2013

جنوری ۲۰۱۳ء

دینی مدارس کے نصاب و نظام میں اصلاح کی ضرورتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
معاہدۂ حدیبیہ اور اس کے سبق آموز پہلومولانا محمد جمیل اختر ندوی
محافل سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلممولانا وقار احمد
دو ہفتے پاکستان میںمولانا محمد عیسٰی منصوری
نابالغی کا نکاح اور سیدہ عائشہ کی عمر ۔ چند نئے زاویے (۲)مولانا محمد عبد اللہ شارق
’’شکست آرزو‘‘عرفان احمد بھٹی
سیمینار: ’’حفظ قرآن کریم کے طلبہ کی تربیت اور ذہن سازی‘‘ڈاکٹر حافظ محمد رشید
ہماری خوراکی بے اعتدالیاں اور کینسر کا مرضحکیم محمد عمران مغل

دینی مدارس کے نصاب و نظام میں اصلاح کی ضرورت

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

دینی مدارس کے نظام تعلیم اور نصاب میں ضروریات زمانہ کے تناظر میں رد و بدل اور حک و اضافہ کے بارے میں ایک عرصہ سے بحث جاری ہے جو اس لحاظ سے بہت مفید اور ضروری ہے کہ جہاں موجودہ نصاب کی اہمیت و افادیت کے بہت سے نئے پہلو اجاگر ہو رہے ہیں، وہاں عصر حاضر کی ضروریات کی طرف بھی توجہ مبذول ہونے لگی ہے اور صرف توجہ نہیں بلکہ بہت سے اداروں میں عصری تقاضوں کو دینی مدارس کے نصاب و نظام کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کا کام بھی خوش اسلوبی سے جاری ہے جس میں سر فہرست جامعۃ الرشید ہے اور اس کے علاوہ بہت سے دیگر دینی تعلیمی ادارے بھی اس کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ مختلف حوالوں سے یہ بحث و مباحثہ دیکھ کر مجھے قرن اول کا ایک مباحثہ یاد آگیا ہے جو حدیث و تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے کہ سیدنا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جب مسجد نبویؐ کو شہید کر کے اس کی جگہ پختہ اور وسیع مسجد تعمیر کرنے کا اعلان کیا تو اس پر چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں اور بعض حضرات کی طرف سے یہ اشکال سامنے آیا کہ یہ مسجد جو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے دست مبارک سے بنوائی ہے اور جس کی دیوار یں اور چھت جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں سے ڈالے گئے تھے، اسے آخر کس طرح شہید کیا جائے گا؟ یہ عقیدت و محبت کی بات تھی جو اپنے دائرہ میں بالکل درست تھی، لیکن دوسری طرف ضرورت کا دائرہ اس سے مختلف تھا کہ آبادی میں اضافہ اور نمازیوں کی کثرت کی وجہ سے مسجد میں توسیع ناگزیر ہوگئی تھی اور اردگرد پختہ اور مضبوط عمارتوں کے درمیان یہ کچی مسجد عجیب سی محسوس ہونے لگی تھی۔ اسی وجہ سے حضرت عثمانؓ نے پرانی مسجد کو گرا کر نئی، وسیع اور پختہ مسجد تعمیر کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
ایک طرف محبت، عقیدت اور تقدس و احترام کی بات تھی اور دوسری طرف اجتماعی ضرورت کا مسئلہ تھا، اس لیے حضرت عثمانؓ نے ایک روز خطبۂ جمعہ میں لوگوں کے تحفظات کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا کہ ’’لقد اکثرتم‘‘ تم نے بہت زیادہ باتیں شروع کر دی ہیں، لیکن میں نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنا ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کا گھر یعنی مسجد تعمیر کی، اللہ تعالیٰ اس کا اسی طرح کا گھر جنت میں بنائے گا۔ چنانچہ سیدنا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان تحفظات کو ایک طرف رکھتے ہوئے پرانی مسجد کو شہید کر کے وسیع بنیادوں پر پختہ مسجد تعمیر کردی جبکہ اس کے بعد سے مختلف ادوار میں مسجد نبویؐ کی عمارت میں توسیع کے ساتھ ساتھ اس کی پختگی اور تزئین میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے اور آج یہ دنیا کی عظیم الشان عمارتوں میں شمار ہوتی ہے۔ 
مجھے دینی مدارس کے نصاب تعلیم کے حوالہ سے ہونے والا یہ مباحثہ بھی کچھ اسی طرح کا محسوس ہوتا ہے۔ ایک طرف اکابر کے ساتھ محبت و عقیدت کا اظہار ہے جو اپنی جگہ درست اور قابل قدر ہے جبکہ دوسری طرف عصری تقاضوں اور ضروریات زمانہ مسلسل دامن گیر ہیں جن سے کوئی مفر نہیں ہے اور ہم کسی طرح بھی انہیں نظر انداز کر کے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ہمارے ہاں احناف میں بہت سے مسائل میں متاخرین نے متقدمین کے اقوال و آراء سے اختلاف کرتے ہوئے الگ موقف اختیار کیا ہے جو ظاہر ہے کہ اپنے زمانہ کے حالات و ضروریات کے تناظر میں تھا اور یہ بھی ظاہر ہے کہ متقدمین سے الگ موقف اختیار کرنے والے فقہاء کرام کے دور کے حالات کا تسلسل کا اب تک قائم رکھنا ضروری نہیں ہے کیونکہ حالات بدلتے رہتے ہیں اور ضروریات میں تغیر و تنوع کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ہے، اس لیے اگر کسی مسئلہ میں آج کے حالات و ضروریات متاخرین کی بجائے متقدمین کے موقف کی طرف واپس جانے کا تقاضہ کر رہے ہوں تو ہمیں اس میں کوئی حجاب محسوس نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی اسے مسئلہ بنا لینا چاہیے۔ حنفیت علمی بحث و مباحثہ کے نتیجے میں تشکیل پانے والی فقہ کا نام ہے اور اختلافِ رائے اس کا سب سے بڑا حُسن ہے، بعد کے ادوار میں اس فقہ پر نظر ثانی یا اس کی تدوینِ نو کی ضرورت پیش آنے پر بھی اجتماعی علمی بحث و مباحثہ کی طرز ہی اختیار کی گئی تھی جیسا کہ ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ اور ’’مجلۃ الاحکام العدلیۃ‘‘ کی صورت میں موجود ہے، اس لیے ہمیں علمی بحث و مباحثہ کی ضرورت سے صرف نظر نہیں کرنا چاہیے۔ 
ضرورت زمانہ اور عصری تقاضوں کو محسوس کرنا اور انہیں اپنے نظام کے ساتھ ایڈجسٹ کرنا خود ہمارے اکابر و اسلاف کی روایت چلا آرہا ہے حتیٰ کہ درس نظامی کا مروجہ نصاب اپنے دور کے عصری تقاضوں کو قبول کرنے کے نتیجہ میں ہی تشکیل پایا تھا، مثلاً فارسی زبان کا دینی حوالے سے ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، یہ ایران و فارس کی زبان تھی اور اسے درس نظامی میں شامل کرنے بلکہ اس کی بنیاد بنانے کی وجہ یہ تھی کہ مغل سلطنت کے دور میں برصغیر کی دفتری زبان فارسی تھی اور عدالتی زبان بھی فارسی تھی، اسے سیکھے بغیر ہم ملک کے نظام میں شریک نہیں ہو سکتے تھے اور نہ ہی ملی مقاصد میں اس سے استفادہ کر سکتے تھے، اس لیے فارسی زبان کو درس نظامی کا جزوِ لازم بنایا گیا مگر آج کی صورت حال یہ ہے کہ فارسی نہ ملک کی دفتری زبان ہے اور نہ ہی عدالتی زبان ہے، دونوں شعبوں میں اس کی جگہ انگریزی نے لے لی ہے، اس لیے ملک کے دفتری اور عدالتی نظام میں شرکت کے لیے آج انگریزی زبان سیکھنا اسی طرح ضروری ہے جس طرح مغلوں کے دور میں علماء و طلبہ کے لیے فارسی زبان سیکھنا ضروری ہوگیا تھا، آج فارسی کی ضرورت ہمارے دینی حلقوں میں صرف اس قدر باقی رہ گئی ہے کہ فارسی زبان میں لکھے گئے اس وسیع دینی لٹریچر کے ساتھ ہمارا تعلق باقی رہے جو اس زبان میں ہمارے بہت سے بزرگوں نے مختلف اداروں میں تحریر فرمایا تھا اور اسلامی علوم کا ایک معتد بہ ذخیرہ اس زبان میں موجود ہے، اس کے علاوہ فارسی زبان کا اور کوئی مصرف ہمارے ہاں نہیں ہے، اس کے باوجود جائز ضرورت کی حد تک فارسی زبان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ 
اسی طرح یونانی فلسفہ و منطق اپنے دور کا رائج الوقت فلسفہ تھا اور دنیا بھر میں گفتگو اور مباحثہ و مکالمہ کے دائرہ میں اسی کے اسلوب کی حکمرانی تھی، چنانچہ جب عباسی دور میں یونانی فلسفہ کی کتابوں کا عربی میں ترجمہ ہوا اور اس فلسفہ کی بنیاد پر معتزلہ نے اسلامی عقائد میں شکوک و شبہات پھیلانا شروع کیے تو دفاعی ضرورت کے لیے اس فلسفہ کا سیکھنا ضروری قرار پایا، ورنہ ابتداء میں اس فلسفہ کی زبان میں عقائد کی بات کرنے کو اس دور کے اکابر اہل علم و فضل نے ناپسند کیا تھا اور اسے بدعت قرار دینے سے بھی گریز نہیں کیا تھا، لیکن جب دنیا میں اس فلسفہ و منطق کا چلن عام ہوا اور معتزلہ وغیرہ نے اس سے غلط فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کے عقائد و نظریات کو خراب کرنا شروع کر دیا تو علماء اور فقہاء نے اس فلسفہ کی تعلیم کی ضرورت محسوس کی اور امام ابوالحسن اشعریؒ ، امام ابو منصور ماتریدیؒ ، امام غزالیؒ ، ابن رشدؒ اور ابن تیمیہؒ جیسے عظیم متکلمین نے اس فلسفہ پر عبور بلکہ گرفت حاصل کر کے اسلام کے نظام عقائد کو معتزلہ وغیرہ کی یلغار سے محفوظ رکھا۔ چنانچہ اسی وجہ سے یہ بزرگ عقائد کے باب میں ہمارے ائمہ اور مقتدا شمار کیے جاتے ہیں۔ 
درس نظامی میں یونانی فلسفہ و منطق کی شمولیت اسی ضرورت کے تحت لازمی سمجھی گئی تھی اور اس پس منظر میں یہ ایک حد تک آج بھی ضروری ہے لیکن اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ آج کی عالمی زبان اور بحث و مباحثہ کے اسلوب میں یونانی فلسفہ کا کوئی عمل دخل باقی نہیں رہا کیونکہ مغرب کے سیاسی، سائنسی اور صنعتی انقلاب کے بعد دنیا کی زبان، اسلوب اور منطق یکسر تبدیل ہوگئی ہے اور اب دنیا میں کہیں بھی یونانی فلسفہ میں بات کرنے کا اسلوب موجود نہیں ہے بلکہ اس کی جگہ ہیومینیٹی یعنی انسانی حقوق کے فلسفہ نے لے لی ہے اور اب دنیا میں ہر جگہ سیاسی، معاشرتی اور معاشی مسائل و معاملات پر گفتگو اسی نئے فلسفہ و اسلوب میں ہو رہی ہے۔ اس لیے اپنی ضرورت کی حد تک یونانی فلسفہ و منطق کو دینی مدارس کے نصاب میں شامل رکھنے کے ساتھ ساتھ اس نئے فلسفہ و منطق کو نصاب تعلیم میں شامل کرنا اسی طرح ضروری ہوگیا ہے جیسے یونانی فلسفہ و منطق کو ایک زمانہ میں عصری تقاضہ سمجھ کر نصاب کا حصہ بنایا گیا تھا۔ 
کمپیوٹر سائنسز کی صورت حال بھی اس سے مختلف نہیں ہے، باقی سارے شعبوں کو نظر انداز کر دیا جائے تو بھی آج کے زمینی حقائق اس حوالہ سے ہمارے سامنے ہیں کہ کتابیں کمپیوٹر پر منتقل ہو رہی ہیں اور جدید دور میں لائبریری کا تصور کتاب اور الماریوں کی صورت میں نہیں بلکہ کمپیوٹرائزڈ سٹوریج کی شکل میں ہے جن سے موبائل ڈیوائسز پر انٹرنیٹ کے ذریعہ سے استفادہ کیا جا رہا ہے۔ اس صورت حال میں اپنے طالب علم کو کمپیوٹر سائنس سے دور رکھنے کا مطلب اسے کتاب، علم اور لٹریچر کی ایک وسیع دنیا سے الگ رکھنا ہے جو کسی طرح بھی قرین انصاف نہیں ہے۔ 
اس لیے گزشتہ تین عشروں سے میری طالب علمانہ رائے مسلسل یہی چلی آرہی ہے کہ:
  • جہاں تک قرآن و سنت اور حدیث و فقہ کے علوم کا تعلق ہے اس میں تو رد و بدل کی کوئی گنجائش اور ضرورت نہیں ہے البتہ جدید تحقیقات اور عرف و تعامل کے حوالہ سے تغیر پذیر مسائل و احکام کو نصاب میں وقت کے ساتھ ساتھ سموتے رہنا ہر دور کی ضرورت رہا ہے جو اب بھی ہے۔ 
  • عربی زبان اور اپنے ملک کی قومی زبان یعنی اردو کی تعلیم دینی مدرسہ کے طلبہ کے لیے اس درجہ میں لازمی ہے کہ وہ فی البدیہہ گفتگو کر سکیں، مقالہ نویسی کی صلاحیت رکھتے ہوں، علمی و عوامی مباحثوں میں پورے اعتماد کے ساتھ شریک ہو سکیں اور فصاحت کے معروف معیار پر پورے اترتے ہوں۔ 
  • دفتری اور عدالتی زبان ہونے کی وجہ سے انگریزی کی تعلیم بھی اس وقت تک ضروری ہے جب تک اس کی یہ حیثیت تبدیل نہیں ہو جاتی اور اس کی جگہ عملی طور پر اردو رائج نہیں ہو جاتی۔ 
  • عالمی سطح پر دین کی دعوت، اسلامی عقائد و احکام و قوانین کی تشریح اور اسلام پر ہونے والے اعتراضات کے رد و جواب کے لیے انگریزی زبان کی ضرورت اپنی جگہ الگ طور پر موجود ہے۔
  • ابلاغ کا موثر ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ علمی سرمایے کی کمپیوٹر پر مسلسل منتقلی کے باعث کمپیوٹر کی تعلیم بھی علماء کرام اور دینی طلبہ کے لیے ایک ناگزیر ضرورت کا درجہ اختیار کرتی جا رہی ہے۔
  • آج کے اس عالمی فلسفہ اور اسلوب سے واقفیت بلکہ اس کے دائرے میں گفتگو اور مباحثہ کی صلاحیت بھی علماء کرام اور دینی طلبہ کی اہم ترین ضرورت ہے جس فلسفہ و اسلوب میں اسلام کے عقائد و احکام اور شریعت اسلامیہ کے مختلف قوانین پر اعتراضات کیے جا رہے ہیں کیونکہ اس کے بغیر اسلام کی دعوت اور اس کا دفاع اب ممکن نہیں رہا۔ 

دینی مدارس کے نصاب و نظام کے بارے میں بہت سے دوست مجھ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ اس حوالے سے آپ کے والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ تعالیٰ کا موقف اور طرز عمل کیا تھا؟ یہ سوال بہت سے ذہنوں میں آیا ہوگا، اس لیے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ تعالیٰ اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی نور اللہ مرقدہ کے تعلیمی رجحانات اور طریق کار کی بابت کچھ معروضات پیش کر رہا ہوں۔
اس حوالے سے پہلی گزارش تو یہ ہے کہ میری یہ مجبوری ہے جو بہت سے دوستوں کو سمجھ نہیں آرہی اور بعض دوستوں کو تو ہضم بھی نہیں ہو رہی کہ میں نے ان دو بزرگوں کے زیر سایہ تعلیم و تدریس اور فکری و ذہنی تربیت کے ماحول میں چار عشروں سے زیادہ وقت گزارا ہے اور سب سے زیادہ انہی سے استفادہ کیا ہے۔ ان کی جس خوبی نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے، وہ یہ ہے کہ وہ علمی مسائل میں اختلاف کا حق دیتے تھے، اس اختلاف کو سنتے تھے، برداشت کرتے تھے، بڑے تحمل کے ساتھ دلیل اور منطق کے ساتھ اپنا موقف سمجھانے کی کوشش کرتے تھے، اختلاف رائے کو اختلاف کے درجے میں رکھتے تھے اور اسے مسئلہ نہیں بنا لیتے تھے اور بحث و تمحیص اور تجربہ و مشاہدہ کی بنا پر اگر اپنے کسی موقف اور رائے سے رجوع کی ضرورت محسوس کرتے تھے تو اس میں کسی تامل سے کام نہیں لیتے تھے۔ 
چچا محترم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ کی یہ بات میں زندگی بھر نہیں بھول سکوں گا کہ جب حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی وفات کے بعد جمعیت علماء اسلام دو حصوں میں تقسیم ہوئی تو میں ’’درخواستی گروپ‘‘ کے متحرک ترین کارکنوں میں سے تھا اور حضرت درخواستیؒ کے موقف کے اظہار اور دفاع میں پیش پیش تھا۔ اس پر دوسرے گروپ کے بعض سرکردہ بزرگ میرے خلاف شکایت لے کر حضرت صوفی صاحبؒ کے پاس آئے تو حضرت صوفی صاحبؒ نے میرے بارے میں فرمایا کہ اگر اس نے کوئی اخلاقی یا مالی بد دیانتی کی ہے یا کسی بزرگ کی توہین کی ہے تو ابھی اسے آپ حضرات کے پاس بلا کر ڈانٹوں گا، لیکن اگر صرف رائے کی بات ہے تو رائے کا حق جیسے آپ حضرات کو ہے، اسے بھی وہی حق حاصل ہے۔ اس سلسلے میں اسے کچھ نہیں کہوں گا کیونکہ وہ اپنی رائے میں آزاد ہے۔ 
اس ضروری وضاحت کے بعد دوسری گزارش یہ ہے کہ والدِ محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ تعالیٰ کا اب سے نصف صدی قبل خیال تھا کہ درس نظامی کے مروّجہ نصاب میں قرآن کریم ترجمہ و تفسیر کے ساتھ شامل نہیں ہے۔ صرف اوپر کے درجوں میں جلالین اور بیضاوی کا کچھ حصہ پڑھا دینا کافی سمجھا جاتا ہے، حالانکہ سب سے زیادہ ضرورت قرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر کی ہے۔ اس لیے انہوں نے جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں ترجمہ قرآن کریم مناسب تفسیر کے ساتھ مستقل طور پر پڑھانے کا سلسلہ شروع کیا جس میں اس دور میں کافیہ کے درجہ سے اوپر تک کے طلبہ کی شرکت لازمی ہوتی تھی۔ باقاعدہ حاضری ہوتی تھی، غیر حاضری پر ہمارے طالب علمی کے دور میں جرمانہ ہوتا تھا جو چار آنے (پچیس پیسے) فی غیر حاضری ہوتا تھا اور مدرسہ میں تعلیم کا آغاز درس قرآن کریم کے اسی پیریڈ سے ہوتا تھا۔ بحمد اللہ تعالیٰ اب یہ سعادت میرے حصہ میں ہے اور ترجمہ قرآن کریم کے پون گھنٹے کے اس پیریڈ کے بعد باقی اسباق کی ترتیب شروع ہوتی ہے۔ مکمل ترجمہ قرآن کریم دو سال میں مکمل ہوتا ہے، پندرہ پارے ایک سال اور پندرہ پارے دوسرے سال میں پڑھائے جاتے ہیں۔ دورۂ حدیث اور اس کے بعد کے دو درجات کے طلبہ کی شرکت لازمی ہوتی ہے اور اس کی باقاعدہ حاضری لگتی ہے، البتہ جرمانے کا سلسلہ اب نہیں ہے۔ جرمانے کے سلسلے میں ایک لطیفہ یہ ہے کہ میں نے یہ ترجمہ طالب علمی کے دور میں کم از کم تین بار حضرت والد محترمؒ سے پڑھا ہے۔ اس دوران غیر حاضریاں بھی ہوتی تھیں اور جرمانہ بھی دینا پڑتا تھا۔ حضرت والد محترمؒ جب جرمانے والوں کے نام پکار کر جرمانے کی رقم کا اعلان کرتے تو فہرست میں عام طور پر میرا نام بھی ہوتا تھا۔ میں اپنے نام کے ساتھ جرمانے کا اعلان سن کر حضرت والدِ محترمؒ کے جیب کی طرف دیکھنا شروع کر دیتا کہ ادا تو وہیں سے ہونا ہے۔ اس پر تھوڑی بہت ڈانٹ پلا کر وہ جرمانہ ادا کر دیتے تھے۔
بعد میں ۱۹۷۶ء میں مدرسہ نصرۃ العلوم اور اس کی ملحقہ جامعہ مسجد نور کو محکمہ اوقات پنجاب نے سرکاری تحویل میں لینے کا اعلان کیا تو اس کے خلاف مزاحمتی تحریک کے دوران یہ ضرورت پیش آئی کہ شعبان اور رمضان المبارک کی تعطیلات میں مدرسہ خالی نہیں رہنا چاہیے۔ چنانچہ سالانہ تعطیلات کے دوران دورۂ تفسیر شروع کر دیا گیا جو پچیس برس تک مسلسل جاری رہا اور ہزاروں علماء کرام اور طلبہ نے اس سے استفادہ کیا۔ یہ دورۂ تفسیر حضرت والدِ محترمؒ کی آواز میں آڈیو سی ڈی کی صورت میں مکمل طور پر موجود و محفوظ ہے اور برادرِ عزیز مولانا عبد القدوس خان قارن اسے تحریری صورت میں مرتب کر رہے ہیں اور یہ قرآن کریم کی تعلیم و تدریس کا ذوق رکھنے والے علماء کرام اور طلبہ کے لیے ایک عظیم علمی تحفہ ہوگا۔ 
کم و بیش ربع صدی تک مسلسل پڑھانے کے بعد یہ سلسلہ حضرت والد محترمؒ نے ترک کر دیا تو بہت سے دیگر حضرات کے ساتھ ساتھ میں نے بھی ان سے عرض کیا کہ دورۂ تفسیر کا یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ میں اب معذور ہوگیا ہوں اور مسلسل پڑھانا میرے بس میں نہیں رہا۔ میں نے عرض کیا کہ چند پارے آپ پڑھا دیں، باقی میں اور قارن صاحب مکمل کر لیں گے۔ انہوں نے فرمایا کہ جو علماء اور طلبہ دورۂ تفسیر پڑھنے کے لیے آئیں گے، وہ اس اعتماد کے ساتھ آئیں گے کہ سارا قرآن کریم میں خود (یعنی حضرت شیخ ؒ ) پڑھاؤں گا۔ اگر میں نے چند پارے پڑھا کر چھوڑ دیا تو ان کا اعتماد مجروح ہوگا جو دیانت کے خلاف ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے فرمایا کہ اب چونکہ وفاق المدارس نے مکمل ترجمہ قرآن کریم نصاب میں شامل کر دیا ہے جو مختلف مراحل میں باقاعدہ پڑھایا جاتا ہے، اس لیے اب اس کی ضرورت بھی نہیں رہی۔ چنانچہ سالانہ دورۂ تفسیر کا سلسلہ موقوف ہوگیا جبکہ دو سال والا ترجمہ قرآن کریم وفاق المدارس کے ترجمہ قرآن کریم کے نصاب کے باوجود الگ طور پر اب بھی ہوتا ہے اور حضرت والدِ محترمؒ کی زندگی میں ہی ان کے حکم پر یہ سعادت میرے حصہ میں آگئی تھی جو مسلسل جاری ہے، فالحمد للہ علیٰ ذلک۔ 
میرے ساتھ ابتدائی سالوں میں حضرت مولانا قاضی مظہر حسین نور اللہ مرقدہ کے بھتیجے قاضی مشتاق احمد صاحب بھی شریک سبق رہے ہیں۔ غالباً شرح ملا جامی تک ہم نے اکٹھے پڑھا ہے۔ بڑے ذہین طالب علم تھے۔ بعض باتیں جو سبق کے دوران سمجھ میں نہیں آتی تھیں، میں تکرار کے دوران ان سے سمجھا کرتا تھا۔ انہوں نے پرائیویٹ طور پر میٹرک کا امتحان دیا اور فرسٹ ڈویژن میں کامیابی حاصل کی۔ یہ دیکھ کر مجھے بھی شوق ہوا اور میں نے میٹرک کا پرائیویٹ امتحان دینے کا ارادہ کر لیا۔ خیال تھا کہ انگریزی اور حساب کے علاوہ دوسرے مضامین میں کچھ زیادہ محنت درکار نہیں ہوگی، اس لیے پہلے مرحلہ میں انہیں کلیئر کرلیتا ہوں اور اگلے سال تیاری کر کے انگریزی اور حساب کا امتحان دے دوں گا۔ اس کے لیے میں نے داخلہ فارم حاصل کر لیا جس کا حضرت والد محترمؒ کو علم ہوا تو انہوں نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا حتیٰ کہ دھمکی دی کہ اگر تم نے امتحان دیا تو میں تم سے لا تعلقی اختیار کر لوں گا۔ چنانچہ میں نے ارادہ ترک کر دیا حتیٰ کہ جب میرے ساتھی قاضی مشتاق احمدؒ نے میٹرک کے امتحان میں بہتر پوزیشن حاصل کرنے پر تعلیمی لائن بدل کر سکول و کالج کی لائن اختیار کر لی تو مجھے حضرت والدِ محترمؒ کے اس فیصلے پر اطمینان بھی ہوگیا کہ ان کی ناراضگی اور دھمکی فراست و بصیرت پر مبنی تھی۔ 
لیکن اس کے بعد دو عشروں کا وقفہ نہیں گزرا تھا کہ ہم نے گوجرانوالہ میں جمعیۃ اہل سنت کے زیر اہتمام ’’شاہ ولی اللہ یونیورسٹی‘‘ کے قیام کا پروگرام بنا لیا جس کا ٹائٹل ’’دینی و عصری تعلیم کا حسین امتزاج‘‘ تھا اور اہداف میں یہ بات شامل تھی کہ علماء اور فضلاء کو یونیورسٹی سے بی اے اور ایم اے کے باقاعدہ امتحانات دلوائے جائیں اور دو تین سال تک ہم نے بہت سے فضلاء کو بی اے اور ایم اے کے امتحانات دلوائے۔ اس سارے پروگرام کی سرپرستی حضرت والدِ محترمؒ اور حضرت عم مکرمؒ فرما رہے تھے۔ دونوں بزرگ شاہ ولی اللہ ٹرسٹ کے رکن بلکہ باقاعدہ سرپرست تھے۔ اس کے اجلاس عام طور پر مدرسہ نصرۃ العلوم میں ہوتے تھے اور حضرت والد محترمؒ ان کی صدارت کیا کرتے تھے۔ اس دوران ایک بات یہ ہوئی کہ ۱۹۸۶ء میں جمعیۃ علماء برطانیہ کی دعوت پر حضرت والدِ محترمؒ اس کی ’’سالانہ توحید وسنت کانفرنس‘‘ میں شرکت کے لیے تشریف لے گئے تو تین ہفتے وہاں کے مختلف شہروں کا دورہ کیا۔ ہمارے محترم دوست اور حضرت والد محترمؒ کے عزیز شاگرد مولانا عبد الرؤف ربانی خطیب مکی مسجد رحیم یار خان ان کے رفیق سفر تھے۔ اس سفر سے واپسی پر ایک مجلس میں انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں مجھے فرمایا کہ ’’او خبطی!‘‘ تم ٹھیک کہتے تھے۔ انگریزی زبان اور جدید تعلیم بھی ضروری ہے۔ میں نے عرض کیا کہ یہ بات شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کے کسی پروگرام میں سب لوگوں کے سامنے فرما دیں۔ چنانچہ شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کی ایک عمومی طرز کی نشست میں حضرت والدِ محترمؒ نے نہ صرف یہ بات فرما دی بلکہ عصری تعلیم کی ضرورت پر پندرہ بیس منٹ تک گفتگو بھی فرمائی جو اس ادارے کی آئندہ تعلیمی پالیسی کی بنیاد بنی۔ 
یہ ہمارے بزرگوں کا ذوق اور مزاج ہے کہ دینی اور قومی حوالے سے وہ جس چیز کی ضرورت محسوس کر لیتے تھے، اسے نظرانداز نہیں کرتے تھے اور انہیں اس کے لیے اپنی سابقہ رائے سے رجوع کرنا پڑتا تو وہ اس سے گریز نہیں کرتے تھے۔ 
عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی قدس اللہ سرہ العزیز کا ذوق اس بارے میں یہ تھا کہ وہ درس نظامی کی تعلیم کے دوران جہاں خلا محسوس کرتے تھے، اسے پُر کرنے کی اپنے طور پر کوشش کرتے تھے، چنانچہ وہ دورۂ حدیث کے طلبہ کو حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی کتاب ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ سبقاً سبقاً پڑھاتے تھے۔ صبح کا دو سالہ ترجمہ قرآن کریم اور ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ کی تدریس بحمد اللہ تعالیٰ جامعہ نصرۃ العلوم کے نصاب تعلیم کے امتیازی شعبے ہیں جو ہمارے ان دو بزرگوں کے ذوق کی علامت اور ان کا صدقۂ جاریہ ہیں۔ حجۃ اللہ البالغہ دورۂ حدیث کے نصاب میں اب بھی شامل ہے اور یہ خدمت بھی میرے سپرد ہے۔ البتہ اب اس کے چند ابواب پڑھائے جاتے ہیں اور مکمل تدریس کی حسرت ہی رہتی ہے۔ 
اس سلسلہ میں میرا ذاتی ذوق اور نقطۂ نظر یہ ہے کہ (۱) عصر حاضر کے مسائل کے تناظر میں احکام القرآن (۲) طحاوی شریف اور (۳) حجۃ اللہ البالغۃ کی مکمل طور پر تدریس دورۂ حدیث سے قبل ہونی چاہیے کیونکہ اسی صورت میں دورۂ حدیث کے طلبہ احادیث نبویہؐ کے عظیم الشان ذخیرے سے صحیح طور پر استفادہ کر سکتے ہیں اور اگر پہلے نہ ہو سکے تو فضلاء درس نظامی کو فراغت کے بعد تکمیل یا تخصص کی صورت میں یہ کورس ضرور پڑھنا چاہیے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ اگر باذوق فضلاء کی ایک مناسب تعداد ایک سال کا وقت فارغ کر سکے تو آج کی عالمی فکری و تہذیبی کشمکش کے تناظر میں احکام القرآن کے ساتھ ساتھ حجۃ اللہ البالغۃ اور طحاوی شریف کی مکمل تدریس کا موقع اور سعادت حاصل کر لوں مگر ذوق و شوق، وسائل اور فکری و علمی استعداد میں مسلسل کمی کی وجہ سے اس کی کوئی صورت نہیں بن رہی۔ اپنے اس ذوق کی کسی حد تک تکمیل کے لیے میں نے دورۂ حدیث شریف میں حجۃ اللہ البالغۃ کے ساتھ ایک اور پیریڈ کے اضافے کی ’’بدعت‘‘ شروع کر رکھی ہے جو سالہا سال سے جاری ہے اور اس کے نصاب میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کا اسلامی احکام و قوانین کے ساتھ تقابلی مطالعہ اور دور حاضر کے معاصر ادیان و مذاہب کا اجمالی تعارف شامل ہے۔ یہ ہر جمعرات کو ہوتا ہے اور سال بھر کی پچیس نشستوں میں ’’خلاصۃ الخلاصۃ‘‘ کے درجے میں ان دو موضوعات کو سمیٹنے کی کوشش کرتا ہوں۔ 
حضرت صوفی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کا اس سلسلہ میں ایک ذوق یہ بھی تھا کہ وہ چند طلبہ کو منتخب کر کے انہیں نصاب سے ہٹ کر بعض کتابیں الگ طور پر پڑھاتے تھے۔ ان خوش نصیبوں میں میرا شمار بھی ہوتا ہے اور میں نے ملا علیّ القاریؒ کی شرح نقایہ، مقامات ہمدانی، کلیلہ و دمنہ، رسائل اخوان الصفاء، مصطفی لطفی منفلوطیؒ کی العبرات اور الأستاذ محمد خضری بک کی کتاب نور الیقین ان سے سبقاً سبقاً پڑھی ہے۔ نور الیقین سیرت نبویؐ کی کتاب ہے، حضرت صوفی صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے درس نظامی کے (اس وقت کے) نصاب میں سیرت النبیؐ اور سیرت الخلفاء شامل نہیں ہے، حالانکہ اس کی ضرورت ہے۔ چنانچہ انہوں نے کئی سال تک طلبہ کی متعدد کلاسوں کو ’’نور الیقین فی سیرت سید المرسلین‘‘ پڑھائی ہے۔ اس سلسلے میں لطیفہ کی بات یہ ہے کہ مدرسہ انوار العلوم میں تدریس کے دوران میں نے بعض طلبہ کو ’’ورغلا کر‘‘ سیرت النبیؐ کی ایک کتاب ’’عین الیقین‘‘ درساً پڑھائی جو مصری عالم عبد الحمید الخطیب کی تصنیف ہے اور مجھے وہ اس وقت اس مقصد کے لیے زیادہ موزوں محسوس ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی امام سیوطیؒ کی ’’تاریخ الخلفاء‘‘ کی تدریس بھی شروع کر دی مگر بمشکل ایک سال ایسا کر سکا اور اگلے سال کسی طالب علم کو ’’ورغلانے‘‘ میں مجھے کامیابی حاصل نہ ہوئی۔
یہاں ایک اہم وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ ہم نے جب گوجرانوالہ میں جدید اور قدیم علوم کے امتزاج کے ٹائٹل کے ساتھ ایک نئے تعلیمی ادارے کے قیام کا پروگرام بنایا تو اس کا ابتدائی نام ’’نصرۃ العلوم اسلامی یونیورسٹی‘‘ تھا اور اس منصوبے کا پہلا تعارف پمفلٹ اور اشتہارات کی صورت میں اسی نام سے شائع ہوا تھا، اس سے عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اختلاف کیا ۔ وہ جامعہ نصرۃ العلوم کے مہتمم تھے اور ہمارے اس نئے تعلیمی پروگرام کے سرپرست تھے، انہوں نے فرمایا کہ اس نئے تعلیمی نظام کے لیے الگ نام سے ادارہ بناؤ، یہ بہت ضروری کام ہے لیکن اس کے لیے جو تعلیمی نظام تسلسل کے ساتھ دینی مدارس میں چلا آرہا ہے اسے ڈسٹرب نہ کرو، ان کے اس اختلاف کی وجہ سے ہم نے اس کا نام تبدیل کر کے ’’فاروق اعظمؓ اسلامی یونیورسٹی‘‘ رکھا اور پروگرام کا دوسرا تعارف اس نام سے شائع ہوا۔ حضرت صوفی صاحبؒ نے اس سے بھی اختلاف کیا اور فرمایا کہ ’’بھائی ! جس کے مشن پر کام کرنا چاہتے ہو اس کا نام تمہیں کیوں یاد نہیں آرہا؟‘‘ ان کا اشارہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی طرف تھا جن کے علوم کے وہ اپنے دور کے متخصصین میں شمار ہوتے تھے اور حضرت شاہ صاحبؒ کی تعلیمات پر ان کی گہری نظر تھی۔ چنانچہ ہم نے اپنے اس نئے تعلیمی پروگرام کو شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کا نام دے دیا اور اس کے بعد کی پیش رفت گزشتہ کالم میں ذکر کر چکا ہوں۔ 
حضرت صوفی صاحبؒ کا موقف یہ تھا اور خود میرا ذاتی موقف بھی یہ ہے کہ دینی مدارس کا جو روایتی تعلیمی نظام تسلسل کے ساتھ چلا آرہا ہے اسے چھیڑنے کی ضرورت نہیں ہے البتہ عصری تقاضوں کے حوالہ سے ایک نئے تعلیمی تجربے کا اہتمام ضرور ہونا چاہیے جو بحمد اللہ تعالیٰ بہت سے اداروں کی صورت میں ہو رہا ہے، میرے نزدیک جس طرح عصری تقاضوں کو محسوس کرنا اور انہیں پورا کرنے کی محنت کرنا ضروری ہے اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ تعلیمی نظام کے روایتی تسلسل کو قائم رکھنا اور اس کا تحفظ کرنا بھی ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جامعہ نصرۃ العلوم کا ذمہ دار فرد ہونے کے باوجود ایسے علمی و فکری مباحث کے لیے میں نے ’’الشریعہ اکادمی‘‘ اور ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کے نام سے الگ فورم قائم کر رکھا ہے جن مباحث میں زیادہ سے زیادہ اور مختلف الخیال اصحابِ فکر کا شریک ہونا مجھے ضروری محسوس ہوتا ہے۔

معاہدۂ حدیبیہ اور اس کے سبق آموز پہلو

مولانا محمد جمیل اختر ندوی

مدینے آئے ہوئے چھ سال کا عرصہ بیت چکا تھا۔کعبہ سے دوری اور مہجوری پر چھ دور گزر چکے تھے۔ وطنِ عزیز کو چھوڑے ہوئے ایک لمبی مدت ہوچکی تھی۔ شوق گھڑیاں گن رہاتھا۔ امنگیں لمحے شمارکررہی تھیں۔ چاہت بڑھتی جا رہی تھی۔ خواہش دوچندہورہی تھی۔ جذبات کی تلاطم خیزی قنوط کی بندپرضربیں اوراحساس کی شدت صبرکے حصارپرٹھوکریں لگارہی تھیں کہ ایک رات شہِ لولاک نے خواب دیکھاکہ آپ ﷺپنے اصحاب کے ساتھ حلق کرائے ہوئے امن وسکون کے ساتھ مکہ داخل ہورہے ہیں۔ (دلائل النبوۃ للبیھقی، باب نزول سورۃ الفتح۔۔۔: ۴/۱۶۴ (حدیث نمبر: ۱۵۱۲)، السیرۃ الحلبیۃ، غزوۃ الحدیبیۃ: ۲/۶۸۸)
زبانِ نبوت سے خوابِ رحمانی کاتذکرہ سن کرصحابہؓ  خوش ہوگئے۔مہاجرین اس لیے کہ اُس شہرستان کادیدارنصیب ہوگا، جواُن کی جائے پیدائش رہی ہے، جہاں کے کوچے اورگلیاںآج تک اُن کی نگاہوں کے سامنے ہیں، جہاں کے پہاڑاوروادی آج تک ذہنوں پرچھائے ہوئے ہیں، جہاں کے پھولوں کی خوشبوسے ابھی تک دماغ میں تازگی ہے اورجہاں کاادنیٰ تذکرہ بھی دلوں کے لیے باعثِ سرورہے اورانصاراس لیے کہ نگاہوں کو اُس دیارکی رؤیت کی سعادت حاصل ہوگی، جواُن کے نبی کاوطن رہاہے، جہاں وہ کعبہ ہے، جسے روئے زمین پرپہلاگھرہونے کاشرف حاصل ہے اورجس کی طرف رخ کرکے آج تک نمازِ پنجگانہ کی ادائے گی کرتے رہے ہیں۔
سن چھ ہجری کی پہلی تاریخ کوحضور اکرم ﷺ نے اپنے چودہ سوقدسی صفات اصحابؓ کے ساتھ عمرہ کی غرض سے مکہ کے لیے رختِ سفرباندھا۔ مقامِ ذوالحلیفہ میں ساتھ میں لائے ہوئے ہدی کے جانوروں کوقلادہ پہناکراُن کااِشعار(کوہان کوزخمی کرکے خون نکالنا؛ تاکہ لوگوں کومعلوم ہوجائے کہ حرم لے جائے رہے ہیں)کیااورلبادۂ احرام پہنا۔بسربن سفیان کوقریش کے حالات سے آگاہی کے لیے پہلے روانہ فرمایا۔کاروانِ نبوت جب مقامِ عسفان میں پہنچاتواُنھوں نے یہ اطلاع بہم پہنچائی کہ قریش نے آپ کی آمدسن کرایک لشکرِجرارتیارکررکھاہے اوردخولِ مکہ سے آپ کوباز رکھنے کے لیے آپس میں عہدوپیمان باندھ لیاہے۔ یہ خبربھی گوش گزارکی کہ خالدبن الولید(جوابھی تک اسلام کی سعادت سے محروم تھے)ہراول دستے کے طورپردوسوشہ سواروں کے ہمراہ’’ غمیم‘‘ تک پہنچ چکے ہیں۔اِس خبرکے سنتے ہی آپ نے اپناراستہ بدل لیاکہ مقصودلڑائی نہیں؛ بل کہ سعادتِ عمرہ سے سرفراز ہوناتھا۔ (جوامع السیرۃ لإبن حزم، غزوۃ الحدیبیۃ: ۱/۲۰۷)
حدیبیہ کی سرزمین کے لیے یہ بخت بیداری کی گھڑی تھی اورقیامت تک تاریخ کے اوراق میں نسبتِ رسول کے ساتھ اُسے محفوظ رہناتھا؛ اس لیے آپ ﷺ کی سواری کے بڑھتے قدم وادی ہی میں رُک گئے۔ لوگوں نے ’’خلأت القصویٰ، خلأت القصویٰ‘‘ (اونٹنی بیٹھ گئی، اونٹنی بیٹھ گئی) کی آواز لگانی شروع کی، آپ نے فرمایا: ما خلأت القصویٰ، وماذاک لہا بخلق، ولکن حبسہا حابس الفیل ’’اونٹنی نہیں بیٹھی اورناہی اِس کی یہ عادت ہے؛ بل کہ اِسے اُس ذات نے روک لیاہے، جس نے ہاتھی کوروکاتھا‘‘۔پھرآپ نے فرمایا: والذی نفسی بیدہ! لایسألونّی خطّۃ یعظمون فیہا حرمات اللہ إلا أعطیتہم إیاہا’’ اُس ذات کی قسم، جس کے قبضہ میں میری جان ہے! اگروہ لوگ میرے سامنے کوئی ایسی تجویز رکھیں گے، جس میں اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کی تعظیم ہوتی ہوتومیں اُسے قبول کروں گا‘‘۔ پھراُونٹنی کوکوچادیاتووہ چل پڑی۔ اب آپ مقامِ حدیبیہ کے ایک سِرے پر خیمہ زن ہوئے، جہاں کم مقدارپانی والے کنوئیں میں آپ ﷺ کے ایک تیرڈالنے کی وجہ سے پانی کے جوش مارنے کا معجزہ ظاہرہوا۔ (بخاری، باب الشروط فی الجہاد والمصالحۃمع اہل الحرب وکتابۃ الشروط، حدیث نمبر: ۲۷۳۱)
یہاں سے آپ ﷺ نے خراش بن امیہ خزاعی ص کونامہ بربناکرقریش کے پاس اِس پیغام کے ساتھ بھیجاکہ ’’ہم فقط بیت اللہ کی زیارت کے لیے آئے ہیں، جنگ کے لیے نہیں‘‘؛ لیکن قریش نے ان کے اونٹ کوذبح کرڈالا اوراُن کے قتل کے بھی درپے ہوگئے۔ حضرت خراش اپنی جان بچاکرواپس آئے اورسارا ماجرا آپ کے روبروسنایا (الروض الأنف، غزوۃ الحدیبیۃ: ۴/۴۵)۔آپ نے حضرت عمرص کوپیغام بربناکربھیجنا چاہا؛ لیکن اُنھوں نے یہ کہتے ہوئے معذرت چاہی کہ’’ قریش مجھ سے بہت زیادہ برہم اورمیرے سخت دشمن ہیں۔ مزیدیہ کہ میرے قبیلہ کا کوئی شخص نہیں، جومجھے بچا سکے؛ اس لیے حضرت عثمان ص کوبھیجنازیادہ مناسب ہے کہ وہاں اُن کے اعزہ موجود ہیں(جوناگفتہ بہ حالت میں اُن کی حفاظت کریں گے)۔آپنے حضرت عمرص کی یہ رائے معقول سمجھی اورحضرت عثمان ص کو ابوسفیان (جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے)اوررؤسائے مکہ کے پاس اپناقاصد بناکر بھیجا، جب کہ وہاں پر موجود مسلمانوں کو یہ بشارت بھی بھجوائی کہ عنقریب اللہ تعالیٰ فتح نصیب کرے گااوراپنے دین کوغالب فرمائے گا۔
حضرت عثمان اپنے ایک عزیز ابان بن سعیدکی پناہ میں مکہ آئے اورقریشِ مکہ کوآپ کا پیغام اور وہاں موجود مسلمانوں کو خوش خبری سنائی۔حضرت عثمان کی زبانی آپ کاپیغام سن کراہالیانِ مکہ نے جواب دیاکہ ’’اس سال تو محمد مکہ میں داخل نہیں ہوسکتے، ہاں اگرتم تنہاطوافِ زیارت کی سعادت حاصل کرناچاہوتوکرسکتے ہو‘‘۔حضرت عثمان نے جواب دیاکہ’’میں تنہا کبھی اِس سعادت کوحاصل نہ کروں گا‘‘۔ قریش یہ جواب سن کرخاموش ہوگئے؛ لیکن حضرت عثمان کووہیں روک لیا۔اِدھرمسلمانوں میںیہ خبرمشہورہوگئی کہ حضرت عثمان قتل کر دیے گئے۔ جب قتل کی یہ خبرآپ کے کانوں تک پہنچی توآپ کی طبیعت میں تکدر پیدا ہوا اور آپ نے فرمایا: جب تک میں عثمان کابدلہ نہ لے لوں، یہاں سے حرکت نہیں کروں گا۔ پھروہیں ایک ببول کے درخت کے نیچے حضرت عثمان ص کے خون کابدلہ لینے پرتمام صحابہ سے بیعت لی، جوتاریخ وسیرکی کتابوں میں ’’بیعۃ الرضوان‘‘ کے نام سے مشہورہے؛ لیکن بعد میں اِس خبرکے غلط ہونے کی بات معلوم ہوئی (السیرۃ النبویۃ لإبن ہشام، غزوۃ الحدیبیۃ: ۲/۳۱۵)۔قریش کواِس بیعت کاحال معلوم ہواتووہ خوف زدہ ہوئے اورنامہ وپیام کا سلسلہ شروع کیا۔
مقامِ حدیبیہ میں قیام پذیری کے دوران مسلمانوں کے پرانے حلیف بنوخزاعہ (جوپہلے بھی آپ تک قریش کی خبریں پہنچایاکرتے تھے)کے سرداربُدیل بن ورقاء آپ کی خدمت میں حاضرہوئے اورعرض کیا: قریش کی ایک بھاری جمعیت مستعد کھڑی ہے، وہ آپ کوکعبہ میں جانے نہ دیں گے۔ آپ نے اُن سے فرمایا: اُنھیں جاکرکہہ دو کہ ہم صرف عمرہ کی غرض سے آئے ہیں، لڑائی ہمارے حاشےۂ خیال میں بھی نہیں۔ جنگ نے قریش کی حالت زارزارکردی ہے؛ اس لیے بہترہے کہ ہم سے ایک مدت تک کے لیے جنگ بندی کامعاہدہ کرلیں اورمجھے عربوں کے ہاتھوں چھوڑدیں۔ اگروہ اِس پرراضی نہیں توخدا کی قسم ! میں اُس وقت تک لڑتارہوں گا، جب تک میراسرتن سے جدانہ کردیاجائے۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی، باب المہادنۃ۔۔۔۔۔۔، حدیث نمبر: ۱۹۲۸۰)
بدیل نے قریش کے پاس آکرکہاکہ میں محمدکے پاس سے کچھ پیغام لے کرآیاہوں، اشرارنے سننے سے انکارکیا؛ لیکن سنجیدہ قسم کے افرادنے پیغام سنانے کی اجازت دی۔ اُنھوں نے آپ کا پیغام سنایا۔ عروہ بن مسعودثقفی نے اہلِ مجلس سے کہا: کیوں قریش! کیامیں تمہارے لیے باپ کے مقام اورتم میرے لیے بیٹوں کے درجہ میں نہیں؟ سبھوں نے کہا: ہاں! ایسا ہی ہے۔ پھراُس نے کہا: میری نسبت تمہیں کوئی بدگمانی تونہیں؟ جواب ملا: نہیں! اس نے کہا: پھرتومجھے خود محمدکے پاس جاکرمعاملہ طے کرنے کی اجازت دو، اس نے معقول تجویز رکھی ہے۔
عروہ بن مسعود آپ کی خدمت میں حاضرہوئے۔ آپ نے اُن سے بھی وہی باتیں کہیں، جوبدیل سے کہہ چکے تھے۔اُس وقت عروہ نے آپ کو مخاطب کرکے کہا: أی محمد! أرأیت إن استأصلت أمرقومک، ہل سمعت بأحد من العرب اجتاح أصلہ قبلک؟ وإن تکن الأخریٰ، فإنی واللہ لأری وجوہاً ، وإنی لأری أشواباً من الناس خلیقاً أن یفروا، ویدعوک ’’ائے محمد! اگرتم نے اپنی قوم کا استیصال کردیاتوکیااس کی بھی کوئی مثال ہے کہ کسی نے اپنی ہی قوم کا خاتمہ کردیاہو؟لیکن اگرلڑائی کارخ بدلا(اوراہلِ مکہ تم پرغالب آگئے)تومیں تمہارے ساتھ ایسے لوگوں کودیکھ رہاہوں، جوتمہیں چھوڑکربھاگ کھڑے ہوں گے‘‘۔ عروہ کی اِس بدگمانی پرحضرت ابوبکرص نے سخت درشت لہجہ اختیارکرتے ہوئے فرمایا: کیاہم محمد ﷺ کوچھوڑکربھاگ جائیں گے؟حضرت ابوبکرص کی سخت کلامی کوسن کرعروہ نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ لوگوں نے جواب دیا: ابوبکرہیں! عروہ نے کہا: اگرمجھ پر تمہارا (زمانۂ جاہلیت میں دیاہواوہ)احسان نہ ہوتا، جس کی میں نے ابھی مکافات نہیں کی ہے تومیں تمہیں اِس سخت کلامی کاجواب ضروردیتا۔
اب عروہ حضور ﷺ سے محوگفتگوہوئے اورعربوں کی عادت کے مطابق اثنائے کلام آپ کی داڑھی مبارک پربھی ہاتھ پھیرتے جاتے۔ عروہ کی اِس حرکت کوحضرت مغیرہ بن شعبہ ص جسارت تصورکیا اوراُن کے ہاتھ پرٹہوکادیااورکہا: أخر یدک من لحیۃ رسول اللہ’’ حضور ﷺ کی داڑھی مبارک سے اپنے ہاتھ دوررکھو‘‘۔ عروہ نے زرہ پوش حضرت مغیرہ ص کی طرف نگاہ اُٹھائی اورپوچھا: یہ کون ؟جواب ملا: مغیرہ بن شعبہ! یہ سن کرعروہ نے کہا: ارے اوغدار! کیا میں نے تمہاری اُس غداری کابدلہ نہیں دیاتھا (جوتم نے زمانۂ جاہلیت میں ایک قوم کے ساتھ کیاتھا؟)۔ پھردُزدِیدہ نگاہوں سے صدق وصفاکے پیکرعشاقِ رسول کودیکھنے لگے اورجاں نثارانِ رسول کی اِک اِک اداکاگہرائی کے ساتھ جائزہ لینے کے بعدقریش کے پاس لوٹے اوریہاں کاآنکھوں دیکھاحال اس طرح بیان کرنے لگے:’’ ائے اہلِ مجلس! بخدا میں نے بادشاہوں کے محلات اورقصورکے سیرکیے ہیں، میں نے کسریٰ اورقیصرکا درباربھی دیکھاہے؛ لیکن میں نے کسی بھی ایسے بادشاہ کونہیں دیکھا، جس کے لوگ اُس کی اِس قدرتعظیم کرتے ہیں، جس قدرتعظیم محمدکے ساتھی محمدکی کرتے ہیں۔ خداکی قسم! محمدکی ناک کی ریزش بھی زمین پرگرنے نہیں پاتی کہ اُس کے ساتھی اپنے ہاتھوں میں لے کر اپنے چہروں اوراپنے جسموں پرمل لیتے ہیں۔ وہ جب کسی کام کا حکم دیتے ہیں تواُس کے ساتھی اُس کام کوانجام دینے کے لیے لپک پڑتے ہیں۔ جب وہ وضوکرتے ہیں تووضوکے پانی کولینے کے لیے منافست پراترآتے ہیں۔ جب وہ گفتگو کرتے ہیں توتمام لوگ مہربہ لب ہوجاتے ہیں اورکوئی بھی شخص عظمت وجلال کی وجہ سے اُسے نگاہ بھرکربھی نہیں دیکھتا۔ یقیناً محمدکی طرف سے ایک مناسب تجویز آئی ہے، اُسے قبول کرلینا چاہیے‘‘۔ 
عروہ کی باتیں سن کربنوکنانہ کے ایک فرد نے آپ کے پاس آنے کی اجازت چاہی، قریش نے اُسے بھی جانے کی اجازت دے دی۔ جب وہ کاروانِ نبوت کے قریب پہنچاتوآپ نے صحابہ کو مخاطب کرکے فرمایا:’’دیکھو! فلاں آرہاہے، اِس کاتعلق ایسی قوم سے ، جوہدی کے جانوروں کوتعظیم کی نگاہ سے دیکھتی ہے، لہٰذا تم لوگ ہدی کے جانوروں کے ساتھ اِس کا استقبال کرو‘‘۔ صحابہ نے جانوروں کے ساتھ تلبیہ پڑھتے ہوئے خوش آمدیدکہا۔ جب اُس نے یہ کیفیت دیکھی توبے ساختہ پکارا: سبحان اللہ! ما ینبغی لہؤلاء أن یصدوا عن البیت ’’سبحان اللہ! ایسے لوگوں کو تو بیت اللہ سے نہیں روکاجاناچاہیے‘‘۔ پھر وہ قریش کے پاس لوٹ کرآیااوراُس نے اپنی یہی رائے پیش کی۔
اب مکرز بن حفص نے آنے کی اجازت لی۔ جب وہ آپ کے قریب پہنچاتوآپ نے فرمایا: ’’مکرزبن حفص آرہاہے، یہ بُراآدمی ہے‘‘۔پھراُس کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہوگئے۔ اِسی دوران قریش کی طرف سے وثیقۂ عہدتیارکرنے کے لیے آپ کے پاس سہیل بن عمروآیا۔ آپ نے حضرت علی ص کواملاء کے لیے بلایااورکہا: لکھو: (بسم اللہ الرحمٰن الرحیم)۔سہیل نے کہا: ’’ہم رحمان کونہیں جانتے؛ اِس لیے وہ لکھو، جوہم لکھتے چلے آرہے ہیں، یعنی: باسمک اللہم‘‘۔ آپ نے باسمک اللہم لکھوایا، پھرکہا: لکھو: ہذا ما قاضی علیہ محمد رسول اللہ ’’یہ وہ ہے، جس پراللہ کے رسول محمدنے مصالحت کی ہے‘‘۔ سہیل نے کہا: ’’خداکی قسم ! اگرہم آپ کواللہ کا رسول تسلیم ہی کرلیتے توبیت اللہ سے ہرگز نہ روکتے اور نا ہی آپ سے جنگ کرتے؛ اِس لیے محمدبن عبداللہ لکھئے‘‘۔ آپ نے اُس کی یہ بات سن کرفرمایا: ’’اللہ کی قسم! میں اللہ کارسول ہوں، اگرچہ کہ تم لوگ مجھے جھٹلاؤ‘‘۔پھرحضرت علی سے محمدبن عبداللہ ہی لکھنے کے لیے کہا۔
اب تحریری شکل کوآگے بڑھاتے ہوئے آپ نے املاکرایا: ’’یہ مصالحت اِس بات پرہے کہ تم لوگ بیت اللہ کے طواف سے ہمیں نہیں روکوگے‘‘۔ سہیل نے کہا: اس کی وجہ سے کہیں عرب یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ ہم نے دب کرصلح کی ہے؛ اِس لیے یہ آئندہ سال پراٹھارکھیں‘‘۔ آپ نے اُس کی یہ بات بھی مان لی۔اب سہیل نے اپنی طرف سے ایک شق لکھائی کہ’’ ہماراکوئی بھی مرد مسلمان ہوکرآپ کے پاس آجائے تو آپ اُسے ہمارے پاس لوٹادیں گے؛ لیکن اگرآپ کا کوئی ساتھی آپ کا دین چھوڑکرآئے توہم اُسے نہیں لوٹائیں گے‘‘۔ صحابہ نے کہا: سبحان اللہ! دائرۂ اسلام میں داخل ہونے کے بعدکسی کو کیسے لوٹایاجائے گا؟
معاہدہ کی اِس شق پربحث وتمحیص چل ہی رہی تھی کہ ابوجندل بن سہیل بن عمروقفسِ تعذیب سے فرار ہو کر بیڑیوں میں گھسٹتے ہوئے یہاں پہنچے۔سہیل نے اُنھیں دیکھتے ہی کہا:’’ معاہدہ کا نفاذ یہیں سے ہوگا‘‘۔ آپ نے فرمایا:’’ ابھی تو معاہدہ کی تکمیل بھی نہیں ہوئی‘‘۔ سہیل نے جواب دیا: ’’پھرتوکسی چیز پرمصالحت نہیں ہوسکتی‘‘۔ آپ نے فرمایا: ’’اچھا میری خاطراِسے چھوڑدو‘‘۔ اس نے کہا: ’’میں اِس پربھی تیارنہیں‘‘۔ (بخاری، باب الشروط فی الجہاد والمصالحۃ مع اہل الحرب وکتابۃ الشروط، حدیث نمبر: ۲۷۳۲) آپ نے اُس وقت حضرت ابوجندل ص کو مخاطب کرکے فرمایا: یا أبا جندل! إصبر واحتسب، فإن اللہ عز وجل جاعل لک ولمن معک من المستضعفین فرجاً ومخرجاً، إناقد عقدنا بیننا وبین القوم صلحاً، فأعطیناہم علی ذلک، وأعطونا علیہ عہداً، وإنا لن نغدربہم. (السنن الصغریٰ للبیہقی، باب المہادنۃ علی النظر للمسلمین، حدیث نمبر: ۳۷۷۲ (۸/۱۶۳)، مسند احمد، حدیث نمبر: ۱۸۹۱۰  (۳۱/۲۱۹) ’’اے ابوجندل! صبرکرواورامیدرکھو، اللہ تعالیٰ تمہارے اورتمہارے ساتھ دوسرے کمزوروں کے لیے ضرورکوئی سبیل نکالے گا۔ ہم نے قریش سے عقدصلح کرلیاہے اوراس پرزبان دیدی ہے اوران لوگوں نے بھی ہم سے عہدکیاہے اورہم ان غداری کے مرتکب نہیں ہوسکتے ‘‘اوراُنھیں واپس مکہ بھیج دیا۔
اِس معاہدہ کی وہ تمام شقیں، جن پرقریش راضی تھے، اِس طرح ہیں:
۱) دس سال تک حرب وضرب موقوف رہے گی۔
۲) قریش کا جومرد مسلمان ہوکراپنے اولیاء اورموالی کی اجازت کے بغیرمدینے آجائے، اُسے واپس کردیاجائے گا۔
۳) مسلمانوں میں سے جومرد(راہِ ارتداداختیارکے)مکہ آجائے، اُسے واپس نہ کیاجائے گا۔
۴) مدتِ معاہدہ میں کوئی دوسرے پرتلوارنہیں اُٹھائے گااورناہی کسی سے خیانت کرے گا۔
۵) محمد اس سال واپس چلے جائیں اورآئندہ سال مکہ میں صرف تین دن رہ کرعمرہ کرکے واپس ہوجائیں، سوائے تلواروں کے اورکوئی ہتھیارساتھ نہ ہواوروہ بھی نیام میں رہیں۔
۶) قبائلِ متحدہ جس کے حلیف بنناچاہیں، بن سکتے ہیں۔ (زادالمعاد، فصل فی قصۃ صلح الحدیبیۃ: ۳/۲۹۹، القول المبین فی سیرۃ سید المرسلین لمحمد الطیب النجار، صلح الحدیبیۃ: ۱/۳۱۶)
اِس معاہدہ میں آپ نے قریش کی وہ تمام شرطیں منظورکرلیں، جوبظاہرمسلمانوں کے خلاف تھیں، جس کی وجہ سے صحابہ ایک قسم کی اندرونی گھٹن میں مبتلاہوگئے؛ حتیٰ کہ حضرت عمر نے آپ کی خدمت میں حاضرہوکراِس طرح سوال کرناشروع کردیا: کیاآپ اللہ کے برحق نبی نہیں ہیں؟ کیاہم حق پراوردشمن باطل پرنہیں ہیں؟آپ نے ہرسوال کے جواب میں’’کیوں نہیں‘‘(یعنی ہاں! ہم حق پرہیں اورمیں اللہ کابرحق نبی ہوں) فرمایا۔تب حضرت عمر نے کہا: فلم نعطی الدنیئۃ فی دیننا إذن؟’’پھرہم دین میں کمی کیوں برداشت کریں؟‘‘۔ آپ نے جواب دیا: إنی رسول اللہ، ولست أعصیہ، وہو ناصری’’ میں اللہ کارسول ہوں، اس کی نافرمانی نہیں کرسکتا اور وہ میرا حامی و ناصرہے‘‘۔ حضرت عمر نے پھرسوال کیا: کیاآپ نے ہمیں نہیں بتایاتھاکہ ہم بیت اللہ جاکراُس کاطواف کریں گے؟ آپ نے جواب دیا: تو کیا میں نے تمہیںیہ بات بھی بتائی تھی کہ اِسی سال کریں گے؟تم ضرورجاؤگے اوربیت اللہ کاطواف کروگے۔
جب معاہدہ کی تکمیل ہوگئی توآپ نے صحابہؓ سے فرمایا: قوموا، وانحروا، ثم احلقوا ’’اُٹھو، اپنے جانوروں کانحرکرواورپھراپنے سروں کاحلق کراؤ‘‘۔گھٹن کی کیفیت میں مبتلاہونے کی وجہ سے کسی صحابی نے بھی جنبش نہ کی؛ حتیٰ کہ آپ نے تین مرتبہ یہی بات فرمائی۔ جب کسی نے حرکت نہیں کی توآپ حضرت ام سلمہ(رضی اللہ عنہا) کے پاس آئے اورلوگوں کے اِس ردعمل کا تذکرہ کیا۔حضرت ام سلمہ (رضی الہہ عنہا) نے فرمایا: یا نبی اللہ! أتحب ذاک؟ أخرج، ثم لا تکلم أحداً منہم کلمۃً؛ حتیٰ تنحر بدنک، وتدعو حالقک فیحلقک۔ اے اللہ کے نبی! کیاآپ یہی چاہتے ہیں؟ (اگرآپ یہ چاہتے ہیں)تونکلیے اورکسی سے ایک لفظ مت کہیے۔ بس سیدھے جاکراپنے ہدی کے جانور ذبح کردیجئے اورنائی کوبلواکرحلق کرواےئے‘‘۔ آپ نے حضرت ام سلمہ(رضی اللہ عنہا) کے مشورے پر عمل کیا۔ جب صحابہ نے آپ کوایساکرتے دیکھاتواُن لوگوں نے بھی اپنے جانورذبح کردئے اور(مارے گھٹن کے) ایک دوسرے کا اِس طرح حلق کرنے لگے، جیسے گردن ہی کاٹ ڈالیں گے۔ (بخاری، باب الشروط فی الجہاد والمصالحۃمع اہل الحرب وکتابۃ الشروط، حدیث نمبر: ۲۷۳۲)
حدیبیہ میں تقریباً دوہفتے قیام کرنے کے بعدآپ نے اپنے رفقا کے ساتھ واپسی کے لیے کجاوہ کسا۔ جب مکہ مکرمہ اورمدینہ کے درمیان پہنچے توسورۂ فتح نازل ہوئی۔ آپ نے صحابہ کوجمع فرما کر (إنا فتحنا لک فتحاً مبیناً) سنائی۔ صحابہ انگشت بدانداں رہ گئے اوردریافت کیا: ائے اللہ کے رسول! کیا یہ فتح ہے؟ آپ نے جواب دیا: قسم ہے اُس ذات کی، جس کے قبضے میں میری جان ہے! بے شک یہ عظیم الشان فتح ہے۔ (مسند احمد، حدیث مجمع بن جاریۃ، حدیث نمبر: ۱۵۴۷۰ (۲۴/۲۱۲) 
جب رسول اللہ ﷺ مدینہ پہنچ گئے توابوبصیرکفارقریش کی قیدسے بھاگ کرمدینہ پہنچے۔ قریش نے فوراًاِن کی واپسی کے لیے دولوگوں کومدینہ روانہ کیا۔ آپ نے ایفائے عہدکرتے ہوئے ابوبصیرکواُن کے ساتھ مکہ کے لیے روانہ کردیا۔ ابوبصیراُن کے ساتھ روانہ توگئے؛ لیکن راستہ میں اُن میں سے ایک کوقتل کردیا، جب دوسرے نے یہ حال دیکھاتوبھاگ کھڑاہوااورسیدھامدینہ آپ کی خدمت میں حاضرہوااورکہا: میراساتھی توماراگیااوراب میں بھی ماراجانے والا ہوں۔ اُسی کے پیچھے ابوبصیربھی مدینہ پہنچے اورحضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضرہوکرعرض کیا: ائے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ نے آپ کے عہدکوپوراکردیا۔ آپ نے تومجھے اُن کے حوالے کردیاتھا۔ پھراللہ تعالیٰ نے اُن سے نجات کی میرے لیے ایک سبیل مہیافرمادی ہے۔ میں نے یہ جوکچھ کیا، محض اس لیے کیاکہ میرے اوراِن کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: ویل أمہ! مسعر حرب. لو کان لہ أحد!’’ناس ہو! جنگ بھڑکانے والاہے۔ کاش! کوئی اِس کے ساتھ ہوتا‘‘۔ حضرت ابوبصیرسمجھ گئے کہ آپ کومیرایہاں ٹھہرناپسندنہیں؛ چنانچہ اُنھوں نے ساحلِ سمندرکوٹھکانہ بنایا۔  (بخاری، باب الشروط فی الجہاد۔۔۔ حدیث نمبر: ۲۷۳۲)۔ اب جوبھی مکہ سے فرارہوکرآتا، سیدھے ساحل پرپہنچتا، اِس طرح ستر(۷۰) یاتین سو(۳۰۰)لوگوں کی ایک بڑی تعداد اکٹھی ہوگئی۔ یہ ساحل مکہ سے شام جانے والے تاجرینِ قریش کی راہ میں پڑتاتھا؛ چنانچہ اِن لوگوں نے اُن کے مال واسباب کو اپنی غذائی قلت دورکرنے کاذریعہ بنایا۔ جب قریش اِن سے تنگ آگئے توآپ کواِن لوگوں کواپنے پاس بلالینے اجازت دیدی اوراِس طرح معاہدہ کی ایک شق کو اُن لوگوں نے خود ہی کالعدم قراردے دیا، جب کہ پورامعاہدہ اُس وقت اختتام پذیرہوا، جب قریش کے حلیف بنوبکر نے قریش کے ساتھ مل کربنوخزاعہ پرچشمۂ’’وتیر‘‘میں شب خوں مارااوراُن کے بہت سارے افرادکوموت کی نیندسُلادیا۔ چنانچہ عمروبن سالم خزاعی نے بنوخزاعہ کا ایک وفدلے کردربارِنبوت میں حاضرباش دُہائی دی، جس کو سن کرآپ نے فرمایا: نُصِرْتَ یاعمروبن سالم. (السنن الکبری للبیہقی، حدیث نمبر: ۱۹۳۳۱) ’’ائے عمروبن سالم! تمہاری مددکی جائے گی‘‘۔ پھرآپ نے بنوخزاعہ کی مددکی، جس کے نتیجہ میں مکہ فتح ہوا۔
یہ تھی رودادِ معاہدہ۔ اب آےئے اِس معاہدہ سے حاصل ہونے والے دروس واسباق پرنظرڈالتے چلیں:

معاہدہ کالحاظ

آپ نے کفارِقریش سے کیے ہوئے اِس معاہدہ کاپوراپورالحاظ فرمایااورمعاہدہ کے مطابق ہراُس کام کوانجام دیتے رہے، جومعاہدہ میں طے ہواتھا؛ چنانچہ مدینہ پہنچنے کے بعد جب ابوبصیرقیدوبندکی صعوبتوں سے چھٹکارا حاصل کرکے مدینے پہنچے اورمشرکینِ مکہ نے اِن کی واپسی کامطالبہ کیاتوآپ نے اِنھیں اُن کے بھیجے ہوئے آدمیوں کے حوالہ کردیااوراُس عہد کی پاسداری کا مکمل ثبوت دیا، جوآپ نے اُن سے حدیبیہ کے مقام پرکیاتھا۔
آج ہمیں اپناجائزہ لیناچاہیے کہ کیاہم بھی اپنے کیے ہوئے عہدکاایفاکرتے ہیں؟کیاہم وعدہ کرکے اپنی ادنیٰ منفعت کی وجہ سے اُس کی خلاف ورزی نہیں کربیٹھتے؟ کیاایسانہیں ہے کہ ہم نے معاہدہ کونقصان سے بچنے کا ایک ظاہری سبب بنارکھاہے اورپسِ پشت مُعاہِدْ(معاہدہ کرنے والا)کوضررپہنچانے کی تدبیریں نہیں کرتے رہتے؟ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے توغیرسے کیے ہوئے عہدکونباہ کرکے دکھادیااورہم اُسی کے امتی ہونے کے باوجود اپنوں سے کیے ہوئے پیمان کاپاس نہیں رکھتے۔کاش! آپ کے اِس عمل سے ہم نصیحت حاصل کرتے!

مقصد پر نظر

آپ جب مقامِ عسفان پہنچے توآپ کویہ اطلاع دی گئی کہ خالدبن الولید(جوابھی تک اسلام کی سعادت سے محروم تھے) ہراول دستے کے طورپردوسوشہ سواروں کے ہمراہ ’’غمیم‘‘ تک پہنچ چکے ہیں۔اِس خبرکے سنتے ہی آپ نے اپناراستہ بدل لیاکہ مقصودلڑائی نہیں؛ بل کہ سعادتِ عمرہ سے سرفراز ہوناتھا۔اگرآپ چاہتے تواُن کا مقابلہ کرکے بہ زورشمشیراُن سے راستہ خالی کروالیتے؛ لیکن چوں کہ آپ کا مقصد قطعاً لڑائی نہیں تھا؛ بلکہ آپ کا مقصد بیت اللہ شریف کی زیارت سے مشرف ہوناتھا؛ اس لیے آپ نے مقصدپرنظررکھتے ہوئے بذا تِ خوداپناراستہ بدل لیا۔
آج ہمیں اِس بات کاجائزہ لیناچاہیے کہ کیاہم بھی اپنے مقصدپرنظررکھ رہے ہیں؟ کیاہم بھی اپنے مقصد کے حصول کے لیے جھگڑا وفسادسے گریز کرتے ہیں؟ ہم توایسے ہیں کہ بلاوجہ اپنے بھائی کومقدمات کے گھن چکرمیں ڈال کراُس کی زندگی کے مقصدبھی اُسے محروم کردیتے ہیں۔ہم حقیقی مقصدکوچھوڑکراناکی جیت کومقصدکادرجہ دیتے ہیں۔کاش! معاہدۂ حدیبیہ کے اس واقعہ سے ہم ’’مقصدپرنظر‘‘رکھنے کا سبق حاصل کرسکیں۔

مصلحت اندیشی

آپ نے کفارقریش کے پاس سب سے پہلے یہ پیغام بھیجوایاکہ’’ ہم صرف عمرہ کی غرض سے آئے ہیں، لڑائی ہمارے حاشےۂ خیال میں بھی نہیں۔ جنگ نے قریش کی حالت زارزارکردی ہے؛ اس لیے بہترہے کہ ہم ایک مدت تک کے لیے جنگ بندی کامعاہدہ کرلیں اورمجھے عربوں کے ہاتھوں چھوڑدیں‘‘۔ یہ اِس مصلحت کے پیش نظرتھاکہ اگرایک مدت تک جنگ بندی ہوگئی تواِس طرف سے دھیان ہٹاکردعوتِ اسلام کی طرف پوری توجہ مرکوز کیجا سکتی ہے اورہوابھی یہی کہ معاہدہ کے بعدہی آپ ﷺ نے دیگربادشاہوں کے نام دعوتی خطوط لکھے۔
آج ہم اپنامحاسبہ کریں کہ کیاہمارے اندریہ مصلحت اندیشی پائی جارہی ہے؟ آج ہم صرف جوش کے ٹٹو پر سوار ہو کر نہ جانے کتنے بنتے کام بگاڑ دیتے ہیں! اورجہاں عزم وجزم کی ضرورت ہوتی ہے، وہاں دُبک کربیٹھ جاتے ہیں۔ خود ہمارے ملک میں ہماری مصلحت نااندیشیوں کی کئی مثالیں موجودہیں۔ قضےۂ بابری مسجدکے سلسلہ میں ایک بات یہ آئی تھی کہ اُسے آثارِ قدیمہ کے حوالے کردیاجائے؛ لیکن مشورہ دینے والے پرہی یہ الزام دھردیاگیاکہ یہ حکومت کا پٹھوہے۔ حالاں کہ آثارِقدیمہ کے حوالے کردینے کی بات مصلحت سے خالی نہیں تھی۔ جب مسجدکی چولیں ہل گئیں تب یہ بات سمجھ میںآئی۔ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ ہم اپنی کم ہمتی اوربزدلی کوضرور’’مصلحت اندیشی‘‘کانام دیتے ہیں۔ ہمیں آپ ﷺ کی اِس مصلحت اندیشی سے کچھ سیکھناچاہیے۔

صلح میں پہل

کفارِقریش کی طرف سے کسی پیش قدمی سے پہلے ہی آپ نے صلح ومعاہدہ کاپیغام اُنھیں بھجوایا۔یہ آپ ﷺ کی طرف سے دستِ صلح درازکرنے میں پہل کرنے کی ایک اعلیٰ مثال ہے____آج ہمیںیہ غورکرناچاہیے کہ کیاہم بھی کسی سے صلح کرنے میں پہل کرتے ہیں؟ آج ایسے بہت سارے نمونے ہمارے سامنے موجودہیں کہ ایک سگے بھائی کی چپقلش اپنے سگے بھائی سے برسوں سے چلی آرہی ہے۔ راہ چلتے ایک دوسرے سے منھ چراتے ہیں۔ نہ خوشی کی بزم میں شریک ہوتے ہیں اورناہی غم کی مجلس میں حاضر؛ بل کہ ایک دوجے کی دشمنی میں جلتے بھنتے رہتے ہیں۔ بہت سارے مواقع پرایک دوسرے سے بغل گیربھی ہوناچاہتے ہیں؛ لیکن مونچھ کی اکڑن اورناک کی اونچائی ایسا کرنے سے مانع بنتی ہے۔ کاش! آپ ﷺ کے اِس اُسوہ پرہم عمل پیراہوسکتے!

اہانتِ رسول پر ردعمل

جب عروہ آپ سے ہم کلام ہوئے اورعربوں کی عادت کے مطابق اثنائے کلام آپ کی داڑھی مبارک پربھی ہاتھ پھیرنے لگے تو عروہ کی اِس حرکت کوحضرت مغیرہ بن شعبہ نے جسارت اوراہانت تصورکیا اوراُن کے ہاتھ پر ٹہوکا دیا اور کہا: ’’حضور ﷺ کی داڑھی مبارک سے اپنے ہاتھ دوررکھو‘‘۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ ص کے اِس فعل سے ہمیں سبق ملتاہے کہ آپ کی شان میں ادنیٰ گستاخی بھی ہمارے لیے قابلِ قبول نہیں۔ آج دشمنانِ اسلام آپ کی شان میں طرح طرح کی گستاخیاں کررہے ہیں؛ لیکن ہم اُن گستاخیوں کاجواب بجز احتجاج کے اورکسی طرح نہیں دے رہے ہیں، ہمیں احتجاج سے آگے بڑھ کرایسے قوانین وضع کرنے کامطالبہ بھی کرناچاہیے، جس میں اِس طرح کی حرکت کرنے والوں کے لیے سخت ترین سزاؤں کی تعیین ہو اور اگر طاقت ہوتواُس مرتکبِ جرم کواُسی طرح ٹہوکادینے سے گریز نہ کریں، جس طرح حضرت مغیرہ بن شعبہ نے دیا تھا۔

بُرے کی بُرائی سے آگاہی

جب مکرز بن حفص آپ کے قریب پہنچاتوآپ نے صحابہ کومخاطب کرکے فرمایا: ’’مکرزبن حفص آرہاہے، یہ بُراآدمی ہے‘‘____آپ کے اِس عمل سے ہمیںیہ درس ملتاہے کہ ہم برے شخص کی برائی دوسروں کے سامنے واضح کردیں؛ تاکہ وہ اُس کی برائی سے محفوظ رہ سکے۔آج ہمارے درمیان بہت سارے ایسے لوگ ہیں، جوبروں کی برائی سے اپنے بھا ئی کواس لیے آگاہ نہیں کرتے کہ یہ اُس کا معاملہ ہے ، وہ سمجھے، مجھے اس سے کیاسروکار؟ خصوصاً رشتوں کے معاملے میں اِس طرح کے واقعات بکثرت پیش آتے ہیں۔ آپ کے اس عمل سے ہمیں نصیحت حاصل کرنی چاہیے اوربرے کی برائی سے دوسروں کوبھی محفوظ رکھناچاہیے۔

مستقبل پر نظر

معاہدہ کی تمام شقیں بہ ظاہرمسلمانوں کے خلاف تھیں؛ لیکن آپ نے تمام کومنظورفرمایا۔ دراصل آپ کے پیش نظرمستقبل تھاکہ ایک بارمعاہدہ ہوجانے کے بعدسکون واطمینان کے ساتھ دعوتِ دین کے فریضہ کی ادائے گی کی طرف توجہ دی جا سکے گی، جس کے نتیجہ میں دیگرقبائلِ عرب کے دائرۂ اسلام میں داخل ہونے کاقوی امکان تھا۔ہوابھی ایساہی۔ مدتِ معاہدہ میں اچھے خاصے لوگ حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے۔
آج ہماری نگاہ کسی بھی کام میں مستقبل کے بجائے حال پرہوتی ہے۔ ہم کام کم اورنتیجہ کی فکرزیادہ اورشِتاب کرتے ہیں؛ حالاں کہ عجلت پسندی کے نتیجہ میںآراستگی کم اوراُجاڑزیادہ ہوتاہے۔کسی بھی کام کی ابتدا ہمیںیہ سوچ کرنہیں کرنی چاہیے کہ اِس کاثمرہ پیش ازپیش حاصل ہوجائے؛ بلکہ مستقبل کوسامنے رکھناچاہیے۔ اسی سوچ کے ساتھ کوئی فعل یافیصلہ کرناچاہیے کہ صلح حدیبیہ کا ایک پیغام یہ بھی ہے۔

بیوی کے درست مشورے پرعمل

جب معاہدہ کی تکمیل ہوگئی توآپ نے صحابہ سے ہدی کے جانوروں کوذبح کرنے اوراپنے سروں کے حلق کرانے کاحکم دیا۔گھٹن کی کیفیت میں مبتلاہونے کی وجہ سے کسی صحابی نے بھی جنبش نہ کی؛ حتیٰ کہ آپ نے تین مرتبہ یہی بات فرمائی۔ جب کسی نے حرکت نہیں کی توآپ حضرت ام سلمہ (رضی اللہ عنہا)کے پاس آئے اورلوگوں کے اِس ردعمل کا تذکرہ کیا۔حضرت ام سلمہ (رضی اللہ عنہا)نے فرمایا: ’’اے اللہ کے نبی! کیاآپ یہی چاہتے ہیں؟ (اگرآپ یہ چاہتے ہیں) تو نکلیے اورکسی سے ایک لفظ کہے بنااپنے ہدی کے جانور ذبح کردیجئے اورنائی کوبلواکرحلق کرواےئے‘‘۔ آپ نے حضرت ام سلمہ کے درست مشورے پر عمل کیا۔ آج ہم اپنی بیویوں کے کسی بھی مشورے کوقبول کرنے کی نگاہ سے نہیں دیکھتے؛ حالاں کہ اُن کے بہت سارے مشورے راہِ صواب کی رہنمائی کرتے ہیں۔ آپ کے اِس عمل سے ہمیںیہ درس ملتاہے کہ اپنی بیویوں کے مشورے کوبھی قدر کی نگاہ سے دیکھیں، درست معلوم ہونے پراُس پرعمل کرنے سے صرف یہ سوچ کرنہ کترائیں کہ لوگ کہیں’’جوروکاغلام‘‘نہ کہنے لگیں۔

مسلمان کی جان کی قیمت

جب آپ کویہ معلوم ہوا کہ حضرت عثمان کوقتل کردیاگیاہے توآپ نے ان کے خون کا بدلہ لینے پرصحابہ سے بیعت لی اورفرمایا: جب تک میں عثمان کے خون کا بدلہ نہ لے لوں، اُس وقت تک یہاں سے حرکت نہیں کروں گا۔ اِس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ایک مسلمان کی جان کی قیمت کیاہے؟
آج ہم اپنے معاشرہ پرنظر دوڑائیں کتنے ایسے لوگ ہیں، جوایک مسلمان کے خون کواتنی اہمیت دیتے ہیں؟ جوگھریلولڑائی کے بدلہ اپنے حقیقی بھائی کے قتل کے درپے نہیں ہوجاتے؟ جوایک مسلمان کے خون ہوجانے کی خبرسن کربے چین ہوجاتے ہیں؟ آج مختلف ممالک میں خونِ مسلم کوپانی کی طرح بہایا جا رہا ہے، کیا ہمارا دل اِس پرمچل اُٹھتاہے؟ کاش! بیعۃ الرضوان سے یہ سبق ہم سیکھ سکتے!! 

محافل سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم

مولانا وقار احمد

ربیع الاول میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور قدسی ہوا ۔ اس مناسبت سے دنیا بھر میں مسلمان ربیع الاول میں میلاد النبی اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عنوانات سے محافل منعقد کرتے ہیں۔ ان محافل میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور کردار کو واضح کرنے کی اپنی سی سعی کی جاتی ہے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی عقیدت اور محبت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ ایسی محافل بہت ہی بابرکت اور بہترین ہیں کہ ان میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مبارک کیا جاتا ہے اور مبارک ہیں وہ قلوب جو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے لبریز ہیں۔
بلا شک و شبہ انسانیت کی معراج اور ایمان کی ابتدا و انتہا پیغمبر انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و عقیدت ہے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور ایمان باللہ آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ ارشاد ربانی ہے : وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ (بقرہ :۵۶۱) جو لوگ ایمان لائے ان کو اللہ سے شدید محبت ہے۔ اور محبت الٰہی کا مظہر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے۔ سورۂ آل عمران آیت نمبر ۱۳ میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کو محبت الٰہی کے لیے شرط قرار دیا ہے۔ جب اتباع پیغمبر محبت الٰہی کے لیے شرط ہے تو پھر محبت بطریق اولیٰ شرط ہو گی، کیونکہ بغیر محبت کے اتباع ممکن نہیں ہے۔
خود نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے۔ صحیحین کی روایت ہے : ’’ تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کو اس کے والدین ، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں‘‘۔ ایک موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: کہ خدا کی قسم، تم مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ مجھے اپنے آپ سے بھی زیادہ محبوب نہ رکھو۔
قرآن نے ایسے رویے اور انداز سے سختی کے ساتھ مسلمانوں کو منع کیا ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام ومرتبہ اور تعظیم کے منافی ہو اور ایسا رویہ اختیار کرنے والوں کو کم عقل اور بیوقوف قرار دیا ہے۔ ( الحجرات: ۴، ۵)
جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت جزو ایمان ہے تو پھر اس کا اظہار اور ذکر بھی لوازمات ایمان میں سے ہے، اس لیے ایسی تمام محافل بابرکت ہیں جو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کی مناسبت سے قائم کی جائے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم ان محافل اور مجالس سے مطلوبہ مقاصد و اہداف حاصل کرتے ہیں؟ کیا ان کے انعقاد کے لیے کوئی عظیم مقصد پیش نظر ہوتا ہے یا محض رسم زمانہ پوری کی جاتی ہے؟ کیا ان کے انعقاد کا طریق کار اسوہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہے؟ کہیں یہ مسلمانوں میں انتشار پھیلانے اور اپنے جتھے کو مضبوط کرنے اور جماعتی نمائش کے لیے تو منعقد نہیں ہوتی ہیں؟ کیا یہ محافل ہماری اجتماعی اور مجلسی قوتوں کو ضائع کرنے کا سبب تو نہیں بن رہیں؟
ان مجالس کا مقصد واحد اسوہ حسنہ کا بیان ہونا چاہیے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی کا تذکرہ ہونا چاہیے اور ایک مسلمان کی زندگی میں نبی معلم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا عملی نمونہ پیدا کرنے کی سعی وجہد ہی ان مجالس کا مقصد وحید ہونا چاہیے۔ اسی کی طرف قرآن رہنمائی کرتا ہے: لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ (الاحزاب: ۱۲) ’’بے شک تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اتباع کا بہترین نمونہ ہے۔‘‘ اگر اس مقصد کے تحت ان مجالس کو منعقد کیا جائے تو بلا شک و شبہ یہ مسلمانوں کے لیے فلاح دارین کا ذریعہ ہیں، مگر ہمارے ہاں یہ مقصد فوت ہو گیا ہے اور یہ مجالس محض رسم بن کر رہ گئی ہیں۔
ان مجالس کے انعقاد کے طریقہ کار پر نظر ڈالی جائے تو یہ کسی بھی صورت نبوی منہج سے میل نہیں کھاتیں۔ ان کے انعقاد کے لیے وسائل کی فراہمی میں حلت و حرمت سے بے توجہی، ساری رات محفل میں شرکت اور ترک فرائض، اسپیکر کا استعمال اور احترام انسانیت کا فقدان، کوئی بھی چیز تو اسوہ نبوی سے مناسبت نہیں رکھتی۔
مجالس میں بیان ہونے والے مواد کی حالت اس سے بھی زیادہ ناگفتہ بہ ہے۔ روایات ضعیفہ اور قصص موضوعہ سے تقاریر کو لچھے دار بنایا جاتا ہے۔ ان روایات کی صحت و عدم صحت پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی اور نہ اس بات پر توجہ دی جاتی ہے کہ یہ ہمارے مقاصد سے کس قدر مناسبت رکھتی ہیں۔ پیشہ ور مقررین اور نعت خوانوں کے پیش نظر تو کوئی بڑا مقصد ہوتا ہی نہیں۔ وہ محض گرمی محفل کے لیے یہ قصے بیان کرتے اور اپنے پیٹ کا دھندہ چلاتے ہیں۔ کس قدر تعجب کی بات ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم اسوہ حیات اور مقاصد بعثت کو چند قصص کے بیان پر قربان کر دیا جاتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم اسوہ پر محیر العقول قصص کا پردہ ڈال کر مسلمانوں کو عملی زندگی سے دور کر دیا جاتا ہے۔ قرون اولی کے مسلمانوں کی عظیم کامیابیوں کو کرامات کا حاصل قرار دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی خطیب ان خرافات کے بیان سے گریز کرے گا تو وہ مسلمانوں کے چند باہمی جزوی اختلافات کے بیان میں تمام قوتیں صرف کر دے گا اور محافل سیرت کو مسلمانوں کے مابین انتشار اور افتراق کا سبب بنا دے گا۔ اگر ان محافل کے انعقاد میں اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ملحوظ رکھا جائے اور مواد بیان کو حیات رسول کے مستند بیان تک محدود کر دیا جائے تو ان سے مسلمان بحیثیت مجموعی عظیم فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ یہ محافل مسلمانوں کی بہت بڑی اجتماعی قوت بن سکتی ہیں، اگر ان کو بامقصد بنایا جائے۔ مگر ہم اس وقت اس قوت کو ضائع کر رہے ہیں۔ 
ربیع الاول میں انتہائی جوش وخروش سے جشن آمد رسول منایا جاتا ہے۔ تمام انسانیت کے رہبر و رہنما کی پیدائش پر خوشی کا اظہار بجائے خود ایک اچھی بات ہے۔ مگر واضح رہے کہ ربیع الاول ہمارے لیے خوشی کا پیغام اس لیے تھا کہ اس مبارک ماہ میں وہ عظیم انسان آیا جس نے ظلم وجبر کے ماحول کو یکسر ختم کر دیا، اخوت اور بھائی چارے کی فضا کو عام کیا اور بندوں کو بندوں کی بندگی سے نکال کر ایک خدا کی بندگی میں دیا۔ کس قدر مقام تعجب ہے کہ آج ہم اس کی آمد کے مقصد کو یکسر نظر انداز کر کے اسی کی آمد کے جشن مناتے ہیں۔ نتیجتاً ہم دنیا میں غلاموں کا ایک ریوڑ بن چکے ہیں۔ ہمارے دل توحید کی لذت سے ناآشنا اور اعمال الٰہی نور سے محروم ہو چکے ہیں۔ دنیا ہمیں ستانے کے لیے ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرتی ہے اور ہم احتجاج و جشن منانے کے مرحلے سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ مسلمان اپنی حیات اجتماعی میں اسوہ رسول کو زندہ کرتے اور پھر جشن مناتے تو دنیا میں کامیاب و کامران ہوتے۔ تب دنیا کے کسی رزیل کو ان کے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرنے کی ہمت نہ ہوتی۔
ہماری ان محافل سیرت و میلاد پر مولانا عبید اللہ سندھیؒ کا تبصرہ کتنا جامع ہے۔ فرماتے ہیں: مروجہ سیرت کانفرنسیں امت کے لیے زہر کی میٹھی گولیاں ہیں۔

دو ہفتے پاکستان میں

مولانا محمد عیسٰی منصوری

بندہ تقریباً چار پانچ سال سے پاکستان نہیں جا سکا تھا۔ وجہ پاکستان کے دھماکہ خیز حالات، بدامنی، دہشت گردی، علاقائی ولسانی جھگڑے۔ ان چیزوں نے ملک کو کسی علمی، دینی، اصلاحی کام کے لیے ناساز گار بنا دیا ہے۔ دوسرے، بھارت و پاکستان کے درمیان کشیدگی وبے اعتمادی۔ دونوں طرف ایک چھوٹا سا طبقہ ہے جو نہایت طاقتور ہے اور وہ حالات کو بہتر ہوتے نہیں دیکھ سکتا اور بڑی عالمی طاقتوں کا مفاد بھی دنیا بھر کے ممالک و قوموں کے لڑانے میں ہے۔
بندہ نے ۲۰۱۱ء کے اواخر میں اس خیال سے ویزا لے لیاتھا کہ رائے ونڈ کے سالانہ تبلیغی اجتماع میں شرکت کرسکا تو چلا جاؤں گا۔ بھارت میں تقریباً سارے ہی احباب کایہی کہناتھا کہ آپ ہرگز نہ جائیں، اس لیے بندہ سفر کے متعلق شش وپنج میں تھا، کوئی فیصلہ نہیں کرپارہاتھا۔ اسی کشمکش کے عالم میں ۱۹ ؍ نومبر کو دہلی سے بذریعہ پی آئی اے لاہور روانہ ہوگیا۔ جہاز تقریباً دوگھنٹہ لیٹ چلا۔ رات تقریباً ۹بجے لاہور ائیر پورٹ پر حسب معمول جامعہ مدنیہ جدید سے مولانا محمود میاں دامت برکاتہم کی گاڑی موجود تھی جو وہاں ہمیشہ میرے میزبان رہے ہیں۔ ۱۰ بجے رات جامعہ مدنیہ پہنچ کر مولانا کے دولت کدہ پر آرام کیا۔ صبح میرے شیخ حضرت شاہ نفیس رقم ؒ کے خادم خاص جناب رضوان نفیس اپنے رفقا کے ساتھ تشریف لائے۔ میر ے ذہن میں کوئی مرتب پروگرام نہیں تھا۔ صرف احباب،دوستوں،اکابرین سے ملاقات اور کتابوں کی تلاش کا سوچاتھا۔ من جانب اللہ خود بخود اس طرح پروگرام بنتا گیا کہ شایدہم خود نہیں بناسکتے تھے۔ احباب کے اصرار پر سفر کے مختصرحالات نہایت اختصار سے پیش خدمت ہیں۔
یہ ہمارے دور کی بدنصیبی رہی ہے کہ کسی بڑی شخصیت کے بعد ان کا کام اور روحانی سلسلہ اختلاف کا شکار ہوجاتا ہے۔ حضرت (شاہ نفیس رقم ؒ ) کے بعد یہی صورتحال پیش آئی۔ حضرت کی خانقاہ ومزار پر حاضری پہلی خواہش تھی۔ وہاں حضرت کے جانشین وپوتے جناب زید نفیس صاحب کے علاوہ دونوں گروپوں کے ذمہ دار رضوان صاحب اور جناب اشعر صاحب موجود تھے۔ بندہ نے تفصیل سے عرض معروض کی اور زور دیا کہ خانقاہ سید احمد شہیدؒ کوذکر وفکر اور تعلیم و تعلّم سے آباد کرنے کی طرف خاص توجہ دیں۔ یہ خانقاہ حضرتؒ کی امیدوں کا مرکز اور زندگی بھر کی محنت کا ثمرہ ہے۔ حضرت کے آخری برسوں میں بے شمار لوگ یہاں سے مستفید ہوئے۔ آپ دونوں حضرات براہ راست ایک دوسرے سے ملیں اور خانقاہ کو علم وذکر سے آباد کرنے کے لیے منصوبہ بنائیں۔ ہر جگہ درمیانی واسطے ہی فساد اور خرابی کا باعث بنتے ہیں۔ آپ دونوں کو ایک دوسرے سے جوبھی شکایتیں ہوں، براہ راست گفتگو کریں۔ الحمد للہ دونوں حضرات اس پر آمادہ نظر آئے۔ اللہ کرے دونوں احباب شیر وشکر ہوکر خانقاہ ومدرسہ کی آباد کاری کرسکیں اور یہاں سے حضرت کا فیض جاری وساری رہے۔ پورے ملک میں ہر جگہ حضرت ؒ کے وابستگان نے بندہ کے ساتھ جس طرح شفقت ومحبت،اکرام واعزاز کا معاملہ فرمایا، واقعہ یہ ہے کہ بندہ اس کا ہرگز مستحق نہیں ہے۔ بندہ ہر جگہ عرض کرتارہا کہ بھائی میں پیر نہیں ہوں، مجھے پیر نہ بنائیں۔ میں دین و ملّت کے کچھ اور ہی شعبوں میں کوشاں ہوں، ا س لیے خدارا مجھ سے پیر جیسا معاملہ نہ کریں۔ حضرت ؒ کے روحانی جانشین اور پوتے جناب زید نفیس صاحب ابھی کم عمر ہیں، مگر لگتاہے حضرتؒ کی دعاؤں کے طفیل اللہ تعالیٰ نے صفات قبولیت سے نوازدیاہے۔ بندہ نے ان کو تفسیر، حدیث، فقہ، سیرت، تاریخ پر گہرے مطالعے کا مشورہ دیا اور رفیق محترم جناب مولانا زاہد الراشدی دامت برکاتہم کو مکلف کیا کہ ان کے لیے ایک جامع نصاب تیار کریں۔
لاہور میں جہاں میر اقیام تھا، اس سے چند کلومیڑ کے فاصلے پر رائے ونڈ کا سالانہ عظیم الشان اجتماع ہورہاتھا۔ آج کل مجمع کی کثرت کی وجہ سے یہ اجتماع تقریباً پورے عشرے کا ہوتا ہے۔ پہلے جمعہ،ہفتہ، اتوار کو ملک کے آدھے حصہ کا جوڑ، درمیان میں چار پانچ دن مذاکرے اور مشورے، پھر اگلے جمعہ،ہفتہ، اتوار کو باقی آدھے حصے کے لوگ جمع ہوتے ہیں۔ یہ حج کے بعد شاید دنیا میں سب سے عظیم الشان دینی ودعوتی اجتماع ہے۔ بندہ نے ازدحام سے بچنے کے لیے درمیانی دن میں حاضری دی۔ تمام بزرگوں اور دہلی، رائے ونڈاور دنیابھر کے احباب سے اطمینان سے مل سکے۔
واقعہ یہ ہے کہ تقریباً ایک صدی سے تبلیغی جماعت کی بدولت بر صغیر میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ ہوئی، عوام کا دینی واسلامی ذہن بنا، اسلامی تمدن ومعاشرت، مکاتب ومدارس خانقاہوں کو بے انتہا فائدہ پہنچا۔ حضرت مولانا الیاس کی شروع کردہ محنت کے سبب دین کے تمام شعبوں کو پانی پہنچا اور ا یہ ن کی تقویت وسرسبزی کا ذریعہ بنی، مگر آج کل یہ دیکھ کرافسوس ہوتاہے کہ کچھ عرصہ سے ایک خاص قسم کے مفاد پرست تنگ ذہن لوگ جنہیں بندہ اپنی اصطلاح میں ’’بنیا ذہن‘‘ کہتا ہے، ہر جگہ غلبہ پاتے جا رہے ہیں اور بہت سی جگہوں پر یہ لوگ دین کے دیگر شعبوں کے حریف بنتے جارہے ہیں۔ بندہ کو مولانا سعد صاحب سے بڑی توقعات تھیں، مگر کچھ عرصہ سے جو احوال سامنے آرہے ہیں، یہ توقع بھی ختم ہو گئی ہے۔ خداکرے، تبلیغ کاکام دوبارہ حضرت جی مولاناالیاسؒ اور حضرت مولانامحمد یوسف ؒ کے نہج اور طرز پرآجائے۔ بہرحال، ایک دن رائے ونڈ میں ملاقاتوں کے لیے رکھا تھا۔ صبح مولانا محمود میاں دامت برکاتہم نے گاڑی اور رہبرکاانتظام کردیا۔ رائے ونڈحاضر ی پر دنیابھرسے آئے ہوئے احباب سے اور خاص طور پر بھارت سے آئے ہوئے پندرہ بیس احباب اور انگلینڈکے دوستوں سے ملنا ہوا۔ بھائی عبدالوہاب صاحب (جوپاکستان میں تبلیغ کے روح رواں ہیں) کے ذہن وفکرپر ہمیشہ سے دعوت کا غلبہ رہاہے۔ اب وہ اس حالت میں ہیں کہ ان کی بات بھی بمشکل سمجھ میں آتی ہے۔ ان کی انتہائی نقاہت وکمزوری دیکھ کرصدمہ ہوا، مگر جوش اب بھی جوانوں کا ساہے مگر اب ان کی باتوں میں تبلیغ کے متعلق غلوصاف نظر آنے لگاہے۔ فرمایا، علمائے کرام کام (تبلیغ) کی طرف توجہ نہیں فرمارہے ہیں۔ بندہ نے عرض کیا، علما کو اپنا کام کرنے دیں۔ وہ آپ ہی کا کام کررہے ہیں۔ سب علماء کویہاں بلا کر کیا کرنا ہے؟ آپ کے پاس ایسے لوگ کتنے ہیں جو علماء کو سنبھال سکیں؟
حضرت جی مولانا یوسفؒ کو ایک بار ٹرین کے سفر میں کانپور اسٹیشن پر حضرت مفتی محمود الحسن گنگوہیؒ نظر آئے۔ فوراً آدمی دوڑا کر بلایا اور دو تین مسئلے جو اسی سفر میں پیش آئے تھے، دریافت کیے۔ پھر حسب عادت تبلیغ کے لیے وقت مانگا۔ مفتی صاحب ؒ نے فرمایا، اچھا، اب اپناکام نکلنے کے بعد تشکیل کرتے ہو! کچھ مولویوں کوچھوڑدیناچاہیے تاکہ بوقت ضرورت آپ کو مسئلہ بتاسکیں۔ جہاں تک تبلیغ کاکام ہے وہ ہم اپنے حصے کا پہلے ہی کرچکے ہیں۔ وہ اس طرح کہ طالب علمی کے زمانے میںآپ کی ساری توجہ مطالعہ و تحقیق، تصنیف وتالیف کی طرف تھی اور تبلیغ کے کام سے آپ گریزاں تھے۔ اس لیے حضرت مولانا الیاسؒ آپ کے بارے میں بہت فکرمند رہاکرتے تھے، چنانچہ حضرت مولانا الیاس ؒ نے یہ ڈیوٹی ہماری لگائی تھی کہ ہم کوشش کرکے آپ کو تبلیغ میں لگائیں۔ ہم نے محنت و کو شش کر کے حضرت مولاناالیاسؒ کا دیاہواکام پوراکردیا یعنی آپ کو تبلیغ میں لگادیا۔ اب آپ جانیں اور آپ کی تبلیغ! ہمیں حضرت مولانا الیاس ؒ نے جوکام سونپاتھا، وہ ہم پوراکرچکے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ علمائے کرام عام طورپر صرف ان اہل علم سے متاثرہوتے ہیں جنہیں تقویٰ وتعلق مع اللہ کے ساتھ رسوخ فی العلم بھی حاصل ہو نہ کہ کارگزاریوں کے نام پرکارناموں کی لا طائل داستانو ں سے۔ رفیق محترم مولانا زاہد الراشدی صاحب ہر سال رائے ونڈ کے سا لانہ اجتماع کے موقع پر ایک دن کے لیے رائے ونڈ ضرور پہنچتے ہیں۔ کہنے لگے، گزشتہ رات گھنٹہ بھر بھائی عبد الوہاب صاحب کا بیان پوری توجہ سے سننے کی کوشش کے باوجود ایک لفظ سمجھ میں نہیں آسکا۔ بد قسمتی سے ہمارے تقریباً تمام ہی دینی شعبوں اور تنظیموں سے ریٹائرمنٹ کی کوئی عمر ہی نہیں۔ جو جس جگہ گدی نشین ہوگیا، اب موت ہی اس کو ہٹاسکتی ہے، اس لیے سیکنڈ لائن (صف ثانی) کہیں تیار نہیں ہو رہی ہے او ر ہر حضرت کے بعد زبردست خلا اور قحط الرجال کا واویلا اور رونا رہتا ہے۔ گزشتہ دنوں ’’شرح ثمیری علی القدوری‘‘ کے مصنف مولاناثمیرالدین قاسمی (مقیم یوکے) نے بتایا کہ بھارت کے سفر میں ایک بہت بڑے مدرسے میں، جس کا شمار اُمّ الدارس میں ہوتاہے، ایک بزرگ استاذ کی زیارت کے لیے حاضر ہوئے۔ وہ عالمِ دین عمر کے اس حصہ میں ہیں کہ نہ بول پاتے ہیں نہ ان کی پوری بات سمجھ میں آتی ہے۔ ترمذی کادرس تھا۔ ایسی متعدد جگہوں پر جہاں طلبہ کو سمجھانے کی ضرورت تھی، طلبہ لفظی ترجمہ کرتے ہو ئے گزررہے تھے۔ کبھی کبھار حضرت ایک آدھا فتحہ فرمادیتے جو مجھے بالکل سمجھ نہیں آیا۔ ہم یہ کیوں نہیں کرتے کہ ایک عالم دین کی زندگی بھر کی علمی خدمت کی قدر دانی کے طورپر آخری عمر میں انہیں پڑھانے کی ذمہ داری سونپے بغیر اعزاز کے ساتھ تنخواہ دیں؟ اگر انہیں پڑھانے کا بہت ہی ذوق و شوق ہوتو چند باصلاحیت علماء ان سے استفادہ کریں۔ طلبہ کا حق کیوں مارا جائے اور ایک عالم دین کو روزی روٹی کے لیے کیوں اخیر وقت تک گھسٹ گھسٹ کر کام کرنا پڑے؟ اخیر عمر میں دنیاوی تعلیم گاہوں میں اعزاز کے ساتھ یکمشت رقم اور تاحیات پنشن دی جاتی ہے۔ سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین اپنی بھر پور قوت کے زمانہ میں رخصت ہوگئے۔ انہیں اس سلسلے میں اسوۃ حسنہ قائم کرنے کاموقع نہ مل سکاتو آج کے اکابرین بعد والوں کے لیے نمونہ قائم کر دیں۔
تبلیغی جماعت میں میر ے عزیر دوست مولانا فاروق صاحب (کراچی)مقیم سعودی عرب بڑی صفات کے مالک ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ حضر ت مولانا سعید احمد خان ؒ کے بعد عربوں کو اگر کو ئی شخص متاثر کر سکااور عرب علماء وعوام جھنڈ کے جھنڈ کسی کے گر د جمع ہوئے تو وہ صرف مولانا فاروق صاحب ہیں۔ انہیں جیسے ہی بندہ کے پاکستان آنے کی اطلاع ہوئی، دیوانہ وار قیام گاہ(جامعہ مدنیہ جدید) پہنچے۔ میں لیٹ گیاتھا۔ کسی نے کہہ دیا کہ سوگیاہے۔ وہ واپس ہوگئے۔ دوسری رات ۱۲ بجے کے قریب دوبارہ پہنچے۔ دل کھول کربات چیت ہوئی۔ ان کی دعوتی دیوانگی کی وجہ سے فون پر رابطہ نہیں ہوپاتا۔ اللہ کرے، پاکستان کے اہل تبلیغ اب بھی ان کی صحیح قدردانی کرلیں۔ مولاناطا رق جمیل صاحب کے ساتھ اہل رائے ونڈ کا روّیہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ماڈل ٹاؤن لاہور میں تقریباً ان سے گھنٹہ بھر ملاقات اور گفتگو رہی ۔ وہ بھی حضرت شاہ نفیس رقم ؒ کے مجاز ہیں۔ گویا اس نسبت سے بندہ کے پیر بھائی ہوئے اور حضرت کی خانقاہ کے نظام تعلیم کے ذمّہ دار بھی۔ اس سفر میں فیصل آباد میں ان کے مدرسہ میں جانے کا موقع ملا۔ وہاں کی تعلیم میں دعوتی ذہن کے ساتھ عربی زبان پر قدرت امتیازی چیز ہے۔
لاہور کا سب سے بڑا مدرسہ جامعہ اشرفیہ ہے۔ حضرت مولانافضل الرحیم صاحب دامت برکاتہم لندن میں دعوت دے کر آئے تھے۔ حضرت نے بنفس نفیس جامعہ کا تفصیلی معائنہ کروایا۔ وہاں کا نظام تعلیم اور کام دیکھ کر بڑی مسر ت ہوئی۔ جامعہ اشرفیہ پنجاب کی سب بڑی اسلامی یونیورسٹی ہے۔ یہاں دینی شعبوں کی اعلیٰ تعلیم(اختصاص) کے ساتھ ساتھ عصری ضرورتوں پر بھی کماحقہ توجہ دی جارہی ہے۔ کمپیوٹر، انگریزی بحیثیت زبان، عصری موضوعات پر افراد کی تیاری وغیرہ۔ مولانا فضل الرحیم صاحب کی جدیدطرز کی خانقاہ دیکھ کربڑی خوشی ہوئی۔ بندہ نے عرض کیا کہ آج ایسی ہی خانقاہوں کی ضرورت ہے۔ بندہ بھی کوشش کرے گا کہ انگلینڈسے ذکر فکر اور ترتیب کے لیے علماء و طلبہ کو بھیجا جائے۔ دوپہر کا کھانا جامعہ اشرفیہ کے ایک استاذ کے گھر تھا، نہایت پر تکلف۔ خاص بات یہ ہوئی کہ حضر ت مولانا عبد الرزاق اسکندر دامت برکاتہم مہتمم جامعہ بنوری ٹاون اور چند دیگراہم علماء کرام بھی کھانے میں ساتھ تھے ۔
حضرت مولانا محمد حنیف جالندھری صاحب مد ظلہ مہتمم جامعہ خیر المدارس ملتان اور ناظم وفاق المدارس نے اپنے لاہور کے سنٹر غالباً الخیر فاؤنڈیشن میں استقبالیہ دیا۔ یہ سنٹر نہایت خوشنما، جدید ضروریات سے آراستہ، عصری سہولیات اورتقاضوں کے اعتبار سے تیار کیا جا رہا ہے جہاں عصری موضوعات پر علماء کرام کو تیاری کرائی جائے گی۔ عصری چیلنجزسے نبرد آزما ہونے کے لیے ٹریننگ دی جائے گی۔ مولانا جالندھری دامت برکاتہم نہایت فعال، زیرک اور عصری شعور رکھنے والی شخصیت ہیں۔ بعض قدامت پسند بزرگوں کی وجہ سے سنبھل کر اور آہستہ آہستہ کام کر رہے ہیں، لیکن ان کے مستقبل کے منصوبے نہایت وسیع ہمہ گیر ہیں۔ فرمانے لگے کہ ہمارا رخ بھی اسی طرف ہے جس طرف آپ متوجہ کرتے رہے ہیں۔ اللہ کرے، مولانا کی کاوشیں بار آور ہوں۔
جامعہ مدنیہ قدیم کریم پارک کے مہتمم حضرت مولانا رشید میاں دامت برکاتہم نے بندہ کو لاہور اور اطراف کے اکابر علماء ومشائخ سے ملانے کے لیے تقریباً پچاس ساٹھ اہم شخصیات کو کھانے پر مدعو کیاوہاں انگلینڈ۔ کے بندہ کے کرم فرماحضرت مولانا جسٹس خالد محمود بھی تھے۔ بندہ نے دل کھول کر گفتگو کی۔ اندازہ ہوا کہ ہمارے بہت سے اکابر اور بزرگ حالات کی سنگینی،دینی شعبوں کی در ماندگی اور ان کے دن بدن غیر موثرہونے سے فکر مند اورپریشان ہیں۔ متعدد اکابر علماء اور بزرگوں نے اپنی پریشانی اور خدشات کا اظہار کیا۔ بندہ نے عرض کیا کہ دو باتیں نہایت تشویشناک ہیں: (۱) عوام علماء کرام سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ (۲)ہمارا فکری دائرہ سکڑتاجارہاہے یعنی پوری انسانیت اور پوری ملت کے بجائے ہماری سوچ وفکر کی حدوداپنا ملک،علاقہ، طبقہ بلکہ اپنے ا پنے ادارہ و تنظیم تک محدود ہوتی جارہی ہے۔ کچھ علماء تو ایسے ہوں جو پوری ملت اسلامیہ کواپنا جامعہ و ادارہ اور ملت کے مختلف طبقات( علماء کرام، جدید تعلیم یافتہ طبقہ، تاجر، کاشتکار، مزدور، طلبہوغیرہ)کو اپنی کلاسیں سمجھ کر ان سب کے لیے لائحہ عمل تیار کریں۔ ہمارے اکابرین نے انگریز سے لڑکر ہمیں سیاسی آزادی دلوائی تھی، مگر ہم دوبارہ مغرب کے ہمہ جہت(سیاسی، عسکری، معاشی ،تہذیبی ،عملی فکری) غلام بن چکے ہیں۔ اب ایک اور جنگ آزادی لڑنی ہوگی، ورنہ دن بدن ہم بے بس ہوکر حالات کے سامنے سپر اندازہوتے جائیں گے۔ 
تنظیم اسلامی کے ڈائریکٹرو امیر جناب مولاناعاطف صاحب نے (جو مشہور مفسر قرآن جناب ڈاکٹر اسرار احمدصاحب کے صاحبزادے اور جانشین ہیں) اپنے سنٹر میں اپنے مخصوص رفقا کے ساتھ استقبالیہ دیا۔ بندہ کے ساتھ جناب رضوان صاحب اور جناب ڈاکٹر عبدالماجد صاحب (شعبہ عربی، پنجاب یونیورسٹی) اور چند احباب تھے۔ تقریباً دو گھنٹہ باہمی گفتگو وتبادلہ خیالات رہا۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ڈاکٹر صاحبؒ کے بعد آپ کا مشن جاری وساری ہے۔ یہ معلوم کرکے بھی مسرت ہوئی کہ جناب عاطف صاحب نے اہل حق کے ایک سلسلہ میں بیعت بھی کرلی ہے۔ دعاہے کہ ڈاکٹر اسرار صاحب ؒ کے قرآن سمجھانے او رپھیلانے کا مشن اسی طرح ترقی کرتارہے۔ بندہ نے دیکھا کہ لاہور میں متعدد نوجوان علماء جدید شعبوں میں قابل قدر کام کررہے ہیں۔ ان میں ایک جناب رضا علی صاحب انٹرنیٹ کے ذریعے ایک ادارہ نافع برائے اسلامیات و اقتصادیات گلبرگ لاہور کے ذریعے تاجروں کی دینی رہنمائی کے لیے اہم کام کررہے ہیں۔ اسی طرح جناب ڈاکٹر عبد الماجد صاحب و غیرہ بھی دینی کاوشوں میں مصروف ہیں۔ کالج و یونیورسٹیوں کے طلبہ بڑی تعداد میں دین کی طرف راغب ومتوجہ ہو رہے ہیں۔ اقبال نے کہاتھا:
مسلماں کو مسلماں کردیا طوفانِ مغرب نے
واقعہ یہ ہے کہ مغرب کے استحصالی حربے، مسلمانوں کے ساتھ مسلسل نا انصافیاں، افغانستان، عراق، بوسنیا میں مظالم، اب شام میں اہل سنت کے متعلق مغرب کی منافقت نے نئی نسل کے سامنے مغرب کی اسلام دشمنی الم نشرح کردی ہے اور مغرب کی انسانیت دوستی،انسانی حقوق،مساوات و انصاف کی حقیقت کھول دی ہے اور نئی نسل کو اللہ ورسول کے دامن میں پناہ لینے پر مجبور کردیاہے۔ کاش علماء کرام اس نادر موقع سے فائدہ اٹھاکر ان کی صحیح ومثبت رہنمائی کرسکیں اور انہیں ردّعمل کے طور پر انتہاپسندی کی طرف جانے سے روک سکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عرب علما اور اخوان نے جس طرح دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف علمی وفکری کام کیاہے، وہ برصغیر میں نہیں ہوسکا۔ عرب ممالک کے حالیہ انقلابات میں وہاں کے تمام طبقات،تاجر، کاشتکار، ملازم پیشہ، جدید تعلیم یافتہ، مزدور حتٰی کہ اقلیتیں تک ان کے ساتھ میدان میں نکل آئیں جبکہ پاکستان میں افغانستان پر امریکی یلغار کے وقت جب دینی جماعتیں باہر نکلیں تو ان کے ساتھ صرف مدرسوں کے طلبہ اور کچھ دینی کارکن نظرآئے۔ شاید اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ نصف صدی میں عرب ممالک کی دینی جماعتوں (علماء و اخوان) وغیرہ نے کبھی عوام سے پیسہ اور چندہ نہیں مانگا بلکہ اپنی آمدنی کا پانچواں، چھٹا، ساتواں، آٹھواں حصہ حسب توفیق غریبو ں اور خدمت خلق کے کاموں میں خرچ کیا۔ ان کے رہنما ہمیشہ غریبوں میں رہے۔ ہمارے ہاں یہ صورت حال ہے کہ پیر ومشائخ ہوں یا مہتمم صاحبان یا تبلیغی امرا و اکابر، سب اہل ثروت میں گھرے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، غریب آدمی سے ملنے اور ان سے بات کرنے کے لیے کم ہی وقت نکال پاتے ہیں۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم آج ہندو پنڈتوں کی طرح دان دکھشنا(زکوٰۃ ،صدقات، ہدایا) پر راضی ومطمئن اور قانع ہوچکے ہیں۔ ملک کانظام اجتماعی تمام شعبے یہودونصاریٰ (مغرب) کی تیار کردہ قوتوں کے حوالے کردیے ہیں۔ ہمیں بس دان دکھشنا دیتے جاؤ، باقی ملک کو جس طرح چلاؤ ہمیں سروکارنہیں۔ اس ذہن کے ساتھ نہ ملک میں ترقی وتبدیلی لائی جاسکتی ہے نہ د ین کا غلبہ ہوسکتاہے۔ 
لاہور میں مشہور نقشبندی بزرگ جناب مقبول احمد نقشبندی دامت برکاتہم ملنے کے لیے تشریف لائے۔ کئی گھنٹے نشست رہی۔ آپ سلوک واحسان کی راہ سے بڑا کام کررہے ہیں۔ آپ کی جدوجہد مشرق بعید (انڈونیشیا، ملائشیا وغیرہ) تک وسیع ہے۔ بندہ ان کی سادگی و انکساری، شفقت ومحبت اور دینی تمام شعبوں کی قدردانی سے بہت متاثر ہوا، جبکہ سال گزشتہ بھارت میں ایک پاکستانی نقشبندی بزرگ برکۃ العصر و قطب الاقطاب بن کر نازل ہوئے اور پروپیگنڈے کی بھرمارسے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ دونوں میں زمین آسمان کا فرق نظر آیا۔
بندہ کے سفر پاکستان کا ایک بنیادی مقصد کتب کی تلاش تھا، خاص طور پر ایسی کتب جن سے معلوم ہو کہ آج عالمی دجّالی قوتیں پوری انسانیت بالخصوص ملت اسلامیہ کو کنٹرول اور بے بس کرنے کے لیے کیا کیا منصوبے (علمی، فکری، تبذیبی، عسکری، سیاسی) بنا رہی ہیں۔ دنیا میں قومیں ر یسرچ وتحقیق کی بدولت ترقی کرتی ہیں۔ آج مغربی اقوام اپنی قومی آمدنی ((GDPکا چار سے چھ فیصد ریسرچ وتحقیق پر خرچ کرکے پوری دنیا کو غلام بناچکی ہیں۔ ایک اسکالر پندرہ بیس سال جان توڑ محنت کرکے کسی موضوع پر ریسرچ کرتاہے، پھر کوئی تصنیف وجود میں آتی ہے۔ عرب علماء کی ذہنی بیداری کے سبب ایسی تحقیقی کتب جلدی عربی میں ترجمہ ہو جاتی ہیں جبکہ اردو میں بہت ہی کم کتب کا طویل عرصہ کے بعد تر جمہ ہوپاتاہے، وہ بھی جدید تعلیم یافتہ کچھ باذوق افراد کرتے ہیں۔
بندہ اپنے کرم فرمامولانا مسعود میاں صاحب کے ہمراہ انار کلی کے اردو بازار میں خاک چھانتارہا۔ ہمارے دینی مکتبے فضائل ومسائل، درسی کتب کی شروحات، مواعظ وملفوطات، سوانح، عقائد وقصص کی کتب سے بھرے پڑے ہیں، ریسرچ وتحقیق برصغیر سے تقریباً رخصت ہوچکی ہے۔ خاص طور پر عصر حاضر میں انسانیت کو درپیش مسائل و چیلنجز کے حوالے سے کوئی کام نہیں ہورہا۔ یہ سارے میدان کا فروں کے لیے مختص ہیں۔ بقول ایک ایرانی شاعر:
اے فرنگی ما مسلمانیم،جنت مالِ ماست
درقناعت حور و غلمان نازونعمت مالِ ماست 
اے فرنگی اتفاق وعلم وصنعت مالِ تو
عدل و قانون ومساوات وعدالت مالِ تو
شغل عالم گیری وجنگ وجلالت مالِ تو
اس سفر میں ایک دن کے لیے حضرت شاہ عبد القادر رائے پوری ؒ کی بستی ڈُھڈیاں ضلع سرگودھامیں بھی حاضری کا موقع ملا جہاں حضرت رائے پوری ؒ آرام فرماہیں اور آپ کے خاندان کے لوگ آباد ہیں۔ ڈھڈیاں نہایت ہی پرسکون، پرفضا بارونق، بر لبِ نہر ایک نہایت چھوٹی بستی ہے۔ دل چاہا کہ چند دن دنیا کے جھمیلوں سے ہٹ کر یہیں رہ پڑیں۔ حضرت کے موجودہ جانشین اور مدرسہ کے ذمہ داروں سے ملاقات ہوئی۔ بندہ کے ساتھ نہایت ہی محبت شفقت اعزازواکرام کا معاملہ فرمایا۔ حضرت رائے پوری ؒ کے مزار پر دیر تک سوچتا رہا کہ حضرت نہ مقرر تھے نہ مصنف، لیکن برصغیرکے دور آخرکے اکابرثلاثہ میں شمار ہے۔ تعلق مع اللہ، ملت کا درد وغم، وسعت ظرفی کی بدولت کیاکچھ کرگئے۔ جو درِ دولت پر پہنچ گیا، اس کے دل کی دنیاآباد ہوگئی۔ آج سب کچھ ہے، بڑے بڑے شاندار جامعات، ہزاروں لاکھوں کے اجتماعات، شعلہ بیان مقررین، تک مگردلوں کی بستی ویران۔
ایک دن کے لیے رفیق محترم مولانا زاہدالراشدی صاحب دامت برکاتہم کے ہاں گوجرانوالہ جانا ہوا۔ بندہ کے ساتھ کرم فرما رضوان نفیس صاحب، جناب عبدالماجدصاحب بھی تھے۔ مولانا نے الشریعہ اکیڈمی میں اجلاس رکھا تھا۔ تھوڑے وقت میں شہر واطراف کے چیدہ چیدہ لوگوں سے ملاقات ہوگئی۔ بندہ نے عصر حاضر کے مسائل پر گفتگو کی۔ معلومات کی حد تک برصغیر کے علماء میں مولانا زاہدالراشدی ایسی شخصیت ہیں جن کی تحریریں نئی نسل کے لیے شعور وآگہی اور راہِ عمل فراہم کرتی ہیں۔ مولانا راشدی صاحب کی سادگی، انکساری، تواضع لوگوں کے لیے حجاب بن گئی۔ آج کے عصری مسائل و چیلنجز پر مرتب ومرصع تحریروتقریر مولانا کا امتیاز ہے۔ قوتیں جب زوال کا شکار ہوتی ہیں تو اپنے صحیح لوگوں اور اپنے محسنوں کی ناقدری کرتی ہیں۔ برصغیر میں مولانا راشدی کی صفات والا شخص دُوردُور تک نظر نہیں آتا۔ اس بار عزیزی عمار ناصر صاحب میں کافی تبدیلی نظر آئی۔ ان میں پختگی کے ساتھ سنجیدگی ومتانت نظر آئی۔ ان کی تحریریں علم وتحقیق کا مرقع ہوتی ہیں۔ موضوع پر گرفت کے اعتبار سے برصغیر میں ان کے ہم عصروں میں کوئی ایسا نظر نہیں آتا۔ بندہ نے عمار صاحب سے ایک بار کہا کہ آج ضرورت دین کی نئی تعبیروتشریح کی نہیں، بلکہ تجدیدایمان کی ہے۔ ہر دور میں تجدید ایمان (ایمان میں اتنی قوت پیدا کر دی جائے کہ ہر حالت میں احکامات پر چل سکے) سے نشاۃ ثانیہ ہوئی ہے جیسے آخری دور میں سید احمد شہیدؒ ، مولانا الیاسؒ اور شیخ حسن البناء وغیرہ نے کیا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے والد اور دادا کے نقش قدم پر جمادے ۔
ایک دن کے لیے فیصل آبا د جانے کا موقع ملا۔ فیصل آباد پاکستان کا تیسرا بڑاشہر ہے۔ یہ صنعتی شہر پاکستان کا مانچسٹر کہلاتا ہے۔ وہاں کے دینی جامعات میں جانا ہوا۔ خاص طور پر حضرت مفتی زین العابدین،ؒ مولاناطارق جمیل صاحب اور میرے شیخ حضرت شاہ نفیسؒ کے متعلقین کے مدارس میں۔ میں ظہر کی نماز کے بعد فیصل آباد کے معروف جامعہ امدادیہ میں اساتذہ کرام اور طلبہ سے تفصیلی خطاب کا موقع ملا۔ جامعہ امدادیہ کا نظم ونسق، نظام تعلیم، طلبہ کے اخلاق و آداب، علم سے وابستگی دیکھ کرمسرت ہوئی۔ خاص طور پر مفتی محمد زاہد صاحب سے مل کر خوشی ہوئی جن کے مضامین عرصہ سے ’الشریعہ‘ میں پڑھ رہا تھا۔ صاحب مطالعہ اور محقق ہیں اور قلم پر اچھی دست رس ہے۔
لاہور میں اپنی قیام گاہ جامعہ مدنیہ جدید میں ایک دن صبح بھارت کے مظاہر العلوم کے مولاناشاہد صاحب مع رفقا کے تشریف لائے۔ ان سے وہاں ملاقات نعمت غیر مترقّبہ معلوم ہوئی۔ جامعہ کے مولانا محمود میاں صاحب دامت برکاتہم سے بندہ کی مناسبت اور دلی تعلق ہے۔ مولانا بندہ کی راحت رسانی اور ہر طرح کے انتظامات پر خصوصی توجہ فرماتے ہیں۔ جامعہ مدنیہ میں طلباء کرام سے ایک دن تفصیلی گفتگو کی۔ جامعہ کے متعدد اساتذہ کرام ملنے آتے رہے، خاص طور پر مولانا مفتی محمد حسن صاحب۔ اللہ تعالیٰ ان سب بزرگوں خاص طور پر مولانا محمود میاں دامت برکاتہم کو شایانِ شان جزائے خیر عطافرمائے اور ان کے فیوض وبرکات کو عام فرمائے، آمین۔ اسلام آباد کے لیے احباب اور کرم فرمادوستوں کا شدیداصرار رہا۔ مولانا فیض الرحمن صاحب میرے خاص کرم فرماہیں۔ باربار دعوت دی۔ خود مولانا راشدی صاحب چاہتے تھے کہ اسلام آباد کا سفر ضرور ہو، مگر وقت کی قلت کے سبب آئندہ کسی اور وقت کے لیے ملتوی کرنا پڑا، اس لیے کہ وہاں کے لیے کم ازکم تین یا چار دن چاہییں۔ اتناوقت بندہ کے پاس نہیں بچاتھا۔ اسلام آباد میں ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب ؒ کے ہاں تعزیت کرنی تھی، ان کے بھائی ڈاکٹر غزالی صاحب سے بعض موضوعات پر گفتگو کرنی تھی، انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی اور دعوہ اکیڈمی کی مطبوعات خاص طور پر بیسویں صدی کے عظیم اسکالر ڈاکٹر حمید اللہ(پیرس) کی مطبوعات خریدنی تھیں، وغیرہ وغیرہ۔ 
اسی طرح لاہور میں مجلس احرار کے مرکزی دفتر میں میر ے عزیز دوست اور احراری رہنماومجلس احرار کے سیکرٹری جنرل جناب عبدالطیف چیمہ صاحب نے دوستوں سے ملاقات اور باہمی تبادلہ خیالات کے لیے ایک شام نشست کا پروگرام ترتیب دیا۔ گفتگو کاموضوع تھا ’’ملت اسلامیہ کو درپیش چیلنجز اور ہماری ذمہ داریاں‘‘۔ بندہ نے تفصیل سے اظہار خیال کیا۔ اتفاق سے اسی مجلس میں شبیر احمد میواتی صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ انہوں نے قائد اعظم کی زندگی اور سیاسی سوچ پر ایک ضخیم تنقیدی کتاب ’’توصاحب منزل ہے کہ بھٹکاہوا راہی‘‘ (مصنف: نور محمد قریشی ایڈووکیٹ) پیش کی جو ان سے دوستی کا ذریعہ بن گئی۔ ملتان سے حضرت امیر شریعت ؒ کے نواسے اور میرے کرم فرما مولانا سید کفیل شاہ بخاری صاحب دامت برکاتہم اپنے رفقا کے ساتھ تشریف لائے۔ بندہ کو دو نہایت علمی تحفے عنایت کیے: (۱) ماہنامہ ’’احرار‘‘ کا حضرت مدنی ؒ نمبر (۲)ماہنامہ احرار ہی کا ’’امیرشریعت ؒ نمبر‘‘۔ تعجب ہے، احرار کا مشن غلامی کے دور میں نہایت ہمہ گیر ووسیع تھا۔ احرار مسلمانوں کے بڑے بڑے اجتماعی مسائل میں کوشاں رہی۔ (دیکھیے ’’تاریخ احرار‘‘ از جانباز مرزا) لیکن آزادی کے بعد احرار عقیدۂ ختم نبوت تک سکڑ کر رہ گئی، بجائے اس کے کہ مسلمانانِ پاکستان کے اجتماعی مسائل میں رہنمائی کرتی۔ آج کل برصغیر میں ہم لوگوں نے ملک وملت کے تمام سیاسی، معاشی، تعلیمی، تہذیبی مسائل مغرب کی دجاّلی طاقتوں کے ایجنٹوں کے سپرد کر دیے ہیں۔ تاریخ تلاوت کے لیے نہیں ہوتی، ماضی کے واقعات وطرز عمل سے سبق سیکھنے کے لیے اور مستقبل کے لیے راہِ عمل کی درستی کے لیے ہوتی ہے۔ ہم بڑی آسانی سے حضراتِ صحابہؓ سے اجتہادی غلطیوں کے صدور اور ائمہ اربعہ سے بے شمار فقہی مسائل میں خطاوغلطی کا احتمال تو تسلیم کرتے ہیں، مگرماضی قریب (بیسویں صدی) کے اکابرین سے کسی سیاسی یااجتماعی مسئلہ میں اجتہادی خطا کے احتمال کے تصور تک کو کفروگمراہی سے کم نہیں سمجھتے۔ پھر ماضی کی کسی غلطی کی درستی کی کیاصورت ہو؟
واقعہ یہ ہے کہ برصغیر میں جنگ آزادی میں سب سے زیادہ قربانیاں علماء حق نے دیں جس کے طفیل آزادی نصیب ہوئی، مگر انگریزکے نکلتے ہی یہ عجیب فیصلہ ہو اکہ ہم ملک کو آزاد کرکے اپنا کام کرچکے ہیں، اب ہم اپنے دینی شعبوں میں واپس جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ انگریز کے نکل جانے سے سارے مسائل خود بخود حل ہو گئے؟ انگریز سو سالہ نظام تعلیم سے جو کالے انگریز پیدا کرکے انہیں اپنا جانشین بناکرنکلا، کیا ان کا رخ اسلام کی طرف ہوگا؟ حقیقی مسائل تو اب آزادی کے بعد پیداہوئے تھے کہ ملک کی تعمیر وترقی کس نہج پر ہو، کس قوم وطبقہ کی کیاپوزیشن ہو، مستقبل میں ملک کا رخ کیا ہو! علماء حق جنہوں نے ڈیڑھ سوسالہ جنگ آزادی میں زبردست قربانیاں دیں، اسی طرح تحریک پاکستان میں جب تک اسلام کا نام استعمال نہیں ہوا اور علماء کی حمایت حاصل نہ ہوئی، لیگ کی د و سیٹوں کی بھی حیثیت نہیں تھی۔ آزادی کے بعد ملک کی صحیح تعمیر وترقی اور درست رخ پر رکھنے کے لیے علما ودینی قوتوں کا میدان میں رہناضرور ی تھایا میدان چھوڑجانا اور ملک کوپوری طرح لارڈ میکالے کی معنوی اولاد کے حوالے کردینا؟ انگریز کے نظام تعلیم نے ایسی پوری نسل تیار کر دی تھی جو رنگ ونسل کے اعتبار سے ہندوستانی، لیکن فکر وسوچ تہذیب ومعاشرت کے اعتبار سے انگریز تھی۔ اسلام وکفرکا معرکہ تاقیامت ہے۔ ٹھیک ہے، پاکستان کے مسئلے پر علماء لیگ سے ہار گئے تھے، لیکن کسی محاذ پر شکست کے بعد جنرل کو چاہیے کہ وہ میدان ہی چھوڑجائے یا اپنی کوتاہیوں کا جائزہ لے ازسر نوتیاری کرے؟ کیا ملک اور تمام مسائل کو کالے انگریز کے حوالے کردیناسادہ لوحی نہیں تھی؟ حالات اور نتائج دن بدن روز روشن کی طرح ثابت کرتے جارہے ہیں کہ میدان چھوڑدینے کافیصلہ نادرست تھا۔ ہم اس فیصلہ کو اجتہادی غلطی سے تعبیر کرسکتے ہیں جس میں مجتہد کو ایک اجر بہرحال ملتاہے، لیکن بعد والوں کے لیے ضروری ہے جو درست پہلوسامنے آجائے، اُسے اختیار کریں۔ جب سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر میں لڑائی کے مقام کے تعین اور قیدیوں کے بارے میں اپنی رائے کے بجائے بعض اصحاب کی رائے پر صاد کیا تو اب یہ کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ کسی بڑی شخصیت کی رائے پرہی تاقیامت اصرار کیوں؟
حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تن آسانی، راحت وآرام طلبی، عافیت کی خاطربعض ایسے بڑوں کے وقتی فیصلوں کوآڑ وبہانہ بنالیاہے جن کی پوری زندگی مجاہدہ ومیدان عمل میں گزری تھی تاکہ ہماری عافیت پسندی اور عیش وراحت میں خلل نہ آئے۔ انگریزکے دور میں وڈیرہ زمین دار جاگیردار بننے کے لیے اپنے ملک وقوم اور ملت سے غداری کر کے انگریز کے لیے کام کرنا پڑتاتھا۔ آج وڈیرہ وہ بھی اسلامی وڈیرہ بننے کا آسان نسخہ یہ ہے کہ کسی سلسلے کی خلافت یادینی جامعہ کا اہتمام مل جائے۔ عرب ممالک کی سب سے بڑی طاقت اخوان المسلمین کے سارے ادارے اور وسائل واثاثے جماعت کی ملکیت ہوتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً چلانے والے، منتظمین، ٹرسٹی، پرنسپل سب ہی بدلتے رہتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں تمام دینی ادارے، جامعات، تنظیمیں نسلاً بعد نسل خاندانی وراثت بن کررہ گئی ہیں جن پر خاص خاندانوں کی اجارہ داری وتسلط قائم ہے۔ کسی جگہ باصلاحیت افراد کی گنجائش نہیں، صرف خوشامدی ٹٹوؤں کا بول بالاہے۔ کیا کسی قوم وملت کے پنپنے کا یہی طریقہ ہے؟ جس اسلام نے سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان پراصرار نہیں کیا کہ وہی اقتدار پر فائز رہے تو بزرگوں کی اولاد ہی سب کچھ کیوں؟ یہ بنی اسرائیل کی امت نہیں کہ باپ کے بعد بیٹاہی ہو بلکہ امتِ محمدیہ ہے۔ یہاں کبھی عرب سے، کبھی عجم سے، کبھی مشرق سے، کبھی مغرب سے، کبھی کسی علاقے سے اور کبھی کسی خاندان وقبیلہ سے اٹھ اٹھ کر لوگ اسلام کا بول بالاکرتے رہیں گے۔
لاہورسے دوستوں اوراحباب کو الوداع کہہ کر بذریعہ پی آئی اے کراچی روانہ ہوا۔ حضرت مولانا محمود میاں صاحب دامت برکاتہم حسب معمول باوجود علالت طبع کے بنفس نفیس رخصت فرمانے ائیر پورٹ تشریف لائے۔ اللہ تعالیٰ ان کے احسانات کاشایانِ شان صلہ عطا فرمائے۔ کراچی ائیرپورٹ پر جامعۃ الرشید کے مولاناصادق صاحب منتظر تھے۔ ان کے ہمراہ بیس منٹ میں جامعۃ الرشید پہنچ گئے۔ جامعۃالرشید ایئر پورٹ اور شہر کے درمیان واقع ہے۔ جامعۃ الرشید کے متعلق متعدد احباب خاص طور سے مولانازاہدالراشدی سے بہت کچھ سن رکھاتھا کہ یہاں دینی و عصری تعلیم کی یکجائی کا منفرد تجربہ ہورہاہے۔ ایسے افراد تیار کیے جا رہے ہیں جو اعلیٰ دینی تعلیم اور ضروری عصری تعلیم کے حامل ہوں۔ حقیقت یہی ہے کہ ۱۲۰۰ سال تک ہماری اصل روایت یہی رہی ہے۔ دور نبوت صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر برصغیر پر انگریزی اقتدار تک ہماری درس گاہیں دینی وعصری تعلیم کے امتزاج کا مثالی نمونہ ہوتی تھیں۔ یہاں ایسے افراد تیار ہوتے تھے جو ملت اسلامیہ کی دینی ودنیوی تمام ضروریات پوری کرتے تھے۔ پوری بارہ سو سالہ تاریخ شاہد ہے کہ ہمیں کبھی بھی کسی دنیوی ضرورت کے لیے آج کی طرح کسی دوسرے ملک اور قوم کا محتاج نہیں ہونا پڑا۔ ہماری یہی درس گاہیں بہترین علما وفقہا،خطبا بھی پیدا کرتی تھیں اور دنیا کے بہترین طبیب، انجینئر، مورخین، جغرافیہ دان، سائنسدان، عسکری وانتظامی ماہرین بھی پیداکرتی تھیں۔ انگریز کے تسلط کے بعد جب اس نے برصغیر میں سیکولرنظام تعلیم کے ذریعے مسلمانوں کواسلام و قرآن سے بیگانہ کرکے عیسائی بنانے کی جدوجہد شروع کی تو اللہ ہمارے اکابرین کی قبروں کو نور سے بھر دے، انہوں نے بروقت دین و تہذیب کے تحفظ و بقا کے لیے مدارس کے ذریعے دینی نظام تعلیم کی بنیاد رکھی۔ یہ بڑامبارک اور صحیح فیصلہ تھا جس کی بدولت برصغیر دوسرا اسپین بننے سے بچ گیا، مگر ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ حالات کے جبر کے تحت دفاعی اور وقتی فیصلہ تھا۔ ان بزرگوں نے ساتھ ہی اسلام کے غلبہ اور انگریزکو نکال کر دوبارہ برصغیر کو اسلامی ملک بنانے کی جدوجہد بھی شروع کی جس میں وہ بوجوہ کا میاب نہ ہوسکے۔ اس وقتی پالیسی و فیصلہ کو بدقسمتی سے دائمی پالیسی اور ہمیشہ کے لیے طرزِعمل قرار دے دیا گیا اور ہم نے دائمی طور پردینی ودنیوی تعلیم کی تفریق کو قبول کرلی۔ ہمیں خوب سمجھنا چاہیے کہ یہ دینی وعصری تعلیم کی تفریق انگریز کی لعنت و نحوست کی باقیات ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے مذہبی طبقہ کبھی دنیا میں خلافت ارضی پر متمکن نہیں ہو سکتا۔ آج علوم میں دین ودنیاکی تفریق ہماری تباہی و ذلت کا اصل بنیادی سبب ہے اور جب تک ہم اس لعنت کو ختم نہیں کرتے، ہمیں محتاج، محتاج اور محتاج ہی رہناہے، نہ صرف مغرب اور کفریہ طاقتوں کا بلکہ اپنے ملکوں میں بھی انہی دجالی قوتوں کے ایجنٹوں کا۔ شترمرغ کی طرح ریت میں سر چھپا لینے سے خطرات ٹل نہیں جائیں گے بلکہ مردانہ وار اس چیلنج کا مقابلہ کرکے نظام تعلیم کواصل نہج پر لانا ہوگا جو دور نبوت سے کے لر انگریز کی آمد تک تھا۔
غرض تشریعی وتکوینی علوم کی یکجائی آج ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے اور جامعہ الرشید اس یکجائی کا بہترین نمونہ نظرآیا۔ جامعۃ الرشید کے مختلف شعبے مثلاً کلیۃ الشریعہ اور ذرائع ابلاغ کے مختلف شعبے دیکھے۔ یہاں شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ کی کتاب ’’برصغیرکو انگریز نے کس طرح لوٹا‘‘ پر ایک نہایت موثر ومعلوماتی ڈاکومنٹری دیکھی۔ اسے ہر عالم بلکہ ہر مسلمان کو ضرور دیکھنا چاہیے۔ کسی دینی درسگاہ نے پہلی بار ذرائع ابلاغ کی عصری تکنیک پر ایسی زبردست اہلیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ جامعۃ الرشید اپنی نظافت، حسن تعمیر، طلبہ کی تربیت وشائستگی، نظام تعلیم ہر اعتبار سے ممتاز نظر آیا۔ شاید بندہ کے ذوق کو سامنے رکھ کرہی مولانا راشدی نے میر ایہاں قیام تجویز کیاتھا۔ جامعۃ الرشید نے گزشتہ چند سالوں میں جس طرح برق رفتاری سے ترقی کی، یہ دینی مدارس کے لیے نیک فال ہے۔ یہاں بندہ کو متعدد بار گفتگو کا موقع ملا۔ جامعہ کی عظیم الشان مسجد میں تفصیلی خطاب کے علاوہ اساتذہ کرام، کلیۃالشریعہ کے طلبہ، فقہ المعاملات (اسلامک اکنامکس) کے طلبہ سے مفصل بات کی۔ اذان چینل نے تفصیلی انٹر ویو کیا۔ انورغازی صاحب روزنامہ جنگ اور روزنامہ اوصاف کے کالم نگار و صحافی ہیں اور ان کے کالم نہایت اثر انگیز ومعلوماتی ہوتے ہیں۔ بندہ سے ملنے کے لیے کئی بار تشریف لائے۔ اپنی متعد دتازہ تصانیف عنایت کیں اور بندہ کا تفصیلی انٹرویو کیا۔ کراچی قیام کے دوران رات کا قیام جامعۃ الرشیدہی میں رہا۔ یہیں سے ہر جگہ آنا جانا رہا۔ روزانہ رات گئے تک محفل سجتی جس میں متعدد طلبہ واساتذہ کرام تشریف لاتے۔ جامعۃ الرشید کے صدر مفتی مولانا محمد صاحب اور مولانا سفیر احمد ثاقب صاحب ہر وقت بندہ کے ساتھ رہے۔ 
کراچی پورا ایک ملک ہے۔ کوشش کی کہ کم سے کم وقت میں اہم اداروں اور شخصیات سے ملاقات ہو جائے۔ حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے وقت لے کر ملنے کے لیے ان دونوں حضرات (مفتی محمدصاحب اورمولانا سفیر احمد ثا قب صاحب) کے ساتھ دارالعلوم کورنگی پہنچا۔ گیٹ سے داخل ہوتے ہی محسوس ہوا گویا کسی عظیم الشان اسلامی یونیورسٹی میں پہنچ گئے ہوں۔ حضرت مولانا کچھ علیل تھے، دولت کدہ پر ہی حاضری دی۔ اور بھی چند مخصوص حضرات موجود تھے۔ تقریباً بیس پچیس منٹ ملاقات و استفادہ رہا۔ بلاشبہ حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم برصغیر کی منفرد شخصیت اور برصغیر کے علما کی آبرو وسرتاج ہیں۔ ملاقات کے بعد دارلعلوم کی وسیع و خوبصورت مسجد میں ظہر کی نماز ادا کی۔ حسن اتفاق سے بندہ کی پچھلی صف میں مولانا زبیراشرف صاحب (مفتی اعظم پاکستا ن حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی دامت برکاتہم کے اکلوتے صاحبزادے وجانشین اور دارالعلوم کے استاذِحدیث) تھے۔ نہایت ہی مسرت کا اظہار کیا اور فرمایا کہ آپ کی ملاقات خلاف توقع نعمت غیر مترقبہ ہے۔ زور دیا کہ آپ یہیں قیام کریں، یہاں ہر قسم کی سہولت وراحت میسر ہوگی اور نہایت اصرار سے اسی وقت کھانے کی دعوت دی۔ بندہ نے عذر کیا کہ ابھی حضرت مولاناسلیم اللہ خان صاحب دامت برکاتہم سے ملاقات طے ہے۔ فرمایا کہ کل دوپہر کی دعوت قبول کرنی ہی ہوگی۔ بندہ نے عرض کیا کہ شام تک بتادوں گا۔ دوسرے روز مفتی محمد صاحب اور مولانا سفیر احمد صاحب کے ہمراہ پرتکلف دعوت کا لطف اٹھایا۔ حضرت مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی دامت برکاتہم سفر میں تھے۔ فون پر بات کروائی گئی۔ حضر ت نے بندہ کی آمد پر نہایت مسرت کا اظہار فرماتے ہوئے اس سیاہ کارکے متعلق اس قدر بلند کلمات فرمائے جسے بندہ اپنے لیے ذخیرہ آخرت سمجھتاہے اور دعا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ محض اپنے کرم سے حضرت مفتی اعظم دامت برکاتہم کے حسن ظن کے مطابق بندہ کو ایسا بنادے، آمین۔ سہ پہر تین بجے کے قریب حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب دامت برکاتہم کے دولت کدے پر انہی دونوں رفقا کے ساتھ حاضری دی۔ حضر ت مولانا کی صحت کئی دنوں سے علیل چل رہی تھی۔ تین دنوں سے اسباق بھی بند تھے۔ حضرت مولانا نمونہ اسلاف اور اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہیں۔ حضرت کی عیادت کے بعد بندہ گفتگو کرتارہا جس کا موضوع علماء کرام کو جدید چیلنجز وتقاضوں سے واقفیت کی ضرورت، اسلام کی تعلیم ودعوت کے لیے جدید ترین ذرائع کے استعمال، دینی وعصری تعلیم کے فاصلوں کو کم کرنا وغیرہ وغیرہ تھے۔ تقریباً پچیس منٹ کے بعد دعائیں لے کر وا پسی ہوئی۔ حضرت دامت برکاتہم کی صحت انتہائی نحیف و کمزور نظر آئی۔ حضرت سے ملاقات پر اللہ کا شکرادا کیا۔ بعد میں پتہ نہیں وہاں آنا ہوسکے یا نہ ہوسکے۔ اللہ تعالیٰ حضرت کے سایہ کو تادیر امت کے سروں پر باقی رکھے، آمین۔
واپسی پر مفتی محمد صاحب نے فرمایا کہ آج تو معجزہ ہو گیا۔ بندہ نے پوچھا، وہ کیا؟ فرمایا، میں حضر ت کا شاگرد ہوں۔ جامعہ فاروقیہ ہی میں تعلیم حاصل کی۔ آپ جن موضوعات پر گفتگوکررہے تھے، حضرت ایک جملہ بھی نہیں سن سکتے۔ فوراً برا فروختہ ہوجاتے ہیں، مگر آج حضر ت نے نہایت بشاشت سے آپ کی پوری بات سنی اور آخر تک مسکراہٹ حضرت کے لبوں پر تھی اور آپ کو دعاؤں سے نوازا۔ بندہ نے عرض کیا کہ یہ بندہ پر اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے۔ اس دور کے تقریباً سارے ہی اکابرین سے بندہ کوایسا ہی دلی تعلق و محبت ہے۔ 
زوّار اکیڈمی کے ڈاکٹر عزیزالرحمن صاحب سے ملنے زوّار اکیڈمی پہنچے۔ ڈاکٹر صاحب سے مولاناراشدی اور ڈاکٹر محمود احمد غازی ؒ کی نسبت سے غائبانہ تعارف تھا۔ خاص طور سے ششماہی رسالہ ’’السیرۃ‘‘ کی وجہ سے ملنے کا اشتیاق تھا۔ نہایت محبت وشفقت سے پیش آئے۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ گفتگو رہی۔ زوّاراکیڈمی پورے برصغیر کاایک منفرد ادارہ ہے جہاں سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر گرانقدر علمی وتحقیقی کام ہو رہا ہے۔ ہرچھ ماہ بعد تقریباً چار پانچ سو صفحات پر مشتمل ایک ضخیم علمی وتحقیقی مجلّہ نکل جاتاہے۔ اب تک تیس کے قریب شمارے آچکے ہیں۔ گویا یہ اکیڈمی پورے برصغیر کے علماء کی طرف سے فرض کفایہ اداکررہی ہے۔ آج پیر پرستی اور گانا بجانے کے انداز کے مقررین کا دور ہے۔ ان حالات میں خالص علمی وتحقیقی ادارے خون جگر سے چلائے جاتے ہیں۔ اس سطحیت اور زوال علم کے دور میں علمی و تحقیقی کام پِتہ مارنے اور جانکاہی کا کا م ہے۔ اللہ تعالیٰ زوّار اکیڈمی کے منتظمین کو پوری امت کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے۔ ڈاکٹر صاحب سے بڑی مناسبت اور دلی تعلق پیداہوا۔ لندن پہنچ کر بھی برابر فون پر رابطہ ہے۔ بندہ کو اکیڈمی کی تمام تصانیف عنایت کیں۔ 
کراچی کا اسی طرح کا ایک قابل ذکر اور قابل قدر علمی ادارہ ’’مجلس علمی‘‘ بھی ہے جو حضرت بنوری ؒ کے داماد اور مشہور محقق و مصنف مولانا محمد طاسین صاحبؒ کی یادگارہے۔ اب آپ کے صاحبزادے علم وتحقیق کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔ بندہ کے ساتھ بڑی محبت و اکرام کا معاملہ فرمایا۔ مجلس علمی کا کتب خانہ قابل دید اورقابل استفادہ ہے۔ یہاں کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ کو علمی کام اور پی ایچ ڈی وغیرہ میں مطالعہ کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے خالص علمی و تحقیقی اداروں کی قدر کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ پاکستان شریعت کونسل کے صدر، بندہ کے محسن وکرم فرما حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی دامت برکاتہم کے جامعہ میں بھی حاضری دی اور اساتذہ کرام اور منتہی طلبہ سے گفتگو کی۔ اسی طرح جامعہ بنوری ٹاؤن، دفتر روزنامہ اسلام، بلڈبینک، دار الافتاء وغیرہ میں تھوڑی تھوڑی دیر حاضر ہوکر معائنہ و استفادہ ہوا۔ بہت سی جگہوں پرباوجود شدید اصرار اور خواہش کے نہیں جا سکا جس میں خاص طور پر مولاناجمیل فاروقی صاحب کا ادارہ جامعہ اسلامیہ کلفٹن اور صدیقی ٹرسٹ شامل ہیں۔
مفتی محمد صاحب اور مولاناسفیراحمد صاحب کے ہمراہ ایک یاد گار سفر حیدرآباد کا ہوا جہاں بندہ کے ایک خاص کرم فرما مشہور صحافی و مصنف ومفکرجناب مولانا موسیٰ بھٹو صاحب بڑا کام کر رہے ہیں۔ آپ ایک معیاری رسالہ ماہنامہ ’’بیداری‘‘ تقریباً پچیس تیس سال سے سندھی زبان میں اور گزشتہ کئی سال سے اردو میں نکال رہے ہیں۔ آپ کی کئی درجن ضخیم علمی و تحقیقی وفکری تصانیف ہیں۔ خاص طور پر بیسوی صدی کے علماء،مفکرین ،مشائخ پرمنفرد کام ہے۔ شروع جوانی میں جماعت اسلامی سے سے متاثر ووابستہ رہے، پھر ایسا ردّعمل ہواکہ غلو کی حد تک تصوف کی طرف جھکاؤ ہو گیا۔ کئی سال سے آپ کی تحریریں گویا تصوف کی دعوت تھیں۔ بندہ کوشاں رہا کہ اعتدال پر لایاجائے۔ اب کافی اعتدال پیدا ہو رہا ہے۔ مولانا موسیٰ بھٹو کی زندگی مسلسل ایک مشن ہے۔ شب وروزعملی، فکری دعوتی کام میں جتے ہوئے ہیں۔ کوئی معاون ومددگا ربھی نہیں۔ سوچنا، لکھنا، کمپوزکرنا، چھاپنا، لو گوں تک پہنچانا، ایک مشین کی طرح رات دن مصروف عمل۔ آپ کی ہستی پورے سندھ میں باطل افکار اور نظریات کے سامنے ڈٹی ہوئی ہے۔ کمیونسٹ، ترقی پسند، جی ایم سید کے حامی، قوم پرست، سوشلسٹ اوراپنوں میں جو مولانا عبیداللہ سندھی کی فکرکی غلط تشریح کرتے ہیں کہ حضرات انبیاء ؑ کی بعثت کا اصل وبنیادی مقصد مترفین (حکمران، اہل ثروت، استحصالی طبقہ) کو پست کرکے مستضعفین (کمزور طبقات اور غریبوں) کو ان کی جگہ اختیارات واقتدار سونپنا تھا وغیرہ۔ غرض موسیٰ بھٹو صاحب کی تقریباً نصف صدی سے تمام باطل نظریات و افکار کے خلاف چومکھی لڑائی جاری ہے۔ 
موسیٰ بھٹو صاحب نے پر تکلف ضیافت کی۔ دل کھول کرباتیں ہوئیں۔ سال بھر کے رسالوں کے علاوہ درجنوں تصانیف میرے دونوں رفقا کوبھی ہدیہ دیں۔ بندہ نے اپنے دونوں ہم سفروں سے کہا کہ اس آدمی کی قدر کریں، ان کے بعد ان کا کوئی نعم البدل پورے سندھ میں نہیں ملے گا۔ بندہ کے نزدیک اس وقت سب سے اہم کرنے کے کام تین ہیں: (۱) دعوت یعنی غیروں کو ایمان و اسلام پہنچانا۔ یہی سارے انبیاء ؑ کا اصل مشن تھا۔ (۲)تذکیر یعنی حضرت مولاناالیاسؒ نے جو کام کیا، مسلمانوں میں آخرت کی فکر پیداکرنا، زندگیوں کو خواہشات سے احکامات کی طرف لانا اور ان کا اللہ سے رشتہ جوڑنا۔ (۳)خدمت خلق جو سرورِدوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت ملنے سے تقریباََ پندرہ سال پہلے شروع فرمایا تھا، حتی کہ پورے عرب میں آپ کا عام تعارف وپہچان خدمت خلق کا بن گیا تھا۔ ان تین کاموں کے بعد ہی دین کے سارے شعبے ہیں اور دین کے دیگر شعبوں والوں کو بھی اپنے اپنے شعبے کے ساتھ ساتھ یہ تینوں کا م کرنے پڑیں گے، تب دین کے ان شعبوں میں روح اور صحیح تاثیر پیدا ہوگی۔
جامعۃ الرشید حضرت مولانامفتی رشید احمد لدھیانوی ؒ کی یاد گار ہے۔ بندہ کی بہت پہلے لندن میں حضرت سے ملاقات ہوئی تھی۔ بندہ نے مزاج میں کچھ سختی وشدت محسوس کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ سے اتنا عظیم وہمہ جہت کام لیا کہ عقل حیران ہے۔ عصر حاضر میں حضرت کے اخلاص کی مثال مشکل سے ہی ملے گی۔ آپ نے اپنے تمام کاموں، شعبوں، اثاثوں کو اپنی اولاد کے بجائے (جو ماشاء اللہ نہایت لائق، صالح اور عصری تعلیم میں ممتاز ہے) اپنے ہونہار اور باصلاحیت شاگردوں کے سپردکیا۔ ان میں سب سے بڑھ کر مفتی عبد الرحیم صاحب ہیں جن سے ملاقات کا اشتیاق رہ گیا کہ مفتی صاحب حجاز مقدّس میں تھے۔ احباب نے فون پر کئی بار بات کروائی۔ مفتی صاحب نے ہر بار یہی فرمایا کہ آپ تشریف لائے اور میں یہاں اتنی دُور ہوں۔ کتنے عرصے سے آپ سے ملاقات کا متمنی تھا۔ بندہ عرض کرتارہا کہ آپ قبولیت دعا کے مقامات پر ہیں، اس سیہ کار کے لیے دعا کردیجیے۔ لندن پہنچ کر فون پر بات ہوئی تو فرمایا کہ جامعۃ الرشید واپس پہنچ کر ہر طرف آپ کی خوشبو اور آپ کی باتوں کے چرچے ہیں۔ اللہ کرے مفتی صاحب سے جلدی ملاقات کی کوئی تقریب پیداہو۔
بندہ اس سفر میں نوجوان فاضل مولانا عدنان کاکاخیل کی صلاحیتوں اور قوّتِ عمل سے کافی متاثر ہوا۔ آپ اسیر مالٹا حضرت مولانا عزیرگل ؒ کے بھائی کے، جو خود بھی بڑے عالم اور فاضل دیوبند تھے، پوتے ہیں۔ حضرت مولانا عزیر گل ؒ حضرت شیخ الہندؒ کے خادمِ خاص، جید عالم دین اور مشہور مجاہد آزادی تھے۔ چند سال قبل جب عدنان کاکاخیل صاحب نے پاکستان کے ڈکٹیٹر وصدر جنرل مشرف کو بالمشافہہ اپنی تقریر میں للکاراتھا، وہ منظر بندہ نے انٹرنیٹ پر دیکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ انہیں نظر بد سے بچائے اور ان کی زبردست صلاحیتوں سے ملت اسلامیہ پاکستان کو فائدہ پہنچائے۔ آپ ہر ماہ تقریباََ تین ہفتے جامعہ فریدیہ اسلام آباد اور ایک ہفتہ جامعۃ الرشید (کراچی) کے مختلف شعبوں میں مصروف رہتے ہیں۔ ملاقات پر کہنے لگے کہ طویل عرصہ سے آپ سے ملنے کا متمنی تھا۔ جب آپ کا پہلا مضمون پڑھاتھا تو مولانا راشدی صاحب سے آپ کے متعلق دریافت کیا۔ انھوں نے فرمایا کہ شروع زندگی کا بڑا حصہ تبلیغی جماعت میں گزرا، مگر ’’جراثیم‘‘ ہمارے والے ہیں۔ کہنے لگے کہ آج ہی اسلام آباد واپسی کا دن ہے، مگر کچھ دن آپ کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔ غرض چار پانچ دن مزید بندہ کے ساتھ ٹھہرے رہے۔ لندن پہنچ کر بھی عدنان صاحب سے برابر رابطہ ہے۔ اسلام آباد میں کالج اور یونیورسٹیوں کے طلبہ میں دینی تعلیم کے لیے کوشاں ہیں۔ گزشتہ دنوں کہنے لگے کہ آج کل ایک ایسا فورم تشکیل دینے میں لگاہوا ہوں جہاں ملت کا درد اور فکررکھنے والے مختلف طبقات، مختلف مسالک کے اہل علم و اہل فکر سر جوڑکر بیٹھیں، غور و خوض کریں اور جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعے ملت اور انسانیت کو درپیش مسائل کا حل پیش کریں اور دنیاکواسلام کا مثبت پیغام پہنچائیں۔ دعاہے اللہ تعالیٰ عدنان صاحب کی کا وشوں کو بار آور فرمائے اور ان کو بہترین رفقائے کار فراہم کرے ۔ آمین یا رب العالمین۔

نابالغی کا نکاح اور سیدہ عائشہ کی عمر ۔ چند نئے زاویے (۲)

مولانا محمد عبد اللہ شارق

بلوغتِ سیدہؓ کے قائلین سے ایک سوال:

اول الذکر حضرات جو ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ کو بوقتِ نکاح بالغ ثابت کرنے پر مصر ہیں‘ ان کا مقصد بھی بالعموم یہی ہے کہ اس نکاح کا اخلاقی جواز ثابت کرکے اس پر ہونے والے اعتراضات کا دفعیہ کیا جائے۔ تاہم اپنی اس کاوش کی بنیاد انہوں نے اخلاقیات کے جدید معاشرتی تصورات پر رکھی ہے۔ تبھی تونابالغی کے نکاح کو بنیادی طور پرغیر اخلاقی تسلیم کرلیا ہے۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر موجودہ دور کی نئی معاشرتی اخلاقیات ہی ان حضرات کے نزدیک معیار اور کسوٹی قرار پائی ہیں تو انہیں دیکھ لینا چاہیے کہ کیا بوقتِ نکاح حضرت عائشہ ؓ کو بالغ ثابت کردینے سے یہ نکاح ہماری جدید سماجی وتہذیبی اخلاقیات سے ہم آہنگ ہو جائے گا؟ ہمارے خیال میں ’’ہنوز دلی دور است‘‘ ۔ جس مقصد کے لیے حضرت عائشہ ؓ کو بوقتِ نکاح بالغ ثابت کرنے کی سعیِ بلیغ کی گئی‘ وہ مقصد ابھی تک ہاتھ نہیں آیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر حضرت عائشہؓ کو بوقتِ نکاح بالغ ہی تسلیم کرلیا جائے تو ان کی عمر اس وقت زیادہ سے زیادہ کتنی رہی ہوگی؟ بلوغت کے قائلین کے اپنے قول کے مطابق زیادہ سے زیادہ یہی کوئی تقریباً پندرہ سال۔ دوسری طرف اس وقت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک تھی تقریباً پچاس سال۔یعنی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدہ عائشہؓ کی عمر کے درمیان تقریباً پینتیس سال کا تفاوت۔عمر کے اس تفاوت کے ساتھ ہونے والے نکاح کو ہمارے معاشرہ میں کس نظر سے دیکھا جاتا ہے؟ مکرر کہہ دیتا ہوں کہ ایک پختہ عمر کے مرد اور لڑکپن کی حدود سے گزرنے والی دوشیزہ کے باہم نکاح کو ہماری جدید گلوبل سوسائٹی میں کن نگاہوں دیکھا جاتا ہے؟اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ اب خود بتائیے کہ عمومی روایات کے برعکس حضرت عائشہؓ کو بوقتِ نکاح بالغ ثابت کرنے کا فائدہ کیا ہوا؟ اصل معاملہ تو جوں کا توں ہے۔ نہ حضرت عائشہؓ کا نکاح دورِ جدید کی سماجی ومعاشرتی اخلاقیات سے ہم آہنگ ہوا اور نہ ہی معترضین کے اعتراضات کا کما حقہ سدباب ہوا کیونکہ ان حضرات کی یہ کاوش معترضین کے لیے اطمینان کا کوئی سامان نہیں کرسکی۔ 

سیدہؓ کے نکاح میں پوشیدہ مصالح اور مقاصد:

جن حضرات کو حضرت عائشہؓ کے نابالغی کے نکاح پر کسی طور اطمینان نہیں ہوتا‘ ان کا ایک اعتراض یہ ہے کہ اتنی کم عمری میں حضرت عائشہؓ کے ساتھ عقدِ نکاح فرمانے میں پیغمبر کی آخر کیا حکمت اور مصلحت تھی؟ دوسرے حضرات کی طرف سے عموماً اس کی یہ توجیہات پیش کی جاتی ہیں:
  • حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ اخوت اور اپنائیت کے رشتہ میں گہرائی پیدا کرنے کے لیے آپ نے یہ نکاح فرمایا۔
  • علوم ومعارف کا جو خزانہ حضرت عائشہؓ ہی کے ذریعہ سے خدا کو امت تک پہنچانا مقصود تھا ‘ اس کے لیے ضروری تھا کہ سیدہ عائشہ ؓ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شب وروز کی رفیق اور شریکِ حیات بنتیں۔وغیرہ وغیرہ
تاہم اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ حضرت عائشہؓ کے ساتھ نکاح فرماتے ہوئے یقینی طور پر یہ مصالح آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اول الذکر حضرات کو یہ کہنے کا موقع ملتا ہے کہ بے شک حضرت عائشہؓ سے نکاح فرمانے کی بدولت یہ ثمرات حاصل ہوئے کہ حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ رشتہ کو بھی پائے داری ملی اور حضرت عائشہؓ کے ذریعہ علوم ومعارف کا خزانہ بھی امت کو منتقل ہوا، مگر اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ حضرت عائشہؓ کے ساتھ نکاح فرمانے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود بھی یہی تھا۔ نیز ان حضرات کے مطابق اس نکاح کی تجویز بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت ابوبکرؓ کی بجائے حضرت خولہ بنتِ حکیمؓ کی طرف سے آئی جس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ یہ مقاصد پیشگی طور پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر نہ تھے اور نہ ہی حضرت ابوبکرؓ کے سامنے تھے۔
حضرت خولہ بنتِ حکیمؓ کی تجویز والا نکتہ حال ہی میں جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنے ایک مضمون کے اندر اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر اس نکاح کی تجویز آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت ابوبکرؓ کی طرف سے سامنے آئی ہوتی تو کہا جاسکتا تھا کہ ان حضرات کے پیش نظر یہ مقاصد رہے ہوں گے، جبکہ ایسا نہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ غامدی صاحب کے اس نکتۂ نظر میں کوئی حقیقت پسندی نہیں پائی جاتی۔ بالکل سامنے کی بات ہے کہ حضرت خولہؓ نے تجویز تو پیش کی تھی، مگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ نکاح کرنے پر مجبور نہیں کیا تھا۔ یہ خیال اولاً آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ آیا تو کیا ہوا؟ حضرت خولہؓ کی اس تجویز کو آنحضور نے قبول تو اپنی ہی رضاو رغبت سے کیا ہوگا‘ کیا یہ ممکن نہیں کہ اس تجویز کو قبول کرتے ہوئے مذکورہ مصالح ومقاصد آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر رہے ہوں؟ اگر اس ایک پہلو پر غور کرلیا جائے تو امید ہے کہ غامدی صاحب کے مضمون میں اٹھائے گئے نکتہ کی بنیاد سرے سے ہی ختم ہوجائے گی۔ نیز غامدی صاحب نے اپنے مضمون میں لکھاہے کہ ’’سیدہ کے بارہ میں اگر کسی رؤیا کی بنا پر اس طرح(نکاح) کا کوئی خیال آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں رہا بھی ہو تو آپ نے ہرگز اس کا اظہار نہیں کیا۔ حدیث وسیرت کا ذخیرہ آپ کی طرف سے اس نوعیت کے کسی ایماء‘ اشارے یا تجویز سے بالکل خالی ہے۔‘‘ ان کا دعوی کہ ’’بالکل خالی ہے‘‘ درست نہیں۔ ایک ایسے رؤیا کا پتہ ملتا ہے کہ سیدہ کے ساتھ نکاح سے قبل ہی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہؓ کے ساتھ نکاح کی بشارت دے دی گئی تھی۔ ملاحظہ کیجیے:
’’عن عائشۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لہا: اریتک فی المنام مرتین ‘ اری انک فی سرقۃ من حریر ویقول الملک: ہذہ امرأتک فاکشف فاذا ہی انت ‘ فاقول ان یک ہذا من عند اللہ یمضہ‘‘ [صحیح البخاری حدیث نمبر ۳۸۹۵۔ ۵۰۷۸۔ ۵۱۲۵۔ ۷۰۱۱۔ ۷۰۱۲]
یعنی ’’حضرت عائشہؓ خود نقل کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بتایا کہ میں نے تمہیں دو دفعہ(بعض روایات کے مطابق تین دفعہ) خواب میں دیکھا کہ تم ریشم کے کپڑے میں لپٹی ہوئی ہو اور فرشتہ بتاتا ہے کہ یہ آپ کی بیوی ہے۔ میں کپڑا ہٹاتا ہوں تو وہ تم ہوتی ہو۔ پس میں سوچتا ہوں کہ اگر یہ خواب اللہ کی جانب سے ہے تو وہ خود ہی اسے ظاہر فرمادے گا۔‘‘صرف صحیح البخاری میں مکرر پانچ دفعہ آنے والی یہ حدیث غامدی صاحب کی نظر سے اوجھل رہ گئی ‘ عجیب بات یہ نہیں۔ عجیب ان کا یہ دعویٰ ہے کہ ’’سیدہ کے بارہ میں اگر کسی رؤیا کی بنا پر اس طرح(نکاح) کا کوئی خیال آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں رہا بھی ہو تو آپ نے ہرگز اس کا اظہار نہیں کیا۔ حدیث وسیرت کا ذخیرہ آپ کی طرف سے اس نوعیت کے کسی ایماء‘ اشارے یا تجویز سے بالکل خالی ہے۔‘‘ 
حاصلِ کلام یہ کہ اس امکان کو بالکلیہ رد نہیں کیا جاسکتا کہ حضرت عائشہؓ کے ساتھ نکاح فرماتے ہوئے یہ مصالح آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر رہے ہوں، بلکہ غالب امکان یہی ہے کہ رہے ہوں گے کیونکہ اس نکاح سے حاصل ہونے والے یہ فوائد اور مبارک ثمرات اتنے خفیہ نہیں تھے کہ نظر ہی نہ آتے۔ تاہم چونکہ اس کا کوئی قطعی ثبوت نہیں اس لیے اگر فرض کرلیا جائے کہ پیشگی طور پر سامنے نہیں رہے ہوں گے تو ایک اصولی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نکاح میں مضمر ان اضافی مصالح ومقاصد کومتعین کرنے کی آخر ہمیں ضرورت کیا آپڑی ہے؟ جب کم عمری کی شادی میں اصولی طور پر کوئی ناانصافی کی بات نہیں‘ صاحبانِ معاملہ اس پر مطمئن بلکہ مسرور ہیں ‘ رخصتی کے وقت لڑکی بھی حقوقِ زوجیت ادا کرنے کی عمر تک پہنچ چکی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ بات کہ یہ معاملہ اللہ جل مجدہ کی رضاء کے خلاف نہیں ہے تو اگر ہمیں اس نکاح کے اضافی مصالح اور مقاصد معلوم نہ بھی ہوں تو آخر اس بیاہ پر اعتراض کی کیا بنیاد باقی رہ جاتی ہے!

کم سن زوجہ۔ نبی کے بے داغ کردار کی برہان:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے جو پہلو اعجاز کے درجہ کو پہنچے ہوئے ہیں اور دنیا ان کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے، ان میں ایک پہلو آپ کی کھلی ہوئی بے پردہ زندگی کا ہے۔ آپ کی زندگی کا کوئی قابلِ ذکر گوشہ پردۂ خفا میں نہیں ہے۔ جلوت وخلوت کے سارے احوال اور اعمال کھلی کتاب کی طرح سب کے سامنے ہیں۔ آپ غور کیجئے !بڑے سے بڑاانسان بھی اپنی زندگی کے ذاتی ‘ نجی اور خانگی پہلو منظرِ عام پر لانے سے کنی کتراتا ہے۔ اگر اس کی سیرت اور اس کا کردار سر تاپا صداقت وامانت سے معمور ہو تو تب بھی اسے اپنی شخصیت کے پوشیدہ پہلو ؤں کو منظر پر لاتے ہوئے ایک خوف سا محسوس ہوتا ہے اور انہیں چھپانے کی شعوری یا غیرشعوری کوشش میں مصروف رہتا ہے۔اپنی ذاتی زندگی کو گھر کی چار دیوار ی کے اندر بند رکھنے میں ہی اسے اپنی عافیت اور اپنی بڑائی کی بقاء نظر آتی ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ بڑی بڑی تمام شخصیات اندر سے کچھ اور باہر سے کچھ ہوتی ہیں یا پبلک لائف میں ان کی شخصیت پر چڑھا ہوا خول ان کی اندرونی شخصیت سے متضاد ہوتا ہے۔ بے شک ایسا بہت سے لیڈروں کے ساتھ ہوگا‘ مگر سب کو اس پر قیاس کرنا درست نہیں۔ اس کارگاہِ عالم میں کچھ ایسے انمول تاریخی کردار بھی ہیں جنہیں منافقت او ردورنگی کا طعنہ نہیں دیا جاسکتا‘ ان کی ظاہری شخصیت پر کوئی بہروپ یا مصنوعی خول نہیں وتا‘ ان کا من بھی ان کے تن کی طرح صاف اور ان کی گھریلو زندگی ان کی بیرونی زندگی کی طرح اجلی اور بے داغ ہوتی ہے۔ لیکن یہ اخلاقی جراء ت کم لوگوں میں ہوتی ہے کہ وہ پورے وثوق اور اعتماد کے ساتھ اپنی کتابِ زندگی اٹھاکے تبصرے کے لیے لوگوں کے ہاتھوں میں تھما دیں اور اس میں کوئی باک یا ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔ 
یہ صفت ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم میں بطریقِ اتم پائی جاتی ہے۔ آپ نے نہ صرف یہ کہ کبھی اپنی زندگی کے کسی گوشہ کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش نہ کی‘ بلکہ ا س کے برعکس آپ کی طرف سے اپنے سب متعلقین کو اذنِ عام تھا کہ میری ذات اور میری زندگی میں جو کچھ دیکھو‘ اسے برملا دوسروں کے سامنے بیان کردو ۔ حدتو یہ ہے کہ بیوی جیسے حساس رشتہ میں بھی کبھی آپ نے پردہ داری نہیں برتی حالانکہ بیوی انسان کی شخصیت کے جمیع پہلوؤں سے انتہائی خطرناک حد تک واقف ہوتی ہے‘ بلکہ اس کے برعکس خود اپنی ازواج کو ہی اپنی گھریلو زندگی کا ترجمان بنادیا اور لوگ آکر ان سے آپ کی گھریلو زندگی کے بارے میں معلومات حاصل کرتے تھی۔اس سلسلہ میں آپ کو کبھی یہ خطرہ محسوس نہیں ہوا کہ اس طرح میرا کوئی کم زور یا قابلِ گرفت پہلو لوگوں کے سامنے آجائے گا‘ یا میرے کسی گھریلو معمول کو غلط طور پر سمجھ کر کم زور ایمان والوں کے ایمان میں دراڑ پڑ جائے گی یا پھر میری اپنی بیویاں ہی کسی وقت کسی وقتی رنجش کے زیرِ اثر میرے بارہ میں کوئی غلط تاثر لوگوں میں عام نہ کردیں۔ ہمالیہ جتنی بلندوبالا یہ خود اعتمادی کسی ایسے انسان کے اندر جگہ نہیں بناسکتی جس کی سیرت وکردار میں ذرا بھی جھول پایا جاتا ہو۔ اپنی بات مزید واضح کرنے کے لیے ہم سید سلیمان ندوی کے ’’خطباتِ مدراس‘‘ سے ایک اقتباس نقل کرتے ہیں: 
’’بڑے سے بڑا انسان جو ایک ہی بیوی کاشوہر ہو‘ وہ بھی یہ ہمت نہیں کرسکتا کہ وہ اس کو اذنِ عام دے کہ تم میری ہر بات ‘ ہر حالت او رہر واقعہ کو برملا کہہ دو اورجو کچھ چھپا ہے ‘ وہ سب پر ظاہر کردو مگر آنحضرت کی بیک وقت نو بیویاں تھی او ران میں ہر ایک کو یہ اذنِ عام تھا کہ خلوت میں مجھ کو جو کچھ دیکھو ‘ وہ دن کی روشنی میں ظاہر کردو‘ جو بند کوٹھڑیوں میں دیکھو‘ اس کو کھلی چھتوں پر پکار کر کہہ دو۔ اس اخلاقی وثوق اور اعتماد کی مثال کہیں اور مل سکتی ہے؟‘‘( صفحہ۶۸)ایک اور جگہ کہتے ہیں:’’ انسان کے عادات ‘ اخلاق اور اعمال کا بیوی سے بڑھ کر کوئی واقف کار نہیں ہوسکتا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نبوت کا دعویٰ کیاتو اس وقت حضرت خدیجہؓ کے نکاح کو پندرہ برس ہوچکے تھے اور یہ مدت اتنی بڑی ہے کہ جس میں ایک انسان دوسرے کی عادات وخصائل اور طورطریق سے اچھی طرح واقف ہوسکتا ہے۔ اس واقفیت کا اثر حضرت خدیجہؓ پر یہ پڑتا ہے کہ ادھر آپ کی زبان سے اپنی نبوت کی خبر نکلتی ہے‘ ادھر خدیجہؓ کا دل اس کی تصدیق کے لیے آمادہ ہوجاتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے بارِ گراں سے گھبراتے ہیں تو حضرت خدیجہؓ تسکین دیتی ہیں کہ یارسول اللہ ! اللہ آپ کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔۔۔۔۔۔آنحضرت کی تمام بیویوں میں حضرت خدیجہؓ کے بعد آپ کو سب سے زیادہ محبوب حضرت عائشہؓ تھیں۔ حضرت عائشہ ؓ نو برس تک متصل آپ کی صحبت میں رہیں۔ وہ گواہی دیتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت کسی کو برا بھلا کہنے کی نہ تھی۔ آپ برائی کے بدلہ میں برائی نہیں کرتے تھی‘ بلکہ معاف کردیتے تھے۔ آپ گناہوں کی بات سے کوسوں دور تھے۔ آپ نے کسی سے اپنا بدلہ کبھی نہیں لیا۔ آپ نے کبھی کسی غلام‘ لونڈی ‘ عورت یا خادم یہاں تک کہ کسی جان ور کو کبھی نہیں مارا۔‘‘ (صفحہ ۱۰۰)
جی ہاں! اپنی بیوی کو اپنے خلوت خانوں کا ترجمان بنانے کا خطرہ مول لینا تو دورکی بات ہے‘ اگر یہی بیوی جو اپنے شوہر کے کردار کی ہر اونچ نیچ سے واقف ہے ‘ ا س کی نہ صرف بڑائی اور عظمتِ کردار ‘ بلکہ الوہی منصب کی معترف ‘ مداح او رپرزور داعی بن جائے تو دنیا کی نظر میں یہی بات بھی اس کی صداقت او رعظمت کی ایک بہت بڑی دلیل ہے۔ خصوصاً جبکہ اس بیوی کی ایک سے لے کر آٹھ تک سوکنیں ہوں‘ ہفتہ گزرنے کے بعد ایک کی باری آتی ہو‘ پھر شوہر کا زیادہ وقت ذکر وعبادت ‘ تعلیمِ دین اور یادِالہی میں صرف ہوتا ہو‘ دعوت ‘ ہجرت او رجہاد کے لیے طویل سفر الگ درپیش رہتے ہوں‘ گھر بھی مالی اعتبار سے زیادہ خوش حال نہ ہو‘ کئی کئی دن تک فاقے رہتے ہوں‘ چولہا جلانے کی نوبت نہ آتی ہو‘ راتوں کو چراغ روشن کرنے کے لیے تیل تک نہ ہو‘ گھر کی کل کائنات ایک حجرہ ہو جس کا دروازہ خستہ حالی کے باعث کبھی بند نہ ہوپایا ہو‘ پانی اور چھوہارے پہ عموماً گزارہ رہتا ہو اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ بیوی ابھی لڑکپن کی حدود سے گزر رہی ہو جب لڑکیوں کا کام کاج سے زیادہ کھیل کود میں دل لگتا ہے‘ خانہ داری کی ذمہ داریاں ٹھیک طرح اٹھا نہیں پاتیں اور کھانے پکانے میں سو طرح کی غلطیاں ہوجاتی ہیں تو سوچئے کہ اس مخصوص صورتِ حال میں اس بیوی سے کتنی غلطیاں ہونے کا امکان ہے‘ انسان سوچتا ہے کہ ان میاں بیوی کے درمیان تو ہر وقت نوک جھونک رہتی ہوگی ‘ لڑکی کے ارمان پورے نہ ہوتے ہوں گے اور وہ دل سے کبھی بھی اپنے شوہر کی نہ ہوسکی ہوگی۔ اس بیوی کو اگر خاوند دنیا کے سامنے اپنی گھریلو زندگی اور خلوت کدوں کاترجمان بناکر بٹھادے تو اسے اپنے پیروں پہ خود کلہاڑا مارنے کے مترادف سمجھا جائے گا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر اس بیوی کی تمام خصوصیات حضرت عائشہؓ میں یکجا نظر آتی ہیں۔ (دیکھئے : سیرتِ عائشہؓ ‘سیدسلیمان ندویؒ ) مگر نتیجہ اس کا یہ ہے کہ وہ نہ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر فریفتہ اور صدقے قربان ہیں‘ بلکہ نبی کی دعوت کے حرف حرف پر ایمان رکھتی ہیں‘ انہیں دل و جان سے چاہتی ہیں‘ ان کے ساتھ دفن ہونے کی تمنا رکھتی ہیں(صحیح البخاری‘حدیث ۷۳۲۸) او ران کی تعلیمات کے رنگ میں اس حد تک رنگی ہوئی ہیں کہ حیرت انگیز طور پر ان کا رونا دھونا بھی اس کم عمری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سانچہ میں ڈھل گیا ہے۔روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت عائشہؓ رونے لگیں‘ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیوں رورہی ہو؟ تو جواب دیا کہ جہنم یاد آگئی تھی۔ (ابوداود‘ حدیث ۴۷۵۵)جی ہاں! اپنے شوہر اور پیغمبر کی سیرت وشخصیت اور صداقت سے اس حدتک متاثر ہیں اور ان کی ان دیکھی غیبی خبروں پر اس حد تک ایمان رکھتی ہیں کہ ان کی بتلائی ہوئی جہنم کو یاد کرکے بیٹھے بٹھائے رونا آگیا۔ اللہ اکبر! 
پھر بات اس ذاتی مرعوبیت اور ذاتی تاثر پر ختم نہیں ہوتی ‘ معاملہ کی اصل حساسیت ان کی ترجمانی میں ہے جس میں اصولی طور پر کئی خدشات نظر آتے ہیں۔ غور کیجئے کہ بچے تو بچے ہوتے ہیں جن سے ہر قدم پر ہزار غلطیاں ہوتی ہیں‘ پھر جب ایک کم سن بچی بیوی بھی ہو جو شوہر کے کردار کے تمام پہلوؤں سے واقف ہے اور پھر معاملہ ایک نبی کی صورت وسیرت اورشب وروز کی زندگی نقل کرنے کا ہوتو سوچئے کہ اس کے لیے کتنے محتاظ ترجمان کی ضرورت ہوگی‘ کس طرح ایک ایک قدم سوچ سوچ کر اٹھانے کی ضرورت ہوگی اور اس کم سن بیوی کو یہ فریضہ سونپنے کے نتیجہ میں کتنی بے اعتدالیوں کا خطرہ ہوگا! مگر یہاں ایسا نہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ وہ جس ہستی کی ترجمان بن رہی ہیں ‘ اس کی سیرت وکردار اور حیاتِ طیبہ کا ہر پہلو شفاف اور تابناک ہے۔ 
ایسا نہیں کہ وہ بچپن کی بھول چوک اور کمی بیشی سے بری تھیں‘ بقول سیدسلیمان ندویؒ : ’’ اس عقل وشعور کے باوجود جو فطرۃً فیاض قدرت کی طرف سے ان کو عطاہوا تھا‘ کم سنی کی غفلت او ربھول چوک سے بری نہ تھیں۔ گھر میں آٹا گوندھ کر رکھتیں او ربے خبر سو جاتیں‘ بکری آتی اور کھا جاتی۔دوسری عمر رسیدہ بیبیوں کے مقابلے میں کھانا بھی اچھا نہیں پکاتی تھیں۔(سیرتِ عائشہؓ ‘صفحہ ۳۵) اور ایسا بھی نہیں کہ کبھی ان کے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کسی بات پر اختلاف نہ ہوا ہو یا رنجش کا موقع نہ آیا ہو۔ ازواج مطہرات کے ساتھ پیش آنے والے ایسے چند موقعوں کی طرف اشارہ تو قرآن مجید میں کیا گیا ہے۔ (دیکھئے: سورۃ التحریم کی ابتدائی آیات‘ سورۃ الاحزاب آیت نمبر ۸۲ تا ۹۲۔)ایک دفعہ آپ ایسی ہی کسی رنجش کی بنا پر ایک ماہ کے لیے اپنی بیبیوں سے الگ رہے۔ میاں بیوی کے درمیان چلنے والی لطیف نوک جھوک بھی یہاں چلتی رہتی تھی۔ ان تمام تر پیچیدگیوں کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کو اپنا ترجمان بنانا اور حضرت عائشہؓ کا اس ترجمانی کے اندر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک ‘صاف شفاف زندگی اور عظیم وپرہیبت کردار کی برہان بن جانا حضرت عائشہؓ کا کمال بھی ہے، مگر اس سے بڑھ کر یہ ان کے سرتاج آقائے نام دار صلی اللہ علیہ وسلم کی بے داغ سیرت ‘ صداقت وراست گوئی اور نبوت وپیغمبری کی ایک دلیل ہے۔اگر نبی کی ذات میں کوئی کجی‘ عیب یا نقص ہوتا تونبی کی یہ محرمِ راز بیبیاں جن کا باہم سوکن کا رشتہ تھاوہ کبھی تو کسی کے سامنے اس کا ذکرکرتیں‘خصوصاً کم سن بیوی جن کی عمر ابھی لڑکپن کی ہے۔جہاں رشتہ سوکن کا ہو وہاں نہ ہوتے ہوئے بھی شوہر کی ذات میں بہت سے عیب نظر آنے لگتے ہیں۔ مگر ان بیبیوں کے بیانات کو دیکھیں تو یوں محسوس ہو کہ ان کا بال بال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن کردار‘ اعلی اخلاق اور معطر صفات کا گرویدہ ہے۔ خصوصاً سب سے کم سن بی بی نبی کی مدح وثناء میں سب سے زیادہ رطب اللسان ہیں۔ بیبیوں کا آپ کی گھریلو زندگی کاترجمان بننا اپنے اندر یقیناًاور بھی بہت سی حکمتیں رکھتا ہوگا ‘ لیکن یہ بھی اس معاملہ کاایک پہلو ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ 
یوں لگتا ہے کہ آپ کے کردار کی پاکیزگئ وطہارت اور صداقت وشفافیت کے دوسرے دلائل قائم کرنے کے ساتھ ساتھ ‘ اس کی گواہی بیبیوں کے ذریعہ دلوانا خود خدا کو مقصود تھا اور اللہ ہی کے تکوینی امر کے تحت آپ نے غریب وامیر‘ کم سن ومعمر اورکنواری وبیوہ ‘ غرض ہرطرح کی بیبیوں سے شادیاں فرمائیں اور خوب کثرت سے فرمائیں تاکہ خدا کی یہ حکمت اعلی درجہ میں پوری ہو اور دنیا کے سامنے آپ کے پاکیزہ اور بے داغ کردار کی یہ شہادت’’ امر‘‘ ہوجائے‘ مگر کم فہم اور بدنصیب لوگ آپ کی ازدواجی زندگی کی اس عظیم الشان شہادت سے بے خبر‘ سب سے زیادہ اعتراض بھی آپ کی ازدواجی زندگی کے ہی مختلف پہلوؤں پرکرتے ہیں۔ ان اعتراضات سے مرعوب ہوکر روایات کے سراسر برعکس‘ نبی کی کم سن محرمِ راز حضرت عائشہؓ کی کم سنی کا انکار کرنا ناقابلِ فہم اور نبی کے عظمتِ کردار کی اس برہان کی آب وتاب گھٹانے کے مترادف ہے۔جبکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ اقدامی عمل کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بے عیب زندگی کی اس تابناک برہان کو کامل خوداعتمادی کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا اور دنیا بھرکے سامنے ان کی نبوت وصداقت کی شہادت دی جاتی۔ صلی اللہ تبارک و تعالی علیہ و علی آلہ و ازواجہ وبارک وسلم تسلیماً کثیرا کثیرا!
[اس مقالہ کی تیاری میں سید سلیمان ندویؒ کی تصانیف سے خاصی مدد لی گئی ہے‘ اللہ تعالی ہماری طرف سے انہیں نیک جزاء عطا فرمائیں۔ آمین]

مآخذ

۱۔ القرآن الحکیم
۲۔ احکام القرآن‘ امام ابوبکر احمد الرازی الجصاص(وفات:۳۷۰ھ) ط: قدیمی کتب خانہ ‘ آرام باغ کراچی
۳۔ صحیح البخاری(معہ فتح الباری) ط: قدیمی کتب خانہ ‘ کراچی
۴۔ صحیح مسلم۔ ط: بیت الأفکار الدولیۃ
۵۔ سنن ابوداود۔ ط: بیت الأفکار الدولیۃ
۶۔ جامع الترمذی۔ ط: دارالأعلام
۷۔ فتح الباری‘ حافظ ابن حجر العسقلانی(وفات: ۸۵۲ھ)ط: قدیمی کتب خانہ ‘ آرام باغ کراچی
۸۔ کتاب الأم‘ امام شافعیؓ۔ ط:دارالوفاء 
۹۔ الہدایہ‘ برہان الدین علی بن ابی بکر المرغینانی۔ ط: مکتبۃ البشری‘ کراچی
۱۰۔ سیرتِ عائشہ معہ ضمیمہ’’ تحقیقِ عمرِ عائشہ‘‘ سید سلیمان ندوی۔ط:شمع بک ایجنسی ‘ لاہور
۱۱۔ خطباتِ مدراس‘ سید سلیمان ندوی۔ طارق اکیڈمی ‘ لاہور
۱۲۔ رخصتی کے وقت ام المؤمنین عائشہؓ کی عمر‘ حافظ عمار خان ناصر‘ شاملِ اشاعت : الشریعہ ( شمارہ اپریل 2012ء)

’’شکست آرزو‘‘

عرفان احمد بھٹی

مصنف: ڈاکٹر سید سجاد حسین
ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی، 35ڈی، بلاک 5فیڈرل بی ایریا کراچی، 75950
صفحات 352، قیمت درج نہیں
دسمبر سال کا آخری مہینہ ہوتا ہے‘ ٹھٹھرتی طویل راتیں سال بھر کی خوش گوار اور تلخ یادوں کو تازہ کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ ان خوش گوار راتوں‘ چمکتے سنہرے دنوں اور ماضی کی خوش گوار یادوں میں 16دسمبر اپنی ناخوشگوار اور تلخ یادوں کی وجہ سے اداس کرنے والا بھی ہوتا ہے، جب ایک نظریہ اور ملت کی بنیاد پر وجود میں آئی، نظریاتی مملکت دولخت ہوئی، اور اغیار نے یہ طعنہ دیا کہ ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ سنہری ریشوں کی سرزمین کا تاحد نظر آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے والا لہلہاتا بے داغ سبزہ اور اس کی سب بہاریں لسانی فتنہ کی نذر ہو گئیں۔ مہربان راتیں بے مہر ہو گئی تھیں۔ انھی بے مہر بے درد لمحوں کی روداد کو ڈھاکہ یونی ورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور انگریزی کے معروف ادیب ڈاکٹر سید سجاد نے اپنی تصنیف کردہ کتاب The wastes of Time میں بیان کیا ہے جس کا اردو ترجمہ ’’شکست آرزو‘‘ سقوط ڈھاکہ کے منظر اور پس منظر کا بہترین تجزیہ ہے۔ 
ڈاکٹر سید سجاد حسین بنگال کے ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے قیام پاکستان کی جدوجہد میں فعال کردار ادا کیا‘ بطور طالب علم بھی اور بطور استاد بھی، نظریہ پاکستان کی آب یاری کے لیے دی ایسٹ پاکستان سوسائٹی قائم کی اور ایک پندرہ روزہ سیاسی مجلہ’’پاکستان‘‘ جاری کیا۔ انھوں نے دو قومی نظریے کی ترویج کے لیے بطور صحافی بھی کام کیا اور روزنامہ آزاد کلکتہ اور ’’کامریڈ‘‘ میں بھی مضامین لکھتے رہے۔ 
زیر نظر کتاب میں انھوں نے تفصیل کے ساتھ دو قومی نظریے کے بارے جدوجہد اور بنگال میں تحریک پاکستان کے قائدین اور سیاست دانوں کے کردار‘ قیام پاکستان کے بعد کے 24سالوں پرمحیط ان کی کمزوریوں اور نظریہ پاکستان سے وابستگی کا جائزہ پیش کیا ہے اور ساتھ ساتھ ہی برطانوی راج سے مسلمانوں کی آزادی دو قومی نظریے اور اس کی خاطر کی جانے والی جدوجہد کی سرگزشت‘ مسلم لیگ کے قیام 1906سے 1947 تک شرح و بسط کے ساتھ بیان کی ہے۔ 
بنگالی زبان میں مسلمانوں کی ادب کے محاذ پر کمزوری، دینی اور تاریخی لٹریچر نہ ہونے کی وجہ سے بنگالی قوم پرستوں اور ہندوؤں نے تمام صورت حال کو دو قومی نظریے کے خلاف جس طرح استعمال کیا اس کی مکمل تفصیل دی اور ساتھ ہی تاریخی حوالوں اور منطقی دلائل سے ان کی تردید بھی پیش کی گئی ہے۔ انھوں نے بنگلہ قوم پرستی اور لسانی تعصبات کے حوالے سے قوم پرستوں کے بے بنیاد دلائل کے رد میں نہایت بیش قیمت علمی لوازمہ مہیا کیا ہے۔ 
یہ یادداشتیں انھوں نے 1973میں دوران قید قلم بند کیں، جب بقول آسکروائلڈ جیل کی زندگی انسان کے جذبات کو سخت کر کے پتھر بنا دیتی ہے۔ ابتدائی ابواب میں انھوں نے اپنے ساتھ روا رکھے گئے ظالمانہ سلوک، گھر سے گرفتاری، تشدد‘ جیل میں گزرے ایام، اردو بولنے والوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں، قتل و غارت، لوٹ مار کی تفصیلات اور وہاں موجود اہل کاروں کے رویے بیان کیے ہیں۔ ڈھاکہ جیل میں اتنی تعداد میں پڑھے لکھے لوگ پہلے کبھی قیدی نہیں ہوئے ہوں گے۔ ان قیدیوں میں اکثر لوگ پی ایچ ڈی‘ یونی ورسٹی کے اساتذہ، علمائے کرام، یونی ورسٹی اور کالجز کے طلبا شامل تھے۔ غیر بنگالی افراد کو وقتاً فوقتاً تشدد کا نشانہ بنایا جاتا، اس دوران بعض تو دم توڑ گئے۔ چھاپہ مار راہ نماؤں کے سامنے غیر بنگالیوں کی شناختی پریڈ ہوا کرتی تھی اور وہ جس کو چاہتے لے جاتے اور انھیں موت کے گھاٹ اتار دیتے۔ یہ سلسلہ 1972کے موسم گرما تک چلا۔ (ص نمبر71-70) 
جیل میں موجود اپنے ’’باغی‘‘ ساتھیوں کی ذہنی کیفیات‘ سیاسی افکار اور نظریہ پاکستان کے بارے ان کے جذبات و محسوسات پر نہایت شرح و بسط سے بحث کی ہے۔ ان ساتھیوں میں متحدہ پاکستان کے آخری سپیکر فضل القادر چوہدری، عبدا لصبور خان اور خواجہ خیر الدین سابق ڈپٹی سپیکر اے ٹی ایم عبدالمتین اور روزنامہ سنگرام کے ایڈیٹر اختر فاروق قابل ذکر ہیں۔ ان ساتھیوں میں ایک ایس بی زمان تھے جو کہ عوامی لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے لیکن بعد میں شیخ مجیب الرحمن کے انتہا پسندانہ اقدامات کے خلاف بغاوت کر گئے تھے اور پاکستان کے متحد رہنے پر زور دیتے تھے۔ (ص نمبر67) اسی طرح فضل القادر چوہدری جو ہمیشہ پاکستان کے خیر خواہ اور نظریہ پاکستان کے وفادار رہے اور جب ان کے خلاف مقدمہ شروع کیا گیا تو وہ اس قدر بدحواس ہوئے کہ مجیب الرحمن کے اعلان آزادی کی حمایت کر دی اور اس کے برعکس سابق گورنر عبدالمالک نظریہ پاکستان کے مزید قائل ہو گئے اور وہ سمجھتے تھے کہ ’’پاکستانیوں‘‘ نے نظریہ پاکستان سے انحراف کر کے بڑی غلطی یہ کی ہے۔ فاضل مصنف نے 4ابواب ان موضوعات پر لکھے اور ہر شخصیت پر تفصیلی بحث کی ہے۔ 
خواجہ ناظم الدین کے خانوادہ سے تعلق رکھنے والے سیاسی زعیم خواجہ خیر الدین جو طویل عرصہ تک ڈھاکہ کے وائس چیئرمین رہے‘ ڈھاکہ میں مجیب الرحمن مخالف حلقوں میں اہم کردار کے حامل تھے۔ انھوں نے اپنے اوپر عدالت میں لگائے گئے غداری کے الزام کا پوری جرات سے دفاع کرتے ہوئے پاکستان اور اسلام کے ساتھ اپنی وابستگی کو پورے عزم اور بے باکی کے ساتھ بیان کیا اور اس پر ثابت قدم رہے حالانکہ ان کے دوستوں نے ان سے عدالتی بیان میں ذرا نرمی سے کام لینے کے لیے کہاتھا مگر انھوں نے انکار کر دیا۔ 
مصنف کے خیال میں ڈھاکہ یونی ورسٹی کے طلبہ کے علاوہ بنگال کے عام دیہاتی افراد کو زبان کے معاملہ سے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی۔ ہندوؤں کے زیر اثر بنگلہ قوم پرست عناصر نے اس مسئلے کو ابھارا، دو قومی نظریے پر یقین رکھنے والے لوگوں کی کمزوری اور معذرت خواہانہ رویوں‘ مرکزی حکومتوں کی عدم دل چسپی اور نظر انداز کیے جانے والے اقدامات نے اس کو مہمیز کیا، جس کا واضح ترین ثبوت یہ ہے کہ بنگالی سیاست کے اہم ترین سیاسی کردار یعنی خواجہ ناظم الدین، اور حسن شہید سہروردی کو بنگلہ زبان سے معمولی واقفیت تھی۔ 
کتاب کے اہم ترین ابواب وہ ہیں جن میں مصنف نے لسانی مسئلے پر تفصیل کے ساتھ بحث کی اور واضح کیا کہ برصغیر میں وحدت اور یکجہتی ہمیشہ مذہبی بنیادوں پر ہی قائم رہی ہے۔ اگر نظریات اور مذہب کے بجائے لسانیت کی کوئی اہمیت ہوتی تو 1946 کے الیکشن میں ی رجحانات واضح ہو گئے تھے کہ اس موقع پر بنگال پر راج کرنے والے اہم ترین سیاست دان اے کے فضل الحق سیاسی منظر نامے سے مکمل طور پر صاف ہو گئے۔ لوگوں نے شخصیات کو چھوڑ کر ایک نظریہ کی خاطر مسلم لیگ کو ووٹ دیے۔ سہلٹ کے ریفرنڈم نے تو اس حقیقت کو مزید واضح کر دیا حالانکہ یہاں مولانا حسین احمد مدنی ؒ کا بہت اثر تھا وہ محض عالم دین ہی نہیں بلکہ نجی زندگی میں بھی لوگوں کے لیے انتہائی قابل احترام نمونہ تھے۔ اپنی کوشش کے باوجود بھی وہ لوگوں کو دو قومی نظریہ کے خلاف ووٹ دینے پر آمادہ نہ کر سکے۔ (ص217) مصنف نے اس بات کو دلائل کے ساتھ واضح کیا ہے کہ ہندوستان کے کروڑوں باشندوں کو ایک لڑی میں پرونے والی بنیاد ہمیشہ مذہب ہی رہا ہے خواہ وہ اسلام ہو یا ہندو مت۔ ریاستوں کی تشکیل میں اگر زبان اہم ہوتی تو پھر برصغیر میں جتنی زبانیں ہیں اتنی ہی ریاستیں ہونی چاہیے تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ جب حسین شہید سہروردی نے بنگال کو تقسیم کر کے پاکستان کا حصہ بنانے کے بجائے خود مختار متحدہ بنگال کی تجویز پیش کی تو کانگریس نے اس نقطہ نظر کو رد کر دیا تھا۔ انھیں اندازہ تھاکہ اگر لسانی بنیادوں پر تقسیم کو قبول کر لیا گیا تو پھر ہندوستان کو مزید ٹکڑوں میں بانٹنے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ (ص 213) مصنف کے خیال کے مطابق یہ حسین شہید سہروردی کے خیالات کا ٹیڑھا پن اور دو قومی نظریہ پر کمزور یقین کی علامت تھی کہ وہ خود مختار بنگال کو پاکستان کا متبادل سمجھنے لگے تھے، ان کا یہ موقف درحقیقت ہندوؤں اور مسلمانوں کے مشترکہ قومیت کے تصور کو قبول کرنے کا اعلان تھا۔ ان کے خیال میں پاکستان کو ٹکڑے کرنے کا بیج اس تصور نے رکھ دیا تھا۔ (ص نمبر 214,213) بنگال کے علاقوں کی ثقافت، زبان اور ادب کے حوالے سے انتہائی اہم معلومات اس کتاب میں پیش کی گئی ہیں۔ 
لسانی مسئلہ کے حوالے سے انھوں نے مسلم بنگالیوں کی اہم ترین کمزوری کی نشان دہی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ گزشتہ دو تین نسلوں کی ثقافتی لحاظ سے عربی اور فارسی سے عدم واقفیت ایسی کمزور تھی جسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے نتیجہ میں بنگال کے مسلمان دوسرے مسلمانوں سے کٹ کر رہ گئے تھے اور نادیدہ طور پر وہ غیر محسوس رشتہ ختم ہو گیا تھا جو انھیں روحانی طور پر امت مسلمہ سے جوڑے ہوئے تھا۔ عربی، فارسی سے نابلد مسلمان آہستہ آہستہ یہ احساس کھو دیتا ہے کہ وہ کسی بڑے وجود کا حصہ ہے۔ وہ تاریخ سے بے گانہ ہو جاتا ہے اور اپنے ملک سے باہر کے مسلمانوں کے کارناموں سے اس کے اندر کوئی احساس فخر پیدا نہیں ہوتا، جواہر لال نہرو نے اپنی خود نوشت میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اپنے ماضی کے کارناموں پرمشترکہ احساس فخر سے پیدا ہونے والا تعلق ہی مضبوط رشتہ کا باعث ہوتا ہے۔ تعلیم کے شعبہ میں عربی، فارسی کا رجحان ختم ہونے سے مشترکہ احساس تفاخر ختم ہو گیا‘ یہ رجحانات پورے ہندوستان کے تعلیمی نظام میں پروان چڑھے مگر بنگال میں اردو نہ ہونے کی وجہ سے یہ اثر زیادہ گہرا تھا، باقی ہندوستان میں اردو نے عربی فارسی کی اس کمی کو پورا کیے رکھا کیوں کہ مسلمانوں کی تاریخ اور اہم ترین دینی لٹریچر اردو میں منتقل ہو گیا تھا البتہ بنگالی زبان اس دینی لٹریچر اور تاریخی ورثہ سے محروم تھی۔ بنگالی زبان میں مسلمانوں کے لکھنے والوں کا وجود بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔ (ص223,24,25) 
ہندوؤں نے 1905 میں تقسیم بنگال کی مخالفت کی اور پھر بعدازاں1947 میں مسلم لیگ کو زچ کرنے اور مطالبہ پاکستان سے دستبرداری کے لیے بنگال کی تقسیم کا مطالبہ کر دیا، اگر بنگال کی تقسیم 1905میں غلط تھی تو 1947میں درست کیسے ہو گئی، بنگلہ زبان کے ان پچاریوں نے بھارت سے کیوں مطالبہ نہ کیا وہ مغربی بنگال کو بھی آزاد کر دے تاکہ بنگلہ زبان اور کلچر کا تحفظ ایک بنگالی ریاست خود کرے ۔ اس ضمن میں انھوں نے اشتراکی عناصر کے کردار پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی یہ ایجنڈا طے کر لیا گیا تھا کہ پاکستان کو دولخت کرنے اور اس کی نظریاتی بنیادوں کو منہدم کرنے کے لیے لسانی اور معاشی صورت حال کو ہوا دی جائے گی اور ہماری حکومتیں چین کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہاں ہونے کی وجہ سے اشتراکی عناصر کی سرگرمیوں سے صرف نظر کرتی رہیں اور بائیں بازو کے لوگ مضبوط ہوتے چلے گئے جو کہ نظریہ پاکستان کے مخالف تھے (ص86) کمیونسٹ پارٹی کی اس سازش کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے بنگالی راہ نما ابوالہاشم کے بیٹے بدرالدین عمر کی کتاب کا حوالہ دیا ہے کہ پاکستان کے قیام کے فوراً بعد کلکتہ میں کمیونسٹ پارٹی کا اجلاس ہوا تھا جہاں پاکستان کے بارے حکمت عملی طے کی گئی تھی اس میٹنگ میں شیخ مجیب الرحمن بھی ایک طالب علم کے طور پر شریک ہوئے تھے اور اس کا اظہار وہ ہمیشہ کرتے رہے کہ 1947کے بعد آنکھوں میں بسے خوابوں کی تعبیر مل گئی ہے۔ 
اگر یہ طے شدہ منصوبہ نہ ہوتا تو کیسے ممکن تھا۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد کوئی کھڑا ہو اور قائد اعظم کی تقریر میں ہنگامہ کرنے کی جسارت کرے۔ اس طرح عبدالرزاق جو مصنف کے قریبی ساتھی اور ڈھاکہ یونی ورسٹی کے استاد اور تحریک پاکستان میں ان کے ساتھی تھے۔ 3سال بعد ہی مایوسی کی باتیں کرنے لگے تھے، مصنف نے ان کو پاکستان کے دفاع میں دلائل دیتے ہوئے واضح کیا کہ 200سال کے انگریزی اقتدار اور ہندو سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے ظلم سے نجات کے لیے ہی ہم نے پاکستان حاصل کیا تھا کہ اب صرف چند سال بعد ہی ہم 200سال کی تلخیوں کو بھلا کر کیسے علیحدگی کی راہ پر چل پڑیں۔ (ص 57,52) دہلی یونی ورسٹی نے 1973میں انھی عبدالرزاق کو پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری سے نوازا۔ 
کمزور مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے قائد اعظم کے ساتھ طلبا کی اس جسارت کا نوٹس لینے کے بجائے اس واقعہ کو نظر انداز کیا بلکہ ان میں سے دو افراد تو بعد میں وفاقی حکومت کے سیکرٹری کے منصب تک بھی پہنچے۔ احساس محرومی ختم کرنے کے نام پر اسی طرح کے سازشی طلبا کو دھڑا دھڑ CSP آفیسرز کے طور پر بھرتی کیا گیا۔ مصنف کے خیال کے مطابق اگر حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انگریزی کو بطور دفتری زبان کی حیثیت سے برقرار رکھا جاتا تو زیادہ بہتر اور عملی قدم ہوتا کیوں کہ آج بھی تینوں ملکوں میں عملی حیثیت تو انگریزی کو ہی حاصل ہے اردو زبان پر اصرار بلاجواز تھا، اگر بعد میں اس کو دینی اور تہذیبی نقطہ نظر سے بتدریج پروان چڑھایا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔ اس صورت حال نے ان کے حوصلے بڑھائے اور وہ کھل کر علیحدگی کی باتیں کرنے لگے ورنہ 200 سال سے ہندو سرمایہ کار کے زیر تسلط سادہ لوح مسلمان کے لیے یہ کسی صورت ممکن نہ تھا کہ وہ ایک سال بعد ہی پاکستان سے مایوسی کا اظہار شروع کر دیتے۔ حقیقت میں تو یہ کمیونسٹ پارٹی کا ایجنڈا تھا جس کو ہندوؤں نے پروان چڑھایا، پاکستان کے نادان دوستوں اور ارباب بست و کشاد نے اپنے رویوں سے اس کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور 1949میں ہی اس پر کام شروع کر دیا گیا تھا۔ جب 1949 میں کرژن ہال لٹریری کانفرنس کے موقع پر ڈاکٹر شہید اللہ نے صدارتی تقریر میں بنگالی قوم پرستی کا تصور پیش کیا، اس کانفرنس میں کلکتہ سے بھی مندوب آئے تھے۔ ان میں ڈاکٹر عبدالودود بہت اہم تھے جو پاکستان کے قیام اور نظریہ کے مخالف تھے اور ڈھاکہ منتقل نہیں ہوئے تھے۔ 
مصنف نے ایوب خان دور کے دو اہم ترین بیوروکریٹس الطاف گوہر اور قدرت اللہ شہاب کے منفی کردار اور ان کی جانب سے بائیں بازو کی حمایت کا بھی تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔ (ص 237-38) رائٹرز گلڈ کے بارے‘ جس کے مصنف ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن تھے اور شہاب کے ایسے فیصلوں سے اختلاف کرتے تھے جو لسانی مسئلہ کو ابھارنے کے لیے بنیاد بنتے دکھائی دیتے تھے۔ مثلاً شہاب صاحب کا خیال تھا کہ گلڈ کی ایگزیکٹو کمیٹی میں ہر زبان کے لوگوں کو نمائندگی دی جائے عملاً یہ مغربی پاکستان کی بالادستی کا منصوبہ تھا جو کثیر لسانی خطہ ہے اور بعد میں قوم پرستوں کے ہاتھوں یہی ایک ہتھیار کے طور پر استعمال ہونے کا خدشہ تھا۔ مصنف نے اس خطرہ کو بھانپتے ہوئے اختلاف کیا جو بالآخر شہاب کو ناگوار گزرا لیکن ان کے اصرار پر بالآخر انھیں ہتھیار ڈالنا ہی پڑے لیکن اس اختلاف کی جسارت کی بنا پر شہاب نے 3سال بعد رکنیت ختم کروا کے ہی دم لیا۔ (ص241) 
معاشی مسائل پر بحث کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے کہ وسطی ہند کی دیگر ریاستوں کی طرح بنگال کے لوگ کبھی بھی معاشی لحاظ سے خوش حال نہیں رہے۔ خوش حالی کا تصور یہاں بس اتنا ہی رہا ہے کہ جو دو وقت کی روٹی اور ناشتہ کر لے وہی خوش حال ہے کیوں کہ بنگال کا خطہ ہمیشہ قحط اور سیلابوں کی زد میں رہا اور یہاں دولت کا تصور عام ہندوستانی علاقوں کے برعکس ہی رہا ہے۔ مٹی اور گھاس پھوس کے مکان، اردگرد پھلوں کے چند درخت۔ اعلیٰ معیار کی زندگی یہاں ہمیشہ چند لوگوں کو ہی میسر رہی ہے حتیٰ کہ میزبانی کا تصور بھی یہ تھا کہ مہمان کو دال چاول دیے جاتے وہ خود ہی پکا کر کھا لیتے۔ لیکن یہ باتیں اس شدت سے پھیلائی گئی تھیں کہ ہر خاص و عام نے ان کو قبول کر لیا اگر مشرقی بنگال میں بدحالی اور استحصال تھا تو اس کا ذمہ دار بھی یہی متعصب ہندو طبقہ تھا جو بنگال پر مسلط تھا جس کے لیے مسلمانوں نے تقسیم بنگال کروائی تھی اور پھر اسی طبقہ نے 1911میں تقسیم بنگال کی تنسیخ کے لیے دباؤ ڈالا اور اس کو منسوخ کروا کے ہی دم لیا اس بنا پر تمام تر صنعت کلکتہ کے نواح میں لگی اور اعلیٰ تعلیم کے ادارے بھی یہیں قائم کیے گئے۔ تعلیم کی صورت حال تو یہ تھی کہ 1930میں جب خواجہ ناظم الدین نے The Star of India کے نام سے ایک اخبار نکالا تو انھیں اخبار کے لیے مسلمان عملہ ہی دستیاب نہ ہو سکا، جس کے نتیجے میں ایک عیسائی کو اس کا ایڈیٹر مقرر کیا گیا۔ 1911میں تنسیخ بنگال کے وقت مسلمانوں سے وعدہ کیا گیا تھا کہ ڈھاکہ میں یونی ورسٹی قائم کی جائے گی۔ ہندوؤں سے یہ بھی برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ انھوں نے انگریزوں پر زور ڈالا کہ ڈھاکہ میں یونی ورسٹی کے قیام سے کلکتہ کی یونی ورسٹی متاثر ہو گی اس لیے اس فیصلہ کو بدل دیا جائے۔ بالآخر10 سال بعد 1921میں ڈھاکہ یونی ورسٹی قائم ہوئی اور یہاں بھی مسلمان سٹاف نہ ہونے کے برابر تھا اگر کوئی کلرک بھی بھرتی ہو جاتا تو یہ بہت بڑی کامیابی تصور کی جاتی، چند مسلمان اساتذہ جو انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے یہاں موجود تھے۔ اس تعصب کا ایک مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا کہ جب تقسیم کے وقت آزاد اور کامریڈ اخبار کے مالک مولانا اکرم خان نے کلکتہ سے شفٹ ہونے کے لیے حالات درست ہونے کا انتظار کیا، وہ اپنا اخباری سیٹ اپ ڈھاکہ لے جانا چاہتے تھے، مغربی بنگال کے وزیر اعلیٰ بدھان رائے ان کے ذاتی دوست تھے، اور ان کا خیال تھا کہ انھیں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی، اور وہ آسانی سے شفٹ کر جائیں گے، لیکن وزیر اعلیٰ نے کسی بھی اخباری پلانٹ کو کلکتہ سے باہر منتقل کرنے پر پابندی لگا دی اور مولانا کو تمام اثاثے چھوڑ کر ڈھاکہ آنا پڑا۔ 
مصنف نے دو قومی نظریہ کی اہم ترین بنیاد جداگانہ انتخاب کا ذکر کرتے ہوئے مسلم قیادت کی موقع پرستی اور گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے نظریات کا جائزہ بھی لیا ہے حالانکہ جداگانہ انتخاب مسلم لیگ کی بنیاد تھی۔ نظریاتی لحاظ سے ناپختہ اور کمزور یقین والے مسلم لیگی سیاست دانوں نے خود ہی جداگانہ طرز انتخاب کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا اور اس طرح عملاً دو قومی نظریے کو غلط ثابت کر دیا‘ حسین شہید سہروردی ہی جداگانہ انتخاب کے خلاف کھڑے ہوئے اور پاکستان میں مخلوط طرز انتخاب کو رواج دے دیا گیا۔ 
19ابواب پر مشتمل کتاب میں 12مختلف ضمیمے بھی شامل کیے گئے ہیں، جن میں قرارداد لاہور سے بنگال کی تاریخ اور تحریک آزادی پاکستان کے اہم سنگ ہائے میل بھی زیر بحث لائے گئے ہیں۔ 

سیمینار: ’’حفظ قرآن کریم کے طلبہ کی تربیت اور ذہن سازی‘‘

ڈاکٹر حافظ محمد رشید

الشریعہ اکادمی کنگنی والہ، گوجرانوالہ کی علمی و فکری سرگرمیوں میں ایک سرگرمی مختلف موضوعات پر ہونے والے سیمینار بھی ہیں جن میں متنوع اہم موضوعات پر اہل فکر و دانش کو اظہار خیال کے لیے دعوت دی جاتی ہے۔ رواں سال میں اکادمی میں جن موضوعات پر سیمینار منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا، ان میں سے پہلا موضوع ’’حفظ قرآن کریم کے طلبہ کی تربیت اور ذہن سازی‘‘ تھا۔ اس موضوع پر مؤرخہ ۲ دسمبر ۲۰۱۲ء بروز اتوار بعد از نماز مغرب سیمینار کا اہتمام کیا گیا جو عشا کی نماز تک جاری رہا۔ اس سیمینار میں حفظ کے اساتذہ مدعو تھے۔ سیمینار کی صدارت اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے کی۔ مقررین میں مدرسہ نصرۃ العلوم کے قرأت و تجوید کے مایہ ناز استاد قاری سعید احمد، صفہ اسلامک سنٹر کے بانی و سرپرست جناب سلیم رؤف، دارالعلوم گوجرانوالہ کے استاد قاری عبد الشکور اور سیمینار کے مہمان خصوصی مولانا جہانگیر محمود شامل تھے جو لاہور سے سیمینار میں شرکت کے لیے تشریف لائے تھے۔ تلاوت قرآن کریم اور نعت رسول مقبول کے بعد مولانا زاہد الراشدی نے افتتاحی کلمات میں سیمینار کے کا تعارف کرواتے ہوئے فرمایا : 
ہم وقتاً فوقتاً ان عملی مسائل پر گفتگو کا اہتمام کرتے رہتے ہیں جواساتذہ و طلبہ کو درپیش ہوتے ہیں۔ ان مسائل پر گفتگو کا مقصد ان مسائل کا قابل عمل حل تلاش کرنا، جو لوگ اس میدان میں سرگرم عمل ہیں، ان کے تجربات سے استفادہ کرنا اور یہ شعور پیدا کرنا ہوتا ہے کہ طلبہ و اساتذہ کس طرح اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے جدید دور کی مفید تحقیقات سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ آج کا موضوع حفظ کے طلبہ کے مسائل و مشکلات اور ان کی تربیت کے بہتر اسالیب کی نشاندہی ہے۔ میں نے سن ۱۹۶۰ء میں حفظ مکمل کیا تھا۔ مجھے حفظ کے طلبہ کے جو مسائل محسوس ہوتے ہیں، وہ مختصراً کچھ یوں ہیں: 
یہ مشاہدے کی بات ہے کہ حفظ کرنے والے بچوں میں سے ستر فیصد بعد میں حفظ کو سنبھال نہیں سکتے۔ میرے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہر طالب علم کو حفظ کروانا ضروری ہوتا ہے؟ میری رائے میں بچے کو ایک دوپارے حفظ کروا کر استاذ کو یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ کیا یہ بچہ حفظ مکمل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں۔ اگر وہ بچہ حفظ مکمل کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے تو اس کو آگے چلایا جائے، وگرنہ انہیں۔ ایک یا دو پاروں کو پختہ کروا کے بچے کو کسی اور کام کے لیے فارغ کر دینا چاہیے۔ بچے نے جو ایک یا دو پارے حفظ کر لیے ہیں، اتنا قرآن تو ویسے بھی ہر مسلمان کو یاد ہونا چاہیے۔ ایک مسئلہ حفظ کے طلبہ کی دینی و اخلاقی تربیت کا بھی ہے کہ بچہ نما زکا کتنا پابند ہے، اسے جھوٹ سے کتنی نفرت ہے، حلال و حرام کی تمیز ہے یا نہیں، چھوٹے بڑے کا فرق جانتا ہے یا نہیں۔عام طور پر گھر والوں کی طرف سے یہ شکایت آتی ہے کہ جب سے اس نے حفظ شروع کیا ہے، یہ گھر والوں کی کوئی بات مانتا ہی نہیں۔ اس طرح جب بچہ حفظ کر لیتا ہے تو اس کے اعمال و کردار میں کوئی ایسی بات نہیں ہوتی جو دوسروں کو ممتاز نظر آئے، بلکہ بسا اوقات تو حافظ صاحب جب حفظ سے فارغ ہوتے ہیں تو دوسروں سے بڑھ کر ایسی سرگرمیوں میں مصروف و منہمک ہو جاتے ہیں جن کی معاشرہ ان سے توقع بھی نہیں کر سکتا۔ نتیجہ یہ کہ ان حافظ صاحب کی وجہ سے لوگ اپنے بچوں کو حفظ یا دینی لائن میں لانے سے گریز کرتے ہیں۔ ان مسائل کا کیا حل ہے؟ اس کے علاوکیا یہ ممکن ہے کہ حفظ کے سخت معمولات کے ساتھ بچے میں فہم قرآن کا ذوق بھی پیدا کیا جا سکے اور اس مقصد کے لیے بچوں کو قرآن کریم کے کچھ حصے کا ترجمہ بھی پڑھا دیا جائے؟ پھر اگر بچہ حفظ مکمل کر لیتا ہے تو اس کے قرآن کریم یاد رکھنے کی کیا ترتیب اور نظم ہونا چاہیے؟ ایک بہت اہم سوال حفظ کے طلبہ کی بعد از حفظ تعلیمی لائن کا تعین ہے ۔ حفظ کے دوران بچے کے تین چار سال لگ جاتے ہیں اور اس کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ دوبارہ اس کے تعلیمی مستقبل کی تعیین میں ضائع کیا جائے، اس لیے دوران حفظ ہی بچے کی آئندہ تعلیمی لائن کا تعین ہو جانا ضروری ہے۔ اس کے لیے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں ؟ 
مولانا زاہد الراشدی کی افتتاحی گفتگو کے بعد قاری سعید احمد صاحب کو گفتگو کی دعوت دی گئی۔ ان کی گفتگو کا خلاصہ کچھ یوں ہے:
میں سب سے پہلے ان طلبہ و اساتذہ کو خراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں جو آج کے دور میں قرآن کریم کے پڑھنے اور پڑھانے میں مشغول ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مساعی میں برکت عطا فرمائے اور ان کو اس کام کا بہترین بدلہ عطا فرمائے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جتنا اونچا کام ہوتا ہے، اتنی ہی اس کی ذمہ داری بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے جہاں یہ لوگ اس دور میں قرآن کریم کی خدمت میں مصروفیت پر مبارک باد کے مستحق ہیں، وہیں ان کی ذمہ داری بھی زیادہ ہے ۔ ہم سب سے پہلے ان کوتاہیوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں جو عام طور پر حفظ کرواتے ہوئے دہرائی جاتی ہیں اور جن سے حفظ کے طلبہ کی استعداد پر برا اثر پڑتا ہے۔حفظ کی کلاس میں استاد کا ماہر ہونا انتہائی ضروری ہے، لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ اساتذہ جو حفظ کے طلبہ کو نورانی قاعدہ پڑھاتے ہیں، ان کا اپنا نورانی قاعدہ درست نہیں ہوتا۔ الفاظ کی ادائیگی قرآن کریم کی تعلیم میں بنیادی حیثیت کی حامل ہے اور اگر خود استاد کی ادائیگی درست نہ ہوگی تو وہ طلبہ کی ادائیگی کیسے درست کروائے گا؟ اسی طرح بعض جگہ نورانی قاعدہ جلدی پڑھا دیا جاتا ہے اور بعض جگہ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ نورانی قاعدہ پر ہی دو دو سال لگا دیے گئے۔ یہ بھی درست نہیں۔ ایک مناسب مدت میں نورانی قاعدہ مکمل کروا دینا چاہیے۔ نورانی قاعدہ مکمل کروا دینے کے فوراً بعد حفظ شروع کروا دینا بھی ٹھیک نہیں۔ پہلے عم پارہ ہجے کے ساتھ پڑھایا جائے۔ پھر دو یا تین پارے ناظرہ پڑھا کر پھر حفظ شروع کروا یا جانا چاہیے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مطالعہ اور سبق سننے میں کوتاہی کی جاتی ہے۔ مطالعہ اساتذہ خود نہیں سنتے اور نہ ہی سبق توجہ سے سنا جاتا ہے جس سے طلبہ کی غلطیاں پختہ ہو جاتی ہیں۔ استاد کو چاہیے کہ ہر طالب علم کا مطالعہ اور سبق خود فرداً فرداً سنے۔ اسی طرح سبقی اور منزل بھی ہر طالب علم کی فرداً فرداً سننی چاہیے۔ ہاں، اگر طلبہ زیادہ ہیں تو ذہین طلبہ کو اپنے دائیں بائیں بٹھا کر ان پر نظر رکھتے ہوئے ان کی منزل سن سکتا ہے۔ منزل کی مقدار بھی مناسب ہونی چاہیے۔ جب طالب علم کے دس پارے ہو جائیں تو اس کی صرف آدھا پارہ یا ایک پارہ منزل کافی نہیں، بلکہ منزل کی اتنی مقدار ہونی چاہیے جس سے جلدی پاروں کا دور مکمل ہو جائے۔ان سب باتوں کو یقینی بنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ استاد کو اس کی معاشی مشکلات سے آزاد کر دیا جائے تاکہ وہ توجہ کے ساتھ اپنا کام کر سکے۔ 
کلاس میں بچوں کو سزا دینے کا بھی کوئی مہذب طریقہ رائج ہونا چاہیے۔ اکثر اوقات یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ درس گاہ میں انتہائی درد ناک اور توہین آمیز طریقے سے سزا دی جاتی ہے جس سے ڈرتے ہوئے بعض بچے حفظ سے ہی توبہ کر جاتے ہیں۔ بچے کو سزا دینے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے کہ جب غلطی آئے تو اس پر نشان لگائے۔ دوسری مرتبہ غلطی آئے تو گول دائرہ لگا دے۔ تیسری مرتبہ غلطی آنے پر اس میں نقطہ لگا دے اور معمولی سزا دے اور سزا دینے میں ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہیے جس سے بچے کی اصلاح ہو نہ کہ وہ تعلیم سے ہی بد ظن ہو جائے۔ کلاس میں بچوں کی تعداد کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ بعض جگہوں پر کلاس میں ساٹھ ساٹھ بچے بھر دیے جاتے ہیں جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ کسی ایک بچے کو بھی منزل صحیح طرح یاد نہیں ہوتی۔ ایسی صورتحال سے بچنا چاہیے۔ میری رائے میں تین کتابیں ایسی ہیں جو حفظ کے ہر استاد کے پاس ہونی چاہییں۔ ۱۔ قواعد ہجاء القرآن مصنفہ قاری شکیل صاحب، ۲۔ رہنمائے مدرسین مصنفہ قاری رحیم بخش صاحب، ۳۔ تدریب المعلمین۔
قاری سعید احمد کے بعد جناب سلیم رؤف کو خیالات کے اظہار کی دعوت دی گئی ، انہوں نے کہا:
مولانا زاہد الراشدی صاحب نے جو حفظ کی تدریس کے بارے میں جو سوالات اٹھائے ہیں، نہایت اہم ہیں ، لیکن ان میں سے اکثر حفظ کے میدان میں ممکن نہیں۔ مثلاً یہ بات کہ بچے کو ایک دو پارے یاد کروانے کے بعد اس کے حفظ کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جائے اور اگر بچہ حفظ نہیں کر سکتا تو اس کو فارغ کر دیا جائے، اس کام میں سب سے بڑی رکاوٹ خود والدین ہیں۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ والدین نے کوئی منت مانی ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچے کو حفظ کروائیں گے۔ ایسی صورت میں بچے کو کلاس سے نکالنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ اکثر والدین کی حالت یہ ہوتی ہے کہ باپ خود تو نماز بھی نہیں پڑھتا اور بچے کے بارے میں اس کے ذہن میں ہوتا ہے کہ وہ ولی اللہ بن جائے، اس لیے حفظ تو لازمی کروانا ہے، چاہے اس میں سو سال لگ جائیں۔ اس حالت میں استاد ان کو کیسے باور کرائے کہ بچہ حفظ نہیں کر سکتا، اس لیے آپ اس کی تعلیم کا کوئی اور بندوبست کر لیں۔ اگر استاد کہہ بھی دے کہ یہ بچہ حفظ نہیں کر سکتا تو ایسی مثالیں بھی سامنے آئی ہیں کہ بچہ آیا اور آکر کہا گیا کہ اس بچے کو حفظ کروانا ہے۔ اس کا استاد کہتا ہے کہ یہ حفظ نہیں کر سکتا۔ اب یہ چیلنج ہے اور استاد کو دکھانا ہے کہ یہ حفظ کر سکتا ہے۔ اساتذہ کو اس صورت میں چاہیے کہ والدین کو مثالوں سے سمجھائیں کہ دنیا میں کتنے ہی ایسے لوگ موجود ہیں جو پورے قرآن کے حافظ نہیں ہیں، بلکہ ایک یا دو پارے ہی انہوں نے حفظ کیے ہیں۔ شاید بات ان کی سمجھ میں آجائے۔ ایسے بچے جب حفظ کی کلاس سے نکلتے ہیں تو بہت نقصان ہوتا ہے اور ان کی وہی حالت ہوتی ہے جس کا ذکر مولانا زاہد الراشدی نے اپنے سوالات میں کیا ہے۔
حافظ صاحب کے یہ رویہ اپنانے کی ایک وجہ بے جا سختی یا غلط طریقے سے سزا دینا بھی ہوتا ہے۔ اگر کسی بچے کو اس کے بڑے بھائی کی وجہ سے سزا ملے تو لازمی بات ہے کہ اس کے دل میں اپنے بڑے بھائی کی نفرت پیدا ہو جائے گی۔ اسی طرح اگر قرآن کی وجہ سے بچے کو سزا ملے گی تو اس کے دل میں قرآن سے نفرت پیدا ہو سکتی ہے اور جب وہ حفظ کی فیلڈ سے نکلتا ہے تو قرآن سے دور ہوتا جاتا ہے۔ اس کی ایک وجہ والدین کا رویہ بھی ہے۔ والدین عام طور پر اس بچے کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں جو اسکول وغیرہ کی تعلیم حاصل کر رہا ہو۔ اگر حفظ کرنے والے بچے نے ماں سے ناشتہ مانگا اور ماں نے کہا کہ تو صبر کر اور اس بچے کو جو سکول میں پڑھتا ہے، پہلے ناشتہ دیا تو حفظ کے طالب علم کے دل میں کیسے جذبات پیدا ہوں گے، اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اس لیے والدین کی بھی تربیت کرنی چاہیے۔ استاد اگر بچے کو اپنے ساتھ مانوس کر لے اور اسے پیار سے تعلیم دے تو طالب علم استاد کی بات کو دل و جان سے مانے گا اور تعلیم میں خاطر خواہ بہتری آ جائے گی۔میں نے اس کا کئی مرتبہ تجربہ کیا ہے کہ ایک بچہ عرصہ دراز سے اپنے والدین کی کوئی بات نہیں مان رہا، لیکن میرے یا اپنے استاد کے کہنے پر اپنی ضد چھوڑ کر اس کام کو کرنے پر آمادہ ہو گیا۔بچے کے آئندہ تعلیمی مستقبل کے بارے میں میری رائے یہ ہے کہ اگر چوتھی کلاس پڑھنے کے بعد بچے کو حفظ شروع کروایا جائے اور وہ تین سال بھی اگر حفظ میں لگا لے تو بعد میں اس کے پاس اتنا وقت بچ جاتا ہے کہ آٹھویں کلاس میں داخلہ لے سکے۔ 
جہاں تک تعلق ہے حافظ صاحب کے معاشرے میں ایسے برے کام کرنے کا جن کی وجہ سے اہل معاشرہ اس سے بدظن ہو جاتے ہیں تو میرے خیال میں یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر نقد وبال ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ معاشرے میں حاجی صاحب اور حافظ صاحب کے القاب بہت بدنام ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ یہ دونوں بہت بڑے کام ہیں، یہ کام کر کے(حج کر کے اور قرآن کریم کو اپنے دل میں محفوظ کر لینے کے بعد) بھی جب لوگ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں چھوڑتے تو اللہ تعالیٰ دنیا میں ان کو بدنام کر دیتا ہے۔ جہاں تک تعلق ہے حفظ کے طلبہ میں فہم قرآن پیدا کرنے کا تو اس میں بنیادی کردار استاد کا ہوتا ہے اور ۹۹ فیصد حفظ کے استاد ایسے ہیں کہ ان کو خود قرآن کا فہم حاصل نہیں ہوتا۔ صورتحال یہ بنتی ہے کہ استاد بچے کو پڑھا رہا ہے کہ پڑھو: لاَ تَنَابَزُوا بِالاَلْقَابِ اور قاف وغیرہ کے صحیح پڑھنے پر بڑا زور دے رہا ہے، لیکن بچے سے صحیح ادائیگی نہیں ہو رہی تو لاَ تَنَابَزُوا بِالاَلْقَابِ  پڑھانے والا استاد بچے کو کہتا ہے : او کتے، سؤر! صحیح پڑھ ۔ گویا جو پڑھا رہا ہے، اس کے خلاف اسی وقت خود عمل کر رہا ہے۔ یا مثلاً وہی بچہ گھر جا کر سبق یاد کرتا ہے: وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا  اور ماں اسے کہتی ہے کہ بیٹا جاؤ، ذرا بازار سے چینی تو لا دو۔ تو اسی وقت وہ کہتا ہے کہ میں نہیں جاتا کسی اور سے منگوا لو۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی پڑھتا جا رہا ہے: وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا۔اس لیے فہم قرآن پیدا کرنے والی تجویز پر عمل کرنا حفظ کے سخت شیڈول اور اساتذہ کی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے بہت مشکل ہے۔ 
اس بارے میں اپنے تجربے کی بنیاد پر میری رائے یہ ہے کہ اگر صبح پندرہ منٹ کی اسمبلی کا اہتما م کر لیا جائے اور اس میں بچوں کی تربیت کی محنت کی جائے تو بڑے اچھے نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ مثلاً مختلف قسم کے انعامات کا اعلان کر کے بچوں میں نیکی کے کاموں میں مقابلے کی فضا قائم کی جائے تاکہ ان میں نیکی عادت بن جائے۔ اسی طرح پورا ہفتہ ایک ہی موضوع پر بھر پور تیاری کے ساتھ اگر اسمبلی میں بچوں کو معلومات فراہم کی جائیں تو ان کے پاس کافی ذخیرہ جمع ہو جاتا ہے اور کئی باتیں ان کے عمل میں آجائیں گی، لیکن شرط یہ ہے کہ یہ کام مستقل مزاجی اور پوری محنت و تیاری کے ساتھ کیا جائے۔
دارالعلوم گوجرانوالہ کے استاد قاری عبد الشکور نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
حفظ کی تدریس بہت مشکل کام ہے۔ اس کی افادیت کا سارا دارومدار استاد پر ہوتا ہے۔ استاد کی اپنی تربیت ہونی چاہیے، خود بھی تعلیم یافتہ ہو، متقی ہو پرہیز گار ہو اور پڑھانا بھی جانتا ہو۔ مدارس کے ذمہ داران کو بھی اس بات کا خیال کرناچاہیے کہ وہ دیکھ بھال کر حفظ کی کلاس کسی کے حوالے کریں۔ استاد کا تجربہ کار اور محنتی ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر کسی استاد کے پاس بیس پچیس بچوں کی کلاس ہے تو وہ تقریباً سارا دن ان سے فارغ نہیں ہو سکتا۔ اگر ایسا استاد یہ کہتا ہے کہ میرے پاس فارغ وقت ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ استاد اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہا اور اپنے کام میں خیانت کر رہا ہے۔ استاد کوچاہیے کہ بچوں کو نورانی قاعدہ محنت سے پڑھائے ۔ ہر بچے کا تجوید سے مطالعہ سنے، پھر سبق یاد کروائے۔ ہمارے ہاں دار العلوم میں بچے صبح چار بجے اٹھ جاتے ہیں اور نماز فجر سے پہلے استاد کو سبق سنا دیتے ہیں۔ اس ترتیب میں استاد ۹ بجے تک منزل و سبقی سے فارغ ہو جاتا ہے۔ بچوں پر یہ پابندی ہونی چاہیے کہ وہ عشاء کی نماز تک یا عشاء کی نماز کے بعد اپنے ساتھی کو سبق یاد کر کے سنا دیں تاکہ صبح سبق سنانے میں دقت نہ ہو۔ بچے ایک تو منزل سناتے ہیں اور دوسرا منزل پڑھتے ہیں۔ منزل پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ ان پر پابندی ہے کہ وہ روزانہ اپنی منزل سنانے کے علاوہ پاروں کی ایک مخصوص مقدار پڑھیں، چار یا پانچ پارے۔ اس طرح منزل کا پارہ، سبقی کا پارہ اور ان کے علاوہ جو پارے وہ پڑھتا ہے، یہ سب ملا کر روزانہ کے تقریبا آٹھ، دس پارے بنتے ہیں ۔ اس طرح بچے کی منزل بہت پختہ ہو جاتی ہے اور قرآن بھولنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا ۔
سیمینار کے مہمان خصوصی مولانا جہانگیر محمود صاحب نے اپنے خطاب میں کہا:
آپ کا پروگرام بہت اچھا ہے، لیکن میری رائے یہ ہے کہ اس موضوع پر ہفتہ یا دس دن کا کوئی تربیتی پروگرام ترتیب دیا جائے تو زیادہ فائدہ ہو گا۔ مجھے ملک و بیرون ملک طریقہ تعلیم و تدریس پر گفتگو کا موقع ملا ہے، میں جدید فلسفہ تعلیم سے بہت متاثر ہوا ہوں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے خیال میں وہ لوگ اپنی ذاتی تحقیق سے اس قابل ہوگئے ہیں کہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ تعلیم کو ۶۰ فیصد تک اپنا چکے ہیں۔ ابھی سو فیصد تک تو نہیں پہنچ سکے، البتہ اپنی تحقیق اور محنت سے وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ تعلیم کا ساٹھ فیصد حصہ اپنا چکے ہیں۔ میں اس نشست میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ تعلیم پر بات کروں گا۔ تعلیم و تعلم میں استاد و طالب علم کا باہمی رشتہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ہم صحابہ کرامؓ کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے واقعات تو بہت مزے لے کر سنتے اور سناتے ہیں، لیکن عام طور پر اس بات پر غور نہیں کرتے کہ صحابہ کرامؓ کی یہ محبت اصل میں عمل نہیں بلکہ ردعمل تھا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان کے ساتھ محبت کا۔ ہمیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ استاد و معلم تھے، ان کو اپنے شاگردوں یعنی صحابہ کرامؓ کے ساتھ کس درجہ محبت تھی۔ میں اگر معلم کے طور پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی صفت منتخب کروں تو وہ سب سے اول آپ کی اپنے شاگردوں کے ساتھ شفقت و محبت ہو گی۔ آج ہم اپنے طلبہ کو یہ تو بتاتے ہیں کہ پہلے زمانے میں شاگرد اپنے استاد کے سامنے بولا بھی نہیں کرتے تھے، لیکن میں یہ نہیں بتاتا کہ استاد بھی اپنے طلبہ کے جوتے تک اٹھا لیا کرتے تھے۔ آپ نے احادیث کی کتابوں میں ایک جملہ پڑھا ہو گا کہ صحابہ کرام حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے فداک ابی و امی کے الفاظ استعمال کیا کرتے تھے، لیکن کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ یہ جملہ سب سے پہلے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے ایک صحابی کے لیے استعمال کیا تھا۔اس لیے ہمیں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا اس حوالے سے بھی مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے کہ بطور معلم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے شاگردوں کے ساتھ کیسا رویہ اوربرتاؤ تھا۔ اگر استاد اپنے شاگرد کی اصلاح کے لیے سخت سزا کا طریقہ اپناتا ہے تو بقول قاری رحیم بخش صاحب جو استاد اپنے شاگرد کی اصلاح کے لیے چالیس دن تک تہجد میں دعا نہیں کرتا، اس کو اسے مارنے کا بھی کوئی حق نہیں۔گویا استاد کی شفقت و محبت شاگرد کی اصلاح و تعلیم کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
جدید طریقہ تعلیم میں بھی اس عنصر کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ جدید فلسفہ تعلیم میں تعلیم کے ہر پہلو پر تحقیق ہو ئی ہے، حتی کہ بچے کا حوصلہ بڑھانے کے لیے اور شاباش کہنے کے ۱۰۱ طریقے متعارف ہوئے ہیں۔ بچوں کو ترغیب و تشویق دلانے کی کچھ مثالیں میرے بھائی جناب سلیم رؤف صاحب نے ذکر کیں اور میرے خیال میں ان کے ذہن میں اور مثالیں بھی لازمی ہوں گی جو کہ سامعین کے سامنے آنی چاہیےیں۔ ہم نے بھی اپنے ادارے میں ایک طریقہ اپنایا ہے۔ مثلاً ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ جب کوئی آدمی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک نقطہ لگ جاتا ہے۔ یہ حدیث ہمارے اس طریقہ کی بنیاد ہے۔ ہم نے اسکول میں دیوار کے ساتھ کاغذ کے علامتی دل بنا کر لگا دیے ہیں اور بچوں کو یہ بتایا ہے کہ جس بچے کا رویہ خراب ہو گا، اس کے دل پر ایک کالا نشان لگا دیا جائے گا اور سال کے اختتام پر دیکھا جائے گا کہ کس بچے کے دل پر کم کالے نشان ہیں۔ پھر اس کو انعام دیا جائے گا۔ سال کے آخر میں ہم ایک تقریب میں ایسے بچے کے والدین کو بلاتے ہیں اور اس کو سنہری رنگ کا علامتی دل پیش کرتے ہیں اور ساتھ یہ بتاتے ہیں کہ یہ آپ کے بچے کا دل ہے جو سارا سال صاف و شفاف رہا۔ اب بچے اس بات کی احتیاط کرتے ہیں اور دیکھتے رہتے ہیں کہ کہیں ہمارے دل پر کوئی نشان نہ لگ جائے۔ اس سے خود بخود ان کی تربیت ہوتی رہتی ہے۔ 
آج کل بچوں سے بات منوانے کے لیے عام طور پر سختی اور مار پیٹ سے کام لیا جاتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کی زندگیوں سے اس مار پیٹ کی کوئی مثال پیش کر کے دکھا دیں۔ آپ کہتے ہیں کہ آج کلاس میں چالیس چالیس بچے ہیں، اس لیے کام پورا نہیں ہوتا، مار پیٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ آپ کا کام پورا نہیں ہوتا تو نہ ہو، آپ یہ دیکھیں کہ آپ کی سختی اور مار پیٹ سے کیا یہ مزاج بچے کی شخصیت کا حصہ تو نہیں بن جاتا! اس مزاج کو لے کر جب وہ معاشرے میں جائے گا تو کیسا کردار ادا کرے گا؟ کیا آپ کے اس سلوک سے اس کی شخصیت تو نہیں بگڑ رہی؟ سختی سے آپ عادات تو بنا دیں گے، شخصیت کی تعمیر نہیں کر سکتے۔ اس لیے ہمیں خود پہلے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج اور انداز تربیت سیکھنے کی ضرورت ہے۔کلاس کی ترتیب و نظم کے لیے ہمیں غزوہ بدر کے واقعہ سے راہنمائی ملتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر قیدی کو دس مسلمان بچوں کو پڑھانے کا کہا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ صحیح تعلیم کے لیے دس طالب علموں کی ہی کلاس ہونی چاہیے۔ آج کا بین الاقوامی معیار آٹھ کا ہے۔ اس لیے آج کی میری گفتگو کا بنیادی اور مرکزی نقطہ یہ ہے کہ ہمیں طریقہ تعلیم اور انداز تدریس کے سلسلے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے راہنمائی لینی چاہیے اور پہلے خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ تعلیم کو سیکھنا چاہیے۔ اگر اہل مغرب اپنی محنت اور کوشش سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ تعلیم کے ۶۰ فیصد تک پہنچ سکتے ہیں اور اس کو استعمال کر کے انتہائی عمدہ نتائج حاصل کر سکتے ہیں تو ہم سب کچھ پاس ہوتے ہوئے بھی ان نتائج سے کیوں محروم ہیں۔ 
مولانا جہانگیر محمود کے خطاب کے بعد انھی کی دعا پر اس سیمینار کا اختتام کیا گیا۔ سیمینار کے بعد غیر رسمی نشست میں بھی اس موضوع پر تبادلہ خیال کیا گیا اور سب حضرات نے بچوں اور والدین کے رویے کے حوالے سے اپنے اپنے تجربات بیان کیے اور اس بات پر زور دیا گیا کہ والدین کی تربیت کا بھی کوئی انتظام ہونا چاہیے۔ اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ دینی تعلیم میں بہتری کے لیے جو حضرات اپنی اپنی جگہ انفرادی محنت کر رہے ہیں، ان کو ایک جگہ جمع کرنے اور ان کے تجربات سے استفادہ کا کوئی نظم ہونا چاہیے تاکہ دوسرے احباب بھی ان کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکیں۔

ہماری خوراکی بے اعتدالیاں اور کینسر کا مرض

حکیم محمد عمران مغل

خبردار! کینسر کا اژدہا آپ کی دہلیز پر پہنچ چکا ہے۔ شوگر، ہیپا ٹائٹس، گردوں کے امراض نے معاشرے کو اپنے چنگل میں جکڑ لیا ہے۔ اگر ان کا علاج اصول کے خلاف کیا گیا تو کینسر کا حملہ ہو سکتا ہے۔
ہماری خوراکی کمزوریاں لگاتار بڑھ رہی ہیں۔ آج سے ایک صدی پہلے کینسر کا نام ہی سنتے تھے، جبکہ اب آبادی کی اکثریت جلدی امرا ض میں مبتلا ہوتی جا رہی ہے۔ جرمن معالجین نے وضاحت سے بتایا ہے کہ گوشت خوری کی عادت نے جلدی امراض کے ساتھ کینسر کو بھی بڑھا دیا ہے۔ جرمن قوم جفاکش، محنتی اور خود دار ہے۔ اس قوم کی تحقیق یہ ہے کہ جوں جوں گوشت زیادہ کھایا جا رہا ہے، کینسر کا اژدہا بھی اتنی ہی تیز رفتاری سے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ 
ایک اخباری اطلاع کے مطابق مردار مرغیوں کے دو ٹرک راستے میں پکڑے گئے جو پنجاب سے کراچی لے جائے جا رہے تھے۔ ہماری خاطر تواضع اسی قسم کے گوشت سے ہو رہی ہے۔ خونی امراض، جگر کے امراض اورہیپا ٹائٹس تو فوراً کینسر کا رخ اختیار کرتے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ چالیس دن میں ایک دفعہ گوشت ضرور کھا لینا چاہیے۔ اس سے جگر کا مرض قابو میں رہتا ہے۔ مگر آج تو بکرے کی سالم ران اور مرغ مسلم ہر دستر خوان کی زینت ہے۔ اس کے بغیر دعوت مکمل نہیں سمجھی جاتی۔ اوپر سے بند بوتلوں کا تیزابی پانی!
اگر اللہ نے آپ کو مذکورہ امراض سے بچایا ہے تو پھر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے احتیاط سے زندگی گزاریں۔ کئی کئی دن کی باسی غذا اور بند ڈبوں کی خور ونوش کی خوراک سے پرہیز کریں۔ سردیوں میں کئی کئی ہفتے سے اسٹور کی ہوئی گلی سڑی مچھلیاں بھی کینسر کا باعث ہو سکتی ہیں۔ بے تحاشا گوشت خوری کی عادت آپ کو چاروں شانے چت گرا سکتی ہے۔

فروری ۲۰۱۳ء

چند اہم دینی شخصیات کا سانحہ ارتحالمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
اسلامی نظام کی جدوجہد اور اس کی حکمت عملیمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
جزا و عذاب قبر کی قرآنی بنیادیںمحمد زاہد صدیق مغل
مریم جمیلہؒ ۔ اسلام کی بے باک ترجمانپروفیسر خورشید احمد
نشے کی طلاق اور طلاق کے لیے عقل و ہوش کا مطلوبہ معیارمولانا مفتی محمد زاہد
ایک مجلس کی تین طلاقیں اور اصلاح کی گنجائشمولانا مفتی فضیل الرحمن عثمانی
طلاق کا وقوع اور نفاذ۔ چند اجتہاد طلب پہلومحمد عمار خان ناصر
نہ معرفت، نہ نگاہ!محمد دین جوہر
جماعت اسلامی کے ناقدین و مصلحینخواجہ امتیاز احمد
میڈیا کا محاذ اور ہماری ذمہ داریاںمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
الشریعہ اکادمی میں فکری نشستیںادارہ
ہماری خوراک اور دن بدن بڑھتے امراضحکیم محمد عمران مغل

چند اہم دینی شخصیات کا سانحہ ارتحال

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

گزشتہ ماہ کے دوران میں بہت سی اہم دینی وقومی شخصیات اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آئندہ سطور میں ان کا ایک مختصر تذکرہ کیا جائے گا۔

پروفیسر غفور احمدؒ 

پروفیسر غفور احمد اللہ کو پیارے ہوگئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اخبارات میں ان کی وفات کی خبر پڑھ کر ماضی کے بہت سے اوراق ذہن کی یادداشت میں کھلتے چلے گئے۔ ان کا نام پہلی بار ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے بعد سنا جب وہ کراچی سے جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ میرا تعلق جمعیۃ علماء اسلام پاکستان سے تھا اور اس دور میں جمعیۃ علماء اسلام اور جماعت اسلامی میں مخاصمت دینی اور سیاسی دونوں محاذوں پر عروج پر تھی۔ مجھے مولانا عبد اللہ درخواستیؒ ، مولانا عبید اللہ انورؒ ، مولانا مفتی محمودؒ اور مولانا غلام غوث ہزارویؒ کے قریبی کارکنوں میں شمار ہونے کا اعزاز حاصل تھا، اس لیے جماعت اسلامی کے منتخب ارکان اسمبلی کے حوالے سے کسی مثبت سوچ کا اس وقت کوئی امکان نہیں تھا، لیکن خدا گواہ ہے کہ جوں جوں پروفیسر غفور احمد پارلیمانی اور سیاسی محاذ پر آگے بڑھتے گئے، قلب و ذہن کے دریچے ان کے لیے کھلتے چلے گئے اور ان کی شرافت و متانت اور حوصلہ و تدبر دیکھ کر ان کے احترام کی طرف بتدریج مائل ہوتا رہا۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد باقی ماندہ پاکستان میں دستوری طور پر سب سے بڑا اور پہلا مرحلہ دستور سازی کا تھا۔ ۱۹۷۰ء میں منتخب ہونے والی قومی اسمبلی در اصل دستور سازی کے عنوان پر منتخب ہوئی تھی اور دستور سازی کا مرحلہ طے ہو جانے کے بعد اسے قانون ساز اسمبلی کی حیثیت اختیار کر لینا تھی۔ اس دستور ساز اسمبلی میں اپوزیشن عددی لحاظ سے کچھ قابل ذکر نہیں تھی، لیکن شخصیات کے حوالے سے اتنی مضبوط اپوزیشن شاید ہی قومی اسمبلی کو کبھی میسر آئی ہو ۔ خان عبد الولی خانؒ ، مولانا مفتی محمودؒ ، مولانا شاہ احمد نورانیؒ ، مولانا ظفر احمد انصاریؒ ، مولانا عبد الحقؒ ، چودھری ظہور الٰہی اور پروفیسر غفور احمد جیسی بھاری بھر کم شخصیات اس اپوزیشن کی قیادت کر رہی تھیں اور اسلامی سوشلزم کے نعرے پر الیکشن جیتنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کی اکثریت والے ایوان میں دستور کو واضح اسلامی بنیادوں پر استوار کرنے اور اسلام کو ملک کا سرکاری مذہب قرار دلوانے کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کو قانون سازی میں قرآن و سنت کے دائرے میں پابند بنانا ۱۹۷۳ء کے دستور کی وہ نمایاں خصوصیات ہیں جن پر آج بھی اس ایوان کو فخر ہونا چاہیے اور اس مقصد کے لیے دستور سازی کے ہوم ورک میں اپوزیشن کی طرف سے مولانا ظفر احمد انصاریؒ اور پروفیسر غفور احمد کی شبانہ روز محنت بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔
دستور کی منظوری اور نفاذ کے ساتھ ہی قومی اسمبلی کے سامنے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرر دینے کا مسئلہ پیش آگیا۔ اس مسئلے کی اپنی ایک طویل تاریخ ہے جس کا ذکر بات کو طویل کر دے گا، لیکن ہوا یہ کہ قادیانیوں کی اپنی ایک حماقت کی وجہ سے کہ چناب نگر (ربوہ) کے ریلوے سٹیشن پر نشتر میڈیکل کالج ملتان کے سٹوڈنٹس پر قادیانی نوجوانوں نے حملہ کر دیا، ملک بھر میں اس پر احتجاجی سلسلہ شروع ہوگیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس احتجاج نے بھرپور عوامی تحریک کی شکل اختیار کر لی اور قومی اسمبلی کو اس پر قانون سازی کرنا پڑی۔ مسئلہ ختم نبوت پر قانون سازی کے اس مرحلے میں بھی پروفیسر غفور احمد نے سرگرم حصہ لیا۔ پروفیسر صاحب کا مزاج عام طور پر ذہن سازی اور لابنگ کے ذریعے اپنی بات کو موثر بنانے کا ہوتا تھا اور وہ اس میں ہمیشہ کامیاب رہتے تھے۔
مجھے ان کے ساتھ قومی اتحاد میں ۱۹۷۷ء کے الیکشن اور تحریک نظام مصطفی کے دوران کام کرنے کا موقع ملا۔ پاکستان قومی اتحاد کے صدر مولانا مفتی محمودؒ تھے اور سیکرٹری جنرل چودھری رفیق احمد باجوہ مرحوم چنے گئے جن کا تعلق جمعیۃ العلمائے پاکستان سے تھا، جبکہ پنجاب میں قومی اتحاد کے صدر محترم حمزہ تھے اور سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی کے رہنما پیر محمد اشرف تھے۔ بعد میں ایک مرحلے میں رفیق احمد باجوہ اور پیر محمد اشرف دونوں ان مناصب سے کسی وجہ سے الگ ہوگئے تو مرکز میں پروفیسر غفور احمد اور پنجاب میں مجھے سیکرٹری جنرل بنا دیا گیا۔ اس حیثیت سے ہمارا رابطہ پاکستان قومی اتحاد کی تحلیل تک مسلسل رہا۔ پاکستان قومی اتحاد کے اجلاسوں کے علاوہ بھی تنظیمی حوالے سے ہمارا رابطہ رہتا تھا اور وقتاً فوقتاً ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں۔ اس دوران میں نے کراچی میں پروفیسر غفور احمد مرحوم کے گھر میں بھی حاضری دی اور ان سے مختلف مسائل پر گفتگو اور تبادلۂ خیالات کا سلسلہ چلتا رہا۔ ان کی سنجیدگی، متانت اور تدبر سے ان کا ہر ملنے والا متاثر تھا۔ مجھے بھی ان کے دھیمے رویے، مضبوط موقف اور سب کے احترام پر مبنی لہجے نے سب سے زیادہ متاثر کیا۔
۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفی میں، جو دراصل الیکشن میں دھاندلیوں کے خلاف احتجاجی تحریک تھی، لیکن چونکہ قومی اتحاد نے نظام مصطفی کے نفاذ کے نعرے پر انتخاب لڑا تھا ، اس لیے فطری طور پر اس تحریک نے بھی تحریک نظام مصطفیؐ کا عنوان اختیار کر لیا، اس تحریک کی قیادت میں مولانا مفتی محمود، نوابزادہ نصر اللہ خان، مولانا شاہ احمد نورانی، سردار شیر باز خان مزاری، چودھری ظہور الٰہی، پیر آف پگارہ شریف، سردار محمد عبد القیوم خان اور میاں طفیل مرحوم کے نام نمایاں تھے۔ لیکن اس کے تنظیمی اور دفتری معاملات کو کنٹرول کرنے والی ٹیم کو پروفیسر غفور احمد کی مدبرانہ رہنمائی میسر تھی جو اس تحریک کا ایک اہم کردار ہے۔ قومی اتحاد نے جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں وفاقی کابینہ میں شمولیت اختیار کی تو پروفیسر غفور احمد مرحوم بھی وفاقی وزیر بنے۔ اس سے قبل وہ ذوالفقار علی بھٹور مرحوم کے ساتھ مذاکرات میں پاکستان قومی اتحاد کے سہ رکنی وفد میں مولانا مفتی محمود اور نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم کے ساتھ شامل رہ چکے تھے۔ اس دور کی یادداشتیں کتابی شکل میں ’’پھر مارشل لاء آگیا‘‘ کے عنوان سے قلم بند کر کے انہوں نے شائع کر دی ہیں۔
پروفیسر غفور احمد کا شمار محب وطن، دیانت دار، با اصول اور حق گو سیاسی رہنماؤں میں ہوتا تھا۔ قحط الرجال کے اس دور میں ان کی وفات سے یقیناًبہت بڑا خلا پیدا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔

قاضی حسین احمدؒ 

محترم قاضی حسین احمد مرحوم کے ساتھ میرے تعلقات کی نوعیت دوستانہ تھی اور مختلف دینی و قومی تحریکات میں باہمی رفاقت نے اسے کسی حد تک بے تکلفی کا رنگ بھی دے رکھا تھا۔ ان کے ساتھ میرا تعارف اس دور میں ہوا جب وہ جماعت اسلامی پاکستان کے قیم تھے۔ پاکستان قومی اتحاد کے صوبائی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے مجھے اتحاد میں شامل جماعتوں کے راہ نماؤں کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھنا ہوتا تھا۔ یہ رابطہ انتخابی مہم میں بھی تھا اور تحریک نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے چلائی جانے والی اجتماعی تحریک میں بھی تھا۔ بعد میں جب سینیٹ آف پاکستان میں مولانا قاضی عبد اللطیفؒ اور مولانا سمیع الحق کے پیش کردہ ’’شریعت بل‘‘ کے لیے ملک گیر عوامی جدوجہد منظم کرنے کا مرحلہ سامنے آیا تو اس کے لیے قاضی حسین احمد صاحب پیش پیش تھے اور انہوں نے اس سلسلہ میں بہت متحرک اور بھرپور کردار ادا کیا۔ قاضی صاحب محترم کے ساتھ اس سے قبل ۱۹۸۴ء کی تحریک ختم نبوت میں بھی رفاقت رہی جس کے نتیجے میں امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری ہوا، اس میں قادیانیوں کو اسلام کا نام استعمال کرنے سے قانونًا روک دیا گیا ہے اور ان کے لیے اسلام کی مذہبی علامات اور اصطلاحات کے استعمال کو قانونی جرم قرار دیا گیا ہے۔ 
اس دوران ایک دلچسپ واقعہ ہوا۔ قاضی حسین احمد صاحبؒ نے جماعت اسلامی پاکستان کے قیم (سیکرٹری جنرل) کی حیثیت سے حضرت مولانا سید حامد میاںؒ سے رابطہ کیا کہ جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ اگر یہ قرارداد پاس کر دے کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے جن افکار و نظریات سے جمعیۃ علماء اسلام یا دوسرے حلقوں کو اختلاف ہے، جماعت اسلامی انہیں مولانا مودودیؒ کے تفردات سمجھتے ہوئے ان مسائل میں جمہور علماء اہل سنت کے ساتھ ہے تو کیا اس قرارداد کے بعد جمعیۃ علماء اسلام اور جماعت اسلامی دونوں مل کر ملک میں دینی جدوجہد کی پوزیشن میں ہوں گی؟ مولانا سید حامد میاںؒ نے اس مسئلہ پر مولانا محمد اجمل خانؒ سے بات کی۔ دونوں بزرگوں نے آپس میں مشورہ سے طے کیا کہ اس سوال کا کوئی حتمی جواب دینے سے پہلے مسلکی حوالہ سے تین بڑے بزرگوں حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ ، حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ اور حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود مدظلہ سے مشورہ کر لینا چاہیے۔ 
دونوں حضرات نے ان تینوں بزرگوں کے پاس حاضر ہو کر مشورہ کرنے کی ذمہ داری میرے سپرد کی اور میں نے حضرت مولانا سید حامد میاںؒ اور حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ کے نمائندے کے طور پر تینوں بزرگوں کے سامنے یہ سوال رکھا۔ اس پر تینوں بزرگوں کے جوابات مختلف تھے۔ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ نے جواب دیا کہ اگر جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ اس مفہوم کی قرارداد پاس کر دے تو پھر ہمارے پاس جماعت اسلامی کے ساتھ اختلاف باقی رکھنے کا کوئی شرعی اور اخلاقی جواز نہیں رہ جاتا۔ حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ نے ارشاد فرمایا کہ صرف اس مضمون کی قرارداد کافی نہیں ہوگی بلکہ جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کو مولانا مودودیؒ کی شخصیت کے بارے میں بھی اپنا موقف واضح کرنا ہوگا، جبکہ علامہ ڈاکٹر خالد محمود صاحب کا موقف یہ تھا کہ صرف قرارداد سے کام نہیں بنے گا، اس لیے کہ اصل اختلاف جماعت اسلامی کے دستور کی اس شق سے شروع ہوا تھا جس میں جماعت اسلامی کے رکن کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے کہ وہ رسول خدا کے سوا کسی کو معیار حق نہ سمجھے، کسی کو تنقید سے بالا تر نہ سمجھے اور کسی کی ذہنی غلامی میں مبتلا نہ ہو۔ اس پر حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ نے اعتراض کیا تھا کہ اس سے صحابہ کرامؓ کے معیار حق اور تنقید سے بالاتر ہونے کی نفی ہوتی ہے اور تقلید کی بھی نفی ہوتی ہے جو جمہور اہل سنت کے موقف سے انحراف ہے۔ اس سے اختلاف کا آغاز ہوا تھا، اس لیے اگر جماعت اسلامی اختلافات کو ختم کرنا چاہتی ہے تو اسے دستور کی اس شق میں علماء اہل سنت کے حسب منشا ترمیم کرنا ہوگی، ورنہ قرارداد کے بعد بھی اصل اختلاف جوں کا توں رہے گا۔ 
میں نے جب تینوں بزرگوں کے جوابات حضرت مولانا سید حامد میاںؒ اور حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ کو پہنچائے تو انہوں نے باہمی مشورہ سے علامہ ڈاکٹر خالد محمودؒ کے جواب کو زیادہ قرین قیاس قرار دیا اور مجھے یہ ذمہ داری سونپی کہ میں قاضی حسین احمد صاحب کو مل کر اس سے آگاہ کردوں۔ چنانچہ میں نے قاضی صاحب موصوف سے ملاقات کی اور انہیں یہ پیغام پہنچا دیا۔ قاضی صاحب نے فرمایا کہ مجلس شوریٰ میں قرارداد کی منظوری کی صورت تو میں کر سکتا ہوں، لیکن جماعتی دستور میں ترمیم کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ اس پر دونوں طرف سے خاموشی اختیار کر لی گئی۔ مگر تھوڑے عرصہ کے بعد قاضی حسین احمد صاحب جماعت اسلامی پاکستان کے امیر منتخب ہوگئے۔ یہ وہ دور تھا جب وہ متحدہ شریعت محاذ کے سیکرٹری جنرل تھے اور میں سیکرٹری اطلاعات تھا۔ گڑھی شاہو لاہور کے علامہ اقبالؒ روڈ پر ڈاکٹر اسرار احمد صاحب مرحوم کی تنظیم اسلامی پاکستان کے مرکزی دفتر میں متحدہ شریعت محاذ کی مرکزی کونسل کا اجلاس تھا۔ قاضی صاحب مرحوم جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہو چکے تھے، لیکن ابھی انہوں نے حلف نہیں اٹھایا تھا۔ اس اجلاس میں قاضی صاحب اور راقم الحروف ساتھ ساتھ بیٹھے تھے۔ میں نے انہیں جماعت کا امیر منتخب ہونے پر مبارک باد دی تو انہوں نے بے تکلفی سے میری ران پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا کہ اب تو میں ترمیم کی پوزیشن میں بھی آگیا ہوں، اب بات کرو! میں نے ہنستے ہوئے دل لگی کے انداز میں کہا کہ ’’رسم تاج پوشی کے بعد بات کریں گے‘‘۔ یعنی وہ جماعت اسلامی پاکستان کی امارت کا حلف اٹھا لیں تو اس کے بعد بات چلائیں گے۔ اس بات سے میں نے حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ اور حضرت مولانا سید حامد میاںؒ کو آگاہ کر دیا، لیکن اس سلسلہ میں اس کے بعد پھر کوئی بات کسی طرف سے بھی باضابطہ طور پر سامنے نہیں آئی اور یہ سارا قصہ تاریخ کی نذر ہوگیا۔ 
قاضی حسین احمد صاحبؒ کا خاندانی پس منظر جمعیۃ علماء ہند کا تھا۔ ان کے والد محترم حضرت مولانا قاضی عبد الرب صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ جمعیۃ علماء ہند کے صوبائی صدر تھے، دارالعلوم دیوبند کے فاضل تھے اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے شاگرد تھے۔ قاضی صاحبؒ کے بھائی مولانا عبد القدوسؒ بھی فاضل دیوبند تھے جو وفاقی شرعی عدالت کے جج رہے ہیں۔ قاضی صاحبؒ کا نام حسین احمد حضرت مدنیؒ کی نسبت سے رکھا گیا تھا اور قاضی صاحبؒ نے مجھے خود بتایا کہ وہ چھ سال کی عمر تک گفتگو نہیں کر سکتے تھے۔ ایک بار حضرت مدنیؒ ان کے گھر تشریف لائے تو ان کے والد محترمؒ نے حضرت مدنیؒ سے دعا اور دم کرنے کی درخواست کی۔ حضرت مدنیؒ نے دم کیا، دعا فرمائی اور قاضی حسین احمد صاحب کے منہ میں لعاب ڈالا۔ قاضی صاحب کہتے تھے کہ اس کے بعد میں نے بولنا شروع کر دیا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ میں حضرت مدنیؒ کی زندہ کرامت ہوں۔ 
اس سلسلہ میں ایک لطیفے کی بات یہ ہے کہ قاضی صاحب جب جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہوئے تو ان دنوں میں امریکہ گیا۔ وہاں میرے میزبان جماعت اسلامی کے ایک معروف راہ نما تھے۔ ان کے والد محترم بھی عالم دین تھے۔ وہ نیویارک کے جان ایف کینیڈی ایئرپورٹ پر مجھے لینے کے لیے آئے تو آمنا سامنا ہوتے ہی انہوں نے مجھے مبارک باد دی کہ مبارک ہو، جماعت اسلامی پر جمعیۃ علماء اسلام نے قبضہ کر لیا ہے۔ انہوں نے یہ بات اگرچہ دل لگی کے طور پر کہی تھی، مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ دوسری دینی جماعتوں کے ساتھ جماعت اسلامی کے مخصوص داخلی ماحول کی وجہ سے پیدا ہونے والے بُعد کو کم کرنے اور مل جل کر کام کرنے کا کھلا ماحول قائم کرنے میں قاضی صاحب مرحوم کا کردار بہت نمایاں رہا ہے۔
قاضی صاحب ملک میں نفاذ اسلام اور دیگر دینی و قومی تحریکات کے لیے دینی جماعتوں اور مختلف مکاتب فکر کے درمیان مشترکہ جدوجہد کی راہ ہموار کرنے میں ہمیشہ متحرک رہتے تھے۔ ان میں بات سننے کا حوصلہ تھا، اس لیے ہم ان سے بعض نازک معاملات پر بھی بے تکلفی سے بات کر لیا کرتے تھے۔ جن دنوں قاضی صاحبؒ کا لندن میں دل کا بائی پاس آپریشن ہوا، میں لندن میں تھا، ان کی بیمار پرسی کے لیے حاضر ہوا تو وہاں مجلس میں افغانستان کی خانہ جنگی زیر بحث تھی۔ ان دنوں انجینئر گلبدین حکمت یار اور انجینئر احمد شاہ مسعود کے دھڑوں میں سخت جنگ ہو رہی تھی۔ پروفیسر برہان الدین ربانی افغانستان کے صدر تھے۔ ان کے ساتھ انجینئر گلبدین حکمت یار کو وزیر اعظم بنایا گیا تھا، لیکن انہوں نے وزارت عظمیٰ قبول نہیں کی اور ان دونوں دھڑوں کے درمیان جنگ نے بہت تباہی پھیلائی۔ طالبان اسی خانہ جنگی کے رد عمل میں سامنے آئے تھے۔ میں نے اس مجلس میں قاضی صاحب مرحوم سے کہا کہ انجینئر حکمت یار اور پروفیسر ربانی کے درمیان ہونے والی خانہ جنگی کے مسلسل جاری رہنے کے ذمہ دار آپ ہیں۔ قاضی صاحب تھوڑے سے پریشانی ہوئے اور پوچھا وہ کیسے؟ میں نے کہا کہ یہ دونوں آپ کے سیاسی حلقہ کے لوگ ہیں، سیاسی فکر کے حوالہ سے دونوں کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے، آپ کو کس نے مشورہ دیا تھا کہ آپ گلبدین حکمت یار کے ساتھ فریق بن کر کھڑے ہو جائیں؟ آپ ہی ان میں صلح کرانے کی پوزیشن میں تھے، لیکن آپ نے حکمت یار کے حق میں فریق بن کر خود کو جانبدار بنا لیا ہے، اس لیے اب کون ان میں صلح کرائے گا؟ یہ بات سن کر قاضی صاحبؒ تو خاموش ہوگئے، لیکن مجلس کے دوسرے حضرات نے میری بات کی تائید کی۔ 
قاضی حسین احمدؒ ایک فکرمند، حوصلہ مند اور دردِ دل سے بہرہ ور راہ نما تھے، ان کی جدائی ہم سب کے لیے صدمہ کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں جگہ دیں اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔

مولانا عبد الستار تونسویؒ 

حضرت مولانا عبد الستار تونسویؒ بھی چل بسے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ابھی دو ہفتے قبل وہ گوجرانوالہ تشریف لائے تھے۔ ایک پروگرام میں شریک ہونے کے بعد جامعہ نصرۃ العلوم میں آرام فرمایا۔ میں صبح اسباق کے لیے مدرسہ میں پہنچا تو طلبہ نے بتایا کہ حضرت تونسویؒ صاحب تشریف لائے ہوئے ہیں اور مہمان خانے میں آرام فرما رہے ہیں۔ اسباق سے فارغ ہو کر میں مہمان خانے میں گیا تو وہ لحاف اوڑھے لیٹے ہوئے تھے مگر جاگ رہے تھے۔ میں نے سلام عرض کیا، مصافحہ کیا اور دعا کی درخواست کر کے واپس پلٹ گیا تاکہ ان کے آرام میں زیادہ خلل نہ آئے۔ دورہ حدیث کے طلبہ نے فرمائش کی کہ حضرت تونسوی صاحبؒ انہیں اپنی سند کے ساتھ حدیث روایت کرنے کی اجازت مرحمت فرما دیں۔ میں نے مولانا حاجی فیاض خان سواتی سے کہا کہ وہ مناسب موقع دیکھ کر حضرتؒ سے درخواست کردیں اور گھر واپس آگیا۔ یہ معلوم ہوتا کہ یہ حضرت تونسویؒ سے میری آخری ملاقات ہے تو شاید انہیں کچھ دیر کے لیے بے آرام بھی کر لیتا، مگر یہ علم اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے پاس ہی رکھا ہے کہ کس کی زندگی نے کب اور کہاں اس کا ساتھ چھوڑ جانا ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں۔
حضرت علامہ عبد الستار تونسویؒ کی زیارت پہلی بار غالباً طالب علمی کے دور میں قلعہ دیدار سنگھ کی مدینہ مسجد کے سالانہ اجلاس میں ہوئی تھی جہاں وہ اور ’’تنظیم اہل سنت‘‘ کے دیگر قائدین حضرت مولانا دوست محمد قریشیؒ ، حضرت مولانا قائم الدین عباسیؒ اور دیگر حضرات تشریف لایا کرتے تھے۔ اس کے بعد گزشتہ نصف صدی کے دوران متعدد مجالس اور پبلک جلسوں میں ان سے ملاقات رہی۔ مختلف تحریکات میں ان کے ساتھ شریک ہونے کا موقع ملا اور بہت سے مواقع پر ان سے استفادہ کی سعادت حاصل ہوئی۔ وہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ اور امام اہل سنت حضرت مولانا عبد الشکورلکھنویؒ کے ممتاز شاگردوں میں سے تھے۔ اہل سنت کے عقائد و مسلک کے تحفظ اور حضرات صحابہ کرامؓ کے ناموس و وقار کی سربلندی کے لیے حضرت مولانا عبد الشکور لکھنویؒ کی جدوجہد اور خدمات اس حوالہ سے تاریخ کے ایک مستقل باب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ انہوں نے لکھنو میں بیٹھ کر جو ہمیشہ اہل تشیع کا گڑھ رہا ہے، اہل سنت کے عقائد کا پرچار کیا، حضرات صحابہ کرامؓ کی عزت و ناموس کا پرچم بلند کیا، سنی مسلمانوں کے حقوق و مفادات کا تحفظ کیا اور اس مشن کے لیے برصغیر کے طول و عرض سے تعلق رکھنے والے ہزاروں علماء کرام کی تربیت کر کے انہیں تیار کیا۔ میرے چچا محترم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ بھی حضرت لکھنویؒ کے شاگردوں میں سے ہیں بلکہ ان کی وساطت سے ہماری سند حدیث ’’علماء فرنگی محل‘‘ کے ساتھ متصل ہو جاتی ہے۔ 
پاکستان بننے کے بعد جن علماء کرام نے حضرت مولانا عبد الشکور لکھنویؒ کے اس مشن کو ان کے سکھائے ہوئے طرز اور اسلوب کے مطابق سنبھالا اور مسلسل محنت کر کے اسے ایک مستقل تحریک کی حیثیت دی ان میں حضرت مولانا عبدالستار تونسویؒ ، حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ ، حضرت مولانا عبد اللطیف جہلمیؒ ، حضرت مولانا دوست محمد قریشیؒ ، حضرت مولانا سید نور الحسن شاہ بخاریؒ ، حضرت مولانا قائم الدین عباسیؒ ، حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود مدظلہ اور حضرت مولانا عبد الحئی جام پوریؒ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے ملتان میں تنظیم اہل سنت کے عنوان سے مرکز قائم کیا۔ ایک دور میں ’’دعوت‘‘ کے نام سے تنظیم اہل سنت کا مستقل جریدہ حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود مدظلہ کی ادارت میں شائع ہوتا رہا ہے جس نے اس مشن اور محاذ کے لیے دینی مدارس کے اساتذہ و طلبہ کی ذہن سازی میں اہم کردار ادا کیا۔ سرکردہ علماء کرام کے اس عظیم قافلہ کے ساتھ اس محاذ کے ایک اور عظیم مجاہد سردار احمد خان پتافیؒ اور ان کے علاوہ شاعر اہل سنت خان محمد کمتر مرحوم کا تذکرہ نہ کرنا نا انصافی کی بات ہوگی جن کی خدمات اس حوالہ سے بہت نمایاں ہیں۔ 
حضرت مولانا عبد الستار تونسویؒ کے تین بڑے محاذ تھے، وہ اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان اختلافی مسائل پر مباحثہ کے لیے اپنے وقت کے سب سے بڑے سنی مناظر تھے اور انہوں نے اس محاذ پر بڑے بڑے معرکے سر کیے ہیں۔ وہ پبلک جلسوں میں ناموس صحابہؓ اور عقائد اہل سنت کے اثبات و دفاع میں ایک کامیاب خطیب تھے جن کے محققانہ خطبات ہزاروں لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بنے ہیں اور دینی مدارس کے اساتذہ و طلبہ کو سنی شیعہ تنازعات پر مناظرہ کی تیاری کرانا اور سنی کاز کے لیے محنت کرنے کی تربیت دینا ان کا خصوصی مشغلہ تھا جس میں وہ نصف صدی سے زیادہ عرصہ تک مصروف رہے ہیں اور ان کے تربیت یافتہ ہزاروں علماء کرام نہ صرف پاکستان بلکہ بہت سے دوسرے ممالک میں بھی خدمات سر انجام دینے میں مصروف ہیں۔ 
ان کا سیاسی تعلق ہمیشہ جمعیۃ علماء اسلام کے ساتھ رہا ہے اور حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ ، حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ ، حضرت مولانا مفتی محمودؒ ، حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ اور دیگر اکابر جمعیۃ کے ساتھ ان کا مسلسل ربط و تعلق تھا۔ انہوں نے اپنے محاذ اور مشن کے ساتھ ساتھ تحریک تحفظ ختم نبوت، تحریک نفاذ شریعت، تحریک تحفظ ناموس رسالتؐ اور دیگر دینی تحریکات میں بھی متحرک کردار ادا کیا اور ان تحریکوں کی بھرپور سرپرستی کی۔ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ کے ساتھ ان کا گہرا تعلق تھا اور ان بزرگوں کی باہمی محبت و شفقت کے بہت سے مناظر نگاہوں کے سامنے گھوم رہے ہیں۔ 
حضرت مولانا عبد الشکور لکھنویؒ کا تربیت یافتہ یہ قافلہ ایک ایک کر کے ہم سے جدا ہوگیا ہے اور ان کے اسلوب و طرز کے حوالہ سے پیدا ہونے والا یہ عظیم خلا ہم جیسے حساس کارکنوں کو زندگی بھر پریشان کرتا رہے گا۔ ان میں سے اب صرف حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود مدظلہ حیات ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں صحت و عافیت کے ساتھ تادیر سلامت رکھیں اور حضرت تونسویؒ کی خدمات کو قبولیت سے نوازتے ہوئے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔ 

مولانا محمد اشرف ہمدانی ؒ 

۱۶ جنوری کو صبح نماز فجر کے بعد درس سے فارغ ہوا تھا کہ ڈاکٹر حامد اشرف ہمدانی نے فون پر بتایا کہ ان کے والد محترم مولانا محمد اشرف ہمدانیؒ کا فیصل آباد میں انتقال ہوگیا ہے۔ زبان پر بے ساختہ انا للہ وانا الیہ راجعون جاری ہوا اور ڈاکٹر صاحب موصوف سے تعزیت و تسلی کے چند کلمات کہے، مگر جنازے میں شریک نہ ہو سکا۔ 
مولانا محمد اشرف ہمدانیؒ کے ساتھ میرا پرانا تعلق تھا، وہ اس زمانے میں گوجرانوالہ کی پل لکڑ والا کی مسجد میں خطیب و امام تھے جب ہم نے گوجرانوالہ میں جمعیۃ علماء اسلام کی رکنیت سازی اور تنظیم کا کام شروع کیا تھا۔ میرا وہ طالب علمی کا آخری دور تھا اور ہمیں اس محنت میں مولانا محمد اشرف ہمدانیؒ کا بھرپور تعاون حاصل تھا۔ وہ اپنے دور کے ممتاز خطباء میں شمار ہوتے تھے اور ان کے خطبات جمعہ اور دروس گوجرانوالہ میں اور پھر فیصل آباد میں عام لوگوں کے لیے کشش اور استفادے کا ذریعہ ہوا کرتے تھے۔ میرا ان سے رابطہ شیرانوالہ لاہور کے حوالہ سے بھی تھا کہ وہ بھی میری طرح شیخ مکرم حضرت مولانا عبید اللہ انور قدس اللہ سرہ العزیز سے ادارت و عقیدت کا تعلق رکھتے تھے اور شیرانوالہ لاہور کی حاضری میں ہمارا اکثر ساتھ رہتا تھا۔
گوجرانوالہ میں چند سال خطابت کے جوہر دکھا کر وہ فیصل آباد چلے گئے اور جناح کالونی کی مرکزی جامع مسجد میں بطور خطیب خدمات سر انجام دینا شروع کیں، ان کی خطابت نے فیصل آباد میں اپنا رنگ جمایا اور دیوبندی مسلک کی ترجمانی اور ترویج کی جدوجہد میں حضرت مولانا مفتی زین العابدین، حضرت مولانا تاج محمودؒ اور حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ کے ساتھ ان کا نام بھی نمایاں ہوتا چلا گیا۔ تحریک ختم نبوت ان کا خصوصی میدان تھا، چنانچہ انہوں نے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے فورم پر نہ صرف اس محاذ پر مسلسل خدمات سر انجام دیں بلکہ ۱۹۷۳ء میں قادیانیوں کو دستوری طور پر غیر مسلم قرار دیے جانے کے بعد چناب نگر (ربوہ) میں قادیانیوں کی آبادی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو آباد کرانے، مسلم کالونی کی ترقی اور وہاں ختم نبوت کی مسجد و مرکز کی تعمیر میں متحرک کردار ادا کیا اور فیصل آباد کے علماء کرام اور تاجران کو اس اہم کام کی طرف متوجہ کرنے کے لیے حضرت مولانا تاج محمودؒ اور حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ کے ساتھ ان کے دست و بازو کے طور پر محنت کی۔ جناح کالونی کی مرکزی جامع مسجد سے الگ ہونے کے بعد انہوں نے ملت ٹاؤن میں جامع مسجد آمنہ اور اس کے ساتھ روحانی خانقاہ کا نظام قائم کرنے میں اپنی صلاحیتیں صرف کیں اور بہت سے لوگوں کے عقائد کی اصلاح اور دینی و روحانی تربیت کا ذریعہ بنے۔
شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ اور شیخ القرآن حضرت مولانا غلام اللہ خانؒ کے ساتھ خصوصی عقیدت رکھتے تھے اور ان کی گفتگو و خطابت میں ان بزرگوں کے فیوض کا اکثر تذکرہ رہتا تھا، والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے ساتھ بھی ان کا مسلسل ربط و تعلق رہا اور وہ ان کے خوشہ چینوں میں شمار ہوتے تھے۔ چند ہفتے قبل حافظ ریاض احمد قادری کے ہمراہ حاضر ہوا، بستر علالت پر تھے، ضعف کا غلبہ تھا مگر بذلہ سنجی اسی طرح تھی جیسے جوانی کے زمانے میں ہوا کرتی تھی، کھلے مزاج اور بے تکلفانہ گفتگو کے عادی تھے۔ اس روز بھی کھلے مزاج کے ساتھ اور کھلے ماحول میں بہت سی باتیں کیں، لطیفے بھی ہوئے اور چٹکلے بھی سنائے۔ مجھے خوشی ہوئی کہ بیماری اور ضعف نے ان کے مزاج کو متاثر نہیں کیا۔ وہ کم و بیش پچھتر برس کی زندگی گزار کر اپنے خالق حقیقی کے حضور پیش ہوگئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مولانا ہمدانی رحمہ اللہ تعالیٰ کو جنت الفردوس میں جگہ دیں اور پسماندگان کو ان کی حسنات جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔

اسلامی نظام کی جدوجہد اور اس کی حکمت عملی

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ہمارے ہاں پاکستان کی معروضی صورت حال میں نفاذِ اسلام کے حوالہ سے دو ذہن پائے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ سیاسی عمل اور پارلیمانی قوت کے ذریعہ اسلام نافذ ہو جائے گا اور دوسرا یہ کہ ہتھیار اٹھائے بغیر اور مقتدر قوتوں سے جنگ لڑے بغیر اسلام کا نفاذ ممکن نہیں ہے۔ ایک طرف صرف پارلیمانی قوت پر انحصار کیا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف ہتھیار اٹھا کر عسکری قوت کے ذریعہ مقتدر قوتوں سے جنگ لڑنے کو ضروری قرار دیا جا رہا ہے۔ میری طالب علمانہ رائے میں یہ دونوں طریقے ٹھیک نہیں ہیں۔ صرف الیکشن، جمہوریت اور پارلیمانی قوت کے ذریعہ نفاذ اسلام اس ملک میں موجودہ حالات میں ممکن نہیں ہے اور ہتھیار اٹھا کر حکمران طبقات کے ساتھ جنگ کرنا اس کے شرعی جواز یا عدم جواز کی بحث سے قطع نظر بھی عملاً موثر اور نتیجہ خیز نہیں ہے۔ یہ بحث اپنی جگہ ہے کہ کسی مسلم ریاست میں مسلمان حکمرانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی شرائط فقہاء کرامؒ نے کیا بیان کی ہیں اور خاص طور پر جمہور فقہائے احناف کا موقف اس سلسلہ میں کیا ہے۔ لیکن اس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کیا عسکری گروپوں کے لیے ملک کی فوج اور اسٹیبلشمنٹ سے جنگ لڑ کر کوئی علاقہ حاصل کر لینا اور اس پر قبضہ برقرار رکھ کر اس میں کوئی نظام نافذ کر لینا ممکن بھی ہے؟ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی ہوش مند شخص اس سوال کا جواب اثبات میں دے گا، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اس سلسلہ میں جدوجہد کے طریق کار کی حد تک ایران کے تجربہ سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ایران کی مذہبی قیادت نے شاہ ایران کی قیادت سے انحراف کر کے یونیورسٹیوں اور کالجوں کو ذہن سازی اور فکری بیداری کی جولانگاہ بنایا، مسلسل سترہ برس تک محنت کے ذریعے اگلی نسل کو اس کے لیے تیار کر کے اسے اپنی قوت بنایا اور اس قوت کے ذریعہ ہتھیار اٹھائے بغیر سٹریٹ پاور اور تحریکی قوت کے نتیجے میں شاہ ایران کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔
میں ایرانیوں کے مذہب کی نہیں بلکہ ان کی جدوجہد کے طریق کار کی بات کر رہا ہوں کہ ان کے کامیاب تجربہ کو سامنے رکھ کر کیا ہم اپنی جدوجہد کا طریق کار طے نہیں کر سکتے؟ اگر کچھ دوستوں کو یہ حوالہ میرے قلم سے پسند نہ آرہا ہو تو میں امریکہ کے سیاہ فاموں کی اس جدوجہد کا حوالہ دینا چاہوں گا جو اب سے صرف پون صدی قبل کالوں کو گوروں کے برابر شہری حقوق دلوانے کے لیے منظم کی گئی تھی، ایک مذہبی لیڈر مارٹن لوتھر کنگ نے سیاہ فاموں کی سٹریٹ پاور کو کو منظم کیا، پرُ امن احتجاجی تحریک کو آگے بڑھایا اور صرف دو عشروں میں ایک گولی چلائے بغیر ۱۹۶۴ء میں اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی سے سیاہ فام آبادی کے لیے سفید فاموں کے برابر شہری حقوق کی دستاویز پر دستخط کرانے میں کامیاب ہوگیا۔ 
میں نے دونوں تحریکوں کا مطالعہ کیا ہے، دونوں کے کے مراکز میں گیا ہوں، ان کے راہ نماؤں سے ملاقاتیں کی ہیں اور ان کی جدوجہد کے مختلف مراحل سے واقف ہوں، میں افغانستان بھی گیا ہوں، بار بار گیا ہوں، روسی استعمار کے خلاف جہاد میں مختلف جنگی محاذوں پر حاضری دی ہے، افغان مجاہدین کی روسی استعمار کے خلاف جنگ کو جہاد سمجھ کر اس میں شریک ہوا ہوں، امریکی استعمار کے خلاف ان کی جنگ کو بھی جہاد سمجھتا ہوں اور حتی الوسع اسے سپورٹ کرتا ہوں، لیکن پورے شرح صدر اور دیانت داری کے ساتھ یہ سمجھتا ہوں کہ دینی تصلب اور حمیت و غیرت میں تو بلاشبہ افغان مجاہدین اور افغان طالبان ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں لیکن نفاذ اسلام کی جدوجہد کے طریق کار کے حوالہ سے ہمیں ایران کی مذہبی تحریک کا مطالعہ کرنا ہوگا اور مارٹن لوتھر کنگ کی تحریک سے واقفیت حاصل کرنا ہوگی۔ اگر پُر امن عوامی تحریک اور رائے عامہ کی منظم قوت کے ذریعہ ’’امامت‘‘ کو دستوری شکل دے کر اسے نافذ کیا جا سکتا ہے تو ’’خلافت‘‘ کے احیاء و قیام کے لیے یہ قوت آخر کیوں کام میں نہیں لائی جا سکتی؟

جزا و عذاب قبر کی قرآنی بنیادیں

محمد زاہد صدیق مغل

موجودہ دور میں انکار و تخفیف سنت مختلف پیراؤں میں جلوہ گر ہوتی ہے جس کی ایک شکل یہ اصول اختیار کرنا ہے کہ حدیث و سنت کی بنیاد پر کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوسکتا۔ چند روز قبل راقم کو اسی قسم کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا جب ہمارے ایک عزیز نے دوران گفتگو یہ سوال کردیا کہ جناب، یہ عذاب قبر کا جو تصور ہمارے ہاں رائج ہے، اس کی شرعی بنیاد کیا ہے؟ سوال فی البدیہہ تھا، لہٰذا راقم نے چند احادیث کا حوالہ پیش کردیا، لیکن چونکہ آج کل تخفیف حدیث کی وبا عام ہے، لہٰذا جھٹ سے کہنے لگے کہ ’ قرآن میں کہاں ہے؟‘ جب ان صاحب کے استدلال کا تجزیہ کیا تو ان کی بنیادیں درج ذیل نظری مقدمات پر قائم تھیں: 
  • اس قسم کا کوئی تصور واضح طور پر قرآن مجید میں موجود نہیں۔
  • قرآن کے مطابق جزا و سزا کا فیصلہ روز آخرت میں ہوگا، لہٰذا حساب و کتاب سے قبل قبر میں عذاب دینا نہ صرف یہ کہ خلاف عقل و عدل ہے بلکہ یہ ’پنجاب پولیس‘ سے متاثر شدہ تصور ہے جو عدالت کے فیصلے سے قبل ہی ملزم کو زدو کوب کرنے لگتی ہے ۔
زیر بحث موضوع پر جب گفتگو کا دائرہ وسیع ہوا تو یہ بات واضح ہوئی کہ اس موضوع پر کوئی رائے قائم کرنے کے لیے تین سوالوں پر غور کرنا ضروری ہے : 
۱) اللہ تعالیٰ کے وضع کردہ جزا و سزا کے اصول کا دائرہ کار کیا ہے؟ کیا اس کا اطلاق صرف آخرت کے ساتھ مخصوص ہے؟ 
۲) کیا از روئے قرآن اس زندگی کی موت اور یوم آخرت کے درمیان (یعنی برزخ میں) کسی شعوری زندگی کا تصور موجود ہے؟ 
۳) کیا قرآن اس برزخ کی زندگی میں کسی قسم کی جزا و سزا کا تصور پیش کرتا ہے؟ 
اگر ان تینوں سوالات کا جواب اثبات میں ہو تو وہ تمام احادیث جن میں عذاب قبر کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں، انہیں ماننے میں کوئی مانع (سوائے ہٹ دھرمی کے) باقی نہیں رہ جاتا۔ اہمیت موضوع کے سبب (کہ یہ معاملات ایمان میں سے ہے)، ذیل میں ان تینوں سوالات پر ہونے والی گفتگو کا خلاصہ قارئین کے پیش نظر ہے۔ 

۱) قرآن کے قانون جزا و سزا کا اطلاق 

قرآن مجید کا محض سرسری مطالعہ ہی یہ بات واضح کردیتا ہے کہ اللہ تعالی کا وضع کردہ تصور جزا و سزا آخرت کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ اس کا اطلاق عالم برزخ تو کیا اس دنیا میں بھی جاری و ساری ہے۔ چنانچہ قرآن اپنے قاری کے سامنے یہ تصور بارہا اجاگر کرتا ہے کہ اس دنیا میں آنے والی تمام تکالیف و مصیبتیں یا تو بطور آزمائش ہوتی ہیں اور یا پھر انسان کے اپنے کرتوتوں کا ثمر۔ اس مقدمے پر درج ذیل قرآنی آیت بطور مثال پیش کی جا سکتی ہے: 
وَمَا أَصَابَکُم مِّن مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْ عَنْ کَثِیْرٍ (الشوریٰ: ۳۰)
’’جو مصیبت تمہیں پہنچتی ہے وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی کے سبب ہی پہنچتی ہے، جبکہ وہ (کریم رب) تمہارے بہت سے کرتوتوں سے درگزر فرمادیتا ہے‘‘ ۔
گویا اللہ تعالیٰ اس دنیا میں انسانوں کو انکی بد اعمالیوں کی سزا کا مزہ مصیبتوں کی صورت میں بھی چکھا دیتا ہے جبکہ اپنے لطف و کرم کی وجہ سے اکثر گناہوں سے در گزر سے بھی کام لیتا ہے۔ 
یہودیوں کے بارے میں قرآن یہ اعلان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت فرمائی، دنیا کی زندگی میں ان کے لیے ذلت مسلط کردی، ان کے دلوں کو سخت کردیا وغیرہ۔ (یہ تمام تفصیلات سورۃ بقرۃ، آل عمران، نساء و مائدۃ میں تفصیل کے ساتھ دیکھی جاسکتی ہیں)۔ ان تمام سزاؤں کی واحد وجہ قرآن نے ان کی بد اعمالیوں کو قرار دیا، یعنی: 
ذَلِکَ بِمَا عَصَوا وَّکَانُوا یَعْتَدُونَ (البقرۃ : ۶۱) 
’’یہ سب کچھ اس وجہ سے تھا کہ وہ نا فرمان تھے اور (اللہ کی مقرر کردہ) حد وں سے تجاوز کیا کرتے تھے ‘‘۔
یہودو نصاریٰ کی اس غلط فہمی کو کہ ’چونکہ وہ اللہ کی چہیتی مخلوق ہیں لہٰذاسزا سے بری ہیں‘ قرآن یوں رد فرماتا ہے: 
وَقَالَتِ الْیَہُودُ وَالنَّصَارَی نَحْنُ أَبْنَاءُ اللّٰہِ وَأَحِبَّاؤُہُ قُلْ فَلِمَ یُعَذِّبُکُم بِذُنُوبِکُم (المائدۃ :۱۸) 
’’یہود اور نصاری نے کہا ہم اللہ کی اولاد اور اس کے محبوب ہیں، آپ فرما دیجئے: (اگر تمہاری بات سچ ہے) تو وہ تمہارے گناہوں کی وجہ سے تمہیں عذاب کیوں دیتا ہے ؟‘‘ 
یہ آیت واضح طور پر دنیا میں عذاب بسبب گناہ کا اثبات کررہی ہے۔ نیز قران میں بے شمار اقوام (مثلاً عاد، ثمود وغیرہم) پر ان کے گناہوں کے سبب دنیا میں ہی سزا کا کوڑا برسنے کا ذکر موجود ہے۔ 
قرآن یہ حقیقت بھی عیاں کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی نا فرمانی نیز حق کے انکار کی سزا سلب توفیق اور دلوں پر زنگ لگ جانے کی صورت میں ملتی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: 
إِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَیْْہِمْ أَأَنذَرْتَہُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْہُمْ لاَ یُؤْمِنُونَ، خَتَمَ اللّٰہُ عَلَی قُلُوبِہمْ وَعَلَی سَمْعِہِمْ، وَعَلَی أَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃٌ (البقرۃ: ۵، ۶)
’’بے شک جنہوں نے کفر (کی روش کو) اپنا لیا ہے انکے لیے برابر ہے کہ آپ انہیں خبردار کریں یا نہ کریں، وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ (وہ اس لیے کہ) اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگادی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ (پڑ گیا) ہے‘‘ ۔
دلوں کا یوں زنگ آلود ہوجانا کہ حق اس پر اثر ہی نہ کرسکے بلا وجہ ہی نہیں بلکہ بد اعمالیوں کے سبب ہوا کرتا ہے: 
بَلْ رَانَ عَلَی قُلُوبِہِم مَّا کَانُوا یَکْسِبُونَ (المطففین: ۱۴)
’’بات اصل میں یہ ہے کہ ان کے دلوں پر ان اعمال بد کا رنگ چڑھ گیا ہے جو وہ کیا کرتے تھے‘‘ ۔
حق سے اغماض کی سزا درج ذیل صورتوں میں بھی نکلتی ہے: 
وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَإِنَّ لَہُ مَعِیْشَۃً ضَنکاً (طہ: ۱۲۴)
’’جس نے میرے ذکر سے منہ موڑا تو اس کے لیے دنیاوی معاش قلیل (scarce) کردیا جاتا ہے‘‘ ۔
وَمَن یَعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَہُ شَیْْطَاناً فَہُوَ لَہُ قَرِیْنٌ (الزخرف :۳۶)
’’جو شخص رحمان کے ذکر سے صرف نظر کرلے تو ہم اس کے لیے ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں جو ہر وقت اس کے ساتھ جڑا رہتا ہے‘‘ 
قرآن مجید بد اعمالیوں کے نتیجے میں یک طرفہ طور پر صرف سزا ہی نہیں بلکہ اس دنیا میں نیک اعمال کی مثبت جزا کا تصور بھی پیش کرتا ہے۔ مثلاً خوف و حزن کی کیفیت سے نجات یوم آخرت کے عظیم ترین احسانوں میں سے ایک ہے، لیکن سنیے، قرآن اس بارے میں کیا کہتا ہے: 
إِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَیْْہِمُ الْمَلَاءِکَۃُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنتُمْ تُوعَدُونَ، نَحْنُ أَوْلِیَاؤُکُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَۃِ (حم السجدۃ : ۲۰۔۲۱)
’’بے شک جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے پھر وہ اس پر ڈٹ گئے تو ان پر فرشتے اترتے ہیں (جو ان سے کہتے ہیں) کہ تم خوف نہ کرو اور نہ غم کرو، اور تم (اس ) جنت کی خوشیاں مناؤجس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست ہیں اور آخرت میں بھی‘‘۔
یعنی اس احسان عظیم کی کیفیات محض آخرت میں نہیں بلکہ نیک ارواح اس دنیا میں بھی محسوس کرتے ہیں۔ راہ راست اختیار کرنے والوں کے لیے اللہ کیسے خفیہ انتظامات کرتا ہے، اس آیت میں پڑھیے : 
وَمَن یَتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَل لَّہُ مَخْرَجاً وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْْثُ لَا یَحْتَسِبُ (الطلاق: ۲، ۳)
’’جو کوئی خدا خوفی (کی راہ پر چلتا) ہے تو اللہ اس کے لیے راستے کھول دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا‘‘ ۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا اہل ایمان سے یہ وعدہ ہے کہ اگر وہ ایمان کی راہوں پر گامزن رہیں گے تو نہ صرف یہ کہ اس دنیا میں انہیں خلافت ارضی عطا کی جائے گی (النور ۵۵) بلکہ وہی غالب بھی رہیں گے۔ (آل عمران ۱۳۹، نساء ۱۷۱)۔ 
یہ چند آیات بطور نمونہ پیش کی گئی ہیں، ورنہ اس مقدمے (کہ جزا و سزا کا قانون اس دنیا میں بھی لاگو ہے) پر دیگر بہت سی آیات قرآنی دال ہیں۔ 
اس موقع پر ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر جزاو سزا کا قانون اس دنیا میں بھی لاگو ہے تو آخرت میں حساب وکتاب نیز جزا و سزا کا کیا مطلب؟ قرآن مجید نے آخرت میں ملنے والی جزا و سزا کے بارے میں یہ تصور پیش کیا ہے کہ اس دن ہر شخص کو ’پورا پورا‘ اجر مل جائے گا۔ چنانچہ اس دن کے اجر کے بارے میں سے قرآن نے لفظ ’وفی یوفی‘ استعمال کیا ہے جس کا مطلب ’پورا پورا لینا یا دینا‘ ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: 
کُلُّ نَفْسٍ ذَآءِقَۃُ الْمَوْتِ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ (آل عمران : ۱۸۵)
’’ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور تمہارے اجر پورے کے پورے تو قیامت کے دن ہی دیے جائیں گے‘‘ 
(لفظ ’انما‘ چونکہ حصر کا تقاضا کرتا ہے اسی لیے درج بالا آیت کے ترجمے میں اس کا خیال رکھا گیا ہے)۔ اسی طرح ارشاد ہوا: 
فَکَیْْفَ إِذَا جَمَعْنَاہُمْ لِیَوْمٍ لاَّ رَیْْبَ فِیْہِ وَوُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَہُمْ لاَ یُظْلَمُونَ (آل عمران: ۲۵)
’’سو کیا حال ہوگا ان کا جب ہم انہیں جمع کریں گے اس دن جس (کے برپا ہونے ) میں کوئی شک نہیں اور ہر شخص کو جو اس نے کمایا ہے اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا ‘‘ ۔
یہی تصور آل عمران: ۵۷ نیز نساء: ۱۷۳ میں بھی پیش کیا گیا ہے۔ یعنی چونکہ اس عالم فانی میں کار فرما طبعی و اخلاقی قوانین کی محدودیت کی وجہ سے یہاں انسان کے اعمال کا پورا بدلہ دینا ممکن نہیں، لہٰذا اس کے لیے موت کے بعد ایک دوسری دنیا برپا کی جانے والی ہے (مثلاً جس شخص نے سو قتل کیے ہوں، اسے اس دنیا میں سو بار قتل کرنا ناممکن ہے) جہاں ہر شخص کو اس کے عمل کا پورا پورا بدلہ مل سکے گا تاکہ کسی پر ظلم نہ ہوسکے۔ 
درج بالا بحث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ مالک و مختار ہے، وہ جب اور جہاں چاہے اپنے بندے کو جزا یا سزا دے سکتاہے۔ نیز اس کا قانون اجر آخرت کے ساتھ مخصوص نہیں۔ لہٰذا ہمارے ناقدین کا یہ اعتراض کہ ’عذاب قبر خلاف عدل اور پنجاب پولیس سے اخذ کردہ تصور ہے‘ اپنے آپ رد ہوجاتاہے۔ اب آئیے دوسرے نکتے کی طرف۔ 

۲) عالم برزخ میں شعوری زندگی کا ثبوت 

قرآن مجید میں کئی مقامات پر ایسے قطعی قرائن موجود ہیں جن سے عالم برزخ میں نہ صرف یہ کہ ’محض‘ انسانی زندگی بلکہ ’شعوری ‘ زندگی کا تصور ثابت ہوتا ہے۔ عالم برزخ میں انسانی زندگی کا اشارہ اس آیت میں موجود ہے: 
کَیْْفَ تَکْفُرُونَ بِاللّٰہِ وَکُنتُمْ أَمْوَاتاً فَأَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ إِلَیْْہِ تُرْجَعُونَ (البقرۃ : ۲۸)
’’تم کیسے اللہ کا انکار (کرنے کی جسارت) کرتے ہو حالانکہ تم مردہ تھے۔ اس نے تمہیں زندگی بخشی، پھر تمہیں مارے گا، پھر تمہیں زندہ کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے‘‘ ۔
زیر مطالعہ آیت میں اس دنیاوی زندگی کی موت کے بعد جو حیات عطا ہوگی، وہ لوٹائے جانے سے قبل (یعنی عالم برزخ میں) ہوگی۔ نیز لفظ ثُمَّ کا استعمال بتا رہا ہے کہ یہ ’برزخی حیات‘ اور ’یوم آخرت کو اللہ کی طرف لوٹایا جانا ‘ دو الگ الگ واقعے ہیں جن میں زمانی مغایرت ہے۔ عالم برزخ میں زندگی کا ثبوت آیت شہداء میں بھی موجود ہے: 
وَلاَ تَقُولُوا لِمَنْ یُقْتَلُ فِیْ سَبیْلِ اللّٰہِ أَمْوَاتٌ، بَلْ أَحْیَاءٌ وَلَکِن لاَّ تَشْعُرُونَ (البقرۃ :۱۵۴)
’’جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ مت کہا کرو، (وہ مردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تم (ان کی زندگی کو) سمجھ نہیں سکتے‘‘ ۔
دوران بحث جب یہ آیت پیش کی گئی تو ہمارے عزیز نے عرض کیا کہ جناب یہاں حیات سے مراد معنوی حیات ہے، یعنی ’شہداء کی حیات کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگوں کے دلوں میں زندہ ہوتے ہیں یا یہ کہ اپنے نظریات و اعمال کی وجہ سے وہ معاشروں پر جو انمٹ اثرات چھوڑ جاتے ہیں، اسے حیات سے تعبیر کیا گیا ہے‘۔ مگر زیر مطالعہ آیت کے داخلی قرآئن کی رو سے اس میں بیان کردہ حیات کو معنوی حیات کہنا محل نظر ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شہدا کی حیات ایسی ہے کہ ’تم اس کا شعور نہیں رکھتے‘، جبکہ اس معنوی حیات کا شعور تو ہم رکھتے ہیں! یعنی اللہ تو کہہ رہا ہے کہ ہم شہدا کو ایسی زندگی دیتے ہیں جس کا تمہیں شعور نہیں، جبکہ آیت کو معنوی حیات پر محمول کرنے سے اس زندگی کا شعور ہمیں حاصل ہوجاتا ہے تو اللہ کا یہ فرمانا کہ ’تم اس کا شعور نہیں رکھتے‘ ایک بے معنی بات بن کر رہ جاتی ہے۔ 
عالم برزخ میں زندگی کے وجود پر مزید شرح صدر زیر بحث موضوع کے تیسرے نکتے سے بھی فراہم ہوگی۔ 

۳) عالم برزخ میں قانون جزا و سزاکا اطلاق 

اب آئیے اصل قابل نزع موضوع کی طرف یعنی کیا قرآن عالم برزخ میں جزا و سزا کے اطلاق کا کوئی تصور پیش کرتا ہے۔ فرض کریں کہ قرآن کی کوئی ایک آیت بھی اس مقدمے پر روشنی نہیں ڈالتی، تب بھی درج بالا بحث کے بعد یہ ماننا مشکل نہیں رہتا کہ اگر اللہ تعالیٰ اس دنیا کی زندگی میں انسانوں کو اعمال کا اجر دیتا ہے تو عالم برزخ میں ایسا کیوں نہیں کرسکتا؟ خصوصا کہ جب صحیح احادیث میں اسکا ثبوت بھی موجود ہو! اس قاعدے کے بعد اب آئیے قرآنی شواہد کی طرف۔ چنانچہ شہدا کے بارے میں ارشاد ہوا: 
وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَمْوَاتاً، بَلْ أَحْیَاءٌ عِندَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُونَ، فَرِحِیْنَ بِمَا آتَاہُمُ اللّٰہُ مِن فَضْلِہِ، وَیَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِیْنَ لَمْ یَلْحَقُوا بِہِم مِّنْ خَلْفِہِمْ أَلاَّ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُونَ، یَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَفَضْلٍ (آل عمران : ۱۶۹۔۱۷۱)
’’جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں، انہیں ہرگز مردہ خیال بھی مت کرنا، بلکہ وہ اپنے رب کے حضور زندہ ہیں اور رزق پارہے ہیں۔ جو نعمتیں اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا کررکھی ہیں، وہ ان پر شاداں ہیں، اور اپنے ان پچھلوں سے بھی جو (تاحال) ان سے نہیں مل سکے (انہیں راہ راست پر جان کر) خوش ہوتے ہیں کہ ان پر بھی نہ خوف ہوگا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے، وہ اللہ کی نعمت و فضل سے مسرور رہتے ہیں‘‘ ۔
اولاً، اس آیت کریمہ سے نہ صرف یہ کہ عالم برزخ کی حیات بلکہ شعوری حیات کا اثبات ہوتا ہے کیونکہ یہاں استبشار کے فاعل شہدا ہیں، یعنی جو خوش قسمت ان نعمتوں سے بہراور ہورہے ہیں انہیں اسکا پورا شعور ہے کہ یہ نعمتیں ہمارے رب کی عنایتیں ہیں ۔ دوسری بات یہ کہ اس آیت میں واضح طور پر عالم برزخ میں اجر ملنے کا تصور موجود ہے، کیونکہ یہ آیت حال کی خبردے رہی ہے نہ کہ قیامت کے کسی واقعے کی۔ 
عالم برزخ میں اجر و ثواب کا اشارہ سورۃ یس میں بیان کردہ اس شخص کے ذکر سے بھی ملتا ہے جسے کہا گیا: 
قِیْلَ ادْخُلِ الْجَنَّۃَ، قَالَ یَا لَیْْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُونَ بِمَا غَفَرَ لِیْ رَبِّیْ وَجَعَلَنِیْ مِنَ الْمُکْرَمِیْنَ (یس ۲۷۔۲۶)
’’اسے کہا گیا جا جنت میں داخل ہوجا، وہ بولا کاش میری قوم جان سکتی کہ میرے رب نے کس چیز کے سبب مجھے بخش دیا اور مجھے عزت والوں میں شامل کیا‘‘ ۔
یہ تو ذکر ہوا عالم برزخ میں اجرو ثواب کا، اب آئیے ذکر عذاب کی طرف۔ پہلی اصولی و منطقی بات یہ کہ اگر عالم برزخ میں ثواب کا اجرا ہو سکتا ہے تو عذاب ماننے میں کیا قباحت ہے؟ البتہ عذاب قوم فرعون کے بارے میں وارد ہونے والی آیت اس موضوع پر نص قطعی ہے : 
النَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْْہَا غُدُوّاً وَعَشِیّاً، وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَۃُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ (المومن :۴۶)
’’(دوزخ کی) آگ ہے جسے صبح و شام پر ان پر پیش کیا جاتا ہے، اور جب قیامت برپا ہوگی تو (حکم ہوگا) آل فرعون کو مزید سخت عذاب میں داخل کردو ‘‘ ۔
یہاں دو قرینے لائق توجہ ہیں۔ پہلا یہ کہ یہاں یوم قیامت برپا ہونے سے ’قبل ‘ آل فرعون پر عذاب کا ذکر ہے، دوسرا یہ کہ قیامت والے دن ’اشد‘ (مزید سخت) عذاب کی بات ہورہی ہے جو بذات خود ایک کمتر عذاب کا ثبوت ہے۔ 
الحمدللہ تینوں سوالات کا جواب آیات قرآنی سے اثبات میں ملا جس سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہوگئی کہ عذاب قبر کے ضمن میں مروی احادیث درج بالا قرآنی آیات کا بیان ہیں جنہیں رد کرنے یا مشکوک بنانے کے لیے کسی صاحب ایمان وعقل کے پاس کوئی حجت باقی نہیں رہ جاتی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے دلوں پر لگے قفل کھول ہے اور ہمیں حق سمجھنے اور اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

مریم جمیلہؒ ۔ اسلام کی بے باک ترجمان

پروفیسر خورشید احمد

میں اکتوبر کے مہینے میں لسٹر، انگلستان میں زیرعلاج تھا کہ ۳۱؍اکتوبر۲۰۱۲ء کو یہ غم ناک اطلاع ملی کہ ہماری محترم بہن اور دورِحاضر میں اسلام کی بے باک ترجمان محترمہ مریم جمیلہ صاحبہ کا انتقال ہوگیا ہے___ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔ اللہ تعالیٰ ان کی نصف صدی سے زیادہ پر پھیلی ہوئی دینی، علمی اور دعوتی خدمات کو قبول فرمائے اور ان کواپنے جوارِرحمت میں اعلیٰ مقامات سے نوازے۔ 
محترمہ مریم جمیلہ سے میرا تعارف ’’وائس آف اسلام‘‘ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے ان کے امریکا کے قیام کے دوران ہی ہوچکا تھا اور ہم ان کے مضامین شائع کر رہے تھے۔ پھر جون ۱۹۶۲ء میں پاکستان آمد کے موقع پر جن تین افراد نے کیماڑی کی بندرگاہ پر ان کا استقبال کیا، ان میں مَیں بھی شامل تھا۔ میرے ساتھ محترم چودھری غلام محمد صاحب اور برادر غلام حسین عباسی ایڈووکیٹ بھی تھے۔ ہم محترم مولانا مودودی کی ہدایت کے مطابق ان کو خوش آمدید کہنے کے لیے مامور تھے اور کراچی میں ان کے قیام اور پروگرام کے ذمہ دار تھے۔ انھوں نے نیویارک سے پاکستان کی ہجرت کا یہ سفر ایک مال بردار جہاز (cargo ship) میں طے کیا تھا اور غالباً کسٹم اور امیگریشن کی وجہ سے پہلے دن انھیں اترنے نہیں دیا گیا جس کے نتیجے میں انھیں ایک رات مزید جہاز پر ہی گزارنا پڑی۔ اگلے دن ہم انھیں گھر لے آئے۔ ان کے قیام کا انتظام برادرم غلام حسین عباسی کے بنگلے پر کیا گیا تھا اور اسی رات کا کھانا میرے گھر پر تھا۔ پھر مرحوم ابراہیم باوانی صاحب اور عباسی صاحب کے گھر پر کئی محفلیں ہوئیں۔ اس طرح ان سے وہ ربط جو علمی تعاون کے ذریعے قائم ہوا تھا، اب ذاتی واقفیت اور بالمشافہ تبادلۂ خیال اور ربط اور ملاقات کے دائرے میں داخل ہوگیا۔ 
کراچی میں ان کا قیام مختصر رہا اور وہ چند ہی دن میں لاہور منتقل ہوگئیں۔ جب تک وہ مولانا محترم کے گھر میں مقیم رہیں، لاہور کے ہرسفر کے دوران ان سے بات چیت ہوتی رہی۔ پھر عملاً ملاقات کا سلسلہ ٹوٹ گیا مگر علمی تعلق قائم رہا، اور ان کے انتقال سے چند ماہ قبل تک خط و کتابت کا سلسلہ رہا جس کا بڑا تعلق اسلامک فاؤنڈیشن لسٹر اور اس کے مجلے ’’مسلم ورلڈ بک ریویو‘‘ (MWBR) کے سلسلے میں ان کے قلمی تعاون سے رہا۔۵۰برس پر محیط ان تعلقات میں ذاتی سطح پر کبھی کوئی کشیدگی رُونما نہیں ہوئی۔ البتہ علمی امور پر ہمارے درمیان وسیع تر اتفاق راے کے ساتھ بڑا مفید اختلاف بھی رہا حتیٰ کہ اسلامک فاؤنڈیشن کے مجلے Encounter میں میرے ایک مضمون Man and Civilization in Islam پر انھوں نے ایک تنقیدی مقالہ لکھا جس کا مَیں نے اسی شمارے میں جواب بھی تحریر کیا۔ یہ سب بڑے دوستانہ ماحول میں ہوا اور الحمدللہ ہمارے باہمی اعتماد او ر تعاون کا رشتہ مضبوط اور خوش گوار رہا جو ہمارے پُرخلوص اور خالصتاً لِلّٰہ تعلق کی ایک روشن مثال ہے اور اُمت کے درمیان اختلاف کے رحمت ہونے کی نبوی بشارت کا ایک ادنیٰ مظہر ہے۔ ان کی آخری تحریر جو امریکا سے شائع ہونے والی ایک کتاب Children of Dust: A Portrait of a Muslim Youngman، از علی اعتراز (Ali Eteraz) پر ان کا تبصرہ ہے جو MWBR کے جنوری ۲۰۱۳ء کے شمارے میں شائع ہونے والا ہے اور جس کا آخری جملہ یہ ہے:
 "The semi - fiction of this story will certainly give the reader a negative picture of Pakistani youth today. 
(یہ نیم افسانوی کہانی یقیناًقاری کو آج کی پاکستانی نوجوان نسل کی منفی تصویر دکھائے گی)۔
اسی طرح ان کے شوہر برادرم محترم محمد یوسف خان صاحب سے بھی میرا تعلق ۱۹۵۱ء سے ہے جب میں جمعیت میں تھا اور وہ جماعت کے سرگرم رکن تھے۔ الحمدللہ یہ رشتہ بھی بڑا مستحکم رہا اور اس طرح شوہر اور بیوی دونوں ہی سے میرا تعلق خاطر رہا۔ محترمہ مریم جمیلہ صاحبہ میرے نام اپنے خطوط میں اپنے شوہر کا ذکر "My Khan Sahab" [میرے خان صاحب] سے کیا کرتی تھیں جو محبت اور مودّت کے جذبات کے ترجمان ہیں۔ ان خطوط میں ’’ترجمان القرآن‘‘ کے ’اشارات‘ کے بارے میں یوسف خان صاحب کے احساسات سے مجھے مطلع کرتی تھیں۔ یوسف خان صاحب کو ٹیلی فون پر تعزیتی جذبات پہنچانے کی کوشش کی لیکن وہ غم میں ایسے نڈھال تھے کہ بات نہ ہوسکی، البتہ ان کے صاحب زادے تک اپنے غم و اندوہ کے جذبات پہنچا دیے اور آج ان صفحات میں اس عظیم خاتون کے بارے میں اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کررہا ہوں۔
مریم جمیلہ جن کا ماں باپ کا دیا ہوا نام مارگریٹ مارکس تھا، نیویارک کے ایک سیکولر یہودی گھرانے میں ۲۳ مئی ۱۹۳۴ء میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم کے بعد انھوں نے روچسٹر یونی ورسٹی میں ۱۹۵۱ء میں داخلہ لیا۔ علم و ادب اور میوزک اور تصویرکشی (painting)سے طبعی شغف تھا۔ فلسفہ اور مذہب بڑی کم عمری ہی سے ان کے دل چسپی کے موضوعات تھے، بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ حق کی تلاش اور زندگی کی معنویت کی تفہیم ان کی فکری جستجو کا محور رہے۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ اسلام سے ان کا اولین تعارف یونی ورسٹی کے کورس کے ایک ابتدائی مضمون Judaism in Islam کے ذریعے ہوا، جو ایک یہودی استاد ابراہم اسحق کاٹش پڑھاتا تھا۔ اس کی کوشش تھی کہ اسلام کو یہودیت کا چربہ ثابت کرے لیکن تعلیم و تدریس کے اس عمل میں موت اور زندگی بعد موت کے مسئلے پر مریم جمیلہ اس کے خیالات سے خصوصی طور پر متاثر ہوئیں۔ اپنے ایک انٹرویو میں اس کا ذکر اس طرح کیا:
نومبر ۱۹۵۴ء کی ایک صبح، پروفیسر کاٹش نے اپنے لیکچر کے دوران ناقابلِ تردید دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حضرت موسٰی ؑ نے توحید کی جو تعلیمات دی ہیں اور جو الوہی قانون ان پر نازل ہوا ہے ناگزیر ہے۔ اگر اخلاقی قوانین خالصتاً انسان کے بنائے ہوئے ہوں، جیساکہ اخلاقی کلچر اور دیگر الحادی اور دہریت پر مبنی فلسفوں میں بیان کیا جاتا ہے، تو وہ محض ذاتی راے اور ذوق، متلون مزاجی ، سہولت اور ماحول کی بنا پر تبدیل ہوسکتے ہیں۔ اس کا نتیجہ مکمل انتشار ہوگا جس کے نتیجے میں انفرادی اور اجتماعی زوال برپا ہوسکتا ہے۔ آخرت پر ایمان، جیساکہ ربی تلمود میں بیان کرتے ہیں، پروفیسر کاٹش نے دلائل دیتے ہوئے کہا، کہ محض ایک خوش گمانی نہیں ہے بلکہ ایک اخلاقی تقاضا ہے۔ اس نے کہا کہ صرف وہ لوگ جو پختگی سے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک کو روزِ قیامت خدا کے حضور پیش ہونا ہے، اور زمین پر اپنی زندگی کے تمام اعمال کی جواب دہی کرنا ہوگی اور اس کے مطابق جزا و سزا کا سامنا کرنا ہوگا، صرف وہی اپنی ذات پر اتنا قابو رکھیں گے کہ اُخروی خوشنودی کے حصول کے لیے عارضی خوشیوں کو قربان اور مصائب کو برداشت کرسکیں۔
یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ جس طرح یہودی پروفیسر کے یہ الفاظ نوعمر مارگریٹ مارکس کے دل و دماغ پر مرتسم ہوگئے اور زندگی کا رُخ متعین کرنے میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کیا، اسی طرح مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کے جس پہلے مضمون نے ان کے قلب و نظر کو روشن کیا وہ ’زندگی بعد موت‘ کا میرا کیا ہوا ترجمہ تھا، جو جنوبی افریقہ کے مجلے Muslim Digest میں شائع ہوا تھا۔ مریم جمیلہ کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان چیزوں کو اچھی طرح سمجھا جائے جو ان کی زندگی کا رُخ متعین کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں۔ ان کی اپنی بے تاب روح اور تلاشِ حق کی جستجو، اور حقیقت کی وہ تفہیم جو توحید اور آخرت کے تصور پر مبنی ہے، جس میں زندگی کو خانوں میں بانٹنے کی کوئی گنجایش نہیں اور جس کے نتیجے میں انسان ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً (تم پورے کے پورے اسلام میں آجاؤ۔البقرہ ۲:۲۰۸)کا نمونہ اور زمین پر اللہ کے خلیفہ کا کردار ادا کرنے میں زندگی کا لطف اور آخرت کی کامیابی تلاش کرتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو زندگی میں یکسوئی پیدا کرتی ہے۔ تبدیلی کے لیے انسان کو آمادہ ہی نہیں کرتی بلکہ مطلوب کو موجود بنانے ہی کو زندگی کا مشغلہ بنا دیتی ہے اور بڑی سے بڑی آزمایش میں اس کا سہارا بن جاتی ہے۔ مریم جمیلہ نے امریکا کی پُرآسایش زندگی کو چھوڑ کر پاکستان کی طرف ہجرت، اور بڑی سادہ اور مشکلات سے بھرپور لیکن دل کو اطمینان اور روح کو شادمانی دینے والے راستے کو اختیار کیا اور پوری مستعدی، استقامت اور خوش دلی کے ساتھ سفر حیات کو طے کیا۔ یہ سب اسی ایمان، آخرت کی کامیابی کے شوق، اور انسانی زندگی کو اللہ کے حوالے تصور کرنے کے جذبے کا کرشمہ ہے۔
محترمہ مریم جمیلہ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں بڑی کم عمری کے عالم میں مسلم دنیا کے علمی اُفق پر رُونما ہوئیں اور بہت جلد انھوں نے ایک معتبر مقام حاصل کرلیا۔ انھوں نے اسلام کے اس تصور کو جو قرآن و سنت کی اصل تعلیمات پر مبنی ہے اور جو زندگی کے ہرپہلو کی الہامی ہدایت کی روشنی میں تعمیروتشکیل کا داعی ہے، بڑے مدلل انداز میں پیش کیا اور وقت کے موضوعات اور اس دور کے فکری چیلنجوں کی روشنی میں کسی مداہنت کے بغیر اسلام کی دعوت کو پیش کیا ۔ اس باب میں ان کو یہ منفرد حیثیت حاصل تھی کہ وہ نہ صرف ایک مسلمان صاحبِ علم خاتون اور داعیہ تھیں، بلکہ امریکی ہونے کے ناتے مغربی تہذیب سے پوری طرح آشنا تھیں اور ان کی حیثیت Insider یعنی شاہدُ مِنھم کی تھی۔
ان کو موضوع اور زبان دونوں پر قدرت حاصل تھی اور وہ اپنی بات بڑے جچے تلے انداز میں مسکت دلائل کے ساتھ بڑی جرأت سے پیش کرتی تھیں۔ ۳۰ سے زیادہ کتابوں کی مصنفہ تھیں اور ان کے علاوہ بیسیوں مضامین اور تبصرے ان کے قلم سے نکلے۔ سیدولی نصر نے ’’دی اوکسفرڈ انسائیکلوپیڈیا آف اسلامک ورلڈ‘‘ میں ان پر اپنے مقالے میں بجا طور پر یہ لکھا ہے کہ اپنے پاکستان کے قیام کے دوران انھوں نے دورِجدید میں اسلام کے تحریکی تصور کی بڑی عمدگی کے ساتھ ترجمانی کی۔ خصوصیت سے اسلام اور مغربی تہذیب کے بنیادی فرق اور جداگانہ نقطہ ہاے نظر کو انھوں نے بڑی وضاحت کے ساتھ موضوع بنایا اور جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کے افکارونظریات کو متاثر کیا۔ ان کے الفاظ میں :
مریم جمیلہ نے ۱۹۶۲ء میں پاکستان کا سفر کیا اور لاہور میں مولانا مودودی کے گھرانے میں شامل ہوگئیں۔ جلد ہی انھوں نے جماعت اسلامی کے ایک رکن محمد یوسف خان سے بطور ان کی دوسری بیوی کے شادی کرلی۔ پاکستان میں سکونت اختیار کرنے کے بعد انھوں نے اپنی پوری زندگی میں بہت سی مؤثر کتابیں لکھیں جن میں جماعت اسلامی کے نظریے کو ایک منظم انداز سے بیان کیا۔ مریم جمیلہ کو اسلام اور مغرب کے درمیان بحث سے خصوصی دل چسپی تھی جو مولانا مودودی کی فکر کا مرکزی تصور نہ ہوتے ہوئے بھی اس کا ایک اہم پہلو ہے۔ انھوں نے مغرب کے خلاف اسلامی استدلال کو مزید اُجاگر کیا اور عیسائیت، یہودیت، اور سیکولر مغربی فکر پر احیائی تنقید کو منظم انداز سے بیان کیا۔ مریم جمیلہ کی اہمیت ان کے مشاہدات کے زور میں نہیں ہے بلکہ اس اسلوبِ بیان میں ہے جس میں وہ اندرونی طور پر ایک مربوط مثالیے کو مغرب کے احیائی استرداد کے لیے پیش کرتی ہیں۔ اس حوالے سے ان کے اثرات جماعت اسلامی کے دائرے سے بہت آگے تک جاتے ہیں۔پوری مسلم دنیا میں احیائی فکر کے ارتقا میں ان کا کردار بہت اہم رہا ہے۔
محترمہ مریم جمیلہ کی چند تعبیرات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے اور خود انھوں نے بھی اُن اہلِ علم سے کہیں کہیں اختلاف کیا ہے جن کے افکار و نظریات نے خود ان کے ذہن اور فکر کی تعمیر میں اہم حصہ لیا ہے، لیکن مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ بحیثیت مجموعی ان کی ۵۰سالہ علمی کاوش ہماری فکری تاریخ کا ایک روشن باب ہے، اور خصویت سے مغربی تہذیب پر ان کی تنقید ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کے قلم میں بڑی جان تھی اور انھوں نے ایمان اور یقین کے ساتھ دین کے پیغام کو پیش کیا اور تمام انسانوں کو کفر، الحاد، بے یقینی، اخلاقی بے راہ روی اور سماجی انتشار اور ظلم و طغیان کی تباہ کاریوں سے بچانے کے گہرے جذبۂ خیرخواہی کے ساتھ اس کام کو انجام دیا جو کارِرسالت کا طرۂ امتیاز ہے۔ قرآن نے رجال کے بارے میں جو شہادت دی ہے وہ نساء کے باب میں بھی اتنی ہی سچی ہے کہ :
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ ج فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا o (الاحزاب ۳۳:۲۳)
ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔
محترمہ مریم جمیلہ کی زندگی کے دو پہلو ہیں جن کو سمجھنا مفید ہوگا۔ ایک ان کی علمی شخصیت ہے جس میں بلاشبہہ انھوں نے اپنی مسلسل محنت اور سلاست فکر کے باعث ایک نمایاں مقام حاصل کیا۔ انھوں نے مغربی فکروتہذیب پر بڑے علمی انداز میں محاکمہ کیا اور اس کے طلسم کو توڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔ فلسفہ، مذہبیات اور عمرانیات کے اہم ترین موضوعات کے ساتھ انفرادی زندگی اور اجتماعی معاملات میں اسلام کی رہنمائی کو بڑے صاف الفاظ میں بیان کیا اور فکرِاسلامی کی ترویج و تبلیغ کے باب میں اہم خدمات انجام دیں۔ اس کے ساتھ ان کی کوشش تھی کہ اسلام کے پیغام کو ہرانسان تک پہنچائیں، اور اسے دنیا اور آخرت کی کامیابی کے راستے پر لانے کی کوشش کریں۔ اس طرح علمی اور فکری خدمات کے ساتھ ان کا دامن دعوتی اور تبلیغی مساعی سے بھی بھرا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں ان کا شاہکار وہ خط ہے جو انھوں نے اپنے والدین کو لکھا اور جس کا ایک ایک لفظ صداقت پر مبنی، دعوتِ حق کی تڑپ کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ ان کی شخصیت اور مقصدحیات کو سمجھنے کے لیے یہ خط بہترین کلید ہے۔ اس کا بڑا خوب صورت ترجمہ کرنل (ریٹائرڈ) اشفاق حسین نے مریم جمیلہ کے خطوط پر مبنی ایک طرح کی خودونوشت کے ترجمے ’’امریکا سے ہجرت‘‘ میں کیا ہے اور اس سے چند اقتباس ایک آئینہ ہے جن میں مریم جمیلہ کے فکروفن اور جذبے اور اخلاص کی حقیقی تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔ 
مریم جمیلہ لکھتی ہیں:
’’آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ معاشرہ جس میں آپ کی پرورش ہوئی ہے اور جس میں آپ نے اپنی پوری زندگی گزار دی ہے، بڑی تیزی سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور مکمل تباہی کے قریب ہے۔ درحقیقت ہماری تہذیب کا زوال بھی جنگِ عظیم کے وقت ہی ظاہر ہوناشروع ہوگیا تھا لیکن دانش وروں اور ماہرین عمرانیات کے سوا کسی کو احساس نہیں ہوا کہ کیا ہو رہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے بعد اور خاص طور پر پچھلے دوعشروں میں یہ اتنی تیزی سے زوال کے اس مرحلے پر پہنچ چکی ہے کہ کوئی شخص اسے مزید نظرانداز نہیں کرسکتا۔
’’زندگی کے معاملات اور رویوں میں کسی قابلِ احترام اور قابلِ قبول معیار کے نہ ہونے کی وجہ سے اخلاقی بے راہ روی،تفریحی ذرائع ابلاغ پر مبنی کج روی، بوڑھوں سے ناروا سلوک، طلاق کی روزافزوں شرح جو اتنی بڑھ چکی ہے کہ نئی نسل کے لیے پایدار اور خوش گوار ازدواجی زندگی ایک خواب بن کر رہ گئی ہے۔ معصوم بچوں کے ساتھ غلط کاریاں، فطری ماحول کی تباہی، نایاب اور قیمتی وسائل کا بے محابا ضیاع، امراضِ خبیثہ اور ذہنی بیماریوں کی وبائیں، منشیات کی لت، شراب نوشی، خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان، جرائم، لُوٹ مار، حکومتی اداروں میں بے ایمانی اور قانون کا عدم احترام___ ان تمام خرابیوں کی ایک ہی وجہ ہے۔
’’اور وہ وجہ ہے لامذہبیت اور مادیت پر مبنی نظام کی ناکامی___، نیک ماورائی، اعلیٰ و ارفع مذہبی نظام سے دُوری اور اخلاقی قدروں کا ناپیدا ہونا___ اعمال کا دارومدار عقیدوں پر ہوتا ہے کیونکہ نیت ہی درست نہ ہو توعمل ہمیشہ ناکام ہوتا ہے.....
’’اگر زندگی ایک سفر ہے تو کیا یہ حماقت نہیں ہوگی کہ بندہ راستے میں آنے والی منزلوں پر آرام دہ ایام اور خوش گوار ٹھکانوں کی فکر تو کرے، لیکن سفر کے اختتام کے بارے میں کچھ نہ سوچے؟ آخر ہم کیوں پیدا ہوئے تھے؟ اس زندگی کا کیا مطلب ہے؟ کیا مقصد ہے؟ آخر ہمیں مرنا ہے اور ہم میں سے ہر ایک کے ساتھ موت کے بعد کیا معاملہ ہونا ہے؟
’’ابو! آپ نے ایک سے زائد بار مجھے بتایا ہے کہ آپ کسی روایتی مذہب کو اس لیے قبول نہیں کرسکتے کیونکہ آپ کو یقین ہے کہ الہامی مذہب جدید سائنس سے متضاد چیز ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سائنس اور ٹکنالوجی نے ہمیں ساری دنیا کے بارے میں بہت معلومات فراہم کی ہیں، ہمیں آرام و آسایشات اور سہولتیں فراہم کی ہیں، اس نے ہماری کارکردگی میں اضافہ کیا ہے اور ان بیماریوں کے علاج دریافت کیے ہیں جو جان لیوا ثابت ہوتی تھیں، لیکن سائنس ہمیں یہ نہیں بتاتی اور نہیں بتا سکتی کہ زندگی اور موت کا کیا مطلب ہے۔ سائنس ہمیں ’کیا اور کیسے‘ کا جواب تو دیتی ہے لیکن ’کیوں‘ کے سوال کاکبھی کوئی جواب نہیں دیتی۔ کیا سائنس کبھی یہ بتا سکتی ہے کہ کیا درست ہے اور کیا غلط؟ کیا نیکی ہے، کیا برائی؟ کیا خوب صورت ہے اور کیا بدصورت؟ ہم جو کچھ کرتے ہیں اس کے لیے کس کو جواب دہ ہیں؟ مذہب ان سارے سوالوں کے جواب دیتا ہے۔
’’آج امریکا کئی لحاظ سے قدیم روم کے زوال و شکست کے آخری مرحلوں سے گزر رہا ہے۔ سوچ اور فکر رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ لامذہبیت ہمارے معاشرتی نظام کی مستحکم بنیاد ثابت نہیں ہوسکی۔ وہ مضطرب ہوکر مختلف سمتوں میں اس بحران کا حل تلاش کر رہے ہیں لیکن انھیں ابھی تک نہیں پتا کہ یہ حل انھیں کہاں سے ملے گا۔ یہ تشویش چند ماہرین عمرانیات تک محدود نہیں ہے۔ قومی یک جہتی کی ٹوٹ پھوٹ کی بیماری براہِ راست آپ کو، مجھے اور ہم میں سے ہر ایک کو متاثر کررہی ہے.....
’’آج امریکی باشندے، جوان ہوں یا بوڑھے بڑی تندہی سے رہنمائی کی تلاش میں ہیں۔ تلخ تجربوں کے بعد انھیں پتا چلا ہے کہ زندگی کے کسی مقصد اور صراطِ مستقیم کی طرف قابلِ اعتماد رہنمائی کے بغیر شخصی آزادیاں اور وہ ساری سہولتیں جو امریکیوں کو حاصل ہیں، لایعنی اور اپنی ذات کی تباہی کے مترادف ہیں۔سیکولرازم اور مادیت امریکیوں کو ان کی انفرادی یا اجتماعی زندگی میں کسی طرح کی مثبت اور تعمیری، اخلاقی قدریں فراہم نہیں کرسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ عیسائیت اور صہیونیت کے ہاتھوں ناکامی کے بعد امریکا میں زیادہ سے زیادہ لوگ اسلام کی طرف مائل ہورہے ہیں۔ نومسلم اسلام میں ایک پاکیزہ، صحت مند، صاف ستھری اور دیانت دار زندگی کا سراغ پاتے ہیں۔ مسلمانوں کے نزدیک موت سے ہرچیز ختم نہیں ہوجاتی بلکہ وہ اس کے بعد آخرت میں ہمیشہ رہنے والی نعمتوں، پایدار ذہنی سکون اور دائمی خوشیوں کی توقع رکھتے ہیں۔
’’قرآن مقدس اور رسولِ خدا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی مستند احادیث میں پائی جانے والی یہ ہدایت و رہنمائی صدیوں سے مشرق کے دُورافتادہ علاقوں کی نسلوں تک محدود نہیں تھی، بلکہ آج مغرب کو جو معاشی، معاشرتی، اخلاقی اور سیاسی مسائل درپیش ہیں، ان کا حل بھی ہدایت کے انھی سرچشموں میں موجود ہے۔ علاوہ ازیں اسلام میں سردمہری، خالق سے دُوری یا خالق کی بے نیازی کے احساسات نہیں پائے جاتے۔ مسلمان ایک ایسے خدا پر یقین رکھتے ہیں جس میں اپنائیت ہے۔ جس نے نہ صرف اس کائنات کو پیدا کیا بلکہ وہ اس کے نظم و نسق کا بھی ذمہ دار ہے اور وہی اس کا حکمران ہے۔ وہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے اور ہم میں سے ہر ایک کا بہت خیال رکھتا ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ ہم سب سے ہر ایک کی شہ رگ سے بھی قریب ہے.....
’’آپ دونوں کافی طویل عمر پاچکے ہیں اور بہت کم مہلت باقی رہ گئی ہے۔ اگر آپ فوراً عمل کریں تو زیادہ تاخیر نہیں ہوگی۔ اگر آپ کا فیصلہ مثبت ہو تو پاکستان میں اپنے پیارے لوگوں سے آپ کا نہ صرف خونی رشتہ ہوگا بلکہ ایمان کا رشتہ بھی قائم ہوجائے گا۔ آپ نہ صرف اس دنیا میں ان سے محبت کرسکیں گے بلکہ ہمیشہ رہنے والی زندگی میں بھی آپ ہمارے ساتھ ہوں گے.....
’’میں ایک بیٹی کی حیثیت سے، جسے آپ سے محبت ہے، آخروقت تک چاہوں گی کہ آپ اس بُرے نصیب سے بچ جائیں لیکن فیصلہ صرف آپ کے ہاتھ میں ہے۔ آپ کو مکمل اختیار ہے کہ آپ اس دعوت کو قبول کریں یا مسترد کردیں۔ آپ کے مستقبل کا انحصار اس انتخاب پر ہے جو آپ نے اب کرنا ہے۔
اپنی ساری محبتوں اور نیک خواہشات کے ساتھ۔
آپ کی وفادار بیٹی، مریم جمیلہ‘‘۔ (امریکا سے ہجرت، ص ۲۰۔۲۵)
محترمہ مریم جمیلہ کی زندگی کا دوسرا پہلو ان کی شخصی زندگی ہے جو خود ایک روشن مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔ جب انھوں نے اسلام کی حقانیت کو پالیا اور اپنے آپ کو اس کے سانچے میں ڈھالنے کا عزم کرلیا تو پھر انھوں نے اپنے کو خود اپنوں کے درمیان اجنبی محسوس کیا۔ امریکا میں وہ اپنے کو انمل بے جوڑ محسوس کرنے لگیں اور مسلمان سوسائٹی اور اسلامی زندگی کی تلاش میں انھوں نے پاکستان ہجرت اسی جذبے سے کی جس جذبے سے مکہ کے مسلمانوں نے مدینہ کے لیے ہجرت کی تھی اور پھر مدینہ ہی کے ہوکر رہ گئے تھے۔ گو ان کی تمام توقعات پوری نہیں ہوئیں لیکن انھوں نے پاکستان کو اپنا گھر بنالیااور مڑ کر امریکا جانے کے بارے میں کبھی ایک بار بھی نہ سوچا، بلکہ برادرم یوسف خان صاحب نے ان کو بار بار مشورہ دیا مگر انھوں نے اس طرف ذرا بھی رغبت ظاہر نہ کی۔ امریکا میں ان کے رہن سہن کا معیار امریکی معیار سے بھی اوسط سے کچھ بہتر ہی تھا لیکن پاکستان میں جس عسرت اور سادگی سے انھوں نے زندگی گزاری اور صبروثبات کا جو مظاہرہ کیا وہ قرونِ اولیٰ کے لوگوں کی یاد تازہ کرتا ہے۔ ایک شادی شدہ شخص سے بخوشی رشتۂ ازدواج استوار کیا، اپنی ’سوکن‘ کے ساتھ اس طرح مل جل کر رہیں کہ یک جان اور دو قالب کا نمونہ پیش کیا۔ دونوں کے غالباً چودہ پندرہ بچے بھی ایک دوسرے سے شیروشکر رہے اور سب ہی بچے بڑی ماں (محترمہ شفیقہ صاحبہ) کو اماں اور چھوٹی ماں (محترمہ مریم جمیلہ) کو آپا کہتے تھے اور مریم جمیلہ نے وصیت کی کہ ان کی قبر بھی محترمہ شفیقہ صاحبہ، جن کا انتقال چند برس ہی قبل ہوا تھا، کی قبر کے پاس ہو۔ مادہ پرستی اور نام و نمود کی فراوانی کے اس دور میں درویشی اور اسلامی صلۂ رحمی کی ایسی مثال اسلام ہی کا ایک معجزہ ہے جس کی نظیر آج کے دور میں بھی دیکھنے کی توفیق اللہ تعالیٰ کی اس نیک بی بی کے طفیل ہم سب کو حاصل ہوئی
آسماں اس کی لحد پر شبنم افشانی کرے
(بشکریہ ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ لاہور)

نشے کی طلاق اور طلاق کے لیے عقل و ہوش کا مطلوبہ معیار

مولانا مفتی محمد زاہد

ذیل کی سطور آج سے پانچ چھ سال قبل لکھ کر ملک متعدد اہلِ افتا کی خدمت میں بھیجی گئی تھیں ٗ تاکہ اس کے ذریعے اس مسئلے پر غور کی دعوت دی جائے۔ تاہم ایک دو کے علاوہ کسی جگہ سے اب تک جواب سے سرفرازی نہیں ہوسکی۔ اب ان گذارشات کو اس لیے شائع کیا جارہا ہے کہ وسیع پیمانے پر اہلِ علم تک پہنچا کر ان کی آراء سے استفادہ کیا جاسکے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے: کل طلاق جائز الاطلاق المعتوہ المغلوب علی عقلہ (جامع الترمذی رقم : ۱۱۹۱)۔اگرچہ تکنیکی طور پر اس حدیث کی سند پر محدثانہ کلام ہوسکتی ہے اور خود امام ترمذی نے بھی اس حدیث کے ایک راوی عطاء بن عجلان جو اسے روایت کرنے میں متفرد ہیں بہت ضعیف ہیں، لیکن اہم بات یہ ہے کہ فقہا کے ہاں اس مضمون کو قبولِ عام حاصل ہے ۔ امام ترمذی نے اسے حدیث کو ضعیف قرار دینے کے بعد کہا ہے کہ اہلِ علم کا عمل اسی پر ہے۔ اس کے علاوہ یہی مضمون حضرت علیؓ سے موقوفا بھی نقل کیا گیا ہے اور وہ سند کے اعتبار سے بالکل صحیح ہے۔ امام بخاری نے بھی اسے تعلیقا ذکر کیا ہے۔
اس حدیث کی بنیاد پراس بات پرفقہاء کے درمیان اتفاق پایاجاتاہے کہ زوالِ عقل وقوعِ طلاق سے مانع ہے، یعنی جس کی عقل زائل ہوچکی ہو اس کی طلاق واقع نہیں ہوتی۔لیکن قابلِ غوربات یہ ہے کہ زوالِ عقل کاوہ کون سا درجہ ہے جوطلاق کے واقع ہونے سے مانع ہے، آیااس کے لیے بالکلیہ عقل کازائل ہوجانایعنی جنون کی حدتک پہنچ جانا شرط ہے یااس سے کم درجہ بھی کافی ہے، نشے کی حالت میں دی گئی طلاق کاحکم جاننے سے پہلے اس سوال کاجائزہ لے لینامناسب معلوم ہوتاہے۔
زیرِبحث مسئلے کے علاوہ متعدد مواقع ایسے ہیں جہاں فقہاء ، بالخصوص فقہائے حنفیہ نے زوالِ عقل کی وجہ سے طلاق نافذ نہ ہونے کاحکم لگایاہے،جوحسبِ ذیل ہیں۔

۱) معتوہ کی طلاق

جس طرح مجنون کی طلاق واقع نہیں ہوتی اسی طرح فقہاء بالخصوص فقہائے حنفیہ کی تصریح کے مطابق’’معتوہ‘‘کی طلاق بھی واقع نہیں ہوتی، (الدرالمختار ۳/۲۴۳ )۔ ’’عتہ‘‘ کی وضاحت کرتے صاحبِ درمختار نے لکھاہے: ’’ھو اختلال فی العقل‘‘۔ علامہ شامی نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے البحرالرائق کے حوالے سے نقل کیاہے کہ مجنون اورمعتوہ کے درمیان فرق کے سلسلے میں سب سے بہتر بات یہ ہے کہ معتوہ وہ ہوتاہے جس کی سمجھ بوجھ کم ہو، اس کی گفتگو غیر مربوط ہو اوراس کی تدبیر فاسدہو، البتہ وہ گالی گلوچ اورمارپیٹ نہ کرتاہو، جبکہ مجنون کی علامات اس سے مختلف ہوتی ہیں۔شامی کے نقل کردہ الفاظ یہ ہیں:
وأحسن الاقوال فی الفرق بینہما أن المعتوہ ہوقلیل الفہم، المختلط الکلام ، الفاسد التدبیر،لکن لایضرب ولایشتم ،بخلاف المجنون ۔ (حاشیہ ابن عابدین علی الدرالمختار ج۳ص ۲۴۳)

۲) جائز نشے کی حالت میں طلاق

اگرنشہ کسی ایسے سبب سے جوگناہ کاموجب نہ ہو ،مثلاًبعض ادویہ جن میں نشے کی تاثیر بھی ہوتی ہے انہیں دواکی نیت سے استعمال کیا،لیکن اتفاقاً نشہ آگیا اوراسی حالت میں طلاق دے دی تواکثرفقہاء کے نزدیک طلاق واقع نہیں ہوتی۔ لیکن اس نشے کی تعریف کیا ہے ، یا نشے کاکون سا درجہ مرادہے،توامام ابوحنیفہ سے نقل کیاگیاہے کہ’’سکران‘‘سے مراد وہ شخص ہے جس کی عقل اتنی زائل ہوچکی ہو کہ اسے زمین وآسمان اورمرد عورت کی تمییز باقی نہ رہے، جبکہ صاحبین کے نزدیک نشے کی حالت سے مراد ایسی کیفیت ہے جس میں آدمی بے ہودہ اوربے ربط سی باتیں کرتاہو۔یہاں اول تواکثرمشائخِ حنفیہ نے اس مسئلے میں صاحبین کے قول کو اختیار کیاہے، چنانچہ علامہ شامیؒ لکھتے ہیں:
ومال أکثرالمشائخ الی قولہما ، وہو قول الأئمۃ الثلاثۃ، واختاروہ للفتوی،لأنہ المتعارف،وتأیّد بقول علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ : ’’اذاسکر ہذی ‘‘۔۔۔ وبہ ظہر أن المختار قولہما فی جمیع الأبواب فافہم (حاشیہ ابن عابدین علی الدر المختار ج ۳، ص ۲۳۹)
دوسرے علامہ شامی نے ابن الہمام سے نقل کیاہے کہ امام صاحب نے نشے کے لیے جوشرط لگائی ہے کہ اسے زمین وآسمان کی تمییز نہ رہے اس سے مرادوہ نشہ ہے جس کی وجہ سے حد واجب ہوتی ہے، اس لیے کہ اگرنشہ اس سے کم درجے کاہے توشبہ پیدا ہوجائے گا اورشبہ کی وجہ سے حدساقط ہوجاتی ہے۔جہاں تک حد کے علاوہ باقی احکام کاتعلق ہے مثلاًاس کے تصرفات کانافذ نہ ہونا تواس کے لیے امام صاحب کے نزدیک بھی نشے کی وہی تعریف ہے جوصاحبین کے نزدیک ہے، ابن الہمام کے الفاظ یہ ہیں:
’’وأما تعریفہ عندہ فی غیر وجوب الحد من الأحکام فالمعتبر فیہ عندہ اختلاط الکلام والہذیان کقولہما‘‘۔
پچھلی عبارت میں اکثرمشائخ کی دلیل میں جوکہاگیاتھا’’لأنہ المتعارف‘‘اس سے معلوم ہواکہ کسی شخص کے نشے میں ہونے یانہ ہونے کامدار عرف پر ہے ۔ عرفاً جس شخص کو نشے میں سمجھا جائے وہ شرعاًبھی سکران ہوگا،یہی بات شافعیہ میں سے نووی نے کافی بحث کے بعد نقل کی ہے اور اسے اقرب قرار دیا ہے۔(روضۃ الطالبین ۸/۶۳)
اس سے معلوم ہواکہ طلاق کے عدمِ وقوع کے لیے زوالِ عقل کایہ درجہ شرط نہیں ہے کہ اسے اپنے آپ کا، اپنے اردگرد کا اوراپنی کہی ہوئی باتوں کاہی ہوش نہ ہو ،بلکہ اتناہی کافی ہے کہ اسے اپنی گفتگو پرکنٹرول نہ ہو۔ 

۳) نابالغ بچے کی طلاق

حنفیہ اوردیگر کئی فقہاء کے ہاں نابالغ کی طلاق بھی واقع نہیں ہوتی ،اگرچہ وہ قریب البلوغ ہویاصبی ممیز ہویعنی اسے طلاق وغیرہ ایسے تصرفات کی سمجھ ہو، اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے ابن الہمام لکھتے ہیں :
معلوم من کلیات الشریعۃ أن التصرفاتِ لاتنفذ الاممن لہ أہلیۃ التصرف،وأدرنا ہا بالعقل والبلوغ ،خصوصاماہو دائر بین الضرر والنفع ، خصوصا مالا یحل الا لانتفاء مصلحۃ ضدہ القائم کالطلاق ، فانہ یستدعی تمام العقل ، لیحکم بہ التمییز فی ذلک الأمر ولم یکفِ عقلُ الصبی العاقل لأنہ لم یبلغ الاعتدال۔۔۔(فتح القدیر ج ۳ ص ۴۸۷)
اس سے معلوم ہواکہ طلاق کے نفاذکے لیے عقل یاہوش وحواس کا فی ا لجملہ موجود ہونا کافی نہیں ہے بلکہ ’’تمام العقل ‘‘کاہونا یعنی ایسی ذہنی کیفیت کاہونا ضروری ہے جس میں وہ تصرف کرنے سے پہلے اورلفظ زبان سے نکالنے سے پہلے اس معاملے پر مرتب ہونے والے نفع ونقصان میں موازنہ کرنے کی پوزیشن میں ہو۔ 

۴) غصے کی حالت میں طلاق 

علامہ شامیؒ نے رد المحتار میں ’’طلاق المدہوش ‘‘اور’’طلاق الغضبان‘‘پرتفصیلی بحث کی ہے،انہوں نے ابن القیم ؒ کے رسالہ ’’طلاق الغضبان ‘‘ سے نقل کیاہے کہ غصے کی تین حالتیں ہیں۔ایک ابتدائی حالت ہے، جس میں آدمی کوپتا ہوتاہے کہ میں کیا کہ رہاہوں اورجوکچھ کہ رہاہوتاہے قصداور ارادے سے کہ رہاہوتاہے اس حالت میں دی گئی طلاق کے واقع ہونے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ ایک انتہائی حالت ہے کہ غصے کے غلبے کی وجہ سے اسے پتاہی نہ ہو کہ میں کیاکررہاہوں، اوربغیر قصدو ارادے کے اس کے منہ سے الفاظ نکل رہے ہوں، اس حالت میں دی گئی طلاق کے بلاشک وشبہ واقع نہ ہونے کاحکم لگایاجائے گا ۔تیسری حالت وہ ہے جومذکورہ ان دوکیفیتوں کے بین بین ہے ، اس صورت میں دی گئی طلاق کاحکم قابلِ غور ہوسکتاہے، دلائل کامقتضا یہاں بھی یہ معلوم ہوتاہے کہ طلاق واقع نہ ہو۔
ابن القیم کے حوالے سے مذکورہ بالاتفصیل نقل کرنے کے بعد علامہ شامیؒ نے اس پر وارد ہونے والے بعض اشکالات کاجواب دینے کے بعد ابن القیم کی رائے کی تائید کرتے ہوئے اس طرف رجحان ظاہر کیاہے کہ ’’مدہوش‘‘ اور ’’غضبان‘‘ کے بارے میں مذکورہ مثالوں میں فقہاء کی تصریحات اور تعلیلات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ طلاق کے واقع ہونے کے لیے طلاق دینے والے میں عقل کاجودرجہ ضروری ہے کہ اس میں صرف یہ شرط نہیں ہے کہ علم اورارادہ موجود ہو، بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ یہ تصرف سمجھ بوجھ کی حالت میں کیاہو۔ سمجھ بوجھ سے مرادیہ نہیں ہے کہ طلاق دینے والا بہت زیرک شخص ہو،نہ ہی یہ مراد ہے کہ وہ عملاًتمام عواقب ونتائج پراچھی طرح غورکرکے اس طرح کا قدم اٹھائے بلکہ مراد صرف یہ ہے کہ اس کی ذہنی حالت ایسی ہوکہ اپنی سمجھ بوجھ کو استعمال کرنا چاہے توکرسکتاہو ۔ اگر اس حوالے سے اس کی ذہنی حالت نارمل ہے توبغیر سوچے سمجھے طلاق دے دیتاہے تواس کی حماقت کے باوجود طلاق واقع ہو جائے گی۔ تاہم اگرکوئی ایسا عارضہ لاحق ہے جس کی وجہ سے اس کی ذہنی حالت غیر عادی اورابنا رمل ہوگئی ہے اوروہ سمجھ بوجھ کر بات نہیں کرسکتا جیسے سکران (بسبب جائز ) مدہوش،معتوہ، مجنون اورنائم وغیرہ میں ہوتاہے یااس کی سمجھ بوجھ شریعت کی نظر میں ابھی نشوونما کے مراحل میں ہے جیسے نابالغ میں ہوتاہے توطلاق واقع نہیں ہوگی۔ 
حاصل یہ کہ طلاق کے وقو ع کے لیے یہ ضروری ہے کہ طلاق دینے والا شرعی طورپر اکتمالِ عقل (بلوغ)کے بعد اسے استعمال کرنے کی پوزیشن میں ہو، خواہ عملاًاسے استعمال کرے یانہ کرے ۔دوسرے لفظوں میںیوں کہاجاسکتاہے کہ اس کی ذہنی حالت اس کے قابو میں ہو۔ حدیث کے الفاظ ’’المعتوہ المغلوب علی عقلہ ‘‘کا مقتضا بھی یہی ہے۔ کیونکہ حدیث میں جس کو وقوعِ طلاق سے مستثنیٰ کیا جارہا ہے وہ مفقود العقل نہیں بلکہ مغلوب العقل ہے۔ 
یہاں تک لکھنے کے بعد سرخسی کی ایک عبارت مل گئی جس میں وہ نشے کی حقیقت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
لأن بالسکر لایزول عقلہ وانما یعجز عن استعمالہ لغلبۃ السرورعلیہ ۔
اس میں بعینہ وہی بات کہی گئی ہے جو اوپر فقہا کے ذکر کردہ متفرق احکام سے مستنبط کی گئی تھی۔
اوریہ بات طے شدہ ہے کہ اگرنشہ حرام سبب سے نہ ہو تو طلاق واقع نہیں ہوتی ، معلوم ہواکہ عدمِ وقوع طلاق کے لیے آخری درجے کازوالِ عقل ضروری نہیں ، بلکہ اس کے استعمال سے عاجز ہونا کافی ہے۔ مدہوش اور غضبان دونوں میں طلاق واقع نہ ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ بد حواسی اس حد تک پہنچ جائے کہ اسے معلوم ہی نہ ہوکہ وہ کیاکررہاہے،بلکہ غلبۂ ہذیان اورسنجیدہ وغیر سنجیدہ گفتگو کاملاجلاہونا کافی ہے، تائید میں انہوں نے ’’سکران‘‘(جبکہ نشہ حرام سبب سے نہ ہو) کی مثال پیش کی ہے کہ اس میں حنفیہ کے مفتی بہ قول کے مطابق نشے کااتنا درجہ ہی کافی ہے، آگے چل کرعلامہ شامیؒ نے مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھاہے کہ اگرمدہوش ،غضبان اورسکران وغیرہ جوکچھ کہ رہے ہیں وہ انہیں معلوم بھی ہے اورکہ بھی قصدا اورارادے سے رہے ہیں لیکن عمومی گفتگو سے عقل کااختلال واضح ہورہاہے تب بھی طلاق واقع نہیں ہوگی، اس لیے کہ سمجھ بوجھ کے صحیح نہ ہونے کی وجہ سے ان کاقصد اورارادہ غیرمعتبر ہے جیساکہ صبی ممیز میں ہوتاہے کہ وہ اگرطلاق دے تواپنے قصداورارادے سے دیتاہے لیکن سمجھ بوجھ کے مکمل نہ ہونے کی وجہ سے اس کی طلاق واقع نہ ہوگی۔ 
علامہ شامی کی بحث کے چند اقتباسات یہاں پیش کیے جاتے ہیں ، وہ لکھتے ہیں:
’’والذی یظہر لی أن کلامن المدہوش والغضبان لایلزم فیہ أن یکون بحیث لایعلم مایقول،بل یکتفی فیہ بغلبۃ الہذیان واختلاط الجد بالہزل کما ہو المفتی بہ فی السکران علی مامر‘‘۔
وہ مزید لکھتے ہیں:
والذی ینبغی التعویل علیہ فی المدہوش ونحوہ إناطۃ الحکم بغلبۃ الخلل فی أقوالہ وأفعالہ، الخارجۃ عن عادتہ، وکذا یقال فیمن اختل عقلہ لکبر أو مرض أو لمصیبۃ فاجأتہ ،فما دام فی حال غلبۃ الخلل فی الأفعال والأقوال لاتعتبر أقوالہ، وان کان یعلمہا ویرید ہا، لأن ہذہ المعرفۃ والإرداۃ غیرہ معتبرۃ لعدم حصولہا عن إدراک صحیح کما لا تعتبر من الصبی العاقل۔ (شامی ج۳ص ۲۴۴)

۵) ذہنی مریض کی طلاق

مذکورہ تفصیل سے ایسے لوگوں کی طلاق کاحکم بھی معلوم ہوگیا جوڈیپریشن وغیرہ نفسیانی بیماریوں کے دورے کے دوران طلاق دے دیتے ہیں ، آج کل اس طرح کے نفسیاتی امراض بہت عام ہیں اوربہت سے حالات میں تو ان کاسبب ہی ازدواجی اورخاندانی مسائل ہوتے ہیں ،اگر کوئی دوسر ا سبب بھی ہوتب بھی ان نفسیاتی کیفیات کی تان زیادہ ترگھریلومعاملات پرہی ٹوٹتی ہے اورمریض اپنی بھڑاس یہاں نکالنے کوشاید زیادہ آسان سمجھتاہے ،اس لیے اس طرح کے مریض کے گھریلو معاملات پر تکرار کے دوران اس بات کے امکانات بڑھ جاتے ہیں کہ وہ خاص اشتعالی یادورے کی کیفیت میں ہو، اگرکوئی شخص واقعتاایسی کیفیت میں طلاق دے دیتاہے تومذکورہ بالاتفصیل سے معلوم ہوتاہے کہ اس کی طلاق واقع نہیں ہونی چاہیے ، اوپر ذکرکردہ علامہ شامی کی عبارت ’’وکذا یقال فیمن اختل عقلہ لکبر أو مرض أو لمصیبۃ فاجأتہ‘‘ سے یہی مستفاد ہوتاہے۔
آج کل دیکھا یہ گیاہے کہ بعض اوقات طلاق دینے والاواقعتانفسیاتی مریض اورنفسیاتی معالج کے زیرعلاج ہوتاہے۔ اس کے معالج کی اس بات پر تصدیق بھی ہوتی ہے کہ اس کی بیماری اس نوعیت کی ہے کہ ناگوار بات سننے یادیکھنے کی صورت میں اس کی ذہنی حالت قابو سے باہر ہوجاسکتی ہے اوروہ جو منہ میں آتاہے کہ ڈالتاہے ،اپنی سمجھ بوجھ کواستعمال کرنا اس کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود طلاق کے واقع ہونے کافتوی دے دیا جاتاہے ،جوکہ مذکورہ تفصیل کے مطابق خلافِ اصول ہے۔ 
البتہ یہ الگ معاملہ ہے کہ طلاق دینے والا یہ دعوی کرتاہے کہ اس کے طلاق دینے کے وقت یہی کیفیت تھی توکب اس کی بات تسلیم کی جائے گی کب نہیں، بہرحال اگریہ بات ثابت ہوجائے کہ وہ پہلے سے اس طرح کامریض چلاآرہاہے تواس کی یہ بات تسلیم کی جانی چاہیے۔ 
اس تفصیل کے بعد اب ہم آتے ہیں اصل مسئلے کی طرف، یعنی نشے کی حالت میں دی گئی طلاق کاحکم کیاہے، تواس سلسلے میں پہلے فقہاء کے مذاہب پر نظر ڈال لینا مناسب معلوم ہوتاہے۔ 
حنفیہ کے ہاں معروف اورمفتی بہ قول کے مطابق نشہ اگر ایسے سبب سے ہوجومعصیت نہ ہو توسکران کی طلاق واقع نہیں ہوگی، اور اگر نشہ کسی ایسے سبب سے ہے جومعصیت ہے تو نشے کی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہوجائے گی۔ اس دوسری قسم کے نشے میں خمر توبالاتفاق داخل ہے۔ دیگر ناجائز نشوں کے بارے میں متعدد مواقع پر اقوال کااختلاف بھی ہے ،بالخصوص غیرمائع نشہ آور چیزیں مثلاًبھنگ،افیون وغیرہ ، یاوہ مائع نشہ آورچیزیں جوانگور، کشمش ،کھجور اورچھوارے سے نہ بنی ہو۔، تاہم متأخرین کاعمومی رجحان ان چیزوں کے نشے میں بھی طلاق کے وقوع کی طرف ہے، الایہ کہ استعمال کرنے والے نے ان میں سے بطوردوااستعمال ہونے والی چیز بطور دواہی استعمال کی ہو۔ 
حنفیہ میں سے طحاوی اورکرخی نے ترجیح اس بات کو دی ہے کہ کسی بھی قسم کے نشے میں کی حالت میں طلاق واقع نہیں ہوگی، امام زفر اور محمد بن سلمہ کا مذہب بھی یہی نقل کیاگیاہے ،علامہ علاؤ الدین شامی کی ایک عبارت (تکملہ ج ۸ص ۱۹۷)سے معلوم ہوتاہے کہ حسن بن زیاد کا مذہب بھی یہی ہے ،امام غزالی نے الوسیط(۵/۳۹۰) میں امام ابویوسف کامذہب بھی یہی نقل کیاہے ،تاتارخانیہ میں بعض کتب سے اس کا مفتی بہ قول ہونا بھی نقل کیاہے ،لیکن شامی نے اسے عام متون کے خلاف قراردیاہے ۔
مالکیہ میں سے بعض حضرات کے نزدیک نشے کی حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی، لیکن مالکیہ کے ہاں معروف یہ ہے اورخودامام مالک کی تصریح بھی یہ ہے کہ یہ طلاق واقع ہوجائے گی، البتہ مالکیہ کے ہاں اس بارے میں اختلاف پایاجاتاہے کہ وقوعِ طلاق کی وجہ کیا ہے،ایک رائے یہ ہے کہ چونکہ نشے میں کی حالت میں عقل بالکل زائل نہیں ہوتی بلکہ کچھ نہ کچھ باقی رہتی ہے اس لیے اس کاتصرف نافذ ہوگا ۔اس قول کے مطابق اگرنشہ اپنی انتہاء کوپہنچ جائے اورعقل بالکلیہ زائل ہوجائے توطلاق واقع نہیں ہوگی۔ اس وجہ کے مطابق مالکی اورحنفی مذہبوں میں اصولی اختلاف ہوجائے گا،کہ حنفیہ کے نزدیک طلاق کے عدمِ نفاذ کے لیے زوالِ عقل شرط نہیں بلکہ اس کامغلوب ہوناہی کافی ہے ، جبکہ مالکیہ کی اس توجیہ کے مطابق عدمِ وقوعِ طلاق کے لیے زوالِ عقل ضروی ہوگا۔ مالکیہ کے ہاں طلاق واقع ہونے کی دوسری توجیہ یہ ہے کہ چونکہ اس نے اپنی ذہنی کیفیت خوداپنے اختیار سے حرام سبب سے پیداکی ہے اس لیے اس کااعتبار نہیں کیاجائے گا ، اوراس پر ہوش وحواس والے شخص کے احکام جاری ہوں گے ۔اس توجیہ کے مطابق اگرنشا اپنی انتہاء کو بھی پہنچا ہواہو، اس کی طلاق واقع ہوجائے گی۔ (الشرح الکبیر ج ۲ص ۳۶۵ ٗ التاج والاکلیل ج ۴ ص ۴۳)
شافعیہ کے ہاں اگرتونشہ کسی ایسے سبب سے ہوجس میں اس شخص کی تعدّی اورغلطی نہ ہوتوبالاتفاق طلاق نہ ہوگی ، اوراگرنشہ کسی ناجائز سبب سے ہو تو امام شافعی کے اس مسئلے میں دوقول ہیں،ایک یہ کہ طلاق واقع نہیں ہوئی ،دوسرایہ کہ طلاق واقع ہوجائے گی۔ پہلے قول کوقولِ قدیم قرادیاگیا ہے، اورابوثور،مزنی ، ابوسہل ، ابوطاہر الزیادی نے اسے ہی اختیار کیاہے اورامام غزالی نے اسے اقیس قرار دیاہے (الوسیط ج ۵ص ۳۹۰ ، روضۃ الطالبین ج۸ص۶۲) جبکہ دوسرے قول کو قولِ جدید قرار دیاگیا ہے اوربیشتر شافعیہ نے اسی کوترجیح دی ہے۔ 
سکران کے حکم بارے میں مرداوی نے الانصاف میں امام احمد سے پانچ روایتیں ذکر کی ہیں، ان میں تین کے مطابق طلاق واقع نہیں گی اور دوکے مطابق واقع ہوجائے گی، ترجیح میں بھی حنابلہ کے اقوال مختلف ہیں۔
صحابہ وتابعین میں سے سعید بن المسیب ،حسن بصری،ابراہیم نخعی ،زہری اورشعبی وغیرہ وقوعِ طلاق کے قائل ہیں، حضرت عمررضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح کافیصلہ نقل کیاجاتاہے ۔جبکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے سندِ صحیح کے ساتھ ثابت ہے کہ طلاق واقع نہیں ہوگی اوریہی مذہب منقول ہے القاسم بن محمد، طاؤس ،عکرمہ ،عطا اورابوالشعثاء وغیرہ سے ۔عمربن عبدالعزیز پہلے طلاق واقع ہونے کے قائل تھے،بعد میں رجوع کرلیاتھا اورواقع نہ ہونے کے قائل ہوگئے تھے۔ 
جوحضرات طلاق سمیت سکران کے اقوال کومعتبر اورنافذ مانتے ہیں انہوں نے اس مسئلے پرکوئی واضح نص پیش نہیں کی ،جن نصوص سے کسی درجے میں استدلال کیابھی ہے تووہ ان حضرات کے لیے مفید ثابت ہوسکتاہے جومطلقاًنشے کی حالت کومزیلِ اہلیت نہ مانتے ہوں اس لیے کہ اس میں عقل بالکلیہ زائل نہیں ہوتی خواہ نشہ جائز سبب سے ہومثلاً قرآنی آیت: یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَقْرَبُواْ الصَّلاَۃَ وَأَنتُمْ سُکَارَی [النساء ۴:۴۳] سے بعض فقہائے حنفیہ نے بھی استدلال کیاہے، قطع نظر اس امر کے کہ یہ استدلال کس حد تک واضح ہے اس پر یہ اشکال باقی رہتاہے کہ یہ آیت اس دور میں نازل ہوئی تھی جب شراب حرام نہیں ہوئی تھی اس لیے اس سے ثابت ہونے والے اصول کااطلاق جائز نشے کی حالت پربھی ہونا چاہیے جبکہ حنفیہ کے نزدیک ایسانہیں ہے ۔
دوسری طرف جن حضرات کے نزدیک نشے کی حالت میں اقوال نافذ اورمعتبر نہیں ہیں ان کاایک اہم استدلال ماعزسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے واقعات سے ہے کہ ان کے اقرار کرنے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سوال یہ بھی کیاکہ اس نے کہیں شراب تونہیں پی ہوئی ۔ اس سے معلوم ہواکہ نشے کی حالت میں کیاگیا اقرار معتبر نہیں ہے، اگرچہ اس پریہ کہاجاسکتاہے کہ حدود چونکہ شبہات کی وجہ سے ساقط ہوجاتی ہیں اورنشے کی حالت میں اقرار بھی شبہ سے خالی نہیں اس لیے اس اقرارکااعتبارنہیں کیاگیا۔ البتہ حدیث کے الفاظ’’المعتوہ المغلوب علی عقلہ‘‘ کا عموم ان حضرات کی اہم دلیل ہے کہ اس میں اس بات کی وجہ سے فرق نہیں کیاگیاکہ یہ غلبہ عقل جائز سبب سے ہویاناجائز سے۔ 
بہرحال مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوجاتی کہ جوحضرات حرام نشے کی حالت میں وقوعِ طلاق کے قائل ہیں بالخصوص حنیفہ اور شافعیہ ان کا مذہب کسی نص صریح پر مبنی نہیں ہے، اسی طرح ان حضرات کی یہ رائے قیاس اوراصول پربھی مبنی نہیں ہے،اس لیے کہ شروع میں ثابت کیا جاچکاہے کہ ان کے نزدیک اہلیتِ طلاق کے زائل ہونے کے لیے جنون کی کیفیت کاہونا ضروری نہیں بلکہ عقل کامغلوب ہوناہی کافی ہے اور یہ بات نشے میں ہوتی ہے جس کی ایک واضح دلیل یہ ہے کہ اسی طرح کانشہ اگرجائز سبب سے ہو توان حضرات کے نزدیک طلاق واقع نہیں ہوتی ۔ اس لیے اگرچہ بعض حنفیہ نے حرام نشے کی حالت میں طلاق کے و قوع پر اصول سے استدلال کی کوشش کی ہے لیکن ان سب استدلالات پر ایک عمومی اعتراض یہی کیا جاسکتاہے کہ ان دلائل کے مطابق حلال نشے کی حالت میں بھی طلاق واقع نہیں ہونی چاہیے ۔
ناجائز نشے میں دی گئی طلاق کے وقع ہونے کی اصل وجہ وہی ہے جوتقریباًتمام فقہائے حنفیہ اورشافعیہ نے ذکر کی ہے ،جس کاحاصل یہ ہے کہ اگرچہ نشے کی حالت بذاتِ خود طلاق کے واقع ہونے سے مانع ہے لیکن یہاں یہ مانعیت اپنا اثر اس لیے نہیں دکھائے گی کہ اس نے یہ حالت خود معصیت کے راستے سے پیدا کی ہے۔ گویا نہ صرف یہ کہ وقوعِ طلاق کافتویٰ اصول کامقتضا نہیں ہے بلکہ یہ فتویٰ ایک اصول کی تاثیر کونظرانداز کرکے گویا خلافِ قیاس دیاگیاہے۔
نشے کی حالت زوالِ اہلیت طلاق کاایک سبب ہے،لیکن یہاں طریق کار کے معصیت ہونے کی وجہ سے اس سبب کااثر مرتب نہیں ہوگا، تو کیا یہ بھی کوئی اصول ہے کہ معصیت کسی سبب کی تاثیر میں مانع بن جاتی ہے۔ توکم ازکم حنفیہ کے ہاں عموماایسانہیں ہوتا، اس کی ایک واضح مثال سفرِمعصیت میں قصرٗحالتِ حیض کی طلاق، اکٹھی تین طلاقیں ، ارض مغصوبہ میں نماز وغیرہ ہیں ۔ اسی طرح غصب وغیرہ کے کئی احکام سے اس کی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں ۔یہی اعتراض حافظ ابن حجر نے امام طحاوی کاوقوع طلاق کے قائلین پرنقل کیاہے۔(فتح الباری ۹/۱۹۳) اگربغوردیکھا جائے تووقوع طلاق کے قائلین کوامام طحاوی کی بات کی معقولیت سے بظاہر انکار نہیں ہوگا ۔ اس لیے کہ وقوعِ طلاق کے قائلین پر یہ اعتراض تب ہوتا جب وہ یہ کہہ رہے ہوتے کہ وقوعِِ طلاق کافیصلہ اصول اورقواعد یاقیاس کی بنیاد پر ہے، جبکہ ان حضرات کامنشایہ ہرگز معلوم نہیں ہوتا۔ ان حضرات نے جولفظ استعمال کیے ہیں وہ عموماًدوہیں ایک تغلیظ کا دوسرے زجر۔تغلیظ کے معنی یہ ہیں کہ اگرچہ وہ اصولی طورپر اس ’’رعایت‘‘کامستحق تھاکہ اس کی طلاق واقع نہ ہو لیکن اس کے غلط طریقِ کار کی وجہ سے بطور سزایہ رعایت اسے نہیں دی جائے گی۔ اورزجر کے معنی یہ ہیں کہ جب نشے کی حالت میں دی گئی طلاق ہم نافذکردیں گے تویہ خودبھی اوردوسرے لوگ بھی آئندہ نشہ کرنے سے گریز کریں گے۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کم از کم حنفیہ کے ہاں وقوعِ طلاق کا حکم محض انتظامی ہے اصولی یا منصوص نہیں ہے۔ مذکورہ بالابحث کامقصد بھی دلائل کے اعتبارسے کسی قول کوراجح یامرجوح قراردینا نہیں ہے۔بلکہ یہی دیکھنا ہے کہ وقوعِ طلاق کے قائلین کااصل منشاکیاہے، حقیقت یہ ہے کہ اگراس کوحکم انتظامی قرار نہ دیاجائے تواشکالات کاایک طویل سلسلہ شروع ہوجاتاہے۔ اورظاہر ہے کہ انتظامی نوعیت کے حکم کاانحصار حالات پربھی ہوتاہے جیسے سدّذریعہ وغیرہ پر مبنی احکام میں ہوتاہے، اس لیے حالات کی تبدیلی کی صورت میں ایسے احکام میں بھی تبدیلی ہوسکتی ہے۔ 
آج کے حالات کے پیشِ نظر نشے کی حالت میں دی گئی طلاق کا فتوی کئی وجوہ سے نظر ثانی کامحتاج معلوم ہوتاہے، مثلاً: 
۱)جیساکہ اوپر بیان ہوابیشتر فقہا ء بالخصوص فقہائے حنفیہ نے سکران کی طلاق کو ’’تغلیظاً‘‘، ’’عقوبۃً‘‘ اور ’’تشدیداً‘‘ نافذ قرار دیا ہے۔ اس مسئلے میں فقہاء کی عبارات اتنی کثرت سے ہیں کہ ان کا احاطہ دشوار ہے ،ظاہر ہے کہ ’’تغلیظ‘‘، ’’تشدید‘‘ اور ’’عقوبت‘‘ اسی شخص پرہونی چاہیے جس سے معصیت کاصدور ہواہے، اس سے معلوم ہوتاہے کہ ان فقہاء کے پیش نظر عموماًوہ صورتیں تھی جن میں وقوعِ طلاق کانقصان خاوند کوہوتا ہے ،جبکہ ہمارے زمانے میں بالخصوص برّصغیر کے سماجی حالات میں عموماً طلاق کے اثراتِ بد مرد سے کہیں زیادہ بیوی اوراس کے بچوں پر مرتب ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک کے کیے کی سزا دوسروں کودینا جبکہ جس حکم کے ذریعے سزادی جارہی وہ غیر منصوص ہو بلکہ نص (المغلوب علی عقلہ)کے عموم اورعام اصول کے بھی خلاف ہو،قرین مصلحت اورقرینِ انصاف نہیں ہے۔
۲)فقہاء نے وقوع طلاق کی ایک وجہ ’’زجر‘‘بیان کی ہے ،لیکن اول توہمارے زمانے میں یہ سوال اہم ہے کہ وقوع طلاق کے فتوے سے یہ مقصد حاصل ہوبھی رہاہے یانہیں، دوسرے اس کامطلب یہ ہواکہ یہ حکم ایک مصلحت کے حصول یاایک مفسدے کے ازالے کے لیے ہے، یعنی لوگ نشے سے بچ جائیں۔ نشہ بھی ایک مفسدہ ہے اورطلاق بھی ایک مفسدہ ہے ٗجسے ابغض الحلال قراردیاگیاہے اورحدیث شریف میں بتایا گیاہے کہ ابلیس اپنے اس چیلے کوزیادہ شاباش دیتاہے جو زوجین میں تفریق کراکے آیاہو، بالخصوص ہمارے ماحول میں اس کے مفاسد پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئے ہیں،معاشی تنگی، مفادپرستی اور خود غرضی کے ماحول کی وجہ سے بیوی بچوں کی کفالت کے بے شمار پیدا ہوجاتے ہیں اور بچوں کی صحیح تعلیم وتربیت کے حوالے سے پیداہونے والے مسائل اس سے بھی سنگین ہوتے ہیں۔ ان حالات میں وقوعِ طلاق اورعدم وقوع دونوں پرمرتب ہونے والے مفاسد کے توازن کومدنظر رکھ کر اس مسئلے پرازسرنو غورکی ضرورت ہے ۔بظاہر یہی معلوم ہوتاہے کہ عموماً وقوعِ طلاق کے مفاسد اس متوقع فائدے(زجرعن السکر)سے زیادہ ہوتے ہیں۔نیززجرکافائدہ محتمل ہے اوروقوعِ طلاق کے مفاسد یقینی ، اس لیے ہمارے زمانے میں عدمِ وقوع طلاق کافتوی ہی انسب معلوم ہوتاہے ۔ 
۳)یوں لگتاہے کہ سکران کی طلاق واقع کرنے میں فقہاء کے پیش نظراحتیاط کاپہلو بھی تھا،چنانچہ شہد یااناج سے بنے ہوئے نبیذ مسکر پربحث کرتے ہوئے ابن نجیم بزازیہ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں :
’’المختار فی زماننا لزوم الحد، لأن الفساق یجتمعون علیہ، وکذا المختار وقوع الطلاق، لأن الحد یُحتال لدرۂ والطلاق یحتاط فیہ، فلما وجب مایحتال لأن یقع مایحتاط أولی‘‘۔
اس سے یہ قاعدہ معلوم ہوتاہے کہ طلاق ان احکام میں سے ہے جنہیں فقہاء بطور احتیاط بھی ثابت کردیتے ہیں،ظاہر ہے کہ احتیاط کو اسی صورت میں اختیار کیاجاتاہے جبکہ اس پر دیگر مفاسد ومضار مرتب نہ ہورہے ہوں۔
۴) جیسا کہ اوپر ذکر ہواسکران کی طلاق واقع ہونے کاحکم منصوص یااصولی نہیں انتظامی ہے۔ اول تو لزومِ مفاسد وغیرہ کی وجہ سے ویسے ہی دوسرے مذہب کواختیار کرنے کی بیسیوں مثالیں فقہاء کے ہاں ملتی ہیں ۔حکم کے انتظامی ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ اورآسان ہوجاتاہے ، اورپھر اس وجہ سے بھی کہ خودحنفیہ میں سے بھی امام زفر، حسن بن زیاد، طحاوی اورکرخی جیسی شخصیات کی آراء عدمِ وقوع کی موجود ہیں۔ مزید برآں یہ کہ ہمارے زمانے میں نشہ یاتوغیرمائع چیزوں سے ہوتاہے یاایسے مائعات سے جوانگور یاکھجور سے بنے ہوئے نہ ہونے کی وجہ سے اشربہ اربعہ سے خارج ہوتے ہیں۔ ان نشوں کی حالت میں طلاق کے بارے میں مشائخِ حنفیہ کے اندرمزید اختلاف موجود ہیں اورتصحیح میں بھی اختلاف ہے۔ مثلاصاحب بحر نے قاضی خان سے عدمِ وقوع کی تصحیح نقل کی ہے، اس لیے عدمِ وقوع طلاق کافتویٰ دینے میں کوئی زیادہ خروج عن المذہب بھی نہیں پایا جا رہا ہے ، اس لیے وقوعِ طلاق والے حکم کی اصل حیثیت وتعلیل کو اورہمارے زمانے اور علاقوں کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے رجحان اس طرف ہورہاہے کہ طلاق واقع نہ ہونے کافتویٰ دیاجائے۔ البتہ اس میں نشے کی نوعیت کی تفصیل میں جانے سے اورقاضی خان وغیرہ کے قول اختیار کرنے کی صورت میں چونکہ بعض نشوں کی شناعت کم ہونے کااندیشہ ہے، اس لیے درست یہ معلوم ہوتاہے کہ امام زفر ،حسن بن زیاد ،طحاوی اورکرخی جیسے حضرات کی رائے اختیار کرتے ہوئے کہاجائے کہ نشے کی حالت میں طلاق واقع نہیں ہوتی، قطع نظرنشے کی نوعیت سے۔ واللہ تعالیٰ اعلم

ایک مجلس کی تین طلاقیں اور اصلاح کی گنجائش

مولانا مفتی فضیل الرحمن عثمانی

اس میں شک نہیں کہ ایک ہی دفعہ میں تین طلاقیں دینے کا مسئلہ بعض اوقات بڑی پیچیدگی پیدا کر دیتا ہے۔ عام طور پر لوگ مسائل سے واقف نہیں ہیں اور طلاق دینا اگر ضروری ہی ہو تو اس کا صحیح طریقہ کیا ہے، اس کو نہیں جانتے۔ 
ایک مجلس میں ایک دفعہ میں تین طلاقیں دی جائیں تو وہ واقع ہو جاتی ہیں۔ یہ مغلظہ طلاق ہے اور اس کا حکم یہ ہے کہ میاں بیوی کا تعلق ختم ہو کر دونوں ایک دوسرے کے لیے اجنبی اور ان میں میاں بیوی کا تعلق ناجائز ہو جاتا ہے۔ اس صورت حال میں اصلاح کی کتنی گنجائش ہے، اس پر نظر ڈالتے ہیں۔

پہلی صورت: تین دیں مگر نیت ایک طلاق کی، کی

اگر ایک ہی دفعہ ایک ہی مجلس میں کسی مرد نے اپنی بیوی کو، جس سے میاں بیوی کا رشتہ قائم ہو چکا تھا، تین طلاقیں دیں، مثلاً اس طرح کہا: ’’میں نے تجھے طلاق دی، طلاق دی، طلاق دی‘‘ اور شوہر یقین دلائے کہ میرا ارادہ ’’ایک ہی طلاق‘‘ دینے کا تھا، دوسری اور تیسری دفعہ کہنا پہلے جملے کی مضبوطی کے لیے تھا تو یہ گنجائش موجود ہے کہ اس کے بیان کو تسلیم کر کے ایک طلاق کا حکم لگایا جائے۔ (اسلامی قانون، دفعہ ۶۰) 
در مختار میں ہے کہ:
کرر لفظ الطلاق (بان قال للمدخولۃ انت طالق انت طالق انت طالق) وقع الکل، فان نوی التاکید دین (در مختار ج ۱، ص ۲۲۴)
’’لفظ طلاق کو دہرایا اور مدخولہ بیوی سے (جس سے میاں بیوی کا تعلق قائم ہو چکا ہے) اس طرح کہا: تجھ پر طلاق، تجھ پر طلاق، تجھ پر طلاق تو سب واقع ہو گئیں اور اگر صرف تاکید کی نیت کی تھی تو دیانتاً تسلیم کیا جائے گا۔‘‘
بعض دفعہ زور اور تاکید کے لیے بھی الفاظ دہرائے جاتے ہیں، جیسے ’’ہاں جاؤ، بھئی جاؤ، چلے جاؤ‘‘۔ یہاں تکرار کا منشا یہ نہیں کہ تین دفعہ جاؤ، بلکہ صرف تاکید اور شدتِ اظہار پیش نظر ہے۔ اس طرح ہو سکتا ہے کہ جوش کے عالم میں کوئی شخص طلاق دے اور بطور تاکید اُسے دہراتا جائے، ذہن میں یہ بالکل نہ ہو کہ ایک سے زائد طلاق دے رہا ہوں۔ یہ طلاق بھی ظاہراً تین ہیں، لیکن فی الحقیقت اس کی صحیح حقیقت نیت اور ارادے کا علم ہونے کے بعد ہی متعین ہوتی ہے۔ (اسلامی قانون صفحہ ۲۲۱۔ تشریح دفعہ ۶۰)
اسلامی قانون متعلق پرسنل لا، ترتیب مولانا منت اللہ رحمانی ، بانی جنرل سیکرٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ صفحہ ۱۸۱ دفعہ ۲۴ میں ہے کہ:
’’اگر طلاق دینے والا یہ کہتا ہے کہ اس کی نیت ایک ہی طلاق کی تھی اور اس نے محض زور پیدا کرنے کے لیے الفاظ طلاق دہرائے ہیں، اس کا مقصد ایک سے زائد طلاق دینا نہیں تھا تو اس کا یہ بیان حلف کے ساتھ تسلیم کیا جائے گا اور ایک ہی طلاق واقع ہوگی۔‘‘
بہشتی زیور مرتبہ مولانا اشرف علی تھانوی، حصہ چہارم میں طلاق دینے کا بیان، مسئلہ ۱۳ ہے کہ:
’’کسی نے تین دفعہ کہا کہ تجھ کو طلاق، طلاق، طلاق تو تینوں پڑ گئیں یا گول مول الفاظ میں تین مرتبہ کہا ، تب بھی تین پڑ گئیں، لیکن اگر نیت ایک ہی طلاق کی ہے، فقط مضبوطی کے لیے تین دفعہ کہا تھا کہ بات خوب پکی ہو جائے تو ایک ہی طلاق ہوئی۔‘‘
یہ اصول ہے کہ کہنے والے کے الفاظ کے چند احتمالات میں سے کسی ایک کی تعیین متکلم کی نیت سے ہوگی۔ شریعت میں اس کی نظیریں موجود ہیں۔ مثلاً یہ کہ چند الفاظ میں سے کسی ایک کی تعیین متکلم کی نیت سے کی جاتی ہے۔
اس پہلی صورت میں، جس کی تفصیل بیان ہوئی، ایک دفعہ کی تین طلاقوں کو ایک ماننے کی گنجائش موجود ہے۔

دوسری صورت: تین طلاقیں دیں، نیت کچھ بھی نہیں کی

دوسری صورت یہ ہے کہ طلاقیں تین دیں، مگر نیت کچھ بھی نہ تھی۔ نہ ایک کی، نہ دو یا تین کی تو اس صورت میں دیکھا جائے گا کہ عرف کیا ہے؟ اگر عرف میں تکرار کلام سے مقصد تاکید ہو تو اس کو تاکید ہی پر محمول کیا جائے گا۔ جیسے کوئی کہے ’’میں آتا ہوں، آتا ہوں، آتا ہوں‘‘ تو اس جملے میں عرفاً تین بار آنا مقصود نہیں، بلکہ مقصد محض تاکید ہے۔ (اسلامی قانون متعلق پرسنل لا، دفعہ ۲۴، صفحہ ۱۸۲)
اصول ہے کہ عرف کی رعایت کی جاتی ہے، اس لیے طلاق کی اس دوسری صورت میں عرف کا لحاظ رکھتے ہوئے یہ گنجائش موجود ہے کہ تین طلاقوں کو ایک طلاق مانا جائے۔

طلاق کی تیسری صورت: انتہائی غضب میں طلاق

انتہائی درجہ کا غضب جس میں عقل مغلوب ہو جائے اور انسان یہ نہ سمجھے کہ کیاکہہ رہا ہے اور کیا کر رہا ہے، یہ بھی وہ کیفیت ہے جس میں طلاق واقع نہیں ہوگی۔ (مجموعہ قوانین اسلامی، شائع کردہ مسلم پرسنل لا بورڈ، صفحہ ۱۳۳)
اسلامی قانون متعلق پرسنل لا میں ہے کہ:
’’دفعہ ۹ ۔۔۔ غصہ کی حالت میں دی ہوئی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ ہاں، اگر غصہ اس درجہ کا ہو کہ ہوش وحواس باقی نہ رہ گئے ہوں اور بوقت طلاق اسے اتنا بھی شعور نہ ہو کہ میری زبان سے کیا بات نکل رہی ہے تو اس حال میں دی ہوئی طلاق واقع نہ ہوگی۔
وللحافظ ابن قیم الحنبلی رسالۃ فی طلاق الغضبان قال فیہا انہ علی ثلاثۃ اقسام:
احدہا: ان یحصل لہ مبادئ الغضب بحیث لا یتغیر عقلہ ویعلم ما یقول ویقصدہ، وہذا لا اشکال فیہ۔
الثانی: ان یبلغ النہایۃ فلم یعلم ما یقول ولا یرہ، فہذا لا ریب انہ لا ینفذ شئ من اقوالہ۔
الثالث: من توسط بین المرتبتین بحیث لم یصر کالمجنون، فہذا محل النظر والادلۃ تدل علی عدم نفوذ اقوالہ، ملخصا من شرح النقایۃ الحنبلیۃ، لکن اشار فی الغایۃ الی مخالفتہ فی الثالث حیث قال: ویقع طلاق من غضب خلافا لابن القیم وہذا الموافق عندنا لما مر فی المدہوش (رد المحتار، کتاب الطلاق، صفحہ ۵۸۷، جلد ۲)
(اسلامی قانون متعلق پرسنل لا، صفحہ ۱۷۴)

طلاق کی چوتھی صورت: لا علمی

اوپر طلاق کی جو تین صورتیں بیان کی گئی ہیں، ان میں اصلاح کی کافی گنجائش ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص تین طلاقیں ایک مجلس میں یکجائی طور پر دے دے اور پھر دونوں چاہیں کہ میاں بیوی بن کر حسب سابق ایک ساتھ رہیں تو اس میں حلالے کی ناگوار صورتوں کے بغیر اصلاح کی صورتیں موجود ہیں اور اہل علم ونظر نے ان پر اپنی مہر ثبت کر دی ہے۔ طلاق کی چوتھی صورت جس سے عام طور پر سابقہ پیش آتا ہے، یہ ہے کہ لوگ طلاق کے مسئلوں سے ناواقف ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ طلاقیں ہوتی ہی تین ہیں۔ وہ رجعی، بائنہ، مغلظہ کی تفصیلات نہیں جانتے۔ یہ بات عام طو رپر مشہور ہو گئی ہے کہ تین دفعہ کہا جائے، تب ہی طلاق پڑتی ہے۔
شریعت نے عرف کا بڑا لحاظ رکھا ہے۔ عر ف بدلنے سے مسئلے کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ تو کیا اس عرف عام اور لاعلمی کا لحاظ رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ تین سے کم طلاقیں واقع ہوتی ہیں اور وہ دونوں میاں بیوی حسب سابق یک جا رہنا چاہتے ہیں تو کیا ایک طلاق واقع ہونے کا فتویٰ دیا جا سکتا ہے اور اس میں رجوع کرنے کی گنجائش ہے؟ اہل علم اور اصحاب فتویٰ سے درخواست ہے کہ ابتلائے عام کو دیکھتے ہوئے اس مسئلے پر غور فرمائیں۔
دلیل کے طور پر ہمارے سامنے ابتلائے عام، لوگوں کی لاعلمی اور یہ سمجھنا ہے کہ طلاقیں ہوتی ہی تین ہیں۔ لوگوں کو ایک بڑے گناہ سے بچانے کے لیے اس صورت پر غور کیا جا سکتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم واحکم
(بشکریہ: ماہنامہ ’’دار السلام‘‘، مالیر کوٹلہ، انڈیا)

طلاق کا وقوع اور نفاذ۔ چند اجتہاد طلب پہلو

محمد عمار خان ناصر

شریعت نے میاں بیوی کے مابین نباہ نہ ہونے کی صورت میں رشتۂ نکاح کو توڑنے کی اجازت دی ہے۔ شریعت کی نظر میں اس رشتے کی جو اہمیت ہے، وہ یہ تقاضا کرتی ہے کہ اس کو ختم کرنے کا معاملہ پورے غور وخوض کے بعد اور تمام ممکنہ پہلوؤں اور نتائج کو سامنے رکھ کر ہی انجام دیا جائے۔ چنانچہ اگر کوئی شخص نادانی، جذباتی کیفیت، مجبوری یا کسی بد نیتی کی بنیاد پر طلاق دے دے تو رشتۂ نکاح کے تقدس کے پیش نظر یہ مناسب، بلکہ بعض صورتوں میں ضروری ہوگا کہ اسے غیر موثر قرار دیا جائے یا اس پر عدالتی نظر ثانی کی گنجایش باقی رکھی جائے۔ 
فقہا کے ایک گروہ کے ہاں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ نکاح یا طلاق کے نافذ ہونے کے لیے کوئی شعوری اور سوچا سمجھا فیصلہ ضروری نہیں، بلکہ کسی بھی کیفیت یا حالت میں اگر طلاق کے الفاظ منہ سے نکل جائیں تو کسی دوسری معاشرتی یا قانونی مصلحت کا لحاظ کیے بغیر وہ لازماً موثر ہو جائیں گے۔ یہ خیال نبی صلی اللہ علیہ وسلم او ربعض صحابہ کی طرف منسوب ایک قول، یعنی ’ثلاث جدہن جد وہزلہن جد‘ (ترمذی، رقم ۱۱۰۴) کے صحیح محل کو نظر انداز کرنے سے پیدا ہوا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ نکاح، طلاق اور طلاق سے رجوع کرنے کا معاملہ سنجیدگی سے کیا جائے یا مذاق میں، وہ بہرحال نافذ ہو جائے گا۔ بعض روایات میں غلام کو آزاد کرنے کو بھی اسی ضمن میں شمار کیا گیا ہے۔ (نیل الاوطار ۷/۲۰۔ ۲۱) حنفی فقہا نے اس کو ایک عام اصول کی حیثیت دے دی ہے اور ان کے ہاں اس کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ کوئی شخص اگر جبر واکراہ کے تحت طلاق دے دے تو وہ اسے بھی موثر قرار دیتے ہیں، حالانکہ عقل وقیاس کے اعتبار سے مذکورہ قول کا صحیح محل یا تو یہ ہو سکتا ہے کہ اسے ایسے لوگوں سے متعلق مانا جائے جو پورے شعور اور ارادے کے ساتھ نکاح یا طلاق کا فیصلہ کرتے ہیں، لیکن بعد میں بدنیتی سے کام لیتے ہوئے یہ کہہ دیتے ہیں کہ انھوں نے ایسا محض مذاق میں کہا تھااوریایہ کہ اسے سد ذریعہ کی نوعیت کا ایک حکم سمجھا جائے جس کا مقصد لوگوں کو متنبہ اور خبردار کرنا ہے کہ وہ ان معاملات کے بارے میں ذہنی طور پر حساس رہیں اور انھیں معمولی اور غیر اہم سمجھتے ہوئے بے احتیاطی کا رویہ اختیار نہ کریں اور اگر وہ ایسا کریں گے تو انھیں اس کے نتائج سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جائے گا۔ 
اس حد تک یہ بات پوری طرح قابل فہم ہے، لیکن اس کو وسعت دیتے ہوئے یہ اصول قائم کر لینا کسی طرح درست نہیں کہ طلاق کے معاملے میں سوچ سمجھ کر اور پورے شعور کے ساتھ فیصلہ کرنا سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتا اور شوہر جس کیفیت اور حالت میں بھی طلاق کے الفاظ منہ سے نکال دے، وہ نافذ ہو جائے گی اور اس کی کسی مجبوری یا عذر کو کوئی وزن نہیں دیا جائے گا۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ شوہر سے جبراً لی گئی طلاق کو کوئی حیثیت نہیں دی، (سنن سعید بن منصور، رقم ۱۱۳۰۔ ۱۱۳۱) بلکہ ’اغلاق‘، یعنی دباؤ کی حالت میں دی گئی طلاق کو بھی غیر نافذ قرار دیا۔ (ابن ماجہ، رقم ۲۰۳۶) شارحین نے ’اغلاق‘ کا مصداق جبر واکراہ کو بھی قرار دیا ہے اور شدید غصے کی کیفیت کو بھی۔ میری رائے میں دونوں باتیں درست ہیں، اس لیے کہ نہ جبر واکراہ کی صورت میں خاوند کا حقیقی ارادہ اور عزم کارفرما ہوتا ہے اور نہ شدید غصے کی کیفیت میں۔ 
پھر یہ کہ کسی بھی صورت حال میں دی گئی طلاق کو خاوند کے دائرۂ اختیار کی حد تک موثر مان لیا جائے تو بھی اس سے عدالت کے نظر ثانی کے حق کی نفی لازم نہیں آتی۔ قاضی کو ’ولایت عامہ‘ کے تحت جس طرح تمام دوسرے معاملات میں فریقین کے مابین طے پانے والے کسی معاہدے یا کسی صاحب حق کے اپنے حق کو استعمال کرنے پر نظر ثانی کا اختیار حاصل ہے، اسی طرح طلاق کے معاملے میں بھی حاصل ہونا چاہیے اور اگر وہ قانون وانصاف اور مصلحت کے زاویے سے کسی طلاق کو کالعدم قرار دینا چاہے تو نصوص یا عقل وقیاس میں کوئی چیز اس کے خلاف نہیں پائی جاتی۔ اس کے حق میں نقلی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غلام کو آزاد کرنے کے فیصلے کو سنجیدگی اور مذاق میں یکساں موثر قرار دینے کے باوجود بعض مقدمات میں مالک کے، پورے شعور اور سنجیدگی کے ساتھ اپنے غلاموں کو آزاد کرنے کے فیصلے کو شرعی مصلحت کے منافی سمجھتے ہوئے اسے کالعدم قرار دے دیا۔ (مسلم، رقم ۳۱۵۴) اسی طرح ایک مقدمے میں خاوند نے بیوی کے مطالبے پر اسے کہا کہ طلاق کے معاملے میں جو اختیار مجھے حاصل ہے، وہ میں تمھیں تفویض کرتا ہوں۔ بیوی نے اس حق کو استعمال کرتے ہوئے اپنے آپ کو تین طلاقیں دے دیں، لیکن سیدنا عمر اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے یہ سارا معاملہ واقع ہو جانے کے بعد مصلحت کے اصول کے تحت یہ قرار دیا کہ خاوند کا تفویض کردہ حق صرف ایک طلاق کی حد تک موثر ہے۔ (طبرانی، المعجم الکبیر، رقم ۹۶۴۹۔ ۹۶۵۰)
ان مثالوں سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ حق طلاق کے غلط اور غیر حکیمانہ استعمال کی روک تھام اور قانون کے اطلاق کو موثر اور منصفانہ بنانے کے لیے اس نوع کی قانونی تحدیدات عائد کرنے کی نہ صرف پوری گنجایش موجود ہے، بلکہ یہ قانون کا ایک لازمی تقاضا ہے۔ معاصر تناظر میں دیکھا جائے تو کئی پہلووں سے اس نوعیت کی قانون سازی ضروری معلوم ہوتی ہے۔ شوہر کسی وقتی جذباتی کیفیت میں طلاق دے بیٹھے یا شعوری طور پر طلاق دینے کا فیصلہ کرے، عمومی طور پر اس کے مضر نتائج واثرات عورت اور بچوں ہی کو بھگتنا پڑتے ہیں۔ چنانچہ عورت اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے یہ ضروری ہے کہ خاوند کے حق طلاق کے نافذ اور موثر ہونے کو بعض قانونی پابندیوں کے ساتھ مقید کیا جائے۔ اسی طرح بعض صورتوں میں عورت بالکل جائز بنیادوں پر طلاق لینے کی خواہش مند ہوتی ہے، لیکن خاوند اس کے لیے آمادہ نہیں ہوتا، جبکہ عورت کسی جائز وجہ سے خاوند سے علیحدگی چاہتی ہو تو یہ اس کا حق ہے اور خاوند شرعاً اس کے اس مطالبے کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ اسی وجہ سے جب ایک ایسا مقدمہ سامنے آیا جس میں بیوی نے شوہر کی رضامندی سے طلاق لینے میں ناکامی کے بعد اس کی جان کو خطرے میں ڈال کر اس سے طلاق لے لی تھی تو سیدنا عمر نے، جو اصولی طور پر جبری طلاق کے غیر موثر ہونے کے قائل تھے، ( سنن سعید بن منصور، رقم ۱۱۲۸) عورت سے اس کا موقف سننے کے بعد اکراہ کے تحت لی گئی اس طلاق کو بھی نافذ قرار دے دیا۔ (سنن سعید بن منصور، رقم ۱۱۲۹) معاصر تناظر میں اس الجھن کا حل یہ ہو سکتا ہے کہ نکاح کے وقت طلاق کے حق کو مناسب شرائط کے ساتھ کسی ثالث یا خود عورت کو تفویض کر دینے کو قانونی طو رپر لازم کر دیا جائے یا یہ قرار دیا جائے کہ اگر عورت خاوند سے طلاق کا مطالبہ کرے تو ایک مخصوص مدت کے اندر شوہر بیوی کو مطمئن کرنے یا اسے طلاق دینے کا پابند ہوگا، ورنہ طلاق ازخود واقع ہو جائے گی۔ واللہ تعالیٰ اعلم

نہ معرفت، نہ نگاہ!

محمد دین جوہر

الشریعہ دسمبر ۲۱۰۲ء میں میاں انعام الرحمن صاحب نے ’’۔۔۔ اور کافری کیا ہے؟‘‘ کے عنوان سے راقم کے مضمون کا جواب دیا ہے۔ انہوں نے کافی محنت سے مضمون کا ایک درسی گوشوارہ مرتب کیا اور پھر اس کا شق وار قانونی جواب دے کر قارئین کی خدمت میں پیش کرنے میں بڑی محنت اٹھائی۔ اس کے لیے وہ یقیناًداد کے مستحق ہیں۔ اس جواب الجواب کی pedantry کا، صاف ظاہر ہے کہ ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ ان کے جواب سے ہمیں یہ اندازہ بخوبی ہو گیا ہے کہ میاں صاحب ہماری گزارشات اور سوالات کو register بھی نہیں کر پائے اور کسی دوسری طرف نکل کھڑے ہوئے۔ لفظوں کی گردانیں تو ہم نے سن رکھی ہیں، لیکن فقروں کی گردانیں بنا کے میاں صاحب نے ایک نئی چیز متعارف کرائی ہے۔ اس پر بھی ہم ان کے تہہ دل سے ممنون ہیں۔ 
اہم تر یہ امر ہے کہ میاں صاحب نے اپنے جواب کو بالکل ہی ذاتیات بنا دیا اور ما بہ النزاع فکری امور کی طرف ان کی توجہ نہ جا سکی۔ ادھر یہ حال ہے کہ ہمیں ذاتیات میں قطعی کوئی دلچسپی نہیں ہے اور نہ فتویٰ بازی ہی سے ہمیں کسی طرح کی طبعی مناسبت ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ علمی مکالمہ ذاتیات کی تنگنائے میں واقع نہیں ہو سکتا اور اس کے لیے طرفین کی مفاہمت سے قائم تہذیبی فضا کی ضرورت ہوتی ہے۔ مزید برآں، ہمیں اس بات کا بھی پورا احساس ہے کہ علم اور عقیدے کا تعلق بہت گہرا ہے اور اس کی نوعیت اور منہج سے بھی شناسائی رکھتے ہیں، لیکن ہم علمی بحث کو عقیدے پر فتویٰ بازی نہیں بناتے جس کا مظاہرہ میاں صاحب نے فرمایا ہے۔ ہمارا پختہ یقین ہے کہ مکالمہ اور گفتگو زیور تہذیب ہیں اور تہذیب ختم ہو جائے تو زیور کی تلاش بے سود ہے۔
جس طرح اوّلی مضمون ان کے علم کا اظہار تھا، بالکل اسی طرح یہ مضمون ان کے جدید مذہبی رویوں اور تہذیب کا اظہار ہے۔ پہلے وہ ملاحظہ فرما لیں، باقی گزارشات میں ٹھہر کے عرض کرتا ہوں۔ کفر و ایمان کا جھگڑا تو انہوں نے عنوان ہی میں صاف کر دیا کہ ’’۔۔۔ اور کافری کیا ہے؟‘‘ یعنی ہمارا مضمون تو کافری ہی کافری ہے اور بزعم خویش اسلام کے شارح اور ترجمان جناب موصوف خود ہیں۔ اس میں حیرت یہ ہے کہ اگر مخاطب کو کافر قرار دے ہی دیا ہے تو پھر مشرک قرار دینے کی کون سی دینی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ شاید ایسی ہی نئی ضروریات کی تکمیل کے لیے وہ کوئی نیا اسلامی اڈیشن تیار کرنا چاہ رہے ہیں۔ موصوف فرماتے ہیں کہ ’’قدیم دیسی شعور‘‘ [اس سے مراد راقم ہے] بھی تو بتوں سے امید لگائے بیٹھا ہے۔‘‘ یہ تو فاضل مضمون نگار کے جدید دینی رویے ہوئے۔ ہمیں کافر کہہ کر ان کی تسکین نہیں ہوئی تو ہم میاں صاحب سے عرض کریں گے کہ کیا مشرک قرار دے کر ان کی تالیف قلب ہو گئی؟ اگر نہیں ہوئی تو وہ ہمارے حوالے سے اپنی مستقل تالیف قلب بھی کرتے رہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ اب اس کفر و شرک کے طومار پر بھلا میں کیا تبصرہ کر سکتا ہوں؟ جیسی ان کی جدید دینی تعبیرات ہیں، ویسی ہی ان کی افتائی شطحیات ہیں۔
اب ان کی تہذیب بھی ملاحظہ فرما لیں: ’’اگر جوہر صاحب اپنے مفروضات کے جوہڑ سے باہر آئیں تو۔۔۔‘‘ میاں صاحب سے گزارش ہے کہ ہمیں کسی کو کافر، مشرک قرار دینے یا مخاطب کے نام میں تحقیری تصرفات کرنے میں تو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ یہ دینی رویے اور تہذیبی شعور انہیں اور الشریعہ کو مبارک ہو۔ ہم اس سے قطعی بری الذمہ ہیں۔ علمی اختلاف کو ذاتیات بنانے اور علمی بحث کو عقیدے کی بحث بنانے میں ہمیں چنداں دلچسپی نہیں اور نہ اس طرح کے فضول کاموں کے لیے ہمارے پاس کوئی وقت ہے۔ ہاں، جہاں تک ان کے جعلی مذہبی علوم کا تعلق ہے، ہم ان کی تحلیل، تجزیے اور پرزور رد کی بساط بھر کوشش کرتے رہیں گے۔ اگر وہ علمی گفتگو کو عقیدے اور نیت پر حملے کی آڑ بنا رہے ہیں تو ہمیں اس طرح کی دشنام گری سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ہم جواباً ان پر کفر و شرک تھوپنے یا انہیں بدنیت قرار دینے کے عمل ہی کو قابل مذمت سمجھتے ہیں، خود کیسے اس کا ارتکاب کر سکتے ہیں؟ وہ اگر چاہیں تو اپنی تالیف قلب کے لیے اور اپنے نئے اسلامی اڈیشن کی تشہیر کے لیے اور اس کی روشنی میں دریافت کردہ (نعوذباللہ) ہمارے کفر و شرک کا پورا محضر نامہ اپنے رسالے میں شائع کرواتے رہا کریں۔ ہم نیت اور عقیدے کا معاملہ اللہ پر چھوڑتے ہیں۔ ہمارا سروکار تو ان کے صرف اظہار دادہ خیالات تک ہی محدود ہے۔ میاں صاحب سے گزارش ہے کہ اگر ان کا نیا اسلامی اڈیشن تیار ہو گیا ہے تو وہ اس کی اشاعت کا مناسب بندوبست فرمائیں، فقروں کی گردانیں کر کے انشائی آملیٹ بنا کر قارئین کرام، خود اپنا اور ہمارا وقت ضائع نہ کریں۔
ان کی تہذیب کا ایک نمونہ اور بھی ملاحظہ فرما لیں: ’’جوہر صاحب کے روایتی اسلوب سے مراد اگر ’’دما دم مست قلندر‘‘ جیسے اسالیب ہیں۔۔۔‘‘ اب ایسی باتوں کا آدمی کیا جواب دے؟ دعا ہی کر سکتا ہے۔ علم اپنا دفاع کرتا ہے، غصہ صرف اظہار چاہتا ہے۔ اپنے جواب الجواب میں میاں صاحب نے صرف غصے کا اظہار ہی فرمایا ہے۔ اب اپنے غصے اور اپنی عقل سے دین کی جدید تعبیر کا جو بیڑا میاں صاحب نے اٹھایا ہے، اس کا علم اٹھانے کا حوصلہ تو صرف الشریعہ کے پاس ہے۔ ہمارے حصے میں تو صرف گالیاں ہی آئی ہیں۔
بہر حال کیا راقم اور کیا اس کی اوقات، یہاں تو عامۃ المسلمین کی عزت بھی محفوظ نہیں۔ ذرا ان کا ہٹیلا پن ملاحظہ فرمائیے: ’’جی ہاں! مذکور معنی میں مسلمان بے حیا اور بے غیرت ہیں۔ اس سلسلے میں ہم نے ایک دو مثالیں بھی پیش کی تھیں۔‘‘ یہ میاں صاحب کی بندہ نوازی ہے کہ انہوں نے ایک دو مثالوں سے حاصل ہونے والے تجربے کو قصص القرآن سے اخذ کردہ شرائط کی روشنی میں جس طرح ’’تاریخی تجربے‘‘ میں ڈھال کر مسلمانوں پر منطبق کیا ہے، اس سے ان کے جدید اسلامی اڈیشن کے اخلاقی پہلوؤں کو بڑی سربلندی اور رفعت حاصل ہوئی ہے۔ مسلمانوں کا مذہب یا اس کا ایک خاص اڈیشن بقول میاں صاحب موجودہ عمرانی صورت حال سے غیر متعلق ہو گیا ہے اور خود مسلمان بالعموم بے غیرت اور بے حیا ہیں۔ اب لے دے کے میاں صاحب ہی ان کا آخری سہارا اور امید ہیں، اس لیے ان سے گزارش ہے کہ وہ اپنے نئے اسلامی اڈیشن کی جلد رونمائی کا بندوبست فرمائیں تاکہ روایتی اسلام کی مکمل بیخ کنی کر کے صورت حال کو سنبھالا دیا جا سکے۔ میاں صاحب سے التماس ہے کہ خود ان کے تجزیے کے مطابق ہماری عمرانی صورت حال بہت خراب ہے، اس لیے ان کے نئے اڈیشن کی جلوہ افروزی میں تاخیر نقصان کا موجب ہو سکتی ہے، جو صاف ظاہر ہے ان کا منشا بھی نہیں ہے۔ پھر مسلمانوں کو بالعموم بے غیرت اور بے حیا قرار دیتے سمے ان کی ادعایت میں جارج بش کے لہجے کی جھلک صاف نظر آ رہی ہے۔ اس پر وہ مزید مبارک باد کے مستحق ہیں، کہ ماشاء اللہ جہاں سے تعبیرات آ رہی ہیں، وہاں سے لہجہ بھی مستعار ہے۔ 
میاں صاحب نے عمرانی کا لفظ کہیں پڑھا یا کسی جدید دانشور سے سن رکھا ہو گا اور امید ہے کہ وہ اس کا مطلب بھی جانتے ہوں گے، اس لیے اس بچارے عمرانی کو سر پر گھماتے ہوئے روایتی دین کا لنکا ڈھانے نکل کھڑے ہوئے۔ کیا انہوں نے سنا ہے کہ جدید سماجی علوم The Death of the Social کا اعلان بھی فرما چکے ہیں؟ جدید معاشرے کا تجزیہ جدید نظری علوم کس کس منہج پر کر رہے ہیں، یہ میاں صاحب کی بلا سے۔ اپنے نو دریافت شدہ عمرانی قمقمے سے ان کی ٹکٹکی ہٹے تو ادھر ادھر بھی کچھ سجھائی دے۔ اپنی ذہنی جھنجھلاہٹ اور چشمی چندھیاہٹ میں ہم پر خواہ مخواہ برس رہے ہیں۔ 
میاں صاحب کے جواب سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے انہوں نے اپنا اوّلی مضمون یونانی زبان میں لکھا تھا جو ہماری سمجھ میں نہیں آیا اور وہ اب اس کی تدریس مکرر کر رہے ہیں۔ وہ تسلی رکھیں، ہم ان کی اردو اور اس میں اظہار دادہ خیالات کو خوب سمجھتے ہیں، اور ویسے ہی سمجھتے ہیں جیسے وہ اظہار فرما رہے ہیں۔ ہم اپنی خوش فہمی میں یہ توقع لگائے بیٹھے تھے کہ اپنے جواب میں وہ فکری طور پر مربوط کسی جدید اسلامی اڈیشن کی توپ چلائیں گے، لیکن انہیں تو اپنی ذات کی تشویش لاحق ہو گئی اور وہ کسی ہار جیت کی نفسیات میں گفتگو کو آگے بڑھانا چاہ رہے ہیں۔ اگر جیت ہی ان کا مسئلہ ہے تو ہم عرض کیے دیتے ہیں کہ جدید تعبیرات والے تو جیتے جتائے لوگ ہیں، یہ تو بچارے دینی روایت سے جڑے ہوئے ہم جیسے لوگ ہیں جو محاصرے میں ہیں اور جن کے موقف کی گنجائش تو دور کی بات ہے، ان کے لیے روایت دین کا نام لینا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ میاں صاحب کی اجازت سے ان کا پسندیدہ لفظ استعمال کرتے ہوئے عرض کروں گا کہ علم کی ’’عمرانی‘‘ ٹہل سیوا کے ساتھ ساتھ انہوں نے مخاطب کا جو ’’دینی بندوبست‘‘ فرمایا ہے، اس سے اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ وہ فاتح طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو جدید تعبیرات پر اپنی اجارہ داری کو درپیش کوئی سوال برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں۔
میاں صاحب کے جواب الجواب کے علاوہ بھی کچھ احباب نے اپنے ردعمل مجھے براہ راست روانہ فرمائے۔ ان سب میں مشترک وہ شدید رد عمل تھا جو ان ایک دو باتوں پر ہوا جو راقم نے دینی روایت اور روایتی علما کے حوالے سے ضمناً عرض کی تھیں۔ مجھے اس قدر اندازہ نہیں تھا کہ دینی روایت اور روایتی علما کا نام لینے پر ہی جدید دانشوروں کو دورہ ہو جائے گا اور جدید تعبیرات دین کا اصل موضوع پس منظر میں چلا جائے گا۔ مجھے براہِ راست موصول ہونے والے رد عمل اسلاف کیلئے گالم گلوچ اور دریدہ دہنی سے پر تھے۔ ہمارا مقصد کسی کو برا بھلا کہنا تو ہر گز نہیں تھا، ہم تو کسی فکری اور علمی مکالمے کے انتظار میں تھے۔ بچارے روایتی مولوی تو چلیے ہر طرح سے فارغ البال ہیں، لیکن جدید مولویوں کے حالات تو بالکل ہی ناگفتہ بہ ہیں۔ اقبال کا یہ مصرع ‘‘نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ’’ اصل میں ان پر ہی صادق آتا ہے۔ 
ہمارے خیال میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ جدید مذہبی دانشوروں کا نام نہاد عقلی استدلال جب ہانپنے لگتا ہے تو یہ مذہبی استناد کو آڑ بنا کر کفر و شرک کے فتوے صادر فرماتے ہیں۔ جب ان کا ذہن مذہبی استناد کے سامنے متامل ہوتا ہے تو یہ عقلی استدلال کی طرف لپکتے ہیں۔ جدید تعبیرات دین میں کارفرما ذہن نہ عقلِ انکار کا حامل ہے، نہ عقلِ تسلیم کا نمائندہ ہے۔ یہ تو استعمار کا تعمیر کردہ ذہن بیمار ہے جو ذہن ہونے کی بنیادی تعریف پر ہی پورا نہیں اترتا، کیونکہ استعمار کی وجودی نوکری اور استشراق کی شعوری غلامی اس ذہن کا content نہیں ہے، بلکہ structure ہے۔ وجودی نوکری اور شعوری غلامی کے قطبین کے درمیان کارفرما یہ ذہن مذہبی استناد کے حوالے سے شبہات اور عقلی استدلال کے حوالے سے مہجوری کا شکار ہے۔ ارادے کی سطح پر اس شعور کا بنیادی ترین اظہار سازباز اور ذہن کی سطح پر خلط مبحث ہے۔ اس ذہن کے عقلی استدلال کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ جدید علوم نے عقائد کی بیخ کنی کیلئے جو بھی دلائل اور علوم کھڑے کیے ہیں، اور جنہیں استعمال کر کے جدید ذہن اور جدید تہذیب نے اپنے تمام مقاصد تک مکمل رسائی حاصل کی ہے، بعینہٖ وہی دلائل یہ عقائد کے دفاع میں لے کے آتا ہے۔
میاں صاحب نے گلا کیا ہے کہ ہم نے ان پر قرآن مجید کو خلاصۂ تاریخ کہنے کا الزام لگایا ہے۔ انہوں نے gist of historyقرآن کے داخل میں محفوظ کیے جانے کا نیا فلسفہ دریافت کیا ہے۔ داخل خارج کی بحث تو بعد میں کریں گے، چلیے وہ خود ہی ارشاد فرمائیں کہ اس کو اردو میں خلاصۂ تاریخ نہیں کہیں گے تو کیا کہیں گے؟ جدید مذہبی دانشور چونکہ ایک extreme colourized- subjectivity-کا شکار ہوتے ہیں، اس لیے ان کے ہاں نہ لفظ کی حرمت باقی رہتی ہے نہ کسی تصور کی سالمیت۔ فقروں کی گردانیں یہ اسی لیے شروع کرتے ہیں کہ اپنے مکمل طور پر ..subjective .. معنی کی قطع برید کرتے رہیں۔ 
اب آپ جناب موصوف کے عقلی سوالات ملاحظہ فرمائیں: ’’ہمارے پاس موجود قرآن مجید نزولی ترتیب کے مطابق نہیں ہے، سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اگر اللہ رب العزت کو حتمی ترتیب (موجودہ ترتیب) ہی مقصود تھی تو قرآن اسی ترتیب پر نازل کیوں نہیں کیا گیا؟ پھر نزولی ترتیب ہی کو باقی کیوں نہیں رکھا گیا؟ کیا یہ سوال اٹھانا جرم ہو گیا؟‘‘ ہم عرض کریں گے کہ بھئی جرم تو نہیں ہوا، البتہ جناب موصوف کا عقلی استدلال بہت مصبوط ہو گیا۔ اب مصنف کی ذمہ داری ہے کہ ان کی طرف سے اس کا کوئی عقلی جواب بھی آنا چاہئے، اور وہ کبھی آنے کا نہیں۔ ملاحظہ فرمائیے کہ سوالات میں کس قدر ہیر پھیر کر کے عقلی ہونے کا جھانسہ دیا گیا ہے۔ سوالات دراصل یہ ہیں کہ ’’اگر اللہ رب العزت کو حتمی ترتیب (موجودہ ترتیب) ہی مقصود تھی تو اس نے قرآن اسی ترتیب پر نازل کیوں نہیں کیا؟ پھر [اللہ رب العزت نے] نزولی ترتیب ہی کو باقی کیوں نہیں رکھا؟ یہ ’’کیا گیا‘‘ اور ’’رکھا گیا‘‘ کا مجہول صیغہ مطلق جعلساز دانشوری ہے۔ یہ سوال کتنے صحابہ کرام نے حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام سے پوچھا ہو گا؟ یا کتنے تابعین حکمت کے لیے اس طرح کی لغویات میں پڑے ہوں گے؟ ہمارا موقف ہے کہ یہ سوالات نہ عقلِ انکار کے ہیں نہ عقلِ تسلیم کے ہیں بلکہ ہمارے جدید مذہبی دانشوروں کے ہیں۔ اس سلسلے میں جدید مذہبی دانشوروں سے ہماری گزارش ہے کہ اس طرح کے سوالات تو نعوذ باللہ، اللہ تعالیٰ سے کانفرنس یا سیمینار کے بعد ہی حل ہو سکتے ہیں۔ عقل کا سوال تو صرف یہ ہے کہ بذریعہ وحی نزول قرآن کا کوئی عقلی امکان موجود ہے یا نہیں؟ یا عقلی طور پر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ رسالت کا عقلی امکان موجود ہے یا نہیں؟ اب ذرا میاں صاحب ان سوالوں سے مڈھ بھیڑ کریں تو ان کو معلوم ہو جائے گا کہ ان کا خود ساختہ جعلی عقلی استدلال کہاں تک ان کا ساتھ دیتا ہے۔ 
برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ دہریت کا علمی اور سائنسی نظریہ اب ایک طاقتور سماجی تحریک بھی بن چکا ہے اور اس تحریک کا بنیادی ترین آلۂ علم عقل اور اس کے پیدا کردہ سائنسی علوم ہیں۔ اب ان کے دلائل کا چربہ ہمارے ہاں کے جدید مذہبی دانشور مذہب کے دفاع میں لے کے آتے ہیں۔ اب میاں صاحب ذرا رچرڈ ڈاکن کی عقل اور اس کے دلائل کو ملاحظہ فرما لیں تو انہیں پتہ چل جائے گا کہ عقل کیا ہوتی ہے اور کس طرح کام کرتی ہے۔ اب اس طرح کی باتیں کرنے میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ جدید مذہبی دانشور چونکہ کوئی اخلاقیات بھی نہیں رکھتے، اس لیے فوراً ذاتیات پر اتر آتے ہیں اور فتوے بازی شروع کر دیتے ہیں کہ دیکھو جی دیکھو یہ دہریت والوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ جبکہ ہمارا موقف یہ ہے کہ بطور مسلمان ہماری علمی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اس طرح کے عقلی دلائل کا سامنا کر کے ان کو قطع کرنے کی کوشش کریں نہ کہ ان کا پس خوردہ اٹھا کے اسلام پر لاگو کرنا شروع کر دیں۔ اس وقت رچرڈ ڈاکن کا براہ راست ہدف اسلام ہے، لیکن اس کی علمی domain میں اس کا سامنا کرنے والی ایک آواز بھی پوری مسلم دنیا میں موجود نہیں ہے۔ رچرڈ ڈاکن تو صرف ایک مثال ہے، اور وہ بھی بہت گھٹیا۔ رچرڈ ڈاکن سے کہیں بڑے ذہن مغرب کے تین سو سال سے پروردہ ہلاکت آفریں علمی ترکش میں موجود ہیں۔ ہمارا ذہن ان کا جواب دینا تو دور کی بات ہے، ان کی ادنیٰ ترین فہم بھی پیدا نہیں کر سکا ہے۔ ہماری علمی مہمات اور دریافتیں صرف ان کے پس خوردہ کو اپنے مذہبی متون سے ثابت کرنے تک محدود ہیں۔ 
اسی طرح کے عقلی استدلال سے حاصل ہو نے والے چند انتاجات اور ملاحظہ فرمائیں: ’’جناب کی خدمت میں عرض ہے کہ علم اخلاق کے بغیر علم محض ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں علم کی بجائے علم نافع کے حصول کی ترغیب دی گئی ہے۔ اور علم اخلاقی دلالتوں کے بغیر نافع کی سرحدوں میں داخل نہیں ہوتا‘‘۔ اب ایک ہی سانس میں میاں صاحب نے علم، علم محض، اور علم نافع گنوائے ہیں۔ جناب نے علم کا جو علم بلند کر رکھا ہے اس کے نظارے کے بعد ہم یہ خوب جانتے ہیں کہ وہ علم محض اور علم نافع کی تفاصیل میں کیا کرشمے دکھائیں گے۔ علم نافع تو جدید مذہبی دانشوروں کا لے پالک ہے، جس کے چوغے سے یہ دانشور جدید سائنس اور اس کے نظریات نکال کر اسلامی بناتے ہیں۔ میاں صاحب چلیے یہی بتا دیں کہ علم محض کس چیستاں کا نام ہے اور علم کی اخلاقی دلالتیں کیا ہوتی ہیں؟ ابھی تو میاں صاحب کو علم ہی کا کوئی علم نہیں ہوا، اور اپنے ہاں غیر موجود چیز کی اخلاقی دلالتوں کا نعرہ انہوں نے خوب لگایا ہے۔ ہم نے تو ان سے نام نہاد ’’عمرانی تفہیم‘‘ کی علمی شرائط کی درخواست کی تھی، وہ ہمیں وعظ کرنے لگے۔ یہاں ہمارے سوال کا جواب آنا چاہیے تھا، یہ وعظ کا محل نہیں تھا۔ 
’’قرآن مجید نے قصص القرآن وغیرہ کے ضمن میں کسی تجربے کے تاریخی تجربے میں ڈھلنے کی شرائط و خصوصیات بیان کر دی ہیں۔‘‘ یہ کیا چیستاں ہیں؟ میاں صاحب سے گزارش ہے کہ اس طرح کی نعرہ بازی سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ وہ کچھ تو ارشاد فرمائیں کہ انسانی تجربے کی تعریف کیا ہے؟ ان کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی تجربہ غیر تاریخی ہوتا ہے جس کے تاریخی تجربہ بننے کی شرائط اور خصوصیات قصص القرآن میں بیان ہوئی ہیں۔ اب اگر کوئی آدمی یہ بات کہہ رہا ہے اور وہ یہ بھی دعویٰ کرتا ہے کہ اسے علم سے کوئی صاحب سلامت ہے تو یہ ہمارے ہاں کے جعلی مذہبی علوم میں تو ممکن ہے، مذہب یا علم میں ممکن نہیں ہے۔ اب کوئی ہے جو ان سے کہے کہ بھئی ایسی باتیں کرنا علم نہیں ہے، جنون ہے؟ ہمارے ہاں گزشتہ دو سو سال میں جو جدید جعلی مذہبی علوم پیدا ہوئے ہیں، ان سب کا انحصار اسی طرح کے قضایا پر ہے اور یہ قضایا اور ان سے رسنے والے جدید جعلی مذہبی علوم اسی منہج علم سے پیدا ہوئے ہیں جس کے حسین امتزاج کے میاں صاحب دعویدار ہیں۔ 
اب مذہب میں کارفرما جدید عقل کا سب سے بڑا کارنامہ ملاحظہ فرمائیے: ’’اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنی ذاتی اور بشری حیثیت میں صورت حال کا جواب نہیں دیتے رہے بلکہ جو جواب آپ کو پہنچایا گیا وہی جواب دیتے رہے۔‘‘ قارئین کرام جانتے ہیں کہ کھجور کو نر دینے والی حدیث مبارکہ کی آڑ میں جدید مذہبی دانش پورے دین کی بنیاد اکھاڑنے پر لگی ہوئی ہے۔ جدید دینی تعبیرات کی اصل الاساس یہ ہے کہ اس حدیث مبارکہ کی آڑ میں حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی ذات پاک میں پہلے حیثیتوں کا فرق تلاش کیا جائے اور ذاتی، بشری، نبوی، اور غیر نبوی حیثیتوں کے امتیازات قائم کیے جائیں کیونکہ جدید دانشورانہ اسلام میں نبی پاک صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی ذاتی بشری نبوی حیثتوں کے مابین تفریقات پیدا کرنے کو بہت مرکزی جگہ حاصل ہے۔ اسلام کی جدید تعبیرات انہیں تفریقات کو قائم کرنے، ان تفریقات کے بیچ اپنا راستہ بنانے اور پھر قلب ہدایت پر شب خون لگانے کا حاصل ہے۔ دین کی جدید تعبیرات حضور علیہ السلام کی ذات بابرکات میں اولاً دُوئی تلاش کیے بغیر ممکن ہی نہیں ہو سکتیں۔
اب میاں صاحب کا عقلی شاہکار ملاحظہ فرمائیں، شاہکار اس لیے کہ اسی ہیرے سے ایک تراشہ انہوں نے اپنے جواب الجواب کے عنوان کے طور پر سجا کر ہمیں خطاب کافری سے نوازا ہے۔ ’’سوال یہ ہے کہ بزرگوں کے تشکیل کردہ standard discources and diciplines-کو question کرنا اگر عیب چینی ہے اور پھر ایسی عیب چینی ہے جس سے دین و ایمان سنگین خطرے سے دوچار ہو جاتے ہیں تو پھر ۔۔۔ کافری کیا ہے؟ معلوم ہوتا ہے کہ فاضل نقاد چون و چرا کی آڑ میں ما فی الضمیر (بتوں سے امیدیں) دابے بیٹھے ہیں۔‘‘ سبحان اللہ! آتش بھی ہے، آب بھی ہے، باد بھی۔ دینی استناد اور عقلی استدلال کا حسین امتزاج بھی فراہم ہے۔ روایت بھی صاف ہے، مخاطب کافر و مشرک اور بدنیت و بد طینت بیک آن بھی ہے۔ غصہ علمی کلابے میں ہے اور عقل تعبیری فراٹے میں۔ میاں صاحب بڑی دور کی کوڑی لائے ہیں، لیکن ان کے اس کوڑی کے جعلی علمی غبارے کو صرف ایک پن ہی کافی ہے۔ ہمارے روایتی دینی علوم canonization کے عمل کا نتیجہ ہیں، اور ان کی تشکیل بالکل اسی طرح کی ہے جس طرح سے جمع قرآن کا عمل ہے۔ یہ ہدایت اور آثار ہدایت کو جمع کرنے کا عمل ہے، اور ہمارے سلف کی عقل تسلیم کے کرشمے اور کرامات ہیں۔ ان کی تشکیل کا طریقۂ کار اور نظری علوم کی تشکیل کا طریقۂ کار بالکل مختلف ہے۔ میاں صاحب کو خوش فہمی ہے کہ فقہ، حدیث اور سیرت کی تدوین اسی طرح ہوئی ہے جس طرح سے ان کی جعلی عمرانیات اور نچوڑی تاریخ کی ہوئی ہے۔ اس میں سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ وہ نظری علوم میں تو کسی طرح کے standard discources and diciplines کو جگہ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں، بزرگوں کی طرف دیکھیے کیسے لپکے ہیں۔ ان سے التماس ہے کہ اپنے جعلی علوم اور جعلی عقلی استدلال کو نظری علوم میں آزما کے ہمارے ساتھ یہ معاملہ نمٹا لیں، پھر کسی دوسری طرف کا رخ کریں۔ میں ان شاء اللہ انہیں ضرور بتا دوں گا کہ ان کے نام نہاد unarticulated intellectual discource کا stillborn infant کہاں دفن ہو گا۔ کمال یہ ہے کہ articulated discources knowlege کی تو انہیں کوئی سوجھ حاصل نہ ہو سکی، اور یہ unarticulated discourse کی دم انہوں نے خوب پکڑ لی۔ میاں صاحب سے گزارش ہے کہ مباحث پر گفتگو کی تہذیب کو برباد نہ کریں، پہلے اپنے غصہ جاتی مسائل حل کر لیں، علمی مسائل کے لیے کسی عالم سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ جن نام نہاد علمی خیالات کا انہوں نے اظہار فرمایا ہے وہ نہ دینی ہیں نہ عقلی ہیں وہ استعمار اور استشراق کے زیر سایہ پلنے والی محض ہفوات دیرینہ ہیں جو ہدایت پارینہ پر شبخون کی پیہم کوشش میں ہیں۔ ہمارا معاملہ صرف ان کی اظہاردادہ فکر تک ہے ان کی ذات سے ہرگز نہیں۔ میں نے ان کی تحریر کے اس معنی پر اپنے جواب کو منحصر کیا ہے جو غالب احتمال رکھتا ہے۔
اب ان کا ایک اور علمی و عقلی جواہر ریزہ ملاحظہ فرمائیں ’’ہم گزارش کریں گے کہ ہمارے مضمون میں برتا گیا طریقۂ علم مذہبی استناد اور عقلی استدلال کا امتزاج قرار دیا جا سکتا ہے‘‘ اس امتزاج کے حوالے سے میاں صاحب حسین کا لفظ لکھنا بھول گئے۔ دین کی نئی تعبیرات کی مہم میں جس طرح سے انہوں نے غصّے اور عقل کا حسین امتزاج دریافت کیا ہے بعینہٖ علم میں بھی انہوں نے مذہبی استناد اور عقلی استدلال کے حسین امتزاج کو دریافت کیا ہے۔ اگر میاں صاحب کو مذہبی استناد اور عقلی استدلال کے معانی اور مطالب کا اندازہ ہوتا تو وہ کبھی یہ فقرہ نہ لکھتے۔ ہاں اگر ذہن ہی باقی نہ رہا ہو تو پھر سب کچھ کہا اور لکھا جا سکتا ہے۔ آدمی یہ سوچنے میں حق بجانب ہے کہ ان کی تقویم میں اگر غصّے اور عقل کا امتزاج ممکن ہے تو مذہبی استناد اور عقلی استدلال کیوں ممکن نہیں ہیں؟ اگر انہیں علم سے کچھ مس ہوتا تو وہ اس طرح کی گفتگو سے یقیناً پرہیز کرتے۔ ہمارے جدید مذہبی دانشوروں کے پاس علم کے جھانسے، طاقت کی دھونس، اخلاقی ادعائیت اور اس سے پیدا ہونے والی incrimination اور recriminatioin، مستعمر خودی کے اکلی مروڑ اور استشراقی ذہن کے کھسوٹیاتی حربوں کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔ 
میاں صاحب کا ایک اور علمی جواہر ریزہ ملاحظہ فرمایئے: ’’ کہ question کرنے، redefine کرنے اور discover کرنے، reunderstand کرنے میں بال برابر نہیں، بلکہ زمین آسمان کا فرق ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ فاضل نقاد کی باریک بین نگاہوں سے یہ موٹا فرق پوشیدہ رہ گیا۔ اب علم و ادب کی درس گاہوں اور صاحبان فکر کو اپنی خیر منانی چاہیے کہ قرآن و سنت کی discovery اورre-understanding کا مطلب ’’عام مسلمانوں کے نزدیک‘‘ نبی پاک کی ذات گرامی پر question کرنا اور قرآن مجید کو redefine کرنا ہو گیا ہے۔‘‘ حیرت ہے کہ جناب موصوف صاحب علم ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں اور اس طرح کے ارشادات بھی فرماتے ہیں۔ discovery اور reunderstanding کا وہ کون سا عمل ہے جو question کیے بغیر وقوع پذیر ہو سکتا ہے؟ اگر وہ discovery اور reunderstanding کے معنی سے باخبر ہوتے تو وہ اس طرح کا مہمل پیراگراف رقم نہ فرماتے۔ اصل میں جدید مذہبی دانش وروں کا یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے اور ہم بار بار اسی کی طرف توجہ دلا رہے ہیں کہ وہ دین میں نئی discovery کرنا چاہتے ہیں یا پورے دین کو ازسرنو discover کرنا چاہتے ہیں یا فہم دین کے نئے اصول قائم کر کے دین کو reunderstand کرنا چاہتے ہیں یا کسی طرح کا کوئی نیا اڈیشن لانا چاہتے ہیں۔ ہمارے نیوٹن اور واٹسن کرک سارے کے سارے دین کی قلم رو میں دریافتوں کی مہمات پر نکلے ہوئے ہیں۔ ہمارے جدید اور جعلی مذہبی دانشور گزشتہ دو صدیوں سے اسی کام میں لگے ہوئے ہیں اور بڑی بڑی دریافتوں کا سہرا بھی ان کے سر ہے۔ اگر غور سے دیکھیں تو پندرہ بیس دریافتیں تو میاں صاحب کے گزشتہ مضمون ہی میں مل جائیں گی۔ چونکہ وہ طاقت ور ہیں، اس لئے کوئی ان سے یہ بھی عرض نہیں کر سکتا کہ بھئی کوئی ایک آدھ دریافت فزکس میں کر دیتے تو ہم بھی فخر کرتے۔ ہماری تو ان سے صرف ایک ہی گزارش ہے جس کو سنتے ہی ان کو دورہ ہو جاتا ہے کہ وہ ان سوالات کو تو سامنے لائیں جو انہیں نفس دین پر ہیں یا پرانے قانونی اڈیشن پر ہیں جس کی وجہ سے یہ نئی تاریخی صورت حال کو ایڈریس نہیں کر پا رہا۔ نعرے بازی سے کام نہیں چلے گا کہ یہ روایتی دین فلاں عمرانی اور ڈھمان نچوڑی کو address نہیں کر پا رہا۔ اس میں اب ان کی پوزیشن تو واضح ہے کہ وہ اسلام کے قانونی اڈیشن کو تبدیل کرنا چاہ رہے ہیں۔ ان کا بڑا احسان ہو گا اگر وہ دین فی نفسہٖ اور اسلام بطور قانونی اڈیشن میں پائے جانے والے امتیازات کی تفصیل ہی ارشاد فرما دیں۔ اہم تر یہ کہ کیا میاں صاحب یہ بتا سکتے ہیں کہ اسلام کے کون کون سے اڈیشن مستعمل رہے ہیں، اور یہ کہ اسلام کئی اڈیشنوں کی صورت میں موجود رہا ہے۔ ناچیز کی معلومات کی حد تک آج تک کوئی جدید مذھبی دانشور کھل کر ان سوالات کو قائم کر سکا ہے اور نہ ہرمانیوٹکس کا کوئی مربوط نظام سامنے لا سکا ہے۔ 
ہمارے جدید مذہبی دانشوروں کا پسندیدہ ترین شعبہ صحافت اور ابلاغیات ہیں، جو دراصل سیاسی طاقت کو mediate کرنے کی قلم رو ہے اور جہاں قول کا حق اور خیر سے امکانی تعلق بھی ختم ہو جاتا ہے۔ جدید صحافت طاقت کی گود میں پتلیوں کے تماشے کا نام ہے۔ یہاں ہر قول اور بات کا معرف طاقت کی ترجیحات ہیں۔ ان کی اس رغبت کی وجہ یہ ہے کہ آج کی دنیا میں ریاستی طاقت جدید مذہبی تعبیرات کی سب سے بڑی گاہگ ہے۔ اگر میاں صاحب بھی اپنی بات ذرا ڈھنگ سے کریں، ان کی تحریر کا کوئی سر پیر بھی ہو، اور وہ کچھ سلیقہ بھی سیکھ لیں تو ان کا نیا اسلامی اڈیشن چلنے کا کافی امکان موجود ہے۔
میاں صاحب نے ہماری اس بات پر شدید رد عمل ظاہر کیا ہے جو ہم نے standard discourse کے حوالے سے کی ہے۔ جدید مذہبی دانشور standard discourse کا نام سنتے ہی غصے اور غضب میں آ جاتے ہیں اور انہیں سوجھتا ہی نہیں کہ وہ کیا ارشادات فرما رہے ہیں۔ اب تو ہمارے ہاں صاحب علم کہتے ہی اسے ہیں جس کو standard disciplines and discources کی ہوا تک نہ لگی ہو اور جو ان کے وجود سے ہی انکار کر تا ہو۔ آج کل ہمارے ہاں جدید مذہبی دانشور یا محض دانشور کہتے ہی اسے ہیں جو الل ٹپ ہو، مثلاً ‘‘ہائی انرجی فزکس اور توحید’’، ‘‘انٹروپی اور قیامت’’، ‘‘نیورانز پر وضو کے اثرات’’ وغیرہ وغیرہ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم صرف نوکری کے حصول میں سنجیدہ ہوتے ہیں، اور پچھلے دو سو سال سے نوکری کے حصول کے لیے کسی نہ کسی discipline- standard- میں ڈگری کا حصول ہمارا سب سے بڑا انسانی اور تہذیبی آدرش ہے۔ یعنی ہمارے ہاں ریاستی اختیار رکھنے والے اہلکاروں کو بھی اس بات کا پتہ ہے کہ نوکری کے لیے کسی نہ کسی standard discipline میں ڈگری ہونا ضروری ہے۔ لیکن میاں صاحب کی طرح کے ہمارے اہل علم مباحث کی حرمت سے قطعاً بے خبر ہیں۔ ان کا رہنما قول یہ ہے کہ نوکری لینی ہو تو standard- discourse- میں گھس جاؤ، اور اگر علم بگھارنا ہو تو صحافت میں گھس جاؤ۔ یہ تو زور آوروں کے ہتھکنڈے ہیں جو ہر حال میں اور طاقت کے زور پر اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اسی تناظر میں میاں صاحب کا ایک جواہر ریزہ مزید ملاحظہ فرمائیں: ’’ایک طرف وہ standard discipline اور discourses کے مؤید اور حامی ہیں اور دوسری طرف علم کے استدلالی اور جدلیاتی عمل کی وکالت بھی فرما رہے ہیں‘‘۔ اب جس آدمی نے غصّے اور عقل کے ساتھ ساتھ مذہبی استناد اور عقلی استدلال کے حسین امتزاجات سے حاصل شدہ دریافتوں کا پشتارہ اٹھا رکھا ہو، اس سے اسی طرح کے جواہر ریزوں ہی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اس میں ہمارا موقف بہت واضح ہے کہ علم جدلیاتی عمل کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ جدلیاتی عمل standard discourses اور disciplines میں واقع ہوتا ہے۔ اس میں حتمی بات ہم نے عرض کر دی تھی کہ ’’جس استدلال سے نظری علوم قائم ہوتے ہیں، اسی سے منہدم بھی ہوتے ہیں۔‘‘ اب یہ بات پوری دیانت سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ فقرہ میاں صاحب کی امتزاجی سمجھ سے بالاتر ہے، لہٰذا ہم پر ان کی اسیری کا الزام کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اب یہ بات میاں صاحب کی خدمت میں کون عرض کرے کہ ہدایتِ حق اور نظری علوم میں بنیادی امتیازات قائم کیے بغیر علم کی کوئی گفتگو قائم نہیں ہو سکتی۔ مذہبی متون کو نظری علوم کے برابر کر دینا اور نظری علوم کا ہدایت سے خلطِ مبحث پیدا کرنا جدید مذہبی دانشوروں کا خاصّہ ہے۔ وہ ہدایت کو نظری علوم سمجھتے ہیں اور نظری علوم کو حق کا بیان سمجھتے ہیں۔ یہی وہ حسیں امتزاج ہے جس کا میاں صاحب نے اعتراف کیا ہے اور یہی ان کا کل سرمایہ ہے۔
اگر میاں صاحب اپنے غصّے پر قابو پاتے ہوئے ہماری ایک درخواست پر غور کر سکیں تو الطافِ عمیم ہو گا۔ بقول ان کے اسلام کا روایتی قانونی اڈیشن جدید عمرانی صورت حال کو اڈریس نہیں کر پا رہا۔ اگر وہ اس حوالے سے نقد قارئین کے سامنے لا سکیں، تو ان کی بڑی نوازش ہو گی۔ اس طرح ہمیں یہ معلوم ہو جائے گا کہ اسلام کا یہ قانونی اڈیشن ہماری کون کون سی ضروریات کو پورا نہیں کرتا اور میاں صاحب کا نیا اڈیشن ان ضروریات کو کس طرح سے پورا کرے گا۔ اس میں اہم تر بات یہ ہے کہ میاں صاحب نے اسلام کے قانونی اڈیشن پر جو اعتراضات اٹھائے ہیں، اگر وہی اعتراضات خود اسلام پر لائے جائیں، جیسا آج کل عام ہے، تو وہ اس کا کیا جواب دیں گے؟ لیکن یہ تو بڑے productive کام ہیں اور عرق ریزی کا تقاضا کرتے ہیں، اس لئے جدید مذہبی دانشور اس طرح کی چیستاں میں نہیں پڑتے۔ وہ بس کچھ لفظوں کو گیندوں کی طرح سروں اچھالتے رہتے ہیں تاکہ اپنے شعبدوں سے ناظرین کو متاثر کر سکیں۔ ہمارے تمام جدید اور جعلی مذہبی علوم بھلے وہ شریعت کی جدید تعبیرات ہوں یا جدید تصوف کی لغویات ہوں وہ سب اس لئے پیدا ہوئی ہیں کہ ہم نے علمی مباحث کی بنیادی شرائط کو نظر انداز نہیں کیا، بلکہ انہیں منہدم کر دیا ہے۔ مباحث کی موت دراصل انہدام شعور ہی کا دوسرا نام ہے۔ جدید مذہبی دانشوروں اور اسکالروں کے سامنے آپ standard discourses اور disciplines کا نام لیتے ہی مطعون ہو جاتے ہیں اور وہ خود ہذیان میں چلے جاتے ہیں۔ ان کا پسندیدہ ترین شعبہ صحافت اور ابلاغیات ہے جس میں ہر طرح کی لغویات، ہفوات، اباحیات اور شطحیات کا دور دورہ ہوتا ہے اور جہاں آج کا سچ کل کا جھوٹ اور کل کا جھوٹ آج کا سچ ہوتا ہے۔

جماعت اسلامی کے ناقدین و مصلحین

خواجہ امتیاز احمد

چودھری محمد یوسف ایڈووکیٹ سے میرا پہلا تعارف ۱۹۶۹ء میں ہوا۔ میں اس وقت مرکزی سیکرٹری داخلہ خواجہ محمد صدیق اکبر کے ساتھ اسٹوڈنٹس اسلامک فرنٹ میں بحیثیت چیئرمین ضلع گوجرانوالہ کام کر رہا تھا۔ انور چودھری صاحب ناظم حلقہ گجرات میرے پاس تشریف لائے اور مجھے جمعیت میں کام کرنے کی دعوت دی جو میں نے قبول کر لی۔ میر ے ساتھ چودھری محمد یوسف اور شیخ الحدیث مولانا محمد چراغ مرحوم کے فرزند حافظ محمد حنیف صاحب بھی شامل تھے۔ یہ دونوں مجھ سے سینئر تھے، لیکن مجھے ناظم چنا گیا۔ یہ میرا چودھری محمد یوسف صاحب سے پہلا تعارف تھا۔ چودھری صاحب جماعت اسلامی گوجرانوالہ کے ایک محترم رکن حکیم غلام محمد مرحوم کے فرزند ہیں۔ میرے والد خواجہ بشیر احمد مسلم لیگ امرتسر کے سیکرٹری تھے۔ بعد میں وہ مولانا سرفراز صفدرؒ اور صوفی عبد الحمید سواتی ؒ کے ساتھ جمعیت علمائے اسلام میں رہے۔ ۱۹۷۰ء کے عشرے میں ان کی ایک کتاب ’’جماعت اسلامی اہل حدیث کی نظر میں‘‘ بھی شائع ہوئی جو جماعت اسلامی کے خلاف تھی۔
پس منظر میں اس لیے جانا پڑا کہ پڑھنے والوں کویہ معلوم ہو سکے کہ چودھری محمد یوسف کو جماعت اسلامی وراثت میں ملی اور مجھے سوچ سمجھ اور پرکھ کر اس کا ساتھ دینا پڑا۔ قصہ مختصر، والد مرحوم نے مجھے ترجمہ قرآن شریف کے لیے صوفی عبد الحمید صاحبؒ کے پاس داخل کیا۔ صوفی صاحب نے کچھ عرصہ مجھے پڑھایا اور پھر حافظ عبد الرحمنؒ کے سپرد کر دیا کہ وہ مجھے پڑھائیں۔ صوفی صاحبؒ ، مولانا عبد القیوم صاحب، مولانا محمد خان مبلغ ختم نبوت او رمولانا محمد حیات مرحوم جو نصرت العلوم میں تشریف لاتے تھے، میرے سوالات سے کچھ گھبرا جاتے تھے۔ یہی وہ دن تھے جب میں ’’اسلامی جمعیت طلبہ‘‘ کا ناظم منتخب ہوا۔ چودھری یوسف صاحب ایک نہایت پرجوش، ان تھک اور محنتی کارکن تھے۔ ایسے لوگ ہر تحریک یا جماعت کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ ۷۰ء کے عشرے میں جب پاکستان ایک سخت بحران سے گزر رہا تھا، ہم نے اکٹھے کافی کام کیا۔ کئی تنظیمیں کھڑی کیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے الیکشن میں حافظ محمد ادریس، جاوید ہاشمی اور حفیظ خان کے لیے کام کیا۔ گوجرانوالہ میں مولانا عبدالحمید خان بھاشانی کی ہڑتال ناکام بنائی۔ جب زاہد الراشدی صاحب عوامی فکری محاذ کے ذریعے پیپلز پارٹی کو تقویت پہنچا رہے تھے تو ہم نے ان کے مقابلے میں اسلامی فکری محاذ کھڑا کیا تھا۔
اس کے بعد یہ ہوا کہ جناب چودھری صاحب جمعیت کے اجلاسوں میں ایک دوسرے شہر سے آئے ہوئے رفیق، محمد صدیق صاحب سے بحث مباحثے میں اس قدر الجھتے گئے کہ یہ دنگل ختم ہونے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ اجلاس اسی میں ختم ہو جاتا۔ جمعیت طلبہ کے رفیق اس صور ت حال سے سخت نالاں تھے، لہٰذا ناظم حلقہ گجرات لطیف مرزا سے رجوع کیا گیا۔ انھوں نے محمد صدیق اور چو دھری محمد یوسف صاحب کو جمعیت سے خارج کر دیا، مگر ہمارے ذاتی تعلقات میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اس کے بعد چودھری صاحب جماعت اسلامی میں شامل ہوئے۔ وہاں کے تفصیلی واقعات میرے علم میں نہیں، لیکن شیخ نور محمد صاحب سابق امیر جماعت اسلامی ضلع گوجرانوالہ نے انھیں جماعت اسلامی سے بھی نکال باہر کیا۔ الزامات تقریباً وہی تھے، یعنی بحث ومباحثہ۔ یہ جماعت اسلامی کی بھی بدقسمتی تھی اور چودھری صاحب کی بھی۔
کوئی دو ماہ پہلے چودھری صاحب نے مجھے ماہنامہ ’الشریعہ‘ کے اکتوبر اور نومبر ۲۰۱۲ء کے شمارے دیے جن میں ان کا مضمون ’’جماعت اسلامی کا داخلی نظم سید وصی مظہر ندوی کی نظر میں‘‘ شائع ہوا ہے۔ میں نے گہری نظر سے مضامین کو پڑھا تو مجھے ایسے لگا کہ جماعت کا داخلی نظم سید وصی مظہر ندویؒ سے زیادہ چودھری یوسف صاحب کی نظر میں ہے اور مظہر ندوی صاحب چودھری صاحب کے سامنے دب سے گئے ہیں۔ 
چودھری محمد یوسف صاحب کا کہنا ہے کہ جو اصحاب فکر ونظر وقتاً فوقتاً جماعت اسلامی سے علیحدہ ہوتے رہے، اس کی وجہ یہی اختلاف پر پابندی تھی۔ اس طرح جماعت اسلامی کی صفوں میں غیر فعال ارکان کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ کیا چودھری صاحب بتائیں گے کہ منظور نعمانی صاحبؒ ، امین احسن اصلاحی صاحبؒ ، کوثرنیازیؒ ، ارشاد احمد حقانیؒ ، وصی مظہر ندویؒ ، عبد الغفار حسنؒ اور سید جعفر شاہ پھلوارویؒ نے کس فعالیت کا مظاہرہ کیا؟ بعض نے وزارتوں کے مزے لوٹے (کوثرنیازی، وصی مظہر ندوی، ارشاد حقانی) اور باقی آرام سے گھروں میں بیٹھ گئے۔ عبد الرحیم اشرف صاحب نے اپنا کاروبار بڑھایا یا پھر اہل حدیث کی مدد کرتے رہے۔ صرف ڈاکٹر اسرار احمد نے سرگرمی اور فعالیت کا مظاہرہ کیا اور وہ چودھری صاحب کو اس لیے پسند نہیں کہ انھوں نے مولانا مرحوم اور جماعت کی بے جا مخالفت سے منہ موڑ لیا تھا۔ 
جنرل ضیاء الحق کے زیر سایہ مسلم لیگ کی حکومت میں شامل ہو کر وصی مظہر ندوی صاحب نے اسلام اور پاکستان کے لیے کیا کارنامے سر انجام دیے؟ ندوی صاحب نے عمران خان کو جو خط لکھا ہے، اس پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شاید وہ عمران خان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے تھے اور انھیں سیاست میں اپنا تجربہ بتا رہے تھے۔ یہ سوچنے کا مقام ہے کہ مولانا مودودیؒ کی قیادت کو چھوڑ کر وہ محمد خان جونیجو اور پھر عمران خان کے ساتھ کام کرنا چاہتے تھے۔ کیا یہاں ندوی صاحب کے تحفظات دور ہو گئے تھے؟ اس حکومت کو بر طرف کرتے ہوئے، جو نہ اسلامی تھی اور نہ فلاحی، جنرل ضیاء الحق نے بھرائی ہوئی آواز سے جس کرپشن اور اقربا پروری کا ذکر کیا، کیا وہ مولانا کی نظروں سے اوجھل تھی؟ اگر جماعت اسلامی کے لوگوں نے پی این اے کے فیصلے کے مطابق وزارتیں قبول کر کے غلط فیصلہ کیا تو کیا ندوی صاحب نے وزارت قبول کر کے اسلام کی خدمت کی؟
جماعت چھوڑ کر جانے والوں میں صرف ڈاکٹر اسرار احمدؒ ہی ایسی شخصیت تھے جنھوں نے مثبت طریقے سے کام کے لیے ایک تنظیم بنائی، اکیڈمی قائم کی اور پوری دنیا میں اسلام کی تبلیغ کے لیے محنت کی۔ ڈاکٹر صاحب اکثر کہا کرتے تھے کہ وہ مولانا شیخ الہند محمود حسن، امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد اور مولانا مودودی کی فکر سے متاثر ہیں اور اسی فکر کے تحت کام کرنا چاہتے ہیں۔ مولانا امین احسن اصلاحی کے ساتھ انھوں نے جماعت ضرور چھوڑی تھی، مگر ان کے ساتھ زیادہ عرصہ نہ چل سکے جماعت اسلامی اور مولانا مودودی سے اختلاف کے باجود ان کے خلاف منفی سرگرمیوں کا حصہ نہ بنے۔ اسی وجہ سے انھوں نے مولانا ندوی کو بھی اس حد تک جانے سے روکا۔
ڈاکٹر اسرار احمد نے مولانا امین احسن اصلاحی اور غامدی صاحب کی غلطیوں کی نشان دہی بھی کی، انھیں ٹوکا اور ٹی وی پر غامدی صاحب سے مناظرہ بھی کیا۔ اصلاحی صاحب اور ان کے شاگرد غامدی صاحب نے بعض مسائل میں قرآن وحدیث کی تشریحات کی ہیں، اس پر روایت پسند علماء سخت نالاں ہیں۔ حافظ صلاح الدین یوسف صاحب مولانا امین احسن اصلاحی کے متعلق لکھتے ہیں کہ ’’ان کے زبان وقلم سے بعض ایسی چیزیں منظر عام پر آئی ہیں جو صریح گمراہی پر مبنی ہیں، بلکہ اجماع امت سے انحراف کی وجہ سے ان پر کفر تک کا اطلاق ممکن ہے۔‘‘
چودھری صاحب کو شکایت ہے کہ ’’سید کے ہم مرتبہ لوگ جماعت کی تشکیل کے ایک دو سال بعد ہی جماعت سے الگ ہو گئے۔ جماعت کی تشکیل کے موقع پر جتنا زبردست ٹیلنٹ جمع ہوا تھا، وہ چھٹ گیا۔‘‘ چودھری صاحب جن کو برابر کا ٹیلنٹ کہتے ہیں، مولانا مودودی نے ان کی تالیف قلب کی پوری کوشش کی۔ کسی کو جماعت سے نہیں نکالا۔ ان حضرات نے خود جماعت کو چھوڑا۔ مولانا کی زبانی ہی سنیے:
’’مولانا امین احسن اصلاحی کے معاملہ میں بہت غور کر رہا ہوں، مگر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کی تالیف قلب کے لیے کیا کروں۔ متعین شکایت صرف ایک معلوم ہوئی اور اس کا فوری ازالہ کر دیا گیا۔ ۔۔۔ انھیں جماعت کے رفقاء سے ہی نہیں، بلکہ مجھ سے بھی سوء ظن ہے۔ یہ سوء ظن مجھے الہ آباد میں بھی مولانا کے بعض فقروں سے ہوا تھا، مگر میں نے تاویل کر کے اسے اپنے ذہن سے دور کر دیا تھا۔ اب آپ کی دی ہوئی خبروں سے نہ صرف اس کی تصدیق ہوئی، بلکہ زیادہ واضح طور پر پتہ چلا کہ ان کا ذہن مستقل بدگمانی کی راہ پر چل پڑا ہے۔‘‘ (خطوط مودودی، ص ۱۷۱)
مسعود عالم ندویؒ کے نام ایک خط میں مولانا لکھتے ہیں:
’’یہ آخر کیا آفت ہے؟ کیا یہ بچوں کا کھیل تھا کہ کل ایک جماعت بنائی۔ دعوے کیے کہ ہم خدا کا کلمہ بلند کریں گے۔ نگاہیں ہر طرف اٹھنے لگیں کہ دیکھیں، یہ جماعت کیا کرتی ہے اور ابھی دو قدم نہ چلے تھے کہ آپس میں ایک دوسرے پر بدگماناں کر کے، الزام رکھ رکھ کر اور روٹھ روٹھ کر الگ ہونے شروع ہو گئے۔ پھر نہ کسی صفائی کی کوشش کی، نہ تحقیق کی فکر، نہ خرابیوں کو سمجھ کر انھیں دور کرنے کی طرف توجہ۔ ۔۔۔ میں خود اس معاملے میں اپنے آپ کو بے بس پاتا ہوں کہ ہدف میری ذات کو بنا لیا گیا ہے۔‘‘ (خطوط مودودی، ص ۱۰۲)
مولانا مسعود عالم ندوی کے نام ایک اورخط میں فرماتے ہیں:
’’مولانا جعفر صاحب کو کپورتھلہ کی ریاست میں خطابت کا معاوضہ ۵۶ روپے ماہوار ملتا تھا۔ ۔۔۔ میں نے کہا کہ پچاس روپے مہینہ کی حد تک ادا کرنے کا وعدہ کرتا ہوں۔ مکان یہاں بلا کرایہ حاضر ہے۔ آپ ملازمت چھوڑکر آ جائیے۔ ۔۔۔ انھوں نے فرمایا کہ بھری تھالی (ریاست کپور تھلہ کی ملازمت) کو لات مارتے ہوئے مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں اللہ کے ہاں کفران نعمت میں نہ پکڑا جاؤں۔ پھر جب میں نے انھیں اطمینان دلایا کہ یہ کفران نعمت نہیں ہے، بلکہ خطابت وامامت کی تنخواہ سلف کی نگاہ میں سخت مکروہ ری ہے اور آپ کو اس مکروہ سے بچنے کا ایک موقع مل رہا ہے تو انھوں نے کچھ دن غور کرنے کی مہلت مانگی اور وہ مہلت آخر کار اس تحریر پر ختم ہوئی جو مولانا منظور صاحبؒ کے خط پر توثیقاً انھوں نے ثبت فرمائی ہے۔‘‘ (خطوط مودودی، ص ۱۱۰)
مولانا اور جماعت اسلامی کو کیسے کیسے ناقدین اور مصلحین ملے، اس کا اندازہ ایک واقعے سے کیجیے جو سید علی نقی نے اپنی کتاب ’’سید مودودی کا عہد‘‘ کے صفحہ ۳۷۰ پر بیان کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’ایک دن جمعہ کی نماز سے پہلے میں مولانا کے کمرے میں گیا۔ باتیں کرتے ہوئے دونوں باہر نکلے۔ ابھی مسجد تک نہیں پہنچے کہ مولانا نے فرمایا، میرا پاجامہ ادھڑا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ آپ چلیں، میں کپڑے بدل کر آتا ہوں۔ میں انتظار کرتا رہا۔ مولانا واپس آئے اور ہم دونوں ایک ساتھ مسجد میں داخل ہوئے۔ تقریباً ایک ہفتے بعد مولانا نے مجھے ایک خط دیا کہ اس کا جواب لکھ دیں۔ میں نے خط کھولا تو ایک طویل شکایت نامہ تھا۔ بڑے سخت الفاظ میں لکھنے والے نے لکھا تھا کہ میں آپ کی بڑی تعریف سن کر آیا تھا، لیکن آپ کو ایک جمعہ کے دن گھر سے صاف کپڑے پہنے نکلنے کے بعد واپس جاتے ہوئے اور پھر دوسرے صاف کپڑے پہن کر واپس آتے ہوئے دیکھا۔ مجھے بڑا دکھ ہوا کہ جس شخص کو بار بار صاف کپڑے پہن کر اپنی امارت اور نفاست کا رعب جمانے کا شوق ہو، وہ بھلا تحریک اسلامی کی کیا رہنمائی کرے گا۔ پس میں واپس ہو گیا۔‘‘
چودھری صاحب سے گزارش ہے کہ جماعت کی مخالفت میں اس حد تک مت جائیں کہ خود کو گم کر لیں۔ آپ کے دل میں اسلامی جمعیت اور جماعت اسلامی سے اخراج کا گہرا زخم ہے، لیکن آپ کی دو نسلوں نے جماعت کی بڑی خدمت کی ہے۔ اب بھی اگر مثبت تنقید سے کام لیں تو اس سے جماعت کی بھی اصلاح ہوگی اور آپ کا قد بھی بڑھے گا۔
جہاں تک ’’صریر خامہ‘‘ کا تعلق ہے تو اس پر، پروفیسر سلیم منصور خالد کے تبصرے سے اتفاق کرتے ہوئے اسی پر اپنی بات کو ختم کرتا ہوں:
’’ڈاکٹر محمد ارشد نے مولانا وصی مظہر ندویؒ کے مجموعہ مقالات ومکتوبات پر مبنی کتاب ’’صریر خامہ‘‘ مرتب کی ہے جو ان کی فکر کو سمجھنے کے لیے ایک مفید کتاب ہے۔ 
مولانا مسعود عالم ندویؒ فرماتے ہیں:
’’اگر تو کوئی رائے رکھتا ہے تو صاحب عزیمت بھی بن، کیونکہ ہر کام میں تردد رکھنا خرابی کی علامت ہے۔‘‘

میڈیا کا محاذ اور ہماری ذمہ داریاں

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

۲۳ جنوری ۲۰۱۲ء کو پریس کلب لاہور میں ایک سیمینار میں شرکت کا موقع ملا جس میں جناب امجد اسلام امجد، جسٹس (ر) نذیر غازی، جناب اوریاہ مقبول جان اور دیگر ممتاز دانش ور بھی شریک تھے۔ سیمینار میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس و حرمت کے حوالہ سے بنائی جانے والی ایک فلم زیر بحث تھی اور اس فلم کا ایک حصہ شرکاء کو دکھایا گیا، میں نے اس موقع پر جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔ 
بعد الحمد والصلوٰۃ ! اس فلم کے حوالہ سے دو پہلوؤں پر تو کچھ عرض نہیں کر سکوں گا۔ ایک اس کا فنی اور تکنیکی پہلو ہے جس کے بارے میں کوئی تبصرہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں، اس لیے کہ میں اس فن سے واقف نہیں ہوں اور نہ ہی اس کا ذوق رکھتا ہوں۔ دوسرا پہلو جواز اور عدمِ جواز کی بحث کا ہے، اس کے بارے میں بھی کوئی بات نہیں کہہ سکوں گا؛ اس لیے کہ یہ مفتیان کرام کا کام ہے اور میں مفتی نہیں ہوں۔ چنانچہ نہ تو اس سلسلہ میں کوئی فتویٰ دوں گا اور نہ ہی کسی فتوے سے اختلاف کرنا چاہوں گا۔ البتہ ایک اور پہلو سے کچھ معروضات پیش کروں گا اور وہ ہے ضرورت کا پہلو۔ 
چونکہ میں خود بھی اس محاذ کا آدمی ہوں، اس لیے محاذ کی ضروریات اور تقاضوں کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھوں گا۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب جنگ احزاب سے فارغ ہوئے تو آپ نے مسجد نبویؐ میں ایک اعلان فرمایا کہ اب قریشیوں کو ہمارے خلاف جنگ کے لیے یہاں آنے کی ہمت نہیں ہوگی، اب جب بھی جائیں گے ہم ہی جائیں گے۔ دوسری بات یہ فرمائی کہ اب یہ ہمارے خلاف زبان کی جنگ لڑیں گے اور خطابت و شاعری کا محاذ گرم کریں گے، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا بازار گرم کریں گے، پروپیگنڈہ کریں گے، کردار کشی کریں گے اور عرب قبائل کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکائیں گے۔ یہ فرما کر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ سے پوچھا کہ اس جنگ میں کون آگے بڑھے گا؟ اس موقع پر تین انصاری صحابیؓ حضرت حسان بن ثابتؓ، حضرت کعب بن مالکؓ اور حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ جنگ ہم لڑیں گے۔ چنانچہ ان تینوں نے شاعری کے محاذ پر جبکہ ایک اور انصاری صحابی حضرت ثابت بن قیسؓ نے خطابت کے محاذ پر یہ جنگ لڑی اور اس شان سے لڑی کہ حضرت حسان بن ثابتؓ مسجد نبویؐ میں منبر پر کھڑے ہو کر کفار کے ادبی حملوں کا جواب دیا کرتے تھے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدحت کے ساتھ ساتھ اسلام کی خوبیاں بیان کرتے تھے جبکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سامنے بیٹھے انہیں داد بھی دیتے تھے اور ان کے لیے دعا بھی فرماتے تھے۔ 
اسی طرح یہ واقعہ بھی بخاری شریف میں مذکور ہے کہ عمرۃ القضا کے موقع پر حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی مہار پکڑے جب مکہ مکرمہ میں داخل ہو رہے تھے تو احرام باندھے ہوئے تلبیہ پڑھنے کی بجائے رزمیہ اشعار پڑھتے جا رہے تھے۔ حضرت عمرؓ نے انہیں اس سے رک جانے کے لیے اشارہ کیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آواز دی کہ دعہ یا عمرؓ عمر! اسے پڑھنے دو؛ اس کے اشعار تمہارے تیروں سے زیادہ کافروں کے سینوں میں نشانے پر لگ رہے ہیں۔ 
اس کے ساتھ یہ واقعہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ بنو تمیم کا وفد جب مدینہ منورہ آیا تو انہوں نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو شعر و خطابت میں مقابلہ کی دعوت دے دی جو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمائی۔ اس کے لیے باقاعدہ مجلس بپا ہوئی جس میں بنو تمیم کے شاعر و خطیب نے اپنی خطابت اور شاعری کے جوہر دکھائے جس کے جواب میں حضرت ثابت بن قیسؓ نے خطابت اور حضرت حسان بن ثابتؓ نے شاعری میں اسلام کی دعوت اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدحت و تعارف پر بات کی، چنانچہ ان کی برتری کو تسلیم کرتے ہوئے بنو تمیم نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کر دیا۔ 
اس لیے ایک بات تو میں یہ عرض کروں گا کہ شعر و خطابت اس دور میں ابلاغ کے موثر ترین ذرائع تھے جنہیں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر انداز نہیں کیا بلکہ بھرپور طریقہ سے استعمال کیا، آج اس کا دائرہ وسیع ہوگیا ہے اور ابلاغ کے دیگر موثر ترین ذرائع بھی سامنے آگئے ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور ہمیں اسلام کی دعوت اور دفاع دونوں کے لیے ان کا بھرپور استعمال کرنا چاہیے۔ دوسری بات یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ حالت امن اور حالت جنگ کے قوانین میں فرق ہوتا ہے، بہت سی باتیں جو حالت امن میں درست نہیں ہوتیں مگر حالت جنگ میں انہیں مجبورًا اختیار کرنا پڑتا ہے۔ ایک شخص محاذ جنگ پر دشمن کے سامنے کھڑا ہے تو اسے یہ دیکھنا ہے کہ دشمن کے ہاتھ میں کون سا ہتھیار ہے اور وہ اس کے مقابلہ میں کون سا ہتھیار اختیار کر کے دشمن کو زیر کر سکتا ہے، اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ اس کی مثال عرض کروں گا کہ ایٹم بم کو اسلام کی جنگی اخلاقیات کی رو سے ایک جائز ہتھیار قرار نہیں دیا جا سکتا، اس لیے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ اور جہاد کے جو تقاضے اور دائرے بیان فرمائے ہیں کہ عورت کو قتل نہیں کرنا، بوڑھے کو قتل نہیں کرنا، غیر متعلقہ شخص کو قتل نہیں کرنا، بچے کو قتل نہیں کرنا اور دشمن کے اموال اور ملکیتوں کو بلا وجہ نقصان نہیں پہنچانا وغیرہ۔ ایٹم بم کے استعمال میں ان میں سے کسی بات کا لحاظ نہیں رکھا جا سکتا، اس لیے میری طالب علمانہ رائے میں اگر جنگ میں اسلامی اخلاقیات کا لحاظ رکھا جائے تو ایٹم بم ایک جائز ہتھیار نہیں ہے، لیکن ہم سب ایٹم بم کے بنانے پر زور دیتے ہیں اور ہم نے ایٹمی صلاحیت حاصل کی ہے اس لیے کہ جب دشمن کے پاس یہ ہتھیار موجود ہے تو ہمارے پاس اس کا موجود ہونا ضروری ہے ورنہ ہم دشمن سے مار کھا جائیں گے۔ اسے اضطراری حالت کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح حالتِ اضطرار میں جان بچانے کے لیے حرام کھانا جائز ہوجاتا ہے اسی طرح حالت جنگ میں جان بچانے کے لیے ایسے ہتھیار کا استعمال جائز بلکہ ضروری ہو جاتا ہے جو اسلامی اصولوں کی رو سے شاید جائز ہتھیار نہ ہو۔ 
میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جس طرح ہتھیاروں کی جنگ ہے اسی طرح میڈیا کی جنگ بھی ہے بلکہ آج کے دور میں میڈیا کی جنگ کا دائرہ ہتھیاروں کی جنگ سے زیادہ وسیع ہے اور میڈیا ہتھیار سے زیادہ دشمن پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس لیے جہاں ابلاغ کے ذرائع کا وقت کی ضرورت کے مطابق استعمال ضروری ہے وہاں اضطرار اور حالت جنگ کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ آج عالمی سطح پر جس طرح ’’میڈیا وار‘‘ جاری ہے اور اسلام، جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس و حرمت اور اسلامی تعلیمات و روایات جس طرح بین الاقوامی پروپیگنڈے اور کردار کشی کے ہتھیاروں کی زد میں ہیں، اس کے پیش نظر ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ اس ’’میڈیا وار‘‘ کو نظر انداز کرنے کی بجائے اس میں پوری قوت کے ساتھ شریک ہوں اور اسی طرح اس میں حصہ لیں جس طرح غزوۂ خندق کے بعد ذرائع ابلاغ، ادب و خطابت اور شاعری کی جنگ میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نامور صحابہ کرام حضرت حسان بن ثابتؓ، حضرت کعب بن مالکؓ، حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ اور حضرت ثابت بن قیسؓ نے کردار ادا کیا تھا۔ 

الشریعہ اکادمی میں فکری نشستیں

ادارہ

۳۰ دسمبر ۲۰۱۲ء کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی یاد میں فکری نشست منعقد ہوئی جس میں اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے اپنے مطالعہ اور تاثرات کا ماحصل کیا اور الشریعہ اکادمی کے طلبہ کے علاوہ شہر کے دیگر اصحابِ ذوق اس فکری نشست میں شریک ہوئے۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی شخصیت اور خدمات پر کی جانے والی گفتگو کا مختصر خلاصہ درج ذیل ہے:
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کا تعلق نانوتہ میں مقیم صدیقی خاندان سے تھا۔ انہوں نے خود اپنا نسب نامہ تحریر کیا ہے جس کے مطابق وہ حضرت قاسم بن محمدؒ کی اولاد میں سے ہیں جو حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پوتے تھے اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے نہ صرف بھتیجے تھے بلکہ ان کے علوم و فیوض کے ورثاء میں ان کا نام سرفہرست شمار ہوتا ہے اور وہ تابعینؒ کے دور کے سات بڑے فقہاء کرام میں شامل ہیں۔ حضرت نانوتویؒ ایک زمیندار گھرانے کے چشم و چراغ تھے، لیکن قدرت نے ان کی راہ نمائی دینی تعلیم کی طرف کی اور اپنے وقت کے اکابر علماء کرام و مشائخ مولانا شاہ عبد الغنیؒ ، مولانا مملوک علی نانوتویؒ ، مولانا احمد علی سہارنپوریؒ اور حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ جیسے بزرگوں سے فیض پا کر وہ خود بھی اپنے دور کے اکابر علماء کرام میں شمار ہوئے۔ انہوں نے ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں شاملی کے محاذ پر عملی حصہ لیا۔ ارتداد کے فتنوں کا مقابلہ کرکے پنڈت دیانند سرسوتی جیسے مناظرین کو میدان میں شکست دی۔ میلہ خدا شناسی کے نام پر منعقد ہونے والے مختلف مذاہب کے سرکردہ علماء کرام اور متکلمین کے مشترکہ اجتماع میں اسلام کی حقانیت پر معرکۃ الآراء خطاب کے ذریعہ اسلام کی حقانیت کا لوہا منوایا، وہ اپنے دور میں اسلام کے سب سے بڑے متکلم تھے اور وقت کے اسلوب کے مطابق اسلامی تعلیمات کو پیش کرنے میں ان کو کمال حاصل تھا، لیکن ان کا سب سے بڑا کارنامہ دارالعلوم دیوبند کا قیام سمجھا جاتا ہے کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد جب ایسٹ انڈیا کمپنی کی جگہ برطانوی حکومت نے براہ راست متحدہ ہندوستان پر اپنی حکومت قائم کی اور دفتری، عدالتی اور تعلیمی نظام یکسر تبدیل کر کے درس نظامی کے مدارس کو نہ صرف بند کر دیا بلکہ اس کے جاری رہنے کے سارے ظاہری امکانات کو ختم کر کے رکھ دیا۔ ہزاروں مدارس بند کر دیے گئے، ان کی جائیدادیں ضبط ہوگئیں، بہت سے مدارس بلڈوز ہوگئے، علماء کرام کی بڑی تعداد آزادی کی جنگ میں حصہ لینے کی پاداش میں شہید کر دی گئی، بے شمار علماء کرام گرفتار ہوگئے، مقدمات اور داروگیر کے وسیع سلسلہ نے علماء کرام اور دینی کارکنوں پر خوف و ہراس کی کیفیت طاری کر دی اور بظاہر اس کا کوئی امکان باقی نہ رہا کہ قرآن کریم، حدیث، فقہ، عربی زبان، فارسی اور دیگر دینی علوم کی تدریس و تعلیم کا کوئی سلسلہ یہاں باقی رہ سکے گا۔
اس ماحول میں دینی تعلیم کا سلسلہ از سرِ نو جاری کرنے اور مسلمانوں کی مدارس و مساجد کو آباد رکھنے کے لیے مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے اپنے دیگر رفقاء حاجی عابد حسینؒ ، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ ، مولانا ذوالفقار علی دیوبندیؒ اور دوسرے حضرات کی معاونت سے دیوبند کے قصبہ میں دینی مدرسہ کا آغاز کیا جس کی برکات سے آج پوری دنیا فیض یاب ہو رہی ہے۔ ایک گمنام سے قصبہ میں ۱۸۶۵ء میں شروع ہونے والے اس مدرسہ کی شاخیں پورے عالم میں اس طرح پھیلیں کہ آج دنیا کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہے جہاں اس شجر کے گھنے سائے اور متنوع پھل سے مسلمان فیض یاب نہ ہو رہے ہوں جبکہ عالمی استعمار فکری و تہذیبی دنیا میں دیوبند کو اپنا سب سے بڑا حریف اور اپنی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دینے پر مجبور ہے۔ 
مولانا راشدی نے کہا کہ جن بزرگوں کا ہم مسلسل نام لیتے ہیں، جن کی طرف نسبت کو ہم اپنے لیے باعث فخر سمجھتے ہیں اور جن کا تذکرہ کر کے ہم تاریخ میں عزت اور مقام حاصل کرتے ہیں، ان کی جدوجہد، خدمات اور مشن سے ہمیں واقف ضرور ہونا چاہیے تاکہ ان کے نقش قدم پر ہم صحیح طور پر چل سکیں۔

مولانا عبد الستار تونسوی کی یاد میں تعزیتی ریفرنس

۳۱؍ دسمبر کو اکادمی میں حضرت مولانا عبد الستار تونسویؒ کی وفات حسرت آیات پر تعزیتی ریفرنس کے طور پر ایک نشست ہوئی جس میں شہر کے علماء کرام کی ایک بڑی تعداد شریک ہوئی۔ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان (س) کے سیکرٹری جنرل مولانا عبد الرؤف فاروقی اس نشست کے مہمان خصوصی تھے۔ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے اپنی گفتگو میں کہا کہ اہل سنت کے عقائد و مذہب اور ناموس صحابہؓ کے تحفظ و دفاع کے لیے حضرت مجدد الف ثانیؒ ، حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کی علمی جدوجہد کو امام اہل سنت حضرت مولانا عبد الشکور لکھنویؒ نے جو منظم شکل دی تھی اور اس کے لیے ایک پورا تربیتی نظام قائم کیا تھا۔ پاکستان میں اس کے امین مولانا عبد الستار تونسویؒ ، مولانا دوست محمد قریشیؒ ، مولانا سید نور الحسن بخاریؒ ، مولانا قائم الدین عباسیؒ ، مولانا قاضی مظہر حسینؒ ، علامہ ڈاکٹر خالد محمود، مولانا عبد اللطیف جہلمیؒ ، مولانا عبد الحئی جام پوریؒ اور ان کے رفقاء تھے جنہوں نے اپنے اکابر کے طرز اور اسلوب کے مطابق مذہب اہل سنت کی خدمت اور عقائد اہل سنت کے فروغ کے محاذ کو قائم رکھا۔ آج مولانا عبد الستار تونسویؒ کی وفات سے تاریخ کا وہ باب مکمل ہوگیا ہے جبکہ آج اسی اسلوب اور طرز کو از سرِ نو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔
مولانا عبد الرؤف فاروقی نے مذہب اہل سنت کی تاریخ پر روشنی ڈالی اور اس کے پس منظر میں حضرت مولانا عبدالستار تونسویؒ اور ان کے رفقاء کی جدوجہد کی اہمیت کو واضح کیا۔ انہوں نے کہا کہ مولانا تونسویؒ اپنے وقت میں اس فن کے امام تھے اور انہوں نے ہزاروں علماء کرام کو اس مشن کے لیے تیار کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج ہمارے مدارس کے طلبہ کی غالب اکثریت کو مذہب اہل سنت کی علمی و فکری بنیادوں اور اپنے اکابر کے طرز و اسلوب سے شناسائی حاصل نہیں ہے اس لیے ضرورت ہے کہ مدارس دینیہ میں حضرت مولانا عبد الشکور لکھنویؒ کی طرز پر کام کیا جائے اور علماء و طلبہ کو علمی اور تحقیقی طور پر اس کے لیے تیار کیا جائے۔
تعزیتی نشست میں حضرت علامہ عبد الستار تونسویؒ کی وفات کو علمی و دینی حلقوں کے لیے ایک عظیم نقصان قرار دیتے ہوئے ان کی دینی و ملی خدمات پر خراج عقیدت پیش کیا گیا اور ان کی مغفرت و بلندئ درجات کی دعا کی گئی۔

’’عالمی رابطہ ادب اسلامی‘‘ کا سیمینار

’’عالمی رابطہ ادب اسلامی‘‘ کی تحریک برصغیر کے ممتاز مفکر اور دانش ور مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے کی تھی۔ ان کے توجہ دلانے پر مختلف ممالک کے اسلامی جذبہ رکھنے والے ادیبوں اور دانش وروں نے جنوری ۱۹۸۶ء کے دوران لکھنؤ (انڈیا) میں جمع ہو کر ’’عالمی رابطہ ادب اسلامی‘‘ کی بنیاد رکھی اور طے کیا کہ اسلام دوست ادیبوں کی تخلیقات کی اشاعت اور ان کے درمیان رابطوں کو فروغ دینے کے لیے اس عنوان کے ساتھ محنت کی جائے گی۔ اس جدوجہد کے اہم مراکز بھارت، بنگلہ دیش، پاکستان، ترکی اور سعودی عرب میں ہیں اور اب تک اس سلسلے میں مختلف سطحوں کے متعدد اجلاس کانفرنسیں اور سیمینارز منعقد ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں بھی اس کا حلقہ موجود و متحرک ہے جس میں مولانا فضل الرحیم، ڈاکٹر سعد صدیقی، ڈاکٹر محمود الحسن عارف، ڈاکٹر زاہد ملک، مولانا مفتی محمد زاہد، ڈاکٹر ظہور احمد اظہر، پروفیسر ڈاکٹر قاری محمد طاہر، ڈاکٹر زاہد اشرف، مجیب الرحمن انقلابی، ڈاکٹر حافظ سمیع اللہ فراز، ڈاکٹر محمد ارشد اور دیگر ارباب علم و دانش شامل ہیں۔ اس وقت ڈاکٹر سعد صدیقی ’’عالمی رابطہ ادب اسلامی‘‘ کے حلقۂ پاکستان کی صدارت اور ڈاکٹر محمود الحسن عارف سیکرٹری جنرل کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ اب اس فورم نے اپنا دائرہ لاہور کے علاوہ دوسرے شہروں تک وسیع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا آغاز ۳؍ جنوری ۲۰۱۲ء کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں منعقدہ ایک تقریب سے ہوا۔
یہ سیمینار رابطہ ادب اسلامی کے تعارف اور اس کی سرگرمیوں کے تذکرے کے لیے منعقد ہوا جس کی صدارت اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے کی، جبکہ برطانیہ سے تشریف لانے والے ممتاز عالم دین اور دانشور مولانا مفتی برکت اللہ مہمان خصوصی تھے۔ سیمینار سے مولانا مفتی برکت اللہ، مولانا مفتی محمد زاہد، ڈاکٹر سعد صدیقی، ڈاکٹر محمود الحسن عارف، ڈاکٹر محمد ارشد، ڈاکٹر پروفیسر محمد اکرم ورک، ڈاکٹر سمیع اللہ فراز اور جناب خالد صابر نے خطاب کیا۔ مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ اسلامی تعلیمات کے فروغ، اسلامی اقدار کے تحفظ، دین کی دعوت و ترویج اور قرآن و سنت کے احکام و قوانین کی تفہیم و تشریح کے لیے ادب کی مختلف اصناف اور ابلاغ کے موثر ذرائع کو اختیار کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے، اس کے لیے ایسا ذوق رکھنے والے علمائے کرام، ادیبوں اور شاعروں اور میڈیا و تعلیم کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین کو باہمی رابطہ و تعلق کا اہتمام کرنا چاہیے جس کے لیے ’’عالمی رابطہ ادب اسلامی‘‘ کام کر رہا ہے۔
اس موقع پر گوجرانوالہ ڈویژن میں رابطہ کی شاخ قائم کرنے کی ذمہ داری ڈاکٹر محمد اکرم ورک کو سونپی گئی جو وہ کنوینر کی حیثیت سے مختلف شعبوں کے اصحابِ فکر سے رابطے قائم کر کے رابطہ ادب اسلامی کو مقامی سطح پر منظم کرنے کا اہتمام کریں گے۔ مہمان خصوصی مولانا مفتی برکت اللہ نے اپنے خطاب میں علمائے کرام، ادیبوں، دانش وروں، شاعروں، اساتذہ اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے اصحابِ فکر پر زور دیا کہ وہ موجودہ عالمی تہذیبی و فکری کشمکش کا ادراک کرتے ہوئے اسلام کی خدمت کے راستے تلاش کریں اور باہمی مشورہ و رابطہ کے ساتھ فکری جدوجہد کو منظم کریں۔

ہماری خوراک اور دن بدن بڑھتے امراض

حکیم محمد عمران مغل

مشرقی تہذیب وتمدن میں جو امراض آج کل دیکھنے سننے میں آ رہے ہیں، طبی کتب میں ان کا تفصیل سے ذکر ہے، مگر عوامی سطح پر اکثر لوگ ان سے واقف نہیں تھے۔ اس کی ایک بڑی وجہ صحت اور اخلاق کی بلندی تھی ، مگر اب مشرقی معاشرے بھی پستی اور زوال کا شکار ہو چکے ہیں۔آج ہر مشرقی انگوٹھی پر مغربی نگینہ دور سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ہماری بود وباش، خور ونوش سب مغربی تہذیب وتمدن کے رنگ میں رنگی جا چکی ہے۔ صبح اٹھتے ہی آب حیات یعنی چائے نہ ملے تو ہمارے ہوش وحواس بحال نہیں ہو پاتے۔ میں نے وہ حضرات بھی دیکھے ہیں جنھیں چائے کی خوشبو سونگھتے ہی قے ہونی لگتی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ ہمیں رات کی باسی لسی اور باسی دہی نہ ملے تو دن بھر کام کاج کے قابل نہیں ہوتے۔ پھر انھی حضرات کا کہنا ہے کہ ہمارے سامنے نئی نسل باریک آٹے اور میدے سے بنی اشیا کھا کھا کر طرح طرح کے امراض کا شکار ہوتی جا رہی ہے اور ہم بے بس ہیں۔ باریک آٹے نے ہی شوگر کا پہاڑ کھڑا کر دیا ہے اور چھوٹا بڑا ہر کوئی شوگر کی بیماری میں جکڑا جا رہا ہے۔ امریکن شوگر سنٹر کے صدر اور امراض بچگان کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر فرانسس نے کہا ہے کہ پیزا، سینڈوچ یا میدہ کی بنی اشیا کے شوقین بچے میرے علاج سے تندرست نہ ہوئے تو تحقیق سے پتہ چلا کہ یہ سب باریک آٹے کی کارستانی ہے جس کی وجہ سے چھوٹے بچے بھی درجہ دوم کی شوگر کے مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
موٹاپے کا عذاب بھی شروع ہو چکا ہے۔ بند بوتلوں کے پانی، بند ڈبوں کی خوراک پر کافی تحقیق ہو چکی ہے۔ بزرگ اطبا نے صدیوں پہلے بتا دیا تھا کہ یہ زہر ہے۔ اس سے دل، دماغ، گردہ اور جگر تباہ ہو جائیں گے۔ آج جو لنگڑے لولے، اپاہج اور پولیو زدہ بچے پیدا ہو رہے ہیں، اس کی یہی وجہ ہے۔ بچوں کی پیدائش کے کیس بھی خراب ہو رہے ہیں۔ ماؤں میں بچے جنم دینے کی طاقت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارے ملک کی مایہ ناز ڈاکٹر خالدہ عثمانی بھی بارہا کہہ چکی ہیں کہ میدے کی اشیا سے بچیں اور مشرقی کھانوں کو رواج دیں۔

مارچ ۲۰۱۳ء

طالبان کے ساتھ مذاکرات ۔ ضرورت اور تقاضےمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
دینی مدارس میں عصری علوم ۔ محمد افضل کاسی کا مکتوبمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
دور حاضر کے تقاضے اور شعبہ اسلامیات پنجاب یونیورسٹیپروفیسر خالد ہمایوں
ریاست، معاشرہ اور مذہبی طبقات ۔ پاکستان کے تناظر میں اہم سوالات کے حوالے سے ایک گفتگومحمد عمار خان ناصر
امت کا فکری بحران ۔ تاریخی بیانیے کا ایک تنقیدی مطالعہپروفیسر میاں انعام الرحمن
مولانا عبد القیوم ہزارویؒ / مولانا قاری عبد الحئ عابدؒمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مکاتیبادارہ
دو قومی نظریہ اور امجد علی شاکرسید امتیاز احمد
’’رسول اکرم ﷺ کی مجلسی زندگی‘‘ ۔ مضمون نویسی کا انعامی مقابلہڈاکٹر حافظ محمد رشید

طالبان کے ساتھ مذاکرات ۔ ضرورت اور تقاضے

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

صدر اوبامہ نے دوسری مدت صدارت کی پہلی پالیسی تقریر میں ۲۰۱۴ء کے آخر تک افغان جنگ ختم کر دینے کا باضابطہ اعلان کر دیا ہے اور کہا ہے کہ القاعدہ کو غیر موثر بنانے کا ان کا ہدف پورا ہوگیا ہے، اس لیے اب جنگ کو مزید جاری نہیں رکھا جائے گا۔ 
یہ جنگ ’’القاعدہ‘‘ کے خلاف تھی یا ’’افغان طالبان‘‘ اس کا اصل ہدف تھے؟ جن افغان طالبان کی حکومت کو نیٹو افواج کی عسکری یلغار کے ذریعہ ختم کر دیا گیا تھا، ان سے مذاکرات کی مسلسل کوششیں اس جنگ میں امریکہ اور نیٹو افواج کی ’’کامیابی‘‘ کی اصل کہانی بخوبی بیان کر رہی ہیں اور اس سلسلہ میں ہمیں کچھ عرض کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہو رہی، جبکہ خطہ سے امریکی اور نیٹو افواج کے بڑے حصے کے انخلا کے بعد صورت حال کیا ہوگی؟ اس کے بارے میں کچھ کہنا شاید قبل از وقت ہو، البتہ پاکستان کی سیاسی اور فکری دانش کے بعض دائروں میں ممکنہ ’’خطرات و خدشات‘‘ پر جو واویلا بھی شروع ہوگیا ہے، اس کے بارے میں کچھ عرض کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ 
ہمارے بعض دانشوروں کو یہ خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ افغانستان میں افغان طالبان اپنی واپسی کی صورت میں پہلے سے زیادہ طاقت ور ہوں گے اور ایک بڑی قوت کے مقابلہ میں فتح کا احساس ان کی قوت کو دو آتشہ کر دے گا۔ اس لیے پاکستان پر ان کے فکر و فلسفہ کے اثر انداز ہونے کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، بالخصوص اس صورت میں کہ پاکستان میں طالبان کے فکر و فلسفہ کے حامل لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور بوقت ضرورت وہ ایک موثر قوت کی صورت اختیار کر سکتے ہیں۔ اس پس منظر میں ہمارے ان دانش وروں کو اے این پی کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کے اس متفقہ موقف کے بارے میں بھی تحفظات درپیش ہیں کہ پاکستانی طالبان کی طرف سے مذاکرات کی پیش کش کو قبول کیا جائے اور مذاکرات کے ذریعہ مسئلہ حل کر کے امن کے قیام کو ترجیح دی جائے۔ حالانکہ اے این پی کی اس اے پی سی کا یہ موقف پوری قوم کی دل کی آواز ہے اور موجودہ حالات کے تناظر میں باہمی جنگ و جدال کی دلدل سے نکلنے کا اس کے سوا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا لیکن دانش کی ایک سطح کو یہ خوف لاحق ہے کہ اس سے طالبان کو اپنی سوچ اور وژن کے مطابق نفاذِ اسلام میں پیش رفت کا موقع مل سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں مزید کچھ عرض کرنے سے قبل اس بات کی وضاحت ضروری محسوس ہوتی ہے کہ ہم نے اپنی گزارشات میں ہمیشہ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کے درمیان فرق کو ملحوظ رکھا ہے اور یہ فرق آج بھی پوری طرح ہمارے سامنے ہے۔ 
افغان طالبان جہادِ افغانستان میں روسی استعمار کی شکست اور سوویت فوجوں کی واپسی کے بعد رونما ہونے والی اس خانہ جنگی کے رد عمل میں منظر عام پر آئے تھے جو مغربی قوتوں نے جہادِ افغانستان کے ذریعے سوویت یونین کے خلاف اپنے مقاصد کے حصول کے بعد افغانستان کو تنہا چھوڑ دینے کی شعوری یا غیر شعوری پالیسی اختیار کر کے پیدا کی تھی اور جسے ختم کرنے کی کسی سنجیدہ کوشش کی بجائے افغان مجاہدین کی اتحادی قوتوں نے انہیں ان کے حال پر چھوڑ کر اس خانہ جنگی کی عملاً حوصلہ افزائی کی تھی۔
افغان طالبان نے جہاد افغانستان کے نظریاتی مقاصد کے حصول اور افغانستان کے اسلامی نظریاتی تشخص کے تحفظ کے لیے میدان میں قدم رکھا اور کامیابی حاصل کی جسے القاعدہ کی آڑ میں امریکہ اور نیٹو کی فوجوں نے عسکری یلغار کے ذریعہ ختم کر دیا۔ اس کے بعد سے وہ افغانستان پر غیر ملکی جارحیت کے خلاف آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور اسی جوش و جذبہ کے ساتھ لڑ رہے ہیں جس کے ساتھ انہوں نے سوویت یونین کی عسکری جارحیت کے خلاف جنگ لڑی تھی مگر پاکستانی طالبان کا دائرہ اس سے مختلف ہے۔ انہوں نے پاکستان میں نفاذ شریعت کے لیے ہتھیار اٹھائے اور ان کا آغاز حکومت پاکستان کے ساتھ نفاذ شریعت کے ایسے معاہدات سے ہوا تھا جو ملک کے دستوری فریم ورک کے اندر تھے مگر ان سے کیے گئے وعدوں کو عمدًا توڑ دیا گیا، ہم سمجھتے ہیں کہ اگر پہلے صوفی محمد کے ساتھ اور پھر پاکستانی طالبان کے ساتھ کیے جانے والے معاہدوں کی پاسداری کی جاتی تو آج یقیناًیہ صورت حال نہ ہوتی جو ہمارے ان دانش وروں کو پریشان کر رہی ہے۔ ہم نے پاکستانی طالبان کے ہتھیار اٹھانے کی کبھی حمایت نہیں کی اور نہ ہی اب اسے درست سمجھتے ہیں لیکن ان کے اس مطالبہ کی سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان کے ساتھ مختلف مواقع پر جو معاہدات کیے گئے ہیں ان کی پابندی کی جائے اور ان پر عملدرآمد کیا جائے بلکہ ہم اس سے آگے بڑھ کر یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ ریاست سوات، بہاول پور اور قلات کو پاکستان میں شامل کرتے وقت ان کے عدالتی نظام کے بارے میں جو معاہدے کیے گئے تھے اگر انہیں سرد خانے میں نہ ڈال دیا جاتا تو صوفی محمد یا پاکستانی طالبان اور عسکریت پسندوں کا دور دور تک کوئی وجود نہ ہوتا۔ اس لیے ہم اس تاریخی تسلسل کو کسی طرح نظر انداز نہیں کر سکتے کہ آج کی صورت حال ان مذکورہ معاہدات کی خلاف ورزی کا رد عمل اور منطقی نتیجہ ہے اور اس صورت حال سے نکلنے کے لیے قوم کو بحیثیت قوم ان معاہدات کی طرف واپس جانا ہوگا، اس کے بغیر ان خطرات و خدشات کے سدباب کی کوئی صورت ممکن نہیں ہے جس کا ہمارے دانش وروں کی طرف سے اظہار کیا جا رہا ہے۔ ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ بعد کی ساری باتیں چھوڑ دیجئے صرف ان معاہدوں کی گرد جھاڑ کر انہیں سامنے لائیے جو سوات، قلات اور بہاول پور کی ریاستوں کو پاکستان میں شامل کرتے وقت کیے گئے تھے اور ان پر عملدرآمد کا اہتمام کر لیجئے اس ساری شدت پسندی اور عسکریت کی ہوا اکھڑ جائے گی۔ 
باقی رہی بات نفاذ اسلام کے وژن کی، ہم اپنے محترم دانش وروں کو یاد دلانا چاہیں گے کہ پاکستان بننے کے بعد جمہور علماء اسلام نے علامہ اقبالؒ کا وژن قبول کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے ذریعہ نفاذ اسلام کا راستہ اختیار کیا تھا اور قادیانیوں کو مرتد قرار دے کر قتل کرنے کی بجائے ایک غیر مسلم اقلیت کے طور پر قبول کر لینے کا فیصلہ بھی اقبالؒ کے وژن پر ہی کیا گیا تھا مگر ہمارے ان مہربان دانشوروں نے جمہور علماء اسلام کے اس اجتہادی فیصلے کا کتنا احترام کیا ہے؟ قرارداد مقاصد، پاکستان کی اسلامی نظریاتی شناخت، قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا فیصلہ، ناموس رسالتؐ کے تحفظ کا قانون اور دستور کی دیگر اسلامی دفعات منتخب پارلیمنٹ کے فیصلے ہیں، اور ان میں سے بیشتر فیصلے پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی سرکردگی میں ہوئے ہیں۔ لیکن ہمارے بعض دانش وروں نے منتخب پارلیمنٹ کے ان جمہوری فیصلوں کے خلاف جو مورچہ لگا رکھا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ علماء کرام تو اقبالؒ کے وژن پر آگئے تھے، انہوں نے اقبالؒ کا وژن قبول کر کے اس کے مطابق جمہوری اسلامی ریاست کا راستہ اختیار کر لیا تھا اور جمہور علماء پاکستان آج بھی اس وژن پر قائم ہیں لیکن حکمران طبقوں اور سیکولر دانش وروں نے عوام کے منتخب نمائندوں کے جمہوری فیصلوں کے خلاف جو روش گزشتہ ساٹھ برس سے اختیار کر رکھی ہے اس کے رد عمل میں اس شدت پسندی اور عسکریت نے جنم لیا ہے جو پوری قوم کے لیے اضطراب کا باعث بنی ہوئی ہے۔ ہم ایک لمحہ کے لیے اس شدت پسندی اور عسکریت کے حامی نہیں ہیں لیکن جس روش نے حالات کو یہاں تک پہنچایا ہے اسے تبدیل کیے بغیر اس پر قابو آخر کیسے پایا جا سکتا ہے؟ اس شدت پسندی اور عسکریت کے سد باب کے لیے دستور کی اسلامی بنیادوں کو تسلیم کرنے کا اعلان کیجئے اور ان پر خلوص دل کے ساتھ عملدرآمد کا اہتمام کیجئے، شدت پسندی کا راستہ خود بخود بند ہو جائے گا اور ان کے لیے قوم کے اجتماعی فیصلے کے سامنے سرنڈر ہونے کے سوا کوئی آپشن باقی نہیں رہے گا۔ 

دینی مدارس میں عصری علوم ۔ محمد افضل کاسی کا مکتوب

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

دینی مدارس کے نصاب و نظام میں عصری علوم کو شامل کرنے کے حوالہ سے مختلف اصحابِ دانش نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اور اس مفید مباحثہ کے نتیجے میں بہت سے نئے پہلو سامنے آرہے ہیں جن پر غور و خوض یقیناً اس بحث کو مثبت طور پر آگے بڑھانے کا باعث ہوگا، اس سلسلہ میں جامعہ دارالعلوم کراچی کے ایک طالب علم محمد افضل کاسی آف کوئٹہ کا خط پیش خدمت ہے، راقم الحروف کے نام اس خط میں انہوں نے اس مسئلہ پر ایک طالب علم کے طور پر اپنے جذبات و تاثرات پیش کیے ہیں جو یقیناً قابل توجہ ہیں۔ ہماری ایک عرصہ سے یہ رائے چلی آرہی ہے جس کا مختلف محافل میں ہم نے اظہار کیا ہے اور بعض مضامین میں لکھا بھی ہے کہ ہمیں باہر کی آواز سننے کی زیادہ ضرورت نہیں ہے لیکن دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کی بات ضرور سننی چاہیے اور انہیں اس مباحثہ میں شریک کرنا چاہیے۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر دینی مدارس کے سینئر اساتذہ کے لیے ملک کے چند بڑے مدارس میں مشاورتی اجتماعات اور ورکشاپس کا اہتمام کیا جائے جن میں وہ دو تین روز شریک رہ کر دینی مدارس کے اساتذہ و طلبہ کو درپیش تعلیمی، تربیتی اور فکری مسائل پر کھلے دل کے ساتھ بحث و مباحثہ کر سکیں تو اس کے بہت مفید نتائج سامنے آئیں گے اور اس کے بارے میں کوئی واضح رخ متعین کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ پروگرام وفاق المدارس کے زیر انتظام ہوں تو زیادہ موثر اور محفوظ ہوں گے، کوئی اور فورم اس کا اہتمام کرے گا تو اس سے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ بہرحال اس سلسلہ میں ایک طالب علم کا نقطۂ نظر اور تجاویز ملاحظہ فرمائیں اور یہ دیکھیں کہ جو طبقہ اس معاملہ میں ’’مبتلیٰ بہ‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے اس کے اپنے جذبات اس حوالے سے کیا ہیں؟  
ابوعمار زاہد الراشدی

’’دینی مدارس میں دنیوی تعلیم کا امتزاج کرنے کے لیے کیا کیا جائے؟ اور کیا یہ صحیح بھی ہے یا نہیں؟ اور اگر یہ امتزاج کیا جائے تو کن خدشات کا سامنا کرنا پڑے گا؟ اس موضوع پر مختلف حضرات اپنی آراء دے چکے ہیں۔ اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے چند معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن چونکہ میں خود ایک طالب علم ہوں۔ اور طلبہ کے درمیان رہتے ہوئے ان کی دلی خواہشات اور حالات سے زیادہ شناسا ہوں اس وجہ سے اس موضوع پر بات کرنے سے پہلے میں طلبہ کے حالات اور ان کی سوچ کے حوالے سے بحث کروں گا۔ 
دینی مدارس میں بعض طلبہ تو صرف وقت گزاری کے لیے مدارس میں ہوتے ہیں ان میں سے اکثریت ان کی ہوتی ہے جنہیں والدین نے یا گھر کے کسی بڑے نے زبردستی مدرسے میں داخل کرایا ہوتا ہے۔ ایسے طلبہ کو نہ تو مدارس کے نصاب سے دلچسپی ہوتی ہے اور نہ ہی جدید علوم سے، البتہ یہ جدید علوم کو دینی تعلیم پر فوقیت دیتے ہیں اور مدارس میں یہ امتحان پاس کرنے کے لیے مجبوراً کچھ نہ کچھ پڑھ لیتے ہیں۔ بعض طلبہ کو دینی اور دنیوی تعلیم، دنوں کا شوق ہوتا ہے اور محنت بھی کرتے ہیں لیکن ان کی ذہنی استعداد اتنی نہیں ہوتی کہ وہ دونوں کو یکجا کر سکے لہٰذا ہوتا یہ ہے کہ جدید علوم حاصل کرنے کے چکر میں ان کے دینی تعلیم کا نقصان ہوتا ہے۔ اور بعض طلبہ صرف دینی تعلیم حاصل کرنے کو اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں اور جدید علوم کے متعلق بات کرنے کو بھی اخلاص کے منافی سمجھتے ہیں اور جو طلبہ عصری علوم حاصل کر رہے ہوتے ہیں ان پر دل کھول کر طعن و تشنیع کرتے ہیں۔ اور بعض طلبہ جو دینی و عصری علوم حاصل کرنے کے شوقین ہوتے ہیں اور دونوں کے ایک ساتھ حاصل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں مگر مدارس کے روایتی نظام الاوقات کی وجہ سے یا مدرسے کی بعض پابندیوں کی بنا پر جدید علوم سے رہ جاتے ہیں۔
طلبہ کے حالات جاننے کے بعد اب ہم دینی و عصری تعلیم کے امتزاج کی بحث کرتے ہیں جس میں سب سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ دینی علوم میں کمزوری پیدا ہو جائے گی اور اس کی طرف توجہ میں کمی واقع ہوگی۔ اس خدشے سے خلاصی اس صورت میں ممکن ہے کہ وہ طلبہ جو عصری علوم کی تحصیل کا شوق رکھتے ہو، ان کے لیے مدرسے کے امتحان میں اعلیٰ درجے سے کامیابی شرط قرار دی جائے جو طلبہ مذکورہ شرط پر پورا اترے ان کو عصری علوم حاصل کرنے کی نہ صرف اجازت دی جائے بلکہ ان کے لیے کلاسز اور تمام جدید وسائل کا انتظام کیا جائے۔ کیونکہ اگر اہل مدارس عصری علوم کے لیے خصوصی کلاسز کا بندوبست نہیں کریں گے تو جو طلبہ عصری تعلیم کے دلداتے ہیں وہ ہر صورت میں اسے حاصل کرنے کی کوشش کریں گے جس کے لیے ان کو مدارس سے باہر جانا پڑے گا اور بھاری فیسیں دینی پڑے گی اور دینی علوم کے گھنٹوں کو قربان کریں گے اس بنا پر ان کی دینی تعلیم متاثر ہوگی۔ اس کا مشاہدہ مدارس کے طلبہ سے مل کر ان کے حالات جان کر کیا جا سکتا ہے کہ چند طلبہ انگریزی سیکھنے اور بعض طلبہ کمپیوٹر ٹریننگ، اور چند طلبہ بی اے کی تیاری کے لیے اور بعض صحافت، خطابت، و فلکیات غرض مختلف کورس کرنے کے لیے مدارس سے باہر جاتے ہیں جس سے طلبہ کو شدید دقت ہوتی ہے۔ اگر اہل مدارس ان کورسز کے لیے دینی تعلیم کے گھنٹوں میں توازن برقرار رکھتے ہوئے خصوصی کلاسز کو انعقاد کریں اور سابقہ شرائط کے تحت طلبہ کو داخلہ دیا جائے تو طلبہ پر احسان عظیم ہوگا۔
چونکہ مدارس میں ان جدید علوم کے لیے کوئی خاص بندوبست نہیں اگر ہے بھی تو صرف تخصص کے طلبہ کے لیے، اس وجہ سے جو طلبہ کالج، یونیورسٹی وغیرہ سے پڑھ کر دعوت و تبلیغ یا کسی اور سبب کی بنا پر مدارس آتے ہیں وہ بھی کمپیوٹر اور انگریزی وغیرہ کے عدم استعمال کی وجہ سے سب کچھ نہ سہی مگر بہت کچھ بھول ہی جاتے ہیں کیونکہ آئے روز کمپیوٹر میں نت نئے پروگرامز آرہے ہیں اور انگریزی کے ذخیرہ الفاظ بھی تکلم و مطالعہ نہ ہونے کے سبب ذہن کے سکرین سے آہستہ آہستہ آؤٹ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ 
مدارس کے منتظمین اور اساتذہ سے درد مندانہ درخواست ہے کہ اگر جدید علوم کے تمام کورسز نہ سہی تو کم از کم انگریزی اور کمپیوٹر کی طرف توجہ فرمائیں۔
محمد افضل کاسی، کوئٹہ 

دور حاضر کے تقاضے اور شعبہ اسلامیات پنجاب یونیورسٹی

پروفیسر خالد ہمایوں

کوئی بیس بائیس برس پہلے کی بات ہے، میں نے ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ میں جماعت اسلامی کی فکر اور اُس کی سیاسی جدوجہد پر ایک تنقیدی جائزہ لکھا تو اس میں جماعت کی تمام کتابوں کی فہرست بھی شامل کی تھی۔ دکھانا یہ مقصود تھا کہ ان میں کوئی کتاب ایسی نہیں جس کا تعلق پاکستانی معاشرے کے عملی مسائل و معاملات سے ہو۔ کسی ایک کتاب میں بھی اُن چیلنجز کا جواب نہیں ملتا جو حصول آزادی کے بعد ہمیں پیش آتے رہے ہیں۔ یہ تمام لٹریچر بڑی حد تک نظری مباحث پر مشتمل ہے جو یہ بتاتا ہے کہ اسلام فی الواقع سچا اور بہترین دین ہے۔
جس وقت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، میاں طفیل محمد، امین احسن اصلاحی، نعیم صدیقی، ملک غلام علی، صدر الدین اصلاحی، پروفیسر خورشید احمد اور اسعد گیلانی یہ لٹریچر تیار کر رہے تھے تو اُس دور میں سوشلسٹ اور سیکولر فکر سے مسلمان نوجوان متاثر ہو رہے تھے۔ خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ ہماری اگلی نسلیں دہریت اور الحاد کا شکار ہو جائیں گی، چنانچہ جماعت کے خالص نظریاتی لٹریچر نے انہیں اسلام کی بنیادی سچائیوں پر یقین اور اعتماد عطا کیا تھا۔ لیکن چونکہ وہ لٹریچر معاصر معاشرتی اور ریاستی نظام کی بحث سے یکسر خالی تھا، اس لیے جنرل ضیاء الحق بڑی آسانی کے ساتھ جماعت کو فریب دینے میں کامیاب ہوگئے۔ انہوں نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے فورًا بعد اپنی پہلی تقریر خطبہ مسنونہ سے شروع کی تو اسلام پسند حلقوں کو یوں لگا جیسے وہ سحر طلوع ہوا چاہتی ہے جس کا مدت سے خواب دیکھا جا رہا تھا۔ گیارہ سال بعد محسوس یہ ہوا کہ سحر کیا طلوع ہوتی، اُلٹا تاریکیاں دبیز ہوتی چلی گئیں اور آج پاکستانی قوم انہی میں بھٹکتی پھر رہی ہے۔ نہ منزل سامنے ہے اور نہ کوئی بڑا دماغ راستہ دکھانے والا نظر آتا ہے۔ 
آج جب میں شعبہ اسلامیات پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے شائع ہونے والی تازہ کتاب ’’ارمغانِ علامہ علاؤ الدین صدیقی‘‘ کی ورق گردانی کر رہا ہوں تو میری مایوسی دوچند ہوگئی ہے۔ پہلے ’’ارمغان‘‘ کی وضاحت کر دوں۔ ارمغان کا مطلب ہے تحفہ۔ علمی برادری کبھی کسی بڑی علمی شخصیت کی خدمت میں اعلیٰ پایہ کے مضامین و مقالات کا مجموعہ بطور تحفہ پیش کرے تو اُسے ارمغان کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ گویا اُس شخصیت کی علمی خدمات کا اعتراف ہوتا ہے۔ علامہ علاؤ الدین صدیقی (۱۹۰۷ء تا ۱۹۷۷ء) بھی ایک صاحب علم شخصیت تھے۔ تعلیم میں ایم اے فارسی، ایم او ایل اور ایل ایل بی تھے۔ انہیں تحریک پاکستان میں شمولیت کا اعزاز حاصل تھا۔ ۱۹۳۵ء میں مسجد شاہ چراغ میں درسِ قرآن کا آغاز کیا۔ ۱۹۴۵ء میں انہیں اسلامیہ کالج (ریلوے روڈ) میں دینیات کے استاد کے طور پر مقرر کیا گیا۔ ۱۹۴۶ء میں مسلم لیگ صوبہ پنجاب کے جنرل سیکرٹری بنے۔ تقسیم کے بعد بھی صوبائی سیاست میں سرگرم رہے۔ ’ارمغان‘ کی مرتبہ ڈاکٹر جمیلہ شوکت کی روایت کے مطابق علامہ صاحب صوبہ پنجاب کی صداردور حاضر کے تقاضے اور شعبہ اسلامیات پنجاب یونیورسٹیت کے لیے ممتاز دولتانہ کے مقابلے میں کھڑے ہوئے۔ ایک متوسط خاندان کے فرد ہونے کی وجہ سے ایک با اثر زمیندار، سرمایہ طبقے کے فرد کا مقابلہ نہ کر سکے اور اس طرح دولتانہ جیت گئے۔ اس کے بعد علامہ صاحب کوچہ سیاست کو خیرباد کہہ کر تعلیم و تدریس میں مصروف ہوگئے۔
۱۹۵۰ء میں پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ اسلامیات قائم ہوا تو حکومت نے شعبے کی سربراہی سنبھالنے کے لیے علامہ محمد اسد (لیوپولڈ) کو دعوت دی، لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ اس کے بعد علامہ علاؤ الدین صدیقی کو بلایا گیا۔ علامہ صاحب ۱۹۶۴ء سے ۱۹۷۳ء تک اسلامی مشاورتی کونسل کے چیئرمین بھی رہے۔ ۱۹۶۹ء سے ۱۹۷۳ء تک وہ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے۔ علامہ صاحب کی کوئی تحقیقی کتاب ہماری نظر سے نہیں گزری۔ ارمغان میں البتہ ان کے تین انگریزی مقالات شامل ہیں جن کے عنوان ہیں:
1- Abraham and His Influence on History
2- Muhammad: The Universal Prophet
3- The Attitude of Islam Towards Other Religions
ارمغان کی مرتبہ محترمہ پروفیسر ڈاکٹر جمیلہ شوکت نے علامہ صاحب کے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کی تاریخ صفحہ ۱۸ پر ۱۹۳۲ء اور صفحہ ۲۱ پر ۱۹۳۵ء درج کی ہے۔ معلوم نہیں، درست کون سی ہے۔ خیر غلطی تو بڑی آسانی سے کمپوزر کے کھاتے میں ڈالی جا سکتی ہے۔ یہ کمپوزر ٹائپ لوگ تو شاید ہوتے ہی اس لیے ہیں کہ غلطیاں ہم کریں اور ملبہ اُن پر گرا دیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے علامہ صاحب کے کوائف زندگی لکھتے ہوئے یہ نہیں بتایا کہ اُن کے دور میں یونیورسٹی نے ترقی کی کتنی منزلیں طے کی تھیں۔
میں نے ’’ارمغان علامہ علاؤ الدین صدیقی‘‘ میں شامل علمی مقالات کے بارے میں جو مایوسی کا اظہار کیا ہے تو اس حوالے سے نہیں کیا کہ مقالات کا علمی معیار کمتر ہے، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ بلاشبہ ہر مقالہ بہت محنت سے لکھا گیا ہے، زبان و بیان کے سارے سلیقے برتے گئے ہیں۔ ان سب کا تعلق ادیان کے تقابلی مطالعے سے ہے۔ یہ علامہ صاحب کا پسندیدہ موضوع تھا۔ اس اعتبار سے ’’ارمغان‘‘ کی ایک اپنی قدر وقیمت بنتی ہے۔ میرا اعتراض یہ ہے کہ اگر علامہ صاحب مرحوم و مغفور کو کوئی علمی تحفہ پیش کرنا ہی تھا تو قومی زندگی کے کسی زندہ مسئلے پر لکھنے کے لیے سکالر حضرات کو زحمت دی جاتی۔
’’ارمغان‘‘ کے بعض صفحات پر شعبہ اسلامیات کے اساتذہ کی لکھی ہوئی کتابوں کی جو فہرستیں دی گئی ہیں، انہیں دیکھ کر شعبے کے اساتذہ کے علمی رجحان کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے شعبے نے آج کی دُنیا کے مسائل و افکار سے کوئی تعلق ہی نہیں رکھا ہوا۔ اس سے پہلے کہ میں اپنے نقطہ نظر کی مزید تشریح کروں، آپ اساتذہ کے تصنیفی سرمایے پر ایک نظر ڈال لیں، ممکن ہے آپ میری گزارشات بہتر طور سے سمجھ سکیں۔

پروفیسر ڈاکٹر جمیلہ شوکت:

(۱) مسند عائشہ صدیقہ: تحقیق و دراسۃ (۲) الامام جلال الدین سیوطی: تحقیق و تخریج (۳) تحفۃ الطالبین فی ترجمہ الامام النوری (۴) اشاریہ تفہیم القرآن (۵) سٹڈیز ان حدیث (انگریزی) (۶) اسحاق بن رواح: لائف اینڈ ورکس۔

پروفیسر ڈاکٹر خالد علوی:

(۱) المنہاج السوی فی ترجمۃ الامام النووی (۲) انسان کامل ﷺ (۳) حفاظتِ حدیث (۴) رسولِ رحمت ﷺ (۵) حضور ﷺ سے ہمارے تعلق کی بنیادیں (۶) پیغمبرانہ منہاج دعوت (۷) اصول الحدیث (۸) اسلام کا معاشرتی نظام (۹) اقبال اور احیائے دین (۱۰) اقامت الصلوٰۃ (۱۱) پیغمبرانہ دعائیں (۱۲) اسلام کے اصول تجارت (۱۳) خلق عظیم (۱۴) نظریہ پاکستان (۱۵) شرح اربعین نووی۔

پروفیسر ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی:

(۱) قرآن حکیم کی روشنی میں رسول کریمؐ کی شان و عظمت (۲) ورفعنا لک ذکرک (۳) خطبات جمعہ (۴) مثالی پیغمبرؐ (۵) فقہ حنفی اور اس کی خصوصیات (۶) ماڈرن ٹرینڈز ان تفسیر لٹریچر (۷) سید علی ہجویری، حالات و خدمات۔

پروفیسر ڈاکٹر ثمر فاطمہ: 

(۱) مشعل راہ (۲) اسلامی تہذیب و تمدن۔

ڈاکٹر حمید اللہ عبد القادر:

(۱) اصول حدیث (۲) مصباح الحدیث (۳) حدیث نبوی اور مستشرقین (۴) اللولووالمرجان (ترجمہ و تشریح) 

پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمود اختر:

(۱) استحکام مملکت اور بد امنی کا انسداد (تعلیمات نبوی ﷺ کی روشنی میں) (۲) مریض کا علاج اور تیمار داری اسلام کی نظر میں۔

حافظ عثمان احمد:

(۱) ’’اضطراب‘‘ (مجموعہ کلام) (۲) اللہ میاں کے نام اُداس خط۔

ڈاکٹر حافظہ شاہدہ پروین:

(۱) ریت کے گھروندے (۲) فہرست مقالات (۱۹۵۲ء تا ۲۰۰۹ء) بہ اشتراک۔

پروفیسر حافظ احمد یار خان:

(۱) یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ
شعبہ کے اساتذہ کی کتابوں کے عنوانات سے ظاہر ہوتا ہے جیسے یہ لوگ کسی غار میں رہ رہے ہیں۔ انہیں خبر ہی نہیں کہ دنیا کن تغیرات سے گزر رہی ہے اور ہمارا وطن عزیز کن مسائل کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ جن مقاصد کی خاطر یہ ملک معرض وجود میں آیا تھا اور برصغیر کے مسلمانوں نے آگ اور خون کے دریا پار کیے تھے، ان میں سے کوئی ایک مقصد بھی آج تک پورا نہیں ہوا۔ اگر پینسٹھ سال گزرنے کے بعد بھی اسلام کو ریاستی نظام میں عمل دخل حاصل نہیں ہو سکا تو آخر اس کے کچھ اسباب و محرکات تو ضرور ہوں گے۔ اساتذہ کرام کی توجہ اس موضوع کی طرف کیوں نہیں جاتی؟ پھر اس ملک کا دو لخت ہو جانا اسلامی تاریخ کا بہت بڑا سانحہ ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ کسی استاد کے دل میں کبھی اس حوالے سے درد نہیں اٹھا۔ کیا اساتذہ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ پاکستان کے قیام کا مقصد جدید تقاضوں کے مطابق اسلامی معاشرے کا قیام تھا۔ کاش کوئی استاد اس حوالے سے بھی قلم اٹھاتا کہ اس مملکت خداداد میں اسلام پر کیا گزری ہے! آخر ان قوتوں کی نشاندہی کون کرے گا کہ جن کی سازشوں سے اسلامی معاشرے کے قیام کا خواب آج تک شرمندۂ تعبیر نہیں ہوا؟ 
کاش یہ اساتذہ کوئی ایک کتاب اُن قوتوں کے جائزہ ہی پر مبنی لکھ دیتے جو اسلام کو مروجہ استحصالی نظام کے نزدیک آنے نہیں دیتیں۔ ان اساتذہ کے سامنے افسروں کے لاؤ لشکر پالیسیاں بناتے اور ان کا نفاذ کرتے ہیں۔ وہ ماشاء اللہ مسلمان بھی کہلاتے ہیں۔ آخر ان کے کیا مفادات ہوتے ہیں کہ وہ ملک کو غیروں کی محتاجی سے نہیں نکالتے؟ کیوں انہوں نے کئی قسموں کا نظام تعلیم رائج کر رکھا ہے؟ 
اسی پاکستان میں قانون کے محافظ جس جس انداز سے خود قانون ہی کی مٹی پلید کرتے اور مظلوم عوام کی کھالیں اُدھیڑتے ہیں، کیا ان کے احوال کا جائزہ لینا ان سکالروں کا کام نہیں؟ آخر اسلام نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے جو احکام دے رکھے ہیں اُن کا اطلاق کن لوگوں پر ہوتا ہے؟ قیام پاکستان کے فورًا بعد عوامی حلقوں سے مطالبہ اٹھا تھا کہ انگریزی دور کی یادگار جاگیرداریوں اور وڈیرہ شاہیوں کو ختم کیا جائے گا۔ یہ وڈیرے نہ پاکستان میں جمہوریت آنے دیں گے نہ اسلام۔ جائزہ لینے کی ضرورت تھی کہ اسلام میں ان جاگیرداروں اور وڈیروں کے لیے کیا حکم ہے۔ یہ اسلام پر سالوں سے لیکچر دینے اور روایتی ریسرچ کروانے اور بھاری مراعات سمیٹنے والے اساتذہ نے یہ کام نہیں کرنا تو آخر کس نے کرنا ہے؟ کیا یہ کام کرنے کے لیے آسمان سے فرشتے نازل ہوں گے؟ باہر عوام جس اسلامی نظام کے لیے دعائیں مانگتے اور گڑگڑاتے یا خودکشیاں کرتے ہیں، اُن بے چاروں کو خبر ہی نہیں کہ جن لوگوں نے عوام کو ان ظالموں سے نجات پانے کے لیے شعوری طور پر تیار کرنا ہے، وہ صدیوں پہلے کی فقہی موشگافیوں، فتاویٰ کے قلمی نسخوں اور تفسیروں کے تقابلی مطالعہ میں گم ہیں۔ 
پاکستان بننے کے بعد جب مزدور طبقہ بہت بڑے حجم کے ساتھ منظر عام پر ظہور پذیر ہوا تو اُس کو بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ فیکٹریاں، کارخانے لگانے والوں نے اُن سے اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام تو لیا مگر ان کے جائز حقوق سے آنکھیں بند کیے رکھیں۔ نہ اُن کی صحت کی فکر کی، نہ انہیں بونس دیے اور نہ اُن کی رہائش کا سوچا۔ جب مزدوروں نے اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائی تو انہیں سوشلسٹ اور کمیونسٹ قرار دے کر روکنے کی کوشش کی گئی۔ ساری انتظامی مشینری سرمایہ دار کا دست و بازو بن جاتی رہی۔ کیا ان اساتذہ نے کبھی نچلے طبقات کی محرومیوں کا بھی جائزہ لیا؟ کیا اسلام محروم طبقات کی بات نہیں کرتا؟ کیا ان اساتذہ نے قرآن مجید میں بیان ہونے والے اقوام سابقہ کے قصص پر تجزیاتی نظر ڈالی؟ کیا ان اساتذہ کو یہ معلوم نہیں کہ اقوام کے اندر مستضعفین اور مترفین کون تھے اور آج کے مستضعفین اور مترفین کون ہیں؟ 
پاکستان میں گزشتہ ایک ڈیڑھ عشرے سے میڈیا جو قباحتیں برپا کر رہا ہے، کیا اُس کے حسن و قبیح پر بھی اسلامیات کے اساتذہ کو کچھ سوچنا اور لکھنا چاہیے یا نہیں؟ یوں لگتا ہے جیسے انہیں معلوم ہی نہیں کہ میڈیا نام کی کوئی چیز کب کی ہمارے معاشرتی عمل میں شامل ہو چکی ہے اور زندگی کی ساری جہتوں پر بے پناہ اثرات مرتب کر رہی ہے۔ کوئی استاد اِن اثرات ہی کا جائزہ لے لے، یہ بھی تو اسلام ہی کی خدمت ہوگی۔
کیا اسلامیات کے ان اساتذہ کی نظر کبھی اے لیول اور اولیول کے تعلیمی نظام کی طرف نہیں گئی جو نظام ہر سال کتابوں اور امتحانوں کی فیسوں کے بدلے ہم سے اربوں روپے سمیٹ کر بیرونی طاقتوں کی تجوریاں بھر دیتا ہے۔ آخر اسلام ا س حوالے سے کچھ بتاتا ہے یا نہیں؟ کیا اس طرح کا تعلیمی نظام پاکستانی معاشرے میں کوئی یکجہتی پیدا کر سکتا ہے جہاں غریبوں یتیموں کے سکول الگ ہوں اور لاکھوں کی فیسیں بٹورنے والے الگ۔ پھر اس امر کا جائزہ کون لے گا کہ ان اونچے سکولوں سے پڑھ کر نکلنے والے کتنے بچے وطن اور اسلام پر قربان ہونے کا جذبہ اپنے سینوں میں رکھتے ہیں؟ کیا ان اساتذہ کو نظر نہیں آتا کہ سرمایہ دار طبقے نے پنجاب یونیورسٹی کو عوام کی یونیورسٹی سمجھتے ہوئے اپنی ضروریات کے مطابق الگ تعلیمی ادارے قائم کر لیے ہیں جہاں طلباء کو حصول ملازمت کا پورا پورا تحفظ حاصل ہے۔ 
کیا اُن اساتذہ نے کبھی ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کے احوال بھی معلوم کیے جہاں کرپشن نے ایسے ڈیرے ڈال رکھے ہیں کہ اس کی اصلاح کرنا آج دنیا کا مشکل ترین کام نظر آتا ہے۔ کاروباری طبقہ جس جس طرح سے افسروں اور کلرکوں کو رشوت کا عادی بناتا ہے، کیا ان گندے طور طریقوں پر تحقیقی کام کرنا غیر اسلامی فعل ہے؟ آج حرام کمانے کے جو ہزارہا طریقے رائج ہو چکے ہیں، کیا اُن کا جائزہ لینا وقت کی بہت بڑی ضرورت نہیں؟ کیا اسلام یہ کہتا ہے کہ یہ سب کچھ دیکھتے جاؤ اور قلم اٹھانے سے فرار اختیار کیے رکھو۔ ادیان کے تقابلی مطالعے کی بھی کچھ نہ کچھ اہمیت ضرور ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ شعبہ اسلامیات کے اساتذہ کرام کی توجہ عملی زندگی کی پیچیدگیوں کی طرف کیوں نہیں جاتی؟ کیا یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ ریسرچرز علامہ علاؤ الدین صدیقی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ایسا ’’ارمغان‘‘ مرتب کرتے جس کے لیے سوسائٹی کے کسی زندہ مسئلے سے متعلق کوئی عنوان دیا جاتا؟ لے دے کے صرف ایک استاد نے پاکستانی معاشرے کے ایک مسئلے پر کتابچہ تحریر کیا ہے اور وہ ہے ’’یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ‘‘۔ جنرل ایوب خان کے دور میں یہ مسئلہ پوری شدت سے اٹھا تھا اور اس پر بہت لے دے ہوئی تھی۔ ورنہ اساتذہ کرام کی کوئی ایک تحریر بھی اپنے ریاستی اور معاشرتی احوال سے اعتنا نہیں رکھتی۔
میرے نزدیک اسلامیات کے اساتذہ کی اس غفلت کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ وہ دین و مذہب کے علاوہ دیگر سماجی علوم مثلاً سماجیات، تاریخ، بشریات، نفسیات، سیاسیات، ابلاغ عامہ، بین الاقوامی تعلقات، قانون، معاشیات وغیرہ سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ اُن کی ذاتی لائبریریوں میں شاید ہی اس حوالے سے کوئی ایک بھی کتاب موجود ہو۔ عصر حاضر کے سماجی علوم سے بے رغبتی کی وجہ ہی سے انہوں نے جو نصابات بھی رائج کر رکھے ہیں، وہ بھی موجودہ دور سے کوئی مطابقت نہیں رکھتے۔ اس کے بعد پھر تبدیلی آئے تو کیسے آئے، محض دھرنے دینے سے تو یہ کام ہونے سے رہا۔ وما علینا الا البلاغ۔
(بشکریہ روزنامہ پاکستان، لاہور)

ریاست، معاشرہ اور مذہبی طبقات ۔ پاکستان کے تناظر میں اہم سوالات کے حوالے سے ایک گفتگو

محمد عمار خان ناصر

انٹرویو: مشعل سیف
(مارچ ۲۰۱۲ء میں نارتھ کیرو لائنا، امریکہ کی ڈیوک یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی اسکالر مشعل سیف نے پاکستانی ریاست کے ساتھ مذہب کے تعلق، مذہبی طبقات کے کردار اور مذہبی نظام تعلیم کے حوالے سے اہم سوالات پر مبنی راقم الحروف کا ایک تفصیلی انٹرویو کیا جسے ترتیب وتدوین کے بعد یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔ عمار ناصر)

مشعل سیف: میرا نام مشعل سیف ہے۔ میں ڈیوک یونیورسٹی امریکا سے پی ایچ ڈی کر رہی ہوں۔ آپ ویسے تو ماشاء اللہ بہت مشہور ہیں، لیکن اگر اپنا مختصر تعارف کرا دیں اور اپنی تعلیم کے بارے میں بتا دیں کہ آپ نے کہاں کہاں سے سندیں حاصل کی ہیں تو مناسب ہوگا۔
عمار ناصر: ہمارا جو خاندانی پس منظر ہے، وہ ایک مذہبی گھرانے کا ہے۔ میرے دادا اور میرے والد کے حوالے سے ہمارے خاندان کو ایک معروف مذہبی گھرانے کے طور پر جانا جاتاہے۔ اپنی خاندانی روایت کے مطابق، میں نے بچپن میں حفظ قرآن کی تعلیم مکمل کی۔ اس کے بعد درس نظامی کا ایک آٹھ سالہ کورس ہوتا ہے جس میں ہمارے روایتی دینی علوم قرآن، حدیث، فقہ وغیرہ پڑھائے جاتے ہیں۔ اس کے ابتدائی درجات کی تعلیم میں نے مدرسہ انوار العلوم گوجرانوالہ میں حاصل کی، جبکہ اس کی تکمیل مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں کی جو ملک کے بڑے مدارس میں شمار ہوتا ہے۔ اس وقت ہمارے دادا مولانا محمد سرفراز خان صفدر بقید حیات تھے اور وہاں پڑھاتے تھے۔ دورۂ حدیث جس میں حدیث کی کتابیں صحاح ستہ وغیرہ پڑھائی جاتی ہیں، وہ میں نے وہاں پڑھا ہے۔ بس یہ مختصراً میری دینی تعلیم کا پس منظر ہے۔ اس کے بعد میں دس گیارہ سال تک اسی مدرسے میں پڑھاتا بھی رہا ہوں۔ 
مشعل سیف: آپ مدرسے میں کون سے مضامین پڑھاتے تھے؟
عمار ناصر: مختلف مضامین ہوتے تھے۔ مدارس میں جو تعلیم کا نصاب ہے، اس میں عربی زبان بنیادی چیز ہوتی ہے۔ کلاسیکی عربی لٹریچر ہوتا ہے۔ قرآن کی تفسیر، حدیث، فقہ اور پھر ان کے ساتھ اصول فقہ اور اصول حدیث، یہ سارے مضامین ہوتے ہیں اور میں تقریباً یہ ساری چیزیں پڑھاتا رہا ہوں۔ ۲۰۰۶ء کے بعد سے میں باقاعدہ کسی مدرسے میں نہیں پڑھا رہا۔ اس سے کچھ پہلے اور اس کے بعد سے میری زیادہ توجہ تحریر وتصنیف پر مرکوز ہے۔ بہت سے ایشوز ہیں جن پر میں لکھتا رہتا ہوں۔ 
مشعل سیف: آپ کی کچھ کتابوں کا مطالعہ میں نے کیا ہے۔ ’’براہین‘‘ آپ نے لکھی ہے اور کونسل آف اسلامک آئیڈیالوجی نے بھی ایک کتاب ’’حدود وتعزیرات‘‘ پر آپ کی چھاپی ہوئی ہے۔ ایک سوال جو بہت زیادہ اٹھتا ہے، وہ یہ ہے کہ آپ کا کون سے مسلک سے تعلق ہے؟ شاید آپ جانتے ہوں گے کہ یہ ایک controversy بھی ہے۔ بعض علما کہتے ہیں کہ آپ کہا تو کرتے ہیں کہ آپ دیوبندی ہیں، لیکن آپ کے جو افکار ہیں، وہ عموماً جو دیوبندیوں کے افکار ہوتے ہیں، ان سے ہٹ کر ہیں۔ 
عمار ناصر: میرا جو فیملی بیک گراؤنڈ ہے، وہ تو بالکل typical دیوبندی بیک گراؤنڈ ہے اور ظاہر ہے کہ جب آدمی نے ایک خاص ماحول میں تعلیم اور پرورش پائی ہو تو وہ اس کے اثرات سے بالکل باہر شاید نہیں جا سکتا۔ اس لیے آپ بڑی حد تک کہہ سکتے ہیں کہ جو دیوبندی مزاج ہے، چیزوں کو دیکھنے کا جو زاویہ ہے، اس کے اثرات یقیناًمجھ پر ہوں گے، لیکن جن معنوں میں دیوبندی اہل علم define کرتے ہیں کہ دیوبندی وہ ہے جو دینی مسائل کی تحقیق میں دیوبندی علماء اور دیوبندی اکابر کی مجموعی فکر سے باہر نہ جائے اور ان سے ہٹ کر کوئی بات نہ کہے تو اس معنی میں شاید آپ مجھے دیوبندی نہیں کہہ سکتے۔ میرے اپنے سوچنے کے انداز میں اور غور فکر کے طریقے میں جو developmentہوئی ہے، اس کے بعد میں نہیں سمجھتا کہ کسی ایک خاص اسکول آف تھاٹ کا پابند ہو کر رہنا، یہ علمی طور پر کوئی مثبت چیز ہے۔ میں نے مختلف فکری دھاروں سے چیزیں سیکھی ہیں۔ مولانا موددی سے بھی بہت کچھ سیکھا ہے۔ جاوید احمد غامدی صاحب میرے استاذ بھی ہیں، ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ علم جو ہے، اسلام اس میں تو کسی تعصب کی تعلیم نہیں دیتا۔ علم کی بات آپ کو جہاں سے بھی ملے، غیر مسلم سے بھی ملے، وہ لے لینی چاہیے۔ تو میرے خیال میں یہ جھگڑا ایسے ہی چلتا رہے گا۔ کچھ لوگ کہیں گے کہ یہ دیوبندی ہے، کچھ کہیں گے کہ نہیں ہے۔ 
مشعل سیف: آپ اپنے آپ کو کیسے تسلیم کرتے ہیں؟
عمار ناصر: میں دیوبندی تعبیر دین کو بڑا متوازن اور عوام کی سطح پر دینی ضروریات کے لیے بہت مفید سمجھتا ہوں۔ ان کے مزاج میں، ان کے فکر میں ، دوسرے اسکولز آف تھاٹ کی بہ نسبت خاصا توسع ہے، وسعت نظر ہے۔ چیزوں کو دیکھنے کا جو زاویہ نظر ہے، وہ خاصا positive ہے، لیکن یہ پابندی کہ جو دیوبندی علما ہیں، جو دیوبندی اکابر ہیں، ان کی رائے ہی ہر معاملے میں یقیناًدرست ہوگی اور ان سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا، اس کو میں نہیں مانتا۔ 
مشعل سیف: میں پڑھ رہی تھی، آپ نے اپنے ماہنامہ ’الشریعہ‘ میں ۲۰۰۹ء میں ایک مضمون میں یہ واضح کیا تھا کہ آپ دیوبندیت کو کس طرح تصور کرتے ہیں۔ آپ نے لکھا تھا کہ یہ بہت وسیع مکتب فکر ہے۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ کون ہے جو اکابر کے طریقے پر چل رہا ہے اور کون اکابر کی باتوں کو تسلیم نہیں کر رہا، کیونکہ دیوبندیت میں بہت diversity ہے۔ 
عمار ناصر: جی، میں ایسے ہی تصور کرتا ہوں کہ دیوبندی اکابر کی جو آرا ہیں، ان سے اگر آپ اختلاف رکھتے ہیں تو میرے خیال میں آپ کے دیوبندی ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہ میرا اپنا نقطہ نظر ہے۔ لیکن بہرحال دیوبندی کون ہے اور کون نہیں ہے، یہ طے کرنے میں، میں کوئی اتھارٹی نہیں۔ یہ تو جو دیوبندی سمجھے جانے والے لوگ ہیں، مدارس ہیں، ادارے ہیں، وہی یہ حق رکھتے ہیں کہ اس کو متعین کریں۔ ان کے زاویہ نظر سے دیکھنا چاہیے۔ وہ اگر سمجھتے ہیں کہ فلاں آدمی ہمارے فریم ورک سے باہر جا رہا ہے اور وہ اسے دیوبندی تسلیم نہیں کرتے تو یہ ان کا حق ہے۔ یہ میرے لیے کوئی ایسا اہم مسئلہ نہیں ہے۔
مشعل سیف: لیکن آپ اپنے آپ کو دیوبندی کہیں گے، کسی حد تک؟
عمار ناصر: غالباً علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ہر معقول پسند مسلمان دیوبندی ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ ندوۃ العلماء کا حلقہ فکر بھی بحیثیت مجموعی دیوبندی ہی سمجھا جاتا ہے، اگرچہ ان کے ہاں ایک آزادانہ فکری روش بھی موجود ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ مولانا مناظر احسن گیلانی نے کوئی نصف صدی قبل تحریک دیوبند کی وسعت اور ہمہ گیر اثرات پر ایک مضمون لکھا تھا جس میں مولانا مودودی اور ان کی جماعت اسلامی کو بھی دیوبندی تحریک کی ایک شاخ قرار دیا تھا۔ سو اگر آپ اس مفہوم میں مجھے دیوبندی کہنا چاہیں تو میں انکار نہیں کروں گا، لیکن آپ نفی کرنا چاہیں تو میں اصرار بھی نہیں کروں گا۔ 
مشعل سیف: آپ نے جاوید احمد غامدی صاحب کا ذکر کیا۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ ان کے مسلک سے یا ان کے افکار سے کافی اتفاق کرتے ہیں۔ اس کے بارے میں کچھ بتانا چاہیں گے کہ آپ کا کب سے ان سے رابطہ ہے او ر کس طرح آپ ان کے اسٹوڈنٹ رہے ہیں؟
عمار ناصر: میرا ان سے تعارف تو غالباً ۱۹۹۰ء میں ان کے رسالے کے ذریعے سے ہوا تھا۔ ان کا رسالہ ہمارے پاس آتا تھا۔ میں ان کی لکھی ہوئی چیزیں پڑھتا رہا، لیکن ۲۰۰۱ء یا ۲۰۰۲ء تک زیادہ ملاقاتیں نہیں ہوئیں۔ اس دوران میں کوئی پانچ سات ملاقاتیں ہوئی ہوں گی۔ البتہ میں ان کے نتائج فکر پر خاصا غور کرتا رہا اور بہت سی باتوں نے مجھے اپیل بھی کیا۔ ۲۰۰۲ء کے بعد میں باقاعدہ ان کے ادارے کے ساتھ وابستہ ہوا اور ان کی جو علمی مجالس ہیں، ان میں شرکت کرتا رہا۔ ان کے ساتھ اور ان کے ادارے ’المورد‘ کے رفقا کے ساتھ میرا بہت اچھا اور بڑی محبت کا تعلق ہے۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ میرے فکر ونظر کی تربیت میں اور دین کو سمجھنے کا ایک زاویہ دینے میں جیسے میرے اپنے خاندانی ماحول کا اثر ہے اور جہاں عمومی مطالعے کے بہت سے اثرات ہیں، اسی طرح میں نے غامدی صاحب سے بھی بہت سیکھا ہے۔ باقی، آرا کا اختلاف یا اتفاق، یہ میری نظر میں زیادہ اہم چیز نہیں ہوتی۔ جاوید غامدی صاحب کی بہت سی آرا سے مجھے اتفاق بھی ہے اور بہت سی آرا سے اختلاف بھی ہے۔ آپ نے میری تحریروں میں دیکھا ہوگا، میں نے بہت سے اختلافات بیان بھی کیے ہیں۔ اصل میں آدمی کے سوچنے کا جو انداز ہے، وہ ساری زندگی develop ہوتا رہتا ہے۔ میں ان کو اپنے نہایت قابل احترام استاذ او راپنے معلم کا درجہ دیتا ہوں، لیکن کلی اتفاق کسی سے بھی ضروری نہیں۔ ان کی آرا سے بھی اختلاف ہو سکتا ہے، بلکہ میں نے اپنے اساتذہ میں علمی اختلاف کو جتنا encourage کرنے والا اور اپنے نقطہ نظر پر علمی تنقید کی دعوت دینے والا ان کو پایا ہے، کسی دوسرے کو نہیں پایا۔
مشعل سیف: آپ دیوبندیت کو اور طرح سے تصور کرتے ہیں۔ آپ کے خیال میں اس کے اندر لچک ہے اور آپ مختلف خیالات رکھتے ہوئے بھی دیوبندی ہو سکتے ہیں۔ آپ نے کہا کہ آپ کے خیال میں دیوبندی ہوتے ہوئے بھی آپ دیوبندی اکابر سے اختلاف کر سکتے ہیں، لیکن ساتھ ہی آپ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ آپ کسی کو دیوبندی کہنے یا نہ کہنے کا حق ان کو دیتے ہیں جو ان کے زیادہ ماننے والے ہیں؟
عمار ناصر: دیکھیں، سوسائٹی میں کوئی کمیونٹی ہوتی ہے تو اس کی ترجمانی کرنے والی جو شخصیات ہوتی ہیں یا ادارے ہوتے ہیں، فطری طور پر انھی کو یہ حق ہونا چاہیے۔ مثلاً دیکھیں، احمدی یہ کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور محمد رسول اللہ پر ایمان رکھتے ہیں۔ لیکن مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ احمدی ہم میں سے نہیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی جو پہلے سے ایک کمیونٹی موجود ہے، اس کو یہ حق ہے کہ وہ یہ طے کرے کہ وہ کس گروہ کو اپنے اندر میں سے شمار کرتے ہیں۔ سو احمدیوں کو خود سے الگ شمار کرنا یہ مسلمانوں کاحق ہے۔ اسی طرح دیوبندیت کی بطور مذہبی گروہ کے ایک Identity ہے۔ اس کی ترجمانی کرنے والی کمیونٹی موجود ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ فلاں نقطہ نظر یا فلاں رائے ہمارا جو انٹلکچول فریم ورک ہے، اس سے میل نہیں کھاتی اور اس سے باہر ہے تو اس کو یہ حق ہے کہ وہ یہ طے کرے کہ یہ ہم سے مختلف ہے۔ یہ ان کا حق ہے اور یہ جمہوریت کا تقاضا ہے۔ مجھے یا کسی بھی آدمی کو یہ نہیں کرنا چاہیے کہ ہم کسی حلقہ فکر کے فکری پیرا ڈائم یا اس کے مسلمات سے اختلاف بھی کریں اور پھر یہ خواہش بھی رکھیں کہ ہمیں ضرور اس کے اندر شمار کیا جائے۔ یہ رویہ تو اخلاقی جرات کے فقدان سے پیدا ہوتا ہے۔
مشعل سیف: مگر آپ کی سوچ مجھے interesting لگی کہ آپ خود کو اس طرح دیوبندی تصور کرتے ہیں کہ آپ کی پرورش ایک دیوبندی گھرانے میں ہوئی اور آپ کے افکار پر اس کا کافی حد تک Impact رہا ہے۔
عمار ناصر: ہاں، یہ ظاہر ہے۔ میں ’المورد‘ کے دوستوں میں اٹھتا بیٹھتا ہوں تو ان کا تاثر یہ ہے کہ میرے فکر یا زاویہ نظر پر دیوبندی اثرات زیادہ ہیں، سو وہ مجھے دیوبندی کہتے ہیں۔ یوں میں دو گھروں کا مہمان ہوں۔ دیوبندی میرے بارے میں یہ سمجھتے ہیں کہ یہ غامدی ہے اور المورد والے کہتے ہیں کہ یہ دیوبندی ہے۔ 
مشعل سیف: میں اپنے مقالے میں پاکستان کے علما پر تحقیق کر رہی ہوں۔ خاص طور پر یہ دیکھنا چاہ رہی ہوں کہ یہ لوگ کس طرح تصور کر رہے ہیں کہ آیا پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے یا نہیں۔ پاکستان کا آئین اس کو اسلامی جمہوریہ قرار دیتا ہے۔ اس موضوع پر آپ کا youtubeپر ایک لیکچر ہے جو آپ نے گجرات یونیورسٹی میں اقبال پر ہونے والے سیمینار میں دیا تھا۔ اس میں آپ نے اسلامی ریاست کے بارے میں بات کی تھی۔ اسی طرح آپ کی حدود وتعزیرات پرجو کتاب ہے، اس میں بھی آپ نے اس موضوع پر لکھا ہے۔ آپ نے بہت مختلف چیزیں کہی ہوئی ہیں۔ میں چاہ رہی تھی کہ آپ ان کو elaborate کر دیں۔ مجھے خاص طور سے جو سمجھ میں آیا ہے، وہ یہ ہے کہ آپ پاکستان کے بارے میں بات کرتے ہیں تو اس کو اسلامی ریاست کا درجہ دے کر بات کرتے ہیں۔ آپ نے اپنی کتاب ’’حدود وتعزیرات‘‘ میں بھی جو لکھا ہے تو اسلامی ریاست کہہ کر ہی اس کے بارے میں بات کی ہے۔ میں اور بھی بہت سے علما سے مل چکی ہوں۔ ان میں سے کافی ایسے ہیں جو پاکستان کو اسلامی ریاست تصور نہیں کرتے۔ تو آپ اس کی کچھ وضاحت کر دیجیے کہ آپ کے خیال میں اسلامی ریاست کیا ہے اور آیا پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے یا نہیں؟
عمار ناصر: اسلامی ریاست اور مسلم ریاست، یہ کافی کنفیوزنگ چیزیں ہیں۔ یہ جو فرق ہے کہ ایک اسلامی ریاست ہے اور ایک مسلم ریاست ہے، یہ بہت بعد میں پیدا ہوا ہے۔ اگر آپ شروع میں چلے جائیں تو ابتدائی دور میں اس طرح کا کوئی فرق فقہا کے ہاں نہیں ملتا۔ وہ یہی کہتے ہیں کہ وہ علاقہ جہاں مسلمانوں کی حکومت قائم ہو اور مسلمان اپنے قوانین کو نافذ کر سکتے ہوں تو وہ علاقہ دار الاسلام ہے، چاہے مسلمان عملاً کتنے ہی بدکردار ہوں، ان کے حکمران کتنے ہی بگڑے ہوئے ہوں، عملاً قانون شریعت کے مطابق فیصلے ہو رہے ہوں یا نہ ہو رہے ہوں۔ اگر کسی علاقے میں مسلمان رہتے ہیں اور وہ اسلام سے اپنی وابستگی کو قائم رکھتے ہیں اور ان کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ شریعت کونافذ کر سکتے ہیں تو ہماری کلاسیکی فقہی اصطلاح میں وہ علاقہ دار الاسلام ہے۔ یہ جو فرق ہے مسلم ریاست کا اور اسلامی ریاست کا، یہ اب دور جدید میں آکر اس تناظر میں پیدا ہوا ہے کہ ریاست کا ایک تصور مغرب سے ہمارے پاس آیا ہے جس میں آئیڈیل یہ ہے کہ مذہب کے معاملات سے ریاست کو کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ یہ مغربی تصور جمہوریت میں بنیادی چیز ہے۔ اب یہ تصور جب ہمارے ہاں آیا ہے تو مختلف مسلمان ملکوں میں اس تصور کو اسی طرح یا کچھ modify کر کے اختیار کرنے کی کوشش کی گئی، بلکہ ترکی میں تو مغرب سے بھی ایک ہاتھ آگے بڑھ کر اس کو اختیار کر لیا گیا۔ اس سے لوگوں کے دل میں یہ احساس پیدا ہوا کہ اسلام تو یہ چاہتا ہے کہ جو ریاست ہے، وہ مذہب کے معاملات میں بھی اپنی ذمہ داریاں قبول کرے اور اپنے فرائض کو ادا کرے، اس لیے جو جدید تصور ریاست ہے، وہ اسلامی ریاست کے تصور کے ساتھ compatible نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں فرق کرنا پڑے گا کہ کون سی ریاست ایک مسلم ریاست ہے او رکون سی ریاست اسلامی ریاست ہے۔ 
اس لحاظ سے لوگوں نے یہ سوال پیدا کیا ہے اور آپ دیکھیں کہ اس فرق کی ضرورت کا احساس پیدا ہونا، قابل فہم ہے۔ ایک ایسا عنصر شامل ہو گیا ہے کہ لوگ یہ فرق کرنا چاہتے ہیں اور اس کی ایک نظری بنیاد بھی موجود ہے کہ یہ فرق ہونا چاہیے۔ یعنی جب تک ریاست فی الواقع ان بنیادوں پر قائم نہ ہو جو ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن میں بیان ہوئی ہیں، حدیث میں بیان ہوئی ہیں تو اس وقت تک اس کو اسلامی ریاست نہیں کہنا چاہیے۔ بہت سے لوگ ایسا ہی سمجھتے ہیں اور ایک حد تک ان کی بات قابل فہم ہے۔ لیکن اس تصور کے حامل بہت سے لوگ اس سے آگے بڑھ کر یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ چونکہ یہ اسلامی ریاستیں نہیں ہیں، اس لیے ان ریاستوں میں جو نظام اطاعت قائم ہے، اس کی پابندی بھی مسلمانوں پر لازم نہیں جیسا کہ اسلامی ریاست کے قوانین کی پابندی لازم ہوتی ہے۔ چنانچہ اس طرح سوچنے والے بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ انقلاب کے ذریعے سے ہم نظام کو بدلیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ چونکہ یہ ایک اسلامی ریاست نہیں ہے، اس لیے یہاں پر جو ایک نظم قائم ہے اور جو بھی نظام بنا ہوا ہے حکومت کا، اس کی پابندی ہم پر لازم نہیں۔ 
یہ ایک قابل بحث بات ہے اور میرے خیال میں یہ نتیجہ درست نہیں۔ قرآن سے، سنت سے اور ہمارے فقہا کی جو تصریحات ہیں، ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ریاست یا حکومت کا نظام کتنا ہی بگڑا ہوا کیوں نہ ہو، قرآن وسنت سے عملاً ہٹا ہوا ہی کیوں نہ ہو، اگر وہ اس علاقے کے مسلمانوں کی رضامندی سے اور ان کے اپنے اختیار سے قائم کیا گیا ہے تو اس کو ایک عملی جواز حاصل ہوتا ہے اور اس میں اگر آپ رہ رہے ہیں تو اس پر چاہے آپ تنقید کریں، اس سے اختلاف کریں، اصلاح کی کوشش کریں، لیکن آپ کا ریاست کے ساتھ ایک معاہدہ ہے جس کی رو سے آپ اس نظام کی پابندی کرنے کے مکلف ہیں۔ شریعت پر قائم ہونا میرے خیال میں کسی نظام کی اطاعت کرنے یا نہ کرنے کا اور اس کے قوانین کی پابندی قبول کرنے یا نہ کرنے کا معیار نہیں ہے۔ آپ ایک خالص غیر مسلم ریاست میں رہ رہے ہیں جس کو ہماری کلاسیکی اصطلاح میں دار الحرب کہتے ہیں، یعنی ایسے کفار ہیں جو مسلمانوں کے ساتھ برسر جنگ ہیں، وہاں بھی اگر مستقل طو رپر رہ رہے ہیں تو قوانین کی پابندی لازم ہوگی۔ اسی طرح اگر آپ ایک معاہدے کے تحت گئے ہیں کہ آپ وہاں امن وامان کو نہیں چھیڑیں ہیں، وہاں کے قوانین کی پابندی کریں گے تو اس کی اطاعت بھی واجب ہے۔ اس معاہدے کی خلاف ورزی آپ نہیں کر سکتے۔ پر امن ممالک کے مقامی قوانین کی پابندی کرنا مزید اہم ہو جاتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید نے حضرت یوسف کے واقعے میں بیان کیا ہے کہ ان کے چھوٹے بھائی کو ان کے پاس مصر میں روکنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک خاص تدبیر فرمائی، کیونکہ وہ ملکی قانون (دین الملک) کے مطابق اسے اپنے پاس نہیں روک سکتے تھے۔ 
اسی اصول پر یہ دیکھنا چاہیے کہ اس وقت جو مسلم ریاستیں ہیں، ان کی شریعت سے وابستگی جتنی بھی ہو، جیسی بھی ہو، اس میں جو بھی نظری یا عملی مسائل ہوں، لیکن جب آپ وہاں رہ رہے ہیں تو وہاں کے قانون اور نظام کے پابند ہیں اور اس معاہدے کے تحت رہ رہے ہیں کہ ہم نظام کی پابندی کرتے ہوئے یہاں رہیں گے۔ معاہدے کو توڑنا جیسے ایک غیر مسلم ریاست میں جائز نہیں ہے، اسی طرح ایک مسلمان ریاست میں بھی جائز نہیں ہے۔ مثال کے طو رپر پاکستان ہے۔ یہاں آپ کو اسلامی شریعت کے مطابق ریاست قائم کرنی ہے تو اس کا طریقہ یہ ہرگز نہیں ہے کہ ایک گروہ اٹھے یا چند لوگ اٹھیں اور وہ کہیں کہ ہمارے ذہن میں اسلامی ریاست کا جو ماڈل ہے، وہ یہ ہے، اس لیے اس کو ہم بالجبر نافذ کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس کی اسلام میں اجازت نہیں ہے۔ یہاں پر حکومت کا نظام یہاں کے لوگوں نے جو اختیار کیا ہے، وہی ہوگا۔ لوگوں کی مرضی کے بغیر ہم ان پر کوئی نظام مسلط نہیں کر سکتے۔ ہاں، لوگوں کو اس پر قائل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں کہ جو نظام آپ نے اختیار کیا ہوا ہے، اس میں یہ خرابیاں ہیں، اس میں یہ خامیاں ہیں اور اس کا متبادل یہ ہے۔ آپ یہاں کی سیاسی جماعتوں کو آمادہ کریں کہ و ہ بہتر ماڈل کو اختیار کریں۔ آپ اپنی کوئی پولیٹیکل پارٹی بنائیں، لیکن اس نظام کے دائرے میں آپ کو جدوجہد کرنی ہے۔ اس سے باہر آپ جائیں گے تو اس سے بہت سے اصول شریعت کے بھی پامال ہوں گے اور اخلاقیات کے بھی پامال ہوں گے۔
میں اس معاملے کو ایسے دیکھتا ہوں۔ نظری سطح پر بحث رہے گی کہ اسلامی ریاست اور مسلم ریاست میں فرق ہے یا نہیں، لیکن عملاً ہمیں اس نظام کی پابندی کرنی ہے۔ اسلامی ریاست ہے، تب اس کی پابندی کرنی ہے اور اگر محض ایک مسلم ریاست ہے تو بھی ایک نظام بنا ہوا ہے، ہم یہاں کے شہری ہیں اور یہاں کے آئین کی پابندی ہم پر لازم ہے۔ ہمیں جو بھی جدوجہد کرنی ہے، اس کے دائرے میں کرنی ہے۔
مشعل سیف: آپ کے خیال میں ایک اسلامی ریاست کیا ہے؟ کس طرح تصور کریں گے اسلامی ریاست کو؟
عمار ۔ سادہ بات ہے۔ مسلمان فرد کے دو درجے ہیں۔ ایک ہے جس کو ہم قانونی درجہ کہتے ہیں کہ قانون کی نظر میں یہ آدمی مسلمان ہے۔ اس کے لیے تو اتنا کافی ہے کہ آدمی اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہو اور in principle یہ قبول کرتا ہو کہ میں اللہ کی دی ہوئی ہدایات کا پابند ہوں۔ یہ آدمی مسلمان ہو گیا۔ اب وہ عملاً جتنا بھی بدکردار ہے، عملاً وہ چاہے دین کے فرائض بھی پورے نہ کرتا ہو، وہ مسلمان ہے۔ البتہ جو ایک معیاری مسلمان کا درجہ ہے، وہ ظاہر ہے کہ یہ نہیں ہے۔ یہی معاملہ ریاست کا ہے۔ پاکستان کی ریاست اپنے عقیدے اور اپنے نظریے کو آئین میں واضح کر چکی ہے کہ یہ ایک اسلامی ریاست ہے جو شریعت کی پابندی کو قبول کرتی ہے۔ اس میں مختلف قسم کی gurantees دی گئی ہیں کہ قوانین کو اسلام کے مطابق بنایا جائے گا اور فلاں اور فلاں اقدامات کیے جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست قانونی درجے میں مسلمان ہو گئی ہے۔ لیکن عملاً اس کے پورے اسٹرکچر کو بدل کر اس معیار پر لانا کہ یہ اسلامی ریاست کی جو ذمہ داریاں ہیں، ان کو پورا کرے، خدا کے لحاظ سے بھی، مسلمانوں کے لحاظ سے بھی اور دنیا میں غیر مسلموں کو دعوت پہنچانے کے لحاظ سے بھی، تو یقیناًیہ اس وقت اس حالت میں نہیں ہے اور اس میں بہت اصلاح کی ضرورت ہے۔ 
تو فرد کی مثال سے ریاست کا معاملہ سمجھنا چاہیے۔ جیسے ہم ایک فرد کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ مسلمان ہے، لیکن بدعمل ہے، اسی طرح ہماری جو اس وقت مسلمانوں کی ریاستیں ہیں، وہ اگر شریعت کی پابندی کو اصولی طو رپر قبول کرتی ہیں تو وہ مسلمان ریاستیں ہیں اور قانونی طور پر اسلامی ریاستیں بھی ہیں۔ اب ان کو اپنے آپ کو اس معیار پر لانا ہے کہ وہ ایک صحیح اسلامی ریاست کی ذمہ داریاں انجام دے سکیں۔ یہ ظاہر ہے کہ صرف حکومتوں کا کام نہیں ہے۔ اس میں پوری سوسائٹی کو اس نہج پر ڈھالنا ہوگا۔ جمہوری دور میں تو خاص طور پر حکومت کا عمل دخل بہت کم ہو جاتا ہے۔ سوسائٹی کے جو دوسرے ادارے ہیں، مختلف طبقات ہیں، ان کی ذمہ داری زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ وہ سوسائٹی کو اس رخ پر لے کر جائیں کہ صحیح اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے راہ ہموار ہو۔
مشعل سیف: آپ نے اپنے گجرات یونیورسٹی کے لیکچر میں ایک اور بڑی اہم بات کہی ہے کہ آج کے دور میں ہم اسلامی ریاست کا جو تصور رکھتے ہیں، وہ کافی مختلف ہے اس سے جو قدیم دور میں اسلامی ریاست ہوتی تھی۔ آپ نے اس کے مختلف پہلو بیان کیے ہیں کہ مثلاً حکمران کافی دیر تک حکومت کرتا رہتا تھا اور اس کو ہٹانے کا کوئی طریقہ نہیں تھا، جبکہ آج ہمارا ایک الیکشن سسٹم ہوتا ہے۔ پھر دار الحرب اور دار الاسلام میں دنیا تقسیم ہوتی تھی، جبکہ آج ایک بہت مختلف بین الاقوامی نظام ہے۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ جب یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان اصولی طور پر ایک اسلامی ریاست ہے تو پھر اس کو ہم اسلامی ریاست کے قدیم تصور کے مطابق کیسے اسلامی ریاست سمجھیں گے؟ جبکہ آپ نے خود بہت سے ایسے پہلو بیان کیے ہیں جو اسلامی ریاست کے قدیم اور جدید تصور میں باہم مختلف ہیں۔ اس نکتے کی کچھ وضاحت کر دیں۔
عمار ناصر: دو الگ الگ باتیں ہیں۔ اسلامی ریاست وہ ہے جو شریعت کے نفاذ کو اور خدا کے دیے ہوئے قانون کی پابندی کو اصولی طو رپر قبول کر لے۔ اس کے بعد دو چیزیں آتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ شریعت کے جو مختلف احکام ہیں، ان کی تعبیر وتشریح میں یقیناًفرق موجود ہے۔ ہماری جو کلاسیکی فقہ ہے، وہ بہت سی چیزوں کو اور طرح سے دیکھتی ہے۔ اب ہم آج اس وقت دنیا میں بیٹھے ہیں تو آج کے اہل علم اور فقہا ان چیزوں کو اور طرح سے دیکھتے ہیں۔ اب ایسا نہیں ہے کہ اگر ہماری interpretation پرانے فقہا سے بدل گئی ہے تو ہم شریعت کی بالادستی کے منکر ہو گئے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ یہ شریعت کی تعبیر کا اختلاف ہے نہ کہ شریعت کی بالادستی کے اصول کا۔ میں نے جتنی چیزیں بھی اپنے لیکچر میں گنوائی ہیں کہ یہاں یہاں فرق ہے، قدیم ریاست کا اسٹرکچر اور ہے، جدید ریاست کا اور ہے، ان میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اسلامی ریاست کا جو بنیادی تصور ہے، اس کے ساتھ Incompatible ہو۔ یہ وہ تبدیلیاں ہیں جن کا تعلق حالات کے ساتھ ہے۔ یہ جو فرق آیا ہے، میں اس کو اسلامی ریاست کے تصو رکے خلاف نہیں سمجھتا۔ مثلاً آج اگر ہم غیر مسلموں کو مسلمانوں کے برابر سیاسی حقوق دیتے ہیں تو یہ اسلام کے کسی غیر متبدل اصول کے خلاف نہیں، اگرچہ ہمارے کلاسیکی فقہا نے اس معاملے کو اور طرح سے دیکھا ہے۔ یا آج اگر ہم خواتین کو معاشرتی وسیاسی زندگی میں اس سے زیادہ حقوق اور مواقع دیتے ہیں جو پہلے زمانے میں ان کو حاصل تھے تو اس میں اسلام کے ساتھ کوئی ٹکراؤ نہیں ہے، اگرچہ کلاسیکی دور کے فقہا کا زاویہ نظر مختلف ہے۔ 
تو اس بات کو بالکل واضح کرنا چاہیے کہ ہم جدید دور میں اسلامی قانون کے بہت سے مسائل کو بالکل نئے زاویے سے اور اگر میں فقہی اصطلاح استعمال کروں تو یہ کہنا چاہیے کہ اجتہاد مطلق کی سطح سے دیکھ رہے ہیں۔ ریاست کا اسٹرکچر کیا ہونا چاہیے، اس کو ہم قدیم دور کے فقہا سے بے حد مختلف طریقے سے دیکھ رہے ہیں، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس لیے کہ تعبیر کے اختلافات پہلے دور میں بھی رہے ہیں جو اس دور کے علماء کے مابین تھے۔ آج ہم یہی اختلاف دور اور زمانے کے فرق کے تناظر میں کر رہے ہیں۔ تو ایک بات تو یہ ہے کہ بعض چیزوں کی تعبیر وتشریح میں اگر اختلاف ہے تو اس سے شریعت کی بالادستی کے اصول کی نفی نہیں ہوتی۔
دوسری چیز یہ ہے کہ آپ کے سامنے اچھے اسلامی معاشرے کا ایک آئیڈیل ہے۔ اس آئیڈیل تک پہنچنے کے لیے سوسائٹی کو تیار کرنا ہوگا اور اس میں وقت لگے گا، بلکہ ہم اس کی کوئی ضمانت بھی نہیں دے سکتے کہ وہ جو آئیڈیل ہے، وہ کبھی achieve بھی ہو سکے گا۔ اس معاملے میں ہمیں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو حکمت عملی نظر آتی ہے اور بعد کے ادوار میں بھی مسلمان جہاں جہاں گئے ہیں، وہاں اسی حکمت عملی کو اختیار کیا گیا ہے، ویہ ہے کہ آپ کے سامنے جو آئیڈیل ہے، جو قرآن وسنت میں ہمیں ایک معیاری مسلم معاشرے کا نقشہ دیا گیا ہے اور جس کا نمونہ ہمیں خلفائے راشدین کے دور میں ملتا ہے، اس کا ہر جگہ قابل حصول ہونا عملاً ممکن نہیں اور شاید مطلوب بھی نہیں۔ ہمیں کوشش کرنی ہے۔ جیسے فرد کی سطح پر ایک مسلمان کے سامنے نمونہ تو ہے کہ ایک بہترین مسلمان ایسا ہوتا ہے، لیکن یہ ضروری نہیں بلکہ ممکن بھی نہیں کہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی اکثریت ساری زندگی کی محنت کے باوجود اس مقام پر آ جائے۔ ہم سب گنہ گار ہیں اور جب لوگ دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو اللہ سے یہی دعا مانگتے ہیں کہ وہ ہمارے گناہوں کو بخش دے اور جیسے کیسے بھی اعمال ہیں، انھیں قبول کر لے۔ اسی پر معاشرے کو بھی قیاس کرنا چاہیے۔ ایک فرد جب ایک معیاری جگہ پر نہیں پہنچ سکتا، بڑا مشکل ہے اور ہم اللہ سے رحمت ہی کی امید رکھتے ہیں تو معاشرے تو کہیں زیادہ پیچیدہ ہوتے ہیں۔ ان میں زیادہ complexities ہوتی ہیں، اس لیے ان کے متعلق یہ تصور کرنا کہ لازماً کوئی معاشرہ اس مطلوبہ معیار پر پہنچ جائے، تبھی ہم اس کو ایک اسلامی معاشرے کا سرٹیفکیٹ دیں گے، یا ریاست جب اس معیار پر پہنچ جائے گی جس کا نمونہ خلافت راشدہ کے دور میں دکھائی دیتا ہے، تبھی ہم اسے اسلامی ریاست قرار دیں گے، یہ ایک بہت تصوراتی سی بات ہے۔ ہمیں کوشش کرنی ہے، اپنے آپ کو بھی اچھا مسلمان بنانے کی اور معاشرے کو بھی اچھا مسلمان بنانے کی۔ کوشش ہم کرتے رہیں گے۔ جتنا ہو جائے گا، ہو جائے گا۔ جو نہیں ہو سکے گا، اللہ سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ہماری کوتاہیوں کو معاف فرمائے گا۔
مشعل سیف: آپ نے کہا کہ کلاسیکی فقہا کا جس طرح کا اسلامی ریاست کا تصور ہے، آج کے زمانے میں ہم اس سے کافی ہٹ کر تصور رکھتے ہیں، کیونکہ ہم ایک بہت مختلف دور میں ہیں۔ آپ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ کلاسیکی فقہا سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور کلاسیکی فقہا کی اپنی ایک سوچ تھی، ان کا اپنا ایک زمانہ تھا۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا اور آج ہم اس سے ہٹ کر سوچ سکتے ہیں۔ لیکن بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اختلاف کرنے کو پسند نہیں کرتے اور کلاسیکی فقہا کے تصور کے مطابق ہی اسلامی ریاست کو دیکھتے ہیں۔ اب جب وہ پاکستان کا جائزہ لیتے ہیں تو اسی سانچے میں لیتے ہیں جو انھوں نے کتابوں میں پڑھا ہوتا ہے۔ آپ نے بھی اپنے لیکچر میں یہ کہا تھا جو بالکل اہم اور صحیح ہے۔ میں جب بہت سے علماء سے ملتی ہوں یا اس موضوع پر ان کے فتاویٰ دیکھتی ہوں تو حوالہ انھی چیزوں کا دیا جاتا ہے جو انھوں نے کتابوں میں پڑھی ہیں۔ ان کا ایک بالکل مختلف تصور ہوتا ہے اسلامی ریاست کا۔ 
عمار ناصر: بالکل درست ہے۔ فکر کی یہ دونوں رَویں موجودہیں۔ دیکھیں، جو مسلم معاشرے سعودی عرب یا ایران کی طرز کے ہیں، جہاں تعبیر شریعت کی حتمی اتھارٹی علماء کو دے دی گئی ہے، وہاں سردست اس طرح کے مسائل سطح پر نمایاں نہیں، لیکن ایسے مسلم معاشرے جہاں ہم نے اسلام کو اپنی بنیاد قرار دیتے ہوئے اس کے ساتھ جمہوریت کو بھی قبول کیا ہے، وہاں کشمکش بہت نمایاں ہے۔ اسلامی ریاست جو ہے، وہ دنیا میں ایک مجرد اور تصوراتی شکل میں نہیں رہی۔ اس کی اپنی ایک tradition ہے۔ مسلمانوں کے ریاستی نظام اور مسلم معاشرے کے جو مختلف ادارے ہیں، ان کی ذمہ داریوں کے حوالے سے پورا لٹریچر موجود ہے۔ اسلامی فقہ ہے جو آپ کو ایک پورا ماڈل دیتی ہے۔ جدید مسلم ریاستوں میں اس کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ریاست کے ان دو مختلف ماڈلوں کا ایک synthesis وجود میں لایا جائے۔ پاکستان اس کی بڑی اچھی مثال ہے۔ ہماری جو اوپر کی سطح کی مذہبی قیادت ہے، وہ بہت سمجھ دار بھی ہے اور معاملہ فہم اور حقیقت پسند بھی۔ اس نے اس کو قابل عمل سمجھتے ہوئے اس کی تائید بھی کی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہوا کہ نظری سطح پر synthesis تو بنا لیا گیا اور آئین کی سطح پر اس کو اختیار بھی کر لیا گیا، لیکن اس سارے اجتہادی عمل کا analysis نہیں ہوا کہ ہم نے یہ کیا کیا ہے اور کس بنیاد پر کیا ہے۔ اس پر کوئی intellectual debates نہیں ہوئیں۔ اس وجہ سے من حیث المجموع جو مذہبی طبقہ ہے، وہ کوئی بھی ہو، اس میں کسی مکتب فکر کا کوئی فرق نہیں رہ جاتا، اس کا جو بحیثیت مجموعی mindset ہے، وہ اصل میں یہی ہے کہ ہم نے یہ مجبوری کی حالت میں کیا ہے۔ اصل میں تو ہمیں کوشش یہی کرنی ہے کہ اس کو بدل کر اس پرانے ماڈل کے مطابق بنائیں۔
تو یہ کنفیوژن موجود ہے اور جب تک اس پر باقاعدہ گفتگو نہیں ہوگی، ایک intellectual debate نہیں ہوگی اور یہ بتایا نہیں جائے گا کہ صورت حال میں اتنا فرق واقع ہو چکا ہے اور ایک اجتہادی زاویہ نظر اختیار کرتے ہوئے ہم نے چیزوں کو نئے سرے سے دیکھنا ہے، اس وقت تک یہ کنفیوژن موجود رہے گا۔ یہاں علامہ اقبال نے جو بحث کی ہے، وہ ساری relevant ہو جاتی ہے۔ اقبال نے یہی بتایا ہے کہ ریاست، مذہب سے لاتعلق نہیں ہو سکتی۔ یہ اسلام کی جو nature ہے، اس کے خلاف ہے۔ لیکن ہمیں اسلام کے اجتماعی نظام کے حوالے سے پرانے دور میں جو ایک تعبیر ملتی ہے، اس پر بہت سے معاشروں کے اور تاریخی حالات وتجربات کے بڑے گہرے اثرات ہیں۔ ملوکیت نے بڑے گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ آپ کے ہاں خلافت بھی ابتدائی کچھ سالوں کو چھوڑ کر ملوکیت ہی تھی۔ اس کے بڑے اثرات ہیں۔ فقہ نے ایک خاص دور میں آ کر بالکل جمود کی شکل اختیار کر لی تھی۔ اس کے زیر اثر کچھ attitudes اور کچھ فکری مقدمات پیدا ہوئے ہیں۔ تو ہمیں تاریخی طور پر جو ایک tradition ملی ہے، اس کا ایک burden ہے جو آپ کو آسانی سے اپنے نیچے سے ہلنے نہیں دیتا۔ یہاں پر اجتہاد کی ضرورت ہے اور اجتہاد محدود اور جزوی معنوں میں نہیں، بلکہ اپنے اصل اور حقیقی معنوں میں۔ علماء اصل میں کہتے ہیں کہ اجتہاد تو ہم کر رہے ہیں۔ جو بھی مسئلہ سامنے آتا ہے جو کتابوں میں نہیں ملتا، ہم اس کا حل پیش کر دیتے ہیں۔ ٹھیک ہے، یہ بھی اجتہاد ہے، لیکن بہت جزوی سطح کا اجتہاد ہے۔ اجتہاد ایک بہت بڑے canvas پر مطلوب ہے، کیونکہ پوری دنیا کا نقشہ بدل گیا ہے۔ دنیا میں مسلمانوں کا رول کیا ہونا چاہیے، مسلمان ریاست کا نقشہ کیا ہونا چاہیے، اس میں جو مختلف طبقات ہیں جن کے interests مختلف ہیں، جن کے رجحانات مختلف ہیں، ان کوہم کیسے آپس میں harmonize کریں تاکہ یہ مل جل کر قوم کی اجتماعی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالیں اور اپنی توانائیاں باہمی کھینچا تانی میں صرف نہ کرتے رہیں۔ یہ سارے سوالات بڑی گہری اور بنیادی سطح پر اجتہادی زاویہ نظر کا تقاضا کرتے ہیں۔
دیکھیں، اس وقت کیا ہو رہا ہے؟ ہر مسلم معاشرے میں قدیم اور جدید کی ایک کشمکش ہے جو آگے نہیں بڑھنے دے رہی۔ سب کوشش کر رہے ہیں کہ معاشرے کو کھینچ کر اپنے رخ پر لے جائیں۔ فکر کا ایک سانچہ ہمیں ورثے میں ملا ہے۔ فکر کا دوسرا سانچہ وہ ہے جو ہمیں مغرب سے ملا ہے اور یہ دونوں سانچے قوم کو اپنی اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چونکہ دونوں powerful ہیں، اس لیے قوم دونوں کے درمیان پھنسی ہوئی ہے۔ نہ ادھر جا رہی ہے اور نہ ادھر جا رہی ہے۔ یہ کھینچا تانی ختم ہونی چاہیے اور وہ سیاسی انداز سے ختم نہیں ہو سکتی۔ اس کا کوئی امکان نہیں کہ کبھی وہ وقت آئے گا کہ قدیم مذہبی عنصر اتنا حاوی ہو جائے کہ وہ اپنی سیاسی طاقت کے ذریعے سے نظام ریاست کو اپنے تصور کے مطابق ڈھال لے۔ اسی طرح جو سیکولر فکر ہے، وہ بھی کبھی اتنی طاقت ور نہیں ہو سکتی کہ مذہب سے بالکل لاتعلق ہو کر ایک سیکولر ریاست بنانے میں کامیاب ہو جائے۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ لازماً اس کا حل یہ ہے کہ یہ طبقات آپس میں dialogue کریں اور چیزوں کو intellectual debate کے ساتھ حل کریں۔ اس کے سوا کوئی حل نہیں کہ درمیان کی راہ اختیار کی جائے اور ہم بحیثیت قوم اعتدال کے ساتھ، روایت سے بھی وابستہ رہیں اور جو مغرب کے پیش کردہ مفید تصورات وتجربات ہیں جو اسلام کے ساتھ ہم آہنگ ہیں، ان سے بھی استفادہ کریں اور ایک اعتدال پسندی کی راہ سامنے آئے جس کو سوسائٹی کا عمومی اعتماد حاصل ہو جائے۔ اس وقت تو دو انتہا پسندوں کے مابین سوسائٹی پھنسی ہوئی ہے۔ 
تو میرے خیال میں سارے مسئلے کی جڑ یہ ہے کہ ہم نے یہاں پاکستان میں جو اجتہاد کیا ہے اسلام اور مغرب کے جمہوری نظام کو ملا کر ایک مرکب بنانے کا، اس کے بارے میں کسی بھی سطح پر، کسی بھی طبقے میں جو مکالمہ اور ڈائیلاگ ہونا چاہیے تھا، وہ نہیں ہوا۔ لوگوں کو سمجھانا چاہیے تھا کہ بھئی، پرانا اسٹرکچر یہ تھا، اس کی bases یہ تھیں۔ اب یہ تبدیلیاں آ چکی ہیں، اب ہمارے پاس یہ بنیادیں ہیں فیصلہ کرنے کی۔ اب ہم فقہ اور شریعت کے بہت سے مسائل کو نئے سرے سے دیکھ رہے ہیں۔ اب ہم نئے سرے سے نصوص کو دیکھ رہے ہیں اور ایک نئی interpretation کر رہے ہیں۔ جب تک بالکل واضح طریقے سے آپ یہ بات لوگوں کو نہیں بتائیں گے، اس وقت تک یہ کنفیوژن دور نہیں ہوگا اور معاملات یونہی چلتے رہیں گے۔ جدید ریاستی نظام کے حوالے سے ہماری اعلیٰ سطحی مذہبی قیادت نے جن چیزوں پر صاد کیا ہے، وہ کسی بھی طرح اجتہاد مطلق سے کم نہیں ہے۔ نہایت بنیادی ایشوز پر کلاسیکی تصور ریاست سے اختلاف کیا گیا ہے جو ایک مثبت طرز فکرہے، لیکن تضاد یہاں سے پیدا ہوتا ہے کہ سب کچھ کرنے کے باوجود علماء بطور ایک طبقے کے جو اپنا فکری مقدمہ پیش کرتے ہیں، وہ کلاسیکی فقہ ہی کو Idealize کرتا ہے۔ وہ یہ کہنے کی جرات نہیں رکھتے کہ ہاں، اجتہاد مطلق ہو سکتا ہے اور ہم نے عملاً کیا ہے۔ اس سے شاید انھیں خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ پھر معاملہ ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا۔
مشعل سیف: آپ نے جو حل بتایا ہے کہ ہمیں نئے سرے سے اجتہاد کرنا چاہیے تو کیا آپ کے خیال میں اس سلسلے میں مدارس میں جو تعلیمی نظام ہے، اس میں بھی کچھ تبدیلیاں لانی چاہییں؟
عمار ناصر: وہ تو بنیادی چیزہے، اس لیے کہ آپ کا جو قدیم تصور ریاست ہے، وہ اس وقت آپ کو بتا کون رہا ہے؟ وہ تو دنیا میں کہیں پڑھایا نہیں جا رہا اور نہ کہیں موجود ہے۔ وہ یہ مدارس ہی ہیں جو قدیم فقہ کو پڑھاتے ہیں اور وہی لوگوں کو اس کے متعلق بتاتے ہیں، لیکن ساتھ یہ نہیں بتاتے کہ اب حالات بدل گئے ہیں۔ چنانچہ لوگ وہیں سے فکری طور پر ایک ماڈل اخذ کرتے ہیں اور پھر جب وہ اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں تو انھیں پورا معاشرہ ایسے لگتا ہے جیسے یہ کوئی اجنبی معاشرہ ہے۔ ان کے اور لوگوں کے مابین ایک اجنبیت کی دیوار کھڑی ہو جاتی ہے۔ رفتہ رفتہ وہ پورے سسٹم کے بارے میں نظریاتی بنیادوں پر تحفظات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد جب کچھ ا س طرح کی پالیسیاں سامنے آتی ہیں جیسے افغانستان کے معاملے میں پاکستان نے اپنائیں اور امریکی جنگ کا حصہ بن گیا تو اس سے ایک ری ایکشن پیدا ہوا۔ اس میں ہماری اپنی غلط قسم کی سیاسی پالیسیوں کا بھی پورا پورا کردار ہے۔ جب ہم لوگوں کو ہتھیار پکڑا دیں گے تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا، بلکہ نکل چکا ہے کہ پورا ایک علاقہ اس تصور کی بنیاد پر ہتھیار لے کر اٹھ کھڑا ہوا کہ یہ سرے سے ایک اسلامی ریاست ہی نہیں اور جمہوریت کا یہ سارا نظام کفر ہے اور ہمیں یہاں اس کی جگہ شریعت کو نافذ کرنا ہے۔ تو کچھ مذہبی آئیڈیالوجی، کچھ قدیم تصور ریاست اور کچھ آپ کی غلط پالیسیوں پر غصہ اور رد عمل، یہ ساری چیزیں مل کر ان کو اس جگہ پر لے آئی ہیں کہ انھوں نے ہتھیار اٹھا لیے ہیں۔
مشعل سیف: تو کیا آپ کے خیال میں کلاسیکی فقہ کو پڑھاناہی نہیں چاہیے؟ کیا کرنا چاہیے؟
عمار ناصر: نہیں، یہ مطلب ہرگز نہیں ہے۔ کلاسیکی فقہ کو پڑھائیں، لازماً پڑھائیں، لیکن وسیع تر فکری اور عملی تناظر میں پڑھائیں۔ ہمارے ہاں تو مدارس میں مسئلہ یہ ہے کہ جو کلاسیکی فقہ ہے، اس کی جس طرح سے development ہوئی ہے، وہ بھی نہیں پڑھائی جاتی۔ مثلاً برصغیر کے مدارس میں فقہ کی جو سب سے مفصل کتاب پڑھائی جاتی ہے، وہ ہدایہ ہے جو پانچویں صدی کے حنفی عالم مرغینانی نے لکھی تھی۔ پانچویں صدی تک فقہ حنفی جس حد تک develop ہو چکی تھی، وہ آپ کو اس میں نظر آئے گی۔ وہ آپ کو پڑھا دی جاتی ہے۔ اس کے بعد کیا کچھ ہوا، نہ وہ پڑھایا جاتا ہے اور وہاں تک فقہ کیسے پہنچی، پہلے پانچ سو سال کا ارتقا بھی نہیں پڑھایا جاتا۔ گویا آپ طالب علم کو فقہ کا ایک بالکل Static View دے رہے ہیں۔ اس کے لیے وہی حرف آخر ہے جو اس نے اس میں پڑھ لیا ہے۔ اس تصور کے ساتھ آپ کیا توقع رکھتے ہیں کہ وہ اتنی بڑی تبدیلی کو سمجھ سکے گا جو اب ہر سطح پر دنیا میں رونما ہو چکی ہے؟ تو مدارس کے بنیادی نظام، تعلیم کے بنیادی تصورات اور نصاب تعلیم کی اصلاح، یہ پوری اسکیم ہے اور یہ بنیادی چیز ہے۔ وہاں اگر آپ اصلاح نہیں کریں گے تو باقی جتنی چاہیں discussions کر لیں، ٹاک شوز کر لیں، اخبارات میں لکھ لیں، جب تک وہ مائنڈ سیٹ produce ہوتا رہے گا اور اس کی اصلاح کے لیے آپ جڑ سے نہیں پکڑیں گے، معاملہ حل نہیں ہوگا۔
مشعل سیف: اس پر کچھ مزید روشنی ڈالیے کہ کس طرح کی تبدیلیاں لے کر آنی چاہییں تعلیمی نصاب میں۔ کیونکہ آپ یہ نہیں کہہ رہے کہ ہمیں کلاسیکی فقہ نہیں پڑھانی چاہیے۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں اس کو ضرور پڑھانا چاہیے، مگر ساتھ یہ بھی پڑھائیں کہ تاریخ میں کس طرح اس میں تبدیلیاں آئی ہیں اور ہمیں یہ بھی بتانا چاہیے کہ آج کل دنیا میں جس طرح کا پولیٹیکل اسٹرکچر ہے، وہ بہت مختلف ہے اور اس کی بھی تعلیم دینی چاہیے۔ تو سوال یہ ہے کہ پھر کلاسیکی فقہ پڑھانے کا آخر فائدہ کیا ہوا؟ کیا یہ اس لیے ہے کہ یہ تاریخی طور پر ہمارا ورثہ ہے، اگرچہ آج کل کے حالات میں یہ ہماری زیادہ مدد نہیں کرتی؟
عمار ناصر: دیکھیں، ہم اپنی علمی Tradition کو تو نظر انداز نہیں کر سکتے، نہ دست بردار ہو سکتے ہیں۔ آپ مغرب کو دیکھیں۔ وہ اپنے ہاں جو بھی علوم پڑھاتے ہیں، ان میں افلاطون اور ارسطو سے لے کر اب تک کی جو بھی روایت ہے، وہ آپ کو پڑھائیں گے تاکہ آپ کو معلوم ہو کہ وہ کہاں کہاں سے گزر کر اور کون کون سے مراحل طے کر کے آج یہاں پہنچے ہیں۔ تو اپنی روایت سے ہم کیسے دست بردار ہو سکتے ہیں؟ ہمیں اس سے راہ نمائی لینی ہے۔ مذہب اور شریعت کو اپنا بنیادی سرچشمہ مان کر چیزوں کو دیکھنے کا جو زاویہ نظر ہے، ہمیں وہ اسی سے ملے گا۔ کلاسیکی فقہ کے جو applied نتائج ہیں، ان سے آج ہم یقیناًاختلاف کریں گے، لیکن جو ایک Thinking Process ہے، قرآن وسنت سے چیزیں اخذ کرنے کا جو منہج ہے، اس کے اچھے نمونے اور نظائر تو ہمیں وہیں سے ملیں گے۔ وہ تو آپ کو Anglo-Saxon Law نہیں دے گا۔ کلاسیکی فقہ ہمارا ایک غیر معمولی ورثہ ہے۔ ہمیں اس کو پڑھنا ہے، اس کو گہرائی میں جا کر سمجھنا ہے۔ اس سے ہمیں دست بردار نہیں ہونا، اس کو لینا ہے، اس سے سیکھنا ہے اور اس کو حاصل کرنا ہے۔ اس پراسس کو سمجھ کر پھر ہم نے آج نئے سرے سے اسے apply کرنا ہے۔ اس کو لازماً پڑھانا چاہیے۔اس کے بغیر تو ہم اپنی روایت سے بالکل کٹ جائیں گے۔
ہماری جو Tradition ہے، جو پوری روایت ہے، اس میں اصول فقہ ہے، اصول تفسیر ہے، اصول حدیث ہے، دوسرے دینی علوم ہیں، ان کو وسیع تناظر میں دینی علوم کے طلبہ کو پڑھانا چاہیے اور اس کے ساتھ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں آج کے مغربی فلسفے اور سماجی علوم کو بھی اپنے نصاب میں شامل کرنا چاہیے۔ یہ بھی ہماری روایت کا حصہ ہی ہوگا، کیونکہ ہم نے قدیم دور میں جو اس وقت کی Greek Philosophy تھی، اس کو اپنے تعلیمی نصاب میں شامل کیا تھا، بلکہ لوگ کہتے ہیں کہ اس کو ہم نے Islamize بھی کر لیا اور اس میں ہمارے مفکرین نے اپنے اضافے کیے۔ تو علم میں کوئی تعصب نہیں ہے۔ جیسے ہم نے یونانی فلسفے میں بعض غلط تصورات کی اصلاح کی، آج ہم مغرب کے علوم کے ساتھ بھی یہ کر سکتے ہیں۔ ان سے ان کا فلسفہ سمجھیں، ان کے نتائج فکر پڑھیں، ان کے تجربات لیں اور اس میں جہاں بھی محسوس کرتے ہیں کہ یہاں اسلام سے ہٹی ہوئی کوئی بات ہے، اس میں اپنا Contribution دیں کہ یہ اس حوالے سے ایک متبادل زاویہ نظر ہے۔ ہمارے ہاں بہت سے لوگ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ مغربی فلسفے کے ساتھ شاید یہ نہیں کیا جا سکتا کہ اس کے حاصلات کو مغرب کے لادینی رجحانات سے الگ کر کے ایک دوسرے نظری اور اسلامی فریم ورک میں ڈھال لیا جائے۔ میرے خیال میں اس نقطہ نظر میں زیادہ گہرائی نہیں ہے اور یہ زیادہ تر تاثراتی ہے جس میں مغرب کی لادینیت کے خلاف رد عمل زیادہ جھلکتا ہے۔ 
مشعل سیف: آپ نے مائنڈ سیٹ کی بات کی کہ مدارس میں ایک خاص طرح کا مائنڈ سیٹ بنا دیا جاتا ہے جس میں کلاسیکی فقہ کا اس طرح احترام کرنا ہوتا ہے کہ آپ اسی کو حتمی اور حرف آخر تسلیم کر لیں۔ مگر آپ کی خود بھی جو پرورش ہوئی اور آپ نے جو دینی تعلیم حاصل کی، وہ انھی مدارس سے کی ہے۔ تو آپ کے اندر یہ جو مختلف رجحان اور فکر آئی، یہ کہاں سے آئی؟
عمار ناصر: دیکھیں، مدارس کے سسٹم میں اس کا پورا اہتمام ہوتا ہے کہ آپ کا ذہن ایک خاص سوچ کے دائرے میں محدود ہو جائے، لیکن ایسا تو نہیں ہے کہ آپ کسی بند کنویں میں رہتے ہیں۔ رہتے تو آپ دنیا میں ہی ہیں اور دیکھتے سنتے ہیں کہ ارد گرد کیا ہو رہا ہے۔ ذاتی طور پر مجھے یہ خیال ہوتا ہے کہ میرے اپنے گھر کا جو ماحول ہے، وہ تھوڑا مختلف ہے۔ میرے والد کا جو انداز نظر ہے اور ان میں جو ایک وسعت فکر ہے، اس کا اس میں بڑا کردار ہے۔ انھوں نے جمعیۃ علماء اسلام میں مفتی محمود صاحب کے ساتھ سیاسی کام کیا ہے۔ اس دائرے میں کام کرنے کی وجہ سے ان کے اپنے زاویہ نظر میں بڑی وسعت آئی۔ ہر طرح کے اور ہر طبقہ خیال سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ساتھ ان کو میل جول کا موقع ملا، بلکہ ان کے اپنے نہایت گہرے ذاتی دوستوں میں ایسے لوگ شامل رہے ہیں جنھیں عام طور پر مذہب دشمن اور Leftist سمجھا جاتا ہے۔ تو والد صاحب کا اپنا زاویہ نظر بڑا وسیع ہے اور انھوں نے ہمارے یعنی بچوں کے معاملے میں بھی کبھی فکری جبر کی یا کوئی خاص نقطہ نظر ٹھونسنے کی کوشش نہیں کی۔ 
میں نے اپنے تعلیمی دور کا زیادہ تر حصہ اپنے والد کے پاس اور اپنے گھر سے متصل مدرسہ انوار العلوم میں گزارا ہے۔ عام طور پر کسی بھی مذہبی طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ اس کا اہتمام کرتے ہیں کہ اپنے بچوں کو ایک خاص نوعیت کے مسلکی رنگ میں رنگنے کی کوشش کریں، لیکن میرے ساتھ یہ نہیں ہوا۔ مجھے بچپن سے ہر طرح کی چیزیں پڑھنے کی آزادی حاصل تھی، حتیٰ کہ دس بارہ سال کی عمر میں مجھے بائبل کا مطالعہ کرنے کی بھی آزادی تھی۔ مجھے اس زمانے میں یہ معلوم کرنے میں دلچسپی پیدا ہوئی کہ یہودیت او رمسیحیت، یہ کیسے مذاہب ہیں اور بائبل میں کیا لکھا ہوا ہے۔ میں مسیحی لٹریچر منگوا کر پڑھتا تھا اور انار کلی لاہور میں مسیحی اشاعت خانہ جا کر وہاں سے کتابیں لے کر آتا تھا۔ اس میں مجھ پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی۔ اسی طرح ہمارے ہاں ہر طرح کی مذہبی اور سیاسی سوچ رکھنے والے لوگ اور مختلف مکاتب فکر کے رسائل وجرائد آتے تھے۔ اس طرح مجھے بچپن سے ہی اس کا موقع ملا کہ میں مختلف قسم کی چیزیں پڑھوں۔ میرے خیال میں اس ماحول کا کافی اثر ہوا۔
مشعل سیف: بہت سے علماء کا یہ کہنا ہے کہ نائن الیون کے بعد پاکستان اسلامی ریاست نہیں رہا، کیونکہ اس واقعے کے بعد جو فیصلہ کیا گیا، اس سے واضح ہو گیا ہے کہ ہماری حکومتی پالیسیاں پوری طرح امریکہ کے کنٹرول میں ہیں۔ آپ اس پر کچھ تبصرہ کریں گے؟
عمار ناصر: نائن الیون کا واقعہ خاصا اہم تھا، سیاسی لحاظ سے بھی اور تہذیبی اعتبار سے بھی۔ اس نے دو تہذیبوں کے باہمی تعلق کو ایک خاص شکل دے دی ہے۔ اس واقعے کے تناظر میں پاکستان نے جو فیصلہ کیا، ا س کو القاعدہ کے لوگ تو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ پاکستان نے ریاست کی سطح پر مسلمانوں کے خلاف امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا جو ایک اسلامی ریاست نہیں کر سکتی۔ میرے خیال میں یہ استدلال کافی سادہ ہے اور ہمیں صورت میں جو بہت سی پیچیدگیاں ہیں، ان کو بھی سامنے رکھنا پڑے گا۔ مثلاً ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ کسی ریاست کی جو نظریاتی حیثیت ہے، وہ ہم اس کے آئین اور اس کے دستور سے اخذ کریں گے یا ہماری حکومت یا فوج نے ایک مخصوص صورت حال میں جو پالیسی اختیار کی، اس سے طے کریں گے؟ یہ ایک بنیادی سوال ہے۔ میں تو پہلی بات کو ہی صحیح سمجھتا ہوں۔ ہم نے آئین کی صورت میں جو ایک قومی میثاق کیا ہے، جس پر پوری قوم نے اتفاق کیا ہے، وہ اصل معیار ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک مسلمان کلمہ پڑھ لیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں۔ اس کے بعد وہ کام ایسے کرتا ہے جو اسلام کے خلاف ہیں تو اس کو ہم کافر نہیں کہتے۔ یہی اصول میرے نزدیک ریاست پر بھی لاگو ہوگا۔ اگر ہمارا آئین یہ کہتا ہے اور ہماری قوم کا اجتماعی ضمیر بھی یہی کہتا ہے کہ جو فیصلہ کیا گیا، وہ غلط تھا تو اس کا ذمہ دار پالیسی ساز اداروں کو تصور کرنا چاہیے، نہ کہ ریاست کی نظریاتی حیثیت کی نفی کر دینی چاہیے۔ 
پھر ایک اور پہلو بھی بڑا اہم ہے۔ یہ جو مقدمہ پیش کیا جاتا ہے کہ فوج نے مسلمانوں کے خلاف امریکہ کا ساتھ دے کر ارتداد کا ارتکاب کیا ہے، یہ بالکل یک طرفہ اور یک رخی بات ہے۔ یہ دیکھنا چاہیے کہ فوج نے کن حالات میں یہ فیصلہ کیا اور اس میں بنیادی ذمہ داری میرے نزدیک پاکستانی فوج پر نہیں ، بلکہ خود القاعدہ پر عائد ہوتی ہے، اس لیے کہ وہ سچویشن جس میں یہ فیصلہ کیا گیا، وہ القاعدہ نے پیدا کی تھی۔ القاعدہ نے افغانستان میں بھی اسلامی شریعت کے اصولوں کو violate کیا۔ اسلامی شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی کہ آپ مسلمانوں کے کسی ملک میں مہمان کے طو رپر رہ رہے ہوں اور وہاں کی حکومت اور لوگوں کے ہاتھ میں ہو، لیکن فیصلے آپ کرنے لگیں کہ ہم نے یہاں بیٹھ کر فلاں ملک پر حملہ کرنا ہے۔ ملا عمر اگر یہ فیصلہ کرتے کہ ہم نے امریکہ کے ساتھ جنگ چھیڑنی ہے تو چلیں، نتیجہ کیسا بھی ہوتا، کم سے کم وہ اس لحاظ سے تو justified ہوتا کہ ایک ملک کی ایک با اختیار اتھارٹی نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ لیکن یہ کیا بات ہوئی کہ امیر تو وہاں کے ملا عمر ہیں اور جنگ کرنے کا فیصلہ بن لادن کر رہے ہیں؟ اسلام کی نظر میں یہ بالکل جائز نہیں ہے۔ پھر یہ لوگ وہاں سے بھاگ کر پاکستان میں آ جاتے ہیں، جبکہ پاکستان یہ طے کر چکا تھا کہ ہم اس جنگ میں طالبان کے ساتھ نہیں ہیں۔ اسی سے قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں اور فوجی آپریشن جیسے مخمصوں نے جنم لیا۔ تو یہ دراصل القاعدہ کی غلط سوچ اور غلط حکمت عملی ہے جس کا خمیازہ افغانستان کو اور پاکستان کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اس جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ غلط ہونے کے باوجود اس کی بنیادی ذمہ داری پاکستانی فوج پر نہیں، بلکہ القاعدہ پر عائد ہوتی ہے۔
مشعل سیف: آپ نے پاکستان کے بارے میں کہا کہ یہ اصولی طور پر اسلامی ریاست ہے۔ اس کے علاوہ عملی طور پر بھی کچھ اقدامات کیے گئے ہیں۔ مثلاً اسلامی نظریاتی کونسل ہے اور وفاقی شرعی عدالت ہے۔ اس حوالے سے کچھ بتائیں کہ ان اداروں سے کس حد تک مدد مل سکتی ہے پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے میں؟
عمار ناصر: آپ کو معلوم ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کو آئین میں کوئی اتھارٹی حاصل نہیں ہے۔ وہ ایک مشاورتی ادارہ ہے۔ وہ ریاست نے اپنی سہولت کے لیے بنایا ہے کہ اگر اس نے اسلامی قانون سازی کرنی ہے تو ظاہر بات ہے کہ اس کے لیے کافی کام کرنا پڑے گا۔ ہر عالم سے آپ رائے تو لے سکتے ہیں، لیکن آپ کو قانون کو ایک Codified شکل دینی ہے تو اس کے لیے ایک خاص طرح کی سمجھ بوجھ اور Expertise چاہیے۔ ایسے لوگ چاہییں جو قانون کو، اس کی زبان کو، اس کے مسائل کو سمجھتے ہوں۔ نظریاتی کونسل اس مقصد کے لیے بنائی گئی ہے کہ قانون کی drafting میں وہ مدد کرے۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے انھوں نے ایک Criterion بھی بنایا ہے کہ ایسے لوگ اس میں شامل ہوں گے جن کا عمومی قانون کا یا اسلامی قانون کا پس منظر ہو۔ اس کا ایک بہت محدود، limited دائرہ ہے۔ اس کے باوجود جو کام اس ادارے نے اب تک کیا ہے، وہ میرے خیال میں مفید ہی ہے۔ اس نے مروجہ قوانین کا جائزہ لے کر اسلامی قانون کی روشنی میں اس میں تبدیلیاں تجویز کر دی ہیں اور بیشتر قوانین کے متبادل مسودات بھی تیار کر دیے ہیں۔ اس کے بعد ان کی تنفیذ حکومت کا کام ہے۔
مشعل سیف: بہت سے لوگ اسلامی نظریاتی کونسل پر یہ تنقید کرتے ہیں کہ اس میں حکومت اپنی پسند کے علماء کو مقرر کرتی ہے تاکہ وہ ان کی ترجیحات کے مطابق رائے دیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں؟
عمار ناصر: اصل جو مسئلہ ہے، اس کو اس کی اصل جگہ سے پکڑنا چاہیے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس طرح کے جو ادارے بنائے جاتے ہیں، ان کی Composition کے بارے میں وقتاً فوقتاً سوالات اٹھتے رہتے ہیں کہ آیا اس میں Genuine اہل علم کو مقرر کیا گیا ہے یا یہ جانب دارانہ تقرریاں ہیں۔ وہ مسئلہ کیا ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان معاشروں میں بہت سے جدید تغیرات آ چکے ہیں، ریاست کی سطح پر بھی اورمعاشرت کی سطح پر بھی اور یوں سمجھیں کہ ہم اس وقت دنیا میں مغرب کے بنائے ہوئے سیاسی نظام اور معاشرتی اقدار کے تحت رہ رہے ہیں۔ اب ہمارا جو قدیم اسٹرکچر ہے فکر کا، وہ اس سے بہت زیادہ ٹکراتا ہے۔ اس تضاد کو ہم دانش کی سطح (Intellectual Level) پر حل کرنے کی کوشش نہیں کر رہے۔ جب نہیں کر رہے تو ظاہر ہے کہ تضادات تو موجود ہیں۔ ایک پورا طبقہ ہے جو یہ چاہتا ہے کہ جیسے قدیم دور میں تھا، آج بھی علماء ہی دین وشریعت کی تعبیر میں حرف آخر سمجھے جائیں۔ اگرچہ اسلام میں تھیا کریسی نہیں ہے، لیکن بہرحال یہ تو ہے کہ دین کی تشریح کسی اہلیت رکھنے والے صاحب علم کو ہی کرنی چاہیے۔ اس لحاظ سے جو اپنے وقت کے علماء ہوتے تھے، انھی کو عام طور پر مرجع مانا جاتا تھا۔ اب یہ Ideally بڑی اچھی بات ہے کہ دین کی تعبیر وتشریح اسی کو کرنی چاہیے جس کے پاس دین کا گہرا علم ہو، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس اس وقت جو طبقہ ہے دین کو سمجھنے والا یا دین کی تعبیر کرنے والا، اس کو حرف آخر ماننے کے لیے جدید ذہن تیار نہیں جو خود دور جدید کے تغیرات کا تو ادراک رکھتا ہے، لیکن اس کے پاس دین کا علم نہیں ہے۔ وہ اس پر مطمئن نہیں ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ آج کے دور کے جو مسائل ہیں اور جو تبدیلیاں آئی ہیں، علماء کے فہم دین میں ان کو صحیح جگہ نہیں دی جا رہی۔ گویا علماء بحیثیت طبقے کے دور جدید کے تغیرات کا ادراک نہیں کر رہے،جبکہ یہ دوسرا جو طبقہ ہے جس کا ریاست کے معاملات پر زیادہ کنٹرول ہے، وہ علماء کو یہ مقام دینے کے لیے تیار نہیں کہ ان کی بات حرف آخر ہو، اس لیے کہ وہ ان کے فہم پر مطمئن نہیں ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ علماء بالکل قدیم دور میں کھڑے ہیں، اجتہاد کا زاویہ نظر ان کے ہاں نہیں ہے اور یہ جو تعبیرات پیش کر رہے ہیں، وہ ہمارے آج کے حالات کے لحاظ سے قابل عمل نہیں ہیں۔ 
یہ جو ایک بد اعتمادی ہے مسلمانوں کے ان دو بڑے طبقات کے مابین، یہ اصل میں دانش ورانہ مکالمہ کے ذریعے سے دور ہونی چاہیے۔ علماء کو چاہیے کہ اپنے زاویہ نظر میں اتنی وسعت پیدا کریں، اتنا اجتہادی زاویہ نگاہ پیدا کریں کہ آج کے حالات کے تناظر میں مسائل کا ایسا حل پیش کریں کہ وہ آج کی دانش کو appeal کرے اور آج کا ذہن اس پر مطمئن ہو۔ اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے تو تعبیر دین میں ان کی بات کا وزن خود بخود تسلیم کر لیا جائے گا۔ یہ اختیار کسی فرد یا طبقے کو استحقاقی دعوے کی بنیاد پر نہیں ملا کرتا۔ جو چیزیں فکر سے متعلق ہوتی ہیں، دانش سے متعلق ہوتی ہیں، ان میں اصل میں آپ کا جو استدلال ہوتا ہے اور آپ کے نقطہ نظر کی جو علمی وعقلی مضبوطی ہوتی ہے ، وہی آپ کو ایک اتھارٹی کی جگہ دے دیتی ہے۔ قدیم دور میں بھی دیکھیں، ایسا تو نہیں ہوتا تھاکہ علماء کو یہ کہہ کر اس منصب پر appoint کیا جائے کہ آپ اتھارٹی ہیں۔ نہیں، بلکہ علماء اپنے طور پر دین پر غور کرتے تھے، اس میں محنت کرتے تھے، اس کا فہم پیدا کرتے تھے۔ اس سے ان کو لوگوں کی نظر میں اتھارٹی مل جاتی تھی کہ حکمران بھی ان کی رائے کے خلاف کوئی اقدام نہیں کر سکتے تھے۔ آج بھی یہ ہے کہ جن مسائل میں علماء کی رائے میں وزن محسوس کیا جاتا ہے اور سوسائٹی ان پر اعتماد کرتی ہے، حکومت سارا زور لگانے کے باوجود اس کے برخلاف کچھ نہیں کر سکتی۔ 
میری نظر میں جب تک ہم اس مخمصے سے نہیں نکلتے، یہی ہوتا رہے گا کہ اسلامی نظریاتی کونسل جیسے ادارے بنیں گے اور اس میں پرویز مشرف صاحب اقتدار میں آئیں گے تو وہ جدید ذہن کے نمائندوں کو لے آئیں گے اور ضیاء الحق صاحب آئیں گے تو وہ قدیم فکر کے نمائندوں کو اس میں مقرر کر دیں گے۔ اس طرح کے ادارے جو اس مقصد کے لیے بنائے گئے ہیں کہ وہاں قوم اپنے اجتماعی قانونی فہم کو بروئے کار لائے، جب وہ بھی بد اعتمادی کا شکار ہو جائیں تو اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ پیچھے اصل مسائل کیا ہیں۔ اصل مسئلہ قدیم اور جدید فکر کا تضاد اور ان کی کشمکش ہے۔ ان کے مابین کوئی مکالمہ نہیں ہے۔ قدیم فکر کے لوگ اپنے زاویہ نظر کو وسیع کرنے کے لیے تیار نہیں اور جدید ذہن کے بھی بعض مسائل ہیں۔ یہ ہماری جو روایت ہے، بعض دفعہ اس سے بالکل ہٹ کر ایسی باتیں کرتا ہے جو ہمارے فکری سانچے سے بالکل میل نہیں کھاتی۔ یہ دو الگ الگ دھارے ہیں جو الگ الگ سمتوں میں معاشرے کو لے جانا چاہتے ہیں۔ ایک Conflict ہے جس کا کوئی Intellectual حل نہیں نکالا جا رہا۔ اس کی وجہ سے بہت سے مصنوعی اقدامات کر کے ہم کام چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
میرے خیال میں یہاں بھی مسئلہ وہی ہے اور اس کے حل کا راستہ بھی وہی ہے۔ ہمارے جو ایشوز ہیں، ہم اپنی تاریخ کو، اپنی فقہ کو، آج کے جو تغیرات ہیں، ان کو ایک سنجیدہ علمی مکالمے کا موضوع بنائیں اور ابہامات کو واضح کرنے کی کوشش کریں۔ تب یکسوئی پیدا ہوگی، ورنہ ایسے ہی سلسلہ چلتا رہے گا۔
مشعل سیف: اسلامی نظریاتی کونسل نے آپ کی ایک کتاب چھاپی ہے۔ آپ کا اس ادارے سے کوئی رابطہ رہتا ہے؟
عمار ناصر: میرا ادارے کی سطح پر تو کوئی رابطہ نہیں ہے۔ میں صرف ایک موقع پر ایک علمی نشست میں شرکت کے لیے وہاں گیا تھا۔ کتاب کی اشاعت کا پس منظر یہ تھاکہ ۲۰۰۷ء میں اسلامی نظریاتی کونسل نے حدود وتعزیرات سے متعلق چند سفارشات پیش کی تھیں جن میں اہم پہلوؤں سے متعلق کلاسیکی فقہی موقف سے مختلف نقطہ نظر پیش کیا گیا تھا۔ یہ سفارشات سامنے آنے سے اس ضرورت کا احساس ہوا کہ ان پر ایک تبصرہ لکھ کر واضح کیا جائے کہ ان آرا کی علمی بنیاد کیا ہے تاکہ ان مسائل پر غور وفکر کے لیے اور علمی مباحثہ کے لیے کچھ پیش رفت ہو سکے۔ میں نے اپنا تبصرہ اس پہلو سے لکھا تھا اور سفارشات پر ناقدانہ نظر ڈالتے ہوئے اپنے فہم کے مطابق بعض چیزوں کی تائید کی اور بعض سے اختلاف کیا تھا۔ اصلاً یہ کونسل کے کہنے پر یا اس کے اہتمام میں نہیں لکھا گیا تھا، لیکن جب میں نے لکھ دیا تو کونسل نے اس کو مفید سمجھتے ہوئے شائع کر دیا۔
مشعل سیف: وفاقی شرعی عدالت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
عمار ناصر: میں چونکہ شرعی عدالت کے فیصلوں کو باقاعدہ follow نہیں کرتا، اس لیے میں اس کے متعلق کچھ کہہ نہیں سکتا کہ دور جدید میں اسلامی قانون کی تعبیر میں یا ایک اجتہادی زاویہ نظر سے مسائل کو دیکھنے میں اس کا اب تک کیا کردار رہا ہے۔ البتہ یہ ادارہ ایک لحاظ سے اہم ہے اور اگر اس کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا جائے تو وہ بڑا useful ثابت ہو سکتا ہے۔ وہ یہ کہ اسلامی قانون کے اصولوں کی re-application کا جو معاملہ ہے اور اس کو دور جدید کے حالات ومسائل کے تناظر میں اور بدلتی ہوئی معاشرتی ضروریات کے لحاظ سے reinterpret کرنے کی جو ضرورت ہے، وہ اس عدالت کے فیصلوں کے ذریعے سے پوری کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ یقیناًاس نوعیت کا کام ہوا ہوگا، لیکن میں فیصلوں پر نظر نہ ہونے کے سبب کچھ کہہ نہیں سکتا۔ اصل میں تو جو ہمارے دینی اداروں کے دار الافتاء اور مفتی صاحبان ہیں، ان کو بھی یہی کرنا چاہیے، لیکن وہاں جمود کی گرفت بہت مضبوط ہے۔ وہاں بنیادی فقہی اصولوں کی روشنی میں نئے اجتہاد کا تو کیا سوال، قدیم فقہی ذخیرے سے استفادے کے لیے بھی کڑی تکنیکی شرائط کی پابندی کو زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے بہ نسبت معروضی صورت حال کی رعایت کے۔ اس لیے وہاں سے تو اطلاق وانطباق کی سطح پر فقہ اسلامی کی تجدید کی کوئی توقع نہیں۔ البتہ شرعی عدالت کے ادارے کو میں اس پہلو سے ایک مفید ادارہ سمجھتا ہوں کہ اس کے ذریعے سے یہ مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ 
میرے خیال میں شرعی عدالت کے فیصلوں سے استفادہ کا دائرہ اب تک بہت محدود رہا ہے، کیونکہ یہ صرف قانونی جریدے میں چھپتے ہیں۔ اس کا زیادہ فائدہ ہو سکتا ہے اگر اس ادارے میں پچھلے پچیس تیس سال میں جو اجتہادی عمل ہوا ہے، اس کا تجزیہ کیا جائے اور دیکھا جائے کہ ان میں کن ایشوز کو موضوع بنایا گیا ہے اور کس نوعیت کا اجتہادی زاویہ نظر اختیار کیا گیا ہے۔ ایسے فیصلوں کو عمومی علمی حلقوں کے سامنے لانا چاہیے۔ خاص طور پر جو روایتی علماء کا طبقہ ہے، ان تک انھیں پہنچایا جائے تاکہ انھیں اندازہ ہو کہ حقیقی فقہی فہم اصل میں نظری طور پر کتابی بحثیں پڑھنے سے حاصل نہیں ہوتا۔ عملی صورت حال میں کئی پیچیدگیاں involve ہوتی ہیں۔ عدالت کو ایک طرف شرعی نصوص کو دیکھنا ہوتا ہے اور دوسری طرف عملی مسائل کو بھی دیکھنا ہوتا ہے۔ اسے مقدمے کے فریقین اور ان کے پس منظر پر بھی نظر رکھنی ہوتی ہے۔ اس طریقے سے میرا خیال ہے کہ مذہبی لوگوں میں جو کسی مسئلے کو صرف فقہ کی پرانی کتابوں سے دیکھ کر اس کا حل ڈھونڈنے کا رجحان ہے، اس میں کچھ بہتری آ سکے گی اور انھیں اندازہ ہوگا کہ معاملے کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ کتاب میں لکھی ہوئی تشریح بھی ہوتی ہے اور وہ situation بھی ہوتی ہے جس میں بندہ کھڑا ہے۔ ان دونوں پہلوؤں کو آپ نے کیسے ملحوظ رکھ کر حل نکالنا ہے، اس کی تربیت ہوگی، اگر شرعی عدالت کے فیصلوں پر کچھ اس طرح کا کام کر لیا جائے۔ 
(جاری)

امت کا فکری بحران ۔ تاریخی بیانیے کا ایک تنقیدی مطالعہ

پروفیسر میاں انعام الرحمن

امتِ مسلمہ پچھلی کئی صدیوں سے زوال کا شکار ہے۔ زوال و انحطاط کی مدہوشی میں اس کے ہوش و حواس پر ایک ہی منظر چھایا ہوا ہے۔ اس منظر کا نام ’شان دار ماضی‘ ہے۔ شان دار ماضی میں اسلاف ہیں اور اسلاف کے عظیم کارنامے ہیں۔ یہ منظر اپنی مجموعی کلی حیثیت میں پورے کا پورا چھایا ہوا نہیں ہے۔ شان دار ماضی کے حصے بخرے ہو گئے ہیں۔ سیاست، معیشت، فلسفہ، قانون، تصوف، سائنس، عمرانیات، اخلاقیات، الہیات اور زندگی کے دیگر پہلوؤں میں حاصل کی گئیں کامیابیاں اور کامرانیاں الگ الگ خانوں میں بٹ چکی ہیں۔ اگر ان خانوں کو جدا جدا کرنے کا مقصد، انکشافِ حقیقت کی غرض سے یہ واضح کرنا ہو کہ ان کے مجموعے سے ایک کُل کی صورت گری ہوئی ہے جس کا نام ’’شان دار ماضی‘‘ ہے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ جیسے لمبائی، چوڑائی اور گہرائی بتانے سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ مکان (space) کو ٹھیک ٹھیک سمجھا جا سکے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ الگ الگ خانے یکساں طور پر توازن کے ساتھ شان دار ماضی کی تشکیل نہیں کر سکے ہیں۔ اس لیے شان دار ماضی کی مختلف جہات بغیر کسی معقول مناسبت کے، امت کے اجتماعی ضمیر کا حصہ بن چکی ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ آج کی صورتِ حال میں جب بھی شان دار ماضی، اسلاف اور اسلاف کے کارناموں کی بات ہوتی ہے تو کسی یک رخی مظہر کو مرکب کی صورت میں لے لیا جاتا ہے۔ یعنی زندگی کے گوناں گوں پہلوؤں اور اسلاف کے متنوع کارناموں میں سے چند ایک کو شان دار ماضی سے منسوب کیا جاتا ہے۔ یہ طور طریقہ تاریخ و تحقیق سے اغماض تو ہے ہی، بد دیانتی کے زمرے میں بھی آتا ہے۔
آج ہمارے عہد کے مصلحین، امت کا خون گرمانے کے لیے شان دار ماضی کا تذکرہ چھیڑتے ہیں تو معاشیات، عمرانیات، عسکریات،نفسیات، طبیعات، مابعدالطبیعات، فلکیات، ریاضیات،حیاتیات اور لسانیات،ادبیات، ارضیات،وغیرہ کا ذکر ہی نہیں کرتے، اگر کرتے ہیں تو اتنا سرسری کرتے ہیں کہ ایک جیتے جاگتے سماج میں ان علوم کی قدر و قیمت نہ صرف واضح نہیں ہوتی بلکہ یہ علوم سرے سے غیر ضروری معلوم ہوتے ہیں۔ اس لیے فی زمانہ، شان دار ماضی کی تشکیل میں ان ’غیر ضروری علوم‘ کا کسی قسم کا کوئی کردار نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ امت کے خطبا اور مقررین، فصاحت و بلاغت کے دریا بہاتے ہوئے گھوڑوں کی ٹاپوں کا ذکر کرتے رہتے ہیں جنھوں نے ساتوں برِ اعظموں کو روند ڈالا تھا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایسی شعلہ بیانی، عسکریات (war studies) کا نعم البدل نہیں ہو سکتی۔
(۲)
امت کے حالیہ بحران کی جڑیں تلاش کی جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اصل مسئلہ شان دار ماضی کی حکایت (narrative of past glory) کا علمی دیانت پر مبنی نہ ہونا ہے۔ شان دار ماضی کے بیانیے (narrative) میں بادشاہوں کے کارنامے شامل ہیں اور اصولیین و فقہا کی وکیلانہ طراریاں۔ ہمارے شان دار ماضی کا بس یہی کچا چٹھا ہے۔ بادشاہوں کے کارنامے (adventures) انتہائی سطحی اور جذباتی طور پر تاریخی داستانوں کا حصہ بنے ہیں، البتہ اصولیین کی فقہی موشگافیاں علم و استدلال کی رَو میں تاریخی بیانیے میں شامل ہوئی ہیں۔ 
لہٰذا عملی طور پر امتِ مسلمہ کے شان دار ماضی کے فقط دو حقیقی مظاہر ہیں اور شان دار ماضی کے نام پر یہی مظاہر امت کے ہوش و حواس پر بری طرح چھائے ہوئے ہیں۔ اس لیے شان دار ماضی سے جذباتی وابستگی ( مثال کے طور پر) یہ تو بتا دیتی ہے کہ اندلس پر مسلمانوں نے کئی سو سال حکومت کی، مسجدِ قرطبہ اور الحمرا جیسی پر شکوہ عمارتیں تعمیر کیں وغیرہ وغیرہ، لیکن یہ نہیں بتاتی کہ ان عظیم الشان عمارتوں کے لیے ترجیحی بنیادوں پر خطیر رقم کیسے اور کیوں فراہم کی گئی، فنِ تعمیر کے ماہرین کی تربیت گاہیں کہاں کہاں اور کس معیار کی تھیں، پھر یہ کہ اندلس کا معاشی نظام کیسا تھا، کاری گروں اور مزدوروں کی معاشی حالت کیسی تھی، تاجروں کے طور طریقے کیسے تھے، معاشی امور میں حکومتی مداخلت کس نوعیت کی تھی، دوسری اقوام و ملل سے لین دین و تجارتی معاہدات میں کون کون سے پہلوؤں کو اور کیوں کلیدی اہمیت دی گئی تھی، معاشرت اگر طبقاتی تھی تو اس طبقاتی اونچ نیچ کو مہمیز عطا کرنے والے عناصر کون کون سے تھے، عسکری شعبے میں کیسے کیونکر ایجادات ہوئیں، وغیرہ وغیرہ۔ آج ان موضوعات پر شاید ہی کوئی سنجیدہ علمی کتاب مل سکے۔ لیکن اندلسی حکم رانوں کی ظاہری فتوحات ان کی بہادری کی داستانیں بغیر کسی تجزیے کے، طومار کی صورت میں ملیں گی۔ اسی طرح حیاتیات، طبیعات، فلکیات، موسمیات، اور بشریات، ادبیات لسانیات وغیرہ کے متعلق ضمنی بیانات ’فرض کفایہ‘ ادا کرتے دکھائی دیں گے، لیکن اندلسی اصولیین و فقہا کے جواہر پارے تفصیلی استناد کے ساتھ رسائی میں ہوں گے۔ .......... سوال پیدا ہوتا ہے کہ شان دار ماضی کا ایسا بیانیہ کیا ماضی کو واقعی شان دار رہنے دیتا ہے؟ کیا ایسے یک رخے بیانیے سے (without contexture) امت کے ’حال‘ کی مثبت تعمیر کی جا سکتی ہے؟ 
(۳)
واقعہ یہ ہے کہ راہ سے بھٹکانے والی، شان دار ماضی کی اس ادھوری اور نا مکمل تصویر کے پیچھے اصولِ تاریخ سے انحراف کے علاوہ تلبیسِ تقدیس کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ اصولِ تاریخ سے انحراف کی گواہی، قرآنی تصورِ تاریخ کے ساتھ شان دار ماضی کی حکایت کے تقابلی جائزے میں مل جاتی ہے۔ جس کے مطابق: 
۱۔ قرآن کے تصورِ تاریخ کی بنیادی اکائیوں میں سے ایک، حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں کے تذکرے میں کسی بادشاہ یا سردار کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ یہ بنیادی طور پر دو بھائیوں کا قصہ ہے۔ 
۲۔ پھر جہاں کہیں قرآنی بیانیے میں بادشاہوں کے قصے چھڑے ہیں وہاں اقوام کے مجموعی احوال کے علاوہ مختلف رشتوں ناتوں اور انسان کی نفسیاتی پے چیدگیوں کا بھی بھر پور تذکرہ کیا گیا ہے۔
۳۔ اقوام کے مجموعی طرزِ عمل کے احوال میں (مثال کے طور پر) قومِ نوحؑ ، قومِ لوطؑ ، قومِ شعیبؑ اور قومِ عاد و ثمود، وغیرہ کے متعلق قرآنی آیات دیکھ لیجیے۔
۴۔ غور کیجیے کہ قرآن مجید نے کئی مقامات پر بادشاہوں اور عسکری کمانڈروں کے بجائے ترجیحی طور پر ’بنی اسرائیل‘ کو خطاب کیا ہے۔ 
۵۔ انسانوں کے باہمی رشتوں ناتوں کی مختلف پے چیدگیوں سے واقفیت کے لیے نوحؑ کے بیٹے اور ابراہیم علیہ السلام کے باپ کا تذکرہ پڑھیے۔ زوجہ نوح علیہ السلام اور عزیز مصر کی بیوی کا قصہ دیکھئے۔ برادرانِ یوسفؑ پرایک کڑی نظر کیجیے اور موسی ؑ و ہارون ؑ کے بھائی چارے کو بھی دیکھئے۔ 
۶۔ زندگی کے متنوع مظاہر کے ضمن میں طوفانِ نوحؑ ، کشتی نوحؑ اور واقعہ سبت ، اصحابِ کہف اور ان کے کتے (وغیرہ) کو دیکھ لیجیے۔ 
۷۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قصے میں جہاں ان کے کافر باپ آزر کا ذکر ہے وہاں ان کے دوعظیم بیٹوں اسماعیل علیہ السلام اور اسحاق علیہ السلام کا بیانیہ بھی رونق افروز ہے۔ حیات بعدالممات کا حق الیقین، خانہ کعبہ کی تعمیر اور ذبح عظیم جیسے واقعات اس قصے کو مزید تاب ناک کرتے ہیں۔ پھر تلاشِ حق کی جستجو اور نمرود سے دل چسپ مکالمے نے اس تاریخی بیانیے کو بہت پر اثر، معنی خیز اور ثمر آور بنا دیا ہے۔
ان سات نقاط میں، قرآنی قصص میں سے چند ایک کا انتہائی مختصراً اجمالی تعارف کروایا گیا ہے۔ لیکن ان تعارفی نقاط میں بھی قرآنی بیانیے کے اسالیب، قرآنی تصورِ تاریخ کی صراحت بہت عمدگی سے کر دیتے ہیں، کہ صرف بادشاہوں کے قصے کہانیاں ہی تاریخ نہیں ہیں۔ اب اسے المیہ قرار نہ دیا جائے تو کیا کہا جائے کہ بادشاہوں کی فتوحات کے وزن سے بوجھل، ہمارے شان دار ماضی کا یک رخا بیانیہ، قرآنی اصولِ تاریخ کی مطابقت میں نہیں ہے۔ شاید اسی لیے مستشرقین اور دیگر غیر مسلم سکالرز سمیت بعض مسلم سکالرز کو بھی یہ اعتراض کرنے کی پوری پوری گنجائش مل گئی ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے۔ 
واقعہ یہ ہے کہ گھوڑوں کی ٹاپوں اور تلواروں کی جھنکاروں سے مزین شان دار ماضی کا بیانیہ(narrative of past glory)، اب امتِ مسلمہ کی عمومی نفسیات کا حصہ بن چکا ہے۔ اس لیے پچھلی کئی صدیوں سے، اس بیانیے سے تربیت پائی نفسیات کے زیرِ اثر تاریخ دہرانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس سلسلے میں جاری جہادی کاروائیاں اس لیے بے سود رہی ہیں کیونکہ سماجیات، معاشیات، عسکریات اور اخلاقیات وغیرہ کو نظر انداز کر کے ماضی کی فتوحات کے فقط ظواہر کو لینے کا جانب دار جذباتی رویہ، ان عسکری مہم جوئیوں کے پس منظر میں کارفرما ہے۔ 
(۴)
مشرق و مغرب کی سرزمین پر اسلام کا جھنڈا لہرانے والی شاہی عسکری مہمات کے جلو میں، قرآنی اصولِ تاریخ سے انحراف پر مبنی شان دار ماضی کے بیانیے کی تکمیل اصولیین کی نا قابلِ شکست فقہی موشگافیوں کے روپ میں ہوئی ہے۔ یوں شان دار ماضی کے اس نام نہاد مکمل بیانیے سے، امتِ مسلمہ کے اجتماعی ذہن میں اسلام اور مردِ مومن کی جو تصویر نقش ہوئی ہے اس کے مطابق اسلام کی سربلندی کا خواہاں مردِ مومن ہمیشہ گھوڑے کی پیٹھ پر سوار رہتا ہے، جب گھوڑے کی پیٹھ چھوڑتا ہے تو فقہ کی باریکیاں سمجھ سمجھا کر اپنا وقت قیمتی بناتا رہتا ہے۔ 
شان دار ماضی کے اس نام نہاد مکمل بیانیے سے امت کی دلی جذباتی وابستگی اس آئینے میں نظر آتی ہے جس میں ایک طرف کئی صدیوں سے مار کھاتے مجاہدین کی تصویر منقش ہے اور دوسری طرف فروعی مسائل کے بھنور میں پھنسے علمائے دین کی۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ پچھلے تقریباً ایک ہزار سال میں اسلام کا سفر گھوڑے کی پیٹھ سے فروعی مسائل کی مسند تک کا سفر رہا ہے۔ اس سفر کا ’’حال‘‘ اب اتنا ترقی یافتہ ہو چکا ہے کہ گھوڑے پر سواری کا فیصلہ بھی، خیر سے فروعی برتری ثابت کرنے کے لیے فروعی تناظر میں کیا جاتا ہے۔ 
(۵)
شان دار ماضی کے بیانیے کی فقہی جہت کو قرآنی اصولوں پر پرکھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید نے فضول کی کرید اور بے سود باریک بینی سے مکمل احتراز برتا ہے۔ قرآن مجید، اپنے تاریخی بیانیے (قصص القرآن وغیرہ) کے خاکے میں لفظ برائے لفظ کے مباحث سے بے رنگی اور بے نوری نہیں بھرتا، بلکہ حرف و لفظ کی توں تکار سے مکمل بچتے ہوئے انسانی زندگی کے زندہ اور سنجیدہ احوال کے بہت قریب رہتا ہے۔ حتیٰ کہ سابقہ آسمانی صحائف اور کتب سماوی کے تذکرے میں بھی قرآنی بیان، قانونی قسم کا روکھا پھیکا اسلوب اختیار نہیں کرتا۔ اس لیے اس امر میں شک کی گنجائش نہیں رہتی کہ اپنی حقیقت میں قرآن پاک کا تاریخی بیانیہ، زندگی کے رنگارنگ جواہر پاروں سے مزین ہے۔ لہٰذا قرآنی بیانیے کے مطابق زندگی کے جواہر پارے، صرف مذہب و قانون کی اقلیم تک محدود نہیں ہیں۔ لیکن امتِ مسلمہ کے اجتماعی ضمیر نے اس قرآنی بیانیے سے انحراف کی روش اپناتے ہوئے اپنے شان دار ماضی کے بیانیے میں صرف مذہب و قانون کو ہی کُل زندگی قرار دیا ہے۔ اس لیے فقہی ذخیرے کو اگر دیانت داری سے کھنگالا جائے تو اس میں سے صرف اور صرف مذہب (نماز، روزہ، حج وغیرہ کے مسائل) اور قانون (انسانی معاملات وغیرہ کو نظم میں لانے کے اصول) برآمد ہوتے ہیں۔ 
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ماضی کی مسلم تہذیب میں (نام نہاد تاریخی بیانیے کے مطابق) صرف مذہب اور قانون ہی چھائے ہوئے تھے، تو یہ تہذیب زندگی کی کلیت اور تنوع کو دھتکارتے ہوئے بامِ عروج پر کیسے پہنچ گئی؟ بلکہ اس سے بھی بڑا سوال تو یہ ہے کہ مذہب و قانون کے اصول(یعنی فقہی استنباطات) فی نفسہٖ بلا شرکت غیرے (exclusively) کیسے ظہور میں آ گئے؟ حالاں کہ ایسا ہونا محال ہے۔
(۶)
مذہب و قانون کے اصول بجائے خود وجود میں نہیں آ سکتے، یہ سمجھنے کے لیے یہ مقدمہ سمجھنا ضروری ہے کہ انسانی زندگی، تکوینی طور پر خود رَو تسلسل سے عبارت ہے۔ زندگی کی یہ خاصیت اسے سفر میں رکھتی ہے۔ سفر کی تکان اتارنے کے لیے یہ کہیں کہیں پڑاؤ بھی ڈال لیتی ہے۔ لیکن صرف سستاتی ہے، سوتی نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ زندگی اگر کبھی مسافرت میں نہ بھی رہے تو پھر بھی کم از کم بیدار ضرور رہتی ہے۔ زندگی جاگتی رہتی ہے۔ 
انسانی زندگی جتنی مسافت طے کرتی ہے اس کا اظہار اپنی اقدار، اپنے اداروں اور اپنے علوم و فنون (تکوینی اعتبارات و حقائق) میں کرتی ہے۔ ہر آنے والا پڑاؤ، پچھلی مسافت کی ان نافع باقیات کو سنبھال لیتا ہے جو سفر کی دھول میں گم ہونے سے بچ جاتی ہیں۔لیکن ان بچ رہنے والی باقیات میں سے کچھ نہ کچھ کسی اگلی مسافت میں غیر نافع ثابت ہوتی ہیں اور یوں مسافت در مسافت کے عمل میں یہ باقیات آخر کار معدوم ہوتی جاتی ہیں۔غیر نافع باقیات کا مٹتے چلے جانا پتا دیتا رہتا ہے کہ زندگی جاگ رہی ہے۔
امتِ مسلمہ بھی ایک انسانی گروہ ہے۔ اپنی انسانی (اور تکوینی) حیثیت میں اس نے بھی، زندگی کی مسافرت کے دوران میں (باقیات کی مدد سے) مفید اور نافع علوم و فنون کا اضافہ کیا ہے۔ ان علوم و فنون میں سے اکثر و بیشتر ہزار سالہ مسافت کی نذر ہو گئے ہیں۔ اگرچہ ان کی نافع باقیات اگلی مسافت کو منتقل ہو گئی ہیں۔ جی ہاں! امرِ واقعہ یہ ہے کہ اُمتِ مرحومہ کے علوم و فنون کا جوہر (essence) عرصہ ہوا مغرب کو منتقل ہو چکا ہے۔
(۷)
اس مقدمے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے انسان کی تکوینی زندگی اور اس کے حاصلات کو خدائی نظم میں لانے کے لیے وقتاً فوقتاً انسانوں ہی میں سے کسی ایک کو انسانوں کے لیے ہی شریعت عطا کی ہے۔ نبی خاتم محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر عطائے شریعت کا یہ سلسلہ ختم ہو گیا ہے۔ بر سبیلِ تذکرہ! انسان کی تکوینی زندگی اور اس کے حاصلات کے تناظر میں حضرت آدم علیہ السلام کے حوالے سے یہ بحث کہ وہ نبی تو تھے ہی لیکن صاحبِ شریعت رسول تھے کہ نہیں، قابلِ فہم ہو جاتی ہے۔ بادی النظر میں معلوم یہی ہوتا ہے کہ ہبوطِ آدمؑ کے وقت انسانی زندگی تکوینی طور پر ابھی اتنی مسافت طے نہیں کر پائی تھی کہ اسے خدائی نظم میں لانے کے لیے شریعت کی ضرورت محسوس ہوتی۔ شاید اسی لیے آدم علیہ السلام کے بیٹوں کے قصے میں شرعی قانون کا اطلاق کہیں نظر نہیں آتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ شریعت کے نفاذ و اطلاق کے لیے انسان کی تکوینی زندگی کا ترقی یافتہ ہونا ضروری ہے۔ سطورِ بالا میں ذکر ہو چکا کہ انسان تکوینی طور پر اپنی ترقی کا اظہار مختلف اقدار، اداروں اور علوم و فنون میں کرتا ہے۔ انسانی ترقی کے یہ اظہاریے، انسانی زندگی سے نامیاتی طور پر جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ یعنی، اصل میں یہ انسانی زندگی کے تہ در تہ حقائق کے عکاس ہوتے ہیں۔ یہ حقائق فی نفسہٖ، ایک مطالبہ لیے ہوتے ہیں کہ انسانی زندگی کو افراط و تفریط سے بچانے کا اہتمام کیا جائے اور انھیں ایک (خدائی) نظم میں لایا جائے۔ یعنی اس مرحلے پر انسان کی تکوینی زندگی، کسی صاحبِ شریعت رسول کا تقاضا کرتی ہے۔
اس سرسری بحث سے یہ واضح ہو گیا کہ انسان کی تکوینی زندگی کی ترقی یافتہ شکل کو ہی تشریعی بنایا جاتا ہے اور انسان کی بنائی ہوئی اقدار، اس کے منظم کردہ ادارے اور اس کے وضع کردہ علوم و فنون، (یعنی تکوینی زندگی کے اعتبارات و حقائق) تشریعی ڈھانچے کا جواز بنتے ہیں۔ ان قدروں، اداروں اور علوم و فنون کی عدم موجودگی میں شریعت کے نفاذ کی کوشش خلا میں محلات تعمیر کرنے کے مترادف ہے، جو محال ہے(شاید اسی لیے ہر پیغمبر، صاحبِ شریعت نہیں تھا)۔ یہاں غور کرنے کا مقام ہے کہ جب شریعت اپنے اظہار اور نفاذ کے لیے، انسان کی تکوینی زندگی کے اعتبارات و حقائق کا مطالبہ کرتی ہے تو پھر شریعت سے ماخوذ فقہ ان اعتبارات و حقائق سے بے نیاز رہ کر کیسے اظہار پا سکتی ہے؟ اس لیے اس امر میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ فقہی استنباطات (یعنی، مذہب و قانون کے اصول) فی نفسہٖ بلا شرکت غیرے (exclusively) ظہور میں نہیں آ سکتے۔
(۸)
یہ حقیقت بھی نظر سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے کہ فقہ اپنی مبتدا و منتہٰی میں دیگر علوم و فنون کے مانند خالصاً بشری علم و فن ہے۔ اسے شریعت (قرآن و سنت) جیسی تقدیس سے نہیں نوازا گیا۔ ہوتا یوں ہے کہ زندگی کا تکوینی پہلو جب خود رَو تسلسل سے مختلف اقدار اور علوم و فنون وغیرہ میں منکشف ہوتا ہے تو اسے نظم میں لانے اور اس کے پیدا کردہ مسائل سے نمٹنے کے لیے شریعت سے مدد لی جاتی ہے۔ چونکہ شریعت بجنسہٖ اور بعینہٖ اپنی الوہی حیثیت میں نافذ نہیں ہو سکتی، اس لیے اس کے نفاذ کی خاطر انسان کو تردد کرنا پڑتا ہے۔ تردد کا یہ عمل، فقہانبھاتے ہیں۔ ایک اعتبار سے اصولیین اور فقہا، انسانی زندگی کی تکوینی جہت اور شریعتِ الہیہ کے درمیان پُل اور واسطے کا کام دیتے ہیں، ....... اور یوں فقہ کو ظہور میں لاتے ہیں۔
یہاں سمجھنے والی بات یہ ہے کہ اگرچہ شرعی احکام غیر متغیر اور غیر متبدل رہتے ہیں لیکن انسانی زندگی کا تکوینی پہلو خود رَو تسلسل سے کبھی بھی دست بردار نہیں ہوتا۔ انسانی زندگی کی یہ حرکی خاصیت، نئی اقدار، نئے اداروں اور نئے علوم و فنون کی تخلیق کرتی رہتی ہے، ...... کہ زندگی جاگتی رہتی ہے۔ اس تخلیقی سفر کے دوران میں جب بھی زندگی ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف بڑھتی ہے تو اس بڑھنے اور پھر مقام پر پہنچنے کے عمل پر فقہا کو بہت گہری اور عمیق نظر رکھنی ہوتی ہے۔ یعنی، ابھرتی ہوئی نئی اقدار نئے اداروں اور نئے علوم و فنون کی ماہیت اور پس منظر کے علاوہ ان کے ممکنہ مثبت و منفی اثرات کو انھیں بصیرت کی آنکھ سے دیکھنا ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے فقہ کی یہ جہت ایک پتے کی بات بتاتی ہے کہ اگر فقہ کو انسانی زندگی کے زندہ احوال کا حصہ بننا ہے تو اسے لازمی طور پر زندگی کے مذکورہ حرکی و تخلیقی پہلوؤں کے شانہ بشانہ آگے بڑھنا ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ فقہ بطور علم و فن، دیگر علوم و فنون کے مانند سفر میں رہتا ہے (بلکہ ان علوم کا ہم سفر رہتا ہے)، یہی وجہ ہے کہ کسی دَور کے فقہی مظاہر میں اس دَور کی قدروں، اداروں اور علوم و فنون کا پَرتَو جھلکتا رہتا ہے۔
اس بارے میں دو آرا نہیں ہو سکتیں کہ شریعت خلا میں نہیں بلکہ انسانوں پر نافذ ہوتی ہے، پھر یہ کہ شریعت خود کار انداز میں اپنے طور پر خود بخود نافذ نہیں ہو جاتی، اسے نافذ کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے انسانی زندگی کا یہ (ایک اعتبار سے جامد) تشریعی پہلو، تکوینی پہلو (کے خود رَو حرکی تسلسل) سے خاصا مختلف ہے۔تشریعی پہلو کی جمودی کیفیت، زندگی کے تکوینی پہلو کی تخلیقیت سے تعلقِ خاطر قائم کیے بغیر انسانی احوال کا حصہ بننے سے قاصرہوتی ہے۔اصولیین اور فقہا یہی تعلق پیدا کرتے ہیں اور فقہ کو ظہور میں لاتے ہیں، جس کے نتیجے میں (غیر متغیر اور جامد) شرعی احکام کے لیے نافذ ہونا ممکن ہو جاتا ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ ہوا کہ اصولاً، شریعت تو بعینہٖ نافذ ہی نہیں ہوتی اور نہ ہی ہو سکتی ہے، البتہ اس کے نام پر فقہ کی تنفیذ ضرور ہو جاتی ہے۔ 
(۹)
ہمارے شان دار ماضی کے بیانیے کی تکمیل، فقہی موشگافیوں کے روپ میں کیوں ہوئی ہے؟ اس کا جواب اس لطیف نکتے میں مل جاتا ہے کہ چونکہ شریعت تو نافذ ہی نہیں ہوتی، شریعت کے نام پر فقہ کی تنفیذ ہوتی ہے،اس لیے فقہ کی اس نیابتی حیثیت سے ناوافقیت کی بنا پر اسے ہی اصل(شریعت) سمجھ لیا گیا ہے اور فوراً سے پہلے تقدس کا جامہ پہنا کر شان دار ماضی کا کبیر بیانیہ (grand narrative of past glory) قرار دیا گیا ہے۔ 
یہ درست ہے کہ فقہ کی اساسی تشکیل میں شرعی احکامات کا بہت بنیادی کردار ہے کہ اپنے جامد اور محکم اعتبار کے ساتھ شریعت ایک ناقابلِ شکست پیمانہ ہے۔ اور یہ پیمانہ زندگی کے غیر محکم اور متغیر پہلو کی ہر دو (سلبی اور ایجابی) اعتبار سے حد بندی اور توسیع کرتے ہوئے فقہ کا قطب نما بھی قرار پاتا ہے۔ لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ شریعتِ محکم، اساس فراہم کرنے اور راہ دکھانے کے باوجود بعینہٖ نافذ نہیں ہو پاتی، بلکہ فقہ کو نیابتی ذمہ داری سونپ کر سبک دوش ہو جاتی ہے۔
شان دار ماضی کے بیانیے میں فقہ کو تقدس کا لبادہ اوڑھانے کے بجائے، چاہیے تو یہ کہ اس سوال پر غور کیا جائے کہ شارع نے شریعت کے بجنسہٖ اور بعینہٖ نفاذ کی کوئی صورت کیوں نہیں نکالی؟ کیا اسی لیے نہیں کہ زندگی کے اعتبارات اور حقائق، کہیں تقدس کی بھینٹ نہ چڑھ جائیں، جس کے نتیجے میں شریعت آخر کار خود بے اعتبار نہ ٹھہر جائے؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسانی زندگی کے تکوینی اعتبارات اور حقائق، لازمی طور پر اتنے اہم اور ناگزیر ہیں کہ ان کے اثبات کو ممکن بنانے کی غرض سے انھیں شریعت کی تقدیس سے آزاد رکھا گیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب شریعت کی تقدیس ان اعتبارات و حقائق کے آڑے نہیں آئی تو پھر بے چاری فقہ انھیں کیسے لگام دے سکتی ہے؟ لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ شان دار ماضی کے بیانیے میں فقہ نے غیر فطری اور مصنوعی طور پر، انسان کی تکوینی زندگی کے اعتبارات و حقائق کو مفلوج کرنے کی مذموم کوشش کی ہے۔
(۱۰)
اب تک کی بحث سے یہ بنیادی نکتہ سامنے آتا ہے کہ انسان کی تکوینی زندگی کے اعتبارات و حقائق کی غیر موجودگی میں شریعت غیر موثر ہو جاتی ہے۔ اس لیے شریعت نے (اصولی طور پر) کبھی بھی انسانی زندگی کے تکوینی اعتبارات و حقائق کی نفی نہیں کی، اور فقہ نے بھی شریعت کی نیابتی ذمہ داری نبھاتے ہوئے ان اعتبارات و حقائق کو مکمل جگہ (space) دی ہے، کیونکہ ان کے اثبات کے بغیر فقہ کی تشکیل ممکن ہی نہیں تھی۔ لیکن ہمارے شان دار ماضی کے کبیر بیانیے نے فقہ کی جو تصویر امتِ مسلمہ کے ذہن میں نقش کر دی ہے اس کے مطابق فقہ کا ظہور زندگی کے تکوینی اعتبارات و حقائق سے بے نیازی (بلکہ ان کی نفی) کی حالت میں ہوا ہے۔ اس لیے اس بیانیے میں سماجیات، معاشیات، ریاضیات، عسکریات، فلکیات، بشریات وغیرہ کا کوئی ذکر نہیں، البتہ الہیات، روحانیات اور اخلاقیات کو معمولی درجے میں قابلِ اعتنا ضرور سمجھا گیا ہے۔ 
المیہ یہ ہے کہ اسی یک رخے بیانیے کی بنیاد پر امتِ مسلمہ کے حال کی تعمیر ہوئی ہے۔ دینی اداروں میں دینی اعتبار صرف فقہ کو حاصل ہے۔ اس فقہ میں نماز روزہ حج وغیرہ کے مسائل و دلائل ہیں اور ماضی کی تکوینی زندگی کے اعتبارات و حقائق سے وابستہ قوانین ہیں۔ حالاں کہ اب انسان کی جدید زندگی نے خالصاً مذہبی مسائل کی بابت بھی سنجیدہ سوالات کھڑے کر دیے ہیں، چہ جائے کہ تکوینی زندگی کے عصری اعتبارات و حقائق کی نیرنگی اور بو قلمونی ہو۔ 
(۱۱)
اس وقت امتِ مسلمہ کے فکری بحران کا نمایاں پہلو یہ ہے کہ شان دار ماضی کے تکمیلی بیانیے یعنی فقہ کو بہ تکلف عصری زندگی کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں انسانی زندگی کا حرکی و تخلیقی پہلو مسلسل نظر انداز ہو رہا ہے۔ دین سے گہری وابستگی رکھنے والے لوگ، اصولیین اور فقہا کے ناموں اور کارناموں سے بخوبی واقف ہیں، لیکن جن موجدین اور تخلیق کاروں نے تکوینی زندگی کے اعتبارات و حقائق کو منکشف کیا، اور پھر ان انکشافات و ایجادات کی بدولت فقہ کو جواز بخشا، جس سے فقہ کی تشکیل ممکن ہو سکی، آج ان کے ناموں اور کارناموں سے کوئی واقف نہیں، کیونکہ وہ لوگ شان دار ماضی کے کبیر بیانیے میں کوئی مقام نہیں پا سکے۔ یہ بہت بڑی اور انتہائی سنگین فرو گزاشت ہے۔ 
اس وقت ہم عصر ماحول میں، انسان کی تکوینی زندگی جن اعتبارات و حقائق کو منکشف کر رہی ہے، شان دار ماضی کا بیانیہ ان کی مطابقت میں نہیں ہے اور اسے اصولاً ہونا بھی نہیں چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ فقہ کو انسان کی تکوینی زندگی کے اعتبارات و حقائق کے اکتشافات کے پہلو بہ پہلو آگے بڑھنا چاہیے تھا، کہ فقہ کا محکم اور منجمد پہلو، جو تکوینی زندگی کا پیمانہ بھی بنتا ہے، یعنی قرآن و سنت، وہ تو استقلال کے ساتھ قائم و دائم کھڑا ہے، ...... پھر فقہ زندگی کے متغیر (تکوینی) پہلو سے منحرف ہو کر جمودِ محض کی علامت بن کر رسوا ہی ہو سکتی ہے۔ اس لیے امتِ مسلمہ کا فکری بحران اس تضاد سے مزید گھمبیر ہوا ہے کہ فقہ (ذہنی اور نفسیاتی طور پر) اس کے شان دار ماضی کا تکمیلی بیانیہ ہے اور یہ بیانیہ عصری صورتِ حال میں (عملی طور پر) بری طرح پِٹ چکا ہے۔ 
حقیقت یہ ہے کہ امتِ مسلمہ کو فکری بحران کے گرداب سے نکالنے کے لیے فقہ کی بنیادی ساخت کو سمجھنا ہو گا۔ فقہ اپنی ساخت میں، محکم (تشریعی) اور متغیر (تکوینی) پہلوؤں کی حامل ہے۔ محکم پہلو، قرآن و سنت سے عبارت ہے اور متغیر پہلو زندگی کے تکوینی اعتبارات و حقائق سے مزین ہے۔ فقہ کا کام ان دونوں پہلوؤں کو مکمل طور پر سمجھنا ہے اور پھر متغیر پہلو کو محکم کے پیمانے پر پرکھتے ہوئے اس کی تحدید یا توسیع کو حتی الامکان ممکن بنانا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم عصر ماحول میں فقہ نے ایک پست درجے میں قرآن و سنت کو تو کچھ نہ کچھ سمجھنے کی کوشش ضرور کی ہے لیکن تکوینی زندگی کے عصری اعتبارات و حقائق اس کی دست گاہ میں نہیں رہے۔ اس لیے ایک لحاظ سے اس کی قرآن و سنت کو سمجھنے کی کوشش بھی لاحاصل ہو جاتی ہے کیونکہ اس پیمانے پر جس کو پرکھا جانا ہے وہ ہی سرے سے موجود نہیں۔ 
(۱۲)
اس طرح امتِ مسلمہ کے فکری بحران کی یہ واقعاتی شہادت سامنے آتی ہے کہ فقہ کے نام پر ایک بے جان غیر نافع اور کھوکھلے علم و فن کو سیکھا سکھایا جا رہا ہے۔ عملی طور پر غیر معتبر اور غیر نافع ہونے کے باوجود، یہ علم و فن ایک رجھانے والی نفسیاتی تسکین دے رہا ہے کیونکہ اس کے پیچھے شان دار ماضی کا کبیر بیانیہ موجود ہے جس میں فقہ، امت کی عظیم کامیابی اور معراج قرار پائی ہے۔
یہاں ایک سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ فقہ کی ساخت کے دو عناصر (تشریعی و تکوینی) میں سے تشریعی (قرآن و سنت) تو ہمارے عصری ماحول میں منتقل ہو چکا ہے، اور خود ان دو عناصر کا مجموعہ و امتزاج(فقہ) بھی، لیکن تکوینی عنصر تا حال بے دخل ہے، آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ وہ نقطہ ہے جہاں پر امتِ مسلمہ کے فکری بحران کی واقعاتی جڑ موجود ہے۔ 
واقعہ یہ ہے کہ عصری ماحول میں اگرچہ کسی نہ کسی درجے میں شریعت اور فقہ کو الگ الگ دیکھا جاتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی فقہ کو جامع العلوم سمجھنے کی غلطی بھی کی جاتی ہے۔ یہ غلطی اس وجہ سے ہوتی ہے کیونکہ فقہ کا دائرہ کُل انسانی زندگی کو محیط ہے اور تقریباً ہر شعبہ علم و فن سے اسے معاملہ کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے فقہ کی اس مخصوص نوعیت اور پھر شریعت کی نیابتی حیثیت نے، اسے نہ صرف مقدس بنایا ہے بلکہ کبیر بیانیے کے مقام سے بھی سرفراز کیا ہے۔ حالاں کہ اپنی حقیقت میں، جامع العلوم ہونا تو دور کی بات ہے، فقہ شاید مکمل علم بھی نہیں ہے۔ اس کے علم نہ ہونے کی وجہ یہ ہے اس کی اپنی آزاد، خود مختار اور خود کفیل حیثیت نہیں ہے۔ یہ اصلاً فن ہے اور ایسا فن ہے جس کے ذریعے علوم کے دو بڑے متوازی دھاروں (تشریعی اور تکوینی) کو قریب لایا جاتا ہے، اور ان کے باہمی میل ملاپ سے انفرادی اور اجتماعی نظم کا ایک ڈھانچہ تشکیل دیا جاتا ہے۔ عصری ماحول میں فقہ کو مخزن العلوم سمجھنے کے دو خطرناک اور سنگین نتائج برآمد ہوئے ہیں:
۱۔ انسان کی تکوینی زندگی کے عصری اعتبارات و حقائق(نئی قدریں، نئے ادارے، نئے علوم و فنون وغیرہ) انتہائی بے توجہی کا شکار ہو گئے ہیں۔ خاص طور پر دینی جامعات اس حوالے سے انتہائی غفلت کی مرتکب ہو رہی ہیں۔
۲۔ اس بے توجہی اور غفلت کے باوجود تکوینی زندگی کا خود رَو تسلسل، عصری اعتبارات و حقائق کو منکشف کر رہاہے، لیکن فقہ کی جامع العلوم حیثیت ان علوم کو اجنبی اور غیر ضروری قرار دیتے ہوئے، انھیں ایک الگ تھلگ دائرے میں محدود کر رہی ہے۔ 
اہم بات یہ ہے کہ یہ دو نتائج ایک بڑا مشترکہ نتیجہ یہ دیتے ہیں کہ واقعاتی سطح پر انسان کی عصری زندگی کے تکوینی اعتبارات و حقائق، تشریعی پیمانے کی رسائی میں نہیں رہے، اس لیے زندہ متحرک اور عصریات سے جڑی ہوئی فقہ ظہور میں نہیں آ رہی۔ تکوینی اعتبارات و حقائق اور شریعتِ الہیہ، جو فقہ کے دو بڑے داخلی عناصر ہیں، اب مختلف بلکہ متضاد سمتوں میں رواں دواں ہیں، ان کے دائرہ ہائے کار مکمل طور پر الگ الگ ہو گئے ہیں۔ اس لیے شریعت عملی طور پر معطل ہو کر رہ گئی ہے، کیونکہ انسان کی تکوینی زندگی سے بے نیازی کی حالت میں، یہ کسی بھی صورت میں اظہار نہیں پا سکتی۔ اب شریعتِ معطلہ کے سر پر ایک ایسی جعلی اور مصنوعی فقہ سوار ہے جو اپنے تےءں جامع و مانع ہے۔ 
(۱۳)
مذکورہ مباحث کے ضمن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر شان دار ماضی کے بیانیے میں فقہ ایک بہت برتر مقام پا چکی ہے اور اس کے دو داخلی عناصر میں سے ایک عنصر یعنی تشریعیت کا بھی عصری ماحول میں انتقال ہو چکا ہے، تو پھر دوسرا عنصر یعنی انسان کی زندگی کا تکوینی حوالہ، یکسر غائب کیوں ہے؟ اس کا بادی النظر میں جواب یہ ملتا ہے کہ ایک خاص عرصے تک مسلم تہذیب انسان کی تکوینی زندگی کے اعتبارات و حقائق منکشف کرتی رہی ہے، ان انکشافات کی بدولت اصولیین اور فقہا کے لیے یہ ممکن ہو سکا کہ انھیں تشریعی پیمانے پر مانپ کر، قواعد و ضوابط کے روپ میں فقہ کو ظہور میں لے آئیں۔ فقہ کے ظہور کے بعد، یہ بہت ضروری تھا کہ تکوینی اعتبارات و حقائق کے تغیرات کے پہلو بہ پہلوفقہی قواعد وغیرہ کو بھی حرکت میں رکھا جائے اور ان میں مطلوب تبدیلیاں مسلسل کی جاتی رہیں۔ لیکن ہوا یوں کہ فقہی قواعد و ضوابط اپنے زیریں مقام اور زیریں حیثیت سے بہت اوپر اٹھ آئے اور انھوں نے بجائے اپنے اندر تبدیلیاں کرنے کے، تکوینی زندگی کے اعتبارات و حقائق کو پابند کرنا شروع کر دیا۔ اس سے نئی قدروں، نئے اداروں اور نئے علوم و فنون کی ترویج رک گئی، زندگی رک گئی، ...... بلکہ روک دی گئی۔ 
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ فقہ اپنے زیریں مقام سے اتنا اوپر کیسے اُٹھ آئی؟ یہ ایک ذریعے کے درجے سے ترقی پاکر بجائے خود مقصد کیسے بن گئی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ فقہ چونکہ صرف معاملات یا دیگر دنیاوی قسم کے موضوعات ہی کو نہیں چھیڑتی، بلکہ عبادات مثلاً نماز روزہ حج وغیرہ سے بھی بھر پور تعرض کرتی ہے، اس لیے اس میں تقدیس شامل ہوتی گئی۔ اس پر طرہ یہ کہ اس کے ایک لازمی داخلی عنصر شریعت (قرآن و سنت) نے اس کی تقدیس پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی اور آخرکار...... فقہ ہی شریعت قرار پائی۔اس طرح اس سارے منظر کے عفریت نے تکوینی زندگی کے اعتبارات و حقائق کو بری طرح پچھاڑ کر رکھ دیا اور یہ آہستہ آہستہ معدوم ہوتے چلے گئے اور ایک اکلوتی فقہ مخزن العلوم کا تاج سر پر رکھے مسلم تہذیب کی گردن پر سوار ہو گئی اور اسے زوال کی پستیوں میں دھکیلتی چلی گئی۔ 
یہ بڑی دلچسپ حقیقت ہے کہ امت مسلمہ نے زوال آمادہ ہونے کے بعد، زوال کے اسباب پر غور کرنے کے بجائے دین کی محافظت کے نام پر فقہ کی حفاظت شروع کر دی، کیونکہ فقہ کی دینی حیثیت مسلّم ہو چکی تھی۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ درحقیقت فقہ کی اسی مسلّم حیثیت نے اُمہ کے تنقیدی شعور کے بال و پر کاٹ کر زوال کے اسباب پر غور کرنے کی ہر راہ مسدود کر دی جس کے نتیجے میں دین کے نام پر فقہ کی محافظت کی ( معذرت خواہانہ) نفسیات مزید پروان چڑھی اور بالآخر فقہ شان دار ماضی کا کبیر بیانیہ قرار پائی۔ 
(۱۴)
اس بحث سے اس تاریخی غلط فہمی کا ازالہ بھی ہو جاتا ہے کہ مسلم تہذیب میں نئے علوم و فنون کی کبھی بھی کسی بھی درجے میں مخالفت نہیں کی گئی۔ یہ درست ہے کہ اس مخالفت کی نوعیت، یورپ میں مسیحیت کی طرف سے نئے علوم و فنون کی، کی گئی مخالفت سے بہت مختلف ہے، لیکن بہرحال یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اُمہ کی، تکوینی اعتبارات و حقائق کے انکشافات پر مبنی علمی روایت، فقہ کے بوجھ تلے دم توڑ گئی اور فقہ علوم و فنون کے سنگھاسن پر براجمان ہو گئی۔ اس تاریخی حقیقت کی واقعاتی شہادت کے لیے دینی جامعات کے عصری نصاب کا ناقدانہ جائزہ لینا کافی ہے۔ 
واقعہ یہ ہے کہ نئے علوم و فنون کی مسیحی مخالفت، براہ راست مذہب کی جانب سے کی گئی۔ کلیسا کے کارپردازوں نے تکوینی زندگی کے اعتبارات و حقائق کو بائبل سے متصادم قرار دے دیا، لیکن تکوینی انکشافات نے اپنی واقعیت کے بل بوتے پر پادریوں کو ان کی خرافات سمیت لپیٹ کر رکھ دیا جس کے نتیجے میں مسیحیت سماجی فعالیت سے دست بردار ہو کر کلیسا کی چار دیواری میں مقید ہو کر رہ گئی۔ لیکن مسلم تہذیب میں تکوینی حقائق کی حوصلہ شکنی ایک تو براہ راست مذہب نے نہیں کی۔ دوسرا محرف بائبل کے بر خلاف قرآن مجید تکوینی انکشافات کے کبھی بھی آڑے نہیں آیا۔ تیسرا یہ کہ فقہ نے اپنی مسلّم دینی حیثیت سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ان انکشافات کو رد کرنے کبھی جرات نہیں کی، البتہ اتنا ضرور ہوا کہ فقہ میں تقدس در آنے سے، پہلے مرحلے میں دیگر علوم و فنون کی اہمیت ثانوی ہو گئی اور دوسرے مرحلے میں یہ علوم و فنون غیر ضروری قرار پائے۔
تکوینی زندگی کے اعتبارات و حقائق کو دبانے کی مسیحی اور مسلم تاریخ، اگرچہ مختلف نوعیت کی ہے لیکن ان دونوں نے تقریباً یکساں اور مماثل نتائج دیے ہیں۔ اگر مسیحیت چرچ تک محدود ہو گئی ہے تو اسلام بھی خیر سے مساجد و مدارس تک محدود ہے۔ اگر چرچ میں لوگ کم ہی جاتے ہیں تو مساجد کون سا کھچا کھچ بھری ہوئی ہوتی ہیں؟ اگر پادری اور وکیل اپنے اپنے کام میں مست ہیں تو مولوی اور وکیل بھی تو خیر سے اپنی اپنی اقلیم سنبھالے ہوئے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ دنیا بھر کی دینی جامعات سے فارغ التحصیل ’’وکلا‘‘ آخرکار مولوی ہی قرار پاتے ہیں اور تقریباً انھی معنوں میں جن معنوں میں پادری، وکلا سے مختلف سمجھے جاتے ہیں۔ 
البتہ مسیحیت اور اسلام میں یہ بنیادی فرق پایا جاتا ہے کہ مسیحیت نے خجالت سے تکوینی اعتبارات و حقائق کے آگے سر جھکا دیا ہے اور الگ راہ لی ہے، جس کی وجہ سے وہاں تکوینی انکشافات کی واقعیت نے خوب لوہا منوایا ہے۔ مسیحیت کے برعکس اسلام کو تکوینی اعتبارات کے ہاتھوں کوئی شرمندگی نہیں اٹھانی پڑی۔ اگر ایسا ہے اور واقعی ایسا ہی ہے تو پھر ہمارے یہاں تکوینی انکشافات کی بھر پور لہریں ٹھاٹھیں مارتی نظر آنی چاہییں تھیں جو کہ نظر نہیں آتیں۔ 
واقعہ یہ ہے کہ مسیحی، نظری اور عملی طور پر یک سُو ہیں۔ اگرانھوں نے عملی طور پر کلیسااور ریاست کو الگ الگ کر رکھا ہے تو نظری طور پر بھی وہ اس افتراق کے قائل ہیں۔ انتہائی افسوس اور معذرت کے ساتھ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ مسیحیوں کے برعکس، امتِ مسلمہ نظری اور عملی طور پر یک سُو نہیں ہے۔ اُمہ اس وقت انتہائی گھٹیا قسم کی منافقت کا شکار ہے۔ اُمہ، نظری طور پر تو دین و دنیا کی وحدت کی علم بردار ہے، لیکن اس کے ہاں عملی طور پر دین و دنیا الگ الگ ہو چکے ہیں۔ دین، قرآن و سنت کے نام پر فقہ کو قرار دیا گیا ہے اور دنیا، جو ایک لحاظ سے تکوینی زندگی کے انکشافات سے معمور ہے، دینی اقلیم سے عملی طور پر خارج ہو چکی ہے۔ یہ انتہائی منافقانہ طرزِ عمل ہے۔ اس طرزِ عمل نے امت کا بحران سنگین تر کر دیا ہے۔
(۱۵)
امت کے فکری بحران کی عصری صورتِ حال پر، کھسیانی بلی کھمبا نوچے، کا محاوہ صادق آتا ہے۔ اُمت اُمت کی رَٹ لگانے والے تکوینی اعتبارات کو اپنے نصاب وغیرہ میں تو جگہ نہیں دے پائے(کہ فقہ نے ان کے دماغ مفلوج کر دیے ہیں)، لیکن چونکہ تکوینی انکشافات کی واقعیت اپنا آپ منواتی ہے اس لیے یہ لوگ ذرا تردد سے، ہر نئے انکشاف کے سامنے یہ کہہ کر ہتھیار ڈال دیتے ہیں کہ صدیوں پہلے قرآن نے فلاں آیت میں اس کے متعلق آگاہ کر دیا تھا۔ ان کے ایسا کہنے سے ان کی اپنی نفسیاتی تشفی ہو جاتی ہے اور دوسروں کے زیرِ لب مسکراہٹ بکھر جاتی ہے۔ 
اُمت کے ان خیر خواہوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قرآن و سنت اور ایمان و یقین کا زندگی کے تکوینی اعتبارات سے کوئی براہ راست تعلق نہیں ہے۔ مثلاً، حضرت خالد بن ولیدؓ قبولِ اسلام سے پہلے بھی ایک عظیم جرنیل تھے، جس کا ثبوت غزوہ احد میں ان کی جنگی حکمت عملی سے ملتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قبولِ اسلام کے بعد ان کے فنِ حرب کی سند کیا قرآن میں تلاش کی جانی چاہیے تھی؟ صرف یہی ہونا چاہیے تھا ناں کہ ان کی زندگی کا یہ تکوینی پہلو، تشریعی ضابطے میں آ جائے؟ لیکن خیال رہے کہ تشریعی ضابطہ بجائے خود نہ تو ایسے علوم و فنون کی تخلیق کرتا ہے اور نہ ہی ان کی نفی کرتا ہے۔ لیکن تشریعی ضابطہ اپنے انطباق کے لیے، ایسے اعتبارات و حقائق کا اثبات بلکہ تقاضا ضرور کرتا ہے۔ ذرا غور کیجیے کہ قرآن و سنت کے علاوہ زندگی کی دیگر تمام سرگرمیاں معطل ہو کر رہ جائیں تو پھر قرآن و سنت آخر کس کو موضوع بنائیں گے؟ اس لیے تکوینی اعتبارات و حقائق کی سند قرآن و سنت میں نہیں تلاشنی چاہیے کہ یہ تو زندگی کے خودرَو تسلسل سے خود بخود برآمد ہوتے ہیں، البتہ برآمدگی کے بعد (اور بعض اوقات برآمدگی کے دوران میں) انھیں قرآن و سنت کے تشریعی ضابطے میں ضرور لایا جاتا ہے ، جیسا کہ پچھلے مباحث میں بیان ہو چکا، اصولیین اور فقہا یہی کام کرتے ہیں۔
امتِ مسلمہ کو اپنے جس علم و فن (فقہ) پر بہت ناز ہے، دیکھنے والی بات ہے کہ یہ علم و فن بغیر تکوینی حقائق سے میل کھائے، کیسے راہ پا سکتا ہے؟ جب تکوینی اعتبارات و حقائق خود اُمہ کے ہاں منکشف نہیں ہو رہے تو اس کے لازمی نتیجے کے طور پر فقہ راہ نہیں پاسکتی، اگر فقہ راہ پا رہی ہے تو وہ جعل سازی پر مبنی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس وقت ایک متروک فقہ کو عصریات کا لبادہ اوڑھا کر وسیع پیمانے پر جعل سازی کی جا رہی ہے۔ 
(۱۶)
ہم سمجھتے ہیں کہ قرآن و سنت اور فقہ کے دائرے میں مقید امتِ مسلمہ کو مغرب کا شکر گزار ہو نا چاہیے کہ اس نے اپنی مذہبیات کی قیمت پر تکوینی اعتبارات و حقائق کی ترویج کر کے امتِ مسلمہ کو زوال کی اتھاہ گہرائیوں میں گرنے سے بچا لیا ہے۔ سماجیات، معاشیات، نفسیات، طبیعات، فلکیات، بشریات،حیاتیات، ریاضیات، عسکریات وغیرہ وغیرہ کتنے ہی تکوینی اعتبارات ہیں، جو مغرب نے تکوینی زندگی کے عصری تناظر میں منکشف کیے ہیں۔ اُمہ کے ہاں فکری سطح پر تکوینی زندگی سے بے توجہی اور اس کی واقعیت کی کمی کا ازالہ (فی الواقعی) انھی مغربی انکشافات سے ہو ا ہے۔ لیکن اُمہ احسان مند اور شکر گزار ہونے کے بجائے نظری طور پر ان مغربی اکتشافاتِ جدیدہ کی ناقد ہے اور منافقت سے کام لیتے ہوئے عملی طور پر ان سے استفادہ بھی کر رہی ہے، ...... کہ تکوینی زندگی کی واقعیت سے فرار ممکن ہی نہیں ہے۔
امتِ مسلمہ کا فکری بحران اس منافقانہ طرزِ عمل سے دو چند ہوا ہے۔ آج ایک طرف مغربی اکتشافات کو (مجبوراً) تشریعی ضابطے میں لانے کی کوشش سے، دین کا انسان اور سماج سے رشتہ بحال ہو رہا ہے، کیونکہ اکتشافاتِ جدیدہ، زندگی کی واقعیت کے عکاس ہونے کے ناتے انسان اور سماج کے ساتھ مضبوطی سے جڑے ہوئے ہیں، اور یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ دین، انسان و سماج کی واقعیت کو مخاطب کیے بغیر اثر و نفوذ نہیں پا سکتا۔ لیکن دوسری طرف اکتشافاتِ جدیدہ کی مستعار واقعیت کو (فکری سطح پر غیر ضروری گردانتے ہوئے) رواج دینے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جارہی، بلکہ دینی علوم کے نام پر فرسودگی کی تعلیم دی جا رہی ہے۔
(۱۷)
واقعہ یہ ہے کہ آج کے عالم گیریت (Globalization) کے ماحول میں ، آہستہ روی کے ساتھ اور انتہائی غیر محسوس طور پر ایک بہت بڑا مظہر تشکیل پا رہا ہے۔ اس کا نام ہماری مروج اصطلاح میں ’’فقہ‘‘ ہے۔ اب ایک نئی فقہ کا ظہور ہو رہا ہے۔ اس فقہ کے بھی متروک فقہ کے مانند دو بڑے عناصر ترکیبی ہیں، تشریعی اور تکوینی۔ تشریعی عنصر اُمہ کے پاس ہے اور تکوینی عنصر مغرب کے پاس۔ کیونکہ زندگی کے تکوینی اعتبارات و حقائق سے منہ نہیں موڑا جا سکتا، اس لیے اُمہ زیریں سطح پر مغربی اکتشافات سے (بالفعل) مستفید ہو رہی ہے اور ایک ایسی نئی فقہ ترتیب دے رہی ہے جو مناسبِ حال بھی ہے اور مقاصدِ شریعہ سے ہم آہنگ بھی۔ کیونکہ رب، رب العالمین ہے اور قرآن، ذکر ہے عالمین کے لیے، اور نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم، رحمت ہیں عالمین کے لیے، اس لیے مغرب بھی اپنے تکوینی اکتشافات کو کسی اعلیٰ اخلاقی دائرے میں لانے کی غرض سے (بالفعل) شریعت اسلامیہ کی طرف رجوع کر رہا ہے، جس سے ایسی فقہ ظہور پا رہی ہے جو اپنے ظاہر میں سیکولر ہے لیکن مقاصدِ شریعہ سے کافی حد تک ہم آہنگ ہے۔ 
اس کا مطلب یہ ہوا کہ امتِ مسلمہ اور اہلِ مغرب ایک دوسرے سے بالفعل مستفید ہو رہے ہیں۔ بلکہ دیکھا جائے تو اُمہ ہی مغرب سے عملی فائدہ اٹھا رہی ہے، کیونکہ زندگی کے تکوینی اعتبارات و حقائق انسان کی دست رس میں ہیں، انھیں انسان نے اپنی کاوشوں سے منکشف کرنا ہوتا ہے، اُمہ یہ کام خود کرنے کے بجائے مستعار اکتشافاتِ جدیدہ پر انحصار کر رہی ہے، یعنی مغرب کی محنت و کاوش سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔ جبکہ دوسری طرف اگر مغرب کسی اعلیٰ اخلاقی دائرے کا متلاشی ہے اور شریعتِ اسلامیہ اس کی یہ ضرورت پوری کر رہی ہے تو اہلِ مغرب حقیقت میں امتِ مسلمہ سے فائدہ نہیں اٹھا رہے بلکہ قرآن و سنت کی عالم گیر حیثیت سے فیض پا رہے ہیں۔ 
دل چسپ اور لطیف نکتہ تو یہ ہے کہ نئی فقہ کے دونوں عناصر ترکیبی عالم گیر نوعیت کے ہیں۔ اگر قرآن و سنت آفاقی ہیں تو زندگی کی واقعیت کے مظاہر بھی آفاقی اور تمام انسانیت کا مشترکہ ورثہ قرار پائے ہیں۔ ایک دَور میں زندگی کی واقعیت، تکینکی پس ماندگی کی وجہ سے مقامیت کی حامل تھی۔ یعنی، کسی خاص انسانی گروہ یا قوم کی محنت سے حاصل کیے گئے اکتشافات وغیرہ تقریباً اُسی تک محدود رہتے تھے۔ لیکن پچھلے چند عشروں میں تکنیکی ترقی نے مکان (space) کو برق رفتاری سے اضافی بنا دیا ہے، جس کی وجہ سے اکتشافاتِ جدیدہ کی برکات مغرب تک محدود نہیں رہیں۔ لہذا اب ایک آفاقی شریعت کے متوازی آفاقی اکتشافات موجود ہیں، جنھیں آفاقی اذہان کے مالک اصولیین ہی آفاقی فقہ دے سکتے ہیں۔ 
(۱۸)
اب تک کے مباحث سے یہ واضح ہو گیا کہ اُمت کے فکری بحران کے باوجود، زندگی جاگ رہی ہے اور آگے بڑھ رہی ہے۔ اُمت بحیثیت مجموعی، طوعاً و کرہاً زندگی کے تشریعی اور تکوینی پہلوؤں کی آفاقیت کے پہلو بہ پہلو چلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہم دردی کے نام پر اُمت کی سست روی کو مزید سست کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ یہ کام وہ لوگ کر رہے ہیں جو واقعی اُمت کے ہم درد ہیں۔ آج دنیا بھر کی دینی جامعات میں شریعت کے نام پر قرآن ، سنت اور فقہی کلیات کی تعلیم دی جارہی ہے۔ حالاں کہ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ شریعت کے صرف اور صرف دو عناصر، قرآن اور سنت ہیں۔ شریعت میں ایک تیسرے خارجی عنصر یعنی فقہی کلیات کی شمولیت کے پیچھے شان دار ماضی کا کبیر بیانیہ (grand narrative of past glory) کارفرما ہے۔ دینی جامعات میں اس کبیر بیانیے کی گھن گرج جاری ہے جس کے نتیجے میں عصریات سے مجرمانہ غفلت برتتے ہوئے، فقہی کلیات کے تناظر میں قرآن و سنت کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ اسے اجتہاد کہا جاتا ہے۔ 
آہستہ روی سے ظہور پذیر نئی آفاقی فقہ کے مقابل، متروک فقہ کے حاملین کے بڑے بڑے گروہ دینی جامعات سے نکل رہے ہیں۔ ان گروہوں کی بقا، نئی آفاقی فقہ کی فنا میں پوشیدہ ہے۔ لیکن زمانہ گواہ ہے کہ ٹھہرنے والے ہی بالآخر فنا ہوتے ہیں اور جیسے تیسے قافلے کی ہم سفری اختیار کرنے والے منزلِ مقصود پر جا پہنچتے ہیں۔ اس لیے دینی جامعات کے کار پردازوں کو اس بنیادی حقیقت سے آگاہ ہونا چاہیے کہ فقہ اور وہ بھی متروک فقہ، سماجیات سیاسیات معاشیات نفسیات حیاتیات فلکیات وغیرہ کے ماہرین پیدا نہیں کر سکتی۔ البتہ قانون کے ماہرین مہیا کر دیتی ہے۔ تو کیا اُمت کے ان ہم دردوں کے نزدیک قانون کے ماہرین باقی شعبہ ہائے زندگی کی کفایت کر دیتے ہیں؟ المیہ تو یہ ہے کہ یہ قانون بھی الفاظ و مباحث تک محدود ہے کیونکہ عصریات سے کوسوں دور ہے۔ دینی جامعات کے فارغ التحصیل کتنے فی صد ’’وکلا‘‘ ریاستی عدالتوں میں پریکٹس کرتے ہیں؟ اگر دینی جامعات کا حاصل صرف وکلا ہیں اور پھر ایسے وکلا جنھیں پریکٹس کا کبھی موقع ہی نہیں ملتا ، تو پھر دینی جامعات آخر کس قسم کی سماجی خدمات سر انجام دے رہی ہیں؟ بس، مساجد اور جنازہ گاہوں کے امام ہی مہیا کررہی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سماجی اور ریاستی حوالے سے دینی جامعات کا دائرہ کار مسلسل محدود ہو رہا ہے۔ البتہ ریاست اپنے سیاسی مقاصد کے لیے انھیں اٹھائے پھرے تو الگ بات ہے ورنہ مستقبل قریب میں ان کی حیثیت میوزیم سے بڑھ کر نہیں رہے گی۔
(۱۹)
اختتامی کلمات کی طرف بڑھتے ہوئے ہم گزارش کریں گے کہ امت کے فکری بحران کے پیچھے شان دار ماضی کا ایسا بیانیہ موجود ہے جس نے فقہ کو جامع العلوم کے سنگھاسن پر براجمان کر رکھا ہے، حالاں کہ فقہ اصل میں فن ہے جو مختلف علوم اور شعبوں سے معاملہ کرتا ہے۔ چونکہ یہ فن تقریباً ہر علم اور ہر شعبہ سے معاملہ کرتا ہے، اس لیے اسے غلطی سے علم ہی نہیں بلکہ مخزن العلوم سمجھ لیا گیا ہے۔ ذرا غور کیجیے کہ جب فقہ کا حقیقی منصب مختلف علوم اور شعبوں سے معاملہ کرنا ہے تو اس کا لازمی مطلب یہ ہوا کہ مختلف علوم اور شعبے موجود ہونے چاہییں، تبھی تو فقہ معاملہ کر سکے گا۔ یعنی مواد (material) موجود ہو گا تواسے منضبط (disciplined)کرنا بہت مشکل یا نا ممکن نہیں رہے گا، لیکن خالی خولی انصرام و انضباط (discipline) میں سے مواد (material) نکالنا تو محال ہے۔ 
اس دَورِ زوال میں، اُمت کے ہم دردوں نے شان دار ماضی کے کبیر بیانیے سے شہ پا کر ایک مقبولِ عام جملے کو جنم دیا ہے کہ ’’اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے‘‘۔ واقعہ یہ ہے کہ اس جملے کے پیچھے بھی، فقہ کی تمام شعبہ ہائے زندگی سے معاملہ کرنے کی صلاحیت کارفرما ہے، اس لیے اُمت کے ہم دردوں سے ہم دردی کرتے ہوئے ہم یہ کہنے کی جسارت کریں گے کہ حیات (زندگی کے تکوینی اعتبارات و حقائق اور واقعیت) برق رفتاری سے بہت آگے نکل گئی ہے اور ضابطہ کہیں دُور بہت پیچھے گردِ راہ میں گم ہو گیا ہے۔ حیات کی ہم سفری کے لیے ضابطے کو تیزی سے اس کے تعاقب میں جانا ہو گا۔ لیکن خیال رہے کہ شان دار ماضی کے کبیر بیانیے کو revisit کیے بغیر یہ تعاقب بہت بوجھل اور تھکا دینے والا ثابت ہو گا۔

مولانا عبد القیوم ہزارویؒ / مولانا قاری عبد الحئ عابدؒ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مولانا عبد القیوم ہزارویؒ 

۷ فروری کو نمازِ مغرب کے بعد مری کے قریب ایک تعلیمی مرکز میں دوستوں کے ساتھ بیٹھا ان کی فرمائش پر اپنے دورِ طالب علمی کے کچھ واقعات کا تذکرہ کر رہا تھا اور استاذِ محترم حضرت عبد القیوم ہزارویؒ کا تذکرہ زبان پر تھا۔ میں دوستوں کو بتا رہا تھا کہ جن اساتذہ سے میں نے سب سے زیادہ پڑھا اوربہت کچھ سیکھا ہے، ان میں حضرت والد مکرم مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ کے بعد تیسرے بڑے استاذ حضرت مولانا عبد القیوم ہزارویؒ ہیں اور اس حوالے سے یہ عرض کر رہا تھا کہ میری ذہن سازی اور تربیت میں مسلک کے دائرے میں حضرت والدِ محترمؒ اور فکری محاذ پر حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ اور حضرت مولانا عبد القیوم ہزارویؒ کا اثر سب سے زیادہ ہے۔ میں ابھی یہ بات کر ہی رہا تھا کہ مجلس میں موجود ایک دوست کے موبائل فون کی بیل بجنے لگی وہ اٹھ کر باہر گئے اور واپس آکر بتایا کہ استاذِ محترم مولانا عبد القیوم ہزارویؒ کا انتقال ہوگیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
حضرت مولانا عبد القیوم ہزارویؒ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے آغاز سے ہی حضرت صوفی صاحبؒ کے رفیقِ کار تھے اور ہمارے طالب علمی کے دور میں حضرات شیخینؒ کے ساتھ وہ تیسرے بڑے استاذ کا درجہ رکھتے تھے۔ انہوں نے چار عشروں سے زیادہ عرصہ تک مسلسل نصرۃ العلوم میں تدریسی خدمات سر انجام دیں۔ میں نے زرّادی اور زنجانی سے لے کر دورۂ حدیث میں ابو داؤد شریف تک مختلف فنون کی بہت سی کتابیں ان سے پڑھی ہیں۔ معقولات کے اونچے درجے کے اساتذہ میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ مزاج کے سخت تھے اور عبارت وغیرہ میں نرمی اور کمزوری برداشت نہیں کرتے تھے، اس لیے ان کے سبق میں خاصی تیاری کر کے بیٹھنا پڑتا تھا۔ ابتدا میں ان کا طرز اَنّھی والے استاذ حضرت مولانا ولی اللہ صاحب نور اللہ مرقدہ والا ہوتا تھا۔ طالب علم کو خود مطالعہ کر کے اور سبق حل کر کے آنا ہوتا تھا۔ استاذ صرف سنتے تھے اور اگر کوئی بات ضروری ہوتی تو وضاحت کر دیتے تھے۔ میں نے نور الانوار سمیت بہت سی کتابیں اس طرز پر ان سے پڑھی ہیں۔ وہ کتاب پڑھانے کے ساتھ ساتھ طلبہ کی ذہن سازی کی طرف بھی خصوصی توجہ دیتے تھے۔ سیاسی طور پر حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ سے زیادہ قریب تھے اور زندگی بھر اسی فکر پر رہے۔ دینی اور روحانی حوالہ سے شیرانوالہ لاہور اور حضرت درخواستیؒ کے ساتھ گہری عقیدت رکھتے تھے۔ حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ کے ساتھ ان کی اکثر و بیشتر معاملات میں ذہنی ہم آہنگی ہوتی تھی۔ ایک دور میں مجلس احرار اسلام اور مجلس تحفظ ختم نبوت میں عملی طور پر متحرک رہے۔ جمعیۃ علماء اسلام کی تنظیم نو میں شریک تھے اور ایک مرحلہ میں شہر کے امیر بھی رہے ہیں۔
صدر ایوب خان مرحوم کے دور میں ان کی آمریت کے خلاف عوامی جدوجہد اور ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب کی فکری بے روی کے خلاف جمعیۃ علماء اسلام کی تحریک میں سرگرم کردار ادا کیا۔ متحدہ حزب اختلاف کے زیر اہتمام شیرانوالہ باغ میں ہونے والے اس عوامی جلسہ کی صدارت انہوں نے ہی کی تھی جس پر پولیس نے پہلے آنسو گیس پھینکی اور پھر فائرنگ کی تھی۔ اس فائرنگ میں غالباً دو نوجوان شہید ہوئے تھے اور گوجرانوالہ ایوبی آمریت کے خلاف عوامی تحریک کا اہم مرکز بن گیا تھا۔ یحییٰ خان کے مارشل لاء کے آغاز میں انہوں نے مسجد فاروقیہ پونڈانوالہ میں خطبۂ جمعہ کے دوران قادیانیوں کی تردید کی جس کے نتیجے میں وہ مارشل لاء کے تحت گرفتار ہوئے۔ اس کے علاوہ تحریک ختم نبوت کے دوران بھی گرفتار ہوئے اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ قادیانیوں کے خلاف تحریک میں وہ اس دور میں پورے جوش و جذبہ کے ساتھ سرگرم حصہ لیتے رہے جس دور میں کسی خطبہ یا تقریر میں قادیانیوں کا نام لینا بھی قانونی جرم سمجھا جاتا تھا اور اس پر مقدمہ درج ہو جایا کرتا تھا۔ 
استاذِ محترمؒ جامع مسجد فاروقیہ پونڈانوالہ کے ایک عرصہ تک خطیب رہے ہیں اور ان کے دور میں یہ مسجد مسلکی مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ تحریک ختم نبوت اور دیگر دینی تحریکات کا بھی مورچہ ہوتی تھی۔ صدر یحییٰ خان کے مارشل لاء میں خطبہ جمعۃ المبارک کے دوران قادیانیوں کے خلاف تقریر کے بعد وہ گرفتارر ہوگئے تو حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ نے مجھے طلب فرمایا کہ مولانا عبد القیومؒ گرفتار ہوگئے ہیں۔ اب اگر اگلے جمعہ پر اس مسجد میں قادیانیوں کے بارے میں کوئی بات نہ ہوئی تو اسے ہماری کمزوری سمجھا جائے گا اور اگر تقریر کرنے کے بعد دوسرا خطیب بھی گرفتار ہوگیا تو یہ سلسلہ تحریک کی صورت اختیار کر سکتا ہے جس کا ابھی موقع مناسب نہیں ہے۔ اس لیے یہ جمعہ مسجد فاروقیہ میں تم نے پڑھانا ہے، اس طرح کہ ختم نبوت پر بات بھی پوری ہو اور گرفتاری کی صورت بھی نہ بنے۔ میں اس وقت نصرۃ العلوم میں غالباً موقوف علیہ کے درجہ کا طالب علم تھا۔ حضرت مفتی صاحبؒ کے حکم پر میں نے یہ ذمہ داری قبول کر لی اور میں اسے حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ کی چند صحبتوں کا فیضان سمجھتا ہوں کہ عقیدۂ ختم نبوت پر ایک گھنٹہ خطاب کے باوجود گرفتاری سے محفوظ رہا۔ سی آئی ڈی میں ہمارے ایک دوست سید مہتاب علی شاہ مرحوم ہوتے تھے۔ انہوں نے بعد میں ایک موقع پر بتایا کہ محکمہ پولیس کے مقدمات کے انچارج پی ڈی ایس پی نے تین مرتبہ ٹیپ ریکارڈر سے آپ کی تقریر سنی ہے، لیکن وہ کوئی ایسی بات تلاش نہیں کر سکے جسے مقدمہ کی بنیاد بنایا جا سکے۔ یہ بات میں نے تحدیث نعمت کے لیے عرض کی ہے اور یہ بات بتانے کے لیے لکھی ہے کہ ہمارے بزرگ بالخصوص حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ ہمیں اس بات کی تلقین کرتے تھے اور تربیت دیا کرتے تھے کہ اپنی بات صحیح طریقہ سے پوری بیان کرنا تو ضروری ہے، لیکن پکڑے جانا ضروری نہیں ہے۔
عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ، ملک میں نفاذِ شریعت اور دیوبندی مسلک کے فروغ و تحفظ میں حضرت مولانا عبد القیوم ہزارویؒ اس دور میں ہمارے لیے راہ نما اور رہبر کی حیثیت رکھتے تھے اور میری سیاسی و تحریکی زندگی کا آغاز ان کی انگلی پکڑ کر ہوا تھا۔ بعد میں جمعیۃ علماء اسلام کی بعض پالیسیوں سے اختلاف کی وجہ سے جن کا اظہار وہ کھلم کھلا کرتے تھے، وہ رفتہ رفتہ پیچھے ہٹتے گئے جبکہ میری پیش رفت جاری رہی۔ وہ مجھے بھی سمجھایا کرتے تھے اور کبھی کبھی ناراض بھی ہو جاتے تھے جسے میں ان کا بزرگانہ حق سمجھ کر خاموشی کے ساتھ سن لیا کرتا تھا۔ مجھے مزاج اور ڈیلنگ کے حوالے سے بہت نرم سمجھا جاتا ہے اور کسی حد تک میں ہوں بھی، لیکن موقف اور پالیسی کے معاملہ میں ہمیشہ بے لچک رہا ہوں۔ سنتا سب کی ہوں مگر کرتا وہی ہوں جسے صحیح اور مناسب سمجھتا ہوں اور اسے بھی استاذِ محترم حضرت مولانا عبد القیوم ہزارویؒ کے فیض کا حصہ سمجھتا ہوں۔ کافی عرصہ سے علیل تھے، لیکن اس کے باوجود جامعہ محمدیہ چائنہ چوک اسلام آباد میں شیخ الحدیث کی حیثیت سے کئی سال تک انہوں نے تدریسی خدمات سر انجام دی ہیں۔ وہاں کئی بار ان کی خدمت میں حاضری کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ گزشتہ سال رمضان المبارک سے قبل مانسہرہ کے ایک سفر کے دوران تمبرکھولا حاضری ہوئی۔ ملاقات و زیارت کے ساتھ ساتھ ان کی دُعا اور شفقت سے بھی شاد کام ہوا۔ آج وہ ہم سے رخصت ہوگئے ہیں، لیکن ان کا فیض اور یادیں ہمیشہ زندہ رہیں گی اور ان کے صدقات جاریہ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ اور جامعہ محمدیہ اسلام آباد کے علاوہ ان کے ہزاروں شاگردوں کی صورت میں ان کے ذخیرۂ آخرت میں اضافے کا ذریعہ بنتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں اور پسماندگان کو صبر و حوصلہ کے ساتھ اس صدمہ سے عہدہ برآ ہونے کی توفیق دیں۔ آمین یا رب العالمین۔ 

مولانا قاری عبد الحئ عابدؒ 

حضرت مولانا قاری عبد الحئی عابدؒ طویل علالت کے بعد گزشتہ دنوں انتقال کر گئے ہیں اور اپنے ہزاروں سامعین، دوستوں اور عقیدت مندوں کو سوگوار چھوڑ گئے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ قاری صاحب محترمؒ اپنے وقت کے ایک بڑے خطیب حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ کے چھوٹے بھائی تھے اور خود بھی ایک بڑے خطیب تھے۔ ان دونوں بھائیوں نے کم و بیش نصف صدی تک پاکستان میں اپنی خطابت کا سکہ جمایا ہے اور صرف سامعین میں اپنا وسیع حلقہ قائم نہیں کیا بلکہ خطیب گر کے طور پر بیسیوں خطباء کو بھی اپنی لائن پر چلایا ہے۔
دونوں بھائیوں کا خطابت و وعظ کا اپنا منفرد انداز تھا اور ان کے دورِ عروج میں ہزاروں سامعین ان کے خطابات سننے کے لیے دور دراز سے جمع ہوا کرتے تھے، اکابر علماء دیوبند کا والہانہ انداز میں تذکرہ، توحید و سنت کا پرچار، عظمت صحابہ کرامؓ کا تذکرہ اور شرعت و بدعات کی مخصوص لہجے میں تردید و ابطال ان کی خطابت و وعظ کے سب سے نمایاں پہلو تھے۔
حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ وعظ و خطابت کے ساتھ ساتھ تحریکی ذوق بھی رکھتے تھے اور بہت سی دینی تحریکات میں انہوں نے سرگرم اور بھرپور کردار ادا کیا ہے جبکہ مولانا قاری عبد الحئی عابدؒ خطابت و وعظ کے ساتھ اصلاح و سلوک کے ذوق سے بہرہ ور تھے، ان کا روحانی تعلق شیرانوالہ لاہور سے تھا، ہمارے شیخ حضرت مولانا عبید اللہ انور قدس اللہ سرہ العزیز کے مجازین میں شامل تھے، اپنے عوامی خطابات میں ذکر خداوندی کی تلقین اور اس کا ورد عام طور پر کیا کرتے تھے اور اپنے سلسلہ کے سالانہ روحانی اجتماع کا بھی اہتمام کرتے تھے، دینی اور مسلکی حمیت میں اپنے بہت سے معاصرین میں ممتاز تھے اور دین و مسلک کے لیے ایثار و قربانی کا ہر موقع پر عملاً اظہار کرتے تھے۔
مجھے یاد نہیں کہ دونوں بھائیوں میں سے پہلے کس کی تقریر میں نے سنی ہے لیکن اتنا یاد ہے کہ طالب علمی کے دور میں ان کی بیسیوں تقریریں سن چکا تھا۔ پھر عملی زندگی میں ان کے ساتھ چار عشروں سے زیادہ عرصے تک رفاقت رہی ہے۔ مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ کا دو حوالوں سے میری جماعتی و تحریکی زندگی میں گہرا دخل ہے، جمعیۃ علماء اسلام میں ضلعی سطح پر میں طالب علمی کے دور میں ہی متحرک تھا اور ضلعی سیکرٹری اطلاعات کے طور پر کام کرتا تھا، مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ جب جمعیۃ علماء اسلام پنجاب کے سیکرٹری جنرل چنے گئے تو انہوں نے مجھے صوبائی سیکرٹری اطلاعات کے طور پر اپنی ٹیم میں شامل کیا اور میری جماعتی سرگرمیوں کا دائرہ پورے صوبے تک وسیع ہوگیا۔ جبکہ ۱۹۸۵ء کے دوران لندن میں منعقد ہونے والی پہلی سالانہ بین الاقوامی ختم نبوت کانفرنس میں میری شرکت کے پہلے محرک وہ تھے اور انہی کی ترغیب اور تحریک پر میں نے اس کانفرنس کے لیے لندن کا پہلا سفر کیا تھا۔ مولانا قاری عبد الحئی عابدؒ کے ساتھ میرا رابطہ شیرانوالہ لاہور کے حوالہ سے زیادہ تھا کہ میں بھی اسی روحانی مرکز سے وابستہ تھا اور حضرت الشیخ مولانا محمد عبید اللہ انور قدس اللہ سرہ العزیز کی محافل میں ہماری شرکت و رفاقت رہتی تھی۔
مولانا قاری عبد الحئی عابدؒ کچھ عرصہ مجلس احرار اسلام میں شامل رہے ہیں اور احرار راہ نماؤں کے ساتھ دینی تحریکات میں شریک کار رہے ہیں۔ حضرت والد مکرم مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے ساتھ دونوں بھائیوں کا گہرا تعلق تھا اور حضرت والد مکرمؒ بھی ان کی دینی سرگرمیوں اور خدمات کو سراہتے تھے۔ گکھڑ میں حضرت والد محترمؒ کی مسجد میں متعدد بار حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ اور حضرت مولانا قاری عبد الحئی عابدؒ نے دینی اجتماعات سے خطاب کیا ہے اور جس دور میں مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ جامعہ قاسمیہ فیصل آباد میں شعبان المعظم اور رمضان المبارک کے دوران علماء کرام کے لیے تربیتی کورس کا اہتمام کرتے تھے کئی سال تک حضرت والد محترمؒ علماء کرام کو مختلف مسائل کی تحقیق پڑھانے کے لیے فیصل آباد تشریف لے جاتے رہے ہیں۔ دونوں بھائی وقتاً فوقتاً گکھڑ آتے اور ملاقات کے ساتھ ساتھ مختلف مسائل میں حضرت والد محترمؒ سے مشورہ اور راہ نمائی حاصل کرتے تھے۔
دونوں بھائیوں کی خطابت کا انداز کم و بیش یکساں تھا البتہ مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ کی خطابت میں تحریکی گھن گرج کا پہلو نمایاں ہوتا تھا جبکہ قاری صاحبؒ حضرت سلطان باہوؒ اور حضرت بابا فریدؒ کا کلام مخصوص لہجے اور ترنم کے ساتھ پڑھنے کا ذوق زیادہ رکھتے تھے اور سامعین ان کی خطابت کے ساتھ ساتھ نعت و شعر کے ذوق اور ترنم سے محظوظ ہوا کرتے تھے۔ برطانیہ کے مختلف اسفار میں حضرت قاری صاحبؒ کے ساتھ میری رفاقت رہی ہے، وہاں بھی ان کے سامعین اور عقیدت مندوں کا بڑا حلقہ ہے جو بطور خاص انہیں سننے کے لیے جلسوں میں آیا کرتا تھا۔ دوست بنانے اور دوستی نبھانے کا ذوق دونوں بھائیوں میں بھرپور تھا جبکہ قاسمی صاحبؒ دوست نوازی اور دوستوں کو آگے بڑھانے میں ممتاز مقام رکھتے تھے۔
مجھے قاسمی صاحب محترمؒ کا وہ جملہ اکثر یاد آتا ہے جو میری تمام دینی حلقوں اور جماعتوں کے ساتھ یکساں رابطہ رکھنے کی کوشش کو دیکھ کر ’’رانجھا سب دا سانجھا‘‘ کہہ کر داد دیا کرتے تھے اور قاری صاحبؒ کا یہ دعائیہ جملہ مجھے نہیں بھولتا جو وہ کم و بیش ہر دوست کے لیے کہا کرتے تھے ’’جتھے پیر اوتھے خیر‘‘ (یعنی جہاں بھی قدم پڑے وہاں خیر ہو)۔ اللہ تعالیٰ دونوں بھائیوں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں اور ان کے پسماندگان کو ان کی روایات کا تسلسل جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔

مکاتیب

ادارہ

(۱)
محترم مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم
امید ہے خیریت سے ہوں گے۔ پچھلے چند سالوں سے الشریعہ زیر مطالعہ ہے۔ تقلید جامد اور علمی وفکری جمود کے دور عروج میں آپ کا رسالہ تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند ہے۔ علمی وفکری موضوعات پرمختلف بلکہ متضاد آرا کا سامنے آنا اس دور میں بہت غنیمت ہے۔
فروری ۲۰۱۳ء کے شمارے میں کلمہ حق میں آپ کی تحریر ’’میڈیا کا محاذ اور ہماری ذمہ داریاں‘‘ نظر سے گزری۔ اس حوالے سے چند گزارشات/ سوالات پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں: 
’’حالت امن اور حالت جنگ کے قوانین میں فرق ہوتا ہے، بہت سی باتیں جو حالت امن میں درست نہیں ہوتیں مگر حالت جنگ میں انہیں مجبورًا اختیار کرنا پڑتا ہے۔ ایک شخص محاذ جنگ پر دشمن کے سامنے کھڑا ہے تو اسے یہ دیکھنا ہے کہ دشمن کے ہاتھ میں کون سا ہتھیار ہے اور وہ اس کے مقابلہ میں کون سا ہتھیار اختیار کر کے دشمن کو زیر کر سکتا ہے، اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ اس کی مثال عرض کروں گا کہ ایٹم بم کو اسلام کی جنگی اخلاقیات کی رو سے ایک جائز ہتھیار قرار نہیں دیا جا سکتا، اس لیے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ اور جہاد کے جو تقاضے اور دائرے بیان فرمائے ہیں کہ عورت کو قتل نہیں کرنا، بوڑھے کو قتل نہیں کرنا، غیر متعلقہ شخص کو قتل نہیں کرنا، بچے کو قتل نہیں کرنا اور دشمن کے اموال اور ملکیتوں کو بلا وجہ نقصان نہیں پہنچانا وغیرہ۔ ایٹم بم کے استعمال میں ان میں سے کسی بات کا لحاظ نہیں رکھا جا سکتا، اس لیے میری طالب علمانہ رائے میں اگر جنگ میں اسلامی اخلاقیات کا لحاظ رکھا جائے تو ایٹم بم ایک جائز ہتھیار نہیں ہے، لیکن ہم سب ایٹم بم کے بنانے پر زور دیتے ہیں اور ہم نے ایٹمی صلاحیت حاصل کی ہے اس لیے کہ جب دشمن کے پاس یہ ہتھیار موجود ہے تو ہمارے پاس اس کا موجود ہونا ضروری ہے ورنہ ہم دشمن سے مار کھا جائیں گے۔ اسے اضطراری حالت کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح حالتِ اضطرار میں جان بچانے کے لیے حرام کھانا جائز ہوجاتا ہے اسی طرح حالت جنگ میں جان بچانے کے لیے ایسے ہتھیار کا استعمال جائز بلکہ ضروری ہو جاتا ہے جو اسلامی اصولوں کی رو سے شاید جائز ہتھیار نہ ہو۔‘‘
اس تحریر کو پڑھ کر میرے جیسا ایک عامی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اگر دین اسلام کی بیان کردہ انتہائی ’فطری‘، ’صریح‘، ’بدیہی‘ اور ’دائمی‘ اخلاقی تعلیمات آج کے دور میں ناقابل عمل قرار پاتی ہیں اور حالت جنگ میں قطعی ممنوع قرار دی جانے والی حرکات ’اضطرار‘ کے نام پر نہ صرف جائز بلکہ ’ضروری‘ ٹھہرتی ہیں تو پھر دین کے وہ کون سے ممنوعات اور حرام کام ہیں جن کو اسی دلیل سے جائز اور ضروری قرار نہیں دیا جا سکتا؟
سیدھی سی بات ہے کہ اگر دین کی کچھ تعلیمات حالت جنگ کے لیے دی گئی ہیں، جیسے عورت کو قتل نہیں کرنا، بوڑھے کو قتل نہیں کرنا، غیر متعلقہ شخص کو قتل نہیں کرنا، بچے کو قتل نہیں کرنا اور دشمن کے اموال اور ملکیتوں کو بلاوجہ نقصان نہیں پہنچانا وغیرہ تو ان کو اس دلیل سے آخر کیسے اضطراری بلکہ ضروری ٹھہرایا جا سکتا ہے کہ ’حالت امن اور حالت جنگ میں فرق ہو تا ہے‘ اور ’بہت سی باتیں جو حالت امن میں درست نہیں ہوتیں، مگر حالت جنگ میں انھیں مجبوراً اختیار کرنا پڑتا ہے۔‘ جب یہ ہدایات اور قوانین دیے ہی حالت جنگ سے متعلق گئے ہیں تو ظاہر ہے ان پر عمل کا دائرہ ہے ہی حالت جنگ۔ اگر تو یہ ہدایات حالت امن میں عمل کرنے کی دی گئی ہوتیں تو پھر بھی کسی حیلے بہانے سے اضطرار کے نام پر حالت جنگ میں استثنا نکالنے کا جواز پیدا ہو سکتا تھا، مگر حالت جنگ ہی کے لیے دیے گئے احکام کو حالت جنگ ہی کے لیے دیے گئے احکام کو حالت جنگ ہی کے لیے کس طرح اضطراری ٹھہرایا جا سکتا ہے؟
پھر جب خود آپ کی طالب علمانہ رائے میں ’اگر جنگ میں اسلامی اخلاقیات کا لحاظ رکھا جائے تو ایٹم بم ایک جائز ہتھیار نہیں ہے‘ تو کیا اس ناجائز ہتھیار کو صرف ان دلائل سے جائز اور ضروری قرار دیا جا سکتا ہے کہ ’اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکے گا‘ اور ’ہم سب ایٹم بم بنانے پر زور دیتے ہیں‘ اور’ہم نے ایٹمی صلاحیت حاصل کی ہے‘ اور ’جب دشمن کے پاس یہ ہتھیار موجود ہے تو ہمارے پاس اس کاموجود ہونا ضروری ہے‘۔ اگر ان’’عقل عام‘‘ پر مبنی دلائل کی بنیاد پر ایٹم بم جیسے اسلامی اخلاقیات کی رو سے قطعی ناجائز ہتھیار کو جائز اور ضروری ٹھہرایا جا سکتا ہے تو پھر نہ صرف حالت جنگ بلکہ حالت امن میں بھی وہ کون سا عمل، ترکیب، چال اور مکر وفرویب ہے جن کو انھی یا ان جیسے دوسرے دلائل کی رو سے جائز اور قرار نہیں دیا جا سکتا؟ پھر تو ایٹم بم ہی کیا، خود کش دھماکے، بم دھماکے، اغوا برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ، اپنی رائے سے اختلاف کرنے والے ہر فرد کا قتل وغیرہ وغیرہ ہر چیز جائز اور ضروری قرار دی جا سکتی ہے، بلکہ آپ اور ہم جانتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جائز اور ضروری قرار بھی دی جا چکی ہیں اور ہم عملاً ’جہاد‘، ’دفاع‘ اور ’ردعمل‘ کے نام پر عرصے سے یہ سب کچھ دیکھ اور بھگت رہے ہیں۔
اگر دشمن کا کسی ہتھیار یا چال کو استعمال کرنا ہمارے لیے بھی اس کے استعمال کو جائز بلکہ ضروری ٹھہرا سکتا ہے تو کیا دشمن اگر جنگ کے موقع پر عورتوں کی اجتماعی عصمت دری کو ایک جنگی ہتھیار کے طورپر استعمال کرے، جیسا کہ جنگوں میں یہ ایک معمول رہا ہے، تو کیا ہمارے لیے بھی یہ عمل جائز اور ضروری قرار پا سکتا ہے؟ اگر دشمن اپنے فوجیوں کی ’رفع حاجت‘ کے لیے انھیں طوائفیں مہیا کرے، جیسا کہ معمول ہے، تو کیا ہمارے لیے بھی جائز اور ضروری ہو سکتا ہے کہ ہم بھی اپنے فوجیوں کے لیے ایسا ہی کریں؟ علیٰ ہذا القیاس۔
مزید برآں،آپ کا جو اصل موضوع تھا یعنی ’میڈیا کا محاذ‘ کیا اس میں ایسا ہوسکتا ہے کہ اگر دشمن اس محاذ کو جس طرح چاہے ، تمام اخلاقی تعلیمات اور حدود سے ماورا ہوکر استعمال کرے، جیسا کہ معمول ہے ، تو کیا ہم بھی ’اضطرار‘ کے نام پر جھوٹے پروپیگنڈے، فحاشی و عریانی ، لایعنی و منفی تفریح وغیرہ کے لیے جیسے چاہیں میڈیا کو استعمال کریں؟ یا ہمیں بہرحال دشمن سے بے نیاز ہوکر دین کی بتائی ہوئی تعلیمات اور حدود کا پابند رہنا ہوگا؟ میں انتہائی معذرت کے ساتھ اپنے آپ کو یہ کہنے پر مجبور پاتا ہوں کہ آپ کی اس تحریر سے مجھ جیسے ایک عامی کو یہ تاثر ملتا ہے کہ ہمارے دین کی بعض بنیادی تعلیمات بھی ایسی ہیں جو آج کہ دور میں قطعی ناقابل عمل ہیں اور اگر ان پر عمل کے لیے اصرار کیا جائے تو نہ صرف انفرادی سطح پر بلکہ اجتماعی اور قومی سطح پر بھی ہمارا زندہ رہنا مشکل ہے اور اگر ہم ان تعلیمات پر عمل کرنے لگیں تو دشمن سے مار کھا جائیں گے۔ آپ کی یہ تحریر صاف صاف اس بات کا اعلان ہے کہ ہم آج کے دور میں شریعت کی پابندیوں پر عمل نہیں کرسکتے۔
میرا احساس ہے کہ دو صحابہ کا غزوہ بدر میں صرف اس لیے شریک نہ ہونا کہ وہ کفار سے جنگ میں شریک نہ ہونے کاعہد کرچکے تھے یا ایک جنگ میں سیدنا اسامہ بن زیدؓ کے ہاتھوں غلط فہمی کی بنا پر ایک مقاتل کے ہتھیار ڈال دینے کے باوجود اس کو قتل کر دینے پررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا شدید اظہار ناراضی یا صرف زبانی معاہدے کی بنیادپر ابو جندلؓ کو کفار کے حوالے کرنے کا معاملہ ہو یاسیدنا معاویہؓ کا دشمن سے کیے گئے ایک معاہدے کی بظاہر خلاف ورزی کے صرف ارادہ کرنے پر ایک صحابی رسول سیدنا عمرو بن عنبسہؓ کی سخت تنبیہ اور سیدنا معاویہؓ کا اس ارادے سے رجوع اور اس طرح کے سیکڑوں ہزاروں واقعات جن میں ہمارے اسلاف نے عین ’حالت جنگ‘ میں دین کی بتائی ہوئی اخلاقی حدود و تعلیمات کا خیال رکھا،،، یہ سب واقعات اب محض وعظ اور درس میں سنانے اور سر دھننے کے لیے رہ گئے ہیں ، اور ہمارا عمل حقیقتاً’’جو تم کرو گے، وہ ہم کریں گے ‘‘ کے فلسفے کے مطابق رہ گیا ہے۔ 
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ’الشریعہ‘ ہی کے مارچ ۲۰۱۲ء کے شمارے سے مولانا محمد یحییٰ نعمانی کے مضمون سے کچھ سطور یہاں نقل کردی جائیں:
’’جہاد کے بارے میں ہمیں کسی قسم کا کوئی معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ جہادی تعلیم اسلام کا وہ باب ہے جو اس کی حقانیت کی روشن دلیلوں میں سے ہے۔ ایک طرف انسانیت کی ایک شدید ضرورت کو پورا کرنے کے مقصد کی بلندی ہے۔ دوسری طرف اللہ کی رضا کی نیت کی پاکیزگی ہے۔ اور تیسری طرف مجاہدانہ اخلاقیات کا حسنِ جہاں آراو جہاں زیب۔ نورُُ علی نور۔ یہ جہاد دنیا کو زیبائش و آرائش بخشنے کے لیے ہی فرض کیا گیا ہے۔ اس کو کیا نسبت اس فساد و فتنہ اور غدرودغا سے جس پر مغربی تہذیب کے زیر سایہ موجودہ بین الاقوامی سیاست کا نظام قائم ہے۔ ایک ریاست دوسری ریاست سے معاہدوں میں ہاتھ بھی ڈالتی ہے، سفارتی تعلقات بھی قائم کرتی ہے اور پھر اپنی ایجنسیوں کے ذریعہ قتل وخونریزی کے واقعات بھی کراتی ہے۔ انسانیت کو مغربی تہذیب نے جو الم ناک ’’تحفے‘‘ دیے ہیں ان میں یہ خفیہ ایجنسیوں کا نظام بھی ہے۔ مگر اس وقت کچھ نا سمجھ مسلم نوجوانوں کو جہاد کے نام پر معاہدات کی پامالی کا سبق دینے لگے ہیں، یہ ان میں ایسا اشتعال پیدا کرتے ہیں کہ شریعت تو ٹوٹتی ہے ہی، اللہ کے حدودتو پامال ہوتے ہیں ہی، ساتھ ہی اسلام اور مسلمانوں کے مفاد کو بھی شدید نقصان پہنچتا ہے ۔۔۔ افسوس ! یہ شرعی ’’حدود‘‘ (قوانین) جو اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی صریح غیر مشکوک سنت سے ثابت ہیں ان کا ہمارے یہاں مذاکرہ نہیں ہوتا اور نتیجتاً ہم عصر حاضر کی صورتِ احوال میں اس کی تطبیق نہیں کر پاتے ۔ اس سلسلے میں بہت سے لوگ نہایت غیر محتاط بلکہ شرعی ضابطوں کو توڑنے والی رایوں کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ اگر یہ غلطیاں صرف وہ نوجوان کر رہے ہوتے جنہوں نے اس دور کے ظالموں کی چیرہ دستیوں سے عاجز آکر ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کا مظاہرہ کیا ہے تو کوئی زیادہ تعجب نہ ہوتا۔ مگر جب علمی قسم کے اداروں اور رسائل و مجلات کی طرف سے یہ بے احتیاطیاں ہوتی ہیں تو حیرت ہی نہیں، افسوس اور قلق بھی ہوتا ہے ‘‘۔
ڈاکٹر عبدالباری عتیقی، کراچی
drbari_atiqi@yahoo.com

(۲)

Dear Moulana Ammar Khan Nasir Sahab,
Assalamu 'Alikum.
I am very thankful to you and the Al-Shariah team for sending me in a copy of your magazine. I read the note by Mufti Fazeel al-Rahman Uthmani sahab about "three talaq in one session ..." and your note on talaq and have some observations to make:
  1. Mufti sahab has relied mostly on the book 'Islami Qanoon' from India but that book is NOT a 'masdar-i-Asli'. The learned author should have mentioned that the opinion in Islami Qanoon is based on Fatawa Qadi Khan and that the opinion of Qadi Khan is most probably based on hadith-i-Rukanah; that why Qadi Khan has mentioned that the opinion of the husband is accepted 'diyanatan', i.e. as far as the matter between him and Allah is concerned but not 'qada'an'. The Question to be asked and answered or at least attempted in such a discussion is why should not the opinion of such a husband be accepted by the qadi (court)? In my humble opinion since the Prophet SAW was acting as a judge, therefore, the opinion of the husband should be accepted by the court as well (wallahu 'alam). I have explained this somewhere.
  2. Unfortunately, the learned author (Mufti sb) did not mention the relevant law in Pakistan, i.e. section 7 of the Muslim Family Law Ordinance 1961 and its analysis and Islamicity or otherwise. The learned author could have also mentioned the position of other Muslim countries on this point. I have explained this somewhere.
  3. The learned author (Mufti sb) could have also analysed that section 7 has so many problems; that it is law legislated by a Muslim government a whether Muslims in Pakistan should follow it or not and what do Muslim jurists say about such a law and situation. This would have been a very good discussion.
  4. In your short note the first observation in my humble opinion is: first, when a husband delegates the right of talaq to his wife (see section 18 of the Nikah nama in Pakistan) and she exercises that right, she will divorce herself with one revocable talaq and she does not have the right to pronounce three talaq on herself. The reason is that she was delegated the right of divorce in specific words used for talaq which amounts only to one and NOT three if exercised. (I have written on this long ago).
  5. Your last opinion (the issue of automatic talaq) on page 39 is problematic. First, from which source is this opinion derived? Secondly, it would be better to mention that this is a very old issue in the subcontinent and that the great Sheikh and Hakeemul Ummat Moulana Ashraf 'Ali Thanavi (Rahmatullahi 'alihi) had done his best to provide battered Muslim women some remedies in the shape of Dissolution of Muslim Marriages Act 1939. His classic book Al-Heelah is available for its background. A lot is written on this issue.

Best regards,
Dr. Muhammad Munir,
Chairman Department of Law,
IIU, Islamabad
(۳)
جناب مدیر صاحب ماہنامہ الشریعہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج گرامی؟
ماہنامہ الشریعہ فروری ۲۰۱۳ء کے شمارے میں خواجہ امتیاز احمد صاحب سابق رکن اسلامی جمعیت طلبہ گوجرانوالہ کا ایک مضمون ’’جماعت اسلامی کے ناقدین ومصلحین‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے جس کے آغاز میں اپنا تعارف کراتے ہوئے انھوں نے اپنے استاذ، میرے استاذ اور آپ کے بھی استاذ کے متعلق ایک جملہ لکھا ہے جو ہماری سمجھ میں نہیں آ سکا۔ لکھتے ہیں: ’’صوفی صاحبؒ ، مولانا عبد القیوم صاحب، مولانا محمد خان مبلغ ختم نبوت او رمولانا محمد حیات مرحوم جو نصرۃ العلوم میں تشریف لاتے تھے، میرے سوالات سے کچھ گھبرا جاتے تھے۔‘‘ (ص ۴۹) یہ جملہ مجھے اور دیگر کئی احباب کی سمجھ میں نہیں آ سکا کہ وہ کون سے سوالات تھے جن سے یہ جبال علم گھبرا جاتے تھے اور وہ بھی ایک نو آموز اور مبتدی طالب علم سے!! ہماری معلومات تو اول الذکر دونوں بزرگوں کے متعلق یہ ہیں کہ وہ اعلاء کلمۃ الحق کے لیے کبھی کسی جابر سلطان کے سامنے بھی حق کہنے سے نہیں گھبرائے، اس لیے ہم الشریعہ کی وساطت سے خواجہ صاحب موصوف کی خدمت میں مودبانہ درخواست پیش کریں گے کہ اگر ان کی یادداشت صحیح کام کر رہی ہو تو براہ کرم ان سوالات کی لسٹ الشریعہ میں طبع کرا دیں تاکہ ہماری معلومات میں بھی اضافہ ہو سکے۔ عین ممکن ہے کہ خواجہ صاحب موصوف کو علم ہی نہ ہو اور یہ حضرات اپنی تحریروں، تقریروں اور مواعظ میں ایسے سوالات کے جوابات دے چکے ہوں۔ یہ تو بہرحال ان کے سوالات سامنے آنے پر ہی واضح ہو سکے گا۔
محمد فیاض خان سواتی
مہتمم جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ

دو قومی نظریہ اور امجد علی شاکر

سید امتیاز احمد

جہاں علمی ادارے، میڈیا اور ذہن سازی کے جملہ مراکز اور ذرائع نقطہ ہائے نظر کو تاریخی حقائق اور نظریات کو عقائد بنا کر پیش کرنے میں مصروف ہوں، جہاں سماعتیں آدھا سچ سننے اور بصارتیں ادھوری حقیقت پڑھنے کی اس حد تک عادی ہو چکی ہوں کہ پورے سچ اور مکمل حقیقت کے روبرو ہونے کی خواہش ہی موجود نہ رہے، وہاں اگر کوئی دیوانہ پکار اٹھے کہ ’’بادشاہ تو ننگا ہے‘‘، وہاں اگر کوئی مؤرخ، تعصبات سے بلند ہو کر تاریخ کا جائزہ لینے کا حوصلہ کر بیٹھے، وہاں اگر کوئی حقیقت کا متلاشی سچ کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے کسی کوئے ملامت میں جا نکلے، وہاں اگر کوئی دانش ور سرکاری نقطۂ نظر اور درباری تاریخ پر شک کا اظہار کر بیٹھے ۔۔۔ تو ہمارا اور آپ کا بھی فرض بنتا ہے کہ اس کی نیت پر حملہ آور ہونے سے قبل اس کی بات کو توجہ سے سن تو لیں، ذرا دیر کو ٹھہر کر اس کے موقف پر غور تو کر لیں۔ امجد علی شاکر کی کتاب ’’دو قومی نظریہ: ایک تاریخی جائزہ‘‘ بھی ہم سے کچھ ایسا ہی تقاضا کرتی ہے۔
یہاں یہ وضاحت شاید غیر ضروری نہ سمجھی جائے کہ یہ تاریخ کی کتاب نہیں، یہ ایک ایسے نظریے کا تنقیدی، تحقیقی اور تاریخی جائزہ ہے جو نہ صرف ہماری ماضی قریب کی تاریخ کی تشکیل پر اثر انداز ہوا ہے بلکہ آج بھی سوچنے سمجھنے والے ذہنوں کے لیے ایک معما بنا ہوا ہے۔ یہ نظریہ ہمارے لیے یوں بھی ایک ’’مجتمع الضدین‘‘ بن چکا ہے کہ اگر چھوڑتے ہیں تو اپنی (نصابی) تاریخ سے جاتے ہیں اور اگر رکھتے ہیں تو حال بے حال ہوتا ہے۔ یہی غالبًا اس موضوع کو شعوری طور پر نظر انداز کیے جانے کا سبب بھی ہے۔ یہ وضاحت تو خیر کتاب کے اجمال کا جواز فراہم کرنے کے لیے تھی، شاکر صاحب نے اب اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے تو بڑی حد تک حق بھی ادا کیا ہے۔
پہلی بات تو یہ کہ مصنف نے اس نظریے کے آغاز کو اس کے نو آبادیاتی تناظر میں رکھ کر سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ یہ بات ایک بڑی خوبی یوں بن جاتی ہے کہ ہم لوگ بالعموم نو آبادیت اور اس کے جملہ مضمرات سے بالعموم بے خبر ہی رکھے گئے ہیں۔ سبب وہی کہ اگر نو آبادیاتی استحصال کی تفصیل بیان کی جائے تو لامحالہ، اس استحصال کے خلاف احتجاج کرنے والوں کا ذکر بھی آئے گا۔ جنہیں ہم بوجوہ، مطعون و مغضوب ہی رکھنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف اس ظلم و استحصال میں استعمار کے دست و بازو بن کر مفادات حاصل کرنے والوں کا ذکر بھی ناگزیر ہوگا جو اس دور سے لے کر آج تک، ہمیشہ، اقتدار کی غلام گردشوں میں پائے گئے ہیں۔ نو آبادیاتی قوتوں کی مذمت گویا انہی کی مذمت بن جاتی لہٰذا اس موضوع کو یا کم از کم اس کی تفاصیل کو نصابی اور تاریخی کتابوں سے باہر رکھنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن ظاہر ہے، اس قسم کی کوششیں ایک حد تک ہی موثر ہوتی ہیں اور اتنی سامنے کی باتوں پر پردہ ڈالے رکھنا تو اور بھی مشکل ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ نو آبادیاتی اور سامراجی قوتیں اپنی مفتوحہ نو آبادیوں کے عوام و خواص کو محض سیاسی اور معاشی طور پر ہی تباہ و برباد کرنے پر قانع نہیں رہتیں، اس استحصال کی حدود محکوم اقوام کی علمیّات، ان کی تہذیب و ثقافت اور عقائد و نظریات تک کو اپنے گھیرے میں لے آتی ہیں۔ حاکم قوم کی تہذیبی اور علمی برتری کو تسلیم کروانے کی کوشش تو خیر سامنے کا پہلو ہے لیکن ہوتا یہ ہے کہ خالص مقامی مسائل اور ان کے حوالے سے تشکیل پانے والے نقطہ ہائے نظر و نظریات کو بھی صاحبانِ عالی شان کے ردّ و قبول کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جو نظریات غیر ملکی اقتدار کو دوام بخشنے میں ممّد و معان ہو سکتے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، بلکہ بوقتِ ضرورت ایسے مسائل خود بھی متعارف کروائے جاتے ہیں مثال کے طور پر ہندی اردو تنازعہ اس کے برعکس جو تصورات و نظریات نو آبادیاتی اقتدار کو کمزور کرنے اور محکوموں کو استعماری قوتوں کے استحصال سے آگاہ اور اس کے خلاف منظم کرنے کا باعث ہو سکتے ہیں، ان کے علم برداروں کے حصہ میں ایک طرف تو پھانسیاں، جائدادوں کی ضبطیاں اور حبسِ دوام بعبور دریائے شور آتے ہیں اور دوسری طرف الزام تراشی، بہتان طرازی اور کردار کشی۔ ہندوستان میں دو قومی نظریے بلکہ نو آبادیاتی دور میں سامنے آنے والے کسی بھی نظریے کے ظہور کا جائزہ لیتے ہوئے اس تناظر کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے اور اس کتاب میں بھی فاضل مصنف نے اسے پیش نظر رکھ کر ہی گفتگو کا آغاز کیا ہے۔
کتاب کا پہلا باب سر سید احمد خان کے حوالے سے ہے۔ اس نظریے کے بعض موئیدین کے جذباتی بیانات سے صرفِ نظر کیا جائے تو دو قومی نظریے کا تحریک پاکستان کے پس منظر میں باقاعدہ آغاز سر سید ہی سے کیا جاتا ہے، بالخصوص مولانا حالی کے نقل فرمودہ بیانات سے۔ مثال کے طور پر:
’’۔۔۔ مجھے یقین ہوگیا کہ اب ہندو مسلمانوں کا بطور ایک قوم کے ساتھ چلنا اور دونوں کو ملا کر سب کے لیے ساتھ ساتھ کوشش کرنا محال ہے۔‘‘
یہاں شاکر صاحب ایک بہت بڑی اور غالباً دانستہ پیدا کی گئی غلط فہمی کو دور کرتے ہیں، جب وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ بیان ۱۹۶۷ء کے ہندی اردو تنازعے کے حوالے سے دیا گیا تھا جب کہ اس کے بعد اپنی وفات سے چند ماہ قبل تک موصوف اس قسم کے بیانات دیتے رہے;
’’ ۔۔۔ پس مسلمانوں اور ہندوؤں میں کچھ مغائرت نہیں ہے۔ جس طرح آریا قوم کے لوگ ہندو کہلائے جاتے ہیں، اسی طرح مسلمان بھی ہندو یعنی ہندوستان کے رہنے والے کہلائے جا سکتے ہیں۔‘‘
اور محض بیانات ہی نہیں علی گڑھ کالج ہو یا ’’وفادار ہندوستانیوں کی ایسوسی ایشن‘‘ ہر جگہ وہ ہندوؤں کو (یا کم از کم اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کو) ساتھ لے کر ہی چلتے رہے۔ اس صورتِ حال میں سر سیّد کو دو قومی نظریے کا علم بردار قرار دینا، خلطِ مبحث پیدا کرنے کی شعوری کوشش ہی کہلائے گا۔ خیر کوششوں کا کیا گلہ کیا جائے کراچی کے ایک صاحب علم تو دو قومی نظریے کا اثبات قرآن و حدیث سے کرنے کی کوشش کرتے پائے گئے تھے۔ 
دوسرے باب کا عنوان ’’علامہ اقبال اور دو قومی نظریہ‘‘ ہے۔ علامہ سر محمد اقبال کو بہرحال دو قومی نظریہ کے باقاعدہ نظریہ سازوں میں شامل کیا جا سکتا ہے اور کیا جانا چاہیے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ انہوں نے برصغیر کے معروضی حالات اور زمینی حقائق کا جائزہ لینے کے بعد جملہ جزئیات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ایک باقاعدہ اور مکمل نظریے کی صورت میں یہ تصور پیش کیا تھا۔ انہوں نے متعدد سامنے کے پہلوؤں کو بھی نظر انداز کر دیا تھا۔ مثال کے طور پر ہندوستان میں رہ جانے والی مسلم اقلیت اور مسلمان ریاست میں رہنے والے غیر مسلموں کی قومیت کا مسئلہ اور دیگر ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کے ساتھ تعلق کی نوعیت کا مسئلہ وغیرہ۔ جہاں تک اسلام کے تصورِ ملت کی آفاقیت اور مقامی قومیتوں کے تصور میں مطابقت اور دونوں کے الگ الگ تقاضوں کی تفہیم کے مسئلے کا تعلق ہے، حیرت ہوتی ہے کہ وہ قوم اور ملت کی اصطلاحوں میں واضح نصوص کے باوجود کوئی فرق روا رکھنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ایک سامنے کی لیکن ضروری بات یہ بھی ہے کہ عملی طور پر اس صورت حال کے بہت سے پہلو، علامہ کی وفات کے بعد سامنے آئے یا واضح ہوئے، سو اب کیا کہا جا سکتا ہے کہ ان کے تصورات ارتقا پا کر کیا صورت اختیار کرتے اور بعد کی سیاسی پیش رفت کے دوران میں ان کا نقطہ نظر کیا ہوتا؟ پنجاب مسلم لیگ کے ساتھ ان کے تعلق کے مختلف مراحل اور اس دوران ان کے نقطہ نظر میں آنے والی تبدیلیاں ہمارے سامنے ہیں۔ 
جہاں تک خود بانئ پاکستان اور دو قومی نظریے کا تعلق ہے، صورت حال دلچسپ تر ہے۔ انہوں نے اس معاملے کے نظری پہلو پر کبھی تفصیل سے کلام کیا ہی نہیں۔ ان کی تقاریر کے اقتباسات اور بیانات ہی پیش کیے جاتے ہیں لیکن ان میں مختلف مواقع پر مختلف بلکہ متضاد تصورات پائے جاتے ہیں۔ غالبًا اس کا سبب تقاریر کے لکھنے والے ہو سکتے ہیں۔ اگر Speech Writer غلام احمد پرویز ہوں تو ان کی تقریر میں صرف قرآن سے رہنمائی لینے اور مرکز ملت کا تصور جھلکنے لگتا ہے۔ جب وہ اپنی تقریر خود لکھتے ہیں تو ۱۱ ۔اگست کا تاریخی خطاب سامنے آتا ہے، ان بیانات میں مطابقت پیدا کرنا جناح صاحب کے ہر سوانح نگار کے لیے ایک مسئلہ رہا ہے اور رہے گا۔ کتاب کا ایک معنیٰ خیز بلکہ بعض حضرات کے لیے چشم کشا باب ’’دو قومی نظریہ کے ہندو اور انگریز نظریہ ساز‘‘ ہے۔ لیکن اس سے پہلے وہ مودودی صاحب کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ مولانا مودودی اور جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے دیگر مصنفین کا تحریک آزادی، تحریک پاکستان اور دو قومی نظریے کے حوالے سے رویّہ دلچسپ اور تاریخی ہی نہیں، نفسیاتی مطالعے کا بھی سزاوار ہے۔ غالبًا یہی سبب ہے کہ فاضل مصنف نے ایک باب اس حوالے سے شامل کتاب کرنا ضروری سمجھا وگرنہ اس دور کی جماعت کا حجم اور مولانا مودودی کے اس وقت کے مقام و مرتبہ اور حلقۂ اثر کو پیش نظر رکھا جائے تو اس حوالے سے ان کا کوئی قابل ذکر اور موثر کردار ممکن ہی نہیں تھا۔ لہٰذا مجید نظامی کا انہیں پاکستان مخالف قرار دینا اور جماعتی حلقوں کی جانب سے انہیں محسنینِ تحریک پاکستان میں شامل کرنا افراط و تفریط ہی کہلائے گا۔ 
دو قومی نظریے کے شارحین کے بیان میں فاضل مصنف ایک اہم لیکن نسبتًا غیر معروف کردار فضل کریم درّانی کو بھی یاد کیا ہے۔ یہ صاحب ایک دور میں اتنے اہم تھے کہ محمد علی جناح اور علامہ اقبال کی ملاقاتوں میں موجود ہوتے تھے۔ ان کی کتاب The Future of Islam In India علامہ اقبال کے خطبۂ الٰہ آباد سے دو سال قبل شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب میں دو قومی نظریہ پوری تفصیل اور شدّت کے ساتھ موجود ہے۔ لہٰذا خورشید کمال عزیز کا یہ سوال بے جا نہیں کہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے اور باہم تعارف اور ملاقاتوں کے باوجود علامہ اقبال درانی صاحب کے خیالات سے متاثر یا کم از کم بخوبی آگاہ نہ ہو چکے ہوں۔
اس کے بعد ذکر آتا ہے تھانوی حلقہ کے علمائے کرام اور جناب جی اے پرویز کا۔ دونوں کا ذکر ایک ہی جملے میں کرتے ہوئے ہمیں بھی عجیب لگ رہا ہے اور یقیناًپڑھنے والوں کو بھی عجیب لگے گا لیکن یہ بھی تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی کو اعلاء السنن میں غلام احمد پرویز اور طلوع اسلام کا حوالہ دینا پڑے۔ 
کتاب میں اور بھی بہت کچھ ہے لیکن اصل سوال آج کے دور میں دو قومی نظریے کی ایسی معنویّت تلاش کرنے کا ہے جسے قبول کرنے کے بعد ۱۵۔ اگست ۱۹۴۷ء سے قبل بھی اس کا جواز برقرار رہے۔ کیا دو قومی نظریے کے علم برداروں میں سے کوئی ایسا کر پایا؟ آخری باب میں شاکر صاحب نے جناب جاوید اقبال کی خود نوشت سوانح ’’اپنا گریباں چاک‘‘ میں شامل ’’علامہ اقبال کے نام دوسرا خط‘‘ سے ایک اقتباس نقل کیا ہے، ہم اسی اقتباس کو درج کرتے ہوئے اپنی بات سمیٹ لیتے ہیں۔
’’اے پدرِ محترم! اگر اب ہماری اجتماعی شناخت کے لیے وہ علاقہ مختص ہوگیا ہے جسے پاکستان کہتے ہیں اور جس کا مفاد ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہے تو پھر مولانا حسین احمد کا قول کس اعتبار سے غلط ہوا؟ کیا ہمارے عمل سے یہ ثابت نہیں ہوگیا کہ قومی یا وطنی اعتبار سے تو ہم پاکستانی ہیں اور ملی اعتبار سے مسلم۔‘‘

’’رسول اکرم ﷺ کی مجلسی زندگی‘‘ ۔ مضمون نویسی کا انعامی مقابلہ

ڈاکٹر حافظ محمد رشید

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کی طرف سے شہر کے دینی مدارس کے طلبہ کے درمیان ’’رسول اکرمؐ کی مجلسی زندگی‘‘ کے عنوان پر اس سال مضمون نویسی کے انعامی مقابلہ کا اہتمام کیا گیا جس میں شہر کے دس مدارس کے ۲۲ طلبہ نے حصہ لیا۔ ان میں سے (۱) محمد اشرف علی، جامعہ حقانیہ (۲) حسن البناء ، جامعہ عربیہ (۳) عبد الغنی، جامعہ نصرۃ العلوم (۴) محمد عثمان، دارالعلوم نے بالترتیب اول، دوم، سوم اور چہارم پوزیشن حاصل کی جبکہ محمد حفیظ اللہ (مدرسہ ابو ایوب انصاریؓ ) اور عبد الوہاب (جامعہ نصرۃ العلوم) کو یکساں طور پر پنجم پوزیشن کا مستحق قرار دیا گیا۔ 
۳ فروری کو مغرب کے بعد اکادمی میں تقسیم انعامات کی تقریب منعقد ہوئی جس میں علماء کرام اور طلبہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ المشرق سائنس کالج کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر عبد الماجد حمید المشرقی مہمان خصوصی تھے، تقریب سے مہمان خصوصی کے علاوہ الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی، مولانا محمد عبد اللہ راتھر اور قطر سے تشریف لائے ہوئے معزز مہمان الشیخ عبد اللہ بن احمد عمانی نے بھی خطاب کیا اور مولانا داؤد احمد میواتی کی دعا پر یہ تقریب اختتام پذیر ہوئی۔ 
اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی صاحب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دینی مدارس کے طلبہ کے درمیان مختلف موضوعات پر وقتاً فوقتاً مضمون نویسی کے مقابلوں کا الشریعہ اکادمی کی طرف سے اہتمام کیا جاتا ہے جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ طلبہ میں لکھنے پڑھنے کا ذوق پیدا ہو اور وہ اپنے دور کے تقاضوں اور ضروریات کو سمجھتے ہوئے لوگوں میں دین کی بات کہنے اور لکھنے کے لیے اپنی صلاحیت کو اجاگر کریں۔ اس سال اس مقصد کے لیے ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلسی زندگی‘‘ کا انتخاب کیا گیا اور مختلف مدارس کے طلبہ نے اس میں حصہ لیا، ان طلبہ کے ساتھ اس عمل میں شریک ہونے کے لیے اس موضوع پر کچھ گزارشات پیش کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ 
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روز مرہ معمولات کا آغاز بھی مجلس سے ہوتا تھا اور اختتام بھی مجلس پر ہی ہوتا تھا، صبح نماز کے بعد عمومی مجلس ہوتی تھی اور رات کو عشاء کے بعد خواص کی محفل جمتی تھی جبکہ دن میں بھی مجلس کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ سیرت اور حدیث کی مختلف روایات میں بتایا گیا ہے کہ نماز فجر کے بعد جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں ہی اشراق کے وقت تک تشریف فرما ہوتے تھے، اس دوران وہ ساتھیوں کا حال احوال پوچھتے تھے، کسی نے خواب دیکھا ہوتا تو وہ بیان کرتا تھا اور تعبیر پوچھتا تھا، خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی خواب دیکھا ہوتا تو تعبیر کے ساتھ وہ خواب بیان فرماتے تھے، کوئی تازہ وحی نازل ہوتی تو اس کا ذکر کرتے تھے، کوئی اعلان کرنا ہوتا تو کرتے تھے۔ ا س موقع پر مجلس میں دورِ جاہلیت کے واقعات کا تذکرہ ہوتا تھا اور شعر و شاعری کا دور بھی چل جاتا تھا جن میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شریک نہیں ہوتے تھے لیکن سن کر مسکرا دیتے تھے۔ پھر سارا دن مجالس چلتی رہتی تھیں، احکام و مسائل کا تذکرہ ہوتا تھا، ہدایات ہوتی تھیں اور تلاوت اور ذکر و اذکار کا سلسلہ بھی ہوتا تھا جبکہ عشاء کے بعد خواص کی مجلس ہوتی تھی جس کا تذکرہ حضرت علیؓ نے شمائل ترمذی کی ایک روایت کے مطابق یوں کیا ہے کہ خاص خاص احباب عشاء کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حجرے میں جمع ہو جاتے تھے جہاں اس رات آپ کا قیام ہوتا تھا، اس میں مختلف علاقوں کی صورت حال پیش کی جاتی تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مختلف قبیلوں اور علاقوں کے حالات دریافت کرتے تھے اور لوگوں تک پہنچانے کے لیے پیغامات دیتے تھے، اس طرح مجموعی صورت حال پر باہمی مشاورت ہو جاتی تھی اور اگلے روز کی تیاری بھی ہوتی تھی۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ بہت سے لوگ جو اپنی حاجات اور ضروریات خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش نہیں کر پاتے تھے، ان کی ضروریات اور مسائل ہم لوگ رات کی مجلس میں پیش کر دیتے تھے۔ 
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجالس میں ہر طرح کی باتیں ہوتی تھیں اور بے تکلفی کے ماحول میں ہوتی تھیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب و احترام صحابہ کرامؓ کے دلوں میں حد سے زیادہ تھا لیکن اس کے باوجود مجلس کا ماحول کھلا رہتا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی خوش طبعی اور دل لگی فرماتے تھے اور صحابہ کرامؓ بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بے تکلفی اور خوش طبعی کر لیتے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی کا نام حضرت نعیمانؓ ہے، بدری صحابی تھے اور بہت خوش طبع آدمی تھے، ان کی دل لگی کے بہت سے واقعات ان کے تذکرہ میں ملتے ہیں حتیٰ کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی دل لگی کر لیتے تھے، ایک بار وہ مسجد میں آرہے تھے کہ راستہ میں ایک ریڑھی پر انگور دیکھے، بیچنے والے سے کچھ انگور لیے اور کہا کہ یہ مسجد میں لے جا رہا ہوں، اگر پسند نہ آئے تو واپس کر دوں گاورنہ تھوڑی دیر کے بعد تم مسجد میں آکر پیسے لے لینا، مسجد میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے۔ نعیمانؓ نے پوچھا یا رسول اللہ! انگور کھائیں گے؟ فرمایا کھا لیں گے۔ اس نے انگور حضورؐ کے سامنے رکھ دیے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھائے اور مجلس میں بیٹھے دوسرے لوگوں نے بھی کھائے۔ تھوڑی دیر میں انگوروں والے نے آکر پیسے مانگے تو نعیمانؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یا رسول اللہ! اس کو پیسے دے دیں۔ فرمایا کس بات کے؟ کہا یہ جو انگور کھائے ہیں ان کے پیسے۔ فرمایا کہ میں نے تو نہیں منگوائے تھے، نعیمانؓ نے کہا کہ کھائے تو ہیں نا! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیسے دے دیے تو نعیمانؓ نے کہا کہ میں نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے کہ اس کے بغیر آپؐ نے انگور کھانے نہیں تھے۔ غرضیکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سب دوستوں کے ساتھ بے تکلفانہ ہوتی تھی اور ہر قسم کا ذوق رکھنے والے کو اس میں اپنی تسکین کا سامان مل جاتا تھا۔

اپریل ۲۰۱۳ء

علم الکلام اور اس کے جدید مباحثمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
علماء اور جدید طبقوں میں ہم آہنگیمولانا مفتی محمد زاہد
شعبہ اسلامیات، جامعہ پنجاب کا علمی کامپروفیسر خالد ہمایوں
’’کافروں‘‘ کے دفاع میں جہادجان کائزر
ریاست، معاشرہ اور مذہبی طبقات ۔ پاکستان کے تناظر میں اہم سوالات کے حوالے سے ایک گفتگو (۲)محمد عمار خان ناصر
مکاتیبادارہ
فاسٹ فوڈ اور بڑھتے ہوئے امراضادارہ
شاہ ولی اللہؒ اور علامہ محمد اقبالؒمولانا ابوعمار زاہد الراشدی

علم الکلام اور اس کے جدید مباحث

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

علم العقائد اور علم الکلام کے حوالے سے اس وقت جو مواد ہمارے ہاں درس نظامی کے نصاب میں پڑھایا جاتا ہے، وہ اس بحث ومباحثہ کی ایک ارتقائی صورت ہے جس کا صحابہ کرامؓ کے ہاں عمومی دور میں کوئی وجود نہیں تھا اور اس کا آغاز اس وقت ہوا جب اسلام کا دائر ہ مختلف جہات میں پھیلنے کے ساتھ ساتھ ایرانی، یونانی، قبطی اور ہندی فلسفوں سے مسلمانوں کا تعارف شروع ہوا اور ان فلسفوں کے حوالے سے پیدا ہونے والے شکوک وسوالات نے مسلمان علما کو معقولات کی طرف متوجہ کیا۔ 
ابتدائی دور میں عقیدہ صرف اس بات کانام تھا کہ قرآن کریم نے ایک بات کہہ دی ہے یا جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بات ارشاد فرما دی ہے، بس اسی کو بے چون وچرا مان لینے کا نام عقیدہ ہے۔ ان عقائد کے حوالے سے صحابہ کرامؓ کو اس سے زیادہ کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی تھی کہ قرآن کریم نے یا جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بات فرما دی ہے اور نہ ہی انھیں اس بات سے کوئی غرض ہوتی تھی کہ وہ بات ہماری عقل وفہم کے دائرے میں آتی ہے یا نہیں یا ہمارے محسوسات ومشاہدات اس کو قبول کرتے ہیں یا نہیں اور وہ ان باتوں سے بے نیاز ہو کر قرآن وحدیث کی تصریحات پر ایمان رکھتے تھے بلکہ معقولات کے حوالے سے عقائد پر بحث ومباحثہ کو بھی پسند نہیں کیا کرتے تھے۔ البتہ بیرونی فلسفوں کے در آنے سے جب عقلی سوالات کھڑے ہوئے اور علماے اسلام کو ان سوالات کے جواب میں اسلامی عقائد کی وضاحت کی ضرورت پیش آئی تو صحابہ کرامؓ کے آخری دور میں اس قسم کے مباحثوں کا آغاز ہوا اور تابعین واتباع تابعین کے دور میں ہمیں یہ مباحث اپنے عروج پر نظر آتے ہیں۔ 
معقولات کے حوالے سے جب عقائد کے مختلف پہلووں پر بحث ومباحثہ شروع ہوا تو ایک دور تک اس کے مسائل کی نوعیت اس طرح تھی کہ اللہ تعالیٰ کی رویت ممکن ہے یا نہیں؟ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کا باہمی تعلق کیا ہے؟ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی صفت ہے یااس کی مخلوق ہے؟ کبیرہ گناہ کے ارتکاب سے کوئی مسلمان ایمان کے دائرے سے نکل جاتا ہے یا نہیں؟ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو جانے پر ان کی نیابت امامت کے حوالے سے ہوگی یا خلافت کے عنوان سے ہوگی؟ وغیر ذلک۔ اس دور میں اس علم یا فن کو ’’فقہ‘‘ کا حصہ تصور کیا جاتا تھا اور فقہ صرف احکام وقوانین تک محدود نہیں ہوتی تھی، بلکہ ایمانیات یعنی عقائدا ور وجدانیات یعنی تصوف وسلوک بھی فقہ ہی کے شعبے شمار ہوتے تھے، چنانچہ عقائد پر حضرت امام ابوحنیفہؒ کا رسالہ ’’الفقہ الاکبر‘‘ کہلاتا ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ عقائد کے اس عقلی مباحثے کو علم التوحید والصفات، علم النظر والاستدلال اور علم اصول الدین بھی کہا جاتا تھا۔ چونکہ ان مسائل پر عام طور پر بحث ومباحثہ ہوتا تھا اور اس مباحثہ میں معتزلہ پیش پیش ہوتے تھے، اس لیے شہرستانی کے بقول سب سے پہلے معتزلہ نے اسے ’’علم الکلام‘‘ کا نام دیا، مگر اہل سنت کے اکابر علما نے اسے پسند نہیں کیا، چنانچہ اصول فقہ کی متداول کتاب ’’التوضیح والتلویح‘‘ کے محشی نے نقل کیا ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ عمرو بن عبید کو تباہ کرے کہ اس نے کلام کا دروازہ کھولا ہے، امام ابو یوسفؒ نے فتویٰ دیا کہ متکلم کے پیچھے نماز جائز نہیں ہے، امام احمد بن حنبلؒ نے اس کی مذمت کی اور امام شافعیؒ نے اسے شرک کے بعد بدترین برائی سے تعبیر کیا۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ بحث ومباحثہ آگے بڑھتا گیا اور ان علماے اسلام نے بھی جو اس بحث وکلام کو پسند نہیں کرتے تھے، اسلامی عقائد کی عقلی وضاحت اور اثبات کی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے اسے اپنے علمی معمولات میں شامل کر لیا، چنانچہ علم الکلام کے نام سے ایک پورا نصاب اب ہمارے دینی مدارس میں پڑھایا جاتا ہے۔
قرآن وحدیث کے بیان کردہ عقائد پر عقلی بحث ومباحثہ اور ان کی عقلی توجیہات وتعبیرات کے نتیجے میں اس دور میں جو فرقے وجود میں آئے، ان میں معتزلہ، جبریہ، قدریہ، مرجۂ، خوارج، اہل تشیع اور اہل سنت وغیرہ کے نام معروف ہیں۔ ان میں سے اہل سنت اور اہل تشیع اب تک اپنے پورے تعارف کے ساتھ موجود چلے آ رہے ہیں جبکہ باقی فرقوں کا اپنے نام اور تعارف کے ساتھ وجود نظر نہیں آتا، البتہ ان کا ذہن اور سوچ کا انداز مختلف حوالوں سے اب بھی اس سابقہ تعارف اور تشخص کے بغیر امت میں پایا جاتا ہے۔ ان میں سے اہل السنۃ والجماعۃ خود کو امت کااجتماعی دھارا قرار دیتے ہیں جن کی بنیاد دو اصولوں پر ہے: ایک یہ کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دینیات بالخصوص عقائد کی کیا صورت ارشاد فرمائی ہے اور دوسری یہ کہ صحابہ کرامؓ نے اجتماعی طور پر اسے کیسے سمجھا ہے؟ اہل سنت کے نزدیک یہی وہ دو معیار ہیں جن کی بنیاد پر عقیدہ سمیت دین کی کسی بھی بات کو صحیح طور پر سمجھا جا سکتا ہے اور اسی وجہ سے وہ اہل السنۃ والجماعۃ کہلاتے ہیں۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کے مقدمہ میں اہل سنت کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے کہ اہل سنت وہ ہیں جو قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر اسی صورت میں ایمان رکھتے ہیں جیسا کہ انھوں نے فرمایا ہے اور وہ ان ارشادات کی عقلی توجیہ کو ضروری نہیں سمجھتے او رنہ ہی عقلی توجیہ وتعبیر کو قرآن وسنت کے کسی فرمان پر یقین کا معیار تصور کرتے ہیں، البتہ جہاں کسی عقیدہ کی وضاحت یا کسی عقلی سوال کے جواب کے لیے ضرورت محسوس کرتے ہیں، وہاں وضاحت کی حد تک اس عقلی بحث ومباحثہ کو ناجائز بھی نہیں سمجھتے اور ضرورت کے مطابق اس مباحثہ میں شریک ہوتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب نے یہ بھی فرمایا ہے کہ قرآن وسنت کی تصریحات کو ان کی ظاہری صورت میں تسلیم کرنے والے تمام لوگ اہل سنت ہیں، البتہ ظاہری صورت پر فی الجملہ ایمان رکھنے کے بعد اس کی تعبیر وتوضیح میں اختلافات خود اہل سنت کے اندر بھی موجود ہیں اور ایسے کسی اختلاف سے کوئی شخص اہل سنت کے دائرے سے خارج نہیں ہوتا۔ اہل سنت کے دائرے میں عقائد کی ایسی تعبیرات، تشریحات، توجیہات اور توضیحات کے حوالے سے جو مختلف مکاتب فکر موجود چلے آ رہے ہیں، ان میں اشاعرہ، ماتریدیہ اور ظواہر کے گروہ متعارف ہیں جو امام ابو الحسن اشعری، امام ابو منصور ماتریدی اور اما م ابن حزم ظاہری کے بیان کردہ اصولوں کی روشنی میں عقائد کی تعبیر وتشریح کرتے ہیں اور بہت سے امور میں ان کے درمیان اختلافات بھی پائے جاتے ہیں۔
یہ تو مختصر تعارف ہے اس علم الکلام کا جو ہمارے دینی نصاب کا باقاعدہ حصہ ہے اور اب تک انھی خطوط پر استوار ہے جن پر صدیوں قبل اس کی تشکیل ہوئی تھی۔ اب ہم ان تبدیلیوں اور ان کے حوالے سے پیدا ہونے والی ضروریات کی طرف آتے ہیں جو گزشتہ تین صدیوں کے دوران بتدریج رونما ہوئی ہیں اور ہمارے خیال میں ہم اپنے تنزل اور غلامی کے اس دور میں ’’تحفظات‘‘ کے دائرے میں محصور ہو جانے کی وجہ سے ان کی طرف توجہ نہیں دے سکے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا ’’علم العقائد والکلام‘‘ ان تبدیلیوں اور ضروریات کو اپنے ساتھ ایڈجسٹ نہیں کر سکا اور ہم آج کے عالمی تناظر میں ایمانیات وعقائد کے ضروری تقاضوں کے ساتھ اس کو ہم آہنگ نہیں پاتے جس کی طرف مختلف اصحاب فکر ودانش ہمیں وقتاً فوقتاً توجہ دلاتے رہتے ہیں، لیکن ہم ابھی تک اس کا پوری طرح احساس وادراک نہیں کر پا رہے۔ 
ہمارے ’’علم العقائد والکلام‘‘ کے بیشتر مباحث یونانی فلسفہ اور اس کے ساتھ ساتھ ایرانی، ہندی اور قبطی فلسفہ کے ساتھ ہمارے علمی تعارف کی پیداوار ہیں اور ہمارے ہاں اسے ’’معقولات‘‘ کے عنوان سے تعبیر کیا جاتا ہے جبکہ خود اس فلسفہ کی اپنی ہیئت تبدیل ہو چکی ہے اور ارتقائی مراحل نے اس کی شکل وصورت تک بدل کر رکھ دی ہے۔ مثلاً ماضی میں سائنس کو معقولات کا حصہ تصور کیا جا تا تھا اور وہ فلسفہ کا حصہ سمجھی جاتی تھی، چنانچہ ہمارے ہاں فلکیات اور طبعیات کو معقولات ہی کے ایک حصے کے طور پر پڑھایا جاتا تھا، جبکہ سائنس ایک عرصہ سے فلسفہ ومعقولات سے الگ ہو کر ایک مستقل علم کی شکل اختیار کر چکی ہے اور اب وہ معقولات اور فلسفہ کا حصہ نہیں ہے بلکہ مشاہدات ومحسوسات کے دائرے میں شامل ہو چکی ہے، لیکن ہم درس نظامی کے نصاب کے باب میں اس تبدیلی کا ابھی تک ادراک نہیں کر سکے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ فلسفہ اور سائنس کی علیحدگی کے باعث عقائد اوران کی تعبیرات کے ضمن میں جو نئے سوالات پیدا ہوئے ہیں، ہم ان کا جواب دینے کی سرے سے ضرورت ہی محسوس نہیں کر رہے۔ مثلاً فلکیات وطبیعیات جب تک فلسفہ ومعقولات کا حصہ تصور ہوتے تھے، ان کی کسی بات سے قرآن وسنت کے کسی ارشاد کے تعارض وتضاد کی صورت میں ہم آسانی سے یہ کہہ دیا کرتے تھے کہ ہماری عقل کا دائرہ محدود ہے، مگرمعقولات کا دائرہ اور اس کے امکانات بہت وسیع ہیں، اس لیے کوئی بات اگر ہماری معروضی اور محدود عقل کے دائرے میں نہیں آتی تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ معقولات کے وسیع دائرے اور اس کے مستقبل کے امکانات سے بھی متصادم ہے اور ہمارا یہ جواب نہ صرف یہ کہ اطمینان کی صورت بھی پیدا کر دیتا تھا بلکہ بہت سی صورتوں میں عملاً بھی ایسا ہو جاتا تھا، لیکن اسی بات کے عقل وفلسفہ کے دائرے سے نکل کر مشاہدات ومحسوسات کے زمرہ میں شامل ہو جانے کے بعد یہ جواب کافی نہیں ہے اور ہمیں ایسے سوالات کے جوابات کے لیے کوئی اور اسلوب اختیار کرنا ہوگا اور میری طالب علمانہ رائے میں آج کے دور میں ہمارے علم عقائد کے لیے یہ وقت کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔
اسی طرح یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ فلسفہ اور سائنس کے پہلو بہ پہلو ایک اور علم بھی بہت سے سوالات لیے ہمارے سامنے کھڑا ہے اور وہ عمرانیات اور سوشیالوجی کا علم ہے جس نے اس قدر ترقی کی ہے کہ جدید تہذیب اور گلوبل سولائزیشن میں اس نے وحی اور آسمانی تعلیمات کی جگہ حاصل کر رکھی ہے اور انسانی سوسائٹی کے بیشتر مسائل اب اسی کے حوالے سے طے ہوتے ہیں، مگر ہمارے ہاں اس سے بے اعتنائی کا یہ عالم ہے کہ ابن خلدونؒ اور شاہ ولی اللہؒ کے بعد اس درجہ کا کوئی اور عالم نظر نہیں آتا جس نے عمرانیات کو باقاعدہ موضوع بنا کر اس پر بحث کی ہو اور ہمارے دینی حلقوں کو اس علم سے متعارف کرانے کی کوشش کی ہو جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری نئی نسل کے ذہنوں میں عمرانیات اور سوسائٹی کے ارتقا کے حوالے سے سوالات اور شکوک کا ایک جنگل آباد ہے مگر ہمارے دینی حلقوں کے پاس ان سوالات کا نہ کوئی جواب ہے اور نہ ہی ان میں سے بیشتر کو سرے سے ان سوالات کا ادراک ہی حاصل ہے۔ 
اس لیے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ عالمی افق پر گزشتہ تین صدیوں کے درمیان رونما ہونے والی علمی تبدیلیوں اور خاص طور پر فلسفہ، سائنس اور عمرانیات کی انسانی ذہنوں پر حکمرانی سے پیدا شدہ صورت حال میں ہمیں ’’علم العقائد والکلام‘‘ کے نصاب کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا۔ اس کا مطلب عقائد میں تبدیلی نہیں ہے بلکہ ان کی تعبیرات وتشریحات کے اسالیب اور ترجیحات کی ازسرنو تشکیل ہے جو وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ماضی میں یونانی اور دیگر فلسفوں کی آمد پر ہم نے اپنے عقائد پر پوری دل جمعی کے ساتھ قائم رہتے ہوئے ان کی علمی وعقلی توجیہات وتعبیرات کا ایک نظام تشکیل دیا تھا جس کے ذریعے ہم نے اپنے عقائد وایمانیات کے خلاف فلسفہ ومعقولات کی یلغار کا رخ موڑ دیا تھا۔ آج بھی اسی کام کے احیا کی ضرورت ہے اور عقائد وایمانیات کے باب میں جدید فلسفہ، سائنس اور عمرانیات کے پیدا کردہ مسائل اور اشکالات کسی اشعری، ماتریدی، ابن حزم، غزالی، ابن رشد، ابن تیمیہ اور شاہ ولی اللہ کی تلاش میں ہیں جو ظاہر ہے کہ انھی مدارس کی کوکھ سے جنم لیں گے۔ اس لیے دینی مدارس کو اس پہلو سے اپنے ’’بانجھ پن‘‘ کے اسبا ب کا کھلے دل ودماغ کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے اور اس کے علاج کا اہتمام کرنا چاہیے کہ ان کے ذمہ آج کے دور کا سب سے بڑا قرض یہی ہے۔
اس کے ساتھ ہی بطور نمونہ عقائد وایمانیات سے تعلق رکھنے والے چند سوالات کا ذکر کرنا چاہوں گا جو آج کے علمی تناظر میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ذہنوں میں ڈیرہ جمائے ہوئے ہیں اور ان کے قابل اطمینان جوابات فراہم کرنا ہماری اسی طرح کی ذمہ داری ہے جس طرح ابو الحسن اشعری اور ابو منصور ماتریدی نے اپنے دور کے علمی چیلنج کا منطق واستدلال کے ساتھ سامنا کیا تھا:
  • انسان کو جب نفع ونقصان کے ادراک کے لیے عقل دی گئی ہے تو پھر مذہب کی ضرورت کیا باقی رہ جاتی ہے؟
  • وحی کی ماہیت کیا ہے اور کیا یہ انسانی عقل ووجدان سے ہٹ کر کوئی الگ چیز ہے؟ 
  • وحی اور عقل کا باہمی تعلق کیا ہے؟
  • انسانی سوسائٹی جب مسلسل ارتقا کی طرف بڑھ رہی ہے تو نبوت کا دروازہ درمیان میں کیوں بند ہو گیا ہے؟
  • سائنس اور مذہب کا باہمی جوڑ کیا ہے؟
  • مذاہب کی مشترکہ صداقتوں پر یکساں ایمان رکھنے اور ان کے مشترکہ مصالح پر مشتمل احکام پر عمل کرنے میں کیا حرج ہے اور کسی ایک مذہب کی پابندی کیوں ضروری ہے؟
  • سوسائٹی کے ارتقا اور تجربات کی بنیاد پر تشکیل پانے والے افکار ونظریات اور تہذیب کو مسترد کرنے کا کیا جواز ہے؟
  • قرآ ن وسنت کے معاشرتی احکام اس دو رکی عرب ثقافت یا رواجات کے پس منظر میں تھے یا اس سے مختلف ثقافتوں کے ماحول میں بھی واجب العمل ہیں؟
  • احکام وقوانین میں مصالح ومنافع اور اہداف ومقاصد معتبر ہیں یا ظاہری ڈھانچہ بھی ضروری ہے؟
  • اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خدا کا وجود بھی ہے یا نہیں؟ وغیر ذلک۔
یہ مسائل نئے نہیں ہیں، بلکہ ہر دور میں کسی نہ کسی عنوان سے زیر بحث رہے ہیں، لیکن آج کے عالمی تناظر میں یہ زیادہ ابھر کر سامنے آئے ہیں اور ایک مسلمان کو اسلامی اعتقادات وایمانیات کے معیار پر باقی رکھنے کے لیے ان سوالات اور ان جیسے دیگر بہت سے سوالات کے ایسے جوابات ضروری ہیں جو آج کے علمی تناظر اور ہمہ نوع معلومات کے افق میں قابل اطمینان ہوں۔

علماء اور جدید طبقوں میں ہم آہنگی

مولانا مفتی محمد زاہد

(سوسائٹی فار انٹر ایکشن آف ریلجین، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (SIRST) مانسہرہ کے زیر اہتمام ساتویں قومی سیمینار (منعقدہ دسمبر ۲۰۰۹ء) میں گفتگو۔)

میں سب سے پہلے تو جناب پروفیسر عبد الماجد صاحب اور ’’سرسٹ‘‘ میں ان کی پوری ٹیم کو اس دور افتادہ جگہ میں ایسی شاندار علمی و فکری محفل جمانے اور اس سطح کے اہل فکر و دانش کو جمع کرنے پر ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں اور ان کا شکر گزار بھی ہوں کہ انہوں نے مجھ جیسے طالب علم کو اس محفل میں شریک ہو کر مستفید ہونے اور اپنی گزارشات پیش کرنے کا موقع عطا فرمایا۔
یہ سیمینار انسانیت کے اجتماعی المیے کے حوالے سے چل رہا ہے، مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ انسانیت کو بحیثیت مجموعی موضوع بحث بنایا گیا، تمام انبیاء علیہم السلام بالخصوص خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا بنیادی موضوع انسانیت کی فلاح ہی رہا ہے، بلکہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کا دائرہ تو عالمین تک پھیلا ہوا ہے۔ قرآن حکیم نے عالم کی بجائے ’عالمین‘ کی جو بات کی ہے، اس کی صحیح حقیقت کا انکشاف تو شاید آنے والے کسی زمانے میں ہی ہو اور اس وقت پتا چلے کہ قرآن چودہ سو سال پہلے اکیسویں صدی کے سائنس فکشن سے بھی آگے کی بات کر رہا تھا۔ فی الحال اس طرح کی قرآنی تعلیمات اور تعبیرات کا اتنا اثر تو ہونا چاہیے کہ ہم اس کرہ ارضی پر بسنے والی انسانیت کو بحیثیت مجموعی موضوع بحث بنائیں۔ یقیناًجب بھی انسان پر ایک معاشرتی جاندار کی حیثیت سے بحث ہوگی تو دین و اخلاق کا حوالہ لازماً آئے گا۔ خاص طور پر دین اسلام کے نقطۂ نظر سے اس ایشو پر نظر ڈالے بغیر بحث ہی ادھوری اور نامکمل رہے گی اور ظاہر ہے کہ جب انسان کے اجتماعی المیے کے مسئلے کے ساتھ اسلام کے تعلق پر بات ہوگی تو اسلام کی تشریح و تعبیر سے تعلق رکھنے والے طبقات کا حوالہ بھی ناگزیر ہوگا۔ اسی تناظر میں مجھے علماء کی دیگر طبقات کے ساتھ ہم آہنگی کے فقدان پر عرض کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ 
ہمارے عرف میں جب علماء کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے عموماً دینی مدارس کے فضلاء مراد لیے جاتے ہیں۔ ان علماء کی جدید طبقے کے ساتھ ہم آہنگی کا سوال تو ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سے پہلا سوال ان کی معاشرے اور زندگی کے ساتھ ہم آہنگی کا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے مدارس میں تعلیم و تدریس کا انداز اور عمومی ماحول کچھ ایسا ہوتا ہے کہ جیتی جاگتی زندگی کے ساتھ ان کا تعلق نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں علماء اور دینی مدارس کے ذمہ داران کے لیے جو بات سب سے پہلے قابل توجہ معلوم ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ جب ان حضرات سے کسی طبقے کے ساتھ ہم آہنگی، روابط یا تعلقات کار بہتر بنانے کی بات کی جاتی ہے تو ان میں سے بعض حضرات کے رد عمل سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے ایسی درخواست یا گزارش کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ ان سے اپنے کچھ حقوق سے تنازل و دستبرداری یا اپنی ذمہ داریوں کے بارے میں کمپرومائز کی بات کی جا رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ یہ محسوس کر رہے ہوں کہ ان سے کسی اور طبقے کے لیے رعایت مانگی جا رہی ہے یا ان کے مد مقابل کے لیے ان کے سامنے وکالت کی جا رہی ہے یا یہ کہ انہیں اس طرح کی بات کہہ کر کسی مفاد کے حصول کے لیے راغب کیا جا رہا ہے جو ان کے خیال میں (بجا طور پر) اخلاقی پستی اور اپنے مشن سے انحراف کے زمرے میں آتا ہے۔ 
ہو سکتا ہے کہ کئی لوگ انہیں اس طرح کے مشورے واقعی اسی نقطہ نظر سے دیتے ہوں، لیکن عمومی طور پر حقیقت یہ ہے کہ اس نوعیت کے مشورے خود ان کے اپنے مشن کی بھی ضرورت ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر تو دینی علوم کو اس نقطہ نظر سے پڑھنا یا پڑھانا ہو کہ یہ دنیا میں پائے جانے والے چند علوم ہیں یا ایسے علوم ہیں جن سے کسی زمانے میں انسانوں کا ایک بڑا طبقہ اعتنا رکھتا تھا اور اب یہ انسانی تاریخ کا ایک حصہ ہیں، جیسا کہ مستشرقین نے عموماً اسلامی علوم کا اسی زاویہ نگاہ سے مطالعہ کیا اور اپنی تحقیقی کاوشیں علمی دنیا کے سامنے پیش کی ہیں، اگر اسلامی علوم کو اسی زاویہ نگاہ سے پڑھنا پڑھانا ہو جس زاویہ نگاہ سے انہیں مستشرقین نے پڑھا ہے یا آج بھی مغرب کے کئی جامعات میں پڑھے پڑھائے جاتے ہیں تو جیتی جاگتی عملی زندگی اور اپنے سماج سے تعلق کی نوعیت کا سوال اور اس کے بارے میں مشورے اور تجاویز سب غیر متعلق ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر ان علوم کو اس نقطہ نظر سے حاصل کرنا ہو کہ یہ انبیاء علیہم السلام کی وراثت ہیں تو مذکورہ سوالات اور تجاویز سے صرف نظر ممکن نہیں ہے، اس لیے کہ انبیاء علیہم السلام کا علم محض برائے علم نہیں ہوتا، علم برائے دعوت ہوتا ہے۔ ان کا علم اس لیے ہوتا ہے کہ انسانوں کی زندگی پر نافذ اور جاری ہو اور انسانوں کو فکری و عملی طور پر انہیں قبول کرنے اور اپنے اندر جذب کرنے کے لیے تیار کیا جائے۔ یقیناًدینی مدارس میں اسلامی علوم کا حصول اسی زاویہ نگاہ سے ہوتا ہے، اس لیے بنیادی طور پر یہ علماء کرام داعیانہ مشن کے حامل ہوتے ہیں اور داعی کی اپنی ضرورت ہوتی ہے، اپنے ذاتی مفاد کے لیے نہیں بلکہ اس کے مشن کے لیے کہ لوگوں کو اپنے قریب کرے اور خود ان کے قریب ہو، انہیں سمجھے اور اپنا آپ انہیں سمجھائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جو اوصاف قرآن میں مذکور ہیں ان میں ایک صفت من انفسھم کی بھی ہے جو اسی پہلو کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ 
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کا اگر جائزہ لیں تو ان سے بھی یہ بات بڑی وضاحت کے ساتھ سمجھ میں آتی ہے۔ مثلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما کو یمن کی طرف روانہ فرمایا تو انہیں کچھ نصیحتیں فرمائیں۔ یہ حضرات وہاں حاکم بن کر بھی جا رہے تھے، مفتی بھی، معلم دین اور مبلغ و داعی بھی، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحتیں ان سب شعبوں میں کام کرنے والوں سے متعلق ہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا : یسرا ولا تعسرا، لوگوں کے لیے آسانی کرنا، انہیں تنگی میں نہ ڈالنا۔ معلوم ہوا کہ مفتی کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کے لیے یسر اور سہولت کے پہلو کو مد نظر رکھے، معلم کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیم کو آسان سے آسان بنائے، حاکم کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ رعایا سے آسانی کا برتاؤ کرے اور انہیں تنگی اور مشقت میں نہ ڈالے۔ مبلغ و داعی کے لیے بھی یہی ہدایت ہے۔ ظاہر ہے کہ لوگوں سے روابط، ان سے تعلقات کار اور انہیں سمجھے بغیر ان کے لیے آسانی کا راستہ نہیں ڈھونڈا جا سکتا۔ اس سے اگلی ہدایت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے وہ اس معاملے میں اس سے بھی واضح ہے، آپ نے فرمایا : بشرا ولا تنفرا، دین کو اس انداز سے پیش کرو کہ وہ خوشی خوشی اسے قبول کرنے کے لیے تیار ہوں۔ بشرا  کا لفظ بشر سے نکلا ہے جس کا معنی جسم بالخصوص چہرے کے ظاہری حصے کے ہیں۔ تبشیر ایسا خوش کرنے کو کہا جاتا ہے جس سے انسان کا چہرہ دمک اٹھے اور اس کی شکل بتا رہی ہو کہ وہ خوش ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ دین ایسے انداز سے پیش کرو کہ جنہیں وہ پیش کیا جا رہا ہے وہ اسے انتہائی رضا و رغبت کے ساتھ قبول کریں، محض خاموشی نیم رضا والی بات بھی نہ ہو۔ اسی ہدایت کے دوسرے جملے میں فرمایا : ولا تنفرا  جس کا لفظی ترجمہ ہم کر سکتے ہیں: ’’انہیں بدکاؤ نہیں‘‘۔ یعنی ان سے ایسا برتاؤ نہ کرو، ان کے سامنے اپنی بات ایسے انداز سے نہ رکھو جس سے وہ تم سے اور تمہاری بات سے دور ہوں اور بدکنے لگیں اور تمہارے قریب آنا انہیں مشکل محسوس ہو۔ 
بات یہاں سے شروع کی گئی تھی کہ علماء کی جدید طبقے کے ساتھ ہم آہنگی کے فقدان پر بات کرنے کے لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان حضرات کے سوسائٹی کے ساتھ تعلق کے بارے میں بات کی جائے۔ بہت سے مسئلے اسی جڑ کو پکڑ کر درست کرنے سے حل ہو سکتے ہیں۔ اب تک جو عرض کیا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس طرح کی بحث اور گفتگو ضروری نہیں کہ انہیں یا ان کے شاگردں اور حلقہ اثر کو ’’دنیا دار‘‘ بنانے کے لیے ہو، بلکہ یہ بحث ان کے عظیم داعیانہ بلکہ قائدانہ منصب کا تقاضا ہے۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے ایک جگہ دینی مدرسے کا تعارف کراتے ہوئے بڑی خوبصورت بات کہی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ دینی مدرسہ در حقیقت وہ پائپ لائن ہے جو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض حاصل کرتی اور زندگی کو اس سے سیراب کرتی ہے، اس لیے اس کا کام تب پورا ہوتا ہے جب اس کا ایک سرا دربارِ رسالت سے جڑا ہوا ہو اور دوسرا سرا جیتی جاگتی عملی زندگی سے۔ اس پہلو سے اگر دیکھیں تو ہمارے مدارس کے فضلاء کے مزاج، رویے اور سوچ میں بہتری کی گنجائش اور ضرورت کے موجود ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اس سلسلے میں یہاں چند گزارشات پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ 
ہمارے مدارس کا نظام تعلیم و تربیت کچھ ایسا ہے کہ طالب علم شروع ہی سے اپنے ماحول اور معاشرے سے گھل مل نہیں پاتا۔ کم از کم آٹھ سالہ درس نظامی کے دوران سال کے تعلیمی ایام تو اسے گھر سے دور کسی مدرسے میں گزارنے ہی ہوتے ہیں۔ تقریباً دو ماہ کی سالانہ تعطیلات میں بھی بیشتر طلبہ کی اولین ترجیح اور خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ یہ ایام بھی کسی ’’دورہ‘‘ وغیرہ کے عنوان سے کسی مدرسے ہی میں گزاریں۔ یوں وہ تعلیم کے پورے عرصے کے دوران نہ صرف اپنے گاؤں، شہر اور معاشرے سے بلکہ اپنے خاندان تک سے کٹا رہتا ہے۔ (اسی لیے میں تو بیشتر طلبہ کو یہ مشورہ دیا کرتا ہوں کہ وہ تعطیلات اپنے گھر میں گزارنے کی کوشش کریں بلکہ کھیتی باڑی، کاروبار وغیرہ میں والدین کے کام میں کچھ ہاتھ بھی بٹائیں)۔ اوپر سے بعض اوقات جونہی ایک بچہ یا نوجوان دینی تعلیم کے حصول کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی جاتی ہے کہ اب وہ چونکہ ’’دنیادار‘‘ سے ’’دین دار‘‘ ہونے جا رہا ہے، اس لیے اسے یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ ’’دنیا داری‘‘ کے انتہائی گندے تالاب سے نکل کر ’’دین داری‘‘ کی انتہائی مقدس دنیا کی طرف جا رہا ہے، اب پچھلی دنیا سے اس کا کوئی واسطہ اور لینا دینا نہیں ہے۔ اگر کبھی اس نے پیچھے مڑ کر دیکھنا بھی ہے تو ان ’’دنیا دار‘‘ اور ’’گنہگار‘‘ لوگوں کو ’’ٹھیک‘‘ کرنے کے لیے۔ اس طرح اس میں اپنی سوسائٹی میں گھلنے ملنے اور سماج کی فکرمندیوں، غموں اور خوشیوں کا حصہ بننے، اپنے معاشرے اور ملک کے مسائل کو اپنے مسائل سمجھنے کا داعیہ پیدا نہیں ہو پاتا۔ اس طرح سے اس کی اور اس جیسے کچھ اور لوگوں کی ایک بالکل الگ ذہنی دنیا آباد ہوتی ہے جس سے باہر نکلنا وہ گوارا نہیں کرتا اور یہ صورت حال اس کے گاؤں کی سطح سے لے کر ملکی اور عالمی مسائل تک ہوتی ہے۔ فرض کریں، کبھی ملک میں عام انتخابات ہونے والے ہوں جس کے نتائج ملک کی سیاسی، معاشی اور بین الاقوامی تعلقات وغیرہ کے حوالہ سے فیصلہ کن اور گہرے دور رس اثرات مرتب کرنے والے ہوں، اتفاق سے انہی انتخابات میں کسی ایک آدھ نشست پر کسی دینی جماعت کے کوئی راہ نما بھی امیدوار ہوں اور وہاں کسی قدر فرقہ وارانہ نوعیت کا انتخابی معرکہ بپا ہو، ایسے ماحول میں آپ پورے ملک کے مدارس کا دورہ کر کے اور ان میں زیر تعلیم طلبہ کی الیکشن میں دلچسپیوں کے رخ کا جائزہ لے کر دیکھ لیں کہ ان میں سے کتنے لوگ اس پر بحث کر رہے ہیں کہ بحیثیت مجموعی کون سی جماعت کے برسر اقتدار آنے کی صورت میں ملک کے اندرونی و بیرونی معاملات پر کیا مثبت یا منفی اثرات ہوں گے اور ملکی پالیسیاں کیا رخ اختیار کریں گی، اور ان طلبہ میں کتنے ایسے ہوں گے جن کی ذہنی سوئی اسی ایک انتخابی نشست پر اٹکی ہوئی ہوگی جس کے بظاہر ملک کی عمومی صورت حال پر کوئی خاص اثرات مرتب ہونے والے نہیں ہوں گے۔ حاصل یہ کہ چھوٹے سے چھوٹے دائرے سے لے کر وسیع سے وسیع تر سطح پر دیکھیں تو ہمارے ان مدارس کے اندر تعلیم حاصل کرنے والوں میں من انفسھم  جیسے اہم نبیوں والے وصف کی جھلک بہت کم نظر آئے گی۔ دینی مدارس کے ذمہ داران کو اس صورت حال کے اسباب کا تجزیہ کر کے اس سے نکلنے کی کوئی صورت ضرور نکالنی چاہیے۔
علماء کرام کی جدید طبقے کے ساتھ ہم آہنگی بھی ایک حد تک اسی صورت حال کا شاخسانہ ہے۔ علماء کرام اور جدید طبقے کے تعلقات کی جب ہم بات کرتے ہیں تو ’’جدید طبقے‘‘ میں کئی قسم کے لوگوں کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ ایک وہ لوگ ہیں جو سرے سے مسلمان ہی نہیں ہیں۔ ایک وہ لوگ ہیں جو مسلمان ہونے کے باوجود اپنے کام اور شعبے میں ایسے منہمک ہیں کہ دین کی تشریح و تعبیر یا مسلم امہ کے عمومی مسائل سے انہیں کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ کچھ حضرات ایسے ہیں جنہوں نے باقاعدہ طور پر دینی مدارس کے نظام میں تعلیم نہیں پائی ہوتی یا اس میں تعلیم پانے کے باوجود ان کے فکری منہج سے وابستہ نہیں رہے ہوتے، تاہم دینی علوم ان کی محنتوں کا محور ہوتے ہیں لیکن دین کی تفہیم و تعبیر میں ان کا نقطہ نظر دینی مدارس کے حضرات سے مختلف ہوتا ہے۔ بعض حضرات ایسے بھی ہیں جو دینی علوم میں نہ تو مہارت کا دعویٰ کر سکتے ہیں اور نہ ہی ان میں اپنی آرا رکھتے اور ان کا اظہار کرتے ہیں، البتہ مسلم امت کو بحیثیت مجموعی درپیش مسائل اور چیلنجز کے بارے میں وہ سوچتے بھی ہیں اور ان ایشوز پر اپنی رائے بھی رکھتے ہیں اور بسا اوقات ان کے پیش کردہ حل اور تجاویز دینی مدارس کے علماء کی سوچ اور فکر سے مختلف ہوتی ہیں۔ اس وقت بنیادی طور پر ہم موخر الذکر دو طبقات کے ساتھ علماء کرام کے تعلقات کے حوالے سے بات کرنا چاہتے ہیں۔
یہ بات تو کافی حد تک درست ہے کہ ان طبقات اور علماء کرام میں ہم آہنگی کا فقدان ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ہم آہنگی پیدا کرنے کا مطلب کیا ہے؟ ہم آہنگی سے مراد یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ہر ہر ایشو پر سب کی رائے بالکل ایک ہو۔ ایسا ہونا نظام قدرت کے خلاف ہونے کے ساتھ تنوع سے پیدا ہونے والے حسن اور اختلاف رائے سے پیدا ہونے والے متبادل راستوں سے ہاتھ دھونے کا بھی باعث ہوگا۔ ہم آہنگی سے مراد یہ ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف تو ہو مخالفت نہ ہو، سب ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سننے اور گوارا کرنے کے لیے تیار ہوں۔ 
اس سلسلے میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ان تمام طبقات کو اس بات کا بھرپور ادراک ہونا چاہیے کہ ان کے تجویز کردہ راستے اگرچہ ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں، لیکن منزل سب کی ایک ہے۔ منزل ایک ہونے کا ادراک اپنے بارے میں بھی ہو اور دوسروں کے بارے میں۔ اپنے بارے میں اس معنی میں کہ منزل سے نظر ہٹ جانے کی وجہ سے اپنے تجویز کردہ راستے ہی کو منزل سمجھنے کی غلطی نہ ہو، اور دوسروں کے بارے میں اس معنی میں کہ ان کے بارے میں محض اپنے حریف ہونے کا تصور نہ ہو بلکہ ایک معنی میں ہم سفر ہونے یا ہم منزل ہونے کا ادراک بھی ہو اور ان طبقات سے ان کا فرق ملحوظ رہے جن کی منزل ہی بالکل الگ ہے۔ اس ادراک اور استحضا ر کی ذمہ داری صرف ایک خاص طبقے پر نہیں ڈالی جا سکتی، بلکہ یہ گزارش ان تمام طبقات سے کرنی ہوگی جن کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا مقصود ہے۔ 
دوسری بات اس سلسلے میں قابل گزارش یہ ہے کہ ہر طبقے کو چاہیے کہ وہ دوسرے طبقے سے ربط و تعلق، ان کی بات سننے اور اپنی بات سنانے اور ایک دوسرے کی بات پر سنجیدگی سے غور کرنے کو خود اپنی، اپنے مشن اور اپنے مقاصد کی ضرورت سمجھے۔ دو وجہ سے، ایک تو اس لیے کہ میں دیانت داری سے اگر ایک نقطہ نظر یا ایک تجویز کو درست سمجھتا ہوں اور میری یہ بھی دیانت دارانہ رائے ہے کہ دوسرا شخص بھی میری بات کو قبول کر لے تو اچھاہوگا، تو میں اس بات کا ایک طرح سے داعی بن گیا ہوں۔ اس لیے دعوتی رویہ اور انداز اپنانا میرے اپنے مقصد کی ضرورت ہے، اور جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا، داعی کا کام تبشیر ہے ، تنفیر اس مقصد کے لیے مضر ہے۔ داعی کا کام تقاضا کرتا ہے کہ وہ خود بھی دوسروں کے قریب ہو اور دوسروں کو اپنے قریب کرے۔ اگر میں کسی کی بات سننے ہی کا روادار نہیں ہوں گا تو اس کے میرے دعوتی مقاصد پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ جن طبقات کی ہم بات کر رہے ہیں، ان کی منزل اور بنیادی مقاصد ایک ہیں۔ اپنے مقصد اور اپنی منزل سے سچی لگن کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کے لیے بہتر سے بہتر راستے اور موثر سے موثر طریق کار کے لیے متلاشی رہے۔ اپنے مقاصد سے سچی لگن رکھنے والا کبھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے اس حصول کے لیے جو کچھ سوچا اور کیا ہے، وہی کافی ہے۔ اگر کسی اور کے ہاں اسے کوئی ایسی چیز ملے جو اسے مقصد کے قریب کر سکتی ہو تو وہ لازماً اس طرف توجہ دے گا اور اس سے محض اس وجہ سے منہ نہیں پھیرے گا کہ وہ بات ہمارے لوگوں کی نہیں ہے۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ دانائی کی بات مومن کی گم شدہ متاع ہے، جہاں سے بھی اسے ملے وہ اس کا حق دار ہے۔ اس حدیث مبارک میں در اصل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی معاشروں کے ایک دوسرے سے استفادے میں حائل ایک بہت بڑی نفسیاتی رکاوٹ کو دور فرمایا ہے۔ عموماً ہوتا یہ ہے کہ اگر اچھی بات اپنے کسی حریف اور مد مقابل کی طرف سے سامنے آئے تو اسے قبول کرنے میں انسان کی انا رکاوٹ بن جاتی ہے۔ وہ یہ سوچتا ہے کہ میں اس کی بات لے کر ایک طرح سے اس کے زیر احسان ہو جاؤں گا اور اس کی چیز استعمال کرنے والا بن جاؤں گا۔ یہ تصور اس کے دل میں اس کے استعمال کے بارے میں خاص قسم کی ہچکچاہٹ پیدا کرتا ہے۔ اگر میرے پاس اپنی گھڑی نہیں ہے اور کوئی دوسرا شخص کہہ دیتا ہے کہ میری گھڑی تم باندھ لو اور اپنے استعمال میں لے آؤ تو فطری بات ہے کہ مجھے اپنی کمتری کا ایک خاص قسم کا احساس ہوگا کہ میں فلاں کی چیز استعمال کر رہا ہوں، لیکن اگر مجھے یہ بتا دیا جائے کہ یہ چیز ہے ہی تمہاری، یا اس پر تمہارا بھی اتنا ہی حق بنتا ہے جتنا دوسرے کا تو ظاہر ہے کہ میری یہ خاص قسم کی ہچکچاہٹ ختم ہو جائے گی۔ 
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث مبارک میں اسی دکھتی ہوئی رگ پر ہاتھ رکھ کر مسئلے کو جڑ سے پکڑا ہے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم مومن کو یہ نہیں بتا رہے کہ دانائی کی بات کسی سے اگر ملتی ہے تو وہ ہے تو اسی کی مگر تم اسے لے لو، بلکہ آپ یہ فرما رہے ہیں کہ وہ تمہاری ہے، اس لیے اس کے لینے میں تمہیں کسی قسم کی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ دانائی کی کوئی بھی بات ہو انسان زیادہ سے زیادہ اسے دریافت کرتا ہے اس کا خالق نہیں ہوتا، اسے پیدا کرنے والے کی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے خاص فرد یا خاص قوم کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے پیدا کیا ہے، اس لیے اسے دریافت کرنے والے کو اس دریافت کا کریڈٹ اور صلہ تو ضرور ملنا چاہیے، لیکن اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ یہ دانائی ہے ہی اس دریافت کرنے والی کی، کوئی اور اگر اس سے فائدہ اٹھائے گا تو دوسرے کی چیز سے مستفید ہو کر اس کے مقابلے میں کم تر ہو جائے گا تو یہ غلط فہمی ہوگی۔ اس لیے کہ خالق کائنات نے یہ چیز جن کے لیے بنائی ہے، ان میں صرف اس کو دریافت کرنے والا ہی نہیں، استعمال کرنے والا بھی شامل ہے۔ حاصل یہ کہ مذکورہ بالا قدیم و جدید طبقات کو ایک دوسرے کی بات سننے کا تسلسل جاری رکھنا چاہیے، اپنی ضرورت سمجھ کر کہ ہو سکتا ہے کہ ہماری اپنی متاع دوسرے کے پاس موجود ہو اور اب تک ہم اسے حاصل نہ کر سکے ہوں، یہ ضرورت دونوں طبقوں کی ہے۔ طبقہ علما دیگر طبقات سے بہت کچھ حاصل کر سکتا ہے اور دیگر طبقات کے سیکھنے کے لیے طبقات علماء کے پاس بھی بہت کچھ موجود ہو سکتا ہے۔ 
یہاں دینی مدارس کے حلقوں کے دو معروف بزرگوں کی مثالیں ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ان میں ایک تو مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی شخصیت ہے جنہیں عموماً بانی دار العلوم دیوبند کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ مولانا مناظر احسن گیلانیؒ نے سوانح قاسمی میں دارالعلوم دیوبند کے جلسہ دستار بندی کے موقع پر دیا گیا مولانا نانوتوی کا ایک خطبہ نقل کیا ہے جس میں انہوں نے اس بات کا اظہار فرمایا ہے کہ ہم نے اپنا نصاب اس انداز سے تشکیل دیا ہے کہ یہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد طالب علم عصری تعلیمی اداروں کا رخ بھی کر سکے۔ دوسری مثال شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی زندگی کا وہ آخری خطبہ صدارت ہے جو ان کی طرف سے جامعہ ملیہ کے افتتاحی جلسے میں پڑھا گیا تھا۔ اس میں انہوں نے کھل کر اس بات کا اظہار فرمایا ہے کہ جب انہوں نے محسوس کیا کہ جس درد اور فکر کو وہ اٹھائے پھر رہے ہیں، اس میں ان کے ہمنوا بننے والے کالجز اور یونیورسٹیز کی لائن میں زیادہ لوگ مل سکتے ہیں تو انہیں خیال ہوا کہ ایک قدم اس طرف بھی بڑھا کر دیکھ لیا جائے۔ ان دو مثالوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دینی مدارس کی لائن کے بزرگوں کے پیش نظر یہ بات نہیں تھی کہ وہ باقی طبقات زندگی سے کٹی ہوئی کوئی مخلوق تیار کریں جو کسی اور کے قریب جانے یا کسی کو اپنے قریب کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔ 
تیسری گزارش میں یہاں پر یہ کرنا چاہوں گا کہ ایک دوسرے کی بات سننے اور سنانے کے نتیجے میں جہاں بعض باتوں پر اتفاق رائے ہو سکتا ہے، کئی مشترکہ و متفقہ نکات اور پہلو سامنے آسکتے ہیں یا ایک طبقے کے لوگ دوسرے طبقے کے بعض لوگوں کی کسی بات سے متفق ہو سکتے ہیں، وہیں ایک دوسرے کے نقطہ نظر سے اختلاف بھی ہو سکتا ہے اور اس اختلاف کا اظہار بھی ہو سکتا ہے۔ اتفاق ہو یا اختلاف رائے دونوں کے فوائد ناقابل انکار ہیں، لیکن ماضی میں ایک دوسرے طبقے کے ساتھ تخاطب میں دونوں طرف سے بعض ایسی غلطیاں بھی سرزد ہوئی ہیں جو ایک دوسرے کے قریب ہونے یا کم از کم ایک دوسرے کی بات پر سنجیدہ غور کرنے کی راہ میں حائل ہوگئی ہیں۔ بہت سی جگہوں پر اندازِ بیان حریفانہ ہوگیا ہے جو کہ ظاہر ہے کہ ایک ہی منزل کے راہیوں کے شایان شان نہیں ہے۔ بعض اوقات اندازِ تخاطب میں چبھن یا ایک دوسرے کی تحقیر بھی پیدا ہوگئی۔ مثلاً ایک طبقے کے بعض لوگوں کو کسی قدر استہزا کے انداز میں حالاتِ زمانہ سے ناواقف قرار دیا گیا، دوسرے طبقے کی طرف سے جواب میں پہلے کی نیت یا اسلام سے اس کے لگاؤ ہی پر شک کا اظہار کر دیا گیا، بعض حالات میں ایک دوسرے کی کسی موضوع پر رائے زنی کی اہلیت یا استحقاق ہی کو چیلنج کر دیا گیا گیا جس سے حریفانہ کشمکش میں اضافہ ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں طرف سے ہی اس طرح کے انداز خطاب نے دوریاں اور بد گمانیاں پیدا کرنے میں کردار ادا کیا ہے، اگرچہ دونوں طرف سے استثناء ات بھی کم نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں مزید احتیاط کی ضرورت ہے، اس لیے کہ اس طرح کے اختلافی امور پر بات یا تو مباحثے کے لیے ہوتی ہے یا دوسرے شخص کو اپنی بات کا قائل کرنے اور اسے دعوت دینے کے لیے۔ مذکورہ لب و لہجہ دونوں مقاصد کے منافی ہے، خاص طور پر ایک دوسرے کی نیت پر حملہ کرنے یا دوسرے فریق کی اس موضوع پر بات کرنے کی اہلیت ہی کو جلدی سے چیلنج کر دینے کا انداز مطلوبہ نتائج کے لیے بہت نقصان دہ ہوتا ہے۔ 
ہمارے ایک استاذ حضرت مولانا عبد المجید انور صاحبؒ اپنا ایک لطیفہ نما واقعہ سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ وہ کہیں سفر کے لیے ویگنوں کے اڈے پر گئے۔ جیسا کہ ہوتا ہے، مختلف ویگنوں اور بسوں والے ان کے پیچھے ہوگئے، کہاں جانا ہے، فلاں جگہ جانے کے لیے فلاں قسم کی سواری بالکل تیار ہے۔ ہر کوئی اپنی گاری کی طرف بلا رہا ہے، مولانا ان کی صداؤں کو نظر انداز کرتے تشریف لے جا رہے ہیں۔ اتنے میں ایک کنڈکٹر ان کے ہاتھ سے بیگ کھینچتے ہوئے اپنی گاڑی کی طرف لے جانے کی کوشش کرتا ہے۔ مولانا اپنے بیگ پر اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے اس سے کہتے ہیں کہ مجھے معلوم ہے کہاں جانا ہے اور کون سی گاڑی پر بیٹھنا ہے۔ وہ کارندہ مایوس ہو کر یہ کہتے ہوئے پیچھے ہٹ جاتا ہے: ’’تسیں مولویاں نے ہی ملک دا بیڑا غرق کیتا اے‘‘ (تم مولویوں نے ہی ملک کا بیڑا غرق کیا ہوا ہے)۔ مولانا فرماتے تھے کہ چونکہ میں اس کی گاڑی میں نہیں بیٹھا، اس لیے صرف میں نہیں، میرے جیسے سارے مولوی ہی ملک کا بیڑا غرق کرنے کے ذمہ دار ہوگئے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں ہم نے اپنی اپنی ویگنیں اور بسیں بنائی ہوئی ہیں اور جو ہماری بس میں نہ بیٹھے وہ ملک و ملت کا غدار ہے، وہ اس قابل نہیں کہ اس کی بات بھی سنی جائے۔ 
جس طرح میاں بیوی کے درمیان مزاج کی ہم آہنگی کا فقدان ہو تو بھی ایک چیز ایسی ہوتی ہے جو انہیں ایک دوسرے کے قریب رکھتی اور بنا کر رکھنے پر مجبور کرتی ہے، اور وہ چیز ہے ان کی اولاد۔ اس لیے کہ ان کی بہبود دونوں کا مشترکہ مسئلہ اور خواہش ہے، دونوں کا ان کے ساتھ لگاؤ بھی یکساں نوعیت کا ہے۔ جتنا ان کا اولاد کی طرف دھیان رہے گا، اتنا ہی ان کے باہمی اختلاف اور تنازعے میں کمی آئے گی اور جتنی یہ نظروں سے اوجھل ہوگی، اتنی ہی ان کی باہمی کش مکش اپنے اثرات زیادہ دکھائے گی۔ جن طبقوں کی یہاں ہم بات کر رہے ہیں، ان کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ یہاں بھی ایک چیز ایسی ہے جس کی طرف زیادہ توجہ کرنے سے ان دونوں میں قرب بڑھ سکتا ہے، اور وہ ہے امت کی مجموعی مشکلات و مسائل، اسے درپیش چیلنجز اور عام لوگوں کو دین پر عمل کے سلسلے میں پیش آنے والی دشواریاں۔ ان کی طرف توجہ مبذول ہونے کے لیے عملی اور زمینی حقیقتوں کا ادراک ضروری ہے۔ بعض اوقات دونوں طبقوں میں نظری قسم کی بحثیں زیادہ ہوتی ہیں جو انہیں ایک دوسرے سے زیادہ دور لے جاتی ہیں۔ اگر ان نظری بحثوں کے ساتھ عملی حقائق و واقعات اور لوگوں کی مشکلات، کسی خاص پالیسی، قانون یا حکم کے ان کی زندگی پر مرتب ہونے والے اثرات پر بھی نظر ہو تو یہ چیز ان کے درمیان فاصلے اسی طرح کم کر سکتی ہے جیسے اولاد میاں بیوی کے درمیان۔ 
اس سلسلے میں ہم یہاں مثال دے سکتے ہیں عائلی قوانین پر پچھلی صدی کے پچاس کے عشرے میں شروع ہونے والی بحث کی جس نے اپنی بحثوں کو نظریاتی چیزوں تک ہی محدود رکھا، کسی نے بھی بالتفصیل عملی حقائق معلوم کرنے اور یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ کس طرح کے قانون یا حکم سے لوگوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ بالخصوص عورتوں اور بچوں پر کس صورت پر کیا بیتے گی۔ حکومت کے مقرر کردہ عائلی کمیشن رپورٹ میں قرآن کی تشریح و تعبیر کے لیے نئے اجتہاد کی ضرورت جیسی عمومی بحثوں پر کئی صفحات موجود ہیں، لیکن حیرت کی بات ہے کہ زیر بحث خاندانی مسائل میں امر واقعہ کیا ہے؟ کس مسئلے میں کیا ہو رہا ہے؟ اور اس پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ اس بارے میں اعداد و شمار اور معلومات اس رپورٹ میں موجود ہی نہیں اور نہ ہی انہیں اکٹھا کرنے اور میدانی تحقیق (فیلڈ ورک) کرانے کی کوئی ضرورت محسوس کی گئی۔ جب تک معاشرے کے بارے میں جس پر مجوزہ قوانین لاگو ہونے ہیں، درست معلومات موجود نہیں ہوں گی، تب تک یہ فیصلہ کیسے کیا جا سکے گا کہ جو کچھ تجویز کیا جا رہا ہے، اس سے مطلوبہ نتائج برآمد ہوں گے۔ 
مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ آج تک ان مسئلوں پر بحث کسی نہ کسی سطح پر جاری ہے اور اس میں ایک فریق دوسرے کو یہ الزام دے رہا ہے کہ وہ معاشرے کو پیچھے کی طرف لے جانا چاہتا ہے اور دوسرا پہلے کو یہ الزام کہ وہ مطلوبہ رفتار سے زیادہ تیزی کے ساتھ آگے کی طرف بڑھ رہا ہے اور یہ کہ یہ تیز رفتاری خطرناک ہو سکتی ہے، لیکن معاشرے میں کیا ہو رہا ہے، کن کن علاقوں میں کتنے فیصد بچپن کے نکاح ہو رہے ہیں؟ ان کے محرکات اور عوامل کیا ہوتے ہیں؟ ان میں کتنے نکاحوں میں رخصتی تک نوبت پہنچتی ہے اور کتنوں میں رخصتی سے پہلے ہی پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں؟ رخصتی ہو جانے کے بعدان میں کتنے فیصد نکاح کامیاب ثابت ہوتے ہیں؟ یا مثلاً ہماری عورتیں خلع یا فسخِ نکاح کا دعویٰ لے کر عدالتوں میں آتی ہیں، اس کی وجوہات عموماً کیا ہوتی ہیں؟ وکیل کے تیار کیے ہوئے کیس اور حقیقی وجوہات میں کتنی یکسانیت ہوتی ہے؟ کتنے فیصد مقدمات میں واقعی بیوی اپنے خاوند سے علیحدگی چاہتی ہوتی ہے اور کتنے فیصد کیسوں میں وہ اپنے خاندان کی انا کی بھینٹ چڑھ کر دباؤ کے تحت عدالت میں بیان دے رہی ہوتی ہے؟ میاں بیوی کے درمیان تفریق کے بعد کیا ہوتا ہے اور کسے کس طرح کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے؟ اس طرح کے بے شمار سوالات ہیں جن کے بارے میں قابل اعتماد اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں، حالانکہ آج شماریات کا دور ہے، ہر کامیاب پالیسی کے پیچھے میدانی تحقیق (field research)، مصدقہ سروے اور اعداد و شمار ہوتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جدت پسندی کا دعویٰ کرنے والوں کو بھی اس طرح کے مسائل میں امرِ واقعہ جاننے اور اس کے لیے سائنٹیفک انداز اپنانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ حکومتی وسائل کے ساتھ اسلام پر کام کرنے والے اداروں نے اس طرح کا کام کروانے کی غالباً کبھی ضرورت محسوس نہیں کی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جدید دینی موضوعات پر ہماری بحثوں اور تحقیقات کی نوعیت نظری زیادہ اور عملی کم ہے، حالانکہ سائنسی انداز سے سامنے لائے جانے والے حقائق کا نہ تو انکار ممکن ہوتا ہے اور نہ کوئی اس سے صرف نظر کر سکتا ہے، ہم عملی صورت حال اور جیتی جاگتی زندگی سے جتنا متعلق ہوں گے، اتنا ہی ایک دوسرے کے قریب ہوں گے۔
بہرحال ہم آہنگی کی اساس یہی ہے کہ ایک دوسرے کی بات کو سنا اور سنایا جائے، اس پر غور کیا جائے۔ الحمد للہ آج کی صورت حال گزشتہ ایک آدھ عشرے کے مقابلے میں خاصی بہتر ہے۔ کئی ایسے فورم موجود ہیں جہاں دونوں طبقے کے لوگ اکٹھے ہوتے اور ایک دوسرے کی بات سنتے ہیں اور ایسے ہر پروگرام کے بعد ہر طبقے کے شرکا اس کی افادیت اور اس طرح کے پروگرام مزید ہونے کی ضرورت کا اعتراف کرتے ہیں۔ ’’سرسٹ‘‘ بھی اسی نوعیت کی اچھی کوشش ہے، دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے زیادہ سے زیادہ بار آور بنائیں۔ آمین۔ 
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
(بشکریہ مجلہ ’’سائنس ریلیجین ڈسکورس‘‘ ۲۰۱۰ء)

شعبہ اسلامیات، جامعہ پنجاب کا علمی کام

پروفیسر خالد ہمایوں

۸ فروری کو میرا ایک کالم ’’دور جدید کے تقاضے اور شعبہ اسلامیات پنجاب یونیورسٹی‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس میں، میں نے شعبہ کے اساتذہ کی تصانیف کی فہرست پیش کی تھی اور ساتھ عرض کیا تھا کہ اس میں سوائے ایک کتاب (یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ) کے کوئی دوسری کتاب ایسی نظر نہیں آتی جس میں ہمارے سماجی اور ریاستی نظام کو زیر بحث لایا گیا ہو۔ ماضی بعید یا قریب کے کسی مفسر، کسی محدث، کسی سیرت نگار اور کسی فقیہ کو تحقیق کا موضوع بنانا بھی بلا شبہ بہت اہم کام ہے۔ آخر ہم اپنے کلاسیکی دینی لٹریچر کو کیسے فراموش کر سکتے ہیں، وہ تو ہماری تہذیبی زندگی کی اساس ہے، لیکن میرے نزدیک اساتذہ کرام کی یہ روش کسی طرح بھی موزوں و مناسب نہیں کہ وہ آج کی پر مسائل اور پر مصائب زندگی سے آنکھیں پھیر لیں۔ اگر ہم اسلام کو زندگی کی تمام اطراف کے لیے راہنما دین مانتے ہیں تو پھر اس کی تشریح و توضیح عہد جدید کے تقاضوں کے مطابق کیوں نہ کریں۔ 
اساتذہ کرام کی کتابوں کے بعد جب مجھے شعبہ اسلامیات کے ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالات کی فہرست دیکھنے کا اتفاق ہوا تو سچی بات ہے میرا دل امید کی روشنی سے بھر گیا۔ یوں لگا جیسے راکھ میں ابھی کچھ چنگاریاں باقی ہیں۔ مذکورہ فہرست شعبہ کے اساتذہ ہی نے ترتیب دی اور شعبہ ہی نے اس کی اشاعت کا اہتمام کیا ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن 1990ء میں منظر عام پر آیا تھا، تب سے آج تک اس کے چھ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے علمی برادری میں بہت پذیرائی ملی ہے۔ یقیناًدیگر یونیورسٹیوں اور علمی اداروں میں اس سے بہت کچھ استفادہ کیا گیا ہوگا۔ طبع سوم میں فاضل مرتبین نے تعارفی نوٹ میں لکھا: ’’مقالات کے لکھوانے کا مقصد جہاں طلبہ و طالبات کی تخلیقی و تحقیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا ہے، وہاں اہم عصری و تہذیبی مسائل پر قرآن و سنت اور عصری علوم کی روشنی میں معاشرے کی رہنمائی بھی کرنا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ تحقیقات محض لائبریریوں کی زینت نہ بنی رہیں بلکہ اہل علم و محققین اور معاشرے کے دیگر طبقات کے سامنے بھی لائی جائیں تاکہ وہ اس سے رہنمائی حاصل کریں۔ مذکورہ فہرست کا ایک مقصد ارباب دانش کو اس تحقیقی کام کی اہمیت و افادیت کی طرف توجہ دلانا ہے۔‘‘
مذکورہ فہرست کے مطابق 1952ء سے 2009ء تک ایم اے کے 1634، ایم فل کے 88 اور پی ایچ ڈی کے 175 مقالات لکھے گئے ۔۔۔ (معلوم نہیں سرورق پر 2010ء - 1952ء کا دورانیہ کیوں ظاہر کیا گیا ہے) ۔۔۔ ایم اے کے بعض مقالات پنجاب یونیورسٹی سے ملحقہ کالجوں میں بھی لکھے گئے، لیکن مرتبین نے پیش لفظ میں یہ وضاحت نہیں دی۔ یہ وضاحت نہ دینے سے یوں لگتا ہے جیسے ایم اے کے تمام مقالات شعبہ ہی کے طلبہ و طالبات نے لکھے ہیں ۔۔۔ ’’فہرست مقالات‘‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے ہم بے شمار ایسے عنوانات سے متعارف ہوتے ہیں جن کا تعلق آج کے دور سے ہے۔ بعض مقالات کتابی صورت میں بھی اہل علم تک پہنچے ہیں۔ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں اساتذہ کے تصنیفی سرمایے پر جو اظہار خیال کیا تھا تو اس کا مقصد خدانخواستہ ان کے مقام و مرتبے کو گھٹانا نہ تھا بلکہ توجہ دلانا تھا کہ وہ معاصر ملی و عالمی مسائل کو بھی موضوع تحقیق بنائیں۔ فہرست مقالات نے شہادت دی ہے کہ اساتذہ کرام نے اپنے شاگردوں سے ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی ، تینوں سطحوں پر ایسے موضوعات پر بہت کام کروایا ہے۔ اس حوالے سے اُن کی مساعی یقیناًقابل قدر ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں اور زیادہ توفیق عطا کرے۔ یہاں گنجائش تو نہیں کہ مختلف النوع موضوعات پر لکھے گئے سبھی مقالات کا تعارف کرایا جائے، البتہ ایسے عنوانات کی فہرست قارئین کی نذر کی جاتی ہے جس میں قارئین ملی و ملکی اور عالم اسلام کے جدید ترین مسائل پر ہونے والے کام سے تعارف حاصل کر سکتے ہیں۔ 

ایم اے کے مقالات: 

اسلام میں انشورنس کی اہمیت اور پاکستان میں اس کے نفاذ کی تدابیر، موجودہ دور کی تعلیم یافتہ مسلمان عورت کی الجھنیں اور ان کا حل، پاکستان کی نسوانی تحریکیں، ٹیکس کا موجودہ نظام اور زکوٰۃ، سینما کی شرعی حیثیت، موجودہ جہیز۔ ایک غیر اسلامی معاشرتی خرابی، یونیورسٹی میں پردے کا مستقبل، میثاق استنبول، موجودہ مسلمان معاشرے میں لڑکی کی حیثیت، پاکستان کی دینی جماعتوں کا مختصر جائزہ، اسلام اور بہبودئ اطفال، دور حاضر میں عورت کی ملازمت کا مسئلہ، پاکستانی معیشت میں بلاسودی اسکیم کے نفاذ کا جائزہ، نجی سرمایہ کاری کے اسلامی اصول و ضوابط، شریعت بل، الجہاد فی افغانستان، پاکستانی معاشرے پر تہذیب جدید کے اثرات، انشورنس اور اسلام، پاکستان میں بے روزگاری کے عوامل اور اسلام کی روشنی میں انسداد، پاکستان میں نظام سرمایہ داری اور اسلام میں کشمکش، پاکستان میں نظام ٹیکس اور اسلام کے حوالے سے ناقدانہ جائزہ، عصر حاضر میں نابینا افراد کی بحالی اور اسلام، سقوط ڈھاکہ کے نظریاتی اسباب، قرآن و سنت کی روشنی میں مصوری اور مجسم سازی، اعضاء کی پیوند کاری اور انتقال خون، آئین 1973ء کی 8ویں ترمیم، منشیات کے بڑھتے ہوئے رجحانات، انتظامیہ اور عدلیہ کی علیحدگی کا عصری اور اسلامی تصور، ٹیسٹ ٹیوب کی شرعی حیثیت، تعلیمی پالیسی 1978ء کا تنقیدی جائزہ، پاکستان میں نظام انتخابات، حدود آرڈیننس کا جائزہ، نفسیاتی طریقۂ علاج۔ ایک جائزہ، نیو ورلڈ آرڈر، سانحہ بابری مسجد، نئی نسل کے مسائل، بچوں کی جبری مشقت، حقوق نسواں کی تحریکیں، شیئرز، پرائز بانڈ اور انعامی سکیمیں، مسئلہ ربا اور عصری تفاسیر، سٹاک ایکسچینج، موجودہ دور کے نفسیاتی مسائل، تعلیم یافتہ عورت کے مسائل، معاشی بدحالی کے اسباب و اثرات، کلوننگ کی شرعی حیثیت، دست شناسی، موجودہ نظام وکالت، پاکستان میں جاگیرداری نظام، عائلی زندگی کے مسائل، امریکہ اور اقوام متحدہ کے تعلقات عالم اسلام کے تناظر میں، طالبان کی بت شکنی، این جی اوز کا کردار، جیلوں میں دعوت و اصلاح کے امکانات، خاندانی منصوبہ بندی، فدائی حملے، 11 ستمبر 2001ء کا بحران، جرائم کی صورت حال، خواتین کی تفریحی سرگرمیاں، افغانستان پر امریکی حملے کے مضمرات، ملازمت پیشہ خواتین کے مسائل، الیکٹرانک میڈیا میں دینی پروگرامات، طلاق کے موجودہ رجحانات، بینکاری میں لیزنگ، بھارتی اقلیتوں کی حالت، دہشت گردی کے خلاف عالمی مہم، گلوبلائزیشن کے اثرات و نتائج، گداگری، زیردست لوگوں کی معاونت، سود کی جدید صورتیں، تعین اجرت کے اصول، طالبان کا نظام حکومت اور کوٹ میرج۔

ایم فل کے مقالات: 

عصر حاضر میں دین کی تفہیم۔ فکر مودودی کا مطالعہ، پاکستان میں دینی یکجہتی کے لیے کی گئی کاوشیں، عصری معاشری مسائل، بیسویں صدی کے اردو فتاویٰ کا تحقیقی و تقابلی مطالعہ، پاکستان میں غیر مسلموں کو دعوت دین۔ طریق کار اور عصری تقاضے، دینی مدارس کا نصاب تعلیم۔ عصری مسائل اور تقاضے، مختلف تجارتی صورتیں اور ادائیگی زکوٰۃ کا طریق کار، عالمی اقتصادی نظام کی تشکیل نو اور اسلامی تعلیمات، مغرب کی تہذیبی و ثقافتی یلغار۔ ذرائع ابلاغ کا کردار، اسلام میں عورت کی وراثت۔ عصری قوانین اور عملی صورت حال، پاکستان میں غیر مسلم اقلیتیں، پاکستان میں عدالتی بحران، پاکستان میں اسلامی بینکاری، کیرن آرمسٹرانگ کا اسلوب مطالعہ، غاصب حکمران کی حکمرانی کا مسئلہ، عالم اسلام کے قدرتی وسائل کے عالمی سیاست پر اثرات، پاکستان کا معاشی بحران اور اس کا اسلامی حل، سود سے متعلق عملی مسائل اور علمائے پاکستان،غلبۂ دین۔ تصور طریقہ کار اور عصر حاضر، معاشرتی اقدار پر ذرائع ابلاغ کے اثرات۔
آخر میں پی ایچ ڈی کی سطح کے تحقیقی کام میں سے اس حصے کو ملاحظہ فرمائیے جس میں دور جدید کے مسائل و افکار پر داد تحقیق دی گئی ہے: اسلامی قانون میں نظریۂ ضرورت کی اہمیت، مالدیپ کی مضاربت اور ادب پر اسلام کے اثرات، معاشرتی بہبود کا تصور، اسلام اور عصری افکار کی روشنی میں، افواج پاکستان کی دینی و نظریاتی تربیت، عورت کی حکمرانی قرآن و سنت اور عصر حاضر کے تناظر میں، فقہ حنفی میں مزارعت و مساقات برصغیر کے تناظر میں، پاکستان میں نفاذ اسلام کی کوششوں کا تنقیدی جائزہ، خانقاہی نظام کے اجتماعی زندگی پر اثرات، برصغیر کی خواتین کے مسائل اور ان کا حل۔کتب فتاویٰ کی روشنی میں، عصر میں سربراہ مملکت کے مالیاتی اختیارات قرآن و سنت کی روشنی میں، عصر حاضر کی جہادی تحریکات کے اثرات، عالمی اقتصادی صورت حال اور گردش دولت کے اسلامی اصول، جدید طبی سائنسی مسائل کے بارے میں اسلام کا نقطۂ نگاہ، حرام حیوانی اجزاء کے استعمالات اور فقہ اسلامی، عصری اسلامی مملکت کی خارجہ پالیسی۔
فہرست کے مرتبین نے لکھا ہے کہ ’’ہم نے شعبے کی طرف سے ہونے والے تحقیقی کام کی اشاعت کے لیے بعض علمی اداروں سے تعاون کی درخواست کی تو صرف ایک ادارے کی معاونت سے صرف ایک مقالہ کتابی صورت میں چھپ سکا۔‘‘ یہ ہماری تہذیبی زندگی کا بہت بڑا المیہ ہے کہ ایسے کاموں کی اشاعت میں نہ مخیر حضرات تعاون پر آمادہ ہوتے ہیں نہ ادارے ہی اس کار خیر کو درخور اعتنا سمجھتے ہیں۔ اسی سے اندازہ لگا لیجیے کہ ہم اجتماعی سطح پر علم کی قدر و قیمت سے ابھی تک کتنے بے خبر اور لا پروا واقع ہوئے ہیں۔ ہمارا کھاتا پیتا طبقہ فقط مسجدیں بنوانے یا مالی صدقہ و خیرات ہی کو کار ثواب سمجھتا ہے۔ ہمارے روایتی علما کی جامد سوچ کی وجہ سے ہماری قوم ابھی تک علمی تحقیق کو عبادت کے زمرے میں شمار نہیں کرتی۔
مجھے امید ہے کہ اس کالم سے میرے ان شکوہ سنج احباب کی تالیف قلب ہو جائے گی جن کا خیال ہے کہ میرے گزشتہ کالم سے اساتذہ کا امیج خراب ہوا ہے۔ یہ بہت غنیمت ہے کہ اساتذہ نے طلبہ و طالبات کو عصری تقاضوں کے مطابق موضوعات بھی دیے اور ان کی مناسب رہنمائی بھی کی۔ ان کا یہ رویہ یقیناًہماری تہذیبی و ثقافتی زندگی میں تبدیلی پیدا کرنے کا سبب بنے گا، ان شاء اللہ۔ 
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
(بشکریہ روزنامہ پاکستان، لاہور)

’’کافروں‘‘ کے دفاع میں جہاد

جان کائزر

(یہ مصنف کی کتاب ’’امیر عبد القادر الجزائری: سچے جہاد کی ایک داستان‘‘ (شائع کردہ: دار الکتاب، اردو بازار، لاہور) کا ایک باب ہے جو ۱۸۶۰ء میں دمشق میں رونما ہونے والے مسلم مسیحی فسادات کے دوران میں الجزائر کے مشہور مجاہد آزادی امیر عبد القادر کے جرات مندانہ کردار پر روشنی ڈالتا ہے۔ اسے سانحہ بادامی باغ لاہور اور اس جیسے دوسرے شرم ناک واقعات کے تناظر میں یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔ مدیر)

ہر طرف بہت بری افواہیں گردش کر رہی تھیں۔ تفصیلات بہت کم دستیاب تھیں، لیکن جب اڑتی اڑتی کچھ باتیں امیر کے کانوں تک پہنچیں تو وہ لرز کر رہ گیا۔ عیسائیوں کو اپنے کیے کا پھل بہت جلد ملنے والا تھا۔ ۵ مارچ ۱۸۶۰ء کو دمشق کے گورنر احمد پاشا نے اپنے محل میں کئی مقامی رہنماؤں کی میٹنگ طلب کی جس کے بارے میں بعد میں پتہ چلا کہ اس کا مقصد ’’ذمہ‘‘ کا قانون ختم کرنے والی اصلاحات کو بے اثر کرنا تھا۔ جن لیڈروں کو اجلاس میں مدعو کیا گیا تھا، ان میں دو دروز سرداروں سعید بے جنبلاط اور ولد العطرش کے علاوہ دمشق کے مفتی بھی شامل تھے۔ دروزوں نے لبنان میں پہلا مرحلہ مکمل کرنا تھا جہاں عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان ٹیکسوں اور مساوی حقوق کی نئی اصلاحات پر پہلے ہی ہر روز فسادات ہو رہے تھے۔ دمشق کا دھیان رکھنا احمد پاشا نے اپنے ذمے لیا تھا۔ اگر دمشق میں شورش کا آغاز ہوا تو ان کا خیال تھا کہ درستی کا عمل خود بخود حمص، حلب، لاذقیہ اور ایسے دیگر علاقوں تک پھیل جائے گا جہاں عیسائی آبادی رہتی ہے۔
عبدالقادر نے فرانس کے قائم مقام قونصلرلانوزے سے ملاقات کی۔ لانوزے ماہر عربیات تھا اور امیر کے فرانسیسی مداحوں کے غیر سرکاری ’’حلقہ قادریہ‘‘ کا رکن تھا۔ اسے امیر پر اتنا اعتماد تھا کہ اس نے فوراً دیگر ممالک کے سفیروں کو اکٹھا کرکے میٹنگ کی اور سب نے احمد پاشا سے مل کر زیر گردش افواہوں کے بارے میں براہ راست بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ پرسکون تاثرات والے گورنر نے بڑے وقار سے ان کا خیر مقدم کیا اور انہیں یقین دلایا کہ ساری افواہیں بے بنیاد ہیں۔ اس کی فوج عیسائیوں کی حفاظت کرے گی اور وہ اس پر پورا بھروسہ کر سکتے ہیں۔ فکر کی کوئی بات نہیں۔ سارے سفیر مطمئن ہو کر واپس چلے گئے۔ احمد پاشا نے فوراً دروز سرداروں کو پیغام بھیجا کہ منصوبے پر عمل درآمد فی الحال ملتوی کر دیا جائے۔ 
مئی کے ابتدائی دنوں میں عبدالقادر کو نئی اطلاع ملی کہ عیسائیوں کے خلاف سازش کا بازار ایک پھر گرم ہو گیا ہے۔ اس بار اطلاع دینے والے خود اس کے الجزائری لوگ تھے جن میں سے کچھ لوگوں سے اس سازش میں شامل ہونے کو کہا گیا تھا۔ عبدالقادر نے ان سے کہا کہ وہ منصوبہ بندی کرنے والوں میں شامل ہو جائیں اور اسے حالات سے باخبر رکھیں۔ امیر ایک بار پھر لانوزے کے پاس گیا۔ تھوڑی سی تگ ودو کے بعد لانوزے سفیروں کو اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوگیا تاکہ عیسائیوں کے قتل عام کی نئی سازش پر بات کی جائے۔ وہ سب دوسری بار گورنر سے ملنے سے ہچکچا رہے تھے کیونکہ ایسا کرنا گورنر کی نیک نیتی پر شک کرنے کے مترادف تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگراس طرح کا کوئی منصوبہ تھا بھی تو وہ یقیناًپہلے ہی رفع دفع ہو چکا ہے، لیکن لانوزے کی دلیل یہ تھی کہ اگر ان سب کی سوچ غلط ہوئی اور واقعی اس طرح کا واقعہ رونما ہوگیا تو پھر؟ گورنر سے دوسری بار ملاقات کے لیے جانے کی شرمندگی ہمیشہ رہنے والے اس پچھتاوے سے کم ہوگی جو اس کے خدشات درست ثابت ہونے کی صورت میں ملے گا۔ فرانسیسی قونصلرکی دلیل کام کر گئی اور گورنر کے ساتھ دوبارہ ملاقات کا اہتمام ہوگیا۔ اپنے شائستہ اور ملنسار رویے سے احمد پاشا نے ایک بار پھر سفیروں کو تسلی وتشفی دے کر مطمئن کرکے رخصت کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی ساز باز میں شریک ساتھیوں کو منصوبے پر عملدرآمد مزید مؤخر کرنے کا پیغام بھی بھیج دیا۔
جب ایسی اطلاعات آئیں کہ دروز گھڑ سوار دمشق کی حدود سے باہر موجود عیسائی بستیوں میں لوٹ مار کر رہے ہیں تو عبدالقادر نے دروز سرداروں کو خط لکھ کر انہیں پرسکون رہنے اور احتیاط سے کام لینے کی ترغیب دی۔ اس نے لکھا تھا: ’’اس طرح کی حرکتیں ایک ایسی کمیونٹی کو زیب نہیں دیتیں جو اپنی خوش خلقی اور دانش کی وجہ سے مشہور ہے۔‘‘ امیر نے دروزوں اور عیسائیوں کے درمیان پرانی دشمنی کی موجودگی کو تسلیم کیا اور لکھا کہ اسے گمان ہے کہ حکومت لبنان میں ہونے والی غلط کاریوں کی ساری ذمہ داری دروزوں پر نہیں ڈالے گی، لیکن جہاں تک دمشق کا تعلق ہے، امیر نے انہیں خبردار کیا کہ ’’اگر آپ ایک ایسے شہر کے باسیوں کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کریں گے جس کے ساتھ آپ کی کبھی بھی دشمنی نہیں رہی تو مجھے ڈر ہے کہ اس کا نتیجہ ترک حکومت کے ساتھ شدید بگاڑ کی صورت میں نکلے گا۔ ہم آپ کی اور آپ کے ہم وطنوں کی خیر وعافیت کے بارے میں فکر مند ہیں۔ .....دانش مند شخص پہلا قدم اٹھانے سے پہلے ہی اس کے عواقب کا اندازہ لگا لیتا ہے۔‘‘ امیر نے دمشق میں موجود علما اور اہم مسلم شخصیات کو بھی خطوط لکھے اور ان پر زور دیا کہ وہ معصوم لوگوں کو نقصان سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنا اثر ورسوخ استعمال کریں۔ امیر نے انہیں یہ بھی یاد دلایا کہ اقلیتوں بالخصوص اہل کتاب کو تحفظ فراہم کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔
مئی کے آخری دنوں میں ساری معلومات سمیت امیر ایک بار پھر لانوزے کے پاس پہنچ گیا۔ کوئی طوفان ضرور اٹھنے والا تھا۔ اس بار امیر کے پاس بالکل درست تفصیلات تھیں۔ یہ پتہ چلا تھا کہ احمد پاشا پہلے بھی ایک بار دمشق میں عیسائیوں کے خلاف کارروائی کی کوشش کر چکا تھا، لیکن مقامی رہنماؤں کی مخالفت کی وجہ سے اسے ارادہ ترک کرنا پڑا۔ منصوبہ یہ بنایا گیا تھا کہ ترک عیسائیوں کی جان ’’بچانے‘‘ کے لیے آئیں گے اور انہیں ’’حفاظت‘‘ کے لیے قلعے میں لے جایا جائے گا جہاں سازش میں شریک دروز انہیں قتل کر دیں گے۔ فرانسیسی قونصلرکے سفارت کار ساتھیوں کے پاس گورنر سے ایک بار ملاقات کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ لانوزے امیر کی تازہ ترین معلومات کو بہرحال اتنی سنجیدگی سے ضرور لے رہا تھا کہ اس نے اپنا سارا کیرئیر داؤ پر لگا دیا تھا۔ 
اس وقت فرانسیسی سفارت کاروں کو اجازت تھی کہ کوئی سنگین صورتحال پیدا ہونے کا خدشہ ہو تو وہ جتنا چاہے قرض لے لیں۔ لانوزے نے عبدالقادر کے ساتھ اس پر اتفاق کیا کہ اس کے ایک ہزار الجزائری ساتھیوں کو مسلح کر دیا جائے۔ اس کے لیے اس نے استنبول میں اپنے سفیر سے منظوری بھی نہیں لی جس کے مشیر ان افراد کو مسلح کرنے کے معاملے میں متذبذب تھے کیونکہ ان کے خیال میں یہ آدمی جتنی شدت کے ساتھ امیر سے محبت کرتے تھے، اتنی ہی شدت کے ساتھ فرانسیسیوں سے نفرت بھی کرتے تھے۔ 
دمشق سے باہر مقیم سات سو مسلح الجزائری افراد چھوٹے چھوٹے گروہوں کی شکل میں شہر کے اندر آکر ان تین سو لوگوں کے ساتھ شامل ہو گئے جو پہلے ہی شہر کے اندر رہ رہے تھے۔ امیر پر اعتبار کرتے ہوئے لانوزے نے انہیں انتہائی خفیہ طور ہر وہ ہتھیار رکھنے کی اجازت دے دی جسے رکھنا ممکن تھا۔
فرانسیسی قونصل نے ایک بار پھر گورنر سے ملاقات کی اور اس مرتبہ وہ اکیلا ہی اس سے ملنے گیا۔ لانوزے نے گورنر پر یہ واضح کیا کہ اسے سب پتہ ہے کہ کیا ہونے والا ہے اور یہ کہ یورپی قوتیں اس ساری کارروائی کا ذمہ دار احمد پاشا کو ٹھہرائیں گی۔ اس گفتگو کے ترک گورنر پر خاطر خواہ اثرات مرتب ہوئے اور اس نے ولد العطرش اور سعید بے جنبلاط کو ایک اور پیغام بھیجا جس میں سارے منصوبے کو ختم کرنے کا حکم دیا، لیکن اب بہت دیر ہو گئی تھی۔ دونوں سردار پہلے ہی سازش پر عملدرآمد کا آغاز کر چکے تھے۔
احمد پاشا نے اپنے حصے کا کردار تین ہفتے کی تاخیر سے ۸جولائی کو ادا کیا۔ چند مسلمان لڑکوں نے دمشق کی عیسائی بستیوں کے قریب سڑک پر صلیب اور مذہبی پیشوا کے عمامے کی تصویریں بنا کر پہلے ان پر تھوکا اور پھر کوڑا کرکٹ پھینکا۔ عیسائیت کی سر عام توہین کرنے پر احمد پاشا نے ان کے لیے ایسی سزا تجویز کی جس سے صورتحال پر کڑی نظر رکھنے والی یورپی طاقتوں کو یہ ثبوت ملتا کہ اصلاحات کے مطابق مسلمانوں سے اپنے عیسائی بھائیوں کا جس طرح احترام کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، اس پر عمل ہو رہا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اسے یہ بھی یقین تھا کہ اس فیصلے سے مسلمانوں میں شدید غم وغصے کی لہر پیدا ہوگی جو پہلے ہی اپنے داخلی معاملات میں مداخلت کی بنا پر یوریی ممالک سے نفرت کرتے تھے۔
نو جولائی کو مجرموں کی، جن کی حیثیت احمد پاشا کی ساری منصوبہ بندی میں چھوٹے مہروں سے زیادہ نہیں تھی، سرعام پٹائی کرنے کا حکم دیا گیا اور پھر انہیں مجبور کیا گیا کہ وہ ہاتھوں اور پیروں کے بل چلتے ہوئے ان سڑکوں کو اچھی طرح دھوئیں جن پر انہوں نے غلاظت پھینکی تھی۔ باقی سارا کام اشتعال انگیز عناصر نے خود کر دیا۔

امریکی نائب قونصل اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ رہا تھا۔ عینی شاہدین نے ساٹھ سالہ گول مٹول مائیکل مشاگا کو دیکھا کہ جب اس کا تعاقب کرنے والے بہت نزدیک پہنچ جاتے تو وہ ان کی توجہ بٹانے کے لیے زمین پر سکے اچھال دیتا۔ اس صورتحال میں وہ اکیلا نہیں تھا بلکہ سارے یورپی سفارت کاروں کی رہائش گاہیں اور سفارتخانے ہجوم کے غیظ وغضب کا پہلا ہدف تھے۔
لیکن مشاگا حقیقت میں امریکی نہیں تھا۔ وہ لبنانی پادری تھا جو شام میں پروٹسٹنٹ امریکی مشنریوں کا حامی بن گیا تھا۔ اس کی پیدائش یونانی کیتھولک چرچ میں ہوئی تھی، لیکن وہ اس کی تنگ نظری اور کرپشن سے نالاں تھا۔ اڑتالیس سال کی عمر میں مشاگا نے پروٹسٹنٹ مسلک اپنا لیا اور لاطینی چرچ کے لیے اپنی ناپسندیدگی کی وجہ سے ’’مشرق کا لوتھر‘‘ کے نام سے معروف ہوگیا۔ سفارت کار اور سیاستدان اس کی زبان دانی اور مختلف گروہوں مثلاً دروز، علاوی، یہودی، آرمینیائی، شیعہ، زرتشتی، قطبی، یہاں تک بعض یونانی اور لاطینی عیسائیوں کے ساتھ اچھے تعلقات کی بنا پر مشاگا کی بہت قدر کرتے تھے۔ اپنی اچھی ساکھ اور وسیع علم کی وجہ سے امریکہ نے اسے وہاں اپنا قونصل مقرر کیا تھا، لیکن یہ قدر ومنزلت تو اب اس کی جان کے درپے ہوگئی تھی۔
مشاگا نے اس وقت راہ فرار اختیار کی جب مشتعل ہجوم نے اس کے گھر پر حملہ کر دیا۔ عبدالقادر سے راہ ورسم رکھنے والے بہت سے دیگر سفارت کاروں کی طرح مشاگا نے بھی عیسائی علاقوں سے ملحق امیر کی رہائش گاہ کا رخ کیا۔ پچھلے پانچ سال کے دوران امیر اور مشاگا اچھے دوست بن گئے تھے۔ دونوں میں بہت سی دلچسپیوں کے اشتراک کے علاوہ عقیدے، استدلال اور خدا کو ماننے کے طریقوں میں تنوع کے معاملات میں بھی انداز فکر ایک ہی جیسا تھا۔ امیر کی طرح مشاگا کا علم بھی بہت وسیع تھا۔ وہ ایک میڈیکل ڈاکٹر بھی تھا، مذہبی اسکالر، ریاضی دان، موسیقار اور شوقیہ ماہر فلکیات بھی۔
مشاگا امیر کی رہائش گاہ کی طرف بھاگا جا رہا تھا اور ہتھیار لہراتا ہوا ہجوم اس کے تعاقب میں تھا۔ مشاگا نے وہاں پہنچ کر زور زور سے دروازہ دھڑ دھڑایا، لیکن جتنی دیر میں امیر کے ایک ملازم نے دروازہ کھول کر اسے اندر کھینچا، ایک درانتی اس کا کان چیرتی ہوئی نکل گئی۔ 
اندر پہنچ کر مشاگا نے دیکھا کہ امیر کی بیوی خیرا شدید خوفزدہ لوگوں کے ایک چھوٹے سے ہجوم کی بڑے پرسکون انداز میں تواضع کر رہی ہے جیسے وہ چائے کی دعوت پر آئے ہوں۔ البتہ انہیں وہاں کھانے کے لیے کھیرے اور روٹی پیش کی جا رہی تھی۔
لیکن نو جولائی کی صبح عبدالقادر کہاں تھا؟ ایک روز پہلے وہ گھوڑے پر سوار ہو کر شہر سے باہر اپنی جاگیر پر گیا تھا اور اس نے فوراً دمشق واپس پہنچنے کے پیغامات کا بھی کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ جب شہر میں کشیدگی بڑھ رہی تھی اور اس کا وہاں موجود ہونا اشد ضروری تھا تو پھر وہ شہر سے کیوں گیا؟
کیا یہ محض اتفاق تھا؟ یا پھر فرانسیسی قونصل کے ساتھ کی گئی کوئی ساز باز جس کا مقصد چند معصوم جانوں کی قربانی دینا تھا، جیسا کہ بعد میں کچھ لوگوں نے خیال ظاہر کیا؟ دونوں باتیں قرین قیاس نہیں لگتیں۔ چرچل نے اس کی غیر موجودگی کی بڑی قابل تعریف وضاحت پیش کی تھی۔ عبدالقادر کو پتہ چل گیا تھا کہ عیسائیوں کو حفاظت کے بہانے قلعے میں لے جا کر قتل کرنے کے منصوبے کی افواہیں درحقیقت درست تھیں۔ جب اسے یہ اطلاع ملی کہ دروز کیولری دمشق کی جانب بڑھ رہی ہے تو امیر نے اپنے بیٹوں محمد اور ہاشم کو ساتھ لیا اور دروزوں کا راستہ روکنے کے لیے گھوڑوں کو ایڑ لگائی۔ صحنایا کے نزدیک واقع اپنی حوش بلاس کی جاگیر سے عبدالقادر دروزوں کو بہتر طور پر روک سکتا تھا۔ اشرفیہ کے نزدیک امیر نے دیکھا کہ دروز سردار، احمد پاشا کی طرف سے شہر میں داخل ہونے کا اشارہ ملنے کے منتظر کھڑے تھے۔ وہاں امیر کی ان کے ساتھ دیر تک گفت وشنید ہوتی رہی جس کے بعد دروز اپنا گھناؤنا منصوبہ ترک کر کے واپس لوٹ گئے۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ امیر نے دروزوں کو کس ہتھیار سے زیر کیا ہوگا۔ جلد ہی یہ ہتھیار اسے اپنے ساتھیوں پر بھی آزمانا تھا۔ یہ ہتھیار تھا اس کا الوہی قانون اور جنت کا حقدار بننے کی شرائط کے بارے میں اس کا وسیع علم!

دس تاریخ کی سہ پہر کو دمشق واپسی کے بعد عبدالقادر سب سے پہلے عیسائیوں کے علاقے میں قائم فرانسیسی سفارتخانے گیا جہاں امیر کا آغا قارہ محمد اور چالیس سے زائد مسلح الجزائری لانوزے ارو اس کے عملے کی حفاظت کر رہے تھے۔ یہ انتظام امیر نے کسی ہنگامی صورتحال کے پیش نظر پہلے ہی کر دیا تھا۔ اپنے فرانسیسی سرپرستوں کی سلامتی کے بارے میں مطمئن ہونے کے بعد امیر دمشق کے مفتی کے پاس گیا تاکہ اسے اپنے اور اس کے مذہب اسلام کا واسطہ دے کر عیسائیوں کا تحفظ کرنے کی ذمہ داری پوری کرنے پر قائل کرے، لیکن جب وہ وہاں پہنچا تو ملازمین نے بتایا کہ مفتی موصوف سو رہے ہیں اور انہیں بے آرام نہیں کیا جا سکتا۔
تب ہی عبدالقادر کو یہ بھی پتہ چل گیا کہ جن ترک دستوں کو عوام کا تحفظ کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی، انہیں فصیل کے اندر ہی رہنے کا حکم دیا گیا تھا اور فسادات کے دوران جب گھروں کو جلایا اورعیسائیوں کو قتل کیا جا رہا تھا تو وہ خاموش بیٹھے تماشا دیکھ رہے تھے۔ عبدالقادر جب واپس فرانس کے سفارتخانے پہنچا تو دیکھا کہ اس کا گھیراؤ کرنے والا ہجوم مزید بڑا اور خطرناک ہو گیا ہے۔ اس پر عبدالقادر نے لانوزے کی حفاظت کا ذمہ اپنے اوپر لیتے ہوئے کہا:
’’آپ ہمیشہ کہتے تھے: ’’جہاں فرانس کا پرچم ہے، وہیں فرانس ہے‘‘۔ آپ اپنا جھنڈا ساتھ لیں اور اسے میرے گھر پر نصب کردیں۔ میرا گھر فرانس بن جائے گا۔ آپ اور آپ کا عملہ میرے مہمان ہوں گے اور پھر میں اپنے سپاہیوں کو، جو اس وقت یہاں آپ کی حفاظت کر رہے ہیں، دیگر عیسائیوں کے تحفظ کے لیے بہتر طریقے سے استعمال کر سکوں گا۔‘‘ 
جب لانوزے وہاں پہنچا تو اسے وہاں روسی، امریکی، ڈچ اور یونانی سفارت کار بھی ملے۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے اس وقت لانوزے کا بہت مذاق اڑایا تھا جب وہ عام لوگوں کی نفسیات کو سمجھنے میں عبدالقادر کی صلاحیت پر یقین رکھتے ہوئے بار بار گورنر سے ملنے کی کوشش کر رہا تھا۔
دس جولائی کی ساری سہ پہر عبدالقادر نے عیسائی بستیوں میں مچی بھگدڑ میں اپنے دو بیٹوں کے ساتھ یہ چلاتے ہوئے گزاری کہ: ’’عیسائیو! میرے ساتھ آؤ۔ میں عبدالقادر ہوں، محی الدین کا بیٹا، الجزائری! میرا اعتبار کرو۔ میں تمہاری حفاظت کروں گا۔‘‘ کئی گھنٹے تک امیر کے الجزائری باشندے متذبذب عیسائیوں کو لے جا کر حارۃ النقیب میں اس کے قلعہ نما گھر چھوڑ کر آتے رہے۔ یہ دو منزلہ عمارت اور اس کے کشادہ صحن پریشان حال عیسائیوں کی پناہ گاہ بن گئے تھے۔
چرچل نے لکھا ہے: 
’’رات کے وقت لوٹ مار کرنے والوں کے نئے جتھے جن میں کرد، عرب اور دروز سبھی شامل تھے، عیسائی علاقوں میں داخل ہوئے اور وہاں پہلے سے موجود غضبناک فسادیوں کے ہجوم کو مزید بڑا کر دیا جو نفرت کی آگ میں اندھا ہو کر خون کی پیاس سے مزید دیوانہ ہو رہا تھا۔ ہر عمر کے مرد اور لڑکوں کو زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا اور پھر وہیں ان کا ختنہ کر دیا گیا۔ ..... عورتوں کی عزت لوٹی گئی یا انہیں اٹھا کر دور دراز علاقوں میں پہنچا دیا گیا جہاں ان کا مسلمانوں کے ساتھ نکاح کر دیا گیا یا پھر حرم کی زینت بنا دیا گیا۔ اگر کوئی کہے کہ اس سارے قتل عام میں ترکوں نے کوئی حصہ نہیں لیا تو یہ مبالغہ آرائی ہوگی۔ انہوں نے سازش تیار کی، انہوں نے اسے چنگاری دکھائی اوراس میں حصہ لیا۔ اس وقت عبدالقادر واحد آدمی تھا جو زندگی اور موت کے درمیان کھڑا تھا۔‘‘
تھامس گیٹ کے نزدیک واقع فرانسسکن خانقاہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر عبدالقادر نے اپنا سارا زور بیان استعمال کیا، لیکن وہ ان نو راہبوں کو الجزائریوں پر اعتبار کرنے پر آمادہ نہیں کر سکا جنھوں نے خود کو خانقاہ کے اندر مقید کر لیا تھا۔ انہیں ڈر تھا کہ یہ انہیں دھوکہ دے رہے ہیں۔ عبدالقادر نے مایوس ہو کر انہیں ان کے حال پر چھوڑا اور ایک اور عیسائی کمیونٹی کو بچانے کی طرف متوجہ ہوا جو بچوں کے لیے کام کرنے کی وجہ سے اسے خاص طور پر بہت پیاری تھی۔
قتل وغارت شروع ہونے کے بعد ابتدا میں اس کمیونٹی کی طرف کسی کا دھیان نہیں گیا تھا جس کی وجہ شاید یہ تھی کہ یہ لوگ عیسائی علاقے سے باہر رہتے تھے جہاں امیر کے دوست فادر لیروئے نے چار سو یتیم بچوں کے لیے اسکول قائم کر رکھا تھا۔ امیر کی قیادت اور اس کے الجزائری مجاہدین کی حفاظت میں سارے بچے، چھ پادری اور سسٹرز آف چیریٹی کی گیارہ راہبائیں خون سے رنگین اور جانوروں کی لاشوں سے اٹی ٹیڑھی میڑھی گلیوں سے گزر کر نقیب ایلی پہنچ گئیں۔ فرانسسکن راہبوں کو مشتعل ہجوم نے عمارت کے اندر ہی زندہ جلا دیا۔ 
یہ خبر فسادیوں میں بھی پھیل گئی تھی کہ عبدالقادر عیسائیوں کو بچانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اگلے روز ہی جنونیوں کا ایک گروہ احتجاج کے لیے امیر کے دروازے پر اکٹھا ہوگیا۔ وہ سفارت کاروں کو پناہ دینے کی حد تک تو امیر کو برداشت کرنے کے لیے تیار تھے، لیکن ان کا مطالبہ تھا کہ عبدالقادر اپنے گھر میں چھپائے ہوئے مقامی عیسائیوں کو ان کے حوالے کرے۔ جب ہجوم زیادہ بڑا ہو گیا اور زیادہ بد تمیزی پر اتر آیا تو امیر دروازے پر آیا۔
’’عیسائیوں کو ہمارے حوالے کرو!‘‘، ہجوم نے چلانا شروع کردیا، لیکن جب وہ خاموشی سے کھڑا انہیں دیکھتا رہا تو لوگ خاموش ہوگئے۔
پھر وہ بولا: ’’میرے بھائیو، آپ کا رویہ خدا کے قانون کے منافی ہے۔ آپ کس بنا پر یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کے پاس معصوم لوگوں کو اندھا دھند قتل کرنے کا حق ہے؟ کیا آپ اتنے گر گئے ہیں کہ عورتوں اور بچوں کو ذبح کرنے پر اتر آئے؟ کیا آپ نے سنا نہیں کہ خدا نے ہماری مقدس کتاب میں کیا ارشاد فرمایا ہے، کہ جو کوئی بھی کسی ایسے انسان کو قتل کرے گا جس نے کوئی جرم نہ کیا ہو یا زمین پر فساد نہ پھیلایا ہو تو یہ پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف ہے؟‘‘
’’ہمیں عیسائی چاہئیں! عیسائیوں کو ہمارے حوالے کرو!‘‘
’’کیا خدا نے یہ نہیں کہا کہ مذہب میں کوئی جبر نہیں ہے؟‘‘، امیر نے اپنی بات جاری رکھی۔
ہجوم میں سے ایک شخص نے چیخ کر کہا: ’’او مجاہد! ہمیں تمہاری نصیحتوں کی ضرورت نہیں ہے۔ تم ہمارے کام میں ٹانگ کیوں اڑا رہے ہو؟‘‘
ایک اور شخص نے بلند آواز سے کہا: 
’’تم نے خود بھی عیسائیوں کو مارا ہے۔ اب تم ہمیں اپنی توہین کا بدلہ لینے سے کیسے روک سکتے ہو؟ تم خود بھی ان کافروں کی طرح ہوگئے ہو۔ چپ چاپ ان سب کو ہمارے سپرد کردو جنھیں تم نے اپنے گھر میں پناہ دے رکھی ہے، ورنہ ہم تمہارے ساتھ بھی وہی سلوک کریں گے جو ان سب کے ساتھ ہوگا۔‘‘
’’تم سب بے وقوف ہو! جن عیسائیوں کو میں نے مارا تھا، وہ سب حملہ آور اور غاصب تھے جو ہمارے ملک کو تاخت وتاراج کر رہے تھے۔ اگر تمہیں خدا کے قانون کی خلاف ورزی سے ڈر نہیں لگتا تو پھر اس سزا کے بارے میں سوچو جو تمہیں انسانوں کے ہاتھ سے ملے گی۔ میں تمھیں یقین دلاتا ہوں کہ وہ سزا بہت ہولناک ہوگی۔ اگر تم نے میری بات نہ سنی تو اس کا مطلب ہے کہ خدا نے تمہیں عقل نہیں دی۔ تم ایسے حیوان کی مانند ہو جو گھاس اور پانی دیکھ کر اچھلنے لگتا ہے۔‘‘
’’تم سفارت کاروں کو اپنے پاس رکھ لو۔ عیسائی ہمیں دے دو!‘‘ ہجوم نے پھر چلانا شروع کردیا۔ 
’’جب تک میرا ایک سپاہی بھی اپنے پاؤں پر کھڑا ہے، تم انہیں ہاتھ بھی نہیں لگا سکتے۔ وہ سب میرے مہمان ہیں۔ عورتوں اور بچوں کے قاتلو! گناہ کی اولاد! ان میں سے کسی کو ذرا چھونے کی کوشش تو کرکے دیکھو، پھر تمہیں اندازہ ہوگا کہ میرے سپاہی کتنا اچھا لڑتے ہیں۔‘‘ امیر نے غضبناک لہجے میں کہا اور مڑ کر قارہ محمد سے مخاطب ہوا: ’’میرے ہتھیار اور میرا گھوڑا لے کر آؤ۔ ہم سب ایک نیک مقصد کے لیے جنگ کریں گے، بالکل ویسے ہی جیسے ہم نے پہلے ایک نیک مقصد کے لیے جنگ کی تھی۔‘‘
ہجوم نے اللہ اکبر کے نعرے لگائے اور اپنی بندوقیں اور تلواریں لہرانا شروع کردیں، لیکن جونہی امیر کے لاتعداد جنگوں کی بھٹی میں تپ کر فولاد بنے ہوئے سپاہی نظر آئے تو سارا مجمع گالیاں بکتا ہوا تتر بتر ہوگیا۔

مقامی آبادی میں شمالی افریقہ کے باشندوں کے نام سے پکارے جانے والے الجزائریوں نے گلیوں اور سڑکوں پرگھوم پھر کر عیسائیوں کی تلاش جاری رکھی اور امیر کی رہائش گاہ پر ایک ہزار سے زائد عیسائی اکٹھے کر لیے۔ وہ جگہ اتنی بھر گئی کہ اب وہاں کسی کے بیٹھنے یا لیٹنے کی گنجائش بھی نہیں رہی تھی۔ پانی کی کمی تھی اور صفائی کے ناکافی انتظام کی وجہ سے پیچش یا طاعون پھیلنے کا بھی خطرہ تھا۔ سفارت کاروں کے ساتھ صلاح مشورہ کرنے کے بعد عبدالقادر نے پناہ گزینوں کو قلعے کے اندر بھجوانے کے لیے احمد پاشا کے پاس وفد بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ 
گورنر نے اعتراف کیا کہ اس کے دستوں پر زیادہ بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ ان میں بہت سے تو ایسے مجرم تھے جنھیں حال ہی میں جیل سے رہائی ملی تھی۔ آخر اس نے یہ مان لیا کہ عیسائیوں کو الجزائریوں کی حفاظت میں فصیل کے اندر پہنچا دیا جائے، لیکن نقیب ایلی میں ٹھنسے ہوئے ہجوم کے کانوں میں جب اس فیصلے کی بھنک پڑی تو انہوں نے خوش ہونے کی بجائے واویلا مچانا شروع کردیا: ’’ہمیں یہیں اپنے ہاتھوں مار ڈالو! ہم پر رحم کرو! ہمیں یوں زندہ ان جلادوں کے حوالے مت کرو!‘‘
سو افراد پر مشتمل پہلا گروپ اڑ گیا کہ وہ نہیں جائے گا، لیکن جب روس کے سفیر نے ضمانت کے طور پر ساتھ جانے کی حامی بھری تو لوگ مان گئے۔ جب ان کے بخیر وعافیت وہاں پہنچنے کی اطلاع ملی تو باقی سب بھی تعاون کرنے لگے۔ حالات معمول پر آنے کے بعد ایک روز امیر نے افسردگی کے ساتھ ایک فرانسیسی افسر سے کہا: ’’ان کے لیے اتنا کچھ کرنے کے باوجود انہیں اب بھی یقین ہے کہ میں انہیں ان قصائیوں کے حوالے کر سکتا ہوں۔‘‘
سب لوگوں کو قلعے میں منتقل کرنے کے بعد جب امیر کی رہائش گاہ خالی ہوگئی اور اس کی صفائی بھی کر دی گئی تو اس نے اعلان کرایا کہ جو کوئی بھی عیسائیوں کو اس کی رہائش گاہ پر پہنچائے گا، اسے ہر عیسائی کے بدلے پچاس پیاستر انعام دیا جائے گا۔ پانچ دن تک امیر کو سونے کا موقع بھی بہت کم ملا۔ جب تھوڑا سا وقت ملتا تو وہ گھاس پھونس سے بنی اسی چٹائی پر لیٹ کر آنکھ لگا لیتا جہاں بیٹھ کر وہ سارا دن پاس رکھی بوری میں سے رقم نکال کر تقسیم کرتا رہتا تھا۔ جونہی ایک سو عیسائی اکٹھے ہو جاتے، الجزائری سپاہی انہیں لے جا کر قلعے میں چھوڑ آتے۔
بعض سربر آوردہ عیسائی افراد مناسب جگہ کا انتخاب ہونے تک کئی ہفتے امیر کی رہائش گاہ پر ہی رکے رہے۔ آخر کار امیر اور اس کے ساتھی تین ہزار عیسائیوں کا ایک قافلہ لے کر بیروت گئے۔ ان میں بلڈ خاندان کے لوگ بھی تھے جو اس سارے قتل عام کے دوران امیر کی پناہ میں رہے تھے۔
جارج بلڈ ان میں نہیں تھا۔ ۱۸۵۷ء میں جب جارج نے محسوس کیا کہ اس نے عبدالقادر کا اعتماد کھو دیا ہے تو اس نے وزارت سے درخواست کی کہ اسے واپس بلا لیا جائے۔ ان کے باہمی تعلقات میں سرد مہری آگئی تھی۔ اگرچہ یہ واضح نہیں ہے کہ ایسا کیوں ہوا، لیکن ہو سکتا ہے کہ امیر بلڈ کے اشاروں پر چلتے چلتے تنگ آگیا ہو اور قونصل خانے میں فرانسیسی سفارت کاروں سے براہ راست رابطے میں آنا چاہتا ہو۔ بلڈ، دوما یا بواسونے جیسا بھی تو نہیں تھا جو خود بھی افریقہ میں بارود کی بو سے اچھی طرح آشنا تھے۔ بلڈ اگرچہ یہ سمجھتا تھا کہ عبدالقادر کے گرد تقدس کی فضا بہت گہری ہوگئی ہے اور جب دولت خود چل کر اس کے پاس آئی تو اس نے بے پروائی سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا، لیکن بہرحال بلڈ کی رائے امیر کے بارے میں بہت اچھی تھی۔ 
تشدد کا جو طوفان عیسائی بستیوں میں خون کے چھینٹے اڑاتا گزرا، وہ پانچ دن کے بعد اپنے پیچھے ہزاروں لاشیں چھوڑ گیا۔ خونریزی کی بھینٹ چڑھنے والوں کی تعداد کے بارے میں آرا مختلف تھیں۔ کچھ کا کہنا تھا پانچ سو اور کچھ دس ہزار کہتے تھے۔ 
لانوزے نے وزارت کو رپورٹ بھیجی کہ جب غدر مچا تو اس وقت دمشق کی عیسائی بستیوں میں انیس ہزار لوگ رہتے تھے جن میں وہ پناہ گزین بھی شامل ہیں جو موسم بہار میں فرار ہوکر لبنان چلے گئے۔ ان میں سے بیشتر لوگ قدیم شہر کی فصیل سے باہر بسے دیہات میں رہتے تھے۔ شہر کے اندر کی عیسائی بستی میں گنجائش کم اور کرایے بہت زیادہ تھے اور یہ جگہ آٹھ سے دس ہزار عیسائیوں کا مسکن تھی جن میں زیادہ تر یونانی عیسائی تھے۔ امیر نے کتنے لوگوں کی جان بچائی؟ اس کی گنتی کسی نے نہیں کی۔ اس کو دیکھ کر اور کتنے لوگوں کو ایسا کرنے کی ترغیب ملی؟ یہ بھی کوئی نہیں جانتا۔ عبدالقادر کے دوست لانوزے کے مطابق کم وبیش گیارہ ہزار لوگوں کی جان بچانے کا سہرا امیر کے سر جاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ قدیم شہر کے اندر موجود ہر عیسائی کی جان امیر کی وجہ سے بچی تھی۔

دل دہلا دینے والی یہ خبر فرانسیسی عوام تک اٹھارہ جولائی کو پہنچی۔ بلاد الشام (Levant) میں تعینات فرانسیسی بحریہ کے کمانڈر کے ارسال کردہ خط کے حوالے سے ’’لے مانٹئیر‘‘ نے رپورٹ شائع کی کہ ’’دمشق میں عیسائیوں پر حملوں کا آغاز نو تاریخ کی سہ پہر کو ہوا اور شام تک مردوں کی بڑی تعداد کو موت کے گھاٹ اتارا اور عورتوں کو حرم کی زینت بنایا جا چکا تھا۔ ....ترک حکام نے خطرے کا واضح خدشہ ہونے کے باوجود ناقابل توجیہ طور پر کاہلی کا مظاہرہ کیا جبکہ امیر نے علما اور اہم شخصیات کو عیسائیوں کو درپیش خطرے کے بارے میں فعال طریقے سے خبردار کرنے کی کوشش کی۔ .....سارے بحران کے دوران امیر کا رویہ قابل تحسین تھا۔ اس نے عام لوگوں کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے دن رات ایک کر دیا جو انسانیت کے لیے اس کی جاں نثاری اور قربانی کے جذبے کا ثبوت ہے۔‘‘
اگست میں اخبارات وجرائد نے مزید مضامین شائع کیے جو سبھی امیر کی مدح میں تھے۔ لاگزٹ دے فرانس (Le Gazette de France) نے بڑے جوش سے لکھا تھا کہ ’’امیر نے شام کے عیسائیوں کو حوصلہ مندی سے تحفظ فراہم کرکے خود کو لازوال بنا لیا ہے۔ انیسویں صدی کی تاریخ کے سب سے خوبصورت صفحات میں سے ایک صفحہ امیر سے منسوب ہو گا۔‘‘ لے پے ای جورنال دے لان پائر (Le Pays, Journal de l'Empire) نے لیزرسٹس (مقدس لیزرس سے منسوب ایک مسیحی گروہ کے افراد) کے حوالے سے لکھا تھا: ’’جب خون کی ہولی اپنے عروج پر تھی، تب امیر گلیوں ایسے میں نمودار ہوا جیسے اسے خدا نے بھیجا ہو۔‘‘ فرانس کا سارا پریس اسی طرح کی خبروں اور تحریروں سے بھرا پڑا تھا۔ بیس اکتوبر تک یہ اطلاعات امریکہ بھی پہنچ گئیں اور نیویارک ٹائمز نے اپنے مخصوص رجزیہ انداز میں لکھا: ’’بیس سال پہلے عرب امیر عالم مسیحیت کا دشمن تھا اور اس کے آبائی علاقے کی پہاڑیوں میں اس کا شکار کیا گیا، لیکن اب ساری عیسائی دنیا اسلام کے اس معزول شہزادے کی تکریم میں یک زبان ہے۔ اس انتہائی بے لوث جنگجو سورما نے اپنے قدیم دشمنوں کو، جنھوں نے اسے شکست دی اور اس کی نسل کے لوگوں اور اس کے مذہب کو اپنا مفتوح بنایا، غیظ وغضب اور موت سے بچایا۔ .....عبدالقادر کے لیے یہ یقیناًعظمت کا اور حقیقی شان وشوکت کا باب ہے۔ اس بات کو تاریخ میں رقم کرنا کوئی معمولی بات نہیں کہ مسلمانوں کی آزادی کے لیے لڑنے والا سب سے ثابت قدم سپاہی اپنے سیاسی زوال اور اپنی قوم کے ناگفتہ بہ حالات میں عیسائیوں کی زندگیوں اور حرمت کا سب سے نڈر نگہبان بن کر سامنے آیا۔ جن شکستوں نے الجزائر کو فرانس کے آگے جھکایا تھا، ان کا بدلہ بہت حیرت انگیز طریقے سے اور اعلیٰ ظرفی سے لیا گیا ہے۔‘‘
لیکن عبدالقادر نے ایسا کیوں کیا؟ اس بات پر بہت سے لوگ متعجب تھے۔ بعض لوگوں کو حیرانی تھی کہ مسلح مزاحمت کرنے والے سابق راہنما نے اس صورتحال کو ان تکالیف کا انتقام لینے کے لیے استعمال نہیں کیا جو فرانس نے اسے اور اس کے لوگوں کو دی تھیں۔ کچھ مسلمانوں کا خیال تھا کہ امیر فرانسیسیوں کے رنگ میں رنگا گیا ہے اور اب وہ عربوں کی نسبت فرانسیسیوں کے زیادہ نزدیک ہے۔ امیر کا اپنا موقف کیا تھا، اس کی رپورٹ لان پائر نے اکتوبر میں شائع کی جس میں دو بہت سادہ سی وجوہات بیان کی گئی تھیں۔ پہلی یہ کہ وہ تو محض خدا کی منشا کے مطابق کام کر رہا تھا، اور دوسری یہ کہ اس کی انسانیت کا تقاضا بھی یہی تھا۔ اس نے کہا تھا: ’’یہ ایک مقدس فرض کی ادائیگی کے مترادف تھا۔ میں تو صرف ایک کارندہ تھا۔ تعریف کرنی ہے تو اس خدا کی کرو جس نے مجھے یہ ہدایت دی، اور تمہارے سلطان کو بھی جو میرا سلطان بھی ہے۔‘‘
باقیوں کا یہ خیال تھا کہ امیر کی مداخلت اس کے مذہب کی پکار تھی۔ کیا بلڈ نے اپنی رپورٹ میں نہیں لکھا تھا کہ امیر اکثر کف افسوس ملتا ہے کہ اسلام ’’حقیقی مسلمانوں کی کمی‘‘کی وجہ سے دم توڑ رہا ہے؟ شاید اس مثال سے وہ دوسرے مسلمانوں کو دکھانا چاہتا تھا کہ حقیقی مسلمان ہونے سے کیا مراد ہے۔ الجزائر میں بشپ دوپش کے جانشین بشپ لوئی انتونی پیوی کی طرف سے اظہار ممنونیت کے خط کا جواب دیتے ہوئے بھی امیر نے بین السطور میں اسی قسم کی بات کی تھی۔ امیر کی اصل شخصیت اکثر اس وقت جھلکتی تھی جب وہ دوسرے مذاہب کے پیشواؤں کے نام کچھ تحریر کرتا تھا۔ 
’’ہم نے عیسائیوں کے لیے جو کچھ بھی کیا، محض اسلام کے قانون پر ایمان رکھنے اور انسانی حقوق کا احترام کرنے کی وجہ سے کیا۔ خدا کی ساری مخلوقات اس کا کنبہ ہیں اور خدا ان لوگوں سے سب سے زیادہ محبت کرتا ہے جو اس کے کنبے کی بہتری کے لیے سب سے اچھا کام کرتے ہیں۔ مقدس کتابوں پر ایمان رکھنے والے تمام مذاہب کی بنیاد دو اصولوں پر ہے : خدا کی تعریف کرنا اور اس کی مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔ .....محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت میں درد مندی اور رحم دلی کے علاوہ ہر اس بات کو عظیم اہمیت دی گئی ہے جس سے معاشرے میں اتفاق قائم رہے اور جو ہمیں نفاق سے محفوظ رکھے۔ لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مذہب سے تعلق رکھنے والوں نے اسے آلودہ کر دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب وہ راستے سے بھٹک جانے بھیڑ کی مانند ہوگئے ہیں۔ میرے لیے آپ کی دعاؤں اور خیر سگالی کے جذبات کا شکریہ۔ ‘‘
پریس میں امیر کے بارے میں رپورٹیں شائع ہونے کے بعد تو جیسے اعزازات کا انبار لگ گیا۔ فرانس کی حکومت نے اسے لیجن آف آنر عطا کیا جب کہ روس، اسپین، سارڈینیا، پروشیا، برطانیہ، رومی کیتھولک کلیسا، ترک سلطان اور صدر لنکن کی طرف سے اعزازات سے نوازا گیا۔ صدر لنکن نے، جو خود ایک قومی سانحے کے دہانے پر کھڑے تھے، ایک روز پہلے عبدالقادر کو امریکی انداز میں تحسین کی علامت کے طور پر کولٹ برانڈ کے دو پستول بھیجے جنھیں انتہائی نفاست سے خصوصی طور پر امیر کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ انہیں لکڑی کے ایک خوبصورت ڈبے میں بند کیا گیا تھا اور اس پر یہ عبارت کندہ کی گئی تھی: ’’ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر کی طرف سے عزت مآب جناب لارڈ عبدالقادر کے لیے، ۱۸۶۰ء۔‘‘
تاہم عبدالقادر کو عزت افزائی کا سب سے قابل قدر نشان اپنے جیسے ایک حریت پسند اور چیچنیا کے مجاہد محمد شامل کی طرف سے موصول ہوا۔ شامل کو بھی روسی سامراجیت کے خلاف کئی سال جدوجہد کے بعد جلا وطن کر کے ماسکو بھیج دیا گیا تھا۔ محمد شامل نے لکھا تھا:
’’تعریف اس خدا کی جس نے اپنے بندے، انصاف پسند عبد القادر کو طاقت اور ایمان عطا کیا۔ ..... بے حد مبارک۔ خدا کرے اس عزت اور امتیاز کے ثمرات ہمیشہ آپ کو ملتے رہیں۔‘‘
شامل نے ان مسلمانوں کی مذمت کی جنھوں نے عیسائیوں کے ساتھ اتنا قابل نفرت رویہ اپنایا اور اپنے مذہب کو بدنام کیا۔ ’’میں ان حکام کی کور چشمی پر بھونچکا رہ گیا جنھوں نے ایسی زیادتیاں کیں اور اپنے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث فراموش کردی کہ: ’’جس کسی نے بھی اپنے زیر امان رہنے والے کے ساتھ ناانصافی کی، جس کسی نے بھی اس کے خلاف کوئی غلط حرکت کی یا اس کی مرضی کے بغیر اس سے کوئی چیز لی، وہ جان لے کہ روز محشر میں خود اس کے خلاف مدعی بنوں گا۔‘‘آپ نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا عملی نمونہ پیش کیا ہے .....اور خود کو ان لوگوں سے الگ کر لیا ہے جو ان کے اسوے کو رد کرتے ہیں۔ .....خدا آپ کو ان کے شر سے محفوظ رکھے جو اس کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔‘‘
امیر کو امام شامل کی صورت میں ایک ایسے ہم مذہب کی تائید بھی ملی جو اپنے خیالات میں بالکل اسی جیسا تھا۔ اس کے جوابی خط میں وہی کچھ دہرایا گیا جو اس نے بشپ پیوی کو لکھا تھا اور جو وہ اکثر جارج بلڈ کے سامنے کہا کرتا تھا۔ امیر نے شامل کو لکھا:
’’میں نے جو کچھ بھی کیا، وہ محض ہمارے مقدس قانون اور انسانیت کے اصولوں کی تعمیل تھی۔ ..... اخلاق سے گری ہوئی حرکت کو تمام مذاہب میں برا کہا گیا ہے، کیونکہ برے اخلاق پر عمل کرنا اپنے ہاتھوں زہر پینے کے مترادف ہے اور یہ سارے بدن کو آلودہ کر دیتا ہے۔ .....اگر ہم یہ سوچتے ہیں کہ سچائی کے حقیقی علمبردار کتنے تھوڑے ہیں اور ایسے جاہلوں کو دیکھتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کا مطلب جبر، سختی، زیادتی اور وحشی پن ہے تو پھر وقت آگیا ہے کہ ان الفاظ کو بدل کر یوں ادا کیا جائے: تحمل خدائی صفت اور خدا کی ذات پر ایمان کا نام ہے۔‘‘
عیسائیوں کے قتل عام نے فرانس کو اپنے اس موقف پر زور دینے کا موقع فراہم کیا کہ سلطنت عثمانیہ میں رہنے والے عیسائیوں کو یورپی تحفظ کی ضرورت ہے۔ چھ ہزار کی نفری پر مشتمل فرانسیسی فوج بیروت کی طرف رواں دواں تھی جہاں اس کی آمد اگست کے وسط میں متوقع تھی۔
قتل وغارت گری تھمنے کے ایک ہفتہ بعد ۲۵جولائی کو غصے سے آگ بگولا ہو کریورپی طاقتوں نے فرانس اور یورپ کی مشترکہ فورس کو لبنان بھیجنے کا فیصلہ کیا جو دمشق کے اندر تک گھسنے کی صلاحیت بھی رکھتی تھی۔ الجزائر میں امیر کے ایک اور پرانے حریف جنرل بیوفو اوٹ پول (Beaufort d'Hautpoul) کی کمان میں شروع کی گئی اس مہم کا مقصد ’’انسانیت کے بنیادی فرائض‘‘ کو یقینی بنانا تھا۔ فرانسیسیوں کے پہنچنے سے پہلے سلطنت عثمانیہ کے وزیر خارجہ فواد پاشا کو، جو اصلاحات کا بڑا حامی اور برطانیہ کا منظور نظر تھا، فوراً لبنان سے تین ہزار فوجیوں کے ساتھ دمشق پہنچنے کا حکم ملا تاکہ فسادات کے مرتکب افراد کی نشاندہی کرکے انہیں سخت سزا دی جائے اور اس طرح فرانس کو اندرونی علاقوں میں مداخلت کے جواز سے محروم کر دیا جائے۔ 
فواد نے اپنے فوجی افسروں، عبدالقادر اور یورپی سفیروں کے ساتھ صلاح مشورہ کرنے کے علاوہ مقامی اکابرین کے ساتھ ملاقاتیں کیں اور پھر ایک غیر معمولی ٹربیونل تشکیل دیا۔ اس ٹربیونل نے زندہ بچ نکلنے والے عیسائیوں کو فسادات کی آگ بھڑکانے والوں کی فہرست تیار کرنے کی ذمہ داری تفویض کی، لیکن عیسائیوں کی اکثریت کو تو اندازہ ہی نہیں تھا کہ حقیقت میں ان پر حملہ کرنے والے کون لوگ تھے۔ جو زندہ بچ گئے تھے، انہیں صرف ان لوگوں کے چہرے یاد تھے جنھوں نے ان کی جان بچائی تھی۔ اس پر فواد پاشا نے مسلم علاقوں میں تعینات افسروں سے وہاں کے ایسے باشندوں کی فہرست بنانے کو کہا جنھیں قتل وغارت گری کے دوران مسلح دیکھا گیا تھا۔
تین اگست کو دمشق کی گورننگ کونسل نے دیگر مسلمان رہنماؤں سمیت فواد پاشا سے ملاقات کرکے اس فہرست کا جائزہ لیا تاکہ سزا کے مستوجب لوگوں کے ناموں کی تصدیق یا تردید کی جائے۔ اس ساری کارروائی کے دوران شہر کے دروازے بند رکھے گئے اور اشیائے خور ونوش اور دیگر ضروری سامان کی فراہمی کے سوا کسی کو اندر آنے یا باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ 
ٹربیونل نے ۴۶۰۰ ناموں کی فہرست میں سے ۳۵۰ ؍افراد کو گرفتار کیا۔ فہرست میں شامل بہت سے لوگ فرار ہوگئے تھے۔ کچھ پر الزامات ثابت نہیں ہوئے یا ناکافی شہادتوں کی بنیاد پر وہ بری کر دیے گئے۔ گرفتار ہونے والے ساڑھے تین سو افراد میں سے بارہ کے سوا سب ’’قتل وغارت پر اکسانے، قتل کرنے، آگ لگانے یا لوٹ مار کرنے‘‘جیسے جرائم کے مرتکب پائے گئے۔ مجرم قرار دیے جانے والے ۳۳۸ ؍افراد میں سے ۱۸۱ ؍کو گولی مار دی گئی یا پھانسی پر لٹکایا گیا جبکہ ۱۵۷؍کو ملک بدر کر دیا گیا۔ جن لوگوں کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا، ان میں گورنر احمد پاشا بھی شامل تھا۔ مشاگا کے چھ حملہ آوروں اور اس کے حلقے کے منتظم کو سولی چڑھا دیا گیا۔
بیاسی مجرموں کا تعلق ترکی کے نیم فوجی دستوں سے تھا۔ چونسٹھ افراد کو دمشق میں نووارد کے طور پر شناخت کیا گیا۔ ۱۲۳؍افراد کی شناخت ان کے پیشوں کے اعتبار سے کی گئی جن میں دکاندار، کاریگر، کسان اور اشرافیہ کے ارکان بھی شامل تھے، لیکن اس سارے قضیے کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا؟ اس سوال کے جواب میں انگلیاں مختلف سمتوں میں اٹھ رہی تھیں۔
فرانسیسی قونصل کا اشارہ انگریزوں کی طرف تھا اور اس نے توجہ دلائی کہ تمام یورپی سفارتخانوں میں صرف برطانیہ کا سفارتخانہ ایسا تھا جسے نذر آتش نہیں کیا گیا۔ (بعد میں پتہ چلا کہ اس کی حفاظت بھی عبدالقادر کے الجزائری جنگجو کر رہے تھے)۔ پھر انگریز ریورنڈ گراہم کے قاتل کی کہانی بھی بہت اہم تھی جس کا کہنا تھا کہ اس سے بہت بڑی خطا سرزد ہوئی تھی۔ دوسری طرف باقی ممالک کو اس معاملے میں فرانس کا ہاتھ ہونے کا شبہ تھا۔ فرانس کے بارے میں سب جانتے تھے کہ وہ شام پر قبضہ کرنے اور ریشم کے مقامی آڑھتیوں کو فارغ کرکے ان کی جگہ اپنے صنعت کاروں کو بٹھانے کے لیے بہانہ ڈھونڈ رہا ہے۔ استنبول میں اپنے سفیر کے ساتھ خط کتابت میں دمشق میں تعینات برطانوی قونصل نے عبدالقادر پر نائب قونصل لانوزے کے ساتھ ملی بھگت کرنے کا الزام عائد کیا اور اس طرح ہر وقت فرانسیسی منصوبوں سے ڈرے رہنے کی اس روایت کو دوبارہ زندہ کر دیا جو ۱۸۴۰ء میں اس وقت کے برطانوی قونصل نے یہ کہہ کر قائم کی تھی کہ فرانس مصر کے ساتھ گٹھ جوڑ کر رہا ہے۔ ’’حریص غیر ملکی ہاتھوں‘‘ کے ملوث ہونے کے بارے میں اسی طرح کی کچھ اور قیاس آرائیاں بھی تھیں۔
لیکن اصلی حقائق چرچل کی اس توضیح کو درست ثابت کرتے ہیں کہ یہ اصل میں اصلاحات کے مخالف مسلمانوں میں مغرور عیسائیوں کا ’’دماغ درست‘‘ کرنے کی خواہش تھی جس نے نفرت اور غصے سے بھرا یہ منصوبہ تیار کرایا۔ مشاگا نے چرچل کی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ساری منصوبہ بندی استنبول میں ہوئی تھی۔ عیسائی باشندے تو اپنے حقارت آمیز گھمنڈ اور قانون کی نافرمانی جیسے رویوں کی بنا پر ناپسندیدہ سمجھے جارہے تھے، لیکن دمشق کے مسلمان بھی ایسے ہی تھے جن کی اکثریت بے چین فطرت عربوں اور کردوں پر مشتمل تھی۔ ان کے بعض پرانے مجرمانہ رویوں مثلاً ٹیکس ادا نہ کرنے اور سامراجی وزیروں کے قتل کی سازش کرنے وغیر ہ پر ان کو بھی مزہ چکھانے کی ضرورت تھی۔ یہ گستاخی ہر جگہ تھی۔ زمانے کے سرد وگرم سے آشنا مشاگا نے لکھا ہے: ’’چنانچہ حکومت مسلمانوں کو عیسائیوں کے خلاف بھڑکا کر ایک تیر سے دو شکار کرتے ہوئے دونوں سے انتقام لینا چاہتی تھی۔‘‘
حالات وواقعات کی تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ فسادیوں کا ہجوم تھامس گیٹ سے اندر داخل ہوا اور سب سے پہلے روس کے سفارتخانے پر اور پھر خماریہ کے عیسائی علاقے میں قائم یورپ کے باقی سفارتخانوں پر حملہ کیا۔ یہودی بستی کو کسی نے نہیں چھیڑا۔ مشاگا نے بعض ایسے یہودیوں کے بارے میں بھی بتایا جو ترک ملیشیا کے ارکان کو گنے کا رس ملی برف پیش کر رہے تھے اور انہوں نے لٹیروں سے لوٹ کا مال بھی کوڑیوں کے مول خریدا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میدان کا علاقہ بھی، جہاں عیسائی اور مسلمان دونوں رہتے تھے، تشدد کی لہر سے محفوظ رہا۔ دمشق کے اس علاقے میں ریشم کے گنے چنے تاجر ہی رہتے تھے، لیکن یہ بڑی تعداد میں اناج کے تاجروں کی آماجگاہ تھا۔ میدان میں رہنے والی عیسائی اقلیت نے برسوں کی کوشش سے اپنے مسلم ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کر لیے تھے۔ وہ سب نرم خو تھے، مقامی حکام کا احترام کرتے تھے اور اپنے نئے حقوق پر اتراتے نہیں تھے۔
قتل وغارت اور لوٹ مار صرف خماریہ کی عیسائی بستیوں تک محدود رہی جہاں ریشم بننے والے ایسے عیسائی کاریگر رہتے تھے جو مسلمانوں سے زیادہ ہنر مند تھے۔ مسلمان کاریگروں میں، جنھیں جدید کھڈیوں تک رسائی حاصل نہیں تھی، تکنیکی کم تری کے احساس نے بھی دل میں رنج پیدا کیا تھا۔ بہت سے مسلمان یورپیوں کے مقروض تھے اور کارکن طبقہ اس موسم گرما میں اناج کی قلت کی وجہ سے اشیائے خور ونوش کی قیمتوں میں اضافے سے بھی پریشان تھا۔ بے چینی اور اضطراب پیدا کرنے والے اس طرح کے عوامل نے یورپیوں کی شہ پر لاگو ہونے والی اصلاحات کے خلاف نفرت کے ساتھ مل کر لاوے کو مزید دہکا دیا۔ اب ان بے شرم، گستاخ کافروں کو ’’درست‘‘ کرنے کے لیے ذرا سا اجتماعی اشتعال پیدا کرنے کی ضرورت تھی۔
اس طرح کی شورش کے نتائج ہمیشہ گندے ہوتے ہیں، لیکن حیرت ناک طور پر نو جولائی کو غیظ وغضب کا جو طوفان اٹھا تھا، وہ ایک خاص علاقے میں مرکوز رہا یعنی خماریہ میں محض ایک تہائی مربع میل کے اندر موجود عیسائی بستیوں سے باہر نہیں نکلا۔ بعد ازاں بڑی تعداد میں سزا پانے والے ملیشیا کے جوانوں اور باہر سے آنے والے لوگوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس اشتعال انگیزی کے لیے بیرونی مدد خریدی گئی تھی اور ایسا کرنے والوں کو مارے جانے والوں کے ساتھ کسی طرح کی کوئی ہمدردی یا تعلق نہیں تھا۔ مقامی لوگوں کی طرف سے ان کو ہلہ شیری ملی ، پھر تھوڑی سی لوٹ مار شروع ہوئی جس نے بالآخر قتل عام کی شکل اختیار کر لی۔ اس سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ سازش کرنے والوں نے اس جگہ کا انتخاب اس لیے کیا تھا کہ یہاں عیسائیوں کو آسانی سے پہچانا جا سکتا تھا اور حملہ آوروں کو مقامی عیسائیوں اور مسلمانوں میں امتیاز کرنے میں دقت کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
تحقیقات کرنے والوں نے میدان اور شغار کے محلوں میں رہنے والے مسلمانوں کی خاص طور پر تعریف کی جنھوں نے تشدد کی راہ اختیار کرنے کی بجائے اپنے عیسائی ہمسایوں کی حفاظت کی۔ عبدالقادر نے جو کچھ کیا، وہ بلا شبہ مثالی نوعیت کا تھا لیکن اس کی اتنی تعریف ہوئی کہ بہت سے دوسرے مسلمان جنھوں نے امیر ہی کی طرح عیسائیوں کو پناہ دے کر مشتعل ہجوم کے غضب کا نشانہ بننے کا خطرہ مول لیا تھا، منظر سے ہٹ گئے۔ مشاگا نے اپنی یادداشتوں ’’قتل، بھگدڑ، جلاؤ گھیراؤ اور لوٹ مار‘‘ میں بہت سے ایسے مسلمانوں کا ذکر کیا ہے جنھوں نے اپنے مذہبی قانون پر عمل کرتے ہوئے عیسائیوں کی جان بچائی۔ ان میں ایک معتبر عالم شخ سلیم عطار جبکہ میدان کے محلے میں صالح آغا المہایینی، سعید آغا النوری، عمر آغا العابد اور بہت سے دیگر لوگوں کے نام شامل ہیں۔ امیر عیسائیوں کا سب سے نڈر اور سب سے متحرک نجات دہندہ ضرور ہوگا، لیکن وہ تنہا نہیں تھا۔ اس کے علاوہ اور لوگ بھی عیسائیوں کی جان بچانے میں مصروف تھے۔
جب تحقیقاتی کمیشن نے امیر سے ان سارے واقعات کی بابت سوال کیا تو اس نے کیا رائے دی ہوگی؟ اس کا جواب ہمیشہ کی طرح دوسروں سے منفرد تھا۔ اس نے کہا کہ عیسائیوں کے محلے کو بچایا جا سکتا تھا ’’اگر گورنر کی نیت ہوتی۔‘‘ اس نے مزید وضاحت کرنے سے انکار کر دیا۔ ایک سال بعد آثار قدیمہ کے مشہور فرانسیسی ماہر اور مستشرق کومتے دے ووگ نے امیر سے ملاقات کی۔ امیر کے گھر کا ایک بار چکر لگانا تو جیسے یورپ سے آنے والے ہر مسافر پر فرض تھا۔ ملاقات کے دوران فرانسیسی مہمان نے دمشق کے لوگوں کے رویے کے بارے میں امیر کی رائے جاننے کی کوشش کی۔ اس پر جو جواب ملا، اس نے سارے ملاقاتیوں کو حیران کر دیا۔ ’’انہوں نے جس طرح اپنے حق کا استعمال کیا، وہ غلط تھا، لیکن ان کا عیسائیوں کو سزا دینے کا حق ناقابل تردید ہے۔ عیسائیوں نے استثنائی ٹیکس دینے سے انکار کر دیا تھا۔‘‘ امیر شاید مزید کچھ کہنا چاہتا ہو لیکن اس نے کہا نہیں کہ ایک جنگ زدہ عرب فیڈریشن کے سابق سربراہ کی حیثیت سے وہ ٹیکسوں کی اہمیت اور انہیں بہر صورت اکٹھا کرنے کی اہمیت سے بخوبی آگاہ تھا۔ 
عبدالقادر کی نظر میں قانون بالکل واضح تھا۔ عیسائی باشندے حفظ وامان میں لیے گئے لوگ تھے لیکن وہ بہر حال قانون کا احترام کرنے کے پابند تھے۔ قانون کی نافرمانی کے معاملے میں وہ غلطی پر تھے۔ وہ سرکشی اور بغاوت پر اتر آئے تھے اور انہیں سزا ملنا ضروری تھا۔ دوسری طرف مسلمانوں نے بھی اندھا دھند اور سفاکانہ طریقے سے انہیں ’’ٹھیک‘‘ کر کے غلط کیا۔ 
امیر یقیناً ایک باخبر شخص تھا۔ یورپی ممالک نے سلطنت عثمانیہ پر دباؤ ڈال کر جو اصلاحات نافذ کرائی تھیں، ان میں سرکاری طور پر عیسائیوں کے ’’ذمی‘‘ ہونے کی حیثیت ختم ہوگئی تھی اور جزیہ کا ٹیکس بھی ہٹا لیا گیا تھا۔ اس کی بجائے سب کے لیے ایک عالمگیر استثنائی ٹیکس متعارف کرایا گیا جو عسکری خدمات انجام نہ دینے کے خواہشمند عیسائیوں اور مسلمانوں دونوں کو ادا کرنا تھا۔ اب عیسائی اور ترک برابر ہوگئے تھے اور عیسائی بھی فوج میں خدمات انجام دینے کے پابند تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ عمومی طور پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ عیسائی سلطنت عثمانیہ کے لیے کام کرنے سے نفرت کرتے ہیں۔ ترک بھی عیسائیوں کو فوج میں نہیں لینا چاہتے تھے۔ لیکن اب مسئلہ یہ تھا کہ مسلمانوں کو تو فوج کی نوکری نہ کرنے کے عوض فی کس ایک سو لیرا ٹیکس دینا تھا جب کہ عیسائیوں پر صرف پچاس لیرا ٹیکس عائد کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود عیسائیوں نے وہ ٹیکس ادا کرنے سے انکار کردیا، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اگر وہ کہیں گے کہ ہم فوج میں نوکری کرنے کو تیار ہیں تو ترک انہیں مسترد کر دیں گے اور اس طرح ان کی ٹیکس ادا کرنے سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔ 
فرانسیسی ملاقاتی امیر کے منہ سے اس طرح کی سخت گیر باتیں سن کر بہت حیران ہوئے اور گمان غالب ہے کہ وہ ان نئی پیچیدگیوں سے آگاہ نہیں تھے جو ان اصلاحات سے پیدا ہوئی تھیں۔ فرانس میں عبدالقادر کی شخصیت کو اس کے پرستاروں نے ’’لبرل‘‘ کا جامہ اوڑھا دیا تھا، لیکن کومتے دے ووگ اگر امیر کے پروٹسٹنٹ دوست مائیکل مشاگا سے بھی بات کر لیتا تو اسے اسی طرح کے خیالات سننے کو ملتے۔ 
مشاگا کو اگر مقامی سطح پر ’’مشرق کا لوتھر‘‘کہا جاتا تھا تو یہ بالکل درست تھا۔ لوتھر کے ’’ہر صاحب ایمان کے لیے پادری بننے کا حق‘‘ کے انقلابی تصور نے مقدس رومن سلطنت کے جرمنی کے علاقے میں انتشار پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا تھا : ہر شخص کو، خواہ وہ کتنا ہی غیر تربیت یافتہ ہو، اپنا پادری خود بننے دو؛ خدا اور بندے کے درمیان کسی وسیلے کی ضرورت نہیں۔ جب لوتھر نے دیکھا کہ اس کے نظریات کو کتنا غلط طریقے سے استعمال کیا گیا ہے تو وہ دہل گیا اور سیکولر اتھارٹی کا پکا حامی بن گیا۔ پھر اس نے جو نتیجہ اخذ کیا، وہ یہ تھا کہ کوئی حکمران نہ ہونے سے برا حکمران بہتر ہے اور اس کی تائید اسے سینٹ پال کی تحریروں سے بھی ملی۔
جیسے تین سو سال پہلے لوتھر نے دیکھا تھا، اسی طرح مشاگا نے بھی سرکش روحوں یعنی عیسائیوں اور مسلمانوں کے بپا کردہ کشت وخون کا عینی شاہد بننے کی اذیت جھیلی۔ اپنی طویل یادداشتوں میں اس نے ان لوگوں کو خبردار کیا ہے جو مقررہ حکام کا فرمانبردار رہنے کی ضرورت سے انکار کرتے ہیں۔ ’’میری نیت اپنے حکمرانوں کے احکامات سے سرتابی کے نتائج سے روشناس کرانے اور اس کی وجوہات کی وضاحت کرنے کی تھی۔ .....کیونکہ ہم نے ابھی تک کوئی ایسی ریاست نہیں دیکھی جو احکامات کی تعمیل کرنے والی رعایا کے خلاف انتقامی کارروائی کرے۔‘‘ لوتھر کی طرح مشاگا بھی اکثر رومن کیتھولک حوالے دیتا تھا : ’’ہر انسان مقتدر حاکم کی رعیت ہے۔ حاکمیت صرف خدا کی ہے۔ .....حکمران اچھے کاموں کے خلاف نہیں بلکہ بدی کے خلاف خوف پیدا کرتے ہیں۔ ...... چنانچہ تمہیں ٹیکس ضرور ادا کرنے چاہئیں کیونکہ حکمران خدا کے نائب ہیں جو یہ کام کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ان کے سارے واجبات ادا کردو۔ .....کسی کا حق اپنے پاس نہ رکھو، سوائے اس کے کہ ایک دوسرے سے محبت کرو۔‘‘

ریاست، معاشرہ اور مذہبی طبقات ۔ پاکستان کے تناظر میں اہم سوالات کے حوالے سے ایک گفتگو (۲)

محمد عمار خان ناصر

انٹرویو: مشعل سیف

مشعل سیف: یہ بتائیے کہ آئین کو اور بہت سے قوانین کو Islamize کر لینے اور نظریاتی کونسل اور شرعی عدالت جیسے ادارے بنا لینے کے بعد پاکستان کو عملی طور پر اسلامی ریاست بنانے کے لیے اب مزید کن چیزوں کی ضرورت ہے اور آگے کس بات کی کوشش کرنی چاہیے؟
عمار ناصر: یہ بھی ایک بڑا اہم سوال ہے کہ عملی طور پر کیا ہو سکتاہے۔ میرے خیال میں جب بھی ہم اسلام کے نفاذ کی بات کرتے ہیں تو ہمارا سارا دھیان ریاست اور حکومت کے فیصلوں اور اقدامات پر مرکوز ہو جاتا ہے۔ میرے فہم کے مطابق قرآن وسنت میں جو مسلم معاشرے کا تصور ملتا ہے، اس میں ریاست اور حکومت کے معاملات بہت ثانوی چیز ہیں۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ مسلمانوں کا پورا معاشرہ عملاً مسلمان ہو۔ ریاست بھی مسلمان ہو، یہ اس کا ایک بہت محدود حصہ ہے۔ ریاست تو معاشرے ہی کا ایک حصہ ہے۔ جتنا معاشرہ مسلمان ہو چکا ہوگا، اتنی ہی ریاست بھی خودبخود ہو جائے گی۔ تو نفاذ اسلام کے تصور کی اصلاح ضروری ہے۔ آپ دیکھیں کہ معاشرے میں افراد کی اخلاقیات بگڑی ہوئی ہے، افرادکی وابستگی مذہب کے ساتھ صرف جذباتی ہے، عمل کا کوئی داعیہ ان کے اندر نہیں ہے۔ افراد بگڑے ہوئے ہیں، معاشرتی رسوم بگڑی ہوئی ہیں اور بری قدروں نے اسلام کی معاشرتی قدروں کو Replace کر دیا ہے۔ معاشرے میں ہم ہر جگہ لوگوں کو مادیت سکھا رہے ہیں اوران میں صرف اپنی دنیا کو بہتر بنانے کے جذبات بیدار کر رہے اور اس کے طریقے سکھا رہے ہیں۔ جو مذہب کے مطالبات ہیں، خدا کے ساتھ تعلق ہے، آخرت کے لیے تیاری ہے، اپنی اخلاقیات کو اللہ کی نظر میں بہتر بنانے کا معاملہ ہے، یہ احساس ہے کہ میرے کسی قول یا فعل سے کسی کی دل آزاری یا حق تلفی نہ ہو، کسی کو دکھ نہ پہنچے، کوئی نا انصافی نہ ہو، اصل میںیہ افراد تیار ہونے چاہییں۔ صحیح اسلامی معاشرہ وہ ہوگا جس میں افراد اور معاشرے میں رہنے والے انسان بحیثیت مجموعی اسلام کی قدروں کو اپنا لیں۔ اس کے بعد ریاست کا کردار تو بہت محدود ہوتا ہے۔ ریاست کیا کرتی ہے؟ وہ کچھ قوانین نافذ کر دے گی۔ چور کو پکڑے گی اور اسے سزا دے دے گی۔ اصل میں دین پر عمل نوے پچانوے فی صد معاشرے نے خود کرنا ہے۔ معاشرہ اگر تیار نہیں ہے، اس کے اندر اتنی جان نہیں ہے کہ وہ شریعت کی پابندیوں کو قبول کر لے تو ریاست وہاں کیا کرے گی؟
اس وقت یہی ہو رہا ہے۔ ہم نے پہیہ الٹا گھما دیا ہے۔ ہم نے سمجھا کہ اگر ریاست کو کلمہ پڑھا دیں گے اور کچھ قوانین منظور کر لیں گے اور کچھ اسلامی قسم کے ادارے بنا دیں گے تو اس کا اثر معاشرے پر پڑ جائے گا۔ یہ الٹ بات ہے۔ ایسا نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یا کسی بھی پیغمبر نے پہلے دن حکومت اور اقتدار کی سطح پر بات نہیں کی تھی۔ پہلے دن لوگوں کو مخاطب بنایا تھا، ان کو ایمان سکھایا تھا، لوگوں کو اخلاق بتائے تھے۔ پھر جب لوگوں میں قبولیت کی استعداد پیدا ہو گئی، تب یہ ہوا کہ ایک دن آپ نے اعلان کیا کہ شراب حرام ہے تو لوگوں نے ساری شراب اٹھا کر باہرپھینک دی۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ اگر پہلے دن آپ لوگوں سے یہ کہتے کہ شراب ممنوع ہے اور زنا حرام ہے تو کوئی بھی نہ مانتا۔ تو یہ الٹ ترتیب ہے جو ہم نے اختیار کی ہے۔ 
میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے جو مذہبی لوگ ہیں، جن کی یہ خواہش ہے کہ معاشرہ تبدیل ہو، انھیں اپنی ترجیحات درست کرنی چاہییں۔ اب تک ہم نے سارا زور ریاست پر لگایا ہے اور وہاں جتنا ہو سکتا تھا، اس میں ہم نے کامیابی حاصل کرلی ہے۔ آئین مسلمان ہو گیا ہے، ضمانتیں دے دی گئی ہیں اور کافی قوانین بھی بن گئے ہیں۔ اس سے زیادہ سردست وہاں کچھ نہیں ہو سکتا۔ اب ہمیں اپنی ترجیحات بدلنی چاہییں۔ ہمیں اپنے اخلاق بہتر بنانے ہیں۔ خود مذہبی لوگوں میں بڑے اخلاقی مسائل ہیں۔ ہم خود اسلام کا جتنا اچھا نمونہ پیش کرتے ہیں، اس کو دیکھیں تو سوسائٹی سے ہم کیا توقع رکھتے ہیں؟ اب ہم لوگوں کو مسلمان بنائیں، ان کے اخلاق کو بدلیں، لوگوں کو اس کے لیے تیار کریں۔ جتنا یہ معاشرہ بہتر ہو جائے گا، اتنا اسلام خود بخود آ جائے گا اور اس کے بعد وہ وقت بھی آئے گا کہ ہم حکومتوں سے توقع کریں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔ 
یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اسلام کی نظر میں قانون اور ریاست کا اور معاشرے کی جو اخلاقی صورت حال ہے، اس کا باہمی Relation کیا ہے۔ ہم ان چیزوں کو الگ الگ کر کے کسی ایک پر ذمہ داری نہیں ڈال سکتے کہ حکومت اور حکمران اگر ٹھیک ہو جائیں تو باقی سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ حکمران اگر تو آسمان سے اتر کر آئے ہیں تو پھر اور بات ہے۔ اگر حکمران ہم میں سے ہی کچھ لوگ ہیں اور وہ بھی انھی معاشرتی اقدار کے سانچے میں ڈھلے ہیں جن کی چھاپ پورے معاشرے پر ہے تو ہم ان سے کیا توقع کر سکتے ہیں؟
مشعل سیف: آپ bottom-up اپروچ کی بات کر رہے ہیں کہ اگرہم نچلی سطح پر تبدیلیاں لے کر آئیں تو بات eventually ریاست تک پہنچے گی، جبکہ دوسری اپروچ جس کا آپ ذکر کر رہے ہیں، یہ ہے کہ ہم top سے تبدیلی لے کر آئیں۔ یہ بتائیے کہ نیچے سے تبدیلی لانے کے لیے علماء کو معاشرے کے اندر، عام لوگوں میں اور سوسائٹی کے اندر لوگوں کا رجحان اسلام کی طرف کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ کیا تصانیف سے یا لیکچرز سے ایسا ہوگا یا کسی اور طریقے سے؟
عمار ناصر: یہ تو سب ابلاغ کے طریقے ہیں۔ آپ نے بات پہنچانی ہے، لوگوں کو نصیحت کرنی ہے تو یہ اس کے طریقے ہیں۔ آپ اس طریقے سے بھی کر سکتے ہیں اور جمعے کے خطبے اور لیکچر اور درس سے بھی کر سکتے ہیں۔ سب سے زیادہ موثر جو چیز ہے، جو ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سارے انبیاء کے طریقے میں ملتی ہے، وہ کردار کا نمونہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ لیکچر نہیں دیا کرتے تھے۔ ہمارے ہاں تو ہر نماز کے بعد کوئی نہ کوئی درس، کوئی نہ کوئی وعظ ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ تھا کہ جمعے کے علاوہ آپ عام طور پر پبلک اجتماع کا اہتمام نہیں کرتے تھے۔ ہفتے میں ایک دن رکھا ہوتا تھا جس میں لوگوں کو جمع کرتے اور وعظ ونصیحت کا اہتمام فرماتے تھے۔ اکابر صحابہ کا بھی یہی معمول رہا ہے۔ عبد اللہ بن مسعودؓ سے لوگوں نے کہا کہ آپ ہمیں کچھ زیادہ وقت دیا کریں۔ انھوں نے کہا کہ نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات ناپسند تھی کہ لوگوں کو باتیں سنا سنا کر اکتاہٹ میں ڈال دیا جائے۔ اصل میں انسان نمونے سے سیکھتا ہے۔ ہماری سوسائٹی کی بدقسمتی یہ ہے کہ اچھی سے اچھی تقریریں کرنے والے آپ کو بے شمار لوگ مل جائیں گے، کوئی اچھا نمونہ دکھانے والا نہیں ملے گا کہ یہ اسلام ہے، یہ اسلامی اخلاقیات ہے۔ آپ کو علماء میں، لیڈر شپ میں، اپنے ارد گرد کے لوگوں میں نمونہ نظر آئے گا تو آپ اس سے سیکھیں گے نا! تقریریں تو ہم سب کر لیتے ہیں۔
تو جو لوگ معاشرے کی اصلاح کے علم بردارہیں اور تبدیلی چاہتے ہیں، سب سے پہلے ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ عالم کی حیثیت سے، مذہب کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے ہماری جو اپنی اخلاقیات ہے اور فرد کی حیثیت سے سماج میں ہماری جو اخلاقیات ہے، اس کو بہتر بنائیں۔ ہماری ترجیحات کیا ہیں، ان سے نظر آئے کہ ایک مسلمان کو کیسا ہونا چاہیے۔ نمونے سے لوگ سیکھتے ہیں۔ پچھلے دور میں ہمارا ایک ادارہ ہوتا تھا تصوف کا، وہ تربیت کا ایک بڑا ا چھا مرکز تھا۔ اب وہ بدقسمتی سے بالکل برباد ہو گیا ہے۔ اب وہ ادارہ بھی ایک کاروباری ادارہ بن گیا ہے۔ اب ہمیں اچھے خدا والے، اچھے خدا پرست لوگ جن کے پاس بیٹھ کر ہم محسوس کریں کہ یہ دنیا کچھ نہیں ہے، وہ نہیں ملتے۔ یہ ہماری بڑی بدقسمتی ہے کہ ہمیں نمونہ نہیں ملتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی بتایا تھا کہ امت سے جب اللہ تعالیٰ اپنے دین کو اور اپنے دین کے علم کو اٹھانے کا فیصلہ کریں گے تو ایسا نہیں ہوگا کہ کتابیں ناپید ہو جائیں یا کتابوں کو پڑھنے والے لوگ ختم ہو جائیں۔ اصل میں وہ لوگ جو اس کا ایک عمدہ نمونہ ہوں گے، ان کو اللہ تعالیٰ اٹھا لیں گے۔ پھر لوگوں کو جیسے بھی لوگ ملیں گے، وہ انھی کے پیچھے چلیں گے۔ تو اصل چیز یہ ہے کہ ایسے نمونے ہمارے سامنے ہوں جو لوگوں کو زندہ اور چلتے پھرتے نظر آئیں۔ اسی سے لوگ سیکھیں گے۔
مشعل سیف: آپ کی بات سمجھ میں آ گئی، لیکن جو دوسری Top-down اپروچ ہے، جس کے متعلق کافی علما نے لکھا ہوا ہے، اس کے بارے میں کچھ اور بات کرنا چاہتی ہوں۔ آپ نے کہا کہ جو حکومت ہوتی ہے، وہ قوانین اور پالیسیاں وغیرہ بناتی ہے۔ حکومتی پالیسیوں کا ایک بہت اہم حصہ تعلیمی نظام ہوتا ہے۔ مثلاً ہمارے پبلک اسکولوں میں جو تعلیمی نصاب ہے، وہ ایک بہت اہم چیز ہے جس کے ذریعے سے معاشرے میں تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں۔ Top-down اپروچ یہ ہے کہ حکومت سے کہا جائے کہ آپ نظام تعلیم میں تبدیلیاں لے کر آئیں۔ علماء یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں جو تعلیمی اداروں میں اسلام کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے، اس میں تبدیلیاں لانی چاہییں۔ بہت سے علماء نے اس کے متعلق تجاویز دی ہیں۔ تو اس اپروچ کے متعلق کچھ بتائیے کہ اس کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
عمار ناصر: یہ بات بنیادی طور پر غلط نہیں ہے، لیکن ہم تھوڑی سی جگہ بدل کر بات کر رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ریاست کے پاس جو اختیار ہوتا ہے اور اس کے لیے کردار ادا کرنے کے جو مواقع ہوتے ہیں، ان کی اہمیت نہیں ہے۔ بہت سے کام ہیں جو وہی کر سکتی ہے۔ مثلاً اس وقت تعلیم کے دائرے میں ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پوری قوم کے اندر کوئی فکری یکسوئی نہیں ہے۔ درجن بھر تعلیمی نظام کام کر رہے ہیں۔ اگر آپ کو قوم میں بنیادی ایشوز کے حوالے سے فکری یکسوئی پیدا کرنی ہے تو آپ کو نظام تعلیم کو اس کا ذریعہ بنانا پڑے گا۔ اب یہ کون کر سکتا ہے؟ ظاہرہے کہ ریاست ہی کر سکتی ہے۔ میں اس وقت اس سے اختلاف نہیں کر رہا کہ ریاست کا معاشرے کی اصلاح میں ایک بنیادی اور غیر معمولی کردار ہے۔ میں جو بات عرض کر رہا ہوں، وہ یہ ہے کہ اس وقت ریاست میں اقتدار واختیار رکھنے والے وہ طبقات جنھوں نے یہ کردار ادا کرنا ہے، وہ اس کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ آپ ان کو محض suggest کر کے کہ یہ طریقہ ہے اور یہ طریقہ ہے، فلاں اقدام کریں تو یہ ہوگا اور یہ فیصلہ کریں تو وہ ہوگا، کچھ حاصل نہیں کر سکتے۔ یہ بے فائدہ ہے۔ ان کے اندر نہ اس کا داعیہ ہے، نہ جذبہ ہے، نہ کمٹ منٹ ہے اور نہ وژن ہے۔ کوئی شبہ نہیں کہ ریاست کو اپنا کردار ادا کرنا ہے، لیکن اس وقت مقتدر طبقات اس کے لیے تیار نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت آپ کو کیا کرنا ہے؟ اور اگر ان طبقات کو آپ اس سطح پر لانا چاہتے ہیں اور انھیں اس کردار کے لیے تیار کرنا چاہتے ہیں تو اس کی حکمت عملی کیا ہے؟ 
ہم حکمران طبقہ کوئی آسمان سے اتار کر تو لا نہیں سکتے۔ اصل میں ہم یہ فرق نہیں سمجھتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جو اسلامی ریاست قائم ہوئی، اس میں جن لوگوں کو اقتدار واختیار سونپا گیا، ان کے انتخاب کی اصل بنیاد ہمارے ہاں کے جمہوری طریقے کے مطابق لوگوں کی طرف سے اعتماد کاووٹ نہیں تھا۔ وہ تو براہ راست خدا کی نگرانی میں ایک ریاست قائم ہوئی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک خاص گروہ کو تربیت دی تھی اور ان کو اس معیار پر لے کر آئے تھے کہ جب وہ اس ریاست میں زمام اقتدار سنبھالیں تو ایک مثالی حکمران کا نمونہ پیش کر سکیں۔ ان کو اللہ نے امتحانوں اور آزمائشوں کی بھٹی سے گزار کر انعام کے طور پر اقتدار دیا تھا۔ وہاں تو یہ بات بالکل سمجھ میں آتی ہے کہ جو حکمران ہیں، ان کا اپنا ذاتی فعل، کردار، ان کا وژن اور ان کی ترجیحات اس جگہ پر ہیں جہاں انھیں ہونا چاہیے اور جب انھیں اقتدار ملا تو انھوں نے اس کو implement کر کے دکھا دیا۔ آج ہم تو اس صورت حال میں کھڑے نہیں ہیں۔
تو بات یہ نہیں کہ ریاست کو اختیار حاصل نہیں ہوتا یا اس کی کوئی ذمہ داری نہیں بنتی یا اس کا کردار غیر اہم ہوتا ہے۔ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو طبقہ اوپر بیٹھا ہوا ہے، وہ ہم میں سے ہی نکل کر گیا ہے۔ اخلاقی لحاظ سے جو پورے معاشرے کی ترجیحات ہیں، انھی کا اثر ان پر بھی ہے اور اقتدار واختیار کے حوالے سے وہ اسی نفسیات کا نمونہ پیش کرتے ہیں جو عمومی طور پر ہم سب کی ہے۔ ہمارے مذہبی معلمین اور مبلغین اور مصلحین کو چاہیے کہ اس حکمران طبقے کو Target کریں۔ ان کو مخاطب بنائیں اور کافی عرصے تک ان کو تیار کرنے کی کوشش کریں تاکہ ان کے اندر اسلام کا جذبہ اور اسلام کے نفاذ اور سوسائٹی کی اصلاح کا داعیہ پیدا ہو جائے۔ آپ عام لوگوں کو بھی مخاطب بنائیں تاکہ ان کے اندر ایمانی جذبہ اور قبولیت پیدا ہو اور آپ حکمرا ن طبقات اور مقتدر طبقات کو بھی اپنی دعوت وتبلیغ کا اور اصلاح کا ہدف بنائیں تاکہ وہ لوگ اپنی ذات میں ایک اچھا نمونہ بن سکیں، ان کے اندر یہ داعیہ پیدا ہو کہ ہمیں سوسائٹی میں جو مقام اور جو اثر ورسوخ حاصل ہے، اس کوہم نے اچھے مقصد کے لیے استعمال کرنا ہے۔ یہ وہ بات ہے جو میں عرض کر رہا ہوں۔ریاست کو جو اختیار یا طاقت حاصل ہوتی ہے یا اس کی جو ذمہ داریاں بنتی ہیں، ان کی نفی نہیں کر رہا۔
مشعل سیف: کچھ لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ علماء کو حکمران ہونا چاہیے، کیونکہ وہ اسلام کو بہتر سمجھتے ہیں اور وہی صحیح اسلامی ریاست قائم کر سکتے ہیں۔ کیا آپ کے خیال میں علما کو ہی حکمران طبقہ ہونا چاہیے؟ 
عمار ناصر: دیکھیں، جب آپ ’’طبقہ علما‘‘ کہتی ہیں تو اس کا مطلب بالکل اور بنتا ہے۔ اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ ہمارے ہاں جو علماء کے عنوان سے ایک خاص Class موجود ہے، اس کو حکمرانی کی ذمہ داریاں دے دی جائیں۔ اگر آپ کی یہ مراد ہے تو میں ہرگز یہ نہیں سمجھتا کہ حکومت اس طبقے کے سپرد کرنی چاہیے۔ ہاں، ایک دوسری بات ہے اور وہ یہ کہ جو حکمران ہے، وہ اسلام کا اتنا علم رکھتا ہو کہ وہ ایک عالم دین کے ہم پلہ ہو تو یہ بات درست ہے۔ Ideally مسلمانوں کے حکمران کو عالم ہونا چاہیے، بلکہ میں تو کہوں گاکہ وہ اتنا گہرا علم رکھتا ہو کہ خود اس کی اپنی ایک رائے ہو۔ یہ تو ہمارا خواب ہے کہ کبھی ایسا ہو جائے۔ لیکن آپ طبقہ علماء کو جو اس وقت ہمارے ہاں موجود ہے، اقتدار دینے کی بات کر رہی ہیں تو میرے خیال میں یہ اس کی بالکل اہلیت نہیں رکھتے۔ ان کے پاس وژن بھی نہیں ہے، ان کو معاشرے کے مسائل کا ادراک نہیں ہے اور عملاً ہم متحدہ مجلس عمل کو صوبہ سرحد میں ایک موقع دے کر دیکھ چکے ہیں کہ وہ اپنے دائرۂ اختیار میں بھی کچھ نہیں کر سکے۔ معاشرہ بہت پیچیدہ ہے۔ اس کے مسائل کو کیسے handle کرنا ہے، ہمارا موجودہ طبقہ علما اس سے بالکل نابلد ہے۔ 
مشعل سیف: یعنی آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ علماء کو حکمرانوں کو نصیحت کرنی چاہیے، انھیں خود حکمران بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے؟
عمار ناصر: بالکل کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ اور نصیحت بھی اس پہلو سے نہیں کرنی چاہیے کہ وہ حکومت کے معاملات کو کیسے چلائیں۔ یہ وہی بہتر سمجھتے ہیں۔ نصیحت اس پہلو سے کرنی چاہیے کہ ان کے اندر ایمانی جذبہ بیدار ہو جائے، ان کا اپنا اخلاق وکردار بہتر ہو جائے اور ایک مسلمان حکمران کے اندر جو احساس ذمہ داری ہونا چاہیے، وہ پیدا ہو جائے کہ مجھے اپنے اختیار کا غلط استعمال نہیں کرنا، کیونکہ یہ میرے پا س امانت ہے۔ اسی کو تذکیر کہتے ہیں۔علماء کا کام تذکیر ہے،یعنی کسی بھی آدمی کو اس بات کی یاد دہانی کرانا کہ وہ اللہ کے سامنے جواب دہی کے احساس سے اپنے کردار کا، اپنے قول وفعل کا جائزہ لے اور یہ تصور کرے کہ مجھے دنیا میں کچھ دنوں کا اقتدار مل گیا ہے تو میں فرعون نہ بن جاؤں۔ یہ جو ایمان کا جذبہ پیدا کرنا ہے، یہ ایک عام آدمی میں بھی بیدار کرنا ہے اور ایک حکمران میں بھی کرنا ہے تاکہ جس آدمی کو اللہ نے جہاں place کیا ہے، وہاں وہ اللہ کی مرضی اور اس کی منشا کے مطابق عمل کرے۔
یہاں میں یہ بات Stress کے ساتھ کہوں گا کہ علماء سے مراد صرف دین کا علم رکھنے والے لوگ نہیں۔ دین کی باتیں بتانے والے بہت ہیں، آپ کتابوں میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔ وہ لوگ مراد ہیں جو اپنے کردار سے اور اپنی سیرت کے حسن سے آپ کو Inspire کر سکیں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے دوست وہ ہیں جن کو تم دیکھو تو تمھیں خدا یاد آ جائے۔ ایسی کیفیات پیدا کرنے والے لوگ ہم میں ہونے چاہییں جو ہمیں اپنی اصلاح پر آمادہ کریں۔ تقریریں تو ہم روز سنتے رہتے ہیں، بلکہ میرے خیال میں یہ جو بہت زیادہ تقریریں سننا ہے، یہ بھی ہماری عمل کی حس کو بڑی حد تک دبا دیتا ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہفتے میں ایک ہی دن وعظ ونصیحت کرتے تھے۔ جب ہم ہر وقت باتیں سنتے اور کرتے رہتے ہیں تو ہماری حس مردہ ہو جاتی ہے اور ہم بے پروا ہو جاتے ہیں کہ یہ باتیں تو ہر وقت سنتے ہی رہتے ہیں۔ تو دعوت وتبلیغ سے مراد مذہبی تقریریں کرنا یا مذہبی اجتماعات منعقد کرنا نہیں۔ مقصد یہ ہے کہ انسان میں تبدیلی کیسے آئے اور نفس کے بندے کیسے خدا کے بندے بن جائیں۔ میرے اندر کیسے تبدیلی آئے، مخاطب کے اندر کیسے آئے اور ہم خدا کے صحیح مسلمان بندے بن جائیں، یہ مطلوب ہونا چاہیے۔
مشعل سیف: آپ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ معاشرے میں تبدیلی لانے کے لیے ہمیں نچلی سطح پر توجہ دینی چاہیے۔ یقیناًریاست ایک قوت اور طاقت ہوتی ہے اور وہ بھی معاشرے میں تبدیلی لا سکتی ہے اور نظام تعلیم بھی اس میں کردار ادا کرتا ہے، مگر آپ کے خیال میں پاکستان کے حالات میں زیادہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ علماء معاشرے میں تبدیلی لانے کے لیے محنت کریں۔ آپ بتائیں کہ کیا آپ نے یہ کام کیا ہے یا اگر موقع ملے تو آپ کن خطوط پر محنت کریں گے؟
عمار ناصر: دیکھیں، اس وقت جو کوشش ہونی چاہیے، وہ یہ ہے کہ جن طبقات کا اس وقت ریاست کا نظام چلانے میں بنیادی کردار ہے، اس میں آپ کے سیاست دان ہیں، افواج ہیں، عدلیہ ہے، بیورو کریسی ہے، میڈیا کے لوگ ہیں، سرمایہ دار طبقات ہیں۔ یہی ہیں جو اس وقت الٹا سیدھا جو بھی کر سکتے ہیں، کر رہے ہیں! سو طبقہ علماء کو یا معاشرے کی اصلاح چاہنے والے لوگوں کو چاہیے کہ ان افراد کو اپنی تعلیمی اور تبلیغی واصلاحی کوششوں کا خاص طور پر ہدف بنائیں۔ مثلاً میڈیا کی بہت بڑی طاقت ہے اور وہ لوگوں کے رجحان بنانے اور بگاڑنے میں بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے، لیکن وہاں جو افراد بیٹھے ہوئے ہیں، ان کا جو وژن ہے اور وہ میڈیا کو جیسے دیکھ رہے ہیں، ان کے سامنے سوسائٹی کا جو تصور ہے، وہ اسی کے لحاظ سے اپنا کام کریں گے۔ ان کے سامنے اگر کوئی وژن ہی نہیں ہے اور بس آزادی ہی آزادی کا تصور ہے یا سنسنی پھیلا کر ہر وقت لوگوں کو ٹی وی کے سامنے بٹھائے رکھنا ان کا ہدف ہے یا کمرشلائزیشن کا محرک کام کررہا ہے تو وہ اسی کے لحاظ سے اپنی پالیسیاں اور ترجیحات متعین کریں گے، اسی کے لحاظ سے اپنا content تیار کریں گے۔ اگر اس طرح کے لوگوں کو ہدف بنایا جا سکے تو اس کے کافی اثرات ہوں گے۔ تبلیغی جماعت ایک حد تک یہ کام کرنے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن اس کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بہت زیادہ Other-worldly ہو جاتی ہے اور ہماری سوسائٹی کے جو مسئلے ہیں، وہ اس کی دعوت کا موضوع نہیں۔ لیکن حکمت عملی ان کی درست ہے۔ آپ افراد تک، وہ جہاں بھی معاشرے میں پھیلے ہوئے ہیں، رسائی حاصل کریں۔ ان کے زاویہ نظر کو یا ان کے عمل کو، ان کے کردار کو بہتر بنانے کی کوشش کریں تاکہ جہاں بھی ان کو کام کرنے کا موقع ملے، وہ وہاں کام کریں۔ 
یہ اسٹریٹجی بنیادی طور پر ٹھیک ہے۔ اس کو اگر ذرا وسیع کر لیا جائے اور جو طبقے آپ کے مخاطب ہیں، ان کی نفسیات کے لحاظ سے ذرا tailor کرلیا جائے، ان کے مزاج سے ہم آہنگ کر لیا جائے تو میرے خیال میں یہ کام کرنے کا ہے۔ یہ مجدد الف ثانی او ران کے مرشد خواجہ باقی باللہ کا طریقہ ہے۔ انھوں نے عوام میں کوئی شور مچانے کے بجائے اور کوئی موومنٹ شروع کرنے کے بجائے اکبر کے بہت قریبی امرا کے ساتھ شخصی روابط قائم کیے۔ ان کے ہاں جو فکری کجی تھی، اس کو درست کیا اور اس سے ایک نتیجہ انھوں نے حاصل کیا۔ جب اکبر کو دین الٰہی کی تبلیغ کے لیے دست وبازو ہی نہ ملے تو بس وہ دربار تک محدود ہو کر رہ گیا۔ میرے خیال میںآج بھی علماء کو یہی کام کرنا چاہیے، لیکن یہ کام بالکل بے لوث ہو کر کیا جائے، تبھی ثمرات دے گا۔ اس وقت ہمارے مذہبی لوگ اہل اقتدار اور بارسوخ طبقات کے ساتھ تعلقات بناتے ہیں، لیکن وہ دعوت کے جذبے سے نہیں ہوتا۔ وہ زیادہ تر اپنا قد اونچا کرنے یا کچھ مفادات حاصل کرنے کے لیے ہوتا ہے۔
مشعل سیف: آپ بھی تعلقات بناتے ہیں ایسے لوگوں کے ساتھ؟
عمار ناصر: میں تو بالکل گوشہ نشین آدمی ہوں۔ اپنے محلے کے بھی سارے افراد کو نہیں جانتا۔
مشعل سیف: آپ نے کہا کہ ہمارے مدارس میں کلاسیکی فقہ تو پڑھائی جا رہی ہے، لیکن جدید مغربی علوم نہیں پڑھائے جا رہے اور اس کی وجہ سے وہاں قدامت پسند سوچ اور مائنڈ سیٹ پیدا ہو رہا ہے۔ آپ کے علم میں ہوگا کہ اتحاد تنظیمات مدارس نے کچھ عرصہ قبل حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا، لیکن اس میں یہ طے کیا گیا تھا کہ مدارس میں جدید علوم بھی پڑھائے جائیں گے۔ کیا اس طرح کے کسی معاہدے پر اگر عمل ہو تو آپ کے خیال میں یہ جو قدیم اور جدید فکر کے درمیان دوری کی صورت حال ہے، اس کے حل میں مدد ملے گی؟
عمار ناصر: دیکھیں، اس طرح کے جو معاہدے ہیں، یہ سب Political معاہدے ہیں۔ ان کے پیچھے نہ تو کوئی ایسا جذبہ ہے کہ ہمیں مدارس کے طلبہ کے وژن کو وسیع کرنا ہے اور نہ حقیقی ارادہ (Will) کار فرما ہے۔ یہ سیاسی معاہدے ہیں۔ مدارس پر بہت دباؤ ہے کہ یہ انتہا پسندی کو فر وغ دے رہے ہیں، یہ تنگ نظری پیدا کر رہے ہیں، یہ جدید علوم نہیں پڑھا رہے۔ تو اس دباؤ کو face کرنے کے لیے مدارس کچھ ایسے اقدامات کرنے کے لیے تیار ہیں جو دکھائے جا سکیں کہ دیکھیں، ہم نے یہ باتیں مان لی ہیں تاکہ دباؤ کچھ کم ہو سکے۔ یہ صرف اس حد تک ہے۔ اس کے پیچھے کوئی حقیقی عزم نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ جو جدید علوم آپ کے وژن کو وسیع کر سکتے ہیں، وہ ریاضی اور سائنس تو نہیں ہیں۔ وہ تو سوشل سائنسز ہوتی ہیں۔ سوشل سائنسز ہیں جو آپ کے انداز نظر کو بدلتی اور وسیع کرتی ہیں۔ ان کا تو یہاں کوئی ذکر ہی نہیں۔ آپ مدارس کے طلبہ کو اگر دسویں یا بارھویں جماعت تک انگریزی اور ریاضی پڑھا دیں گے تو اس سے ان کے وژن میں کیا وسعت آ جائے گی؟ 
اصل چیز بنیادی ذہنی رویہ ہے۔ مدارس کی قیادت اپنے ذہنی رویے میں محصور ہے۔ انھیں نہ خود اپنے محدود طبقاتی مفاد سے اوپر اٹھ کر سوچنا قبول ہے اور نہ اپنے طلبہ میں وہ یہ رجحان پیدا ہونے دینا چاہتے ہیں۔ اسی طرح ہماری جو حکومتیں ہیں، ان کا مفاد بھی اسی میں ہے کہ مدارس کے لوگ اور مذہبی لوگ سوسائٹی میں ایک محدود دائرے میں ہی اپنا کردار ادا کریں۔ آپ اس کا تجزیہ کیجیے گا۔ میری یہ سوچی سمجھی رائے ہے کہ مدارس کے لوگوں کو تعلیمی لحاظ سے اور اپنے فکری اثرات کے لحاظ سے ایک محدود دائرے میں رکھنا یہ مدارس کی جو قیادت ہے، اس کے بھی مفاد میں ہے، یہ حکومتوں کے مفاد میں بھی ہے اور یہ سیکولر طبقوں کے بھی مفاد میں ہے۔ وہ بھی یہی چاہتے ہیں کہ یہ اسی دائرے میں رہیں، اس لیے کہ ان کو اگر جدید علوم بھی حاصل ہوں گے تو لازمی طور پر ان میں سوسائٹی میں Peneteration کی زیادہ استعداد پیدا ہوگی اور اس سے ظاہر ہے کہ سیکولر لوگوں کا مقدمہ خراب ہو جائے گا۔ یہ سارے Stake holder کے اشتراک سے، مل جل کر ایک کام ہو رہا ہے۔ البتہ سوسائٹی کو مطمئن کرنے کے لیے یا باہر سے جو دباؤ آتا ہے، اس کو face کرنے کے لیے کچھ اس طرح کے کام وقتاً فوقتاً کر لیے جاتے ہیں۔ ان سے کسی حقیقی تبدیلی کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔
جنرل پرویز مشرف کے دور سے لے کر اس وقت تک جتنی بھی کوشش ہوئی ہے، اس کا محرک بنیادی طور پر تعلیمی اصلاح نہیں ہے۔ نہ حکومت کا اور نہ مدارس کے کارپردازان کا یہ مقصد ہے کہ ہم اپنے مدارس کے نظام تعلیم کو بہتر بنائیں تاکہ یہاں سے زیادہ باصلاحیت اور زیادہ اونچے calibre کے لوگ پیدا ہوں۔ یہ سارا سلسلہ بیرونی دنیا کے دباؤ کو faceکرنے کے لیے شروع کیا گیا ہے۔ اس سے مدارس کو سیاسی طور پر فائدہ ہوا۔ انھوں نے اپنی ایک متحدہ تنظیم بنا لی، دباؤ کا سامنا کرنے میں ان کو مدد مل گئی اور حکومت کو بھی بیرونی دنیا کے سامنے کچھ کہنے کے لیے مل گیا کہ دیکھیں، ہم یہ تبدیلیاں کروا رہے ہیں۔ اس حد تک تو اس کا فائدہ نظر آتا ہے، لیکن آپ یہ سمجھیں کہ اس سے کوئی بنیادی تبدیلی آئے گی تو ایسا بالکل نہیں ہے۔ اس کے لیے پہلے رویے بنتے ہیں، آپ کے اندر آمادگی پیدا ہوتی ہے کہ واقعی ہم نے اپنے ہاں سے بہتر لوگ پیدا کرنے ہیں۔ یہ آمادگی یا داعیہ ابھی تک پیدا نہیں ہوا۔ شاید آپ اس کو بدگمانی کہیں، لیکن میں پھر یہ کہوں گا کہ مدارس کی قیادت سمیت اس وقت جتنے بھی فریق ہیں، ان سب کا مفاد اسی میں ہے کہ یہ طبقہ ایک خاص سطح پر ہی رہے اور ایک محدود دائرے میں ہی اپنا کردار ادا کرتا رہے۔ کچھ طبقے شعوری طور پر ایسا چاہتے ہیں اور کچھ غیر شعوری طور پر، لیکن مفاد سب کا اسی میں ہے۔
مشعل سیف: کچھ عرصہ قبل مختلف وفاقوں کے سربراہوں پر مشتمل ایک وفد کو وزیر تعلیم کے ہمراہ مصر اور ترکی میں مذہبی تعلیم کا نظام دیکھنے کے لیے ایک مطالعاتی دورہ کروایا گیا تھا۔ آپ کے خیال میں اس سے کچھ فائدہ ہو سکتا ہے؟
عمار ناصر: دیکھیں، اگر تومدارس کی قیادت میں یہ will موجود ہے کہ ہمیں مثبت تبدیلیاں لانی ہیں تو پھر اس طرح کے جتنے بھی تعلیمی ماڈل دیکھے جا سکیں، وہ مفید ہوں گے اور مختلف ممالک میں کیے جانے والے تجربات سے راہنمائی ملے گی، لیکن مجھے معلوم ہے کہ ایسی کوئی will موجود نہیں۔ میں نے اس دورے کے منتظمین سے کہا تھا کہ یہ حضرات دوسرے ملکوں میں جا کر اچھی اچھی باتیں دیکھیں گے اور سنیں گے، لیکن واپس آ کر اگر آپ ان سے یہ کہیں گے کہ آپ بھی اپنے ہاں ا س طرح کی اصلاحات introduce کروائیں تو وہ کہیں گے کہ بھئی، یہ ہم نہیں کر سکتے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان میں یہ will ہی نہیں ہے اور will کے علاوہ یہ مسئلہ بھی ہے کہ پورے مذہبی طبقے کا جو مائنڈ سیٹ ہے، اس میں تبدیلی کی خواہش مستحکم بنیادوں پر اور وسیع پیمانے پر پیدا کیے بغیر کوئی عملی اقدام ممکن ہی نہیں۔ کیا آپ کے خیال میں وفاق المدارس العربیہ یا تنظیم المدارس کے جو سیکرٹری جنرل ہیں، ان کو یہ مینڈیٹ ملا ہوا ہے کہ وہ جیسی اصلاحات مناسب سمجھیں، قبول کر لیں؟ بالکل نہیں۔ یہ حضرات تو اپنے اپنے حلقے کی سوچ کی نمائندگی کرنے کے لیے ان مناصب پر مقرر کیے گئے ہیں۔ جو تبدیلیاں اور اصلاحات ان سے منوانے کی کوشش کی جا رہی ہے، وہ اگر مان بھی لیں تو نیچے کا طبقہ قبول نہیں کرے گا۔
مشعل سیف: آپ نے مذہبی لوگوں کو ایک دائرے میں محدود رکھنے کی جو بات کی، اس سے مجھے یاد آیا کہ Malika Zeghal ایک اسکالر ہیں جو پی ایچ ڈی ہیں اور مصر کے حالات پر تحقیق کرتی ہیں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ مصر کی حکومت کی علماء کے متعلق یہ پالیسی ہے کہ ان کے دائرۂ اثرکو محدود رکھتے ہوئے انھیں ایک حد تک حکومتی معاملات میں شریک رکھا جائے، اس لیے الازہر کے کچھ علماء کو ہمیشہ حکومتی مناصب میں حصہ دیا جاتا ہے۔ انھوں نے ا س کو مذہبی علماء کی domestication کا نام دیا ہے۔ کیا پاکستان میں بھی اسی طرح کی صورت حال نظر نہیں آتی؟ حکومت جانتی ہے کہ پاکستان میں بڑی تعداد میں لوگ ہیں جو اسلام سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے حکومت ان کو مطمئن کرنے کے لیے کچھ علماء کو اسلامی نظریاتی کونسل میں لے لیتی ہے تاکہ یہ بتایا جا سکے کہ ہم نے اسلام کے لیے بھی کچھ کام کیا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ علماء کو ایک دائرے میں محدود بھی رکھا جاتا ہے تاکہ وہ پالیسیوں پر زیادہ حاوی نہ ہونے پائیں؟
عمار ناصر: بالکل ایسے ہی ہے۔ پالیسی یہ ہے کہ علماء کے طبقے کی، جو مذہب کی نمائندگی کرتا ہے، اس پہلو سے تسکین ہوتی رہے کہ ہمارے لیے بھی اس نظام میں جگہ ہے۔ کوئی نظریاتی کونسل بنا دی جائے گی، کوئی رؤیت ہلال کمیٹی بن جائے گی، کوئی قرآن بورڈ تشکیل دے دیا جائے گا، سرکاری اہتمام میں کچھ علماء ومشائخ کانفرنسیں منعقد کر لی جائیں گی تاکہ طبقہ علماء کو مطمئن رکھا جائے کہ ایسا نہیں ہے کہ آپ کی کوئی قدر نہیں ہے، تاکہ اس کے بعد جو ایک عمومی نظام بنا ہوا ہے، یہ حضرات اس کے لیے کوئی مسئلہ نہ کھڑا کریں۔ اگر علماء کو engage نہیں کریں گے تو اس طبقے میں نظام سے بہت زیادہ alienation پیدا ہو جائے گی۔ مذہب تو موجود ہے سوسائٹی کی نفسیات میں اور اس کی ایک سماجی اور سیاسی طاقت بھی ہے۔ سو اس طبقے کو نظام پر حاوی کیے بغیر اسے ایک حد تک نمائندگی دے دی جائے، اس انڈرسٹینڈنگ کے ساتھ کہ بھئی، جو جگہ آپ کو دی گئی ہے، اس پر خوش رہیں اور اس سے آگے خواہ مخواہ باقی معاملات میں ٹانگ نہ اڑائیں۔ یہی اس وقت مصر اور پاکستان جیسے معاشروں میں حکومتی پالیسی ہے کہ طبقہ علماء کو اس طرح engage کیا جائے کہ ان کو اس بات کا زیادہ احساس نہ ہو کہ ہمیں sideline کر دیا گیا ہے۔ 
میں اس تجزیے سے ایک سو ایک فی صد اتفاق کرتا ہوں، لیکن میرے نزدیک اس میں دوش ارباب اقتدار کو نہیں، بلکہ خود مذہبی لیڈر شپ کو دینا چاہیے۔ ارباب اقتدار کو تو فطری طور پر ایسے ہی سوچنا چاہیے۔ یہ ان کی سیاست کا بھی تقاضا ہے اور مفاد کا بھی اور ایک لحاظ سے دیکھیں تو حکمت کا بھی۔ اصل میں تو سوال مذہبی لیڈر شپ پراٹھتا ہے کہ وہ کچھ perks and privileges پر راضی ہو کر اپنے طبقاتی مفاد اور وہ بھی زیادہ تر اوپر کی سطح کی قیادت کے مفاد کا تحفظ کرنے پر قناعت کر چکی ہے، جبکہ خدا کے دین کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے ان کی جو ذمہ داری بنتی ہے، وہ بالکل پس پشت ڈال دی گئی ہے۔ مذہب تو اپنی اصل روح کے اعتبار سے لوگوں کی زندگیاں بدلنے اور انسان کو اخلاقی خرابیوں سے پاک کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ ہم یہ نہیں کر رہے۔ سماجی کردار کے لحاظ سے دیکھیں تو ظلم وجبر اور استحصال پر مبنی ایک نظام میں مذہبی طبقے کا رویہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ وہ ایک Stake holder کی طرح بس اپنے مخصوص طبقاتی مفادات کے تحفظ کو مطمح نظر بنا لے، جبکہ ہم بعینہ یہی کر رہے ہیں۔
مشعل سیف: آپ کے حوالے سے ایک مسئلہ جو بہت Controversial رہا ہے، وہ ہے توہین رسالت پر سزا کا قانون۔ آپ کے افکار بہت سے علماء سے مختلف ہیں اور آپ پر اس حوالے سے کافی تنقید بھی کی گئی ہے۔
عمار ناصر: نہیں، میرے افکار کوئی اتنے مختلف نہیں ہے۔ جب آپ کسی معاملے کو politicize کر دیں تو پھر ایسا لگتا ہے۔ میرا نقطہ نظر زیادہ مختلف نہیں ہے۔ دیکھیں، مجھے اس سے پورا اتفاق ہے کہ توہین رسالت ایک جرم ہے۔ مجھے اس سے بھی اتفاق ہے کہ مسلمانوں کے ملک میں اس مسئلے کو قانون کا موضوع بننا چاہیے۔ جہاں مسلمانوں کی ریاست دوسرے جرائم کی روک تھام کے لیے قانون بناتی ہے، یہ بھی اس کی ذمہ داری ہے کہ اپنے پیغمبر کی عزت وناموس کی حفاظت کے لیے بھی قانون سازی کرے۔ اس معاملے سے ریاست لا تعلق نہیں رہ سکتی۔ مجھے اس سے بھی اتفاق ہے کہ اس جرم پر مجرم کے لیے موت کی سزا بھی قانون میں شامل کر لی جائے تو وہ بالکل درست ہے۔ اختلاف کس بات پر ہے؟ اختلاف صرف اتنی بات پر ہے کہ جرم کی نوعیت اور سوسائٹی میں مجرم کی حیثیت کیا ہے یا اس نے جو جرم کیا ہے، اس کا کتنا اثر سوسائٹی میں پھیلا ہے، کیا سزا دیتے ہوئے ان چیزوں کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے یا نہیں رکھنا چاہیے؟ میں نے جتنا بھی اسلامی شریعت کو، فقہ کو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور صحابہ کے فیصلوں کو پڑھا ہے، یہی واضح ہوتا ہے کہ آپ کو یہ سارے پہلو ملحوظ رکھ کر ہی مجرم کے خلاف اقدام کرنا چاہیے۔ ایسا نہیں ہے کہ ایک آدمی نے، چاہے وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو، کسی بھی کیفیت میں، کسی بھی سچویشن میں، ارادۃً یا بلا ارادہ اپنے منہ سے کوئی ایسا کلمہ نکال دیا جو توہین کو مستلزم ہے تو بس ہم اس کی گردن اڑانے کے ہی پابند ہیں۔ یہ اسلام نے نہیں کہا۔ آپ کو ملحوظ رکھنا ہوگا کہ اگر اس نے بلا ارادہ ایسا کیا ہے تو اسے توبہ کا موقع ملنا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ مسلمان تو ارادۃً ایسا نہیں کر سکتا۔ غیر مسلم نے اگر ارادۃً کیا ہے تو دیکھا جائے کہ کس سچویشن میں کیا ہے؟ کیا بات ہو رہی تھی؟ کیا گفتگو چل رہی تھی؟ عین ممکن ہے کہ مسلمان اور غیر مسلم آپس میں کوئی بحث کر رہے ہوں اور اس میں مسلمانوں نے کوئی سخت بات غیر مسلموں کے مذہب کے بارے میں کہہ دی ہو اور اس کے رد عمل میں غیر مسلم کے منہ سے بھی ایسی کوئی بات نکل جائے اور پھر وہ اس پر نادم ہو اور معذرت پیش کرنے کے لیے آمادہ ہو۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان ہر طرح کے حالات میں شریعت ہمیں پابند کرتی ہے کہ ہم ضرور اس کی گردن ہی اڑائیں؟ یہ ہرگز شریعت کا منشا نہیں ہے۔
میرا اختلاف صرف اتنا ہے کہ مجرم کے حالات کے لحاظ سے قانون میں موت سے کم تر سزا کی گنجائش بھی ہونی چاہیے اور خاص طور پر اگر مجرم اپنے جرم پر نادم ہو ، شرمندہ ہو اور معذرت پیش کر رہا ہو تو ا س کو توبہ کا موقع دینا چاہیے۔ یہی شریعت کا منشا ہے۔ اور یہ بات میں نے کوئی پہلی مرتبہ نہیں کہی۔ ہمیشہ سے فقہا میں یہ دونوں نقطہ نظر رہے ہیں۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے تلامذہ خاص طور پر اس کے قائل ہیں کہ آپ اس معاملے میں آخری حد تک مجرم کو توبہ ہی کا موقع دیں گے۔ ہاں، جب کوئی مجرم اس سطح پر آ جائے کہ وہ بار بار جرم کا ارتکاب کرتا ہے اور علانیہ کرتا ہے اور باز نہیں آتا، تب اس کے فساد سے بچنے کے لیے آپ اس کو موت کی سزا دے سکتے ہیں۔ 
ہمارے ہاں یہ مسئلہ دراصل politicize ہو چکا ہے۔ جو سیکولر لابی ہے، اس کی کوشش یہ ہے کہ سرے سے یہ قانون ہی ختم ہو جائے۔ اس کے رد عمل میں جو مذہبی لوگ ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ قانون جیسا ہے اور جیسا بھی بن گیا ہے، ا س کو بالکل نہ چھیڑا جائے۔ یہ ایک سیاسی کشمکش ہے اور میں اس میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ ا س جرم پر سزا کا قانون ہونا چاہیے، یہ لازم ہے۔ یہ اسلامی ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے۔ لیکن قانون میں اتنی لچک ہونی چاہیے جتنی لچک شریعت نے رکھی ہوئی ہے۔ تو یہ نقطہ نظر کا اتنا اختلاف نہیں ہے جتنا اس معاملے کے politicize ہو جانے کی وجہ سے دکھائی دیتا ہے۔
مشعل سیف: لیکن کافی علماء ہیں جو ا س معاملے میں لچک پر یقین نہیں رکھتے۔ وہ کہتے ہیں کہ لچک نہیں ہونی چاہیے۔
عمار ناصر: نقطہ نظر کا اختلاف تو موجود ہے۔ وہ اپنا نقطہ نظر رکھتے ہیں، لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ لچک کا ہونا یہ شریعت کے منشا کے زیادہ قریب ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ نہیں ہے تو ٹھیک ہے۔ میں نے اپنا نقطہ نظر پیش کیا ہے، وہ بھی اپنا نقطہ نظر پیش کر رہے ہیں۔ زبردستی اپنا موقف نہ میں enforce کر رہا ہوں نہ ان کو حق ہے کہ وہ enforce کریں۔
مشعل سیف: آپ کے اور دوسرے علماء کے درمیان ایک اور جو اختلاف ہے، وہ یہ کہ دوسرے علماء کافی حد تک یہ کہتے ہیں کہ جیسے ہی ایک شخص توہین رسالت کرتا ہے، وہ مباح الدم ہو جاتا ہے اور کوئی بھی اس کو قتل کر سکتا ہے، جبکہ آپ اس کے متعلق مختلف بات کہتے ہیں۔
عمار ناصر: بالکل نہیں۔ مباح الدم ہونے کا فیصلہ تبھی ہوگا جب کوئی با اختیار قانونی اتھارٹی یہ قرار دے دے گی کہ اس شخص کے جرم کی نوعیت فی الواقع ایسی ہے کہ اس کے بعد یہ کسی رعایت کا اور توبہ کا موقع دیے جانے کا مستحق نہیں رہا۔ مباح الد م ہونے کا یہ جو تصور ہے کہ جو بھی آدمی چاہے، اس کو اٹھ کر مار دے تو یہ کسی بھی طرح درست نہیں۔ مثلاً آپ دیکھیں کہ ایک آدمی نے کسی کو قتل کر دیا ہے۔اس کی سزا تو definitely یہ ہے کہ اس سے قصاص لیا جائے، لیکن کیا شریعت نے یہ کہا ہے کہ جو چاہے، اٹھ کر قاتل کو قتل کر دے؟ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ مقدمہ عدالت میں جائے گا، عدالت سارا کیس دیکھے گی اور وہی سزا دے گی۔ تو مباح الدم کا یہ جو تصور ہے کہ اس کے بعد وہ آدمی جس کے ہاتھ لگ جائے، وہ اسے مار دے، یہ بالکل کسی بھی لحاظ سے درست نہیں۔
مشعل سیف: اگر حکومت کچھ نہ کر رہی ہو، مثلاً ایک شخص نے توہین رسالت کردی ، مگر حکومت اس پر مقدمہ نہیں چلا رہی تو پھر کیا کیا جائے؟
عمار ناصر: اس کی ذمہ داری ہم پر نہیں ہے۔ ایک چیز ہمارے دائرۂ اختیار میں ہی نہیں ہے تو اس میں ہم مسؤل بھی نہیں ہیں۔ بنیادی بات یہ دیکھنے کی ہے کہ ہمیں کوئی اقدام آیا اس لیے کرنا ہے کہ اس سے ہمارے جذبات کی تسکین ہوتی ہے یا اس لیے کرنا ہے کہ اس سے خدا راضی ہوتا ہے اور ہم نے خدا کے سامنے اس کا جواب دینا ہے؟ اس وقت ہم فیصلے پہلی بنیاد پر کر رہے ہیں کہ اگر ہم اس بندے کو نہیں ماریں گے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہماری دینی غیرت مر گئی ہے۔ آپ مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھیں۔ مکہ کی ساری زندگی میں رسول اللہ کو گالیاں ہی دی جاتی رہیں۔ کیا وہاں مسلمانوں کو غصہ نہیں آتا تھا یا ان کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچتی تھی؟ لیکن شریعت نے روکا ہوا تھا کہ اس وقت اقدام کی اجازت نہیں ہے۔ اس وقت ان ساری خرافات کو گوارا کرنا اور سن کر اعراض کر لینا ہی دین وایمان کا تقاضا ہے۔ تو ہمیں اپنے جذبات کو بھی دین وشریعت کے تابع بنانا چاہیے۔
مشعل سیف: آپ اس جرم کو Crime against the state تصور کرتے ہیں اور آپ نے اپنی کتاب میں بھی یہ لکھا ہوا ہے، جبکہ دوسرے علماء اس کو ایسا تصور نہیں کرتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس نے ہر ہر مسلمان کے خلاف جرم کیا ہے اور وہ مباح الدم ہو چکا ہے تو اب کوئی بھی اسے مار سکتا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ حکومت ہی اقدام کرے۔
عمار ناصر: یہ بات تو ہماری جو کلاسیکی فقہ ہے، اس کے بھی بالکل خلاف ہے۔ فقہ میں کوئی امام بھی اس کا قائل نہیں ہے۔ جو بھی جرائم اسٹیٹ کے خلاف ہوتے ہیں، وہ اصل میں سوسائٹی کے خلاف ہوتے ہیں جس کی نمائندگی اسٹیٹ کر رہی ہوتی ہے۔ اس کا مطلب تو یہ بنے گا کہ اس نوعیت کے ہر جرم میں آپ ہر شخص کو سزا دینے کا اختیار دے رہے ہیں۔ پھر تو قانون ختم ہو جائے گا۔ اسلامی فقہ میں ہرگز توہین رسالت کے مجرم کو سزا دینے کا یہ طریقہ suggest نہیں کیا گیا اور نہ اس کو پسندیدہ کہا گیا ہے۔ فقہ میں صرف اتنی بات کہی گئی ہے کہ اگر کسی شخص نے گستاخی کی ہے اور کسی مسلمان نے مشتعل ہو کر، جذبات میں آ کر اسے قتل کر دیا اور پھر عدالت نے تحقیق کے بعد یہ دیکھاکہ مقتول نے واقعی یہ جرم کیا تھا اور مارنے والے نے واقعتا جذبات میں آ کر ایسا کیا ہے، کوئی اور motive نہیں تھا تو عدالت اس کو extenuating circumstances کی رعایت دے گی۔ صرف یہ بات کہی گئی ہے۔ یہ نہیں کہ positively یہ تجویز کیا گیا ہے کہ جو شخص چاہے، اس کا قصہ پاک کر دے۔
مشعل سیف: آپ نے توہین رسالت کے بارے میں جو کچھ لکھا، وہ ممتاز قادری کے کیس کے پس منظر میں لکھا۔ کیا یہ بات درست ہے؟
عمار ناصر: اصل میں کسی خاص واقعے کے نتیجے میں مسئلہ highlight ہو جاتا ہے، لوگوں کی توجہ اس کی طرف مبذول ہو جاتی ہے اور لوگ اپنی اپنی آرا بھی پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یوں ایک موقع بن جاتا ہے جس میں آپ کو اپنی بات کہنی پڑتی ہے، ورنہ ممتاز قادری کے کیس کی فی نفسہ میری نظر میں اتنی اہمیت نہیں ہے۔ اس نے ایک ایسا موقع بنا دیا کہ توہین رسالت کے قانون کے بارے میں بحث کھڑی ہو گئی اور اس کے حوالے سے مجھے بھی لکھنا پڑا۔
مشعل سیف: اگر آپ کے نقطہ نظر سے اس کیس کو دیکھا جائے تو پھر ممتاز قادری ایک مجرم ہے، کیونکہ اسے سزا دینے کا حق نہیں تھا۔ یہ توحکومت کا کام تھا۔
عمار ناصر: سب سے پہلے تو یہ دیکھنا چاہیے کہ کوئی بھی شخص آیا فی الواقع توہین رسالت کا مرتکب ہوا بھی ہے یا نہیں؟ یہ بنیادی سوال ہے۔ اگر کسی شخص کے بیان کی ایک سے زیادہ interpretations ممکن ہوں تو اس کے متعلق یہ مسلمہ اصول ہے کہ آدمی کو اپنی بات کی وضاحت خود کرنے کا حق ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ میں توہین رسالت کی حمایت نہیں کر رہا، بلکہ یہ کہہ رہا ہوں کہ ہمارے ہاں اس قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے، اگر ایک شخص اپنی بات کی وضاحت کر رہا ہے کہ وہ قانون کے غلط استعمال پر تنقید کر رہا ہے تو کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اس نے توہین رسالت کی ہے؟ 
فر ض کر لیں کہ کسی نے واقعی توہین رسالت کی تھی تو اس پر بھی ایک عام آدمی کو کیسے یہ اختیار دیا جا سکتا ہے کہ وہ اٹھے اور ازخود اس کے خلاف اقدام کر ڈالے؟ لیکن یہاں شاید عام آدمی کا اتنا قصور نہیں، اس لیے کہ وہ ایک سادہ ذہن کا مسلمان ہوتا ہے۔ اصل میں تو پکڑنا چاہیے ان لوگوں کو، ان شعلہ بیان مقرروں کو جو ازخود کسی کے بیان کی ایک interpretation کر کے لوگوں کو بھڑکاتے ہیں اور انھیں ترغیب دیتے ہیں کہ فلاں شخص کو مار دینا عشق رسالت کا تقاضا ہے۔ سو یہ جو بھی ہوا، اس کو دونوں حوالوں سے دیکھنا چاہیے۔ پہلے تو آدمی کو اپنی بات کی وضاحت کا حق دینا چاہیے اور اگر اس کی نیت واقعی توہین رسالت کی ہو تو سزا عدالت کے ذریعے سے ملنی چاہیے۔
مشعل سیف: اس معاملے میں آپ کی رائے پر خاصی تنقید کی گئی ہے۔ سنا ہے کہ آپ کو اس پر threats بھی ملیں؟
عمار ناصر: جی نہیں، کوئی threat نہیں آئی۔ میں نے بہت سے sensitive issues پر لکھا ہے اور بعض دفعہ یہ خیال بھی ہوتا ہے کہ کیا میں نے ہی ٹھیکہ لیا ہوا ہے ہر ایسے مسئلے پر لکھنے کا، لیکن بہرحال کوئی ایشو سامنے آتا ہے تو اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے لکھنا پڑتا ہے۔ اس کے باوجود مجھے اب تک کوئی براہ راست threat کسی بھی ایشو کے حوالے سے نہیں آیا۔
مشعل سیف: آپ ’الشریعہ‘ کے مدیر ہیں۔ اس ماہنامے کے متعلق کچھ بتائیے۔
عمار ناصر: الشریعہ کا اجرا والد گرامی نے ۱۹۸۹ء میں کیا تھا۔ اب اس کی ۲۴ ویں جلد چل رہی ہے۔ ہمارا خاندانی پس منظر اگرچہ وہی ہے جو میں نے آپ کو بتایا، لیکن والد گرامی کے اپنے فکر اور ذہنی ترجیحات میں مسلکی مسائل اور مذہبی اختلافات جگہ نہیں بنا سکے۔ شروع سے ہی ان کی دلچسپی کا اور غور وفکر کا دائرہ یہی رہا ہے کہ امت کا جو اجتماعی مفاد ہے اور جدید معاشرے کی جو فکری ضروریات ہیں، ان کے لحاظ سے آج کے دور میں کون سے مسائل ہماری توجہ کے طلب گارہیں۔ چونکہ ان کے اپنے وژن میں وسعت تھی تو ’الشریعہ‘ بھی شروع سے اسی دائرے کے موضوعات کو زیر بحث لاتا رہا ہے۔ کبھی اس میں روایتی مسلکی بحثیں نہیں چھپیں۔
میں پہلے دن سے اس رسالے کی ترتیب میں معاون کی حیثیت سے ان کے ساتھ شریک رہا ہوں اور تربیت لیتا رہا ہوں، لیکن ۲۰۰۱ء کے بعد اس کی ادارت باقاعدہ میرے سپرد ہو گئی اور اس کے بعد سے میں ہی اس کومرتب کرتا ہوں۔ اس کے لیے موضوعات اور مضامین کا انتخاب میں ہی کرتا ہوں، بلکہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس کو ایک خاص trend دینے میں بھی بڑی حد تک میرا ہی کردار ہے۔ اگرچہ والد گرامی کی پوری سرپرستی اور تائید مجھے حاصل ہے، لیکن ظاہر ہے کہ عملاً جو آدمی کام کرتا ہے، اس کی اپنی دلچسپیوں اور ترجیحات کا، کام کی عملی صورت اور نقشے پر خاصا اثر پڑتا ہے۔ میں ذاتی طور پر یہ چیز بڑی شدت سے محسوس کرتا ہوں کہ پوری قوم مختلف فکری compartments میں تقسیم ہے، ہر گروہ اپنے ہی خول میں بند کچھ باتیں سوچ کر بیٹھا ہوا ہے او راس سے باہر سوچنے کے لیے تیار نہیں۔ ڈائیلاگ بالکل نہیں، ایک دوسرے سے سیکھنے کا معاملہ بالکل نہیں ہے۔ ایک دوسرا آدمی کیسے کسی مسئلے کو دیکھتا ہے، اس کے پوائنٹ آف ویو کو سمجھنے کی بالکل کوئی کوشش نہیں۔ یہ صورت حال ہمارے بہت سے مسائل کی جڑ ہے۔ سو ہم نے ’الشریعہ‘ میں پچھلے دس بارہ سال سے اس کی کوشش کی ہے کہ یہ جو مختلف الخیال لوگ ہیں، ان کے مابین مکالمے کے لیے ایک فورم مہیا کیا جائے۔ 
اس کوشش میں ہم نے بے شمار sensitive ایشوز پر اور بڑے اہم مسائل پر کھلے مباحثے کا اہتمام کیا ہے اور اس پر ہمیں بڑی گالیاں بھی کھانی پڑی ہیں۔ والد صاحب کا جو اپنا حلقہ فکر ہے، وہ بالکل typical دیوبندی حلقہ فکر ہے۔ اس کی طرف سے انھیں سخت دباؤ کا سامنا کرنا پڑا کہ آپ کیوں ایسی چیزیں اس رسالے میں چھاپتے ہیں جو دیوبندی نقطہ نظر سے مختلف ہیں یا بحیثیت مجموعی مذہبی طبقے کی جو سوچ ہے، اس سے میل نہیں کھاتیں۔ لیکن ہم نے بحمد اللہ اس پالیسی کو بڑی استقامت سے continue رکھا ہے اور آئندہ بھی ان شاء اللہ عزم یہی ہے۔ جب تک ہم اس فضا کو نہیں بدلیں گے کہ ہم ایک دوسرے کی بات نہ سن سکتے ہیں، نہ اس پر غور کر سکتے ہیں، جب تک یہ فضا ہے، ہم اسی جمود کی کیفیت میں رہیں گے۔ یہ جو فکری barriers ہیں، ان کو توڑنا سب سے پہلے ضروری ہے۔ اس کے لیے ہم کوشش کر رہے ہیں اور اللہ کی مدد شامل رہی تو کرتے رہیں گے۔
مشعل سیف: آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے تفصیلی گفتگو کے لیے اتنا وقت نکالا۔
عمار ناصر: آپ کا بھی بے حد شکریہ!

مکاتیب

ادارہ

(۱)
جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مزاجِ گرامی بخیر!’’الشریعہ‘‘ کا سفر رواں دواں ہے۔ مشکور ہوں کہ آپ میرے خیالات کو ’’الشریعہ ‘‘ میں جگہ دیتے ہیں۔ حقیقی تعریف تو صرف اللہ کے لیے ہے اور باقی سب پانی کے بلبلے ہیں۔ بلبلہ کی اگر کوئی قدروقیمت ہے تو وہ محض سمندر کی وجہ سے ہے اور اگر کوئی کم زوری ہے تو وہ اس کی اپنی خامی ہے۔’’الشریعہ‘‘ میں بھی بہت سی خوبیاں اور خامیاں ہوں گی۔ مجھے ’’الشریعہ‘‘ کی جن خوبیوں نے متاثر کیا ہے ‘ وہ یہ ہیں۔ 
۱۔ اکثر مجلات کے ٹائٹل پہ ایک علامتی جملہ لکھا ہوتا ہے کہ ’’ادارہ کا مقالہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضرور ی نہیں‘‘ جبکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ اس رسالہ کی طرف سے اپنے مقالہ نگار کو بعض اوقات فروعی مسائل میں اختلاف کی گنجائش بھی نہیں دی جاتی۔ الشریعہ نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ اس میں واقعی ایسے افکار بھی چھپ سکتے ہیں جن سے خود رسالہ کی مجلسِ ادارت متفق نہ ہو۔ 
۲۔ الشریعہ کے قارئین کا حلقہ کہاں سے کہاں تک پھیلا ہوا ہے‘ اس کا اندازہ اس میں چھپنے والی شخصیات کے مضامین اور مکاتیب سے ہوتا رہتا ہے۔ 
۳۔ ایک اور چیز جو میں نے محسوس کی ہے‘ وہ یہ کہ الشریعہ کے قارئین ’’صم بکم‘‘ نہیں‘ انہیں بولنا آتا ہے اور وہ بہت اچھا بولتے ہیں۔وہ اختلاف کرنا بھی جانتے ہیں اور کسی کی بات سے متاثر ہوں تو کھلے دل سے اس کی تعریف بھی کر جانتے ہیں۔
۴۔’’ الشریعہ‘‘ کی ایڈیٹنگ کا نظام بھی بہت مہذب ہے۔ بعض مجلات اور جرائد میں مضامین کی کانٹ چھانٹ اس طرح کی جاتی ہے کہ لکھنا والے کو محسوس ہوتا ہے کہ شاید میرے قلم سے کسی اورکے فکر کی چاکری ہورہی ہے۔ ’’الشریعہ‘‘ کے مقالہ نگار کو یہ اطمینان ہوتا ہے کہ میری محنت کے ساتھ کم از کم یہ سلوک نہیں ہوگا۔ **
مارچ ۲۰۱۳ء کے شمارہ میں ڈاکٹر عبدالباری عتیقی کا مکتوب نظر سے گزرا ‘ مجھے اس حوالہ سے کچھ عرض کرنا ہے۔ 
قتال اور جہاد سے متعلق اسلام نے اپنے پیروکاروں کو چند اخلاقی آداب کی تعلیم دی ہے۔ مثلا یہ کہ دورانِ جنگ عورتوں‘ بچوں اور بے ضرر شہریوں کو گزند نہیں پہنچانی‘ کھیتوں اور درختوں کو نہیں اجاڑنا‘ طاقت و قوت کے بے مہار اور جنونی مظاہرے سے اجتناب کرنا ہے وغیرہ وغیرہ۔ کیااس سلسلہ میں کوئی حالتِ اضطرار بھی ہے جب مسلمانوں کے لیے ان آداب کی پابندی ساقط ہوجاتی ہو؟ ڈاکٹر عبدالباری عتیقی کے مکتوب سے محسوس ہوتا ہے کہ ایسی کوئی حالتِ اضطرار نہیں ہے ‘ مسلمانوں کے لیے ہر حال میں ان آداب کی پابندی ضروری ہے۔ 
میرے خیال میں یہ بات درست نہیں۔ خود عہد نبوی میں ایک مثال ایسی ملتی ہے جب مسلمان بامرِ مجبوری ان آداب کی پابندی نہ کرپائے جس پر مخالفین کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ مسلمان جنگی اخلاقیات کی رعایت بھی نہیں کرتے۔یہ موقع غزوۂ بنونضیر کا ہے جو ہجرت کے چوتھے سال ہوا۔ جب مدینہ میں مقیم یہود کے ایک قبیلہ بنو نضیر کی بدعہدیوں کی وجہ سے اس کو جلا وطن کرنے کا فیصلہ ہوا تو ان کے قلعہ کا محاصر ہ کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ قلعہ کے آس پاس بنونضیر کا ایک باغ تھا جو قلعہ کا محاصرہ کرنے میں رکاوٹ بن رہاتھا۔ مسلمانوں نے اس رکاوٹ کو دو رکرنے کے لیے کچھ درخت تو کاٹ ڈالے اور کچھ کو آگ لگا دی۔ دشمن کو اس پر یہ کہنے کا موقع ملا کہ مسلمان جنگی اخلاقیات کا لحاظ بھی نہیں کرتے‘ جس پر اللہ تعالی کی طرف سے یہ تبصرہ نازل ہوا: ’’ما قطعتم من لینۃ او ترکتموہا قائمۃ علی اصولہا فباذن اللہ ولیخزی الفاسقین‘‘ (سورۃ الحشر‘ آیت۵) یعنی ’’تم نے کھجور کے جن درختوں کو کاٹا اور جنہیں اپنی جڑوں پہ قائم رہنے دیاتو یہ سب اللہ کے حکم سے تھا اور اس لیے تھا کہ اللہ بدکرداروں کو رسوا کردے۔‘‘
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جنگی اخلاقیات بے شک حالتِ جنگ سے متعلق ہی ہیں‘ مگر حالتِ جنگ کی ہی بعض صورتیں حالتِ اضطرار کی ہوتی ہیں جب ان آداب کی پابندی میں قدرے نرمی ہوجاتی ہے۔ یہ حالتِ اضطرار تب ہوگی جب کسی کافر گروہ کا استیصال ضروری ہوجائے اور وہ استیصال اخلاقی پابندیوں کے ساتھ ناممکن ہو۔مذکورہ مثال کا تعلق صرف درختوں کو تلف کرنے کے ساتھ ہے‘ باقی آداب کے ساتھ نہیں۔ یوں بھی بے ضرر شہریوں کے خون بہانے کا معاملہ درخت کاٹنے جتنا ہلکا پھلکا نہیں۔ اس سلسلہ میں بہت زیادہ خوفِ خدا اور سخت احتیاط کی ضرورت ہے۔ خوں ریزی کی حساسیت کا یہ سبق بھی اسی غزوۂ بنونضیر سے ہی ہمیں ملتا ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنونضیر کو صرف جلا وطن کرنے پر اکتفاء کیا اور خوں ریزی کی نوبت نہیں آئی کیونکہ اصل مقصود ان کے شر سے بچنا تھا اور اس کے لیے اتنا ہی کافی تھا۔ تاہم خوں ریزی کی چند اضطراری صورتیں بھی فقہاء کے ہاں ملتی ہیں کہ مثال کے طور پر کفار کی کسی جماعت کا استیصال ناگزیر ہوگیا ہو اور وہ اپنے بچاؤ کے لیے بے ضرر شہریوں کو اپنے سامنے ڈھال اور آڑبنا رہے ہوں یا کوئی کافر عورت کمانڈو کا کام کررہی ہو تو بامرِ مجبور ی اور بقدرِ ضرورت ان سے بھی نمٹا جاسکتا ہے۔ (الہدایہ ‘ کتاب السیر)
البتہ ان کی یہ بات ٹھیک ہے کہ ہم نے دشمن سے بے نیاز ہوکر اپنے دین کی تعلیمات پر عمل پیر ا ہونا ہے اور نتائج کو اللہ کے سپرد کرنا ہے۔ دشمن اگر جنگی اخلاقیات کا لحاظ نہ کرے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ‘ ہم بہرحال اپنے دین کی تعلیمات کے پابند ہیں۔ ایک عربی مصنف کے یہ الفاظ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں (ترجمہ حسبِ ذیل ہے): ’’یہ جان لینا ہر یہودی کا حق ہے کہ وہ ہم پر جتنا بھی ظلم ڈھاتا ہے‘ جتنی بھی ہمارے معصوم بچوں کی جان لیتا ہے‘ جتنی بھی ہماری فصلیں تباہ اور ہماری بستیاں ویران کرتا ہے‘ مگر ہم اس کے ساتھ برتاؤ کرنے میں صرف اور صرف اپنی عادلانہ شریعت کے پابند ہوں گے جو اللہ نے ہماری ہدایت اور فلاح کے لیے ہم پر اتاری ہے۔ یہ نہیں کہ ہم اپنے غیظ وغضب کو بجھانے کی کوئی ناجائز کوشش کریں گے۔ ‘‘کافر تو ہے ہی نقیبِ باطل! وہ اگر حالتِ جنگ میں کوئی غیر شرعی یا غیر اخلاقی حرکت کرتا ہے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟ وہ جب باطل ہی کے لیے لڑ رہا ہے تو باطل طریقے اختیار کرنا اس کا حق ہے۔ دیکھا تو ہمیں جائے گا کہ ہم جو نقیبِ حق ہیں ‘ شرعی اور اخلاقی آداب کی کتنی پابندی کرتے ہیں۔ ایٹم بم اور اس جیسے ناپسندیدہ ہتھیاروں کو ایجاد کرنے اور محض ’’شو آف پاور‘‘ کے لیے اپنے پاس رکھنے میں بظاہر کوئی مضائقہ نہیں۔ خصوصاً جبکہ آنکھیں دکھانے والے کافر ہمسایوں کو مرعوب کرنے اور دباؤ میں رکھنے کے لیے ایسے ہتھیاروں کا حصول ناگزیر ہوجائے تو امید ہے کہ یہ جائز ہی نہیں‘ ضروری ہوجائے گا اور اس قرآنی تعلیم میں شامل ہوگا کہ ’’ولیجدوا فیکم غلظۃ‘‘ (سورۃ التوبۃ ‘ آیت ۱۲۳) یعنی ’’ ضروری ہے کہ تمہارے پڑوس میں رہنے والے کفار تمہارے اندر سختی محسوس کریں (اور تمہیں اپنے مقابلہ میں تر نوالہ نہ سمجھ لیں)‘‘البتہ اگر مساوی بنیادوں پر ایسے ہتھیاروں سے دنیاکو پاک کرنے کے لیے کوئی سرگرمی ہو تو اس میں حصہ لینا چاہئے۔جنگی اخلاقیات کی پابندیوں میں نرمی جینوئن اضطرار کی حالت میں ہوسکتی ہے‘ مگر محض دشمن کا غیر اخلاقی حرکتوں کا ارتکاب کرناہمارے لیے وجہِ جواز نہیں کہ ہم بھی اس کی اندھی نقالی شروع کردیں۔ 
عورت کو بطور جنگی ہتھیار کے استعمال کرنا یا اپنے فوجیوں کو رنگ رلیوں کے مواقع فراہم کرناایسے امور ہیں جن کو کسی بھی طرح جنگی آداب پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ جنگی آداب میں تو حالتِ اضطرار کی مثالیں موجود ہیں‘ مگر ایسے محرمات کے ارتکاب کی کیا وجہِ جواز ہوسکتی ہے جسے حالتِ اضطرار کہا جاسکے؟واللہ اعلم
محمد عبداللہ شارق 
مدیر مرکز احیاء التراث، قدیر آباد ملتان
mabdullah_87@hotmail.com
(۲)
ماہ فروری کے الشریعۃ میں زاہد صدیق مغل صاحب کا مضمون ’’جزا اور عذاب قبر کی قرآنی بنیادیں‘‘ پڑھا۔ احساس ہوا کہ آں محترم نے شاید قرآن مجید پر اس معاملہ میں تدبر نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے مقالہ میں تین سوال قائم کر کے ان سے عذاب برزخ ثابت کیا ہے۔ پہلے سوال میں اللہ تعالیٰ کے جزا و سزا کے قانون کے دائرہ کار کے حوالہ سے آیات قرآنی پیش کی ہیں جو یہ ہیں: شوریٰ آیت 30، مائدہ آیت 18، بقرہ آیت 6-5، مطففین آیت 14، طہٰ آیت124، زخرف آیت36، حم السجدہ آیات 21-20، طلاق آیت 2-3، آل عمران 25اور 185۔ ان آیات سے آخرت میں اعمال کا پورا بدلہ ملنا ثابت کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے کسی کو بھی اختلاف نہیں۔ یہ تو متفق علیہ مسئلہ ہے۔ 
دوسرا سوال ہے، عالم برزخ میں شعوری زندگی کا ثبوت! مغل صاحب لکھتے ہیں کہ ’’قرآن مجید میں کئی مقامات پر ایسے قطعی شواہد موجود ہیں جن سے عالم برزخ میں نہ صرف یہ کہ محض انسانی زندگی بلکہ شعوری زندگی کا تصور ثابت ہوتا ہے۔ عالم برزخ میں انسانی زندگی کا اشارہ اس آیت میں موجود ہے:
کَیْْفَ تَکْفُرُونَ بِاللّٰہِ وَکُنتُمْ أَمْوَاتاً فَأَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ إِلَیْْہِ تُرْجَعُونَ (البقرہ:28) 
ترجمہ’’ تم کیسے اللہ کا انکار کرتے ہو۔ حالانکہ تم مردہ تھے اس نے تمہیں زندگی بخشی پھر تمہیں مارے گا پھر تمہیں زندہ کرے گا پھر تم اس کی طرف لوٹائے جاؤ گے‘‘۔
اس کی شرح میں لکھتے ہیں ’’زیر مطالعہ آیت میں دنیوی زندگی کے بعد جو حیات عطا ہوگی وہ لوٹائے جانے سے قبل (یعنی عالم برزخ) میں ہوگی۔ نیز ثم کا استعمال بتا رہا ہے کہ یہ برزخی حیات اور یوم آخرت کو اللہ کی طرف لوٹایا جانا دو الگ واقع ہیں جن میں زمانی مغائرت ہے۔ ‘‘
ناچیز طالب علم کا کہنا ہے کہ اس آیت میں بھی صرف دو موتوں اور دو زندگیوں کا بتایا گیا ہے۔ پہلے موت، پھر حیات، پھر موت اور پھر حیات۔ آخری حیات سے قیامت کے دن زندہ کیا جانا مراد ہے، نہ کہ عالم برزخ میں۔ کی تشریح سورۃ مومن کی آیت 11 سے ہوتی ہے جس میں منکرین اللہ تعالیٰ سے کہہ رہے ہیں:
قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَیْْنِ وَأَحْیَیْْتَنَا اثْنَتَیْْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَہَلْ إِلَی خُرُوجٍ مِّن سَبِیْلٍ (المومن 11) 
’’وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب تو نے ہمیں دو مرتبہ موت دی اور دو دفعہ جان دی۔ ہمیں اپنے گناہوں کا اقرار ہے کیا نکلنے کی کوئی سبیل ہے؟‘‘ 
بقرہ 28کو مومن 11کے ساتھ پڑھیں تو صاف علم ہوگا کہ قرآن کسی بھی تیسری زندگی اور تیسری جگہ ’’عالم برزخ‘‘ کا انکار کرتا ہے اور سورۃ بقرہ کی آیت 28میں کسی بھی عالم برزخ کا کوئی ذکر نہیں۔ 
مغل صاحب نے لکھا ہے کہ ’’عالم برزخ میں زندگی کا ثبوت آیت شہدا میں بھی موجود ہے: وَلاَ تَقُولُوا لِمَنْ یُقْتَلُ فِیْ سَبیْلِ اللّٰہِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْیَاءٌ وَلَکِن لاَّ تَشْعُرُونَ (البقرہ154)
سورۃ بقرہ کی آیت 154 میں جس میں مقتول فی سبیل اللہ کو زندہ کہا گیا ہے اور ان آیات میں جو سورہ آل عمران میں آئی ہیں، کسی برزخی زندگی کا ذکر نہیں، نہ ہی ان آیات میں عالم برزخ کا ذکر ہے اور نہ ہی ان آیات سے جزا و سزا کا قانون کشید کیا جا سکتا ہے۔ یہ قیامت کے دن انھیں ملنے والی زندگی اور نعمتوں کا بیان ہے۔ جیسے قرآن میں رسول اللہ کو کہا گیا ہے کہ: انک میت، یعنی آپ بھی مریں گے۔ ایسے ہی مقتول فی سبیل اللہ کے لئے احیاء آیا ہے۔ اس کا معنی نظائر قرآن کی روشنی میں (قیامت کے دن) ’’زندہ کیے جائیں گے‘‘ بنتا ہے۔ 
مقتول فی سبیل اللہ کو زندہ کہا گیا ہے اور زندہ کو نعمتیں ملنا مانا جا سکتا ہے بلکہ ملتی ہیں۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ جنہیں قرآن ’’امواتا غیر احیاء‘‘ کہہ رہا ہے، انہیں کیسے عالم برزخ میں زندہ مان لیا جائے؟ یعنی اللہ تعالیٰ تو کہے: اموات غیر احیاء اور ہم کہیں: احیاء غیر اموات!! قرآن سے ثابت ہے کہ بلا کسی استثنا کے تمام انسان جو پیدا ہوئے ہیں، وہ قیامت کو زندہ ہوں گے۔ ان میں مقتول فی سبیل اللہ بھی شامل ہیں۔ بالفرض مقتول فی سبیل اللہ کی روایتی تشریح بھی مانیں (جس کی وجہ سے شرح قرآن میں تضاد واقع ہوتا ہے کہ کہیں قرآن کہتا ہے سب لوگ قیامت کو دوبارہ پیدا ہوں گے اور کہیں کہتا ہے کہ مقتول فی سبیل اللہ زندہ ہیں) تب بھی اسے حیات برزخی کہنے کی کوئی اصل قرآن میں نہیں بلکہ پھر استثنائی طور پر مقتولین فی سبیل کے لیے زندگی ماننی پڑے گی اور زندہ کو نعمتیں ملنا قابل تسلیم ہے۔ اس سے عام قانون کشید کیا ہی نہیں جا سکتا کیونکہ دوبارہ زندگی کا ملنا قیامت سے سے متعلق ہی بیان ہوا ہے: ثُمَّ إِنَّکُمْ بَعْدَ ذَلِکَ لَمَیِّتُونَ، ثُمَّ إِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ تُبْعَثُونَ (المومنون 15، 16) اور أَمْواتٌ غَیْْرُ أَحْیَاء وَمَا یَشْعُرُونَ أَیَّانَ یُبْعَثُونَ (النحل 21) 
اگر کسی صاحب علم کو مقتول فی سبیل اللہ کے بارے میں ہمارے دلائل سے اختلاف ہو تو وہ آل عمران 195، حج58، سورہ محمد4تا6جیسی آیات سے ہمارے استدلال کی غلطی ہم پر دلیل سے واضح کرے۔ قرآن میں یہ جو کہا گیا کہ تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں تو قرآن نے کسی جگہ کا نام نہیں لیا کہ مقتول فی سبیل اللہ کہاں زندہ ہیں۔ آخر علین و سجین میں نامہ اعمال کا ہونا بھی تو قرآن نے بتایا ہے تو مقتول فی سبیل اللہ کے لیے کسی جگہ کا نام بتانے میں کیا استبعاد تھا؟ اصل بات یہی ہے کہ مقتول فی سبیل اللہ کا جو اکرام دوبارہ جی اٹھنے پر ہوگا، اس کا اس دنیا میں شعور تک نہیں کیا جا سکتا۔ 
سورہ نحل آیت 28-29میں ہر ظالم آدمی کو بوقت وفات ملائکہ جہنم کی وعید سناتے ہیں نہ کہ برزخی عذاب کی اور آیت 32میں پاک لوگوں کو جنت کی بشارت سناتے ہیں نہ کہ برزخی حیات کی قرآن کا یہ مقام ہی فیصلہ کن ہے کہ مرنے کے بعد اگلی منزل انسانی یا جنت ہے یا جہنم۔آیات یوں ہیں:
’الَّذِیْنَ تَتَوَفَّاہُمُ الْمَلاءِکَۃُ ظَالِمِیْ أَنفُسِہِمْ فَأَلْقَوُا السَّلَمَ مَا کُنَّا نَعْمَلُ مِن سُوءٍ بَلَی إِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ، فَادْخُلُواْ أَبْوَابَ جَہَنَّمَ خَالِدِیْنَ فِیْہَا فَلَبِءْسَ مَثْوَی الْمُتَکَبِّرِیْنَ‘‘
’’(ان کا حال یہ ہے کہ ) جب فرشتے ان کو وفات دیتے ہیں اور وہ اپنے حق میں ظلم کرنے والے ہوتے ہیں، اس وقت وہ جھک جاتے ہیں کہ ہم برائی نہیں کرتے تھے۔ کیوں نہیں! اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا ہے جو کچھ تم کرتے تھے۔ پس اب تو ہمیشگی کے طور پر تم جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ۔ پس کیاہی برا ٹھکانا ہے غرور کرنے والوں کا‘‘ ۔
اور آیت 32میں ہے:
الَّذِیْنَ تَتَوَفَّاہُمُ الْمَلآءِکَۃُ طَیِّبِیْنَ یَقُولُونَ سَلامٌ عَلَیْْکُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ
’’وہ جن کو فرشتے اس حالت میں وفات دیتے ہیں کہ ۔ ان سے کہتے ہیں کہ تم پر سلامتی ہو۔ اپنے ان اعمال کے بدلے میں جو تم کرتے تھے جنت میں داخل ہو جاؤ‘‘ ۔
یہ نصوص قطعی ہیں کہ مرنے کے بعد اگلی منزل جہنم یا جنت ہے نہ کہ کوئی مزعومہ عالم برزخ۔ مزید غور فرمائیں انسانی جسم تو مرنے کے بعد خاک میں مل کر خاک ہو جاتا ہے تو عذاب و ثواب کیسے اور کیسے ہو سکتا ہے؟ 
قرآن میں روح کا وہ تصور موجود نہیں جو علما کے ہاں پایا جاتا ہے۔ قرآن میں لفظ ’’روح‘‘ وحی اور اللہ کے حکم کے لیے آیا ہے۔ سورۃ نحل آیت 02، المومن آیت 15 اور الشوریٰ آیت 52میں روح کا وہی معنی آیا ہے جو خاکسار نے بیان کیا ہے۔ سورۃ بنی اسرائیل آیت 85میں جو ’’وَیَسْأَلُونَکَ عَنِ الرُّوحِ‘‘ آیا ہے، وہاں بھی الروح سے مراد قرآنی وحی ہی ہے جیسا کہ اس مقام کے سیاق و سباق سے ظاہر ہے اور امین احسن رحمہ اللہ نے تدبر قرآن میں لکھا بھی ہے۔ سورۃ سجدہ اور سوۂ ص میں انسان میں نفخ روح کا ذکر آیا ہے۔ اول تو دونوں مقامات پر یہ عمل، تسویہ کے بعد ہوا یعنی انسان کے مکمل بن چکنے کے بعد۔ اس طرح روح سے مراد جان ڈالنا نہیں ہو سکتا کیونکہ جان تو پہلے دن سے ہی تھی جب نطفہ علقہ بنا تھا۔ اگر جرثومہ بے جان ہو تو انسان پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ دوسرے ان دونوں آیات (سجدہ 09 اور ص 72) پر روح کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے: ’’فَإِذَا سَوَّیْْتُہُ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِن رُّوحِیْ‘‘ یعنی ’’جب اس کو درست کر لوں اور اس میں اپنی روح میں سے پھونکوں‘‘۔ تو قرآن میں تو کسی انسانی روح کا اشارہ تک نہیں۔ یہ روح جو اللہ کا حکم ہے، وحی ہے، یہ تو اللہ کی ہے۔ تیسرے پورے قرآن میں کہیں بھی روح نکلنے کا ذکر نہیں۔ توفی یا اخراج نفس کا ذکر ہے اور نفس اور روح دونوں الگ الگ ہیں۔ نفس کو موت بھی آتی ہے، قتل بھی ہوتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ روح تو وحی ہے اورامر رب ہے، اس لیے یہ تمام سوالات غلط ہیں کہ مرنے کے بعد روح کہاں جاتی ہے اور یہ کہ برزخ میں اسی روح کو عذاب و ثواب ہوتا ہے۔ قرآن کی نص ہے کہ اہل جہنم کی کھالیں جلنے کے بعددوبارہ آجائیں گی تاکہ عذاب چکھیں۔ (نساء آیت 56)۔ میڈیکل سائنس کو غالباً1926میں علم ہوا ہے کہ کھال میں حس (Feeling) ہوتی ہے، مگر قرآن میں ڈیڑھ ہزار سال پہلے یہ بات آنا قرآن کے کلام اللہ ہونے کی دلیل ہے۔ اب روح کی تو کھال ہوتی نہیں جو اسے عذاب دیا جائے۔ 
آخر میں سورہ مومن آیت 45، 46سے بھی، جس میں فرعون اور آل فرعون کو عذاب دیے جانے کا ذکر ہوا ہے، قائلین عذاب برزخ کے استدلال پر بھی چند سطور لکھتا ہوں۔ 
فَوَقَاہُ اللّٰہُ سَیِّءَاتِ مَا مَکَرُوا وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ، النَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْْہَا غُدُوّاً وَعَشِیّاً، وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَۃُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ
جیسا کہ عرض کیا، سورہ یونس آیت 4سے تمام انسانوں کا بلا استثنا قیامت کو دوبارہ پیدا ہونا ثابت ہے تو اب تمام انسانوں میں فرعون اور اس کی آل بھی داخل ہے۔ سورۃ مومن کی آیت 46کا جو ترجمہ شاہ رفیع الدین نے کیا ہے، وہی نظائر قرآن کی روشنی میں درست ہے۔ آیت میں یعرضون  مضارع کا صیغہ ہے جو حال اور مستقبل دونوں کا معنی دیتا ہے، یعنی ’’آگ ہے جس پر آل فرعون صبح شام پیش کی جاتی ہے‘‘ یا ’’آگ ہے جس پر آل فرعون صبح شام پیش کی جائے گی‘‘۔ ترجمے دونوں درست ہیں، مگر وہی ترجمہ اس مقام پر مانا جائے گا جس کے تائیدی دلائل قرآن میں ہوں۔ سب سے پہلی بات یہ کہ قرآن سزا کے لیے دنیا یا آخرت تجویز کرتا ہے۔ (سورۃ بقرہ آیت 85، 217۔آل عمران 21-22)۔ دوسری بات یہ کہ قرآن میں النار کل 126مرتبہ آیا ہے اور 125جگہ تمام مفسرین نے اس ’’النار‘‘ سے جہنم مراد لی ہے۔ ظاہر ہے 126ویں جگہ بھی جہنم ہی مراد ہوگی۔ سورۃ مومن میں آٹھ بار ’’النار‘‘ کا لفظ آیا ہے۔ سات بار تمام مفسرین نے اس سے جہنم مرادلی ہے تو آٹھویں بار بھی جہنم ہی مراد ہونا چاہیے۔ تیسری بات یہ کہ یہ عرض علی النار بھی قیامت کو ہی ہوگا جیسا کہ سورۃ احقاف آیات20تا34سے ثابت ہے : ’’وَیَوْمَ یُعْرَضُ الَّذِیْنَ کَفَرُوا عَلَی النَّارِ‘‘ اور جس دن کافر دوزخ کے سامنے پیش کیے جائیں گے‘‘۔ چوتھی بات یہ کہ فرعون مصر میں موجود ہے تو عذاب کسے ہو رہا ہے؟ فرعون کی روح کو عذاب کے قائلین کو پہلے انسانی روح ثابت کرنی ہوگی۔ ظاہر ہے قرآن میں کسی انسانی روح کا ذکر ہی موجود نہیں۔ 
حقیقت یہ ہے کہ فرعون کے لیے بھی قرآن سے صرف دو ہی عذاب ثابت ہیں۔ سورۃ مومن آیت 45میں ہے: ’’غرض اللہ نے (موسیٰ کو ) ان لوگوں کی تدبیروں سے محفوظ رکھا اور فرعون والوں کو برے عذاب نے آگھیرا‘‘۔ اس آیت میں سوء العذاب سے ڈوبنے کا عذاب مراد ہے۔ اس کے بعد آیت 46میں ہے: ’’(یعنی) آتش جہنم کہ صبح شام اس کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں اور جس روز قیامت برپا ہوگی، (حکم ہوگا) فرعون والوں کو سخت عذاب میں داخل کرو‘‘۔ اس آیت میں اشد العذاب  سے مراد بالاتفاق مفسرین عذاب جہنم مراد ہے اور یہ سوء العذاب کے مقابل آیا ہے۔ یہاں سے ثابت ہوا کہ فرعون کے لیے بھی صرف دو ہی عذاب ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ فتح محمد جالندھری صاحب نے بھی یہاں النار  سے مراد جہنم لی ہے، مگر بات صحیح طرح سمجھ نہ سکے۔ 
اس تفسیر کی روشنی میں سورہ مومن آیت 46کا وہی معنی درست ثابت ہوتا ہے جو شاہ رفیع الدین ، مولانا اسلم جے راجپوری اور عبداللہ یوسف علی نے کیا ہے، یعنی یعرضون کے صیغہ مضارع کو مستقبل کے معنی میں لیا ہے جو شواہد و نظائر قرآنی کے عین مطابق ہے۔ ترجمہ یوں ہے’’ وہ آگ ہے کہ حاضر کیے جاویں گے اوپر اس کے صبح و شام اور جس دن قیامت قائم ہوگی، کہا جاوے گا کہ داخل کرو فرعون والوں کو سخت عذاب میں‘‘۔ اس طرح اس آیت میں و او مغایرت کے لیے نہیں، بلکہ تفسیر کے معنی میں آیا ہے۔ اس ترجمہ سے اختلاف رکھنے والے حضرات پر لازم ہے کہ وہ قرآن سے پیش کیے ہمارے شواہد کا دلیل سے جواب دیں۔ ان پر یہ بھی لازم ہے کہ فرعون تو قبر میں گیا ہی نہیں تو عذاب کسے اور کہاں ہو رہا ہے۔ وہ جو بھی کہیں، انہیں دلیل پیش کرنا ہوگی۔
مغل صاحب لکھتے ہیں: ’’عالم برزخ میں اجر و ثواب کا اشارہ سورہ یٰسین میں بیان کردہ اس شخص کے ذکر سے بھی ملتا ہے جسے کہا گیا: ’’قِیْلَ ادْخُلِ الْجَنَّۃَ قَالَ یَا لَیْْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُونَ، بِمَا غَفَرَ لِیْ رَبِّیْ وَجَعَلَنِیْ مِنَ الْمُکْرَمِیْنَ‘‘۔ اسے کہا گیا جا، جنت میں داخل ہو جا۔ وہ بولا کاش میری قوم جان سکتی کہ میرے رب نے کس چیز کے سبب مجھے بخش دیا اور مجھے عزت والوں میں شامل کیا‘‘۔ اس آیت میں لفظ ’’الجنۃ‘‘ فاضل مقالہ نگار کے استدلال کی تردید کر رہا ہے۔ یعنی اس مومن کو تو اس آیت میں جنت کی بشارت دی جا رہی ہے اور ہمارے دوست اس کو عالم برزخ میں بھیج رہے ہیں۔ سورہ یٰسین کے اس مقام پر ایک مومن کے خاتمہ بالخیر کی خبر دی گئی ہے یعنی بوقت وفات اسے فرشتوں نے جنت کا مژدہ جاں فزا سنایا۔ اسی طرح سورہ نحل آیت 32میں ہر مومن کو بوقت وفات فرشتوں کا جنت کا مژدہ سنانا بتایا گیا ہے: ’’الَّذِیْنَ تَتَوَفَّاہُمُ الْمَلآءِکَۃُ طَیِّبِیْنَ یَقُولُونَ سَلامٌ عَلَیْْکُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ‘‘ (ان کی کیفیت یہ ہے کہ ) جب فرشتے انہیں وفات دیتے ہیں اور یہ (کفر و شرک سے) پاک ہوتے ہیں تو سلام علیکم کہتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) جو عمل تم کیا کرتے تھے ان کے بدلے میں بہشت میں داخل ہو جاؤ‘‘۔ یوں قرآن کے ایک مقام نے دوسرے مقام پر ہمیں بتا دیا کہ مرنے والے مومنین کو مرتے وقت ان کا مجمل انجام (جنت) بتا دیا جاتا ہے۔ 
خلاصے کے طور پر یہ کم علم محمد زاہد صدیق مغل صاحب کے تین سوالوں کے جواب یوں دیتا ہے:
۱۔ کیا جزاء و سزا کا اطلاق صرف آخرت کے ساتھ مخصوص ہے؟
جواب: جی نہیں دنیا اور آخرت میں جزاء و سزا کا ملنا قرآن میں مذکور ہے۔
۲۔ کیا زندگی اور موت کے درمیان (یعنی برزخ میں) کسی شعوری زندگی کا تصور موجود ہے؟
جواب: جی نہیں قرآن میں کسی برزخی زندگی سے متعلق کسی آیت میں ذکر ہے اور نہ ہی قرآن کوئی ایسا تصور پیش کرتا ہے۔ اس کے برعکس قرآن اس دنیا کے بعد دوسری دنیا یعنی قیامت سے زندگی دوبارہ شروع ہونے کا یقینی علم دیتا ہے۔
۳۔ کیا قرآن برزخ کی زندگی میں کسی قسم کی جزاء و سزا کا تصور پیش کرتا ہے؟
جواب: جی نہیں، قرآن میں برزخی زندگی کا کوئی تصور موجود نہیں بلکہ قرآن اس دینوی زندگی کے بعد قیامت کے قائم ہونے تک کے وقفہ کو موت کا نام دیتا ہے۔ 
عجیب بات ہے جسے قرآن میں موت کہا گیا ہے، اسے ہمارے اہل علم زندگی قرار دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے صمیم قلب سے دعا ہے ہمیں فہم قرآن صحیح صحیح عطا ہو۔ ہم مقام قرآن سے آگاہ ہوں اور پھر اس پر عمل پیرا بھی ہو سکیں۔ 
محمد امتیاز عثمانی
راولپنڈی

فاسٹ فوڈ اور بڑھتے ہوئے امراض

ادارہ

فاسٹ فوڈ کے نام پر تمام زہروں کو یکجا کر کے انسانی صحت کو برباد کیا جا رہا ہے اور ہم ہیں کہ ہر بری چیز کو آنکھیں بند کر کے قبول کرتے جا رہے ہیں۔ موجودہ امراض ہیپا ٹائیٹس، معدہ اور گردہ کے امراض، جگر کی مختلف بیماریاں، جوڑوں کا درد، قبض، پتہ، مثانہ کی بیماریاں پہلے بھی تھیں، مگر ان کی نوعیت یہ نہیں تھی جو آج دیکھنے سننے میں آرہی ہیں۔ ان امراض کی وجہ سے انسانوں کے چہرے اور دیگر جسمانی اعضا کی شکل بھی بدل چکی ہے۔ خصوصاً شوگر کے آنے کے بعد کے تو حالات بہت بھیانک ہوتے جا رہے ہیں۔ مذکورہ امراض پہلے بھی تھے، مگر فاسٹ فوڈ کی گہما گہمی نے ان کو دو آتشہ کر دیا ہے۔ 
بند، ڈبل روٹی، کیک،، بسکٹ، باقر خانی، حلوہ پوری، کچوری اور حلوائیوں کی مٹھائیوں نے صحت مند معاشرہ کو چاروں شانے چت گرا دیا ہے۔ طبی تحقیقات بتاتی ہیں کہ کوکاکولا میں استعمال ہونے والا رنگ کینسر کا باعث بنتا ہے۔ جن گھرانوں میں کوکاکولا یا بوتلوں کا بند پانی استعمال ہوتا ہے، وہاں امراض گردہ، جوڑوں کا درد شدت سے پھیل چکا ہے۔ کھانے کے بعد بوتلوں کا کھاری پانی پینے سے پیدا ہونے والے ناگفتہ بہ امراض نے ہمارے معاشرے کو کھوکھلا کر دیا ہے اور مریضوں کے حالات سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ الغرض میدہ اور باریک آٹا بالکل استعمال نہ کریں، یہ انسانی انتڑیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللہ نے اپنے ہاں میدہ کا استعمال ممنوع قرار کر دیا تھا۔ یاد رکھیں، فاسٹ فوڈ کا دوسرا نام ہیپا ٹائیٹس، امراض جگر اور شوگر ہے۔ صبح شام کوئی کڑوی دوا ضرور استعمال کریں۔ یہ نہیں تو کالی زیری کھانے کے بعد ایک چٹکی کھانے سے جسمانی مشینری خوب کام کرتی رہے گی۔ آج کل چاٹی کی لسی پینا آب حیات سے کم نہیں، اس سے بلڈ پریشر کا نام و نشان مٹ جاتا ہے۔ ہاضمہ کا فعل بھی تیز ہو جاتا ہے اور تیزابیت بھی اپنی سطح پر آجاتی ہے۔ نیند بھی خوب آنے لگتی ہے۔ الغرض مشرقی طریق علاج میں ایک ایک تیر سے کئی شکار کیے جاتے ہیں اور بیماریوں کا زور ٹوٹنے لگتا ہے۔ 

شاہ ولی اللہؒ اور علامہ محمد اقبالؒ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اور علامہ اقبالؒ جنوبی ایشیا کے ممتاز مسلمان مفکرین میں سے تھے۔ دونوں کے درمیان دو صدیوں کا فاصلہ ہے اور دونوں نے اپنے اپنے دور میں ملت اسلامیہ کی بیداری کے لیے نمایاں اور سیاسی خدمات سر انجام دی ہیں، شاہ ولی اللہؒ کا دور وہ ہے جب اورنگزیب عالمگیرؒ کی نصف صدی کی حکمرانی کے بعد مغل اقتدار کے دورِ زوال کا آغاز ہوگیا تھا اور شاہ ولی اللہؒ کو دکھائی دے رہا تھا کہ ایک طرف برطانوی استعمار اس خطہ میں پیش قدمی کر رہا ہے اور دوسری طرف جنوبی ہند کی مرہٹہ قوت دہلی کے تخت کی طرف بڑھنے لگی ہے، جبکہ علامہ اقبالؒ کو اس دور کا سامنا تھا جب انگریزوں کی غلامی کا طویل عرصہ گزارنے کے بعد برصغیر کے باشندے اس سے آزادی کی جدوجہد میں مصروف تھے۔ گویا شاہ ولی اللہؒ غلامی کے امکانات کو دیکھتے ہوئے اسے روکنے کی کوشش کر رہے تھے اور علامہ اقبالؒ غلامی کو بھگتتے ہوئے اس سے قوم کو آزادی دلانے کی جدوجہد میں مصروف عمل تھے۔
شاہ ولی اللہؒ کو یہ خطرہ درپیش تھا کہ جنوبی ہند کے مرہٹے دہلی کے اقتدار کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں، اس کا سدّ باب انہوں نے یوں کیا کہ افغانستان کے فرمانروا احمد شاہ ابدالیؒ کو برصغیر کے مسلمانوں کی مدد کے لیے دعوت دی جس کے نتیجے میں پانی پت کی خوفناک جنگ میں مرہٹوں کو فیصلہ کن شکست ہوئی اور شمالی ہند مسلمانوں کے لیے محفوظ ہوگیا، جبکہ علامہ اقبال ؒ اس پریشانی سے دوچار تھے کہ برطانوی استعمار سے آزادی کے بعد اس خطے کا مستقبل ووٹ اور سیاسی عمل کے ذریعہ تشکیل پائے گا جس میں ہندو کی واضح اکثریت مسلمانوں کے سیاسی مستقبل کو مخدوش کر سکتی ہے، اس کا حل انہوں نے پاکستان کے نام سے مسلمانوں کی الگ ریاست کی شکل میں نکالا اور برصغیر کی تقسیم کی تجویز پیش کر کے مسلمانوں کو سیاسی طور پر محفوظ کرنے کی کوشش کی۔ گویا خطرہ دونوں کو ایک ہی طرح کا درپیش تھا لیکن دونوں نے اس کا حل اپنے اپنے دور کے تقاضوں اور حالات کی روشنی میں الگ الگ تجویز کیا۔
شاہ ولی اللہؒ کو اپنے دور میں فقہی جمود کا سامنا تھا اور اس جمود کو توڑنے کے لیے انہوں نے نہ صرف مسلمانوں کو قرآن و حدیث سے براہ راست استفادہ کرنے کی دعوت دی بلکہ قرآن کریم اور حدیث نبویؐ کی تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری کیا اور فقہ میں انہوں نے فقہ حنفی کے اصولی دائرہ کو قائم رکھتے ہوئے توسع اور اجتہاد کو فروغ دینے کی بات کی۔
علامہ اقبالؒ کو بھی اسی قسم کے فقہی جمود سے سابقہ تھا، انہوں نے اپنے طور پر اس کا حل یہ نکالا کہ مسلمان ’’اجتہادِ مطلق‘‘ کے دور کی طرف واپس لوٹ جائیں، چنانچہ ’’تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ‘‘ کے عنوان سے اپنے خطابات میں انہوں نے اہل علم و دانش کو اسی بات کی دعوت دی ہے۔ علامہ اقبالؒ کے یہ خطبات دینی حلقوں میں ایک عرصہ سے زیر بحث ہیں، ان کے بارے میں بہت سے تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے اور خود میرے بھی بعض تحفظات ہیں لیکن میرے خیال میں اسے اس نقطۂ نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ علامہ اقبالؒ نے یہ خطبات بحث و مباحثہ کے ایجنڈے کے طور پر پیش کیے تھے جن پر علمی و تحقیقی کام نہیں ہو سکا۔
شاہ ولی اللہ دہلویؒ خود علوم قرآن و حدیث کے متبحرِ عالم تھے، انہیں اپنے لائق فرزندوں اور قابل فخر شاگردوں کی صورت میں علمی کام کرنے والی ایک مضبوط ٹیم میسر تھی اس لیے ان کے ایجنڈے نے ایک باقاعدہ علمی حلقے کی شکل اختیار کر لی اور جنوبی ایشیا کی دینی فکر پر ابھی تک اسی کا سکہ چل رہا ہے، مگر علامہ اقبالؒ کو یہ سہولت میسر نہ ہو سکی اور وہ اس معاملہ میں بالکل تنہا نظر آتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ کا ایک دور میں یہ خیال تھا کہ اگر علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ لاہور آجائیں تو وہ دونوں مل کر اس علمی و فکری ایجنڈے کو ایک مستقل علمی و فکری کام کی بنیاد بنا سکتے ہیں اور میری طالب علمانہ رائے یہ ہے کہ اگر ایسا ہو جاتا تو آج کی علمی و فکری دنیا کا نقشہ ہی مختلف ہوتا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ پھر علامہ اقبالؒ نے سید سلمان ندویؒ اور دوسرے علماء کرام کو اس طرف آمادہ کرنے کی کوشش کی جو کامیاب نہ ہو سکی، حتیٰ کہ پٹھانکوٹ میں دار الاسلام کا قیام اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی وہاں آمد بھی بنیادی طور پر علامہ اقبالؒ کی سوچ کا نتیجہ لگتی ہے لیکن کام اس رخ پر آگے نہ بڑھ سکا جو علامہ اقبالؒ کے پیش نظر تھا۔ 
یہ بات درست ہے کہ فقہی جمود کو ختم کرنے اور آزادئ فکر کو اجتہاد کے ذریعہ نشو و نما دینے کی جو صورت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے سامنے تھی علامہ اقبالؒ کی آزادئ فکر اور اجتہاد کے دائرے اس سے مختلف تھے لیکن دونوں کے توسع اور آزادئ فکر کے دائرے بہت مختلف ہونے کے باوجود بنیادی طور پر دونوں کو ایک ہی مسئلہ کا سامنا تھا کہ امت کو اس بے لچک فقہی جمود کے دائرے سے نکالا جائے جو فکری اور علمی ارتقاء اور سماجی ترقی میں ان کے خیال میں رکاوٹ تھے۔ البتہ شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا تصور اجتہاد اور فکری آزادی مسلّمہ فقہی اصولوں کی حدود میں تھی جبکہ علامہ اقبالؒ انہی مسلّمہ فقہی اصولوں پر نظر ثانی کی بات کر رہے تھے۔ میرا یہ خیال ہے کہ اگر علامہ اقبالؒ کو شاہ ولی اللہؒ کی طرح کی علمی ٹیم اور مواقع میسر آجاتے تو ان کی فقہی سوچ کے بارے میں دینی حلقوں کے تحفظات یقیناًتوازن کی صورت اختیار کر لیتے لیکن ان کے خطبات صرف ایجنڈا ہی رہے اور اس ایجنڈے پر علمی و تحقیقی کام کا خواب تعبیر کی شکل اختیار نہ کر سکا۔ مجھے اس موقع پر آغا شورش کاشمیری مرحوم کا یہ جملہ یاد آرہا ہے جو ان کا اپنا ہے یا شاید کسی اور دانش ور کے قول کے طور پر انہوں نے نقل کیا تھا کہ ’’اقبالؒ وہ شبلی نعمانی ؒ ہے جسے کوئی سید سلمان ندویؒ میسر نہ آسکا۔‘‘
میرے نزدیک فکرِ اقبالؒ کا اصل المیہ یہی ہے اور اس کا حل آج بھی یہی ہے کہ اقبالؒ اور انور شاہؒ مل کر بیٹھیں اور قدیم اور جدید ایک دوسرے کی نفی کرنے کی بجائے ایک دوسرے کا وجود اور ضرورت تسلیم کرتے ہوئے باہمی مشاورت اور اشتراک کے ساتھ امت مسلمہ کی علمی و فکری راہ نمائی کریں۔ اقبالؒ کے تصورِ اجتہاد کے سب پہلوؤں سے اتفاق نہ ہونے کے باوجود میں اسے ایک ایجنڈا تصور کرتے ہوئے اس پر علمی و تحقیقی کام کو آج کی ایک اہم ضرورت سمجھتا ہوں اور امت مسلمہ کی صحیح سمت راہ نمائی کے لیے قدیم و جدید کے متوازن امتزاج کو وقت کا ایک ناگزیر تقاضا تصور کرتا ہوں۔

مئی ۲۰۱۳ء

قومی نصاب تعلیم میں اصلاح و ترمیم کا مسئلہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
عمار خان ناصر اور اس کے ناقدینمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
امام شافعیؒ اور ان کا تجدیدی کارنامہڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی
مسلم نشاۃ ثانیہ: اصلاحِ مفاہیماحمد جاوید
امیر عبد القادر الجزائریؒ کون تھے؟ادارہ
جعلی مجاہد کی اصلی داستانمفتی ابو لبابہ شاہ منصور
الجزائری کی داستان حیات: چند توضیحاتمحمد عمار خان ناصر
مکاتیبادارہ
الشریعہ اکادمی کا دورۂ تفسیر ۔ مشاہدات و تاثراتمحمد بلال فاروقی
’’صاحب قرآن‘‘ادارہ
خسرہ کا مجرب علاجحکیم محمد عمران مغل

قومی نصاب تعلیم میں اصلاح و ترمیم کا مسئلہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

۲۲ اپریل ۲۰۱۳ء کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں ایک سیمینار کا اہتمام کیا گیا جس کا موضوع قومی نصاب تعلیم میں اسلامیات کے مضامین اور مواد کو کم کرنے اور نصابِ تعلیم کو مبینہ طور پر سیکولر نصابِ تعلیم کی شکل دینے کے بارے میں بعض اخباری رپورٹوں کا جائزہ لینا تھا۔ ممتاز ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر عبد الماجد حمید المشرقی نے سیمینار کی صدارت کی اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی راہ نما مولانا اللہ وسایا مہمان خصوصی تھے۔ سیمینار میں مذکورہ بالا حضرات کے علاوہ مولانا محمد قاسم، مولانا غلام نبی، مولانا محمد عثمان، حافظ محمد عمار خان ناصر، مولانا محمد فخر عالم، مولانا محمد عبد اللہ راتھر، پروفیسر حافظ محمد رشید اور راقم الحروف نے بھی گفتگو کی جبکہ مجموعی طور پر اس گفتگو میں مندرجہ ذیل نکات سامنے لائے گئے:
  • نصاب تعلیم کے حوالے سے جن امور کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے، ان کے مختلف دائرے ہیں۔ ایک یہ کہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے اور قومی نصاب تعلیم کس حد تک ملک کی نظریاتی اساس کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ دوسرا یہ کہ ہماری قومی تعلیمی ضروریات کیا ہیں اور مذہب و ثقافت کے ساتھ ساتھ سائنس، ٹیکنالوجی، سول سروس، ملٹری، معیشت اور دیگر شعبوں کے تقاضوں کو یہ تعلیمی نصاب و نظام کس حد تک پورا کرتا ہے، اور تیسرا یہ کہ موجودہ عالمی تناظر میں ملک و قوم کی بین الاقوامی ضروریات کیا ہیں اور ان کے مثبت اور منفی پہلوؤں کو پورا کرنے میں یہ قومی نصاب تعلیم کیا کردار ادا کر رہا ہے؟
    اس کے بعد دوسری سطح یہ ہے کہ متعدد حوالوں سے تعلیمی نصاب و نظام کے بارے میں مختلف حلقوں کی طرف سے جو شکایات وقتاً فوقتاً سامنے آتی رہتی ہیں اور اس وقت بھی قومی اخبارات میں موضوع بحث بنی ہوئی ہیں، ان کی اصل صورت حال کیا ہے اور ان کے بارے میں اعتدال و توازن کی راہ کیا ہے؟
  • قومی نصاب تعلیم کے بارے میں اس وقت دو قسم کی کشمکش چل رہی ہے، ایک کشمکش تو مذہبی اور سیکولر حلقوں کے درمیان ہے جو قیام پاکستان کے بعد سے مسلسل جاری ہے۔ دونوں حلقے اس سلسلہ میں اپنی قوت اور اثر و رسوخ کا اظہار کرتے رہتے ہیں اور اب بھی یہ کشمکش عروج پر ہے۔ دوسری کشمکش وفاق اور صوبوں کے درمیان ہے۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد نصابِ تعلیم کا معاملہ صوبوں کے سپرد ہوا ہے جو پہلے وفاق کی ذمہ داری اور اختیار کا حصہ تھا۔ صوبوں کو منتقل ہو جانے کے بعد بھی وفاق ان معاملات کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی کوشش کر رہا ہے مگر صوبوں کا کہنا ہے کہ جب تعلیمی نظام کے معاملات دستور کے مطابق صوبوں کو منتقل ہو چکے ہیں تو انہیں پوری آزادی کے ساتھ اس بارے میں کردار ادا کرنے کا موقع دیا جائے۔ محسوس ہوتا ہے کہ یہ کشمکش کچھ عرصہ تو چلتی رہے گی مگر بالآخر یہ معاملات صوبوں کے دائرہ اختیار میں آجائیں گے۔ ہمیں تعلیمی مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے ان پہلوؤں کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔
  • بسا اوقات تبدیلی اور ترمیم کرنے والوں کے ذہنوں میں وہ بات نہیں ہوتی جو اس پر اعتراض کرنے والوں کی طرف سے پیش کی جاتی ہے۔ مثلاً خیبر پختون خواہ کی سابقہ حکومت کے دور میں نویں دسویں کے نصاب سے سورۃ الانفال اور سورۃ التوبہ کو نکالنے والوں کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ ہم نے ان سورتوں کو نصاب سے خارج کرنے کی بات نہیں کی بلکہ ترتیب بدلنے کی بات کی ہے کہ اس سطح پر سورۃ الحجرات کی تعلیم زیادہ مناسب ہے اور اس کے اوپر کے درجات میں یعنی انٹرمیڈیٹ کی سطح پر سورۃ الانفال اور سورۃ التوبہ کو نصابِ تعلیم کا حصہ بنایا جانا چاہیے۔ اگر فی الواقع ایسی بات ہے تو اس پر اعتراض کرنے کی بجائے اس کی افادیت اور موزونیت کا جائزہ لینے کی ض