نفسی اور تحمل و رواداری آپؒ کی شخصیت کے عناصر ترکیبی تھے۔ 
حدیث میں آتا ہے: خیارکم اذا رؤوا ذکر اللّٰہ  (بہترین لوگ وہ ہیں جن کی زیارت سے اللہ یاد آجائے)۔ حضرت اس حدیث کا کامل مصداق تھے۔ راقم الحروف بچپن ہی سے حضرت سے متعارف تھا اور اپنی شعوری عمر ہی سے حضرت کے دروس، مجالس اور نجی ملاقاتوں سے استفادہ کرتا رہتا تھا۔ حضرت ہمیشہ نہایت کشادہ قلبی، خندہ پیشانی سے ملتے، سوالات کے جوابات دیتے اور اشکالات کو رفع کرتے۔ نتائج فکر سے قطع نظر حضرت کا زاویہ نگاہ اور خصوصاً آپ کی طبیعت کی زم خوئی اور مزاج کا ٹھیراؤ بہت اثر انگیز ہوتا تھا۔ عام طور پر عوام الناس کو مذہبی طبقے سے ایک شکایت یہ بھی رہتی ہے کہ یہ لوگ سخت طبیعت، تحکمانہ ذہنیت اور لب و لہجہ میں خشونت و درشتی کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ بات علی الاطلاق درست نہیں لیکن شاید کسی حد تک صداقت کی حامل ہے، لیکن حضرت کی طبیعت، آپ کا مزاج اور لب و لہجہ اخلاق نبویؐ کا آئینہ دار تھا۔ راقم الحروف کو بہت سے علماء، مشائخ، دعاۃ دین اور مفکرین سے بالمشافہ ملاقات کرنے کا شرف حاصل ہے لیکن جو بے نفسی، نمود و نمائش سے بیزاری، پس منظر میں رہتے ہوئے دعوت و اصلاح کا کام کرنا، سخت سے سخت مخالفت کے باوجود رد عمل کی نفسیات سے اجتناب کرتے ہوئے صبر و ثبات سے کام کرنا اور سب سے بڑھ کر اپنے مخالفین و معاندین کے لیے بھی وسعت قلبی اور حسن ظن رکھنا، آپؒ کے ہاں دیکھی وہ بہت کم لوگوں کو حاصل ہے۔ یہ آپؒ کی امتیازی خصائص ہیں جو آپؒ کو دوسرے علماء و مصلحین سے ممتاز کرتی ہیں۔ 
سلف صالحین کے تذکروں میں ان کی خوبیوں میں دو خوبیاں مشترک پائی جاتی ہیں جو ان کی سعادت دارین کی وجہ ہوتی ہیں: ایک ان کا اخلاص اور دوسرا اُن کی صاف دلی۔ حضرت میں یہ دونوں خصوصیات بدرجۂ اتم پائی جاتی تھیں۔ وہ اپنے سے مختلف نقطۂ نظر رکھنے والے لوگوں کا تذکرہ بھی بہت سنجیدگی، شائستگی اور متانت سے کرتے تھے، کسی بھی شخصیت سے اصولی اختلافات کے علی الرّغم طعن و تشنیع، تکفیر و تضلیل نہ کرتے بلکہ ہر حال میں اعتدال و توازن کا دامن تھامے رکھتے۔ اگرچہ آپ دیوبندی مدرسۂ فکر سے وابستہ تھے لیکن اس کے باوجود دوسرے مسالک کا بھی احترام کرتے اور اس معاملے میں آپ ہر طرح کے تعصب، تحرب اور فرقہ واریت سے ماوراء تھے۔
ایک بار برسبیل تذکرہ بانی جماعت اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا ذکر آگیا تو حضرت نے راقم سے کہا کہ سید مودودیؒ بڑے مفکر تھے۔ اگرچہ مجھے ان کے فہم دین اور تعبیر دین سے زیادہ اتفاق نہیں ہے لیکن یہ بات مسلمہ حقیقت ہے کہ جدید تعلیم یافتہ طبقے میں جو مقبولیت ان کو حاصل ہوئی، کسی دوسری شخصیت کو نہیں ہوئی۔ نسل نو کو دین سے قریب لانے اور دین کے لیے جدوجہد کرنے کا جذبہ پیدا کرنے میں مودودی صاحب کی بہت خدمات ہیں۔ پھر حضرت کہنے لگے، جب میں جامعہ اشرفیہ لاہور میں زیر تعلیم تھا تو سید مودودی صاحب سے ملنے کا اشتیاق پیدا ہوا۔ میں ان کی رہائش گاہ اچھرہ پہنچ گیا اور اجازت لے کر مولانا کی مطالعہ کے کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ مولانا تصنیف و تالیف میں مشغول ہیں۔ پھر کہنے لگے کہ مولانا کی شخصیت بہت باوقار، سنجیدہ اور دلنشین تھی۔ پھر کہنے لگے، بیٹا بس مجھے اتنا ہی یاد ہے کیونکہ یہ بات بہت پرانی ہے اور اب میرا حافظہ بھی میرا ساتھ نہیں دے رہا۔ 
مولانا اس زمانے میں جب جمعیۃ علماء اسلام کی قیادت حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ اور مفتی محمودؒ بقید حیات تھے۔ بہت فعال کارکن تھے۔ تعلیمی و تدریسی خدمات کے ساتھ ساتھ تحریک کے جلسے بھی منعقد کروایا کرتے تھے۔ اگرچہ چند سالوں بعد جمعیۃ کی قیادت کے انتقال کے بعد آپ تعلیم و تدریس کے کام میں یکسو ہوگئے، لیکن اس دوران 74ء کی تحریک ختم نبوت میں آپؒ نے بھرپور شرکت کی۔ گوجر خان شہر میں مختلف مکاتب فکر کے علماء و قائدین کو مجتمع کیا اور جیل بھی کاٹی۔ اڈیالہ جیل میں بہت سے لوگوں نے معافی نامے بھی لکھے لیکن حضرت کی غیرت ایمانی نے یہ گوارا نہ کیا۔ پھر جب آپؒ کی رہائی کا معاملہ ہونے لگا تو آپ نے یہ شرط رکھی کہ میرے ساتھ جو اور لوگ قید ہوئے ہیں ان کو بھی رہا کیا جائے ورنہ مجھے بھی جیل میں ان لوگوں کے ساتھ ہی رہنے دیا جائے۔
راقم الحروف نے نج کی مجلس میں حضرت سے ان کی پسندیدہ کتب کی بابت پوچھا تو کہنے لگے مجھے مولانا اشرف علی تھانویؒ کے ملفوظات و مواعظ، مفتی شفیعؒ کی تفسیر ’معارف القرآن‘‘، مفتی کفایت اللہؒ کے فتاویٰ ’’کفایت المفتی‘‘، مولانا منظور نعمانیؒ کی ’’معارف الحدیث‘‘ اور مولانا یوسف کاندھلویؒ کی ’’حیاۃ الصحابہ‘‘ پسند ہیں اور علوم دینیہ کے شائقین کو یہ کتب ضرور پڑھنی چاہئیں۔ آپؒ راقم کو یہ نصیحت کیا کرتے تھے کہ بیٹا آج کل کی وہ کتب جو مسلکی اور فروعی مسائل پر مبنی ہوتی ہیں جن میں قصے کہانیاں اور بے سروپا روایات کی بھرمار ہوتی ہے، بہت اجتناب کرنا، اگر دین کا صحیح ذوق پیدا کرنا چاہتے ہو تو متذکرہ بالا کتب کا مطالعہ کیا کرو۔ آپؒ مولانا سید سلمان ندویؒ اور سید ابوالحسن علی ندویؒ کی دینی بصیرت کے بہت قائل اور معترف تھے۔ ان کی کتب کا مشورہ راقم کو اکثر دیتے۔ خصوصاً علی میاں ندویؒ کی کتب ’’تاریخ دعوت و عزیمت‘‘، ’’ارکان اربعہ‘‘ اور ’’پرانے چراغ‘‘ کی ترغیب دیتے تھے۔ کتب سیرت میں اہل حدیث عالم و محققین حضرت قاضی سلیمان منصور پوریؒ کی کتاب ’’رحمت للعالمینؒ ‘‘ بہت پسند کرتے تھے اور ساتھ میں ڈاکٹر عبد الحئی عارفؒ کی کتاب ’’اسوۂ رسول اکرم‘‘ کے مطالعہ کی تشویق بھی دیتے تھے۔
ایک مرتبہ حضرت سے راقم کی گفتگو کا سلسلہ جاری تھا کہ اچانک ایک صاحب آئے اور بڑے پرتپاک انداز سے مولانا سے ملے۔ آپؒ بھی ان صاحب سے واقف تھے۔ یہ صاحب تصوف کے حلقے سے منسلک تھے اور فرط مسرت سے ان کی آنکھیں نم تھیں، کیونکہ انہیں اپنے مرشد سے خلافت عطا ہوئی تھی۔ وہ صاحب اپنے شیخ اور خانقاہ کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان تھے، لیکن جذبات کے عدم توازن سے ان کی زبان ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ راقم اس منظر پر حیرت میں مبتلا تھا۔ وہ صاحب کچھ دیر کی نشست اور سلام دعا کے بعد چلے گئے۔ مولانا میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمانے لگے کہ بیٹا اصل چیز تعلق مع اللہ ہے، اخلاق و معاملات کی بہتری اور فکر آخرت ہے۔ لوگوں نے جماعتوں، تناظیم اور مختلف حلقوں سے وابستگی کو ہی سب کچھ سمجھ لیا ہے۔ افسوس کہ حقیقتیں رخصت ہوتی جا رہی ہیں اور بس صورتیں ہی باقی رہ گئی ہیں۔ مقاصد نظروں سے اوجھل ہوگئے ہیں اور وسائل و ذرائع ہی مقصود و مطلوب بن گئے ہیں۔ پھر حضرت نے مولانا تھانویؒ کا یہ قول سنایا: ’’اصل چیز اصلاح ہے، بیعت ہونا مقصود نہیں ہے۔‘‘
راقم کے استفسار پر کہ اس پر فتن دور میں ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں؟ مولانا نے جواب دیا کہ بیٹا! سب سے پہلی اور اصولی بات یہ ہے کہ افرادِ معاشرہ میں سے ہر فرد میں اصلاح نفس کی فکر پیدا ہو اور غالب ہو، اصلاح معاشرہ میری اصلاح سے شروع ہوتا ہے، دوسری چیز اپنے اہل خانہ کی تعلیم و تربیت کی فکر ہے۔ ہفتے میں ایک گھنٹہ مطالعہ قرآن، حدیث، سیرت النبیؐ و صحابہؓ اور آدابِ زندگی کے لیے مختص کیا جائے۔ استغفار و توبہ پر استقامت و مداومت اختیار کی جائے، تلاوت قرآن کا اہتمام کیا جائے، اپنے عیوب و نقائص پر نظر رکھی جائے، غیبت، تجسس اور دوسرے رذائل اخلاق سے بچا جائے۔ راقم کو ہمیشہ مولانا صاحبؒ دو چیزوں کی کثرت سے تلقین کرتے تھے۔ ایک نماز اور دوسرا تلاوت قرآن۔ اگر مولانا کی فکر اور دعوت کو چند جملوں میں سمو دیا جائے تو وہ یوں ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق و محبت جس کا ذریعہ نماز اور قرآن ہے، اہل خانہ کی تعلیم و تربیت جس کے لیے مستند کتب سے اجتماعی مطالعہ ممد و معاون ہے۔ دعوت دین جس میں لوگوں کی دنیا و آخرت کے مسائل کو حکمت، تدریج اور اخلاص سے حل کرنے کی تگ و دو کی جائے۔ دین کی تعبیر و تشریح میں سلف صالحین بالخصوص خیر القرون کے منہج و طریقہ کار کا التزام کیا جائے۔ علماء ربانی کی صحبتوں سے استفادہ کیا جائے۔ دنیا سے بقدر ضرورت تعلق رکھا جائے، آخرت کی فکر اور تیاری کو پیش نظر رکھا جائے۔ لوگوں کی فلاح و بہبود اور رفاہ عامہ کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جائے اور اسے پوری دلجمعی اور یکسوئی کیے ساتھ سر انجام دیا جائے۔ آپؒ اکثر راقم کو فتنہ پرور اور مفاد پرست مذہبی پیشواؤں سے متنبہ رہنے کو کہا کرتے تھے جو لوگوں کا استحصال کرتے ہیں اور انہیں راہ حق سے منحرف کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ 
مولانا نے 1958ء میں شہر گوجر خان میں تن تنہا توحید کی شمع روشن کی، پوری یکسوئی اور استقامت سے دعوت و اصلاح کا کام کیا۔ اس معاملے میں ادنیٰ درجے کی مداہنت گوارا نہ کی۔ مخالفین و معاندین نے آپ کی راہ میں روڑے اٹکائے، لیکن آپ اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اعوان و انصار عطا کیے اور یوں یہ قافلہ آپ کی نگرانی میں سرگرم سفر رہا۔ آپؒ کی اولاد و احفاد میں آپؒ کے دو فرزندان ارجمند مفتی امداد اللہ اور مفتی سعید اللہ سر فہرست ہیں۔ اول الذکر جامعۃ المتین کے مہتمم ہیں اور ثانی الذکر اقراء روضۃ المتین سکول کے پرنسپل ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کی حسنات کو قبول فرمائے اور ان کی لغزشوں سے درگزر فرمائے، ہم سب کو ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’حیات نعمانی‘‘

ناشر: الفرقان بکڈپو، 114/31 نظیرآباد، لکھنؤ، انڈیا
صفحات: 692 
قیمت: 450 روپے 
اشاعت اول: مارچ 2013
بیسویں صدی کے ہندوستان میں(آزادی کے بعدکے دورمیں)دوشخصیتیں ملت اسلامیہ ہندیہ کی تاریخ میں ایک خاص مقام رکھتی ہیں۔ان میں پہلی شخصیت مولاناسیدابوالحسن علی ندوی المعروف علی میاں کی ہے اوردوسری مولانامحمدمنظورنعمانی کی ۔یہ دونوں حضرات زندگی بھربہترین دوست ،ہم مسلک اورہم مشرب بھی رہے اوردعوت اسلامی ،فکراسلامی اورمسلمانوں کی علمی وعملی اصلاح کے سر تاپا جہد و عمل بھی ۔فکری ہم آہنگی اورہم خیالی کے ساتھ دونوں ہی کے اپنے الگ الگ امتیازات وخصائص بھی ہیں۔مثال کے طورپردونوں بڑے مصنف ہیں مگردونوں کالکھنے کا اسلوب بالکل الگ ہے ۔مولاناابوالحسن علی ندوی پر چھوٹی بڑی کئی کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں۔حضرت نعمانی کی بھی مختصرخودنوشت ’’تحدیث نعمت ‘‘کے نام سے شائع ہوچکی ہے۔مگران کے شخصیت اوران کے کام ا ورجلیل القدرخدمات کے شایان شان کوئی سوانح حیات شائع نہیں ہوئی تھی ۔حیات نعمانی ازقلم مولاناعتیق الرحمان سنبھلی جواسی سال شائع ہوئی ہے اسی ضرورت کوپوری کرتی ہے۔
مصنف کتاب حضرت مولاناعتیق الرحمان سنبھلی ایک ایسے مفکر،عبقری صاحب علم وصاحب قلم ہیں کہ ان کے قلم سے جوچیز نکلتی ہے، وہ ان کے علم کی گہرائی وگیرائی ،ان کی تحقیق ،اصابت رائے اورحقیقت پسندی کی دلیل ہوتی ہے۔ حیات نعمانی ایک بڑاکارنامہ ہے اورواقعہ یہ ہے کہ راقم نے یہ کتاب شروع سے آخرتک پڑھی اوراگرمقدمہ میں یہ نہ پڑھ لیاہوتاکہ ’’عام طورپر لوگوں کوبزرگوں کی سوانح میں مبالغے اورتفصیل واطناب کا شکوہ ہوتاہے،اس کے برعکس یہاںآپ کواگرشکوہ ہوگاتوایجازواختصارکا اورحدسے زیادہ احتیاط کا ‘‘تویقیناراقم شکوہ کناں ہوتاکہ اس لذیذحکایت کواتنامختصرکیوں کردیاگیاکہ یہ داستان حیات اس ہستی کی ہے جومجھ سمیت ملت اسلامیہ ہندیہ کی نئی نسل کی محسن ہے جس پر وہی مصرع فٹ بیٹھتاہے : 
اعد ذکرنعمان لنا ان ذکرہ 
ہو المسک ما کررتہ یتضوع 
(نعمان کا ذکر ہمارے سامنے دہراؤ،یہ تو مشک ہے کہ جتنی باربھی اس کو دہراؤ مشام جاں معطرکرے گا) 
حیات نعمانی دوحصوں پرمشتمل ہے۔پہلے حصہ میں 14چودہ ابواب ہیں جن میں مقدمہ وہدیہ تبریک کے بعدوطن خاندان ،پیدائش وتعلیم ،درس وتدریس اوردفاع حق یعنی مناظرانہ زندگی کا دور،الفرقان کا اجراء ،مولانامودودی ؒ اورجماعت اسلامی سے وابستگی اور انقطاع ، حضرت مولاناالیاس ؒ بانی تبلیغی تحریک سے تعلق ،مادرعلمی دارالعلوم دیوبندکی خدمت ،آزادی کے بعدنئے مسائل وتقاضے ،معذوری کا 20سالہ دور،تصنیفات وتالیفات ،بیرون ہندکے اسفاراوران سفروں کے مشاہدات وتاثرات ،ملفوظات ومکتوبات وخطابات ،مذاق ومزاج اورعادات ومعاملات ،ازواج واولاد ،حقوق اللہ وحقوق العباد،بندہ اپنے رب کے بلاوے پر ،وہ شخصیتیں جن سے کچھ خاص تعلق رہایہ چندجلی عنوانات ہیں جن کے تحت یہ پوری داستان حیات بیان ہوئی ہے۔حصہ دوم میں خودحضرت نعمانی کے قلم سے نہایت مؤثرچھوٹی بڑی تحریریں ہیں جن کا عنوان مصنف نے بندگان حق کی یافت قراردیاہے۔کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے حضرت کی تعلیمی زندگی سے متعلق تھوڑی سی تشنگی سی رہ جانے کا احساس ہوا،مثلا مولانانعمانیؒ کے اساتذہ میں علامہ حبیب الرحمن محدث اعظمیؒ کانام بھی آتاہے ۔حیات نعمانی میں یہ توبتایاگیاہے کہ انہوں نے مؤکے مدرسہ دارالعلوم میں تین سال پڑھاتھامگراِس سے اس پر روشنی نہیں پڑتی کہ کیاآپ نے براہ راست محدث اعظمی سے بھی شرف تلمذحاصل کیا تھا یا نہیں؟یہ سوال ذہن میں اس لیے پیداہواکہ حال ہی میں علامہ اعظمی کی بڑی مبسوط سوانح حیات ابوالمآثر از ڈاکٹر مسعود احمد اعظمی پڑھنے کا اتفاق ہوا۔انہوں نے مولانانعمانیؒ کوعلامہ اعظمی کے اجلہ تلامذہ میں شامل کیاہے، مگرحیات نعمانی میں اس کی طر ف ہلکا سااشارہ بھی نہیں ہے !
مسلمانوں کی نئی نسل جس کاکچھ بھی مذہبی مزاج ہے اوردینی لٹریچرپڑھنے پڑھانے سے اس کوتعلق ہے اس کی دینی تعلیم وتربیت اورمذہبی اصلاح میں مولانانعمانی کی کتابوں اورخاص کر’اسلام کیاہے ،دین وشریعت ،قرآن آپ سے کیاکہتاہے‘ کا خاص حصہ رہاہے ۔دین کی صحیح تعبیر وتشریح میں’ مولانامودودی سے میری رفاقت کی سرگزشت اوراب میراموقف‘اورالفرقان کے خاص نمبرات نے جہاں اکسیرکا کام کیا۔وہیں جب ایران میں آیت اللہ روح اللہ خمینی صاحب کا انقلاب آیاتوریاستی پروپیگنڈے کی قوت سے ایک دنیاکویہ باورکرایاگیاکہ یہ خالص اسلامی انقلاب ہے ۔لاشیعیہ لاسنیہ اسلامیہ اسلامیہ کے نعروں نے شیعہ حلقوں کوتوچھوڑیے خودسنی اسلام پسندوں اورجوشیلے نوجوانوں کواپنی گرفت میں لے لیا۔ایسامعلوم ہونے لگاکہ عقیدہ کی کوئی اہمیت ہی نہیں اوراسلام کے نام پر جذباتی مسلمانوں کوہربڑے بول بولنے والاآسانی سے بے وقوف بناسکتاہے ۔جب اس فتنہ نے ایک دنیاکو اپنی لپیٹ میں لے لیاتو80سال کے اس بوڑھے نے جوانوں کی طرح کام کیااوروہ کتاب لکھی جس کا اردولٹریچرمیں اپنے موضوع پر کوئی جواب نہیں ہے اس کتاب ’ایرانی انقلاب ،امام خمینی اورشیعیت ‘نے شیعیت کوجس طرح بے نقاب کیااس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔واقعہ تویہ ہے کہ امام اہل سنت مولاناعبدالشکورلکھنؤیؒ کو چھوڑ کر شیعیت کا سنجیدہ اورتحقیقی مطالعہ کی یہ اولین مثال تھی جس نے کتنے ہی لوگوں کے خیالات بدل دیے اوران کی اصلاح کی ۔معارف الحدیث ہندوستان میں علم حدیث کی اس انداز سے ایک بالکل نئی اورانقلابی کاوش ہے کہ خالص علمی وفنی اورتحقیقی دقیق بحثوں کی بجائے اس پر ترکیز رکھی ہے کہ مسلمانوں کی دینی زندگی ،عقائدوایمانیات،عبادات ،اخلاق ومعاملات کونبوی تعلیمات کی روشنی میں کس طرح ڈھالاجائے ۔ 
حضرت نعمانی ؒ کی تحریریں لفاظی سے خالی ،صناعی سے معری سادہ انداز واسلوب کی حامل ،سلاست وروانی اوربرجستگی میں بے نظیرہیں ۔یہ بامقصداورصالح تحریریں نہایت مؤثرسوزوگداز میں ڈوبی ہوئی اورازدل ریزد بردل خیزد کا عمدہ نمونہ ہیں ۔یہ وہ ادب ہے جس کی تابندگی اورتاثیرکے سامنے ساری لفاظیاں اورساری خطابت ہیچ معلوم ہوتی ہے۔اورغالبایہی بڑاسبب ہے کہ ان کی کتابیں نہایت مقبول عام ہیں۔
حضرت نعمانی ایک عالم ربانی تھے اورنہایت جامع کمالات شخصیت ،جوبیک وقت دینی خدمات کے کئی سارے محاذوں پر سرگرم ۔علماء ربانین اورجماعت دیوبندکے اکابرین سے مخلصانہ روابط وتعلق اوران سے عقیدت واحترام اوراس مسلک کی حفاظت میں وہ سرگرم رہے ۔ اکابرسے روحانی کسب وفیض ایک طرف انجام پارہاہے دوسری طرف تبلیغی جماعت کے ساتھ طویل دعوتی واصلاحی دورے ہورہے ہیں ۔ تیسری طرف الفرقان کی ادارت کا فریضہ بھی ہے جس پر نامساعدحالات بھی آتے ہی رہتے ہیں۔خانگی ذمہ داریاں اوراہل خانہ اور بچوں کی تعلیم وتربیت پر بھی پوری توجہ ہے۔علمی ،دینی ،دعوتی وفکری تصنیفات کا سلسلہ الگ ہے۔خطابات اورمکتوبا ت کی جولانیاں ہیں ۔تبلیغی جماعت کے بارے میںیارلوگ کہتے ہیں کہ یہ لوگ ’’آسمان سے اوپرکی اورزمین سے نیچے کے علاوہ کوئی بات ہی نہیں کرتے ‘‘مگرحضرت نعمانی کی زندگی اوران کی ساری چلت پھرت اس مشہورعام مقولہ کی مکمل تردیدکرتی ہے،کہ وہ تبلیغی جماعت کے بارے میں بھرپوروقت لگانے کے ساتھ دوسرے اجتماعی تقاضوں سے عہدہ برآ ہوتے ہیں، ملی وجماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کرشامل ، عام مسلمانوں کی جان ومال کی حفاظت ،اسلام واسلامی تعلیم اورمسلم پرسنل لاکی بقاء کی جدوجہدسے ذرابھی غافل نہیں ہیں بلکہ دوسروں سے کچھ آگے ہی ہیں۔
تقریباسات سوصفحات پر مشتمل یہ کتاب صاحب سوانح کی 70سے کچھ اوپرسالوں کی جہدوعمل کی داستان راستان ہے ۔ان کی 92 سال کی یہ بابرکت اوربافیض زندگی تلاش حق ،احیاء دین ،عقائدحقہ کے تحفظ،ملت اسلامیہ کی اصلاح ،تزکیہ وسلوک ،رسوخ فی العلم ،اخلاص عمل اورروشن ملی خدمات کے تابندہ نقوش کی ایک تاریخ ہے جس میں قاری ایک پورے عہدکواپنے سامنے پاتاہے ۔بعض جگہوں پر مصنف نے کچھ اختصارسے کام لیاہے۔ورنہ حضرت نعمانی کا ذکرجمیل ہواور مولاناعتیق الرحمن سنبھلی کا گہربارقلم ہوتویہی جی چاہتاہے کہ یہ تذکرہ اوردراز ہواوردراز ہو۔حضرت نعمانی کی ایک مکمل سوانح عمری اہل علم پر ایک قرض تھاجواس کتاب سے اترگیاہے اورواقعہ ہے کہ خانوادۂ نعمانی میں بھی شاید کوئی اورمصنف مدظلہ سے بہتراس فرض سے عہدہ برآنہیں ہوسکتاتھا۔
کتاب میں کتنے ہی مقامات ایسے ہیں جوہم جیسے طالبان علم کے لیے عقدہ کشا اور سرمۂ بصیرت ہیں۔امیدہے کہ مصنف مدظلہ کی دوسری کتابوں کی طرح یہ بھی ہاتھوں ہاتھ لی جائے گی۔ 
(تبصرہ نگار: ڈاکٹر غطریف شہباز ندوی)

جان کائزر کی کتاب ’’امیر عبدالقادر الجزائری ؒ ‘‘ پر ماہنامہ ’’الحق‘‘ کا تبصرہ

انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی میں مسلم ممالک پر مغرب نے اپنے نت نئے حملوں کا آغاز کردیا‘ بہت سے مسلم ممالک پر قبضہ کرکے اپنے استعماری تسلط کو برقرار رکھا۔اس استعماری یلغار کے خلاف ان مسلم ممالک کے عوام الناس اور علماء و کرام نے مزاحمت کا پرچم بلند کیا۔ اپنی جرات واستقلال عزیمت واستقامت حوصلہ اور تدبر کی داستانیں تاریخ میں ثبت کیں اوران کی قربانیوں کواپنوں نے کیا، ان کے دشمنوں نے بھی سراہا اور جب ۱۸۳۰ء میں فرانس نے مسلمانوں کے ریاست الجزائر پر تسلط قائم کرنے کی کوشش کی‘ جس کی مزاحمت میں اس وقت کے عظیم مجاہد شیخ محی الدین ؒ نے فرانسیسوں کے خلاف جہادی تنظیم منظم کی۔ اس کے دیرپا ثمرات مرتب ہونے پر اس نے اپنے جواں سال بیٹے عبدالقادر کو امیر بنا کر باقاعدہ جدوجہد کا آغاز کیا اور رفتہ رفتہ ایک بڑی تحریک کی شکل اختیار کرگئی۔ امیر عبدالقادر جوان‘ توانا ‘ باہمت اور پرعزم ہونے کے ساتھ ساتھ جذبات کی رو میں بہنے والی شخصیت نہیں تھے بلکہ ہرقدم کو غور و تدبر اوراپنی جماعت مجاہدین کی وسیع ترمفادکی بنیاد پر اٹھاتے رہے۔ 
زیرتبصرہ کتاب اس عظیم مجاہد کی طویل جدوجہد پر مبنی عزیمت و جہاد کی لمبی داستان ہے جو آج کے ہرنوجوان ‘ ہر عالم دین اور ہرمجاہد کے لیے مشعل راہ ہے۔کتاب کے پیش لفظ میں نامور سکالر علامہ زاہد الراشدی صاحب لکھتے ہیں: ’’امیر عبدالقادر الجزائری‘‘ مغربی استعمار کے تسلط کے خلاف مسلمانوں کے جذبہ حریت اور جوش و مزاحمت کی علامت تھے اور وہ اپنی جدوجہد میں جہاد کے شرعی و اخلاقی اصولوں کی پاس داری اور اپنے اعلیٰ کردار کے حوالے سے امت مسلمہ کے محسنین میں سے ہیں۔ان کے سوانح وافکار او رعملی جدوجہد کے بارے میں جان کائزر کی یہ تصنیف نئی پود کو ان کی شخصیت اور جدوجہد سے واقف کرانے میں یقیناًمفید ثابت ہوگی۔ ایسی شخصیات کے ساتھ نئی نسل کا تعارف اوران کے کردار ‘ افکار اور تعلیمات سے آگاہی استعماری تسلط اوریلغار کے آج کے تازہ عالمی منظر میں مسلم امہ کے لئے راہنمائی کا ذریعہ ہے اوراس سمت میں کوئی بھی مثبت پیش رفت ہمارے لئے ملی ضرورت کی حیثیت رکھتی ہے۔ ‘‘
بدقسمتی سے معاصر مذہبی رسائل وجرائد میں امیر عبدالقادر الجزائری کی بہت زیادہ کردار کشی کی گئی ‘ انہیں نقلی اور جعلی مجاہد جیسے القابات سے یاد کیا گیا۔لیکن بنیادی طور پر ایک نقطہ سب کی نظروں سے اوجھل رہا۔ وہ یہ کہ کتاب ایک انگریز مصنف جان کائزر کی تصنیف ہے۔ بہت سی ایسی چیزیں جواس نے اپنی طرف سے شامل کی ہیں‘ ان کا امیرؒ سے کچھ تعلق ہے یا نہیں؟ ہمیں ان مسائل کا تجزیہ کرنا چاہیے تھا۔ ہمیں بڑی خوشی ہوتی کہ کوئی مسلمان مصنف اور مورخ اردو یا عربی میں ان کی سوانح لکھتا، لیکن افسوس کہ ہم اپنوں کی قدر نہ کرسکے۔مولانا زاہد الراشدی صاحب نے امیر عبدالقادر کی تشبیہ مولانا عبیداللہ سندھی ؒ سے دے کر بہت سے مسائل کو سلجھا دیا ہے۔ کاش مولانا سندھی ؒ کے تحریک کا ادراک ہم کرتے ہیں اور یہ عقدہ بڑی آسانی سے حل ہوتا۔ امیرعبدالقادر کو عرب دنیا خصوصاً الجزائر وغیرہ میں اب بھی وہی حیثیت حاصل ہے جس طرح اسلامی دنیا خصوصاً پاکستان وافغانستان میں شیخ اسامہ بن لادن اور ملا محمد عمر صاحب مدظلہ کوحاصل ہے۔
بہرحال کتاب ظاہری و معنوی ہراعتبار سے مرصع ہے۔ البتہ ترجمہ کو مزید سلیس ‘ رواں اور آسان بنانے کی ضرورت ہے۔ ۴۵۴ صفحات پر مشتمل یہ تاریخی دستاویز مکتبہ امام اہل سنت مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ سے دستیاب ہے۔ 

نسوانیت کا دشمن لیکوریا

حکیم محمد عمران مغل

آج سے نصف صدی پہلے کی زندگی اور آج کے حالات میں کوئی مماثلت نہیں رہی۔ ایسے امراض سے واسطہ پڑ چکا ہے جو کبھی سنے نہیں گئے تھے۔ لیکوریا کا مرض بھی اتنی شدت پر نہ تھا۔ آج تو لڑکی جوں ہی ہوش سنبھالتی ہے، لیکوریا اس کو دبوچ لیتا ہے۔ آج اس مرض میں شدت کی وجوہات ماضی سے بالکل مختلف ہیں۔ ہمارے ہاں جانوروں کا دودھ اتارنے کے لیے انھیں جو انجکشن آکسی ٹوسن لگایا جاتا ہے، یہ جنسی امراض کی بنیاد بن چکا ہے۔ 
خون میں ایک مادہ جسے ایڈر نے لین (Adrenaline) کہتے ہیں، کی ریزش ہوتی رہتی ہے۔ اس سے اختلاج قلب، سوء ہضم، نفخ، درد سر یا دوسرا کوئی بھی بے نام مرض پیدا ہوتا ہے۔ اس کا مقابلہ ہماری قوت وتوانائی کرتی ہے، لیکن اس قوت کی بڑھوتری کے اسباب بھی ہونے چاہییں۔ ورنہ صحت کے کئی مسائل پیدا ہوں گے۔ جوانی کا احساس خیالات سے ہے، کسی مقوی غذا سے نہیں اور خیالات تبھی ٹھیک ہوں گے جب اعضائے رئیسہ تندرست ہوں گے۔ 
موٹے اناج جوار، باجرہ، جو، چنے وغیرہ کی جگہ باریک آٹے نے شوگر کا مرض پیدا کر دیا ہے۔ حلوہ پوری، برگر، چپس، پیزا، مرغ مسلم، فاسٹ فوڈ نے جو حشر برپا کر رکھا ہے، اس کا ہمیں احساس ہی نہیں۔ علامہ مشرقی نے ساری زندگی چھان بورہ کی چائے پی اور موٹے آٹے کی روٹی کھائی۔ ہمارے پڑوس میں ہنزہ ریاست ہے جہاں کے گورے چٹے اور خوب صورت لوگوں کی صحت قابل رشک ہے۔ یہ لوگ ہماری طرز بود وباش سے متنفر ہیں۔ بوتلوں کے بند پانی یعنی کولا مشروبات کو ہاتھ نہیں لگاتے۔ بھرپور سردی میں یخ ٹھنڈی لسی،مکھن اور دودھ ان کا من بھاتا کھاجا ہے۔ 
۱۔ گندم سات کلو، جو ۲ کلو، کالے چنے ایک کلو۔ سب کو ملا کر آٹا پسوا لیں اور اس کی روٹی کھایا کریں۔ لیکوریا کے علاوہ شوگر اور دیگر کئی خطرناک امراض سے ان شاء اللہ آپ کی جان چھوٹ جائے گی۔ بے ہودہ ناول، ننگی فحش تصاویر اور فلمیں، مخلوط تعلیم، کھٹائی، اچار، چٹ پٹی اشیاء، گرم اور تلی ہوئی چیزوں سے پرہیز کریں۔
۲۔ بھنڈی کے پودے کو جڑوں سے جدا کر کے اس سے پھلیاں اتار لیں اور جڑوں کو کوٹ کر باریک کر لیں۔ ذائقہ کے لیے مناسب مقدار میں میٹھا ساتھ ملا کر صبح شام نصف چمچ چائے والا پانی کے ساتھ کھائیں۔ لیکوریا کے ساتھ جریان، احتلام، سرعت انزال بھی ان شاء اللہ ختم ہو جائیں گے۔