2012

جنوری ۲۰۱۲ء

رائے کی اہلیت اور بحث و مباحثہ کی آزادیمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا معین الدین لکھویؒ اور دیگر اہل حدیث اکابرمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
میرزا عبدالرحیمؒ کے نام مجدد الف ثانیؒ کے خطوطپروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم ورک
’’حیات سدید‘‘ کے چند ناسدید پہلو (۳)چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ
جامع مسجد نور کی تاسیس کا پس منظرالحاج ظفر علی ڈار
علمی و اجتہادی مسائل میں رائے کا اختیارحافظ زاہد حسین رشیدی
مکاتیبادارہ
شش ماہی ’’معارف اسلامی‘‘ (خصوصی اشاعت بیاد ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ)ڈاکٹر قاری محمد طاہر
’’اطراف‘‘مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
سیمینار: ’’ریاست و حکومت: علامہ اقبال اور عصری مسائل‘‘ادارہ
اخبار و آثارادارہ

رائے کی اہلیت اور بحث و مباحثہ کی آزادی

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مولانا حافظ زاہد حسین رشیدی ہمارے فاضل دوست ہیں اور مخدومنا المکرم حضرت مولانا قاضی مظہر حسین صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاندانی تعلق کے باعث وہ ہمارے لیے قابل احترام بھی ہیں۔ ہمارے ایک اور فاضل دوست مولانا حافظ عبد الوحید اشرفی کی زیر ادارت شائع ہونے والے جریدہ ماہنامہ ’’فقاہت‘‘ لاہور کے دسمبر ۲۰۱۱ء کے شمارے میں، جو احناف کی ترجمانی کرنے والا ایک سنجیدہ فکری وعلمی جریدہ ہے، مولانا حافظ زاہد حسین رشیدی نے اپنے ایک مضمون میں ’’الشریعہ‘‘ کی کھلے علمی مباحثہ کی پالیسی کوموضوع بنایا ہے اور اس سلسلے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے جس پر ہم ان کے بے حد شکر گزار ہیں اور ان کا مضمون ’’فقاہت‘‘ کے شکریہ کے ساتھ ’’الشریعہ‘‘ کے زیر نظر شمارے میں شائع کر رہے ہیں۔
انھوں نے جن تحفظات کا اظہار کیا ہے، ہمیں ان سب سے اختلاف نہیں ہے اور ان میں سے بعض خدشات وتحفظات ہمارے بھی پیش نظر ہیں جن کا انھوں نے درد دل کے ساتھ ذکر کیا ہے، لیکن ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہم صرف تحفظات کے دائرے میں محصور رہنے کو درست نہیں سمجھتے، بلکہ ان ضروریات پر بھی ہماری نظر ہے جو آج کے معروضی حالات میں اہل علم سے سنجیدہ توجہ کا تقاضا کر رہی ہیں۔ تحفظات اور ضروریات کے دائرے ہر دور میں الگ الگ رہے ہیں اور دونوں کے تقاضوں کو سامنے رکھنے والوں کا ذوق اور طرز عمل بھی ہمیشہ ایک دوسرے سے مختلف رہا ہے۔ اگر ماضی کی علمی ودینی تاریخ کو اس پہلو سے دیکھا جائے تو کوئی دور بھی اس کشمکش سے خالی نظر نہیں آتا۔ 
مثال کے طور پر کوئی واقعہ پیش آئے بغیر محض مسئلہ کی کوئی صورت فرض کر کے اس پر حکم لگانا، جسے ’’فقہ فرضی‘‘ کہا جاتا ہے، صحابہ کرام اور تابعین کبار کے دور میں پسندیدہ بات نہیں سمجھی جاتی تھی، حتیٰ کہ ایک بار حضرت امام ابوحنیفہؒ نے حضرت قتادہ سے کوئی مسئلہ پوچھا تو انھوں نے دریافت کیا کہ کیا ایسی کوئی صورت پیش آئی ہے؟ جواب میں امام ابوحنیفہ نے کہا کہ ایسی صورت پیش تو نہیں آئی تو حضرت قتادہ نے فرمایا کہ:
’’مجھ سے ایسی باتیں نہ پوچھا کرو جو ابھی واقع ہی نہیں ہوئیں۔‘‘ (بحوالہ امام ابوحنیفہ کی سیاسی زندگی ص ۲۳۵، از مولانا مناظر احسن گیلانی)
جبکہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ نے اس ’’فقہ فرضی‘‘ کے لیے باقاعدہ علمی مجلس قائم کر کے محض مفروضہ صورتوں پر ۸۰ہزار سے زائد احکام ومسائل مرتب کیے جو آج تک فقہ حنفی کی علمی اساس ہیں۔
اسی طرح صحابہ کرام اور کبار تابعین کے دور میں عقائد کے باب میں عقلی بحثوں کو ناپسند کیا جاتا تھا اور اسے عقائد خراب کرنے اور عقائد میں شکوک پیدا کرنے کی کوشش تصور کیا جاتا تھا، حتیٰ کہ میں نے کسی جگہ حضرت امام ابو یوسف کا یہ فتویٰ پڑھا ہے جس کا حوالہ اس وقت میرے ذہن میں نہیں ہے کہ عقائد میں عقلی بحثیں کرنے والے متکلم کے پیچھے نماز جائز نہیں ہے، لیکن بعد میں وقت کی ضروریات نے یہ ماحول پیدا کر دیا کہ عقائد کی بحثیں ہی معقولات کے حوالے سے ہونے لگیں، اس کو باقاعدہ علم کلام کا نام دیا گیا اور اسی عنوان سے یہ ہمارے ہاں مستقل پڑھایا جاتا ہے۔
ہم ’’تحفظات‘‘ اور ’’ضروریات‘‘ کے دونوں دائروں کو ضروری سمجھتے ہیں۔ ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ دونوں کا متوازن اظہار ہوتے رہنے سے ہی اعتدال کا راستہ ملے گا، اسی لیے ہم علمی مباحثہ کو ضروری خیال کرتے ہیں اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے ذہن میں علمی مباحثہ کا تصور وہی ہے جس کے تحت حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ نے انفرادی اجتہاد کی بجائے اجتماعی اور مشاورتی اجتہاد کا راستہ اختیار کیا تھا اور اس کے لیے کھلے علمی مباحثہ کو ضروری خیال کیا تھا۔ اس کا خاکہ مولانا مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ:
’’اجتماعی مساعی اسی وقت باور آور ہوتی ہیں جب ضبط ونظم کے تحت ان کو انجام دیا جائے۔ امامؒ پر جہاں یہ راز واضح ہو چکا تھا، اسی کے ساتھ وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ مجلس کے تمام اراکین کو جب تک کامل آزادی اپنے خیالات کے اظہار میں نہیں دی جائے گی، اجتماع کا جومقصد ہے وہ پورا نہیں ہو سکتا۔ آزادی کے اس دائرے کو امامؒ نے کتنی وسعت دے رکھی تھی ؟ اس کا اندازہ اسی واقعے سے ہو سکتا ہے جس کو امامؒ کے مختلف سوانح نگاروں نے نقل کیا ہے۔ الجرجانی کہتے ہیں کہ میں امام کی مجلس میں حاضر تھا کہ ایک نوجوان جو اسی حلقہ میں بیٹھا ہوا تھا، امام سے اس نے کوئی سوال کیا جس کا امامؒ نے جواب دیا، لیکن جوان کو میں نے دیکھا کہ جواب سننے کے ساتھ ہی بے تحاشہ اور امام کو مخاطب کر کے ’اخطات‘ (آپ نے غلطی کی ہے) کہہ رہا ہے۔ جرجانی کہتے ہیں کہ جوان کے اس طرز گفتگو کو دیکھ کر میں تو حیران ہو گیا اور حلقہ والوں کی طرف خطاب کر کے میں نے کہا کہ
’’بڑے تعجب کی بات ہے کہ استاذ (شیخ) کے احترام کا تم لوگ بالکل لحاظ نہیں کرتے۔‘‘
جرجانی ابھی اپنی نصیحت کو پوری بھی نہیں کر پائے تھے کہ وہ سن رہے تھے کہ خود امام ابوحنیفہؒ فرما رہے ہیں کہ
دعہم فانی قد عودتہم ذلک من نفسی
’’تم ان لوگوں کوچھوڑ دو، میں نے خود ہی اس طرز کلام کا ان کو عادی بنایا ہے۔‘‘
جس سے معلوم ہوا کہ اس آزادی کا قصداً وارادتاً امام نے اپنی مجلس کے اراکین کو کہیے یا تلامذہ کو، عادی بنا رکھا تھا اور یہ جان کر بنا رکھا تھا کہ جومقصد ہے، اس آزادی کے بغیر وہ حاصل نہیں ہو سکتا۔‘‘ (امام ابوحنیفہ کی سیاسی زندگی، ص ۲۳۸)
اس کے ساتھ ہی برادرم مولانا حافظ زاہد حسین رشیدی صاحب کے ارشادات کے تناظر میں یہ بات عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں رائے، اجتہاد اور فتویٰ کے دائروں کوخلط ملط کر دیا گیا ہے اور ہم ان سب کے بارے میں یکساں لہجے میں بات کرنے کے عادی ہو گئے ہیں، حالانکہ ان تینوں کے الگ الگ دائرے اور الگ الگ احکام ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر رائے کو اجتہاد تصور کیا جائے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر اجتہادی قول کو مفتیٰ بہ قرار دے دیا جائے۔ کوئی مجتہد اپنے کسی غور طلب مسئلہ کے کسی ایک پہلو کے بارے میں کسی متعلقہ شخص سے رائے لیتا ہے جو صاحب علم نہیں ہے اور اس کی رائے کو اپنے اجتہاد کی بنیاد بھی بنا لیتا ہے۔ اب اس شخص کی رائے اجتہاد کا درجہ نہیں رکھتی، مگر اجتہادی عمل کا حصہ بن گئی ہے۔ اسی طرح ہمارے ہاں فقہاء کرام کے مفتیٰ بہ اقوال اور غیر مفتیٰ بہ اقوال کا واضح فرق موجود ہے، لیکن ان میں سے کسی کے اجتہاد ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے ان تینوں میں فرق قائم رکھنا ضروری ہے اور اس بنیاد پر ان تینوں کے معیارات بھی الگ الگ ہی ہوں گے۔ 
ہم نے ’’عمومی مباحثہ‘‘ میں ہر شخص کے لیے رائے کے حق کی بات ضرور کی ہے، لیکن جہاں علمی مباحثہ کی بات ہوئی ہے، وہاں ہم نے ان نوجوان اہل علم کا حوالہ دیا ہے جو اصحاب علم ہیں او رمطالعہ کی وسعت رکھتے ہیں۔ ہم نے ان کے لیے نہ اجتہاد کا حق مانگا ہے اور نہ ہی انھیں فتویٰ کی اتھارٹی دینے کی بات کی ہے۔ صرف اتنی درخواست کی ہے کہ اگر وہ نوجوان اہل علم جو علمی استعداد رکھتے ہیں اور دینی لٹریچر کے ساتھ ساتھ آج کے حالات وضروریات پر بھی نظر رکھتے ہیں، انھیں رائے کے حق سے محروم نہ کیجیے۔جو وہ محسوس کرتے ہیں، اس کے اظہار کا انھیں حق دیجیے اور پھر انھیں فتووں اور طعن وتشنیع کا نشانہ بنانے کی بجائے دلیل کے ساتھ اور محبت کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کیجیے کہ دین کے ساتھ ساتھ اخلاقیات اور معروضی حالات کا بھی یہی تقاضا ہے۔
مولانا حافظ زاہد حسین رشیدی کے مضمون کا تفصیلی تجزیہ کرنے کی بجائے سردست چند اصولی باتوں پر اکتفا کر رہا ہوں۔ اگر ا س کے بعد ضرورت باقی رہی تو یہ خدمت بھی کسی مناسب موقع پر انجام دی جا سکتی ہے۔

مولانا معین الدین لکھویؒ اور دیگر اہل حدیث اکابر

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

حضرت مولانا معین الدین لکھویؒ کی وفات صرف اہل حدیث حضرات کے لیے باعث رنج وصدمہ نہیں، بلکہ پاکستان کے اسلامی تشخص کے تحفظ اور ملک میں نفاذ شریعت کی جدوجہد سے تعلق رکھنے والا ہر مسلمان اور ہر پاکستان ان کی جدائی سے غم زدہ ہے۔ جن بزرگ اہل حدیث علماے کرام کے ساتھ میرا عقیدت اور نیاز مندی کا تعلق رہا ہے، ان میں حضرت مولانا معین الدین لکھویؒ بھی شامل ہیں۔ میں نے جب اردو لکھنا پڑھنا شروع کی تو بالکل ابتدا میں جو چند کتابیں میرے مطالعہ میں آئیں، ان میں آغا شورش کاشمیری مرحوم کی ’’خطبات احرار‘‘ بھی تھی۔ میرے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ احرار کے باقاعدہ کارکن رہے ہیں، اس لیے گھر اور ارد گرد کے ماحول میں احرار اور احرار راہنماؤں کا تذکرہ عام رہتا تھا۔ اسی پس منظر میں ’’خطبات احرار‘‘ کے مطالعہ کا موقع ملا۔ اس میں مولانا سید محمد داؤد غزنوی کا نام پہلی بار پڑھا اور عقیدت کا رشتہ جڑ گیا۔ مولانا غزنویؒ کی زیارت مجھے یاد نہیں، لیکن ان کے ساتھ عقیدت ومحبت کا رشتہ تب سے استوار ہے۔
ان کے بعد مولانا محمد اسماعیل سلفیؒ کی شخصیت نے بطور اہل حدیث اور بزرگ عالم دین میرے دل میں جگہ بنائی۔ صدر ایوب خان مرحوم نے ۱۹۶۲ء میں مارشل لا اٹھایا تو گوجرانوالہ میں پہلا سیاسی جلسہ میاں افتخار الدین مرحوم کی یاد میں ہوا جس کی صدارت مولانا محمد اسماعیل سلفی نے کی اور اس سے دیگر مقررین کے علاوہ آغا شورش کاشمیری اور شیخ حسام الدین نے بھی خطاب کیا۔ یہ میری زندگی کا پہلا سیاسی جلسہ تھا جس میں بطور سامع شرکت کی اور مولانا محمد اسماعیل سلفی کی زیارت سب سے پہلے اس جلسے میں کی۔ اس کے بعد مختلف جلسوں میں انھیں سنا۔ ایک بار ارادہ کر کے ان کے پیچھے جمعہ پڑھا۔ مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں، جہاں میں زیر تعلیم تھا، ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ پابندی سے آتا تھا اور میں اس کا اس وقت سے باقاعدہ قاری ہوں۔ اس میں مولانا محمد اسماعیل سلفی کے ارشادات اور سرگرمیاں پڑھنے کو ملتیں۔ ایک بار اپنے بزرگ مولانا مفتی عبد الواحد صاحبؒ کا کوئی پیغام لے کر میں ان کے پاس گیا۔ مولانا محمد اسماعیل سلفی کا معمول تھا کہ عصر کی نماز کے بعد اردو بازار میں اسکول بک ڈپو پر تھوڑی دیر کے لیے بیٹھتے تھے۔ وہاں کرسی پر بیٹھے ہوئے مولانا محمد اسماعیل سلفیؒ کا سراپا ابھی تک ذہن کی اسکرین پر موجود ہے۔
اسکول بک ڈپو بھی ایک اہل حدیث عالم دین مولانا حافظ محمد یوسف گکھڑوی مرحوم کا تھا جو گکھڑ کی مسجد توحید گنج کے خطیب وامام تھے اور اردو بازار گوجرانوالہ میں اسکول بک ڈپو کے نام سے کتابوں اور اسٹیشنری کی دکان کرتے تھے۔ میرا تعلق بھی گکھڑ سے ہے۔ بچپن میں ان کے گھر میں بھی ہمارا آنا جانا رہتا تھا اور ان کے بچے بھی ہمارے گھر میں آیا کرتے تھے۔ جماعت مجاہدین کے ساتھ ان کا تعلق تھا۔ وہ کشمیر اور قبائل کے مجاہدین کی وقتاً فوقتاً مدد کرتے تھے اور آتے جاتے بھی رہتے تھے۔ کافی عرصے کے بعد سردار محمد عبد القیوم خان نے ایک ملاقات میں ان کا تذکرہ کیا تو مجھے بھی بہت سی باتیں یاد آ گئیں اور ہم کافی دیر تک حافظ محمد یوسف گکھڑوی اور ان کی جہادی سرگرمیوں کی باتیں کرتے رہے۔ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور چچا محترم حضرت مولانا صوفی عبدالحمید سواتیؒ کے ہمراہ حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفیؒ کے جنازے میں بھی شرکت کی سعادت حاصل ہوئی جو مولانا حافظ محمد یوسف گکھڑوی نے پڑھائی تھی۔
مولانا محمد اسماعیل سلفی کے بعد اس فہرست میں تیسرے بزرگ اہل حدیث عالم دین مولانا عبد الغفار حسن تھے۔ ان کے ساتھ میری پہلی ملاقات فیصل آباد میں مولانا حکیم عبد الرحیم اشرف کے گھر میں ہوئی جہاں میں کبھی کبھی جایا کرتا تھا اور وہ بھی بہت شفقت فرمایا کرتے تھے۔ میں نے تین بزرگوں کا اپنی زندگی میں معمول دیکھا ہے کہ وہ رات کو سویا نہیں کرتے تھے۔ ان کی محفلیں رات گئے آباد ہوتی تھیں اور صبح اشراق سے فارغ ہو کر دوپہر تک ان کا سونے کا معمول تھا۔ ان میں حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ اور حضرت مولانا سید حامد میاںؒ کے علاوہ مولانا حکیم عبد الرحیم اشرفؒ بھی تھے۔ بعض دفعہ ایسا ہوا کہ میں فیصل آباد میں کسی جلسے سے خطاب کرنے کے لیے گیا اور نصف شب کے لگ بھگ خطاب سے فارغ ہو۔ اسٹیج سے اترا تو دیکھا کہ حکیم عبد الرحیم اشرف صاحب کی گاڑی کھڑی ہے۔ ان کو کہیں سے میری آمد کا پتہ چل جاتا تھا اور وہ گاڑی بھیج دیتے تھے کہ میں ان کے ہاں سے ہو کر واپس جاؤں۔ وہاں حاضری ہوتی تو محفل خوب گرم ہوتی اور صبح سحری کے وقت ہی وہاں سے واپسی کی گنجائش نکلتی۔ 
مولانا عبد الغفار حسن نے مجھے بتایا کہ وہ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت کے دوران جیل میں والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدر کے ساتھی رہے ہیں تو تعلق ومحبت میں اور اضافہ ہو گیا۔ وہ مجھے ہمیشہ شفقت سے نوازتے اور مجھے ان کی خدمت میں حاضر ہو کر سکون ملتا تھا۔ ۱۹۸۷ء میں شریعت بل کی تحریک کے لیے پیش پیش حضرات میں میرا نام بھی ہے۔ اس دوران بعض دوستوں کی غلط فہمی سے فقہ حنفی اور اہل حدیث کشمکش کے حوالے سے بحث چھڑ گئی اور ایک معروف اہل حدیث جریدے میں شریعت بل کے پس منظر میں فقہ حنفی کے خلاف تند وتیز مضمون شائع ہوا۔ مولانا عبدالغفار حسن کو خدشہ ہوا کہ میں اس کا جواب دوں گا تو بحث بڑھ جائے گی اور خواہ مخواہ تلخی میں اضافہ ہوگا۔ اس خدشے کے پیش نظر انھوں نے مجھے بطور خاص پیغام بھجوایا کہ اس کے جواب میں آپ کچھ بھی نہ لکھیں، میں خود اس کی وضاحت کروں گا۔ میں نے ان کے حکم کی تعمیل میں خاموشی اختیار کر لی اور مولانا عبد الغفار حسنؒ نے اسی جریدے کے اگلے شمارے میں ایک مضمون کے ذریعے لوگوں کو سمجھا دیا کہ یہ حنفی اہل حدیث مسئلہ نہیں، بلکہ قرآن وسنت کا نفاذ اور شریعت کی بالادستی امت کا اجتماعی مسئلہ ہے جسے فرقہ وارانہ تناظر میں دیکھنا درست نہیں ہے۔
ایک اور اہل حدیث عالم دین مولانا حکیم عبد الرحمن آزادؒ کے ساتھ مجھے کم وبیش دو عشروں تک تحریک ختم نبوت کے لیے اکٹھے کام کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ وہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت گوجرانوالہ ڈویژن کے امیر تھے۔ تحریک ختم نبوت کے لیے اس دوران میں جب بھی کوئی مشترکہ فورم تشکیل پایا، میں حکیم صاحب کی ٹیم کا حصہ رہا۔ اکٹھے تحریکی جدوجہد کا کئی بار حظ اٹھایا اور مل جل کر دینی جدوجہد میں شرکت کی سعادت حاصل کی۔
حضرت مولانا معین الدین لکھوی بھی اسی صف کے بزرگ تھے۔ ۱۹۸۷ء کی تحریک شریعت بل اور نفاذ شریعت کی جدوجہد میں ان کے ساتھ متحدہ شریعت محاذ کے سرگرم کارکن کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا۔ وہ حالات سے باخبر اور وقت کے تقاضوں سے آشنا بزرگ تھے۔ جچی تلی گفتگو کرتے تھے اور اجتماعی معاملات میں دینی موقف کی بھرپور ترجمانی کرتے تھے۔ ان کی خدمت میں بھی کئی بار حاضری کا موقع ملا اور ہر بار شفقت اور دعاؤں سے فیض یاب ہوا۔ جامعہ محمدیہ اوکاڑہ میں بھی ایک بار ان سے ملاقات کے لیے حاضر ہوا تو بہت خوش ہوئے اور بہت سے معاملات میں مشاورت ہوئی۔ ان کا ایک جملہ بہت یاد آتا ہے جو خود انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ ایک جگہ کسی جذباتی دوست نے ان سے سرمحفل سوال کر دیا کہ شریعت بل کے نام سے فقہ حنفی تو نافذ نہیں ہوجائے گی؟ انھوں نے اس کا جواب دیا کہ اگر ہو بھی گئی تو کیا؟ ’’فقہ فرنگی‘‘ سے بہتر ہوگی۔
حضرت مولانا عبد القادر روپڑیؒ اہل حدیث علماے کرام میں بڑے مناظر تھے اور حنفیوں کے ساتھ مناظروں میں ان کا نام سرفہرست ہوتا تھا، مگر میرے ساتھ ان کا معاملہ بھی ہمیشہ شفقت کا رہا۔ ۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفی میں ان کے ساتھ رفاقت رہی۔ ایک بار ان سے ملاقات کے لیے دال گراں چوک کے اہل حدیث مرکز میں حاضر ہوا تو بڑی محبت سے ملے اور فرمایاکہ ’’تم اچھی باتیں کیا کرتے ہو، کبھی کبھی آ جایا کرو۔‘‘
حضرت مولانا معین الدین لکھویؒ کی وفات کی خبر پڑھ کر بزرگ اہل حدیث علماے کرام کے ساتھ اپنے تعلقات کی بہت سی باتیں ذہن میں تازہ ہو گئی ہیں جن میں سے چند ایک کا میں نے تذکرہ کر دیا ہے، لیکن اپنے دو بے تکلف دوستوں اور ساتھیوں علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدؒ اور مولانا سید حبیب الرحمن شاہ بخاریؒ کا نام میں نے عمداً اس فہرست میں شامل نہیں کیا اور کسی دوسرے مناسب موقع کے لیے چھوڑ دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ مولانا معین الدین لکھویؒ سمیت ان سب بزرگوں کی مغفرت فرمائے اور ان کی حسنات کو قبول کرتے ہوئے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے۔ آمین

میرزا عبدالرحیمؒ کے نام مجدد الف ثانیؒ کے خطوط

پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم ورک

شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانیؒ (۹۷۱۔۱۰۳۴ھ / 1624-1563ء) نے ’’اَلنَّاسُ عَلٰی دِیْنِ مُلُوْکِھِمْ‘‘ کے اصول کے مطابق جن سیاسی شخصیات کو خاص طور پر خطوط صادر فرمائے اور ان کی اصلاح کی راہ سے بادشاہ، امرا اوردیگر عمائدین حکومت کی اصلاح کا قصد فرمایا ،ان میں ایک بڑا نام میرزا عبدالرحیم خانِ خاناں کا ہے ۔ حضرت مجددؒ کے طرزِ عمل سے ہمیں یہ راہنمائی ملتی ہے کہ داعی کا ایک اہم ہدف یہ ہونا چاہیے کہ وہ معاشرے میں صاحبانِ اقتدار میں سے سلیم الفطرت انسانوں کی کھوج میں خصوصی محنت کرے ،کیونکہ ایسے لوگوں کو تھوڑی سی محنت سے جادۂ مستقیم پر گامزن کیا جاسکتا ہے ،اور پھر ان کی وساطت سے دیگر لوگوں کی اصلاح کچھ مشکل نہیں رہتی ۔
حضرت مجدد الف ثانی ؒ قدس سرہ العزیز نے میرزا عبدالرحیم خانخاناں ؒ کے نام تیرہ مکتوب ارسال فرمائے جن کی تفصیل یہ ہے: دفتراوّل میں مکتوب نمبر: ۲۳ - ۶۷ - ۶۸ - ۶۹ - ۷۰ - ۱۹۱ - ۱۹۸ - ۲۱۴ - ۲۳۲ - ۲۶۸ اور دفتر دوم میں مکتوب نمبر: ۸ - ۶۲ - ۶۶۔ زیر نظر سطور میں حضرت مجددؒ کے ان خطوط کے دعوت، معاشرتی اور سیاسی پہلووں پر قدرے روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔
موضوع پر براہِ راست گفتگو سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مکتوب الیہ کا مختصر تعارف قارئین کی خدمت میں پیش کردیا جائے ۔
میرزا عبدالرحیم خا نِ خاناں ؒ کے والد کا نام میرزا بیرم خاں تھا جوشہنشاہ ہمایوں کا سپہ سالارِ اعظم ،سلطنت مغلیہ کا زبر دست وفادار اور بازوئے شمشیر زن تھا ۔میرزا عبدالرحیم خا نِ خاناں ؒ بیرم خان کے ہاں ۱۴ صفر المظفر ۹۶۴ھ بمطابق ۱۵۵۶ء بروز جمعرات لاہور میں امیر جمال خاں میواتی کی صاحبزادی کے بطن سے متولّد ہوئے ۔ ابھی چار برس کی عمر تھی کہ آپ کے والد کو گجرات کے قریب پٹن شہر میں ۹۶۸ھ میں قتل کردیا گیا۔ وارثوں نے آپ کو آگرہ منتقل کر دیا جہاں آپ شاہی ماحول میں پرورش پاتے رہے۔ ذرا ہوش سنبھالی تو تعلیمی سلسلے کا آغاز کیا ۔ اپنے وقت کے نامور علما و فضلا، خاص کر علامہ فتح اللہ شیرازی، قاضی نظام الدّین بدخشی، مولانا محمد امین اندجانی، حکیم علی گیلانی رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے علوم ظاہری و باطنی و فوائد کثیرہ حاصل کیے۔ گجرات کے معروف بزرگ شیخ وجیہ الدین ؒ بن شیخ نصر اللہ علوی ؒ سے روحانی طریقہ اخذ کیا۔ 
امیر کبیر محمد شمس الدین غزنویؒ کی صاحبزادی سے نکاح کیا۔ مغل بادشاہ اکبر کے دورِ حکومت میں اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز رہے۔ گجرات، سندھ اور دکن کے بعض علاقے آپ کے ہاتھوں فتح ہوئے۔ اکبر نے آپ کو خا نِ خاناں (امیر الامرا) کا لقب دیا ۔اکبر نے اپنے بیٹے جہانگیر کی تعلیم و تربیت کے لیے آپ کو ۹۷۲ھ میں اپنے پاس رکھ لیا ۔ ایک متبحراور قابلِ اعتماد عالم ہونے کے ساتھ ساتھ آپ عربی، فارسی، ترکی، ہندی اور سندھی لغات کے بھی زبردست ماہر تھے۔ انھوں نے ۹۹۷ھ میں’’ تزک بابری ‘‘ کا ترکی سے فارسی میں ترجمہ کیا۔ اپنے دور میں صاحب القلم والسّیف کے لقب سے مشہور ہوئے۔ اپنے دور میں آپ جیسا متنوّع الصّفات اور جامع الفضائل شخص شاید ہی کوئی ہو۔ ۱۰۲۶ھ میں دہلی میں انتقال فرمایا اور مقبرہ ہمایوں کے برابر مدفون ہوئے۔(مآ ثر الاُ مراء، نزہۃالخواطر، ۵؍۳۰۴)

خطوط کی دعوتی اہمیت

دورِ حاضر میں جب اسلامی تحریکات کے مقاصد اور پس منظر پر بات کی جاتی ہے تو جوسوالات خاص طور پر اربابِ علم و دانش کے ہاں زیر بحث آتے ہیں، ان میں سے ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا اسلامی تحریکات کا اصل ہدف معاشرتی اصلاح ہے یا اسلامی ریاست کا قیام؟حضرت مجدد ؒ کی دعوتی اور تحریکی زندگی کے مطالعے سے جو چیز نکھر کر ہمارے سامنے آتی ہے، وہ یہ ہے کہ ایک داعی کا اصل ہدف اصلاحِ معاشرہ ہے۔ حصولِ اقتدار اورنظمِ اجتماعی اس کے دعوتی مشن کا ہدف نہیں بلکہ نتیجہ ہے ۔میرزا عبدالرحیم خا نِ خاناں ؒ کے نام حضرت مجدد ؒ کے خطوط کو ان کے اسی وژن کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ ذیل کی سطور میں ہم اپنے قارئین کی توجہ چند ایسے ہی نکات کی طرف مبذول کروائیں گے۔ 
سماجی تبدیلی کے لیے دعوت کا مرکزی ہدف طبقۂ عوام ہے یا اشرافیہ؟ یعنی تبدیلی اوپر سے نیچے کی طرف سفر کرتی ہے یا نیچے سے اوپر کی طرف ؟ یہ سوال جس قدر اہم ہے، اسی قدر سنجیدہ تجزیے کا متقاضی بھی ہے ۔ دورِ حاضر میں بہت سی اسلامی تحریکوں کی تگ و دو اور طرزِ عمل کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے اوراسی پس منظر میں ان کے اثرات و نتائج کی وسعت کا اندازہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ حضرت مجددؒ کی تحریکِ دعوت کو اس پہلو سے دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ آپؒ نے ایک طرف تو طبقۂ عوام کی تعلیم و تربیت اور اصلاحِ احوال کی طرف بھر پور توجہ فرمائی اور دوسری طرف کرسئ اقتدار کی بجائے امرا اور اشرافیہ کو اپنی دعوت کا ہدف بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپؒ کی کوششوں کے نتیجے میں معاشرے کے سرکردہ لوگوں نے اپنی دینی دلچسپیوں کا اظہار کیا تو عوام نے اپنے دینی مزاج کی وجہ سے ان کے طرزِ عمل کو نہ صرف قبول کیا بلکہ اس پر اپنی مسرت اور شادمانی کا اظہار بھی کیا۔
دعوتِ دین میں مدعو کے لیے خیر خواہی اور دل سوزی شرطِ اوّل ہے۔داعی کا سب سے پہلا کام یہ ہے کہ وہ مدعو کے دل پر دستک دے اور نہ صرف اس کی عزت نفس کا پوری طرح لحاظ رکھے، بلکہ اس کے ہر اچھے عمل پر اس کی حوصلہ افزائی بھی کرے، اور پھر جہاں ضرورت ہو اس کی اخلاقی تربیت سے بھی صرفِ نظر نہ کرے۔
اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز اربابِ بست وکشاد خاص قسم کے پروٹوکول (Protocol) کے عادی ہوتے ہیں اور یہ پروٹوکول ان کی نفسیات میں رچ بس کر ان کی عادت سے بڑھ کر فطرت کا حصہ بن جاتا ہے۔ ایک داعی کی کامیابی اسی میں ہے کہ وہ اپنے مدعو اور مخاطَب کی نفسیات اور پس منظر (Back Ground)کا پوری طرح لحاظ رکھے۔ حضرت مجددؒ کے خطوط میں ہمیں اس اسلوب کی جھلکیاں جگہ جگہ ملتی ہیں۔ مثلاً آ پؒ اپنے خطوط کا آغاز کسی نہ کسی دعائیہ جملہ سے فرماتے ہیں۔ ایک خط میں خانِ خاناںؒ کواپنی دعاوؤں سے نوازنے کے ساتھ ساتھ ان کے کمالات کا اعتراف ان الفاظ میں فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ ہمیں اور تمہیں ایسی قیل و قال سے نجات دے جو حال سے خالی ہے اور اس علم سے نجات عطا فرمائے جو عمل سے محروم ہے۔ .......اے ظہورِ کمالات کے لائق برادرِ عزیز !اللہ تعالیٰ تمہیں قوت سے فعل کی طرف لائے، تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے ، تو اس شخص پر افسوس جس نے اس میں کچھ نہ بویا اور زمین استعداد کو خالی رکھا اور تخمِ اعمال کو ضائع کردیا۔‘‘ (مکتوبات: دفتر اول ،حصہ اوّل ،مکتوب نمبر:۲۳)
ایک مکتوب میں حضرت مجددؒ ،خانِ خاناں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایسی کتب کے مطالعہ سے احتراز کرنا چاہیے جو صوفیا کے مکشوفات و الہامات پر مبنی ہوں، کیونکہ ہر قاری کے کیے اصل حقائق تک آسانی سے رسائی ممکن نہیں ۔اس کیے اربابِ اختیار کو فتوحاتِ مکیہ (ابن عربیؒ ) کی بجائے فتوحاتِ مدنیہ ( احادیثِ نبویہ) کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ آپ مکتوب الیہ کو دعا دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’فتوحاتِ مکیہ مفتاح فتوحاتِ مدنیہ باد‘‘۔( فتوحاتِ مکیہ، فتوحاتِ مدینہ کی کلید ہو۔)(مکتوبات: دفتر اول ،حصہ سوم ،مکتوب نمبر:۱۹۸)
سلاطین، امرا اور حکوتی عہدہ داروں کا احتساب اور ان کو نصیحت کرنا جان جوکھوں کا کام ہے ، لیکن یہ کام جس قدر مشکل ہے، اسی قدر ضروری بھی ہے، اس لیے کہ عوام الناس معاشرے کے سرکردہ افراداور ان کے طرزِ عمل سے نہ صرف براہِ راست متأثر ہوتے ہیں بلکہ ان کو نمونۂ عمل (Role Modle)بھی بنا لیتے ہیں ۔اس لیے ایک داعی کوہر طرح کے تحفظات سے بلند ہو کر بڑی حکمت کے ساتھ یہ فریضہ انجام دینا چاہیے،کیونکہ اعلیٰ منصب پر فائزکسی ایک انسان کی اصلاح کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے بہت سارے انسانوں کی اصلاح کا سامان کرلیا ہے۔ حضرت مجدد ؒ نے دعوت کے اس اسلوب کو جس حکمت کے ساتھ برتا ہے، وہ داعیانِ اسلام کے لیے خاص طور پر قابلِ توجہ ہے۔ میرزا عبدالرحیم خا نِ خاناں ؒ صاحبِ ثروت اور سلطنت مغلیہ کے رکنِ رکین ہونے کے باوصف اہل اللہ اور درویشوں کے خدمت گاروں میں تھے، مگر ان کے اندازِ تحریر سے تحکم اور تکبر کی بو آتی تھی ۔ حضرت مجدد ؒ ایک مکتوب میں ان کو تواضع اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’یہ ٹھیک ہے کہ آپ نے فقرا کی بہت خدمت کی ہے ،لیکن اس کے ساتھ ہی فقرا کے آداب کا لحاظ بھی بہت ضروری ہے،تاکہ اس پر ثمرہ اور نتیجہ برآمد ہو۔اور اس کے بغیر تو خار دار درخت پر ہاتھ پھیرنے والی بات ہے ، یعنی کچھ فائدہ نہیں ہے۔ ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے متقی لوگ تکلف سے بری ہیں اور متکبروں کے ساتھ تکبر کرنا بھی ایک قسم کا صدقہ اور نیکی ہے ۔حضرت خواجہ نقشبند ؒ کو ایک شخص نے متکبر کہا تو انھوں نے فرمایا: میرا تکبر خدا کہ لیے ہے۔
اس گروہِ فقرا کو ذلیل خیال نہ کریں، کیونکہ حدیث نبوی ہے: ’’رُبَّ اَشْعَثَ مَدْفُوْعِِ بِالْاَبْوَابِ لَوْ اَقْسَمَ عَلَی اللّٰہِ لَآبَرَّہٗ‘‘ (بہت سے پراگندہ بال،گردآ لود،دروازوں سے دھکیلے جانے والے (باطن میں ایسا بلند مقام رکھتے ہیں )کہ اگر اللہ کی قسم کھا لیں تو اللہ تعالیٰ ضرور ان کی قسم پوری کرتا ہے ۔)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگرچہ یہ باتیں تلخی نما ہیں، لیکن آپ کی خوشامد اور چاپلوسی کرنے والے بہت ہیں ،آپ اسی پر اکتفا کریں ۔فقرا سے آشنائی اور ملاقات سے مقصود یہ ہے کہ انسان اپنے پوشیدہ عیوب اور مخفی کمینی حرکات سے واقف اور مطلع ہو ۔یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اس طرح کی باتوں سے آزار اور تکلیف دینا مقصود نہیں ، بلکہ یہ باتیں خیر خواہی اور دلسوزی کے طور پر ہیں ۔‘‘ (مکتوبات، دفتر اول ،حصہ دوم ،مکتوب نمبر:۶۸) 
تکبر در اصل ایک روحانی اور اخلاقی مرض ہے جس کا علاج تواضع اور انکسار ہی سے ممکن ہے ۔ تواضع، غربا کا اظہارِ حال اور امرا کے لیے باعثِ کمال ہے ۔شیخ سعدی فرماتے ہیں:
تواضع زگردن فرازاں نکو ست
 گداگر تواضع کند خوئے اوست
حضرت مجددؒ کی پر سوز نصیحت کے جو اثرات مکتوب الیہ پر مرتب ہوئے، اس کی نشان دہی حضرت مجددؒ کے ایک دوسرے مکتوب سے ہوتی ہے۔ جب خانِ خاناں ؒ نے اس پرخلوص نصیحت کے نتیجے میں تواضع اختیار کرتے ہوئے اپنے رویے کو بالکل تبدیل کر لیا تو حضرت مجدد ؒ نے اپنے ایک خط میں ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے تحریر فرمایا:
’’چونکہ آپ نے فقرا کے آداب کا لحاظ رکھا ہے اور باتوں میں تواضع اختیار کی ہے،۔اس کے مطابق: مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰہِ رَفَعَہٗ اللّٰہُ، (جو اللہ کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے ۔اللہ اسے بلندی اور رفعت اختیار کرتا ہے ۔) امید ہے آپ کا یہ عجز و تواضع آپ کی دینی و دنیوی رفعت کا سبب بنے۔‘‘ (مکتوبات: دفتر اول ،حصہ دوم ،مکتوب نمبر:۶۹) 
شیطان کے بڑے جالوں میں سے ایک جال یہ ہے کہ وہ امورِ شرعیہ کے بارے میں انسان کے دل میں طرح طرح کے وسوسے ڈال کر اسے گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کبھی تو یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ اسلامی احکام خلافِ عقل ہیں، عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں اور ان پر عمل کرنا ہر انسان کے بس کی با ت نہیں ہے ۔حضرت مجدد ؒ نے خانِ خاناں ؒ کے نام ایک تفصیلی خط اس مضمون کا صادر فرمایا کہ امور شرعیہ میں پوری آسانی اور سہولت کا لحاظ رکھا گیا ہے اور مقیم و مسافر ،مریض و تندرست اورمردو زن دونوں کے دائرہ کار اور نفسیات کے مطابق تعلیمات دی گئی ہیں ۔اب اس اہتمام کے بعد بھی جو شخص عمل نہ کرے وہ حقیقتِ ایمان سے محروم ہے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: مکتوبات، دفتر اول ، حصہ سوم،مکتوب نمبر:۱۹۱)
اس میں کیا شک ہے کہ اسلام دینِ فطرت ہونے کے ساتھ ساتھ دین عقل بھی ہے، لیکن کون سی عقل معیارِ حق ہوگی؟ یہ ایک اہم سوال ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ عقل ایک ایساکمزور اور بے بس راہنما ہے جس کو انسانی خواہشات اور جذبات نے ہمیشہ اپنا تابع مہمل بنا کر رکھا ہے اور عقل نے ہمیشہ انسانی جذبات و خواہشات کے حق میں دلائل تراشے ہیں اور خواہشاتِ نفس اور جذباتی رویوں کو عقلی رویے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ عقل جج نہیں، وکیل ہے ۔ جیسا مقدمہ اسے دیا جائے گا، اسی کے مطابق وہ وکالت کرے گی ۔ یہ ایک ایسی دو دھاری تلوارہے جو دونوں طرف چلتی ہے۔ اس سے جس طرح دینی حقائق کو ثابت کیا جاسکتا ہے، اسی طرح باطل بھی کیا جاسکتاہے۔ یہ وکیل کی وکالت و ذہانت پر موقوف ہے کہ وہ مقدمہ کے کس پہلو کی تائید یاتردید کرنا چاہتاہے۔ اس لیے ہرشخص کو اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اپنی عقل کا ترازو لے کر آگے بڑھے اور احکامِ شرعیہ کے حق و باطل ہونے کا فیصلہ کرنے بیٹھ جائے۔معیارِ حق عقل نہیں بلکہ وحی ہے۔ اس لیے ایک مکتوب میں حضرت مجددؒ ، خانِ خاناں کے نام تحریر فرماتے ہیں: 
’’ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ تمام احکامِ شرعیہ کو عقلی پیمانے پر ناپے اور دلائلِ عقلیہ کے مطابق کردے ، وہ شانِ نبوت کا منکر ہے اور اس کے ساتھ کلام کرنا کم عقلی و بے وقوفی ہے۔‘‘ (مکتوبات، دفتر اول ، حصہ سوم ،مکتوب نمبر:۱۱۴) 
عقل پرستی کا مرض ہر دور میں رہا ہے۔ مغربی فکر و فلسفے کے زیر اثر یہ دورِ حاضر کا بڑا فتنہ ہے۔ اسلام عقل کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے اور تفکر فی الخلق پر زور دیتاہے۔ اسلام کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ اگر کسی حکم کی حکمت وقتی طور پر انسان کی سمجھ میں نہ بھی آئے، تب بھی وہ اس پر پختہ ایمان اور یقین رکھے ۔ورنہ ایسے شخص کا ایمان اپنی عقل پر ہو گا نہ کہ نبوت و رسالت پر ۔ اسی پس منظر میں شیخ مجددؒ نے اسلامی حدود و تعزیرات اوراسلامی احکام کو عقل کے ترازو میں تولنے والے شخص کو شانِ نبوت کا منکر قرار دیاہے۔ گویا دین یہ ہے کہ:
عقل قربان کن پیشِ مصطفی 

خطوط کی معاشرتی اہمیت

دورِ حاضر میں داعیانِ اسلام کی دعوت کے غیر مؤثر ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کا افرادِ معاشرہ کے ساتھ براہِ راست تعلق نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمارے ہاں طبقۂ عوام کے مسائل سے آگاہی حاصل کرنا اور پھر ان کے حل کی عملی کوشش، دعوتِ دین کے دائرہ سے قطعی باہر سمجھی جارہی ہے۔ یہ طرزِ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہاجِ دعوت سے بہت بڑا انحراف ہے۔سیرت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مخلوقِ خدا سے محبت اور خدمتِ خلق دعوتِ دین کے سب سے کار گر ہتھیار ہیں۔ پہلی وحی کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لائے تو آپ ؐ کے اضطراب کو دیکھتے ہوئے حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کو ان الفاظ میں تسلی دی:
’’کَلَّا وَاللّٰہِ لَا یُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبَداً اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتُحْمِلُ الْکَلَّ وَتُکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَتُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ‘‘ (بخاری، باب بدء الوحی) 
’’ہرگز نہیں! اللہ کی قسم، اللہ آپؐ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا ۔آپؐ صلہ رحمی کرتے ہیں، لوگوں کا بوجھ اُٹھاتے ہیں،ناداروں کی خبر گیری کرتے ہیں اور مصائب میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں ۔‘‘ 
حضرت خدیجہؓ کے یہ الفاظ قبل از اعلانِ نبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا بڑا خوبصورت اور جامع بیان ہیں جس سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ خدمتِ خلق پہلے ہے اور دعوتِ دین بعد میں ۔اس وقت عیسائی مبلغین اور مشنریز پوری دنیا میں خدمتِ خلق کے نام پر اپنے باطل نظریات کے پرچار میں مصروف ہیں ۔غور کیا جائے تو بر صغیر میں صوفیاء کرام ؒ نے بلا امتیازِ رنگ و نسل و مذہب لوگوں کی خدمت کو اپنا شعار بنایا اور لوگوں کو اسلام کی طرف مائل کرنے میں کامیاب ٹھہرے ۔خانقاہی نظام میں لنگر کا تصور اس اسلوبِ دعوت کی خوبصورت مثال ہے ۔
حضرت مجدد ؒ کے دعوتی منہج میں بھی اس اسلوب کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے ۔نہ صرف ذاتی حیثیت میں آپ نے مخلوقِ خدا کی خدمت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا بلکہ اصحابِ ثروت کو بھی اس طرف توجہ دلائی ۔ہم ان سطور میں صرف چند مثالیں پیش کرنے پر ہی اکتفا کریں گے جن سے واضح ہوتا ہے کہ ایک طرف اگر شیخِ مجددؒ کی اپنے ارادت مندوں کی روحانی ترقی پر گہری نظرتھی تو دوسری طرف وہ ان کے روز مرہ زندگی کے مسائل سے بھی پوری آگہی رکھتے تھے ۔ حضرت مجددؒ ،خا نِ خاناں ؒ کے نام اپنے ایک مکتوب میں ایک ضرورت مند کی سفارش کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’سیادت مآب سید ابراہیم آپ کے بلند آستانہ سے قدیمی تعلق و نسبت رکھتا ہے اور آپ کے دعاگووں میں شامل ہے۔ آپ کے ذمہ کرم پر لازم ہے کہ اس کی دستگیری فرمائیں تاکہ اس فقر اور بڑھاپے کے وقت اپنے اہل و عیال میں فراغت اور سکون سے اپنا وقت گزاریں اور آپ کے دونوں جہان کی سلامتی کی دعامیں مشغول رہیں۔ (مکتوبات، دفتر اول ،حصہ دوم ،مکتوب نمبر:۶۹)
حضرت مجددؒ ایک دوسرے مکتوب میں رقمطراز ہیں:
’’میاں شیخ عبد المومن بزرگ زادہ ہیں اور تحصیل علم سے فارغ ہو کر طریقۂ صوفیا کا سلوک فرماتے ہیں اور سلوک کے ضمن میں عجیب و غریب احوال مشاہدہ کرتے ہیں ۔ضرورتِ انسانی از قسم اہل و عیال ان کو حیران وبے اختیار ناچار کردیتی ہے ۔اس فقیر نے ناچار گی اور پریشا نی کو دور کرنے کے لئے آپ کی جناب کی طرف ان کی رہنمائی کی ہے۔ ’’مَنْ دَقّ بَابَ الْکَرِیْمِ انْفَتَحَ‘‘ جس نے کریم کا دروازہ کھٹکھٹایا وہ کشادہ حال ہو گیا ۔ (مکتوبات، دفتر اول،حصہ چہارم ،مکتوب نمبر:۲۳۲) 
حضرت مجددؒ ایک اور مکتوب میں خانِ خاناں کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کرنے کے بعد ایک حاجت مند کی سفارش بایں الفاظ فرماتے ہیں:
’’دو ضروری اور اہم کام بے اختیار آپ کو تکلیف دینے کا باعث بنے ہیں ۔ایک رنج و آزار کاگمان رفع کرنے کا اظہار،بلکہ آپ سے اور اخلاص کا ہونا ۔اور دوسرا ایک محتاج آدمی کی طرف اشارہ جو فضیلت اور نیکی سے آراستہ ہے اورمعرفت اور شہود سے مزین ہے ،جو نسب کے لحاظ سے کریم اور حسب کے اعتبار سے شریف ہے ۔‘‘(مکتوبات، دفتر اول ،حصہ دوم ،مکتوب نمبر:۶۷) 

خطوط کی سیاسی اہمیت

میرزا عبدالرحیم خا نِ خاناں ؒ سیاسی اعتبار سے معمولی آدمی نہ تھے۔ نہ صرف اپنی خاندانی خدمات کی وجہ سے بادشاہ پر ان کے گہرے اثرات تھے، بلکہ اپنی فطری بہادری، بلند فکری، علما و صوفیا سے محبت اور فقرا و مساکین کی دادرسی کی وجہ سے ہرطبقہ میں مقبولیت کی اس سطح پر تھے جس سے زیادہ کا سوچا بھی نہیں جاسکتا، لیکن اس کے باوجود حضرت مجدد ؒ نے ان کی طرف جو خطوط صادر فرمائے، ان میں اس بات کا ادنیٰ سا شائبہ بھی نہیں ہے جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہو کہ آپ ؒ خانِ خاناں کی اس حیثیت سے اقتدار یا ذاتی منفعت کے خواہاں ہوں۔حضرت مجددؒ نے جس انداز میں اپنے ذاتی طرزِ عمل سے اقتدار سے لاتعلقی کا اظہار فرمایا، اس نے حکمران طبقے، امرا اور اشرافیہ میں آپ کی دعوت کے نفوذمیں اہم کردار ادا کیا۔ غور کیا جائے تو شیخ مجدد ؒ کے خطوط کا مرکزی نقطہ مکتوب الیہ کی اصلاح اورپھر ان کی وساطت سے دربار ی امرا اور دیگرمتعلقین کی اصلاح ہی تھی ۔آپؒ نے اس مقصد کے لیے ایسا اسلوب اختیار فرمایا کہ مکتوب الیہ کی نظر میں دنیا کا حقیر ہو نا پوری طرح واضح ہو جائے اور اس کی وساطت سے دوسرے امرا کی اصلاح اور ان کے دلوں میں اسلامی احکام کی حرمت و عزت کے تصور کو پختہ کیا جائے ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مجددؒ کی اخلاص و للہیت پر مبنی ان کوششوں کے نتیجے میں ایک موقع پر میرزا عبدالرحیم خا نِ خاناں ؒ گورنری کا عہدہ چھوڑنے پر تیار ہوگئے۔ خانِ خاناں ؒ کی شخصی وجاہت، مقام ومرتبہ اور عہدہ و اقتدار کے باوجود حضرت مجددؒ نے احقاقِ حق میں کبھی مداہنت، چشم پوشی یا مصلحت کوشی کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ ایک موقع پر خانِ خاناں ؒ کو واضح اور دو ٹوک انداز میں تحریر فرمایا: 
’’نجات کا راستہ اہل سنت وجماعت کی متابعت ہے۔ (اللہ تعالیٰ اس گروہ کو اور زیادہ کرے ) اقوال میں بھی،افعال میں بھی اور احوال و فروع میں بھی،کیونکہ نجات پانے والا فرقہ صرف یہی ہے ۔باقی تمام فرقے زوال اور ہلاکت کے کنارے کھڑے ہیں ۔آج کسی کے علم میں یہ بات آئے یا نہ آئے، لیکن کل (قیامت ) کو ہر ایک جان لے گا،مگر اس وقت جاننا بے سود ہوگا۔‘‘ (مکتوبات، دفتر اول ، حصہ دوم ،مکتوب نمبر:۶۹) 
حضرت مجدد ؒ نے ہمیشہ یہ کوشش فرمائی کہ خانِ خاناں کی شخصی حیثیت سے فائدہ اُٹھا کر دربارِ شاہی سے وابستہ دیگر لوگوں کی اصلاح کی کوشش کی جائے ۔حضرت مجددؒ نے اپنے ایک مکتوب میں میرزا عبدالرحیم خا نِ خاناں ؒ کو اس طرف توجہ دلائی کہ آپ کے ایک فاضل شاعر دوست کے بارے معلوم ہوا ہے کہ انھوں اپنا لقب ’’کفری‘‘ اختیار کر رکھا ہے جو کہ کسی مسلمان کے شایانِ شان نہیں ۔ پھر آپ ؒ نے خا نِ خاناں ؒ کو تحریر فرمایا کہ اس شاعر کو میری طرف سے پیغام پہنچادیں کہ اس طرح کا کافرانہ تخلص بدل کر کوئی ایسا اسلامی لقب اختیار کریں جو جامع برکات ہو ۔ (ملاحظہ ہو: مکتوبات، دفتر اول ، حصہ دوم ،مکتوب نمبر:۲۳) 
خلاصۂ کلام یہ کہ خانِ خاناں کے نام حضرت مجددؒ کے مکتوبات سے جو نکات نکھر کر سامنے آتے ہیں، وہ یہ ہیں کہ ایک داعی اپنے مشن میں اسی وقت کامیاب ہو سکتا ہے جب اس کی کوششیں اخلاص پر مبنی ہوں اوریہ کہ دنیوی فوائد سے بے رغبتی داعی کے پیغام کو طبقۂ امرا میں مقبول بنادیتی ہے ۔نیز حضرت مجددؒ کے زیر مطالعہ خطوط سے یہ چیز بھی سامنے آتی ہے کہ ایک داعی کا صرف یہی کام نہیں کہ وہ لوگوں کی روحانی ترقی پر نظر رکھے بلکہ اسے لوگوں کے دکھ درد میں بھی شریک ہونا چاہیے اور ان کے ساتھ اس طرح گھل مل کر رہنا چاہیے کہ ان کے سماجی مسائل اس کی نظروں سے پوشیدہ نہ رہ سکیں۔ اگر وہ لوگوں کی براہِ راست مدد کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو تو اصحابِ خیرکو ان کے مسائل کی طرف متوجہ کرے۔ اس انداز سے وہ لوگوں کے دل میں جگہ بنا سکتا ہے اور آسانی کے ساتھ دلوں کی زمین کو دعوت کے بیج کی تخم ریزی کے لیے ہموار کر سکتا ہے ۔ 

’’حیات سدید‘‘ کے چند ناسدید پہلو (۳)

چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ

یہ کہنا کہ ’’علامہ کا مطمح نظر دارالاسلام میں فقہ اسلامی کی تدوین نو تھا، جب کہ حضرت مولانا فقیہ نہیں تھے۔ ویسے بھی انہیں اس کام میں دلچسپی نہ تھی۔ بعد کے واقعات نے ثابت کیا۔‘‘ (حیات سدید صفحہ نمبر ۱۷۳) مولانا مودودی اور اقبال دونوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ اقبال نے بہر حال مولانا کو اس کام کی ابتدائی تیاری کے لیے دارالاسلام منتقل ہونے کے لیے کہا تھا۔ وہ اس انتخاب کے لیے موزوں نہیں تھے تو مطلب یہ ہوا کہ اقبال کا انتخاب غلط تھا۔ مولانا مودودی اپنے خط نمبر ۹ مورخہ ۲۶۔مارچ ۱۹۳۷ء بنام چوہدری نیاز علی میں حیات سدید کے صفحہ نمبر ۴۹۹، ۵۰۰ پر لکھتے ہیں:
’’ہم خالص قرآن کی بنیاد پراسلام کی نشاتِ جدیدہ (Renaissance) چاہتے ہیں۔ قرآن کی اسپرٹ اور اسلام کے اصول ہمارے نزدیک غیر متبدل ہیں۔ مگر افکار اور معلومات کی ترتیب اور عملی زندگی کے احوال پر اس روح اور ان اصولوں کا انطباق ہمیشہ احوال کے تغیر اور علم کی ترقی کے ساتھ ساتھ بدلنا ضروری ہے۔ متقدمین اسلام اس چیز کو سمجھتے تھے۔ انہوں نے اپنے زمانے میں عملاً اس کو برتا، مگر متاخرین یہ سمجھے کہ اصول اور اسپرٹ کی طرح ان کا انطباق بھی غیر متبدل ہے۔ اس چیز نے وہ جمود پیدا کیا جو سات سو برس سے ہمارے علوم اور ہمارے قوانین حیات پر طاری ہے، موجودہ دور میں مسلمانوں کے ایک گروہ نے اس جمود کو توڑنا چاہا مگر انہوں نے نشات جدیدہ پیدا کرنی چاہی، وہ اسلام کی نشات جدیدہ نہیں ہے۔ اس لیے کہ وہ روح قرآنی اور اصول اسلامی سے بے بہرہ ہیں۔ ان کی فکر و نظر اسلامی نہیں ہے۔ اس لیے وہ نہ مسلمان کی حیثیت سے سوچ سکتے ہیں اور نہ اسلامی طریق پر معلومات کو مرتب کر سکتے ہیں، نہ زندگی کے معاملات کو مسلمان کی نظر سے دیکھ سکتے ہیں۔
ہمارا راستہ متاخرین اور متقدمین دونوں سے الگ ہے۔ ہمیں ایک طرف روح قرآنی کو ٹھیک ٹھیک اپنے اندر جذب کرنا اور اپنی قوت فکر و نظر کو اصول اسلامی سے پوری طرح متحد کرنا ہے۔
دوسری طرف علم کی ان ترقیات اور احوال کے ان تغیرات کا پورا پورا جائزہ لینا ہے جو گذشتہ سات آٹھ سو برس کی مدت میں ہوئی اور تیسری طرف صحیح اسلامی طریق پر افکار و معلومات کو مرتب اور قوانینِ حیات کو مدون کرنا ہے تاکہ اسلام پھر سے بالفعل ایک Dynamic force بن جائے اور دنیا میں مقتدی اور امام بن کر رہے۔
یہ ایک Herceulean task ہے۔ اول تو ہم اس کو اس طرح شروع کر رہے ہیں کہ ہم سے پہلے کوئی اس کے نشاناتِ راہ چھوڑ کر نہیں گیا۔ ہمیں خود ہی اپنی منزل مقصود کو پیش نظر رکھ کر راستہ بنانا اور اس پر چلنا ہے۔ دوسرے یہ اتنا بڑا کام ہے کہ میری اور آپ جیسے سینکڑوں آدمیوں کی پوری پوری زندگیاں بھی اس کے لیے کافی نہیں ہیں۔ اگر ہم یہ امید کریں کہ ہماری زندگی ہی میں اس کے پورے نتائج سامنے آ جائیں گے تو یہ غلط امید ہو گی۔یہ کھجور کا درخت لگانا ہے۔ جو اس کو بوتا ہے، وہ اس کے پھل نہیں توڑ سکتا۔ ہم اس درخت کو لگائیں گے اور اپنے خون جگر سے اس کو سینچ کر چلے جائیں گے۔ ہمارے بعد وہ دوسری نسل آئے گی اور شاید وہ بھی اس کے پھلوں سے پوری طرح لذت آشنا نہ ہو سکے گی۔ کم از کم دو تین پشتیں اس کے پورے نتائج ظاہر ہونے کے لیے درکار ہیں۔ لہٰذا ہمیں نتائج کے لیے بے صبر نہ ہونا چاہیے۔
ہمارا کام یہ ہے کہ عمارت کا نقشہ ٹھیک ٹھیک (جیسا ٹھیک کہ ہم بنا سکتے ہیں)بنا دیں اور اس کی بنیادیں اٹھا کر نئی آنے والی نسل کو تعمیر کا کام جاری رکھنے کے لیے تیار کر دیں۔ اس سے زیادہ غالباً ہم کچھ نہ کر سکیں گے۔‘‘
مولانا مودودی کا خط بنام سید نذیر نیازی تحریر ہذا کے آخر پر ضمیمہ کے طور پر شامل کیا جا رہا ہے۔ یہ خط مورخہ مورخہ ۲۶ جولائی ۱۹۳۷ء کو لکھا گیا۔ اس کی آخری سطور درج ذیل ہیں:
’’علامہ کے ساتھ عمرانیات اسلامی کی تشکیل جدید میں حصہ لینا میرے لیے موجب سعادت ہے۔ میں ہر ممکن خدمت کے لیے حاضر ہوں۔ مگر اس سلسلے میں کسی مالی معاوضہ کی مجھے ضرورت نہیں۔‘‘
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مولانا کو اس کام سے دلچسپی نہیں تھی، مولانا کے بعد کے کام سے مصنف کی بات کی تصدیق نہیں، تردید ہوتی ہے۔ خاص طورپر رسائل و مسائل کو دیکھ کر ماننا پڑے گا کہ مولانا فقہی اپچ رکھتے تھے۔ پھر ان کی کتاب حقوق الزوجین، عائلی قوانین پر تدوین جدید کی جانب بڑی اہم چیز ہے۔ البتہ یہ بات میں تسلیم کرتا ہوں کہ فقہ کی تدوین جدید کا کام مولانا کی اپنی ترجیحات میں اولیت نہیں رکھتا تھا، لیکن اس بات سے بھی انکار کسی کے لیے بھی ممکن نہیں کہ مولانا جس کام کا بیڑہ اٹھا لیں، اسے پورا کر کے دم لیتے تھے۔ ان میں ہر کام کی صلاحیت موجود تھی۔ فقہ کی تدوین کے لیے اقبال کی رہنمائی اور شرکت سے اگر یہ کام شروع ہو جاتا تو لازمی طور پر تکمیل کو پہنچتا۔ علامہ اقبال کی وفات کی وجہ سے کام کی ابتدا ہی نہ ہو سکی تو پھر اس کا الزام مولانا پر تو نہیں آ سکتا۔
یہ کہنا کہ مولانا اقبال کی بیمار پرسی کے لیے آئے اور نہ ہی شریکِ جنازہ ہوئے، یہاں تک لکھا گیا کہ انہوں نے تعزیت کرنا تک گوارا نہ کیا، بیمار پرسی اور جنازے میں شرکت سے گریز کی بات کرنے والوں کو احساس نہیں کہ مولانا حیدرآباد سے اجڑ کر ایک نئی جگہ پر اقبال کے دیے ہوئے تیاری کے مرحلے میں پھنسے ہوئے تھے جس سے فارغ ہو کر علامہ کے حضور حاضری کا مکمل پروگرام رکھتے تھے۔ جسے کبھی نقل مکانی کا تجربہ ہو، وہ ایسی بات نہیں کہہ سکتا۔ باقی رہی تعزیت نہ کرنے کی بات تو اس کے لیے مولانا کا سید نذیر نیازی کے نام مفصل خط کئی جگہوں پر چھپ چکا ہے۔ ہم اسے اس مضمون کے آخر پر بطور ضمیمہ شامل کر رہے ہیں۔
مجید نظامی نے مولانا پر قیام پاکستان کی مخالفت کی پرانی فرد جرم کاحوالہ دے کر سیاستِ وطن کو ان کے بس سے نکالنے کی بات فرمائی ہے۔ مجید نظامی کا مشورہ ایسا ہی ہے جیسا کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ جناب افتخار حسین ممڈوٹ کا تھا۔ اگست ۱۹۴۷ء کے آخر پر مولانا مودودی دارالاسلام پٹھانکوٹ سے ہجرت کر کے لاہور پہنچے تھے۔ گرداسپور کی صورت حال کو قریب سے دیکھ کر آئے تھے۔ سخت ہیجان کا شکار تھے۔ ایک دو روز بعد ممڈوٹ صاحب سے ملے۔ ان سے کہا کہ :
’’صرف ایک بٹالین فوج کو حرکت دے کر مشرقی پنجاب سے کشمیر جانے والا راستہ بند کیا جا سکتا ہے۔‘‘
اقتدار کے نشے سے سرشار وزیر اعلیٰ کا جواب تھا:
’’مولوی صاحب، آپ اپنا کام کیجیے اور ہمیں اپنا کام کرنے دیجیے۔‘‘ (ترجمان القرآن اشاعت خاص مئی ۲۰۰۴ء ، مضمون ہارون الرشید صفحہ نمبر ۱۳۰)
اسی قسم کا مشورہ مولانا مودودی کو ایوب خان نے بھی دیا۔ مصیبت یہ ہے کہ ہر بوالہوس، حسن پرستی شعار کر لیتا ہے اور ہر دوسرے کو اس سے باز رکھنے پر اصرار کرتا ہے۔ بہر حال مجید نظامی صاحب کی جانب سے قیام پاکستان کی مخالفت کی پرانی فرد پر تو ہم فی الحال تفصیل سے کچھ کہنے کے بجائے صرف مولانا کی اس زمانے کی تحریروں سے ایک دو اقتباس درج کریں گے:
’’مسلمان ہونے کی حیثیت سے میری نگاہ میں اس سوال کی کوئی اہمیت نہیں کہ ہندوستان ایک ملک رہے یا دس ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے۔ تمام روئے زمین (فی الحقیقت) ایک ملک ہے۔ انسان نے اس کو ہزاروں حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ یہ اب تک کی تقسیم اگر جائز تھی تو آئندہ مزید تقسیم ہو جائے گی تو کیا بگڑ جائے گا۔ اس بت کے ٹوٹنے پرتڑپے وہ جو اسے معبود سمجھتا ہے۔ مجھے اگر یہاں ایک مربع میل رقبہ بھی ایسا مل جائے جس میں انسان پر انسان کے سوا کسی کی حاکمیت نہ ہو تو میں اس کے ایک ذرہِ خاک کو تمام ہندوستان سے زیادہ قیمتی سمجھوں گا۔‘‘ (ترجمان القرآن جنوری ۱۹۴۰ء)
اس کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ تقسیم ہند کے لیے مسلم لیگ کی قرار داد، لاہور میں ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کو منظور ہوئی۔ اس سے بھی دو سال پہلے مولانا مودودی نے تقسیم کے لیے جو فارمولا پیش کیا ، اس کی پوری تفصیل یہاں درج کرنے کی ضرورت نہیں۔ بہت سے غیر متعصب مسلم لیگی مصنفین نے اپنی تحریروں میں اس کا حوالہ دیا ہے۔ یہاں ان تجاویز کا کچھ حصہ درج کیا جاتا ہے۔
’’جن جن علاقوں میں جس قوم کی اکثریت ہے، وہاں ان کی آزاد ریاستیں قائم کر دی جائیں اور یہ آزاد ریاستیں مل کر ایک کینفیڈریشن بنا لیں۔ اگر یہ تجویز بھی قابل قبول نہ سمجھی جائے تو ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کر لیا جائے جو مسلم انڈیا اور ہندو انڈیا پر مشتمل ہو اور باہم اتفاق کے ساتھ ایک مدت مقرر میں امن اور صلح صفائی کے ساتھ ہندو مسلم انڈیا سے ہندو انڈیا منتقل ہو جائیں اور ہندو انڈیا سے مسلمان مسلم انڈیا میں منتقل ہو جائیں اور دونوں طرف انہیں اپنی جائیدادیں بیچنے اور تبادلہ کرنے کے پورے مواقع بہم پہنچائے جائیں۔‘‘ (ترجمان القرآن اکتوبر تا دسمبر ۱۹۳۸ء)
مسئلہ قومیت پر مولا نا مودودی کی تحریریں اتنی جان دار اور موثر تھیں کہ پختہ کانگرسی ذہن بھی ہل جاتے تھے۔ ایک مثال محض حوالے کے لیے درج کی جاتی ہے، اس کی بے شمار مثالیں ہیں۔ مولانا محمد چراغ اپنے انٹرویو میں اس کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’ایک بار جواہر لال نہرو گوجرانوالہ بڑے ریلوے اسٹیشن پر تقریر کے لیے آئے۔ میں اور میرے دوست مولانا محمد اسماعیل سلفی (ہم دونوں اس وقت کانگریسی تھے) تقریر سننے جا رہے تھے۔ مولانا مودودی کی تحریروں کے تذکرے پر مولانا اسماعیل صاحب فرمانے لگے ’’مودودی نے کانگریس سے ہمارا وضو تو توڑ دیا۔‘‘ (ترجمان القرآن اشاعت خاص مئی ۲۰۰۴ء صفحہ نمبر ۷۱)
دو قومی نظریہ پر مولانا مودودی کی تحریروں سے متاثرین میں خان آف قلات کے علاوہ کئی دیگر بلوچ رہنما بھی شامل تھے۔ نوابزادہ جہانگیر شاہ جوگیزئی نے اپنے مضمون ’’حضرت مولانا مودودی‘‘ میں لکھا:
’’پاکستان کی تحریک شروع ہوئی تو دو قومی نظریہ ایک نعرہ بن گیا، مگر اس کی علمی و عقلی توجیہات کسی کے پیش نظر نہ تھیں۔ مسلم لیگی قیادت بھی محض جذباتی نعروں میں بہے چلے جا رہی تھی۔ میرے والد محترم نواب محمد خان جوگیزئی مرحوم بلوچستان سے پہلی دستوریہ ہند کے واحدرکن تھے، جن کے ووٹ سے بلوچستان، پاکستان میں شامل ہوا۔ میں نے پاکستان کے حق میں انہیں جس قدر ہموار کیا اور جن جن دلائل سے کام لیا، علم و عقل کاسارا سلحہ مولانا مودودی کی کتب سیاسی کش مکش سے لایا تھا۔ اسی طرح مولانا کی کتاب مسئلہ قومیت نے بھی وہ کام کیا جو ایک تحریک کر سکتی تھی۔ ‘‘ (ترجمان القرآن اشاعت خاص اکتوبر ۲۰۰۳ء صفحہ نمبر ۲۴۲ بحوالہ ہفت روزہ چٹان لاہور ۱۳۔اکتوبر ۱۹۸۰ء صفحہ ۳۲)
اس کے علاوہ حیاتِ سدید میں مسئلہ قومیت اور مولانا مودودی کے دیگر مضامین کی دارالاسلام اور دیگر مسلم لیگی حلقوں کی جانب سے وسیع اشاعت اور تقسیم، ان مضامین کے موثر ہونے کا ثبوت ہے۔ اس کا کریڈٹ مولانا مودودی کو مجید نظامی کے مشورے کی صورت ہی میں ملنا تھا تو مولانا نے مشورہ پر کوئی تیوری نہیں چڑھائی۔ وجہ یہ ہے کہ مولانا اس طرح کا مزاج ہی نہیں رکھتے تھے، لیکن بات جب مشورہ سے بڑھ کر ایک کتاب کے پیش لفظ کی صورت میں آ جائے تو اس کا نوٹس لینا ضروری ہو جاتا ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود اگر جناب مجید نظامی یہی کہیں کہ مولانا نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی تو اس پرانی بحث پر مزید صفحے سیاہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ جناب نظامی کے نقطہ نظر کو مان لیا جائے تو قیام پاکستان سے اختلاف کرنے والوں پر پاکستانی سیاست میں داخلہ، شروع سے ہی ممنوع قرار دے دینا چاہیے تھا۔ ایسے لوگوں کو مملکت میں دوسرے درجے کے شہری بن کر رکھا جانا لازم تھا۔ مسلم لیگ کے بس میں ہوتا تو قرارداد مقاصد اور دستور پاکستان میں ایسے لوگوں کے لیے سیاست پاکستان شجر ممنوعہ قرار دے دی جاتی۔ سیاستِ پاکستان فوجی اور سول بیوروکریسی اور مسلم لیگ کے کھوٹے سکوں کے لیے چوپٹ رہتی۔ 
مسلم لیگ کیا ہے، قائد کا فرمان تو واضح ہے مگر مسلم لیگ کی تو پوری تاریخ ناقابل فہم ہے۔ ایک واضح منزل رکھنے کے بعد بھی اس کا گروپوں کی شکل پر اصرار، جمہوریت کی خوبی کے طور پر تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ اسے جمہوری ادا تو اس صورت میں کہہ سکتے ہیں جب یہ ایک پلیٹ فارم پر رہے۔ مسلم لیگ کے نام کو اتنا تقدس حاصل رہا کہ ہر ایک نے اسے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ دوسرے انداز میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگ ایسی ماں ہے جس کی کثیر العیالی کی انتہا یہ ہے کہ سرخ پوشوں، کمیونسٹوں، خدائی خدمت گزاروں، احرار، جماعت اسلامی اور کانگریس کے سوا پاکستان کی تمام جماعتوں نے مسلم لیگ کی کوکھ سے ہی سے جنم لیا۔ مسلم لیگ کا کمال ولادت یہ ہے کہ قرارِ حمل کے بعد بعض اوقات، ولادت فوراً ہی ہو جاتی ہے۔ ایسے بھی ہوا کہ جو کل تک قائد کو گالیاں دیتے تھے، وہ مسلم لیگ کی نظر عنایت سے مزار قائد پر فاتحہ پڑھنے پہنچ گئے۔ ذکر کو بار محسوس نہ کیا جائے تو جناب رفیق تاڑر کی بات اس لیے کروں گا کہ وہ ہماری بار کے ممبر رہے، سارا دن بار میں بیٹھ کر قائد علیہ الرحمہ کو گالیاں دینے کے سوا ان کا کوئی شغل نہیں تھا، لیکن ان کی عمر بھر کے دشنام جب لیگیائے گئے تو وہ مسلم لیگ کے کھاتے سے صدر مملکت ہو گئے۔ 
ہمارے ضلع کے مسلم لیگ کے سب سے بڑے مامے، ایوب خان کی مسلم لیگ میں تھے۔ مادر ملت نے ایوب کے مقابلے پر صدارتی الیکشن ہارا تو جلوس کی قیادت کر رہے تھے۔ اس جلوس میں کتیا کے گلے میں مادر ملت کی تصویر لٹکا کر اسے جوتے مارتے ہوئے پوچھا جاتا تھا کہ ’’پھر الیکشن لڑو گی؟‘‘ پاکستانی سیاست تو ایسے ہی لوگوں کے بس کی ہے۔ 
ہم اوپر ذکر کر آئے ہیں کہ سید شریف الدین پیرزادہ مادر ملت کی موت کو غیر طبعی اور قتل قرار دیتے ہیں، مگر ہمیشہ مقتدر حلقوں کے مشیر کی اعلیٰ ترین منصب پررہنے کے باوجود رپورٹ ابتدائی (ایف آئی آر) بھی درج کرانے کی جرات نہیں کر سکے۔ ایوب خان اور سید مشرف کی رفاقت بلکہ چاکری کرنے والے مسلم لیگی قرار پائیں تو پھر کوئی بھی غیر مسلم لیگی نہیں ہو سکتا۔ ملک غلام محمد، ایوب اور اسکندر مرزا کی سازشوں سے ادھر ایک کابینہ ٹوٹ کر نئی بنتی تو پرانی کابینہ کے اکثر وزرا نئی کابینہ میں بدستور موجود رہے۔ ایسا بھی ہوا کہ اسمبلی گھر بھیج دی گئی مگر وزیر اعظم اسی طرح اپنے منصب پر قائم رہے۔ سادہ دل لوگوں کو گمراہ کرنے کی انتہا یہ ہے کہ مولوی تمیزالدین کیس میں ایک ایسا شخص بھی مسؤل علیہ تھا جو ۱۹۵۶ء کے دستورکے خالق اور ایوب خان کے خلاف تحریکِ جمہوریت میں سرخیل لیڈر رہا۔ ۱۹۶۵ء کی جنگ کے بعد، اعلان تاشقند کے نتیجہ میں ہونے والے رد عمل پر نیشنل کانفرنس اسی لیڈر کے گھر پر منعقد ہوئی۔ 
بعد ازاں کے مسلم لیگیوں نے کیا کچھ کیا؟ ملکی خزانہ خالی کر دیا اور اپنی تجوریاں بھریں۔ ملک غریب اور رؤسا امیر سے امیر ہوتے گئے۔سید المشرفین کے دور میں تو ’’پاکستان فار سیل‘‘ کے اشتہار عام ہوئے۔ شہریوں کے جسم و جاں، ماؤں بہنوں اور بیٹیوں تک کو بیچ ڈالا گیا۔ کہاں تک بیان کیا جائے! اگر سیاستِ پاکستان کو بس میں لانے کے لیے اس طرح کے لچھن اختیار کرنے لازم ہیں تو واقعتا مولانا مودودی کے لیے مجید نظامی کا مشورہ صحیح تھا۔ یہی مشورہ مولانا مودودی کو فیلڈ مارشل ایوب خان نے بھی لاہور کے گورنر ہاؤس میں ملاقات کے وقت دیاتھا۔ ایوب خان کے الفاظ یہ تھے کہ:
’’مولانا گندی سیاست میں حصہ لینے سے آپ کے اجلے دامن پر داغ لگ جاتے ہیں۔ آپ دین کی خدمت کریں، ہم ہر طرح تعاون کریں گے۔ گندی سیاست سے اپنے آپ کو بچائیں‘‘۔ 
مولانا نے بر جستہ جواب دیا تھا کہ :
’’سیاست کی گندگی کو صاف کرتے کرتے اگر میرا دامن گل بھی جائے تو یہ مہنگا سودا نہیں۔ تطہیر و صفائی کا یہ کام، بہرصورت جاری رکھوں گا۔‘‘

قرب اقبال کے ’’قصے‘‘ اور تحریک پاکستان کی ’’مخالفت‘‘

معذرت کے ساتھ ہم ایک بار پھر پیش لفظ کی جانب لوٹتے ہیں۔ اس میں مجید نظامی نے کہا کہ اقبال اور مولانامودودی کے قرب کے قصے گھڑے گئے۔ مولانا مودودی نے کبھی اقبال سے قرب کا دعویٰ نہیں کیا۔ وہ اقبال کے مداح تھے۔ انہوں نے اقبال سے صرف دو ملاقاتوں کی بات کی ہے۔ ان ملاقاتوں کو انہوں نے ابتدائی نوعیت کی بتایا ہے۔ لاہور آمد کے لیے جنابِ نیاز علی خان نے اصرار کیا تو وہ ان کے ہمراہ اقبال سے ملے۔ اس سے ان کو اندازہ ہوا کہ اقبال ان کی تحریروں سے واقف ہیں۔ یقینی طور پر اس دور کے مولانا کے تجزیے معروف و عام تھے۔ خاص طور پر مسئلہ قومیت پر مولانا کی تحریریں مسلم لیگی حلقوں کا فکری اور علمی اسلحہ ثابت ہوا۔ یہاں ہم نوائے وقت ہی کے دیرینہ اور مستقل کالم نویس جناب میم شین ( محمدشفیع ) کے الفاظ حیات سدید ہی سے نقل کریں گے۔ کتاب کے صفحہ نمبر ۱۸۰ پر ان کے حوالے سے تحریر ہے کہ:
’’حقیقت یہ ہے کہ پورے ہندوستان میں نظریہ وطنی قومیت کے خلاف قلمی جہاد کرنے میں مولانا مودودی سے زیادہ کسی اور شخص نے علامہ اقبال کا ساتھ نہیں دیا۔‘‘
اب رہا یہ سوال کہ مولانا اور اقبال کے قرب کے قصے گڑھے گئے، اس بارے میں مولانا نے جو تفصیلات بیان کی ہیں، وہ اس قدر ہیں۔ ۳۰۔ مارچ ۱۹۵۱ء کو ایک خط میں انہوں نے تحریر کیا:
’’ ڈاکٹر اقبال مرحوم سے میرے تعلقات کوئی بہت وسیع تو نہ تھے، البتہ قلبی حیثیت سے گہرے ضرور تھے۔ میں جب حیدرآباد سے رسالہ ترجمان القرآن نکالا کرتا تھا، اس زمانے میں مجھے خبر تک نہ تھی کہ ڈاکٹر صاحب مجھ سے واقف ہیں، مگر بعد میں معلوم ہو کہ وہ برابر اس رسالہ کو منگوا کر میرے مضامین دلچسپی کے ساتھ پڑھوا کر سنتے رہتے تھے۔ مجھے پہلی مرتبہ ان کی دلچسپی کا علم اس وقت ہو جب ۱۹۳۷ء کے آغاز میں ان کا عنایت نامہ مجھے ملا جس میں انہوں نے اس خواہش کا اظہار فرمایا تھا کہ میں حیدرآباد چھوڑ کر پنجاب چلا آؤں اور لاہور میں رہ کر فقہ اسلامی کی تدوین جدید میں ان کے ساتھ تعاون کروں۔ اس کے بعد کچھ مراسلت شروع ہوئی اور ۳۷ء کے آخر میں لاہور آکر دو تین مرتبہ ان سے ملا۔ ان ملاقاتوں میں ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میری اور ان کی بہت پرانی واقفیت ہے اور ہم ایک دوسرے کے دل سے بہت قریب ہیں۔ یہاں میرے اور ان کے درمیان یہ بات طے ہو گئی کہ میں پنجاب منتقل ہو جاؤں اور پٹھان کوٹ کے قریب اس وقف کی عمارات میں جس کا نام ہم نے بالاتفاق ’’دارالاسلام ‘‘تجویز کیا تھا، ایک ادارہ قائم کروں جہاں دینی تحقیقات اور تربیت کا کام کیا جائے۔ انہوں نے مجھ سے وعدہ فرمایا کہ میرے وہاں منتقل ہو جانے کے بعد وہ بھی ہر سال چند مہینے وہاں آکر قیام فرمایا کریں گے۔ چنانچہ اس قرار داد کے مطابق میں نے حیدرآباد جا کر ہجرت کی تیاریاں شروع کر دیں اور مارچ ۳۸ء میں نقل مقام کر کے دارالاسلام پہنچ گیا مگر افسوس کہ مرحوم کی زندگی کے وہ آخری ایام تھے۔ دوسرے ہی مہینے ان کا انتقال ہو گیا اور میں اس کام کے لئے تنہا رہ گیا جسے ان کے ساتھ مل کر کرنا چاہتا تھا۔
یہ میرے اور ان کے تعلقات کی مختصر داستان ہے۔ رحمۃ اللہ علیہ۔‘‘ (اقبال اور مودودی صفحہ۷۵، ۷۶ مرتبہ ابو راشد فاروقی مطبوعہ مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور سال اشاعت ۱۹۸۰ء )
اقبال اور مولانا مودودی کے تعلق کی جملہ حدود مولانا مودودی نے بیان کر دی ہیں۔ ان پر کچھ کہا جائے تو جناب مجید نظامی حق بجانب ہوں گے، مگر غیر متعین انداز میں وہ یہ کہہ دیں کہ اقبال اور مودودی کے قرب کے قصے گڑھے گئے، اور کس نے گڑھے، کیسے اور کہاں کہاں اور کیوں؟ اس کی وہ کوئی وضاحت نہ کریں اور تان اس بات پر ٹوٹے کہ وہ میدان سیاست میں کیوں بر سر عمل ہوئے، یہ طرز عمل عجیب ہے۔ 
اپنی بات میں زور پیدا کرنے کے لیے جناب مجید نظامی ارشاد فرماتے ہیں کہ مولا نا مودودی، قیام پاکستان کے حق میں نہ تھے۔ ان کا پیش لفظ میں یہ بھی کہنا کے اس کے نا قابل تردید ثبوت موجود ہیں۔ کچھ اس کتاب میں شامل کیے گئے ہیں۔ پوری کتاب میں زبانی روایات کے سوا کوئی بات اس پہلو سے شامل نہیں، جب کہ مولانا کی تحریریں بڑی واضح ہیں۔ ہم اوپر ان کا حوالہ دے چکے ہیں۔ ہم نے ابتدائی رسائل کا حوالہ دیا ہے۔ حیات سدید کے مصنف اور پیش لفاظ حوالوں کی تصدیق کر سکتے ہیں، بلکہ مجھے یقین ہے وہ ان حوالوں سے کسی طور بے خبر نہیں ہو سکتے۔ تقریب رونمائی میں مجید نظامی نے خود یہ فرمایا کہ:
’’جب میں طالب علم تھا تو ترجمان القرآن کا باقاعدہ قاری تھا‘‘۔ 
یہی وجہ ہے کہ کتاب کی تقریب رونمائی میں جناب مجید نظامی نے جو تقریر فرمائی، اس میں انہوں نے اپنے پیش لفظی جملوں کی ’’تعبیر‘‘ کرتے ہوئے ذرا مختلف صورت اختیار کی۔ ان کی تقریر کی نوائے وقتی رپورٹ کے مطابق انہوں نے یہ ارشاد فرمایا:
’’الیکشن میں جماعت اسلامی کی غیر جانبد داری قیام پاکستان کی مخالفت تھی۔ ان انتخابات میں جماعت اسلامی کا یہ کہناتھا کہ ہم ان انتخابات میں غیر جانبد دار رہیں گے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ غیر جانب داری، قیام پاکستان کی مخالفت تھی، کیونکہ آپ کے اگر چند ووٹ بھی فیصلہ کن ہوتے اوروہ پاکستان کے خلاف ہوتے تو پاکستان ہرگز نہ بنتا۔‘‘ (نوائے وقت، ۱۴؍اکتوبر ۲۰۱۰ء)
غیر جانب داری کو مخالفت سمجھنا جناب مجید نظامی کی صواب دید ہے، لیکن جماعت کی غیر جانب داری ثابت تو کی جائے۔ جماعت نے اس بارے میں کوئی قرار داد منظور کی؟ کوئی بیان جاری کیا؟ مولانا مودودی کی تحریروں نے تو واضح طور پر تقسیم ہند کی حمایت کی۔ سلہٹ اور صوبہ سرحد میں ریفرنڈم کے موقع پر جماعت کے ارکان کو پاکستان کے حق میں ووٹ دینے کی واضح ہدایت جاری کی گئی۔ ۱۹۴۶ء کے انتخابات میں جماعت نے بائیکاٹ کا اعلان تو نہیں کیا۔ جماعت کے ارکان نے، انفرادی طورپر، اپنی صوابدید پر مسلم لیگی امیدواروں کی حمایت کی۔ اس امر پر دو آرا نہیں ہو سکتیں کہ قیام پاکستان سے پہلے تک جماعت، عملی سیاست میں داخل نہیں ہوئی تھی۔ جماعت کے قائد علمی اور فکری کام کرتے رہے۔ جماعت کا حجم بے حد مختصر تھا۔ عملی سیاست میں شرکت اس وقت تک اس کے بس میں نہیں تھی۔ فکری کام بھی جماعت کی سطح پر نہیں تھا۔ یہ تو محض مولانا کی صحافیانہ حیثیت سے تھا۔ اس پہلو کو سامنے رکھا جائے تو پھر کسی بحث کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس موضوع پر بار بار بحث ہوتی رہی ہے۔ یہ بحث بھی اب تو تاریخ کا حصہ ہو گئی ہے۔البتہ صحافیانہ حیثیت سے مولانا نے جو کچھ لکھا، وہ کسی مینڈیٹ کے تحت نہیں تھا۔ ان کا ذہن اور قلم آزاد تھا۔ انہوں نے کانگریس اور جمعیت علمائے ہند پر بھر پور تنقید کی۔ اس تنقید کو آج بھی کم از کم دیوبند سے وابستہ لوگ معاف نہیں کر سکتے۔ اسی طرح مولانا نے اس وقت کی مسلم لیگ پر بھی تنقید میں کوئی رو رعایت نہیں کی تھی۔ اس تنقید کو دیکھا جائے تو یہ مولانا کے انفرادی خدشات تھے۔ ان کو جماعت کے کھاتے ہیں نہیں ڈالا جاسکتا۔ جماعت کی کوئی قرارداد یا بیان ان کی تائید میں نہیں آیا۔ اس تنقید کو قلم اور فکر کی آزادی کے طور تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ اس کا جائزہ لینا مقصود ہو توحالات کے تناظر ملحوظ رکھنا پڑے گا۔ 
متحدہ وطنی قومیت کے خلاف مولانا کے فکری کام کا حوالہ دیے بغیر کوئی بات کرنا ممکن نہیں۔ بد قسمتی یہ ہوئی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے مختلف مسلم لیگی اڈیشنز حکمران چلے آرہے ہیں۔ ان سب کا ایک ایک لمحہ، قیام پاکستان سے قبل، مولا نا نے جن خدشات کا اظہار کیا تھا ان کی اپنے عملی سے متواتر تصدیق کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ان حکمرانوں کو اپنے طرز عمل کی اصلاح پر کوئی آمادہ نہیں کر سکتا۔ مولانا کی دور اندیشی کی داد دینے کے بجائے ان کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ بہر حال یہ ہر ایک کا ظرف ہے۔ کسی پر اظہار میں کوئی قدغن نہیں ۔ ہم نے بھی جو کچھ عرض کیا ہے، یہ قلم اور سوچ کی آزادی کے تحت ہی کیا ہے۔ اس آزادی کے لیے پاکستان میں جتنی طویل اور کٹھن جد و جہد کی گئی ہے، مجید نظامی اور حمید نظامی سے زیادہ کون واقف ہو گا۔ علامہ اقبال اور قائد اعظم کے وارثوں نے اس آزادی کو سلب کرنے کے لیے کیا کچھ نہ کیا، مگر کوئی ہم سے ہماری آزادی چھیننے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ ہم مجید نظامی سے بجا طور پر توقع رکھتے ہیں کہ وہ حالات کے پورے تناطر میں جو کچھ بھی کہیں گے، وہ مناسب طور پر لیا جائے گا۔ اس ملک میں مسلم لیگ کی لاٹھی لے کر چلنے والے اندھوں کے علاوہ دیدہ و بینا لوگ بھی رہتے ہیں۔ ان کے ہاں نوائے وقت کی ہمیشہ سے قدر موجود ہے اور موجود رہے گی۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ یہ ادارہ قائد اور علامہ کی متعین کردہ راہ پر گامزن چلا آرہا ہے۔ اس کے سربراہ کسی بڑے سے بڑے فرعون کو بھی خاطر میں نہیں لائے۔ کسی سے کوئی غرض نہیں رکھی۔ اقتدار کی غلام گردشوں میں نوائے وقت کے چیف کا کبھی گزر نہیں رہا مگر ان کو مسلم لیگ سے پہلی محبت اب بھی ہے۔ اس محبت پر کسی کو اعتراض نہیں ہو گا، شرط یہ ہے کہ وہ خواہ مخواہ کسی کو اپنا رقیب نہ بنائیں۔
جناب مجید نظامی کو گلہ ہے کہ ’’جماعت اسلامی آج اگر مولانا (مودودی )کو تحریک پاکستان کا رہنما اور پاکستان بنانے والوں میں تیسری شخصیت قرار دے تو یہ حقائق کو مسخ کرنے کی دانستہ کوشش ہے جس سے جماعتیوں کے سینے میں تو کچھ ٹھنڈ پڑ جاتی ہو لیکن یہ قوم کو گمراہ کرنے کی ایک لا یعنی کوشش ہے۔‘‘ گلہ کرتے ہوئے جذباتی ہو جانا کسی درجے میں جائز ہو گا مگر جناب مجید نظامی واضح تو کریں کہ جماعت اسلامی نے کب مولانا مودودی کو تحریک پاکستان کا رہنما قرار دیا ہے؟ کسی شخص نے انفرادی طور پر ایسی کوئی بات کہی ہو تو اسے جماعت کے کھاتے میں ڈالنا زیادتی ہو گی۔البتہ یہ بات واضح ہے کہ تحریک پاکستان اور پاکستان میں پہلے اور دوسرے کی درجہ بندی میں اختلاف کی گنجائش تو رکھی جاسکتی ہے۔ کوئی اگر لیاقت علی خان کو تیسری شخصیت کہے تو دولتانہ اور عبدالمنعم خان کو بھی چوتھے اور پانچوے درجے میں لکھا جائے گا، لیکن اگر کوئی مولوی تمیزالدین اور سید حسین شہید سہر وردی کو دوسرے اور تیسرے درجے میں رکھے تو اس پر اعتراض کی کتنی گنجائش ہو گی، اس کی صراحت، تحریک کارکنان پاکستان کے کار پرداز کے طور پر جناب مجید نظامی کے ذمے ہے۔
اوپر ہم نے حیات سدید میں غیر سوانحی مواد شامل کرنے پر شدید اعتراض کیا ہے۔ البتہ ہم یہ اعتراف کریں گے کہ کتاب میں دارالاسلام کے ابتدائی پروجیکٹ اور اس کی مختلف مجوزہ صورتیں روایت کی گئی ہیں، ان پر خطوط میں بڑی مفید بحث کی گئی ہے۔ الشریعہ اور اس کے قارئین کے دینی مدارس کی اصلاح کے پہلو سے ذوق وجہ سے دلچسپی کا باعث ہے۔ یہ پروجیکٹ بروئے کار تو نہ آسکے مگر یہ مباحث آج بھی دینی مدارس کی اصلاح کے حوالے سے چشم کشا ہیں۔ خاص طور پر جھنگ کی اسلامی یونیورسٹی کی اسکیم، مولانا عبدالباری، امیر الدین قدوائی کے خطوط بڑے اہم ہیں۔کتاب کا یہ حصہ اثاثی حیثیت رکھتا ہے۔

ضمیمہ اول: خط نمبر ۱، مولانا مودودیؒ بنام سید نذیر نیازیؒ 

’’۱۷۔جمادی الاول ۵۶ھ، (۲۶ جولائی ۱۹۳۷ء)
محترمی و مکرمی، السلام علیکم ورحمۃ اللہ
عنایت نامہ ملا۔ میں بہت شکر گذار ہوں کہ آپ نے بہت صفائی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار فرمایا۔ میں بھی چند باتیں اسی بے تکلفی کے ساتھ عرض کیے دیتا ہوں۔
میں نے اپنی زندگی کے لیے چند اصول، ایک خاص نصب العین کے ساتھ مقرر کر لیے ہیں اور خد اکے فضل سے میرے اندر اتنی استقامت موجود ہے کہ میں سخت سے سخت مشکلات میں بھی اپنے نصب العین سے ہٹنا اور اپنے اصولوں میں ترمیم کرنا گوارانہیں کرتا۔ اس وقت میں جن مشکلات میں مبتلا ہوں، وہ تمام تر میری اپنی عاید کی ہوئی پابندیوں کی وجہ سے ہیں، ورنہ یہ طوفانِ مصائب آج دور ہو سکتا ہے۔ میں نے اپنے اوپر جو پابندیاں عاید کی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ میں کسی سے اپنی ذات کے لیے کوئی مالی مدد نہ لوں گا۔ دوسری یہ ہے کہ قومی و مذہبی خدمت کے سلسلہ میں کوئی معاوضہ لینے کا خیال بھی نہ کروں گا اور تیسری یہ ہے کہ ایسی منفعت کے لالچ میں اپنے آپ کو گرفتار نہ ہونے دوں گا جو مجھ کو دین و ملت کے مفاد کے لیے اپنی صواب دید کے مطابق آزادانہ کام کرنے سے روکتی ہو۔ (چند پابندیاں اور بھی ہیں مگر وہ زیر بحث معاملات سے غیر متعلق ہیں)۔ اب آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ جو صورتیں آپ نے بیان فرمائی ہیں، انہیں قبول کرنا میرے لیے کس قدر مشکل ہے۔ میں اپنی ذات کے لیے سو روپے کیا معنی، ایک پیسے کی بھی مدد نہیں چاہتا۔ اپنے ذاتی مصارف کے لیے میں نے ایک تجارتی کام شروع کر رکھا ہے۔ اسی کو میں لاہور میں بھی کر سکتا ہوں۔ شاہی مسجد کی امامت میرے لیے ایک نعمت غیر مترقبہ ہے۔ اس سے بہتر موقع کام کرنے کا اور کیا ہو سکتا ہے، مگر معاوضہ لے کر امامت کرنا، میرے نزدیک ناجائز نہیں تو سخت مکروہ ضرور ہے۔ مسلمانوں میں چار سو برس تک یہ مسئلہ متفق علیہ رہا کہ نماز کی امامت اور قرآن کی تعلیم کا معاوضہ لینا جائز نہیں۔ بعد میں حالات کی خرابی نے اس کو جائز کرا دیا اور اس وقت سے یہ دونوں منصب ذلیل اور بے روح ہو گئے ہیں۔ اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتا ہوں۔ اس لیے معاوضہ لے کر امامت کرنے کا تو خیال بھی نہیں کر سکتا۔ ہاں اگر بلا معاوضہ یہ خدمت میرے سپرد کی جائے تو دل و جان سے اس کے لیے حاضر ہوں۔ رہی سیاست سے کنارہ کشی تو اس کے لیے میں قطعاً تیار نہیں ہوں۔ میں نے کسی فوری جذبے کے تحت سیاسیات کی طرف قدم نہیں بڑھایا بلکہ خوب سوچ سمجھ کر اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اب مجھے گوشہ عزلت سے نکل کر کچھ کرنا چاہیے۔ مسلمان اس وقت سخت خطرے میں مبتلا ہیں۔ جن سے صحیح رہنمائی کی امید نہ تھی، انہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ جن سے تمام تر امیدیں وابستہ تھیں، آج وہ بھی غلط رہنمائی کر رہے ہیں۔ کانگریس تحریک کے فروغ نے مسلمانوں کے کیمپ میں عام بھگدڑ بر پا کردی ہے۔ روزانہ desertion کی خبریں دھڑا دھڑ چلی آ رہی ہیں۔ جواہر لال کی امت عوام میں تیزی کے ساتھ اپنا اثر پھیلا رہی ہے۔ جھانسی کے انتخاب نے ظاہر کر دیا کہ مسلمانوں کی رائے عام کس حد تک متاثر ہو چکی ہے اور اب کانگریس اور غیر کانگریس کے درمیان کتنا تھوڑا margin رہ گیا ہے۔ مسلمان لیڈروں کے بیانات اور اسلامی جرائد کے مضامین پڑھنے سے اندازہ ہو رہا ہے کہ کس قدر کم آدمی ہیں جو اسلامی ہند کی صحیح پوزیشن کو سمجھتے ہیں اور جن کے سامنے راہ راست بالکل واضح ہے۔ ایسی حالت میں آپ غور کیجیے کہ جو چند گنے چنے آدمی ایسے باقی رہ گئے ہیں، ان میں سے بھی ایک شخص کا اپنے اوپر ملازمت کی پابندی عائد کرلینا اور وہ بھی ڈیڑھ دو سوروپے کی آمدنی کے لئے کیونکر جائز ہو سکتا ہے۔ اگر میں اس کو جائز سمجھ لوں تو مجھے لاہور جانے کی کیا ضرورت ہے! جامعہ عثمانیہ میں چار سوروپے کی جگہ مجھے اس وقت مل رہی ہے، اس کو کیوں نہ قبول کر لوں؟ میں جس غرض کے لیے لاہور کا رخ کرنا چاہتا ہوں، وہ صرف یہ ہے کہ میرے نزدیک اسلامی ہند کا فیصلہ (جو اب قریب ہی آ گیا ہے) شمال کے تینوں صوبوں کی طاقت پر منحصر ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس ’’دارالاسلام‘‘ کے قلب میں جا کر بیٹھوں اور دیکھوں کہ وہاں اسلام کی قوت کو بڑھانے اور اس سے کام لینے کی کون سے مواقع حاصل ہو سکتے ہیں۔ یہاں سے میں کوئی اندازہ نہیں کر سکتا۔ وہاں پہنچ کر مواقع تلاش کروں گا اور جو موقع بھی مجھ کو ملے گا، اس سے فائدہ اٹھاؤں گا۔ میں اس قسم کے استفادہ کے لیے اپنے دل و دماغ اور دست و پا کو بالکل آزاد رکھنا چاہتا ہوں اور کسی قیمت پر بھی ایسی کوئی پابندی قبول نہیں کر سکتا جو دین و ملت کی خدمت کے کسی موقع سے فائدہ اٹھانے میں مانع ہو۔
امید ہے کہ آپ میرے نقطہ نظر کو اچھی طرح سمجھ گئے ہوں گے۔ میں نے جن مشکلات کا اپنے پچھلے خط میں ذکر کیا تھا، ان کی تفصیل یہ ہے کہ ترجمان القرآن کا ماہوار خرچ تقریبا تین سو روپے ہے۔ پبلک میں اتنے خریدار نہیں کہ رسالہ کے مصارف ان کے چندہ سے چلائے جاسکیں۔ نظام گورنمنٹ ۲۷۵ پرچے خریدتی ہے۔ اسی کی بدولت یہ چل رہا ہے۔ اگر میں لاہور منتقل ہو جاؤں تو اغلب ہے کہ نظام گورنمنٹ کی خریداری بند ہو جائے گی۔ اس صورت میں مجھ پر اپنے ذاتی مصارف کے ساتھ پرچے کے مالی نقصان کا بار بھی پڑ جائے گا اور اس کو سنبھالنا میرے لیے تقریباً محال ہو گا۔ اس مشکل کا حل صرف یہ ہو سکتا ہے کہ پنجاب میںآپ حضرات اپنے ذرائع سے کام لے کر ترجمان القرآن کی توسیع اشاعت کے لیے کوشش فرمائیں۔ اگر مجھے یہ توقع ہو کہ پانچ سو تک خریدار ہو سکتے ہیں تو میں رسالے کی طرف سے مطمئن ہو جاؤں گا۔ میں رسالہ سے کچھ لینا نہیں چاہتا، مگر مجھ میں اتنی استطاعت بھی نہیں کہ اس کو کچھ دے سکوں۔
علامہ اقبال کے ساتھ ’’عمرانیاتِ اسلامی کی تشکیل جدید‘‘ میں حصہ لینا میرے لیے موجب سعادت ہے۔ میں ہر ممکن خدمت کے لیے حاضر ہوں۔ مگر اس سلسلے میں کسی مالی معاوضہ کی مجھے ضرورت نہیں۔
خاکسار ۔ ابوالاعلی‘‘ 
خط کی اصل کاپی سید نذیر نیازی کے کاغذات میں ہے۔

ضمیمہ نمبر ۲ : خط نمبر ۲، مولانا مودودیؒ بنام سید نذیر نیازیؒ 

’’مورخہ ۲ جمادی الاخری ۵۶ھ
محترمی و مکرمی السلام علیکم ورحمۃ اللہ
عنایت نامہ مورخہ ۲۔اگست وصول ہوا۔ جیسا کہ آپ نے تحریر فرمایا ہے، میں عزیمت اور توکل ہی سے کام لے کر ہجرت کروں گا۔ لاہور کو اپنا آئندہ مستقر بنانے کا فیصلہ کر چکا ہوں۔ محض چند عملی مشکلات ہیں جن کو حل کرنے کی تدبیر میں کچھ مدت صرف ہو گی۔ یہاں سے اپنا سامان منتقل کرنے اور اپنے مالی واجبات ادا کرنے کے لیے مجھے کافی روپے کی ضرورت ہے۔ ایک ہزار سے زیادہ کا قرض ترجمان القران پر ہے۔ اس کو ادا کرنا ہے۔ پھر اپنا سامان منتقل کرنے اور اپنے تجارتی کاروبار کو یہاں ختم کر کے لاہور میں از سر نو جاری کرنے کے لیے بھی تقریباً ایک ہزار روپے کی ضرورت ہے۔ اس غرض کے لیے میں اپنی زمین اور اپنا ناقابل انتقال اناث البیت فروخت کرنا چاہتا ہوں۔ امید ہے کہ تین چار مہینہ میں یہ سب مراحل طے ہو جائیں گے۔ اس دوران میں ایک مرتبہ لاہور حاضر ہو کر دیکھ لوں گا کہ مجھے وہاں قیام کرنے کے لیے کیا بند و بست کرنا ہے۔ آئندہ رجب کے آخر میں سفر کا ارادہ ہے۔ چار پانچ روز دھلی ٹھہر کر غالباً ختم رجب یا آخر شعبان میں لاہور پہنچوں گا۔ اس موقع پر ان شاء اللہ یہ بھی طے ہو جائے گا کہ قادیانیت کے متعلق مجھے کیا لکھنا چاہیے۔ میں نے اب تک در حقیقت اس موضوع پر زیادہ مطالعہ بھی نہیں کیا ہے۔ جو کچھ معلومات حاصل ہوئی ہیں، ان کا ماخذ محض برنی صاحب کی کتاب ہے مگر کوئی تحقیقی چیز لکھنے کے لیے وہ کافی نہیں ہے۔ لاہور میں جو حضرات قادیانیت پر وسیع معلومات رکھتے ہوں، ان سے مشورہ کر کے مواد فراہم کر لوں گا۔
خاکسار۔ ابوالاعلیٰ‘‘

ضمیمہ نمبر ۳: خط سید نذیر نیازیؒ بنام مولانا مودودیؒ 

’’۱۸۔اپریل ۳۸ء
مکرمی۔ السلام علیکم۔
امید ہے آپ بفضلہ تعالی خیر و عافیت سے ہوں گے۔ کچھ دن ہوئے سید محمد شاہ صاحب سے معلوم ہوا تھا کہ آپ جمال پور تشریف لے آئے ہیں اور عنقریب لاہور بھی آئیں گے۔ اس وقت سے برابر آپ کا انتظار ہے۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ اگر آپ کا ارادہ فی الواقعہ لاہور آنے کا ہے تو جلدی تشریف لائیے تاکہ ملاقات ہو جائے۔ اپنی طرف سے یہ گزارش ہے کہ ڈاکٹر صاحب قبلہ کی حالت نہایت اندیش ناک ہے۔ ایک لمحے کا بھی بھروسہ نہیں مگر اس بات کو صرف اپنی ذات تک محدود رکھیے گا۔ کسی سے ذکر نہ کیجیے گا۔ لہٰذا بہتر یہی ہو گا کہ آپ جس قدر ہو سکے، جلدی تشریف لے آئیں۔ ڈاکٹر صاحب کی صحت کے لیے دعا فرمائیے۔ 
آپ کا مخلص۔ نیازی‘‘

ضمیمہ نمبر ۴: پروجیکٹ دارالاسلام، شائع کردہ غلام احمد پرویز

بورڈ آف ٹرسٹیز
(۱) میاں نظام الدین صاحب رئیس اعظم لاہور
(۲) خاں صاحب شیخ محمد نصیب ، بیرسٹر گوداسپور
(۳) خاں صاحب چوہدری نیاز علی خاں جمال پور
(۴) خاں صاحب چوہدری رحمت علی صاحب ڈپٹی کلکٹر انہار
(۵) خاں بہادر مولوی فتح الدین صاحب ایم بی ای، ڈپٹی ڈائریکٹر زراعت
(۶) مولانا محمد اسد صاحب (لیو پولڈ۔ نومسلم)
(۷) مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، مدیر ترجمان القرآن
ٹرسٹ کے خارجی انتظامات میں عمارات، باغ، مزروعہ اراضی موجود ہے۔ سکونتی مکانات میں کئی متاہل حضرات کی رہائش کی جگہ ہے۔ یہ کوارٹرز نہایت عمدہ تیار ہوئے ہیں۔ دارالاقامہ میں کم و بیش پچیس طلبہ کی رہائش کا سامان موجود ہے۔ دارالمطالعہ ایک وسیع ہال کی شکل میں ہے۔ لائبریری بھی ابتدائی ضرورت کے لیے کافی ہے۔ تجویز یہ ہے کہ ایک یا دو ایسے ’’مرد مسلمان‘‘ یہاں مستقل طور پر قیام پذیر ہوں جو قلب و دماغ اور علم و عمل کے اعتبار سے صحیح معنوں میں مسلمان ہوں۔ ایک طرف مشرقی اور مغربی علوم میں ماہر ہوں اور دوسری طرف ان کی عملی زندگی ایک مرد مجاہد کی زندگی ہو۔ وہ دارالاسلام ان کی ضروریات کا کفیل ہو گا۔
(۱) اس کے بعد ایسے طلبہ کو یہاں رہنے کے کیے منتخب کیا جائے جو یا توانگریزی تعلیم میں بہرہ وافر رکھتے ہوں (مثلاً گریجوایٹ ہوں) اور یا دینی مدارس مثل دیو بند وغیرہ کے فارغ التحصیل ہوں۔ ان طلبہ کو جانچ لیا جائے کہ وہ ذکاوت و ذہانت سنجیدگی و متانت اور حسن اخلاق کے اعتبار سے اس قابل ہیں کہ انہیں دارالاسلام میں رکھا جائے۔ عربی دان طلبہ علوم مغرب کا سبق پڑھیں۔ انگریزی خواں طلبہ مشرقی علوم کی تحصیل کریں اور اس کے ساتھ دونوں گروہ ،ایک یا ایک سے زیادہ معلم سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک کے خالص دینِ فطرت کا درس لیں اور دورِ حاضر کے انقلابات سے روشناس ہوں۔ اندازہ ہے کہ اس میں کم و بیش دو تین برس کا عرصہ صرف ہو گا۔ اس دوران طلبا کے خورد و نوش کی کفالت بھی دارالاسلام کے ذمہ ہو گی۔
(۲) دینی علوم کے ساتھ ساتھ دارالاسلام میں دیال باغ آگرہ کے نمونہ پر ایک صنعتی ادارہ کھول دیا جائے جس میں مختلف دستکاریوں کی تعلیم کا انتظام ہو تاکہ جب یہ طالب علم دارالاسلام سے مبلغ بن کر نکلیں تو دنیا میں آزادی سے رزقِ حلال کما سکیں۔ ان کا مقصد زندگی تبلیغ ہو گا۔ ایسی تبلیغ نہیں جو آج کل کے پیشہ ور مبلغین کے ذریعے ننگ اسلام بن رہی ہے بلکہ اس قسم کی تبلیغ جس کی درخشندہ مثالیں ہمیں عہد صحابہ میں ملتی ہیں۔ دارالاسلام سے نکل کر یہ طالب علم مختلف مقامات پر اسلامی مراکز قائم کریں گے اور قوم میں صحیح اسلامی اجتماعیت اور مرکزیت کی روح پھونکیں۔ شروع شروع میں جامع مسجد اور بعد میں عام مساجد کے ائمہ بھی اسی زمرہ سے مقرر کیے جائیں گے۔ یہ طالب علم جہاں بھی رہیں، اپنا تعلق مستقل طور پر مرکز دارالاسلام سے وابستہ رکھیں گے۔
(۳) موسم گرما میں کالجوں میں تعطیلات ہوتی ہیں۔ اس زمانہ میں طالب علم بالعموم پر سکون مقامات کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ دارالاسلام دامن کوہسار (سلسلہ ہمالیہ) میں ایک بہت بڑی نہر کے کنارے واقع ہے۔ شور و شغب سے دور پر فضا ماحول اور اس کے ساتھ ہی عہد حاضرہ کی سہولتوں مثلاً ریل، موٹر، بجلی اور ڈاکخانہ سے بہرہ یاب، بشرطیکہ وہ احکام شریعت کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیے تیار ہوں۔ اس دوران میں یہ بھی انتظام کیا جائے کہ دارالاسلام میں مختلف اکابر ملت کے لیکچروں کاسلسلہ شروع ہو اور یوں دو تین ماہ کے عرصہ میں متعدد لیکیچر مختلف اسلامی موضوعات پر ہو جایا کریں۔ ان خطبات کے لیے ہندوستان اوربیرون ہند سے ممتاز زعمائے امت کو دعوت دی جائے۔
(۴) جو طلبہ مستقل دارالاسلام میں قیام پذیر ہوں انہیں تحریر و تقریر کی بھی مشق کرائی جائے۔ دوران طالب علمی میں ان سے مختلف مضامین لکھائے جائیں اور مختلف تقاریب پر اجتماعات منعقد کر کے ان سے تقاریر کرائی جائیں۔
یہ مختصراً دارالاسلام کے مقاصد کا خاکہاگر اس میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے کامیابی ہو جائے تو پھر یہ چیز بھی پیش نظر ہے کہ اس میں پانچ سال کے بچوں کو داخل کیا جائے اور اخیر تک ان کی تعلیم و تربیت اسی اسلامی ماحول میں ہو۔ اس خاکہ کو عملی نظام بنانے کے لیے ہم ہندوستان کے تمام دردمند مسلمانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ حسب ذیل طریقوں سے ہماری معاونت فرمائیں۔
(۱)سکیم میں جہاں جہاں ترمیم و تنسیخ کی ضرورت محسوس کریں، اس سے ہمیں مطلع فرمائیں۔
(۲) اگرآپ اس اسکیم کے اصول سے متفق ہوں تو پھر فرمائیے کہ آپ کس حد تک اس میں عملاً شریک ہو سکتے ہیں۔ کم سے کم ادارہ کی رکنیت یا معاونت قبول فرمائیں جس کا چندہ سالانہ صرف دو روپیہ اور پانچ روپیہ علی الترتیب ہوگا۔
(۳) جن صفات کے معلمین کا ذکر کیا جا چکا ہے، ان کی تلاش میں ہماری رہنمائی فرمائیے یعنی اگر آپ کی نگاہ میں ایسے حضرات موجود ہوں تو ہمیں ان سے مطلع فرمایا جائے اور انہیں اس سکیم سے متعارف کرایاجائے۔ ہم چاہتے تو یہ ہیں کہ کوئی ایک ہستی ایسی مل جائے جو ان تمام صفات کی جامع ہو (یعنی بیک وقت مشرق و مغرب کے علوم پردستگاہ رکھے اور اس کی زندگی عملی لحاظ سے صحیح اسلامی زندگی ہو) لیکن اگر دونوں علوم ایک جگہ نہ مل سکیں تو پھر مجبوراً دو حضرات کا انتخاب کر لیا جائے۔
(۴) جو طالب علم میں قیام پذیرہونا چاہیں، وہ اپنے ارادے سے ہمیں مطلع کریں۔
(۵) ابتدائی اخراجات کے لیے عطیات اور مستقل خرچ کے لیے مستقل امداد فرمائیں۔ واضح رہے کہ دارالاسلام چونکہ باقاعدہ رجسٹری شدہ ہے، اس لیے اس کاحساب کتاب باقاعدہ رکھا جاتا ہے نیز ٹرسٹیوں کی فہرست سے آپ اندازہ فرما لیا ہو گا کہ یہ حضرات ہیں جن کی دیانت بفضلہ ہر قسم کے شبہ سے بالا تر ہے۔
(۶) دارالاسلام کے صنعتی شعبے میںآپ کیا اور کس قسم کی مدد کرسکتے ہیں؟ نیز آپ کے پیش نظر اس کی بابت کیاعملی تجاویز ہیں۔
(حیات سدید صفحہ نمبر ۱۵۹، ۱۶۰ بحوالہ طلوع اسلام اگست ۱۹۳۹ء )

جامع مسجد نور کی تاسیس کا پس منظر

الحاج ظفر علی ڈار

روزنامہ اسلام کے ایک ذیلی رسالہ ’’بچوں کا اسلام‘‘ کے شمارہ نمبر ۴۹۵، مورخہ ۱۸؍ دسمبر ۲۰۱۱ء میں محمد معاذ نامی ایک صاحب کا مراسلہ بعنوان چھپڑ والی مسجد شائع ہوا ہے۔ مراسلہ نگار نے اپنی غلط اور گمراہ کن معلومات کی بنیاد پر، جو اس نے اپنے والد مسمی سیف الرحمن قاسم سے شنید کی ہیں، اس مسجد کی تاسیس کا سہرا اپنے پردادا کے سر باندھا ہے۔ چونکہ معاذ صاحب کی یہ تحریر بڑی غلط فہمیوں کو جنم دینے کا سبب بن سکتی ہے، اس لیے راقم الحروف نے اس مسجد کی تاسیس کے بارے میں درست حقائق کو معرض تحریر میں لانا ضروری سمجھا تاکہ تاریخ کا ریکارڈ درست رہے۔
اس مسجد کی تعمیر کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ اس مسجد کے جنوب میں سڑک کی دوسری جانب دو مساجد موجود تھیں جن میں سے ایک مسجد میں مولانا عبد القیوم ہزاروی صاحب امام وخطیب تھے اور دوسری، دائرے والی مسجد میں مولانا محمد یوسف ہزاروی امام تھے۔ اس زمانے میں یہ سارا علاقہ بریلوی حضرات کی اکثریت سے آباد تھا۔ یہ دونوں حضرات یعنی مولانا عبد القیوم صاحب اور مولانا محمد یوسف صاحب، مفتی عبد الواحد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آئے اور اس علاقے میں مولانا غلام اللہ خان رحمۃ اللہ علیہ کی تقریر کرانے کی اجازت مانگی۔ مفتی صاحب مرحوم نے ان دونوں حضرات کو ہدایت کی کہ یہ علاقہ ابھی مولانا غلام اللہ صاحب کی تقریر کا متحمل نہیں ہے، اس لیے ابھی وہ لوگوں کو اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کریں، چنانچہ مفتی صاحب نے ان کو انکار کر دیا۔
بدقسمتی سے دوسرے سال انھوں نے مفتی صاحب مرحوم سے رابطہ کیے بغیر ہی مولانا غلام اللہ خان صاحب کی تقریر کا پروگرام بنا لیا۔ مولانا غلام اللہ کی تقریر ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ بریلوی حضرات نے ان ہر دو علما کا سامان مسجد سے نکال کر باہر پھینک دیا۔ یہ دونوں حضرات رات ہی کو مفتی عبد الواحد صاحب مرحوم کے پاس آئے اور ساری روداد سنائی۔ مفتی صاحب نے سخت ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے ان کو بہت ملامت کی کہ انھوں نے بلاوجہ ان مساجد کو ضائع کر دیا۔ بہرحال جس جگہ پر اب مسجد نور آباد ہے، یہاں ایک بہت بڑا چھپڑ تھا جو کہ میونسپل کمیٹی کے زیر انتظام وانصرام تھا۔ مفتی صاحب مرحوم نے وہ ساری رات کرب کے ساتھ گزاری۔ صبح کی نماز کے بعد مفتی صاحب مرحوم نے راقم الحروف کو اس اندوہ ناک صورت حال سے آگاہ کیا اور فیصلہ کیا کہ اگر ہمیں میونسپل کمیٹی سے اس چھپڑ میں مٹی ڈال کر مسجد کی تعمیر کی اجازت مل جائے تو ہماری اس محرومی کا مداوا ہو جائے گا۔
مفتی صاحب نے شیخ عاشق حسین صاحب کو، جو اس وقت میونسپل کمشنر تھے، بلایا اور اپنے ارادہ کا اظہار کیا اور ان سے حکماً کہا کہ وہ کل تک میونسپل کمیٹی سے اس مسجد کی تعمیر کا اجازت نامہ لے کر دیں۔ اللہ تعالیٰ شیخ عاشق حسین صاحب مرحوم ومغفور کو اپنی شان کے مطابق جزائے خیر عطا فرمائیں کہ انھوں نے اگلے دن ۱۲ بجے کے قریب اجازت نامہ حاصل کر کے مفتی صاحب کے سپرد کر دیا۔ اس دن مفتی صاحب اپنے گاؤں پنڈی گھیب جا رہے تھے۔ وہاں سے واپسی پر انھوں نے حاجی علم دین صاحب اور دوسرے ہم نوا حضرات کو ترغیب دی کہ وہ اس چھپڑ میں ایک طرف مٹی دلوا دیں۔ چنانچہ انھوں نے مفتی صاحب کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے مٹی ڈلوانے کاکام شروع کر دیا اور تھوڑے ہی دنوں میں مسجد تعمیر کر دی۔ صوفی عبد الحمید صاحب علیہ الرحمۃ اس زمانے میں نوشہرہ روڈ پر طبابت کی دکان کرتے تھے۔ کافی بعد میں مفتی صاحب کے ایما پر ہی صوفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ یہاں تشریف لے آئے۔
اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ بجز مفتی صاحب مرحوم کے اس جگہ پر مسجد تعمیر کرنا کسی کے تصور میں بھی نہیں تھا۔ یہ امر واقعہ ہے کہ مفتی صاحب کی اس رات کی بے چینی اور کرب وغم اور بارگاہ الٰہی میں گریہ وزاری اللہ رب العزت کو پسند آ گئی اور مولانا عبد القیوم صاحب اور مولانا محمد یوسف سے لوگوں نے جو بدسلوکی کی تھی، اس کے بدلے میں اتنی عظیم الشان مسجد اور ادارہ کو اللہ نے وجود بخشا۔ یقینی طور پر یہ مفتی عبدالواحد صاحب کے اعمال صالحہ میں سے ایک بہت بڑا عمل بطور صدقہ جاریہ وجود پذیر ہوا۔ اللہ کی بارگاہ صمدیت میں التجا ہے کہ وہ اس مسجد اور ادارہ کو لحظہ بہ لحظہ ترقی عطا فرمائے۔

علمی و اجتہادی مسائل میں رائے کا اختیار

حافظ زاہد حسین رشیدی

ماہنامہ ’الشریعہ‘ نے جہاں کچھ عرصہ سے دینی جرائد میں مقبولیت حاصل کی ہے، وہیں اس کے علمی واجتہادی مسائل میں مباحثے نے بیسیوں Side Effects اثرات کے خدشات کو جنم دیا ہے جن کا اظہار بعض مقتدر شخصیات کرتی رہتی ہیں اور ’الشریعہ‘ کے صفحات پر ان کو جگہ دی جاتی ہے۔
ہماری ناقص رائے میں علمی مباحثے کی افادیت کو تسلیم کرتے ہوئے ضروری سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اہم اور نازک ترین مسائل میں اپنی رائے پیش کرنے کا اختیار کسے حاصل ہے؟ ’الشریعہ‘ کے رئیس التحریر ہمارے مخدوم بزرگ حضرت مولانا زاہد الراشدی مدظلہ رائے دینے کی اہلیت اور نااہلیت کے حوالے سے کسی اصول وضوابط اور معیاریت کو نظر انداز کرتے ہوئے ہر شخص کو یہ اختیار دیتے ہیں کہ وہ اپنی رائے قائم کرے اور اس کا اظہار کرے۔ چنانچہ لکھتے ہیں کہ:
’’جہاں تک علمی اور اجتہادی مسائل پر کھلے مباحثے کے بارے میں ہمارے طرز عمل پر آپ کے تحفظات ہیں، میں اسے آپ کا حق سمجھتا ہوں مگر عمومی مباحثے کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ ہر شخص کو رائے کا حق حاصل ہو۔ ماضی میں بھی ایسا ہوتا آیا ہے کہ کسی مسئلے پر کسی کو رائے دینے سے نہیں روکا گیا۔‘‘ (ماہنامہ الشریعہ، نومبر ۲۰۱۱ء، ص ۵۲)
علمی واجتہادی مسائل پر کھلے مباحثے میں ہر عام وخاص کو رائے پیش کرنے کا حق دینا امت میں خیر القرون سے مجتہد ومقلد کی تقسیم کو منہدم کرنے کے مترادف ہے۔ جب ہر شخص صاحب الرائے ہے تو ہر شخص صاحب علم اور اپنے اجتہاد میں آزاد ہوگا۔ کیا ہمارے مخدوم بزرگ کی یہ وسعت ظرفی غیر مقلد دوستوں کے لیے کارآمد ثابت نہ ہوگی جنھیں ہم حسب ذیل آیات سنا کر ہر وناکس کے ہاتھ میں تحقیق کی غرض سے باز رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ باور کراتے ہیں کہ اہل علم کا فریضہ راہ دکھانا اور علم وفن سے ناآشنا لوگوں کا کام ان کی پیروی کرنا ہے؟
(۱) فَاسْأَلُواْ أَہْلَ الذِّکْرِ إِن کُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ (سورۃ الانبیاء، آیت ۷)
’’سو پوچھ لو یاد رکھنے والوں سے اگر تم نہیں جانتے ہو۔‘‘ (ترجمہ حضرت شیخ الہند)
مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ نے تفسیر قرطبی کے حوالے سے لکھا ہے ’’اس آیت سے معلوم ہوا کہ جاہل آدمی جس کو احکام شریعت معلوم نہ ہوں، اس پر عالم کی تقلید واجب ہے کہ عالم سے دریافت کر کے اس کے مطابق عمل کرے۔‘‘ (معارف القرآن، جلد ۶، ص ۱۷۱)
(۲) وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِیَنفِرُواْ کَآفَّۃً فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُواْ فِیْ الدِّیْنِ وَلِیُنذِرُواْ قَوْمَہُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَیْْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُونَ (سورۃ التوبۃ، آیت ۱۲۲)
’’اور ایسے تو نہیں مسلمان کہ کوچ کریں سارے، سو کیوں نہ نکلا ہر فرقہ میں ان کا ایک حصہ تاکہ سمجھ پیدا کریں دین میں اور تاکہ خبر پہنچائیں اپنی قوم کو جب کہ لوٹ کر آئیں ان کی طرف تاکہ وہ بچتے رہیں۔‘‘ (ترجمہ حضرت شیخ الہند)
حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ آیت مذکورہ کے حوالے سے حسب ذیل نکات بیان کرتے ہیں:
’’الف) سب لوگ طلب علم کے لیے اپنے گھروں سے نہ نکل جائیں، بلکہ تھوڑے سے جایا کریں اور وہ علم حاصل کر کے قوم کو فائدہ پہنچائیں یعنی ان کو تعلیم دیں اور ان کو وعظ وتلقین کریں۔
ب) جاننا چاہیے کہ فقاہت فی الدین کا درجہ مطلق علم سے بالاتر ہے۔ علم کے معانی جاننے کے ہیں اور فقاہت کے معنی لغت میں سمجھ اور فہم کے ہیں۔ فقیہ لغت اور شریعت کے اعتبار سے اس شخص کو کہتے ہیں جو شریعت کے حقائق اور دقائق کو اور اس کے ظہر اور بطن کو سمجھتا ہے۔ محض الفاظ یاد کر لینے کا نام فقاہت نہیں۔
ث) اطاعت کا دار ومدار معانی پر ہے۔ محض الفاظ یاد کر لینے سے فریضہ اطاعت ادا نہیں ہو سکتا۔ اصل عالم وہ ہے جو شریعت کے معانی اورمقاصد کو سمجھتا ہو، کما قال تعالیٰ: وَتِلْکَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُونَ (سورۃ الحشر، آیت ۲۱)
ج) بہرحال اس آیت سے طلب علم دین اور تفقہ فی الدین کی کمال فضیلت ثابت ہوتی ہے اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ عالموں پر بے علموں کو عذاب الٰہی سے ڈرانا فرض ہے اور بے علموں پر عالموں کی تقلید فرض ہے۔ ناقص پر کامل کی تقلید عقلاً فرض ہے۔ جو شخص درجہ اجتہاد کو نہ پہنچا ہو، اس پر کسی مجتہد کامل کی تقلید فرض ہے۔‘‘ (معارف القرآن، جلد ۳، ص ۴۲۴)
مذکورہ بالا آیات او ر ان کی تشریح میں حضرات اکابر کے ارشادات پر گہری نظر ڈالیے، کیا ا س کے بعد بھی ہمارے قابل قدر اور صاحب نظر بزرگ کے اس توسع اور رائے دینے کے حوالے سے اذن عام کی گنجائش نکلتی ہے؟ ہمارے بزرگ کا یہ کہنا کہ ’’عمومی مباحثے کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ ہر شخص کو رائے کا حق حاصل ہو‘‘ کس قدر سنگین اثرات کا باعث اور سلف بیزار طبقے کے لیے کتنا سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔ کاش کہ حضرت علامہ مدظلہ اس پہلو پر بھی توجہ فرمائیں۔

اجتہادی مسائل میں رائے دینے کے لیے شرائط

ہر فن کی طرح فن اجتہاد بھی اصول وضوابط رکھتا ہے۔ ماہرین فن نے اجتہاد کے لیے متعدد شرائط بیان کی ہیں۔ چند ایک حضرت علامہ ڈاکٹر خالدمحمود صاحب مدظلہ نے بھی نقل کی ہیں۔ ملاحظہ کیجیے:
’’اجتہاد کرنے کا حق ہر کسی کو نہیں دیا جا سکتا۔ اہل اجتہاد وہی ہیں جن میں اجتہاد کی یہ شرائط موجود ہوں:
۱) عربی زبان کا پورا علم ہونا۔
۲) قرآن وحدیث کا پورا علم ہونا۔
۳) آیات احکام اور احادیث احکام پر خصوصی نظر ہونا۔
۴) پہلے جو اجتہاد (مثلاً خلفاے راشدین ودیگر فقہاء صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین) ہو چکے ہیں، ان پر نظر ہونا۔
۵) اجتہاد کے اصول وضوابط کا پورا علم ہونا۔‘‘ (آثار التشریع جلد ۲، ص ۱۲۱)
کیا ہر شخص کو ان شرائط کا حامل قرار دیا جا سکتا ہے؟ نہیں اور یقیناًنہیں تو پھر رائے کی آزادی چہ معنی دارد؟ 
پورا وثوق ہے کہ ہم زیر نظر سطور سے حضرت مخدوم مدظلہ کے علم ودانش میں رتی بھر اضافہ کر رہے ہیں نہ کسی طور انھیں اپنی رائے بدلنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ یقیناًہماری گزارشات کی دھول وہ چٹکیوں میں اڑا سکتے ہیں اور اپنے طرز عمل کی بیسیوں حکمتیں بیان کر سکتے ہیں۔ باوجود اس کے، لکھنے کا حوصلہ اور یہ قلم درازی کی خطا اس لیے سرزد ہوئی کہ وہ بھی تو بس یہی چاہتے ہیں کہ حجابات دور ہوں اور جمود ٹوٹے۔ آزادئ اظہار رائے کے حوالے سے ذہن کی سکرین پر چند ایک سوال نمودار ہو رہے ہیں۔ انھی پر طوطی کی آواز کو بند کیا جاتا ہے، اس خواہش کے ساتھ کہ نقار خانے میں اسے چندلمحوں کے لیے سنا جائے۔
۱) کیا ہر شخص صاحب الرائے ہے؟
۲) کیا رائے اور اجتہاد کے لیے کہیں کوئی معیار ، اصول وضوابط ذکر نہیں؟
۳) کیا رائے کی آزادی امت کی وحدت اور جوڑ کا باعث بنے گی یا مزید انتشار وافتراق کا؟
۴) کیا بزرگان دین پر اعتماد اور مسلک حق پر تصلب جیسی روایات اس رائے کی آزادی سے دم توڑ نہیں جائیں گی؟
۵) کیا آج کے نووارد علما اپنے اکابر کے موقف واجتہادات کے حوالے سے تذبذب کا شکار نہ ہوں گے۔
۶) مختلف آرا کے بعد فیصلہ کن رائے یعنی مفتیٰ بہ قول بھی تو ضروری ہے، کیونکہ آرا سے مقصود حق تک پہنچنا ہے نہ کہ علمی ابحاث کو ذہنی آسودگی کا باعث بنانا۔ کیا ماہنامہ ’الشریعہ‘ میں مختلف آرا کے بعد فیصلہ کن رائے بھی بیان کی جاتی ہے؟ اور اس کے لیے کسی اتھارٹی کا تعین کیا گیا ہے؟
(بشکریہ ماہنامہ ’فقاہت‘ لاہور)

مکاتیب

ادارہ

(ا)
محترمی جناب محمد عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم
آپ کا مقالہ ’’خروج‘‘ مجھے سہیل عمر صاحب ڈائریکٹر اقبال ایکاڈیمی نے بھیجا ہے جو میں نے بڑے شوق سے پڑھا۔ جب آپ نے اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار یونیورسٹی آف گجرات کے منعقدہ سیمینار پر کیا تھا تو میں موجود نہ تھا۔ اسی طرح میں نے بھی وہاں لکچر ’’وہ کام جو اقبال ادھورے چھوڑ گئے‘‘ کے موضوع پر دیا تھا جو اب ایک مقالے کی صورت میں تحریر کر دیا گیا ہے۔ شاید سہیل عمر صاحب اس کا پرنٹ آپ کو ارسال کریں۔ مناسب سمجھیں تو ماہنامہ ’الشریعہ‘ میں شائع کر سکتے ہیں۔ ’الشریعہ‘ مجھے باقاعدہ ملتا ہے۔ ’’توہین رسالت‘‘ کے موضوع پر آپ کے جرات مندانہ خیالات قابل تعریف ہی نہیں، فقہی اصول کے عین مطابق ہیں۔
خصوصی طو رپر تصنیف وتالیف کے بعض ایسے کام جو حضرت علامہ نہ کر سکے، میں سمجھتا ہوں، ان کی وفات کے بعد، کر سکنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ مثلاً وہ ’’اجتہاد کی تاریخ وارتقا‘‘ کے موضوع پر کتاب لکھنا چاہتے تھے۔ ’’فلاحی ریاست کے قرآنی تصور‘‘ کی بنیاد پر بعد میں وجود میں آنے والے پاکستان میں ’’سوشل ڈیما کریسی‘‘ قائم کرنے کا خواب دیکھتے تھے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ حضرت علامہ کے ایسے ارادوں کی تشہیر سے تخلیقی سوچ رکھنے والے اہل علم کو دعوت دی جائے کہ ان کی تکمیل کے ذریعے مسلمانوں کی تہذیبی احیاء کے عمل کو جاری رکھیں؟
خیر اندیش
(جسٹس (ر) ڈاکٹر) جاوید اقبال
(۲)
محترم مولانا زاہد الراشدی صاحب 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الشریعہ کے دسمبر 2011 کے شمار ے میں ’’ الشریعہ‘‘ کی پالیسی پر ایک دفعہ پھر آپ کی تحریر سامنے آئی ۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، اپنی اس پالیسی کو آپ نے بتکرار بیان کیا ہے ۔ چند سال قبل میری نظر آپ کے رسالے پرپڑی تو اسی پالیسی نے مجھے ’’الشریعہ‘‘ کا خریدار بنا دیا ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ مجھے باقی تمام رسائل و جرائد سے بڑھ کر ’’الشریعہ‘‘ کا انتظار رہتا ہے ۔ میں نے جماعتِ اسلامی آزاد کشمیر کے زعما کے نام یہ رسالہ جاری کروا دیا اور ہم سب کی یہ رائے ہے کہ تمام علمی رسائل میں اس کا پلڑا سب پر بھاری نظر آتا ہے۔ 
میری نظر سے ’’البرہان ‘‘ بھی گزرتا رہتا ہے ۔ مجھے یقیناًیہ حق نہیں پہنچتا کہ ’’البرہان ‘‘ کے متعلق آپ کے رسالے میں کچھ لکھوں، تاہم اتنا عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ زیر نظر بحث مضمون میں مجھے آپ کے ارشادات سے سو فیصد اتفاق ہے۔ جناب جاوید احمد غامدی صاحب ہوں یا کوئی اور صاحب، ان کے خیالات سے اتفاق بھی کیا جاسکتاہے اور اختلاف بھی، مگر ہمیں کوئی حق نہیں کہ لوگوں کے ایمان کا فیصلہ کرتے پھریں۔ 
آپ ’’الشریعہ ‘‘ کی موجودہ پالیسی کو جاری رکھیے تاہم احتیاط کے ساتھ! کلمہ حق کی آخری دو سطور میں مذکور آپ کے ارادے سے مکمل اتفاق ہے، تاہم اسلوب مختلف ہوتا تو آپ کی شخصیت اور عمومی طرزِ تخاطب کے مطابق ہوتا ۔ 
محمد انور عباسی ۔ اسلام آباد
anwarabbasi@hotmail.com
(۳)
محترم و مکرم حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب، 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘
اللہ کی ذات سے امید کرتا ہوں کہ آپ، بھائی عمار ناصر صاحب اور جملہ متعلقینِ الشریعہ بخیر و عافیت ہوں گے۔ 
بحمداللہ مجھے یہاں اپنا دینی یا دنیوی تعارف کرانے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن تحدیث بالنعمہ کے طور پر دینی تعارف کی صرف اِس جہت کو ذکر کرنا چاہوں گا کہ ایک بار ایک تبلیغی سفر میں مولانا محمد سرفراز خاں صفدر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور تین دن درسِ حدیث میں شرکت کی اور حضرت سے سندِ حدیث عطا ہوئی۔ میرے ساتھ جماعت میں نکلے ہوئے کئی علماءِ کرام کو بھی یہ نعمت ارزاں ہوئی۔ یہ میرے لیے رہتی دنیا تک سامانِ فخر اور نجاتِ اخروی کا ایک ظاہری سبب ہے۔ حضرت نے بوقت رخصت مجھے سینے سے لگاکر بھینچا تھا جس کی گرمی کا احساس آج بھی اپنے اندر پاتا ہوں اور اِس گرمی کو نجات کے باطنی اسباب میں سے ایک جانتا ہوں۔ 
بھائی عمار ناصر صاحب کی مجھ ناکارہ سے محبت کے پیچھے کچھ ایسے ہی معاملات ہیں۔ اُنھوں نے ایک بار میرے پاس لاہور تشریف لاکر مجھے عزت بخشی تھی۔ تب سے میں حیرت ناک طور پر اُن کی تربیت میں بھی موقع موقع پر ایسی باتیں دیکھتا ہوں جیسی مجھے میرے والد پروفیسر عابد صدیق صاحب رحمۃ اللہ علیہ میں اولاد کی تربیت کے حوالے سے ملی ہیں۔ میرے والد صاحب نے مجھے کبھی ڈاڑھی رکھنے تک کا نہیں کہا اور نہ کسی جماعت (مثال کے طور پر کہہ لیجیے کہ تبلیغی جماعت) کے لیے کام کرنے کو کہا۔ بس ماحول کچھ ایسا بنادیا کہ ایک طرف تو اللہ کا نام لینے والے سب لوگوں کے لیے محبت اور اکرام دل میں جاگزیں کرنے کی سعی کی اور دوسری طرف ایسے علما کی خدمت میں لے جایا کیے کہ ایک واضح دینی رخ بنتا چلا گیا۔ اللہ والوں میں اٹھنا بیٹھنا اُن کے ہاں کچھ ایسے وفور سے تھا کہ حیرت ہوتی ہے۔ مثلاً یہی کہ میں لاہور میں پیدا ہوا اور میرے کان میں اذان مولانا خان محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے دلوائی۔ زکریا یونیورسٹی میں ایم ایس سی کمپیوٹر سائنس کے زمانے میں ایک بار میں نے اباجان کے سامنے قاضی حسین احمد صاحب کے بارے میں کچھ ہلکی باتیں کیں (وجہ؟ اُن دنوں اسلامی فرنٹ اور ’’ظالمو! قاضی آرہا ہے‘‘ کا نعرہ بہت لگ رہا تھا) تو اباجان نے نہایت تحمل سے میری لترو سن کر ٹھنڈا سانس بھرا اور امی جان سے کہا کہ چائے بنائیں، مجھے صفوان سے علیحدگی میں کچھ باتیں کرنی ہیں۔ اُنھوں نے میری ایک لمبی کلاس لی جس میں یہ بات بھی فرمائی کہ اللہ کا نام لینے والے ہر ایک کی قدر کیا کرو۔ تم دیکھو گے کہ کچھ عرصے کے بعد اللہ کا محض نام لینے والے لوگ بھی عام نہیں ملیں گے۔ یہ بھی فرمایا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم غیر مسلموں کو مسلمان کیا کرتے تھے اور ہمارے اکثر لوگ مسلمانوں کو غیر مسلم بنانے کا کام کرتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ تم نے قاضی صاحب کی غیبت کی ہے۔ اُنھیں خط لکھ کر معافی مانگو، اور مجھ کھڑکتے ہوئے راجپوت سے اُنھوں نے یہ کرواکے چھوڑا۔
یہ ذکر کرتا چلوں کہ اُن کی غیرتِ دینی کا عالم یہ تھا کہ میری والدہ کے سگے ماموؤں سے، جو لاہور کے مالدار ترین اور نامی گرامی قادیانی ہیں، نہ تو ہم کبھی ملے ہیں اور نہ اُنھیں ہمارے ہاں آنے کی اجازت تھی۔ اُن سے یہ مقاطعہ اباجان کی شادی (۲۳؍ مارچ ۱۹۶۷ء) کی بنیادی شرط تھا اور آج کوئی پینتالیس برس ہونے کو آئے ہیں، یہ مقاطعہ برقرار ہے، بلکہ اباجان کی وفات (۷؍ دسمبر ۲۰۰۰ء) کے گیارہ سال بعد بھی برقرار ہے۔ الغرض، اباجان نے انتہائی بیدار مغزی سے مجھے مختلف دینی نظاموں میں اترنے اور باقاعدہ عملی کام کرنے کے مواقع فراہم کیے تاکہ کوئی حسرت یا کوئی لاعلمی نہ رہ جائے، اور پھر رفتہ رفتہ میرے گرد ایسے لوگوں کا اکٹھ کردیا (بلکہ صاف تر الفاظ میں، مجھے ایسے لوگوں کے باقاعدہ ’’سپرد‘‘ کیا) جس طرف کا میرا اپنا رجحان بنا۔ اور بحمداللہ میں پوری طمانیتِ قلب اور فکری یکسوئی سے ایک طرف کو ہولیا، اِس بنیادی بات کے کامل استحضار کے ساتھ کہ جن لوگوں میں کفر کی ننانوے وجوہ بھی جمع ہوں اور محض ایک وجہ اسلام کی ہو، وہ بھی مسلمان ہیں اور یہ کہ مسلمانوں کو خوامخواہ کافر کافر کہہ کہہ کر دُر دُر کرنے کی بجائے اُن کی وجہِ انتشارِ فکر اور گم کردہ راہی کو دور کرنے کی پیہم کوشش میں لگے رہنا چاہیے۔ یہی تربیت ہے جس کی وجہ سے میں باطل کی تعریف اپنی خواہشِ نفس سے متعین نہیں کرتا، کہ بزعمِ خود کسی کو باطل قرار دے کر لٹھ لیے اُس کے پیچھے ہولوں اور اُسے اسلام کے دائرے سے باہر نکالنے تک چین سے نہ بیٹھوں۔ واللہ میں کسی کلمہ گو کو کافر نہیں سمجھتا اور اپنی تربیت کی وجہ سے مسلمانوں میں موجود کمیوں کا ذمہ دار دل کی انتہائی گہرائی سے اپنے آپ کو جانتا ہوں کہ اے کاش کبھی لگ کر محنت کی ہوتی تو مسلمان اسلام کی خیروں سے محروم کیوں ہوتے۔ 
بھائی عمار ناصر نے مجھے (یہاں سے آگے لفظ ’’مجھے‘‘ سے میرا پورا طبقہ مراد لیا جاسکتا ہے) ہر موقع پر نہایت محبت سے ڈیل کیا ہے۔ میرے سمیت بے شمار لوگ ہیں جو اُن سے اپنے تحفظات پورے طور پر بیان کرسکتے ہیں۔ یہ بات آپ کے علم میں ہے کہ مذہبی طبقہ کے لوگوں کی ایک مختصر جمعیت تو قوسِ لمن الملک الیوم بجاتے بجاتے اپنے علم و تقویٰ میں اِتنا آگے بڑھ گئی ہے کہ ہمارا اپناؤ (ہمیں own کرنا) یا ہماری علمی و فکری رہنمائی تو الگ رہی، مجھ جیسے عوام کو محض منہ کھولنے کا حق دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔ جب ہماری سنی ہی نہ جائے گی تو ہمارا ذہن سامنے کیسے آئے گا؟ اور جب ہمیں کہنے کی اجازت نہیں ہے تو ہم پر فتویٰ کس بات کا؟ کیا فتویٰ اِسی کھڑپینچی اور لٹھ ماری کا نام ہے؟ کیا ہم پر (یا کسی پر) فتویٰ تھوپا جاسکتا ہے؟ ہم لوگوں پر امت مسلمہ کے بے انتہا وسائل خرچ ہوئے ہیں: وطن عزیز نے ہماری اعلیٰ ترین معیار کی عصری تعلیم کے لیے اپنے وسائل نچھاور کیے ہیں اور آپ جیسے علماءِ کرام اپنا سرمایۂ دعا و توجہ اور گریۂ نیم شبی ہم پر لٹاتے رہتے ہیں۔ ہم لوگ معمارانِ وطن کے اور آپ حضرات کے پروردگان ہیں۔ اور جو بندوں کے احسانات کا شکر ادا نہیں کرسکتا، وہ اللہ کا شکر بھی کیوں کر ادا کرتا ہوگا! ہم سمجھتے ہیں کہ آج کے زندہ مسائل کا حل مذہب کو بطورِ افیون یا بطورِ ڈانگ استعمال کرانا نہیں ہے بلکہ پورے نواحی مطالعے اور پوری تیاری کے ساتھ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر برابری کی بنیاد پر مکالمہ ہے۔ اور یہ مسلمانوں کا اجتماعی شعور اور جینئس ہی ہوگا جو اجماعِ امت کی راہ ہموار کرے گا۔ اب یہ بھائی عمار صاحب ہیں جن کے سامنے ہم خود کو بہت ایزی محسوس کرتے ہیں اور اِس راستے واسطے سے ہماری باتیں آپ حضرات کے سامنے آتی رہتی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ وہ ہمارا محاورہ (Idiom) سمجھتے ہیں اور ہمیں اِسی کرنسی میں جواب دیتے ہیں۔ چنانچہ مکالمہ ہوتا ہے اور پورے زور و شور سے ہوتا ہے۔ الشریعہ میں ہونے والی علمی بحثوں پر ایک نظر ڈالیے تو معلوم ہوتا ہے کہ، ایک آدھ استثنا کے ساتھ، متانت اور سنجیدہ کلامی کی مقدار زیادہ رہی ہے۔ آپ لوگوں نے مسلمان کے مسلمان سے اختلاف کو اسلام کا اختلاف نہ سمجھا، نہ بنایا اور نہ بنانے دیا۔ واللہ اختلافِ امت کا رحمت ہونا مجھ جیسے کورے لوگوں کو بھی سمجھ میں آگیا۔ یہ الشریعہ کا کریڈٹ ہے۔ 
مذہبی بحث کا نتیجہ ہمیشہ شرمناک رہا ہے۔ (مثالیں کیا دوں کہ امت مسلمہ کی مذہبی بحثوں کی پوری تاریخ علی العموم اِنہی گندے کپڑوں کی لانڈری رہی ہے)۔ الشریعہ شاید مذہبی دنیا کا واحد فورم ہے جہاں بحث کے بعد بھی دل پھٹتے نہیں ہیں۔ ہمارے دل سے دعا نکلتی ہے اُس بندۂ خدا کے لیے جس نے وقت کی نبض کا بالکل درست مطالعہ کیا اور الشریعہ کی موجودہ پالیسی کی صورت میں درست تر علاج تجویز کیا۔ محمد اظہار الحق صاحب نے بالکل درست فرمایا ہے کہ اِس سب کا کریڈٹ صرف آپ کو جاتا ہے اور یہ آپ کی عین دور اندیشی اور ایک طرح سے مولانا محمد الیاس رحمۃ اللہ علیہ کی ’’آدمی تیار کرنے‘‘ کی پالیسی پر چلنا ہے کہ آپ نے بھائی عمار صاحب کو فرنٹ مین رکھا ہے۔ اگر آپ ہمیں اِس واسطے کی بجائے بلاواسطہ بات کرنے پر لائیں گے تو صاف عرض کرتا ہوں کہ ہم بہت سے ایسے حجابات کا شکار ہوجائیں گے جن میں امت مسلمہ کا تعلیم یافتہ نوجوان اور مقتدر طبقہ عام طور سے پہلے ہی لپٹا ہوا ہے۔ ہمارے لیے آپ سے (مراد طبقۂ علما سے) بلاواسطہ ملاقات کا مطمح نظر صرف حصولِ دعا و برکت ہوتا ہے نہ کہ گفتگو، اور بحمداللہ ہم خوش نصیب ہیں کہ بھائی عمار صاحب سے بلاتکلف گپ شپ کرلیتے ہیں۔ جس اطمینان اور بے تکلفی سے میں آپ سے اپنے جی میں آئی کہہ سکتا ہوں یا جس محاورے میں میں بھائی عمار صاحب سے بات کرسکتا ہوں، عام اہل علم یا اہل دین سے نہیں کرسکتا۔ میں اپنے پورے طبقہ (جدید عصری تعلیم + جدید ترین اور عالمی انڈسٹری + بیوروکریسی) کی نمائندگی کرتے ہوئے آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ للہ ایسے کسی دباؤ میں مت آئیے اور اللہ نے ہم لوگوں کو جو یہ فورم مہیا کیا ہے، اُسے کسی بھی قسم کی Churchiness کی بھینٹ مت چڑھائیے۔ 
کسی کو الشریعہ پیش کرتے ہوئے ہم بصمیمِ قلب یہ کہہ سکتے ہیں کہ مذہبی ماہناموں میں کہیں اسلام فی نفسہٖ بھی پایا جاتا ہے، ورنہ یہ ماہنامے ایک مدرسے کے ساختہ (بلکہ پسند فرمودہ) اسلام یا ایک فرقے کی کسی شاخ کے چھوٹے سے ٹھنٹھ سے زیادہ کوئی اوقات نہیں رکھتے۔ الا ماشاء اللہ۔ یہ ذہن کہ ایک ذرا سے اختلاف کی وجہ سے آدمی ہی فارغ کردیا جائے، اُس بچگانہ سوچ کا مظہر ہے جو مثلاً مخصوص مذہبی خیالات رکھنے والے کسی سکول ماسٹر کو ٹرانسفر کرا دینے یا اُس کا ٹرانسفر رکوا دینے والوں کی ہوتی ہے۔ کیا کسی دوسری جگہ ٹرانسفر ہونے سے مذہبی لگاوٹ میں کمی آجاتی ہے؟ یا جو آدمی ایک جگہ پر ’’کافر‘‘ ہے، وہ دوسرے اسکول میں ٹرانسفر ہونے سے ’’مسلمان‘‘ ہوجایا کرتا ہے؟ نیز یہ بھی توجہ میں رہے کہ کسی مسلک کا پیرو ہونے کا مطلب اُس مسلک سے منسوب فرسودیات کو بھی اٹھائے اٹھائے پھرنا ہے، ایک احمقانہ تر خیال ہے۔ دنیا بہت آگے نکل گئی ہے۔ لوگ جواب مانگتے ہیں، ایسا جواب جس سے نری عقل کو نہ سہی، فہمِ عامہ کو تو اطمینان ہو۔ راقم کی نگاہ میں اللہ نے مسلکِ دیوبند کو قبولِ عام اِسی لیے دیا کہ اِس کے بڑوں میں وسعتِ نظری تھی، اِتنی کہ اپنے دیے ہوئے فتاویٰ سے علی الاعلان رجوع تک کرنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ حاشا مجھے کسی کی ہیٹی مطلوب نہیں، لیکن اپنے محدود مطالعے کی حد تک میں دیوبند کے اِس مسلک پر صرف الشریعہ کو پاتا ہوں (افسوس کہ اِس مسلک کو میں علما کے ایک بڑے طبقے کے موجودہ طرزِ عمل کی بنیاد پر ’’ٹھیٹھ‘‘ مسلک نہیں کہہ سکتا؛ دیوبند کا قدیم ٹھیٹھ مسلک البتہ یہی رہا ہے) اور یہ اِسی مسلک پر چلنے کی برکت ہے کہ حکومتوں کے آنے جانے سے یا سیاسی درجۂ حرارت کے اونچاؤ نِچاؤ سے الشریعہ کی پالیسی نہیں بدلتی۔ اللہ کے غیر کے اِس شدید تاثر سے شاید ہی کوئی مذہبی جریدہ بچا ہوا ہو، بلکہ مجھے کہنے دیجیے کہ کئی مذہبی پرچوں کی پالیسی کو چندہ دینے والوں کے ساتھ ساتھ بدلتا دیکھنے کا تو میں خود بھی گواہ ہوں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دورِ حکومت میں عورت کی حکمرانی کے پانی میں مدھانی چلانے والے مذہبی جریدوں کو اُن کے سر پر دوپٹہ آنے سے آرام آگیا تھا۔ اور یہ تو ابھی کل کی بات ہے کہ محترمہ کے قتل پر سبھی جریدوں نے ماتمی باجے بجاتے ہوئے اتحاد بین المسلمین چمپیئن شپ ٹرافی میں حصہ لیا تھا تاکہ آنے والے سیاسی منظر نامے میں کلین بولڈ نہ ہوجائیں۔ یہ یقینًا دور رس نتائج رکھنے والا ایک اندوہناک قومی سانحہ تھا، لیکن الشریعہ نے اُس وقت اِس وقتی حادثے پر ایک باوقار رسمی تحریر کے سوا کچھ نہ لکھا تھا۔ وجہ یہ کہ الشریعہ کے پاس ایک سوچی سمجھی پالیسی تھی (اور ہے) جب کہ اکثر جریدوں کے پاس ہمیشہ کی طرح صرف جذبہ ہی جذبہ تھا (جو روز افزوں ہے)۔ 
یہاں تک کی بات بھائی عمار صاحب کی الشریعہ سے متعلق عمومی خیریت اور موزونی کے بارے میں تھی۔ رہی بات اُن ’’اعتراضات‘‘ کی جن کا ذکر ہوا ہے، جن میں سرِ فہرست ’’غامدیت‘‘ نامی ایک ہوّے کا ہے، یہ بالکل اُس مسلمان والی بات ہے جسے خود کلمہ نہیں آتا تھا اور ایک ہندو کے سینے پر چڑھ کے اُسے کلمہ پڑھنے کو کہہ رہا تھا۔ جس طرح ہر مفکر کے کچھ تفردات ہوتے ہیں، اُسی طرح غامدی صاحب کے بھی ہیں جن سے اُن کا ’’کفر‘‘ بہرحال ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ اگر فکر کی بنیاد پر مفکر کے تفردات نہ ہوں تو وہ مفکر کہلائے ہی کیوں؟ ایسے شخص کو تو بلحاظِ تعریف محقق کہنا چاہیے۔ اور اگر تفردات رکھنا فتنہ ہے تو خاکم بدہن ایک آدھ ماہ میں ’’فتنۂ عماریت‘‘ بھی اشاعت کا دن دیکھ سکتی ہے کیوں کہ آج قلم ٹوتھ پِک سے بھی کم قیمت پر بکتا ہے۔ بھائی عمار صاحب کی براہین میں کئی جگہ پر فکرِ تازہ کے ایسے نظائر ہیں جنھیں اُن حلقوں میں یقیناًتسلیم نہیں کیا جائے گا جو علمی اعتبار سے ابھی اُس دور میں جیتے ہیں جب گلیلیو نے زمین کو پکڑ کر سورج کے گرد گھمانا شروع نہیں کیا تھا۔ مثلًا دیکھیے! DNA ٹسٹ اور الٹرا سونو گرافی کے نتائج عام ہونے سے پہلے کی تمام تفاسیر میں یعلم ما فی الارحام کی شرح میں کیے گئے دعووں کا باطل ہوجانا خدانخواستہ قرآنِ پاک کی کسی آیت کا باطل ہونا نہیں ہے بلکہ اِس سے ہمارے مفسرین قرآن کے مبلغِ علم پر علم انسانی ہونے کی مہر لگی ہے۔ اِن علما کا تقویٰ طہارت اور اپنے دور کے علوم اور اُن کے نتائج تحقیق پر مناسب دسترس سر آنکھوں پر، لیکن اللہ کے کلام کی طرح بندے کی لکھی ہوئی تفسیر بھی اگر قیامت تک کے لیے ناقابلِ تردید یا اصلاح کی ضرورت سے بے نیاز ہوتی تو بندہ بھی تو خدا ہوگیا تھا نا! لہٰذا اِس موضوع پر آج کسی بڑے سے بڑے قدیم متقی و عالم مفسر سے اختلاف نہ کیا جانا حماقت ہوگی۔ 
میں کمپیوٹر سائنس کا آدمی ہوں۔ ذرا میرے سامنے کوئی اِن پیج کے ٹائپسٹ کو ماہرِ کمپیوٹر تو کہے، میں اُسے گھر تک چھوڑ کے آؤں گا۔ یہ پیروکارانِ اسلام ہی کی سادہ خوئی و خیالی ہے کہ بالکل نان ٹیکنیکل لوگوں کے تفسیرِ قرآن کے نام پر کیے گئے تخمین و ظن کو پہلے تو متن الٰہی (Divine Writ) کے برابر کا درجہ دے دیتے ہیں اور پھر جب الٹی پڑتی ہے تو کھینچ تان کر وحیِ الٰہی کو اپنے مطلب کے معنی پہناتے پھرتے ہیں۔ یہ بھی کیامذاق ہے کہ جس شخص کو حیاتیاتی سائنس کی الف سے بے نہیں آتی، اُس کی لگائی ہوئی گپ کو اور جس کا دوربین استعمال کرنے کا تجربہ ضعف بصارت کی وجہ سے اخبار کو محدب عدسہ کی مدد سے پڑھنے تک محدود ہے، اُس کی تفسیر قرآن میں سماویات کے بارے میں کیے گئے دعووں کو شرحِ کلامِ الٰہی کا درجہ دیا جائے اور پھر جب اِن مزعومہ شارحین کی ہانکی ہوئی بودی ثابت ہو تو تاویل اینڈ سنز کمپنی لمیٹڈ کھول لی جائے۔ پانچ روپے کی پھکی سے ننانوے امراضِ خبیثہ کا شافی علاج کرنے والے ایسے ملا بقل بطوروں سے اللہ ہی امت کی حفاظت فرمائے۔ میں واضح الفاظ میں عرض کرتا ہوں کہ میرے اِن جملوں میں ہدف خدانخواستہ تقویٰ طہارت یا علماءِ سلف نہیں ہیں بلکہ اندھی تقلید اور بزرگوں کے فرامین کو وحیِ الٰہی کا درجہ دے دینے کا عمومی رویہ ہے۔ 
نئی ٹیکنالوجی کی کچھ تعلیم کی وجہ سے میں پورے استحضار کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وقت گزرے گا تو اِن شاء اللہ براہین کے بارے میں علمی رائے رکھنے والوں اور صحافیانہ رائے رکھنے والوں کا فرق گھوڑے اور گدھے کے سوار کے فرق کی طرح خود ظاہر ہوجائے گا۔ اِس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اِس میں جو بھی بات کی گئی ہے، اُس میں نتائجِ تحقیق کا اظہار تو ملتا ہے، لیکن مبلغِ علم کا اِدّعا نہیں ملتا۔ اور اگر اِس میں درج کردہ باتوں میں سے کوئی بات تحقیقِ مزید سے غلط ثابت ہوگئی تو زمانہ اُس کو اِس لیے قبول نہیں کرے گا کہ مستند ہے مصنف براہین کا فرمایا ہوا۔ مصنف براہین مزاجاً خود بھی ایسی بے سوادی سے اِن شاء اللہ مامون ہے۔ اصلاح کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے۔ ہاں! کچھ باتوں خصوصًا عصمت صحابہؓ پر بھائی عمار صاحب کے کچھ جملوں کے ذیلی مطالب پر طالب علمانہ تحفظات مجھے بھی ہیں اور یہ ہونے بھی چاہییں کیونکہ میرا زمانۂ طالب علمی ابھی ختم نہیں ہوا (اور اللہ نہ کرے کبھی ایسا ہو! اگر میری سیکھنے کی نیت صادق ہوئی تو اللہ مجھ پر طلبِ علم کا دروازہ بند نہیں کرے گا)۔ گنتی کے اِن چند جملوں کے مطالب پر کوئی دورائی نہیں، لیکن اِنھیں recast کیا جانا بہتر ہوتا۔ البتہ اِن کی وجہ سے میں بھائی عمار ناصر کو جے سالک سے نہیں ملاؤں گا، کبھی نہیں! یہ میری گھریلو تربیت ہی کے خلاف نہیں بلکہ بنیادی اسلامی حقوق، احترامِ انسانیت، میری جماعتی تربیت نیز اسلام کی کافروں تک سے رواداری کے ظاہر بظاہر اصولوں کے بھی خلاف ہے۔ اللہ ہمیں مسلمان کی بوجہِ اسلام قدر دانی کی توفیق عطا فرمائے۔ یہ نعمت مانگنے سے ملتی ہے۔
بات کو سمیٹتا ہوں۔ عرض ہے کہ میں کچھ ایسے لوگوں سے بھی رابطے میں ہوں جو الشریعہ کی کھلی گفتگو کی پالیسی پر صرف تحفظات نہیں رکھتے بلکہ اُن کا انداز کچھ ایسا ہوتا ہے گویا آپ نے اُنھیں اپنا پالیسی ڈویلپمنٹ کنسلٹنٹ یا تھنک ٹینک مقرر کیا ہوا ہے یا آپ کی اور الشریعہ کی ’’اصلاح‘‘ کے لیے وہ مامورین من اللہ ہیں۔ اُنھیں شدید دکھ ہے کہ الشریعہ اُن کی خواہشات کے مطابق نہیں چھپتا۔ سارے جہان کا درد چونکہ اُن کے جگر میں ہے، لہٰذا جہاں وہ صدام حسین، کرنل قذافی اور خادمِ حرمین جلالۃ الملک شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کو مشورے سپلائی کرتے رہتے ہیں، وہیں جب قومی مسائل کے درد کا دورہ پڑتا ہے تو فی سبیل اللہ، بلکہ فی سبیل الشریعہ، ون سونّے مشورے دیتے ہیں۔ سو باتوں کی ایک بات، اِس قسم کے خدائی خدمتگار ’’عوامی بھائیوں‘‘ کے کہے میں نہیں آنا چاہیے۔ میرے ایک عزیز دوست حضرت جی مولانا محمد یوسف علیہ الرحمہ کا ملفوظ سناتے تھے کہ میرے تبلیغ والے کچھ ساتھیوں میں اللہ نے عقل کی جگہ بھی اخلاص بھر دیا ہے۔ سو یہ ایسے ہی مخلصین ہیں۔ اِن کے اخلاص میں شبہ نہیں، لیکن اِن کے عقل سے پیدل ہونے میں بھی کوئی شک نہیں۔ 
حافظ صفوان محمد چوہان
hafiz.safwan@gmail.com
(۴)
مولانا محمد عمار خان ناصر صاحب مدظلہ
السلام و علیکم و رحمۃ اللہ۔ امید ہے خیریت سے ہوں گے۔
آپ کا گرامی نامہ ملا۔ بہت مشکور ہوں کہ آپ نے اس مسئلے کو سمجھنے میں میری رہنمائی فرمائی۔ اللہ رب العزت حضرت امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی لحد کو اپنی بے پناہ رحمتوں اور لامحدود انعامات سے بھر دے، انہوں نے اپنی بے پناہ علمی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر امت مسلمہ کی اس دور میں بھی رہنمائی فرمائی اور یقیناًیہ ان کی حقانیت کی دلیل ہے کہ آج بھی ہم جیسے لوگ ان کے نظریات و افکار کو اپنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ آج کے اس دور میں جب لوگوں میں سطحی ذہنیت عام ہو چکی ہے، بہت کم افراد مسئلے کی گہرائی میں جا کر اس کی روح کو پانے کی کوشش کرتے ہیں اور بدقسمتی سے وہ لوگ جو کسی نہ کسی دین کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں، اپنے مقصد اور اپنے موقف سے مطابقت رکھنے والی رائے عوام الناس کو بتاتے ہیں اور اس کے برعکس آرا کو چھپا کر ایک عامی آدمی کے ذہن کو اس حد تک پہنچادیتے ہیں جہاں وہ اپنی رائے کے خلاف کسی بھی رائے کو سننے و سمجھنے کو تیار بھی نہیں ہوتا۔
اسی طرح کا مسئلہ یہاں بھی موجود ہے۔ آپ کے گرامی نامہ سے میں مکمل اتفاق کرتا ہوں اور اسی طرح کا مزاج بھی رکھتا ہوں، لیکن بات وہیں آجاتی ہے کہ ابن تیمیہ کے جو نظریات و افکار ہیں، وہ یقیناًوہی ہیں جو آپ نے بیان کیے ہیں کہ ’’ ہم نے اس کی نسبت والے پہلو کو قبول کرنا ہے اور اگر اس کے کسی قول یا فعل میں شبہ وتاویل ہے تو اس کو رعایت بھی دینی ہے‘‘۔ مگر ان چیزوں کا لحاظ حضرت نے اپنے فتوے میں کیوں اختیار نہیں فرمایا جو انہوں نے روافض کے خلاف دیا؟ حالانکہ شیعہ حضرات حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی نسبت کا اظہار بھی کرتے ہیں، ان کو آخری رسول بھی مانتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو وہ اس معاملے میں متشدد بھی ہیں کہ وہ اہل بیت کے متعلق جس قسم کے عقائد رکھتے ہیں، ہم وہ نہیں رکھتے۔ مثلاً یہ کہ ائمہ معصوم ہیں اور ان کا مقام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کائنات میں سب سے بلند ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ان سب عقائد و نظریات کا سبب نسبت رسول ہی بنا کہ وہ خاندان رسول سے تعلق رکھتے ہیں اور دوسرا پہلو بھی ہے کہ وہ اپنے ہر عقیدے میں کسی نہ کسی شبہہ اور تاویل کا سہارا لیتے ہیں ۔
دوسری بات یہ کہ تاویلات کا دائرہ کس حد تک ہے؟ شیعہ حضرات تحریف قرآن کے عقیدے کو اس بات پر محمول کرتے ہیں کہ ہمارے ائمہ نے اس قرآن کی تصدیق کر دی ہے اور یہ وہی قرآن ہے جو لوح محفوظ میں موجود تھا اور منزل من اللہ ہے، مگرجو لوگ تحریف کے قائل ہیں، عقلی طور پر ایک حد تک وہ درست بھی ہیں کہ قرآن کو جس انداز میں جمع کیا گیا، اس میں تحریف کے بہت احتمال ہیں۔ مثال کے طور پر ایک شخص کو مسجد نبوی کے دروازے پر بٹھا دیا گیا اور منادی کروا دی گئی کی جس شخص کے پاس قرآن کا کوئی حصہ بھی موجود ہے، وہ دو گواہ لے کر آئے۔ اب اگر کسی کے پاس کوئی حصہ موجود ہو، پر گواہ نہ ہو تو وہ حصہ جمع ہونے سے رہ گیا۔ اس بات سے ان کا صحابہ سے بغض واضح نظر آرہا ہے۔ مزید ان کی کتابوں میں کچھ اس طرح کی تحریر بھی پائی جاتی ہے کہ حضرت علی نے بھی قرآن کو جمع فرمایا تھا اور وہ شان نزول کے عین مطابق تھا، لیکن اس قرآن اور حضرت علی کے جمع کردہ قرآن میں کوئی کمی یا زیادتی نہیں۔ تاہم ایسا عقیدہ رکھنے والے تحریف کے قائل شیعہ گروہ پر کوئی حکم نہیں لگاتے۔ ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ اس بارے میں بھی رہنمائی مل جائے کہ کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ ہمارے اماموں کا درجہ انبیا سے بلند ہے ما سوائے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے، اگر ہم اس پر کوئی حکم لگائیں تو وہ بے شمار حوالے سنی حضرات اوراہل تصوف کی کتابوں کے دیتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں آپ بھی غیر نبی کا مقام نبی کے برابر اور کہیں اس سے بلند بتاتے ہیں۔امید ہے اس معاملے میں اصلاح فرمائیں گے۔ 
ایک اہم بات مفتیان کرام کے طرز عمل سے تعلق رکھتی ہے۔ اس پہلو کو بھی عام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے علما و مفتیان عظام اس مسئلے کو حل کرسکیں۔ اگر یہ جوں کا توں رہا تو کئی مسائل پیدا کرے گا جس میں سب سے سنگین یہ ہے کہ عوام الناس کا علما پر اعتماد اٹھ جائے گا ۔یا تو ان سابقہ فتووں پر نظر ثانی کی جائے اور کوئی متفقہ طرزعمل اختیار کیا جائے تاکہ علما کے قول و فعل میں کوئی تعارض نہ رہے اور عوام الناس کو لزو می اور التزامی کا فرق بتایا جائے، جیسے قومی اسمبلی میں مرزا ناصر پر جرح کے دوران جب اس نے یہ سوال اٹھایا کہ یہ لوگ بھی ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں اور فتوے بھی موجود ہیں تو اس کے جواب میں مفکر اسلام مفتی محمود رحمہ اللہ نے کفر لزومی اور التزامی کی تشریح کرتے ہوئے واضح کیا کہ مسلمانوں کے فرقوں کا مابین جو کفر کے فتوے ہیں، وہ کفر لزومی کو بیان کرتے ہیں، جبکہ قادیانیت پر کفر کا فتویٰ کفر التزامی کے اعتبار سے ہے۔ ااسی طرح آج بھی اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ان مسائل کو کو عوام کو سامنے لا کر ان کی زہنی الجھنوں کو حل کیا جا سکے۔ اس طرح عوام الناس کے علما پر اعتماد میں اضافہ بھی ہوگااور دینی ماحول بھی صحیح سمت میں ترقی کرے گا۔ 
میری پے درپے معروضات کا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ جواب در جواب اور لاحاصل گفتگو ہوتی رہے۔ امید ہے حسب سابق رہنمائی فرماتے رہیں گے۔ شکریہ!
حافظ محمد فرقان انصاری
۲۴ نومبر ۲۰۱۱
(۵)
مکرمی حافظ محمد فرقان انصاری صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ 
آپ نے مسئلے کی تنقیح کے ضمن میں جو مزید سوالات اٹھائے ہیں، وہ بہت مفید ہیں۔ اس حوالے سے میری گزارشات حسب ذیل ہیں:
۱۔ میرے علم کے مطابق ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہیں بھی روافض کے کفر کی بات اس مفہوم میں نہیں کہی کہ وہ ان کو قانونی طور پر مسلمانوں سے الگ، کفار کا ایک گروہ سمجھتے ہیں اور ان پر کفار کے قانونی احکام جاری کرنا چاہتے ہیں۔ ہاں، روافض کے بعض نظریات کے کفر ہونے کی انھوں نے جابجا صراحت کی ہے۔ ان دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں، اس لیے کہ کسی بات کے فی نفسہ کفر ہونے اور اس کے قائل کو قانونی اعتبار سے کافر قرار دینے میں بہت فرق ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ابن تیمیہ نے بعض مقامات پر یہ لکھا ہے کہ روافض کا مذہب یہود ونصاریٰ کے مذہب سے بھی زیادہ برا ہے، لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہود ونصاریٰ کو روافض سے بہتر کہنا درست ہے تو انھوں نے جواب میں لکھا کہ: 
کل من کان مومنا بما جاء بہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فہو خیر من کل من کفر بہ وان کان فی المومن بذلک نوع من البدعۃ، سواء اکانت بدعۃ الخوارج والشیعۃ والمرجئۃ والقدریۃ او غیرہم فان الیہود والنصاری کفار کفرا معلوما بالاضطرار من دین الاسلام والمبتدع اذا کان یحسب انہ موافق للرسول صلی اللہ علیہ وسلم لا مخالف لہ لم یکن کافرا بہ ولو قدر انہ یکفر فلیس کفرہ مثل کفر من کذب الرسول صلی اللہ علیہ وسلم (مجموع الفتاویٰ ۳۵/۲۰۱)
’’ہر وہ آدمی جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین پر ایمان رکھتا ہے، وہ ہر اس شخص سے بہتر ہے جو آپ کا انکار کرتا ہے، چاہے اس ایمان رکھنے ولے میں کسی قسم کی کوئی بدعت پائی جاتی ہو اور چاہے وہ بدعت خوارج کی ہو یا شیعہ اور مرجۂ اور قدریہ کی یا کسی اور گروہ کی۔ یہود ونصاریٰ تو بالکل واضح طور پر کافر ہیں اور اسلام کے منکر ہیں، جبکہ مبتدع جب یہ سمجھتا ہے کہ اس کا عقیدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے مطابق ہے نہ کہ اس کے خلاف تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ آپ کا منکر نہیں۔ فرض کر لیا جائے کہ وہ منکر ہے تو بھی اس کا انکار بہرحال اس شخص کے انکارجیسا نہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرتا ہے۔‘‘
۲۔ اہل تشیع عمومی طور پر اپنے بعض اکابر علما کے موقف سے اتفاق نہیں رکھتے جو تحریف قرآن کے قائل ہیں، تاہم وہ ان حضرات کی تکفیر بھی نہیں کرتے۔ اس کی وجہ میرے خیال میں یہ ہے کہ اس نوعیت کے فتوے شخصیات کے مقام ومرتبہ کو نظر انداز کر کے نہیں لگائے جا سکتے۔ جو حضرات تحریف کے قائل ہیں، وہ اہل تشیع کے صف اول کے اکابر اہل علم ہیں جن کے علمی مقام ومرتبہ کے پیش نظران کی تکفیر کرنا ان کے لیے ممکن نہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے اہل سنت کے ہاں معوذتین کو قرآن مجید کا حصہ تسلیم نہ کرنے پر نہ صرف یہ کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ پر کوئی فتویٰ نہیں لگایا گیا، بلکہ فتاویٰ عالمگیری (جلد ۲، ص ۲۶۷) میں تصریح ہے کہ آج بھی اگر کوئی شخص ابن مسعود کے موقف سے استناد کرتے ہوئے معوذتین کے قرآن ہونے کا انکار کرے تو راجح قول یہی ہے کہ اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔ 
۳۔ میرے نزدیک اس معاملے میں سب سے بنیادی بات یہ دیکھنے کی ہے کہ اہل تشیع کے نظریات پر تنقید اور ان کے کفریہ ہونے کی تصریحات کے باوجود چودہ صدیوں میں آج تک کہیں بھی ان کو قانونی سطح پر مسلمانوں سے الگ کر کے ان پر کفار کے احکام جاری نہیں کیے گئے، خاص طور پر حج جیسے رکن اسلام کی ادائیگی میں وہ شروع سے اب تک شریک چلے آ رہے ہیں اور کسی نے بھی، حتیٰ کہ ان کے کفر کے فتوے دینے والے مفتیوں نے بھی، آج تک حرمین شریفین کے ارباب حل وعقد سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ اہل تشیع کے وہاں جانے پر پابندی لگائی جائے۔ عبادات او ر عام معاشرتی معاملات کی حد تک یہ کسی بھی شخص یا گروہ کا اجتہادی حق ہے کہ وہ اہل تشیع کے ساتھ صحیح العقیدہ مسلمانوں سے مختلف معاملہ کرے اور میرے فہم کے مطابق ان کی تکفیر کے فتوے بھی بنیادی طو رپر اسی دائرے کو سامنے رکھ کر دیے گئے ہیں، لیکن بحیثیت مجموعی امت کی سطح پر یا کسی بھی مسلمان ملک میں ملکی قانون کے دائرے میں انھیں کافر قرار دینے کی بات میرے نزدیک عقل وفہم اور حکمت وبصیرت سے بالکلیہ محروم ہونے کی علامت ہے اور ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم نے بالکل بجا طور پر اسے عالم اسلام میں ایک ’’ٹائم بم‘‘ رکھ دینے کے مترادف قرار دیا ہے۔ 
۴۔ جہاں تک مفتیان کرام کے فتووں کا تعلق ہے تو اصل خرابی یہ ہے کہ ہمارے ہاں دینی وعلمی مواقف بھی اب اصولی علمی ضوابط کی پابندی کرنے کے بجائے سیاسی حالات سے متاثر ہونا شروع ہوگئے ہیں اور بڑی بڑی معتبر شخصیات اور دار الافتاء بھی اب کسی مسئلے کی دینی وشرعی حیثیت کو واضح کرتے ہوئے یہ دیکھنے لگے ہیں کہ ہوا کا رخ کیا ہے اور کس قسم کی بات اس مخصوص حلقے کے عوامی جذبات سے زیادہ ہم آہنگ ہے جس کی وہ ترجمانی کرنا چاہتے ہیں۔ حالات وواقعات پر نظر رکھنے والا ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اہل تشیع کے خلاف تکفیری فتوے جس فضا میں جمع کیے گئے، اس میں ایران کے شیعہ انقلاب پر سنی دنیا کے سیاسی خدشات وتحفظات کا اظہار بنیادی محرک کی حیثیت رکھتا ہے اور ایرانی انقلاب کے متوقع سیاسی اثرات کا سامنا سیاسی تناظر میں اور سیاسی میدان میں کرنے کے بجائے اس جنگ میں کفر اور اسلام کی بحث کو ایک موثر مذہبی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ یہی صورت حال توہین رسالت کی سزا کے حوالے سے حالیہ بحث میں بھی سامنے آئی اور اس سے پہلے جہاد اور خروج وغیرہ کی بحثوں میں بھی مسلسل یہی روش دیکھنے کو مل رہی ہے۔
یہ رجحان میرے نزدیک مذہبی وعلمی شخصیات اور اداروں کی آرا کی وقعت اور اعتبار کے لیے، جو ان کی اصل قوت ہے، بے حد خطر ناک ہے۔ علمی رائے ایک امانت ہوتی ہے جسے کسی قسم کا سیاسی یا عوامی دباؤ قبول کیے اور کسی قسم کے تعصب کا شکار ہوئے بغیر بالکل بے لاگ طریقے سے بیان کرنا اہل علم کی ذمہ داری ہے۔ اس وقت اصل ضرورت مذہبی اداروں میں علمی اخلاقیات کی پابندی کا احساس پیدا کرنے کی ہے۔ اگر اہل علم اسی طرح مخصوص گروہی رجحانات یا عوامی جذبات کے یرغمال بنتے چلے گئے تو دینی راہنمائی کامنصب رفتہ رفتہ لوگوں کے جذبات ورجحانات کا تابع مہمل بن کر رہ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ضمیر کے مطابق بلا خوف لومۃ لائم حق بات سمجھنے اور حق بات کہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
محمد عمار خان ناصر
۱۶؍ دسمبر ۲۰۱۱ء
(۶)
حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الحمد للہ روزنامہ اسلام کا قاری ہوں۔ آپ کے مضامین پڑھ کر بے حد خوشی ہوتی ہے۔ اکثر آپ کے کالم ایسے ہوتے ہیں کہ کسی نہ کسی حوالے سے ہم ان باتوں پر آپس میں تبصرہ کر چکے ہوتے ہیں اور تمنا ہوتی ہے کہ کوئی اس پر بات کرے۔ آپ کے کالم کی صورت میں ہماری ترجمانی ہو جاتی ہے۔ آپ کی توجہ ایک اہم مسئلے کی طرف دلانا چاہتا ہوں۔ 
آپ بخوبی جانتے ہیں کہ کراچی ایک بین الاقوامی شہر ہے اور اس شہر نے ہر طبقے کی خدمت کی ہے۔ دینی حوالے سے علما اور قرا کی بہت بڑی جماعت نے یہاں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ جماعت تقریباً غربا کی تھی جس نے بے سروسامانی کے عالم میں قرآن وحدیث کی تعلیمات کوعام کیا، مگر اب صورت حال یہ ہوتی جا رہی ہے کہ اہل علم کا بہت بڑا طبقہ درس وتدریس کوچھوڑ کر امور تجارت، خصوصاً رکشا ٹیکسی چلانے کی طرف راغب ہو رہا ہے۔ اس وقت بعض ایسے بہترین مدرسین جو قوم کے نونہالوں کی تعلیم وتربیت کے لیے بہترین سرمایہ ہیں اور جنھوں نے کئی سال خدمت کی ہے، وہ رکشے چلا رہے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر دل خون کے آنسووں سے تر ہو جاتا ہے کہ آخر یہ کیوں ہو رہا ہے؟ جب معلومات لیتا ہوں تو ایک بڑی دل خراش داستان سننے کو ملتی ہے۔
کراچی جیسے شہر میں مدرس کی تنخواہ چار ہزار سے لے کر آٹھ ہزار تک ہے۔صبح سے شام تک کی پابندی، مکان کا کرایہ، بلوں کی ادائیگی، بیوی بچوں اور بوڑھے والدین کے اخراجات، خوشی غمی کے معاملات، یہ ساری چیزیں اس کے ساتھ ہیں۔ تھکا ہارا مدرس عصر سے رات گئے تک محلوں میں گھوم پھر کر ٹیوشن پڑھا کر اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہے۔ روزانہ چوبیس میں سے اٹھارہ گھنٹے کام کرتا ہے۔ کچھ عرصے کے بعد صحت بھی متاثر ہو جاتی ہے، مہنگائی کی وجہ سے ذہنی پریشانی اس کی عمر کو کم کر دیتی ہے۔
پھر بد نصیبی کی بات ہے کہ ایک آدمی نے بیس سال تک ایک ادارے میں خدمت انجام دی، ادارہ کے قواعد وضوابط کی معمولی خلاف ورزی یا بد گمانی یا مہتمم اور ناظم کی اولاد کی حرکات کی وجہ سے اس کو تذلیل کر کے ادارہ سے چلتا کر دیا جاتا ہے۔ اب یہ بڑھاپے میں قدم رکھنے والا کہاں جائے اور کیا کرے؟ دنیا کی ہر کمپنی یا ادارے میں کام کرنے والے کی جتنی سروس زیادہ ہوتی جاتی ہے، اتنی ہی اس کی مراعات بڑھائی جاتی ہیں۔آخر میں اس کچھ دے دلا کر بقیہ زندگی کے لیے بھکاری نہیں بنایا جاتا۔ کمی کوتاہی ہر شخص میں ہو سکتی ہے، لیکن تربیت کے فقدان کی وجہ سے اہل علم کی قدر دانی کی ہمارے ہاں بہت کمی ہے۔
آپ مدارس کے لیے ایسے نظام اور قوانین کی بات اٹھائیں اور وفاق المدارس اس کا کوئی ضابطہ تیار کرے، ورنہ خدا نخواستہ دینی اداروں میں اچھے مدرسین ناپید ہو جائیں گے اور نااہل لوگ مسلط ہو جائیں گے۔اب جتنے لوگ تدریس چھوڑ کر بغاوت کر رہے ہیں، کیا ان کے اعمال واخلاق اور کردار ڈرائیوری کر کے اچھے رہیں گے؟ کیا یہ اتنی بڑی جماعت اپنی اولاد کو حافظ قرآن بنائے گی اور آنے والی نسل کی صحیح دینی تربیت کر سکے گی؟ بہت مشکل ہے۔
آپ جب کراچی آئیں تو روڈ پر کھڑے ہو کر خود مشاہدہ کر لیں، آپ کو خوب اندازہ ہو جائے گا۔ ساتھ ہی ارباب مدارس کو بھی متوجہ کریں۔ بعض مقامات پر ادارہ کے طلبہ واساتذہ کا کھانا دیکھنے کو بھی جی نہیں چاہتا اور صاحب اہتمام کے بچے قورمے کھا رہے ہوتے ہیں۔ آپ ان معاملات کو مجھ سے بہت بہتر سمجھتے ہیں۔ یہ ایک طالب علم کی تحریر ہے جو اپنی آواز کو آپ جیسے بے لوث عالم دین تک پہنچانا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی اور تمام اکابر کی دینی کاوشوں کو قبول فرمائے۔ آمین
عبد الغفور فاروقی
ناظم الامور جامعہ مریم للبنات، کراچی
(۷)
برادرمحترم مولانا محمد عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم۔ مزاج گرامی؟
چند ماہ سے دیکھ رہا ہوں کہ الشریعہ کا معیار بلند سے بلند تر ہو رہا ہے۔اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔باقی آپ ہوں یا دیگر اہل علم، کسی کی رائے کو حرف آخر قرار دینا ممکن نہیں ہے۔ توہین رسالت کی سزا پر جاری مباحثہ کا ٹھوس انداز میں کوئی علمی فائدہ محسوس نہیں ہوتا، سوائے اس کے کہ ایک دوسرے کی آرا کا علم ہو جائے۔ شاید آپ کی نظر میں مزید فوائد بھی ہوں۔
ماضی میں بعض اوقات الشریعہ اور دیگر جرائد میں درج مباحث کو دیکھ کر یہ محسوس ہوتا رہا ہے کہ قسطنطنیہ کا اسلامی فوجوں نے محاصرہ کر رکھا ہے اور علماے نصاریٰ اس موضوع پر مناظرہ کر رہے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آخری غذا میں جو روٹی کھائی تھی، وہ خمیری تھی یا غیر خمیری؟ واللہ العظیم، احقر کوبعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ وہ دور واپس آ رہا ہے یا بالفاظ دیگر وہ رجحانات دوبارہ زندہ ہو رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ تاثر غلط ہو۔
مسائل نظری میں الجھ گیا ہے خطیب
سطحی ونظری مباحث میں الجھنا اب صرف اہل قلم واہل علم کے ساتھ خاص نہیں رہا۔ ہمارے سیاست دان اس کارواں کا ہراول دستہ ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر جس طرح سیاست دان اور ان کے حواری دیانت اور سچائی کا خون کرتے نظر آتے ہیں، کسی سے مخفی نہیں۔ اسلام اور وطن سے محبت دب کر رہ گئی ہے۔ ایک دوسرے کی مٹی پلید کرنے کا ذوق غالب ہے اور اس ذوق کی تسکین کے لیے وہ وہ کارنامے انجام دیے جاتے ہیں کہ جھوٹ اور دیانت اگر مجسم صورت اختیار کر لیں تو خوشی سے جھوم اٹھیں، بلکہ مسرت کی شدت سے بے ہوش ہو جائیں۔
برادر محترم! الشریعہ کے واسطے سے اپنے ایک درد دل میں قارئین کو شریک کرنا چاہتا ہوں۔ دور حاضر میں بے اعتدالی ہر طبقہ میں ہر اعتبار سے سرایت کر گئی ہے۔ اس کی کچھ نشان دہی محترم مولانا محمد عیسیٰ منصوری صاحب نے فرمائی ہے۔ مولانا راشدی صاحب بھی دو کالم لکھ چکے ہیں۔ احقر بھی ایک پہلو سے کوتاہیوں کی نشان دہی کرنا چاہتا ہے۔
دور حاضر کا ایک سنگین مسئلہ اپنی پسندیدہ شخصیات کے لیے القاب کا بے دھڑک استعمال ہے۔ مفکر اسلام اور خطیب پاکستان تو عام القاب ہیں، اب یہ سلسلہ بہت آگے بڑھ گیا ہے۔ مولانا چنیوٹی مرحوم کو ’’سفیر ختم نبوت‘‘ کا لقب آغا شورش کاشمیریؒ نے دیا تھا اور وہ بجا طور پر اس کے حق دار بھی تھے۔ اب تین چار اور حضرات کو یہ لقب دیا جا رہا ہے۔ اللہ اعلم، ان میں سے کون اس لقب سے زیادہ مشہور ہوتا ہے۔ محبوب العلماء والصلحاء پہلے حضرت پیر ذو الفقار احمد صاحب نقشبندی کا لقب تھا اور وہ اس کے حق دار ہیں۔ اب اس لقب کے دعوے دار اور بھی ہیں۔ شیخ القرآن، جانشین شاہ اسماعیل شہیدؒ ، جانشین امام ابن تیمیہؒ ، غزالی زماں، بوے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، شاہین اسلام، شہزادۂ اہل سنت، شہنشاہ خطابت وغیرہ القاب احقر نے خود اشتہارات میں پڑھے ہیں۔ ایک دفعہ ’’جانشین امیر شریعت‘‘ کے لقب پر قلمی جنگ چھڑ گئی تھی جو کہ بہرحال ناپسندیدہ تھی۔ شیعہ مسلک کے ذاکر حضرات کے القاب اور بھی مضحکہ خیز قسم کے ہوتے ہیں، جیسے بحر المصائب، ام المصائب، مجمع المصائب وغیرہ۔
احقر جب دیکھتا ہے کہ اعلیٰ القاب کسی چھوٹی شخصیت کو دیے جا رہے ہیں تو حیرانی اور صدمے کی شدید کیفیت سے دوچار ہو جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک بے تکلف دوست کو فون پر کہا کہ القابات تیزی سے تقسیم ہو رہے ہیں، آپ بھی اپنے لیے کوئی لقب پسند کرلیں، ورنہ محروم رہ جائیں گے۔ استاذ محترم شیخ الحدیث مولانا نذیر احمد صاحب مرحوم (بانی جامعہ اسلامیہ امدادیہ، فیصل آباد) کا فرمان بھی یاد آ رہا ہے ۔ فرمایا کہ ’’میں نے کسی اشتہار میں دیکھا کہ خطیب صاحب کے ساتھ پانچ سات لقب لکھے ہوئے ہیں۔ میں نے کہا، اتنے تکلف کی کیا ضرور ت تھی! سیدھا نبی لکھ دیتے۔‘‘ 
بعض مسالک کے حضرات القابات سے نوازنے میں بہت تیز ہیں اور دوسرے مسالک پر سبقت لے گئے ہیں۔ بارہا معتبر ذرائع سے یہ بات سنی گئی ہے کہ بعض خطیب اپنا نام چھوٹے سائز میں لکھا جانے پر ناراض ہو جاتے ہیں۔ بعض خطیب جلسہ کے منتظمین کو اپنے القاب خود لکھ کر دیتے ہیں۔ خطبا کا اپنے ساتھ پانچ سات مفت خوروں کو لے کر جانا تو اتنا عام ہو گیا ہے کہ منتظمین اسے وبائے عام سمجھ کر خاموش ہو رہتے ہیں۔ 
حضرت امام غزالیؒ نے فرمایا تھاکہ افسوس کہ طبیب ہی مریض بن گئے، عام لوگوں کا علاج کون کرے گا؟ (تبلیغ دین) کاش ہم سب اجتماعی وانفرادی طور پر میانہ روی سیکھ سکیں۔ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔
مشتاق احمد چنیوٹی
ادارہ مرکزیہ دعوت وارشاد، چنیوٹ
(۸)
محترم ومکرم جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بندہ عرصہ گیارہ سال سے الشریعہ کا ایک ادنیٰ قاری ہے۔ میرے پاس اس کے علاوہ بھی بہت سے مجلات آتے ہیں۔ بندہ دینی جرائد کا ایک خاموش قاری ہے۔ آج تک کسی رسالہ کو خط نہیں لکھا۔ آج پہلی دفعہ خط لکھ رہا ہوں۔
وجہ یہ ہے کہ بلاشبہ الشریعہ دینی حلقوں کاایک آزاد فورم ہے، لیکن ایک بات میں ذاتی طور پر محسوس کرتا ہوں کہ بعض اوقات اس رسالے میں دفاع صحابہ واہل بیت کے محاذ پر ایک نمایاں اور قابل ذکر کردار ادا کرنے والی جماعت کے موقف کا بہت سختی کے ساتھ رد کیا جاتا ہے، جیسا کہ دسمبر ۲۰۱۱ء کے شمارے میں مولانا عمار خان صاحب نے امام ابن تیمیہ کا فتویٰ نقل کیا ہے کہ بدعتی کے پیچھے نماز جائز ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کہ شیعہ صرف بدعتی ہے یا کافر بھی ہو سکتا ہے؟ آیا ایک شیعہ قرآن کا منکر ہو کر، صحابہ کا دشمن ہو کر، عائشہ صدیقہ پر تبرا کر کے، امامت کو نبوت سے بلند منصب مان کر اور اذان، کلمہ اور نماز بدل کر بھی صرف بدعتی ہوگا، جبکہ اس پر امت کے اکابرین کے، کفرکے فتاویٰ موجود ہیں؟
سپاہ صحابہ کے طریقہ کار پر تحفظات ہو سکتے ہیں اور کسی کے بھی طریقہ کار پر ہو سکتے ہیں، لیکن ان کی ہر بات کو باقاعدہ رد کرنا اور ہر بات کو غلط کہنا شاید انصاف نہ ہو اور صرف انھی کے خلاف ہر دفعہ رسالے میں لکھنا شاید مناسب نہ ہو۔ وہ تو پہلے ہی مظلوم ہیں اور اپنوں اور غیروں کے نشانوں پر ہیں۔ اس محاذ پر ان کی اتنی قربانیاں ہیں کہ شاید کوئی دوسری جماعت اس کی مثال پیش نہیں کر سکتی۔ اس جماعت کو صحابہ کے ساتھ ایمانی تعلق بھی ہے اور انھوں نے جانوں کے نذرانے پیش کر کے اس کو ثابت بھی کیا ہے۔ تحریکوں کے اندر جذباتی لوگ بھی ہوتے ہیں جو بعض اوقات جذبات میں بزرگوں کی شان میں نامناسب بات بھی کہہ جاتے ہیں جو کہ غلط ہے، لیکن یہ سبھی جماعتوں میں ہے۔ صرف سپاہ صحابہ میں نہیں۔ بعض اوقات ایسی باتیں اپنے مشن کے ساتھ محبت کی وجہ سے ہوتی ہیں۔
الشریعہ کے اسی شمارے میں آپ نے برادرم مولانا عمار ناصر صاحب کے بارے میں فرمایا ہے کہ ’’میں نے اسے اس گھنے جنگل میں تنہا اور بے سہارا بھی نہیں چھوڑ رکھا کہ جس کا جی چاہے، اس پر غرانے کی مشق شروع کر دے۔‘‘ اب اس عبارت میں ’’غرانے‘‘ کا لفظ آپ نے لکھا ہے۔ غراتا کون ہے؟ اس کی وضاحت بھی آپ ہی فرمائیں گے، کیونکہ مجھے تو اس لفظ کا استعمال برادرم عمار کے اوپر تنقید کرنے والوں کے لیے عجیب لگا ہے۔ اگر عمار صاحب بے سہارا اور تنہا نہیں ہیں تو کیا صحابہ، امہات المومنین اور قرآن ہی بے سہارا ہیں کہ جو چاہے، ان پر زبان دراز کرتا رہے اور جواب میں اس پر کفر کا فتویٰ نہ لگے اور اس کو اسلام سے خارج نہ کہا جائے اور صرف بدعتی کہہ دیا جائے؟
مختار احمد فاروقی
جامعہ حنفیہ تعلیم القرآن، شکر گڑھ

شش ماہی ’’معارف اسلامی‘‘ (خصوصی اشاعت بیاد ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ)

ڈاکٹر قاری محمد طاہر

ڈاکٹر محمود احمد غازی بڑی علمی شخصیت تھے۔ علمی حلقوں میں ان کا بڑا نام ہے۔ انہوں نے بہت زیادہ عمر نہیں پائی، لیکن ماہ و سال کی قلیل مدت میں انہوں نے بڑا نام کمایا۔ بہت اہم علمی آثار ورثہ کے طور پر چھوڑے جو اہل علم کے لیے روشنی کا سامان مہیا کرتے رہیں گے اور آپ کے خوان سے ہم علم کے موتی چنتے رہیں گے۔ آپ کا انتقال ۲۶ ستمبر ۲۰۱۰ء میں ہوا۔ آپ کا انتقال علمی دنیا کابہت بڑا نقصان ہے جس کی تلافی کا امکان مستقل قریب میں دور دور تک نظر نہیں آتا۔ 
آپ کے انتقال پر بہت سے رسائل نے اہم مضامین شائع کیے۔ ’’معارف اسلامی‘‘ اسی تسلسل کی ایک کڑی ہے جو ’’معارف اسلامی‘‘ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کلیہ علوم اسلامیہ کا علمی و تحقیقی رسالہ ہے۔ اس سے قبل آپ کی ذات کے حوالے سے گوجرانوالہ کا ماہنامہ ’الشریعہ‘ ایک وقیع نمبر پیش کر چکا ہے۔ تعلیمی اداروں میں شائع ہونے والے مجلات کی روایت کے مطابق مجلہ کے سرپرست علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں جبکہ مدیر مسؤل ڈاکٹر علی اصغر چشتی ہیں۔ مجلس مشاورت میں یونیورسٹی کے گیارہ پروفیسر حضرات کے نام موجود ہیں۔ مدیر مسؤل اور مدیر کو شامل کرکے یہ تعداد تیرہ ہو جاتی ہے۔ پھر مجلس مشاورت میں نو پروفیسر حضرات کے نام مستزاد ہیں جن کا تعلق پشاور سے لے کر قاہرہ اور امریکہ کی یونیورسٹیز کے ساتھ ہے۔ اس طرح کل ملا کر ۲۱ سے زائد پروفیسر حضرات اس مجلہ کو چلا رہے ہیں۔
کسی کتاب یا مجلہ کے مقام و مرتبہ کا اندازہ اس کے مباحث اور مواد سے لگایا جاتا ہے۔ محض ناموں کی کثرت کسی رسالہ کو بڑا نہیں بناتی۔ اگر اہل علم حضرات میں تختیاں لکھنے اور لگوانے کا شوق پروان چڑھ جائے تو قلمکار اور سیاست کار ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں اور قلم کاری اور سیاست کاری کے فاصلے سمٹ بھی جاتے ہیں۔ 
جن مقالہ نگار حضرات کی تحقیقات کو اس شمارہ میں شامل کیا گیا ان کی تعداد انیس (۱۹) ہے۔ جس میں تیرہ مقالات اردو میں ہیں، تین مقالات عربی میں اور تین انگریزی زبان میں ہیں۔ پہلے مقالے کاعنوان پروفیسر ڈاکٹر محمود احمد غازی شخصیت اور خدمات کے عنوان سے ہے جو ڈاکٹر اصغر علی چشتی کا تحریر کردہ ہے۔ آپ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں ڈین کلیہ عربی و علوم اسلامیہ ہیں۔ آپ نے مقالے کا آغاز علامہ اقبال کے ایک شعرسے کیا ہے۔ شعر اس طرح لکھا ہے:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
چمن میں تب کہیں ہوتا ہے جاکر دیدہ ور پیدا
مقالہ نگار فاضل و عالم ہیں۔ ان سے تو یہ سہو ممکن نہیں تاہم مسودہ کمپوز کرنے والے اور پھر اس کو پڑ ھنے والے کا سہو ہو سکتا ہے۔ ہمارے نزدیک کمپوز کرنے والے اور پروف خواں کا سہو قرار دینا بھی مناسب نہیں۔ کیونکہ برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر ۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے سہو کتابوں میں انہونی بات نہیں تاہم کتاب کے آغاز ہی میں اتنی بڑی غلطی کتاب کی قدروقیمت پر پہلی ہی نظر میں منفی اثرات لاتی ہے۔ بعض حضرات شعری اوزان کو اہمیت نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک اصل مقصود بات کی تفہیم ہے۔ بات سمجھ میں آجائے تو اوزان کی پابندی شاید اہمیت کھو دیتی ہے۔
شعر می گویم بہ از آب حیات
من نہ دانم فاعلاتٌ فاعلاتٌ فاعلات
سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے۔ 
دوسرے مضمون کا عنوان ’’بیابان کی شب تاریک میں قندیل‘‘ ہے۔ یہ مضمون مرحوم غازی صاحب کی بیٹی نائلہ غازی کے قلم سے ہے۔ انہوں نے ڈاکٹر صاحب کا مطالعہ ایک والد کی حیثیت سے کیا اور ان کی زندگی کے ان گوشوں کو وا کیا جو عام لوگوں کی نظر سے اوجھل رہتے ہیں۔ یہ مضمون بڑا جاندار ہے جس سے اولاد کے ساتھ محبت اور ان کی تربیت کے انداز کا پتہ چلتا ہے۔ نیز ان کی گھریلو زندگی کے پہلوؤں کے بارے میں روشنی ملتی ہے۔ 
’’علوم القرآن کی نئی جہات ڈاکٹر محمود احمد غازی کی محاضرات قرآنی کے تناظر میں‘‘ یہ مضمون ڈاکٹر ثناء اﷲ کا لکھا ہوا ہے جو ایک ہی عنوان سے دو مرتبہ تحریر کیا گیا۔ معلومات اگرچہ بہتر ہیں، تاہم تحصیل حاصل کا پہلو غالب ہے۔
’’دینی مدارس کا نظام و نصاب ڈاکٹر محمود احمد غازی کے افکار سے استفادہ‘‘ کے عنوان سے لکھا گیا۔ یہ مضمون ڈاکٹر شاہ معین الدین ہاشمی کے قلم سے ہے۔ یہ مضمون جاندار ہے، محنت سے لکھا گیا ہے۔ اس مضمون میں ڈاکٹر صاحب کی اس پختہ رائے کا علم ہوتا ہے جو وہ دینی مدارس اور دینی مدارس میں پڑھائے جانے والے علوم کے بارے میں رکھتے تھے اور برملا اس کا اظہار بھی فرمایا کرتے تھے۔ 
اسی طرح ڈاکٹر جنید احمد ہاشمی کا مضمون ’’محکمات عالم قرآنی: اقبالیات میں ایک وقیع اضافہ‘‘ کے عنوان سے ہے۔ ’’محکمات عالم قرآنی‘‘ ڈاکٹر غازی کی کتاب ہے جس پر مضمون نگار نے اچھی بحث کی ہے۔
اگلا مقالہ ’’افکار مجدد الف ثانی ؒ کے ڈاکٹر غازی پر اثرات‘‘ کے عنوان سے ہے جس کے لکھنے والے ڈاکٹر ہمایوں عباس شمس ہیں۔ مقالہ نگار کے پی ایچ ڈی مقالے کا عنوان بھی غالباً یہی تھا۔ انہوں نے ڈاکٹر غازی کی بعض تحریروں سے یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت مجددؒ سے ڈاکٹر غازی متاثر ہی نہیں بلکہ مستنیر بھی تھے۔ 
سات مضامین ڈاکٹر صاحب کی کتب کے حوالے سے لکھے گئے ہیں جو اسلام آباد کے ڈاکٹر حضرات کی مساعی جمیلہ کا نچوڑ ہیں۔ ان مضامین سے معارف اسلامی کی اس خصوصی اشاعت کی ضخامت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ 
معارف اسلامی کی اس خصوصی اشاعت میں سب سے زیادہ جاذب نظر مضمون ڈاکٹر محمد سجاد صاحب کا ہے جس کا عنوان ’’مکاتیب ڈاکٹر محمد حمید اﷲ بنام ڈاکٹر محمود احمد غازی‘‘ ہے۔ آغاز میں انہوں نے ڈاکٹر حمید اﷲ مرحوم کے اور ڈاکٹر محمود احمد غازی کے مختصر احوال کا ذکر کیا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے ڈاکٹر حمید اﷲ صاحب کے خطوط کی عبارات درج کی ہیں۔ یہ خطوط تعداد میں ۱۳۶ ہیں۔ یہ بات مسلم ہے کہ اہل علم کے خطوط بھی علمی ہوتے ہیں، خواہ ذاتی نوعیت ہی کے کیوں نہ ہوں۔ اس حوالے سے ڈاکٹر حمید اﷲ مرحوم کے یہ خطوط انتہائی اہم ہیں۔ ہر خط علمی اعتبار سے کسی نئی جہت کا پتہ دیتا ہے۔ یہ تمام خطوط مستقل علمی تحقیق کا موضوع ہیں۔ معارف اسلامی کی مذکورہ خصوصی اشاعت میں یہ مضمون مرکزی حیثیت رکھتا ہے جس نے معارف اسلامی کے اس خاص شمارے کی قدر و منزلت میں خوب اضافہ کیا ہے۔ 
ڈاکٹر حمید اﷲ مرحوم کے مذکورہ خطوط ڈاکٹر غازیؒ نے خود ترتیب کے ساتھ مرتب فرما لیے تھے۔ ڈاکٹر محمد سجاد صاحب کے مطابق انہوں نے ڈاکٹر صاحب کے حکم پر ان خطوط کی پروف خوانی کی۔ ڈاکٹر صاحب ان خطوط پر حواشی لکھنے کا ارادہ رکھتے تھے، لیکن زندگی نے وفا نہ کی۔ یہ منصوبہ ادھورا رہ گیا۔ ممکن ہے، کوئی صاحب علم آگے بڑھے اور ادھورا منصوبہ پورا کرسکے۔ ان خطوط میں پہلا خط ۷ ربیع الاوّل ۱۳۹۴ھ کا ہے۔ آخری خط ۲۶ دسمبر ۱۹۹۴ء کا ہے، جبکہ بقیہ دس خطوط پر تاریخ کا اندارج نہیں ہے۔ ان تمام خطوط میں ہر خط اپنی جگہ اہم ہے۔ ان خطوط کے مندرجات پر مزید تحقیقی کام کی بہت زیادہ گنجائش ہے جن سے علم و آگہی کے بڑے اہم مستور گوشے وا ہوسکتے ہیں۔ 
معارف اسلامی کے حصہ عربی میں تین مضامین شامل ہیں۔ پہلے مضمون میں ڈاکٹر عصمت اﷲ صاحب نے ڈاکٹر غازی صاحب کے احوال و آثار کا تذکرہ کیا ہے۔ دوسرے مضمون میں ڈاکٹر فضل اﷲ صاحب نے غازی صاحب کی عربی تصانیف کے اسلوب پر بحث کی ہے، جبکہ تیسرا مضمون ڈاکٹر محمد علی غوری کا ہے جس کا عنوان القانون الدوولی الاسلامی ہے۔
انگریزی زبان کے مضامین تقریباً اردو زبان میں لکھے گئے مضامین ہی کا انگریزی Version ہیں۔ مذکورہ خصوصی اشاعت میں مقالہ نگار حضرات کا تعارف بھی دیا گیا ہے جو اچھی روایت ہے۔ اس تعارف میں ان کے دیگر علمی آثار کا تذکرہ بھی شامل کر دیا جائے تو مزید بہتر ہوتا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی شاید بے محل نہ ہو کہ آغاز میں معارف اسلامی میں مقالہ کی اشاعت سے متعلق قواعد کے عنوان سے کچھ اصول دیے گئے ہیں۔ ان میں ایک شرط یہ بھی لکھی گئی ہے کہ مقالہ کسی اور جگہ شائع شدہ یا کسی اور جگہ اشاعت کے لیے نہ دیا گیا ہو۔ یہ شرط افشائے علم اور تعمیم علم کے منافی ہے جبکہ علم کو محدود کرنا اہل علم کے ہاں مذموم عمل ہے۔ 
مجموعی لحاظ سے معارف اسلامی کی خصوصی اشاعت ایک اچھا اضافہ ہے جس سے اہل علم مستقل استفادہ کرتے رہیں گے۔ 

توہین رسالت کا مسئلہ ۔ چند اہم سوالات کا جائزہ

تالیف: محمد عمار خان ناصر
سن اشاعت: مارچ ۲۰۱۱ء
ناشر: مکتبہ امام اہل سنت، جامع مسجد شیرانوالہ باغ، گوجرانوالہ
توہین رسالت کا مسئلہ انتہائی اہم بھی ہے اور انتہائی نازک بھی۔ ایمان کی معمولی رمق رکھنے والا ہر مسلمان اس معاملے میں حساس ہے۔ ایمان کا تقاضا بھی یہی ہے۔ 
دردل مسلم مقام مصطفی است
آبروئے ما زنام مصطفی است
ماضی قریب میں پاکستان میں پیش آنے والے بعض واقعات نے اس مسئلہ کی اہمیت کو اور بھی اجاگر کر دیا ہے۔ اس موضوع پر اہل علم میں علمی بحثیں بھی سامنے آئیں۔ نام نہاد دانشوروں نے ٹی وی پر اپنے دل کی بھڑاس نکالی۔ اس خالص علمی اور اعتقادی مسئلہ کو جذباتی رنگ دے کر خاص طبقے کو مطعون کرنے میں بھی کسر نہ چھوڑی۔ 
زیر تبصرہ کتابچہ اسی موضوع پر ہے۔ محمد عمار ناصر نوعمر قلم کار ہیں اور علمی دسترس بھی رکھتے ہیں۔ ایک علمی ماہنامے کے ایڈیٹر ہیں۔ جدید و قدیم علوم پر ان کی گہری نظر ہے۔ انہوں نے اپنی اس تصنیف کو سات بنیادی عنوانات پر تقسیم کیا ہے۔ جو اس طرح ہیں: 
۱۔ بنیادی سوالات 
۲۔ اسلامی ریاست کی ذمہ داری
۳۔ توہین رسالت کی شرعی سزا
۴۔ امام ابن تیمیہ کے مؤقف کا جائزہ
۵۔ فقہائے احناف کا نقطۂ نظر 
۶۔ حکمت و مصلحت کے چند اہم پہلو
۷۔ سزا کے نفاذ کا اختیار 
آخر میں ضمیمہ کے طور پر بعض اہم سوالات پر مراسلت بھی شامل ہے۔ 
توہین رسالت کے حوالے سے تین بنیادی نظریات ہیں۔ ایک نظریہ سیکولر یا لبرل ذہن رکھنے والوں کا ہے۔ وہ آزادی افکار کا سہارا لیتے ہیں اور توہین رسالت کرنے والے کے بارے میں کسی سزا کے قائل نہیں۔ ان کے ہاں فکری آزادی ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ لہٰذا کوئی طاقت اس آزادی میں مداخلت کا حق نہیں رکھتی۔
دوسرا نظریہ یہ ہے کہ توہین رسالت انتہائی برا فعل ہے، لیکن اس کا ارتکاب کرنے والوں کے ساتھ فاعفوا واصفحوا سے کام لینا چاہیے۔ ان کے نزدیک رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان رحمت کا پہلو غالب ہے۔ 
تیسرا نظریہ یہ ہے کہ اس جرم کا مرتکب شخص سخت سے سخت سزا کے مستوجب ہے جس میں موت تک کی سزا بھی شامل ہے۔ 
موصوف نے ان تمام پہلوؤں پر قدیم اکابر فقہاء اور علماء کی آراء کا جائزہ لیا ہے اور ان کی تحریروں سے نتائج اخذ کیے ہیں۔ علمی لحاظ سے مذکورہ کتاب نہایت اہمیت کی حامل ہے اور اس موضوع پر جانکاری حاصل کرنے والوں کے لیے معلومات کا ذخیرہ ہے جس سے اس مسئلہ کو سمجھنے میں خاطر خواہ مدد ملتی ہے۔ 

’’اطراف‘‘

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(میاں انعام الرحمن کے مجموعہ مقالات ’’اطراف‘‘ کے پیش لفظ کے طور پر لکھا گیا۔)

پروفیسر میاں انعام الرحمن ہمارے عزیز ساتھیوں میں سے ہیں۔ ان کا تعلق ایک علمی خاندان سے ہے۔ ان کے دادا محترم حضرت مولانا ابو احمد عبد اللہ لدھیانوی قدس اللہ سرہ العزیز علماء لدھیانہ کے معروف خانوادہ کے بزرگ تھے اور رئیس الاحرار حضرت مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی نور اللہ مرقدہ کے ساتھ قریبی تعلق داری بھی رکھتے تھے۔ مولانا عبد اللہ لدھیانویؒ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے شاگرد تھے۔ قیام پاکستان کے موقع پر لدھیانہ سے ہجرت کر کے گوجرانوالہ آئے اور دار العلوم نعمانیہ کے نام سے مدرسہ قائم کر کے تدریس میں مصروف ہو گئے۔ میرا ان کے ساتھ نیازمندانہ تعلق رہا ہے۔ وہ جمعہ ہمیشہ مرکزی جامع مسجد میں پڑھتے تھے اور حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ غلطیوں پر ٹوکابھی کرتے تھے۔ ان کے فرزند حضرت مولانا عبد الواسع لدھیانویؒ آل انڈیا مجلس احرار اسلام کے سرگرم راہ نماؤں میں شمار ہوتے تھے جبکہ ان کے سب سے چھوٹے فرزند مولانا علامہ محمد احمد لدھیانویؒ کے ساتھ کئی عشروں تک میری جماعتی رفاقت رہی ہے۔ علامہ صاحب نے ایک عرصہ تک جمعیۃ علماء اسلام گوجرانوالہ کے سیکرٹری جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دیے ہیں اور وہ علماء لدھیانہ کی روایات کو تازہ رکھتے تھے۔
میاں انعام الرحمن کو میں بچپن سے جانتا ہوں اور اس دور سے انھیں دیکھ رہا ہوں جب وہ اسکول میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔ علماء لدھیانہ کی حریت پسندی، اپنی بات کا بے باک اظہار اور لگی لپٹی رکھے بغیر اپنی رائے کو پیش کرنے کا مزاج علماء کرام کے اس خاندان سے قریبی تعلق رکھنے والوں پر مخفی نہیں ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ خاندان کے اس مزاج اور روایت نے میاں انعام الرحمن کی شخصیت اور ذوق کی تشکیل میں سب سے زیادہ حصہ ڈالا ہے۔ وہ پابند صوم وصلوٰۃ ہیں، وضع قطع میں خاندانی روایات کے دائرے کو قائم رکھے ہوئے ہیں، شرعی احکام وضوابط کی پابندی کرتے ہیں، علماء کرام کا احترام کرتے ہیں اور بزرگوں کی بات مان لینے کے خوگر ہیں، البتہ اپنی سوچ اور اس کے اظہار میں قدرے آزاد ہیں۔ بات ذرا مشکل اسلوب میں کرتے ہیں جو اکثر عام قاری کے سر کے اوپر سے گزر جاتی ہے۔ وسیع تر مطالعہ اور اس کی بنیاد پر مختلف مسائل کا تیکھے انداز میں تجزیہ ان کا خصوصی ذوق ہے اور بہت سی باتیں ایسی کہہ جاتے ہیں جن سے اتفاق بظاہر مشکل ہوتا ہے۔ اس کے باوجود وہ ہمارے ساتھی ہیں، الشریعہ اکادمی کی ورکنگ ٹیم کا حصہ ہیں اور وقتاً فوقتاً مختلف مسائل پر لکھتے رہتے ہیں جو ’الشریعہ‘ میں شائع ہوتا رہتا ہے۔
میری ایک ’’کمزوری‘‘ سے سب احباب واقف ہیں کہ میں آج کے حالات کے تناظر میں قدیم وجدید لٹریچر کا مطالعہ کرنے والے اور اپنے اس متنوع اور وسیع مطالعہ کی بنیاد پر مسائل کا تجزیہ کرنے والے اصحاب قلم کو ڈانٹنے اور ٹوکنے کا قائل نہیں ہوں، بلکہ حکمت عملی کے ساتھ ان کا ذہنی رخ موڑنے کی کوشش کو ترجیح دیتا ہوں اور یہ کوشش موقع ومحل کی مناسبت سے خود بھی کرتا ہوں۔ مجھے میاں انعام الرحمن کی بہت سے باتوں سے اختلاف ہوتا ہے اور ان کے مضامین کے زیر نظر مجموعہ کی بہت سی باتوں سے بھی مجھے اختلاف ہے، لیکن بحمد اللہ تعالیٰ میرے ذہن میں اختلاف اور بغاوت کے درمیان فرق کا نکتہ ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ کوئی صاحب فکر اور صاحب علم اگر ہمارے دینی اور علمی ڈھانچے کو چیلنج نہیں کرتا اور بغاوت کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے اس کے اندر رہتے ہوئے کسی بات سے اختلاف کرتا ہے تو میں اسے خواہ مخواہ بغاوت سمجھنے یا زبردستی بغاوت کی طرف دھکیلنے کے رویے کو مناسب نہیں سمجھتا اور افہام وتفہیم (بالواسطہ یا بلا واسطہ) کے لہجے میں صحیح بات کی طرف توجہ دلانے کو زیادہ مفید طرز عمل تصور کرتا ہوں۔ میرے اس رویے سے بہت سے بزرگوں کو اختلاف ہوگا جو ان کا حق ہے، لیکن میرا طرز عمل بہرحال یہی ہے۔ اسی پر آئندہ بھی کاربند رہنے کا عزم رکھتا ہوں اور قدیم وجدید لٹریچر پرنظر رکھنے والی آج کی نسل کی راہ نمائی کے لیے اسی کو بہتر سمجھتا ہوں۔
میاں انعام الرحمن کے مضامین کا مجموعہ آپ کے سامنے ہے۔ اس کے مطالعہ کے دوران بہت سی باتوں میں آپ کو اجنبیت محسوس ہوگی، مگر میری درخواست ہے کہ اسے اس ذہن سے نہ پڑھیں کہ دین کی کوئی نئی تعبیر سامنے آ رہی ہے، بلکہ اس رخ سے دیکھیں کہ آج کے وہ اصحاب دانش جو دین کے ساتھ بنیادی وابستگی رکھتے ہیں اور روایت سے منحرف نہیں ہونا چاہتے، وہ کس انداز سے سوچتے ہیں، اس نئی سوچ کے ساتھ ہم آہنگی یا اختلاف کے مواقع کہاں کہاں ہیں اور ہم نے ایسی سوچ رکھنے والے حضرات کے ساتھ گفتگو اور مکالمہ کے لیے کون سا ایسا رخ اختیار کرنا ہے جو ان کے لیے بھی نفع بخش ہو اور ہم بھی افراط وتفریط کا شکار ہوئے بغیر اس کی افادیت کے دائرے کو وسیع کر سکیں۔
میری دعا ہے کہ اللہ رب العزت میاں انعام الرحمن کی اس کاوش کو ان مسائل پر بہتر مکالمے کا ذریعہ بنائیں اور ہم سب کو فکر ونظر کی سلامتی کے ساتھ دین اور دنیا دونوں کو بہتر سے بہتر بنانے کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔

سیمینار: ’’ریاست و حکومت: علامہ اقبال اور عصری مسائل‘‘

ادارہ

(یونیورسٹی آف گجرات اور اقبال اکادمی پاکستان کے اشتراک سے قومی سیمینار۔)

عصر حاضر کے عالمِ اسلام میں جن مفکرین کے نام سرِ فہرست آتے ہیں ان میں علامہ محمد اقبال کو مقامِ نام آوری اور مسندِ امتیاز و افتخار حاصل ہے ۔ لطافتِ خیال اور وسعت فکر میں ان کو اپنے عہد کی عظیم شخصیتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ انہوں نے جس مہم کا آغاز کیا اور جس تصور کی عملی تشکیل کی اس میں شاعرانہ حسن تخیل، فلسفیانہ ژرف نگاہی، مجاہدانہ روح اور قوت ارادی ان کے شریک کار رہی۔ ان کی نظم و نثر کا ہر پہلو ان کے جلوۂ ذہانت اور بصیرت حکیمانہ کا آئینہ دار ہے۔ حضرت اقبال کا فلسفہ اور شاعری بہت سے ارباب دانش کا موضوع فکر بنا لیکن ان کے منظرِفکر و بصیرت کے مختلف گوشوں میں سے جن میں سیاسیات، مذہبیات، اخلاقیات اور الٰہیات شامل ہیں۔ اقبال کے سیاسی نظریات کا چہرہ تاحال حجاب آفریں اور متضاد تصورات کے بے ربط امتزاج کے تاریک غبار میں پنہاں ہے جو ان کے نظام فکر سے وابستہ کر دیئے گئے ہیں۔ بلا شبہ علامہ اقبال کے سیاسی تصورات کے مفہوم و افادیت کا ابھی تک واقعیت پسندی کے ساتھ اس حد تک جائزہ نہیں لیا گیا جہاں تک اس کی اہمیت کا اقتضا ہے ۔ 
اسی تناظر میں یوم اقبال کے ضمن میں جامعہ گجرات نے فکر اقبال کے عصری تقاضوں کے حوالے سے ’’قومی دانشگاہ‘‘ کی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے اقبال اکادمی پاکستان کے اشتراک سے 15 نومبر کو فکر انگیز قومی سیمینار بعنوان ’’ریاست و حکومت: اقبال اور عصری مسائل‘‘ کا انعقاد ممکن بنایا۔ میزبانی رئیس الجامعہ گجرات ڈاکٹر محمد نظام الدین نے کی جبکہ فرزند اقبال جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال نے صدارت کی۔ ڈائریکٹر اقبال اکادمی پاکستان ڈاکٹر محمد سہیل عمر، لمزسے ڈاکٹر اعجاز اکرم، ممتاز کالم نگار، دانشور و اینکرخورشید ندیم، اقبال اکادمی کے ڈاکٹر طاہر حمید تنولی اور مدیر ماہنامہ الشریعہ، محمد عمار خان ناصر نے پر مغزمقالات پیش کیے۔ 
ڈاکٹر محمد نظام الدین نے سیمینار کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ افکار اقبال کو سمجھنے کے لیے یہ بنیادی بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ وہ تاریخ اسلام کے ایسے موڑ پر ابھر کر سامنے آئے جب امت مسلمہ بحیثیت مجموعی صدیوں کی غلامی ، محکومی اور علمی و عملی جمود و انحطاط کے بعد پھر ایک آزاد قوم بن کر ابھرنے والی تھی اور سامراجی، شہنشاہی اور نو آبادیاتی طاقتوں کے چنگل سے نکل کر ایک آزاد قوم کی طرح اپنے مستقبل کے تعمیر کی ذمہ داریاں سنبھالنے کا مشکل چیلنج اس کے سامنے تھا۔ ایسے جمود زدہ اور زوال زدہ سماج میں ایک جرات مند راہبر و مفکر کی ضرورت تھی یہ راہنما علامہ اقبال کی صورت میں ابھر کر سامنے آیا۔ اقبال نے بالخصوص خطبات میں اپنے عہد کے اہم سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی، یہ سوال کوئی نئے نہیں تھے۔ تاریخ کئی بار ان کے جواب دے چکی تھی لیکن مذہبی فلسفے کا ہر زمانے کی علمی سطح سے تعلق ہوتا ہے۔ جب وہ سطح بدل جاتی ہے تو ان کی عصری قدر و قیمت بھی ختم ہو جاتی ہے، لہٰذا یہ ضروری نہیں کہ ہم اقبال کے پیش کردہ جوابات سے مطمئن ہو کر بیٹھے رہیں۔ اقبال کو ہم اسی طریقے سے حیاتِ نو دے سکتے ہیں جس طرح انہوں نے اپنے اسلاف کے افکار و خیالات کا تنقیدی محاکمہ کیا تھا ۔ صرف پھولوں کی چادر چڑھانے سے اقبال کو زندہ نہیں رکھا جاسکتا۔شیخ الجامعہ نے مقالہ نگاروں اور حاضرین کو خوش آمدید کہتے ہوئے شرکت پر ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔ 
فرزندِ اقبال جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ یونیورسٹی آف گجرات کا عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نظام تعلیم و تدریس دیکھ کر جی خوش ہو گیا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ گجرات جیسے دور دراز علاقے میں ایسی دانش گاہ قومی اور عصری چیلنجوں کو قبول کر کے ان سے عہدہ برآہ ہونے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھے ہوئے۔ جسٹس جاوید اقبال نے اقبال اور فلاحی ریاست کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اقبال کے نامکمل کام مکمل کیے جائیں۔ اقبال فکر قرآن کے حوالے سے تحقیقی کام کے خواہشمند تھے مگر زندگی میں اس پر تحریری کام نہ کر سکے۔ اسی طرح وہ اجتہاد پر کام کے خواہشمند تھے ۔ اقبال کو رخصت ہوئے ۷۳ سال ہو گئے، ہم وہیں کھڑے ہیں ۔علامہ اقبال نے امام غزالی کے بعد ایک ہزار سال میں پہلی مرتبہ واضح کیا کہ تین منفی طاقتیں ہیں جن کے خلاف جہاد کی ضرورت ہے ۔ مطلق العنان ملوکیت، ملائیت او ر تصوف۔ ان کے خلاف جہادکے ذریعے ہی مسلم معاشرہ وجود میں لایا جاسکتا ہے ۔ 
ڈاکٹر جاوید اقبال نے مزید کہا کہ صحیح معنوں میں کوئی آئیڈیل سیکولر ریاست یا روحانی جمہوریت ہی فلاحی ریاست ہو سکتی ہے ہے جو دوسرے مذاہب کا احترام کرے تو وہ صرف اقبال کی تجویزہ کردہ جدید فلاحی اسلامی ریاست ہے ۔ اقبال سوشلزم اور کمیونزم کے بھی اتنے ہی خلاف تھے جتنے سرمایہ دارانہ نظام کے کیونکہ وہ اسلامی فلاحی ریاست کے تصور میں یقین رکھتے تھے۔ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کے اجتہاد کی تخلیق ہے۔ یہ روایتی اسلامی تحریکوں کا نتیجہ نہیں تھا۔ پاکستان کو فکر اقبال کے تناظر میں چلانے کے لیے بھی اجتہادی سوچ کی ضرورت ہے ۔ ہماری قوم نے سیاسی آزادی تو حاصل کر لی ہے، لیکن ذہنی طور پر وہ ابھی تک مغلوب ہے۔ ہم نے اپنے آپ کو ابھی تک دوسری اور تیسری صدی کے تقاضوں اور ضروریات کا غلام بنا رکھا ہے ۔ اقبال اور فلاحی ریاست وہ موضوع ہے جس پر ہمیں چودہ اگست ۱۹۴۷ء کے فوراً بعد ہی غور کرنا چاہیے تھا تاکہ ہم جدید اسلامی ریاست کو قائم کر کے اس کے سیاسی و تہذیبی ارتقاء کے لیے راہ ہموار کر سکتے۔
LUMS  کے ڈاکٹر اعجاز اکرم نے ’’فکر اقبال کا پس منظر اور مسلم سیاسی فکر ‘‘کے عنوان سے مقالے میں کہا کہ علامہ اقبال نے فکر اسلامی کو اپنے عصری تقاضوں کی روشنی میں سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ۔اقبال عصری تقاضوں کو اسلام کے ماضی سے رشتہ توڑ کر نہیں بلکہ اس رشتے کو اور بھی مضبوط کر کے پورا کرنا چاہتے تھے، اس لیے فکر اقبال کو سمجھنے کے لیے خود فکر اسلامی کے اس تاریخی ارتقا کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے جو وحی و رسالت کی ساتویں صدی سے چل کر اقبال کی بیسویں صدی تک پہنچتا ہے ۔ یہ بہت طویل اور پیچیدہ سفر ہے گذشتہ پندرہ سو سالوں میں اسلامی فکر مختلف اور متنوع ادوار سے گزری ہے۔
ڈاکٹر محمد سہیل عمر نے ’’مسلم سیاسی فکر اور اقبال کا تصور اجتہاد ‘‘ کے موضوع پر کہا کہ اسلامی تاریخ کے دور جدید میں اقبال ان بلند پایہ اہل بصیرت میں شامل ہیں جو مذہب و سیاست میں اجتہاد کی حمایت کرتے ہیں ۔اقبال کے خیال میں اسلام کا تصورِ حیات جامد نہیں بلکہ متحرک ہے ۔ مسلمانوں کے زوال و انحطاط کا اہم سبب ہی یہ ہے کہ مسلمانوں کی قوت فکر بصیرت و اجتہاد سے محروم ہو گئی ۔ تاہم اجتہاد کا دروازہ کبھی بند نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی بند کر سکتا ہے ۔ اقبال کے خیال میں اجتہاد حسن تغیر اور حرکت ارتقا کا وسیلہ ہے۔
خورشید احمد ندیم نے ’’جمہوریت اور فکر اقبال ‘‘کے موضوع پر سیر حاصل مقالے میں کہا کہ اقبال اور جمہوریت دونوں کے بارے میں ایک چیز مشترک ہے کہ دونوں کے بارے میں ہمارا علم تا حال ادھورا ہے ۔ علامہ اقبال لبرل ڈیمو کریسی کی بجائے روحانی جمہوریت کی بات کرتے ہیں ۔ اقبال پوری کائنات کی روحانی تعبیر و تشکیل کرنا چاہتے ہیں، وہ کائنات کی مابعد الطبعیاتی تعبیر کرنا چاہتے ہیں۔ مغربی جمہوریت معیشت کی مادری ضروریات کی کوکھ سے جنم لیتی ہے ، جبکہ روحانی جمہوریت کی اساس کہیں اور جاتی ہے ۔ ہمیں جمہوریت کی بھی تعبیر نو کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایسے جمہوری نظام کی ضرورت ہے جو ظاہر میں مغربی طریقہ ہی ہو مگر اس کی روح روحانی ہو۔
ڈاکٹر طاہر حمید تنولی نے ’’اقبال کا تصور ریاست و حکومت‘‘ کے موضوع پر جامع مقالہ پیش کیا اور کہاکہ اقبال حقیقت میں احیائے اسلام کے شاعر و مفکر ہیں، اس لیے ان کے ذہنی و فکری ارتقا کو تحریک احیائے اسلام کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے ۔ صرف برصغیر میں مسلم ریاست کے قیام سے ان کے خواب کی تکمیل نہیں ہوئی۔ وہ تمدن اسلامی کے احیا کے شاعر تھے ۔ بلاشبہ علامہ اقبال کا تصور ریاست و حکومت روحانی جمہوریت اور اجتہاد کے گرد گھومتا ہے ۔ 
محمد عمار خان ناصر نے ’’خروج کے کلاسیکل اور معاصر موقف، فکر اقبال کے تناظر میں ‘‘ ایک مشکل موضوع کو عام فہم بناتے ہوئے کہاکہ اقبال مسلم ریاست میں اسلامی قانون کی تعبیر و تشریح کے حق کو مذہبی علماء تک محدود رکھنے کے بجائے جدید قانون اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے ماہرین کو شریک کرنے کے قائل ہیں ۔انہوں نے تھیاکریسی کے تصور کی مکمل نفی کرتے ہوئے اجتہاد کا حق مسلمانوں کی منتخب پارلیمنٹ کو دینے اور پارلیمنٹ کی راہنمائی کے لیے مذہبی علما کو اس کا حصہ بنانے کی تجویز پیش کی جسے پاکستان میں عملی طور پر اختیار کیاگیا۔ ریاست و حکومت سے متعلق عصری مسائل پر غور کرتے ہوئے فکر اقبال کے تناظر میں خروج پر بحث فروعی اور اطلاقی ہے ۔ ایسی فروعی فقہی بحثیں فکر اقبال کا موضوع نہ رہیں تاہم گہری نظر سے دیکھا جائے تو خروج کے موضوع سے اقبال کا تعلق واضح دکھائی دیتا ہے ۔خروج کے معاملے کے تمام فریقین اگر فکر اقبال سے راہنمائی لیتے ہوئے اپنے رویوں اور طرز عمل پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس کر لیں تو پاکستان اور پاکستانی قوم کو اس بحران سے نکالا جاسکتا ہے ۔ اس کے لیے تمام گروہوں میں مثبت ڈائیلاگ کو فروغ دینا ہماری ذمہ داری ہے ۔ 
علامہ اقبال کی سیاسی فکر کے حوالے سے منعقدہ اس سیمینار میں مقالہ نگاروں نے جامع اور تنقیدی خیالات کا بھرپور اظہار کیا ۔ بلاشبہ آج پاکستان ایسے ہی متغیر دور سے گزر رہا ہے جو ترکی میں ۱۹۲۴ء میں اختتام پذیر ہوا ۔ پاکستان کے روایت پسند حلقوں نے اپنے پیش رو ترک علماء کی طرح اسلامی تعلیمات کو روایتی فقہ کے نفاد کے مترادف قرار دے رکھا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ جب تک معاشرہ صنعتی طور پر ترقی کر کے جاگیردارانہ اور استعماری تسلط سے نجات حاصل نہیں کر لیتا اور جب تک مذہبی علوم کی تدریس جدید علوم کی روشنی میں نئے سرے سے نہیں دی جاتی یہ بحث جاری رہے گی ۔ کسی بھی زندہ معاشرے میں جوابات کی اتنی اہمیت نہیں ہوتی جتنی ان سوالات کی جو عالمانہ جرات و بصیرت سے جنم لیں ۔ اس سیمینار میں سنجیدہ اور شعوری بیداری کے حامل سوالات اٹھائے گئے ۔ اقبال کی فکر کے متحرک تصور کو ابھارنے میں یونیورسٹی آف گجرات اور اس کی وژنری قیادت نے فعال کردار ادا کیا جس کو تمام مقررین ، حاضرین اور دانشوروں نے سراہا اور امید کی کہ جامعہ گجرات میں افکار تازہ کا جھونکا قومی فکر و ترقی میں بہار کی نوید ثابت ہو گا ۔
(رپورٹ: شیخ عبد الرشید)


اخبار و آثار

ادارہ

مولانا محمد عیسیٰ منصوری کی پاکستان تشریف آوری

برطانیہ کے ممتاز عالم دین، دانش ور اور اسکالر اور ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری گزشتہ ماہ رائے ونڈ کے عالمی تبلیغی اجتماع کے موقع پر پاکستان تشریف لائے اور رائے ونڈ کے علاوہ لاہور، کراچی، فیصل آباد، سرگودھا، ڈھڈیاں شریف، گوجرانوالہ اور دیگر مقامات کا دورہ کیا۔ انھوں نے عالم اسلام کے علمی وفکری مسائل پر مختلف اجتماعات سے خطاب کیا اور سرکردہ علماء کرام کے ساتھ مشاورت کی۔ مولانا منصوری ۲۷؍ نومبر کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں تشریف لائے اور ماہانہ فکری نشست میں تفصیلی اظہار خیال فرمایا۔ ان کا خطاب الشریعہ کی ویب سائٹ www.alsharia.org پر ’’تقاریر وبیانات‘‘ کے سیکشن میں دیکھا جا سکتا ہے۔
مولانا منصوری نے الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر اور ورلڈ اسلامک فورم کے سرپرست مولانا زاہد الراشدی سے فورم کی سرگرمیوں کے حوالے سے تبادلہ خیالات کیا اور الشریعہ اکادمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر حافظ محمد عمار خان ناصر اور دیگر اساتذہ کے ساتھ ملاقات کے دوران اکادمی کی سرگرمیوں پر اطمینان اور مسرت کا اظہار کرتے ہوئے انھیں مزید منظم اورمربوط بنانے پر زور دیا۔ ورلڈ اسلامک فورم پاکستان کے رابطہ سیکرٹری اور پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ عربی کے استاذ پروفیسر ڈاکٹر عبد الماجد اور حضرت سید نفیس شاہ الحسینی رحمہ اللہ تعالیٰ کے خادم خاص بھائی رضوان نفیس بھی ان کے ہمراہ تھے۔ مولانا منصوری کم وبیش دو ہفتے پاکستان میں قیام کے بعد ۵؍ دسمبر کو ممبئی روانہ ہو گئے۔

دعوۃ اکادمی اسلام آباد سے علماء کرام کی آمد

دعوہ اکادمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں زیر تربیت پچاس کے لگ بھگ علماء کرام کی ایک کلاس نے، جو مسلح افواج کے مختلف شعبوں کے خطبا پر مشتمل تھی، ۳۰؍ نومبر کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کا دورہ کیا اور الشریعہ اکادمی کی لائبریری اور دیگر شعبوں کا معائنہ کرنے کے علاوہ ایک خصوصی نشست میں بھی شرکت کی جس کا ان علماء کرام کی آمد پر بطور خاص اہتمام کیا گیا۔ الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے کلاس کے نگران ڈاکٹر طاہر صدیق کی فرمائش پر ’’عصر حاضر کی علمی وفکری ضروریات‘‘ کے موضوع پر تفصیلی خطاب کیا۔ خطباء کرام نے اکادمی کے اساتذہ سے مختلف امور پر تبادلہ خیالات کیا اور الشریعہ اکادمی کے پروگراموں کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔
کم وبیش تین گھنٹے اکادمی میں گزارنے کے بعد علماء کرام کا وفد جامعہ عربیہ گوجرانوالہ، جامعہ شاہ ولی اللہ اٹاوہ اور جامعہ اسلامی کامونکی کے دورے پر روانہ ہو گیا اور ان دو اداروں میں تھوڑی تھوڑی دیر گزارنے کے بعد انھوں نے مولانا زاہد الراشدی کے ہمراہ سادھوکی میں کیتھولک مسیحی ادارہ ’’بیت المومنین‘‘ کا بھی دورہ کیا۔

حفظ قرآن کی تکمیل کی تقریب

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے شعبہ حفظ کے طالب علم محمد طلحہ کا حفظ قرآن کریم مکمل ہونے پر اس کا آخری سبق ۱۴؍ دسمبر کو مغرب کی نماز کے بعد منعقد ہونے والی تقریب میں اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی اور دیگر اساتذہ نے سنا۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی راہ نما مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی اس تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ انھوں نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے قرآن کریم کی تلاوت اورحفظ کے فضائل بیان کیے اور فرمایا کہ قرآن کریم کا سینے میں محفوظ ہو جانا کسی بھی مسلمان کے لیے دنیا اور آخرت کی کامیابیوں اور سعادتوں کا ذریعہ ہے، لیکن حفظ کر لینے کے ساتھ ساتھ اسے محفوظ رکھنا اور مسلسل پڑھتے رہنا بھی ضروری ہے۔
مولانا زاہد الراشدی نے حافظ محمد طلحہ، اس کے اساتذہ اور اہل خاندان کومبارک باد دی اور تقریب کے اختتام پر حافظ محمد طلحہ اور اکادمی کی کامیابی وترقی کے لیے دعا کی گئی۔

مولانا زاہد الراشدی کا دورۂ امریکہ

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے عید الاضحی کی تعطیلات کے دوران ۸ سے ۱۹؍ نومبر تک دار العلوم جمیکا نیو یارک کے مہتمم مولانا محمد یامین کی دعوت پر نیو یارک کا دورہ کیا اور دار العلوم میں اساتذہ وطلبہ کی کم وبیش ایک درجن تربیتی نشستوں سے مختلف عنوانات پر خطاب کرنے کے علاوہ مکی مسجد بروک لین، بخاری مسجد اور دیگر مساجد میں عوامی دینی اجتماعات سے بھی خطاب کیا، جبکہ ۲۰؍ نومبر کو وہ پروگرام کے مطابق گوجرانوالہ واپس پہنچ گئے۔

فروری ۲۰۱۲ء

حدیث و سنت اور جدید تشکیکی ذہنمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
نفاذِ شریعت کے رہنما اصولوں کے حوالے سے ۵۵ علماء کرام کے متفقہ ۱۵ نکاتادارہ
دنیائے اسلام پر استشرقی اثرات ۔ ایک جائزہ (۲)ڈاکٹر محمد شہباز منج
’’کچھ تو سمجھے خدا کرے کوئی‘‘ (۱)مولانا محمد بدر عالم
جامع مسجد نور کی تاسیس کا پس منظرمولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی
مکاتیبادارہ
مولانا ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقیؒمولانا جمیل الرحمٰن فاروقی
مہتمم جامعہ نصرۃ العلوم کا الشریعہ اکادمی کی لائبریری کیلئے گرانقدر عطیہادارہ
سادہ خوراک اور انسانی صحتحکیم محمد عمران مغل

حدیث و سنت اور جدید تشکیکی ذہن

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(ڈاکٹر محمد اکرم ورک کی کتاب ’’متون حدیث پر جدید ذہن کے اشکالات: ایک تحقیقی جائزہ‘‘ کے پیش لفظ کے طور پر لکھا گیا۔)

نحمدہ تبارک وتعالیٰ ونصلی ونسلم علی رسولہ الکریم وعلی آلہ واصحابہ واتباعہ اجمعین۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ سلم کی اطاعت واتباع کو بھی دین کا تقاضا قرار دیا گیا ہے اور متعدد آیات قرآنی کے ذریعے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حیثیت کو واضح کیا گیا ہے کہ وہ صرف قاصد اور پیغام بر نہیں ہیں، بلکہ مطاع، اسوہ اور متبَع بھی ہیں اور جس طرح قرآن کریم کے احکامات وارشادات کی اطاعت لازم ہے، اسی طرح جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ سلم کے ارشادات واعمال اوراحکام وہدایات کی اتباع اور پیروی بھی ضروری ہے، جیسا کہ سورۂ آل عمران کی آیت ۳۲ میں فرمایا گیا ہے کہ:
قُلْ أَطِیْعُواْ اللّٰہَ وَالرَّسُولَ فإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الْکَافِرِیْنَ۔
’’آپ ان سے کہہ دیجیے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ پس اگر وہ پھر گئے تو بے شک اللہ تعالیٰ کافروں کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘
اس کے ساتھ ہی قرآن کریم کے فہم اور آیات قرآنی میں اللہ تعالیٰ کی منشا ومراد کے تعین کے لیے بھی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی معیار اور اتھارٹی قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ سورۃ النساء کی آیت ۸۰ میں ارشاد ربانی ہے کہ:
مَّنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰہَ وَمَن تَوَلَّی فَمَا أَرْسَلْنَاکَ عَلَیْْہِمْ حَفِیْظاً۔
’’جو رسول اللہ کی اطاعت کرتا ہے، پس تحقیق اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جو پھر گیا، پس ہم نے آپ کو ان پر ذمہ دار بنا کر نہیں بھیجا۔‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تین واضح حیثیتیں ہیں:
۱۔ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام وارشادات کو نسل انسانی تک پہنچانے والے ہیں۔
۲۔ اللہ تعالیٰ کے احکام وفرمودات کے شارح اور ان کی وضاحت کی اتھارٹی ہیں۔
۳۔ اور اس کے ساتھ ساتھ وہ خود بھی ایک مطاع اور اسوہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں اور ان کے وصال کے بعد بھی حضرات صحابہ کرام کا معمول یہ تھا کہ :
  • جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو وحی بیان کرتے، صحابہ کرامؓ بلا تامل اس پر ایمان لے آتے اور اسے حکم خداوندی تسلیم کرتے تھے۔
  • جس وحی کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کا حصہ قرار دیتے، وہ قرآن کریم میں شامل کر لی جاتی اور جسے قرآن کریم کا حصہ بتائے بغیر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے ارشاد یا حکم کے طور پر بیان فرماتے، وہ ’’حدیث قدسی‘‘ قرار پاتی۔
  • قرآن کریم کی کسی آیت یا جملے کے معنی ومفہوم کے بار ے میں کسی قسم کا اشکال پیدا ہوتا تو حضرات صحابہ کرامؓ اس کی وضاحت کے لیے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی رجوع کرتے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی وضاحت کے لیے جو بھی ارشاد فرما دیتے، وہی اس آیت کریمہ کی حتمی تشریح سمجھی جاتی تھی۔ اس کے بیسیوں شواہد حدیث وتاریخ کے ریکارڈ پر محفوظ وموجود ہیں۔
  • حتیٰ کہ کسی موقع پر خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی قول یا عمل قرآن کریم کی کسی آیت کے ظاہری مفہوم سے متعارض محسوس ہوتا تو اس کی وضاحت بھی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی مانگی جاتی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی وضاحت میں جو کچھ فرما دیتے، وہی قرآن کریم کی منشا سمجھی جاتی، جیسا کہ بخاری شریف کی روایت کے مطابق ام المومنین حضرت عائشہؓ نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ فرماتے ہیں کہ ’من حوسب عذب‘، جس کا حساب لیا گیا، اسے عذاب دیا جائے گا، جبکہ قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ جس کا ’’حساب یسیر‘‘ ہو، وہ خوش خوش اپنے گھر والوں کے پاس پلٹے گا۔ بظاہر یہ قرآن کریم کے ارشاد اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں تعارض بنتا ہے، لیکن اس تعارض کا سوال جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا اور جو بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں فرما دی، وہی قرآن کریم کا منشا قرار پائی۔
یہی وجہ ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرات صحابہ کرامؓ کا یہی تعامل رہا کہ وہ قرآن کریم کے ساتھ ساتھ سنت وحدیث کو بھی دین کی مستقل دلیل اور ماخذ سمجھتے تھے اور عقائد واحکام دونوں میں قرآن کریم کی طرح جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور حدیث سے بھی استدلال کرتے تھے، جیسا کہ امام بیہقی السنن الکبریٰ (ج ۱، ص ۱۱۴) میں حضرت میمون بن مہران کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ:
ان ابابکر رضی اللہ عنہ کان یقضی بکتاب اللہ، فان لم یجد قضی بسنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فان لم یجد سال المسلمین، فان اخبروہ بقضاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضی بہ، فان اعیاہ ذالک دعا رؤوس المسلمین وعلماء ہم، فان اجتمع رایہم علی الامر قضی بہ۔
’’جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین اور خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا معمول یہ تھا کہ کوئی مسئلہ پیش آتا تو قرآن کریم کے مطابق فیصلہ کرتے تھے۔ اگر قرآن کریم میں اس کا حل نہ پاتے تو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فیصلہ ان کے علم میں ہوتا تو اس کے مطابق فیصلہ کرتے اور اگر ان کے علم میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فیصلہ نہ ہوتا تو صحابہ کرامؓ سے دریافت کرتے اور وہ انھیں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فیصلہ بتا دیتے تو اس کے مطابق فیصلہ کرتے اور اگر تمام تر کوشش کے باوجود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد نہ ملتا تو علماء کرام اور بڑے لوگوں کو جمع کر کے ان سے مشاورت کرتے اور جس بات پر ان کا اتفاق ہو جاتا، اس کے مطابق فیصلہ فرما دیتے۔‘‘
اسی طرح مسلم شریف کی روایت کے مطابق حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے تقدیر کے عقیدہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ تقدیر کا عقیدہ نہ رکھنے والوں سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے اور دلیل کے طور پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی کا حوالہ دیا جس میں آپ نے ایمان کی وضاحت کرتے ہوئے ’ان تؤمن بالقدر‘ کو اس میں شامل کیا ہے۔
اس سے واضح ہے کہ حضرات صحابہ کرام کے ہاں عقائد واحکام، دونوں معاملات میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت وحدیث مستقل دلیل سمجھی جاتی تھی اور قرآن کریم کی طرح حدیث وسنت سے بھی بطور ماخذ استدلال کیا جاتا تھا۔
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پورے دور میں ان کا اجماعی تعامل یہی رہا ہے، لیکن جب خوارج ومعتزلہ جیسے گروہوں کو اپنے خود ساختہ عقائد ونظریات کے لیے قرآن کریم کی تعبیر نو کی ضرورت پیش آئی تو اس کی راہ میں ’’حدیث وسنت‘‘ کو سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہوئے اس کے انکار یا اسے کمزو اور غیر معتبر قرار دینے کے راستے تلاش کیے گئے۔ ظاہر بات ہے کہ سنت وحدیث اور تعامل صحابہ کرام کی موجودگی میں قرآن کریم کی کوئی نئی تعبیر وتشریح ممکن ہی نہیں ہے اور اسی وجہ سے خوارج ومعتزلہ بلکہ ان کے بعد اس راہ پرچلنے والے ہر گروہ کو ہر دور میں اس کی ضرررت پیش آتی رہی ہے کہ وہ حدیث وسنت اور تعامل صحابہ کرامؓکی اہمیت وضرورت سے انکار کریں اور ان کی حجیت کو مشکوک ومتنازعہ بتا کر قرآن کریم کی من مانی تعبیر وتشریح کی راہ نکالیں، جیسا کہ آج کے ’’متجددین‘‘ کا طریق واردات بھی یہی ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جب حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کو خوارج کے ساتھ گفتگو کے لیے بھیجا تو اسی خدشے کے پیش نظر ان سے فرمایا تھا کہ:
اذہب الیہم فخاصمہم، ولا تحاجہم بالقرآن فانہ ذو وجوہ ولکن خاصمہم بالسنۃ .... قال لہ: یا امیر المومنین فانا اعلم بکتاب اللہ منہم، فی بیوتنا نزل، قال: صدقت ولکن القرآن حمال ذو وجوہ، تقول ویقولون، ولکن خاصمہم بالسنن، فانہم لن یجدوا عنہا محیصا (الاتقان فی علوم القرآن، ج ۱، ص ۴۱۰)
’’ان کے پاس جاؤ اور ان سے بحث کرو، لیکن ان کے سامنے قرآن کریم سے استدلال نہ کرنا، اس لیے کہ قرآن کریم کے الفاظ میں مختلف معانی کا احتمال ہوتا ہے، بلکہ ان کے ساتھ سنت کے حوالے سے گفتگو کرنا۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے کہا کہ اے امیر المومنین، میں قرآن کریم کو ان سے زیادہ جاننے والا ہوں۔ یہ تو ہمارے گھروں میں اترا ہے (یعنی قرآن کریم کے حوالے سے گفتگو میں بھی وہ مجھ پر غالب نہیں آ سکتے)۔ حضرت علی نے فرمایا کہ تم ٹھیک کہہ رہے ہو، لیکن قرآن کریم احتمالات کا حامل ہے۔ تم ایک مطلب بیان کرو گے تو وہ دوسرا مطلب نکال لیں گے۔ تم ان کے ساتھ سنن کی بنیاد پر بحث کرنا، کیونکہ ان سے بھاگنے کی راہ انھیں نہیں ملے سکے گی۔‘‘
حضرت علیؓ کے ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ سنت رسول سے ہٹ کر اگر قرآن کریم سے براہ راست استدلال کرو گے تو الفاظ اور جملوں میں مختلف معانی کے احتمالات کی وجہ سے وہ اس سے کوئی بھی استدلال کر سکیں گے۔ اس کے برعکس سنت رسول کو بنیاد بناؤ گے تو وہ ان احتمالات سے اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکیں گے اور قرآن کریم کے ایک متعین مفہوم کا انھیں سامنا ہوگا۔
ظاہر بات ہے کہ کسی بھی کلام کے الفاظ، جملوں اور محاوروں میں مختلف معانی کا احتمال موجود ہوتا ہے اور یہ فطری بات ہے، اس لیے ان احتمالات میں سے کسی ایک معنی کی تعیین کے لیے کسی اتھارٹی کی ضرورت ہوتی ہے جو مختلف معنوں اور احتمالات میں سے ایک کا تعین کر دے۔ قرآن کریم کے حوالے سے یہ اتھارٹی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے، اس لیے حضرت علیؓ نے عبد اللہ بن عباسؓ سے فرمایا کہ تم سنت رسول کی بنیاد پر گفتگو کرنا تاکہ وہ قرآن کریم کے ظاہری احتمالات سے غلط فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ اس کی مثال موجودہ دور میں ایسے ہے جیسے ملک کے دستور کی کسی بھی دفعہ میں عام طور پر ایک سے زیادہ تعبیروں کی گنجائش ہوتی ہے اور آئینی ماہرین ان گنجائشوں کے حوالے سے دستوری دفعات کی مختلف تعبیرات پیش کرتے رہتے ہیں، لیکن اس کے لیے حتمی اتھارٹی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کو سمجھا جاتا ہے اور باقاعدہ اتھارٹی کی طرف سے کی جانے والی تعبیر ہی دستورکی حتمی تعبیر وتشریح قرار پاتی ہے۔
صحابہ کرام کے آخری دور اور اس کے بعد کے قریبی ادوار میں قرآن وسنت کی تعبیر وتشریح کے حوالے سے معتزلہ، خوارج اور ان جیسے دیگر گروہوں نے امت کے اجماعی موقف سے الگ راستے اختیار کیے جنھیں ایک حد تک ظاہر پرستی اور عقل پرستی کی دو انتہائیں قرار دیا جا سکتا ہے، جبکہ اہل سنت کا موقف ان دو انتہاؤں کے درمیان اعتدال، توازن اور حقیقت پسندی پر مبنی چلا آ رہا ہے مگر مغرب کی ’’تحریک استشراق‘‘ نے مسلمانوں کے لیے جو علمی وفکری سوالات پیدا کیے، ان کی جڑ بھی بالآخر اسی طریق واردات میں جا کر پیوست ہو گئی جو معتزلہ اور خوارج نے اختیار کیا تھا کہ قرآن کریم کو سنت رسول، تعامل صحابہ کرامؓ اور امت کے جمہوری تسلسل سے الگ کر دیا جائے تاکہ اس کی من مانی تشریح آسان ہو جائے۔
’’استشراق‘‘ کی فکری اور علمی تحریک کے دو مراحل تاریخ ہمارے سامنے پیش کرتی ہے۔ اس کا آغاز تو تیرھویں صدی عیسوی میں اس وقت ہوا جب تاتاریوں نے ۱۲۵۸ھ میں بغداد کو پامال کرنے کے صرف دو سال بعد ۱۲۶۰ھ میں عین جالوت میں سلطان المظفرؒ کی سربراہی میں کمانڈر ظاہر بیبرس کے ہاتھوں خوف ناک شکست کھا کر ہمیشہ کے لیے پسپائی اختیار کر لی اور اس کے بعد صلیبی جنگوں میں بھی صلیبی قوتوں کو پے در پے شکستوں نے بد حواس کر دیا، حتیٰ کہ وہ ۱۲۹۱ھ میں سلطان الملک الاشرفؒ کے ہاتھوں عکہ کی آخری اور فیصلہ کن شکست سے دوچار ہوئے تو صلیبیوں کی مذہبی قیادت کو دو باتوں نے سخت پریشان کر دیا۔ ایک یہ کہ اگر تاتاریوں نے مسلمانوں کا مذہب قبول کر لیا تو مسلمانوں کی قوت کئی گنا بڑھ جائے گی اور دوسرا یہ کہ پوپ اربن ثانی کی شروع کردہ صلیبی جنگوں کے عبرت ناک خاتمہ کے بعد مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اب کون سی مسیحی قوت سامنے آ سکے گی؟
چنانچہ اس دور کے معروف مسیحی مبلغ ریمنڈس للس (Reymundus Lullus) نے، جس نے تیونس اور یگر علاقوں میں نصف صدی تک مسیحی دعوت کے لیے مشنری خدمات سرانجام دیں، ان خدشات کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ:
’’اگر نسطوری عیسائیوں کو اپنی صف (کیتھولک) میں شریک کر لیا جائے اور تاتاریوں کو عیسائی بنا لیا جائے تو سارے سراسین (مسلمان) بآسانی تباہ کیے جا سکتے ہیں، لیکن خوف یہ بھی ہے کہ اگر ان تاتاریوں نے ترغیب یا تحریص کے باعث شریعت محمدیہ تسلیم کر لی تو پھر عالم عیسائیت کے لیے شدید خطرہ پیدا ہو جائے گا۔‘‘ (بحوالہ ’’اسلام، پیغمبر اسلام اور مستشرقین کا انداز فکر‘‘ از ڈاکٹر عبد القادر جیلانی، ص ۱۶۹)
یہ خوف بالآخر سامنے آ گیا اور تاتاریوں نے نہ صرف یہ کہ اسلام قبول کر لیا بلکہ وہ اسلام کا بازوئے شمشیر زن بن گئے تو عسکری میدان جنگ سے مکمل مایوس ہو کر مسلمانوں کو مسیحیت کی دعوت دینے اور ان کے ساتھ علمی وفکری مباحثوں کا راستہ اختیار کیا گیا جس کے لیے ریمنڈس للس نے کلیسا کو دعوت دی کہ
’’علوم شرقیہ کے مطالعہ کو روحانی صلیبی جنگ کے طور پر استعمال کیا جائے۔‘‘
چنانچہ ریمنڈس للس نے تیونس کو اپنی روحانی صلیبی جنگ کا میدان بنایا، علوم شرقیہ کے مطالعہ کے مدارس قائم کیے، مسلم علما کے ساتھ مناظروں کا بازار گرم کیا اور نصف صدی کی مسلسل تگ ودو کے بعد تیونس میں ہی قتل ہو کر اس مشن کے لیے اپنی جان بھی دے دی۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: Philip Schaff, "History of the Christian Church", vol. 5, p. 433-437)
اس کے ساتھ ایک اور مسیحی دانش ور بیکن کو بھی اسی فکر کا حامل قرار دیا گیا ہے۔ یہ دونوں مسیحیت کے عمومی علمی اور دینی ماحول کو تو اپنی طرف متوجہ نہ کر سکے لیکن علوم شرقیہ کے مطالعہ کی استشراقی تحریک کی بنیاد فراہم کر گئے اور ’’روحانی صلیبی جنگ‘‘ کے عنوان سے اس کا ہدف بھی انھوں نے طے کر دیا۔ البتہ سولھویں صدی عیسوی میں، جو بائبل کی تعبیر وتشریح میں پاپاے روم کی اتھارٹی بلکہ اجارہ داری کو مارٹن لوتھر کی طرف سے چیلنج کیے جانے کی صدی ہے اور پروٹسٹنٹ فرقے کا دور آغاز ہے، تحریک استشراق نے نئی کروٹ لی اور اسے یہ امکان دکھائی دینے لگا کہ اگر مسیحیت میں اصلاح علوم اور مذہبی ڈھانچے کی ری کنسٹرکشن کے ذریعے سے قدیم مذہبی روایات سے بغاوت ہو سکتی ہے تو مسلمانوں میں اس تجربے کو دہرانے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں اور یہ بغاوت اگر کامیاب ہو گئی تو مسلمانوں کو ان کے علمی ماضی سے کاٹ کر نئے سانچے میں ڈھالا جا سکتا ہے اور عسکری میدان کی شکست کو فکری میدان کی فتح میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
تاریخی ترتیب کے لحاظ سے ہمیں نظر آتا ہے کہ مارٹن لوتھر کی وفات کے بعد اگلی نصف صدی کے اندر ہندوستان کے مغل بادشاہ اکبر نے ’’دین الٰہی‘‘ کے نام سے جو نیا دینی ڈھانچہ قوت کے زور پر متعارف کرانے کی ناکام کوشش کی، وہ اسی طرح کی ری کنسٹرکشن کا نمونہ تھا جسے مارٹن لوتھر اور ا س کے قائم کردہ پروٹسٹنٹ فرقہ نے یورپ میں کامیابی کے ساتھ عملی وجود دے دیا تھا، لیکن اسلام کی مضبوط علمی روایت کے سامنے اکبر باشاہ کی قوت اور اقتدار کا زور نہ چل سکا اور اکبر بادشاہ کے منظر سے ہٹتے ہی ’’دین الٰہی‘‘ کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔
یہ ایک الگ بحث طلب نکتہ ہے کہ جس مقصد میں مارٹن لوتھر کو یورپ میں کامیابی حاصل ہو گئی، اس میں اکبر بادشاہ کو ہندوستان میں کامیابی کیوں حاصل نہ ہو سکی، جبکہ مارٹن لوتھر ایک عام مذہبی راہ نما تھا اور اکبر بادشاہ ہندوستان کا سب سے باجبروت بادشاہ متصور ہوتا تھا، لیکن اس وقت ہمارا یہ موضوع نہیں ہے، کیونکہ ہم تحریک استشراق کے اس نئے دور کی بات کر رہے ہیں جس میں یہ پالیسی اختیار کی گئی کہ مسلمانوں کو اب مناظروں اور مباحثوں میں زیر کرنے کی کوشش میں وقت ضائع کرنے کی بجائے مسلمانوں کے اندر کوئی ایسی تحریک پیدا کر دی جائے جو ایک ہزار سے چلی آنے والی مذہبی اتھارٹی کو مشکوک بنا دے اور مسیحیت کی طرح اسلام میں بھی اصلاح علوم اور دین کی تشکیل نو کا ذہن پیداکر دیا جائے جس کا ایک مشاہداتی منظر ہم نے ہندوستان پر برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی کے تسلط واقتدار کے بعد اس ملک کے نئے نظام تعلیم کی بنیاد رکھنے والے برطانوی دانش ور لارڈ میکالے کے اس تاریخی مقولے کی صورت میں دیکھا کہ میں نے ایک ایسا نظام تعلیم ترتیب دیا ہے جس سے گزر کر مسلمان اگر مسیحی نہیں ہوگا تو مسلمان بھی نہیں رہے گا۔
تحریک استشراق کا ہدف یہی تھا اور اب بھی یہی ہے۔ بلاشبہ مستشرقین نے علوم اسلامیہ کے مطالعہ وتحقیق میں گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں اور علمی حوالے سے ان خدمات کا اعتراف نہ کرنا، نا انصافی اور بخل ہوگا، لیکن مقاصد کے اعتبار سے مستشرقین کی علمی خدمات اور لارڈ میکالے کے تعلیمی منصوبے میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا، البتہ نتائج وثمرات کے معاملے میں اکبر بادشاہ کی طرح انھیں بھی مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہو پا رہے اور نہ صرف برصغیر پاک وہند بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی فیصلہ کن اکثریت اپنی قومی مذہبی روایت اور علمی تسلسل کے ساتھ اس طرح جڑی ہوئی ہے جس طرح آج سے دو صدیاں پہلے تھی اور مسلمانوں کے اعتقادی اور علمی قلعے میں شگاف ڈالنے کی مغربی کوششوں کا نتیجہ خود مغرب کو اپنا سر پھوڑنے کے سوا اب بھی کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔
البتہ اس ضمن میں مستشرقین کے اٹھائے ہوئے مختلف اعتراضات سے بعض مسلمان اہل دانش یقیناًمتاثر ہوئے ہیں اور انھوں نے اپنے خیال کے مطابق اسلام اور پیغمبر اسلام کو جدید مغربی ذہن کے اعتراضات سے بچانے کا آسان نسخہ یہ تجویز کیا ہے کہ ذخیرۂ حدیث میں ایسے اعتراضات کی بنیاد بننے والی احادیث کا ہی سرے سے انکار کر دیا جائے۔ گزشتہ دنوں بعض اصحاب قلم نے اخبارات میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے وقت ان کی عمر کی بحث چھیڑی اور کہا کہ ہمیں احادیث کی وہ تمام روایات مستردکر دینی چاہییں جو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے بارے میں آج کی دنیا، بالخصوص مغرب کے اعتراضات کا باعث بنتی ہیں اور چونکہ مغرب کم سنی کی شادی کو قابل اعتراض سمجھتا ہے، اس لیے بخاری شریف کی وہ روایت ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہونی چاہیے جس میں بتایا گیا ہے کہ نکاح کے وقت حضرت عائشہ کی عمر چھے سال اور رخصتی کے وقت نو سال تھی۔ 
جہاں تک اس جذبے کا تعلق ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر مغرب کے اعتراضات کا محققانہ جواب دینا ضروری ہے، یہ انتہائی قابل قدر ہے۔ اسی طرح نکاح اور رخصتی کے وقت ام المومنین حضرت عائشہؓ کی عمر کے بارے میں یہ بحث ایک عرصے سے جاری ہے اور بحث وتحقیق کی حد تک اس میں کوئی اشکال کی بات بھی نہیں ہے۔ ہر مورخ اور محقق کا حق ہے کہ روایات کی بنیاد پر اپنی تحقیق کے مطابق کوئی رائے قائم کرے اور اس کا اظہار بھی کرے۔ اس نوعیت کے سیکڑوں مسائل امت کے اہل علم میں مختلف فیہ چلے آ رہے ہیں اور ان پر بحث وتمحیص کا سلسلہ بھی جاری ہے جبکہ آئندہ بھی قیامت تک ان مباحث کا دروازہ کھلا ہے، البتہ بحث کا یہ پہلو کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے بارے میں مغرب کے اعتراضات اور طعن وتشنیع کا جواب دینے کے لیے ہم اپنی ہی روایات اور علمی اثاثے کی اکھاڑ پچھاڑ میں لگ جائیں، بہرحال قابل توجہ ہے اور ہمارے خیال میں ایسے مسائل میں اپنے علمی ذخیرے کے درپے ہونے سے پہلے ہمیں اس بات کا جائزہ لے لینا چاہیے کہ مغرب کے اعتراضات کی فکری اساس کیا ہے اور اس طعن وتشنیع کی اپنی علمی حیثیت کیا ہے جس کی بنیاد پر اسلام کی تعلیمات یا جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کو مورد طعن قرار دیا جا رہا ہے۔ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ مغرب کے اٹھائے ہوئے مطاعن واعتراضات کی علمی حیثیت کا تجزیہ کیا جائے اور ہر مغربی اعتراض کو درست تسلیم کرنے کی بجائے اس کی خامی کو واضح کرنے کی کوشش کی جائے، مگر ہمارا المیہ ہے کہ علامہ محمد اقبالؒ کے بعد مغربی فلسفہ وثقافت کا اس سطح پر ناقدانہ جائزہ لینے والا اور کوئی مفکر سامنے نہیں آیا اور اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ خود اقبال کا نام لینے والے اس معاملے میں اقبال کی راہ پر چلنے کی بجائے مغربی فلسفہ وثقافت کی نام نہاد علمی برتری کے سامنے سر بسجود دکھائی دے رہے ہیں۔
بہرحال مستشرقین کی ایک بڑی تعداد نے اپنی علمی وفکری جدوجہد کا ہدف مسلمانوں کے علمی ماضی بالخصوص حدیث نبوی اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کرنے کو قرار دے رکھا ہے اور اس کے لیے مسلسل علمی، تحقیقی اور مطالعاتی کام جاری ہے، لیکن مسلم علما نے مغربی یورپ کی مسیحی مذہبی قیادت کی طرح سرنڈر کر دینے کی بجائے علمی اور تحقیقی میدان میں پوری جرات کے ساتھ اس کا سامنا کیا ہے اور تحقیق واستدلال کی قوت سے اس کا راستہ روکنے میں مجموعی طور پر وہ کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ حدیث وسنت کی حجیت واہمیت کے انکار کی وجہ ہمارے نزدیک وہی ہے جس کا ہم نے سطور بالا میں تذکرہ کیا ہے اور اسی لیے مستشرقین کی طرف سے اس پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے، مگر مسلم علما کی کاوشیں انتہائی قابل قدر ہیں کہ انھوں نے مسلم امہ کی اکثریت کو حدیث وسنت کے بارے میں شکوک وشبہات کا شکار ہونے سے عالم اسباب میں بچا رکھا ہے اور چند محدود حلقوں کے علاوہ حدیث وسنت کے بارے میں امت مسلمہ اپنے قدیم موقف اور روایت پر بحمد اللہ تعالیٰ پوری دل جمعی کے ساتھ قائم ہے۔
حدیث وسنت کے بارے میں مستشرقین اور ان کے زیر اثر بعض مسلمان اہل دانش کی طرف سے اٹھائے جانے والے سوالات اور شکوک وشبہات پر ہمارے فاضل دوست ڈاکٹر محمد اکرم ورک نے بھی قلم اٹھایا ہے جو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں ایک عرصہ سے ہمارے رفیق کار ہیں اور علمی، تحقیقی اور فکری سرگرمیوں میں ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں۔ انھوں نے جس محنت، نکتہ رسی اور گہرائی کے ساتھ ان سوالات اور شکوک وشبہات کا تجزیہ کیا ہے اور ان کے جوابات دیے ہیں، اس پر وہ داد کے مستحق ہیں اور ان کی یہ علمی کاوش یقیناًبہت سے نوجوان اہل علم کے لیے راہ نمائی کا باعث بنے گا۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس خدمت کو قبولیت سے نوازیں اور دونوں جہانوں میں ثمرات وبرکات سے بہرہ ور فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔

نفاذِ شریعت کے رہنما اصولوں کے حوالے سے ۵۵ علماء کرام کے متفقہ ۱۵ نکات

ادارہ

(۲۴ ستمبر ۲۰۱۱ء کو لاہور میں ’’ملی مجلس شرعی‘‘ کے زیر اہتمام منعقدہ ’’اتحاد امت کانفرنس‘‘ کا مشترکہ اعلامیہ۔)

چونکہ اسلامی تعلیمات کا یہ تقاضا ہے کہ مسلمان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی قرآن و سنت کے مطابق گزار یں اور پاکستان اسی لیے بنایا گیا تھا کہ یہ اسلام کا قلعہ اور تجربہ گاہ بنے لہٰذا 1951ء میں سارے دینی مکاتب فکر کے معتمد علیہ 31علماء کرام نے عصر حاضر میں ریاست و حکومت کے اسلامی کردار کے حوالے سے جو 22نکات تیار کیے تھے انہوں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کو ٹھوس بنیادیں فراہم کیں اور ان کی روشنی میں پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کے حوالے سے کئی دستور ی انتظامات بھی کر دیے گئے لیکن ان میں سے اکثر زینت قرطاس بنے ہوئے ہیں اور ان پر کوئی عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ مزید برآں کچھ اور دستوری خلا بھی سامنے آئے ہیں جو پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں چنانچہ نفاذ شریعت کے حوالے سے حکومتی تساہل پسندی کا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ پاکستان کے شمال مغربی سرحدی قبائلی علاقوں کے بعض عناصر نے بزورِ قوت شریعت کی من مانی تعبیرات کو نافذ کرنے کے لیے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا۔ اس مسلح جدوجہد کے شرکاء نے ایک طرح سے حکومتی رٹ کو چیلنج کر دیا جب کہ اس صورت حال کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے دہشت گردی کے ساتھ نتھی کر کے افواج پاکستان کو اس مسلح جدوجہد کے شرکاء کے سامنے لا کھڑا کیا اور یو ں دونوں طرف سے ایک دوسرے کے ہاتھوں مسلمانوں کا ہی خون بہہ رہا ہے حالانکہ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ان سرگرمیوں کی پشت پناہی بھی خود امریکہ ، بھارت اور اسرائیل ہی کررہے ہیں۔ پاکستان کے دیگر پُر امن علاقے بھی اس جنگ کے اثرات سے محفوظ نہیں ہیں تقریباً تمام بڑے شہروں میں آئے دن دہشتگردی اور خود کش حملوں کی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں جن میں اب تک ہزاروں معصوم شہری اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔ یہ صورت حال تقاضا کرتی ہے کہ تمام مکاتب فکر کے نمائندہ علماء کرام ایک مرتبہ پھر مل بیٹھیں اور باہمی غوروفکر اور اتفاق رائے سے ان اُمور کی نشاندہی کر دیں جن کی وجہ سے پاکستان ابھی تک ایک مکمل اسلامی ریاست نہیں بن سکا اور نہ ہی یہاں نفاذ شریعت کاکام پایۂ تکمیل تک پہنچ سکا ہے۔ تمام مکاتب فکر کے نمائندہ علماء کرام کی یہ کوشش اس مرحلہ پر اس لیے ناگزیر ہے کہ ان کی اس کو شش سے ہی نہ صرف ان اسباب کی نشاندہی ہو گی جو نفاذ شریعت کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں بلکہ نفاذ شریعت کے لیے متفقہ رہنما اصولوں کے ذریعے وہ سمت اور راستہ بھی متعین ہو جائے گا جس پر چل کر یہ منزل حاصل کی جا سکتی ہے۔ دراصل نفاذ شریعت کی منزل کا حصول ہی اس بات کی ضمانت فراہم کر سکتا ہے کہ آئندہ پاکستان کے کسی علاقے سے نفاذ شریعت کے نام پر مسلح جارحیت کا ارتکاب اور حکومتی رٹ کو چیلنج نہ کیا جا سکے۔ چنانچہ اس حوالے سے تجویز کیے گئے اقدامات پیش خدمت ہیں :
۱۔ ہمارے حکمرانوں کی یہ شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ فرد کو بھی شریعت پر عمل کے قابل بنائیں اور معاشرے اور ریاست کو بھی شریعت کے مطابق چلائیں۔ دینی عناصر کا بھی فرض ہے کہ وہ دعوت و اصلاح اور تبلیغ و تذکیر کے ذریعے فرد کی بھی تربیت کریں، حکمرانوں پر بھی دباؤ ڈالیں کہ وہ اپنی دینی ذمہ داریاں پوری کریں اور جہاں تک قانون اجازت دے خود بھی نفاذِ شریعت کے لیے ضروری اقدامات کریں۔اسی طرح ہر مسلمان کی یہ ذاتی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اسلامی تعلیمات پر عمل کرے۔
۲۔ یہ کہ پاکستان میں نفاذِ شریعت کی بنیاد ۱۹۵۱ء میں سارے مکاتب فکر کے علماء کرام کی طرف سے متفقہ طور پر منظور کردہ ۲۲ نکات ہیں اور موجودہ دستاویز کے ۱۵ نکات کی حیثیت بھی ان کی تفریع اور تشریح کی ہے۔
۳۔ یہ کہ پاکستان میں شریعت کا نفاذ پر امن جدوجہد کے ذریعے ہونا چاہیے کیونکہ یہی اسلامی تعلیمات اوردستور پاکستان کا مشترکہ تقاضا ہے اور عملاً بھی اس کے امکانات موجود ہیں ۔ نیز شریعت کا نفاذ سارے دینی مکاتب فکر کی طرف سے منظورشدہ متفقہ راہنما اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے ( یہ۱۵ نکات اس قرارداد کا حصہ ہیں)اور کسی گروہ یا جماعت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی مرضی کا اسلام سارے معاشرے پرقوت سے ٹھو نس دے۔
۴۔ دستور پاکستان کے قابل نفاذ حصے میں بصراحت یہ لکھا جائے کہ قرآن و سنت مسلمانوں کا سپریم لاء ہے اوراس تصریح سے متصادم قوانین کو منسوخ کر دیا جائے۔یہ دستوری انتظام بھی کیا جائے کہ عدلیہ کی طرف سے دستور کی کوئی ایسی تعبیر معتبر نہ ہو گی جو کتاب وسنت کے خلاف ہو اور دستور کی کسی بھی شق اور مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے کسی بھی فیصلے کو کتاب وسنت کے خلاف ہونے کی صورت میں اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کیا جا سکے۔ نیز ان دستوری دفعات کو دستور میں بنیادی اور ناقابل تنسیخ دفعات قرار دیا جائے۔ آئین توڑنے سے متعلق دفعہ 6Aاور عوامی نمائندوں کی اہلیت سے متعلق دفعات 63,62کو مؤثر اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنایاجائے۔ کسی بھی ریاستی یا حکومتی عہدیدارکی قانون سے بالاتر حیثیت اور استثنا پر مبنی دستوری شقوں کا خاتمہ کیا جائے ۔
وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کے شریعت اپیلنٹ پنج کے جج صاحبان کو دیگر اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان کی طرح باقاعدہ جج کی حیثیت دی جائے اور ان کے سٹیٹس اور شرائط تقرری وملازمت کو دوسری اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان کے سٹیٹس اور شرائط تقرری و ملازمت کے برابر لایا جائے ۔بعض قوانین کو وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ اختیار سے مستثنیٰ قرار دینے کے فیصلوں پر نظر ثانی کی جائے اور وفاقی شرعی عدالت کو ملک کے کسی بھی قانون پر نظر ثانی کا اختیاردیا جائے ۔وفاقی شرعی عدالت اور شریعت اپیلنٹ بنچ کو آئینی طور پر پا بند کیا جائے کہ وہ مناسب وقت (Time frame)کے اندر شریعت پٹیشنوں اور شریعت اپیلوں کا فیصلہ کر دیں۔وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کی طرح صوبائی، ضلعی اور تحصیل سطح کی عدالتوں میں بھی علماء ججوں کا تقررکیا جائے اور آئین میں جہاں قرآن و سنت کے بالا تر قانون ہونے کا ذکر ہے وہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شارع ہونے کا ذکر بھی کیا جائے۔ حکومت اسلامی نظریاتی کونسل میں تمام مکاتب فکر کے جید علماء بطور رکن نامزد کرے۔ ہر مکتبہ فکر اپنا نمائندہ اپنے حلقوں سے مشاورت کے بعد تجویز کرے۔ نفاذِ شریعت کے حوالے سے جن نکات پر ارکان کی اکثریت کا اتفاق ہوجائے حکومت چھ ماہ کے اندر اسے قانون بنا کر پاس کرنے کی پابند ہو۔
۵۔ پاکستان کے قانونی ڈھا نچے میں پہلے سے موجود اسلامی قوانین پر مؤثر طریقے سے عمل درآمد کیا جائے اور اسلامی عقوبات کے نفاذ کے ساتھ ساتھ مؤثر اصلاحی کو ششیں بھی کی جائیں ۔
۶۔ اسلامی اصول و اقدار کے مطابق عوام کو بنیادی ضروریات وسہولیات زندگی مثلاً روٹی ، کپڑا ، مکان ، علاج معالجہ اور تعلیم فراہم کرنے، غربت و جہالت کے خاتمے اور عوامی مشکلات و مصائب دور کرنے اورپاکستانی عوام کو دنیا میں عزت اور وقار کی زندگی گزارنے کے قابل بنانے کو اولین ریاستی ترجیح بنایا جائے ۔
۷۔ موجودہ سیاسی نظام کی اسلامی تعلیمات کے مطابق اصلاح کی جائے مثلاً عوامی نمائندگی میں سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کی حوصلہ شکنی اور غریب اور متوسط طبقے کی نمائندگی کی حوصلہ افزائی کے لیے ٹھوس عملی اقدامات کیے جائیں نمائندگی کے لیے شرعی شہادت کی اہلیت کو لازمی شرط قرار دیاجائے۔ متناسب نمائندگی کا طریقہ اپنایا جائے ۔ علاقائی ، نسلی، لسانی اور مسلکی تعصبات کی بنیاد پر قائم ہونے والی سیاسی جماعتوں پر پابندی لگائی جائے اور قومی یکجہتی کے فروغ کے لیے مناسب پالیسیاں اور ادارے بنائے جائیں
۸۔ تعلیمی نظام کی اسلامی تناظر میں اصلاح کے لیے قومی تعلیمی پالیسی اور نصابات کو اسلامی اور قومی سوچ کے فروغ کے لیے تشکیل دیا جائے جس سے یکساں نظام تعلیم کی حوصلہ افزائی اور طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ ہو ، اساتذہ کی نظریاتی تربیت کی جائے اور تعلیمی اداروں کا ماحول بہتر بنایا جائے۔ مخلوط تعلیم ختم کی جائے اور مغربی لباس کی پابندی اور امور تعلیم میں مغرب کی اندھی نقالی کی روش ختم کی جائے۔تعلیم کا معیاربلند کیا جائے۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو قومی نصاب اپنانے کا پابند بنانے اور ان کی نگرانی کا مؤثر نظام وضع کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے ۔ تعمیر سیرت اور کردار سازی کو بنیادی اہمیت دی جائے۔ تعلیم سے ثنویت کا خاتمہ کیا جائے۔ دینی مدارس کے نظام کو مزید مؤثر و مفید بنانے اور اسے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ضروری قدامات کیے جائیں تا کہ بین المسالک ہم آہنگی کو فروغ ملے اور فرقہ واریت میں کمی واقع ہو دینی مدارس کی ڈگریوں کو تسلیم کیا جائے۔ تعلیم کے لیے وافر فنڈز مہیا کیے جائیں۔ملک میں کم ازکم میٹرک تک لازمی مفت تعلیم رائج کی جائے اور چائلڈ لیبر کا خاتمہ کیا جائے۔ 
۹۔ ذرائع ابلاغ کی اصلاح کی جائے۔ اسلامی تناظر میں نئی ثقافتی پالیسی وضع کی جائے جس میں فحاشی و عریانی کو فروغ دینے والے مغربی و بھارتی ملحدانہ فکرو تہذیب کے اثرات و رجحانات کو رد کر دیا جائے ۔ صحافیوں کے لیے ضابطۂ اخلاق تیار کیا جائے اور ان کی نظریاتی تربیت کی جائے۔ پرائیویٹ چینلز اور کیبل آپریٹرز کی مؤثر نگرانی کی جائے۔ اسلام اور پاکستان کے نظریاتی تشخص کے خلاف پروگراموں پر پابندی ہونی چاہیے بلکہ تعمیری انداز میں عوام کے اخلاق سدھارنے اور انہیں اسلامی تعلیمات پر عمل کی ترغیب دینے والے پروگرام پیش کیے جائیں اور صاف ستھری تفریح مہیا کی جائے۔
۱۰۔ پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے اور افلاس اور مہنگائی کے خاتمے کے لیے ٹھوس عملی اقدامات کیے جائیں جیسے جاگیر داری اور سرمایہ دارانہ رجحانات کی حوصلہ شکنی کرنا، شعبہ زراعت میں ضروری اصلاحات کو اولین حکومتی ترجیح بنانا، تقسیم دولت کے نظام کو منصفانہ بنانااور اس کا بہاؤ امیروں سے غریبوں کی طرف موڑنا۔ بیرونی قرضوں اور درآمدات کی حوصلہ شکنی کرنا اور زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کے لیے مؤثر منصوبہ بندی کرنا۔ معاشی خود کفالت کے لیے جدو جہد کرنا اور عالمی معاشی اداروں کی گرفت سے معیشت کو نکالنا۔ سود اور اسراف پر پابندی اور سادگی کو رواج دینا۔ٹیکسز اور محاصل کے نظام کو مؤثر بنایا جائے اور بینکوں کو پابند کیا جائے کہ وہ بڑے قرضوں کے اجراء کے ساتھ ساتھ مائیکروکریڈٹ کا بھی اجراء کریں تا کہ غریب اور ضرورت مند لوگ ان بلاسودقرضوں کے ذریعے اپنی معاشی حالت بہتر کر سکیں نیز قرضوں کو بطور سیاسی رشوت دینے پر قانونی پابندی عائد کی جائے۔ زکوٰۃ اور عشر کی وصولی اور تقسیم کے نظام کو بہتر بنایا جائے۔ دستور پاکستان کے آرٹیکل ۳۸ میں درج عوام کی معاشی اور معاشرتی فلاح وبہبود کے متعلقہ اُمور کی تکمیل کے لیے حکومت خود اور نجی شعبے کے اشتراک سے فوری طور پر ٹھوس قدامات کرے ۔ لوٹ مار سے حاصل کردہ اور بیرون ملک بینکوں میں جمع خطیر رقوم کی وطن واپسی کو یقینی بنایا جائے ۔
۱۱۔ عدلیہ کی بالفعل آزادی کو یقینی بنایا جائے اور اسے انتظامیہ سے الگ کیا جائے۔ اسلامی تناظر میں نظام عدل کی اصلاح کے لیے قانون کی تعلیم، ججوں ، وکیلوں، پولیس اور جیل سٹاف کے کردار کو اسلامی اصولوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں۔ انصاف سستا اور فوری ہونا چاہیے۔ 
۱۲۔ امن و امان کی بحالی اور لوگوں کے جان و مال کا تحفظ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ حکومت کو ان مقاصد کے حصول کے لیے ہر ممکن قدم اٹھانا چاہیے۔
۱۳۔ خارجہ پالیسی کو متوازن بنایا جائے۔ تمام عالمی طاقتوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھے جائیں اور اپنی قومی خود مختاری کا تحفظ کیا جائے۔ اپنے ایٹمی اثاثوں کے تحفظ پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے۔ مسلمانان عالم کے رشتہ اخوت واتحاد کو قوی تر کرنے کے لیے او آئی سی کو فعال بنانے میں پاکستان اپنا کردار ادا کرے ۔ 
۱۴۔ افواج میں روح جہاد پیدا کرنے کے لیے سپاہیوں اور افسروں کی دینی تعلیم و تربیت کا اہتمام ہونا چاہیے۔ بنیادی فوجی تربیت ہر مسلم نوجوان کے لیے لازمی ہونی چاہیے ۔ فوجی افسروں کی اس غرض سے خصوصی تربیت کی جائے کہ ان کا فرض ملک کا دفاع ہے نہ کہ حکومت چلانا۔ بیوروکریسی کی تربیت بھی اسلامی تناظر میں ہونی چاہیے تاکہ ان کے ذہنوں میں یہ راسخ ہوجائے کہ وہ عوام کے خادم ہیں حکمران نہیں۔
۱۵۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے ایک آزاد اور طاقتور ریاستی ادارہ قائم کیا جائے جو ملک میں اسلامی معروفات اور نیکیوں کے فروغ اور منکرات و برائیوں کے خاتمے کے لیے کام کرے اور معاشرے میں ایسا ماحول پیدا کرے جس میں نیکی پر عمل آسان اور برائی پر عمل مشکل ہوجائے اور شعائر اسلامی کا احیاء و اعلاء ہواوردستور کے آرٹیکل 31میں جن امور کا ذکر کیا گیا ہے ان پرمؤثر عمل در آمد ہو سکے ۔ دفاع اسلام خصوصاً اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات کے ازالے اور مسلمانوں و غیر مسلموں تک مؤثر انداز میں دین پہنچانے کے لیے بھی حکومت پاکستان کو فنڈز مختص کرنے چاہئیں اور وسیع الاطراف کوششیں بروئے کار لانی چاہئیں۔

شرکائے کانفرنس

شرکاء ’اتحاد امت کانفرنس‘  ۲۴ ستمبر ۲۰۱۱ء جنہوں نے قراردادوں کی منظوری پر دستخط کیے:
ہم ملی مجلس شرعی کے تیار کردہ نفاذِ شریعت کے ۱۵ رہنما اصولوں اور نکات کی حمایت کرتے ہیں جو علماء کرام کے ۲۲ متفقہ نکات کی روشنی میں تیار کیے گئے ہیں :
1۔ مولانامفتی محمد خان قادری (مہتمم جامعہ اسلامیہ، لاہور)
2۔ پیر عبدالخالق قادر ی (صدر مرکزی جماعت اہل سنت پاکستان )
3۔ علامہ احمد علی قصوری (امیر مرکز اہل سنت، لاہور)
4۔ صاحبزادہ علامہ محب اللہ نوری (مہتمم جامعہ حنفیہ فریدیہ بصیر پور، اوکاڑہ)
5۔ علامہ قاری محمد زوار بہادر (ناظم اعلیٰ، جمعیت علماء پاکستان، لاہور )
6۔ مولانا حافظ غلام حیدر خادمی (مہتم جامعہ رحمانیہ رضویہ، سیالکوٹ )
7۔ مولانا مفتی شیر محمد خان (صدر دارالافتاء دارالعلوم محمدیہ غوثیہ، بھیرہ [ضلع سرگودھا])
8۔ علامہ حسان الحیدری (حیدر آباد ، سندھ)
9۔ مولانا راغب حسین نعیمی (مہتمم جامعہ نعیمیہ، لاہور)
10۔ مولانا خان محمد قادری (مہتمم جامعہ محمدیہ غوثیہ، داتانگر، لاہور)
11۔ مولانا محمد خلیل الرحمن قادری (ناظم اعلیٰ جامعہ اسلامیہ ، لاہور)
12۔ علامہ محمد شہزاد مجددی (سربراہ دارالاخلا ص ۔ مرکز تحقیق، لاہور)
13۔ علامہ محمد بوستان قادری (شیخ الحدیث دارالعلوم محمدیہ غوثیہ، بھیرہ [ضلع سرگودھا])
14 ۔ سید منور حسن (امیر جماعت اسلامی پاکستان، منصورہ، لاہور)
15۔ مولانا عبدالمالک (صدر رابطہ المدارس الاسلامیہ، منصورہ لاہور)
16۔ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ (ڈپٹی سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی، منصورہ لاہور)
17۔ ڈاکٹر سید وسیم اختر (امیر جماعت اسلامی پنجاب، لاہور)
18۔ مولانا سید محمود الفاروقی (ناظم تعلیمات رابطہ المدارس الاسلامیہ، لاہور)
19۔ مولانامحمد ایوب بیگ (ناظم نشر و اشاعت تنظیم اسلامی پاکستان، لاہور)
20۔ مولاناڈاکٹر محمد امین (ڈین صفاء اسلامک سنٹر، لاہور )
21۔ مولانا محمد حنیف جالندھری (ناظم اعلیٰ، وفاق المدارس العربیہ، ملتان )
22۔ مولانا مفتی رفیق احمد (دارالافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیہ، علامہ بنوری ٹاؤن، کراچی)
23۔ مولانا حافظ فضل الرحیم (نائب مہتمم جامعہ اشرفیہ، لاہور)
24۔ مولانا زاہد الراشدی (ڈائریکٹر الشریعہ اکیڈمی، گوجرانوالہ)
25۔ مولانا عبدالرؤف فاروقی (ناظم اعلیٰ جمعیت علماء اسلام، لاہور)
26۔ مولانامحمد امجد خان (ناظم اطلاعات جمعیت علماء اسلام ۔ لاہور)
27۔ مولانامفتی محمد طاہر مسعود (مہتمم جامعہ مفتاح العلوم، سرگودھا)
28۔ مولانا مفتی محمد طیب (مہتمم جامعہ اسلامیہ امدادیہ،فیصل آباد)
29۔ مولانا ڈاکٹر قاری احمد میاں تھانوی (نائب مہتمم دارالعلوم الاسلامیہ ، لاہور)
30۔ مولانا اللہ وسایا (عالمی مجلس تحفظِ ختمِ نبوت، ملتان)
31۔ مولانا مفتی محمد گلزار احمد قاسمی (مہتمم جامعہ قاسمیہ، گوجرانوالہ)
32۔ مولاناقاری محمد طیب (مہتمم جامعہ حنفیہ بورے والا، وہاڑی)
33۔ مولانا رشید میاں (مہتمم جامعہ مدنیہ،کریم پارک، لاہور)
34۔ مولانا محمد یوسف خان (مہتمم مدرسۃ الفیصل للبنات،ماڈل ٹاؤن، لاہور)
35۔ مولانا عزیر الرحمن ثانی (مبلغ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ،لاہور)
36۔ مولانا رضوان نفیس (خانقاہ سید احمد شہید ، لاہور)
37۔ مولانا قاری جمیل الرحمن اختر (مہتمم جامعہ حنفیہ قادریہ، لاہور)
38۔ مولانا حافظ محمد نعمان (مہتمم جامعہ الخیر جوہر ٹاؤن، لاہور)
39۔ مولانا قاری ثناء اللہ (امیر جمعیت علماء اسلام لاہور)
40۔ پروفیسر مولانا ساجد میر (امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان، لاہور)
41۔ پروفیسر حافظ محمد سعید (امیر جماعت الدعوۃ پاکستان، لاہور)
42۔ مولانا حافظ عبدالغفار روپڑی (امیر جماعت اہل حدیث پاکستان، لاہور)
43۔ مولانا عبید اللہ عفیف (امیر جمعیت اہلحدیث پاکستان، لاہور)
44۔ مولانا سید ضیاء اللہ شاہ بخاری (ناظم اعلیٰ متحدہ جمعیت اہلحدیث پاکستان)
45۔ مولانا حافظ عبدالوہاب روپڑی (نائب امیر جماعت اہلحدیث پاکستان)
46۔ مولانا محمد شریف خان چنگوانی (نائب امیر مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان)
47۔ پروفیسرمحمد حماد لکھوی (خطیب جامع مسجد مبارک اہلحدیث، اسلامیہ کالج ، لاہور)
48۔ مولانا ڈاکٹر حسن مدنی (نائب مدیر جامعہ لاہور الاسلامیہ[رحمانیہ] لاہور)
49۔ مولانا امیر حمزہ (کنوینر تحریکِ حرمتِ رسول[جماعۃ الدعوۃ]۔ لاہور)
50۔ مولانا قاری شیخ محمد یعقوب (جماعۃ الدعوۃ ، لاہور)
51۔ مولانا رانا نصر اللہ (امیر مرکزی جمعیت اہلحدیث لاہور)
52۔ محمد زاہد ہاشمی الازہری (ناظم اعلیٰ جماعت غرباء اہلحدیث، پنجاب)
53۔ علامہ ڈاکٹر محمد حسین اکبر (مہتمم ادارہ منہاج الحسین ، لاہور)
54۔ علامہ حافظ کاظم رضا نقوی (تحریک اسلامی، اسلام آباد)
55۔ مولانا سید محمد مہدی (جامعہ المنتظر ، لاہور)

دنیائے اسلام پر استشرقی اثرات ۔ ایک جائزہ (۲)

ڈاکٹر محمد شہباز منج

مفسرین اور ان کے متبعین

عالم اسلام میں تفسیر قرآن کے باب میں بھی استشراقی اثرات نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔بہت سے مسلم اہل تفسیر نے اپنی تعبیراتِ قرآنی کو استشراقی نتائج فکر سے ہم آہنگ کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ان معروف اہل تفسیر کے بہت سے عقیدت مندوں اور متبعین نے بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اور وہی طرز تفسیر اپناتے ہوئے استشراقی تصورات سے تطابق کی سعی کی ہے۔ اس سلسلہ میں دنیائے اسلام کے دو نمایاں ترین افراد یعنی مفتی محمد عبدہ اور سر سید احمد خاں اور ان کے متبعین اور حلقہ فکر کے لوگوں کے تفسیری نکات کا مختصر تذکرہ ضروری آگہی کے لیے کفایت کرے گا۔
عالم عرب میں تجددکا علم بلند کرنے والوں میں سب سے نمایاں نام مفتی محمد عبدہ کا ہے اوریہ کہنا بجا ہے کہ وہاں تجدد پسند مکتب خیال کا وجود ہی ان کا مرہون منت ہے۔ ۶۶؂ انہوں نے جدید تصورات سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے قرآنی آیات میں تاویلی امکانات کو نہایت وسیع کر دیا۔ ان کے نزدیک جنات سے جراثیم یا مائیکروب۶۷؂اور آدم سے ہر نسل کا الگ مورث اعلیٰ ۶۸؂مراد لینے میں کچھ مذائقہ نہیں۔ وہ سورہ العصر کی آیت ۳ کی تفسیر میں’صالحات‘ کے تصور کو آفاقیت کا رنگ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ صرف حاملانِ شریعت تک ہی محدود نہیں بلکہ ان اقوام تک بھی ممتد ہے جن میں پیغمبر نہیںآئے اور یہی وہ چیز ہے جسے قرآن ’معروف‘سے تعبیر کرتا ہے۔ ۶۹؂گویا صالح ہونے کے لیے مسلمان ہونا ضروری نہیں۔ مفتی صاحب نے سورہ الفیل میں لشکر ابرہہ کی تباہی کے خارق عادت واقعہ کو عقلیت پسندوں کے لیے قابل قبول بنانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ہے کہ عین ممکن ہے کہ جن سنگریزوں سے لشکر ابرہہ کی تباہی ہوئی وہ زہریلی خشک مٹی کے ہوں اور ہوا کے ذریعہ یہ مٹی اڑ کر پرندوں کے پاؤں سے چمٹ گئی ہواور پھر جب یہ مٹی لشکر کے افراد پر گری ہو تو ان کے مساموں داخل ہو کر آبلے ڈال دیے ہوں اور یوں اعضائے جسمانی سے گوشت جھڑنے لگا ہو۔۷۰؂ مفتی محمد عبدہ کے نظریات بقول Malcolm H. Kerrآئندہ آنے والے اعتذاری مکتبہ خیال کے افراد کے لیے بنیاد کاکام دینے لگے۔۷۱؂ مصنف مذکور نے حاشیہ میں تصریح کی ہے کہ مفتی کے عقائد وتصورات کو بعد ازاں ان کے شاگردمکمل لادینیت اور سیکولرازم کی طرف لے گئے ۔ ۷۲؂ 
مفتی صاحب کے ایک نامور شاگرد محمد رشید رضاہیں۔ان کا کہنا ہے کہ قرآن بنیادی طور پرایک روحانی کتاب ہے جس میں دنیوی امور سے متعلق بہت کم احکام ملتے ہیں۔ زیادہ تر اختیارات’اولی الامر‘ کے سپرد کر دیے گئے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام بہبودعامہ کو پیش نظر رکھ کر فیصلے کیا کرتے تھے۔ گو بعض اوقات ان کے فیصلے سنت کے خلاف بھی ہوتے۔گویا ان کا عقیدہ یہ تھا کہ شرعی تفصیلات کی بجا آوری ضروری نہیں اور بنیادی مصلحت فلاح عامہ کی رعایت ہے۔۷۳؂ رشید رضا کے نزدیک احادیث بھی بحیثیت مجموعی قابل اعتنا نہیں بلکہ صرف وہی احادیث قابل قبول ہیں جو عملی نوعیت کی ہیں اور جن پرامت مسلمہ میں مسلسل عمل کا ثبوت ملتا ہے۔۷۴؂ معجزات سے متعلق رشید رضا کی رائے تھی کہ اب معجزات کا زمانہ گزر گیا۔یہ اس وقت کا قصہ ہیں جب انسانیت ابھی عہد طفولیت میں تھی۔ اسلام کی آمد کے ساتھ ہی انسان ذہنی بلوغ کے زمانے میں داخل ہو گیا اور معجزات کا زمانہ جاتا رہا۔ ان کے معجزات و خوارق کو عقلی رنگ دینے کی ایک مثال یہ ہے کہ وہ سورہ یوسف کی آیت ۹۴کی تفسیر میں خوشبوئے یوسف کے معجزانہ تصور کو قابل التفات نہ سمجھتے ہوئے موقف اختیار کرتے ہیں کہ صاف اور سیدھی سی بات ہے کہ یہ کوئی جنت کی خوشبو نہ تھی بلکہ قمیض کی یہ بو یوسف کے جسم کی بو تھی جیسی کہ بالعموم ہوتی ہے۔۷۵؂ 
مفتی محمد عبدہ کے ایک اور شاگرد قاسم امین نے آزادئ نسواں کا علم بلند کرتے ہوئے حجاب کے خاتمے اور یورپی اخلاقیات کو اپنانے کی دعوت دی ۔ ان کے مطابق مغرب کی اخلاقیات کو اپنائے بغیر وہاں کی سائنس کو اپنانے کا کچھ فائدہ نہیں۔۷۶؂قاسم امین نے دعوی کیا کہ بے پردگی کی دعوت میں دین اسلام سے کوئی مخالفت نہیں پائی جاتی ۔ان کا کہنا تھا کہ شریعت کے وہ احکام جو مروجہ عادات و معاملات پر مبنی ہیں ان میں حالات زمانہ کے مطابق تغیر و تبدل کیا جا سکتا ہے۔۷۷؂ وہ مغربی عورتوں کو اپنی خواتین کے لیے بطور نمونہ پیش کرتے ہوئے ان کی تقلید کی دعوت دیتے ہیں۔۷۸؂ مفتی محمد عبدہ کہ ایک اور معروف شاگرد علی عبدالرزاق ہیں۔ وہ دین و دنیا کو الگ الگ خانوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک اسلام کے تمام احکام مذہبی ضابطہ پر مشتمل ہیں جن کا تعلق تمام تر عبادت الہٰی اورنوع انسانی کی مذہبی فلاح و بہبود سے ہے ۔ جہاں تک شہری قوانین کا تعلق ہے وہ انسان کی صوابدید پر چھوڑ دیے گئے ہیں اور مذہب کو ان سے کوئی سروکار نہیں۔دنیاوی انتظام وانصرام کی خاطر خدا نے یہی کافی سمجھا کہ ہمیں ذہن و دماغ عطا کر دیے۔۷۹؂ مفتی کے دبستان فکر کے افراد میں سے محمد رفیق صدقی اور شیخ طنطاوی جوہری نے قرآن کو موجودہ سائنس سے ہم آہنگ کرنے کے لیے آیات قرآنی کی نہایت عجیب وغریب تاویلات کی ہیں ۔۸۰؂ 
قرآن کی جس طرز کی متجددانہ تعبیر کی بنیاد عالم عرب میں مفتی محمد عبدہ نے رکھی تھی ،برصغیر میں اس طرز کی متجددانہ تفسیر قرآن کے بانی سر سید احمد خاں ہیں۔اہل مغرب اور مستشرقین سے تاثر کے نقطہ نظر سے سر سید عبدہ سے بہت آگے نظر آتے ہیں۔انہوں نے قرآنی بیانات کو جدید تصورات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے متفق علیہ تفسیری اصولوں کو بالکل نظر انداز کر دیا۔ان کی’ تفسیر القرآن ‘میں،بقول سید عبداللہ، روایات سے بغاوت اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی نظر آتی ہے۔۸۱؂ انہوں نے ورک آف گاڈ اور ورڈ آف گاڈ کی مطابقت کا اصول پیش کیااور پھر قرآن میں کسی معجزہ یا خوارق کے تذکرہ کے روایتی تصور کویکسر مسترد کر دیا۔ ان کے نزدیک قرآن اور دیگر کتب سماوی میں معجزات کا جو ذکر ہے وہ تمثیلی و استعاراتی یا افسانوی رنگ لیے ہوئے ہے۔ڈاکٹر ٹرول کے مطابق سر سید کو انکار معجزات کی راہ دکھانے میں معجزاتی عناصر پر ولیم میور کی تنقید نے نمایاں حصہ لیا۔میور کی تقلید میں سر سید اس بات کے قائل ہوگئے کہ حضور کی پیدائش سے متعلق بیان کیے جانے والے معجزات سب شاعرانہ تخلیق ہیں۔ ۸۲؂ سر سید نے سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت کی تفسیر میں حضور کے معراج جسمانی سے متعلق تمام احادیث کو ناقابل اعتبار اور ان کے بیان کو خلاف قانون قدرت قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’واقعات خلاف قانون فطرت کے وقوع کا ثبوت اگر گواہان روایت بھی گواہی دیں تو محالات سے ہے‘‘ اور اس کے بعد تفصیلی بحث کرکے معراج رسول ؐ کوخواب میں پیش آنے والا رویاثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔۸۳؂یہ صرف ایک مثال ہے ورنہ وہ قرآن میں کہیں بھی معجزہ مذکور ماننے سے انکاری ہیں۔اس سلسلہ میں بنی اسرائیل کے عبور دریااور موسیؑ ٰ وعیسیؑ ٰ کے دیگر معجزات کی بھی انہوں نے عجیب وغریب اور دور از کار تاویلات کی ہیں۔۸۴؂ان کا کہنا ہے کہ حضور کے پاس کوئی معجزہ نہ تھا اور حضورؐ کے پاس کوئی معجزہ نہ ہونے سے ضمناً یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ انبیائے سابقین میں سے بھی کسی کے پاس کوئی معجزہ نہ تھا۔جن واقعات کو لوگ معروف معنوں میں معجزات کہتے ہیں وہ در حقیقت معجزات نہ تھے بلکہ قانون فطرت کے مطابق وقوع پذیر ہونے والے واقعات تھے۔۸۵؂
سرسید کے نزدیک نبوت ایک فطری چیز ہے۔خدا اور پیغمبر میں بجز اس ملکہ نبوت کے جس کو ناموس اکبر یا جبریل اعظم کہا جاتا ہے،کوئی ایلچی یاپیغام پہنچانے والا نہیں ہوتا۔جس طرح تمام ملکات انسانی کسی محرک کے پیش نظر اپنا کام کرتے ہیں اسی طرح ملکہ نبوت بھی کسی مخصوص امرکے پیش نظر فعال ہو جاتا ہے۔۸۶؂وہ جس طرح جبرئیل کو ملکہ نبوت کہہ کر جبرئیل کے خارجی وجود سے انکار کرتے ہیں ایسے ہی تمام ملائکہ ،شیطان اور جنات کا بھی خارجی وجود تسلیم نہیں کرتے۔ ۸۷؂ تخلیق و ہبوط آدم سے متعلق آیات کو ڈاروینی ارتقائیت سے ہم آہنگ کرنے کے لیے آدم کے شخصی وجود سے انکار کرتے ہوئے بڑے زور دار الفاظ میں کہا’’آدم کے لفظ سے وہ ذات خاص مراد نہیں جس کو عوام اور مسجد کا ملا باوا آدم کہتے ہیں۔ بلکہ اس سے مراد نوع انسانی ہے۔‘‘۸۸؂ سرسید حدیث، اجماع اور قیاس وغیرہ کو اصول دین میں شامل نہیں سمجھتے ۔ انہوں نے بقول مولانا حالی اپنے جدید علم کلام کا موضوع اور اسلام کا حقیقی مصداق صرف قرآن مجید کو قرار دیا اور اس کے سوا تمام مجموعہ احادیث کو اس دلیل سے کہ ان میں کوئی حدیث مثل قرآن کے قطعی الثبوت نہیں اور تمام علماء ومفسرین کے اقوال وآراء اور تمام فقہاء ومجتہدین کے قیاسات واجتہادات کواس بنا پر کہ ان کے جوابدہ خود علماء ومفسرین اور فقہاء و مجتہدین ہیں نہ کہ اسلام،اپنی بحث سے خارج کر دیا۔۸۹؂
سر سید کے چنداہم معاصرہم خیالوں اور متبعین میں مولوی چراغ علی،ممتاز علی اور سید امیر علی شامل ہیں ۔مولوی چراغ علی کا کہنا ہے قرآن کو کوئی مخصوص ضابطہ حیات یا سماجی و سیاسی قوانین عطا نہیں کرتا ۔اس کا تعلق محض فرد کی زندگی کے اخلاقی پہلو سے ہے۔آنحضورؐ نے کوئی سماجی و قانونی ضابطہ مرتب کیانہ ایسا کرنے کا حکم دیا۔اس کے برعکس مسلمانوں کو ایسے نظام قائم کرنے کی اجازت دے دی گئی جو ان کے گرد وپیش ہونے والی سیاسی اور معاشرتی تبدیلیوں سے وقت کے تقاضوں کے مطابق ہم آہنگی پیدا کر سکیں۔ کلاسیکی اسلامی قانون بنیادی طور پر شریعت نہیں بلکہ وہ رواجی قانون ہے جس کے اندر ایام جاہلیت کے عربی اداروں کے باقی ماندہ اجزا و عناصر یا وہ احادیث شامل ہیں جو اکثر جعلی ہیں اور غلط طور پر پیغمبر اسلام کی طرف منسوب کر دی گئی ہیں۔۹۰؂ فقہااسلامی قانون کے سلسلہ میں مقصود قرآنی کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔انہوں نے قرآن کی روح کو شرعی عمل سے دبا دیا اور وہ ابتدائی مشرقی روایاتی رسمیں جاری کر دیں جنہیں قرآن درحقیقت مذموم قرار دے چکا تھا۔ ۹۱؂
سرسید کے ایک اور معاصر پیرو ممتاز علی ہیں۔ممتاز علی نے عورتوں کی آزادی کے مسئلہ کو خصوصیت سے موضوع بحث بنایا۔وہ ان روایتی دلائل کو سختی سے مسترد کرتے ہیں جن کے مطابق مرد جسمانی طور پرزیادہ مضبوط،زیادہ دانش مند،نسبتاً کم جذباتی اور کم توہم پرست ہوتا ہے اور اس بنا پر وہ خدا کے خلیفہ اور نائب ہونے کا اعزاز رکھتا ہے اور کتب سماوی اس کوعورت کے برعکس متعدد شادیاں کرنے کی اجازت دیتی ہیں۔وہ مرد اور عورت کی مکمل مساوات کے قائل ہیں بلکہ وہ عورت کی مرد پر فوقیت کے حامی ہیں۔ ان کے نزدیک سورہ النساء کی آیت ۳۴میں قوامون اور فضل کے الفاظ کے تناظر میں عورت کے مقابلہ میں مرد کے تفوق کی کلاسیکی تاویلات قرآن کی صحیح ترجمان ہونے کی بجائے ان ادوار کے مروجہ قوانین کی آئینہ دار ہیں۔آیت کا مفہوم یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ عورتیں ان مردوں پر فوقیت رکھتی ہیں جو ان کے لیے کام کرتے ہیں۔ ۹۲؂ممتاز علی کے خیال میں حوا کے مقابلہ میںآدم کی تخلیقی اولیت اوراستحقاقی فوقیت یہودی اور عیسائی عقیدہ ہے نہ کہ قرآنی۔تعدد ازواج کو قرآن نے شرطِ عدل کے ذریعہ ناممکن العمل بنا کر منسوخ کر دیا ہے۔۹۳؂عورت کی آزادی سے معاشرے کے اخلاقی معیارات کے ڈھیلے ہو جانے کے خطرہ کا واویلا کیا جاتاہے حالانکہ خدا نے عورت کو آزاد اور مساوی درجہ پر پیدا کیا ہے۔بد اخلاقی کا تعلق عورت کی آزادی کی بجائے مرد کے مسخ شدہ جذبات سے ہے۔عورت اور مرد کی علیحدگی کے عادی معاشروں کو مخلوط معاشروں کے اخلاقی معیارات پر پورا اترنے کے لیے وقت چاہیے۔۹۴؂
سرسید کے ایک اورنامور معاصر ہم خیال سید امیر علی ہیں۔یہ مولانا حالی کے مطابق مغربی اہل الرائے سے اسلام کی عذر خواہیوں اورتوضیحات میں اور اسلامی معاشرتی اور مذہبی خیالات کی از سر نو تعمیر اور جدید خیالات کی ترویج میں سرسید احمد خاں کے پیرو تھے۔۹۵؂ ان کی مشہور تصنیفThe Spirit of Islam نے صرف مغرب ہی میں قبولیت عامہ حاصل نہیں کی بلکہ برصغیراورمصر کے مغربی تعلیم یافتہ مسلمانوں پر بھی گہرے اثرات ڈالے۔۹۶؂سید امیر علی نے اپنی اسلامی تعبیرات میں استشراقی اور مغربی تصورات سے ہم آہنگی کی جا بجا کوشش کی ہے ۔ فرشتوں اور شیطان کاخارجی وجود اور حشر جسمانی کوتسلیم کرنے سے بچنے کے لیے انہوں نے ان چیزوں سے متعلق قرآنی بیانات کوبلا جھجک شاعرانہ اسلوب بیان اور حضور ؐ کے دینی شعورکے درجۂ کمال سے پہلے کے اور زرتشتی و تلمودی الاصل تصورات سے تعبیر کیا ہے۔سورہ الانفال کی آیت ۹میں بیان کردہ واقعہ کو اسلوب بیان کی ساحری اور شاعرانہ بلاغت سے تعبیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’’ فرشتوں کے خدا کی طرف سے جنگ کرنے کے تصور میں جو شاعرانہ عنصر ہے اس کے نقش و نگار کو قرآن میں موئے قلم کی جن سادہ جنبشوں سے ابھارا گیا ہے وہ خوبصورتی اور بلاغت میں زبور کی بلیغ ترین عبارتوں کا مقابلہ کرتی ہے اور دونوں میں ایک ہی طرح کی شعریت ہے‘‘۔۹۷؂ملائکہ ایک داخلی تصور ہے۔جن چیزوں کو آج ہم قوانین فطرت کہتے ہیں پرانے لوگ انہی کو فرشتے یعنی آسمانی کار پرداز خیال کرتے تھے۔ شیطان سے متعلق حضورؐ کے اقوال کا تجزیہ کریں تو بھی ایک موضوعی تصور سامنے آتا ہے جسے آپؐ نے اپنے پیروکاروں کے فہم کے مطابق الفاظ کا جامہ پہنایا۔۹۸؂ بعض لوگوں کا یہ خیال کہ رسول عربی نے اپنے ماننے والوں سے حسی لذات کی جنت اور عیش وعشرت کے مختلف مدارج کو وعدہ کیا،جہالت اور تعصب کا نتیجہ ہے ۔اس میں شک نہیں کہ درمیانی دور کی سورتوں میں،جب کہ معلم اسلام نے ابھی شعور دینی کا درجۂ کمال حاصل نہیں کیا تھااور جب کہ اس بات کی ضرورت تھی کہ عقبی اور جزا وسزا کے تصورات کو ایسے الفاظ کا جامہ پہنایا جائے جو سیدھے سادھے بادیہ نشینوں کی سمجھ میں آ سکیں۔ جنت و جہنم کے واقعیت نما نقشے،جو زرتشتیوں،صابیوں اور تلمودی یہودیوں کی پادر ہوا قیاس آرائیوں پر مبنی تھے،پڑھنے والے کی توجہ ضمنی حاشیہ آرائیوں کے طور پر اپنی طرف کھینچتے ہیں۔لیکن ان کے بعد قرآن کا جوہر خالص آتا ہے یعنی کمال عجزومحبت سے خدا کی عبادت۔حوریں زرتشتی نژاد ہیں۔اسی طرح جنت بھی زرتشتی الاصل ہے البتہ جہنم عذاب الیم کے مقام کی حیثیت سے ایک تلمودی تخلیق ہے۔ان کے واقعیت نما مناظر کی بنا پر یہ سمجھنا کہ حضور ؐاور آپ کے پیروکار ان کو واقعی مبنی بر حسیت سمجھتے تھے ،محض ایک افترا ہے۔۹۹؂
تعدد ازوج کے حوالے سے سید امیر علی کی رائے ہے کہ یہ مطلق العنان بادشاہوں کے زمانے کی یاد گار ہے جسے ہمارے ترقی یافتہ دور میں بجا طور پر ایک خرابی سمجھا جاتا ہے۔قرآن نے فی نفسہ اس کی ممانعت کر دی ہے۔ترقی یافتہ مسلم جماعتوں میں رفتہ رفتہ یہ تصور پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ یہ چیز تعلیمات محمدی کے بھی اسی قدر منافی ہے جس قدر جدید تمدن و ترقی کے۔ لہٰذا یورپ کو اس سلسلہ میں قدیم مسلم فقہا کی من مانیوں اور مصلحت کوشیوں پر نہیں جانا چاہیے بلکہ جدید اسلام کا تحمل وہمدردی سے مشاہدہ کرنا چاہیے جس میں قدما پرستی کے بندھنوں سے چھٹکارا حاصل کیا جارہا ہے۔۱۰۰؂
ذراآگے چل کر سر سید کے مکتبہ خیال سے متعلق دو نمایاں نام محمد علی لاہوری اور غلام احمد پرویز ہیں۔محمد علی لاہوری نے مولانا ابوالحسن علی ندوی کے بقول سرسید کے لٹریچر اور ان کے تفسیر قرآن کے اسلوب کو پورے طور پر جذب کرلیا تھا۔۱۰۱؂وہ اپنی تفسیر میں مختلف مسائل سے متعلق اسی طرح کی تشریحات پیش کرتے ہیں جو جدید نظریات ومعلومات سے متصادم نہ ہوں۔معجزات وخوارق کا انکار کرتے ہوئے ان کی عقلی تاویلات کرتے ہیں۔مثلاً بنی اسرائیل کے عبور دریا سے متعلق سرسید کا جوار بھاٹے والاانداز استدلال اپناتے ہوئے اسے ایک عام واقعہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔۱۰۲؂ موسیؑ ٰ کو بارہ چشمے معجزانہ طور پر نہیں بلکہ ایلیم کے ایک پہاڑ سے ملے تھے۔۱۰۳؂ سورۃ البقرہ کی آیت ۷۲اور۷۳ کے حوالے سے عام مفسرین یہ خیال کرتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص نے اپنے چچا کو پوشیدہ طور پر قتل کر دیا تھا اوراس کا راز جانے کے لیے گائے ذبح کرکے اس کا ایک ٹکڑا مقتول کے جسم سے لگانے کے لیے کہا گیا تھاحالانکہ یہ معمولی واقعہ نہیں ۔اس میں حضرت عیسیؑ ٰ کے قتل کی طرف اشارہ ہے۔ بعضھا  کی ضمیر فعل قتل کی طرف جاتی ہے یعنی بعض قتل سے اس کو مار دو یا فعل قتل اس پر پورا وارد نہ ہونے دو۔۱۰۴؂ مسیح تین گھنٹے صلیب پر رہے مگر وفات نہیں پائی ۔بعد ازاں طبعی عمرپوری کر کے وفات پائی۔۱۰۵؂ مسیح کے کشمیرآنے اوربعد از وفات وہاں دفن ہونے کے شواہد موجود ہیں۔۱۰۶؂ حضرت مسیح پیدا بھی معجزانہ طور پر نہیں بلکہ مریم اور یوسف کے صنفی تعلق سے عام بچوں کی طرح ہوئے تھے۔۱۰۷؂ سورہ آل عمران کی آیت ۴۹ میں حضرت عیسیؑ ٰ کے تخلیق طیر سے استعارۃً ایسے لوگ مراد ہیں جوزمیں اور زمینی چیزوں سے اوپر اٹھ کر خدا کی طرف پرواز کر سکیں۔اور احیائے موتی سے روحانی مردوں کا احیا مراد ہے کیونکہ جسمانی طور پر مر جانے والوں کا اس دنیا میں دوبارہ آنا قرآن کی اصولی تعلیم کے خلاف ہے۔۱۰۸؂ حضرت سلیمان کے حوالے سے علمنا منطق الطیر سے پرندوں کی بولیاں جاننا نہیں بلکہ پرندوں کی نامہ بری مراد ہے۔نملہ کوئی چیونٹی نہیں بلکہ وادی نملہ کی باسی قوم تھی۔ ہدہد پرندہ نہیں بلکہ سلیمان کے محکمہ خبر رسانی کا آدمی تھا۔عفریت من الجن قوی الجثہ انسان تھا۔سلیمان کی ماتحتی میں کام کرنے والے جن ان غیر قوموں کے لوگ تھے جنہوں نے بنی اسرائیل کی ماتحتی کا جوا اٹھایا ہوا تھا۔۱۰۹؂
غلام احمدپرویزمغربی فکرسے تاثر اور سر سید کے زاویہ فکر کو اختیار کرکے مخصوص تناظر میں اسے مزید وسعت دینے میں خاصے نمایاں ہیں۔پروفیسر عزیز احمد نے انہیں سرسید سے لے کر لمحہ موجود تک کے تمام جدید پسندوں میں مغربی نقطہ نظر کے سب سے زیادہ قریب قرار دیا ہے۔۱۱۰؂ حدیث کی حجیت وثقاہت کے حوالے سے انہوں جس طرح استشراقی فکر سے ہم آہنگی اختیار کی اس کا مختصر ذکر اوپر گزر چکا ہے ۔لیکن یہ صرف ایک پہلوتھا۔ انہوں نے نہایت وسیع پیمانے پر مغربی نتائج فکر سے تطابق کی کوشش کی ہے ۔اس سلسلہ میں ان کے یہ الفاظ قابل ملاحظہ ہیں کہ’’میں نے انسانی فکر کی اڑھائی ہزار سالہ کدو کاوش کا مطالعہ قرآن کی روشنی میں کیا(یا قرآن کا مطالعہ اس فکر کی روشنی میں کیا )تو قرآن کا ایک ایک دعوی زندہ حقیت بن کر میرے سامنے آگیا۔‘‘۱۱۱؂ مذکورہ تناظر میں پرویز نے متعددموضوعات پر کلام کیا ہے۔ جدیدمغرب میں چونکہ کائنات کے عام مشاہد قوانین میں کسی بھی طرح کی ماورائی مداخلت (جس سے خدا کا قادرمطلق ہونا ثابت ہوتا ہے) کوجہالت ووہم پرستی قرار گیا تھا۱۱۲؂ چنانچہ پرویز صاحب بھی ایسے تصور کو غلط سمجھتے ہیں جس میں خدا کو اختیار مطلق حاصل ہواور وہ کسی قاعدے اور ضابطے کا پابند نہ ہو۔قرآنی الفاظ: کَتَبَ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃ۱۱۳؂کی تشریح میں پابندی و اختیار کے حوالے سے خدااور بندے کی مختلف حیثیت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بندے پر جو پابندی لگائی گئی ہے وہ اس کے خلاف کر سکتا ہے جب کہ خدا نے اپنے اوپر جو پابندی لگائی ہے وہ اس کے برعکس نہیں کرتا۔’’اس اعتبارسے دیکھئے توانسان صاحبِ اختیار رہتا ہے اورخدا’’مجبور‘‘۔‘‘۱۱۴؂ 
رسول اللہؐ کوپرویزصاحب نے اپنی تعبیراتِ قرآنی میں نظام حکومت اور مرکزی اتھارٹی کا ہم معنی قرار دیا ہے۔ ایک جگہ لکھا ہے’’حالانکہ نظام سے وابستگی اور اطاعت کا تقاضا ہے کہ ایسی باتوں کو رسول (مرکزی اتھارٹی)یا اپنے افسران تک پہنچایا جائے۔‘‘۱۱۵؂ ملائکہ ان کے نزدیک فطرت کی قوتیں ہیں۔ قصہ آدم میں ملائکہ کا آدم کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا جو ذکر ہے، اس سے مراد در حقیقت فطرت کی قوتوں کابنی نوع انسان کے لیے مسخر کیا جانا ہے۔۱۱۶؂ شیطان کوئی موجود فی الخارج ہستی یا شخصیت نہیں بلکہ انسان کے اپنے فیصلوں،ارادوں اور جذبات سے عبارت ہے۔۱۱۷؂جنات سے قرآن کی مرادجنگلی، صحرائی اور خانہ بدوش انسان ہیں۔۱۱۸؂ جہنم قرآن کی رو سے کسی گڑھے یا ایسے مقام کا نام نہیں جس میں آگ کے شعلے بھڑک رہے ہوں اور مجرموں کو اس میں جھونک دیا جائے ۔بلکہ دراصل یہ انسا ن ہی کے قلب سوزاں کی کیفیت اور اعمال بد کے نتیجے میں اس کے اندر پیدا ہو جانے والے اضطرابِ پیہم اور کربِ مسلسل کا نام ہے۔۱۱۹؂ جنت ایسی مثالوں سے عبارت ہے جو قرآن کے اولیں مخاطب عربوں کے لیے متاثر کن تھیں۔گھنے باغات جن میں صاف شفاف چشمے ہوں اور ان کا ٹھنڈا پانی چاروں طرف بہہ رہا ہو،درخت پھلوں سے لدے،دودھ اور شہد کی ایسی افراط کہ گویا ان کی نہریں بہہ رہی ہوں،اعلی درجے کے قالین اور صوفے بچھے ہوئے محلات، جن میں حریر واطلس کے پردے آویزاں،بلوریں آفتابے،چاندی سونے کے ظروف،لطیف گوشت، خوش ذائقہ مشروبات،ہم مزاج ،ہم رنگ،یک آہنگ احباب کی محفلیں۔تپتے ہوئے صحرا ؤں کے باسی عربوں کی زندگی ظاہر ہے اسی طرح کی مثالوں سے سجائی جا سکتی تھی۔۱۲۰؂ انسان اشرف المخلوقات نہیں۔۱۲۱؂ آدم سے کوئی خاص انسان یا بشر مراد نہیں۔ قصہ آدم خودنوع انسانی کی سر گذشت ہے۔۱۲۲؂ معجزہ قانون فطرت کے خلاف ہے اور قرآن کی رو سے کوئی واقعہ خلاف قانون فطرت رونما نہیں ہو سکتا۔ بنا بریں معجزات کا وجود بروئے قرآن غلط ہے۔۱۲۳؂ 
چوری کی سزاہاتھ کاٹناایک انتہائی سزا ہے جس کے عملی اطلاق کاموقع قریب قریب نا ممکن ہے اور قطع ید سے در حقیقت مرادایسا طریق اختیار کرنا ہے کہ چور چوری سے باز آ جائیں۔۱۲۴؂ تعدد ازواج ایسی شرائط سے مشروط ہے کہ یہ قریباً ناممکن العمل ہو کر رہ جاتا ہے۔۱۲۵؂ قرآن نے دراصل ایک وقت میں ایک ہی بیوی کا اصول مقرر کیا ہے۔ اگر کسی وقت بیوی سے نباہ کی صورت نہ رہے توقرآن کی رو سے اس کی موجودگی میں دوسری بیوی کی اجازت نہیں ہاں البتہ اس کی جگہ دوسری بیوی لائی جا سکتی ہے۔ وَاِنْ اَرَدْتُّمُْ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّکَانَ زَوْجٍ ۱۲۶؂ کا مفہوم یہ ہے کہ ’’اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لانا چا ہو تو اس کے لیے پہلی بیوی سے معاہدۂ نکاح فسخ کرو . ‘‘ ۱۲۷؂معیشت کے مسئلے کا حل مارکسی فکر میں پنہاں ہے۔۱۲۸؂ رزق کا معاملہ خدا نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا۔ یہ مذہبی پیشوائیت کی فریب کاری ہے جو عوام کو اس غلط عقیدہ کی افیون دے کر نظامِ سرمایہ داری کی جڑ یں مضبوط کرتی رہتی ہے ۔ صاحبِ اقتدار گروہ وسائلِ پیداوار اپنی ملکیت میں لے لیتا ہے اور پھر دوسرے انسانوں کو روٹی کا محتاج بنا کر ان سے اپنا ہر حکم منواتا ہے ۔ جب بھو کے انسان اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں تو مذہبی پیشوائیت انہیں یہ کہہ کر سلا دیتی ہے کہ رزق کی تقسیم خدا نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے وہ جسے چا ہتا ہے امیر بنا دیتا جسے چاہتا ہے غریب رکھتا ہے جسے چاہتا رزقِ فراواں عطا کر دیتا ہے جسے چاہتا ہے بھو کا رکھتا ہے کوئی انسان اس فرق کو مٹانہیں سکتا ۔۱۲۹؂
مرزا غلام احمد قادیانی سے متعلق بھی یہ کہنا بے جا نہیں کہ انہوں نے سر سید احمد خاں اور ان کے مدرسہ فکر سے شہ حاصل کی۔شیخ محمد اکرام کے مطابق مولوی چراغ علی سے مرزا کی خط و کتابت تھی اور جہاد سے متعلق وہ مولوی صاحب کے ہم خیال تھے۔اسی طرح حضرت عیسیؑ ٰ کے متعلق انہوں نے سر سید کے خیالات کی پیروی کی۔۱۳۰؂ نئی نبوت کی گنجائش بھی اہل تجدد نے فراہم کر دی تھی ۔بنا بریں یہ بات ناقابل فہم نہیں کہ مرزاقادیانی نے اس سلسلہ میں انہی کے خیالات سے استفادہ کیا۔تاہم قادیانیت کے ظہور میں نوآبادیاتی نظام اورانگریزوں کا کردار غیر معمولی ہے۔مرزا کا عقیدہ تھا کہ اسلام کے دو حصے ہیں۔ ایک کا تعلق خدا سے ہے اوردوسرے کا امن امان قائم کرنے والی حکومت سے۔امن امان قائم کرنے والی حکومت چونکہ اس وقت حکومت برطانیہ ہے لہذا اس سے سر کشی اسلام سے سرکشی کے مترادف ہے۔ان میں انگریز پرستی کا جذبہ اس قدر شدید تھا کہ وہ اس معاملے میں اپنے مخالفین کو احمق ونادان بلکہ حرامی اور بد کارقرار دیتے تھے۔۱۳۱؂ 

نتیجہ بحث

اوپر کی بحث سے یہ حقیقت واضح ہو رہی ہے کہ مستشرقین نے اہل اسلام کواپنے دین سے متعلق شکوک شبہات میں مبتلا کرنے ، تجدد و مغربیت اختیار کرنے اورعہد نو کے تقاضوں کی دہائی دے کر اسلام کوجدید مغربی نقطہ نظر سے ہم آہنگ کرنے پر مائل کرنے کی بساط بھر کوشش کی ہے۔ ان کی یہ کوشش بے نتیجہ نہیں رہی ۔ ان کی فکر نے عالم اسلام میں بہت سے لوگوں کے عقل وشعور اور روح وبدن میں نفوذ حاصل کر لیا۔مسلمانوں میں ایسے بہت سے افراد سامنے آنے لگے جنہوں نے اپنی قوموں کو لفظ و معنی اور حقیقت وشکل ہر اعتبار سے مغربی سانچے میں ڈھلنے کی دعوت دی۔اسلامی ا حکامات وتعلیمات سے بیزاری پیدا ہونے لگی یا ان کی ایسی تعبیرات پیش کی جانے لگیں جو مغربی معیارات سے زیادہ سے زیادہ مطابقت رکھتی ہوں۔یہ لوگ اسلامی عقائد واحکام میں سے ہر اس عقیدہ و حکم کو تاویل کی سان پر چڑھانے یابدل ڈالنے میں مصروف ہوگئے جواپنی اصلی شکل میں جدید مغربی یامغرب سے متاثرذہن کے لیے قابل قبول دکھائی نہ دیا۔یوں بقول کینٹول سمتھ یہ معذرت خواہ نہ صرف اپنے بلکہ بہت سے دیگر مسلمانوں کے ایمان و یقین میں انتشار وتزلزل کا سبب بنے۔۱۳۲؂ ڈاکٹر رفیع الدین نے تجدد پسندوں کی خواہشِ اجتہادکی حقیقت واضح کرتے ہوئے صحیح کہا ہے کہ ان کی یہ خواہش بالعموم ان کی اسلام سے محبت کا نتیجہ ہونے کی بجائے الٹا اس سے بیزاری اوردیگر افکار و نظریات سے محبت کا ثمر ہے۔ اجتہاد کی اس خواہش کا مقصد اسلام کی بنیادی وحقیقی باتوں کی دریافت ووضاحت نہیں بلکہ اسے دیگر نظریات کے قریب تر لانا ہے تا کہ ان نظریات کے حامل اور دلدادگان کو مطمئن کیا جا سکے۔یہ شریعت کے اندر سے فطری ارتقاء کے نتیجہ میں سامنے آنے والا اصلی اجتہاد نہیں بلکہ امکانی حد تک اسلام میں اپنے پسندیدہ دیگر افکار وخیالات کے دخول اور شریعت کے تکملہ کی سعی ہے۔ ۱۳۳؂ 

حوالہ جات وحواشی

۶۶۔ چارلس سی آدم،حوالہ مذکور،ص۳۹۸۔
۶۷۔ ایضاً،ص۱۹۹۔۲۰۰۔
۶۸۔ ایضاً،ص۲۰۱۔۲۰۲۔
۶۹۔ مفتی محمد عبدہ،تفسیر سورہ العصر،قاہرہ،۱۹۲۶،ص۱۹۔
۷۰۔ وہی مصنف، تفسیر جز عم،مطبع مصر،۱۳۴۱ھ،ص۱۵۸۔
71. Kerr, Malcolm H, Islamic Reforms: The Political and Legal theories of Muhammad Abduh and Rashid Rida, Cambridge, University press, 1961, p.105. 
72. Ibid. p. 106. 
۷۳۔ رشید رضا،تفسیر المنار،جلد ششیم،قاہرہ،۱۳۷۵ھ،ص۵۶۲۔
۷۴۔ وہی مصنف،تفسیر المنار،جلد دوم،۱۳۶۷ھ،ص۳۰۔
۷۵۔ وہی مصنف ،تفسیر سورہ یوسف، قاہرہ، ۱۹۳۶ھ،ص۱۲۰،تفسیر المنار،جلد اول، قاہرہ،۱۳۷۳ھ،ص۳۱۵۔
76. Hourani, Albert, Arabic Thought in the Liberal age, Oxford University press, 1962, pp. 168-169. 
۷۷۔ قاسم امین ،تحریر المرأۃ ،قاہرہ،۱۸۹۹ء،ص۱۶۹۔
۷۸۔ وہی مصنف ، المرأۃ الجدیدہ،قاہرہ،۱۹۰۰ء،ص۱۸۵۔۱۸۶۔ 
۷۹۔ علی عبد الرزاق،الاسلام واصول الحکم ،قاہرہ ، ۱۹۲۵ء،ص۸۴۔۸۵۔
۸۰۔ مثال کے طور پر دیکھیے:طنطاوی جوہری، الجواہر فی تفسیر القرآن،جلد اول،بیروت،۱۹۹۱ء،ص۱۶۱۔۲۳۴، چارلس سی آدم، حوالہ مذکور ، ص ۳۴۸،۳۴۹،۳۵۵۔
۸۱۔ سید عبداللہ،سرسید احمد خاں اور ان کے ناموررفقا کی اردونثر کا فنی و فکری جائزہ،اسلام آباد ،مقتدرہ قومی زبان، ۱۹۹۴ء ،ص۳۰۔۳۲۔
۸۲۔ ٹرول،ڈاکٹرسی ڈبلیو،سر سید احمد خاں:فکراسلامی کی تعبیر نو(مترجمین ،ڈاکٹر قاضی افضل حسین اور محمداکرام چغتائی)،لاہور ، القمر انٹر پرائزز،۱۹۹۸ء، ۲۰۶۔۲۰۷۔
۸۳۔ تفسیر القرآن مع اصول تفسیر،لاہور،دوست ایسوسی ایٹس،۱۹۹۵ء،ص۱۰۷۵۔۱۱۹۷۔
۸۴۔ ایضاً،ص۱۴۷۔۱۶۲،۳۹۹،۴۱۳،۴۲۶۔۴۲۷۔
۸۵۔ ایضاً،ص۵۸۰۔
۸۶۔ ایضاً،ص۹۰۔۹۶،۵۶۵۔۵۷۸۔
۸۷۔ ایضاً،ص۱۰۶۔۱۰۸،۱۱۷،۶۱۳۔۶۲۵۔
۸۸۔ ایضاً،ص۱۲۴۔
۸۹۔ حالی،مولانا الطاف حسین،حیات جاوید،لاہور،ھجرہ انٹر نیشنل،۱۹۸۴ء،حصہ اول،ص۲۳۱۔
90. Chriragh Ali, The proposed political, legal and social reforms in the Ottoman Empire and other Muhammdan States, Bombay, 1883, pp.10-12. 
91. Ibid.pp.112-113. 
۹۲۔ ممتاز علی ،حقوق نسواں،لاہور،۱۸۹۸ء،ص۵۔۷۔
۹۳۔ ایضاً،ص۷۔۳۷۔
۹۴۔ ایضاً،ص۴۴۔۹۴۔
۹۵۔ حالی، مولانا الطاف حسین،حیات جاوید،حوالہ مذکور،ص۱۶۳۔
۹۶۔ احمد امین،زعماء الاصلاح فی العصر الحدیث، قاہرہ، ۱۹۴۸ء،ص۱۳۹۔۱۴۵۔
۹۷۔ امیر علی،سید ،روح اسلام(مترجم،محمد ہادی حسین)،لاہور ،ادارہ ثقافت اسلامیہ،۱۹۹۲ء،ص۱۵۲۔
۹۸۔ ایضاً،ص۱۵۳۔۱۵۴۔
۹۹۔ ایضاً،ص۳۲۶۔
۱۰۰۔ ایضاً،ص۳۵۸،۳۶۸،۳۷۰،۳۷۱۔
۱۰۱۔ ابوالحسن علی ندوی،مولانا،قادیانیت:مطالعہ و جائزہ،کراچی،مجلس نشریات اسلام،۱۹۸۱ء،ص۱۸۰۔
۱۰۲۔ محمد علی لاہوری،بیان القرآن،لاہور،احمدیہ انجمن اشاعت اسلام،جلداول۱۳۷۷ھ،ص۶۲،جلددوم،ص۱۲۴۴، جلد سوم،۱۳۴۲ھ،ص۱۳۹۱۔۱۳۹۲۔
۱۰۳۔ ایضاً،جلداول،ص۶۹۔۷۰۔
۱۰۴۔ ایضاً،ص۷۸۔۷۹۔
۱۰۵۔ ایضاً،ص۳۳۱۔۳۳۲،۳۳۴،۳۹۹،۵۷۵۔۵۷۶،جلددوم،ص۷۳۸،۱۲۶۲۔
۱۰۶۔ ایضاً،جلداول،ص۳۱۰،جلددوم،ص۱۳۲۳۔ 
۱۰۷۔ ایضاً،جلداول،ص۳۱۴۔۳۱۵۔
۱۰۸۔ ایضاً،ص۳۲۰۔۳۲۶۔
۱۰۹۔ ایضاً،جلدسوم،۱۴۰۸۔۱۵۳۶۔جلددوم،ص۱۲۷۸۔ 
۱۱۰۔ عزیز احمد،پروفیسر،برصغیر میں اسلامی جدیدیت(مترجم ،ڈاکٹر جمیل جالبی)،لاہور،ادارہ ثقافت اسلامیہ، ۱۹۸۹ء،ص۳۲۲۔۳۲۳۔
۱۱۱۔ پرویز، غلام احمد،انسان نے کیا سوچا،لاہور،طلوع اسلام ٹرسٹ،۱۹۹۱ء،ص۱۵۔
112. Longman,Green & co;Pub.by,Supernatural Relegion, London, 1874,Vol.II.p.480. 
۱۱۳۔ الانعام۶:۱۲۔
۱۱۴۔ پرویز ،غلام احمد ، مطالب الفرقان ،لاہور ،طلوع اسلام ٹرسٹ ،جلد پنجم ،ص۱۲۔
۱۱۵۔ ایضاً ، جلد چہارم ،ص۳۸۴۔
۱۱۶۔ ایضاً ،جلد دوم،ص۶۷۔۷۰۔
۱۱۷۔ ایضاً،ص۵۰۔۵۲۔ 
۱۱۸۔ ایضاً،ص۴۱۔۴۲۔
۱۱۹۔ ایضاً،جلد اول،ص۳۲۷۔۳۲۸۔ 
۱۲۰۔ ایضاً،ص۳۳۳۔۳۳۴۔
۱۲۱۔ ایضاً،جلددوم،ص۴۱۔
۱۲۲۔ ایضاً،ص۶۲۔
۱۲۳۔ ایضاً،جلد چہارم،ص۹۳۔
۱۲۴۔ ایضاً ،ص۵۰۳۔۵۱۰۔
۱۲۵۔ ایضاً ،جلد سوم ، ص۳۴۸۔
۱۲۶۔ النساء۴:۲۰۔
۱۲۷۔ پرویز ،غلام احمد ،مطالب الفرقان ،جلد سوم ، ص۳۴۶۔
۱۲۸۔ ایضاً ،جلد اول ،ص۱۱۵۔۱۱۶۔۱۳۲۔
۱۲۹۔ ایضاً، ص۱۰۷۔
۱۳۰۔ محمد اکرام ،شیخ،موجِ کوثر،لاہور،ادارہ ثقافت اسلامیہ،۱۹۹۲ء،ص۱۷۸۔
۱۳۱۔ قاضی جاوید، سرسید سے اقبال تک،لاہور ،تخلیقات،۱۹۹۸ء،ص۹۳۔
132. Smith, Wilfred Cantwell, Op.Cit.p.122. 
133. Rafi-ud-din,Dr,"The task of Islamic Research",The Pakistan times, Lahore,August 2, 1963. 

’’کچھ تو سمجھے خدا کرے کوئی‘‘ (۱)

مولانا محمد بدر عالم

(افتراق وتفریق کا فکری، نفسیاتی اور سماجی تجزیہ۔)

امت مسلمہ اس وقت گوناگوں مسائل کا شکار ہے۔ عالمی کفر نے ہر طرف سے اس کو شکنجے میں کس لیاہے۔ ہم معاشی طور پر خدایانِ مغرب کے محتاج اور عسکری طور پر ان کفار کے دست نگر ہیں۔ ہم ان کے سیاسی قیدی اور تہذیبی غلام ہیں۔ جمہوری نظام ہماری آنکھوں کا تارا اور بے دین معاشرت ہمارے سروں کا تاج ہے۔ حالات دِل فگار ہیں۔ ملت کا اجتماعی ڈھانچہ بالکل ٹوٹ چکاہے۔ معدودے چند افراد کے سوا جو امت کی ڈوبتی ناؤ بچانے کی کوشش کررہے ہیں، بہت بڑی اکثریت صرف اپنے مفادات کی سوداگر ہے۔ مفکروں کی دانش بانجھ اور فکر مردہ ہوچکی ہے۔ حکمران اگر کاسہ لیس اور عیارہیں تو سیاستدان ٹوڈی اور مکار ہیں۔ عدالتیں انصاف بیچتی ہیں اور صحافی حرمتِ قلم کا بیوپار کرتے ہیں۔ شعرا اگر کلام کے جادوگر ہیں تو خطبا لفظوں کے بازی گرہیں۔ غریب کادامن زرسے اور امیر کا دل ضمیر سے خالی ہے۔ مزدور کی محنت زربن کر کار خانہ دار کی تجوری میں اترجاتی ہے اور حالات کے جبر سے نکلنے والی اس کی کراہیں دھواں بن کر کارخانے کی چمنیوں سے نکلتی جاتی ہیں۔ کافروں کے ٹکڑوں پر پلنے والے چند بے ضمیروں نے پوری امت کو ان کے پاس گروی رکھ دیا ہے۔ حالات بد سے بدتر اور زوال مزید سے مزید تر ہوجارہاہے۔ 
امت حالات کے ایسے گرداب میں پھنسی ہوئی ہے جس سے نکلنے کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا۔ حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ اللہ کی اس زمین پر خونِ مسلم سے ارزاں اور کوئی چیز نہیں۔ تڑپتے جسم، بھڑکتے وجود، بے گوروکفن لاشیں، لٹے سہاگ،پٹی عصمتیں، اجڑے دیار، ویران بستیاں، مظلوموں کی فریادیں، بندوقوں کے قہقہے، گولیوں کی مسکراہٹیں، بارود کی بارش، اِس سمت سے اْس سمت تک مسلمان کا لہو۔ کیایہی ملت کا مقدر اوراس کا نصیب ہے؟ یہ دلدوز حالات دیکھ کر آنکھیں خون آلود ہو جاتی ہیں او رسوچ سوچ کر کنپٹیاں سلگتی ہیں۔ دماغ پھٹتا ہے اور ہر درد مند دل پریشان اور غمگین ہو جاتا ہے۔
جس طبقے سے ناخدائی کی امید کی جاسکتی تھی، وہ باہم دست وگریباں ہے۔اس کی صلاحیتیں کسی اور کام پرصرف ہو رہی ہیں۔ بہت سے دوسرے افراد کی طرح راقم بھی اس پر سوچتا رہتا ہے کہ امت کے اس زوال وادبار کا سبب کیاہے؟ ہم دوبارہ عروج کس طرح حاصل کرسکتے ہیں؟قیادت کا فخراور سیادت کا شرف جو ہمارااثاثہ تھا، کس طرح واپس لیاجاسکتاہے؟ یہ مسئلہ امت کے لیے رستا ہوا ناسور اور سلگتا ہوا انگارہ ہے۔ ہر دردمند مسلمان کا دل اس کی ٹیس سے تڑپتا اوراس کی تپش سے جلتاہے۔ اس مسئلے پر بات کرنا گھاؤ پر نشتر لگانا اور سانپ کے ڈسے ہوئے کو اَک کا دودھ پلانا ہے۔ گمان تو اچھا رکھناچاہیے، مگر پھر بھی اس مضمون سے ہو سکتاہے کسی قباکے بخیے ادھڑجائیں، کسی عمامے کے پیچ کھل جائیں، کوئی گریباں چاک ہوجائے، اس لیے تیوریوں کا چڑھنا، پیشانیوں کا شکن آلود ہوجانااورزبانوں کا میرے حق میں بے لگام ہوجاناممکن ہے، لیکن ستائش کی تمنااورصلے کی پروا کیے بغیر اس بات کااظہار کرناخود پر فرض اورامت کا قرض سمجھتا ہوں جو میرے نزدیک حق ودرست ہے۔
اس وقت امت کو جن مسائل کا سامناہے، ان میں ’’فرقہ واریت‘‘ کا مسئلہ اہم ترین ہے۔بہت سے لوگ اسے امت کے زوال کا سبب سمجھتے ہیں۔ اس سے کلی طورپر تو میں اتفاق نہیں کرتا، البتہ یہ یقین ضرور رکھتاہوں کہ عروجِ امت کے راستے میں یہ ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ فرقہ واریت کے علاوہ اور ایک چیز بھی ہے جو نتائج کے لحاظ سے اگرچہ اس سے کم مہلک نہیں، مگراس کی طرف بہت کم لوگوں کی نظر اٹھتی ہے۔ جو اس کی طرف توجہ کرتے ہیں، وہ بھی اس کی سنگینی کو مکمل طور پر محسوس نہیں کرپاتے۔ نوعیت کے لحاظ سے یہ فرقہ واریت ہی کی فرع اور شاخ ہے۔ اس کانام ہم ’’تفریق‘‘ رکھتے ہیں۔ 
زوال کے اس دور میں عروج سے ہمکنار ہونے کے لیے مختلف النوع کوششیں ہورہی ہیں، لیکن کوئی کوشش بارآور اور کوئی سعی مشکور ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ اس کی وجہ کیاہے؟اکثریت نتائج میں اس ناکامی کو امریکہ اوراس کی سازشوں کے کھاتے میں ڈال کر یا دوسرے مخالفین کے سر منڈھ کر خودبری الذمہ ہوجاتی ہے۔اخلاق اس حد تک بگڑ گئے ہیں کہ ہر شخص خود کو ’’مصلح‘‘ اور مخالف کو ’’مفسد‘‘ سمجھتا ہے۔ بہت کم لوگ ہیں جو دوسروں کو الزام دینے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسے لوگ یقیناًآٹے میں نمک کے برابر ہوں گے جو حالات کا صحیح اور حقیقت پسندانہ تجزیہ کرتے ہوں، جو یہ سمجھتے ہوں کہ نتائج میں ناکامی کی ایک اہم ترین داخلی وجہ ایک طبقے، فرقے اور مسلک میں جماعت بندی، گروپ بندی اور پارٹی بازی یا ’’تفریق‘‘ ہے۔ کوئی فرقہ امت کے مجموعی دھارے سے الگ ہوتاہے اور کچھ ہی عرصے بعد کئی ٹکڑیوں میں بٹ جاتا ہے۔
یہ چھوٹی چھوٹی ٹکڑیاں اور جماعتیں نکبت اور ادبار سے نکلنے کی بساط بھر کوشش کرتی ہیں، مگر’’تفریق‘‘ ان کی کوششوں پر مٹی ڈال دیتی ہے، کیونکہ ہرایک جماعت دوسری جماعت کی کوششوں کو سبوتاژ کر دیتی ہے۔ ہر ایک کی سمت علیحدہ اور فکر جدا ہوتی ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ جس نے بھی ڈیڑھ اینٹ کی اپنی الگ مسجد بنارکھی ہے، خود کو ملت کا خیر خواہ سمجھتاہے اور دوسرے فریق کو ملت کا بدخواہ گردانتا ہے۔ زبان سے گونہ کہے، مگر اس کا عمل یہ چغلی کھاتاہے کہ جو کام وہ کر رہا ہے، وہی کام ملت کے لیے سب سے اہم اورسب سے زیادہ ضروری ہے۔ اس لیے اصل کام بس اسی کا ہے۔ اڑھائی ٹٹو لے کر ایک شخص اپنی جماعت بنا لیتاہے اور خو د کو’’الجماعہ‘‘ کا مصداق، امت کا سواد اعظم اور ما انا علیہ و اصحابی کا سچا پیروکار سمجھے لگتاہے۔ ہر میدان میں تفریق نے ملت کی قوتوں کو منتشر اور تتر بتر کردیاہے۔ میری نظر میں تفریق، فرقہ واریت سے بھی بڑھ کر ملت کے لیے سم قاتل ہے۔ اس سے وہی نقصان ہورہاہے جو سیاسی میدان میں مرکزیت یعنی خلافت کے خاتمے کی وجہ سے ہوا۔ 
جمہوریت کے بجائے خلافت کا تصور دے کر اسلام نے تمام دنیا کے مسلمانوں کو ایک لڑی اورایک وحدت میں پرو دیا۔ پوری دنیا کے مسلمان ایک قوم قرار پائے۔ خلافت کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی تاکیدی احکام ارشاد فرمائے۔ یہاں تک بھی فرمایا کہ ایک کی موجودگی میں دوسرا داعئ خلافت ہوتو اسے قتل کردو۔ آپ کے اس مبارک ارشاد کے علی الرغم امت کو جلد ہی دو خلیفوں کی اطاعت کا طوق اپنے گلے میں ڈالنا پڑا۔ وجوہات کچھ بھی ہوں، بہرحال جس چیز کا سدباب حضورؐ نے اس ارشاد میں کیا تھا یعنی مرکزیت ختم نہ ہو، امت اس پر عمل پیرانہ ہو سکی۔ شاید اسی ارشاد کی خلاف ورزی کا نتیجہ تھا کہ خلافت تو خلافت، اندلس سے مسلمانوں ہی کا بیج ختم ہوگیا۔
خلافت مسلمانوں کاایک مرکز تھی،دینی بھی سیاسی بھی۔اس سے وابستگی عبادت تھی۔ رفتہ رفتہ ایک خاص وجہ سے یہ مرکز کمزور ہونا شروع ہوا۔ یہ وجہ وہی تھی جو ہمارے زوال وادبار کی اصل اور جڑ ہے۔ مرکزی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر کئی علاقوں میں مختلف چھوٹی بڑی خود مختار امارتیں اور بادشاہتیں قائم ہوگئیں۔ اپنی تمام ترخود مختاری کے باوجود یہ امرا اس لحاظ سے دربارِ خلافت کے ماتحت ہی تھے کہ اپنی حکومت کو قانونی بنانے کے لیے دربارِ خلافت سے ان کا سند جواز حاصل کرنا ضروری تھا۔ گو اس وقت بھی مسلمان مختلف خطوں اور ملکوں میں تقسیم تھے، لیکن ملکی وطنی عصبیت نہیں تھی۔ملک تھے، سرحدیں تھیں، اس حوالے سے شناخت بھی تھی، مگر قانون تقریباً یکساں تھا۔ نیشنلٹی اور شہریت کسی خاص ملک اور علاقے تک محدود نہیں تھی۔ ہر مسلمان ہر خطے میں یکساں شہری حقوق کاحقدار سمجھا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ عہدوں اور مناصب کی تجویز میں بھی یہ جغرافیائی اختلاف حائل نہ تھا۔ کوئی شخص خواہ کسی علاقے سے تعلق رکھتا ہوں، کسی بھی حکومت کے زیر سایہ ذمہ داری حاصل کر سکتا تھا، بشرطیکہ اس کا اہل ہوتا۔ یہودنصاریٰ نے سازشیں کرکے اور کچھ ناعاقبت اندیش مسلمانوں نے اس مقصد میں ان کا آلۂ کاربن کراس مرکزیت کو ختم کردیا۔ یہ لڑی ٹوٹتے ہی مسلمانوں کی وہ سیاسی وحدت ختم ہوگئی جس نے انھیں ایک قوم بنا رکھا تھا۔
’’تمام دنیا کے مسلمان ایک قو م ہیں‘‘، مذہبی حمیت کے جذبات سے لبریز یہ ایک کھوکھلی بات ہے جو کبھی کبھی محراب ومنبر سے سنائی دیاکرتی ہے یا ایک سیاسی نعرہ ہے جس کے ذریعے عوام کے دینی جذبات سے کھیلا جاتاہے جو ابھی تک یہ سمجھتے ہیں کہ قوم ملک ووطن سے نہیں بلکہ دین ومذہب سے بنتی ہے، جبکہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ جدید قومیت کی تشکیل میں دین ومذہب کا بنیادی عنصر عملاً ختم کر دیا گیا ہے اوراس کی جگہ ملک ووطن نے لے لی ہے۔ مولانا حسین احمدمدنی کے ایک بیان کی غلط رپورٹنگ پر طوفان اٹھا دینے والے مصور پاکستان حضرت علامہ اقبالؒ کوشاید علم نہیں تھا کہ جدید نظریۂ قومیت کو بتمام وکمال قبول کرنے والی کھیپ میں وہ لوگ بھی شامل ہوں گے جو ان کے خوشہ چین اوران کے خواب میں تعبیر کا رنگ بھرنے والے ہیں اور ستم بالائے ستم یہ ہوگا کہ خودان ہی کے کلام سے استشہاد کرتے ہوئے اسے صحیح ودرست قرار دیاجائے گا اور شاید وہ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ ۱۹۳۰ء میں انہوں نے جوخواب دیکھاہے، اس کی تعبیر عنقریب اسی نظریے کو بنیادی فراہم کرنے والی ہے جس کی تردید کرتے ہوئے انہوں نے فرمایاتھا:
سرود بر سر منبر کہ ملت از وطن است 
چہ بے خبر زمقام محمد عربی است
اور یہ کہ :
اِن تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
ملت کا جو پیراہن ہے وہ اس کا کفن ہے
اپنی کئی داخلی کمزوریوں کے باوجود خلافت نے اس طرح تمام دنیا کے مسلمانوں کو اپنے سایے میں لے رکھاتھا جیسے مرغی اپنے بچوں کو پروں کے نیچے چھپا لیتی ہے۔ اب مسلمان تسبیح کے بکھرے ہوئے دانے ہیں۔ سیاسی میدان میں ان کی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیاں اور جماعتیں ہیں۔ یہ ٹکڑیاں اور جماعتیں ملک کہلاتی ہیں۔ ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ مسلمانوں کے ستاون ٹکڑے جو آزادی اور خودمختاری کے کھلونے سے کھیل رہے ہیں۔ حالات سازگار اور ہواموافق ہو تو ہر ٹکڑا اسی طرح مزید کئی ٹکڑوں میں بٹنے کے لیے تیار ہے جیسے ملت فرقوں میں بٹتی ہے اور فرقے مزید کئی ٹکڑیوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ فرقہ وارانہ تقسیم نے مسلمانوں کو وہ نقصان نہیں پہنچایا جو سیاسی اختلافات اور تفریق سے ہوا اور ہو رہا ہے۔ مسلمانوں کی طاقت تقسیم ہوچکی ہے۔ اپنا ملک، اپنا وطن ان کی شناخت اور پہچان بن گیاہے۔ ملکی عصبیت دلوں میں راسخ ہو چکی ہے۔ ملکی مفاد، ملی مفاد سے مقدم ہوچکاہے۔ ہر ملک اپنے جغرافیائی اور مقامی حالات کے مطابق اپنی پالیسیاں بناتاہے تاکہ اسے تحفظ وترقی حاصل ہو، چاہے ان کے نتیجے میں دوسرے مسلمان ملکوں کا شیرازہ بکھر جائے۔ ہندوستان اور وہاں کے مسلمانوں کی پالیسی پاکستان کے لیے نقصان دہ ہے تو پاکستان کی ہندوستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے لیے۔ یہی ملکی اوروطن عصبیت تھی جس کے پیش نظر خونخوار ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگا کر افغانستان کے مسلمانوں کی پشت میں خنجر گھونپا۔ یہ عصبیت طبیعتوں میں اتنی زیادہ رچ بس چکی ہے کہ مولانا صاحب بھی یوں دعا فرماتے ہیں ’’اے اللہ! عالم اسلام کی عموماً اور ملک پاکستان کی خصوصاً حفاظت فرما‘‘۔
مرکزیت کے خاتمے اور ملکوں کی بندربانٹ نے مسلمانوں کا شیرازہ بکھیر دیا۔ مثال کے طور پر برصغیر پاک وہند میں ستر کروڑ ہندو ایک جگہ جمع ہوگئے اور لگ بھگ اتنے ہی مسلمان چارحصوں میں تقسیم ہوگئے۔ہر حصے کے تقاضے اور مفادات دوسرے سے جدا اور الگ۔ اگر اتنا ہوتا، تب بھی بہت غنیمت تھا کہ حالات کے جبر نے گو بھائیوں کو جدا کر دیا ہے، مگر ان کے دل ایک دوسرے کے لیے دھڑکتے اور ملاپ ووصال کے لیے تڑپتے ہیں۔ بات اس سے کہیں آگے بڑھ گئی۔ تقسیم کے ساتھ ہی ملکی اور لسانی عصبیتوں نے سراٹھانا شروع کردیا۔ پاکستانی، ایرانی، ترکی، مصری، عربی اور عجمی عصبیتوں کے ساتھ ہی پنجابی، سندھی، بلوچی، مہاجر، مقامی، پختون، فارسی بان وغیرہ عصبیتوں نے بھی جنم لینا شروع کیا۔ ایک شناخت ’’مسلمان‘‘ چھوڑ کر جب جغرافیائی، مقامی اور لسانی شناخت پر اصرار کیا گیا تو پے در پے عصبیتوں کا دروازہ کھل گیا۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ خلافت ختم کرنے کے لیے انگریزوں نے پہلے عرب نیشنل ازم کی پری تخلیق کی جس کے لازمی نتیجے میں تُرک عصبیت نے جنم لیا۔ عرب دشمنی اسلام دشمنی میں ڈھل گئی اور ترکی سے خلافت کے ساتھ ساتھ شعائر دین یہاں تک کہ عربی رسم الخط کو بھی دیس نکالا مل گیا۔ آج ملکی وطنی اور لسانی عصبیتوں میں گھرے ہوئے مسلمان ممالک اوران میں بسنے والے مسلمان ترقی اور عروج کے لیے اس شخص کی مانند غوطے لگارہے ہیں جسے چار اندام سے جکڑ کر سمندر میں ڈال دیاگیاہو۔ غلبے اور عروج کے راستے ان پر کھل بھی کیسے سکتے ہیں جبکہ ان کی فکر منتشر اور سوچ متفرق ہے۔ ان کے رستے جدا اور سمتیں علیحدہ ہیں۔ وطنی عصبیتیں اور ملکی مفادات سب سے پہلے کاجادو سر چڑ ھ کر بول رہاہے۔ قرآن یہودیوں کی بابت بیان کرتاہے: تَحْسَبُہُمْ جَمِیْعاً وَقُلُوبُہُمْ شَتَّی ذَلِکَ بِأَنَّہُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْقِلُونَ (الحشر ۵۹: ۱۴)ور مسلمانوں کے صرف دِل ہی متفرق نہیں، ظاہر بھی بکھرا ہواہے۔
مذہبی فرقہ واریت یقیناًایک المیہ اور ہمارا کمزور پہلوہے، لیکن اسلامی سطوت وشوکت توڑنے میں سیاسی فرقہ واریت یا تفریق کاکردار سب سے اہم ہے۔ مذہبی فرقہ واریت کی بنیاد پر سر پھٹول ہوجاتی ہے، لوگ باہم دست وگریباں ہوجاتے ہیں، مگر سیاسی مقاصد میں اختلاف سے ایسی جنگوں کی نوبت آتی ہے کہ ہزاروں لاکھوں آدمی اس کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ ان اختلافات نے سلطنتوں کی سلطنتیں مٹادیں۔ اپنی تاریخ اٹھا کر دیکھو، فرقہ واریت کی بنیاد پر جنگ کے اکادکا واقعے ملیں گے، لیکن سیاسی فرقہ واریت پر مبنی جنگ وجدل کاایک طویل سلسلہ نظر آئے گا۔
بات سمجھنے کے لیے مندرجہ ذیل باتوں کا مختصر طور پر جاننا ہمارے لیے ضروری ہے:
(1)فرقہ کسے کہتے ہیں؟
(2)فرقہ بندی اوراس کے اسباب کیا ہیں؟
(3)فرقہ واریت اوراس کے اسباب کیا ہیں ؟
(4)تفریق اوراس کی وجوہ علل کیا ہیں؟
(5)افتراق وتفریق کے نقصانات ومضمرات کیاہیں؟
(6)اصل کام کیاہے اور کیسے کرنا ہے؟
فرقے کی بنیاد سے واقفیت کے بعد ہی ہم فرقہ واریت سے آگاہ ہوسکیں گے۔ اتنا ہی نہیں، اسی کے ساتھ وہ غلط فہمی بھی زائل ہوجائے گی جو بہت سے لوگوں کے ذہن میں پائی جاتی ہے اور جس کی وجہ سے وہ امت کے ان طبقات کو بھی فرقہ شمار کرتے ہیں جو کہ اصلاً فرقہ نہیں یعنی حنفی مالکی شافعی وغیرہ۔
فرقہ بندی، اصل اور بنیاد سے فی الجملہ علیحدگی ہے۔ بنیاد بالکل ہی علیحدہ ہو جائے تو فرقہ، فرقہ نہیں رہتا، کفر بن جاتا ہے۔ فرقہ نام ہے ایسی جماعت کا جو گمراہ ہو، مگر کافر نہ ہو۔ ایک ہی بنیاد یااس بنیاد کے احاطے میں جوعمارات بھی تعمیر ہوں گی، وہ ایک ہی عمارت ،کوٹھی، مکان یا قلعہ شمار کی جائیں گی۔ ہر اس عمارت کو الگ اور مستقل شمار کیاجاتا ہے جس کی بنیاد الگ ہو۔ اصول وعقائد ہماری دینی بنیادہیں۔ جوگروہ اصول وعقائد میں اختلاف کرکے اپنے اعتقادات کی نئی عمارت بنائے گا، وہ ایک فرقہ شمار کیاجائے گا۔ اس کے مقابلے میں جو اصل اور بنیاد سے جدانہیں ہوا، وہ تقابل وتمایز کی بناپر فرقہ کہاجاتا ہے، ورنہ وہ فرقہ نہیں۔
اس سے واضح ہواکہ فرقہ اصول وعقائدمیں اختلاف کرنے سے بنتاہے نہ کہ اختلاف اعمال سے۔ ہاںیہ ضرور ہے کہ فروعی اعمال میں اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنالینا قابل مذمت ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کا نام میں نے تفریق رکھا ہے، اسی نے ہماری قومی وملی یک جہتی کو پارہ پارہ کر دیا ہے۔ یاد رکھیں کہ جوفرقہ اصل سے جتنا زیادہ اختلاف کرے گا، وہ اتنا ہی اس سے دور ہوگا۔ مثلاً معتزلہ، قدریہ،جبریہ وغیرہ اصل سے اختلاف کر کے ایک مستقل فرقے کی صورت میں اہل حق کے سامنے آئے، مگران کا اختلاف ایسا نہ تھا کہ انہیں کافر قرار دے دیا جاتا، اس لیے بہرحال وہ مسلمان ہیں گو کہ ان کے گمراہ ہونے میں کوئی شک نہیں۔ ان کے مقابلے میں مرزا غلام احمد قادیانی اورمحمد علی باب وغیرہ نے اصل سے ایسا اختلاف کیا کہ دائرہ اسلام سے ہی باہر ہوگئے، لہٰذا انہیں ایک مسلمان فرقہ کہنا درست نہیں، گو کہ اپنا مرکز اطاعت جداکرلینے کے بعد بھی وہ خود کو مسلمانوں میں داخل رکھنے کے لیے بے تاب ہیں۔
جس طرح اسلام کے کچھ ایسے اصو ل ہیں جن سے اختلاف دائرۂ اسلام ہی سے نکال باہر کرتاہے اور کچھ ایسے جن سے اختلاف گمراہی کا سبب توہوتاہے، مگر کفر کا باعث نہیں، اسی طرح ہر فرقے کے کچھ ایسے اصول ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر اس کا قیام ہوتاہے اوران میں اختلاف کرنا فرد کو اس فرقے کی حد سے ہی خارج کر دیتا ہے، اور کچھ نظریات ایسے ہوتے ہیں جو اس کے الگ تشخص کو پروان چڑھاتے ہیں جن میں اختلاف سے تفریق تو ہو جاتی ہے، مگر اختلاف کرنے والا اس فرقے کی حد سے خارج نہیں ہوتا۔ جو جماعت اصول وفروع میں آج تک جادۂ حق سے منحرف نہیں ہوئی اور پہلے کی طرح برابر چلی آ رہی ہے، وہ ہے اہل سنت والجماعت۔ 
ہبوط آدم کے بعد کئی قرن تک لوگ اسی راہ پر چلتے رہے جو آدم علیہ السلام کی وساطت سے انہیں ملی تھی۔ جب اختلاف پیدا ہوا تو نوح علیہ السلام کونئے احکام دیے گئے، وہ دین نوح کہلایا۔اسی طرح سلسلہ چلتارہا۔احکام آتے رہے اور نبی کے نام سے دین موسوم ہوتارہا۔اسی کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا کہ ’’ہم گروہ انبیاء علاتی بھائی ہیں، ہمارادین واحد اور شرائع مختلف ہیں۔‘‘ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک مدت تک معاملہ راستی پر چلتا رہا۔ درمیا ن میں اختلاف ہوئے، مگران میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا جو کہ بنیاد سے علیحدگی پر مبنی ہو اور نہ ان کی بنیاد پر صحابہ نے تفریق ہی پیدا ہونے دی۔ حضرات صحابہ کرام کے اختلافات معروف ہیں۔ یہاں تک کہ امت میں وہ پہلااختلاف رونماہوا جو کہ بنیاد سے فی الجملہ علیحدگی پر مبنی تھا۔ اس کے بعد اسی طرح کے اختلافات بڑھتے گئے۔ جو گروہ اصل سے نہ کٹا اور بنیاد سے جڑا رہا، وہ ان اختلاف کرنے والوں کے مقابلے میں اہل سنت والجماعت کہلایا۔ اس سے کٹنے والے مختلف ناموں سے موسوم ہوئے، مثلاً شیعہ، خوارج، قدریہ، جبریہ، مرجۂ اور معتزلہ وغیرہ۔ اہل سنت والجماعت کی تعبیر چند احادیث سے لی گئی جن میں سے ایک ما اناعلیہ و اصحابی بھی ہے۔ 
یہاں سے عقائد میں دو تقسیمیں پیدا ہوئیں۔ ایک، وہ عقائد جن کا ثبوت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعی یقینی اور متواتر ہے، انہیں ضروریات دین کا نام دیا گیا۔ ان میں سے کسی ایک کا انکار بھی کفر ہے۔ دوم، وہ عقائد جن کا ثبوت اس درجہ قطعی نہیں، لہٰذا ان کا انکار گو کفر نہ ہو، ضلالت اورگمراہی بہر حا ل ہے۔ انہیں ضروریات اہل سنت کا نام دیا گیا۔ رہا یہ سوال کہ انہیں ضروریات اہل سنت کیوں کہتے ہیں؟ تواس کا جواب یہ ہے کہ ان عقائد میں اہل سنت چونکہ راستی پر رہے اور ان کے مقابل گروہوں نے ان عقائد میں حق سے انحراف کیا، اس لیے ان کی اوراہل سنت کی نسبت سے یہ ضروریات اہل سنت سے موسوم ہوگئے۔
چودہ سو سال کی اس طویل مسافت میں کئی فرقے پیدا ہوئے اور جلد یا بدیر یادگاروں میں تبدیل ہوگئے۔آج کے ماحول میں بھی فرقے موجود ہیں اور بظاہر بہت زیادہ نظر آتے ہیں، مگر انہیں ان کی اصلوں کے تحت داخل کیا جائے تو معدودے چند رہ جاتے ہیں۔ مثلاً اہل تشیع کے فرقے، یہ حضرات پہلے اپنی اصل سے جداہوئے، پھرگروہ درگروہ کئی شاخوں میں بٹ گئے۔ شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ اورشاہ عبدالعزیزؒ نے ان کی شاخیں ۲۷ تک شمارکی ہے۔اگرچہ یہ شمار میں کافی ہیں، مگریہ سب اپنی ایک ہی اصل شیعہ کے تحت جمع ہوجاتے ہیں۔ ان سب کااصل الاصول تفضیل علی کرم اللہ وجہہ کا عقیدہ ہے۔ ان میں سے کچھ وہ ہیں جنہوں نے آپ کو حضرت عثمانؓ پر فضیلت دی،کچھ وہ ہیں جنہوں نے شیخین کریمین پر،کچھ نے اس کے ساتھ خلافت بلافصل کا قول بھی کیا، بعض نے معاذاللہ چار کے سوا تما م صحابہ کے مرتد ہو جانے کا عقیدہ رکھا، کچھ نے اسی کے ساتھ تحریف قرآن کا عقیدہ اپنایا۔ حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی اور ظاہری اہل سنت ہی کی شاخیں ہیں، فرقے نہیں ہیں۔حیاتی مماتی، دونوں کی ایک اصل ہے، دیوبندی ہونا۔ دیوبندی اور بریلوی، دونوں کی ایک اصل ہے، حنفی ہونا۔اہل حدیث کی تمام جماعتیں ایک اصل، ترک تقلید پر اکٹھی ہیں۔ اسی اصل میں نیچری ، مودودی اور غامدی بھی شامل ہیں۔ ترک تقلید اہل ظاہر کا مسلک ہے اور اہل ظاہر، اہل سنت میں داخل ہیں۔ مگر یادرہے کہ بعض گروہ کسی اعتبار سے اہل سنت میں داخل ہوتے ہیں توکسی دوسرے پہلوکی بناپر اہل سنت سے خارج بھی ہو جاتے ہیں یا کر دیے جاتے ہیں۔ مثلاً بریلوی، دیوبندیوں کے نزدیک حنفی ہونے کے لحاظ سے اہل سنت میں داخل ہوتے ہیں تو اس کے کئی مسلمات کا انکار کرنے کی وجہ سے خارج بھی ہیں اوردیوبندی، بریلویوں کے ہاں اسلام سے ہی خارج ہیں۔ اہل حدیث ان دونوں کو سنی ماننے کے لیے تیارنہیں۔ بعض فرقے وہ ہیں جنہیں تغلیباً اسلامی فرقوں میں شامل کیا جاتاہے، درحقیقت وہ اس سے خارج ہیں۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ فرقہ سے مراد وہ جماعت ہے جو ضروریات اہل سنت میں اختلاف کرے۔ اسی کو دوسرے معنوں میں کہا جاتاہے کہ جو اہل سنت والجماعت سے کٹتاہے، وہ اگرچہ مسلمان ہے، مگر گمراہ ہے۔
فرقہ کے بعد دوسری اہم چیز جس کا ہمارے دور میں بہت چرچاہے، فرقہ واریت ہے۔ یہ لفظ کافی بدنام ہوچکاہے اور اس کی حقیقت جانے بغیربالخصوص علما کو بدنام کرنے کے لیے بہت سے لوگ یہ لفظ بے محل استعمال کرتے ہیں، یہاں تک کہ اپنے موقف کی صحت اور مخالف کی تغلیط پر کوئی مدلل علمی گفتگو کرے تو ایسی گفتگوکوبھی فرقہ واریت اورقابل مذمت سمجھتے ہیں۔ حالانکہ اپنے موقف کو ثابت کرنا اور دلائل سے دوسرے کی غلطی واضح کرنا، ہر ایک کا حق ہے۔ یہ فرقہ واریت نہیں، وہ تو اس سے جدا ایک اور ہی شے ہے۔
فرقہ واریت اگر آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اظہارِحق یا ابطال باطل کانام نہیں بلکہ مخالف فرقے کے حق میں عدل وانصاف اور حدود و تہذیب کے دائرے سے باہر نکل جانے کا نام ہے۔ باہمی جدل ومنازعت اور دوسرے کو زک پہنچانے کی کوشش فرقہ واریت ہے۔ دامنِ عدل و انصاف چھوڑ دینے کامطلب ہے مخالف سے تعصب برتنا، اس کے کلام کو غلط معنی پر محمول کرنا، وہ عقائد اس کے سرمنڈھنا جو اس کے نہیں، اس پر الزامات عائد کرنا۔ حدود سے باہر نکلنے کا مطلب ہے اختلاف میں غلو سے کام لینا، اسے اپنے مقام پر نہ رکھنااور معمولی اختلاف کو بھی کفر اسلام کااختلاف بنادینا۔ حلقہ تہذیب سے باہر نکلنے کا مطلب ہے مخالف کو گالیاں دینا، طعن وتشنیع اور تضحیک واستہزا سے کام لینا،نام بگاڑنا، غیر سنجیدہ اور غیر علمی انداز اختیار کرنا، بڑھکیں لگانا، لوگوں کے جذبات ابھارنا کہ وہ نہ صرف اس سے نفرت ہی کریں بلکہ مرنے مارنے پر آمادہ ہوجائیں۔ علمی اختلاف کو بازاری اختلاف بنادینا، اس کے اکابر اور بزرگوں پر سب وشتم کرنا۔ فرقہ واریت کی آگ نفسیاتی پیچیدگی اور اخلاقی کمزوری سے بھڑکتی ہے۔ اس کی جڑ سیاست کاپانی اور سازش کی کھاد ملنے سے خوب برگ وبار لاتی ہے۔
تیسری اہم چیز تفریق ہے جو کہ اپنے نتائج کے لحاظ سے بہت سنگین ہے، مگر لوگ اسے درخور اعتنا نہیں جانتے۔فرقہ بندی اورفرقہ واریت کے بارے میں ایک جان کاری کے بعد تفریق کو سمجھنا کوئی مشکل نہیں رہا۔ فکر، مذہب، عقیدہ، نظریہ اور مسلک کی یکسانی کے باوجود الگ الگ گروہوں، گروپوں، جماعتوں اور دھڑوں میں اس طرح تقسیم ہو جانا کہ ایک گروہ کا انتخاب دوسرے کی لغویت، حقارت اور تنفر ونقصان پر مبنی ہو، تفریق کہلاتاہے۔یاد رہے کہ تفریق صرف مذہبی نہیں ہوتی بلکہ فی زمانہ ہمارے ہرشعبے میں، وہ دینی ہو خواہ دنیاوی،تفریق درتفریق کا ایک سلسلہ موجودہے۔ایک ہی شعبے کے لوگ چھوٹے چھوٹے گروہوں اور جماعتوں میں منقسم ہیں جو دلوں میں ایک دوسرے کے لیے شدید کدورت اورنفرت رکھتے ہیں اور اسی کے ساتھ حق وراستی کو اپنی ذات میں منحصر کرتے ہیں۔ تاریخ اٹھا کر دیکھیے کہ کیسے سنی یا شیعہ آپس میں ایک دوسرے کو مرتے مارتے رہے،حنبلیوں اورشافعیوں نے کیسے ایک دوسرے کے گلے کاٹے۔
پھرجیسے مذہبی فرقہ بندی سے زیادہ سیاسی فرقہ بندی نے امت کو نقصان دیا، اسی طرح مذہبی تفریق سے زیادہ سیاسی تفریق نے امت کانقصان کیا اور کر رہی ہے۔ جونسبت مذہبی افتراق وتفریق میں ہے، وہی نسبت سیاسی افتراق وتفریق میں بھی ہے اور نقصان اس کا زیادہ ہے۔ سیاسی افتراق کا مطلب ہے دوایسے بالمقابل گروہ بن جاناجن کا نسب علیحدہ ہے، مثلاً بنوامیہ اور بنوعباس۔ یا نظریہ علیحدہ ہے، مثلاً مختاربن عبیدثقفی اورابن زیاد۔ یا قوم علیحدہ ہے، مثلاً سلجوقی وعباسی اور ہندوستان میں خلجی، تغلق، غلاماں اور مغل۔ یا مذہب علیحدہ ہے، مثلاً مصرکے فاطمیین اورزنگی وایوبی یا آل بویہ وبنوعباس یا قاچاری وصفوری اورمغل۔ یاصرف حصول حکومت کا جذبہ ہے، مثلاً تیمور وبایزیدیا بابر وخاندان غلاماں یا عرب وترک یا ترک خلافت پسند اورترک جدت پسند۔ تفریق کا مطلب ہے ہم نسب،ہم قوم،ہم مذہب یا ہم فکر ہونے کے باوجود باہم مخالفت کرنا، مثلاً علویوں وعباسیوں کی چپقلش یا عباسیوںیا خاندان غزنوی کی باہم سرپھٹول یا آخری دور میں شاہان مغلیہ کی باہمی لڑائیاں یا جمعیت علماء ہند کی تفریق یا مسلم لیگ کی تفریق در تفریق یا جے یوآئی کی تفریق وغیرہ۔ 
اس تفصیل کی روشنی میں اگرہم غورکریں گے تو تفریق، فرقوں سے زیادہ نظر آئے گی۔
پاکستان کی حدتک اگرجائزہ لیا جائے تو تفریق در تفریق کا ایک لمبا سلسلہ نظر آتا ہے۔ ہر ہر مسلک کی کئی کئی دینی جماعتیں، پھر ہر جماعت کے کئی کئی حصے اور ہر حصہ دوسرے سے الگ مستقل جماعت۔ کئی سیاسی جماعتیں، خواہ مذہبی ہوں خواہ غیرمذہبی اور اکثر جماعتوں کے کئی کئی جائز وناجائز بچے ایک دوسرے کے راستے میں روڑے اٹکاتے، دوسرے کو ملک دشمن اور غدار قرار دیتے اور اپنے لیے فری ہینڈ کے طالب نظرآتے ہیں۔ یہاںیہ بات ایک دفعہ پھر دہرا دوں کہ تفریق کا مطلب محض اختلاف رائے نہیں ہوتا، بلکہ اس کی بنیاد پر اس طرح جماعت بندی، جتھ بندی، گروہ بندی اور پارٹی بازی کرنا کہ کچھ لوگ اکٹھ کرکے اپنا الگ تشخص بنائیں، لوگوں کو دوسروں سے کاٹیں اوراپنی طرف بلائیں، تفریق کہلاتا ہے۔ اس طرح ہر جماعت دوسرے کی ٹانگ کھینچتی اور اسے نیچا دکھا کر خود جگہ بنانے کی فکر میں ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان کسی ایک نکتے یا فکر پر اکٹھے نہیں ہوتے۔
ایک دوسرے رخ سے اس کا مطالعہ کریں تو بھی صورت حال خاصی مایوس کن اور دگر گوں نظر آتی ہے۔ وہ یہ کہ جو لوگ باہمی اتحاد کے لیے کوشاں ہیں، وہ خود کئی ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ کسی ایک مسلک کے لوگ جو اس کی تفریق پاٹنے کے لیے کوشش کرتے ہیں، ان میں سے بھی ہر ایک کی سمت فکر ونظر عام طور پر جدا جدا ہوتی ہے۔ ویسے کہنے کو تو ہر ایک یہی کہتاہے کہ اتحاد ہونا چاہیے۔ ان مد عیان اتحاد واتفاق کی کوششیں باہم مربوط نہیں۔ صحیح یہ ہے کہ ابھی تک وہ یہی طے نہیں کرسکے کہ اتحاد کا لائحہ عمل کیا ہواوراس کے نکات کیا ہوں۔
سیاسی جماعتوں کی اکثریت پہلے نمبر پر ذاتی مفاد کی سیاست کرتی ہے اور ثانوی طور پر ملکی وقومی مفاد کو پیش نظر رکھا جاتاہے وبس۔ بین الاقوامی طور پر مسلمانوں کو ایک لڑی میں پرونا ان کا مطمح نظرہی نہیں۔ چندایک افراد یا معمولی طائفے ہیں جو اس طرح کی سوچ رکھتے اور اس کے لیے کوشش بھی کرتے ہیں، مگرافسوس کہ وہ مسلک سے بالاتر ہو کر نہیں سوچ سکتے، کیونکہ مسلکی تشخص کو نمایاں کرنا بھی ایک نفسیاتی مجبوری ہوتی ہے، یہاں تک کہ اتحاد امت یا اشاعت وحفاظت اسلام وغیرہ کے لیے ان کی یا ان کے ہم مسلک افراد وجماعتوں کی جو کوششیں ہوتی ہیں، وہ بھی بالآخر مسلکی فخر کا روپ دھار لیتی ہیں اور جو بے چارہ اس تشخص سے بالاتر ہو کر کام کرے، وہ اپنے اورپرائے دونوں کی نظروں میں مطعون ہو جاتا ہے۔ پھر یہود ونصاریٰ کی سازشوں کے تحت جنم لینے والی ملکی تقسیم بھی ان کے کام کومحدود کر دیتی ہے۔ وہ ملکی سیاست کے بھنور اور ملکی حالات کے گرداب میں مبتلا رہتے ہیں اور ان مصنوعی سرحدوں کے احاطے سے باہر نہیں نکل سکتے۔ وجہ یہی ہے کہ ملکی مفاد مقدم رکھنا ضروری ہو جاتا ہے۔ یہ توایک بالکل فطری بات ہے کہ جب بھی آپ ایک سے دوسری جماعت یا فورم تشکیل کریں گے جن کی جنس ایک ہی ہو تو کسی بھی وقت ان دونوں کے مفاد میں ٹکراؤ پیدا ہو جائے گا۔ یعنی ہوسکتاہے کہ ایسے کسی فورم کی تشکیل کے بعد ایسا کوئی معاملہ سامنے آجائے جس پر عمل درآمد اگرچہ عالمی طور پر مسلمانوں کے لیے فائد ہ مند ہو، مگر کسی ایک ملک کے نقصان کا سبب ہوتو کون اس کوقبول کرے گا؟ ملکی قوانین اور مفادات سے بالاترہوکر کام کرنا چاہیں تو ریاست سے ٹکر لینا پڑتی ہے۔ ان پرکئی طرح کی پابندیاں عائد ہو جاتی ہیں اور گاہے ریاست کے باغی بھی قرار دے دیے جاتے ہیں۔ ہزاراختلافات کے باوجود اسامہ کا اصل جرم یہی تھاکہ اس نے عرب ممالک سے امریکی اڈے اٹھانے کی بات کی تھی۔ مآل کار اس کی شہریت ہی منسوخ کر دی گئی۔ پوری مسلم دنیا میں ریاستوں اور ملکوں کا انتظام جن لوگوں کے ہاتھوں میں ہے، نرم سے نرم الفاظ میں یہی کہا جاسکتاہے کہ وہ عیسائیوں اور یہودیوں کے سامنے ڈٹ کرکھڑے ہونے کی طاقت نہیں رکھتے۔
فرقہ، فرقہ واریت اور تفریق کے بارے میں جان کاری کے بعد ان کے اسباب کا جاننا بھی ضروری ہے تاکہ بقدر استطاعت ان کا تدارک کیا جا سکے۔ اسلام نے ہمیں اعتصام بحبل اللہ کا حکم دیا۔ حبل کی ایک تفسیرالطاعۃ والجماعۃ سے بھی کی گئی ہے۔ الطاعۃ یعنی خروج اور بغاوت نہ کرنا اور الجماعۃ یعنی جماعت میں رہنا، تفرقہ نہ کرنا۔خلاف اطاعت سے سیاسی تفریق وانتشارنے جنم لیااور خلاف جماعت سے مذہبی فرقہ بندی پیدا ہوئی۔ فرقہ بندی، فرقہ واریت اور تفریق، ان تینوں کے اسباب تقریباً ایک جیسے ہیں جو کہ خلاف اطاعت وجماعت میں اجمالاً مذکور ہیں، مگر ان کے تفصیلی عوامل کو جمع کرنا خاصا دشوار اور محنت طلب کام ہے۔ یہ مختصر تحریر ان تفصیلات کی متحمل بھی نہیں ہوسکتی۔ سرسری تلاش وفکر سے جو باتیں برقِ بیتاب کی طرح ذہن کی فضا میں مچل رہی ہیں، انھی کو بیان کرنے پر اکتفا کرتاہوں۔اکثر تو اسباب یکساں ہی ہیں، مگر کہیں کوئی منفرد ہے تو اس کا ذکر بھی اسی ذیل میں کیا جائے گا۔

۱۔ عقل پر بے حد اعتماد

یہ فرقہ بندی کی ایک اہم وجہ ہے۔ مسلمان کاکام یہ ہے کہ شریعت کے سامنے منقار عقل کو زیر پر رکھے۔ پیش شریعت عقل کا سپر انداز ہوکر رہنا اس کی خوبی ہے، مگر کئی فرقے ایسے ہیں جن کے بانیوں نے عقل پر بے جا اعتماد کیا۔ نصوصِ قرآن وسنت کے سامنے صحابہ واسلاف کی مانند سر تسلیم خم کرنے کی بجائے عقلی گھوڑے دوڑائے اور عقل نارسا نے جس طرف ان کی راہ نمائی کی، جمہور امت کا راستہ چھوڑ کر اسی طرف چل دیے۔ یوں ایک نیا فرقہ وجود میں آگیا۔ گویا قرآن وسنت کے بجائے انہوں نے عقل کو معیار بنایا اور اس کے ذریعے سے صحیح وسقیم کو جانچتے اور حسن وقبح کو پرکھتے رہے۔خود کو عقل کل سمجھنے سے ہی تفریق بھی پیداہوتی ہے۔

۲۔ خودرائی 

یہ بھی عقل پر اعتماد ہی کی ایک خاص صورت ہے۔ خودرائی میں گرفتار لوگوں نے باب عقائد میں اسلاف کے فہم دین کو معتبر نہ سمجھا یا اس کا اعتبار کرتے ہوئے مزید تحقیق وجستجو سے کام لیا تو نتیجہ فہم سلف یا ظاہر قرآن وسنت کے خلاف نکلا۔ بجائے اس کے کہ وہ نتائج پر نظر ثانی کرتے، انہوں نے اپنی رائے کو معتبرسمجھ کر اسلاف کی تحقیق ونتیجے کو رد کر دیا۔ یہی خودرائی پھر کسی نئے فرقے کے قیام کا سبب بن گئی۔ اس مرض کا شکار افراد تفریق کا ذریعہ بھی بنتے ہیں، اگر ان کی رائے نہیں مانی جاتی تو اجتماعی یاجماعتی رائے کے سامنے سرجھکانے کے بجائے اپنی مسجد الگ بنا لیتے ہیں۔ خودرائی کا مریض اپنی ہی رائے کودرست اورحق بجانب سمجھتا ہے جس کاتقاضا مخالف رائے کی بے وقعتی اور تردید ہے۔ اب دونوں طرف سے ایک دوسرے کی تردید کا سلسلہ جاری ہو جاتا ہے۔ ان میں سے ایک یقیناًحق پر ہوتاہے، کیونکہ بابِ عقائدمیں حق ایک ہی ہوتاہے۔ ایک اپنی رائے کی ہٹ کرتاہے اور دوسرا احقاق حق کا فریضہ ادا کرتاہے۔ یہ بات بھی فرقہ واریت کا سبب بن جاتی ہے۔

۳۔ علمی غرور

کوئی مسئلہ، کوئی عقیدہ سمجھنے میں کسی سے خطا ہوئی مگر حق واضح ہوجانے کے باوجود علمی غرور کی وجہ سے خطا پر اڑا رہا اور اسی خطا کو برحق ثابت کرنے کے لیے پورا زور صرف کر دیا۔ یہ خطا اس کے پیروکاروں کے لیے عقیدہ بن گئی اور ایک نیا فرقہ سامنے آگیا۔ علمی پندار میں مبتلا افراد اپنے سوا کسی کی بات کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے اور تفریق اور فرقہ واریت کا سبب بنتے ہیں۔

۴۔ حب مال و جاہ

کچھ ایسے لوگ بھی پیدا ہوئے جنہوں نے مال وجاہ کی طلب میں عمداً راہِ حق سے انحراف کیا۔ عموماً یہ لوگ امرا کے حاشیہ نشین اور سلاطین کے خوشہ چین ہوتے۔ مال ومنصب کے حصول وبقا کے لیے انہوں نے کبھی ان کی غلط باتوں کو شریعت کی سند بخشی اور کبھی از خود فتوے دیے۔ بعدازاں جادۂ حق سے یہ انحراف کسی فرقے کا پیش خیمہ یا تفریق کا سبب بن گیا۔ محب مال اورجاہ پسند آدمی ہمیشہ فرقہ واریت کی بھٹی دہکانے میں لگا رہتا ہے، کیونکہ یہ آگ جتنی زیادہ بھڑکتی ہے، اس کے مال وجاہ میں اتنا ہی اضافہ ہوتاجاتاہے۔ ایسا آدمی اس بات کوبرادشت نہیں کرتاکہ کسی معاملے میں اس کو پیچھے رکھا جائے۔ جب تک اس کی نمبرایک حیثیت برقرار رہتی ہے، وہ ساتھ چلتارہتاہے اور جہاں کہیں اس میں فر ق آتاہے، وہیں وہ اپنا راستہ الگ کر لیتا ہے۔ محب مال وجاہ ان دونوں کی محبت میں حق کو ٹھکراتا اور باطل کو بڑھاتا ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اگر میں نے حق قبول کیایا مخالف کو نہ روکاتو یہ چیزیں مجھ سے چھن جائیں گی۔ پیٹ اور دماغ کی خاطر وہ حق اور اہل حق کی مخالفت شروع کرتاہے اور اس میں آخری حد تک جانے سے بھی گریز نہیں کرتا تاکہ اس کے دائر ۂ اختیار وحکومت سے ان کا بیج تک نکل جائے۔ ضد اور استقامت کاتصادم فرقہ واریت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

۵۔ سوء فہم

کچھ لوگ ایسے تھے جن کے ظرف تنگ اور عقل گینڈے کی کھال جیسی موٹی تھی۔ ان کا فہم تبخیر سے مغلوب اور خیال پر جنون کا اثر تھا۔ فہم کی خرابی کی وجہ سے بڑے خلوص کے ساتھ انہوں نے کبھی غلط کو صحیح سمجھ لیااور کبھی صحیح کو غلط استعمال کیا۔ ان کے فکروفہم میں خرابی کی روش نے کسی نئے فرقے کو جنم دیا۔ انہوں نے ہمیشہ پوست کو مغز سمجھا۔ کبھی تو انہوں نے مرغے کی ایک ٹانگ پکڑ کر ایک نص کی آڑ میں تمام نصوص کو رد کردیا، کبھی ظاہر وباطن کی تفریق پیداکی اور کبھی قید شریعت کو لغو قرار دے دیا۔ یہ کم فہمی عقائد میں ہوئی تو فرقہ پیداہوا اوردیگر معاملات میں ہوئی تو تفریق پیدا ہوئی۔ جن کے فہم میں کمزوری ہو، وہ مخالف کے کلام کا غلط مطلب لے لیتے ہیں۔ اس کی مراد کچھ ہوتی ہے اوریہ الگ مراد تخلیق کر لیتے ہیں۔ ایسے آدمی کو جب مناسب جگہ مل جائے جہاں سے وہ اپنی بات دوسروں کو پہنچا سکتاہے، خواہ تقریر ہو خواہ تحریر تو پھر اس کا اثر ظاہر ہوتا ہے۔ تحریر وتقریرسے یہ دوسروں کے لیے دلوں میں نفرت انڈیلتا اور فرقہ واریت میں اضافہ کرتا رہتا ہے۔ فہم کی یہ خرابی ایک اورپہلو سے بھی اپنا اثر دکھاتی ہے۔ لوگ عموماً ایک کی بات دوسرے کو جا لگاتے ہیں۔ سیا ق وسباق سے کاٹ کر یا غلط مفہوم کا چولا پہنا کر ایک کی بات دوسرے تک پہنچائی جاتی ہے۔ کچھ شریر طبع لوگ شر پھیلانے کے لیے اور بعض خرابی فہم کی بنا پر خطاً ایسا کرتے ہیں۔ طرفہ یہ کہ یہ اپنے مسلکی رؤسا کے مقرب اور ان کے نزدیک ثقہ ہوتے ہیں، اس لیے بلاتامل ان کی بات تسلیم کرلی جاتی ہے، حالانکہ ثقاہت وعلو فہم میں تلازم نہیں۔ کانوں کے کچے زعما تحقیق کیے بغیر ان غلط اطلاعات کو لے اڑتے اور فرقہ واریت کی بھٹی دہکانا شروع کر دیتے ہیں۔

۶۔ متشابہات کی پیروی

قرآ ن وسنت میں اکثر تومحکمات ہیں، مگر کچھ متشابہات بھی ہیں۔ متشابہات سے وہ چیزیں مراد ہیں جن کی مراد عقلِ نارساکی گرفت میں نہیں آسکتی، اس لیے ان پراسی طرح ایمان لانے کاتقاضا کیاگیا ہے جیسی کہ وہ ہیں۔ ان کی مراد کے درپے ہونا زیغ قلب اور فتنہ پروری کے سو اکچھ نہیں۔ بعض فتنہ پسند طبائع نے آخری حد تک ان کی حقیقت پانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں وہ جادۂ حق سے بھٹک گئے اور حقیقت کھوجتے ہوئے خود بھول بھلیاں میں کھوگئے۔

۷۔ تحقیق پسندی

خوگر تحقیق ہونا کوئی عیب کی بات نہیں، مگر نشتر تحقیق سے جب اسلام کا جگر چاک کرکے 
خودرائی کی پیوندکاری کی جائے تو تضییع اوقات کے علاوہ افتراق کا عفریت جنم لیتاہے۔ امت کا ایک متوارث فہم دین ہے جو اسلاف سے اس نے نسل در نسل حاصل کیاہے۔ تحقیق پسند طبیعتوں کو یہ بات کھلتی ہے کہ اسے من وعن قبول کر لیا جائے اور بالخصوص کوئی بات ان کے عقلی فریم میں ٹھیک نہ بیٹھ سکے تو بس قیامت ہے۔ اپنے قصور فہم اور نقص تحقیق کا اعتراف کرنے کے بجائے اس کے درپے ہوجاتے ہیں کہ اسلاف سے جو کچھ ہمیں ملاہے، اس میں کیڑے نکالے جائیں۔ ہر کیڑا ایک نیافرقہ ہوتاہے۔ ہمارے اس دور میں تحقیق وجستجو کی یہ ہوا بہت زیادہ چل رہی ہے۔ اسلاف اور ان کے علوم وتحقیق کے لیے متاثر کن اور قابل احترام الفاظ استعمال کرکے بڑے سائنٹفک انداز میں مسلمات امت کو رد کرتے ہوئے نئی ناقص تحقیق مارکیٹ میں لائی جاتی ہے اور غیر محسوس طریقے سے صراط مستقیم سے لوگوں کو بھٹکایا جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ ایک الگ فرقہ بن جاتاہے۔

۸۔ سازش

کئی فرقے سازشوں کی کوکھ سے نکلے۔ پہلے یہودی سازشوں نے سراٹھایا، پھر مجوسیت وزردشتیت نے برگ وبار نکالے۔ ازاں بعد نصرانیت بھی ان کے قدم سے قدم ملا کر چلنے لگی۔ تاریخ اسلام میں پہلے تفرقے کی بنیاد ہی سازش پر رکھی گئی تھی۔ قدیم ایرانی سرزمین میں فتنوں کی خوب گرم بازاری رہی۔ ان میں سے کچھ تو ایسے تھے جنہوں نے کھلم کھلا زندقہ والحاد کی راہ اپنائی، کچھ نیمے دروں نیمے بروں کا مصداق رہے۔ بعض اہل حق کے قریب نظر آئے اورکچھ کفر کے قریب جا پہنچے۔ مسلمانوں کی وحدت توڑنے کے لیے ان اقوام نے جامع منصوبہ بندی کے ساتھ اپنے مہرے آگے بڑھائے جنہوں نے بابِ عقائد میں بالخصوص من مانے تصرفات کرکے لوگوں کاراستہ جمہور امت سے کاٹ دیا۔ یہ سازشی عناصر آج تک کام کررہے ہیں۔ 
فرقہ واریت پیداکرنے کے لیے بھی سازشوں کو کام میں لایاجاتاہے۔ اسلامی تاریخ میں فرقہ بندی وفرقہ واریت ہر دو کے لیے سازشوں کا سراغ ملتاہے۔ ہمارے زمانے میں ہشت پہلو سازشیں نہایت کثرت سے کی جاتی ہیں۔ ان کا تانا بانااس طرح بناجاتاہے کہ اس کا شکارہونے والایہ محسوس ہی نہیں کرسکتاکہ وہ کسی سازش کا شکار ہوا ہے۔اپنی جگہ وہ اپنے عمل کودین کی بڑی خدمت سمجھتا ہے۔ سازشیں فرقہ بندی اور فرقہ واریت کا اہم عنصر ہیں۔ سازشی عناصر نے صرف فرقے ہی کھڑے نہیں کیے، بلکہ امت کو فرقہ واریت اور اس سے بھی زیادہ تفریق میں مبتلا رکھا۔ باطل پسند قوتوں نے اپنے اہم مذموم مقاصد اکثر وبیشتر سازشوں ہی کے ذریعے حاصل کیے۔ پھر فہم وفراست کی کمی، جذباتی پن، تعصب اورایک پہلو کو سامنے رکھ کر باقی پہلوؤ ں سے غفلت کی نفسیات نے سازشوں کو پنپنے کے زیادہ مواقع فراہم کیے۔
عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ کسی سازش کا شکار ہوکر اس الاؤ میں مزید ایندھن ڈالنے والے سادہ لوح کسی سازش کے وجود سے بے خبر ہوتے ہیں۔ ان کے سامنے صرف یہ پہلوہوتاہے کہ بالمقابل باطل کھڑاہے جسے مٹانا اس وقت ہر فرض سے اہم فرض ہے۔ کبھی سازش کا ادراک کرنے کے باوجود بوجوہ پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ کبھی اس کا تانا بانا انتہائی چابک دستی سے بن کر ایسے حالات پیدا کردیے جاتے ہیں کہ ان حالات میں رد عمل کا اظہار کرو، تب بھی اور نہ کرو، تب بھی نقصان ہوتاہے۔ یہی وہ مقام ہوتاہے جہاں تفریق پیداہوتی ہے۔ ایک فریق ردعمل کا مظاہرہ ضروری سمجھتاہے اور دوسرا چاہتاہے کہ مطلق پروا نہ کی جائے۔ایک انہی حالات کو اصل سمجھ کر اس کے مطابق اس پر توجہ دیتاہے اور دوسرا انہیں کسی دوسرے بڑے مسئلے کی فرع گردانتے ہوئے اس کے مطابق کارروائی کرتاہے۔یہاں دوفریقوں کے راستے الگ ہو جاتے ہیں۔ ہر آنے والے نکتے پر ان کا آپس میں فاصلہ بڑھتارہتاہے۔اس خاص مسئلے میں ایک کے اندر سختی ہوتی ہے اوردوسرے کے اندر نرمی۔ایک پرتشدد یا لاقانونیت کا راستہ اختیارکرتاہے، دوسراعدم تشدد یا قانونی چارہ جوئی کا۔
خیر، حالات کے اعتبار سے دیکھا جا سکتا ہے کہ ان حالات میں کون ساموزوں اور بحیثیت مجموعی مفید ہے، البتہ ہمارے یہاں یہ ذہن بن چکاہے کہ اسلام اور اظہار حق کا نام لے کر جو شخص جتنا زیادہ لاقانونیت کا مظاہرہ کرے، غلو اور تشدد کو اختیار کرے، وہ اتنا بڑا مجاہد اور اسلام کا بطل جلیل ہے، چاہے اس کے نتیجے میں اپنی طاقت کو گنوا دیا جائے، لاشوں کے تحفے ملیں، فتنہ وفساد بڑھ جائے، دشمن چوکنا ہو جائے اور بدامنی پھیل جائے۔ اس کے برعکس جو شخص پرامن رہے، قانون کی حد میں رہ کر کام کرے، حد اعتدال سے باہر نہ نکلے، وہ بزدل اور گنہ گار ہے۔ یہ بالکل غلط ہے۔ اس تصور نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے۔ میرے خیال میں فی نفسہ لاقانونیت باعث ثواب ہے نہ قانون کی پاسداری، بلکہ یہ دونوں شریعت کے تابع ہیں اوراس کی کئی صورتیں ہیں۔ مثلاً غیرمسلم مسلمانوں کے ملک پر قبضہ کرنے کی کوشش میں مصروف ہے تو اس کے خلاف عسکری جدو جہد کرنا فرض ہے، طاقت کم ہے یا زیادہ۔اگر اس کے ملک پر حملہ کرنا ہے تو پھر طاقت کی فراہمی ضروری ہے۔ اگر وہ قبضہ مکمل کرچکا ہے تودو صورتیں ہیں۔ اگر طاقت ہے تو اس کے آئین وحکومت سے بغاوت جائز ہے۔ اگر طاقت نہیں اوروہ دین اسلام پر عمل کرنے کی اجازت دیتاہے تو وہاں رہنا جائز ہے۔ اگر ایسا بھی نہیں تو ہجرت فرض ہے۔ اگر غیر مسلم ملک میں اس کی اجازت سے مقیم ہیں تو یہ ایک معاہدہ ہے جس کے تحت اس کا قانون توڑنا درست نہیں۔ مسلمان ملک کا قانون غیر اسلامی ہے اور اس میں تبدیلی کا آئینی راستہ موجود ہے تو اس کے مطابق اس کو بدلنے کی کو شش کرنا فرض ہے۔ اگر ایسا کوئی راستہ نہیں تو تبدیلی کی کوشش حصول قوت کے بعد لازم ہے اور عوام کو دین پر عمل کی اجازت ہے تو وہاں رہنا جائز ہے۔ مسلم ملک کا قانون اسلامی ہے تواس کی پابندی کرنا ضروری ہے۔ ہاں، اگر کوئی شق غیر اسلامی ہو تو اس صورت میں یہ طے کرنا ہوگاکہ قانون شکنی کرنی ہے یا اس کی پاسداری۔ مگر افسوس کہ ایسے مراحل میں ان تما م باتوں کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ اس کے بجائے جذبات کو کام میں لایا جاتاہے اور خفتہ جذبات کے اظہارکو احقاق حق کا خوبصورت نام دے دیا جاتا ہے۔
ہندوستان میں تقسیم سے پہلے انگریز حکمران تھے جن کا مشہور زمانہ اصول تھا ’’لڑاؤ اور حکومت کرو۔‘‘اس اصول کو کام میں لاتے ہوئے انہوں نے سیاسی طور پر ہندؤوں، مرہٹوں اور سکھوں کو مسلمانوں سے، پھر مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے سے لڑایا جس کے نتیجے میں ہندو، مرہٹے ، سکھ اور مسلمان چار الگ الگ قوتوں میں تقسیم ہوگئے۔ اس تفریق کا اثر یہ ہواکہ مسلمانوں کو چومکھی لڑائی لڑنی پڑی۔ ہندؤوں سے، مرہٹوں سے،انگریزوں سے اوراپنے مسلمان بھائیوں سے۔ پھر جو مسلمان ان کے بالمقابل تھے، سازشیں کرکے ان کے اندر سے بندے توڑے جیسا کہ سراج الدولہ، ٹیپو سلطان اور بہادر شاہ ظفر کے ساتھ ہوا۔ یہ توسیاسی تفریق تھی جو انگریزوں نے پیداکی۔ خالص مذہبی میدان میں بھی انہوں نے مسلمانوں کو کئی حصوں میں بانٹا۔ سیداحمد شہید اوران کے رفقا تو ۱۷۳۱ء میں شہیدہو گئے، مگران کی تحریک جاری رہی۔ ان لوگوں نے انگریزوں کے خلاف کارروائیاں شروع کر دیں۔ عام مسلمانوں سے ان کا رشتہ کاٹنے کے لیے انگریزوں نے بعض علماء سو ء کو ساتھ ملایا اوران کی وساطت سے انہیں وہابی مشہورکرادیا۔اسی طبقے نے آگے چل کرعلماے دیوبند کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کی اور ۵۰ سال محنت کرکے امت کو دیوبندی بریلوی فرقوں میں بانٹ دیا۔ اسی دورمیں غیر مقلدین نے برگ وبار نکالے جو کہ انگریزوں کے پشتی بان رہے۔ قادیانیت کا پودا انگریزوں نے کاشت کیا۔
علماء دیوبندکی نمائند ہ تنظیم جمعیت علما ء ہند بھرپور طریقے سے انگریزوں کے خلاف غیر مسلح جدوجہد کر رہی تھی۔ شومئی قسمت کہ جب اتحاد کی سخت ضرورت تھی، اسی وقت یہ قوت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ معلوم نہیں اس کے پس پردہ سازش کارفرما تھی یا حالات کی روشنی میں محض اختلاف رائے تھا جس نے علماء کی قوت تقسیم کرکے دوالگ الگ سمتوں میں لگا دی۔ ایک وقت تھا جب پنجاب میں بالخصوص احراریوں کا طوطی بول رہاتھا، یہاں تک کہ ۱۹۳۵ء میں مسجد شہید گنج کا قضیہ تازہ ہوا۔ اس موقع پر بعض ناعاقبت اندیش یا سازشیوں کے آلہ کار زعمائے ملت آگے آئے اورانہوں نے حالات کی تاروں سے احراریوں کے لیے ایساپھندا تیار کیا کہ اگراحراری اس میں گھستے، تب تو مارے ہی جاتے، نہ گھستے، تب بھی بساط سیاست پر انہیں شہ مات ہوگئی۔
۱۹۷۹ء میں خمینی صاحب کا انقلاب، ایران میں نمودارہوا۔ اس کے اثرات پاکستان پر بھی پڑے۔ ،خمینی صاحب سے مذہبی رشتہ رکھنے والوں کے دلوں کا زہر زبانوں سے ٹپکنے لگا۔ یہاں بھی ایسے ہی انقلاب کی تیاریاں ہونے لگیں۔ اسی کی پشت پناہی سے شیعہ سنی نصاب کی علیحدگی عمل میں آئی۔ شیعہ سنی منافرت پہلے سے موجود تھی اور علماء اس پر کام بھی کر رہے تھے، مگر انقلاب کی آمد نے اس منافرت میں شدت پیدا کر د ی۔ اب دوہی راستے تھے۔ ایک یہ کہ کچھ پروا نہ کی جائے اورجو جس کام میں لگا ہے، لگا رہے۔ بظاہر تو یہ رویہ اس فتنے کو بڑھانے والی بات تھی، مگراس کے نتائج اہل سنت کے حق میں دور رس ہوتے۔ دوسرا راستہ یہ تھاکہ اس پر ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے اس کا راستہ روکنے کی کوشش کی جائے۔ اس کی بھی دو صورتیں تھیں۔ ایک جارحانہ، دوسری مدافعانہ۔ جارحانہ راستہ قانون شکنی کا راستہ تھا اور وہ تمام باتیں اس کے لیے لازم تھیں جو قانون شکنی کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ جن حضرات نے اس کا بیڑا اٹھایا، انہوں نے جارحانہ رویہ اختیار کیا۔ ایک تو یہ کہ وہ خود گرم مزاج تھے اور سیاسی سست روی سے ان کی شناسائی نہیں تھی۔ دوم، حالات بھی ایسے بن رہے تھے جو فوری شدید ردعمل کا تقاضا کرتے تھے۔ تیسرایہ کہ انھی کے علاقوں میں صحابہ کرام کے خلاف دریدہ دہنی عروج پر تھی۔ چنانچہ یہ تحریک شروع ہوئی اوربہت کم وقت میں نہ صرف یہ کہ مقبول ہوئی بلکہ تمام حدیں بھی عبور کر گئی۔ ایسی تحریکیں ہمیشہ ساون کی گھٹا، سیلاب کا ریلااورآندھی کا جھکڑ ہوتی ہیں۔ دھواں دھار برستی اور ختم ہو جاتی ہیں۔ جتنی تیزی سے یہ تحریک ابھری، اتنی ہی تیزی سے سمٹ بھی گئی۔ جذبات کا مد بہت جلد سیاست کے جزر کا شکار ہو گیا۔ کثیر تعداد میں جید علماء کرام اور سرفروش کارکنوں کے شہید لاشے اٹھانے کے بعد اس نے اپنا سلوگن ہی تبدیل کر دیا۔ یہ تحریک گو کہ چند موڑ کاٹ کر وہیں آکر رک گئی جہاں دور اندیش نظریں پہلے ہی اسے دیکھ رہی تھیں، مگر کم از کم دیوبندیوں کی قوت اس سے کئی حصوں میں ضرور تقسیم ہوگئی، کیوں کہ ایک بڑاگروہ کسی صورت اس طرح کے اقدامات کے حق میں نہ تھا۔ ایک ہی جیسے حالات میں دو گروہوں نے ایک دوسرے کے الٹ رائے قائم کی اوریہ اختلاف رائے بالآخر تفریق پر منتج ہوا۔ رہے دشمنان صحابہ تو وہ آج پہلے سے زیادہ مضبوط ہیں۔
۲۰۰۷ء میں لال مسجد اورجامعہ حفصہ کے حوالے سے سازش کی گئی اورایسے حالات پیداکردیے گیے کہ اگر علماء اس تحریک کا حصہ بن جاتے، تب بھی نقصان اٹھاتے اورنہ دیتے، تب بھی مطعون ہوتے۔چنانچہ ایساہی ہوا۔ جن علما ء نے یہ تحریک اٹھائی، انہوں نے بھی سیکڑوں بچیوں اور جوانوں کے ساتھ جام شہادت نوش کیا اور جنہوں نے مصالحت اور سدھار کی کوشش کی، وہ بھی مطعون ہوئے اورجن علما نے محتاط ردعمل کا مظاہرہ کیا، وہ بھی مجرم قرار پائے بلکہ وفاق المدارس کے ٹوٹنے یا بٹنے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ اس کا جو کچھ نتیجہ ہوتا، وہ ظاہر ہے۔

۹۔ تطرف

فرقہ بندی کی یہ بھی ایک اہم وجہ ہے۔ ایک بات لوگوں کی نظر سے گزرتی ہے، وہ اسے پڑھتے بولتے اور سنتے رہتے ہیں، مگر ان کے لیے اس میں ایسا کوئی سوال نہیں ہوتا جو عقدۂ لاینحل بن جائے۔ مگر اچانک کسی کے دماغ میں شیطان سرنگ بنا لیتاہے۔ شک کے کانٹے اگنے لگتے ہیں۔ ایک چیز جو ہزاروں کے لیے بد یہی تھی، اس کے لیے نظری بن جاتی ہے۔ جو دوسروں کے لیے حقیقت تھی، اس کے لیے مجاز ہوجاتی ہے۔ وہ ایک سوال جو اس کے دماغ میں جنم لیتاہے، اس کے لیے سب کچھ بن جاتا ہے۔ تفویض کا راستہ وہ اختیار نہیں کرتااور جوابات اسے مطمئن نہیں کرتے۔ بالآخر اسے ایک حل سوجھ جاتاہے جو اسے مطمئن کر دیتا ہے۔ وہ زوروشور سے اس کی تشہیر وتبلیغ کرتاہے۔ اگرچہ وہ مزعومہ حل ایک جواب دے کر ہزاروں سوال کھڑے کردے، مگر اسے اس بات سے کوئی سروکار نہیں رہتا۔ بجائے اس کے کہ وہ اس حل پر نظر ثانی کرے، خود اسی کو اصل قرار دے کر باقی تمام مسائل کو اس کے تابع مہمل بنا دیتا ہے۔ ہر مسئلے اور ہر سوال کو وہ اسی کی عینک لگا کر دیکھتا ہے۔ آہستہ آہستہ ایک نیا عقیدہ، نئی تفسیر وجود میں آنے لگتی ہے جو قرآن وسنت کے مجموعی مزاج سے بہت حد تک علیحدہ ہوتی ہے۔ ایک نیا فرقہ پیداہوجاتاہے جو دراصل اس کے بانی مبانی کے تطرف اور انتہا پسند طبیعت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ اگر انتہا پر ہوتا ہے تواس کے مقابلے میں آنے والے متطرفین دوسری انتہا پر پہنچ کر ایک نیا فرقہ، نئی جماعت اور نئی پارٹی تشکیل دے دیتے ہیں۔

۱۰۔ کم علمی

علم میں کمی بھی سبب بن جاتی ہے نئے فرقے کا، خصوصاً اس وقت جب کم علمی چھپانے کے لیے اس بات کا اظہار کیا جائے کہ وہ بہت زیادہ جانتا ہے۔ جب کم علمی کے ساتھ ساتھ انسان احساس برتری کے مرض کا شکار ہو، اس حالت میں وہ اپنی ہی کہے گااوراپنی ہی سنائے گا۔ چنانچہ تاریخ سے بعض ایسے لوگوں کے بارے میں یہ شہادت ملتی ہے کہ اپنی کم علمی بلکہ لاعلمی کے باوجود انہوں نے کسی مسئلے پر اپنی رائے کو حرف آخر سمجھتے ہوئے اس کااظہار کیااوارانجام کار ایک فرقے کے بانی ہونے کا تمغہ لے کر رخصت ہوئے۔ 
(جاری)

جامع مسجد نور کی تاسیس کا پس منظر

مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

تمہید

۱۹۵۲ء میں جامع مسجد نور المعروف چھپڑ والی مسجد کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ اس کی ابتدائی تعمیر میں بہت سے لوگوں نے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق حصہ لیا۔ ہر طبقہ اور ہر برادری کے لوگ شریک تھے۔ ہم ان سب کے لیے دعاگو ہیں کہ اللہ رب العزت انھیں اپنے شایان شان اجر عطا فرمائے، آمین یا الٰہ العالمین۔ لیکن اس کے ساتھ ہر ذی شعور اور حالات سے باخبر آدمی یہ بھی جانتا ہے کہ جامع مسجد نور کی تاسیس کا مرکزی کردار ولی کامل، مفسر قرآن،محدث کبیر حضرت مولانا صوفی عبدالحمید خان سواتی نور اللہ مرقدہ فاضل دیوبند تھے۔ گزشتہ ماہ پاکستان کے دو معروف اخبار وجرائد میں کچھ مضامین ایسے طبع ہوئے جن میں اس بات کی نفی کی گئی۔ ان مضامین کی بہت سی بے سروپا باتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے بنیادی طو رپر صرف دو باتوں کی طرف قارئین کرام کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ ان مضمون نگار حضرات کے مضامین کا خلاصہ یہ تھا کہ:
(۱) مفسر قرآن حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتی ؒ جامع مسجد نور کے بانی نہیں تھے۔
(۲) وہ تو اس جگہ کافی دیر کے بعد تشریف لائے تھے۔
اس موضوع پر گو تاریخی دستاویزات کے حوالے سے تفصیلی کلام بھی کیا جا سکتا ہے، تاہم سردست میں اپنی طرف سے کچھ لکھنے کی بجائے صاحب معاملہ، مفسر قرآنؒ کے بیانات وتحریرات کے چند اقتباسات نقل کر رہا ہوں۔ ان اقتباسات میں کچھ سابقے اور لاحقے بھی ساتھ ہی شامل رہنے دیے ہیں تاکہ ان کے ضمن میں مفسر قرآنؒ کی یاد بھی تازہ ہو جائے۔
احب الصالحین ولست منہم
لعل اللہ یرزقنی صلاحا

جامع مسجد نور کا پس منظر

پاکستان کے معروف صحافی عبد السلام ملک نے ۱۹۷۶ء میں مفسر قرآن حضرت مولانا صوفی عبدالحمید خان سواتی سے ایک طویل انٹرویو لیا تھا جو ہفت روزہ چٹان لاہور میں بعنوان ’’حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی مدظلہ سے عبدالسلام ملک کا انٹرویو‘‘ کے عنوان سے طبع ہوا تھا۔ اس میں جامع مسجد نور کی تاسیس وتعمیر کے بارے میں انھوں نے مفسر قرآنؒ سے کچھ یوں پوچھا:
’’میں نے بات کاٹنے کی گستاخی کرتے ہوئے عرض کیا کہ یہ تفصیل تو بعد میں بھی معلوم ہو جائے گی۔ دراصل میں آپ کی مسجد اور مدرسہ کی تعمیری وسعت دیکھ کر بڑا متاثر ہوا ہوں کہ اس دور پرآشوب میں بھی ایسا ممکن ہے! لہٰذا ازراہ نوازش مسجد او رمدرسہ کی تعمیر کی ابتدا سے بات شروع کریں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ میرے اس خلجان کے اظہار پر وہ کچھ زیرلب مسکرائے اور فرمایا:
’’مسلک دیوبند سے تعلق رکھنے والے حضرات نے محسوس کیا (اور غالباً یہ ۱۹۵۰ء کی بات ہے) [یہ ملک صاحب کا تجزیہ ہے۔ اصل تاریخ ۱۹۵۲ء ہے۔ فیاض] کہ اس علاقہ میں چونکہ ان کی کوئی مسجد نہیں، لہٰذا اردگرد کی ہم مسلک آبادی کے لیے ایک مسجد اگر تعمیر ہو جائے تو ان کے لیے یاد اللہ اور ادائیگی فرض نماز وجمعہ میں آسانیاں پیدا ہو جائیں گی۔ اس مقصد کے لیے چند صاحب دل اور صاحب ایمان لوگوں نے باہم مل کر اس کا بیڑا اٹھایا۔ سب سے پہلا مسئلہ زمین کے حصول کا تھا۔ شہروں میںآبادی کے سیلاب کے پیش نظر یہ ایک پہلی لیکن بہت بڑی دقت تھی۔ چپہ چپہ زمین استعمال میں آ چکی تھی۔ جس جگہ اب موجودہ مسجد دیکھ رہے ہیں، یہاں گئے وقتوں کا ایک پرانا جوہڑ تھا جس کا متعفن پانی مچھروں او رمکھیوں کی ایک مستقل پرورش گاہ تھا۔ ہم نے اسی کے حصول کے لیے متعلقہ ڈی سی گوجرانوالہ سے رابطہ قائم کیا۔ وہ ایک نیک دل انسان تھے۔ انھوں نے فوراً اجازت دے دی۔ اب اس جوہڑ کی بھرتی کا مسئلہ تھا۔ یقین کریں اسے عام شہر کی سطح زمین تک بھرنے میں ایک لاکھ روپیہ صرف ہوا۔ جب یہ بھر چکا تو محکمہ آباد کاری بھی آن موجود ہوا، چنانچہ اس کی پیمائش کے بعد محکمہ نے جو قیمت مقرر کی، اس کی ادائیگی کا اہتمام بھی اللہ پاک نے ہی کر دیا۔ پھر مسجد کی بتدریج تعمیر شروع ہوئی جو کسی خاص یا قابل ذکر دقت کے بغیر پایہ تکمیل کو پہنچ گئی۔‘‘ (ہفت روزہ چٹان، ۱۲؍ جولائی ۱۹۷۶ء)

جامع مسجد نور کی بنیاد اور اپیل

۱۹۷۵ء میں جامع مسجد نور میں ہزاروں لوگوں کے مجمع سے جمعہ کا خطاب فرماتے ہوئے مفسر قرآنؒ نے فرمایا:
’’تاہم مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اس مسجد کی بنیاد اللہ کے فضل سے میں نے اپنے ہاتھوں سے رکھی۔ میں ان تین چار آدمیوں میں سے ایک ہوں جنھوں نے اللہ کا نام لے کر اس کام کابیڑا اٹھایا۔ اس کے بعد میں نے ہر موقع پر لوگوں سے درخواست کی ہے کہ اس مسجد کی تعمیر میں اپنی حلال اور طیب کمائی لگاؤ، حرام اور سودی مال سے اس خانہ خدا کی تعمیر نہ کرنا۔ کیوں بھائی! میں کہتا رہا ہوں یا نہیں؟ (بالکل کہتے رہے ہیں)۔‘‘ (خطبات سواتی ج ۳ ص ۳۰۸، تحریک جامع مسجد نور ص ۴۷)

جامع مسجد نور میں درس قرآن وحدیث کا آغاز

مفسر قرآن ۱۹۹۳ء میں اپنے قلم سے تحریر فرماتے ہیں:
’’احقر نے ۱۹۵۲ء ماہ جولائی میں جامع مسجد نور میں بعد نماز صبح درس قرآن کریم شروع کیا۔ کچھ عرصہ بعد طریق یہ طے کیا کہ ہفتہ، اتوار، سوموار، منگل، ہفتہ میں چار دن قرآن کریم کا درس اور بدھ، جمعرات دو دن حدیث شریف کا درس شروع کیا۔‘‘ (پیش لفظ ’’دروس الحدیث‘‘ ج ۱ ص ۹)

جامع مسجد نور میں خطابت کا آغاز

مفسر قرآن ۱۹۹۴ء میں تحریر فرماتے ہیں:
’’حضرت مولانا عبد اللہ درخواستی ؒ حافظ القرآن والحدیث، شیخ التفسیر وشیخ الحدیث۔ مولانا کا نام پہلے طلباء سے سنتے رہتے تھے۔ پہلی دفعہ ۱۹۶۰ء میں اتفاق سے صدر ایوب مرحوم کا زمانہ تھا۔ احقر چونکہ ۱۹۵۲ء سے جامع مسجد نور میں اس کی ابتدا سے خطابت کے فرائض انجام دے رہا تھا اور ساتھ ہی مدرسہ نصرۃ العلوم کے اہتمام کی ذمہ داری بھی احقر ہی کے سپرد تھی، ایسا اتفاق ہوا کہ احقر کے جمعے کی تقریر پر تین مہینے کی زبان بندی کے احکامات جاری ہوئے گوجرانوالہ کی انتظامیہ کی طرف سے۔ احباب کے مشورے کے بعد یہ طے پایا کہ اس دوران احقر اگر یہاں ہی گوجرانوالہ میں رہا تو ممکن ہے کہ تقریر وغیرہ کے سلسلہ میں احباب کے لیے مزید پریشانی کا باعث نہ ہو۔ تو مناسب سمجھا کہ احقر یہ تین مہینے گوجرانوالہ سے باہر ہی کہیں گزار دے۔ پھر یہ خیال ہوا کہ خانپور کٹورہ، ضلع رحیم یار خان بہاول پور چلا جائے، چونکہ شعبان اور رمضان کے دو مہینوں میں مولانا درخواستی کے پاس تفسیر وترجمہ میں شرکت کر لی جائے۔‘‘ (الاکابر، ص ۳۲۶)

مدرسہ نصرۃ العلوم کا بالکل ابتدائی تعارفی پمفلٹ

مفسر قرآن نے مدرسہ کا بالکل ابتدائی تعارف پمفلٹ ۱۹۵۲ء میں تحریر فرمایا جس کا عنوان تھا ’’ہمارا تعلیمی وتبلیغی لائحہ عمل‘‘۔ یہ پمفلٹ سارے شہر بلکہ ملک کے طول وعرض میں تقسیم ہوا تھا۔ اس کے صفحہ ۱۹ پر تحریر فرماتے ہیں:
’’تعلیمی وتبلیغی کوششیں اس وقت جتنی بھی ہو رہی ہیں، وہ وقت کے لحاظ سے بہت محدود ہیں۔ ان تمام خامیوں اور کوتاہیوں کو دور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس سلسلہ کی بالکل ابتدائی کوشش یہ ہے کہ ہم نے محض اللہ تعالیٰ کے توکل واعتماد پر ایک مدرسہ (مدرسہ نصرۃ العلوم) کی بنیاد شہر گوجرانوالہ محلہ فاروق گنج (گورونانک پورہ) جامع مسجد نور متصل گھنٹہ گھر کے ساتھ رکھی ہے۔ تعلیم وتعلم سے اتصال رکھنے والے حضرات اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ کام کافی مشکل ہے۔ اس دشوار کام کو چلانے کے لیے بڑی محنت وسعی کی ضرورت ہے۔ مدرسہ کی عمارت، درس گاہیں، طلباء کی رہائش کے لیے کمروں کا انتظام، کتب خانہ اور دارالمطالعہ اور اساتذہ کا بندوبست، یہ تمام سلسلہ ایک شخص کے بس کا کام نہیں۔ تمام مسلمانوں کے تعاون کی ضرورت ہے۔ ہم ہر اس مسلمان سے توقع رکھتے ہیں جو تعلیم وتبلیغ کی اہمیت اور علم کی نشر واشاعت کی ضرورت سے باخبر ہے کہ اس کار خیر میں حصہ لے کر اجر وثواب حاصل کرے اور آئندہ نسلوں سے دعاے خیر کی توقع رکھے اور اپنی اخروی نجات کا سامان پیدا کرے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا، انسانیت کی فلاح، مسلم قوم کا بقا اسی میں ہے۔‘‘ (مقالات سواتی، ص ۴۳۴)

جامع مسجد نور کے ابتدائی دور کے چند واقعات

(۱) ’’مدرسہ نصرۃ العلوم اور جامع مسجد نور کی تعبیر کے ابتدائی دور ۱۹۵۲ء میں ایک دفعہ احقر لاہور حضرت [امام الاولیاء شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ]  کی خدمت میں حاضر ہوا۔ دہلی دروازہ سے شیرانوالہ گیٹ کی طرف جا رہا تھا کہ راستہ میں مرحوم مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادی بھی آ گئے۔ میں نے کہا کہ کہاں جا رہے ہیں؟ انھوں نے کہا کہ حضرت لاہوریؒ کی خدمت میں جانا ہے۔ میں نے کہا، یہ تو بہت اچھا ہوا۔ میں نے حضرت کو گوجرانوالہ جانے کی دعوت دینی ہے۔ آپ بھی تائید کریں گے تو بہت اچھا ہوگا۔ جب حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مدعا عرض کیا تو حضرت نے فرمایا کہ اس وقت نہیں جاؤں گا اور میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ حضرت سے قاضی صاحب مرحوم جب الگ ہوئے تو مجھ سے فرمایا کہ آپ نے کوئی جماعت بنانی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ حضرت، دین کی خدمت اور علماء دیوبند کے مسلک کی تائید مطلوب ہے۔ [ان دنوں میں گوجرانوالہ میں ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک ایسی جماعت کے بارے میں سوچ رہے تھے جس میں جدید تعلیم یافتہ اور قدیم تعلیم یافتہ حضرات، دونوں برابر تعداد میں شریک ہوں۔] بہرحال اس وقت حضرت نے گوجرانوالہ آنے سے انکار کر دیا، لیکن کچھ عرصہ بعد حضرت گوجرانوالہ تشریف لائے اور خود بخود مدرسہ نصرۃ العلوم اور جامع مسجد نور تشریف لائے۔ ظہر کی نماز کے بعد درس دیا۔ اس وقت حضرت نے سلوک وتصوف اور اصلاح نفس پر وعظ فرمایا اور اپنی ہستی کو مٹانے کے لیے یہ مصرعہ بار بار دہرا رہے تھے:
ساقی مجھے خاکِ بے جان کر دے
پھر جامع مسجد نور کے محراب والے حصے میں بڑی دیر تک دعا فرماتے رہے۔ انھی دنوں کی بات ہے جب کہ حضرت بقید حیات تھے، ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت لاہوریؒ جامع مسجد نور میں تشریف لائے اور مسجد کے شمالی حصہ میں مدرسہ کے باورچی خانہ کے مقام پر [ابھی تک باورچی خانہ کی عمارت نہ بنی تھی] نیچے ریت بچھی ہوئی ہے۔ آپ کے ہاتھ میں عصا مبارک ہے اور کھدر کا لباس زیب تن ہے۔ میں نے لکڑی کے بنے ہوئے کھڑاؤں آپ کے پاؤں مبارک کے نیچے رکھ دیے۔ آپ نے انھیں پہن لیا اور باورچی خانہ کے حصہ میں پہنچ کر پھر واپس تشریف لے گئے۔‘‘ (الاکابر، ص ۲۷۹)
(۲) ’’نصرۃ العلوم کا ابتدائی دور تھا۔ میں نے دو دفعہ خواب میں حضرت حاجی امداد اللہ (مہاجر مکیؒ ) کو دیکھا۔ ایک دفعہ اس طرح کہ آپ گھوڑے پر سوار ہیں اور آپ کے ہاتھ میں نیزا پکڑا ہوا ہے۔ سر مبارک پر پگڑی باندھی ہوئی ہے۔ گلے پر، سر پر لمبے لمبے بال ہیں جو تقریباً کان سے نیچے اتر رہے ہیں اور سر کے بال بھی سفید ہیں، لیکن آپ کی داڑھی مبارک بالکل نہیں۔ آپ کوسج (کھودے) معلوم ہوتے ہیں۔ (واللہ اعلم)‘‘
(۳) ’’دوسری دفعہ حضرت حاجی امداد اللہؒ کو اس طرح خواب میں دیکھا کہ آپ اسی طرح کمیت گھوڑے پر سوار ہیں اور ہاتھ میں نیزا پکڑا ہوا ہے۔ سر مبارک پر دھاری دار لنگی، کلے پر باندھی ہوئی ہے۔ سر کے بال اسی طرح لمبے لمبے ہیں، البتہ داڑھی مبارک چار انگل سے زیادہ ہے، لیکن داڑھی مہندی سے رنگی ہوئی ہے۔ (واللہ اعلم)‘‘ (ماہنامہ نصرۃ العلوم کی خصوصی اشاعت بیاد مفسر قرآن، ص ۱۷۹)

شیخ الاسلام حضرت مدنی ؒ کے نام خط

اپنے استاد، پیر ومرشد شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کے نام اپنے ایک دستی بھیجے گئے خط میں مدرسہ کی تاسیس کی تاریخ بیان فرماتے ہیں:
’’بخدمت اقدس سیدی ومرشدی حضرت (مولانا سید حسین احمد) مدنی
اطال اللہ حیاتکم وافاض علینا من برکاتکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حضرت والا، امید ہے کہ بخیر وعافیت ہوں گے۔ چند گزارشات عرض کرنے کی گستاخی کر رہا ہوں۔ اگرچہ آپ کے قیمتی وقت کا خیال کرتے ہوئے یہ مناسب نہ تھا، لیکن مجبوری۔ عرض ہے کہ حضور والا نے بوقت بیعت تسبیحات ستہ اور پاس انفاس کی تلقین فرمائی تھی۔ تسبیحات ستہ تو اکثر ادا کرتا رہتا ہوں، لیکن پاس انفاس کا سلسلہ پابندی سے نہیں جاری رکھ سکا۔ دیگر عرض ہے کہ دماغ میں اکثر خیالات فاسدہ کا ہجوم رہتا ہے، ان کے رفع کرنے کے لیے کچھ ارشاد فرمائیں۔ طبیعت کی بے چینی اور پریشانی اور کچھ قرض ہو گیا ہے، اس سے نجات پانے کے لیے دعا فرمائیں۔
نیز گزارش ہے کہ یہاں گوجرانوالہ میں عرصہ پانچ سال سے [۱۳۷۲ھ بمطابق ۱۹۵۲ء۔ فیاض] ہم لوگوں نے ایک مدرسہ بنام ’’مدرسہ نصرۃ العلوم‘‘ جاری کیا ہے جس میں حضرت مولانا قاضی شمس الدین صاحب اور مولانا سرفراز خان صاحب اور تین اور مدرس تعلیم دیتے ہیں اور ۴۰ کے قریب بیرونی طلباء ہیں اور سوا سو کے قریب مقامی بچے جو ناظرہ قرآن کریم اور حفظ وتجوید قرآن کریم میں مصروف ہیں جن کے لیے ایک حافظ وقاری اور ایک ناظرہ پڑھانے والے ہیں۔ ۸ طالب علم اس وقت دورۂ حدیث شریف پڑھ رہے ہیں۔
حضرت والا سے عرض ہے کہ مدرسہ کی کامیابی کے لیے خصوصی دعا فرمائیں۔ میر غلام حسین صاحب حالات سے اچھی طرح واقف ہیں۔ امید ہے کہ اس گستاخی پر معاف فرمائیں گے۔
والسلام
یوم عاشوراء، ۱۰ محرم الحرام ۱۳۷۶ھ
احقر عبد الحمید سواتی ہزاروی
خادم مدرسہ نصرۃ العلوم وخطیب مسجد نور
متصل گھنٹہ گھر شہر، گوجرانوالہ (مغربی پاکستان)‘‘
اس خط کا جواب حضرت مدنی نے دیا تھا۔ ان کے خط کا اصل عکس ماہنامہ نصرۃ العلوم کی خصوصی اشاعت ’’مفسر قرآن نمبر‘‘ کے صفحہ ۸۴۴ پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ اللہم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ۔ آمین

مکاتیب

ادارہ

(۱)
جناب برادرم مولانا محمد عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے کہ آپ بخیریت ہوں گے۔
ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ کا ایک شمارہ ایک ساتھی کے پاس سے لے کر دیکھا۔ اس میں ایک ساتھی کے نام مکتوب میں آپ نے اپنا نظریہ بیان کیا۔ خلاصہ یہ معلوم ہوا کہ ابھی تک اثنا عشریہ شیعہ کے کفر پر اجماع امت نہیں ہوا، اس سلسلے میں تحقیق جاری ہے۔ بندہ نے مناسب سمجھا کہ اس تحقیقی عدالت میں وہ دلائل بھی پیش کر دوں جو گزشتہ صدی میں حضرت مولانا قاضی مظہر حسین صاحبؒ نے ایک تحقیقی دستاویز تیار کر کے حضر ت مولانا ایوب جان بنوریؒ کی خدمت میں بجھوائی تھی۔
حضرت مولانا محمد ایوب جان بنوریؒ نے حضرت مولانا قاضی مظہر حسین صاحبؒ کی خدمت میں ستمبر ۱۹۹۴ء میں ایک مکتوب بھیجا کہ اثنا عشریہ شیعہ کے کفریہ اور گمراہ کن عقائد کی دستاویز تیار کر کے بھیجیں تاکہ بڑے پڑھے لکھے طبقہ کو ان کے عقائد سے خبردار کر کے عوام اہل سنت کو اس فتنہ کی لپیٹ میں آنے سے بچایا جا سکے۔ ممکن ہے، وہ دستاویز آپ کی نظر سے نہ گزری ہو، اس لیے اس کی ایک کاپی ارسال خدمت ہے۔ امید ہے کہ آپ بغور مطالعہ کے بعد اپنی رائے سے مطلع فرمائیں گے۔
(مولانا) عبد الوحید حنفی
مدنی جامع مسجد۔ چکوال
(۲)
مکرمی مولانا عبد الوحید حنفی صاحب زید مجدکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ 
امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
آنجناب کا عنایت نامہ اورمرسلہ کتب موصول ہوئیں۔ بے حد شکریہ!
اہل تشیع کے بارے میں میرے موقف کی آپ نے جو تعبیر کی ہے، وہ درست نہیں۔ میں نے یہ نہیں کہا کہ چونکہ ابھی ان کے عقائد کی تحقیق ہو رہی ہے اور ابھی اجماع نہیں ہوا، اس لیے ان کی تکفیر نہیں کرنی چاہیے۔ اہل تشیع کے مخصوص عقائد ہمیشہ سے معلوم ومعروف ہیں۔ اس کے باوجود ان کی تکفیر پر نہ کبھی اجماع ہوا ہے، نہ ایسا کوئی اجماع ممکن ہے اور نہ یہ تکفیر فقہ وشریعت کے اصولوں اور امت مسلمہ کے اجتماعی مصالح کے لحاظ سے کوئی مطلوب یا مناسب رویہ ہے۔ ہاں، ان کے مخصوص نظریات کی شناعت اور قباحت کو ضرور واضح کرتے رہنا چاہیے اور صحیح العقیدہ عوام الناس کو ان کے اعتقادی شر سے محفوظ رکھنے کے لیے جن معاملات میں باہمی اختلاط سے روکنا ممکن اور قرین مصلحت ہو، وہاں اس کی تلقین بھی کرنی چاہیے۔ البتہ بحیثیت مجموعی وہ ہمیشہ امت مسلمہ کا حصہ سمجھے جاتے رہے ہیں اور سمجھے جاتے رہیں گے۔ نسبت اسلام کا احترام اور امت کے عملی مصالح، دونوں کا تقاضا یہ ہے کہ اس تفریق کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی جائے۔ جو حضرات آنکھیں بند کر کے ایک مخصوص ذہنی رَو میں انھیں امت سے کاٹ دینے کا تصور رکھتے ہیں، وہ فساد اور انتشار پھیلانے اور امت کی مشکلات میں اضافہ کرنے کے سوا کوئی خدمت انجام نہیں دے رہے۔
آپ نے حضرت مولانا قاضی مظہر حسین صاحب علیہ الرحمۃ کا مرتب کردہ جو رسالہ ازراہ عنایت بھیجا ، وہ میں نے دیکھ لیا ہے اور اس سے پہلے بھی اس موضوع پر ان کی بعض تحریریں نظر سے گزر چکی ہیں۔ اہل تشیع کے حوالے سے یہی موقف ہمارے بزرگ، شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کا بھی تھا، تاہم میرے علم کی حد تک یہ دونوں بزرگ اہل تشیع کی تکفیر کی بات اصولی اورنظری طور پر اور عوام کو ان کے فتنے سے محفوظ رکھنے کی حد تک کرنے پر عمل پیرا تھے۔ اس کی بنیاد پر کوئی تکفیری مہم چلانے یا اہل تشیع کو قادیانیوں کی طرح ہر سطح پر امت مسلمہ سے الگ کر دینے کے موقف یا تحریک کی، میرے علم کی حد تک، انھوں نے تائید نہیں کی۔ میں ذاتی طور پر اس مسئلے میں امام ابن تیمیہؒ وغیرہ کی رائے کو درست سمجھتا ہوں جو نظری واصولی تکفیر کے بھی قائل نہیں۔ تاہم جو حضرات نظری تکفیر کے قائل ہیں، ان کے لیے متوازن اور بہتر اسوہ وہی ہے جو اس معاملے میں حضرت قاضی صاحبؒ اور حضرت شیخ الحدیثؒ نے اختیار فرمایا۔
ہذا ما عندی والعلم عند اللہ۔
محمد عمار خان ناصر
۲۴؍ جنوری ۲۰۱۲ء
(۳)
محترم ومکرم جناب مختار احمد فاروقی صاحب
السلام و علیکم و رحمۃاللہ
امید ہے خیریت سے ہوں گے۔
آپ نے اپنے خط بنام مولانا زاہد الراشدی صاحب مدظلہ میں کچھ ایسی باتیں کی ہیں جو میری اس تحریر کی محرک بنی ہیں۔ امید ہے، آپ میری معروضات پر سنجیدگی سے غور فرمائیں گے۔
۱۔ ہر عام و خاص کو بخوبی علم ہے کہ ’الشریعہ‘ ایک ایسا فورم ہے جہاں ہر شخص کھلے دل کے ساتھ اپنے علم و استعداد کے مطابق مہذب انداز اختیار کرتے ہوئے اپنا موقف پیش کرسکتا ہے۔ جہاں تک آپ کی اس بات کا تعلق ہے کہ اس مجلہ میں خاص طور پر آپ کی جماعت یعنی سپاہ صحابہ کی ہر بات کو رد کیا جاتا ہے تو یہ بات درست نہیں۔ اس فورم پر ہر اس ایشو پر گفتگو ہوتی ہے جس کے متعلق ہمارے معاشرے میں کوئی اشکال پایا جاتا ہو۔ جہاں تک آپ کی جماعت سپاہ صحابہ کا تعلق ہے تو اس کی پالیسی ا ور طرز عمل بھی کافی نزاعی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الشریعہ کے صفحات میں آپ کی جماعت اکثر موضوع سخن رہی ہے۔ 
۲۔ آپ کی جماعت کی اکثریت سطحی فکر و عمل کے افرد پر مشتمل ہے۔ اس بات کا اندازہ آپ کے خط سے بھی ہوا کہ فتویٰ امام ابن تیمیہ نے دیا اور آنجناب کی گرفت میں بے چارے عمار خان ناصرآگئے۔ یہ سوال تو ابن تیمیہ سے ہونا چاہیے تھا کہ آیا رافضی صرف بدعتی ہیں یا تحریف قرآن اور صحابہ کرام و امہات المومنین کی شان میں تبرا جیسے جرم کے ارتکاب کی وجہ سے کافر بھی ہیں! امام ابن تیمیہ شیعوں کے تمام عقائد سے بخوبی آگاہ تھے اور اسی بنا پر انہوں نے مختلف مواقع پر اس قسم کے فتوے بھی دیے۔ اگر آپ احقر اور مولانا عمار خان ناصر صاحب مد ظلہ کی گفتگو جو دسمبر اور جنوری میں شائع ہوئی، منصفانہ مزاج اختیار کرتے ہوئے تسلی سے پڑھیں تو آپ کے لیے بات سمجھنا آسان ہوگا ۔
۳۔ کچھ لوگوں کاخیال ہے کہ آپ حضرات کاصرف طریقہ درست نہیں اور شیعیت کے خلاف آپ کا جو موقف ہے، وہ درست ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ کے طرز عمل کے ساتھ ساتھ آپ کا موقف بھی درست نہیں۔ یقیناًآپ جواباً فتووں کی بات کریں گے کہ کافی مفتیان کرام کے ان کے خلاف فتوے موجود ہیں ۔یہ بات درست ہے کہ علماء نے اپنے فرض منصبی کو بجا لاتے ہوئے ہر دور میں باطل فرقوں کا مقابلہ مختلف زاویوں سے اس کے نتائج کو سامنے رکھ کر کیا۔ شیعیت پر جو کفر کے فتوے ہیں، وہ بھی شیعیت کو روکنے کا ایک زاویہ ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ وہ موثر رہا یا نہیں؟ اور ہر دور میں اختلاف بھی رہا۔ کچھ تکفیر کے قائل تھے تو کچھ عدم تکفیر کے، لیکن کسی بھی موقع پر شیعیت کو روکنے کے لیے نہ تو ان کو اجتماعی معاملات سے الگ رکھا گیا اور نہ ہی کوئی منظم صورت اختیار کر کے ایک تحریکی انداز میں ان کے خلاف صف آرائی کی گئی۔
آپ سے بہتر کون جانتا ہوگا کہ حضرت حسین احمد مدنی رحمہ اللہ نے بھی شیعہ اثنا عشری کے خلاف فتوے جمع کیے، لیکن انہوں نہ تو ان فتووں کی بنیاد پر کوئی تنظیم بنائی اور نہ ہی ان فتووں کو گلی بازاروں میں لہرا کر ایک عام آدمی کو فتوے کی زبان فراہم کی، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ عام آدمی کو فتوے کی حیثیت اور صورت کا اندازہ نہیں اور اس کو کیا خبر کہ تحدیدی فتویٰ کس کو کہتے ہیں اور قانونی اور اجتماعی اعتبار سے فتویٰ کی کیا حیثیت ہے۔ ہمارے دور میں بھی خمینی انقلاب کے بعد ایک تکفیری مہم شروع ہوئی۔ علما نے اس کا راستہ روکنے کے لیے اسی صورت کا انتخاب کیا اور ایک حد تک کامیاب بھی ہوئے، لیکن آپ حضرات نے ان فتووں کو بنیاد بنا کر ایک جماعتی صورت اختیار کر لی۔ ہرذی علم جانتا ہے کہ آپ کی جماعت کی بنیاد میں کسی بھی مفتی یا اکابر کی تائید شامل نہیں جس نے فتویٰ دیاہو اور نہ بعد میں آپ کو کسی مفتی نے اس بات کی اجازت دی کہ یہ ہمارے فتوے ہیں، آپ ان کو گلی بازاروں اور چوک چوراہوں میں پیش کریں اور نہ ہی کسی مفتی نے یہ کہا کہ آپ میدان میں اتریں اور نعرہ لگائیں ’’کافر کافر‘‘، میں آپ کے ساتھ ہوں۔ یہ حقائق اس بات پر دال ہیں کہ علما نے جو فتوے دیے، ان کا دائرہ اور حیثیت کچھ اور تھی۔
۴۔ جہاں تک عظمت صحابہ کے دفاع اور شان صحابہؓ بیان کرنے کا تعلق ہے، یقیناًیہ ایک مبارک عمل ہے اورفرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم: فمن احبہم فبحبی احبہم ومن ابغضہم فببغضی ابغضہم  کے عین مطابق ہے، لیکن جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے محبت کا درس دیا، وہیں ان کی اہانت و گستاخی کرنے والے کے لیے وعید بھی سنائی اور امت کو اس کے ساتھ برتاؤ کا طریقہ بھی سمجھایا۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اذا رایتم الذین یسبون اصحابی فقولوا لعنۃ اللہ علیٰ شرکم‘‘ یعنی جب دیکھو ان لوگوں کو جو براکہتے ہوں ہمارے اصحاب کو تو کہو کہ اللہ کی لعنت ہے تمہارے شر پر۔ (ازنقل روایت مع ترجمہ فتویٰ عزیز ی کامل، ص۳۵۶) 
اس فرمان سے بالکل واضح ہے کہ صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کا مرتکب لعنت کا مستحق ہے اور یہ گناہ کبیرہ ہے تو کیوں نہ آپ کا موقف بھی عین فرمودات حضرت محمد کا پرتو ہوتا! پر ایسا نہ ہوا، حداعتدال سے تجاوز کیا گیاجس کے یقیناًاثرات مثبت سامنے نہیں آنے تھے۔ مزید یہ کہ فقہاء کرام اور جمہورعلماء کا بھی مفتیٰ بہ قول یہی ہی کہ سبِّ صحابہ کفر نہیں، فسق ہے۔میں حضرت مفتی عبد الحئی لکھنوی رحمہ اللہ کا صرف ایک حوالہ پیش کرنا چاہوں گا۔ وہ فرماتے ہیں کہ بعض روافض کی بعض باتیں بدعت ہیں، کفر نہیں ہیں جیسے ان کا یہ کہنا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ حضرات شیخینؓ سے افضل ہیں اور بعض حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مخالف (جیسے حضرت عائشہ صدیقہؓ اور حضرت امیر معاویہؓ )پر لعنت کو واجب لکھتے ہیں تو یہ اور ان کے مشابہ تمام امور بدعت ہیں، کفر نہیں کیونکہ یہ تاویل کے بعد کیے جاتے ہیں۔ بحرالعلوم مولانا عبدالعلی ؒ شرح مسلم الثبوت میں لکھتے ہیں: 
الصحیح عند الحنفیہ ان الروافض لیسوا بکفار والوجہ فیہ ان تدینہم او دفعہم فی ما دفعوا زعما منہم انہم علی الدین المحمدی وان کا ن زعمہم ہٰذا باطلاً وما کذبوا محمدا صلی اللہ علیہ وسلم فہم غیر ملتزمین للکفر والتزام الکفر کفر دون لزومہ۔
یعنی حنفیہ ؒ کے نزدیک صحیح یہ ہے کہ روافض کافر نہیں ہیں، کیونکہ وہ جو دین رکھتے ہیں اور جو کچھ کرتے ہیں، یہ سمجھ کر کرتے ہیں کہ یہی دین محمدی ہے۔ اگر چہ ان کا یہ خیال غلط ہو، لیکن وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو (اپنے نزدیک) نہیں جھٹلاتے، پس کفرکو اپنے سر نہیں لیتے اور کفر کو لازم لے لینا کفر ہے نہ کہ اس کا لازم آنا۔ ( مجموعۃ الفتاویٰ، جلددوئم ص ۲۳۵، کتاب الحظر والاباحۃ)
اس طرح کے اقوال اس موضوع پر اور بھی کافی علما کے موجود ہیں اور ایسے اقوال و آرا کی موجودگی میں آپ حضرات کو کس نے اتنی شدت پسندی اختیار کرنے پر مجبور کیا کہ معاملہ قتل و قتال پر منتج ہوا اور ابھی تک جاری ہے ۔ جب شریعت میں دونوں چیزیں یعنی حب صحابہ اور گستاخی صحابہ نتائج اور انجام کے اعتبار سے بالکل واضح ہیں تو کیوں نہ اس معاملے میں جذبات کے تقاضوں کے بجائے شریعت کے تقاضوں پر عمل کیا گیا!
آخر میں میری آپ سے درخواست ہے کہ ابھی بھی وقت ہے اور تمام دینی جماعتیں بھی آپ سے یہی تقاضا کرتی چلی آرہی ہیں کہ براہ کرم اپنے فکر و عمل کی تبدیلی پر غور کریں اور حقیقت پسندی سے ماضی کی پالیسیوں کا بھی تجزیہ کریں۔ یہ بات واضح ہے کہ اس راستے میں آپ کو کافی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایک درجن سے زائد قائدین کی شہادت کے علاوہ بے شمار افراد اس کشمکش میں داعی اجل کو لبیک کہہ چکے ہیں۔ یقیناًان کے اخلاص کے بارے میں حسن ظن رکھنا چاہیے اور بغیر کسی شبہ کے وہ قابل تحسین ہیں، لیکن کیا اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی گستاخی صحابہ میں کمی آئی ہے یا اس میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا آرہا ہے؟ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ آپ کے گڑھ جھنگ میں حضرت عثمانؓ کی شان میں بے ادبی جیسا دلخراش واقعہ بھی رونما ہوا۔
ایک طرف آپ ہیں جو حب صحابہ کا دعویٰ کیے اس راستے میں جانیں قربان کرتے چلے آرہے ہیں تو دوسری طرف شیعہ ہیں جو حب آل رسول کے دعوے میں اپنی جانیں قربان کیے چلے آرہے ہیں۔ یہ کب تک چلے گا ؟ براہ کرم آپ گستاخی صحابہ جیسی مذموم حرکت کو روکنے میں سنجیدگی کا راستہ اختیار کریں اور یہ کفریہ نعروں کو ترک کریں اور شیعوں کو قانونی اور اجتماعی معاملات میں امت کا حصہ سمجھیں۔ انفرادی معاملات میں آپ کو کلی اختیار ہے کہ آپ اس کے برعکس معاملہ رکھیں۔ یقیناًاس طرح کے اقدامات ایک دوسرے کو قریب لانے میں مدد گار ثابت ہوں گے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ شیعوں میں کچھ سنجیدہ طبقہ ہے جو سب و شتم کو صحیح نہیں سمجھتااور اس حوالے سے ماضی میں آپ کی اور ان کی باہمی کی کوششوں کی مثالیں بھی ملی یکجہتی کونسل، متحدہ علماء بورڈ وغیرہ کی صورت میں موجود ہیں۔ ایسے فورمز کو دوبارہ فعال کرنے کا مطالبہ بھی شیعوں کی طرف سے ہوتا رہتا ہے۔ ایسے ہی انداز کو اختیار کرتے ہوئے کوئی ایسی حکمت عملی ترتیب دیں جو اہانت اصحاب رسول کو مستقل طور پر روکنے میں کار گر ثابت ہو اور ہم سب من حیث القوم اصحاب رسول کی بے ادبی جیسے واقعات کو روکنے میں یک آواز ہوں۔ 
مجھے حیرت ہوتی ہے جب کوئی آپ سے اس طرح کا مطالبہ کرتا ہے تو آپ یہ کہتے ہیں کہ اس طرح کرنے سے ہمارے قائدین جنہوں نے شہادتوں کا نذرانہ اس راہ میں پیش کیا، وہ غلط قرار پائیں گے۔ یقیناًان حضرات کے اخلاص میں کسی کو شک نہیں، پر ایک تجربہ ہمارے سامنے موجود ہے کہ اس فکر و عمل سے امت کو فائدہ نہیں ہو رہا اور وہ انسان تھے، معصوم نہیں تھے جن سے غلطی کا صادر ہونا محال ہو۔ حسن ظن اختیار کرتے ہوئے ان کی اس خطا کو اجتہادی خطا بھی قرار دیا جا سکتا ہے جو یقیناًان کے شرف میں عدم خلل کا باعث ہو گا۔امید ہے، غور فرمائیں گے۔
اک طرز تغافل ہے سو وہ تم کو مبارک
اک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے 
حافظ محمد فرقان انصاری
ٹنڈو آدم
(۴)
بخدمت گرامی قدر مولانا زاہد الراشدی صاحب
خیریت موجود، عافیت مطلوب۔
جنوری کا شمارہ ملا اور ایک ہی نشست میں پڑھنے کی من جانب اللہ توفیق مل گئی۔ الحمد للہ علیٰ ذالک۔
محترم مولانا زاہد حسین رشیدی کے مضمون کی توضیح آنجناب کے قلم سے پسند آئی، تاہم مزید تسلی درکار ہے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں رائے، اجتہاد اور فتویٰ کو خلط ملط کر دیا گیا ہے، جبکہ تینوں کے دائرۂ کار الگ الگ ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ اس عنوان کو ذرا وسعت دے دی جائے، کیونکہ محسوس ہوتا ہے کہ آپ پوری قوم کو بغیر کسی معیار کے ’’اصحاب الرائے‘‘ کا درجہ دینا چاہتے ہیں۔
جب ہر شخص مجتہد اور مفتی نہیں بن سکتا تو پھر ہر شخص صاحب الرائے کیسے بن سکتا ہے؟ راقم کا خیال ہے کہ ’’اظہار‘‘ اور ’’رائے‘‘ کے لطیف فرق کو بھی واضح کر دینا چاہیے۔ اظہار مافی الضمیر کا حق تو سب کو ہے، مگر رائے دینے کے لیے حدود وقیود ضروری نہیں۔ یہاں تو کہنے والے کو خود پتہ نہیں ہوتا کہ میں رائے دے رہا ہوں، فتویٰ دے رہا ہوں یا اپنا اجتہاد پیش کر رہا ہوں۔ قرآن وسنت کے قطعی اور اعتقادی مسائل میں کسی کی رائے کی رائی کے برابر بھی کوئی وقعت نہیں ہے، البتہ وہ فروعی مسائل اجتہادیہ جن میں کتب وسنت کی نصوص ساکت یا مبہم ہیں، ان کے متعلق رائے ضرور ہونی چاہیے، مگر رائے کا انداز ایسا نہ ہو کہ کسی فرد یا طبقے کی دل شکنی ہو۔ معذرت کے ساتھ جسارت کروں گا کہ ’’الشریعہ‘‘ میں بعض حضرات رائے کی آڑ میں نفرتوں کے بیج بو رہے ہیں۔ معاشرے کی کسی بھی خامی اور کوتاہی کو وہ اہل مذہب کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں اور پھر ’’مولویت‘‘ کی پگڑیوں کے بل کھول کھول کر اپنا ستر ڈھانپنے کی لاحاصل مشق شروع کر دیتے ہیں۔ اس لیے ازراہ کرم بدگمانی اور بد زبانی کو بھی رائے کا نام نہ دیا جائے۔
راقم کے نزدیک عصر حاضر کا ایک بڑا المیہ ’’مفتی ازم‘‘ ہے۔ فی زمانہ ہر عنوان پر کام کرنے والے فتوے کی زبان استعمال کرتے ہیں۔ تحقیقی یا دعوتی مزاج اپنا بوریا بستر گول کر گیا ہے۔ راقم نے حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کی ’’تحفہ اثنا عشریہ‘‘ بالاستیعاب اور ایک سے زائد مرتبہ پڑھی، مگر صفحہ اول سے لے کر صفحہ آخر تک کہیں فتوے کی زبان نہیں ہے۔ اردو لٹریچر میں علماء اہل سنت کی بے شمار ایسی مثالیں موجود ہیں۔ قائد اہل سنت مولانا قاضی مظہر حسینؒ نے ساری زندگی رد پر کام کیا ہے، مگر راقم کا دعویٰ ہے کہ کہیں بھی ان کا تقویٰ، فتوے کی زد میں نہیں آیا۔ مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے معتدل اور متوازن مزاج کو آنجناب سے بڑھ کر بھلا کون جانتا ہوگا؟ اس لیے مخدوم من! آپ ’’فتوے‘‘ کا تو ذکر ہی چھوڑ دیں، ’’اجتہاد‘‘، ’’اظہار‘‘ اور ’’رائے‘‘ کو ذرا کھول کر پیش فرما دیں کہ اظہاریہ میں اسلوب کیا ہونا چاہیے؟ رائے دینے یا کسی کی رائے سننے کے لیے ضابطہ اخلاق کیا ہے؟ اور مجتہد کے اوصاف یا اجتہاد کی شرائط کیا ہیں؟ اسی طرح رائے دے کر جو فارغ ہو جائے، وہ تو صاحب رائے ہوگا، لیکن جو رائے کو مسلط کرنے کی کوشش کرے، اسے کون سا نام دیا جائے گا؟ براہ کرم اس پر سیر حاصل بحث ہو جائے تو بھلا ہوگا۔
جامع مسجد نور کے تاریخی پس منظر پر لکھے گئے مضمون نے بہت متاثر کیا۔ حیات سدید کے ’’ناسدید‘‘ پہلو بھی قیمتی سودا ہے۔ حافظ صفوان صاحب کا مکتوب پڑھ کر بڑا متحیر ہوا کہ کیڑوں کی خوراک بننے والا انسان بھی تعلی وکبر کا اتنا مریض ہو سکتا ہے؟ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
حافظ عبد الجبار سلفی
ملتان روڈ، لاہور

مولانا ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقیؒ

مولانا جمیل الرحمٰن فاروقی

علم وعمل کے پیکر، خلوص ووفا کے مجسم، محقق ومحدث، مصنف وادیب، داعی ومبلغ، دینی اور عصری علوم کے شناور مولانا ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی کا ندھلویؒ ۳۰ دسمبر ۲۰۰۱ء بروز جمعہ اپنے متعلقین کو حیرت زدہ چھوڑ کردار فانی سے دارالبقا کی طرف کوچ کرگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ جانا تو سب کو ہے،اس سفر پر مسافر روز جاتے ہیں مگر ڈاکٹر صاحب اتنا اچانک چلے گئے کہ یقین نہیں آرہا۔ 
ڈاکٹر صاحب کو بظاہر کوئی بیماری اور عارضہ لاحق نہ تھا۔ ۶۹ سال کی عمر میں بھی تندرست وتوانا اور قابل رشک صحت تھی۔ اس روز سج دھج کر جمعۃ المبارک کی ادائیگی کے لیے پا بہ رکاب تھے۔ ان کے چھوٹے بیٹے کی شادی کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ مکان کی دوسری منزل کی تعمیر کا کام حال ہی میں مکمل ہوا تھا۔ گھر والوں سے کہا کہ ’’جمعۃ المبارک کے بعد سب مل کر نئے گھر میں قرآن کریم کی تلاوت کرلینا۔ میں درس قرآن سے اس کا افتتاح کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ یہ جملے حضرت کی زبان پر تھے کہ وقت موعود آپہنچا۔ ۵ دسمبر ۱۹۴۳ء سے ۳۰دسمبر ۲۰۱۱ء تک کا سفر پورا ہوااور حرکت قلب بند ہوگئی۔ پاکیزہ روح عالم بالا کو پرواز کرگئی اور ان کا معطر جسد خاکی آخرت کی پہلی منزل میں جاسکون پذیر ہوا۔
مولانا ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی مرحوم ’’صدیقی‘‘ نسبتوں کے امین اور خاندان کاندھلہ کے روشن ستارے تھے جن کی علمی، تحقیقی اور تبلیغی خدمات کا زمانہ معترف ہے۔ ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی، مفتی اشفاق الرحمن کاندھلویؒ کے صاحبزادے اور ’’سیرت المصطفیٰ‘‘ کے مصنف مولانا ادریس کاندھلویؒ کے بھانجے تھے۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم کے تین بھائی مولانا حبیب الرحمن صدیقی کاندھلوی، مولانا حامد الرحمن صدیقی کاندھلوی اور مولانا عبدالرحمن صدیقی کاندھلوی بھی جید عالم اور محقق ومدرس تھے۔ اس عظیم خاندان کے متعلق بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ: ایں خانہ ہمہ آفتاب است۔
مولانا ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی کی تعلیمی، تدریسی، تصنیفی اور عملی زندگی کا جائزہ پیش کیا جائے تو وہ جہد مسلسل سے عبارت نظر آتی ہے۔ مولانا کے والد گرامی مفتی اشفاق الرحمن کاندھلوی دارالعلوم اسلامیہ ٹنڈو الٰہ یار کے ابتدائی دور کے بڑے اساتذہ میں تھے۔ ادارے کے مہتمم مولانا احتشام الحق تھانویؒ کی مستقل رہائش کراچی میں ہونے کے سبب مفتی اشفاق الرحمن کاندھلوی دارالعلوم اسلامیہ ٹنڈو الٰہ یار کے قائم مقام مہتمم کے منصب پر بھی فائز رہے۔
ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی نے درس نظامی کی تکمیل اپنے والد کے زیر سایہ ٹنڈو الٰہ یار میں کی۔درس نظامی کے بعد محدث العصر مولانا محمد یوسف بنوریؒ کے پاس جامعہ بنوری ٹاؤن میں تخصص فی الحدیث کیا۔ جامعہ بنوری ٹاؤن میں داخلے کا واقعہ سناتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے ایک مجلس میں بتایا کہ جب ٹنڈو الٰہ یار سے حضرت بنوریؒ کے پاس حاضر ہوا تو حضرت نے پوچھا کہ کس درجے میں داخلہ لینا ہے اور کیا پڑھنا ہے؟ میں نے حضرت بنوریؒ سے عرض کیا کہ حضرت! کسی درجے یا کتاب کا انتخاب تو نہیں کیا، مگر استاذ کا انتخاب کرکے آیا ہوں۔ میرے والدصاحب نے آپ کے پاس یہ کہہ کر بھیجا ہے کہ اگر کچھ بننا چاہتے ہو تو حضرت بنوریؒ کے پاس تھوڑا وقت گزار لو۔ فرمایا کہ میرے اس جواب سے حضرت بنوریؒ بہت خوش ہوئے اور خصوصی شفقت وتربیت کا شرف بخشا۔
ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی مرحوم حضرت مولانا محمد یوسف بنوری قدس سرہ سے بہت متاثر تھے۔ تخصصات کے طلبہ کو دوران لیکچر اکثر ان کے انداز تربیت کا حوالہ دیتے اور اسی نہج پر تربیت کرتے تھے۔ زباں دانی کی اہمیت کا احساس دلاتے ہوئے فرماتے کہ یہ طرز ہمارے حضرت بنوریؒ کا تھا کہ وہ تخصصات کے شرکا کو عربی سکھانے کے لیے مصر سے اساتذہ کو بلاتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک موقع پر اپنے متعلق بتایا کہ میں نے حضرت بنوریؒ کے حکم پر صرف تین ماہ میں انگلش سیکھی اور اردو میں مضمون نویسی کی مشق بھی حضرت بنوریؒ کے زیر نگرانی کی ہے۔
ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی نے سندھ یونیورسٹی جام شورو سے امتیازی نمبروں میں ایم اے کیا اور گولڈ میڈل حاصل کیا جبکہ مولانا محمد ادریس کاندھلوی کے مخطوطہ الفیۃ العراقی کی شرح منحۃ المغیث تحریر کرکے پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ (یہ کتاب حال ہی میں بیروت سے شائع ہوئی ہے)۔
ڈاکٹر صاحب نے عملی زندگی کا آغاز مرکز التحقیق دیال سنگھ لائبریری لاہور سے کیا۔ یہاں کے علمی ماحول میں تحقیقی کتابیں لکھیں اور اہم ترین عنوانات پر مقالے تحریر کیے۔ ان کے بہترین تحقیقی کاموں، عمدہ تحریروں، علمی تعمق اور فکری گہرائی وگیرائی کے سبب جنرل ضیاء الحق کے دور میں ڈاکٹر صاحب کو ۱۹۷۹ء میں وفاقی شرعی عدالت اسلام آباد کا ریسرچ ایڈوائزر بنا دیا گیا۔ وفاقی شرعی عدالتوں کا قیام ۱۹۷۸ء میں عمل میں آیا تھا۔ تحقیق وریسرچ کے کام کی شروعات تھیں اور اسلامی قوانین اور دستور کے مسودات اور متن کی تیاری جیسے حساس امور طے پارہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب اس ٹیم کے اہم فرد تھے جنہوں نے وفاقی شرعی عدالت میں تحقیق کا کام سرانجام دیا۔ دوران درس تلامذہ سے فرمایا کرتے تھے کہ وفاقی شرعی عدالت میں بہت سے قوانین کے مسودے اور آئین کی متعدد شقوں کا متن تحریر کرنے کا اعزاز اللہ تعالیٰ نے میرے قلم کو عطا فرمایا ہے۔ ۱۹۷۹ء تا ۱۹۹۵ء وفاقی شرعی عدالت میں خدمات سرانجام دیں۔ اس دوران بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں لیکچر بھی دیتے رہے اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد میں ایم فل کے شعبے کے سپروائزر بھی رہے۔
۱۹۹۵ء میں برونائی دارالسلام کی اسلامی یونیورسٹی کے اصرار پر برونائی تشریف لے گئے جہاں ۲۰۰۶ء تک یونیورسٹی کے شعبہ علوم اسلامی کے نگران کے طور پر خداداد صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔برونائی دارالسلام سے واپسی پر کراچی میں مستقل سکونت اختیار کرلی اور جامعہ دارالعلوم کراچی کے شعبہ تخصص فی الدعوۃ والارشاد کے مسؤل کے طور پر تادم رحلت تحقیقی وتدریسی کاموں میں مشغول رہے۔ دارالعلوم کراچی کے شعبہ تخصص فی الدعوۃ کا جامع نصاب ترتیب دیا اور شرکا پر خوب محنت کی۔ اس دوسالہ نصاب کو پاکستان کی بڑی جامعات میں بہت پذیرائی حاصل ہوئی۔ اب تک متعدد بڑے دینی ادارے تخصص فی الدعوۃ والارشاد کا اجرا کرکے اس نصاب کو شروع کر چکے ہیں۔مجلس صوت الاسلام کلفٹن کے تحت ’’تربیت علماء کورس‘‘ میں بھی یہی نصاب پڑھایا جارہا ہے جس کی مکمل نگرانی بھی ڈاکٹر صاحب کیا کرتے تھے اور ہفتے میں دو دن شام کے اوقات میں ’’دعوت دین اور تقابل ادیان کے اسباق بھی خود پڑھاتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب جہاں دیدہ شخصیت اور جامع المعقول والمنقول تھے۔ اصول حدیث، اصول فقہ، تاریخ، ادب، علم الکلام، فلسفہ، قانون اور ادیان پر مہارت تامہ رکھتے تھے۔ وہ تخصص کرنے والے اپنے شاگردوں کو فکر ونظر کی کشمکش کے اس دور میں افکار شاہ ولی اللہ کے عمیق مطالعے اور ان کی طرز میں کام کی ترغیب دیتے تھے۔ وہ مغربی تہذیب وفلسفے کے زبردست ناقد تھے۔ ان دنوں اس موضوع پر تحقیقی کام کررہے تھے اور ’’اسلام اور انتہا پسندی‘ مشرق کا مقدمہ مغرب کی عدالت میں‘‘ کے نام سے کتاب تحریر کررہے تھے جس پر کافی کام ہوچکا تھا۔ اس میں ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ ’’موجودہ مغربی تہذیب وفلسفہ دراصل یونانی تہذیب وفلسفے اور رومن تہذیب کا چربہ ہے جو دیگر تہذیبوں کے وجود کو تسلیم نہیں کرتا۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ کچھ افرادِ کار تیار ہوکر دلیل اور ڈائیلاگ کی قوت سے مغربی تہذیب کی یلغار کا مقابلہ کریں اور اس کے تار وپود بکھیر دیں۔ اگر دلیل کی قوت سے مغربی تہذیب کا رد شروع ہوگیا تو مغربی تہذیب چند سال میں دنیا کے نقشے سے حرف غلط کی طرح مٹ جائے گی‘‘۔
ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی مرحوم اردو، عربی اور انگلش کے باقاعدہ ادیب تھے۔ ان تینوں زبانوں میں دو درجن سے زائد علمی وتحقیقی کتابیں تحریر فرمائی ہیں۔ 
وہ مرنجاں مرنج شخصیت تھے۔ جو ان سے ایک بار ملاقات کرلیتا تو بار بار ملنے کو جی چاہتا تھا، ان سے آخری ملاقات ان کے سفر آخرت پر روانہ ہونے سے دو دن قبل 27دسمبر کو ایک تقریب میں ہوئی۔ یہ تقریب نوجوان فضلاء کرام کیلئے سہ روزہ تربیتی ورکشاپ کے طور پر منعقد تھی جس نشست میں ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی نے خطاب کیا، اس کے مہمان خصوصی مولانا ڈاکٹر سید سلمان ندوی تھے اور اس نشست کا موضوع ’’عصری تحدیات اور علماء کرام کی ذمے داریاں ‘‘ تھا۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم نے اس عنوان پر اس قدر جامع خطاب کیا کہ مہمان خصوصی سمیت سب خطبا نے کہا کہ ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی نے ہمارے کہنے کے لیے کچھ نہیں چھوڑا۔
ڈاکٹر صاحب قحط الرجال کے اس دور میں علما وطلبا اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھنے والے طبقے کے لیے فکری اثاثہ تھے۔شفیق رہبر اور ہمہ وقت دستیاب ایک انمول خزانہ تھے۔ ان کی اچانک جدائی پر ان کے صاحبزادگان نعیم الرحمن صدیقی‘ انیس الرحمن صدیقی‘ رضاء الرحمن صدیقی‘ رضی الرحمن صدیقی اور دیگر اہل خانہ ہی نہیں بلکہ ہزاروں شاگرد اور عقیدت مند سوگوار ہیں۔ ہزاروں طلبا وعلما کو اس بات پر فخر ہے کہ انہوں نے مولانا ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی جیسے عظیم استاذ کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کیے ہیں۔

مہتمم جامعہ نصرۃ العلوم کا الشریعہ اکادمی کی لائبریری کیلئے گرانقدر عطیہ

ادارہ

گزشتہ دنوں مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے مہتمم جناب مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی نے مفسر قرآن حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی رحمۃ اللہ علیہ کے ایصال ثواب کے لیے ان کے ذاتی ذخیرۂ کتب سے حضرت صوفی صاحب کے زیر مطالعہ رہنے والی عربی، اردو اور انگریزی کتب کا ایک گراں قدر عطیہ الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کی لائبریری کے لیے عنایت فرمایا جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:

  • ترجمہ ’’معجز نما حمائل شریف‘‘
  • فارسی ترجمہ قرآن شاہ ولی اللہؒ (۳ مختلف نسخے)
  • ترجمہ قرآن شاہ عبد القادرؒ 
  • ترجمہ قرآن ڈپٹی نذیر احمدؒ 
  • ترجمہ قرآن مولانا فتح محمد
  • انوار التبیان (قاضی شمس الدینؒ )
  • تفسیر جمل (۴  جلدیں)
  • مسوی/مصفی شرح موطا (۲ جلدیں)
  • تفسیر الکشاف (۴  جلدیں)
  • بیان القرآن کلاں (۴ جلدیں)
  • تفسیر حقانی کلاں (۳  جلدیں)
  • احکام القرآن للجصاص (۳ جلدیں)
  • انگریزی ترجمہ قرآن محمد اسدؒ  
  • انگریزی ترجمہ قرآن پکتھال
  • انگریزی ترجمہ قرآن عبد اللہ یوسف علیؒ 
  • انگریزی ترجمہ قرآن عبد الحمید صدیقی ؒ (۱۱؍ اجزا)
  • البیان والتبیین للجاحظ (۳ جلدیں)
  • مجمع الامثال للمیدانی (۲ جلدیں)
  • الشوقیات (۴  حصے)
  • کتاب الامالی لابی علی القالی (۳ جلدیں)
  • کتاب سیبویہ مع شرح السیرافی (۴  جلدیں)
  • ازالۃ الخفاء فی خلافۃ الخلفاء
  • ادب الکاتب لابن قتیبہ
  • مثنوی مع شرح بحر العلوم (۳ جلدیں)
  • مثنوی مولانا روم (۲  جلدیں)
  • فتح الملہم شرح صحیح مسلم (۳ جلدیں)
  • تفسیر حسینی (۲  جلدیں)
  • تفسیر ماجدی (۳ جلدیں)
  • کیمیائے سعادت 
  • بیاض کبیر
  • کتاب الادویہ
  • التبیان فی علوم القرآن للصابونی
  • مختار الصحاح 
  • المنجد فی الادب والعلوم
  • احسن الکلام (قدیم اشاعت)
  • رسالہ تراویح 
  • عمدۃ الاثاث
  • ازالۃ الریب
  • آنکھوں کی ٹھنڈک
  • مباحث کتاب الایمان صحیح مسلم
  • النجم السعد فی مباحث اما بعد
  • کلام مقدس (کیتھولک) اردو
  • ابطال التندید
  • تحقیق الحق (پیر مہر علی شاہؒ صاحب گولڑوی)
  • سیر الاولیاء
  • بہجۃ الدعوۃ والتبلیغ
  • نخبۃ اللآلی شرح بدء الامالی
  • شرح بوستان
  • فتح اللہ بخصائص اسم اللہ
  • المنتخبات من المکتوبات
  • فتاویٰ عزیزی (فارسی)
  • کشف المحجوب (فارسی)
  • سیف چشتیائی (پیر مہر علی شاہؒ صاحب گولڑوی)
  • جواہر التوحید
  • مرآۃ العاشقین
  • الطاف القدس
  • الفتح الرحمانی
  • دیوان الحماسہ
  • اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ (۴ جلدیں)
  • السراج المنیر شرح الجامع الصغیر (۳ جلدیں)
  • مثنوی معنوی مولانا روم (۶ جلدیں)
  • Dictionary of the Jewish Religion
  • The Talmudic Anthology
  • Learn Talmud
  • Holy Bible - King James Version

اکادمی کی مجلس منتظمہ اس گراں قدر عطیے پر اظہار تشکر کے ساتھ دعاگو ہے کہ ان بلند پایہ علمی کتابوں سے علما وطلبہ کا استفادہ حضرت صوفی صاحبؒ اور ان کے اہل خانہ کے لیے صدقہ جاریہ اور رفع درجات کا ذریعہ ثابت ہو۔ آمین

سادہ خوراک اور انسانی صحت

حکیم محمد عمران مغل

ہر ذی روح کی بقا کے لیے جو چیز سب سے زیادہ ضروری ہے، وہ ہے تازہ ہوا اور بے رنگ، بے بو ، بے ذائقہ پانی۔ یہ دونوں نعمتیں ہر ایک کی دسترس میں دے دی گئی ہیں۔ جب جی چاہے، بغیر مشقت اور اخراجات کے ان سے فائدہ اٹھائیے۔ دیگر اشیا تقریباً سب ضمنی ہیں جن کے تصرف میں دن رات اضافہ کیا جا رہا ہے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بھوک یہ ہے کہ پانی میں نمک گھول کر اس سے جتنی روٹی کھائی جا سکے، بس۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ جس آدمی کی آمدن جتنی زیادہ ہے، اس کا دستر خوان بھی اتنا ہی وسیع ہے جو بالآخر اسے وقت سے پہلے قبرستان پہنچا دیتا ہے۔ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مجھے اپنی امت کی غربت کا اتنا ڈر نہیں ہے جتنا اس کی امارت کا ہے۔ آج معاشرے میں پھیلی ہوئی ہر گمراہی اور برائی کے پیچھے امارت ہی ہے۔ مشروبات ہوں یا خوراک یا بود وباش،تاحد نگاہ ان کی وسعت پھیلتی جا رہی ہے اور خوب سے خوب تر کی تلاش میں نہ ختم ہونے والا سفر شروع ہو چکا ہے۔ 
کچھ عرصہ پہلے پاکستان کے بعض علاقوں کے متعلق یہ مشاہدہ کیا گیا کہ انتہائی غریب ہونے کے باوجود وہ نہایت صحت مند زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اسباب معلوم کرنے کے لیے ان علاقوں میں ماہرین بھیجے گئے جنھوں نے وہاں کے لوگوں خوراک اور بود وباش کا مشاہدہ کرنا شروع کیا۔ آخر میں رپورٹ تیار کی گئی تو اس میں بتایا گیا کہ یہ لوگ سخت سردی میں ضروری حفاظت کے باوجود ٹھٹھرتے رہتے ہیں، لیکن دہی اور باسی لسی سے کھانا کھاتے ہیں۔ دہی کے بغیر انھیں کوئی غذا مرغوب نہیں، جبکہ باہر شدت سے برف باری جاری تھی۔ محترم ولی خان مرحوم کے والد باچا خان مرحوم کی خوراک میں ساری زندگی دہی شامل رہا۔ دہی کے استعمال سے نہ صرف عمر بڑھتی ہے بلکہ آج کے دور کی بدترین اور جان لیوا بیماری بلڈ پریشر سے بھی جان چھوٹ جاتی ہے۔ جب تک معاشرہ چاٹی کی لسی استعمال کرتا رہا، یہ امراض دبے رہے۔ 
موجودہ صدی کی بین الاقوامی شخصیت حکیم محمد سعید شہید رحمۃ اللہ علیہ جب طب اسلامی کے ترجمان کے طور پر اقوام متحدہ کی کسی کانفرنس میں تشریف لے گئے تو مہمانوں کوچائے پیش کی گئی۔ حکیم صاحب نے فرمایا کہ میں تو آج تک چائے کے ذائقے سے ہی ناآشنا ہوں۔ اس کے برعکس اپنے معاشرے کا حال دیکھیں، صبح سویرے آب حیات کی طرح اس کے جام کے جام لنڈھائے جاتے ہیں۔ یہ نشے کی طرح معاشرے کو اپنی گرفت میں لے چکا ہے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ ایک خاص غذا کی جگہ آپ کو کوئی دوسری غذا دی جائے اور آپ کھانے سے انکار کر دیں تو یہ بھی نشہ ہے۔ 
الغرض اسلام سادہ مذہب ہے، ہمیں سادگی کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے ترازو میں ہمارا معاشرہ تولا جائے تو اکثریت کسی نہ کسی نشے میں گرفتار نظر آتی ہے جس سے قوت مدافعت ختم ہوتی جا رہی ہے اور معاشرہ طرح طرح کے امراض میں جکڑا جا رہا ہے۔ سادگی کے فوائد پر مزید گفتگو ان شاء اللہ آئندہ نشستوں میں پیش کروں گا۔

مارچ ۲۰۱۲ء

ابتدائیہ ’’جہاد۔کلاسیکی وعصری تناظر میں‘‘محمد عمار خان ناصر
اسلام کا تصور جہاد ۔ چند توضیحاتمولانا محمد یحیی نعمانی
جہاد ۔ ایک مطالعہمحمد عمار خان ناصر
’’پر امن طریق کار‘‘ بمقابلہ ’’پر تشدد طریق کار‘‘محمد رشید
حکمرانوں کی تکفیر اور خروج کی بحثمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
معاصر مسلم ریاستوں کے خلاف خروج کا مسئلہ (پہلی مجلس مذاکرہ)ادارہ
معاصر مسلم ریاستوں کے خلاف خروج کا مسئلہ (دوسری مجلس مذاکرہ)ادارہ
معاصر مسلم ریاستوں کے خلاف خروج کا مسئلہ (تیسری مجلس مذاکرہ)ادارہ
پاکستان ایک غیر اسلامی ریاست ہےالشیخ ایمن الظواہری
عصر حاضر میں خروج کا جواز اور شبہات کا جائزہمحمد زاہد صدیق مغل
غلط نظام میں شرکت کی بنا پر تکفیر کا مسئلہ ۔ خطے کے موجودہ حالات کے تناظر میںمولانا مفتی محمد زاہد
تکفیر اور خروج : دستورِ پاکستان کے تناظر میںمحمد مشتاق احمد
کیا دستور پاکستان ایک ’کفریہ‘ دستور ہے؟ ایمن الظواہری کے موقف کا تنقیدی جائزہمحمد عمار خان ناصر
پروفیسر مشتاق احمد کا مکتوب گرامیمحمد مشتاق احمد
خروج ۔ کلاسیکل اور معاصر موقف کا تجزیہ، فکر اقبال کے تناظر میںمحمد عمار خان ناصر
تعارف و تبصرہادارہ

ابتدائیہ ’’جہاد۔کلاسیکی وعصری تناظر میں‘‘

محمد عمار خان ناصر

’’جہاد۔کلاسیکی وعصری تناظر میں‘‘ کے زیر عنوان ’الشریعہ‘ کی اشاعت خاص قارئین کے ہاتھوں میں ہے۔ اسلام کے تصور جہاد کے مختلف نظری اور عملی پہلو اس وقت علمی حلقوں میں زیر بحث ہیں جن میں تین پہلو بہت نمایاں اور اہم ہیں:
۱۔ اسلام میں جہاد کا اصولی تصور اور اس کی وجہ جواز کیا ہے اور عہد نبوی وعہد صحابہ میں مسلمانوں نے جو جنگیں لڑیں، ان کی حقیقی نوعیت کیا تھی؟ اسی پر یہ بحث متفرع ہوتی ہے کہ بعد کے ادوار میں امت مسلمہ کے لیے دنیا کی غیر مسلم قوموں کے ساتھ باہمی تعلقات کی اساس کیا ہے؟ آیا اسلام کی نظر میں عالمگیر سیاسی غلبے کو مقصود کی حیثیت حاصل ہے یا دوسری قوموں کی سیاسی خود مختاری کو تسلیم کرتے ہوئے پرامن بقائے باہم شریعت کا اصل مطمح نظر ہے؟
۲۔ جہاد اور قتال کی عملی شرائط اور اخلاقی حدود وقیود کیا ہیں؟ مثال کے طو رپر کیا مسلمانوں کا کوئی بھی گروہ اپنے تئیں جہاد کا فیصلہ کر سکتا ہے یا یہ فیصلہ مسلم معاشرے کی اجتماعی دانش اور ارباب حل وعقد کو کرنا چاہیے؟ مظلوم مسلمانوں کی مدد اور نصرت کے تناظر میں بین الاقوامی معاہدوں کی کیا حیثیت ہے اور ان کی پاس داری کس حد تک کی جائے گی؟ کیا جنگ میں دشمن کے کیمپ سے تعلق رکھنے والے ہر شخص کو حملے کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے یا اس حوالے سے کوئی تفریق اور امتیاز قائم کیا جائے گا؟ وغیرہ۔
۳۔ موجودہ مسلم ریاستوں کی شرعی وقانونی حیثیت کیا ہے اور ان ریاستوں میں قائم نظام اطاعت کی پابندی کس حد تک ضروری ہے؟ بالخصوص یہ کہ مسلم ریاستوں کا موجودہ سیاسی نظام اگر شریعت کی بالادستی کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہو رہا ہو اور پرامن ذرائع سے اس میں خاطر خواہ تبدیلی کے امکانات بظاہر دکھائی نہ دیتے ہوں تو اس صورت حال میں مسلح جدوجہد کے ذریعے سے ریاستی نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش کا کس حد تک جواز، امکان اور ضرورت ہے؟
ان موضوعات پر ’الشریعہ‘ کے صفحات پر پہلے بھی بحث ومباحثہ ہوتا رہا ہے اور آئندہ بھی شاید کافی عرصے تک اس کو جاری رکھنے کی ضرورت محسوس کی جاتی رہے گی، تاہم زیر نظر اشاعت کی صورت میں ہم نے مذکورہ نکات میں سے پہلے اور تیسرے نکتے پر بطور خاص توجہ مرکوز کی ہے اور ایسا مواد منتخب کیا ہے جس سے بحث کے بنیادی سوالات اور اہم ترین گوشے بیک نظر قارئین کے سامنے آ سکیں گے۔ 
خصوصی اشاعت کی ترتیب کے سلسلے میں وہ تمام اہل قلم ہمارے اور قارئین کے شکریے کے مستحق ہیں جنھوں نے اس کے لیے اپنی قیمتی نگارشات فراہم کیں۔ اس ضمن میں بھارت کے ممتاز محقق جناب مولانا محمد یحییٰ نعمانی (مدیر المعہد العالی للدراسات الاسلامیہ لکھنؤ) اور پاکستان مرکز برائے مطالعات امن (PIPS) اسلام آباد کے منتظمین کا شکریہ بطور خاص واجب ہے۔ اول الذکر نے اس موضوع پر اپنی تحریر کا مسودہ اور اس کی اشاعت کی اجازت عنایت کی جو اگرچہ بھارت سے کتابی صورت میں شائع ہو چکی ہے، لیکن پاکستان میں سردست دستیاب نہیں ہے۔ زیر نظر اشاعت میں اس کے منتخب حصے شامل کیے جا رہے ہیں۔ موخر الذکر نے تکفیر اور خروج جیسے اہم موضوع پر اپنے ادارے کے زیر اہتمام منعقد کی جانے والی مجالس مذاکرہ کی روداد اور دیگر مقالات زیرنظر شمارے میں شائع کرنے کی فراخ دلی سے اجازت دی تاکہ ان مجالس میں زیربحث آنے والے نکات وسیع پیمانے پر اہل نظر کے غور وفکر کا موضوع بن سکیں۔
امید ہے کہ ’الشریعہ‘ کی یہ اشاعت خاص عصر حاضر کے ایک نہایت اہم اور حساس موضوع کے بہت سے علمی وعملی گوشوں کو واضح کرنے اور اس ضمن میں بحث ومباحثہ کے عمل کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہو گی۔ ان شاء اللہ
محمد عمار خان ناصر
۲۶ فروری ۲۰۱۲ء

اسلام کا تصور جہاد ۔ چند توضیحات

مولانا محمد یحیی نعمانی

محاربہ علت القتال ہے نہ کہ کفر یا شوکت کفر

اصولی طور پر سوال یہ ہے کہ کیا ظلم وجارحیت اور ’’فتنہ‘‘ یعنی مذہبی جبر کے خاتمہ کے علاوہ ’’کفر‘‘ علۃ القتال ہوسکتا ہے؟ یا اگر کفر نہیں تو کیا صرف غیر مسلم حکومت کے وجود کو جنگ کے لئے کافی جواز اور سبب قرار دیا جاسکتا ہے؟
ہمارے محدود مطالعے کی حد تک قدیم علمی وفقہی سرمایے میں اس طرح اصولی سوال قائم کرکے مسئلہ پر گفتگو نہیں کی گئی ہے۔لیکن اجمالی طور پر نصوص سے استنباط کرکے لوگوں نے تین رائیں قائم کی ہیں۔
۱) جنگ کا سبب علت القتال کفر ہے۔ اس کی دلیل یہ آیت ہے: ’’وقاتلوہم حتیٰ لا تکون فتنۃ ویکون الدین کلہ للّٰہ‘‘ (سورۂ انفال: ۳۹)۔ ’’ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ ’’فتنہ‘‘ نہ بچے اور دین سب کا سب اللہ کے لیے خالص ہوجائے۔‘‘ واضح رہے کہ ہماری کتب تفسیر میں فتنہ کی تفسیر شرک سے بھی کیے جانے کی روایت موجود ہے۔ اور ویکون الدین للّٰہ تو ظاہر ہے ہی۔
۲) جنگ کا سبب یعنی علت القتال کفر نہیں ہے بلکہ کفر کی حکومت ہے۔ اس رائے کے حاملین کی اصل دلیل مندرجہ بالا آیت ہی ہے، یہ حضرات اس میں دین کو اطاعت اور قانون کے معنی میں لیتے ہیں۔ لہٰذا ان حضرات کے نزدیک اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان غیر مسلموں سے اس مقصد کے تحت جنگ کریں تاکہ ان کے اوپر اللہ کا قانون نافذ ہو جائے۔
۳) علت القتا ل دفاع ہے، یہ حضرات قرآن کی آیت: وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم (اور اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جنگ کرو جو خود تم سے جنگ کر رہے ہیں) سے استدلال کرتے ہیں۔
ہمارے نزدیک یہ تینوں ہی موقف اشکالات سے خالی نہیں ہیں۔ البتہ یہ بات یقینی طور پر سامنے آتی ہے کہ سلف وخلف کے یہاں بڑی حد تک عام تصور یہی ہے کہ مسلمانوں کی حکومت غیر مسلموں سے صلح صرف مجبوری کی حالت میں (یعنی مقابلہ سے عاجزی ، یا ایسی صورت میں جب کہ مسلمانوں کی مصلحت کا تقاضا ہو تو) ہی کرسکتی ہے۔ مثلاً فقہ حنفی کی اہم کتاب ’’بدائع الصنائع‘‘ میں ہے کہ صلح کے جائز ہونے کی شرط ضرورت ہے، یعنی یہ کہ مسلمان اس لئے صلح کریں کہ جنگ کی تیاری کریں گے، اور یہ ایسی صورت میں ہی ہوسکتا ہے کہ مسلمان کمزور ہوں اور کفار کو قوت حاصل ہو، لہٰذا بغیر اضطرار کے صلح جائز نہیں ہوگی۔ اس لئے کہ صلح کا نتیجہ فریضۂ جنگ کا ترک ہے۔ اس لئے یہ اس وقت ہی جائز ہوگی جب یہ جنگ کے وسیلہ کے طور پر ہو، اس لئے کہ ایسی صورت میں صلح درحقیقت جنگ ہی مانی جائے گی کہ وہ جنگ کی تیاری کے لئے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فلا تھنوا وتدعوا إلی السلم وأنتم الأعلون واللہ معکم (یعنی کمزوری مت دکھاؤ کہ صلح کی دہائی دینے لگو، اور تم ہی برتر ہوگے اور اللہ تمہارے ساتھ ہے) ہاں مجبوری میں کوئی حرج نہیں، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے : وإن جنحوا للسلم فاجنح لھا وتوکل علی اللہ‘‘ یعنی، اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کی طرف مائل ہوجانا ، اور اللہ پر بھروسہ کرنا۔ (بدائع الصنائع:۶/۷۶، نیز ملاحظہ ہو: الأم ، باب المہادنۃ ، شرح السیر الکبیر ، باب الموادعۃ)
بعض فقہاء نے صلح کے جواز کے لئے اضطرار اور مجبوری کی سخت شرط نہ لگاتے ہوئے ذرا نرم لفظ مصلحت یا مسلمانوں کے مفاد کا خیال (النظر للمسلمین) جیسے الفاط استعمال کیے ہیں۔ (ملاحظہ ہو: الأم للشافعی، کتاب الجہاد ، باب المہادنۃ علی النظر للمسلمین، شرح السیر الکبیر للسرخسی)
صرف اتنا ہی نہیں بلکہ علماء نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ :
فإذا لم یکن في الموادعۃ مصلحۃ فلا یجوز بالإجماع (شرح فتح القدیر، کتاب السیر، باب الموادعۃ)
’’اگر صلح میں مسلمانوں کی مصلحت نہ ہو تو بالاجماع ناجائز ہے۔‘‘
تقریبا تمام ہی مسالک کی کتابوں میں اس قسم کی تصریحات ملتی ہیں۔ بلکہ یہ مزید وضاحت بھی فقہاء کرتے ہیں کہ اگر دوسرے ملک صلح کی پیشکش بھی کرے تو حاکم دیکھے گا اگر مسلمانوں کی مصلحت ہوگی تو قبول کرسکتا ہے اور اگر مسلمانوں کا فائدہ نہ ہو تو قبول نہیں کرے گا۔ (الأم: باب مہادنۃ من یقوی علی قتالہ ، المبسوط باب صلح الملوک والموادعۃ)
بہرحال اس سے یہ بات طے ہوجاتی ہے کہ عموما علماء وفقہاء کے نزدیک قتال کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ مخالف کی طرف سے جارحیت وظلم یا مذہبی جبر (جسے قرآن نے فتنہ کہا ہے) پایا جائے۔ بلکہ مقدور ہو اور کوئی نقصان یا مضرت نہ ہو تو ہر غیر مسلم حکومت سے جنگ ہی کی جائے گی۔
اب اس پر سوال یہ قائم ہوتا ہے کہ جنگ جو اصلاً خونریزی ہے اور قرآن اس کو شر ہی کہتا ہے، کہیں اس کو ’’البأساء‘‘ (خرابی) کا نام دیتا ہے اور کہیں اس کو شر مانتے ہوئے بڑے شر یعنی ظالمانہ مذہبی جبر کے لئے ایک ناگزیر اقدام بتاتا ہے، ایسی صورت میں اس جنگ کا سبب اور علت کیا ہے؟ کیا صرف کفر ہے؟ یا کفر تو نہیں بلکہ ’’شوکت کفر‘‘ یا غیر اسلامی حکومت ہے؟
اگرچہ فقہاء امت کی تصریحات کے تجزیے سے یہ بات تو غلط ہی ثابت ہوتی ہے کہ ان کے نزدیک قتال کی علت کفر ہے۔ لیکن اس کے باوجود علماء کے یہاں استثنائی طور پر اس قسم کی عبارتیں ملتی ہیں کہ قتال کی علت کفر ہے۔ مثلاً امام قرطبی سورۂ بقرہ کی آیت ۱۹۳: وقاتلوھم حتی لا تکون فتنۃ ویکون الدین للہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’یہ مطلقا قتال کا حکم ہے۔ اس میں کفار کے حملہ میں ابتدا کرنے کی شرط نہیں ہے۔ اس کی دلیل ویکون الدین للہ (یہاں تک کہ دین اللہ کے لئے خالص ہوجائے) ہے، اور یہ حدیث بھی کہ ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ ’’لا إلہ إلا اللہ‘‘پڑھ لیں‘‘۔ اس آیت اور حدیث میں اس کی دلیل ہے کہ قتال کا سبب کفر ہے۔‘‘ (الجامع لاحکام القرآن، تفسیر آیت مذکورہ)
البتہ یہ اصول جمہور علماء وفقہاء کے قول سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس لئے کہ ان کے نزدیک اگر غیر مسلم اپنے کفر پر باقی رہتے ہوئے مسلم حکومت کے تابع ہوکر جزیہ کی ادائیگی پر صلح کرلیں تو یہ معاہدہ قبول کرنا لازم ہوگا۔ اس کا واضح مطلب یہ ہوتا ہے کہ اسلامی نقطۂ نظر سے ’’کفر‘‘ بطور ایک نظریہ ومذہب دنیا میں قابل برداشت چیز ہے، اور اس کا خاتمہ جنگ کی غایت نہیں۔ اگر قتال کی علت کفر ہوتی تو اس وقت تک جنگ جاری رہنی چاہئے جب تک تمام کفار مسلمان نہ ہوجائیں، اور یہ جائز نہ ہو تا کہ جزیہ پر صلح کر لی جائے۔ یہاں تک کہ ہتھیار ڈالنے والوں کے لئے بھی بس دو ہی راہیں ہوتیں: یا اسلام قبول کریں یا قتل کیے جائیں۔ اس طرح یہ نظریہ قرآن کے بیان کردہ بنیادی اصول لا إکراہ في الدین (دین میں کوئی زبردستی نہیں)کے صریح منافی قرار پاتاہے۔ لہٰذا اگر یہ کہا جائے کہ نفس کفر جنگ کا سبب یا علت قتال ہے تو کفر تو جنگ کے خاتمے کے بعد بھی باقی رہتا ہے، اس کا خاتمہ تو جنگ کے بعد بھی نہیں ہوتا۔
اس تجزیاتی غور وفکر کے بعد متقدمین فقہاء وعلماء کے نقطۂ نظر کے اصول کے طور پرہمارے سامنے دوسرا یہ نظریہ آتا ہے کہ قتال کی اصل علت اور سبب شوکت کفر یا غیر مسلم حکومت کا وجود ہے۔ اس نظریے کی رو سے کفر جنگ کا سبب نہیں ہے۔ غیر مسلم بطور مسلم ریاست کے شہری (ذمی) کے اپنے کفر پرباقی رہ سکتے ہیں ہاں اگر مسلمانوں کو قدرت ہوگی تو وہ جنگ کرکے غیر مسلموں کی حکومت کو بے دخل کرکے عوام پر اسلام اور مسلمانوں کی حکومت ضرور قائم کریں گے۔
(ہم آگے اس موقف کی مدلل حمایت کرکے اپنا یہ نقطۂ نظر ظاہر کریں گے کہ یہ (اپنے زمانے اور ماحول میں) ایک بالکل برحق اور منصفانہ موقف تھا)۔
مگر یہاں سوال یہ قائم ہوتا ہے کہ کسی غیر مسلم قوم کو کس جواز کی بنا پر اپنے اس حق سے محروم کیا جارہا ہے کہ وہ اپنے اوپر اپنے لوگوں کی اور اپنے پسندیدہ اصولوں اور نظریات کے مطابق حکومت قائم کرے؟ اس سوال کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ عام انسانی اخلاقی حس کے مطابق یہ موقف ایک اشکال کا باعث بنتا ہے کہ مسلم ریاست صلح صرف اپنی مصلحت اور ضرورت کے تحت ہی کر سکتی ہے قدرت وطاقت ہو تو اس کو ہر مملکت سے جنگ ہی کرنی ہے چاہے وہ کیسی ہی بے ضرر اور صلح جو ہی کیوں نہ ہو۔

مولانا مودودی کا نظریہ:

اب سے دو صدیوں پہلے جب مغرب کی فوجی یورش کے ساتھ ساتھ مسلمان اور اسلامی عقائد و احکام بھی فکری یلغار کا نشانہ بنے تو جو دلیر اسلام کے دفاع کے لیے سب سے پہلے کھل کر سامنے آئے ان میں شبلیؒ ومودودی ؒ کا نام نمایاں ہے۔ مؤخر الذکر کی کتاب الجہاد فی الاسلام اپنی شہرت اور اپنے پر اعتماد اندازکے اعتبار سے ممتاز ہے اور مصنف کی محنت اور مآخذکی کثرت کی شاہد بھی۔ مگر کتاب میں آبشار کاجوش اور فکر وخیال کی روانی تو ہے مگر فاضل مصنف کی عمر اس وقت تیس بھی نہیں تھی اور اس کو کتاب ہفتہ وار اخبار(الجمعیۃ) کی متواتر قسطوں میں پیش کر نی تھی، اس لیے اس کے پاس غور وتدبر کے لیے وقت بھی کم تھا۔ 
موصوف کے سامنے جب یہ سوال آیا کہ ایک طرف تو قرآن مذہب کے معاملے میں جبر واکراہ کی کھلی نفی کرتا ہے، تو پھر اس کی کیا توجیہ کی جائے کہ صدیوں پر مشتمل اسلامی فکر کا حاصل یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو مسلمان ریاست جنگ ہی کرے گی، صلح صرف مصلحۃً ہی کی جائے گی۔ موصوف کی عبقری ذہانت نے اس کا جو حل دریافت کیا، وہ بہت سے لوگوں کے لیے اسلامی فلسفہ بن چکا ہے۔ مولانا مرحوم کی بحث کا حاصل یہ ہے کہ اسلام انفرادی طور پر ہر فرد بشر کو مذہبی آزادی تو دیتا ہے، لیکن وہ اسلام کے مخالف عقیدہ وفکر کو حکومتی طاقت اور شوکت رکھنے کی اجازت نہیں دیتا، اس لیے کہ (ان کے بیان کے مطابق) قرآن میں جن چیزوں کو فتنہ اور فساد کہا گیا اور جن کے خاتمے کو جہاد وقتال کا مقصد اور غرض وغایت بتلایا گیا ہے وہ ’’سب کی سب ایک ناحق شناس، ناخداترس اور بد اصل نظام حکومت سے پیدا ہوتی ہیں‘‘۔ (الجہاد فی الإسلام ص: ۱۱۷)
عالم عرب میں مولانا کے ایک خاص خوشہ چیں انقلابی مفکر سید قطبؒ ہوئے، جو اپنے انقلابی فکر اور جوش تحریر میں مولانا مودویؒ سے کہیں آگے تھے۔مصر میں ناصر کے آمرانہ استبداد کے زمانے میں جب عموماً اسلام پسند حکومت کی مغرب پرستی سے سخت نالاں تھے اور دین دشمن حکومت کی مخالفت کی پاداش میں اخوان المسلمین پرسخت مظالم کا سلسلہ جاری تھا، سید قطب کا شعلہ بار قلم (جس کے جوش وزور کی کوئی نظیرمعاصر عربی ادب میں نہیں پائی جاتی) اسلامی انقلاب کی ندا لگا رہا تھا۔سید قطب نے مولانا مودودی کے دیگر تحریکی نظریات کی طرح اس فلسفے کو بھی اخذ کیا اور اپنی تفسیر میں اور (دیگر تصنیفات میں بھی) مولانا مودودی سے کہیں زیادہ قوت اور تفصیل وتکرار سے بیان کیا ۔ یہاں تک کہ یہ ایک حد تک مقبول نظریہ بن گیا۔ 
مولانا نے بھی فقہاء کی بیان کردہ تفصیلات کا خلاصہ اور حاصل یہی اخذ کیا کہ مسلمانوں کے لئے یہ بات شرعی فریضہ کا درجہ رکھتی ہے کہ اگر حالات اجازت دیں تو وہ ہر غیر مسلم قوم سے حکومت چھین لیں اور ان پر مسلمانوں کی (بلکہ مولانا کے الفاظ میں اللہ کے صالح بندوں کی) حکومت قائم کریں۔
یہ کم علم اپنی کم علمی کے احساس کے باوجود پورے یقین کے ساتھ عرض کرتا ہے کہ اس موقف کی کیسی ہی مؤثر ترجمانی کی جائے مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ (کم سے کم اس زمانے میں) یہ اشکال کا باعث ہے۔ اگر کوئی حکومت نہ اپنے عوام پر کسی سخت ظلم کی مرتکب ہے اور نہ دوسری قوموں پر کسی جارحیت کی مجرم، ساتھ ہی وہ اپنے یہاں بسنے والے مسلمانوں کو اللہ کے دین پر چلنے کی مکمل اجازت دیتی ہے، اور اللہ کے دین کی دعوت کے سامنے رکاوٹ بھی نہیں بنتی اور مسلمانوں کی حکومت کی طرف صلح وآشتی کا ہاتھ بھی بڑھاتی ہے تو کس اخلاقی جواز کے تحت اس حکومت پر جنگ تھوپی جاسکتی ہے۔ اور کیسے کسی قوم کو اس حق سے محروم رکھا جاسکتا ہے کہ اس کا سیاسی نظام اس کے اپنے لوگوں کے ہاتھ میں ہو۔ کسی قوم سے خود مختاری سلب کرلینا انسانی عرف میں یقیناً ظلم ہے۔
مولانا مودودیؒ اس اشکال کو محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکے انہوں نے وکیل کی حیثیت سے اپنے موقف کے دفاع میں یہ نظریہ پیش کیا کہ قرآن نے فتنہ کے خاتمہ کو قتال کا مقصد کہا ہے۔ اب ایک نظر ڈالی جائے کہ قرآن میں کن کن برائیوں کو ’’فتنہ‘‘ یا ’’فساد‘‘ کہا گیا ہے۔ ان برائیوں اور خرابیوں کو گنانے کے بعد مولانا فرماتے ہیں:
’’اب اگر ان تمام برائیوں پر ایک غائر نظر ڈالی جائے جن کو فتنہ وفساد سے تعبیر کیا گیا ہے تو اس سے یہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ وہ سب کی سب ایک ناحق شناس، ناخدا ترس، اور بداصل نظام حکومت سے پیدا ہوتی ہیں۔ اگر کسی برائی کی پیدائش میں ایسی حکومت کا براہ راست کوئی اثر نہیں ہوتا تو کم از کم اس کا باقی رہنا اور اصلاح کے اثر سے محفوظ ہونا تو یقیناً اسی حکومت کے باطل پرور اثرات کا رہین منت ہوتا ہے‘‘۔ (الجہاد فی الاسلام، ص۱۱۷)
اسی وجہ سے مولانا کے بقول اسلام نے بدی کے خاتمے کے لئے حکم دیا کہ ایک منظم جد وجہد (جہاد) کے ذریعہ اور اگر ضرورت پڑے اور ممکن ہو تو جنگ کر کے ایسی تمام حکومتوں کو مٹا دیا جائے۔اور اسکی جگہ وہ عادلانہ نظام حکومت قائم کیا جائے جوخداکے خوف اور اور اسی کے نازل کردہ ضابطوں پر مبنی ہو اور جو انسانوں کے مفاد کی خدمت کرے۔ (الجہاد فی الاسلام، ص۱۱۷، ۱۱۸ باختصار)

اس نظریہ کے خلاف تین طاقت ور دلائل:

اول۔ اس نظریہ کے خلاف سب سے پہلے جو چیز جاتی ہے وہ یہ کہ اسلام کی ایک بنیادی تعلیم دین کے معاملے میں آزادی اور انصاف ہے۔ کسی قوم کو اپنی حکومت سے بے سبب محروم کرنا اور اس پر دوسری قوم کی حکومت قائم کرنا فطری طور پر انصاف کے خلاف نظر آتا ہے۔ اسلامی دعوت کے لئے ضروری ہے کہ اسلام اپنے زمانے میں سب سے برتر اور متوازن اخلاقی معیار پر قائم نظر آئے۔ اگر ایسا نہیں ثابت ہوتا تو اسلام کا اکیلے محفوظ ہدایتِ ربانی اور قانونِ الٰہی ہونے کا دعوی مشتبہ ہوجائے گا۔ لہٰذا علماء اسلام کا اہم ترین فریضہ قرار پاتا ہے کہ وہ ہر زمانے میں پوری بیدار مغزی سے اپنے زمانے کے حالات کا جائزہ لیں اور بلاخوف لومۃ لائم قرآن وسنت پر مبنی اسلامی قوانین کا اظہار کریں۔ اس میں ان کو نہ باطل کی یورش کا خوف ہو نہ کسی قسم کی بدنامی کا اور نہ اپنوں یا غیروں کی ملامت کا۔
دوم۔ دوسری جو چیز اسی نظریہ کے خلاف جاتی ہے، وہ یہ آیت قرآنی ہے: وإن جنحوا للسلم فاجنح لھا وتوکل، یعنی اگر یہ خدا اور مسلمانوں کے دشمن صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی صلح پر آمادہ ہو جانا۔
یہ آیت غزوۂ بدر کے بعد نازل ہوئی۔ اس سے صلح کا کس درجہ مطلوب ہونا معلوم ہوتا ہے اس کے لیے صرف اس کا سادہ سا مطلب جان لینا کافی نہیں ہے، بلکہ اس کے سیاق وسباق پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن کس درجہ اس کو اہمیت دیتا ہے کہ فریق مخالف اگر آمادۂ صلح ہو تو صلح کر ہی لی جائے، اس آیت میں غور سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا حکم مجبور وکمزور کی دبی کچلی صلح کا نہیں ہے، نہ اس میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ صلح میں ہمارا فائدہ ہے کہ نہیں۔یہ سورت انفال کی آیت ہے۔ اس سورت میں مسلمانوں کو مکہ کے مشرکین سے جنگ کے احکام دیے گئے اور ایک طویل سلسلۂ آیات میں مسلمانوں کے اندر قتال کے لئے جوش وحمیت پیدا کی گئی ہے۔ آیات پر غور کی نگاہ ڈالیں:
إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللّٰہِ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ فَہُمْ لاَ یُؤْمِنُونَ، الَّذِیْنَ عَاہَدتَّ مِنْہُمْ ثُمَّ یَنقُضُونَ عَہْدَہُمْ فِیْ کُلِّ مَرَّۃٍ وَہُمْ لاَ یَتَّقُونَ، فَإِمَّا تَثْقَفَنَّہُمْ فِیْ الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِہِم مَّنْ خَلْفَہُمْ لَعَلَّہُمْ یَذَّکَّرُونَ، وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِن قَوْمٍ خِیَانَۃً فَانبِذْ إِلَیْْہِمْ عَلَی سَوَاء إِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الخَاءِنِیْنَ، وَلاَ یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ سَبَقُواْ إِنَّہُمْ لاَ یُعْجِزُونَ، وَأَعِدُّوا لَہُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّۃٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَیْْلِ تُرْہِبُونَ بِہِ عَدْوَّ اللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ وَآخَرِیْنَ مِن دُونِہِمْ لاَ تَعْلَمُونَہُمُ اللّٰہُ یَعْلَمُہُمْ وَمَا تُنفِقُواْ مِن شَیْْءٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یُوَفَّ إِلَیْْکُمْ وَأَنتُمْ لاَ تُظْلَمُونَ، وَإِن جَنَحُواْ لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَہَا وَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ، وَإِن یُرِیْدُوا أَن یَخْدَعُوکَ فَإِنَّ حَسْبَکَ اللّٰہُ ہُوَ الَّذِیَ أَیَّدَکَ بِنَصْرِہِ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَ، وَأَلَّفَ بَیْْنَ قُلُوبِہِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِیْ الأَرْضِ جَمِیْعاً مَّا أَلَّفَتْ بَیْْنَ قُلُوبِہِمْ وَلَکِنَّ اللّٰہَ أَلَّفَ بَیْْنَہُمْ إِنَّہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ، یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰہُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ، یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِ إِن یَکُن مِّنکُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ یَغْلِبُواْ مِءَتَیْْنِ وَإِن یَکُن مِّنکُم مِّءَۃٌ یَغْلِبُواْ أَلْفاً مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا بِأَنَّہُمْ قَوْمٌ لاَّ یَفْقَہُونَ، الآنَ خَفَّفَ اللّٰہُ عَنکُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِیْکُمْ ضَعْفاً فَإِن یَکُن مِّنکُم مِّءَۃٌ صَابِرَۃٌ یَغْلِبُواْ مِءَتَیْْنِ وَإِن یَکُن مِّنکُمْ أَلْفٌ یَغْلِبُواْ أَلْفَیْْنِ بِإِذْنِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ مَعَ الصَّابِرِیْنَ (الانفال:۵۶۔۶۶)
یہی سلسلۂ بیان جب اپنے عروج پر یہاں پر پہنچا کہ:
’’اور ان دشمنانِ خدا کے مقابلے کے لئے جو ہو سکے وہ اسلحہ تیار کرو (اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرو۔) اور گھوڑے جنگ کے لئے تیار رکھو، جس سے تمہارا رعب اللہ کے دشمن اور تمہارے دشمن کے دل میں بیٹھے۔‘‘
اور اس کے بعد اس جہاد و قتال کی تیاری میں اپنا مال خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی۔ جہاد و قتال پر آمادہ کرتے ہوئے، اور جہاد وقتال کے لیے جوش دلانے والے اسی ولولہ خیز سلسلۂ کلام میں ارشاد ہوتا ہے کہ:
’’اگر یہ (خداومسلمانوں کے دشمن ، اپنی دشمنی کے باوجود ) مصالحت کی طرف جھکتے ہیں تو تم بھی اس کی طرف جھک جانا، اور اللہ پر بھروسہ رکھو ۔بے شک وہ (سب) سننے اور جاننے والا ہے۔ اگر ان کی نیت تم کو دھوکہ دینے کی ہوگی تو اللہ تمہارے لئے کافی ہے۔‘‘
کلام کے سیاق و سباق پر غور کیجئے۔ یہ موقعہ مسلمانوں کو مشرکین مکہ کے خلاف جنگ پر آمادہ کرنے اور ان میں اس کی تیاری کے لئے جوش و حمیت پیدا کرنے کا ہے۔ مگر اس موقعے پر بھی کہا جاتا ہے کہ دشمن اگر صلح پر آمادہ ہوتا ہے تو صلح کرنے کا حکم ہے۔کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہوسکتا تھا کہ دشمن صلح کے بہانے دھوکہ نہ دے دے۔ سو اس کی پیش بندی کے طور پر پہلے تو کہا کہ صلح کرنے میں توکل علی اللہ کا مظاہرہ کرو۔ پھر مزید صراحت کی کہ اگر ان کے دھوکہ دینے کا اندیشہ ہو تو جان لو کہ اللہ پر توکل ہی تمہارا سرمایہ ہے۔ یعنی اس سلسلے میں اندیشہائے دور دراز کا زیادہ خیال نہ کرو۔
ان آیات کے اس سیاق کی بنیاد پر ہم پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ صلح کی گنجائش صرف اس وقت ہے جب مسلمانوں کی پوزیشن اتنی کمزور ہو کہ وہ جنگ کرنے کے موقف میں نہ ہوں۔ جن آیات میں صلح کی پیشکش کو قبول کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، ان کا سیاق و سباق ببانگ دہل اعلان کر رہا ہے کہ اس وقت ایسی مجبوری کی صورت حال نہیں ہے۔ ان آیات میں مسلمانوں کو جنگ کرنے کا حکم پورے زور اور تاکید کے ساتھ دیا جا رہا ہے۔ انہی آیات میں جہاد پر ابھارنے والی وہ غیر معمولی آیات بھی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ:
’’اے نبی! تمہارے لیے اللہ اور تمہارا اتباع کرنے والے اہل ایمان کافی ہیں۔ اے نبی! مسلمانوں کو جہاد پر ابھاریے۔ اگر تم میں کے بیس جمنے والے ہوں گے تو ان کے دو سو پر غالب آجائیں گے۔ اور اگر تم میں کے سو ہوں گے تو ان کے ہزارپر غالب ہوں گے۔ اس لیے کہ وہ بے بصیرت قوم ہیں۔‘‘
خلاصہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں جنگ کا حکم دینے والی نہایت تاکیدی اور جوش آور آیات کے ساتھ یہ بات کہی گئی ہے کہ دشمن اگر صلح پر آمادہ ہو تو تم بھی آمادہ ہوجانا۔ اور زیادہ پس وپیش سے کام نہ لینا۔
مزید یہ بھی صاف ہے کہ یہ غزوۂ بدر کی عظیم الشان فتح کے فوراً بعد کا وقت ہے، تو جب ایسے موقع پر اور ایسے شدید دشمن سے صلح کے امکان پر صلح کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے تو یہ بات بالکل خلاف واقعہ ہو جاتی ہے کہ یہ صرف مجبوری کے وقت کی اجازت ہے اور استطاعت اور قدرت کے موقع پر یہ اجازت نہیں رہے گی۔ یہ بالکل غیر عملی بات ہے، اس لئے کہ اس وقت مجبوری کی صورتحال خارج از بحث تھی ۔ پھر مزید یہ کہ رسول اللہؐ نے مکہ کے لوگوں کے ساتھ جو صلح۸ ھ ؁ میں فرمائی تھی، کون کہہ سکتا ہے کہ اس وقت مکہ کے مشرکین سے جنگ کرنے کی استطاعت مسلمانوں میں نہیں تھی۔ مسلمان اس سے پہلے اہل مکہ سے کئی مرتبہ دو دو ہاتھ کر چکے تھے۔ اور اسی وقت حدیبیہ میں بھی صلح سے ذرا پہلے، جب ان کو یہ افواہ خبر بن کر پہونچی تھی کہ رسول اللہؐ کے سفیر حضرت عثمان بن عفانؓ کو مکہ میں قتل کر دیا گیا ہے،تو انہوں نے مرنے مارنے کی قسم کھائی تھی اور رسول اللہؐ کے ہاتھ پر آخری دم تک جنگ کرنے کی بیعت کی تھی۔ کیا پھر بھی یہ کہنے کی گنجائش ہے کہ یہ آیت اسوقت کی ہے جب مسلمان کمزور تھے اور جنگ کی قوت نہیں رکھتے تھے۔

کیا یہ آیت منسوخ ہو چکی ہے؟

سید قطب مرحوم نے بڑے شد ومد کے ساتھ ا س رائے کی تائید کی ہے کہ صلح کرلینے کا یہ حکم منسوخ ہوچکا ہے۔ ان حضرات کو جو اس آیت کو غیر منسوخ قرار دیتے ہیں سید قطب ان کو ’’المھزومون روحیا وعقلیا‘‘ (عقلی اور روحانی اعتبار سے شکست خوردہ) قرار دیتے ہیں، سادگی اور حماقت سے موصوف کرتے ہیں اور اسلام کے مزاج ومنہاج سے بے خبر بتاتے ہیں۔
حالانکہ سچی بات یہ ہے کہ اس آیت کو منسوخ قرار دینے کی کوئی دلیل نہیں ہے، مفسرین اور فقہاء کی ایک تعداد اگرچہ یہ کہتی ہے کہ سورۂ توبہ کی یہ آیت اس کی ناسخ ہے۔
فَإِذَا انسَلَخَ الأَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُواْ الْمُشْرِکِیْنَ حَیْْثُ وَجَدتُّمُوہُمْ وَخُذُوہُمْ وَاحْصُرُوہُمْ وَاقْعُدُواْ لَہُمْ کُلَّ مَرْصَد۔
’’اور جب اشہر حرم گذرجائیں تو جہاں پاؤ ان مشرکین کو قتل کرو ان کو پکڑو ، گھیرو، اور ہرجگہ ان کے (قتل کے لئے) گھات لگا کر بیٹھو۔‘‘
یقیناً سورۂ انفال کی وہ آیت جو دشمن کے آمادہ صلح ہونے پر صلح کا حکم دے رہی ہے وہ پہلے نازل ہوئی ہے اور سورۂ توبہ کی آیت بعد میں ، مگر دونوں میں تضاد ہے کہاں جو ناسخ منسوخ کا سوال ہو۔ جنگ کا حکم دینے والی سورت توبہ کی ان آیات کے سیاق وسباق پر ذرا غور کرنے سے قطعی طور پرواضح ہوجاتا ہے کہ یہ احکام مشرکین عرب (جو قریش کی قیادت میں ایک ملت اور سیاسی اتحاد کا درجہ رکھتے تھے) کے لئے نازل ہورہے تھے۔ آپ اول سورت سے آیت نمبر ۲۸ تک پڑھ جائیے قطعی طور پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ سورت عرب کے مشرکین سے متعلق ہی گفتگو کررہی ہے۔ یہ گفتگو جن مشرکین کے متعلق کی جارہی ہے دورانِ کلام ان کے جو حالات اور صفات بیان کی گئی ہیں اس سے کسی ذی شعور کے لئے شبہہ کی گنجائش نہیں رہتی کہ اس سلسلۂ کلام میں صرف مشرکین عرب مراد ہیں۔ مثلا کہیں کہا جارہا ہے کہ ’’ جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا‘‘ آیت نمبر (۱)، پھر آگے ان کی صفت یہ بھی بتائی جارہی ہے کہ:
أَلاَ تُقَاتِلُونَ قَوْماً نَّکَثُواْ أَیْْمَانَہُمْ وَہَمُّواْ بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَہُم بَدَؤُوکُمْ أَوَّلَ مَرَّۃٍ (التوبۃ: ۱۳)
’’کیا تم ان لوگوں سے جنگ نہیں کروگے جنہوں نے عہد توڑ ڈالا ، رسول کو دربدر کرنے کا ارادہ کیا اور انہوں نے ہی تمہارے خلاف جنگ چھیڑی ہے۔‘‘
ظاہر ہے معاہدہ مشرکین عرب سے ہی ہوا تھا۔ المشرکین سے مراد مشرکین عرب ہی ہیں اسی کو مزید مؤکد کرنے والی آیات آگے اور ہیں جن میں ا ن کے مسجد حرام (کعبہ) سے رشتہ کا ذکر کرکے کہا جارہا ہے کہ اب ان سے اس کی تولیت چھینے جانے کا وقت آگیا ہے۔ (۱۷۔۲۲)
پھر آیت نمبر (۳۶) نے تو کسی شبہہ کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی۔ ارشاد ہوتا ہے:
وَقَاتِلُواْ الْمُشْرِکِیْنَ کَآفَّۃً کَمَا یُقَاتِلُونَکُمْ کَآفَّۃً
’’تمام مشرکین سے جنگ کرو جیسا کہ وہ سب کے سب تم سے جنگ کررہے ہیں‘‘
سورت انفال میں پہلے انہی مشرکین کے بارے میں حکم دیا گیا تھا کہ ’’اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی مائل ہوجانا‘‘ مگر قرآن خود بتارہا ہے کہ اب ان سے صلح کا وقت نہیں رہا۔ اس حکم کی تبدیلی کا سبب ان کی لگاتار جارحیت ، ظلم وعدوان ، اور عہد شکنی کی تاریخ ہے، جیساکہ ابھی ذکر کی گئی آیتوں میں صراحت کے ساتھ موجود ہے۔ قرآن صاف کہہ رہا ہے کہ ان کے سینوں میں عداوت کی جہنم ہے، وہ کسی رشتہ وقرابت اور معاہدے تک کا لحاظ نہیں کررہے لہذا اب بس، ان کو تہِ تیغ کرو، یہاں قرآن ان کو ظلم واعتداء کا مرتکب بھی بتارہا ہے: لایرقبون فی مؤمن إلا ولا ذمۃ وأولئک ھم المعتدون۔ لہٰذا یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان کو ہر حال میں تہِ تیغ کرنے کا حکم کا سبب ان کا یہ اعتدا تھا۔
قرآن کی کسی آیت کو اس معنی میں منسوخ قرار دینا کہ وہ معطل کردی گئی ہے اور اب اس پر عمل نہیں کیا جائے گاایک بڑی بھاری باتی ہے۔ اتنی پر خطر بات کہنے کے لئے کوئی یقینی بنیاد ہونی چاہیے جو یہاں ہرگز نہیں ہے۔ صلح کا حکم دینے والی آیت بالکل الگ قسم کے حالات اور الگ دشمن کے لئے ہے اور سورۂ توبہ کی آیات الگ صورت حال میں دشمن سے جنگ کرنے اور اس کے لئے زمین تنگ کردینے کے حکم پر مشتمل ہے۔
صلح کا حکم قرآن نے اس صورت میں دیا ہے جب دشمن صلح جو ہو۔ کہا گیا اگر وہ صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی مائل بہ صلح ہوجانا اور اس پر یہ اضافہ کیا گیا کہ دشمن سے اگر عہد شکنی کا اندیشہ ہو تب بھی اللہ کے بھروسے پر صلح کرہی لی جائے اور سورۂ توبہ کی آیت جو دشمن سے بھرپور جنگ کرنے کا حکم دے رہی ہے وہ بتارہی ہے کہ جن ’’المشرکین‘‘کے بارے میں یہ حکم ہے وہ یہی نہیں کہ صلح جو نہیں بلکہ تم سے جنگ کررہے ہیں اور ایسے عہد شکن ہیں کہ اب ان کی صلح پر آمادگی کا اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ اسی سلسلۂ آیات میں آگے کہا گیا:
وَقَاتِلُواْ الْمُشْرِکِیْنَ کَآفَّۃً کَمَا یُقَاتِلُونَکُمْ کَآفَّۃً
’’اور تمام مشرکین سے جنگ کرو جس طرح وہ سب کے سب تم سے جنگ کرتے ہیں۔‘‘
سورۂ انفال کی یہ آیت (۶۱) دوسرے فریق کے صلح پر (یقیناً با معنی اور منصفانہ صلح پر) راضی ہونے کی صورت میں اس کو نہ صرف قبول کرنے بلکہ کشادہ قلبی کے ساتھ قبول کرنے کی ترغیب دیتی ہے، اس لئے کہ جیسا کہ پہلے کہاجاچکا ہے کہ اصلا تو گفتگو مسلمانوں کو آمادۂ جنگ کرنے کی چل رہی تھی مگر پھر بھی مسلمانوں میں صلح پر آمادگی پیدا کرنے کے لئے یہاں تک ارشادہوا:
وَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔ وَإِن یُرِیْدُواْ أَن یَخْدَعُوکَ فَإِنَّ حَسْبَکَ اللّٰہُ ہُوَ الَّذِیَ أَیَّدَکَ بِنَصْرِہِ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَ
’’اور (اس سلسلہ میں) اللہ پر بھروسے سے کام لو۔ وہ سب سننے جاننے والا ہے۔ اور اگر وہ تم کو دھوکہ دینا چاہیں گے تو اللہ کافی ہے تمہارے لئے۔ اسی نے تو اپنی مدد اور مؤمنین کی جماعت کے ذریعہ تمہاری تائید کی ہے۔‘‘
اس کی تشریح میں اب کثیر کہتے ہیں کہ ’’مطلب یہ ہے کہ اگر وہ صلح کرکے دھوکہ دینا چاہیں تاکہ اسی مدت میں تیاریاں کرلیں تو جان لو کہ اللہ تمہارے لئے کافی ہے‘‘۔ 
اس پوری تفصیل نے یہ بات واضح کردی کہ سورۂ توبہ کی آیات صلح کی آیت کو منسوخ نہیں کررہی ہیں۔ نسخ کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ دونوں آیات قطعی طور پر الگ حالات اور الگ دشمنوں سے متعلق ہیں۔ کوئی اگر خود قرآن میں غور کرے اور اگر اپنے ذہن میں قائم خیالات اور کسی مخصوص نظریے کے تاثرات سے آزاد ہوکر سوچے گا وہ اسی نتیجے تک پہنچے گا ، اور کتاب اللہ کی آیات کو مصحف میں موجود ہوتے ہوئے اور تلاوت کرتے ہوئے بلاقطعی دلیل کے ہرگز یہ نہیں کہے گا کہ وہ منسوخ اور معطل ہیں۔

امام طبری نسخ کے قائل نہیں:

جیساکہ امام طبری جو سرخیل مفسرین ہونے کے ساتھ ساتھ حدیث وفقہ میں بھی امامت کے مقام پر فائز تھے اس آیت کے منسوخ ہونے کی بات بالکل بے بنیاد قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’لا دلالۃ علیہ من کتاب ولاسنۃ ولا فطرۃ ولا عقل‘‘ اس کی کتاب وسنت اور عقل وفطرت سے کوئی دلیل نہیں پیش کی جاسکتی ۔
ہاں، سورۂ محمد کی آیت ’’ولا تھنوا وتدعوا الیٰ السلم‘‘ میں کمزوری دکھاتے ہوئے دشمن سے صلح کی دہائی دینے کو منع کیا گیا ہے، لیکن یہ ایک بالکل دوسری بات ہے اور دشمن کے ساتھ باعزت صلح ایک دوسری چیز ہے۔ 
سوم۔ تیسری ایک بات اور ہے جو قطعی طور پر اس کا فیصلہ کردیتی ہے کہ خود ہمارے فقہاء کے نزدیک غیر مسلم حکومت خود اپنی ذات میں ایسی چیز نہیں ہے جس کوبرداشت ہی نہیں کیا جاسکتا اور مسلمانوں پر اس کو ختم کرنا دینی فریضہ ہے۔ فقہاء اس پر متفق ہیں کہ اگر غیر مسلم حکومت کی طرف سے کچھ مال دے کر صلح کی پیش کش کی جائے تو مسلمانوں کی حکومت کے لئے جائز ہے کہ وہ اس مال کو قبول کرکے غیر مسلم حکومت کو باقی رہنے دے اور صلح کرلے۔ فقہاء نے یہ بھی صراحت کی ہے کہ یہ ’’جزیہ‘‘ والی صورت نہیں ہوگی بلکہ غیر مسلم حکومت اپنی پوری آزادیوں اورکفر کے قوانین کے نفاذ کے ساتھ باقی رہے گی۔ (بدایۃ المجتہد: ۱/۳۱۷ بدائع الصنائع:۶/۷۶)۔
اب اگر مولانا مودودی ؒ کی بات کو تسلیم کرلیا جائے تو بات یہ ہوگی کہ یوں تو اگرچہ ایک غیر مسلم حکومت سارے فتنہ وفساد کی جڑ اور خرابیوں کا منبع ہے اس لئے اس کو اکھاڑ پھینکنا اور اس کی جگہ اہل حق کی حکومت قائم کرنا ضروری ہے، لیکن اگر مال ملے تو پھر سب قابل برداشت ہوسکتا ہے۔ ذرا غور فرمائیں !یہ تو کوئی اخلاقی پوزیشن نہیں ہوئی۔ اللہ کا دین یقیناً اس سے بری ہونا چاہئے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہمارے ائمہ اور فقہاء متقدمین کے موقف کی جو یہ توجیہ اور تشریح کی جاتی ہے کہ ’’شوکت کفر علت قتال ہے‘‘ یا یہ کہ غیر مسلم حکومت کا وجود فی نفسہ اس بات کا مکمل سبب ہے کہ اگر قدرت ہو تو اس کو ختم کرنے کے ہدف سے اس کے خلاف جنگ کی جائے اور مسلمانوں کے ذمہ فرض ہے کہ اگر ممکن ہو تو وہ غیر مسلم حکومت کا خاتمہ ضرور کریں، یہ صحیح توجیہ نہیں ہے اور اس میں متعدد اشکالات ہیں۔
فقہاء کا یہ متفقہ مسئلہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ان کے نزدیک نہ کفر قتال کا سبب ہے نہ نظام کفر نہ حکومت کفر، کیوں کہ وہ سب مال کے عوض غیر مسلم حکومت سے صلح کرنے کو جائز کہتے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ مسلمانوں کو غیر مسلم حکومت مال دینے پر اسی وقت راضی ہوگی جب مسلمانوں کی طاقت کا پلہ بھاری ہو۔ یعنی یہ بات بھی نہیں کہی جا سکتی کہ ہمارے فقہاء نے اس کی اجازت اسی صورت میں دی ہے جب مسلمان کمزور ہوں یا خود ان کی مصلحت کا تقاضہ ہوکہ جنگ سے بچا جائے۔

بعض متقدم ائمہ کی صراحتیں کہ جنگ کا سبب محاربہ ہے:

اگرچہ ہمارے قدیم فقہاء کے یہاں یہ تصور ناپید نہیں ہے کہ نفس کفر جنگ کا سبب نہیں ہوسکتا ۔ جنگ کا سبب محاربہ یعنی جارحیت اور صلح نہ کرنا ہے۔

(۱) ابن تیمیہ:

امام ابن تیمیہ کا تو اس مسئلے پر مستقل رسالہ ’’قاعدۃ مختصرۃ في قتال الکفار ومھادنتھم‘‘ بھی ہے ، جس میں انہوں نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ جنگ صرف اسی سے کی جائے گی جو خود آمادۂ پیکار ہو۱۔ (قاعدۃ مختصرۃ فی قتال الکفار، ص ۱۲۱)
بعض عرب علماء اس رسالہ کی ابن تیمیہ کی طرف نسبت مشکوک قرار دیتے ہیں۔ مگر نیل الأوطار میں ایک جگہ شوکانی کے قلم سے اس رسالہ کا تذکرہ دیکھا تو اندازہ ہوا کہ شوکانی کے پاس غالبا اس کا نسخہ تھا۔ علامہ شوکانی نے لکھا ہے کہ:
وکون قتال الکفار لکفرھم ھو مذھب طائفۃ من أھل العلم ، وذھبت طائفۃ أخری إلی أن قتالھم لدفع الضرر ... ومن القائلین بھذا شیخ الإسلام ابن تیمےۃ ولہ في ذلک رسالۃ (نیل الأوطار: ۵/۲۷۲)
’’اور کفار سے قتال کا سبب ان کا کفر ہے، یہ بعض اہل علم کی رائے ہے، اور ایک دوسری جماعت کا موقف یہ ہے کہ قتال ان کے ضرر کو دفع کرنے کے لئے ہے... اس دوسری رائے کے حاملین میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ بھی ہیں اور ان کا اس موضوع پر ایک رسالہ بھی ہے۔‘‘
اس رسالہ کا تذکرہ شوکانی سے پہلے علامہ امیر صنعانی کے یہاں بھی ملتا ہے، بلکہ انہوں نے اس کی تائید کرتے ہوئے اپنے ایک رسالہ میں اس کی تلخیص بھی کی ہے جو ذخائر علماء الیمن نامی کتا ب میں شائع ہوچکی ہے۔
ابن تیمیہ نے اپنی دوسری کتاب النبوات میں بھی اس رائے کو واضح الفاظ میں بیان کیا ہے، بلکہ اس کو جمہور علماء کا مسلک قرار دیا ہے ،کہتے ہیں: 
الکفار إنما یقاتلون بشرط الحراب ، کما ذھب إلیہ جمھور العلماء ، وکما دل علیہ الکتاب والسنۃ (النبوات ص: ۱۴۰)
کفار سے جنگ اسی شرط پر کی جائے گی کہ وہ محاربہ کریں، جیسا کہ جمہور علماء کا مسلک ہے اور اسی پر کتاب وسنت کی دلیل قائم ہے۔
ابن تیمیہ اور شوکانی کی ان عبارتوں سے یہ قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ ان دونوں حضرات کے نزیک ماضی میں بھی اہل علم کی ایک تعداداسی کی قائل رہی ہے کہ قتال صرف ظلم وجارحیت کے خلاف ہی کیا جاسکتا ہے اور اس کی اصل علت محاربہ (یافتنہ وغیرہ) ہی ہے۔
ابن تیمیہ اپنی کتاب الصارم المسلول میں آیت کریمہ : ’’اور اللہ کے راستہ میں قتال کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں، اور زیادتی مت کرنا، اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ (البقرۃ : ۱۱۹) کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں :
فأمر بقتال الذین یقاتلون ، فعلم أن شرط القتال کون المقاتَل مقاتِلا (الصارم المسلول: ۹۶)
’’اللہ نے جنگ کرنے والوں سے قتال کرنے کا حکم دیا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ قتال کے لئے یہ شرط ہے کہ جس کے خلاف جنگ چھیڑی جائے وہ جنگ کررہا ہو۔‘‘

(۲) ابن قیمؒ:

ابن قیمؒ اپنی کتاب ہدایۃ الحیاری میں کہتے ہیں:
إنما کان (صلی اللہ علیہ وسلم) یقاتل من یحاربہ ، وأما من سالمہ وھادنہ فلم یقاتلہ (ہداےۃ الحیاری: ۱۲۱)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اسی سے جنگ کرتے تھے جو خود جنگ کرتا تھا۔ جو صلح کرتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے جنگ نہیں کرتے تھے۔

(۳) ابن جریر طبری:

سورۂ انفال کی یہ آیت گذر چکی ہے: ’’وإن جنحوا للسلم فاجنح لھا وتوکل علی اللہ‘‘ یعنی اگر یہ خدا اور مسلمانوں کے دشمن صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی صلح پر آمادہ ہو جانا ۔
ابن جریر طبری نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے پہلے تو یہ لکھا ہے کہ:
وان مالوا الی مسالمتک ومتارکتک الحرب، اما بالدخول فی الاسلام واما باعطاء الجزیۃ واما بموادعۃ ونحو ذلک من اسباب السلام والصلح فاجنح لہا، یقول فمل الیہا وابذل لہم ما مالوا الیہ من ذلک وسألوک۔
’’اگر وہ (دشمن ) تمہارے ساتھ صلح اور جنگ بندی پر آمادہ ہو جائے چاہے اسلام قبول کرکے یا جزیہ دے کر یا صلح کرکے، چاہے وہ کسی قسم کی اور کسی انداز کی بھی صلح ہو تو تم بھی صلح پسندی کا ثبوت دینا، اور وہ جو چاہیں وہ کر دینا اور دے دینا۔‘‘
آگے بڑھنے سے پہلے خط کشیدہ عبارت پر ایک مرتبہ نظر ڈال لیجیے۔ اس سے صلح کا کس درجے میں مطلوب ہونا معلوم ہوتا ہے۔
امام طبری آیت کی اس اجمالی وضاحت کے بعد قتادۃؒ اور بعض دیگر حضرات کے اس قول پر کہ یہ آیت منسوخ ہے اور اس کی بعد میں اجازت نہیں رہی، وہ تبصرہ کرتے ہیں جو پیچھے گذر چکا کہ: اس کی کتاب و سنت اور عقل وفطرت سے کوئی دلیل نہیں پیش کی جا سکتی۔
امام طبری کی اس عبارت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ اس آیت کا مفہوم یہی سمجھتے ہیں کہ اگر غیر مسلم ریاست اسلام اور جزیہ(یعنی مسلم حکومت کی تابعداری ) پر راضی نہ ہو کر کسی اور شراائط پر صلح کرنا چاہے تو اس کو قبول ہی کیا جائے اور صلح کی جائے۔واقعہ یہی ہے کہ آیت اپنے الفاظ اور اپنے سیاق و سباق کے لحاظ سے اس کے علاوہ کسی اور مفہوم کی گنجائش نہیں چھوڑتی۔

دلائل پر ایک نظر:

جو حضرات اس کے قائل ہیں کہ مسلمانوں کو بشرط قدرت ساری غیر مسلم حکومتوں سے جنگ کرنے کا حکم ہے، ان سے بھی جو محاربہ یا ظلم کے مرتکب ہوں اور ان سے بھی جو کسی قسم کے محاربہ کے مرتکب نہ ہوں، ان حضرات کے اہم دلائل حسب ذیل ہیں، اب وقت آیا ہے کہ ہم ان کا جائزہ لیں۔
۱۔ وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لاَ تَکُونَ فِتْنَۃٌ وَیَکُونَ الدِّیْنُ لِلّٰہ (البقرۃ : ۱۹۳) اور ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ ’’فتنہ‘‘ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لئے خالص ہوجائے۔
اس آیت میں قتال کا جو دوسرا مقصد ’’اور دین اللہ کے لئے خالص ہوجائے‘‘ بتایا گیا ہے، اس میں بعض مفسرین نے ’’دین‘‘ کے معنی اطاعت کے بیان کیے ہیں۔ (طبری)یہیں سے یہ حضرات یہ استدلال کرتے ہیں کہ آیت مسلمانوں کو حکم دیتی ہے کہ وہ تاحد مقدور اسلام کی حکومت کے قیام کے لئے قتال کریں۔ 
مولانا مودودیؒ اس استدلال کی وضاحت یوں کرتے ہیں:
’’اس مقام پر ’’فتنے‘‘ سے مراد وہ حالت ہے جس میں دین اللہ کے بجائے کسی اور کے لئے ہو، اور لڑائی کا مقصد یہ ہے کہ یہ ’’فتنہ‘‘ ختم ہوجائے اور دین صرف اللہ کے لئے ہو۔ پھر جب ہم لفظ ’’دین‘‘ کی تحقیق کرتے ہیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ عربی زبان میں دین کے معنی ’’اطاعت‘‘ کے ہیں، اور اصطلاحا اس سے مراد وہ نظام زندگی ہے جو کسی کو بالاتر مان کر اس کے احکام وقوانین کی پیروی میں اختیار کیا جائے۔ پس دین کی اس تشریح سے یہ بات خود واضح ہوجاتی ہے کہ سوسائیٹی کی وہ حالت جس میں بندوں پر بندوں کی خدائی وفرماں روائی قائم ہو، اور جس میں اللہ کے قانون کے مطابق زندگی بسر کرنا ممکن نہ رہے، فتنے کی حالت ہے، اور اسلامی جنگ کا مطمح نظریہ ہے کہ اس فتنے کی جگہ ایسی حالت قائم ہو، جس میں بندے صرف قانون الہی کے مطیع بن کر رہیں‘‘ (تفہیم القرآن۱/۱۵۱)
غور کریں تو یہ استدلال کمزور نظر آئے گا۔ چاہے دین اپنے اصطلاحی معنوں میں ہو یا آیت کے معنی یہ ہوں کہ اطاعت خالصۃً اور کل کی کل اللہ کی جائے، اس سے یہ مرادلینا کیسے صحیح ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کی حکومت قائم ہوجائے؟ مسلمانوں کی حکومت قائم ہوجائے اور اسلامی احکام کا قانونی نفاذ ہو بھی جائے تو بھی کفار اپنے شرک وکفر اور اللہ کی نافرمانی اور غیر اللہ کی اطاعت وبندگی پر قائم رہیں گے، ان کے احبار ورہبان ان کے لیے ناحق قانون سازی کرتے رہیں گے اور اسلامی حکومت ان کے بہت سے معاصی وقبائح ومنکرات کا خاتمہ نہیں کرے گی۔ پھر اس آیت سے استدلال کے کیا معنی؟ جہاد وقتال کے نتیجے میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہوجائے اور اسلامی قانون کے نفاذ اور جزیہ کی تحصیل کے بعد بھی نہ دین اپنے معروف معنی میں اللہ کے لئے خالص ہوتا ہے اور نہ اطاعت اللہ کے لیے ہوتی ہے۔ مشرکین کا شرک اور یہود ونصاری کی اطاعت رہبان واحبار بھی باقی رہے گی اور کفار کے معاصی بھی، کوئی جہاد دنیا میں دین یا اطاعت کو اللہ کے لئے خالص نہیں کرتا، پھر کیسے کہا جاسکتا ہے کہ جنگ کی غایت ’’دین کا یا اطاعت کا اللہ کے لئے خالص ہوجانا‘‘ ہے۔ جہاد کے نتیجے میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوگی تب بھی دین اللہ کے لئے خالص نہیں ہوگا نہ اطاعت اللہ کے لئے خالص ہوگی ۔ سادہ سے لفظوں میں آپ اس کو یوں کہہ سکتے ہیں کہ جہاد کے نتیجے میں جو اسلامی حکومت قائم ہوگی وہ زمین پر کفر کو بھی باقی رہنے دے گی اور (غیر مسلموں کے ذریعے) اللہ کی نافرمانیوں اور گناہوں کو بھی ۔ لہٰذا جنگ کا ہدف دین یا اطاعت کا اللہ کے لیے خالص ہو جانا نہیں قرار دیا جاسکتا۔
بعض علماء نے اس آیت میں دین کے معنی قہر وغلبہ کے لئے ہیں، جو یقیناً غلط فہمی ہے، ہم بصد ادب وضاحت کرتے ہیں کہ دین کے معنی عربی زبان میں قانون، اطاعت بدلہ وغیرہ کے تو آسکتے ہیں، قہر وغلبہ اور حکومت کے نہیں آتے۔ پھراس کا مطلب کیا ہے کہ جنگ کرو تاکہ دین اللہ کے لیے خالص ہوجائے؟ اس مشکل کا ایک ہی حل ہے اور وہ یہ کہ اس حقیقت واقعہ کو تسلیم کرلیا جائے کہ دراصل یہ آیت صرف مشرکین عرب کے سلسلہ کا حکم بیان کررہی ہے۔ آپ ذرا اس کے سیاق پر غور کیجئے۔
وَقَاتِلُوا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُونَکُمْ وَلاَ تَعْتَدُوا إِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبِّ الْمُعْتَدِیْنَ ۔ وَاقْتُلُوہُمْ حَیْْثُ ثَقِفْتُمُوہُمْ وَأَخْرِجُوہُم مِّنْ حَیْْثُ أَخْرَجُوکُمْ وَالْفِتْنَۃُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ وَلاَ تُقَاتِلُوہُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّی یُقَاتِلُوکُمْ فِیْہِ فَإِن قَاتَلُوکُمْ فَاقْتُلُوہُمْ کَذَلِکَ جَزَاء الْکَافِرِیْنَ۔ فَإِنِ انتَہَوْا فَإِنَّ اللّٰہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ ۔وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لاَ تَکُونَ فِتْنَۃٌ وَیَکُونَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ فَإِنِ انتَہَوا فَلاَ عُدْوَانَ إِلاَّ عَلَی الظَّالِمِیْنَ (البقرۃ: ۱۹۰۔۱۹۳)
’’اور اللہ کے راستے میں ان سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کررہے ہیں۔ اور زیادتی مت کرنا اللہ زیادتی کرنے والوں کو ناپسند کرتا ہے۔ اور ان کو قتل کرو جہاں پاؤ ، اور وہاں سے ان کو نکالو جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے۔ اور ’’فتنہ‘‘ قتل سے سنگین تر ہے، اور ان سے مسجد حرام کے پاس جنگ مت کرنا جب تک وہ وہاں تم سے جنگ نہ کریں، اگر وہ مسجد حرام میں تم سے جنگ کریں تو تم ان کو قتل کرو۔ کافروں کا یہی بدلہ ہے۔ تو اگر وہ باز آجائیں (شرک سے) تو اللہ غفور ورحیم ہے۔ اور ان سے جنگ کرو اس وقت تک جب تک کہ فتنہ نہ ختم ہوجائے اور دین اللہ کے لئے خالص ہوجائے۔ اگر وہ باز آجائیں(جنگ )سے تو کوئی زیادتی نہیں کی جائے گی سوائے ظالموں کے (کسی پر)َ ۔‘‘
آیات کا سیاق قطعی طور پر ان مشرکین مکہ کے ساتھ خاص ہے جنہوں نے اسلام کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی تھی، جن کے خلاف مسلمانوں میں جوش حمیت پیدا کرنے کے لئے قرآن نے کہا تھا: وھم بدؤوکم أول مرۃ (انہوں نے ہی لڑائی کی ابتدا کی تھی)۔ ان مشرکین کے سلسلے میںیہ سلسلۂ آیات شروع ہی یہاں سے ہوا ہے کہ : ’’اللہ کے راستے میں ان لوگوں سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں‘‘۔ اس سلسلۂ بیان میں حکم دیا گیا ہے کہ ان مشرکین سے تم کو جنگ شروع کرنے کا جو حکم دیا جارہا ہے اس کی عملی غایت اور انتہا یہ ہے کہ ان کا فتنہ ختم ہوجائے اور دین اللہ کے لئے خالص ہوجائے۔ اس سیاق وپس منظر میں دین کے اللہ کے لئے اصل ہوجانے کا مطلب یہ ہے کہ یہ مشرکین جس علاقے یعنی جزیرۂ عرب کے باسی ہیں اس کے بارے میں یہ طے ہے کہ یہاں دین صرف اللہ کا ہی رہے گا۔ اسی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض وفات میں وصیت فرمائی کہ : ’’مشرکین کو جزیرۂ عرب سے نکال دیا جائے‘‘(صحیح بخاری ، کتاب الجہاد، باب جوائز الوفد) اور یہی محمل ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور ارشاد: ’’ أمرت أن أقاتل الناس حتی یشھدوا أن لا إلہ إلا اللہ۔۔۔‘‘۔ مجھے لوگوں سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک کہ وہ اسلام قبول کرلیں۔
اس معنی کو حتمی طور پر طے کرنے والی یہ بات ہے کہ متفقہ طور پر لوگوں سے زبردستی اسلام قبول کروانا جنگ کی غایت ہرگز نہیں ہے۔ اگر اس حدیث کو (مذکورہ بالا آیت کی طرح) جزیرۃ العرب کے ساتھ خاص نہ مانا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ مجھے لوگوں سے جنگ کرنے اور قتل وقتال کرنے کا حکم ہے الا یہ کہ وہ اسلام قبول کرلیں۔
تقریباً یہی الفاظ سورۂ انفال آیت ۳۹ میں بھی آئے ہیں، وہاں بھی سیاق یقینی طور پر مشرکین مکہ کو متعین کرنے والا ہے۔
(۲،۳) اس موقف کے اہم دلائل میں سورۂ توبہ کی دو آیتیں بھی ہیں:
قَاتِلُواْ الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُونَ بِاللّٰہِ وَلاَ بِالْیَوْمِ الآخِرِ وَلاَ یُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ وَلاَ یَدِیْنُونَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ أُوتُوا الْکِتَابَ حَتَّی یُعْطُواْ الْجِزْیَۃَ عَن یَدٍ وَہُمْ صَاغِرُون۔ (آیت : ۲۹)
’’جنگ کرو ان لوگوں سے جو ایمان نہیں رکھتے اللہ پر اور نہ آخرت کے دن پر اور دین حق کی اتباع نہیں کرتے، یعنی اہل کتاب سے، یہاں تک کہ وہ جزیہ دیں ہاتھ سے اور تابع بن کر رہیں۔‘‘
دوسری آیت اسی سورت کی یہ آیت ہے : 
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ قَاتِلُواْ الَّذِیْنَ یَلُونَکُم مِّنَ الْکُفَّارِ وَلْیَجِدُواْ فِیْکُمْ غِلْظَۃً (آیت : ۱۲۳)
’’اے ایمان والو! اپنے پاس کے کفار سے جنگ کرو، اور چاہئے کہ وہ تم میں سختی پائیں۔‘‘
ان دونوں آیتوں سے استدلال اس طور پر ہے کہ پہلی آیت میں قتال کے حکم کے ساتھ اس حکم کی غایت یہ بتادی گئی کہ یہ اہل کتاب کفار مسلمانوں کے تابع ہوکر جزیہ دینے پر راضی ہوجائیں، تاکہ ان کی بالادستی اور خودمختاری ختم ہوجائے، وہ زمین میں صاحب امر اور حاکم بن کر نہ رہیں، بلکہ زمین کے نظام زندگی کی باگیں اور امامت وفرماں روائی کے اختیارات دین حق کی اتباع کرنے والوں کے ہاتھوں میں آجائیں۔ دوسری آیت بھی مطلقاً کفار سے جنگ کرنے کا حکم دیتی ہے، اور اس میں کہیں اس کا اشارہ بھی نہیں ہے کہ وہ دعوت حق کا راستہ روکیں، یا اللہ کے بندوں پر ظلم کریں یا مسلم حکومت کے خلاف جارحیت کے مرتکب ہوں۔
دراصل ان آیتوں کا مدعا اور ان میں دیے گئے حکم کی اصل نوعیت سمجھنے کے لئے ان کے پس منظر اور ان حالات کو جاننا ضروری ہے جن کے درمیان وہ نازل ہوئیں۔ کسی کلام کو اگر اس کے پس منظر سے کاٹ دیا جائے یا ان حالات کو نظر انداز کردیا جائے جن میں وہ صادر ہوا ہے تو کچھ کا کچھ مطلب ہوجانا ممکن ہوجاتاہے۔
قرآن مجید قانون کی کسی کتاب کی طرح دفعات کی زبان میں نازل نہیں ہورہا تھا۔ اس کے صحیح فہم کے لئے ضروری ہے کہ ان واقعات کی کھوج کی جائے جن میں کوئی خاص مجموعۂ آیات نازل ہوا تھا اور ذہن وتصور کو اس ماحول میں پہنچانے کی پوری کوشش کی جائے۔
یہ آیات غزوۂ تبوک کے موقع پر نازل ہوئی ہیں۔ یہ بیزنطینی روم کے خلاف ایک مہم تھی جو سن نو ہجری میں انجام دی گئی، اس وقت ہرقل عظیم رومن سلطنت کے فرماں روائے اعظم قیصر کی حیثیت سے سریرآرائے سلطنت ہوچکا تھا، اور اسی لئے اسلامی مآخذ اس کو کبھی قیصر اور کبھی ہرقل کہتے ہیں۔ رومن حکومت کی کچھ عمل داریاں عرب سرزمین میں حدود شام اور شام کے اندر قائم تھیں۔ شمال عرب میں غسانیوں کی مشہور حکومت تو مستقل طور پر ان کی تابع تھی ہی، اس کے علاوہ اسی علاقہ کی کچھ دیگر قبائلی طاقتیں بھی رومیوں کی عمل داری میں تھیں اور عیسائی ہوچکی تھیں، گویا یہ پورا خطہ رومی سلطنت عظمیٰ کا حصہ تھا۔
رومی سلطنت سے کشمکش کا آغاز ۸ھ ؁ میں فتح مکہ سے پہلے ہوچکا تھا ، روم جیسی توسیع پسند جابر طاقت کو جس نے جاگیرداری کے ظالم نظام میں غریب عوام کو جکڑ رکھا تھا، اپنے بالکل پڑوس میں ایک ایسی ابھرتی ہوئی طاقت کیسے برداشت ہوسکتی تھی جس کے جلو میں دلوں کو فتح کرنے والی ایک ایسی دعوت تھی جس کا اعلان تھا: ’’اللہ کی بندگی میں داخلہ اور بندوں کی غلامی سے آزادی‘‘۔ ابتداء ایسے ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۱۵ آدمیوں کی ایک جماعت ان رومی عیسائی علاقوں میں بھیجی انہوں نے وہاں دعوت اسلام دی، مگر ان سب کو ذات اطلاح نامی مقام پر قتل کر دیا گیا۔ ان کے امیر حضرت کعب بن عمیر نہایت زخمی حالت میں بچ کر مدینہ واپس آئے اور اس سنگین واقعہ کی اطلاع دی۔ (البدایہ والنہایۃ) 
ابھی یہ زخم تازہ ہی تھا کہ رومی حکومت کی ایک اور اسلام دشمن حرکت سامنے آئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شمال کے ان عرب علاقوں میں مستقل دعوتی مہمیں بھیجی تھیں۔ ان کے نتیجہ میں فروۃ بن عمرو (یا ابن نفاثہ) نامی ایک عرب حاکم نے جو رومیوں کی جانب سے عرب قبائل پر متعین تھا اسلام قبول کرلیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیر سگالی کے طور پر کچھ ہدایا بھی بھیجے۔ رومیوں نے اس کو مرکز طلب کیا اور قتل کرکے سولی پر چڑھا دیا۔ (سیرت ابن ہشام)
اسی زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرماں روایان ممالک کو دعوت اسلام کے خطوط بھیجے تھے، ان میں ایک خط بصریٰ کے حاکم کے نام بھی تھا۔ راستے میں غسانی بادشاہ شرحبیل بن عمرو نے، جو رومی حکومت کا علاقے میں نائب تھا اور عیسائی تھا، آپ کے سفیر حضرت حارث بن عمیر کو پکڑ کر قتل کردیا۔ جیساکہ اوپر ذکر کیا جاچکا ہے یہ پورا خطہ رومی سلطنت میں داخل اور عیسائی حکومتوں کے تابع تھا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان طاقتوں کی تادیب ضروری سمجھی۔ اس کے بعد موتہ کا معرکہ ہوتاہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غالبا اندازہ تھا کہ رو م کی تابع ان عرب ریاستوں کے لئے ایک مختصر فوج (۳ ہزار) کافی ہونی چاہئے۔ مگر ادھر براہ راست قیصر (ہرقل) حرکت میں آچکا تھا۔ اسلامی لشکر علاقے میں پہنچا تو پتہ چلا کہ رومی زبردست لشکر کشی کرنے کی تیاری کرچکے ہیں، غسانی عیسائی عرب قبائل کی بڑی تعداد لے کر سامنے ہیں اور ایک بڑی کمک لے کر ہرقل کا بھائی تھیوڈور آرہا ہے۔ خود قیصر روم حمص میں پڑاؤ ڈالے ہے، بہرحال اللہ کی نصرت اورمجاہدین کی جانبازیوں کی بدولت لشکر اسلام بحفاظت واپس آگیا، اور رومیوں کو اندرون عرب لشکر کشی کی جرأت نہیں ہوئی۔
خود مدینے کے اندر سے ایک فتین شخص ابوعمرو راہب عیسائی ہوکر غسانیوں کے یہاں بھاگ گیا تھا، اور مستقل اس سازش میں مصروف تھا کہ وہاں سے ایک بڑی فوج لے کر مدینہ پر حملہ کرے، مدینہ میں منافقین مستقل اسی کے رابطے میں تھے، آخر جب یہ سازش اپنے عروج کو پہنچی تو انہوں نے عین مدینہ میں مسجد کے نام پر اپنا ایک مستقل مرکز بھی بنالیا جہاں بیرونی حملہ آور افواج کی مدد کے منصوبے تیار ہوتے تھے۔ قرآن نے اسی پوری سازش کا پردہ چاک کیا کہ یہ مرکز دراصل رومی حملہ کی سازشوں کا گڑھ ہے۔ (سورۂ توبہ: ۱۰۷)
اب سن ۹ ہجری آتا ہے۔ ان مذکورہ واقعات کے علاوہ بھی ان تین چار سالوں میں رومیوں کی طرف سے ایسی اور بھی کئی حرکتیں ہوئیں جن کا مطلب واضح طور پر یہی تھا کہ رومیوں کے ارادے خطرناک ہیں۔ رومیوں کی حرکتیں اس درجہ بڑھ گئی تھیں کہ صحابہ کرام کو ہر دم رومی حملے کا اندیشہ لاحق تھا۔ اور اس کی وجہ سے مدینہ پر ایک درجے کا خوف طاری تھا۔ ایلاء کے سلسلۂ واقعات میں آتا ہے کہ جب حضرت عمر کے ایک پڑوسی نے ان کا دروازہ کھٹکھٹایا اور نہایت بے چینی کے ساتھ کہا کہ : ارے! بڑا حادثہ ہوگیا‘‘ توحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دفعۃً پوچھا :کیا ہوا؟ کیا غسانیوں (رومیوں) نے حملہ کردیا؟ خود حضرت عمر بیان کرتے ہیں کہ اس زمانے میں یہ خبریں آرہی تھیں کہ غسانی حملے کی تیز رفتار تیاریاں کررہے ہیں۔ (صحیح بخاری: ۵۱۹۱) اب تاجروں اور مسافروں نے آآکر خبریں دیں کہ رومی اپنے تابع عیسائی عرب قبائل اور ریاستوں کے ساتھ مل کر مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے تیاریاں کررہے ہیں، فوجوں کو ایک سال کی تنخواہیں پیشگی باٹی گئی ہیں، اور کچھ دستے بلقاء تک پہنچ رہے ہیں۔ ( المواہب اللدنیہ مع شرح الزرقانی ۳/۶۳، ابن سعد ۲/۱۶۵) روایات بتاتی ہیں کہ عیسائی قبائل نے اپنے آقا قیصر روم کو خط لکھ کر یہ خبر دی کہ عرب میں اس سال شدید قحط ہے، حملہ کرنے کے لئے یہ موقع اچھا ہے تواس نے اپنی طرف سے ایک بڑی فوج بھیجی ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی : ۱۸/۲۳۱)
ان حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ تبوک کا فوری حکم دیا اور باوجود اس کے کہ موسم سخت گرم تھا اور مسلمانوں کو سخت غربت اور تنگ حالی کا سامنا تھا کوئی تاخیر اس لئے ممکن نہیں تھی کہ خطرہ نہایت سنگین تھا اور فوری تھا۔ فتح مکہ کے بعد عرب قبائل کا اسلام ایسا مضبوط نہیں ہوا تھا کہ اگر رومی اندرون عرب گھس کر حملہ کرتے تو ان سے استقامت کی امید کی جاتی۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان قبائل کی بڑی تعداد کے ارتداد اور بغاوت نے ثابت بھی کردیا کہ اگر روم جیسی طاقت کا حملہ ہوتا تو یہ قبائل یقیناً بغاوت کردیتے اور اسلامی حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجادیتے ۔ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرحد پر جاکر ہی دشمن کو روکنا اور مسلمانوں کی قوت کا رعب قائم کرنا ہرحال میں ناگزیر جانا۔ 
ان حالات میں یہ دونوں آیتیں مسلمانوں کو رومی طاقتوں سے جنگ کے لئے حکم دینے اور اس پر ابھارنے کے لئے نازل ہوئیں۔
اس دراز تفصیل کی ضرورت اس لئے ہوئی کہ یہ واضح کیا جاسکے کہ سطحی طور پر یہ سمجھنا کہ ان آیات میں آیات دراصل اہل کتاب سے جنگ کے فقہی مسئلہ کو بیان کیا گیا ہے یا ابتداءً اس کا حکم دیا گیا ہے، بالکل غلط ہے۔ یہ آیات اس مقصد کے لیے نازل نہیں ہوئیں، اہل کتاب سے اور رومی عیسائی طاقتوں سے کشمکش پہلے سے جاری تھی، اور یہ جنگ پہلے سے فرض ہوچکی تھی، یہ آیات مسلمانوں میں اس جنگ کے لئے ہمت وجوش پیدا کرنے کے لئے نازل ہوئی ہیں۔ یہی ان کا اصل مقصود و معنی ہے۔ اور رومیوں کی یہ صفات کہ وہ اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے دین حق کے منکر ہیں، اور اللہ ورسول کے محرمات کو حرام نہیں سمجھتے، فوجوں کے اندر جوش اور ان کے خلاف غیظ وغضب پیدا کرنے کے لئے بیان کی گئی ہیں۔ یہ رومیوں سے قتال کی علت نہیں ہیں۔ قتال کی علت رومیوں کا صد عن سبیل اللہ (اللہ کے راستے سے روکنا) ایک مسلمان کو اسلام قبول کرنے کی پاداش میں قتل کرنا (فتنہ) اور مسلمانوں پر حملہ کرنے کی تیاریاں (محاربہ) کرنا تھا۔
بہرحال اس سے پتہ چلتا ہے کہ شمال عرب کی ان ساری مہموں کی اصل علت ’’محاربہ‘‘ اور ’’فتنہ‘‘ تھی۔ رومیوں سے جنگ کا حکم دینے والی انہی آیات کے سلسلہ میں آگے جاکر ارشاد ہوتاہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ قَاتِلُواْ الَّذِیْنَ یَلُونَکُم مِّنَ الْکُفَّارِ وَلْیَجِدُواْ فِیْکُمْ غِلْظَۃً ۔
’’اے ایمان والو! ان کافروں سے ، جو تمہارے قریب ہیں ، جنگ کرو اور چاہے کہ وہ تمہارے اندر سختی پائیں۔‘‘
گذشتہ تفصیل کی روشنی میں آیات کا سیاق بالکل یقینی طور پر واضح کرتا ہے کہ آیت کے نزول کے وقت اصلا ’’الذین یلونکم من الکفار‘‘ سے مراد یہی رومی طاقتیں ہیں جو عرصے سے محاربہ کررہی تھیں اور جن کے خلاف جنگ پہلے سے چلی آرہی تھی۔ درمنثور میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی روایت سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا تھا کہ اس سے مراد روم والے ہیں۔ مفسرین نے اس کے اصل معنی یہی لیے ہیں۔ اس سے واضح ہے کہ یہ کوئی ایسا اصول نہیں بتایا یا جارہا تھا جس کی رو سے مسلمانوں پر اپنے قریب کی غیر مسلم حکومتوں سے جنگ کرنا ہمیشہ اور بغیر کسی سبب کے ضروری قرار پائے۔ ہاں اگر کوئی اس سے اور ان دونوں آیتوں سے قیاس کے طور پر یہ استدلال کرے کہ جس علت وسبب کی بنا پر ان روم والوں سے جنگ واجب قرار پائی تھی وہ علت جن ’’ کفار‘‘ میں بھی پائی جائے گی اور جب بھی پائی جائے گی ان سے جنگ مسلمانوں پر فرض ہوگی تو یہ قیاس بالکل صحیح ہوگا۔
پھر ان اسباب کی تحقیق میں تاریخی طور پر یہ طے ہے کہ روم کی حکومت اور اس کی تابع ریاستیں صرف محارب ہی نہیں تھیں بلکہ اسلامی ریاست کے لئے ایسا شدید خطرہ بنی ہوئی تھیں کہ اگر ان کو ذرا نظر انداز کیا جاتا تو اسلام اور اسلامی ریاست کا وجود ہی خطرے میں پڑجاتا۔
(۴) اس موقف کے حامل حضرات کثیر تعداد میں ان نصوص کو بھی پیش کرتے ہیں جن میں کفار یا مشرکین سے جنگ کرنے کا حکم آیا ہے۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ان نصوص پر سرسری نظر ڈالی جائے تو یہ تأثر یقیناً قائم ہوتا ہے کہ سارے کفار ومشرکین سے جنگ کا حکم دیا جارہا ہے۔ مگر اگر قرآن مجید کے سیاق وسباق میں غور کیاجائے اور یہ اصول مد نظر رہے کہ قرآن مجید کی آیات جنگ کے حالات میں نازل ہوا کرتی تھیں جب کہ کفار ومشرکین کے مخصوص گروہوں یعنی مشرکین مکہ ، دیگر عرب قبائل اور یہود مدینہ اور نصارائے شام وروم میں سے کسی کے خلاف جنگ قائم ہوتی تھی تو یہ سمجھ لینے میں دقت نہیں پیش آئے گی کہ ان نصوص کا مقصد لوگوں میں ان دشمنوں سے قتال کے لئے جوش وآمادگی پیدا کرنا ہوتا تھا۔ اگر یہ اصول مد نظر رہے تو صاف واضح ہو جائے گا اس طرح کی آیات اور احادیث میں دنیا کے تمام کفار ومشرکین نہیں بلکہ وہی لوگ مراد ہوتے تھے جن سے اس وقت جنگ درپیش ہوتی تھی۔ ہاں باقی دیگر غیر مسلم ریاستوں کے سلسلے میں ان آیات واحادیث اور ان میں مذکور غیر مسلم ریاستوں کے معروضی حالات پر غور کر کے قیاس کے ذریعے سے شرعی حکم جانا جا سکتا ہے۔
مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فوجوں کو روانہ کرتے تو جو ہدایا ت دیتے تو ان میں یہ بات بھی فرماتے:
اغزوا باسم اللہ قاتلوا من کفر باللہ (صحیح مسلم ، کتاب الجہاد ، باب تامیر الإمام الأمراء)
’’اللہ کے نام پر جنگ کو جاؤ ، اللہ کا انکار کرنے والوں سے جنگ کرو۔‘‘
یا جیسے قرآن میں کہا گیا :
وَقَاتِلُواْ الْمُشْرِکِیْنَ کَآفَّۃً کَمَا یُقَاتِلُونَکُمْ کَآفَّۃً (التوبۃ: ۳۶)
تمام مشرکوں سے جنگ کرو جیساکہ وہ سب کے سب تم سے جنگ کرتے ہیں۔
اس آیت میں تمام مشرکین سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا، مگر آگے اس کا سبب یہ بیان کیا گیا کہ ’’جیسا کہ وہ سب کے سب تم سے برسر پیکار وجنگ ہیں، اس لئے تم بھی ان سب سے جنگ کرو‘‘۔ اس سبب کے بیان سے خود بخود مراد طے ہوگئی کہ اس آیت سے صرف مشرکین عرب مراد ہیں۔

مولانا مودودی ؒ کا خاص استدلال:

مولانا مودودی ؒ نے اس نقطۂ نظر کو کہ مسلمانوں کو بشرط مقدور غیر مسلم حکومتوں سے ہر حال میں جنگ کرنی ہے،نہایت تفصیل سے بیان کیا ہے اور اس کے دلائل مرتب کیے ہیں۔ مولانا اس کو مصلحانہ جنگ کا نام دیتے ہیں۔ موصوف نے ایک نہایت طویل بحث کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ مسلمانوں کی اجتماعیت کا اصل مقصد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے، یہ امت اسی فریضہ کی انجام دہی کے لئے قائم کی گئی ہے۔
پھر مولانا فرماتے ہیں کہ امر بالمعروف تو طاقت کے زور سے انجام دیے جانے والا فریضہ نہیں ہے، وہ تو وعظ ونصیحت کے ذریعہ انجام دیا جائے گا۔ البتہ منکر کی مولانا نے دو قسمیں قرار دی ہیں، (۱) قلب وذہن کی گندگی اور خیال ورائے کی ناپاکی۔ اس کو دور کرنے کے لئے وعظ وتلقین کا حکم دیاگیا ہے۔ اور (۲) فعل وعمل کی برائی (منکر) کو بزور طاقت مٹانے کو مسلمانوں کا فریضہ قرار دیا گیا ہے۔ اس کے لئے مولانا نے ان احادیث کا حوالہ دیا ہے جن میں منکر سے اگر قدرت ہو تو طاقت کے زور سے روکنے کا حکم آیا ہے: ’’فلیغیرہ بیدہ‘‘۔ پھر مولانا فرماتے ہیں کہ ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ :
’’اگر مسلمانوں میں اتنی قوت ہو کہ تمام دنیا کو منکر سے روک کر اسے قانون عدل کا مطیع بنادیں تو ان کا فرض ہے کہ اس قوت کو استعمال کریں اور جب تک اس کام کو پاےۂ تکمیل تک پہنچا نہ دیں چین نہ لیں۔ ‘‘
یقیناً احادیث میں اس کا حکم آیا ہے کہ ’’تم میں سے جو کوئی برائی (منکر) دیکھے تو اس کو اگر قدرت ہو تو ہاتھ سے مٹادے، مگر باتفاق علماء یہ حکم مسلم امت کے داخلی دائرے کے اندر کا ہے۔ کسی نے اس کا مطلب یہ نہیں سمجھا ہے کہ جو غیر مسلم ان منکرات کو منکر ہی نہیں جانتا مثلا شراب خوری، کھانے پینے کے سلسلے کی حرام اشیاء، ہر مسلمان ان کو بھی بزور وطاقت مٹانے کا (بشرط قدرت) ذمہ دار ہے۔ یہیں سے مولانا کا استدلال بے محل ثابت ہوجاتاہے۔ یہ بنیادی سوال اٹھتا ہے کہ منکر کی وہ بڑی قسم جس کو مولانا قلب وذہن کی گندگی کہتے ہیں اس کا طاقت کے زور سے مٹانا کیوں منع قرار پائے؟ حدیث میں تو تمام ہی منکرات کو بزور مٹانے کی سکت ہونے پر ایسا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ بلکہ ’’منکراً‘‘ کا نکرہ ہونا تمام ہی منکرات کے اس ذیل میں آنے کو بتا تا ہے۔ پھر یہ استثنا کیوں کر ممکن ہے؟ اس کا کیا سبب ہے کہ ہم ا س سے صرف فعل وعمل کی برائی مراد لیں۔ پھر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جہاد فعل وعمل کی بہت سی برائیوں کو جن کا تعلق اجتماعی ظلم سے نہیں ہوتا باقی رہنے کی اجازت دیتا ہے۔ مثلا اسلام کی فتح کے بعد بھی غیر مسلموں کے لیے شراب پینا، بنانا، اس کی خرید وفروخت وغیرہ جائز ہی رہتے ہیں۔ پھر جہاد کا مقصد فعل وعمل کی برائی کے خاتمہ کہاں رہا؟
آگے مولانا فرماتے ہیں کہ ’’منکر کی اسی دوسری قسم کو ... اللہ تعالی نے فتنہ وفساد سے تعبیر فرمایا ہے، چنانچہ ان تمام آیات میں جن میں منکر کے خلاف جنگ کی اجازت دی گئی ہے یا جنگ کی ضرورت ظاہر فرمائی گئی ہے، یا اسے بزور شمشیر مٹانے کا حکم دیا گیا ہے، آپ کو منکر کے بجائے یہی فتنہ وفساد کے الفاظ ملیں گے‘‘ ۔
پھر مولانا نے ’’قاتلوھم حتی لا تکون فتنۃ‘‘ والی آیت کے علاوہ کچھ اور آیات بھی پیش فرمائی ہیں جن کے بارے میں مولانا کا کہنا یہ ہے کہ ان میں ’’بزور شمشیر‘‘ جہاد کرکے ’’فتنہ و فساد‘‘ کو مٹانے کا حکم دیا گیا ہے۔ مگر مجھے سخت حیرت ہے کہ اس مقام پر مولانا ایسی آیات بھی کیسے اور کیوں کر ذکر کرگئے ہیں جن کا موضوع جہاد وقتال سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔ مثلاً قرآن نے ذکر کیا ہے کہ بنی اسرائیل پر واضح کردیا گیا تھا کہ جس نے کسی جان کو قتل کیا بغیر اس کے کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں فساد مچایا ہو تو گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کردیا۔ (من قتل نفسا بغیر نفس أو فساد فی الأرض فکأنما قتل الناس جمیعا۔ المائدہ ۳۲) ایک جگہ قرآن نے منافقین کے بارے میں کہا کہ وہ پہلے بھی مسلمانوں میں افتراق وانتشار پیدا کرنا اور ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام سے روگرداں کرنا چاہتے تھے، ان کے اس عمل کو قرآن نے ’’فتنہ پروری‘‘ سے تعبیر کیا اور کہا: ’’لقد ابتغووا الفتنۃ من قبل‘‘۔ مولانا رحمہ اللہ نے یہاں یہ دونوں آتیں بھی نقل فرمائی ہیں جو بے محل ہیں، یقیناًدونوں مقامات پر جن اعمال اور کرداروں کو فساد یا فتنہ کہا گیا ہے وہ خطرناک قسم کے منکر ہیں۔ مگر قرآن نے ان کے خلاف جہاد کا حکم دیا ہے اور نہ ہی ایسے منکرات کا استیصال جہاد کے ذریعہ ممکن ہے۔
آگے چل کرمولانا مرحوم نے ایک مرتبہ پھر تفصیل سے واضح کیا ہے کہ قرآن نے کن کن جرائم کو فساد قرار دیا ہے، تفصیل کا یہ موقع نہیں ورنہ ہم مولانا کی یہ پوری بحث نقل کرتے تاکہ قارئین کو اندازہ ہوتا کہ مولانا کی اس تشریح نے ساری ہی برائیوں اور خرابیوں کو اپنے دائرہ میں لے لیا ہے یہاں تک کہ ’’الإثم‘‘ (گناہ) کو بھی مولانا نے اس فساد کا مصداق قرار دیا ہے کہ جو کسی قوم میں اگر پایا جائے تو اس کے خلاف جنگ ضروری ہو جائے گی۔ بصد ادب ہم عرض کرتے ہیں کہ فتنہ کی اس قدر تعمیم بہت ہی محل نظر ہے۔

فتنہ کی تشریح:

مولاناؒ کے اس موقف کی شاید اہم ترین بنیاد ’’فتنہ‘‘ کی وہ خاص تشریح ہے جو انہوں نے جنگ کی غایت اور انتہا بتانے والی آیت ’’وقاتلوھم حتی لا تکون فتنۃ‘‘ (ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ نہ باقی رہے) کے ذیل میں کی ہے۔ مولاناؒ نے منکر کی دو قسمیں: (قلب وذہن کی گندگی ، (۲) فعل وعمل کی برائی بیان کرنے کے بعد کہاہے:
’’ منکر کی اس دوسری قسم کو جس کے خلاف اسلام میں قوت استعمال کرنے کا حکم دیاگیا ہے پہلی قسم سے ممتاز کرنے اور اس کی نوعیت کو اور زیادہ واضح کردینے کے لئے اللہ تعالی نے فتنہ اور فساد کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے، چنانچہ ان تمام آیات میں جن میں منکر کے خلاف جنگ کی اجازت دی گئی ہے، یا جنگ کی ضرورت ظاہر فرمائی گئی ہے، یا اسے بزور شمشیر مٹانے کا حکم دیا گیاہے، آپ کو منکر کے بجائے ہی فتنہ وفساد کے الفاظ ملیں گے۔‘‘ (الجہاد فی الإسلام،ص: ۱۰۴)
ہم پورے ادب سے عرض کرتے ہیں کہ قتال وجنگ کی علت کے طور پر جن دومقامات پر قرآن نے ’’فتنہ‘‘ کا تذکرہ کیا ہے ان میں یہ ’’فعل وعمل کی برائی‘‘ کا مفہوم نہ کسی کوشش سے پیدا کیا جاسکتا ہے نہ آج تک کسی عالم نے پیدا کیا ہے۔ یہ سراسر ایک جدت ہے۔ حقیقۃً یہاں صرف ظلم وجبر اور تعذیب کے ذریعہ لوگوں کو اسلام سے روکنا ہی مراد ہے۔ اور خود مولانا بھی اسی کتاب میں ایک جگہ فتنہ کی یہی حقیقت بیان فرماتے ہیں۔
اب یہ لاینحل معمہ پھر ہمارے سامنے آجاتا ہے کہ پہلے تو مولانا نے یہ فرمایا کہ فعل وعمل کی برائی وہ منکر ہے جس کو قرآن فتنہ اور فساد کا نام دے کر اس کے خلاف جنگ کا حکم دیتا ہے۔ اور آگے صفحہ ۱۰۶ پر ’’فتنہ کی تحقیق‘‘ کے زیر عنوان رقم فرماتے ہیں کہ ’’اس مؤخر الذکر مفہوم میں فتنہ کا لفظ تقریبا انگریزی لفظ (Persecution) کے ہم معنی ہے۔‘‘ ان دونوں باتوں میں کیسے جوڑ پیدا کیا جائے۔ 
نیز مولانا نے ’’فتنہ‘‘ کے جو قرآنی استعمالات نقل کئے ہیں ان میں کہیں بھی فتنہ سے مراد فعل وعمل کی برائی والا منکر نہیں ہے جیسا کہ مولانا نے پہلے دعویٰ فرمایا تھا۔

فساد کی تشریح:

البتہ مولانا نے ’’فساد‘‘ کی جو تشریح فرمائی ہے اس سے صاف واضح ہوتاہے کہ ان کی منشا تمام مفسد اخلاق گناہوں کو قرآن میں ’’فساد‘‘ کا مصداق قرار دینا ہے، موصوف نے فساد کے علت قتال ہونے پر دو آیتیں پیش فرمائی ہیں:
(۱) ولولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لفسدت الأرض۔ اگر اللہ لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے سے دفع نہ کرتا تو زمین میں فساد پیدا ہوجاتا۔
(۲) من قتل نفساً بغیر نفس أو فساد في الأرض فکأنما قتل الناس جمیعاً۔ جس نے کسی کو قتل کیا بغیر کسی قتل یا فساد کی سزا کے توگویا اس نے ساری انسانیت کو قتل کردیا۔
یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اس میں سے دوسری آیت تو کسی طرح جہاد وقتال سے متعلق ہے ہی نہیں۔ اس کو جو کچھ تعلق ہے وہ حدود وتعزیرات سے ہے۔ مولانا جیسے ذہین شخص نے اس کو کیسے یہاں ذکر کیا اس پر حیرت ہے۔ 
جہاں تک پہلی آیت کا تعلق ہے یقیناً اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ جنگوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ دنیا کو بگاڑ سے بچاتاہے۔ تفصیل کا موقع نہیں ورنہ ہم آیات کا سیاق پورا ذکر کرتے کہ یہاں قرآن بنی اسرائیل کے ہاتھوں ایک ظالم دشمن دین طاقت کی شکست کا تذکرہ کررہاہے، اس کے بعد کہہ رہا ہے کہ اسی طرح جنگوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو ظلم سے باز رکھتا ہے ورنہ دنیا تباہ ہوجائے۔
ذرا سے غور وفکر سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہاں فساد سے مراد وقت کے کفار کی وہ ظلم وسرکشی ہے جس کا سامنا بنی اسرائیل کرتے آرہے تھے، اور جس کا تذکرہ بنی اسرائیل کے قائدین کی زبانی ان الفاظ میں کیا گیا ہے کہ ہمارے دشمنوں نے عرصے سے ہم کو اپنے وطن سے نکال دیاہے، اور ہمارے بچوں (اور عورتوں) کو قیدی بنالیاہے‘‘ (وقد اُخر جنا من دیارنا وأبنائنا) بنی اسرائیل کی تاریخ کے اس واقعہ کے بیان سے پہلے جو آیات ۲۴۳تا ۲۴۵) ہیں وہ مسلمانان مدینہ کو مکہ ظالم طاقت کے خلاف جنگ کرنے اور اس کی تیاری کے لئے مال خرچ کرنے کا حکم دینے والی آیات ہیں۔
اس سیاق میں بنی اسرائیل کی اسی حالت مظلومیت کا تذکرہ یقیناًمسلمانوں کو ان کی اپنی حالت یاد دلاتا تھا۔ اس ماحول اور سیاق کو ذہن میں رکھنے کے بعد بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ یہاں ’’فساد‘‘ سے کیا مراد ہے یقیناً’’فعل وعمل کی برائی‘‘ جس کے دائرے میں مولانا آگے جاکر وہ تمام گناہ داخل بتائے ہیں جو آدمی کے ذاتی اخلاق کو غارت کرتے ہیں، ہر گز یہاں مراد نہیں ہے۔ بلکہ قرآن نے کسی جگہ بھی ’’ فساد‘‘ کے خلاف جنگ کرنے کا حکم نہیں دیاہے۔ قرآن مجید میں مسلمانوں کو جہاد پر ابھارنے جنگ کے لئے جو ش اور حمیت پیدا کرنے والی آیات نہایت کثرت کے ساتھ ہیں لیکن کہیں بھی ان کو ’’فساد‘‘ کو مٹانے کے لئے جنگ کرنے کا حکم نہیں دیاگیا۔

فساد فی الأرض کے معنی:

ہاں! اللہ تعالیٰ نے یہ ضرور کہا ہے کہ اگر زمین اہل حق کے جہاد سے خالی ہوگی تو ’’زمین میں فساد‘‘ رونما ہوگا، ’’ولو لا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لفسدت الأرض‘‘ (البقرۃ: ۲۵۱) فساد اپنے لغوی معنی کے لحاظ سے تو بڑا عام لفظ ہے، ہر بگاڑ اور صلاح کی ضد پر اس کا اطلاق ہوسکتاہے اور مولانا مرحوم نے اس کو اسی معنی میں لیتے ہوئے قرآن کی بہت سی آیات میں ’’فساد‘‘ کے معانی ومصداقات تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہاں تک کہ ’’الاثم‘‘ یعنی بقول مولاناؒ ’’ ذاتی اخلاق بگاڑ نے والے گناہ‘‘ کو بھی فساد کا مصداق قرار دے دیاہے۔ کوئی شک نہیں کہ ہر گناہ بگاڑ ہے،مگر جب فساد کے یہ معنی اس سیاق میں بتلائے جائیں کہ ہر فساد وفتنہ کی خلاف جہاد کا حکم دیاگیا ہے اور ہر اخلاقی خرابی بگاڑ فساد ہے تو یہ تشریح بڑی محل نظر ہوجاتی ہے اور ’’لا إکراہ فی الدین‘‘ کے قرآنی اصول سے سیدھی جا ٹکراتی ہے۔
قرآن مجید میں فساد اور اس کے مشتقات (Derivatives) پچاس جگہ پر آئے ہیں، اور نہایت قلیل مواقع کے استثناء کے ساتھ عموماً ہر جگہ اس سے ناجائز خونریزی بدامنی او رظلم وقہر کے معنی ہی مراد ہیں۔ جو حضرات اس کی تفصیل جاننا چاہیں وہ ایسے مواقع کو ان کے سیاق وسباق پر غور کے ساتھ دیکھ لیں، ان شا ء اللہ اطمینان حاصل ہوجائے گا۔
مولانا مرحوم نے جو دو آیتیں اپنے خیال کے مطابق اس مقصد سے پیش کی ہیں کہ قتال کی ایک علت ’’فساد‘‘ کا خاتمہ ہے ، ان میں ’’فساد ارض‘‘ یا فساد فی الأرض کے الفاظ ہیں۔صرف فساد لغت کے اعتبار سے کسی بھی بگاڑ اور خرابی کے لئے آسکتاہے۔ اگرچہ قرآن عموماً فساد کو اور خصوصاً باب افعال کے صیغے ’’افساد‘‘ کو خونریزی، ظلم اور بدامنی کے معنی میں ہی استعمال کرتاہے۔ مگر ’’فساد فی الأرض‘‘ کے بارے میں عربیت کے ذوق اور اس تعبیر کے مواقع استعمال سے یہ بات مکمل طورپر واضح ہوجاتی ہے کہ صرف گناہ برائی یا مولانا کے الفاظ میں ذاتی اخلاق کو بگاڑ نے والے گناہ ’’الإثم‘‘ پر اس کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ فساد فی الأرض کے معنی میں لازمی طورپر ظلم وزیادتی ، خونریزی، اور طاقت کے زور پرلوگوں کو مقہور ومجبور بنانا ضرور داخل ہے۔ قرآن کے استعمالات پر گہری نظر رکھنے والے مشہور امام عربیت علامہ جار اللہ زمخشری نے اس طرف اشارہ فرماتے ہوئے لکھا ہے: ’والفساد فی الأرض ھیج الحروب والفتن‘‘، فساد فی الارض کے معنی جنگیں بھڑکانا اور فتنہ (قتل وخونریزی) پھیلانا ہے۔ (تفسیر الکشاف سورۃ بقرۃ، آیت: ۱۱) بالکل یہی الفاظ اسی آیت کے ذیل میں ہمیں صاحب مدارک التنزیل علامہ نسفی اور ابوالسعود کے یہاں بھی ملتے ہیں۔ 
مثلا ڈاکہ اور بغاوت وخوں ریزی (محاربہ) کے لیے قرآن نے قتل اورسولی کی سزا متعین کی ہے۔ اس موقعے پر کہا گیا ہے کہ ’’فساد فی الارض‘‘ کے مجرمین کی سزا یہ ہے کہ ان کو قتل کر دیا جائے یا سولی پر لٹکا دیا جائے۔
إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِیْنَ یُحَارِبُونَ اللّہَ وَرَسُولَہُ وَیَسْعَوْنَ فِیْ الأَرْضِ فَسَاداً أَن یُقَتَّلُواْ أَوْ یُصَلَّبُواْ أَوْ تُقَطَّعَ أَیْْدِیْہِمْ وَأَرْجُلُہُم مِّنْ خِلافٍ أَوْ یُنفَوْاْ مِنَ الأَرْض۔ (المائدہ: ۳۳)
یہاں اگر مولانا کے بیان کردہ معنی لیے جائیں تو اس کا تقاضہ ہو گا کہ ذاتی اخلاق کو بگاڑنے والے گناہ ’الاثم‘ کے مرتکبین کی گردنیں اڑا دی جائیں!!
مولانا کے استدلال کا یہ پہلو بڑا محل نظر ہے کہ قرآن نے اگر کسی جماعت کو ایک جگہ مفسد کہہ دیا تو اب پورے قرآن میں اس کے کردار وعمل کی جن خرابیوں کا بھی تذکرہ آیاہے مولانا کہتے ہیں کہ یہ قرآن کی اصطلاح میں فساد کا مصداق ہے۔یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی کسی کو کہے کہ وہ نہایت خائن ہے، پھر کسی دن کہے کہ وہ شراب پیتاہے، اس سے میں یہ نتیجہ اخذ کروں کہ متکلم کے نزدیک شراب پینا خیانت کا مصداق ہے۔ مذکورہ طریقۂ استدلال بعینہ اسی قسم کا ہے۔

خلاصۂ بحث:

اس پوری تفصیل کا حاصل یہ ہے کہ مولاناؒ کے نزدیک ’’مصلحانہ جنگ‘‘ کا سبب قرآن کے بیان میں ’’فتنہ اور فساد‘‘ ہیں۔ اور ان دونوں کے دائرے میں مولانا کی تشریح کے مطابق تمام ہی خلاقی خرابیاں آجاتی ہیں۔ مگر اس پر کئی طاقت ور اشکالات وارد ہوتے ہیں:
(۱) جیسا کہ ہم نے اوپر دیکھا قرآن نے جس ’’ فتنہ‘‘ کے خاتمے کے لیے جنگ کاحکم دیا ہے اس سے مراد ’فعل وعمل کی برائی‘ نہیں ہے۔ اسی طرح فساد فی الارض جس کا تذکرہ جنگ کے ذیل میں آیا ہے اس سے مراد قتل وخوں ریزی اور ظلم ہے۔ لہٰذا اس پر مبنی یہ استدلال کہ غیر مسلم حکومت چوں کہ سارے قول وعمل کی برائیوں کا ذریعہ ہوتی ہے صحیح نہیں محسوس ہوتا۔
(۲) پھر دوسری یہ بات کہ اگر ہر غیر مسلم حکومت لازماً ایسی ہی ہوگی اور بقول مولانا اس کا وجود خد فتنہ ہے اور وہ ضرور ساری برائیوں کا سرچشمہ ہے تو پھر اس کی کیا توجیہ کہ جائے کہ تمام فقہاء اس کی اجازت دیتے ہیں کہ مسلمان چاہیں تواس سے کچھ مال لے کر صلح کر لیں؟
(۳) تیسری بات یہ کہ اس نظریے کے حاملین سے اگر یہ سوال کیا جائے کہ بالفرض اگر کہیں یہ صورت حال درپیش ہو کہ کوئی قوم اسلام نہ لائے لیکن اس کی حکومت ان تمدنی اور اخلاقی خرابیوں کی سرپرست اور حمایت نہ کرے جن کو مولانا مرحوم نے سبب جنگ بتایا ہے توبھی یہ حضرات یہی کہتے ہیں کہ اس کے خلاف مسلمانوں کو قتال کرنا ہی ہوگا۔ اسکا واضح مطلب یہ ہے کہ خود یہ برائیاں جن کو مولانا ’’فتنہ‘‘ اور ’’فساد‘‘ کا مصداق قرار دے کر ، علت القتال یعنی سبب جنگ قرار دیتے ہیں، فی الواقع سبب جنگ نہیں، سبب جنگ کچھ اور ہے۔ اور وہ جو ہے اس کی مدلل تفصیل گزشتہ صفحات میں آچکی ہے۔
مولانا مودودیؒ کی کتاب اس موضوع پر ایک کارنامہ تھا ، اس کی اس تاریخی اہمیت میں کوئی دوسرا شریک نہیں کہ وہ ایسے وقت سامنے آئی جب الزامات کے شورنے کانوں کے پردے پھاڑدیے تھے۔ پورے ماحول میں ایک طرح کی سراسیمگی طاری تھی، بہت کسی سے بن پڑتا تھا تووہ نہایت نحیف آواز اور سہمے سہمے انداز میں کچھ معذرت خواہانہ صفائیاں پیش کرلیا کرتاتھا۔ اس ذہین نوجوان نے پورے اعتماد کے ساتھ جہاد کی وکالت کی اور دوسرے مذاہب اور مغرب کے مدعیان تہذیب کے کارناموں کی تصویر سامنے رکھ کر نہ صرف تصور جہاد کی عظمت ظاہرکی بلکہ بہت سوں کو شبہات کے دلدل سے نکال لیا۔ مولانا ؒ کی کتاب کی اس افادیت اور اہمیت کے پورے اعتراف کے باوجود ایک غیر جانبدار قاری مولانا کے نظرےۂ ’’مصلحانہ جنگ‘‘ سے مطمئن نہیں ہوسکتا۔غیر مسلموں کو تو چھوڑیے، خود مسلمان اہل دین اس نظریہ سے (جو اصطلاحات اور تعبیرات کے فرق کے ساتھ مشہور عام نظریہ ہے) دلوں میں خلش پاتے ہیں، ہمارے برصغیر میں چونکہ مولانا نے ہی اس نظریہ کی جدید تفہیم کی ہے اور اس کے دلائل بڑی تفصیل سے پیش کئے ہیں اس لئے ہم نے ان کا مفصل جائزہ لینا ضروری سمجھا۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگوں کی نوعیت:

قرآن ہی نہیں رسول اللہ کی سیرت وسنت اورآپ کی دس سال مدنی زندگی کی جنگوں کا حال دیکھ لیجئے آپ نے کسی صلح پر آمادہ طاقت سے جنگ نہیں کی۔ 
(۱) مکہ والوں کے بارے میں قرآن نے بارہا صراحت کی کہ وہ انہوں نے جنگ چھیڑ رکھی ہے: ’’وھم بدءوکم أول مرۃ‘‘ (انہوں نے ہی ابتداء جنگ کی ہے) یہ بھی کہاکہ وہ زیادتی اور ظلم کے مرتکب ہوئے ہیں، ’’وأولئک ھم المعتدون‘‘۔تاریخی واقعات بتاتے ہیں کہ مکہ میں مظالم اور مذہبی جبر کے اس دور کے بعد، جس کے نتیجے میں مسلمانون کو گھر بار، مال اور اولاد چھوڑ کر ہجرت کرنی پڑی، وہ مدینہ پر حملے میں بھی ابتدا کرچکے تھے۔ ان کے حملہ آور مدینہ پر شب خون اور لوٹ کی کاروائیاں کرتے رہتے تھے۔ مزید انہوں نے، سنن ابوداؤد (رقم ۳۰۰۴) کی صحیح روایت کے مطابق، مدینہ میں یہود کو اور غیر مسلم عربوں کو بھی مسلمانوں سے لڑانے اور ان کے اخراج پر آمادہ کرنے کے لئے دھمکی آمیز خطوط لکھے۔ انہوں نے عرب کی زمین مسلمانوں پر ایسی تنگ کررکھی تھی کہ غریب مہاجرین تجارت کے لئے، جس کے علاوہ ان کے پاس کوئی ذریعہ معاش نہیں تھا، مدینہ سے نکل تک نہیں سکتے تھے۔ اس طرح مسلمان ایک طرح کی جیل میں اور معاشی حصار میں زندگی گذارنے پر مجبور تھے۔(البقرۃ: ۲۷۳)۔ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خلاف جنگی کارروائیاں شروع فرمائیں۔
اس کے باوجود ان سے صلح پر آپ کی آمادگی کا یہ حال تھا کہ آپ ؐ نے ایک مرتبہ یہ تک فرمایا: ’’لا یسألونی خطۃ یعظمون فیھا حرمات اللہ إلا أعطیتھم إیاھا‘‘ یعنی قریش مجھ سے جو بھی صلح کی شرط رکھیں گے، اگر اللہ کی حرمات کا خیال رکھا جائے گا تو میں اسی کو ضرور قبول کرلوں گا ۔ (بخاری، رقم ۲۷۳۴)
(۲) مدینہ کے یہودی قبائل کو رسول اللہؐ نے اسلامی ریاست کے معزز اور باحیثیت شہریوں کی طرح رکھا۔ ریاست کا جو دستور لکھا گیا اس میں یہود کے قانونی امتیازات اور حقوق وفرائض کا پورا تذکرہ کیا گیا تھا۔ یہود نے اس کو قبول کرکے اسلامی ریاست اور اس کے حاکم اعلی کی حیثیت سے رسول اللہؐ کو قبول کیاتھا۔ مگر سب سے پہلے بنی قینقاع نے علانیہ معاہدہ توڑا، بغاوت کی اور جنگ کا اعلان کیا۔ (سیرت ابن ہشام، طبقات ابن سعد)
پھر بنو نضیر نے غداری کی انتہا یہ کی کہ رسول اللہ کو (معاذ اللہ) دھوکہ سے قتل کرنا چاہا، سازش کا انکشاف ہوگیا مگر آپ نے بھی تحمل کی انتہا کردی۔ ان کو سزا دینے کے بجائے مہلت دینے کا ارادہ فرمایا، اور ان سے کہا کہ اب تم پر اس کے بغیر اطمینان نہیں کیا جاسکتا کہ تم از سر نو معاہدہ لکھو۔ مگر وہ تو آمادۂ جنگ تھے، معاہدۂ صلح پر آمادہ نہیں ہوئے۔ جب کہ بنی قریظہ نے معاہدہ کی تجدید کی۔ پھر آپ نے بنی نضیر پر لشکر کشی فرمائی۔ (سنن ابی داؤد، باب خبربنی النضیر، بسند صحیح)
بنی قریظہ کی عہد شکنی بلکہ غزوۂ خندق کے نازک ترین موقع پر حملہ آوروں فوجوں کا مدینہ کے اندرسے ساتھ دینا اور حملہ میں شرکت معروف ہے۔ 
(۳) قرآن کی صراحت اور تاریخ کی تصدیق ہے کہ عرب کے مشرک قبائل سب مسلمانوں کے خلاف آمادۂ پیکار تھے اور قریش کے ساتھ تھے۔ قرآن نے ان کے بارے میں کہا ہے: 
’’وقاتلوا المشرکین کافّۃ کما یقاتلونکم کافّۃ‘‘
’’اور تمام مشرکین سے جنگ کرو اس لئے کہ وہ سب کے سب تم سے جنگ کررہے ہیں۔‘‘
نجد کے قبائل عکل وعرینہ اور بنو سلیم کی سنگین غداریاں اور خونچکاں حرکتیں معروف ہیں، بنو مصطلق جن پر آپ نے اچانک حملہ کیا تھا، وہ پہلے سے محارب تھے، احد میں اہل مکہ کے ساتھ مل کر مدینہ پر حملہ کیا تھا۔ پھران کے سردار کے بارے میں یہ اطلاع آئی کہ وہ مدینہ پر حملے کے لئے فوجیں جمع کررہا ہے۔ آپ نے بریدہ بن الحصیب الاسلمیؓ کو تصدیق کے لئے بھیجا، وہ خود سردار قبیلہ حارث ابن ابی ضرار سے ملے اوراسی سے تیاریوں کی تصدیق کرلی، جب تحقیق ہوگئی تو آپ نے حملہ فرمایا۔(طبقات بن سعد، ۲/۶۳، وسیرت ابن ہشام)
(۴) شمال عرب کی مہمات کی تفصیل پیچھے غزوۂ تبوک اور غزوہ موتہ کے حوالے سے گذر چکی ہے، وہاں ہم نے ان مہمات کا پورا تاریخی پس منظر ذکر کردیاہے۔ اس سے یقینی طورپر ثابت ہوتاہے کہ رسول اللہ نے ان طاقتوں کے خلاف جو جنگ کی تھی وہ ان کے محاربہ کے نتیجہ میں تھی، آپ نے کسی صلح جو اور امن پر آمادہ طاقت کے خلاف قطعاً جنگ نہیں کی۔

ابن تیمیہ اور ابن قیم کی صراحتیں: 

امام ابن تیمیہ اپنے رسالہ ’’قاعدۃ فی قتال الکفار‘‘ میں کہتے ہیں:
وکانت سیرتہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ان کل من ھادنہ من الکفار لا یقاتلہ، وھذہ کتب السیرۃ والحدیث والتفسیر والفقہ والمغازی تنطق بہذا وھو متواتر من سیرتہ۔ (صفحہ ۱۳۴)
’’یعنی آپؐ کی سیرت کی شہادت ہے کہ آپ سے جن کفار نے صلح کی آپ ان سے جنگ نہیں کرتے تھے، یہ سیرت کی کتابیں ہیں، یہ حدیث وتفسیر اور فقہ وتاریخ کی کتابیں ہیں، سب یہی بتلاتی ہیں، اور یہ چیز آپؐ کی سیرت سے متواتر اور قطعی طورپر ثابت ہے۔‘‘
علامہ ابن قیمؒ اپنی کتاب ’’ہداےۃ الحیاریٰ ‘‘ میں کہتے ہیں:
من تأمل سیرۃ النبی (صلی اللہ علیہ وسلم) تبین لہ ۔۔۔ أنہ انما قاتل من قاتلہ وأما من ھادنہ فلم یقاتلہ (ہداےۃ الحیاریٰ جلد اول ، صفحہ: ۱۱۲)
جو رسول اللہ کی سیرت میں غور کرے گا اس کو پتہ چل جائے گا کہ ۔۔۔آپ نے صرف ان لوگوں سے جنگ کی جو آپ سے جنگ کرتے تھے، رہے وہ جنہوں نے آپ سے صلح کی آپ نے ان سے جنگ نہیں کی۱؂۔ 

رسول اللہؐ نے صرف دفاعی نہیں، اقدامی جنگیں بھی کیں:

ان جنگوں کو جن بزرگوں نے ’’محض دفاعی‘‘ جنگوں کا نام دیاہے، غالباً یہ لفظ اس لئے صحیح نہیں کہ اس سے یہ خیال قائم ہوتاہے کہ آپ نے دوسروں کے حملوں کاصرف دفاع کیا، حالانکہ واقعہ یہ تھا کہ آپ محاربہ کا ارادہ اور تیاری کرنے والوں کے خلاف خود بھی اقدامات فرمایا کرتے تھے، جنگ بدر ایسے ہی ایک اقدام کے نتیجہ میں وقوع پذیر ہوئی ، موتہ اور تبوک کی یہی کہانی ہے، اور بنو مصطلق اور دیگر کئی مہموں کی یہی حقیقت ہے۔ آج کی اصطلاح میں آپ ان جنگوں کو (Preemptive wars) کہہ سکتے ہیں۔ یہ جنگیں اقدامی جنگیں ہی تھیں۔
بہر حال آپؐ نے دفاعی جنگیں بھی لڑیں ہیں اور محاربہ کرنے والوں کے خلاف اقدامی جنگیں بھی۔ مگر آپ کی ہر جنگ صرف محارِب طاقتوں کے خلاف تھی۔ اور اسی لئے قطعی طورپر منصفانہ تھی اور اس ’’اعتداء‘‘ اور زیادتی سے پاک تھی جس سے دور رہنے کا حکم قرآن نے مسلمانوں کو عین اس وقت دیاتھا جب ان پر جنگ کرنا واجب قرار دیا جارہاتھا۔ وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم ولا تعتدوا إن اللہ لا یحب المعتدین۔

قرون اولیٰ کی جنگی مہمات:

صحابہ کرام اور خلافت راشدہ کے دور میں فارس وروم کی مقبوضات فتح کی گئیں، اس دور میں ہم کو ان دونوں سلطنتوں کے خلاف ایران کی سرحدوں سے لے کر شام ومصر کی آخری حدوں تک جنگوں کا ایک طویل سلسلہ ملتاہے۔ جلد بازی اور سرسری نظر سے مطالعہ کرنے والے ان جنگوں کی علت یہ بتاتے ہیں کہ صحابہ کرام نے جب عرب کے دائیں بائیں نظر اٹھائی کفار کو حکمراں دیکھا، تو ان کو اپنے دین کایہی حکم نظر آیاکہ ان کے سروں پر تلوار لے کر پہنچ جائیں اور صاف کہہ دیںیا اسلام قبول کرو یا مسلمانوں کے لیے تخت چھوڑدو۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ جنگیں دراصل عہد نبوی کی جنگوں کا امتداد ہیں ، رسول اللہ کی جب وفات ہوئی تو شام کے حدود پر رومن امپائر کے ساتھ جنگ شروع ہو چکی تھی، اور متعدد معرکے ہوچکے تھے۔ قیصر اور اس کی ماتحت طاقتیں اپنے پڑوس میں ایک انقلابی اور نہایت جاذب ومؤثر دعوت پر قائم ریاست کو بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے لاکھوں کے لشکر جمع کر چکیں تھیں اور رسول اللہ نے ان کی پیش بندی کے لئے اقدامات بھی فرمائے تھے۔ لیکن نہ رومیوں کا زور ٹوٹا تھا نہ ان کے ارادے بدلے تھے۔ لہذا بعد میں بھی اس قسم کے اقدامات کرنے ضروری تھے جو خلافت راشدہ کے دور میں انجام پائے۔ 
سلطنت فارس دوسری بڑی طاقت تھی، جو صحابۂ کرام کے ہاتھوں زیر ہوئی، رسول اللہ نے اس کے فرماں روا کسریٰ کو دعوت اسلام کا خط لکھا، جو اس نے نہ صرف نہایت رعونت کے ساتھ پھاڑ ڈالا، بلکہ اپنے ایک گورنر کو (معاذ اللہ) رسول اللہ کو گرفتار کرکے اپنے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا ، یمن کے گورنر نے دو سپاہیوں کو اس پیغام کے ساتھ مدینہ بھیجا کہ اپنی اور عرب کی خیر چاہتے ہو تو گرفتاری قبول کرکے کسری کے دربار میں حاضر ہوجاؤ ورنہ تم کسری کی طاقت وجبروت کو جانتے ہو وہ تمہارے پورے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجادے گا۔ 
بہر حال اس پس منظر سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ تصور سراسر سطحی مطالعہ پر مبنی ہے کہ خلافت راشدہ کے دور میں جو جنگیں ان ممالک کے ساتھ ہوئیں قصہ کی ابتداء وہیں سے ہوتی ہے، نہ ان کے ساتھ کوئی کشمکش جاری تھی اور نہ یہ حکومتیں اس کے علاوہ کسی اور جرم کی مرتکب تھیں کہ وہ غیر مسلم تھیں اور صاحب شوکت تھیں۔ 
افسوس کس قدر سادگی کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ لوگ جو خلافت راشدہ کی ان جنگوں کے پورے تاریخی پس منظر کے ریکارڈ ہونے کے باوجودان ظالم وخونی حکومتوں اور ان کے دشمنِ حق حکمرانوں کے خلاف جنگ کا سبب صرف غیر مسلم حکومت کا خاتمہ قرار دے دیتے ہیں۔ کوئی شخص جو ایک طرف ان سلطنتوں کی توسیع پسندی کی ہوس اور خونی تاریخ کو جانتاہو اور دوسری طرف وہ نوخیز اسلامی ریاست اور ان طاقتوں کے ابتدائی تعلقات کے اس پس منظر پر بھی نظر رکھتا ہو جس کو ہم نے اوپر ذکر کیا، کیا وہ اس غلط فہمی کا شکار ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے بالکل پڑوس میں واقع ان عالمگیر طاقتوں سے کوئی خطرہ نہیں تھا؟ اگر شدید خطرہ تھا اور یقیناً تھا تو ان جنگوں کا سبب اس سنگین خطرے کی پیش بندی اور اسلامی ریاست کاتحفظ تھا۔
ان دونوں حکومتوں سے جنگ کو مسلمانوں پر فرض کرنے والی ایک دوسری اہم چیز یہ بھی تھی کہ ان طاقتور حکومتوں کے باقی رہتے ان کے عوام تک اسلام کی دعوت پہنچنے کا قطعاً کوئی امکان نہیں تھا۔ اوپر ہم ذکر کر آئے ہیں کہ اسلام کے اولین داعیوں کا کیا انجام رومن امپائر کی تابع ایک عرب ریاست میں ذات اطلاح کے مقام پر ہوا۔ دعوت اسلام دیتے ہی پندرہ میں سے چودہ داعیوں کو قتل کردیا گیا، صرف ایک نہایت زخمی حالت میں مدینہ پہنچ سکا۔ ان ریاستوں کے ایک معزز امیر نے اسلام قبول کرلیا تو ہرقل (بینر نطینی رومن سلطنت کے فرمانروا) نے اس کو بلا کر قتل کرکے سولی پر لٹکا دیاکہ دوسروں کے لئے عبرت کا سامان بنے۔
نامۂ نبوی پر کسری کے رعونت بھرے رد عمل نے صاف بتادیا تھا کہ فارسی علاقوں میں دعوت اسلام کا نام بھی نہیں لیا جاسکتا، ان حکمرانوں کی حکومتوں کے مذہبی جبر، اور قرآنی اصطلاح میں ’’ فتنہ‘‘ اور صدعن سبیل اللہ‘‘ نے یقیناًایسی صورت حال پیدا کردی تھی کہ اللہ کے سپاہی اٹھیں اور ان کے غرور کو، بحکم خدا، خاک میں ملادیں۔
ان حکومتوں کا یہی جرم دراصل صحابۂ کرام کی جنگوں کا اصل سبب تھا ، دراصل اس زمانہ کی صورت حال ہی ایسی تھی کہ کوئی حکومت اپنی قلم رو میں دوسرے دین کو اور خصوصاً اسلام جیسی دعوت کو ہر گز پنپنے نہیں دے سکتی تھی، یہ چیز اس زمانے کی صورت حال میں بالکل قطعی اور طے تھی، اسی لئے رسول اللہؐ نے ان حکمرانوں کو جو خطوط لکھے تھے ان میں کہا تھا کہ اگر تم اسلام نہیں لائے تو پوری قوم کے کفر کے تم ہی ذمہ دار ہوگے۔ آپؐ نے کسریٰ کو لکھا: ’’فان أبیت فعلیک إثم المجوس‘‘ (تاریخ طبری: ۲/۱۲۳) مقوقس شاہ مصر کو آپ نے لکھا: ’’فان أبیت فإن إثم القبط علیک‘‘ (زاد المعاد ۳/۶۰۰) قیصر کو آپ نے لکھا: ’فعلیک إثم الأریسین‘(صحیح بخاری، رقم ۷) یریسیین یا أرلسیین سے مراد کاشتکاروں پر مشتمل وہ کثیر تعداد کی رعایا تھی جو رومی مقبوضات (شام ومصر اور افریقہ وایشیا) کے وسیع علاقوں میں پھیلی ہوئی تھی (فتح الباری) اور جن کی حیثیت تاریخ کی واضح شہادتوں کی روشنی میں مقہود ومجبور غلاموں کی اسی تھی۔ 

ایک اور استدلال:

جو حضرات بوقت قدرت تمام غیر مسلم حکومتوں سے جنگ کے فرض ہونے کی رائے رکھتے ہیں چاہے وہ صلح کرنے پر آمادہ ہی کیوں نہ ہوں، ان میں سے بعض بزرگ اِس موقف کے اُسی استدلال کے لیے جو مولانا مودودی کے حوالے سے اورپر گذر اہے ایک نسبتاً زیادہ معقول تعبیر اختیار کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ غیر مسلم حکومت جب اپنی حربی طاقت، مادی وسائل اور اپنے نظریات کے ساتھ موجود رہے گی تو اس کی یہ شوکت خود دنیا کے عوام کے لئے اسلامی دعوت قبول کرنے سے ایک نفسیاتی رکاوٹ پیدا کرے گی، کفر کی ایسی شوکت وعزت کے ساتھ لوگ آزادانہ غور وفکر نہیں کرسکیں گے۔
واقعہ یہ ہے کہ کسی بھی قوم کی شوکت وطاقت اس کے نظریہ کے لئے ایک مددگار وسازگار ماحول پیداکرتی ہے، اور اس ماحول میں کسی دوسری اجنبی دعوت کے لئے ایک درجہ کی نفسیات رکاوٹ پیداہونا یقیناًفطری امر ہے۔ مگر مجھے یہ بتائیے کہ کیا اگر کوئی دوسری قوم یہ کہے کہ ہمارے نظریات پر مسلمان غیر جانبداری کے ساتھ اس وقت تک غور کرہی نہیں کرسکتے جب تک مسلمانوں کی حکومت وشوکت ختم نہیں کی جائے، لہٰذا ہم مسلمانوں کے ملک پر اس لیے حملہ کررہے ہیں تاکہ وہ آزادانہ ہماری دعوت پر غور کرسکیں ، تو ایسی شکل میں ہم کیا کہیں گے؟؟
اگر ہم مذہب وعقیدہ اور نظریہ کے سلسلہ میں آزادانہ انتخاب کے اصول کے قائل ہیں تو آزادی کے لئے ساری ملتوں کے حق میں ایک ہی معیار اپنانے کا پابند ہونا ضروری ہے ۔
نیز یہ بھی سوچئے کہ دنیا میں کون انصاف پسند اس قوم وملت کے بارے میں اچھی رائے رکھ سکے گا جو یہ کہے کہ چوں کہ ہم کو اپنے دین کی تمہیں دعوت دینی ہے او ر تمہاری حکومت او رطاقت ایسی نفسیاتی رکاوٹ بن رہی ہے جس کے رہتے ہوئے تمہارے لئے ہماری دعوت پر پورے طورپر غیر جانبدارہوکر غور کرنا ممکن نہیں ہے اس لئے ہم تم سے جنگ کرکے پہلے اپنی حکومت تم پر قائم کریں گے اور تمہاری طاقت ختم کریں گے ۔ ہم بصد ادب ونیاز اپنے بزرگوں سے گذارش کریں گے کہ یہ منطق اسلام کی دعوت کے سامنے کسی بھی غیر مسلم حکومت سے بڑی نفسیاتی رکاوٹ بنے گی، اور اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں یہی تاثر قائم کرے گی کہ یہ باتیں سب بہانے اور دھوکے ہیں، اور ان کی آڑ میں ہم کو غلام بنانے اور دباؤ اور لالچ کے ذر یعہ ہمارا دین بدلنے کا منصوبہ ہے۔
ہم تسلیم کرتے ہیں کہ علماء سلف کی اکثریت کی تحریروں اور تشریحات سے غالب تاثر یہ نہیں قائم ہوتاہے کہ اسلامی حکومت اور غیر مسلم حکومت کے درمیان اصل صلح ہے، اور صلح پر آمادہ قوم کے خلاف جنگ کی گنجائش نہیں ہے۔ ماضی کی طویل تاریخ پر محیط اسلامی فکر کا عمومی رحجان اسی طرف محسوس ہوتاہے کہ اگر مسلمانوں کے پاس قدرت وطاقت ہوتو وہ کسی غیر مسلم طاقت سے صلح نہیں کریں گے ، چاہے وہ کسی ’’فتنہ‘‘ یا زیادتی کی مرتکب نہ ہو، اور صلح کی پیش کش بھی کرے۔ 
پھر کیا یہ رائے غلط تھی؟ کیا علمائے سلف اور ائمہ اسلام اتنی لمبی مدت تک ایک غلط بات کہتے آئے؟ ہر گزنہیں۔ اسلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ وہ قیامت تک مکمل محفوظ رہے گا۔ اور یہ بھی کہ اس امت کے اہل علم اجتماعی طورپر کسی غلطی میں نہیں پڑیں گے، جو لوگ اپنے علم وفہم کی بنیاد پر اسلاف امت اور ائمہ کرام کے مجموعی موقف کو غلط سمجھتے ہیں وہ بے شمار گمراہیوں کے دروازے کھولتے ہیں۔ 
ہمیں پورا اطمینان ہے کہ جس دور میں اور جن حالات میں یہ رائے ظاہری کی گئی تھی وہ بالکل برحق رائے تھی، ان حالات کے لئے وہی شرعی حکم تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے کے زمانوں میں ہر ریاست واضح مذہبی شناخت رکھتی تھی۔ بادشاہتیں مذہب سے اپنی حکومت کے استحکام کاکام لیتی تھیں، بادشاہ یا تو خدا کا اوتار بنتا تھا یا مذہبی قیادت کے ساتھ اس کا یہ سمجھوتہ ہوتا تھا کہ وہ دونوں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہیں گے۔ اس لئے اس کا نہ کوئی امکان ہوتاتھا اور نہ ہی تصور کہ کوئی طاقتور حکومت اور منظم ریاست اپنے قلم رو میں اسلام کی نشر واشاعت ودعوت اور اللہ کی عبادت وبندگی کی اجازت دے سکتی ہے۔ مسلمانوں جن ریاستوں سے جنگ کی ان میں سے کسی نے کبھی اس کا جھوٹا دم بھی نہیں بھرا تھا کہ وہ اسلامی دعوت کے لئے راستہ کھولنے کو تیار ہے۔ یہاں تک کہ شکست کھاتے وقت بھی کسی غیر مسلم حکومت نے ایسی کوئی پیشکش نہیں کی۔
رسول اللہ ؐ نے سلاطین عالم کو خطوط لکھے تو ان میں صاف لکھا کہ اگر تمہاری حکومت اسلام قبول نہیں کرتی تو عوام کی گمراہی کا گناہ بھی تم پر ہی ہوگا۔ یہ اسی صورت حال کی طرف اشارہ تھا۔ ایسی صورت حال چاہے وہ ماضی میں ہویا حال میں یا مستقبل میں اس کا شرعی حکم یہی ہوگا کہ قدرت ہوتو ضرور جنگ کی جائے۔ اور اللہ کے دین کے سامنے سے رکاوٹیں ہٹادی جائیں۔ لیکن اگر دنیا کی کوئی حکومت عملاً دعوت اسلام کے سامنے رکاوٹ نہیں بن رہی ہو اور صلح پر آمادہ ہو تو یقیناًاس سے جنگ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہو گی۔
آج کے زمانے میں جب کہ ایک بندۂ خدا تک دعوت پہنچانے کے بظاہر سارے امکانات کھلے ہوئے ہیں یہ کیسے مان لیا جائے کہ محض حکومت کے سامنے ایک مرتبہ دعوت پیش کرکے پورے ملک کے انسانوں کو دعوت دینے کا فریضہ ادا ہو گیااور حجت تمام ہو گئی اب ان کے لئے جنگ کے علاوہ کوئی راستہ نہیں باقی رہ جاتاہمیں مکمل یقین ہے کہ اسلام کی ابتدئی صدیوں میں اگر عام انسانوں تک پہنچنے اور ان کو اللہ کے دین کی طرف گفتار و کردار سے دعوت دینے اور اسلامی زندگی کی حقیقی برکتوں سے ان کو رو شناس کرانے کے امکانات ہوتے اور حکومت واقتدار کی طاقتیں لوگوں کی عقلوں اور دلوں کو فتنہ میں مبتلانہ کرتیں تو کبھی ان امکانات کے باقی رہتے ہوے مسلمان کسی حکومت کو ہٹانے کے لئے جنگ نہ کرتے۔
اگر چہ میں اس تاریخی حقیقت سے ناواقف نہیں ہوں کہ دین حق کی یہ دعوت بہت جلدحکومتوں اور مقتدر طبقات کو اپنے ظالم نظام اور فاسد طریقۂ زندگی کے لئے ایک خطرہ نظر آنے لگتی ہے، اور پھر وہ اس کے راستہ میں مکر و فریب سے لے کر ظلم و جبر تک کی ساری رکاوٹیں کھڑی کرنے لگتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جس کو قرآن نے فتنہ کہا ہے۔ یقیناًایسی صورت میں ان حکومتوں کو ختم کرنا ایک مقدس اسلامی فریضہ اور انسانی خدمت کا ایک ضروری کام ہوگا۔مگر پھر بھی اگر کوئی یہ کہے کہ غیرمسلموں کی حکومت فی نفسہ ایسی چیز ہے کہ اس کو ختم کرنے کے لئے جنگ کرنی چاہئے چاہے وہ کسی ظلم و جبر اور اسلام کا راستہ روکنے کی مجرم نہ ہو ، تو یہ بات اسلام کے بارے میں غلط تاثر ضرور قائم کرے گی۔
یہ بات بالکل حقیقت پر مبنی ہے کہ ہرمعاشرہ کی قیادت اپنی تہذیب اور اپنے تصورات کو رائج کرنا چاہتی ہے۔ قوموں میں اپنے عقائد و تصورات اور تہذیب و طرز زندگی کے لئے ایسا تعصب ہوتا ہے کہ وہ ہر نئی دعوت و تحریک کی مخالفت اپنا قومی فریضہ جانتی ہیں۔خصوصاًان کی قیادت اور طاقت کے مراکز پرقابض طبقہ(قرآن کے الفاظ میں ’’الملأ‘‘ کا طبقہ) تعصب اورتہذیبی استکبار میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے. اگر وہ شروع میں کسی ایسی نئی دعوت کو ( جو زندگی کے بگاڑ کی بنیادی اصلاح کرنا چاہتی ہو) برداشت کر لیتے ہیں تو ان کو جیسے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی آواز کی طرف دل متوجہ ہو سکتے ہیں اور وہ کچھ انسانوں کو متاثر کر سکتی ہے، اسی وقت سے وہ اس کے دشمن بن جاتے ہیں اور اپنی قوم کو قائل کرنے کے لئے اس کے خلاف طاقت کے استعمال کا جواز یہ کہ کر پیش کرتے ہیں کہ:
إِنْ ہَذَانِ لَسَاحِرَانِ یُرِیْدَانِ أَن یُخْرِجَاکُم مِّنْ أَرْضِکُم بِسِحْرِہِمَا وَیَذْہَبَا بِطَرِیْقَتِکُمُ الْمُثْلَی۔ فَأَجْمِعُوا کَیْْدَکُمْ ثُمَّ اءْتُوا صَفّاً
’’یہ چاہتے ہیں کہ تم کو اپنے جادو کے زور سے اپنے ملک سے بے دخل کر دیں اور تمہارے شاندار طرز زندگی کاخاتمہ کر دیں، لہٰذا تم سب اپنی طاقت جمع کرو اور متحد ہو کران کے مقابلے کوآؤ۔‘‘
اس تاریخی اور فطری حقیقت کی مثال ہمارے سامنے ہے۔یورپ نے صدیوں انسانی حقوق کا راگ الاپا اور شخصی آزادیوں کے نعرے لگائے اور جو مذہبی آزادی کا چمپین بنا رہااس نے عالم اسلام کو طاقت کے زور سے فتح کیا اور پھر اس کی تہذیبی و فکری یورش نے مسلمانوں کی دینی بنیادیں ہلادیں۔اس دوران یورپ کے مختلف ممالک میں مسلمان جاجا کر آباد ہوئے۔ لمبے عرصے تک وہاں کی حکومتوں نے پوری مذہبی آزادی دی، لیکن اب جب اسلام کی دعوت مغرب میں عام ہونے لگی اور مغرب کا انسان اپنی تہذیب کے داخلی تضادات اور کھوکھلے پن کے احساس سے مجبور ہو کر اسلام کی طرف نگاہ اٹھانے لگا ہے تو یہی آزادیِ انسان کی علم بردار حکومتیں مسجد کے میناروں اور نقاب کے خلاف قانون بنانے لگی ہیں،اور پوری ڈھٹائی کے ساتھ اسلام کے داعیوں کا اپنے ملک میں داخلہ بند کرنے لگی ہیں۔
ہم ان حقیقتوں سے غافل نہیں ہیں،اور قرآن نے دعوت دین کے راستے میں پیش آنے والی اس فطری صورت حال کی طرف ہماری رہنمائی بھی کی ہے ،مگر ہم ایک بار پھر اپنی اس رائے کو دہراتے ہیں کہ یہ کہنا اسلام کو بدنام کرنا ہوگاکہ جنگ کرنے کے لئے محض یہ بات کافی ہے کہ دنیا میں کوئی غیر مسلم قوم اپنی خود مختار حکومت رکھتی ہے جو نہ کسی بڑے ظلم کی مرتکب ہے اور نہ اپنی عوام تک اسلام کی دعوت پہنچنے کی راہ میں مزاحم ہے۔ہاں اگر وہ اللہ کے دین کی مخالفت میں ’’فتنہ‘‘ کی مرتکب ہے تو ضرور اللہ کے بندوں پر یہ فریضہ عائدہوگا کہ وہ اس کا خاتمہ کر کے راستے کی رکاوٹوں کو دور کر دیں ۔ لہٰذا اسلامی اصول یہ قرار پایا کہ جب تک کوئی غیر مسلم حکومت دین حق کی راہ میں رکاوٹیں نہیں کھڑی کرتی، اس وقت تک مسلمانوں سے اصل مطالبہ یہی ہے کہ وہ دعوت ونصیحت پر اپنی ساری کوششوں کو مرکوز کر دیں اور انبیا علیہم السلام کے طریقہ پران پر اتمام حجت کر دیں ، جس کے بعد اللہ تعالی اہل ایمان کے لئے ضرور بالضرور یا دِلوں کو فتح کر دیتا ہے یا ملکوں کو۔اور یہ اس کی ناقابل تبدیل سنت ہے ۔
واضح رہے کہ ہماری اس بات کا تعلق محض اس مفروضے سے ہے کہ کوئی حکومت عملاً دعوت اسلام کے سامنے رکاوٹ نہیں بن رہی ہو اور صلح پر آمادہ ہو۔ واقعہ میں کون سی حکومت کس کے لیے کیسی ہے، ہم اس سلسلے میں کچھ نہیں کہہ رہے۔ ہم بس یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اسلام صلح چاہنے والی اور اسلامی دعوت کا راستہ نہ روکنے والی حکومت سے جنگ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

ایک ضروری تنبیہ:

اس کے علاوہ قرآن وسنت کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ یہ بات سنت اللہ میں طے ہے کہ مسلمان جب بھی اپنے منصب شہادت کے ساتھ ناانصافی کریں گے اور ان کا عمومی حال دین سے غفلت اور اللہ کو ناراض کرنے والا ہو گا تو ان کو اللہ کی طرف سے دنیا میں ایسی طاقت اور عزت نہیں مل سکتی کہ وہ اقدامی کارروائیوں کی پوزیشن میں ہوں۔ اس دور میں ان سے اپنے علاقوں کا اور اپنی آزادیوں کا دفاع بھی نہیں ہو پاتا، تا آنکہ وہ اللہ سے اپنا معاملہ ٹھیک کرلیں۔ یعنی شرعی ہی نہیں تکوینی طور پر بھی امت مسلمہ اللہ سے دوری اور ’نقض عہد‘ کے دور میں اس طرح کے اقدامی جہاد کے لائق نہیں رہ سکتی۔ قرآن نے اس کو صاف اور قطعی طور پر واضح کیا ہے، اور اس کی دلیل کے طور پر بنی اسرائیل کی تاریخ کو پیش کیا ہے۔ 

جاہلانہ غلو کی ایک مثال:

ہمارے یہاں اور دینی حمیت کے نام پر کس قدر جہالت آمیز غلو کے شکار ’’اہل علم وقلم‘‘ پائے جاتے ہیں اس کی ایک مثال اس وقت میرے سامنے ہے۔ سرٹی ڈبلیو، آرنلڈ سے برصغیر کے اہل دانش ناواقف نہیں۔ جب دنیا اسلام کے تلوار کے زور پر پھیلنے کے پروپیگنڈے سے گونج رہی تھی، شور تھا کہ مسلمانوں نے تلوار کی دھار پر قوموں کو زبردستی مسلمان بنایاہے۔ اور یہ سب اس لئے تھا کہ استعماری طاقتوں اور عیسائی مشنریز کے لئے دنیا کی قوموں کو اسلام سے برگشتہ کرنا آسان ہوجائے، اس وقت اس غیرمسلم حق گو کی آواز اٹھی کہ سب جھوٹ ہے۔ ایک شاندار کتاب The Preaching of Islamکے نام سے ایسی شائع کی جس کی افادیت آج بھی مسلّم ہے۔ ایسے منصف مزاج اور مسلمانوں کے حق میں مفید ثابت ہونے والے غیر مسلم دانشور کے بارے میں ایک صاحب فرماتے ہیں کہ ان جیسوں کو تہ تیغ کردینا چاہئے۔ لاحول ولاقوۃ إلا باللہ۔
ہم آپ مزید شرمندہ وحیران اور مضطرب ہوں گے جب آپ ان صاحب کو دیا گیا علمی مرتبہ جانیں گے۔ قصہ یہ ہے کہ آرنلڈ کی کتاب کا دنیا کی مختلف اسلامی زبانوں میں ترجمہ کیاگیا، عربی کے مترجم نے مصنف کے تعارف میں یہ لکھ دیا کہ ’’حق یہ ہے کہ ہم مصنف کی قدر نہیں کرسکتے‘‘۔ بس کیا تھا، ایک برخود غلط نادان ’’دکتور‘‘ نے تبصرہ فرمایا: 
اس کی قدر؟ اس کی قدریہ ہے کہ تلوار سے سر قلم کردیا جائے ، الا یہ کہ وہ اسلام کے سامنے سرجھکادے یا جزیہ دے۔
’’قلت ان قدرہ لو یعلم ہٰؤلاء ھو الضرب بالسیف حتی یبرد، او یخضع الإسلام أو یدفع الجزےۃ‘‘ (أھمےۃ الجہاد للعلیانی، صفحہ: ۲۶۲، بحوالہ فقہ الجہاد، شیخ یوسف القرضاوی: ۱/۲۵۳)
معاف کیجئے گا جو شرمندگی ہو کہ ہمارے درمیان دین وشریعت میں اسی قدر کج فہمی کے شکار بھی پائے جاتے ہیں۔ یہی نہیں، حیرانی وشرمندگی کی انتہا نہیں رہتی جب معلوم ہوتا ہے کہ موصوف اس تحریر پر جامعہ ام القری ،سعودی عرب سے ڈاکٹریٹ کی سندپاتے ہیں اور ان کو ممتاز کا گریڈ دیاجاتا ہے ۔ کیسے عرض کیاجائے کہ سعودی عرب میں علم دین کے ساتھ کیسا مذاق ہورہاہے! اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے غیر مسلموں کے لئے یہ خیالات رکھنے والے نہ قرآن کو سمجھتے ہیں نہ حدیث کو۔ کاش ان کی نظر جاتی کہ بدر کے قیدیوں کو دیکھ کر رسول اللہ ؐ کو ایک پرانا غیر مسلم محسن مطعم بن عدی یاد آتاہے، جس نے آپؐ کوطائف سے واپسی پر پناہ دی تھی، آپؐ فرماتے ہیں: اگر مطعم حیات ہوتے اور اِن کوچھوڑنے کی سفارش کرتے تو میں اُن کی خاطر اِن سب کو چھوڑ دیتا۔ (بخاری: ۴۰۲۴)
اس ذہنیت کے لوگوں کی نفسیات کا یہ محض ایک نمونہ ہے۔ اس کو ایک دو افراد کا مسئلہ سمجھنے کی غلطی نہیں کرنی چاہئے۔ مسلمانوں کی مظلومیت اور مغرب کی لگاتار اور بے حیا چیرہ دستیوں نے ایک عجیب قسم کی برخود غلط سوچ پیدا کردی ہے، جو ہمارے لئے ایک مشکل مسئلہ بن رہی ہے۔ اسلام کے یہ نادان دوست اسلاموفوبیا پھیلانے والوں اور صیہونیت اور صلیبیت کی نہایت بیش بہا خدمت انجام دے رہے ہیں۔

اسلامو فوبیا کی خدمت:

کچھ لوگ دینی حمیت وصلابت کے نہایت پسندیدہ جذبے سے ایسی تعبیرات پر اصرار کرتے ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچانے والی ہوتی ہیں۔ آپ ذرا سوچئے! یہ بات کہ اگر ہمارے پاس قدرت ہوگی تو ہم دنیا کی ہر قوم کو اس حق سے محروم کردیں گے کہ وہ اپنے اوپر اپنی پسند اور اپنی قوم کی حکومت قائم کرے۔ وہ یا تو اسلام قبول کرے ورنہ اس کو ہماری حکومت کے تحت رہنا ہوگا غیر مسلموں کے لیے کیسا خوف زدہ کرنے والا تصور ہے۔ جہاد کی یہ تعبیر مشرق ومغرب کی تمام قوموں کو اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی پر متحد کررہی ہے۔ اور مسلم دشمن لابیوں کو اس کا سامان فراہم کر رہی ہے کہ وہ دنیا کی مختلف قوموں کو یہ باور کرائیں کہ مسلمان واقعۃً ایسا خطرہ ہیں کہ ان کو ویسے ہی دبا کر رکھنا ضروری ہے جس طرح امریکہ واسرائیل کے زیر قیادت دنیا میں اِس وقت ان کو رکھا جارہا ہے۔

آخری بات:

اس خاص پہلو پر فوری غور کی اس لیے شدید ضرورت ہے کہ بظاہر دنیا میں قیادت اور پالیسی کی بڑی تبدیلیاں قریب ہیں، بلکہ ان کا آغاز ہو چکا ہے۔ خود مغرب پورے طور پر آگاہ ہے کہ ان تبدیلیوں کا آغاز اس قوت اور رفتار سے ہو چکا ہے کہ اب ان کو روکنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔قیادت اور سیاسی ثقل کا مرکز امریکہ اور مغربی یورپ سے جنوبی ایشیا منتقل ہو رہا ہے۔نئی قیادت اپنے مصالح کے مطابق یقیناًنئی پالیسیاں بنائے گی۔ امریکہ اور اسرائیل اس وقت اسلام سے خوف دلا کر اپنی پالیسیوں کی بقااور مفادات کے تحفظ کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی کوشش ہوگی کہ وہ دنیا کی نئی قیادت کو پھر سے مسلمانوں سے اسی طرح متنفر کر دیں جس طرح جانے والی قیادت کو لگاتار ایک خاص نفسیاتی کیفیت میں مبتلا رکھا گیا۔ اگر اس کروٹ بدلتی دنیا میں اور اس کے نئے سیاسی ذہن میں بھی وہی اسلام فوبیا اور اسلام دشمنی باقی رہی تو یقیناًہم اگلی نئی دنیا میں دعوت اور امن وانصاف دونوں کے امکانات کو کھو دیں گے۔

صلح

اسلام کے قانون بین الاقوام کا اصل الاصول صلح ہے۔ یعنی دنیا کی ریاستوں کے ساتھ مسلم ریاست کے تعلق کی اصل نوعیت یہ ہے کہ وہ پرامن صلح پر مبنی ہوں گے۔ قرآن نے مسلمانوں کے لیے جس وقت جنگ کرنے کی اجازت دی ہے اسی وقت جنگ کے جواز (Justification)کے سبب کے طور پر یہ بات بیان کی ہے کہ :
أُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا
’’جن لوگوں پر جنگ مسلط کی جارہی ہے ان کو (اب )اجازت دی جارہی ہے اس لیے کہ وہ مظلوم ہیں۔‘‘
یعنی مکہ کے ظالموں نے لوگوں کے لیے آزادی کے ساتھ اللہ کے دین پر قائم رہنا مشکل کر رکھا ہے، پہلے انہوں نے مکہ میں اسلام قبول کرنے والوں پر دائرۂ حیات ایسا تنگ کیا کہ انہیں اپنی متاعِ جان وایمان بچا کر بھاگنا پڑا، اور اب وہ مدینے میں بھی ان کو چین سے نہیں بیٹھنے دے رہے ہیں اور یہاں بھی ان کے خلاف مستقل جنگ چھیڑ رکھی ہے ۔ اس لیے اللہ کی طرف سے اس مذہبی جبر’’الفتنۃ‘‘ کو ختم کرنے کے لیے قتل و قتال کی اجازت دی گئی ہے۔
اسی سورت بقرہ میں اس سے پہلے جب پہلی مرتبہ قتال کا حکم مسلمانوں کو دیا جارہا تھا، کہا گیاہے کہ ان مسلمانوں کی جنگ پر کسی اعترض کی کوئی گنجائش نہیں، اس لیے کہ ان کے خلاف ان مکہ والوں نے خود جنگ چھیڑ رکھی ہے:
وَقَاتِلُوا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُونَکُمْ وَلاَ تَعْتَدُوا إِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبِّ الْمُعْتَدِیْنَ۔ وَاقْتُلُوہُمْ حَیْْثُ ثَقِفْتُمُوہُمْ وَأَخْرِجُوہُم مِّنْ حَیْْثُ أَخْرَجُوکُمْ وَالْفِتْنَۃُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ (البقرۃ: ۱۹۰۔۱۹۱)
’’اور اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جنگ کرو جو خود تم سے جنگ کر رہے ہیں، اور(خود) کوئی زیادتی مت کرنا۔ اللہ زیادتی کرنے والوں کو ناپسند کرتا ہے۔ اور ان کو جہاں پاؤ قتل کرو، اور انکو وہاں سے(یعنی مکہ سے) بے دخل کرو جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے۔ اور ’’فتنہ‘‘ قتل سے بڑی برائی ہے۔‘‘
مگر قرآن کہتا ہے کہ امکان ہو تو صلح ضرور کر لی جائے۔جہاد وقتال کے لیے جوش دلانے والے ایک ولولہ خیز سلسلۂ کلام میں ارشاد ہوتا ہے کہ:
وَإِن جَنَحُواْ لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَہَا وَتَوَکَّلْ عَلَی اللّہِ إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔ وَإِن یُرِیْدُواْ أَن یَخْدَعُوکَ فَإِنَّ حَسْبَکَ اللّہُ (الانفال:۶۱۔۶۲)
’’اگر یہ (خدا اور مسلمانوں کے دشمن ، اپنی دشمنی کے باوجود ) مصالحت کی طرف جھکتے ہیں تو تم بھی اس کی طرف جھک جانا، اور اللہ پر بھروسہ رکھو ۔بے شک وہ (سب) سننے اور جاننے والا ہے۔ اگر ان کی نیت تم کو دھوکہ دینے کی ہوگی تو اللہ تمہارے لئے کافی ہے۔‘‘
جیسا کہ ہم باب دوم کی دوسری فصل میں تفصیل سے لکھ چکے ہیں کہ ان آیات کا سیاق و سباق مسلمانوں کو مشرکین مکہ کے خلاف جنگ پر آمادہ کرنے اور اس کی تیاری کے لئے جوش و حمیت پیدا کرنے کا ہے۔ پھر بھی کہا جاتا ہے کہ دشمن اگر صلح پر آمادہ ہوتا ہے تو صلح کرنے کا حکم ہے۔کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہوسکتا تھا کہ دشمن صلح کے بہانے دھوکہ نہ دے دے۔ سو اس کی پیش بندی کے طور پر پہلے تو کہا کہ صلح کرنے میں توکل علی اللہ کا مظاہرہ کرو۔ پھر مزید صراحت کی کہ اگر ان کے دھوکہ دینے کا اندیشہ ہو تو جان لو کہ اللہ پر توکل ہی تمہارا سرمایہ ہے۔ یعنی اس سلسلے میں اندیشہائے دور دراز کا زیادہ خیال نہ کرو۔
یہ آیات (مدینہ کے یہودی قبائل کے بارے میں یا) مکہ کے ان مشرکین کے سلسلہ میں نازل ہو رہی تھیں جن سے اس دور میں اصل جنگ چل رہی تھی،جو اسلام کے سب سے بڑے دشمن تھے ، جنہوں نے اسلام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور شہر اسلام مدینہ منورہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کو اپنا قومی مقصد بنا رکھا تھا۔ اور یہودی قبائل ان کے مددگار بنے جا رہے تھے۔ ان آیات کا اصل موضوع جہاد وقتال پر آمادگی بلکہ اس کا جوش پیدا کرنا ہے،ان کا انداز واسلوب بھی ولولہ خیز اور جذبات انگیز ہے۔ اس کے باوجوداسی سیاق میں یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر وہ صلح کی جانب جھکیں تو تم بھی صلح کے لئے تیار ہونے میں حوصلے کا مظاہرہ کرنا، اور اللہ کے بھروسے پر اس کے لئے باوجود اس کے تیار ہو جانا کہ دشمن ناقابل اعتبار ہے اور اس سے عہد شکنی اور دغا کا خطرہ ہے۔
ان آیات کے اس سیاق کی بنیاد پر ہم واضح کر چکے ہیں کہ یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ صلح کی گنجائش صرف اس وقت ہے جب مسلمانوں کی پوزیشن اتنی کمزور ہو کہ وہ جنگ کرنے کے موقف میں نہ ہوں۔ جن آیات میں صلح کی پیشکش کو قبول کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، ان کا سیاق و سباق ببانگ دہل اعلان کر رہا ہے کہ اس وقت ایسی مجبوری کی صورت حال نہیں ہے، جیسا کہ باب دوم کی دوسری فصل میں لکھا جا چکا ہے۔

فقہی ذخیرے میں صلح عارضی کیوں نظر آتی ہے؟

اگرچہ قرآن کی اس آیت پر غور وتدبر کی نگاہ اس بات کو بے غبار کر دیتی ہے کہ ’’صلح کے حقیقی امکانات پائے جانے پر اسلام کے قانون میں صلح کرنا ہی ضروری ہے‘‘، مگر یہ بھی صحیح ہے کہ ہمارے فقہی ذخیرے میں صلح وجنگ کے سلسلے کی جو تفصیلات ملتی ہیں اس سے مجموعی طور پر یہ تأثر نہیں قائم ہوتا کہ ’’اسلام کے قانون بین الاقوام کا اصل الاصول صلح ہے‘‘۔ ان کے مطالعے سے واضح طور پر یہ تأثر قائم ہوتا ہے کہ صلح صرف عارضی شے ہے۔
اس کا سبب اس زمانے کا تمدن اور بین الاقوامی اور سیاسی صورت حال تھی۔ اور اس زمانے کے لیے یہی شرعی حکم تھا۔ اصل میں اُس زمانے میں دنیا میں کہیں بھی مستقل صلح کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ عملاً ہی نہیں، نظری طور پر بھی ریاستوں کے درمیان ایسی دائمی صلح سیاسی اور اخلاقی فکر کے لیے اجنبی چیز تھی۔ انسانی تمدن کی اس وقت یہی حالت تھی کہ کسی مملکت کے لیے اگر جنگ ممکن ہوتی تھی تو وہ جنگ کرکے دوسری طاقتوں کو زیر کرنا اپنا فرض سمجھتی تھی۔ 
مزید اس وقت کی بین الاقوامی صورت حال کا ایک اور پہلو ایسا تھا کہ اس کی بنا پرعلماء امت کا فریضہ بنتا تھا کہ وہ مسلم حکومتوں کو متنبہ کریں کہ صلح بس مجبوراً ہی کی جائے۔ وہ پہلو یہ تھا کہ قدیم زمانے میں ریاستیں واضح طور پر کوئی نہ کوئی مذہب رکھتی تھیں، بلکہ ہر ریاست تعصب کی حد تک مذہبی تصورات پر قائم ہوتی تھی اور اِس کا اُس دور میں تصور ہی نہیں تھاکہ کوئی غیر مسلم حکومت اپنے زیر اقتدار علاقوں میں اللہ کے بندوں کو اس کے دین کی طرف بلانے کے لیے امکانات کھلے چھوڑ دے۔ یہ بات اس وقت بالکل ناقابل تصور تھی۔ ہر حکومت کے بارے میں یہ بات طے تھی کہ وہ بزور قوت امت مسلمہ کی ایمانی و اصلاحی دعوت کی راہ میں مزاحم بنے گی اور اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان ضرور حائل ہو گی۔ لہٰذا اس وقت صلح کا لازمی نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ امت اس پورے خطے کے بارے میں صبر کرلے اور وہاں کے انسانوں کو اللہ کی عبادت کی طرف بلانے اور اس کی بندگی کے راستے پر چلانے کی جدوجہد نہ کرنے کو منظور کر لے۔ ظاہر ہے کہ امت مسلمہ کے لیے اس صورت حال کو مستقل طور پر تسلیم کرنے کی کسی طرح اجازت نہیں دی جاسکتی۔ یہ بات امت مسلمہ کے لیے اپنے فرض منصبی کے خلاف ہے۔ اس لیے علماء امت نے اس زمانے میں بجا طور پر یہ خیال ظاہر کیا کہ صلح برائے مصلحت اور عارضی طور پر ہی کی جائے ۔
لیکن اگر اس صورت حال سے الگ کرکے اصل مسئلے پر غور کریں تو قرآن کی یہ بات اپنی جگہ قائم رہتی ہے کہ جنگ ’’فتنہ‘‘ کی صورت میں اسی باطل کوش طاقت کے خلاف کی جا سکتی ہے جو بزور قوت انبیاء علیہم السلام کی ایمانی و اصلاحی دعوت کی راہ میں مزاحم بن رہی ہو، اور اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان حائل ہو رہی ہو۔ورنہ اسلام کے قانون بین الاقوام میں اصل صلح ہی ہے۔

ایک ضروری وضاحت:

اوپر ایک سے زائد جگہ پر قرآن کے یہ الفاظ ’’وقاتلوہم حتی لا تکون فتنۃ ویکون الدین للہ‘‘  گذرے ہیں، جن کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اے مسلمانو!مشرکین مکہ (جن سے جنگ کے حالات کے پس منظر میں یہ آیات اتر رہی ہیں ، اور جن سے جنگ کرنے کا اس وقت حکم دیا جا رہا تھا ان) سے اس مقصد سے جنگ کرو کہ ’’فتنہ‘‘ اور مذہبی جبر و ایذارسانیوں کا یہ سلسلہ بند ہو ،اور دین اللہ کے لئے خالص ہو جائے۔ ’’فتنہ‘‘ کا جو لفظ یہاں آیا ہے اس کی وضاحت تو اس کتاب میں ہو چکی ہے کہ عربی زبان کی روح سے اس کے معنیٰ ستانے ، اور آزمائش میں ڈال کر مجبور کرنے کے ہیں۔ جن لوگوں نے اس کو محض شرک کے معنی میں لیا ہے ان کو یہ خیال اس لئے ہوا ہے کہ مسلمانوں کو مشرکین عرب سے، ایک مرتبہ جنگوں کا سلسلہ شروع ہو جانے کے بعد، اس وقت تک جنگ جاری رکھنے کاحکم تھا جب تک اس سرزمین سے شرک کی جڑیں نہ اکھیڑ دی جائیں، یعنی عرب کے مشرکین سے اسلام کی جنگ کی غایت اور انتہا یہ قرار دی گئی تھی کہ سرزمین عرب سے شرک کا خاتمہ ہوجائے۔ اس لئے ان حضرات نے اس آیت کے بھی یہ معنی بتلائے کہ مسلمانوں کو مشرکین مکہ سے اس وقت تک جنگ کرنے کا حکم تھا جب تک کہ سرزمین عرب سے شرک ختم نہ ہو جائے۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ ’’فتنہ‘‘ کا لفظ صرف ’اکیلے شرک‘ کے معنی میں نہیں آتا۔
یہاں ایک وضاحت ضروری ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ ’’ویکون الدین للہ‘‘ جو جنگ کا مقصد بتلایا گیا ہے ، یعنی یہ کہ جنگ کرو ’’تاکہ دین اللہ کے لئے خالص ہو جائے‘‘، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ لوگوں کو زبردستی مسلمان بنانے کے لئے جنگ کا حکم دیا جا رہا ہے۔ اس کی سب سے اہم اور بنیادی دلیل یہ ہے کہ قرآن نے غیر مسلموں سے جزیہ لے کر صلح کرنے کی اجازت دی ہے۔ اور نہ اس کا یہ مطلب ہے کہ اسلامی جہاد کے تصور کی بنیاد یہ خیال ہے کہ سوائے مسلمانوں کے کسی اور قوم کو اپنی خود مختار حکومت قائم کرنے کا حق نہیں ہے۔ یہ حکم اصلاً صرف جزیرۃ العرب کے لئے ہے کہ اس میں اسلام کے علاوہ کسی اور کی حکومت کو باقی رکھنا مسلمانوں کے لئے ممکن نہیں چھوڑا گیا تھا۔ قرآن نے یہ بات بالکل صاف کی تھی کہ مکہ کی حیثیت ایک ’’ابراہیمی واسماعیلی وقف‘‘ کی ہے اور بنی اسماعیل کا یہ پورا ہی علاقہ ابراہیمی دعوت کے مرکز بننے کے لئے خاص کر لیا گیاتھا۔ لہٰذا اس جزیرہ کے اندر سلسلۂ قتال کا آخری مقصد اور اس کی غرض و غایت یہ بتائی گئی کہ جزیرۃ العرب تمام تر اللہ کے دین کے تحت آ جائے۔
اسی آیت کی گویا وضاحت تھی رسول اللہؐ کی یہ خاص وصیت کہ’’مشرکین اور یہود و نصاریٰ کو جزیرۃ العرب سے نکال دیا جائے‘‘ ۔ (صحیح بخاری ۳۰۳۵ و صحیح مسلم ۱۷۶۷) اور یہی آیت آپؐ کے اس فرمان کی بھی بنیاد تھی کہ ’’لا یبقینّ دینان فی جزیرۃ العرب‘‘ (موطا ۱۳۸۸) جزیرۃ العرب میں اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کی گنجائش نہ رہے۔ 
اس پوری تفصیل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے قرآن کا حکم ہے کہ اگر کوئی قوم شریفانہ صلح کے لئے آمادگی کا اظہار کرے تو اس کو ضرور قبول کیا جائے۔ لہٰذا اگر کوئی غیر مسلم ریاست مسلمانوں کے ساتھ صلح پر آمادہ ہو سکے اور اپنے علاقہ میں پُر امن طور پر اسلام پر عمل کرنے اور اپنی سر زمین پر اللہ کے بندوں کو اللہ کی عبادت اور بندگی کرنے دیتی ہے اور اللہ کے بندوں کو اس کے دین و شریعت کی طرف دعوت دینے اور اس کی راہ پر چلانے کی اس جد و جہد میں(جس جدوجہد کے لیے ہی امت اسلامیہ کو اصلا وجود بخشا گیا تھا) طاقت کے زور سے حائل نہیں ہوتی، یعنی ظلم اور ’’فتنہ‘‘ کی صورت نہیں پائی جاتی ، تو ایسی صورت میں مسلمانوں کے لئے دعوت و نصیحت کے راستے کے امکانات کو استعمال کرنے سے پہلے قتال وجنگ کرنا جائز نہیں ہوگا، بلکہ ان کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ پہلے اس راستے پر خوب محنت کر لیں یہاں تک کہ اللہ کی حجت تمام ہو جائے، اور اللہ اپنی سنت کے مطابق کوئی فیصلہ فرما دے جو حجت تمام ہونے کے صورت میں وہ یقیناًفرمایا کرتا ہے۔

جہاد اور امپیریلزم؟

اسلام نے مسلمانوں کو جس جہاد کی تعلیم دی ہے، اس کے جو مقاصد اور ہداف قائم کیے ہیں، اس کے جو شرائط اور قوانین طے کیے ہیں، اورسب سے بڑھ کر اس میں تقرب الی اللہ، خدا پرستی اورمتاع دنیا سے بے رغبتی کی جو روح پھونکی ہے،اس کی تفصیلات پر نظر رکھنے ولا ہر سلیم الفطرت یہ گواہی دے گا کہ اس جہاد کا قیام انسانی دنیا کی ضرورت اور اللہ کا ایک فضل ہے، جو تاریکی و ظلم اور بدی کے دھوئیں کو چھاٹنے کا ذریعہ اور نوع انسانی کو شقاوت کی کھائیوں سے نکال کر سعادت کی بلندیوں پر پہنچانے کاوسیلہ ہے۔
ہو سکتا ہے کہ کوئی کسی جماعت کی نیت میں شک کرے۔ یہ شک صحیح بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کسی زمانے میں مسلم جنگجو جماعت عملی طور پر ’’صحیح جہادی اقدار‘‘ کی حامل نہ ہو۔ مگر یہ ممکن نہیں کہ بطوراصول ونظریہ کوئی اسلام کی جہادی تعلیم کو انسانی دنیا کی سعادت کا ذریعہ ماننے کو غلط ٹھیرا دے۔ 
ہر سوچنے سمجھنے والا قرآن کی اس بات کی تصدیق کرے گا کہ اگر دنیا جہادی روح وجذبہ رکھنے والے اللہ کے مخلص بندوں سے خالی ہو جائے تو شیطانی اور ہوس کی طاقتیں خدا پرستی کا جنازہ نکال دیں گی۔ 
وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَہُم بِبَعْضٍ لَّہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیْہَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْراً (الحج: ۴۰)
قرآن مزید کہتا ہے کہ پھر زمین کے بگاڑ کو روکنے والی کوئی چیز نہیں ہوگی۔ لہذا یہ تو دنیا پر اللہ کا خاص فضل ہے کہ اس نے انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ اپنے خاص بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ پاکیز گی اختیار کریں اور دنیا کو فسادو ظلم سے بچانے کے لیے اور انسانوں کی ہدایت اور خیر خواہی کے لیے ضرورت ہو تو جہاد کے اصول پر جنگ کریں ۔
وَلَوْلاَ دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الأَرْضُ وَلَکِنَّ اللّٰہَ ذُو فَضْلٍ عَلَی الْعَالَمِیْنَ۔ 
جدید دور میں ہمیں ایک عجیب اور نسبۃً نئی قسم کی صورت حال سے واسطہ پڑتا ہے۔ مغرب کے جدید ’’دور تہذیب و ترقی‘‘ سے پہلے سلطنتیں ایک دوسرے پر جہانگیریت (Imperializm) اور وسائلِ حیات پر قبضے کے لیے حملے کرتی تھیں، اور یہی ان کی حکومتوں کے مقاصد ہوتے تھے، اور ان کی جنگوں کے بھی۔ ان کا کردار، طرز جنگ اور مفتوح قوموں اور علاقوں کے ساتھ ان کا برتاؤ انہی مقاصد کے مطابق ہوا کرتا تھا۔ ان حکومتوں نے دنیا میں آشتی کے پیامبر اور ’’ امن کی فاختہ ‘‘ ہونے کے ترانے نہیں گائے تھے۔ اور نہ جمہوریت ، حقوق انسانی اور تہذیب کی معلمی کو اپنا مشن بتایا تھا۔ اس لیے ان کا معاملہ سادہ تھا۔ مگر جدید مغربی حکومتیں اپنے جہانگیری اور توسیعی عزائم وکردار میں سکندر و دارا سے بڑھے ہونے کے باوجود، امن و آشتی کا پیر ہن پہن کر سامنے آتی ہیں۔ اور دعویٰ کرتی ہیں کہ ان کی جنگیں تہذیب وانسانیت کی ترقی کی خاطر، فلاح عام کے مقصد سے، حقوق انسانی کی نگہبانی اور جمہوریت کے فروغ کے لیے ہیں۔ ان مغربی حکومتوں نے قول و عمل میں تضا دکے نئے ریکارڈ قائم کئے۔ الفاظ کی بازی گری اور نہایت مکروہ حقائق پر حسین و دل فریب پر دے ڈالنے کا عجب کلچر قائم کیا۔ لہوپی کر تعلیم مساوات دی۔ ان کی درندگی اور خباثت کا وہ حال ہے جو ابو غریب اور گوانٹا نامو میں نظر آیا ہے،مگر اندروں چنگیز سے تاریک تر رکھ کر بھی یہ روشن خیالی کی تبلیغ کرتی ہیں۔ اس نئی صورت حال نے لوگوں کو اس شبہ میں ڈالا ہے کہ اسلام کا دعویٰ بھی کہیں ایسا نہ ہو کہ اصلاح و فلاح کے سارے وظیفے زبان تک محدود ہوں اور عملاً صرف قوت و استبدا د مقصد ہو۔
اگرچہ بنیادی طور پر یہ شبہ کرنا ہی اس لیے غلط ہے کہ کسی دعوت یا نظر یہ کو جانچنے کا یہ کوئی پیمانہ نہیں ہے کہ اس کے حاملین کے کر دار کو کسوٹی بنا لیا جائے یا ان کی نیت پر اس لیے شبہہ کیا جائے کہ دوسروں نے بھی بظاہرا چھے مقاصد کا نام لے کر بری نیتیں رکھی ہیں ۔ نظریات اور دعوتوں کو جانچنے کا ذریعہ صرف دلائل وحقائق کی آزمائش ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ اسلام ایک دینی و روحانی دعوت ہے۔ اس کا اصل مقصود کسی قوم کی حکومت یا قوت نہیں ہے، بلکہ ان اخلاقی اقدار اور روحانی حقائق کا فروغ اس کا اصل مطلوب ہے جو اس کی دعوت کی بنیاد ہیں۔ مسلمانوں کی قوت اگر ان اقدار کے فروغ میں معاون ہو تو وہ مطلوب ہے۔ اور اگر وہ ان کے احیاء و فروغ میں رکاوٹ بنے یہ قوت قابل نفرت ہے، اور قرآن کے بیان کے مطابق اللہ کی سنت میں یہ بات طے ہے کہ وہ مسلمانوں کی ایسی قوت کو توڑ کر ان کو ذلت کا مزہ ضرور چکھا ئے گا۔ اسلام نے جنگ کو ’’جہاد فی سبیل اللہ ‘‘ کی روح اور قالب عطا کیا ہے۔ وہ جہاد کرنے والے کو ہر دم یومِ جزا کی فکر میں رکھتا ہے، اور اس کو خدا وند قہار کے سامنے کھڑے ہونے کی منزل یاد دلا تا رہتا ہے۔ قرآن صاف آگاہ کرتا ہے:
تِلْکَ الدَّارُ الْآخِرَۃُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُونَ عُلُوّاً فِیْ الْأَرْضِ وَلَا فَسَاداً وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ (القصص: ۸۳) 
’’وہ آخرت کا گھر ہم انہی لوگوں کو دیں گے جو زمین میں تکبر کرنا اور بگاڑ مچانا نہیں چاہتے۔ اور آخرت کی کامیابیاں صرف پرہیز گاروں کے لیے ہیں۔‘‘
اس جہاد کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اگر اپنے بندوں کو حکومت و اقتدار کا موقع عطا فرمائے تو انہیں یہ بات جان لینی چاہیے کہ یہ ایک امانت ہے، اور اللہ کے یہاں اس کا سوال ہوگا۔ لہٰذا اگر کوئی اس حکومت و اقتدار کو امانت کے طور پر لینے کے بجائے دنیاوی عزت و قوت اور لذّت و فر حت کے بیش بہا موقع کے طو ر پر لے گا تو وہ آخرت کے دن شدید عذاب سے دو چار کیا جائے گا۔ اللہ تعا لے نے جب حضرت داؤد ؑ کو حکم رانی کے منصب پر فائز فر مایا تو ان کو تاکیدفرمائی:
یَا دَاوُدُ إِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیْفَۃً فِیْ الْأَرْضِ فَاحْکُم بَیْْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْہَوَی فَیُضِلَّکَ عَن سَبِیْلِ اللّٰہِ إِنَّ الَّذِیْنَ یَضِلُّونَ عَن سَبِیْلِ اللّٰہِ لَہُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ بِمَا نَسُوا یَوْمَ الْحِسَاب (ص: ۲۶)
’’اے داؤد ! ہم نے تم کو زمین پر حکم راں اور اپنا نائب بنایا ہے۔ لہذا تم لوگوں کے درمیان راستی اور عدل کے ساتھ حکومت کرو۔ اور (خبر دار) نفسانی خواہشات کے پیچھے مت پڑجانا و رنہ وہ تم کو اللہ کے راستہ سے بھٹکادیں گی۔ جو لوگ اپنی خواہشات نفس کے پیچھے پڑ کر اللہ کے بتائے ہوئے طریقے سے ہٹ جا تے ہیں ان کو سخت عذاب ملے گا۔ اس لیے کہ انہوں نے اس دن کو بھلا دیا جب ان کے اعمال کا حساب ہوناتھا۔‘‘
یوم جزا و حساب کی فکر ہی بس امانت کی اس روح کی حفاظت اس درجے میں کر سکتی ہے کہ وہ حکم رانی اور قوت واستیلا کے موقع پر بھی حکم رانوں کو حدود کے اندر رکھ سکے۔ قرآن و سنت نے مسلمانوں کو اسلامی تربیت وتقوی کی جو راہ دکھائی ہے وہ یقیناًاس روح کی حفاظت کی پوری کفیل وضامن ہے۔ یہاں حدیث کے ذخیر ے سے اس تعلیم کی بس ایک مثال ذکر کی جاتی ہے۔ ایک صحابی کو حکومت و اقتدار کے سلسلے میں نصیحت کرتے ہوئے اور اس بھاری امانت کی نزاکت سے آگاہ کرتے ہوئے رسول اللہ ؐ نے فرمایا:
یاأباذر! انہا أمانۃ وانہا یوم القیامۃ خزيٌ وندامۃ الّا من أخذھا بحقہا وأدّیٰ الذی علیہ فیہا (صحیح مسلم، رقم ۱۸۲۶)
’’ابوذر! یہ امانت ہے۔ اور قیامت کے دن یہ رسوا کن اور باعث ندامت ہوگی۔ سوائے اس شخص کے لیے جو اس کو حق کے ساتھ لے، اور اپنی ذمہ داریاں ادا کرے۔ ‘‘
جہاد فی سبیل اللہ کو اپنی پاکیزہ روح اور اپنی اخلاقی وروحانی خصوصیات کے ساتھ باقی رکھنے کے لئے اسلام نے جو انتظامات کیے ہیں، پچھلی سطروں میں ان کی صرف ایک جھلک دکھائی گئی ہے۔ اس اہتمام وانتظام کی کوئی جھلک بھی دنیا کے کسی پولیٹکل سائنس اور قومی تربیتی نظام میں نہیں مل سکتی۔ جہاں تک جہاد کے کا مل معیاری عملی نمونے کا تعلق ہے وہ اول درجے میں رسول اللہ ؐ کے زمانے کا جہاد ہے۔ اور دسرے درجے میں یہ معیاری نمونہ خلفائے راشدین کے اس دور میں ہم کو ملتا ہے جب مسلمانوں کے اجتماعی معاملات ناتربیت یا فتہ عناصر کے ہاتھ میں نہیں آئے تھے۔ 
مستشرقین نے عہد رسول کے جہاد کو عربوں کی کمزور اقتصادی پوزیشن اور خصوصاً بد و عربوں کے قلیل وسائل معیشت کے نقطۂ نظر سے دیکھا ہے۔ انہوں نے اور ان کے مشرقی شاگردوں نے ان کا اتباع کرتے ہوئے جہاد کا اصل مقصد مالی خوشحالی کا حصول قرار دیا ہے۔اگر ناواقفیت نہیں تو ان کی اس روش کو کم سے کم جو نام دیا جا سکتا ہے وہ شپّرہ چشمی ہے۔ یہ کیسی مالی مقاصد کے لیے بپا کر دہ تحریک ہے جس کے صف اول کے قائدین جان کی بازی لگانے میں سب سے آگے ہیں ،مگر پھر بھی غریب و فقیر مرتے ہیں۔ آں حضرت ؐ کا جب و صال ہوتا ہے تو یہ مکہ کے کس مپرسی کے دن نہیں ہیں، پورا عرب فتح ہو چکا ہے، اور جاں نثاروں کی بھیڑ مال درکنار، گردن ہتھیلی پر رکھے حاضر ہے۔ مدینہ میں مال آ تا ہے اور غریبوں میں تقسیم ہوتا ہے، مگر خانۂ نبوی میں صرف ایک وقت ہی کھانا پکتا ہے (صحیح مسلم، ۲۹۷۴) اور وفات کے وقت وہ بھی ایک یہودی سے قرض لے کرہی ممکن ہو سکا۔ (صحیح بخاری، ۲۹۱۶)
عہد نبوی میں سب سے زیادہ ما ل غنیمت جنگ ہوا زن میں حاصل ہوا تھا۔ ہوازن کے لوگ جو ش دشمنی میں اپنا سارا مال ومتاع لے کر میدان میں آئے تھے۔ ان کاخیال تھا کہ جب سارا مال ومتاع داؤ پر لگا ہوگا تو کوئی بھاگنے کو نہیں سوچ سکے گا ۔ شکست ہوئی تو یہ عظیم ذخیرہ غنیمت کی صورت میں مسلمانوں کے قبضے میں تھا۔ اگر ان جنگوں میں دنیا طلبی کا کوئی محرک ہو تا تو ضرور یہ دولت مدینہ میں روشنی کرتی اور مسلمانوں کے گھروں میں عیش کا سامان بنتی۔ مگر یہاں تو نظارہ ہی کچھ اور ہے۔ آپؐ سارا مال قریش اور بعض دیگر قبائل کے سرداروں میں بانٹ ڈالتے ہیں۔ جنہوں نے آپؐ سے جنگ کی، ان میں ہی مال بانٹ ڈالا!!۔ یہ سب جو کل تک دشمن محاذ کے سردار ہیں بڑے بڑے حصے پاتے ہیں۔ مدینہ کے مخلص و جاں نثار مسلمانوں کو کچھ نہیں مل رہا ہے۔ یہ دیکھ کر انصار کے کچھ نو جوان صبر نہیں کرپاتے، چہ می گوئیاں شروع ہوتی ہیں۔ یہ خبر پاکر رسول اللہ ؐنے انصار کو ایک خیمہ میں جمع کرنے کا حکم دیا ۔ اور جو گفتگو فرمائی وہ جہاد کی اصل روح، مقاصد اور حقیقت کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔ آپ نے انصار سے فرمایا :
’’مجھے کیا خبریں پہنچ رہی ہیں؟ میں نے یہ مال نئے اسلام لانے والوں کو دیا ہے، تاکہ ان کے دل نرم پڑ جائیں۔ انصار کے لوگو! تم گمراہ تھے کیا اللہ نے تم کو میرے ذریعہ ہدایت نہیں دی؟ تمہارا شیرازہ منتشر تھا، کیا میرے ذریعہ اللہ نے تم کو جمع نہیں کیا؟ تم فقیر تھے، اللہ نے میرے ذریعہ تم کو غنی نہیں بنایا؟ (انصار ہر سوال کے جواب میں سراپا نیاز وادب کی تصویر بنے کہتے جاتے: اللہ اور اس کے رسول کے بڑے احسانات ہیں‘‘)۔ 
پھر آپ ؐ نے فرمایا: اگر تم اس کے جواب میں مجھ سے یہ کہو تو سچ ہوگا کہ: تم کو تمہاری قوم نے جھٹلا یا، ستایا اور نکال دیا، تو ہم ہی تھے جنہوں نے تم کو پناہ دی ۔ کسی نے تمہاری مدد نہیں کی، تو ہم ہی نے تمہاری مدد کی اور اپنے گھر رکھا۔ تم ضرورت مند تھے۔ ہم ہی نے تمہارے ساتھ ہمدردی کا سلوک کیا۔اے انصار! اگر تم ایسا کہو تو حق ہوگا اور میں بھی تمہاری تصدیق کروں گا۔
مگر سنو! میں نے دنیا کا یہ حقیر مال کچھ لوگوں کے دل رکھنے کے لیے دے دیا تو تم کو خلش ہے؟ مگر تم سوچو! کیا یہ اچھا نہیں ہے کہ یہ سارے لوگ اونٹ بکریاں لے کر جائیں اور تم اللہ کے رسول کو اپنے گھرلے کر جاؤ۔ ‘‘ (صحیح بخاری ۴۳۳۰، ومسند احمد ۱۱۷۳۰)
آں حضرت ؐ کے بعد جو اس کارواں کے صف اوّل کے رہنما تھے ابو بکرؓ و عمرؓ، وہ بھی تادم وفات فقیرانہ بودو باش اختیار کیے رہے۔ 
یہ بھی ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اسلام کی فتوحات کے زمانے میں عرب کے اندرونی حصوں کے مقابلے میں مفتوحہ علاقے کہیں زیادہ خوش حال تھے۔ اور ہمیشہ یہی حال رہا ۔ بغداد، دمشق، اسکندریہ، کوفہ اور بصرہ سب اندرون عرب سے کہیں زیادہ خوش حال شہر تھے۔
شام ایک زرخیز خطہ تھا، حضرت عمر کے عہد میں وہ فتح ہوتا ہے پہلے مسلمان عراق وغیرہ فتح کر چکے تھے، اور ان فتوحات کے دوران مسلمانوں نے مفتوح قوم کے ساتھ ایسا منصفانہ ہمدردانہ اور انسانیت نواز معاملہ کیا تھا کہ شام کے باشندے مسلم فوجوں کا استقبال کرتے ہیں۔ مسلمانوں کو شام میں صرف ان شہروں میں کسی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جہاں باقاعدہ رومن فوجوں کی قلعہ بند چھاؤنیاں تھیں۔ عوام بیز نطی حکومت کے ہم مذہب عیسائی تھے، اس کے باوجود وہ مسلم فوجوں کا استقبال کرتے نظر آتے ہیں ۔ کبھی دنیانے ایسا نظارہ نہیں دیکھا ہوگا کہ مفتوح قومیں فاتح طاقت سے اصرار کریں کہ وہ واپس نہ جائے۔ مسلمانوں کو جنگی حکمت عملی کے تحت حمص، دمشق، اور بعلبک کے شہر خالی کرنا پڑے۔ اس وقت ان شہروں کے عیسائی باشندے آکر کھڑے ہوگئے کہ ہم تم کو واپس نہیں جانے دیں گے۔ رومیوں کے ظلم کے لیے ہم کو نہ چھوڑو۔ مسلمانوں نے اپنی مجبوری بتائی، تو انہوں نے مسلمانوں کو ان دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا کہ خدا تم کو دوبارہ لائے۔ اور یہ وعدہ کیا کہ اگر رومن فوجیں یہاں آئیں تو ہم ان سے تمہاری فوج کے ساتھ مل کر لڑیں گے۔ یہودی بھی کھڑے ہوئے اور کہا: ہمارے جیتے جیہ ہرقل کا حاکم حمص میں داخل نہیں ہو سکتا۔ (فتوح البلدان، ۲۵۸)
مختصر یہ کہ جہاد کی بنیاد دنیا سے بے رغبتی آخرت طلبی اور مخلوق خدا سے ہمدردی اور انصاف کے جن اصولوں پر رکھی گئی ہے، اور پھر اسلام کے آئیڈیل قرار دیے گئے دور (قرون اولیٰ) میں اس کا جو نمونہ ہمارے سامنے آتا ہے وہ اس کی واضح دلیل ہے کہ جہاد دراصل امپیر یلزم اور جہانگیریت کو مٹانے کا ہی نام ہے۔ اور اس نے ابتدائی عہد میں دنیا کو دو بڑی امپیریل ظالم طاقتوں کے ظلم واستبداد سے نجات دلانے کا کارنامہ انجام دیا تھا۔ اور اسی کے نتیجہ میں یہ عظیم خطے فساد وتاریکی اور جاہلیت کے دور سے نکل کر خدا پرستی اور پاکیزہ اخلاقیات کی تہذیب میں داخل ہوئے تھے۔

جزیہ

مسلمان جب رومیوں سے جنگ کررہے تھے، تو جیساکہ گذر چکاہے ، قرآن کی وہ آیت نازل ہوئی کہ: اب ان سے اس وقت تک جنگ جاری رکھنا جب تک وہ ’’ جزیہ‘‘ دینا قبول نہ کرلیں۔
قَاتِلُواْ الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُونَ بِاللّہِ وَلاَ بِالْیَوْمِ الآخِرِ وَلاَ یُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللّہُ وَرَسُولُہُ وَلاَ یَدِیْنُونَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ حَتَّی یُعْطُواْ الْجِزْیَۃَ عَن یَدٍ وَہُمْ صَاغِرُون۔ (سورۂ توبہ آیت : ۲۹)
جزیہ کی حقیقت یہ ہے کہ اس زمانے کی منظم حکومتیں مفتوح قوموں اور رعایا پر جو ٹیکس (زمین کے لگان کے علاوہ) ہر ہر آدمی پر لگاتی تھیں اس کو ’’جزیہ‘‘ کہتے تھے، علامہ شبلیؒ نے جزیہ پر اپنے مشہور رسالے میں ثابت کیا ہے کہ اس لفظ کی اصل فارسی ’’کزیت‘ ہے۔ طبری نے اپنی تاریخ میں خسرو نوشیرواں، جو عہد نبوی سے پہلے کا ایرانی بادشاہ تھا، کے بارے میں لکھا ہے کہ اس نے لوگوں کے اوپر جزیہ کا نظام نافذ کیا، اور اس کے اصول وقواعد اور مقدار طے کی۔ علامہ شبلی نے طبری اور ان سے بھی قدیم مؤرخ ابوحنیفہ دنیوری کی الاخبار الطوال (وفات ۲۸۱ھ) سے اس کے حوالے دئے ہیں۔
اہل عرب ایران سے قریبی سیاسی رابطے رکھتے تھے، بلکہ پورا مشرقی ساحل شمالی یمن کے مشرقی علاقوں تک انہی کے تابع تھے، شمالی مشرق میں حیرہ میں آل منذرؒ کی قدیم عرب سلطنت ایران کے تابع ریاست کے طورپر قائم ، اور مستقل عرب وفارس تعلقات کی نگراں تھی،یمن میں کسریٰ کی طر ف سے مستقل گورنر متعین ہوتاتھا، عہد نبوی میں اس کا نام باذان تھا۔ (تاریخ طبری) سیاسی وجغرافیائی قربتوں کے نتیجے میں ثقافتی لین دین کافطری عمل ہونا لازمی ہے۔ اسی لئے جب قرآن نے ’’جزیہ‘‘ کا لفظ بولا تو کسی کو اسی کے سمجھنے میں مشکل نہیں پیش آئی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جزیہ بین الاقوامی سطح پر معروف محاصل کانظام تھا۔

کیا جزیہ اسلام قبول نہ کرنے کی سزا ہے؟

جزیہ کے بنیادی تصور سے جو ہم نے اوپر واضح کیاہے، یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ جزیہ کسی خاص مذہب کو قبول نہ کرنے کی سزا نہیں تھا۔ اسلام سے پہلے عجم کے حکمراں اس کو اپنے ہم مذہبوں سے بھی لیتے تھے۔ طبری نے نوشیرواں کے تذکرے میں اس کے نظام کی کچھ تفصیلات لکھی ہیں۔ اس میں کوئی مذہبی تفریق نہیں تھی، بلکہ اس میں حکم راں طبقات اور جنگوں میں شرکت کرنے والوں کو مستثنیٰ کیا گیا تھا۔ خود نوشیرواں کے حوالے سے اس کی یہ حکمت منقول ہے کہ جو لوگ جنگوں میں حصہ لیتے ہیں وہ ان کی خدمت کرتے ہیں جو کھیتی او رکاروبار کرتے ہیں۔ لہٰذا عام لوگوں کو ریاست کی امداد اپنے مال سے کرنی چاہئے۔
غرض جزیہ اس وقت کا ایک عام بین الاقوامی قانون تھا۔ دنیا کا تمدنی وفوجی سپر پاور فارس اس پر عمل کرتا تھا، اسلام نے بھی یہی تصور باقی رکھا۔ بس اس فرق کے ساتھ کہ مسلمانوں پرزکاۃ کی جو عبادت فرض کی گئی، اور صدقات کی عبادت کا جو نظام رکھا گیا، اس کا ایک اہم مقصد ریاست کا تحفظ اور جہاد فی سبیل اللہ کی تقویت بھی تھا۔ لیکن زکاۃ چونکہ خالص عبادتی ومذہبی روح رکھتی ہے اس لئے غیر مسلموں کو اس کا پابند کرنا ناجائز تھا، اس لئے ان کو ریاست کی اجتماعی ضروریات کے سلسلے میں ایک بڑی معمولی چیز کا ذمہ دار بنایا گیاہے۔ اور وہ جزیہ کا ٹیکس ہے۔ 
حضرت عمر نے یہ ضابطہ جاری کیا تھا کہ جزیہ صرف ان لوگوں پر ہوگا جن کو اسلامی ریاست اپنے تحفظ میں لے گی، اور وہ جنگی خدمات انجام نہیں دیں گے۔ جن لوگوں سے جنگی خدمات کا مطالبہ کیاجائے گا وہ خودبخود جزیہ سے مستثنی قرار پائیں گے۔ عراق کے افسران حکومت کے نام آپ نے ہدایت بھیجی کہ 
لیستعینوا بمن احتاجوا إلیھم من الأساورۃ ویرفعوا عنھم الجزاء (تاریخ طبری: ۲/۴۸۲)
’’سابق حکومت کے کارندوں میں سے جن کی ضرورت ہو مدد لی جائے اور ان کا جزیہ معاف کردیا جائے۔‘‘
آذربائجان کے لوگوں کے بارے میں حکم فاروقی تھا کہ جو ایک دفعہ کسی معرکہ میں حصہ لے گا اس کا سال بھر کا جزیہ معاف ہوجائے گا۔ (تاریخ طبری ۲/۵۴۰)
آرمینہ اور جرجان کے لوگوں کو یہ وعدہ لکھ کردیا گیا کہ یہ لوگ ضرورت پڑنے پر جنگ میں حصہ لیں گے تو ان کا جزیہ معاف ہوجائے گا۔ (طبری ۲/۵۴۱)
جرجومۃ کا شہر فتح ہوا تو ان لوگوں نے شرط رکھی کہ ہم سے جزیہ نہ لیا جائے ہم مسلمانوں کی مدد کریں گے تو یہ بات مان لی گئی۔ (الفاروق بحوالہ فتوح البلدان، ص ۱۵۹)
امام عامر شعبی جن کی ولادت ۲۰ھ اور وفات پہلی صدی کے خاتمہ پر ہوئی ہے، فرماتے ہیں کہ:
ادرکت الأئمۃ الفقیہ منہم وغیر والفقیہ یغزون بأھل الذمۃ فیقسون لھم ویضعون عنھم جزیتھم‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ: ۱۷/۵۹۵)
میں نے فقیہ اور غیر فقیہ ہر قسم کے حکام کو دیکھا ہے کہ وہ غیر مسلم شہریوں کو جنگ میں شریک کرتے تھے اور ان کا حصہ غنیمت میں لگاتے تھے اور جزیہ معاف کردیتے تھے۔
اسی بنا پر اب اکثر علماء کا گویا اتفاق سا ہوگیا کہ جزیہ حفاظت کا بدلہ اور فوجی خدمات کا معاوضہ تھا۔ 
اس کم علم کو اس حقیقت سے پورا اتفاق ہے کہ حضرت عمر کے زمانے میں جزیہ فوجی خدمات کی ادائیگی پر معاف ہوجاتا تھا، اور وہ صرف جنگ میں حصہ لینے کے قابل لوگوں یعنی جو ان مردوں سے لیا جاتا تھا، عورتوں بچوں اور بوڑھوں سے نہیں لیا جاتاتھا۔ اس سے نتیجہ بآسانی نکالا جاسکتا ہے کہ جزیہ فوجی خدمت کا بدلہ تھا۔
غیر مسلم مفتوح اقوام کو جنگ میں حصہ لینے اور ریاست کے دفاع کا فرض انجام دینے کا عموماً پابند نہیں بنایا گیا تھا، اس کی وجہ اولا تو یہ تھی کہ مفتوحین کو یکا یک وفادار یاں بدلنے پر اس درجہ مجبور کرنا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ خون بہانے پر تیار ہوجائیں ایک نامناسب بات تھی۔ اس کی دوسری وجہ یہ تھی کہ ایک اسلامی ریاست مخصوص عقائد وافکار، او ر مخصوص مقاصد کے لئے قائم ایک مشنری اور دعوتی ریاست ہوتی ہے۔ اس کا کام صرف امن کا قیام ، شہریوں کی فلاح وبہبود سے آگے بڑھتے ہوئے پوری دنیا میں مخصوص ذوق ومزاج اور عبادت اللہ پر قائم نظامِ زندگی عام کرناہوتاہے۔ غیر مسلموں کو اپنی مرضی کے خلاف ایسی ریاست کے لئے خون بہانے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے، اس لئے ان سے صرف ان کے جان ومال کا تحفظ کا معاوضہ جزیہ لیاجاتاتھا۔
یہ عاجز اس حقیقت سے اتفاق کے ساتھ ساتھ اس سلسلے میں ایک ذرا مختلف موقف رکھتا ہے۔ اور وہ یہ کہ جزیہ اپنی بنیادی حیثیت میں صرف ایک سادہ سا محصول (ٹیکس) ہے۔ جیسے محصولات ہر حکومت اپنی ملکی ضرورتوں اور سماجی خدمات کی انجام دہی کے لئے لیا کرتی ہے۔ ان کے ذریعہ ہی ملک کے دفاع کی ضرورتوں کو پورا کیاجاتاہے، حکومتی عملہ کی تنخواہیں ، رفاہ عامہ، سڑکوں اور پلوں کی تعمیر، سنچائی کے انتظامات اور سارے ملکی انتظامات کا کام ان ٹیکسوں کے ذریعہ ہی ہوتا ہے۔ اورہر فردِ معاشرہ او رریاست کا باشندہ کم وبیش اس بار کا کچھ نہ کچھ حصہ اٹھاتاہے۔ 
مسلمانوں پر زکاۃ کی شکل میں جو عبادت فرض ہے اس کا عبادتی پہلو تو یہ ہے کہ بندہ گویا خدائے قدوس کی خدمت میں عقیدت ووفا کی نذر گذارتاہے۔ دوسری حیثیت یہ ہے کہ وہ جہاد فی سبیل اللہ اور رفاہ عامہ اور غریبوں کی خدمت کا ذریعہ ہے۔ اُس کی اِس عبادتی حیثیت کی وجہ سے غیر مسلموں پر جزیہ نام کا ایسا ٹیکس نافذ کیاگیا جو عبادتی ودینی رنگ سے خالی ہے تاکہ غیرمسلموں کو کسی دینی قسم کی چیز کا پابند نہ بنایاجائے۔ بہر حال ہمارے نزدیک جزیہ بنیادی طور پر دفاع اور جنگی خدمات کا بدل نہیں ہے، صرف ایک ٹیکس ہے۔ اسلام کے ابتدائی زمانوں میں مسلمانوں پر زکاۃ ہوتی تھی اور غیر مسلموں پر جزیہ۔
حضرت عمرؓ کے زمانے میں جنگی خدمات انجام دینے والوں کو جزیہ سے مستثنیٰ رکھنے کا سبب یہ نہیں تھا کہ جزیہ فوجی خدمت کا بدل ہے ، بلکہ یہ دراصل حکومت کی طرف سے ٹیکس کی معافی کا ایک اعلان تھا ۔ جیسا کہ غریب کے لئے اور عورتوں بوڑھوں او ر بچوں کے لئے یہی معافی اس لیے تھی کہ عموما یہ کمانے والے نہیں ہوتے۔
واضح رہے کہ عہد نبوی میں اور پھر خلافت راشدہ اور ابتدائی صدیوں میں جو جزیہ لیا جاتا تھا وہ مسلمانوں سے لی جانے والی زکاۃ سے کہیں کم تھا۔

جزیہ اور ذمی کے بجائے دوسری اصطلاح استعمال کی جاسکتی ہے:

حضرت عمرؓ کے زمانے میں شمالی عرب کے عیسائیوں میں ایک بڑی طاقت قبیلۂ بنوتغلب کی تھی۔ انہوں نے یہ عرض داشت رکھی کہ ہم کو ایرانیوں (عجم) سے ممتاز رکھا جائے، ہم عرب ہیں، آپ ہم سے صدقہ یا زکاۃ کے نام سے جوچاہیں لیں۔ (یاد رہے کہ جزیہ اصلا ایک ایرانی نظام تھا۔ اور بنو تغلب عیسائی اور رومی حلیف ہونے کے ناطے ایرانیوں سے قدیم عداوت رکھتے تھے)۔ حضرت عمرؓ نے صحابۂ کرام کے مشورے سے ان کی یہ درخواست قبول کرلی۔ (السنن الکبری للبیہقی، باب: نصاری العرب تضعف علیھم الصدقۃ، الأموال لابی عبید: ۱/ ۶۹) اس طرح بعد کے زمانوں کے لئے گویا یہ اصول طے فرمادیا کہ غیر مسلم شہری جزیہ ، ذمی وغیرہ اصطلاحات کے بارے میں غلط فہمیوں کی وجہ سے تردد کے شکار ہوں تو ان ناموں پر اصرار کرنا کوئی ضروری نہیں۔

اس دور کے مسلم ممالک میں جزیہ کیوں نہیں؟ 

ہمارے زمانے میں مسلم ممالک میں کہیں جزیہ کے نام سے غیر مسلم شہریوں پر کوئی ٹیکس نہیں ہے۔ بلکہ شیخ مصطفی سباعی، شیخ یوسف القرضاوی، شیخ عبدالکریم زیدان، وہبہ الزحیلی اور مصطفی الزحیلی وغیرہ علماء اس کے قائل ہیں کہ آج کی مسلم ریاستوں میں جزیہ نافذ نہیں کیا جائے گا۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ شاید اصل وجہ یہ ہے کہ مسلم ممالک میں غیر مسلم شہریوں پر مختلف قسم کے مساوی ٹیکس نافذ ہیں، جو مسلمانوں پر بھی ہیں، اور جیسا کہ اوپر گذر چکاہے ان ٹیکسوں کا جزیہ کے نام سے موسوم ہونا ضروری نہیں ہے۔ 
دوسری وجہ یہ ہے کہ صحابہ کرام کے زمانے میں اس کی صاف تصریح کی گئی ہے کہ اگر غیر مسلم شہری جنگوں میں حصہ لیں تو ان سے جزیہ نہیں لیا جائے گا۔ اور موجودہ زمانے کے مسلم ممالک میں غیر مسلم قومی دفاع کے لئے اپنی خدمات پیش کرنے پر تیار ہیں۔

غیر مسلموں کی اہانت نہیں کی جائے گی:

ایک غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ قرآن نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہریوں کو ذلیل کرکے اور دباکے رکھا جائے۔
اس سلسلے میں جس آیت کو پیش کیا جاتا ہے وہ مندرجہ ذیل ہے: 
قَاتِلُواْ الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُونَ بِاللّہِ وَلاَ بِالْیَوْمِ الآخِرِ وَلاَ یُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللّہُ وَرَسُولُہُ وَلاَ یَدِیْنُونَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ حَتَّی یُعْطُواْ الْجِزْیَۃَ عَن یَدٍ وَہُمْ صَاغِرُون ( سورۂ توبہ آیت : ۲۹)
’’اہل کتاب جو کہ نہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ قیامت کے دن پر اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جن کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اور نہ سچے دین کو قبول کرتے ہیں ان سے یہاں تک لڑو کہ وہ ماتحت ہو کر اور رعیت بن کر جزیہ دینا منظور کریں۔‘‘ (ترجمہ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ )
اس آیت میں جنگ کی انتہا کی شرط بتائی گئی ہے کہ وہ ’’وھم صاغرون‘‘ کی حیثیت قبول کریں۔ ’’صاغرون‘‘ عربی مادہ (Root) ’’ص،غ،ر‘‘ سے اخذ کیا گیاہے۔ یہ واقعہ ہے کہ اس مادہ کے بعض الفاظ میں ذلت کے معنی آتے ہیں، اور اسی بنیاد پر بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوگئی کہ اسلامی ریاست میں ذمیوں کو کمتر اور حقیر بناکر رکھا جائے گا۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اس لفظ میں تابع ہوجانے اور بڑائی اور تکبر چھوڑ دینے کے معنیٰ بھی آتے ہیں۔ مشہور امام لغت ابن منظور نے لکھا ہے کہ صغار عظمت کی ضد ہے (لسان العرب، مادہ ص غ ر) ۔ محقق علماء نے یہاں اسی معنی کو مراد لیا ہے۔
امام شافعی الأم میں فرماتے ہیں:
وإذا أخذ منھم الجزیۃ أخذ ھا بإجمال ۔۔۔ ولم یقل لھم قبیح والصغار أن یجري علیھم الحکم لا أن یؤذوا (الأم: ۴/۲۲۰ طبع دار الفکر)
’’ذمیوں سے جزیہ خوبصورتی اور نرمی سے لیا جائے۔۔۔ ان سے کوئی بری بات نہ کہی جائے۔ قرآن میں جس ’’صغار‘‘ کا تذکرہ ہے اس کا مطلب بس یہ ہے کہ ان کے اوپر ریاست کے قوانین کا نفاذ ہو، نہ کہ یہ کہ ان کو ستایا جائے۔ ‘‘
کچھ خراسانیوں نے اہل ذمہ کو ذلیل کرنے کی بات کہی تو امام نووی اور دیگر فقہاء نے اس کو باطل وبے اصل بات کہا۔ مغنی المحتاج میں ہے:
’’یہ طریقہ باطل ہے، اور اس کو مستحب یا ضروری کہنا اس سے زیادہ غلط‘‘ (مغنی المحتاج شرح المنہاج، فصل فی الامان)
ابن القیم کہتے ہیں:
الصغار ھو التزامھم لجریان احکام الملۃ علیھم، واعطاء الجزیۃ، فان التزام ذلک ھو الصغار (احکام اہل الذمۃ ۱/۴۱)
آیت کی صحیح تفسیر یہ ہے کہ ’’صغار‘‘ یہ ہے کہ وہ مسلم حکومت کی قانونی برتری تسلیم کرلیں اور جزیہ ادا کریں، بس ان کو قبول کرلینا ہی ’’ صغار‘‘ہے۔
مگر یہاں سوال اٹھتا ہے کہ اس سب کے باوجود یہ کہنا مشکل ہے کہ ’’صاغرون ‘‘ کا لفظ تحقیر وذلت کے مفہوم سے بالکل خالی ہے اور اس کے معنی صرف مسلمانوں کی حکومت کو قبول کرلینا ہیں۔ بلکہ عربی زبان کے اہل ذوق تصدیق کریں گے کہ ’’صغار‘‘ میں ذلت کا مفہوم ضرور ہے۔
لیکن اس کے باوجود صحیح بات یہ ہے کہ اسلامی ریاست کے وفادار غیر مسلم شہریوں کو ذلیل کرنا شریعت کا حکم نہیں ہے، بلکہ اس کے خلاف ہے۔ یہاں اصل بات جس کی طرف توجہ نہایت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ جب ہم آیات کے تاریخی پس منظر شان نزول نیز سیاق قرآنی کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس آیت پر غور کی نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتاہے کہ اس میں اسلامی ریاست کے اطاعت گزار اور وفادار غیر مسلم شہریوں کی تذلیل کا حکم نہیں ہے، بلکہ آیت اس وقت نازل ہو رہی ہے جب دشمن جنگ کر رہا ہے اور اس نے ابھی اطاعت قبول نہیں کی ہے۔ آیت محارب وتوسیع پسند اور متکبر رومی طاقتوں کے خلاف جنگ پر آمادہ کرنے کے لئے نازل ہوئی تھی، (جیسا کہ ہم تفصیل سے بیان کرچکے ہیں)۔ اس سیاق میں اور جاری جنگ کے ماحول میں حکم دیاگیا ہے کہ ’’ ان رومیوں سے جنگ کرو، اور اس وقت تک کرتے رہو جب تک یہ جھک کر اور ذلیل ہوکر تمہاری اطاعت وباج گذاری قبول نہ کرلیں‘‘۔ یعنی یہ محارب دشمن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اس کو ’’صغار‘‘ اور ذلت پر اتارو، نہ کے ریاست کے عام غیر مسلم شہری کے بارے میں۔ یعنی محارب طاقت جب جھک جائے، شکست تسلیم کرکے اطاعت قبول کرلے تو اب عام شہریوں کے لئے یہ صغار اور ذلت کا حکم باقی نہیں رہے گا، اسلامی ریاست کے شہری بننے سے پہلے جب جنگ جاری تھی تو کہا گیاتھا کہ اس وقت تک ان سے برسر پیکار رہو جب تک یہ ذلت کے ساتھ سر تسلیم خم نہ کردیں۔ 
لہٰذا اگر اس بنیادی نکتے کو ذہن میں رکھیں تو واضح ہو جائے گا کہ اس آیت میں محاربین کی تذلیل وتحقیر کا پہلو تو ضرور ہے اور ہر قوم اپنے دشمنوں ، خصوصاً جنگجو دشمن کے خلاف فوجوں اور عوام کے درمیان اسی قسم کے جذبات پیدا کرتی ہے۔ پھرجب یہ جنگ عام جنگ نہ ہو، راہ حق کے لئے جاں بازی اور اللہ کے دین کے دشمنوں سے کشمکش ہو، تب تو یہ بڑا اہم اور ضروری پیغام ہوتاہے کہ ’’ ان بدبختوں اور ظالموں کے تکبر کو خاک میں ملانے تک جنگ کرو‘‘۔ یہیں سے یہ واضح ہوتاہے کہ اسلامی ریاست کے بے ضرر غیرمسلم شہر ی اس ’’حکم صغار‘‘ میں مراد نہیں ہیں۔
اس تفسیر کی خالص علمی وفنی تعبیر یوں کی جائے گی کہ ’’حتی‘‘ حکم قتال کی غایت بیان کرنے کے لئے ہے۔ اور قتال کی انتہا صغار کے ساتھ جزیہ قبول کرلیناہے، نہ کہ جزیہ دینا۔ یہی وجہ ہے کہ بالاتفاق جیسے ہی محارب قوم جزیہ پر راضی ہوگی قتال رک جائے گا، وہ عملا جزیہ دینے تک نہیں چلے گا۔ ہمارے مفسرین نے یہاں اس کی صراحت کی ہے کہ قتال کی انتہا کے طور پر جو ’’جزیہ دینا‘ ‘کہا گیاہے اس سے مراد’’ جزیہ دینے پر راضی ہو جانا‘‘ ہے (تفسیر ابو السعود وروح المعانی میں ہے: ’’حتی یعطوا أی یقبلوا أن یعطوا‘‘، سورہ توبہ آیت: ۲۹)۔ لہٰذا یہ ’’وھم صاغرون‘‘ جزیہ پر راضی ہونے کے وقت کا حال ہے نہ کہ جزیہ دینے کے وقت کا، اب اس آیت کا یہ مفہوم ہوا کہ محارب اور جنگ کرنے والی حکومت سے اس وقت تک جنگ کرو جب تک وہ جھک کر ذلیل ہوکر شکست تسلیم نہ کرلے۔اس سے واضح ہوا کہ یہ آیت غیر مسلم شہریوں اور اہل ذمہ کے لئے مستقل ’’صغار‘‘ کا حکم نہیں بیان کرہی ہے۔ ان شاء اللہ اہل علم کے لئے اب کوئی اشکال باقی نہیں رہے گا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ:

ابن القیمؒ نے اس آیت کی تشریح میں پہلے تو ان لوگوں کے بعض اقوال نقل کئے جو ذمیوں کی تحقیر کو اس حکم تقاضا سمجھتے ہیں، پھران کے اس خیال کی تردید میں کہتے ہیں:
وھذا کلہ مما لا دلیل علیہ ولا ھو مقتضی الآیۃ، ولا نقل عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولا عن الصحابۃ انھم فعلوا ذلک، والصواب فی الآیۃ ان الصغار ھو التزامھم لجریان احکام الملۃ علیھم، واعطاء الجزیۃ، فان التزام ذلک ھو الصغار (أحکام أہل الذمۃ: ۱/۴۱)
’’ان سب باتوں کی کوئی دلیل نہیں ہے، نہ یہ آیت کا مطلب ہے نہ رسول اللہؐ اور صحابہ کرام نے ایسا کیا، آیت کی صحیح تفسیر یہ ہے کہ ’’صغار‘‘ یہ ہے کہ وہ مسلم حکومت کی قانونی برتری تسلیم کرلیں اور جزیہ ادا کریں، بس اس کو قبول کرلینا ہی ’’ صغار‘‘ہے۔‘‘
علامہ ابن قیم نے یہاں قرآن وحدیث کے نصوص کی تفسیر کے ایک نہایت بنیادی اصول کی طرف اشارہ کیاہے، رسول اللہؐ کی سنت اور صحابہ کرام کے عمل سے الگ کرکے قرآن کی تفسیر نہیں کی جاسکتی، حروف والفاظ کے مجموعوں اور جملوں اور فقروں کی تفسیر وتشریح میں نہ جانے کیا کیا غلط فہمیاں ہوسکتی ہیں، تعبیر وتشریح اور Interpretation کے نام پر بائبل میں کس طرح تحریف ہوئی ہے، وہ اس کی مثال ہے۔ قرآن کی حفاظت کا ایک معجزاتی پہلو یہ ہے کہ آیات واحکام قرآنی کی تشریح اور اس کے حدود معیار کو متعین کرنے کے لئے ہمارے پاس رسول اللہؐ کا اسوہ ہے۔ اور اس اصول کی بناپر ہم قطعی طورپر اور پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اس آیت کی تشریح میں یہ تصور اور اس پر مبنی ہر رائے بالکل غلط ہے کہ اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہری ذلیل بناکر رکھے جائیں گے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ اس کے بالکل خلاف ہے۔
رسول اللہؐ کے زمانے میں اسلامی ریاست میں بسنے اور اس کی اطاعت قبول کرنے والے غیر مسلموں کی ایک بڑی تعداد تھی۔ آپ ؐ نے ان کے ساتھ عملاً جو برتاؤ کیا، ان کی جو قانونی حیثیت اور سماجی مقام اپنے طرز عمل سے متعین فرمائے، وہ ہی در اصل شریعت کا قانون اور مسلم ریاستوں کے لئے رہنما پالیسی ہے۔ 
حدیث کی کتابوں اور سیرت ومغازی کی معتبر روایات کا اتفاق ہے کہ رسول اللہؐ کے ماتحت جو اولین اسلامی ریاست قائم ہوئی تھی، اور جو سدا کے لیے اسلامی ریاست کا رول ماڈل اور کامل ترین نمونہ ہے، اس میں ریاست کے عام شہریوں کی اہانت اور تذلیل کا قصد نہیں کیا گیا۔ 
مکہ فتح ہوا تو مکی سرداروں کی ایک تعداد نے اطاعت قبول کی لیکن اسلام نہیں لائے، آپ نے ان کو تحفوں سے نوازا یہاں تک کہ وہ اسلام لے آئے اور اسلام کے جاں نثار بنے۔
فتح مکہ کے بعد ہی نجران نے اطاعت قبول کی، نجران جنوب عرب میں رومی حکومت کے تابع عیسائی آبادی والا ایک منطقہ تھا۔ یہ لوگ باقاعدہ جزیہ دینے والے ذمی قرار پائے۔ ان کا وفد مدینہ منورہ آیا، ذمیوں کے اس وفد کے ساتھ رسول اللہؐ نے جو معاملہ فرمایا وہ تاریخ وسیر اور حدیث کی کتابوں میں محفوظ ہے۔ آپؐ نے ان کو اپنی مجلس میں ٹھہرایا، انہوں نے اپنی عبادت کرنی چاہی تو صحابہ نے روکنے کا ارادہ کیا، مگر آپؐ نے صحابہ کو منع کیا اور عیسائیوں نے مسجد نبوی ہی میں اپنی عبادت کی۔ (دلائل النبوۃ بیہقی: ۵/۳۹۰) 
سن سات ہجری کے بعد کا واقعہ ہے، اور ہوسکتاہے کہ ۸ ھ ؁میں مکہ فتح ہونے کے بعد کا ہو، یعنی بہر حال اسلام کے مدینہ میں قوت وقدرت حاصل کرنے کے بعد کا واقعہ ہے، کہ مدینہ کے ایک طاقتور مشرک شخص سے حضرت بلال نے کچھ قرض لیا۔ وہ قرض اسلامی ریاست کی بعض ضروریات (غرباء کی امداد) کے لئے رسول اللہؐ کی ایماء پر لیا گیا تھا، اس تاجر نے خود ہی حضرت بلال سے کہا تھا کہ اس قسم کی ضروریات کے لئے کسی اور کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے تم مجھ سے لے لیاکرو۔ اچانک ایک دن عین اذان کے وقت تاجروں کے ایک گروہ کے ساتھ آدھمکا اور حضرت بلال سے نہایت ترش روئی اور بدتمیزی سے مخاطب ہوا : ’’اوحبشی! تجھے یاد ہے؟ بس چارد ن بچے ہیں! اگر وقت پر قرض ادا نہیں ہوا تو تجھے پکڑ کر بکریاں چرانے پر لگادوں گا‘‘۔ بے چارے ڈر گئے، حضورؐ کے پاس پہنچے اور قصہ کہہ سنایا، اور چند دنوں کے لیے فرار ہونے کا ارادہ کیا۔ کچھ ہی دیر کے بعد فدک سے کچھ مال آگیا اور حضرت بلال نے قرض ادا کیا۔ (سنن ابوداؤد، ۳۰۰)
یہ واقعہ عہد نبوی میں ذمیوں کو دباکر اور ذلیل کر کے نہ رکھے جانے کا واضح ثبوت ہے۔
زید بن سعنہ ایک یہودی مذہبی عالم تھے، مالدار اور باحیثیت ومشہور۔ ان کے اسلام لانے کا بڑا مؤثر قصہ حدیث کی کتابوں میں آیاہے۔ ان سے رسول اللہؐ نے کچھ قرض کا معاملہ کیا، وہ جان کر وقت پورا ہونے سے پہلے آپہنچے اور مجمع عام جب آپؐ صحابہ کرام کے ساتھ ایک جنازہ میں تھے آپؐ کے کپڑے پکڑ کرکہا: محمد! قرض نہیں واپس کروگے؟ مجھے تمہارے پورے خاندان کا حال معلوم ہے۔حضرت عمرؓ شدت غضب سے سرخ ہو گئے، چیخ اٹھے کہ: ’’او خداکے دشمن ! میرے سامنے تیری یہ مجال؟ دیکھ! اگر خوف خدا دامن گیر نہ ہوتا تو تیرا سر دھڑ سے جدا ہوچکا ہوتا‘‘۔ آں حضرتؐ سکون وضبط کی تصویر بنے رہے، آپؐ نے حضرت عمر کی طرف نظر اٹھائی، دیکھا اور کہا: عمر! حق تو یہ تھا کہ تم مجھ سے جلد ادائیگی اور اس سے خوش معاملگی کو کہتے۔ جاؤ، قرض بھی دے دو اور الگ سے میری طرف سے کچھ ہدیہ بھی۔ عمر کی تلوار تورک گئی، مگر اخلاق نبوی کی اس تلوار نے زید بن سعنہ کو قتل کرڈالا۔ فوراً اسلام قبول کیا اور حضرت عمر سے تنہائی میں بتایا کہ میں نے یہ حرکت بس امتحان اور پرکھنے کے لئے ہی کی تھی۔ (صحیح ابن حبان، ۱/۲۸۸) حافظ ابن حجر نے الاصابہ میں اس روایت کی توثیق کی ہے۔
عہد نبوی کا ایک اور واقعہ جس سے غیر مسلم شہریوں کا مدینہ میں ہر قسم کے دباؤ سے آزادی اور حکومتی اہانت وتذلیل سے محفوظ ہونے کا پتہ چلتاہے حدیث کی متعدد کتابوں میں آیاہے۔ آپؐ کے پاس شدید گرمی گاڑھے کے دو کپڑوں کے علاوہ کچھ نہ تھا، پسینہ سے وہ کپڑے بوجھل ہوجاتے۔ ایک یہودی کپڑے کے تاجر کے یہاں شام سے بہتر کپڑا آیا ہو ا تھا، حضرت عائشہ نے کہا: ادھار منگوالیجئے، آپ نے کسی کو بھیجا، تاجر بد طینت ہی نہیں بدزبان بھی تھا۔ کہنے لگا: جانتاہوں محمد مال ہڑپ کر نا چاہتے ہیں، آپؐ نے بس اتنا فرمایا : جھوٹا ، جانتا ہے کہ میں اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا اور سب سے بڑھ کر امانت دارہوں۔ (سنن نسائی، باب البیع الی الاجل المعلوم، ومسند احمد ۲۵۱۸۴)
حدیث کے ذخیرہ میں اس سلسلے کے واقعات بہت سے ملتے ہیں، اسلامی ریاست اپنے وفادار غیر مسلم شہریوں کو کس نظر سے دیکھتی ہے اس کی سب سے تفصیلی مثال ہم کو اس تحریری دستور کی دفعات میں ملتی ہے جس کی بنیادپر مدینہ کی ریاست کا قیام عمل میں آیاتھا، تاریخ وسیر کی کتابوں سے اس دستور اساسی کی دفعات میں مدینہ کے یہود کے حقوق وذمہ داریاں متعین کی گئی ہیں، یہ دستور صاف صراحت کرتاہے کہ رسول اللہؐ کی سر براہی میں ایک ریاست کا قیام عمل میں آچکا ہے، یہود کی حیثیت اس میں محکوم شہریوں ہی کی ہے، جزیہ کا نام نہیں ہے۔ لیکن زکاۃ کا نام بھی نہ ہونا بتاتا ہے کہ نام اس وقت تک طے نہیں ہوئے تھے۔ ورنہ ریاست کے لئے یہود کی مالی ذمہ داریاں طے کی گئی ہیں، اور ان سے مشترکہ طورپر دفاع میں حصہ لینے کا بھی عہد لیاگیاہے جو جزیہ کے قائم مقام ہے۔
یہ دستور ابن اسحاق، واقدی، ابن سعد اور دیگر اصحاب سیر کے یہاں تفصیل سے ملتاہے، حدیث کی کتابوں میں اس کے متفرق اجزا آئے ہیں۔ 
بہر حال یہ دستور صاف اور واضح ہے کہ اولین اسلامی ریاست نے غیر مسلم شہریوں کی عزت نفس کو کسی طرح مجروح کرنے کی کوشش نہیں کی تھی، بلکہ دنیاوی حقوق واختیارات میں وہ مسلمانوں کے برابر نظر آتے ہیں۔ یہ دستور اور اوپر مذکور مثالیں حافظ ابن القیمؒ کے اس بیان کی تصدیق ہیں کہ ’’ذمیوں کی تذلیل کا تصور نہ آیت سے اخذ کیا جاسکتاہے اور نہ رسول اللہؐ کا اور صحابہ کرام کاایسا عمل تھا‘‘۔ 

قرآن کی عمومی تعلیمات: 

آیت جزیہ کے صحیح معنی طے کرنے کے لیے خود قرآن کی عمومی تعلیمات پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ قرآن نے ایک ایسی صورت میں جس کا اصل موضوع مسلمانوں کو دشمن کفار سے لاتعلقی اختیار کرنے پر زور دینا تھا صاف کہا کہ: 
لا یَنْہَاکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ أَن تَبَرُّوہُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَیْْہِمْ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ۔ (الممتحنہ:۸ )
’’اللہ تم کو ان لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور انصاف وبرابری کا معاملہ کرنے سے نہیں روکتا جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ نہیں کی اور تم کو اپنے گھروں سے نہیں نکالا۔ ‘‘
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ظالم اور جنگجوقسم کے لوگوں کے علاوہ تمام غیر مسلموں کے بارے میں اسلام کی وہ تعلیمات جن میں احسان ومدد اور تکریم انسانی کی عمومی ترغیب دی گئی ہے باقی رہیں گی۔ علم وفہم او ر سلیم العقلی کا تقاضہ ہے کہ نصوص کو مجموعی طور پر لیا جائے نہ کہ کسی ایک پر سرسری اور سطحی نظر رکھی جائے اور حکم کے مقصود ومدعا کو نظر انداز کرکے اور پس منظر سے آنکھیں موند کے اس کی حرفی تفسیر کی جائے اور باقی نصوص کو بھول جایاجائے۔

’’شروط عمریہ‘‘ کا مسئلہ:

حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب عراق وشام اور افریقہ کے وسیع وعریض علاقے فتح ہوئے اور بڑی تعداد میں قومیں ذمی بنیں اور تاریخ شاہد ہے کہ خوشی خوشی ذمی بنیں اور مسلمانوں کے ساتھ اپنے ہم مذہب حکمرانوں کے خلاف لڑیں۔ تاریخ کی بعض روایتوں میں آتاہے کہ اس وقت ان پر کئی ذلت آمیز احکام لاگو کئے گئے، مثلاً پرانی عبادت گاہوں کی مرمت وتجدید نہیں کی جائے گی۔ سرکا اگلا حصہ منڈائیں گے، زین کس کر گھوڑے پر نہیں بیٹھیں گے، مسلمانوں کے لئے کھڑے ہوا کریں گے۔ جس مسلمان کے ساتھ تجارت میں شرکت کریں گے فیصلہ اسی مسلمان کے ہاتھ میں ہوگا، وغیرہ ۔ یہ سب بے اصل اور موضوع قسم کی روایتیں ہیں۔
اس سلسلہ میں جو اصل اور سب سے مشہور روایت ہے، جس میں آتاہے کہ اہل شام نے خود اپنی طرف سے لکھ کر یہ شرطیں قبول کی تھیں، یہ روایت بالکل موضوع ہے۔ ابن القیمؒ نے اپنی کتاب میں اس کو تفصیل سے ذکر کیاہے، اور اس کی پوری تشریح کی ہے۔ اس کی سند میں ایسے روای بھی ہیں جن کے بارے میں محدثین نے، وضاع، کذاب، خبیث، عدو اللہ جیسے الفاظ کہے ہیں۔ ( اس سند سے یہ روایت بیہقی کی سنن (۹/۲۰۲) میں ہے شیخ البانی نے اس پر اپنی کتاب إرواء الغلیل (۵/۱۰۳) میں تفصیل سے کلام کیاہے۔ )
یہی روایت ایک اور سند سے خلال نے (جو امام احمد کے صاحب زادے عبداللہ کے شاگرد ہیں، انہی عبداللہ کے حوالے اور سند سے نقل کی ہے، ابن القیم نے احکام اہل الذمۃ میں نقل کرکے اس کو اعتبار بخش دیاہے، ان کی سند میں بعض راویوں کا نام ’من أھل العلم‘‘ کہہ کر مبہم رکھا گیاہے۔ بعض علماء نے اس کو مسند احمد کی ان روایات میں سے گمان کیا ہے جو امام احمد کے صاحب زادے عبد اللہ کے اضافوں میں سے ہیں۔ مگر مجھے یہ روایت مسند میں باوجود تلاش بسیار کے نہیں ملی۔ ابن القیم نے یہ روایت تین حوالوں سے نقل کی ہے یہ تینوں ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں ایک مستقل باب ’’ذکر ما اشترط صدر ھذہ الامۃ عند افتتاح الشام‘‘ کے عنوان سے قائم کرکے نقل کی ہیں، ابن عساکر کے یہاں اس کی ایک مزید سند ملتی ہے، ان چار میں سے دو تو وہ ہیں جن پر ہم اوپر کلام کر چکے ہیں مزید دونوں بھی نہایت کمزور ہیں، ایک میں نامعروف راویوں کے علاوہ عبد اللہ بن احمد ابن ربیعۃ ابن زبر ہیں جو نہایت مخدوش راوی ہیں۔ (لسان المیزان۳/۲۵۳) دوسری بھی نامعروف راویوں کی سند سے آئی ہے۔
یہ اس روایت کے ظاہری قسم کے عیوب ہیں۔ لیکن اہل نظر محدثین کے نقطۂ نظر سے اس کا اصل اور سب سے بڑا ایک اور عیب ہے، اور وہ یہ کہ فن حدیث کے تنقیدی نظام میں اگر کوئی واقعہ غیر معمولی قسم کاہو اور اس کی طرف توجہ ونظر کا ملتفت ہونا فطری ہو، پھر وہ نہایت نایاب قسم کی روایت میں آتا ہو، عام طورپر علماء وراویان حدیث اس کو روایت نہ کرتے ہوں تو محدثین اس کو نہایت مخدوش مانتے ہیں۔ یہ ایک بالکل فطری حقیقت ہے کہ اگر ایسی غیر معمولی شرائط پر کچھ علاقے فتح ہوتے تو ان کو کثیر تعداد میں راوی نقل کرتے۔ ایک طویل عرصے تک ان روایت کا چھپا رہنا جب کہ ان کے شہرت کے ساتھ منقول ہونے کے اسباب بہت تھے یہ خود ان کے بے اصل ہونے کی دلیل ہے۔ زیر نظر روایت کا یہی سب سے بڑا عیب ہے۔ یہ خلال سے پہلے کسی مصنف وجامع حدیث کے یہاں نہیں ملتی، بلکہ خلال کی کتاب احکام الملل جس کے حوالے سے یہ نقل کی گئی ہے پتہ نہیں اب موجود بھی ہے یا نہیں۔ حالانکہ اس کے مندرجات ایسے عجیب قسم کے اور اس قدر متوجہ کرنے والے ہیں کہ اس کو علماضرور نقل کرتے۔ وہ تمام محدثین ومؤرخین جنہوں نے ان فتوحات کی تاریخ لکھی مثلاً طبری، بلاذری اور واقدی وغیرہ اور وہ محدثین اور فقہا جنہوں نے اہل ذمہ کے مسائل پر قانونی دفعات مرتب کیں مثلاامام ابویوسف، ان میں سے کسی کے یہاں یہ روایت نہیں ملتی ۔ ہمیں اس کا تذکرہ عبدالرزاق اور ابن ابی شیبہ کے مصنف میں بھی نہیں ملتا جن میں نہایت تفصیل سے اہل ذمہ کے قانونی حقوق وذمہ داریوں پر روشنی ڈالنے والے آثار وواقعات لکھے ہیں۔ ملتا ہے تو کہاں؟ خلال کی نا معروف کتاب الجامع لاحکام الملل کے حوالے سے ابن قیم کی کتاب میں، اور خلال کے بھی زمانوں بعد تاریخ دمشق میں۔ صدیوں یہ معاہدہ اہل علم کی نظر سے اوجھل رہا۔ یہ خود اس کو آخری درجہ ضعیف ٹھیرانے والی بات ہے۔
محدثین کے یہاں کسی روایت کا یہ عیب کہ باوجود واقعے کے غیر معمولی ہونے اور نقل وروایت پر آمادہ کرنے والے اسباب کے پائے جانے کے اس کو عام طور پر نقل نہ کیا جائے اور وہ نہایت نادر یا کمزور روایتوں میں پایا جائے اور حدیث کی اہم کتابیں اس سے خالی ہوں، کسی روایت کا یہ عیب محدثین کے یہاں اس کو بے اصل اور موضوع قرار دینے کے لیے کافی ہوتا ہے۔
ہم یہاں ایک مثال کے ذریعے محدثین کے اس اصول کی وضاحت کرتے ہیں۔ حافظ ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں وہ روایت نقل کی ہے جس کا بیان ہے کہ حضرت علیؓ ایک مرتبہ سوتے رہ گئے اورعصر قضاہوگئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے سورج واپس آیا اور حضرت علیؓ نے نماز عصر ادا پڑھی۔ ابن کثیر نے متعدد روایات اس سلسلے کی نقل کیں اور ان پر تنقید کی۔ اپنی بحث میں انہوں نے دو جگہ اس روایت کا یہی مذکور عیب بتایا۔ ایک مقام پر کہتے ہیں: 
’’کوئی عقل والا کیسے سوچ سکتا ہے کہ یہ اہم واقعہ حضرت علی نقل کریں اور ان کے ۔۔۔فلاں فلاں معروف شاگردوں کو اس کی ہوا نہ لگے اور دوسرے غیر معروف اس کو روایت کریں؟ پھر ائمۂ حدیث: مالک، صحاح ستہ اور معروف سنن اور صحاح وحسان اور مسانید کے مصنفین کا اس کو نقل نہ کرنا اس کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک اس کی کوئی بنیاد نہیں۔ اس لیے کہ (راویوں کے بقول)یہ واقعہ علانیہ ہورہا ہے اور اس کے نقل اور روایت کیے جانے کے قوی اسباب کثرت سے موجود ہیں۔ اس کے باوجود یہ واقعہ صرف منکر اور ضعیف سندوں سے نقل ہو رہا ہے، یہ اس کے بے اصل ہونے کی بڑی دلیل ہے۔‘‘ (البدایہ والنہایۃ ۶/۹۲مختصراً)
اس سے پہلے بڑی وضاحت سے اس قاعدے کو بیان کرتے ہیں: 
ومثل ھٰذا الحدیث لا یقبل فیہ خبر واحدٍ اذا اتصل سندہ، لأنہ من باب ما تتوفر الدواعی علی نقلہ فلا بد من نقلہ بالتواتر والاستفاضۃ لا أقل من ذٰلک (البدایہ والنہایۃ ۶/۸۷)
’’یہ حدیث ایسی بات روایت کر رہی ہے جس کے نقل وروایت کیے جانے کے اسباب کثرت سے موجود ہیں، ایسے واقعات میں صحیح ومتصل خبر واحد بھی نہیں قبول کی جائیگی، اس طرح کے واقعات میں تو شہرت وتواتر ہی درکار ہے۔‘‘
اس روایت کے متن میں ہمیں کثرت سے ایسی داخلی شہادتیں ملتی ہیں جو کسی صاحب نظر مؤرخ کی نگاہ میں اس کے مشتبہ بنانے کے لیے کافی ہیں۔ مثلا یہ کہ یہ روایت بتاتی ہے کہ یہ سخت اور ذلت آمیز شرطیں خود مفتوح علاقوں کے عوام نے اپنے اوپر نافذ کی تھیں۔ بھلا کہیں مفتوح کی شرطوں پر معاہدے ہوا کرتے ہیں؟ شرطیں ہمیشہ فاتح کی طرف سے لکھی جاتی ہیں۔ دوسری بات یہ کہ اس سے پہلے حضرت عمر ہی کے زمانے میں دوسرے علاقوں میں اس سے کہیں زیادہ آسان اور سہل شرطوں پر لوگوں کو عہد اور اطاعت میں لیا گیا تھا، ہم ان معاہدوں کی بعض تفصیلات اوپر نقل کر چکے ہیں، تفصیل کا یہ موقع نہیں، ابن جریر اور ابن کثیر اور بلاذری کے یہاں یہ معاہدے ملتے ہیں اور شبلیؒ نے ان میں سے کئی الفاروق میں نقل کیے ہیں۔ تو یہ کیا ہوا تھا ان علاقے والوں کو کہ وہ اپنی طرف سے اپنے لیے سخت شرطوں کا مطالبہ کریں؟ پھر حضرت عمر جیسے عادل شخص سے یہی توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ دوسرے علاقوں کی طرح اہل شام سے بھی انصاف کا معاملہ ہی کریں۔ اور مزید یہ کہ تاریخ شاہد ہے کہ ذمیوں کے ساتھ مسلمانوں نے کبھی یہ معاملہ نہیں کیا۔ کس تاریخ میں آتا ہے کہ مسلمانوں نے پکڑ پکڑ کر ذمیوں کے سر کے اگلے بال کاٹے؟
اس تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ یہ شرائط ان مشہور چیزوں میں سے ہیں جو بے اصل ہونے کے باوجود مشہور ہو جاتی ہیں۔

غیر مسلم شہریوں کے لباس کا مسئلہ:

البتہ لباس کے سلسلے میں ہم کو تاریخ وسیر اور امام ابو یوسف کی کتاب الخراج وغیرہ کتب میں متعدد حوالے اس کے ملتے ہیں کہ اہل ذمہ فلاں لباس پہنیں فلاں نہ پہنیں۔ متعدد لوگوں کو یہاں سخت دھوکا ہوا ہے کہ یہ ان کو نیچا بناکر رکھنے کی پالیسی تھی۔اللہ جزائے خیر دے شبلیؒ کو، الفاروق میں اچھی طرح اس غبار کو صاف کردیا۔ متاخرین نے غلط فہمی سے عموماً مسلمانوں اور غیر مسلم ذمیوں کے درمیان لباس کے فرق کو ذلت کے اظہار کے لئے سمجھا حالانکہ ان کو بس یہ حکم تھا کہ وہ عربوں اور مسلمانوں کا سا لباس نہ پہنیں اور اپنے قومی لباس کو نہ بدلیں۔ اس میں ذلت کا کوئی پہلو نہیں تھا۔
ہم اگر مسئلہ کو اس پہلو سے دیکھیں تو دوباتوں کا علم ہوتاہے، پہلی تو یہ کہ حکم یک طرفہ نہیں تھا۔ بلکہ اس کا منصفانہ پہلو یہ تھا کہ خود عرب مسلمانوں کو بھی غیر مسلموں اور عجمیوں کی نقالی کرنا منع تھا، رسول اللہؐ نے تو پہلے ہی اس سے روکا تھا، حضرت عمر نے بھی اپنے بعض گورنروں کو ہدایت دی کہ نگرانی رکھیں مسلمان دوسروں کی نقالی نہ کریں۔
دوسری اور اہم تر بات یہ ہے کہ ذمیون کو مسلمانوں کی لباس وہےئت میں نقالی سے روکنے کی اصل حکمت نہ ان کو ذلیل کرنا تھا اور نہ (جیسا کہ بعض اہل علم نے ماضی قریب میں سمجھا ہے) ان کی قومی خصوصیات کا تحفظ اور محکوم قوم کو احساس کمتری سے بچانا تھا۔ مسلمانوں کو غیر مسلموں کی قومی خصوصیات کے تحفظ کی کیا پڑی تھی؟ بلکہ یہ ایک انتظامی اور دفاعی حکم تھا ، جس کا منشا فاتح طاقت کے اندیشے تھے۔ ایسے علاقوں میں جہاں ایک نئی قوم نے فتوحات کی ہیں اور ابھی پورے طورپر دلوں کو فتح کرنے اور ان کے درمیان اسلام پھیلنے میں فطری طورپر کچھ وقت درکار ہے، حضرت عمر نے یہ احکام جاری کئے کہ ان لوگوں کو اس سے روکا جائے کہ مسلمانوں کی سی ہےئت اختیار کریں۔ تاکہ کسی آدمی کی شناخت ہو سکے۔یہ اسی طرح کے مقاصد تھے جن کے لیے آج حکومتیں شہریوں کو شناختی کارڈ جاری کرتی ہیں۔ آج بھی حفاظتی اور امن عامہ کے مصالح کی خاطر مذہب ہی نہیں یہ تک درج کرواتی ہیں کہ اس کارڈ کے حامل شخص کے ماں باپ کی اصل قومیت ونسل اور مقام پیدائش کیا تھے۔ اس وقت ایسے شناختی کارڈ وں کا رواج نہیں تھا جن کے ذریعہ کسی شخص کی قومیت ومذہب کا علم ہوسکے لہٰذا یہ پابندی کہ اہل ذمہ ’’اپنالباس‘‘ ہی پہنیں، دراصل سلامتی اور سیکوریٹی کے ایسے ہی مقاصد کے لیے تھا جن کے لیے آج کی حکومتیں یہ تفصیلات شناختی کارڈوں میں درج کرواتی ہیں۔
اگر اس بے اصل روایت میں آئی ناقابل قبول باتوں او رنا معقول اضافوں سے الگ کرکے صرف معتبر روایتوں کو دیکھیں تو ان کا خلاصہ وہی نکلتا ہے جو حضرت امام ابویوسف نے اپنی کتاب الخراج میں ان الفاظ میں نقل کیاہے کہ حضرت عمر نے اپنے ان احکام کی علت وحکمت یہی قرار دی تھی کہ ’’حتی یعرف زیھم من زیّ المسلمین‘‘ (الخراج: ۱۲۷) یعنی: تاکہ ان کی ہےئت ولباس کا مسلمانوں سے امتیاز کیا جاسکے۔
اپنے قارئین کئے لئے ہم ایک مرتبہ پھر اس حقیقت کی یاددہانی مناسب سمجھتے ہیں کہ ان احکام کی حیثیت شرعی وقانونی ہرگز نہیں تھی، نہ یہ کتاب اللہ میں آئے ہیں، اور نہ رسول اللہؐ نے دیے ہیں۔ حالات کی نزاکتوں ، حفاظتی مصالح ( Security concerns)اور ریاست کے تحفظ کے مقصد سے حضرت عمرؓ کے زمانے میں نافذ کیے گئے ایک قسم کے سیاسی احکام تھے جو اپنے سیاق وسباق Context کے ساتھ ہی دیکھے جانے چاہئیں۔

جہاد کی کچھ اہم شرطیں اور قوانین

اطاعت امام 

جنگ فی نفسہ خونریزی ہے،یہ تیر وتفنگ اور سیف و سنان کا وہ کھیل ہے جس میں جوش وخروش اور غیظ و غضب سے ہی کام لیا جاتا ہے۔ ذرا انتشار اور بے احتیاطی اس کو جہاد فی سبیل اللہ سے نکال کر فساد بنا سکتی ہے، اس لیے رسول اللہؐ نے اس سلسلے میں واضح، بے ٹوک اور تاکیدی حکم دیا ہے کہ اگر مسلم حکومت موجود ہو توجہاد کے سارے فیصلے صرف اسی کے ہاتھ میں ہوں گے۔ اور اس کی خلاف ورزی کرنا قطعاً جائز نہیں ہو گی۔ اس سلسلے میں قرآن وحدیث میں واضح ہدایات موجود ہیں۔ اس سلسلے کی صرف ایک حدیث اس جگہ دی جا رہی ہے:
من اطاعنی فقد اطاع اللّٰہ ومن عصانی فقد عصی اللّٰہ۔ ومن یطع الأمیر فقد اطاعنی ومن یعص الأمیر فقد عصانی۔ وانما الامام جُنّۃ یقاتل من وراۂ ویتقی بہ۔ (صحیح بخاری۲۹۵۷ و صحیح مسلم ۱۸۴۱)
’’جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ جو امیرِ (جہاد) کا مطیع ہوا وہ میرا مطیع اور جو امیر کا نافرمان وہ میرا نافرمان۔ اور مسلمانوں کا حکمراں ایک سِپَر کی طرح ہے، جنگ اس کے پیچھے (تابع) رہ کرکی جائے گی اور اس کی آڑپکڑ کر کی جائے گی۔‘‘
اطاعت امیر وامام کے اس اصول کا یہ مطلب بھی ہے کہ دوران جنگ اقدامات اور کارروائیوں میں اس کی فرماں برداری اور حکم کی پابندی ضروری ہے۔ مگر اس سے بھی قبل اس کا بدیہی تقاضا یہ ہے کہ یہ بات بھی اس کے حکم اور اجازت پر منحصر ہے کہ کس سے جنگ کی جائے اور کس سے یا کب نہ کی جائے۔ سلف کا فقہی ذخیرہ آپ پڑھ جایئے، آپ کو اس کا کوئی تصور نہیں ملے گا کہ کسی جگہ کے لوگ اپنے حکم رانوں کی اجازت کے خلاف اپنے طور پر جہاد چھیڑ دیں۔ فقہ کی مشہور کتاب المغنی میں ایک مختصر سے جملے میں اس بات کو سمیٹ دیا گیا ہے: 
وأمر الجہاد موکول الیٰ الامام (المغنی ۸/۳۴۵)
’’اور جہاد کا معاملہ مسلمانوں کے حکمراں کی رائے پر منحصر ہے۔‘‘

موجودہ زمانے میں اس اصول کی رہنمائی:

اس لیے یہ بات بالکل قطعی ہے کہ جہاں مسلمانوں کی کوئی حکومت موجود ہے وہاں اس کے جھنڈے تلے ہی جہاد ہو سکتا ہے۔ جو لوگ اس حکومت کے تحت ریاست کے شہری ہیں وہ اس کی طرف سے مامور و مجاز ہوئے بغیر جنگ نہیں کر سکتے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ان کا ملک تو دوسرے ملکوں سے صلح اور معاہدے کیے ہوئے ہو اور یہ اس کے معاہدے کو توڑتے ہوئے کسی دوسرے ملک کے خلاف جنگ چھیڑیں۔ ہاں یہ اگر اپنے ملکوں کی شہریت چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں اور کسی منظم ریاست کے شہری نہ رہیں، یا اپنی الگ ریاست بنا لیں تو ان کو اپنے بارے میں فیصلے کرنے کی آزادی ہوگی۔ ایسے مسلمانوں کی ایک مثال عہد نبوی میں پائی گئی تھی۔ یہ ایک گروہ تھا جس کے قائد حضرت ابو بصیرؓ تھے، جن کا واقعہ آگے آرہا ہے۔

حکومت کے معاہدوں کی پابندی تمام شہریوں پر لازمی ہے:

لیکن جب تک وہ کسی مسلم ریاست کے شہری ہیں اوراس میں قیام پذیر ہیں ، یا اس کے شہری کی حیثیت سے ہی کسی دوسرے ملک میں داخل ہوئے ہیں وہ امن یا جنگ کے کسی فیصلے کے سلسلے میں خود مختار نہیں ۔ ان کو لازماً ہر حال میں اپنے ملکوں کی حکومتوں کے معاہدوں کی پابندی کرنی ہوگی ۔ یہ اللہ ورسول کا قطعی حکم ہے ، کسی کے اس کو نظر انداز کر دینے سے اس کی اہمیت میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ لہٰذا اگر کوئی پر جوش مسلم نوجوان یا کوئی گروہ کسی ایسے غیر مسلم ملک کے شہریوں کے جان ومال کے لئے خطرہ بنتا ہے جس سے اس کے ملک کے سفارتی تعلقات اور معاہدۂ امن ہے تو اس کا یہ فعل یقیناًغیر شرعی ہوگا، چاہے اس کو کتنی ہی اچھی نیت سے کیا گیا ہو ۔ 
ماضی قریب میں اہانت رسول کی بدبختانہ اور قابل لعنت حرکتوں کے بعدجن طالع آزما لوگوں نے کسی کے قتل کی اپیل کی، یا بعض مخلص مسلمانوں نے کسی جرأت مند مسلم نوجوان کی اس طرح کی حرکتوں کی تحسین کی، انہوں نے شرعی اصولوں کو نظر انداز کیا۔ جب تک کسی ملک سے ہماری حکومت کا معاہدۂ امن ہے اس وقت تک اس کے کسی شہری کو نقصان پہنچانا ہمارے لئے کسی طرح جائز نہیں۔ چاہے ہم کو اس ملک سے کیسی ہی شکایت ہو۔ اس کا راستہ صرف ایک ہے ، اور وہ یہ کہ حکومتی سطح پر معاہدے کے خاتمے کا اعلان کردیا جائے۔
اسی طرح جو لو گ کسی غیر مسلم ملک کے پیدائشی شہری ہیں یا وہاں کی شہریت انہوں نے لے لی ہے ، انہوں نے اپنے لئے اُس ریاست کا حصہ بننے کا معاہدہ کیا ہے۔ اسی طرح اس کے شہریوں کے ساتھ ہم وطنی اختیار کر کے ان سب کو ایک عام امان دینے اور ہر ایک کے جان و مال کے تحفظ کا اقرار و عہد کیا ہے۔ اب اگر وہ غیر مسلم ملک کسی مسلم ملک پرحملہ آور ہوتا ہے تو وہ اُس کو اِس ظلم سے باز رکھنے کی اپنے وطنی وشہری حق کی بنا پر ہر کوشش تو ضرور کریں گے ، اور یہ ان کا ایمانی فریضہ ہو گا۔ لیکن مسلح مقابلہ نہیں کر سکتے ۔ الا یہ کہ وہ اس کی شہریت ترک کردیں اور یہ معاہدہ ختم کر دینے کا اعلان کر دیں ۔ عام شہریوں کو تو جنگ کی حالت میں بھی نقصان پہنچانا اسلام نے حرام قرار دیا ہے ، ’’ہم وطنی‘‘ کے مضبوط معاہدے کے بعد تو اس کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔
نوجوان خون مسلم کے بے دردی سے بہائے جانے پر مضطرب اور مشتعل ہیں اور قربانیوں کے لئے تیار ہوکر اٹھ کھڑا ہونا چاہتے ہیں، کیا شبہ ان کا یہ جذبہ لائق صد رشک، اور اسی جذبے سے امید بندھتی ہے کہ اگر اس کو صحیح رخ دے کر شرعی اصولوں کے مطابق استعمال کیا جائے تو یہ امت کی تعمیر نو اور اس کو قعر مذلت سے نکال سکے گا، مگر اللہ نے ہم کو جس شریعت کا پابند بنایا ہے اس کا مقصد اسلام کی عزت اور دنیا میں خیر کا فروغ ہی ہے ، ہم اس کی خلاف ورزی کر کے اپنے مقصد کو نہ خود پاسکتے ہیں اور نہ اللہ کی مدد حاصل کر نے کے قابل بن سکتے ہیں۔ اور اس شریعت نے ہم پر معاہدوں کی پابندی لازم کی ہے۔

جہادی تنظیموں کا مسئلہ؟

گذشتہ دو دہائیوں سے یا اس سے بھی کچھ زیادہ عرصے کے دوران ہمارے بہت سے لوگوں سے ’’اسلامی جہاد‘‘ کی عملی تطبیق میں بڑی چوکیں ہو ئی ہیں ، اس وقت تو ماحول کے مطالبے اور سازگاری کے تحت ان غلطیوں کی طرف دھیان نہیں گیا، مگر بعد میں ان غلطیوں کے نتائج دیکھ کر اور حالات کے بعض اندرونی پہلوؤں کے آخر کار کھل جانے کے بعد اب ان پر تنبّہ ہو رہا ہے ۔ ان میں سے ہی ایک بڑی چوک تھی مسلم ملکوں کی حکومتوں کے ہوتے ہوئے آزاد جہادی تنظیموں اور گروپوں کا قیام ۔ یہ ایک طویل تاریخ پر بکھری ہوئی کہانی ہے۔ (اس موضوع پر ایک فرنچ رائٹر Gilles Kepel کی ترتیب دی ہوئی ایک بڑی ضخیم اور جامع کتاب آئی ہے،" "JIHAD کے نام سے اس کا انگریزی ترجمہ موجود ہے، کتاب اس قابل ہے کہ ہر اس شخص کی نظر سے گذرے جو موجودہ دور میں مسلمانوں کی نشأۃ ثانیہ کے لیے کچھ سوچتا ہو،کاش کوئی اردو میں ترجمہ کردیتا۔)
اس وقت جن بین الاقوامی طاقتوں کو ان جہادی تنظیموں سے مدد ملتی تھی ان کو تو اس کی کوئی فکر ہونی ہی نہیں تھی کہ کل جب افغانستان، بوسنیا ، الجزائر وغیر ہ میں مطلوبہ اہداف حاصل ہوجائیں گے، یا نہیں ہوں گے اور مہمیں ختم ہوں گی ، تو کیسے بھیانک مسائل سامنے آئیں گے۔ اس لئے کہ جو کچھ ہونا تھا اس کا سامنا ایشیا کے مسلم ملکوں یا زیادہ سے زیادہ ان کے پڑوسیوں کو کرنا تھا ۔
مگر افسوس کہ یہ فکر مسلم ممالک کی حکومتوں کو او ر ان کے اہل حَلّ وعقد کو بھی نہیں ہوئی، اور ان جہادی سرگر میوں کو مصر و شام، یمن و سعودی عرب اور پاکستان وغیرہ میں جن دینی نمائندوں کی سرپرستی اور سرگرم تعاون حاصل تھا انہوں نے بھی نہ مستقبل کی فکر فرمائی اور نہ اس کے بارے میں سوچا کہ ایک منظم مسلم ملک میں خطرناک ومفسد بین الاقوامی ایجنسیوں کے تعاون ہی نہیں، بلکہ عمل دخل سے جو آزاد اور بڑی حد تک خود مختار جہادی تنظیمیں اور تحریکیں قائم ہو رہی ہیں ، ان کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ جنگ کی کمان مختلف خود مختار ہاتھوں میں دینا عقلاً و شرعاً درست ہے؟
زیادہ تفصیل کی ضرورت نہیں،اس مسئلہ کی نزاکت ہر وہ درمند اور صاحب عقل سمجھ سکتا ہے جو اس کھلی حقیقت سے بے خبرنہ ہو کہ مسلم اور غیرمسلم ملکوں کی حکومتیں عموماً اور اکثر و بیشتر جس قسم کے عناصر کے ہاتھ میں رہتی ہیں،اور حکومتی ایجنسیاں جس قسم، ،جس قماش اور دینی وایمانی اعتبارسے جیسی سیرت و نظریات کے حامل لوگوں کے ہاتھ میں رہتی ہیں کیا ان لوگوں کی زیر نگرانی اور تعاون سے قائم تنظیمیں وہ مقاصد حاصل کر سکتی ہیں جو جہاد کے مقاصد ہیں ؟
افسوس ہماری نادانی اس حد تک پہونچی ہوئی ہے کہ ہم گرگ سے گلہ بانی کی توقع کر لیتے ہیں۔

انبیاء ؑ کی ایک اہم سنت:

مسلمانوں نے جب تک ایک باقاعدہ اور منظم حکومت قائم نہیں کر لی اس وقت تک رسول اللہؐ کو جہاد کا حکم نہیں دیا گیا۔ مدینہ پہنچنے کے بعد مسلمانوں کو جب جنگ کا حکم دیا گیا تو اس کو پورے طور پر ایک نظام امارت اور حکم راں کے تابع رکھا گیا۔ پچھلے انبیاء کی تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ انہوں نے باقاعدہ جنگ اسی وقت کی جب ایک منظم امارت قائم ہو گئی۔ حضرت موسیٰ کے زمانے میں اور اس کے بعد کی تاریخ پر غور کیجئے یہی اصول کار فرما نظر آئے گا۔ 
حضرت موسیٰ و ہارون کے زمانے میں مصر کی حکومت نے بنی اسرائیل کو کس قدر ظلم کا نشانہ بنایا، وہاں جنگ نہیں کی گئی۔ پھر انہوں نے ہجرت کی، اور اس طرح بنی اسرائیل کی ایک آزاد اجتماعیت اور امارت قائم ہوئی پھر ان کو اپنے خطے میں جہاد کا حکم ہوا۔
اس کے بعد جب بنی اسرائیل پر شدید زوال آیا، اور وہ دوسروں کے محکوم ومقہور ہوے تو ان کو اپنے علاقوں سے تتر بتر ہو کر اس طرح بھاگنا پڑا تھا کہ ان کی اجتماعیت ہی فنا ہو گئی تھی، ان کے بچے کہیں رہ گئے اور وہ کہیں اور بھاگے، قرآن بتاتا ہے کہ اس وقت قوم کے کچھ لیڈر اپنے وقت کے نبی (حضرت سموئیل ؑ ) کے پاس اپنی یہ رائے پیش کرنے کے لیے آئے کہ دشمنوں کے خلاف ہم کو باقاعدہ جنگ کرنی چاہئے۔ ا س وقت انہوں نے اپنے نبی سے یہ درخواست نہیں کی کہ لوگوں کو جمع کر کے یا فوج بنا کر بس جنگ شروع کر دی جائے آپ جہاد کے انتظامات کا حکم فرمائیں۔ اس کے بجائے انہوں نے وقت کے نبی سے جنگ کے انتظام کے لیے یہی درخواست کی تھی کہ ہمارا ایک باقاعدہ ’’حاکم‘‘ (ملِک) مقرر فرما دیں جس کے زیر حکومت ہم اللہ کے راستہ میں قتال کریں، اور اپنے شہروں کو آزاد کرائیں۔
پھر آگے قران نے قصہ نقل کیا ہے کہ وہ نبی ایسا کرنے کو ابتداءً تیار نہیں ہوئے۔ ۔۔۔کوئی حیرت کر سکتا ہے کہ اللہ کا نبی اور ایک ایسی صورتحال میں جس میں وقت کے مسلمان اپنے علاقوں سے بھگا ئے جا چکے ہیں، ان کے بچے کہیں رہ گئے اور وہ کہیں اور بھاگے، اُن مسلمانوں کے قبلے تک پر بدترین قسم کے ظالم کافروں کا قبضہ ہو چکا ہے، اور مسلمانوں کے لیڈراِس نبی کے پاس یہ در خواست لے کر آئے ہیں کہ حضور جہاد کے انتظامات فرمایئے ہم خدام تعاون کو حاضر ہیں، اور وہ (نبی علیہ الصلاۃ والسلام )کچھ تذبذب کرتا ہے؟ جی ہاں قرآن بتلاتا ہے کہ وہ نبی تذبذب کرتا ہے۔ اس لیے کہ اس کو اپنی قوم پہ اعتماد نہیں تھا کہ جب وقت آئے گا تو وہ ثابت قدم رہیں گے اور پیٹھ نہیں دکھائیں گے۔ مگر جب ان قومی زعماء نے اعتماد دلایا کہ ہم ضرور جنگ کریں گے، ہمارے گھر اجاڑے گئے، بچے کہیں، اور ہم کہیں، اب مزید کس چیز کا انتظار ہے جس کے بعد ہم جہاد کو کھڑے ہوں؟تو اللہ کے اس نبی نے جنگ کے ضروری انتظام کے طور پر ایک ’’بادشاہ‘‘ مقرر کیا اور اس بادشاہ کی حکومت کے تحت ہی جہاد کیا گیا، اور اللہ کی مدد سے فتح بھی ہوئی۔ (سورۂ بقرہ آیت ۲۴۶ تا ۲۵۳)

بغیر حکومت کے جہاد کی صورت:

اہل علم کے نزدیک اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر کسی مسلم ملک پر کوئی غیر مسلم طاقت ظلماً حملہ آور ہو اور حکومت کو بے دخل کردے تو عام مسلمان اس کے خلاف جہاد کے مجاز نہیں ہوں گے۔ آج کل کے زمانے میں اس کا نتیجہ تو یہ ہوگا کہ کوئی بڑی ہوائی طاقت بم باری کر کے مسلم ممالک کی حکومت اور اس کے اساطین کو ہلاک کر دے اور اعلانِ قبضہ کردے۔ جیسے ہی مسلمانوں کی باقاعدہ حکومت ختم ہوگی سارے لوگوں پر ہتھیار ڈال دینا ضروری ہو جائے گا۔ شریعت اسلام کی حفاظت کے لیے ہے ، اس کو ضائع کرنے کے لیے نہیں۔
علماء کہتے ہیں کہ :
فان عُدم الامام لم یوخَّر الجہاد لان مصلحتہ تفوت بتا خیرہ (المغنی ۸/۳۵۳)
’’ اگر کسی جگہ حکومت ہی نہ ہو تو مسلمان جہاد کو مؤخر نہیں کریں گے۔ اس لیے کہ دیر کرنے سے جہاد کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔‘‘
یعنی اگر کوئی ظالم طاقت مسلمانوں کے ملک پر ظالمانہ حملہ کرے ، اور مسلمانوں کی حکومت تحلیل ہو جائے تو چوں کہ کوئی مسلم حکومت نہیں ہے اسی لئے عام مسلمان اپنے جان و مال اور ملک ووطن کا دفاع کریں گے،اور کب تک وہ مزاحمت کریں گے اس کا فیصلہ حالات پر اور ان کے اہل حل و عقد پر ہوگا۔
جہاں کوئی منظم حکومت نہ ہو وہاں کے افراد فیصلہ کر نے کے لئے آزاد ہوں گے۔ اس کی ایک نظیر ہم کو عہد رسالت میں ملتی ہے۔ کچھ مجبور ومظلوم مسلمان اہل مکہ کے مظالم کی زنجیروں میں قید تھے ، نہ بھاگنے کا موقع تھا نہ عافیت کے ساتھ مکہ میں رہنے کا ۔ صلح حدیبیہ کے بعد جب مکے والوں نے رسول اللہؐ سے یہ معاہدہ لے لیا تھا کہ مکے سے کوئی مسلمان اگر مدینہ جائے گا تو واپس کرنا ضروری ہوگا۔ ابو بصیر نامی ایک مظلوم مسلمان مدینہ بھاگ کر آیا، پیچھے سے اس کو واپس لینے مکے کے دو آدمی پہنچے۔ معاملہ معاہدے کا تھا، آپؐ نے دل پر پتھر رکھ کر ان کو واپس کر دیا۔ راستے میں ابوبصیر نے ان میں سے ایک کی تلوار لے کر اس کا سرقلم کر دیا۔ دوسرے نے بھاگنے میں عافیت جانی، اب ابو بصیر اور ایسے ہی کچھ اور لوگوں نے بھاگ کر ایک غیرآباد علاقے میں (جو مدینہ کی مسلم ریاست کی قلم رو سے باہر تھا) آکر ڈیرہ ڈال لیا، حضرت ابوبصیرؓ ان کے لیڈر تھے۔ ان لوگوں نے مکے کے تجارتی قافلوں پر حملے شروع کر دئے۔ ( بخاری ۲۷۳۱) لیکن چوں کہ یہ مدینہ کی ریاست سے باہر رہتے تھے اس لئے سیاسی طور پر رسول اللہ ؐ اور مدینہ کی ریاست پر ان کی کوئی ذمہ داری نہیں مانی جاسکتی تھی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو ان کارروائیوں سے منع نہیں کیا ، حالانکہ بحیثیت حاکم نہ سہی بحیثیت نبی ورسول آپؐ کی ذمہ داری تھی کہ ہر غلط کام سے اپنے اوپر ایمان لانے والوں کو روکیں ، اور اس کے غیر شرعی ہونے کی وضاحت فرمائیں۔
بعض ان لوگوں نے جن کو افغانستان اور عراق میں امریکی حملوں کے خلاف مجاہدین کی مزاحمت کو غیر شرعی قرار دینا تھا یہ کہا ہے کہ حکومت کے بغیر قتال وجنگ قطعاً غیر اسلامی تصور ہے۔ ان میں ایک صاحب نے تو ببانگ دہل دہشت گردی کی تعریف ہی یہ فرما دی ہے کہ بنا حکومت کے ہتھیار اٹھانا دہشت گردی ہے۔ اور یہ بھی دعویٰ فرما دیا ہے کہ میں دنیا میں وہ پہلا شخص ہوں جس نے دہشت گردی کی معین تعریف کی ہے۔ ان لوگوں کے خلاف یہ واقعہ اپنی اسی حیثیت سے دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بصیرؓ کو اس سے منع نہیں کیا۔ حال آں کہ بطور حاکم نہ سہی، بطور رسول تو آپؐ ان کے عمل کی غلطی کو واضح کرنے کے ذمے دار تھے ہی۔

معاہدات کی پابندی

وفائے عہد( یعنی جو معاہدہ کیا جائے پورا کیا جائے) اسلامی اخلاقیات کی ایک نہایت بنیادی تعلیم ہے ، قرآن مجید میں اس کی بار بار تاکید کی گئی ہے ایک جگہ ارشاد ہے:
وَأَوْفُواْ بِالْعَہْدِ إِنَّ الْعَہْدَ کَانَ مَسْؤُولا (بنی اسرائیل: ۳۴)
اور پورا کرو معاہدہ کو ۔ ( اللہ کے یہاں) معاہدے کے بارے میں ضرور سوال ہوگا۔
ایک حدیث میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا :
لا ایمان لمن لا امانۃ لہ، ولا دین لمن لا عھد لہ (صحیح ابن حبان ۱/۴۲۲ مسند احمد ۱۶۷۸، صحیح ابن خزیمہ ۴/۵۱)
’’اس کا ایمان نہیں جو امانت دار نہیں، اور اس کا دین نہیں جو معاہدے توڑے۔‘‘
کتاب وسنت کی تعلیمات سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ و رسول کی نظر میں سب سے زیادہ قابل احترام عہد وہ سیاسی عہد ہوتا ہے جو دومملکتوں کے درمیان یا فرد وحکومت کے درمیان امن و جنگ اور جان و مال کی سلامتی سے متعلق ہوتا ہے ۔ اسلام کا قانون جنگ ’’جہاد فی سبیل اللہ ‘ کا قانون ہے ، اس میں وفائے عہد کی صرف تعلیم وتلقین ہی نہیں، بلکہ بد عہدی پر جہنم اور اللہ کے عذاب کی وعیدیں آئی ہیں۔ رسول اللہ ؐ نے اسی طرح کے معاہدے کا پاس نہ کرنے کے بارے میں ارشاد فرمایا :
اذا جمع اللہ الاولین والآخرین یوم القیامۃ یرفع لکل غادر لواء ، فیقال ہذہٖ غدرۃ فلان بن فلان (صحیح بخاری، ۶۱۷۷ وصحیح مسلم، ۱۷۳۵)
’’قیامت کے دن جب ساری انسانیت اللہ کے یہاں جمع ہوگی ، اس دن ہر عہد توڑنے والے کے ہاتھ میں غداری کا جھنڈا دے دیا جائے گا ،اس پے لکھا ہوگا یہ فلان بن فلاں غدار ہے۔‘‘
مسلمانوں کا مقصد صرف فتحیابی نہیں ہے، وہ جن اعلیٰ اخلاقی اصولوں کے علم بردار ہیں اگر وہی اصول جنگ کی اندھیر نگری میں کھو جائیں تو پھر مسلمانوں کے پاس بچے گا کیا؟ پھر دعوت دین کا بیج کس زمین میں بویا جائے گا؟ اور اللہ کی حجت کہاں قائم ہوگی؟ جس کی جنگ کا اصل مقصد انسانوں کی ہدایت اور اسلام کی نشرو اشاعت ہے، اور جو نہایت سوز وہمدردی کے ساتھ بنی نوع انسان کو اللہ کے ابدی عذاب سے بچانے اور دنیا وآخرت کی سعادتوں سے ان کو ہم کنار کرنے کے لیے اپنی جان اور مال کو سستا کیے ہوئے ہے، وہ کسی قیمت پر یہ برداشت نہیں کرے گا کہ اس کی دعوت داغ دار ہو یا لوگ اس کو اخلاقی اصولوں سے عاری سمجھیں۔ وہ ہر قیمت پر دنیا کے سامنے اپنی اخلاقی برتری کا ثبوت پیش کرے گا۔ ہاں جس کا مقصد قومی فتح یابیاں ہوں یا جو نخوت قومی کے لئے لڑتا ہو وہ شوق سے جو چاہے کرے، اس کو ہر کردنی ونا کردنی زیبا۔ مگر جو اللہ کے کلمہ کے لئے لڑتا ہے، اس کے دین کے لیے جھکتا اور اٹھتا ہے، اور اس کا مقصد اس کی بندگی و خود سپردگی ہے وہ اپنے آپ کو عین میدان کارزار میں بھی پابندِ حکم پاتا ہے ۔ اور یہی جہاد فی سبیل اللہ کا حسن ہے۔
اس لئے مسلمانوں کے لئے یہ طے ہے کہ بدعہدی میں چاہے فائدہ ہو اور وفائے عہد میں چاہے نقصان، ان کو معاہدے کی پابندی ہی کرنی ہے۔

دین عہد و وفا، نہ کہ غدر و دغا:

قرآن مجید میں جنگ کے حالات کے لیے جو نصیحتیں اور تعلیمات آئی ہیں ان میں ہم کو عہد کی پابندی کی تاکیدی تعلیم بار بار ملتی ہے۔ اسلام کی نظر میں معاہدے کا کیا مقام ہے اس کا اندازہ اس سے کیجیے کہ وہ مشرکینِ مکہ جن سے بڑا نہ اسلام کا کوئی مخالف ہوا ہوگا اور نہ رسول اللہؐ اور صحابۂ کرام کو کسی کے ہاتھوں اتنا نقصان پہنچا ہوگا، ان کے بارے میں بھی ہدایت ہے کہ ان کے ساتھ کیے ہوئے عہد کی بہر حال پوری پوری پابندی کی جائے۔ سورۂ توبہ جو مشرکین عرب پر اللہ کے شدید غضب کا اعلان کرتی اور مسلمانوں کے یہ حکم دیتی ہے کہ ان کو الٹی میٹم دے دیا جائے کہ ان کو بس چار مہینے کی مہلت ہے، یہ یا تو اسلام قبول کرلیں، ورنہ جزیرۃ العرب کی خاص پوزیشن یہ ہے کہ اس میں ان کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ان چار مہینوں کے بعد ان میں سے جو جہاں ملے مارا جائے، پکڑا جائے، اور ان کے شکار کے لیے جگہ جگہ گھات لگاکر بیٹھا جائے: 
فَإِذَا انسَلَخَ الأَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُواْ الْمُشْرِکِیْنَ حَیْْثُ وَجَدتُّمُوہُمْ وَخُذُوہُمْ وَاحْصُرُوہُمْ وَاقْعُدُواْ لَہُمْ کُلَّ مَرْصَد۔ (التوبہ: ۵)
یہ سورت مشرکین عرب کے سلسلے میں غضبناک اعلان جنگ ہے، اس میں یہ بھی کہا گیا کہ ان کی سابقہ سراپا ظلم وعہد شکنی کی تاریخ کے بعد تمہارے لیے کوئی گنجائش نہیں کہ ان کے ساتھ کوئی نرمی کا برتاؤ کرو، یا آئندہ ان سے معاہدے کے بارے میں سوچو۔ اب نرمی کی ساری گنجائشیں ختم، تم کو حکم ہے کہ اب تمہاری تلوار چلے اور رشتہ یا تعلق نام کی کوئی چیز اس کو روکنے والی نہ ہونی چاہیے۔ مگر اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ ہاں! معاہدہ اگر روکے تو تھم جانا۔
مشرکین کے شرک کے باوجود اور سراپا ظلم ودشمنی کی تاریخ کے باوجود معاہدے کی پابندی ضروری ہے۔ جن سے تمہارا معاہدہ ہے اگر وہ خود عہد شکنی نہ کریں تو تم ٹھیک ٹھیک معاہدے کی پابندی کرو۔ یہی عین تقویٰ ہے۔
کَیْْفَ یَکُونُ لِلْمُشْرِکِیْنَ عَہْدٌ عِندَ اللّہِ وَعِندَ رَسُولِہِ إِلاَّ الَّذِیْنَ عَاہَدتُّمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَمَا اسْتَقَامُواْ لَکُمْ فَاسْتَقِیْمُواْ لَہُمْ إِنَّ اللّہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ (التوبہ: ۷)
’’مشرکین کا اب اللہ اور رسول کے ساتھ کوئی معاہدہ کیسے ہو سکتا ہے؟ ہاں جن کے ساتھ تم نے معاہدہ کیا تھا مسجد حرام کے پاس، وہ اگر معاہدے کی پابندی کریں تو تم بھی کرو۔ اللہ تقوے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘
آیات کا اصل مضمون مشرکین کے ساتھ سختی برتنے کا حکم ہے، یہیں سے بات شروع ہوئی کہ ان کے ساتھ اب کسی معاہدے کا کیا امکان؟ ابھی یہ بات پوری نہیں ہوئی تھی۔ اس سلسلے میں آگے مزید یہ کہنا تھا کہ ان مشرکین کے ساتھ اب معاہدہ کیسے ہوسکتا ہے؟ ان کے دلوں میں دشمنی کی آگ دہک رہی ہے۔ بس چلے تو یہ تم پر بری طرح ٹوٹ پڑیں، نہ رشتہ ان کو روکے اور نہ معاہدہ۔ یہ بد دین، دنیا پرست، مکار، فاسق اور ظلم وجارحیت کے مرتکب رہے ہیں۔
کَیْْفَ وَإِن یَظْہَرُوا عَلَیْْکُمْ لاَ یَرْقُبُواْ فِیْکُمْ إِلاًّ وَلاَ ذِمَّۃً یُرْضُونَکُم بِأَفْوَاہِہِمْ وَتَأْبَی قُلُوبُہُمْ وَأَکْثَرُہُمْ فَاسِقُونَ، اشْتَرَوْاْ بِآیَاتِ اللّہِ ثَمَناً قَلِیْلاً فَصَدُّواْ عَن سَبِیْلِہِ إِنَّہُمْ سَاءَ مَا کَانُواْ یَعْمَلُونَ، لاَ یَرْقُبُونَ فِیْ مُؤْمِنٍ إِلاًّ وَلاَ ذِمَّۃً وَأُوْلَءِکَ ہُمُ الْمُعْتَدُون (آیت:۸،۹،۱۰)
ابھی آگے یہ سب کچھ کہنا تھا، اور مسلمانوں کو برافروختہ کرکے ان سے جنگ کروانی تھی، مگر ایسے موقعے پر اور ایسے دشمنوں کے بارے میں اور ایسے غضبناک کلام کے وقت بھی۔۔۔ بیچ میں ہی بات روک کر تنبیہ کی گئی کہ’’ہاں جن کے ساتھ تم نے معاہدہ کیا تھا مسجد حرام کے پاس، وہ اگر معاہدے کی پابندی کریں تو تم بھی کرو۔ اللہ تقوے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘ اس میں اشارہ ہے کہ اگر معاہدے کی پابندی میں کوتاہی ہوئی تو نہ تم تقوے والے رہوگے اور نہ اللہ کی محبت کے سزاوار۔ 
ہم گواہی دیتے ہیں کہ یہ شان دار ہدایات برحق ہیں۔ اللہ اکبر۔
ہم کو اس تعلیم کا جو عملی نمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت میں ملتا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ جنگ کے موقع پر بھی اسلام کی نظر میں معاہدے کی کیا قیمت ہے ۔ جنگ بدر میں مکہ والوں کی تعداد مسلمانوں سے تین گنا زائد تھی ، ایسے میں ایک ایک آدمی کی اہمیت بہت تھی ، حضرت حذیفہ بن الیمان اور ان کے والد حسیل مسلمانوں کے لشکر میں جا ملنے کے ارادے سے آرہے تھے کہ مشرکین کے ہتھّے چڑھ گئے ، انہوں نے ان کو یہ عہد لے کر ہی چھوڑ ا کہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں شرکت نہیں کریں گے ۔ یہ دونوں حضرات چھوٹ کر بدر کے میدان میں آں حضرت ؐ سے ملے اور پورا واقعہ سنایا، آپؐ نے فرمایا:
انصرفا، نفی لہم بعہدہم ونستعین اللہ علیہم (صحیح مسلم، ۱۷۸۷)
’’واپس جاؤ ، ہم عہد کی پابندی کریں گے اور اللہ سے مدد مانگیں گے۔‘‘
اگر مسلمانوں کی حکومت کا کسی غیر مسلم حکومت سے معاہدہ ہو، اور ایسے آثار نظر آنے لگیں کہ فریق ثانی اچانک دھوکہ دے کر حملہ کر دے گا، تب بھی مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ صرف اندیشے پر کارروائی نہ کر دیں، بلکہ حکم ہے کہ معاہدہ کے خاتمے کا اعلان اس طرح کرو کہ تم نے اس وقت تک ان کے خلاف حملے کے سلسلے میں کوئی پیش رفت نہ کی ہو۔ قرآن کی آیت ’’وامّا تخافن من قوم خیانۃ فانبذ الیہم علیٰ سواء‘‘ میں اسی کا حکم ہے۔
اس سلسلے کا ایک دلچسپ واقعہ سنیے: حضرت امیر معاویہؓ کے زمانے میں روم سے جھڑپیں چلا کرتی تھی، ایک مرتبہ ان کاحکومت روم سے ایک خاص مدت تک کا ناجنگ معاہدہ تھا، انہوں نے معاہدے کے ختم ہونے سے پہلے ہی اس حساب سے فوجوں کو لے کر سرحد کی جانب پیش قدمی شروع کر دی کہ جیسے ہی مدت ختم ہوگی اچانک حملہ کر دیں گے ،دشمن تیار بھی نہیں ہوگا۔ ابھی پیش قدمی جاری تھی، اور فوجیں تیزگامی سے منزلیں طے کر رہی تھیں، کہ ایک گھوڑ سوار غبار اڑاتا ’’اللہ اکبر، اللہ اکبر، وفاء لاغدر‘‘ (وفاداری کرو، غداری نہیں) کی آواز لگاتا چلا آ رہا ہے۔ دیکھا تو یہ صحابی رسول حضرت عمرو بن عنبسہؓ تھے۔ انہوں نے آکر حضرت معاویہ سے کہا: غضب ہے غضب ! یہ کیا ہورہا ہے؟ میں نے رسول اللہؐ سے سنا ہے کہ جس کا کسی کے ساتھ معاہدہ ہو وہ اس میں کوئی تغیر و تبدیلی نہ کرے (اور کسی قسم کا اقدام نہ کرے ’’فلا یحل عقدۃ ولا یشدھا‘‘)، یہاں تک کہ اس کی مدت گذر جائے۔ حضرت امیرؓ نے یہ حدیث سنی اور فوجوں کو واپسی کا حکم دے دیا۔۔ رضی اللہ عنہم۔ (مسند احمد، حدیث نمبر ۱۶۵۵۷۔ سنن ترمذی، حدیث نمبر، ۱۵۹۰)

دین میں بین الاقوامی معاہدات کا مقام:

اسلامی تعلیمات میں دینی اخوت اور دین کے سلسلے میں مسلمان بھائیوں کی مدد کا جو غیر معمولی مقام ہے وہ ہر اس شخص کو معلوم ہے جس نے کچھ بھی دینی تعلیم یا دینی ماحول سے استفادہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں ایک بڑی مہمیز کر نے والی آیت اس مضمون کے شروع میں گذر چکی ہے، جس میں آزادی اور جنگ کی استطاعت رکھنے والے مسلمانوں میں حمیت و غیرت پیدا کرنے کے لیے مکہ کے دبے کچلے مسلمانوں کی آہ وزاریوں اور عورتوں اور بچوں کے نالہ وشیون کا حوالہ دے کر کہا گیا کہ وہ بے چارے رات دن دعا کر رہے ہیں کہ اللہ کسی نجات دہندہ کو بھیجے جواُنہیں اِن ظالموں کے چنگل سے آزاد کرائے۔ کیا یہ دل فگار نالے بھی تم میں قتال کے لیے جوش پید انہیں کرتے؟ آؤ اب ان کی مدد کے لیے جہاد کرو۔
وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ ہَذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ أَہْلُہَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ وَلِیّاً وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ نَصِیْرا (النساء: ۷۵)
مظلوم مسلمانوں کی مدد قرآن کی نظر میں اتنی ضروری ہے۔ اس کے باوجود قرآن صاف کہتا ہے کہ اگر کسی ایسی غیر مسلم ریاست میں جس کے ساتھ تمہاری ریاست کا معاہدہ ہے کچھ مسلمان بھائیوں پر ظلم ہورہا ہے ، اور ان کا دین آزمائش میں ہے ، وہ تم کو مدد کے لئے بلاتے ہیں تو تم ان کی مدد نہیں کر سکتے ۔ تمہیں معاہدے کا پاس رکھنا ہے۔ مدد کرنی ہے تو پہلے معاہدہ ختم کرو۔
آیت مع ترجمے کے ذیل میں ہے:
وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ وَلَمْ یُہَاجِرُواْ مَا لَکُم مِّن وَلاَیَتِہِم مِّن شَیْْءٍ حَتَّی یُہَاجِرُواْ وَإِنِ اسْتَنصَرُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ فَعَلَیْْکُمُ النَّصْرُ إِلاَّ عَلَی قَوْمٍ بَیْْنَکُمْ وَبَیْْنَہُم مِّیْثَاق (الانفال: ۷۲)
’’جو لوگ ایمان لائے مگر ہجرت کر کے ( تمہاری ریاست کے شہری نہیں بنے) تو تم پر ان کی ’’ولایت ‘‘(حمایت ومدد) والے رشتے کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ الا یہ کہ وہ ہجرت کر کے تمہارے ملک آجائیں ، ہاں اگر وہ دین کے سلسلے میں (ظلم کے شکار ہوں اور ) تم کو مدد کے لئے پکاریں تو تم پر مدد کرنے کی ذمہ داری ہے۔ مگر کسی ایسی قوم کے خلاف نہیں جس کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہو۔ اور اللہ دیکھ رہا ہے جو تم کر رہے ہو۔‘‘
یہ ہے اسلامی اصولوں کے ساتھ جہاد۔
جہاد کے بارے میں ہمیں کسی قسم کا معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جہادی تعلیم اسلام کا وہ باب ہے جو اس کی حقانیت کی روشن دلیلوں میں سے ہے۔ ایک طرف انسانیت کی ایک شدید ضرورت کو پورا کرنے کے مقصد کی بلندی ہے۔ دوسری طرف اللہ کی رضا کی نیت کی پاکیزگی ہے۔ اور تیسری طرف مجاہدانہ اخلاقیات کا حسنِ جہاں آرا وجہاں زیب۔ نورٌ علی نور۔
یہ جہاد دنیا کو زیبائش وآرائش بخشنے کے لیے ہی فرض کیا گیا ہے۔ اس کو کیا نسبت اس فساد و فتنہ اور غدرو دغا سے جس پر مغربی تہذیب کے زیر سایہ موجودہ بین الاقوامی سیاست کا نظام قائم ہے۔ ایک ریاست دوسری ریاست سے معاہدوں میں ہاتھ بھی ڈالتی ہے، سفارتی تعلقات بھی قائم کرتی ہے اور پھر اپنی ایجنسیوں کے ذریعہ قتل و خونریزی کے واقعات بھی کراتی ہے۔ انسانیت کو مغربی تہذیب نے جو الم ناک ’’تحفے‘‘ دیے ہیں ان میں یہ خفیہ ایجنسیوں کا نظام بھی ہے۔ 
مگر اس وقت کچھ ناسمجھ مسلم نوجوانوں کو جہاد کے نام پر معاہدات کی پامالی کا سبق دینے لگے ہیں، یہ ان میں ایسا اشتعال پیدا کرتے ہیں کہ شریعت تو ٹوٹتی ہے ہی، اللہ کے حدود تو پامال ہوتے ہیں ہی، ساتھ ہی اسلام اور مسلمانوں کے مفاد کو بھی شدید نقصان پہنچتا ہے۔ یہ نادان اسلام کے دوست نہیں، اور ان میں سے بہت سوں کو تو اسلام دشمنوں نے خوب کام کی چیز سمجھ کر پالاپوسا اور استعمال بھی کیا ہے۔ مثال کے طور پر برطانیہ کی دو شخصیتوں ابوحمزہ المصری اور عمر البکری کا تذکرہ تو ہمارے الفرقان کے صفحات میں بار بار آچکا ہے۔ انہوں نے برطانیہ میں نوجوانوں کو اشتعال دلانے کا کام عین برطانوی ’’حمایت وحفاظت‘‘ میں خوب کیا۔ 

معاصر دنیا میں معاہدے کی بعض شکلیں:

ایسوں کی نادانیوں ہی کی وجہ سے کہنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ جو شخص کسی غیر مسلم ملک میں اس کا ویزا لے کر جاتا ہے تو وہ جس وقت ویزا اپلائی کرتا ہے اس وقت ہی وہ وہاں کی حکومت سے معاہدہ کرتا ہے کہ کسی کی جان ومال کے لیے خطرہ نہیں بنے گا، اور قانون کی پابندی کرے گا۔ پھر دوران سفر نہ جانے کتنی مرتبہ وہ تحریری طور پر یہ اطمینان دلاتا ہے۔ اب اس کے نزدیک وہ کیسی ہی اسلام دشمن اور ظالم ریاست کیوں نہ ہو اس کے لیے وہاں کے شہریوں کا مال وجان محترم ہیں۔ اس لیے کہ اس نے جانتے بوجھتے معاہدہ کر کے اپنی طرف سے اطمینان دلایا ہے۔ اس کے لیے اس کا کوئی جواز نہیں کہ وہ اسلام کے مقدس نام پر ’’غدر‘‘ اور ’’نقض عہد‘‘ کا ارتکاب کرے۔ اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے (چاہے نیک نیت سے ہی کرتا ہے) تو وہ گناہ ہی کرتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من امن رجلاً علی نفسہ فقتلہ أُعطی لواء الغدر یوم القیامہ (مسند أحمد ۲۱۴۴۱)
’’جس نے کسی کو اپنی طرف سے محفوظ ہونے کا اطمینان دلایا اور پھر قتل کر دیا، اس کو قیامت میں (ذلیل کرنے کے لیے) غداری کا جھنڈا تھمادیا جائے گا۔‘‘
صحیح ابن حبان (حدیث ۵۹۸۲) میں اسی حدیث کی ایک صحیح سند سے بیان کردہ روایت میں یہ تصریح ہے کہ چاہے وہ مقتول غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو۔ 
اسی طرح کا ایک معاہدہ Citizenship شہریت کا معاہدہ ہے۔ آج کل کی غیر مسلم ریاستوں میں جو مسلمان رہتے ہیں اور وہاں کی شہریت اختیار کیے ہوئے ہیں، انہوں نے اپنی ریاست اور اسکے عام شہریوں کے ساتھ ایک واضح معاہدہ کیا ہوا ہے۔ عام معاہدوں سے یہ معاہدہ اس اعتبار سے اہم ہوتا ہے کہ سارے معاہدوں کی کوئی نہ کوئی انتہا ہوتی ہے، مگر یہ لا محدود مدت تک کے لیے ہوتا ہے۔ انسانی تمدن کی تاریخ میں ہمیشہ ہی شہریت کو فرد اور ریاست کے درمیان ایک معاہدے کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ ریاست اور شہری، اور خود آپس میں شہریوں کی جماعت ایک دوسرے کے تئیں ذمہ دارانہ معاہدے کے حامل سمجھے جاتے رہے ہیں، جس میں وہ سب ایک دوسرے کے جان اور مال کو اپنی طرف سے امان دیتے ہیں۔ ہمیشہ سے شہریت کی بنیاد یہی واضح معاہدہ ہوتا آیا ہے کہ سارے شہری ایک دوسرے کے مال اور جان کا احترام کریں گے۔ آپ اگر آج یہ اعلان کر دیں کہ میں کسی کی بھی جان کا احترام اپنے اوپر فرض نہیں مانتا، اور میرے ملک کے انسان میرے لیے ’’مباح الدم والمال‘‘ یعنی ان کی جان یا مال لے لینا میرے لیے حلال ہے، تو آپ کو وہ ملک فوراً باغی قرار دے دے گا۔ 
لیکن اب جدید دنیا میں تو یہ شہریت ایک بڑا وسیع معاہدہ بن گیا ہے، ریاست کی ذمے داریاں بھی بڑھ گئی ہیں اور فرد کے تعہّدات (Commitments) بھی۔ اس بناپر یہ بالکل طے ہے کہ جو مسلمان کسی غیر مسلم ملک کا شہری ہے اس کو اپنے اس ملک سے مسلمانوں کے ساتھ کیسے ہی دشمنانہ رویہ کی شکایت ہو، وہ جب تک اس کی شہریت کو لیے رہتا ہے اس وقت تک اس کے لیے اس ملک کے خلاف یا اس کے کسی عام شہری کے خلاف کسی قسم کی جنگ وقتال کے قسم کی کارروائی کرنا جائز نہیں۔ اس کے اوپر ظلم ہو رہا ہو تو وہ ظالم سے بس ظلم کا بدلہ لے سکتا ہے۔ ہاں وہ اگر اس کی شہریت ترک کر دیتا ہے اور اس ملک کو چھوڑ کر کہیں چلا جاتا ہے تواس کو اختیار ہے۔
رسول اللہ ؐ اور آپ کے صحابہؓ جب تک مکہ مکرمہ میں رہے اپنے آپ کو مکی ریاست کا شہری مان کر رہے۔ اور اہل مکہ کی ساری زیادتیوں کے باوجود آپ ؐ اور مسلمانوں کا رویہ وہاں کے غیر مسلم شہریوں کے ساتھ ایسا ہی تھا کہ کوئی عام شہری اپنے کو ان کی جانب سے خطرے میں نہیں سمجھتا تھا۔ ایک آدھ واقعات جو کسی مسلمان اور غیر مسلم کے درمیان لڑائی یا زخمی کرنے کے ملتے ہیں وہ انفرادی لڑائیاں تھیں جو کسی بھی ایک ریاست کے دو شہریوں میں ہو سکتی ہیں اور ان میں مظلوم کا زیادتی کرنے والے کے خلاف اقدام غیر قانونی نہیں ہوتا ۔ ہاں جب آپ ؐ نے مکہ چھوڑ دیا تو معاہدہ ختم ہو گیا۔ اور مکہ والوں کو مہاجر مسلمانوں سے معاہدے کا تحفظ حاصل نہیں رہا۔ اور اسی طرح مہاجر مسلمانوں کو مکہ کے لوگوں سے بھی تحفظ حاصل نہیں رہا۔ 
افسوس! یہ شرعی ’’حدود‘‘ (قوانین) جو اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی صریح غیر مشکوک سنت سے ثابت ہیں ان کا ہمارے یہاں مذاکرہ نہیں ہوتا۔ اور نتیجۃً ہم عصر حاضر کی صور تِ احوال میں اس کی تطبیق نہیں کرپاتے۔ اس سلسلے میں بہت سے لوگ نہایت غیر محتاط بلکہ شرعی ضابطوں کو توڑنے والی رایوں کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ اگر یہ غلطیاں صرف وہ نوجوان کر رہے ہوتے جنہوں نے اس دور کے ظالموں کی چیرہ دستیوں سے عاجز آکر ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کا مظاہرہ کیا ہے، تو کوئی زیادہ تعجب نہ ہوتا۔ مگر جب علمی قسم کے اداروں اور رسائل ومجلات کی طرف سے یہ بے احتیاطیاں ہوتی ہیں تو حیرت ہی نہیں افسوس اور قلق بھی ہوتا ہے۔
کچھ مغربی اخبار ات نے گذشتہ سال ۲۰۰۸ء میں جب وہ مشہور زمانہ ملعون کارٹون شائع کیے تو ہمارے دینی رسالوں میں اس پر مضمون نکلے۔ اور بہت سے دینی رسالوں میں گذشتہ تاریخ کے کئی ایسے واقعات نقل کیے گئے جن میں اہانت رسول کے کسی مجرم کو کسی پر جوش مسلمان نے خود ہی قتل کر دیا تھا۔ اور اس پر تحسین وآفریں کے ساتھ مبارک باد اس انداز میں دی گئی کہ گویایہی اسوہ ہے دنیا بھر میں اہانت رسول کے مجرموں کے ساتھ معاملہ طے کرنے کا۔ اور اگر ہو سکے تو یہی کر دینا شریعت کا حکم ہے۔ 
قانون میں اہانت رسول کا مجرم قتل کی سزا کا مستحق ہو سکتا ہے، مگر نہ جانے ان لوگوں کو یہ کیوں یاد نہیں رہتا کہ یہ سزا عدالت اور حکومت دے گی، جس کسی نے خود یہ کام کیا اس نے بہرحال قتل نا حق ہی کیا۔ اس لیے کہ حدود کے نفاذ کے لیے اس کی ولایت (Authority) شرط ہے، جو کسی فرد کو اللہ کی شریعت نے نہیں دی ہے۔ ایسا ناقص علم، دین اور اہل دین کے لیے سخت نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے۔ قرون اولیٰ میں کسی مجرم کو اس طرح کی سزا (کسی بھی عالم کے فتویٰ کے تحت) حکومت اور عدالت سے ماوراء نہیں دی گئی۔
مثال کے طور پر دیکھیے اسی کارٹون چھپنے کے واقعے کے ضمن میں، میں ایک مضمون نگار نے لکھا:
’’مجھے ایک اور اسی طرح کا واقعہ یاد آ رہا ہے جو ڈنمارک میں پیش آیا تھا، ہالینڈ کے ایک آرٹسٹ نے ایک ماڈل کے برہنہ جسم پر (نعوذ باللہ) قرآنی آیات تحریر کر کے اسے آرٹ کا ایک شاہ کار نمونہ قرار دیا، مگر آفریں ہے وہاں پر رہائش پذیر مراکن مسلمان پر کہ جس نے اس آرٹسٹ کو کئی لوگوں کی موجود گی میں جہنم رسید کر دیا اور عدالت میں یہ کہا اگر کسی نے دوبارہ ایسی گھٹیا حرکت کی تو وہ دوبارہ بھی یہ قدم اٹھانے سے گریز نہیں کرے گا۔‘‘
خالص شرعی اعتبار سے اس نوجوان کا یہ عمل، افسوس کہ، بالکل غلط تھا، مگر پھر بھی کچھ لوگوں کی طرف سے غیر مشروط تحسین کا مستحق ٹھیرایا گیا۔ اس نوجوان کی اللہ مغفرت کرے ،اس کی محبتِ اسلام کی عظمت اپنی جگہ، مگر اس کے لئے شریعت نے اس کی اجازت نہیں دی تھی کہ وہ ایک ایسے ملک میں جس کے ساتھ اس کی ریاست کا معاہدۂ امن ہے، پھر اس نے بھی ویزالے کر یہ معاہدہ کیا ہے کہ اس ملک کے شہریوں کے جان و مال کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچائے گا ، اوراس کے قانون کی پابندی کرے گا، شریعت نے اس کو اس کی قطعاً اجازت نہیں دی تھی کہ وہ اس دوہرے معاہدے کو توڑے اور شریعت کی اصطلاح میں ’’غدر‘‘ اور ’’نقض عہد‘‘ کے عظیم گناہ کا مرتکب ہو۔

اشتعال بھی کیسا عقل کا دشمن!

شرعی پہلو سے قطع نظر ان لوگوں کو آنکھوں سامنے کی یہ حقیقت نظر نہیں آرہی کہ اس زمانے میں ان حرکتوں کے جواب میں مسلمانوں کا پر تشدد رد عمل خود ان کے اپنے لیے کس قدر نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے؟ ان ظالموں کا تو آج تک ہم کچھ بگاڑ نہیں پائے، یا اپنی ہی پولیس کی گولیاں اور ڈنڈے کھائے، یا پوری دنیا میں ایک مذاق بن گئے۔ ہر کچھ دنوں کے بعد کوئی ہمارا تماشہ دیکھنے کے لیے اس طرح کی حرکت کر دیتا ہے، اور بس دھماچوکڑی شروع۔ ارے! کچھ کر سکیں تو زور لگائیے، ورنہ: عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد۔ سمجھ داری کا تقاضہ تو یہ ہے کہ دشمن کی چال کو الٹ دیا جائے نہ کہ اس کے ہتھیاروں کی دھار تیز کی جائے۔ ان شیطانوں کا مقصد دنیا میں خصوصاً مغرب میں مسلمانوں سے نفرت پیدا کرتے رہنا ہے۔ پر تشدد اقدامات ان کا مقصد ہی تو پورا کرتے ہیں۔

جنگ کی ضروری تیاری

امت اسلامیہ کا وجود بڑی قیمتی شے ہے، اور جنگ یقیناً جان جوکھوں کا کھیل۔ اس لیے ایک طرف اگرچہ اس کی تعلیم دی گئی کہ اللہ کے بھروسے پر جان لڑا دی جائے، مگر دوسری طرف یہ بات بھی عقل عام کی رو سے ضروری ٹھیرائی گئی کہ پھر بھی دیکھ لیا جائے کہ اپنی حربی صلاحیت، ساز وسامان، اور ایمانی واخلاقی اور نظم وضبط کی حالت کسی بھی حد تک مقابلے کی ہے، یا بظاہر اسباب بالکل طے ہے کہ نتیجہ آخر کار یہ کہنے کی شکل میں ہی نکلنا ہے کہ:
مقابلہ تو دل نا تواں نے خوب کیا
اگر بظاہر اسباب بالکل طے ہے کہ سوائے ناکامی اور شکست وریخت کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں لگنا تو عام حالات میں جنگ سے بچنا، یعنی حالات کے سازگار ہونے کا انتظار ہی فرض ہوگا۔ ’’مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی‘‘ کے لیے ہمیں قرآن وسنت میں کوئی نمونہ نہیں ملتا، ہاں حربی پوزیشنوں میں زبردست فرق کی کوئی نظیر اگر ملتی ہے تو بس بدر کے ’یوم الفرقان‘ میں جو قرآن کی سورۂ دخان کی روشنی میں قریش مکہ کے سرداروں کے لیے اللہ کا عذاب (یوم البطشۃ الکبریٰ) تھا۔ مگر اس طرح کی مدد کے انتظار سے پہلے ’’فضائے بدر‘‘ پیدا کرنے اور امت کے عمومی حال اور اُن کے ایمان وکردار میں کسی کم از کم درجہ میں بھی نسبت اور مشابہت کا اطمینان کر لینا ضروری ہے۔
یہ تعلیم خود قرآن نے ہمیں دی ہے کہ جنگی پوزیشن کا خیال کیا جائے گا۔ پہلے جب سابقین اولین کا لشکر تھا تو کہا گیا کہ ایک کے مقابلے دس کا بھی حساب ہو تو تم ہی فاتح ہو، شرط یہ ہے کہ تم ’’صابرون‘‘ یعنی جمنے والے ہو، اسی کو آج کی اصطلاحی زبان میں (High Morale) کہتے ہیں۔ پھر جب سابقین اولین کے ساتھ دوسرے مسلمان بھی آگئے تو اس فرق میں واضح کمی کی گئی، اور کہا گیاکہ اب تمھارا ایمانی حال پہلے جیسا نہیں رہا، اس لیے اللہ تم کو آسانی دیتا ہے۔ اب اگر تمہارے مقابلے دشمن کی پوزیشن دگنی ہوگی تو تم فاتح ہو جاؤگے۔
یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِ إِن یَکُن مِّنکُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ یَغْلِبُواْ مِءَتَیْْنِ وَإِن یَکُن مِّنکُم مِّءَۃٌ یَغْلِبُواْ أَلْفاً مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ بِأَنَّہُمْ قَوْمٌ لاَّ یَفْقَہُونَ۔ الآنَ خَفَّفَ اللّٰہُ عَنکُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِیْکُمْ ضَعْفاً فَإِن یَکُن مِّنکُم مِّءَۃٌ صَابِرَۃٌ یَغْلِبُواْ مِءَتَیْْنِ وَإِن یَکُن مِّنکُمْ أَلْفٌ یَغْلِبُواْ أَلْفَیْْنِ بِإِذْنِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ مَعَ الصَّابِرِیْنَ۔ (الانفال: ۶۵۔۶۶)
ظاہرہے کہ پہلے اگر مادی طاقت صرف تعداد سے گھٹتی اور بڑھتی تھی، تو اب اس میں بہت سی دیگر ایسی چیزیں زمانے کے ساتھ ٹکنالوجی کی شکل میں پیدا ہو گئی ہیں جو طاقت کے توازن میں زبردست فرق پیدا کرتی ہیں، بلکہ وہ ایسا فرق پیدا کرتی ہیں جو تعداد کا بڑے سے بڑا فرق پیدا نہیں کر سکتا۔اور دوسری چیز یعنی ’’صبر‘‘ اخلاقی طاقت (morale) اور ایمانی حالت میں بھی اِس زمانے میں عہد صحابہ سے اچھے حال کی توقع تو کی نہیں جاسکتی۔
لہٰذا اس بنا پر یہ کہنا صحیح ہوگا کہ جہاں حربی پوزیشن اور جنگی طاقت میں ایک اور دو سے زیادہ کا فرق ہو (چاہے وہ تعداد کی شکل میں نہ ہو بلکہ اسلحہ کی کیفیت وکمیت کی شکل میں ہو) وہاں مقابلہ کرنا اور بہرحال جنگ کرنافرض کے درجے کی چیز نہیں رہے گی۔ لیکن اگر مسلمانوں کی قیادت سنجیدگی کے ساتھ اپنے علم وتجربہ کی بنیاد پر اور دشمن کی عیاشی ،بزدلی ،کمزور اخلاقی حالت اور جذبے کی سردی کا اندازہ کر کے یہ سمجھتا ہو کہ وہ ایک لمبی جنگ میں دشمن کو تھکا سکتی ہے اور اس کو پسپائی پر مجبور کر سکتی ہے، تو یہ یقیناًنہایت قابل تعریف عزیمت اور قابل رشک ایمان کا فیصلہ ہو گا۔
قرآن مجید میں اوپر ذکر کی گئی آیتوں سے پہلے یہ حکم بھی آ چکا ہے کہ تمہاری ایمان وعزیمت کی حا لت جب بہتر تھی تو دشمن کے دس گنا ہونے پر بھی تم ہی کو فاتح ہونا تھا۔قرآن نے اس کا سبب دشمن کفار کی ’’ناسمجھی‘‘ یعنی زندگی کی حقیقتوں اور مقاصد حیات سے بے خبری کو بتایاتھا۔
بہر حال قرآن کی ان آیات سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ اسلامی شریعت میں قتال سے پہلے نہایت حقیقت پسندی کے ساتھ اس کا جائزہ لے لینا ضروری ہے کہ کامیابی کے امکانات معدوم تو نہیں۔

ایک عجیب غلط فہمی:

بعض لوگ اس سلسلے میں سورۂ انفال کی مندرجہ ذیل آیت سے عجیب قسم کی غلط فہمی میں پڑ جاتے ہیں۔ 
وَأَعِدُّواْ لَہُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّۃٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَیْْلِ تُرْہِبُونَ بِہِ عَدْوَّ اللّہِ وَعَدُوَّکُمْ (الأنفال: ۶۰)
’’اور تیاری جمع کرو ان کے مقابلے کے لیے جو بھی کر سکو، ہر طرح کی طاقت کے اسباب میں سے، اور گھوڑوں سے، جس سے تم ڈراؤ اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو۔‘‘
یہ حضرات اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم جو کر سکیں، بس وہ کر لیں اور پھر ہم کو حکم ہے کہ مقابلہ کے لیے کود پڑیں۔ایک ذرا غور کی نگاہ اس بے بنیاد استدلال کی کمزوری کو عیاں کر دیتی ہے۔ آپ دیکھیے، اس میں یہ کہیں نہیں ہے کہ جو کر سکو اس کے بعد انتظار مت کرو، فوراً اللہ کی مدد کے بھروسے کود پڑو۔ اس آیت میں صرف تیاری کا حکم ہے کہ اس میں کوئی کمی نہ کی جائے، یہ تمہارا فرض ہے۔ آیت کا مقصد صرف اتنا ہی ہے، اس کو اس سے کوئی تعلق نہیں کہ کتنی تیاری پر اعتماد کیا جاسکتا ہے، اور نہ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ کب تک تیاری کی جائے گی اور طاقت میں کس درجے میں توازن کی شکل پیدا ہونے کا انتظار کیا جائے گا۔
لیکن بہرحال اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ کی مدد کا قانون معطل ہو گیا۔ اب اہل ایمان اس کی مدد سے مایوس ہو جائیں۔ ہر گز نہیں، اگر اہل ایمان عمومی سطح پر ایمان اور عبدیت کی زندگی اختیار کرلیں اور اللہ کے دین کی مدد ونصرت کو اپنا اصل مطمح نظر بنالیں، اور اس راہ کی جدوجہد میں اپنے بس بھر سب کچھ کرڈالیں تو ان سے اللہ کا پختہ وعدہ ہے کہ وہ دنیا کے حالات میں اپنی غیب کی طاقت سے ایسی تبدیلی لائے گا جس سے ان کی جدوجہد کے راستے کھلیں گے، اور ان کے ذریعے دنیا کا بگاڑ ختم ہوکر اس میں خیر وصلاح اور انصاف ظاہر ہو گا۔

جنگ میں حصہ نہ لینے والے عوام کے جان و مال کی حرمت

جہاد فی سبیل اللہ پر غور کرتے وقت یہ حقیقت ضرور پیش نظر رہنی چاہیے کہ جہاد کی فضیلت کا راز نہ کشت وخون میں ہے، اور نہ خونریزی فی نفسہ کوئی اچھی چیز ہے۔ اس کی غیر معمولی فضیلت کا راز نصرت دین کاعظیم مقصد ہے ، مجاہد کی عند اللہ محبوبیت کا سبب یہ ہے کہ وہ اللہ کی محبت اور اس کے اجر وثواب کی طمع میں ان عظیم مقاصد کی خاطر خلوص دل سے مال وجان قربان کرتا ہے۔ اسلام کی نظر میں قتل وقتال ایک شر ہے، لیکن ظلم اور ’’فتنہ‘‘ اس سے بڑے شر ہیں۔ جہاد کی جنگ دنیا کو ظلم اور ’’فتنہ‘‘ وفساد کے عظیم شر سے بچانے کے لیے ہے۔ ’’والفتنۃ اکبر من القتل‘‘۔
اس لیے اسلامی شریعت حکم دیتی ہے کہ جنگ میں صرف ان ہی کو مارنا جائز ہے جوجنگ میں حصہ لے رہے ہیں، یا اس کے لیے تیار ہیں۔ محاربین (Belligerents) میں سے جو عملاً مقاتلین (Combatants) ہوں بس ان کو ہی نشانہ بنانا جائز ہے۔ (ہاں جو کوئی جنگ میں اپنے مشوروں اور دیگر خدمات سے شریک ہوگا اس کا بھی یہی حکم ہوگا)۔ بہرحال جنگ میں عملاً حصہ نہ لینے والے عوام کو کوئی نقصان پہنچانا جائز نہیں۔
ایک مرتبہ میدان جنگ میں آپؐ کو ایک عورت کی لاش ملی، آپ کو فکر ہوئی۔ ناراضگی کے عالم میں فرمایا: (ما کانت ہذہ لتقاتل)یہ کون سا جنگ کر رہی تھی جو اس کو مار دیا؟ پھر امیر جیش حضرت خالدؓ کو حکم کہلا بھیجا: نہ کسی عورت کو قتل کیا جائے اور نہ کسی مزدور غلام کو۔ (سنن ابوداؤد ۲۶۶۹ ومسند احمد ۱۷۱۵۸ ، ۵۹۲۳، نیز صحیح بخاری ۳۰۱۵) عورتوں اور بچوں کے قتل کے ممنوع ہونے کا آپؐ نے بار بار اعلان فرمایا ہے۔ صحاح ستہ میں متعدد صحابہ سے اس سلسلے کی روایات موجود ہیں۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا:
لا تقتلوا شیخاً فانیاً ولا طفلاً صغیراً ولا امرأۃ ولا تغلوا وضموا غنائمکم وأصلحوا ان اللہ یحب المحسنین۔ (سنن أبی داود، ۲۶۱۴)
’’نہ کسی بوڑھے ضعیف کو قتل کرنا اور نہ چھوٹے بچے کواور نہ عورت کو۔ مال غنیمت میں خیانت نہ کرنا۔ نیکی اور احسان کرنا، اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘
آپؐ نے عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کی طرح عزلت گزین عبادت گزاروں کو بھی قتل کرنے سے منع فرمایا۔ مسند احمد (حدیث ۲۷۲۳) میں حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ آپ ؐ جب کہیں لشکر روانہ فرماتے تو یہ ہدایت فرمادیتے کہ عبادت گاہوں کے لوگوں (یعنی خدام اور عبادت گزاروں) کو قتل نہ کیا جائے۔ امام مالک نے موطا میں نقل کیا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت یزیدؓ ابن ابی سفیانؓ کو شام کے علاقے کی ایک مہم پر روانہ فرمایا، یہ علاقہ عیسائی تھا۔ روانگی کے وقت حضرت ابوبکرؓ ساتھ میں کچھ دور تک رخصت کرنے گئے۔ خود پیدل اور حضرت یزیدؓ سوار۔ اس پر حضرت یزید نے عرض کیا: اے خلیفۂ رسول، یا تو آپ بھی سوار ہو جائیں یا مجھے اجازت دیں میں اتر کر پیدل چلوں۔ حضرت ابوبکر نے منع فرمادیا، اور کہا: نہ میں سوار ہوں گا اور نہ تم کو اترنے کی اجازت ہے، مجھے اللہ سے ایک ایک قدم پر ثواب کی امید ہے۔ پھرکچھ احکام دیے۔ جن میں یہ بھی تھا کہ:
’’تم کو کچھ ایسے لوگ ملیں گے جو کہیں گے کہ ہم نے عبادت کی خاطر دنیا چھوڑ دی ہے، تو ان سے کچھ تعرض نہ کرنا۔ اور میں تم کو دس باتوں کی تاکید کرتا ہوں۔ نہ کسی عورت کو قتل کرنا، نہ بچے کو، نہ بوڑھے ضعیف کو، کسی پھل دار درخت کو بھی نہ کاٹنا۔ کسی آبادی کو نقصان نہ پہنچانا۔اگر فوج کو غذائی کمی نہ پیش آئے تو بکری یا اونٹ بھی نہ ذبح کرنا۔ نہ کسی باغ میں آگ لگانا نہ ڈبونا۔ عہد شکنی نہ کرنا۔ مثلہ نہ کرنا۔۔۔‘‘۔ (موطا، ۸۵۸)
امام بیہقی (۹/۹۰) نے اس طرح کے احکام پر مبنی کچھ روایات خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی نقل فرمائی ہیں اور ان کی اسناد کے کمزور ہونے کے باوجود کثرت اسانید اور آثار صحابہ کی وجہ سے ان کو قوی قرار دیا ہے۔

ایک اشکال اور اس کا صحیح جواب:

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کبھی پورے قبیلے پر حملہ کیا تھا اور کبھی ان سب کو ہی قید کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ قیدی بنانا جنگ میں حملوں کا نشانہ بنانا ہی ہے۔ اسی طرح آپ نے کہیں کہیں سارے قبیلے کے مال پر بطور غنیمت قبضہ کیا ہے؟
دراصل عہد نبوی میں جہاں کہیں دشمن کی پوری آبادی کو نشانہ بنایا گیا وہاں کے بارے میں یہ بات معلوم ہے کہ پورے کے پورے قبیلے نے جنگ کی تھی۔ قبائلی معاشرے میں پورا قبیلہ ہی جنگ کرتا ہے۔ عربوں کے یہاں بھی عموما یہی طریقہ تھا۔ اسی لیے ہمیں نظر آتا ہے کہ پورے قبیلے کے خلاف کارروائی کی گئی۔ عہد نبوی کے بیشتر غزوات کے اس پہلو کو پیش نظر رکھنے سے بہت سی مشکلات حل ہوتی ہیں۔ غزوات نبوی کے مطالعے کے لیے یہ ایک اہم رہنما اصول ہے۔ بہت سے لوگوں کی نگاہ اس مخصوص پہلوکی طرف نہ جا نے کی وجہ سے بے شمار اشکالات پیدا ہو گئے۔اگر اس خاص پہلو کو مد نظر رکھا جائے تو یہ غلط فہمی نہیں پیدا ہو سکتی کہ جنگ سے کنارہ کش بے گناہ عوام کی املاک بھی ضبط کی جاسکتی ہیں۔ 
جہاں اس کے خلاف ہوا یعنی پوری آبادی نے جنگ میں حصہ نہیں لیا وہاں ہم کو نظر آتا ہے کہ جنگ سے دور رہنے والوں کو پورا تحفظ دیا گیا۔ ملاحظہ فرمائیں: 
مکہ نسبۃً ایک شہری ریاست تھا۔ فتح مکہ میں آپؐ نے عام منادی کردی تھی کہ جو اپنے گھر میں بیٹھ رہے وہ محفوظ ہے،جو دروازہ بند کرلے وہ محفوظ، جو ہتھیار ڈال دے وہ محفوظ ۔ (صحیح مسلم ۱۷۸۰) فوجوں کو حکم دیا گیا تھا کہ زخمی کو قتل نہ کیا جائے، اور پیٹھ پھیر کر بھاگنے والے کا پیچھا نہ کیا جائے (فتوح البلدان ۱/۵۳)اور سوائے چند جنگی مجرموں کے کسی سے تعرض نہیں کیا گیا۔ یہ جنگ میں حصہ نہ لینے والے عوام کے جان ومال کے محفوظ ہونے کا اعلان ہی تو ہے۔
اسی طرح صحابۂ کرام کے زمانے میں جن قوموں کے خلاف بھی جنگ کی گئی وہاں یہی اصول برتا گیا کہ جو لوگ جنگ سے دور رہے ان کے مال اور جان محفوظ مانے گئے۔ یہ امت کے قرون اولی کا عام تعامل ہے، اور اس سے زیادہ بڑی دلیل کیا ہو سکتی ہے؟ مسلمانوں کا اپنے مفتوحین کے ساتھ معاملہ ایسا دل موہ لینے والا ہوا کرتا تھا، اور جن علاقوں میں ان کی فوجیں گئیں تھیں وہ اپنے حکمرانوں کے ظلم اور استحصال سے اس قدر عاجز تھے کہ بس منظم فوجوں نے ہی ان کی کسی قدر مزاحمت کی۔ یہ منظم فوجیں حکمراں طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی ہوتی تھیں، جن کے مادی مفادات ان کو سابقہ نظام کی حفاظت کرنے پر آمادہ کرتے تھے۔ باقی ملک کے عوام سے اسلامی فوجوں کو کہیں بھی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا ، بلکہ بہت سی جگہوں پر تومقامی لوگ اسلامی فوجوں کا استقبال کرتے نظر آئے۔ اسلامی فوجوں نے ان کے عوام کی جان کو محفوظ سمجھا۔ جزیرۃ العرب کے باہر عراق سے لے کر ایران تک، اور شام سے لے کر مشرقی یورپ تک، اور افریقہ میں مصر سے لے کر مراکش اور الجزائر تک سارے علاقوں کے عوام کا خون اور مال واسباب محترم جانے گئے۔
ان مختلف مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام اس سلسلے میںآخری حد تک رحم اور انسانیت نوازی کا قانون رکھتا ہے۔ آج کے زمانے میں جب صرف منظم فوجیں ہی عموما جنگ کرتی ہیں،اس لیے رسول اللہؐ کی ان تعلیمات اور صحابۂ کرام کے اس طرز عمل کی بنا پرطے ہے کہ اسلامی قانون کی رو سے اصولاً صرف فوج اور فوجی تنصیبات ہی جنگی کارروائیوں کا نشانہ بن سکتی ہیں۔ غیر مسلح عوام اور عملا جنگ میں حصہ نہ لینے والے پوری طرح محفوظ ہونے چاہییں۔
اس سلسلے میں بڑی پریشانی اس وقت پیش آتی ہے جب ہم قدیم اسلامی مآخذ کی اکثریت میں ، فقہ کی کتابوں میں، حدیث کی شروح میں اور دیگر کتب میں کثرت سے اس طرح کی تصریحات دیکھتے ہیں کہ دشمن کا ہر عاقل بالغ مرد جو قتال پر قدرت رکھتا ہو وہ ’’محل قتل‘‘ ہے ۔ چوں کہ اوپر ذکر کیے گئے واضح دلائل کی روشنی میں یہ بات صاف ہو چکی ہے کہ شریعت نے صرف عملاً قتال میں حصہ لینے والوں کو یا اس کی تدبیر میں دیگر خدمات کے ذریعہ شریک رہنے والوں کو ’’محل‘‘ قتال مانا ہے یعنی قتل کرنے کی اجازت دی ہے،اس لئے علماء کی ان تصریحات کواسی کی روشنی میں سمجھا جائے گا اور کہا جائے گاکہ ان کی مراد بھی یہی ہے کہ دشمن ملک کے جنگ سے عملاََ کنارہ کش رہنے والے بے شمار بے گناہ عوام کا جان مال محفوظ ہے ۔اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے ہمیشہ جنگوں میں اسی پر عمل کیا ہے اور کبھی بھی جنگ میں عملاًحصہ نہ لینے والوں کو قتل نہیں کیا ۔
جدید دور میں جب غالباََ تاریخ میں پہلی مرتبہ مسلمانوں کے علاوہ دوسری قوموں کو بھی یہ شعور نصیب ہوا کہ جنگ کو اخلاقی قوانین اور مہذب ضابطوں کاپابند بنایا جائے،تو ان میں کے بعض کوتاہ بینوں نے بڑھ بڑھ کر اسلامی جہاد پر اعتراض کرنے شروع کئے ۔اسی دور میں مولانا مودودی نے اپنی مفید کتاب الجہاد لکھی۔مگر نہایت حیرت ہے کہ مولانا جیسا واقف آدمی جو عصرحاضر کی نفسیات اوراعتراضات سے واقف تھا ،اس جگہ اسی قدیم تعبیر پر راضی ہو گیا کہ ہر جوان مرد اہل قتال میں مانا جائے گا اور اس کو قتل کرنا جائز ہوگا۔ لکھتے ہیں:
’’اہل قتال وہ ہیں جو عملاً جنگ میں حصہ لیتے ہیں، یا عقلاََ وعرفاََحصہ لینے کی قدرت رکھتے ہیں، یعنی جوان مرد‘‘ 
آگے ان لوگوں کے بارے میں مولانا لکھتے ہیں کہ اسلام نے ان کو ’’قتل کرنے کی اجازت دی ہے‘‘۔ مزید لکھتے ہی کہ ’’اسلامی قانون کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر شخص جو اہل قتال میں سے ہے ( یعنی جوان مردجیسا کہ مولانا نے پہلے تصریح کی ہے ) اس کا قتل جائز ہے‘‘۔ ( الجہاد صفحہ ۲۲۲ ۔۲۲۴)
بہر حال جن لوگوں نے یہ سمجھا ہے کہ سارے ہی وہ لوگ قتل کیے جاسکتے ہیں جو جنگ میں حصہ لینے کے قابل (Potential Combatants) ہوں، چاہے انہوں نے عملا جنگ میں حصہ نہیں لیا ہو، انہوں نے احادیث کے پورے مجموعے کو سامنے نہیں رکھا، اور صحابۂ کرام کے طرز عمل پر بھی غور نہیں کیا، اور غلط فہمی کے شکار ہوے۔ یہ بات اسلام کے عام مزاج اور انسان دوستی کے فطری اصول کے بھی خلاف ہے، اور اس کے حق میں کوئی دلیل بھی نہیں ہے۔

جنگی قیدی

جنگی قیدیوں کے متعلق رسول اللہ ؐ نے نہایت نرمی اور حسن سلوک کے احکام دیے تھے۔ قرآن نے جنت کے اعلیٰ مقامات تک پہنچنے والوں کی یہ صفات بیان کی ہیں: 
وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَی حُبِّہِ مِسْکِیْناً وَیَتِیْماً وَأَسِیْراً (الانسان: ۸)
’’ا ور یہ لوگ کھانا کھلاتے تھے، کھانے کی محبت کے باوجود، مسکین کو، اور یتیم کو اور قیدی کو۔‘‘
آنحضرتؐ سے اس سلسلے میں بڑی نصیحتیں مروی ہیں۔ غزوۂ بدر کے قیدیوں کے بارے میں آپؐ نے صحابۂ کرام کو حسن سلوک کی اس طرح تاکید کی کہ لوگوں نے قیدیوں کواپنے سے اچھا کھانا کھلایا اور خود موٹے جھوٹے پر بسر کی۔ ایک صاحب کا قیدی انسانیت کا یہ نمونہ دیکھ کر شرما گیا کہ گھر والے غربت کی وجہ سے کھجور پر گزارہ کرتے ہیں اور قیدی کو روٹی سالن کھلاتے ہیں۔ غیرت مند قیدی نے کہا بھی کہ یہ کیوں؟ میں کھجور کھالوں گا تم روٹی سالن لو۔ مگر مسلمان نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ ہمارے رسولؐ نے قیدیوں کے ساتھ اچھے سلوک کی تاکید کی ہے۔ (سیرت ابن ہشام: ۱/۶۷۵)
قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد نبوی میں مسلمانوں کے لیے اس وقت تک قیدی بنانے کی اجازت نہیں تھی جب تک اچھی طرح دشمن کو مغلوب نہ کر لیا جائے۔ غزوۂ بدر میں اگرچہ مشرکین کو میدان میں شکست ہو گئی تھی لیکن ان کا زور ٹوٹا نہیں تھا۔ وہ بھاگ ضرور گئے تھے لیکن یہ ان کی مکمل شکست نہیں تھی۔ کسی کو بھی یہ گمان نہیں تھا کہ ان کا زور بالکل ٹوٹ گیا ہے اور اب ان میں دشمنانہ کارروائیاں کرنے کی سکت نہیں رہی۔ مکہ والوں نے جب میدان چھوڑنا شروع کیا تو مسلمانوں نے اس خیال سے کہ بھرپور فدیہ ملے گا گرفتاری شروع کر دی۔ اس وقت ایسا تو کوئی انتظام تھا ہی نہیں جس کے تحت دشمن کے مقاتلین کو خاتمۂ جنگ تک قید رکھا جاسکے۔ قرآن مجید میں سخت تنبیہ آئی کہ دشمن کی طاقت کا خاتمہ کرنے سے پہلے قید ی بنا لینے کا کیا جواز ہو سکتا ہے۔ اس سے اگرچہ تم کو فدیہ کی شکل میں فی الوقت کچھ مل جائے گا مگر دشمن کی طاقت برقرار رہے گی۔ تم کو پہلے میدان جنگ میں اچھی طرح فوجوں کا صفایا کرنا چاہیے تھا، تاکہ دشمن کا زور بالکل ٹوٹ جائے۔ اس موقعے پر یہ آیت نازل ہوئی۔
مَا کَانَ لِنَبِیٍّ أَن یَکُونَ لَہُ أَسْرَی حَتَّی یُثْخِنَ فِیْ الأَرْضِ تُرِیْدُونَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَاللّٰہُ یُرِیْدُ الآخِرَۃَ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ (الانفال: ۶۷)
’’کسی نبی کے لیے (دشمن کا )اچھی طرح خون بہا لینے سے پہلے قیدی بنانا مناسب نہیں ہے۔ تم دنیا کا فائدہ چاہتے تھے، اور اللہ آخرت کا۔‘‘
قرآن میں اس سے پہلے ہی الگ سے یہ حکم دیا جا چکا تھا کہ منکرین حق سے جب جنگ ہو تو پہلے اچھی طرح خون بہا کر دشمن کو زیر کر لیا جائے، اس کے بعد قید کیا جائے۔ اور ان قیدیوں کے بارے میں یہ اصولی حکم بطور قاعدۂ عامہ دے دیا گیا تھا کہ ان کو احسان کر کے چھوڑ دیا جائے یا ان کے بدلے میں اپنے قیدی رہا کرائے جائیں یا کچھ مالی معاوضے کے عوض ان کو رہا کر دیا جائے۔
فَإِذا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّی إِذَا أَثْخَنتُمُوہُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنّاً بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً (محمد: ۴)
’’ جب ان منکرین حق سے مڈ بھیڑ ہوتو پہلے قتل کرو، یہاں تک کہ جب تم ان کو بالکل مغلوب کر لو تو قید کرو، پھر یا تو احسان کرکے چھوڑ دویافدیہ لے کر رہا کردو۔‘‘
اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ سورۂ انفال کی مذکورہ بالا آیت کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ مسلمان قیدیوں کا فدیہ نہ لیں بلکہ ان کو قتل کر دیں۔اور نہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ فدیہ لینا دنیاطلبی ہے ۔بلکہ جیسا کہ ہم آگے تفصیل سے واضح کریں گے کہ سورۂ محمد کی آیت نے واضح کیا ہے کہ جنگی قیدیوں کو ( بلا کسی دوسرے موجب قتل جرم کے) قتل کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے ۔قیدیوں کے لئے توصرف دو ہی امکانات ہیں: یا تو احسان کر کے چھوڑ دینا یافدیہ لے کر چھوڑ دینا۔ لہٰذا جب خود قرآن جنگی قیدیوں کو فدیہ لے کر آزاد کرنے کو کہہ چکا ہے تو یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ فدیہ لینا دنیا طلبی ہے۔ قرآن نے جس چیز کو دنیا طلبی کہا ہے، وہ مسلمانوں کی یہ غلطی تھی کہ انہوں نے دشمن کو اچھی طرح نقصان پہنچائے بغیر فدیہ کی طلب میں گرفتاریاں شروع کر دیں۔ اس نکتے کو ملحوظ رکھنے سے ہم جیسے طلبۂ علم کا ایک بڑا اشکال حل ہوتا ہے۔
ان دونوں آیتوں میں غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ دشمن کی قوت کے خاتمے سے پہلے قیدی بنانے کی ممانعت کا مقصد مکمل طور پراس کو زیر کر لینا ہے۔ لہٰذا اگر قیدی بنانے کا نتیجہ یہ نکلے کہ قیدی چھوٹ کر دوبارہ لڑنے کو آئیں تو یقیناًیہی حکم ہو گا اور ایسی صورت میں قیدی بنانا منع ہو گا۔ لیکن اگر کسی ملک کے لیے قیدیوں کو اس وقت تک روکے رکھنے کا انتظام ہو جب تک دشمن مکمل طور پر زیر نہ کر لیا جائے تو اس کے لیے اس کی گنجائش ہو سکتی ہے کہ وہ دشمن جنگ جوؤں کو قید بنائے اور اس وقت تک قید کر کے رکھے جب تک جنگ نہ ختم ہو جائے۔

غلامی کامسئلہ

غلامی یقیناً کسی بھی انسان کے لئے ایک المناک حقیقت ہے۔ جو عہدجدید تک انسانی دنیا کے بیشتر علاقوں میں اور کہیں کہیں اپنی بدترین ہولناک ظالمانہ شکلوں میں باقی رہی۔ اسلام کے قانون جنگ کے سلسلے میں جو سوالات سب سے زیادہ ذہنی الجھن کے سبب بنتے ہیں ان میں ایک سوال یہ بھی ہے کہ اسلام ہمدردی انسان کے اپنے عام مزاج اور نوع انسانی کی تکریم کے اعلانات کے ساتھ کیسے یہ روا رکھتا ہے کہ کسی انسان کو اس درجہ مجبور بنائے کہ وہ اپنی ذات تک کے بارے میں کسی فیصلہ کا اختیار نہ رکھتا ہو اور اس کو خریدا اور بیچا جاسکے؟

اسلام کی غلامی مغرب والی غلامی نہیں ہے:

اس سوال کا جواب جاننے سے پہلے ایک وضاحت کی ضرورت ہے۔
ہمارے زمانے کے ممتاز محقق سرآمد علماء اسلام حضرت مولانا محمد تقی عثمانی مدظلہم وطال بقاؤہم نے اپنی مایہ ناز تصنیف ’’تکملہ فتح الملہم‘‘ میں اس سلسلے میں ایک بڑے اہم نکتہ کی طرف توجہ دلائی ہے اور وہ یہ کہ مسلمانوں کے یہاں جو غلامی تھی، وہ اس غلامی سے بالکل الگ چیز تھی، جو یونانیوں، رومیوں بلکہ ماضی قریب تک مغرب میں پائی جاتی تھی۔ مشہور مستشرق گستاؤ لیبان نے اپنی کتاب تمدن عرب میں اس کی طرف توجہ دلائی ہے کہ عربوں کی غلامی کے تذکرے کے وقت یونان وروم بلکہ ماضی قریب کی یورپ میں پائے جانے والے ان غلاموں کی طرف ذہن چلا جاتا ہے جو نہ پیٹ بھر غذاپاتے تھے نہ تن ڈھاکنے کو کپڑا، ان کے ساتھ بلا مبالغہ جانوروں سے بد تر سلوک کیا جاتا تھا۔ گستاؤ لیبان کہتا ہے کہ عربوں کی غلامی کو اس پر قیاس کرنا سنگین غلط فہمی کا باعث ہے۔
واقعہ بھی یہی ہے کہ مغربی اقوام کی خونچکاں تاریخ سے جو کچھ بھی واقفیت رکھتا ہوگا، غلامی کا نام سنتے ہی اس کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے۔ ایک منظر رومیوں کے اعلیٰ طبقات کے محلات کا سامنے آتا ہے کہ دعوت میں مہمان آرہے ہیں اور ایک میدان میں چاروں طرف محفوظ کرسیوں پر بٹھائے جارہے ہیں۔ پنجرے میں کئی دن کا بھوکا شیر غضبناک ہو رہا ہے۔ اب ایک غلام لایا گیا اور میدان میں کھڑا کرکے اس پر شیر چھوڑ دیا گیا، دھاڑتے ہوئے شیر جھپٹا، زوردارتالیاں بجیں، قہقہوں کے شور میں غلام نے جان دے دی۔ 
Gladiators کا ایک کھیل ہوتا تھا، اس کھیل کے لیے باقاعدہ اسٹیڈیم ہوتے تھے۔ امراء کے غلاموں کو اس کھیل کے ذریعے تقریبات میں مہمانوں کے لیے تفریح کا اس طرح سامان کرنا ہوتا تھاکہ کوئی غلام تلوارلے کر میدان میں کودتا اور کسی درندے سے مقابلہ کرتا تھا، شیر جیتے یا غلام، مگر امراء کا طبقہ محظوظ دونوں صورتوں میں ہوتا تھا۔
پھر ابھی آخری دور میں مغرب نے استعمار کے زمانے میں غلامی کے نام پر انسانوں کے ساتھ جس درندگی کا نمونہ قائم کیا ہوا تھا، اس کی تفصیلات کے لیے تاریخ کی کتابوں کے علاوہ صرف انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کافی ہے۔ اس بربریت کی خیالی تصویریں آج بھی یورپ کے میوزیموں میں Display پر رکھی ہوئی ہیں۔ راقم کو برٹش میوزیم میں ان کو دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ سیکڑوں سیکڑوں غلاموں کو زنجیروں میں قید کر کے سمندری جہازوں میں اس طرح ٹھونس کر امریکہ اور افریقہ سے یورپ لایا جاتا تھا کہ ان میں سے بسا اوقات آدھے راستے میں مر جاتے، اور ان کے’’ انسانیت نواز‘‘ مالکوں کو کچھ فکر نہ ہوتی تھی۔ مغرب کی اسی تاریخ کا نتیجہ ہے کہ غلامی کا نام سنتے ہی نگاہوں کے سامنے کچھ دہشت ناک منظر سامنے آنے لگتے ہیں۔
دوسری طرف اسلامی معاشرے میں غلام بلا مبالغہ ایک با عزت کردار ادا کرتے تھے۔ وہ یا تو ملازموں کی حیثیت میں ہوتے تھے یا اہل حرفہ میں۔ اور آخر میں تو ان کا خاص کردار حکومت اور فوج کی باعزت اور باتنخواہ ملازمت ہو تی تھی۔ یہاں میں پھر کسی اسلامی ماخذ کے بجائے بریٹانیکا میں غلامی کے موضوع پر موجود مقالے اور آج کل کی مقبول عام انسائیکلوپیڈیا وکی پیڈیا کا حوالہ دوں گا۔
(http://en.wikipedia.org/wiki/History_of_slavery#Slavery_in_the_Arab_World)

اسلام اور غلامی:

اوپر گزر چکا ہے کہ قرآن مجید نے اسیران جنگ کے بارے میں حکم دیا ہے کہ ان کو یا تو فدیہ کے بدلے یا احسان کے طور پر یوں ہی چھوڑ دیا جائے۔ اور یہی اسلام کا اصل قانون ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہ ؐ نے اپنی بعض جنگوں میں مفتوح قبائل کے قیدی مردوں کو غلام اور قیدی عورتوں کو باندی بنایا۔ سو اس کا سبب کیا ہے؟ اور یہ کس قانون یا رخصت کے تحت؟ اس موضوع پر تفصیلی گفتگو کی ضرورت ہے۔

قرآن نے غلامی کو اسلام کے اصل قانون جنگ سے خارج کر دیا ہے:

یہاں اس حقیقت کو لازمی طور پر پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ قرآن نے غلامی کا بحیثیت ایک موجود حقیقت کے تذکرہ تو کیا ہے، لیکن اس کے قانون جنگ میں (جس کو اس نے تفصیل سے بیان کیا ہے) غلامی کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ بلکہ آپ غور کیجیے تو اس نے یہ بھی تصریح کی ہے کہ جنگی قیدیوں کے بارے میں مسلمانوں کے لیے اصلا صرف دو امکانات ہیں:
۱۔ احسان کرتے ہوئے چھوڑ دینا۔
۲۔ یافدیہ لے کر یا اپنے قیدی کے بدلے میں(جو فدیہ کی ہی ایک شکل ہے) چھوڑ دینا۔
قرآن کے الفاظ میں غور کیجیے:
فَإِذا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّی إِذَا أَثْخَنتُمُوہُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنّاً بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاء (محمد: ۴)
جب ان منکرین حق سے مڈ بھیڑ ہو تو پہلے قتل کرو، یہاں تک کہ جب خوں ریزی کے نتیجے میں وہ بالکل مغلوب ہو جائیں تو قید کرو، پھر یا تو احسان کرکے چھوڑ دو اور یا فدیہ لے کر رہا کردو۔
اس آیت میں اصل غور طلب لفظ ’’امّا‘‘ ہے جس کا اردو ترجمہ ’’یاتو‘‘ سے کیا گیاہے۔ علماء جانتے ہیں کہ عربی زبان میں جب کسی دو یا دو سے زیادہ چیزوں کے امکان کو لفظ ’’امّا‘‘ کے ذریعے بیان کیا جاتا ہے تو اس میں ان چیزوں کے علاوہ کوئی اور امکان نہیں ہوتا۔ عربی زبان کی رو سے یہ بات بالکل قطعی ہے کہ ’’امّا‘‘ تخییر یعنی دو چیزوں (Alternatives) کے درمیان اختیار دینے کے لیے اس طور پر ہی آتا ہے کہ کلام میں مذکور امور کے علاوہ کسی اور چیز پر عمل متکلم کے منشأ کے خلاف ہوتا ہے۔ مثلا ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ؐ حضرت حضرت سعد بن عبادہ کے یہاں گئے۔ واپسی میں حضرت سعد نے آپ کی سواری کے لیے گدھا حاضر کیا اوراپنے بیٹے قیس سے کہا حضرتؐ کو گھر تک پہنچا کے آؤ۔ قیس ادباً پیدل چلے، آپ ؐ نے کہا: آؤ بیٹھ جاؤ، انہوں نے جھِجک دکھائی اور اسی میں سعادت سمجھی کہ پیدل ہی پیچھے پیچھے چلیں، آپؐ نے فرمایا: اِمّا اَن ترکب واِما اَن تنصرف‘‘۔ یعنی یا تو سوار ہوجاؤ یا واپس جاؤ۔آپ غور کریں تو اس عبارت کا واضح مطلب یہ ہے کہ تمہارے لیے ان دو کے علاوہ تیسری بات کی اجازت نہیں ہے۔
ایک اور روایت کے الفاظ پر غور کیجیے: حضرت عمر بازار گئے تو دیکھا کہ حاطبؓ بازار سے کافی کم بھاؤ میں منقّہ بیچ رہے ہیں۔ حضرت عمر نے محسوس کیا کہ اس سے عام لوگوں کا نقصان ہورہا ہے، اس لیے فرمایا:
اِما أن تزید فی السعر واِما أن ترفع من سوقنا
’’یا تو قیمت بڑھاؤ، یا بازارسے سامان اٹھا لو۔‘‘
اس جملے میں غور کیجیے، کیا حضرت عمر کی مراد میں اس کی کوئی گنجائش ہے کہ حاطبؓ ان دونوں باتوں کے علاوہ کچھ اور کریں؟ عربی زبان میں ’’اِمّا‘‘ کا یہی مفہوم ہوتا ہے کہ متکلم کی بتلائی ہوئی دو یا چند باتوں میں سے ہی کوئی ایک کام کر لیا جائے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپ کسی سے یہ کہیں کہ ’’أرجوک أن تزورنی اِمّا یوم الخمیس واِما السبت‘‘ (تم یا تو میرے پاس جمعرات کو آنا یا پھر سنیچر کو‘‘۔ اس صورت میں آپ اس کو اختیار دے رہے ہیں کہ وہ چاہے جمعرات کو آئے یا سنیچر کو۔ دونوں دِنوں میں سے وہ جس دن بھی آجائے وہ آپ کی بات ماننے والا ہی قرار پائے گا۔ لیکن اگر وہ جمعہ کو آجائے تو یقیناًحکم کی خلاف ورزی ہوگی۔ اکیلی یہی مثال مسئلے کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔
بعض بزرگوں نے یہاں ’’اما‘‘ کا مفہوم ’’تخییر لا الی جمع‘‘ قرار دیا ہے یعنی سارے اختیارات Alternatives پربیک وقت عمل کرنے سے منع کرنا، لیکن یہ بات بے اصل ہے۔ ہم نے ابھی اوپر جو مثال دی ہے اس سے کوئی یہ نہیں سمجھے گا کہ آپ مخاطب سے صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تم جمعرات اور سنیچر دونوں دن نہ آنا بس ایک دن آنا۔ اب اگر وہ جمعہ کو آجائے تو کوئی حرج نہیں۔
بالکل یہی بات مذکورہ آیت سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ قیدیوں کے بارے میں صرف دو اختیارات ہیں جن میں سے کسی ایک پر عمل کو لازم ہے۔ ’’یا تو احسان کرکے چھوڑ دو، یا فدیہ لے کر چھوڑ دو۔ یہاں اس کا امکان ہی کیا ہے کہ فدیہ اور احسان میں جمع کیا جائے۔ قیدی کو یا فدیہ لے کر چھوڑا جائے گا یا مفت احسان کر کے۔ دونوں بیک وقت جمع ہو ہی کہاں سکتے ہیں؟ لہٰذا یہاں اِمّا کو ’’تخییر لاالیٰ جمع‘‘ کے معنی میں کہنا ایک بے معنی بات ہوئی۔
اس تفصیل سے یہ بات بالکل واضح اور بے غبار ہوگئی کہ قرآن کی اس آیت میں جنگی قیدیوں کے لیے صرف ان مذکورہ دونوں باتوں (یعنی بلا فدیہ یا فدیہ پر رہائی) کے علاوہ کسی کی گنجائش نہیں ہے۔

رسول اللہؐ کا عام عمل غلام بنانا نہیں تھا

اسی طرح حدیث کے ذخیرے میں میرے مطالعے کی حد تک غلام بنانے کا تذکرہ بطور قانون نہیں ہے۔ ہاں آپؐ نے کچھ لوگوں کو غلام بنایا ہے۔ لیکن آپ کے زمانے کے غلاموں کی اکثریت آپؐ یا مسلمانوں کے بنائے ہوئے غلاموں کی نہیں تھی، بلکہ اکثروہ غلام تھے جو پہلے سے چلے آرہے تھے۔ خود آں حضرتؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل سے یہ بات بالکل طے ہو جاتی ہے کہ قیدیوں کے بارے میں آپ کا اصل دستوراحسان کے طور پر رہائی یا فدیہ لے کر چھوڑ دینا ہی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جنگوں میں اصلا اسی پر عمل کرتے تھے۔ آپ نے اکثر جنگوں میں قیدیوں کو فوراً احسان کے طور پر آزاد کردیا، اور اگر روکاتو اپنے قیدیوں کو چھڑانے کے لیے۔اور کبھی مالی فدیہ لے کر ان کو آزاد کردیا۔
بدر میں کچھ کو احسان کے طور پر اور اکثر سے فدیہ لے کر آزاد کیا۔ صلح حدیبیہ سے پہلے مکے کے ۸۰ لڑاکؤوں کے دستے نے مسلمانوں پر حملہ کیا اور سب کے سب گرفتار ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلا فدیہ چھوڑ دیا۔ (صحیح مسلم۱۸۰۸) مکہ آپؐ نے جنگ کرکے فتح کیا، مگر سب چھوڑے گئے۔ عربوں کے نہ جانے کتنے قبیلے مفتوح ہوئے، اور مسلمان فوجوں نے کسی کو غلام نہیں بنایا۔ 
ہوازن کے چھ ہزار قیدی پکڑے گئے، ہوازن شدید دشمنی رکھتے تھے، بڑے جوش وخروش سے لڑے۔ پھر بھی آپؐ تقریباً دو ہفتے تک انتظار کرتے رہے کہ وہ اطاعت کا اظہار کریں اور اپنے قیدی چھڑا لیں۔ ایسے دشمن کی طرف سے اطاعت کے اظہار سے پہلے اس کے قیدی چھوڑنے کا نتیجہ سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہو سکتا تھا کہ ایک مرتبہ پھر جنگ کے لیے اس کو موقعہ دیا جائے کہ وہ مسلمانوں کے لیے خطرہ بنے۔ اسی انتظار میں کہ ان کی طرف سے اطاعت کا اظہار ہو آپ نے دو ہفتے تک مال غنیمت اور قیدی نہیں باٹے۔ آخر جب وہ نہیں آئے تو قیدی لوگوں میں باٹ دیے گئے۔ قیدیوں کو روکے رکھنے کا اور کوئی انتظام نہیں ہو سکتا تھا۔ پھر تقریباً دو ہفتے بعد ہوازن کے کچھ ذمے دار آئے اور آکر مطیعانہ رویے کا اظہار کیا، اور عفو وکرم کی درخواست کی کہ جانیں اور مال بخش دیے جائیں۔ آپؐ سب کچھ باٹ چکے تھے، اور ساتھ میں صرف قدیم تربیت یافتہ مسلمان نہیں تھے، بلکہ عیینہ بن حصن اور عباس بن مرداس جیسے غیر تربیت یافتہ بدو سردار بھی تھے، جو مال غنیمت کے حریص تھے۔ آپؐ نے ہوازن کے لوگوں سے کہا: میں نے تمہارا بڑا انتظار کیا، سچی بات کہہ دوں کہ اب میری کچھ مجبوریاں ہیں، تم کو اندازہ ہے کہ میرے ساتھ اس وقت کس قسم کے لوگ ہیں۔ تم مال یا اپنے قیدیوں میں سے کسی ایک چیز کو لے جاؤ۔ (اختاروا احدی الطائفتین امّا السبی واما المال۔ ایک چیز لے لو، یا قیدی یا مال)۔ انہوں نے اپنے قیدیوں کو چھوڑنے کی درخواست کی۔ آپؐ قیدیوں کو بطور غلام باٹ چکے تھے۔ پھر بھی آپؐ نے لوگوں سے سفارش کر کے ان کو چھڑا کر دیا۔ (صحیح بخاری: ۴۳۱۹، ۲۶۰۸)
اس کے علاوہ حدیث کے ذخیرے میں قیدیوں کی رہائی کے بہت سے واقعات موجود ہیں۔اسی طرح یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ خلفاء راشدین کے دور میں اور بعد میں بھی مسلمانوں نے لوگوں کو پکڑ کر غلام نہیں بنایا۔ نہایت کثیر تعداد میں علاقے فتح ہوئے مگر مسلمانوں نے نہایت ہی قلیل تعداد میں اور بالکل استثنائی طور پر مجبوری کے تحت ہی کسی کو غلام بنایا ہے۔ مصر، شام، عراق، افریقہ آرمینیا اور ایران کی فتوحات میں بے شمار علاقے یا گاؤں بزور شمشیر فتح ہوئے ۔ ان کے لاکھوں لوگوں کو (خصوصا فوجیوں اور حکومتی عملے کو) غلامی میں لے لینے کا امکان بھی تھا، اور زمانے کے عرف اور مسلّم بین الاقوامی قانون کے تحت جواز بھی۔ اگر مسلمان ان سب کو غلام بنا لیتے تو ان پر تنقید وملامت بھی نہ ہوتی۔ مگر مسلمانوں نے کسی کو غلام نہیں بنایا۔ آپ تاریخ کی کتابوں (مثلاً فتوح البلدان) کو دیکھتے جائیے، دسیوں مثالیں ملیں گی کہ جو علاقے فتح ہوتے تھے حضرت عمر کافرمان پہنچتا کہ لوگوں کے اوپر جزیہ لگادو اور زمین پر خراج۔
لہٰذا رسولؐ اللہ کے اس عمومی عمل اور اسلامی تاریخ اور خصوصاً صدر اول کے تعامل سے پتہ چلتا ہے کہ اصل اسلامی قانون قیدیوں کی گرفتاری کے بعد احسان کے بطور رہائی یا فدیہ لے کر چھوڑنا ہی ہے۔ غلامی ایک نہایت نادر استثناء کے علاوہ کچھ نہیں۔

غلامی ایک مجبوری کا حل تھی نہ کہ مستقل دستور:

قرآن سے پہلے دنیا کے کسی قانون میں ہم کو غلامی کی ممنوعیت یا جنگوں میں غلام بنانے کی مذمت نہیں ملتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صدر اول کے مسلمانوں نے جو کچھ غلام بنائے ہیں اس پر غور کرنے سے پہلے ایک تاریخی حقیقت کی طرف ذرا نظر کر لیجیے۔ اس زمانے میں یہ کیسے ممکن تھا کہ جب تک دشمن مطیع نہ ہو اور جنگوں کا سلسلہ جاری ہو اس وقت بھی اس کے قیدیوں کو رہا کیا جائے۔ اس سے تو دشمن کو کمک ملتی رہے گی۔ یہ ایک عملاً ناممکن بات تھی۔ دوسری طرف یہ بھی واضح رہے کہ تمدنی حالت نے اتنی ترقی نہیں کی تھی کہ قیدیوں کے لیے جیل وغیرہ کا انتظام ہو اور ان کے مالی بوجھ کو برداشت کرنا حکومت کے لیے آسان ہو۔ 
لہٰذا غلامی دراصل اس مجبوری کا ایک نظام تھی نہ کہ اسلام کے قانون جنگ کا کوئی مستقل حصہ۔ اس زمانے میں غلامی ایک تکلیف دہ لیکن واقعاتی حقیقت تھی جس سے مفر نہیں تھا۔ اسلامی شریعت نے اس کو اپنے اصل قانون سے خارج کیا، اور جنگی قیدیوں کے بارے میں اصل قانون یہی بتایا کہ ان کو احساناًیا فدیہ لے کر رہا کیا جائے یا کسی قیدی کے بدلے میں چھوڑا جائے۔لیکن یہ کیسے ممکن تھا کہ دشمن تو غلام بنانے کا دستور رکھے اور مسلمان اس کے قیدیوں کو آزاد کر دیں؟ ایسا کبھی ممکن نہیں ہو سکتا۔ مسلمانوں کے جو آدمی دوسروں کے یہاں قید ہوکر جاتے غلام بنائے جاتے۔ اب اگر مسلمان اعلان کر دیتے کہ وہ غلام بنانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے ہیں تو اس کا نتیجہ یہی نکلتا کہ ان کے لوگوں کی بڑی تعداد غلام بنا لی جاتی اور دشمن کو انکی طرف سے یہ بالکل خطرہ نہیں ہوتا کہ اس کے آدمی بھی غلام بنائے جاسکتے ہیں۔
اس لیے جو نہایت قلیل تعداد میں غلام بنائے گئے وہ حالات کی اسی مجبوری کے تحت ایک استثنائی عمل تھا، اسلام کا اصل قانون نہیں۔ 

آج کے زمانے میں غلامی کا جواز نہیں:

بہر حال اس تفصیل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ غلامی کا دستور اسلام کے قانون جنگ کا حصہ نہیں ہے۔ اسلام نے اس کا کوئی مستقل جواز نہیں رکھا ہے۔ ابتدائی زمانے میں جنگی قیدیوں کو روکے رکھنے کی اس کے علاوہ اور کوئی شکل نہیں تھی۔ اس لیے اس پر عمل کیا گیا تھا۔ یہ ایک مجبوری کا اور استثنائی عمل تھا۔ جدید دور میں جب کہ تمدنی ارتقا نے اس مجبوری کا حل نکال دیا ہے اسلام کا اصل حکم یعنی قیدیوں کو جب تک ضروری ہو قید رکھنا، اور اس کے بعد بدلہ لے کر یا یوں ہی چھوڑدیناہی اسلامی قانون ہوگا : ’’فشدوا الوثاق، فاِما منا بعد واِما فداءً‘‘۔
ہاں اگر ویسی ہی صورت حال پھر عود کر آئی جیسی قدیم زمانے میں تھی (یا کوئی اور اسی درجے کی مجبوری ہوئی) تو اسی استثنائی عمل کو پھر جواز حاصل ہوجائے گا۔

عمومی تباہ کاری کی ممانعت

اسلام کی عمومی تعلیمات کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ جنگ کے دوران قتل عام کرنا ، غیر مسلح اور جنگ سے ہاتھ کھینچنے والوں کا خون بہانا ، مال واسباب میںآگ لگانا اور عمومی تباہی و بربادی پھیلانے کو وہ کسی طرح پسند نہیں کر سکتا۔ 
آں حضرت ؐ کا ارشاد ہے کہ:
الغزو غزوان فاما من ابتغیٰ وجہ اللہ واطاع الامام وأنفق الکریمۃ ویاسر الشریک واجتنب الفساد کان نومہ ونبہہ اجراً کلہ۔ وأما من غزا ریاء و سمعۃ و عصی الامام وافسد فی الارض فانہ لا یرجع بالکفاف (سنن نسائی ۳۱۳۷۔ مسند احمد ۲۱۵۳۷)
’’جنگیں دو طرح کی ہوتی ہیں : سو جو اللہ کی رضا وخوش نودی کے لئے جنگ کرے، امیر کی اطاعت کرے، اپنا اچھا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرے۔ اپنے ساتھی کے ساتھ اچھا معاملہ کرے ، اورفساد اور بگاڑ سے بچے تو اس کا سونا جاگناسب( اللہ کے راستے میں ہے اور ) موجب ثواب ہے ، مگر جو دکھاوے کے لئے نکلے ، امیر کی نہ مانیاور زمین میں تباہی اور فساد مچائے تو یہی نہیں کہ اس کو ثواب نہیں ملے گا بلکہ الٹا گناہ لے کر آئے گا۔‘‘
یہیں سے پتہ چلتا ہے کہ عمارتوں اور کھیتیوں اور باغات کو اور دیگر شہری تنصیبات کی تباہی اسلام کے جنگی قانون میں جواز نہیں رکھتی۔ مگر جنگ کے دوران دشمن کو زک پہنچانے ، اور اس کے گرد قائم حفاظتی حصار کو توڑنے یا کسی دیگر جنگی مصلحت کے لئے اس کے باغات یا عمارتوں یا قلعوں کو تباہ کرنے کی ضرورت ہو تو اس کوایک ناپسندیدہ مگر ناگزیر کام سمجھ کر کرنا اسی طرح جائز ہوگا جس طرح قتل کرنا اصلا منع ہے ، مگر کبھی نہ کبھی دنیاکو عمومی شر و فساد سے بچانے کے لئے ایسا کرنا پڑتا ہے۔
بنی نضیر کے قبیلے نے مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ کیا، او ر پھر بد عہدی ہی نہیں کی بلکہ آں حضرت ؐ کو دھوکے سے قتل کرنا چاہا ، جس کے نتیجہ میں غزوۂ بنی نضیر ہوا۔ اس غزوہ میں مسلمانوں نے بنی نضیر کے قلعوں کے ارد گرد کے کچھ باغات میں آگ لگائی۔ (صحیح بخاری ۴۰۳۱، صحیح مسلم ۱۷۴۶) یہود کی جانب سے اس پر اعتراض کیا گیا، اور غالباً جیسا کہ خود قرآن میں غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ کچھ مسلمانوں کے دلوں میں بھی اشکال پیدا ہوا تو یہ آیت اتری:
مَا قَطَعْتُم مِّن لِّیْنَۃٍ أَوْ تَرَکْتُمُوہَا قَاءِمَۃً عَلَی أُصُولِہَا فَبِإِذْنِ اللَّہِ وَلِیُخْزِیَ الْفَاسِقِیْنَ (الحشر: ۵)
’’تم نے جو ’’لینہ‘‘(کھجور کے درخت) کاٹے، یا جو چھوڑ دیے تو یہ (سب) اللہ کے حکم اور اجازت سے کیا گیا ،ا ور تاکہ اللہ باغیوں کو ذلیل کرے۔‘‘

ایک غلط تعبیر جس کی اصلاح ضروری ہے:

یقیناًیہ کارروائی جنگی نقطۂ نظر سے ضرورت کی بنا پر کی گئی تھی ۔کچھ لوگوں کو اس سلسلے میں غلط فہمی ہوئی ہے۔ انہوں نے اس کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ شاید یہ عام اجازت ہے۔ یہ خیال یقیناغلط ہے، اور اس کی تصحیح کی ضرورت ہے۔ عقل وفطرت اس کی اجازت نہیں دیتے کہ عام بے گناہ شہریوں کی املاک کو بے سبب برباد کیا جائے۔ جو اسلام پانی تک کو ضائع کرنے سے روکتا ہے وہ کیسے کھیتیاں جلانے اور املاک کی بربادی کی اجازت دے سکتا ہے؟ اسلام کے قانون جنگ میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔
اس کے غلط ہونے کی سب سے واضح دلیل یہ ہے کہ حضرت ابو بکرؓ نے اپنے زمانے میں لشکروں کو رخصت کرتے وقت تاکیدی حکم فرمایا کہ ہر گز پھلدار درختوں اور باغات کو نذر آتش نہ کیا جائے اور نہ کاٹا جائے اور نہ آبادیوں کو اجاڑا جائے۔ (موطا، ۵۸) یہ روایت حضرت ابوبکر سے تو ثابت ہے اس کے علاوہ امام بیہقی نے تو اس طرح کے احکام پر مبنی کچھ روایات خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی نقل فرمائی ہیں اور ان کی اسناد کے کمزور ہونے کے باوجود کثرت اسانید اور آثار صحابہ کی وجہ سے ان کو قوی قرار دیا ہے۔ (سنن بیہقی:۹/۹۰) یہ احکام سارے صحابۂ کرام کے سامنے دیے جارہے تھے، اور حکومت اسلامیہ کے جنگی قوانین کا اظہار سمجھے جا رہے تھے۔ اس وقت وہ لوگ موجود تھے جنہوں نے خود بنی نضیر کی جنگ میں باغات میں آگ لگائی تھی اور پیڑ کاٹے تھے۔ اس وقت یہود کی جانب سے جب یہ اعتراض ہوا کہ: یہ تو فساد فی الارض ہے، کہیں نبی ایسا کیا کرتے ہیں؟ تو انہوں نے دیکھا تھا کہ قرآن میں صاف آیت اتری تھی کہ جو کیا گیا وہ بالکل ٹھیک کیا گیا، اور اس میں کچھ غلط نہیں۔
حضرت ابوبکر نے جس وقت یہ احکام دیے تھے اس وقت ان صحابہ میں سے کسی کا اس پر کوئی اعتراض نہ کرنا اس بات کی واضح اور غیر مشتبہ دلیل ہے کہ غزوۂ بنی نضیر میں یہ کارروائی جنگی ضرورت کے تحت کی گئی تھی۔ یعنی صورت حال یہ تھی کہ اس سے دشمن پر غلبہ آسان ہونے کی امید تھی، یا اس کے حصار کو توڑنا مقصد تھا۔ شریک غزوہ صحابۂ کرام اس کو ایسا ہی سمجھتے تھے، اور خود حضرت ابو بکرؓ ایسا ہی سمجھتے تھے، اور ان سے بڑھ کر رازداں اور حقیقت شناس کون ہو سکتا ہے؟

ائمۂ اسلام کا موقف:

لہٰذا اس سلسلے میں بنی نضیر کے باغات جالائے جانے سے غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ ہمارے ائمہ اور فقہاء نے بھی اِس کو اسی طرح سمجھا ہے کہ یہ ایک جنگی ضرورت کے تحت کی جانے والی مجبوری کی کارروائی تھی۔ ورنہ اصلا یہ ممنوع ہے۔ امام ترمذی امام اوزاعی سے نقل کرتے ہیں کہ’’ پیڑ کاٹنا اور باغات میں آگ لگانا وغیرہ ممنوع ہیں، حضرت ابوبکر نے اس سے منع فرمایا ہے اور اسی ممانعت پر مسلمانوں کا عمل چلا آرہا ہے‘‘۔ (سنن ترمذی، کتاب الجہاد، باب فی التحریق والتخریب)
یہ بڑی باوزن دلیل ہے کہ ’’اسی ممانعت پر مسلمانوں کا عمل چلا آرہا ہے‘‘۔ واقعہ یہی ہے کہ صحابہ وتابعین کے زمانے میں مسلمانوں نے بہت سی جنگیں لڑیں، مگر کہیں بلا کسی خاص جنگی ضرورت کے باغات یا کھیت جلانے یا عمارتوں اور آبادیوں کو نقصان پہنچانے کا ثبوت نہیں ملتا۔ جن ائمہ سے اس کا جواز منقول ہے محققین نے تصریح کی ہے کہ ان کی مراد بھی یہی ہے کہ یہ اسی صورت میں جائز ہے جب یہ جنگی ضرورت بن جائے۔ فقہاء احناف کے سرخیل ابن الہمام کہتے ہیں: یہ جائز ہے جب اس کے بغیر چارہ نہ ہو، اگر اس کے بغیر کام چل سکتا ہو تو یہ ممنوع ہے اس لیے کہ یہ ’’افساد‘‘ بگاڑ پیدا کرنا ہے۔ اس کا جواز بس ناگزیر جنگی ضرورت کی وجہ سے ہے۔ (فتح القدیر ۵/۱۹۷) ابن الہمام نے اس مسئلے کی جو حقیقت بتائی ہے، اس کو فقہ حنفی کی مشہور کتابوں مجمع الانہرفی شرح ملتقی الابحر، البحر الرائق، درر الاحکام اور درّ مختار میں بھی نقل کیا گیا ہے۔ اور یہ ہے ہی اتنی واضح اور معقول بات۔ ابن عابدین کہتے ہیں کہ فقہاء کی جواز کی رائے کو ابن الہمام نے اسی شکل کے ساتھ مقید کیا ہے جب ایساکرنا جنگی ضرورت کی بنا پر ناگزیر ہو، ’’البحر‘‘ اور ’’النہر‘‘ کے مصنفین نے بھی ان کی اتباع کی ہے۔ ابن عابدین اس رائے کی تحسین کرتے ہوئے کہتے ہیں: ظاہر ہے کہ یہ بڑی اچھی رائے ہے۔ (رد المحتار ۴/۳۳۶)
امام احمد بن حنبل ان لوگوں میں سے ہیں جو کھیتیاں وغیرہ برباد کرنے کے جواز کے قائل سمجھے جاتے ہیں، امام ترمذی ان کا قول نقل کرتے ہیں کہ : اس کے جواز کا سبب یہ ہے کہ کبھی کبھی جنگ میں ایسا کرنے کے علاوہ چارہ نہیں ہوتا، بہرحال بربادکرنے اور تباہی پھیلانے کے مقصد سے ایسا کرنا جائز نہیں‘‘۔ فقہ حنبلی کی مشہور کتاب کشاف القناع اور اس کے متن الاقناع میں صراحت کی گئی ہے یہ اجازت صرف جنگی ضرورت کے تحت ہی ہے، یا اس صورت میں ایسا کیا جاسکتا ہے جب دشمن ہمارے ساتھ ایسا کرتا ہو، تو اس کے باغات اور عمارتیں تباہ کی جائیں، گی تاکہ وہ اس مذموم حرکت سے باز آئے۔ (کشاف القناع، فصل فی تبییت الکفار)
امام ابن جریر طبری نے اسی بات کو اس طرح کہا ہے کہ ’’تباہ کرنا اور برباد کرنا مقصود نہیں ہے، اور عمدا ایسا کرنا ممنوع ہے۔ لیکن جب جنگ کے دوران اس کی ضرورت پڑ جائے ، جیسا کہ طائف میں منجنیق سے سنگ باری کے نتیجہ میں عمارتوں کو نقصان پہنچا تو یہ جائز ہے‘‘۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری ((۶/۱۵۵) ) میں طبری کی اس رائے کو نقل کیا ہے اور آگے جاکر کہا ہے: ’’وبہذا قال اکثر اہل العلم‘‘ یہی اکثر اہل علم کی رائے ہے۔
لہٰذا یہ بات بالکل طے ہے کہ جن فقہاء و علماء نے باغات میں آگ لگانے یا پیڑ کاٹنے کو جائز قرار دیا ہے اس سے بلا قید جواز سمجھنا حقیقت فہمی سے بعید بھی ہے اور شریعت کے مزاج سے ناواقفی بھی۔ مگر افسوس۔۔۔۔۔۔۔

جنگ کے دیگر انسانی قوانین

اسلام نے جنگ کو انسانیت اور انسانی اخلاقیات کا بہرحال پابند کیا ہے۔ اسلام کی نگاہ میں، جنگ چونکہ قتل و خونریزی سے عبارت ہے، اس لیے وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک ناجائز اور اصلاً حرام عمل ہے۔ اسلام نے انسانیت کے احترام اور انسانی جان کی حفاظت کی جو عمومی تعلیمات دیں ہیں جنگ ان سے ایک استثناء ہے۔ قرآن نے ایک اعتراض کے جواب میں دین الٰہی میں جنگ کے جائز رکھے جانے کا سبب بتاتے ہوئے یہ بات کہی ہے کہ: ’’الفتنۃ أکبر من القتل‘‘ یعنی جنگ اور قتل و خونریزی سے بھی زیادہ بڑی اور موجب فساد بات یہ ہے کہ دین حق سے لوگوں کو زور وزبر دستی سے روکا جائے، اور دین حق پر قائم رہنے والوں کومبتلائے عذاب و آزمائش کیا جائے۔ یعنی جنگ کے جواز بلکہ اس کے ضروری ہونے کا یہ سبب ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ بھی اصل میں ایک خراب اور بری چیز ہے، لیکن ’’فتنہ‘‘ اور ظلم اتنی خراب چیزیں ہیں کہ وہ جنگ کو جائز اور کبھی ضروری بنادیتی ہیں۔ اسلام کا یہی مزاج اور دین الٰہی کی یہی روح ہے کہ جنگ جیسی دہشت خیز چیز کو بھی وہ شریفانہ قوانین کا پابند اور انسانی جذبات سے آشنا بناتا ہے۔ یہ قوانین اس قابل ہیں کہ (ایک بزرگ کے الفاظ میں) یہ دنیا میں ’’جنگ کی اندھیر نگری کو جہادی تہذیب کا عطیہ‘‘ جیسے نام سے یاد کیے جائیں۔ اسلام کا مزاج تو یہ ہے کہ :
اِن اللّٰہ قد کتب الاحسان علی کل شیء، فاذا قتلتم فأحسنوا القتلۃ واذا ذبحتم فأحسنوا الذبحۃ۔ (صحیح مسلم، ۱۹۵۵)
’’اللہ تعالیٰ نے ہر چیز پر احسان کرنے کا حکم دیا ہے (یہاں تک کہ یہ بھی حکم ہے کہ) جب تم کسی کوقتل کر و تو بھلی طرح قتل کرو، اور جب تم ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو۔‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ بھی اصل میں ایک خراب اور بری چیز ہے، لیکن ’’فتنہ‘‘ اور ظلم اتنی خراب چیزیں ہیں کہ وہ جنگ کو جائز اور کبھی ضروری بنادیتی ہیں۔
جس نے اسلام اور رسول اسلام کی سیرت کا کوئی تفصیلی مطالعہ نہ کیاہو وہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ جنگ بھی اخلاق اور انسانیت کے ساتھ ہوسکتی ہے۔ جنگجو سپاہی کو عدل وانصاف کا درس اور وہ بھی عین عالم جنگ اور وقت پیکار میں، کوئی تصور نہیں کرسکتا۔ اور خدانخواستہ اگر آزادی انسان اور انسانی حقوق کے پرشور نعرے لگانے والی موجودہ حکومتوں کے جنگی نظام اور فوجی تعلیم و تربیت کے طریقوں کو کسی نے کچھ جانا پڑھا ہے، تب تو وہ یہ خیال کرنے میں کچھ شاید معذور بھی قرار پائے گا کہ جنگ میں انسانیت کا نام لینا کانفرنسوں کی خوش نما اور مکارانہ تقریروں کو زینت بخشنے والی ایک پرفریب ادا کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوسکتا۔
مگر اسلام کا معاملہ دیگر ہے۔ یہاں جنگ ملک و قوم کی خدمت اور ترقی کے لئے نہیں ہے۔ مغربی قوموں نے اعلانیہ طور پر اپنی سیاست و حکومت کا مقصد قومی مفادات کا حصول بتایا ہے، اور جنگ کی غرض مفادات کی کشمکش میں غلبہ و استیلاء قرار دینے میں کسی حیا کو مانع نہیں بننے دیا ہے۔ انہوں نے اپنی عام تعلیم گاہوں سے لے کر وزارتوں، دفاعی و سیاسی پالیسی ساز اداروں اور تھنک ٹینکس (Think Tanks) تک میں ظلم و حرص اور خود غرضی کا یہی سبق پڑھا ہے۔ پھر فوجوں کو خونخواری اور شدت پسندی کی سان پر چڑھایا جاتا ہے۔ معاصر دنیا میں قوموں کو پہلے قوم پرستی کی جاہلیت کا سبق پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے۔قومی نظام تعلیم کا مقصد اچھا انسان نہیں اچھا شہری یعنی ملک وقوم کے مفادات کا پرستار وخادم بناناٹھیرتا ہے۔ ناجائز جنگیں اور مفادات کیلئے خون بہاناقوم پرستی اور Patriotism کے اس فلسفے کی رو سے جائز ٹھہرتے ہیں۔
نتیجہ یہ ہے کہ ان ’’مہذب‘‘ ممالک کی اکثر آبادی کی فطرت ہی مسخ ہوگئی ہے اور انہوں نے بھی تسلیم کرلیا ہے کہ ہر ملک صرف اپنے مفادات کی خاطر دوسری قوموں پر حملہ کرتا ہے۔ اور فوجوں کو کہاں نرمی، اخلاق اور اصول پسندی کی تعلیم دی جاسکتی ہے؟ اس صورت حال نے اسلام کے اصولوں کی تفہیم مشکل بنادی ہے۔ ایک خالی الذہن آدمی جس نے معتبر مآخذ کے واسطے سے مسلمانوں کے اولین عہد کی تاریخ سے واقفیت نہ پیدا کی ہو یا قریب سے سچے مسلمانوں کو نہ دیکھا ہو، وہ اگر کتابوں اور تقریروں سے اسلام کے ان اصولوں اور تعلیمات سے واقف بھی ہوگا تو وہ اس کو شاعرانہ مہارت اور پر فریب لفاظی ہی خیال کرے گا۔ حال آں کہ اسلام کا معاملہ قطعاً مختلف اور برعکس ہے، یہاں قوم کے عزت وغلبہ کے لئے جنگ حرام ہے، جنگ تو خادم ہے اور اعلیٰ مقاصد یعنی سچائی، عدل و خیر اور اللہ کی عبادت جیسے اصولوں کی پاسداری اصل مطلوب ہے۔
ہمیں اس سلسلے میں قرآن و حدیث میں کافی قانونی تفصیلات ملتی ہیں۔ جن میں جنگ کے وہ سارے طریقے جو خونریزی، تباہ کاری، سنگ دلی، ظلم، اور انسانی وقار کی بے حرمتی کے ضمن میں آتے ہیں صراحت کے ساتھ منع کیے گئے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
الغزو غزوان فاما من ابتغیٰ وجہ اللہ واطاع الامام وأنفق الکریمۃ ویاسر الشریک واجتنب الفساد کان نومہ ونبہہ اجراً کلہ۔ وأما من غزا ریاء وسمعۃ وعصی الامام وافسد فی الارض فانہ لا یرجع بالکفاف (سنن نسائی، ۳۱۳۷۔ مسند احمد، ۲۱۵۳۷)
’’جنگیں دو طرح کی ہوتی ہیں : سو جو اللہ کی رضا وخوش نودی کے لئے جنگ کرے، امیر کی اطاعت کرے، اپنا اچھا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرے۔ اپنے ساتھی کے ساتھ اچھا معاملہ کرے ، اورفساد اور بگاڑ سے بچے تو اس کا سونا جاگناسب( اللہ کے راستے میں ہے اور ) موجب ثواب ہے ، مگر جو دکھاوے کے لئے نکلے ، امیر کی نہ مانے اور زمین میں تباہی اور فساد مچائے تو یہی نہیں کہ اس کو ثواب نہیں ملے گا بلکہ الٹا گناہ لے کر آئے گا۔‘‘
مقتول دشمن کی لاش کی بے حرمتی اور اس کے جسم کا مُثلہ یعنی اعضا کی قطع و برید کو ممنوع قرار دیا گیا۔ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن یزید انصاریؓ سے روایت ہے کہ:
نہی النبیؐ عن النہبیٰ والمثلۃ (بخاری، ۲۴۷۴)
نبی اکرمؐ نے جنگ میں مال لوٹنے اور مثلہ کرنے سے منع کیا ہے۔
رسول اللہؐ کا معمول تھا کہ فوجوں کو روانہ کرتے وقت ان کو جمع کر کے آپؐ ایک رخصتی خطاب فرماتے ، اس خطاب میں لازماً ان کو خوف خدا اور تقوی واحتیاط کے طرز عمل کی تاکید کرتے، اور فرماتے:
اغزوا، ولا تغدروا، ولا تغلّوا، ولا تمثّلوا (صحیح مسلم، ۱۷۳۱)
جاؤ جنگ کرو، مگر نہ کسی سے بد عہدی کرنا، نہ خیانت کرنا اور نہ مثلہ کرنا۔
اللہ کا دین اپنے ماننے والوں کے لئے ان طریقوں کا کوئی جواز نہیں بتاتا۔ وہ صاف بتلاتا ہے کہ اگر کسی نے جنگی جوش وغضب میں ایسی حرکتیں کیں تو کبھی وہ ’’مجاہد‘‘ نہیں بن سکتا ، اور اس کو جہاد کا وہ اجر وثواب نہیں مل سکتا جس کے لیے اس نے اپنے سر کی بازی لگا ئی ہے، بلکہ الٹا وہ جہنم کا خریدار ہوگا۔ اسلامی نقطۂ نظر سے مسلمانوں کی جنگوں کا مقصد نہ علاقے فتح کرنا ہوسکتا ہے اور نہ اپنے غلبے کے پھریرے اڑانا ۔ بلکہ وہ صرف اس مقصد سے جنگ کر سکتے ہیں کہ اللہ کے دین کی دعوت کے سامنے سے رکاوٹیں ختم ہو جائیں، ’’فتنہ‘‘ کا سلسلہ رک جائے اور حق پرستوں کو انسانیت کی ہدایت و خدمت کا کام کرنے کے مواقع مل جائیں ، اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ خلیفۂ رسول صدیق اکبرؓ رسول اللہؐ کی وفات کے بعد پہلالشکر روانہ کرتے وقت اس کے امیر حضرت اسامہ بن زید کو رخصت کرتے ہوئے یہ ہدایات دیتے ہیں:
’’(۱) خیانت نہ کرنا (۲) مال غنیمت مت چرانا(۳) دھوکہ مت دینااور معاہدے کی خلاف ورزی نہ کرنا(۴) لاشوں کے اعضاء مت کاٹنا(۵) بچوں عورتوں اور بوڑھوں کو مت مارنا(۶) باغوں کو نہ کاٹنا، نہ جلانا (۷) پھل دار درختوں کو نقصان نہ پہنچانا (۸) اونٹ، گائے اور بکریاں ذبح مت کرنا ، الا یہ کہ کھانے کی ضرورت پڑجائے (۹) راہبوں اور عبادت گاہوں کے خادموں کو مت مارنا۔‘‘ (تاریخ طبری ۲/۲۴۶)
امام مالک نے موطا میں نقل کیا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت یزیدؓ ابن ابی سفیانؓ کو شام کے علاقے کی ایک مہم پر روانہ فرمایا، یہ علاقہ عیسائی تھا۔ روانگی کے وقت حضرت ابوبکرؓ ساتھ میں کچھ دور تک رخصت کرنے گئے۔ خود پیدل اور حضرت یزیدؓ سوار۔ اس پر حضرت یزید نے عرض کیا: اے خلیفۂ رسول، یا تو آپ بھی سوار ہو جائیں یا مجھے اجازت دیں میں اتر کر پیدل چلوں۔ حضرت ابوبکر نے منع فرمادیا، اور کہا: نہ میں سوار ہوں گا اور نہ تم کو اترنے کی اجازت ہے، مجھے اللہ سے ایک ایک قدم پر ثواب کی امید ہے۔ پھرکچھ احکام دیے۔ جن میں یہ بھی تھا کہ:
’’تم کو کچھ ایسے لوگ ملیں گے جو کہیں گے کہ ہم نے عبادت کی خاطر دنیا چھوڑ دی ہے، تو ان سے کچھ تعرض نہ کرنا۔ اور میں تم کو دس باتوں کی تاکید کرتا ہوں۔ نہ کسی عورت کو قتل کرنا، نہ بچے کو، نہ بوڑھے ضعیف کو، کسی پھل دار درخت کو بھی نہ کاٹنا۔ کسی آبادی کو نقصان نہ پہنچانا۔اگر فوج کو غذائی کمی نہ پیش آئے تو بکری یا اونٹ بھی نہ ذبح کرنا۔ نہ کسی باغ میں آگ لگانا نہ ڈبونا۔ عہد شکنی نہ کرنا۔ مثلہ نہ کرنا۔۔۔‘‘ (موطا، ۸۵۸)
سفیر کی جان کی حفاظت ہی نہیں بلکہ اس کے اکرام کی بھی رسول اللہؐ کی تعلیم ہے۔ آپؐ کا مستقل طرز عمل یہ تھا کہ جب بھی کوئی سفارتی مشن آتا آپ اس کے تمام ارکان کو ہدایا سے سرفراز فرماتے۔ مسیلمۃ الکذاب باغی اور مدعی نبوت تھا۔ اس کے دو سفیر آئے، دونوں ارتداد اور بغاوت کے جرم کی بنا پر مستحق قتل تھے۔ مگر آپؐ نے کہا کہ ’’سفیرکو قتل کرنا جائز نہیں ورنہ میں تم کو قتل کر وا دیتا‘‘۔ صحابۂ کرام کہتے ہیں کہ پھر یہی اسلامی قانون قرار پایا ۔ (مسند احمد ۳۷۵۲، سنن ابو داؤد ۲۷۶۳)
مرض الوفات میں آپ ؐ نے نہایت اہتمام کے ساتھ اپنے بعد اسلامی حکومت کے ذمہ داروں کو جو چند وصیتیں بطور خاص کیں، ان میں یہ بات بھی تھی کہ:
وأجیزوا الوفد بنحو ماکنت أجیزہم (صحیح بخاری،۴۴۳۱)
’’سفارتی وفود کو ہدیے دیا کرنا جیسا کہ میں دیا کرتا تھا۔‘‘

غیر مسلموں کے ساتھ تعلق

غیرمسلموں سے حسن تعلق اور انسانی رشتوں کی تعلیم کے ساتھ ہی قرآن نے شدید تاکید کی ہے کہ اسلام کے وہ دشمن جو اسلام کو مٹانے کے درپے ہوں، مسلمانوں سے جنگ کررہے ہوں یا ان کے خلاف خطرناک سازشوں کے جال بن رہے ہیں ایسے دشمنوں سے سیاسی سازباز رکھنا اور ان سے پینگیں بڑھانا نہ صرف ناجائز بلکہ ایمان کے منافی ہیں۔
اگر یہ دشمن طاقت ور ہوں تو بڑا خطرہ اس بات کا ہوتا ہے کہ کمزورعزم وایمان کے مسلمان مفادات کی خاطر ان سے سازباز کرنے لگیں۔ یا رشتہ داری اور دیگر سماجی رشتوں کے زیراثر ان کی درپردہ مدد کرنے لگیں۔ یہ چیز دنیا کی کوئی جماعت برداشت نہیں کرسکتی۔ سیاسی اور سماجی نقطۂ نظر سے اپنی ہی صفوں کے اندر ایسے لوگوں کا وجود آستین کے سانپ جیسی خطرناک چیز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ خطرہ منافقین کی شکل میں بھرپور طور پر ظاہر ہوا۔ اس لئے اس سلسلے میں بڑے واضح اور تاکیدی احکام اترے کہ دشمنوں سے درپردہ سازباز یا ان کی علانیہ حمایت و مدد ایمان کے قطعاً منافی ہے۔ اس سلسلے کی سب سے صاف اور سخت لہجہ کی آیات یہ اتریں:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ أَوْلِیَاء تُلْقُونَ إِلَیْْہِم بِالْمَوَدَّۃِ وَقَدْ کَفَرُوا بِمَا جَاء کُم مِّنَ الْحَقِّ یُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِیَّاکُمْ أَن تُؤْمِنُوا بِاللَّہِ رَبِّکُمْ إِن کُنتُمْ خَرَجْتُمْ جِہَاداً فِیْ سَبِیْلِیْ وَابْتِغَاء مَرْضَاتِیْ تُسِرُّونَ إِلَیْْہِم بِالْمَوَدَّۃِ وَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا أَخْفَیْْتُمْ وَمَا أَعْلَنتُمْ وَمَن یَفْعَلْہُ مِنکُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاء السَّبِیْلِ ۔ إِن یَثْقَفُوکُمْ یَکُونُوا لَکُمْ أَعْدَاء وَیَبْسُطُوا إِلَیْْکُمْ أَیْْدِیَہُمْ وَأَلْسِنَتَہُم بِالسُّوءِ وَوَدُّوا لَوْ تَکْفُرُون (الممتحنۃ:۱۔۲)
’’اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمن کو ’’ولی‘‘ مت بناؤ، تم ان سے محبت کے رشتے قائم کرتے ہو، اور وہ اس حق کا جو تمہارے پاس آیا ہے انکار کرتے ہیں۔ نکالتے ہیں اللہ کے رسول کو اور تم کو اپنے گھروں سے صرف اس کی پاداش میں کہ تم ایک اللہ پر ایمان لاتے ہو، اگر تم نے میرے راستے میں جہاد کے لئے اور میری رضا حاصل کرنے کے لئے ہجرت کی ہے (تو ہرگز ان کو ولی وہمدم نہ بناؤ) تم چپکے چپکے ان سے محبت کے رشتے قائم کرتے ہو۔ (خبردار) میں تمہارے ڈھکے کھلے سب معاملات سے واقف ہوں۔ اور تم میں جو ایسا کرے گا وہ سیدھے راستے سے ہٹ گیا۔یہ دشمن ایسے ہیں کہ اگر وہ تم کو پاجائیں اور ان کا بس چلے تو وہ دشمن ہی ثابت ہوں گے اور تم پر حملے کرنے کے لئے ضرور زبان اور دست درازی کریں گے۔ اور ان کی تمنا یہ ہے کہ تم کو کافر بنا ڈالیں۔‘‘
یہ آیات مکہ کے ان دشمنان اسلام سے متعلق تھیں جو مکہ میں بھی اسلام اور مسلمانوں کے ظالم دشمن تھے اور مسلمانوں کے جان و ایمان بچاکے مدینہ ہجرت کر جانے کے بعد بھی ان کے سینوں کے تنور میں دشمنی کی آگ شعلہ زن تھی۔
اسی طرح کی دوسری آیات میں اُن یہود دشمنوں سے سازباز، مخفی روابط اور ان کی درپردہ مدد سے منع کیا گیا ہے جو مدینہ میں اسلام کے خلاف سازشوں میں لگے ہوئے تھے۔
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ بِطَانَۃً مِّن دُونِکُمْ لاَ یَأْلُونَکُمْ خَبَالاً وَدُّواْ مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاء مِنْ أَفْوَاہِہِمْ وَمَا تُخْفِیْ صُدُورُہُمْ أَکْبَرُ (آل عمران: ۱۱۸)
’’اے ایمان والو! اپنوں کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا قریبی رازدار نہ بناؤ، وہ تمہاری تباہی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، ان کے منھ سے دشمنی نکلی آرہی ہے۔ اور جو سینوں میں چھپا ہے وہ اس سے بھی زیادہ ہے۔‘‘
ایک دوسری جگہ ارشاد ہوا:
لا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْکَافِرِیْنَ أَوْلِیَاء مِن دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَمَن یَفْعَلْ ذَلِکَ فَلَیْْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْْءٍ (آل عمران: ۲۸)
’’ایمان والے مومنین کے خلاف کافروں کو ’’ولی‘‘ نہ بنائیں، اور تم میں سے جو ایسا کرے گا اللہ سے اس کا کوئی رشتہ نہیں۔‘‘
یہ اسلام کی سیاسی تعلیمات میں سے ایک اہم تعلیم ہے، جس نے سیاست کو مکمل طور پر ایمان کے تابع بنا دیا ہے۔ اور ہمیشہ کے لیے طے کردیا ہے کہ جس کی سیاست اس کے ایمان کے تابع نہیں اس کا ایمان کھوٹا ہے۔ افسوس کہ اس زمانہ میں اس کو صحیح طور سے سمجھنے والے اور اس پر مضبوطی سے عمل کرنے والے بہت کم ہیں۔ 
بہت سوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ وہ سیاست کے سمندر میں اسلام و کفر دونوں کے جہازوں پر بیک وقت سواری کرسکتے ہیں۔ ایک طرف وہ اسلام کا دم بھرتے ہیں، مسلمانوں کی ہمدردی بلکہ ان کی اجتماعی نمائندگی کے دعوے بھی کرتے ہیں، اور دوسری طرف اسلام کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والی طاقتوں سے پینگیں بھی بڑھاتے ہیں اور ان کے درباروں میں خلوص و وفا کی قسمیں بھی کھاتے ہیں۔ یہ لوگ اسلام کے حامی و مددگار نہیں بلکہ سماج میں اپنے سیاسی آقاؤں کے مفادات کے نگراں ہوتے ہیں۔ ان کا کام ان آقاؤں کے ڈھول پیٹنا ہوتا ہے۔ اس لئے کہ یہ انہی کے سہارے اپنے لئے عہدے، مناصب اور طاقت و ناموری حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ’’یبتغون عندہم العزۃ‘‘۔

ایک بڑی غلط فہمی:

اسلام کی ان تعلیمات کے بارے میں ایک سوال اٹھایا جاتا ہے کہ مسلمان دعویٰ تو کرتے ہیں غیرمسلموں کے ساتھ پرامن بقاء باہم، ہمدردی اور حسن سلوک کا، مگر حقیقت اس کے خلاف ہے، اس لئے کہ قرآن نے مسلمانوں کو کافروں سے بے تعلقی کا حکم دیا ہے اور ان سے دوستی کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ (’’دوستی‘‘ یہ موالات اور ولی بنانے کا غلط ترجمہ ہے۔ ہم اس کا صحیح مفہوم آگے واضح کریں گے۔) اس مغالطہ کی بنیاد دراصل دو غلط فہمیوں پر ہے:
۱۔ ولی کسے کہتے ہیں؟ اور ’’ولاء‘‘ کے جس تعلق سے منع کیا گیا ہے وہ کس قسم کا تعلق ہوتا ہے؟
۲۔ یہ کن کفار کے متعلق بات ہورہی ہے؟ اس موقع پر یہ بات نظرانداز کردی جاتی ہے کہ خود قرآن نے متعدد جگہ ایسی قیدیں لگائی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ احکام عام غیر مسلموں سے متعلق نہیں ہیں بلکہ کچھ خاص کفار سے متعلق ہیں۔ صرف قیدیں ہی نہیں بلکہ ایک اور جگہ پوری صراحت سے یہ بھی بتلادیا ہے کہ جن لوگوں کے بارے میں یہ احکام دیے گئے ہیں وہ غیرمسلموں میں سے کچھ خاص گروہ ہیں، باقی دوسرے افراد اور گروہ اس دائرۂ ’’بے تعلقی و براء ت‘‘ میں نہیں آتے ہیں۔

پہلی غلطی:

اس سلسلے میں پہلی غلطی یہ ہوتی ہے کہ قرآن نے ان آیات میں کفار کو ’’ولی‘‘ بنانے سے منع کیا ہے (اولیاء اس کی جمع ہے) اس کو ’’دوستی‘‘ یا حسن تعلق کے ہم معنی سمجھ لیا گیا ہے، واقعہ یہ ہے کہ عربی زبان کے ’’الولی‘‘ یااس کے مشتقات (Derivatives) کے لئے کوئی مفرد لفظ اردو بلکہ شاید انگریزی سمیت بہت سی زبانوں میں نہیں ملتا۔ اس لئے اس کا ترجمہ لوگ ’’دوست‘‘ اور "Friend" جیسے لفظ سے سے کردیتے ہیں۔ اور یہی چیز اعتراضات کے تیر چلانے والوں کے ترکش کو سامان فراہم کرتی ہے۔
’’ولی‘‘ کے معنی ایسے قرب وتعلق (معجم مقاییس اللغۃ اور دیگر لغوی ماخذ میں اس لفظ کا بنیادی تصور قرب وتعلق بتایا گیا ہے) کے ہیں جس کے ساتھ حمایت و مدد کرنا اور ساتھ دینا شامل ہو۔ لسان العرب میں، جو عربی کی معتبر ترین لغت ہے لکھا ہے: 
الولایۃ: النصرۃ 
’’ولایت کے معنی مدد کے ہیں۔‘‘
آگے ہے:
ہم علی ولایۃ أی مجتمعون فی النصرۃ
’’ان میں ولایت کا تعلق ہے، یعنی مل کر ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔‘‘
منظور ابن الاعرابی کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ: موالات یہ ہے کہ دو فریقوں میں اختلاف ہو، تو کوئی تیسرا ثالثی کے لئے داخل ہو اور اس کا میلان کسی ایک فریق کی طرف ہو، پھر وہ اس کی جانبداری کرے۔ (لسان العرب: ۱۵/۴۰۵) امام ابن جریر طبری جو لغت دانی میں ہمارے متقدم مفسرین میں اہم ترین مقام رکھتے ہیں، سورۂ آل عمران کی آیت ۲۸ کی تشریح میں کہتے ہیں:
ہذا نہی من اللہ عزوجل المومنین أن یتخذوا الکفار أعواناً و انصاراً و ظہوراً ۔۔۔ ومعنی ذالک: لا تتخذوا الکفار ظہراً وانصاراً توالونہم علی دینہم وتظاہرونہم علی المسلمین من دون المومنین وتدلونہم علی عوراتہم۔ 
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنین کو روکا گیا ہے کہ وہ کفار کو اپنا معین ومددگار اور پشت پناہ بنائیں ۔۔۔ یعنی کہا گیا ہے کہ کفار کو پشت پناہ و مددگار سمجھ کر ان کے دین کے معاملہ میں ان کا ساتھ مت دو کہ مسلمانوں اور مومنین کے خلاف ان کی مدد کرو اور مسلمانوں کے راز ان کو بتاؤ۔
سورہ توبہ کی آیت ۷۳ میں ’’ولایۃ‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: 
المعروف فی کلام العرب من معنی الولی انہ النصیر والمعین
’’کلام عرب میں ولی کے معروف معنی مددگار اور اعانت کرنے والے کے ہیں‘‘
اس تفصیل سے ثابت ہوتا ہے کہ ان آیات کا حاصل اس کے سوا کچھ نہیں کہ اہل ایمان کو منع کیا گیا ہے کہ وہ دشمنوں سے رازدارانہ پینگیں نہ بڑھائیں اور ان کی مخفی مدد نہ کریں۔ ان آیات کا کوئی تعلق دوستی یا اچھے سلوک سے نہیں ہے۔
اس مراد و معنی کی مزیدوضاحت اس بات سے ہوتی ہے کہ قرآن نے خود جابجا اس صورت حال کی طرف اشارہ کردیا کہ جس ’’ولاء‘‘ کے تعلق سے منع کیا جارہا ہے، وہ ’’من دون المومنین‘‘ یعنی ’’مومنین کے خلاف مدد‘‘ کا تعلق تھا ،(مثلاً سورہ آل عمران ۲۸۔ النساء ۱۳۹ اور ۱۴۴)۔ یہ’’مومنین کے خلاف‘‘ کی قید خود بتارہی ہے کہ جن حالات کی طرف اشارہ کیاجارہا ہے ان میں مسلمانوں کے خلاف ان کے دشمنوں کی مدد کی جارہی تھی۔

ان تعلیمات کا پس منظر:

ان آیات کا پس منظر (جو آیات کے اندر سے صاف جھلکتا ہے) یہ ہے کہ اسلام کے مخالفین شجرۂ اسلام کو اکھاڑ پھینکنے کی زبردست دشمنانہ مہموں میں مصروف ہیں۔ جنگوں کے سیلاب امڈ رہے ہیں۔ مشرکین کی علانیہ جنگوں کے ساتھ ساتھ مدینہ میں بسنے والے وہ یہودی قبائل جنہوں نے معاہدے کررکھے ہیں وہ بھی سازشوں میں لگے ہیں۔ جنگوں کے علاوہ داخلی بدامنی پھیلانا، مسلمانوں میں قبائلی اور جاہلی عصبیت جگا کراتحاد کو توڑنا، اسلام کو بدنام کرنااور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کردار کشی اس سازش کے خاص اہداف ہیں۔ مسلمانوں میں دونوں ہی یعنی مشرکین مکہ اور یہود مدینہ کی رشتہ داریاں اور قرابتیں ہیں، دوستیاں ہیں، تعلقات اور معاملات ہیں۔ منافقین کے گروہ کی ہمدردیاں اِن دشمنوں کے ساتھ ہیں۔ موقعہ بموقعہ وہ دشمنوں کی فساد انگیز سازشوں کے لئے بہترین ایجنٹ اور آلۂ کار ثابت ہو رہے ہیں۔
قرآن نے اس گروہ کی ان خطرناک سرگرمیوں کی پوری پردہ دری کی ہے۔ یہ سرگرمیاں کس خطرناک حد تک پہنچی ہوئی تھیں اس کا اندازہ اس واقعے سے ہو سکتا ہے کہ ۹ھ ؁ میں انہوں نے مسجد کے نام پر قبا میں اپنا ایک باقاعدہ مرکز بنالیا، قرآن نے اس مرکز کی سرگرمیوں کا پردہ چاک کیا کہ اس مرکز کا مقصد مسلم ریاست کو نقصان پہنچانا، کفر کرنا، مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنا، اور باہر سے ایک دشمن فوج کو حملہ کرنے کی دعوت دینا اور اندر کی بغاوت کے ذریعہ اس کی اسٹریٹجک مدد کرنا تھا(سورہ توبہ آیت ۱۰۷)۔
ان خالص منافقین کے علاوہ ایک تعداد ایسے کمزور ایمان والوں کی بھی تھی جو حالات کے ہر نازک موڑ پر اپنی وفاداریوں کو لے کر دونوں طرف حاضری دیتے تھے۔ منافقین کا گروہ زیادہ تر یہود کے زیراثر تھا، اور اس کی ان سے وفاداری کا یہ حال تھا کہ ان دشمنوں کے ایجنڈے پر سرگرمی کے ساتھ کام کرتا تھا، اسی سلسلے میں ’’فتری الذین فی قلوبہم مرض یسارعون فیہم‘‘ (یعنی تم دیکھتے ہو دل کے روگی منافقوں کو کہ وہ ان یہودیوں میں تیزی سے دوڑ بھاگ کرتے ہیں، المائدہ ۵۲)کہہ کر قرآن نے ان کی ان ہی سرگرمیوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ایسے احکام دیتے وقت قرآن میں جابجا یہ صورت حال صاف بیان کی گئی ہے۔ سورہ نساء میں ارشاد ہوتا ہے :
بَشِّرِ الْمُنَافِقِیْنَ بِأَنَّ لَہُمْ عَذَاباً أَلِیْماً۔ الَّذِیْنَ یَتَّخِذُونَ الْکَافِرِیْنَ أَوْلِیَاء مِن دُونِ الْمُؤْمِنِیْنَ أَیَبْتَغُونَ عِندَہُمُ الْعِزَّۃَ فَإِنَّ العِزَّۃَ لِلّہِ جَمِیْعاً۔ وقدْ نَزَّلَ عَلَیْْکُمْ فِیْ الْکِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آیَاتِ اللّہِ یُکَفَرُ بِہَا وَیُسْتَہْزَأُ بِہَا فَلاَ تَقْعُدُواْ مَعَہُمْ حَتَّی یَخُوضُواْ فِیْ حَدِیْثٍ غَیْْرِہِ إِنَّکُمْ إِذاً مِّثْلُہُمْ إِنَّ اللّہَ جَامِعُ الْمُنَافِقِیْنَ وَالْکَافِرِیْنَ فِیْ جَہَنَّمَ جَمِیْعاً۔ الَّذِیْنَ یَتَرَبَّصُونَ بِکُمْ فَإِن کَانَ لَکُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللّہِ قَالُواْ أَلَمْ نَکُن مَّعَکُمْ وَإِن کَانَ لِلْکَافِرِیْنَ نَصِیْبٌ قَالُواْ أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَیْْکُمْ وَنَمْنَعْکُم مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ فَاللّہُ یَحْکُمُ بَیْْنَکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَن یَجْعَلَ اللّہُ لِلْکَافِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلاً۔ إِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ یُخَادِعُونَ اللّہَ وَہُوَ خَادِعُہُمْ وَإِذَا قَامُواْ إِلَی الصَّلاَۃِ قَامُواْ کُسَالَی یُرَآؤُونَ النَّاسَ وَلاَ یَذْکُرُونَ اللّٰہَ إِلاَّ قَلِیْلاً۔ مُّذَبْذَبِیْنَ بَیْْنَ ذَلِکَ لاَ إِلَی ہَؤُلاء وَلاَ إِلَی ہَؤُلاء وَمَن یُضْلِلِ اللّہُ فَلَن تَجِدَ لَہُ سَبِیْلا (النساء: ۱۳۷۔۱۴۱) 
ان آیات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ان منافقوں کو آگاہ کردیں کہ انہوں نے اسلام کے دشمنوں سے جو مخفی تعلقات قائم کررکھے ہیں، ان کی سزا کے طور پر وہ جہنم میں ڈالے جانے کے لئے تیار رہیں۔ کہا گیا ہے کہ یہ منافقین مومنین کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا ’’ولی‘‘ بناتے ہیں، ان کا گمان یہ ہے کہ یہ ان کا ساتھ دے کر عزت و غلبہ حاصل کرلیں گے؟ یہ جن کافر لیڈروں کی مجلسوں میں حاضری دیتے ہیں وہاں اسلام اور رسول اسلام کا مذاق اڑایا جاتا ہے، اور یہ وہاں خوشی خوشی بیٹھے رہتے ہیں۔ ان منافقوں کا یہ حال بھی بتلایا گیا ہے کہ یہ انتظار میں رہتے ہیں ،نہ اِدھر پورے طور پر نہ اُدھر پورے طور پر، تاکہ اگر مسلمانوں کو فتح و غلبہ نصیب ہوتو آکر کہیں ہم تو آپ کے ساتھ ہیں، اور اگر کافروں کا پلہ بھاری رہے تو یہ ان کے پاس یہ کہتے ہوئے پہنچیں کہ ’’کیا ہم نے تمہاری مسلمانوں سے مدافعت کرنے میں کوئی کسر چھوڑی تھی؟‘‘
یہ ہے موالاۃ الکفار، یعنی منافقوں کا وہ طرز عمل جس کو اختیار کرنے سے اس وقت منع کیا جارہا تھا۔
جیسا کہ اوپر اشارہ گذر چکا ہے کہ منافقین کا یہ گروہ سیاسی اور سماجی طور پر بری طرح یہودیوں کے زیراثر تھا۔ اور ان کے ہر فتنہ انگیز پروپیگنڈے میں اس کا ساتھ دیتا تھا۔ یہود کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سیاسی طور پر نقصان پہنچانے کے لئے مستقل تہمتوں اور پروپیگنڈوں کے طوفان اٹھائے جاتے رہتے تھے۔ یہ منافقین اس جنگ کے ہروال دستے ثابت ہوتے تھے۔ قرآن میں جابجا (مثلاً خصوصا سورۂ احزاب اور سورۂ نور میں)اس صورت حال کی طرف اشارے ہیں۔ یہودی سردار اسلام کا مذاق اڑاتے، ان کی مجلسوں میں عوام مسلمان بھی حاضر ہوتے۔ عرب کے مشرکین بھی اس مہم میں تائید کرتے تھے۔ یہ یہود و مشرکین عام مسلمان لوگوں کو اس پر ابھارتے تھے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے باہر آجائیں اور بغاوت کردیں۔ اسی سلسلۂ بیان میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس اسلام دشمن مہم کے دوران تم دیکھوگے کہ جن لوگوں کے دل روگی ہیں (نفاق کے مرض کے) وہ دوڑ دوڑ کر ان کفار سے پینگیں بڑھارہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہمیں ڈر ہے کہ ہم کسی مصیبت میں نہ پھنس جائیں۔
یہ ہے ولاء کا وہ منافقانہ تعلق جس کے بارے میں کہا گیا کہ مسلمان اپنے ان دشمنوں کے ساتھ ایسا تعلق ہرگز قائم نہ کریں جو ان کے دین کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ایسے تعلقات ایمان کے منافی ہونے کے علاوہ اسلام اور مسلمانوں کے لئے سیاسی اور سماجی طور پر نہایت خطرناک تھے۔ اس سے روکنا بہرحال ضروری تھا اور اب بھی ہے۔

مغالطے کی دوسری بنیاد:

اس مغالطے کی دوسری بنیاد یہ ہے اس تاکیدی تعلیم کو عام غیر مسلموں سے متعلق سمجھ لیا گیا ہے۔ حالانکہ، جیسا کہ گزشتہ آیات سے واضح ہوتا ہے کہ یہ حکم اسلام اور مسلمانوں کے ان دشمنوں کے سلسلے میں ہے، جو اسلام کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کی تدبیروں میں لگے ہوئے ہیں۔ مزید ذیل کی آیت پر غور کیجیے: 
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ بِطَانَۃً مِّن دُونِکُمْ لاَ یَأْلُونَکُمْ خَبَالاً وَدُّواْ مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاء مِنْ أَفْوَاہِہِمْ وَمَا تُخْفِیْ صُدُورُہُمْ أَکْبَرُ ُ قَدْ بَیَّنَّا لَکُمُ الآیَاتِ إِن کُنتُمْ تَعْقِلُونَ۔ ہَاأَنتُمْ أُوْلاء تُحِبُّونَہُمْ وَلاَ یُحِبُّونَکُمْ وَتُؤْمِنُونَ بِالْکِتَابِ کُلِّہِ وَإِذَا لَقُوکُمْ قَالُواْ آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْاْ عَضُّواْ عَلَیْْکُمُ الأَنَامِلَ مِنَ الْغَیْْظِ قُلْ مُوتُواْ بِغَیْْظِکُمْ إِنَّ اللّہَ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ۔إِن تَمْسَسْکُمْ حَسَنَۃٌ تَسُؤْہُمْ وَإِن تُصِبْکُمْ سَیِّءَۃٌ یَفْرَحُواْ بِہَا وَإِن تَصْبِرُواْ وَتَتَّقُواْ لاَ یَضُرُّکُمْ کَیْْدُہُمْ شَیْْئاً إِنَّ اللّہَ بِمَا یَعْمَلُونَ مُحِیْط (آل عمران: ۱۱۸۔۱۱۹)
’’اے ایمان والو! اپنوں کو چھوڑ دوسروں کو خاص رازدار مت بناؤ وہ تم کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ ان کی بڑی خواہش ہے کہ تم برباد ہوجاؤ۔ ان کے منھ سے دشمنی نکلی آرہی ہے اور جو سینہ میں چھپا ہے وہ اس سے بھی زیادہ ہے۔ ہم نے تمہارے لئے اپنے احکام کھول کر بیان کر دیے ہیں اگر تم عقل سے کام لو۔ دیکھو! تم تو ان سے محبت کررہے ہو اور وہ تم سے دشمنی۔ تم تمام آسمانی کتابوں پر ایمان رکھتے ہو، وہ تم سے جب ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے۔ اور جب تنہائی میں ہوتے ہیں تو ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ مارے نفرت اور غصے کے انگلیاں چبانے لگیں۔ کہہ دو: تم اپنے غصہ میں مرجاؤ، اللہ سینوں کے بھید جانتا ہے۔ تم اچھے حال میں ہو تو ان کو برا لگتا ہے، اور نقصان پہنچے تو یہ خوش ہوتے ہیں۔ اور اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو ان کی سازشیں تم کو کچھ نقصان نہیں پہنچاسکتیں۔ جو کچھ یہ کررہے ہیں اللہ اس کو اپنے گھیرے میں لئے ہوئے ہے۔‘‘
ان آیات میں جن دشمنوں کا تذکرہ ہے ان کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ انکے سینوں میں دشمنی کی بھٹیاں ہیں۔ اور ان کی مجلسوں میں مسلمانوں کی بربادیوں کے منصوبے ہیں۔ یہاں جو ’’بطانۃ‘‘ کا لفظ بولا گیا ہے اس کے معنی ایسے خاص رازدار کے ہیں جو ہر معاملے میں دخیل ہو(لسان العرب)۔
ان احکام کی صحیح نوعیت وحقیقت اس سے واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ہجرت کی نہایت رازدارانہ، نازک اور اہم مہم میں ایک غیر مسلم عبد اللہ ابن ارقد کو شریک ورازدار ہی نہیں بنایا بلکہ اس کے اوپر مکمل اعتماد بھی کیا۔ اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ان آیات کا مطلب دشمنوں کو رازدار اور اپنے معاملات میں دخیل بنانے سے روکنا ہے۔ یقیناًنفاق واغراض پرستی کے شکار نام کے مسلمانوں سے زیادہ اعتماد کے لائق شریف اور اصول پسند غیر مسلم ہوتے ہیں۔
اس سلسلے کی سب سے تاکیدی اور مکمل تعلیم سورۂ ممتحنہ میں دی گئی ہے۔ یہ آیات گذر چکی ہیں۔ ایک مرتبہ پھر ان کے آہنگ وانداز پر غور کیجیے :
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ أَوْلِیَاءَ تُلْقُونَ إِلَیْْہِم بِالْمَوَدَّۃِ وَقَدْ کَفَرُوا بِمَا جَاءَ کُم مِّنَ الْحَقِّ یُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِیَّاکُمْ أَن تُؤْمِنُوا بِاللّٰہِ رَبِّکُمْ إِنْ کُنتُمْ خَرَجْتُمْ جِہَاداً فِیْ سَبِیْلِی وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِیْ تُسِرُّونَ إِلَیْْہِم بِالْمَوَدَّۃِ وَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا أَخْفَیْْتُمْ وَمَا أَعْلَنتُمْ وَمَنْ یَفْعَلْہُ مِنکُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِیْل، إِنْ یَثْقَفُوکُمْ یَکُونُوا لَکُمْ أَعْدَاءً وَیَبْسُطُوا إِلَیْْکُمْ أَیْْدِیَہُمْ وَأَلْسِنَتَہُم بِالسُّوءِ وَوَدُّوا لَوْ تَکْفُرُونَ (الممتحنۃ:۱۔۲)
’’اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمن کو ’’ولی‘‘ مت بناؤ، تم ان سے محبت کے رشتے قائم کرتے ہو، اور وہ اس حق کا جو تمہارے پاس آیا ہے انکار کرتے ہیں۔ نکالتے ہیں اللہ کے رسول کو اور تم کو اپنے گھروں سے صرف اس کی پاداش میں کہ تم ایک اللہ پر ایمان لاتے ہو، اگر تم نے میرے راستے میں جہاد کے لئے اور میری رضا حاصل کرنے کے لئے ہجرت کی ہے (تو ہرگز ان کو ولی وہمدم نہ بناؤ) تم چپکے چپکے ان سے محبت کے رشتے قائم کرتے ہو۔ (خبردار) میں تمہارے ڈھکے کھلے سب معاملات سے واقف ہوں۔ اور تم میں جو ایسا کرے گا وہ سیدھے راستے سے ہٹ گیا۔ یہ دشمن ایسے ہیں کہ اگر وہ تم کو پاجائیں اور ان کا بس چلے تو وہ دشمن ہی ثابت ہوں گے اور تم پر حملے کرنے کے لئے ضرور زبان اور دست درازی کریں گے۔ اور ان کی تمنا یہ ہے کہ تم کو کافر بنا ڈالیں۔‘‘
’’کفار کو اولیا بنانے‘‘ کی ممانعت کے سلسلے میں یہ قرآن کی سب سے شدید آہنگ و انداز کی آیات ہیں۔ مگر دیکھیے یہاں بھی عام غیرمسلموں کا ذکر نہیں ہے۔ بلکہ ’’عدوّی وعدوّکم‘‘ کہا گیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ یہ تمہارے ایسے دشمن ہیں جو تمہارے دین اور تمہارے خدا کے بھی دشمن ہیں۔ اور ایسے دشمن کہ صرف دینی دشمنی میں تم کو تمہارے دیس سے نکال ڈالا۔

قرآن کی صراحت کہ یہ احکام کن لوگوں کے بارے میں ہیں:

مزید غور طلب ہے کہ اس موضوع پر قرآن کی اِن سب سے سخت آیات میں،صراحت کے ساتھ یہ وضاحت کردی گئی ہے کہ ’’کفار کو اولیاء بنانے‘‘ کی ممانعت کن ’’کفار‘‘ سے متعلق ہے، اور کون سے غیرمسلم ان آیات کے اطلاق سے باہر ہیں۔ یہاں بتا دیا گیا ہے کہ یہ ممانعت ان عام غیر مسلموں کے بارے میں نہیں ہے جو تمہارے ساتھ امن باہمی اور صلح کا رویہ رکھتے ہیں۔ بلکہ یہ حکم صرف ان کے بارے میں ہے جو تمہارے دشمن ہیں دین کے سلسلے میں اور تم سے برسرپیکار ہیں۔ 
لا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ أَن تَبَرُّوہُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَیْْہِمْ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ إِنَّمَا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِیْنَ قَاتَلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَأَخْرَجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ وَظَاہَرُوا عَلَی إِخْرَاجِکُمْ أَن تَوَلَّوْہُمْ وَمَن یَتَوَلَّہُمْ فَأُوْلَءِکَ ہُمُ الظَّالِمُون۔ (الممتحنۃ ۸۔۹)
’’اللہ تم کو منع نہیں کرتا ان لوگوں سے جنہوں نے دین کی وجہ سے تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تم کو اپنے گھروں سے نہیں نکالا ہے کہ تم ان کے ساتھ حسن سلوک اور انصاف کرو۔ اللہ کو انصاف کا معاملہ کرنے والے پسند ہیں۔ اللہ تو بس ان لوگوں کو ولی بنانے سے منع کرتا ہے جنہوں نے تم سے جنگ کی ہے دین کی وجہ سے (یعنی وہ تمہارے دین کو مٹانا چاہتے ہیں) اور تم کو تمہارے گھروں سے نکال دیاہے اور تمہارے نکالے جانے میں مدد کی ہے، کہ تم ان کو ولی و مددگار بناؤ۔ جو ان کو ولی و مددگار بنائیں گے وہی ظلم کرنے والے ہیں۔‘‘
یہ آیت اس موضوع و مضمون کی ساری آیات کی قطعی وضاحت کی حیثیت رکھتی ہے کہ قرآن میں جن ’’کفار‘‘ سے موالات کے تعلق کو منع کیا گیا ہے ان سے کس قسم کے لوگ مراد ہیں اور کس قسم کے نہیں۔
اس تفصیل سے واضح ہوجاتا ہے کہ ’’ولاء‘‘ کے جس تعلق سے منع کیا گیا ہے اس سے کیا مراد ہے؟ اور یہ بھی صاف ہوجاتا ہے کہ وہ عام غیرمسلم جو مسلمانوں اور اسلام سے دشمنی نہیں رکھتے اور دشمنانہ کارروائیوں میں مصروف نہیں ہیں ان کا ان آیات میں کوئی ذکر نہیں ۔

ایک غلو آمیز بات:

اس تفصیل سے اس غلوآمیز طرز فکر کی بھی نفی ہوجاتی ہے جو مختلف اہل علم کے یہاں نظر آتا ہے، ان کے مقام کے اعتراف کے باوجود یہ کہے بنا چارہ نہیں کہ انہوں نے ان آیات پر مجموعی نظر نہیں کی۔ مثلاً مشہور داعی توحید و مصلح شیخ محمد بن عبدالوہاب فرماتے ہیں:
ان الانسان لا یستقیم لہ اسلام و لو وحد اللہ وترک الشرک إلا بعداوۃ المشرکین۔ (بحوالہ: الولاء و البراء محمد بن سعید القحطانی ۱/۸)
’’کسی انسان کا اسلام اس وقت تک صحیح نہیں ہوسکتا چاہے وہ توحید کا قائل ہو اور شرک کو چھوڑ دے جب تک کہ وہ مشرکین سے دشمنی نہ رکھے۔‘‘
ایک معاصر سعودی عالم ڈاکٹر سہل بن رفاع العتیبی (استاذ العقیدۃ الاسلامیہ والمذاہب المعاصرۃ، جامعۃ الملک سعود ریاض) اپنے نزدیک اس کو ایک معتدل موقف مانتے ہیں کہ ’’اسلام نے غیرمسلم سے محبت (مودت) کو حرام قرار دیا ہے مگر اس کے ساتھ نیکی و حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔ (دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ حضرات پہلے تو مطلقاً غیر مسلم سے محبت کو حرام لکھتے ہیں، پھر انسانی رشتے سے طبعی وفطری محبت کی اجازت بھی دیتے ہیں۔ (کتاب مذکور، ص ۸)۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ حضرات بھی اسی بات کے قائل ہیں کہ ایک غیر مسلم اپنے انسانی اور دیگر قومی یا نسلی رشتہ کی بنیاد پر فطری محبت وتکریم اور ہمدردی کا مستحق ہے، الا یہ کہ وہ اسلام دشمنی یا مسلمانوں سے لڑائی کی بنا پر بغض کا حق دار بنے۔ گویا اصل غلطی کم سے کم بڑی حد تک صرف تعبیر کی ہی ہے۔ (ملاحظہ ہو ان کی کتاب الفرق والبیان بین مودۃ الکافر والاحسان الیہ
ان حضرات کا استدلال ان دو آیتوں سے ہے:
(۱) لَا تَجِدُ قَوْماً یُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ وَلَوْ کَانُوا آبَاء ہُمْ أَوْ أَبْنَاء ہُمْ أَوْ إِخْوَانَہُمْ أَوْ عَشِیْرَتَہُمْ (المجادلۃ: ۲۲)
’’تم نہیں پاؤگے اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والوں کو کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے عناد اور دشمنی کرنے والوں سے محبت کا معاملہ کرتے ہیں، چاہے وہ ان کے باپ بیٹے یا بھائی ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘
(۲) یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ أَوْلِیَاء تُلْقُونَ إِلَیْْہِم بِالْمَوَدَّۃِ وَقَدْ کَفَرُوا بِمَا جَاء کُم مِّنَ الْحَقِّ یُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِیَّاکُمْ أَن تُؤْمِنُوا بِاللَّہِ رَبِّکُمْ (الممتحنۃ: ۱)
’’اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمن کو اپنا ’’ولی‘‘ نہ بناؤ کہ تم ان سے محبت کے رشتے رکھو اور وہ انکار و کفر کریں تمہارے پاس آنے والے حق کا، نکالتے ہیں تم کو (اپنے وطن سے) صرف اس وجہ سے کہ تم ایمان لائے اللہ اپنے رب پر۔‘‘
مگر ذرا سا غور کرنے سے اس استدلال کا بے محل ہونا واضح ہوجاتا ہے۔ دونوں جگہ عام غیرمسلموں کی بات چل ہی نہیں رہی ہے۔ عناد، ظلم، اور جارحیت کے مرتکب دشمن کی بات چل رہی ہے۔ پہلی آیت میں تصریح ہے کہ یہ ان لوگوں سے متعلق ہے جو اللہ اور رسول یعنی ان کے دین سے دشمنی اور جنگ کریں من حاد اللہ و رسولہکا یہی مطلب ہے۔ دوسری آیت میں بھی اللہ اور مسلمانوں کے دشمنوں کی اور جنگ و قتال کرنے والوں کی صراحت ہے۔ لفظی صراحت کے علاوہ سیاق کلام دونوں جگہ اس سلسلے میں اتنا صریح ہے کہ اس سے زیادہ صریح کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ ان صراحتوں سے نظر نہ پھیری جائے تو بات واضح ہے۔
خود قرآن نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کہلا دیا ہے کہ:
قل لا أسألکم علیہ أجراً إلا المودۃ فی القربیٰ۔ (الشوریٰ: ۲۳)
’’کہہ دو! میں تم سے اس (دعوت) کا کوئی بدلہ نہیں مانگتا، مانگتا ہوں تو بس رشتہ داری کی محبت۔‘‘
کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس کا مطلب یہ تھا کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ سلم ان سے یک طرفہ محبت مانگتے تھے۔ اور معاذ اللہ اس کے بدلے میں رشتہ داری کی محبت دینے کے بجائے بغض و عداوت رکھتے تھے؟ 
اور کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواپنی حفاظت کرنے والے چچا ابوطالب سے نفرت اور دشمنی تھی؟ ہرگز نہیں! ابوطالب یقیناًرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم محبوب چچاتھے۔
اس سے بالکل اتفاق ہے کہ اسلام و ایمان کا بنیادی تقاضا شرک و کفر اور ان کے طریقہ و ملت سے اختلاف اور ناپسندیدگی ہے۔ اور کسی مسلمان کے لئے اس کو برحق یا صحیح سمجھنا، یا معاذ اللہ اس سے محبت رکھنا قطعاً اسلام کے منافی ہے۔ مگر یہ بالکل دوسری بات ہے اور اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ ہر غیرمسلم سے چاہے وہ صلح جو اور امن پسند ہو قومی یا عام انسانی رشتے کی محبت رکھنا منع ہو۔بلکہ ان آیات ہی سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جو امن وصلح پسند غیرمسلم تعدی و ظلم کے مرتکب نہ ہوں ان کے ساتھ قرآن اچھے جذبات رکھنے، خیر خواہی کرنے اور بھلائی اور ہمدردی و مدد کا حکم دیتا ہے۔ اس کی ترغیب سورۂ ممتحنہ میں یہ کہہ کر دی گئی ہے کہ: ’’ان اللہ یحب المقسطین‘‘ اللہ انصاف اور عدل کا معاملہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
اوپر شیخ محمد بن عبدالوہاب کی جو عبارت ذکر کی گئی ہے اور جس میں اس ہیچ مداں کو غلو نظر آتا ہے، اس جیسی تعبیر دوسرے نہایت قابل احترام و محبت عالم وداعی شیخ عبدالعزیز ابن بازؒ کے ایک مقالے میں بھی نظر آئی ہے۔یہ مقالہ دراصل سابق شیخ الازہر شیخ جادالحق علی جاد الحق کے ایک مقاملے پر استدراک کے مقصد سے خط کے بطور لکھا گیا تھا۔ شیخ الازہر کے مقالے میں واقعۃً اسلام اور دیگر ادیان کے درمیان باہمی تعاون و اتفاق، بلکہ اشتراک تک کی بات کہی گئی تھی۔ شیخ الازہر کی عبارت پڑھیے:
فنظرۃ المسلمین اذن الی غیرہم من اتباع الیہودیۃ و النصرانیۃ ہی نظرۃ الشریک الی شرکاۂ فی الایمان باللہ والعمل بالرسالۃ الإلٰہیۃ التی لا تختلف فی اصولہا العامۃ۔
’’مسلمان یہودیت اور نصرانیت کے متبعین کو ایمان باللہ اور آسمانی دین میں شریک کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ان کے درمیان اس آسمانی پیغام کے عام اصولوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔‘‘
استغفراللہ۔ یہ یقیناً واقعہ کے خلاف بات تھی، غیرمسلموں کے ساتھ ہرخیر میں تعاون، اور ہمدردی و حسن سلوک کے باوجود دوسرے مذاہب کے ساتھ اسلام اپنے اختلاف کو چھپانے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس وقت یہود اور نصاری کا دین بنیادی طور پر کفر ہے، نہ کہ اسلام کے ساتھ بنیادی اصولوں میں مشترک پیغام۔ شیخ ابن بازؒ نے اس پر استدراک کیا، مگر اس میں ایک غلو آمیز بات (ہمارے نزدیک غلو آمیز بات) کہہ گئے۔ تحریر فرماتے ہیں:
ان اللہ سبحانہ قد اوجب علی المومنین بغض الکفار ومعاداتہم و عدم مودتہم (مجموع فتاویٰ و مقالات، ۸/۹۱)
’’یقیناً اللہ نے اہل ایمان پر کفار سے بغض و دشمنی ضروری قرار دی ہے، اور یہ کہ ان سے محبت نہ رکھی جائے۔‘‘
بہرحال مسئلہ کی یہ تعبیر اس اطلاق کے ساتھ غلط ہے۔ قرآن میں اس کی کوئی دلیل نہیں، بلکہ اس کے خلاف دلیل موجود ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان غلوآمیز تعبیرات کی اصلاح کی جائے۔

مسلمانوں کا اصل ولی صرف مخلص اہل ایمان کو ہونا چاہیے:

دراصل اسلام یہ مطالبہ کرتا ہے کہ جو اللہ کا بندہ انبیاء علیہم السلام کے دین کو برحق جان کر قبول کرے، اور یہ یقین کرے کہ وہی ایک حق کا راستہ ہے جس میں ساری انسانیت کی دنیا اور آخرت میں فلاح ہے، تو اسلام کا اس سے بنیادی مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس حق کے فروغ کے لیے اپنے تن من دھن کو لگانے کا تہیہ کر لے، اور اسی کو اپنا اصل مشن بنا لے۔ انسان جب کسی مقصد کو اپنی زندگی کا مشن بنالیتا ہے اور اس کا عشق اس پر چھاجاتا ہے تو اس کا اپنے مشن کے ساتھیوں سے ایک خاص قسم کا تعاون اور مدد گاری کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔ وہ محبت اور حسن سلوک تو سب سے کرتا ہے مگریگانگت اور دمسازی وہمسازی کا جو تعلق اپنے مشن کے مخلص اور وفادار ساتھیوں سے اس کو ہوتا ہے وہ کسی اور سے ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ مسئلہ اس کے لیے کسی تعلیم وتلقین کا محتاج نہیں ہوتا بلکہ اس کے مشن کا فطری تقاضہ اور اس کے دل کی اندر کی آواز ہوتا ہے۔
مسلمانوں سے بھی اسلام کا اصل مطالبہ یہی ہے کہ وہ ایمان اور مشنری جذبے میں ایسے ہوں کہ ان کا مخلصانہ جد وجہد میں شرکت کا تعلق ان مخلص اہل ایمان سے ہونا چاہیے جو اسلام اور ایمان کی راہ کے مرد میدان ہوں۔ 
إِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّہُ وَرَسُولُہُ وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ الَّذِیْنَ یُقِیْمُونَ الصَّلاَۃَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاۃَ وَہُمْ رَاکِعُون (المائدۃ: ۵۵)
’’تمہارے ولی تو بس اللہ، اس کا رسول اور وہ (حقیقی) ایمان والے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور جو (اللہ کے سامنے) جھکے رہتے ہیں۔‘‘
یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ قرآن کی تعلیم قومیت اور گروہ بندی سے کس قدر دور ہے! اس نے عام مسلمانوں تک کو اِس ولایت کا مستحق نہیں قرار دیا ہے بلکہ تعلیم دی ہے کہ کوشش اس بات کی ہونی چاہیے کہ ایک مسلمان کا یہ ولاء کا تعلق مخلص اور سچے اہل ایمان کے ساتھ ہی ہو۔ ایک اور جگہ اور واضح ہو کر یہ پہلو آگیا ہے اور صاف کہا گیا ہے کہ ایمان واسلام کی راہ میں جد وجہد اور ہجرت ونصرت کی قربانیوں کی راہ میں جو لوگ شریک ہیں وہی تمہارے حقیقی اولیاء ہیں، اور جو لوگ اس درجے کے نہیں وہ نہیں ہیں۔
إِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَہَاجَرُواْ وَجَاہَدُواْ بِأَمْوَالِہِمْ وَأَنفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَالَّذِیْنَ آوَواْ وَّنَصَرُواْ أُوْلَءِکَ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاء بَعْضٍ وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ وَلَمْ یُہَاجِرُواْ مَا لَکُم مِّن وَلاَیَتِہِم مِّن شَیْْءٍ (الانفال:۷۲)
’’جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اللہ کے راستے میں مال اور جان سے مجاہدے اور محنتیں کیں، اور جن لوگوں نے اِن کو (اپنے گھروں میں) بسایا اور ان کی مدد کی (یعنی انصار) یہ لوگ باہم ایک دوسرے کے ولی ہیں۔ اور جن لوگوں نے ہجرت نہیں کی تمہارا ان کے ساتھ ’’ولایت‘‘ کا کوئی تعلق نہیں۔‘‘
الحمد للہ، امید ہے کہ اس تفصیل کے ذریعے اسلام کی ایک اہم تعلیم جس پر براہ راست ایمان اور اللہ ورسول کے ساتھ خلوص ووفا کے رشتے کا دار ومدار ہے پورے طور پر سامنے آگئی ہوگی۔ اور بحمد اللہ یہ بھی امید ہے کہ اس سلسلے میں جو شبہے اور اشکالات ذہنوں میں آتے ہیں اور جنہیں اس زمانے کے مخصوص حالات نے بہت بڑھا دیا ہے، ان کی بھی پوری اطمینان بخش وضاحت ہو گئی ہوگی۔

جہاد ۔ ایک مطالعہ

محمد عمار خان ناصر

تمہید

اسلامی شریعت کی تعبیر وتشریح سے متعلق علمی مباحث میں ’جہاد‘ ایک معرکہ آرا بحث کا عنوان ہے۔ اسلام میں ’جہاد‘ کا تصور، اس کی غرض وغایت اور اس کا بنیادی فلسفہ کیا ہے؟ یہ سوال ان اہم اور نازک ترین سوالات میں سے ہے جن کا جواب بحیثیت مجموعی پورے دین کے حوالے سے ایک متعین زاویہ نگاہ کی تشکیل کرتا اور دین کے اصولی وفروعی اجزا کی تعبیر وتشریح پر نہایت گہرے طور پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اسلام اور تاریخ اسلام کی تفہیم وتعبیر میں اس سوال کے مرکزی اور بنیادی اہمیت حاصل کر لینے کی وجہ بالکل واضح ہے:
واقعاتی لحاظ سے دیکھیے تو اسلام، صفحہ تاریخ پر ’جہاد‘ کے جلو ہی میں رونما ہوا تھا۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے جہاد کے نتیجے میں اسلام کی سیاسی حاکمیت پہلے جزیرۂ عرب پر اور اس کے بعد شام، ایران اور مصر کے علاقوں پر قائم ہوئی اور پھر توسیع سلطنت کا یہی سلسلہ آگے بڑھتا ہوا اندلس، ایشیاے کوچک، وسطی ایشیا اور بعد ازاں جنوبی ایشیا کے علاقوں کو محیط ہوا۔ اسلام کو تاریخی سطح پر دنیا کا ایک بڑا مذہب بنانے میں اس واقعاتی تسلسل کا کردار غیر معمولی ہے اور یہی وجہ ہے کہ تاریخی تناظر میں اسلام کا مطالعہ کرنے والا ہر صاحب فکر جس سوال سے سب سے پہلے دوچار ہوتا ہے، وہ یہی سوال ہے۔
فکری اعتبار سے دیکھیے تو دنیا کا کوئی بھی قانونی نظام، چاہے وہ مذہبی ہو یا سیکولر، اپنے ظاہری ڈھانچے کی تشکیل کے لیے کچھ مابعد الطبیعیاتی تصورات اور پھر ان سے پھوٹنے والے چند اخلاقی اصولوں کا محتاج ہوتا ہے۔ یہ تینوں دائرے چونکہ باہم بالکل مربوط (Interconnected) ہوتے ہیں، اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اسلام کے تصور جہاد کی تعبیر وتشریح کے ساتھ خود اس کے مابعد الطبیعیاتی تصورات اور اخلاقی اصولوں کے ایک بڑے حصے کی تعبیر وتشریح کا سوال بھی وابستہ ہے۔ چنانچہ اس سوال کا کوئی بھی متعین جواب نہ صرف حیات انسانی کے حوالے سے اسلام کے عمومی مزاج اور زاویہ نگاہ کی عکاسی کرے گا، بلکہ اس کا نہایت گہرا تعلق اس بات سے بھی ہوگا کہ اسلام مابعد الطبیعیاتی سطح پر انسانی زندگی کے بارے میں خدا کی اسکیم کی کیا وضاحت کرتا اور انسانی اخلاقیات کے دائرے میں دنیا کے دوسرے گروہوں اور مذاہب کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات کی کیا نوعیت متعین کرتا ہے۔ 
یہ سوال اپنی اسی اہمیت کے باعث ویسے تو اسلامی تاریخ کے ہر دور میں مسلم اور غیر مسلم علمی حلقوں میں مختلف حوالوں سے زیر بحث رہا ہے، تاہم دنیا کے سیاسی حالات اور تہذیبی وقانونی تصورات میں رونما ہونے والے نہایت بنیادی تغیرات نے گزشتہ دو صدیوں میں اس بحث کو ایک نیا رنگ دے دیا ہے اور اسلامی شریعت اور سیرت نبوی سے لے کر اخلاقیات، قانون بین الاقوام اور تاریخ وتہذیب تک، مختلف علمی دائروں سے وابستہ اہل علم اس کی پیچیدگیوں اور الجھنوں سے مسلسل نبرد آزما ہیں۔
’جہاد‘ کے موضوع پر لکھے گئے قدیم وجدید اسلامی لٹریچر کا دقت نظر سے جائزہ لیجیے تو واضح ہوگا کہ اسلام کے تصور جہاد کی تعبیر کا سوال ہر دور میں شریعت کو اپنے مطالعہ وتحقیق کا موضو ع بنانے والے اہل علم کے سامنے رہا ہے اور چودہ صدیوں میں علمی روایت کے ارتقا نے اس ضمن میں قرآن وسنت کے نصوص کی تفہیم وتعبیر کے حوالے سے متنوع زاویہ ہاے نگاہ پیدا کر دیے ہیں:
الف۔ کلاسیکی فقہی ذخیرے میں ’جہاد‘ کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ایک فرع قرار دیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو خدا کی طرف دعوت دینے، کفر وشرک سے اجتناب کی تلقین کرنے اور ان کے تزکیہ و اصلاح کے لیے انبیا کا جو سلسلہ جاری فرمایا، کفار کے ساتھ جہاد بھی اسی کی ایک کڑی اور دعوت الی الحق ہی کی ایک صورت ہے اور امت مسلمہ پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ دنیا کی کافر قوموں کو اسلام کی دعوت دے اور اگر وہ اسے قبول نہ کریں تو ان کے خلاف جہاد کر کے انھیں اپنا محکوم بنا لے۔ 
ب۔ دور جدید میں اہل علم کی بڑی تعداد نے اس تعبیر سے اختلاف کیا ہے۔ ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ کفار کے خلاف جہاد اسلام کی توسیع واشاعت کے لیے نہیں بلکہ محض اس کے دفاع اور دشمنان اسلام کے ظلم وجبر کے خاتمہ کے لیے مشروع کیا گیا تھا۔ ان کی رائے میں قرآن مجید میں جہاد کے تمام احکام خالصتاً دفاعی تناظر میں عہد رسالت اور عہد صحابہ کے ان مخالف اسلام گروہو ں کے بارے میں وارد ہوئے ہیں جو اسلام اور مسلمانوں پر ظلم وتعدی کی ابتدا کے مرتکب ہوئے تھے اور ان کے بارے میں مستقل طور پر معاندانہ پالیسی اختیار کیے ہوئے تھے۔ عہد رسالت اور عہد صحابہ کے جنگی اقدامات کی تعبیر بھی وہ اسی دفاعی زاویہ نگاہ سے کرتے ہیں۔ 
ج۔ عصر حاضر کے ممتاز عالم اور مفکر مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے جہاد سے متعلق اسلامی شریعت کے تصور اور اس کے احکام کی تعبیر وتشریح کو ایک خاص زاویے سے موضوع بحث بنایا ہے۔ ان کا نقطہ نظر اس حوالے سے خاص اہمیت رکھتا ہے کہ انھوں نے فقہا کے روایتی موقف کے مطابق جہاد وقتال کے اس ہدف سے تو اتفاق کیا ہے کہ اس کے ذریعے سے پوری دنیا پر اسلام کی سیاسی حاکمیت قائم کر دی جائے، تاہم اس کی فکری اور فلسفیانہ اساس کے ضمن میں انھوں نے فقہا سے مختلف ایک متبادل تعبیر پیش کی ہے۔ ان کے نزدیک جہاد کے حکم کی نظریاتی اساس ایک مخصوص عقیدہ اور مذہب کی حیثیت سے اسلام کی توسیع نہیں، بلکہ یہ ہے کہ قانون اور نظام کے دائرے میں اسلام کی حاکمیت اور بالادستی پوری دنیا پر قائم کر دی جائے۔ ان کی رائے میں اسلام شخصی اعتقاد اور رسمی عبادت کے دائرے میں تو کفر وشرک کو گوارا کرتا ہے، لیکن کسی ایسے نظام حکومت کا وجود اسے قبول نہیں جس میں خدائی قانون کے علاوہ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کی عمل داری قائم ہو، چنانچہ جہاد کا مقصد یہ ہے کہ تمام فاسد نظاموں کا خا تمہ کر کے اسلام کے مقرر کردہ صالح نظام زندگی کی عمل داری پوری دنیا میں قائم کر دی جائے۔ 
د۔ عصر حاضر ہی کے ایک دوسرے ممتاز عالم اور محقق جناب جاوید احمد غامدی نے مذکورہ آرا کے بنیادی زاویہ نگاہ (Approach) سے اختلاف کرتے ہوئے متذکرہ علمی الجھنوں کو ایک نئے انداز میں حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے نقطہ نظر کا خلاصہ یہ ہے کہ شرعی نصوص میں وارد جہاد وقتال کے احکام دو مختلف نوعیتوں میں تقسیم ہیں: ایک وہ جن میں کسی گروہ کے فتنہ وفساد اور ظلم وتعدی کے خاتمہ کے لیے جہاد کی مشروعیت بیان کی گئی ہے اور دوسرے وہ جن میں اتمام حجت کے بعد منکرین حق کے خلاف قتال کا حکم دیا گیا ہے۔ ان میں سے فتنہ وفساد کے خاتمے کے لیے دیے جانے احکام کا تعلق تو دین وشریعت کے عمومی اور ابدی دائرے سے ہے جبکہ اسلام قبول نہ کرنے والے کفار کے خلاف تلوار اٹھانے کا حکم اللہ تعالیٰ کے قانون اتمام حجت پر مبنی اور انھی گروہوں تک محدود ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف صریحاً اس کی اجازت دی گئی ہو۔ اس نقطہ نظر میں عہد رسالت وعہد صحابہ کے جنگی اقدامات کو کلیتاً دفع فساد کے اصول پر مبنی قرار دینے کے بجائے ان کی توجیہ اللہ تعالیٰ کے قانون اتمام حجت کی روشنی میں کی گئی ہے۔ 
زیر بحث سوال اور اس سے متعلق مختلف توجیہات پر مبنی اس پورے علمی لٹریچر کا سنجیدہ علمی مطالعہ بجائے خود دلچسپ او ر مفید ہونے کے ساتھ ساتھ معاصر فکری تناظر میں دین کی تعبیر وتشریح کے حوالے سے بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ آئندہ صفحات میں ہم نے جہاد سے متعلق قرآن وحدیث کے نصوص اور ان کی تعبیر کے ضمن میں پیش کیے جانے والے مذکورہ نقطہ ہاے نگاہ کے تجزیاتی وتنقیدی مطالعے کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ 

عہد نبوی وعہد صحابہ میں جہاد وقتال کی نوعیت

قرآن وسنت کے نصوص سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیرو اہل ایمان کو عہد نبوی کے معروضی حالات کے تناظر میں جہاد وقتال کا حکم دو طرح کے مقاصد کے تحت دیا گیا: ایک اہل کفر کے فتنہ وفساد اور اہل ایمان پر ان کے ظلم وعدوان کا مقابلہ کرنے کے لیے اور دوسرے کفر وشرک کا خاتمہ اور باطل ادیان کے مقابلے میں اسلام کا غلبہ اور سربلندی قائم کرنے کے لیے۔ 
پہلے مقصد کے تحت قتال کی تفصیل حسب ذیل نصوص میں بیان کی گئی ہے:
أُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُوْنَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوْا وَإِنَّ اللّٰہَ عَلَی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرٌ ۔ الَّذِیْنَ أُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ بِغَیْْرِ حَقٍّ إِلَّا أَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَہُم بِبَعْضٍ لَّہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّصَلَوَاتٌ وَّمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیْہَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْراً وَّلَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہُ إِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ (الحج ۲۲: ۳۹، ۴۰)
’’جن اہل ایمان کے ساتھ جنگ کی جاتی ہے، انہیں اجازت دی جاتی ہے (کہ وہ بھی لڑائی کریں) کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا اور بے شک اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ناحق ان کے گھروں سے نکال دیا گیا، محض اس جرم میں کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب صرف اللہ ہے۔ اور اگر اللہ ایک گروہ (کے ظلم وعدوان کو) دوسرے گروہ کے ذریعے سے دفع نہ کرے تو خانقاہوں، گرجوں، کنیسوں اور مسجدوں جیسے مقامات، جن میں اللہ کو کثرت سے یاد کیا جاتا ہے، گرا دیے جاتے۔ اور جو لوگ اللہ کی مدد کریں گے، اللہ ضرور ان کی مدد کرے گا۔ بے شک اللہ بہت قوت والا نہایت غالب ہے‘‘ ۔
سورۃ النساء میں فرمایا ہے:
وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُولُوْنَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ ہٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ أَہْلُہَا وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنکَ وَلِیّاً وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْراً (النساء ۴:۷۵)
’’تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کے راستے میں اور کفار کی چیرہ دستی کا شکار ان مردوں ، عورتوں اور بچوں کو چھڑانے کے لیے قتال نہیں کرتے جو یہ دعائیں مانگتے ہیں کہ یا اللہ، ہمیں اس بستی سے نکال جس کے رہنے والے ظالم ہیں اور اپنی جناب سے ہمارے لیے کوئی مددگار اور اپنے پاس سے ہمارے لیے کوئی حامی بھیج دے۔‘‘
سورۂ انفال میں ارشاد ہوا ہے:
وَإِنِ اسْتَنْصَرُوْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ فَعَلَیْْکُمُ النَّصْرُ إِلاَّ عَلَی قَوْمٍ بَیْْنَکُمْ وَبَیْْنَہُمْ مِّیْثَاقٌ وَّاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ ۔ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاءُ بَعْضٍ إِلاَّ تَفْعَلُوْہُ تَکُنْ فِتْنَۃٌ فِی الأَرْضِ وَفَسَادٌ کَبِیْرٌ (الانفال ۸: ۷۲، ۷۳)
’’اور اگر وہ دین کے معاملے میں تم سے مدد مانگیں تو تم پر ان کی مدد کرنا لازم ہے، سوائے اس صورت کے کہ وہ کسی ایسی قوم کے خلاف مدد مانگیں جس کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اسے خوب دیکھ رہا ہے۔ اور جن لوگوں نے کفر کیا، وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ اگر تم (ان کے مقابلے میں) اہل ایمان کی مدد نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بہت بڑا فساد پھیل جائے گا۔‘‘
ان نصوص کا حاصل یہ ہے کہ کفار کے جو گروہ موں پر کسی بھی نوعیت کے ظلم وستم اور جارحیت کا ارتکاب کریں اور بالخصوص عقیدہ ومذہب کے انتخاب واختیار کے معاملے میں ان کی آزادی ان سے چھیننے کی کوشش کریں، ان کے خلاف تلوار اٹھانا نہ صرف جائز ہے بلکہ قوت واستطاعت اور حالات کی موافقت اور جنگ کے اخلاقی اصولوں کی پاسداری کی شرط کے ساتھ ایک اخلاقی فریضے کی حیثیت رکھتا ہے۔ 
جہاد کا دوسرا مقصد یعنی کفر وشرک کا خاتمہ اور اسلام کی سربلندی کا قیام درج ذیل نصوص میں بیان ہوا ہے:
وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لاَ تَکُونَ فِتْنَۃٌ وَیَکُونَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ (البقرہ ۲:۱۹۳)
’’اور ان کے ساتھ جنگ کرو یہاں تک فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ ہی کے لیے ہو جائے۔‘‘
مذکورہ آیت ہجرت مدینہ کے بعد جہاد کے حوالے سے دی جانے والی ہدایات کے بالکل ابتدائی دور سے تعلق رکھتی ہے اور اس میں کفار کے فتنہ وفساد کو خدا کے دین کی سربلندی کی راہ میں ایک رکاوٹ قرار دیتے ہوئے یہ حکم دیا گیا ہے کہ کفار کے ساتھ قتال کیا جائے تاکہ فتنہ ختم ہو سکے اور خدا کا دین سربلند ہو جائے۔ 
عہد نبوی میں جہاد وقتال کے آخری مراحل میں دین حق کو قبول نہ کرنے والے گروہوں کے حوالے سے متعین احکام سورۂ توبہ میں بیان کیے گئے ہیں۔ مشرکین عرب کے بارے میں ارشاد ہوا ہے:
فَإِذَا انسَلَخَ الأَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُواْ الْمُشْرِکِیْنَ حَیْْثُ وَجَدتُّمُوہُمْ وَخُذُوہُمْ وَاحْصُرُوہُمْ وَاقْعُدُواْ لَہُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ فَإِن تَابُوْا وَأَقَامُوا الصَّلاَۃَ وَآتَوُا الزَّکَاۃَ فَخَلُّوا سَبِیْلَہُمْ إِنَّ اللّٰہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ (التوبہ ۹: ۵)
’’پھر جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ، قتل کر ڈالو اور ان کو پکڑو اور گھیرو اور ہر جگہ ان کی تاک میں بیٹھو۔ پھر اگر یہ شرک سے تائب ہو جائیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔ بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
اہل کتاب کے حوالے سے فرمایا گیا کہ:
قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُونَ بِاللّٰہِ وَلاَ بِالْیَوْمِ الآخِرِ وَلاَ یُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ وَلاَ یَدِیْنُونَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ حَتَّی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَہُمْ صَاغِرُونَ (التوبہ ۹: ۲۹)
’’ان اہل کتاب کے ساتھ جنگ کرو جو نہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، نہ اللہ اور اس کے رسول کی حرام کردہ چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں اور نہ دین حق کی پیروی قبول کرتے ہیں۔ (ان کے ساتھ جنگ کرو) یہاں تک کہ یہ تمہارے مطیع بن کر ذلت اور پستی کی حالت میں جزیہ دینے پر آمادہ ہو جائیں۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ سلم کا ارشاد ہے:
امرت ان اقاتل الناس حتی یشہدوا ان لا الہ الا اللہ وان محمدا رسول اللہ ویقیموا الصلاۃ ویوتوا الزکاۃ فاذا فعلوا ذلک عصموا منی دماء ہم واموالہم الا بحق الاسلام وحسابہم علی اللہ (بخاری، رقم ۲۴)
’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک لوگوں سے قتال کروں جب تک کہ وہ ’لا الٰہ الا اللہ‘ اور ’محمد رسول اللہ‘ کا اقرار نہ کر لیں اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی پابندی قبول نہ کر لیں۔ پھر جب وہ ایسا کر لیں تو اسلام کے عائد کردہ کسی حق کے علاوہ وہ اپنی جانوں اور مال کو مجھ سے محفوظ کر لیں گے اور ان کا حساب اللہ کے سپرد ہوگا۔‘‘
ان نصوص کا مدعا یہ ہے کہ کفرو شرک کا ارتکاب کرنے والے گروہوں کے خلاف قتال کا فریضہ انجام دیا جائے تاکہ وہ یا تو دائرۂ اسلام میں داخل ہو جائیں اور یا ان کی سیاسی خود مختاری کا خاتمہ کر کے اہل اسلام کو اہل کفر پر بالادست اور دین حق کو باطل ادیان پر غالب کر دیا جائے۔ 
یہ نصوص اپنے ظاہر کے لحاظ سے اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جہاد وقتال کا جو حکم دیا گیا، وہ اپنے ہدف کے لحاظ سے مخالف گروہوں کے فتنہ وفساد کو فرو کرنے اور اہل ایمان کو ان کے ظلم وتعدی سے بچانے تک محدود نہیں تھا، بلکہ خالص اعتقادی تناظر میں، کفر وشرک کا خاتمہ یا اہل کفر کو مسلمانوں کا محکوم بنانا بھی اس کے اہداف ومقاصد میں شامل تھا۔ کلاسیکی علمی روایت میں مذکورہ دونوں طرح کے نصوص کو جہاد کے دو الگ الگ اور مستقل بالذات مقاصد ہی کا بیان قرار دیا گیا ہے، تاہم دور جدید میں بہت سے اہل علم نے اس رائے سے اختلاف کیا ہے۔ ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ جہاد اسلام کی توسیع واشاعت کے لیے نہیں بلکہ محض اس کے دفاع اور دشمنان اسلام کے ظلم وجبر کے خاتمہ کے لیے مشروع کیا گیا تھا اور قرآن مجید میں جہاد کے تمام احکام اسی مخصوص تناظر میں عہد رسالت اور عہد صحابہ کے اسلام دشمن گروہوں کے بارے میں وارد ہوئے ہیں۔ اس نقطہ نظر کی رو سے جن نصوص میں کفار ومشرکین کو قتل کرنے یا محکوم بنا کر ان پرجزیہ عائد کرنے کا ذکر ہوا ہے، ان کو انھی کفار سے متعلق سمجھنا چاہیے جو اسلام اور مسلمانوں پر ظلم وتعدی کی ابتدا کے مرتکب ہوئے تھے اور ان کے بارے میں مستقل طور پر معاندانہ روش اختیار کیے ہوئے تھے۔ گویا اگر یہ اہل کفر مسلمانوں کے لیے اپنے مذہب پر قائم رہنے کا حق کھلے دل سے تسلیم کر لیتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ان کے کفر وشرک سے کوئی سروکار نہ ہوتا اور آپ عقیدہ ومذہب کی بنیاد پر ان سے کسی قسم کا کوئی تعرض کیے بغیر ان کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کا راستہ اختیار کر لیتے۔ (اس نقطہ نظر کے حق میں جو استدلالات پیش کیے گئے ہیں، آگے چل کر ہم ان کا تفصیلی جائزہ لیں گے۔)
ہماری راے میں اس نقطہ نظر کوقبول کرنا اس کے بغیر ممکن نہیں کہ قرآن مجید کے نصوص میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے پس منظر، اس کے مقصد اور اس مقصد کے حصول کی حکمت عملی کے حوالے سے جو پوری اسکیم بیان ہوئی ہے، اس کو کلیتاً نظر انداز کر دیا جائے۔ قرآن مجید کی رو سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت، سیدنا ابراہیم اور سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی دعا کے مطابق، بنی اسماعیل کے تزکیہ وتطہیر اور انھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دینے کے لیے ہوئی تھی۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنی ذریت کو حجاز کے علاقے میں آباد کیا تھا اور ان سے توحید پر قائم رہنے اور شرک سے اجتناب کا عہد لے کر بیت الحرام کی تولیت اور دربانی کے فرائض ان کے سپرد فرمائے تھے۔ سورۂ بقرہ میں ہے:
وَإِذِ ابْتَلَی إِبْرَاہِیْمَ رَبُّہُ بِکَلِمَاتٍ فَأَتَمَّہُنَّ قَالَ إِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَاماً قَالَ وَمِن ذُرِّیَّتِیْ قَالَ لاَ یَنَالُ عَہْدِیْ الظَّالِمِیْنَ ۔ وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَیْْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَأَمْناً وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاہِیْمَ مُصَلًّی وَعَہِدْنَا إِلَی إِبْرَاہِیْمَ وَإِسْمَاعِیْلَ أَن طَہِّرَا بَیْْتِیَ لِلطَّاءِفِیْنَ وَالْعَاکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُودِ...... وَمَن یَرْغَبُ عَن مِّلَّۃِ إِبْرَاہِیْمَ إِلاَّ مَنْ سَفِہَ نَفْسَہُ وَلَقَدِ اصْطَفَیْْنَاہُ فِی الدُّنْیَا وَإِنَّہُ فِی الآخِرَۃِ لَمِنَ الصَّالِحِیْنَ ۔ إِذْ قَالَ لَہُ رَبُّہُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ ۔ وَوَصَّی بِہَا إِبْرَاہِیْمُ بَنِیْہِ وَیَعْقُوبُ یَا بَنِیَّ إِنَّ اللّٰہَ اصْطَفَی لَکُمُ الدِّیْنَ فَلاَ تَمُوتُنَّ إَلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ (البقرہ ۲:۱۲۴-۱۳۲)
’’اور جب ابراہیم کے رب نے چند باتوں میں اس کو آزمایا تو اس نے ان کو پورا کر دکھایا۔ اللہ نے کہا کہ میں تمھیں لوگوں کا پیشوا بناؤں گا۔ ابراہیم نے کہا کہ میری اولاد میں سے بھی (پیشوا بنانا)۔ اللہ نے کہا کہ میرے اس وعدے میں ظالم شامل نہیں ہوں گے۔ اور جب ہم نے کعبہ کو لوگوں کے لیے جمع ہونے اور امن پانے کی جگہ مقرر کیا اور (حکم دیا کہ) ابراہیم کی جائے سکونت کو نماز کی جگہ بنا لو۔ اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو تاکید کی کہ میرے گھر کو طواف اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع وسجو د کرنے والوں کے لیے (شرک سے) پاک رکھنا۔ ...... اور ابراہیم کے دین سے کون رو گردانی کر سکتا ہے سوائے اس کے جو نادان ہو۔ ہم نے اس کو دنیا میں بھی منتخب کیا اور آخرت میں بھی وہ نیک لوگوں کے زمرے میں ہوگا۔ جب اس کے پروردگار نے اس سے کہا کہ فرماں برداری اختیار کر لو تو اس نے کہا کہ میں رب العالمین کے سامنے سر اطاعت خم کرتا ہوں۔ اور ابراہیم نے بھی اپنے بیٹوں کو اسی کی وصیت کی اور یعقوب نے بھی کہ اے میرے بیٹو! اللہ نے تمھارے لیے یہی دین پسند فرمایا ہے، اس لیے مرتے دم تک اسی کے فرماں بردار رہنا۔‘‘
سورۂ ابراہیم میں ہے:
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ ہَذَا الْبَلَدَ آمِناً وَّاجْنُبْنِیْ وَبَنِیَّ أَنْ نَّعْبُدَ الأَصْنَامَ ۔ رَبِّ إِنَّہُنَّ أَضْلَلْنَ کَثِیْراً مِّنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَإِنَّہُ مِنِّیْ وَمَنْ عَصَانِیْ فَإِنَّکَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ ۔ رَّبَّنَا إِنِّیْ أَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلاَۃَ فَاجْعَلْ أَفْءِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہْوِیْ إِلَیْْہِمْ وَارْزُقْہُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّہُمْ یَشْکُرُونَ (ابراہیم ۱۴:۳۵-۳۷)
’’اور جب ابراہیم نے دعا کی کہ میرے پروردگار! اس شہر کو امن کی جگہ بنا دے اور مجھے او ر میری اولاد کو اس بات سے بچائے رکھ کہ ہم بتوں کی پرستش کرنے لگیں۔ اے پروردگار! ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ہے۔ سو جوشخص نے میری پیروی کی، وہ میرا ہے اور جس نے میری نافرمانی کی تو تو بخشنے والا مہربان ہے۔ اے ہمارے پروردگار! میں نے اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس ایک ایسی وادی میں بسایا ہے جہاں کوئی کھیتی نہیں تاکہ اے پروردگار، یہ نماز قائم کریں۔ سو تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے اور انھیں پھلوں سے روزی دے تاکہ یہ شکر ادا کریں۔ ‘‘
بنی اسماعیل اپنی تاریخ کے بیشتر حصے میں اصل ملت پر قائم رہے، تاہم رفتہ رفتہ ان میں انحراف پیدا ہوتا گیا اور شرک وبدعت ان کے مابعد الطبیعیاتی تصورات، مناسک عبادت اور معاشرتی رسم ورواج میں سرایت کرتے چلے گئے اور توحید خالص کا مرکز یعنی بیت الحرام ’شرک‘ کا گڑھ بن کر رہ گیا۔ سیدنا ابراہیم اور سیدنا اسماعیل علیہما السلام کی دعا کے مطابق چھٹی صدی عیسوی کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ مکرمہ میں مبعوث کیا تو ملت ابراہیمی کی اصل تعلیمات کے احیا اور مشرکانہ بدعات کے خاتمے کو آپ کی جدوجہد کا ہدف قرار دیا۔ قرآن نے واضح کیا کہ آپ عام معنوں میں کوئی داعی، واعظ اور مبلغ نہیں، بلکہ خدا کے رسول اور اس کے آخری پیغمبر ہیں، چنانچہ خداکے قانون کے مطابق آپ کی جدوجہد کا کامیابی سے ہم کنار ہونا اور جزیرۂ عرب میں خدا کے دین کا غلبہ قائم ہونا ایک طے شدہ فیصلہ ہے جو اہل کفر کی خواہشات، کوششوں اور سازشوں کے علی الرغم قائم ہو کر رہے گا:
ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ (التوبہ ۹:۳۳)
’’اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے تاکہ اسے سارے دینوں پر غالب کر دے، چاہے مشرکوں کو یہ بات کتنی ہی ناپسند ہو۔‘‘
دین کا یہ غلبہ، ظاہر ہے کہ منکرین حق کے خلاف قائم کیا جانا تھااور اس کی عملی صورت یہ تھی کہ بیت اللہ کو مشرکین کے قبضہ وتصرف سے آزاد کرا کے دوبارہ توحید خالص کا مرکز بنا دیا جائے اور اسلام کے علاوہ کوئی دوسرا دین سرزمین عرب میں غالب اور سربلند نہ رہے۔ اس ہدف کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ’قتال‘ کاناگزیر ہونا تاریخ وسیرت سے واقف ہر شخص پر واضح ہے اور قرآن مجید میں کفار کے خلاف جہاد وقتال کے احکام، جیسا کہ ہم ابھی واضح کریں گے، اسی تناظر میں وارد ہوئے ہیں۔ چنانچہ دیکھیے:
بیت اللہ پر اس وقت مشرکین قریش قابض ومتصرف تھے اور نہ صرف یہ کہ دعوت توحید کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، بلکہ انھوں نے توحید پر ایمان رکھنے کی پاداش میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ پر ایمان لانے والے لوگوں پر ظلم وستم اور ایذا رسانی کا سلسلہ بھی شروع کررکھا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس صورت حال میں بیت اللہ کو شرک سے پاک کر کے دوبارہ توحید کا مرکز بنا دینا اس کے بغیر ممکن نہیں تھا کہ مشرکین کے خلاف تلوار اٹھائی جائے اور ان کے غلبہ وتسلط کو طاقت کے زور پر ختم کر دیا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر سرداران قریش کو اس حقیقت پر ان الفاظ میں متنبہ کیا کہ:
اتسمعون یا معشر قریش اما والذی نفسی بیدہ لقد جئتکم بالذبح (ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ ۱/۲۷۴)
’’اے گروہ قریش! کیا تم سن رہے ہو؟ یاد رکھو، خدا کی قسم! میں تمھارے لیے ذبح کا انجام لے کر آیا ہوں۔‘‘
ایک دوسرے موقع پر ابوجہل نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پیغام کو یوں بیان کیا کہ:
ان محمدا یزعم انکم ان تابعتموہ علی امرہ کنتم ملوک العرب والعجم ....وان لم تفعلوہ کان لہ فیکم ذبح (السیرۃ النبویۃ، ۱/۴۳۶)
’’محمد کا دعویٰ ہے کہ اگر تم نے اس کے دین کی پیروی کی تو تم عرب وعجم کے حکمران بن جاؤ گے، لیکن اگر ایسا نہ کیا تو اس کے ہاتھوں تمھاری خوں ریزی ہوگی۔‘‘
تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیروکاروں کو مکہ مکرمہ میں اس کی اجازت نہیں دی گئی جس کی وجہ یہ ہے کہ کسی آزاد اور خود مختار علاقے میں ایک باقاعدہ نظم اجتماعی کے تحت اپنی سیاسی وحربی طاقت کو مجتمع کیے بغیر یہ مقصد حاصل کرنا ممکن نہیں تھا، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ہدایت کی گئی کہ حق کا غلبہ باطل پر بزور قوت قائم کر دینے کے لیے انھیں جس حکومت واقتدار کی ضرورت ہے، اس کے حصول کے لیے وہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتے رہیں:
وَقُل رَّبِّ أَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَل لِّیْ مِن لَّدُنکَ سُلْطَاناً نَّصِیْراً ۔ وَقُلْ جَاء الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَہُوقاً (بنی اسرائیل ۱۷:۸۰، ۸۱)
’’اور دعا کرو کہ اے پروردگار! مجھے عزت واکرام کے ساتھ داخل کر اور (مکہ سے) خیر وخوبی کے ساتھ نکال اور مجھے اپنے پاس سے ایسا اقتدار نصیب فرما جو مددگار ہو۔ اور کہہ دو کہ حق آ گیا اور باطل نابود ہو گیا، کیونکہ باطل کے لیے نابود ہوناہی مقدر ہے۔‘‘
اسی دعا کی روشنی میں آپ مسلمانوں کے لیے کوئی جاے پناہ اور مرکز مہیا کرنے کی غرض سے ہر سال موسم حج میں حج کے لیے آنے والے مختلف قبیلوں کے پاس جاتے، اپنے آپ کو ان پر پیش کر کے جاے پناہ فراہم کرنے کا مطالبہ کرتے اور انھیں بتاتے کہ اس دین کا غلبہ قائم ہو کر رہے گا، اس لیے وہ آگے بڑھ کر اس کے انصار بننے کی سعادت حاصل کر لیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ نے اس سلسلے میں بنو عامر سے گفتگو کی تو ان کے سردار نے کہا:
ارایت ان نحن بایعناک علی امرک ثم اظہرک اللہ علی من خالفک ایکون لنا الامر من بعدک؟ قال الامر الی اللہ یضعہ حیث یشاء قال فقال لہ افتہدف نحورنا للعرب دونک فاذا اظہرک اللہ کان الامر لغیرنا! لا حاجۃ لنا بامرک (السیرۃ النبویۃ ۱/۳۸۷)
’’یہ بتائیں کہ اگر ہم آپ کے دین کے معاملے میں آپ کی بیعت کر لیں اور پھر اللہ آپ کے مخالفوں پر آپ کو غلبہ عطا کر دے تو کیا آپ کے بعد اقتدار ہمیں ملے گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا اختیار اللہ کے پاس ہے، وہ جس کو چاہے گا اقتدار دے گا۔ اس پر بنو عامر کے سردار نے کہا کہ اچھا، آپ کے دفاع میں عربوں کے سامنے سینہ سپر تو ہم ہوں اور پھر جب اللہ آپ کو غالب کر دے تو اقتدار کسی اور کو مل جائے! ہمیں آپ کے دین کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
اللہ کے حکم سے آپ کا مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنا اسی مقصد کے لیے تھا۔ چنانچہ انصار مدینہ کے اسلام قبول کرنے پر جب آپ نے ان سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ اپنے شہر میں مسلمانوں کے لیے ایک جاے پناہ اورمرکز فراہم کریں تو انھوں نے سوال کیا کہ:
یا رسول اللہ ان بیننا وبین الرجال حبالا وانا قاطعوہا یعنی الیہود فہل عسیت ان نحن فعلنا ذلک ثم اظہرک اللہ ان ترجع الی قومک وتدعنا؟ (السیرۃ النبویۃ، ۱/۴۰۲)
’’یا رسول اللہ! ہمارے اور یہود کے مابین تعلقات ہیں جنھیں (آپ کا ساتھ دینے کے لیے) ہم توڑ دیں گے، لیکن کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ ہم یہ کر لیں اور پھر اللہ آپ کو (قریش پر) غلبہ عطا کر دے تو آپ ہمیں چھوڑ کر واپس اپنی قوم کے پاس چلے جائیں؟‘‘
مدینہ میں مسلمانوں کو ایک محفوظ جائے پناہ میسر آ گئی اور وہ ہجرت کر کے وہاں مجتمع ہونا شرو ع ہو گئے تو سورۂ حج کی آیت ۳۹ میں اللہ تعالیٰ نے انھیں مشرکین مکہ کے خلاف قتال کی باقاعدہ اجازت دے دی :
أُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللّٰہَ عَلَی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرٌ، الَّذِیْنَ أُخْرِجُوا مِن دِیَارِہِمْ بِغَیْْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن یَقُولُوا رَبُّنَا اللّٰہُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَہُم بِبَعْضٍ لَّہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیْہَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْراً وَلَیَنصُرَنَّ اللّٰہُ مَن یَنصُرُہُ إِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ، الَّذِیْنَ إِن مَّکَّنَّاہُمْ فِیْ الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَآتَوُا الزَّکَاۃَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنکَرِ وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْأُمُورِ (الحج ۲۲:۳۹، ۴۱)
’’جن اہل ایمان کے ساتھ جنگ کی جاتی ہے، انہیں اجازت دی جاتی ہے (کہ وہ بھی لڑائی کریں) کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا اور بے شک اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ناحق ان کے گھروں سے نکال دیا گیا، محض اس جرم میں کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب صرف اللہ ہے۔ اور اگر اللہ ایک گروہ (کے ظلم وعدوان کو) دوسرے گروہ کے ذریعے سے دفع نہ کرے تو خانقاہوں، گرجوں، کنیسوں اور مسجدوں جیسے مقامات، جن میں اللہ کو کثرت سے یاد کیا جاتا ہے، گرا دیے جاتے۔ اور جو لوگ اللہ کی مدد کریں گے، اللہ ضرور ان کی مدد کرے گا۔ بے شک اللہ بہت قوت والا نہایت غالب ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اگر ہم اس سرزمین میں اقتدار دیں گے تو وہ نماز قائم کرین گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم کریں گے اور برائی سے روکیں گے۔ اور معاملات کا انجام اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔‘‘
سورۂ حج میں یہ اجازت جس سلسلہ بیان میں آئی ہے، اس کا آغاز اس آیت سے ہوتا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَیَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِیْ جَعَلْنَاہُ لِلنَّاسِ سَوَآءًنِ الْعَاکِفُ فِیْہِ وَالْبَادِ وَمَنْ یُّرِدْ فِیْہِ بِاِلْحَادٍم بِظُلْمٍ نُّذِقْہُ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ (الحج ۲۲:۲۶)
’’جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکنے لگے اور اس حرمت والی مسجد سے بھی جسے ہم نے تمام لوگوں کے لیے مساوی کر دیا ہے، وہیں کے رہنے والے ہوں یا باہر کے ہوں، جو بھی ظلم کے ساتھ وہاں الحاد کا ارادہ کرے، ہم اسے دردناک عذاب چکھائیں گے۔‘‘
اس کے بعد مشرکین کے الحاد اور کفر کو واضح کرنے کے لیے آیت ۲۶ سے ۳۸ تک بیت اللہ کی ابتدائی تاریخ اور اس کی تعمیر کے اصل مقصد کو واضح کیا گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس گھر کے لیے جگہ خود متعین فرما کر حضرت ابراہیم کو اس کی تعمیر کا حکم دیا اور انھیں اس کا متولی بنا کر ہدایت کی کہ وہ اس کو خداے واحد کی عبادت کرنے والوں کے لیے کفر وشرک کی آلودگیوں سے پاک رکھیں۔ اسی ضمن میں قربانی کی رسم کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ملت ابراہیمی میں قربانی صرف اللہ کے نام پر مشروع کی گئی تھی اور اس کے پیروکاروں سے کہا گیا تھا کہ وہ خداے واحد ہی کے حضور قربانی گزرانیں اور اصنام واوثان کی نجاست سے دور رہیں۔ اس کے بعد آیت ۳۹ میں فرمایا گیا ہے کہ چونکہ مشرکین نے ملت ابراہیمی کے اصل پیروکاروں یعنی اہل ایمان کو محض اس وجہ سے مکہ مکرمہ سے نکال دیا ہے کہ وہ توحید کے قائل ہیں، اس لیے انھیں اجازت ہے کہ اس ظلم کا بدلہ لینے کے لیے مشرکین سے جہاد کریں۔ قرآن نے یہاں ’ولینصرن اللہ من ینصرہ‘ کے الفاظ سے واضح کیا ہے کہ اس قتال کا مقصد محض مسلمانوں پرہونے والے ظلم کا بدلہ لینا نہیں، بلکہ خدا کے دین کی نصرت کرنا بھی تھا جس کی عملی صورت یہ تھی کہ بیت اللہ کو مشرکین کے تسلط سے آزاد کرا کے اسے ملت ابراہیمی کی روایات کے مطابق خالص توحید کا مرکز بنانے کے لیے قتال کیا جائے۔ ابن عباس بیان کرتے ہیں:
لما اخرج النبی صلی اللہ علیہ وسلم من مکۃ قال ابوبکر اخرجوا نبیہم لیہلکن فانزل اللہ تعالیٰ اذن للذین یقاتلون بانہم ظلموا وان اللہ علی نصرہم لقدیر فقال ابوبکر لقد علمت انہ سیکون قتال (ترمذی، رقم ۳۰۹۵)
’’جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے نکلنے پرمجبور کر دیا گیا تو ابوبکر نے کہا کہ اہل مکہ نے اپنے نبی کو نکال دیا ہے، اب یہ ضرور ہلاک ہو کر رہیں گے۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ: اذن للذین یقاتلون بانہم ظلموا وان اللہ علی نصرہم لقدیر تو ابوبکر نے کہا کہ میں نے جان لیا ہے کہ (قریش کو سزا دینے کے لیے) قتال ہوگا۔‘‘
دوسرے مقام پر قرآن نے واضح کیا ہے کہ قریش سے عرب کا اقتدار چھین کر اہل ایمان کے سپرد کیے جانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ جزیرۂ عرب میں شرک کے بجاے توحید غالب ہو اور خدا کا پسندیدہ دین یہاں متمکن ہو جائے:
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا مِنکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُم فِیْ الْأَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِیْ ارْتَضَی لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُم مِّن بَعْدِ خَوْفِہِمْ أَمْناً یَعْبُدُونَنِیْ لَا یُشْرِکُونَ بِیْ شَیْْئاً وَمَن کَفَرَ بَعْدَ ذَلِکَ فَأُوْلَءِکَ ہُمُ الْفَاسِقُونَ (النور ۲۴:۵۵)
’’اللہ نے تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے، وعدہ کیا ہے کہ وہ ہرحال میں انھیں اس سرزمین میں اسی طرح اقتدار عطا کرے گا جیسے ان سے پہلے لوگوں کو عطا کیا اور ان کے لیے ان کے دین کو لازماً مستحکم کر دے گا جسے اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے اور ان کے خوف کو یقیناًامن سے بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے اور کسی کو میرے ساتھ شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور جو اس کے بعد بھی انکار کریں تو وہی بدکار ہیں۔‘‘
قتال کی اجازت ملنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار مدینہ سے عقبہ اخیرہ کی بیعت لی تو اس کا یہ مفہوم انصار اور اہل مکہ، دونوں پر بالکل واضح تھا کہ یہ درحقیقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کفار کے خلاف برسرجنگ ہونے کی تمہید ہے۔ بیعت کے موقع پر عباس بن عبادہ نے انصار سے مخاطب ہو کر کہا:
یا معشر الخزرج ہل تدرون علام تبایعون ہذا الرجل؟ قالوا نعم قال انکم تبایعونہ علی حرب الاحمر والاسود من الناس (ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۱/۴۰۵)
’’اے گروہ خزرج! کیا تم جانتے ہوکہ تم اس آدمی کے ہاتھ پر کس چیز کی بیعت کر رہے ہو؟ انھوں نے کہا ، ہاں۔ عباس نے کہا کہ تم اس کے ساتھ (عرب کے) سارے لوگوں کے ساتھ جنگ کرنے کی بیعت کر رہے ہو۔‘‘
بیعت کے بعد انصار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اسی وقت کفار کے تلوار اٹھانے کے لیے تیار ہیں:
واللہ الذی بعثک بالحق ان شئت لنمیلن علی اہل منی غدا باسیافنافقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لم نؤمر بذلک (السیرۃ النبویۃ، ۱/۴۰۷)
’’اس اللہ کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے، ہم کل ہی اپنی تلواروں کے ساتھ اہل منیٰ پر پل پڑیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ ابھی ہمیں اس کا حکم نہیں دیا گیا۔‘‘
ابن اسحاق بیعت عقبہ ثانیہ کی سیاسی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
کانت بیعۃ الحرب حین اذن اللہ لرسولہ صلی اللہ علیہ وسلم فی القتال شروطا سوی شرطہ علیہم فی العقبۃ الاولی کانت الاولی علی بیعۃ النساء وذلک ان اللہ تعالیٰ لم یکن اذن لرسولہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الحرب فلما اذن اللہ لہ فیہا وبایعہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی العقبۃ الاخیرۃ علی حرب الاحمر والاسود اخذ لنفسہ واشترط علی القوم لربہ وجعل لہم علی الوفاء بذلک الجنۃ (السیرۃ النبویۃ، ۱/۴۱۲)
’’جب اللہ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتال کی اجازت دے دی تو آپ نے (انصار سے) جنگ کی جو بیعت لی، اس میں ایسی شرائط بھی شامل کیں جو عقبہ اولیٰ کی بیعت میں نہیں تھیں۔ پہلی بیعت تو انھی باتوں پر لی گئی تھی جن کا ذکر عورتوں سے لی جانے والی بیعت میں ہوا ہے کیونکہ اس وقت اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگ کی اجازت نہیں دی تھی۔ پھر جب اللہ نے اس کی اجازت دے دی اور آپ نے عقبہ اخیرہ میں ان سے احمر واسود کے خلاف جنگ پر بیعت لی تو آپ نے اپنے لیے (پناہ اور حفاظت) کا عہد بھی لیا اور لوگوں پر اللہ کے عہد پر قائم رہنے کی شرط بھی عائد کی اور اس عہد کو پورا کرنے پر ان سے جنت کا وعدہ کیا۔‘‘
مدینہ میں مسلمانوں کے اجتماع اور پھر خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کا یہ مفہوم ومقصد قریش پر بھی بالکل واضح تھا، چنانچہ بیعت عقبہ کا واقعہ ان کے علم میں آیا تو ان کے اعیان اگلے ہی دن بنو خزرج کے پاس گئے اور ان سے کہا:
یا معشر الخزرج انہ قد بلغنا انکم قد جئتم الی صاحبنا ہذا تستخرجونہ من بین اظہرنا وتبایعونہ علی حربنا (السیرۃ النبویۃ، ۱/۴۰۷)
’’اے گروہ خزرج! ہمیں اطلاع ملی ہے کہ تم ہمارے اس آدمی کے پاس اس لیے آئے ہو کہ اسے ہمارے درمیان سے نکال کر لے جاؤ اور تم ہمارے ساتھ جنگ کرنے کے لیے اس کے ساتھ بیعت کر رہے ہو۔‘‘
ابن اسحاق لکھتے ہیں:
لما رات قریش ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قد صارت لہ شیعۃ واصحاب من غیرہم بغیر بلدہم وراوا خروج اصحابہ من المہاجرین الیہم عرفوا انہم قد نزلوا دارا واصابوا منہم منعۃ فحذروا خروج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الیہم وعرفوا انہ قد اجمع لحربہم (السیرۃ النبویۃ، ۱/۴۳۴)
’’جب قریش نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی جماعت بن گئی ہے اور اہل مکہ کے علاوہ ایک دوسرے علاقے میں کچھ اور ساتھی بھی ان کو مل گئے ہیں اور پھر انھوں نے مسلمانوں کے مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے کو بھی دیکھا تو انھوں نے سمجھ لیا کہ مسلمانوں کو قریش کے مقابل ایک محفوظ ٹھکانہ مل گیا ہے، چنانچہ انھیں فکر ہوئی کہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی نکل کر ان کے پاس چلے جائیں گے۔ قریش نے جان لیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے خلاف جنگ کا مصمم عزم کر چکے ہیں۔‘‘
یہی وہ ڈر تھا جس کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے موقع پر جب قریش آپ کے حوالے سے کوئی لائحہ عمل وضع کرنے کے لیے دار الندوہ میں جمع ہوئے تو آپ کو گرفتار کر کے محبوس کر دینے یا مکہ سے نکال دینے کی تجاویز پر اتفاق نہیں ہو سکا، کیونکہ دونوں صورتوں میں یہ خطرہ تھا کہ آپ یا آپ کے ساتھی بالآخر مکہ مکرمہ پر حملہ کر کے قریش کا اقتدار ختم کرنے کی کوشش کریں گے، چنانچہ قریش نے نعوذ باللہ آپ کو قتل کرنے کی تجویز پر اتفاق کر لیا۔ (ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۱/۴۳۶)
بہرحال مشرکین کے ناپاک منصوبوں کے علی الرغم جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے آئے اور آپ کی سربراہی میں ایک باقاعدہ اسلامی حکومت قائم ہو گئی تو سورۂ بقرہ میں مشرکین کے خلاف قتال کا باقاعدہ حکم دیا گیا اور یہ واضح کیا گیا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا اصل ہدف اللہ کے دین کو سربلند کرنا ہے اور قریش کے خلاف قتال کر کے ان کے فتنہ وفساد کو ختم کرنے کا حکم اسی مقصد کے تحت دیا جا رہا ہے:
وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلاَ تَعْتَدُوْا إِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبِّ الْمُعْتَدِیْنَ۔ وَاقْتُلُوْہُمْ حَیْْثُ ثَقِفْتُمُوہُمْ وَأَخْرِجُوہُمْ مِّنْ حَیْْثُ أَخْرَجُوکُمْ وَالْفِتْنَۃُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ وَلاَ تُقَاتِلُوہُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّی یُقَاتِلُوکُمْ فِیْہِ فَإِنْ قَاتَلُوکُمْ فَاقْتُلُوہُمْ کَذَلِکَ جَزَاءُ الْکَافِرِیْنَ ۔فَإِنِ انتَہَوْاْ فَإِنَّ اللّٰہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ۔ وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لاَ تَکُونَ فِتْنَۃٌ وَیَکُونَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ فَإِنِ انْتَہَواْ فَلاَ عُدْوَانَ إِلاَّ عَلَی الظَّالِمِیْنَ (البقرہ ۲:۱۹۰-۱۹۳)
’’اور جو لوگ تم سے لڑتے ہیں، تم بھی اللہ کی راہ میں ان سے لڑو، لیکن زیادتی نہ کرنا کیونکہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اور ان کو جہاں پاؤ، قتل کرو اور جہاں سے انھوں نے تم کو نکالا ہے، وہاں سے تم بھی ان کو نکالو۔ اور فتنہ، قتل سے کہیں بڑھ کر ہے۔ ہاں، مسجد حرام کے پاس ان سے لڑائی نہ کرو، یہاں تک کہ وہ تم سے لڑائی نہ کریں۔ پھر اگر وہ لڑیں تو ان کو قتل کرو۔ یہی ہے بدلہ کافروں کا۔ اور اگر وہ باز آ جائیں تو بے شک اللہ معاف کر دینے والا، مہربان ہے۔ اور ان سے برابر لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ ہی کا ہو جائے۔ اور اگر وہ باز آ جائیں تو ظالموں کے علاوہ کسی پر زیادتی روا نہیں۔‘‘
یہاں قتال کی غایت یہ بیان کی گئی ہے کہ ’فتنہ‘ باقی نہ رہے اور اس کا نتیجہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ کا دین غالب ہو جائے گا۔ اس سے قرآن کی مراد یہ تھی کہ قریش کی قوت کو توڑ کر مکہ مکرمہ کو فتح کر لیا جائے اور مشرکین کو بیت الحرام سے بے دخل کر کے یہاں سے شرک کے تمام آثار کو مٹا دیا جائے تاکہ عرب کے مشرکین شرک کو ذلیل اور توحید کو سربلند دیکھ کر من حیث الجماعت دائرۂ اسلام میں داخل ہو جائیں۔ سورۂ نصر میں اللہ تعالیٰ نے فتح مکہ اور مشرکین عرب کے بحیثیت قوم اسلام قبول کر لینے کا ذکر ایسے بلیغ اسلوب میں کیا گیا ہے کہ رسول اللہ کی بعثت کے یہ دونوں ہدف پوری قطعیت کے ساتھ واضح ہو جاتے ہیں۔ فرمایا:
إِذَا جَاء نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ ۔ وَرَأَیْْتَ النَّاسَ یَدْخُلُونَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ أَفْوَاجاً ۔ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ إِنَّہُ کَانَ تَوَّاباً (النصر ۱۱۰:۱-۳)
’’جب اللہ کی مدد آ جائے اور (مکہ) فتح ہو جائے اور تم لوگوں کو اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوتے ہوئے دیکھ لو تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرو اور اس سے مغفرت مانگو، بے شک وہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔‘‘
قرآن نے فتح مکہ کی اسی اہمیت کی وجہ سے یہ واضح کر دیا کہ مکہ فتح ہونے کے بعد قتال میں حصہ لینے والے کسی طرح اس سے پہلے جہاد کرنے والوں کے برابر نہیں ہو سکتے:
لَا یَسْتَوِیْ مِنکُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُوْلَءِکَ أَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیْنَ أَنفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَکُلّاً وَعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنَی وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیْرٌ (الحدید ۵۷:۱۰)
’’تم میں سے وہ لوگ جنھوں نے (مکہ کی) فتح سے پہلے مال خرچ کیا اور جہاد کیا (اور وہ جنھوں نے نہیں کیا) برابر نہیں ہو سکتے۔ ان لوگوں کا درجہ ان سے بڑا ہے جنھوں نے فتح کے بعد مال خرچ کیا اور جہاد کیا۔ اور دونوں کے ساتھ اللہ نے اچھے بدلے کا وعدہ کیا ہے اور اللہ تمہارے اعمال کی پوری خبر رکھتا ہے۔‘‘
اس ضمن میں وَمَا کَانُوآ اَوْلِیَآءَ ہُ اِنْ اَوْلِیَآؤُہُ اِلاَّ الْمُتَّقُوْنَ (الانفال ۸: ۳۳۔ ’’مشرکین مسجد حرام کے متولی نہیں۔ اس کی تولیت کے حق دار تو صرف اللہ سے ڈرنے والے ہیں‘‘) اور ’مَا کَانَ لِلْمُشْرِکِیْنَ أَن یَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللّٰہ شَاہِدِیْنَ عَلَی أَنفُسِہِمْ بِالْکُفْرِ‘ (التوبہ ۹:۱۷۔ ’’مشرکین کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے اوپر خود کفر کی گواہی دیتے ہوئے اللہ کی مساجد کو آباد کریں) جیسی آیات میں یہ بات تو دوٹوک الفاظ میں واضح کر دی گئی تھی کہ مسجد حرام کو آباد کرنے اور اس کی تولیت وانتظام کے اصل حق دار اہل ایمان ہیں، جبکہ مشرکین اس کا کوئی حق نہیں رکھتے، تاہم مکہ مکرمہ کو فتح کرنے کے لیے فوری اقدام کرنے کے بجائے یہ حکمت عملی اختیار کی گئی کہ مختلف معرکوں میں قریش کی حربی قوت اور سیاسی پوزیشن کو زک پہنچا کر ان کا دم خم نکال دیا جائے تاکہ جب مسلمان مکہ کو فتح کرنے کے لیے جائیں تو شکستہ دل قریش ان کی مزاحمت نہ کر سکیں اور حدود حرم میں زیادہ خون ریزی کی نوبت نہ آنے پائے۔ 
اس ضمن میں پہلا اور فیصلہ کن معرکہ بدر میں بپا ہوا ۔ ذخیرۂ سیرت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ غزوۂ بدر کے محرکات میں، من جملہ دیگر عوامل کے، تحریش واغرا (Provocation) کی وہ کارروائیاں بھی شامل تھیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے وقتاً فوقتاً قریش کے تجارتی قافلوں پر حملوں کی صورت میں کی گئیں۔ چنانچہ قریش اسی طرح کے ایک حملے کی اطلاع پا کر اپنے تجارتی قافلے کو بچانے کے لیے مکہ سے نکلے اور اللہ تعالیٰ کی اسکیم کے مطابق بدر کے مقام پر ان کا مسلمانوں سے آمنا سامنا ہوا۔ ابوسفیان اپنی تدبیر سے قریش کے تجارتی قافلے کو مسلمانوں سے بچا لے جانے میں کامیاب ہو گئے تو سرداران قریش میں سے بعض نے اس بات کی کوشش کی کہ ان کے اور مسلمانوں کے مابین لڑائی نہ ہو، تاہم ابو جہل نہیں مانا اور یہ معرکہ برپا ہو کر رہا۔ اس موقع پر جنگ سے گریز کا مشورہ دینے والے سرداروں کی گفتگو سے عیاں ہے کہ جزیرۂ عرب پر اسلام کا غلبہ قائم کرنے کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عزم وارادہ ان پر بالکل واضح تھا۔ چنانچہ عتبہ بن ربیعہ نے اپنے خطبے میں قریش کو مخاطب کر کے کہا:
یا معشر قریش .... ارجعوا وخلوا بین محمد وبین سائر العرب فان اصابوہ فذاک الذی اردتم وان کان غیر ذلک الفاکم ولم تعرضوا منہ ما تریدون (ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۱/۵۵۰، ۵۵۱)
’’اے گروہ قریش! .... واپس چلے چلو اور محمد اور پورے عرب کو آپس میں نمٹنے دو۔ اگر اہل عرب محمد پر غالب آ گئے تو یہی تم چاہتے ہو اور اگر اس سے مختلف معاملہ ہوا (اور تمھیں بھی محمد کے سامنے سر جھکانا پڑا) تو وہ تمھیں اس حال میں پائیں گے کہ تم نے ان کے ساتھ کوئی جنگ نہیں کی ہوگی جس کا تم اس وقت ارادہ رکھتے ہو۔‘‘
بہرحال جنگ بدر میں قریش کو عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی صف اول کی قیادت تہ تیغ ہو گئی اور ستر کے قریب قیدی مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔ قریش کی یہ عبرت ناک شکست درحقیقت فتح مکہ کی تمہید تھی، چنانچہ اس موقع پر کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے اپنے اشعار میں سرداران قریش کو یوں خبردار کیا:
فلا تعجل ابا سفیان وارقب
جیاد الخیل تطلع من کداء
بنصر اللہ روح القدس فیہا
ومیکال فیا طیب الملاء
(السیرۃ النبویۃ ۲/۲۵)
’’ابو سفیان! جلدی میں مت پڑو اور اس وقت کا انتظار کرو جب (محمد اور اصحاب محمد کے) عمدہ اور بہترین گھوڑے مقام کداء سے نمودار ہوں گے۔ ان کو اللہ کی مدد اور جبریل اور میکائیل کی رفاقت حاصل ہوگی۔ سو یہ کیسی پاکیزہ جماعت ہوگی۔‘‘
احد اور احزاب کی جنگیں بھی بدر ہی سے شروع ہونے والے سلسلے کی کڑیاں تھیں۔ ان جنگوں کے ذریعے سے قریش کی طاقت اور ان کے عزم وہمت کو شکست دینے کا مقصد پورا ہو گیا اور ۵ ہجری میں غزوۂ خندق کے موقع پر مشرکین کا لشکر جرار ناکام ونامراد واپس پلٹ گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرما دیا کہ اب مشرکین میں جنگ کا دم خم باقی نہیں رہا، اس لیے اب اقدام کرنے کی باری ان کی نہیں، بلکہ مسلمانوں کی ہے۔ آپ نے فرمایا:
الآن نغزوہم ولا یغزوننا نحن نسیر الیہم (بخاری، رقم ۳۸۰۱)
’’اب ہم ان پر حملہ آور ہوں گے اور وہ ہم پر حملہ نہیں کریں گے۔ اب ان کی طرف بڑھنے کی باری ہماری ہے۔‘‘
۶ ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ عمرے کے ارادے سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے تو مشرکین نے انھیں حدیبیہ کے مقام پر روک دیا۔ سابقہ ہدایات کی رو سے اس موقع پر مسلمانوں کو حدود حرم میں تلوار اٹھانے کا پورا پورا حق حاصل تھا، چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض اہم تر مصالح کے پیش نظر مشرکین سے صلح کا معاہدہ کر لیا تو اس کو ذہنی طور پر قبول کرنا صحابہ کے لیے ایک آزمائش بن گیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ کو قرآن مجید میں اس صلح کی حکمت اور اس کے پوشیدہ فوائد پر باقاعدہ ایک سورت نازل کرنا پڑی جس میں انھیں یہ بتایا گیا کہ اگرچہ مشرکین ان کو مسجد حرام سے روکنے کے جرم کے مرتکب ہوئے ہیں، لیکن چونکہ مکہ میں ابھی بہت سے ایسے اہل ایمان موجود ہیں جو اپنے ایمان کو مخفی رکھے ہوئے ہیں اور ان کے اور مشرکین کے مابین واضح امتیاز نہ ہونے کی وجہ سے خدشہ ہے کہ وہ بھی لڑائی میں تہ تیغ ہو جائیں گے، اس لیے اس موقع پر قتال کو موخر کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی انھیں فتح مکہ کی بشارت اس وضاحت کے ساتھ دی گئی کہ مسجد حرام کا مسلمانوں کے تصرف میں آنا چونکہ ’اظہار دین‘ یعنی جزیرۂ عرب میں غلبہ اسلام کا لازمی تقاضا ہے، اس لیے یہ وعدہ یقیناًپورا ہو کر رہے گا:
لَقَدْ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوْلَہُ الرُّؤْیَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَاآ اللّٰہُ آمِنِیْنَ مُحَلِّقِیْنَ رُءُ وْسَکُمْ وَمُقَصِّرِیْنَ لَا تَخَافُوْنَ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوْا فَجَعَلَ مِنْ دُوْنِ ذَلِکَ فَتْحًا قَرِیْبًا۔ ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُوْلَہُ بِالْہُدَیٰ وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا (الفتح ۴۸: ۲۷۔۲۸)
’’یقیناًاللہ نے اپنے رسول کو سچا خواب دکھایا کہ اللہ نے چاہا تو تم یقیناًپورے امن وامان کے ساتھ مسجد حرام میں داخل ہوگے، سر منڈواتے ہوئے اور سر کے بال کترواتے ہوئے، تمہیں کوئی خوف لاحق نہیں ہوگا۔ وہ ان باتوں کو جانتا ہے جن کو تم نہیں جانتا، پس اس نے اس کے بعد ایک قریبی فتح تمہارے لیے مقدر کر دی ہے۔ وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اسے ہر دین پر غالب کر دے۔ اور اللہ کافی ہے گواہی دینے والا۔‘‘
قریش کے ساتھ اس معاہدے کے ذریعے سے آپ ایک طرف ان لوگوں کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا چاہتے تھے جو اسلام کو قبول کرنے کے خواہش مند تھے لیکن قبائلی تعلقات کی وجہ سے قریش اور مسلمانوں کی کشمکش میں کھل کر قریش کی مخالفت مول نہیں لے سکتے تھے اور دوسری طرف آپ مسلمانوں کی قوت اور توجہ کو یکسو کر کے قریش کے علاوہ دیگر مشرک قبائل کی سرکوبی کے لیے مرکوز کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ آپ نے قریش کو معاہدۂ صلح کی پیش کش کرتے ہوئے یہ بات کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر ان پر صاف واضح کر دی کہ یہ صلح مستقل بقاے باہمی کی غرض سے نہیں، بلکہ محض فریقین کی مصلحت کے لحاظ سے عارضی طور پر کی جا رہی ہے۔ آپ نے ان سے کہا:
انا لم نات لقتال احد، انما جئنا لنطوف بہذا البیت، فمن صدنا عنہ قاتلناہ، وقریش قوم قد اضرت بہم الحرب ونہکتہم، فان شاء وا ماددتہم مدۃ یامنون فیہا ویخلون فی ما بیننا وبین الناس، والناس اکثر منہم، فان ظہر امری علی الناس کانوا بین ان یدخلوا فی ما دخل فیہ الناس او یقاتلوا وقد جمعوا، واللہ لاجہدن علی امری ہذا حتی تنفرد سالفتی او ینفذ اللہ امرہ (واقدی، المغازی، ۲/۵۹۳)
’’ہم کسی کے ساتھ لڑنے کے لیے نہیں آئے۔ ہم تو بیت اللہ کا طواف کرنے آئے ہیں۔ ہاں جو ہمیں اس سے روکے گا، اس کے ساتھ ہم جنگ کریں گے۔ جنگ پہلے ہی قریش کو بہت نقصان پہنچا چکی ہے اور اس نے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، اس لیے اگر وہ چاہیں تو میں ایک مخصوص عرصے کے لیے ان کے ساتھ صلح کرنے کو تیار ہوں جس میں انھیں بھی ہماری طرف سے امن حاصل ہو اور وہ بھی ہمارے اور باقی اہل عرب کے معاملے میں دخل انداز نہ ہوں۔ اہل عرب کی تعداد قریش سے زیادہ ہے۔ سو اگر میں ان پر غالب آ گیا تو قریش کو اختیار ہوگا کہ چاہیں تو سب لوگوں کی طرح اس دین میں داخل ہو جائیں اور چاہیں تو جنگ کریں۔ اس وقت ان کی بکھری ہوئی قوت بھی مجتمع ہوگی۔ بخدا میں اس دین کے غلبے کے لیے جدوجہد کرتا رہوں گا، یہاں تک کہ یا تو (سب لوگ میرا ساتھ چھوڑ دیں اور) میں اکیلا رہ جاؤں اور یا اللہ اپنے فیصلے کو نافذ کر دے۔‘‘
سیدنا عثمانؓ رسول اللہ کے سفیر بن کر اہل مکہ کے پاس گئے تو انھوں نے بھی انہیں یہی پیغام دیا:
قال بعثنی رسول اللہ الیکم یدعوکم الی اللہ والی الاسلام تدخلون فی الدین کافۃ فان اللہ مظہر دینہ ومعز نبیہ واخری تکفون ویلی ہذا منہ غیرکم فان ظفروا بمحمد فذلک ما اردتم وان ظفر محمد کنتم بالخیار ان تدخلوا فی ما دخل فیہ الناس او تقاتلوا وانتم وافرون جامون، ان الحرب قد نہکتکم واذہبت بالاماثل منکم (واقدی، المغازی، ۲/۶۰۰، ۶۰۱)
’’عثمان نے ان سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اللہ اور اسلام کی دعوت دے کر تمہارے پاس بھیجا ہے۔ (بہتر یہی ہے کہ) تم سب کے سب اللہ کے دین میں داخل ہو جاؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ بہرحال اپنے دین کو غالب اور اپنے نبی کو سرفراز کریں گے۔ یہ نہیں تو پھر ایک دوسری بات مان لو: تم ہمارے ساتھ جنگ کرنے سے باز آجاؤ اور اسے دوسرے اہل عرب پر چھوڑ دو۔ اگر وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر غالب آ گئے تو تمہارا مقصد پورا ہو جائے گا۔ اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم غالب آ گئے تو تمہیں اختیار ہوگا۔ چاہو تو تمام لوگوں کی طرح تم بھی اس دین کو قبول کر لینا اور چاہو تو جنگ کر لینا۔ اس وقت تم تعداد کے لحاظ سے بھی کہیں زیادہ ہو چکے ہوگے۔ دیکھو، اس جنگ نے تمہاری کمر بالکل توڑ دی ہے اور تمہارے بہترین لوگ اس کا لقمہ بن چکے ہیں۔‘‘
حدیبیہ کا یہ معاہدۂ صلح ۸ ہجری تک برقرار رہا اور قریش کی طرف سے اس کی کوئی خلاف ورزی اس دوران میں سامنے نہیں آئی۔ ۸ ہجری میں قریش نے معاہدۂ حدیبیہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بنو خزاعہ کے خلاف لڑائی میں بنو بکر کو مدد فراہم کی۔ سرداران قریش اس پر نادم ہوئے اور انھوں نے ابو سفیان کو مدینہ بھیجا تاکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معاہدۂ صلح کی تجدید کر کے آئیں۔ ابو سفیان یہ پیشکش لے کر مدینہ گئے لیکن رسول اللہ نے اس کو قبول نہیں کیا۔ بہتیرے جتن کرنے کے بعد آخر کار انھوں نے لوگوں میں کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا کہ:
الا انی قد اجرت بین الناس ولا اظن محمدا یخفرنی 
’’لوگو سن لو! میں نے سب لوگوں کے سامنے (قریش اور ان کے حلیفوں کو) امان دی اور مجھے یقین ہے کہ محمد میری دی ہوئی ا س امان کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔‘‘
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ مجھے امید ہے کہ آپ میری دی ہوئی امان کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔ آپ نے فرمایا: انت تقول ذلک یا ابا سفیان (واقدی، المغازی، ۲/۷۹۴) ’’ابو سفیان، یہ بات تم کہہ رہے ہو (مجھ پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں)‘‘۔ اس کے بعد ابو سفیان ناکام مکہ واپس لوٹ آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد صحابہ کو خفیہ طور پر تیاری کا حکم دیا اور اسی رازداری کی کیفیت میں حملہ آور ہو کر مکہ کو فتح کر لیا اور بیت اللہ کو تمام اصنام واوثان اور مشرکانہ رسوم کے تمام آثار سے پاک کر کے اس کو دین ابراہیمی کی اصل اساس یعنی توحید کے عالمی مرکز کی حیثیت سے بحال کر دیا۔ 
۹ ہجری میں حج کے موقع پر قرآن نے یہ اعلان کیا کہ مشرکین اپنی اعتقادی نجاست کی وجہ سے بیت اللہ میں عبادت تو کجا، اس کے قریب آنے کے حقدار بھی نہیں ہیں، اس لیے اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب بھی پھٹکنے نہ پائیں: 
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا إِنَّمَا الْمُشْرِکُونَ نَجَسٌ فَلاَ یَقْرَبُواْ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِہِمْ ہَذَا (التوبہ ۹:۲۸)
’’اے ایمان والو! مشرکین محض ناپاک ہیں، اس لیے اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب نہ آنے پائیں۔‘‘
چنانچہ اس سال حج کے موقع پر اس حکم کی باقاعدہ منادی کر کے حرم میں مشرکین کے داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ (بخاری، رقم ۳۶۹) ۱۰ ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے لیے مکہ مکرمہ میں تشریف لائے اور دین ابراہیمی کی روایات کے مطابق مناسک حج کی تعلیم لوگوں کو دی۔ (مسلم، رقم ۲۹۵۰) اس طرح کفر وشرک سے بیت اللہ کی تطہیر اور اس کو توحید کا عالمی مرکز بنانے کا مشن مکمل ہو گیا، چنانچہ آپ نے اس موقع پر یہ اعلان فرمایا کہ:
ان الشیطان قد ایس من ان یعبد فی بلادکم ہذہ ابدا (ترمذی، رقم ۳۰۸۵)
’’شیطان کو اب اس بات کی کوئی امید نہیں رہی کہ جزیرۃ العرب میں دوبارہ کبھی اس کی پوجا کی جائے گی۔‘‘ 
بیت اللہ میں دین توحید کی بحالی کے بعد اگلا مرحلہ شرک اور مظاہر شرک سے سرزمین عرب کی تطہیر کا تھا۔ یہ دراصل اسی ذمہ داری کا تسلسل تھا جو ذریت ابراہیم پر اپنی میراث کے علاقے کو شرک سے پاک رکھنے کے لیے ابتدا ہی سے عائد کی گئی تھی۔ چنانچہ بنی اسرائیل جب مصریوں کی غلامی سے رہا ہو کر سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی قیادت میں ایک گروہ کی حیثیت سے منظم ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم دیا کہ وہ سرزمین کنعان پر قبضہ کرنے کے لیے، جس کی ملکیت اور وراثت کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ان کی ذریت کے حق میں کیا تھا، اس شہر کے باشندوں کے خلاف قتال کریں اور شہر پر قبضہ کر لیں۔ (المائدہ ۵:۲۰، ۲۱) تورات میں ہے کہ اس وقت سرزمین کنعان میں بہت سی مشرک قومیں آباد تھیں اور بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ ان سب قوموں کو نیست ونابود کر کے ان کی عبادت گاہوں اور بتوں کو ڈھا دیں اور اس سرزمین سے کفر وشرک کا خاتمہ کر دیں۔ کتاب گنتی میں ہے:
’’جب تم اردن سے پار ہو کر ملک کنعان میں جاؤ تو اس ملک کے سب باشندوں کو اپنے سامنے سے نکال دو۔ ان کی سب تراشی ہوئی مورتوں کو اور ان کے گھڑے ہوئے بتوں کو فنا کرو اور ان کی اونچی جگہوں کو ڈھا دو اور ملک کے مالک بنو اور اس میں بسو، کیونکہ میں نے تمھیں اس کو بطور میراث کے دیا ہے۔‘‘ (۳۳: ۵۰۔۵۳)
استثنا میں ہے:
’’جب خداوند تیرا خدا تجھ کو اس ملک میں جس پر قبضہ کرنے کے لیے تو جا رہا ہے پہنچا دے اور تیرے آگے سے ان بہت سی قوموں کو یعنی حتیوں اور جرجاسیوں اور اموریوں اور کنعانیوں اور فرزیوں اور حویوں اور یبوسیوں کو جو ساتوں قومیں تجھ سے بڑی اور زور آور ہیں نکال دے اور جب خداوند تیرا خدا ان کو تیرے آگے شکست دلائے اور تو ان کو مار لے تو تو ان کو بالکل نابود کر ڈالنا۔ تو ان سے کوئی عہد نہ باندھنا اور نہ ان پر رحم کرنا۔ تو ان سے بیاہ شادی بھی نہ کرنا۔ نہ ان کے بیٹوں کو اپنی بیٹیاں دینا اور نہ اپنے بیٹوں کے لیے ان کی بیٹیاں لینا کیونکہ وہ تیرے بیٹوں کو میری پیروی سے برگشتہ کر دیں گے تاکہ وہ اور معبودوں کی عبادت کریں۔ یوں خداوند کا غضب تم پر بڑھکے گا اور وہ تجھ کو جلد ہلاک کر دیے گا۔ بلکہ تم ان سے یہ سلوک کرنا کہ ان کے مذبحوں کو ڈھا دینا۔ ان کے ستونوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینا اور ان کی یسیرتوں کو کاٹ ڈالنا اور ان کی تراشی ہوئی مورتیں آگ میں جلا دینا۔‘‘ (استثنا ۷: ۱۔۵)
تورات کے مطابق بنی اسرائیل کو اس کا پابند کیا گیا تھا کہ وہ اپنی میراث کے علاقے سے باہر بسنے والی اقوام کے ساتھ صلح کا معاہدہ کر سکتے ہیں، لیکن میراث کے حدود کے اندر وہ کسی مشرک قوم کا وجود گوارا نہ کریں:
’’جب تو کسی شہر سے جنگ کرنے کو اس کے نزدیک پہنچے تو پہلے اسے صلح کا پیغام دے اور اگر وہ تجھ کو صلح کا جواب دے اور اپنے پھاٹک تیرے لیے کھول دے تو وہاں کے سب باشندے تیرے باج گزار بن کر تیری خدمت کریں۔ ..... ان سب شہروں کا یہی حال کرنا جو تجھ سے بہت دور ہیں اور ان قوموں کے شہر نہیں ہیں۔ پر ان قوموں کے شہروں میں جن کو خداوند تیرا خدا میراث کے طور پر تجھ کو دیتا ہے، کسی ذی نفس کو جیتا نہ بچا رکھنا بلکہ تو ان کو یعنی حتی اور اموری اور کنعانی اور فرزی اور حوی اور یبوسی قوموں کو جیسا کہ خداوند تیرے خدا نے تجھ کو حکم دیا ہے، بالکل نیست کر دینا تاکہ وہ تم کو اپنے سے مکروہ کام کرنے نہ سکھائیں جو انھوں نے اپنے دیوتاؤں کے لیے کیے ہیں اور یوں تم خداوند اپنے خدا کے خلاف گناہ کرنے لگو۔‘‘ (استثنا ۲۰:۱۰-۱۸)
بنی اسرائیل ہی کے ایک عظیم پیغمبر اور فرمانروا سیدنا سلیمان علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بے نظیر حکومت وسلطنت، مادی واقتصادی قوت اور شاہانہ شان وشوکت سے نوازا تھا۔ قرآن مجید کی تصریح کے مطابق سیدنا سلیمان علیہ السلام نے اپنی اس قوت اور برتری کو اپنے قرب وجوار میں مشرکانہ مذاہب کی پیروی کرنے والی قوموں کی تادیب وتنبیہ اور ان کو سرنگوں کرنے کے لیے بھی استعمال کیا۔ چنانچہ جب انھیں معلوم ہوا کہ قوم سبا سورج پرستی میں مبتلا ہے تو انھوں نے اس کی ملکہ کو خط لکھا:
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیْمِ أَلَّا تَعْلُوا عَلَیَّ وَأْتُونِیْ مُسْلِمِیْنَ (النمل ۲۷:۳۱)
’’اللہ کے نام کے ساتھ جس کی رحمت بے پایاں اور جس کی شفقت ابدی ہے۔ میرے مقابلے میں سرکشی نہ کرو اور فرماں بردار بن کر میرے پاس حاضر ہو جاؤ۔‘‘
ملکہ سبا کی طرف سے پس وپیش کیے جانے پر انھوں نے انھیں دھمکی دی کہ:
فَلَنَأْتِیَنَّہُمْ بِجُنُودٍ لَّا قِبَلَ لَہُم بِہَا وَلَنُخْرِجَنَّہُم مِّنْہَا أَذِلَّۃً وَہُمْ صَاغِرُونَ (النمل ۲۷:۳۷)
’’پس ہم ایسے لشکروں کے ساتھ ان پر حملہ کریں گے جن کا مقابلہ کرنے کی تاب ان میں نہیں ہوگی اور ہم ان کو ذلیل اور حقیر بنا کر ان کے ملک سے نکال دیں گے۔‘‘
اسی قانون کے تحت خود بنی اسرائیل کے لیے بھی اللہ تعالیٰ نے یہ سزا مقرر کر دی تھی کہ اگر ان میں سے کوئی فرد یا گروہ ’شرک‘ یا اس کے مظاہر میں مبتلا ہو تو اسے قتل کر دیا جائے۔ چنانچہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے کوہ طور پر جانے کے بعد جب بنی اسرائیل نے بچھڑے کی پوجا شروع کر دی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ جو لوگ اس نجاست سے آلودہ نہیں ہوئے، وہ بچھڑے کی پوجا کرنے والوں کو قتل کریں:
وَإِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِہِ یَا قَوْمِ إِنَّکُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَکُمْ بِاتِّخَاذِکُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوْا إِلَی بَارِءِکُمْ فَاقْتُلُوْا أَنفُسَکُمْ ذَلِکُمْ خَیْْرٌ لَّکُمْ عِندَ بَارِءِکُمْ (البقرہ ۲:۵۴)
’’اورجب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم، تم نے بچھڑے کو معبود بنا کر اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے، اس لیے اپنے پیدا کرنے والے کی طرف توبہ کرو اور اپنے (بھائی بندوں) کو قتل کرو۔ یہ تمہارے خالق کے نزدیک تمہارے لیے بہتر ہے۔‘‘
اسی قانون کے تحت موسوی شریعت میں مشرکانہ اعمال ورسوم میں ملوث ہونے والوں کے لیے موت کی سزامقرر کی گئی تھی۔ تورات میں ہے:
’’پھر خداوند نے موسیٰ سے کہا تو بنی اسرائیل سے یہ بھی کہہ دے کہ بنی اسرائیل میں سے یا ان پردیسیوں میں سے جو اسرائیلیوں کے درمیان بود وباش کرتے ہیں، جو کوئی شخص اپنی اولاد میں سے کسی کو مولک کی نذر کرے، وہ ضرور جان سے مارا جائے۔ اہل ملک اسے سنگسار کریں۔‘‘ (احبار ۲۰: ۱، ۲)
بنی اسرائیل میں سلسلہ نبوت کے اختتام کے بعد بنی اسماعیل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت چونکہ ذریت ابراہیم ہی میں چلی آنے والی روایت کا تسلسل تھی، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اتمام حجت کے بعد جزیرۂ عرب میں ’شرک‘ کے بطور ایک مذہب اور مشرکین کے بطور ایک مذہبی گروہ کے باقی رہنے کی کوئی گنجایش نہیں ہو سکتی تھی اور مشرکین اگر اپنے کفر وشرک پر قائم رہتے تو ان پر موت کی سزاکا نافذ کیا جانا خدا کے قانون کے مطابق بعثت محمدی کا ایک لازمی تقاضا تھا۔ اس ضمن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بنیادی اقدام تو یہ کیا کہ مختلف مواقع پر باقاعدہ مہمات بھیج کر جزیرۂ عرب میں مختلف مقامات پر قائم مشرکین کے عبادت خانوں کو مسمار کروا دیا۔ اس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
اس کے ساتھ ساتھ معاہدہ حدیبیہ کے موقع پر قرآن مجید میں سورۃ الفتح نازل ہوئی تو اس میں مشرکین کے خلاف آئندہ جنگ کا ہدف صاف لفظوں میں یہ بیان کیا گیا کہ:
سَتُدْعَوْنَ إِلَی قَوْمٍ أُوْلِیْ بَأْسٍ شَدِیْدٍ تُقَاتِلُونَہُمْ أَوْ یُسْلِمُونَ (الفتح ۴۸:۱۶)
’’جلد ہی تمہیں ایک ایسی قوم کے مقابلے کے لیے بلایا جائے گا جو نہایت جنگجو اور زورآور ہوگی۔ تمہیں ان کے ساتھ لڑنا ہوگا یہاں تک کہ وہ اسلام لے آئیں۔‘‘
اس کے کچھ ہی عرصے کے بعد سورۂ براء ۃ کی وہ ابتدائی آیات نازل کر دی گئیں جن میں بدنیت اور بدعہد مشرک قبائل کے ساتھ کیے جانے والے معاہدوں کو کالعدم قرار دیا گیا اور انھیں چار ماہ کی مہلت دے کر یہ کہا گیا کہ وہ یا تو اسلام قبول کر لیں اور یا اہل ایمان کے ہاتھوں جہنم رسید ہونے کے لیے تیار ہو جائیں:
بَرَاء ۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُولِہِ إِلَی الَّذِیْنَ عَاہَدتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ ۔ فَسِیْحُوا فِی الأَرْضِ أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ وَّاعْلَمُوا أَنَّکُمْ غَیْْرُ مُعْجِزِیْ اللّٰہِ وَأَنَّ اللّٰہَ مُخْزِیْ الْکَافِرِیْنَ..... فَإِذَا انْسَلَخَ الأَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْْثُ وَجَدْتُّمُوْہُمْ وَخُذُوْہُمْ وَاحْصُرُوْہُمْ وَاقْعُدُوْا لَہُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلاَۃَ وَآتَوُا الزَّکَاۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَہُمْ إِنَّ اللّٰہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ (التوبہ ۹:۱-۵)
’’اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان مشرکوں سے براء ت کا اعلان ہے جن سے تم نے معاہدے کر رکھے ہیں۔ سو (اے مشرکو) چار ماہ تک زمین میں چل پھر لو اور جان لو کہ اللہ کے آگے تمہارا کوئی زور نہیں چل سکتا اور یہ کہ اللہ کافروں کو رسوا کر کے رہے گا۔ .... پھر جب حرام مہینے گزر جائیں (اور چار ماہ کی مدت پوری ہو جائے) تو مشرکوں کو جہاں پاؤ، قتل کرو اور انھیں پکڑو اور انھیں گھیرو اور ان کے لیے ہر جگہ گھات لگا کر بیٹھو۔ پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی پابندی قبول کر لیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔ بے شک اللہ معاف کرنے والا، مہربان ہے۔‘‘
البتہ اسی سلسلہ بیان میں آیت ۷ میں یہ ہدایت کی گئی کہ حدیبیہ کے مقام پر مشرکین کے ساتھ جو معاہدہ کیا گیا ہے، اس کی پاس داری کی جائے، تا آنکہ مشرکین خود ہی اس کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوں۔
قرآن نے اسی موقع پر یہ حکم بھی دے دیا کہ بیت اللہ کے مسلمانوں کے تصرف میں آنے کے بعد جب حج اکبر کا دن آئے تو اس موقع پر پورے جزیرۂ عرب کے مشرکین سے بھی براء ت کا اعلان کر دیا جائے:
وَأَذَانٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُولِہِ إِلَی النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الأَکْبَرِ أَنَّ اللّٰہَ بَرِیْءٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ وَرَسُولُہُ فَإِن تُبْتُمْ فَہُوَ خَیْْرٌ لَّکُمْ وَإِن تَوَلَّیْْتُمْ فَاعْلَمُواْ أَنَّکُمْ غَیْْرُ مُعْجِزِیْ اللّٰہِ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ بِعَذَابٍ أَلِیْمٍ (التوبہ ۹:۳)
’’اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حج اکبر کے دن بھی اعلان کر دیاجائے کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکوں سے بری ہیں۔ پھر (اے مشرکو) اگر تم توبہ کر لو تو یہی تمھارے لیے بہتر ہے اور اگر منہ پھیرو گے تو جان لو کہ تم اللہ کے آگے زور نہیں چلا سکتے اور کافروں کو دردناک عذاب کی خوش خبری سنا دو۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ سلم نے اسی حکم کی وضاحت میں ارشاد فرمایا کہ:
امرت ان اقاتل الناس حتی یشہدوا ان لا الہ الا اللہ وان محمدا رسول اللہ ویقیموا الصلاۃ ویوتوا الزکاۃ فاذا فعلوا ذلک عصموا منی دماء ہم واموالہم الا بحق الاسلام وحسابہم علی اللہ (بخاری، رقم ۲۴)
’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک لوگوں سے قتال کروں جب تک کہ وہ ’لا الٰہ الا اللہ‘ کا اقرار نہ کر لیں۔ پس جو لاالہ الا اللہ کا اقرار کر لے گا، اسے میری طرف سے جان اور مال کی امان حاصل ہو جائے گی اور اس کے اعمال کا حساب اللہ کے سپرد ہوگا۔‘‘
مشرکین عرب کے بہت سے گروہوں نے آپ کے اس اعلان ہی کے نتیجے میں دائرۂ اسلام میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا جس کے متعدد شواہد حدیث وسیرت کے ذخیرے میں موجود ہیں:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عجب اللہ من اقوام یجاء بہم فی السلاسل حتی یدخلوا الجنۃ (مسند احمد، رقم ۹۵۰۹)
’’اللہ کو ان لوگوں پر تعجب ہے جن کو بیڑیوں میں جکڑ کر لایا جائے تاکہ جنت میں داخل ہو جائیں۔‘‘
بنو بکر بن وائل کے نام خط میں آپ نے انھیں لکھا:
اما بعد فاسلموا تسلموا (ابن سعد، الطبقات الکبریٰ ۱/۲۸۱)
’’اما بعد! اسلام لے آو، بچ جاؤ گے۔‘‘
قبیلہ عبد القیس کا وفد اسلام قبول کرنے کے لیے آیا تو آپ نے ان کے حق میں یوں دعا فرمائی:
اللہم اغفر لعبد القیس اذ اسلموا طائعین غیر کارہین غیر خزایا ولا موتورین اذ بعض قومنا لا یسلمون حتی یخزوا ویوتروا (مسند احمد، رقم ۱۷۱۶۱)
’’اے اللہ، قبیلہ عبدالقیس کی مغفرت فرما دے کیونکہ یہ کسی زبردستی کے بغیر خود اپنی مرضی سے اسلام لے آئے ہیں۔ یہ نہ رسوا ہوئے ہیں اور نہ ان کو کوئی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ جبکہ ہماری قوم کے کچھ لوگ اس وقت تک ایمان لانے پر آمادہ نہیں ہوتے جب تک کہ انھیں رسوائی اور جانی ومالی نقصان سے سابقہ نہ پیش آ جائے۔‘‘
اس موقع پر آپ نے انصار سے کہا:
یا معشر الانصار اکرموا اخوانکم فانہم اشباہکم فی الاسلام واشبہ شئ بکم شعارا وابشارا اسلموا طائعین غیر مکرہین ولا موتورین اذ ابی قوم ان یسلموا حتی قتلوا (مسند احمد، رقم ۱۷۱۶۲)
’’اے گروہ انصار، اپنے بھائیوں کا خوب اکرام کرو، کیونکہ یہ (آگے بڑھ کر رضامندی سے) اسلام لانے میں بھی تم سے مشابہ ہیں اور ان کی ظاہری وباطنی حالت بھی تم سے بہت ملتی جلتی ہے۔ انھوں نے جبر واکراہ کے بغیر اپنی مرضی سے اسلام قبول کر لیا ہے، جبکہ کچھ لوگوں نے اس سے انکار کیا یہاں تک کہ انھیں قتل کر دیا گیا۔‘‘
بنو خثعم کے نام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خط تحریر فرمایا، ابن سعد نے اس کے الفاظ یہ نقل کیے ہیں:
ومن اسلم منکم طوعا او کرہا فی یدہ حرث .... (الطبقات الکبریٰ ۱/۲۸۶)
’’تم میں سے جنھوں نے اسلام قبول کیا، چاہے طوعاً کیا ہو یا کرہاً، اور ان کے پاس کھیتی ہے .....‘‘
۸ ہجری میں بنو تمیم کا وفد بارگاہ نبوی میں حاضر ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر ثابت بن قیس انصاری نے اس موقع پر ان کے سامنے ایک تقریر کی، جس میں انہوں نے کہا:
فنحن انصار اللہ ووزراء رسولہ نقاتل الناس حتی یومنوا باللہ فمن آمن باللہ ورسولہ منع منا مالہ ودمہ ومن کفر جاہدناہ فی اللہ ابدا وکان قتلہ علینا یسیرا (ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۲/۴۷۵)
’’ہم اللہ اور اس کے رسول کے مددگار ہیں۔ ہم اس وقت تک لوگوں سے لڑیں گے جب تک کہ وہ اللہ پر ایمان نہ لے آئیں۔ پس جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے گا، اسے ہماری طرف سے جان ومال کی امان حاصل ہوگی۔ اور جو انکار کرے گا، ہم اس کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے اور اس کو قتل کرنے میں ہمیں کوئی تردد نہیں ہوگا۔‘‘
رفاعہ بن زید جذامی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کیا تو آپ نے انھیں ان کی قوم کے نام حسب ذیل خط دے کر روانہ کیا:
انی بعثتہ الی قومہ عامۃ ومن دخل فیہم، یدعوہم الی اللہ والی رسولہ، فمن اقبل منہم ففی حزب اللہ وحزب رسولہ ومن ادبر فلہ امان شہرین (ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ ۲/۵۰۲)
’’میں نے رفاعہ کو اس کی ساری قوم اور اس میں (باہر سے آکر) شامل ہونے والوں کی طرف بھیجا ہے تاکہ وہ انھیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف دعوت دے۔ تو ان میں سے جو (اس دعوت کو قبول کرنے کے لیے) آگے بڑھیں گے، انھیں اللہ اور اس کے رسول کی جماعت میں شمار کیا جائے گا اور جو لوگ منہ پھیر لیں تو انھیں دو مہینے کی مہلت ہے۔‘‘
رفاعہ یہ خط لے کر اپنی قوم کے پاس گئے تو انھوں نے ان کی دعوت پر اسلام قبول کر لیا۔
صرد بن عبد اللہ ازدی نے اپنی قوم بنو ازد کے ایک وفد کے ہمراہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کیا تو آپ نے انھیں ان کی قوم کے مسلمانوں کا امیر مقرر کر کے حکم دیا کہ وہ اپنے علاقے کے مشرکین کے ساتھ جہاد کریں:
فامرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی من اسلم من قومہ وامرہ ان یجاہد بمن اسلم من کان یلیہ من اہل الشرک من قبل الیمن (السیرۃ النبویۃ، ۲/۴۹۵)
صرد بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق یمن کے علاقہ جرش میں مشرک قبائل کامحاصرہ کیا اور انھیں اسلام کی دعوت دی۔ پھر ان میں سے جن لوگوں نے اسلام قبول کر لیا، انھیں اپنے ساتھ شامل کر لیا جبکہ انکار کرنے والوں کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ پھر ایک جنگی تدبیر سے مشرکین کو قلعے سے نکل کر اپنے تعاقب پر آمادہ کیا اور پلٹ کر ان پر حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں بہت سے مشرک مارے گئے۔ اس کے بعد اہل جرش کا ایک وفد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر اور اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا۔ (ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۲/۴۹۵۔ ابن سعد، الطبقات الکبریٰ ۵/۵۲۶)
۱۰ ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن الولید کی قیادت میں چار سو آدمیوں پر مشتمل ایک سریہ نجران کے قبیلہ بنو الحارث بن کعب کی طرف بھیجا اور کہا کہ وہ جا کر ان کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں اور اگر وہ تین دن تک اس دعوت کو قبول نہ کریں تو ان کے ساتھ قتال کریں۔ خالد نے وہاں پہنچ کر اپنے سواروں کو مختلف اطراف میں بھیجا جنھوں نے اس بات کی منادی کی کہ ’یا بنی الحارث اسلموا تسلموا‘۔ (اے بنو الحارث، اسلام لے آؤ، بچ جاؤ گے) اس کے نتیجے میں بنو الحارث نے قتال کی نوبت آنے سے پہلے ہی اسلام قبول کر لیا۔ (طبری، تاریخ الامم والملوک ۳/۱۲۶، ۱۲۷۔ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ ۲/۵۰۰)
اس ضمن میں بنو ثقیف کے قبول اسلام کی روداد بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ ذخیرۂ سیرت کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۸ ہجری میں طائف کا محاصرہ کرنے کے بعد حالات کی مناسبت سے فی الوقت بنو ثقیف سے جنگ کا فیصلہ موخر کر دیا، تاہم اس محاصرے کے دوران میں بنو ثقیف پر یہ بات اچھی طرح واضح ہو گئی کہ رسول اللہ کی مخالفت مول لے کر جزیرۂ عرب میں پر امن طریقے سے رہنا ان کے لیے ناممکن ہے، چنانچہ اشاعت اسلام سے خوفزدہ ہو کر اور اپنے معاشی مفادات کے تحفظ کے لیے انھوں نے طوعاً وکرہاً اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ابن ہشام نے ثقیف کے سردار عمرو بن عبد یالیل کی گفتگو یوں نقل کی ہے:
انہ قد نزل بنا امر لیست معہ ہجرۃ انہ قد کان من امر ہذا الرجل ما قد رایت، قد اسلمت العرب کلہا ولیس لکم بحربہم طاقۃ فانظروا فی امرکم (السیرۃ النبویۃ ۲/۴۵۶)
’’ہمیں ایک ایسی صورت حال میں گرفتار ہو گئے ہیں جس سے کوئی مفر نہیں۔ اس شخص (محمد) کا معاملہ تم دیکھ رہے ہو کہ سارا عرب اسلام قبول کر چکا ہے اور اور تمھارے پاس ان سے جنگ کرنے کی طاقت نہیں ہے، اس لیے اپنے معاملے میں غور کرو۔‘‘
انا نخاف ہذا الرجل قد اوطا الارض غلبۃ ونحن فی حصن فی ناحیۃ من الارض والاسلام حولنا فاش واللہ لو قام علی حصننا شہرا لمتنا جوعا وما اری الا الاسلام وانا اخاف یوما مثل یوم مکۃ (واقدی، المغازی ۳/۹۶۷)
’’ہم اس شخص سے خوف زدہ ہیں۔ اس نے پوری سرزمین عرب کو روند کر مغلوب کر لیا ہے۔ ہم اس سرزمین کے ایک کونے میں ایک قلعے میں بند ہیں اور ہمارے ارد گرد اسلام پھیل چکا ہے۔ بخدا، اگر وہ ایک مہینے تک ہمارے قلعے کا محاصرہ جاری رکھتے تو ہم بھوکوں مر جاتے۔ مجھے اسلام قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔ ورنہ مجھے خدشہ ہے کہ ہمارا حال بھی ایک دن وہی ہوگا جو مکے والوں کا ہوا۔‘‘
چنانچہ اہل طائف کا ایک وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا۔ اس موقع پر انہوں نے اپنے بتوں کی حفاظت اور شراب، زنا اور سود کے کاروبار کو جاری رکھنے کے حوالے سے بعض شرطیں منوانا چاہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یکسر مسترد کر دیا۔ یہ وفد واپس طائف پہنچا تو اس کے تاثرات یہ تھے:
فقالوا جئناکم من عند رجل فظ غلیظ یاخذ من امرہ ما شاء قد ظہر بالسیف واداخ العرب ودان لہ الناس ورعبت منہ بنو الاصفر فی حصونہم والناس فیہ اما راغب فی دینہ واما خائف من السیف (المغازی، ۳/۹۶۹)
’’انھوں نے کہا: ہم ایک نہایت درشت اور تند خو آدمی کے پاس سے آ رہے ہیں جو صرف اپنی من مانی کرتا ہے۔ وہ تلوار لے کر اٹھا ہے اور پورے عرب کو اس نے زیر کر لیا ہے۔ لوگ بھی اس کے مطیع بن چکے ہیں اور رومیوں پر اپنے قلعوں میں اس کا رعب طاری ہے۔ اب دو ہی طرح کے لوگ رہ گئے ہیں: کچھ تو اپنی مرضی سے اس کے دین کی طرف راغب ہیں اور کچھ محض تلوار کے ڈر سے اطاعت قبول کر رہے ہیں۔‘‘
فتح مکہ کے بعد اس عمومی تاثر کا اظہار ارباب سیرت نے جگہ جگہ کیا ہے۔ واقدی لکھتے ہیں:
والاسلام یومئذ لم یعم العرب قد بقیت بقایا من العرب وہم یخافون السیف لما فعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بمکۃ وحنین (المغازی، ۳/۹۷۴)
’’اسلام ابھی سارے اہل عرب میں نہیں پھیلا تھا بلکہ کچھ لوگ ابھی باقی تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ اور حنین میں مشرکین کے ساتھ جو کیا، اس کے پیش نظر وہ بھی اسلام کی تلوار سے خوف زدہ تھے۔‘‘
مشرکین کے بارے میں آپ کی یہ پالیسی اس قدر واضح تھی کہ جزیرۂ عرب کے مختلف اطراف میں آباد بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد آپ کی طرف سے کسی خصوصی حکم کے بغیر ازخود مشرکین کو قتل کر نا شروع کر دیا۔ مثلاً تبوک سے واپسی پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حمیر کے سرداروں حارث بن عبد کلال، نعیم بن عبد کلال اور نعمان کا خط ملا جس میں انھوں نے آپ کو اپنے اسلام قبول کرنے اور اپنے علاقے میں موجود مشرکوں کو قتل کرنے کی خبر دی۔ آپ نے جواب میں انھیں لکھا:
قد وقع بنا رسولکم ..... وانبانا باسلامکم وقتلکم المشرکین وان اللہ قد ہداکم بہداہ (ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۲/۴۹۷)
’’تمھارا قاصد ہمارے پاس پہنچا ہے اور اس نے ہمیں تمھارے اسلام قبول کرنے اور مشرکین کو قتل کرنے کی خبر ہمیں دی ہے اور یہ کہ اللہ نے تمھیں اپنی ہدایت سے نوازا ہے۔‘‘
البتہ آپ نے اس خط میں انھیں تاکید کی کہ کسی یہودی یا نصرانی کو اس کے دین سے نہ ہٹایا جائے، بلکہ اس پر جزیہ عائد کر دیا جائے۔ اسی طرح آپ نے حمیر ہی کے ایک سردار زرعہ ذی یزن کے نام خط میں لکھا:
ان مالک بن مرۃ الرہاوی قد حدثنی انک اسلمت من اول حمیر وقتلت المشرکین فابشر بخیر (السیرۃ النبویۃ ۲/۴۹۸)
’’مالک بن مرہ رہاوی نے مجھے بتایا ہے کہ تم نے حمیر میں سب سے پہلے اسلام قبول کر لیا ہے اور مشرکین کو قتل کیا ہے، سو بھلائی کی خوشخبری قبول کرو۔‘‘
اسی تناظر میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجر کے بادشاہ منذر بن ساویٰ کو خط لکھ کر ہدایت کی کہ مجوس میں سے جو اپنے دین پر قائم رہنا چاہے، اس سے جزیہ وصول کیا جائے تو منافقین نے اس بات کو پراپیگنڈا کا موضوع بنا لیا اور کہا کہ:
زعم محمد انہ انما بعث لقتال الناس کافۃ حتی یسلموا ولا یقبل الجزیۃ الا من اہل الکتاب ولا نراہ الا قد قبل من مشرکی اہل ہجر ما رد علی مشرکی العرب (المدونۃ الکبریٰ ۳/۴۷)
’’محمد نے اعلان کیا تھا کہ وہ اس لیے بھیجا گیا ہے کہ وہ سب لوگوں کے ساتھ لڑیں یہاں تک کہ وہ اسلام لے آئیں اور یہ کہ وہ اہل کتاب کے علاوہ کسی سے جزیہ قبول نہیں کریں گے، لیکن اب ہم دیکھتے ہیں کہ انھوں نے عرب کے مشرکوں سے جو بات (یعنی جزیہ دے کر اپنے مذہب پر قائم رہنا) قبول نہیں کی، اہل ہجر کے مشرکوں سے وہی بات قبول کرلی ہے۔‘‘
مزید برآں اہل عرب کے جبراً اسلام قبول کرنے کی ایک بڑی واضح دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوتے ہی عرب کے بیشتر قبائل مرتد ہو گئے اور صحابہ کو دوبارہ جہاد بالسیف کر کے انھیں مطیع بنانا پڑا۔ یہ صورت حال صرف دور دراز کے علاقوں تک محدود نہیں تھی، بلکہ خود مرکز اسلام یعنی مکہ مکرمہ میں بھی بڑے پیمانے پر لوگ ارتداد پر آمادہ ہو چکے تھے۔ (ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۲/۵۵۸) عبد اللہ بن عمر نے ایک موقع پر اس صورت حال کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
لما مات النبی صلی اللہ علیہ وسلم تشایع الناس وتحزبوا فقامت تلک الناصیۃ فقاتلوا الناس حتی ردوا الناس الی کلمۃ الاسلام وحتی قالوا لا الہ الا اللہ وان نبیکم حق (مسند الشامیین، رقم ۱۶۶۱)
’’جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو لوگ (اسلام کو چھوڑ کر) مختلف گروہوں اور دھڑوں میں بٹ گئے ، چنانچہ آپ کے ساتھیوں کا گروہ اٹھا اور اس نے لوگوں کے ساتھ قتال کیا یہاں تک کہ انھیں کلمہ اسلام کی طرف واپس لوٹا دیا اور منکرین کو یہ اقرار کرنا پڑا کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور یہ کہ تمھارا نبی برحق ہے۔‘‘
اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ تمام قبائل اپنی رضامندی اور اختیار سے دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے تھے تو اتنے وسیع پیمانے پر ان کے دین سے مرتد ہو جانے یا مرکز اسلام کی اطاعت قبول کرنے سے انکار کا رویہ کسی طرح بھی قابل فہم نہیں رہتا۔ 
صحابہ کرام نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جنگی اقدامات کی تعبیر اسی پہلو سے کی ہے۔ 
حسان بن ثابت نے اپنے بعض اشعار میں اس حقیقت کو یوں بیان کیا ہے:
اما قریش فانی لن اسالمہم
حتی ینیبوا من الغیات للرشد
ویترکوا اللات والعزی بمعزلۃ
ویسجدوا کلہم للواحد الصمد
ویشہدوا ان ما قال الرسول لہم
حق ویوفوا بعہد اللہ والوکد
(ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۲/۲۶۰، ۲۶۱)
’’میں قریش کے ساتھ ہرگز صلح نہیں کروں گا، یہاں تک کہ وہ گمراہی چھوڑ کر سیدھی راہ پر آ جائیں، لات وعزیٰ کی عبادت سے کنارہ کش ہو کر سب کے سب ایک خدا کے سامنے سجدہ کرنے لگیں، اس بات کا اقرار کر لیں کہ رسول نے ان سے جو کہا ہے، وہ حق ہے اور اللہ کے مضبوط عہد کی پاس داری کریں۔‘‘
عباس بن مرداس السلمی نے اپنے قصیدے میں کہا ہے:
فان یہدوا الی الاسلام یلفوا
انوف الناس ما سمر السمیر
وان لم یسلموا فہم اذان
بحرب اللہ لیس لہم نصیر 
(السیرۃ النبویۃ، ۲/۳۸۳)
’’اگر وہ اسلام قبول کر لیں گے تو رہتی دنیا تک لوگوں کے مابین سربلند رہیں گے، لیکن اگر اسلام نہیں لائیں گے تو اللہ کی طرف سے ان کے ساتھ اعلان جنگ ہے جس میں ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔‘‘
کعب بن مالک نے بنو ثقیف کو مخاطب کر کے کہا:
فان تلقوا الینا السلم نقبل
ونجعلکم لنا عضدا وریفا
وان تابوا نجاہدکم ونصبر
ولا یک امرنا رعشا ضعیفا
نجاہد ما بقینا او تنیبوا
الی الاسلام اذعانا مضیفا
.......
بکل مہند لین صقیل
یسوقہم بہاسوقا عنیفا
لامر اللہ والاسلام حتی
یقوم الدین معتدلا حنیفا
وتنسی اللات والعزی وود
ونسلبہا القلائد والشنوفا
(السیرۃ النبویۃ، ۲/۴۰۷، ۴۰۸)
’’اگر تم ہمیں صلح کا پیغام دو گے تو ہم قبول کر لیں گے اور تمھیں اپنا معاون بنا کر تمھارے سرسبز وشاداب علاقے سے لطف اندوز ہوں گے، لیکن اگر انکار کرو گے تو ہم پوری ثابت قدمی سے جہاد کریں گے اور ہماری استقامت میں کوئی اضطراب یا کمزوری نہیں ہوگی۔ جب تک ہم زندہ رہیں گے، برسر جنگ رہیں گے تا آنکہ تم اسلام کی طرف رجوع کر لو اور پوری طرح اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دو۔ .... ہماری تیز دھار، پتلی اور صیقل شدہ تلواریں لوگوں کو پوری قوت سے اللہ کے دین، اسلام کی طرف دھکیلتی رہیں گی یہاں تک کہ یہ دین توحید مضبوط اور مستحکم ہو جائے اور لات وعزیٰ اور ود کا نام ونشان مٹ جائے اور ہم ان (بتوں کو پہنائے جانے والے) ہار اور بالیاں ان سے چھین لیں۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سقیفہ بن ساعدہ میں انصار کے اجتماع میں سعد بن عبادہ نے ان سے مخاطب ہو کر کہا:
رزقکم اللہ الایمان بہ وبرسولہ والمنع لہ ولاصحابہ والاعزاز لہ ولدینہ والجہاد لاعداۂ فکنتم اشد الناس علی عدوہ منکم واثقلہ علی عدوہ من غیرکم حتی استقامت العرب لامر اللہ طوعا وکرہا واعطی البعید المقادۃ صاغرا داخرا حتی اثخن اللہ عز وجل لرسولہ بکم الارض ودانت باسیافکم لہ العرب (طبری، تاریخ الامم والملوک ۳/۲۱۸)
’’اللہ نے تمھیں یہ توفیق دی کہ تم اس پر اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور تمھیں ان کی اور ان کے ساتھیوں کی حفاظت، پیغمبر کے لائے ہوئے دین کو غالب اور اس کے دشمنوں کے ساتھ جہاد کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ چنانچہ رسول اللہ کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے خلاف سب سے زیادہ مضبوطی اور صلابت تم نے ہی دکھائی، یہاں تک کہ اہل عرب طوعاً وکرہاً اللہ کے دین کے تابع ہو گئے اور دور دراز کے قبائل نے بھی ذلت اور پستی کے ساتھ اطاعت قبول کر لی۔ اس طرح اللہ نے تمھارے ذریعے سے اس سرزمین کو پیغمبر کے لیے مغلوب کر دیا اور تمہاری تلواروں کی مدد سے اہل عرب پیغمبر کے مطیع ہو گئے۔‘‘
سیدنا ابوبکر نے ایک موقع پر فرمایا:
ان اللہ بعث محمدا صلی اللہ علیہ وسلم بہذا الدین فجاہد علیہ حتی دخل الناس فیہ طوعا وکرہا (ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۲/۵۲۶)
’’اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دین دے کر بھیجا، چنانچہ آپ نے اس کے لیے جہاد کیا یہاں تک کہ لوگ خواہی نخواہی اس میں داخل ہو گئے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مرتد ہونے والے قبائل کے نام اپنے خط میں انھوں نے فرمایا:
ان اللہ تعالی ارسل محمدا بالحق من عندہ الی خلقہ بشیرا ونذیرا وداعیا الی اللہ باذنہ وسراجا منیرا لینذر من کان حیا ویحق القول علی الکافرین فہدی اللہ بالحق من اجاب الیہ وضرب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باذنہ من ادبر عنہ حتی صار الی الاسلام طوعا وکرہا (طبری، تاریخ الامم والملوک ۳/۲۵۰)
’’اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاس سے دین حق دے کر اپنی مخلوق کی طرف بھیجا تاکہ وہ انہیں خوشخبری سنائیں، انذار کریں، اللہ کے حکم سے اس کی طرف بلائیں، اور ایک روشن چراغ بن کر لوگوں کو حق کی راہ دکھائیں۔ اللہ کا مقصد یہ تھا کہ یہ رسول ان لوگوں کو انذار کرے جن کے دل زندہ ہیں اور انکار کرنے والوں پر اللہ کے عذاب کا فیصلہ نافذ ہو جائے۔ چنانچہ جن لوگوں نے اس دین کی طرف رغبت ظاہر کی، اللہ نے انھیں ہدایت عطا کی اور جنھوں نے اس سے اعراض کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم سے ان کے خلاف لڑائی کی یہاں تک کہ وہ خواہی نخواہی اسلام لانے پر آمادہ ہو گئے۔‘‘
نعمان بن مقرن نے کسراے ایران یزدگرد کے دربار میں یہی بات کہی:
ان اللہ رحمنا فارسل الینا رسولا یدلنا علی الخیر ویامرنا بہ ویعرفنا الشر وینہانا عنہ ووعدنا علی اجابتہ خیر الدنیا والآخرۃ فلم یدع الی ذلک قبیلۃ الا صاروا فرقتین فرقۃ تقاربہ وفرقۃ تباعدہ ولا یدخل معہ فی دینہ الا الخواص فمکث کذلک ما شاء اللہ ان یمکث ثم امر ان ینہد الی من خالفہ من العرب ویبدا بہم ففعل فدخلوا معہ جمیعا علی وجہین مکروہ علیہ فاغتبط وطائع ایاہ فازداد (ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، ۷/۴۱)
’’اللہ تعالیٰ نے ہم پر رحمت فرمائی اور ہمارے پاس ایک رسول بھیجا جس نے ہمیں خیر کی باتیں بتا کر ان پر عمل کرنے کا اور شر کی باتیں بتا کر ان سے باز رہنے کا حکم دیا اور اس دعوت کو قبول کرنے پر ہم سے دنیا وآخرت کی بھلائی کا وعدہ کیا۔ چنانچہ اس نے جس قبیلے کے سامنے بھی یہ دعوت پیش کی، وہ دو گروہوں میں تقسیم ہو گیا۔ ایک گروہ اس کے قریب ہوگیا جبکہ دوسرے نے اس سے دوری اختیار کرلی۔ (ابتدا میں تو) اس رسول کے دین میں کچھ خاص گروہ ہی شامل ہوئے اور جب تک اللہ نے چاہا، یہی صورت حال رہی۔ پھر اسے حکم ملا کہ وہ اٹھے اور اس دین کی مخالفت کرنے والے اہل عرب کے ساتھ برسرپیکار ہوجائے۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا جس کے نتیجے میں اہل عرب سب کے سب اس دین میں داخل ہو گئے۔ ان میں سے جن سے جبراً یہ دین منوایا گیا تھا، وہ لوگوں کے لیے قابل رشک ہوئے اور جو اپنی رضامندی سے داخل ہوئے تھے، ان کی بھلائی میں اور اضافہ ہو گیا۔‘‘
رومی فوج کے سالار جرجہ سے گفتگو کرتے ہوئے خالد بن ولید نے کہا:
انا قبلنا ہذا الامر عنوۃ (البدایہ والنہایہ ۷/۱۳)
’’ہم نے اس دین کو اپنی مرضی کے برعکس قبول کیا تھا۔‘‘
سیدنا ابو ہریرہ  ’کنتم خیر امۃ اخرجت للناس‘  کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
خیر الناس للناس تاتون بہم فی السلاسل فی اعناقہم حتی یدخلوا فی الاسلام (بخاری، رقم ۴۱۹۱)
’’تم لوگوں کے لیے اس لحاظ سے ایک بہترین قوم ہو کہ ان کی گردنوں میں طوق ڈال کر انھیں لاتے ہو یہاں تک کہ وہ اسلام میں داخل ہو جائیں۔‘‘
مشرکین عرب کے معاملے میں اسی قانون کی وجہ سے سیدنا عمر کے ہاں یہ رجحان پیدا ہوا کہ اگر اس حکم کی وجہ ان کا ’عرب‘ ہونا ہے تو پھر اہل عرب سے تعلق رکھنے والے یہود ونصاریٰ اور صابئین وغیرہ کا حکم بھی یہی ہونا چاہیے کہ اگر وہ اسلام قبول نہ کریں تو انھیں قتل کر دیا جائے، چنانچہ انھوں نے یہ راے ظاہر کی کہ:
ما نصاری العرب باہل کتاب وما تحل لنا ذبائحہم وما انا بتارکہم حتی یسلموا او اضرب اعناقہم (شافعی، الام، ۴/۱۸۳، ۲۸۱)
’’یہ عرب کے مسیحی اہل کتاب نہیں ہیں، اور ان کا ذبیحہ بھی ہمارے لیے حلال نہیں۔ میں انھیں نہیں چھوڑوں گا، یہاں تک کہ یہ اسلام لے آئیں، ورنہ میں انھیں قتل کر دوں گا۔‘‘ 
ایک اور موقع پر انھوں نے فرمایا:
لولا انی سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول ان اللہ تبارک وتعالی سیمنع الدین بنصاری من ربیعۃ علی شاطئ الفرات ما ترکت عربیا الا قتلتہ او یسلم (ابو عبید، الاموال، ۵۴۲)
’’اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہ سنا ہوتا کہ اللہ تعالیٰ فرات کے کنارے پر آباد بنو ربیعہ کے کچھ مسیحیوں کے ذریعے سے اس دین کی حفاظت کریں گے تو میں کسی عربی کو قتل کیے بغیر نہ چھوڑتا ، الا یہ کہ وہ اسلام قبول کر لے۔‘‘
سیدنا عمر سے اس رجحان کے تحت کوئی عملی اقدام ثابت نہیں۔ البتہ انھوں نے، غالباً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: ’لا یجتمع بجزیرۃ العرب دینان‘ (موطا، رقم ۱۳۸۸) کی روشنی میں یہ فیصلہ کیا کہ اگر کوئی غیر مسلم جزیرۂ عرب کے حدود میں رہنا چاہتا ہے تو اسے اسلام قبول کرنا ہوگا۔ مثلاً نصاریٰ بنو تغلب سے معاہدہ کے موقع پر انھوں نے فرمایا:
ان من اسلم منہم فلہ ما للمسلمین وعلیہ ما علیہم ومن ابی فعلیہ الجزاء وانما الاجبار من العرب علی من کان فی جزیرۃ العرب (طبری، تاریخ الامم والملوک ۴/۴۰)
’’ان میں سے جو اسلام لے آئیں گے، ان کے حقوق وفرائض مسلمانوں کے برابر ہوں گے۔ اور جو انکار کریں گے، ان پر جزیہ لازم ہوگا۔ ہم اسلام قبول کرنے پر صرف ان اہل عرب کو مجبور کریں گے جو جزیرۃ العرب کی حدود میں رہتے ہوں۔‘‘
ولید بن عقبہ نے اس کے بعد ایک موقع پر بنی تغلب کے بعض نصاریٰ کو قبول اسلام پر مجبور کرنا چاہا تو سیدنا عمرؓ نے ان کو لکھا:
انما ذلک لجزیرۃ العرب لا یقبل منہم فیہا الا الاسلام (تاریخ الامم والملوک، ۴/۵۵)
’’یہ حکم صرف جزیرۃ العرب کے رہنے والوں کے لیے ہے کہ ان سے اسلام کے سوا کوئی اور مذہب قبول نہ کیا جائے۔‘‘
البتہ بعض مواقع پر انھوں نے بالواسطہ دباؤ ڈال کر بنو تغلب کے مسیحیوں کو قبول اسلام پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ زیاد بن جدیر، جنھیں سیدنا عمر نے بنو تغلب کے نصاریٰ سے محاصل کی وصولی کے لیے بھیجاتھا، بیان کرتے ہیں:
وامرنی ان اغلظ علی نصاری بنی تغلب قال انہم قوم من العرب ولیسوا من اہل الکتاب فلعلہم یسلمون (ابو یوسف، الخراج، ۱۳۰)
’’سیدنا عمر نے مجھے حکم دیا کہ میں بنو تغلب کے مسیحیوں کے ساتھ سختی سے پیش آؤں۔ آپ نے کہا کہ یہ اہل کتاب میں سے نہیں بلکہ اہل عرب میں سے ہیں۔ ان کے ساتھ سختی کرو، ہو سکتا ہے یہ اسلام لے آئیں۔‘‘
اسی طرح انھوں نے یہ پابندی بھی عائد کر دی کہ:
لا ندع یہودیا ولا نصرانیا ینصر ولدہ ولا یہودہ فی ملک العرب (مصنف عبدالرزاق ، رقم ۱۹۲۳۰، ۱۹۳۹۰)
’’ہم عرب کی سرزمین میں کسی یہودی یا مسیحی کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ اپنی اولاد کو بھی یہودی یا نصرانی بنائیں۔‘‘
یہی رجحان خالد بن ولید کے ہاں بھی دکھائی دیتا ہے، چنانچہ انھوں نے قبیلہ بکر بن وائل کے حر بن بحیرا کو اسلام کی دعوت دی اور اس کے تردد ظاہر کرنے پر اسے کہا کہ انکار پر اسے قتل کر دیا جائے گا۔ ازدی نے ’فتوح الشام‘ میں نقل کیا ہے:
فسکت قال اضربوا عنقہ قال تقتلنی ان لم اتبع دینک؟ قال نعم، الست عربیا؟ قال بلی قال فانا لا ندع عربیا لا یدخل فی دیننا الا قتلناہ (فتوح الشام، ۵۰)
’’وہ چپ رہا تو خالد نے کہا کہ اس کی گردن اڑا دو۔ اس نے کہا کہ تم اپنے دین کی پیروی نہ کرنے پر مجھے قتل کر رہے ہو؟ خالد نے کہا ہاں، کیا تم عربی نہیں ہو؟ اس نے کہا، بالکل ہوں۔ خالد نے کہا کہ جو بھی عربی ہمارے دین میں داخل نہ ہو، ہم اسے قتل کیے بغیر نہیں چھوڑتے۔‘‘
جزیرۂ عرب میں رہنے والے اہل عرب کو، اگرچہ وہ اہل کتاب ہوں، قبول اسلام پر مجبور کرنے پر سیدنا عمر اور خالد بن ولید کا یہ اصرار اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ خود مشرکین عرب کے معاملے میں یہ قانون ان کی نظر میں بالکل واضح تھا۔ اکابر تابعین نے بھی مشرکین عرب کے معاملے میں اسی قانون کی تصریح کی ہے۔ حسن بصری کا ارشاد ہے:
قاتل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل ہذہ الجزیرۃ من العرب علی الاسلام لم یقبل منہم غیرہ (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۲۶۷۹)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جزیرۂ عرب کے مشرکین کے ساتھ اس بات پر قتال کیا کہ وہ اسلام قبول کر لیں۔ آپ نے اسلام کے علاوہ ان سے کوئی بات قبول نہیں کی‘‘۔
ابن شہاب زہری فرماتے ہیں:
انزلت فی کفار قریش والعرب وقاتلوہم حتی لا تکون فتنۃ ویکون الدین للہ وانزلت فی اہل کتاب قاتلوا الذین لا یومنون باللہ ولا بالیوم الآخر ولا یحرمون ما حرم اللہ ورسولہ ولا یدینون دین الحق الی قولہ صاغرون (بلاذری، فتوح البلدان، ۷۵)
’’کفار قریش اور عرب کے بارے میں تو یہ آیت اتری: ’وقاتلوہم حتی لا تکون فتنۃ ویکون الدین للہ‘ جبکہ اہل کتاب کے بارے میں یہ حکم نازل ہوا: ’قاتلوا الذین لا یومنون باللہ ولا بالیوم الآخر ولا یحرمون ما حرم اللہ ورسولہ ولا یدینون دین الحق الی قولہ صاغرون‘۔
قتادہ کا قول ہے:
اکرہ ہذا الحی من العرب لانہم کانوا امۃ امیۃ لیس لہم کتاب یعرفونہ فلم یقبل منہم غیر الاسلام (تفسیر الطبری ۳/۱۶)
’’اہل عرب کو مجبور کیا گیا کیونکہ وہ ایک ان پڑھ قوم تھے جن کے پاس کوئی (آسمانی) کتاب نہیں تھی جس سے وہ مانوس ہوں، چنانچہ ان سے اسلام کے علاوہ اور کوئی صورت قبول نہیں کی گئی۔‘‘
ضحاک فرماتے ہیں:
امر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان یقاتل جزیرۃ العرب من اہل الاوثان فلم یقبل منہم الا لا الہ الا اللہ او السیف (تفسیر الطبری ۳/۱۶)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ جزیرۂ عرب کے بت پرستوں کے خلاف جہاد کریں، چنانچہ آپ نے ان سے لا الہ الا اللہ کا اقرار کرنے یا تلوار کا سامنا کرنے کے علاوہ کوئی تیسرا راستہ قبول نہیں کیا۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام پر ایمان نہ لانے والا دوسرا بڑا گروہ اہل کتاب کا تھا۔ آپ اگرچہ اصلاً عرب کے امیوں میں اٹھائے گئے تھے اور آپ کی بعثت خاصہ کا ہدف یہ تھا کہ انھیں کفر وشرک سے پاک کر کے دوبارہ دین ابراہیمی کا پیروکار بنا دیں اور دنیا کے سامنے اس دین کی گواہی دینے کی ذمہ داری انھیں تفویض کر دیں، تاہم قرآن نے یہ اعلان کیا کہ آپ کو پوری دنیاے انسانیت کی طرف بھی نبی بنا کر بھیجا گیا ہے اور دنیا کے تمام گروہ آپ کی دعوت کے مخاطب اور آپ پر ایمان لانے کے مکلف ہیں۔ چنانچہ قرآن نے غیر مبہم لفظوں میں واضح کیا ہے کہ اللہ کے ہاں جو دین قبول کیا جائے گا، وہ اسلام ہی ہے جس کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا گیا ہے اور اس کی پیروی اختیار کرنا عرب کے امیوں اور اہل کتاب دونوں کے لیے لازم ہے۔ ارشاد ہوا ہے:
إِنَّ الدِّیْنَ عِندَ اللّٰہِ الإِسْلاَمُ .... وَقُل لِّلَّذِیْنَ أُوْتُواْ الْکِتَابَ وَالأُمِّیِّیْنَ أَأَسْلَمْتُمْ فَإِنْ أَسْلَمُواْ فَقَدِ اہْتَدَواْ وَّإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّمَا عَلَیْْکَ الْبَلاَغُ وَاللّہُ بَصِیْرٌ بِالْعِبَادِ (آل عمران ۳:۱۹، ۲۰)
’’اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔ اور تم اہل کتاب اور ان امیوں سے کہہ دو کہ کیا تم اسلام لاتے ہو؟ پھر اگر وہ اسلام لے آئیں تو ہدایت پا لیں گے اور اگر منہ موڑیں تو تمھارے ذمے صرف بات کو پہنچا دینا ہے اور اللہ اپنے بندوں کو خوب دیکھ رہا ہے۔‘‘
سورۂ اعراف میں ارشاد ہوا ہے:
قُلْ یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنِّیْ رَسُولُ اللّہِ إِلَیْْکُمْ جَمِیْعاً الَّذِیْ لَہُ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ لا إِلَہَ إِلاَّ ہُوَ یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ فَآمِنُواْ بِاللّہِ وَرَسُولِہِ النَّبِیِّ الأُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّہِ وَکَلِمَاتِہِ وَاتَّبِعُوہُ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُونَ (الاعراف ۷:۱۵۷، ۱۵۸)
’’کہہ دو کہ اے لوگو، میں تم سب کی طرف اللہ کا پیغمبر ہوں، وہ کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے۔ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ زندگی اور موت دیتا ہے۔ اس لیے اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ ، یعنی یہ نبی امی جو اللہ اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتا ہے، اور اس کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔‘‘
قرآن نے اہل کتاب کو مخاطب کر کے صریح لفظوں میں کہا ہے کہ اگر وہ آپ پر ایمان نہیں لائیں گے تو خدا کے عذاب کے مستحق ٹھہریں گے:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ آمِنُواْ بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقاً لِّمَا مَعَکُم مِّن قَبْلِ أَن نَّطْمِسَ وُجُوہاً فَنَرُدَّہَا عَلَی أَدْبَارِہَا أَوْ نَلْعَنَہُمْ کَمَا لَعَنَّا أَصْحَابَ السَّبْتِ وَکَانَ أَمْرُ اللّٰہِ مَفْعُولاً (النساء ۴:۴۷)
’’اے وہ لوگو جنھیں کتاب دی گئی، اس (قرآن) پر ایمان لے آؤ جو ہم نے اس چیز کی تصدیق کے طور پر نازل کیا ہے جو تمہارے پاس موجود ہے، اس سے پہلے کہ ہم چہروں کو مسخ کر دیں اور ان کا رخ ان کی پیٹھ کی طرف پھیر دیں یا ان پر اسی طرح لعنت کریں جیسے ہم نے ہفتے کے دن (خدا کی حدود پامال کرنے) والوں پر لعنت کی۔ اور اللہ کا فیصلہ نافذ ہو کر رہتاہے۔‘‘
تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہود نے نہ صرف آپ پر ایمان لانا گوارا نہیں کیا، بلکہ آپ کی پھیلتی ہوئی دعوت کے مستقبل کو بھانپتے ہوئے اس کی مخالفت کے لیے پر تولنا شروع کر دیے اور جزیرۂ عرب پر دین اسلام کی بالادستی کو روکنے کے لیے اسلام کے دشمنوں کے ساتھ ساز باز سمیت ہر حربہ اختیار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ابتداءً ا تو اہل ایمان کو ان سے صرف نظر کرنے کی ہدایت فرمائی، (البقرہ ۲:۱۰۹) تاہم اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کیا کہ اسلام اور اہل اسلام کو زک پہنچانے کے لیے یہود کی تمام سازشیں اور کوششیں بے کار رہیں گی اور وہ مسلمانوں کے مقابلے میں بھی ذلت ومسکنت کے اسی عذاب سے دوچار ہوں گے جو انبیا کی تکذیب کی پاداش میں ان پر قیامت تک کے لیے لازم کر دیا گیا ہے۔ (آل عمران ۳:۱۱۱، ۱۱۲) پھر ایک خاص حد تک عفو ودرگزر سے کام لینے کے بعد سورۂ مائدہ کی آیت ۳۳ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف قتال اور محاربہ کی راہ اختیار کرنے والے تمام گروہوں، بالخصوص یہود کی سرکوبی کے لیے نہایت واضح اور متعین ہدایات دے دی گئیں۔ ارشاد ہوا ہے:
إِنَّمَا جَزَاء الَّذِیْنَ یُحَارِبُونَ اللّہَ وَرَسُولَہُ وَیَسْعَوْنَ فِیْ الأَرْضِ فَسَاداً أَن یُقَتَّلُواْ أَوْ یُصَلَّبُواْ أَوْ تُقَطَّعَ أَیْْدِیْہِمْ وَأَرْجُلُہُم مِّنْ خِلافٍ أَوْ یُنفَوْاْ مِنَ الأَرْضِ ذَلِکَ لَہُمْ خِزْیٌ فِیْ الدُّنْیَا وَلَہُمْ فِیْ الآخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ (المائدہ ۵: ۳۳)
’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف برسرجنگ ہو جائیں اور زمین میں فساد پھیلانے کی کوشش کریں، ان کی سزا بس یہی ہے کہ ان کو عبرت ناک طریقے سے قتل کر دیا جائے یا سولی چڑھا دیا جائے یا ان کے ہاتھ پاؤں الٹے کاٹ دیے جائیں یا اس سرزمین سے انہیں جلاوطن کر دیا جائے۔ یہ رسوائی تو ان کے لیے دنیا میں مقدر کی گئی ہے اور آخرت میں بھی ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔‘‘
قرآن مجید کے اسی حکم کے تحت بنو قریظہ کے بالغ مردوں کو قتل کی جبکہ بنو قینقاع، بنو نضیر، اہل خیبر، اہل فدک اور اہل نجران کو مختلف اوقات میں جلا وطنی کی سزا دی گئی۔ یہود کے یہی قبائل تھے جو عملاً مسلمانوں کے خلاف محاربہ اور فساد کا رویہ اختیار کیے ہوئے تھے۔ ۷ ہجری میں خیبر کے فتح ہو جانے کے بعد بحیثیت ایک قوم کے ان کی قوت ٹوٹ گئی اور وہ فتنہ وفساد کی صلاحیت سے بڑی حد تک محروم ہو گئے، چنانچہ عہد رسالت میں غزوۂ خیبر کے بعد مذکورہ گروہوں میں سے کسی کے خلاف عملی اقدام کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ البتہ سورۂ توبہ میں جب مشرکین سے اعلان براء ت کے بعد ان کے قتل عام کا حکم دیا گیا تو اہل کتاب کے بارے میں بھی یہ ہدایت کی گئی کہ چونکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دعواے نبوت کی حقانیت واضح ہونے کے باوجود آپ پر ایمان نہیں لائے، اس لیے ان کے خلاف قتال کر کے انھیں محکوم بنا لیا جائے اور ذلت ورسوائی کی ایک علامت کے طور پر ان ’جزیہ‘ عائد کر دیا جائے۔ قرآن نے واضح کیا ہے کہ اس مقصد کے تحت اہل کتاب کے خلاف قتال پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصد بعثت یعنی ’اظہار دین‘ ہی کا ایک لازمی حصہ ہے ۔ ارشاد ہوا ہے:
قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُونَ بِاللّٰہِ وَلاَ بِالْیَوْمِ الآخِرِ وَلاَ یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ وَلاَ یَدِیْنُونَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ حَتَّی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَن یَدٍ وَّہُمْ صَاغِرُونَ .... یُرِیْدُونَ أَن یُطْفِؤُواْ نُورَ اللّٰہِ بِأَفْوَاہِہِمْ وَیَأْبَی اللّٰہُ إِلاَّ أَنْ یُّتِمَّ نُورَہُ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُونَ، ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ (التوبہ ۹:۲۹-۳۳)
’’ان اہل کتاب کے ساتھ جنگ کرو جو نہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، نہ اللہ اور اس کے رسول کی حرام کردہ چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں اور نہ دین حق کی پیروی قبول کرتے ہیں۔ (ان کے ساتھ جنگ کرو) یہاں تک کہ یہ تمہارے مطیع بن کر ذلت اور پستی کی حالت میں جزیہ دینے پر آمادہ ہو جائیں۔ ... یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور اپنے مونہوں سے بجھا دیں، لیکن اللہ کافیصلہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا کر کے رہے گا، چاہے کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے تاکہ اسے سارے دینوں پر غالب کر دے، چاہے مشرکوں کو یہ بات کتنی ہی ناپسند ہو۔‘‘
زیر بحث نقطہ نظر کے حامل اہل علم اس حکم کو بھی فتنہ وفساد ہی کے تناظر میں دیکھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہاں کے جملے قتال کے باعث اور سبب کو بیان کرنے کے لیے نہیں، بلکہ محض اس گروہ کے توضیحی اوصاف کے طورپر آئے ہیں۔ الشیخ محمود شلتوت لکھتے ہیں:
’’یہ آیت مسلمانوں کو حکم دیتی ہے کہ وہ اس گروہ کے ساتھ قتال جاری رکھیں جن کی صفات ’لا یومنون باللہ ....‘ کے الفاظ میں بیان ہوئی ہیں۔ یہ گروہ اس سے پہلے مسلمانوں کے ساتھ نقض عہد، دعوت اسلام پر حملہ آور ہونے اور اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے جیسے جرائم کا مرتکب ہو چکا تھا جو اس کے ساتھ جنگ کرنے کا سبب بنے۔ یہ آیت ایمان نہ لانے اور آیت میں مذکور دوسری صفات کو قتال کا سبب نہیں قرار دے رہی، بلکہ اس گروہ میں پائی جانے والی ان صفات کا بیان دو غرضوں سے ہوا ہے: ایک، اس کی اعتقادی واخلاقی صورت حال کی منظر کشی کے لیے، اور دوسرے، مسلمانوں کو ان کے خلاف قتال پر ابھارنے کے لیے۔ ..... اگر مقصد یہ ہوتا کہ ان کے ساتھ محض ان کے کفر کی وجہ سے قتال کیا جائے اور یہ کہ کفر ہی قتال کی اصل وجہ ہے تو پھر جزیہ لے کر انہیں اپنے دین پر قائم رہنے کی اجازت دینے کے بجائے اس وقت تک لڑنے کا حکم دیا جاتا جب تک کہ وہ اسلام قبول نہ کر لیں۔‘‘ (القرآن والقتال، ص ۷۴۔۷۷)
تاہم آیت کے الفاظ اس مفہوم میں بالکل صریح ہیں کہ قتال اور جزیہ کی اصل علت ایمان نہ لانا اور دین حق کو قبول نہ کرنا ہے۔ عربیت کی رو سے ان کا کوئی اور مفہوم مراد لینے کی کوئی گنجایش نہیں۔ آیت کا اسلوب اس سے ابا کرتا ہے کہ مذکورہ اوصاف کو حکم کی اصل علت کے بجائے محض توضیحی قرار دیا جائے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے یہ کہا جائے کہ ’السارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیہما‘ (چوری کرنے والا مرد ہو یا عورت، دونوں کے ہاتھ کاٹ دو) میں قتال اور قطع ید کی اصل علت مقاتلہ اور سرقہ نہیں بلکہ کوئی اور چیز ہے اور ان اوصاف کا ذکر یہاں محض توضیحاً کیا گیا ہے۔ چودہ صدیوں میں اہل علم نے ان آیات کا ہمیشہ یہی مفہوم سمجھا ہے۔ یہاں صدر اول کے ایک جلیل القدر صاحب علم کا حوالہ کافی ہوگا۔ عمر بن عبد العزیزؒ نے عدی بن ارطاۃ کے نام اپنے خط میں لکھا:
اما بعد! فان اللہ سبحانہ انما امر ان توخذ الجزیۃ ممن رغب عن الاسلام واختار الکفر عتیا وخسرانا مبینا فضع الجزیۃ علی من اطاق حملہا (ابوعبید، الاموال، ۱۲۱)
’’اما بعد، بے شک اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ جو لوگ اسلام سے رو گردانی کریں اور سرکشی اور صریح خسارے میں مبتلا ہو کر کفر کو اختیار کیے رکھیں، ان سے جزیہ وصول کیا جائے، اس لیے جو بھی شخص جزیہ ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہے، اس پر اسے نافذ کر دو۔‘‘
اس ہدایت کو اہل کتاب کے فتنہ وفساد سے حفاظت کی تدبیر قرار نہیں دیا سکتا، اس لیے کہ ریاست مدینہ کے خلاف فتنہ وفساد کے مرتکب محاربین کی سرکوبی کے لیے نہایت جامع اور مانع ہدایات سورۂ مائدہ کی آیات ۳۲ میں نازل ہو چکی تھیں اور ان کے حد تک کسی نئی ہدایت کی عملاً کوئی ضرورت نہیں تھی۔ آیت جزیہ کا صحیح محل یہی ہے کہ اسے محاربین اور مفسدین کے بجائے غیر محارب اہل کتاب سے متعلق قرار دیا جائے۔ یہ توجیہ عقلاً بھی بالکل موزوں اور حکیمانہ دکھائی دیتی ہے، اس لیے کہ محاربہ کے مرتکب گروہوں کے لیے تو وہی سزا موثر اور نتیجہ خیز ہو سکتی ہے جو کہ سورہ مائدہ میں بیان ہوئی ہے، لیکن غیر محارب گروہوں کے لیے اتنا کافی تھا کہ انھیں قتل یا جلا وطن کرنے کے بجائے محض مغلوب اور زیر دست بنا لیا جائے اور انھیں اجازت دی جائے کہ وہ جزیہ ادا کر کے اپنے دین پر قائم اور جزیرۂ عرب میں مقیم رہیں۔ 
مزید برآں اگر جزیہ لے کر مغلوب بنانے کا حکم صرف مفسد اور فتنہ پرداز گروہوں کے لیے تھا تو ظاہر ہے کہ غیر جانبدار گروہوں کو اس سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرنا چاہیے تھا، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ محاربین کے حال کو دیکھتے ہوئے بہت سے غیر جانب دار گروہ بھی اس انجام سے بچنے کے لیے ازخود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور آپ کو جزیہ کی ادائیگی کی پیش کش کی۔ چنانچہ سفر تبوک کے موقع پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن الولید کو بھیج کر دومۃ الجندل کے بادشاہ اکیدر بن عبد الملک کو گرفتار کروایا اور اس نے اسلام قبول کر کے اپنی قوم کی طرف سے جزیہ کی ادائیگی پر مصالحت کر لی تو اس کے بعد قریبی علاقوں کے سردار آپ کی خدمت میں حاضر ہو گئے اور ازخود جزیہ دینے کی پیش کش کی۔ (طبری، ۳/۱۰۸، ۱۰۹) واقدی کا بیان ہے:
وکانت دومۃ وایلۃ وتیماء قد خافوا النبی صلی اللہ علیہ وسلم لما راوا العرب قد اسلمت وقدم یحنۃ بن رؤبۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم وکان ملک ایلۃ واشفقوا ان یبعث الیہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کما بعث الی اکیدر واقبل معہ اہل جرباء واذرح فاتوہ فصالحہم فقطع علیہم الجزیۃ جزیۃ معلومۃ (المغازی، ۳/۱۰۳۱)
’’دومہ، ایلہ اور تیما کے لوگوں نے جب دیکھا کہ اہل عرب اسلام لے آئے ہیں تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خوفزدہ ہو گئے اور انہیں خدشہ ہوا کہ کہیں اکیدر کی طرح آپ ان کی طرف بھی کوئی لشکر نہ بھیج دیں۔ چنانچہ ایلہ کا بادشاہ یحنہ بن رؤبہ جربا اور اذرح کے باشندوں کے ہمرراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے ان کے ساتھ صلح کا معاہدہ کیا اور ان پر جزیہ کی ایک متعین مقدار لازم کر دی۔‘‘
یحنہ بن رؤبہ اور ایلہ کے دیگر سرداروں کو آ پ نے لکھا:
انی لم اکن لاقاتلکم حتی اکتب الیکم فاسلم او اعط الجزیۃ واطع اللہ ورسولہ (الطبقات الکبریٰ ۱/۲۷۷)
’’میں اس وقت تک تمھارے خلاف جنگ نہیں کرنا چاہتا جب تک کہ تمھیں خط نہ لکھ دوں۔ سو اسلام لے آؤ یا جزیہ دو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت قبول کر لو۔‘‘
۹ ہجری میں نجران کے مسیحی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان کے سرداروں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جو انھوں نے قبول نہیں کی۔ پھر آپ نے ان کے سرداروں سے کہا:
ہل لکما فی الجزیۃ تودیانہا وانتم صاغرون کما قال اللہ عزوجل فقالا لا طاقۃ لنا بحرب العرب (سنن سعید بن منصور ۳/۱۰۴۵)
’’کیا تم اللہ کے حکم کے مطابق حقارت اور پستی کی حالت میں جزیہ دینے کے لیے آمادہ ہو (یا جنگ کرنا چاہتے ہو؟) انھوں نے کہا کہ ہم میں عرب سے لڑنے کی طاقت نہیں۔‘‘
زیاد بن جہور بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نام خط لکھا اور فرمایا:
اما بعد فلیوضعن کل دین دان بہ الناس الا الاسلام فاعلم ذلک (مجمع الزوائد ۶/۱۴)
’’اما بعد! اسلام کے سوا ہر اس دین کو جسے لوگوں نے اختیار کر رکھا ہے، لازماً پست ہو کر رہنا پڑے گا۔ اس بات کو خوب جان لو۔‘‘
ان میں سے کوئی بھی گروہ مسلمانوں کے خلاف فتنہ وفساد کا مرتکب نہیں ہوا تھا۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ آیت جزیہ میں قتال کا جو حکم دیا گیا، اس سے صرف محارب اور مفسد اہل کتاب کو نہیں بلکہ جزیرۂ عرب کے تمام کافر گروہوں کو مغلوب اور مسلمانوں کے زیر دست بنانا مقصود تھا۔ چنانچہ ذخیرۂ سیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل کتاب کے بہت سے ایسے گروہوں پر بھی جزیہ نافذ کیا گیا جو کسی بھی حوالے سے مسلمانوں کے خلاف فتنہ وفساد کے مرتکب نہیں ہوئے تھے۔ یہ گروہ حسب ذیل ہیں:
بحرین کے مجوس (طبری، ۳/۲۹۔ بلاذری، ۸۶، ۸۷)
عمان کے مجوس (طبری، ۳/۲۹، ۹۵۔ بلاذری، ۸۴)
یمن کے یہود ونصاریٰ (طبری، ۳/۱۲۱، ۱۲۹۔ بلاذری، ۷۵، ۷۶)
تبالہ اور جرش کے اہل کتاب (بلاذری، ۶۶)
نجران کے نصاریٰ (ابو یوسف، الخراج، ۷۸)

صحابہ کا جہاد

اب صحابہ کے جہاد کے معاملے کو دیکھیے:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ نے روم وفارس کی سلطنتوں کے خلاف جو جنگی اقدامات کیے، جہاد وقتال کے احکام کو محض دفع فساد تک محدود قرار دینے والے اہل علم نے ان کی تشریح بھی اسی تناظر میں کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ضمن میں ایک رائے یہ ہے کہ یہ اصل میں ’’اقدامی دفاع‘‘ پر مبنی جنگ (war pre-emptive) تھی جس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ چونکہ ان سلطنتوں کی طرف سے یہ خطرہ موجود تھا کہ وہ اپنے پڑوس میں قائم ہونے والی ایک ابھرتی ہوئی طاقت کو توڑنے یا اس کو کمزور کرنے کے لیے خفیہ یا علانیہ اقدامات کریں گی، اس لیے صحابہ نے حفظ ما تقدم کے طور پر ان کی جانب سے کسی عملی اقدام سے پہلے ہی آگے بڑھ کر ان کی قوت کو توڑ دیا اور اس طرح جزیرۂ عرب کو اس کے دونوں اطراف میں موجود دشمن کے خطرے سے محفوظ کر دیا۔ (وہبہ زحیلی، آثار الحرب فی الفقہ الاسلامی، ص ۱۰۴) اس توجیہ کی رو سے اس اقدام کی اساس اور جذبہ محرکہ کوئی مذہبی جذبہ یا حکم نہیں، بلکہ معروضی حالات میں محض ایک سیاسی ضرورت تھی۔ اسی نوع کی ایک راے یہ ہے کہ جزیرۂ عرب سے باہر ان جنگوں کا آغاز دراصل عرب کے دور دراز علاقوں میں یہود ونصاریٰ اور مشرکین کی انگیخت سے پیدا ہونے والی بغاوتوں کو کچلنے سے ہوا تھا جو بڑھتابڑھتا ان علاقوں کی فتح کو محیط ہو گیا، کیونکہ مسلمانوں کے لیے یک طرفہ طور پر جنگ بند کرنا ممکن نہیں تھا۔ (محمود احمد غازی، اسلام کا قانون بین الممالک، ص ۱۴۲) اسی طرح ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ صحابہ کرام کے جنگی اقدامات دراصل اسلام کی اشاعت اور دعوت وتبلیغ کی راہ میں حائل سیاسی رکاوٹوں کو دور کرنے کے اصول پر مبنی تھے۔ مولانا مودودی نے اس نقطہ نظر کی ترجمانی یوں کی ہے:
’’ان ممالک میں شخصی حکومتیں قائم تھیں اور مستبد فرمانروا اقتدار پر قابض تھے۔ ان کا برسر اقتدار ہونا ہی اشاعت اسلام کے رستے میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا۔ ان کی موجودگی میں نہ تو اس امر کا امکان تھا کہ دعوت عام باشندگان ملک میں پھیلائی جا سکے اور نہ عوام کو اتنی آزادئ رائے اور آزادئ عمل حاصل تھی کہ اگر وہ اس دعوت حق کو پائیں تو اسے قبول کر کے اس پر عمل پیرا ہو سکیں۔ ان حالات میں حکمرانوں سے نمٹے بغیر نہ اسلام کی اشاعت کماحقہ سرانجام پا سکتی تھی اور نہ اس کے نتائج وثمرات رونما ہو سکتے تھے۔‘‘ (رسائل ومسائل، ۴/۱۹۰۔۱۹۲)
مولانا مودودی ہی کے ہاں ایک دوسرا رجحان یہ دکھائی دیتا ہے کہ صحابہ کے ان اقدامات کا مقصد درحقیقت دین ومذہب کا اختلاف یا حکومت وسلطنت کی توسیع نہیں بلکہ ان ممالک کے معاشرتی وسیاسی بگاڑ اور اخلاقی فساد کی اصلاح اور وہاں کے مجبور ومقہور عوام کو جابر حکمرانوں کے استبداد اور بالائی طبقات کے ظلم وستم سے نجات دلانا تھا ، چنانچہ انھوں نے ان اقدامات کو ’مصلحانہ جنگ‘ کا نام دیا ہے۔ (الجہاد فی الاسلام، ص ۱۴۵، ۱۴۶)
تاہم مذکورہ تمام توجیہات کے بالکل برعکس حدیث وسیرت کے ذخیرے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صحابہ کرام کے ان اقدامات کی شرعی بنیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ خطوط تھے جو آپ نے جزیرۂ عرب اور اس کے گرد ونواح کی سلطنتوں کے سربراہوں کے نام لکھے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان خطوط کو ہمارے اہل سیرت بالعموم نے ’دعوتی خطوط‘ کا عنوان دیتے ہیں، حالانکہ ان کے مضمون اور پیش وعقب کے حالات سے واضح ہے کہ ان میں مخاطبین کو محض سادہ طور پر اسلام کی دعوت نہیں بلکہ یہ وارننگ دی گئی تھی کہ ان کے لیے سلامتی اور بقا کا راستہ یہی ہے کہ وہ اس دعوت کو قبول کر لیں، بصورت دیگر انھیں اپنی حکومت واقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ مثال کے طور پر قیصر روم کے نام خط میں آپ نے لکھا: ’اسلم تسلم‘ ۔ (بخاری، رقم ۷)
نووی اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
ان قولہ اسلم تسلم فی نہایۃ من الاختصار وغایۃ من الاعجاز والبلاغۃ وجمع المعانی مع ما فیہ من بدیع التجنیس وشمولہ لسلامتہ من خزی الدنیا بالحرب والسبی والقتل واخذ الدیار والاموال ومن عذاب الآخرۃ (شرح مسلم، ص ۱۱۴۴)
’’اسلم تسلم کا جملہ بے حد مختصر لیکن غایت درجہ بلاغت واعجاز کا حامل اور متنوع معانی پر محیط ہے۔ اس میں ’تجنیس‘ کی صنعت بھی بہت عمدہ طریقے سے استعمال ہوئی ہے اور ’تسلم‘ کے لفظ میں جنگ، قید، قتل اور اموال ودیار کے چھین لیے جانے کی صورت میں دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب، دونوں سے بچاؤ کا مفہوم شامل ہے۔‘‘
خود قیصر روم نے آپ کے خط کی یہی تعبیر کی۔ چنانچہ اس نے اپنے مشیروں کو بلا کر کہا:
یا معشر الروم ہل لکم فی الفلاح والرشد وان یثبت ملککم فتبایعوا ہذا النبی؟ (بخاری، رقم ۷)
’’اے جماعت روم! کیا تم اس بات کی خواہش رکھتے ہو کہ تمہیں کامیابی اور ہدایت نصیب ہو اور تمہاری سلطنت قائم رہے اور تم اس نبی کی پیروی قبول کر لو؟‘‘
امام ابو عبید کی روایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خط میں قیصر کو اسلام قبول نہ کرنے کی صورت میں جزیہ ادا کرنے کا حکم بھی دیا۔ آپ نے فرمایا:
انی ادعوک الی الاسلام فان اسلمت فلک ما للمسلمین وعلیک ما علیہم فان لم تدخل فی الاسلام فاعط الجزیۃ فان اللہ تبارک وتعالی یقول: قاتلوا الذین ..... حتی یعطوا الجزیۃ عن ید وہم صاغرون والا فلا تحل بین الفلاحین وبین الاسلام ان یدخلوا فیہ او یعطوا الجزیۃ (الاموال، ۹۳)
’’میں تمھیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ اگر اسلام لے آؤ گے تو تمھارے حقوق وفرائض وہی ہوں گے جو مسلمانوں کے ہیں اور اگر اسلام میں داخل نہ ہونا چاہو تو پھر جزیہ ادا کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اہل کتاب سے قتال کرو .... یہاں تک کہ وہ زیردست ہو کر پستی کی حالت میں جزیہ ادا کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔ اور اگر یہ بھی نہیں تو پھر اس بات میں رکاوٹ نہ ڈالو کہ اہل روم اسلام میں داخل ہو جائیں یا جزیہ ادا کریں۔‘‘
ابن کثیر کی روایت ہے:
قال: قد نزل ہذا الرجل حیث رایتم وقد ارسل الی یدعونی الی ثلاث خصال: یدعونی ان اتبعہ علی دینہ او علی ان نعطیہ مالنا علی ارضنا والارض ارضنا او نلقی الیہ الحرب (السیرۃ النبویۃ ۴/۲۷)
’’اس نے کہا: تم دیکھ رہے ہو کہ یہ آدمی کس مقام پر پہنچ گیا ہے۔ اس نے مجھے خط لکھا ہے اور تین میں سے ایک بات قبول کرنے کی دعوت دی ہے۔ اس نے کہا ہے کہ یا تو میں اس کے دین کی پیروی اختیار کر لوں یا ہم اسے مال (یعنی خراج) ادا کریں جبکہ یہ سرزمین ہمارے ہی پاس رہے گی اور یا پھر اس کے ساتھ جنگ کے لیے تیار ہو جائیں۔‘‘
حارث بن ابی شمر شاہ غسان کو آپ کا خط ملا تو اس نے بھی اسے اپنے اقتدار کو چیلنج قرار دیتے ہوئے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا:
من ینتزع منی ملکی؟ انا سائر الیہ ولو کان بالیمن جئتہ (ابن سعد، الطبقات الکبریٰ ۱/۲۶۱)
’’مجھ سے میری بادشاہت کون چھین سکتا ہے؟ میں اس پر چڑھائی کر دوں گا اور اگر وہ یمن میں ہوا تو میں وہاں بھی اس کے پیچھے پہنچوں گا۔‘‘
مقوقس شاہ مصر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے جواب میں قبول اسلام کے بجائے گول مول جواب دے کر معاملے کو ٹالنا چاہتا تو رسول اللہ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:
ضن الخبیث بملکہ ولا بقاء لملکہ (ابن سعد، الطبقات الکبریٰ ۱/۲۶۰، ۲۶۱)
’’اس خبیث نے اپنی بادشاہت کا لالچ کیا لیکن اس کی بادشاہت پھر بھی باقی نہیں رہے گی۔‘‘
خسرو پرویز شاہ ایران نے آپ کا نامہ مبارک پڑھنے کے بعد اسے پھاڑ دیا اور یمن کے حاکم کو لکھا کہ :
لتکفینی رجلا خرج بارضک یدعونی الی دینہ او اودی الجزیۃ (مجمع الزوائد ۸/۲۳۷)
’’اس شخص سے نمٹنا تمھارے ذمے ہے جو تمھاری سرزمین میں ظاہر ہوا ہے اور اس نے مجھے دعوت دی ہے کہ میں اس کا دین قبول کر لوں یا اس کو جزیہ ادا کروں۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا:
اما ھولاء فیمزقون واما ھولاء فسیکون لہم بقیۃ (ذہبی، تاریخ الاسلام، المغازی، ص ۳۹۸)
’’ایرانیوں کی سلطنت کے تو پرزے اڑ جائیں گے، البتہ رومیوں کی سلطنت باقی رہے گی۔‘‘
یمامہ کے حاکم ہوذہ بن علی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دعوت اسلام کا یہی مطلب سمجھتے ہوئے جواب میں حکومت واقتدار میں شرکت کی شرط رکھی تو آپ نے فرمایا:
لو سالنی سیابۃ من الارض ما فعلت باد وباد ما فی یدیہ (ابن سعد، الطبقات الکبریٰ۱/۲۶۲)
’’اگر وہ مجھ سے سرزمین عرب کی ایک کچی کھجور بھی مانگے تو میں نہیں دوں گا۔ اس کا اور اس کے اقتدار کا انجام بربادی ہے۔‘‘
ہوذہ کی وفات کے بعد مسیلمہ یمامہ کا حاکم بنا تو آپ نے اسے بھی اسلام کی دعوت دی۔ اس نے جواب میں نبوت کا دعویٰ کرنے کے ساتھ ساتھ شراکت اقتدار کا سابقہ مطالبہ دہرایا تو آپ نے اس کو لکھا:
بلغنی کتابک الکذب والافتراء علی اللہ وان الارض للہ یورثہا من یشاء من عبادہ والعاقبۃ للمتقین (الطبقات الکبریٰ ۱/۲۷۳)
’’مجھے تمہارا خط ملا جو سراسر جھوٹ اور اللہ کے خلاف بہتان ہے۔ یہ سرزمین اللہ کی ہے اور وہ جس کو چاہے گا، اس کا مالک بنائے گا۔ انجام کار کامیابی متقین ہی کو ملے گی۔‘‘
اس تفصیل سے واضح ہے کہ یہ خطوط دراصل ’الا تعلوا علی واتونی مسلمین‘ (میرے مقابلے میں سرکشی نہ کرو اور فرماں بردار بن کر میرے پاس حاضر ہو جاؤ) کے لہجے میں لکھے گئے تھے اور ان میں مخاطبین کو محض اسلام کی دعوت نہیں گئی تھی، بلکہ انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت قبول کرنے یا بصورت دیگر اپنی حکومت واقتدار سے ہاتھ دھونے کی دھمکی دی گئی تھی۔ گویا ان خطوط کی حیثیت ’اتمام حجت‘ کی تھی جس کے بعد ان اقوام کے خلاف جنگی اقدام کی اجازت صحابہ کو حاصل ہو گئی تھی، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد مواقع پر صحابہ کو یہ بشارت دی کہ وہ ان سلطنتوں کو فتح کریں گے اور اللہ تعالیٰ ان کے خزانے ان کے تصرف میں دے دے گا۔ 
مکہ مکرمہ میں جب ابو طالب نے آپ سے پوچھا کہ آپ اپنی قوم سے کیا چاہتے ہیں تو آپ نے فرمایا:
انی ارید منہم کلمۃ واحدۃ تدین لہم بہا العرب وتودی الیہم العجم الجزیۃ (ترمذی، رقم ۳۱۵۶)
’’میں ان سے ایک ہی بات کا مطالبہ کرتا ہوں جس کو مان لینے کے بعد عرب ان کے تابع ہو جائیں گے اور عجم ان کو جزیہ ادا کریں گے۔‘‘
ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ان اللہ زوی لی الارض فرایت مشارقہا ومغاربہا وان امتی سیبلغ ملکہا ما زوی لی منہا (مسلم، رقم ۵۱۴۴)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ نے میرے لیے زمین سمیٹ دی اور میں نے اس کے مشرق ومغرب کے علاقے دیکھ لیے اور بے شک میری امت کی حکومت ان تمام علاقوں تک پہنچے گی جو مجھے سمیٹ کر دکھائے گئے۔‘‘
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
اذا ہلک کسری فلا کسری بعدہ واذا ہلک قیصر فلا قیصر بعدہ والذی نفسی بیدہ لتنفقن کنوزہما فی سبیل اللہ (بخاری، رقم ۲۸۸۸)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کسریٰ ہلاک ہو جائے گا تو اس کے بعد کوئی دوسرا کسریٰ پیدا نہیں ہوگا۔ اور جب قیصر کی حکومت (شام کے علاقے سے) ختم ہو جائے گی تو دوبارہ کبھی قائم نہیں ہوگی۔ اور اللہ کی قسم، ان دونوں کے خزانے اللہ کے راستے میں خرچ کیے جائیں گے۔‘‘
غزوۂ تبوک کے موقع پر آپ نے فرمایا: 
الا ابشرکم؟ قالوا بلی یا رسول اللہ وہم یسیرون علی رواحلہم فقال ان اللہ اعطانی الکنزین فارس والروم وامدنی بالملوک ملوک حمیر یجاہدون فی سبیل اللہ ویاکلون فیء اللہ (واقدی، المغازی ۳/۱۰۱۱)
’’کیا میں تمھیں خوشخبری نہ دوں؟ صحابہ نے اپنی سواریوں پر چلتے چلتے کہا: یا رسول اللہ، کیوں نہیں۔ آ پ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے دو خزانے عطا فرمائے ہیں۔ ایک فارس کا اور دوسرا روم کا۔ اور اس نے حمیر کے بادشاہوں کے ذریعے سے میری مدد کی ہے جو اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے اور اس راہ میں حاصل ہونے والا مال غنیمت کھائیں گے۔‘‘
چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ نے انھی بشارتوں اور وعدوں کے مطابق جزیرۂ عرب کے ارد گرد بسنے والی ان اقوام کے خلاف جہاد کیا۔ اپنے ان اقدامات کی توجیہ خود صحابہ کرام نے اسی زاویہ نگاہ سے کی ہے اور ان کا اپنا موقف بالکل دوٹوک الفاظ میں یہ منقول ہے کہ وہ روم وفارس کی سلطنتوں سے، ان کی پیش کش اور خواہش کے باوجود، مصالحانہ تعلقات پر راضی نہیں تھے اور ہر حال میں ان کے علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتے تھے، الا یہ کہ یہ اقوام دائرۂ اسلام میں داخل ہو جائیں۔ صحابہ کے بیانات سے ان جنگوں کے دو مقاصد واضح طور پر سامنے آتے ہیں: ایک، اللہ کے دین کو غالب کرنا اور اس کے منکروں کو سزا دینا، اور دوسرا، دشمنوں کی سرزمین اور ان کے اموال واملاک پر قبضہ کرنا۔ اس ضمن میں چند شواہد حسب ذیل ہیں:
سیدنا ابوبکر نے اہل روم کے خلاف جہاد میں شرکت کی ترغیب دینے کے لیے اہل یمن کو خط لکھا تو اس میں فرمایا:
ان اللہ کتب علی المومنین الجہاد وامرہم ان ینفروا خفافا وثقالا .... ولا یترک اہل عداوتہ حتی یدینوا الحق ویقروا بحکم الکتاب او یوداوا الجزیۃ عن ید وہم صاغرون (ازدی، فتوح الشام، ۵، ۶)
’’اللہ نے اہل ایمان پر جہاد فرض کیا ہے اور انھیں حکم دیا ہے کہ ہلکے ہوں یا بھاری، جہاد کے لیے نکلیں۔ اس دین کے دشمنوں کو اس وقت تک نہیں چھوڑا جا سکتا جب تک کہ وہ اس دین کی پیروی اختیار کر کے کتاب اللہ کے حکم پر راضی ہو جائیں یا پھر مطیع بن ذلت اور پستی کی حالت میں جزیہ ادا کرنا قبول کر لیں۔‘‘
ایرانی سپہ سالار رستم نے جنگ قادسیہ سے پہلے مسلمانوں کو کچھ دے دلا کر صلح پر آمادہ کرنے کی کوشش کی اور ان سے کہا کہ دیکھو، تم ہمارے پڑوسی ہو اور تم میں سے ایک جماعت ہماری بادشاہت کے زیر سایہ رہتی تھی۔ ہم ان کا حق ہمسایگی اچھے طریقے سے ادا کرتے تھے، ان پر آنے والی آفتوں کو روکتے تھے اور بہت سی سہولتیں انھیں فراہم کرتے تھے۔ ہم ان کی اور دیگر اہل صحرا کی دیکھ بھال کرتے تھے، اپنی چراگاہوں میں انھیں جانور چرانے دیتے تھے اور اپنے ملک سے انھیں غلہ دے کر بھیجتے تھے اور اپنی سرزمین کے کسی بھی علاقے میں انھیں تجارت کرنے سے نہیں روکتے تھے اور وہ ا س طرح اپنی ضروریات زندگی کا بندوبست کر لیا کرتے تھے۔ طبری کا بیان ہے:
یعرض لہم بالصلح وانما یخبرہ بصنیعہم والصلح یرید ولا یصرح 
’’ان ساری باتوں سے ا س کا مقصد مسلمانوں کو صلح پر آمادہ کرنا تھا، لیکن وہ صاف لفظوں میں صلح کی پیش کش کرنے کے بجائے اپنا حسن سلوک بیان کر کے اس طرف اشارہ کر رہا تھا۔‘‘
اس پیش کش کے جواب میں مسلمان لشکر کے نمائندے زہرہ نے کہا:
بعث اللہ تبارک وتعالی الینا رسولا فدعانا الی ربہ فاجبناہ فقال لنبیہ صلی اللہ علیہ وسلم انی قد سلطت ہذہ الطائفۃ علی من لم یدن بدینی فانا منتقم بہم منہم واجعل لہم الغلبۃ ما داموا مقرین بہ وہو دین الحق لا یرغب عنہ احد الا ذل ولا یعتصم بہ احد الا عز (طبری، تاریخ الامم والملوک ۳/۵۱۷)
’’اللہ تعالیٰ نے ہمارے پاس اپنا رسول بھیجا جس نے ہمیں اللہ کی طرف بلایا، پس ہم نے اس کی دعوت قبول کر لی۔پھر اس نے اپنے پیغمبر کو بتایا کہ میں نے اس جماعت کو ان لوگوں پر مسلط کر دیا ہے جو میرے دین کو قبول نہیں کرتے۔ میں ان کے ذریعے سے ان سے انتقام لوں گا اور جب تک یہ خود دین حق کے پیروکار رہیں گے، ان کو غلبہ حاصل رہے گا۔ یہی دین حق ہے۔ جو بھی اس سے منہ موڑے گا، ذلیل ہوگا اور جو اس کو تھام لے گا، سرفراز ہوگا۔‘‘
نعمان بن مقرن نے یزگرد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:
وامرنا ان نبدا بمن یلینا من الامم فندعوہم الی الانصاف فنحن ندعوکم الی دیننا وہو دین الاسلام حسن الحسن وقبح القبیح کلہ فان ابیتم فامر من الشر ہو اہون من آخر شر منہ الجزاء فان ابیتم فالمناجزۃ (ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، ۷/۴۱)
’’اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہمارے پڑوس میں جو قومیں رہتی ہیں، ان پر حملہ آور ہو جائیں اور ان کو عدل وانصاف کی دعوت دیں۔ سو اب ہم تمہیں دین کی طرف بلانے آئے ہیں۔ یہ دین اسلام ہے جس نے ہر اچھی چیز کو اچھا اور ہر بری چیز کو برا قرار دیا ہے۔ پس اگر تم انکار کرو گے تو تمہارے پاس دو راستے ہیں جو دونوں ناگوار ہیں، لیکن ان میں سے ایک دوسرے سے بھی زیادہ برا ہے۔ جزیہ دینا قبول کر لو اور اگر اس سے انکار کرو گے تو پھر جنگ ہوگی۔‘‘
ایک دوسرے موقع پر ایرانی سپہ سالا رستم نے مغیرہ بن شعبہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہماری نظر میں دنیا کی کوئی قوم تم سے زیادہ حقیر نہیں تھی۔ تم سخت بدحالی اور تنگ دستی کی زندگی بسر کرتے تھے اور ہم تمھیں کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے اور نہ کسی شمار میں لاتے تھے۔ تمہارا حال یہ تھا کہ جب تمہاری سرزمین میں قحط پڑتا اور خشک سالی تم پر مسلط ہو جاتی تو تم ہماری ہی سرزمین کے ایک کونے میں آ کر پناہ لیتے تھے۔ پھر ہم تمہیں کچھ کھجوریں اور جو وغیرہ دے کر رخصت کر دیتے تھے۔ مجھے معلوم ہے کہ اب جو تم حملہ آور ہو رہے ہو تو تمہاری سرزمین کی انہی کلفتوں نے تمہیں اس پر مجبور کیا ہے۔ سو میں تمہارے سردار کو ایک جوڑا، ایک خچر اور ایک ہزار درہم اور تم میں سے ہر ایک کو کافی مقدار میں کھجوریں اور دو دو کپڑے دیے دیتا ہوں۔ اب تم واپس چلے جاؤ کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ تمہیں قتل کروں یا قیدی بناؤں۔ (طبری، تاریخ الامم والملوک ۳/۵۲۳)
مغیرہ بن شعبہ نے جواب میں فرمایا:
انا لیس طلبنا الدنیا وانما ہمنا وطلبنا االآخرۃ وقد بعث اللہ الینا رسولا قال لہ انی قد سلطت ہذہ الطائفۃ علی من لم یدن بدینی فانا منتقم بہم منہم واجعل لہم الغلبۃ ماداموا مقرین بہ وہو دین الحق لا یرغب عنہ احد الا ذل ولا یعتصم بہ الا عز (ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، ۷/۳۹)
’’ہم دنیا کی تلاش میں نہیں آئے۔ ہمارا اصل مقصد اور مطمح نظر تو آخرت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے پاس اپنا رسول بھیجا اور اس کو یہ بتایا کہ میں نے اس جماعت کو ان لوگوں پر مسلط کر دیا ہے جو میرے دین کو قبول نہیں کرتے۔ میں ان کے ذریعے سے ان سے انتقام لوں گا اور جب تک یہ خود دین حق کے پیروکار رہیں گے، ان کو غلبہ حاصل رہے گا۔ یہی دین حق ہے۔ جو بھی اس سے منہ موڑے گا، ذلیل ہوگا اور جو اس کو تھام لے گا، سرفراز ہوگا۔‘‘
ایک روایت کے مطابق انھوں نے کہا:
امرنا نبینا رسول ربنا ان نقاتلکم حتی تعبدوا اللہ وحدہ او تودوا الجزیۃ واخبرنا نبینا صلی اللہ علیہ وسلم عن رسالۃ ربنا انہ من قتل منا صاروا الی الجنۃ فی نعیم لم یر مثلہا قط ومن بقی منا ملک رقابکم (بخاری، رقم ۲۹۲۵)
’’ہمیں ہمارے رسول نے حکم دیا ہے کہ ہم تمھارے ساتھ جنگ کریں یہاں تک کہ تم ایک خدا کی عبادت کرنے لگ جاؤ یا ہمیں جزیہ ادا کرو۔ ہمارے نبی نے ہمارے خدا سے خبر پا کر ہمیں بتایا ہے کہ ہم میں سے جو لوگ اس لڑائی میں قتل ہو جائیں گے، وہ جنت میں جائیں گے جہاں ایسی نعمتیں ہوں گی جو انھوں نے کبھی نہیں دیکھیں اور جو زندہ رہیں گے، وہ تمہاری گردنوں کے مالک بنیں گے۔‘‘
خالد بن ولید نے اپنے لشکر کو جہاد کی ترغیب دیتے ہوئے بلاد عجم کے فوائد ومنافع سمجھائے اور ان سے کہا:
الا ترون الی الطعام کرفغ التراب وباللہ لو لم یلزمنا الجہاد فی اللہ والدعاء الی اللہ عز وجل ولم یکن الا المعاش لکان الرای ان نقارع علی ہذا الریف حتی نکون اولی بہ ونولی الجوع والاقلال من تولاہ ممن اثاقل عما انتم علیہ (طبری، تاریخ الامم والملوک ۳/۳۵۴)
’’تم دیکھتے نہیں کہ وہاں کتنی وافر مقدار میں غلہ میسر ہے؟ بخدا، اگر ہم پر اللہ کی طرف دعوت دینا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا فرض نہ ہوتا اور صرف سامان معاش کی بات ہوتی تب بھی عقل کی بات یہی تھی کہ اس سرسبز وشاداب علاقے پر قبضے کے لیے ہم ان سے لڑیں، تاکہ وہاں کی نعمتوں کے حقدار بنیں اور ان لوگوں کو بھوک اور تنگ دستی میں مبتلا رہنے دیں جو جدوجہد سے کترا کر خود اپنی بدحالی پر راضی ہیں۔‘‘
فارسی جرنیل رستم نے ایک مسلمان سپاہی سے سوال کیا کہ تم کس لیے آئے ہو اور تمہارا مقصود کیا ہے؟ اس نے کہا:
جئنا نطلب موعود اللہ قال وما ہو؟ قال ارضکم وابناؤکم ودماؤکم ان ابیتم ان تسلموا (طبری، تاریخ الامم والملوک ۳/۵۰۸)
’’ہم اللہ کے وعدے کے حصول کے لیے آئے ہیں۔ رستم نے پوچھا، کیسا وعدہ؟ مسلمان نے کہا، وہ یہ ہے کہ اگر تم اسلام لانے سے انکار کرو تو ہم تمہاری سرزمین اور تمہاری اولاد اور تمہاری جانوں کے مالک بن جائیں۔‘‘
۱۶ ہجری میں مسلمانوں نے بہرسیر کا محاصرہ کیا تو وہاں کے حاکم کی طرف سے بھی صلح کا پیغام بھیجا گیا:
ہل لکم الی المصالحۃ علی ان لنا ما یلینا من دجلۃ وجبلنا ولکم ما یلیکم من دجلۃ الی جبلکم؟ اما شبعتم لا اشبع اللہ بطونکم 
’’کیا تم اس شرط پر صلح کرنے پر آمادہ ہو کہ دجلہ سے لے کر ہمارے پہاڑ تک کا علاقہ ہمارا ہو اور دجلہ سے لے کر تمہارے پہاڑ تک کا علاقہ تمہارا؟ اللہ تمہیں کبھی سیر نہ کرے، کیا تمہاری بھوک ابھی مٹی نہیں؟‘‘
صحابہ کا جواب یہ تھا:
انہ لا یکون بیننا وبینکم صلح ابدا حتی ناکل عسل افریذین باترج کوثی (طبری، تاریخ الامم والملوک ۴/۷)
’’جب تک ہم افریدین کا شہد کوثیٰ کے لیموں کے ساتھ ملا کر نہ کھا لیں، تمہارے ساتھ کسی قیمت پر صلح نہیں کریں گے۔‘‘
اہل فارس کے سرداروں سے اس صورت حال پر جو تبصرہ منقول ہے، وہ بھی ہر لحاظ سے ایک جارحانہ جنگ کی شکایت ہے۔ انھوں نے آپس میں کہا:
ان محمدا الذی جاء العرب بالدین لم یغرض غرضنا ثم ملکہم ابوبکر من بعد فلم یغرض غرض فارس الا فی غارۃ تعرض لہم فیہا والا فی ما یلی بلادہم من السواد ثم ملک عمر من بعدہ فطال ملکہ وعرض حتی تناولکم وانتقصکم السواد والاہواز واوطاہا ثم لم یرض حتی اتی اہل فارس والمملکۃ فی عقر دارہم وہو آتیکم ان لم تاتوہ فقد اخرب بیت مملکتکم واقتحم بلاد ملککم ولیس بمنتہ حتی تخرجوا من فی بلادکم من جنودہ وتقلعوا ہذین المصرین ثم تشغلوہ فی بلادہ وقرارہ (طبری، تاریخ الامم والملوک ۴/۱۲۲)
’’محمد جو عرب کے پاس اپنا دین لے کر آئے تھے، انہوں نے تو ہمیں اپنا ہدف نہیں بنایا۔ پھر اس کے بعد ابوبکر اہل عرب کے حاکم بنے تو انہوں نے بھی ہماری طرف رخ نہیں کیا، سوائے ایک چھوٹی سی لڑائی کے جس میں ان کا اہل فارس سے ٹکراؤ ہوا اور انھیں سرزمین عرب کے ساتھ متصل سواد کے علاقے کے علاوہ ہماری سرزمین میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ لیکن ان کے بعد جب عمر حکمران ہوا تو اس کی مملکت طول وعرض میں پھیلتی جا رہی ہے، یہاں تک کہ تم بھی اس کی زد میں آ گئے ہو۔ اس نے تم سے سواد اور اہواز کا علاقہ چھین لیا۔ پھر اس پر قناعت کرنے کے بجائے اہل فارس کی سلطنت کے عین قلب میں آ گھسا۔ اور اب اگر تم نے پیش قدمی نہ کی تو وہ یہاں بھی تمہارے پیچھے پہنچ جائے گا۔ اس نے تمہارے دار الحکو مت کو برباد کر دیا ہے اور تمہاری سلطنت کے شہروں میں گھس آیا ہے اور وہ اس پر بھی بس کرنے والا نہیں جب تک کہ تم اپنی سلطنت سے اس کی فوجوں کونکال نہ دو اور یہ دونوں شہر اس سے چھین نہ لو۔ پھر اس کے بعد تم اس کو بھاگنے پر مجبور کر دو اور خود اس کے علاقے میں گھس کر اسے اپنے دفاع میں الجھا دو۔‘‘
رومی جرنیل باہان اور خالد بن ولید کے درمیان جو گفتگو ہوئی، اس میں بھی یہ حقیقت صاف نمایاں ہے:
فقال باہان لخالد ہلم الی امر نعرضہ لکم تنصرفون ونحمل من کان منکم راجلا ونوقر لکم ظہورکم وفی روایۃ ونوقر لکم طعاما واداما والاول اصح ونامر لکم بدنانیر خمسۃ خمسۃ فانا نعلم انکم فی ارض قلیلۃ الخیر وانما حملکم علی المسیر ذلک فقال لہ خالد ما حملنا علی المسیر ما ذکرت من شدۃ العیش فی بلادنا ولکن قاتلنا من وراء نا فی الامم فشربنا دماء ہم فحدثنا انہ لیس من قوم احلی دما من الروم فاقبلنا الیکم لنشرب دماء کم فنظر بعضہم الی بعض فقالوا حق واللہ ما حدثنا عنہم یعنون ما اخبرنا بہ انہم لا ینصرفون الا بقبول الدین او الجزیۃ او الانقیاد لہم شئنا او ابینا (سرخسی، شرح السیر الکبیر، ۱/۵۱، ۵۲)
’’باہان نے خالد سے کہا: میں تمہیں جو پیش کش کر رہا ہوں، اسے مان لو۔ تم واپس چلے جاؤ۔ تم میں سے جو پیدل ہیں، انہیں ہم سواری دے دیتے ہیں اور جن کے پاس سواریاں ہیں، ان کو غلہ اور سالن سے لاد دیتے ہیں اور ہر ایک کو پانچ پانچ دینار دے دیتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ تمہاری سرزمین میں مال ودولت کی قلت ہے اور اسی چیز نے تمہیں ہمارے خلاف آمادۂ جنگ کیا ہے۔ خالد نے کہا: نہیں، ہم اپنی سرزمین کی سختیوں سے تنگ آ کر تمہاری طرف نہیں آئے، بلکہ بات یہ ہے کہ ہم نے جب اپنے سوا دوسری قوموں سے جنگ کی اور ان کا خون پیا تو ہمیں بتایا گیا کہ رومیوں سے زیادہ میٹھا اور لذیذ خون کسی کا نہیں۔ سو اب ہم یہاں تمہارا خون پینے آئے ہیں۔ یہ سن کر رومیوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کہنے لگے کہ ان کے بارے میں ہمیں جو خبر پہنچی تھی، وہ بالکل سچ ہے۔ یعنی ہمیں بتایا گیا تھا کہ ہم چاہیں یا نہ چاہیں، یہ اس وقت تک واپس نہیں جائیں گے جب تک یا تو ہم ان کا دین نہ قبول کر لیں یا جزیہ نہ دے دیں یا ان کے مطیع نہ بن جائیں۔‘‘
مسلمانوں کے لشکر نے ابو عبیدہ کی قیادت میں اردن کا محاصرہ کیا تو اہل روم کے ساتھ گفت وشنید کے دوران میں ان کی طرف سے یہ پیش کش کی گئی کہ وہ بلقاء اور اردن کا کچھ علاقہ علاقہ اس شرط پر مسلمانوں کو دے دیتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ صلح کر لیں اور شام کے باقی علاقوں کو رومیوں سے چھیننے کی کوشش نہ کریں۔ اس کے جواب میں ابو عبیدہ نے ان سے کہا:
امرنا صلی اللہ علیہ وسلم فقال اذا اتیتم المشرکین فادعوہم الی الایمان باللہ وبرسولہ وبالاقرار بما جاء من عند اللہ عز وجل فمن آمن وصدق فہو اخوکم فی دینکم لہ ما لکم وعلیہ ما علیکم ومن ابی فاعرضوا علیہ الجزیۃ حتی یودونہا عن ید وہم صاغرون فان ابوا ان یومنوا او یودوا الجزیۃ فاقتلوہم وقاتلوہم (ازدی، فتوح الشام، ۱۰۹)
’’ہمیں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ جب تم مشرکین کے پاس جاؤ تو انھیں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے اور جو کچھ اللہ کا رسول اللہ کی طرف سے لے کر آیا ہے، اس کا اقرار کرنے کی دعوت دو۔ پھر جو ایمان لے آئے اور تصدیق کر دے، وہ دین میں تمھارا بھائی ہے۔ اس کے حقوق وفرائض وہی ہیں جو تمھارے ہیں۔ اور جو انکار کرے تو اسے جزیہ ادا کرنے کے لیے کہو یہاں تک کہ وہ مطیع بن کر ذلت کی حالت میں جزیہ دینے پر آمادہ ہو جائیں۔ پھر اگر وہ ایمان لانے اور جزیہ دینے سے انکار کریں تو انھیں قتل کرو اور ان کے خلاف جنگ کرو۔‘‘
عمرو بن العاص نے مقوقس شاہ مصر کے نمائندوں سے کہا:
ان اللہ عز وجل بعث محمدا صلی اللہ علیہ وسلم بالحق وامرہ بہ وامرنا بہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وادی الینا کل الذی امر بہ ثم مضی صلوات اللہ علیہ ورحمتہ وقد قضی الذی علیہ وترکنا علی الواضحۃ وکان مما امرنا بہ الاعذار الی الناس فنحن ندعوکم الی الاسلام فمن اجابنا الیہ فمثلنا ومن لم یجبنا عرضنا علیہ الجزیۃ وبذلنا لہ المنعۃ (طبری، تاریخ الامم والملوک ۴/۱۰۷)
’’اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دین حق دے کر بھیجا اور ان کو اس کی پیروی پر مامور کیا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے تمام حکم ہم تک پہنچا دیے اور ہمیں ان کی پیروی کی تلقین کی۔ پھر آپ اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے بعد اللہ کے حضور تشریف لے گئے اور ہمیں ایک نہایت روشن راستے پر چھوڑ گئے۔ انھوں نے ہمیں جو حکم دیے، ان میں سے یہ بھی ہے کہ اٹھ کر لوگوں پر اس طرح حجت قائم کر دیں کہ ان کے پاس عذر باقی نہ رہے۔ پس اب ہم تمھیں اسلام کی دعوت دیتے ہیں۔ جو اسے قبول کر لے گا، وہ ہمارا شریک بن جائے گا اور جو انکار کرے گا، ہم اسے یہ پیش کش کریں گے کہ وہ جزیہ ادا کر کے ہماری حفاظت میں آ جائے۔‘‘
علاوہ ازیں صحابہ کے جنگی اقدامات کی زیر بحث تعبیر میں ’جزیہ‘ کی وصولی کا مسئلہ بھی کسی طرح سے فٹ نہیں بیٹھتا، اس لیے کہ مفتوح علاقوں کے غیر مسلموں پر عائد کیے جانے والے اس کے ساتھ ذلت، رسوائی اور محکومی کا تصور لازمی طور پر وابستہ تھا اور مفتوحین پر اس کا نفاذ سزا اور عقوبت کے پہلو سے کیا گیا تھا۔ زیر بحث نقطہ نظر کے قائلین کے نزدیک ’جزیہ‘ کی حیثیت کفر پر قائم رہنے کی سزا یا ذلت ورسوائی کی علامت کی نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ٹیکس ہے جو اسلامی ریاست کے غیر مسلموں سے ان کی جان ومال کی حفاظت اور فوجی خدمات سے مستثنیٰ قرار دیے جانے کے عوض میں وصول کیا جاتا ہے۔ اس کی دلیل یہ بیان کی جاتی ہے کہ عہد صحابہ میں اس بات کے نظائر موجود ہیں کہ اگر مسلمان کسی علاقے کے غیر مسلموں کی دشمن سے حفاظت کا فریضہ انجام نہ دے سکے تو انھوں نے ان سے وصول کردہ جزیہ انھیں واپس کر دیا۔ اسی طرح بعض مواقع پر جن غیر مسلموں نے اسلامی فوج میں شامل ہو کر مخالف طاقتوں کے ساتھ لڑائی کی، انھیں بھی جزیہ سے مستثنیٰ قرار دیا گیا۔ (شبلی نعمانی، ’’الجزیہ‘‘، مقالات شبلی ۱/۲۱۰-۲۲۰) 
اس تعبیر کے پس منظر میں یہ خواہش موجود ہے کہ ’جزیہ‘ کو کسی طرح سے مذہبی امتیاز کے تناظر سے الگ کر کے اسے ریاست کے مالیاتی واجبات کے عمومی دائرے میں لے آیا جائے۔ اہل علم کا یہ گروہ بالعموم یہ رائے پیش کرتا ہے کہ ’جزیہ‘ کو تذلیل اور تحقیر کی علامت قرار دینا بعد کے فقہا کی غلطی ہے اور نصوص میں اس کے لیے کوئی بنیاد موجود نہیں۔ تاہم تاریخ وسیرت کے ذخیرے میں موجود شواہد اس رائے کو قبول کرنے میں مانع ہیں اور وہ ’جزیہ‘ کے اسی مفہوم کی تائید کرتے ہیں جو کہ فقہا نے بیان کیا ہے۔ ڈاکٹر جواد علی اپنی کتاب ’’المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام‘‘ میں اس کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
والجزیۃ من الالفاظ المستعملۃ عند الجاہلیین کذلک بدلیل ورودہا فی القرآن الکریم وقد خصصت فی الاسلام بما یوخذ من اہل الذمۃ علی رقابہم وقد کان الجاہلیون یاخذون الجزیۃ من المغلوبین وکانت عندہم الضریبۃ التی توخذ عن رؤوس المغلوبین یدفعونہا الی الغالب فدفعتہا القبائل المغلوبۃ للقبائل الغالبۃ علی اساس الرؤوس (المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ۵/۳۰۶)
’’جزیہ ان الفاظ میں سے ہے جو زمانہ جاہلیت میں بھی بعینہ اسی طرح استعمال ہوتا تھا اور اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ لفظ قرآن مجید میں آیاہے۔ اسلام میں یہ لفظ خاص طور پر اس رقم کے لیے بولا جاتا ہے جو اہل ذمہ سے اشخاص کے لحاظ سے وصول کی جاتی ہے۔ اہل جاہلیت مغلوب ہو جانے والوں سے جزیہ وصول کیا کرتے تھے اور ان کے نزدیک اس کا تصور ایک ایسے ٹیکس کا تھا جو مغلوب گروہ کے افراد سے لر کر غالب گروہ کو دیا جاتا ہے۔ چنانچہ مغلوب قبائل اشخاص کے لحاظ سے غالب قبائل کو جزیہ ادا کیا کرتے تھے۔‘‘
وتدفع القبائل الضعیفۃ اتاوۃ الی القبائل الکبیرۃ او الی الملوک تکون بمثابۃ حق الحمایۃ والاعتراف بالسیادۃ ولہذا کانت القبائل التی لا تدفع اتاوۃ تتباہی وتفتخر لان ذلک یدل علی عزتہا ومنعتہا ویقال ان الاوس والخزرج ابنی قیلۃ لم یودیا اتاوۃ قط فی الجاہلیۃ الی احد من الملوک فلما کتب الیہم تبع یدعوہم الی طاعتہ ویتوعدہم لم یجیبوہ وتحارب معہم ثم ارتحل عنہم وکانت للغطاریف علی دوس اتاوۃ یاخذونہا کل سنۃ حتی ان الرجل منہم کان یاتی بیت الدوسی فیضع سہمہ او نعلہ علی الباب ثم یدخل (المفصل فی تاریخ العرب، ۵/۳۱۱)
’’کمزور قبائل طاقتور قبائل یا بادشاہوں کو جرمانہ ادا کیا کرتے تھے جو ان کی برتری اور سیادت کے اعتراف اور ان کی طرف سے حفاظت وحمایت کا حق حاصل ہونے کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔ اسی لیے وہ قبائل جو یہ جرمانہ ادا نہیں کرتے تھے، اس پر فخر کرتے اور دوسروں پر اس بات کو جتاتے تھے کیونکہ یہ بات ان کی عزت وشرف اور ان کی خود مختاری کی دلیل ہوتی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ اوس اور خزرج نے زمانہ جاہلیت میں کبھی کسی بادشاہ کو جرمانہ ادا نہیں کیا۔ پھر جب تبع نے ان کو اپنا مطیع بن جانے کا حکم دیا اور ان کو دھمکی دی تو انھوں نے اس کی بات نہیں مانی جس پر اس نے ان کے ساتھ جنگ کی اور پھر ان کے علاقے سے کوچ کر گیا۔ قبیلہ دوس کے ذمے ایک جرمانہ لازم تھا جو وہ ہر سال بنو غطریف کو ادا کیا کرتے تھے۔ حتیٰ کہ ان میں سے کوئی شخص کسی دوسی کے گھر میں جاتا اور اپنا تیر یا جوتا دروازے کے پاس رکھ کر اندر داخل ہو جاتا تھا۔‘‘
مشہور مستشرق ڈاکٹر ڈینئل ڈینیٹ نے ایرانی نظام سیاست میں جزیہ کی نوعیت واضح کرتے ہوئے لکھا ہے:
بینما کانت ضریبۃ الراس التی یودیہا ہولاء المحکومون تعتبر من الوجہۃ النظریۃ تعویضا عن الواجبات الملکیۃ الکہنوتیۃ التی کانوا عاجزین عن القیام بہا کانت ہذہ الضریبۃ تعتبر فی الواقع سمۃ للذل وعنوانا للوضاعۃ الاجتماعیۃ (الجزیۃ والاسلام، ترجمہ: الدکتور فوزی فہیم جاد اللہ، ص ۴۷)
’’ان محکوموں پر اشخاص کے اعتبار سے لگایا جانے والا ٹیکس جہاں نظری اعتبار سے ان حاکمانہ اور مذہبی ذمہ داریوں کا بدل سمجھا جاتا تھا جنھیں ادا کرنے سے وہ قاصر تھے، وہاں عملی اعتبار سے اس کی حیثیت ذلت کی ایک علامت اور معاشرتی کہتری کے ایک عنوان کی تھی۔‘‘
صحابہ کے اقوال سے بھی ’جزیہ‘ کا یہ مفہوم پوری صراحت کے ساتھ معلوم ہوتا ہے۔ سیدنا عمر نے عتبہ بن غزوان کو بصرہ کا والی بنا کر بھیجا تو انھیں ہدایت کی کہ:
وادع الی اللہ فمن اجابک فاقبل منہ ومن ابی فالجزیۃ عن صغار وذلۃ والا فالسیف فی غیرہ ہوادۃ (طبری، تاریخ الامم والملوک ۳/۵۹۳)
’’اور اللہ کی طرف دعوت دو۔ جو اس دعوت قبول کر لے تو سر آنکھوں پر۔ اور جو انکار کرے تو ذلت اور رسوائی کے ساتھ اس سے جزیہ وصول کرو۔ اور یہ بھی نہیں تو پھر تلوار کو حرکت میں لے لاؤ، لیکن اس کی نوبت نہ ہی آنے پائے تو بہتر ہے ۔‘‘
سلمان فارسی نے ایک جنگ میں اہل فارس سے کہا:
فان ابیتم فعلیکم الجزیۃ وخاک بر سر (ابو عبید، الاموال، ۹۶)
’’اگر تم اسلام لانے سے انکار کرو تو تم پر جزیہ عائد کیا جائے گا جو تمھارے سر پر خاک ہوگا۔‘‘
مغیرہ بن شعبہ نے ایرانی سپہ سالا رستم سے جزیہ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا:
وان احتجت الینا ان نمنعک فکن لنا عبدا تودی الجزیۃ عن ید وانت صاغر والا فالسیف ان ابیت (طبری، تاریخ الامم والملوک ۳/۵۲۳)
’’اور اگر تم چاہتے ہو کہ ہماری حفاظت میں آجاؤ تو ہمارے تابع فرمان بندے بن جاؤ اور مطیع ہو کر ذلت ورسوائی کی حالت میں جزیہ ادا کرو، اور اگر اس سے بھی انکار کرو گے تو پھر تلوار ہے۔‘‘
حبیب بن مسلمہ نے اہل تفلیس کو جو امان لکھ کر دی، اس کے الفاظ یہ تھے:
ہذا کتاب من حبیب بن مسلمۃ لاہل تفلیس من جرزان ارض الہرمز بالامان علی انفسکم واموالکم وصوامعکم وبیعکم وصلواتکم علی الاقرار بصغار الجزیۃ (تاریخ الامم والملوک، ۴/۱۶۲)
’’یہ نوشت حبیب بن مسلمہ کی طرف سے سرزمین ہرمز میں اہل تفلیس کے لیے ہے۔ انھیں اس شرط پر جان ومال، خانقاہوں، گرجوں اور معبدوں کی امان دی جاتی ہے کہ وہ جزیہ کی ذلت قبول کیے رکھیں گے۔‘‘
تمیم داری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیش گوئی کا ذکر کر کے فرماتے ہیں :
قد عرفت ذلک فی اہل بیتی لقد اصاب من اسلم منہم الخیر والشرف والعز ولقد اصاب من کان منہم کافرا الذل والصغار والجزیۃ (مسند احمد، رقم ۱۶۲۴۴)
’’میں نے یہ پیش گوئی اپنے خاندان میں پوری ہوتے دیکھ لی ہے۔ ان میں سے جو اسلام لائے، ان کو تو خیر اور عزت اور شرف ملا، اور جو کافر رہے، ان پر ذلت اور پستی اور جزیہ مسلط کر دیا گیا۔‘‘
سرزمین شام میں اردن کا علاقہ فتح ہوا تو اسلامی لشکر کے امرا میں اس حوالے سے اختلاف راے پیدا ہو گیا کہ مفتوحین کو غلام بنا کر مجاہدین میں تقسیم کر دیا جائے یا اہل ذمہ بنا کر ان پر جزیہ عائد کر دیا جائے۔ معاملہ سیدنا عمر کے سامنے پیش کیا گیا تو انھوں نے دوسری راے کی تائید کی اور لکھا:
ان ہولاء یاکلہم المسلمون ما داموا احیاء فاذا ہلکنا وہلکوا اکل ابناؤنا ابناء ہم ابدا ما بقوا وکانوا عبیدا لاہل الاسلام ابدا ما دام دین الاسلام ظاہر فضع عنہم الجزیۃ وکف عنہم السبا وامنع المسلمین من ظلمہم والاضرار بہم واکل اموالہم الا بحقہا (ازدی، فتوح الشام، ۱۲۵)
’’جب تک یہ زندہ رہیں گے، مسلمان ان کی محنت کی کمائی کھائیں گے۔ پھر جب ہم بھی مر جائیں اور یہ بھی تو ہماری نسلیں جب تک رہیں گی، ہمیسہ ان کی نسلوں کی محنت کی کمائی کھاتی رہیں گی اور جب تک اسلام کو غلبہ حاصل رہے گا، یہ ہمیشہ اہل اسلام کے محکوم اور غلام بن کر رہیں گے۔ اس لیے ان پر جزیہ عائد کردو اور انھیں غلام نہ بناؤ اور مسلمانوں کو ان پر ظلم کرنے یا تکلیف دینے اور ان کے اموال کو ناحق کھانے سے روکو۔‘‘
سر زمین شام میں ’رہا‘ کے باشندوں عیاض بن غنم کو پیغام بھیجا کہ وہ ایک متعین رقم کی ادائیگی پر مسلمانوں سے صلح کرنا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں معاذ بن جبل سے مشورہ مانگا گیا تو انھوں نے کہا کہ ان سے متعین رقم کے بجائے اس بات پر صلح کی جائے کہ وہ اپنی طاقت کے مطابق رقم ادا کریں گے۔ اس کی وجہ انھوں نے یہ بیان کی کہ:
وان ایسروا ادوہ علی غیر الصغار الذی امر اللہ بہ فیہم (ابو یوسف، الخراج، ۴۰)
’’اگر یہ (بعد میں) خوش حال ہو جائیں (اور پہلے سے طے شدہ تھوڑی رقم دیتے رہیں) تو ذلت کی اس حالت کے بغیر جزیہ ادا کریں گے جس کا اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں حکم دیا ہے۔‘‘
عبد اللہ بن عباس کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے پوچھا کہ کیا یہ جائز ہے کہ میں کسی غیر مسلم سے اس کی زمین لے کر اس میں کاشت کاری کروں اور آمدنی سے اس پر عائد ہونے والا جزیہ ادا کر دوں؟ انھوں نے جواب میں فرمایا:
لا تعمد الی ما ولی اللہ ہذا الکافر فتخلعہ من عنقہ وتجعلہ فی عنقک ثم تلا قاتلوا الذین لا یومنون باللہ (مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۰۱۰۷)
’’یہ وبال جو اللہ نے اس کافر پر ڈالا ہے، اس کی گردن سے اتار کر اپنی گردن میں نہ ڈال لو۔ پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت کی: ’’قاتلوا الذین لا یومنون باللہ‘‘
سیدنا عمر نے لوگوں کو اہل ذمہ کی اراضی خریدنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا:
لا تبتاعوہا ولا یقرن احدکم بالصغار بعد اذ نجاہ اللہ منہ (بیہقی، السنن الکبریٰ، رقم ۱۸۱۸۱)
’’ان کی زمینوں کو مت خریدو۔ تم میں سے کوئی شخص اپنے لیے ذلت کا اقرار نہ کرے اس کے بعد کہ اللہ نے اس کو اس سے نجات دی ہے۔‘‘
عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں:
ما احب ان الارض کلہا لی جزیۃ بخمسۃ دراہم اقر علی نفسی بالصغار (مصنف عبدالرزاق، رقم ۱۰۱۰۹)
’’مجھے اس شرط پر ساری زمین بھی مل جائے کہ مجھے صرف پانچ درہم جزیہ ادا کرنا پڑے گا تو میں اسے لینا پسند نہیں کروں گا۔ کیا میں اپنے اوپر ذلت اور رسوائی مسلط کر لوں؟‘‘
معاذ بن جبل نے کہا:
من عقد الجزیۃ فی عنقہ فقد بری مما علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ابوداؤد، رقم ۲۶۷۷)
’’جس نے اپنی گردن میں جزیہ کا طوق ڈالا، وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین اور طریقے سے لا تعلق ہو گیا۔‘‘
قبیصہ بن ذؤیب نے فرمایا:
من اخذ ارضا بجزیتہا فقد باء بما باء بہ اہل الکتابین من الذل والصغار (ابوعبید، الاموال، ۱۵۹)
’’جس نے کوئی زمین اس کے جزیے کے ساتھ خریدی، اس کے حصے میں وہی ذلت اور پستی آئے گی جس سے یہود ونصاریٰ بہرہ یاب ہوئے ہیں۔‘‘
صدر اول میں اس حساسیت کا ثبوت صرف زمین نہیں بلکہ ’جزیہ‘ کے ساتھ وابستہ دوسری چیزوں کے حوالے سے بھی ملتا ہے۔ امام مالک ’الموطا‘ میں بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر نے ایک موقع پر اپنے غلام اسلم کو حکم دیا کہ وہ جزیہ کے طور پر وصول کی جانے والی ایک اونٹنی کو دوسرے اونٹوں کے ساتھ باندھ دیں تاکہ بوقت ضرورت ان کا گوشت کھایا جا سکے۔ اسلم نے اس معاملے میں شدید تردد کا اظہار کیا:
قال فقلت کیف تاکل من الارض قال فقال عمر امن نعم الجزیۃ ہی ام من نعم الصدقۃ فقلت بل من نعم الجزیۃ فقال عمر اردتم واللہ اکلہا فقلت ان علیہا وسم الجزیۃ فامر بہا عمر فنحرت (الموطا، رقم ۸۰۴)
’’اسلم کہتے ہیں کہ میں نے کہا: آپ اہل ذمہ کے اونٹوں کا گوشت کیسے کھائیں گے؟ سیدنا عمر نے پوچھا کہ یہ جزیہ کی اونٹنی ہے یا زکوٰۃ کی؟ میں نے کہا، جزیہ کی۔ سیدنا عمر نے کہا، بھئی اس کا گوشت کھانے ہی کے لیے تو تم نے وصول کی ہے۔ میں نے کہا کہ اس پر جزیہ کی نشانی لگی ہوئی ہے۔ لیکن سیدنا عمر نے حکم دیا کہ اس کو ذبح کر دیا جائے۔‘‘
’جزیہ‘ کے ساتھ وابستہ ذلت اور محکومی کا یہی تصور تھا جس کی بنا پر عہد صحابہ میں ایسے نظائر ملتے ہیں جب مختلف گروہوں یا قوموں نے اس کے مقابلے میں یا تو جنگ اور قتال کو ترجیح دی، یا مسلمانوں کی سیاسی بالادستی قبول کرنے کے باوجود جزیہ دینے سے انکار کیا اور یا پھر جزیہ کے عار سے بچنے کے لیے اسلام قبول کر لیا۔ یہ نظائر حسب ذیل ہیں:
۵ ہجری میں غزوہ احزاب کے بعد جب یہود بنو قریظہ کو خدشہ ہوا کہ ان کے نقض عہد کے نتیجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے خلاف بھی اقدام کرنے والے ہیں تو انھوں نے اس سلسلے میں باہم مشاورت کی۔ ان میں سے عمرو بن سعدیٰ نامی ایک شخص نے انھیں تجویز دی کہ:
فان ابیتم ان تدخلوا معہ فاثبتوا علی الیہودیۃ واعطوا الجزیۃ فوا اللہ ما ادری یقبلہا ام لا۔ قالوا نحن لا نقر للعرب بخرج فی رقابنا یاخذوننا بہ القتل خیر من ذلک (واقدی، المغازی، ۲/۵۰۴)
’’اگر تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں داخل نہیں ہونا چاہتے تو یہودیت پر قائم رہو اور محمد کو جزیہ ادا کر دو۔ لیکن بخدا، مجھے معلوم نہیں کہ وہ جزیہ قبول کریں گے یا نہیں۔ لوگوں نے کہا: ہم اہل عرب کی یہ برتری تسلیم نہیں کر سکتے کہ وہ ہماری گردنوں پر ٹیکس لگا کر اسے ہم سے وصول کریں۔ اس سے تو قتل ہو جانا بہتر ہے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط ملنے کے بعد قیصر نے اہل روم کے سامنے جو تجاویز رکھیں، ان میں سے ایک یہ بھی تھی:
قال فہلم اعطیہ الجزیۃ کل سنۃ اکسر عنی شوکتہ واستریح من حربہ بما اعطیہ ایاہ قالوا نحن نعطی العرب الذل والصغار بخرج یاخذونہ منا ونحن اکثر الناس عددا واعظمہ ملکا وامنعہ بلدا لا واللہ لا نفعل ہذا ابدا (ابن کثیر، السیرۃ النبویۃ، ۲/۵۰۶)
’’اس نے کہا تو پھر یہ بات مان لو کہ میں ہر سال محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جزیہ دے کر ان کی طاقت کا رخ اپنی طرف سے موڑ دوں اور ان کے ساتھ جنگ کرنے سے بچ جاؤں۔ انہوں نے کہا: ہم کیوں یہ ٹیکس دے کر اہل عرب کے سامنے اپنی ذلت اور پستی کا اقرار کریں، جبکہ ہماری تعداد بھی زیادہ ہے، ہماری سلطنت بھی عظیم ہے اور ہمارا علاقہ بھی محفوظ ہے؟ بخدا، تم کبھی ایسا نہ کرنا۔‘‘
مغیرہ بن شعبہ نے ایرانی سپہ سالار رستم کے دربار میں قبول اسلام کی دعوت دینے کے بعد جب جزیہ کا مطالبہ کیا تو اہل فارس کا رد عمل بھی یہی تھا:
فلما قال ادیتم الجزیۃ نخروا وصاحوا وقالوا لا صلح بیننا وبینکم (طبری، تاریخ الامم والملوک ۳/۴۹۷)
’’جیسے ہی مغیرہ نے یہ کہا کہ تم جزیہ ادا کرو، اہل فارس نے نتھنے پھلا لیے اور غصے سے چیخنا شروع کر دیا اور کہا کہ ہمارے اور تمھارے مابین کوئی صلح نہیں۔‘‘
سیدنا عمرؓ نے بنو تغلب کے نصاریٰ پر، جو اصل میں عرب تھے، اپنے عہد میں جزیہ عائد کرنا چاہا تو انھوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا:
واللہ لئن وضعت علینا الجزاء لندخلن ارض الروم واللہ لتفضحنا من بین العرب فقال لہم انتم فضحتم انفسکم وخالفتم امتکم فی من خالف وافتضح من عرب الضاحیۃ وتاللہ لتؤدنہ وانتم صغرۃ قماۃ ولئن ہربتم الی الروم لاکتبن فیکم ثم لاسبینکم قالوا فخذ منا شیئا ولا تسمہ جزاء فقال اما نحن فنسمیہ نحن جزاء وسموہ انتم ما شئتم (تاریخ الامم والملوک، ۴/۵۶)
’’بخدا، اگر تم نے ہم پر جزیہ عائد کیا تو سرزمین روم میں داخل ہو جائیں گے۔ بخدا، تم اہل عرب کے مابین ہمیں رسوا کرنا چاہتے ہو۔ سیدنا عمر نے کہا: جزیرۂ عرب کے کناروں پر بسنے والے یہ تمھی لوگ ہو جنھوں نے (اسلام قبول نہ کر کے) اہل عرب سے مختلف طریقہ اپنایا ہے اور اپنے آپ کو خود اس رسوائی کا حق دار بنایا ہے۔ بخدا، تمھیں ذلیل اور پست ہو کر جزیہ دینا ہی پڑے گا۔ اور اگر تم بھاگ کر روم کے علاقے میں چلے گئے تو میں (شاہ روم کو) خط لکھ کر تمہیں واپس مانگ لوں گا اور پھر تمہیں قیدی بنا لوں گا۔ انہوں نے کہا: تم ہم سے رقم لے لو لیکن اسے ’جزیہ‘ کا نام مت دو۔ سیدنا عمر نے کہا، ہم تو اسے ’جزیہ‘ ہی کہیں گے، تم جو نام چاہو، دے لو۔‘‘
ابن ابی ذئب بیان کرتے ہیں کہ عمر بن عبد العزیز نے بنو کلب اور بنو تغلب کے نصاریٰ سے کہا کہ ہم تم سے صدقہ نہیں لیں گے، بلکہ تمھارے ذمے جزیہ لازم ہے۔ انھوں نے کہا:
اتجعلنا کالعبید؟ قال لا ناخذ منکم الا الجزیۃ (المدونۃ الکبریٰ، ۲/۲۸۳)
’’کیا آپ ہمیں غلاموں کی حیثیت دینا چاہتے ہیں؟ عمر نے کہا کہ ہم تم سے جزیہ ہی لیں گے۔‘‘
عبد الرحمن بن ربیعہ ’الباب‘ پر حملے کی غرض سے اپنی فوج لے کر پہنچے تو وہاں کے بادشاہ شہربراز نے مسلمانوں کی اطاعت قبول کرتے ہوئے ’جزیہ‘ سے مستثنیٰ قرار دیے جانے کی درخواست پیش کی۔ اس نے کہا:
وانکم قد غلبتم علی بلادی وامتی فانا الیوم منکم ویدی مع ایدیکم وصغوی معکم وبارک اللہ لنا ولکم وجزیتنا الیکم النصر لکم والقیام بما تحبون فلا تذلونا بالجزیۃ فتوہنونا لعدوکم (تاریخ الامم والملوک، ۴/۱۵۶)
’’بلاشبہ تم میرے ملک اور میری قوم پر غالب آچکے ہو۔ آج میں اپنا تعلق تم سے جوڑتا ہوں اور میری حمایت اور ہمدردی تمہارے ساتھ ہے۔ اللہ ہمیں اور تمھیں، دونوں کو برکت دے۔ لیکن ہماری طرف سے تمہارے لیے جزیہ یہ ہوگا کہ ہم تمہاری مدد کریں گے اور جو ذمہ داری تم ہم پر ڈالو گے، اسے بجا لائیں گے، اس لیے تم جزیہ عائد کر کے ہمیں ذلیل اور اپنے دشمن کے مقابلے میں کمزور نہ کرو۔‘‘
اصفہان کا علاقہ مسلمانوں کے قبضے میں آیا تو یہاں کے شرفا نے زمین کا لگان دینا تو بخوشی قبول کر لیا لیکن جزیہ کی ذلت سے بچنے کا اور کوئی راستہ نہ پا کر مسلمان ہو گئے۔ بلاذری لکھتے ہیں:
فلما فتحت جی دخلوا فی الطاعۃ علی ان یودوا الخراج وانفوا من الجزیۃ فاسلموا (فتوح البلدان، ۳۲۱)
’’جب جے کا علاقہ فتح ہوا تو یہ لوگ خراج کی ادائیگی پر مسلمانوں کی اطاعت قبول کرنے پر رضامند ہو گئے لیکن جزیہ کے مسئلے پر ناک بھوں چڑھائی اور اسلام لے آئے۔‘‘
مشہور مستشرق ڈاکٹر ڈینئل ڈینیٹ اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ساسانی نظام میں معاشرے کے ممتاز طبقات کو ضریبۃ الراس سے، جو کہ تذلیل اور تحقیر کی علامت سمجھا جاتا تھا، مستثنیٰ رکھا جاتا تھا۔ اصفہان کے یہ شرفا یقیناًاسلامی فتح سے پہلے اس سے مستثنیٰ تھے اور چونکہ عربوں کے زمانے میں بھی ذلت اور حقارت کے حوالے سے اس ٹیکس کی یہی پہچان باقی رہی، اس لیے انھوں نے اس تذلیل وتوہین سے بچنے کے لیے اسلام قبول کر لیا۔‘‘ (الجزیۃ والاسلام، ص ۶۶)
یہی معاملہ اہل قزوین کے ساتھ ہوا۔ براء بن عازب کی قیادت میں مسلمانوں نے ان پر حملہ کیا تو شکست کو سامنے دیکھ کر انہوں نے صلح کی درخواست کی:
فلما راوا ذلک طلبوا الصلح فعرض علیہم ما اعطی اہل ابہر فانفوا من الجزیۃ واظہروا الاسلام (بلاذری، فتوح البلدان ۳۲۹۔ یاقوت حموی، معجم البلدان ۴/۳۴۳)
’’جب انہوں نے یہ صورت حال دیکھی تو مسلمانوں سے صلح کی درخواست کی۔ امیر لشکر نے ان کے سامنے وہی شرائط رکھیں جن پر اہل ابہر نے صلح کی تھی، لیکن انھوں نے جزیہ پر ناک بھوں چڑھائی اور اسلام قبول کرنے کا اعلان کر دیا۔‘‘
سیدنا عمر کے عہد میں ایک ذمی نے اسلام قبول کیا تو عامل نے اس سے جزیہ طلب کیا اور کہا کہ تم محض ’جزیہ‘ سے بچنے کے لیے اسلام میں داخل ہوئے ہو۔ اس نے کہا کہ پھر اسلام لانے کی وجہ سے مجھے پناہ ملنی چاہیے۔ معاملہ سیدنا عمر کے سامنے پیش کیا گیا تو انھوں نے فرمایا، ہاں۔ اسلام لانے کی صورت میں جزیہ سے پناہ حاصل ہو جاتی ہے، اس لیے اس سے جزیہ نہ لیا جائے۔ (الاموال بحوالہ المغنی، ۹/۲۷۴)
صدر اول اور بعد کے فقہا نے بھی ’جزیہ‘ کا یہی مفہوم سمجھا ہے۔ امام مالک ’الموطا‘ میں لکھتے ہیں:
ان الصدقۃ انما وضعت علی المسلمین تطہیرا لہم وردا علی فقراۂم ووضعت الجزیۃ علی اہل الکتاب صغارا لہم (الموطا، رقم ۸۰۷)
’’زکوٰۃ تو مسلمانوں کے اموال کی تطہیر اور ان کے فقرا کی حاجات پورا کرنے کے لیے ان پر فرض کی گئی ہے، جبکہ اہل کتاب پر جزیہ ذلت اور پستی کی ایک علامت کے طور پر عائد کیا گیا ہے۔ ‘‘
امام شافعی فرماتے ہیں:
قال اللہ تعالیٰ حتی یعطوا الجزیۃ عن ید وہم صاغرون فوجدت الکفار فی حکم اللہ ثم حکم رسولہ فی موضع العبودیۃ للمسلمین صنفا متی قدر علیہم تعبدوا وتوخذ منہم اموالہم لا یقبل منہم غیر ذلک وصنفا یصنع ذلک بہم الا ان یعطوا الجزیۃ عن ید وہم صاغرون فاعطاء الجزیۃ اذا لزمہم فہو صنف من العبودیۃ (الام، ۷/۳۴۴)
’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ان کے ساتھ قتال کرو یہاں تک کہ وہ مطیع ہو کر ذلت کے ساتھ جزیہ دینے پر آمادہ ہو جائیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کی رو سے کفار اہل اسلام کے محکومی اور غلام ہیں۔ ان میں سے ایک گروہ وہ ہے جس پر قدرت حاصل ہونے کی صورت میں اسے غلام بنا لیا جائے اور اس سے اس کے اموال چھین لیے جائیں اور اس کے سوا کوئی طریقہ اختیار نہ کیا جائے، جبکہ دوسرا گروہ وہ ہے جس کے ساتھ یہی سلوک کیا جائے، الا یہ کہ وہ مطیع بن کر ذلت ورسوائی کے ساتھ جزیہ ادا کرنے پر رضامند ہو جائے۔ پس ان پر جزیہ کی ادائیگی کا لازم ہونا محکومی اور غلامی کی ایک صورت ہے۔‘‘
اس تفصیل سے واضح ہے کہ صحابہ کرام کا روم وفارس کی سلطنتوں کے خلاف جہاد اسی کشمکش کا ایک تسلسل تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے حق وباطل کے مابین برپا ہوئی تھی اور ان قوموں کے خلاف ان کی تلواریں جزیرۂ عرب اور اس کے گرد ونواح میں ’اظہار دین‘ کے اسی ہدف کی تکمیل کے لیے نیام سے باہر آئی تھیں جسے قرآن مجید میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصود قرار دیا گیا ہے۔ صدر اول کے ایک جلیل القدر فقیہ امام سفیان بن عیینہ نے اسی حقیقت کو ان الفاظ میں واضح کیا ہے کہ:
بعث اللہ تعالیٰ رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم باربعۃ سیوف: سیف قاتل بہ بنفسہ عبدۃ الاوثان وسیف قاتل بہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ اہل الردۃ قال اللہ تعالی تقاتلونہم او یسلمون وسیف قاتل بہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ المجوس واہل الکتاب۔ قال اللہ تعالیٰ قاتلوا الذین لا یومنون باللہ الآیۃ وسیف قاتل بہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ المارقین والناکثین والقاسطین (سرخسی، المبسوط، ۱۰/۳)
’’اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چار تلواروں کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ ایک تلوار سے آپ نے بذات خود بت پرستوں سے جنگ کی۔ دوسری تلوار سے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اہل ارتداد سے قتال کیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: تقاتلونہم او یسلمون۔ تیسری تلوار کے ساتھ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مجوس اور اہل کتاب کے خلاف معرکہ آرا ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قاتلوا الذین لا یومنون باللہ۔ اور چوتھی تلوار سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے دین سے نکل جانے والے سرکش گروہوں (خوارج) کے خلاف قتال کیا۔‘‘

یہ قرآن مجید اور حدیث وسیرت میں جہاد وقتال کے احکام کا اصل تناظر ہے اور اس سے واضح ہے کہ مشرکین اور اہل کتاب کے خلاف قتال کے یہ احکام محض مسلمانوں کے دفاع اور اہل کفر کے فتنہ وفساد کو دفع کرنے کے لیے نہیں، بلکہ اللہ کے دین کی سربلندی اور شرک کا خاتمہ کرنے کے لیے دیے گئے تھے۔ یہ ایک ’مقدس جنگ‘ (Holy war) تھی جس کا محرک مال ومنال اور سطوت وشوکت کا حصول نہیں، بلکہ خدا کے حکم پر اسی کے ایک مقصد کو پورا کرنا تھا۔ یہی وہ پہلو ہے جس کی بنیاد پر قرآن نے اس قتال کو ’جہاد فی سبیل اللہ‘ کا عنوان دیا، اس میں حصہ لینے کو اللہ کے ساتھ ایک سودا قرار دیا، اس میں جان ومال قربان کرنے والوں کو ’انصار اللہ‘ کا لقب دیا اور اس سے گریز کرنے والے اہل ایمان کو جا بجا وعیدیں سنائی ہیں۔ ارشاد ہوا ہے:
کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الْقِتَالُ وَہُوَ کُرْہٌ لَّکُمْ وَعَسَی أَن تَکْرَہُواْ شَیْْئاً وَہُوَ خَیْْرٌ لَّکُمْ وَعَسَی أَن تُحِبُّواْ شَیْْئاً وَہُوَ شَرٌّ لَّکُمْ وَاللّہُ یَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ (البقرہ ۲:۲۱۶)
’’تم پر لڑنا فرض کر دیا گیا ہے، حالانکہ وہ تمھیں ناپسند ہے۔ توقع ہے کہ ایک چیز کو تم ناپسند کرو جبکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔ اور توقع ہے کہ ایک چیز کو تم پسند کرو جبکہ وہ تمہارے لیے بری ہے۔ اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘
سورہ نساء میں فرمایا:
أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِیْنَ قِیْلَ لَہُمْ کُفُّوا أَیْْدِیَکُمْ وَأَقِیْمُوا الصَّلاَۃَ وَآتُوا الزَّکَاۃَ فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْْہِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ کَخَشْیَۃِ اللّہِ أَوْ أَشَدَّ خَشْیَۃً وَقَالُوا رَبَّنَا لِمَ کَتَبْتَ عَلَیْْنَا الْقِتَالَ لَوْلا أَخَّرْتَنَا إِلَی أَجَلٍ قَرِیْبٍ قُلْ مَتَاعُ الدَّنْیَا قَلِیْلٌ وَالآخِرَۃُ خَیْْرٌ لِّمَنِ اتَّقَی وَلاَ تُظْلَمُونَ فَتِیْلاً (النساء ۴: ۷۷)
’’کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔ پھر جب ان پر قتال فرض کر دیا گیا تو اب ان میں سے ایک گروہ اس طرح دشمن سے ڈرنے لگا جیسے اللہ سے ڈرنا چاہیے، بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ اور انہوں نے کہا کہ یا اللہ، تو نے کیوں ہم لڑنا فرض کر دیا؟ کیوں نہ تو نے کچھ مدت کے لیے ہمیں مزید مہلت دے دی؟ تم کہہ دو کہ دنیا کا سامان تو بہت تھوڑا ہے جبکہ جو لوگ اللہ سے ڈریں، ان کے لیے آخرت بہت بہتر ہے اور (تمہارے اعمال کے معاملے میں) تمہاری ذرہ برابر بھی حق تلفی نہیں ہوگی۔‘‘
سورۂ توبہ میں ارشاد ہوا ہے:
إِنَّ اللّٰہَ اشْتَرَی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ أَنفُسَہُمْ وَأَمْوَالَہُم بِأَنَّ لَہُمُ الجَنَّۃَ یُقَاتِلُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیَقْتُلُونَ وَیُقْتَلُونَ وَعْداً عَلَیْْہِ حَقّاً فِیْ التَّوْرَاۃِ وَالإِنجِیْلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ أَوْفَی بِعَہْدِہِ مِنَ اللّٰہِ فَاسْتَبْشِرُواْ بِبَیْْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُم بِہِ وَذَلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ (التوبہ ۹:۱۱۱)
’’اللہ نے اہل ایمان سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس وعدے پر خرید لیے ہیں کہ انھیں بدلے میں جنت ملے گی۔ وہ اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں تو وہ بھی قتل کرتے ہیں اورانھیں بھی قتل کیا جاتا ہے۔ اللہ نے تورات اور انجیل اور قرآن میں اس وعدے کو پورا کرنا اپنے ذمے ٹھہرایا ہے اور اللہ سے بڑھ کر کون اپنے عہد کو پورا کرنے والا ہو سکتا ہے؟ اس لیے (اے ایمان والو) تم نے جو سودا کیا ہے، اس پر خوش ہو جاؤ اور یہی عظیم کامیابی ہے۔‘‘
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا مَا لَکُمْ إِذَا قِیْلَ لَکُمُ انفِرُوا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَی الأَرْضِ أَرَضِیْتُم بِالْحَیَاۃِ الدُّنْیَا مِنَ الآخِرَۃِ فَمَا مَتَاعُ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا فِیْ الآخِرَۃِ إِلاَّ قَلِیْلٌ ۔ إِلاَّ تَنفِرُواْ یُعَذِّبْکُمْ عَذَاباً أَلِیْماً وَیَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَیْْرَکُمْ وَلاَ تَضُرُّوہُ شَیْْئاً وَاللّٰہُ عَلَی کُلِّ شَیْْءٍ قَدِیْرٌ (التوبہ ۹:۳۸، ۳۹)
’’اے ایمان والو، تمھیں کیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتاہے کہ اللہ کے راستے میں نکلو تو تم بوجھل ہو کر زمین کے ساتھ چپک رہتے ہو! کیا تم آخرت کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی پر راضی ہو گئے ہو؟ تو پھر آخرت میں دنیا کی زندگی کا سامان بہت ہی تھوڑی وقعت رکھے گا۔ اگر تم نہیں نکلو گے تو اللہ تمھیں دردناک عذاب دے گا اور تمھاری جگہ کسی دوسری قوم کو بدل دے ا اور تم اللہ کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔‘‘

جماعت صحابہ کی خصوصی حیثیت

گزشتہ باب میں روم وفارس اور جزیرۂ عرب سے متصل دوسری سلطنتوں کے خلاف صحابہ کے جہاد کے حوالے سے جو گفتگو کی گئی ہے، اس سے اگرچہ اصولی طور پر ان اقدامات کی حقیقی نوعیت واضح ہو جاتی ہے، تاہم مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اس بحث کے چند اہم نکات پر نسبتاً تفصیل سے روشنی ڈالی جائے تاکہ صحابہ کے جنگی اقدامات کا درست تناظر زیادہ نکھر کر سامنے آ جائے۔ یہ نکات ہمارے نزدیک حسب ذیل ہیں:
ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صحابہ کو ’شہادت علی الناس‘ کے خاص منصب پر فائز کیا گیا اور اسی کے تحت انھیں مذکورہ اقوام کے خلاف قتال کا اختیار دیا گیا تھا۔
دوسرے یہ کہ صحابہ کے جنگی اقدامات کے جغرافیائی اہداف محدود اور متعین تھے اور اس دائرے میں بھی وہ جہاد وقتال کے اس سلسلے کو وسیع سے وسیع تر کرتے چلے جانے کے بجائے محدود سے محدود تر رکھنے کے خواہش مند تھے۔
تیسرے یہ کہ قرآن مجید میں ’اظہار دین‘ کی صورت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا جو ہدف مقرر کیا گیا تھا، وہ جزیرۂ عرب اور اس کے بعد روم وفارس کے علاقوں پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہو جانے سے آخری حد تک مکمل ہو گیا اور اس پیش گوئی کا کوئی جزو تاریخی طور پر تشنہ تکمیل نہیں رہا۔
ذیل میں ہم ان نکات کی وضاحت کریں گے:

شہادت علی الناس

’شہادت علی الناس‘ کے منصب کی مختصر وضاحت یہ ہے کہ عالم کا پروردگار کسی خاص گروہ سے اپنی وفاداری اور اطاعت کا عہد وپیمان لے کر اسے دین وشریعت کی نعمت سے نوازتا، آزمایش اور ابتلا کے مختلف مراحل سے گزار کر اس کے تزکیہ وتربیت کا اہتمام کرتا اور اس امتحان میں کامیابی پر اسے دنیوی حکومت واقتدار سے بہرہ یاب کر دیتاہے۔ یہ گروہ اپنے اجتماعی وجود کے لحاظ سے یوں سراپا حق اور مجسم عدل وانصاف ہوتا اور اپنی دعوت اور کردار کے ذریعے سے حق کی اس طرح عملی شہادت بن جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں کفر وطغیان کا رویہ اپنانے والی قوموں کو سزا دینے کا اختیار دے دیتا ہے۔ ’شہادت‘ کے منصب پر فائز گروہ کے لیے اس اختیار اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی فتوحات کی حیثیت اللہ کے انعام کی ہوتی ہے اور اسے یہ حق دے دیا جاتا ہے کہ وہ خدا کی سرزمین میں اس کے میسر کردہ نعمتوں اور وسائل کو اپنے تصرف میں لے آئے، جبکہ مفتوح ومغلوب قوموں کے لیے یہی عمل اللہ کی طرف سزا اور انتقام قرار پاتا ہے۔ 
قرآن مجید اور انبیاے بنی اسرائیل کے صحائف سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کے بعد نبوت ورسالت کو ان کی اولاد کے ساتھ مخصوص فرما کر انھیں دنیا کی قوموں پر فضیلت بخشی اور من حیث القوم، اقوام عالم پر حجت تمام کرنے کے لیے منتخب کر لیا۔ ارشاد ہوا ہے:
إِنَّ اللّٰہَ اصْطَفَی آدَمَ وَنُوحاً وَآلَ إِبْرَاہِیْمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَی الْعَالَمِیْنَ (آل عمران ۳:۳۳)
’’بے شک اللہ نے آدم اور نوح اور آل ابراہیم اور آل عمران کو دنیا والوں پر ترجیح دے کر منتخب کر لیا۔‘‘
آل ابراہیم کی تاریخ کے دور اول میں اس منصب کے حامل بنی اسرائیل تھے جبکہ آخری دور میں یہ ذمہ داری بنی اسماعیل کو سونپی گئی۔ بنی اسرائیل کے بارے میں فرمایا:
یَا بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ اذْکُرُواْ نِعْمَتِیَ الَّتِیْ أَنْعَمْتُ عَلَیْْکُمْ وَأَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعَالَمِیْنَ (البقرہ ۲:۴۷)
’’اے بنی اسرائیل، میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر کی اور اس بات کو بھی کہ میں نے جہان والوں پر تمھیں فضیلت بخشی۔‘‘
سورۂ مائدہ میں ہے:
وَإِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِہِ یَا قَوْمِ اذْکُرُواْ نِعْمَۃَ اللّہِ عَلَیْْکُمْ إِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ أَنبِیَاء وَجَعَلَکُم مُّلُوکاً وَآتَاکُم مَّا لَمْ یُؤْتِ أَحَداً مِّن الْعَالَمِیْنَ (المائدہ ۵:۲۰)
’’اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم، اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد رکھو کہ اس نے تمھارے اندر نبی بھیجے اور تمھیں بادشاہ بنایا اور تمھیں وہ کچھ دیا جو جہان والوں میں سے کسی کو نہیں دیا۔‘‘
بنی اسرائیل کے بعد، بنی اسماعیل کے اس منصب پر فائز کیے جانے کا ذکر بھی قرآن نے جگہ جگہ مختلف الفاظ اور اسالیب میں کیا ہے۔ سورۂ حج میں فرمایا:
وَجَاہِدُوا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہِ ہُوَ اجْتَبٰکُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَیْْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ مِّلَّۃَ أَبِیْکُمْ إِبْرَاہِیْمَ ہُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمیْنَ مِن قَبْلُ وَفِی ہَذَا لِیَکُونَ الرَّسُولُ شَہِیْداً عَلَیْْکُمْ وَتَکُونُوا شُہَدَاءَ عَلَی النَّاسِ فَأَقِیْمُوا الصَّلَاۃَ وَآتُوا الزَّکَاۃَ وَاعْتَصِمُوا بِاللّٰہِ ہُوَ مَوْلَاکُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلیٰ وَنِعْمَ النَّصِیْرُ (الحج ۲۲:۷۸)
’’اور اللہ کے راستے میں اس طرح جدوجہد کرو جیسے جدوجہد کرنے کا حق ہے۔ اسی نے تمھیں چن لیا ہے اور دین کے معاملے میں تم پر کوئی تنگی نہیں ڈالی۔ اپنے باپ ابراہیم کے دین کے پیروکار بن جاؤ۔ اسی نے اس سے پہلے بھی اور اس زمانے میں بھی تمہیں ’مسلم‘ کا لقب دیا۔ اللہ نے تمھیں چن لیا ہے تاکہ رسول تو تم پر حق کی گواہی دیں اور تم اقوام عالم پر اس کے گواہ بن کر کھڑے ہو جاؤ۔ پس نماز قائم کرتے رہو، زکوٰۃ دیتے رہو اور اللہ کے سہارے کو مضبوطی سے تھامے رکھو۔ وہی تمہارا آقا ہے اور کیا ہی اچھا آقا اور کیسا بہترین مددگار ہے۔‘‘ 
سورۂ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے:
وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَسَطاً لِّتَکُونُواْ شُہَدَاء عَلَی النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْْکُمْ شَہِیْداً (البقرہ ۲:۱۴۳)
’’اور اسی طرح ہم نے تمہیں درمیان کا ایک گروہ بنایا تاکہ تم لوگوں پر اس دین کے گواہ بن جاؤ اور رسول تم پر اس کی گواہی دے۔‘‘
مذکورہ دونوں مقامات کے سیاق وسباق سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ’شہادت علی الناس‘ کے منصب کا ذکر خاص طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے بنی اسماعیل یعنی صحابہ کے تناظر میں ہوا ہے۔ 
سورۂ بقرہ میں اس کا ذکر ملت ابراہیمی کی ابتدا اور اس کی تاریخ کے آخری دور کے ضمن میں ہوا ہے۔ آیت ۱۲۴ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کے منصب امامت کے لیے منتخب کیے جانے کا تذکرہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ ابراہیم واسماعیل علیہما السلام نے کعبہ کی تعمیر کے موقع پر یہ دعا کی تھی کہ ان کی اولاد میں بھی ایک ’امت مسلمہ‘ پیدا ہو اور ان میں ایک رسول مبعوث کیا جائے جو تلاوت آیات اور تعلیم کتاب وحکمت کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کرے۔ اس کے بعد یہود ونصاریٰ کے اس دعوے کی تردید کی گئی ہے کہ ابراہیم علیہ السلام ان کی ملت کے پیروکار تھے۔ پھر تحویل قبلہ کے واقعہ کا تذکرہ کر کے یہ حقیقت نمایاں کی گئی ہے کہ دین ابراہیمی میں اصل مرکز اور محور کی حیثیت کعبہ معظمہ ہی کو حاصل ہے اور یہود کی یہ خواہش کہ یہ حیثیت مسجد اقصیٰ کو دی جائے، بالکل بے بنیاد ہے۔ تحویل قبلہ کے حکم ہی کے ضمن میں منصب ’شہادت‘ کا ذکر کیا گیا ہے اور صحابہ کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ تمھیں اللہ تعالیٰ نے ایک درمیانی امت بنایا ہے تاکہ اللہ کا رسول تم پر اور تم لوگوں کے سامنے دین حق کی شہادت دو۔ پھر بیت اللہ کو سفر وحضر میں قبلہ مقرر کرنے کی ہدایات دینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ سیدنا ابراہیم واسماعیل علیہما السلام نے اپنی ذریت میں جس نبی اور جس امت مسلمہ کے پیدا ہونے کی دعا کی تھی، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ پر ایمان لانے والوں کی صورت میں عملاً ظہور پذیر ہو چکی ہے۔ آیات کے اس سیاق وسباق سے صاف واضح ہے کہ ’شہادت علی الناس‘ کا منصب خاص طور پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ذریت میں پیدا ہونے والے اس گروہ کو دیا گیا جس کو ابو الانبیاء نے ’’امۃ مسلمۃ‘‘ کا لقب دیا اور جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث کیے جانے کی دعا کی تھی۔ ظاہر ہے کہ اس کا مصداق صحابہ کے سوا کوئی دوسری جماعت نہیں ہو سکتی۔ شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں:
ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعث فی الامیین الآخذین بالملۃ الاسماعیلیۃ وقدر اللہ فی سابق علمہ انہم ہم القائمون بنصرۃ دینہ وہم شہداء اللہ علی الناس من بعدہ وہم خلفاؤہ فی امتہ (حجۃ اللہ البالغۃ ۱/۵۵۱، ۵۵۲)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو امیین میں مبعوث کیا گیا جو ملت اسماعیلی کے پیروکار تھے۔ اللہ نے اپنے علم میں پہلے سے ہی طے فرما دیا تھا کہ یہی امیین آپ کے دین کی مدد کے لیے کھڑے ہوں گے، وہی آپ کے بعد لوگوں پر اللہ کے گواہ ہوں گے اور وہی آپ کی امت میں آپ کی خلافت کی ذمہ داری انجام دیں گے۔‘‘
سورۂ حج میں اس آیت پر سورہ کااختتام ہوا ہے، چنانچہ اس کے صحیح محل کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سورۂ حج کا پورا نظم نگاہوں میں ہو۔ اس سورہ کی ابتدائی ۲۳ آیات میں قیامت کے اثبات اور شرک کی تردید پر دلائل دیے گئے ہیں۔ پھر آیت ۲۴ سے ۳۸ تک بیت اللہ کی تعمیر وتاسیس کی تاریخ اور اس کے مقصد تعمیر کی وضاحت کی گئی ہے۔ آیت ۳۹ تا ۴۱ میں مکہ سے نکالے جانے والے مہاجرین کو ظلم کے خلاف تلوار اٹھانے کی اجازت دی گئی ہے اور ان سے نصرت کا وعدہ کرنے کے ساتھ یہ ذمہ داری ان پر واضح کی گئی ہے کہ جب انھیں سرزمین عرب میں اقتدار مل جائے تو وہ نماز کے قیام، زکوٰۃ کی ادائیگی، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام کریں گے۔ 
وَلَیَنصُرَنَّ اللَّہُ مَن یَنصُرُہُ إِنَّ اللَّہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ ۔ الَّذِیْنَ إِن مَّکَّنَّاہُمْ فِیْ الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَآتَوُا الزَّکَاۃَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنکَرِ وَلِلَّہِ عَاقِبَۃُ الْأُمُورِ (الحج ۲۲:۴۱، ۴۲)
’’اور اللہ ضرور ان کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے۔ بے شک اللہ نہایت قوت والا غالب آنے والا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو اس سرزمین میں اقتدار دیں گے تو نماز قائم کریں گے اور زکوٰۃ دیں گے اور بھلائی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے۔ اور معاملات کا انجام اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔‘‘
اس کے بعد آیت ۴۲ تا ۷۶ میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے منکرین کے مختلف اعتقادی اور عملی رویوں پر تنقید کی گئی اور ان کے طرز عمل کی شناعت واضح کی گئی ہے۔ اسی سلسلہ بیان میں آیت ۵۸ تا ۶۰ میں مہاجرین کو ایک بار پھر فتح ونصرت اور کامیابی کی بشارت دی گئی ہے۔ اس ساری بحث کے بعد سورہ کا اختتام ان آیات پر ہوتا ہے جن میں اہل ایمان کو مخاطب کر کے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کا حکم دیا گیا اور ان پر واضح کیا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ’شہداء علی الناس‘ کے منصب پر فائز ہیں۔ 
یہاں بھی دیکھ لیجیے، سورہ میں جس گروہ کے احوال، ذمہ داریاں اور جدوجہد زیر بحث ہے اور جن سے نصرت اور فتح کا وعدہ کیا گیا ہے، وہ بالکل واضح طور پر صحابہ کرام ہی کی جماعت ہے اور سورہ کے اس مربوط نظام میں اختتامیہ کے طور پر وارد ہونے والی ان آیات کی تفسیر کسی بھی طرح سے اس تناظر سے ہٹ کر نہیں کی جا سکتی۔ پھر آیات کے سیاق کے علاوہ خود آیت کے اندر داخلی طور پر دو شہادتیں، یعنی ’اجتبکم‘ اور ’ملۃ ابیکم ابراہیم ہو سمکم المسلمین‘ ایسی ہیں جو بالکل قطعی طور پر اس کو ذریت ابراہیم کے ساتھ خاص کر دیتی ہیں۔ قرآن مجید نے خود سورہ بقرہ میں اس اشارے کی تفصیل کی ہے اور بتایا ہے کہ ابراہیم واسماعیل علیہما السلام نے اپنی ’ذریت‘ میں ایک امت کے پیدا ہونے کی دعا کی تھی اور اس کو ’مسلمہ‘ کا لقب دیا تھا۔ یہ دعا بھی واضح طور پر ’ذریت ابراہیم‘ کے لیے خاص تھی۔ یہ وہ واضح قرائن ہیں جن کی بنا پر اس آیت کا مصداق صحابہ کرام کے علاوہ کسی اور گروہ کو قرار دینا ممکن نہیں۔ امام ابوبکر الجصاص لکھتے ہیں:
وقولہ تعالی (ہو اجتباکم) یدل علی انہم عدول مرضیون وفی ذلک بطلان طعن الطاعنین علیہم اذ کان اللہ لا یجتبی الا اہل طاعتہ واتباع مرضاتہ وفی ذلک مدح للصحابۃ المخاطبین بذلک ودلیل علی طہارتہم (احکام القرآن، ۳/۲۵۱، ۲۵۲)
’’اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ ’اس نے تمھیں چن لیا ہے‘ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ اللہ کے نزدیک عادل اور پسندیدہ ہیں۔ اس سے ان پر طعن کرنے والوں کا طعن باطل ثابت ہو جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ انہی لوگوں کو منتخب کرتا ہے جو اس کے فرماں بردار اور اس کی مرضی پر چلنے والے ہوں۔ نیز اس میں صحابہ کی، جو اس آیت کے مخاطب تھے، توصیف وتعریف اور ان کے پاکیزہ ہونے کی دلیل بھی موجود ہے۔‘‘
مذکورہ آیات کے سیاق وسباق کے علاوہ یہی بات قرآن مجید کے عرف سے بھی واضح ہوتی ہے۔ قرآن مجید کے کسی طالب علم سے یہ بات مخفی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کے مختلف مقامات پر متنوع اسالیب میں جس جماعت کو اللہ تعالیٰ کی منتخب کردہ جماعت قرار دے کر اس کے ایمان وعمل کو نمونہ اور معیار ٹھہرایا گیا ہے، وہ صحابہ ہی کی جماعت ہے۔سورۂ آل عمران میں ارشاد ہوا ہے:
کُنتُمْ خَیْْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّہِ (آل عمران ۳:۱۱۰)
’’تم ایک بہترین گروہ ہو جسے لوگوں کی ہدایت کے لیے نکالا گیا ہے۔ تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
یہ آیت جس سلسلہ بیان میں آئی ہے، ا س کا آغاز اس بات سے ہوا ہے کہ اے اہل ایمان! اللہ سے کماحقہ ڈرو اور اس کی اس نعمت کو یاد رکھو کہ اس نے تمہاری باہمی دشمنیوں کو ختم کر کے تمہارے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے الفت پیدا کی اور تمھیں بھائی بھائی بنا دیا۔ اس کے بعد سابقہ مذہبی گروہوں کے رویے سے گریز کی تلقین کرتے ہوئے زیر بحث آیت میں اہل ایمان پر ان کی ذمہ داری واضح کی گئی ہے اور اس کے بعد اگلی آیت میں ان سے یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنے مخالف گروہوں پر ہر حال میں غالب رہیں گے:
لَن یَضُرُّوکُمْ إِلاَّ أَذًی وَإِن یُقَاتِلُوکُمْ یُوَلُّوکُمُ الأَدُبَارَ ثُمَّ لاَ یُنصَرُونَ (آل عمران ۳:۱۱۱)
’’یہ زبانی اذیت کے سوا تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ اور اگر تم سے لڑنے آئیں گے تو پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔ پھر انھیں کہیں سے مدد بھی میسر نہیں ہوگی۔‘‘
سیاق اور سباق دونوں سے واضح ہے کہ یہاں مخاطب خاص طور پر صحابہ ہی کی جماعت ہے، اس لیے کہ ’خیر امت‘ کا لقب دینے سے پہلے دلوں میں الفت ومحبت پیدا کرنے کی جس نعمت کا ذکر کیا گیا ہے، وہ بھی انھی کو عطا کی گئی تھی اور اس کے بعد جس فتح ونصرت کی بشارت دی گئی ہے، وہ بھی انھی کے لیے خاص ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود حضرات صحابہ کرام نے ’خیر امت‘ کے اعزاز کو اپنے لیے خاص قرار دیا۔ سیدنا عمرؓ فرماتے ہیں:
لو شاء اللہ لقال انتم فکنا کلنا ولکن قال کنتم فی خاصۃ من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ومن صنع مثل صنیعہم کانوا خیر امۃ اخرجت للناس یامرون بالمعروف وینہون عن المنکر (تفسیر الطبری، ۴/۴۳)
’’اگر اللہ تعالیٰ چاہتے تو یہ فرماتے کہ ’انتم‘ تاکہ ہم سب اس کا مصداق ٹھہرتے، لیکن اس نے ’کنتم‘ کہا ہے جس کا مصداق رسول اللہ صلی اللہ کے مخصوص اصحاب اور وہ لوگ ہیں جو ان کے طریقے پر چلیں۔ رسول اللہ کے یہ اصحاب ہی وہ بہترین جماعت تھے جنھیں لوگوں کی ہدایت کے لیے نکالا گیا اور جو بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے تھے۔‘‘
نیز فرماتے ہیں:
تکون لاولنا ولا تکون لآخرنا (تفسیر الطبری، ۴/۴۳)
’’اس آیت کا مصداق ہمارا اولین گروہ تو ہے لیکن بعد میں آنے والے نہیں۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں:
ہم الذین ہاجروا مع محمد صلی اللہ علیہ وسلم الی المدینۃ (مسند احمد، رقم ۲۳۳۴)
’’یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اصحاب ہیں جنھوں نے آپ کے ساتھ مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی۔‘‘
تابعی مفسر امام ضحاک فرماتے ہیں:
ہم اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاصۃ یعنی وکانوا ہم الرواۃ الدعاۃ الذین امر اللہ المسلمین بطاعتہم (تفسیر الطبری، ۴/۴۴)
’’اس سے مراد صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ہیں۔ وہی اس دین کے راوی اور داعی ہیں جن کی اطاعت کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔‘‘
ابن عبد البر فرماتے ہیں:
وثبت بہم حجۃ اللہ تعالی علی المسلمین فہم خیر القرون وخیر امۃ اخرجت للناس ثبتت عدالۃ جمیعہم بثناء اللہ عزوجل علیہم وثناء رسولہ علیہ السلام (الاستیعاب، ۱/۱، ۲)
’’صحابہ ہی کے ذریعے اللہ کی حجت (بعد کے) مسلمانوں پر ثابت ہوئی، چنانچہ وہی وہ بہترین گروہ ہیں جنھیں لوگوں کے لیے نکالا گیا۔ ان سب کا عادل ہونا اس تعریف سے ثابت ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے ان کے حق میں بیان فرمائی ہے۔‘‘
ومعلوم ان مواجہۃ رسول اللہ ثم لاصحابہ بقولہ انتم خیرہا اشارۃ الی التقدمۃ فی الفضل الیہم علی من بعدہم (الاستیعاب، ۱/۹)
’’واضح ہے کہ ’انتم‘ کہہ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو مخاطب کرنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ان کو بعد میں آنے والوں کے مقابلے میں فضیلت حاصل ہے۔‘‘
دوسرے مقامات پر قرآن مجید نے صحابہ ہی کی جماعت کو مخاطب کر کے انھیں سرزمین عرب میں غلبہ اور اقتدار کی بشارت دی ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ بنی اسمٰعیل کو ملنے والا حکومت واقتدار دراصل اسی وعدے کا مصداق اور تسلسل ہے جو اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ان کی اولاد کے حوالے سے کیا تھا۔ سورۂ نساء میں آل اسماعیل کے خلاف یہود کے حسد اور بغض پر تبصرہ کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے:
أَمْ یَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَی مَا آتَاہُمُ اللّہُ مِن فَضْلِہِ فَقَدْ آتَیْْنَا آلَ إِبْرَاہِیْمَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَآتَیْْنَاہُم مُّلْکاً عَظِیْماً (النساء ۴:۵۴)
’’کیا یہ یہود اللہ کے اس فضل پر جو اس نے ان امیوں کو دیا ہے، ان سے حسد کرتے ہیں؟ تو یقیناًہم نے آل ابراہیم کو کتاب اور حکمت بھی دی ہے اور ہم نے ان کو بہت بڑی سلطنت دینے کا فیصلہ بھی کر رکھا ہے۔‘‘
آیت سے واضح ہے کہ حکومت وبادشاہت کا یہ وعدہ خاص طور پر ’آل ابراہیم‘ کے ساتھ کیا گیا تھا جس کا مصداق آخری دور میں صحابہ کرام کی جماعت تھی۔ مولانا شبیر احمد عثمانی اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’یعنی کیا یہود حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب پر اللہ کے فضل وانعام کو دیکھ کر حسد میں مرے جاتے ہیں۔ سو یہ تو بالکل ان کی بے ہودگی ہے کیونکہ ہم نے حضرت ابراہیم کے گھرانے میں کتاب اور علم اور سلطنت عظیم عنایت کی ہے۔ پھر یہود آپ کی نبوت اور عزت پر کیسے حسد اور انکار کرتے ہیں۔ اب بھی تو ابراہیم ہی کے گھر میں ہے۔‘‘ (تفسیر عثمانی، ص ۱۱۳)
سورۂ نور میں زیادہ صریح الفاظ میں ارشاد ہوا ہے:
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا مِنکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُم فِیْ الْأَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِیْ ارْتَضَی لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُم مِّن بَعْدِ خَوْفِہِمْ أَمْناً یَعْبُدُونَنِیْ لَا یُشْرِکُونَ بِیْ شَیْْئاً وَمَن کَفَرَ بَعْدَ ذَلِکَ فَأُوْلَءِکَ ہُمُ الْفَاسِقُونَ (النور ۲۴:۵۵)
’’تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے اچھے عمل کیے، ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ ضرور ان کو اس سرزمین میں اقتدار دے گا جیسا کہ ان سے پہلے والے گروہ کو دیا تھا، اور ان کے لیے اپنے اس دین کو مستحکم کر دے گا جسے اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے، اور خوف کی اس حالت کو بدل کر ان کے لیے امن قائم کر دے گا۔ یہ میری عبادت کریں گے اور کسی کو میرے ساتھ شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور جو اس کے بعد انکار کریں گے، سو وہی لوگ بدکار ہوں گے۔‘‘
سیاق وسباق کے علاوہ خود آیت کے اندر ’الذین آمنوا منکم‘ کے الفاظ اس بات پر نص صریح کی حیثیت رکھتے ہیں کہ اس وعدے کے مخاطب صرف صحابہ کرام ہیں۔ امام ابن تیمیہؒ اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
واما من حدث فی زمن الفتنۃ کالرافضۃ الذین احدثوا فی الاسلام فی زمن الفتنۃ والافتراق وکالخوارج المارقین فہولاء لم یتناولہم النص فلم یدخلوا فی من وصف بالایمان والعمل الصالح المذکورین فی ہذہ الآیۃ لانہم اولا لیسوا من الصحابۃ المخاطبین بہذا ولم یحصل لہم من الاستخلاف والتمکین والامن بعد الخوف ما حصل للصحابۃ بل لا یزالون خائفین مقلقلین غیر ممکنین (منہاج السنۃ، ۱/۱۵۷)
’’وہ گروہ جو فتنے کے زمانے میں پیدا ہوئے، مثلاً رافضی جنھوں نے فتنے اور انتشار کے دور میں اسلام میں بدعات گھڑیں اور خوارج جو دین ہی سے نکل گئے، تو یہ لوگ اس آیت کے دائرے میں نہیں آتے جس میں اس گروہ کے لیے ایمان اور عمل صالح کی صفات بیان کی گئی ہیں۔ اس کی سب سے پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ان کا شمار صحابہ میں نہیں ہے جن کو مخاطب کر کے یہ بات کہی گئی تھی اور نہ ان کو اقتدار اور استحکام اور خوف کے بعد امن کی وہ حالتیں حاصل ہوئیں جو صحابہ کو ملی تھیں بلکہ یہ تو ہمیشہ خوف اور بے چینی اور عدم استحکام کی حالت میں رہے۔‘‘
شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں:
’’لفظ منکم راجع ست بحاضرین نہ بمسلمین قاطبۃ زیرا کہ اگر جمیع مسلمین مراد می بودند بذکر لفظ منکم با کلمہ الذین آمنوا وعملوا الصالحات تکرار لازم می آمد پس حاصل معنی آنست کہ وعدہ براے جمعی است از شاہدان نزول آیہ کہ تمکین دین بر وفق سعی ایشان واجتہاد وکوشش ایشاں بظہور خواہد رسید۔‘‘ (ازالۃ الخفاء ۱/۱۱)
’’لفظ منکم حاضرین کی طرف راجع ہے نہ کہ تمام مسلمانوں کی طرف۔ کیونکہ اگر تمام مسلمان مراد لیے جائیں تو الذین آمنوا وعملوا الصالحات کے ساتھ منکم کا کلمہ زائد قرار پاتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ یہ وعدہ آیت کے نزول کے وقت موجود ایک گروہ سے ہے کیا گیا ہے جس کی کوشش اور محنت سے دین کو غلبہ حاصل ہوگا۔‘‘
اس بحث سے واضح ہے کہ قرآن مجید میں ’شہادت علی الناس‘ کے منصب کا ذکر دراصل صحابہ کے حوالے سے ہوا ہے۔ تاریخ کی رو سے ’شہادت حق‘ کے معیار پر پورا اترنے والی جماعت بھی عملاً صرف صحابہ کرام ہی کی جماعت تھی اور اسی بنیاد پر انہیں استخلاف فی الارض کی دولت عطا فرمائی گئی تھی۔ ’شہادت‘ اور ’خیریت‘ کا منصب اور حکومت واقتدار کا وعدہ، یہ سب کے سب مکمل طور پر باہم مربوط اور ایک ہی حقیقت کے مختلف پہلو ہیں اور قرآن کے ان تمام بیانات کو ایک دوسرے سے الگ کر کے انفرادی طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔ 

صحابہ کے جہاد کا متعین اور محدود ہدف

اب دوسرے نکتے کو دیکھیے:
بنی اسرائیل کے لیے حکومت واقتدار کا وعدہ، جیسا کہ ہم اوپر صحف سماوی کے نصوص کی روشنی میں واضح کر چکے ہیں، متعین جغرافیائی حدود کے اندر تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں بھی یہ بات بہت وضاحت سے نقل ہوئی ہے کہ آپ کی امت کو خطہ ارضی کے ایک محدود اور متعین علاقے میں حکومت واقتدار عطا کیا جائے گا۔ حضرت ثوبان سے روایت ہے:
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان اللہ زوی لی الارض فرایت مشارقہا ومغاربہا وان امتی سیبلغ ملکہا ما زوی لی منہا (مسلم، رقم ۵۱۴۴)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ نے میرے لیے زمین سمیٹ دی اور میں نے اس کے مشرق ومغرب کے علاقے دیکھ لیے اور بے شک میری امت کی حکومت ان تمام علاقوں تک پہنچے گی جو مجھے سمیٹ کر دکھائے گئے۔‘‘
یہ روم اور فارس کی سلطنتوں کا علاقہ تھا اور آپ نے جزیرۂ عرب سے باہر حاصل ہونے والی ان فتوحات کی بشارت ہمیشہ ان دو سلطنتوں یا ان کے زیر اثر علاقوں ہی کے حوالے سے دی۔ امت مسلمہ کو عملاً حاصل ہونے والی فتوحات کا دائرہ روم وفارس کی سلطنتوں سے کہیں وسیع تھا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اہتمام سے ان کا ذکر اپنی پیش گوئیوں میں نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ علاقے اصلاً اور بالذات موعودہ فتوحات میں داخل نہیں تھے بلکہ ان کی نوعیت روم وفارس کی فتوحات کے تتمہ وتکملہ اور ان کے ناگزیر لوازم کی تھی، بلکہ بعض اقوام، مثلاً ترکوں اور اہل حبشہ کے بارے میں آپ نے صحابہ کو اس بات کی وصیت فرمائی کہ وہ ان کے خلاف ازخود جنگ کا اقدام نہ کریں۔ آپ نے فرمایا:
ثم ضربت الثالثۃ فرفعت لی مدائن الحبشۃ وما حولہا من القری حتی رایتہا بعینی قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عند ذلک دعوا الحبشۃ ما ودعوکم واترکوا الترک ما ترکوکم (نسائی، رقم ۳۱۲۵)
’’پھر میں نے تیسری مرتبہ ضرب لگائی تو (اس سے اڑنے والی چنگاریوں کی روشنی میں) مجھے حبشہ اور اس کے ارد گرد کی بستیاں دکھائی گئیں یہاں تک میں نے انھیں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ ا س موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تک اہل حبشہ تمہارے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کریں، تم بھی نہ کرنا۔ اور ترک بھی جب تک تم سے تعرض نہ کریں، تم ان سے گریز کرنا۔‘‘
یہ روایت مختلف طرق سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۶۸۲۰)، عبد اللہ بن مسعود اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے، جبکہ اہل حبشہ کے بارے میں آپ کے اس جملے کو سعید بن المسیب نے اپنی ایک مرسل روایت میں نقل کیا ہے۔ (الاموال، ۹۵) اس کی تفصیلی تخریج کے لیے ملاحظہ ہو:
http://www.muslm.net/vb/archive/index.php/t-165484.html
ابن حجر لکھتے ہیں کہ یہ روایت صحابہ کے دور میں معروف تھی، چنانچہ سیدنا معاویہ کو جب اطلاع ملی کہ ان کے ایک کمانڈر نے ترکوں پر حملہ کر کے انھیں ایک لڑائی میں شکست دی ہے تو وہ اس پر سخت ناراض ہوئے اور اسے لکھا کہ جب تک میرا حکم نہ آئے، ترکوں سے لڑائی نہ کرنا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ترک عربوں کو نکال کر دور دراز علاقے کی طرف دھکیل دیں گے۔ (فتح الباری ۶/۶۰۹) سیدنا عمر کے فوجی کمانڈر احنف بن قیس نے بھی ایک موقع پر ’اترکوا الترک ما ترکوکم‘ کا حوالہ دیتے ہوئے ترکوں سے جنگ کرنے سے گریز کیا تھا۔ (ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، ۷/۱۲۸) 
ابن رشد لکھتے ہیں:
روی عن مالک انہ قال لا یجوز ابتداء الحبشۃ بالحرب ولا الترک لما روی انہ علیہ الصلاۃ والسلام قال ذروا الحبشۃ ما وذرتکم وقد سئل مالک عن صحۃ ہذا الاثر فلم یعترف بذلک لکن قال لم یزل الناس یتحامون غزوہم (بدایۃ المجتہد ۱/۲۷۹)
’’امام مالک سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ اہل حبشہ اور ترکوں کے خلاف جنگ کی ابتدا کرنا جائز نہیں۔ ان کے اس قول کی وجہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ جب تک اہل حبشہ تم سے گریز کرتے رہیں، تم بھی گریز کرتے رہو۔ امام مالک سے اس حدیث کی صحت کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے اس کا اقرار نہیں کیا، بلکہ کہا کہ مسلمان اہل حبشہ کے خلاف جنگ کرنے سے گریز کرتے چلے آ رہے ہیں۔‘‘
اس پس منظر میں یہ بات صحابہ پر بالکل واضح تھی کہ ان کی ذمہ داری اصلاً کوئی عالمگیر اسلامی حکومت قائم کرنا نہیں، بلکہ ایک محدود اور متعین دائرے میں اسلام کا غلبہ قائم کرنا ہے۔ چنانچہ خلفاے راشدین کے عہد میں کیے جانے والے جنگی اقدامات کے بارے میں تاریخی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ ان کا ہدف وہی محدود علاقہ تھا جس کو فتح کرنے کی انھیں اجازت دی گئی تھی اور ان اقوام سے آگے انھوں نے ازخود کوئی جارحانہ اقدام کسی قوم کے خلاف نہیں کیا۔ اس ضمن میں تاریخی تفصیلات حسب ذیل ہیں:
سیدنا عمرؓ نے اپنے عہد حکومت میں جہاد وقتال کے اقدامات کو ایک خاص دائرے تک محدود رکھنے کی پوری کوشش کی لیکن ان کی کوشش اور خواہش کے باوجود معروضی حالات کے باعث اس کا دائرہ وسیع تر ہوتا چلا گیا۔ چنانچہ دیکھیے:
رومی سلطنت کے خلاف جہاد سے مقصود اصلاً شام کے علاقے پر قبضہ کرنا تھا اور یہ متعین ہدف آغاز ہی سے فریقین پر بالکل واضح تھا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد فتنہ ارتداد سے نمٹنے کے بعد جب سیدنا صدیق اکبر نے اپنے مختلف جرنیلوں کی قیادت میں شام کے مختلف علاقوں پر قبضے کے لیے لشکر روانہ کیے تو قیصر روم نے اس موقع پر کوشش کی کہ شام کا علاقہ صلحاً مسلمانوں کے حوالے کر کے مستقل بنیادوں پر ان کی پیش قدمی کو روک دیا جائے۔ اس نے رومی سلطنت کے اہل حل وعقد سے کہا:
ویحکم ان ہولاء اہل دین جدید وانہم لا قبل لاحد بہم فاطیعونی وصالحوہم بما تصالحونہم علی نصف خراج الشام ویبقی لکم جبال الروم وان انتم ابیتم ذلک اخذوا منکم الشام وضیقوا علیکم جبال الروم (ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، ۷/۵)
’’تمھارا ناس ہو، یہ لوگ ایک نئے دین کے پیروکار ہیں اور کوئی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اس لیے میری بات مان لو اور ان کے ساتھ اس بات پر صلح کر لو کہ شام کا آدھا خراج ان کو ادا کیا جائے گا اور جبال الروم تمھارے لیے محفوظ رہیں گے۔ اگر تم یہ بات نہیں مانو گے تو وہ تم سے شام کا علاقہ بھی لے لیں گے اور جبال الروم میں بھی تمھیں پریشان کیے رکھیں گے۔‘‘ 
حضرت صدیق اکبر کی طرف سے خالد بن ولید کو عراق کے محاذ پر مامور کیا گیا تھا جہاں سے انھیں ضرورت کے تحت شام کے محاذ پر بھیج دیا گیا، لیکن انھیں یہ ہدایت کردی کہ شام کی فتح سے فارغ ہو کر واپس عراق چلے جائیں۔ (البدایہ والنہایہ ۷/۵) اجنادین میں فتح کے بعد خالد بن ولید نے سیدنا ابوبکر کو اس کی اطلاع بھیجی تو جوابی خط میں انھوں نے لکھا:
اجعل السیر دابک الی ان تطا اقصی ارضہم وانزل علی جنۃ الشام الی ان یاذن اللہ تعالیٰ بفتحہا علی یدیک ثم الی حمص والمعرات واطلب انطاکیۃ ..... وان نزلت علی المدینۃ العظمی ذات الجبل المطل انطاکیۃ فان الملک ہناک فان صالحک فصالحہ وان حاربک فحاربہ ولا تدخل الدروب او تکاتبنی بذالک (واقدی، فتوح الشام ۱۳۲)
’’برابر بڑھتے چلے جاؤ یہاں تک کہ ان کی سرزمین کے آخری کنارے تک پہنچ جاؤ۔ شام کے باغات پر جا کر ٹھہرو یہاں تک کہ اللہ انھیں تمھارے ہاتھوں مفتوح کر دے۔ پھر حمص اور معرات کو فتح کرو اور انطاکیہ کا قصد کرو۔ جب اونچے پہاڑوں والے بہت بڑے شہر انطاکیہ پہنچ جاؤ تو رومیوں کا بادشاہ وہیں ہے۔ اگر وہ صلح کرنا چاہے تو اس سے صلح کر لو اور اگر جنگ کرنا چاہے تو اس سے جنگ کرو۔ پہاڑی دروں میں داخل نہ ہونا جب تک کہ مجھ سے خط وکتابت کر کے مشورہ نہ کر لو۔‘‘
وفات سے قبل انھوں نے سیدنا عمر کو بھی وصیت کی کہ وہ عراق کے محاذ کی طرف بھرپور توجہ دیں اور جیسے ہی شام کا علاقہ فتح ہو جائے، خالد بن ولید کے لشکر کو بھی وہاں سے ہٹا کر عراق کے محاذ پر بھیج دیا جائے، کیونکہ وہ اور ان کے ساتھی وہاں کی جنگ کا زیادہ تجربہ رکھتے ہیں۔ (البدایہ والنہایہ، ۷/۱۸) چنانچہ سیدنا عمرؓ نے شام کے مفتوح ہونے کے بعد اس محاذ پر پیش قدمی روک دی اور بنو کنانہ اور بنو ازد کے جنگ جوؤں کی ایک جماعت نے ان کے پاس حاضر ہو کر شام کے محاذ پر لڑنے کی خواہش ظاہر کی تو انھوں نے فرمایا: 
ذلک قد کفیتموہ العراق العراق ذروا بلدۃ قد قلل اللہ شوکتہا وعددہا واستقبلوا جہاد قوم قد حووا فنون العیش (طبری، تاریخ الامم والملوک ۳/۴۶۳)
’’بنو کنانہ اور بنو ازد کے سات سو جنگجو سیدنا عمر کی خدمت میں آئے۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ کس محاذ پر لڑنا پسند کرو گے؟ انہوں نے کہا: شام، جو ہمارے اسلاف کا علاقہ ہے۔ آپ نے کہا، وہاں کا بندوبست ہو چکا ہے۔ تم عراق کی طرف جاؤ۔ اس ملک کو چھوڑ دو جہاں اللہ نے قوت وشوکت اور اسباب ووسائل کم رکھے ہیں۔ اس کے بجائے اس قوم کے ساتھ لڑنے کے لیے روانہ ہو جاؤ جہاں قسم قسم کے اسباب معاش میسر ہیں۔‘‘
۱۶ ہجری میں فتح بیت المقدس کے موقع پر انھوں نے اہل شہر پر یہ شرط عائد کی کہ رومیوں کو تین دن کے اندر شہر سے نکال دیں۔ (البدایہ والنہایہ، ۷/۵۵) اس کی وجہ بھی غالباً یہ تھی کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ شہر میں آباد ان رومیوں کے ذریعے سے رومی سلطنت مسلمانوں کے خلاف موقع بموقع فتنہ انگیزی کی کوشش کرتی رہے۔ یزید بن ابی سفیان کو قیساریہ پر حملے کی ہدایت دیتے ہوئے بھی انھوں نے یہی وجہ بیان کی کہ اس طرح شام کے علاقے میں قیصر روم کی ساری امیدیں دم توڑ جائیں گی:
انہ لا یزال قیصر طامعا فی الشام ما بقی فیہا احد من اہل طاعتہ متبعا ولقد فتحتموہا قطع اللہ رجاء ہ من جمیع الشام (ازدی، فتوح الشام ۲۵۰)
’’اگر شام میں کوئی بھی شخص قیصر کی اطاعت اور اتباع کرنے والے باقی رہے گا تو شام کے بارے میں اس کی خواہش باقی رہے گی اور اگر تم قیساریہ کو بھی فتح کر لو گے تو اللہ پورے شام سے اس کی امیدوں کو ختم کر دے گا۔‘‘
اس محاذ پر دوبارہ پیش قدمی کی اجازت انھوں نے صرف اس وقت دی جب ۱۷ ہجری میں اہل روم نے مسلمانوں کے مقبوضہ علاقوں پر حملہ کرنے کی جرات کی۔ طبری لکھتے ہیں:
اول ما اذن عمر للجند بالانسیاح ان الروم خرجوا وقد تکاتبوا ہم واہل الجزیرۃ یریدون ابا عبیدۃ والمسلمین بحمص (تاریخ الامم والملوک ۴/۵۰)
’’سیدنا عمر نے سب سے پہلے اپنے لشکر کو رومیوں کے علاقے میں گھسنے کی اجازت اس وقت دی جب اہل روم اٹھے اور اہل جزیرہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے انھوں نے حمص میں ابو عبیدہ اور ان کے لشکر پر حملہ آور ہونے کا ارادہ کیا۔‘‘
شام کے بعض علاقوں پر قبضہ بھی ابتداء اً مسلم جرنیلوں کے پیش نظر نہیں تھا۔ مثال کے طور پر بلاذری بتاتے ہیں:
کان یزید بن ابی سفیان وجہ معاویۃ الی سواحل دمشق سوی اطرابلس فانہ لم یکن یطمع فیہا (فتوح البلدان ص ۱۳۴)
’’یزید بن ابی سفیان نے معاویہ کو دمشق کے ساحلی علاقوں کی طرف بھیجا، لیکن اطرابلس ان میں شامل نہیں تھا کیونکہ وہ اسے فتح کرنے کی خواہش نہیں رکھتے تھے۔‘‘
رومی حکومت کے زیر تسلط علاقوں میں بحیرۂ روم میں موجود بہت سے جزیرے بھی شامل تھے اور ان پر حملہ آور ہونے کا واحد راستہ سمندر تھا۔ شام کے محاذ کے کمانڈر یزید بن ابی سفیان کی وفات کے بعد ان کے بھائی سیدن معاویہ نے سیدنا عمر کو خط لکھا اور ساحلی علاقوں کی صورت حال بیان کی، تاہم انہوں نے سمندر میں لشکر کشی کی اجازت نہیں دی۔بلکہ لکھا کہ وہاں کے قلعوں کی مرمت کروا کر ان میں فوجیوں کو متعین کرو، نگرانی کے لیے چوکیدار مقرر کرو اور وہاں آگ جلانے کے ضروری انتظامات کرو۔ (بلاذری، فتوح البلدان، ص ۱۳۴، ۱۳۵)
سیدناعثمان کے زمانے میں امیر معاویہ نے ان سے دوبارہ جزیرۂ قبرص کا قریبی محل وقوع بیان کرتے ہوئے اس پر حملے کی اجازت طلب کی تو سیدنا عثمان نے ان کو لکھا:
قد شہدت ما رد علیک عمر رحمہ اللہ حین استامرتہ فی غزو البحر 
’’جب تم نے عمر رحمہ اللہ سے سمندر میں لشکر کشی کی اجازت مانگی تھی اور انہوں نے اس کو مسترد کر دیا تھا تو میں اس موقع پر موجود تھا۔‘‘
تاہم امیر معاویہ اس سلسلے میں مسلسل اصرار کرتے رہے، یہاں تک کہ ۲۷ ہجری میں سیدنا عثمان نے بالآخر ان کو اجازت دے دی لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اس حملے کے لیے جبراً کسی کی ڈیوٹی نہ لگائی جائے، بلکہ صرف وہی افراد لشکر میں شریک ہوں جو اپنی رضامندی سے جانا چاہتے ہیں۔ (بلاذری، فتوح البلدان، ص ۱۵۹)
قادسیہ، مدائن اور جلولاء کے معرکوں کے بعد ۱۶ ہجری میں جنوبی عراق کا علاقہ، جس کو عرب مورخین ’سواد‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں، مسلمانوں کے قبضے میں آ چکا تھا۔ سعد بن ابی وقاص نے مزید پیش قدمی کی اجازت چاہی تو سیدنا عمر نے انھیں اس سے روک دیا۔ طبری کا بیان ہے:
ثم کتب سعد الی عمر بما فتح اللہ علی المسلمین فکتب علیہ عمر ان قف ولا تطلبوا غیر ذلک فکتب الیہ سعد ایضا انما ہی سربۃ ادرکناہا والارض بین ایدینا فکتب الیہ عمر ان قف مکانک ولا تتبعہم (تاریخ الامم والملوک، ۳/۵۷۹)
’’پھر سعد نے خط لکھ کر سیدنا عمر کو مسلمانوں کو حاصل ہونے والی فتوحات کی خبر دی۔ سیدنا عمر نے جواب میں لکھا کہ بس اب رک جاؤ اور مزید علاقے فتح نہ کرو۔ سعد نے ان کو لکھا کہ یہ تو ایک ریوڑ ہے جس پر ہم نے قابو پا لیا ہے (تو جو شکار ہاتھ میں آیا ہے، اسے کیوں جانے دیں؟) اور زمین ہمارے سامنے پڑی ہوئی (اور فتح کی منتظر) ہے۔ سیدنا عمر نے ان کو دوبارہ یہی لکھا ہے کہ بس، اپنی جگہ ٹھہرے رہو اور ان کو پیچھا نہ کرو۔‘‘
ایک روایت کے مطابق الفاظ یہ تھے:
اما بعد فقد جاء نی مابین العذیب وحلوان وفی ذلکم ما یکفیکم ان اتقیتم واصلحتم قال وکتب اجعلوا بینکم وبین العدو مفازۃ (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۵۶۰۸)
’’اما بعد، عذیب اور حلوان کا علاقہ میرے قبضے میں آ چکا ہے اور اگر تم اللہ سے ڈرتے اور اصلاح احوال کرتے رہو تو یہ علاقہ تمہارے لیے کافی ہے۔ نیز انہوں نے ان کو لکھا کہ اپنے اور دشمن کے علاقے کے درمیان زمینی فاصلہ رکھو۔‘‘
طبری نے دوسری جگہ لکھا ہے:
وکتبوا الی عمر بفتح جلولاء وبنزول القعقاع حلوان واستاذنوہ فی اتباعہم فابی وقال لوددت ان بین السواد وبین الجبل سدا لا یخلصون الینا ولا نخلص الیہم حسبنا من الریف السواد انی آثرت سلامۃ المسلمین علی الانفال (تاریخ الامم والملوک، ۴/۲۸)
’’انہوں نے سیدنا عمر کو خط لکھ کر جلولاء کے فتح ہونے کی خبر دی اور بتایا کہ قعقاع حلوان کے مقام پر مقیم ہیں۔ نیز انہوں نے دشمن کا پیچھا کرنے کی اجازت مانگی لیکن سیدنا عمر نے انکار کر دیا اور کہا کہ میری یہ خواہش ہے کہ سواد اور جبل کے علاقے کے درمیان کوئی ایسی رکاوٹ کھڑی ہو جائے جس کو عبور کر کے نہ وہ ہماری طرف آ سکیں اور نہ ہم ان کی طرف جا سکیں۔ ان شاداب خطوں میں سے ہمارے لیے سواد ہی کافی ہے۔ مجھے مال غنیمت کے مقابلے میں مسلمانوں کی سلامتی زیادہ عزیز ہے۔‘‘
ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:
کانت الکوفۃ وسوادہا والفروج حلوان والموصل وماسبذان وقرقیسیاء ....... ونہاہم عما وراء ذلک ولم یاذن لہم فی الانسیاح (تاریخ الامم والملوک ۴/۵۰)
’’(فتح مدائن کے بعد مسلمانوں کے قبضے میں بس یہ علاقے تھے) کوفہ، سواد ، حلوان، موصل، ماسبذان اور قرقیسیاء۔ اور سیدنا عمر نے ان کو ان سے آگے بڑھنے سے منع کر دیا تھا اور بلاد عجم میں گھسنے کی اجازت نہیں دی تھی۔‘‘
طبری نے یہ بات متعدد جگہوں پر بیان کی ہے کہ سیدنا عمر عراق کے سرسبز وشاداب خطے میں سے صرف سواد کے علاقے پر قناعت کرنا چاہتے تھے:
وکان عمر قد رضی بالسواد من الریف (تاریخ الامم والملوک ۴/۳۱)
’’اور سیدنا عمر عراق کے سرسبز وشاداب علاقوں میں سے صرف سواد کے علاقے پر اکتفا کرنا چاہتے تھے۔‘‘
ابتداء اً اہل فارس نے بھی اس تقسیم کو قبول کر لیا۔ طبری لکھتے ہیں:
وقالوا جمیعا:ولما بلغ اہل فارس قول عمر ورایہ فی السواد وما خلفہ قالوا ونحن نرضی بمثل الذی رضوا بہ (تاریخ الامم والملوک ۴/۳۳)
’’تمام راوی یہ بیان کرتے ہیں کہ جب اہل فارس تک سواد اور اس سے پیچھے کے علاقے کے بارے میں سیدنا عمر کی رائے پہنچی تو انہوں نے کہا کہ ہم بھی اس پر راضی ہیں۔‘‘
الجزیرہ کا علاقہ فتح ہو گیا تو یہاں بھی سیدنا عمر نے اس بات کی پوری کوشش کی کہ پیش قدمی کا سلسلہ کسی طرح سے یہیں رک جائے۔ طبری لکھتے ہیں:
وقد قال عمر حسبنا لاہل البصرۃ سوادہم والاہواز وددت ان بیننا وبین فارس جبلا من نار لایصلون الینا منہ ولا نصل الیہم کما قال لاہل الکوفۃ وددت ان بینہم وبین الجبل جبلا من نار لایصلون الینا منہ ولا نصل الیہم (تاریخ الامم والملوک ۴/۷۹)
’’سیدنا عمر نے کہا: ہم اہل بصرہ کے لیے سواد اور اہواز کا علاقہ کافی ہے۔ کاش ہمارے اور فارس کے علاقے کے درمیان آگ کا کوئی پہاڑ ہوتا ۔ نہ وہ ہم تک پہنچ پاتے اور نہ ہم ان تک پہنچ پاتے۔ اسی طرح آپ نے اہل کوفہ کے بارے میں کہا تھا کہ کاش ان کے اور جبل کے علاقے کے مابین آگ کا کوئی پہاڑ ہوتا۔ نہ وہ اس طرف آ سکتے اور نہ ہم ادھر جا سکتے۔‘‘
علاء بن الحضرمی سیدنا ابوبکرؓ کے زمانے سے بحرین کے گورنر مقرر تھے۔ سیدنا عمر نے اپنے عہد میں انہیں برقرار رکھا اور ان کو تاکید کی کہ وہ سمندر عبور کر کے فارس کے علاقے میں داخل ہونے کی کوشش نہ کریں۔ تاہم انھوں نے اس حکم کی خلاف ورزی کر ڈالی۔ طبری کا بیان ہے:
واستعملہ عمر ونہاہ عن البحر فلم یقدر فی الطاعۃ والمعصیۃ وعواقبہما فندب اہل البحرین الی فارس فتسرعوا الی ذلک ..... فحملہم فی البحر الی فارس بغیر اذن عمر وکان عمر لا یاذن لاحد فی رکوبہ غازیا یکرہ التغریر بجندہ استنانا بالنبی صلی اللہ علیہ وسلم وبابی بکر لم یغز فیہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ولا ابوبکر (تاریخ الامم والملوک ۴/۷۹، ۸۰)
’’سیدنا عمر نے ان کو وہاں کا حاکم مقرر کیا اور انھیں سمندر میں مہم جوئی سے منع کیا، لیکن وہ اس حکم کی پابندی یا اس کی خلاف ورزی کی اہمیت اور ان کے نتائج کا ٹھیک ٹھیک اندازہ نہ کر سکے اور اہل بحرین کو اہل فارس پر حملہ کرنے کی دعوت دے دی جس پر وہ فوراً تیار ہو گئے۔ چنانچہ وہ سیدنا عمر کی اجازت کے بغیر ان کو لے کر سمندر میں روانہ ہو گئے۔ سیدنا عمر کسی کو بھی لشکر کشی کی غرض سے سمندر کے سفر کی اجازت نہیں دیتے تھے جس کی وجہ ایک تو یہ تھی کہ وہ اپنے لشکر کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے اور دوسری یہ کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر کے طریقے پر قائم رہنا چاہتے تھے کیونکہ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمندر کے راستے سے لشکر کشی کی اور نہ سیدنا ابوبکر نے۔‘‘
سیدنا عمر کو اس کی اطلاع ملی تو وہ شدید ناراض ہوئے اور عمرو کو ان کے عہدے سے معزول کر کے انہیں حکم دیا کہ وہ سعد بن ابی وقاص کے لشکر میں ان کے ماتحت کی حیثیت سے شریک ہو جائیں۔ (طبری، تاریخ الامم والملوک ۴/۸۱)
یاقوت حموی لکھتے ہیں:
ان عمر بن الخطاب اراد ان یتخذ للمسلمین مصرا وکان المسلمون قد غزوا من قبل البحرین توج ونوبندجان وطاسان فلما فتحوہا کتبوا الیہ انا وجدنا بطاسان مکانا لا باس بہ فکتب الیہم ان بینی وبینکم دجلۃ لا حاجۃ فی شئ بینی وبینہ دجلۃ ان تتخذوہ مصرا (معجم البلدان ۱/۴۳۰)
’’عمر بن الخطاب چاہتے تھے کہ مسلمانوں کے لیے ایک شہر آباد کریں۔ مسلمانوں نے بحرین کی جانب سے توج اور بندجان اور طاسان پر حملہ کیا تھا۔ جب انھوں نے ان علاقوں کو فتح کر لیا تو امیر المومنین کو لکھا کہ ہمیں طاسان میں (شہر بسانے کے لیے) ایک مناسب جگہ مل گئی ہے۔ امیر المومنین نے جواب میں لکھا کہ میرے اور تمھارے درمیان درجلہ حائل ہے اور میں کسی ایسی جگہ پر شہر نہیں بسانا چاہتا جس کے اور میرے درمیان دجلہ حائل ہو۔‘‘
فارس کے علاقے میں عام لشکر کشی کی اجازت سیدنا عمر نے ۱۷ ہجری میں احنف بن قیس کی تجویز پر دی۔ سیدنا عمر کو جب مسلسل اہل فارس کی طرف سے شورش اور بغاوت کی اطلاعات ملیں تو انھوں نے اس کے اسباب کی تحقیق کی۔ ان کا خیال تھا کہ شاید مسلمان عمال وہاں کے باشندوں کے ساتھ ناروا سلوک اختیار کرتے ہیں جس سے تنگ آ کر وہ بغاوت پر مجبور ہو جاتے ہیں، لیکن تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ بات درست نہیں۔ تاہم اس کے علاوہ بد امنی اور بغاوت کا کوئی اور واضح سبب بھی ان کے سامنے نہ آ سکا۔ اس موقع پر احنف بن قیس نے اصل صورت حال ان کے سامنے رکھی اور کہا:
یا امیر المومنین اخبرک انک نہیتنا عن الانسیاح فی البلاد وامرتنا بالاقتصار علی ما فی ایدینا وان ملک فارس حی بین اظہرہم وانہم لا یزالون یساجلوننا ما دام ملکہم فیہم ولم یجتمع ملکان فاتفقا حتی یخرج احدہما صاحبہ وقد رایت انا لم ناخذ شیئا بعد شئ الا بانبعاثہم وان ملکہم ہو الذی یبعثہم ولا یزال ہذا دابہم حتی تاذن لنا فلنسح فی بلادہم حتی نزیلہ عن فارس ونخرجہ من مملکتہ وعز امتہ فہنالک ینقطع رجاء اہل فارس ویضربون جاشا (طبری،تاریخ الامم والملوک ۴/۸۹)
’’اے امیر المومنین! میں آپ کو اصل بات بتاتا ہوں۔ آپ نے ہمیں مملکت فارس میں دور تک گھسنے سے منع کر رکھا ہے اور ان علاقوں پر اکتفا کرنے کا حکم دیا ہے جو ہمارے قبضے میں ہیں، جبکہ اہل فارس کا بادشاہ زندہ سلامت ان کے مابین موجود ہے اور جب تک وہ رہے گا، اہل فارس ہمارے ساتھ آمادۂ پیکار رہیں گے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک سرزمین میں دو بادشاہ اتفاق سے رہیں۔ ان میں سے ایک کو لازماً دوسرے کو نکالنا پڑے گا۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہمیں اہل فارس کی بغاوتوں ہی کے نتیجے میں ایک کے بعد دوسرے علاقے پر قبضہ کرنا پڑا ہے اور ان تمام بغاوتوں کا سرچشمہ ان کا بادشاہ ہے۔ اور ان کا وطیرہ یہی رہے گا جب تک کہ آپ ہمیں اجازت نہیں دیتے کہ ہم ان کی مملکت میں گھس کر ان کے بادشاہ کو وہاں سے ہٹا دیں اور اس کی سلطنت اور سربلندی کی جگہ سے اس کو نکال دیں۔ اس صورت میں اہل فارس کی امیدیں ٹوٹ جائیں گی اور وہ پرسکون ہو جائیں گے۔‘‘
سیدنا عمر ان کے اس تجزیے پر مطمئن ہوئے اور اس کے بعد بلاد فارس پر لشکر کشی کی اجازت دے دی۔ 
لما رای عمر ان یزدجرد یبعث علیہ فی کل عام حربا وقیل لہ لایزال ہذا الداب حتی یخرج من مملکتہ اذن للناس فی الانسیاح فی ارض العجم حتی یغلبوا یزدجرد علی ما کان فی یدی کسری (تاریخ الامم والملوک، ۴/۱۳۸)
’’جب سیدنا عمر نے دیکھا کہ یزدگرد ہر سال کوئی نہ کوئی معرکہ کھڑا کر دیتا ہے اور ان کو بتایا گیا کہ اگر اسے اس کی مملکت سے نکالا نہ گیا تو وہ یونہی کرتا رہے گا، تب انھوں نے مسلمانوں کی اجازت دی کہ وہ سرزمین عجم میں گھس جائیں اور یزدگرد سے وہ سارا علاقہ چھین لیں جو اس کے قبضے میں ہے۔‘‘
یزدگرد کے بارے میں لکھا ہے:
وکاتب من مرو من بقی من الاعاجم فی ما لم یفتتحہ المسلمون فدانوا لہ حتی اثار اہل فارس والہرمزان فنکثوا وثار اہل الجبال والفیرزان فنکثوا وصار ذلک داعیۃ الی اذن عمر للمسلمین فی الانسیاح (تاریخ الامم والملوک ۴/۱۶۷)
’’اور اس نے مرو میں بیٹھ کر ان علاقوں کے اہل عجم سے خط وکتابت کی جن کو مسلمانوں نے فتح نہیں کیا تھا۔ انہوں نے اس کی اطاعت قبول کی، یہاں تک اس نے فارس اور ہرمزان کے باشندوں کو بھی مسلمانوں کے خلاف ابھار کر معاہدہ توڑنے پر آمادہ کر لیا اور حبال اور فیرزان کے لوگ بھی معاہدے سے منحرف ہو گئے۔ اس صورت حال کے باعث سیدنا عمر کو مسلمانوں کو اجازت دینا پڑی کہ وہ بلاد عجم میں دور تک گھس جائیں (اور بغاوتوں کو فرو کریں)۔‘‘
خراسان کے فتح ہونے کی اطلاع ملی تو بھی سیدنا عمر نے اس پر کسی خوشی کا اظہار نہیں کیا:
کتب الاحنف الی عمر بفتح خراسان فقال لوددت انی لم اکن بعثت الیہا جندا ولوددت انہ کان بیننا وبینہا بحر من نار فقال علی ولم یا امیر المومنین؟ قال لان اہلہا سینفضون منہا ثلاث مرات فیجتاحون فی الثالثۃ فکان ان یکون ذلک باہلہا احب الی من ان یکون بالمسلمین (تاریخ الامم والملوک، ۴/۱۶۸)
’’احنف نے سیدنا کو خط لکھ کر خراسان کے فتح ہونے کی اطلاع دی تو انہوں نے کہا: میری خواہش تو یہی تھی کہ میں وہاں کوئی لشکر نہ بھیجتا اور میں تو یہ چاہتا تھا کہ اس کے اور ہمارے درمیان آگ کا کوئی سمندر ہوتا (جسے عبور نہ کیا جا سکتا) سیدنا علی نے کہا: اے امیر المومنین، لیکن کیوں؟ سیدنا عمر نے کہا کہ یہاں کے باشندے تین مرتبہ گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوں گے اور تیسری مرتبہ تو بالکل برباد ہو جائیں گے۔ میں چاہتا تھا کہ یہ آفت انھی لوگوں پر آئے اور مسلمان اس سے محفوظ رہیں۔‘‘
نیز انھوں نے احنف بن قیس کو مزید پیش قدمی سے روک دیا:
وکتب عمر الی الاحنف ینہاہ عن العبور الی ما وراء النہر وقال احفظ ما بیدک من بلاد خراسان (البدایہ والنہایہ، ۷/۱۲۷)
’’سیدنا عمر نے احنف کو خط لکھ کر انھیں دریا پار کے علاقے میں داخل ہونے سے روک دیا اور کہا کہ تمہارے زیر نگیں جو خراسان کا علاقہ ہے، بس اسی کو سنبھالو۔‘‘
فارس کی فتوحات کے آخری مراحل میں نعمان بن مقرن نے اپنے ساتھیوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
قد علمتم ما اعزکم اللہ بہ من ہذا الدین وما وعدکم من الظہور وقد انجز لکم ہوادی ما وعدکم وصدورہ وانما بقیت اعجازہ واکارعہ واللہ منجز وعدہ ومتبع آخر ذلک اولہ (تاریخ الامم والملوک، ۴/۱۳۱)
’’تم اس سربلندی سے بھی اچھی طرح واقف ہو جو اللہ نے تمہیں اس دین کی وجہ سے دی ہے اور غلبہ کے اس وعدے سے بھی جو اس نے تمہارے ساتھ کیا ہے۔ دیکھو، اللہ نے اپنے وعدے کا بڑا حصہ تو پورا کر دیا ہے اور اب اس کا بس تھوڑا سا حصہ باقی رہ گیا ہے۔ اور اللہ اپنے وعدے کو یقیناًپورا کرے گا اور پہلے کی طرح آخری حصے کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچائے گا۔‘‘
سیدنا عمر نے فرمایا:
رایت انہ لم یبق شئ یفتح بعد ارض کسری (ابو یوسف، الخراج، ص ۲۷)
’’میرا خیال ہے کہ کسریٰ کی سرزمین کے بعد اب کوئی علاقہ فتح نہیں ہوگا۔‘‘
ابن کثیرؒ نے فتوحات کے معاملے میں سیدنا عمر کی پالیسی ان الفاظ میں واضح کی ہے:
والمقصود ان عمر کان یحجر علی المسلمین ان یتوسعوا فی بلاد العجم خوفا علیہم من العجم حتی اشار علیہ الاحنف بن قیس بان المصلحۃ تقتضی توسعہم فی الفتوحات فان الملک یزدجرد لا یزال یستحثہم علی قتال المسلمین وان لم یستاصل شاو العجم والا طمعوا فی الاسلام واہلہ فاستحسن عمر ذلک منہ وصوبہ واذن للمسلمین فی التوسع فی بلاد العجم ففتحوا بسبب ذلک شیئا کثیرا (البدایہ والنہایہ، ۷/۸۸)
’’مطلب یہ ہے کہ سیدنا عمر نے اہل عجم کے خوف کے باعث مسلمانوں کے اس سے روکے رکھا کہ وہ بلاد عجم میں اپنی فتوحات کا سلسلہ بہت زیادہ پھیلائیں، یہاں تک کہ احنف بن قیس نے انھیں مشورہ دیا کہ مصلحت کا تقاضا یہی ہے کہ فتوحات کی توسیع کی جائے، کیونکہ شاہ فارس یزدگرد مسلسل اپنی قوم کو مسلمانوں کے خلاف قتال پر ابھار رہا ہے اور اگر ان کی ہمت نہ توڑی گئی تو وہ (اپنی سرزمین کے دفاع سے بڑھ کر) خود اسلام اور اہل اسلام کو اپنا نشانہ بنا لیں گے۔ سیدنا عمر نے اس رائے کو پسند کیا اور اس کو درست قرار دے کو مسلمانوں کو وسیع پیمانے پر بلاد عجم کو فتح کرنے کی اجازت دے دی، جس کے باعث مسلمانوں نے بہت سے علاقے فتح کر لیے۔‘‘
یزدگرد نے مسلمانوں کے مقابلے میں جن بادشاہوں سے مدد چاہی، ان میں سندھ اور چین کے بادشاہوں کے علاوہ تاتاری بادشاہ خاقان بھی شامل تھا۔ چین کے بادشاہ نے تو یزدگرد کی مدد سے معذرت کر لی، تاہم خاقان نے مسلمانوں کے خلاف اسے بھرپور امداد فراہم کی۔ خراسان کی فتح کے بعد وہ یزدگرد کی مدد کے لیے ایک بڑی فوج لے کر آیا اور بلخ کا قبضہ مسلمانوں سے چھڑا لیا۔ پھر مرو الروذ کے مقام پر ایک معرکہ ہوا۔ تیسرے دن تاتاری فوجیں میدان میں نہیں آئیں۔ احنف بن قیس نے ان کا پیچھا کرنے سے گریز کیا:
وقد قال المسلمون للاحنف ما تری فی اتباعہم؟ فقال اقیموا بمکانکم ودعوہم وقد اصاب الاحنف فی ذلک فقد جاء فی الحدیث اترکوا الترک ما ترکوکم (البدایہ والنہایہ، ۷/۱۲۸)
’’مسلمانوں نے احنف سے پوچھا کہ ان کا پیچھا کرنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ انہوں نے کہا، اپنی جگہ ٹھہرے رہو اور ان کو جانے دو۔ (ابن کثیر کہتے ہیں) احنف کا یہ فیصلہ درست تھا کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ ترک جب تک تمہارے مقابلے میں نہ آئیں، ان سے تعرض نہ کرو۔‘‘
سیدنا عمر نے عبد الرحمن بن ربیعہ کو حکم دیا کہ وہ ترکوں کے خلاف جنگ کریں۔ وہ اپنا لشکر لے کر باب کو توڑ کر ترکوں کے علاقے میں داخل ہو گئے۔ ابتدا میں تو ترکوں پر رعب کی کیفیت طاری ہو گئی تاہم بعد میں انھوں نے شدید مزاحمت کی اور مسلمانوں کو میدان جنگ چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ عبدالرحمن بن ربیعہ اس جنگ میں شہید ہو گئے۔ (البدایہ والنہایہ، ۷/۱۲۳، ۱۲۴)
اسی طرح سیدنا معاویہ کو جب اطلاع ملی کہ ان کے ایک کمانڈر نے ترکوں پر حملہ کر کے انھیں ایک لڑائی میں شکست دی ہے تو وہ اس پر سخت ناراض ہوئے اور اسے لکھا کہ جب تک میرا حکم نہ آئے، ترکوں سے لڑائی نہ کرنا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ترک عربوں کو نکال کر دور دراز علاقے کی طرف دھکیل دیں گے۔ (مسند ابی یعلی، ۷۳۷۶)
ایرانیوں کی بغاوتوں کو فرو کرنے کے لیے جب جنگی مہمات کا ہمہ گیر منصوبہ تیار کیا گیا تو ہندوستان میں ایرانی طاقت کے بعض مراکز بھی زیر غور آئے۔ سندھ اور فارس کے سیاسی تعلقات پر روشنی ڈالتے ہوئے مشہور مورخ قاضی اطہر مبارک پوری لکھتے ہیں:
’’مکران سے سراندیپ تک کے تمام ہندوستانی راجے مہاراجے شاہان ایران کے باج گزار اور وفادار تھے اور حسب ضرورت اپنے اموال اور رعایا سے ان کی مدد کیا کرتے تھے۔ چنانچہ ۱۷ ھ کے بعد دیگر مقامات کے حکمرانوں کی طرح ہندوستان کے یہ راجے مہاراجے بھی ایرانیوں کی مدد اور عربوں سے مقابلے کے لیے دوڑ دھوپ کرنے لگے اور ایک راجہ دوسرے راجہ کے پاس اس بارے میں رائے مشورہ کے لیے خطوط اور آدمی بھیجنے لگا یہاں تک کہ ۲۱ھ میں جنگ نہاوند میں ایرانیوں نے اپنی تمام اندرونی اور بیرونی طاقتیں اسلامی فوج کے مقابلے میں جمع کر لیں جن میں سندھ کے راجے اور یہاں کے سپاہی بھی تھے۔ اس واقعہ کے بعد اسلامی فوج نے اپنے حربی نقشہ میں ایران کے اہم مقامات کی طرح ہندوستان کے ان مقامات اور راجوں کو بھی درج کر لیا جہاں سے ان کے خلاف مدد آنے لگی تھی اور کھل کر عربوں کے مقابلہ میں صف آرائی کی نوبت آ گئی تھی۔‘‘ (خلافت راشدہ اور ہندوستان، ص ۶۹)
’’حالات وواقعات کی کڑی ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت کا یہ فیصلہ اور مکران پر حملہ کا منصوبہ ہندوستان کے راجوں کی روش کا عین رد عمل تھا تاکہ ایرانی فوجوں کو یہاں سے مدد نہ مل سکے اور نہ ہی باب الابواب سے لے کر سندھ وہند کی فوجی طاقت منظم ہو کر اسلامی فوج کے مقابلے میں آ سکے۔ مگر ایسے حالات پیدا ہوتے رہے کہ اس فیصلہ کے باوجود خلافت کی طرف سے بلاد فارس اور مکران پر فوج کشی کا موقع نہ مل سکا اور مخالف طاقتیں اس مدت میں پورے طور سے منظم ہو کر ۲۱ھ میں جنگ نہاوند میں مسلمانوں کے مقابلے میں ڈٹ گئیں۔ بالفاظ دیگر مسلمانوں کی طرف سے مزید اتمام حجت ہو گئی اور اب ان ایرانی اور ہندوستانی جنگ بازوں سے نبٹنا بالکل ہی ضروری ہو گیا۔‘‘ (ص ۷۰)
ہندوستان کی طرف سے درپیش اس مسلسل خطرے کے باوجود خلفاے راشدین کی حتی الامکان کوشش یہی تھی کہ اسلامی فوج اس معاملے میں الجھنے نہ پائے۔ چنانچہ ۱۵ ہجری میں بحرین کے گورنر عثمان بن ابی العاص نے مرکز سے اجازت کے بغیر سمندر کے ذریعے سے تھانہ اور دیبل کے علاقوں پر حملہ کروایا تو سیدنا عمرؓ نے اس پر شدید ناراضی کا اظہار کیا۔ آپ نے فرمایا:
یا اخا ثقیف حملت دودا علی عود وانی احلف باللہ لو اصیبوا لاخذت من قومک مثلہم (بلاذری، فتوح البلدان ۴۳۸)
’’اے بنو ثقیف کے آدمی! تم نے تو ایک کیڑے کو لکڑی پر چڑھا (کر اسے پانی میں ڈال) دیا۔ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر ان کو کوئی نقصان پہنچتا تو میں تمہاری قوم میں سے اتنے ہی افراد کو قصاص میں قتل کر دیتا۔‘‘
اس وقت تک فارس کا علاقہ مفتوح نہیں ہوا تھا۔ فارس کا سارا علاقہ مفتوح ہو گیا اور اسلامی سلطنت کے حدود سندھ تک پہنچ گئے تو بھی ایرانی شورشوں میں سندھی راجاؤں کے کردار کے باوجود سیدنا عمرؓ نے یہی پالیسی برقرار رکھی۔مثال کے طور پر آپ نے قندابیل کے بارے میں معلومات حاصل کیں تو پتہ چلا کہ صورت حال لشکر کشی کے لیے موزوں نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا:
لا یسالنی اللہ عن احد بعثتہ الیہا ابدا (عیون الاخبار، بحوالہ خلافت راشدہ اور ہندوستان، ص ۶۲)
’’اللہ تعالیٰ مجھ سے کسی ایسے شخص کے بارے میں سوال نہ کرے جسے میں وہاں بھیجوں۔‘‘
ایک اور موقع پر آپ نے مکران کی صورت حال دریافت کی اور اسی نتیجے پر پہنچے کہ وہاں لشکر کشی نہ کی جائے:
فقدم صحار علی عمر بالخبر والمغانم فسالہ عمر عن مکران وکان لا یاتیہ احد الا سالہ عن الوجہ الذی یجئ منہ فقال یا امیر المومنین ارض سہلہا جبل وماؤہا وشل وتمرہا دقل وعدوہا بطل وخیرہا قلیل وشرہا طویل والکثیر بہا قلیل والقلیل بہا ضائع وما وراء ہا شر منہا فقال اسجاع انت ام مخبر؟ قال لا بل مخبر۔ قال لا واللہ لا یغزوہا جیش لی ما اطعت وکتب الی الحکم بن عمرو والی سہیل الا یجوزن مکران احد من جنودکما واقتصرا علی ما دون النہر (تاریخ الامم والملوک ۴/۱۸۲)
’’صحار فتح کی خبر اور مال غنیمت لے کر سیدنا عمر کے پاس پہنچے تو انہوں نے اس سے مکران کے بارے میں پوچھا۔ اور ان کی عادت تھی کہ جس علاقے سے بھی کوئی آدمی ان کے پاس آتا، وہ اس سے اس طرف کے احوال معلوم کرتے تھے۔ صحار نے کہا کہ وہ ایسی سرزمین ہے جس کے میدان پہاڑوں کی طرح دشوار گزار، پانی بہت تھوڑا، کھجوریں بالکل ردی اور دشمن بڑا بہادر ہے۔ وہاں خیر بہت کم اور شر بہت پھیلا ہوا ہے۔ بہت بڑی تعداد بھی وہاں کم پڑ جائے گی جبکہ تھوڑی تعداد تو بالکل ہی ناکارہ ثابت ہوگی۔ اور اس سے آگے کا علاقہ اس سے بھی بدتر ہے۔ یہ سن کر سیدنا عمر نے کہا: تم لفظی تک بندی کر رہے ہو یا ٹھیک ٹھیک حالات بتا رہے ہو؟ صحار نے کہا: بالکل صحیح بتا رہا ہوں۔ سیدنا عمر نے کہا: بخدا، جب تک میرا حکم مانا جاتا ہے، کوئی لشکر حملہ کرنے کے لیے وہاں نہیں جائے گا۔ پھر انہوں نے حکم بن عمرو اور سہیل کو خط لکھا کہ تم دونوں میں سے کسی کا لشکر بھی مکران کی سرحد عبور نہ کرے، بلکہ دریا سے اس پار کے علاقے تک محدود رہو۔‘‘
سیدنا عثمان بھی اپنے عہد حکومت کے آخری ایام سے قبل تک اسی پالیسی پر عمل پیرا رہے، تاہم حالات وواقعات نے آخر کار اس ضبط کو توڑ کر سندھ کی فتح کی راہ ہموار کر دی۔ (بلاذری، فتوح البلدان ۴۳۸، ۴۳۹)
مصر کے معاملے کو دیکھیے۔ اس کی فتح کے لیے کیے جانے والے حملے کے بارے میں تاریخی روایتیں دو ہیں:
ایک روایت کے مطابق ۱۸ ہجری میں سیدنا عمر شام کے علاقے جابیہ میں تشریف لائے تو عمرو بن العاص نے انھیں مصر پر حملے کے لیے آمادہ کرنا چاہا اور کہا:
یا امیر المومنین ائذن لی ان اسیر الی مصر وحرضہ علیہا وقال: انک ان فتحتہا کانت قوۃ للمسلمین وعونا لہم وہی اکثر الارض اموالا واعجزہم عن القتال والحرب
’’اے امیر المومنین ! مجھے مصر پر حملے کی اجازت دیجیے۔ انہوں نے سیدنا عمر کو آمادہ کرنے کی بہت کوشش کی اور کہا کہ اگر آپ مصر کو فتح کر لیں گے تو اس سے مسلمانوں کو قوت اور مدد حاصل ہوگی۔ نیز یہ کہ یہ سرزمین مال ودولت سے بھرپور ہے اور وہاں کے لوگ جنگ اور لڑائی کے میدان میں بالکل نکمے ہیں۔‘‘
سیدنا عمر نے مسلمانوں کی جانوں کو خطرے میں ڈالنا پسند نہ کیا اور اس تجویز کو مسترد کر دیا، تاہم عمرو بن العاص مسلسل ان کے سامنے مصر کی اہمیت اور اس کی فتح میں آسانی کا ذکر کرتے رہے یہاں تک کہ وہ اس کی نیم دلانہ اجازت دینے پر رضامند ہو گئے۔ آپ نے عمرو سے فرمایا:
سر وانا مستخیر اللہ فی مسیرک وسیاتی کتابی الیک سریعا ان شاء اللہ تعالیٰ فان ادرکک کتابی وامرتک فیہ بالانصراف عن مصر قبل ان تدخلہا او شیئا من ارضہا فانصرف وان انت دخلتہا قبل ان یاتیک کتابی فامض لوجہک واستعن باللہ واستنصرہ (سیوطی، حسن المحاضرۃ، ۱/۱۰۶)
’’تم روانہ ہو جاؤ لیکن میں اس معاملے میں اللہ تعالیٰ سے بہتر راہنمائی کی دعا کروں گا۔ جلد ہی میرا خط تمھیں ملے گا۔ پس اگر میں تمھیں واپس پلٹنے کا حکم دوں اور میرا خط تمھیں مصر یا اس کے کسی علاقے میں داخل ہونے سے پہلے مل جائے تو واپس پلٹ آنا۔ اور اگر میرا خط ملنے سے پہلے تم اس میں داخل ہو چکے ہوئے تو اپنی مہم جاری رکھنا اور اللہ سے مدد اور نصرت کے طالب رہنا۔‘‘
عمرو بن العاص لشکر لے کر روانہ ہو گئے تو مصر میں داخل ہونے سے قبل انھیں سیدنا عمر کا خط ملا جس میں انھوں نے انھیں آگے بڑھنے سے روک دیا تھا، لیکن عمرو نے اس خدشے کو محسوس کرتے ہوئے خط کو فوراً پڑھنے کے بجائے اس وقت کھولا جب وہ اپنی فوج کے ساتھ مصر میں داخل ہو چکے تھے۔ (Philip K. Hitti, History of the Arabs, p.160) 
دوسری روایت یہ ہے کہ عمرو ابن العاص کو سرے سے سیدنا عمرؓ نے اجازت دی ہی نہیں تھی اور انھوں نے بلا اجازت قدم اٹھایا تھا۔ بلاذری لکھتے ہیں:
قالوا وکان عمرو ابن العاصی حاصر قیساریۃ بعد انصراف الناس من حرب الیرموک ثم استخلف علیہا ابنہ حین ولی یزید بن ابی سفیان ومضی الی مصر من تلقاء نفسہ فی ثلاثۃ آلاف وخمس ماءۃ فغضب عمر لذلک وکتب الیہ یوبخہ ویعنفہ علی افتتانہ علیہ برایہ وامرہ بالرجوع الی موضعہ ان وافاہ کتابہ دون مصر فورد الکتاب علیہ وہو بالعریش (فتوح البلدان، ۲۱۹)
’’اہل تاریخ بتاتے ہیں کہ عمرو بن العاص نے جنگ یرموک سے فارغ ہونے کے بعد قیساریہ کا محاصرہ کر لیا۔ پھر جب یزید بن ابی سفیان واپس چلے گئے تو اپنے بیٹے کو وہاں اپنا نائب بنا کر خود ہی فیصلہ کر کے ساڑھے تین ہزار کا لشکر لے کر مصر کی طرف روانہ ہو گئے۔ سیدنا عمر نے اس پر سخت ناراض ہوکر ان کو خط لکھا اور ان سے پوچھے بغیر ازخود فیصلہ کرنے پر عمرو کو سخت سست کہا اور انہیں حکم دیا کہ اگر یہ خط انھیں مصر پہنچنے سے پہلے مل جائے تو اپنی جگہ پر واپس چلے جائیں۔ عمرو کو یہ خط اس وقت ملا جب وہ عریش میں تھے۔‘‘
مصر سے آگے افریقہ کی فتح کے معاملے میں بھی یہی صورت حال رہی۔ عمرو بن العاص جب مصر کے علاقوں کو فتح کرتے ہوئے ۲۲ ہجری میں اس کے آخری شہر اطرابلس تک پہنچ گئے تو انھوں نے سیدنا عمر کے نام خط میں لکھا:
انا قد بلغنا طرابلس وبینہا وبین افریقیۃ تسعۃ ایام فان رای امیر المومنین ان یاذن لنا فی غزوہا فعل (فتوح البلدان، ص ۲۳۳)
’’ہم طرابلس پہنچ گئے ہیں اور یہاں سے افریقہ تک نو دن کا سفر ہے۔ اگر امیر المومنین مناسب سمجھیں تو ہمیں افریقہ پر حملہ کرنے کی اجازت دے دیں۔‘‘
آپ نے جواب میں لکھا:
لا تدخل افریقیۃ فانہا مفرقۃ لاہلہا غیر مجتمعۃ ماؤہا قاس ما شربہ احد من العالمین الا قست قلوبہم (یاقوت الحموی، معجم البلدان، ۱/۲۲۹)
’’افریقہ کے علاقے میں مت داخل ہونا۔ یہ سرزمین اپنے باشندوں کو اکٹھا نہیں رہنے دیتی بلکہ منتشر کر دیتی ہے۔ اس کے پانی میں ایسی تاثیر ہے کہ دنیا کی جو بھی قوم اسے پیے گی، ان کے دل سخت ہو جائیں گے۔‘‘
سیدنا عثمان نے بھی اپنے عہد میں ابتداء اً افریقہ میں داخل ہونے سے گریز کی پالیسی کو برقرار رکھا، لیکن بعد میں حالات کو دیکھتے ہوئے اس کو فتح کرنے کی اجازت دے دی اور عبد اللہ بن ابی سرح نے ۲۷ یا ۲۸ یا ۲۸ ہجری میں افریقہ پر حملہ کیا۔ (بلاذری، فتوح البلدان ص ۲۳۴)
حبشہ کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق صحابہ نے کوئی پیش قدمی نہیں کی۔ اس ضمن میں صرف ایک واقعہ عہد صحابہ کی تاریخ میں رپورٹ ہوا ہے۔ طبری لکھتے ہیں:
وفیہا بعث عمر رضی اللہ عنہ علقمۃ بن مجزز المدلجی الی الحبشۃ فی البحر وذلک ان الحبشۃ کانت تطرفت فی ما ذکر طرفا من اطراف الاسلام فاصیبوا فجعل عمر علی نفسہ الا یحمل فی البحر احدا ابدا (تاریخ الامم والملوک ۴/۱۱۲)
’’۲۰ ہجری میں عمر رضی اللہ عنہ نے علقمہ بن مجزز مدلجی کو سمندر کے راستے سے حبشہ کی طرف بھیجا۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اہل حبشہ نے مسلمانوں کی سرحدی حدود کی خلاف ورزی کی تھی۔ تاہم علقمہ کے ساتھ جانے والی یہ جماعت ہلاک ہو گئی جس پر عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے اوپر لازم کر لیا کہ وہ سمندر کے راستے سے کبھی کوئی لشکر نہیں بھیجیں گے۔‘‘
مذکورہ پالیسی کی پابندی کے معاملے میں سب سے زیادہ سخت اور بے لچک رویہ سیدنا عمر کا تھا اور ان کی نسبت سے اس کی معنویت اس تناظر میں بالخصوص دو چند ہو جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض پیش گوئیوں کی بنا پر اس بات سے اچھی طرح واقف تھے کہ ان کی وفات سے مسلمانوں کی قوت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا اور ان کی قوت وشدت اندر کا رخ کر کے باہمی قتل وقتال کی شکل اختیار کر لے گی۔ (بخاری، رقم ۵۲۵) ایک موقع پر انھوں نے فرمایا:
واللہ لا یفتح بعدی بلد فیکون فیہ کبیر نیل بل عسی ان یکون کلا علی المسلمین (ابو یوسف، الخراج، ص ۲۶)
’’بخدا، میرے بعد کوئی علاقہ ایسا فتح نہیں ہوگا جس سے مسلمانوں کو کوئی بڑا فائدہ حاصل ہو، بلکہ الٹا اس بات کا خدشہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے لیے بوجھ بن جائے۔‘‘
مذکورہ بالا تاریخی شواہد کی روشنی میں خلفاے راشدین کی جنگی پالیسی کو ہم درج ذیل نکات کی صورت میں بیان کر سکتے ہیں:

غلبہ دین کا وعدہ اور اس کی تکمیل

قرآن مجید میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا ہدف یہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ کے دین کا غلبہ تمام دینوں پر قائم کر دیا جائے۔ 
ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ (التوبہ ۹:۳۳)
’’وہی ذات ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کر دے، چاہے مشرکوں کو یہ بات کتنی ہی ناپسند ہو۔‘‘
بعض اہل علم کے ہاں یہ رجحان دکھائی دیتا ہے کہ وہ مذکورہ آیت کو پوری دنیا پر اسلام کا غلبہ قائم کرنے کے کسی نظری اور اصولی ہدف کا بیان سمجھتے ہیں۔ (ابن تیمیہ، مجموع الفتاویٰ، ج ۲۸، ص ۲۹۔ سید ابو الاعلیٰ مودودی، تفہیم القرآن، ۲/۱۸۸، ۱۹۰) تاہم قرآن مجید میں یہ آیت تین مقامات پر آئی ہے اور ہر جگہ اس بات کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے لیے غلبہ اور فتح کی بشارت اور وعدے کی حیثیت سے ہوا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کی روشنی میں متعدد مواقع پر جزیرۂ عرب اور روم وفارس کے علاقوں پر اللہ کے دین کے غلبے کی پیش گوئیاں کیں۔ (اس نوع کی بعض روایات پہلے باب میں بیان کی جا چکی ہیں جبکہ مزید تفصیل آئندہ باب میں دیکھی جا سکتی ہے۔) ’لیظہرہ علی الدین کلہ‘ کے اس وعدے کا یہ متعین مصداق صحابہ کرام اور ان کے بعد صدر اول کے اہل علم پر بھی پوری طرح واضح تھا اور وہ اس کی تفسیر اسی مخصوص تناظر میں ایک وعدے کے طور پرکرتے تھے۔ 
ام المومنین عائشہ روایت کرتی ہیں:
سمعت رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم یقول لا یذہب اللیل والنہار حتی تعبد اللات والعزی فقلت یا رسول اللہ ان کنت لاظن حین انزل اللہ (ہو الذی ارسل رسولہ بالہدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون) ان ذلک تاما قال انہ سیکون من ذلک ما شاء اللہ ثم یبعث اللہ ریحا طیبۃ فتوفی کل من فی قلبہ مثقال حبۃ خردل من ایمان فیبقی من لا خیر فیہ فیرجعون الی دین آباۂم (مسلم، رقم ۵۱۷۴)
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ دن اور رات کا سلسلہ ختم ہونے سے پہلے وہ وقت پھر آئے گا کہ لات اور عزیٰ کی پوجا شروع کر دی جائے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ، جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ’ہو الذی ارسل رسولہ بالہدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون‘ تو میں اس کا مطلب یہ سمجھتی تھی کہ ایک مرتبہ حاصل ہونے کے بعد یہ غلبہ ہمیشہ قائم رہے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تک اللہ چاہے گا، یہ دین غالب رہے گا لیکن پھر اللہ تعالیٰ ایک پاکیزہ ہوا بھیجیں جو ہر اس شخص کو وفات دے دے گی جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو۔ اس کے بعد وہی لوگ رہ جائیں گے جن میں ذرہ برابر خیر نہ ہوگی اور پھر وہ اپنے آباواجداد کے دین کی طرف پلٹ جائیں گے۔‘‘
ایک دوسرے موقع پر ام المومنین حضرت عائشہؓ نے فرمایا:
کان المومنون یفر احدہم بدینہ الی اللہ تعالی والی رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم مخافۃ ان یفتن علیہ فاما الیوم فقد اظہر اللہ الاسلام والیوم یعبد ربہ حیث شاء (بخاری، رقم ۳۶۱۱)
’’اہل ایمان اپنے دین کو بچانے کے لیے اس خوف سے کہ انھیں ستایا نہ جائے، بھاگ کر اللہ اور اس کے رسول کے پا س آ جاتے تھے، لیکن آج تو اللہ نے اسلام کو غلبہ عطا کر دیا ہے اور آج مومن جہاں چاہے، اپنے رب کی عبادت کر سکتا ہے۔‘‘
تمیم داریؓ نے بھی غلبہ دین کے اس وعدے کو جزیرۂ عرب ہی کے تناظر میں سمجھا، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد: ’لا یترک اللہ بیت مدر ولا وبر الا ادخلہ اللہ ہذا الدین بعز عزیز او بذل ذلیل‘ نقل کرنے کے بعد انھوں نے کہا کہ:
قد عرفت ذلک فی اہل بیتی لقد اصاب من اسلم منہم الخیر والشرف والعز ولقد اصاب من کان منہم کافرا الذل والصغار والجزیۃ (مسند احمد، رقم ۱۶۲۴۴)
’’میں نے یہ پیش گوئی اپنے خاندان میں پوری ہوتے دیکھ لی ہے۔ ان میں سے جو اسلام لائے، ان کو تو خیر اور عزت اور شرف ملا، اور جو کافر رہے، ان پر ذلت اور پستی اور جزیہ مسلط کر دیا گیا۔‘‘
یہی روایت امام ابن حبان نے مقداد بن الاسود سے نقل کی ہے اور اس پر یہ عنوان قائم کیا ہے: ’ذکر الاخبار عن اظہار اللہ الاسلام فی ارض العرب وجزائرہا‘ (صحیح ابن حبان، رقم ۶۶۹۹)
ایک اور روایت کے مطابق تمیم داری نے قبول اسلام کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ:
یا رسول اللہ ان اللہ مظہرک علی الارض کلہا فہب لی قریتی من بیت لحم قال ہی لک (ابو عبید، الاموال ۳۶۸)
’’یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ آپ کو اس ساری سرزمین پر غلبہ عطا فرمانے والے ہیں تو بیت لحم کی بستی مجھے عطا کر دیجیے۔ آپ نے فرمایا وہ تمھاری ہے۔‘‘
سیدنا عمرؓ نے ایک موقع پر حج میں رمل کے طریقے کے بارے میں فرمایا:
فی ما الرملان الآن والکشف عن المناکب وقد اطا اللہ الاسلام ونفی الکفر واہلہ ومع ذلک لا ندع شیئا کنا نفعلہ علی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مسند احمد، رقم ۳۰۰)
’’اب جبکہ اللہ نے اسلام کو استحکام بخش دیا ہے اور کفر اور اہل کفر کا صفایا ہو چکا ہے، طواف کرتے ہوئے تیز چلنے اور کندھوں کو ننگا کرنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی، لیکن اس کے باوجود ہم اس طریقے کو ترک نہیں کریں گے جس پر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عمل کیا کرتے تھے۔‘‘
فارس کی فتوحات کا سلسلہ اختتام کے قریب پہنچا تو سیدنا عمرؓ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں اس وعدے کی تکمیل پر اللہ کا شکر ادا کیا:
ان اللہ بعث محمدا بالہدی ووعد علی اتباعہ من عاجل الثواب وآجلہ خیر الدنیا والآخرۃ فقال ہو الذی ارسل رسولہ بالہدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون فالحمد للہ الذی انجز وعدہ ونصر جندہ الا وان اللہ قد اہلک ملک المجوسیۃ وفرق شملہم فلیسوا یملکون من بلادہم شبرا یضیر بمسلم الا وان اللہ قد اورثکم ارضہم ودیارہم واموالہم وابناء ہم لینظر کیف تعملون (البدایہ والنہایۃ، ۷/۱۲۹)
’’بے شک اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت دے کر بھیجا اور ان کی اتباع کرنے پر دنیا اور آخرت، دونوں کے اجر وثواب کا وعدہ کیا۔ چنانچہ اس نے فرمایا کہ ’ہو الذی ارسل رسولہ بالہدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون‘ ۔ سو اللہ کا شکر ہے جس نے اپنا وعدہ پورا کر دیا اور اپنے لشکر کی مدد کی۔ دیکھو، اللہ نے مجوسیوں کے بادشاہ کو ہلاک کر کے اس کی قوم کا شیرازہ توڑ دیا ہے۔ اب وہ اپنے ملک کی ایک بالشت بھی ایسی زمین کے مالک نہیں جس سے مسلمانوں کو کوئی ضرر پہنچا سکتا ہو۔ سنو، اللہ نے تمھیں ان کی سرزمین اور ان کے گھروں اور مالوں اور اولاد کا مالک بنا دیا تاکہ تمہارا امتحان لے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو؟‘‘
حضرت حذیفہ نے ایک موقع پر فرمایا:
ان اللہ بعث محمدا فقاتل بمن اقبل من ادبر حتی اظہر اللہ دینہ (ابن ابی داود، کتاب المصاحف ۱/۱۷۶)
’’اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا۔ انھوں نے اپنی دعوت پر لبیک کہنے والوں کی مدد سے منہ پھیرنے والوں کے خلاف قتال کیا، یہاں تک کہ اللہ نے اپنے دین کو غالب کر دیا۔‘‘
حسن بصری سورۂ احقاف کی آیت: ’وما ادری ما یفعل بی ولا بکم‘  کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
اما فی الآخرۃ فمعاذ اللہ قد علم انہ فی الجنۃ حین اخذ میثاقہ فی الرسل ولکن قال وما ادری ما یفعل بی ولا بکم فی الدنیا اخرج کما اخرجت الانبیاء قبلی او اقتل کما قتلت الانبیاء من قبلی ولا ادری ما یفعل بی ولا بکم امتی المکذبۃ ام امتی المصدقۃ ام امتی المرمیۃ بالحجارۃ من السماء قذفا ام مخسوف بہا خسفا ثم اوحی الیہ (واذ قلنا لک ان ربک احاط بالناس) یقول احطت لک بالعرب ان لا یقتلوک فعرف انہ لا یقتل ثم انزل اللہ عزوجل (ہو الذی ارسل رسولہ بالہدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ وکفی باللہ شہیدا) یقول اشہد لک علی نفسہ انہ سیظہر دینک علی الادیان ثم قال لہ فی امتہ (وما کان اللہ لیعذبہم وانت فیہم وما کان اللہ معذبہم وہم یستغفرون) فاخبرہ اللہ ما یصنع بہ وما یصنع بامتہ (تفسیر الطبری، ۲۶/۸)
’’اللہ کی پناہ، اس کا تعلق آخرت سے نہیں ہے۔ جب اللہ نے آپ کے بارے میں انبیا سے میثاق لیا تو یقیناً آپ کے علم میں تھا کہ آپ جنت میں جائیں گے۔ یہ جو آپ نے کہا کہ ’ما ادری ما یفعل بی ولا بکم‘ (پتہ نہیں میرے اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا) تو اس کا مطلب یہ تھا کہ پتہ نہیں مجھے بھی پہلے انبیا کی طرح مکہ سے نکالا جائے گا یا قتل کر دیا جائے گا۔ اور یہ بات کہ معلوم نہیں تمہارا کیا بنے گا، اس کا مطلب یہ ہے کہ پتہ نہیں میری امت میری تکذیب کرے گی یا تصدیق؟ اور کیا اس پر آسمان سے پتھر برسیں گے یا اسے زمین میں دھنسا دیا جائے گا؟ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو وحی کہ ’واذ قلنا لک ان ربک احاط بالناس‘ یعنی میں نے اہل عرب کو اس طرح گھیر رکھا ہے کہ تمھیں قتل نہیں کر سکیں گے۔ اس سے رسول اللہ کو پتہ چل گیا کہ آپ قتل نہیں ہوں گے۔ پھر اللہ نے یہ آیت اتاری: ’ہو الذی ارسل رسولہ بالہدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ وکفی باللہ شہیدا‘ یعنی اللہ نے یہ بات اپنے ذمے لے لی ہے کہ وہ آپ کے دین کو تمام ادیان پر غالب کر دے گا۔ پھر آپ کی امت کے بارے میں فرمایا کہ ’وما کان اللہ لیعذبہم وانت فیہم وما کان اللہ معذبہم وہم یستغفرون‘ اس طرح اللہ نے آپ کو بتا دیا کہ وہ آپ کے ساتھ اور آپ کے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا ہے۔‘‘
لیظہرہ علی الدین کلہ‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
عن الحسن (ہو الذی ارسل رسولہ بالہدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ وکفی باللہ شہیدا) یقول اشہد لک علی نفسہ انہ سیظہر دینک علی الدین کلہ وہذا اعلام من اللہ تعالی نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم والذین کرہوا الصلح یوم الحدیبیۃ من اصحابہ ان اللہ فاتح علیہم مکۃ وغیرہا من البلدان مسلیہم بذلک عما نالہم من الکآبۃ والحزن بانصرافہم عن مکۃ قبل دخولہموہا وقبل طوافہم بالبیت (تفسیر الطبری، ۲۶/۱۰۹)
’’ھو الذی ارسل رسولہ بالہدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ وکفی باللہ شہیدا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتایا ہے کہ اس نے یہ بات طے کر رکھی ہے کہ وہ آپ کے دین کو تمام دینوں پر غالب کر دے گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ان ساتھیوں کے لیے جنھوں نے حدیبیہ کی صلح کو ناپسند کیا تھا، اس بات کی اطلاع ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں مکہ اور دوسرے شہروں کی فتح عطا فرمائے گا اور اس موقع پر مکہ میں داخل ہونے اور بیت اللہ کا طواف کرنے سے پہلے واپس پلٹنے سے انھیں جو دکھ اور غم پہنچا ہے، اس کا مداوا اس طریقے سے کر دے گا۔‘‘
عبد اللہ بن سلام نے قتل عثمان کے موقع پر محاصرہ کرنے والوں سے فرمایا:
ان اللہ بعث محمدا صلی اللہ علیہ وسلم بشیرا ونذیرا یبشر بالجنۃ وینذر بالنار فاظہر اللہ من اتبعہ من المومنین علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون (احمد بن حنبل، فضائل الصحابۃ ۱/۴۷۶)
’’اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا۔ آپ جنت کی خوشخبری دیتے اور جہنم سے خبردار کرتے تھے۔ پھر اللہ نے آپ کی پیروی اختیار کرنے والوں اہل ایمان کو تمام ادیان پر غالب کر دیا، اگرچہ مشرکوں کو یہ بات بہت ناپسند تھی۔‘‘
قتادۃ سورۂ صف کی آیت: ’کونوا انصار اللہ کما قال عیسی ابن مریم للحواریین‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
قد کان ذلک بحمد اللہ جاء ہ سبعون رجلا فبایعوہ تحت العقبۃ وآووہ حتی اظہر اللہ دینہ (ابن عبد البر، الاستیعاب ۱/۱۴)
’’اللہ کا شکر ہے کہ ایسا ہی ہوا۔ آپ کے ستر انصار آئے جنھوں نے گھاٹی کے نیچے آپ سے بیعت کی اور آپ کو ٹھکانا فراہم کیا، یہاں تک کہ اللہ نے اپنے دین کو غالب کر دیا۔‘‘
امام شافعی لکھتے ہیں:
قال اللہ تبارک وتعالی: ہو الذی ارسل رسولہ بالہدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون ....... فقد اظہر اللہ عزوجل دینہ الذی بعث بہ رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم علی الادیان بان ابان لکل من سمعہ انہ الحق وما خالفہ من الادیان باطل واظہرہ بان جماع الشرک دینان دین اہل الکتاب ودین الامیین فقہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الامیین حتی دانوا بالاسلام طوعا وکرہا وقتل من اہل الکتاب وسبی حتی دان بعضہم بالاسلام واعطی بعض الجزیۃ صاغرین وجری علیہم حکمہ صلی اللہ علیہ وسلم وہذا ظہور الدین کلہ۔ قال وقد یقال لیظہرن اللہ عزوجل دینہ علی الادیان حتی لا یدان للہ عزوجل الا بہ وذلک متی شاء اللہ تبارک وتعالی (الام، ۴/۱۷۱)
’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ہو الذی ارسل رسولہ بالہدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون۔ چنانچہ اللہ نے اپنے اس دین کو جو اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دے کر بھیجا تھا، تمام دینوں پر غالب کر دیا، اس طریقے سے بھی کہ اس نے سب سننے والوں پر واضح کر دیا کہ یہی دین حق ہے اور اس کے سوا باقی تمام ادیان باطل ہیں، اور اس طرح بھی کہ کفر وشرک کے داعی دو بڑے مذہبی گروہوں یعنی اہل کتاب اور امیین عرب میں سے امیین کو تو جبراً وقہراً قبول اسلام پر مجبور کیا جبکہ اہل کتاب میں سے کچھ کو قتل کیا اور کچھ کو قیدی بنایا، یہاں تک کہ ان میں سے کچھ تو اسلام میں داخل ہو گئے اور باقی نے ذلیل ہو کر جزیہ دینا منظور کر لیا اور احکام اسلام کے زیر نگیں آگئے۔ اس طرح تمام دینوں پر غلبے کا وعدہ پورا ہو گیا۔ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کو تمام ادیان پر اس طرح غالب کریں گے کہ کسی دوسرے دین کا کوئی پیروکار باقی نہیں رہے گا اور یہ جب اللہ چاہے گا، تب ہوگا۔ ‘‘
امام احمد فرماتے ہیں:
کان النبی یدعو الی الاسلام قبل ان یحارب حتی اظہر اللہ الدین وعلا الاسلام ولا اعرف الیوم احدا یدعی قد بلغت الدعوۃ کل احد والروم قد بلغتہم الدعوۃ وعلموا ما یراد منہم وانما کانت الدعوۃ فی اول الاسلام (ابن قدامہ، المغنی، )
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنگ سے پہلے دشمن کو اسلام کی دعوت دیا کرتے تھے، یہاں تک کہ اللہ نے دین کو غالب کر دیا اور اسلام سربلند ہو گیا۔ میرے خیال میں آج کسی شخص کو دعوت دینے کی ضرورت نہیں، کیونکہ سب تک دعوت پہنچ چکی ہے۔ رومیوں تک بھی دعوت پہنچ چکی ہے اور انھیں معلوم ہے کہ ان سے کیا چیز مطلوب ہے۔ دعوت دینا صرف اسلام کے ابتدائی زمانے میں ضروری تھا۔‘‘
امام ابوبکر الجصاص اس وعدے کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
وقولہ تعالی (لیظہرہ علی الدین کلہ) من دلائل النبوۃ لانہ اخبر بذلک والمسلمون فی ضعف وقلۃ وحال خوف مستذلون مقہورون فکان مخبرہ علی ما اخبر بہ لان الادیان التی کانت فی ذلک الزمان الیہودیۃ والنصرانیۃ والمجوسیۃ والصابءۃ وعباد الاصنام من السند وغیرہم فلم تبق من اہل ہذہ الادیان امۃ الا وقد ظہر علیہم المسلمون فقہروہم وغلبوہم علی جمیع بلادہم او بعضہا وشردوہم الی اقاصی بلادہم فہذا ہو مصداق ہذہ الآیۃ التی وعد اللہ تعالیٰ فیہا اظہارہ علی جمیع الادیان (احکام القرآن، ۳/۴۴۲)
’’اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ وہ اس دین کو تمام دینوں پر غالب کرے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے دلائل میں سے ایک ہے کیونکہ یہ بات اللہ تعالیٰ نے اس وقت بتائی تھی جب مسلمان ضعف اور قلت اور خوف کی حالت میں لاچار اور دبے ہوئے تھے۔ پھر یہ پیش گوئی بعینہ اسی طرح پوری ہوئی، کیونکہ اس زمانے کے مذہبی گروہ یہی یہود، مسیحی، مجوسی، صابی اور سند وغیرہ کے بت پرست تھے۔ اور ان گروہوں میں سے کوئی گروہ ایسا نہیں تھا جس پر مسلمانوں کو غلبہ نہ نصیب ہوا ہو ۔ چنانچہ مسلمانوں نے یا ان کے سارے علاقوں پر قبضہ کر لیا اور یا کچھ علاقے چھین کر انھیں اپنے ملک کے دور دراز کونوں میں بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ یہ ہے اس آیت کا مصداق جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔‘‘
امام ابو الحسن اشعری فرماتے ہیں:
وجاہد فی اللہ حق الجہاد وقاتل اہل العناد حتی تمت کلمۃ اللہ عز وجل وظہر امرہ وانقاد الناس للحق اجمعین حتی اتاہ الیقین لا وانیا ولا مقصرا (الابانۃ عن اصول الدیانۃ، ص ۳۵)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا جیسے جہاد کرنے کا حق ہے اور معاندین کے ساتھ جنگ کی یہاں تک اللہ کا فیصلہ پورا ہو گیا، اس کا دین غالب ہو گیا اور سب لوگ حق کے مطیع ہو گئے، یہاں تک کہ آپ کا دم واپسیں آ گیا اور آپ اس حال میں دنیا سے رخصت ہوئے کہ آپ نے اپنے فریضے کی ادائیگی میں نہ کوئی سستی دکھائی اور نہ کوتاہی کی۔‘‘
امام نووی لکھتے ہیں:
فلما کان الفتح واظہر اللہ الاسلام علی الدین کلہ واذل الکفر واعز المسلمین سقط فرض الہجرۃ فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم لا ہجرۃ بعد الفتح (شرح مسلم، ص ۱۲۰۱)
’’پھر جب مکہ فتح ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے اسلام کو تمام ادیان پر غالب کر دیا، کفار کو ذلیل اور اہل اسلام کو سربلند کر دیا تو ہجرت کا فریضہ ساقط ہو گیا، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فتح مکہ کے بعد کوئی ہجرت نہیں۔‘‘
امام طحاوی لکھتے ہیں:
قولہ صلی اللہ علیہ وسلم تاکل القری ای یغلبونہم علی قراہم فیفتحونہا وقد کان ذلک منہم علیہ حتی اظہر اللہ تعالی نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم علی الدین کلہ وذلک علم جلیل من اعلام نبوتہ فی الیہود والنصاری (المعتصر من المختصر، ۲/۲۰۴)
’’نبی صلی اللہ علیہ کا ارشاد ہے: تاکل القری یعنی اہل ایمان کفار کے علاقوں پر غالب آ جائیں گے اور انھیں فتح کر لیں گے۔ اور ایسا ہی ہوا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام ادیان پر غالب کر دیا۔ اور یہ چیز یہود ونصاریٰ کے حق میں آپ کی نبوت کے دلائل میں سے ایک عظیم دلیل ہے۔‘‘
امام ابن تیمیہ نے بھی اس کی تفسیر ایک وعدے کی حیثیت سے کی ہے جو بالفعل پورا ہو چکا ہے:
ثم استخلف عمر فقہر الکفار من المجوس واہل الکتاب واعز الاسلام ومصر الامصار وفرض العطاء ووضع الدیوان ونشر العدل واقام السنۃ وظہر الاسلام فی ایامہ ظہورا بان بہ تصدیق قولہ تعالی ہو الذی ارسل رسولہ بالہدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ وکفی باللہ شہیدا وقولہ تعالی وعد اللہ الذین آمنوا منکم وعملوا الصالحات لیستخلفنہم فی الارض کما استخلف الذین من قبلہم ........ الفاسقون وقول النبی صلی اللہ علیہ وسلم اذا ہلک کسری فلا کسری بعدہ واذا ہلک قیصر فلا قیصر بعدہ والذی نفی بیدہ لتنفقن کنوزہما فی سبیل اللہ فکان عمر رضی اللہ عنہ ہو الذی انفق کنوزہما (مجموع الفتاویٰ، ۲۵/۲۹۸)
’’حضرت ابوبکر کے بعد عمر خلیفہ بنے اور انھوں نے کفار میں سے مجوس اور اہل کتاب کو زیر نگیں بنایا، اسلام کو سربلند کیا، شہر آباد کیے، وظائف مقرر کیے، دیوان قائم کیا، عدل گستری کی، اور سنت کو قائم کیا۔ ان کے دور حکومت میں اسلام کو ایسا غلبہ نصیب ہوا جس سے اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کی صداقت آشکارا ہو گئی جو ان آیات میں بیان ہوا ہے: ہو الذی ارسل رسولہ بالہدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ وکفی باللہ شہیدا۔ (وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کر دے، چاہے مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناپسند ہو)۔ وعد اللہ الذین آمنوا منکم وعملوا الصالحات لیستخلفنہم فی الارض کما استخلف الذین من قبلہم ........ الفاسقون۔ نیز نبی صلی اللہ علیہ کا ارشاد ہے: اذا ہلک کسری فلا کسری بعدہ واذا ہلک قیصر فلا قیصر بعدہ والذی نفی بیدہ لتنفقن کنوزہما فی سبیل اللہ۔ (جب کسریٰ ہلاک ہو جائے گا تو اس کے بعد کوئی کسریٰ نہیں ہوگا اور جب قیصر ہلاک ہو جائے گا تو اس کے بعد کوئی قیصر نہیں ہوگا۔ اور اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، ان دونوں بادشاہوں کے خزانے اللہ کے راستے میں خرچ کیے جائیں گے۔) یہ سیدنا عمر ہی تھے جنھیں ان دونوں کے خزانوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کر نے کا شرف حاصل ہوا۔‘‘ 
مزید لکھتے ہیں:
قولہ ’’قالت الامامیۃ: فاللہ یحکم بیننا وبین ہولاء وہو خیر الحاکمین‘‘ فیقال للامامیۃ ان اللہ حکم بینہم فی الدنیا بما اظہرہ من الدلائل والبینات وبما یظہرہ اہل الحق علیکم فہم ظاہرون علیکم بالحجۃ والبیان وبالید واللسان کما اظہر دین نبیہ علی سائر الادیان ۔ قال تعالیٰ: ہو الذی ارسل رسولہ بالہدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ، ومن کان دینہ قول اہل السنۃ الذی خالفتموہم فیہ فانہ ظاہر علیکم بالحجۃ واللسان کظہور دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم علی سائر الادیان ولم یظہر دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم قط علی غیرہ من الادیان الا باہل السنۃ کما ظہر فی خلافۃ ابی بکر وعمر وعثمان رضی اللہ عنہم ظہورا لم یحصل لشئ من الادیان وعلی رضی اللہ عنہ مع انہ من الخلفاء الراشدین ومن سادات السابقین الاولین لم یظہر فی خلافتہ دین الاسلام بل وقعت الفتنۃ بین اہلہ وطمع فیہم عدوہم من الکفار والنصاری والمجوس بالشام والمشرق (ذہبی، المنتقیٰ من منہاج السنۃ النبویۃ، ص ۱۸۴)
’’معترض کا یہ قول کہ امامیہ کہتے ہیں کہ ہمارے اور ان کے مابین اللہ ہی فیصلہ کرے گا، اور وہ سب سے بہترین فیصلہ کرنے والا ہے، تو اس کے جواب میں امامیہ سے کہا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ان کے مابین اپنے ظاہر کردہ دلائل وبینات کے ذریعے سے اور اہل حق کو تم پر غلبہ دے کر فیصلہ کر دیا ہے، چنانچہ اہل حق دلیل وبرہان اور طاقت اور زبان، ہر لحاظ سے بالادست ہیں، ایسے ہی جیسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے دین کو تمام انبیا پر غالب کیا تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ہو الذی ارسل رسولہ بالہدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ۔ جو لوگ اہل سنت کے دین کے، جس کے تم مخالف ہو، پیروکار ہیں، وہ ایسے ہی تم پر حجت واستدلال میں غالب ہیں جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دین تمام ادیان پر غالب ہے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دین دوسرے ادیان پر اہل سنت ہی کے ہاتھوں غالب ہوا جیسا کہ حضرت ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے دور میں اس کو ایسا غلبہ نصیب ہوا جس دنیا کے کسی دین کو نہیں ہوا۔ جبکہ علی رضی اللہ عنہ اگرچہ خلفاے راشدین میں سے اور سابقین اولین کے بزرگوں میں سے تھے، لیکن ان کے عہد خلافت میں اسلام کو غلبہ حاصل نہیں ہوا بلکہ خود اہل اسلام کے مابین جنگ وجدال برپا ہو گیا اور ا ن کے دشمن کفار اور شام اور مشرق کے نصاریٰ اور مجوس ان کو نقصان پہنچانے کا خواب دیکھنے لگے۔‘‘
ابن کثیر فرماتے ہیں:
ہذا وعد من اللہ تعالیٰ لرسولہ صلوات اللہ وسلامہ علیہ بانہ سیجعل امتہ خلفاء الارض ای ائمۃ الناس والولاۃ علیہم وبہم تصلح البلاد وتخضع لہم العباد ولیبدلنہم من بعد خوفہم امنا وحکما فیہم وقد فعلہ تبارک وتعالی ولہ الحمد والمنۃ ..... ثبت فی الصحیح ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ان اللہ زوی لی الارض فرایت مشارقہا ومغاربہا وسیبلغ ملک امتی ما زوی لی منہا فہا نحن نتقلب فی ما وعدنا اللہ ورسولہ وصدق اللہ ورسولہ (البدایہ والنہایہ ۳/۳۰۰، ۳۰۱)
’’یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے رسول کے ساتھ وعدہ ہے کہ وہ آپ کی امت کو زمین کے حکمران اور اصحاب اقتدار بنائے گا، ان کے ذریعے سے ان ملکوں میں صلاح پیدا ہوگی، لوگ ان کے مطیع ہو جائیں گے اور اللہ ان کے خوف کی جگہ انھیں امن اور لوگوں پر حکومت کا موقع عطا کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ پورا کر دیا اور وہی تعریف اور احسان کا سزاوار ہے۔ .... صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ ویلم نے فرمایا کہ اللہ نے میرے لیے زمین سمیٹ دی اور میں نے اس کے مشرق اور مغرب کے علاقے دیکھے اور میری امت کا اقتدار وہاں تک پہنچے گا جہاں تک زمین سمیٹ کر مجھے دکھائی گئی۔ تو دیکھو، اب ہم اللہ اور رسول کے بیان کردہ موعودہ علاقوں میں چل پھر رہے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا۔‘‘
شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں:
’’قال اللہ تعالی: لیظہرہ علی الدین کلہ وایں وعدہ بنا بر حکمت الٰہی در زمان آنحضرت بظہور نرسید لاجرم خلفا را بعد آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم منصوب ساخت تا آں موعود منجز گردد‘‘ (ازالۃ الخفاء ۱/۲۰)
’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: لیظہرہ علی الدین کلہ ۔ اور یہ وعدہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پورا نہیں ہو سکا، ا س لیے لازمی طور پر اس نے آپ کے بعد خلفاے راشدین کو مقرر کیا تاکہ یہ وعدہ پایہ تکمیل کو پہنچ جائے۔‘‘
دور اول کے اہل علم کے ہاں آیت کا یہ مفہوم عمومی طور پر واضح ہے، البتہ امام شافعی نے بالکل سرسری طور پر یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ جب اللہ چاہے گا، اسلام کا غلبہ پوری دنیا پر قائم ہو جائے گا۔ (الام، ) بعد کے مفسرین کے یہاں اس بات نے من جملہ دیگر اقوال کے ایک قول کی جبکہ متاخرین کے ہاں اس ایک قول نے بھی رفتہ رفتہ ’واحد‘ قول کی شکل اختیار کر لی اور عام طور پر یہ سمجھا جانے لگا کہ اس وعدے کا عملی ظہور امام مہدی کے ظہور اور سیدنا مسیح علیہ السلام کے نزول کے موقع پر ہوگا۔ ہم نے قرآن مجید میں ان آیات کے سیاق وسباق کی روشنی میں اس وعدے کا جو محل بیان کیا ہے، اس سے واضح ہے کہ یہ درحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے حوالے سے اللہ کے اسی غیر متبدل قانون کا بیان ہے جس کے مطابق پیغمبر اور اس کے ساتھی بہرحال اپنے مخالفین پر غالب آ کر رہتے ہیں۔ غلبہ دین کا یہ وعدہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اصلاً جزیرۂ عرب کے حدود میں کیا تھا اور یہ چونکہ آپ کے منصب رسالت کا لازمی تقاضا تھا، اس لیے اس کی تکمیل آپ کی ذات کی حد تک آپ کی حیات مبارکہ ہی میں ہو گئی تھی۔ اس کے بعد صحابہ کرام کو جو فتوحات حاصل ہوئیں، وہ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو حاصل ہونے والے غلبے کی توسیع اور تکمیل تھیں، اس لیے وہ بھی ضمناً اس کا مصداق قرار پاتی ہیں، لیکن زمان ومکان کے اس مخصوص دائرے سے باہر نہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس نصرت کا کوئی وعدہ ہے اور نہ اس سے نظری سطح پر کوئی آفاقی ہدف اخذ کیا جا سکتا ہے۔ 

غلبہ دین بطور دلیل نبوت

سابقہ صفحات میں ہم قرآن وحدیث اور سیرت میں زیر بحث موضوع سے متعلق سارے مواد کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ان مآخذ میں جہاد وقتال کی دو الگ الگ صورتوں کا ذکر ہوا ہے۔ ایک صورت کا تعلق عمومی انسانی اخلاقیات سے ہے اور اس کے تحت مخصوص حالات میں کسی ظالم گروہ کے خلاف قتال کرنا ہمیشہ کے لیے مشروع ہے، جبکہ دوسری صورت میں اللہ تعالیٰ کے ایک مخصوص قانون یعنی کسی قوم پر اتمام حجت کے بعد اس پر سزا نافذ کرنے کے لیے تلوار اٹھائی جاتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین کے معاملے میں قتال کی یہ دونوں صورتیں رونما ہوئیں۔ آپ کے مخالفین نے آپ اور آپ کے پیروکاروں کے خلاف ظلم وتشدد کا رویہ اختیار کیا اور طاقت وقوت کے زور پر انھیں ان کے مذہب سے برگشتہ کرنے کی کوشش کی، چنانچہ ان کے ظلم وعدوان اور فتنہ وفساد کو رفع کرنے کے لیے مسلمہ اور ابدی اخلاقیات کی رو سے مسلمانوں کو ان کے خلاف جہاد کرنے کی نہ صرف اجازت دی گئی بلکہ اسے ان پر فرض قرار دے دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ ایک رسول تھے اور آپ کی بعثت، قانون رسالت کے مطابق، اس مشن کے تحت اور اس کی تکمیل کے پیشگی وعدے کے ساتھ ہوئی تھی کہ آپ کو ہر حال میں اپنے مخالفوں اور منکروں پر غلبہ حاصل ہوگا، اس لیے یہ بات روز اول سے واضح کر دی گئی تھی کہ آپ پر ایمان لانے والوں کے لیے غلبہ اور سرفرازی ، جبکہ مخالفین اور منکروں کے لیے مغلوبیت، رسوائی اور محکومی مقدر کر دی گئی ہے۔ چنانچہ آپ کے جہاد کا یہ ہدف شروع ہی سے واضح کر دیا گیا کہ یہ عام انسانی اخلاقیات کے دائرے میں فتنہ وفساد کے ازالے تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس سے بڑھ کر خدا کے قانون جزا وسزا کو سرزمین عرب پر رو بہ عمل کرنے کا ذریعہ بھی بنے گا۔
اس ضمن میں متعلقہ نصوص کے داخلی شواہد اور عہد نبوی کے جنگی اقدامات کے اصل پس منظر کو نظر انداز کرتے ہوئے اس پورے عمل کی توجیہ دفاع اور تحفظ کے اصول پر کرنے کا جو رجحان دور جدید میں پیدا ہوا ہے، اس کا محرک، جو فی نفسہ مخلصانہ اور قابل احترام ہے، بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ غیر مسلم دنیا کے سامنے اسلام اور پیغمبر اسلام کا مثبت تعارف پیش کیا جائے۔ معاصر ذہنی فضا میں ’مثبت تعارف‘ کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ اسلام کو امن وسلامتی کا مذہب اور پیغمبر اسلام کو صلح وآشتی کا پیغامبر ثابت کیا جائے۔ ہماری رائے میں اسلام کے تعارف کا یہ پہلو اپنی جگہ بالکل درست ہے، لیکن اس معاملے کا ایک دوسرا اور اس سے زیادہ اہم پہلو بھی ہے جسے اگر پورے توازن کے ساتھ ملحوظ نہ رکھا جائے تو خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ورسالت کی تفہیم کا معاملہ خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ 
ہم نے قرآن مجید اور صحف سماوی کی روشنی میں قوموں کی جزا وسزا کے اس قانون کا یہ پہلو واضح کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ مختلف زمانوں میں کفر وشرک اور بدکاری میں مبتلا قوموں کے محاسبہ اور مواخذہ کے لیے خود انسانوں میں سے بعض منتخب گروہوں کو مامور فرماتے رہے ہیں جو خدا کے اذن کے تحت ایک مخصوص دائرۂ اختیار میں بدکار قوموں کے خلاف جنگ کرتے اور قتل، اسارت اور محکومی کی صورت میں انھیں ان کی بد اعمالیوں کی سزا دیتے ہیں۔ اقوام عالم کے سامنے اس منتخب گروہ کی اس خصوصی حیثیت کو علیٰ رؤوس الاشہاد مبرہن کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے خصوصی تائید اور نصرت حاصل ہوتی ہے اور خدا ان کے دشمنوں کو ان کے مقابلے میں ذلیل ورسوا کر کے دنیا کی قوموں پریہ واضح کر دیتا ہے کہ وہ دنیا میں خدا کے نمائندے ہیں اور ان کا اختیار کردہ دین ہی خدا کا پسندیدہ دین ہے۔ تاریخ میں اللہ کے اس قانون کی تفصیلات بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل، دونوں کے حوالے سے محفوظ ہیں۔ یہاں اس کی بعض تفصیلات کا مطالعہ دلچسپی کا موجب ہوگا۔
بنی اسرائیل سے اللہ تعالیٰ نے یہ میثاق لیا تھا کہ وہ اللہ کے دیے ہوئے دین وشریعت پر خود قائم رہتے ہوئے دنیا کی اقوام کے سامنے شہادت حق کا فریضہ انجام دیتے رہیں گے۔ اس ذمہ داری کو پورا کرنے کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ دنیا میں سربلند وسرفراز اور اپنے دشمنوں پر غالب رہیں گے، لیکن اس سے انحراف کی صورت میں خدا کی طرف سے ذلت ورسوائی اور مغلوبیت ومحکومی کا عذاب ان پر مسلط کر دیا جائے گا۔ ارشاد ہوا ہے:
وَإِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِہِ اذْکُرُواْ نِعْمَۃَ اللّہِ عَلَیْْکُمْ إِذْ أَنجَاکُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ یَسُومُونَکُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وَیُذَبِّحُونَ أَبْنَاء کُمْ وَیَسْتَحْیُونَ نِسَاء کُمْ وَفِیْ ذَلِکُم بَلاء مِّن رَّبِّکُمْ عَظِیْمٌ ۔ وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّکُمْ لَءِن شَکَرْتُمْ لأَزِیْدَنَّکُمْ وَلَءِن کَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ (ابراہیم ۱۴:۶،۷)
’’اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اپنے اوپر اللہ کے احسان کو یاد کرو جب اس نے تمھیں آل فرعون سے نجات دلائی جو تمھیں بد ترین عذاب چکھاتے تھے اور تمھارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتے تھے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے ایک بڑی آزمایش تھی۔ اور جب تمہارے رب نے یہ اعلان کیا کہ (اے بنی اسرائیل) اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو گے تو میں تم پر مزید احسانات کروں گا اور اگر ناشکری کا رویہ اختیار کرو گے تو بے شک میرا عذاب بڑا دردناک ہے۔‘‘
بنی اسرائیل کے ساتھ اس معاملہ کا آغاز ملک مصر سے ان کے خروج سے ہوا۔ موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے توحید کی دعوت دیے جانے کے بعد جب فرعون اور اس کی قوم نے ان کی تکذیب کا رویہ اختیار کیا تو ایک خاص عرصے تک انھیں مختلف نشانیاں دکھا کر اور متنوع آزمایشوں میں مبتلا کر کے انھیں راہ راست پر لانے کی کوشش کی گئی:
وَمَا نُرِیْہِم مِّنْ آیَۃٍ إِلَّا ہِیَ أَکْبَرُ مِنْ أُخْتِہَا وَأَخَذْنَاہُم بِالْعَذَابِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ (الزخرف ۴۳:۴۸)
’’اور ہم ان کو جو بھی نشانی دکھاتے تھے، وہ اپنے سے پہلی نشانی سے بڑی ہوتی تھی۔ اور ہم نے ان کو عذاب میں گرفتار کیا تاکہ وہ پلٹ آئیں۔‘‘
امتحان وابتلا کی مہلت ختم ہونے کے باوجود جب اہل مصر ایمان نہ لائے تو فرعون کو اس کے پورے لشکر سمیت دریاے نیل میں غرق کر دیا گیا۔ وقت کی ایک عظیم سلطنت کی تباہی وبربادی کا یہ عبرت ناک واقعہ اس وقت مصر کے ارد گرد بسنے والی قوموں کے لیے خداے واحد کی قدرت وحقانیت اور بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ منصب فضیلت کی ایک بین دلیل بن گیا:
فَلَمَّا آسَفُونَا انتَقَمْنَا مِنْہُمْ فَأَغْرَقْنَاہُمْ أَجْمَعِیْنَ ۔ فَجَعَلْنَاہُمْ سَلَفاً وَمَثَلاً لِلْآخِرِیْنَ (الزخرف ۴۳: ۵۵، ۵۶)
’’پس جب انھوں نے ہمیں غصہ دلایا تو ہم نے ان سے انتقام لیا اور ان سب کو غرق کر دیا۔ پھر ہم نے ان کو بعد میں آنے والوں کے لیے عبرت کا ایک نمونہ بنا دیا۔‘‘
وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ الْحُسْنَی عَلَی بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ بِمَا صَبَرُواْ وَدَمَّرْنَا مَا کَانَ یَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُہُ وَمَا کَانُواْ یَعْرِشُونَ (الاعراف ۷:۱۳۷)
’’اور بنی اسرائیل کی ثابت قدمی کی بدولت تیرے رب کا مبارک وعدہ ان کے حق میں پورا ہو گیا۔ اور فرعون اور اس کی قوم جو کچھ بناتے اور جو کچھ چھتریوں پر چڑھاتے تھے، ہم نے اس سب کو برباد کر کے رکھ دیا۔‘‘
تورات میں ہے:
’’اور خداوند نے موسیٰ سے فرمایا کہ بنی اسرائیل کو حکم دے کہ وہ لوٹ کر مجدال اور سمندر کے بیچ فی ہخیروت کے مقابل بعل صفوان کے آگے ڈیرے لگائیں۔ اسی کے آگے سمندر کے کنارے کنارے ڈیرے لگانا۔ فرعون بنی اسرائیل کے حق میں کہے گا کہ وہ زمین کی الجھنوں میں آکر بیابان میں گھر گئے ہیں اور میں فرعون کے دل کو سخت کروں گا اور وہ ان کا پیچھا کرے گا اور میں فرعون اور اس کے سارے لشکر پر ممتاز ہوں گا اور مصری جان لیں گے کہ خداوند میں ہوں اور انھوں نے ایسا ہی کیا۔‘‘ (خروج ۱۴:۱۔۴)
ارد گرد کی اقوام پر اس واقعے سے ہیبت، رعب اور دبدبہ کی جو کیفیت طاری ہوئی، اس کا ذکر ان الفاظ تورات میں ہوا ہے:
’’قومیں سن کر تھرا گئی ہیں
اور فلستین کے باشندوں کی جان پر آبنی ہے۔
ادون کے رئیس حیران ہیں۔
موآب کے پہلوانوں کو کپکپی لگ گئی ہے۔
کنعان کے سب باشندوں کے دل پگھلے جاتے ہیں۔
خوف وہراس ان پر طاری ہے۔
تیرے بازو کی عظمت کے سبب سے وہ پتھر کی طرح بے حس وحرکت ہیں۔
جب تک اے خداوند تیرے لوگ نکل نہ جائیں۔
جب تک تیرے لوگ جن کو تو نے خریدا ہے پار نہ ہو جائیں۔
تو ان کو وہاں لے جا کر اپنی میراث کے پہاڑ پر درخت کی طرح لگائے گا۔
تو ان کو اسی جگہ لے جائے گا جسے تو نے اپنی سکونت کے لیے بنایا ہے۔‘‘ (خروج ۱۵: ۱۴۔۱۷)
اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنی اسرائیل کو عطا کی جانے والی اس نصرت اور غلبے کو ان کی پوری تاریخ میں ایک بنیادی حوالے کی حیثیت حاصل رہی۔ چنانچہ بنی اسرائیل کی سرکشی پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر ہلاکت مسلط کی گئی تو موسیٰ علیہ السلام نے اسی کا حوالہ دے کر اللہ تعالیٰ سے عفو ودرگزر کی درخواست کی:
’’پس اگر تو اس قوم کو ایک اکیلے آدمی کی طرح جان سے مار ڈالے تو وہ قومیں جنھوں نے تیری شہرت سنی ہے، کہیں گی کہ چونکہ خداوند اس قوم کو اس ملک میں جسے اس نے ان کو دینے کی قسم کھائی تھی، پہنچا نہ سکا اس لیے اس نے ان کو بیابان میں ہلاک کر دیا۔‘‘ (گنتی ۱۴:۱۶)
موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو لے کر جب ارض مقدس کی طرف روانہ ہوئے اور راستے میں بعض حکمرانوں نے رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی تو انھوں نے وہاں بھی اسی بات کا حوالہ دیا:
’’اور موسیٰ نے قادس سے ادوم کے بادشاہ کے پاس ایلچی روانہ کیے اور کہلا بھیجا کہ تیرا بھائی اسرائیل یہ عرض کرتا ہے کہ تو ہماری سب مصیبتوں سے جو ہم پر آئیں واقف ہے کہ ہمارے باپ دادا مصر میں گئے اور ہم بہت مدت تک مصر میں رہے اور مصریوں نے ہم سے اور ہمارے باپ دادا سے برا برتاؤ کیا اور جب ہم نے خداوند سے فریاد کی تو اس نے ہماری سنی اور ایک فرشتہ کو بھیج کر ہم کو مصر سے نکال لے آیا ہے اور ا ب ہم قادس شہر میں ہیں جو تیری سرحد کے آخر میں واقع ہے، سو ہم کو اپنے ملک میں سے ہو کر جانے کی اجازت دے۔‘‘ (گنتی ۲۰: ۱۴۔۱۷)
موآبیوں کے بادشاہ بلق بن صفور نے بنی اسرائیل کے بڑھتے ہوئے لشکر سے خوف زدہ ہو کر بلعام بن بعور نامی بزرگ ہستی سے یہ درخواست کی کہ وہ موآب کے حق میں کامیابی کی دعا اور بنی اسرائیل کے خلاف بد دعا کرے۔ بلعام نے ان کو جواب دیا:
’’اٹھ اے بلق اور سن۔
اے صفور کے بیٹے! میری باتوں پر کان لگا۔
خدا انسان نہیں کہ جھوٹ بولے
اور نہ وہ آدم زاد ہے کہ اپنا ارادہ بدلے۔
کیا جو کچھ اس نے کہا اسے نہ کرے؟
یا جو فرمایا ہے اسے پورا نہ کرے؟
دیکھ! مجھے تو برکت دینے کا حکم ملا ہے۔
اس نے برکت دی ہے اور میں اسے پلٹ نہیں سکتا۔
وہ یعقوب میں بدی نہیں پاتا
اور نہ اسرائیل میں کوئی خرابی دیکھتا ہے۔
خداوند اس کا خدا اس کے ساتھ ہے
اور بادشاہ کی سی للکار ان کے لوگوں کے بیچ میں ہے۔
خدا ان کو مصر سے نکال کر لیے آ رہا ہے۔
ان میں جنگلی سانڈ کی سی طاقت ہے۔
یعقوب پر کوئی افسون نہیں چلتا
اور نہ اسرائیل کے خلاف فال کوئی چیز ہے۔
بلکہ یعقوب اور اسرائیل کے حق میں اب یہ کہا جائے گا
کہ خدا نے کیسے کیسے کام کیے۔‘‘ (گنتی ۲۳: ۱۸۔۲۳)
شام اور عراق کی جس سرزمین کو بنی اسرائیل کی میراث قرار دیا گیا تھا، اسے فتح کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کے اسی قانون کا حوالہ دیا گیا:
قَالَ رَجُلاَنِ مِنَ الَّذِیْنَ یَخَافُونَ أَنْعَمَ اللّہُ عَلَیْْہِمَا ادْخُلُواْ عَلَیْْہِمُ الْبَابَ فَإِذَا دَخَلْتُمُوہُ فَإِنَّکُمْ غَالِبُونَ وَعَلَی اللّٰہِ فَتَوَکَّلُواْ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْنَ (مائدہ ۵:۲۳)
’’دو آدمیوں نے، جو اللہ سے ڈرنے والوں میں سے تھے اور اللہ نے ان پر انعام کیا تھا، کہا کہ (اے بنی اسرائیل) شہر کے دروازے میں داخل ہو جاؤ۔ پس جب تم داخل ہو جاؤ گے تو تمھی غالب رہو گے۔ اور اگر تم سچ مچ ایمان رکھتے ہو تو اللہ ہی پر بھروسہ رکھو۔‘‘
تورات میں ہے:
’’اگر تم ان سب حکموں کو جو میں تم کو دیتا ہوں جانفشانی سے مانو اور ان پر عمل کرو اور خداوند اپنے خدا سے محبت رکھو اور اس کی سب راہوں پر چلو اور اس سے لپٹے رہو تو خداوند ان سب قوموں کو تمہارے آگے سے نکال ڈالے گا اور تم ان قوموں پر جو تم سے بڑی اور زور آور ہیں، قابض ہوگے۔ جہاں جہاں تمہارے پاؤں کا تلوا اٹکے، وہ جگہ تمہاری ہو جائے گی، یعنی بیابان اور لبنان سے اور دریاے فرات سے مغرب کے سمندر تک تمہاری سرحد ہوگی اور کوئی شخص وہاں تمہارا مقابلہ نہ کر سکے گا کیونکہ خداوند تمہارا خدا تمہارا رعب اور خوف اس تمام ملک میں جہاں کہیں تمہارے قدم پڑیں، پیدا کر دے گا جیسا اس نے تم سے کہا ہے۔‘‘ (استثنا ۱۱: ۲۲-۲۵)
سیدنا سلیمان علیہ السلام کے دور میں جب بنی اسرائیل کی حکومت واقتدار اپنے عروج کو پہنچے اور انھوں نے اللہ کی یاد کے لیے ایک عظیم الشان عبادت گاہ تعمیر کی تو اسی اصول کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے یہ دعا کی:
’’اب رہا وہ پردیسی جو تیری قوم اسرائیل میں سے نہیں ہ، وہ جب دور ملک سے تیرے نام کی خاطر آئے (کیونکہ وہ تیرے بزرگ نام اور قوی ہاتھ اور بلند بازو کا حال سنیں گے) سو جب وہ آئے اور اس گھر کی طرف رخ کر کے دعا کرے تو تو آسمان پر سے جو تیری سکونت گاہ ہے، سن لینا اور جس جس بات کے لیے وہ پردیسی تجھ سے فریاد کرے، تو اس کے مطابق کرنا تاکہ زمین کی سب قومیں تیرے نام کو پہچانیں اور تیری قوم اسرائیل کی طرح تیرا خوف مانیں اور جان لیں کہ یہ گھر جسے میں نے بنایا ہے، تیرے نام کا کہلاتا ہے۔‘‘ (ا۔ سلاطین ۸: ۱۴۔۴۳)
’’اور یہ میری باتیں جن کو میں نے خداوند کے حضور مناجات میں پیش کیا ہے، دن اور رات خداوند ہمارے خدا کے نزدیک رہیں تاکہ وہ اپنے بندہ کی داد اور اپنی قوم اسرائیل کی داد ہر روز کی ضرورت کے مطابق دے جس سے زمین کی سب قومیں جان لیں کہ خداوند ہی خدا ہے اور اس کے سوا اور کوئی نہیں۔‘‘ (۱۔ سلاطین ۸: ۵۹، ۶۰)
بنی اسرائیل کو عطا کی جانے والی اسی فضیلت کے اعتراف میں ارد گرد کی سب قومیں ان کی مطیع اور باج گزار ہو گئیں اور ان کو حاصل ہونے والا یہ شرف اللہ کے دین کی دعوت کے پھیلنے کا ذریعہ بن گیا:
’’اور سلیمان دریاے فرات سے فلستیوں کے ملک تک اور مصر کی سرحد تک سب مملکتوں پر حکمران تھا۔ وہ اس کے لیے ہدیے لاتی تھیں اور سلیمان کی عمر بھر اس کی مطیع رہیں۔‘‘ (۱۔ سلاطین ۴:۲۱)
’’اور خدا نے سلیمان کو حکمت اور سمجھ بہت ہی زیادہ اور دل کی وسعت بھی عنایت کی جیسی سمندر کے کنارے کی ریت ہوتی ہے۔ اور سلیمان کی حکمت سب اہل مشرق کی حکمت اور مصر کی ساری حکمت پر فوقیت رکھتی تھی۔‘‘ (ا۔ سلاطین ۴: ۲۹، ۳۰)
’’اور سب قوموں میں سے زمین کے سب بادشاہوں کی طرف سے جنھوں نے اس کی حکمت کی شہرت سنی تھی، لوگ سلیمان کی حکمت کو سننے آتے تھے۔‘‘ (۱۔ سلاطین ۴: ۳۴)
’’اور جب سبا کی ملکہ نے خداوند کے نام کی بابت سلیمان کی شہرت سنی تو وہ آئی تاکہ مشکل سوالوں سے اسے آزمائے۔ ....اور اس نے بادشاہ سے کہا کہ وہ سچی خبر تھی جو میں نے تیرے کاموں اور تیری حکمت کی بابت اپنے ملک میں سنی تھی۔ تو بھی میں نے وہ باتیں باور نہ کیں جب تک خود آکر اپنی آنکھوں سے یہ دیکھ نہ لیا اور مجھے تو آدھا بھی نہیں بتایا گیا تھا کیونکہ تیری حکمت اور اقبال مندی اس شہرت سے جو میں نے سنی، بہت زیادہ ہے۔ خوش نصیب ہیں تیرے لوگ اور خوش نصیب ہیں تیرے یہ ملازم جو برابر تیرے حضور کھڑے رہتے اور تیری حکمت سنتے ہیں۔ خداوند تیرا خدا مبارک ہو جو تجھ سے ایسا خوشنود ہوا کہ تجھے اسرائیل کے تخت پر بٹھایا ہے۔ چونکہ خداوند نے اسرائیل سے سدا محبت رکھی ہے، اس لیے اس نے تجھے عدل اور انصاف کرنے کو بادشاہ بنایا۔‘‘ (۱۔ سلاطین ۱۰: ۱۔۹)
شاہ ارام کے لشکر کے سردار نعمان نے، جو کوڑھی تھا، الیشع کے کہنے پر یردن میں سات غوطے مارے اور اس کا مرض دور ہو گیا۔
’’پھر وہ اپنی جلو کے سب لوگوں سمیت مرد خدا کے پاس لوٹا اور اس کے سامنے کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ دیکھ اب میں نے جان لیا کہ اسرائیل کو چھوڑ اور کہیں روئے زمین پر کوئی خدا نہیں۔ اس لیے اب کرم فرما کر اپنے خادم کا ہدیہ قبول کر۔‘‘ (۲۔ سلاطین ۵:۱۵)
بنی اسرائیل کے انبیا، بادشاہ اور اکابر بالعموم اسی بات کا حوالہ دے کر اللہ تعالیٰ سے فتح ونصرت کی دعائیں مانگتے تھے:
’’سو اب اے خداوند ہمارے خدا، میں تیری منت کرتا ہوں کہ تو ہم کو اس کے ہاتھ سے بچا لے تاکہ زمین کی سب سلطنتیں جان لیں کہ تو ہی اکیلا خداوند خدا ہے۔‘‘ (۲۔ سلاطین ۱۹: ۱۹)
زبور میں ہے:
’’اے خداوند! اے ہماری سپر!
اپنی قدرت سے ان کو پراگندہ کر کے پست کر دے۔
وہ اپنے منہ کے گناہ اور اپنے ہونٹوں کی باتوں
اور اپنی لعن طعن اور جھوٹ بولنے کے باعث
اپنے غرور میں پکڑے جائیں۔
قہر میں ان کو فنا کر دے۔ فنا کردے تاکہ وہ نابود ہو جائیں۔
اور وہ زمین کی انتہا تک جان لیں
کہ خدا یعقوب پر حکمران ہے۔ (سلاہ)‘‘ (زبور ۵۹: ۱۱۔۱۳)
بابل کی اسیری سے خلاصی بھی بنی اسرائیل کو اسی نصرت الٰہی کے نتیجے میں حاصل ہوئی اور ایک مرتبہ پھر اللہ تعالیٰ کا قانون دینونت دنیا کی قوموں کے سامنے آشکارا ہو گیا:
’’غرض باون دن میں الول مہینے کی پچیسویں تاریخ کو شہر پناہ بن چکی۔ جب ہمارے سب دشمنوں نے یہ سنا تو ہمارے آس پاس کی سب قومیں ڈرنے لگیں اور اپنی ہی نظر میں خود ذلیل ہو گئیں کیونکہ انھوں نے جان لیا کہ یہ کام ہمارے خدا کی طرف سے ہوا۔‘‘ (نحمیاہ ۶: ۱۵، ۱۶)
زبور میں ہے:
’’جب خداوند صیون کے اسیروں کو واپس لایا
تو ہم خواب دیکھنے والوں کی مانند تھے۔
اس وقت ہمارے منہ میں ہنسی
اور ہماری زبان پر راگنی تھی۔
تب قوموں میں یہ چرچا ہونے لگا
کہ خداوند نے ان کے لیے بڑے بڑے کام کیے ہیں۔
خداوند نے ہمارے لیے بڑے بڑے کام کیے ہیں
اور ہم شادمان ہیں۔‘‘ (زبور ۱۲۶: ۱۔۳)
تاہم، جیسا کہ ہم نے اوپر واضح کیا ہے، یہ قانون یک طرفہ نہیں تھا، بلکہ خود بنی اسرائیل بھی پوری طرح اس کے اطلاق کی زد میں تھے ۔ قرآن مجید نے ’لئن کفرتم ان عذابی لشدید‘ کے الفاظ میں اسی پہلو کو بیان کیا ہے۔ بائبل میں ہے:
’’اگر تم میری پیروی سے برگشتہ ہو جاؤ اور میرے احکام اور آئین کو جو میں نے تمھارے آگے رکھے ہیں، نہ مانو ، بلکہ جا کر اور معبودوں کی عبادت کرنے اور ان کو سجدہ کرنے لگو تو میں اسرائیل کو اس ملک سے جو میں نے ان کو دیا ہے، کاٹ ڈالوں گا اور اس گھر کو جسے میں نے اپنے نام کے لیے مقدس کیا ہے، اپنی نظر سے دور کر دوں گا اور اسرائیل سب قوموں میں ضرب المثل اور انگشت نما ہوگا اور اگرچہ یہ گھر ایسا ممتاز ہے تو بھی ہر ایک جو اس کے پاس سے گزرے گا، حیران ہوگا اور سسکا رہے گا اور وہ کہیں گے کہ خداوند نے اس ملک اور اس گھر سے ایسا کیوں کیا؟‘‘ ( سلاطین ۱: ۹: ۱۔۹) 
حزقی ایل نبی کی معرفت ارشاد ہوا:
’’اور جب میں ان کو اقوام میں پراگندہ اور ممالک میں تتر بتر کروں گا تب وہ جانیں گے کہ میں خداوند ہوں، لیکن ان میں سے بعض کو تلوار اور کال سے اور وبا سے بچا رکھوں گا تاکہ وہ قوموں کے درمیان جہاں کہیں ہوں، اپنے تمام نفرتی کاموں کو بیان کریں اور وہ معلوم کریں گے کہ میں خداوند ہوں۔‘‘ (حزقی ایل ۱۲: ۱۵، ۱۶)
بابل کے بادشاہ نبوکد نضر نے بنی اسرائیل کے علاقوں پر قبضہ کرنے کا ارادہ کیا تو بنی عمون کے سردار احیور نے اس کے سامنے بنی اسرائیل کی پوری سابقہ تاریخ بیان کی اور ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے اس خاص معاملے کو واضح کرتے ہوئے کہا:
’’اور جہاں کہیں وہ گئے، بغیر تیر کمان کے اور بغیر ڈھال تلوار کے ان کا خدا ان کے لیے لڑا اور غالب ہوا۔ اور کسی نے ان لوگوں کو مغلوب نہ کیا سوائے اس وقت کے جب کہ انھوں نے خداوند اپنے خدا کی عبادت کو ترک کیا۔ تو جتنی دفعہ انھوں نے اپنے خدا کی بجائے اوروں کی پرستش کی، وہ لوٹ اور تلوار اور ننگ کے حوالے کیے گئے۔ اور جتنی دفعہ انھوں نے اپنے خدا کی عبادت ترک کرنے سے توبہ کی، آسمان کے خدا نے ان کو مقابلہ کرنے کی طاقت دی۔ سو انھوں نے اپنے سامنے کنعانیوں اور یبوسیوں اور فرزیوں اور حتیوں اور حویوں اور اموریوں کے بادشاہوں کو اور تمام جباروں کو جو حشبون میں تھے، مغلوب کیا اور ان کی زمینوں اور ان کے شہروں پر قابض ہوئے۔ اور جب تک وہ اپنے خدا کے سامنے خطا نہیں کرتے تھے، وہ اچھی حالت میں رہتے تھے کیونکہ ان کا خدا بدی سے نفرت کرتا ہے۔ اور چند برس ہوئے کہ انھوں نے اس راہ کی مخالفت کی جس میں چلنے کے لیے ان کے خدا نے ان کو حکم دیا تھا تو وہ لڑائیوں میں بہت قوموں کے سامنے مغلوب ہوئے اور ان میں سے بہت اپنے ملک سے دوسرے ملک میں جلا وطن کیے گئے۔ مگر تھوڑے عرصہ سے وہ خداوند اپنے خدا کی طرف پھرے ہیں اور اپنی پراگندگی سے جہاں کہیں الگ الگ ہو گئے تھے، اکٹھے ہو گئے ہیں اور ان تمام پہاڑوں پر چڑھے ہیں اور پھر یروشلم پر قبضہ کر لیا ہے جہاں ان کا مقدس ہے۔ اب اے میرے آقا، دیکھ کہ اگر ان لوگوں نے اپنے خدا کے حضور بدی کی ہے تو ہم ان پر چڑھ جائیں گے کیونکہ ان کا خدا ان کو تیرے حوالے کر دے گا اور وہ تیری طاقت کے جوے کے نیچے خدمت کریں گے۔ اور اگر ان لوگوں نے اپنے خدا کے حضور بدی نہیں کی تو ان کے خلاف ہماری کچھ طاقت نہیں ہوگی کیونکہ ان کا خدا ان کے لیے لڑے گا اور ہم تمام روئے زمین پر شرم زدہ ہوں گے۔‘‘ (یہودیت ۵: ۱۔۲۵)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کے آخری پیغمبر کی حیثیت سے بنی اسماعیل میں مبعوث کیا گیا تو آپ اور آپ پر ایمان لانے والے صحابہ کو بھی اللہ کی طرف سے نصرت اور کامیابی کی بشارت دی گئی۔ قرآن میں اہل ایمان کے لیے کامیابی وسرفرازی کے وعدے آپ کے تیئس سالہ دور نبوت کے ہر ہر مرحلے میں نہایت وضاحت اور تکرار کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ 
مکی سورتوں میں اللہ تعالیٰ کا یہ قانون بیان کیا گیا کہ اللہ کے رسولوں کے لیے ناکامی یا شکست کا کوئی سوال نہیں اور وہ ہر حال میں مخالفین پر غالب آ کر رہتے ہیں:
وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِیْنَ ۔ إِنَّہُمْ لَہُمُ الْمَنصُورُونَ ۔ وَإِنَّ جُندَنَا لَہُمُ الْغَالِبُونَ (الصافات ۳۷:۱۷۱-۱۷۳)
’’اور ہم اپنے جن بندوں کو رسول بنا کر بھیجتے ہیں، ان کے بارے میں ہمارا یہ فیصلہ پہلے سے طے ہو چکا ہے کہ (دشمنوں کے مقابلے میں) انھی کی مدد کی جائے گی اور بے شک ہمارا لشکر ہی غالب آکر رہے گا۔‘‘
إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ آمَنُوا فِیْ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُومُ الْأَشْہَادُ (غافر ۴۰:۵۱)
’’یقینی بات ہے کہ اہم اپنے رسولوں اور ان پر ایمان لانے والوں کی دنیا میں بھی مدد کرتے ہیں اور اس دن بھی کریں گے جب (خدا کی عدالت میں) گواہ کھڑے ہوں گے۔‘‘
گزشتہ اقوام پر عذاب الٰہی نازل ہونے کے واقعات بیان کر کے فرمایا :
أَکُفَّارُکُمْ خَیْْرٌ مِّنْ أُوْلَءِکُمْ أَمْ لَکُم بَرَاء ۃٌ فِیْ الزُّبُرِ، أَمْ یَقُولُونَ نَحْنُ جَمِیْعٌ مُّنتَصِرٌ، سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّونَ الدُّبُرَ (القمر ۵۴:۴۳-۴۵)
’’کیا تمھارے یہ کفار ان پچھلوں سے بہتر ہیں یا ان کے حق میں صحیفوں میں (عذاب سے) محفوظ رہنے کی کوئی ضما نت لکھی ہوئی ہے؟ کیا یہ کہتے ہیں کہ ہم فتح پانے والا گروہ ہیں؟ عنقریب اس گروہ کو شکست ہوگی اور یہ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔‘‘
یہ اعلان کیا گیا کہ اللہ کے اس قانون کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی اہل ایمان کی کامیابی بھی یقینی ہے:
فَہَلْ یَنتَظِرُونَ إِلاَّ مِثْلَ أَیَّامِ الَّذِیْنَ خَلَوْاْ مِن قَبْلِہِمْ قُلْ فَانتَظِرُواْ إِنِّیْ مَعَکُم مِّنَ الْمُنتَظِرِیْنَ ۔ ثُمَّ نُنَجِّیْ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ کَذَلِکَ حَقّاً عَلَیْْنَا نُنجِ الْمُؤْمِنِیْنَ (یونس ۱۰:۱۰۲، ۱۰۳)
’’پھر کیا یہ بھی (خدا کے عذاب کے) انھی دنوں کا انتظار کر رہے ہیں جو ان سے پہلے گزر جانے والوں پر آئے؟ کہہ دو کہ پس تم بھی انتظار کرو، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔ پھر (جب عذاب آئے گا تو) ہم اپنے رسولوں اور ان پرایمان لانے والوں کو بچا لیتے ہیں۔ اسی طرح ہوگا۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم ایمان لانے والوں کو بچا لیں۔‘‘
مکہ مکرمہ ہی میں آپ کو ’الکوثر‘ یعنی بیت اللہ کی تولیت حاصل ہونے کی بشارت دے دی گئی اور کہا گیا کہ آپ کے دشمنوں کا نام ونشان تک مٹ جائے گا:
إِنَّا أَعْطَیْْنَاکَ الْکَوْثَرَ ۔ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ ۔ إِنَّ شَانِءَکَ ہُوَ الْأَبْتَرُ (الکوثر ۱۰۸:۱۔۳)
’’ہم نے تجھے خیر کثیر عطا کر دی۔ سو تم اپنے رب کے لیے نماز بھی پڑھو اور قربانی بھی کرو۔ بے شک تمھارے دشمن ہی کا نام ونشان مٹ کر رہے گا۔‘‘
خباب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے مکی عہد میں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مصائب وتکالیف کا شکوہ کیا تو آپ نے فرمایا:
واللہ لیتمن ہذا الامر حتی یسیر الراکب من صنعاء الی حضر موت لا یخاف الا اللہ او الذئب علی غنمہ ولکنکم تستعجلون (بخاری، رقم ۳۳۴۳)
’’بخدا اس دین کا غلبہ اس طرح اپنے درجہ کمال کو پہنچے گا کہ ایک سوار صنعا سے حضرموت تک سفر کرے گا اور اسے یا خدا کا خوف ہوگا یا اس بات کا کہ بھیڑیا اس کی بکریوں کو نہ کھا جائے، لیکن بات یہ ہے کہ تم لوگ عجلت کا مظاہرہ کر رہے ہو۔‘‘
مکی دور میں ہی ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ نے مکہ میں آکر اسلام قبول کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ہدایت کی کہ:
یا ابا ذر اکتم ہذا الامر وارجع الی بلدک فاذا بلغک ظہورنا فاقبل (بخاری، رقم ۳۵۲۲)
’’ابو ذر، اس معاملے کوچھپائے رکھو اور اپنے علاقے میں واپس چلے جاؤ۔ پھر جب تمھیں ہمارے غالب آجا نے کی خبر پہنچے تو آ جانا۔‘‘
بیعت عقبہ کے موقع پر انصار نے اسی یقین کے پیش نظر کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہرحال غلبہ حاصل ہو کر رہے گا، آپ سے یہ یقین دہانی حاصل کی کہ اس کے بعد آپ انھیں چھوڑ کر واپس اپنی قوم کے پاس واپس نہیں چلے جائیں گے:
یا رسول اللہ ان بیننا وبین الرجال حبالا وانا قاطعوہا یعنی الیہود فہل عسیت ان نحن فعلنا ذلک ثم اظہرک اللہ ان ترجع الی قومک وتدعنا؟ (ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۱/۴۰۲)
’’یا رسول اللہ! ہمارے اور یہود کے مابین تعلقات ہیں جنھیں (آپ کا ساتھ دینے کے لیے) ہم توڑ دیں گے، لیکن کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ ہم یہ کر لیں اور پھر اللہ آپ کو (قریش پر) غلبہ عطا کر دے تو آپ ہمیں چھوڑ کر واپس اپنی قوم کے پاس چلے جائیں؟‘‘
سفر ہجرت کے موقع پر سراقہ بن مالک نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر کا پیچھا کر کے انھیں گرفتار کرنے کی کوشش کی، لیکن قریب پہنچنے پر ان کے گھوڑے کے پاؤں زمین میں دھنس گئے اور وہ اپنی کوشش میں ناکام رہے۔ اس پر انھیں یقین ہو گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غلبہ پا کر رہیں گے:
فعرفت حین رایت ذلک انہ قد منع منی وانہ ظاہر (السیرۃ النبویۃ ۱/۴۴۲)
’’یہ دیکھ کر میں نے جان لیا کہ آپ کو مجھ سے محفوظ کر دیا گیا ہے اور یہ کہ آپ غالب ہو کر رہیں گے۔‘‘
سراقہ نے آپ نے درخواست کی کہ آپ کو امان نامہ لکھ دیا جائے جو آپ نے قبول فرما لی۔ فتح مکہ کے موقع پر سراقہ یہی امان نامہ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پھر اسلام قبول کر لیا۔
مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے بعد جب اہل ایمان کو قتال کا حکم دے دیا گیا تو انھیں بشارت دی گئی کہ مسلمانوں کو اس جنگ میں خدا کی تائید حاصل ہے، اس لیے وہ کمزوری دکھاتے ہوئے ازخود دشمن کے ساتھ صلح کی خواہش کا اظہار نہ کریں:
فَلَا تَہِنُوا وَتَدْعُوا إِلَی السَّلْمِ وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ وَاللَّہُ مَعَکُمْ وَلَن یَتِرَکُمْ أَعْمَالَکُمْ (محمد ۴۷:۳۵)
’’سو تم کمزوری دکھا کر صلح کی دعوت نہ دو جبکہ بہرحال تم ہی غالب رہو گے۔ اور اللہ تمھارے ساتھ ہے اور وہ تمھارے اعمال کا بدلہ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔‘‘
سورۂ بقرہ کی آیات ۱۹۲، ۱۹۳ میں بھی قریش کے خلاف قتال کا حکم ایسے اسلوب میں دیا گیا ہے کہ گویا اس کے نتیجے میں قریش کے برپا کردہ فتنے کا خاتمہ اور اللہ کا دین کا غلبہ ایک قضاے مبرم ہے:
وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لاَ تَکُونَ فِتْنَۃٌ وَیَکُونَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ (البقرہ ۲:۱۹۳)
’’اور ان کے ساتھ جنگ کرو یہاں تک فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ ہی کے لیے ہو جائے۔‘‘
یہی اعلان مختلف اسالیب میں قرآن میں جگہ جگہ دیکھا جا سکتا ہے۔ سورۂ صف میں ارشاد ہوا ہے:
ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ (الصف ۶۱:۹)
’’وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے تاکہ اسے سب دینوں پر غالب کر دے، چاہے مشرک اس بات کو کتنا ہی ناپسند کرتے رہیں۔‘‘
إِنَّ الَّذِیْنَ یُحَادُّونَ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ أُوْلَءِکَ فِیْ الأَذَلِّیْنَ، کَتَبَ اللّٰہُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِیْ إِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ (المجادلہ ۵۸:۲۰، ۲۱)
’’بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف برسر پیکار ہیں، وہی ذلیل ہو کر رہیں گے۔ اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ میں اور میرے رسول ہر حال میں غالب آئیں گے۔ بے شک اللہ بے حد قوت والا، غالب آنے والا ہے۔‘‘
اہل کفر اور اہل ایمان کے مابین پہلا معرکہ بدرمیں ہوا۔ اس جنگ میں قریش کی صف اول کی قیادت کو تہ تیغ کر کے نہ صرف قریش کو ان کے حتمی انجام کی تصویر دکھا دی گئی بلکہ رسول اللہ کے مخالف دوسرے گروہوں کو بھی اس سے عبرت حاصل کرنے کی نصیحت کی گئی۔ قرآن مجید نے اسی لیے غزوۂ بدر کو ’یوم الفرقان‘ یعنی حق وباطل کے مابین فیصلہ کن معرکے کا دن قرار دیا (الانفال ۸:۴۱) اور کہا کہ منکرین حق کے تمام گروہ اس واقعے میں اپنے انجام کی تصویر دیکھ سکتے ہیں۔ ارشاد ہے:
قُل لِّلَّذِیْنَ کَفَرُواْ سَتُغْلَبُونَ وَتُحْشَرُونَ إِلَی جَہَنَّمَ وَبِءْسَ الْمِہَادُ ، قَدْ کَانَ لَکُمْ آیَۃٌ فِیْ فِءَتَیْْنِ الْتَقَتَا فِءَۃٌ تُقَاتِلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَأُخْرَی کَافِرَۃٌ یَرَوْنَہُم مِّثْلَیْْہِمْ رَأْیَ الْعَیْْنِ وَاللّہُ یُؤَیِّدُ بِنَصْرِہِ مَن یَشَاءُ إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَعِبْرَۃً لَّأُوْلِیْ الأَبْصَارِ (آل عمران ۳: ۱۲، ۱۳)
’’تم ان منکروں سے کہہ دو کہ عنقریب تم مغلوب کر دیے جاؤ گے اور تمہیں دھکیل کر جہنم کی طرف لے جایا جائے گا اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔ تمہارے لیے ان دو گروہوں میں جن کی آپس میں مڈبھیڑ ہوئی، عبرت کی ایک بڑی نشانی تھی ۔ ایک گروہ تو مومن تھا جو اللہ کے راستے میں لڑ رہا تھا جبکہ دوسرا کافر تھا جو طاغوت کے لیے برسر پیکار تھا، اور انہیں مسلمان اپنی آنکھوں سے اپنے سے دوگنا دکھائی دے رہے تھے۔ اور اللہ جس کی چاہے اپنی مدد سے تائید کرتا ہے۔ بے شک اس میں آنکھیں رکھنے والوں کے لیے عبرت کا بڑا سامان ہے۔‘‘
تاریخ وسیرت بھی قرآن مجید کے اس بیان کی تائید کرتے ہیں۔ واقدی کا بیان ہے:
فلما قدم بالاسری اذل اللہ بذلک رقاب المشرکین والمنافقین والیہود ولم یبق بالمدینۃ یہودی ولا منافق الا خضع عنقہ لوقعۃ بدر ..... وفرق اللہ فی صبحہا بین الکفر والایمان وقالت الیہود فی ما بینہا ہو الذی نجدہ منعوتا واللہ لا تفرع لہ رایۃ بعد الیوم الا ظہرت (المغازی، ۱/۱۲۱)
’’جب آپ قیدیوں کو گرفتار کرکے لائے تو اللہ نے اس کی وجہ سے مشرکوں اور منافقوں اور یہودیوں کے سرنگوں کر دیے اور مدینے میں کوئی یہودی یا منافق ایسا نہ رہا جس کی گردن واقعہ بدر کے بعد جھک نہ گئی ہو۔ اس روز اللہ نے کفر اور ایمان کے مابین امتیاز قائم کر دیا اور یہود آپس میں کہنے لگے کہ یہ وہی پیغمبر ہے جس کی صفات تمہاری کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں۔ بخدا، آج کے بعد وہ جب بھی جنگ کا علم لہرائے گا، غلبہ اسی کو نصیب ہوگا۔‘‘
غزوۂ احد کے بعد مدینہ منورہ کے یہود اور منافقین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے خلاف اعتراضات کیے تو سیدنا عمر نے آپ سے اجازت طلب کی کہ ان یہودیوں اور منافقوں کو قتل کر دیں۔ آپ نے فرمایا:
یا عمر ان اللہ مظہر دینہ ومعز نبیہ وللیہود ذمۃ فلا اقتلہم (المغازی، ۱/۳۱۸)
’’اے عمر! اللہ یقیناًاپنے دین کو غالب اور اپنے نبی کو سرفراز کرے گا، لیکن یہود کے ساتھ ہمارا معاہدہ ہے اس لیے میں انھیں قتل نہیں کروں گا۔‘‘
غزوۂ احد ہی کے موقع پر ابو سفیان نے جاتے ہوئے مسلمانوں کو آئندہ سال اسی وقت بدر الصفراء کے مقام پر آ کر لڑنے کا چیلنج دیا تھا۔ مقررہ وقت پر جب ابو سفیان کی پھیلائی ہوئی افواہوں کی وجہ سے مسلمانوں میں خوف کی کیفیت ہونے لگی اور اندیشہ ہوا کہ وہ لڑائی کے لیے نہیں نکلیں گے تو سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ:
یا رسول اللہ ان اللہ مظہر دینہ ومعز نبیہ وقد وعدنا القوم موعدا ونحن لا نحب ان نتخلف عن القوم فیرون ان ہذا جبن منا عنہم فسر لموعدہم (المغازی، ۱/۳۸۷)
’’یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو غالب اور اپنے نبی کو سرفراز کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ ہم نے اپنے دشمن کے ساتھ ایک وقت مقرر کیا تھا اور ہم اس کو پسند نہیں کرتے کہ لڑائی سے پیچھے ہٹیں اور دشمن یہ سمجھے کہ یہ ہماری بزدلی ہے، اس لیے آپ مقررہ مقام کی طرف روانہ ہو جائیے۔‘‘
اس کے بعد مسلمانوں کی قوت اور اسلام کی دعوت میں مسلسل وسعت پیدا ہوتی رہی اور قریش کی رسوائی اور ہزیمت کا دائرہ بھی اسی تناسب سے پھیلتا رہا۔ صورت حال پر نظر رکھنے والے ذہین لوگوں کو فتح مکہ سے قبل ہی اس بات کا یقین ہو گیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ آخر کار قریش پر غالب آ کر رہیں گے۔ چنانچہ ۵ ہجری میں غزوۂ احزاب کے موقع پر قریش نے پورے عرب سے قبائل کو جمع کر کے مدینہ پر حملے کا ارادہ کیا تو حارث بن عوف نے اپنے قبیلہ بنو غطفان کو اس مہم میں شریک ہونے سے منع کیا اور ان سے کہا:
تفرقوا فی بلادکم ولا تسیروا الی محمد فانی اری ان محمدا امرہ ظاہر لو ناواہ من بین المشرق والمغرب لکانت لہ العاقبۃ (الواقدی، المغازی، ۲/۴۴۳)
’’اپنے علاقے میں منتشر ہو جاؤ اور محمد پر حملے کے لیے مت جاؤ۔ مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ محمد کا دین غالب آ کر رہے گا۔ اگر مشرق سے مغرب تک سارے انسان اس کے مقابلے میں آجائیں تو بھی فتح اسی کو حاصل ہوگی۔‘‘
عمرو بن العاص بیان کرتے ہیں کہ وہ قریش کی طرف سے بدر، احد اور خندق میں شریک ہوئے۔ اس کے بعد انھیں قریش کی مغلوبیت کا یقین ہو گیا۔کہتے ہیں:
فقلت فی نفسی کم اوضع؟ واللہ لیظہرن محمد علی قریش فخلفت مالی بالرہط وافلت یعنی من الناس فلم احضر الحدیبیۃ ولا صلحہا (المغازی، ۲/۷۴۱، ۷۴۲)
’’میں نے اپنے جی میں کہا: میں کب تک اس لاحاصل تگ ودو میں شریک رہوں گا؟ بخدا، محمد کو قریش پر غلبہ حاصل ہو کر رہے گا۔ چنانچہ میں نے اپنا مال واسباب اپنے قبیلے ہی میں چھوڑا اور لوگوں سے پیچھا چھڑا کر نکل گیا۔ چنانچہ میں حدیبیہ کے معاہدہ صلح کے موقع پر موجود نہیں تھا۔‘‘
عمرو اس کے بعد حبشہ چلے گئے۔ نجاشی شاہ حبشہ نے ایک موقع پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تصدیق کی تو عمرو قبول حق کی طرف متوجہ ہوئے۔ کہتے ہیں:
قلت فی نفسی عرف ہذا الحق العرب والعجم وتخالف انت؟ قلت اتشہد ایہا الملک بہذا؟ قال نعم اشہد بہ عند اللہ یا عمرو فاطعنی واتبعہ واللہ انہ لعلی الحق ولیظہرن علی کل دین خالفہ کما ظہر موسی علی فرعون وجنودہ (المغازی، ۲/۷۴۳)
’’میں نے اپنے دل میں کہا: ارے، اس حق کو تو عرب اور عجم کے لوگ پہچانتے ہیں اور تو ابھی تک مخالف ہے؟ میں نے بادشاہ سے پوچھا کہ کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو؟ اس نے کہا، اے عمرو، میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر یہ گواہی دیتا ہوں، اس لیے میری بات مان لو اور اس نبی کی اطاعت اختیار کر لو۔ بخدا وہ حق پر ہے اور اپنی مخالفت کرنے والے ہر دین پر اسی طرح غالب آ کر رہے گا جیسے موسیٰ کو فرعون اور اس کے لشکر کے مقابلے میں غلبہ حاصل ہوا تھا۔‘‘
ہرقل کے نام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نامہ مبارک پہنچنے پر اس نے ابو سفیان کو بلا کر ان سے گفتگو کی۔ اس گفتگو کے بعد ابو سفیان نے اپنے تاثرات یوں بیان کیے:
فلما ان خرجت مع اصحابی وخلوت بہم قلت لہم قد امر امر ابن ابی کبشۃ ہذا ملک بنی الاصفر یخافہ قال ابو سفیان واللہ ما زلت ذلیلا مستیقنا بان امرہ سیظہر حتی ادخل اللہ قلبی الاسلام وانا کارہ (بخاری، رقم ۲۷۲۳)
’’پھر جب میں اور میرے ساتھی اس کے دربار سے نکل کر تنہائی میں بیٹھے تو میں نے ان سے کہا: ابو کبشہ کے بیٹے کا معاملہ تو ہمارے بس سے باہر ہو گیا ہے۔ یہ دیکھو، رومیوں کا بادشاہ بھی اس سے خوف زدہ ہے۔ ابوسفیان کہتے ہیں کہ بخدا، اس وقت سے مجھے پکا یقین ہو گیا کہ محمد غالب آ کر رہیں گے، یہاں تک آخر کار اللہ نے میرے دل میں اسلام کو داخل کر دیا، حالانکہ میں اس کو ناپسند کرتا تھا۔‘‘
خالد بن الولید کہتے ہیں:
لما اراد اللہ بی من الخیر ما اراد قذف فی قلبی حب الاسلام وحضرنی رشدی وقلت قد شہدت ہذہ المواطن کلہا علی محمد فلیس موطن اشہدہ الا انصرف وانا اری فی نفسی انی موضع فی غیر شئ وان محمد سیظہر (المغازی، ۲/۷۴۶)
’’جب اللہ نے میرے ساتھ بھلائی کا ارادہ کیا تو میرے دل میں اسلام کی محبت ڈال دی اور مجھے ہدایت کی بات سوجھ گئی۔ میں نے کہا: میں محمد کے خلاف ان تمام جنگوں میں شریک رہا ہوں اور کوئی جنگ ایسی نہیں ہوتی کہ جس میں شریک ہونے کے بعد میں پلٹوں اور میرے دل میں یہ خیال پیدا نہ ہو کہ میں ایک بے فائدہ جدوجہد میں مصروف ہوں اور محمد بہرحال غالب آکر رہیں گے۔‘‘
فتح مکہ کے بعد بنو ہوازن اور بنو ثقیف نے مل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف حملہ کرنے کا ارادہ کیا تو اس موقع پر بنو ہوازن میں سے دو قبیلے بنو کعب اور بنو کلاب ان کے ساتھ شریک نہ ہوئے۔ ان میں سے ایک سردار ابن ابی البراء نے بنو کلاب کو اس جنگ میں شریک ہونے سے منع کیا اور ان سے کہا کہ:
واللہ لو ناوا محمدا من بین المشرق والمغرب لظہر علیہ (المغازی، ۳/۸۸۶)
’’بخدا، اگر مشرق سے مغرب تک سب لوگ محمد کے مقابلے میں آ جائیں، تب بھی محمد ہی غالب رہیں گے۔‘‘
غزوۂ حنین کے موقع پر جب دوران سفر میں ایک مشرک نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سویا ہوا پا کر آپ پر تلوار سونت لی۔ اس موقع پر آپ نے اس شخص کو معاف کر دیا اور ابو بردہ سے مخاطب ہو کر فرمایا:
ان اللہ مانعی وحافظی حتی یظہر دینہ علی الدین کلہ (المغازی، ۳/۸۹۲)
’’بے شک اللہ میری حفاظت کرے گا ، یہاں تک کہ اپنے دین کو تمام دینوں پر غالب کر دے۔‘‘
غزوۂ حنین میں شکست کی کیفیت کو خود بنو ثقیف کے بعض لوگوں نے یوں بیان کیا:
فتفرقت جماعتنا فی کل وجہ وجعلت الرعدۃ تسحقنا حتی لحقنا بعلیاء بلادنا فان کان لیحکی عنا الکلام ما کنا ندری بہ مما کان بنا من الرعب فقذف اللہ الاسلام فی قلوبنا (المغازی ۳/۹۰۷)
’’ہمارا لشکر تمام اطراف میں تتر بتر ہو گیا اور کپکپی ہم پر اس طرح طاری ہوئی کہ کسی کام کا نہ چھوڑا۔ آخر کار ہم گرتے پڑتے اپنے علاقے کی سخت اور سنگین زمین تک پہنچ گئے۔ لوگ ہمیں وہ باتیں بتاتے تھے جو اس موقع پر ہمارے مونہوں سے نکلیں لیکن رعب اور ہیبت کی وجہ ہمیں خود کچھ پتہ نہیں تھا کہ ہم کیا بول رہے ہیں۔ اس کے بعد اللہ نے ہمارے دلوں میں اسلام قبول کرنے کا خیال ڈال دیا۔‘‘
مسلمانوں کے غلبہ اور قریش کی ہزیمت کا یہ عمل فتح مکہ کی صورت میں اپنے نقطہ کمال کو پہنچا اور قریش کے اس انجام نے تردد اور شکوک وشبہات کی اس کیفیت کا بالکل خاتمہ کر دیا جس میں جزیرۂ عرب کے اکثر قبائل اس سے پہلے مبتلا تھے۔ چنانچہ پورے عرب نے آپ کے سامنے تسلیم وانقیاد کی گردن جھکا دی۔ عمرو بن سلمہ بتاتے ہیں:
کانت العرب تلوم باسلامہم الفتح فیقولون اترکوہ وقومہ فان ان ظہر علیہم فہو نبی صادق فلما کانت وقعۃ اہل الفتح بادر کل قوم باسلامہم (بخاری، رقم ۳۹۶۳)
’’اہل عرب اسلام لانے کے لیے فتح مکہ کا انتظار کر رہے تھے۔ چنانچہ وہ کہتے تھے کہ محمد اور ان کے قبیلے کے مابین فیصلہ ہو لینے دو۔ اگر محمد غالب آ گئے تو وہ سچے نبی ہیں۔ پھر جب مکہ فتح ہو گیا تو ہر قبیلہ اسلام قبول کرنے کے لیے لپکنے لگا۔‘‘
ابن اسحاق کا بیان ہے:
وانما کانت العرب تربص باسلامہا امر ہذا الحی من قریش لان قریشا کانوا امام الناس وہادیہم واہل البیت والحرم وصریح ولد اسماعیل بن ابراہیم وقادۃ العرب لا ینکرون ذلک وکانت قریش ہی التی نصبت الحرب لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وخلافہ فلما افتتحت مکۃ ودانت لہ قریش ودوخہا الاسلام عرفت العرب انہ لا طاقۃ لہم بحرب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولا عداوتہ فدخلوا فی دین اللہ کما قال اللہ عز وجل افواجا یضربون الیہ من کل وجہ (ابن کثیر، السیرۃ النبویۃ، ۴/۷۶)
’’سارا عرب اسلام قبول کرنے کے لیے قریش کا انجام طے ہونے کا انتظار کر رہا تھا، کیونکہ قریش لوگوں کے پیشوا ورہنما، حرم اور بیت اللہ کے متولی اور اسماعیل علیہ السلام کی خالص نسل سے تھے اور عرب کی قیادت کے منصب پر فائز تھے جس کو کوئی چیلنج کرنے والا نہیں تھا۔ اور یہ قریش ہی تھے جو حقیقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف برسرپیکار تھے۔ پھر جب مکہ فتح ہو گیا اور اسلام نے قریش کو زیر کر کے اپنا مطیع بنا لیا تو اہل عرب جان گئے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ اور دشمنی کا خطرہ مول نہیں لے سکتے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق وہ ہر جانب سے آپ کے پاس حاضر ہوئے اور گروہ در گروہ اللہ کے دین میں داخل ہونے لگے۔‘‘
اس پوری داستان سے، ظاہر ہے کہ ارد گرد کی اقوام بے خبر نہیں تھیں، چنانچہ جزیرۂ عرب میں اسلام کے غالب ہونے کے نتیجے میں اسلام کی حقانیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعواے نبوت کی صداقت ان اقوام پر بھی پوری طرح واضح ہو گئی۔ ابن سعد کی ’الطبقات الکبریٰ‘ (۱/ ۲۵۸-۲۶۳) اور دیگر تاریخی مآخذ میں درج تفصیلات کے مطابق اس کی مختصر روداد حسب ذیل ہے:
عمرو بن امیۃ الضمری کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی شاہ حبشہ کے نام دعوت اسلام کا خط دے کر بھیجا۔ اس نے آپ کے خط کو آنکھوں سے لگایا، تخت سے اتر کر نہایت تواضع کے ساتھ زمین پر بیٹھ گیا اور اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا۔ پھر اس نے اپنے قبول اسلام کی باقاعدہ تحریر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لکھی اور کہا کہ اگر میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو سکتا تو ہو جاتا۔ 
دحیہ کلبی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک لے کر قیصر روم کے پاس گئے تو اس نے علامات کو پہچان کر نہ صرف خود آپ کی نبوت کی تصدیق کی بلکہ اپنی قوم کو بھی آپ پر ایمان لانے کی دعوت دی۔ لیکن مسیحی علما اور سرداروں کی جانب سے شدید رد عمل دیکھ کر اسے خوف ہوا کہ وہ اس بات پر وہ خود قیصر کی اطاعت قبول کرنے سے بھی انکار کر دیں گے، چنانچہ اس نے اپنی بادشاہت کو بچانے کی خاطر اسلام قبول کرنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ اس موقع پر قیصر نے ابو سفیان کو بلا کر، جو اتفاق سے اس وقت شام میں موجود تھے، آپ کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ ان معلومات کی روشنی میں اس نے یہ پیش گوئی کی کہ یوشک ان یملک موضع قدمی ہاتین (بخاری، رقم ۲۷۲۳) یعنی عنقریب یہ علاقہ بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قبضے میں ہوگا جو اس وقت میرے زیر نگیں ہے۔ 
حاطب بن ابی بلتعہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقوقس شاہ مصر کے نام مکتوب مبارک دے کر بھیجا۔ اس نے خط پڑھ کر اچھے کلمات کہے اور نہایت ادب اور احترام سے آپ کے خط کو محفوظ کر لیا۔ اس نے دو نہایت قیمتی لونڈیاں اور ایک سفید گدھا تحفے کے طور پر آپ کی خدمت میں بھیجے اور جوابی خط میں لکھا کہ یہ بات تو میرے علم میں تھی کہ ایک نبی نے مبعوث ہونا ہے، البتہ میرا گمان یہ تھا کہ شاید وہ شام میں مبعوث ہوگا۔ تاہم اس نے آپ کی طرف سے قبول اسلام کی دعوت کے جواب میں یہ عذر پیش کیا کہ قبطی قوم اس معاملے میں میری بات نہیں مانے گی۔ اس نے پیش گوئی کی کہ:
وسیظہر علی البلاد وینزل اصحابہ من بعدہ بساحتنا ہذہ حتی یظہروا علی ما ہہنا (الاصابۃ، ۴/۱۹۶۷)
’’انھیں ملکوں پر غلبہ نصیب ہوگااور ان کے بعد ان کے ساتھی ہمارے اس علاقے میں آئیں گے یہاں تک کہ یہاں بھی ان کا غلبہ قائم ہو جائے گا۔‘‘
اس نے مزید کہا:
وستکون لہ العاقبۃ حتی لا ینازعہ احد ویظہر دینہ الی منتہی الخف والحافر (الاصابہ، ۴/۱۹۶۸)
’’انجام کار سرفرازی انھی کا مقدر ہے یہاں تک کہ کوئی ان کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھے گا اور جہاں تک گھوڑے اور اونٹ پہنچ سکتے ہیں، وہاں تک ان کا دین غالب ہوگا۔‘‘
عبد اللہ بن حذافہ سہمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط لے کر خسرو شاہ ایران کے پاس گئے۔ اس نے نہایت تکبر کے ساتھ آپ کا والا نامہ پھاڑ دیا اور یمن میں اپنے گورنر باذان کو لکھا کہ دو آدمی بھیج کر اس مدعی نبوت کے بارے میں معلومات حاصل کرو۔ باذان کے قاصد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ نے ان سے کہا کہ ایک دن ٹھہر جاؤ اور کل دوبارہ میرے پاس آنا۔ اگلے دن وہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اطلاع دی کہ میرے رب نے گزشتہ رات تمہارے آقا کو خود اس کے بیٹے شیرویہ کے ہاتھوں قتل کروا دیا ہے۔ قاصد یہ اطلاع لے کر یمن واپس گئے تو باذان اور اس کے ماتحت عرب فارسی نسل کے لوگوں نے صورت حال کی تصدیق کرنے کے بعد اسلام قبول کر لیا۔
حارث بن ابی شمر شاہ غسان کے نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شجاع بن وہب کو خط دے کر بھیجا۔ پہلے پہل تو اس نے متکبرانہ رویہ اختیار کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ کے لیے لشکر کو تیار ہونے کا حکم دیا۔ تاہم قیصر روم نے اس کو اس ارادے سے منع کیا جس کے بعد حارث نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کا انعام واکرام کر کے اسے رخصت کر دیا۔ حارث کی وفات کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جانشین جبلہ بن ایہم کو دوبارہ اسلام کی دعوت بھیجی جو اس نے قبول کر لی۔ 
بحرین میں فارسی سلطنت کے زیر سایہ حکومت کرنے والے بادشاہ منذر بن ساویٰ کے نام خط دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علاء بن الحضرمی کو بھیجا تو اس نے آپ کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اسلام قبول کر لیا۔ 
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے بعد اہل ایمان کو جزیرۂ عرب اور اس کے گرد ونواح کی سلطنتوں کا اقتدار حاصل ہونے کی بشارتیں بھی مختلف مواقع پر ایک تسلسل کے ساتھ دیں۔ اس نوعیت کی روایات کتب حدیث میں کثرت سے نقل ہوئی ہیں۔ یہاں ان میں سے اہم روایات نقل کی جاتی ہیں:
تمیم داری روایت کرتے ہیں : 
سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول لیبلغن ہذا الامر ما بلغ اللیل والنہار ولا یترک اللہ بیت مدر ولا وبر الا ادخلہ اللہ ہذا الدین بعز عزیز او بذل ذلیل عزا یعز اللہ بہ الاسلام وذلا یذل اللہ بہ الکفر (مسند احمد، رقم ۱۶۲۴۴)
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ نے فرمایا: یہ دین وہاں تک پہنچے گا جہاں تک دن اور رات کا سلسلہ موجود ہے۔ اور اللہ تعالیٰ شہروں اور دیہات کا کوئی گھر ایسا نہیں چھوڑے گا جس میں یہ دین داخل نہ ہو جائے۔ کچھ لوگ عزت پائیں گے اور کچھ ذلیل ہوں گے۔ عزت تو اللہ تعالیٰ اسلام کو بخشیں گے جبکہ ذلت اہل کفر کا نصیب بنے گی۔‘‘
ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان اللہ زوی لی الارض فرایت مشارقہا ومغاربہا وان امتی سیبلغ ملکہا ما زوی لی منہا (مسلم، رقم ۵۱۴۴)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ نے میرے لیے زمین سمیٹ دی اور میں نے اس کے مشرق ومغرب کے علاقے دیکھ لیے اور بے شک میری امت کی حکومت ان تمام علاقوں تک پہنچے گی جو مجھے سمیٹ کر دکھائے گئے۔‘‘
ابو ہریرہ سے روایت ہے:
ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال اذا ہلک کسری فلا کسری بعدہ واذا ہلک قیصر فلا قیصر بعدہ والذی نفسی بیدہ لتنفقن کنوزہما فی سبیل اللہ (بخاری، رقم ۲۸۸۸)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کسریٰ ہلاک ہو جائے گا تو اس کے بعد کوئی دوسرا کسریٰ پیدا نہیں ہو گا۔ اور جب قیصر کی حکومت (شام کے علاقے سے) ختم ہو جائے گی تو دوبارہ کبھی قائم نہیں ہوگی۔ اور اللہ کی قسم، ان دونوں کے خزانے اللہ کے راستے میں خرچ کیے جائیں گے۔‘‘
سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ غزوۂ خندق کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو یہ بشارت دی:
ہذہ فتوح یفتحہا اللہ علیکم بعدی یا سلمان، لتفتحن الشام ویہرب ہرقل الی اقصی مملکتہ وتظہرون علی الشام فلا ینازعکم احد، ولتفتحن الیمن ولیفتحن ہذا المشرق ویقتل کسری بعدہ (المغازی، ۲/۴۵۰)
’’اے سلمان، یہ وہ فتوحات ہیں جو تمھیں میرے بعد حاصل ہوں گے۔ شام فتح ہوگا اور ہرقل بھاگ کر اپنی مملکت کے پرلے کنارے کی طرف چلا جائے گا اور تمہیں شام پر غلبہ حاصل ہوگا اور کوئی اسے تم سے چھیننے کی کوشش نہیں کرے گا۔ اور یمن بھی لازماً فتح ہوگا اور یہ مشرق کے علاقے بھی تمہارے قبضے میں آئیں گے جس کے بعد کسریٰ قتل کر دیا جائے گا۔‘‘
غزوۂ تبوک کے موقع پر آپ نے فرمایا: 
الا ابشرکم؟ قالوا بلی یا رسول اللہ وہم یسیرون علی رواحلہم فقال ان اللہ اعطانی الکنزین فارس والروم وامدنی بالملوک ملوک حمیر یجاہدون فی سبیل اللہ ویاکلون فیء اللہ (المغازی، ۳/۱۰۱۱)
’’کیا میں تمھیں خوشخبری نہ دوں؟ صحابہ نے اپنی سواریوں پر چلتے چلتے کہا: یا رسول اللہ، کیوں نہیں۔ آ پ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے دو خزانے عطا فرمائے ہیں۔ ایک فارس کا اور دوسرا روم کا۔ اور اس نے حمیر کے بادشاہوں کے ذریعے سے میری مدد کی ہے جو اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے اور اس راہ میں حاصل ہونے والا مال غنیمت کھائیں گے۔‘‘
عدی بن حاتم کو اسلام کی دعوت دیتے ہوئے آپ نے فرمایا:
اما انی اعلم ما الذی یمنعک من الاسلام تقول انما اتبعہ ضعفۃ الناس ومن لا قوۃ لہ وقد رمتہم العرب اتعرف الحیرۃ قلت لم ارہا وقد سمعت بہا قال فوا الذی نفسی بیدہ لیتمن اللہ ہذا الامر حتی تخرج الظعینۃ من الحیرۃ حتی تطوف بالبیت فی غیر جوار احد ولیفتحن کنوز کسری بن ہرمز قال قلت کسری بن ہرمز قال نعم کسری بن ہرمز ولیبذلن المال حتی لا یقبلہ احد قال عدی بن حاتم فہذہ الظعینۃ تخرج من الحیرۃ فتطوف بالبیت فی غیر جوار ولقد کنت فی من فتح کنوز کسری بن ہرمز والذی نفسی بیدہ لتکونن الثالثۃ لان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قد قالہا (مسند احمد، رقم ۱۷۵۴۸)
’’سنو، مجھے معلوم ہے کہ تمہارے اسلام لانے میں کیا چیز مانع ہے۔ تم یہ سوچتے ہو کہ اس کی پیروی تو بس کچھ کمزور اور بے حیثیت لوگوں نے ہی اختیار کی ہے اور پورا عرب ان کے مقابلے پر کھڑا ہے۔ کیا تم حیرہ کو جانتے ہو؟ میں نے کہا، میں نے دیکھا تو نہیں لیکن اس کے بارے میں سنا ہے۔ آپ نے فرمایا، پس اللہ کی قسم ہے کہ اس دین کا غلبہ اس طرح قائم ہوگا کہ حیرہ سے ایک عورت اونٹ پر سوار ہو کر تن تنہا بیت اللہ کا حج کرنے آئے گی اور کسریٰ بن ہرمز کے خزانے فتح ہوں گے ۔ میں نے تعجب سے پوچھا: کسریٰ بن ہرمز کے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، کسریٰ بن ہرمز کے۔ اور مال اتنا وافر ہو جائے گا کہ کوئی اس کو لینے والا نہیں ملے گا۔ عدی بن حاتم کہتے ہیں: یہ دیکھو، حیرہ سے خاتون تن تنہا سوار ہو کر آتی ہے اور بیت اللہ کا حج کرتی ہے۔ اور میں خود ان لشکر میں شامل تھا جس نے کسریٰ بن ہرمز کے خزانے فتح کیے۔ اور بخدا، تیسری پیش گوئی بھی پوری ہو کر رہے گی، کیونکہ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے۔‘‘
عباس بن عبد المطلب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں:
یظہر ہذا الدین حتی یجاوز البحار وحتی تخاض البحار بالخیل فی سبیل اللہ تبارک وتعالی (تفسیر القرطبی ۱/۱۸)
’’اس دین کو غلبہ نصیب ہوگا یہاں تک کہ اس کے حدود سمندروں سے آگے چلے جائیں گے اور اللہ کے راستے میں سمندروں میں گھوڑے دوڑا دیے جائیں گے۔‘‘
عبد اللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اذا فتحت علیکم فارس والروم ای قوم انتم؟ قال عبد الرحمن بن عوف نقول کما امرنا اللہ (مسلم، رقم ۵۲۶۲)
’’عبد اللہ بن عمرو بن العاص کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم فارس اور روم کو فتح کر لو گے تو پھر کیا کرو گے؟ عبد الرحمن بن عوف نے کہا: ہم وہی کریں گے جو اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے۔‘‘
ابو ذر بیان کرتے ہیں:
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انکم ستفتحون مصر وہی ارض یسمی فیہا القیراط فاذا فتحتموہا فاحسنوا الی اہلہا فان لہم ذمۃ ورحما او قال ذمۃ وصہرا (صحیح مسلم، رقم ۴۶۱۵)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب تم مصر کو فتح کرو گے اور یہ وہ سرزمین ہے جس کے سکے کا نام قیراط ہے۔ پس جب تم اس کو فتح کر لو تو وہاں کے باشندوں سے اچھا سلوک کرنا، کیونکہ (ان کا دہرا حق ہوگا) وہ اہل ذمہ بھی ہوں گے اور ان کے ساتھ رشتے داری بھی ہے۔‘‘
بخاری میں سفیان بن ابی زہیر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تفتح الیمن فیاتی قوم یبسون فیتحملون باھلیہم ومن اطاعہم والمدینۃ خیر لہم لو کانوا یعلمون وتفتح الشام فیاتی قوم یبسون فیتحملون باھلیہم ومن اطاعہم والمدینۃ خیر لہم لو کانوا یعلمون وتفتح العراق فیاتی قوم یبسون فیتحملون باھلیہم ومن اطاعہم والمدینۃ خیر لہم لو کانوا یعلمون (بخاری، رقم ۱۷۷۶۔ مسلم، رقم ۱۳۸۸)
’’یمن فتح ہوگا تو کچھ لوگ (اونٹوں کو) ہانکتے ہوئے آئیں گے اور اپنے اہل خانہ کو اور جو ان کی بات مانیں گے، انھیں بٹھا کر (یمن کی طرف) لے جائیں گے، حالانکہ مدینہ ان کے لیے بہتر ہوگا اگر وہ جانتے۔ اور شام فتح ہوگا تو کچھ لوگ (اونٹوں کو) ہانکتے ہوئے آئیں گے اور اپنے اہل خانہ کو اور جو ان کی بات مانیں گے، انھیں بٹھا کر (شام کی طرف) لے جائیں گے، حالانکہ مدینہ ان کے لیے بہتر ہوگا اگر وہ جانتے۔ اور عراق فتح ہوگا تو کچھ لوگ (اونٹوں کو) ہانکتے ہوئے آئیں گے اور اپنے اہل خانہ کو اور جو ان کی بات مانیں گے، انھیں بٹھا کر (شام کی طرف) لے جائیں گے، حالانکہ مدینہ ان کے لیے بہتر ہوگا اگر وہ جانتے۔‘‘
عقبۃ بن عامر روایت کرتے ہیں:
سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول ستفتح علیکم ارضون ویکفیکم اللہ فلا یعجز احدکم ان یلہو باسہمہ (مسلم، رقم ۱۹۱۷)
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے سنا کہ عنقریب بہت سے علاقے تمھارے ہاتھوں مفتوح ہوں گے اور اللہ تمھاری مدد کے لیے کافی ہوگا، اس لیے تم میں سے کوئی اس سے عاجز نہ رہے کہ (لڑائی کی تیاری کی غرض سے) اپنے تیروں سے کھیلتا رہے۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ کرام انھی بشارتوں کی روشنی میں اس یقین کے ساتھ ان قوموں کے خلاف میدان میں اترے کہ اللہ کی طرف سے فتح ونصرت ان کے لیے مقدر کر دی گئی ہے۔ تاریخ میں ان کے جو بیانات نقل ہوئے ہیں، ان سے صاف واضح ہے کہ وہ اپنے جنگی اقدامات کی تعبیر اسی وعدۂ الٰہی کی روشنی میں کرتے اور ان میں کامیابی کو اللہ کی طرف سے فتح ونصرت کے وعدے کی بنا پر یقینی خیال کرتے تھے۔ چنانچہ اہل فارس کی طرف لشکر روانہ کرنے سے پہلے سیدنا عمر نے مسلمانوں سے خطاب کیا اور فرمایا:
ان الحجاز لیس لکم بدار الا علی النجعۃ ولا یقوی علیہ اہلہ الا بذلک این الطراء المہاجرون عن موعود اللہ سیروا فی الارض التی وعدکم اللہ فی الکتاب ان یورثکموہا فانہ قال لیظہرہ علی الدین کلہ واللہ مظہر دینہ ومعز ناصرہ ومولی اہلہ مواریث الامم این عباد اللہ الصالحون (طبری، ۳/۴۴۵)
’’حجاز تمہارا مستقر نہیں بن سکتا جب تک کہ تم وسائل معاش کی تلاش میں باہر نہ نکلو۔ اہل حجاز کے یہاں رہنے کا اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ کہاں ہیں وہ لوگ جو اللہ کے وعدے کو حاصل کرنے کے لیے اپنا وطن چھوڑ کر پردیسی بننا چاہتے ہیں؟ اس سرزمین میں گھس جاؤ جس کی ملکیت کا وعدہ اللہ نے تمہارے ساتھ اپنی کتاب میں کیا ہے۔ اس نے فرمایا ہے کہ وہ اپنے دین کو دوسرے تمام دینوں پر غالب کر دے گا۔ اور اللہ یقیناًاپنے دین کو غالب اور اس کے ماننے والوں کو سرفراز کرے گا اور اس کے پیروکاروں کو قوموں کی سلطنتیں عنایت کرے گا۔ اللہ کے نیک بندے کہاں ہیں؟‘‘
یرموک کے معرکے کے موقع پر معاذ بن جبل نے مسلمانوں کو اسی وعدہ الٰہی کی یاد دہانی کرائی:
الم تسمعوا لقول اللہ وعد اللہ الذین آمنوا منکم وعملوا الصالحات لیستخلفنہم فی الارض کما استخلف الذین من قبلہم فاستحیوا رحمکم اللہ من ربکم ان یراکم فرارا من عدوکم (ابن کثیر، البدایہ والنہایہ ۷/۸، ۹)
’’کیا تم نے اللہ کا یہ ارشاد نہیں سنا کہ: وعد اللہ الذین آمنوا منکم وعملوا الصالحات لیستخلفنہم فی الارض کما استخلف الذین من قبلہم۔ اس لیے اللہ تم پررحم کرے، اس بات پر اللہ سے حیا کرنا کہ وہ تمھیں تمھارے دشمن کے سامنے سے فرار ہوتا ہوا دیکھے۔‘‘
سعد بن ابی وقاص نے ایک موقع پر لشکر سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
ان اللہ ہو الحق لا شریک لہ فی الملک ولیس لقولہ خلف قال اللہ جل ثناؤہ ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثہا عبادی الصالحون ان ہذا میراثکم وموعود ربکم وقد اباحہا لکم منذ ثلاث حجج فانتم تطعمون منہا وتاکلون منہا وتقتلون اہلہا وتجبونہم وتسبونہم الی ہذا الیوم (طبری، ۳/۵۳۱)
’’بے شک اللہ ہی کی ذات حق ہے۔ کائنات کی پادشاہی میں اس کا کوئی شریک نہیں اور جو کچھ اس نے فرمایا، اس کے خلاف نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ’اور ہم نے (بنی اسرائیل کو) یاددہانی کرانے کے بعد زبور میں یہ بات لکھ دی تھی کہ اس سرزمین کی ملکیت اور وراثت میرے نیک بندوں کو ملے گی۔ سو یہ تمہاری ملکیت اور تمہارے ساتھ تمہارے رب کا وعدہ ہے۔ اس نے اس سرزمین کو تین سال سے تمہارے لیے مباح کر رکھا ہے ۔ پس تم آج کے دن تک اس میں سے کھلا بھی رہے ہو، خود بھی مستفید ہو رہے ہو، یہاں کے لوگوں سے ٹیکس بھی وصول کر رہے ہو اور انھیں قیدی بھی بنا رہے ہو۔‘‘
صحابہ کو اس بات کا بھی پورا احساس تھا کہ ان کی کامیابی کا دارومدار قلت وکثرت اور مادی اسباب ووسائل پر نہیں، بلکہ دین حق کے ساتھ ان کی وابستگی اور صبر واستقامت پر ہے۔ چنانچہ سیدنا ابوبکر نے شام کے محاذ پر اپنی افوا ج کو لکھا:
انتم انصار اللہ واللہ ناصر من نصرہ وخاذل من کفرہ ولن یوتی مثلکم عن قلۃ ولکن من تلقاء الذنوب فاحترسوا منہا (البدایہ والنہایہ ۷/۵)
’’تم اللہ کے مددگار ہو اور جو اللہ کی مدد کرے، اللہ اس کی مدد کرتا ہے اور جو اس کا انکار کرے، اسے تنہا چھوڑ دیتا ہے۔ تمھارے جیسا گروہ کبھی تعداد کے کم ہونے کی وجہ سے مغلوب نہیں ہوگا، بلکہ صرف گناہوں کی وجہ سے شکست کھائے گا، اس لیے گناہوں سے بچتے رہو۔‘‘
عمرو بن العاص نے یرموک کے موقع پر اسلامی لشکر سے کہا:
لقد سمعت ان المسلمین سیفتحونہا کفرا کفرا وقصرا قصرا فلا یہولنکم جموعہم ولا عددہم فانکم لو صدقتموہم الشد لتطایروا تطایر اولاد الحجل (البدایہ والنہایہ ۷/۱۰)
’’میں نے سنا ہے کہ مسلمان ان علاقوں کو ایک ایک بستی اور ایک ایک محل کر کے فتح کرتے رہیں گے، اس لیے دشمن کے بڑے بڑے لشکر اور ان کی تعداد تمھاری ہمت کو پست نہ کرنے پائے ، کیونکہ اگر تم دل جمعی سے ان پر حملہ کرو گے تو وہ یوں منتشر ہو کر بھاگیں گے جیسے چکور کے بچے بھاگتے ہیں۔‘‘
سیدنا علیؓ نے ایک موقع پر فرمایا:
ان ہذا الامر لم یکن نصرہ ولا خذلانہ بکثرۃ ولا قلۃ ہو دینہ الذی اظہر وجندہ الذی اعزہ وامدہ بالملائکۃ حتی بلغ ما بلغ فنحن علی موعود من اللہ واللہ منجز وعدہ وناصر جندہ (البدایہ والنہایہ ۷/۱۰۷)
’’اس دین کی فتح یا شکست کا مدار تعداد کی کثرت یا قلت پر نہیں۔ یہ اللہ کا دین ہے جس کو اس نے غالب کا ہے اور اللہ کا لشکر ہے جس کی تائید اور نصرت اس نے فرشتوں کے ذریعے سے کی ہے یہاں تک کہ یہ اس عروج کو پہنچ گیا ہے۔ ہم اللہ کے وعدے کے سہارے پر لڑتے ہیں اور اللہ اپنے وعدے کو پورا کرنے والا اور اپنے لشکر کی مدد کرنے والا ہے۔‘‘
صحابہ کفار کے ساتھ ان معرکوں میں اپنی نصرت وکامیابی کو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظاہر کردہ ان خاص واقعات کا نمونہ سمجھتے تھے جو اللہ تعالیٰ اپنی دینونت کے اظہار کے لیے وقتاً فوقتاً دنیا میں رونما فرماتا رہتا ہے:
معرکہ یرموک کے موقع پر خالد بن ولید نے اپنے لشکر سے کہا:
ان ہذا یوم من ایام اللہ لا ینبغی فیہ الفخر ولا البغی اخلصوا جہادکم واریدوا اللہ بعملکم (البدایہ والنہایہ ۷/۷)
’’یہ اللہ (کے فیصلوں کے ظہور) کے دنوں میں سے ایک دن ہے۔ اس میں نے نہ فخر کا اظہار مناسب ہے اور نہ سرکشی۔ اپنے جہاد کو خالص رکھو اور اپنے عمل سے اللہ کی رضا حاصل کرنے کی نیت رکھو۔‘‘
اسی موقع پر ابو سفیان نے لشکر سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
اللہ اللہ انکم دارۃ العرب وانصار الاسلام وانہم دارۃ الروم وانصار الشرک اللہم ان ہذا یوم من ایامک اللہم انزل نصرک علی عبادک (البدایہ والنہایہ ۷/۹)
’’اللہ اللہ، تم اہل عرب اور اسلام کے مددگار ہو اور تمھارے دشمن رومی ہیں جو شرک کے مددگار ہیں۔ اے اللہ، یہ تیرے (فیصلے ظاہر ہونے کے) دنوں میں سے ایک دن ہے۔ اے اللہ، اپنے بندوں پر اپنی مدد نازل فرما۔‘‘
ان فتوحات کو لوگوں کی نظر میں نصرت الٰہی کا نشان بنانے کے حوالے سے صحابہ کی حساسیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سیدنا عمرؓ نے اس کے برعکس تاثر کی نفی کے لیے خالد بن ولید جیسے بلند پایہ جرنیل کو امارت سے معزول کر دیا۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا:
انی لم اعزل خالدا عن سخطۃ ولا خیانۃ ولکن الناس فتنوا بہ فاحببت ان یعلموا ان اللہ ہو الصانع (البدایہ والنہایہ ۷/۸۱)
’’میں نے خالد کو کسی بات پر ناراض ہو کر یا اس کی کسی خیانت کی وجہ سے معزول نہیں کیا، بلکہ لوگ اس کی (بہادری اور جنگی مہارت کے) دھوکے میں مبتلا ہو گئے تھے، اس لیے میں نے پسند کیا کہ لوگ جان لیں کہ کامیابی دلانے والی ذات اللہ ہی کی ہے۔‘‘
صحابہ کی ان کی فتوحات اور کامیابیوں کے پیچھے نصرت الٰہی کا یہ عامل ان کے دشمنوں پر بھی پوری طرح واضح تھا اور وہ اسے تسلیم کرتے تھے۔ چنانچہ اجنادین کے معرکہ سے پہلے رومی لشکر کے امیر قیقلان نے صحابہ کے حالات کو جانچنے کے لیے ایک آدمی بھیجا جس نے واپس آ کر اسے بتایا کہ:
وجدت قوما رہبانا باللیل فرسانا بالنہار واللہ لو سرق فیہم ابن ملکہم لقطعوہ او زنی لرجموہ فقال لہ القیقلان واللہ لئن کنت صادقا لبطن الارض خیر من ظہرہا (البدایہ والنہایہ ۷/۷)
’’میں نے ایسی قوم دیکھی ہے جو رات کو راہب بن جاتے ہیں اور دن کو گھڑ سوار۔ بخدا، اگر ان کے بادشاہ کا بیٹا بھی چوری کرے گا تو وہ اس کا ہاتھ کاٹ دیں گے اور اگر بدکاری کرے گا تو اسے سنگسار کر دیں گے۔ قیقلان نے کہا کہ بخدا اگر تم سچ کہہ رہے ہو تو (ان سے لڑنے کے بجائے) زمین کا پیٹ اس کی پشت سے بہتر ہے۔‘‘
ہرقل نے صحابہ کے مقابلے میں رومی لشکر کے شکست کھانے کے بعد اس کے اسباب پر غور کیا۔ اس نے اپنے لشکر سے پوچھا کہ کیا مسلمان تمہارے جیسے ہی انسان نہیں ہیں؟ انہوں نے کہا، ہمارے ہی جیسے ہیں۔ ہرقل نے کہا کہ تعداد ان کی زیادہ ہے یا تمہاری؟ انھوں نے کہا کہ ہر معرکے میں ہماری تعداد ان سے کئی گنا زیادہ تھی۔ اس نے پوچھا کہ پھر تم شکست کیوں کھا جاتے ہو؟ اس پر ایک بزرگ سردار نے کہا:
من اجل انہم یقومون اللیل ویصومون النہار ویوفون بالعہد ویامرون بالمعروف وینہون عن المنکر ویتناصفون بینہم ومن اجل انا نشرب الخمر ونزنی ونرکب الحرام وننقض العہد ونغصب ونظلم ونامر بالسخط وننہی عما یرضی اللہ ونفسد فی الارض فقال انت صدقتنی (البدایہ والنہایہ ۷/۱۵)
’’اس لیے کہ وہ راتوں کو قیام کرتے اور دن کو روزے رکھتے ہیں۔ وہ عہد کو پورا کرتے، نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں اور آپس میں انصاف سے کام لیتے ہیں۔ اور ہم شراب پیتے، بدکاری کرتے، حرام کا ارتکاب کرتے، عہد توڑتے، غصب اور ظلم کرتے، اللہ کو ناراض کرنے والی باتوں کا حکم دیتے اور اس کو راضی کرنے والے کاموں سے منع کرتے اور زمین میں فساد کرتے ہیں۔ ہرقل نے کہا: تم نے مجھے درست وجہ بتائی ہے۔‘‘
فارسی سپہ سالار ہرمزان نے بھی سیدنا عمرؓ کے سامنے اپنی شکست کی وجہ یہی بیان کی اور کہا:
یا عمر انا وایاکم فی الجاہلیۃ کان اللہ قد خلی بیننا وبینکم فغلبناکم اذ لم یکن معنا ولا معکم فلما کان معکم غلبتمونا (البدایہ والنہایہ ۷/۸۷۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۵۲۴۹)
’’اے عمر، جاہلیت کے دور میں اللہ ہمارے اور تمھارے مابین کوئی مداخلت نہیں کرتا تھا۔ سو چونکہ وہ نہ تمھارے ساتھ تھا اور نہ ہمارے ساتھ، اس لیے ہم تم پر غالب تھے۔ پھر جب وہ تمھارے ساتھ ہو گیا تو تم ہم پر غالب آ گئے ہو۔‘‘
دوسری روایت کے مطابق اس نے کہا:
کنا نحن وانتم فی الجاہلیۃ لم یکن لنا ولا لکم دین فکنا نعدکم معشر العرب بمنزلۃ الکلاب فاذا اعزکم اللہ بالدین وبعث رسولہ منکم لم نطعکم (سرخسی، شرح السیر الکبیر، ۱/۲۶۳)
’’جاہلیت کے دور میں نہ ہمارا کوئی دین تھا نہ اور نہ تمھارا، سو اے قوم عرب، ہم تمھیں کتوں کے برابر شمار کرتے تھے۔ پھر جب اللہ نے اپنے دین کے ذریعے تمھیں عزت دی اور اپنا رسول تم میں سے مبعوث کیا تو ہم نے تمھاری اطاعت نہ کی۔‘‘
ایرانی سردار سیاہ نے ایک موقع پر اپنے ساتھیوں سے کہا:
ان ہولاء بعد الشقاء والذلۃ ملکوا اماکن الملوک الاقدمین ولا یلقون جندا الا کسروہ واللہ ما ہذا عن باطل ودخل فی قلبہ الاسلام وعظمتہ (البدایہ والنہایہ ۷/۸۹)
’’یہ لوگ اپنی بد حالی اور ذلت کے بعد اب پرانے بادشاہوں کی سلطنتوں کے مالک بن گئے ہیں اور جو بھی لشکر ان سے ٹکراتا ہے، یہ اسے پاش پاش کر دیتے ہیں۔ بخدا اگر یہ باطل پر ہوتے تو انھیں یہ سرفرازی نہ ملتی۔ اس کے دل میں اسلام کا دبدبہ اور عظمت جاگزیں ہو گئی۔‘‘

حاصل بحث

نبی صلی اللہ علیہ وسلم عام معنوں میں کوئی داعی، واعظ اور مبلغ نہیں تھے، بلکہ خدا کے آخری پیغمبر تھے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو اور آپ پر ایمان لانے والے صحابہ کو ’شہادت علی الناس‘ کے منصب پر فائز کیا گیا تھا اور حق وباطل کے امتیاز کو علیٰ رؤوس الاشہاد واضح کر دینے کے لیے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ مخالفین کی تمام کوششوں، کاوشوں اور سازشوں کے علی الرغم آپ کا دین ان سب پر غالب آ کر رہے گا:
ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ (التوبہ ۹:۳۳)
’’وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے تاکہ اسے سب دینوں پر غالب کر دے، چاہے مشرک اس بات کو کتنا ہی ناپسند کرتے رہیں۔‘‘
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا مِنکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُم فِیْ الْأَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِیْ ارْتَضَی لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُم مِّن بَعْدِ خَوْفِہِمْ أَمْناً یَعْبُدُونَنِیْ لَا یُشْرِکُونَ بِیْ شَیْْئاً وَمَن کَفَرَ بَعْدَ ذَلِکَ فَأُوْلَءِکَ ہُمُ الْفَاسِقُونَ (النور ۲۴:۵۵)
’’اللہ نے تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے، وعدہ کیا ہے کہ وہ ہرحال میں انھیں اس سرزمین میں اسی طرح اقتدار عطا کرے گا جیسے ان سے پہلے لوگوں کو عطا کیا اور ان کے لیے ان کے دین کو لازماً مستحکم کر دے گا جسے اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے اور ان کے خوف کو یقیناًامن سے بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے اور کسی کو میرے ساتھ شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور جو اس کے بعد بھی انکار کریں تو وہی بدکار ہیں۔‘‘
یہ ایک وعدۂ الٰہی تھا جو تاریخ کی پوری روشنی میں نہایت شان کے ساتھ ظہور پذیر ہوا اور اس نے رہتی دنیا تک نبی عربی کے دعواے نبوت کی صداقت کو تاریخ کے صفحات پر ثبت کر دیا۔ ابن قیم نے، دیکھیے، اس استدلال کو کس شان سے واضح کیا ہے:
’’ایک مسیحی عالم کے ساتھ میرا مناظرہ ہوا۔ دوران گفتگو میں، میں نے اس سے کہا: تم ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر اعتراض نہیں کر سکتے جب تک کہ خود خدا کی ذات پر اعتراض نہ کرو اور عظیم ترین ظلم، حماقت اور فساد کی نسبت اس کی طرف نہ کرو۔ اس نے کہا: یہ بات کیسے لازم آتی ہے؟ میں نے کہا: اس سے بھی بڑھ کر، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کرنے کے لیے تمھیں خود خدا کے وجود ہی کا انکار کرنا پڑے گا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر محمد، جیسا کہ تم کہتے ہو، سچے نبی نہیں تھے بلکہ ایک ظالم بادشاہ تھے تو دیکھو انھیں اس کا پورا موقع ملا کہ وہ خدا پر افترا کریں اور ان باتوں کی نسبت خدا کی طرف کریں جو خدا نے نہیں کہیں۔ پھر یہ موقع انھیں مسلسل حاصل رہا اور مسلسل حلال وحرام کے فیصلے کرتے رہے، فرائض مقرر کرتے اور احکام شریعت متعین کرتے رہے، سابقہ ملتوں کو منسوخ کرتے رہے، اور انبیاء سابقین کے پیروکاروں کو قتل کرتے اور ان کی گردنیں مارتے رہے، ان کی کی عورتوں اور بچوں کو قیدی بناتے رہے اور ان کے اموال اور دیار کو بطور غنیمت حاصل کرتے رہے، حالانکہ وہ اہل حق تھے، اور اس میں یہاں تک گئے کہ ساری سرزمین عرب فتح کر لی۔ وہ یہ سارے کام یہ کہہ کر کرتے رہے کہ انھیں اللہ نے اس کا حکم دیا ہے اور خدا کو ان سے محبت تھے۔ اور اللہ تعالیٰ ان کو دیکھتے رہے اور یہ بھی کہ وہ اہل حق اور رسولوں کے پیروکاروں کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں۔ محمد خدا کی طرف ۲۳ سال تک اس جھوٹ کی نسبت کرتے رہے اور اللہ اس سب کے باوجود ان کی تائید ونصرت کرتا رہا، ان کے امر کو غالب کرتا رہا اور مدد کے وہ اسباب انھیں فراہم کرتا رہا جو انسانی طاقت سے باہر ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر عجیب بات یہ ہے کہ وہ ان کی دعاؤں کو قبول کرتا اور ان کے دشمنوں کو، ان کی طرف سے کوئی کارروائی کیے بغیر، ہلاک کرتا رہا۔ کبھی پیغمبر کی دعا کے نتیجے میں اور کبھی آپ کی دعا کے بغیر ہی ازخود ان کا قلع قمع کرتا رہا۔ اس کے باوجود خدا محمد کی ہر اس حاجت کو پورا کرتا رہا جو انھوں نے اس سے مانگی، ان سے اچھے اچھے وعدے کرتا رہا اور پھر ان وعدوں کو اس کامل، اعلیٰ اور بہترین طریقے سے پورا کرتا رہا جس میں کسی وعدے کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ اب یہ سب کچھ ہوا، جبکہ تمہارے بقول محمد نے انتہا درجے کے جھوٹ، افترا اور ظلم سے کام لیا، کیونکہ جو شخص خدا پر جھوٹ باندھے اور مسلسل باندھتا رہے، اس سے بڑا جھوٹا کوئی نہیں ہو سکتا، اور جو شخص اللہ کے نبیوں اور رسولوں کی شریعتوں کو باطل کر دے، ان کو زمین سے ختم کر دے اور ان کی جگہ اپنی مرضی کی شریعت لے آئے، اور اللہ کے اولیاء اور جماعت اور اس کے رسولوں کے پیروکاروں کو قتل کرے، اس سے بڑا ظالم کوئی نہیں ہو سکتا۔ اس سارے کام میں خدا کی نصرت محمد کو مسلسل حاصل رہی اور خدا ان سب کاموں کو برقرار رکھتا رہا۔ اس نے نہ ان کا ہاتھ پکڑا اور نہ ان کی گردن کاٹی، جبکہ وہ خود اپنے رب کی طرف سے یہ وحی بیان کرتا رہا کہ ’’اس سے بڑا ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا یہ کہے کہ مجھ پر وحی آئی ہے، حالانکہ اس کی طرف کوئی وحی نہ آئی ہو، اور جو کہے کہ میں بھی اس طرح کا کلام اتاروں گا جیسا کہ خدا نے اتارا۔‘‘ 
اب تمھیں، جو محمد کو جھوٹا کہتے ہو، دو باتوں میں سے ایک بات ماننی پڑے گی: 
یا تو یہ کہو کہ دنیا کا نہ کوئی خالق ہے اور نہ پروردگار، کیونکہ اگر دنیا کا کوئی صاحب قدرت وحکمت صانع اور مدبر ہوتا تو وہ اس جھوٹے پیغمبر کا ہاتھ پکڑ لیتا اور اس کا سخت مقابلہ کرتا اور اس کو ظالموں کے لیے ایک نمونہ عبرت بنا دیتا، اس لیے کہ جب دنیا کے بادشاہوں کے شایان شان یہی ہے تو زمین وآسمان کے رب اور احکم الحاکمین کے لیے کیوں نہیں؟
اور یا پھر خدا کی طرف ایسے اوصاف کی نسبت کرو جو ا س کے شایان شان نہیں، مثلاً ناانصافی، حماقت ، ظلم، مخلوق کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گمراہ کرنا، بلکہ ایک جھوٹے کی نصرت کرنا اور اس کو زمین میں اقتدار عطا کرنا، اس کی دعاؤں کو قبول کرنا، اس کی وفات کے بعد بھی اس کے امر کو قائم رکھنا، اور ا س کے کلمہ کو ہمیشہ غالب رکھنا، اس کی دعوت کو اور نسل در نسل علیٰ رؤوس الاشہاد ہر مجمع اور مجلس میں اس کی نبوت کی گواہی کو ظاہر کرنا۔ کیا یہ کام احکم الحاکمین اور ارحم الراحمین کا ہو سکتا ہے؟ پس تم نے محمد کی نبوت کا انکار کر کے خود رب العالمین کی ذات میں بہت بڑا عیب نکالا ہے اور اس پر شدید اعتراض کیا ہے بلکہ اس کے وجود کا بالکلیہ انکار کر دیا ہے۔
ہمیں اس سے انکار نہیں کہ دنیا میں بہت سے جھوٹے نمودار ہوئے، انھیں کچھ قوت وشوکت بھی ملی، لیکن انھیں اپنا مشن پورا کرنے کا موقع نہیں ملا اور نہ زیادہ مہلت ملی، بلکہ اللہ نے اپنے رسولوں اور ان کے پیروکاروں کو ان پر غالب کر دیا جنھوں نے اس کا نام ونشان مٹا دیا اور اس کی جڑ کاٹ دی اور اس کا مٹھ مار دیا۔ جب سے دنیا قائم ہے، خدا کا یہی طریقہ چلا آ رہا ہے یہاں تک کہ وہ اس زمین اور اس کے باسیوں کا وارث بن جائے۔
جب اس نے میری یہ بات سنی تو کہنے لگا: اس بات سے خدا کی پناہ کہ ہم محمد کو ظالم یا جھوٹا کہیں، بلکہ سب منصف مزاج اہل کتاب یہ مانتے ہیں کہ جو شخص محمد کے طریقے پر چلے اور ان کی پیروی کرے، وہ آخرت میں اہل نجات اور اہل سعادت میں سے ہوگا۔ میں نے کہا : لیکن جس کو تم جھوٹا کہتے ہو، کیا اس کے طریقے اور نقش قدم پر چلنے والا اہل نجات اور اہل سعادت میں سے ہو سکتا ہے؟ اب اسے یہ تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہ رہا کہ محمد اللہ کے رسول تھے، لیکن اس نے کہا کہ وہ ہماری طرف مبعوث نہیں کیے گئے۔ میں نے کہا: تمھیں اس بات کی تصدیق بھی کرنی پڑے گی کیونکہ محمد کا یہ دعویٰ تواتر سے ثابت ہے کہ میں رب العالمین کی طرف سے دنیا کے تمام لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں، چاہے وہ اہل کتاب ہوں یا امی۔ اور آپ نے اہل کتاب کو بھی اپنے دین کی دعوت دی اور ان میں سے جنھوں نے آپ کے دین کو قبول نہیں کیا، آپ نے ان کے ساتھ قتال کیا یہاں تک کہ وہ ذلت کے ساتھ جزیہ دینے پر آمادہ ہو گئے۔ 
’’اس پر وہ کافر لاجواب ہو گیا اور فوراً وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔‘‘ (زاد المعاد، ۶۲۵، ۶۲۶)
خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عرب کے یہود نے آپ کی رسالت کے انکار کی مجال نہ پا کر یہی دوغلا موقف اختیار کیا تھا کہ آپ اللہ کے نبی تو ہیں لیکن آپ کی نبوت ورسالت پر ایمان لانا صرف عرب کے امیوں پر لازم ہے جبکہ اہل کتاب اس سے مستثنیٰ ہیں۔ بعد کے ادوار میں عرب اور عراق کے نصاریٰ بھی بالعموم اسی موقف کے قائل رہے۔ (سرخسی، شرح السیر الکبیر، ۱/۱۵۱، ۱۵۲۔ ابو اللیث السمرقندی، فتاویٰ النوازل، ص ۲۰۸۔ ابن تیمیہ، مجموع الفتاویٰ، ۲۸/۶۲۶) تاہم مغربی کلیسا نے مغربی عوام کی ناواقفیت اور جہالت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حقائق کو مسخ کرنے کی روش اپنائی اور اسلام اور پیغمبر اسلام کی ایسی تصویر کشی کی جس کے نتیجے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا پیغمبر تو کجا، ایک شریف اور مہذب انسان ماننا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ زمانے کی گردش نے علم اور معلومات کے تبادلے میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا اور اسلام کی تاریخ اہل مغرب کے لیے بھی روشنی میں آ گئی تو اسلام کے خلاف مغرب کے اجتماعی لاشعور میں موجود تعصب نے ایک علمی رنگ اختیار کر لیا۔ مطالعہ اسلام اور مطالعہ سیرت کے حوالے سے استشراق کی ساری تحریک کا ہدف دو لفظوں میں بیان کیجیے تو وہ یہ ہے کہ اسلام کے دور اول کی تاریخ کی مذہبی اور پیغمبرانہ تعبیر کو اس کی علمی واستدلالی بنیادوں سے محروم کر کے پیغمبر اسلام کو دنیا کے عام سیاسی مدبرین اور قومی قائدین کی صف میں لا کھڑا کیا جائے اور ان کی سرگزشت کی توجیہ نفسیات، عمرانیات اور تاریخ کے عام اصولوں کے تحت کی جائے۔ چنانچہ اس وقت پوری مغربی اسکالر شپ یا تو اس دور کے تاریخی ریکارڈ کو ہی، جو قرآن مجید، حدیث اور سیرت کے ذخیروں میں محفوظ ہے، سرے سے غیر مستند قرار دینے پر مصر ہے اور یا اس ذخیرے کو اصولاً قابل استدلال مان کر اس میں غیر معمولی طور پر نمایاں مذہبی عنصر کی توجیہ یہ کرتی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش نظر مقصد کے لیے مذہب کو محض ایک مفید نفسیاتی اور جذباتی وسیلے کے طور پر استعمال کیا اور یہ کہ وہ بلند پایہ قائد اور مدبر تھے اور ان کو حاصل ہونے والی کامیابی سراسر ان کی اعلیٰ حکمت عملی اور حکیمانہ تدبیروں کا نتیجہ تھی۔ 
یہ زاویہ نگاہ اہل مغرب کی تو مجبوری ہے، اس لیے کہ اس کے بغیر وہ پیغمبر اسلام کے دعواے نبوت کے حق میں تاریخ کی سب سے بڑی شہادت کا سامنا نہیں کر سکتے، لیکن افسوس یہ ہے کہ تاریخ کے اس نازک دور میں، جب سیرت نبوی کے اس پہلو کو زیادہ قوت اور زیادہ واضح استدلال کے ساتھ نمایاں کرنے کی ضرورت تھی، مسلم اسکالر شپ نے اہل مغرب کے پراپیگنڈا سے مرعوب ہو کر کم وبیش اجتماعی طور پر ذہنی پسپائی کا رویہ اختیار کر لیا، چنانچہ گزشتہ ڈیڑھ صدی سے عرب وعجم کے نامی گرامی اہل علم عہد نبوی اور عہد صحابہ کے واقعات کی تعبیر نو میں مصروف ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کا جہاد محض ’دفاعی‘ نوعیت کا تھا یا اس کا مقصد مخالفین کے فتنہ وفساد کو رفع کرنا تھا اور کفر و اسلام کی کشمکش سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔
اس ضمن میں دور از کار تاویلات کے ایسے ایسے نمونے پیش کیے گئے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ مثلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: ’امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوا لا الہ الا اللہ‘ (بخاری، رقم ۲۷۲۷) کو ’دفاعی جہاد‘ کے دائرے میں لانے کے لیے ایک تاویل یہ کی گئی ہے کہ ’اقاتل‘ کا لفظ ہی یہ بتاتا ہے کہ اس حدیث میں ازخود جنگ کا اقدام کرنے کا نہیں بلکہ جنگ کا اقدام کرنے والے کفار کے خلاف لڑنے کا ذکر ہے۔ الدکتور سعید رمضان البوطی لکھتے ہیں:
’’اقاتل کا لفظ افاعل کے وزن پر ہے اور جانبین کے اس فعل میں شریک ہونے پر دلالت کرتا ہے، چنانچہ یہ لفظ اسی وقت بولا جا سکتا ہے جبکہ دونوں جانبوں سے لڑائی کی جا رہی ہو، بلکہ درحقیقت اس کا اطلاق ہوتا ہی اس صور ت میں ہے جب کوئی شخص اس آدمی کے مد مقابل آئے جس نے اس کو قتل کرنے کا ارادہ کیا۔ ’مقاتل‘ کہتے ہی اس شخص کو ہیں جو زیادتی کا آغاز کرنے والا کا مقابلہ کرے۔ جو شخص لڑائی کا آغاز کرتا ہے، اس کو تو ’مقاتل‘ کہا ہی نہیں جا سکتا، بلکہ اس کو ’قاتل‘ کہا جاتا ہے جس نے یا تو قتل کے ارادے سے حملہ کیا یا بالفعل کسی کو قتل کر دیا۔ فعل میں اشتراک کا مفہوم اس وقت تک پیدا ہی نہیں ہوتا جب تک کہ دوسرا فریق مقابلہ اور دفاع کے لیے اٹھ نہ کھڑا ہو۔‘‘
حالانکہ عربی زبان کی معمولی شدبد رکھنے والا شخص بھی یہ جانتا ہے کہ اس میں ’قَاتَلَ‘ کا فعل جس طرح جوابی اقدام کے لیے آتا ہے، اسی طرح جنگ کا آغاز کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ قرآن وحدیث میں اس استعمال کی ان گنت مثالیں موجود ہیں، مثلاً: فان قاتلوکم فاقتلوھم (البقرہ ۲:۱۹۱)، ولو قاتلکم الذین کفروا لولوا الادبار (الفتح ۴۸:۲۲)، انما ینہاکم اللہ عن الذین قاتلوکم فی الدین (الممتحنہ ۶۰:۹)۔
ان تمام مواقع پر دیکھ لیجیے، کفار کی طرف سے جنگ کی ابتدا کو بیان کرنے کے لیے یہی باب مفاعلہ استعمال ہوا ہے۔ علاوہ ازیں یہ سوال الگ جواب طلب ہے اگر اس حدیث میں دفاعی جنگ ہی کا بیان ہے تو اس کی غایت قبول اسلام کیوں متعین کی گئی ہے اور یہ کہنے پر کیوں اکتفا نہیں کی گئی کہ ’’جب تک کفار فتنہ وفساد سے باز نہ آجائیں؟‘‘
اسی روایت کی ایک اور تاویل یہ کی گئی ہے کہ اس کا تعلق عین حالت جنگ سے ہے اور مراد یہ ہے کہ اگر جنگ کے دوران کوئی کافر کلمہ پڑھ لے تو اس کے خلاف لڑائی روک دی جائے۔ مولانا شمس الحق افغانی لکھتے ہیں:
’’غلط فہمی اس حدیث کے عدم فہم سے واقع ہوئی جس میں ارشاد ہے: امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوا لا الہ الا اللہ فاذا قالوہا عصموا منی دماء ہم واموالہم (ترجمہ) ’’میں مامور ہوں کہ لوگوں سے لڑوں اس وقت تک کہ توحید کا اعتراف کریں۔ جب یہ اعتراف کریں تو میری طرف سے ان کی جان ومال محفوظ ہووے‘‘۔ اس سے مستشرقین نے یہ غلط نظریہ جمایا کہ مسلمان تلوار ہاتھ میں گھماتا ہے اور کافر سے یہ کہتا ہے کہ اسلام لاؤ ورنہ تمہارے لیے تلوار ہے۔ ہم آیات واحادیث سے اس کی تردید کر چکے ہیں۔ حدیث مذکور کا تعلق میدان جنگ سے ہے کہ جب عین دوران جنگ میں کوئی کافر لاالہ الا اللہ کہہ دے تو رک جاؤ اور اس سے مت لڑو، اگرچہ جان بچانے کے لیے کہے اور دل سے نہ کہے۔‘‘ (مقالات افغانی، ۱/۷۷، ۷۸)
تاہم یہ بھی ایک بالکل بے معنی تاویل ہے جس کو حدیث کا اسلوب بیان قبول کرنے سے صاف انکار کرتا ہے۔ اس میں غیر مبہم طریقے سے قتال کو اللہ کا حکم اور قبول اسلام کو اس کی غایت قرار دیا گیا ہے۔ اگر وہی بات کہنا پیش نظر ہوتی جو مذکورہ تاویل میں کہی گئی ہے تو الفاظ غالباً یہ ہوتے: ’امرت ان لا اقتل من قال لا الہ الا اللہ‘ (مجھے حکم دیا گیا ہے کہ جو لا الٰہ الا اللہ کہہ دے، اسے قتل نہ کروں) ۔ علاوہ ازیں یہ توجیہ کرتے ہوئے روایت کے پورے متن کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ پوری حدیث یوں ہے:
امرت ان اقاتل الناس حتی یشہدوا ان لا الہ الا اللہ وان محمدا رسول اللہ ویقیموا الصلاۃ ویوتوا الزکاۃ فاذا فعلوا ذلک عصموا منی دماء ہم واموالہم الا بحق الاسلام وحسابہم علی اللہ (بخاری، رقم ۲۴)
اب اس حکم کو حالت جنگ سے متعلق قرار دینے کی صورت میں ایک عجیب اور بے تکی بات بن جائے گی، کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میدان جنگ میں اس شخص کو قتل نہیں کیا جائے گا جو لا الہ الا اللہ کہہ دے، نماز ادا کرے اور زکوٰۃ دے دے۔ چونکہ قتل سے بچنا ان شرائط کے پورا کرنے پر موقوف ہے اور اس کا فیصلہ بھی فوری ہونا ہے، ا س لیے زیر بحث توجیہ کی رو سے یہ لازم ہوگا کہ اگر کوئی کافر عین میدان جنگ میں ’قتل‘ سے بچنا چاہتا ہے تو نہ صرف فوری طور پر کلمہ پڑھ لے، بلکہ نماز بھی ادا کرے اور زکوٰۃ بھی دے دے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک بالکل بے تکی اور غیر معقول بات ہے۔
ہماری رائے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے جہاد کو قرآن وسنت کے نصوص اور ذخیرۂ سیرت کی روشنی میں اس کے اصل تناظر میں سمجھا جائے اور معترضین کو مطمئن کرنے کی غرض سے کوئی رنگ آمیزی کیے بغیر اسے بے کم وکاست پیش کیا جائے۔ خاتمہ بحث کے طورپر یہاں مولانا مودودی کا ایک برمحل اقتباس درج کرنا مناسب دکھائی دیتا ہے:
’’میں اس طریقہ سے اصولی اختلاف رکھتا ہوں کہ ہم اپنے عقائد واصول کو دوسروں کے نقطہ نظر کے مطابق ڈھال کر پیش کریں۔ ..... زیادہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے دین کے عقائد اور احکام کو، اس کی تعلیمات اور اس کے قوانین کو ان کے اصلی رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کر دیں اور جو دلائل ہم ان کے حق میں رکھتے ہیں، انھیں بھی صاف صاف بیان کر دیں، پھر یہ بات خود لوگوں کی عقل پر چھوڑ دیں کہ خواہ وہ انھیں قبول کریں یا نہ کریں۔‘‘ (الجہاد فی الاسلام، ۱۶- ۱۷)

مخالف استدلالات کا جائزہ

گزشتہ صفحات میں ہم نے قرآن مجید اور حدیث وسیرت کی روشنی میں عہد نبوی میں جہاد وقتال کی نوعیت پر تفصیلی گفتگو کی ہے جو ہمیں اس نتیجے تک پہنچاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کا جہاد صرف دفاعی نہیں بلکہ جارحانہ اور اقدامی بھی تھا اور اس کا محرک صرف کفار کے فتنہ وفساد کا خاتمہ نہیں بلکہ ان کو دائرۂ اسلام میں لانا یا ان کو مغلوب کر کے ان پر اسلام اور اہل اسلام کی بالادستی قائم کرنا بھی تھا۔ تاہم یہ بحث تشنہ رہے گی اگر ان استدلالات وشبہات کا سنجیدگی سے جائزہ نہ لیا جائے جو اس حوالے سے بالعموم پیش کیے جاتے ہیں۔ 

دفع فساد کے اصول پر نصوص کی توجیہ

زیر بحث نقطہ نظر کے حامل اہل علم اپنے اس موقف کے حق میں کہ قرآن میں قتال سے متعلق وارد ہونے والے احکام کی اساس منکرین حق کا کفر نہیں، بلکہ ان کا فتنہ وفساد تھا، قتال سے متعلق نصوص سے بعض داخلی شواہد پیش کرتے ہیں۔
اس ضمن پہلی اور اہم ترین نص سورۂ براءۃ کی وہ آیات ہیں جن میں مشرکین کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ حکم جس سلسلہ بیان میں آیا ہے، وہ سورۂ براءۃ کی ابتدائی ۱۶ آیات میں پھیلا ہوا ہے۔ اس حکم سے متعلق آئندہ سطور میں کی جانے والی علمی بحث کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ پورا سلسلہ بیان اجمالاً پیش نظر رہے:
۱۔ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اس بات کا اعلان کر دیا جائے کہ مشرکین کے ساتھ کیے جانے والے تمام معاہدے اب کالعدم ہیں اور اس اعلان کے بعد انھیں فیصلہ کرنے کے لیے صرف چار ماہ کی مہلت حاصل ہوگی۔ (آیت ۱، ۲)
۲۔ حج اکبر کے دن مشرکین سے براء ت کے اعلان کی عام منادی کی جائے۔ (آیت ۳)
۳۔ جن مشرکین نے معاہدہ کرنے کے بعد نقض عہد نہیں کیا، ان کے ساتھ مقررہ مدت تک معاہدے کی پاسداری کی جائے۔ (آیت ۴)
۴۔ آیت ۱و۲ میں جن مشرکین سے معاہدے توڑنے کا اعلان کیا گیا اور انھیں چار ماہ کی مہلت دی گئی ہے، اشہر حرم گزرنے کے بعد وہ جہاں ملیں، انھیں قتل کر دیا جائے، الا یہ کہ وہ توبہ کر کے دائرۂ اسلام میں داخل ہو جائیں۔ (آیت ۱، ۲، ۵)
۵۔ اگر کوئی مشرک امان طلب کرے تو اسے امان دے دی جائے تاکہ وہ اللہ کا کلام سن سکے۔ پھر اس کو اس کے مامن تک پہنچا دیا جائے۔ (آیت ۶)
۶۔ مشرکین کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کی اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں، کیونکہ انھوں نے محض موقع پرستی کے جذبے کے تحت یہ معاہدے کیے ہیں اور جیسے ہی انھیں موقع ملے گا، یہ کسی عہد وپیمان کا لحاظ کیے بغیر مسلمانوں کے خلاف برسر پیکار ہو جائیں گے۔ اہل ایمان کے لیے ان کے ساتھ بھائی چارے کا تعلق قائم کرنے کی صورت بس یہی ہے کہ یہ کفر وشرک سے توبہ کر کے ایمان لے آئیں اور نماز وزکوٰۃ کا اہتمام کریں۔ البتہ مسجد حرام کے پاس جن مشرکین سے مسلمانوں نے معاہدہ کیا ہے، وہ جب تک معاہدے پر قائم رہیں، مسلمان بھی اس کی پاس داری کریں۔ (آیت ۷ ۔۱۰)
۷۔ جو مشرکین ابھی تک عہد پر قائم ہیں، اگر وہ نقض عہد کریں تو ان کے خلاف بھی قتال کیا جائے تاکہ اس کے ذریعے سے ان پر اللہ کا عذاب نازل ہو اور مسلمان اپنے انتقام کی آگ بجھا سکیں۔ (آیت ۱۱۔۱۵)
۸۔ نسبی تعلق داریوں اور قرابتوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے مشرکین کے خلاف جہاد کا حکم مسلمانوں کے لیے ایک امتحان اور آزمایش کی حیثیت رکھتا ہے جس پر سچے اہل ایمان کو لازماً پورا اترنا ہوگا۔ (آیت ۱۶)
مذکورہ سلسلہ بیان میں مرکز ومحور کی حیثیت آیت ۵ میں دیے جانے والے اس حکم کو حاصل ہے:
فَإِذَا انسَلَخَ الأَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْْثُ وَجَدتُّمُوہُمْ وَخُذُوہُمْ وَاحْصُرُوہُمْ وَاقْعُدُوا لَہُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلاَۃَ وَآتَوُا الزَّکَاۃَ فَخَلُّوا سَبِیْلَہُمْ إِنَّ اللّٰہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ (التوبہ: ۵)
’’پھر جب حرام مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ، قتل کر ڈالو اور ان کو پکڑو اور گھیرو اور ہر جگہ ان کی تاک میں بیٹھو۔ پھر اگر یہ شرک سے تائب ہو جائیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔ بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
روایتی تشریح کی رو سے یہ حکم کفر وایمان کے تناظر میں وارد ہوا ہے اور مشرکین کے لیے قتل کی سزا ان کے اسلام قبول نہ کرنے کے جرم کی پاداش میں بیان ہوئی ہے، لیکن زیر بحث نقطہ نظر کے مطابق اس حکم کی وجہ مشرکین کا ایمان نہ لانا نہیں بلکہ نقض عہد اور فتنہ وفساد پر مبنی ان کا رویہ تھا۔ اس استنباط کی تائید میں محولہ بالا آیات سے تین قرائن پیش کیے گئے ہیں:
ایک یہ کہ آیت ۴ میں مشرکین کے ان گروہوں کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے کی پابندی کا حکم دیا گیا ہے جنھوں نے معاہدہ کرنے کے بعد نہ خود مسلمانوں کے خلاف کوئی اقدام کیا ہے اور نہ کسی دوسرے فریق کی اس معاملے میں مدد کی ہے:
إِلاَّ الَّذِیْنَ عَاہَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ ثُمَّ لَمْ یَنقُصُوکُمْ شَیْْئاً وَلَمْ یُظَاہِرُوا عَلَیْْکُمْ أَحَداً فَأَتِمُّوا إِلَیْْہِمْ عَہْدَہُمْ إِلَی مُدَّتِہِمْ إِنَّ اللّہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ (براء ۃ: ۴)
’’البتہ جن مشرکین سے تم نے معاہدہ کیا اور اس کے بعد انھوں نے اس معاہدے کی کسی بات کی خلاف ورزی نہیں کی اور نہ تمہارے مقابلے میں کسی گروہ کے ساتھ تعاون کیا، ان کے ساتھ مقررہ مدت تک معاہدے کی پابندی کرو۔ بے شک اللہ عہد وپیمان کی پاس داری کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘
اسی طرح آگے آیت ۷ میں ’الا الذین عاہدتم عند المسجد الحرام فما استقاموا لکم فاستقیموا لہم‘ کے الفاظ میں دوبارہ اس کی تاکید کی گئی ہے کہ معاہدہ کرنے والے مشرکین جب تک اپنے معاہدے کی پاس داری کرتے رہیں، ان کے خلاف کوئی اقدام نہ کیا جائے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت ۱ میں جن مشرکین سے اعلان براء ت اور آیت ۵ میں انھیں قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے، وہ نقض عہد کے مرتکب ہوئے تھے اور اس کی سزا کے طور پرانھیں قتل کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ (سید مودودی، الجہاد فی الاسلام، ۶۷۔ شبلی نعمانی، سیرت النبی، ۱/۳۳۹)
دوسرا یہ کہ آیت ۶ میں اللہ تعالیٰ نے ان مشرکین کو امان دینے کی ہدایت کی ہے جو مسلمانوں سے اس کے طالب ہوں۔ چنانچہ فرمایا ہے:
وَإِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَأَجِرْہُ حَتَّی یَسْمَعَ کَلاَمَ اللّہِ ثُمَّ أَبْلِغْہُ مَأْمَنَہُ ذَلِکَ بِأَنَّہُمْ قَوْمٌ لاَّ یَعْلَمُونَ (آیت ۶)
’’اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص تم سے امان طلب کرے تو اس کو امان دے دو تاکہ وہ اللہ کا کلام سن لے۔ پھر اس کو اس کی امن کی جگہ پہنچا دو۔ یہ اس لیے کہ یہ ایسی قوم ہیں جو علم نہیں رکھتے۔‘‘
گویا اگر مشرکین کا کفر وشرک ان کو قتل کرنے کی وجہ ہوتا تو ظاہر ہے کہ امان طلب کرنے پر ان کو امان نہ دی جاتی۔
تیسرا یہ کہ آیت ۸، ۱۰ اور ۱۳ میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے ساتھ معاہدے توڑنے اور قتال کرنے کی یہ علت خود بیان فرمائی ہے کہ یہ معاہدوں کو توڑنے والے اور مسلمانوں کے مقابلے میں کسی رشتہ وپیمان کا لحاظ نہ کرنے والے ہیں۔ ارشاد ہے:
لاَ یَرْقُبُونَ فِیْ مُؤْمِنٍ إِلاًّ وَلاَ ذِمَّۃً وَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُعْتَدُونَ (براء ۃ: ۱۰)
’’یہ مشرکین کسی بھی مومن کے معاملے میں نہ کسی عہد کی پاس داری کرتے ہیں اور نہ کسی ذمہ کی اور یہی زیادتی کرنے والے ہیں۔‘‘
أَلاَ تُقَاتِلُونَ قَوْماً نَّکَثُواْ أَیْْمَانَہُمْ وَہَمُّواْ بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَہُم بَدَؤُوکُمْ أَوَّلَ مَرَّۃٍ (براء ۃ: ۱۳)
’’کیا تم اس قوم سے نہیں لڑو گے جنھوں نے اپنی قسمیں اور پیمان توڑ دیے اور رسول کو نکالنے کا ارادہ کیا اور انھوں نے ہی تمہارے خلاف جنگ کا آغاز کیا؟‘‘
(الدکتور محمد سعید رمضان البوطی، الجہاد فی الاسلام، ص ۵۵۔۵۸، ۹۸۔۱۰۰)
اس نقطہ نظر کے استدلال کی وضاحت کے بعد اب ہم اس کا تنقیدی جائزہ لیں گے۔
پہلے استدلال کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ چونکہ قرآن نے معاہدے کی پابندی کرنے والے مشرکین کے خلاف اقدام کی ممانعت کی ہے، اس لیے جن مشرکین کے خلاف اقدام کا حکم دیا گیا، اس کی وجہ اس کے سوا کوئی نہیں ہو سکتی کہ وہ معاہدات کو کوئی اہمیت نہ دیتے ہوئے فتنہ وفساد کی روش پر مصر تھے۔
یہ استدلال بظاہر وزنی دکھائی دیتا ہے، تاہم متعلقہ آیات پر غور کرنے سے اس کی کمزوری بالکل واضح ہو جاتی ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ سورہ براء ۃ کی ابتدائی آیات کا تدبر کی نگاہ سے مطالعہ کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ یہاں مشرکین سے اعلان براء ت کے دو الگ الگ مرحلوں کا ذکر ہوا ہے۔ پہلے مرحلے کا ذکر ’براءۃ من اللہ ورسولہ‘ کے الفاظ میں آیت ۱ میں ہوا ہے جبکہ دوسرے اور حتمی مرحلے کا ذکر آیت ۳ میں ’واذان من اللہ ورسولہ‘ کے الفاظ سے کیا گیا ہے۔ مفسرین نے چونکہ عام طور پر ان آیات کا زمانہ نزول ۹ ہجری کو قرار دیا ہے، اس لیے وہ اعلان براء ت کے ان دو الگ الگ مرحلوں کی طرف متوجہ نہیں ہو سکے اور نتیجتاً یہ سمجھ لیا گیا کہ ’واذان من اللہ ورسولہ‘ درحقیقت ’براءۃ من اللہ ورسولہ‘ ہی کا تکرار ہے۔ حالانکہ اول تو یہ دونوں حکم متصلاً ایک ہی مقام پر واو عطف کے ساتھ الگ الگ بیان ہوئے ہیں اور اس اسلوب کو محض تکرار پر محمول کرنا بے فائدہ دکھائی دیتا ہے۔ پھر یہ کہ دونوں حکموں میں مذکور قیود بھی اسی طرف راہنمائی کرتی ہیں کہ انھیں دو الگ الگ حکم سمجھا جائے۔ مثال کے طور پر پہلے حکم کا تعلق ’الذین عاہدتم من المشرکین‘ یعنی ان مخصوص مشرک قبائل سے ہے جن کے ساتھ مسلمانوں کا معاہدہ تھا، جبکہ دوسرا حکم عمومی طور پر ’الناس‘ یعنی جزیرہ عرب کے تمام لوگوں سے متعلق ہے۔ اسی طرح پہلے حکم میں اعلان براء ت کا ذکر کسی زمانی قید کے بغیر ہوا ہے جو اس کے فوری ابلاغ کا متقاضی ہے، جبکہ دوسرے اعلان براء ت کے بارے میں یہ ہدایت کی گئی ہے کہ اس کا اہتمام حج اکبر کے موقع پر کیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آیت ۳ میں حج اکبر کے دن جن مشرکین سے براء ت کا اور پھر آیت ۵ میں ان کے قتل عام کا حکم دیا گیا ہے، یہ وہ معاہد مشرکین نہیں جن کے ساتھ معاہدے توڑنے کا حکم پہلی آیت میں دیا گیا ہے، بلکہ ان سے مراد پورے جزیرۂ عرب کے مشرکین ہیں۔
اگر ہمارا یہ تجزیہ درست ہے تو پھر ’واذان من اللہ ورسولہ‘ کے حکم کی توجیہ دفع فساد یا نقض عہد کے اصول کی روشنی میں ہرگز نہیں کی جا سکتی، اس لیے کہ فتنہ وفساد کرنے والے گروہوں سے اعلان براء ت تو بہت عرصہ پہلے کیا جا چکا تھا اور حج اکبر کے موقع پر اسے اس اہتمام کے ساتھ دہرانے کی کوئی حکمت نہیں تھی۔ چنانچہ یہ دوسرا حکم لازماً کفر وایمان کے تناظر میں تھا۔ پھر چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس حکم کو پہلے حکم کے حتمی انجام کے طور پر یہاں بیان کیا ہے، اس لیے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ پہلے حکم کی علت اور وجہ بھی اصل میں نقض عہد نہیں بلکہ کفر وایمان کا مسئلہ ہے۔
ایک اور پہلو سے ان ہدایات کا جائزہ لیجیے:
قرآن نے مشرکین سے جو اعلان براء ت کیا ہے، اگر اس کی بنیادی وجہ نقض عہد کے اصول کو مانا جائے تو بظاہر دو صورتیں سامنے آتی ہیں:
ایک یہ کہ جن مشرکین سے اعلان براء ت کیا گیا، وہ بالفعل معاہدے کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو چکے تھے۔
دوسرے یہ کہ وہ بالفعل تو خلاف ورزی کے مرتکب نہیں ہوئے تھے، لیکن ان کی طرف سے اس کا اندیشہ محسوس کرتے ہوئے مسلمانوں کو پیشگی اعلان براء ت کرنے کا حکم دے دیا گیا۔
پہلی صورت کی نفی خود قرآن کے الفاظ سے ہو جاتی ہے، چنانچہ آیت ۱ کے الفاظ یہ ہیں: 
بَرَاءۃٌ مِّنَ اللّہِ وَرَسُولِہِ إِلَی الَّذِیْنَ عَاہَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِکِیْن
’’جن مشرکوں سے تم نے معاہدے کر رکھے ہیں، اللہ اور اس کا رسول کی طرف سے ان سے براء ت کا اعلان کیا جاتا ہے۔ ‘‘
الفاظ کی دلالت اس بات پر بالکل واضح ہے کہ معاہدہ توڑنے کا اقدام مشرکین کی طرف سے نہیں ہوا، بلکہ اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے کیا جا رہا ہے۔ جو لوگ بالفعل نقض عہد کے مرتکب ہوئے ہوں، ان کے نقض عہد کی بنیاد پر ان سے اعلان براء ت کرنے کے لیے یہ اسلوب بدیہی طورپر موزوں نہیں۔ یہ بات آئندہ آیات سے بھی واضح ہوتی ہے۔ چنانچہ آیت ۷،۸ میں مشرکین کے ساتھ معاہدے توڑنے کے فیصلے پر ایک اشکال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ:
کَیْْفَ یَکُونُ لِلْمُشْرِکِیْنَ عَہْدٌ عِندَ اللّہِ وَعِندَ رَسُولِہِ..... کَیْْفَ وَإِن یَظْہَرُوا عَلَیْْکُمْ لاَ یَرْقُبُواْ فِیْکُمْ إِلاًّ وَلاَ ذِمَّۃً یُرْضُونَکُم بِأَفْوَاہِہِمْ وَتَأْبَی قُلُوبُہُمْ وَأَکْثَرُہُمْ فَاسِقُونَ 
اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مشرکین بالفعل نقض عہد کے مرتکب نہیں ہوئے تھے، البتہ ان کا ذہنی رویہ اور رجحان یہی تھا کہ جیسے ہی انھیں مسلمانوں کو زک پہنچانے کا موقع ملے گا، وہ معاہدوں کو بالاے طاق رکھتے ہوئے ایسا کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔
اگر دوسری صورت کے مطابق یہ مانا جائے کہ ان مشرکین کے خلاف اقدام کی اصل وجہ ان کی طرف سے بالفعل نقض عہد نہیں بلکہ اس ضمن میں ان کے وہ ارادے اور عزائم تھے تو سورۂ براء ۃ کی زیر بحث آیات ہی کی روشنی میں اس چیز کو بھی اقدام کی وجہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نقض عہد کے ارادوں اور عزائم کے معاملے میں قریش کا معاملہ باقی مشرکین سے کسی طرح مختلف نہیں تھا، چنانچہ قرآن نے اسی تناظر میں آیت ۱۲ میں ان کے ذہنی رجحانات اور ارادوں کی نقاب کشائی بھی کر دی ہے۔ اس کے باوجود آیت ۷ میں اللہ تعالیٰ نے قریش کے بارے میں، جنھوں نے حدیبیہ کے مقام پر مسلمانوں کے ساتھ دس سال کا ناجنگ معاہدہ کیا تھا، یہ ہدایت کی ہے کہ جب تک وہ بالفعل اپنے معاہدے کو توڑ نہ دیں، مسلمان بھی اپنے معاہدے پر قائم رہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن مشرکین کے معاہدوں کو قرآن نے علی الفور ازخود کالعدم قرار دیا ہے، اس کی اصل وجہ ان کی طرف سے نقض عہد کے اندیشے کو قرار نہیں دیا جا سکتا۔ 
اعلان براءت کی اصل وجہ مشرکین کی طرف سے بالفعل نقض عہد کو قرار دیا جائے یا نقض عہد کے اندیشے کو، دونوں صورتوں میں چند مزید سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک سوال یہ ہے کہ ان مشرکین کو چار ماہ کی مہلت کس مقصد کے لیے دی گئی؟ اگر اس کا مقصد مشرکین کو غور وفکر کا موقع دینا تھا تاکہ وہ دوبارہ معاہدہ کر لیں یا کیے ہوئے معاہدوں کے حقیقی معنوں میں پابند ہو جائیں تو اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر انھی معاہدوں کو دوبارہ قائم کرنا یا انھیں برقرار رکھنا ہی مقصود تھا تو اس کے لیے سرے سے ان معاہدوں سے اعلان براء ت کی کیا ضرورت تھی؟ اس صورت میں تو معاہدوں کے خاتمے کا اعلان کرنے کے بجائے مشرکین کو اس بات کی تنبیہ کرنا زیادہ مناسب تھا کہ وہ اپنے رویے سے باز آ جائیں اور معاہدوں کی پاس داری کریں اور اگر ان کے رویے میں کوئی تبدیلی نہ آئی تو چار ماہ کے بعد یہ معاہدے کالعدم سمجھے جائیں گے اور معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں گے۔
اس ضمن میں سب سے اہم اور بنیادی اعتراض یہ وارد ہوتا ہے کہ اگر ان مشرکین کا قصور نقض عہد یا نقض عہد کے عزائم تھے تو اس کی پاداش میں انھیں دائرۂ اسلام میں داخل ہو جانے کا الٹی میٹم اور اسلام قبول نہ کرنے کی صورت میں انھیں قتل کرنے کی ہدایت کیوں کی گئی؟ اس سوال کی اہمیت اس نکتے کی روشنی میں دوچند ہو جاتی ہے کہ جس وقت قرآن نے ان مشرکین کو قتل کرنے کا حکم دیا، اس وقت وہ بالفعل اور علانیہ مسلمانوں کے خلاف برسر جنگ نہیں تھے جس کی دلیل یہ ہے کہ ان کو قتل کرنے کے لیے اشہر حرم کے گزر جانے کی ہدایت کی گئی ہے، جبکہ اشہر حرم میں بالفعل حملہ آور ہونے والوں کے خلاف جنگ کی اجازت قرآن اس سے پہلے بقرہ کی آیت ۱۹۴ میں صریح طور پر دے چکا ہے۔ چنانچہ اگر اس حکم کا بنیادی مقصد محض دفع فساد کو قرار دیا جائے تو یہ الجھن کسی طرح حل نہیں ہوتی کہ قرآن اس حکم کو مشرکین سے فتنہ وفساد کی قوت چھین لینے اور انھیں بے دست وپا کر دینے تک محدود کیوں نہیں رکھتا اور اس سے بڑھ کر صرف قبول اسلام ہی کو ان کے لیے کیوں لازم قرار دیتا ہے؟
اگر یہ کہا جائے کہ ان گروہوں کے فتنہ وفساد کے خاتمے کے لیے یہ ضروری تھا کہ انھیں کفر وشرک کے دائرے سے نکال کر دائرۂ اسلام میں داخل کر لیا جائے تو بھی اس سے اشکال حل نہیں ہوتا۔ اول تو اس لیے کہ اگر وہ دل سے مسلمانوں کے دشمن تھے تو ظاہر ہے کہ منافقین کی طرح بظاہر اسلام قبول کر لینے کے باوجود ان کی ریشہ دوانیاں ختم نہ ہوتیں اور وہ درپردہ مسلمانوں کی نقصان پہنچانے کی کوششوں میں مصروف رہتے اور یہ صورت بدیہی طور پر زیادہ خطرناک ہوتی کیونکہ چھپا دشمن بہرحال کھلے دشمن سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ایسی صورت میں مشرکین کا اسلام قبول کر لینا ان کے فتنہ وفساد سے تحفظ کی ضمانت کیسے بن سکتا تھا؟ کیا ان میں سے شر پسند گروہ اسلام قبول کر لینے کے باوجود درون خانہ سازشیں نہیں کر سکتے تھے اور کیا وہ اس کے بعد موقع ملنے پر دوبارہ کفر کی طرف نہیں لوٹ سکتے تھے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد عملاً بہت سے گروہوں نے اس کی کوشش بھی کی؟ 
پھر یہ کہ اگر اس حکم کو محض دفع فساد کے تناظر میں دیکھا جائے تو مشرکین اور اہل کتاب کے لیے تجویز کیے جانے والی حکمت عملی میں باہمی فرق کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ مشرکین کو تو فتنہ وفساد کے جرم میں قتل کرنے کا حکم ہے، لیکن اہل کتاب کے بارے میں کہا گیا کہ وہ جزیہ دے کر اپنے مذہب پر قائم رہ سکتے ہیں؟ اس کے برعکس قتال کے اس حکم کو کفر وایمان کے تناظر میں دیکھیے تو اس فرق کی وجہ معقول ہو جاتی ہے۔ مشرکین کا کفر محض کفر نہیں بلکہ ’شرک‘ تھا، اس لیے ان کے لیے سزا بھی سخت تجویز ہوئی، جبکہ اہل کتاب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر ہونے کے باوجود توحید کے قائل تھے، چنانچہ انھیں محض جزیہ نافذ کرنے کی سزا دی گئی۔
ان وجوہ سے ہمارے نزدیک آیت ۴ اور پھر آیت ۷ میں معاہدوں کی پاس داری کرنے والے مشرکوں کو ’فاقتلوا المشرکین‘ کے حکم سے مستثنیٰ قرار دینے سے استنباط کسی طرح درست نہیں ہے کہ جن مشرکین کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے، ان کا اصل جرم نقض عہد تھا۔ اصل یہ ہے کہ ان آیات کے نزول کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں مشرکین عرب پانچ گروہوں میں تقسیم تھے:
ایک وہ جنھوں نے آپ کے ساتھ کبھی مصالحانہ تعلقات قائم نہیں کیے، بلکہ وقتاً فوقتاً مسلمانوں کے جان ومال پر تعدی کرتے رہے۔
دوسرے وہ جنھوں نے آپ کے ساتھ صلح کا معاہدہ کیا اور پھر توڑ دیا۔ 
تیسرے وہ جنھوں نے ایک محدود مدت کے لیے صلح کا معاہدہ کیا اور پھر اس پر قائم رہے۔ 
چوتھے وہ جن کے ساتھ وقت کی کسی تحدید کے بغیر صلح کے معاہدے کیے گئے اور ان کی طرف سے کوئی خلاف ورزی سامنے نہیں آئی۔ 
پانچویں وہ جنھوں نے نہ صلح کا معاہدہ کیا اور نہ مسلمانوں کے خلاف کسی ظلم وعدوان ہی کے مرتکب ہوئے۔
سورۂ براءت کی مذکورہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان میں سے تیسرے گروہ کے سوا، جس کے ساتھ موقت معاہدہ کیا گیا تھا، باقی تمام گروہوں کے ساتھ کیے جانے سابقہ معاہدوں کی تنسیخ اور آئندہ کوئی بھی معاہدہ کرنے پر پابندی کا اعلان کیا ہے اور اس کا مقصد ان کے فتنہ وفساد کا خاتمہ نہیں بلکہ یہ بات تھی کہ الٹی میٹم دیے جانے کے بعد بھی اگر وہ اسلام قبول نہیں کرتے تو ان کے خلاف قتل عام کا اقدام کیا جا سکے۔ ان میں سے پہلے، دوسرے اور پانچویں گروہ کے خلاف اقدام کرنے میں چونکہ کوئی معاہدہ مانع نہیں تھا، اس لیے ان کا ان آیات میں کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ البتہ تیسرے اور چوتھے گروہ کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے اس اقدام میں ایک اخلاقی رکاوٹ کی حیثیت رکھتے تھے۔ چنانچہ جن گروہوں کے ساتھ غیر موقت معاہدے کیے گئے تھے اور ان کو نبھانا کسی طرح سے ممکن نہیں تھا، ان کے ساتھ معاہدوں کو از خود ختم کر دیا گیا، جبکہ تیسرے گروہ کے ساتھ اس وجہ سے معاہدے کی پاس داری کی ہدایت دی گئی کہ یہ معاہدہ محض ایک محدود اور متعین عرصے کے لیے موثر تھا جس کو فریق مخالف کی طرف سے کسی عہد شکنی کے بغیر ازخود توڑنا معاہدے کی اخلاقیات کے منافی تھا۔ تاہم عہد شکنی یا مدت کے پورا ہو جانے کی صورت میں یہ گروہ بھی اسی انجام سے دوچار ہوتا جو دوسرے گروہوں کے لیے بیان کیا گیا ہے۔ 
گویا صورت حال یہ نہیں کہ قرآن مجید نقض عہد کا ارتکاب کرنے والے مشرکین کو قتل کرنے کا حکم دے رہا ہے بلکہ یہ ہے کہ وہ پہلے ان کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کو ازخود توڑنے کا اعلان کر رہا ہے اور پھر ایک خاص وقت تک مہلت دینے کے بعد یہ کہہ رہا ہے کہ اگر وہ اس دوران میں ایمان نہیں لائیں گے تو ان کا قتل عام کیا جائے گا۔ قرآن نے یہاں ان مشرکین کے خلاف اقدام کی وجہ ان کا معاہدے کی خلاف ورزی کرنا نہیں بتایا بلکہ ان کے سابقہ طرز عمل اور ان کے اصل عزائم کے تناظر میں ان کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کو ازخود کالعدم قرار دے کر انھیں چار ماہ کی مہلت دی ہے اور اس کے بعد انھیں قتل کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قتل کی اصل وجہ کچھ اور ہے اور ایسی سنگین ہے کہ قرآن اس کے لیے ان کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کی، جس کی انھوں نے بالفعل خلاف ورزی بھی نہیں کی، رعایت بھی انھیں دینے کے لیے تیار نہیں۔ پھر اس نے اشہر حج گزرنے کے بعد ان کے قتل عام کا حکم دیا ہے جبکہ اس سے بچنے کی صورت صرف یہ بیان کی ہے کہ وہ اسلام قبول کر لیں۔
’الا الذین عاہدتم من المشرکین‘ سے جس گروہ کا استثنا بیان کیا گیا ہے، اس کے ساتھ معاہدہ چونکہ محض ایک مخصوص مدت کے لیے تھا، اس لیے یہ مناسب سمجھا گیا کہ اس کے پورا ہونے تک ان کے خلاف کوئی اقدام نہ کیا جائے۔ ان کے علاوہ باقی تمام مشرکین کو الٹی میٹم دے دیا گیا اور چونکہ غیر موقت معاہدات اس حکم پر عمل درآمد میں مانع تھے، اس لیے ان سے صاف صاف براء ت کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ ’الا الذین عاہدتم من المشرکین‘ کا اسلوب صاف بتا رہا ہے کہ اس کی حیثیت ایک استثنا کی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ جو مشرکین کبھی مسلمانوں کے خلاف برسر پیکار نہیں رہے اور انھوں نے صلح کے معاہدے کرنے کے بعد کبھی خفیہ یا علانیہ معاہدے کی خلاف ورزی یا مسلمانوں کے خلاف کسی کی مدد نہیں کی، ان کے خلاف قتل کا اقدام ایفاے عہد کے اخلاقی اصول کے منافی ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں، اس لیے ان کے ساتھ قرار دادہ مدت تک معاہدے کی پاس داری کی جائے۔ چنانچہ اس استثنا سے قتل مشرکین کی اصل وجہ اخذ کرنا، جیسا کہ ہم نے واضح کیا، اسالیب کلام کی رو سے کسی طرح درست نہیں۔ 
اب دوسرے استدلال کو لیجیے: 
آیت ۶ میں ’وان احد‘ کے الفاظ میں قتل عام کے حکم سے بعض افراد کے لیے جو استثنا بیان کیا گیا ہے، اس کا مقصد خود قرآن مجید نے ’حتی یسمع کلام اللہ‘ اور ’ذلک بانہم قوم لا یعلمون‘ کے الفاظ سے بالکل صاف بیان کر دیا ہے۔ یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ جو مشرک مسلمانوں کے خلاف فتنہ وفساد میں ملوث نہ ہو، اسے قتل سے مستقل طور پر مامون کر دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ چونکہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ انفرادی حیثیت سے بعض افراد پر اللہ کا پیغام واضح طریقے سے ابھی نہ پہنچا ہو، اس لیے اگر کوئی فرد اس معاملے میں غور کرنے کے لیے مہلت مانگے تو اسے امان دے دی جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی مشرک اللہ کے پیغام کو سمجھنے کے لیے امان طلب نہ کرے تو اس کا مقدر بھی یہی تھا کہ اسے تہہ تیغ کر دیا جائے۔ یہ چیز بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ قتل عام کے زیر بحث حکم کا تعلق فتنہ وفساد سے نہیں بلکہ دین وعقیدہ سے ہے۔ 
تیسرے استدلال کا جائزہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ سورۂ براء ۃ کی زیربحث آیات کو ان کے پورے سیاق وسباق کے ساتھ سمجھ لیا جائے۔ 
سورۂ براءۃ کی ابتدائی ۲۸ آیات کا دقت نظر سے مطالعہ کیجیے تو واضح ہوگا کہ یہ دو حصوں میں تقسیم ہیں: 
پہلی ۶ آیات میں مشرکین کے حوالے سے اصل حکم بیان ہوا ہے اور ان میں مرکزی نکتہ، جس کے گرد یہ پورا سلسلہ بیان گھومتا ہے، آیت ۵ میں بیان ہوا ہے، یعنی یہ کہ مشرکین اگر اسلام قبول نہیں کرتے تو انھیں قتل کے انجام سے دوچار کر دیا جائے۔ اس کے سیاق وسباق میں بیان ہونے والے باقی تینوں احکام اسی کے لواحق اور متعلقات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ قتل عام کے اس آخری اقدام سے قبل آیت ۱ میں مسلمانوں کو کہا گیا ہے کہ وہ مشرکین کے ساتھ کیے جانے والے معاہدوں کی پابندی سے بری الذمہ ہونے کا اعلان کر دیں۔ پھر چونکہ یہ حکم اپنے عموم کے لحاظ سے پورے جزیرۂ عرب کو محیط ہے، اس لیے آیت ۳ میں حج اکبر کے موقع پر اس کی عام منادی کرنے کا حکم دیا گیا تاکہ کسی بھی حوالے سے غلط فہمی یا خفا کا امکان نہ رہے۔ ا س کے باوجود چونکہ امکان تھا کہ انفرادی سطح پر بعض مشرکین تک اسلام کی دعوت اس وقت تک واضح اور موثر طریقے سے نہ پہنچی ہو، اس لیے آیت ۶ میں کہا گیا کہ اگر کوئی مشرک دعوت اسلام پر غور کرنے کی غرض سے امان طلب کرے تو اسے امان دے دی جائے۔ 
اصل حکم اپنے متعلقات کے ساتھ یہاں مکمل ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد آیت ۷ سے ۲۸ تک دراصل ان نفسیاتی موانع کا بیان ہے جو مسلمانوں کی جانب سے اس اقدام پر عمل درآمد کی راہ میں حائل تھے۔ یہ موانع جن کا قرآن مجید نے ان آیات میں ازالہ کیا ہے، بنیادی طور پر تین تھے:
ایک یہ کہ جو مشرک قبائل سب سے پہلے اس حکم کی زد میں آتے، ان کے ساتھ مسلمانوں کے نسبی تعلقات اور نہایت عزیز قرابت داریاں قائم تھیں اور عربوں کے مخصوص مزاج اور روایات کے پس منظرمیں ان کے خلاف اس نوعیت کے اقدام کا حکم، فی الواقع، ایک کڑی آزمایش کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک طرف تو یہ بات واضح فرمائی کہ جب یہ قبائل دین دشمنی کی بنیاد پر تمھارے ساتھ کسی رشتے داری اور قرابت کا لحاظ نہیں رکھتے اور اس بات کی تاک میں ہیں کہ جیسے ہی موقع ملے، ہر قسم کے عہد وپیمان کو بالاے طاق رکھ کر تمہارے خلاف برسر جنگ ہو جائیں تو تم آخر کس بنیاد پر ان کے لیے ہمدردی اور قرابت کے جذبے کا اظہار کر رہے ہو۔ (آیت ۹۔۱۳) دوسری طرف یہ واضح کیا کہ اللہ کے دین اور اس کے احکام کے مقابلے میں اپنی نسبی قرابتوں اور رشتہ داریوں کو ترجیح دینا ایمان کے منافی ہے اور اگر مسلمان ایسا کریں گے تو وہ خود بھی اللہ کے عذاب کی زد میں آ جائیں گے۔ (آیت ۱۶، ۲۳، ۲۴)
دوسرا یہ کہ ان میں سے بالخصوص قریش عرب میں یہ شرف اور اعزاز بھی رکھتے تھے کہ انھیں بیت اللہ کی تولیت اور دربانی کامنصب حاصل تھا اور اس کے ہوتے ہوئے ان کے خلاف اقدام جنگ حقیقتاً ایک بڑی نفسیاتی رکاوٹ کی حیثیت رکھتا تھا۔ قرآن مجید نے اس کا ازالہ کرتے ہوئے فرمایا کہ بیت اللہ کی تولیت کا حق صرف اور صرف سچے اہل ایمان کو حاصل ہے اور شرک کے ساتھ کیا گیا کوئی عمل، چاہے وہ بیت اللہ کی دربانی اور حاجیوں کی خدمت جیسے اعلیٰ اعمال ہی کیوں نہ ہوں، اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں۔ (آیت ۱۷۔۲۲)
تیسرا یہ کہ پورے عرب کے خلاف جنگ چھیڑ دینے کا حکم بہرحال نہایت صبر وہمت اور جرات وشجاعت کا متقاضی تھا اور کمزور اہل ایمان کے دل میں یہ اشکال پیدا ہونے لگا تھا کہ مسلمان اس عظیم ذمہ داری سے آخر کیسے عہدہ برآ ہوں گے۔ قرآن مجید نے اس کے جواب میں واضح فرمایا ہے کہ اہل ایمان کو اس سے پہلے بھی ہر موقع پر اللہ کی نصرت حاصل رہی ہے اور اگر وہ ثابت قدم رہ کر اس ذمہ داری کو ادا کریں گے تو آئندہ کے مراحل میں بھی وہ نصرت خداوندی سے محروم نہیں رہیں گے۔ (آیت ۲۵۔۲۷)
اس تفصیل سے واضح ہے کہ آیت ۷ سے ۲۷ تک خطاب اس عمومی تناظر میں نہیں ہوا جس میں پہلی ۶ آیات وارد ہوئی ہیں، بلکہ ان میں بعض ایسی مخصوص الجھنوں سے تعرض کیا گیا ہے جن کا تعلق پورے جزیرۂ عرب کے مشرکین کے بجائے ان کے بعض مخصوص گروہوں، بالخصوص قریش سے تھا۔ اس مخصوص تناظر کی وجہ سے ظاہر ہے کہ کلام کے اس حصے میں مشرکین کے اوصاف وحالات بھی وہی بیان ہوئے ہیں جو ان مخصوص گروہوں میں پائے جاتے تھے۔ مذکورہ نقطہ نظر کی غلطی یہ ہے کہ اس میں پہلی ۶ آیات میں خطاب کے عمومی رخ اور اس کے بعد کی آیات کے مخصوص دائرۂ تخاطب میں فرق کو ملحوظ نہیں رکھا گیا اور اس دوسرے حصے میں موجود بعض قرائن وشواہد کی بنا پر، جو بلاشبہ مشرکین کے بعض مخصوص گروہوں ہی سے متعلق ہیں، پہلے حصے کے عمومی حکم کی تعبیر بھی اسی تناظر میں کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ایسا کرتے ہوئے کلام کی نہایت اہم داخلی دلالتوں کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ 
کیف یکون للمشرکین عہد‘ سے شروع ہونے والے سلسلہ بیان کے اس مخصوص تناظر کے واضح قرائن کلام کے اندر موجود ہیں۔ ایک یہ کہ اس میں مشرکین کے ساتھ معاہدے توڑنے کی جو وجہ بیان کی گئی ہے، وہ تمام معاہد قبائل میں پائی ہی نہیں جاتی تھی اور کچھ قبائل اس اعلان کے وقت یقیناًایسے بھی موجود تھے جن کا رویہ مسلمانوں کے ساتھ کبھی بھی معاندانہ نہیں رہا تھا اور نہ ان سے اس قسم کا کوئی خدشہ آئندہ محسوس ہو رہا تھا۔ دوسرا یہ کہ اس حکم میں استثنا بیان کرتے وقت ’الا الذین عاہدتم عند المسجد الحرام‘ کے الفاظ سے صرف قریش اور معاہدۂ حدیبیہ میں شریک دوسرے قبائل کا ذکر کیا گیا ہے۔ اگر ’کیف یکون للمشرکین عہد‘ کے الفاظ جزیرۂ عرب کے مجموعی تناظر میں لیے جائیں تو مذکورہ استثنا میں معاہدۂ حدیبیہ پر ارتکاز کرنے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی، ا س لیے کہ اس معاہدے کے علاوہ بھی بعض قبائل کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موقت معاہدے کیے تھے اور انھیں بھی آیت ۴ کے حکم کے مطابق اس وقت تک امان حاصل تھی جب تک کہ معاہدوں کی مدت نہ گزر جائے یا وہ نقض عہد کا ارتکاب نہ کر ڈالیں۔ اسی وجہ سے ۹ ہجری میں حج اکبر کے دن قرآن مجید کے حکم کے مطابق جب اعلان براء ت کی عام منادی کرائی گئی تو اس میں یہ کہا گیا کہ ’من کان بینہ وبین رسول اللہ عہد فلہ عہدہ الی مدتہ‘۔ ظاہر ہے کہ اس سے یہ دیگر قبائل ہی مراد تھے، کیونکہ قریش تو معاہدۂ حدیبیہ کو اس سے عرصہ دراز قبل توڑ چکے تھے۔ اس پس منظر میں دیکھیے تو مذکورہ آیت میں ان تمام معاہدات سے قطع نظر کرتے ہوئے صرف معاہدۂ حدیبیہ پر ارتکاز کرنے کی وجہ ہی یہ ہے کہ ’کیف یکون للمشرکین عہد‘ سے شروع ہونے والا سلسلہ بیان ان مخصوص قبائل کے تناظر میں وارد ہوا ہے جن کے خلاف اقدام جنگ کرنے میں، جیسا کہ ہم نے واضح کیا، کچھ نفسیاتی اور معاشرتی موانع حائل ہو رہے تھے۔ 
اس نکتے کا حاصل یہ ہے کہ ’لایرقبون فی مومن الا ولا ذمۃ‘ اور ’الا تقاتلون قوما نکثوا ایمانہم‘ میں مشرکین بحیثیت مجموعی سرے سے زیر بحث ہی نہیں، اس لیے کہ تمام مشرکین پر اس وصف کا انطباق ہو ہی نہیں سکتا۔ ان آیات میں دراصل قریش کی حالت بیان کی گئی ہے جن کے ساتھ حدیبیہ میں دس سال کے لیے جنگ بندی کا معاہدہ کیا گیا تھا۔ قرآن مجید نے ان کے بارے میں یہ کہا ہے کہ اب تک تو یہ معاہدے پر قائم ہیں اور جب تک یہ معاہدے پر قائم رہیں، تم بھی اس کی پاس داری کرو، لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے یہ حقیقت بھی واضح کر دی ہے کہ یہ صرف مجبوری کی حالت میں معاہدے کی پابندی کر رہے ہیں، ورنہ جیسے ہی ان کو موقع ملے گا، یہ تمام عہد وپیمان پس پشت ڈال کر دوبارہ مسلمانوں کے خلاف برسر جنگ ہو جائیں گے۔ یہ امکانی صورت بیان کر کے قرآن مجید نے فرمایا ہے کہ اگر عہد شکنی ان کی طرف سے سامنے آئے تو پھر معاہدے کی مدت پوری کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، بلکہ ان ائمہ کفر کے خلاف فوری اقدام کر کے ان کو نقض عہد کا مزہ چکھا دیا جائے۔ اس پس منظر میں فتنہ وفساد اور نقض عہد کو قتال کی علت قرار دینے کی بات محض جزوی حد تک ہی درست ہو سکتی ہے۔ یعنی مشرکین کو قتل کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے، اس کی وجہ بعض صورتوں میں یہ بھی ہے کہ انھوں نے نقض عہد کیا۔ گویا نقض عہد حکم کی ایک اضافی وجہ ہے نہ کہ اصل اور بنیادی سبب۔ اس بات کو مانے بغیر سورہ کے آغاز میں معاہدوں سے براء ت کے اعلان اور پھر حج اکبر کے موقع پر اس کی منادی کے بعد مشرکین کے قتل عام کے احکام کی کوئی توجیہ نہیں کی جا سکتی۔
یہاں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ وان نکثوا ایمانہم کا تقابل اس سے نہیں کیا گیا کہ وہ اپنے معاہدوں پر قائم رہیں، بلکہ اس کے بجائے اس کا تقابل ’فان تابوا واقاموا الصلوۃ وآتوا الزکوۃ‘ سے کیا گیا ہے۔ اس طرح قرآن نے اپنے بلیغ اسلوب میں یہ واضح کر دیا ہے کہ مشرکین سے اصل مطلوب یہی ہے کہ وہ کفر وشرک سے تائب ہو کر دائرۂ اسلام میں داخل ہو جائیں اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں ان کے ساتھ قتال کیا جائے گا، البتہ جب تک وہ اپنے معاہدوں کی خلاف ورزی نہیں کرتے، انھیں جان ومال کا تحفظ حاصل ہے۔ تاہم اگر وہ اپنے معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو اس وقتی امان سے بھی اپنے آپ کو خود محروم کرلیتے ہیں۔
بعض حنبلی فقہا نے یہ استدلال پیش کیا ہے کہ ’الا تقاتلون قوما نکثوا ایمانہم‘ اور ’یخرجون الرسول وایاکم‘ اور ’فان قاتلوکم فاقتلوہم‘ میں اللہ تعالیٰ نے زیادہ صراحت کے ساتھ ان کے شر وفساد کو علت بتایا ہے، جبکہ اگر کفر علت ہوتا تو مذکورہ امور کو جو کفر سے کم تر ہیں، بطور علت کے بیان کرنا غیر موزوں ہے۔ (ابن عقیل، کتاب الفنون ۱۲۸، ۳۹۱) حالانکہ بالبداہت واضح ہے کہ پیغمبر کی نفس تکذیب کم تر جرم ہے جبکہ صد عن سبیل اللہ اور پیغمبر کے ساتھ محاربہ اور فتنہ وفساد کہیں زیادہ سنگین جرم ہے اور بلاغت کے اسالیب یہ تقاضا کرتے ہیں کہ جب سزا کی فرد جرم بیان کی جائے تو کم تر نہیں بلکہ بڑے جرم کا حوالہ دیا جائے۔ مزید برآں مذکورہ آیات میں بنیادی مقصود اہل ایمان میں کفار سے براء ت کا جذبہ اور ان کے خلاف جہاد وقتال کے لیے تحریک پیدا کرنا ہے، نہ کہ مشرکین کے عذاب کی اصل وجہ بیان کرنا۔ ظاہر ہے کہ اگر کسی گروہ کی فرد قرارداد جرم بیان کرنے کا مقصد اس کے خلاف اقدام کی ترغیب دینا ہو تو بلاغت کا تقاضا یہی ہے کہ اس کے جرم کے سنگین ترین اور شنیع ترین نتائج کا حوالہ دیا جائے اور اس کے طرز عمل کے ان پہلووں کو نمایاں کیا جائے جو نفسیاتی طور پر مخاطب میں مطلوب جذبہ عمل کو انگیخت کرنے کا زیادہ موثر ذریعہ بن سکیں۔ جہاں تک کفار کے عذاب خداوندی کے مستحق بننے کی اصل قانونی وجہ کا تعلق ہے تو اس کے بیان کا موقع وہ مقامات ہیں جہاں اللہ تعالیٰ نے انبیا اور ان کے قوموں کے بارے میں اپنے قانون کو براہ راست موضوع بنایا ہے، چنانچہ انھیں نظر انداز کر کے عذاب کی اصل وجہ ان مقامات سے اخذ کرنا جہاں اس کا بیان سرے سے مقصود ہی نہیں، علمی لحاظ سے کسی طرح درست نہیں۔

قتال اور دین کے معاملے میں جبر واکراہ

اس ضمن میں اصولی نوعیت کا ایک بنیادی استدلال یہ پیش کیا جاتا ہے کہ جہاں تک جہاد وقتال کی پہلی صورت کا تعلق ہے تو اس کے جواز پر عقلی واخلاقی لحاظ سے کوئی سنجیدہ اعتراض نہیں کیا جا سکتا، اس لیے کہ ظلم وعدوان اور جارحیت کے خاتمے اور اپنی جان ومال اور سرزمین کے دفاع کے لیے برسرجنگ ہونے کو، بعض راہبانہ اور غیر عملی فلسفوں سے قطع نظر، دنیا بھر میں ہمیشہ جائز بلکہ بعض حالات میں واجب سمجھا گیا ہے۔ البتہ دوسری صورت، جس میں کسی گروہ کی طرف سے کی جانے والی جارحیت یا ظالمانہ اقدام کی بنا پر نہیں بلکہ کفر پر قائم رہنے کی پاداش میں کفار ومشرکین کو قتل کرنے یا انھیں محکوم ومغلوب بنانے کے لیے تلوار اٹھانے کا حکم دیا گیا ہے، اپنے ظاہر کے لحاظ سے خود دین وشریعت ہی کے نصوص میں بیان ہونے والی ان ہدایات کے ساتھ ٹکراتا اور ان کی نفی کرتی ہے جن میں دین ومذہب کے معاملے میں انسان کے ارادۂ واختیار کی آزادی کی اہمیت اجاگر کی گئی اور اس حوالے سے کسی قسم کے جبر واکراہ کو اللہ تعالیٰ کی اسکیم کے منافی قرار دیا گیا ہے۔ 
قرآن مجید میں یہ بات جگہ جگہ واضح کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں امتحان اور آزمایش کے لیے بھیجا ہے اور اس مقصد کے لیے اسے حق کو قبول کرنے یا نہ کرنے کے معاملے میں پوری آزادی بخشی ہے۔ ارادہ واختیار کی یہ آزادی دنیا میں رشد وہدایت کے باب میں اللہ تعالیٰ کی اسکیم کا بنیادی ضابطہ ہے اور اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے دین کے معاملے میں کسی قسم کے جبر واکراہ کا طریقہ اختیار نہیں فرمایا۔ ارشاد ہے:
لاَ إِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ قَد تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ فَمَنْ یَکْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَیُؤْمِن بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقَیَ لاَ انفِصَامَ لَہَا وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ (البقرہ ۲:۲۵۶ )
’’دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں۔ یقیناًہدایت کا راستہ گمراہی کے راستے سے ممتاز ہو چکا ہے۔ سو جو طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آیا، اس نے ایک نہایت مضبوط رسی تھام لی جو ٹوٹنے والی نہیں۔ اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘
قرآن مجید کی رو سے ایمان کے معاملے میں اصل اعتبار انسان کے اپنے ارادۂ واختیار کا ہے۔چنانچہ کسی انسان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اس معاملے میں کسی دوسرے انسان کو جبر واکراہ کے ساتھ ایمان واسلام کی راہ پر لانے کی کوشش کرے اور نہ اس طرح کے ایمان کو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں کوئی وقعت حاصل ہے: 
وَلَوْ شَاء رَبُّکَ لآمَنَ مَن فِیْ الأَرْضِ کُلُّہُمْ جَمِیْعاً أَفَأَنتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتَّی یَکُونُواْ مُؤْمِنِیْنَ ۔ وَمَا کَانَ لِنَفْسٍ أَن تُؤْمِنَ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّہِ وَیَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِیْنَ لاَ یَعْقِلُون (یونس ۱۰: ۹۹، ۱۰۰)
’’اور اگر تیرا رب چاہتا تو زمین پر بسنے والے سب لوگ ایمان لے آتے۔ تو کیا تم لوگوں کو مجبور کرنا چاہتے ہو تاکہ وہ ایمان لے آئیں؟ اور کسی انسان کے بس میں یہ نہیں کہ وہ اللہ کے اذن کے بغیر ایمان لے آئے۔ (اللہ اس کی توفیق ان کو دیتا ہے جو اپنی عقل سے کام لیتے ہیں) اور جو لوگ اپنی عقل کو استعمال نہیں کرتے، ان پر (کفر وشرک) کی گندگی مسلط کر دیتا ہے۔‘‘
ارادۂ واختیار کی اسی آزادی کی بنا پر انسانوں کا مختلف مذہبی گروہوں میں تقسیم رہنا اللہ تعالیٰ کے قانون آزمایش کا ایک لازمی تقاضا ہے، اور ان اختلافات کا حتمی فیصلہ خود اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کریں گے۔ ارشاد ہوا ہے:
وَلَوْ شَاء رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّۃً وَاحِدَۃً وَلاَ یَزَالُونَ مُخْتَلِفِیْنَ، إِلاَّ مَن رَّحِمَ رَبُّکَ وَلِذَلِکَ خَلَقَہُمْ وَتَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ لأَمْلأنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ (ہود۱۱: ۱۱۸، ۱۱۹)
’’اور اگر تیرا رب چاہتا تو تمام لوگوں کو (دین ومذہب کے لحاظ سے) ایک ہی گروہ بنا دیتا، لیکن یہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے، سوائے ان کے جن پر تیرے رب کی رحمت ہو۔ اور اللہ نے انسانوں کو پیدا ہی اس لیے کیا ہے۔ اور تیرے رب کا یہ فیصلہ پورا ہو کر رہے گا کہ میں جہنم کو جن اور انسان، دونوں مخلوقوں سے بھر دوں گا۔‘‘
جن لوگوں کو حق کی روشنی میسر آ جائے، ان کی ذمہ داری بس یہ ہے کہ وہ لوگوں تک اس کو واضح طریقے سے پہنچا دیں۔اس سے آگے کفار کے محاسبہ اور ان کے خلاف داروگیر کا کوئی اختیار ان کو نہیں دیا گیا۔ اس ضمن میں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ بات قرآن مجید نے بہت وضاحت سے بیان کی ہے کہ آپ کے ذمے بس اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچا دینا ہے اور اس سے آگے کوئی ذمہ داری آپ پر عائد نہیں ہوتی:
فَذَکِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَکِّرٌ لَّسْتَ عَلَیْْہِم بِمُصَیْْطِر (الغاشیہ ۸۸: ۲۱، ۲۲)
’’پس تم نصیحت کرتے رہو۔ تمہارا کام بس نصیحت کرنا ہے۔ تمھیں ان کو زبردستی منوانے کے لیے نہیں بھیجا گیا۔‘‘
وَلَوْ شَاءَ اللّٰہُ مَا أَشْرَکُواْ وَمَا جَعَلْنَاکَ عَلَیْْہِمْ حَفِیْظاً وَمَا أَنتَ عَلَیْْہِم بِوَکِیْلٍ (الانعام ۶: ۱۰۷)
’’اور اگر اللہ چاہتا تو یہ شرک نہ کر سکتے۔ اور ہم نے تمھیں ان پر داروغہ نہیں بنایا اور نہ ہی تم پر انھیں منوانے کی ذمہ داری ہے۔‘‘
فَإِنْ أَعْرَضُوا فَمَا أَرْسَلْنَاکَ عَلَیْْہِمْ حَفِیْظاً إِنْ عَلَیْْکَ إِلَّا الْبَلَاغُ (الشوریٰ ۴۲: ۴۸)
’’پھر اگر یہ منہ موڑیں تو ہم نے تمھیں ا ن کی داروگیر کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا۔ تمھارے ذمے تو بس بات کو پہنچا دینا ہے۔‘‘
دوسرا اہم استدلال یہ پیش کیا جاتا ہے کہ اگر کفار کو اسلام قبول نہ کرنے کے جرم میں قتل کر دینے یا سیاسی لحاظ سے مغلوب ومحکوم بنانے کو درست تسلیم کر لیا جائے تو وہ نصوص بے معنی قرار پاتے ہیں جن میں محارب اور غیر محارب کفار کے مابین امتیاز کرنے اور جو گروہ مسلمانوں کے ساتھ کسی زیادتی کے مرتکب نہ ہوئے ہوں، ان کے خلاف کوئی اقدام کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ مثلاً سورۂ ممتحنہ میں ارشاد ہوا ہے:
لَا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ أَن تَبَرُّوہُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَیْْہِمْ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ۔ إِنَّمَا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِیْنَ قَاتَلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَأَخْرَجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ وَظَاہَرُوا عَلیٰ إِخْرَاجِکُمْ أَن تَوَلَّوْہُمْ وَمَن یَتَوَلَّہُمْ فَأُوْلَءِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ (الممتحنہ ۶۰:۸، ۹)
’’جن لوگوں نے دین کے معاملے میں تمہارے ساتھ لڑائی نہیں کی اور نہ تمہیں تمھارے گھروں سے نکالا ہے، اللہ تمہیں ان کے ساتھ حسن تعلق اور انصاف کا رویہ اختیار کرنے سے نہیں روکتا۔ اللہ تو انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اللہ تو تمھیں صرف ان لوگوں سے دوستی قائم کرنے سے منع کرتا ہے جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے لڑائی کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی۔ جو لوگ ان کے ساتھ دوستی گانٹھیں گے، درحقیقت وہی ظالم ہیں۔‘‘
قرآن مجید نے اسی اصول کی توسیع جنگ اور قتال کے دائرے تک کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ اگر دشمنوں کا کوئی گروہ اپنی قوم کے سیاسی اور معاشرتی دباؤ کے تحت مسلمانوں کے خلاف میدان جنگ میں تو آ گیا ہو، لیکن لڑائی میں شریک نہ ہو بلکہ مسلمانوں کے ساتھ صلح کا خواہش مند ہو تو اس پر تلوار اٹھانے کا کوئی اختیار اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو نہیں دیا ہے: 
فَإِنِ اعْتَزَلُوکُمْ فَلَمْ یُقَاتِلُوکُمْ وَأَلْقَوْاْ إِلَیْْکُمُ السَّلَمَ فَمَا جَعَلَ اللّہُ لَکُمْ عَلَیْْہِمْ سَبِیْلا (النساء ۴: ۹۰)
’’پھر اگر وہ تمہارے مقابلے پر آنے سے گریز کریں اور تم سے نہ لڑیں اور تمہیں صلح کا پیغام دیں تو اللہ نے تمہیں ان کے خلاف اقدام کرنے کا کوئی اختیار نہیں دیا۔‘‘
سورۂ انفال میں ہدایت کی گئی ہے کہ اگر کوئی محارب گروہ بھی صلح اور امن کی پیش کش کرے تو غدر اور نقض عہد کے خدشات کے باوجود اس کی اس پیش کش کو قبول کر لیا جائے۔ ارشاد ہوا ہے:
وَإِن جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَہَا وَتَوَکَّلْ عَلَی اللّہِ إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ۔ وَإِن یُرِیْدُوا أَن یَخْدَعُوکَ فَإِنَّ حَسْبَکَ اللّہُ ہُوَ الَّذِیَ أَیَّدَکَ بِنَصْرِہِ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَ (الانفال ۸:۶۱، ۶۲)
’’اور اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کی طرف مائل ہو جاؤ اور اللہ پر بھروسہ کرو۔ بے شک وہ سننے والا جاننے والا ہے۔ اور اگر وہ (صلح کا پیغام دے کر) تمھیں دھوکہ دینا چاہتے ہیں تو اللہ تمھیں کافی ہے۔ وہی ہے جس نے اپنی مدد سے بھی تمہاری تائید کی اور اہل ایمان کے ذریعے سے بھی۔‘‘
مذکورہ نقطہ نظر کے استدلال کی وضاحت کے بعد اب ہم اس کا تنقیدی جائزہ لیں گے: 
مذکورہ استدلال میں دین کے معاملے میں جبر واکراہ کی نفی اور غیر محارب کفار کے ساتھ مصالحانہ تعلقات کا جواز بیان کرنے والے جن نصوص سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو مشرکین اور اہل کتاب کے خلاف قتال کا جو حکم دیا گیا، اس کی اصل وجہ ان گروہوں کا ایمان نہ لانا نہیں بلکہ فتنہ وفساد اور شر انگیزی تھا، قرآن مجید میں ان کا صحیح محل اور سیاق وسباق اس تعبیر کو قبول کرنے سے مانع ہے۔ 
ان میں سے پہلے اصول یعنی ایمان کے معاملے میں جبر واکراہ کو لیجیے: 
قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اگرچہ عمومی طور پر ہدایت یافتہ اور غیر ہدایت یافتہ گروہوں کی تقسیم کے قائم رہنے کو اپنی اسکیم کا ایک حصہ قرار دیا ہے اور اس ضمن میں اختلاف کا حتمی فیصلہ قیامت کے دن ہی ہوگا، تاہم اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر کوئی ایسی پابندی عائد نہیں کی کہ وہ اس دنیا میں حق کے واضح ہونے کے باوجود ایمان نہ لانے والوں کو کوئی سزا نہیں دے گا۔ اس کے برعکس سزا وجزا کا قانون اللہ نے یہ بنایا ہے کہ انسانوں کو ان کے اعمال کا پورا اور کامل بدلہ تو آخرت میں ملے گا، لیکن جزا وسزا کا کچھ نہ کچھ ظہور اس دنیا میں بھی ہوتا ہے اور اس کے تحت افراد یا گروہوں خدا کی پکڑ میں آ جاتے ہیں۔ یہ طریقہ رسولوں کے مخاطبین کے باب میں خاص اہتمام کے ساتھ اختیار کیا جاتا ہے اور جب رسالت کے منصب پر فائز کسی ہستی کے مخاطب اتمام حجت کے بعد اس کے انکار پر مصر رہیں تو ان پر قیامت صغریٰ اسی دنیا میں برپا ہو جاتی ہے۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا یہ قانون بیان کرتا ہے کہ جب وہ کسی قوم میں اپنے رسول کو مبعوث کرتا ہے تو دلائل وبراہین کی وضاحت اور ایک مخصوص عرصے تک مہلت دیے جانے کے بعد ایمان نہ لانے کی صورت میں وہ قوم اسی دنیا میں خدا کے عذاب کی مستحق بن جاتی ہے جو اپنے مقررہ وقت پر لازماً اس قوم پر نازل ہو کر رہتا ہے۔ 
جہاں تک دین کے معاملے میں جبر واکراہ کی نفی کا تعلق ہے تو قرآن مجید میں یہ بات کہیں بھی اس مفہوم میں نہیں کہی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں کفر کی پاداش میں کسی کو سزا دینے کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رکھا۔ قرآن مجید میں اس بات کا ذکر یا تو تکوینی جبر واکراہ کی نفی کے پہلو سے ہوا ہے اور یا انسانوں کے دائرۂ اختیار کی تحدید کے لیے۔ پہلے مفہوم کی آیات میں مقصود کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر چاہتا توتمام انسانوں کو تکوینی طور پر صاحب ایمان بنا دیتا، یعنی ان میں سے کسی کو کفر یا ایمان میں سے کسی ایک کے انتخاب کا اختیار ہی حاصل نہ ہوتا۔ قرآن مجید اس کی وجہ یہ بیان کرتا ہے کہ ایمان خدا کی ایک نعمت ہے جو وہ ناقدروں اور اندھوں بہروں کو جبراً نہیں دیتا۔ اس کے مستحق خدا کے قانون کے مطابق وہی لوگ قرار پاتے ہیں جو اپنے دل ودماغ کو قبول حق کے لیے اور اپنی آنکھوں اور کانوں کو خدا کی نشانیوں پر غور کرنے کے لیے کھلا رکھتے ہیں۔ گویا ہدایت اورایمان کے لیے تکوینی سطح پر جبر واکراہ کی نفی سے مقصود اہل کفر کے اس دنیا میں سزا اور مواخذہ سے بری ہونے کا بیان نہیں، بلکہ ایمان کی توفیق کا ایک بنیادی شرط یعنی خدا کی دی ہوئی ہوئی علم وعقل کی صلاحیتوں کے صحیح استعمال سے مشروط ہونے کا بیان ہے۔ 
قرآن مجید میں یہی بات دوسرے مقامات پر بھی اس طرح وضاحت سے بیان ہوئی ہے کہ اس کے مدعا ومفہوم میں کوئی ابہام باقی نہیں رہتا۔ سیدنا نوح نے اپنی قوم سے فرمایا:
یَا قَوْمِ أَرَأَیْْتُمْ إِن کُنتُ عَلَی بَیِّنَۃٍ مِّن رَّبِّیَ وَآتَانِیْ رَحْمَۃً مِّنْ عِندِہِ فَعُمِّیَتْ عَلَیْْکُمْ أَنُلْزِمُکُمُوہَا وَأَنتُمْ لَہَا کَارِہُونَ (ہود ۱۱:۲۸)
’’اے میری قوم، دیکھو اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک واضح دلیل پر قائم ہوں اور اس نے مجھے اپنے پاس سے رحمت عطاکی ہے لیکن تمہاری نگاہیں اس کا ادراک کرنے سے عاجز ہیں تو کیا ہم اسے زبردستی تمھارے سر تھوپ دیں گے جب کہ تم اس کو پسند نہیں کرتے؟‘
سورۂ یونس میں ارشاد ہوا ہے:
وَلَوْ شَاء رَبُّکَ لآمَنَ مَن فِیْ الأَرْضِ کُلُّہُمْ جَمِیْعاً أَفَأَنتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتَّی یَکُونُوا مُؤْمِنِیْنَ ۔ وَمَا کَانَ لِنَفْسٍ أَن تُؤْمِنَ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّہِ وَیَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِیْنَ لاَ یَعْقِلُونَ ۔ قُلِ انظُرُواْ مَاذَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَا تُغْنِیْ الآیَاتُ وَالنُّذُرُ عَن قَوْمٍ لاَّ یُؤْمِنُونَ ۔ فَہَلْ یَنتَظِرُونَ إِلاَّ مِثْلَ أَیَّامِ الَّذِیْنَ خَلَوْاْ مِن قَبْلِہِمْ قُلْ فَانتَظِرُواْ إِنِّیْ مَعَکُم مِّنَ الْمُنتَظِرِیْنَ ۔ ثُمَّ نُنَجِّیْ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ کَذَلِکَ حَقّاً عَلَیْْنَا نُنجِ الْمُؤْمِنِیْنَ (یونس ۱۰:۹۹ -۱۰۲)
’’اور اگر تمہارا رب چاہتا تو زمین میں جتنے لوگ ہیں، وہ سب کے سب ایمان لے آتے (لیکن اس نے ایسا نہیں چاہا) تو کیا تم لوگوں پر جبر کرنا چاہتے ہو یہاں تک کہ وہ مومن بن جائیں؟ کسی انسان کے بس میں نہیں کہ وہ ایمان لے آئے، مگر اللہ کے اذن سے۔ اور (وہ اس کی توفیق انھی کو دیتا ہے جو اپنی عقل سے کام لیں جبکہ) جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے، ان پر (کفر وشرک کی) گندگی مسلط کر دیتا ہے۔ کہہ دو کہ غور کرو ان نشانیوں پرجو آسمانوں اور زمین میں ہیں، لیکن جو لوگ ایمان نہیں لانا چاہتے، یہ نشانیاں اور عذاب کی دھمکیاں ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتیں۔ پھر کیا یہ بھی (خدا کے عذاب کے) انھی دنوں کا انتظار کر رہے ہیں جو ان سے پہلے گزر جانے والوں پر آئے؟ کہہ دو کہ پس تم بھی انتظار کرو، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔ پھر (جب عذاب آئے گا تو) ہم اپنے رسولوں اور ان پرایمان لانے والوں کو بچا لیتے ہیں۔ اسی طرح ہوگا۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم ایمان لانے والوں کو بچا لیں۔‘‘
یہ درحقیقت زجروتوبیخ کا ایک اسلوب ہے جس کا مقصد استحقاق ہدایت کی اہلیت کا معیار بیان کرنا ہے، نہ کہ اس دنیا میں سزا اور مواخذہ کی نفی۔ ان دونوں باتوں کا محل بالکل الگ الگ ہے اور ان کو نظر انداز کرتے ہوئے محض الفاظ کے ظاہری اشتراک کی بنیاد پر ایک محل کی بات کو دوسرے اور بالکل مختلف محل کی بات سمجھ لینا اسالیب بلاغت سے ناواقفیت پر مبنی ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی استاذ اپنے شاگردوں سے کہے کہ امتحان میں کامیابی حاصل کر کے اگلی جماعت میں ترقی کا مستحق قرار پانے کے لیے ہم کسی سے جبراً محنت نہیں کروائیں گے، بلکہ جو طالب علم خود اپنے شوق اور لگن اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کرے گا، ترقی بھی اسی کا حق ہوگی، اور اس بیان سے یہ نتیجہ اخذ کر لیا جائے کہ استاذ صاحب امتحان میں ناکام ہونے والوں کے لیے مواخذہ اور داروگیر سے بری ہونے کا اعلان فرما رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ استنتاج بالکل بے محل ہوگا، چنانچہ سورۂ یونس کی جو آیات ہم نے اوپر نقل کی ہیں، ان میں قرآن مجید نے ’ولو شاء ربک لآمن من فی الارض کلہم جمیعا‘ سے تکوینی عدم اکراہ کو بیان کیا ہے، لیکن اس کے بعد ’فہل ینتظرون الا مثل ایام الذین خلوا من قبلہم‘ سے منکرین حق کے مواخذہ کے قانون کا بھی ذکر کیا ہے اور اس طرح یہ واضح کر دیا ہے کہ جبر واکراہ کی نفی سے اس کی مراد درحقیقت کیا ہے۔(1)
یہی صورت حال ان آیات کی ہے جہاں عدم اکراہ کا اصول انسانوں کے دائرۂ اختیار کو بیان کرنے کے لیے بیان کیا گیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فرمایا گیا ہے کہ آپ کو کفار پر داروغہ بنا کر مسلط نہیں کیا گیا۔ ان میں سے کم وبیش ہر مقام پر یہ واضح کیا گیا ہے کہ اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچا دینے کے بعد انھیں اس کو قبول کرنے پر مجبور کرنے کا کوئی اختیار نہیں رکھتے، لیکن اس کے ساتھ ہی اس بات کا بھی غیر مبہم اعلان کر دیا گیا کہ انکار حق پر اللہ تعالیٰ ان کافروں کا محاسبہ لازماً کریں گے:
رَبُّکُمْ أَعْلَمُ بِکُمْ إِنْ یَّشَأْ یَرْحَمْکُمْ أَوْ إِنْ یَّشَأْ یُعَذِّبْکُمْ وَمَا أَرْسَلْنَاکَ عَلَیْْہِمْ وَکِیْلاً (بنی اسرائیل ۱۷:۵۴)
’’تمہارا رب تمھارے بارے میں بہتر جانتا ہے۔ اگر وہ چاہے گا تو تم پر رحمت کرے گا اور چاہے گا تو تمھیں سزا دے گا۔ اور (اے پیغمبر) ہم نے تمھیں ان پر مسلط کر کے نہیں بھیجا۔‘‘
وَإِن مَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُہُمْ أَوْ نَتَوَفَّیَنَّکَ فَإِنَّمَا عَلَیْْکَ الْبَلاَغُ وَعَلَیْْنَا الْحِسَاب (الرعد ۱۳:۴۰)
’’اور چاہے ہم تمھیں اس عذاب کی ایک جھلک دکھا دیں جس کی ہم انھیں دھمکی دیتے ہیں یا تمھیں وفات دے دیں، تمہارے ذمے بس پہنچا دینا ہے اور محاسبہ کرنا ہمارے ذمے ہے۔‘‘
أَفَأَنتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ أَوْ تَہْدِیْ الْعُمْیَ وَمَن کَانَ فِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ، فَإِمَّا نَذْہَبَنَّ بِکَ فَإِنَّا مِنْہُم مُّنتَقِمُونَ، أَوْ نُرِیَنَّکَ الَّذِیْ وَعَدْنَاہُمْ فَإِنَّا عَلَیْْہِم مُّقْتَدِرُونَ (الزخرف ۴۳:۴۰، ۴۲)
’’تو کیا تم بہروں کو سنا سکتے ہو یا اندھوں کو اور ان لوگوں کو راہ دکھا سکتے ہو جو کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہوں؟ پھر اگر ہم تمھیں لے جائیں گے تو یقیناًہم ان سے انتقام لیں گے۔ یا اگر تمھیں وہ عذاب دکھانا چاہیں گے جس کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے تو بے شک ہمیں ان پر پوری پوری قدرت حاصل ہے۔‘‘
آیات سے صاف واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کو تو یہ حق نہیں دیا کہ وہ کسی دوسرے انسان کو اس کے اختیار کردہ مذہب سے بزور قوت برگشتہ کرنے کی کوشش کرے یا اس پر اسے سزا دے، لیکن اللہ تعالیٰ یہ اختیار رکھتے ہیں کہ وہ اتمام حجت کے بعد بھی دین حق کو قبول نہ کرنے والوں کو سزا دیں۔ 
تکوینی طور پر انسانوں کو ابتدا ءً ایمان پر مجبور نہ کرنا اور پھر وضوح حق کے بعد ایمان نہ لانے پر انھیں سزا کا مستحق قرار دینا، یہ دونوں اصول عدل وحکمت پر مبنی ہیں اور ان میں باہم کوئی منافات نہیں۔ چونکہ انسان کو اس دنیا میں بھیجنے سے اس کا امتحان اور آزمایش مقصود ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو تکوینی طور پر اس بات پر مجبور نہیں کیا کہ وہ اس پر ایمان لائیں، بلکہ انھیں اپنے اختیار اور ارادے سے ایمان یا کفر میں سے کوئی بھی راستہ اختیار کرنے کی آزادی دی ہے۔ اس امتحان وآزمایش کے بامعنی اور منصفانہ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ دار الامتحان میں انسانوں کو کوئی بھی عقیدہ وعمل اختیار کرنے کی آزادی ہو اور انھیں بالجبر کسی نقطہ نظر سے برگشتہ کرنے یا کسی مخصوص عقیدہ ومذہب کو اختیار کرنے کے لیے مجبور نہ کیا جائے۔ تاہم اس سے یہ کسی طرح لازم نہیں آتا کہ اس دنیا میں انسانوں کے مواخذہ ومحاسبہ کا امکان ہی ختم ہو جائے، اس لیے کہ عدم اکراہ کا اصول جزا وسزا کے قانون کی نفی کے لیے نہیں، بلکہ اس جزا وسزا کو ایک معقول اور اخلاقی اصول بنانے کے لیے درکار ارادہ واختیار کی آزادی کی شرط کو یقینی بنانے کے لیے ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی سرکشی اور عناد کی صورت میں اس سے باز پرس کا کوئی اختیار ہی اپنے پاس نہیں رکھا اور اسے ایک شتر بے مہار بنا کر دنیا میں بھیج دیا ہے، بلکہ صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں پر اپنے فضل واحسان اور نقمت وعذاب کا فیصلہ تحکم کے طریقے پر نہیں، بلکہ عدل وانصاف کے مطابق امتحان اور آزمایش کے اصول پر کرتا ہے۔ غور کیجیے تو خدائی قانون کے یہ دونوں پہلو باہم بالکل متوافق اور ایک ہی مقصد کو پورا کرنے کے لیے خدا کی اسکیم کا حصہ ہیں، اس لیے کہ آزادی دیے بغیر انسان کو امتحان میں ڈالنا تو یقیناًغیر معقول ہے اور اسی لیے اللہ تعالیٰ نے کسی فرد یا گروہ کو قبول حق کے معاملے میں تکوینی طور پر مجبور نہیں کیا، لیکن ظاہر ہے کہ ارادہ واختیار کی یہ آزادی مطلق نہیں بلکہ محدود ہے ، چنانچہ اس آزادی کے غلط استعمال پر اس کی جزا وسزا کا فیصلہ کرنا کسی طرح بھی اس کے منافی نہیں اور اتمام حجت کے بعد انکار کرنے والوں کو سزا دینا نہ صرف خالق کائنات کا حق بلکہ اس کے قانون عدل وانصاف کا لازمی تقاضا ہے۔
زیر بحث زاویہ نگاہ کی غلطی یہ ہے کہ جن آیات میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کے معاملے میں تکوینی جبر کی نفی کی ہے، وہ انھیں خدا کے قانونی اختیار کی نفی پر محمول کرتا اور ان سے یہ نتیجہ اخذ کر لیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایمان قبول نہ کرنے پر کسی کو سزا بھی نہیں دے سکتے۔ اسی طرح یہ زاویہ نگاہ اس دائرۂ اختیار میں جو خدا کو انسانوں پر حاصل ہے اور اس دائرۂ اختیار میں جو انسانوں کو انسانوں کے بارے میں دیا گیا ہے، فرق کو ملحوظ نہیں رکھتا اور ایک اخلاقی پابندی جو درحقیقت انسانوں کے لیے بیان کی گئی ہیں، اس سے یہ نتیجہ اخذ کر لیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود اپنے لیے بھی انھی کی پابندی لازم کر رکھی ہے اور وہ ان کے خلاف نہ کوئی فیصلہ کر سکتا ہے اور نہ کوئی حکم دے سکتا ہے، حالانکہ قرآن مجید کے نصوص میں انبیا کی قوموں کے مواخذہ اور ان پر عذاب الٰہی نازل کیے جانے کا قانون بار بار اور پوری وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ قرآن کی رو سے کسی قوم میں پیغمبر کی بعثت محض ایک داعی حق کی بعثت نہیں ہوتی، بلکہ اس قوم کے لیے فیصلے کی گھڑی ہوتی ہے اور پیغمبر کے مبعوث ہونے کے بعد قوم کے سامنے دو ہی راستے ہوتے ہیں: یا تو وہ پیغمبر کے دعوے کی تصدیق کرتے ہوئے اس پر ایمان لا کر نجات پائے اور یا اس کے دعوے کو تسلیم نہ کرے اور خدا کے عذاب کا نشانہ بن جائے۔ ارشاد ہوا ہے:
وَلِکُلِّ أُمَّۃٍ رَّسُولٌ فَإِذَا جَاء رَسُولُہُمْ قُضِیَ بَیْْنَہُم بِالْقِسْطِ وَہُمْ لاَ یُظْلَمُونَ (یونس ۱۰:۴۷)
’’ہر گروہ میں ایک رسول بھیجا گیا۔ پھر جب ان کا رسول آ گیا تو ان کے مابین بالکل انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا گیا اور ان پر کوئی زیادتی نہیں کی گئی۔‘‘
اس ضمن میں ایک شبہ یہ بھی پایا جاتا ہے کہ انبیا کی قوموں پر عذاب نازل ہونے کی وجہ محض ان کا ایمان نہ لانا نہیں بلکہ انبیا اور ان کی پیروی اختیار کرنے والے اہل ایمان کو اذیتیں اور تکالیف پہنچانا تھا، تاہم قرآن مجید کے بیانات سے اس مفروضے کی تائید نہیں ہوتی۔ اس میں شبہ نہیں کہ انبیا کی قوموں نے بالعموم اپنے رسولوں کومحض جھٹلا دینے پر اکتفا نہیں کی بلکہ اس کے ساتھ انھیں اور ان کے پیروکاروں کو ایذا رسانی اور تعذیب کا نشانہ بھی بنایا جو ان کے جرم کو زیادہ سنگین اور قابل مواخذہ بنا دیتا ہے، تاہم قرآن مجید میں رسولوں کے انذار کی جو تفصیل بیان کی گئی ہے، اس سے واضح ہے کہ رسولوں پر ان قوموں کو ایمان لانے کی دعوت دی اور نفس انکار وتکذیب پر انھیں خدا کے عذاب کی وعید سنائی:
قُلْ أَرَأَیْْتُمْ إِنْ أَتَاکُمْ عَذَابُہُ بَیَاتاً أَوْ نَہَاراً مَّاذَا یَسْتَعْجِلُ مِنْہُ الْمُجْرِمُونَ ۔ أَثُمَّ إِذَا مَا وَقَعَ آمَنْتُم بِہِ آلآنَ وَقَدْ کُنتُم بِہِ تَسْتَعْجِلُونَ (یونس ۱۰:۵۰، ۵۱)
’’کہہ دو کہ تم بتاؤ اگر اللہ کا عذاب تم پر را ت کو سوتے میں یا دن کو آ گیا تو وہ کیا چیز ہے جس کی ان مجرموں کو جلدی ہے؟ کیا پھر جب وہ عذاب آن پڑے گا تو تب تم ایمان لاؤ گے؟ کیا اب (ایمان لاتے ہو) جبکہ تم تو اس عذاب کے جلد آنے کا مطالبہ کر رہے تھے؟‘‘
انعام میں ہے:
وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ إِلاَّ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنذِرِیْنَ فَمَنْ آمَنَ وَأَصْلَحَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُونَ وَالَّذِیْنَ کَذَّبُواْ بِآیَاتِنَا یَمَسُّہُمُ الْعَذَابُ بِمَا کَانُواْ یَفْسُقُونَ (الانعام ۶:۴۸، ۴۹)
’’اور ہم رسولوں کو اسی لیے بھیجتے ہیں کہ وہ بشارت دیں اور انذار کریں۔ پھر جو لوگ ایمان لے آئے اور (اپنے اعمال کو) درست کر لیا، ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غم زدہ ہوں گے۔ لیکن جو ہماری آیات کو جھٹلائیں، ان کو ان کے گناہوں کی وجہ سے عذاب آ لیتا ہے۔‘‘
سورۂ فاطرمیں فرمایا:
إِنَّا أَرْسَلْنَاکَ بِالْحَقِّ بَشِیْراً وَنَذِیْراً وَإِن مِّنْ أُمَّۃٍ إِلَّا خلَا فِیْہَا نَذِیْرٌ ۔ وَإِن یُکَذِّبُوکَ فَقَدْ کَذَّبَ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِمْ جَاءتْہُمْ رُسُلُہُم بِالْبَیِّنَاتِ وَبِالزُّبُرِ وَبِالْکِتَابِ الْمُنِیْرِ ۔ ثُمَّ أَخَذْتُ الَّذِیْنَ کَفَرُوا فَکَیْْفَ کَانَ نَکِیْرِ (فاطر ۳۵:۲۴ - ۲۶)
’’ہم نے تمھیں حق کے ساتھ بھیجا، بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا۔ اور کوئی گروہ ایسا نہیں جس میں کوئی آگاہ کرنے والا نہ گزرا ہو۔ اور اگر یہ لوگ تمھیں جھٹلاتے ہیں تو ان سے پہلے لوگوں نے بھی (پیغمبروں کو) جھٹلایا۔ ان کے پاس بھی ان کے رسول واضح دلائل اور صحائف اور ایک روشن کتاب لے کر آئے تھے۔ پھر میں نے کفر کرنے والوں کو پکڑا تو کیسی تھی میری سزا!‘‘
قرآن مجید سے یہ بھی واضح ہے کہ اگرچہ پیغمبر کی تکذیب، اس کی دعوت کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے اور اہل ایمان کو تعذیب وایذا کا نشانہ بنانے والے اصلاً قوم کے سردار اور بارسوخ لوگ ہوتے تھے، لیکن جب خدا کا عذاب آیا تو قوم کے صرف وہی افراد اس سے نجات پا سکے جو پیغمبر پر ایمان لا کر اس کا ساتھ اختیار کر چکے تھے۔ چنانچہ سیدنا نوح کی قوم کے معدودے چند افرادکے سوا ساری قوم طوفان میں غرق ہو گئی، حتیٰ کہ خود ان کی اپنی بیوی اور بیٹا بھی اس سے بچ نہ سکے۔ (ہود ۱۱:۴۲، ۴۳۔ التحریم ۶۶:۱۰)
قرآن نے ان قوموں کے بحیثیت قوم عذاب کا نشانہ بننے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ انھوں نے پیغمبر کی پیروی اختیار کرنے کے بجائے اپنی قوم کے سرکش جباروں کی بات مانی اور ان کی پیروی میں پیغمبر اور اس لائی ہوئی نشانیوں کو جھٹلا دیا۔ قوم عاد کے بارے میں ارشاد ہوا ہے:
وَتِلْکَ عَادٌ جَحَدُوا بِآیَاتِ رَبِّہِمْ وَعَصَوْاْ رُسُلَہُ وَاتَّبَعُواْ أَمْرَ کُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ وَأُتْبِعُوا فِی ہَذِہِ الدُّنْیَا لَعْنَۃً وَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَلا إِنَّ عَاداً کَفَرُوا رَبَّہُمْ أَلاَ بُعْداً لِّعَادٍ قَوْمِ ہُودٍ (ہود ۱۱:۵۸، ۶۰)
’’اور یہ عاد کے لوگ تھے جنھوں نے اپنے رب کی نشانیوں کا انکار کیا اور اس کے رسولوں کے نافرمانی کی اور ہر ہٹ دھرم جبار کے طریقے کی پیروی کی۔ ان پر اس دنیا میں بھی لعنت مسلط کی گئی اور آخرت میں بھی۔ سنو، عاد نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا۔ سنو، ہود کی قوم عاد کے لیے بربادی مقدر ہوئی۔‘‘
قرآن نے ان قوموں کی بربادی کا وجہ ان کا ایمان نہ لانا ہی بیان کی ہے:
وَلَقَدْ أَہْلَکْنَا الْقُرُونَ مِن قَبْلِکُمْ لَمَّا ظَلَمُواْ وَجَاء تْہُمْ رُسُلُہُم بِالْبَیِّنَاتِ وَمَا کَانُواْ لِیُؤْمِنُواْ کَذَلِکَ نَجْزِیْ الْقَوْمَ الْمُجْرِمِیْنَ (یونس ۱۰:۱۳)
’’اور یقیناً ہم نے تم سے پہلی قوموں کو بھی ہلاک کیا جب انھوں نے ظلم کیا۔ ان کے پاس ان کے رسول واضح دلائل لے کر آئے لیکن وہ ایمان لانے پر آمادہ نہ ہوئے۔ اسی طرح ہم مجرم قوموں کو سزا دیا کرتے ہیں۔‘‘
سورۂ یونس میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہے کہ انبیا کے منکرین جب ان کی طرف سے پیش کردہ دلائل وبراہین پر غور کرنے سے گریز کرتے اور محض ہٹ دھرمی کی بنا پر ان کی تکذیب کا رویہ اختیار کیے رکھتے ہیں تو ایک خاص وقت تک آزمانے کے بعد اللہ تعالیٰ ان سے ایمان کی توفیق ہی سرے سے سلب کر لیتے ہیں اور خدا کے اس فیصلے کے بعد ہر قسم کی نشانیوں کو دیکھنے کے باوجود انھیں ایمان لانا نصیب نہیں ہوتا۔ ارشاد ہوا ہے:
إِنَّ الَّذِیْنَ حَقَّتْ عَلَیْْہِمْ کَلِمَتُ رَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُونَ ۔ وَلَوْ جَاءَ تْہُمْ کُلُّ آیَۃٍ حَتّٰی یَرَوُا الْعَذَابَ الأَلِیْمَ (یونس ۱۰:۹۶-۹۷)
’’بے شک وہ لوگ جن پر تیرے رب کا فیصلہ لازم ہو جائے، چاہے ان کے پاس ہر نشانی آ جائے، وہ اس وقت تک ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہوتے جب تک کہ دردناک عذاب کو اپنے سامنے نہ دیکھ لیں۔‘‘
اسی بنیاد پر جب انبیا اپنی مخاطب قوموں کے ایمان سے مایوس ہو گئے تو انھوں نے خدا سے دعا کی کہ اب وہ ایمان کی توفیق سے محروم کر دے تاکہ خدا کے عذاب کا فیصلہ ان پر نافذ ہو جائے۔ چنانچہ سیدناموسیٰ علیہ السلام نے درخواست کی کہ:
رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَی أَمْوَالِہِمْ وَاشْدُدْ عَلَی قُلُوبِہِمْ فَلاَ یُؤْمِنُواْ حَتَّی یَرَوُاْ الْعَذَابَ الأَلِیْمَ (یونس ۱۰:۸۸)
’’اے ہمارے رب، ان کے اموال کو تباہ کر دے اور ان کے دلوں پر مہر لگا دے تاکہ جب تک یہ دردناک عذاب کو سامنے نہ پا لیں، ایمان نہ لانے پائیں۔‘‘
سیدنا نوح نے بددعا کی کہ:
رَّبِّ إِنَّہُمْ عَصَوْنِیْ وَاتَّبَعُوا مَن لَّمْ یَزِدْہُ مَالُہُ وَوَلَدُہُ إِلَّا خَسَاراً.... وَقَدْ أَضَلُّوا کَثِیْراً وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِیْنَ إِلَّا ضَلَالاً (نوح ۷۱:۲۱-۲۴)
’’اے میرے رب، انھوں نے میری نافرمانی کی اور ان لوگوں کی پیروی اختیار کی جن کے مال اور اولاد نے ان کے گھاٹے میں ہی اضافہ کیا ہے۔ ..... انھوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ہے، اور تو ان ظالموں کی گمراہی میں ہی اضافہ فرمانا۔‘‘
قرآن نے اس ضمن میں انبیا کی قوموں کے علاوہ خود ان کے افراد خانہ کے حوالے سے بھی اللہ تعالیٰ کے اس قانون کی وضاحت فرمائی ہے۔ چنانچہ سیدنا نوح کا ایک بیٹا اہل ایمان کے ساتھ کشتی میں سوار نہ ہونے پر خود اپنے والد کے سامنے طوفان کے عذاب کا شکار ہو گیا اور سیدنا نوح نے جب اس پر بارگاہ الٰہی میں شکوہ کیا تو انھیں تنبیہ کی گئی کہ ایمان نہ لانے کے باعث وہ بھی خدا کے عذاب کا مستحق تھا، اس لیے وہ پدرانہ شفقت سے مغلوب ہو کر اللہ تعالیٰ سے کوئی ناروا مطالبہ نہ کریں:
قَالَ یَا نُوحُ إِنَّہُ لَیْْسَ مِنْ أَہْلِکَ إِنَّہُ عَمَلٌ غَیْْرُ صَالِحٍ فَلاَ تَسْأَلْنِ مَا لَیْْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ إِنِّیْ أَعِظُکَ أَن تَکُونَ مِنَ الْجَاہِلِیْنَ (ہود ۱۱:۴۶)
’’اللہ نے فرمایا کہ اے نوح، وہ تمہارے اہل میں سے نہیں تھا۔ اس کے عمل نیک نہیں تھے۔ سو تو مجھ سے اس چیز کا سوال نہ کر جس کا تجھے علم نہیں۔ میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ جاہلوں میں سے نہ ہو جا۔‘‘
سیدنا لوط کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی قوم پرخدا کا عذاب آنے سے پہلے اپنے اہل خانہ کو لے کر رات کے اندھیرے میں اپنی بستی سے نکل جائیں تو ساتھ ہی یہ ہدایت بھی کی گئی کہ وہ اپنی بیوی کا ساتھ لے کر نہ جائیں، کیونکہ ایمان نہ لانے کی وجہ سے وہ بھی خدا کے عذاب کی مستحق ہے اور اسی انجام کا شکار ہوگی جو ان کی قوم کے لیے مقدر کیا جا چکا ہے:
فَأَسْرِ بِأَہْلِکَ بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّیْْلِ وَلاَ یَلْتَفِتْ مِنکُمْ أَحَدٌ إِلاَّ امْرَأَتَکَ إِنَّہُ مُصِیْبُہَا مَا أَصَابَہُمْ (ہود ۱۱:۸۱)
’’اپنے گھر والوں کو لے کر رات کے کسی پہر میں روانہ ہو جا اور تم میں سے کوئی پلٹ کر پیچھے نہ دیکھے۔ ہاں، اپنی بیوی کو ساتھ نہ لے جانا۔ بے شک اس پر بھی وہی عذاب آئے گا جو پوری قوم پر آنے والا ہے۔‘‘
قرآن مجید کے نزدیک ان قوموں کا اصل جرم خدا کی آیات پر غور نہ کرنا اور خداکی دی ہوئی علم وعقل کی صلاحیتوں کو استعمال نہ کرنا ہے۔ قرآن نے یہ بات غیر مبہم انداز میں واضح کی ہے کہ انبیا کی یہ قومیں جس جرم کی وجہ سے اصلاً عذاب کی مستحق قرار پائیں، وہ یہ تھا کہ انھوں نے انبیا ورسل کی دعوت اور ان کے پیش کردہ دلائل وبینات پر غور نہیں کیا اور نتیجتاً ان پر ایمان لانے کے بجائے ان کی تکذیب پر مصر رہے: 
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ أُمَّۃٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ فَمِنْہُم مَّنْ ہَدَی اللّٰہُ وَمِنْہُم مَّنْ حَقَّتْ عَلَیْْہِ الضَّلالَۃُ فَسِیْرُواْ فِیْ الأَرْضِ فَانظُرُواْ کَیْْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ (النحل ۱۶:۳۶)
’’اور یقیناًہم نے ہر قوم میں ایک رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔ سو ان میں سے کچھ تو ایسے تھے جنھیں اللہ نے ہدایت دی اور کچھ وہ تھے جن پر گمراہی مسلط ہو گئی۔ تو تم زمین میں چلو پھرو اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا؟‘‘
کَذَّبَتْ قَبْلَہُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَعَادٌ وَفِرْعَوْنُ ذُو الْأَوْتَادِ، وَثَمُودُ وَقَوْمُ لُوطٍ وَأَصْحَابُ الأَیْْکَۃِ أُوْلَئِکَ الْأَحْزَابُ، إِن کُلٌّ إِلَّا کَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ عِقَابِ (ص ۳۸:۱۲ -۱۴)
’’ان سے پہلے قوم نوح اور قوم عاد اور میخوں والے فرعون اور قوم ثمود اور قوم لوط اور جنگل والوں نے بھی (پیغمبروں کو) جھٹلایا۔ یہی ہیں (منکروں) کے گروہ۔ ان میں سے ہر ایک نے رسولوں کو جھٹلایا جس پر میرا عذاب ان پر مسلط ہو گیا۔‘‘
سیدنا نوح نے اپنی قوم کے بارے میں فرمایا:
رَبِّ إِنَّ قَوْمِیْ کَذَّبُونِ ۔ فَافْتَحْ بَیْْنِیْ وَبَیْْنَہُمْ فَتْحاً وَنَجِّنِیْ وَمَن مَّعِیْ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ (الشعراء ۲۶:۱۷۷، ۱۱۸)
’’اے میرے رب، بے شک میری قوم نے مجھے جھٹلا دیا ہے۔ سو تو میرے اور ان کے درمیان واضح فیصلہ فرما دے اور مجھے اور میرے ساتھ جو اہل ایمان ہیں، انھیں (اپنے عذاب سے) بچا لے۔‘‘
فرعون اور آل فرعون کے بارے میں ارشاد ہوا ہے:
فَلَمَّا جَاء تْہُمْ آیَاتُنَا مُبْصِرَۃً قَالُوا ہَذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ ۔ وَجَحَدُوا بِہَا وَاسْتَیْْقَنَتْہَا أَنفُسُہُمْ ظُلْماً وَعُلُوّاً فَانظُرْ کَیْْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُفْسِدِیْنَ (النمل ۲۷:۱۳، ۱۴)
’’پھر جب ان کے پاس ہماری روشن نشانیاں آئیں تو انھوں نے کہا کہ یہ تو کھلا جادو ہے۔ انھوں نے ظلم اور سرکشی سے کام لیتے ہوئے ان نشانیوں کو جھٹلا دیا حالانکہ ان کے دل ان کا یقین کر چکے تھے۔ سو دیکھو کہ مفسدین کا انجام کیسا ہوا۔‘‘
یہی بات ’فَکَذَّبُوہُ فَأَہْلَکْنَاہُمْ‘ اور ’فَکَذَّبُوہُ فَأَخَذَہُمْ عَذَابُ یَوْمِ الظُّلَّۃِ‘ کے الفاظ میں قوم عاد اور قوم شعیب کے بارے میں بیان ہوئی ہے۔ (الشعراء ۲۶:۱۳۹، ۱۸۹) 
قرآن مجید نے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ پیغمبر کی قوم کو مختلف جسمانی اور معاشی تکالیف میں مبتلا کرتے ہیں تاکہ وہ متنبہ ہو کر اللہ کی طرف رجوع کریں، لیکن جب وہ کوئی سبق نہیں سیکھتے تو ان پر مال ودولت اور سامان عیش کی فراوانی کر دی جاتی ہے، یہاں تک کہ وہ غفلت کا شکار ہو جاتے ہیں اور پھر اچانک خدا کا عذاب ان پر آن پڑتا ہے:
وَلَقَدْ أَرْسَلنَا إِلَی أُمَمٍ مِّن قَبْلِکَ فَأَخَذْنَاہُمْ بِالْبَأْسَاء وَالضَّرَّاء لَعَلَّہُمْ یَتَضَرَّعُونَ فَلَوْلا إِذْ جَاء ہُمْ بَأْسُنَا تَضَرَّعُواْ وَلَکِن قَسَتْ قُلُوبُہُمْ وَزَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْْطَانُ مَا کَانُواْ یَعْمَلُونَ فَلَمَّا نَسُواْ مَا ذُکِّرُواْ بِہِ فَتَحْنَا عَلَیْْہِمْ أَبْوَابَ کُلِّ شَیْْءٍ حَتَّی إِذَا فَرِحُواْ بِمَا أُوتُواْ أَخَذْنَاہُم بَغْتَۃً فَإِذَا ہُم مُّبْلِسُونَ فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُواْ وَالْحَمْدُ لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ (الانعام ۶:۴۲ -۴۵)
’’اور یقیناً ہم نے تم سے پہلے بہت سی امتوں کی طرف رسول بھیجے تو انھیں جسمانی اور مالی تکلیفوں میں مبتلا کیا تاکہ وہ عاجزی اختیار کریں۔ تو کیوں نہ ایسا ہوا کہ جب ان پر ہمارا عذاب آیا تو وہ عاجزی کرتے۔ مگر ان کے دل سخت ہو گئے اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے سامنے خوب صورت بنا دیا۔ پھر جب انھوں نے یاد دہانی کی ان باتوں کو فراموش کر دیا جو انھیں کی گئی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیے۔ یہاں تک کہ جب وہ ان چیزوں پر جو ان کو دی گئیں، خوش ہو گئے تو ہم نے اچانک ان کو آپکڑا اور پھر ناگہاں وہ مایوس ہو کر رہ گئے۔ پھر ان لوگوں کی جنھوں نے ظلم کیا، جڑکاٹ دی گئی اور تعریف کا سزاوار اللہ،جہانوں کا پروردگار ہی ہے۔‘‘
قرآن کی رو سے عذاب الٰہی کے یہ واقعات عبرت کی غرض سے رونما کیے جاتے ہیں تاکہ دنیا کے باقی لوگ ان سے سبق سیکھیں اور الٰہی ہدایت کے انکار اور اس کو جھٹلانے سے باز رہیں، چنانچہ ان قوموں پر دنیا میں آنے والے عذاب کو وہ آخرت کے عذاب کی ایک نشانی اور یاد دہانی قرار دیتا ہے جس سے واضح ہے کہ دنیا کے عذاب کا باعث اور علت بھی وہی ہے جس کی بنیاد پر آخرت میں اہل کفر عذاب الٰہی کے سزاوار قرار پائیں گے:
وَکَذَلِکَ أَخْذُ رَبِّکَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَی وَہِیَ ظَالِمَۃٌ إِنَّ أَخْذَہُ أَلِیْمٌ شَدِیْدٌ إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لآیَۃً لِّمَنْ خَافَ عَذَابَ الآخِرَۃِ ذَلِکَ یَوْمٌ مَّجْمُوعٌ لَّہُ النَّاسُ وَذَلِکَ یَوْمٌ مَّشْہُودٌ (ہود ۱۱:۱۰۲، ۱۰۳)
’’اور تیرے رب کی گرفت ایسی ہی ہوتی ہے جب وہ بستیوں کو اس وقت پکڑتا ہے جب وہ ظلم کرتی ہیں۔ بے شک اس کی گرفت بہت دردناک اور سخت ہے۔ اس میں نشانی ہے ان کے لیے جو آخرت کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ یہ وہ دن ہے جب میں سب لوگوں کو جمع کیا جائے گااور یہ وہ دن ہے جب سب (خدا کے سامنے) حاضر ہوں گے۔‘‘
منکرین حق کے مواخذہ کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ قانون کی مذکورہ تفصیلات پیش نظر رہیں تو وہ الجھن بالکل رفع ہو جاتی ہے جس کا سامنا زیر بحث زاویہ نگاہ کو ہے، یعنی یہ کہ جب دین کے معاملے میں جبر واکراہ درست نہیں تو پھر کفار کے خلاف قتال کا باعث ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لانے کو کیونکر قرار دیا جا سکتا ہے۔ ہم نے قرآن مجید میں ان آیات کے سیاق وسباق کی روشنی میں واضح کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں اپنے لیے مقرر کردہ کسی قانون یا اپنے اوپر عائد کردہ کسی پابندی کا ذکر نہیں کیا جس سے یہ اخذ کیا جا سکے کہ وہ رسولوں کے ذریعے سے اتمام حجت کے بعد ایمان نہ لانے والوں کو بھی اس دنیا میں کسی سزا کا مستوجب نہیں ٹھہرائے گا، بلکہ محض اس معیار کو بیان کیا ہے جو اس کے نزدیک تکوینی سطح پر ہدایت اور ایمان کی توفیق بخشنے کے لیے شرط کی حیثیت رکھتا ہے۔ مزید یہ کہ قرآن میں اہل حق کی ذمہ داری کو ’بلاغ مبین‘ تک محدود قرار دینے کی جو بات بیان ہوئی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان ازخود اپنے اجتہاد سے کسی فرد یا گروہ کو سزا کا مستحق قرار دے کر اس کے خلاف کوئی اقدام نہیں کر سکتے۔ کسی فرد یا قوم پر حجت کے تمام ہو جانے اور پھر اس کے بعد اس کو عذاب کا مستحق قرار دینے کا معاملہ سرتا سر خدا کے علم اور اس کے ارادے پر منحصر ہے اور کسی انسان، حتیٰ کہ کسی قوم کی طرف مبعوث کیے جانے والے پیغمبر کو بھی اس کا اختیار حاصل نہیں۔ پیغمبر سمیت ہر داعی حق کی ذمہ داری بس یہ ہے کہ وہ حق کا پیغام بے کم وکاست لوگوں تک پہنچا دے، الا یہ کہ خود اللہ تعالیٰ پیغمبر یا اس کے ساتھیوں کو کسی فرد یا گروہ کے خلاف اقدام کرنے کا حکم یا اجازت دے دیں۔ عذاب کے سزاوار قرار پانے والے گروہوں کی تحدید وتعیین سے لے کر ان کو دی جانے والی مہلت کے خاتمے اور ان پر سزا کے نفاذ تک کے تمام فیصلے براہ راست بارگاہ الٰہی سے صادر ہوتے ہیں جبکہ اہل ایمان اس حکم پر محض فرمان الٰہی کی تعمیل میں عمل پیرا ہوتے اور اللہ کے فیصلے کو اسی کے حکم سے اسی فرد یا گروہ پر نافذ کرنے کے پابند ہوتے ہیں جس پر نافذ کرنے کا انھیں اختیار دیا گیا ہو۔ دوسرے لفظوں میں یہ ایک خدائی فیصلہ ہوتا ہے جس کی تنفیذ کے لیے انسانی ہاتھ وہی کردار ادا کرتے ہیں جو تدبیر امور کے وسیع تر دائرے میں خدا کے فرشتے خدا کے فیصلوں کی تنفیذ کے لیے ادا کرتے ہیں۔ چنانچہ قرآن مجید نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے ’لیس لک من الامر شئ او یتوب علیہم او یعذبہم‘ (آل عمران ۳:۱۲۸) اور ’انما علیک البلغ وعلینا الحساب‘ (الرعد ۱۳:۴۰) کے الفاظ میں اصولی طور پر بھی اس بات کو واضح فرمایا ہے اور منکرین حق کے خلاف قتال کے احکام کے ضمن میں بھی جگہ جگہ اس کی وضاحت کی ہے کہ یہ جنگ دراصل خدا کا عذاب ہے جسے ان پر نازل کرنے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے سپرد کی ہے۔ یہ تصریحات حسب ذیل ہیں:
مکہ مکرمہ میں تیرہ سال تک دعوت وتبلیغ کے بعد بھی قریش من حیث القوم آپ پر ایمان نہ لائے تو اتمام حجت کے بعد ان پر عذاب نازل کرنے کا فیصلہ فرما دیا گیا۔ تاہم بہت سی حکمتوں اور مصلحتوں کے تحت ان کو کلیتاً نابود کر دینے کے بجائے ایک تدریج کے ساتھ ان کے ضدی اور معاند عناصر کا صفایا کرنے کی حکمت عملی اختیار کی گئی۔ اس ضمن میں مکی دور میں ہی مشرکین کو عذاب الٰہی کی ممکنہ صورتوں میں سے ایک صورت یہ بتا دی گئی کہ اہل حق کی قوت بازو منکرین کو ان کے کفر کا مزہ چکھا دے:
قُلْ ہُوَ الْقَادِرُ عَلَی أَن یَبْعَثَ عَلَیْْکُمْ عَذَاباً مِّن فَوْقِکُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِکُمْ أَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعاً وَیُذِیْقَ بَعْضَکُم بَأْسَ بَعْضٍ انظُرْ کَیْْفَ نُصَرِّفُ الآیَاتِ لَعَلَّہُمْ یَفْقَہُونَ ۔ وَکَذَّبَ بِہِ قَوْمُکَ وَہُوَ الْحَقُّ قُل لَّسْتُ عَلَیْْکُم بِوَکِیْلٍ ۔ لِّکُلِّ نَبَإٍ مُّسْتَقَرٌّ وَسَوْفَ تَعْلَمُونَ (الانعام ۶:۶۵۔۶۷)
’’کہہ دو کہ وہ اس پر قادر ہے کہ چاہے تو تم پر تمہارے اوپر سے یا نیچے سے تم پر کوئی عذاب مسلط کر دے یا تمہارے مختلف گروہ بنا کر تمھیں آپس میں بھڑا دے اور ایک دوسرے کی پکڑ کا مزہ چکھا دے۔ دیکھو ہم کس کس انداز سے نشانیوں کو بیان کرتے ہیں تاکہ یہ سمجھ جائیں۔ اور تیری قوم نے اس عذاب کو جھٹلا دیا حالانکہ اس کا آنا لازم ہے۔ تم کہہ دو کہ میں اس کو منوانے کے لیے تم پر مسلط نہیں کیا گیا۔ ہر عذاب کے آنے کا وقت بالکل مقرر ہے اور عنقریب تم جان لو گے۔‘‘
یہ عذاب ان پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کے بعد مسلمانوں کے ہاتھوں قتل کی صورت میں نازل ہونا شروع ہوا۔ 
ہجرت مدینہ کے بعد اہل کفر کے خلاف لڑائی کے باقاعدہ آغاز سے پہلے سورۂ محمد میں مسلمانوں سے کہا گیا کہ جب میدان جنگ میں ان کا دشمن سے آمنا سامنا ہو تو وہ اچھی طرح ان کی گردنیں ماریں اور پھر خوب خون ریزی کے بعد ان کو باندھ کر قیدی بنا لیں۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ بھی واضح فرما دیا کہ یہ دراصل اللہ تعالیٰ کا انتقام ہوگا جو وہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے کفار سے لے گا:
فَإِذا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّی إِذَا أَثْخَنتُمُوہُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنّاً بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاء حَتَّی تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَہَا ذَلِکَ وَلَوْ یَشَاءُ اللَّہُ لَانتَصَرَ مِنْہُمْ وَلَکِن لِّیَبْلُوَ بَعْضَکُم بِبَعْضٍ وَالَّذِیْنَ قُتِلُوا فِیْ سَبِیْلِ اللَّہِ فَلَن یُضِلَّ أَعْمَالَہُمْ (محمد ۴۷:۴)
’’پھر جب کفار کے ساتھ تمھاری مڈبھیڑ ہو تو خوب ان کی گردنیں مارو۔ یہاں تک کہ جب اچھی طرح ان کی خون ریزی کر چکو تو انھیں مضبوط باندھ لو۔ پھر اس کے بعد یا تو احسان کر کے چھوڑ دینا ہے یا فدیہ لے کر رہا کر دینا۔ (ان کے ساتھ لڑائی جاری رکھو) یہاں تک کہ جنگ اپنے ہتھیار ڈال دے۔ اور اگر اللہ چاہتا تو خود ہی ان سے انتقام لے لیتا، لیکن (اس نے تمھیں اس کا حکم دیا ہے) تاکہ وہ تم میں سے بعض کو بعض کے ذریعے آزمائے۔ اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے جائیں گے، اللہ ان کے اعمال کو ہرگز اکارت نہیں جانے دے گا۔‘‘
مشرکین قریش پر یہ عذاب بالفعل غزوۂ بدر میں نازل ہوا۔ قرآن مجید نے بتایا ہے کہ عذاب کے اس فیصلے پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے تکوینی لحاظ سے مداخلت کرتے ہوئے ان تمام اسباب کو ختم کر دیا جو اس معرکے کے بپا ہونے میں رکاوٹ بن سکتے تھے۔ مثال کے طور پر ایسے حالات پیدا کر دیے گئے کہ بعض اہل ایمان کی خواہش کے برعکس، شام سے لوٹنے والے قریش کے تجارتی قافلے کے بجائے مکے سے آنے والے لشکر کے ساتھ مسلمانوں کا ٹکراؤ ناگزیر ہو گیا:
وَإِذْ یَعِدُکُمُ اللّہُ إِحْدَی الطَّاءِفَتِیْْنِ أَنَّہَا لَکُمْ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَیْْرَ ذَاتِ الشَّوْکَۃِ تَکُونُ لَکُمْ وَیُرِیْدُ اللّہُ أَن یُحِقَّ الحَقَّ بِکَلِمَاتِہِ وَیَقْطَعَ دَابِرَ الْکَافِرِیْنَ ۔لِیُحِقَّ الْحَقَّ وَیُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ کَرِہَ الْمُجْرِمُونَ (الانفال ۸:۷، ۸)
’’اور جب اللہ تم سے وعدہ کر رہا تھا کہ دونوں گروہوں میں سے ایک سے تمھارا واسطہ پڑے گا، اور تم یہ پسند کرتے تھے کہ کیل کانٹے کے بغیر آنے والا قافلہ تمھیں ملے، لیکن اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ وہ اپنے کلمات کے ذریعے سے حق کو سربلند کر دے اور کافروں کی جڑ کاٹ کر رکھ دے۔‘‘
إِذْ أَنتُم بِالْعُدْوَۃِ الدُّنْیَا وَہُم بِالْعُدْوَۃِ الْقُصْوَی وَالرَّکْبُ أَسْفَلَ مِنکُمْ وَلَوْ تَوَاعَدتَّمْ لاَخْتَلَفْتُمْ فِیْ الْمِیْعَادِ وَلَکِن لِّیَقْضِیَ اللّہُ أَمْراً کَانَ مَفْعُولاً (الانفال ۸:۴۲)
’’اور اگر تم باہم طے کر کے لڑائی کے لیے نکلتے تو مقررہ وقت یا جگہ پر اکٹھے نہ پہنچتے، لیکن اللہ نے یہ اس لیے کیا کہ ایک طے شدہ فیصلے کو نافذ کر دے۔‘‘
اسی طرح دونوں گروہوں کو میدان جنگ میں اترنے پر آمادہ کرنے کے لیے دونوں کی تعداد کو بھی ایک دوسرے کی نگاہ میں کم کر کے دکھایا گیا:
إِذْ یُرِیْکَہُمُ اللّہُ فِیْ مَنَامِکَ قَلِیْلاً وَلَوْ أَرَاکَہُمْ کَثِیْراً لَّفَشِلْتُمْ وَلَتَنَازَعْتُمْ فِیْ الأَمْرِ وَلَکِنَّ اللّہَ سَلَّمَ إِنَّہُ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ۔ وَإِذْ یُرِیْکُمُوہُمْ إِذِ الْتَقَیْْتُمْ فِیْ أَعْیُنِکُمْ قَلِیْلاً وَیُقَلِّلُکُمْ فِیْ أَعْیُنِہِمْ لِیَقْضِیَ اللّہُ أَمْراً کَانَ مَفْعُولاً وَإِلَی اللّہِ تُرْجَعُ الأمُورُ (الانفال ۸:۴۳، ۴۴)
’’جب اللہ نے خواب میں تمھیں ان کی تعداد تھوڑی دکھائی۔ اگر وہ تمھیں ان کی تعداد زیادہ دکھاتا تو تمھاری ہمت پست ہو جاتی اور تم اس معاملے میں باہم نزاع کرنے لگ جاتے، لیکن اللہ نے (تمھیں اس آزمائش سے) بچا لیا۔ بے شک وہ دلوں کیفیت کو خوب جانتا ہے۔ اور وہ وقت بھی یاد کرو کہ تمہارا آمنا سامنا ہوا تو اللہ انھیں تمہاری نگاہوں میں تھوڑا کر کے اور ان کی نظروں میں تمھاری تعداد کو کم کر کے دکھا رہا تھا تاکہ اللہ اس فیصلے کو رو بہ عمل کر دے جس کو بہرحال ہونا ہی تھا۔‘‘
بدر کے معرکے میں قریش کے بڑے بڑے سردار مسلمانوں کے ہاتھوں تہ تیغ ہوئے۔ اگرچہ عام انسانی اخلاقیات کے لحاظ سے بھی مسلمانوں کے پاس اس جنگ کا پورا پورا جواز موجود تھا، لیکن قرآن مجید نہایت اصرار کے ساتھ اس بات کو نمایاں کرتا ہے کہ یہ درحقیقت اللہ کا عذاب تھا جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کے نتیجے میں اہل ایمان کے ہاتھوں قریش پر نازل کیا گیا:
ذَلِکَ بِأَنَّہُمْ شَآقُّواْ اللّہَ وَرَسُولَہُ وَمَن یُشَاقِقِ اللّہَ وَرَسُولَہُ فَإِنَّ اللّہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ ۔ ذَلِکُمْ فَذُوقُوہُ وَأَنَّ لِلْکَافِرِیْنَ عَذَابَ النَّارِ (الانفال ۸:۱۳، ۱۴)
’’اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اور اس کے رسول کے ساتھ دشمنی کی راہ اختیار کی اور جو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ دشمنی کرے گا تو بے شک اللہ نہایت سخت سزا دینے والا ہے، سو اب اس عذاب کو چکھو۔ اور اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ بے شک منکروں کے لیے آگ کا عذاب ہے۔‘‘
قرآن نے اسی پہلو سے غزوۂ بدر میں مشرکین کی ذلت اور رسوائی کو فرعون اور دوسرے منکرین حق پر نازل ہونے والے عذاب کے مثل قرار دیا ہے:
کَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ وَالَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِمْ کَفَرُواْ بِآیَاتِ اللّہِ فَأَخَذَہُمُ اللّہُ بِذُنُوبِہِمْ إِنَّ اللّہَ قَوِیٌّ شَدِیْدُ الْعِقَابِ (الانفال ۸:۵۲)
’’ان کا حال بھی وہی ہے جو آل فرعون اور ان سے پہلی قوموں کا تھا۔ انھوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا تو اللہ نے ان کے گناہوں کی وجہ سے ان پر گرفت کی، اور اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔‘‘
اس واقعے کے بعد اس حوالے سے قریش کو بالواسطہ مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
وَإِذْ قَالُوا اللَّہُمَّ إِن کَانَ ہَذَا ہُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِکَ فَأَمْطِرْ عَلَیْْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَاءِ أَوِ اءْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِیْمٍ ۔ وَمَا کَانَ اللّہُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَأَنتَ فِیْہِمْ وَمَا کَانَ اللّہُ مُعَذِّبَہُمْ وَہُمْ یَسْتَغْفِرُونَ ۔ وَمَا لَہُمْ أَلاَّ یُعَذِّبَہُمُ اللّہُ وَہُمْ یَصُدُّونَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَا کَانُواْ أَوْلِیَاء ہُ إِنْ أَوْلِیَآؤُہُ إِلاَّ الْمُتَّقُونَ وَلَکِنَّ أَکْثَرَہُمْ لاَ یَعْلَمُونَ (الانفال ۸:۳۲۔۳۴)
’’اور یاد کرو جب انھوں نے کہا کہ اے اللہ، اگر یہی دین تیری طرف سے برحق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا کوئی اور دردناک عذاب ہم پر مسلط کر دے۔ (اس سے پہلے تو) اللہ ان پر عذاب نازل نہیں کر سکتا تھا کیونکہ تم ان کے مابین موجود تھے اور نہ اللہ انھیں اس حال ہی میں سزا دے سکتا تھا کہ وہ گناہوں کی معافی مانگ رہے ہوں۔ (لیکن اب ہجرت کے بعد) اس میں کیا رکاوٹ تھی کہ اللہ ان پر عذاب نازل کرتا، جبکہ وہ مسجد حرام سے بھی روکتے ہیں حالانکہ وہ اس کی تولیت کے حقدار بھی نہیں۔ اس کے حقیقی متولی تو صرف پرہیز گار ہیں، لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘
قرآن مجید نے غزوۂ بدر کے تناظر میں یہ بات بھی واضح فرمائی ہے کہ چونکہ اس بات کا علم اللہ ہی کو ہے کہ منکرین میں سے کن کی صلاحیت ایمان بالکل سلب ہو چکی ہے اور کن کے حق میں ابھی ایمان لانے کا امکان موجود ہے، اس لیے قریش کے لشکر میں سے کچھ لوگ تو تہ تیغ کر دیے گئے لیکن باقی کو بچ کر واپس جانے کا موقع دیا گیا ہے:
لِیَقْطَعَ طَرَفاً مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا أَوْ یَکْبِتَہُمْ فَیَنقَلِبُواْ خَآءِبِیْنَ ۔ لَیْْسَ لَکَ مِنَ الأَمْرِ شَیْْءٌ أَوْ یَتُوبَ عَلَیْْہِمْ أَوْ یُعَذَّبَہُمْ فَإِنَّہُمْ ظَالِمُونَ (آل عمران ۳:۱۲۸)
’’تاکہ اللہ کافروں کی جماعت کے ایک حصے کو کاٹ ڈالے یا ان کو بری طرح رسوا کر دے تاکہ وہ نامراد واپس پلٹ جائیں۔ (اے پیغمبر) اس معاملے میں تمھارے پاس کوئی اختیار نہیں۔ اللہ خود ہی یا ان پر نظر عنایت کرے گا اور یا انھیں عذاب دے گا، کیونکہ یہ ظالم ہیں۔‘‘
جہاد وقتال کے آخری مرحلے میں جب سورۂ توبہ میں مشرکین کو ایمان نہ لانے پر قتل کرنے کا حکم دیا گیا تو اس موقع پر بھی اس اقدام کی یہ حیثیت واضح کی گئی۔ ارشاد ہوا ہے:
فَإِن تُبْتُمْ فَہُوَ خَیْْرٌ لَّکُمْ وَإِن تَوَلَّیْْتُمْ فَاعْلَمُواْ أَنَّکُمْ غَیْْرُ مُعْجِزِیْ اللّٰہِ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ بِعَذَابٍ أَلِیْمٍ (التوبہ ۹:۳)
’’پھر اگر تم ایمان لے آؤ تو یہی تمہارے لیے بہتر ہے، اور اگر اس سے گریز کرو گے تو جان لو کہ اللہ کی گرفت سے بچ کر کہیں نہیں جا سکتے اور ان کافروں کے ایک دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو۔‘‘
فرمایا:
قَاتِلُوہُمْ یُعَذِّبْہُمُ اللّٰہُ بِأَیْْدِیْکُمْ وَیُخْزِہِمْ وَیَنصُرْکُمْ عَلَیْْہِمْ وَیَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَ، وَیُذْہِبْ غَیْْظَ قُلُوبِہِمْ وَیَتُوبُ اللّٰہُ عَلَی مَن یَشَاءُ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ (التوبہ ۹:۱۴، ۱۵)
’’ان سے لڑو تاکہ اللہ تمھارے ہاتھوں انھیں عذاب دے اور انھیں رسوا کرے اور ان کے خلاف تمھیں فتح عطا فرمائے اور مومنوں کے دلوں کو تسکین بخشے اور ان (کافروں) کے دلوں کے غیظ کو بھی دور کر دے۔ ہاں اللہ جس پرچاہے گا، عنایت فرمائے گا اور اللہ جاننے والا، حکمت والا ہے۔‘‘
اکابر مفسرین نے بھی مشرکین عرب کے ساتھ کیے جانے والے جہاد وقتال کی تفسیر اسی مخصوص تناظر میں کی ہے۔ ابن زید فرماتے ہیں:
(فمہل الکافرین امہلہم رویدا) قال مہلہم فلا تعجل علیہم ترکہم حتی لما اراد الانتصار منہم امرہ بجہادہم وقتالہم والغلظۃ علیہم (تفسیر الطبری، ۳۰/۱۵۰)
’’فمہل الکافرین امہلہم رویدا کا مطلب یہ ہے کہ ان کو مہلت دو اور ان کے خلاف جلدی نہ کرو۔ اللہ نے ان کو چھوڑے رکھا، یہاں تک کہ جب ان سے انتقام لینا چاہا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ان کے ساتھ جہاد کرنے اور سخت رویہ اپنانے کا حکم دیا۔‘‘
امام رازی لکھتے ہیں:
فان قیل لما کان حضورہ فیہم مانعا من نزول العذاب علیہم فکیف قال قاتلوہم یعذبہم اللہ بایدیکم قلنا المراد من الاول عذاب الاستیصال ومن الثانی العذاب الحاصل بالمحاربۃ والمقاتلۃ (مفاتیح الغیب، ۱۵/۱۵۸)
’’اگر یہ سوال کیا جائے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی قوم کے اندر موجود ہونا ان پر عذاب کے نازل ہونے میں رکاوٹ تھا تو پھر یہ کیوں کہا گیا کہ تم ان سے لڑو تاکہ اللہ تمھارے ہاتھوں سے ان پر عذاب نازل کرے؟ تو ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ جس عذاب کی نفی کی گئی ہے، وہ قریش کو بالکلیہ نابود کر دینے کا عذاب ہے، جبکہ جس عذاب کا حکم دیا گیا ہے، اس سے مراد جنگ اور قتال کے ذریعے سے حاصل ہونے والا عذاب ہے۔‘‘
انہ تعالی لما بین ما انزلہ باہل بدر من الکفار عاجلا وآجلا کما شرحناہ اتبعہ بان بین ان ہذہ طریقتہ وسنتہ فی الکل فقال کداب آل فرعون والمعنی عادۃ ہولاء فی کفرہم کعادۃ آل فرعون فی کفرہم فجوزی ہولاء بالقتل والسبی کما جوزی اولئک بالاغراق (۱۵/۱۸۰)
’’اللہ تعالیٰ جب اس عذاب کی وضاحت کر چکے جو انھوں نے اہل بدر پر فی الفور یا بالمآل نازل کیا تو اس کے بعد اب فرمایا کہ (حق کے منکر) ہر گروہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ یہی طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا کہ ’کداب آل فرعون‘ جس کا معنی یہ ہے کہ انھوں نے بھی کفر میں وہی طریقہ اختیار کیا جو آل فرعون نے کیا تھا، اس لیے جیسے ان کو غرق کر دینے کی سزا دی گئی تھی، ان کو بھی قتل اور قید کی صورت میں سزا دی گئی ہے۔‘‘
مولانا شبیر احمد عثمانیؒ لکھتے ہیں:
’’قرآن کریم میں اقوام ماضیہ کے جو قصے بیان فرمائے ہیں، ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب کوئی قوم کفر وشرارت اور انبیاء علیہم السلام کی تکذیب وعداوت میں حد سے بڑھ جاتی تھی تو قدرت کی طرف سے کوئی تباہ کن آسمانی عذاب ان پر نازل کیا جاتا تھا جس سے ان کے سارے مظالم اور کفریات کا دفعۃً خاتمہ ہو جاتا تھا۔ فکلا اخذنا بذنبہ فمنہم من ارسلنا علیہ حاصبا ومنہم من اخذتہ الصیحۃ ومنہم من خسفنا بہ الارض ومنہم من اغرقنا وما کان اللہ لیظلمہم ولکن کانوا انفسہم یظلمون (عنکبوت رکوع ۴) کوئی شبہ نہیں کہ عذاب کی یہ اقسام بہت سخت مہلک اور آیندہ نسلوں کے لیے عبرت ناک تھیں لیکن ان صورتوں میں معذبین کو دنیا میں رہ کر اپنی ذلت ورسوائی کا نظارہ نہیں کرنا پڑتا تھا اور نہ آیندہ کے لیے توبہ ورجوع کا کوئی امکان باقی رہتا تھا۔ مشروعیت جہاد کی اصلی غرض وغایت یہ ہے کہ مکذبین ومتعنتین کو حق تعالیٰ بجائے بلاواسطہ عذاب دینے کے اپنے مخلص وفادار بندوں کے ہاتھ سے سزا دلوائے۔ سزا دہی کی اس صورت میں مجرمین کی رسوائی اور مخلصین کی قدر افزائی زیادہ ہے۔ وفادار بندوں کا نصرت وغلبہ علانیہ ظاہر ہوتا ہے۔ ان کے دل یہ دیکھ کر ٹھنڈے ہوتے ہیں کہ جو لوگ کل تک انہیں حقیر وناتواں سمجھ کر ظلم وستم اور استہزا وتمسخر کا تختہ مشق بنائے ہوئے تھے، آج خدا کی تائید ورحمت سے انہی کے رحم وکرم یا عدل وانصاف پر چھوڑ دیے گئے ہیں۔ کفر وباطل کی شوکت ونمائش کو دیکھ کر جو اہل حق گھٹتے رہتے تھے یا جو ضعیف ومظلوم مسلمان کفا ر کے مظالم کا انتقام نہ لے سکنے کی وجہ سے دل ہی دل میں غیظ کھا کر چپ ہو رہتے تھے، جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعہ سے ان کے قلوب تسکین پاتے تھے اور آخری بات یہ ہے کہ خود مجرمین کے حق میں بھی سزا دہی کا یہ طریقہ نسبۃً زیادہ نافع ہے کیونکہ سزا پانے کے بعد بھی رجوع وتوبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ حالات سے عبرت حاصل کر کے بہت سے مجرموں کو توبہ نصیب ہو جائے، چنانچہ حضور پرنور صلعم کے زمانہ میں ایسا ہی ہوا کہ تھوڑے دنوں میں سارا عرب صدق دل سے دین الٰہی کا حلقہ بگوش ہو گیا۔‘‘ (تفسیر عثمانی، ص ۲۵۰، ۲۵۱)
دوسری جگہ فرماتے ہیں:
’’نزول توراۃ کے بعد دنیا میں ایسے غارت کے عذاب کم آئے۔ بجائے اہلاک سماوی کے جہاد کا طریقہ مشروع کر دیا گیا، کیونکہ کچھ لوگ احکام شریعت پر قائم رہا کیے۔‘‘ (تفسیر عثمانی، ص ۵۱۹)
مولانا وحید الدین خان لکھتے ہیں:
’’درحقیقت یہ اشاعت اسلام کی جدوجہد نہیں بلکہ منکرین رسالت کے اوپر اس خدائی فیصلہ کا ظہور تھا جس کو قرآن میں امر اللہ، حکم اللہ ، وعد اللہ وغیرہ الفاظ میں بیان کیا گیا ہے اور جو ’’احقاق حق‘‘ اور ’’ابطال باطل‘‘ کے لیے ہوتا ہے۔ یہ اپنی اصل نوعیت کے اعتبار سے اسلام کے اصولوں کو منوانے کی کوشش نہیں تھی، بلکہ حقیقۃً اسلام کے اصولوں کو نہ ماننے کی سزا تھی جو زمین وآسمان کے مالک کی طرف سے ایک مخصوص شکل میں ان کے اوپر نافذ کی گئی تھی۔ یہ سزا ہر اس انسان کو لازماً ملنے والی ہے جو خدا کی ہدایت کو ماننے سے انکار کر دے۔ فرق صرف یہ ہے عام انسانوں کو قیامت میں ملے گی اور رسول کے براہ راست مخاطبین کو دنیا میں بھی ملتی ہے اور آخرت میں بھی۔ (ولنذیقنہم من العذاب الادنی دون العذاب الاکبر (سجدہ ۲۱)
یہ صحیح ہے کہ اس فیصلہ الٰہی کے نفاذ سے من جملہ اور فائدوں کے، اسلام کو تبلیغی اور توسیعی فائدے بھی حاصل ہوئے، مگر یہ اس کے دیگر نتائج تھے، جس طرح ہر واقعہ کے بہت سے دیگر نتائج واثرات ہوتے ہیں۔ جہاں تک حکم کی اصولی نوعیت کا تعلق ہے، وہ وہی تھی جو اوپر مذکور ہوئی۔‘‘ (تعبیر کی غلطی، ص ۱۱۵، ۱۱۶)
قرآن مجید نے اسی پہلو سے انسانی دائرۂ اختیار کی تحدید عہد رسالت کے منافقین کے حوالے سے بھی واضح کی ہے۔ منافقین بھی منکرین حق کا ایک گروہ تھا جو بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے گروہ میں شامل ہو کردرحقیقت ان کے خلاف سازشوں اور ریشہ دوانیوں میں مصروف تھا۔ بظاہر ایمان لے آنے کی وجہ سے انھیں دوسرے گروہوں کے مقابلے میں زیادہ مہلت دی گئی، تاہم اصولی طور پر وہ بھی خدا کے عذاب کے مستحق تھے اور قرآن مجید میں بار بار یہ دھمکی دی گئی کہ اگر وہ اپنی روش سے باز نہ آئے تو خدا کے قانون کے مطابق وہ بھی اہل ایمان کے ہاتھوں خدا کے عذاب کی گرفت میں آ جائیں گے:
لَءِن لَّمْ یَنتَہِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِیْنَ فِیْ قُلُوبِہِم مَّرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِیْ الْمَدِیْنَۃِ لَنُغْرِیَنَّکَ بِہِمْ ثُمَّ لَا یُجَاوِرُونَکَ فِیْہَا إِلَّا قَلِیْلاً ۔ مَلْعُونِیْنَ أَیْْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِیْلاً ۔ سُنَّۃَ اللّٰہِ فِیْ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِن قَبْلُ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلاً (الاحزاب ۳۳:۶۲)
’’اگر یہ منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے اور مدینے میں فتنہ انگیزی کرنے والے گروہ باز نہ آئے تو ہم تمھیں ان کے خلاف بھڑکا دیں گے، پھر ان کے لیے مدینے میں تمھارے ساتھ رہنے کا موقع کم ہی ہوگا۔ یہ ملعون قرار دیے جائیں گے اور جہاں ملیں گے، ان کو پکڑا جائے گا اور بدترین طریقے سے قتل کر دیا جائے گا۔‘‘
لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انھیں سزا دینے کی کوئی صریح اجازت نازل نہیں ہوئی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت تک بطور ایک گروہ کے متحرک ہونے کے باوجود ان کے خلاف کسی قسم کا کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ اہل ایمان قرآن کے الفاظ میں ’وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِکُمْ أَن یُصِیْبَکُمُ اللّہُ بِعَذَابٍ مِّنْ عِندِہِ أَوْ بِأَیْْدِیْنَا‘ (توبہ ۹:۵۲) کی کیفیت میں اس کے منتظر رہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کب اس کی اجازت ملتی ہے۔ چنانچہ آپ کی وفات کے موقع پر سیدنا عمر کو اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں اسی لیے تردد پیش آیا تھا کہ منافقین کے اس گروہ پر عملاً یہ سزا ابھی تک نافذنہیں ہوئی تھی اور چونکہ اس کا فیصلہ وحی ہی کی بنیاد پر کیا جا سکتا تھا، اس لیے ان کے خیال میں منافقین کو ان کے انجام سے دوچار کیے بغیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے تشریف نہیں لے جا سکتے تھے۔ انھوں نے اس موقع پر کہا:
واللہ ما مات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولا یموت حتی یقطع ایدی اناس من المنافقین کثیر وارجلہم (دارمی، رقم ۱۶۱۶)
’’بخدا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال نہیں ہوا اور جب تک آپ منافقین میں سے بہت کے ہاتھ پاؤں نہ کاٹ لیں، آپ کا انتقال نہیں ہو سکتا۔‘‘
اس موقع پر سیدنا عمر اور عمومی طور پر صحابہ کی جماعت کو یہی اشکال اپنی اس ذمہ داری کے حوالے سے بھی پیش آیا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انھیں ’شہادت علی الناس‘ کے منصب پر فائز کر کے جزیرۂ عرب سے باہر کی اقوام پر اتمام حجت کرنے کے ضمن میں ان پر عائد کی تھی۔ طبری کی روایت ہے:
لما بویع ابوبکر فی السقیفۃ وکان الغد جلس ابوبکر علی المنبر فقام عمر فتکلم قبل ابی بکر فحمد اللہ واثنی علیہ بما ہو اہلہ ثم قال ایہا الناس انی قد کنت قلت لکم بالامس مقالۃ ما کانت الا عن رایی وما وجدتہا فی کتاب اللہ ولا کانت عہدا عہدہ الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولکنی قد کنت اری ان رسول اللہ سیدبر امرنا حتی یکون آخرنا (تاریخ الامم والملوک ۳/۲۱۰)
’’جب سقیفہ بنی ساعدہ میں ابوبکر کی بیعت کر لی گئی اور اگلا دن ہوا تو ابوبکر آکر منبر پر بیٹھ گئے۔ ابوبکر کے بات کرنے سے پہلے عمر اٹھے اور انہوں نے گفتگو کی۔ اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کرنے کے بعد انہوں نے کہا: اے لوگو، کل میں نے تم سے ایک بات کہی تھی جو سراسر میری اپنی رائے تھی۔ نہ میں نے اس کو کتاب اللہ میں پایا اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ ایسا کوئی وعدہ کیا تھا۔ بس میرا خیال یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے امور کی دیکھ بھال کرتے رہیں گے اور ہم سب کے دنیا سے جانے کے بعد ہی آپ کا انتقال ہوگا۔‘‘
ابن حبان کی روایت ہے:
اما بعد فانی قد قلت لکم امس مقالۃ لم تکن کما قلت وانی واللہ ما وجدتہا فی کتاب انزلہ اللہ ولا فی عہد عہدہ الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولکنی کنت ارجو ان یعیش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حتی یدبرنا یقول حتی یکون آخرنا فاختار اللہ جل وعلا لرسولہ الذی عندہ علی الذی عندکم (ابن حبان، رقم ۶۶۲۰۔ مصنف عبد الرزاق، رقم ۹۷۵۶)
’’اما بعد! میں نے کل تم سے ایک بات کہی تھی جو حقیقت میں اس طرح نہیں تھی جیسے میں نے کہی۔ بخدا میں نے وہ نہ تو اللہ کی اتاری ہوئی کتاب میں پائی اور نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ارشاد میں جو آپ نے مجھ سے فرمایا ہو۔ البتہ مجھے یہ توقع تھی کہ نبی صلی للہ علیہ وسلم ہمارے معاملات کی تدبیر کے لیے زندہ رہیں گے، یعنی ہم سب کے بعد دنیا سے رخصت ہوں گے، لیکن اللہ نے اپنے رسول کے لیے تمھارے قرب کے بجائے اپنے قرب کو پسند کیا۔‘‘
بعد میں ایک موقع پر انھوں نے عبد اللہ بن عباس کے سامنے قرآن مجید میں اپنے اس استنباط کا ماخذ بھی بیان کیا۔ ابن عباس بیان کرتے ہیں:
واللہ انی لامشی مع عمر فی خلافتہ وہو عامد الی حاجۃ لہ وفی یدہ الدرۃ وما معہ غیری قال وہو یحدث نفسہ ویضرب وحشی قدمہ بدرتہ قال اذ التفت الی فقال یابن عباس ہل تدری ما حملنی علی مقالتی ہذہ التی قلت حین توفی اللہ رسولہ؟ قال قلت لا ادری یا امیر المومنین انت اعلم قال واللہ ان حملنی علی ذلک الا انی کنت اقرا ہذہ الآیۃ (وکذلک جعلناکم امۃ وسطا لتکونوا شہداء علی الناس ویکون الرسول علیکم شہیدا) فو اللہ انی کنت لاظن ان رسول اللہ سیبقی فی امتہ حتی یشہد علیہا بآخر اعمالہا فانہ للذی حملنی علی ان قلت ما قلت (تاریخ الامم والملوک، ۳/۲۱۱)
’’بخدا، ایک دن میں سیدنا عمر کی خلافت کے زمانے میں ان کے ساتھ چل رہا تھا اور وہ اپنے کسی کام سے جا رہے تھے اور درہ انہوں نے ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا اور میرے علاوہ ان کے ساتھ کوئی نہیں تھا۔ وہ اپنے آپ سے باتیں کیے جاتے تھے اور اپنا درہ اپنے دائیں پاؤں پر مارتے جاتے تھے۔ اچانک میری طرف پلٹے اور کہنے لگے، اے ابن عباس! کیا تمھیں پتہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے موقع پر میں نے جو بات کہی، اس کا سبب کیا تھا؟ میں نے کہا، اے امیر المومنین، مجھے پتہ نہیں، آپ بہتر جانتے ہیں۔ انہوں نے کہا، بخدا! اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ میں قرآن مجید میں جب یہ آیت پڑھتا تھا کہ ’وکذلک جعلناکم امۃ وسطا لتکونوا شہداء علی الناس ویکون الرسول علیکم شہیدا‘ تو اس کا مطلب میں یہ سمجھتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے مابین موجود رہیں گے اور اس بات کے گواہ بنیں گے کہ اس امت نے اپنی ذمہ داری کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا۔ بس یہی چیز تھی جس نے مجھے وہ بات کہنے پر آمادہ کیا جو میں نے اس موقع پر کہی۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے موقع پر یہ رویہ نہ صرف سیدنا عمر کا تھا بلکہ صحابہ کا عمومی رد عمل بھی یہی تھا۔ ابوسلمہ بن عبد الرحمن بیان کرتے ہیں:
اقتحم الناس علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی بیت عائشۃ ینظرون الیہ فقالوا: کیف یموت وہو شہید علینا ونحن شہداء علی الناس فیموت ولم یظہر علی الناس؟ لا واللہ ما مات ولکنہ رفع کما رفع عیسی بن مریم صلی اللہ علیہ وسلم ولیرجعن وتوعدوا من قال انہ مات ونادوا فی حجرۃ عائشۃ وعلی الباب: لا تدفنوہ فان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لم یمت (ابن سعد، الطبقات الکبری، ۲/۲۷۱)
’’ام المومنین عائشہ کے حجرے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کے لیے لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہو گیا اور انہوں نے کہا کہ آپ کیسے انتقال کر سکتے ہیں جبکہ آپ ہم پر گواہ ہیں اور ہمیں لوگوں پر گواہ بنایا گیا ہے؟ تو کیا لوگوں پر غلبہ قائم ہونے سے پہلے ہی آپ وفات پا گئے؟ بخدا نہیں، آپ کا انتقال نہیں ہوا، بلکہ آپ کو اسی طرح کچھ عرصے کے لیے اٹھایا گیا ہے جیسے عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو اٹھایا گیا، اور آپ لازماً واپس آئیں گے۔ اور انہوں نے ان لوگوں کو ڈانٹنا شروع کر دیا جو کہہ رہے تھے کہ آپ کا انتقال ہو گیا ہے۔ انہوں نے ام المومنین کے حجرے میں اور دروازے پر یہ اعلان کیا کہ آپ کو دفنانا مت، کیونکہ آپ کا انتقال نہیں ہوا۔‘‘
چونکہ ’شہادت علی الناس‘ کے منصب کی رو سے صحابہ کرام پر دنیا کی اقوام کے سامنے حق کی گواہی دینے اور ان پر اسلام کا غلبہ قائم کرنے کی ذمہ داری عائد کی گئی تھی اور یہ عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیوں کے مطابق ایک مخصوص جغرافیائی دائرے میں ایک محدود مدت کے اندر پایہ تکمیل کو پہنچنا تھا، اس لیے صحابہ کا خیال یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن قوموں کے سربراہوں کو خطوط لکھ کر ان پر حجت تمام کر دی اور ’شہادت علی الناس‘ کی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے ان کے خلاف جنگ کا اقدام کرنے کی اجازت دے دی ہے، اسے خود اپنی زندگی میں اور اپنی نگرانی میں مکمل کرائیں گے، لیکن آپ کی وفات سے یہ بات ان پر واضح ہوئی کہ ان کا یہ استنباط درست نہیں تھا۔ اس سے واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی اہل ایمان کو بھی منکرین حق کے خلاف قتال کا حق انسانی دائرۂ میں اختیار میں نہیں، بلکہ خدا کے دیے ہوئے اذن کے تحت خدا ہی کے نامزد کردہ گروہوں کے خلاف دیا گیا تھا اور منکرین حق کے خلاف اقدام کے حوالے سے انسانی دائرۂ اختیار کی تحدید اور خدا کے اذن کی شرط صحابہ کرام پر پوری طرح واضح تھی۔
اوپر کی سطور میں ہم نے جو بحث کی ہے، اس سے فقہا اور مفسرین کے اس عام نقطہ نظر کی غلطی بھی واضح ہو جاتی ہے جس کی رو سے منکرین حق کے خلاف قتال کے احکام نازل ہونے کے بعد وہ تمام نصوص جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دینی ذمہ داری کو ابلاغ وتبلیغ تک محدود قرار دیا یا محارب وغیر محارب کفار کے مابین فرق کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، کالعدم اور منسوخ قرار پا گئی ہیں اور اب اہل ایمان کی دینی وشرعی ذمہ داری کی تعیین وتحدید میں ان کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی۔ ہم نے واضح کیا ہے کہ یہ ہدایات عام انسانی اخلاقیات کے دائرے میں اہل ایمان کی ذمہ داری اور اس کے حدود کا تعین کرتی ہیں اور اس دائرے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان اول وآخر اسی کے پابند تھے کہ دین کے معاملے میں کسی فرد یا گروہ تک حق کا پیغام پہنچا دینے کے بعد اس کے ساتھ جبر واکراہ کا طریقہ ہرگز اختیار نہ کریں، نیز اہل ایمان کے دشمن گروہوں اور غیر جانب دار کفار کے مابین فرق کو ملحوظ رکھیں اور اگر کوئی گروہ مسلمانوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتا ہے تو اس کے ساتھ بر وقسط ہی کا معاملہ کیا جائے، بلکہ اگر کوئی گروہ میدان جنگ میں آ جانے کے باوجود مسلمانوں کے خلاف قتال پر آمادہ نہیں بلکہ صلح کی طرف مائل ہے تو اس کے خلاف کوئی اقدام نہ کیا جائے۔ عمومی انسانی اخلاقیات کے دائرے میں ان ہدایات میں کوئی نسخ واقع نہیں ہوا اور یہ پوری طرح محکم اور قیامت تک کے لیے قابل عمل ہیں۔ صحابہ اور تابعین کے ہاں حکم کے اس تغیر کے لیے ’نسخ‘ کی تعبیر اختیار کی گئی ہے جو لفظ کے لغوی اور ظاہری مفہوم کے لحاظ سے درست ہے، لیکن اس کو متاخرین کے اصطلاحی مفہوم یعنی ’’حکم کے بالکلیہ ازالہ‘‘ کے اعتبار سے نسخ نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ ’نسخ‘ کا معنی کسی حکم کو اپنی اصل اساس کے اعتبار سے کالعدم قرار دینے یا اس میں تخصیص وتحدید پیدا کر دینا ہے۔ اس اعتبار سے دین میں جبر واکراہ کی نفی کرنے اور کفارکے ساتھ مصالحانہ تعلقات کی اجازت دینے والے نصوص ’نسخ‘ کے دائرے میں آ ہی نہیں سکتے، اس لیے کہ وہ ایک اخلاقی اصول پر مبنی ہیں جن میں نسخ واقع نہیں ہو سکتا۔ یہ درحقیقت ایک مخصوص صورت حال میں ایک اخلاقی اصول پر دوسرے اخلاقی اصول کی ترجیح کا مسئلہ ہے جس سے پہلے اخلاقی اصول کے فی نفسہ کالعدم قرار پانے کا نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا۔
یہ ایسے ہی ہے جیسے مثال کے طور پر سیدنا خضر نے خدا کے حکم پر ایک بے گناہ بچے کو قتل کر دیا۔ جہاں تک عام انسانی اخلاقیات کا تعلق ہے، وہ اس کا فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں تھے اور سیدنا موسیٰ نے اسی بنا پر ان کے اس عمل پر اعتراض کیا تھا، لیکن خدا کی طرف سے اس لڑکے کو قتل کرنے کا حکم ملنے کے بعد ان کے لیے عام اخلاقی اصول کے بجائے خدا کے حکم کی پیروی کرنا لازم ہو گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس سے ایک عمومی اخلاقی اصول کے طور پر قتل نفس کی حرمت پر کوئی زد نہیں پڑی۔ یہ حرمت اپنی جگہ پہلے کی طرح برقرار رہی اور سیدنا خضر اس لڑکے کے علاوہ دوسرے انسانوں کے حوالے سے اسی کے پابند تھے۔ بالکل یہی معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اتمام حجت کے بعد انکار حق پر قائم رہنے والے گروہوں کاتھا۔ عام انسانی اخلاقیات کی رو سے مسلمان ان میں سے صرف ان گروہوں کے خلاف جنگ کا اختیار رکھتے تھے جو فتنہ وفساد کے مرتکب ہوں۔ ان کے علاوہ باقی گروہوں کے خلاف انھیں کوئی اقدام کرنے کا حق حاصل نہیں تھا اور نہ صرف یہ کہ وہ اپنی مصلحت کے لحاظ سے ان میں سے جس گروہ کے ساتھ مصالحانہ تعلقات قائم کرنا چاہتے، کر سکتے تھے بلکہ ان میں سے جو گروہ ان کے ساتھ بر وقسط کا رویہ اپناتے، ان کے ساتھ بر وقسط ہی کا معاملہ کرنے کے پابند بھی تھے۔ تاہم جب اللہ تعالیٰ نے اپنے قانون کے تحت یہ فیصلہ فرمایا کہ پیغمبر کی طرف سے حجت تمام کر دیے جانے کے باوجود جن گروہوں نے کفر پر قائم رہنے کا فیصلہ کیا ہے، وہ خدا کے عذاب کے مستحق ہیں جو خدا نے اہل ایمان کی تلواروں کے ذریعے سے ان پر نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اب اہل ایمان خدا کے اس فیصلے کے تحت، نہ کہ عمومی اخلاقی اصولوں کے فی نفسہ منسوخ ہو جانے کی وجہ سے، اس کے پابند تھے کہ کفارکے ساتھ مصالحانہ تعلقات کوختم کر کے ان کے ساتھ جنگ کریں اور ان میں جس گروہ کے لیے خدا نے قتل یا محکومی کی صورت میں جو سزا مقرر کی ہے، وہ کسی رو رعایت کے بغیر اس پر نافذ کر دیں۔ یہ حکم اللہ تعالیٰ کے ایک خصوصی قانون پر مبنی تھا جس کے مطابق وہ اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے اتمام حجت کے بعد منکرین حق کو قتل واسارت یا محکومی کی صورت میں ان کے کفر کی سزا دیتا ہے۔ یہ معاملہ سر تا سر اللہ کے فیصلے اور اس کے اذن پر منحصر ہوتا ہے اور اس میں کسی انسان کو اپنے تئیں کوئی فیصلہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس پرامن اور صلح جو کفار کے ساتھ مصالحانہ تعلقات کی اجازت عام انسانی اخلاقیات پر مبنی ہے اور اس دائرے میں اس میں کوئی نسخ واقع نہیں ہوا بلکہ وہ شریعت کے ایک محکم حکم کی حیثیت رکھتی ہے۔ 

فقہی روایت کا ارتقا

قرآن مجید میں عہد نبوی کے مشرکین اور اہل کتاب کے خلاف قتال کے جو احکام دیے گئے، ان کے حوالے سے صحابہ ہی کے دور میں بہت سی اہم فقہی بحثیں پیدا ہوئیں جن کی علمی تنقیح کا سلسلہ بعد کی مسلم علمی روایت میں بھی جاری رہا۔ یہ بحثیں ان احکام کی علت اور ان کے دائرۂ اطلاق کی تعیین اور ان کی تعمیم وتخصیص کے حوالے سے متنوع علمی رجحانات اور زاویہ ہاے نگاہ کی نشان دہی کرتی ہیں اور جہاد وقتال سے متعلق نصوص کے ضمن میں امت مسلمہ کے فہم اور فکری ارتقا کو علمی سطح پر سمجھنے میں بے حد مددگار ہیں۔ یہاں ہم ان میں سے اہم بحثوں کا مطالعہ کریں گے۔

قتل اور جزیہ میں سے اصل حکم کی تعیین

جہاد وقتال کے حوالے سے قرآن وحدیث کے جو نصوص اوپر نقل کیے گئے ہیں،ان میں اسلام قبول نہ کرنے والے کفار کے لیے دو طرح کی سزائیں بیان ہوئی ہیں۔ مشرکین کے بارے میں حکم دیا گیا ہے کہ انھیں قتل کر دیا جائے، جبکہ اہل کتاب کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ ان سے قتال کر کے انھیں جزیہ ادا کرنے پر مجبور کیا جائے۔ ان دونوں حکموں کی تعبیر وتشریح اور ان کے دائرۂ اطلاق کی تعیین کے حوالے سے صحابہ کے دور ہی میں مختلف زاویہ ہاے نگاہ سامنے آ گئے تھے۔ چنانچہ سیدنا عمر کے عہد میں فارس کے علاقے مفتوح ہوئے تو ایک سوال یہ سامنے آیا کہ مجوس کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے۔ سیدنا عمر ان پر جزیہ نافذ کرنے کے معاملے میں تردد کا شکار رہے اور جب تک ان کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل سے ایک واضح نظیر نہیں آ گئی، وہ اس پر مطمئن نہیں ہوئے۔ ابن ابزیٰ کی روایت ہے:
لما ہزم المسلمون اہل فارس قال عمر اجتمعوا۔ فقال ان المجوس لیسوا اہل کتاب فنضع علیہم ولا من عبدۃ الاوثان فنجری علیہم احکامہم فقال علی بل ہم اہل کتاب (ابن حجر، فتح الباری، ۶/۲۶۱، ۲۶۲)
’’جب مسلمانوں نے اہل فارس کو شکست دے دی تو سیدنا عمر نے صحابہ سے کہا کہ (مشورہ کے لیے) اکٹھے ہو جاؤ۔ پھر فرمایا کہ (بات یہ ہے کہ) مجوس نہ تو اہل کتاب ہیں کہ ہم ان پر جزیہ عائد کریں اور نہ بت پرست ہی ہیں کہ ہم ان پر ان کے احکام جاری کر دیں۔ سیدنا علی نے کہا، ان کا شمار اہل کتاب ہی میں ہوتا ہے۔‘‘
دوسری روایت کے الفاظ یوں ہیں:
لما رجع المہاجرون من بعض غزواتہم بلغہم نعی عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فقال بعضہم لبعض ای الاحکام تجری فی المجوس وانہم لیسوا باہل کتاب ولیسوا من مشرکی العرب فقال علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ قد کانوا اہل کتاب (تفسیر الطبری، ۳۰/۱۳۲)
’’جب مہاجرین ایک معرکے سے واپس آئے تو انھیں سیدنا عمر کی طرف سے جمع ہونے کا پیغام ملا۔ (اس مجلس میں) ان کی اس بات پر بحث ہوئی کہ مجوس کے بارے میں کون سے احکام جاری ہوں گے؟ وہ نہ تو اہل کتاب میں سے ہیں اور نہ عرب کے مشرکین میں سے۔ سیدنا علی نے کہا کہ یہ اصل میں اہل کتاب ہی تھے۔‘‘
جعفر بن محمد اپنے والد سے نقل کرتے ہیں:
کان للمہاجرین مجلس فی المسجد فکان عمر یجلس معہم فیہ ویحدثہم عن ما ینتہی الیہ من امر الآفاق فقال یوما ما ادری کیف اصنع بالمجوس فوثب عبد الرحمن بن عوف فقال اشہد علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال سنوا بہم سنۃ اہل الکتاب (بلاذری، فتوح البلدان، ۲۷۶)
’’مسجد نبوی میں مہاجرین کی ایک مجلس ہوا کرتی تھی جس میں سیدنا عمر بھی ان کے ساتھ بیٹھتے تھے اور مملکت کے اطراف کی تازہ صورت حال سے انھیں آگاہ کرتے تھے۔ ایک دن انھوں نے کہا کہ میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ میں مجوس کے معاملے میں کیا طریقہ اختیار کروں۔ یہ سن کر عبد الرحمن بن عوف فوراً بولے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا کہ ان کے ساتھ وہی معاملہ کرو جو اہل کتاب کے ساتھ کیا جاتا ہے۔‘‘
مصنف عبد الرزاق کی روایت میں ہے کہ آپ نے اس تردد کی وجہ بھی بیان فرمائی اور کہا:
ما ادری ما اصنع فی ہولاء القوم الذین لیسوا من العرب ولا من اہل الکتاب (مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۹۲۵۳)
’’میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اس قوم کے معاملے میں، جو نہ اہل عرب میں سے ہیں اور نہ اہل کتاب میں سے، کون سا طریقہ اختیار کروں۔‘‘
مصنف عبد الرزاق کی ایک اور روایت میں ہے:
ولم یکن عمر یرید ان یاخذ الجزیۃ من المجوس حتی شہد عبد الرحمن بن عوف ان النبی صلی اللہ علیہ اخذہا من مجوس ہجر (مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۸۷۴۸۔ مسند احمد، رقم ۱۵۹۳)
’’سیدنا عمر مجوس سے جزیہ نہیں لینا چاہتے تھے یہاں تک عبد الرحمن بن عوف نے انھیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجر کے مجوسیوں سے جزیہ وصول کیا تھا۔‘‘
سیدنا عمر کے ذہن میں اس تردد کا پیدا ہونا قابل فہم ہے۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ قرآن مجید نے قتال اور جزیہ کا حکم بیان کرتے ہوئے صرف اہل کتاب کا ذکر کیا ہے، حالانکہ ان کے علاوہ دوسرے گروہ مثلاً مجوس او ر صابئین بھی جزیرۂ عرب میں موجود تھے۔ مزید برآں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جن اقوام کے سربراہوں کو خط لکھ کراسلام قبول نہ کرنے کی صورت میں جنگ کی دھمکی دی تھی، ان میں کسریٰ بھی شامل تھا جو فارس کی عظیم سلطنت کا سربراہ تھا۔ اس کے باوجود قرآن مجید میں جزیہ کا ذکر صرف اہل کتاب کے حوالے سے کیا جانا اپنے اندر یہ احتمال رکھتا تھا کہ اس حکم کو اہل کتاب ہی کے ساتھ مخصوص سمجھا جائے، تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے سے واضح ہوا کہ حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ 
شافعی اور حنبلی فقہا نے سیدنا عمر کے اس تردد سے یہ اخذ کیا ہے کہ جزیہ دے کر اپنے مذہب پر قائم رہنے کی رعایت صرف اہل کتاب کے لیے ہے اور سیدنا عمر کو مجوس کے حوالے سے یہ تردد تھا کہ آیا وہ اہل کتاب میں شامل ہیں یا نہیں۔ گویا اگر مجوس کا اہل کتاب سے خارج ہونا ثابت ہو جاتا تو سیدنا عمر مشرکین کی طرح انھیں بھی اسلام قبول کرنے پر مجبور کرتے۔ (الام، ۴/۱۷۴۔ المغنی، ۹/۱۷۳۔ مسئلہ ۷۴۳۷) تاہم، ہم واضح کر چکے ہیں کہ سیدنا عمر ’فاقتلوا المشرکین‘ کے حکم کو صرف عرب اور سرزمین عرب کی حد تک جائز سمجھتے تھے اور جزیرۂ عرب سے باہر اس حکم کو کسی حال میں قابل اطلاق نہیں سمجھتے تھے۔ اس تناظرمیں پر جزیہ عائد کرنے میں ان کے تردد سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جزیہ کا حکم بھی صرف ان قوموں پر نافذ کرنا چاہتے تھے جن کے بارے میں اللہ اور اس کے رسول سے اس کی اجازت ثابت ہو۔ مزید برآں روایات میں اس سارے معاملے کی جو تفصیل منقول ہے، وہ بھی شوافع اور حنابلہ کے مفروضے کی تائید نہیں کرتی، کیونکہ رواۃ نے ان کے اس طرز عمل کو جن الفاظ سے تعبیر کیا ہے، وہ یہ نہیں ہیں کہ ’’انھیں مجوس کو قتل کرنے میں تردد تھا‘‘ بلکہ یہ ہیں کہ انھیں مجوس سے ’’جزیہ وصول کرنے‘‘ میں تردد تھا۔ اس لیے ہماری رائے میں سیدنا عمر کے موقف کی زیادہ قرین قیاس تعبیر یہ ہے کہ وہ سورۂ براء ۃ کے احکام کو اصلاً عرب کے مشرکین اور یہود ونصاریٰ کے ساتھ خاص سمجھتے تھے جن کے بارے میں وہ قرآن مجید میں وارد ہوئے ہیں جبکہ ان کی تعمیم کے لیے کسی مستقل دلیل کی ضرورت محسوس کرتے تھے۔ 
بہرحال مجوس سے عملاً جزیہ قبول کر لینے کے باوجود نظری سطح پر اس حوالے سے اشکال باقی رہا اور سیدنا عمر کے فیصلے کے باوجود بعض صحابہ اس پر مطمئن نہیں تھے،چنانچہ ابو موسیٰ اشعری کا قول یہ نقل ہوا ہے کہ:
لولا انی رایت اصحابی یاخذون منہم الجزیۃ ما اخذتہا (ابو عبید، الاموال، ۱۱۰)
’’اگر میرے ساتھیوں نے مجوس سے جزیہ لینے کا فیصلہ نہ کیا ہوتا تو میں ان سے جزیہ نہ لیتا۔‘‘
سیدنا علیؓ کے زمانے میں بعض لوگوں نے یہی اشکال دوبارہ ان کے سامنے پیش کیا تو انھوں نے مجوس کو آیت جزیہ کے دائرۂ اطلاق میں شامل کرنے کی ایک باقاعدہ علمی توجیہ کر کے انھیں مطمئن کیا۔ روایت ہے کہ مستورد بن علقمہ اور فروۃ بن نوفل اشجعی ایک مجلس میں بیٹھے تھے کہ فروہ بن نوفل نے کہا: ’ان ہذا الامر عظیم یوخذ من المجوس الجزیۃ ولیسوا باہل کتاب‘ (یہ تو بہت سنگین بات ہے۔ مجوس سے جزیہ وصول کیا جا رہا ہے حالانکہ وہ اہل کتاب میں سے نہیں ہیں)۔ مستورد نے غصے سے ان کو کہا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ پر اعتراض کر رہے ہو۔ فوراً توبہ کرو، ورنہ میں تمھیں قتل کر دوں گا۔ پھر وہ ان کو لے کر سیدنا علی کے پاس چلے گئے اور یہ بات ان کے سامنے بیان کی۔ سیدنا علی نے انہیں بتایا کہ مجوس سے اس لیے جزیہ لیا جاتا ہے کہ یہ بھی اصل میں اہل کتاب تھے: ’ان المجوس کانوا اہل کتاب یعرفونہ وعلم یدرسونہ‘ لیکن ان میں اللہ کی شریعت سے انحراف یوں پیدا ہوا کہ ان کے ایک بادشاہ نے شراب پی کر اپنی بہن کے ساتھ زنا کر ڈالا۔ جب یہ بات لوگوں میں پھیلی اور بادشاہ کا محاسبہ کیا جانے لگا تو اس نے اپنی بادشاہت کو بچانے کے لیے دین میں تحریف کر دی اور کہا کہ بہنوں کے ساتھ نکاح جائز ہے کیونکہ حضرت آدم کے بیٹوں اور بیٹیوں کے باہمی نکاح کے ذریعے سے ہی نسل انسانی آگے پھیلی تھی۔ اس کے بعد اس کے حامیوں نے مخالفوں کو قتل کر دیا اور مسخ شدہ دین کو فروغ عام حاصل ہوتا چلا گیا۔ (ابو یوسف، الخراج، ۱۴۰۔ مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۰۰۲۹)
اس کے بعد بھی مختلف گروہوں کے مذہبی عقائد کے فرق کے تناظر میں ان پر جزیہ عائد کرنے یا نہ کرنے کا سوال کسی نہ کسی صورت میں سامنے آتا رہا۔ مثلاً حسن بصری بیان کرتے ہیں کہ اموی گورنر زیاد کو بتایا گیا کہ صابئین قبلہ رخ ہو کر نماز پڑھتے اور اپنے مال کا پانچواں حصہ (زکوٰۃ کے طور پر) خرچ کرتے ہیں۔ اس پر زیاد نے چاہا کہ ان پر عائد کردہ جزیہ ان سے ساقط کر دے، لیکن بعد میں اسے بتایا گیا کہ وہ فرشتوں کی پوجا کرتے ہیں تو اس نے اپنا ارادہ بدل دیا۔ (بیہقی، السنن الکبریٰ، ۷/۱۷۳، رقم ۱۳۷۶۸)
بعد کی فقہی روایت میں اس حوالے سے تین مختلف آرا سامنے آئیں:
فقہا کے ایک گروہ نے مشرکین اور اہل کتاب کے مابین فرق کو تسلیم نہیں کیا اور یہ قرار دیا کہ کسی امتیاز کے بغیر تمام کفار سے جزیہ لے کر انھیں اپنے مذہب پر قائم رہنے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ یہ رائے امام مالکؒ ، امام اوزاعی اور بعض دوسرے فقہا سے منقول ہے۔ (ابن قدامہ، المغنی، ۹/۲۶۶) البتہ ابن القاسم کی روایت کے مطابق امام مالک خاص قریش کی حد تک جزیہ قبول کرنے کو جائز نہیں سمجھتے، جبکہ باقی اہل عرب سے جزیہ قبول کرنا ان کے نزدیک جائز ہے۔ (فتح الباری، ۶/۲۵۹) 
اس رائے کے حق میں مذکورہ فقہا کا استدلال فقہی کتابوں میں واضح طور پر نقل نہیں ہوا۔ امام شافعی نے ’الام‘ میں کسی کی طرف نسبت کیے بغیر یہ استدلال نقل کیا ہے کہ آیت جزیہ نے ’فاقتلوا المشرکین‘ کے حکم کو منسوخ کر دیا ہے۔ (الام، ۴/۱۷۳) اس استدلال کی رو سے صورت معاملہ یہ قرار پاتی ہے کہ اسلام قبول نہ کرنے والے مشرکین عرب کو ابتداءاً تو قتل کرنے کا حکم دیا گیا تھا، لیکن بعد میں آیت جزیہ کے تحت انھیں جزیہ دے کر اپنے مذہب پر قائم رہنے کی اجازت دے دی گئی، تاہم مشرکین عرب نے من حیث الجماعت اسلام قبول کر لیا اور ان سے جزیہ لینے کی نوبت عملاً نہیں آئی۔ (اس راے پر تفصیلی بحث ہم نے اپنے مقام پر مستقل عنوان کے تحت کی ہے۔)
اہل علم کے ایک دوسرے گروہ نے، جن میں شافعی، احمد بن حنبل اور ابن حزم جیسے ائمہ شامل ہیں، زیر بحث نصوص میں سے ’فاقتلوا المشرکین‘ کو اس باب میں اصل اور اساس قرار دیتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کفار کو قبول اسلام پر مجبور کرنے اور انکار کی صورت میں ان کو قتل کر دینے کا حکم شریعت کے اصل اور مقصود بالذات حکم کی حیثیت رکھتا ہے اور اپنی علت ونوعیت کے لحاظ سے اصلاً اس کا اطلاق دنیا کے تمام کفار پر ہوتا ہے۔ البتہ اہل کتاب یعنی یہود ونصاریٰ اور مجوس کو چونکہ خود اللہ تعالیٰ اور اس کے پیغمبر نے خاص رعایت دیتے ہوئے اپنے مذہب پر قائم رہنے کی اجازت دی ہے، اس لیے وہ اس سے مستثنیٰ ہیں۔ (الاحکام ابن حزم ۵/۱۰۴، ۱۰۵۔ ابن القیم، احکام اہل الذمہ، ۱/۹۱)
اس نقطہ نظرکے حامل اہل علم مجوس سے جزیہ قبول کرنے کی توجیہ کے ضمن میں مختلف الرائے ہیں۔ ایک راے یہ ہے کہ مجوس بھی اہل کتاب میں سے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ان کے پاس جو آسمانی کتاب اور شریعت تھی، وہ ضائع ہو گئی۔ (شافعی، الام) اس کے برعکس بعض دوسرے اہل علم مجوس کو اہل کتاب میں شامل نہیں سمجھتے اور ان کے نزدیک مجوس سے جزیہ قبول کرنے کا ماخذ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے، ورنہ اگر سنت سے یہ ثابت نہ ہوتا تو مجوس کا حکم بھی وہی ہوتا جو مشرکین کا ہے۔ (ابوعبید، الاموال، ص ۱۰۹۔ الماوردی، الحاوی الکبیر، ۱۸/۳۳۹)
فقہا کے تیسرے گروہ نے، جس کی نمائندگی احناف کرتے ہیں، قتل اور جزیہ کے حکموں کا باہمی تعلق اس کے بالکل برعکس متعین کیا اور کفار کے حوالے سے شریعت کا اصل حکم ’جزیہ‘ کو قرار دیا ہے، جبکہ مشرکین کو قتل کرنے کا حکم ان کے نزدیک مشرکین عرب کے ساتھ خاص ہے۔ ان کے علاوہ باقی تمام کفار کو، خواہ وہ مشرک ہوں یا کتابی، جزیہ لے کر اپنے مذہب پر قائم رہنے کی اجازت ہے۔ ایک روایت کے مطابق امام احمد کا مسلک بھی یہی ہے۔ (ابن قدامہ، المغنی، ۹/۲۶۶) 
سیدنا عمر کے جو ارشادات ہم نے باب اول میں نقل کیے ہیں، ان سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ اسلام یا قتل میں سے ایک کے انتخاب کو شریعت کا اصل اور قابل تعمیم حکم نہیں سمجھتے تھے، بلکہ اس کا دائرۂ اطلاق ان کے نزدیک اہل عرب اور جزیرۂ عرب تک محدود تھا۔ یہی رجحان بعض تابعین کے ہاں بھی ملتا ہے۔ چنانچہ امام زہری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے مشرکین سے تو نہیں، لیکن دوسری اقوام کے بت پرستوں سے بھی جزیہ قبول کیا۔ (مصنف عبد الرزاق، ۱۰۰۹۱) حسن بصری بھی قتل کے حکم کو ’اہل ہذہ الجزیرۃ من العرب‘ یعنی جزیرۂ عرب کے مشرکین کے ساتھ خاص قرار دیتے ہیں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۲۶۷۹) یہی رائے قتادہ اور ضحاک سے بھی منقول ہے۔ (تفسیر الطبری ۳/۱۶) 
احناف کا کہنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجوس سے جزیہ قبول کیا ہے، حالانکہ وہ اہل کتاب میں شامل نہیں بلکہ دو خداؤں یعنی یزداں اور اہرمن کا قائل ہونے کی وجہ سے اہل شرک کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان سے جزیہ قبول کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ’فاقتلوا المشرکین‘ کا حکم مشرکین عرب کے ساتھ خاص ہے جبکہ باقی تمام مشرکین سے جزیہ وصول کرنا جائز ہے۔ (سرخسی، المبسوط ۱۰/۱۱۹)
ابن القیم اس موقف کی حکمت ومعنویت کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جہاد وقتال سے مقصود دنیا سے کفر وشرک کا بالکلیہ خاتمہ نہیں، بلکہ اللہ کے دین کو باطل ادیان کے مقابلے میں غالب کرنا ہے اور یہ مقصد جزیہ وصول کرنے کی صورت میں بھی حاصل ہو جاتا ہے۔ جزیہ وصول کرنے میں فریقین کی مصلحت ملحوظ ہے۔ اہل اسلام کو اس طرح مالی فائدہ حاصل ہوتا ہے جو اسلام کے لیے قوت وعزت اور کفار کے لیے ذلت اور کمزوری کا ذریعہ بنتا ہے، جبکہ اہل کفر کو زندہ رکھنے سے یہ امید باقی رہتی ہے کہ وہ دعوت اسلام سے متعارف ہونے کے نتیجے میں کسی نہ کسی وقت اسلام قبول کر لیں جو اس سے بہتر ہے کہ انھیں قتل کر کے جہنم رسید کر دیا جائے ۔ (احکام اہل الذمہ، ۱/۹۹)
مشرکین عرب کے لیے خاص طور سے قتل کا حکم دیے جانے کی توجیہ فقہاے احناف یہ کرتے ہیں کہ چونکہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم خود اہل عرب کے اندر سے مبعوث کیے گئے اور اللہ تعالیٰ نے براہ راست انھی کی زبان میں اپنا کلام نازل فرمایا، اس وجہ سے ان پر حق پوری طرح واضح ہو چکا تھا اور اس کے بعد ان کو پیغمبر کی تکذیب کی سزا کے معاملے میں کوئی رعایت نہیں دی جا سکتی تھی۔ سرخسی لکھتے ہیں:
فانہم قرابۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والقرآن نزل بلغتہم ولم یراعوا حق ذلک حین اشرکوا (المبسوط، ۱۰/۹۸)
’’وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت دار تھے اور قرآن ان کی زبان میں نازل ہوا تھا۔ جب انھوں نے شرک کو اختیار کیے رکھا تو انھوں نے پیغمبر کی قرابت اور قرآن کے اپنی زبان میں نازل ہونے کے حق کی رعایت نہیں کی۔‘‘
آلوسیؒ اس نکتے کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
ان کفرہم قد تغلظ لما ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم نشا بین اظہرہم وارسل الیہم وہو علیہ الصلاۃ والسلام من انفسہم ونزل القرآن بلغتہم وذلک من اقوی البواعث علی ایمانہم فلا یقبل منہم الا السیف او الاسلام زیادۃ فی العقوبۃ علیہم (روح المعانی، ۱۰/۷۹)
’’ان کا کفر کئی وجوہ سے سنگین تر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھی کے مابین زندگی کے مختلف مراحل گزارے، آپ انھی کا ایک فرد تھے اور انھی کی طرف مبعوث ہوئے تھے، اور قرآن مجید بھی انھی کی زبان میں نازل ہوا۔ یہ تمام امور ان کے ایمان لانے کے نہایت قوی محرکات کا درجہ رکھتے ہیں، ا س لیے (انکار کی صورت میں) ان کو سزا بھی سنگین تر ملی ہے، چنانچہ ان سے تلوار یا اسلام کے علاوہ اور کوئی چیز قبول نہیں کی جائے گی۔‘‘
فقہاے احناف کے اس کلاسیکی استدلال کو دور جدید میں مولانا حمید الدین فراہیؒ اور ان کے مکتبہ فکر نے نئے اسلوب میں پیش کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انبیا کی براہ راست مخاطب بننے والی قوموں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی یہ مستقل سنت چلی آ رہی ہے کہ اگر وہ ایمان نہ لائیں تو اس دنیا میں ہی اس پر خدا کا عذاب آ جاتا ہے اور مشرکین عرب کے بارے میں دیا جانے والا حکم دراصل رسولوں کے باب میں اللہ تعالیٰ کی اسی خاص سنت پر مبنی تھا۔ مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں:
’’قرآن مجید اور احادیث کی روشنی میں غور کرنے سے یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ شریعت الٰہی نے ان غیر مسلموں میں، جن پر براہ راست کسی رسول کے ذریعے سے خدا نے اپنے دین کی حجت پوری کی ہے اور ان غیر مسلموں میں جن پر براہ راست کسی رسول کے ذریعے سے نہیں بلکہ عام اہل حق کے واسطے سے حجت تمام کی گئی ہے، فرق کیا ہے۔ ...... قرآن مجید میں مختلف انبیاء علیہم السلام کی اپنی قوموں کے مشرکین کے ساتھ کشمکش کے جو واقعات بیان ہوئے ہیں، ان سے یہ بات منکشف ہوتی ہے کہ غیر مسلموں کے ان دونوں گروہوں میں سے پہلے کے بارے میں خدائی دستور یہ رہا ہے کہ جب کسی قوم پر اللہ تعالیٰ نے اپنے کسی رسول کے ذریعے سے حق واضح کر دیا ہے اور تبلیغ ودعوت کی جو شرطیں ایک رسول کے لیے اس کے ہاں مقرر ہیں، وہ پوری ہو چکی ہیں تو اس کے بعد اس قوم کے کفار ومشرکین (غیر مسلموں) کو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں جینے کی مزید مہلت نہیں دی ہے۔ ایسے لوگوں کو پھر لازماً مٹایا گیا ہے اور ان کی تباہی کے لیے حسب حالات مندرجہ ذیل دو صورتوں میں سے کوئی ایک صورت نمودار ہوئی ہے:
۱۔ اگر اس قوم کی اکثریت اتمام حجت کے باوجود دعوت حق کے انکار اور اس کی مخالفت پر جمی رہ گئی ہے اور صرف گنتی کے چند نفوس ہی اس کے اندر سے حق کا ساتھ دینے والے نکلے ہیں تو اسے اسلام یعنی اپنے اور اس کائنات کے خالق ومالک اور رب کی بے آمیز اطاعت وبندگی یا عذاب الٰہی میں سے ایک کے انتخاب کا حکم دے دیا گیا ہے اور اگر اس نے اسلام کی جگہ عذاب الٰہی ہی کو اختیار کیا ہے تو زمین یا آسمان سے کسی عذاب الٰہی نے نمودار ہو کر ان کو فنا کر دیا ہے، چنانچہ نوح، ہود، لوط اور شعیب علیہم السلام کی قوموں کے ساتھ، جن کی سرگزشتیں قرآن میں بیان ہوئی ہیں، یہی صورت پیش آئی۔
۲۔ اگر اس قوم میں سے ایک معتد بہ حصہ حق (رسول) کا ساتھ دینے والوں ا بھی نکل آیا ہے تو اس صورت میں لازماً اہل حق اور اہل باطل کے درمیان کشمکش برپا ہوئی ہے اور اتمام حجت کے سارے مراحل طے ہو جانے کے بعد بھی ان میں سے جو لوگ ایمان نہیں لائے ہیں، انہیں اہل حق کی طرف سے اسلام یا تلوار میں سے ایک کو اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور اگر انھوں نے اسلام کے بجائے تلوار ہی کو منتخب کیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی تلوار سے ہی ان کو صفحہ ہستی سے محو کر دیا ہے۔ اہل حق کی تلوار بھی دراصل خدائی تازیانوں میں سے ایک تازیانہ ہے کیونکہ خدا کا رسول جو کچھ بھی کرتا ہے، براہ راست اللہ کی ہدایت وراہنمائی میں کرتا ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین عرب کے درمیان جو صورت پیش آئی، وہ یہی دوسری صورت تھی۔‘‘ (اسلامی ریاست، ۷۶۔۱۷۸)
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’یہ بات یاد رکھیے کہ قریش کا معاملہ ذرا خاص ہے، اس لیے کہ سنت الٰہی کے مطابق جس قوم کی طرف براہ راست رسول کی بعثت ہوتی ہے تو کامل اتمام حجت کے بعد دو ہی راستے باقی رہ جاتے ہیں۔ یا تو عذاب الٰہی سے ہلاک ہو جائیں یا پھر اہل ایمان کی تلوار سے ان کا خاتمہ ہو، بشرطیکہ اہل ایمان جہاد کرنے کی پوزیشن میں ہوں۔ عاد وثمود وغیرہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ہلاک ہوئے، اس لیے کہ ان کے زمانے میں جو رسول آئے، ان کو اتنے اہل ایمان نہ مل سکے کہ وہ جہاد کرنے کی پوزیشن میں ہوتے، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چونکہ اللہ تعالیٰ نے قوت عطا فرما دی تھی، اس لیے آپ نے مشرکین عرب کے ساتھ جہاد کیا۔ فتح مکہ کے موقع پر بھی اس اعلان کے ساتھ جہاد کیا۔ اب ان کے لیے صرف اسلام ہے یا تلوار، اس لیے کہ ان پر حجت تمام ہو چکی تھی۔‘‘ (تدبر، مارچ ۲۰۰۴، ص ۲۴)
یہاں یہ نکتہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ فقہی کتابوں میں ’فاقتلوا المشرکین‘ کی تحدید یا تعمیم سے متعلق نظری سطح پر اختلاف راے پائے جانے کے باوجود امت مسلمہ میں عملاً احناف ہی کے نقطہ نظر کو قبول عام حاصل ہوا ہے اور تاریخ میں چند شاذ مثالوں کے علاوہ عام طور پر کفار کے کسی بھی گروہ کو، چاہے وہ بالکل واضح طور پر شرک اور بت پرستی کے قائل ہوں، اس پر مجبور نہیں کیا گیا کہ وہ اسلام قبول کر لیں، ورنہ انھیں قتل کر دیا جائے گا۔ مثال کے طورپر تاریخ اسلام کے بالکل ابتدائی دور میں عربوں نے سندھ کو فتح کیا تو ہندو مذہب اور اس کی عبادت گاہوں کو اسی طرح تحفظ دیا گیا جیسے اہل کتاب کی عبادت گاہوں کو دیا جاتا ہے۔ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:
’’عربوں نے سندھ میں قدم رکھنے کے ساتھ ایک منٹ بھی اس کے فیصلہ میں توقف نہیں کیا کہ ان اقسام میں سے ہندوؤں کا مرتبہ اسلامی حکومت میں کیا ہے؟ .... سندھ کو فتح کرتے ہوئے جب عرب سپہ سالار محمد بن قاسم سندھ کے مشہور شہر الرور (الور) پہنچا تو شہر والوں نے کئی مہینہ تک حملہ آوروں کا پرزور مقابلہ کیا۔ پھر صلح کی اور اس میں دو شرطیں پیش کیں۔ اول یہ کہ شہر کا کوئی آدمی قتل نہ کیا جائے، دوسرے یہ کہ ان کے بت خانوں سے کوئی تعرض نہ کیا جائے۔ محمد بن قاسم نے جس وقت ان شرطوں کو قبول کیا تو یہ الفاظ کہے:
ما البد الا ککنائس النصاری والیہود وبیوت نیران المجوس
ترجمہ: ’’ہندوستان کا بت خانہ بھی عیسائیوں اور یہودیوں کی عبادت گاہوں اور مجوس کے آتش کدوں ہی کی طرح ہے۔‘‘
سندھ کی سب سے قدیم عربی تاریخ کے فارسی ترجمہ چچ نامہ میں یہ واقعہ اس طرح مذکور ہے:
’’محمد بن قاسم نے برہمن آباد (سندھ) کے لوگوں کی درخواست قبول کر لی اور ان کو اجازت دی کہ سندھ کی اس اسلامی سلطنت میں اسی حیثیت میں رہیں جس حیثیت میں عراق اور شام کے یہودی، عیسائی اور پارسی رہتے ہیں۔‘‘ (چچ نامہ، تاریخ الیٹ جلد اول ص ۱۸۶)
’’ایک عرب فاتح کی زبان کی یہ وہ اہم تصریح ہے کہ اس نے ہندوؤں کو وہی حیثیت دی جو بظن غالب کسی آسمانی تعلیم کے پیروؤں کی اسلامی قانون میں ہے اور ان کے بت خانوں کو بھی وہی درجہ دیا جو اہل کتاب یا مشابہ اہل کتاب کے معبدوں اور عبادت گاہوں کا اسلام میں ہے۔‘‘ (عرب وہند کے تعلقات، ص ۱۷۹، ۱۸۰)

اتمام حجت پر مبنی احکام

فقہا کے مابین اس حوالے سے عمومی اتفاق راے پایا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی نیابت میں آپ کے صحابہ نے جن اقوام اور گروہوں کے خلاف جہاد وقتال کا اقدام کیا، ان پر یقینی طور پر اتمام حجت ہو چکا تھا اور آپ کے دعواے نبوت کی صداقت دور اول کی اسلامی سلطنت کے دائرے میں بسنے والے اہل کتاب پر بالخصوص واضح تھی، چنانچہ وہ بالعموم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار کرتے ہوئے آپ کی بعثت کو اہل عرب کے لیے خاص قرار دے کر اپنے آپ کو آپ پر ایمان لانے سے مستثنیٰ قرار دیتے تھے۔ (سرخسی، شرح السیر الکبیر ۱/۱۵۱، ۱۵۲۔ ابو اللیث السمرقندی، فتاویٰ النوازل ۲۰۸۔ ابن تیمیہ، مجموع الفتاویٰ ۲۸/۶۲۶) 
امام شافعی فرماتے ہیں:
قال اللہ تبارک وتعالی قاتلوا الذین لا یومنون .... وہم صاغرون، قال فکان بینا فی الآیۃ واللہ تعالی اعلم ان الذین فرض اللہ عزوجل قتالہم حتی یعطوا الجزیۃ الذین قامت علیہم الحجۃ بالبلوغ فترکوا دین اللہ عزوجل واقاموا علی ما وجدوا علیہ آباء ہم من اہل الکتاب (الام، ۴/۱۷۵)
’’اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’قاتلوا الذین لا یومنون ...... صاغرون‘۔ آیت سے یہ بات واضح ہے کہ جن اہل کتاب کے خلاف اللہ تعالیٰ نے قتال کر کے انھیں جزیہ کی ادائیگی پر مجبور کرنے کا حکم دیا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جن تک حق پہنچنے کے بعد حجت قائم ہو چکی تھی اور انھوں نے اللہ کے دین کو چھوڑ کر اپنے آباؤ واجداد کے دین پر قائم رہنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔‘‘
اگر کفار کے خلاف قتال کا یہ حکم اتمام حجت کے اصول پر مبنی اور اس کے ساتھ مشروط تھا تو ایک بنیادی سوال یہ سامنے آتا ہے کہ پیغمبر کی طرف سے ایک مرتبہ اتمام حجت متحقق ہونے کے بعد کیا یہ زمان ومکان اور حالات کی تبدیلی سے متاثر ہوتا ہے یا تغیر کے اثرات سے بالاتر رہتا ہے؟ اور اگر متاثر ہوتا ہے تو پھر مختلف گروہوں اور ان کے احوال و ظروف میں پایا جانے والا تفاوت اتمام حجت کی کیفیت اور اس پر متفرع ہونے والے احکام پر بھی اثرانداز ہوتا ہے یا نہیں؟ دوسرے لفظوں میں اگر کسی گروہ پر اتمام حجت کا تحقق یقینی نہ ہو تو کیا پھر بھی اس کے ساتھ وہی معاملہ کیا جائے گا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مخاطب کفار کے ساتھ کیا؟ 
فقہی روایت کے مطالعہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اہل علم کے ہاں یہ احساس موجود رہا ہے کہ اتمام حجت کی جو کیفیت اور فضا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے مخصوص دائرۂ تخاطب میں پائی جاتی تھی، وہ آفاقی نہیں، بلکہ محدود ہے۔ اسی طرح اتمام حجت پر متفرع ہونے والے احکام کی تحدید وتخصیص کے حوالے سے بھی صدر اول ہی سے علمی بحثیں موجود رہی ہیں۔ چنانچہ اوپر کی سطور میں ہم واضح کر چکے ہیں کہ مشرکین کو قتل کرنے اور اہل کتاب سے ’جزیہ‘ وصول کرنے کے احکام کے حوالے سے یہ سوال دور صحابہ ہی میں زیر بحث آ گیا کہ ان کی کس حد تک تعمیم کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح مرتد پر سزاے موت کے نفاذ کو لازم نہ سمجھنے کی راے بھی ابتدا ہی سے موجود رہی ہے، چنانچہ سیدنا عمر اور ابراہیم نخعی سے اس کے لیے عمر قید کی متبادل سزا تجویز کرنا منقول ہے اور ابن حزم کے بیان کے مطابق فقہا کا ایک گروہ بھی یہی راے رکھتا ہے۔ ہم نے اپنی کتاب ’’حدود وتعزیرات: چند اہم مباحث‘‘ میں اس نقطہ نظر کی وضاحت میں لکھا ہے:
’’مرتد کے لیے سزاے موت کے لازم ہونے کے بجاے کسی متبادل سزا کا امکان تسلیم کرنے کا رجحان، بہت محدود دائرے میں سہی، صدر اول کے اہل علم کے ہاں دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ کتب فقہ میں ایک گروہ کی، جن میں ابراہیم نخعی شامل ہیں، یہ راے نقل ہوئی ہے کہ مرتد کو کسی مخصوص مدت تک نہیں، بلکہ مدت العمر توبہ کا موقع دیا جائے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اسے قتل نہ کیا جائے۔ ابراہیم نخعی کی اس راے کو غالباً مخالف راے کے عمومی شیوع کے تناظر میں محض ان کا تفرد قرار دے کر زیادہ غور وفکر کا مستحق نہیں سمجھا گیا اور اسی وجہ سے فقہی لٹریچر میں اس موقف کی بحث و تمحیص کے حوالے سے زیادہ علمی مواد نہیں پایا جاتا، تاہم ہمارے خیال میں یہ راے محض ابراہیم نخعی کا تفرد نہیں ہے، بلکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جیسے بلند مرتبت فقیہ کے ہاں بھی یہ رجحان دکھائی دیتا ہے اور کم از کم ان جیسی شخصیت کی طرف نسبت کے ناتے سے یہ راے ہر لحاظ سے توجہ اور اعتنا کی مستحق ہے۔ 
انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب تستر فتح ہوا تو ابو موسیٰ اشعری نے مجھے سیدنا عمر کے پاس بھیجا۔ میں پہنچا تو سیدنا عمر نے مجھ سے دریافت کیا کہ جحیفہ اور اس کے ساتھیوں کا کیا ہوا؟ یہ بنو بکر بن وائل سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد تھے جو مرتد ہو کر کفار کے ساتھ جا ملے تھے۔ انس کہتے ہیں کہ سیدنا عمر نے بڑی کرید کرتے ہوئے ان افراد کے بارے میں پوچھا، لیکن میں نے تین مرتبہ ان کی توجہ اس موضوع سے ہٹانے کے لیے کوئی دوسری بات چھیڑ دی۔ آخر ان کے اصرار پر میں نے بتایا کہ انھیں گرفتار کر کے قتل کر دیا گیا ہے۔ اس پر سیدنا عمر نے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا۔ انس نے کہا کہ یہ لوگ جو مرتد ہوکر کفار کے ساتھ جا ملے تھے، کیا ان کے لیے قتل کے علاوہ کوئی اور صورت بھی ممکن تھی؟ سیدنا عمر نے کہا کہ ہاں، میں انھیں اسلام کی طرف واپس آنے کی دعوت دیتا اور اگر وہ انکار کرتے تو انھیں قید میں ڈال دیتا۔
روایت سے واضح ہے کہ سیدنا عمر اس راے کے حق میں عمومی رجحان رکھتے تھے اور انس بن مالک بھی اس سے پیشگی واقف تھے۔ چنانچہ انھوں نے پہلے اس موضوع پر گفتگو کو ٹالنے اور پھر ابوموسیٰ اشعری کے اقدام کا دفاع کرنے کی کوشش کی جس پر سیدنا عمر نے اپنی مذکورہ راے ظاہر کی۔ ابن حزم نے نقل کیا ہے کہ فقہا کا ایک گروہ مرتد کو قتل کرنے کے بجاے مدت العمر توبہ کا موقع دینے کا قائل رہا ہے اور انھوں نے اس گروہ کے مستدل کے طور پر سیدنا عمر کے مذکورہ واقعے ہی کا حوالہ دیا ہے۔
ابن عبد البر نے سیدنا عمر کی اس راے کو جمہور فقہا کے موقف پر محمول کرتے ہوئے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اگر وہ قید میں ڈالنے کے بعد بھی اسلام قبول نہ کرتے تو سیدنا عمر انھیں قتل کر دیتے، تاہم اس کے لیے انھوں نے کلام سے کوئی داخلی قرینہ پیش نہیں کیا، بلکہ یہ کہا ہے کہ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مرتد کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے، اس لیے سیدنا عمر اس سے مختلف کوئی بات نہیں کہہ سکتے، حالانکہ ازروے علت سیدنا عمر کی یہ راے ارشاد نبوی کے خلاف نہیں۔ اگرچہ روایت میں ان کی اس راے کا استدلال نقل نہیں ہوا، لیکن یہ قیاس کرنا غالباً غلط نہیں ہوگا کہ وہ مرتد کے دل میں اسلام کی حقانیت کے حوالے سے واقعی شکوک وشبہات کا امکان تسلیم کرتے ہوئے اتمام حجت کے پہلو سے اس کو قتل کی سزا دینے میں تردد محسوس کرتے اور اس کے بجاے اسے مدت العمر توبہ کا موقع دینے کو شریعت کے منشا کے زیادہ قریب تصور کرتے ہیں۔
بعض روایات اور آثار میں مرتد ہونے والی عورت کو قتل کے حکم سے مستثنیٰ قرار دینے کا ذکر ملتا ہے۔ چنانچہ معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں یمن کا حاکم بنا کر بھیجا تو من جملہ دوسرے احکامات کے یہ حکم بھی دیا کہ اگر کوئی عورت اسلام سے پھر جائے تو اسے اسلام کی دعوت دو۔ اگر وہ توبہ کرلے تو قبول کرلو اور اگر انکار کردے تو اس سے جبراً توبہ کراؤ۔ اسی طرح ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک عورت مرتد ہوگئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قتل نہیں کیا۔
ایک روایت کے مطابق سیدنا علی کے زمانے میں کچھ لوگ مرتد ہو گئے تو حضرت علی نے ان میں سے بالغ مردوں کو قتل کر دیا اور عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا۔ عبداللہ ابن عباس کا فتویٰ یہ نقل ہوا ہے کہ اگر عورتیں اسلام سے مرتد ہوجائیں تو انھیں قتل نہیں کیاجائے گا، بلکہ انھیں محبوس کر کے اسلام کی دعوت دی جائے گی اور اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ فقہاے تابعین میں سے زہری، ابراہیم نخعی، قتادہ، عطاء، حسن بصری، خلاس اور عمر بن عبد العزیز سے مرتد ہونے والی عورت کو قتل کرنے کے بجاے قید کرنے یا لونڈی بنا لینے جیسی متبادل سزائیں دینا مروی ہے۔ اس کے برعکس بعض دیگر روایات میں مرتد ہونے والی عورتوں کو قتل کرنے کا ذکر بھی ملتا ہے۔ 
ہمارے نزدیک اگر ارتداد کی سزا کو اتمام حجت کے نکتے کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو خواتین پر اس سزا کو نافذ کرنے اور انھیں اس سے مستثنیٰ قرار دینے کے دونوں طریقے قابل فہم ہو جاتے ہیں۔ قتل چونکہ کسی بھی جرم کی آخری سزا ہوتی ہے جس کے بعد اصلاح یا توبہ کا کوئی موقع باقی نہیں رہ جاتا، اس لیے کوئی فرد اگر کسی بھی درجے میں رعایت کا مستحق ہو تو اس پر یہ سزا نافذ کرنے کے بجاے کوئی متبادل سزا تجویز کرنا اور توبہ واصلاح کے دروازے کو اس کے لیے کھلا رکھنا ایک قابل فہم اور معقول بات ہے۔ خواتین کے بارے میں یہ معلوم ہے کہ انسانی تاریخ میں بالعموم انھیں مردوں اور بالخصوص اپنے خاندان کے مردوں کے رجحانات اور اثرات سے آزاد ہو کر اپنی عقل وفہم اور صواب دید کے مطابق خود کوئی فیصلہ کرنے کے مواقع حاصل نہیں رہے اور مذہبی، معاشرتی اور سیاسی معاملات میں انھیں مردوں ہی کے تابع سمجھا جاتا رہا ہے۔ یہ صورت حال اس بات کی مقتضی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اتمام حجت کے بعد انکار حق کے معاملے میں انھیں مردوں کے ساتھ یکساں درجے کا مجرم نہ سمجھا جائے، بلکہ ان کے بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے زیادہ احتیاط ملحوظ رکھی جائے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اتمام حجت کے تحقق کا اطمینان حاصل ہونے کی صورت میں خواتین کو قتل کرنے، جبکہ اس میں شک وشبہ پائے جانے کی صورت میں کوئی متبادل سزا نافذ کرنے کے دونوں طریقے درست قرار پاتے ہیں۔‘‘ (حدود وتعزیرات: چند اہم مباحث، ۲۲۲-۲۲۶)
اتمام حجت سے متعلق اس نکتے کی توضیح فقہا کی بیان کردہ اس شرط سے بھی ہوتی ہے کہ کفار کے کسی گروہ کے خلاف قتال کے لیے یہ ضروری ہے کہ ان تک اسلام کی دعوت پہنچ چکی ہو۔ (الام، ۴/۲۳۹۔ المغنی ۹/مسئلہ ۷۳۳۶) یہاں یہ نکتہ توجہ طلب ہے کہ فقہاے احناف جنگ سے پہلے دعوت کے ضابطے کو اصولاً تسلیم کرنے کے باوجود عملاً دونوں طرح کے کفار میں کوئی قانونی فرق تسلیم نہیں کرتے، چنانچہ ان کے نزدیک کسی کافر تک اسلام کی دعوت پہنچی ہو یا نہ پہنچی ہو، دونوں صورتوں میں اس کی جان کی حرمت یکساں ہے اور اگر کسی مسلمان نے کسی ایسے کافر کو قتل کر دیا جس تک دعوت نہیں پہنچی تھی تو اس پر اس کی دیت لازم نہیں۔ تاہم امام شافعی کی رائے اس سے مختلف ہے۔ وہ نہ صرف اس امکان کو تسلیم کرتے ہیں کہ دنیا میں ایسی اقوام موجود ہوں جن تک اسلام کی دعوت نہ پہنچی ہو بلکہ وہ، احناف کی رائے کے برخلاف، ان اقوام کے افراد کی انفرادی جانوں کی حرمت کے معاملے کو بھی ان قوموں سے مختلف قرار دیتے ہیں جن تک دعوت اسلام پہنچ چکی ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں:
لا اعلم احدا لم تبلغہ الدعوۃ الیوم الا ان یکون من وراء عدونا الذین یقاتلونا امۃ من المشرکین فلعل اولئک ان لا تکون الدعوۃ بلغتہم وذلک مثل ان یکونوا خلف الروم او الترک او الخزر امۃ لا نعرفہم فان قتل احد من المسلمین احدا من المشرکین لم تبلغہ الدعوۃ وداہ ان کان نصرانیا او یہودیا دیۃ نصرانی او یہودی وان کان وثنیا او مجوسیا دیۃ المجوسی (الام، ۴/۲۳۹)
’’میں نہیں سمجھتا کہ آج کوئی ایسا آدمی ہو جس تک دعوت نہ پہنچ چکی ہو۔ ہاں اگر ہمارے ساتھ برسر جنگ دشمن سے آگے کے علاقے میں کفار کا کوئی گروہ ہو تو ان کے بارے میں ممکن ہے کہ انھیں دعوت نہ پہنچی ہو۔ مثلا رومیوں یا ترکوں یا خزر سے پیچھے کوئی گروہ ہو جسے ہم نہ جانتے ہوں۔ پس اگر مسلمانوں میں سے کوئی آدمی کفار میں سے کسی ایسے آدمی کو قتل کر دے جس تک دعوت نہیں پہنچی تو وہ اس کی دیت ادا کرے گا۔ اگر مقتول عیسائی یا یہودی ہو تو عیسائی یا یہودی کی دیت اور اگر وہ بت پرست یا مجوسی ہو تو مجوسی کی دیت لازم ہوگی۔‘‘
غور کیا جائے تو اس نکتے کا نہایت گہرا تعلق ’قاتلوا الذین لا یومنون باللہ‘ کے حکم قرآنی کے عموم وخصوص کی بحث سے ہے اور امام شافعیؒ کے مذکورہ استنباط سے کسی حد تک یہ بات جھلکتی ہے کہ وہ اس حکم کے اصل پس منظر اور علت کو اس امر میں مانع محسوس کرتے ہیں کہ حکم کو اس کے ظاہر کے لحاظ سے تمام کفار کے لیے عام قرار دیا جائے۔ بعض شافعی فقہا نے اس سے آگے بڑ ھ کر یہ بھی قرار دیا ہے کہ اسلام کی دعوت پہنچے بغیر جن کفار کو قتل کیا جائے، ان کی دیت مسلمانوں ہی کے برابر ہوگی۔ ماوردی اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انسانوں کی جان اصل میں محفوظ اور محترم ہے، جبکہ مباح الدم انھی کفارکو قرار دیا جا سکتا ہے جن کی طرف سے اسلام کے خلاف معاندت کا رویہ ظاہر ہو جائے۔ (الحاوی الکبیر، ۱۲/۳۱۳) فقہا بالعموم کسی غیر مسلم تک اسلام کی دعوت پہنچ جانے اور اس کے اسلام قبول نہ کرنے کو ہی اسلام کے خلاف محاربہ اور عناد کے ہم معنی قرار دیتے ہیں۔ یہ بات کلاسیکی فقہی دور میں اپنا ایک محل رکھتی تھی، لیکن ظاہر ہے کہ اسے ابدی طور پر درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔
جب صدر اول میں مختلف گروہوں کے حوالے سے اتمام حجت کی کیفیت میں تفاوت محسوس کیا جا رہا تھا تو ظاہر ہے کہ بعد کے زمانوں میں لازمی طور پر اس میں مزید تغیر رونما ہوا۔ چنانچہ امام غزالی نے پانچویں صدی میں یہ رائے ظاہر کی تھی کہ غیر مسلموں کا ایک گروہ تو یقیناًرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی حقانیت سے پوری طرح واقف ہے اور اس کے انکار کے نتیجے میں خدا کے عذاب کا مستحق ٹھہرے گا، لیکن وہ غیر مسلم جنھوں نے سرے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہی نہیں سنا یا نام تو سنا ہے، لیکن آپ کی نبوی حیثیت اور پیغمبرانہ کمالات واوصاف سے کماحقہ آگاہ نہیں ہیں، ان کے بارے میں یہی امید ہے کہ وہ رحمت الٰہی کے دائر ے میں شامل ہو کر نجات پا جائیں گے۔ لکھتے ہیں:
ان اکثر نصاری الروم والترک فی ہذا الزمان تشملہم الرحمۃ ان شاء اللہ تعالیٰ اعنی الذین ہم فی اقاصی الروم والترک ولم تبلغہم الدعوۃ فانہم ثلاثۃ اصناف صنف لم یبلغہم اسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم اصلا فہم معذورون وصنف بلغہم اسمہ ونعتہ وما ظہر علیہ من المعجزات وہم المجاورون لبلاد الاسلام والمخالطون لہم وہم الکفار الملحدون وصنف ثالث بین الدرجتین بلغہم اسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم ولم یبلغہم نعتہ وصفتہ بل سمعوا ایضا منذ الصبا ان کذابا ملبسا اسمہ محمد ادعی النبوۃ کما سمع صبیاننا ان کذابا یقال لہ المقفع بعثہ اللہ تحدی بالنبوۃ کاذبا فہولاء عندی فی اوصافہ فی معنی الصنف الاول فانہم مع انہم لم یسمعوا اسمہ سمعوا ضد اوصافہ وہذا لا یحرک داعیۃ النظر فی الطلب (فیصل التفرقۃ، مجموعۃ رسائل الامام الغزالی، ۳/۹۶)
’’اس زمانے میں روم کے مسیحیوں اور ترکوں کی اکثریت ان شاء اللہ، اللہ کی رحمت کے دائرے میں شامل ہوں گے۔ میری مراد وہ لوگ ہیں جو سلطنت روم اور ترکوں کے دور دراز علاقوں میں رہتے ہیں اور ان تک اسلام کی دعوت نہیں پہنچی۔ یہ تین قسم کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جنھوں نے سرے سے کبھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بھی نہیں سنا۔ یہ تو معذور ہیں۔ دوسرے وہ جن تک آپ کا نام اور اوصاف اور آپ کے حق میں ظاہر ہونے والے اوصاف پہنچے ہیں اور وہ اسلامی ممالک کے پڑوس میں رہتے ہیں اور مسلمانوں سے ان کا میل ملاپ رہتا ہے۔ یہ لوگ کافر اور بے دین ہیں۔ تیسرا گروہ ان دونوں کے درمیان ہے۔ ان تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام تو پہنچا ہے، لیکن آپ کے حالات واوصاف نہیں پہنچے، بلکہ انھوں نے بچپن سے یہ سن رکھا ہے کہ (نعوذ باللہ) محمد نام کے ایک جھوٹے اور فریبی نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا، ایسے ہی جیسے ہمارے بچوں نے سن رکھا ہے کہ مقفع نامی ایک کذاب نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا۔ یہ گروہ میرے نزدیک اپنے حالات کے لحاظ سے پہلے گروہ کے حکم میں ہے، کیونکہ ان تک نہ صرف یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی تعارف نہیں پہنچا بلکہ انھوں نے اس کے الٹ سن رکھا ہے اور یہ چیز (ان میں اسلام کے بارے میں) تلاش اور جستجو کا داعیہ پیدا نہیں کرتی۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ دور جدید کی اسلامی ریاستوں میں ارتدادکی سزا کے ضمن میں بہت سے مسلم اہل علم اور مفکرین نے اجتہادی زاویہ نگاہ اختیار کرتے ہوئے یہ سوال اٹھایا ہے کہ اتمام حجت کے لیے جو معاون اور سازگار فضا اور جو اسباب ومحرکات اسلام کے دور اول میں موجود تھے، کیا وہ آج بھی اسی طرح موجود ہیں اور کیا معروضی تناظر میں اس سزا کا اطلاق خود حکم کی علت کی رو سے درست ہوگا؟ (نجات اللہ صدیقی، اسلام، معاشیات اور ادب، ۴۱۴) مولانا مودودی بھی، جنھوں نے ارتداد پر سزاے موت کا بھرپور دفاع کیا ہے، یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ دور جدید میں اسلامی تعلیم وتربیت کے نظام میں نقص اور کافرانہ تعلیم وتربیت کے اثرات کے تحت نئی نسلوں میں اسلام سے فکری انحراف کا میلان اس درجے میں پھیل چکا ہے کہ انھیں قانون ارتداد کے تحت جبراً دائرۂ اسلام میں مقید رکھنے سے ’’اسلام کے نظام اجتماعی میں منافقین کی ایک بہت بڑی تعداد شامل ہو جائے گی جس سے ہر وقت ہر غداری کا خطرہ رہے گا۔‘‘ (مرتد کی سزا، ۷۵) ایسے لوگوں کو جبراً اسلام کا پابند بنانے پر مولانا کی تشویش کا اصل پہلو تو وہی ہے جو انھوں نے بیان کیا ہے، تاہم اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ دور جدید میں وضوح حق اور اتمام حجت کی کیفیت کے حوالے سے ان کے احساسات کیا ہیں۔ مولانا نے غالباً اسی احساس کے تحت مرتد کے لیے ملک بدر کرنے کی متبادل سزا کا امکان تسلیم ،بلکہ تجویز کیا ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اگر نظری فقہی بحثوں سے صرف نظر کر لیا جائے تو اہل علم اور مذہبی جماعتوں کی طرف سے اس قانون کے نفاذ پر اصرار نہیں کیا، بلکہ مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی کی روایت ہے کہ مولانا مفتی محمود نے انھیں بتایا کہ اسلامی قانون سازی کے ایک مرحلے جب انھوں نے اسلام سے ارتداد کو قانونی طور پر مستوجب قتل قرار دینے کی تجویز پیش کی تو جماعت اسلامی نے اس سے اختلاف کیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ ایسا کرنے سے غیر مسلم ممالک کو بھی مذہب کی تبدیلی پر پابندی لگانے کی بنیاد مل جائے گی اور اس سے اسلام کی دعوت وتبلیغ کے راستے میں رکاوٹیں پیدا ہوں گی۔ (مقدمہ فتا ویٰ مفتی محمود، جلد ۵)
اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد میں شعبہ فقہ وقانون کے استاذ محمد مشتاق احمد کی روایت کے مطابق، ڈاکٹرمحمود احمد غازی نے انھیں بتایا کہ جب وہ اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن تھے تو انھوں نے اس بات کی کوشش کی کہ توہین رسالت کی سزا سے متعلق قانون میں مسلم اور غیر مسلم کے مابین تفریق کرتے ہوئے یہ قرار دیا جائے کہ اس جرم کے ارتکاب پر غیر مسلم کو تو تعزیری طو رپر موت کی سزا دی جا سکے گی، جبکہ مجرم کے مسلمان ہونے کی صورت میں چونکہ یہ جرم ارتداد کے ہم معنی ہے، اس لیے اسے موت کی سزا دی جائے گی۔ اس تجویز سے ڈاکٹر غازی کا منشا یہ تھا کہ اس طرح جزوی طور پر ارتداد کی سزا بھی رو بعمل ہو جائے گی، لیکن کونسل کی سطح پر ان کی یہ تجویز بھی قبول نہیں کی گئی۔
اس تناظر میں احکام قتال کی تعمیم یا تحدید کے ضمن میں بھی اس نکتے کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطب کفار سے متعلق دیے جانے والے احکام ایک مخصوص اساس پرمبنی تھے تو ان کی علی الاطلاق تعمیم نہیں کی جا سکتی۔

قتال کی علت: حنفی فقہا کا نقطہ نظر

سورۂ براءۃ کی زیربحث آیات میں، جیسا کہ ہم نے واضح کیا، مشرکین اور اہل کتاب کے خلاف قتال کا حکم ان کے ایمان نہ لانے کی بنیاد پر دیا گیا ہے۔ اگر ان احکام کی تعمیم ان کے پورے پس منظر کے ساتھ کرتے ہوئے ان نصوص کو جہاد وقتال کے عمومی حکم کے لیے ماخذ بنایا جائے تو لازماً یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ دنیا بھر کے کفار کے خلاف امت مسلمہ کے جہاد کی علت بھی ان کا کفر وشرک ہے، چنانچہ حنبلی اور شافعی فقہا صریحاً قتال کا سبب کفار کے کفر کو قرار دیتے اور جہاد کا مقصد انھیں اس کی سزا دینا بیان کرتے ہیں۔ (ابن العربی، احکام القرآن، ۱/۱۵۵) گویا ان کی راے میں جہاد کا مقصد ایمان واسلام کی اشاعت اور کفر وشرک کی بیخ کنی کرنا اور اہل کفر کو ان کے کفر کی سزا دینا ہے۔ تاہم فقہاے احناف کے ہاں اس ضمن میں ایک مختلف رجحان کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ ہم نے ’’جھلک دکھائی دینے‘‘ کی تعبیر اس لیے اختیارکی ہے کہ احناف کے موقف میں بعض پیچیدگیاں اور تضادات پائے جاتے ہیں، اس لیے ان کی طرف کسی واضح اور غیر مبہم موقف کی نسبت کرنے کے بجائے یہ بہتر ہوگا کہ ان پیچیدگیوں کا تجزیہ کیا جائے۔ 
جہاں تک قتل مشرکین کے حکم کا تعلق ہے، احناف کا نقطہ نظر اس معاملے میں واضح ہے۔ وہ اس کا باعث مشرکین کے کفر ہی کو قرار دیتے ہیں، تاہم اسے شریعت کا کوئی عمومی حکم نہیں سمجھتے، بلکہ مشرکین عرب کے ساتھ خاص سمجھتے ہیں۔ اسی طرح جب وہ عہد رسالت کے تناظر میں اہل کتاب کے خلاف قتال کر کے ان پر جزیہ عائد کرنے کے حکم کا ذکر کرتے ہیں تو اس کی وجہ بھی ان کے کفر کو قرار دیتے اور یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس قتال کا مقصد منکرین حق کو ان کے کفر کی سزا دینا تھا۔ ابوبکر الجصاص لکھتے ہیں:
فہذہ الآیات کلہا انزلت قبل لزوم فرض القتال وذلک قبل الہجرۃ وانما کان الغرض الدعاء الی الدین حینئذ بالحجاج والنظر فی معجزات النبی صلی اللہ علیہ وسلم وما اظہرہ اللہ علی یدہ وان مثلہ لا یوجد مع غیر الانبیاء ...... ثم لما ہاجر الی المدینۃ امرہ اللہ تعالیٰ بالقتال بعد قطع العذر فی الحجاج وتقریرہ عندہم حین استقرت آیاتہ ومعجزاتہ عند الحاضر والبادی والدانی والقاصی بالمشاہدۃ والاخبار المستفیضۃ التی لا یکذب مثلہا (احکام القرآن، ۱/۶۰)
’’ابتدا میں مقصود یہ تھا کہ دین کی دعوت دلائل وبراہین کی روشنی میں دی جائے اور لوگوں کو آمادہ کیا جائے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا ہونے والے معجزات پر غور کریں اور یہ دیکھیں کہ اس طرح کے نشانات آپ کے سوا کسی پیغمبر کو عطا نہیں کیے گئے۔ ..... پھر ہجرت مدینہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو قتال کا حکم دیا، کیونکہ جب آپ کو ملنے والے نشانات ومعجزات ہر شہری اور بدوی اور دور ونزدیک کے ہر شخص پر براہ راست مشاہدہ یا ناقابل تردید مستفیض اطلاعات کے ذریعے سے ثابت ہو گئے تو اب دلیل وبرہان ان پر بالکل واضح ہو گئی اور اس پہلو سے ان کے پاس پیش کرنے کے لیے کوئی عذر باقی نہ رہا۔‘‘
تاہم شریعت کے ایک عمومی حکم کے طور پر جہاد وقتال کی علت کی تعیین کے حوالے سے احناف کے ہاں بیک وقت دو مختلف بلکہ مخالف رجحانات دکھائی دیتے ہیں۔ ایک طرف وہ قرار دیتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی نیابت میں آپ کی امت بھی اس بات کی مکلف ہے کہ ’امر بالمعروف‘ اور ’نہی عن المنکر‘ کے اصول پر دنیا میں حق کی اشاعت اور باطل کی سرکوبی کے لیے جدوجہد کرے۔ سرخسی لکھتے ہیں:
فاما بیان المعاملۃ مع المشرکین فنقول الواجب دعاؤہم الی الدین وقتال الممتنعین منہم من الاجابۃ لان صفۃ ہذہ الامۃ فی الکتب المنزلۃ الامر بالمعروف والنہی عن المنکر وبہا کانوا خیر الامم قال اللہ تعالیٰ کنتم خیر امۃ اخرجت للناس الآیۃ وراس المعروف الایمان باللہ تعالیٰ فعلی کل مومن ان یکون آمرا بہ داعیا الیہ واصل المنکر الشرک فہو اعظم ما یکون من الجہل والعناد لما فیہ من انکار الحق من غیر تاویل فعلی کل مومن ان ینھی عنہ بما یقدر علیہ (المبسوط ۱۰/۲)
’’کفار ومشرکین کو دین حق کی دعوت دینا اور ان میں سے جو اسے قبول کرنے سے انکار کریں، ان کے ساتھ قتال کرنا واجب ہے، اس لیے کہ آسمانی کتابوں میں اس امت کی خصوصیت ’امر بالمعروف‘ اور ’نہی عن المنکر‘ بیان ہوئی ہے اور اسی وجہ سے یہ امت، تمام امتوں سے بہتر قرار پائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’کنتم خیر امۃ اخرجت للناس‘ (تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کی راہنمائی کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ تم معروف کا حکم دیتے ہو اور منکر سے روکتے ہو) ۔ ’معروف‘ کا سب سے بنیادی حکم اللہ پر ایمان ہے، چنانچہ ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ خدا پر ایمان کی دعوت دینے والا ہو۔ اسی طرح سب سے بڑا ’منکر‘ شرک ہے، کیونکہ یہ جہالت اور عناد اور کسی تاویل کے بغیر حق کا انکار کرنے کی بدترین شکل ہے۔ پس ہر مومن اپنی استطاعت کی حد تک اس سے روکنے کا مکلف ہے۔‘‘
علاؤ الدین الکاسانی لکھتے ہیں:
ان الایمان وان وجب علیہم قبل بلوغ الدعوۃ بمجرد العقل فاستحقوا القتل بالامتناع لکن اللہ تبارک وتعالیٰ حرم قتالہم قبل بعث الرسول علیہ الصلاۃ والسلام وبلوغ الدعوۃ ایاہم فضلا منہ ومنۃ قطعا لمعذرتہم بالکلیۃ .....ان القتال مافرض لعینہ بل للدعوۃ الی الاسلام والدعوۃ دعوتان دعوۃ بالبنان وہی القتال ودعوۃ بالبیان وہو اللسان (بدائع الصنائع ۷/۱۰۰)
’’اگرچہ انسانوں پر پیغمبروں کی دعوت پہنچنے سے پہلے محض عقل کی رو سے ایمان لانا واجب تھا اور ایمان نہ لانے کی صورت میں وہ قتل کے مستحق تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور آپ کی دعوت کے لوگوں تک پہنچنے سے پہلے لوگوں پر فضل واحسان کرتے ہوئے ان کے ساتھ قتال کو حرام قرار دیا، تاکہ ان کے پاس انکار کے لیے بالکلیہ کوئی عذر باقی نہ رہے۔ قتال کو محض برائے قتال فرض نہیں کیا گیا بلکہ اس کا مقصد اسلام کی طرف دعوت دینا ہے جس کی دو صورتیں ہوتی ہیں: ایک بزور بازو یعنی قتال، اور دوسری زبانی دعوت وتبلیغ۔‘‘
اسی تناظر میں وہ یہ بھی قرار دیتے ہیں کہ جہاد سے کفر اور اہل کفر کی تحقیر وتذلیل مقصود ہے اور ’جزیہ‘ اسی تحقیر وتذلیل، زیردستی اور محکومی کے لیے ایک ظاہری اور محسوس علامت (Visible Symbol) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسے جہاد کے نتیجے میں مفتوح ہونے والے اہل کفر پر اس مقصد کے تحت عائد کیا جاتا ہے کہ اہل اسلام کے مقابلے میں ان کی محکومانہ حیثیت واضح رہے۔ اس طرح انھیں ایک طرف اپنے کفر پر قائم رہنے کی سزا دی جاتی ہے اور دوسری طرف اس سے یہ توقع پیدا ہوتی ہے کہ ذلت اور عار کا یہ احساس انھیں بالآخر قبول اسلام پر آمادہ کر دے گا۔
ابوبکر الجصاص لکھتے ہیں:
لیس اخذ الجزیۃ منہم رضا بکفرہم ولا اباحۃ لبقاۂم علی شرکہم وانما الجزیۃ عقوبۃ لہم لاقامتہم علی الکفر ..... امہالہم بالجزیۃ جائز فی العقل اذ لیس فیہ اکثر من تعجیل بعض عقابہم المستحق بکفرہم وہو ما یلحقہم من الذل والصغار باداۂا (احکام القرآن، ۳/۱۰۳)
’’کفار سے جزیہ لینے کا مطلب ان کے کفر پر رضامندی یا ان کے اپنے شرک پر قائم رہنے کو جائز قرار دینا نہیں ہے۔ جزیہ تو ان کے لیے ان کے کفر پر قائم رہنے کی سزا ہے۔ عقلی طور پر بھی جزیہ لے کر ان کو مہلت دینا جائز ہے کیونکہ اس طریقے سے اس سے زیادہ تو کچھ نہیں کیا جاتا کہ کفار اپنے کفر کی وجہ سے جس سزا کے مستحق تھے، اس کا کچھ حصہ اس عار اور ذلت کی صورت میں یہیں ان پر نافذ کر دیا جاتا ہے جو جزیہ کی ادائیگی سے انھیں لاحق ہوتا ہے۔‘‘
سرخسی نے اگرچہ یہ وضاحت کی ہے کہ کفار سے قتال کا مقصد اصلاً ان سے مال وصول کرنا نہیں، بلکہ انھیں ’باحسن الوجوہ‘ دین کی طرف دعوت دینا ہے، کیونکہ عقدذمہ کی پابندی قبول کر کے وہ قتال سے دست کش ہو جاتے ہیں اور اس کے بعد مسلمانوں کے مابین مقیم ہونے کی وجہ سے انھیں اسلام کے محاسن سے واقف ہونے اور دعوت اسلام سے روشناس ہونے کا موقع ملے گا جس سے اس کی توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اسلام قبول کرنے کے لیے آمادہ ہو جائیں گے، تاہم اس کے ساتھ ساتھ وہ اس کو بھی ضروری قرار دیتے ہیں کہ جب تک وہ اپنے کفر پر مصر رہیں، اس وقت تک اہل ایمان کی سربلندی اور اہل کفر کی ذلت کو نمایاں کرنے کے لیے ان پر جزیہ عائد رہے۔ لکھتے ہیں:
انہ اذا سکن دار الاسلام فمادام مصرا علی کفرہ لا یخلوا عن صغار وعقوبۃ وذلک بالجزیۃ التی توخذ منہ لیکون ذلک دلیلا علی ذل الکافر وعز المومن (المبسوط، ۱۰/۷۷، ۷۸)
’’کافر اگر دار الاسلام میں مقیم ہے تو جب تک وہ اپنے کفر پر اصرار کرتا رہے، اسے سزا اور ذلت کے بغیر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس سے جزیہ وصول کیا جائے تاکہ کافر کی ذلت اور اہل ایمان کی عزت نمایاں نظر آئے۔‘‘
سرخسی نے اہل حرب کے استرقاق کو بھی ان کے کفر کی عقوبت قرار دیا ہے کہ جب انھوں نے اللہ کی وحدانیت کا انکار کیا تو اللہ نے انھیں اپنے بندوں کا غلام بنا دیا۔ (المبسوط ۸/۴۹۱، ۱۲/۲۷۱) 
یہ ایک نہایت واضح اور غیر مبہم رجحان ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک دوسرا اور مذکورہ پہلے رجحان کی کم وبیش نفی کرتا ہوا ایک دوسرا رجحان احناف کے ہاں اس ضمنی بحث میں نظر آتا ہے کہ آیا جنگ کے دوران میں کفار کی عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو، جو عملاً جنگ میں حصہ نہیں لے سکتے، قتل کرنا جائز ہے یا نہیں؟ شافعی اور حنبلی فقہا کی راے یہ ہے کہ ایسا کرنا درست ہے، کیونکہ قتال کی وجہ ’کفر‘ ہے جو مذکورہ افراد میں بھی پایا جاتا ہے، لیکن فقہاے احناف قتال کی علت کفار کے ’کفر‘ کو قرار دینے سے اختلاف کرتے اور یہ قرار دیتے ہیں کہ قتال کا مقصد کفار کو ان کے ’کفر‘ کی سزا دینا نہیں، بلکہ ان کے فتنہ وفساد اور محاربہ سے تحفظ حاصل کرنا ہے، اس لیے جو افراد اپنی جسمانی ساخت کے لحاظ سے یا کسی معذوری کی بنا پر جنگ کی صلاحیت نہیں رکھتے، انھیں قتل نہیں کیا جا سکتا۔ 
یہاں فقہاے احناف اپنے استدلال کو واضح کرتے ہوئے نفس قتال کی مشروعیت کا نکتہ چھیڑ کر اپنے موقف میں ایک غیر ضروری الجھاؤ پیدا کر لیتے ہیں۔ اگر وہ قتال کی علت کے بجائے یہاں محض اس کی غایت کے حوالے سے اپنا استدلال پیش کرتے اور یہ کہتے کہ اصل مقصود کفار کو قتل کرنا اور کفر کو ختم کر دینا نہیں بلکہ کفر اور اہل کفر کو مغلوب کرنا ہے، اس لیے قتل صرف ان لوگوں کو کیا جائے گا جو بالفعل جنگ میں شریک ہوں تو یہ استدلال ان کے مدعا کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہوتا، تاہم وہ یہاں قتال کی علت کی بحث بھی چھیڑ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چونکہ قتال کی وجہ اہل کفر کا محاربہ ہے، اس لیے قتل انھی لوگوں کو کیا جائے گا جو حرابہ کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ بدیہی طور پر اس سے ان کی مراد یہ نہیں ہوتی کہ کفار کے خلاف جنگ کا آغاز اس وقت کیا جائے گا جب وہ محاربہ کی ابتدا کریں گے، بلکہ یہ ہوتی ہے کہ جب مسلمان اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے نکلیں گے تو کفار لازماً اس کی راہ میں مزاحم ہوں گے اور ان کے اس ’محاربہ‘ کو ختم کرنے کے لیے انھیں قتل کرنا پڑے گا، تاہم استدلال کا یہ مقدمہ ایسا ہے کہ اس کے نتیجے میں عقلی طور پر کفار کے خلاف قتال کی ابتدا کو بھی ان کی طرف سے محاربہ ہی پر منحصر مانناپڑتا ہے۔ اس عقلی نتیجے کو مزید تقویت اس سے ملتی ہے کہ احناف اپنے موقف کی وضاحت کے لیے ایک اہم اصولی نکتہ بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انبیا کی تعلیمات کی رو سے یہ دنیا دار الامتحان ہے جبکہ جزا وسزا کا معاملہ اصلاً آخرت کے دن پر موقوف رکھا گیا ہے، چنانچہ کفر وایمان کا معاملہ اصلاً خدا اور بندے کے مابین ہے اور اس کا فیصلہ دار الجزاء میں خود کائنات کا پروردگار ہی کرے گا۔ دنیا میں قصاص کے طور پر یا دفع فساد کے لیے تو کسی انسان کی جان لینے کی اجازت دی گئی ہے، لیکن کفر وشرک کی پاداش میں کسی کو قتل جیسی انتہائی سزا دے دینا دار الابتلاء اور دار الجزاء کی مذکورہ تقسیم کے منافی ہے۔ *
سرخسی لکھتے ہیں:
ان تبدیل الدین واصل الکفر من اعظم الجنایات ولکنہا بین العبد وبین ربہ فالجزاء علیہا موخر الی دار الجزاء وما عجل فی الدنیا سیاسات مشروعۃ لمصالح تعود الی العباد کالقصاص لصیانۃ النفوس وحد الزنا لصیانۃ الانساب والفرش وحد السرقۃ لصیانۃ الاموال وحد القذف لصیانۃ الاعراض وحد الخمر لصیانۃ العقول (المبسوط، ۱۰/۱۱۰)
’’کفر پر قائم رہنا یا اس کی طرف پلٹ جانا اگرچہ سب گناہوں سے بڑا گناہ ہے، لیکن وہ انسان اور اس کے رب کا معاملہ ہے اور ایسے گناہ کی سزا روز قیامت کے لیے موخر رکھی گئی ہے۔ دنیا میں جس بات کی اجازت دی گئی ہے، وہ کچھ تدبیری سزائیں ہیں جن کا تعلق انسانوں کے فائدے سے ہے، مثلاً جانوں کی حفاظت کے لیے قصاص، نسب اور فراش کے تحفظ کے لیے زنا کی سزا، مال کی حرمت قائم رکھنے کے لیے چوری کی سزا، عزت وآبرو کی حفاظت کے لیے حد قذف اور عقل کی حفاظت کے لیے شراب کی سزا۔‘‘
ابن نجیم لکھتے ہیں:
ان الاصل تاخیر الاجزیۃ الی دار الآخرۃ اذ تعجیلہا یخل بمعنی الابتلاء وانما عدل عنہ دفعا لشر ناجز وہو الحراب (البحر الرائق ۵/۱۳۹)
’’اصل تو یہ ہے کہ (کسی بھی عمل کی) جزا وسزا کو آخرت پر ہی موقوف رکھا جائے، کیونکہ دنیا میں جزا وسزا کو جاری کرنا آزمائش کے اصول میں خلل ڈالتاہے۔ تاہم اس اصول کو چھوڑ کر دنیا میں جزا وسزا کا طریقہ اس لیے اختیار کیا گیا ہے کہ ایک فوری شر یعنی حرابہ کو دورکیا جا سکے۔‘‘
ابن الہمام فرماتے ہیں:
ان الاصل فی الاجزیۃ بان تتاخر الی دار الجزاء وہی الدار الآخرۃ فانہا الموضوعۃ للاجزیۃ علی الاعمال الموضوعۃ ہذہ الدار لہا فہذہ دار اعمال وتلک دار جزاۂا وکل جزاء شرع فی ہذہ الدار ما ہو الا لمصالح فی ہذہ الدار کالقصاص وحد القذف والشرب والزنا والسرقۃ شرعت لحفظ النفوس والاعراض والعقول والانساب والاموال (فتح القدیر ۶/۷۲)
’’جزا وسزا میں اصل یہ ہے کہ اسے دار الجزاء یعنی آخرت کے قائم ہونے تک موخر رکھا جائے، کیونکہ آخرت ان اعمال کی جزا کے لیے قائم کی جائے گی جو اس دنیا میں کیے جاتے ہیں۔ یہ دنیا دار العمل ہے اور آخرت دار الجزاء۔ چنانچہ دنیا میں جو بھی سزا مشروع کی گئی ہے، وہ درحقیقت اس دنیا میں ہی مقصود چند مصالح کے لیے کی گئی ہے، جیسا کہ قصاص کو جانوں کی، حد قذف کو آبرو کی، حد شرب کو عقل کی ، حد زنا کو نسب کی اور حد سرقہ کو مال کی حفاظت کے لیے مشروع کیا گیا ہے۔‘‘
حنفی فقہا قتال سے متعلق قرآن مجید کے نصوص کی توجیہ بھی اسی اصول کی روشنی میں کرتے ہیں۔ مثلاً سرخسی لکھتے ہیں کہ کفار کو قتل کرنے کی اصل علت، مذکورہ اصول کی روشنی میں، ان کا کفر نہیں بلکہ فتنہ وفساد ہے، البتہ اس فتنہ وفساد کا اصل باعث بھی چونکہ ان کا کفر ہے، اس لیے نصوص میں بعض جگہ ان کے قتل کی وجہ کفر کو اور بعض جگہ فساد کو قرار دیا گیا ہے:
ان اللہ تعالی قصر علی العلۃ فی بعض المواضع بقولہ تعالی فان قاتلوکم فاقتلوہم وعلی السبب الداعی الی العلۃ فی بعض المواضع وہو الشرک (المبسوط، ۱۰/۱۱۰)
’’اللہ تعالیٰ نے بعض مقامات پر اصل علت کے بیان پر اکتفا کی ہے، جیسا کہ فرمایا کہ اگر وہ تم سے لڑیں تو انھیں قتل کرو، اور بعض جگہ اس علت (یعنی قتال) کے سبب یعنی شرک کا ذکر کیا ہے جو کفار کو مسلمانوں کے خلاف لڑنے پر آمادہ کرتا ہے۔‘‘
کفار کے فتنہ وفساد ہی کو قتال کی اصل وجہ قرار دینے کا یہ موقف بعد کے حنفی فقہا کے ہاں زیادہ صراحت سے ملتا ہے۔ ابن الہمام ’فتح القدیر‘ میں لکھتے ہیں:
ان قتالنا المامور بہ جزاء لقتالہم ومسبب عنہ وکذا قولہ تعالی وقاتلوہم حتی لا تکون فتنۃ ای لا تکون منہم فتنۃ للمسلمین عن دینہم بالاکراہ بالضرب والقتل وکان اہل مکۃ یفتنون من اسلم بالتعذیب حتی یرجع عن الاسلام علی ما عرف فی السیر فامر اللہ سبحانہ بالقتال لکسر شوکتہم فلا یقدرون علی تفتین المسلم عن دینہ (فتح القدیر، ۵/۴۳۷، ۴۳۸)
’’کفار کے ساتھ ہمیں قتال کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے، وہ ان کی طرف سے کی جانے والی لڑائی کا بدلہ اور اس کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ان کے ساتھ لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے، یعنی وہ مسلمانوں کو زدوکوب یا قتل کر کے انھیں بالجبر ان کے دین سے برگشتہ نہ کر سکیں۔ جیسا کہ کتب سیرت میں معروف ہے، اہل مکہ اسلام لانے والوں کو اذیت دیتے تھے تاکہ وہ اپنے دین سے واپس پلٹ جائیں، اس لیے اللہ نے حکم دیا کہ ان کی قوت اور طاقت کو توڑ دو تاکہ وہ کسی مسلمان کو اذیت دے کر اس کے دین سے ہٹا نہ سکیں۔ ‘‘
ابن الہمام نے یہی بات جزیہ کی نوعیت واضح کرتے ہوئے بیان کی ہے:
والشر الذی یتوقع بسبب الکفر الحرابۃ والفتنۃ عن الدین الحق ..... فکانت عقوبۃ دنیویۃ علی کفرہ الذی ہو سبب لحرابتہ دفعا لہا باضعافہ باخذہا منہ وبدلا عن نصرتہ الفائتۃ بکفرہ (فتح القدیر ۶/۵۴)
’’کفر کی وجہ سے جس شر کا اندیشہ ہے، وہ یہ ہے کہ کفار (مسلمانوں کے ساتھ) جنگ کریں گے اور انھیں دین حق سے برگشتہ کرنے کی کوشش کریں گے، چنانچہ جزیہ کافر کے اس کفر پر دنیوی سزا کی حیثیت رکھتا ہے جو اس کے (مسلمانوں کے خلاف) برسر جنگ ہونے کا محرک ہے اور کافر سے جزیہ لینے کا مقصد یہ ہے کہ اس کی قوت کو کمزور کر کے اس کی طرف سے محاربہ کو روکا جا سکے اور چونکہ کافر ہونے کی وجہ سے وہ (جنگی امور میں) مسلمانوں کی مدد نہیں کرتا (جبکہ اس کا دفاع مسلمانوں کی ذمہ داری ہے)، اس لیے (جزیہ کی صورت میں) اس سے اس کا عوض وصول کیا جائے۔‘‘
صاحب ہدایہ عقد ذمہ کا مقصد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ہو دفع شر الحراب (۲/۱۶۳)
’’اس کا مقصد حرابہ کے شر کو دور کرنا ہے۔‘‘
حنبلی اصولی اور فقیہ ابن عقیل نے بھی اس مسئلے میں احناف کے موقف کو قتل اور قتال کے باب میں شرعی اصولوں کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ قرار دیا ہے اور اس حوالے سے بعض حنبلی علما کا یہ استدلال نقل کیا ہے کہ کفر دراصل حق اللہ ہے جس کی سزا دار التکلیف میں نہیں دی جا سکتی۔ (کتاب الفنون، ۳۷، ۳۹۱) 
احناف نے اس ضمن میں نصوص سے جو استدلال پیش کیا ہے، وہ فقہا کی اس عمومی روش کا نتیجہ ہے کہ وہ الگ الگ مواقع اور گروہوں سے متعلق نصوص کو ان کے سیاق وسباق کی روشنی میں سمجھنے کے بجائے تمام نصوص کو جہاد وقتال کے احکام کا عمومی بیان تصور کرتے ہوئے ان سب سے یکساں استدلال کرتے ہیں۔ بقرہ کی آیات جن میں ’قاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم‘ اور ’فان قاتلوکم فاقتلوہم‘ کے جملے آئے ہیں، دراصل قریش سے متعلق ہیں اور حکم اس مرحلے سے متعلق ہے جب مقصود اصلاً ان کے فتنہ وفساد کو رفع کرنا اور بیت اللہ سے ان کے قبضہ کو ختم کرنا تھا۔ اس کے بعد مشرکین قریش اور ان کے علاوہ عمومی طور پر مشرکین عرب کے لیے حتمی حکم سورۂ توبہ میں دیا گیا جو رفع فساد تک محدود نہیں رہا، بلکہ اس میں اسلام قبول نہ کرنے کی صورت میں ان کے لیے قتل کیے جانے کی سزا بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ بقرہ کی آیات سے احناف کا یہ استدلال برمحل نہیں بنتا کہ یہاں قتال کی علت محاربہ کو قرار دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے اصل ماخذ آیت جزیہ ہے جس میں فتنہ وفساد کو نہیں بلکہ صریحاً کفر کو قتال کی علت قرار دیا گیا ہے۔ 
بہرحال استدلال کی اس خامی سے قطع نظر، احناف کی اس تعلیل پر بعض اہم سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ احناف کی یہ تعلیل بدیہی طور پر آیت جزیہ میں بیان ہونے والی تعلیل سے مختلف ہے، کیونکہ آیت میں صراحت کے ساتھ قتال کا باعث اہل کتاب کے کفر کو اور قتال کا مقصد انھیں محکوم بنا کر ذلت اور رسوائی کی صورت میں انھیں سزا دینے کو قرار دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قتل مشرکین کے حکم کی طرح احناف نے آیت جزیہ کے حکم کی تعمیم بھی، فی الواقع، نہیں کی۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے حکم کو تو انھوں نے اس کی اساس اور نتیجے، دونوں کے لحاظ سے مشرکین عرب کے ساتھ خاص مان لیا ہے، جبکہ دوسرے حکم کو نتیجے کے لحاظ سے عام مانتے ہوئے اسے اس کی اصل علت، یعنی کفر سے مجرد کر دیا ہے جس پر وہ نص قرآنی کی رو سے مبنی تھا۔ ظاہر ہے کہ اس سے اصل حکم کی تعمیم نہیں ہوئی، کیونکہ وہ صرف اس صورت میں متحقق ہوگی جب قرآن کے بیان کے مطابق قتال کی علت یہ مانی جائے کہ کفار نہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، نہ اللہ اور اس کے رسول کی حرام کردہ چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں اور نہ دین حق کی پیروی اختیار کرتے ہیں۔ یہ احناف کے نقطہ نظر کا ایک لازمی تقاضا ہے، تاہم نہ تو اصولی طور پر اس کی کوئی باقاعدہ تصریح ان کے ہاں ملتی ہے اور اس کے واقعی مضمرات اور اس سے نکلنے والے بعض لازمی نتائج احناف کے ہاں آغاز ہی میں واضح ہو سکے ہیں۔ 
دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر قتال کی علت فتنہ وفساد ہے تو ایسے کفار کے خلاف قتال کا اقدام کرنا کیونکر جائز ہے جو اہل اسلام کے خلاف فتنہ وفساد کا ارتکاب نہیں کرتے؟ اور کفار کی طرف سے کسی جارحیت کی ابتدا کے بغیر ان کے خلاف قتال کرنے کو نہ صرف مشروع بلکہ فرض کفایہ کیونکر قرار دیا گیا ہے؟ مزید یہ کہ کفار کے فساد سے بچنے کے لیے ان کو مسلمانوں کا محکوم بنانا کیوں ضروری ہے اور اگر ان کی طرف سے معاہدے کی پابندی کا اطمینان ہو تو ان کی سیاسی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے صلح کی گنجایش کیوں نہیں؟ 
تیسرا سوال یہ سامنے آتا ہے کہ اگر کفر کی سزا کا معاملہ آخرت پر موخررکھا گیا ہے اور کسی کافر کو اس کے کفر کی سزا اس دنیا میں دینے کا اختیار مسلمانوں کے پاس نہیں ہے تو قتال کے ذریعے سے اہل کفر کو مغلوب کر کے ان پر ’جزیہ‘ عائد کرنا، جو احناف کی تصریح کے مطابق ان کے کفر پر عقوبت اور سزا کی حیثیت رکھتا ہے، کس اصول پر روا ہے؟ جہاں تک احناف کا جزیہ کو ’عقوبت‘ قرار دینے کا تعلق ہے تو ان کی یہ بات درست ہے۔ قرآن مجید نے ’جزیہ‘ لینے کا حکم جس سیاق میں دیا ہے، اس سے صاف واضح ہے کہ اس کی اصل نوعیت ذلت ورسوائی اور محکومی کی ایک علامت کی ہے جسے ایمان نہ لانے کی سزا کے طور پر اہل کتاب پر نافذ کیا گیا۔ کلاسیکل فقہی نقطہ نظر میں ’جزیہ‘ کی حکمت ومعنویت اسی تصور کے تحت واضح کی گئی ہے اور تمام فقہا اس معاملے میں یک زبان ہیں کہ اہل ذمہ پر ’جزیہ‘ عائد کرنے کا مقصد ان کو ان کو ذلت وحقارت کا احساس دلانا اور اس طرح انھیں ان کے کفر کی سزا دینا ہے۔ اب اس نکتے کی موجودگی میں اگر احناف قتال کی مشروعیت کا سبب کفر کے بجاے فتنہ وفساد کو قرار دیتے ہیں تو ان کے موقف کی تفصیل کچھ یوں بنتی ہے:
’’انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی آزادی کے مطابق یہ حق حاصل ہے کہ وہ جو عقیدہ چاہیں، اپنائیں اور جس مذہب کو چاہیں، اختیار کریں۔ ہم ان کے اس حق میں کوئی مداخلت کرنے یا اسلام قبول کرنے کے معاملے میں ان پر جبر واکراہ کا کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ یہ ان کا اور اللہ کا معاملہ ہے اور اس معاملے میں روز قیامت کو وہی ان کا محاسبہ کرے گا۔ البتہ دنیا میں ملنے والی اس آزادی کو استعمال کرتے ہوئے اگر بنی نوع انسان اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب کے پیروکار بنیں گے تو انھیں اس کی سزا دینا ہمارا فرض ہے، چنانچہ ہم اس اعلان کے ساتھ ان پر حملہ آور ہو جائیں گے کہ ’یا تو اسلام قبول کر لو اور یا پھر اپنی سیاسی خود مختاری سے دستبردار ہو کر ذلت اور پستی کے ساتھ ہماری محکومی قبول کر لو‘‘ ۔
یہ سب سوالات اہم اور بنیادی نوعیت کے ہیں، تاہم دور متوسط کے حنفی فقہا کے ہاں یہ بحث چونکہ ایک ضمنی مسئلے یعنی اہل کفر کے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کے جواز یا عدم جواز کے تحت پیدا ہوئی ہے اور اسی دائرے تک محدود رہی ہے، اس لیے وہ اس کے اصولی مضمرات اور اس سے اپنے موقف میں در آنے والے داخلی تضادات سے کوئی تعرض نہیں کرتے اور جہاد وقتال کا مقصد دعوت اسلام اور اعلاء کلمۃ اللہ کے ساتھ ساتھ دفع حرابہ کو قرار دینے، نیز کفر کی جزا کو اصلاً آخرت پر موقوف ماننے اور اس کے ساتھ ساتھ جزیہ کو اہل کفر کے لیے عقوبت قرار دینے کے دونوں مواقف کو یکساں اطمینان کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ البتہ متاخرین کے ہاں ان الجھنوں کا احساس زیادہ واضح دکھائی دیتا ہے اور متعدد حنفی اہل علم نے مذکورہ سوالات کو ملحوظ رکھتے ہوئے جہاد کی ترمیم واصلاح شدہ تعبیرات پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ضمن کی چند آرا کا تذکرہ یہاں دلچسپی کا باعث ہوگا۔ 
(i) صاحب تفسیر مظہری قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے ’ولولا دفع اللہ الناس بعضہم ببعض لفسدت الارض‘ کی تفسیر میں انھوں نے لکھا ہے:
فیہ دلیل علی ان العلۃ لافتراض الجہاد دفع الفساد (۱/۳۲۵)
’’اس آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ جہاد کے فرض ہونے کی علت فساد کو دفع کرنا ہے۔‘‘
لا اکراہ فی الدین‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
ان الامر بالقتال والجہاد لیس لاجل الاکراہ فی الدین بل لدفع الفساد من الارض فان الکفار یفسدون فی الارض ویصدون عباد اللہ عن الہدی والعبادۃ فکان قتلہم کقتل الحیۃ والعقرب والکلب العقور بل اہم من ذلک ومن ثم جعل اللہ تعالیٰ غایۃ قتلہم اعطاء الجزیۃ حیث قال حتی یعطوا الجزیۃ عن ید وہم صاغرون ولاجل ہذا نہی النبی صلی اللہ علیہ وسلم عن قتل الولدان والنساء والمشائخ والرہبان والعمیان والزمنی الذین لا یتصور منہم الفساد فی الارض (تفسیر مظہری ۱/۳۳۶)
’’جہاد وقتال کا حکم دین کے معاملے میں جبر کرنے کے لیے نہیں بلکہ زمین سے فساد کو ختم کرنے کے لیے دیا گیا ہے، کیونکہ کفار زمین میں فساد کرتے اور اللہ کے بندوں کو راہ ہدایت اور اللہ کی بندگی سے روکتے ہیں، اس لیے ان کو قتل کرنا اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ ضروری ہے جیسے سانپ، بچھو اور کاٹنے والے کتے کو قتل کرنا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ جنگ کی غایت یہ بتائی ہے کہ وہ جزیہ دے دیں، چنانچہ فرمایا: حتی یعطوا الجزیۃ عن ید وہم صاغرون۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی لیے بچوں، عورتوں، بوڑھوں، راہبوں، اندھوں اور معذوروں کو قتل کرنے سے منع کیا ہے کیونکہ وہ زمین میں فساد نہیں کر سکتے۔‘‘
صاحب تفسیر مظہری کی یہ بھی رائے ہے کہ اگر مصلحت ہو تو کفار کے ساتھ صلح کا معاہدہ بھی کیا جا سکتا ہے اور جن کفار کے ساتھ موقت یا ابدی معاہدۂ صلح کیا جائے، ان کے خلاف قتال کرنا جائز نہیں۔ چنانچہ ’وان جنحوا للسلم‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
لا وجہ لتخصیصہا باہل الکتاب وبالقول لکونہا منسوخۃ بل الامر للاباحۃ والصلح جائز مشروع ان رای الامام فیہ مصلحۃ (۴/۱۰۹)
’’اس ہدایت کو نہ تو اہل کتاب کے ساتھ مخصوص کرنے کی کوئی وجہ ہے اور نہ منسوخ قرار دینے کی۔ یہ حکم اباحت کے لیے ہے اور اگر امام صلح کرنے میں مصلحت دیکھے تو ایسا کرنا جائز اور مشروع ہے۔‘‘
الا الذین عاہدتم من المشرکین‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
انما امرتم بنبذ العہد الی الناکثین او بقتال من لا عہد بینکم وبینہم من المشرکین لا بقتال المعاہدین مدۃ معلومۃ او موبدۃ غیر ناکثین (۴/۱۳۸)
’’تمھیں عہد شکنی کرنے والوں سے معاہدہ توڑ دینے کا یا ان مشرکین کے ساتھ جنگ کا حکم دیا گیا ہے جن کے ساتھ تمھارا کوئی معاہدہ نہ ہو، نہ کہ ان کفار کے ساتھ لڑنے کا جنھوں نے مخصوص مدت یا ہمیشہ کے لیے تمھارے ساتھ معاہدہ کیا ہو اور پھر عہد شکنی نہ کی ہو۔‘‘
یہ موقف اس پہلو سے روایتی حنفی موقف سے مختلف ہے کہ اس میں کفار کے ساتھ ابدی معاہدۂ صلح کا امکان بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ 
(ii) مولانا شبیر احمد عثمانی فرماتے ہیں:
’’کوئی شبہہ نہیں کہ کسی آدمی کو عمداً قتل کر ڈالنا بڑی سخت چیز ہے مگر قرآن نے جس کو فتنہ کہا ہے، وہ قتل سے بھی بڑھ کر سخت ہے۔ والفنتہ اشد من القتل، والفتنۃ اکبر من القتل۔ یہ فتنہ دین حق سے ہٹنے یا ہٹائے جانے کا فتنہ ہے جس پر واحذرہم ان یفتنوک عن بعض ما انزل اللہ الیک میں متنبہ کیا گیا ہے ..... اسی فتنہ کے روکنے اور مٹانے کے لیے وہ جارحانہ اور مدافعانہ جہاد بالسیف شروع کیا گیا ہے۔ .... پس اسلام کا سارا جہاد وقتال خواہ ہجوم کی صورت میں ہو یا دفاع کی، صرف مرتد بننے یا بنانے والوں کے مقابلے میں ہے جس کی غرض یہ ہے کہ فتنہ ارتداد یا اس کے خطرہ سے مومنین کی حفاظت کی جائے اور یہ جب ہی ہو سکتا ہے کہ مرتدین کا جو مجسم فتنہ ہیں، استیصال ہو اور مرتد بنانے والوں کے حملوں اور تدبیروں اور ان کی شوکت وقوت کو جس سے وہ مسلمانوں کے ایمان کو موت کی دھمکی دے سکتے ہیں، ہر ممکن طریقہ سے روکا جائے یا توڑا جائے۔ چنانچہ کفار اگر جزیہ دے کر اسلامی رعایا بننے یا مسلمانوں کے امن میں آ جانے یا باہمی مصالحت اور معاہدہ کی وجہ سے مسلمانوں کو عملاً مطمئن کر دیں کہ وہ ان کے دین میں کوئی رخنہ اندازی نہ کریں گے اور ان کے غلبہ اور شوکت کی وجہ سے مسلمانوں کو مرتد بنائے جانے کا کوئی اندیشہ باقی نہ رہے گا تو ایسی اقوام کے مقابلے میں مسلمانوں کو ہتھیار اٹھانا جائز نہیں۔ ..... پس جہاد بالسیف خواہ ہجومی ہے (یعنی بطریق حفظ ما تقدم) یا دفاعی (یعنی بطریق چارہ سازی) صرف مومنین کی حفاظت کے لیے اور یہ ایک ایسا فطری حق ہے جس سے کوئی عقل مند اور مہذب انسان مسلمانوں کو محروم نہیں کر سکتا۔‘‘ (الشہاب ص ۳۵۔۳۷)
مولانا عثمانی کا یہ موقف ایک نہایت بنیادی نکتے میں روایتی حنفی نقطہ نظر سے مختلف ہے۔ وہ یہ کہ روایتی موقف میں کفار کے ساتھ صلح اور ان سے جزیہ وصول کرنے کو دو مساوی اختیارات کا درجہ حاصل نہیں ہے۔ فقہا کے نزدیک اصل اور مقصود حکم کفار کو زیر دست کر کے ان سے جزیہ وصول کرنا ہے، جبکہ اس کے بغیر صلح کرنے کی صرف اس صورت میں اجازت ہے جب مسلمان اپنی کمزوری یا کسی دوسری مصلحت کے باعث ایسا نہ کر سکتے ہوں۔ مولانا عثمانی نے، اس کے برعکس، دونوں حکموں کو مساوی درجے میں ذکر کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ غیر مسلم جزیہ دے کر مسلمانوں کے زیر نگیں آنا چاہیں یا اس کے بغیر ہی صلح کا معاہدہ کر کے امن وامان کی یقین دہانی کرا دیں، ان میں سے ہر صورت ان کے نزدیک اختیار کی جا سکتی ہے۔ 
(iii) مولانا اشرف علی تھانوی نے مذکورہ نکتے سے اتفاق ظاہر کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ روایتی موقف میں ایک طرف ’کفر‘ کو قتال کی علت نہ ماننے اور دوسری طرف ’جزیہ‘ کو عقوبۃ علی الکفر قرار دینے سے جو تضاد پیدا ہوتا ہے، اسے ’جزیہ‘ کو غیر مسلموں کی جان ومال کی حفاظت کا عوض قرار دے کر اس تضاد کو رفع کرنے کی کوشش کی ہے۔ لکھتے ہیں:
’’مخالفین اسلام کے اس شبہ کا ازالہ کہ اسلام بزور شمشیر پھیلایا گیا ہے، اصولی جواب تو خود اسلام کے قانون سے ظاہر ہے جس کے بعض ضروری دفعات یہ ہیں: (۱) قتال میں عورت اور اپاہج اور شیخ فانی اور اندھے کا قتل باوجود ان کے بقاء علی الکفر کے جائز نہیں۔ اگر سیف اکراہ علی الاسلام کے لیے ہوتی تو ان کو ان کی حالت پر کیسے چھوڑا جاتا؟ (۲) جزیہ مشروع کیا گیا۔ اگر سیف جزاء کفر ہوتی تو باوجود بقاء علی الکفر کے جزیہ کیسے مشروع ہوتا؟ (۳) پھر جزیہ بھی سب کفار پر نہیں، چنانچہ عورت پر نہیں، اپاہج اور نابینا پر نہیں، رہبان پر نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ مثل سیف کے جزیہ بھی جزائے کفر نہیں، ورنہ سب کفار کو عام ہوتا۔ جب جزیہ کہ سیف سے اخف ہے، جزائے کفر نہیں تو سیف جو کہ اشد ہے، کیسے جزائے کفر ہوگی؟ (۴) اگر کسی وقت مسلمانوں کی مصلحت ہو تو کفار سے صلح بلاشرط مالی بھی جائز ہے۔ (۵) اگر حالات وقتیہ مقتضی ہوں تو خود مال دے کر بھی صلح جائز ہے۔ ان اجزاء کی دونوں دفعات سے معلوم ہوا کہ جزیہ جس طرح جزائے کفر نہیں، جیسا کہ دفعہ ۳ سے معلوم ہوا، اسی طرح وہ مقصود بالذات بھی نہیں، ورنہ دفعات مذکور مشروع نہ ہوتے تو ضرور اس کی کوئی ایسی علت ہے جو ان دفعات کے ساتھ جمع ہو سکتی ہے اور وہ حسب تصریح حکمائے امت کما فی الہدایہ وغیرہا سیف کی غرض اعزاز دین ودفع فساد ہے اور جزیہ کی غرض یہ ہے کہ جب ہم ہر طرح ان کی حفاظت کرتے ہیں اور اس حفاظت میں اپنی جان ومال صرف کرتے ہیں تو اس کا صلہ یہ تھا کہ وہ بھی حاجت کے وقت ہماری نصرت بالنفس ہی کرتے، مگر ہم نے ان کو قانوناً اس سے بھی سبک دوش کر دیا، اس لیے کم از کم ان کو کچھ مختصر ٹیکس مالی ادا کرنا چاہیے تاکہ یہ نصرت بالمال اس نصرت بالنفس کا من وجہ بدل ہو جاوے۔یہ اغراض ہیں سیف اور جزیہ کے اور یہی وجہ ہے کہ جب اعداء دین سے احتمال فساد کا نہیں رہتا تو سیف مرتفع ہو جاتی ہے جس کے تحقق کی ایک صورت قبول جزیہ ہے، ایک صورت صلح ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ جو لوگ نصرت بالنفس پر، جو کہ ان پر عقلاً واجب تھی، قادر نہیں، ان سے نصرت بالمال بھی معاف کر دی گئی ہے۔ البتہ چونکہ احتمال فساد کا موثوق بانتفاء عادۃً موقوف ہے حکومت وسلطنت پر چنانچہ تمام ملوک وسلاطین کا، گو وہ اہل ملل بھی نہ ہوں، یہ اجماعی مسئلہ ہے، اس لیے ایسی کسی صورت کو بحالت اختیار گوارا نہیں کیا گیا جس میں اسلام کی قوت وشوکت کو صدمہ پہنچے۔‘‘ (بوادر النوادر ص ۵۰۸، ۵۰۹)
آخری سطور میں بیان کردہ نکتے کی انھوں نے ایک دوسری جگہ توضیح کی ہے۔ فرماتے ہیں:
’’جہاد اسلام کی مدافعت اور حفاظت خود اختیاری کے لیے ہے ..... اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ جہاد میں ابتدا نہ کی جائے۔ خود ابتدا کرنے کی غرض بھی یہی مدافعت وحفاظت ہے کیونکہ بدون غلبہ کے احتمال ہے مزاحمت کا، اسی مزاحمت کے انسداد کے لیے اس کا حکم کیا جاتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جو مدافعت غایت ہے جہاد کی، وہ عام ہے مزاحمت واقع فی الحال کی مدافعت کو اور مزاحمت متوقعہ فی الاستقبال کی مدافعت کو۔‘‘ (الافاضات الیومیہ، جلد ششم ملفوظ ۴۹۷)
مولانا کی اس راے میں ایک مزید قابل لحاظ نکتہ یہ ہے کہ انھوں نے اسلام کے سیاسی غلبہ، اعلاء کلمۃ اللہ اور کفر اور اہل کفر کے اذلال کو بالذات مقصود قرار دینے کے بجاے جہاد کو علی الاطلاق لازم قرار دینے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ ’’احتمال فساد کا موثوق بانتفاء عادۃً موقوف ہے حکومت وسلطنت پر‘‘ جس سے ان کی مراد یہ ہے کہ چونکہ تجربہ اور عادت سے یہ معلوم ہوا ہے کہ فتنہ وفساد کے خواہاں گروہوں کو جب تم حکومت واقتدار کے زور پر محکوم نہ بنا لیا جائے، ان کو ان کی روش سے باز رکھنا ممکن نہیں، اس لیے حصول مقصد کا قابل اعتماد طریقہ یہی ہے کہ کفار کو اسلامی حکومت کے زیر نگیں لے آیا جائے۔ 
مولانا تھانوی کے اس موقف میں یہ سوال پھر تشنہ جواب رہ جاتا ہے کہ انھوں نے قتال کے حکم کو کفار کی طرف سے فتنہ وفساد کے واقعی یا متوقع امکان کے ساتھ مشروط کیے بغیر محض اس امکان کے پیش نظر مطلق قرار دیا ہے کہ کفار مستقبل میں کسی وقت بھی فتنہ وفساد پر آمادہ ہو سکتے ہیں، جبکہ قرآن مجید نے واضح طور پر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایسے گروہوں کی نشان دہی کی ہے جو کسی بھی لحاظ سے مسلمانوں کے معاند یا دشمن نہیں اور ان کے اس غیر جانبدارانہ رویے ہی کی بنیاد پر ان کے ساتھ فتنہ پرداز گروہ سے مختلف رویہ اختیار کرنے کی تلقین بھی کی ہے۔ ایسے گروہ اور اقوام ہر زمانے میں نہ صرف پائے جا سکتے ہیں بلکہ حقیقتاً پائے بھی جاتے ہیں، چنانچہ یہ اشکال جوں کا توں باقی رہتا ہے کہ فتنہ وفساد اور عداوت وعناد کی علت واقعہ کے لحاظ سے نہ پائے جانے کی صورت میں کسی غیر مسلم قوم کے خلاف تلوار اٹھانے کا کیا اخلاقی جواز پیش جا سکتا ہے؟ 
(iv) بعض معاصر اہل علم نے یہ راے یہ پیش کی ہے کہ جہاد دراصل دعوت اسلام کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے کیا جاتا ہے اور چونکہ کسی کافر حکومت کا دنیا میں برسر اقتدار رہنا اور دنیاوی قوت وشوکت سے بہرہ ور ہونا بذات خود لوگوں کے قبول اسلام میں ایک رکاوٹ کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے کفار کے اقتدار اور سیاسی خود مختاری کے خاتمہ کا مطلب دراصل دعوت اسلام کی راہ میں حائل ایک رکاوٹ کا خاتمہ ہے۔ مولانا محمد تقی عثمانی لکھتے ہیں:
’’تبلیغ اسلام کے راستے میں رکاوٹ صرف اسی کا نام نہیں کہ غیر مسلم حکومت تبلیغ پر قانونی پابندی عائد کر دے، بلکہ کسی غیر مسلم حکومت کا مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ پر شوکت ہونا بذات خود دین حق کی تبلیغ کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ آج دنیا کے بیشتر ممالک میں تبلیغ پر کوئی قانونی پابندی عائد نہیں، لیکن چونکہ دنیا میں ان کی شوکت اور دبدبہ قائم ہے، اس لیے اسی شوکت اور دبدبے کی وجہ سے ایک ایسی عالمگیر ذہنیت پیدا ہو گئی ہے جو قبول حق کے راستے میں تبلیغ پر قانونی پابندی لگانے سے زیادہ بڑی رکاوٹ ہے۔ لہٰذا کفار کی اس شوکت کو توڑنا جہاد کے اہم ترین مقاصد میں سے ہے، تاکہ اس شوکت کی بنا پر جو نفسیاتی مرعوبیت لوگوں میں پیدا ہو گئی ہے، وہ ٹوٹے اور قبول حق کی راہ ہموار ہو جائے۔ جب تک یہ شوکت اور غلبہ باقی رہے گا، لوگوں کے دل اس سے مرعوب رہیں گے اور دین حق کو قبول کرنے کے لیے پوری طرح آمادہ نہ ہو سکیں گے، لہٰذا جہاد جاری رہے گا۔‘‘ (فقہی مقالات، ص۳/۳۰۱)
یہ توجیہ بھی بہرحال روایتی فقہی نقطہ نظر سے بہت حد تک مختلف ہے۔ فقہا نہ تو دعوت اسلام کی راہ میں حائل ایک رکاوٹ کے طور پر شوکت کفر کے ازالے کو جہاد کا باعث قرار دیتے ہیں اور نہ وہ قوت وشوکت کے حامل اور غیر حامل کفار میں کسی فرق کے قائل ہیں، جبکہ مولانا کو اپنی توجیہ کے ایک منطقی نتیجے کے طور پر اس فرق کو تسلیم کرنا پڑا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’ہاں! اگر اسلام اور مسلمانوں کو ایسی قوت وشوکت حاصل ہو جائے جس کے مقابلے میں کفار کی قوت وشوکت مغلوب ہو یا کم از کم وہ فتنے پیدا نہ کر سکے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے تو اس حالت میں غیر مسلم ممالک سے پرامن معاہدوں کے ذریعے مصالحانہ تعلقات قائم رکھنا جہاد کے احکام کے منافی نہیں۔ اسی طرح جب تک کفر کی شوکت توڑنے کے لیے ضروری استطاعت مسلمانوں کو حاصل نہ ہو، اس وقت تک وسائل قوت کو جمع کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے ملکوں سے پر امن معاہدے بھی بلاشبہ جائز ہیں۔ گویا غیر مسلم ملکوں سے معاہدے دو صورتوں میں ہو سکتے ہیں:
(۱) جن ملکوں کی قوت وشوکت سے مسلمانوں کی قوت وشوکت کو کوئی خطرہ باقی نہ رہا ہو، ان سے مصالحانہ اور پرامن معاہدے کیے جا سکتے ہیں جب تک وہ دوبارہ مسلمانوں کی شوکت کے لیے خطرہ نہ بنیں۔
(۲) مسلمانوں کے پاس جہاد بالسیف کی استطاعت نہ ہو تو استطاعت پیدا ہونے تک معاہدے کیے جا سکتے ہیں۔‘‘ (فقہی مقالات، ۳/۳۰۶، ۳۰۷)
(v) قتال کی علت دفع محاربہ کو قرار دیا جائے یا دعوت اسلام کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے ازالے کو، عقلی طور پر نفس ’کفر‘ کو اس کی علت ماننے سے گریز کے بعد مختلف غیر مسلم گروہوں میں عملی امتیاز قائم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں، چنانچہ دور جدید کے بعض حنفی اہل علم نے یہی نقطہ نظر اختیار کیا ہے کہ کفار کے خلاف قتال صرف اس صورت میں کیا جائے گا جب وہ عملاً کسی جارحیت کے مرتکب ہوں یا ان کی جانب سے اس کا کوئی حقیقی اور واقعی خطرہ موجود ہو۔ فتاویٰ دار العلوم دیوبند کے مرتب مولانا مفتی ظفیر الدین لکھتے ہیں:
’’کیا ان آیتوں میں کفر وشرک کا یہ مزاج صاف نہیں جھلکتا ہے کہ یہ عہد شکن، دوسرے دین کو برا کہنے والے، جنگ وجدال میں پہل کرنے والے، قتل وخون ریزی کے دل دادہ اور مجسم فتنہ وفساد ہیں، جن کی نگاہوں میں نہ قسم اور عہد وپیمان کی کوئی قیمت ہے، نہ فضائل اخلاق کے لیے کوئی اصول ہے، طاقت پا کر وہ سب کر گزرتے ہیں جس سے انسانیت اپنا سر پیٹ لیتی ہے۔ ان حالات میں جب ایک طرف سے یہ ساری چیزیں پائی جائیں، کیا یہ مناسب ہوگا کہ دوسری طرف والے ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ رہیں اور فتنہ وفساد کو کچلنے کی جدوجہد نہ کریں؟ ایک سلیم الطبع انسان اس فیصلہ پر مجبور ہوگا کہ جب ایسا وقت آئے تو مقابلہ کرنا اور ظلم وتعدی کا گلا گھونٹنا صرف ایک قوم کے لیے مفید نہیں بلکہ پوری کائنات انسانی پر احسان عظیم ہے۔ مگر اس کا یہ بھی مطلب نہیں ہے کہ سارے کافر اسی مزاج کے ہوتے ہیں۔ یقیناًان کے یہاں بھی کچھ لوگ سمجھ دار، رحم دل اور دور اندیش ہوتے ہیں۔ چنانچہ جو لوگ ایسے ہوں، ان سے رواداری اور احسان کا برتاؤ کیا جائے۔ ....... معلوم ہوا کہ کافروں کے جو ممالک یا ان کی جو جماعتیں محارب ومخالف کی حیثیت نہیں رکھتی ہیں، ان سے تعلقات بہتر رکھے جائیں گے اور جو ممالک یا جماعتیں محارب ومخالف ہوں گی، ان میں اسلام اور مسلمانوں کو برداشت کرنے کا جذبہ نہیں ہوگا، ان سے اجتناب اور بوقت ضرورت مقابلہ کیا جائے گا۔‘‘ (اسلام کا نظام امن، ص ۱۳۶، ۱۳۷)
’’جو لوگ مسلمانوں کے خلاف صف آرا ہوں، یا دین کی تبلیغ میں مزاحم ہوں، یا اس طرح کی کوئی اور چیز ان میں مسلمانوں اور ان کے مذہب کے خلاف پائی جائے، ایسے لوگوں کو بخشنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ قوت اگر ہے تو بہرحال ان کا مقابلہ کیا جائے گا، لیکن اگر وہ کسی طرح بھی اسلام اور پیروان اسلام کے لیے نقصان دی نہیں ہے اور یہ مظالم اور مردم آزاری میں مبتلا نہیں تو خواہ مخواہ ان سے جنگ کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ اگر ان کی طرف سے اس طرح کا کوئی خطرہ یا اندیشہ ہے کہ وہ قتال سے باز نہیں آئیں گے اور یہ کہ دیر سویر فتنہ فساد کریں گے تو پھر جہاد کی اجازت ہوگی۔‘‘ (اسلام کا نظام امن، ص ۱۲۶)
حنفی مکتبہ فکر کے ایک دوسرے جید عالم مولانا شمس الحق افغانی غیر محارب کفار کے ساتھ صلح وامن کی تعلیم دینے والی آیات کو، کلاسیکل فقہی نقطہ نظر کے برعکس، منسوخ قرار نہیں دیتے ، چنانچہ ان سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’خداوند تعالیٰ کا یہ ارشاد: وان جنحوا للسلم فاجنح لہا (انفال) ’’اگر کفار کا محارب فریق صلح کے لیے جھک جائے تو تم بھی جھک جاؤ‘‘ اور یہ کیوں نہ فرمایا گیا کہ ’’اسلام یا تلوار‘‘؟ لا ینہاکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبروہم وتقسطوا الیہم ان اللہ یحب المقسطین۔ تم کو اللہ ان کفار کے متعلق جو تم سے دین کی وجہ سے نہیں لڑے اور نہ تم کو تمھارے گھروں سے نکالا، اس سے نہیں روکتا کہ ان کفار سے تم احسان کرو اور ان کافروں سے منصفانہ سلوک کرو۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ ان کافروں سے ایسا کیوں نہ کہا گیا کہ اسلام لاؤ ورنہ تلوار ہے۔ سورہ نساء میں خدا کا حکم قرآنی ہے: ’’فان اعتزلوکم ولم یقاتلوکم والقوا الیکم السلم فما جعل اللہ لکم علیہم سبیلا۔ ’’اگر وہ کفار تم سے کنارہ کریں پھر نہ لڑیں اور وہ تمھارے سامنے صلح کا پیغام ڈالیں تو اللہ تعالیٰ نے تم کو ان پر حملہ کرنے کی راہ نہیں دی ہے‘‘۔ قرآن حکیم اس قسم کے مضامین سے پر ہے۔‘‘ (مقالات افغانی، ۱/۷۸، ۷۹)
اس وقت امت مسلمہ نے بحیثیت مجموعی عالمی سیاست اور قانون بین الاقوام کے دائرے میں اسی نقطہ نظر کو اختیار کر لیا ہے، چنانچہ عالم اسلام کے تمام ممالک دنیا کے اس سیاسی وقانونی نظام کا حصہ ہیں جس کی نمائندگی بین الاقوامی سطح پر اقوام متحدہ کا ادارہ کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں طاقت کے استعمال کے حوالے سے دو اصول واضح طور پر طے کیے گئے ہیں: 
ایک یہ کہ اقوام عالم کی مذہبی آزادی اور سیاسی خود مختاری کو مسلمہ اصول کی حیثیت حاصل ہے، چنانچہ اقوام متحدہ کے قیام کے مقاصد کے ذیل میں لکھا ہے:
’’قوموں کے مابین انسانوں کے حق خود ارادیت اور مساوی حقوق کے اصول کے احترام پر مبنی دوستانہ تعلقات کا فروغ ، اور عالمی امن کو استحکام دینے کے لیے دیگر مناسب اقدامات کرنا۔
معاشی، سماجی، ثقافتی یا انسانی نوعیت کے بین الاقوامی مسائل کے حل، انسانی حقوق کے احترام کی حوصلہ افزائی اور فروغ، اور نسل، جنس، زبان یا مذہب کی تفریق کے بغیر تمام انسانوں کے لیے بنیادی آزادیوں کے حصول کے لیے بین الاقوامی سطح پر باہمی تعاون حاصل کرنا۔‘‘ (آرٹیکل ۱، شق ۲ و ۳)
نیز لکھا ہے:
’’تمام رکن ممالک اپنے بین الاقوامی تعلقات میں کسی بھی ملک کی علاقائی سالمیت یا سیاسی آزادی کے خلاف طاقت کے استعمال یا دھمکی سے باز رہیں گے۔ اسی طرح وہ کوئی بھی ایسا انداز اختیار نہیں کریں گے جو اقوام متحدہ کے مقاصد سے مطابقت نہ رکھتا ہو۔‘‘ (آرٹیکل ۲، شق ۴)
دوسرے یہ کہ اقوام کے باہمی تنازعات میں طاقت اور اسلحہ کے استعمال کا جواز صرف ’دفاع‘ کی حد تک محدود ہے:
’’تمام رکن ممالک اپنے بین الاقوامی تنازعات کو پر امن ذرائع سے اس انداز میں حل کریں گے کہ عالمی امن، تحفظ اور انصاف کو خطرہ لاحق نہ ہو۔‘‘ (آرٹیکل ۲، شق ۳ )
’’اگر اقوام متحدہ کے کسی رکن ملک کے خلاف مسلح حملہ ہوتا ہے تو اس چارٹر کی کوئی شق انفرادی یا اجتماعی دفاع کے حق پر اثر انداز نہیں ہوگی، جب تک کہ سلامتی کونسل عالمی وامن وحفاظت کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری اقدامات نہ کر لے۔ دفاع کے حق کو استعمال کرتے ہوئے کوئی بھی ملک جو اقدامات کرے، ان کی فوری طور پر سلامتی کونسل کو اطلاع دی جائے گی اور یہ اقدامات اس چارٹر میں دیے گئے سلامتی کونسل کے اس اختیار اور ذمہ داری کو متاثر نہیں کر سکیں گے کہ وہ عالمی امن وامان کو قائم رکھنے یا بحال کرنے کے لیے کسی بھی وقت ایسا ایکشن لے سکتی ہے جسے ضروری خیال کیا جائے۔‘‘ (آرٹیکل ۵۱)
اقوام متحدہ کے مذکورہ چارٹر پر تمام مسلمان ممالک نے دستخط کر رکھے ہیں اور مسلم ممالک کے اہل علم کی ایک عمومی تائید بھی اس معاہدے کو حاصل ہے۔ اگرچہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کی بعض شقوں کے حوالے سے عالم اسلام کے مختلف حلقوں کی جانب سے بعض تحفظات وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہتے ہیں لیکن ہمارے علم میں اسلام کا نمائندہ سمجھے جانے والا کوئی ذمہ دار مذہبی حلقہ یا شخصیت ایسی نہیں ہے جس نے جنگ کے جواز اور قوت وطاقت کے استعمال کے حوالے سے اقوام متحدہ کے اختیار کردہ مذکورہ موقف کو اسلامی فلسفہ جنگ کے منافی قرار دیتے ہوئے اس کی تردید کی ہو یا اس بات کی وضاحت مناسب سمجھی ہو کہ اس معاہدے میں شریک ہونے کا جواز محض معروضی حالات کی حد تک ہے اور جیسے ہی مسلمانوں کو مناسب قوت حاصل ہوگی، اس سے براء ت کا اعلان واجب ہو جائے گا۔

جہاد کے توسیعی اہداف؟

جہاد کے کلاسیکی تصور میں اعلاء کلمۃ اللہ کو ہدف اور غایت قرار دے کر اس کے حصول کے لیے جہاد کو فرض کفایہ قرار دیا گیا ہے، تاہم یہ تصور پورے معمورۂ ارضی پر اسلام کا غلبہ قائم کرنے یا دوسرے لفظوں میں ایک عالمگیر اسلامی ریاست قائم کرنے کو اپنا ہدف قرار نہیں دیتا۔ فقہا کی تصریحات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ جہاد کے ذریعے اسلامی سلطنت کی توسیع کو زمان ومکان میں محدود مانتے ہے اور ابتدائی صدیوں میں توسیع سلطنت کا یہ سلسلہ جس جگہ پہنچ کر فطری طور پر رک گیا تھا، اصلاً اسی کی حفاظت اور دفاع کو جہاد کا ہدف قرار دیتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے فقہا کے نزدیک عمل جہاد کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے محض علامتی اقدامات پر اکتفا کرنا کافی ہے۔ چنانچہ جہاد کے فرض کفایہ کی ادائیگی کی صورت وہ یہ بتاتے ہیں کہ مسلم حکمران سال میں کم از کم ایک دفعہ حملہ آور ہو کر دشمن کے علاقے میں داخل ہو جائے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ جب تک وہ علاقہ فتح نہ ہو جائے، مسلمان اس محاذ پر مسلسل داد شجاعت دیتے رہیں۔ امام شافعی فرماتے ہیں:
واقل ما یجب علیہ ان لا یاتی علیہ عام الا ولہ فیہ غزو حتی لا یکون الجہاد معطلا فی عام الا من عذر واذا غزا عاما قابلا غزا بلدا غیرہ ولا یتابع الغزو علی بلد ویعطل من بلاد المشرکین غیرہ (الام، ۴/۱۶۸)
’’اس فریضے کی ادائیگی کی کم سے کم صورت یہ ہے کہ کوئی سال ایسا نہ گزرے جس میں دشمن پر حملہ نہ کیا جائے، تاکہ کسی عذر کے بغیر جہاد کا عمل معطل نہ رہے۔ اور جب حکمران آئندہ سال حملہ کرے تو کسی دوسرے علاقے پر کرے اور ایسا نہ کرے کہ ایک ہی علاقے پر بار بار حملہ کرتا رہے اور اس کے علاوہ کفار کے دوسرے علاقوں کو نظر انداز کر دے۔‘‘
یہ جزئیہ اس حوالے سے قابل غور ہے کہ اس میں جہاد کو کسی مخصوص غایت مثلاً کفار کے علاقوں پر غلبہ حاصل کرنے کے ساتھ وابستہ کر کے مسلسل پیش قدمی کو لازم قرار دینے کے بجائے نفس ’قتال‘ کو بذات خود ایک مقصد قرار دے کر اس کی ادائیگی کا ایک طریقہ بتلا دیا گیا ہے۔ اس جزئیے کا مفہوم بین السطور یہ ہے کہ چونکہ قتال مسلمانوں پر لازم کیا گیا ہے، اس لیے اس فریضے کی ادائیگی کے لیے سال میں ایک دفعہ کفار پر حملہ آور ہو جانا کافی ہے۔ کفار کے علاقوں پر مسلسل قبضہ کرتے چلے جانا اور اسلامی سلطنت کی پیہم توسیع ان فقہا کے پیش نظر نہیں ہے۔ اس صورت میں یہ بس ایک علامتی کارروائی بن جاتی ہے جس کا مقصد قتال کے حکم کو محض اس کے ظاہر کے لحاظ سے پورا کر دینا ہے۔ 
فقہاے متاخرین کی کتب میں اس جزئیے میں بھی مزید ترمیم کر دی گئی اور یہ کہا گیا کہ ’قتال‘ کا فرض کفایہ ادا کرنے کی صورت صرف یہی نہیں کہ دشمن کے علاقے میں داخل ہو کر اس پر حملہ کیا جائے، بلکہ اگر مسلم حکومت محض اپنی سرحدوں پر فوج کی تعیناتی کا اہتمام کرلے تو بھی یہ فرض ادا ہو جائے گا۔ شہاب الدین الرملی اپنے فتاویٰ میں لکھتے ہیں:
ویسقط ہذا الفرض باحد امرین اما ان یشحن الامام الثغور بالرجال المکافئین للعدو فی القتال ویولی علی کل نفر امینا کافیا یقلدہ امر الجہاد وامور المسلمین واما ان یدخل علی دار الکفر غازیا بنفسہ بالجیوش او یومر علیہم من یصلح لذلک واقلہ مرۃ فی کل سنۃ (فتاویٰ شہاب الدین الرملی، بہامش فتاویٰ ابن حجر المکی، ۴/۴۴، ۴۵)
’’جہاد کا فرض کفایہ دو میں سے کسی ایک صورت میں ادا ہو جائے گا۔ ایک یہ کہ حکمران سرحدوں پر اتنی فوج جمع کر دے جو لڑائی میں دشمن کا مقابلہ کر سکیں اور ہر گروہ پر ایک ذمہ دار مقرر کر دے جس کو جہاد اور مسلمانوں کے دوسرے امور کی ذمہ داری سونپ دی جائے۔ دوسری یہ کہ حملہ کرتے ہوئے کفار کے علاقے میں داخل ہو جائے، چاہے بذات خود لشکر کی قیادت کرتا ہوا جائے یا کسی اہل آدمی کو ان کا امیر بنا کر بھیج دے۔ اس دوسری صورت میں سال میں کم سے کم ایک دفعہ حملہ کرنا ضروری ہے۔‘‘
اسی رجحان کی جھلک فقہا کے ہاں پیدا ہونے والی اس بحث میں بھی دکھائی دیتی ہے کہ کیا جنگ کرنے سے پہلے کفار کو اسلام کی دعوت دینے کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اکابر اہل علم کی رائے یہ تھی کہ اس کی ضرورت باقی نہیں رہی:
قال احمد کان النبی یدعو الی الاسلام قبل ان یحارب حتی اظہر اللہ الدین وعلا الاسلام ولا اعرف الیوم احدا یدعی قد بلغت الدعوۃ کل احد والروم قد بلغتہم الدعوۃ وعلموا ما یراد منہم وانما کانت الدعوۃ فی اول الاسلام (ابن قدامہ، المغنی، مسئلہ ۷۴۳۶)
’’امام احمد فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنگ سے پہلے دشمن کو اسلام کی دعوت دیا کرتے تھے، یہاں تک کہ اللہ نے دین کو غالب کر دیا اور اسلام سربلند ہو گیا۔ میرے خیال میں آج کسی شخص کو دعوت دینے کی ضرورت نہیں، کیونکہ سب تک دعوت پہنچ چکی ہے۔ رومیوں تک بھی دعوت پہنچ چکی ہے اور انھیں معلوم ہے کہ ان سے کیا چیز مطلوب ہے۔ دعوت دینا صرف اسلام کے ابتدائی زمانے میں ضروری تھا۔‘‘
وقد قال بعض الفقہاء والتابعین: انہ لیس احد من اہل الشرک ممن یبلغہ جنودنا الا وقد بلغتہ الدعوۃ وحل للمسلمین قتالہم من غیر دعوۃ (ابو یوسف، الخراج، ص ۲۰۷)
’’بعض فقہا اور تابعین نے فرمایا ہے کہ جن اہل کفر تک ہمارے لشکر پہنچ چکے ہیں، ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس تک دعوت نہ پہنچ چکی ہو۔ اب مسلمانوں کے لیے دعوت دیے بغیر ان کے ساتھ قتال کرنا جائز ہے۔‘‘
یہ نکتہ اس پہلو سے قابل غور ہے کہ مذکورہ فقہا نے جس طرح سے اسلام کی دعوت کو عام قرار دے کر مزید اس کا اہتمام کرنے کو غیر ضروری قرار دیا ہے، اس سے یہ بات اخذ کی جا سکتی ہے کہ جہاد وقتال میں ان کے پیش نظر ساری دنیا کے کفار نہیں، بلکہ وہ مخصوص قومیں ہیں جن تک ایک تسلسل کے ساتھ اسلام کی دعوت پہنچ چکی تھی، اس لیے کہ ساری دنیا کے غیر مسلموں تک، بالخصوص جنوبی ایشیا، مغربی یورپ اور وسطی وجنوبی افریقہ کے علاقوں میں، اسلام کی دعوت ان فقہا کے زمانے میں نہیں پہنچی تھی۔ چنانچہ یہ دعویٰ کہ ’’تمام لوگوں تک اسلام کی دعوت پہنچ چکی ہے‘‘، صرف اسی صورت میں درست مانا جا سکتا ہے جب اس کو بعض مخصوص قوموں کے تناظر میں دیکھا جائے۔
ابن حجر نے فرضیت جہاد کی نوعیت متعین کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس معاملے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حین حیات میں مسلمانوں پر عائد ہونے والی ذمہ داری اور آپ کے بعد اس فریضے کی ادائیگی کا حکم مختلف ہے۔ آپ کی حیات میں کچھ گروہ مثلاً انصار اور مہاجرین اس ذمہ داری کے لیے خاص طورپر مسؤل تھے، جبکہ باقی لوگوں کے لیے یہ فرض کفایہ کی حیثیت رکھتا تھا، تاہم آپ کے بعد فقہا کے مشہور قول کے مطابق یہ فرض کفایہ ہے جس کی ادائیگی کا طریقہ جمہور کے نزدیک یہ ہے کہ سال میں ایک مرتبہ کسی نہ کسی محاذ پر کفار کے خلاف جنگ کی جائے یا جب بھی ممکن ہو، ان کے خلاف اقدام کیا جائے۔ ہاں اگر دشمن کسی علاقے پر حملہ آور ہو جائے تو اس صورت میں حکمران جن لوگوں کو اس کے لیے منتخب کرے گا، ان پر فرض عین ہو جائے گا۔ بحث کے آخر میں ابن حجر نے اپنا جو رجحان بیان کیا ہے، وہ توجہ طلب ہے۔ لکھتے ہیں:
والذی یظہر انہ استمر علی ما کان علیہ فی زمن النبی صلی اللہ علیہ وسلم الی ان تکاملت فتوح معظم البلاد وانتشر الاسلام فی اقطار الارض ثم صار الی ما تقدم ذکرہ (فتح الباری ۶/۳۸)
’’قرین قیاس بات یہ ہے کہ جہاد کی فرضیت کا معاملہ اسی حالت پر رہا جیسے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھا، یہاں تک کہ بڑے بڑے ممالک فتح ہو گئے اور اسلام زمین کے اطراف واقطار میں پھیل گیا۔ اس کے بعد اس کے فرض ہونے کی نوعیت وہ ہو گئی جس کا ابھی ذکر کیا گیا۔‘‘
مذکورہ بحث سے واضح ہے کہ کلاسیکی علمی وفقہی روایت میں پوری دنیا پر اسلام کے غلبے کو جہاد کا ہدف قرار نہیں دیا گیا، البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی احادیث کی روشنی میں یہ بات ایک پیش گوئی کی حیثیت سے ضرور بیان کی جاتی ہے جو سیدنا مسیح علیہ السلام کے نزول اور امام مہدی کے ظہور کے زمانے میں پوری ہوگی۔ اس حوالے سے علامہ انور شاہ کشمیری کی رائے کا ذکر بھی یہاں دلچسپی کا باعث ہوگا جو اس عام رائے کو غلط قرار دیتے ہیں جس کے مطابق سیدنا مسیح کے نزول ثانی کے موقع پر ساری دنیا میں اسلام کا بول بالا ہو جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ روایات میں اس موقع پر ساری سرزمین پر اسلام کے غالب آنے کا جو ذکر ہوا ہے، اس سے مراد پوری روے زمین نہیں، بلکہ شام اور اس کے گرد ونواح کا مخصوص علاقہ ہے جہاں ان کا ظہور ہوگا اور جو اس وقت اہل اسلام اور اہل کفر کے مابین کشمکش اور جنگ وجدال کا مرکز ہوگا۔ لکھتے ہیں:
ان الغلبۃ المعہودۃ انما ہی بالارض التی ینزل بہا عیسی علیہ الصلاۃ والسلام لا علی البسیطۃ کلہا وما ذالک الا من تبادر الاوہام فقط (فیض الباری، ۴/ ۳۴۳)
’’جس غلبے کا حدیث میں ذکر ہوا ہے، وہ اس سرزمین میں ہوگا جہاں حضرت عیسیٰ نازل ہوں گے، نہ کہ پورے کرۂ ارضی پر۔ یہ خیال بس یوں ہی لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہو گیا ہے۔‘‘
دیوبندی مکتبہ فکر کے ایک اور جلیل القدر محدث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے ہاں بھی یہی رجحان دکھائی دیتا ہے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں: 
’’امام مہدی کی پیدائش اور آمد سے پہلے دنیا میں جو ظلم وجور ہوگا، اللہ کے فضل وکرم سے اقتدار میں آنے کے بعد زیر اثر علاقہ میں وہ عدل وانصاف قائم کریں گے اور نا انصافی کو نیست ونابود کر دیں گے۔‘‘ (ارشاد الشیعہ، ص ۱۹۵) 
’’دجال لعین کے قتل کے بعد جس علاقہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اقتدار ہوگا، وہاں بغیر اسلام کے اورکوئی مذہب باقی نہ رہے گا۔‘‘ (ایضاً، ص ۲۰۱)

جہاد کی فرضیت

جمہور فقہا کا نقطہ نظر یہ رہا ہے کہ جہاد کا آغاز کرنے کے لیے کفار کی طرف سے کسی جارحیت یا اشتعال انگیز رویے (Provocation) کا پایا جانا ضروری نہیں، بلکہ اگر کوئی غیر مسلم حکومت مسلمانوں کے خلاف کسی قسم کے جارحانہ عزائم نہ رکھتی ہو، تب بھی اس کے ساتھ برسر جنگ ہونا مسلمانوں پر واجب ہے۔ (سرخسی، شرح السیر الکبیر، ۱/۱۸۸) ابن الہمام لکھتے ہیں:
وقتال الکفار ..... واجب وان لم یبدء ونا لان الادلۃ الموجبۃ لہ لم تقید الوجوب ببداء تہم (فتح القدیر ۱۲/۳۸۵)
’’کفار کے خلاف جنگ کرنا واجب ہے، اگرچہ وہ ہمارے خلاف اس کا آغاز نہ کریں، کیونکہ جہاد کو واجب کرنے والے دلائل میں اس کے وجوب کو اس سے مشروط نہیں کیا گیا کہ پہل کفار کی طرف سے کی گئی ہو۔‘‘
اسی طرح کسی کافر قوم کے ساتھ صلح کا دائمی معاہدہ فلسفہ جہاد کے منافی ہے، لہٰذا کفار کے ساتھ ’مہادنہ‘ یعنی برابری کی سطح پر صلح کے تعلقات قائم نہیں ہو سکتے اور اگر کوئی غیر مسلم قوم اس کی خواہاں ہو تو اس کی پیش کش قبول نہیں کی جائے گی۔ (الشیبانی، کتاب السیر والخراج والعشر، ۱۵۴) ہاں، اگر مسلمان ان کے ساتھ جنگ کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوں یا کوئی دوسری سیاسی یا مذہبی مصلحت پیش نظر ہو تو دو شرطوں کے ساتھ صلح کا معاہدہ کیا جا سکتا ہے:
ایک یہ کہ معاہدہ محدود مدت کے لیے ہو، کیونکہ دائمی صلح کی صورت میں جہاد کا بالکلیہ ترک کر دینا لازم آتا ہے۔ اس صورت میں بعض فقہا کے نزدیک چار مہینے سے زیادہ مدت کے لیے صلح نہیں کی جا سکتی، بعض کے نزدیک اس کی مدت زیادہ سے زیادہ دس سال ہے، جبکہ بعض کی رائے میں حالات ومصالح کے لحاظ سے کسی بھی مخصوص مدت کے لیے صلح کا معاہدہ کیا جا سکتا ہے، البتہ کوشش یہ کرنی چاہیے کہ کم سے کم مدت کے لیے معاہدۂ صلح کی پابند ی اختیار کی جائے۔ (ابن قدامہ، المغنی، ۹/۷۵۹۰، ۷۵۹۱ ۔ نیز دیکھیے الام ۴/۲۰۴) 
دوسری یہ کہ صلح کا معاہدہ محض اس وقت تک برقرار رکھا جائے گا جب تک کہ وہ مصلحت جس کے پیش نظر صلح کی گئی ہے، باقی ہو یا مسلمانوں کی جنگی استعداد جہاد کی متحمل نہ ہو۔ صورت حال تبدیل ہونے پر معاہدۂ صلح کو ختم کر کے کفار کے خلاف اقدام کرنا لازم ہے۔ (سرخسی، المبسوط، ۱۰/۸۶) 
تاہم مذکورہ رائے کے برعکس فقہا کے ایک گروہ کی رائے یہ بھی رہی ہے کہ جو کفار مسلمانوں کے خلاف جنگ کی ابتدا نہ کریں، ان کے خلاف قتال فرض نہیں۔ مثال کے طور پر طبری نے ’کتب علیکم القتال‘ (البقرہ ۲: ۲۱۶) کے تحت جلیل القدر تابعی مفسر عطاء رحمہ اللہ کی یہ رائے تھی کہ مسلمانوں پر جہاد فرض نہیں اور مذکورہ قرآنی حکم صرف صحابہ کے ساتھ خاص تھا۔ اسی طرح عمرو بن دینار کی رائے بھی یہی تھی کہ کفار پر حملہ کرنا واجب نہیں:
عن ابن جریج قال قلت لعطاء اواجب الغزو علی الناس فقال ہو وعمرو بن دینار ما علمناہ (جصاص، احکام القرآن ۳/۱۱۳)
’’ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عطاء سے پوچھا کہ کیا کفار پر حملہ آور ہونا مسلمانوں پر واجب ہے؟ تو عطاء اور عمرو بن دینار دونوں نے کہا کہ ہماری رائے میں واجب نہیں ہے۔‘‘
سفیان ثوری سے یہ رائے منقول ہے کہ کفار جب تک مسلمانوں کے خلاف قتال کی ابتدا نہ کریں، ان کے خلاف جنگ کرنا لازم نہیں۔ امام محمد ’السیر الکبیر‘ میں لکھتے ہیں:
کان الثوری یقول القتال مع المشرکین لیس بفرض الا ان تکون البدایۃ منہم فحینئذ یجب قتالہم دفعا لظاہر قولہ فان قاتلوکم فاقتلوہم وقولہ وقاتلوا المشرکین کافۃ کما یقاتلونکم کافۃ (سرخسی، شرح السیر الکبیر، ۱/۱۸۷)
’’سفیان ثوری کہتے تھے کہ جب تک کفار جنگ کا آغاز نہ کریں، ان کے ساتھ لڑنا فرض نہیں۔ ہاں اگر وہ حملہ کریں تو پھر دفاع میں ان سے لڑنا فرض ہے۔ ان کا استدلال اللہ تعالیٰ کے ان ارشادات سے ہے کہ ’’پھر اگر وہ تم سے لڑیں تو انھیں قتل کرو‘‘ اور ’’تم بھی مل کر مشرکین سے لڑو جیسے وہ مل کر تم سے لڑتے ہیں۔‘‘
ان حضرات اور جمہور کے مابین نکتہ اختلاف کی وضاحت کرتے ہوئے جصاص لکھتے ہیں:
وہذا ہو موضع الخلاف بین الفقہاء فی فرض الجہاد فحکی عن ابن شبرمۃ والثوری فی آخرین ان الجہاد تطوع ولیس بفرض (احکام القرآن، ۳/۱۱۳)
’’جہاد کی فرضیت کے باب میں یہ نکتہ فقہا کے مابین محل نزاع ہے، چنانچہ ابن شبرمہ، ثوری اور بعض دیگر اہل علم سے یہ رائے منقول ہے کہ کہ جہاد محض مستحب ہے، فرض نہیں۔‘‘
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
موضع الخلاف بینہم انہ متی کان بازاء العدو مقاومین لہ ولا یخافون غلبۃ العدو علیہم ہل یجوز للمسلمین ترک جہادہم حتی یسلموا او یودوا الجزیۃ فکان من قول ابن عمر وعطاء وعمرو بن دینار وابن شبرمۃ انہ جائز للامام والمسلمین ان لا یغزوہم وان یقعدوا عنہم وقال آخرون علی الامام والمسلمین ان یغزوہم ابدا حتی یسلموا او یودوا الجزیۃ (احکام القرآن، ۳/۱۱۴)
’’فقہا کے مابین اختلاف اس صورت میں ہے کہ جب مسلمانوں کا پلہ دشمن کے برابر ہو اور انھیں دشمن سے مغلوب ہونے کا خدشہ بھی نہ ہو تو کیا مسلمانوں کے لیے جائز ہے کہ وہ انھیں قبول اسلام یا جزیہ کی ادائیگی پر مجبور کرنے کے لیے جہاد نہ کریں؟ ابن عمر، عطا، عمرو بن دینار اور ابن شبرمہ کی رائے یہ ہے کہ اس صورت میں بھی مسلمانوں اور ان کے حکمران کے لیے جائز ہے کہ وہ کفار پر حملہ نہ کریں اور آرام سے بیٹھے رہیں، جبکہ دوسرے فقہا کی رائے میں مسلمانوں اور ان کے حکمران پر ان کے ساتھ جنگ کرنا ہمیشہ واجب ہے یہاں تک کہ وہ یا تو اسلام لے آئیں یا جزیہ دینے کے لیے تیار ہو جائیں۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ اہل علم ان آیات کو جن میں غیر محارب کفار کے ساتھ جنگ کرنے سے منع کیا گیا ہے، منسوخ نہیں سمجھتے۔ ابوبکر الجصاص لکھتے ہیں:
ومن الناس من یقول ان ہذہ الآیات غیر منسوخۃ وجائز للمسلمین ترک قتال من لا یقاتلہم من الکفار اذ لم یثبت ان حکم ہذہ الآیات فی النہی عن قتال من اعتزلنا وکف عن قتالنا منسوخ وممن حکی عنہ ان فرض الجہاد غیر ثابت ابن شبرمۃ وسفیان الثوری (احکام القرآن ۲/۲۲۲)
’’بعض علما کی رائے یہ ہے کہ یہ آیات منسوخ نہیں ہیں اور مسلمانوں کے لیے جائز ہے کہ جو کفار ان کے ساتھ جنگ نہیں کرتے، ان کے خلاف نہ لڑیں، کیونکہ یہ بات کہیں بھی ثابت نہیں کہ ان آیات میں مسلمانوں کے ساتھ جنگ سے گریز کرنے والے کفار کے خلاف نہ لڑنے کا جو حکم دیا گیا ہے، وہ منسوخ ہو چکا ہے۔ جن اہل علم سے جہاد کے فرض نہ ہونے کی رائے منقول ہے، ان میں ابن شبرمہ اور سفیان ثوری شامل ہیں۔‘‘
ابن رشد اس اختلاف کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فاما ہل تجوز المہادنۃ؟ فان قوما اجازوہا ابتداء من غیر سبب اذا رای ذلک الامام مصلحۃ للمسلمین وقوم لم یجیزوہا الا لمکان الضرورۃ الداعیۃ لاہل الاسلام من فتنۃ او غیر ذلک .... وسبب اختلافہم فی جواز الصلح من غیر ضرورۃ معارضۃ ظاہر قولہ تعالی فاذا انسلخ الاشہر الحرم فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموہم وقولہ تعالی قاتلوا الذین لا یومنون باللہ ولا بالیوم الآخر لقولہ تعالیٰ وان جنحوا للسلم فاجنح لہا وتوکل علی اللہ فمن رای ان آیۃ الامر بالقتال حتی یسلموا او یعطوا الجزیۃ ناسخۃ لآیۃ الصلح قال لا یجوز الصلح الا من ضرورۃ ومن رای ان آیۃ الصلح مخصصۃ لتلک قال الصلح جائز اذا رای ذلک الامام وعضد تاویلہ بفعلہ ذلک صلی اللہ علیہ وسلم وذلک ان صلحہ صلی اللہ علیہ وسلم عام الحدیبیۃ لم یکن لموضع الضرورۃ (بدایۃ المجتہد، ۱/۲۸۳، ۲۸۴) 
’’رہا یہ سوال کہ کیا کفار سے صلح کرنا جائز ہے تو ایک گروہ کی رائے میں اگر حکمران اسے مسلمانوں کے حق میں مناسب سمجھے تو کسی مجبوری کے بغیر ازخود بھی کفار سے صلح کرنا جائز ہے۔ ایک دوسرے گروہ کی رائے یہ ہے کہ اہل اسلام کو نقصان پہنچنے کے خدشے یا اس طرح کی کسی دوسری مجبوری کے بغیر صلح کرنا درست نہیں۔ اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ ’فاقتلوا المشرکین‘ اور ’قاتلوا الذین لا یومنون باللہ‘ کے ارشادات الٰہی بظاہر اس دوسری آیت سے ٹکراتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ ’وان جنحوا للسلم فاجنح لہا وتوکل علی اللہ‘۔ سو جن فقہا کی رائے میں قتال کا حکم دینے والی آیات نے صلح کی آیت کو منسوخ کر دیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ کسی مجبوری کے بغیر کفار سے صلح جائز نہیں۔ اور جن اہل علم کے خیال میں صلح کی آیت قتال کے مذکورہ احکام کے لیے مخصص ہے، وہ کہتے ہیں کہ اگر حکمران مناسب سمجھے تو صلح کرنا جائز ہے۔ نیز یہ آیات کے اس مفہوم کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے بھی پیش کرتے ہیں، کیونکہ حدیبیہ کی صلح آپ نے کسی مجبوری کے تحت نہیں کی تھی۔‘‘
امام طبری بھی غالباً اس رائے کے حق میں رجحان رکھتے ہیں، چنانچہ سورۂ انفال کی آیت ’وان جنحوا للسلم فاجنح لہا‘ میں کفار کی طرف سے صلح کی پیش کش قبول کرنے کرنے کی جو اصولی ہدایت دی گئی ہے، امام طبری اس کو کسی ایک مخصوص صورت میں محصور نہیں سمجھتے، بلکہ ان کے نزدیک اہل کتاب کے ساتھ صلح کی صورتیں تین میں سے کوئی ایک ہو سکتی ہے: یا تو یہ کہ وہ اسلام قبول کر لیں یا جزیہ ادا کر کے دار الاسلام کے باشندے بن جائیں اور یا مسلمانوں کے ساتھ صلح کا معاہدہ کر لیں۔ لکھتے ہیں:
(وان جنحوا للسلم فاجنح لہا) وان مالوا الی مسالمتک ومتارکتک الحرب اما بالدخول فی الاسلام واما باعطاء الجزیۃ واما بموادعۃ ونحو ذلک من اسباب السلم والصلح (فاجنح لہا) یقول فمل الیہا وابذل لہم ما مالوا الیہ من ذلک وسالوکہ (تفسیر الطبری، ۱۰/۴۱)
’’وان جنحوا للسلم فاجنح لہا کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ آپ کے ساتھ جنگ کو چھوڑ کر صلح کرنے پر آمادہ ہوں، چاہے اسلام میں داخل ہو کر یا جزیہ ادا کر کے یا صلح کا باہمی معاہدہ کر کے اور اسی طرح صلح کے طریقوں میں سے کوئی طریقہ اختیار کر کے، تو آپ بھی اس پر آمادہ ہو جائیں اور کفار آپ سے صلح کا جو مطالبہ کرتے ہیں، اسے قبول کر لیں۔‘‘
مذکورہ اہل علم کا جو استدلال مذکورہ عبارتوں میں نقل ہوا ہے، وہ دو حوالوں سے تشنہ ہے:
ایک یہ کہ اگر جہاد فرض نہیں ہے تو پھر ’فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموہم‘، ’قاتلوا الذین لا یومنون باللہ‘ اور اس مفہوم کی دیگر آیات کا مطلب کیا ہے جو صراحتاً جہاد کی فرضیت پر دلالت کر رہی ہیں؟ عطاء رحمہ اللہ سے ان آیات کی یہ توجیہ تو منقول ہے کہ ان کے مخاطب خاص صحابہ ہی تھے، لیکن یہ بات واضح نہیں کہ ان کے نزدیک اس تخصیص کی بنیاد کیا ہے۔
دوسرا یہ کہ اگر یہ اہل علم اپنے موقف کی بنیاد ’فان اعتزلوکم فلم یقاتلوکم‘ کے حکم قرآنی کو بناتے ہیں تو اس میں تو غیر محارب کفار کے ساتھ جہاد کو ممنوع قرار دیا گیا ہے، جبکہ یہ حضرات، منقول استدلال کے مطابق، اس کو ممنوع نہیں بلکہ جائز مانتے ہیں۔ چنانچہ جصاص کا یہ تبصرہ بالکل درست ہے کہ اس موقف کی رو سے بھی زیر بحث حکم کو لازماً منسوخ ماننا پڑے گا۔
مذکورہ اہل علم کی آرا چونکہ اپنے پورے استدلال کے ساتھ تفصیلی صورت میں ہمارے سامنے نہیں ہیں، اس لیے ہم یقین کے ساتھ یہ بتانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کہ ان کے نزدیک مذکورہ سوالات کی کیا توجیہ ہوگی۔ یہاں ان آرا کا حوالہ محض اس امر کی نشان دہی کے لیے دیا گیا ہے کہ صلح وامن کی ہدایات کو منسوخ یا مخصوص حالات کے ساتھ محدود ماننے کے عام فقہی رجحان کے برخلاف ، ان نصوص کو محکم اور قابل عمل ماننے کا علمی زاویہ نگاہ بھی ماضی میں موجود رہا ہے، اگرچہ اس کو مین اسٹریم فقہی لٹریچر میں کوئی خاص نمائندگی حاصل نہیں ہو سکی۔

جزیہ کے نفاذ میں لچک اور رعایت

قرآن مجید میں جزیہ عائد کرنے کا حکم اصلاً جزیرۂ عرب کے اہل کتاب کے حوالے سے بیان ہوا ہے۔ اگرچہ ان کے علاوہ دوسرے گروہوں پر بھی اشتراک علت کی بنا پر جزیہ کا نفاذ درست تھا، تاہم قرآن مجید میں اس کی تصریح نہ ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ بہرحال ایک اجتہادی معاملہ تھا، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں مجوس اور اہل کتاب کے بہت سے گروہوں سے جزیہ وصول کیا، وہاں مصلحت اور تالیف قلب کے پیش نظر بعض مخصوص گروہوں کو اس سے مستثنیٰ بھی قرار دیا۔ مثال کے طورپر تیسری صدی ہجری کے محدث عبد اللہ بن محمد بن جعفر انصاری نے اپنی کتاب ’طبقات المحدثین باصبہان‘ میں ذکر کیا ہے کہ سیدنا سلمان فارسیؓ کے بھائی ذو فروخ کی نسل میں سے غسان نامی ایک شخص کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے لکھا گیا ایک عہد نامہ موجود ہے جو سیدنا علی نے رجب ۹ ہجری میں آپ کے حکم پر لکھا اور اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر اور سیدنا علی کی مہر بھی موجود ہے۔ تحریر کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عہد نامہ سلمان فارسیؓ کی درخواست پر ان کے اہل خاندان کے نام لکھا۔ اس تحریر میں لکھا ہے کہ:
قد دفعت عنہم جز الناصیۃ والجزیۃ والحشر والعشر وسائر المون والکلف (طبقات المحدثین باصبہان ۱/۲۳۲)
’’میں نے انھیں پیشانی کے بال کاٹنے، جزیہ ادا کرنے، حشر، عشر اور ساری مالی ذمہ داریوں اور ادائیگیوں سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔‘‘ 
ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عطاء رحمہ اللہ سے پوچھا کہ کیا مجوس اہل کتاب ہیں؟ انھوں نے کہا کہ نہیں۔ میں نے پوچھا کہ گھوڑے کی پوجا کرنے والے؟ عطا نے کہا:
وجد کتاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم لہم زعموا بعد اذ اراد عمر ان یاخذ الجزیۃ منہم فلما وجدہ ترکہم قال قد زعموا ذلک (مصنف عبد الرزاق، ۱۰۰۲۳)
’’جب سیدنا عمر نے ان سے جزیہ لینا چاہا تو انھوں نے کہا کہ ان کے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نوشتہ موجود ہے (جس میں انھیں جزیہ سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے)۔ جب سیدنا عمر نے یہ تحریر دیکھی تو انھیں چھوڑ دیا۔‘‘
تیسری نظیر مصر کی ہے۔ روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صحابہ کو فتح مصر کی بشارت دی تو ان سے فرمایا کہ اس سرزمین کے باشندوں کے ساتھ تمہاری رشتہ داری ہے، اس لیے ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ ابو ذر بیان کرتے ہیں:
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انکم ستفتحون مصر وہی ارض یسمی فیہا القیراط فاذا فتحتموہا فاحسنوا الی اہلہا فان لہم ذمۃ ورحما او قال ذمۃ وصہرا (صحیح مسلم، رقم ۴۶۱۵)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب تم مصر کو فتح کرو گے اور یہ وہ سرزمین ہے جس کے سکے کا نام قیراط ہے۔ پس جب تم اس کو فتح کر لو تو وہاں کے باشندوں سے اچھا سلوک کرنا، کیونکہ (ان کا دہرا حق ہوگا) وہ اہل ذمہ بھی ہوں گے اور ان کے ساتھ رشتے داری بھی ہے۔‘‘
زہری کی ایک مرسل روایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’لو عاش ابراہیم لوضعت الجزیۃ عن کل قبطی‘ (ابن سعد، الطبقات الکبریٰ ۱/۱۴۴) صحابہ نے اس وصیت پر یوں عمل کیا کہ حضرت ماریہ قبطیہ کی بستی کے لوگوں کو جزیہ سے مستثنیٰ قرار دے دیا۔ بلاذری بتاتے ہیں :
عن الشعبی ان علی بن الحسین او الحسین نفسہ کلم معاویۃ فی جزیۃ اہل قریۃ ام ابراہیم ابن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بمصر فوضعہا عنہم وکان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یوصی بالقبط خیرا (فتوح البلدان، ص ۲۲۶)
’’شعبی بتاتے ہیں کہ علی بن الحسین یا خود سیدنا حسین نے مصر میں ماریہ قبطیہ کی بستی والوں کے بارے میں سفارش کی تو معاویہ نے ان سے جزیہ ساقط کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی قبطیوں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کرتے تھے۔‘‘
تاہم امام ابوعبید نے اسے جزیۃ الرؤوس کے بجائے خراج پر محمول کیا ہے۔ (الاموال، ص ۱۷۴)
صحابہؓ کے طرز عمل سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ بالعموم رومی اور فارسی سلطنتوں یا ان کے زیر اثر علاقوں کے ساتھ جزیہ کی وصولی کے بغیر صلح پر آمادہ نہیں ہوئے، چنانچہ مقوقس شاہ مصر نے عمرو بن العاص کو اس صلح کی پیش کش کی تو انھوں نے اس دھمکی کے ساتھ اسے مسترد کر دیا کہ ’قد علمتم ما فعلنا بملککم الاکبر ہرقل‘ (البدایہ والنہایہ ۷/۹۹) تاہم مخصوص علاقوں اور اقوام کے معاملے میں انھوں نے جزیہ کے حوالے سے نسبتاً لچک دار رویہ اختیار کیا۔ اس حوالے سے تاریخ میں متعدد نظیریں ہمیں ملتی ہیں:
عہد صحابہ میں بنو تغلب کے نصاریٰ نے جب اصرار کیا کہ وہ اہل عجم کی طرح ’جزیہ‘ ادا نہیں کریں گے بلکہ ان سے صدقہ یا زکوٰۃ وصول کی جائے تو سیدنا عمرؓ نے ابتداء ان کے اس مطالبے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، تاہم یہ دیکھتے ہوئے کہ بنو تغلب شام کی سرحد کے قریب آباد ہیں اور دشمن کے مقابلے میں ان کے تعاون کی مسلمانوں کو اشد ضرورت ہے، انھوں نے مصلحت اور مجبوری کے تحت ان کے رؤوس پر ’جزیہ‘ عائد کرنے کے بجائے ان کے اموال میں سے صدقہ وصول کرنے کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ اس سے معاملے کی حقیقی نوعیت بالکل مختلف ہو گئی تھی، تاہم انھوں نے ان سے یہ کہنا مناسب سمجھا کہ تم اسے جو چاہو نام دے لو، ہم تم سے وصول کی جانے والی رقم کو ’جزیہ‘ ہی کہیں گے۔ (بلاذری، فتوح البلدان ۱/۲۱۶) 
اسی نوعیت کی مثال جزیرۂ قبرص کی ہے جہاں کے باشندوں سے اس شرط پر صلح طے پائی کہ وہ مسلمانوں کو بھی جزیہ ادا کریں گے اور قیصر روم کو بھی۔ طبری نے نقل کیا ہے: 
ان صلح قبرس وقع علی جزیۃ سبعۃ آلاف دینار یودونہا الی المسلمین فی کل سنۃ ویودون الی الروم مثلہا لیس للمسلمین ان یحولوا بینہم وبین ذلک (الکامل فی التاریخ ۴/۲۶۲)
’’قبرص کی صلح اس شرط پر طے پائی کہ اہل قبرض سالانہ سات ہزار دینار مسلمانوں کو اور اتنی ہی رقم رومی سلطنت کو ادا کریں گے اور مسلمانوں کو اس میں رکاوٹ ڈالنے کا اختیار نہیں ہوگا۔‘‘
جزیہ، جیسا کہ ہم تفصیل سے واضح کر چکے ہیں، اس دور میں سیاسی محکومی اور اطاعت کی علامت تھا۔ ظاہر ہے کہ ایک علاقے کے باشندوں کے لیے بیک وقت دو متحارب سلطنتوں کی سیاسی حاکمیت کو قبول کرنا ممکن نہیں۔ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ جزیرۂ قبرص کو اسلامی سلطنت کا ایک باقاعدہ حصہ بنانے کے بجائے اس سے صرف ایک علامتی رقم وصول کرنے پر اکتفا کر لی گئی۔ 
تیسری مثال جرجومہ شہر کے باسیوں کی ہے جو بیاس اور بوقا کے مابین معدن الزاج کے قریب جبل لکام پر واقع تھا۔ یہ شہر انطاکیہ کے بطریق کے ما تحت تھا۔ سیدنا ابو عبیدہؓ نے جب ان پر لشکر کشی کی تو انھوں نے لڑائی سے گریز کرتے ہوئے صلح کی پیش کش کی۔ مسلمانوں نے ان شرائط پر ان سے صلح کر لی کہ وہ جبل لکام میں مسلمانوں کے مددگار اور جاسوس اور ہتھیار فراہم کرنے والے بن کر رہیں گے اور یہ کہ ان سے جزیہ نہیں لیا جائے گا اور یہ کہ جب وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر دشمن سے جنگ کریں تو جن افراد کو وہ قتل کریں، ان کا سازوسامان بطور انعام ان کو دے دیا جائے گا۔ (فتوح البلدان، ص ۱۶۶)
ان لوگوں کے ساتھ طے شدہ اس شر ط کو بعد کے خلفا نے بھی برقرار رکھا۔ ۸۹ ہجری میں شہر کے باسیوں نے بد عہدی کی تو ولید بن عبد الملک نے دوبارہ اس شہر کو فتح کیا اور صلح میں یہ طے کیا کہ:
ولا یوخذ منہم ولا من اولادہم ونساۂم جزیۃ وعلی ان یغزوا مع المسلمین فینفلوا اسلاب من یقتلونہ مبارزۃ (فتوح البلدان، ص ۱۶۸)
’’ان سے اور ان کے بیوی بچوں سے جزیہ نہیں لیا جائے گا اور اگر وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جنگ کریں تو میدان جنگ میں دشمن کے جن افراد کو وہ قتل کریں گے، ان کا سامان انھیں دے دیا جائے گا۔‘‘
بعد میں کسی عامل نے ان پر جزیہ کی ادائیگی لازم کی تو انھوں نے یہ معاملہ عباسی خلیفہ واثق باللہ کے عہد حکومت میں اس کے سامنے پیش کیا اور اس نے سابقہ معاہدے کے مطابق انھیں اس سے مستثنیٰ قرار دیا۔(فتوح البلدان، ص ۱۶۸)
سرزمین مصر میں رومیوں کے مقبوضہ علاقے سے آگے بڑھ کر نوبہ کے علاقے پر عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح نے حملہ کیا تو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ چنانچہ باہم گفت وشنید سے ایک تجارتی معاہدہ کے ساتھ صلح کا معاملہ طے پا گیا۔ 
فسالوہ الصلح والموادعۃ فاجابہم الی ذلک علی غیر جزیۃ لکن علی ہدنۃ ثلث ماءۃ راس فی کل سنۃ وعلی ان یہدی المسلمون الیہم طعاما بقدر ذلک (فتوح البلدان، ص ۲۳۵)
’’انھوں نے صلح کا مطالبہ کیا جسے عبد اللہ بن ابی سرح نے منظور کر لیا۔ طے یہ پایا کہ وہ جزیہ نہیں دیں گے، البتہ صلح کی شرط یہ ہوگی کہ وہ ہر سال تین سو غلام مسلمانوں کے حوالے کریں گے اور مسلمان ان کی قیمت کے برابر انھیں غلہ دے دیں گے۔‘‘
امام لیث بن سعد نے ا س صلح کی نوعیت یوں بیان کی ہے:
انما الصلح بیننا وبین النوبۃ علی ان لا نقاتلہم ولا یقاتلوننا وانہم یعطوننا رقیقا ونعطیہم طعاما (ابو عبید، الاموال، ۲۳۶)
’’ہمارے اور اہل نوبہ کے مابین صلح اس بات پر ہوئی ہے کہ نہ وہ ہم سے لڑیں گے اور نہ ہم ان سے، اور یہ کہ وہ ہمیں غلام مہیا کریں گے اور ہم اس کے عوض میں انھیں آٹا دیں گے۔‘‘
اسی طرح بعض گروہوں کو اس شرط پر جزیہ سے مستثنیٰ قرار دینے کی مثالیں بھی ملتی ہیں کہ وہ جنگوں میں مسلمانوں کا ساتھ دیں گے۔ (یاقوت حموی، معجم البلدان، ۲/۱۲۱)
اہل مصر میں سے ایک قبطی نے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو یہ پیش کش کی کہ اگر اسے اور اس کے اہل خانہ کو جزیہ سے مستثنیٰ کر دیا جائے تو وہ انھیں ایک ایسی جگہ بتا سکتا ہے جو سمندر کے راستے سے مصر کو مکہ اور مدینہ سے ملا دیں گی اور لوگ کشتیوں سے سفر کر کے وہاں جا سکیں گے۔عمرو بن العاص نے سیدنا عمر کو خط لکھ کر اس کی اجازت طلب کی تو انھوں نے اس کی اجازت دے دی۔ (فتوح مصر واخبارہا، ۱/۲۸۷)
جہاں تک بعد کی فقہی روایت کا تعلق ہے تو فقہا بالعموم اہل ذمہ کے لیے ’جزیہ‘ کی ادائیگی کو لازم قرار دیتے ہیں۔ ’جزیہ‘ ان کے کفر پر قائم رہنے کی سزا اور اسلام کے مقابلے میں ان کی ذلت ورسوائی کی علامت ہے اور اپنی اس علامتی اہمیت ہی کی وجہ سے مسلمانوں کے مقابلے میں اہل ذمہ کی محکومانہ حیثیت کو واضح کرتا ہے۔ فقہا اس کی حکمت یہ بتاتے ہیں کہ جن کفار نے دین حق کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے، وہ مسلمانوں کے زیردست رہتے ہوئے ہردم اپنی پستی اور محکومی کا مشاہدہ کریں اور انھیں احساس ہو کہ یہ ان کے کفر پر قائم رہنے کی سزا ہے۔ اس طرح ان میں یہ داعیہ پیدا ہوگا کہ وہ اس ذلت سے بچنے کے لیے کفر وشرک کو چھوڑ کر دائرۂ اسلام میں داخل ہو جائیں۔ (الموسوعۃ الفقہیہ، ’جزیہ‘، ۱۵/۱۵۸۔ ابن العربی، احکام القرآن، ۲/۴۸۱) یہ مقصد چونکہ ’جزیہ‘ ہی کے ذریعے سے حاصل ہو سکتا ہے، اس لیے فقہا یہ کہتے ہیں کہ اگر غیر مسلم ’جزیہ‘ کی ادائیگی کے بغیر پر امن تعلقات قائم کرنے کی پیش کش کریں تو قبول نہیں کی جائے گی۔ (جصاص، احکام القرآن، ۳/۴۲۸) حتیٰ کہ اگر اس شرط پر صلح کے لیے آمادہ ہوں کہ ان کو قیدی بنائے بغیر اور مسلمانوں کے ذمہ میں داخل کر کے ان سے جزیہ وصول کیے بغیر انھیں اپنے علاقے سے جلا وطن کر دیا جائے تو بھی مذکورہ شرط پر صلح کرنا جائز نہیں۔ البتہ اگر مسلمان قتال کر کے ان سے جزیہ وصول کرنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں تو مذکورہ شرط پر صلح کی جا سکتی ہے۔ (جصاص، احکام القرآن، ۳/۴۲۸) اسی بنا پر فقہا سیدنا عمر کے اس فیصلے کو جوانھوں نے بنو تغلب کے نصاریٰ کے بارے میں کیا، بنو تغلب ہی کے ساتھ مخصوص مانتے ہیں اور ان کے علاوہ کسی اور غیر مسلم گروہ سے ’جزیہ‘ کے بجائے صدقہ کی وصولی کو جائز نہیں سمجھتے۔ (سرخسی، المبسوط ۳/۲۵۸) جبکہ جصاص وغیرہ کی راے میں یہ بھی درحقیقت ’جزیہ‘ ہی تھا۔ (احکام القرآن ۶/۴۸۶) 
تاہم ایک رائے یہ بھی موجود ہے کہ اگر عملی صورت حالات کسی غیر مسلم گروہ کے ساتھ اسی شرط پر صلح کرنے پر مجبور کر رہی ہو کہ ان سے جزیہ کے بجائے زکوٰۃ لی جائے تو ایسا کرنا جائز ہے۔ ابن قدامہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ان بنی تغلب کانوا ذوی قوۃ وشوکۃ لحقوا بالروم وخیف منہم الضرر ان لم یصالحوا ولم یوجد ہذا فی غیرہم فان وجد ہذا فی غیرہم فامتنعوا من اداء الجزیۃ وخیف الضرر بترک مصالحتہم فرای الامام مصالحتہم علی اداء الجزیۃ باسم الصدقۃ جاز ذلک اذا کان الماخوذ منہم بقدر ما یجب علیہم من الجزیۃ او زیادۃ (المغنی، ۹/۲۷۷)
’’بنو تغلب قوت وشوکت کے حامل تھے اور اہل روم کے ساتھ مل گئے تھے، اور اگر ان کے ساتھ صلح نہ کی جاتی تو ان کی جانب سے نقصان پہنچنے کا خدشہ تھا۔ یہ وجہ کسی اور گروہ میں نہیں پائی جاتی۔ ہاں، اگر کسی اور میں بھی یہ وجہ پائی جائے اور وہ جزیہ دینے سے انکار کریں اور ان کے ساتھ صلح نہ کرنے کی صورت میں ضرر کا خدشہ ہو اور حکمران صدقہ کے نام سے ان سے جزیہ وصول کرنے پر صلح کرنے کو مناسب سمجھے تو ایسا کرنا اس کے لیے جائز ہے، بشرطیکہ ان سے وصول کی جانے والی رقم جزیہ کے مساوی یا اس سے زیادہ ہو۔‘‘ 
اس ضمن میں ایک فقہی رائے یہ بھی ہے کہ اگر غیر مسلم جزیہ کے بجائے صدقہ کے نام سے رقم ادا کرنا چاہیں تو پھر بنو تغلب کی نظیر کے مطابق ان سے دوہری رقم وصول کی جانی چاہیے۔ (ماوردی، الاحکام السلطانیۃ، ۱۸۴)
اس پس منظر میں امام شافعیؒ کے ہاں اس حوالے سے پایا جا نے والا توسع کا رویہ خاص طور پر قابل توجہ ہے، اس لیے کہ وہ مجبوری کی کسی حالت کے بغیر عام حالات میں بھی خاص ’جزیہ‘ کے نام سے کسی رقم کی وصولی کو لازم نہیں سمجھتے، بلکہ ان کے نزدیک اگر غیر مسلم کسی بھی شکل میں اتنی رقم کی ادائیگی پر آمادہ ہوں جو جزیہ کے مساوی ہو تو ان کے ساتھ صلح جائز ہے۔ فرماتے ہیں:
فاذا غزا الامام قوما فلم یظہر علیہم حتی عرضوا علیہ الصلح علی شئ من ارضہم او شئ یودونہ عن ارضہم فیہ ما ہو اکثر من الجزیۃ او مثل الجزیۃ فان کانوا ممن توخذ منہم الجزیۃ واعطوہ ذلک علی ان یجری علیہم الحکم فعلیہ ان یقبلہ منہم (الام، ۴/۱۸۲)
’’جب امام کسی قوم پر حملہ کرے اور ان پر غالب آنے سے پہلے ہی وہ اس شرط پر صلح کی پیش کش کر دیں کہ اپنی سرزمین یا اس کی پیداوار کا کچھ حصہ، جو قیمت میں جزیہ سے زیادہ یا اس کے مساوی ہو، مسلمانوں کو دیں گے تو اس صورت میں اگر وہ قوم ایسی ہو جس سے جزیہ لینا جائز ہے اور اس کے ساتھ وہ یہ شرط بھی مان لیں کہ ان پر مسلمانوں کا حکم جاری ہوگا تو امام پر لازم ہے کہ ان کی یہ پیش کش قبول کر لے۔‘‘
واذا صالحوہم علی ان الارض کلہا للمشرکین فلا باس ان یصالحہم علی ذلک ویجعلوا علیہم خراجا معلوما اما شئ مسمی یضمنونہ فی اموالہم کالجزیۃ واما شئ مسمی یودی عن کل زرع من الارض کذا من الحنطۃ او غیرہا اذا کان ذلک اذا جمع مثل الجزیۃ او اکثر (الام، ۴/۱۸۲)
’’اور کفار اس شرط پر صلح کرنا چاہیں کہ زمین ساری کی ساری ان کی ملکیت ہوگی تو صلح کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس صورت میں ان پر ایک متعین خراج عائد کر دیا جائے، خواہ وہ ان کے اموال میں جزیہ کی شکل میں کوئی متعین رقم ہو یا زمین کی پیداوار مثلاً گندم یا کسی اور فصل کی کوئی متعین مقدار ، بشرطیکہ اس کی مجموعی قیمت جزیہ کے مساوی یا اس سے زیادہ ہو۔‘‘
اس صورت میں اصل مقصد محض ایک مخصوص رقم کی وصولی قرار پاتا ہے اور اس کی وہ علامتی اہمیت، جس کے پیش نظر قرآن مجید میں اصلاً اسے منکرین حق پر عائد کرنے کا حکم دیا گیا، ثانوی ہو جاتی ہے ، کیونکہ جزیہ کے اصل تصور کی رو سے حقارت اور ذلت کے بغیر وصول کی جانے والی کسی بھی رقم کو ’جزیہ‘ نہیں کہا جا سکتا۔ جصاص لکھتے ہیں:
ومتی اخذناہا علی غیر ہذا الوجہ لم تکن جزیۃ لان الجزیۃ ہی ما اخذ علی وجہ الصغار (احکام القرآن، ۳/۱۰۱)
’’اگر ہم ذلت اور عار کے بغیر وصول کریں گے تو وہ ’جزیہ‘ نہیں ہوگا کیونکہ ’جزیہ‘ کہتے ہی اس رقم کو ہیں جو ذلت اور حقارت کے ساتھ وصول کی جائے۔‘‘
جزیہ کے نفاذ کے سلسلے میں ہندوستان میں قائم ہونے والی مسلم سلطنتوں میں جو طریقہ اختیار کیا گیا، وہ بھی اس کی فقہی حیثیت متعین کرنے کے ضمن میں اہم نظیر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اوپر ہم نے سیدنا عمر کے فقہی رجحان کی وضاحت کرتے ہوئے یہ اخذ کیا ہے کہ وہ قتل مشرکین اور نفاذ جزیہ میں سے کسی بھی حکم کو اصلاً قابل تعمیم نہیں سمجھتے تھے، چنانچہ انھوں نے مجوس سے اس وقت تک جزیہ وصول نہیں کیا جب تک ان کے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ نہیں آ گیا۔ یہ رجحان کہ اہل کتاب اور مجوس کے علاوہ دوسرے غیر مسلم گروہوں سے جزیہ لینا ضروری نہیں، اگرچہ فقہی بحثوں کا باقاعدہ حصہ نہیں بن سکا، تاہم کم از کم ہندوستان کی حد تک یہ اصول عملاً مان لیا گیا۔ چنانچہ عرب فاتحین کی طرف سے تو بعض علاقوں کے باشندوں سے جزیہ وصول کیے جانے کی مثالیں ملتی ہیں، (اردو دائرۂ معارف اسلامیہ، مقالہ ’’جزیہ‘‘، ۷/۲۴۷) لیکن ہندوستان میں باقاعدہ قائم ہونے والی مسلم حکومتوں میں بعض مخصوص ادوار مثلاً فیروز شاہ تغلق اور اورنگ زیب عالمگیر کے دور حکومت کے علاوہ عمومی طور پر اہل اقتدار نے یہاں کے غیر مسلموں پر جزیہ نافذ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اردو دائرہ معارف اسلامیہ کے مقالہ نگار نے لکھا ہے:
’’دہلی کی اسلامی سلطنت میں جزیہ عائد کرنے کا تذکرہ شاذ ونادر ہی ملتا ہے، تاہم جزیہ اور خراج کے الفاظ اس عہد سے متعلق کتب تاریخ میں ملتے ہیں، لیکن شرعی لحاظ سے نہیں، بلکہ عرفی لحاظ سے مالیے کا مفہوم ادا کرنے کے لیے۔ مثلاً امیر حسن سجزی (م ۷۲۲ھ) صاحب فوائد الفواد (طبع دہلی ۱۸۶۵، ص ۷۶، طبع نولکشور ۱۹۰۸ء، ص ۸۱) کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے عہد میں ا س ٹیکس کو بھی جزیہ کہا جاتا تھا جو ہندو راجہ مسلمانوں سے وصول کرتے تھے۔ البتہ فیروز شاہ تغلق نے اپنے عہد حکومت میں یہ حکم دیا تھا کہ بیت المال کی آمدنی کے ذرائع صرف وہی ہوں گے جو شرع محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں اور دینی کتابیں ان پر شاہد ہیں۔‘‘ (اردو دائرۂ معارف اسلامیہ، مقالہ ’’جزیہ‘‘، ۷/۲۴۷، ۲۴۸)
اے بی ایم حبیب اللہ اپنی فاضلانہ تصنیف میں لکھتے ہیں:
’’یہ ایک حیرت انگیز بات ہے کہ ابتدائی دور کے روزنامچوں نے مفتوحہ ہندوؤں پر نافذ کیے جانے والے جزیے کا ذکر کہیں نہیں کیاہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ عام ٹیکس وصول نہیں کیا جا تا تھا۔ اس بات کا جواز ضرور ہے کہ اس وقت جزیے کی اصطلاح کے معنی محض انفرادی طورپر لیے جانے والے امدادی محصول کے نہیں تھے جیسا کہ آج بھی سمجھا جاتا ہے یا بعد کے آنے والے مورخین نے اس کی تشریح کی تھی۔ اس قسم کے ٹیکس کا سب سے پہلا نفاذ فیروز خلجی نے کیا تھا جس نے ہندوؤں پر یہ ٹیکس عائد کرنا تسلیم کیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ عملی طور پر اس ٹیکس کو ہمیشہ اس کی تمام باریکیوں اور ضوابط کے ساتھ نہیں نافذ کیا گیا تھا۔‘‘ 
(ہندوستان میں مسلم حکومتوں کی اساس، مترجم: مسعود الحق، ص ۳۲۳، ۳۲۴)
فیروز شاہ کے زمانے میں ’جزیہ‘ عائد کیے جانے کا ذکر ’تاریخ فیروز شاہی‘ کے مصنف سراج عفیف نے یوں بیان کیا ہے:
’’فیروز شاہ سے پیشتر کسی بادشاہ کے عہد میں غیر مسلم رعایا پر جزیہ نہیں عائدکیا گیا تھا اور ان فرماں روایان قدیم نے اس محصول کو معاف کر دیا تھا۔ فیروز شاہ نے تمام علما ومشایخ کو جمع کیا اور ان سے فرمایا کہ یہ عام غلطی ہمیشہ سے چلی آ رہی ہے کہ غیر مسلم افراد سے جزیہ نہیں وصول کیا جاتا۔‘‘ (تاریخ فیروز شاہی، مترجم: محمد فدا علی طالب، ص ۲۶۰)
فیروز شاہ نے علماے شریعت ومشایخ طریقت کے مشورے سے ہندوؤں پر جزیے کے نفاذ کا اعلان کیا، تاہم اس کے مشیروں کی ’ثقاہت‘ کا اندازہ دو باتوں سے کیا جا سکتا ہے۔ ایک یہ کہ انھوں نے پجاریوں سے جزیہ لینے پر اصرار کیا، حالانکہ عبادت گاہوں میں مقیم پروہتوں اور پجاریوں کو جزیہ سے مستثنیٰ رکھنے کی روایت اسلامی تاریخ میں آغاز ہی سے چلی آ رہی ہے۔ دوسرے یہ کہ انھی علما ومشایخ کے مشورے پر فیروز شاہ نے ایک مندر کے پروہت کو مندر قائم کرنے اور اس میں بتوں کی پرستش کرنے پر آگ میں زندہ جلا دیا۔ سراج عفیف کا بیان ہے:
’’ایک راست گفتار مخبر نے بادشاہ کو اطلاع دی کہ دہلی قدیم میں ایک ناہنجار بت پرست پیدا ہوا ہے جس نے اپنے خاص مکان میں مندر بنایا ہے اور ہر قوم اور ہر طبقے کے اشخاص پرستش کے لیے اس شخص کے مکان میں جاتے ہیں۔ اس زنار دار نے ایک مہرہ چوبیں بنایا ہے اور اس کو مختلف اقسام کے نقش سے درست کر دیا ہے اور تمام ہندو معین روز اس کے قریب جمع ہو کر پرستش کرتے ہیں۔‘‘ (ص ۲۵۸)
’’علما ومشایخ ومفتیان شرع نے تمام کیفیت معلوم کرنے کے بعد مسئلہ شرعی بیان فرمایا اور عرض کیا کہ شرع شریف کا حکم یہ ہے کہ پیشتر اس زنار دار کو اسلام لانے کی ہدایت کی جائے۔ اگر قبول نہ کرے تو اس کو زندہ جلا دیا جائے۔ ..... زنار دار نے اضطراب کی حالت میں سینہ سے آہ کھینچی اور اس درمیان میں سر کے جانب سے بھی آگ بے حد روشن ہوئی اور یہ شخص جل کر خاک سیاہ ہو گیا۔‘‘ (ص ۲۵۹)
سلطان علاؤ الدین نے اپنے عہد میں قاضی مغیث الدین بیانوی سے ہندوؤں کے متعلق شرعی احکام دریافت کیے تو انھوں نے بتایا کہ امام ابوحنیفہ کے علاوہ باقی ائمہ کے نزدیک ہندوؤں سے جزیہ قبول کرنا جائز نہیں اور ان کے لیے حکم یہ ہے کہ اگر وہ اسلام نہ لائیں تو انھیں قتل کر دیا جائے۔ ’’آب کوثر‘‘ کے مصنف نے سلطان کا جواب یوں نقل کیا ہے:
’’سلطان علاؤ الدین قاضی مغیث کے جواب پر بہت ہنسا اور کہا کہ یہ باتیں جو تم نے کہیں، میں نہیں جانتا۔ مجھے صرف اتنا پتا ہے کہ خوط اور مقدم (یعنی دیہات کے ہندو نمبردار وغیرہ) اچھے اچھے کپڑے پہنتے ہیں۔ ولایتی کمانوں سے تیر اندازی کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ محاربہ کرتے اور شکار کھیلتے ہیں،لیکن جہاں خراج، جزیہ، کری (مکانوں کے ٹیکس) اور چرائی (یعنی چراگاہوں کے ٹیکس) کا تعلق ہے، وہ ایک چیتل بھی ادا نہیں کرتے۔‘‘ (شیخ محمد اکرم، آب کوثر، ص ۱۶۴)
اورنگ زیب عالمگیر نے اپنے دور حکومت میں شریعت اسلامی کی ترویج کی جو کوششیں کیں، ان کے ضمن میں ہندووں پر جزیہ عائد کرنے کا ذکر بھی ملتا ہے۔ (اردو دائرۂ معارف اسلامیہ، ۷/ ۲۴۸) غیر مسلموں کے حوالے سے عالمگیر کا طرز عمل مورخین میں ہمیشہ زیر بحث رہا ہے اور اگرچہ بعض مسلم اہل علم نے ا س کے جملہ اقدامات کا دفاع کرنے کی کوشش کی ہے، (ریاست علی ندوی، عہد اسلامی کا ہندوستان، ۲۸۹-۳۰۸) لیکن مسلم مورخین ہی میں اس کے برعکس رجحان کے حامل ایسے اہل علم موجود ہیں جو عالمگیر کو کسی نہ کسی حد تک غیر روادارانہ رویے کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ (مثلاً دیکھیے: سعید احمد اکبر آبادی، مختصر تاریخ اسلام۔ شیخ محمد اکرام: رود کوثر) چنانچہ جزیہ کے اجرا سے متعلق اس کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا سید محمد میاں لکھتے ہیں کہ:
’’جزیہ لینے میں اورنگ زیب نے اجتہادی غلطی کی۔‘‘
مزید لکھتے ہیں:
’’واقعہ یہ ہے کہ جزیہ کا اجرا ہوا ہی نہیں۔ جس کو جزیہ کہا جاتا ہے، وہ جزیہ ہی نہ تھا۔‘‘ (علماء ہند کا شاندار ماضی، ۱/۵۷۳)
ہندوستان کے بعض دوسرے علاقوں میں بھی کبھی جزیہ عائد کرنے اور کبھی اسے موقوف کر دینے کا ذکر تاریخ میں ملتا ہے۔ مثلاً کشمیر کے فرماں روا سلطان زین العابدین بڈ شاہ کے بارے میں مورخین بتاتے ہیں کہ اس نے ہندوؤں سے جزیہ لینا موقوف کر دیا تھا اور گاؤ کشی بند کرا دی تھی۔ (’’مسلمانوں کی علمی بے تعصبی‘‘، مشمولہ: مقالات شبلی، ص ۱۰۵۔ جاوید اقبال، زندہ رود ۱/۷)
کلاسیکی فقہی روایت چونکہ بنیادی طور پر صدر اول میں جزیرۂ عرب اور اس کے گرد ونواح میں قائم ہونے والی اسلامی سلطنت کے قانونی تعامل اور فقہی نظائر پر مبنی ہے، اس لیے دور دراز علاقوں مثلاً ہندوستان میں اختیار کیے جانے والے فقہی اجتہادات کو اس میں کوئی جگہ نہیں مل سکی، چنانچہ اس روایت کے تسلسل میں خود ہندوستان میں تصنیف کی جانے والی فقہی کتابوں میں بھی اسلامی ریاست کے غیر مسلم باشندوں کے لیے ’اہل ذمہ‘ کے عنوان سے دوسرے درجے کے شہریوں کی مخصوص حیثیت مقرر کی گئی اور ان کے لیے ’جزیہ‘ کی ادائیگی کے علاوہ مخصوص امتیازی قوانین کی پابندی بھی لازم قرار جاتی رہی ہے۔ کلاسیکی روایت کے مطابق غیر مسلموں کے ساتھ اسلامی ریاست کے تعلق کی آئیڈیل صورت عقد ذمہ ہی ہے جس میں ان پر جزیہ کی ادائیگی اور دیگر شرائط کی پابندی لازم ہو اور وہ کفر واسلام کے اعتقادی تناظر میں اہل اسلام کے محکوم اور ان کے مقابلے میں ذلیل اور پست ہو کر رہیں۔ فقہا کے نزدیک یہ اصول تمام غیر مسلموں پر لاگو ہوتا ہے، خواہ وہ جنگ کے نتیجے میں مفتوح ہوئے ہوں یا صلح کے کسی معاہدے کے تحت مسلمانوں کے زیرنگیں آئے ہوں یا دار الحرب کی شہریت سے دستبردار ہو کر دار الاسلام میں قیام پذیر ہونا چاہتے ہوں۔ تاہم یہ تصور فقہی اورنظری بحثوں میں زندہ رہنے کے باوجود، خلافت عثمانیہ کے ایک بڑی اور مستحکم سیاسی طاقت کے طور پر رونما ہونے کے بعد بتدریج تغیر پذیر ہوتا چلا گیا۔ سلطنت عثمانیہ نے بدلتے ہوئے عالمی حالات اور سیاسی وقانونی تصورات کے تحت جہاں یورپی جمہوریت کے دوسرے بہت سے تصورات کو اپنے نظام میں جگہ دی، وہاں سلطنت کی غیر مسلم رعایا کے لیے مذہب اور نسل کی تفریق کے بغیر مساوی شہری اور مذہبی حقوق سے بہرہ مند ہونے کا حق بھی تسلیم کیا اور مختلف معاہدوں میں یورپی طاقتوں کو اس کی باقاعدہ یقین دہانی کرائی۔ (دیکھیے: الدکتور عبد العزیز محمد الشناوی، ’الدولۃ العثمانیۃ دولۃ اسلامیۃ مفتری علیہا‘ ، ۱/۹۶۔۹۸۔ ماجد خدوری، مقدمہ کتاب السیر للشیبانی۔ معاہدۂ پیرس کے متن کے لیے، جو ۳۰ مارچ ۱۸۵۶ ء کو طے پایا، ملاحظہ ہو:
http://www.polisci.ucla.edu/faculty/wilkinson/ps123/trea) 
عثمانی خلیفہ سلطان عبد المجید اول نے ۱۸ فروری ۱۸۵۶ء کو ’’خط ہمایوں‘‘ کے نام سے ایک فرمان جاری کیا جس کے تحت ’جزیہ‘ کے پرانے قانون کو، جو غیر مسلموں کے دوسرے درجے کے شہری ہونے کے لیے ایک علامت کی حیثیت رکھتا تھا، ختم کر کے اس کی جگہ ’’بدل عسکری‘‘ کے نام سے ایک متبادل ٹیکس نافذ کیا گیا جو اقلیتوں کی مساوی شہری حیثیت کے جدید جمہوری تصورات کے مطابق تھا۔
(Norman Stillman, The Jews of Arab Lands in Modern Times, http://www.nitle.org/)
خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد دنیا کے سیاسی نظام میں رونما ہونے والی تبدیلیوں نے مسلمانوں کے غلبہ اور تفوق اور اس کے تحت پیدا ہونے والے قانونی وسیاسی تصورات کو بالکل تبدیل کر دیا ہے۔ بیسویں صدی میں یورپی نو آبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد مسلمانوں کی جو قومی ریاستیں وجود میں آئیں، ان میں سے کسی میں بھی، چاہے وہ مذہبی ریاستیں ہوں یا سیکولر، غیر مسلموں کو ’اہل ذمہ‘ کی قانونی حیثیت نہیں دی گئی اور نہ ان پر جزیہ نافذ کیا گیا ہے۔ ان میں سعودی عرب، ایران، اور طالبان کی ٹھیٹھ مذہبی حکومتیں بھی شامل ہیں۔ پاکستان میں بھی، جہاں اسلام مملکت کا سرکاری مذہب اور قانون سازی کا اعلیٰ ترین ماخذ ہے، غیر مسلموں کو ’اہل ذمہ‘ قرار نہیں دیا گیا اور نہ اہل علم کی جانب سے اس کا مطالبہ ہی کبھی سامنے آیا ہے، حتیٰ کہ سید سلیمان ندوی، مولانا مفتی محمد شفیع اور سید ابو الاعلیٰ مودودی جیسے اہل علم نے بھی اپنی تحریروں میں نظری طور پر جزیہ کے قانون کی وضاحت کرنے کے باوجود جب ۱۹۵۲ء میں ۳۱ سرکردہ علما کے ساتھ مل کر اسلامی ریاست کے لیے رہنما ۲۲ دستوری نکات مرتب کیے تو ان میں غیر مسلموں کی قانونی حیثیت پر گفتگو کرتے ہوئے ’جزیہ‘ کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ 
معاصر تناظرمیں اسلامی ریاست کے عملی ڈھانچے اور اس کے خط وخال کو موضوع بحث بنانے والے اہل علم نے بھی بالعموم اس موقف سے اتفاق کو ضروری نہیں سمجھا اور یہ نقطۂ نظر عام ہے کہ جدید اسلامی ریاستوں میں غیر مسلموں کی حیثیت ’اہل ذمہ‘ کی نہیں ہے، چنانچہ ان پر جزیہ عائد کرنے پر اصرار نہیں کیا جا سکتا، تاہم اس نقطہ نظر کے ترجمان اہل علم کے ہاں روایتی فقہی تصور سے اختلاف کی بنیاد کے حوالے سے مختلف رجحانات دکھائی دیتے ہیں۔ مثلاً ایک نقطہ نگاہ یہ ہے کہ عقیدہ ومذہب کی بنیاد پر اسلامی ریاست کے باشندوں کے مدنی حقوق میں امتیاز کا رویہ مخصوص تاریخی اسباب کا نتیجہ تھا اور سیدنا عمر نے اس وقت کی معاصر اقوام میں محکوم ومفتوح قوموں کے لیے رائج قانونی نظام ہی کو اہل ذمہ پرنافذ کر دیا تھا۔ (سید سلیمان ندوی، ’’کیا اسلام میں تجدید کی ضرورت ہے؟‘‘، مشمولہ ’’اسلامی تہذیب وثقافت‘‘، ۱/۱۰۴، شائع کردہ خدا بخش اورئنٹل پبلک لائبریری پٹنہ) تاہم یہ بات درست دکھائی نہیں دیتی، کیونکہ ’اہل ذمہ‘ اور ان کی مخصوص محکومانہ حیثیت کے فقہی تصور، بالخصوص انھیں محکوم بنا کر ان پر جزیہ عائد کرنے کی نہایت واضح اساسات خود قرآن وسنت کے نصوص میں پائی جاتی ہیں اور اگر جدید معاشرے میں اس کا تسلسل ضروری نہیں تو بھی شرعی و عقلی طور پر اس تصور کی توجیہ تاریخی نہیں، بلکہ مذہبی بنیادوں پر کی جانی چاہیے۔ 
اس ضمن میں ایک رائے یہ سامنے آئی ہے کہ جزیہ عائد کیے جانے کا حکم اصلاً اسلامی ریاست کے ایسے غیر مسلم باشندوں کے لیے ہے جو جنگ کے نتیجے میں مفتوح ہوئے ہوں یا جنھوں نے صلح کا معاہدہ کرتے وقت ’جزیہ‘ کی ادائیگی کی شرط منظور کی ہو۔ مولانا مودودی لکھتے ہیں:
’’اسلامی حکومت میں غیر مسلموں سے جزیہ لینے کا حکم اس حالت کے لیے دیا گیا ہے جبکہ وہ یا تو مفتوح ہوئے ہوں یا کسی معاہدہ کی رو سے جزیہ دینے کی واضح شرط پر اسلامی حکومت کی رعایا بنائے گئے ہوں۔ پاکستان میں چونکہ یہ دونوں صورتیں پیش نہیں آئی ہیں، اس لیے یہاں غیر مسلموں پر جزیہ عائد کرنا میرے نزدیک شرعاً ضروری نہیں ہے۔‘‘ (رسائل ومسائل، ۴/۲۴۶)
سید حامد عبد الرحمن الکاف لکھتے ہیں:
’’معاصر اسلامی ریاستوں میں غیر مسلموں کے قانونی اور مدنی حقوق کے بارے میں وہی پرانا موقف اختیار کیا جاتا ہے کہ وہ ’’ذمی‘‘ ہیں اور انھیں ’’جزیہ‘‘ ادا کر کے فوجی خدمات سے اپنے آپ کو مستثنیٰ کرنا ہے۔ یہ موقف ان دستوری اور قانونی دور رس تبدیلیوں کے عدم ادراک کا نتیجہ ہے جو خود مسلم معاشروں میں صدیوں تک بیرونی سامراج کی حکومت کے بعد وقوع پذیر ہوئی ہیں۔ ان معاشروں کی مسلم اکثریت اور غیر مسلم اقلیت دونوں سامراج کے مظالم اور لوٹ کھسوٹ کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ دونوں ہی نے سامراجی نظاموں سے گلو خلاصی کی خاطر برابر کی جدوجہد کی اور قربانیاں دی ہیں۔ جب آزادی مل گئی تو مسلم اکثریت کیونکر اور کس طرح اچانک حاکم اور غیر مسلم اقلیتیں محکوم بن گئیں؟ حالانکہ جنگ آزادی میں دونوں برابر کے شریک تھے اور سامراج کے ظلم وستم کا دونوں ہی خمیازہ بھگت رہے تھے۔
ان تاریخی تبدیلیوں کو نہ سمجھنے کے ساتھ ساتھ اس آیت کے معنی ومفہوم کو بھی نظر انداز کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کو ’’آیت جزیہ‘‘ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ .......آیت بالا صاف صاف جنگ کے بعد شکست خوردہ لوگوں پر جزیہ عائد کرنے کا حکم دیتی ہے۔ اس طرح جزیہ جنگ میں شکست کا نتیجہ ہوا۔ بالفاظ دیگر جنگ کے بغیر اور شکست کے بغیر نہ تو جزیہ فرض ہی کیا جا سکتا ہے اور نہ وصول ہی کیا جا سکتا ہے۔ صلح کے معاہدے کی شرائط میں یہ کوئی شکل ہو تو یہ بالکل الگ بات ہے۔ یہ صلح اور اس کی شرائط کا نتیجہ ہے نہ کہ جنگ کا۔ بات چیت میں شرائط پر اتفاق اسی وقت ہوتا ہے جب فریقین لین دین اور سودے بازی کریں، ورنہ بات چیت ناکام ہو جاتی یا کم از کم رک جاتی ہے۔ بعد میں، سیاسی فضا سازگار ہونے پر، اسے پھر شروع کیا جاتا ہے۔ جنگ آزادی کے طویل عرصوں میں مسلمانوں نے سامراجی طاقتوں اور حکومتوں سے جاں گسل کش مکش کی بلکہ بعض وقت ان سے جنگ بھی کی۔ بہرحال انھوں نے اپنے ہی ملک کی غیر مسلم اقلیتوں سے جنگ نہیں کی تھی اور نہ ان کو شکست دی تھی اور نہ ان پر فتح ہی پائی تھی کہ ان کو ’’ذمی‘‘ قرار دے کر جزیہ عائد کیا جا سکتا۔ اس وجہ سے اس آیت کے احکام کا اطلاق مسلمان ممالک کی موجودہ صورت حال پر نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ (ماہنامہ ترجمان القرآن، دسمبر ۲۰۰۲، ص ۶۵، ۶۶)
تاہم نہ تو اس رائے میں قرآن مجید کی آیت سے کیا جانے والا استدلال درست ہے اور نہ فقہی ذخیرے میں اس طرح کی کوئی قید بیان کی گئی ہے۔ قرآن مجید کے حکم سے واضح ہے کہ اہل کتاب پر ’جزیہ‘ کرنے کے لیے قتال کو بطور ایک شرط کے ذکر نہیں کر رہا، بلکہ جزیہ کے نفاذ کو مقصود قرار دے کر ان اہل کتاب کے خلاف قتال کا حکم دے رہا ہے جو اس کو ادا کرنے سے انکار کریں۔ اس سے یہ کسی طرح اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ جو اہل کتاب قتال کے بغیر صلح کریں، ان پر جزیہ عائد نہ کیا جائے، چنانچہ نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حوالے سے مفتوح اور غیر مفتوح گروہوں میں کوئی فرق کیا ہے اور نہ صحابہ نے، بلکہ تاریخی بیانات سے واضح ہے کہ صحابہ صلح کے لیے پہلی شرط ہی یہ پیش کرتے تھے کہ ’اسلام قبول کرو یا جزیہ دو۔‘
ایک اور رائے یہ ہے کہ ’جزیہ‘ کے قانون میں فی ذاتہ یہ گنجایش موجود ہے کہ اگر اسلامی ریاست کے غیر مسلم معاہدین اس حوالے سے کسی حساسیت کا شکار ہوں تو ازروے مصلحت ان پر جزیہ کے نفاذ پر اصرار نہ کیا جائے۔ فقہا کے ہاں، بنو تغلب کے نصاریٰ کے ساتھ کیے جانے والے معاملے کی روشنی میں، ایک رائے یہ موجود رہی ہے کہ اگر عملی صورت حالات کسی غیر مسلم گروہ کے ساتھ اسی شرط پر صلح کرنے پر مجبور کر رہی ہو کہ ان سے جزیہ کے بجائے زکوٰۃ لی جائے جس کی مقدار جزیہ کے مساوی ہو تو ایسا کرنا جائز ہے۔ (ابن قدامہ المغنی، ۹/۲۷۷۔ ماوردی، الاحکام السلطانیۃ، ۱۸۴) مولانا امین احسن اصلاحی نے اس معاملے میں مزید وسعت پیدا کرتے ہوئے اسے ایک عمومی ضابطہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’اگر وہ اس بات پرمصر ہوں کہ ان پر بھی اسی طرح کے مالی واجبات عائد کیے جائیں جو مسلمانوں پر عائد ہیں تو حکومت ان سے اپنی صواب دید کے مطابق اس شرط پر بھی معاہدہ کر سکتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس فرق کو یوں سمجھیے کہ اگر جزیہ کی ادائیگی میں وہ عار اور ذلت محسوس کریں تو ان کو اس سے مستثنیٰ کر کے ان کے لیے کوئی اور مناسب شکل اختیار کی جا سکتی ہے۔‘‘ (تدبر قرآن، ۵/۵۶۱)
یہی نقطہ نظر الدکتور یوسف القرضاوی نے اختیار کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’موجودہ دور میں اسلامی ممالک کے غیر مسلم (اہل کتاب) ’جزیہ‘ نہیں دیتے بلکہ اس لفظ پر بھی ناک بھوں چڑھاتے ہیں تو کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ جزیہ کے بدلے بطور ٹیکس ان سے زکوٰۃ لی جائے، اگرچہ نام اس کا زکوٰۃ نہ ہو مگر شرح زکوٰۃ کی ہو۔ بنی تغلب کے عیسائیوں کے بارے میں حضرت عمر کا جو موقف محدثین، مورخین اور فقہاے اسلام نے بیان کیا ہے، اس سے ہمیں اس معاملے کا اصل صورت حال اور مصلحت کے پیش نظر جائزہ لینے کی گنجایش نظر آتی ہے۔ (فقہ الزکوٰۃ، مترجم: ساجد الرحمن صدیقی، ۱/۱۳۶)
’’اس فیصلے کے پیش نظر دور جدید میں اگر اسلامی ممالک میں غیر مسلموں پر جزیہ کی جگہ کوئی ایسا ٹیکس عائد کر دیا جائے جو مسلمانوں پر اسلامی نظام کی جانب سے عائد شدہ دو فرائض کے مساوی درجے کا ہو۔ یعنی مسلمان ایک فریضہ -جہاد- میں جان کی قربانی دیتے ہیں اور دوسرے فریضہ -زکوٰۃ- میں مال کی قربانی دیتے ہیں تو کیا ایسا کرنا جائز نہیں ہوگا؟ اگر مسلمانوں کے اور غیر مسلموں کے مشورے سے غیر مسلموں پر ایسا کوئی ٹیکس عائد کیا جائے اور اس کو زکوٰۃ اور صدقہ کا نام بھی نہ دیا جائے، جیسا کہ حضرت عمرؓ نے ان کے مطالبے پر دے دیا تھا تو کیا یہ اقدام جائز نہیں ہوگا؟‘‘ (ایضاً ص ۱۳۸)
بعض دیگر اہل علم اس ضمن میں عملی حالات کی رعایت اور ’مصلحت‘ کے عمومی اصول کو بنیاد بناتے ہیں۔ اس نقطہ نظر کی نمائندگی ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے یوں کی ہے:
’’دور جدید میں قائم ہونے والی اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے سیاسی اور مدنی حقوق کا مسئلہ بھی نازک اور اہم ہے اور اگرچہ تحریک اسلامی کے رہنماؤں نے اس بارے میں خاصا حقیقت پسندانہ موقف اختیار کیا ہے مگر عام ذہنوں پر مغرب کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا کافی اثر ہے۔ موجودہ موقف یہ ہے کہ رائے دہندگی اور مجالس قانون ساز کی رکنیت نیز دوسرے مدنی حقوق میں ان کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہ برتا جائے گا، البتہ یہ مجالس ازروے دستور اس بات کی پابند ہوں گی کہ وہ قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنا سکتیں۔ اسلامی ریاست کا صدر مملکت لازماً مسلمان ہوگا اور اس کی شوریٰ صرف مسلمانوں پر مشتمل ہوگی۔ غیر مسلموں سے جزیہ لینا ضروری نہیں اور انھیں فوجی خدمات سے مستثنیٰ رکھنا مناسب ہوگا۔‘‘ (اسلام، معاشیات اور ادب، ص ۴۱۹)
’’مسلمانوں اور اسلام کے کسی اہم مفاد کو مجروح کیے بغیر غیر مسلموں کو ان تمام سیاسی اور مدنی حقوق کی ضمانت دی جا سکتی ہے جو دور جدید کی کسی ریاست کے شہریوں کو حاصل ہوتے ہیں یا جن کا شمار مجلس اقوام متحدہ نے بنیادی انسانی حقوق میں کیا ہے۔ اپنے موقف کی تعیین اور اس کے بیان میں مزاج عصر کی رعایت رکھنے میں اس حد تک کوئی حرج نہیں معلوم ہوتا جس حد تک نہ کسی متعین شرعی حکم کی خلاف ورزی لازم آتی ہو نہ اسلام اور مسلمانوں کا کوئی اہم مفاد مجروح ہوتا ہو۔ 
اس بارے میں مسلم ممالک میں اٹھنے والی اسلامی تحریکوں کے موقف کی تعیین میں دنیا کی رائے عامہ اور غیر مسلم ممالک میں بسنے والی مسلمان اقلیتوں کے مفاد ومصالح کی رعایت رکھنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔ دنیا میں اسلام کے مجموعی مفاد کا ایک اہم تقاضا یہ بھی ہے کہ غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کو جملہ سیاسی اور مدنی حقوق اور اسلام کی طرف دعوت دینے کے آزادانہ مواقع حاصل ہوں۔ زیر غور مسئلہ میں، شریعت کی حدود کے اندر رہتے ہوئے فراخ دلانہ پالیسی اختیار کرنے اور اس کو مزاج عصر سے مناسبت رکھنے والے انداز میں سامنے لانے سے اس مفاد کے تحفظ میں مدد ملے گی۔‘‘ (اسلام، معاشیات اور ادب، ص ۴۲۰)
خلافت عثمانیہ کے آخری دور میں اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہریوں کے لیے مسلمان شہریوں کے مساوی سیاسی ومعاشرتی حقوق تسلیم کرنے کا اصول صرف جزیہ کے اسقاط تک محدود نہیں رہا، بلکہ بعض دوسرے اہم امتیازات کے حوالے سے بھی کلاسیکی فقہی قوانین پرنظر ثانی کی گئی۔ مثال کے طو پر فقہا نے مسلمان کے خلاف کسی غیر مسلم کی گواہی کو اس بنیاد پر ناقابل قبول قرار دیا ہے کہ اس سے مسلمانوں پر غیر مسلموں کی بالادستی قبول کرنا لازم آتا ہے جو کہ درست نہیں، تاہم ’’مجلۃ الاحکام العدلیہ‘‘ میں فقہی ذخیرے میں بیان ہونے والے، گواہ کے مطلوبہ اوصاف میں سے مسلمان ہونے کی شرط حذف کر دی گئی ہے۔ (مجلۃ الاحکام العدلیہ، مادۃ ۱۶۸۶، ۱۷۰۰۔۱۷۰۵) جدید جمہوری تصورات کے تحت قائم ہونے والی بعض اسلامی ریاستوں، مثلاً پاکستان میں اسی کے مطابق قانون سازی کی گئی ہے اور حدود وقصاص کے علاوہ کسی معاملے میں مسلم اور غیر مسلم گواہوں کے مابین تفریق نہیں کی گئی۔
اسی طرح روایتی فقہی تصور میں قاضی کا مسلمان ہونا اس منصب کے لیے اہلیت کی بنیادی شرائط میں شمار کیا گیا ہے اور ایک اسلامی ریاست میں کسی غیر مسلم کے منصب قضا پر فائز ہونے کی کوئی گنجایش تسلیم نہیں کی گئی۔ تاہم ’’مجلۃ الاحکام العدلیہ‘‘ میں قاضی کے مطلوبہ اوصاف کے ضمن میں، کلاسیکی فقہی موقف کے برعکس، اس کے مسلمان ہونے کی شرط کا سرے سے کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ (مجلۃ الاحکام العدلیہ، مادۃ ۱۷۹۲۔ ۱۷۹۴) اسی بنیاد پر بہت سے مسلم ممالک میں غیر مسلموں کو منصب قضا پر فائز کرنے کا طریقہ اختیار کر لیا گیا ہے۔ (وہبہ الزحیلی، الفقہ الاسلامی وادلتہ ۶/۷۴۴) مثال کے طور پر پاکستان میں دستوری طور پر صدر اور وزیر اعظم کے لیے تو مسلمان ہونے کی شرط موجود ہے، لیکن کسی دوسرے منصب کے لیے ایسی کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔ غیر مسلم ججوں کا اعلیٰ ترین مناصب پر تقرر عملاً بھی قبول کیا گیا ہے اور کم از کم ایک قانونی ایشو کے طور پر یہ مسئلہ کبھی نہیں اٹھایا گیا، بلکہ اسلامی نظریاتی کونسل نے ۲۰۰۷ء اپنی سفارشات میں باقاعدہ یہ تجویز کیا ہے کہ ’’قانون کی باقاعدہ تدوین کے بعد جج کے مسلمان ہونے کی شرط غیر ضروری ہے۔ غیر مسلم جج بھی قانون کو پوری طرح سمجھ لینے کے بعد ہر نوعیت کے مقدمات کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔‘‘ (’’حدودوتعزیرات: اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کا جائزہ‘‘، شائع کردہ اسلامی نظریاتی کونسل حکومت پاکستان، ۹)

جاوید احمد غامدی کا نقطہ نظر

گزشتہ سطور میں ہم نے امت مسلمہ کی علمی وفقہی روایت کے بعض ایسے پہلووں کا ذکر کیا ہے جن سے واضح ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے اپنے دور میں منکرین حق کے خلاف جو قتال کیا، اس کی خاص نوعیت اور اس پر مرتب ہونے والے نتائج کو اہل علم کسی نہ کسی زاویے سے عمومی طور پر محسوس کرتے چلے آ رہے ہیں۔ تاہم اس بحث کو بالعموم چونکہ فقہی تناظر میں دیکھا گیا اور اس کو نسخ وتخصیص کی فنی اصطلاحات کے اسلوب میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی، اس وجہ سے الجھن برقرار رہی اور ہر دور میں اہل علم اس کے حل کے لیے نئی سے نئی توجیہات پیش کرنے پر مجبور ہوتے رہے۔ اس کے برعکس مولانا حمید الدین فراہی نے اس سارے معاملے کو پہلی مرتبہ فقہی اصطلاحات کے محدود اور ناکافی دائرے سے نکال کر قرآن مجید میں بیان کردہ سنن الٰہیہ کے دائرے میں رکھ کر سمجھنے کی کوشش کی۔ مولانا نے رسولوں کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کی ایک خاص سنت کو قرآن مجید سے دریافت کیا اور اس کے روبہ عمل ہونے کے مختلف مراحل نصوص کی روشنی میں متعین کیے۔ اس بحث کو بعد میں ان کے طریقے پر قرآن مجید پر غور کرنے والے اہل علم، مثلاً مولانا امین احسن اصلاحی اور جاوید احمد غامدی نے مزید منقح کیا اور اس کی روشنی میں احکام قتال کی ایک نئی تعبیر پیش کی۔ رسولوں کے باب میں زیر بحث سنت الٰہی کی وضاحت فراہی مکتب فکر کے نمائندہ تینوں اہل علم، مولانا فراہی، مولانا اصلاحی اور جاوید احمد غامدی نے کی ہے۔ ان حضرات کے ہاں اس حوالے سے اجمال وتفصیل کا فرق بھی موجود ہے اور مولانا فراہی سے جاوید احمد غامدی تک اس قانون کی تشریح وتفصیل میں ایک ارتقا بھی واقع ہوا ہے جس کے لیے ان اہل علم کی تصانیف کا براہ راست مطالعہ مفید ہوگا۔ 
جناب جاوید احمد غامدی نے اپنی مختلف تحریروں میں عہد نبوی وعہد صحابہ میں جہاد وقتال کے مختلف پہلووں پر جو بحث کی ہے، اس کا حاصل درج ذیل نکات کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے:
۱۔ منصب رسالت پر فائز کوئی ہستی جب کسی قوم میں مبعوث کر دی جاتی ہے تو اس فیصلے کے ساتھ کی جاتی ہے کہ رسول اور اس کے پیروکار اپنے مخالفوں پر بہرحال غالب آ کر رہیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جزیرہ نماے عرب میں مبعوث کیا گیا تو اس سنت الٰہی کے مطابق یہ دوٹوک اعلان کر دیا گیا کہ آپ کی مخالفت کرنے والے تمام مذاہب کے پیروکاروں کے لیے مغلوبیت اور محکومیت مقدر ہو چکی ہے۔
۲۔ اس غلبے کے حصول کی حکمت عملی میں دعوت وتبلیغ کے ساتھ ساتھ ’جہاد وقتال‘ بھی ایک لازمی عنصر کے طور پر شامل تھا، چنانچہ یہ ہدف ’ویکون الدین للہ‘ کے الفاظ میں آغاز ہی میں واضح کر دیا گیا تھا۔ البتہ اس وعدے کا عملی ظہور دو مرحلوں میں ہوا۔ جزیرۂ عرب کی حد تک تو اس دین کو خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں غالب کر دیا گیا، چنانچہ مدنی عہد نبوت میں غلبہ دین کی جدوجہد مختلف ادوار سے گزرنے کے بعد جب اپنے آخری مراحل کو پہنچی تو باطل ادیان پر دین حق کے غلبہ کی دو صورتیں متعین طور پر واضح کر دی گئیں۔ مشرکین کے لیے تو لازم کیا گیا کہ وہ دائرۂ اسلام میں داخل ہو جائیں، ورنہ انھیں قتل کر دیا جائے گا، جبکہ اہل کتاب سے کہا گیا کہ وہ جزیہ دے کر مسلمانوں کی محکومی اور زیردستی قبول کر لیں۔ جزیرۂ عرب سے باہر روم، فارس اور مصر کی سلطنتوں تک اس غلبے کی توسیع کی ذمہ داری صحابہ کرام پر عائدکی گئی جنھیں اس مقصد کے لیے ’شہادت علی الناس‘ کے منصب پر فائز کیا گیا تھا۔
۳۔ قانون رسالت کی رو سے پیغمبر کی مخاطب اقوام پر مذکورہ سنت الٰہی کا نفاذ خدا کے براہ راست اذن کے تحت کیا جاتا ہے اور اس میں انسانوں حتیٰ کہ پیغمبروں کے اجتہادی فیصلے کا بھی کوئی دخل نہیں ہوتا۔ مزید یہ کہ رسول اور اس کے پیروکاروں کا یہ غلبہ پوری دنیا کی قوموں پر نہیں، بلکہ ان مخاطبین پر ہوتا ہے جن پر اتمام حجت کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا نافذ کرنے کا اذن مل جاتا ہے۔ اس اصول کے تحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے متبعین نے جو جہاد کیا، وہ غلبہ دین کے اسی وعدے کی تکمیل کے لیے اور انھی اقوام تک محدود تھا جن کے خلاف اقدام کی اجازت اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی تھی اور جن کی تعیین نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سربراہوں کو خطوط لکھ کر، کر دی تھی۔ چنانچہ اسلامی تاریخ کے صدر اول میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیروکاروں کے ہاتھوں جزیرۂ عرب اور روم وفارس کی سلطنتوں پر دین حق کا غلبہ قائم ہو جانے کے بعد غلبہ دین کے لیے جہاد وقتال کے حکم کی مدت نفاذ خود بخود ختم ہو چکی ہے۔ یہ شریعت کا کوئی ابدی اور آفاقی حکم نہیں تھا اور نہ اس کا ہدف پوری دنیا پر تلوار کے سائے میں دین کا غلبہ اور حاکمیت قائم کرنا تھا۔ اس کے بعد قیامت تک کے لیے جہاد وقتال کا اقدام دین کے معاملے میں عدم اکراہ اور غیر محارب کفار کے ساتھ جنگ سے گریز کے ان عمومی اخلاقی اصولوں کے دائرے میں رہتے ہوئے ہی کیا جائے گا جو قرآن مجید کے نصوص میں مذکور ہیں۔
اس ضمن میں جناب جاوید احمد غامدی کی متعلقہ تصریحات حسب ذیل ہیں:
قرآن مجید کو ’’پیغمبر کی سرگزشت انذار‘‘ کا عنوان دیتے ہوئے انھوں نے عہد نبوی وعہد صحابہ میں جہاد وقتال کے مخصوص پس منظر اور ان احکام کی تحدید وتخصیص کی علمی اساس کو یوں واضح کیا ہے:
’’اپنے مضمون کے لحاظ سے قرآن ایک رسول کی سرگزشت انذار ہے۔ اسے شروع سے آخر تک پڑھیے۔ یہ حقیقت اس کے ہر صفحے پر ثبت نظر آئے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے محض ایک مجموعہ قانون وحکمت نہیں، بلکہ پیغمبر کے لیے اپنی قوم کو انذار کا ذریعہ بنا کر نازل کیا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے:
واوحی الی ہذا القرآن لانذرکم بہ ومن بلغ (الانعام ۶:۱۹)
’’اور میری طرف سے یہ قرآن اس لیے وحی کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعے سے میں تمھیں انذار کروں اور ان کو بھی جنھیں یہ پہنچے۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق معلوم ہے کہ آپ نبوت کے ساتھ رسالت کے منصب پر بھی فائز تھے۔ اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو خلق کی ہدایت کے لیے مبعوث فرماتے ہیں اور اپنی طرف سے وحی والہام کے ذریعے سے ان کی رہنمائی کرتے ہیں، انھیں نبی کہا جاتا ہے۔ لیکن ہر نبی کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ رسول بھی ہو۔ رسالت ایک خاص منصب ہے جو نبیوں میں سے چند ہی کو حاصل ہوا ہے۔ قرآن میں اس کی تفصیلات کے مطابق رسول اپنے مخاطبین کے لیے خدا کی عدالت بن کر آتا ہے اور ان کا فیصلہ کر کے دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ قرآن بتاتا ہے کہ رسولوں کی دعوت میں یہ فیصلہ انذار، انذار عام، اتمام حجت اور ہجرت وبراء ت کے مراحل سے گزر کر صادر ہوتا اور اس طرح صادر ہوتا ہے کہ آسمان کی عدالت زمین پر قائم ہو جاتی ہے، خدا کی دینونت کا ظہور ہوتا ہے اور رسول کے مخاطبین کے لیے ایک قیامت صغریٰ برپا کر دی جاتی ہے۔ اس دعوت کی جو تاریخ قرآن میں بیان ہوئی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر بالعموم دو ہی صورتیں پیش آتی ہیں: ایک یہ کہ پیغمبر کے ساتھ بھی تعداد میں کم ہوتے ہیں اور اسے کوئی دار الہجرت بھی میسر نہیں ہوتا۔ دوسرے یہ کہ وہ معتد بہ تعداد میں اپنے ساتھیوں کو لے کر نکلتا ہے اور اس کے نکلنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کسی سرزمین میں اس کے لیے آزادی اور تمکن کے ساتھ رہنے بسنے کا سامان کر دیتے ہیں۔ ....... نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں یہی دوسری صورت پیدا ہوئی۔ چنانچہ آپ کی طرف سے انذار، انذار عام، اتمام حجت، ہجرت وبراء ت اور اپنے مخالفین وموافقین کے لیے جزا وسزا کی یہ سرگزشت ہی قرآن کا موضوع ہے۔ اس کی ہر سورہ اسی پس منظر میں نازل ہوئی ہے اور اس کے تمام ابواب اسی لحاظ سے مرتب کیے گئے ہیں۔ قرآن کی شرح وتفسیر میں جو چیزیں اس رعایت سے اس کے ہر طالب علم کے پیش نظر رہنی چاہییں، وہ یہ ہیں:
اولاً، اس کی ہر سورہ میں تدبر کر کے اس کا زمانہ نزول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے انھی مراحل کے لحاظ سے اس طرح متعین کرنا چاہیے کہ اس کے بارے میں یہ بات پورے اطمینان کے ساتھ کہی جا سکے کہ مثال کے طور پر، یہ زمانہ انذار میں نازل ہوئی ہے یا زمانہ ہجرت وبراء ت اور جزا وسزا میں، اور اس کی ہر آیت کامدعا اسی پس منظر میں سمجھنا چاہیے۔
ثانیاً، اس کی ہر سورہ کے بارے میں یہ طے کرنا چاہیے کہ اس کے مخاطب اصلاً زمانہ رسالت کے مشرکین ہیں، اہل کتاب ہیں، منافقین ہیں یا پیغمبر اور اس کے ساتھیاہل ایمان یا ان مخاطبین کی کوئی خاص جماعت۔ اسی طرح طے کرنا چاہیے کہ تبعاً ان میں سے کس کی طرف اور کہاں کوئی التفات ہوا ہے۔ چنانچہ اس کی ہر ضمیر کا مرجع، ہر لام تعریف کا معہود اور ہر تعبیر کا مصداق پھر اسی روشنی میں واضح کرنا چاہیے۔
ثالثاً، اس میں غلبہ حق، استخلاف فی الارض اور جہاد وقتال کی آیات سے متعلق یہ بات بالخصوص پوری تحقیق کے ساتھ متعین کرنی چاہیے کہ ان میں کیا چیز شریعت کا حکم اور خدا کا ابدی فیصلہ ہے اورکیا چیز اسی انذار رسالت کے مخاطبین کے ساتھ خاص کوئی قانون ہے جو اب لوگوں کے لیے باقی نہیں رہا۔‘‘ (میزان، ص ۴۸، ۴۹)
’’قرآن میں یہ اسلوب جگہ جگہ اختیار کیا گیا ہے کہ بظاہر الفاظ عام ہیں، لیکن سیاق وسباق کی دلالت پوری قطعیت کے ساتھ واضح کر دیتی ہے کہ ان سے مراد عام نہیں ہے۔ قرآن ’الناس‘ کہتا ہے، لیکن ساری دنیا کا تو کیا ذکر، بارہا اس سے عرب کے سب لوگ بھی اس کے پیش نظر نہیں ہوتے۔ وہ ’علی الدین کلہ‘ کی تعبیر اختیار کرتا ہے، لیکن اس سے دنیا کے سب ادیان مراد نہیں لیتا۔ وہ ’المشرکون‘ کے الفاظ استعمال کرتا ہے، لیکن انھیں سب شرک کرنے والوں کے معنی میں استعمال نہیں کرتا۔ وہ ’ان من اہل الکتاب‘ کے الفاظ لاتا ہے، لیکن اس سے پورے عالم کے اہل کتاب مراد نہیں ہوتے۔ وہ ’الانسان‘ کے لفظ سے اپنا مدعا بیان کرتا ہے، لیکن اس سے ساری اولاد آدم کا ذکر مقصود نہیں ہوتا۔ یہ قرآن کا عام اسلوب ہے جس کی رعایت اگر ملحوظ نہ رہے تو قرآن کی شرح ووضاحت میں متکلم کا منشا بالکل باطل ہو کر رہ جاتا ہے اور بات کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے، لہٰذا ناگزیر ہے کہ اس معاملے میں قرآن کے عرف اور اس کے سیاق وسباق کی حکومت اس کے الفاظ پر ہر حال میں قائم رکھی جائے۔‘‘ (میزان ص ۲۳، ۲۴)
جزیرۂ عرب سے باہر صحابہ کے جہاد کی نوعیت اور اس کی شرعی اساس کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 
’’قرآن نے بتایا ہے کہ شہادت کا یہ منصب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ذریت کو بھی اسی طرح حاصل تھا۔ لہٰذا آپ پر ایمان لانے کے بعد وہ جب ’’خیر امت‘‘ بن کر اٹھے تو ان کے ذریعے سے یہ جزیرہ نماے عرب سے باہر کی اقوام پر بھی قائم ہو گئی۔ قرآن نے صراحت کی ہے کہ ذریت ابراہیم کو اللہ تعالیٰ نے اس شہادت کے لیے اسی طرح منتخب کیا تھا، جس طرح وہ بنی آدم میں سے بعض جلیل القدر ہستیوں کو نبوت ورسالت کے لیے منتخب کرتا ہے۔‘‘ (اشراق، مئی ۲۰۰۳، ۴۱، ۴۲)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت جزیرہ نماے عرب سے باہر قریب کی تمام قوموں کے سامنے بھی پیش کر دی اور ان کے سربراہوں کو خط لکھ کر ان پر واضح کر دیا کہ اب اسلام ہی ان کے لیے سلامتی کی ضمانت بن سکتا ہے۔ اس کے معنی یہ تھے کہ خدا کی جو حجت آپ کے ذریعے سے عرب کے مشرکین اور یہود ونصاریٰ پر قائم ہوئی ہے، وہ آپ کے دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے جزیرہ نما سے باہر کی ان قوموں پر بھی قائم ہو جائے گی۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ رسولوں کی طرف سے اتمام حجت کے بعد دنیا ہی میں جزا وسزا کے قانون کا اطلاق ان قوموں پر بھی کیا جائے۔ چنانچہ یہی ہوا اور جزیرہ نما میں اپنی حکومت مستحکم کر لینے کے بعد صحابہ کرام اس اعلان کے ساتھ ان اقوام پر حملہ آور ہو گئے کہ اسلام قبول کرو یا زیردست بن کر جزیہ دینے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ اس کے سوا اب زندہ رہنے کی کوئی صورت تمھارے لیے باقی نہیں رہی۔‘‘ (میزان، ص ۶۰۱)
جاوید احمد غامدی کے نزدیک یہ اقدامات چونکہ دراصل ایک سنت الٰہی کا نفاذ تھے، اس لیے ان سے شریعت کا کوئی عمومی حکم اخذ نہیں کیا جا سکتا۔ لکھتے ہیں:
’’اس کا حکم قرآن میں دو صورتوں کے لیے آیا ہے:
ایک، ظلم وعدوان کے خلاف،
دوسرے، اتمام حجت کے بعد منکرین حق کے خلاف۔
پہلی صورت شریعت کا ابدی حکم ہے اور اس کے تحت جہاد اسی مصلحت سے کیا جاتا ہے جو اوپر بیان ہوئی ہے۔ دوسری صورت کا تعلق شریعت سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے قانون اتمام حجت سے ہے جو اس دنیا میں ہمیشہ اس کے براہ راست حکم سے اور انھی ہستیوں کے ذریعے سے رو بہ عمل ہوتا ہے جنھیں وہ ’’رسالت‘‘ کے منصب پر فائز کرتا ہے۔ ...... اس قانون کی رو سے اللہ کی حجت جب ان رسولوں کے ذریعے سے کسی قوم پر پوری ہوتی ہے تو ان کے منکرین پر اسی دنیا میں عذاب آ جاتا ہے۔ یہ عذاب آسمان سے بھی آتا ہے اور بعض حالات میں اہل حق کی تلواروں کے ذریعے سے بھی۔ پھر اس کے نتیجے میں منکرین لازماً مغلوب ہو جاتے ہیں اور ان کی سرزمین پر حق کا غلبہ پوری قوت کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اتمام حجت کے بعد یہی دوسری صورت پیش آئی۔ چنانچہ آپ کو اور آپ کے صحابہ کو جس طرح ظلم وعدوان کے خلاف قتال کا حکم دیا گیا، اسی طرح اس مقصد کے لیے بھی تلوار اٹھانے کی ہدایت ہوئی۔ یہ خدا کا کام تھا جو انسان کے ہاتھوں سے انجام پایا۔ اسے ایک سنت الٰہی کی حیثیت سے دیکھنا چاہیے۔ انسانی اخلاقیات سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ’یعذبہم اللہ بایدیکم‘ (اللہ انھیں تمھارے ہاتھوں سے سزا دے گا) کے الفاظ میں یہی حقیقت بیان ہوئی ہے۔‘‘ (میزان، ص ۵۷۹، ۵۸۰)
’’یہ محض قتال نہ تھا، بلکہ اللہ تعالیٰ کا عذاب تھا جو اتمام حجت کے بعد سنت الٰہی کے عین مطابق اور ایک فیصلہ خداوندی کی حیثیت سے پہلے عرب کے مشرکین اور یہود ونصاریٰ پر اور اس کے بعد عرب سے باہر کی اقوام پر نازل کیا گیا۔ لہٰذا یہ بالکل قطعی ہے کہ منکرین حق کے خلاف جنگ اور اس کے نتیجے میں مفتوحین پر جزیہ عائد کر کے انھیں محکوم اور زیر دست بنا کر رکھنے کا حق ان اقوام کے بعد اب ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ہے۔ قیامت تک کوئی شخص اب نہ دنیا کی کسی قوم پر اس مقصد سے حملہ کر سکتا ہے اور نہ کسی مفتوح کو محکوم بنا کر اس پر جزیہ عائد کرنے کی جسارت کر سکتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے قتال کی ایک ہی صورت باقی رہ گئی ہے، اور وہ ظلم وعدوان کے خلاف جنگ ہے۔ اللہ کی راہ میں قتال اب یہی ہے۔ اس کے سوا کسی مقصد کے لیے بھی دین کے نام پر جنگ نہیں کی جا سکتی۔‘‘ (میزان، ص ۶۰۱)

مولانا مودودی کی تعبیر جہاد

عصر حاضر کے ممتاز عالم اور مفکر مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے جہاد سے متعلق اسلامی شریعت کے تصور اور اس کے احکام کی تعبیر وتشریح کو ایک خاص زاویے سے موضوع بحث بنایا ہے۔ ان کا نقطہ نظر اس حوالے سے خاص اہمیت رکھتا ہے کہ انھوں نے فقہا کے روایتی موقف کے مطابق جہاد وقتال کے اس ہدف سے تو اتفاق کیا ہے کہ اس کے ذریعے سے دنیا کی غیر مسلم اقوام پر اسلام کی سیاسی حاکمیت قائم کر دی جائے، تاہم اس کی فکری اور فلسفیانہ اساس کے ضمن میں انھوں نے فقہا سے مختلف ایک متبادل تعبیر پیش کی ہے۔ مولانا نے اپنے فہم کے مطابق اسلام کے فلسفہ جہاد کو ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ کے نام سے اپنی ابتدائی تصنیف میں بھی واضح کیا ہے اور اس کے بعد مختلف تحریروں میں اور بالخصوص ’’تفہیم القرآن‘‘ کے اہم مقامات پر بھی اس کے مختلف پہلووں کی وضاحت کی ہے۔ اس سارے مواد کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مولانا کے فکر وفہم میں ایک ارتقا پایا جاتا ہے، بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ میں پیش کی گئی تعبیر اور ’’تفہیم القرآن‘‘ وغیرہ میں اختیار کیے گئے نقطہ نظر میں زاویہ نگاہ کے لحاظ سے جوہری فرق پایا جاتا ہے۔ یہاں ہم ان کی تحریروں سے سامنے آنے والے ان مختلف زاویہ ہاے نگاہ کا الگ الگ مطالعہ کریں گے۔

’الجہاد فی الاسلام‘

’الجہاد فی الاسلام‘ میں مولانا نے بنیادی طور پر اسلام کے تصور جہاد کی عقلی واخلاقی توجیہ کو موضوع بنایا ہے اور یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اخلاقیات کے مسلمہ اصولوں کے تحت جہاد کے اس تصور پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ مولاناواضح کرتے ہیں کہ جہاں تک ایمان وعقیدہ اور دین ومذہب کا تعلق ہے تو وہ سراسر انسان کے اپنے ارادہ واختیار پر مبنی ہے اور اس معاملے میں جبر واکراہ کا طریقہ ناجائز ہے۔ اس ضمن میں قرآن مجید میں دی جانے والی ہدایات میں کوئی نسخ واقع نہیں ہوا اور یہ ہدایات بدستور قابل عمل اور محکم ہیں۔ چنانچہ کسی شخص یا گروہ کو اسلام قبول نہ کرنے کے جرم میں تہہ تیغ نہیں کیا جا سکتا اور نہ اس بنا پر اس کے خلاف اقدام جنگ کیا جا سکتا ہے۔ ان کے نزدیک جہاد وقتال کے لیے وجہ جواز اور نظری اساس دین ومذہب کا اختلاف نہیں، بلکہ معروف اور مسلمہ انسانی اخلاقیات ہے۔ اس ضمن میں مولانا کے استدلال کو حسب ذیل مقدمات کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے:
۱۔ انسانی تمدن کی بنیاد انسانی جان کی حرمت پر قائم ہے اور انسان کے تمدنی حقوق میں سب سے پہلا حق اس کے زندہ رہنے کا حق ہے۔ یہ نہ صرف تمدن کی تشکیل اور اس کی بقا وارتقا کے لیے ناگزیر ہے، بلکہ کسی فائدے یا عداوت کی خاطر کسی دوسرے انسان کی جان لے لینا فی نفسہ ایک بدترین اخلاقی جرم ہے۔ انسانی جان کی حرمت کا یہ اصول دنیا کے تمام مذاہب، اخلاقی تعلیمات اور تہذیبوں میں مانا گیا ہے اور قرآن مجید نے ناحق کسی ایک انسان کی جان لینے کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا ہے۔ (ص ۲۳، ۲۴)
۲۔ انسانی جان کو حاصل یہ حرمت مطلق نہیں بلکہ اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ انسان معاشرت اور تمدن میں جائز حدود کے اندر زندگی بسر کرے اور دوسرے انسانوں کے جان ومال، حقوق ومفادات اور آزادی پر دست درازی نہ کرے۔ اگر کوئی انسان ان حدود کو پامال کر کے کسی کی جان پر تعدی کرے یا فتنہ وفساد کا مرتکب ہو تو اس کی جان کو تحفظ حاصل نہیں رہتا بلکہ فتنہ وفساد کے خاتمے کے لیے اس کے شر سے تعرض کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ قصاص یعنی جان کے بدلے میں جان لینے کا طریقہ اسی اصول پر مبنی ہے اور اس کے بغیر دنیا میں شر وفساد کی جڑ کاٹنا، حق داروں کے حقوق کو محفوظ رکھنا اور سرکشوں کو ان کے جائز حدود میں رکھنا ممکن نہیں۔ (ص ۲۹۔۳۳)
۳۔ سرکشی، تعدی اور فتنہ وفساد کا مرض جس طرح افراد میں پیدا ہو سکتا ہے، اسی طرح گروہ اور جماعتیں بھی اس کی مرتکب ہو سکتی ہیں، چنانچہ قصاص کا یہ قانون جس طرح افراد کے لیے ہے، گروہوں او رجماعتوں کے لیے بھی ہے۔ اگر کوئی گروہ طاقت اور قوت کے بل بوتے پر دوسرے گروہوں کی مال ودولت اور تجارت ومعیشت کو برباد کرنے کی کوشش کرے یا کمزور اور پست طبقات پر اپنی بالادستی قائم کر کے انھیں ظلم وستم کا نشانہ بنائے یا جہانگیری اور کشور ستانی کے شوق میں دوسری قوموں کی آزادی اور خود مختاری کو سلب کرے یا بندگان خدا سے اپنے ارادے اور ضمیر کے مطابق عقیدہ ومذہب کے اختیار کرنے کی آزادی چھین لے تو اس کے خلاف جنگ کرنا اور اس کے ظلم وستم کا خاتمہ کر دینا ایک اخلاقی فرض کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ (ص ۳۴۔۳۶)
۴۔ اس بنیادی مقدمے کے تحت اسلامی شریعت میں دو صورتوں میں جنگ کو مشروع قرار دیا گیا ہے: ایک مدافعانہ جنگ اور دوسری مصلحانہ جنگ۔ مدافعانہ جنگ کا مطلب واضح ہے، یعنی یہ کہ کفار کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف کیے جانے والے حملوں اور ظلم وزیادتی کی مدافعت کی جائے اور مسلمانوں کے جان ومال اور دین ومذہب کو ان کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رکھا جائے۔ جنگ کی دوسری صورت ’مصلحانہ جنگ‘ ہے جس کا مقصد بنی نوع انسان کی اخلاقی تطہیر اور انسانی تمدن سے بدی، شر، منکرات اور فتنہ وفساد کا خاتمہ کرنا ہے۔ 
۵۔ مذکورہ دو صورتوں میں سے پہلی صورت میں جنگ کی نظری وجہ بھی مسلم اور واضح ہے اور اس پر مبنی شرعی حکم یعنی اپنے خلاف ہونے والی جارحیت کو روکنا اور دشمن سے اس کا انتقام لینا بھی انسانوں کے مابین متفق علیہ اور غیر متنازع فیہ ہے، البتہ دوسری صورت میں جنگ کا مقصد تو معروف اور مسلمہ اخلاقی تصورات سے متعلق ہے، لیکن اس مقصد کے لیے جنگ کا جائز ہونا اسلام کی ایک منفرد تعلیم ہے جو بذات خود اخلاقیات کے ایک اعلیٰ اور بے غرض تصور پر مبنی ہے۔ مولانا کی راے میں امت مسلمہ پر یہ ذمہ داری اس کے مقصد وجود کے لحاظ سے عائد ہوتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو ’خیر امت‘ کا لقب دیا ہے اور اس کی ذمہ داری یہ بیان کی ہے کہ وہ اپنی قومی حیثیت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے۔ چنانچہ اگر منکرات کے شیوع اور برائیوں کے فروغ کے نتیجے میں دنیا کی قوموں کی اخلاقی، مادی اور روحانی زندگی برباد ہو رہی ہو تو ایک طرف نیکی کے ساتھ محبت اور بدی کے ساتھ نفرت اور دوسری طرف بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی او رخیر خواہی کا جذبہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ مسلمان اقوام عالم کی اصلاح کے لیے ہر قسم کی صلاحیت اور قوت و طاقت کو استعمال میں لائیں اور بدی کو مٹانے اور نیکی کو قائم کرنے کی جدوجہد کریں۔
۶۔ اقوام عالم کی اصلاح کا یہ ہدف محض وعظ ونصیحت اور دعوت وتبلیغ کے ذریعے سے حاصل نہیں کیا جا سکتا، اس لیے کہ انسانی تمدن میں اجتماعی سطح پر پیدا ہونے والی تمام اخلاقی خرابیوں کا منبع اور مصدر ایک فاسد نظام حکومت ہوتا ہے۔ ایسا نظام حکومت حق شناسی اور خدا ترسی جیسے اوصاف سے محروم ہوتا ہے اور برائیوں کو پیدا کرنے اور ان کو بقا اور تسلسل دینے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ چنانچہ بدی کے استیصال اور بدکاری کے دفع وانسداد کے لیے ضروری ہے کہ محض دعوت وتبلیغ سے آگے بڑھ کر جنگ وقتال کے ذریعے سے ایسی تمام حکومتوں کو مٹا دیا جائے اور ان کی جگہ خوف خدا اور انسان دوستی پر مبنی ایک عادلانہ ومنصفانہ نظام حکومت قائم کیا جائے جس کا نصب العین نیکی کو پروان چڑھانا اور بدی کو مٹانا ہو اور جس کے کارکنان صرف انسانیت کی بہتری اور خدا کی خوشنودی کے لیے عنان حکومت اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ (الجہاد فی الاسلام ص ۱۱۷، ۱۲۰)
مولانا مودودی کے اصولی نقطہ نظر کی وضاحت کے بعد اب ہم بحث کے بنیادی اور اہم نکات کے حوالے سے اس کا ایک تنقیدی جائزہ لیں گے:
۱۔ سب سے پہلا اور اہم سوال یہ ہے کہ مولانا سورۃ براء ۃ میں مشرکین کو قتل کرنے اور اہل کتاب سے جزیہ وصول کرنے کے احکام کا کیا محل بیان کرتے ہیں۔ ہم واضح کر چکے ہیں کہ ان نصوص میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اتمام حجت کے باجود آپ پر ایمان نہ لانے والے گروہوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا بیان کی گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان احکام کے پس منظر میں عقیدہ ومذہب کا اختلاف واضح طور پر کارفرما ہے۔ تاہم ’الجہاد فی الاسلام‘ میں مولانا نے ان نصوص کی تعبیر کرتے ہوئے حکم کی اس اساس کی واضح طور پر نفی کی اور اس کی تشریح کفر وایمان کی اساس پر کرنے والے اہل علم کے موقف کو غلط ٹھہرایا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’اسلام کی تلوار ایسے لوگوں کی گردنیں کاٹنے کے لیے تو ضرور تیز ہے جو اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں یا اللہ کی زمین میں فتنہ وفساد پھیلاتے ہیں ۔اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس تیزی میں وہ حق بجانب نہیں ہے۔ لیکن جو لوگ ظالم نہیں ہیں، جو بدکار نہیں ہیں، جو صد عن سبیل اللہ نہیں کرتے، جو دین حق کو مٹانے اور دبانے کی کوشش نہیں کرتے، جو خلق خدا کے امن واطمینان کو غارت نہیں کرتے، وہ خوہ کسی قوم سے تعلق رکھتے ہوں اور ان کے دینی عقائد خواہ کتنے ہی باطل ہوں، اسلام ان کی جان ومال سے کچھ تعرض نہیں کرتا۔ان کے لیے اس کی تلوار کند ہے اور اس کی نظروں میں ان کا خون حرام ہے۔‘‘ الجہاد فی الاسلام ص ۱۵۶)
ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:
’’مذہب کے معنی عام اصطلاح کے اعتبار سے بجز اس کے اور کیا ہیں کہ وہ چند عقائد اور چند عبادات اور مراسم کا مجموعہ ہوتا ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے مذہب کو واقعی ایک پرائیویٹ معاملہ ہی ہونا چاہیے۔ آپ کو اختیار ہے کہ جو عقیدہ چاہیں رکھیں اور آپ کا ضمیر جس کی عبادت کرنے پر راضی ہو، اس کو جس طرح چاہیں پکاریں۔ زیادہ سے زیادہ اگر کوئی جوش اور سرگرمی آپ کے اندر اس مذہب کے لیے موجود ہے تو آپ دنیا بھر میں اپنے عقائد کی تبلیغ کرتے پھریے اور دوسرے عقائد والوں سے مناظرے کیجیے۔ اس کے لیے تلوار ہاتھ میں پکڑنے کا کون سا موقع ہے؟ کیا آپ لوگوں کو مار مار کر اپنا ہم عقیدہ بنانا چاہتے ہیں؟ یہ سوال لازمی طور پر پیدا ہوتا ہے جبکہ آپ اسلام کو عام اصطلاح کی رو سے ایک ’’مذہب‘‘ قرار دے لیں، اور یہ پوزیشن اگر واقعی اسلام کی ہو تو جہاد کے لیے حقیقت میں کوئی وجہ جواز ثابت نہیں کی جا سکتی۔‘‘ (تفہیمات ۱/۷۶)
اس بنیادی نکتے کی روشنی میں انھوں نے سورۂ براء ۃ کے حکم ’فاقتلوا المشرکین‘ کا ذکر ’’دغا بازی وعہد شکنی کی سزا‘‘ کے زیر عنوان مدافعانہ جنگ کی ایک ذیلی صورت کے طور پر کیا ہے اور اس کی اساس عقیدہ ومذہب کے بجائے مشرکین کے فتنہ وفساد اور نقض عہد کو قرار دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ حکم عرب کے تمام مشرکین کے بارے میں نہیں، بلکہ صرف ان مشرکوں سے متعلق تھا جنھوں نے مسلمانوں کے خلاف بار بار نقض عہد اور فتنہ وفساد کا ارتکاب کیا تھا۔ (ص ۶۷۔۷۰) مولانا یہاں قتل کے حکم کو بھی کوئی حتمی اور متعین حکم نہیں سمجھتے، بلکہ ان کی رائے میں حکم کامقصد یہ ہے کہ ’’جو لوگ بار بار بد عہدی ودغا بازی کریں اور جن کے عہد واقرار کاکوئی اعتبار نہ رہے اور جو مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں اخلاق وانسانیت کے کسی آئین کا لحاظ نہ رکھیں، ان سے دائمی جنگ کا حکم ہے اور صرف اسی صورت میں ان سے صلح ہو سکتی ہے کہ وہ توبہ کریں اور اسلام لے آئیں، ورنہ ا ن کے اثر سے اسلام اور دار الاسلام کو محفوظ رکھنے کے لیے قتل، گرفتاری، محاصرہ اور ایسی ہی دوسری جنگی تدابیر اختیار کرتے رہنا ضروری ہے۔‘‘ (الجہاد فی الاسلام، ص ۷۰) ’واحصروہم‘ کا ترجمہ انھوں نے یہ کیا ہے کہ ’’اور انھیں گھیر کر محصور کرو (تاکہ بلاد مسلمین میں نہ آ سکیں)‘‘۔ (الجہاد فی الاسلام ص ۶۸) ’فاقتلوا المشرکین‘  کی مذکورہ توجیہ ہی کا نتیجہ ہے کہ مولانا جزیہ قبول کرنے کے معاملے میں مشرکین عرب اور باقی کفار میں کوئی فرق تسلیم نہیں کرتے اور ان کے نزدیک کفا رکے تمام گروہوں سے جزیہ وصول کر کے انھیں اپنے مذہب پر قائم رہنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ (الجہاد فی الاسلام، ص ۱۶۳، ۱۶۴) 
جہاں تک اہل کتاب سے قتال کر کے ان سے جزیہ وصول کرنے کا حکم ہے تو مولانا نے اسے ’مصلحانہ جنگ‘ کے لیے ماخذ قرار دیا ہے اور اس کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ ’’اگر وہ دین حق کو نہیں مانتے تو انھیں اس امر کی آزادی تو دی جا سکتی ہے کہ ماتحت رہ کر اپنے غلط عقائد اور طریقوں پر قائم رہیں، لیکن اس امر کی آزادی نہیں دی جا سکتی کہ اپنے باطل قوانین کو نافذ کر کے اللہ کی زمین میں فتنہ وفساد برپا کریں۔‘‘ (الجہاد فی الاسلام، ۱۲۱) مولانا اس حکم کا محرک بھی کفر وایمان کے اختلاف کو تسلیم نہیں کرتے، چنانچہ انھوں نے آیت میں بیان ہونے اہل کتاب کے اوصاف یعنی ’لا یومنون باللہ ولا بالیوم الآخر.....‘‘ کو قتال کا باعث ماننے کے بجاے محض ان ’’خصوصیات‘‘ کا بیان قرار دیا ہے جن کی وجہ سے اہل کتاب ’’فتنہ وفساد برپا کرنے لگے‘‘۔ (ص ۱۲۱) حکم کی غایت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’قتال کا یہ حکم کسی مذہبی عداوت کی بنا پر نہیں ہے، ورنہ یہ نہ ہوتا کہ اطاعت قبول کرنے سے پہلے جن کے ساتھ جنگ کرنا ضروری ہے، انھی کی جان ومال، اطاعت قبول کرنے کے بعد اس طرح قابل احترام ہو جائے، حالانکہ اطاعت کرنے والوں کے ساتھ مذہبی عداوت کی بھڑاس نکالنا زیادہ آسان ہے۔ علیٰ ہذا القیاس یہ بات بھی بعید از عقل ہے کہ اس حکم قتال کا مقصد محض جزیہ حاصل کرنا ہو۔ کیونکہ چند درہم سالانہ کے عوض اتنی بڑی ذمہ داری اپنے اوپر لے لینا کہ ان کی حفاظت کے لیے ہر دشمن کے سامنے اپنا سینہ سپر کر دیا جائے، کسی طمع پر مبنی نہیں ہو سکتا۔ ..... پس ادائے جزیہ پر قتال کی اباحت ختم کر دینے اور قبول جزیہ کے بعد قیام عدل وامن کی تمام ذمہ داریاں اپنے اوپر لے لینے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس جنگ کا مقصد دراصل ان لوگوں کو فتنہ وفساد سے روکنا اور امن وآئین کا پابند بنانا ہے اور ان پر جزیہ کے نام سے ٹیکس عائد کرنا صرف اس لیے ہے کہ وہ اس حفاظت وصیانت کے مصارف میں شرکت کریں جو انھیں بہم پہنچائی جاتی ہے، اور اطاعت وانقیاد پر قائم رہیں۔‘‘ (الجہاد فی الاسلام، ص ۱۲۳)
’’ٹھیک اسی لمحہ سے اس کا خون حرام ہو جاتا ہے، اس کے مال اور اس کی آبرو کی حفاظت مسلمانوں پر لازم ہو جاتی ہے اور اسلام کی پرامن حکومت میں اس کو پوری آزادی دے دی جاتی ہے کہ تمام جائز طریقوں سے اپنی دولت، اپنی صنعت وتجارت، اپنے علوم وآداب، اپنے تہذیب وتمدن، غرض اپنی اجتماعی وانفرادی زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کرے اور انسانیت کے بلند سے بلند مدارج تک پہنچنے کے لیے جن جن وسائل کی ضرورت ہو، انھیں آزادی کے ساتھ استعمال کرے۔‘‘ (الجہاد فی الاسلام ص ۱۲۶، ۱۲۷)
’جزیہ‘ کو ذلت اور رسوائی کی علامت اور کفار کے کفر کی سزا قرار دینے کے فقہی موقف سے اختلاف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’غیر مسلموں پر جو جزیہ عائد کیا جاتا ہے، وہ درحقیقت کوئی سزا نہیں ہے، بلکہ اس کا مدعا صرف یہ ہے کہ امن وآئین کے پابند ہوں، رضا ورغبت کے ساتھ قانون عدل کی اطاعت کریں اور اپنی استطاعت کے مطابق اس حکومت کے مصارف ادا کریں جو انھیں پر امن زندگی بسر کرنے کا موقع دیتی ہے، ظلم وتعدی سے محفوظ رکھتی ہے، انصاف کے ساتھ حقوق تقسیم کرتی ہے، قوت والوں کو کمزوروں پر ظلم کرنے سے روکتی ہے، کمزوروں کو قوت والوں کا غلام بنانے سے بچاتی ہے، اور تمام سرکش عناصر کو اخلاق وانسانیت کے حدود کا پابند بناتی ہے۔‘‘ (الجہاد فی الاسلام، ص ۱۲۵)
اس تفصیل سے واضح ہے کہ مولانا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے جہاد سے متعلق جملہ نصوص اور واقعات کی توجیہ اصلاً ان کی منصوص اساس سے ہٹ کر بلکہ اس کی نفی کرتے ہوئے کی ہے اور اس ضمن میں ان کا نقطہ نظر متعلقہ نصوص کے علاوہ مسلمہ فقہی موقف سے بھی بالکل مختلف ہے، اس لیے کہ فقہا جہاد کا مقصد اعلاء کلمۃ اللہ اور اعزاز دین کو قرار دیتے ہیں اور اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ کفر اسلام کے مقابلے میں سربلند ہو کر نہیں بلکہ ذلیل اور پست ہو کر رہے اور کفار کو سیاسی لحاظ سے اس طرح خود مختار، مجتمع اور طاقت ور ہونے کا موقع نہ ملے کہ وہ اہل اسلام کے خلاف فتنہ وفساد کا بازار گرم کر سکیں۔ گویا فقہا جہاد کے باب میں کفر وایمان کے اختلاف کو ظلم وعدوان اور فتنہ وفساد سے علیحدہ ایک مستقل علت اور وجہ جواز قرار دیتے ہیں اور ان کی رائے میں مشرکین کو قتل کرنے کا حکم بھی ایمان نہ لانے کی بنیاد پر دیا گیا تھا اور اہل کتاب پر محکومی ومغلوبیت کی سزا بھی دین حق کی پیروی اختیار نہ کرنے ہی کی پاداش میں مسلط کی گئی تھی، جبکہ مولانا مودودی کی تعبیر کا بنیادی نکتہ ہی یہ ہے کہ ایک مخصوص ’عقیدے‘ کی حیثیت سے اسلام کو بالجبر لوگوں سے منوانا یا اس کے نہ ماننے پر انھیں کوئی سزا دینا اپنے لیے کوئی وجہ جواز نہیں رکھتا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مولانا جنگ کی وجہ فتنہ کو قرار دیتے ہوئے ’وقاتلوہم حتی لا تکون فتنۃ‘ کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں، لیکن اس سے اگلے جملے ’ویکون الدین للہ‘ سے کوئی تعرض نہیں کرتے، حتیٰ کہ متعدد مقامات پر اس آیت کو نقل کرتے ہوئے انھوں نے ’ویکون الدین للہ‘ کا جملہ کاٹ کر اسے نقل کیا ہے۔ (الجہاد فی الاسلام ص ۴۰، ۱۰۴، ۱۲۶) جبکہ ’کلمۃ اللہ ہی العلیا‘ کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ ’’کافروں کے خود ساختہ قوانین کا منسوخ ہو جانا اور ان کی جگہ اللہ کے اس قانون عدل کا بول بولا ہونا جو بنی نوع انسان کے درمیان ہر قسم کے شیطانی امتیازات کو مٹا کر صرف حق وباطل اور بدی وتقویٰ کا امتیاز قائم کرتا ہے اور ظالموں کے سوا ہر شخص کو امن وآزادی کی خوشخبری دیتا ہے۔‘‘ (ص ۱۲۶) 
اہل ذمہ کے حوالے سے عہد صحابہ اور بعد کی فقہی روایت میں جو قوانین اور احکام بیان ہوئے ہیں، ان کی تعبیر میں بھی مولانا کا طرز فکر معروضی نہیں۔ مثال کے طور پر صحابہ نے آیت جزیہ میں ’وہم صاغرون‘ سے استنباط کرتے ہوئے اپنے دورمیں مفتوح ہونے والے غیر مسلموں کے لیے بہت سے امتیازی قوانین اور علامات مقرر کی تھیں جس کا مقصد انھیں توہین وتحقیر کا احساس دلانا تھا۔ مولانا ان کے اس اقدام کی توجیہ بالکل الٹ کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں:
’’اس میں شک نہیں کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے زمانہ کے بعض معاہدات میں اس قسم کی شرط موجود ہے کہ اہل الذمہ ایک خاص قسم کا لباس نہ پہنیں اور مسلمانوں سے مشابہت نہ اختیار کریں۔ .... امام ابویوسف نے بھی اپنی کتاب الخراج میں اس قسم کے احکام بیان کیے ہیں کہ ذمیوں کو مسلمانوں کے ساتھ وضع قطع میں مشابہت اختیار نہ کرنی چاہیے۔ یہ سب احکام بلاشبہ ہمارے ائمہ سے منقول ہیں، لیکن ان کا مقصد دراصل تحقیر نہیں ہے بلکہ مختلف ملتوں کے لوگوں کو باہم خلط ملط ہونے سے روکنا ہے۔ چنانچہ جس طرح ذمیوں کو مسلمانوں کے ساتھ تشبہ اختیار کرنے سے روکا گیا ہے، اسی طرح مسلمانوں کو بھی ذمیوں کے مشابہ بن کر رہنے سے منع کر دیا گیا ہے۔ لباس کے تشبہ میں جو مفاسد پوشیدہ ہیں، ان سے اسلام غافل نہیں ہے۔ خصوصیت کے ساتھ محکوم قوموں میں اکثریہ عیب پیدا ہو جایا کرتا ہے کہ وہ اپنے قومی لباس اور اپنی قومی معاشرت کو ذلیل سمجھنے لگتے ہیں اور حاکم قوم کا لباس اور طرزمعاشرت اختیار کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ ...... نفسیات محکومیت کے اس نکتہ کو ائمہ اسلام خوب سمجھتے تھے، اس لیے نھوں نے اہل الذمہ کو تشبہ بالمسلمین سے منع کر کے ان کی تذلیل وتحقیر نہیں کی بلکہ ان کی قومی عزت وشرافت کو برقرار رکھا۔‘‘ (الجہاد فی الاسلام، ۲۹۸-۳۰۱)
’’بد قسمتی سے فقہاے متاخرین نے بھی اس کی غرض تحقیر ہی سمجھی ہے اور اسی لیے اپنی کتابوں میں لکھ دیا ہے کہ ہذا لاظہار آثار الذلۃ علیہم، لیکن ائمہ سلف سے اس قسم کا کوئی قول منقول نہیں ہے۔‘‘ (حاشیہ ص ۳۰۰)
اسی طرح صحابہ کے دور میں مفتوحہ علاقوں کے غیر مسلموں پر یہ پابندی لگائی گئی تھی کہ وہ مسلمانوں کے شہروں میں اپنے مذہبی شعائر کا علانیہ اظہار نہ کریں اور انھیں اپنی عبادت گاہوں تک محدود رکھیں۔ اس کا مقصد بھی واضح طور پر مذہبی تناظر میں اہل ذمہ کو ان کی محکومیت اور مذہبی آزادی کی محدودیت کا احساس دلانا تھا، لیکن مولانا فرماتے ہیں کہ:
’’امصار مسلمین میں یہ قیود عائد کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تصادم کے مواقع پیدا نہ ہوں۔ افسوس ہے کہ بعد کے لوگوں نے اس کا منشا کچھ اور سمجھا۔‘‘ (ہامش ص ۲۹۱)
مولانا نے صلحاً مسلمانوں کے زیر نگیں آنے والے اور جنگ میں مفتوح ہونے والے اہل ذمہ کے احکام اس انداز سے بیان کیے ہیں کہ صلح کا معاہدہ کرنے والوں پر جزیہ کا نفاذ غیر لازم قرار پاتا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’فقہاے اسلام نے صلحاً فتح ہونے والی قوموں کے متعلق کسی قسم کے قوانین مقرر نہیں کیے اور صرف یہ عام قاعدہ بیان کر کے چھوڑ دیا کہ ان کے ساتھ ہمارا معاملہ بالکل شرائط صلح کے مطابق ہوگا۔ ..... ظاہر ہے کہ صلح نامہ کے لیے قواعد واصول معین نہیں کیے جا سکتے۔ وقت اور موقع کے لحاظ سے جیسی شرائط مناسب ہوں گی، وہی طے کر لی جائیں گی۔‘‘ (الجہاد فی الاسلام، ص ۲۷۶، ۲۷۷)
اس کی تائید میں مولانا نے ابو یوسف کی کتاب الخراج سے نقل کیا ہے کہ ’یوخذ منہم ما صولحوا علیہ ویوفی لہم ولا یزاد علیہم‘، لیکن یہ ایک بالکل غیر متعلق بات ہے، کیونکہ اس میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ اہل صلح کے ساتھ جو بھی شرائط طے کی جائیں ، انھیں پورا کیا جائے۔ اس سے یہ نتیجہ کسی طرح اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ فقہا کے نزدیک صلح کا تمام تر دار ومدار اہل ذمہ کی رضامندی پر ہے اور مسلمان اپنی طرف سے صلح کے لیے کسی شرط پر اصرار نہیں کر سکتے۔ فقہا کا اس پر اتفاق ہے کہ غیر مسلم خواہ صلحاً مسلمانوں کی سیاسی بالادستی کو قبول کریں یا جنگ کے نتیجے میں مفتوح ہو کر، ان پر جزیہ کا نفاذ ضروری ہے، چنانچہ اگر غیر مسلم ’جزیہ‘ کی ادائیگی کے بغیر پر امن تعلقات قائم کرنے کی پیش کش کریں تو قبول نہیں کی جائے گی، حتیٰ کہ اگر وہ اس شرط پر صلح کے لیے آمادہ ہوں کہ ان کو قیدی بنائے بغیر اور مسلمانوں کے ذمہ میں داخل کر کے ان سے جزیہ وصول کیے بغیر انھیں اپنے علاقے سے جلا وطن کر دیا جائے تو بھی مذکورہ شرط پر صلح کرنا جائز نہیں۔ ہاں اگر مسلمان قتال کر کے ان سے جزیہ وصول کرنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں تو مذکورہ شرط پر صلح کی جا سکتی ہے۔ (جصاص، احکام القرآن، ۳/۴۲۸)
عقد ذمہ کی نوعیت بیان کرتے ہوئے مولانا نے بدائع الصنائع کی ایک عبارت کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’عقد ذمہ مسلمانوں کی جانب ابدی لزوم رکھتا ہے یعنی وہ اسے باندھنے کے بعد پھر توڑ دینے کے مختار نہیں ہیں، لیکن دوسری جانب ذمیوں کو اختیار ہے کہ جب تک چاہیں، اس پر قائم رہیں اور جب چاہیں توڑ دیں۔‘‘ (ص ۲۸۹) مولانا کے اسلوب سے اس بات کا مطلب یہ مفہوم ہوتا ہے کہ جیسے اہل ذمہ کے عقد ذمہ کو توڑنے پر مسلمان کوئی اعتراض نہیں کر سکتے، حالانکہ یہ بات بدیہی طور پر غلط ہے۔ فقہا کی مراد یہ ہے کہ اگر کوئی ذمی مسلمان ہونا چاہے یا دار الحرب میں منتقل ہونا چاہے تو عقد ذمہ اس میں مانع نہیں ہوگا، لیکن اگر وہ اپنے علاقے میں اپنی سیاسی خود مختاری قائم کرنا چاہیں تو انھیں اس کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ چنانچہ مولانا نے بدائع الصنائع کی جو عبارت نقل کی ہے، اسی میں دو تین سطروں کے بعد یہ صراحت ہے کہ ’والثالث ان یغلبوا علی موضع فیحاربون‘۔ (تیسری صورت یہ ہے کہ اہل ذمہ کسی علاقے پر اپنا غلبہ قائم کر لیں۔ اس صورت میں ان کے خلاف جنگ کی جائے گی۔)
مولانا نے جزیہ کو عہد وپیمان کی پابندی کی علامت ثابت کرنے کے لیے امام ابن تیمیہ کی ایک عبارت بھی نقل کی ہے اور اس کا بالکل غلط ترجمہ کیا ہے۔ ابن تیمیہ نے لکھا ہے کہ ’والمراد باعطاۂا التزامہا بالعقد‘ ۔ اس کا درست مطلب یہ ہے کہ اہل کتاب کے جزیہ ادا کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بالفعل جزیہ کی رقم حوالے کر دیں، بلکہ یہ ہے کہ معاہدہ کر کے اس کی ادائیگی کی ذمہ داری قبول کر لیں، اگرچہ بالفعل ادائیگی سال گزرنے کے بعد ہی ہو۔ مولانا مودودی نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے: ’’یعنی اس سے مراد صرف یہ ہے کہ وہ عقد معاہدہ پر قائم رہیں۔ جس طرح تمام حکومتوں کے قوانین میں ٹیکس دیتے رہنا وفاداری وپابندی قانون کی دلیل ہے اور نہ ادا کرنا بے وفائی وغداری کی، اسی طرح جزیہ دیتے رہنا بھی پابندئ عہد کی دلیل ہے اور اس کا ادا نہ کرنا نقض عہد کا ہم معنی۔‘‘ (ص ۲۳، ۱۲۴) یہ بات اپنی جگہ درست ہی کیوں نہ ہو، لیکن امام ابن تیمیہ نے مذکورہ عبارت میں یہ بات نہیں کہی۔ اگر مولانا کا بیان کردہ مفہوم ہی مراد ہوتا تو ’والمراد باعطاۂا التزامہا بالعقد‘ کے بجائے ’والمراد باعطاۂا التزام العقد‘ یا اس کے ہم معنی الفاظ ہوتے۔
بعض جگہ مولانا نے اہل ذمہ کے قانونی احکام کے حوالے سے فقہی رجحانات میں سے ایک رجحان کو، جو ان کے اختیار کردہ زاویہ نظر سے ہم آہنگ ہے، یوں بیان کیا ہے جیسے وہ اسلامی قانون کا کوئی متفقہ مسئلہ ہو۔ مثلاً لکھتے ہیں کہ ’’ذمی خواہ کیسے ہی بڑے جرم کا ارتکاب کرے، اس کا ذمہ نہیں ٹوٹتا، حتیٰ کہ جزیہ بند کر دینا، مسلمان کو قتل کرنا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنا یا کسی مسلمان عورت کی آبرو ریزی کرنا بھی اس کے حق میں ناقض ذمہ نہیں ہے۔‘‘ (الجہاد فی الاسلام ص ۲۸۹) حالانکہ فقہا کا ایک بڑا گروہ توہین رسالت کو عہد ذمہ کے لیے ناقض قرار دیتا ہے (ابن القیم، احکام اہل الذمہ ۳/۱۳۷۸۔ ابن حزم، المحلیٰ ۱۳/۲۴۰) بلکہ صحابہ کے آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر اہل ذمہ میں سے کوئی شخص کسی عام مسلمان کی توہین و تذلیل کا مرتکب ہوتا تو وہ اس کو بھی نقض عہد کے مترادف قرار دیتے ہوئے اس پر موت کی سزا نافذ کر دیتے تھے، چنانچہ ایک ذمی نے ایک مسلمان خاتون کو سواری سے گرا دیا جس سے اس کا پردہ کھل گیا، پھر اس نے اس کے ساتھ جماع کرنے کی کوشش کی۔ سیدنا عمر کے سامنے یہ مقدمہ پیش کیا گیا تو انھوں نے اسے سولی چڑھانے کا حکم دے دیا اور فرمایا کہ ہم نے تمھارے ساتھ اس بات پر معاہدہ نہیں کیا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم۲۸۸۳۷۔ مصنف عبد الرزاق، رقم۱۰۱۶۷)
اسی طرح لکھتے ہیں کہ ’’ذمی کے خون کی قیمت مسلمان کے خون کے برابر ہے۔ اگر کوئی مسلمان ذمی کو قتل کرے گا تو اس کا قصاص اسی طرح لیا جائے گا جس طرح مسلمان کے قتل کرنے کی صورت میں لیا جاتا ہے۔ ..... اگر مسلمان کسی ذمی کو بلا ارادہ قتل کر دے تو اس کی دیت بھی وہی ہوگی جو مسلمان کو خطاء قتل کرنے سے لازم آتی ہے۔‘‘ (ص ۲۸۷، ۲۸۸) حالانکہ ذمی کے بدلے میں مسلمان کو قتل کرنے اور اس کی دیت کے مسلمان کے مساوی ہونے کا مسئلہ نہ صرف فقہا کے مابین اختلافی ہے بلکہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین سے بھی اس ضمن میں دونوں طرح کے آثار مروی ہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے ہماری کتاب: حدود وتعزیرات۔چند اہم مباحث، ۱۰۷-۱۲۲)
اسی زاویہ نظر کے تحت مولانا نے بعض فقہی احکام کی توجیہ میں معذرت خواہانہ انداز اختیار کیا ہے۔ مثلاً لکھتے ہیں:
’’مفتوحین کے بارے میں اسلام نے فاتح قوم کا یہ حق تسلیم کیا ہے کہ اگر وہ چاہے تو ان کے تمام ہتھیار اٹھانے والے مردوں کو قتل کر دے، ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لے اور ان کی املاک پر قبضہ کر لے، لیکن طریق اولیٰ یہ بتایا ہے کہ ان کو بھی ذمی بنا لیا جائے اور اسی حال پر رہنے دیا جائے جس پر وہ جنگ سے پہلے تھے۔ آپ کو معلوم ہے کہ اس زمانہ کا عام دستور ہی یہ تھا کہ مفتوحوں کو غلام بنا لیتے، ان کی املاک پر قبضہ کر لیتے اور شہروں کی تسخیر کے بعد قتل عام کر کے ان کی جنگی طاقت کو فنا کر دیتے تھے۔ اسلام کے لیے اس عام وقتی ذہنیت کو دفعۃً بدل دینا مشکل تھا۔ وقت کی روح سے جنگ کرنا اس کے طریق اصلاح کے خلاف تھا۔ اس لیے اس نے ایک طرف رواجوں اور دستوروں سے متاثر دماغوں کو مطمئن کرنے کے لیے پچھلے طریقے کو لفظاً برقرار رکھا اور دوسری طرف رسول اکرم اور آپ کے صحابہ نے اپنی رہنمائی سے مسلمانوں میں اتنی فراخ حوصلگی اور فیاضی کی اسپرٹ پیدا کر دی کہ انھوں نے خود ہی اس اجازت سے فائدہ اٹھانا پسند نہ کیا اور رفتہ رفتہ ایک دوسرا جوابی رواج ایسا پیدا ہو گیا جس نے پچھلے رواج کو عملاً منسوخ کر دیا۔‘‘ (ص ۲۸۳)
اس تناظر میں مولانا کا یہ دعویٰ، جو انھوں نے کتاب کے مقدمے میں کیا ہے، دلچسپ بن جاتا ہے کہ جہاد کے اسلامی تصور کو واضح کرتے ہوئے انھوں نے معترضین کے اعتراضات سے کوئی تاثر قبول نہیں کیا اور نہ اس کا جواب دیتے ہوئے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’میں اس طریقہ سے اصولی اختلاف رکھتا ہوں کہ ہم اپنے عقائد واصول کو دوسروں کے نقطہ نظر کے مطابق ڈھال کر پیش کریں۔ ..... زیادہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے دین کے عقائد اور احکام کو، اس کی تعلیمات اور اس کے قوانین کو ان کے اصلی رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کر دیں اور جو دلائل ہم ان کے حق میں رکھتے ہیں، انھیں بھی صاف صاف بیان کر دیں، پھر یہ بات خود لوگوں کی عقل پر چھوڑ دیں کہ خواہ وہ انھیں قبول کریں یا نہ کریں۔ ...... میں نے خصوصیت کے ساتھ اس امر کا التزام رکھا ہے کہ کہیں اپنے یا دوسرے لوگوں کے ذاتی خیالات کو دخل نہیں دیا، بلکہ تمام کلی وجزئی مسائل خود قرآن مجید سے اخذ کر کے پیش کیے ہیں اور جہاں کہیں ان کی توضیح کی ضرورت پیش آئی ہے، احادیث نبوی، معتبر کتب فقہیہ اور صحیح ومستند تفاسیر سے مدد لی ہے تاکہ ہر شخص کو معلوم ہو جائے کہ آج دنیا کا رنگ دیکھ کر کوئی نئی چیز پیدا نہیں کی گئی ہے بلکہ جو کچھ کہا گیا ہے، سب اللہ اور اس کے رسول اور ائمہ اسلام کے ارشادات پر مبنی ہے۔‘‘ (الجہاد فی الاسلام، ۱۶- ۱۹)
۲۔ مولانا کی زیر بحث تعبیر کے علمی محرک کا تجزیہ کیا جائے تو وہ یہ ہے کہ فقہا کے روایتی موقف سے ہٹ کر قتال کے حکم کی توجیہ خالص مذہبی واعتقادی اساس کے بجاے عدل وانصاف کے قیام اور فتنہ وفساد کے ازالہ کے عمومی اخلاقی اصول پر کی جائے اور اسی کی روشنی میں عالمگیر اسلامی حکومت کے قیام کا جواز بھی ثابت کیا جائے۔ چنانچہ انھوں نے اپنی بیان کردہ اساس ’’ازالہ فتنہ وفساد‘‘ سے مطلوبہ نتیجہ اخذ کرنے کے لیے مختلف قرآنی آیات میں لفظ ’’فساد‘‘ کے استعمالات سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ نظام تمدن وسیاست کا فساد، قوموں کی اخلاقی حالت کا بگاڑ اور جابر وسرکش اور بدکار حکمرانوں کی اطاعت اختیار کرنا، یہ سب امور قرآن کی رو سے اقوام عالم کے خلاف قتال کی مشروعیت کا باعث ہیں اور امت مسلمہ کی منصبی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے باطل نظام ہاے حکومت کے خاتمے کے لیے جہاد کرے۔ (الجہاد فی الاسلام، ۱۰۴-۱۱۷) سادہ لفظوں میں مولانا کے استدلال کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ چونکہ قرآن مجید نے ’فساد فی الارض‘ کو تلوار اٹھانے کے لیے وجہ جواز قرار دیا ہے، اس لیے فساد فی الارض کی مذکورہ تمام صورتوں کا خاتمہ جہاد کی غرض وغایت اور اسلامی حکومت کا فریضہ ہے۔ 
اس استدلال میں جو بنیادی مغالطہ پایا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ اس میں معنوی حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے لفظ کے اشتراک سے حکم کا اشتراک اخذ کر لیا گیا ہے۔ جہاں تک ’فساد‘ کا تعلق ہے تو یقیناًقرآن مجید میں اس کا مفہوم کہیں زیادہ وسیع ہے اور دوسرے انسانوں پر ظلم وتعدی کرنے کے علاوہ بھی اس کی بہت سی دوسری صورتیں ہو سکتی ہیں۔ قرآن مجید نے بعض مقامات پر اس تعبیر کو ایک جامع مفہوم میں استعمال کیا ہے، جبکہ دوسرے مقامات پر اس کی مختلف ذیلی صورتوں پر اس لفظ کا اطلاق کیا گیا ہے۔ لیکن قرآن مجید نے جہاں جہاد کی مشروعیت کی وجہ بیان کرتے ہوئے ’فتنہ‘ اور ’فساد‘ کا ذکر کیا ہے، وہاں سیاق وسباق سے صاف واضح ہے کہ یہاں فتنہ اور فساد کو جس مفہوم میں قتال کے لیے وجہ جواز کہا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ ایک گروہ دوسرے گروہ کے جان ومال اور مذہب پر تعدی کا رویہ اختیار کرے اور خدا کے عطا کردہ انسانی، معاشرتی اور مذہبی حقوق اس سے چھیننے کی کوشش کرے۔ مثلاً مظلوم مسلمانوں کی فریاد پر ان کی مدد کو فرض قرار دیتے ہوئے ارشاد ہوا ہے:
وَإِنِ اسْتَنصَرُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ فَعَلَیْْکُمُ النَّصْرُ إِلاَّ عَلَی قَوْمٍ بَیْْنَکُمْ وَبَیْْنَہُم مِّیْثَاقٌ وَاللّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیْرٌ ۔ وَالَّذیْنَ کَفَرُواْ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاء بَعْضٍ إِلاَّ تَفْعَلُوہُ تَکُن فِتْنَۃٌ فِیْ الأَرْضِ وَفَسَادٌ کَبِیْرٌ (الانفال ۷۲، ۷۳)
’’اور اگر وہ دین کے معاملے میں تم سے مدد مانگیں تو تم پر ان کی مدد کرنا لازم ہے، سوائے اس صورت کے کہ وہ کسی ایسی قوم کے خلاف مدد مانگیں جس کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اسے خوب دیکھ رہا ہے۔ اور جن لوگوں نے کفر کیا، وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ اگر تم (ان کے مقابلے میں) اہل ایمان کی مدد نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بہت بڑا فساد پھیل جائے گا۔‘‘
سرکش گروہوں کے فتنہ وفساد کا ازالہ دوسرے گروہوں سے کیے جانے کی تکوینی سنت کا ذکر یوں کیا گیا ہے:
فَہَزَمُوہُم بِإِذْنِ اللّہِ وَقَتَلَ دَاوُودُ جَالُوتَ وَآتَاہُ اللّہُ الْمُلْکَ وَالْحِکْمَۃَ وَعَلَّمَہُ مِمَّا یَشَاءُ وَلَوْلاَ دَفْعُ اللّہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الأَرْضُ وَلَکِنَّ اللّہَ ذُو فَضْلٍ عَلَی الْعَالَمِیْنَ (البقرہ ۲:۲۵۱)
’’چنانچہ بنی اسرائیل نے اللہ کے حکم سے دشمنوں کو شکست دے دی اور داؤد نے جالوت کو قتل کر دیا۔ اور اللہ نے اسے بادشاہت اور حکمت عطا کی اور جن امور سے چاہا، اسے علم دیا۔ اور اگر اللہ نے لوگوں میں سے بعض کو بعض کے ذریعے دفع کرنے کا قانون جاری نہ کیا ہوتا تو زمین فساد کا گہوارہ بن جاتی، لیکن اللہ دنیا والوں پر فضل فرمانے والا ہے۔‘‘ 
اہل ایمان کو اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا بدلہ لینے کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا گیا:
أُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّہَ عَلَی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرٌ ۔ الَّذِیْنَ أُخْرِجُوا مِن دِیَارِہِمْ بِغَیْْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن یَقُولُوا رَبُّنَا اللَّہُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّہِ النَّاسَ بَعْضَہُم بِبَعْضٍ لَّہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیْہَا اسْمُ اللَّہِ کَثِیْراً (الحج ۳۹، ۳۰)
’’جن اہل ایمان کے ساتھ جنگ کی جاتی ہے، انہیں اجازت دی جاتی ہے (کہ وہ بھی لڑائی کریں) کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا اور بے شک اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ناحق ان کے گھروں سے نکال دیا گیا، محض اس جرم میں کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب صرف اللہ ہے۔ اور اگر اللہ ایک گروہ (کے ظلم وعدوان کو) دوسرے گروہ کے ذریعے سے دفع نہ کرے تو خانقاہوں، گرجوں، کنیسوں اور مسجدوں جیسے مقامات، جن میں اللہ کو کثرت سے یاد کیا جاتا ہے، گرا دیے جاتے۔‘‘
مولانا نے ان آیات سے قتال کی مشروعیت کی وجہ بجا طور پر فتنہ وفساد اخذ کی ہے، لیکن یہ متعین کرنے کے لیے کہ یہاں کس نوعیت کے ’فساد‘ کو قتال کی مشروعیت کی علت قرار دیا گیا ہے، انھوں نے آیات کے سیاق وسباق سے مدد لینے کے بجائے قرآن مجید میں ان آیات کی تلاش شروع کر دی جن میں ’فساد‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ’فساد‘ اس عمومی اور وسیع مفہوم کے اعتبار سے قتال کی مشروعیت کا باعث ہے۔ ایسا کرتے ہوئے مولانا نے زبان کے اس عام اسلوب کو نظر انداز کر دیا ہے کہ اپنے مفہوم میں عموم اور وسعت رکھنے والا ایک لفظ جب کسی مخصوص مقام پر استعمال ہوتا ہے تو وہاں اس کے دائرۂ اطلاق میں آنے والی تمام صورتیں لازماً مراد نہیں ہوتیں، بلکہ وہ اس کے مختلف افراد میں سے ایک فرد اور اس کلی مفہوم کے جزئیات میں سے ایک جزئی بھی ہو سکتی ہے، چنانچہ اگر کسی جگہ اس کی کسی ایک صورت کے لیے کوئی حکم بیان کیا جائے تو اس کا اطلاق اس کی باقی تمام صورتوں میں کیا جانا ضروری نہیں۔ مثال کے طور پر قرآن نے فساد فی الارض کو کسی انسان کے قتل کی وجہ جواز بتایا ہے۔ (مائدہ ۵:۳۲) بالبداہت واضح ہے کہ اس سے فساد کی تمام صورتیں مراد نہیں ہیں اور مثال کے طور پرچوری کو، جس پر صریحاً فساد فی الارض کا اطلاق کیا گیا ہے (یوسف ۱۲:۷۳)، مستوجب قتل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسی طرح آیت محاربہ میں ’ویسعون فی الارض فسادا‘ سے مراد ماپ تول میں کمی اور چوری کے جرائم نہیں ہیں، حالانکہ ان پر بھی فساد فی الارض کا اطلاق خود قرآن مجید میں کیا گیا ہے۔ (ہود ۱۱:۸۵) بالکل اسی طرح اگر قرآن نے ’فساد فی الارض‘ کی ایک مخصوص صورت میں جنگ کو جائز قرار دیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس مخصوص نوعیت کے فساد کے ازالے کے لیے تلوار اٹھانا ہی موزوں اور موثر ہے۔ اس سے یہ استدلال نہیں کیا جا سکتا کہ قرآن ہر اس چیزکو جہاد وقتال کا باعث قرار دے رہا ہے جس پر قرآن مجید کی آیات میں لفظ ’فساد‘ کا اطلاق کیا گیا ہے۔ 
دلچسپ بات یہ ہے کہ مولانا نے قرآن مجید کی آیات کی روشنی میں ’فساد‘ کی تشریح کرتے ہوئے ان پہلووں کو تو بیان کیا ہے جو ان کے پیش نظر نکتے کو واضح کرنے کے لیے مفید ہیں، لیکن قرآن ہی کے ایسے استعمالات سے صرف نظر کر لیا ہے جو ان کے اپنے قائم کردہ مقدمے، یعنی یہ کہ کفر اور شرک اور گمراہانہ اعتقادات جہاد کی مشروعیت کی وجہ نہیں ہیں، کی نفی کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کی اصطلاح میں ’فساد فی الارض‘ اصلاً خدا کی بندگی اور اطاعت کے مقابلے میں انحراف اور سرکشی کے مفہوم میں بولا جاتا ہے اور انبیا کی تعلیمات کے ساتھ کفر اور ان کی تکذیب کو بھی ’فساد‘ قرار دیا گیا ہے۔ مثلاً سورۂ یونس میں ہے:
بَلْ کَذَّبُواْ بِمَا لَمْ یُحِیْطُواْ بِعِلْمِہِ وَلَمَّا یَأْتِہِمْ تَأْوِیْلُہُ کَذَلِکَ کَذَّبَ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِمْ فَانظُرْ کَیْْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الظَّالِمِیْنَ ۔ وَمِنہُم مَّن یُؤْمِنُ بِہِ وَمِنْہُم مَّن لاَّ یُؤْمِنُ بِہِ وَرَبُّکَ أَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِیْنَ (آیت ۳۹، ۴۰)
’’بلکہ انھوں نے اس چیز کو جھٹلا دیا جس کے علم کا یہ احاطہ نہیں کر سکے اور جس کی اصل حقیقت ابھی تک ان کے سامنے نہیں آئی۔ ان سے پہلے لوگوں نے بھی اسی طرح جھٹلایا تھا، تو دیکھو کہ ظالموں کا انجام کیسا ہوا۔ اور ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو اس قرآن پر ایمان لاتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو اس پر ایمان نہیں لاتے اور تیرا رب مفسدوں کو خوب جانتا ہے۔‘‘
نمل کی آیت ۱۴ میں فرعون اور آل فرعون کو کھلی نشانیاں سامنے آجانے کے بعد ان کا انکار کرنے کی بنیاد پر ’مفسدین‘ کہا گیا ہے۔ سورۂ آل عمران میں سیدنا مسیح کی الوہیت کے حوالے سے نصاریٰ کے عقیدے کی تردید کرنے کے بعد ارشاد ہوا ہے:
إِنَّ ہَذَا لَہُوَ الْقَصَصُ الْحَقُّ وَمَا مِنْ إِلَہٍ إِلاَّ اللّہُ وَإِنَّ اللّہَ لَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔ فَإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّ اللّہَ عَلِیْمٌ بِالْمُفْسِدِیْنَ (آیت ۶۲، ۶۳)
’’بے شک یہی (اس معاملے) کا مبنی بر حقیقت بیان ہے۔ اور اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور اللہ ہی غالب اور حکمت والا ہے۔ اس کے بعد بھی اگر یہ منہ موڑیں تو اللہ مفسدوں کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘
سورۂ اعراف میں کہا گیا ہے کہ خدا کے ساتھ خلق وامر میں کسی کو شریک سمجھنا اور اس سے اپنی مرادیں مانگنا بھی ’فساد فی الارض‘ ہے۔ ارشاد ہوا ہے:
أَلاَ لَہُ الْخَلْقُ وَالأَمْرُ تَبَارَکَ اللّہُ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ ۔ ادْعُواْ رَبَّکُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْیَۃً إِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ ۔ وَلاَ تُفْسِدُواْ فِیْ الأَرْضِ بَعْدَ إِصْلاَحِہَا وَادْعُوہُ خَوْفاً وَطَمَعاً إِنَّ رَحْمَتَ اللّہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ (آیت ۵۴ تا ۵۶)
’’سن لو، کائنات کی تخلیق اور تدبیر امور اللہ ہی کے لیے ہے۔ بہت بابرکت ہے اللہ جو سب جہانوں کا پروردگار ہے۔ اپنے رب کو پکارو عاجزی سے اور چپکے چپکے۔ بے شک وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اور زمین کی اصلاح کے بعد اس میں فساد نہ کرو اور اللہ کو پکارو اس سے خوف کرتے اوراس سے توقع رکھتے ہوئے۔ بے شک اللہ کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہے۔‘‘
اب اگر مولانا کے طریق استدلال کی رو سے یہ کہا جائے کہ قرآن جب قتال کی مشروعیت کی وجہ ’فساد‘ کو قرار دیتا ہے تو اس سے مراد بگاڑ کی ہر وہ صورت ہوتی ہے جس پر قرآن میں ’’فساد‘‘ کا اطلاق ہوا ہے تو یہ ماننا پڑے گا کہ خود کفر وشرک کاخاتمہ یا اس کے علم برداروں کو اس کی سزا دینا بھی جہاد کے محرکات میں شامل ہے، جبکہ مولانا کی ساری توجیہ کا مطمح نظر ہی یہ ہے کہ ایمان واعتقاد کی گمراہیوں کو جہاد کے محرکات اور اہداف سے الگ رکھا جائے۔
بالفرض یہ تسلیم کر لیا جائے کہ قرآن عمومی مفہوم میں فساد کی ہر صورت کے ازالے کے لیے قتال کو مسلمانوں پر فرض کرنا چاہتا ہے، تب بھی اس سے وہ نتیجہ کسی طرح نہیں نکلتا جو مولانا نکالنا چاہتے ہیں، یعنی یہ کہ دنیا کی تمام قوموں سے ان کا حق خود اختیاری چھین کر انھیں اسلامی اقتدار کے تابع کر دیا جائے۔ قرآن کی رو سے قتال کا ہدف یہ ہے کہ فتنہ اور فساد ختم ہو جائے۔ اگر مولانا کے مفروضے کے مطابق یہ تسلیم کر لیا جائے کہ دنیا کی تمام قومیں کسی نہ کسی صورت میں فتنہ وفساد میں مبتلا ہیں جس کے ازالے کے لیے قتال ضروری ہے تو بھی زیر بحث نصوص میں اس کی کوئی دلیل موجود نہیں کہ اس مقصد کے حصول کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ جو قوم بھی اس کی مرتکب ہو، اسے حق خود اختیاری سے محروم کر دیا جائے۔(2)
دفع فتنہ وفساد کے اصول سے یہ نتیجہ اخذ کرنا قرآن مجید کی تصریحات کے برعکس ہے، اس لیے کہ قرآن نے اس اصول کے تحت قتال کے جو اطلاقی احکام بیان کیے اور جو تحدیدات عائد کی ہیں، وہ واضح طور پر یہ بتاتی ہیں کہ قرآن دنیا میں فساد کے وجود کو علی الاطلاق قتال کی مشروعیت کی وجہ قرار نہیں دینا چاہتا، بلکہ اس کے نزدیک یہ اجازت ایک مخصوص نوعیت کے فساد کے ازالے کے لیے اور ایک محدود دائرے میں دی گئی ہے اور وہ اس کا نتیجہ لازماً قوموں کے حق خود اختیاری کی نفی یا کسی عالمگیر اسلامی حکومت کے قیام کی صورت میں نہیں دیکھنا چاہتا۔ چنانچہ سورۂ انفال کی آیات ۷۲، ۷۳ میں، جو اوپر نقل کی گئی ہیں، یہ ہدایت کی گئی ہے کہ اگر مسلمانوں میں سے کچھ افراد دار الکفر میں مقیم ہوں اور اہل کفرکے ظلم وستم کا شکار ہوں تو ان کی امداد دو باتوں کوملحوظ رکھتے ہوئے دار الاسلام کے باسیوں پر فرض ہے: ایک یہ کہ وہ ان سے دین کے معاملے میں مدد کے طالب ہوں اور دوسری یہ کہ کافر قوم کے ساتھ مسلمانوں کا صلح کامعاہدہ نہ ہو۔ 
یہ دونوں قیدیں بے حد اہم ہیں۔ ان میں سے پہلی قید یہ واضح کرتی ہے کہ مسلمانوں کا نظم اجتماعی، اہل کفر کے نظم اجتماعی کے تحت زندگی بسر کرنے والے مسلمانوں کو ظلم وستم سے بچانے کا فیصلہ ان کی نصرت اور ہمدردی کے جذبے سے ازخود نہیں بلکہ مظلوم فریق کی طرف سے مدد طلب کیے جانے پر ہی کرے گا۔ یہ ایک بے حد حکیمانہ ہدایت ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مظلوم فریق صبر اور تحمل کے ساتھ اپنے حالات کا مقابلہ خود کرنا چاہتا اور اپنے لیے داخلی سطح پر کوئی حکمت عملی اختیار کرنا چاہتا ہے یا کسی وجہ سے بیرونی مداخلت کو قرین مصلحت نہیں سمجھتا یا مسلمانوں کے جس گروہ سے مدد کی توقع کی جا سکتی ہے، اس سے مدد لینے کو مناسب نہیں سمجھتا یا قومی اور قبائلی عصبیت کے زیر اثر اپنی قوم کے حق خوداختیاری کو زیادہ قابل ترجیح سمجھتا ہے تو اسے اس کا فیصلہ کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے جسے نظر انداز کرتے ہوئے اسے ظلم وستم سے بچانے کی کوئی ذمہ داری قرآن مجید مسلمانوں کے کسی آزاد اور با اختیار نظم اجتماعی پر عائد نہیں کرنا چاہتا۔ 
دوسری قید یہ واضح کرتی ہے کہ خود حفاظتی کے دائرے سے باہر اس اختیار کا توسیعی استعمال دنیا میں بسنے والی مختلف قوموں کے حق خود اختیاری اور قوموں کے باہمی تعلقات کی کلیتاً نفی کرتے ہوئے نہیں، بلکہ ان کالحاظ رکھتے ہوئے کیا جائے گا۔ یہ ہدایت اس تناظر میں بطور خاص قابل توجہ ہے کہ قرآن مجید نے سورۂ انفال کی آیت میں ۵۸ یہ اجازت دی ہے کہ اگر مسلمانوں کو اپنے ساتھ معاہدہ کرنے والا کسی غیر مسلم گروہ سے بد عہدی کا خدشہ بھی ہو تو اس کے ساتھ معاہد ہ توڑا جا سکتا ہے، جبکہ یہاں دار الکفر کے مسلمانوں کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ ان پر بالفعل ظلم ہو رہا ہو اور وہ مسلمانوں سے مدد کے طالب ہوں، تب بھی معاہدے کی پاس داری کی جائے گی اور مظلوموں کی مدد کے لیے کوئی جنگی اقدام نہیں کیا جائے گا۔ 
پھر قرآن نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ فتنہ کے خاتمے کا طریقہ لازماً یہی نہیں کہ اہل کفر پر مسلمانوں کی حکومت قائم کر دی جائے، بلکہ اگر مظلوم مسلمانوں کو ان کے چنگل سے آزادی دلا کر کسی دوسرے علاقے کی طرف منتقل کر دیا جائے تو قرآن کا منشا اس صورت میں بھی پورا ہو جاتا ہے۔ سورۂ نساء میں ارشاد ہوا ہے:
وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ ہَذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ أَہْلُہَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ وَلِیّاً وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ نَصِیْراً (النساء ۴:۷۵)
’’تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کے راستے میں اور کفار کی چیرہ دستی کا شکار ان مردوں ، عورتوں اور بچوں کو چھڑانے کے لیے قتال نہیں کرتے جو یہ دعائیں مانگتے ہیں کہ یا اللہ، ہمیں اس بستی سے نکال جس کے رہنے والے ظالم ہیں اور اپنی جناب سے ہمارے لیے کوئی مددگار اور اپنے پاس سے ہمارے لیے کوئی حامی بھیج دے۔‘‘
آیت سے واضح ہے کہ ان مظلوم مسلمانوں کی مدد کی جو صورت اہل ایمان سے مطلوب تھی، وہ ظالموں سے حکومت چھین کر انھیں اسلامی اقتدار کا تابع بنا دینا نہیں، بلکہ مظلوموں کو اس علاقے سے نکال کر انھیں دارالامن تک پہنچانا تھا۔ یہی بات سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے واقعے سے بھی واضح ہوتی ہے جنھوں نے بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم وستم سے نجات دلانے کے لیے سرزمین مصر پر اپنی حکومت قائم کرنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے تحت اس سے صرف یہ مطالبہ کیا کہ وہ بنی اسرائیل کو آزاد کر کے اس ملک سے جانے دے۔ یہ فرعون تھا جس نے اپنی قوم کی عصبیت کو ابھارنے کے لیے سیدنا موسیٰ کے پیغام کو سیاسی رنگ دیا اور کہا کہ موسیٰ دراصل مصر کے اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ خود مولانا مودودی لکھتے ہیں:
’’وہ حضرت موسیٰ کی معقول ومدلل تقریر اور پھران کے معجزے کو دیکھ کر یہ سمجھ گیا تھا کہ نہ صرف اس کے اہل دربار بلکہ اس کی رعایا کے بھی عوام وخواص اس سے متاثر ہوئے بغیرنہ رہ سکیں گے۔ اس لیے اس نے جھوٹ اور فریب اور تعصبات کی انگیخت سے کام نکالنے کی کوشش شروع کر دی۔ اس نے کہا یہ معجزہ نہیں جادو ہے اور ہماری سلطنت کا ہر جادوگر اسی طرح لاٹھی کو سانپ بنا کر دکھا سکتا ہے۔ اس نے کہا کہ لوگو ذرا دیکھو، یہ تمہارے باپ دادا کو گمراہ اور جہنمی ٹھیراتا ہے۔ اس نے کہا کہ لوگو، ہوشیار ہو جاؤ، یہ پیغمبر ویغمبر کچھ نہیں ہے، اقتدارکا بھوکا ہے۔ چاہتا ہے کہ یوسف کے زمانے کی طرح پھر بنی اسرائیل یہاں حکمراں ہو جائیں اور قبطی قوم سے سلطنت چھین لی جائے۔ ان ہتھکنڈوں سے وہ دعوت حق کو نیچا دکھانا چاہتا تھا۔‘‘ (تفہیم القرآن ۳/۱۰۰) 
قرآن کی بیان کردہ مذکورہ تحدیدات فتنہ وفساد کی اس صورت یعنی مذہبی ایذا رسانی کے خاتمے حوالے سے ہیں جسے وہ قتل سے بھی زیادہ سنگین جرم قرار دیتا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مولانا مودودی نے فتنہ وفساد کی ایسی صورتوں کے خاتمے کے لیے جو اس سے کئی درجہ کم سنگین ہیں --مثلاً رعایا میں نسلی امتیاز قائم کرنا اور ان میں پھوٹ ڈالنا، ناجائز اور غلط قوانین جاری کرنا، تجارتی کاروبار میں بے ایمانی کرنا اور شاہراہوں پر ڈاکے ڈالنا، ان روابط وتعلقات کو خراب کرنا جو انسانی تمدن کی بنیاد ہیں، اور حاکمانہ طاقت کو ظلم وستم اور غارت گری کے لیے استعمال کرنا وغیرہ-- قوموں کے حق خود اختیاری کی نفی اور عالمگیر اسلامی حکومت کے قیام کا جو نتیجہ اخذ کیا ہے، وہ قرآن کے مدعا سے کس قدر متجاوز ہے۔
۳۔ مولانا کو اس بات کا احساس ہے کہ ان کا بیان کردہ یہ مقدمہ کہ دنیا کے باطل نظام ہا ے حکومت اسلام کی نظر میں فی نفسہ اپنا کوئی قانونی جواز نہیں رکھتے، جہاد سے متعلق نصوص میں تصریحاً بیان نہیں ہوا۔ چنانچہ انھوں نے اس مقدمے کو قرآن مجید کی چند دیگر آیات سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے درج ذیل نصوص سے استدلال کیا ہے:
وَإِن تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَیْْرَکُمْ ثُمَّ لَا یَکُونُوا أَمْثَالَکُمْ (محمد ۴۷:۳۸)
’’اگر تم حق سے منہ پھیرو گے تو اللہ تمھارے بدلے دوسری قوم کو کھڑا کرے گا اور وہ لوگ تم جیسے نہیں ہوں گے۔‘‘
إِلاَّ تَنفِرُواْ یُعَذِّبْکُمْ عَذَاباً أَلِیْماً وَیَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَیْْرَکُمْ وَلاَ تَضُرُّوہُ شَیْْئاً (التوبہ ۹:۳۹)
’’اگر تم راہ الٰہی میں جہاد کے لیے نہ نکلو گے تو اللہ تمھیں دردناک مصائب میں مبتلا کرے گا اور تمھارے بدلے دوسری قوم کو کھڑا کر دے گا اور تم اس کا کچھ نہ بگاڑ سکو گے۔‘‘
إِن یَشَأْ یُذْہِبْکُمْ أَیُّہَا النَّاسُ وَیَأْتِ بِآخَرِیْنَ (النساء ۴:۱۳۳)
’’لوگو! اگر خدا چاہے تو تمھیں ہٹا دے اور دوسرے دوسرے لوگوں کو تمھاری جگہ لے آئے۔‘‘
وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِیْ الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّکْرِ أَنَّ الْأَرْضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصَّالِحُونَ (الانبیاء ۲۱:۱۰۵)
’’ہم نے زبور میں نصیحت کے بعد لکھ دیا کہ ’’زمین‘‘ کے وارث میرے صالح بندے ہوں گے۔‘‘
مذکورہ آیات سے استدلال کرتے ہیں لکھتے ہیں:
’’اس معنی کی آیات قرآن میں بکثرت آئی ہیں او ران سب کا منشا یہ ہے کہ حکومت اور بادشاہی کا حق صلاحیت کے ساتھ مشروط ہے۔ جو قوم صلاحیت کھو دیتی ہے، وہ اس حق کو بھی کھو دیتی ہے، اور جو صلاحیت اپنے اندر پیدا کر لیتی ہے، وہ اس حق کو بھی حاصل کر لیتی ہے۔ ‘‘ (الجہاد فی الاسلام ص ۱۴۷)
تاہم یہ تمام آیات زیر بحث نکتے سے قطعاً غیر متعلق ہیں اور ان میں سے کسی میں بھی مولانا کا دعویٰ، یعنی یہ کہ اگر دنیا میں کوئی قوم فساد اور بگاڑ کا شکار ہو جائے تو وہ اپنا آزادانہ نظم حکومت قائم کرنے کے حق سے محروم ہو جاتی ہے، نہ تو تصریحاً بیان ہوا ہے اور نہ وہ استنباطاً اس مقدمے کے لیے ماخذ بن سکتی ہیں۔ ان میں سے سورۂ نساء کی آیت ’ان یشا یذہبکم ایہا الناس ویات بآخرین‘ جس سلسلہ بیان میں آئی ہے، وہ یوں ہے:
وَلَقَدْ وَصَّیْْنَا الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ مِن قَبْلِکُمْ وَإِیَّاکُمْ أَنِ اتَّقُواْ اللّہَ وَإِن تَکْفُرُواْ فَإِنَّ لِلّہِ مَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِیْ الأَرْضِ وَکَانَ اللّہُ غَنِیّاً حَمِیْداً۔ وَلِلّہِ مَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِیْ الأَرْضِ وَکَفَی بِاللّہِ وَکِیْلاً۔ إِن یَشَأْ یُذْہِبْکُمْ أَیُّہَا النَّاسُ وَیَأْتِ بِآخَرِیْنَ وَکَانَ اللّٰہُ عَلَی ذَلِکَ قَدِیْراً (النساء ۴:۱۳۱ - ۱۳۳)
’’اور یقیناً ہم نے ان لوگوں کو بھی جنھیں تم سے پہلے کتاب دی گئی، یہ تاکید کی تھی اور تمھیں بھی کرتے ہیں کہ اللہ سے ڈرتے رہو۔ اور اگر تم کفر کرو گے تو (اللہ کا کچھ نہیں بگڑے گا، کیونکہ) اللہ ہی کے لیے جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ بے نیاز، تعریف کا سزاوار ہے۔ اور اللہ ہی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ ہی بطور کارساز کافی ہے۔ اے لوگو، اگر وہ چاہے تو تمھیں لے جائے اور (تمھاری جگہ) دوسروں کو لے آئے اور اللہ اس پر پوری طرح قادر ہے۔‘‘
آیت سے واضح ہے کہ یہاں نہ تو سیاسی معنوں میں کسی قوم سے دنیوی اقتدار چھین کر صالحین کے سپرد کیے جانے کا مسئلہ زیر بحث ہے اور نہ امت مسلمہ کے لیے اس ضمن میں کوئی قانونی اختیار بیان کیا گیا ہے۔ مقصود کلام یہ واضح کرنا ہے کہ خدا اپنی بادشاہی میں کسی قوم یا گروہ کا محتاج نہیں، بلکہ زمین وآسمان کا مالک اور سب سے بے نیاز ہے۔ وہ اگر کسی قوم کو کسی مقصد کے لیے منتخب کرتا ہے تو اس سے مقصود اس کو آزمانا اور کامیابی کی صورت میں اپنے انعام کا مستحق بنانا ہوتا ہے اور اگر وہ قوم راہ راست سے انحراف کا طریقہ اختیار کرے تو خدا بڑی بے نیازی سے اسے ہٹا کر کسی دوسری قوم کو اس کی جگہ دے دیتا ہے۔ مولانا مودودی ’تفہیم القرآن‘ میں اس کی تشریح میں لکھتے ہیں:
’’تمھیں اور تمھاری طرح پچھلے تمام انبیا کی امتوں کو ہمیشہ یہی ہدایت کی جاتی رہی ہے کہ خدا ترسی کے ساتھ کام کرو۔ اس ہدایت کی پیروی میں تمھاری اپنی فلاح ہے، خدا کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر تم اس کی خلاف ورزی کرو گے تو پچھلی تمام امتوں نے نافرمانیاں کر کے خدا کا کیا بگاڑ لیا ہے جو تم بگاڑ سکو گے۔ اس فرماں رواے کائنات کو نہ پہلے کسی کی پروا تھی نہ اب تمہاری پروا ہے۔ اس کے امر سے انحراف کرو گے تو وہ تم کو ہٹا کر کسی دوسری قوم کو سربلند کر دے گا اور تمہارے ہٹ جانے سے اس کی سلطنت کی رونق میں کوئی فرق نہ آئے گا۔‘‘ (تفہیم القرآن ۱/۴۰۵)
یہی معاملہ سورۂ محمد کی آیت ۳۸ اور سورۂ توبہ کی آیت ۳۹ کا ہے۔ یہاں بھی نہ تو نافرمان اور بدکار قومیں مخاطب ہیں اور نہ دنیوی حکومت واقتدار کی اہلیت کا مسئلہ زیر بحث ہے۔ توبہ میں اس آیت کا سیاق یہ ہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ مَا لَکُمْ إِذَا قِیْلَ لَکُمُ انفِرُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَی الأَرْضِ أَرَضِیْتُم بِالْحَیَاۃِ الدُّنْیَا مِنَ الآخِرَۃِ فَمَا مَتَاعُ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا فِیْ الآخِرَۃِ إِلاَّ قَلِیْلٌ ۔ إِلاَّ تَنفِرُواْ یُعَذِّبْکُمْ عَذَاباً أَلِیْماً وَیَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَیْْرَکُمْ وَلاَ تَضُرُّوہُ شَیْْئاً وَاللّہُ عَلَی کُلِّ شَیْْءٍ قَدِیْر (التوبہ ۹:۳۷، ۳۸)
’’اے ایمان والو، تمھیں کیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتاہے کہ اللہ کے راستے میں نکلو تو تم بوجھل ہو کر زمین کے ساتھ چپک رہتے ہو! کیا تم آخرت کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی پر راضی ہو گئے ہو؟ تو پھر آخرت میں دنیا کی زندگی کا سامان بہت ہی تھوڑی وقعت رکھے گا۔ اگر تم نہیں نکلو گے تو اللہ تمھیں دردناک عذاب دے گا اور تمھاری جگہ کسی دوسری قوم کو بدل دے ا اور تم اللہ کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔‘‘
سورۂ محمد میں ارشاد ہوا ہے:
ہَاأَنتُمْ ہَؤُلَاء تُدْعَوْنَ لِتُنفِقُوا فِیْ سَبِیْلِ اللَّہِ فَمِنکُم مَّن یَبْخَلُ وَمَن یَبْخَلْ فَإِنَّمَا یَبْخَلُ عَن نَّفْسِہِ وَاللَّہُ الْغَنِیُّ وَأَنتُمُ الْفُقَرَاء وَإِن تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَیْْرَکُمْ ثُمَّ لَا یَکُونُوا أَمْثَالَکُمْ (محمد ۴۷:۳۸)
’’سو دیکھو، تم تو یہ ہو کہ تمھیں اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کے لیے بلایا جاتا ہے تو تم میں سے کچھ بخل کرتے ہیں۔ اور جو بخل کرتا ہے، وہ اپنے ہی نقصان کے لیے کرتا ہے۔ اللہ تو بے نیاز ہے اور تم ہی محتاج ہو۔ اور اگر تم منہ موڑ لو گے تو اللہ تمھاری جگہ کسی دوسری قوم کو بدل دے گا، پھر وہ تمھارے جیسے نہیں ہوں گے۔‘‘
صاف واضح ہے کہ دونوں مقامات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی اہل ایمان کو مخاطب کر کے انھیں متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر وہ جہاد سے اعراض اختیار کریں گے تو خدا ان کی جگہ کسی اور گروہ کو اس خدمت کے لیے منتخب کرلے گا۔ مولانا مودودی لکھتے ہیں:
’’یعنی خدا کا کام کچھ تم پر منحصر نہیں ہے کہ تم کرو گے تو ہوگا ورنہ نہ ہوگا۔ درحقیقت یہ تو خدا کا فضل واحسان ہے کہ وہ تمھیں اپنے دین کی خدمت کا زریں موقع دے رہا ہے۔ اگر تم اپنی نادانی سے اس موقع کو کھو دو گے تو خدا کسی اور قوم کو اس کی توفیق بخش دے گا اور تم نامراد رہ جاؤ گے۔‘‘ (تفہیم القرآن ۲/۱۹۵)
جہاں تک سورۂ انبیاء کی آیت: ’ان الارض یرثہا عبادی الصلحون‘ کا تعلق ہے تو تفہیم القرآن میں اس آیت کے تحت مولانا مودودی نے ہی ان لوگوں کے نقطہ نظر کی واضح تردید کی ہے جو اس آیت سے دنیوی حکومت واقتدار کے حوالے سے خدا کے قانون اور ضابطے کو اخذ کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں:
’’ہر آیت کے صحیح معنی صرف وہی ہو سکتے ہیں جو سیاق وسباق سے مناسبت رکھتے ہوں۔ اگر یہ غلطی نہ کی جاتی تو آسانی کے ساتھ دیکھا جا سکتا تھا کہ اوپر سے جو مضمون مسلسل چلا آ رہا ہے، وہ عالم آخرت میں مومنین صالحین اور کفار ومشرکین کے انجام سے بحث کرتا ہے۔ اس مضمون میں یکایک اس مضمون کے بیان کرنے کا آخر کون سا موقع تھا کہ دنیا میں وراثت زمین کا انتظام کس قاعدے پر ہو رہا ہے۔ تفسیر کے صحیح اصولوں کو ملحوظ رکھ کر دیکھا جائے تو آیت کا مطلب صاف ہے کہ دوسری تخلیق میں، جس کا ذکر اس سے پہلے کی آیت میں ہوا ہے، زمین کے وارث صرف صالح لوگ ہوں گے اور اس ابدی زندگی کے نظام میں موجودہ عارضی نظام زندگی کی سی کیفیت برقرار نہ رہے گی کہ زمین پر فاسقوں اور ظالموں کو بھی تسلط حاصل ہو جاتا ہے۔‘‘ (۳/۱۹۰، ۱۹۱)
مولانا نے بعض آیات سے یہ استدلال بھی کیا ہے کہ قرآن مجید نے ہلاک کی جانے والی قوموں کے جرائم میں ایک جرم یہ بھی شمار کیا ہے کہ وہ جابر اور سرکش حکمرانوں کی پیروی کیا کرتی تھیں۔ مثال کے طور پر قوم عاد کے بارے میں فرمایا گیا ہے:
وَاتَّبَعُواْ أَمْرَ کُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ (ہود ۱۱:۵۹)
’’اور انھوں نے ہر سرکش اور ہٹ دھرم کی پیروی اختیار کر لی۔‘‘
اسی طرح حضرت صالح نے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ:
وَلَا تُطِیْعُوا أَمْرَ الْمُسْرِفِیْنَ، الَّذِیْنَ یُفْسِدُونَ فِیْ الْأَرْضِ وَلَا یُصْلِحُونَ (الشعراء ۲۶:۱۵۲)
’’اور تم حد سے بڑھ جانے والوں کے معاملے کی اطاعت نہ کرو، جو زمین میں فساد مچاتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے۔‘‘
سورۂ کہف میں ارشاد ہوا ہے:
وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَہُ عَن ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوَاہُ وَکَانَ أَمْرُہُ فُرُطاً (الکہف ۱۸:۲۸)
’’اور تم اس کی بات نہ مانو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے لگا ہوا ہے اور اس کا معاملہ حد سے بڑھ گیا ہے‘‘
مولانا ان آیات سے یہ اخذ کرنا چاہتے ہیں کہ جابر وظالم حکمرانوں کی حکومت کوئی قانونی اور اخلاقی جواز نہیں رکھتی اور اس کی اطاعت پر قائم رہنا بھی فساد کے زمرے میں آتا ہے۔ (الجہاد فی الاسلام ص ۱۱۸، ۱۱۹) تاہم یہ تمام آیات بھی زیر بحث نکتے سے غیر متعلق ہیں اور ان میں سے کسی میں بھی حکومت اور نظام حکومت کا معاملہ سرے سے زیر بحث ہی نہیں۔ ان میں سے پہلی آیت میں بتایا گیا ہے کہ قوم عاد نے واضح نشانیاں سامنے آ جانے کے باوجود اللہ کے رسولوں کی بات ماننے کے بجائے اپنے ضدی اور متکبر لیڈروں کی روش پر چلنے کو ترجیح دی اور اس کے نتیجے میں خدا کے عذاب کی مستحق قرار پائی۔ پوری آیت یوں ہے:
وَتِلْکَ عَادٌ جَحَدُواْ بِآیَاتِ رَبِّہِمْ وَعَصَوْاْ رُسُلَہُ وَاتَّبَعُواْ أَمْرَ کُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ
’’اور یہ عاد تھے جنھوں نے اپنے رب کی آیات کا انکار کیا اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کی اور ہر سرکش اور ہٹ دھرم کی پیروی اختیار کر لی۔‘‘
صاف واضح ہے کہ ’اتباع امر‘ کی تعبیر یہاں نظام حکومت کی پیروی کے معنی میں نہیں، بلکہ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لانے اور ان کی اطاعت اختیار کرنے کے بالمقابل اپنے لیڈروں کی ہٹ دھرمی میں ان کا ساتھ دینے کے مفہوم میں استعمال ہوئی ہے۔
یہی معاملہ حضرت صالح سے متعلق آیات کا ہے۔ وہ سیاسی مفہوم میں قوم کو یہ دعوت نہیں دے رہے کہ وہ اپنے موجود سیاسی نظم کی اطاعت سے دست کش ہو کر ان کے ہاتھ پر سمع وطاعت کی بیعت کر لے، بلکہ نہایت دردمندی کے ساتھ یہ نصیحت کر رہے ہیں کہ انھوں نے ایمان واخلاق کی جو تعلیم خدا کے حکم سے ان کے سامنے پیش کی ہے، قوم اسے قبول کر لے اور اپنے سرکش اور خداکے باغی سرداروں کی پیروی میں اسے ٹھکرانے کی روش اختیار نہ کرے۔ 
جہاں تک سورۂ کہف کی آیت ۲۸ کا تعلق ہے تو اسے زیر بحث نکتے کے ضمن میں پیش کرنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مولانا اپنے مقدمے کی تائید کے لیے کوئی مضبوط نقلی دلیل نہ پا کر انتہائی غیر متعلق آیات کو بطور دلیل نقل کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں۔ اس آیت میں نہ تو حکومت واقتدار کا مسئلہ زیر بحث ہے اور نہ کوئی غیر مسلم قوم مخاطب ہے جسے ’فاسد نظام حکومت ‘ کی اطاعت سے دست کش ہونے کا حکم دیا جا رہا ہو۔ یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرکے یہ ہدایت کی جا رہی ہے کہ آپ اپنے مدعوین میں سے ان لوگوں کو اپنی توجہ اور عنایت کا زیادہ مستحق سمجھیں جو خدا کی یاد میں مصروف رہتے ہیں اور ان کو نظر انداز کرتے ہوئے خداکی یاد سے غافل اور اپنی خواہشات میں مست ہو جانے والے بے پروا لوگوں کی زیادہ فکر نہ کریں۔ ارشاد ہوا ہے:
وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُونَ رَبَّہُم بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُونَ وَجْہَہُ وَلَا تَعْدُ عَیْْنَاکَ عَنْہُمْ تُرِیْدُ زِیْنَۃَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَہُ عَن ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوَاہُ وَکَانَ أَمْرُہُ فُرُطاً (الکہف ۱۸:۲۸)
’’اور اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ وابستہ کیے رکھو جو اپنے رب کی رضا حاصل کرنے کے لیے صبح اور شام اس کو پکارتے ہیں۔ اور تم دنیا کی زندگی کی زینت کی خواہش سے ان سے صرف نظر نہ کرو اور نہ اس شخص کی بات نہ مانو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے لگا ہوا ہے اور اس کا معاملہ حد سے بڑھ گیا ہے‘‘
صاف واضح ہے کہ ’لا تطع من اغفلنا قلبہ‘ کا جملہ یہاں ’واصبر نفسک مع الذین یدعون ربہم‘ کے تقابل میں استعمال ہوا ہے اور ’لا تطع‘ کامفہوم یہاں کسی حکمران کی اطاعت کرنا نہیں، بلکہ کسی کی فکر میں مبتلا رہنا یا اس کی بات کو اہمیت دینا ہے۔ خود مولانا مودودی نے ’تفہیم القرآن‘ میں اس کی تشریح میں لکھا ہے کہ ’’یعنی اس کی بات نہ مانو، اس کے آگے نہ جھکو، اس کا منشا پورانہ کرو اور اس کے کہے پر نہ چلو۔ یہاں ’’اطاعت‘‘ کا لفظ اپنے وسیع مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔‘‘ (تفہیم القرآن ۳/۲۳)

اوپر کی سطور میں مولانا مودودی کے نقطہ نظر کا جو تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے، اس کا حاصل یہ ہے کہ مولانانے مستقل اور متباین نظری اساسات پر مبنی جہاد وقتال کی دو الگ الگ صورتوں کو گڈمڈ کر کے انھیں ایک ہی اساس یعنی فتنہ وفساد کے تحت واضح کرنے کی اور اس کے ساتھ ساتھ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جہادکا مبینہ مقصدحاصل کرنے کے لیے دنیا کی تمام غیر مسلم حکومتوں کا خاتمہ اور عالمگیر اسلامی حکومت کا قیام ضروری ہے۔ اس کے لیے ایک طرف انھیں ان نصوص کی غیر متبادر تاویل کرنی پڑی جو کفروایمان کے تناظر میں قتال کا حکم دیتی ہیں اور دوسری طرف فتنہ وفساد کے مفہوم میں ایسی وسعت پیدا کرنی پڑی جس کے نتیجے میں جہاد کی عالمگیریت کا اصول اخذ کیا جا سکے۔ تاہم جیسا کہ ہم نے واضح کیا، اعتقادی اساس کو چھوڑ کر مولانا نے فتنہ وفساد کے اخلاقی اصول پر جہاد کی تعمیم کرنے کی جو کوشش کی ہے، وہ منطقی استدلال کے لحاظ سے نتیجہ خیز نہیں ہوتی۔ 

مزید برآں ’الجہاد فی الاسلام‘ چونکہ مولانا کی ابتدائی علمی کاوش ہے اور اس کا مطمح نظر بھی اسلام کے فلسفہ جہادکو عقلی لحاظ سے برتر ثابت کرنا ہے، اس وجہ سے اس کا انداز تحریر خطیبانہ ہے، حتیٰ کہ علمی استدلال پیش کرتے ہوئے ہوئے بھی منطقی معیار پر مقدمات کی توضیح کے بجاے زیادہ تر خطیبانہ طرز استدلال سے کام لیا گیا ہے۔ اسی رجحان کے زیر اثر مولانا بہت سے اہم پہلووں پر توجہ نہیں دے سکے۔ مثلاً ان کی تعبیر اعتراض کے اصل نکتے کا سرے سے کوئی جواب ہی نہیں دیتی، کیونکہ معترضین کا اصل اعتراض یہ نہیں کہ اقوام عالم کے خلاف جنگ کے لیے اسلام جو محرک اور داعیہ متعین کرتا ہے، وہ غیر اخلاقی ہے، بلکہ یہ ہے کہ اسلام دنیا کے دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے لیے آزادی اور خود مختاری کا حق تسلیم نہیں کرتا، جبکہ مولانا کی توجیہ کی رو سے یہ نتیجہ جوں کا توں برقرار رہتا ہے، اس لیے کہ ان کی پیش کردہ تعبیر اس نتیجے کو بعینہ تسلیم کرتے ہوئے صرف یہ واضح کرتی ہے کہ اسلام کے اس تصور کا محرک ہوس ملک گیری یا مذہبی جبر کا کوئی غیر اخلاقی جذبہ نہیں، بلکہ اقوام عالم کی اخلاقی حالت کو سدھارنے اور ان کے تمدن اور معاشرت کی اصلاح کا ایک نہایت اعلیٰ اور پاکیزہ اخلاقی جذبہ ہے۔ 
مزید برآں مولانا نے اپنی تعبیر پر پیدا ہونے والے بعض نہایت بنیادی سوالات سے یا تو تعرض ہی نہیں کیا اور یا اس طرح سرسری طورپر ان کا ذکر کیا ہے کہ اسے ’عدم تعرض‘ کہنا ہی زیادہ موزوں ہے۔ 
مثلاً ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی قوموں کی اصلاح کے لیے اگر امت مسلمہ کو یہ اختیار دیا ہے تو کیا وہ کوئی فرشتوں کی جماعت ہے جو بالکل بے غرضی کے ساتھ تاقیامت دوسری قوموں کی اصلاح کی یہ خدمت انجام دیتی رہے گی؟ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اہم سوال یہ سامنے آتا ہے کہ اقوام عالم میں پیدا ہونے والے جس بگاڑ اور فساد کی اصلاح کی ذمہ داری مولانا کے نزدیک امت مسلمہ کو تفویض کی گئی ہے، کیا خود امت مسلمہ اس کا شکار ہونے سے محفوظ کر دی گئی ہے؟ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ اقتدار پانے کے بعد انسان بے لگام ہو جاتا اور اس کی جبلت کے فسادات کو ظہور پذیر ہونے کا موقع مل جاتا ہے۔ یہ ایک مشترک انسانی کمزوری ہے جس سے دنیا کا کوئی گروہ، خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، مستثنیٰ نہیں۔ یہ صرف ایک نظری بات نہیں، بلکہ تاریخ کی عملی شہادت بھی یہی ہے اور نہ صرف بنی اسرائیل بلکہ خود بنی اسماعیل کی تاریخ بھی اس کی گواہ ہے۔ اب اگر کسی غیر مسلم گروہ کی حکومت کو، اقتدار سے منتج ہونے والے فساد کے پیش نظر ختم کرنا جائز ہے تو سوال یہ ہے کہ اس کی جگہ ایک مسلم حکومت کا قیام بھی تو انسانوں ہی کے ہاتھوں ہونا ہے۔ آخر اس کی کیا ضمانت ہے کہ الٰہی شریعت اور دین کی حامل قوم اقتدار پانے کے بعد انھی اخلاقی فسادات اور قبائح کا شکار نہیں ہوگی؟ 
اس سوال کا جو جواب مولانا نے دیا ہے، وہ دلچسپ ہے۔ لکھتے ہیں:
’’اسلام کے اس عقیدہ کے مطابق حکومت کی اچھائی کامعیار نہ اس کا قومی اور خود اختیاری ہونا ہے اور نہ اس کی برائی کامعیار اجنبی یا غیر خود اختیاری ہونا۔ اصل سوال صرف یہ ہے کہ حکومت کا نظام عادلانہ اور حق پرستانہ ہے یا نہیں؟ اگر پہلی صورت ہے تو اسلام اس کومٹانے کی کوشش تو درکنار، ایسے ارادہ کو بھی گناہ اور ظلم عظیم سمجھتا ہے۔ لیکن دوسری صورت میں وہ ایک ظالمانہ نظام حکومت کو مٹا کر ایک سچا عادلانہ نظام حکومت قائم کرنا اولین فرض قرار دیتا ہے۔ قومی اور اجنبی کے سوال سے اس نے نفیاً یا اثباتاً کوئی تعرض نہیں کیا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ ان کے نزدیک حکومت کے اچھے یابرے ہونے کے سوال پر اس کے قومی ہونے یا نہ ہونے کا کوئی اثر نہیں ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ غیر قومی حکومت عموماً ظالم وجابر ہوتی ہے، کیونکہ ایک قوم دوسری قوم پر حکومت قائم ہی اس لیے کرتی ہے کہ اسے غلام بنا کر اپنی مصلحت کے لیے استعمال کرے اور اس کے برعکس قومی حکومت میں اصلاح پذیری کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن باوجود اس کے یہ ضروری نہیں ہے کہ قومی حکومت ہر حال میں بہتر ہو اور غیر قومی حکومت کسی حال میں عادل نہ ہو۔ ہو سکتا ہے کہ ایک قوم پر خود اس کے اپنے سرکش افراد شیطان کی طرح مسلط ہو جائیں اور اسے اپنی شخصی اغراض کا غلام بنا کر تباہ وبرباد کر دیں۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ ایک قوم کو غیر قوم کے نیک نفس اور بے غرض مصلحین ظلم واستبداد کے پنجہ سے رہائی دلائیں اور اس کے لیے مادی واخلاقی ترقی کی راہیں کھول دیں۔ پس حکومت کی خوبی کا اصلی معیار اس کا عادل وصالح ہونا ہے اور اس کی برائی کا اصلی معیار غیر عادل اور غیر صالح ہونا۔ ‘‘ (الجہاد فی الاسلام، ص ۱۴۵، ۱۴۶)
بدیہی طور پر مولانا کی اس نکتہ آفرینی سے حقیقی اور عملی سوال کا جواب نہیں ملتا، اس لیے کہ اصل سوال یہ ہے کہ آیا امت مسلمہ فرشتوں کی جماعت ہے جو جہاد کی اصل اسپرٹ کے ساتھ بالکل بے غرضی سے اقوام عالم کی یہ خدمت انجام دیتی رہے گی؟ اگر ایسا نہیں ہے تو قرآن وحدیث کی اخلاقی نصیحتوں کے علاوہ اسے کشور ستانی اور جہانگیری کے جذبے سے دنیا کی اقوام کو تاراج کرنے سے روکنے کا عمل اور حقیقت کی دنیا میں کیا بندوبست کیا جائے گا؟ 
یہ سوال بھی مولانا کے سامنے ہے کہ جن منکرات کے خاتمے کے لیے وہ امت مسلمہ کو دنیا میں ’خدائی فوجدار‘ کی حیثیت دینا چاہتے ہیں، جب ان کی اخلاقی برائی کا شعور انسانوں میں عمومی طورپر موجود ہے اور ہر قوم مختلف سماجی اداروں کی مدد سے ان کے سدباب کا اہتمام کرتی ہے تو کیا اسلام کسی قوم کا یہ حق تسلیم نہیں کرتا کہ وہ اپنی اصلاح کی کوشش خود کرے؟ مولانا اس کے جواب میں لکھتے ہیں:
’’اس سے یہ مطلب نکالنا صحیح نہیں ہے کہ اسلام قومی حکومت کا دشمن ہے۔ وہ ہر قوم کے اس حق کو تسلیم کرتا ہے کہ وہ اپنے احوال کی اصلاح خود کرے۔ مگر جب کسی قوم کے اعمال بگڑ جائیں، اس کی اخلاقی حالت خراب ہو جائے اور وہ اپنے شریر ومفسد لوگوں کی پیروی واطاعت اختیار کر کے ذلت ومسکنت کی پستیوں میں گر جائے تو اسلام کے نزدیک اس قوم کو حکومت خود اختیاری کا حق باقی نہیں رہتا اور دوسرے لوگوں کو جو اس کے مقابلہ میں اصلح ہوں، اس پر حکومت کرنے کا حق حاصل ہو جاتا ہے۔‘‘ (الجہاد فی الاسلام، ص ۱۴۶)
لیکن مولانا اس نکتے پرکوئی روشنی نہیں ڈالتے کہ اس امر کا فیصلہ کس بنیاد پر کیا جائے گا کہ فلاں قوم اب اپنے احوال کی اصلاح خود کرنے کے قابل نہیں رہی اور امت مسلمہ کو اس پر حکومت کرنے کا حق حاصل ہو گیا ہے؟ 
مولانا کے نقطہ نظر سے یہ سوال بھی تشنہ جواب رہتا ہے کہ نہی عن المنکر کے اصول کے تحت کیا ایک مسلم حکومت اس بات کا بھی حق رکھتی ہے کہ اگر کوئی دوسری مسلم حکومت اخلاقی بگاڑ کا شکار ہو تو اس کے خلاف جنگ کر کے اس سے حکومت واقتدار چھین لے؟
اس سوال کا بھی کوئی جواب مولانا نے نہیں دیا کہ ان کے تصور کی رو سے قانون بین الاقوام کی بنیاد کیا ہوگی؟ یہ سوال اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ اگر جنگ کا مقصد کسی مخصوص مذہب کی توسیع نہیں بلکہ دنیا سے فتنہ وفساد کا خاتمہ اور عدل کا قیام ہے جو ایک عام انسانی اخلاقی اصول ہے تو اس کے تحت اقوام عالم کی اصلاح کا حق دنیا کی ہر اس قوم کو حاصل ہونا چاہیے جو اس کا جذبہ اور اہلیت رکھتی ہو اور اس مشن کو لے کر دنیا کی اصلاح کے لیے اٹھ کھڑی ہو سکتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ’حق‘ قابل اعتماد صورت میں صرف مسلمانوں کے پاس ہے، اس لیے وہی یہ حق رکھتے ہیں تو ظاہر ہے کہ یہ نکتہ اقوام عالم کے مابین مسلمہ نہیں، بلکہ امت مسلمہ کا مذہبی عقیدہ ہے۔ پس اگر مسلمانوں کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے اخلاقی تصور کے مطابق دنیا کی اصلاح کے لیے تلوار لے کر نکل کھڑے ہوں تو دنیا کی دوسری طاقتوں کو اسی بنیاد پر یہ حق کیوں حاصل نہیں؟ کیا اس صورت میں Might is right بین الاقوامی قانون کی بنیاد قرار نہیں پاتا؟ اگر مغرب اپنے اخلاقی وتہذیبی تصورات کو بزور قوت دنیا پر مسلط کرنے کی کوشش کرے تو اسے کس بنیاد پر غیر اخلاقی قرار دیا جا سکتا ہے؟
مولانا اس بات کو ملحوظ نہیں رکھتے کہ ان کا بیان کردہ اصول ایک دو دھاری تلوار ہے جو خود مسلمانوں کے خلاف بھی استعمال ہو سکتی ہے۔ یعنی اگر کوئی مسلم ریاست بھی جبر واستبداد کے نظام پر مبنی ہو تو کسی غیر مسلم ریاست کے لیے جو عدل وانصاف کا بول بالا کرنا چاہتی ہو، اسی اصول کی رو سے یہ جائز ہوگا کہ وہ مسلم حکومت کا خاتمہ کر کے اپنی سیاسی بالادستی میں عدل وانصاف کے قیام کی کوشش کرے۔ اگر یہ کہا جائے کہ نہیں، اس کے بجائے اسے صرف سیاسی اور اخلاقی ذرائع کو بروئے کار لانا چاہیے اور مسلم قوم کے لیے اپنی سیاسی خود مختاری کو قائم رکھتے ہوئے داخلی طور پر اصلاح کا حق برقرار رہنے دینا چاہیے تو یہی بات غیر مسلم قوم کے بارے میں بھی کہنی چاہیے۔ 
یہ نہایت سنجیدہ اور عملی سوالات ہیں، لیکن مولانانے ان میں سے کسی کو سنجیدہ بحث کا موضوع نہیں بنایا۔
اس کے ساتھ مولانا کے موقف اور استدلال میں یکسوئی اور consistencyکا قابل لحاظ فقدان پایا جاتا ہے اور تضاد اور منطقی مغالطوں یا خلط مبحث کی مثالیں بھی پائی جاتی ہیں۔ مثال کے طو رپر مولانا ایک طرف مذہبی عداوت اور کفر وایمان کو قتال کی مشروعیت کا باعث تسلیم نہیں کرتے اور فرماتے ہیں کہ جہاد کا مقصد تلوار کے زور پر اسلام کی توسیع واشاعت کرنا نہیں، لیکن دوسری طرف اسلام کی اشاعت اور تبلیغ کے حوالے سے تلوار کے کردار کو تسلیم بھی کرتے بلکہ اسے ضروری قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں: 
’’ہم یہ بتا دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ اسلام کی اشاعت کو تلوار سے ایک گونہ تعلق ضرور ہے۔ اس میں شک نہیں کہ جہاں تک تبلیغ دین الٰہی کی حد ہے، اس میں تلوار کا کوئی کام نہیں ہے۔ لیکن اس تبلیغ کے ساتھ کچھ چیزیں اور بھی ہیں جن کے تعاون سے دنیا میں اسلام کی اشاعت ہوتی ہے، اور وہ یقیناًتلوار کی اعانت سے بے نیاز نہیں ہیں۔ ......اگر اسلام صرف چند عقائد کا مجموعہ ہوتا اور اللہ کو ایک کہنے، رسالت کو برحق ماننے، یوم آخر اورملائکہ پر ایمان لانے کے سوا انسان سے وہ کوئی اور مطالبہ نہ کرتا تو شاید شیطانی طاقتوں سے اس کو کچھ زیادہ جھگڑنے کی نوبت نہ آتی۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ صرف ایک عقیدہ ہی نہیں بلکہ ایک قانون بھی ہے، ایسا قانون جو انسان کی عملی زندگی کو اوامر ونواہی کی بندشوں میں کسنا چاہتا ہے، اس لیے اس کا کام صرف پند وموعظت ہی سے نہیں چل سکتا، بلکہ اسے نوک زبان کے ساتھ نوک سنان سے بھی کام لینا پڑتا ہے۔ اس کے عقائد سے سرکش انسان کو اتنا بعد نہیں ہے جتنا اس کے قوانین کی پابندی سے انکار ہے۔ وہ چوری کرنا چاہتا ہے اور اسلام اسے ہاتھ کاٹنے کی دھمکی دیتا ہے۔ وہ زنا کرنا چاہتا ہے اور اسلام اسے کوڑوں کی مار کا حکم سناتا ہے۔ وہ سود کھانا چاہتا ہے اور اسلام اس کو فاذنوا بحرب من اللہ ورسولہ کا چیلنج دیتا ہے۔ وہ حرام وحلال کی قیود سے نکل کر نفس کے مطالبات پورے کرنا چاہتا ہے اور اسلام ان قیود سے باہر نفس کے کسی حکم کی پیروی نہیں کرنے دیتا۔ اس لیے نفس پرست انسان کی طبیعت اس سے متنفر ہوتی ہے اور اس کے آئینہ قلب پر گناہ گاری کا ایسا زنگ چڑھ جاتا ہے کہ اس میں صداقت اسلام کے نور کو قبول کرنے کی صلاحیت ہی باقی نہیں رہتی۔ ‘‘ (الجہاد فی الاسلام، ص ۱۷۳)
اس فلسفے کی رو سے اسلام کی اشاعت کے لیے کافرانہ سوسائٹی کے پورے اخلاقی اور معاشرتی نظام کو چیلنج کرنا ضروری ہے، اس لیے کہ اس کے بغیر اسلام کی تخم ریزی کا عمل ہو ہی نہیں سکتا۔ مولانا بھی اس نتیجے کو تسلیم کرتے ہیں:
’’جس طرح یہ کہنا غلط ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے لوگوں کو مسلمان بناتا ہے، اسی طرح یہ کہنا بھی غلط ہے کہ اسلام کی اشاعت میں تلوار کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ حقیقت ان دونوں کے درمیان ہے اور وہ یہ ہے کہ اسلام کی اشاعت میں تبلیغ اور تلوار دونوں کا حصہ ہے، جس طرح ہر تہذیب کے قیام میں ہوتا ہے۔ تبلیغ کا کام تخم ریزی ہے اور تلوار کا کام قلبہ رانی۔ پہلے تلوار زمین کو نرم کرتی ہے تاکہ اس میں بیج کو پرورش کرنے کی قابلیت پیدا ہو جائے، پھر تبلیغ بیج ڈال کر آب پاشی کرتی ہے تاکہ وہ پھل حاصل ہو جو اس باغبانی کامقصود حقیقی ہے۔ ہم کو دنیا کی پوری تاریخ میں کسی ایسی تہذیب کا نشان نہیں ملتا جس کے قیام میں ان دونوں عناصر کا حصہ نہ ہو۔ تہذیب کی کسی خاص شکل کا کیا ذکر ہے، خود تہذیب کا قیام ہی اس وقت تک ناممکن ہے جب تک قلبہ رانی اور تخم پاشی کے یہ دونوں عمل اپنا اپنا حصہ ادا نہ کریں۔ کوئی شخص جو انسانی فطرت کا رمز شناس ہے، اس حقیقت سے ناآشنا نہیں ہے کہ جماعتوں کی ذہنی واخلاقی اصلاح کے سلسلے میں ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے جب کہ قلب وروح کو خطاب کرنے سے پہلے جسم وجان کو خطاب کرنا پڑتا ہے۔‘‘ (الجہاد فی الاسلام، ص ۱۷۵)
تضاد اور پریشان خیالی ہی کی ایک مثال یہ ہے کہ مولانا نے انسان کی جان سے تعرض کرنے کا جواز ’قصاص‘ کے اصول کو قرار دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جو فرد یا گروہ دوسرے انسانوں کے جان ومال یا آزادی راے پر تعدی کرے، اس کو اس سے روکنے کے لیے یا اس سے بدلہ لینے کے لیے اس کے خلاف تلوار اٹھائی جا سکتی ہے۔ ’قصاص‘ کو جہاد کی مشروعیت کا بنیادی نکتہ ماننے کایہ نتیجہ بھی مولانا خود بیان کرتے ہیں کہ اس طرح کا کوئی ظلم وعدوان نہ پائے جانے کی صورت میں کسی گروہ کے خلاف تلوار اٹھانا بھی جائز نہیں۔ لکھتے ہیں:
’’یہ تعلیم جنگ کو ہر قسم کے دنیوی مقاصد سے پاک کر دیتی ہے۔ شہرت وناموری کی طلب، عزت وفرمانروائی کی خواہش، مال ودولت اورحصول غنائم کی طمع، شخصی وقومی عداوت کا انتقام، غرض کوئی دنیوی غرض ایسی نہیں ہے جس کے لیے جنگ جائز رکھی گئی ہو۔ ان چیزوں کو الگ کر دینے کے بعد جنگ محض ایک خشک وبے مزہ اخلاقی ودینی فرض رہ جاتی ہے جس کے مہالک وخطرات میں مبتلا ہونے کی ازخود خواہش تو کوئی کر ہی نہیں سکتا، اور اگر دوسرے کی طرف سے فتنہ کی ابتدا ہو تب بھی صرف اس وقت مقابلہ کے لیے تلوار اٹھا سکتا ہے جب کہ اصلاح حال اور دفع ضرر کے لیے تلوار کے سوا کوئی دوسرا ذریعہ باقی نہ رہے۔‘‘ (الجہاد فی الاسلام، ص ۲۲۱، ۲۲۲)
’’اسلام کی تلوار ایسے لوگوں کی گردنیں کاٹنے کے لیے تو ضرور تیز ہے جو اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں یا اللہ کی زمین میں فتنہ وفساد پھیلاتے ہیں ۔اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس تیزی میں وہ حق بجانب نہیں ہے۔ لیکن جو لوگ ظالم نہیں ہیں، جو بدکار نہیں ہیں، جو صد عن سبیل اللہ نہیں کرتے، جو دین حق کو مٹانے اور دبانے کی کوشش نہیں کرتے، جو خلق خدا کے امن واطمینان کو غارت نہیں کرتے، وہ خواہ کسی قوم سے تعلق رکھتے ہوں اور ان کے دینی عقائد خواہ کتنے ہی باطل ہوں، اسلام ان کی جان ومال سے کچھ تعرض نہیں کرتا۔ ان کے لیے اس کی تلوار کند ہے اور اس کی نظروں میں ان کا خون حرام ہے۔‘‘ (الجہاد فی الاسلام، ص ۱۵۶)
لیکن اس کے بعد اسی اصول کی تفریع کرتے ہوئے مولانا اس سے ’مصلحانہ جنگ‘ کا جواز اخذ کر لیتے ہیں جو کسی ظلم وعدوان یا فتنہ وفساد کے خلاف نہیں، بلکہ عمومی سطح پر کسی معاشرے کی اخلاقی اصلاح اور اس میں نیکی کے تصورات واقدار کو فروغ دینے کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ نتیجہ کسی طرح ان کے بنیادی مقدمے پر متفرع نہیں ہوتا، کیونکہ خود مولانا کی توضیح کے مطابق رفع فساد اور قصاص کو انسانی جان سے تعرض کا بنیادی اصول ماننے کا تقاضا یہ ہے کہ جو قومیں مسلمانوں کے خلاف فتنہ وفساد کی مرتکب نہ ہوں، ان کے خلاف تلوار اٹھانا حرام قرار پائے۔
مولانا نے مفتوح قوموں کے لیے ’مصلحانہ جہاد‘ کے جو فوائد اور مصالح بیان کیے ہیں، وہ بھی بے حد مبالغے پر مبنی ہیں۔ عہد صحابہ کی فتوحات سے متعلق جو کچھ مواد تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے، اس میں اس بات کا کہیں کوئی ذکر نہیں ملتا کہ انھوں نے ان مقبوضات کے معاشرتی، تمدنی یا معاشی ڈھانچے میں کوئی بڑی تبدیلی کی ہو۔ عام طور پر صرف اس بات کا اہتمام کیا گیا کہ مفتوح قومیں پابندی کے ساتھ سالانہ جزیہ ادا کرتی رہیں، مسلمانوں کے مقابلے میں دشمن کا ساتھ نہ دیں، اپنے علاقے میں آنے والے مسلمانوں کو قیام وطعام کی مناسب سہولیات فراہم کریں اور اپنے اور مسلمانوں کے مابین معاشرتی امتیاز کو مٹانے کی کوشش نہ کریں۔
بالعموم ان علاقوں میں پہلے سے قائم نظم حکومت کو بھی نہیں چھیڑا گیا، بلکہ سابق حکمرانوں اور امرا ہی کو برقرار رکھتے ہوئے ان سے سیاسی اطاعت کا وعدہ لے لیا گیا۔ ان علاقوں پر مرکز اسلام کی طرف سے مقرر کردہ مسلمان عمال کی ذمہ داری بس یہ تھی کہ وہ محاصل وصول کر کے ان کو مدینہ بھیجنے کا انتظام کر دیں۔ اس ضمن میں رومی حکومت کے زیر اثر جزیرۂ قبرص کے ساتھ معاہدۂ صلح خاص طور پر دلچسپ ہے۔ سیدنا معاویہ کے عہد میں اس جزیرے کے باشندوں پر کوئی مسلمان عامل مقرر کیے بغیر اور جزیرے کو اسلامی حکومت کا باقاعدہ جغرافیائی حصہ بنائے بغیر محض اس شرط پر صلح کر لی گئی کہ وہ مسلمانوں کو سالانہ جزیہ کرتے رہیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ انھیں اس بات سے نہیں روکا جائے گا کہ وہ اتنی ہی رقم رومی حکومت کو بھی بطور خراج ادا کرتے رہیں۔ (طبری، تاریخ الامم والملوک ۴/۲۶۲)
عملاً جو کچھ ہوا، وہ صرف یہ تھا کہ یہ علاقے سیاسی لحاظ سے مسلمانوں کے زیر نگیں آ گئے اور یہاں سے وصول ہونے والے محاصل اسلامی حکومت کے خزانے میں جمع ہونے لگے۔ اس سے جہاد کا وہ مقصد تو بالکل واضح طور پر حاصل ہو گیا جو فقہا بیان کرتے ہیں، یعنی یہ کہ اہل کفر کے مقابلے میں مسلمانوں کی سربلندی قائم ہو جائے، لیکن مولانا مودودی نے اس سے بڑھ کر اس سیاسی غلبے کے جو مقاصد بیان کیے ہیں، مذکورہ تفصیلات کی روشنی میں وہ محض ایک افسانہ دکھائی دیتے ہیں۔ صحابہ کی حکمرانی ظاہر ہے کہ اپنے اخلاقی معیار کے لحاظ سے بہرحال جابر ومستبد حکومتوں سے ہزار درجہ بہتر تھی اور رعایا کی فلاح وبہبود کو انھوں نے اپنے طرز حکمرانی کا ایک لازمی جزو قرار دیا تھا، لیکن یہ بہرحال ان کے اقدامات کا ایک نتیجہ تھا نہ کہ اصل غرض اور مقصد۔ خود حضرات صحابہ نے کہیں اپنے اقدامات کی غرض وغایت یہ نہیں بیان کی۔ ہم صحابہ کے بیانات کی روشنی میں تفصیل سے واضح کر چکے ہیں کہ ان فتوحات کی حیثیت ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہونے والے انعام کی جبکہ مفتوح قوموں کے لیے یہ دین حق کو قبول نہ کرنے پر سزا اور انتقام کی تھی۔
’الجہاد فی الاسلام‘ کے علاوہ مولانا کی بعض دوسری تحریروں میں صحابہ کرام کے جنگی اقدامات کی توجیہ کے حوالے سے بعض دوسرے رجحانات کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے۔ مثلاً ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’ان ممالک میں شخصی حکومتیں قائم تھیں اور مستبد فرمانروا اقتدار پر قابض تھے۔ ان کا برسر اقتدار ہونا ہی اشاعت اسلام کے رستے میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا۔ ان کی موجودگی میں نہ تو اس امر کا امکان تھا کہ دعوت عام باشندگان ملک میں پھیلائی جا سکے اور نہ عوام کو اتنی آزادئ رائے اور آزادئ عمل حاصل تھی کہ اگر وہ اس دعوت حق کو پائیں تو اسے قبول کر کے اس پر عمل پیرا ہو سکیں۔ ان حالات میں حکمرانوں سے نمٹے بغیر نہ اسلام کی اشاعت کماحقہ سرانجام پا سکتی تھی اور نہ اس کے نتائج وثمرات رونما ہو سکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان سلاطین کے نام اپنے مکتوبات مبارکہ میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر تم یہ دعوت قبول نہ کرو گے یا ہماری اطاعت تسلیم نہ کرو گے تو اپنی رعایا کی گمراہی کا وبال بھی تمہارے سر ہوگا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے اس عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کسی ملک میں ایسی حکومت قائم ہو جس کے ہوتے عوام کے لیے یہ عملاً ناممکن ہو کہ وہ دعوت اسلام کو سن کر قبول کر سکیں تو ایسی حکومت کو رستے سے ہٹانا ضروری ہے۔ اس حکومت کو ہٹانا دراصل عوام الناس کو عقیدہ وعمل کی آزادی بخشنے کا ہم معنی ہے۔ اس کا مقصود یہ نہیں ہے کہ لوگوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جائے بلکہ اس کا مقصود صرف یہ ہے کہ ملک کے سیاسی نظام سے ان تمام موانع کا خاتمہ کر دیا جائے جو حق کے ادراک اور اس کے اتباع میں مزاحم ہوتے ہیں۔‘‘ (رسائل ومسائل، ۴/۱۹۰۔۱۹۲)
اس استدلال کی رو سے انھوں نے جہاد کو ایک مذہب کے بالجبر غلبہ کے بجائے آزادی مذہب کی فضا پیدا کرنے کا ضامن قرار دیا ہے۔

’تفہیم القرآن‘

آئیے اب دیکھتے ہیں کہ ’تفہیم القرآن‘ میں مولانا نے جہاد سے متعلق نصوص کی تعبیر کس زاویے سے کی ہے۔
پہلے مشرکین سے متعلق حکم کو لیجیے:
’الجہاد فی الاسلام‘ میں مولانا نے اس حکم کو نقض عہد کا ارتکاب کرنے والے مشرکین کے ساتھ خاص قرار دیا تھا اور یہ نقطہ نظر اختیار کیا تھا کہ اس مخصوص گروہ کے علاوہ عرب کے باقی مشرکین کو جزیہ دے کر اپنے مذہب پر قائم رہنے کی اجازت حاصل تھی، تاہم ’تفہیم القرآن‘ میں انھوں نے یہ بات تسلیم کر لی ہے کہ یہ حکم مشرکین کے بعض مخصوص گروہوں کے خلاف نہیں، بلکہ پورے جزیرۂ عرب کے مشرکین کے بارے میں دیا گیا تھا۔ البتہ اس حکم کے محرک اور اس کی اصل غرض وغایت کے حوالے سے روایتی فقہی نقطہ نظر سے مولانا کا اختلاف برقرار ہے۔ ان کے نزدیک مشرکین عرب کو قتل کرنے کا حکم اسلام کو بالجبر ان پر مسلط کرنے کی غرض سے نہیں، بلکہ جزیرۂ عرب کو کفر وشرک سے کلیتاً پاک کر کے خالصتاً اسلام کا مرکز بنا دینے اور ان فتنہ انگیز عناصر کی سرکوبی کے لیے دیا گیا تھا جو مستقبل میں کسی بھی موقع پر اس کی سلامتی اور استحکام کے لیے خطرہ بن سکتے تھے۔ لکھتے ہیں:
’’اب چونکہ عرب کا نظم ونسق بالکلیہ اہل ایمان کے ہاتھ میں آ گیا تھا اور تمام مزاحم طاقتیں بے بس ہو چکی تھیں، اس لیے وہ پالیسی واضح طور پر سامنے آ جانی چاہیے تھی جو عرب کو مکمل دار الاسلام بنانے کے لیے اختیار کرنی ضروری تھی۔ چنانچہ وہ حسب ذیل صورت میں پیش کی گئی:
الف۔ عرب سے شرک کو قطعاً مٹا دیا جائے اور قدیم مشرکانہ نظام کا کلی استیصال کر ڈالا جائے تاکہ مرکز اسلام ہمیشہ کے لیے خالص اسلامی مرکز ہو جائے اور کوئی دوسرا عنصر اس کے اسلامی مزاج میں نہ تو خلل انداز ہو سکے اور نہ کسی خطرے کے موقع پر اندرونی فتنہ کا موجب بن سکے۔ اسی غرض کے لیے مشرکین سے براء ت اور ان کے ساتھ معاہدوں کے اختتام کا اعلان کیا گیا۔‘‘ (تفہیم القرآن، ۲/۱۷۲)
’’اس اعلان براء ت سے عرب میں شرک اور مشرکین کا وجود گویا عملاً خلاف قانون (Outlaw) ہو گیا اور ان کے لیے سارے ملک میں کوئی جائے پناہ نہ رہی، کیونکہ ملک کا غالب حصہ اسلام کے زیر حکم آ چکا تھا۔ یہ لوگ تو اپنی جگہ اس بات کے منتظر تھے کہ روم وفارس کی طرف سے اسلامی سلطنت کو جب کوئی خطرہ لاحق ہو، یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا جائیں تو یکایک نقض عہد کر کے ملک میں خانہ جنگی برپا کر دیں۔ لیکن اللہ اور اس کے رسول نے اس کی ساعت منتظرہ آنے سے پہلے ہی بساط ان پر الٹ دی اور اعلان براء ت کر کے ان کے لیے اس کے سوا کوئی چارۂ کار باقی نہ رہنے دیا کہ یا تو لڑنے پر تیار ہو جائیں اور اسلامی طاقت سے ٹکرا کر صفحہ ہستی سے مٹ جائیں، یا ملک چھوڑ کر نکل جائیں، یا پھر اسلام قبول کر کے اپنے آپ کو اور اپنے علاقہ کو اس نظم وضبط کی گرفت میں دے دیں جو ملک کے بیشتر حصہ کو پہلے ہی منضبط کر چکا ہے۔‘‘ (۲/۱۷۵)
وان احد من المشرکین استجارک‘ کی تشریح میں لکھتے ہیں:
’’فاجرہ حتی یسمع کلام اللہ سے مراد یہ ہے کہ ان کو اپنی پناہ میں لے کر اللہ کا کلام سناؤ، اگر وہ اس طرح وعظ ونصیحت حاصل کریں اور اسلام قبول کر لیں تو بہتر ہے، اور اگر ان کے دل اسلام کے لیے نہ کھلیں تو ان کو قتل نہ کرو بلکہ امن وعافیت کے ساتھ ان کو ان کے وطن تک پہنچا دو۔‘‘ (الجہاد فی الاسلام، ص ۲۷۳)
اس توجیہ کی رو سے ’فاقتلوا المشرکین‘ کا مذکورہ حکم دین ومذہب کے اختلاف پر نہیں بلکہ ایک سیاسی مصلحت پر مبنی حکم قرار پاتا ہے۔ گویا مشرکین کو قتل کرنا اصلاً مقصود نہیں تھا، بلکہ اس کی ضرورت جزیرۂ عرب کو کفر وشرک اور فتنہ انگیز عناصر سے پاک کر کے خالصتاً اسلام کا مرکز بنا دینے کے حوالے سے پیدا ہوئی تھی۔ اس توجیہ پر جو اعتراضات وارد ہوتے ہیں، ان کا ذکر ہم اپنے مقام پر کریں گے۔ بہرحال، قتل مشرکین کے اس حکم کا محرک اور ہدف جو بھی ہو، مولانا کی تعبیر سے اتنی بات واضح ہے کہ وہ اسے ایک مخصوص دائرے اور مخصوص نوعیت کا حکم سمجھتے ہیں جس سے عمومی نوعیت کا کوئی شرعی حکم اخذ نہیں کیا جا سکتا۔ 
دنیا کی غیر مسلم اقوام کے خلاف جہاد کے حوالے سے شریعت کے عمومی حکم کے لیے مولانا نے ’قاتلوہم حتی لا تکون فتنۃ ویکون الدین للہ‘ اور آیت جزیہ کو ماخذ بنایا ہے اور اس حکم کی نظریاتی اساس یہ متعین کی ہے کہ اسلام شخصی اعتقاد اور رسمی عبادت کے دائرے میں تو کفر وشرک کو گوارا کر لیتا ہے، لیکن کسی ایسے نظام حکومت کا وجود اسے قبول نہیں جس میں خدائی قانون کے علاوہ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کی عمل داری قائم ہو۔ اسی تناظر میں انھوں نے تفہیم القرآن میں ’حتی لا تکون فتنۃ‘ میں وارد لفظ ’فتنہ‘ کی بھی نئی تشریح کی ہے۔ اس سے پہلے الجہاد فی الاسلام میں انھوں نے ’فتنہ‘ کا مصداق حسب ذیل صورتوں کو قرار دیا تھا:
۱۔ کمزوروں پر ظلم کرنا، ان کے جائز حقوق سلب کرنا، ان کے گھر بار چھین لینا اور انھیں تکلیفیں پہنچانا۔
۲۔ جبر واستبداد کے ساتھ حق کو دبانا اور قبول حق سے لوگوں کو روکنا۔
۳۔ صد عن سبیل اللہ، یعنی اسلام قبول کرنے سے لوگوں کو روکنا، مسلمانوں کو زبردستی مرتد بنانے کی کوشش کرنا اور مسلمانوں کے لیے اسلام کے مطابق زندگی بسر کرنے کو مشکل بنا دینا۔ (الجہاد فی الاسلام، ص ۶۶)
۴۔ لوگوں کو گمراہ کرنا اور حق کے خلاف خدع وفریب اور طمع واکراہ کی کوششیں کرنا۔
۵۔ غیر حق کے لیے جنگ کرنا اور ناجائز اغراض کے لیے قتل وخون اور جتھہ بندی کرنا۔
۶۔ پیروان حق پر باطل پرستوں کا غلبہ اور چیرہ دستی۔ (الجہاد فی الاسلام، ص ۱۰۶۔۱۰۹)
ظاہر ہے کہ ان میں سے کوئی بھی وجہ مخصوص معنوں میں مذہبی یا اعتقادی وجہ نہیں ہے۔ تاہم تفہیم القرآن میں مولانا نے اپنے بدلے ہوئے زاویہ نگاہ کے تحت ’فتنہ‘ کے مفہوم میں توسیع پیدا کی ہے اور اس صورت حال کو بھی اس کا مصداق قرار دیا ہے جب خدا کی حاکمیت کے بجائے انسانوں کی حاکمیت قائم ہو اور خدا کے قانون کے بجائے انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین جاری ونافذ ہوں۔ لکھتے ہیں:
’’سیاق وسباق سے صاف ظاہر ہے کہ اس مقام پر ’’فتنے‘‘ سے مراد وہ حالت ہے جس میں دین اللہ کے بجائے کسی اور کے لیے ہو، اور لڑائی کا مقصد یہ ہے کہ یہ فتنہ ختم ہو جائے اور دین صرف اللہ کے لیے ہو۔ پھر جب ہم لفظ ’’دین‘‘ کی تحقیق کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عربی زبان میں دین کے معنی ’’اطاعت‘‘ کے ہیں اور اصطلاحاً اس سے مراد وہ نظام زندگی ہے جو کسی کو بالاتر مان کر اس کے احکام وقوانین کی پیروی میں اختیار کیا جائے۔ پس دین کی اس تشریح سے یہ بات خود واضح ہو جاتی ہے کہ سوسائٹی کی وہ حالت جس میں بندوں پر بندوں کی خدائی وفرماں روائی قائم ہو، اور جس میں اللہ کے قانون کے مطابق زندگی بسر کرنا ممکن نہ رہے، فتنے کی حالت ہے اور اسلامی جنگ کا مطمح نظر یہ ہے کہ اس فتنے کی جگہ ایسی حالت قائم ہو جس میں بندے صرف قانون الٰہی کے مطیع بن کر رہیں۔‘‘ (تفہیم القرآن، ۱/۱۵۱)
مولانا کا یہ نقطہ نظر الوہیت، ربوبیت اور توحید کی اس مخصوص تشریح پر مبنی ہے جس کی رو سے قرآن مجید کا تصور توحید صرف مابعد الطبیعیاتی اعتقادات، مافوق الاسباب امور کی تدبیر اور رسوم عبادت کے دائرے تک محدود نہیں، بلکہ خدا کی الوہیت، ربوبیت اور حاکمیت دنیا کے قانونی وسیاسی دائرے میں بھی ’’توحید‘‘ کا تقاضا کرتی ہے ۔ مولانا نے اپنے اس تصور کی تفصیلی وضاحت اپنی کتاب ’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘‘ اور تفہیم القرآن کے مختلف مقامات پر کی ہے اور ہمارے ناقص فہم کے مطابق اسی تصور نے انھیں اس نتیجے تک پہنچایا ہے کہ دنیا سے غیر الٰہی اور طاغوتی نظاموں کو مٹانے کے لیے جہاد کیا جائے گا۔ تفہیم القرآن میں انھوں نے جہاد کے احکام کی وضاحت اسی پہلو سے کی ہے۔ لکھتے ہیں:
’’کافر، مشرک، دہریے، ہر ایک کو اختیار ہے کہ اپنا جو عقیدہ رکھتا ہے، رکھے اور جس کی چاہے عبادت کرے یا کسی کی نہ کرے۔ اس گمراہی سے اس کو نکالنے کے لیے ہم اسے فہمایش اور نصیحت کریں گے مگر اس سے لڑیں گے نہیں۔ لیکن اسے یہ حق ہرگز نہیں کہ خدا کی زمین پر خدا کے قانون کے بجائے اپنے باطل قوانین جاری کرے اور خدا کے بندوں کو غیر از خدا کسی کا بندہ بنائے۔ اس فتنے کو رفع کرنے کے لیے حسب موقع او رحسب امکان، تبلیغ اور شمشیر، دونوں سے کام لیا جائے گا اور مومن اس وقت تک چین سے نہ بیٹھے گا، ب تک کفار اپنے اس فتنے سے باز نہ آ جائیں۔‘‘ (تفہیم القرآن ۱/۱۵۱)
آیت جزیہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’عرب میں اسلام کا مشن پایہ تکمیل کو پہنچ جانے کے بعد دوسرا اہم مرحلہ جو سامنے تھا، وہ یہ تھا کہ عرب کے باہر دین حق کا دائرۂ اثر پھیلایا جائے۔ اس معاملہ میں روم وایران کی سیاسی قوت سب سے بڑی سد راہ تھی اور ناگزیر تھا کہ عرب کے کام سے فارغ ہوتے ہی اس سے تصادم ہو۔ نیز آگے چل کر دوسرے غیر مسلم سیاسی وتمدنی نظاموں سے بھی اسی طرح سابقہ پیش آنا تھا۔ اس لیے مسلمانوں کو ہدایت کی گئی کہ عرب کے باہر جو لوگ دین حق کے پیرو نہیں ہیں، ان کی خود مختارانہ فرماں روائی کو بزور شمشیر ختم کر دو تا آنکہ وہ اسلامی اقتدار کے تابع ہو کر رہنا قبول کر لیں۔ جہاں تک دین حق پر ایمان لانے کا تعلق ہے، ان کو اختیار ہے کہ ایمان لائیں یا نہ لائیں، لیکن ان کو یہ حق نہیں ہے کہ خدا کی زمین پر اپنا حکم جاری کریں اور انسانی سوسائٹیوں کی زمام کار اپنے ہاتھ میں رکھ کر اپنی گمراہیوں کو خلق خدا پر اور ان کی آنے والی نسلوں پر زبردستی مسلط کرتے رہیں۔ زیادہ سے زیادہ جس آزادی کے استعمال کا انھیں اختیار دیا جا سکتا ہے، وہ بس اسی حد تک ہے کہ خود اگر گمراہ رہنا چاہتے ہیں تو رہیں، بشرطیکہ جزیہ دے کر اسلامی اقتدار کے مطیع بنے رہیں۔‘‘ (تفہیم القرآن، ۲/۱۷۲)
جزیہ کی نوعیت اور اس کا مقصد واضح کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے:
’’یہ جزیہ وہ چیز ہے جس کے لیے بڑی بڑی معذرتیں انیسویں صدی عیسوی کے دور مذلت میں مسلمانوں کی طرف سے پیش کی گئی ہیں اور اس دور کی یادگار کچھ لوگ اب بھی موجود ہیں جو صفائی دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ لیکن خدا کا دین اس سے بہت بالا وبرتر ہے کہ اسے خدا کے باغیوں کے سامنے معذرت پیش کرنے کی کوئی حاجت ہو۔ سیدھی اور صاف بات یہ ہے کہ جو لوگ خدا کے دین کو اختیار نہیں کرتے اور اپنی یا دوسروں کی نکالی ہوئی غلط راہوں پر چلتے ہیں، وہ حد سے حد بس اتنی ہی آزادی کے مستحق ہیں کہ خود جو غلطی کرنا چاہتے ہیں، کریں، لیکن انہیں اس کا قطعاً کوئی حق نہیں ہے کہ خدا کی زمین پر کسی جگہ بھی اقتدار وفرمانروائی کی باگیں ان کے ہاتھوں میں ہوں اور وہ انسانوں کی اجتماعی زندگی کا نظام اپنی گمراہیوں کے مطابق قائم کریں اور چلائیں۔ یہ چیز جہاں کہیں ان کو حاصل ہو، فساد رونما ہوگا اور اہل ایمان کا فرض ہوگا کہ ان کو اس سے بے دخل کرنے اور انھیں نظام صالح کا مطیع بنانے کی کوشش کریں۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ جزیہ آخر کس چیز کی قیمت ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اس آزادی کی قیمت ہے جو انھیں اسلامی اقتدار کے تحت اپنی گمراہیوں پر قائم رہنے کے لیے دی جاتی ہے، اور اس قیمت کو اس صالح نظام حکومت کے نظم ونسق پر صرف ہونا چاہیے جو انھیں اس آزادی کے استعمال کی اجازت دیتا ہے اور ان کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے۔ اور اس کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ جزیہ ادا کرتے وقت ہر سال ذمیوں میں یہ احساس تازہ ہوتا رہے گا کہ خدا کی راہ میں زکوٰۃ دینے کے شرف سے محرومی اور اس کے بجائے گمراہیوں پر قائم رہنے کی قیمت ادا کرنا کتنی بڑی بد قسمتی ہے جس میں وہ مبتلا ہیں۔‘‘ (تفہیم القرآن، ۲/۱۸۸)
ان اقتباسات میں جہاد کا جو فلسفہ اور اس کی نظری اساس بیان کی گئی ہے، وہ واضح طور پر ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ اور اس موضوع پر مولانا کی بعض دوسری تحریروں سے مختلف ہے۔ سابقہ تحریروں میں مولانا کا ذہنی رجحان یہ رہا ہے کہ جہاد کی نظری اساس مذہبی مخاصمت یا دوسرے الفاظ میں کفر وایمان کے اختلاف کو قرار دینے کے بجائے کفار کے فتنہ وفساد کے خاتمہ یا تبلیغ اسلام کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا دور کرنے یا انسانوں کے مابین مسلمہ اخلاقی اصولوں کی بالادستی قائم کرنے کو قرار دیا جائے۔ اس توجیہ سے ان کا مقصود تو کسی حد تک حاصل ہو جاتا ہے، لیکن اس کو قبول کرنے میں رکاوٹ یہ ہے کہ نصوص اس کی تائید نہیں کرتے۔ ہم واضح کر چکے ہیں کہ جہاد کے حوالے سے زیر بحث نصوص مذکورہ وجوہ میں سے کسی وجہ کے تحت نہیں بلکہ صریحاً اسلام اور کفر وایمان کے تناظر میں جہاد کا حکم دیتی ہیں، چنانچہ اس وجہ کو نظر انداز کر کے کی جانے والی کوئی بھی تطبیق اصل سوال سے نظریں چرانے کے مترادف ہے۔ تفہیم القرآن کے مذکورہ اقتباسات سے واضح ہوتا ہے کہ مولانا مودودی پر بھی بالآخر اس زاویہ نگاہ کی کمزوری واضح ہو چکی تھی، چنانچہ یہاں انھوں نے متعلقہ نصوص کی واضح دلالتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے جہاد کا مقصد اسلامی نظام زندگی کی بالادستی قائم کرنے کو قرار دیا ہے جو بہرحال عمومی اخلاقی اصولوں پر مبنی نہیں بلکہ بداہۃً ایک خالص اعتقادی اور مذہبی مقصد ہے۔ 
تاہم مولانا نے یہاں فقہا کی کلاسیکی تعبیر کو بعینہ اختیار نہیں کیا، بلکہ ایک نئی تعبیر پیش کی ہے جو ایک اہم نکتے میں فقہی تعبیر سے مختلف ہے۔ فقہا کے نزدیک ’اعلاء کلمۃ اللہ‘ اور غلبہ اسلام سے مراد قانون وشریعت کی سطح پر غیر مسلموں کے قوانین اور رواجوں کا خاتمہ نہیں، بلکہ نظری واعتقادی تناظر میں علامتی طور پر اسلام اور کلمہ اسلام کی بالادستی قائم کرنا ہے۔ فقہا شرعی قوانین کی تنفیذ کو جہاد کا مقصد نہیں قرار دیتے، بلکہ ان کے ہاں یہ مسئلہ جہاد کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ایک ضمنی صورت حال کی حیثیت سے زیر بحث آتا ہے جس کا وہ اپنے اپنے اجتہاد کے مطابق حل تجویز کرتے ہیں۔ چنانچہ ان میں سے بعض کے نزدیک تمام شرعی قوانین کی پابندی اہل ذمہ پر لازم ہے، بعض کے نزدیک صرف معاملات یعنی نکاح وطلاق، بیع وشرا اور حدود وتعزیرات سے متعلق قوانین ان پر نافذ کیے جائیں گے جبکہ بعض کے نزدیک وہ ان تمام معاملات میں اپنے مذہبی قوانین پر عمل کے لیے آزاد ہیں۔ چونکہ فقہا کے نزدیک غیر مسلموں پر شرعی احکام کا نفاذ جہاد کا اصل مقصد نہیں، اس لیے اگر ان میں سے کسی کی رائے میں شریعت کا کوئی ایک بھی قانون غیر مسلموں پرلاگو نہ ہوتا ہو تب بھی اس سے ان کے فلسفہ جہاد پر کوئی زد نہیں پڑتی، کیونکہ ان کے تصور کے مطابق اسلام کی سربلندی مسلمانوں کی سیاسی بالادستی اور غیر مسلموں کی محکومیت کی صورت میں اس کے بغیر بھی حاصل ہو جاتی ہے۔ تاہم مولانا مودودی کی تعبیر کا معاملہ یہ نہیں ہے۔ ان کے نزدیک چونکہ جہاد کا اصل محرک اور مقصد ہی اسلام کے اجتماعی نظام زندگی اور اس کے احکام وقوانین کی فرماں روائی قائم کرنا ہے، اس لیے ایک منطقی نتیجے کے طور پر انھیں یہ کہنا چاہیے کہ اسلام نے اجتماعی زندگی کے مختلف پہلووں یعنی معاشرت، معیشت اور سیاست وغیرہ سے متعلق جو اصول اور قوانین بیان کیے ہیں، وہ اسلامی ریاست کے تمام باشندوں کے لیے بلا تفریق مذہب واجب الاطاعت ہوں گے، لیکن مولانا مودودی اس کے قائل نہیں اور وہ اپنے تصور کے مطابق اسلامی نظام زندگی کے عملی نفاذ کو صرف ان لوگوں تک محدود سمجھتے ہیں جو اعتقادی سطح پر اس کی دعوت کو قبول کر لیں۔ چنانچہ تفہیم القرآن میں انھوں نے جہاں بھی اقامت دین کے حوالے سے انبیا کے مشن کی وضاحت کی ہے، اس میں اس مقصد کو ایمان لانے والوں تک ہی محدود کیا گیا ہے۔ لااکراہ فی الدین کے تحت لکھتے ہیں:
’’یہاں ’’دین‘‘ سے مراد اللہ کے متعلق وہ عقیدہ ہے جو اوپر آیت الکرسی میں بیان ہوا ہے اور وہ پورا نظام زندگی ہے جو اس عقیدے پر بنتا ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ ’’اسلام‘‘ کا یہ اعتقادی اور اخلاقی وعملی نظام کسی پر زبردستی نہیں ٹھونسا جا سکتا۔ یہ ایسی چیز ہی نہیں ہے جو کسی کے سر جبراً منڈھی جا سکے۔‘‘ (تفہیم القرآن، ۱/۱۹۶)
یہی وجہ ہے کہ وہ پبلک لا سے متعلق چند قوانین کے علاوہ اسلامی شریعت کے بیشتر معاشرتی احکام سے غیر مسلموں کو مستثنیٰ قرار دیتے ہیں اور ان کے نزدیک غیر مسلموں کے تمام معاشرتی ومذہبی قوانین کو تحفظ کی ضمانت حاصل ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر غیر مسلم معاشروں اور ممالک کے حوالے سے مسلمانوں پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟ اس کا جواب انھوں نے ’’شہادت حق‘‘ کے عنوان سے اپنی ایک تحریر میں دیا ہے اور اس ذمہ داری کو محض حق کی علانیہ گواہی دے دینے تک محدود رکھا ہے۔ اس طرح مولانا کی زیر بحث توجیہ ایک شدید داخلی تضاد کا شکار ہو جاتی ہے، کیونکہ وہ جس نکتے کو جہاد کی اصل اساس اور ہدف قرار دیتے ہیں، اسے عملاً اور نتیجتاً قبول نہیں کرتے اور غیر مسلموں کو اپنے ان بیشتر گمراہانہ طور طریقوں، رواجوں اور قوانین پر کاربند رہنے کی اجازت دیتے ہیں جن کے خاتمے کو جہاد کی مشروعیت کا مقصد بتایا گیا تھا۔ اب اگر جہاد کے ذریعے سے ان معاشرتی وقانونی رواجوں کا خاتمہ نہیں ہوتا اور قانون ونظام کے دائرے میں خدائی قوانین کی حاکمیت غیر مسلموں پر قائم نہیں ہوتی تو جہاد کا مقصد عملاً غیر خدائی احکام وقوانین کی فرماں روائی کو ختم کرنا نہیں بلکہ محض ان کو ماننے والوں سے حکومت واقتدار چھین لینا قرار پاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے مولانا کی بیان کردہ توجیہ کی پوری عمارت ہی منہدم ہو جاتی ہے، کیونکہ اگر جہاد کا اصل ہدف یہی ہے تو اس کے لیے احکام وقوانین کی فرماں روائی کا حوالہ دینے اور اسے اس کے مقصود اور غایت کے طور پر بیان کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہتی اور اس کے بجائے کلاسیکی فقہی تعبیر زیادہ موزوں دکھائی دیتی ہے۔ 
ایک امکان یہ ہو سکتا ہے کہ مولانا غیر مسلم حکومت کے خاتمے اور پبلک لا سے متعلق اسلامی شریعت کے چند قوانین کے نفاذ کو ہی اسلام کے اجتماعی نظام زندگی کی فرماں روائی قائم کرنے کے ہم معنی سمجھتے اور اسے ہی جہاد کا مقصد قرار دیتے ہوں۔ تاہم اس صورت میں ان کی بیان کردہ علت درست قرار نہیں پاتی، اس لیے کہ اگر علت ’خدا کے قانون‘ کے علاوہ کسی بھی دوسرے قانون کی فرماں روائی کو ختم کرنا ہے تو پھر ایک طرح کے قوانین اور دوسری طرح کے قوانین میں فرق جائز نہیں ہو سکتا۔ بالخصوص مولانا مودودی کے تصور کی رو سے یہ تفریق زیادہ ناقابل قبول قرار پاتی ہے، کیونکہ ان کے نزدیک خدا کے دیے ہوئے قوانین کے علاوہ کسی دوسرے کے وضع کردہ قانون کی پیروی شرک کی ایک صورت ہے، اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ غیر مسلم شخصی معاملات کے دائرے میں اپنے گمراہانہ قوانین پر عمل کے لیے آزاد ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ شخصی قوانین کے دائرے میں اس شرک فی الاطاعت کو آخر کن وجوہ سے گوارا کیا گیا ہے؟ اور اگر اعتقاد کی سطح پر غیر خدا کی عبادت کی اجازت ہے اور پرسنل لا میں بھی غیر خدائی قوانین کی فرماں روائی قبول کی جا سکتی ہے تو ایسی قوم اپنے مذہبی تصورات کے مطابق اپنے نظم اجتماعی کی تشکیل کیوں نہیں کر سکتی؟ مولانا یہ بھی واضح نہیں کرتے کہ اگر خدا کی حاکمیت کو قانونی وسیاسی سطح پر قائم کرنا دین کا اصل مقصد ہے تو پھر سب سے پہلے تو اس حاکمیت کو نظری طور پر تسلیم کروانا چاہیے۔ آخر یہ کیا منطق ہے کہ قانونی وعملی حاکمیت کو ماننا جس نظری اور اعتقادی بنیاد یعنی خدائے واحد اور اس کی دی ہوئی شریعت پر ایمان پر مبنی ہے، اس کو ماننے یا نہ ماننے کا تو پورا اختیار دے دیا جائے، لیکن اس کی فرع اور نتیجے کو منوانے کے لیے جبر واکراہ کو روا رکھا جائے؟ 
مولانا کے نقطہ نظر میں پائی جانے والی الجھن کو حل کرنے کے لیے ایک مزید امکان یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ مولانا کی مراد دراصل غیر مسلموں سے اپنے گمراہانہ قوانین کی پیروی کا حق سلب کرنا نہیں، بلکہ ان قوانین کو حکومت واقتدار کے ذریعے سے دوسرے انسانوں پر مسلط کرنے کی صلاحیت چھین لینا ہے۔ یہ فرض کرنے کے لیے مولانا کے یہ الفاظ ایک حد تک جواز فراہم کرتے ہیں کہ ’’ان کو یہ حق نہیں ہے کہ خدا کی زمین پر اپنا حکم جاری کریں اور انسانی سوسائٹیوں کی زمام کار اپنے ہاتھ میں رکھ کر اپنی گمراہیوں کو خلق خدا پر اور ان کی آنے والی نسلوں پر زبردستی مسلط کرتے رہیں۔‘‘ تاہم یہ مفروضہ بھی الجھن کو حل نہیں کرتا، اس لیے کہ اگر ’’خلق خدا اور ان کی آنے والی نسلوں پر زبردستی مسلط کرنے‘‘ سے مراد یہ ہے کہ کوئی ایک قوم کسی دوسرے قوم پر اپنے نظام زندگی کو مسلط نہ کر سکے تو پھر جہاد صرف اس قوم کے خلاف جائز ہونا چاہیے جو اس طرح کے عزائم اور ان کو رو بہ عمل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو، نہ کہ مطلق طور پر تمام اقوام کے خلاف۔ او ر اگر مراد یہ ہے کہ ایک قوم کے ارباب حل وعقد کو اپنا مخصوص نظام زندگی اپنی ہی قوم پر نافذ کرنے کا حق نہیں ہے تو اول تو اس کے لیے ’’زبردستی مسلط کرنے‘‘ کی تعبیر درست نہیں، کیونکہ کسی بھی قوم کا نظام زندگی اصولی طور پر کسی ایک طبقے کا مسلط کردہ نہیں ہوتا بلکہ بحیثیت مجموعی پوری قوم کے نظریہ حیات پر مبنی اور اس کا ترجمان ہوتا ہے اور کرہاً نہیں، بلکہ طوعاً اس پر ’’مسلط‘‘ کیا جاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ کسی قوم کا اپنے نظام زندگی کو اپنے تصورات کے مطابق تشکیل دینے کا اختیار مولانا کے تصور کے مطابق اسلامی حکومت کے قیام کے بعد بھی کلی طور پر ختم نہیں ہوتا، کیونکہ خود مولانا اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے مذہبی اور معاشرتی قوانین کو تحفظ کی ضمانت دیتے ہیں جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ غیر مسلم قومیں اپنے مخصوص دائرے میں اپنے تصورات کے مطابق نظام زندگی بھی تشکیل دے سکتی ہیں او ر اس کے تحت اپنی آئندہ نسلوں کی پرورش کااہتمام بھی پوری آزادی کے ساتھ کر سکتی ہیں۔ اس طرح ریاست کی سطح حکومت واقتدار سے محروم ہونے کے باوجود معاشرتی سطح پر ’’انسانی سوسائٹیوں کی زمام کار اپنے ہاتھ میں رکھ کر اپنی گمراہیوں کو خلق خدا پر اور ان کی آنے والی نسلوں پر زبردستی مسلط کرتے رہنے‘‘ کا اختیا ر بہرحال غیر مسلموں کے پاس جوں کا توں باقی رہ جاتا ہے۔

ایک تیسرا زاویہ نظر

آخر میں، مولانا مودودی کی تحریروں میں اسلام کے فلسفہ جہاد اور اس کے عملی وقانونی مضمرات کے حوالے سے ایک تیسرے زاویہ نگاہ کا ذکر بھی ضروری ہے جس کی نمائندگی بنیادی طور پر اس مناقشے میں ہوئی ہے جو دار الحرب میں غیر مسلموں سے سود لینے کے جواز وعدم جواز کے ضمن میں ان کے اور مولانا مناظر احسن گیلانی کے مابین ہوا۔ یہاں مولانا کا زاویہ نگاہ بدلا ہوا ہے اور وہ اقوام عالم کی اصلاح کی غرض سے پور ی دنیا پر اسلامی حکومت قائم کرنے کو مسلمانوں کا اخلاقی فریضہ قرار دینے کے بجائے کفر اور اسلام کی کشمکش کو محض نظری اور اعتقادی دائرے تک محدود قرار دیتے ہیں۔ لکھتے ہیں:
’’اعتقادی قانون کے لحاظ سے دنیا دو ملتوں پر منقسم ہے۔ اسلام اور کفر۔ تمام مسلمان ایک قوم ہیں اور تمام کفار دوسری قوم۔ ..... کفر ایک دوسری ملت ہے جس سے ہمارا اختلاف اصول اور اعتقاد اور قومیت کا اختلاف ہے۔ اس اختلاف کی بنا پر اصلاً ہمارے اور ان کے درمیان جنگ قائم ہے، الا یہ کہ اس پر صلح یا معاہدہ یا ذمہ کی کوئی حالت عارض ہو جائے۔ پس اسلام اور کفر، اور مسلم اور کافر کے درمیان اصل صلح نہیں بلکہ جنگ اصل ہے اور صلح اس پر عارض ہوتی ہے۔ مگر یہ جنگ بالفعل نہیں، بالقوہ ہے، عملی نہیں نظری اور اصولی ہے۔ اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ جب تک ہماری اور ان کی قومیت الگ ہے اور ہمارے اور ان کے اصول ایک دوسرے سے متصادم ہیں، ہم میں اور ان میں حقیقی ودائمی صلح اور دوستی نہیں ہو سکتی۔ ....... اس اعتقادی قانون کی رو سے اسلام اور کفر کے درمیان ابدی جنگ ہے، مگر یہ جنگ محض نظری (Theoretical) ہے۔ ہر کافر حربی (Enemy) ہے، مگر اس معنی میں کہ جب تک ہماری اور اس کی قومیت الگ ہے، ہمارے اور اس کے درمیان بناے نزاع قائم ہے۔ ہر دار الکفر محل حرب ہے یا بالفاظ دیگر حربیت کا کلی ارتفاع صرف اختلاف قومیت ہی کے مٹ جانے سے ہو سکتا ہے۔ اس قانون نے محض ایک نظریہ اور قاعدۂ اصلیہ واضح طور پر مسلمانوں کے سامنے رکھ دیا ہے جس پر ان کی حکمت عملی کی بنا قائم ہے۔ باقی رہے حقوق وواجبات اور جنگ وصلح کے عملی مسائل تو ان کا اس قانون سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ دستوری اور بین الاقوامی قانون سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘ (سود ص ۲۹۶ تا ۲۹۹)
اس بحث میں آگے چل کر اسلام کے بین الاقوامی قانون کی وضاحت کے تحت انھوں نے ایک بنیادی نکتے میں روایتی فقہی نقطہ نظر سے اختلاف کیا ہے۔ کلاسیکی فقہا کے ہاں غیر مسلموں کے ساتھ اسلامی ریاست کے تعلق کی حسب ذیل صورتیں تسلیم کی گئی ہیں:
اہل ذمہ، یعنی وہ غیر مسلم جو اسلامی ریاست کے شہریوں کی حیثیت سے اسلامی ریاست میں مقیم ہوں۔
اہل صلح، یعنی وہ غیر مسلم قوم جو دار الاسلام کی باسی نہ ہو، لیکن اسلامی قوانین کی پابندی قبول کرتے ہوئے اسلامی ریاست کو جزیہ ادا کرنے پر رضامند ہو جائے۔
اہل موادعہ، یعنی وہ غیر مسلم قوم جو نہ تو دار الاسلام میں مقیم ہو اور نہ اسلامی قوانین کی پابندی کو قبول کریں، البتہ اسلامی ریاست کو جزیہ دینا قبول کر لیں۔
اہل حرب، یعنی وہ غیر مسلم جن کا مذکورہ صورتوں میں سے کسی صورت میں بھی اسلامی ریاست کے ساتھ تعلق نہ ہو۔ 
فقہا کے ہاں کسی غیر مسلم قوم کے ساتھ جزیہ کی ادائیگی اور اسلامی قوانین کی پابندی کے بغیر صلح کسی مستقل قانونی آپشن کی حیثیت نہیں رکھتی، بلکہ کسی مجبوری کے تحت محض وقتی طور پر اس کی گنجایش ہے۔ تاہم مولانا مودودی نہ صرف غیر جانبدار غیر مسلم قوموں کا وجود ایک مستقل قانونی شق کے طور پر تسلیم کرتے ہیں بلکہ یہ بھی قرار دیتے ہیں کہ ایسی قوموں کے لیے اسلام قبول کرنے یا جزیہ ادا کرنے کے علاوہ ان کے ساتھ محض صلح کا معاہدہ کر لینا بھی ایک مستقل قانونی آپشن ہے اور ان کے خلاف جنگ صرف اس صورت میں جائز ہوگی جب وہ مسلمانوں کی طرف سے معاہدہ صلح کی پیش کش کو قبول نہ کریں۔ لکھتے ہیں:
’’اس آخری قسم کے کفار کی بھی متعدد اقسام ہیں۔ ایک وہ جن سے اسلامی حکومت کا معاہدہ نہ ہو مگر دشمنی بھی نہ ہو۔ دوسرے وہ جو اسلامی حکومت کو خراج دیتے ہوں مگر ان کی حدود میں احکام اسلامی جاری نہ ہوں۔ تیسرے وہ جن سے کوئی معاہدہ نہ ہو گر دشمنی بھی نہ ہو۔ چوتھے وہ جن سے مسلمانوں کی دشمنی ہو۔‘‘ (سود ص ۳۱۴)
’’غیر معاہدین‘‘ کے زیر عنوان ان میں سے پہلی قسم کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’وہ کفار جن سے معاہدہ نہ ہو۔ یہ ایک ایسی حالت ہے جس کو ہمیشہ بین الاقوامی تعلقات میں جنگ کا پیش خیمہ سمجھا جاتا ہے۔ سیاسی تعلقات کا انقطاع (Rupture of Diplomatic Relations) دراصل یہ معنی رکھتا ہے کہ دونوں قومیں اب باہمی احترام کی قیود سے آزاد ہیں۔ ..... اگر مسلمانوں نے دعوت کے بغیر ان سے جنگ کی تو گناہ گارہوں گے، لیکن ایسی جنگ میں ان کی جان ومال کا جو اتلاف وہ کریں گے، اس میں سے کسی چیز کا ضمان حنفیہ کے نزدیک مسلمانوں پر لازم نہ آئے گا۔‘‘ (سود ص ۳۲۰، ۳۲۱)
’’دعوت سے مراد یہ ہے کہ ان کو الٹی میٹم دیا جائے کہ یا تو ہم سے صلح ومعاہدہ کرو، یا جزیہ دو، یا مسلمان ہو کر ہماری قومیت میں شامل ہو۔ اگر ان تینوں صورتوں میں سے کوئی صورت تم قبول نہیں کرتے تو ہمارے اورتمہارے درمیان جنگ کے سوا اور کوئی صورت نہیں ہے۔‘‘ (سود ص۳۲۱) 
اپنے اسی نقطہ نظر کے تحت انھوں نے فقہا کی اس راے سے بھی اختلاف کیا ہے کہ جو غیر مسلم قوم مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ نہیں رکھتی، وہ حربی قوم ہے اور مسلمانوں کے لیے اس پر حملہ کرنا یا معمول کے حالات میں اس کے باشندوں کے جان ومال کو مباح رکھنا درست ہے۔ مولانا لکھتے ہیں:
’’محارب وہ قوم ہے جو مسلمانوں سے برسر جنگ ہو۔ ایسی قوم کا کوئی فرد یا گروہ بالفعل مقاتل (combatant) ہو یا نہ ہو، بہرحال اس کا مال مباح ہے۔ ہم اس کے تجارتی قافلوں کو گرفتار کر سکتے ہیں۔ اس کے افراد ہماری زد میں آئیں گے تو ہم ان کو پکڑیں گے اور ان کے اموال پر قبضہ کر لیں گے۔ ..... لیکن جو قوم ہم سے برسر جنگ نہیں ہے، وہ خواہ معاہد ہو نہ ہو، اس کے اموال ہمارے لیے مباح نہیں ہیں۔ قرآن میں تصریح ہے کہ لَا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ أَن تَبَرُّوہُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَیْْہِمْ (الممتحنہ۔ ۸) یہ بات عین مقتضاے عقل وانصاف ہے۔ ورنہ اگر مسلمانوں کے لیے مطلقاً ہر غیر ذمی کافر کا مال مباح ہو، جیسا کہ مولانا کے بیان سے ظاہر ہو رہا ہے، تو مسلمانوں کی قوم اقوام عالم کے درمیان امت وسط ہونے کے بجائے ایک لٹیری قوم بن جائے گی، غیر قوموں پر ڈاکے ڈالنا اس کا پیشہ قرار پائے گا اور دنیا میں اس کا وجود ایک بلائے عام بن جائے گا۔‘‘ (سود ص ۲۴۱، ۲۴۲)
’’مولانا کے نظریہ کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ ہر غیرذمی کافر کو حربی (Enemy) اور ہر غیر مسلم مقبوضہ کو دار الحرب (Enemy Country) سمجھ رہے ہیں۔ یہ اسلام کے بین الاقوامی قانون کی بالکل غلط تعبیر ہے۔ غیر مسلم کا مال اور خون صرف حالت جنگ میں مباح ہے۔‘‘ (سود ص ۲۴۵)
’’اصلی غلطی یہ ہے کہ مولانا ہر اس غیر مسلم کے مال کو مباح سمجھ رہے ہیں جس کی ذمہ داری کسی اسلامی حکومت نے نہ لی ہو، حالانکہ اس نظریہ کی تائید قرآن وحدیث کے کسی حکم سے نہیں ہوتی۔ دوسری غلطی یہ ہے کہ وہ ایسے دار الکفر جو اسلامی اصطلاح کی رو سے درحقیقت دار الحرب نہیں ہے، دار الحرب قرار دے رہے ہیں۔‘‘ (سود ص ۲۴۸، ۲۴۹)
’’قرآن میں ارشاد ہے کہ ولا تقتلوا النفس التی حرم اللہ الا بالحق۔ اس آیت کی رو سے ہر انسان کی جان اصلاً قابل احترام ہے۔ اس کے حلال ہونے کی صورت صرف یہ ہے کہ حق اس پر قائم ہو جائے۔ جہاد میں یہ حرام اسی طرح ’’حق‘‘ کی خاطر حلال ہو جاتا ہے جس طرح قصاص میں خود مسلمان کا حرام خون بھی حلال ہو جاتا ہے۔ اگر اصولاً کافر غیر ذمی کو اسلام نے ’’حربی‘‘ قرار دیا ہے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ امام اور جماعت سے الگ ہو کر ہر مسلمان ہر غیر ذمی کافر پر جب چاہے ’’حق‘‘ قائم کر دے اور جہاں چاہے قتل کر دے اور لوٹ لے۔ اگر ایسا ہو تو ایک مسلمان اور ایک انارکسٹ میں کیا فرق باقی رہا؟‘‘ (سود ص ۲۶۶)
مولانا نے یہ بھی قرار دیا ہے کہ امام ابوحنیفہ نے غیر ذمی کفار کے جان ومال کو صرف ’’غیر معصوم‘‘ قرار دیا تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے جان ومال سے تعرض کرنے والے مسلمانوں پر دار الاسلام کے قانون کے تحت کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی، لیکن بعد کے فقہا نے ’’غیر معصوم‘‘کو ’’مباح‘‘ کے مترادف سمجھ لیا۔ (سود ص ۳۱۲)
اسی بدلے ہوئے رجحان کی نمائندگی ان کے ہاں جدید مسلم ریاستوں میں غیر مسلموں پر جزیہ کے نفاذ کے مسئلے میں بھی ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جزیہ کا نفاذ اصلاً جنگ میں مفتوح ہونے والے غیر مسلموں پر ضروری ہے، جبکہ صلحاً فتح ہونے والی قوموں پر اس کا نفاذ غیر مسلموں کی رضامندی پر منحصر ہے۔ لکھتے ہیں:
’’اسلامی حکومت میں غیر مسلموں سے جزیہ لینے کا حکم اس حالت کے لیے دیا گیا ہے جبکہ وہ یا تو مفتوح ہوئے ہوں یا کسی معاہدہ کی رو سے جزیہ دینے کی واضح شرط پر اسلامی حکومت کی رعایا بنائے گئے ہوں۔ پاکستان میں چونکہ یہ دونوں صورتیں پیش نہیں آئی ہیں، اس لیے یہاں غیر مسلموں پر جزیہ عائد کرنا میرے نزدیک شرعاً ضروری نہیں ہے۔‘‘ (رسائل ومسائل، ۴/۲۴۶)
یہ زاویہ نگاہ مسلم وغیر مسلم ممالک کے خارجہ تعلقات کے ضمن میں نہ صرف کلاسیکی فقہی موقف سے بلکہ خود ’’تفہیم القرآن‘‘ میں مولانا کے بیان کردہ موقف سے بھی مختلف ہے، کیونکہ انھوں نے جزیہ کی جو حکمت بیان کی ہے، وہ اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اسلامی حکومت کے زیر نگیں رہنے والے غیر مسلموں کے لیے جزیہ کی ادائیگی ایک لازمی فریضے کی حیثیت رکھتی ہو، کیونکہ مذکورہ فلسفہ کی رو سے غیر مسلموں کو ان کی گمراہیوں کا احساس دلانے کے لیے ان پر جزیہ کا نفاذ ناگزیر ہے۔ 
مولانا نے جہاد وقتال کے ضمن میں اسلامی ریاست کی ذمہ داریوں کی وصاحت میں بین الاقوامی معاہدات کی پاس داری کو بھی خاص اہمیت دی ہے۔ چنانچہ سورۂ انفال کی آیات ۷۲، ۷۳ کی تشریح میں انھوں نے ’تفہیم القرآن‘ میں جو کچھ لکھا ہے، وہ قابل ملاحظہ ہے۔ فرماتے ہیں:
’’یہ آیت اسلامی حکومت کی خارجی سیاست پر بھی بڑا اثر ڈالتی ہے۔ اس کی رو سے دولت اسلامیہ کی ذمہ داری ان مسلمانوں تک محدود ہے جو اس کی حدود کے اندر رہتے ہیں۔ باہر کے مسلمانوں کے لیے کسی ذمہ داری کا بار اس کے سر نہیں ہے۔ یہی وہ بات ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں فرمائی ہے کہ انا برئ من کل مسلم بین ظہرانی المشرکین۔ ’’میں کسی ایسے مسلمان کی حمایت وحفاظت کا ذمہ دار نہیں ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتا ہو۔‘‘ اس طرح اسلامی قانون نے اس جھگڑے کی جڑ کاٹ دی ہے جو بالعموم بین الاقوامی پیچیدگیوں کا سبب بنتا ہے، کیونکہ جب کوئی حکومت اپنے حدود سے باہر رہنے والی بعض اقلیتوں کا ذمہ اپنے سر لے لیتی ہے تو اس کی وجہ سے ایسی الجھنیں پڑ جاتی ہیں جن کو بار بار کی لڑائیاں بھی نہیں سلجھا سکتیں۔ ..... ان دینی بھائیوں کی مدد کا فریضہ اندھا دھند انجام نہیں دیا جائے گا بلکہ بین الاقوامی ذمہ داریوں اور اخلاقی حدود کا پاس ولحاظ رکھتے ہوئے ہی انجام دیا جا سکے گا۔ اگر ظلم کرنے والی قوم سے دار الاسلام کے معاہدانہ تعلقات ہوں تو اس صورت میں مظلوم مسلمانوں کی کوئی ایسی مدد نہیں کی جا سکے گی جو ان تعلقات کی اخلاقی ذمہ داریوں کے خلاف پڑتی ہو۔‘‘ (تفہیم القرآن ۲/۱۶۱، ۱۶۲)
اگرچہ کسی غیر مسلم قوم کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی پابندی کا اصول کلاسیکی فقہ میں بھی تسلیم کیا گیا ہے، تاہم فقہا اسے ایک محدود اور وقتی اصول کی حیثیت دیتے ہیں۔ مولانا کے اقتباس سے واضح ہے کہ وہ اسے بین الاقوامی سیاست اور مسلم وغیر مسلم حکومتوں کے تعلقات کی تشکیل کے ضمن میں ایک مستقل اور بنیادی اصول کا درجہ دیتے ہیں جس کی پاس داری مظلوم مسلمان اقلیتوں کی مدد کرنے سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ دونوں زاویہ ہاے نگاہ کی ترجیحات کا فرق اس سے واضح ہوتا ہے کہ جب ۱۹۴۸ء میں کشمیر کے مقامی مسلمانوں نے بھارت کے خلاف جنگ آزادی کا آغاز کیا تو مولانا مودودی نے حکومت پاکستان کی پالیسی پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ:
’’جہاد کشمیرکے سلسلے میں میرے نزدیک یہ کوئی معقول بات نہیں ہے کہ وہاں لڑائی بھی ہو اور نہ بھی ہو۔ یعنی ایک طرف ہماری حکومت تمام دنیا کے سامنے اعلان کرے کہ ہم لڑ نہیں رہے بلکہ لڑنے والوں کو روک رہے ہیں اور دوسری طرف وہ لڑے بھی تو اس سے نہ صرف ہماری اخلاقی پوزیشن خراب ہوگی بلکہ ہم لڑ بھی نہیں سکیں گے۔ حکومت کا یہ موقف خود پاکستانی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ میں بیان کیا تھا۔‘‘ (تصریحات ص ۴۷۰)
اس نکتے پر مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کے مابین ایک اہم اور دلچسپ بحث بھی ہوئی کہ آیا پاکستانی حکومت مجاہدین کی عسکری اور افرادی امداد کر سکتی ہے یا نہیں۔ مولانا عثمانی کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت کا عملاً مجاہدین کو مدد فراہم کرنا گویا اس بات کا اعلان ہے کہ وہ معاہدے کی پابند نہیں رہی، جبکہ مولانا مودودی کا استدلال یہ تھا کہ حکومت کا اس بات کا واضح اعلان اور اقرار نہ کرنا بلکہ ظاہری طور پر اس کی تردید کرنا اور پہلے کی طرح بھارتی حکومت سے سفارتی اور سیاسی تعلقات قائم رکھنا اس امر کو تسلیم کرنے سے مانع ہے۔ تاہم بحث کے آخر میں مولانا مودودی نے یہ قرار دیا کہ چونکہ پاکستانی حکومت کی طرف سے مجاہدین کشمیر کی امداد کے علانیہ اعتراف کے باوجود بھارتی حکومت نے اسے نبذ عہد کے مترادف نہیں سمجھا، اس لیے قانونی طور پر اس کا مطلب یہ سمجھا جائے گا کہ صرف کشمیر کی حد تک دونوں حکومتیں امن معاہدے کی پابند نہیں رہیں، جبکہ عمومی طور پریہ معاہدہ برقرار ہے۔ (اس دلچسپ مراسلت کے لیے ملاحظہ ہو: ’’انوار عثمانی‘‘ مرتبہ پروفیسر انوار الحسن شیرکوٹی ۲۰۴-۲۲۱۔ ابو حمزہ قاسمی، ’’خطبات ومکتوبات عثمانی‘‘، ۲۴۵-۲۶۰)
۱۹۷۹ء میں افغانستان میں کمیونسٹ حکومت کی طرف سے افغان مسلمانوں پر ظلم وستم کے واقعات رونما ہوئے تو وہ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور حکومت کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا۔ اس موقع پر مولانا سے دریافت کیا گیا کہ آیا پاکستان سے مسلمانوں کو افغان بھائیوں کی مدد کے لیے سرحد پار جانا چاہیے؟ مولانا نے فرمایا:
’’کوئی شک نہیں کہ ہمارے افغان بھائی اس وقت نہ صرف صدی کے بہت بڑے جہاد میں مصروف ہیں، بلکہ جن مشکلات کا انھیں سامنا ہے، دوسروں کو ان کا اندازہ بھی نہیں ہو سکتا۔ .... لیکن جب تک کابل حکومت ریاست پاکستان کے خلاف جنگ کا اعلان نہیں کرتی یا حکومت پاکستان اس سے تمام تعلقات توڑ کر اعلان جنگ نہیں کرتی، آپ پاکستانی شہریوں کو سرحد پار کر کے میدان جنگ میں نہیں اترنا چاہیے۔ یہ نہ صرف اسلامی قانون بین الاقوام کی نگاہ میں مناسب نہیں ہوگا بلکہ پاکستان کے لیے بھی مشکلات کا باعث بنے گا۔ البتہ قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والے آپ کے کارکنان جا سکتے ہیں، مگر زیادہ بہتر یہ ہوگا کہ وہ بھی اسی پالیسی کو اختیار کریں جسے حکومت پاکستان اور آپ کا نظم طے کرے۔ ..... اگر حالات بہت ہی زیادہ خراب ہو جائیں اور وہاں پر جہاد میں مصروف مجاہدین کی قیادت یہ چاہے کہ دوسرے مسلم ممالک سے انھیں افرادی قوت بھی درکار ہو، تب ایسے مسائل کا مرکزی سطح پر حل تلاش کیجیے، مگر یہ چیز انفرادی یا مقامات کی سطح پر نہیں ہونی چاہیے۔‘‘ (تصریحات ص ۴۵۷، ۴۵۸)

سابقہ صفحات میں اٹھائے گئے تنقیدی نکات کی روشنی میں اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ ’الجہاد فی الاسلام‘ اور ’تفہیم القرآن‘ میں اسلام کے تصور جہاد کے حوالے سے مولانا مودودی کی پیش کردہ تعبیرات واضح اور منطقی لحاظ سے مربوط نہیں، بلکہ بڑی حد تک ان کی پریشان خیالی کی غمازی کرتی ہیں۔ ہم نے بعض پہلووں سے مولانا کے فکر کا ایک ابتدائی تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے۔ ضرورت ہے کہ مولانا کے علمی کام سے دلچسپی رکھنے والے محققین اسے زیادہ تفصیل اور گہرائی کے ساتھ موضوع بنائیں اور مولانا کے فکر ونظر کے وسیع تر تناظر میں اس بحث کے حوالے سے ان کے رجحانات کو متعین کرنے کی کوشش کریں۔ البتہ جہاں تک تیسرے اور آخری زاویہ نگاہ کا تعلق ہے تو ہماری رائے میں وہ عالمی سیاسی حالات اور بین الاقوامی قانون میں رونما ہونے والے جوہری تغیرات کے گہرے ادراک کی غمازی کرتا ہے اور مولانا نے ایک بدلے ہوئے تناظر میں اسلامی قانون کی نئی اور تازہ تعبیر پیش کرنے کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے نئے حالات سے ہم آہنگ نقطہ نظر پیش کر کے گہری اجتہادی بصیرت کا ثبوت دیا ہے۔ اس زاویہ نگاہ کا تقابل اس موضوع پر مولانا کی دوسری تحریروں کے ساتھ کیا جائے تو یقیناًبہت سے تضادات اور الجھنیں سامنے آتی ہیں اور خاص طور پر یہ سوال تشنہ جواب رہ جاتا ہے کہ مولانا نے تفہیم القرآن وغیرہ میں جہاد وقتال کے نصوص کی جو اصولی تعبیر پیش کی ہے، اس کی رو سے زیر بحث زاویہ نگاہ کی گنجائش کیسے پیدا ہوتی ہے۔ تاہم جہاں تک عملی دائرے میں زیربحث نقطہ نظر کی اجتہادی قدر وقیمت کا تعلق ہے تو وہ شک وشبہ سے بالاتر ہے اور اس حوالے سے مولانا کا شمار عالم اسلام کے ان نمایاں ترین اہل علم اور مفکرین میں کیا جا سکتا ہے جنھوں نے، نظریہ اور تصور کی سطح پر ہی سہی، اسلامی قانون کی تشکیل جدید کے ضمن میں نہایت بنیادی راہ نمایانہ کردار ادا کیا ہے۔ 
یہ بات اس تناظر میں خاص اہمیت کی حامل ہے کہ اسلام کے فلسفہ جہاد کی تشریح وتوضیح کے حوالے سے مولانا مودودی اور الاخوان المسلمون کے راہ نماؤں مثلاً سید قطب شہید کے طرز استدلال میں بہت بنیادی اشتراکات پائے جاتے ہیں جنھیں بعض حوالوں سے فکری توارد کی حیرت انگیز مثال کے طورپر پیش کیا جا سکتا ہے۔ تاہم جہاں تک نظری اور فلسفیانہ بحث ومباحثہ اور عملی اجتہادی ضروریات اور تقاضوں کے مابین فرق کو سمجھنے اور مطلوبہ توازن کو ملحوظ رکھنے کا تعلق ہے تو الاخوان المسلمون کے راہ نماؤں کا طرز فکر مولانا مودودی کے طرز فکر سے کوئی مماثلت نہیں رکھتا۔ اخوان کے ہاں اصولی اور نظری بحث اور عملی ومعروضی حالات کے تقاضوں کے مابین حکیمانہ امتیاز کا شدید فقدان ہے، جبکہ مولانا مودودی اس فرق کا بھرپور ادراک رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اصولی اور نظریاتی اشتراک کے باوجود اخوان نے بحیثیت مجموعی ایک تشدد پسند تحریک کی صورت اختیار کر لی جبکہ مولانا موودی نے عدم تشدد اور جمہوری اصولوں کی پاس داری کو اپنی تحریک کا بنیادی پتھر قرار دیا۔ ہمارے نزدیک مولانا کی پیش کردہ تعبیرات اور افکار کے مختلف پہلوؤں سے اختلاف کے تمام تر امکانات کے باوجود دور جدید میں ایک متوازن طرز فکر کی تشکیل کے حوالے سے مولانا کی یہ خدمت (Contribution) بے حد غیر معمولی ہے اور درحقیقت اسی میں ان کی فکری عظمت کا راز پوشیدہ ہے۔

حواشی

(۱) البتہ ’لا اکراہ فی الدین‘ اور اس کے ہم معنی نصوص سے، جو اصلاً تکوینی جبر واکراہ کی نفی کے بیان کے لیے آئی ہیں، التزامی طور پر یہ استدلال یقینا درست ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت کے بغیر کسی انسان کو دین کے معاملے میں کسی دوسرے انسان پر جبر واکراہ کا حق حاصل نہیں۔ چنانچہ بعض روایات میں اس آیت کی جو شان نزول بیان ہوئی ہے، اس سے آیت سے اخذ ہونے والے اسی مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔ ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ انصار میں یہ رواج تھا کہ اگر کسی عورت کے بچے پیدایش کے بعد فوت ہو جاتے تو وہ منت مان لیتی کہ اگر میرا کوئی بچہ زندہ رہا تو میں اسے یہودی مذہب کا پیروکار بناؤں گی۔ اس طرح انصار کے کئی بچے یہودیوں کی سرپرستی میں رہتے تھے۔ جب بنو نضیر کو مدینہ منورہ سے جلا وطن کیا گیا تو انصار نے کہا کہ ہم اپنے بچوں کو ان کے ساتھ نہیں جانے دیں گے۔ ہم نے تو ان کو اس وقت یہودی مذہب کا پیروکار بنایا تھا جب ہم سمجھتے تھے کہ ان کا دین ہمارے دین سے بہتر ہے۔ اب جب اسلام آ چکا ہے تو ہم انھیں اسلام کی پیروی پر مجبور کریں گے۔ اس پر قرآن مجید میں لا اکراہ فی الدین کا حکم نازل ہوا اور کہا گیا کہ ان میں سے جو یہودیوں کے ساتھ جانا چاہے، چلا جائے اور جو یہودی مذہب چھوڑ کر وہیں رہنا چاہے، رہ جائے۔ (تفسیر الطبری، ۳/۰۱) 

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بعض مواقع پر اسی تناظر میں اس آیت کا حوالہ دینا منقول ہے۔ روایت ہے کہ جب ابو الحصین انصاری کے دو بیٹے نصرانی ہو کر شام چلے گئے تو انھوں نے یہ معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گوش گزار کیا اور کہا کہ آپ ان کوپیغام دے کر واپس بلوائیں۔ آپ نے فرمایا: لا اکراہ فی الدین۔ (الاصابہ، ۱/۳۳۲، ۳/۸۰۳۔ اسد الغابہ، ۳/۰۶۱)

’طبقات المحدثین باصبہان‘ کے مصنف عبد اللہ بن محمد بن جعفر انصاری کی روایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سلمان فارسیؓ کی درخواست پر ان کے اہل خاندان کے نام جو امان نامہ لکھوایا، اس میں فرمایا کہ:

من آمن باللہ وبرسلہ کان لہ فی الآخرۃ ترعۃ الفائزین ومن اقام علی دینہ ترکناہ ولا اکراہ فی الدین (طبقات المحدثین باصبہان ۱/۲۳۲)

بعض آثار میں سیدنا عمر سے بھی آیت کو اس مفہوم پر محمول کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔ مثلاً ان کے غلام وسق بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر نے مجھے اسلام قبول کرنے کی ترغیب دی، لیکن میں نے انکار کر دیا۔ اس پر انھوں نے فرمایا کہ لا اکراہ فی الدین۔ پھر جب ان کی وفات کا وقت قریب آ گیا تو انھوں نے مجھے آزاد کر دیا۔ (ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، ۶/۸۵۱۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۰۵۵۲۱) ایک موقع پر انھوں نے ایک معمرمسیحی خاتون کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ اس نے کہا کہ کیا میں موت کے قریب پہنچ کر اپنامذہب چھوڑ دوں؟ اس پر سیدنا عمر نے فرمایا کہ لا اکراہ فی الدین۔ (نحاس، الناسخ والمنسوخ ۱/۱۹۱) 

اسی طرح شام کی فتوحات میں مسلمانوں کے جرنیل عیاض بن غنم نے مریم الداریۃ کے نام خط میں لکھا:

ولسنا نکرہک علی فراق دینک ولا احدا من اہل بلدتک قال اللہ تعالیٰ لا اکراہ فی الدین (واقدی، فتوح الشام ۱/۶۷۳)

”ہم تمھیں یا تمھارے شہر کے لوگوں میں سے کسی کو اپنا دین چھوڑنے پر مجبور نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں۔“

 (۲) سورۂ توبہ کی آیت ۹۲ میں اہل کتاب کو محکوم بناکر ان پر جزیہ عائد کرنے کا جو حکم دیا گیا یا آیت ۵۳ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا ہدف غلبہ اسلام کو قرار دیا گیا ہے، اس کے بارے میں ہم واضح کر چکے ہیں کہ اس کا باعث اہل کتاب کا فتنہ وفساد نہیں، بلکہ ان کا کفر تھا۔ ہمارا اعتراض مولانا مودودی پر ہے جو ’کفر‘ کو فی نفسہ قتال کا باعث تسلیم نہیں کرتے اور اس حکم کی وجہ بھی کفار کے فتنہ وفساد کو قرار دیتے ہیں، حالانکہ یہ بات نہ عقلی اور منطقی لحاظ سے درست ہے اور نہ ’دفع فتنہ وفساد‘ کی غرض سے قتال کی مشروعیت کو بیان کرنے والے نصوص اس کی تائید کرتے ہیں۔


’’پر امن طریق کار‘‘ بمقابلہ ’’پر تشدد طریق کار‘‘

محمد رشید

امن ایک نہایت مطلوب چیز ہے اور تشدد ایک قابل نفرت چیز۔ساری دنیا امن سے محبت کرتی ہے اور تشدد کو برا جانتی ہے، لیکن اگر کوئی مفکر امن سے محبت اور تشدد سے نفرت کے نام پر اقوام اور ریاستوں کی دفاعی قوت یعنی افواج کوختم کرنے کی دعوت دے اور یہ کہے کہ جدید دور میں فوج بنانے کا مطلب ہے تشدد کا حامی ہونا، لہٰذا کسی ملک کو اپنے پاس فوج نہیں رکھنی چاہیے تو اقوام عالم کی اکثریت من حیث المجموع اس غیر معقول فلسفہ کو ردکردے گی۔ اسی طرح ’’امن اور شانتی‘‘ کے نام پر اس حد تک غلو کا شکار ہونا کہ کمزوری، پستی، ذلت، رسوائی، بے حمیتی، بے حسی اور غلامی کی ہر پست سے پست صورت کو ’’امن و صبر‘‘ کا خوبصورت لبادہ اوڑھا کر قبول کرانے میں فکر و نظر کی تمام صلاحیتوں کو نچوڑکررکھ دیا جائے تویہ ایک قابل افسوس بات تو ہوسکتی ہے، قابل فخر قطعاً نہیں۔ 
کچھ ایسا ہی معاملہ مولانا وحید الدین خان صاحب کی تصنیف ’’دین و شریعت‘‘ کا ہے جس میں ’’جہاد کا تصور اسلام میں‘‘ کے عنوان کے تحت جہاد فی سبیل اﷲ کی اعلیٰ ترین صورت ’’قتال فی سبیل اﷲ‘‘ کو پرتشدد طریق کار کا عنوان دینے کے بعد عصر حاضر میں اسے متروک اور منسوخ قرار دینے کی دعوت دی گئی ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جناب وحیدالدین خان صاحب کی مساعی کے نتیجے میں اردو زبان میں نہایت اعلیٰ اور بے حد موثردعوتی اور تربیتی لٹریچرنہ صرف ہندوستان بلکہ ساری دنیا کے مسلمانوں کو ملا ہے۔ ہم محترم خان صاحب کی ان مثبت مساعی کو ملت اسلامیہ کا مشترکہ اثاثہ سمجھتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ محترم خان صاحب اپنے بعض نتائج فکر میں نہایت غلو اور افراط و تفریط کا مظاہرہ فرماتے ہیں جس کی وجہ سے ان پر مختلف حلقوں کی طرف سے استعمار کا ایجنٹ ہونے جیسے الزامات لگتے رہے ہیں۔ بہرطورکسی محترم شخصیت کو اسلام کی خدمت کے نتیجے میں یہ حق قطعاً نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اسلام کے محکمات، بدیہیات اور قطعی امور میں شکوک و شبہات پیدا کر کے ان کو متروک اور منسوخ قرار دینے کا اعلان کر دے۔
ہمیں جناب خان صاحب کی فکر پر مفتیانہ بحث نہیں کرنی کہ یہ کام راسخون فی العلم علماء اور خاشع مفتیان کرام کا ہے۔ دین کے ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے ہم نے خان صاحب کے صرف ان دلائل کا تجزیہ کرنا ہے جو انہوں نے ’’جہاد کا تصور اسلام میں‘‘ قتال فی سبیل اﷲ کو پر تشدد طریق کار کا عنوان دینے کے بعداسے ترک کرنے اور منسوخ قرار دینے کے لیے پیش کیے ہیں۔
خانصاحب کے دلائل کا مطالعہ کرنے سے پہلے قاری کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ جب خان صاحب ’’پرامن طریق کار‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو اس سے ان کی مراد کیا ہے اور جب ’’پرتشدد طریق کار‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو اس سے ان کی اصل مراد کیا ہے؟ خان صاحب کی تحریروں کا گہرائی سے مطالعہ کرنے والا بآسانی یہ بات معلوم کرلیتا ہے کہ ’’پرامن جدوجہد‘‘ سے ان کی مراد دعوت و تبلیغ،تعلیم ،صبر اور اعراض کے ذریعے دین کی اشاعت کرنا ہے، جبکہ ’’پرتشدد جدوجہد‘‘ سے ان کی مراد اعلیٰ ترین ہدف ’قتال فی سبیل اﷲ‘ ہے۔ یعنی خان صاحب جہاں جہاں ’’پرتشدد طریق کار‘‘ یا ’’پرتشدد جدوجہد‘‘ کے لفظ استعمال کریں گے تو قاری کو سمجھ جانا چاہیے کہ اس اصطلاح کا خاص نشانہ جنگ یعنی قرآنی اصطلاح کے مطابق قتال فی سبیل اﷲ ہے۔
مولانا وحید الدین خاں تحریر فرماتے ہیں:
’’حقیقت یہ ہے کہ زندگی میں ہمیشہ دو میں سے ایک کے انتخاب کا مسئلہ رہتا ہے۔۔۔۔۔۔پُرامن جدوجہد اور پُر تشدد جدوجہد۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آپ نے ہمیشہ اور ہر معاملہ میں یہی کیا کہ پرتشدد طریق کار کو چھوڑکر پرامن طریق کار کو اختیار فرمایا۔ آپ کی پوری زندگی اسی اصول کا ایک کامیاب عملی نمونہ ہے۔ یہاں اس نوعیت کی چند مثالیں درج کی جاتی ہیں۔‘‘
اس کے بعد خان صاحب نے جو پانچ مثالیں دی ہیں، ان میں یہی پیغام دیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’جنگ‘‘ (تشدد) سے اعراض کیا اور پرامن طریق کار اختیار کر کے تمام کامیابیاں حاصل کیں۔ اس کے بعد فرماتے ہیں:
’’جیسا کہ اوپر عرض کیاگیا، اسلام میں امن کی حیثیت حکم عام کی ہے اور جنگ کی حیثیت صرف مجبورانہ استثناء کی۔ اس حقیقت کو سامنے رکھیے اور پھر یہ دیکھئے کہ موجودہ زمانہ میں صورت حال کیا ہے۔ اس معاملہ میں جدید دور قدیم دور سے مکمل طور پر مختلف ہے۔ قدیم زمانہ میں پرتشدد طریق کار ایک عام رواج کی حیثیت رکھتا تھا اور امن کا طریقہ اختیار کرنا بے حد مشکل کام تھا، مگر اب صورت حال یکسر طور پر بدل گئی ہے۔ موجودہ زمانہ میں پرتشدد طریقِ کار آخری حد تک غیرمطلوب اور غیر محمود بن چکا ہے۔اس کے مقابلہ میں پرامن طریق کار کو واحد پسندیدہ طریق کار کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔ مزید یہ کہ موجودہ زمانہ میں پرامن طریق کار کو ایسی فکری اور عملی تائیدات حاصل ہوگئی ہیں جنہوں نے پرامن طریق کار کو بذات خود ایک انتہائی طاقتور طریق کار کی حیثیت دے دی ہے۔‘‘(دین و شریعت صفحہ نمبر 256-257 )
’’جیسا کہ عرض کیاگیا، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ ہے کہ جب پرامن طریق کار عملاً دستیاب ہو تو اسلامی جدوجہد میں صرف اسی کو اختیار کیاجائے گااور پر تشدد جدوجہد کو ترک کردیاجائے گا۔اب موجودہ صورت حال یہ ہے کہ زمانی تبدیلیوں کے نتیجہ میں پرامن طریقِ کار نہ صرف مستقل طور پر دستیاب ہے، بلکہ مختلف تائیدی عوامل (supporting factors) کی بنا پر وہ بہت زیادہ مؤثر حیثیت حاصل کر چکا ہے۔ یہ کہنا بلامبالغہ درست ہوگا کہ موجودہ زمانہ میں پرتشدد طریق کار مشکل ہونے کے ساتھ عملاً بالکل غیر مفید ہے۔ اس کے مقابلے میں پرامن طریق کار آسان ہونے کے ساتھ انتہائی مؤثر اور نتیجہ خیز ہے۔ اب پر امن طریق کار کی حیثیت دو امکانی انتخابات (possible options) میں سے صرف ایک انتخاب کی نہیں ہے، بلکہ وہی واحد ممکن اور نتیجہ خیز انتخاب ہے۔ ایسی حالت میںیہ کہنا بالکل درست ہوگاکہ اب پرتشدد طریق کار عملاً متروک قرار پاچکا ہے یعنی وہی چیز جس کو شرعی زبان میں منسوخ کہاجاتا ہے۔ اب اہل اسلام کے لیے عملی طور پر ایک ہی طریق کار کا انتخاب باقی رہ گیا ہے اور وہ بلاشبہ پرامن طریق کار ہے۔۔۔۔۔۔۔
یہ صحیح ہے کہ پچھلے زمانہ میں بعض اوقات پرتشدد طریق کار کو اختیار کیا گیا مگر اس کی حیثیت زمانی اسباب کی بنا پر صرف ایک مجبورانہ انتخاب کی تھی۔ اب جب کہ زمانی تبدیلیوں کے نتیجہ میں یہ مجبوری باقی نہیں رہی تو پرتشددطریق کار کو اختیارکرنا بھی غیر ضروری اور غیر مسنون قرار پاگیا۔ اب نئے حالات میں صرف پرامن طریق کار کا انتخاب کیا جائے گا۔‘‘(دین و شریعت، صفحہ نمبر257-258)
’’فقہ کا یہ ایک عام اصول ہے کہ : تتغیر الاحکام بتغیر الزمان وللمکان (کہ زمان و مکان بدلنے سے احکام بدل جاتے ہیں)۔۔۔۔۔۔اس فقہی اصول کا تعلق جس طرح دوسرے معاملات سے ہے، اسی طرح یقینی طور پر اس کا تعلق جنگ کے معاملہ سے بھی ہے۔ اس اصول کا بھی یہ تقاضا ہے کہ پرتشدد طریق کار کو اب عملاً متروک قرار دیاجائے اور صرف پر امن طریق کار کو شرعی جواز کا درجہ دیاجائے۔‘‘ (دین و شریعت، صفحہ نمبر258)

معروضی نتائج: 

خان صاحب کے ان اقتباسات سے درج ذیل معروضی نتائج حاصل ہوتے ہیں:
1 ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ پرتشدد طریق کار کی نسبت پرامن طریق کار کو ترجیح دی۔
2 ۔ (i ) اسلام میں امن کی حیثیت حکم عام کی ہے اور جنگ(تشدد) کی حیثیت صرف مجبورانہ استثناء کی۔
(ii) قدیم زمانہ میں پرتشدد طریق کار کا عام رواج تھاجبکہ موجودہ زمانہ میں پرامن طریق کار انتہائی طاقتور مروج طریق کار کی حیثیت حاصل کرچکا ہے۔
3 ۔ (i) پچھلے زمانے میں بعض اوقات جو پرتشدد (قتال فی سبیل اﷲکا) طریق کار اختیار کیاگیا تو اس کی حیثیت زمانی اسباب کی بنا پر ایک مجبورانہ انتخاب کی تھی۔
(ii) زمانی تبدیلیوں کے نتیجے میں اب یہ مجبوری باقی نہیں رہی تو پر تشدد طریق کار (قتال فی سبیل اﷲ) غیر ضروری اور غیر مسنون قرار پاتا ہے۔
4 ۔ فقہی اصول کی روشنی میں بھی پرتشدد طریق کار (قتال فی سبیل اﷲ) کو اب متروک اور منسوخ قرار دے دینا چاہیے۔ لہٰذا صرف پرامن طریق کار ہی شریعت میں جائز قرارپائے گا۔
یہ وہ نتائج ہیں جو خان صاحب کے درج بالا اقتباسات سے حاصل ہوتے ہیں۔

کیا دعوت اورقتال کی حیثیت دو امکانی آپشنز کی ہے؟

خان صاحب کے یہ منطقی مباحث جو سب سے بڑا پیغام قاری کے ذہن میں اتار رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ اسلامی دعوت کے طریق کار میں (i) دعوت وتبلیغ اور (ii) قتال فی سبیل اﷲ دو امکانی یا متبادل حل possible options ہیں جن میں سے اول الذکر کو مطلوب و مسنون اور اصل طریق کارکی حیثیت حاصل ہے تو ثانی الذکر طریق کار سابقہ دورِ تشدد کی وجہ سے محض ایک وقتی و زمانی مجبورانہ استثنائی حل تھا۔ اب زمانے اور حالات کی تبدیلی کی وجہ سے یہ دوسرا آپشن غیر مسنون، ناجائز، متروک اور منسوخ قرار پائے گا۔
خان صاحب کے الفاظ ’’زمانی اسباب کی بنا پر صرف ایک مجبورانہ انتخاب‘‘سے کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب پرامن طور پریعنی دلائل وعقلی براہین سے اپنی دعوت منوانا ناممکن ہوجاتا تھا تو پھر کیا معاذاللہ لوگوں پر تشدد کرکے انہیں اپنی جان مال اور عزت کے نقصان کے خوف کے ذریعے اسلامی دعوت کو قبول کرانے کی کوشش کی جاتی تھی؟ یا پھر محض اسلام کی دعوت کو قبول کرانے کے لیے لوگوں پر جنگ مسلط کردی جاتی تھی؟
معلوم نہیں، یہ محترم خان صاحب ایسے نہایت ذہین اور نکتہ رس ماہردینیات کی انتہائی سادگی ہے یاغلط فہمی کہ وہ (1) دعوت و تبلیغ اور (2) جنگ یعنی قتال فی سبیل اﷲ کو اسلام پھیلانے کے دو امکانی حل کے طور پر متعارف کراتے ہوئے اول الذکر کو پرامن اور ثانی الذکر کو پرتشدد طریق کار کا نام دیتے ہیں۔ یعنی خان صاحب کے (اور ان کے ’’مہذب‘‘ مخاطبین کے) نزدیک دورِنبوی چونکہ قبائلی، متشددانہ، غیر متمدن اور معاذاﷲ نہایت جانگلی اور پتھروں کا دور تھا، لہٰذا اس دور میں اسلام پھیلانے کے دو ممکن طریق کار ہو سکتے تھے: (1 ) دعوت و تبلیغ اور (2 ) قتال و جنگ۔ لہٰذا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حتی المقدور پہلے طریق کو ترجیح دی اور محض مجبورانہ اوقات میں دوسرے طریقے کو اختیار کیا۔
اس فکر کی یہ وہ بنیادی غلطی ہے جس پرخان صاحب نے اپنے فلسفے کی تمام عمارت قائم کرنے کوشش فرمائی ہے۔
اس سب سے بڑے دعویٰ پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح دعوت و تبلیغ کے ذریعے سے لوگوں کو ایمان، تقویٰ، آخرت اور اعمال صالحہ کی طرف بلایا جاتا ہے اور ان کے ذہنوں اور دلوں میں حق بات بٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو کیا اسی طرح قتال فی سبیل اﷲ کی اصل حیثیت بھی یہ ہے کہ جب دعوت کا آپشن ممکن نہ ہو توپھر ان لوگوں کو تلوار کے ذریعے ڈرا کر زبردستی مسلمان کرنے کی کوشش کی جائے گی اور یہ کہ اپنے دورِتشدد کی وجہ سے بعض اوقات حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی (معاذاللہ)مجبورانہ ایسا ہی کیا تھا؟
ہمارے خیال میں دعوت اور قتال فی سبیل اﷲ کی یہ تعبیرقرآن،سیرت اور سنت کی کثیر نصوص کے مطابق نہایت اجنبی اور نامانوس قرار پاتی ہے۔ قرآن و سنت پرمعمولی سا بھی غور و تدبر کرنے سے قتال فی سبیل اﷲ کی جو حیثیت متعین ہوتی ہے، وہ یہ نہیں ہے کہ قتال فی سبیل اﷲ دعوت اسلامی کے دو آپشنز میں سے ایک آپشن ہے بلکہ :
(1) قتال فی سبیل اﷲ کی حیثیت اسلام کی امن و سلامتی کی دعوت کے محافظ ونگہبان کی ہے۔ یعنی اسلام جو کہ امن، سلامتی اور عدل و انصاف کا داعی اور علمبردار ہے، امن و سلامتی کی دعوت کے دشمنوں کے خلاف قتال فی سبیل اﷲ اس دعوت کی حفاظت کے قرآنی، ربانی اور نبوی طریق کار کا نام ہے۔
(2) قتال فی سبیل اﷲ کی مشروعیت مظلوموں، ضعیفوں اور کمزوروں کی مدد اور انہیں ظالموں اور کافروں کے ظلم و ستم اور انہیں جانی، مالی اور مذہبی تشدد سے بچانے کے لیے ہے۔
(3) قتال فی سبیل اﷲ لوگوں کو اسلام کی امن و سلامتی کے پیغام سے بزور اور بقوت روکنے والوں کا زور اور قوت توڑنے کا نام ہے۔
(4) قتال فی سبیل اﷲکمزورافراد اور قوموں کے ایمان، آبرو اور جان و مال پر حملہ آور جابر وظالم اور کافر قوتوں کا مسلح مقابلہ کرنے کا نام ہے۔
(5) قتال فی سبیل اﷲ دعوت و تبلیغ اور انذار و تذکیر (امن و سلامتی ) کے عالمی مرکز یعنی خلافت اسلامیہ کے دفاع اور حفاظت کے لیے ہر دم تیار رہنے کا نام ہے۔ 
(6) قتال یا اسلامی جنگ پُرتشدد طریق کار کا نام نہیں ہے بلکہ ’’تشدد‘‘ کو قوت سے ختم کرنے کا نام ہے۔
جب تک دنیا میں ظلم،فتنہ،فساد،استحصال اور کمزوروں کی جان مال ایمان اور آبرو کے لٹیرے اور دشمن باقی ہیں، قتال فی سبیل اﷲ کی ضرورت و افادیت اس وقت تک باقی ہے۔ دنیا میں شدید ظلم وطغیانی دیکھنے کے باوجود،دنیا میں سخت فتنہ انگیزیوں اور اباحیت و دجالیت اور فحاشی و عریانی کوتہذیب کے نام پر بزورقوت منوانے کی کوششوں کا مشاہدہ کرنے کے باوجود، کمزور افراد اور کمزورقوموں کے جان، مال، ایمان اور آبرو پر آئے روز شدید ترین حملوں کا مشاہدہ کرنے کے باوجود قتال کو پرتشدد طریق کار کا نام دے کر اس کی منسوخی کا وہی عالم دین اعلان کرسکتا ہے جواس معاملہ میں قرآن، سنت اور مسلم اجتماعی عقل کے مقابلے میں اپنی ذاتی عقل، میلان طبع اور مغرب کی خوشنما اصطلاحات کا اسیرہوچکا ہو اور جوظالموں اور کافروں کی طاقت و قوت اور تمدن و ٹیکنالوجی سے بے حد مرعوب و دہشت زدہ ہوچکا ہو۔ 

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ’’امن‘‘ زیادہ رہا یا ’’تشدد‘‘؟

آئیے جناب خان صاحب کی اصطلاح میں جائزہ لیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں امن زیادہ رہا یا تشدد؟ خان صاحب ’’قتال فی سبیل اﷲ‘‘ کو ’’پرتشدد طریق کار ‘‘ کا نام دے کر اسے متروک اور منسوخ قرار دینے کی غرض سے لکھتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری حد تک جنگ سے گریز کیااور پرامن طریق کار کو ترجیح دی۔ اس ضمن میں انہوں نے سیرت سے پانچ مثالیں دی ہیں، لیکن جب ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو ہماری حیرت کی انتہا نہیں رہتی کہ:
1 ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود 27 جنگیں لڑیں اور صحابہ کرام کو تقریباً 75 جنگو ں پر بھیجا۔ یعنی دس سالوں میں 100 سے زیادہ جنگیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت وسربراہی میں کفار سے لڑی گئیں۔
2 ۔ غزوۂ بدر میں مسلمان کفار کے جنگی قافلے کو چھوڑ کر پہلے تجارتی قافلے پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کرسکتے تھے اور اس طرح اہل مکہ کی معاشی کمر توڑ کر بغیر خون خرابہ کیے تبدیلی لاسکتے تھے، مگر انہوں نے تجارتی قافلے کو چھوڑ کر جنگی قافلے سے مڈبھیڑ کا فیصلہ کیا۔ آخر کیوں؟ صرف اور صرف اس لیے کہ اسلام ،قرآن اور نبوت کے ذریعے سے عطا ہونے والی غیرت و حمیت یہ برداشت ہی نہیں کرسکتی کہ امن و سلامتی کے علمبرداروں کو محض اللہ و آخرت اور عدل و انصاف کا داعی ہونے کی وجہ سے دنیا سے مٹانے کی کوشش کی جائے۔ اس وقت غیرت ،حمیت،حریت ،اسلام اور وحی الٰہی کا تقاضا یہی تھا کہ اسلامی دعوت وقافلے پر حملہ آور قوت کو نیست و نابود کردیا جائے۔
3 ۔ فتح مکہ میں بعض لوگوں کو معافی مانگنے کے باوجود انہیں معاف نہ کرنے اور انہیں قتل کرنے کا حکم دیاگیا۔
4 ۔ مسلمانوں کو ابھی مکمل داخلی استحکام حاصل نہ ہوا تھا کہ انہوں نے رومیوں سے بھی چھیڑ چھاڑ شروع کردی اور تبوک کے مقام پر ان کی رومیوں سے جھڑپیں بھی ہوئیں۔
5 ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چند روز قبل ہی حضرت اسامہؓ کی سپہ سالاری میں ایک لشکرشرپسندوں کی سرکوبی کے لیے بھیجنے کی وصیت آپ نے فرمائی۔
اس فکری مغالطہ پر ایک اعتراض یہ بھی وارد ہوتا ہے کہ اگر اس خود ساختہ متمدن ’’دورِامن‘‘کا مقصودِاعلیٰ ظالموں، جابروں، استحصالی طبقات،اور کمزوروں کے ایمان،آبرو،جان اور مال کے دشمنوں اور غاصبوں کو محبت اور دعوت کے ذریعے قائل کرنے کوشش کرنا اور قتال فی سبیل اﷲ کو منسوخ و متروک کرنا ہے تو جناب پھر تو اس کی اعلیٰ ترین اور کثیر ترین مثالیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے دور میں ملنی چاہیے تھیں۔ مگر اس کے برعکس اسلام کے اولین،اعلیٰ ترین، آئیڈیل اور ماڈل شخصیات(اسوہ محمدی اور اسوہ صحابہ کرام)کی زندگیوں میں قتال فی سبیل اﷲ کی اتنی شدید کثرت ہے کہ اس خودساختہ تمدن اور ’’امن‘‘ کا دھوکہ آمیز نعرہ لگانے والے مستشرقین نے اسلام پر سب سے زیادہ اعتراض ہی یہ کیا کہ ’’بوئے خوں آتی ہے اس قوم کے افسانوں سے‘‘۔ خان صاحب! حیرت کا مقام ہے کہ آپ جس چیز کو تشدد قرار دے کر منسوخ و متروک اور ناجائز قرار دینے کی سرتوڑ کوشش فرمارہے ہیں، اسلام کی آئیڈیل اور ماڈل شخصیات اسی چیز میں انتہائی حد تک ملوث ہیں۔

جدیدمتمدن دوراورپُرامن طریق کار کا مغالطہ: 

خان صاحب فرماتے ہیں کہقدیم دور دورِتشدد تھا،جبکہ موجودہ دور نہایت مضبوط عوامل کی وجہ سے دورِ امن بن چکا ہے، لیکن ہم ان کے اس متمدن اور پرامن دور کے اصلی چہرہ سے ذرا نقاب اتار کے دیکھتے ہیں توہماری حیرت کی انتہا نہیں رہتی۔
1 ۔ کیا جدید متمدن دنیا کا انقلاب’’انقلاب فرانس‘‘ پرامن طریق کار سے آیا؟
2 ۔ روس کا مارکسی انقلاب کیا پرامن طریق کار سے آیا؟
3 ۔ کیا موجودہ پرامن دور میں جنگیں ختم ہوگئی ہیں؟
4 ۔ تہذیب و تمدن اور علم کے علمبردار اور اس کے ٹھیکیدار مغربی ممالک نے مشرق و مغرب سے جنگ کرنا چھوڑدیا ہے؟
5 ۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے بعد اٹھارویں اور انیسویں صدی میں تہذیب و تمدن کی حامل انہی مغربی اقوام نے ہندوستان،عرب،افریقی ممالک،ترکی،انڈونیشیا،غرض پوری دنیا کے کمزور ممالک پرقبضہ کیا،انہیں غلام بنایا؟
6 ۔ بیسویں صدی کی دنیا کی متمدن ترین اور مہذب ترین ترقی یافتہ اقوام کے مابین اسی ’’دورِ امن‘‘میں تاریخ عالم کی پہلی اور دوسری عالمی جنگ ہوئی جس میں کروڑوں لوگ مارے گئے۔
7 ۔ جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم پھینکنے کی نہایت وحشت ناک کارروائی بھی اسی متمدن اور پُرامن دور میں کی گئی اور اس خوفناک دہشت گردی کا ارتکاب بھی امن اور تمدن کے سب سے بڑے علمبردار ملک امریکہ نے کیا۔
8 ۔ دنیا کو ہزاروں دفعہ نیست و نابودکرنے کی صلاحیت رکھنے والا نہایت مہلک ایٹمی وجراثیمی اسلحہ بھی اسی متمدن اور پُرامن دور میں تیار کیا گیا اور یہ کوئی افریقی وحشی ممالک نے تیار نہیں کیا بلکہ انہی مغربی اقوام نے تیار کیا جن کی زبانیں تہذیب ،تمدن اور امن کا راگ الاپتے ہوئے تھکتی نہیں۔
9 ۔ روس کا افغانستان پر حملہ اور قبضہ بھی اسی دورِ ’’پرامن ‘‘ میں ہوا۔
10 ۔ امریکہ نے ویت نام اور دوسرے افریقی ممالک پر حملہ بھی اسی امن کے دور میں امن کے نام پر کیا۔
11 ۔ فلسطین پر یہودیوں کا قبضہ بھی اسی امن کے دور میں ہوا۔
12 ۔ بوسنیا میں مغربی تہذیب میں مکمل طور پر رنگے ہوئے مسلمانوں کی نسل کشی اور نہایت گھناؤنی قتل و غارت گری بھی انہی مغربی اقوام کے گوری چمڑی والے سربیا کے متمدن اور مہذب (غنڈوں )حکمرانوں کے ہاتھوں ہوئی جو تمدن اور امن کی دہائی دیتے ہوئے تھکتی نہیں۔ عقل دنگ اور اعصاب شل ہوجاتے ہیں کہ تاریخ کی یہ نہایت بھیانک خونریزی، نسل کشی اور حقوق انسانی کی پامالی کسی دورافتادہ افریقی یا پسماندہ ایشیائی جنگل میں جدید تہذیب سے ناآشنا غیر مہذب انسانوں کے ہاتھوں نہیں ہوئی بلکہ یورپ کے عین قلب اور وسط میں سائنس، ٹیکنالوجی، تہذیب اور تمدن کے انتہائی عروج کے دورمیں ہوئی۔
13 ۔ کشمیر کے مسلمانوں پر سات لاکھ افواج کے ذریعے سے غلام بنانے کی انتھک کوشش بھی اسی دورِ امن میں کی جاری ہے۔
14 ۔ حیدرآباد دکن میں مسلمانوں کی بدترین قتل و غارت گری بھی اسی تہذیب و امن کے دور میں کی گئی۔
15 ۔ دنیا میں امن ،تہذیب اور علم کی سب سے بڑی دعویدار اور علمبردار طاقت امریکہ نے بغیرکسی ثبوت اورمنصفانہ دلیل کے پہلے عراق اور پھر افغانستان پر حملہ آورہوکرتاریخ کی بدترین بمباری اوردہشت گردی اسی امن، تہذیب اور تمدن کے دور میں کی۔
اس نہایت بھیانک ،مکروہ اور وحشی کردار کے ساتھ اگر تہذیب و تمدن کے علمبردار اٹھتے بیٹھتے امن،آزادی،حریت اور مساوات کے گمراہ کن اور منافقانہ نعرے لگاتے ہیں تویہ ان کی بدترین منافقت ہے۔یہ امن،آزادی،حریت اور مساوات کو اپنے گھر کی لونڈی بناکر اور اسے محبت،انصاف اور رحم کی لوری سنا کرنہایت بے رحمی سے اس کے پیٹ میں چھرے گھونپنے کے مترادف ہے۔یہ تاریخ کی بدترین درندگی،وحشت اور سفاکی ہے۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ دور میں امن،آزادی،مساوات اور حریت کے نعرے لگانے کی آزادی تو کم از کم حاصل ہے۔ تو جناب عرض ہے کہ یہ نعرے بھی حقیقتاً انسانیت دوستی کے لیے نہیں ،بلکہ مغربی خدابیزارتہذیب کو جواز اوربیساکھی فراہم کرنے کے لیے یہ نعرے حقیقی اسلامی تہذیب وتمدن سے اغوا کیے گئے اور انہیں مغربی سیکولرزم میں ایسا فٹ کیاگیا کہ معلوم ہو کہ اصلاً یہ اسی سیکولرزم ہی کی عطا ہے۔ موجودہ دور میں امن، آزادی، مساوات، عدل اور حریت کے نعرے صرف اور صرف مغرب کی سیکولر اور جدید جاہلی تہذیب کو قبول عام حاصل کروانے کے لیے ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کیے گئے۔
ایک خاص مدت تک اسلام کا راستہ روکنے کے بعد اب جب مغرب کے حکمرانوں پر حاوی ابلیس اعظم نے دیکھا کہ ان کی تمام تر تلبیس کاریوں، دھوکہ آمیزیوں اور دجل و فریب کے باوجود اسلام کی دعوت کا دروازہ کھل رہا ہے اور اسلام دنیا میں تیزی سے پھیلنے والا مذہب بنتا جارہا ہے اور یہ کہ لوگ حقیقی اسلام اور حقیقی امن، انصاف اور حقیقی و ابدی مسرتوں سے آگاہ ہونے لگے ہیں تو انہوں نے ان ’’مثبت اقدار‘‘ کو جو کہ حقیقتاً انہوں نے اسلام سے اسلام کا راستہ روکنے کے لیے مستعار (چرا ) لی تھیں، اب جب ان ’’مثبت قدروں‘‘ سے دھوکہ آمیزی اور تلبیس کاری کی تہیں جھڑنے لگیں اور تمام دنیا کے عوام الناس تک اسلام کا حقیقی پیغام پہنچانے کے لیے یہی ’’مثبت اقدار‘‘ ایک سہارا، سپورٹ اور طاقتور ذریعہ بننے کا امکان اور موقع پیدا ہونے لگا تو مغرب کے اندروں کی چنگیزی اور وحشی پن ابھر کر اوپر آگیا۔ ابلیس اعظم نے مغربی حیا باختہ تہذیب کو جواز فراہم کرنے والی ان مرکزی مثبت اقدارکے حقیقی فوائد سے نوع انسانی کو ہر ممکن محروم رکھنا ہے، چاہے اس کے لیے ان ’’مثبت اقدار‘‘ کو ختم ہی کیوں نہ کرنا پڑے اور چاہے اس کے لیے مغربی تہذیب کی بنیادیں کیوں نہ کھودنی پڑیں۔ چنانچہ اسی کا نتیجہ ہے کہ عصر حاضر کی سپریم طاقت یا اس کے آلہ کاراپنے مذموم اور مخصوص مقاصد کے تحت پہلے اپنے ملک میں تاریخ کی ہولناک ترین دہشت گردی کرواتی ہے (9/11) اور پھر اس کا الزام بلا ثبوت افغانستان کے ان مسلمانوں پرعائد کر کے چڑھ دوڑتی ہے جو روسی استعمار سے آزادی حاصل کرنے کے بعد گزشتہ کئی سالوں سے خانہ جنگی کا شکار تھے۔ پھر اس خانہ جنگی کے حامل ملک کے بھی ان مسلمانوں پر یہ الزام دھرا جاتا ہے جس نے بے سروسامانی اور ٹیکنالوجی سے محرومی کے باوجوداپنے زیرقبضہ علاقوں میں امن قائم کردیا اور لوگوں کو لوٹ ماراورقتل غارت گری سے نجات دلائی اور ان کے مقاصد میں اپنے ملک میں حقیقی اسلام نافذ کرنا تھا۔یہ وہ لوگ تھے جن کے امن اور انسان دوستی کی تعریف ان کی غیر مسلم رعایا اور غیر ملکی صحافیوں(جو ان کی قید میں رہے)نے بھی کی۔ دنیا بھر کے کروڑوں عوام،خود انہی مغربی ممالک کی عوام سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور اپنی حکومتوں کے اس اقدام کو امن، آزادی اور انصاف کا قتل قرار دیتے ہیں مگران حکومتوں کی ماں’’امریکہ‘‘صرف اور صرف اسلام کا راستہ روکنے کے لیے اپنی امتیازی شناخت کی حامل ان مثبت قدروں کو مٹانے پر تل گیا ہے جن کے سہارے ان کی اپنی تہذیب کھڑی تھی۔ آخر دنیا جھوٹ اور دھوکہ کو اور کتنے دن برداشت کرے گی؟ہاں، آپ یہ کرسکتے ہیں کہ اپنے جدید مذہب سیکولرزم کا گلا گھونٹنے کے بعد اپنے قدیم مذہب مسیحیت (پالزم) کی طرف لوٹ جائیں(اور اب آپ یہی کچھ کر رہے ہیں)اور انسانیت کو بدترین مذہبی جنگوں میں جھونک دیں۔

کیا اسلام محض قدیم قبائلی دور کی راہنمائی کی صلاحیت رکھتا ہے؟ 

اگرہم یہ مان لیں کہ قبائلی سرداری نظام کی وجہ سے قدیم دور ’’دورِ تشدد‘‘ تھا اور جمہوریت،آزادی،حریت اورانصاف کے نعروں کی وجہ سے جدید دور ’’دورِ امن ‘‘ ہے توآئیے غور کریں کہ کیا اسلام ایک قدیم دور کا مذہب ہے اور جدید دور کی راہنمائی اور قیادت سے قاصر ہے؟سوال پیدا ہوتا ہے کہ:
1۔ ’’دورِتشدد‘‘ (قبل از اسلام)کی مذہبی کتابوں اور آسمانی صحیفوں(انجیل اور تورات) میں تو ’’قتال فی سبیل اﷲ‘‘ کا ذکر یا تو بالکل نہیں ملتا یا پھر اس کا تذکرہ بہت قلیل طور پر ملتا ہے۔
2 ۔ ’’دورِتشدد‘‘کے انبیاء کرام میں نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ علیہم السلام جیسے نہایت جلیل القدر رسول شامل ہیں، لیکن موسیٰ علیہ السلام کے سواقرآن کسی رسول کے تذکرے کے ساتھ ’’قتال فی سبیل اﷲ‘‘ کے فریضہ کا تذکرہ نہیں کرتا بلکہ اس دور کے تمام اولوالعزم رسولوں کے تذکرہ کے ساتھ صرف اور صرف دعوت و تبلیغ اور انذار و تذکیر کا ذکر کرتا ہے۔
3 ۔ جبکہ اس کے برعکس دورِ جدید اور ’’پرامن‘‘ دور کی راہنمائی کے لیے مبعوث کیے جانے والے پیغمبر خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوقیامت تک عطا کی جانے والی آسمانی کتاب قرآن حکیم میں ’’قتال فی سبیل ‘‘ کا تذکرہ نہایت کثرت سے اور شدومدسے کیاجاتا ہے۔
آخر یہ اتنا بڑا فرق کیوں ہے؟ہماری ناقص رائے میں اس کا جواب یہ ہے کہ:
1 ۔ تمام انبیاء کرام اور اسلام کی تو دعوت ہی از اول تا آخر ’’امن و سلامتی اور ایمان‘‘ کی دعوت ہے۔
2 ۔ لیکن تاریخ کا یہ ناقابل تردید ثبوت ہے کہ ہر دور کے اعلیٰ ترین آئیڈیل مبلغین اور داعین(انبیا ء ورسل علیہم السلام)کی پُرامن دعوت کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ہمیشہ سے ہر داعی امن اور داعی ایمان کو طرح طرح سے ستایا گیا۔
3 ۔ تاریخ گواہی دیتی ہے کہ تمام انبیاء کرام کو(جو کہ دین رحمت کے اعلیٰ ترین داعی اور پیغامبر تھے) ان کی قوم نے جھٹلایا۔
4 ۔ کسی نبی کو قتل کردیاگیا اور کسی کو ملک بدر۔
5 ۔ سابقہ انبیاء کرام کی کتابیں اور مذاہب سخت ترین تحریفات کا شکار ہو کر اپنی اصلیت کھوچکے ہیں۔
6 ۔ جبکہ اسلام کی کتاب اور اس کی تعلیمات اپنی اصل شکل میں آج تک محفوظ اور موجود ہیں۔
یہ وہ زمینی حقائق ہیں جنھوں نے تجربۃً ثابت کردیا کہ نوع انسانی امن وسلامتی اور ایمان کی دعوت کو محض’’دلیل اور سچائی کی طاقت‘‘ کی بنیاد پر من حیث المجموعی اس وقت تک نہیں مانتی جب تک یہ ’’حق‘‘دلیل اور سچائی کی طاقت کے علاوہ اپنے ساتھ تلوار کی طاقت نہ رکھتا ہو۔لہٰذا:
(i) قرآن نے نہایت مدلل انداز سے اپنی کثیر آیات میں یہ بات سمجھادی ہے کہ اب قیامت تک ’’داعین حق اور پیرویان حق‘‘ کے دفاع اور ’’دعوتِ امن و ایمان‘‘ کی حفاظت کا ابدی خارجی ذریعہ ’’قتال فی سبیل اﷲ‘‘ ہے۔
(ii) ’’حق(سلامتی اور امن) ، اس کی پیروی اور اس کی پکار‘‘ کو اگر اس دین میں مقصدی و محوری حیثیت حاصل ہے تو قتال فی سبیل اﷲ کو حفاظتی ودفاعی اور ’’رکاوٹوں کے سنگلاخ پہاڑ‘‘توڑنے کاابدی شرعی وسیلہ و ذریعہ کی حیثیت حاصل ہے۔
ہم اپنی اسی گفتگو کو ایک دوسرے انداز سے عرض کرنے کی کوشش کرتے ہیں:

سابقہ اور موجودہ شریعتوں کا فرق:

یہ ایک حقیقت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے سابقہ شریعتوں میں قتال کا شریعت میں کوئی خاص مقام نہ تھا اور سوائے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت کے اور کسی نبی کو قتال کا حکم شریعت کے جز کے طور پر نہیں دیاگیا۔ قرآن حکیم نے بڑے بڑے جلیل القدر انبیاء کا ذکر فرمایا ہے، مگر قتال کی فرضیت کسی نبی اور رسول پر نہ ڈالی گئی۔ احادیث میں بھی یہی صورتحال ہے کہ پچھلی امتوں میں سوائے یہود کے قتال فی سبیل اﷲ کی فرضیت کسی پر نہیں ڈالی گئی۔ لیکن اس کے برعکس امت مسلمہ پر قتال کو واجب ہی نہیں بلکہ ایک عظیم الشان عبادت قرار دیاگیا اور قرآن حکیم نے اس کا ذکر انتہائی تاکید اور شدومد سے کیا۔پورا قرآن قتال کی دعوت سے بھرا پڑا ہے۔قتال فی سبیل اﷲ کو مومن کی دائمی صفت کے طور پر پیش کیاگیا (الذین امنوا یقاتلون فی سبیل اﷲ۔۔۔)(سورۃ النساء)،قتال کرنے والوں کے بارے میں کہا گیا کہ اللہ ان سے محبت کرتا ہے (ان اﷲ یحب الذین یقاتلون فی سبیلہ۔۔۔) (سورۃ الصف)، قتال کرنے والوں کے بارے میں کہا گیا کہ اللہ نے ان کی جانیں اور مال جنت کے بدلے میں خرید لیے ہیں اور اس سودا بازی پر مومنین کو بڑے ہی دلربا انداز میں خوشخبری سنائی گئی(توبہ)، قتال کرنے والوں کو افضل مومن قرار دیا گیا (نساء)، تلاوت کتاب ، نمازاور انفاق فی سبیل اﷲ کی طرح قتال فی سبیل اﷲ میں مشغول مومنین کو بھی مومنین حقا کہا گیا (توبہ)، مسلمانوں کو ہر وقت دشمنوں سے ’’قتال‘‘ کے لیے گھوڑے اور قوت رہب تیار رکھنے کا حکم دیا گیا (انفال)، قتال سے غفلت اور اعراض کو ہلاکت اور وسیع فساد کا پیش خیمہ قرار دیاگیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کوفتنہ و فساد کے خاتمے اور دین کی دعوتِ امن کی رکاوٹیں تہس نہس ہونے تک قتال جاری رکھنے کا حکم دیا گیا۔ دوسری طرف سنت و احادیث کا یہ عالم ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میرا جی چاہتا ہے میں اللہ کی راہ میں شہید کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر شہید کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر شہید کیا جاؤں(بخاری) جبکہ دوسری حدیث میں ہے کہ جنت میں جنتیوں کے پہنچنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ بتاؤ کوئی اور خواہش ہے تو میں تمہاری پوری کروں۔ وہ کہیں گے کہ یا رب، ہم نے سب کچھ پالیا، سوائے شہدا کے کہ وہ کہیں گے: یا اللہ، ہمیں دنیا میں دوبارہ بھیج اور ہم دوبارہ تیری راہ میں شہید کیے جائیں۔
حیرت ہے کہ جس آخری امت کو ایک سائنسی اور تحقیقی دور میں دعوت دین کا کام کرنا ہے اور دعوتِ دین کا کام ان حالات و ماحول میں کرنا ہے جن میں حیرت انگیز و تباہ کن سائنسی ایجادات ایٹم بم کی صورت میں موجود ہیں، اس دور میں دین کی دعوت کا کام کرنا ہے جس میں تمدنی تبدیلیوں کی وجہ سے(بقول بعض جدید مفکرین) دعوت دین اور غلبہ دین کا کام بغیر قتال کے بھی سر کیاجاسکتا ہے، اسی آخری امت پر جہاد و قتال کی فرضیت نہایت شدومد اور زوردار الفاظ میں عائد کی گئی ہے۔
یہ دو انتہائی اہم تبدیلیاں، ایٹم بم کی ایجاد اور تمدنی تبدیلیاں اتنے بڑے عوامل ہیں کہ ان کو سامنے رکھتے ہوئے قتال کو آج سے چودہ سو سال پہلے کم از کم انتہائی عظیم الشان عبادت (قیامت تک باقی رہنے والی آسمانی کتاب، قرآن حکیم، کی کثیر آیات صرف کرتے ہوئے)قرار دینا نہ سمجھ میں آنے والی بات ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اگر قرآن حکیم کا بہت بڑا حصہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور آپ کے ارشادات قتال فی سبیل اﷲکو ایک مقدس عبادت قرار دینے والے فرامین نہ ہوتے تو شاید آج کا ہر سوچنے سمجھنے والا دیندارمسلمان اس کا شدید مخالف ہوتا، اس کو حرام قرار دلوانے میں پیش پیش ہوتا، اور امت میں اس معاملے میں شدید سلبی سوچ پیدا ہوچکی ہوتی۔
شاید اسی وجہ سے کہ بعد میں آنے والے لوگ اپنے حالات سے متاثر ہو کر اس اہم فریضے کو ترک نہ کر بیٹھیں اور اپنی حفاظت و دفاع اور دعوت دین کی راہ کی مشکلات و رکاوٹوں کو صاف کرنے سے ہاتھ نہ کھینچ لیں، قرآن حکیم نے آج سے چودہ سو سال پہلے اس صورتحال کو پیش نظررکھتے ہوئے انتہائی شدت اور زوردار انداز سے قتال کی ترغیب و تشویق اورتفہیم پر اپنی سینکڑوں آیات صرف کیں اور صلوٰۃ کے بعد قرآن حکیم میں جس حکم کی سب سے زیادہ تکرار ملتی ہے، وہ یہی قتال فی سبیل اﷲ ہے۔یعنی قرآن حکیم نے اعلیٰ ترین عبادت’’صلوٰۃ‘‘ پر جس شدومد سے زوردیا، کم و بیش اس کے قریب قریب قتال فی سبیل کی افادیت، فرضیت، وجوب اور ترغیب و تشویق پر زورصرف کیا۔
ہم محترم خان صاحب کی خدمت میں عرض کریں گے کہ یہ نقشہ اور ڈھانچہ ہے اس دین کا جو دورِ جدید کے ’’دورِ امن‘‘ کی راہنمائی اور قیادت کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے صحابہ کرامؓ اور مسلمانوں کو دیا گیا جس کی اصل تصویر ظالموں، فاسقوں، لٹیروں، استحصالی طبقات، فسادیوں اور نوع انسانی کا خون چوسنے والے انسان نما درندوں کے لیے نہایت ’’ڈراؤنی ‘‘ہے۔ کیا ہم نوع انسانی کی عظیم اکثریت کی مظلومیت اور تباہی کے اصل ذمہ داروں اور نوع انسانی کے ان دشمنوں (ابلیس کے آلہ کاروں) کی محبت میں اسلام کی اس اصل تصویر کو بگاڑ لیں؟ اس کا فائدہ سوائے ابلیس اور ابلیسی ایجنٹوں کے اور کسے ہوگا؟ کیا یہ اسلام اور نوع انسانی کے عظیم ترین مظلوم طبقے کے ساتھ دشمنی نہیں ہوگی کہ نوع انسانی کے خالق نے نوع انسانی کے امن اور تحفظ کے لیے جو سب سے بڑا خارجی اور مادی ذریعہ (قتال فی سبیل اللہ یعنی مسلح جنگ) عطا کیا، ہم اُسے پرتشددطریق کا نام دے کر منسوخ قرار دے دیں؟
اگر محترم خان صاحب کا دعویٰ درست ہوتا توپھر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سابقہ انبیاء کرام کا دور چونکہ تشدد کے عروج کا دور تھا، لہٰذا ان کی کتابوں اور صحیفوں میں قتال کی دعوت زیادہ شدومد سے ملتی جبکہ موجودہ آخری نبی کے دورکو چونکہ ایک امن کے دورکا افتتاح اور آغازکرنے کی امتیازی حیثیت حاصل ہے، لہٰذا اس میں قتال کا تذکرہ بہت خفیف اور استثنائی انداز میں کیاجاتا۔ لیکن جیسا کہ سابقہ سطور میں ذکر کیاگیا ہے،اصل صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔

موجودہ زمانے میں مسلح جہاد کا مسئلہ: 

جناب خان صاحب اسلام کے تصورِ جہاد پر سیاہی پھیرنے کے بعد موجودہ دور میں مختلف خطوں میں مسلمانوں کے مسلح جہاد کو فساد قرار دینے میں نہایت جذباتی انداز اختیار کرلیتے ہیں۔ انہوں نے اپنی دوسری تصانیف میں اٹھارویں، انیسویں اور بیسویں صدی میں جہاد و قتال فی سبیل اﷲ کے لیے کی جانے والی تمام کوششوں کا نہایت بے دردی سے مذاق اڑایا ہے ۔اپنی زیرِ بحث تصنیف میں فرماتے ہیں:
’’موجودہ زمانہ میں مختلف مقامات پر مسلمان جہاد کے نام پر حکومتوں سے پرتشدد ٹکراؤ چھیڑے ہوئے ہیں، مگر تقریباً بلا استثناء ان میں سے ہر ایک کی حیثیت فساد کی ہے نہ کہ اسلامی جہاد کی۔‘‘
اب اپنے اس موقف کے حق میں وہ دلیلیں یہ دیتے ہیں کہ:(1) یہ جہاد کسی حکومت کی طرف سے نہیں، (2) یہ گوریلا جنگیں ہیں اور گوریلا جنگیں اسلام میں ناجائز ہیں، (3) یہ جنگیں غیر اعلانیہ ہیں اور اسلام میں غیر اعلانیہ جنگیں ناجائز ہیں۔
مولانا وحیدالدین صاحب بغیر نام لیے کشمیر، فلسطین، افغانستان اور چیچنیا وغیرہ کے پسے ہوئے مسلمانوں کی طرف سے جارح کافر حکومت کے خلاف جوابی کارروائی کو درج بالا ’’دندان شکن‘‘ دلیلوں سے فساد قرار دیتے ہیں۔ اپنے تئیں ان دلیلوں کو وہ ’’جہاد‘‘ کی پیٹھ میں آخری کیل کے طور پر ٹھونک دیتے ہیں۔
اس طرز استدلال پر کیاہم یہ سوال کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ فقہ و شریعت سے بے پروا ہوکر آپ قرآن و سیرت کے ’’حکم قتال‘‘ کی شکل جس بری طرح مسخ و منسوخ کرنے کوشش کرچکے ہیں، اس کے بعد اب اچانک یہ فقہ اور شریعت سے استدلال کے کیا معنی؟ جب آپ نے قرآن کی نص قطعی پر مبنی منصوص حکم (قتال) میں اجتہاد فرماکر اسے متروک و منسوخ کرنے کی تجویز پیش فرمائی تو کیا آپ نے فقہ یا اصول فقہ سے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ ایسا اجتہاد کرنے کی قرآن وسنت اجازت دیتے بھی ہیں؟اس موقع پر آپ نے فقہ کا یہ اصول کیوں کوڑے دان میں پھینک دیا کہ قرآن حکیم کی نص قطعی میں اجتہادکرنا ایک فاسد عمل ہے۔ ہم یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ مولانا وحیدالدین خان صاحب کو فقہ اور شریعت کا صرف وہی استعمال پسند ہے جو جہاد وقتال کی صورت کو مسخ کرنے میں ان کا مددگار اور معاون بن سکے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ’’جہاد‘‘ کو فساد ثابت کرنے کے اور اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے خانصاحب فقہ کے حوالہ سے لکھتے ہیں :
’’حدیث میں آیا ہے: انما الامام جنۃ یقاتل من وراۂ و یتقی بہ (صحیح البخاری)‘‘
اور پھر فقہ کا متفق علیہ مسئلہ ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ’’الرحیل للامام (جنگ کا اعلان کرنا صرف حاکم وقت کا کام ہے)‘‘(ایضاً)۔ اس دلیل کی بنا پر مسلمانوں کی تمام جہادی سرگرمیوں کے بارے میں فتویٰ جاری فرماتے ہیں کہ ’’مگر تقریباً بلا استثناء ان میں سے ہر ایک کی حیثیت فساد کی ہے نہ کہ اسلامی جہاد کی‘‘(دین و شریعت صفحہ 260)۔

دلیل کا تجزیہ: 

اس منفی فکر کی یہ دلیل کہ یہ جہاد جہاد نہیں بلکہ فساد ہے کیونکہ یہ کسی حکومت کی طرف سے نہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا کے کسی خطے میں ’’اسلامی حکومت‘‘ قائم بھی ہے؟۔۔۔ جب پوری دنیا میں کہیں بھی اسلامی حکومت قائم ہی نہیں رہی تو پھر فقہ کا ایک ایسا حکم جو ’’اسلامی حکومت‘‘ کے دور کے لیے ہے، وہ ایسے دور پر کیسے نافذ ہو سکتا ہے جو اسلامی حکومت کے خاتمے اور غیر اسلامی اور جاہلی طرز کی حکومتوں کا دور ہے؟ اب اہل ایمان کے پاس دو ہی راستے بچتے ہیں۔ یا تو وہ جہاد و قتال کو منسوخ و متروک قراردے کر قرآن کے ایک بڑے حصے کی منسوخی کا اعلان کردیں یا پھرفقہ ہی کے اصول کے تحت ’’تغیر الاحکام بتغیر الزمان‘‘ کی روشنی میں نئے بدلے ہوئے حالات میں قرآنی احکام کے انطباق کی صورت واضح کریں اور خوفِ خدا رکھنے والے ،علمِ دین میں رسوخ رکھنے والے دنیا کے تقریباً تمام علمائے حق نے کشمیر، فلسطین، چیچنیا، افغانستان حتیٰ کہ بوسنیا تک کے جہاد کی حمایت کی ہے اور اسے فساد قرار نہیں دیا بلکہ ان علاقوں میں جہاد میں حصہ لینے کو آخرت میں بے پناہ اجرکا ذریعہ قرار دیا ہے۔ گویا امتِ محمدیہ کے اجتماعی ذہن نے بدلے ہوئے حالات میں قرآن حکیم کے ایک نہایت اہم حکم کے اطلاق کی نئی صورت پر اتفاق کرلیا۔
پھر سوال صرف جہاد و قتال ہی کا نہیں، بلکہ فقہ میں تو صلوٰۃ و جمعہ کا قیام اور زکوٰۃ کی وصولی ایسے نہایت بنیادی ترین ارکانِ اسلام کی ادائیگی بھی حکومت اور امام کے اولین فرائض کے طور پر بیان ہوئے ہیں تو جب اسلامی حکومت نہ رہی تو کیا صلوٰۃ و جمعہ اور ادائیگی زکواۃ کا فریضہ بھی ساقط ہوجائے گا یا ہوگیا؟
عجیب بات ہے کہ اگر مسلمان ذلت و غلامی اور بے حمیتی کی زندگی گزارتے چلے جائیں تو پھر تو خان صاحب کو کوئی اعتراض نہیں، لیکن غلامی میں پسے ہوئے اور پھنسے ہوئے یہی گناہگار مسلمان اگر اپنے رب کے حضور توبہ و استغفار کرتے ہوئے شوقِ شہادت کا زبردست جذبہ لیے غلامی و ذلت کی زنجیریں توڑنے کی کوشش کریں تو خان صاحب کو یہ ’’فساد‘‘ نظر آتا ہے۔
قرآن کہتا ہے کہ الفتنۃ اشد من القتل (البقرہ) کہ فتنہ قتل سے بد تر ہے۔ پھر اسی سورت میں قرآن میں ہے کہ مسجد حرام میں قتال منع ہے، مگر اگر جارح کافر(مشرک) تم سے اس میں بھی قتال کریں تو پھر ان کی گردنیں کاٹو۔ واضح کرنا یہ مقصود ہے کہ ایک طاقتور کافر قوم یا گروہ کا ایک کمزور مسلمان گروہ یا قوم کی عزت، آبرو، جان ،مال اور دین کا استحصال کرنا قتل سے بدتر ہے۔اسلام کی بنا پر، کلمہ کی وجہ سے، اللہ و رسول سے تعلق کی وجہ سے مسلمانوں پر ظلم ،استحصال اور اس کی آبرو اور جان و مال پامال کرنے کی کوشش کرنا قتل سے بڑھ کر ہے۔
سوا ل یہ بھی ہے کہ دین مکمل ہوچکا، قرآن مکمل نازل ہوچکا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک مکمل اسلامی خلافت و حکومت مسلمانوں کو دے کر گئے، اب جبکہ تمام دنیا میں اسلامی حکومت ختم ہوچکی ہے اور مسلمانوں کو اس ’’فتنہ‘‘ والی کیفیت سے بچانے والی کوئی بھی ’’اسلامی حکومت‘‘ نہیں تو اب یہ پسے ہوئے مسلمان کیا کریں؟اپنے سے ہزاروں گنا زیادہ طاقتور کافر قوتوں کے استحصال و فتنہ سے بچاؤ کیسے کریں؟اب شریعت از سر نو نازل ہونے سے تو رہی۔ اب تو امن والے حالات میں مسلمان قرآن حکیم کے امن والے احکامات پر عمل پیرا ہوں گے اور جنگ و فتنہ والے حالات میں قرآن حکیم کے جنگ و فتنہ والے احکام سے راہنمائی لینی ہوگی۔اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں۔
اب جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ پوری دنیا کے ان خطوں (کشمیر،فلسطین ،افغانستان،چیچنیا اور عراق وغیرہ) میں مسلمانوں پر فتنہ و استحصال اور جنگ کی کیفیت مسلط کی گئی تو ان کا اس مسلح فتنہ و فساد کے خلاف مسلح تصاد م کرنا نہ صرف عین فطرت کے تقاضوں کی پکار تھی بلکہ قرآن حکیم کے احکامات بھی اسی روش کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور ایسے مسلمانوں کا اللہ سے تعلق اور جذبہ شہادت جتنا جتنا زیادہ بڑھتا جائے گا، ان کا جہاد اتنا زیادہ مقدس اور اعلیٰ ہوتا چلا جائے گا،اور اتنا زیادہ اجر کا باعث بنتا چلا جائے گا۔
خان صاحب کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اسلامی حکومت کے بغیر اور چھاپہ مار (گوریلا) جنگ اسلام میں جائز نہیں اور یہ محض فساد ہے، لیکن جب ہم سیرت کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اس قسم کی چھاپہ مار لڑائیاں نظر آتی ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم انہیں فساد قرار نہیں دیتے۔
مثلاً صلح حدیبیہ کے بعد ایک صحابی حضرت ابوجندلؓ زنجیروں میں جکڑے ہوئے مکہ سے بھاگ کر مدینہ آتے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پناہ طلب کرتے ہیں، مگر حضور معاہدے کی پابندی کی خاطر انہیں کفار کو واپس کردیتے ہیں۔ اسی طرح ابوبصیرؓ کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور وہ واپس لے کر جانے والے مشرکوں کو قتل کرکے مکہ کے تجارتی راستے ایک پہاڑی پر چلے جاتے ہیں اور مرکز قائم کرلیتے ہیں جہاں آہستہ آہستہ دوسرے لوگ بھی مسلمان ہونے کے بعد مکہ سے بھاگ کر آنا شروع کردیتے ہیں اور ان کی تعداد تقریباً 70 تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ لوگ مکہ کے تجارتی قافلوں پر حملے کرتے ہیں اور اہل مکہ کا ناطقہ بند کرکے رکھ دیتے ہیں۔ بالآخر اہل مکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے گذارش کرتے ہیں کہ ان مسلمانوں کو وہاں سے اپنے پاس بلالیجیے اور صلح حدیبیہ کی اس شرط کو کہ مکہ سے مدینہ بھاگ جانے والے واپس کیے جائیں گے، خود ہی منسوخ قرار دلوادیتے ہیں۔ یہ واقعہ سیرت اور تاریخ کی تقریباً تمام کتابوں میں لکھا ہوا، مگر کسی بھی مستند کتاب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ان کو فسادی نہیں کہا گیا،اور نہ ہی ان کے ’’فساد‘‘ کی انہیں کوئی سزا دی گئی۔ عہدِ رسالت مآب اس واقعہ سے تو یہ اصول اخذ ہوتا ہے کہ اگر بالفرض اسلامی حکومت قائم بھی ہو، لیکن اس کے باوجود کچھ مسلمان کفار کے قبضہ میں آجائیں یا کچھ مسلمانوں پر کفار ظلم و ستم ڈھارہے ہوں اور اسلامی حکومت کسی خاص مجبوری یا کفار کے ساتھ کسی معاہدے کی وجہ سے ان مظلوم مسلمانوں کی مدد نہ کرسکتی ہوتو ان مجبور و مظلوم مسلمانوں کو اپنی مدد آپ کے تحت کفار کے ظلم اور غلامی کے خلاف اپنا مسلح دفاع کرنے کا حق حاصل ہے۔
اس مثال سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کبھی اسلامی حکومت کسی خطے کے مظلوم مسلمانو ں کی مدد کرنے سے قاصر ہو یا ساری دنیا سے اسلامی حکومت مٹ چکی ہو تو اب جس خطہ کے مسلمانوں کو بھی ظلم،استحصال اور فتنہ کا شکار کرنے کی مسلح کوشش کی جائے گی، اس ظالم قوت کے خلاف مسلمانوں کا اٹھ کھڑے ہونا اور منظم گروہ کی شکل میں چھاپہ مار کارروائیاں کرنا عین فطرت کے اصولوں کے مطابق ہے اور اسلام فطرت کے ان اصولوں کی قطعاً مخالفت نہیں کرتابلکہ اسلام تو فطرت کے مقاصد کی نگہبانی کرتا ہے۔
اس تناظر میں ہمارا خیال یہ ہے کہ اگر افغانستان کا مسلمان روسی کمیونزم کے خلاف نہ اٹھ کھڑا ہوتا تو آج دنیا کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔ افغانستان کے مسلمانوں کو حکومت و امام کی سرپرستی حاصل نہ تھی اور یہ کہ یہ جنگ ایک گوریلا جنگ تھی، مگر اس کے باوجود تمام دنیا کے علماء ومفتیان کرام نے اس جنگ کو اسلامی جہاد تسلیم کیا۔ اسی طرح کشمیر، فلسطین اور چیچنیا کے مسلح جہاد کو بھی تمام دنیا کے علمائے راسخین ’’جہاد‘‘ ہی کی صالح نوع اور قسم شمار کرتے ہیں۔ اب اگر کوئی محترم مسلم مفکراور داعی اسلام اسے فساد قرار دے تو اس معاملہ میں اس میں اور دنیا کے ان تمام ملحدین، مستشرقین، ظالم وجابر قوتوں اور یہود وہنودمیں کیا فرق رہ جاتا ہے جوجہاد کوفسادکہتے ہیں؟یہ تو ہم بھول ہی گئے کہ قادیانی بھی توجہاد کو حرام اور منسوخ ہی کہتے ہیں۔ ہماری رائے میں اگرجناب خان صاحب کے اس فکر میں معمولی سا بھی انصاف اور فطرت سے ہم آہنگی باقی ہوتی تو پھردنیا بھر کے ان کروڑوں مظلوم مسلمانوں کی حمایت ضرور کی جاتی جو محض مسلمان ہونے کے ناطے یہود و ہنود اور عالمی استعمار کے ظلم و ستم اور استحصال اور نسل کشی کے فتنے کا شکار ہیں۔
پھر اس وقت پوری دنیا میں جس بُری طرح ظلم و جوراوراستحصال کا بازار گرم ہے تو ان نہایت تاریک ترین حالات میں اس نہایت بھیانک ظلم و جور اور استحصال کے خلاف ’’کوہستانی مردوں‘‘ اور ’’صحرائی بندوں‘‘کا ناقابل شکست مزاحمت کرنا پوری دنیا کے مظلوم اور پسے ہوئے انسانوں کے لئے امید کی ایک روشن کرن ہے۔ یہ اس دجالی و استحصالی دور میں حریت فکر و عمل کی ایک نہایت روشن و عمدہ مثال ہے۔ اس دور کے حکیم نے اس صورتحال کو نہایت عمدہ الفاظ میں یوں بیان فرمایا ہے:
دنیا کو ہے پھر معرکہ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا ہے
ان حالات میں نوع انسانی کے لیے امید کی اس کرن کو فساد قراردینے والوں کو حکیم عصر نے یوں خطاب فرمایا ہے:
وہ فریب خوردہ شاہیں کہ ہو کرگسوں میں
 اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ ورسمِ شاہبازی
ہم ایک مثال کے ذریعہ اپنے مدعا کی مزید وضاحت کرتے ہیں۔ ہم فرض کرتے ہیں کہ کسی منزل تک پہنچنے کے لیے سفر کے دو راستے ہیں۔ ایک نسبتاً محفوظ اور ایک غیر محفوظ۔ دوسری بات یہ ہے کہ محفوظ اور غیر محفوظ دونوں راستوں میں ڈاکوؤں اور خونخوار کتوں سے پالا ضرور پڑتا ہے۔ ’’محفوظ راستہ‘‘ کا اصلی اور اضافی فائدہ یہ ہے کہ بعض اوقات (1) راستے کی قدرتی پناہ گاہیں ’’حملہ آور ڈاکوؤں اور خونخوار کتوں‘‘ سے حفاظت کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ (2 ) بعض اوقات ’’قافلہ‘‘ کی زبردست تیاری اور مضبوط دفاعی قوت کو دیکھ کر ’’ڈاکوؤں اور کتوں‘‘ پر رعب اور دہشت طاری ہوجاتی ہے اور وہ حملہ سے بعض رہتے ہیں۔ (3 ) اور اگر بعض اوقات حملہ کرتے بھی ہیں تو ’’قافلہ‘‘ کی داخلی و خارجی دفاعی قوت اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ وہ آخرکار ’’ان ڈاکوؤں اور کتوں‘‘ کو ماربھگاتے یا قابو پالیتے ہیں۔ اس کے برعکس کوئی قافلہ بھول کر ’’غیر محفوظ‘‘ راہ پر نکل پڑے تو اس راہ میں اسے درج بالا تینوں حصار حاصل نہ ہوں گے، بلکہ اپنی غفلت اور بے خبری کی وجہ سے ،اس غیر محفوظ راستے پر چل نکلنے کی وجہ سے قافلہ نے اپنی زندگی اور بقا کو داؤ پر لگا دیا ہے۔
اب غور کا مقام ہے کہ قافلہ اپنی بے خبری، کم علمی یا غفلت و لاپرواہی کی وجہ سے ایک غلطی تو کر بیٹھا کہ وہ ’’غیر محفوظ‘‘ راہ پر چل پڑا، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس راہ میں اچانک ’’ڈاکو اور خونخوار کتے‘‘ حملہ آور ہوجائیں تو اس ’’بھٹکے ہوئے قافلے‘‘ کے لیے بچاؤ کی کیا راہ ہے؟ (1) کیا اپنے آپ کو ’’ڈاکوؤں اور خونخوار کتوں‘‘ کے رحم و کرم پہ چھوڑدینا چاہیے اور اپنی جان ،مال اور آبرو ان ڈاکوؤں اور درندوں کے حوالے کردینا چاہیے؟ (جبکہ معلوم ہوکہ ڈاکو اور کتے نہ ہی جان کی رعایت کریں گے اور نہ ہی مال اور آبرو کی) یا کہ (2) اپنی غلطی کا ادراک ہونے پر فورا چوکنا ہوجانا چاہیے اور خون کے آخری قطرے تک ان ڈاکوؤں اور خونخوار کتوں کا مقابلہ کرنا چاہیے؟
صاف ظاہر ہے کہ ان میں سے پہلا راستہ بزدلوں، نامردوں، غلاموں اور پست حوصلہ لوگوں کا راستہ ہے، جبکہ دوسرا راستہ عین فطرت کا راستہ ہے۔ یہ بہادروں، جوانمردوں اور آزاد بندوں کا راستہ ہے۔
اس مثال سے ہم امت مسلمہ کے ان بچھڑے ہوئے اور راہ گم کردہ قافلوں کے حالات کو سمجھ سکتے ہیں کہ : (1 ) ایمان و اطاعت اور دعوت و انذار کی محفوظ راہ اپنی غفلت، لاپرواہی کی وجہ سے چھوڑ بیٹھے ہیں۔ (2 ) اب نافرمانی، معصیت، فحاشی وعریانی اور خیانت وجھوٹ کی جس راہ پر امت کے یہ بچھڑے ہوئے قافلے چل رہے تھے تو ان میں سے بعض قافلوں پرکشمیر، چیچنیا،افغانستان، فلسطین اورعراق وغیرہ میں جان ،مال،عزت اور ایمان کے ڈاکوؤں اور خونخوار کتوں‘‘ نے حملہ کردیا،تو اب ان میں سے دو گروہ بن گئے ۔ایک بزدلوں اور نامردوں کا گروہ جس نے اپنی جان مال، عزت اور ایمان سب کچھ حملہ آور کے تصرف میں دے دینے میں ہی عافیت سمجھی، مگر حملہ آور نے ان بزدلوں اور پست ہمتوں کی سوائے ’’حقیر اور ذلیل جان‘‘ کے اور کوئی چیز بھی محفوظ نہ چھوڑی اور مال،آبرو اور ایمان حتیٰ کہ جان میں بھی جس جس چیز میں سے جتنا جتنا چاہا، لوٹ مار کی اور اسے اپنا حق سمجھا۔ جبکہ اس کے برعکس امت کے اسی بھٹکے ہوئے گروہ میں سے ایک گروہ ان لوگوں کا بن گیا جنہیں اس اچانک طوفان نے اپنی راہ گم کردگی اور غلطی کا احساس دلادیا۔ انہوں نے اللہ کے حضور توبہ کی، آئندہ ایمان و اطاعت پر چلنے کا عہد کیا او رپھر حملہ آور ’’ڈاکوؤں اور خونخوار کتوں‘‘ پربہادر شیروں کی طرح ٹوٹ پڑے۔
اب سوچنے کا مقام ہے کہ ان دونوں میں سے کون سا گروہ فطرت کی راہ پر ہے؟ غیرت وحمیت اور مردانگی کی راہ پر ہے؟ اگر پوری انسانی تاریخ میں نوعِ انسانی کی ڈکشنری میں بزدلی، پست ہمتی، نامردی اور غلامی بھی کسی مثبت قدر کی ذیل میں آنے کے قابل سمجھے گئے ہیں اور آج تک نوع انسانی نے ان ملعون رویوں کو ایک لمحے کے لیے بھی ’’اعلیٰ قدر اور رویے‘‘ کے طور پر قبول کیا ہو تو پھر واقعتاً پست ہمت، ذلیل، بے حمیت، بزدل اور غلام انسانوں کا سا طرزِ عمل اپنانے والے بھی درست راہ پر ہیں۔
لیکن اگر ایسا نہیں ہے اور یقیناًایسا نہیں ہے تو پھر آزادی، خودداری ،جوانمردی، عزت و آبرو کی حفاظت کی راہ اپنانے والا وہ گروہ ہی عین فطرت اور ہدایت کی راہ پر ہے جو اپنی کم سامانی اور قلت و سائل کے باوجود اپنے سے ہزاروں گنا زیادہ طاقتور حملہ آور ’’ڈاکوؤں اور خونخوار کتوں‘‘ سے ٹکرا گیا۔ اپنی مسلسل ، پیہم کوششوں اور ناقابل شکست جذبہ جہاد اور شوق شہادت کے بل بوتے پر جس نے غیر ملکی استعمار اور جارح شیطانی قوتوں کے جبڑے ہلا کررکھ دیے ہیں اور دنیا بھر کے فرعون اور ظالم و جابر قوتیں ان جہاد اور شہادت کے متوالوں سے شدید خوفزدہ ہیں اور ان اسلام پسند مجاہدین کی موجودگی میں دنیا بھر کی ظالم و جابر قوتوں کو اپنے ظلم، استحصال، انسانیت کشی اور عریانیت و فحاشی کے ملعون پروگرام کے بقا و استحکام میں شدید خطرہ محسوس ہورہاہے، بے پناہ تباہ کن جدید ترین جنگی ٹیکنالوجی، دنیا جہاں کے وسائل پر قابض ہونے کے باوجود ان کی مہیب اندھی طاقت کے سامنے یہی گناہگار مجاہدین، عزت اور آزادی کے متوالے اور شہادت سے عشق کرنے والے ایک ناقابل شکست پہاڑ بن کر کھڑے ہوگئے ہیں اور نوعِ انسانی کے تمام پسے ہوئے مظلوم طبقات کے لیے عزت ، آزادی اور امید کی ایک نہایت طاقتور روشن کرن بن چکے ہیں۔

خلاصہ بحث

ہم اپنی اس ساری بحث کو درج ذیل نکات میں سمیٹنا چاہیں گے۔

۱۔ابلیس، اولادِآدم کا ازلی دشمن: 

اقوام عالم اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت اس اصول پر اتفاق کرچکی ہیں کہ اگر کوئی ملک کسی دوسرے ملک کی آزادی اور خود مختاری پر حملہ آور ہوتو جارحیت کی شکارقوم کو اپنے مسلح دفاع کا حق حاصل ہے، لیکن اس دنیا میں کیا صرف مسلمان ممالک اور مسلمان قوم ایسی ہے کہ کوئی بھی طاقتور ملک ان کے علاقوں پربغیر کسی ثبوت کے جعلی،جھوٹے اور دجالی الزامات لگا کر حملہ آور ہو، آبادیوں کو تہہ تیغ کرتا پھرے، کھیتوں اور بستیوں کو اجاڑتارہے، لیکن چونکہ ان مظلوم و مقہور انسانوں کے ساتھ لفظ مسلمان لگا ہوا ہے یا یہ کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لینے والی قوم ہے، لہٰذا انہیں اپنے دفاع کا کوئی حق حاصل نہیں؟یہ وہ thesis ہے جو ساری دنیا کی ابلیسی و دجالی قوتیں عالمی سپرطاقتوں کی میڈیاکی طاقت، دولت کی طاقت اور ٹیکنالوجی و فوجی قوت پر حاوی ہونے کی وجہ سے شدومد سے منوانے میں عملاً مصروف ہیں، کیونکہ آدم و ابلیس کی جنگ اپنے آخری راؤنڈ کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے اور انسانیت کے دشمن نہیں چاہتے کہ انسانیت کی کوئی باریک سے باریک دفاعی لائن بھی باقی رہے۔قرائن یہ بتاتے ہیں کہ ابلیس اعظم انسانوں میں انسانیت کے سب سے بڑے دشمن ’’دجال اعظم‘‘ کو میدان میں لانے کا فیصلہ کرچکا ہے، مگر اسے اگر کوئی ڈر ہے تو امتِ محمد سے۔حکیم مشرق ابلیس اعظم کے اس خوف کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
ہے اگر مجھ کو خطر تو اس امت سے ہے
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو
خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ
کرتے ہیں اشک سحرگاہی سے جو ظالم وضو
اور پھر ابلیس اعظم کے خوف کو زیادہ واشگاف الفاظ میں یوں بیان کیاگیا:
الحذر! آئینِ پیغمبر سے سو بار الحذر
حافظ ناموس زن، مرد آزما، مرد آفریں
موت کا پیغام ہر نوعِ غلامی کے لیے

۲۔جہاد بمعنی فساد۔۔۔فکر کی خرابی کا نتیجہ: 

ابلیس اور ابلیسی دجالی قوتوں کا چونکہ مشن ہی انسانیت کی مکمل تباہی اور بربادی ہے، لہٰذا یہ قوتیں اگر انسانیت کے تحفظ کی مضبوط ترین علامت یعنی امت مسلمہ کی دفاعی قوت کو تہس نہس کرنا چاہتی ہیں تو یہ بات کسی حد تک قابل فہم ہے۔اسی طرح امت مسلمہ کی منافق سیاسی و فکری قیادت بھی عالمی دجالی قوتوں کی آلہ کار ہے تو یہ بات بھی ناقابل فہم نہیں ہے کیونکہ منافق کا تو ہر دور میں کا م ہی نفس اور پیسہ (شیطان) کی پوجا کرنا اور ملت فروشی ہوا کرتا ہے۔ لیکن ہماری حیرت اور استعجاب کی اس وقت کوئی انتہائی نہیں رہتی جب ہم بعض دینی و مذہبی مفکرین کی اس سوچ کا مطالعہ کرتے ہیں جو عالم اسلام کی اس عظیم غیر مرئی دفاعی قوت کی (بقول مرزا اسلم بیگ ،سابق آرمی چیف پاکستان) جو کہ افغانستان، فلسطین، عراق، چیچنیا اور کشمیر میں استعماری، دجالی و استحصالی قوتوں سے برسرپیکار ہے، شدید طور سے حوصلہ شکنی اور نفی کرتے ہوئے اس مدافعانہ جہاد کو فساد قرار دے دیتی ہے۔
یہ بات عقل و دل کی سمجھ سے بالا تر ہے کہ ایک کافر اور مشرک اگر اپنے وطن اور اپنی آزادی و خودمختاری کے دفاع کے لیے حملہ آور غیر ملکی قوتوں سے لڑے تو وہ ’’آزادی کا ہیرو‘‘ لیکن ایک گناہ گار مسلمان اپنی قوم کی آزادی و خودمختاری کے دفاع کے لیے جب حملہ آورجارح قوتوں سے برسرپیکار ہوتا ہے تو اسے فسادی اور دہشت گرد کہا جائے۔ آخر کیوں؟ کیا اس کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر ایمان رکھتا ہے، لہٰذا اسے اپنے دفاع کا کوئی حق حاصل نہیں؟

۳۔فقہ اور عقل کا فتویٰ: 

ہر شخص کو اس چیز کا تو پورا حق حاصل ہے کہ وہ اپنے لیے دینی جدوجہد کا کوئی بھی میدان منتخب کرکے اپنی صلاحیتوں اور کوششوں کو اس پر مرکوز کردے، جیسا کہ مولانا وحید الدین صاحب نے ’’دعوت‘‘ کے میدان میں اپنی صلاحیتیں آخری حد تک جھونکنے کی کوشش فرمائی ہے۔اسی طرح آپ کی وہ تمام مساعی بھی قابل مبارکباد ہیں جو مسلمانوں کی غفلت، سستی، کاہلی، بے مقصدیت، بے عملی، استعداد کار اور صلاحیت کی بجائے نعروں، شکایتوں اور شور شرابے پر انحصار کی مذمت کرتے ہوئے بیداری اور عمل پر ابھارتی ہیں۔ لیکن صبر، اعراض اوردرگذرکی تعلیمات کا قطعاً یہ تقاضانہیں ہے کہ افراد اور قوموں کی باہمی آویزش سے آنکھیں بند کرلی جائیں اور انصاف کی بات ہی نہ کی جائے۔ ظالموں کی حوصلہ شکنی کرنے کی بجائے آپ سارا غصہ مظلوموں پر نکالنا شروع کردیں کہ وہ ظالم حملہ آور قوت سے اپنی جان مال اور آبرو بچانے کی کوشش ہی کیوں کررہے ہیں۔ دکھ اس بات کا بھی ہے کہ یہ ’’خودروفکر‘‘ طاقتور ملکوں کی کمزورقوموں پر جارحیت اور ان کی جان،مال اور آبروپر حملہ کو تو فساد کہنے میں انتہائی بخل سے کام لیتی ہے ،لیکن کمزورکا اپنی جان مال اور آبرو کی دفاع میں اٹھنے والا قدم اس ’’فکر‘‘کے نزدیک فساد قرار پاتا ہے۔
ایک پرامن اور مذہبی آزادی پر مبنی معاشرے میں مسلمانوں کا کام یقیناًصبر و اعراض کے ساتھ ’’ایمان و سلامتی‘‘ کا پیغام نوع انسانی کو پہنچانا ہے اور اس راہ میں آنے والی تکلیفوں کو صبر و درگذر کے ساتھ برداشت کرنا ہے، لیکن جنگی حالات میں جبکہ دنیا کی کوئی بھی طاقت کسی بھی بہانے سے ایک مسلمان ملک کو محض کمزور سمجھتے ہوئے اس پر حملہ آور ہوتو فقہ اسلامی کی روسے بھی اور انسانی فطرت کی رو سے بھی اس کمزور ملک کے مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ حملہ آور کافر ملک کے مقابلے کے لیے سردھڑ کی بازی لگادیں۔
فطرت کا، عقل کا، اسلام کا اور قرآن کا سبق اور مطالبہ یہ ہے کہ ایسے حالات میں اپنی آزادی سے غفلت برتنے والے بزدلوں اور بے عملوں کو بہادری اور عمل پر ابھارا جائے اور انہیں اپنی آزادی و خودمختاری کی خاطر کٹ مرنے پر آمادہ کیاجائے۔ ایسے حالات میں دفاع(جہاد) کو منسوخ اور فساد کہنا قرآنی فقہ کے نزدیک گمراہی ہے تو فطرت اور عقل ایسی فکری خرابی پرحماقت کا فتویٰ صادر کرتے ہیں۔

۴۔مسلح برائی اور تشدد کو قوت سے روکنے کا نام جہاد ہے: 

چاہیے تو یہ تھا کہ امت محمدیہ کے ہمدرد اور خیرخواہ اس امت کے قافلوں کے بھٹکنے اور راہ گم کرنے کی وجوہات کا تجزیہ کرتے اور حل کے طور پر ایمان، توبہ، اطاعت،دعوت و انذار اور تزکیہ و تذکیر کی راہ تجویز کرتے۔اس صراط مستقیم پر یکسو ہوکر چلنے کی بجائے مسلم داعین میں سے بعض ’’ہمدردوں اور خیرخواہوں‘‘ نے امت مسلمہ کے بھٹکے ہوئے قافلوں میں سے ان چند گنے چنے قافلوں کو بطور خاص نشانہ بنایا جو عزت، آزادی،خودی اور خودداری کے دفاع کی جنگ لڑرہاتھا۔ یہ ’’مفکرین‘‘ ان عزت و آزادی اور خودداری کی جنگ لڑنے والے احرار کو ’’ایمان و اطاعت‘‘ کی راہ کی ضد ثابت کرنے پر لگ گئے۔ان ’’مفکرین‘‘ کی یہ وہ منفی وسلبی سوچ ہے جس نے ان کی ’’ایمان و اطاعت اور دعوت و انذار‘‘ پر مبنی ان کی خوش نما دعوت کو بھی شدید طور سے مجروح اور غیر معتبر بنادیا ہے۔ ان کے اس طرز عمل سے اس شبہ کو تقویت ملتی ہے کہ ان کا مقصد ’’ایمان و اطاعت اور دعوت و انذار‘‘ کی اسلامی و قرآنی راہ کو زندہ کرنا نہیں بلکہ نوع انسانی کی بچی کھچی آزدی و حریت اور عزت و خودی کو بھی کچلنا اور اسے مسخ کرنا ہے۔
اسی طرح اسلام کو بدنام کرنے کی نیت سے یاناقص و غلط فہم کی وجہ سے اگرعصر حاضر کے لادین مفکرین ’’جہادوقتال فی سبیل اللہ‘‘ کی مقدس قرآنی اصطلاح کو ’’پُرتشددطریق کار‘‘ کانفرت آمیز نام دیں تویہ ان کی مجبوری ہے، لیکن حیرت اور تعجب کا مقام ہے کہ ہمارے محترم وحید الدین خان صاحب کی کیا مجبوری ہے کہ وہ بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کی اسلامی جنگ (جہاد وقتال فی سبیل اللہ) کو ’’پرتشددطریق کار‘‘ کا عنوان دے کر اسے متروک اور منسوخ کرانا چاہتے ہیں؟ کیا انہیں بھی یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ’’قتال وجہاد‘‘ تشدد پھیلانے کے لیے نہیں بلکہ دنیا سے تشددکی لعنت کو ختم کرنے اور نوع انسانی کو امن و تحفظ فراہم کرنے کے لیے مسلح برائی کی طاقت کا مسلح اچھائی کی زبان میں طاقت سے جواب دینے کے لیے کی جانے والی پاکیزہ جدوجہد کا نام ہے؟

۵۔امن کے محافظ ۔۔۔ ایمان اور جہاد: 

امن انسان کی تمام تر دینی و دنیاوی ترقیوں اور کامیابیوں کی بنیادبھی اورمقصود بھی۔ امن فطرت انسانی کی ازلی پکار اور آرزوہے۔امن وہ شاہ کلید ہے جس میں دعوتِ دین کے راستے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ امن ہی اس محفوظ ترین ماحول کا ضامن ہے جس میں نوع انسانی کو اس کی اصل منزل(نجات اخروی اور لقاء رب) اور اس تک پہنچنے کے لیے بہترین راستے(دین اسلام) سے ہمکنار ہونے کے وسیع مواقع دستیاب ہوتے ہیں۔ انسان اور اس کائنات کے خالق نے امن کامنبع و سرچشمہ اوراندرونی (داخلی) محافظ اگر ’’ایمان‘‘(بندگی رب) کو بنایا ہے تو اس کا بیرونی (خارجی) محافظ ’’جہاد و قتال‘‘ کو بنایا ہے۔ قرآن،سیرت نبوی اور تاریخ کا سبق یہ ہے کہ امن کی شدید خواہش کے باوجود انسان کے لیے اس کا حصول صرف اسی وقت عملاً ممکن ہوتا ہے جب وہ ہمہ وقت ’’امن‘‘ کے دشمنوں سے ہوشیار اور ان سے لڑنے کے لیے پوری طرح تیار ہوتا ہے۔امن کے دشمنوں سے ہروقت ہوشیاررہنے کا قرآنی نام ’’ایمان‘‘ اور امن کے دشمنوں سے ہمہ وقت لڑنے کے لیے تیار رہنے کاقرآنی نام ’’جہاد‘‘ ہے۔

۶۔دو سو سالوں سے مسلم ممالک فساد کی آماجگاہ کیوں؟ 

’’بہترین فوجی تیاری اور بھرپور دفاع‘‘ یہ وہ طریق کار ہے جس کے ذریعے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال کے قلیل عرصے میں 100جنگیں لڑنے کے باوجودحیران کن طور پرتاریخ انسانی کا کم ترین انسانی خون بہا کر امن ،انسانیت اور ہدایت ربانی کے بدترین دشمنوں پر قابو پا لیا۔ اس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے منفرد ترین روحانی انقلاب کے نتیجے میں تاریخ انسانی کا دھارا موڑ دیا۔
’’جہاد‘‘ ہر وقت لڑنے کا نام نہیں ہے، بلکہ امن اور ایمان کے دشمنوں سے لڑنے کے لیے ہروقت تیاررہنے کا نام ہے۔ بہتر تحفظ یہ نہیں ہے کہ آپ ’’دفاع‘‘ کو منسوح و ممنوع قرار دے کر امن و انسانیت کے دشمنوں کو تباہی پھیلانے کی کھلی چھوٹ دے دیں، بلکہ بہترین تحفظ یہ ہے کہ آپ اعلیٰ سے اعلیٰ دفاعی(جنگی) صلاحیت پر عبورحاصل کریں تاکہ امن کے دشمنوں کو آپ کی دفاعی(جہادکی) تیاری دیکھ کر فساد پھیلانے کی ہمت ہی نہ ہو۔جہاد کے لیے تیار رہنا دراصل فساد کوبیخ و بن سے اکھاڑدینے کا نام ہے، جبکہ جہاد کو متروک ومنسوخ کروانے کی کوشش درحقیقت ’’فساد‘‘کا چوپٹ دروازہ کھولنا ہے۔ جب مسلمان ’’ایمان کی آبیاری‘‘ (ایمانی زندگی) سے غافل اور لاپروا ہوجاتے ہیں تو مسلم معاشرے داخلی سطح پر فساد کا گھر بن جاتے ہیں اور جب مسلمان ’’جہاد کی تیاری‘‘(دفاع) سے بھی غافل ہوجاتے ہیں تو تمام دنیا فساد کا گھر بن جاتی ہے۔
قرآن اور سیرت کا مطالعہ بتاتا ہے کہ امن کی مستقل حالت کو وہی اہل ایمان حاصل کرسکتے ہیں جو جہاد کی ہنگامی حالت کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔مسلمان ممالک پچھلے دو سوسالوں سے فساد اور بدامنی کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔اس کی وجہ اس کے سوااور کوئی نہیں ہے کہ ان مسلم ممالک نے امن کے منبع و سرچشمہ اور سب سے بڑے داخلی محافظ ’’ایمان کی آبیاری‘‘کو اپنی اجتماعی مقاصد سے خارج کردیااور امن کے واحد خارجی محافظ ’’جہاد‘‘ (دفاع) سے بدترین غفلت اور چشم پوشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسی اپنے اجتماعی پروگرام سے خارج کر دیا۔

حکمرانوں کی تکفیر اور خروج کی بحث

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

خروج اور تکفیر کا مسئلہ ایک عرصہ سے دینی حلقوں میں زیر بحث ہے اور مختلف حوالوں سے اس پر بحث وتمحیص کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ مسئلہ نیا نہیں ہے، بلکہ خیر القرون میں بھی اس پر بحث ومباحثہ ہو چکا ہے اور مختلف حلقوں کا موقف تاریخ کے ریکارڈ کا حصہ ہے۔ تکفیر کا مسئلہ سب سے پہلے اس وقت سامنے آیا جب جنگ صفین کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لشکر سے خوارج نے علیحدگی اختیار کی اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر الزام لگا دیا کہ انھوں نے حضرت معاویہؓ کے ساتھ جنگ کے دوران جنگ کو فیصلہ کن نتیجے تک پہنچانے کی بجائے صلح کی پیش کش قبول کر کے اور حضرت عمرو بن العاصؓ اور حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کو حکم تسلیم کر کے ان الحکم الا للہ کے قرآنی حکم سے (نعوذ باللہ) انحراف کیا ہے اور کفر کے مرتکب ہوئے ہیں، چنانچہ خوارج نے اس فتوے کی بنیاد پر نہ صرف حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جنگ کی بلکہ اس کے بعد بھی ایک عرصہ تک مسلمانوں کے خلاف برسرپیکار رہے، حتیٰ کہ بصرہ پر قبضے کے بعد ہزاروں مسلمانوں کو اسی پس منظر میں مرتد قرار دے کر تہہ تیغ کر ڈالا، البتہ کوفہ پر خوارج کے کمانڈر ضحاک کے قبضہ کے بعد عجیب صورت حال پیدا ہو گئی جس کا تذکرہ مولانا مناظر احسن گیلانی نے ’’امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی‘‘ میں کیا ہے کہ جب ضحاک خارجی نے کوفہ کے گورنر عبد اللہ بن عمر (بن عبد العزیز) کو شکست دے کر کوفے پر قبضہ کر لیا اور جامع مسجد میں ہزاروں مسلح افراد کے ساتھ آ بیٹھا، اس وقت اس نے اعلان کیا کہ کوفہ کی آبادی مرتد ہے، اس لیے سب لوگ اس کے ہاتھ پر کفر سے توبہ کریں، ورنہ قتل کر دیے جائیں گے۔ 
اس موقع پر امام اعظم حضرت امام ابوحنیفہؒ کے ساتھ اس کا تاریخی مکالمہ ہوا جس کے نتیجے میں کوفہ کی آبادی کو اس متوقع قتل عام سے نجات حاصل ہوئی۔ امام ابوحنیفہ نے ضحاک خارجی سے سوال کیا کہ وہ کوفہ کی عام آبادی کو مرتد کس بنیاد پر قرار دے رہا ہے؟ ا س لیے کہ مرتد وہ ہوتا ہے جو اپنے دین سے انحراف کرے، جبکہ کوفہ کی عام آبادی تو جس دین پرپیدا ہوئی تھی، اسی پر قائم ہے۔ انھوں نے اپنے دین سے انحراف نہیں کیا۔ اس پر ضحاک خارجی سوچ میں پڑ گیا اور اس نے اپنی سونتی ہوئی تلوار کو جھکا کر کوفہ کے عام مسلمانوں کی جاں بخشی کا اعلان کر دیا۔ اسی وجہ سے حضرت ابو مطیع بلخیؒ نے یہ تاریخی جملہ فرمایا کہ ’’اہل الکوفۃ کلہم موالی ابی حنیفۃ‘‘ (کوفہ کی ساری آبادی ابوحنیفہؒ کے آزاد کردہ غلام ہیں، اس لیے کہ ان کی وجہ سے ان کی جان بچی ہے)۔ 
امام ابوحنیفہؒ اور ضحاک خارجی کا یہ مکالمہ بہت دلچسپ اور سبق آموز ہے جس کا صرف ایک حصہ ہم نے ذکر کیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تابعین اور اتباع تابعین کے دور میں مسلمانوں کی تکفیر کا عمومی رجحان کیا تھا اور ائمہ اہل سنت نے کس حکمت عملی اور تدبر کے ساتھ امت کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دیا۔ 
اسی طرح خروج کا معاملہ بھی ہے۔ سیدنا حضرت امام حسینؓ اور ان کے خانوادہ کی کربلا میں المناک شہادت کا باعث کیا تھا؟ اس پر مختلف قسم کے موقف پائے جاتے ہیں:
ہمارا ذاتی نقطہ نظر اس کے بارے میں یہ ہے کہ حضرت امام حسین کے جائز احتجاج اور غصہ کے بجا اظہار سے کچھ عناصر نے ناجائز فائدہ اٹھایا اور ایسے حالات پیدا کردیے کہ سیدنا حضرت امام حسینؓ کے لیے مصالحت کی رخصت اور شہادت کی عزیمت میں سے ایک راستہ اختیار کرنا ضروری ہو گیا اور انھوں نے رخصت پر عزیمت کو ترجیح دی۔ مگر ہم اس مسئلہ کو موضوع بحث بنانے کی بجائے ’’واقعہ حرہ‘‘ کا حوالہ دینا چاہیں گے کہ سیدنا امام حسینؓ اور ان کے خانوادہ کی کربلا میں المناک شہادت کے بعد مدینہ منورہ کی آبادی نے یزید کی بیعت توڑنے کا اعلان کر دیا جس پر یزید کی فوجوں نے مدینہ منورہ پر اپنی رٹ قائم کرنے کے لیے چڑھائی کی، مدینہ منورہ میں کئی روز تک قتل عام ہوتا رہا اور اسلامی تاریخ ایک اور المناک سانحہ کواپنے دامن میں سمیٹنے پر مجبور ہو گئی جس کی تلخ یادیں آج بھی اہل دل کے زخموں کو کریدنے لگتی ہیں۔
اس موقع پر بخاری شریف کی روایت کے مطابق ہمیں صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کا یہ اسوہ بھی ملتا ہے کہ انھوں نے یزید کی بیعت توڑنے کو خروج قرار دیتے ہوئے نہ صرف یہ کہ اس کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا بلکہ اپنے خاندان اور متعلقین کو جمع کر کے یہ اعلان بھی کیا کہ جس نے اس ’’خروج‘‘ کا ساتھ دیا، وہ اس سے براء ت اور لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں۔
اس کے بعد مختلف مواقع پر ’’خروج‘‘ کے اور بھی واقعات رونما ہوئے، حتیٰ کہ امام زیدؒ ، امام ابراہیمؒ اور نفس زکیہؒ جیسے پاک باز لوگوں نے حکومت وقت کے خلاف بغاوت کی، ان کا ساتھ بھی بہت سے لوگوں نے دیا، حضرت امام ابوحنیفہؒ جیسے اکابر نے ان کی درپردہ مدد بھی کی، لیکن امت کا عمومی ماحول اور جمہور علماء امت اس سے اجتماعی طور پر الگ تھلگ رہے۔
یہ باتیں گزارش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ خروج اور تکفیر کے یہ مباحث نئے نہیں بلکہ خیر القرون میں بھی ہمیں ان سے واسطہ پڑ چکا ہے، اس لیے ہمارا خیال یہ ہے کہ ان مسائل میں ازسرنو کوئی موقف طے کرنے کی بجائے خیر القرون کے اہل علم اور اہل سنت کے مسلمہ اماموں کے موقف اور طرز عمل کو ہی بنیاد بنایا جائے۔ ہمارا آج کے دور کا اصل المیہ یہ ہے کہ کوئی مسئلہ سامنے آنے پر ہم ائمہ اہل سنت، فقہاء کرام اور جمہور امت کے تاریخی تعامل کو سامنے رکھنے کے بجائے قرآن کریم یا حدیث نبوی سے ازسرنو اور ازخود کوئی موقف طے کرنے بیٹھ جاتے ہیں اور اپنی مسلمہ علمی روایات کو نظر انداز کر کے پھر سے ’’زیرو پوائنٹ‘‘ پر جا کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ طرزعمل مسیحی راہ نما مارٹن لوتھر کی ’’ری کنسٹرکشن‘‘ کا نمونہ تو ہو سکتا ہے، مگر امت مسلمہ کی علمی روایات اور اجماعی تعامل سے بہرحال جوڑ نہیں کھاتا۔
خروج اور تکفیر کے بارے میں مختلف ارباب دانش اور اصحاب قلم کی نگارشات ’’الشریعہ‘‘ کی اس اشاعت میں قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہیں۔ ان سب سے اتفاق ضروری نہیں، لیکن اصولی طور پر جہاں ہم ایسے مسائل پر کھلے علمی مباحثہ کو ضروری سمجھتے ہیں کہ کسی صحیح نتیجے تک پہنچنے کا راستہ یہی ہے، وہاں ہمارے نزدیک یہ بھی ضروری ہے کہ امت کی علمی روایات اور جمہور اہل علم کے تعامل کو سامنے رکھا جائے۔ موجودہ حالات کا تناظر ضرور پیش نظر رکھنا چاہیے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ماضی کے علمی تسلسل اور مسلمات کے دائروں کو ملحوظ رکھنا بھی ناگزیر ہے، اس لیے کہ حق کی گاڑی انھی دو پہیوں پر اور ان کے صحیح تناسب کے ساتھ چلنے پر آگے بڑھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو راہ حق پر چلنے کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین

معاصر مسلم ریاستوں کے خلاف خروج کا مسئلہ (پہلی مجلس مذاکرہ)

ادارہ

(پاکستان مرکز برائے مطالعات امن (PIPS) اسلام آباد کے زیر اہتمام مجالس مذاکرہ کی روداد)

قابل بحث نکات

الف۔ خروج کا جواز و عدم جواز

۱۔ ریاست کے تمام شہری ایک معاہدے کے تحت اس کے پابند ہوتے ہیں کہ نظم حکومت کے خلاف کوئی مسلح اقدام نہ کریں۔ کیا معاہدے کی یہ پابندی ہر حالت میں ضروری ہے یا اس میں کوئی استثنا بھی پایا جاتا ہے؟ 
۲۔ اگر بعض اسباب اور وجوہ سے پابندی لازم نہیں رہتی تو وہ کون سے حالات ہیں؟ کیا اپنے دفاع کی خاطر یا حکمرانوں کو شریعت نافذ کرنے پر یا قومی مصالح کے خلاف اختیار کردہ پالیسیاں بدلنے پر مجبور کرنے کے لیے یا غیر اسلامی نظام حکومت کی جگہ اسلامی نظام قائم کرنے کے لیے اس معاہدے کی خلاف ورزی جائز ہوگی؟
۳۔ ایک پہلے سے قائم نظام حکومت میں مسلح جدوجہد ایک ناگزیر ضرورت ہے یا تبدیلی کے لیے اصلاً مطلوب اور معیاری طریقہ؟ اگر یہ ایک ناگزیر ضرورت ہے جسے بامر مجبوری اختیار کرنا چاہیے تو ’ضرورت‘ کے حدود کیا ہیں؟ آیا یہ صرف دفاع تک محدود ہے یا مثبت طور پر کچھ مقاصد مثلاً نفاذ شریعت کا حصول بھی اس کے دائرے میں آتا ہے؟
۴۔ احادیث میں حکمرانوں کے خلاف تلوار اٹھانے کی ممانعت نہایت تاکید اور شدت سے بیان ہوئی ہے؟ اس ممانعت کی اصل شرعی وجہ کیا ہے؟ 
(i) حکمران کی اطاعت کے اصول کے خلاف ہونا؟ 
(ii) نظام حکومت یا حکمرانوں کے انتخاب کے حوالے سے قوم کے اکثریتی یا اجتماعی فیصلے کی نفی؟
(iii) حکمرانوں کے بگاڑ کے مقابلے میں جان ومال کے ضیاع اور افتراق وانتشار کا زیادہ بڑا مفسدہ ہونا؟
(iv) جدوجہد کے عملاً کامیاب ہونے کا عدم امکان؟ 
۵۔ اگر خروج سے کوئی نیک اور اعلیٰ مقصد مثلاً شریعت کا نفاذ، ظلم وستم کا خاتمہ وغیرہ حاصل کرنا مقصود ہو تو شرعی ہدایات کی روشنی میں ان مقاصد اور مذکورہ اصولوں کی پاس داری میں سے ترجیح کس کو حاصل ہونی چاہیے؟

ب۔ خروج برائے دفاع

۶۔ اگر ریاست کسی گروہ کے خلاف ظلم اور تشدد کی مرتکب ہو تو کیا وہ گروہ اپنے دفاع میں یا انتقام کے لیے ہتھیار اٹھا سکتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر اس گروہ کے لیے شریعت میں متبادل ہدایات کیا ہیں؟
۷۔ احادیث میں حکمرانوں کی ظالمانہ پالیسیوں کے باوجود ان کے خلاف تلوار اٹھانے سے منع کیا گیا ہے۔ کیا اس ممانعت کا تعلق اس صورت سے بھی ہے جب کوئی خاص گروہ ریاستی تشدد کا نشانہ بن رہا ہو اور اپنے دفاع میں ہتھیار اٹھانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ پائے؟
۸۔ ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کے بارے میں امام ابوحنیفہ کا موقف کیا ہے اور موجودہ صورت حال میں اس کے انطباق کا امکان اور عملی صورت کیا ہو سکتی ہے؟ اگر موجودہ صورت حال میں وہ قابل عمل نہیں تو فرق کے اسباب ووجوہ کیا ہیں؟

ج۔ خروج براے نفاذ شریعت

۹۔ یہ بات مسلم اہل دانش بالعموم تسلیم کرتے ہیں کہ مروجہ جمہوریت کے راستے سے معیاری اسلامی نظام کا قیام کم وبیش ناممکن ہے۔ ایسی صورت میں اسلامی نظام کے قیام اور نفاذ شریعت کے لیے مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کرنے کا کیا حکم ہے؟ 
۱۰۔ مسلم دنیا کا موجودہ حکومتی نظم عبوری اور وقتی وعارضی ہے جس میں تبدیلی لانا مقصود ہے یا اصل ہے جس کی بقا ودوام اور استمرار مطلوب ہے؟ اگر عبوری ہے تو اس میں تبدیلی کا مجوزہ طریقہ کار کیا ہے اور اس کی کامیابی کا امکان کتنا ہے؟ 
۱۱۔ اگر جمہوری نظام میں شریعت کا معیاری نفاذ ممکن نہیں اور اس مقصد کے لیے جمہوری جدوجہد کے علاوہ کوئی متبادل راستہ اختیار کرنا بھی جائز نہیں تو کیا معیاری اسلامی نظام کے قیام سے مستقل طور پر دست برداری اختیار کر لی جائے گی؟ 

د۔ ظلم کی تائید کے خلاف خروج

۱۲۔ اگر مسلمانوں کی کوئی حکومت کسی دوسری مسلمان حکومت کے خلاف اہل کفر کی یلغار میں انھیں تعاون فراہم کر رہی ہو تو مقدم الذکر ریاست کے باشندوں کی شرعی ذمہ داری کیا بنتی ہے؟ آیا وہ حکومتی فیصلے کی اطاعت کرتے ہوئے تعاون میں شریک ہو جائیں یا غیر جانب دار رہیں یا ریاستی فیصلے کے برخلاف حملے کی زد میں آنے والے مسلمانوں کی مدد کریں؟ 
۱۳۔ اگر ان کے لیے ایسی صورت میں حملے کا شکار ہونے والے مسلمانوں کی مدد کرنا جائز یا فرض ہے تو کیا ایسا کرتے ہوئے اپنی ہی حکومت کے خلاف لڑنا ان کے لیے جائز ہوگا، کیونکہ وہ حملہ آوروں کا ساتھ دیتی ہے؟ اگر جائز نہیں تو کیوں؟ اور اگر جائز ہے تو کیا انھیں حق پر سمجھا جائے گا یا ریاست کا ناجائز باغی؟ 

ہ۔ خروج بر بناے تکفیر

۱۴۔ احادیث میں حکمرانوں کے خلاف خروج کی ممانعت بیان کرتے ہوئے ’کفر بواح‘ کو اس سے مستثنیٰ کیا گیا ہے۔ ’کفر بواح‘ سے کیا مراد ہے اور کن صورتوں کو اس کا مصداق قرار دیا جا سکتا ہے؟
۱۵۔ اگر کسی مسلم ریاست کے دستور میں اصولی طور پر قرآن وسنت کی پابندی اور نفاذ شریعت کی ضمانت دی گئی ہو، لیکن آئین کی بعض ذیلی دفعات شریعت کے مطابق قانون سازی میں مانع ہوں یا عملاً بعض خلاف اسلام قوانین نافذ ہوں تو کیا اسے ’کفر بواح‘ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے؟ بالخصوص جبکہ آئین اور قانون میں ترمیم اور اصلاح کا راستہ اصولی طور پر کھلا ہے؟
۱۶۔ کیا ’کفر بواح‘ کے تحقق یا عدم تحقق کا فیصلہ کرتے ہوئے آئین اور دستور کی تصریحات کو اصل معیار سمجھنا چاہیے یا حکمران طبقات کے طرز فکر اور طرز عمل کو؟ اگر دستور نفاذ اسلام کی ضمانت دیتا ہو جبکہ حکمران طبقات اس کے لیے ذہنی طو رپر مخلص نہ ہوں جبکہ بعض افراد نفاذ شریعت کے خلاف باغیانہ خیالات بھی رکھتے ہوں یا حکمرانوں کی عمومی سیاسی پالیسیاں اسلام اور مسلمانوں کے مفاد کے خلاف ہوں تو آیا اس صورت حال کو ’کفر بواح‘ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟
۱۷۔ اگر ’کفر بواح‘ کا تحقق فرض کر لیا جائے تو کیا ایسی صورت میں خروج کا محض جواز ثابت ہوتا ہے یا وجوب؟ دونوں صورتوں میں کیا خروج کے عملاً نتیجہ خیز کی شرط بھی عائد ہوگی یا نتائج واثرات سے صرف نظر کرتے ہوئے ’خروج‘ کرنا جائز یا واجب ہو جائے گا، خاص طور پر اس صورت میں جب ’کفربواح‘ کے ارتکاب کے باوجود حکمران جماعت کو عمومی سیاسی تائید حاصل ہو؟ نیز ایسی صورت میں ’خروج‘ کے حکم کا مخاطب کون ہوگا؟ مسلمان عوام یا سیاسی جماعتیں یا مسلح افواج یا کوئی بھی گروہ؟
۱۸۔ اس استدلال میں کتنا وزن ہے کہ استبدادی طرز حکومت کے برخلاف، جس میں حکمرانوں کی تبدیلی کے لیے کوئی پرامن راستہ موجود نہیں ہوتا، جمہوری طرز حکومت میں رائے عامہ کی بنیاد پر حکمرانوں اور حکومتی پالیسیوں میں تبدیلی کا راستہ موجود ہے، اس لیے ایک جمہوری نظام میں خروج اور مسلح جدوجہد کو کلیتاً ناجائز ہونا چاہیے؟

و۔ عمومی سوالات

۱۹۔ خروج کے اصولی جواز کی صورت میں عملی اقدام کے لیے کیا باغی قیادت کو قوم کا عمومی اعتماد حاصل ہونا ضروری ہے یا کوئی گروہ اپنے تئیں بھی خروج کا فیصلہ اور اقدام کر سکتا ہے؟
۲۰۔ مسلم ریاست کے کچھ باشندے اگر مخصوص صورت حال میں کسی گروہ کی طرف سے خروج کے اقدام کو جائز تصور کرتے ہوں تو کیا ان کے لیے ضروری ہے کہ اس کے ساتھ ان کی وابستگی علانیہ ہو یا وہ بظاہر ریاست کے مطیع ہوتے ہوئے بھی باغی گروہ کی تائید وامداد کر سکتے ہیں؟ امام ابوحنیفہ کی طرف سے خروج کرنے والوں کی امداد کی نوعیت کیا تھی؟
۲۱۔ اگر باغی گروہ کی خفیہ امداد جائز ہے تو کیا اس سے ریاست کی وفاداری اور اطاعت کے معاہدے پر زد نہیں پڑتی؟ کسی معاہدے کی بظاہر پاس داری کرنے اور خفیہ طور پر خلاف ورزی کرنے کی شرعی واخلاقی حیثیت کیا ہوگی؟

محمد مجتبیٰ راٹھور ― (پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز، اسلام آباد)

معزز علماء کرام اور مہمانان گرامی!
آج کے اس پروگرام میں پاک پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیزکی طرف سے ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں اور آپ کے تہہ دل سے مشکور ہیں کہ آپ نے اپنا قیمتی وقت اس اہم اور علمی موضوع کے لیے ہمیں نوازا۔ میں ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ آج کی اس تقریب کی کارروئی کا آغاز فرمائیں۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز (میزبان) ― (ڈائریکٹر شیخ زاید اسلامک سنٹر، پشاور)

سب سے پہلے تو ہم آپ کا خیر مقدم کرتے ہیں کہ آپ نے باوجود اپنی مصروفیات کے اس علمی محفل میں شرکت کے لیے وقت نکالا۔
یہ ایک بہت علمی اور بہت ہی دقت نظر کے ساتھ مطالعے کا تقاضا کرنے والا موضوع ہے۔ سب سے پہلے ان سوالات کے حوالے سے ہمار ا ہر شریک گفتگو اپنی رائے پیش کرے گا۔ اس کے بعد نکات اٹھائے جائیں گے اور ان نکات میں دلائل بھی آتے جائیں گے۔ یوں بحث کی ایک صور ت بنے گی اور امید ہے کہ ہماری آئندہ جو محفل ہوگی، اس میں ہم زیادہ علمی انداز سے اس کو گفتگو کا موضوع بنا سکیں گے۔
ہماری کوشش ہوگی کہ جو ماحصل ہے، نتیجہ بحث ہے، اس کو بھی تیار کر لیں۔ چونکہ یہ خالص علمی گفتگو ہے، اس لیے ہماری یہ خواہش ہوگی کہ اس کو علمی انداز میں رکھا جائے اور حکمت اور موعظۃ حسنہ اور جدال بالاحسن کے جو اصول ہیں، وہ ملحوظ رہیں۔ اگر ہمارے درمیان کوئی اختلاف بھی ہے تو اس میں کوشش یہ کی جائے کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو، کسی کے اوپر ایسی تنقید نہ ہو کہ جس سے اس کے جذبات کو ٹھیس پہنچے اور ہماری کوشش یہ ہو کہ خالص علمی انداز میں اس گفتگو کی طرف آئیں۔ سب سے پہلے ہم جناب ڈاکٹر علی اکبر الازہری سے گزارش کریں گے کہ وہ ان موضوعات پر اپنی رائے دیں۔

ڈاکٹر علی اکبر الازہری ― (مدیر ماہنامہ ’’منہاج القرآن‘‘ لاہور)

سب سے پہلے میں پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے منتظمین کا انتہائی شکر گزار ہوں کہ انھوں نے اس سنجیدہ اور حساس موضوع پر ملک کے مقتدر علما کو باہم مل بیٹھ کر گفتگو کرنے کا موقع فراہم کیا اور مختلف نظریات کے حامل اسکالرز کو ایک میز پر جمع کر کے اس حساس موضوع کی طرف متوجہ کیا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی کاوشوں کو دین متین کی نصرت کے لیے اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت سے نوازے۔
جو سوال نامہ PIPS کی طرف سے جاری ہوا تھا اور جس کا خلاصہ آج ان کی طرف سے ہمیں دیا گیا ہے، موضوع کے اعتبار سے میں نے اس کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ اس موضوع کا ایک پہلو ہے دینی اور اصولی جس پر قرآن وحدیث کے دلائل ہیں، علما یعنی ائمہ کبار کے باقاعدہ تفصیلی فتاویٰ جات موجود ہیں اور اس پر لٹریچر بھی موجود ہے۔ اس کا دوسرا جو پہلو ہے جس پر ہماری نظر ہونی چاہیے اور آج کی گفتگو میں بھی خاص طو رپر اس پر توجہ دی جانی چاہیے، وہ اس کا پہلو تاریخی اور سیاسی پہلو ہے۔ اس کے ساتھ اس کا تیسرا پہلو معاصر اور عصر حاضر کے تناظر میں ہے۔ عصر حاضر کے تناظر میں پھر اس کی تین سطحیں بنتی ہیں۔ پہلی سطح وہ ہے جس میں مغربی ممالک سمیت دنیا کی ساری اقوام آتی ہیں۔ اس کی دوسری سطح عالم اسلام کی ہے جس کی ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب نے ایک چھوٹی سی جھلک آپ کے سامنے پیش کی ہے۔ اس کی تیسری مناسبت ہمیں پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں ہمیں دیکھنی ہے۔ یہ میرے نزدیک اس گفتگو کی تین سطحیں ہیں۔
جہاں تک پہلا نکتہ ہے تو ا س مسئلے کا جو شرعی اور اصولی پہلو ہے، اس پر بہت لٹریچر موجود ہے۔ اصول ہمارے سامنے ہیں، قرآن وحدیث کی تعلیمات ہمارے سامنے ہیں اور حال ہی میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب نے اس مسئلے کو اقوام عالم کے سامنے اور مسلمان نوجوانوں کے سامنے واضح کرنے کے لیے ان تمام دلائل پر مشتمل چھ سو صفحات کا جو تفصیلی فتویٰ لکھا ہے، وہ پچھلے سال چھپ گیا ہے اور اس وقت سات آٹھ بڑی زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ وہ تو تفصیل کے ساتھ ڈسکس ہو رہا ہے، لوگ اس پر لکھ بھی رہے ہیں۔ لیکن اس مسئلے کے دوسرے دو جو پہلو ہیں، اس پر خاص طور پر ہماری توجہ مبذول ہونی چاہیے۔ میرے نزدیک اس موضوع کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے اس تقسیم کی وضاحت اور بیان ضروری تھا۔ 
موضوع سے متعلق سوالات کا جو خلاصہ ہمارے سامنے رکھا گیا ہے، اس کے پہلے جز میں احادیث میں حکمرانوں کے خلاف تلوار اٹھانے کی ممانعت کی حکمت دریافت کی گئی ہے۔ سب سے بڑی حکمت یہی ہے کہ اسلام دین امن ہے، سلامتی کا دین ہے اور اسلام سب سے پہلے سلامتی کو یقینی بنانا چاہتا ہے اور کسی جماعت کو یا کسی فرد کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنے فکر کو مسلط کرنے کے لیے ایک ریاست کو چیلنج کرتے ہوئے اٹھ کھڑی ہو۔ بغاوت کی جتنی تعریفیں ہم پڑھتے ہیں، علماے احناف کے ہاں پڑھیں، علماے شوافع کے ہاں، علماے حنابلہ کے ہاں، حتیٰ کہ علماے جعفریہ کے ہاں تو بغاوت کا جو لغوی مطلب ہے، اس کے اندر ہی کفر اور تکفیر او رمخالفت اور خون بہانے کا مفہوم شامل ہے۔ اس سے اسلام نے بڑی سختی کے ساتھ منع کیا ہے اور اس کی کسی صورت کو بھی جائز قرار نہیں دیا۔
دوسرا مرکزی نکتہ جس پر گفتگو کی جاتی ہے، یہ ہے کہ کفر بواح کیا چیز ہوتی ہے؟ کفر بواح ہے کسی حاکم کا اس حد تک اسلام کی مخالفت پر اتر آنا کہ وہ مسلمانوں کو نماز جیسے فرائض سے روکنا شروع کر دے۔ اس کی صورت ہمارے سامنے ترکی میں دیکھنے میں آئی کہ مصطفی کمال اتاترک نے کلمہ پر پابندی لگا دی، مسجدوں کو تالے لگا دیے، لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ وہاں بھی جو دانش ور لوگ تھے، جن کا میں ان شاء اللہ اگلے کسی مرحلے پر ذکر کروں گا، انھوں نے وہاں پر مسلح جدوجہد کی اجازت اس حالت میں بھی نہیں دی۔ 

مولانا ڈاکٹر اعجاز احمد صمدانی ― (دار العلوم، کراچی)

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید الانبیاء والمرسلین وعلیٰ آلہ واصحابہ اجمعین۔ اما بعد!
چونکہ مختصر دورانیہ ہے اور ان سوالات کا اس میں احاطہ کرنا ہے تو میں بلاتمہید انھی سوالات پر گفتگو کرتا ہوں۔ 
سب سے پہلے یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ احادیث میں حکمرانوں کے خلاف تلوار اٹھانے کی ممانعت نہایت تاکید اور شدت سے بیان ہوئی ہے، اس کی وجہ اور حکمت کیا ہے؟
ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں پہلے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ایک حکم آ چکا ہے تو اس کا احترام ہر حال میں کرنا چاہیے، البتہ فقہا نے اور علما نے اس کی حکمت بیان کی ہے۔ فتح الباری میں علامہ ابن حجر نے کتاب الفتن کے پہلے باب میں لکھا ہے کہ : وطاعتہ خیر من الخروج علیہ لما فی ذلک من حقن الدماء۔ امام کی اطاعت کرنے کی بجائے اگر اس کے خلاف خروج کیا جائے گا تو مسلمانوں کا خون بہے گا اور سفک الدماء بین المسلمین ایک بہت بڑا فتنہ ہے اور اس کو کسی صورت بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا، اس لیے چونکہ بہت بڑ امفسدہ پیدا ہو رہا تھا تو اس کو روکنے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے منع فرمایا۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر ریاست کسی گروہ کے خلاف ظلم اور تشدد کی مرتکب ہو تو کیا وہ گروہ اپنے دفاع میں یا انتقام کے لیے ہتھیار اٹھا سکتا ہے؟
یہاں یہ سمجھنا ہے کہ یہ جو سوال ہے، یہ بنیادی طور پر خروج سے متعلق نہیں ہے۔ یہ قتل للدفاع ہے، یعنی اپنا دفاع کرنے کے لیے قتال کرنا اور چیز ہے اور خروج کے طو رپر قتال کرنا اور چیز ہے۔ کیا اپنے دفاع کے لیے کوئی قتال کر سکتا ہے یا نہیں کر سکتا؟ تو ظاہر ہے کہ من قتل دون مالہ فہو شہید، اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے اگر کوئی قتل ہو جائے تو وہ بھی شہید ہے، اپنی عصمت کی حفاظت کرتے ہوئے اگر کوئی آدمی قتل ہو جائے تو وہ بھی شہید ہے تو اگر کوئی انسان اپنی جان کے دفاع کے لیے قتال کرتا ہے تو اس کی گنجائش ہے، البتہ بعض علما نے یہاں لکھا ہے کہ صبر کر لے تو اولیٰ ہے اور اولیٰ ہونے کی وجہ وہ حدیث ہے جس میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کن کخیر ابن آدم، آدم علیہ السلام کے جو دو بیٹے تھے، ان میں سے جو بہتر بیٹا تھا، اس کی طرح بن جانا۔ یعنی ہابیل کی طرح بن جانا، قابیل کی طرح نہ بننا جس نے قتل کیا تھا۔ تو اس کی تو گنجائش ہے کہ وہ اپنے دفاع کے لیے قتال کرے، لیکن اس کو قتال للدفاع کہا جائے گا، قتال للخروج نہیں کہا جائے گا۔
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جن کے اوپر ظلم ہو رہا ہے، ان کے لیے تو گنجائش ہے۔ کیا سوسائٹی کے دوسرے افراد کے لیے بھی گنجائش ہے کہ وہ اسلامی حکومت کے خلاف ان کی اعانت کریں؟ اس میں فقہا کی آرا مختلف ہیں۔ بعض نے گنجائش دی ہے، لیکن راجح بات یہ ہے کہ اس بارے میں دوسروں کو یہ دیکھنا ہوگا کہ اگر ان کے اعانت کرنے سے کوئی مفسدہ پیدا نہیں ہوتا، کوئی فتنہ کھڑا نہیں ہوتا، دفاع صرف دفاع کی حد تک رہتا ہے اور اس کے نتیجے میں کوئی فتنہ کھڑا نہیں ہوتا تو گنجائش ہے، لیکن اگر ان کے ساتھ مل جانے سے کوئی بڑا مسلح گروہ سامنے آتا ہے جس سے اسلامی حکومت کے لیے، دوسرے شہروں کے لیے پریشانی کھڑی ہوتی ہے تو پھر ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔
تیسرا سوال یہ ہے کہ اگر مروجہ جمہوریت کے راستے سے معیاری اسلامی نظام کا نفاذ ممکن دکھائی نہ دیتا ہو تو اسلامی نظام کے قیام اور نفاذ شریعت کے لیے مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کرنے کا کیا حکم ہے؟
بات یہ ہے کہ مسلح جدوجہد کی تو گنجائش نہیں ہے۔ یہ بات صاف ہے۔ مسلح جدوجہد تو اسی صورت میں جائز ہوتی ہے جب کفر بواح ہو اور جمہوریت کے نظام کے کفر بواح ہونے کا فتویٰ آج تک نہیں آیا کہ اگر کہیں جمہوریت کا نظام ہے تو ا س کا مطلب یہ ہے کہ کفر بواح پایا گیا ہے۔ جب اس کو کفر بواح نہیں کہا جا سکتا تو اس کے نتیجے میں یہ کہنا بھی جائز نہیں ہوگا کہ مسلح جدوجہد کی جائے۔
چوتھا سوال یہ ہے کہ کفر بواح سے کیا مراد ہے اور کن صورتوں کو اس کا مصداق قرار دیا جا سکتا ہے؟
کفر بواح کی تشریح یہی کی گئی ہے کہ وہ کفر قطعی اور کفر متفق علیہ ہو، جس کی حدیث میں خود آگے وضاحت آ گئی کہ الا ان تروا کفروا بواحا عندکم فیہ من اللہ برہان۔ تمہارے پاس یقینی دلیل ہو اس بات کی کہ وہ کفر ہے اور وہ بھی اس طرح کہ کفر کھلم کھلا دکھائی دے۔ تری، رؤیت سے ہے۔ لفظ رویت کے متعدی ہونے کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ متعدی بہ یک مفعول اور متعدی بہ دو مفعول۔ اگر متعدی بہ دو مفعول ہو تو اس سے رؤیت قلبی مراد ہوتی ہے اور یہ حسبت کے معنی میں آتا ہے اور متعدی بہ یک مفعول ہو تو یہ رؤیت بصری کے معنی میںآتا ہے۔ یہاں رویت بصری مراد ہے ، یعنی اس کا کفر ہونا ایسی یقینی ہو کہ جیسے آنکھ سے دیکھا ہے اور حسی صورت پائی جا رہی ہو۔ گویا کفر بواح کے لیے ضروری ہے کہ تمھیں یقین ہو کہ یہ کفر ہے اور وہ کفر بھی ایسا ہو کہ اس میں کوئی اختلاف نہ ہو۔ متفق علیہ جو صورتیں ہیں، ان کو کفر بواح سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ 
پانچواں سوال یہ ہے کہ اگر کفر بواح کا تحقق فرض کر لیا جائے تو کیا ایسی صورت میں خروج کا محض جواز ثابت ہوتا ہے یا وجوب؟
اگر حدیث کے الفاظ کو دیکھیں تو جواز معلوم ہوتا ہے، کیونکہ اس میں الا ان تروا کے الفاظ ہیں۔ یہ استثنا ہے اور جب امر یا نہی کے بعد استثنا آتا ہے تو عربی گریمر کے اصول کے مطابق اس سے جواز معلوم ہوتا ہے۔ لیکن بعض دوسری نصوص ہیں جو وجوب پر دلالت کرتی ہیں۔ جیسے من رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ، فان لم یستطع فبلسانہ، وان لم یستطع فبقلبہ۔ تو ان دونوں کو سامنے رکھ کر فقہا نے جو مسئلہ بیان کیا ہے، وہ یہ ہے کہ خروج ضروری ہے اگر دو شرطیں پائی جاتی ہیں۔ پہلی یہ کہ آپ کے پاس تغییر بالید کی صحیح طاقت ہو۔ تغییر بالید کا یہ مطلب نہیں ہے کہ چاہے سامنے کتنی ہی بڑی طاقت کیوں نہ ہو، میں ا س کو ہاتھ سے روک دوں۔ تغییر بالید کی صحیح طاقت کا مطلب یہ ہے کہ اس کے استعمال کے نتیجے میں اس سے بڑا کوئی فتنہ کھڑا ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔ اگر اس سے بڑا فتنہ کھڑا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے تو پھر ایسی صورت میں آپ وہ کام نہیں کریں گے، اس سے اپنے آپ کو بچائیں گے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ اس کی جو شرعی حدود ہیں، ان کا پورا لحاظ رکھا جائے۔
چھٹا سوال یہ ہے کہ خروج کے اصولی جواز کی صورت میں عملی اقدام کے لیے کیا باغی قیادت کو قوم کا عمومی اعتماد حاصل ہونا ضروری ہے یا کوئی گروہ اپنے تئیں بھی خروج کا فیصلہ اور اقدام کر سکتا ہے؟
دیکھیں، جب گنجائش ہوگی تو پھر اس صورت میں یہ تو لازم نہیں ہوگا کہ سب مل کر ہی کریں۔ اگر سب مل جائیں گے تو پھر حکومت کا باقی رہنا ویسے ہی مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ ابھی ایسے حالات نہیں ہیں، نہ ہمارے ملک میں نہ میری نظر میں کہیں دنیا میں ہیں کہ کہیں خروج کو واجب کہا جا سکے۔ اگر ایسے حالات پیدا ہو جائیں اور خروج کرنا پڑ جائے تو بنیادی کرنے کا کام یہ ہوگا کہ پہلے راے عامہ کو ہموار کیا جائے۔ رائے عامہ کو ہموار کرنے میں جمہوریت ہماری بڑی مدد کر سکتی ہے۔ اگرچہ جمہوریت کو ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ مکمل طور پر اسلامی ہے، لیکن اس سلسلے میں جمہوریت ہماری مددگار اور معاون ثابت ہوگی اور اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جو الیکشنز ہوں گے، ان میں لوگ ہمارا ساتھ دیں گے اور بغیر خون ریزی کے ہی ہم اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
آخری سوال تکفیر سے متعلق ہے۔ شریعت کے جو چند نہایت نازک مسائل ہیں، ان میں ایک یہ مسئلہ ہے۔ اس لیے کہ جس طرح کسی غیر مسلم کو مسلمان کہنا بہت بڑا جرم اور بہت بڑا گناہ ہے، اتریدون ان تہدوا من اضل اللہ، سخت وعید ہے، اسی طرح کسی مسلمان کو بغیر دلیل کے کافر کہنا، یہ بھی بہت بڑا گناہ ہے۔ ولا تقولوا لمن القی الیکم السلام لست مومنا۔ جو سلام کرتا ہے، اس کو یہ کہنا کہ تم مومن نہیں ہو، کافر ہو، یہ بڑا نازک معاملہ ہے۔ یہ دو دھاری تلوار ہے۔ پھر کسی پر کافر ہونے کا حکم لگانا صرف ایک نظری دینی مسئلہ نہیں ہے۔ دینی مسئلہ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ معاشرے کا بھی مسئلہ ہے۔ سوسائٹی کا مسئلہ ہے، معاملات کا مسئلہ ہے۔ اس لیے کہ جب کوئی آدمی مسلم سوسائٹی سے نکل جائے گا تو میراث سے محروم ہو جائے گا، مسلمانوں کے حقوق جو اس کو معاشرے میں ملنے چاہییں، ان سے محروم ہو جائے گا اور نہ جانے اور کتنے اس پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس لیے کفر کے بارے میں بہت کڑی احتیاط کی تاکید آئی ہے۔ اسی لیے فقہا نے فرمایا ہے کہ اگر کسی نے کوئی کلمہ کفریہ بولا اور اس میں ننانوے احتمالات کفر کے ہیں اور ایک احتمال اس کا ہے کہ اس بات کا کوئی صحیح محمل ہو سکتا ہے تو آپ اس کو اسی ایک پر محمول کریں جبکہ وہ خود اپنی بات کی وضاحت نہ کرسکتا ہو، مثلاً فوت ہو چکا ہو یا دور ہو۔ اب دیکھیں، ننانوے احتمالات ایک طر ف ہیں اور صرف ایک پہلو دوسری طرف ہے، چاہے وہ ضعیف ہی کیوں نہ ہو۔ فقہا نے یہاں تک لکھا ہے کہ اگر وہ پہلو ضعیف ہے تو آپ اس کو ضعیف پہلو پر ہی محمول کریں اور اس کو کفر سے بچائیں۔ تکفیر سے متعلق اگلا سوال یہ ہے کہ اس کے اصول کیا ہیں؟
بات تو لمبی ہے، لیکن خلاصہ یہ ہے کہ دین اور ایمان نام ہے ضروریات دین کو تسلیم کرنے کا۔ تسلیم ما جاء بہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم وثبت ضرورۃ۔ جن کو ضروریات دین کہا جاتا ہے جو قطعی نصوص سے ثابت ہیں اور تواتر سے امت تک پہنچی ہیں، ان کا اعتراف کرنا اور ان کو ماننا، صرف جاننا نہیں، بلکہ جاننے کے بعد ماننا یہ ایمان ہے۔ اور مومن ہونے کے لیے ایجاب کلی شرط ہے، لیکن تکفیر کے لیے سلب کلی شرط نہیں ہے بلکہ سلب جزئی کافی ہے۔ یعنی اگر ضروریات دین میں سے کسی ایک کا بھی انکار کر دے تو وہ کافر ہو جائے گا۔ کافر ہونے کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ وہ ساری ضروریات دین کا منکر ہو۔ مثلاً ہم قادیانیوں کو کافر کہتے ہیں تو ایسا تو نہیں کہ وہ ساری ضروریات دین کا انکار کرتے ہیں۔ ایک بات کا یعنی ختم نبوت کا انکا رکرتے ہیں تو وہ کفر میں چلے جاتے ہیں۔ تو اصول بنیادی طور پر یہ ہے کہ تمام ضروریات دین کا اقرار یہ ایمان ہے اور سلب جزئی کے طور پر ضروریات دین میں سے کسی ایک کا بھی انکار کر دینا یا یہ کہنا کہ یہ اسلام میں نہیں ہے، یہ کفر ہے۔ 
یہ سوال رکھا گیا ہے کہ جو گروہ یا تنظیم نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر دوسرے مسلمانوں کے قتل وغارت کا ارتکاب کرتی ہے، اس کا کیا حکم ہے؟
نظریات کے کئی درجات ہیں۔ نظریاتی اختلاف سے مراد اگر کوئی ایسی بات ہے جو اسلام کا مسئلہ نہیں ہے، مثلاً مہاجر اور مقامی کا مسئلہ ہے، یا مسلکی اور فرقہ وارانہ مسائل ہیں تو اس کی تو اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ یہ تو بہت سخت حرام اور ناجائز ہے اور اس کے حرام ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ لیکن اگر نظریاتی اختلاف سے مراد کفر واسلام کے مسائل ہیں تو بھی آپ کے ملک میں اگر کوئی کافر رہتا ہے تو مسلمان ملک میں رہتے ہوئے ایک مسلمان کے لیے اس کی قطعاً اجازت نہیں ہے کہ وہ ایک کافر کو نقصان پہنچائے۔ اس لیے کہ وہ اس ملک کے ایک شہری اور ذمی ہونے کی حیثیت سے رہ رہا ہے، اس کی جان اور مال کی حفاظت کرنا مسلمانوں کا فرض ہے۔ ہاں، کسی جرم کی وجہ سے آپ اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں، لیکن افراد کو افراد کے خلاف تلوار اٹھانے کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔ یہ حکومت کا کام ہے۔ 

ڈاکٹر قبلہ ایاز

مولانا اعجاز احمد صمدانی نے اس پورے مسئلے کو اپنی گفتگو میں بہت اچھا رنگ دیا ہے اور ہر سوال کا وضاحت سے جواب دیا ہے۔ ان کی گفتگو کا خلاصہ درج ذیل نکات کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے:
الف۔ حدیث میں حکمرانوں کے خلاف تلوار اٹھانے کی ممانعت جو نہایت شدت سے بیان ہوئی ہے تو اس کی حکمت یہ ہے کہ معاشرے میں فتنہ اور فساد نہ ہو، کیونکہ اسلام اس بات کا بہت بڑا داعی اور حامی ہے کہ معاشرے میں ایک ترتیب اور ایک نظم ہو۔ 
ب۔ اگر ریاست کسی گروہ کے خلاف ظلم اور تشدد کی مرتکب ہو تو اس کے خلاف قتال، خروج نہیں ہے، بلکہ یہ دفاع کے لیے ہے۔ دفاع اگر قتال کے بغیر ممکن نہ ہو تو اس کی گنجائش ہے، لیکن اگر یہ مزید فساد کا باعث بن سکتا ہے تو پھر اس سے احتراز کی صورت ہی اختیار کرنی چاہیے۔ 
ج۔ مروجہ جمہوریت کے راستے سے معیاری اسلامی نظام کا نفاذ ممکن نہ دکھائی دیتا ہو تو موجودہ حالت میں مسلح جدوجہد کی گنجائش نہیں ہے، کیونکہ اس سے زیادہ فساد کا خطرہ ہے۔ 
د۔ کفر بواح ایسا کفر ہے جو بالکل ظاہر وباہر ہو اور علماء کرام اس کے کفر ہونے پر متفق ہوں اور اس کو کفر بواح قرار دیں۔ ایسی صورت میں خروج کا جواز ہے۔ 
ہ۔ بعض دلائل سے کفر بواح کی صورت میں خروج کا وجوب سمجھ میں آتا ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی طاقت حاصل کر لے تاکہ اقدام مزید فساد نہ بنے، بلکہ اصلاح پر منتج ہو۔ 
ز۔ باغی قیادت کو اس کی کوشش کرنی چاہیے کہ راے عامہ کو ہموار کرے، کیونکہ اگر راے عامہ آپ کی پشت پر ہو تو ہم اصلاح اور بہتری کی صورت کی طرف جا سکتے ہیں۔ 
ح۔ تکفیر بہت نازک مسئلہ ہے اور جب تک کسی بات میں کفر کے ننانوے احتمالات کے باوجود ایک صورت بھی اسلام پر محمول کرنے کی ممکن ہو تو احتیاط ہی سے کام لینا چاہیے اور شبہہ کی گنجائش بھی اگر ممکن ہو تو دینی چاہیے۔
ط۔ مسلکی یا نسلی یا اختلاف کی بنیاد پر لوگوں کی قتل وغارت کی کوئی گنجائش نہیں، کیونکہ جس طرح مسلمانوں کو ایک ملک میں رہنے کا حق ہے، اسی طرح غیر مسلموں کو بھی رہنے کا حق ہے اور ان کے بھی اپنے حقوق ہیں۔
مولانا کی گفتگو میں تقریباً ہر سوال کا جواب آ گیا ہے اور ایک سمت کا تعین ہو گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کے بعد ہماری جو گفتگو ہوگی، وہ بہت زیادہ باسمت اور با جہت ہوگی۔ 
مولانا مفتی محمد اسد اللہ شیخ (رئیس دار الافتاء، جامعہ حیدریہ، خیرپور میرس)
وقت تھوڑا ہے، بات زیادہ لمبی ہے۔ میں ایک بات تمہیداً عرض کروں گا۔ اسلام ایک وسیع ترین اور عالمگیر دین ہے اور اس کی بنیاد پانچ شعبوں پر قائم ہے: اعتقادات، عبادات، اخلاقیات، معاملات، اجتماعیات۔ اب ہمارے سامنے جو مسئلہ ہے خروج اور تکفیر کا، اس کا زیادہ تر تعلق معاملات سے ہے۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کریں، معاملات، لین دین، قرض، امانت رکھنے کے طریقے کیا ہونے چاہییں؟ کسی انسان کو دوسرے انسان سے واسطہ پڑتا ہے، اگر دیانت اور امانت نہ ہو تو پھر لازمی بات ہے کہ جھگڑا ہوگا۔ جب جھگڑا ہو تو امام عادل کے لیے یہ بات لازم ہے کہ جرم ثابت ہونے پر مجرم کو سزا دے اور اگر صاحب امر یہ کام نہیں کرے گا تو ہر ایک اپنا فیصلہ خود کرنے پر مجبور ہوگا۔ اسی سے لاقانونیت پھیلتی ہے اور پھر ملک کسی کے کنٹرول میں نہیں رہتا۔ 
اجتماعی طور پر قوم کو سنبھالنا، اجتماعی حالات کو درست کرنا، قوم میں اجتماعی طو رپر ایک تنظیم ہو، قوم ایک نظم کے تحت زندگی گزارے، بد امنی نہ ہو، ہر چیز اپنے محل پر قائم ہو، تنظیم ملت کی یہ ذمہ داری پانچ قسم کے لوگوں پر ہے۔ امراے اسلام پر جنھوں نے خصومات کو مٹایا، خلفاے اسلام پر جنھوں نے اخلاقیات کو درست کیا، فقہاے اسلام پرجنھوں نے عبادات کو صحیح کیا، حکماے اسلام پر جنھوں نے عقائد کو درست کیا۔ اس طرح اسلام ایک اجتماعی مذہب ہے، ہر چیز میں اس نے ایک نظم قائم کیا ہے۔ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: اسمعوا واطیعوا ولو امر علیکم عبد حبشی۔ کہ تم سنو اور اطاعت کرو، اگرچہ تمھارے اوپر کوئی حبشی غلام مقرر کر دیا جائے جس کے کان ناک اور کٹے ہوئے ہوں، اس کی بھی اطاعت کرنی ہے۔ یعنی مامورین پر سمع وطاعت فرض ہے۔ نفسانی جذبات کی وجہ سے اختلاف نہ کرو۔ جب آپ کے ہاتھ میں کتاب وسنت ہے تو یہ تمھارے لیے حجت کافی ہے اور اسی حجت پر عمل کرتے ہوئے اگر تم دوسرے کا خیال کرو گے تو اس سے بدامنی نہیں پھیلے گی۔ 
اور اگر کوئی امیر مقرر نہیں تو مل جل کر سب مسلمان ممالک ایک امیر مقرر کر لیں۔ اگر اتفاق نہیں ہوتا تو ہر خطے کا اپنا اپنا امیر مقرر کر لیں۔ اسی کو اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یعنی اولی الامر جو ہوگا، وہ بھی نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حکم کے تابع ہوگا، لیکن اگر اولو الامر کھلم کھلا کسی ایسی چیز کا حکم دے جس کی وجہ سے اسلام پر زد پڑتی ہے تو پھر یہ استثنائی صورت ہے کہ اس کا حکم نہیں مانا جائے گا۔ کفر بواح کا معنی ہے ظاہر ظہور کفر۔ اس کی ایک صورت تو ہے حدود اللہ کے مقابلے میں دوسرے قوانین کو ترجیح دینا اور ان کا انکار کرنا۔ اسی طرح حدود اللہ کے معاملے میں سستی اور بے پروائی سے کام لینا۔ سستی اور غفلت اگرچہ حقیقتاً کفر بواح نہیں، مگر حکم شرعی کے اعتبار سے اس کو کفر میں داخل سمجھا جائے گا، جیسا کہ تکملہ فتح الملہم میں حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب نے فرمایا ہے۔ 
ایک صورت کفر بواح کی یہ بھی ہے جس کے بارے میں صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ہم ایسی صورت میں ایسے حاکم کی بیعت کو توڑ نہ دیں؟ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ لا، ما اقاموا فیکم الصلوۃ۔ نہیں، جب تک وہ تمھارے اندر نماز کو قائم کرتا ہے۔ نماز قائم کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر ایک کو آزادی ہو کہ جس طرح چاہے، نماز پڑھ لے۔ بلکہ امیر پر یہ بات لازم ہے کہ وہ خود بھی نماز کو قائم کرے اور نماز سے متعلق وہ تمام ادارے مثلاً مساجد اور اوقاف وغیرہ جنھیں شریعت نے کوئی حیثیت دی ہے، ان کی حفاظت ہو اور اسی طرح اگر نماز کے وقت میں بازاروں کو بند کرنا پڑے تو وہ بند ہونے چاہییں۔ اس طرح اقامت صلوٰۃ ہوگی۔ پھر سب اعمال کی بنیاد چونکہ نماز ہے، اس لیے جب نماز درست ہو جائے گی تو سب اعمال کو کرنا آسان ہو جائے گا۔
اسی طرح امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بالواسطہ یا بلاواسطہ، ا س کا بھی امام اور رعیت دونوں کے ساتھ تعلق ہے۔ صحیح طرز زندگی پر لوگوں کو قائم رکھنا، اس کی طرف لوگوں کو دعوت دینا مسلمانوں کے ان فرائض میں سے ہے جن کا قرآن میں بار بار مطالبہ کیا گیا ہے۔ کوئی حکومت اس وقت تک نہ صحیح معنی میں نہ جمہوری کہلا سکتی ہے نہ مہذب کہلا سکتی ہے ، نہ ثبات واستحکام اسے حاصل ہو سکتا ہے نہ عزت ووقار حاصل کر سکتی ہے جب تک اس کا معاشرہ بے داغ نہ ہو۔ اگر معاشرے کو گھن لگ چکا ہے، بد اخلاقی عام ہے، بے راہ روی شعار کی صورت اختیار کر چکی ہے تو وہاں امن واستحکام نہیں آ سکتا۔ آج کل بے راہ روی کو ایک قانون کا درجہ دے دیا گیا ہے، ہر شخص آزاد ہے کہ جس طرح کا کوئی کام کرنا چاہے تو کرے، اس سے کوئی تعرض نہیں کیا جاتا، کسی کے اوپر کوئی قدغن نہیں لگائی جائے گی، آدمیت کا احترام اٹھ گیا ہے، آدمیت کا احترام آج کل بالکل نہیں رہا۔ کسی کو معلوم نہیں کہ میں کیوں پکڑا جا رہا ہوں، کیوں اٹھایا جا رہا ہوں۔ امانت ودیانت کا فقدان ہے، سرکاری مال کو بیت المال کو ہم نے اپنا مال سمجھ رکھا ہے، اپنا حق سمجھ رکھا ہے۔ اسی طرح اخلاقی جرائم اور مفاسد معمولات حیات میں داخل ہو چکے ہیں۔ ایسی حالات میں نہ حکومت سرسبز ہو سکتی ہے نہ قوم فلاح وبہبود پا سکتی ہے۔ حکومت کی کامیابی اور قوم کا ارتقا صرف ایک ہی چیز پر موقوف ہے کہ وہ صحت مند معاشرہ ہو اور صحت مند معاشرہ تب ہوگا جب امانت ودیانت ہوگی۔ اور جب امانت ودیانت نہیں ہوگی تو صحت مند معاشرہ پنپ نہیں سکتا، اس لیے لازم ہے کہ قرآن نے جو اہل اسلام سے جو مختلف مطالبات کیے ہیں، ان کی بجا آوری پر توجہ دی جائے۔
جہاں تک خروج کا تعلق ہے تو امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے امام زید بن علی رحمہ اللہ کی اخلاقی معاونت بھی فرمائی، ان کے حق میں فتویٰ بھی دیا اور تعاون بھی کیا۔ مگر انھوں نے اتقوا فراسۃ المومن کے تحت یہ سمجھ لیا کہ جو ان کے ساتھ ہیں، وہ ان کا ساتھ چھوڑ جائیں گے اور بجائے کامیابی کے، ایک خراب نتیجہ نکلے گا۔ بہرحال انھوں نے ان کی ہمدردی میں فتویٰ دیا اور حمایت کی۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی نظر یہ تھی کہ اگر کوئی بغاوت کامیاب نہیں ہوگی تو جو اس کے بعد نتائج آنے والے ہیں، وہ زیادہ خراب ہوں گے۔ جیسا کہ ۱۸۵۷ء میں ہوا کہ بہت سے علما نے ہندوستان کے دار الحرب ہونے کا فتویٰ دیا۔ ان کی نظر یہ تھی کہ ان شاء اللہ کامیابی ملے گی اور یہ ضروری بھی نہیں کہ جو کسی مقصد کے لیے اٹھ، نتیجہ اس کے ہاتھ میں ہو، بلکہ وہ نتائج کے بارے میں پرامید ہو کر آگے بڑھتا ہے اور جدوجہد کرتا ہے۔ تو امام اعظم ابوحنیفہ نے فرمایا کہ یہ تو ان کا ساتھ چھوڑ جائیں گے اور پھر افراتفری کا عالم ہوگا۔ پھر جب دوسرا دور آیا اور بنو عباس کے دور میں نفس زکیہ اور نفس رضیہ نے خروج کیا تو امام ابوحنیفہ نے ان کا کھلم کھلا ساتھ دیا یہاں تک کہ اپنی جان بھی انھوں نے گنوا دی۔ ان پر کوڑے برسائے گئے، صرف اس وجہ سے کہ انھوں نے ان کا ساتھ کیوں دیا تھا۔ مگر جس بات کو انھوں نے حق سمجھا، اس کے متعلق انھوں نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ میں یہ کام نہیں کر سکتا۔ خروج کے اصولی جواز کی صورت میں باغی قیادت کو قوم کا عمومی اعتماد عام طو رپر حاصل ہوتا ہے۔ وہ آدمی یہ سمجھتا ہے کہ میرے ساتھ بہت زیادہ لوگ بھی ہیں اور میں اس بات کا اہل بھی ہوں، جیسے امام زید بن علی رحمہ اللہ نے یہ سمجھا۔ چونکہ بہت سے لوگ ان کے ساتھ تھے، اس لیے انھوں نے قیادت کی۔ اب نتیجہ تو اللہ کے حوالے ہوتا ہے، ہاں اگر یہ نتیجہ پہلے سے دکھائی دے رہا ہو کہ افراتفری کا عالم ہوگا تو ایسے خروج کی اجازت نہیں ہو سکتی۔
تکفیر کے متعلق مختصر طور پر یہ عرض ہے کہ تکفیر کرنا، کسی مسلمان کو کافرکہنا یا کسی کافر کو مسلمان کہنا شرعی طو رپر اس کی بالکل ہی اجازت نہیں۔ اب جب اجازت نہیں تو پھر علماء کرام فتویٰ کیوں دیتے ہیں؟ وہ اس وجہ سے کہ شراح کرام نے تفسیر میں یہ لکھا ہے کہ اولو الامر سے مراد اہل علم ہیں۔ اہل علم جب اس بات کو دیکھتے ہیں کہ اس میں وہ چیز یں موجود ہیں جو کہ کافروں میں موجود ہیں تو وہ اس کا حکم بتا دیتے ہیں۔ اہل علم کسی کو کافر بناتے نہیں، بتاتے ہیں۔ سمجھاتے ہیں کہ بھئی، یہ چیزیں ہیں جس کی وجہ سے آدمی کا خروج عن الاسلام ہو جاتا ہے۔ تو ضروریات مذہب، اگر آدمی ان کا انکار کر بیٹھے تو پھر اس میں کوئی تاویل بھی مسموع نہیں ہوتی، کوئی تاویل بھی نہیں چلتی۔ اس وجہ سے علماء کرام، مفتیان عظام بتاتے ہیں کہ یہ کافر ہے یا یہ مسلمان ہے۔
جو گروپ یا تنظیم نظریاتی اختلاف پر دوسرے مسلمانوں کے قتل وغارت کا ارتکاب کرتی ہے تو نظریہ اگر کفر اور اسلام کا ہے تو وہ عقیدہ ہوتا ہے۔ اس کے اوپر تو آدمی جان بھی دے دیتا ہے اور اس کے لیے اجازت بھی ہے، مگر عام طو رپر ہمارے ہاں فروعی اختلافات یا نظریاتی اختلافات کو پیش کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ کفر اور اسلام کا مسئلہ ہے، یہ غلط ہے۔ اس کی تو کسی بھی طور پر اجازت نہیں دی جا سکتی اور اسلام میں اس طرح کی کوئی بھی گنجائش نہیں ہے۔
جمہوریت کے متعلق رئیس احمد جعفری نے ایک بات اچھی لکھی ہے کہ جمہوریت اسلامی ہوتی نہیں، لیکن اگر اس کو اسلام کے ساتھ ملایا جاتا ہے تو پھر اس میں غیر مسلموں کے حقوق کی بھی حفاظت ہوتی ہے اور مسلمانوں کے حقوق کی بھی حفاظت ہوتی ہے۔ شریعت نے اہل حل وعقد کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ یہ طے کریں کہ کس کو امیر بنانا ہے اور کس طرح وہ لوگوں پر حکومت کرے۔ اب اس کو اگر جمہوریت کا نام دیا جائے اور اس میں وہ خصوصیات موجود ہوں جو اسلامی طو رپر ہونی چاہیے تو پھر یہ اچھی بات ہے، ورنہ جمہوریت اسلام کے ساتھ متصادم ایک نظریہ ہے۔ چونکہ عام طو رپر ہمارے ہاں ایک نظریہ موجود ہے کہ ہم نے جمہوری نظام کو اختیار کیا ہے تو اگر ہم اسی میں رہ کر جدوجہد کریں گے تو ان شاء اللہ کسی نہ کسی وقت ہماری جدوجہد کامیاب اور بار آور ہو جائے گی۔

مولانا محمد سلفی ― (مہتمم جامعہ ستاریہ، کراچی)

موضوع سے متعلق بڑی سیر حاصل اور مفید گفتگو ہو چکی ہے۔ لہٰذا اختصار کو مد نظر رکھا جا رہا ہے تاکہ متعین وقت کی حددو میں اپنی گفتگو کو مکمل کر لیا جائے۔
فقرہ الف میں جو سوال ہے، اس کے بارے میں قرآن پاک میں متعدد آیات کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ کسی طرح بھی موجود خلیفہ یا امیر یا سربراہ مملکت کے خلاف بغاوت یا ہتھیار اٹھانے کی اجازت نہیں۔ ارشاد باری ہے: یا ایہا الذین آمنوا اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم۔ فرمان محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ: علیکم بالسمع والطاعۃ وان امر علیکم عبد حبشی۔ فاضل مفضول کا بھی اعتبار نہیں۔ اگر مفضول بھی بڑا بنا دیا گیا ہے تو ہمیں ہر حال میں اس کی تابع داری کرنی ہے، چہ جائیکہ معتبر اور قابل امیر یا خلیفہ یا سربراہ مملکت ہو اور وہ شعائر اسلام کی پابندی کرتا ہو۔ کسی طرح بھی خروج یا اس کے سامنے تلوار اٹھانے کی اجازت نہیں۔یہاں تک کہ ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں: علیکم بالسمع، قالوا وان ظلمنا یا رسول اللہ؟ قال فان ظلمکم فعلیہم ولکم الاجر بالصبر۔ 
یہ بات ہماری تاریخ بتاتی ہے۔ مکہ مکرمہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت زبیر بن العوام اور دیگر اجلہ صحابہ موجود تھے اور ظالم حکمران لوگوں پر زیادتی کر رہے ہیں، حتیٰ کہ عبد اللہ بن زبیر کو سولی چڑھا دیا گیا، تب بھی اکثریت صحابہ نے حکمرانوں کی اطاعت سے ہاتھ نہیں کھینچا۔ امام ابو جعفر طحاوی نے اپنی کتاب شرح عقیدہ طحاویہ میں فرمایا ہے کہ حضرت عثمان بن عفان کو باغیوں نے انھی کے گھر میں قید کر دیا تو ایک شخص ان کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے امیر المومنین، آپ خلیفہ رسول ہیں او ربر حق ہیں، لیکن آج منبر رسول پر آپ کی جگہ پر باغی نماز پڑھا رہے ہیں تو کیا میں ان کے پیچھے نماز پڑھ لوں؟ ارشاد ہوتا ہے: یا اخی ، الصلاۃ عبادۃ فان احسنوا فاحسن معہم وان اساء وا فتجنب اذا طاعتہم۔ نماز شعائر اسلام میں سے ہے، دین ہے۔ وہ اگر نماز پڑھ رہے ہیں تو چاہے انھوں نے خلیفہ کی مخالفت کی ہوئی ہے اور باغی ہیں، لیکن نماز پڑھ رہے ہیں تو تم ان کے پیچھے نماز پڑھ لو۔ 
تو حاصل یہ ہے کہ حکمرانوں کے خلاف تلوار اٹھانے کی قطعاً اجازت نہیں۔
فقرہ ب کا جواب یہ ہے کہ اس کی بھی اجازت نہیں۔
ج۔ ظاہر ہے کہ اس کی اجازت نہیں۔
د۔ کفر بواح کی یہاں تفصیل ہو چکی ہے، دہرانے کی ضرورت نہیں۔ امام ابو جعفر طحاوی رحمہ اللہ کے الفاظ میں کفر بواح سے مراد انکار ذات اللہ، کتاب اللہ، رسول اللہ، دین اللہ اور شرائع اسلام کے ان واضح احکام کا انکار کرنا ہے جو متفق علیہ ہیں۔ ان کا انکار کفر بواح ہوتا ہے۔ اس میں سے کسی ایک چیز کے منکر کو بھی کافر کہا جا سکتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی امام ابو جعفر طحاوی نے ص ۱۹۴ اور ص ۲۳۲ میں یہ بات بھی ذکر کی ہے کہ ولا نکفر مسلما بذنب ارتکبہ ما لم یستحلہ۔ ہم کسی مسلمان کو کسی بھی گناہ کے نتیجے میں کافر نہیں کہیں گے، جب تک کہ وہ اپنے اس گناہ کو حلال نہ سمجھے اور شریعت کا انکار نہ کر دے۔
ہ۔ بنیادی طور پر خروج سے اس لیے منع کیا گیا ہے کہ شریعت اسلامیہ کی ہیبت لوگوں کے دلوں سے نہ نکل جائے۔ دوسری بات یہ کہ کسی بھی خروج کے نتیجے میں مزید فساد پھیلتا ہے اور فساد کا درک اور ترک اور فساد کو ختم کرنے کے لیے ہی اسلام آیا ہے۔ خروج سے اسلام کی نفی ہوتی ہے، لہٰذا کسی بھی شکل میں خروج کی اجازت نہیں۔
و۔ تاریخ میں ایسا ہوا کہ حضرت علی کے سامنے خارجی پیدا ہوئے۔ حضرت عثمان کا حادثہ بھی خارجیوں کی وجہ سے رونما ہوا، لیکن کہیں بھی کسی صحابی، کسی بھی تابعی اور ائمہ دین نے اس بات کی اجازت نہیں دی۔ حکم یہ ہے کہ: وان طائفتن من المومنین اقتتلوا فاصلحوا بینہما۔
ز۔ شریعت اسلام میں کسی بھی حیثیت میں کسی پر کفر کا فتویٰ لگانا جائز نہیں۔ مشہور حدیث ہے کہ اسامہ رضی اللہ عنہ نے جہاد کے دوران میں ایک کافر کو قتل کر دیا۔ اللہ کے رسول کی خدمت میں یہ واقعہ آیا تو آپ نے اسامہ سے سوال کیا تھا کہ ہلا شققت قلبہ؟ تو ظاہری حالت کیسی ہی کیوں نہ ہو، کسی بھی حالت میں کفر کا فتویٰ لگانے یا کافر کہہ کر کسی کو قتل کر دینے کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ 
ح۔ نظریاتی اختلاف تو ہوتا ہی ہے اور ہے اور قیامت تک رہے گا، لیکن کسی نظریاتی اختلاف کے نتیجے میں قتل وغارت یا دوسرے کو کافر کہنے کی کوئی اجازت کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ یا آثار صحابہ یا ائمہ مشہورین میں ثابت نہیں۔ امام طحاوی نے ان موضوعات پر بڑی تفصیل سے بحث کی ہے، ان کی کتاب کا اہل علم کو مطالعہ کرنا چاہیے۔ 

ڈاکٹر قبلہ ایاز

مولانا محمد سلفی نے ایک اہم نکتے کی طرف ہماری توجہ مبذول کی ہے۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ ہمارے دینی طبقے میں امام طحاوی کی العقیدۃ الطحاویۃ کے مطالعے کو عام کیا جانا چاہیے۔ اس کتاب کا مطالعہ، اس پر علمی گفتگو، اس کو جدید اصطلاحات کے ساتھ ہم آہنگ کرنا، یہ اب حقیقتاً علماء کرام کے کرنے کا کام ہے اور بہت بڑی ضرورت بن گئی ہے۔ اس کتاب کو عام کر دیا جائے، اس کو مزید محقق کر دیا جائے، اس وقت جو حالات ہیں اور جو نئی صورتیں بن گئی ہیں، ان نئی صورتوں میں بھی اس قسم کی کتابوں سے ہم استفادہ کریں۔ 
دنیا میں اس وقت ایک عالمگیریت کی صورت ہے اور مغرب میں بھی مسلمانوں کی بہت بڑے تعداد موجود ہے۔ وہاں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں مساجد موجود ہیں اور وہاں بھی مسلمانوں کے ذہنوں میں اس قسم کے سوالات آ رہے ہیں۔ اس کے برعکس کچھ مسلمان ممالک میں مسلمانوں کی آبادی کم ہو گئی ہے۔ مثلاً خلیج کی ریاستیں اب فی الحقیقت مسلمان اکثریتی ممالک نہیں رہیں۔ قطر، دبئی، ابو ظبی، شارجہ اب مسلمان اکثریتی ممالک نہیں رہے۔ اسی طریقے سے کچھ مغربی ممالک کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ۲۰۲۵ء تک ان کے مسلمان اکثریتی ممالک بن جانے کے امکانات ہیں۔ تو وہاں بھی یہ سوالات آنا شروع ہو گئے ہیں کہ مثلاً ایک مسلمان فوجی ہے اور ایک مغربی ملک کی فوج میں ملازم ہے اور وہ مغربی ملک کسی مسلمان ملک پر حملہ کرتا ہے تو یہ مسلمان فوجی آیا یہ اپنی حکومت کی بات مانے گا یا ملت اسلامیہ کی وفاداری کے حوالے سے اپنا فیصلہ کرے گا؟ تو بہت سے سوالات ہیں جو اب وہاں سامنے آ رہے ہیں اور مغربی جامعات میں ان سوالات پر تحقیق ہو رہی ہے، لیکن ملت علماء کرام کی طرف دیکھ رہی ہے اور آپ ہی نے ان سوالات کا جواب دینا ہے۔ الحمد للہ ہمارے پاس اس حوالے سے بہت بڑا علمی ذخیرہ موجود ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس کا مطالعہ کریں۔

مولانا مفتی محمد ابراہیم قادری ― (مہتمم جامعہ غوثیہ، سکھر۔ رکن اسلامی نظریاتی کونسل)

میری کوشش ہوگی کہ میں انتہائی اختصار کے ساتھ آٹھ دس منٹ میں اپنا مدعا بیان کروں اور سوال نامے میں جو نکات اٹھائے گئے ہیں، میری کوشش ہوگی کہ میں ان تمام کا اختصار کے ساتھ احاطہ کروں۔ 
۱۔ سب سے پہلی بات جو پوچھی گئی ہے، وہ یہ کہ احادیث میں خروج کی جو ممانعت آئی ہے، اس کی حکمت کیا ہے۔ علما نے اس کی وجہ لکھی ہے: دفعا للفتنۃ، تلوار نہ اٹھانے اور حکمرانوں کے خلاف بغاوت اور مسح جدوجہد نہ کرنے کا حکم فتنے کے انسداد اور دفع فتنہ کے لیے دیا گیا ہے۔
۲۔ بہتر ہے کہ اس کے جواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ جواب پیش کروں جو آپ نے بعض صحابہ کرام کے ایسے ہی اٹھائے ہوئے سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا او رمولانا سلفی نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا۔ آپ نے فرمایا: علیکم بالسمع۔ تم پر حاکم کی امام کی اطاعت اور اس کی بات سننا لازم ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: وان ظلمنا الامیر؟ ہمارا امیر اگرچہ ہم پر ظلم کرے، تب بھی اس کی اطاعت کرنی ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کو آپ نے اٹھایا اور اسی سوال کو صحابہ کرام نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا۔ آپ نے جواب میں سوال کے جو الفاظ تھے، انھی کا اعادہ کیا ہے۔ سوال یہ تھا: وان ظلمنا الامیر؟ چاہے امیر ہم پر ستم ڈھائے۔ فرمایا: وان ظلمکم فعلیہم الوزر ولکم الاجر بالصبر۔ ہاں، اگرچہ تمھار امیر تم پر ظلم کرے تو بھی تم نے ان کے خلاف تلوار نہیں اٹھانی، ان کے ظلم کا گناہ ان کے کندھوں پر ہوگا اور تم ان کے مقابلے میں جب صبر کرو گے تو اجر پاؤ گے۔
۳۔ مذکورہ حدیث سے اس شق کا جواب بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔
۴۔ کفر بواح سے کیا مراد ہے؟ میں اس بات کو ذرا سی تفصیل کے ساتھ عرض کروں گا۔ وہ حدیث جس میں کفر بواح کے الفاظ آئے ہیں، تھوڑا سا اس کو دیکھ لیا جائے۔ صحابہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بلایا اور ہم نے حضور کی بیعت کی۔ فکان فی ما اخذ علینا ان بایعنا علی السمع والطاعۃ فی منشطنا ومکرہنا وعسرنا ویسرنا واثرتنا علینا۔ ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی کہ ہم امام کی سمع وطاعت کریں گے، خوشی میں، ناپسندیدگی میں، مشکل میں، آسانی میں، اگر چہ وہ امام ہم پر اوروں کو ترجیح دے۔ ولا ننازع الامر اہلہ۔ اور یہ کہ ہم اہل حکومت کے ساتھ حکومت کے معاملے میں تنازع نہیں کریں گے۔ ہم امر حکومت کے سلسلے میں ا مرا سے تنازع نہیں کریں گے۔ یہاں بغاوت کے الفاظ نہیں ہیں کہ ہم بغاوت نہیں کریں گے، بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ ہم اہل حکومت کے ساتھ ان کے معاملات حکومت میں نزاع نہیں اٹھائیں گے۔ الا ان تروا کفروا بواحا۔ مگر یہ کہ تم کفر ظاہر دیکھو۔ ایک ہے امرا سے اختلاف کرتے ہوئے اور انھیں منکرات میں گرفتار دیکھ کر ان کے خلاف احتجاج کرنا جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ افضل الجہاد کلمۃ حق عند سلطان جائر کہ افضل جہاد میں سے یہ بھی ہے کہ ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہا جائے۔ تو ایک ہے احتجاج کرنا، آواز اٹھانا اور امرا سے نزاع کرنا اور ایک ہے کہ ہم ان کے خلاف خروج کریں، بغاوت کریں۔ یہ دو الگ الگ معاملے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں جو استثنا بیان فرمایا ہے کہ ہاں، تم کفر بواح کی صورت میں یہ کام کر سکتے ہو، وہ نزاع کے معاملے میں ہے، خروج کے معاملے میں نہیں ہے۔ 
کفر بواح سے کیا مراد ہے؟ امام شرف الدین نووی نے اس پر جو کلام کیا ہے، وہ میں مختصر طور پر عرض کر دیتا ہوں۔ 
علامہ نووی لکھتے ہیں کہ کفر بواح سے مراد ہے کفر ظاہر۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد میں عندکم فیہ من اللہ برہان کے الفاظ آئے ہیں کہ تمہارے پاس اس معاملے میں کوئی برہان ہو اور جس چیز کو تم ایک واضح منکر اور گناہ سمجھ رہے ہو، اس پر قرآن وحدیث سے کوئی واضح دلیل موجود ہو۔ مزید تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ومعنی الحدیث: لا تنازعوا ولاۃ الامور فی ولایتہم ولا تعترضوا علیہم، الا ان تروا منہم منکرا محققا تعلمونہ من قواعد الاسلام، فاذا رایتم ذلک فانکروا علیہم وقولوا بالحق حیث ما کنتم، واما الخروج علیہم .... دماء المسلمین 
جب تم یہ دیکھو تو اس کا تم انکار کرو۔ جہاں کہیں بھی ہو، حق کا اظہار کرو۔ اسی کو میں نے کہا کہ احتجاج کر سکتے ہو، آواز بلند کر سکتے ہو، خروج کی بات نہیں ہو رہی۔ رہا خروج تو یہ نزاع سے الگ معاملہ ہے۔ فرمایا کہ ان ائمہ جائرین کے خلاف جو خروج ہے، وہ حرام ہے، اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے، اگرچہ حکمران فاسق ہوں، اگرچہ وہ ظالم ہوں۔
میں سمجھتا ہوں کہ آپ کی تمام باتوں کا جواب میری ان گزارشات میں آ گیا ہے۔
تکفیر کے بارے میں، میں ذرا سا اضافہ کروں گا۔ کفر یہ ہے کہ ضروریات دین کا انکار کیا جائے اور ضروریات دین اسلام کے وہ مشہور ومعروف مسائل ہیں کہ جن سے ہر خاص وعام آگاہ ہو، جیسے پانچ نمازیں اور ارکان اسلام، حج، سود کی حرمت، زنا کی حرمت، سرقہ کی حرمت۔ تو یہ جو ضروریات دین ہیں، ان کا انکار کفر ہے۔ ایسے ہی اگر کسی شخص نے صراحتاً ضروریات دین میں سے کسی امر کا انکار تو نہیں کیا، لیکن اس کا ایک ایسا عمل ہے جو ان کے انکار کے زمرے میں آتا ہے تو یہ بھی کفر ہے۔ جیسے کوئی شخص کلمہ بھی پڑھتا ہے، ضروریات دین کا اعتراف بھی کرتا ہے، لیکن پھر بت کو سجدہ کرتا ہے تو یہ کفر ہے، اس لیے کہ اس کا سجدہ کرنا ان ضروریات دین کے انکار کے مترادف ہے۔ یا کوئی آدمی نعوذ باللہ قرآن پاک کو گندگی میں ڈالتا ہے اور اللہ رسول کی توہین کرتا ہے تو یہ کفر ہے۔ 
جو تنظیم اختلاف کی بنیاد پر دوسرے مسلمانوں کے قتل کو جائز سمجھتی ہے، اسلام میں اس کا حکم یہ ہے کہ انھیں سخت سزائیں دی جائیں، عبرت ناک سزائیں دی جائیں، اس لیے کہ وہ اپنے نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے کے لیے دوسروں کو قتل کرتے ہیں۔ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔

محمد عمار خان ناصر ― (الشریعہ اکادمی، گوجرانوالہ)

بہت سے نکات جن پر پہلے اہل علم ودانش نے گفتگو کی، ان پر چونکہ میری زیادہ مختلف رائے نہیں ہے، اس لیے میں ان کے تکرار میں پڑے بغیر، دو تین نکتوں پر توجہ مرکوز رکھوں گا جن کے بارے میں، میں ذرا تھوڑے سے اضافے کے ساتھ بات کرنا چاہتا ہوں۔
ایک تو یہ کہ پہلے نکتے میں جو یہ بات بیان ہوئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکمرانوں کے خلاف تلوار اٹھانے کی ممانعت کو بہت تاکید سے اور بہت شدت کے ساتھ بیان فرمایا، اس سے شریعت کا ایک بنیادی رجحان واضح ہوتا ہے اور اس کو اگر سامنے رکھا جائے تو اگلے جو سوالات ہیں، ان کا جواب زیادہ وضاحت سے مل جاتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے خون کو، ان کے جان ومال کو بچانے کے لیے اور فتنہ وفساد سے گریز کے لیے شریعت یہ چاہتی ہے کہ حکمرانوں کے ظلم وجبر کو اور ان کے بگاڑ کو گوارا کرنا زیادہ بہتر ہے۔ یعنی اہون البلیتین کے طور پر اس کا انتخاب ہی شریعت کی ترجیح ہے۔ اس سے پہلی بات تو معلوم ہوتی ہے کہ شریعت کا اصل رجحان اورمنشا یہی ہے کہ خروج نہ کیا جائے۔ دوسری بات یہ نکلتی ہے کہ اگر کسی صورت میں استثنائی طور پر گنجائش نکلتی ہے تو اسی اصول کو ماننے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ ضرورت کی حد تک رہے، ناگزیر حد تک ہو، اس سے زیادہ اس کو پھیلایا نہ جائے۔ تیسری چیز جو اسی اصول کو ماننے سے نکلتی ہے، وہ یہ ہے کہ جہاں کسی حد تک اس کی گنجائش پیدا ہو، وہاں پر بھی اس کے ساتھ ایسی شرائط لگنی چاہییں جن کی وجہ سے فتنہ وفساد سے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے جس سے اصل میں شریعت بچانا چاہتی ہے۔ مثلاً یہ کہ خروج کرنے والوں کو اتنی طاقت میسر ہو کہ وہ بالفعل نتیجہ حاصل کر سکیں۔ اسی طرح اگر خروج سے کوئی عمومی مقصد حاصل کرنا مثلاً پورے نظام کو بدلنا یا پوری ریاست پر ایک متبادل نظم حکومت قائم کرنا ہے تو پھر یہ لازم ہے کہ جو باغی قیادت اٹھی ہے، اس پر قوم کا اعتماد ہو۔ اس لیے کہ اسلام میں ویسے بھی یہ اصول ہے کہ قوم پر حکمرانی اس طبقے کو یا اس فرد کو کرنی چاہیے جسے لوگوں کو اعتماد حاصل ہو۔ اگر کوئی گروہ اس دعوے کے ساتھ اٹھتا ہے کہ ہم یہ نظم حکومت بدلنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے بھی یہ شرط لازماً عائد ہونی چاہیے۔ 
دوسری بات میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمارے آج کے حالات کے لحاظ سے ایک بڑا اہم سوال ہے جو بظاہر بڑا متاثر بھی کرتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ جس جمہوری نظام کے تحت ہم اس وقت رہ رہے ہیں، اس کے جو بہت سے عملی مسائل ہیں، اس کے لحاظ سے مسلمانوں کے اہل علم ودانش اور علما وفقہا بجا طو رپر یہ محسوس کرتے ہیں کہ شریعت کا نظام جس طرح سے ایک آئیڈیل شکل میں قرآن وسنت میں بیان ہوا ہے، اس نظام کے ذریعے سے اس کو پوری طرح رو بہ عمل کرنا شاید خاصا مشکل ہے۔ اس صورت میں اگر اس راستے سے یہ مقصد حاصل کرنا ممکن نہیں ہے تو فطری طو رپر یہ سوال ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے کہ کیوں نہ اسلامی نظام کے قیام کے لیے ایک دوسرا راستہ اختیار کیا جائے۔ اس حوالے سے یہ بات سامنے ہونی چاہیے اور اس کو بڑی وضاحت سے بیان بھی کرنا چاہیے کہ شریعت کے احکام پر عمل یا بحیثیت مجموعی پورے اسلامی نظام کا قیام یا معاشرے میں شرعی احکام کو رو بہ عمل کرنا، یہ شریعت کا کوئی مطلق حکم نہیں ہے۔ اس میں عملی استطاعت اور عملی حالات اور عملی حکمتوں کو بھی ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ یہ انفرادی احکام پر عمل میں بھی ملحوظ ہونی چاہییں اور فرد بھی اسی حد تک شریعت کے احکام پر عمل کرنے کا مکلف ہے جتنا اس کے حالات اجازت دیتے ہوں اور جتنی اس کو استطاعت میسر ہو۔ اسی طرح اگر ہم پورے معاشرے کی بات کر رہے ہیں تو یہی اصول اس پر بھی لاگو ہونا چاہیے۔
انفرادی احکام کی مثالیں تو سب کے سامنے ہیں۔ اجتماعی احکام کی مثال یہ ہے کہ جو مسلمان دنیا میں غیر مسلم معاشروں میں رہتے ہیں، حتی کہ ایسے معاشروں میں جن کو فقہی لحاظ سے دار الحرب تک کہا جا سکتا ہے، ان کے بارے میں فقہا نے یہ فتویٰ نہیں دیا کہ چونکہ ان کے لیے وہاں پوری شریعت پر عمل کرنا ممکن نہیں، اس لیے وہ وہاں سے ہجرت کر کے آ جائیں۔ فقہا اس صورت حال کے متعلق بھی یہ کہتے ہیں کہ اگر بنیادی دین کے فرائض، نماز روزہ پر عمل بھی ان کے لیے مشکل بنا دیا جائے، تب ان پر ہجرت کرنا فرض ہے۔ ورنہ وہ وہیں رہیں اور دین کے بنیادی فرائض ادا کرتے رہیں۔ باقی شریعت پر عمل ان کے لیے ممکن نہیں، اس لیے اس کے وہ مکلف بھی نہیں۔ تو میرے خیال میں یہ جو اصول ہے کہ شریعت پر عمل فرد کے لیے بھی اور گروہوں اور معاشروں کے لیے بھی استطاعت سے اور عملی حالات کی سازگاری کے ساتھ مشروط ہے، اس کو ان معاشروں پر بھی لاگو کرنا چاہیے اور اس کی روشنی میں حالات کو سمجھنا چاہیے جن کو ہم بظاہر مسلمان معاشرے کہتے ہیں۔ جن ریاستوں کو ہم مسلمان ریاستیں کہتے ہیں، وہاں بھی اس وقت جو صورت حال ہے، فکری اور اعتقادی لحاظ سے جو فساد پھیلا ہوا ہے، اعمال میں جو بگاڑ ہے، اخلاق اور کردار کا جو بگاڑ ہے، اس سب کے ہوتے ہوئے یہ فرض کرنا کہ اس صورت حال کی اصلاح پر توجہ دیے بغیر اور شریعت کے حقیقی نفاذ میں جو رکاوٹیں ہیں، ان کو دور کیے بغیر فی الوقت اور فی الفور انھی حالات میں پوری شریعت کو نافذ کر دینا یہ شریعت کو مطلوب ہے، میرے خیال میں یہ مفروضہ بہت زیادہ نظر ثانی کا محتاج ہے اور اس پر بات ہونی چاہیے۔
آخری چیز جس پر میں کچھ عرض کرنا چاہوں گا، تکفیر کا مسئلہ ہے۔ اس میں دو نکتے الگ الگ زیر بحث آنے چاہییں۔
ایک پہلو تو اس کا یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان پر، کسی بھی کلمہ گو پر کفر کا فتویٰ لگانا کسی ایسی بات پر جو حقیقت میں کفر نہیں ہے، کوئی فرعی اختلاف ہے، کوئی فہم کا اختلاف ہے، ظاہر ہے کہ اس کا قبیح ہونا اور اس کا ممنوع ہونا واضح ہے۔ اسی طرح اگر کسی نے کوئی ایسی بات کہی ہے جو محتمل ہے تو اس میں فقہا کا وہ مشہور اصول سب اہل علم نے بیان کیا کہ اگر ننانوے میں سے ایک احتمال بھی ایسا ہے جو کفر سے بچاتا ہے تو اسے کفر سے بچانا ہی چاہیے، جب تک کہ وہ اس کی وضاحت نہ کر دے۔
زیادہ نازک بحث جو بنتی ہے، وہ یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان فرد یا گروہ نے کوئی ایسی بات کہی ہے یا اس کو نظریے کے طور پر اپنا لیا ہے جو واقعتا علمی اور فقہی لحاظ سے کفر ہے یا مستلزم کفر ہے تو اس کے بارے میں کیا کہا جائے گا؟ جو چیزیں کفر نہیں ہیں، فہم کا یا تعبیر کا اختلاف ہے، ان کو کفر قرار دینے کی شناعت تو واضح ہے۔ جن چیزوں کے بارے میں اہل علم نے، فقہا نے یہ بات بیان کی ہے کہ اگر کوئی آدمی یہ بات کہتا ہے تو یہ کفر ہے اور مستلزم کفر ہے تو ایسے افراد کے بارے میں کیا کہا جائے؟ یہ زیادہ اہم اور نازک بحث ہے۔ میں اس معاملے میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا نقطہ نظر یہاں بیان کرنا چاہوں گا جو انھوں نے منہاج السنۃ میں اور اپنے فتاویٰ میں اور بعض دوسری کتابوں میں بیان کیا ہے۔ مجھے ان کا نقطہ نظر درست لگتا ہے۔ دلائل کا موقع آئے گا تو اس پر بات ہوگی۔ میں اس کا خلاصہ بیان کر دیتا ہوں۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ کوئی فرد یا گروہ ایسا ہے جو کلمہ گو بھی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول مان کر ہدایت کا ماخذ بھی مانتا ہے اور اس کے ساتھ کسی کفریہ بات کا بھی قائل ہے تو یہاں دو چیزیں ہیں جن کے مابین تعارض ہو رہا ہے۔ ایک طرف تو اس کی نسبت کا معاملہ ہے کہ وہ اپنی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرتا ہے، جبکہ دوسر ی طرف یہ چیز ہے کہ وہ عملاً کوئی ایسا عقیدہ یا نظریہ یا عمل اپنائے ہوئے ہے جو رسول اللہ کے دین کے خلاف ہے۔ اب ان میں سے کس پہلو کا زیادہ لحاظ کیا جائے؟ اس کے کلمہ گو ہونے کا زیادہ لحاظ کیا جائے یا اس کے نظریے یا عمل کے مستلزم کفر ہونے کا زیادہ لحاظ کیا جائے؟ ابن تیمیہ کا کہنا یہ ہے کہ میرے نزدیک دین کا اورشریعت کے مزاج کا تقاضا یہ ہے کہ ایسے گروہوں کے معاملے میں پہلی نسبت کا زیادہ لحاظ رکھا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا میں آنے کے بعد اصل میں انسانوں کی دو ہی قسمیں بنتی ہیں۔ یا وہ دائرۂ اسلام میں ہوں گے اور یا دائرۂ اسلام سے باہر ہوں گے۔ تو ایسے لوگ جو نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرتے ہیں اور آپ کے دین کو بحیثیت مجموعی قبول کرتے ہیں، لیکن بعض عقائد میں یا بعض اعمال میں اس سے ہٹے ہوئے ہیں تو ان کو دائرہ کفر میں شمار کرنے کے بجائے دائرۂ اسلام میں ہی شمار کرنا زیادہ مناسب ہے۔ گویا ابن تیمیہ کے نزدیک ایسی صورت میں کلمہ گوئی کی جو نسبت ہے، اس کو زیادہ وزن اہم ہے۔ 
دوسری بات جو انھوں نے اور ان کے علاوہ دوسرے فقہا نے بھی بیان کی ہے، وہ یہ ہے کہ کسی قول یا فعل کے فی نفسہ کفر ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کے قائل کو یا اس کے فاعل کو بھی ہم کافر کہہ دیں۔ ان دونوں باتوں میں فرق ہے۔ قائل یا فاعل اس وقت کافر ہوگا اگر وہ کسی شبہہے یا کسی تاویل کے بغیر وہ بات کہتا ہو۔ اگر بات تو ایسی ہے جو فی نفسہ کفر ہے، لیکن کہنے والے کو کوئی شبہہ لاحق ہے جس کی وجہ سے وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ یہ کفر نہیں یا کہنے والا اس میں کوئی ایسی تاویل کر رہا ہے جس کی وجہ سے وہ یہ سمجھتا ہوکہ کفر نہیں ہے تو اس پر اس پر قانونی لحاظ سے کافر کا حکم جاری کرنا صحیح نہیں ہوگا۔ 
ابن تیمیہ نے اس نکتے کو واضح کرنے کے لیے صحابہ کے واقعات سے بعض مثالیں دی ہیں۔ مثلاً بعض صحابہ کو کسی شبہے کی وجہ سے قرآن کی بعض آیات کے قرآن کا حصہ ہونے میں تردد تھا۔ اگرچہ اس میں ایک الگ بحث ہے کہ وہ ایسا تھا یا نہیں، لیکن ابن تیمیہ اس کو مانتے ہیں کہ بعض صحابہ کو شبہہ تھا کہ قرآن کے بعض حصے قرآن کا جزو ہیں یا نہیں۔ اب ظاہر ہے کہ قرآن کے کسی جزو کو قرآن نہ ماننا فی نفسہ ایک بہت نازک اور حساس مسئلہ ہے، لیکن چونکہ ان حضرات کو اس میں کچھ شبہہ تھا، اس وجہ سے انھیں اس کی رعایت دیتے ہوئے تکفیر نہیں کی گئی۔
اسی طرح فقہا یہ اصول بیان کرتے ہیں کہ شریعت کی حرام کردہ چیزوں کا عملاً کوئی آدمی ارتکاب کرتا ہو تو یہ فسق ہے، لیکن اگر وہ اس کو حلال سمجھ کر کرتا ہے تو یہ کفر ہے۔ تاہم اگر کوئی شخص شریعت کی حرام کردہ چیز کو کسی تاویل کے تحت وہ حلال سمجھتا ہے تو ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ اس کی مثال موجود ہے کہ بعض صحابہ قرآن مجید کی ایک آیت کی غلط تاویل کے تحت شراب کو حلال سمجھتے تھے اور پیتے بھی رہے۔ تو شریعت کی حرام کر دہ ایک چیز جو نص قطعی سے ثابت ہے، اس کو انھوں نے تاویل کے تحت یہ سمجھا کہ اس کی اجازت ہے، اس کی ان کو رعایت دی گئی۔ 
ابن تیمیہ کی بات کا خلاصہ یہ ہے کہ جن گروہوں یا جن افراد کے عقائد یا نظریات میں فی الواقع ایسی چیزیں پائی جاتی ہیں جو کفر ہیں یا مستلزم کفر ہیں تو ایک تو ان کی کلمہ گوئی کی نسبت کا احترام یہ زیادہ ترجیح کے قابل بات ہے اور دوسرے یہ کہ ان کے ہاں جو شبہہ یا تاویل کاپہلو ہے، اس کی رعایت کرنی چاہیے۔ اس سے میں یہ اخذ کرتا ہوں کہ مستند اسلامی عقائد اور نظریات سے ہٹ کر کوئی نقطہ نظر اختیار کرنے والے گروہوں کے بارے میں شریعت کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ حتی الامکان انھیں دائرۂ اسلام کے اندر رکھا جائے اور علمی تنقید کے ذریعے سے اور باہمی گفتگو کے ذریعے سے ان کے عقائد کی اصلاح کوشش کی جائے۔ ہاں اگر کچھ ایسے زائد وجوہ اور مصالح کسی گروہ کی تکفیر کا تقاضا کریں، مثلاً کوئی گروہ ایسا خطرناک ثابت ہو رہا ہو کہ اس کو الگ کر دینا ہی مسلمانوں کی اور اسلام کی اور ملت کی مصلحت کا تقاضا معلوم ہو تو اس صورت میں یہ اقدام بھی کیا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز

عمار صاحب نے ایک خاص نکتے کی طرف ہماری توجہ مبذول فرمائی اور وہ ہے ان تمام نکات میں ابن تیمیہ کا نقطہ نظر۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امت مسلمہ میں امام ابن تیمیہ کی جو فکر ہے، اس کا بڑا اثر ہے، لیکن یہ بھی درست ہے بعض مقامات پر ابن تیمیہ کی بات کو صحیح طور پر سمجھا نہیں گیا۔ اگر آپ نے نائن الیون کمیشن رپورٹ کا مطالعہ کیا ہو تو اس میں باقاعدہ ابن تیمیہ کا ذکر ہے کہ اس قسم کے مبنی بر تشدد تصورات کی بنیاد میں ابن تیمیہ کی فکر بھی کارفرما ہے۔ حالانکہ یہ بات ابن تیمیہ کی پوری فکر سے ناواقفیت پر دلالت کرتی ہے۔ ابن تیمیہ کی زندگی کو اگر ہم تاریخی طو رپر دیکھیں تو یہ وہ شخصیت ہیں کہ جب منگولوں نے اسلامی دنیا پر حملہ کیا اور عباسی خلافت کو ختم کر دیا تو اس وقت ابن تیمیہ مصر میں تھے اور مملوک سلطانوں کے ہاں تھے۔ اس وقت مصر میں ملک الظاہر بیبرس کی حکومت تھی۔ منگولوں کے ساتھ جس شخصیت کی گفتگو ہوئی، وہ ابن تیمیہ تھے۔ انھوں نے مذاکرات اور گفتگو کے ذریعے سے مصر کا دفاع کیا اور منگولوں کو قائل کر لیا۔ اس بات کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے کہ ہمارا دینی طبقہ اور ہمارے علما ء کرام معمول کے موضوعات سے ہٹ کر، جن پر بہت بڑا ذخیرۂ ادب آ گیا ہے اور بڑا علمی کام ہو چکا ہے، اب جو ابھرتے ہوئے مسائل ہیں، ان کی طر ف آئیں اور ان نکات کو اب اپنی تحقیق کا موضوع بنائیں او رملت کی راہ نمائی کریں۔
میں بغیر کسی مبالغے کے یہ سمجھتا ہوں کہ یہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کا کارنامہ ہے کہ جو موضوعات دینی مدارس میں زیر بحث آنے چاہیے تھے اور جن موضوعات اور مباحث کا ادراک علما کے ہاں ہونا چاہیے تھا اور دینی مدارس کے اندر ہونا چاہیے تھا، اس کا ادراک اور اس کا احساس PIPS کی طرف سے ہوا ہے اور یہ ان کا کمال ہے کہ وہ ازخود کوئی رائے نہیں دے رہے، بلکہ ان کی کوشش یہ ہے کہ تمام مکاتب فکر کے علما کو یکجا کر کے ان کی توجہ اس مسئلے کی طرف مبذول کرائی جائے۔ اس کو ہم انگریزی میں Sensitization کہتے ہیں، یعنی ان کو احساس دلانا، ان کے شعور کو اپیل کرنا، ان کے شعور کو جگانا اور پھر ان سے راہ نمائی مانگنا۔ تو یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے جو PIPS کو دینے میں ہم بخل سے کام نہیں لیں گے اور ان کے لیے ہم دعا کریں گے کہ خدا کرے کہ وہ ان موضوعات پر گفتگو کو آگے بڑھائیں کیونکہ یہ ایک سیمینار کا کام نہیں ہے، اس پر ہم نے آگے جانا ہے، علماء کرام سے درخواست کرنی ہے کہ اس پر بے شک ایک چھوٹا سا گروپ بنا لیں اور ان سیمینار ز کی رپورٹس لکھیں، اس پر کتابیں لکھیں اور اصطلاحات کو جدید بنائیں ۔
آج جو علما کی اصطلاحات ہیں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے لوگ اور ہمارا جو جدید طبقہ ہے، وہ ان اصطلاحات کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ آپ کو آسان اصطلاحات میں اور جدید جو صورت حال ہے، اس کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے سامنے اپنی بات پیش کرنی ہوگی۔ یہ جو اصطلاحات ہیں، ان کو جدید اندازمیں لانے میں یونیورسٹی کے اساتذہ کرام آپ کے ساتھ ہیں۔ مولانا عمار خان ناصر صاحب نے الشریعہ کی صورت میں جو کوشش شروع کی ہے، وہ بڑی کامیاب کوشش ہے کہ مشکل اصطلاحات کو وہ جدید انداز میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کا رسالہ اب کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی بہت مقبول ہوتا جا رہا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمارے علماء کرام ناراض نہیں ہوں گے بلکہ اس کو اپنی ایک ذمہ داری سمجھیں گے۔ صرف نماز روزے میں نہیں، بلکہ جو اس وقت نئے مسائل ہیں، ان میں بھی قوم اور ہم سب لوگ آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اگر آپ نے ان کی راہ نمائی نہیں کی تو سچی بات ہے کہ آپ ہی سے قیامت کے دن پوچھا جائے گا۔
تو یہ جو خالصتا دینی اصطلاحا ت ہیں، مثلاً اولو الامر، انذار، امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی موجودہ کیفیت اور سمع وطاعت، ن کا جدید تناظر میں ذکر کرنا ہے۔ اس وقت عالمگیریت کا ماحول ہے، اس کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں غور کرنا ہوگا کہ ان حالات میں عالمگیریت کی موجودگی میں ہم نے کس طرح ملت اسلامیہ کے تحفظ کی صورتیں نکالنی ہیں، کیونکہ عالمگیریت اس وقت مکمل شرعی نظام کو کسی صورت بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اگر کوئی جماعت طالبان کی طرح مکمل اسلامی نظام قائم کرنا چاہتی ہے تو گلوبلائزیشن آپ کو ہر گز آسانی کے ساتھ اس کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس چیز کو ہم نے ادراک کرنا ہے۔ یہ ایک صورت حال ہے اورہم حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے۔ یہ ایک زمینی حقیقت ہے اور اس کے اندر رہتے ہوئے ہمیں اپنے لیے ایک ممکنہ صورت نکالنی ہوگی۔ جس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ترکی میں امکانات کی صورت کے اندر رہتے ہوئے کام کیا جا رہا ہے اور وہ بہت کامیابی کے ساتھ آگے جا رہے ہیں۔ آپ اندازہ کریں کہ ترکی میں حجاب کی کوئی صورت ممکن نہیں تھی۔ اب ترکی کے وزیر اعظم کی بیوی باقاعدہ حجاب کے ساتھ جا رہی ہے۔ ہم یہاں بیٹھ کر اندازہ نہیں کر سکتے کہ ترکی میں یہ کتنی بڑی کامیابی ہے۔ پھر ترکی سے اسرائیلی سفیر کو نکالنا، اس کا آج سے پانچ دس سال پہلے کوئی تصور نہیں کر سکتا تھا۔ 
ہم نے سیرت رسول کا جو منہج ہے، اس کو سامنے رکھتے ہوئے جدید حالات میں اس کے انطباق کی کوئی صورت نکالنی ہے۔ اس حوالے سے بھی ہمارا دین دار طبقہ، ہمارے عوام، ہمارے نوجوان آپ کی طرف دیکھ رہے یں۔ اگر آپ نے ان کی راہ نمائی نہیں کی تو پھر ظاہر ہے کہ یہ دین دار طبقہ اور یہ نوجوان دوسرے تصورات کی طرف جائیں گے اور جب ان کی طرف جائیں گے تو ان کی ذمہ داری بھی ظاہر ہے علماء کرام پر اور دینی مدارس پر آئے گی۔
میںیہ سمجھتا ہوںِکہ ہمارے پینل میں جو پانچ شرکائے گفتگو ہیں، ان کے مابین تمام نکات کے حوالے سے تقریباً ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ جبکہ کچھ نکات میں، مفتی اسد اللہ شیخ صاحب کا زاویہ نظر مختلف ہیں۔ اس لیے تو اب ہم گفتگو کا رخ سامعین میں جو جید علما موجود ہیں، ان کی طرف لے جا رہے ہیں۔ اگر ان کے ذہن میں کوئی سوال ہو تو وہ سوال پیش کریں۔ باقاعدہ اپنا تعارف کروائیں، اور جو شریک گفتگو ہیں، ان کا نام لے کر ان سے سوال کریں۔ اب ہم آہستہ آہستہ دلائل کی طرف آگے بڑھیں گے۔

مولانا محمد سلفی

ابھی امام ابن تیمیہ کا جو ذکر ہوا، اس کی مناسبت سے ایک تاریخی بات ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ جامعہ دار السلام مدراس کے شیخ الحدیث کاکا محمد عمر نے امام ابن تیمیہ کی سیرت پر گیارہ سو صفحات کی ایک کتاب لکھی ہے۔ اس میں انھوں نے ایک بڑی عجیب بات لکھی ہے کہ امامت کا منصب چار چیزوں کا متقاضی ہوتا ہے۔ کتاب اللہ کی تفسیر، حلال وحرام کے تمام مسائل پر ا س کو عبور ہو، سنت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عبور ہو، تفقہ فی الدین اور موجودہ حالات دنیا پر اس کو بصیرت حاصل ہو اور عسکری انداز میں تلوار کا استعمال۔ انھوں نے فرمایا کہ ہمارے معروف ائمہ دین، ائمہ اربعہ اور اس کے علاوہ بھی ہمارے بہت سے ائمہ دین ہیں، اسکالرز ہیں، ان میں سے سارے ہی ان تینوں شرائط کو پورا کرتے ہیں، جبکہ صرف امام ابن تیمیہ ان چاروں شرطوں کو پورا کرتے ہیں کہ انھوں نے تاتاریوں کے ساتھ صرف مذاکرات نہیں بلکہ تلوار کے ساتھ جہاد بھی کیا تھا اور اس وقت کیا تھا جب ہر اسلامی ملک سرنڈر کرتا جا رہا تھا۔ امام ابن تیمیہ نے دمشق میں مسلمانوں کو اکٹھا کر کے میدان معرکہ میں تاتاریوں کو شکست دی تھی۔ تو یہ چاروں شرطیں ان میں پوری ہو گئیں اور وہ امامت کے حق دار کہلائے۔ 

مولانا عبد الحق ہاشمی ― (امیر جماعت اسلامی، بلوچستان)

میں اس قابل قدر کوشش پر PIPS کے شکریے کے ساتھ صرف وضاحت کے لیے یہ توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اس وقت ہم نے جو گفتگو کی ہے، اس کے دلائل بھی ابھی آ جائیں گے اور اشارتاً بہت سے دلائل کا تذکرہ ہو بھی گیا ہے، لیکن میں یہ سمجھتا ہوںِکہ یہ کوشش علمی اعتبار سے خلا کا یا نقص کا شکار رہے گی جب تک کہ ان دلائل کا محاکمہ بھی ہم نہ کریں جن کے باعث یہ فتنہ اس وقت موجود ہے اور لوگ اسی سے استخراج کر کے اور اسی سے استفادہ کر کے خروج اور تکفیر کے رستے کو اختیار کر چکے ہیں۔ میری مراد ان عمومات قرآنی سے ہے کہ جن کو ولاء وبراء کے عقیدے کے اعتبار سے یہ لوگ اپنا مستند خیال کرتے ہیں اور اس سے استخراج کرنے کے بعد وہ اس رستے کو اختیار کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ گفتگو ایک طرف کی جہت کو ، ا س کی ضرورت کو تو پورا کرتی ہے، لیکن جو مخالف او ر دلائل ہیں، ان کے محاکمے کی طرف بھی ہماری توجہ ہونی چاہیے۔ اس مجلس میں نہ سہی، میری گزارش کا مقصد ایک علمی ضرورت کو واضح کرنا ہے۔ آئندہ کسی دوسری مجلس کا انعقاد بھی اس سلسلے میں کیا جا سکتا ہے جس میں ان تمام کے تمام عمومات کو سامنے لا کر ان کے مفہوم کا تعین بھی کیا جائے اور اس سے استدلال کا جو نقص یا غلطی ہے، اس کی نشان دہی بھی لوگوں کے سامنے آئے۔ تب یہ بحث ایک کامل شکل میں سامنے آ سکے گی۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز

عبد الحق ہاشمی صاحب نے بہت اہم سوال اٹھایا۔ ایک بڑی معروف کتاب ہے: الولاء والبراء، کسی زمانے میں ان لوگوں کے لیے اس کی حیثیت ایسی تھی کہ یہ ان کے نصاب کا حصہ تھی اور اس کتاب کو اور اس کے دلائل کو باقاعدہ ازبر کرایا جاتا تھا۔ پہلے یہ کتاب ایک مخطوطے کی شکل میں تھی، عام لوگوں کی اس کتاب تک رسائی نہیں تھی۔ اب یہ کتاب چھپ کر آ گئی ہے اور لوگوں کو اس تک رسائی ہے۔ واقعی یہ جو پہلو ہے، یہ بھی اس کا متقاضی ہے کہ کسی موقع پر ہم الولاء والبراء کے حوالے سے بھی کچھ سوالات بنائیں اور خالص جو ماہرین ہیں، ان کے سامنے رکھیں، کیونکہ یہ بہت مہارت کا متقاضی موضوع ہے او ربہت حساس موضوع ہے۔اس میں ایک چھوٹا سا گروپ اگر بلا لیا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ بہت اچھی گفتگو بن جائے گی۔

مولانا مفتی محمد زاہد ― (شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ امدادیہ، فیصل آباد)

ماشاء اللہ شرکا نے بہت اچھی گفتگو کی ہے۔ خاص طور سے ڈاکٹر اعجاز صمدانی صاحب اور مولانا عمار ناصر صاحب نے مسئلے کو بہت حد تک منقح کر دیا ہے۔ ایک تو یہی تجویز میرے ذہن میں تھی جو ہاشمی صاحب نے پیش کی۔ میں اس کی تائید کروں گا، اس لیے کہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے دلائل چونکہ سطحی ہیں اور سطحی چیزوں سے عام لوگ جلدی متاثر ہوتے ہیں، صرف دینی مدارس کے طلبہ نہیں، بلکہ دینی مدارس سے زیادہ جدید تعلیم یافتہ نوجوان اس سوچ سے متاثر ہو رہے ہیں، اس لیے ہمیں انھیں counter کرنا پڑے گا اور اس کے لیے بہرحال ہمیں کھل کر بات کرنی ہوگی۔ لیکن یہ ایک الگ مجلس کا موضوع ہو سکتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ماشاء اللہ PIPS نے جو عنوان منتخب کیا ہے، میں ا س کے حوالے سے بات کروں گا کہ ’’عصری تناظر میں مسلمان ریاست کے خلاف خروج کا مسئلہ۔‘‘ ایک تو یہاں یہ بہت اچھی بات ہے کہ انھوں نے اسلامی ریاست کی بات نہیں کی، بلکہ مسلمان ریاست کی بات کی ہے، کیونکہ ان لوگوں کے ذہن میں یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ عدم خروج کا مسئلہ اسلامی ریاست کے لیے ہے، حالانکہ یہ اسلامی ریاست کے لیے نہیں بلکہ مسلمان ریاست کے لیے بھی ہے۔ اس لیے کہ وہ احادیث اس مفروضے پر مبنی ہیں کہ وہ ائمہ جور کے ماتحت چل رہی ہیں۔ دوسرا یہ کہ پہلے زمانے میں مسلمان حکمران ہوتے تھے اور حکمرانوں کے خلاف خروج ہوتا تھا۔ آج جمہوری ریاستوں کا دور ہے اور میں جمہوری ریاستیں افراد کا نام نہیں ہوتیں، بلکہ اداروں کا نام ہوتی ہیں۔ آج جو خروج ہوتا ہے، وہ درحقیقت افراد کے خلاف نہیں ہوتا، وہ بنو امیہ کے کچھ لوگوں کے خلاف اور بنو عباس کے کچھ لوگوں کے خلاف نہیں ہے، وہ آصف زرداری کے خلاف نہیں ہے، وہ گیلانی کے خلاف نہیں ہے، بلکہ وہ ریاست کے خلاف ہے۔ اگر ان لوگوں کی کارروائیوں کو دیکھیں تو اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ چند مخصوص افراد کے خلاف کارروائیاں نہیں ہیں، بلکہ پوری کی پوری ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف ہیں، یہاں تک کہ وہ ادارے بھی جو ان لوگوں سے لڑنے کے لیے نہیں بنے ہیں۔ پولیس بنیادی طور پر ان سے لڑنے کے لیے نہیں بنی، واہ فیکٹری بنیادی طور پر ان سے لڑنے کے لیے نہیں بنی، لیکن وہ چونکہ ریاست کا ایک حصہ ہیں، اس لیے وہ اس پر اٹیک کر رہے ہیں۔ تو مسلمان حکمرانوں کے خلاف خروج اور مسلمان ریاست کے خلاف خروج ، ان میں جو فرق ہے، وہ بھی کسی موقع پر زیر بحث آنا چاہیے۔ 
خاص طو رپر مغرب کے حوالے سے ان حضرات کا ایک بہت بنیادی استدلال یہ ہے کہ ان ممالک کی پالیسیاں صرف وہاں کے حکمرانوں کی پالیسیاں نہیں ہوتیں، بلکہ چونکہ وہ ووٹ لے کر منتخب ہوتے ہیں، اس لیے وہاں کے سارے عوام ان پالیسیوں کے ذمہ دار ہوتے ہیں، چنانچہ وہ اس بنیاد پر مقاتل اور غیر مقاتل کا فرق نہیں کرتے۔ اب اگر ان کے اسی استدلال کو ہم مسلمانوں میں جو جمہوری ریاستیں ہیں، ان پر منطبق کریں تو اسی استدلال کا مقتضا یہ بنتا ہے کہ مسلمان ریاست کے خلاف اگر وہ خروج کر رہے ہیں تو صرف ریاستی اداروں کے خلاف یا چند افراد کے خلاف نہیں خروج کرر ہے، بلکہ ریاستی عوام کے خلاف خروج کر رہے ہیں۔ یہ ان کے استدلال کا ایک منطقی نتیجہ نکلتا ہے۔ یہ جو نکتہ ہے، یہ بھی میرے خیال میں کسی وقت زیر غور آنا چاہیے۔ 
تیسری چیز جس کے بارے میں، میں عرض کرنا چاہتا ہوں، یہ ہے کہ تکفیرکی دو سطحیں ہیں۔ ایک تو عام تکفیر ہے کہ فلاں فرقے نے فلاں فرقے کی تکفیر کر دی۔ اس پر یہاں گفتگو ہوئی اور یہ بھی بڑا حساس مسئلہ ہے اور اس وقت جس صور ت حال کا ہم سامنا کر رہے ہیں، اس کا تعلق اس تکفیر کے ساتھ بھی ہے۔ لیکن موجودہ حالات میں خاص طو رپر اگر ہم پاکستان کے مغرب کی طرف دیکھیں تو اس طرف سے جو کچھ آ رہا ہے یا ایک امپورٹڈ سوچ جو مصر میں یا بعض عرب ممالک میں پیدا ہوئی، وہ پاکستان میں آئی ہے، تو وہ اس طرح کی تکفیر نہیں ہے۔ وہ تکفیر اس معنی میں ہے کہ جو لوگ سسٹم کا حصہ بن گئے، وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہو گئے۔ان کا لٹریچر اگر پڑھیں تو وہ افغان فوج ہو، پاکستانی فوج ہو، پاکستانی پولیس ہو، افسران ہوں، بیوروکریسی ہو، سب کے لیے وہ تقریباً مرتدین کا لفظ بولتے ہیں۔ تو ا س معنی میں جو تکفیر ہے، میرا خیال ہے کہ اس کو خاص طو رپر کسی وقت موضوع بحث بنانا چاہیے، کیونکہ خروج کے مسئلے کا اس تکفیر کے ساتھ موجودہ حالات کے تناظر میں گہرا تعلق ہے۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز

مولانا مفتی محمد زاہد صاحب نے بہت اچھے نئے سوالات اٹھائے ہیں۔ میری گزارش ہوگی کہ یہ سوالات بھی نوٹ کر لیے جائیں۔ آئندہ جو ہمارے مذاکرے ہوں گے، ان میں کسی مرحلے پر ہم ان کو بھی موضوع گفتگو بنا سکتے ہیں۔ اس وقت سچی بات یہ ہے کہ بہت عجیب قسم کے سوالات سامنے آ رہے ہیں اور یہ تمام سوالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ علماء کرام ان پر سوچیں۔ مثلاً ہماری مغربی سرحدات پر جو صورت حال ہے، وہ بہت عجیب صورت حال ہے۔ اس میں آپ دیکھیں کہ روس کے خلاف لڑنے والے تمام مجاہد گروپ، سوائے طالبان کے، وہ کزائی حکومت کا حصہ ہیں۔ مثلاً امام ربانی جنھیں شہید کر دیا گیا، وہ مجاہد تھے اور حکومت کا حصہ ہیں۔ صبغت اللہ مجددی مجاہدین میں سے تھے ، وہ بھی حکومت کا حصہ ہیں۔ حکمت یار کی حزب اسلامی کے کمانڈروں کا بہت بڑا گروپ، سوائے کشمیر خان اور کچھ اور کمانڈروں اور بذات خود حکمت یار کے، حامد کرزئی کی حکومت کا حصہ ہے۔ عبد رب الرسول سیاف جو کہ بہت بڑا مجاہد تھا، وہ حکومت کا حصہ ہے۔ حامد کرزئی خود مجاہدین کے بہت بڑے فنانسر تھے، مالی مدد کرنے والے تھے۔ خود مجاہد تھے اور ان کے والد بہت بڑے مجاہد تھے۔ ان کی حکومت ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے علماء کرام اس کے باوجود کہ افغانستان میں اس وقت سابقہ مجاہدین کی حکومت ہے، وہ مسلح جدوجہد کا جواز دیتے ہیں محض اس وجہ سے کہ وہاں ایک غیر ملکی فوج موجود ہے جو کہ حقیقتاً وہاں پر قابض ہے۔ تو یہ جو صورت ہے، اس کو بھی ظاہر ہے کہ ہمارے علماء کرام نے زیر بحث لانا ہے اور ان صورتوں میں ہماری راہ نمائی کرنی ہے۔

محمد صفدر شاہ ― (جامعہ خلیلیہ رضویہ، کندیاں، ضلع میانوالی)

مولانا عبد الحق ہاشمی صاحب اور مفتی زاہد صاحب نے بہت اچھی باتیں کی ہیں۔ میرا تاثر یہ ہے کہ یہ فورم جس سطح پر بھی ہے، اس کو آپ میچور کرنے کے لیے مختصر بھی رکھیں، لیکن اس کو موثر بنانے کے لیے اس کو وسیع کرنا بھی ضروری ہے۔ اس میں مزید وسعت بھی پیدا کی جائے اور اس میں مزید لوگ بھی ہمارے جو جید علماء کرام ہیں، انھیں بھی شامل کیا جائے تاکہ ایک ایسی صورت بن جائے کہ یہاں جو تجاویز مرتب ہوں، وہ تمام مکاتب فکر کے ہاں قابل قبول ہو جائیں۔ 
مفتی اسد اللہ شیخ صاحب سے سوال ہے کہ ان کی رائے میں جمہوریت حرام ہے، لیکن انھوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اسی جمہوریت سے ہم نے راستہ نکالنا ہے اور اپنے عقائد کو نافذ کرنا ہے تو ان کے ذہن میں اس کا کیا نقشہ ہے؟ اس کی وضاحت کر دیں کہ اگر اس جمہوری سسٹم میں ہم اپنے عقائد کو نافذ نہیں کر پائیں گے تو پھر دوسرا راستہ اگر بغاوت یا جہاد نہیں ہے تو وہ کون سا راستہ ہوگا جس پر ہم چل کر کامیابی حاصل کر پائیں گے؟

مفتی اسد اللہ شیخ

میں نے کفر بواح کی وضاحت میں یہ بات کہی تھی کہ حدود اللہ کے مقابلے میں دوسرے قوانین کو ترجیح دینا، یہ بھی کفر ہے۔ اس سے جمہوریت کی نفی نہیں ہو رہی۔ جو نظام جس ملک میں قائم ہے، اسی کے اوپر اگر علماء کرام کا اتفاق ہے کہ ہمیں اسی کے ذریعے سے کامیابی حاصل کرنی ہے یا تبدیلی لانی ہے تو پھر علماء کرام کے اتفاق سے اسی مسئلے کو لیا جائے گا۔ مگر حدیث پاک میں جو کفر بواح کے الفاظ آئے، اس کی تشریح میں یہ سب باتیں آ جاتی ہیں کہ جمہوریت کا کوئی بھی کام ایسا نہ ہو جو کہ حدود اللہ کے یا شعائر اللہ کے خلاف ہو۔ اس بات سے تو آپ بھی اتفاق کریں گے کہ جو چیز شعائر اللہ کے خلاف ہوگی، اس کے مقابلے میں آپ بھی اٹھ کھڑے ہوں گے۔ عمومی طو رپر عوام میں یہ بات ضرور پھیلی ہوئی ہے کہ جمہوریت بنیادی طور پر حدود اللہ کو قائم کرنے کے لیے ہے ہی نہیں۔ جب حدود اللہ کو قائم کرنے کے لیے نہیں ہے تو پھر ا س کے لیے محنت یا جدوجہد بے سود ہونی چاہیے۔ مگر علماء کے اتفاق کی وجہ سے یہ بات ادھر قائم ہے کہ جمہوریت کے ذریعے ہی ہمیں تبدیلی لانی ہے۔

محمد نواز کھرل ― (سنی اتحاد کونسل، لاہور)

میرے دو چھوٹے چھوٹے سوال ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس وقت ہمارا جو مشاہد ہ ہے، وہ یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی criterion ایسا نہیں ہے اور کوئی علمی سطح طے نہیں ہے کہ اس سطح کی علمی استعداد رکھنے والا آدمی ہی فتویٰ دے سکتا ہے۔ دیکھا یہ جا رہا ہے کہ ہر آدمی مفتی بنا ہوا ہے اور اس کا جو جی چاہتا ہے، کہہ دیتا ہے۔ اسلام کی اپنی من پسند تعبیرات پیش کرتے ہوئے غیر ذمہ دارانہ فتویٰ جاری ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے فتنہ وفساد پیدا ہو رہا ہے۔ یقیناًاسلام نے ایک معیار مقرر کیا ہوگا۔ آپ ہماری راہ نمائی کریں۔ اس وقت تمام مکاتب فکر کے علماء کرام کو اس بات پر زور دینا چاہیے کہ یہ معیار ہے مفتی ہونے کا اور جو اس معیار پر پورا اترتا ہے، صرف وہی فتویٰ دے سکتا ہے۔ اور کسی دوسرے آدمی کو اختیار نہیں ہے کہ وہ فتویٰ دے۔ اگر اس طرح کا کوئی ضابطہ اخلاق بن جائے تو بہت سے معاملات ٹھیک ہو سکتے ہیں۔
میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ اس وقت عالمی سطح پر القاعدہ نے خروج اور تکفیر کے حوالے سے اپنی فکری مہم کا دائرۂ کار بہت بڑھا دیا ہے اور وہ بہت تواتر اور تسلسل کے ساتھ تکفیر اور خروج کے سلسلے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں مسلمان بھی اور اسلام بھی بدنام بھی ہو رہا ہے اور مصائب اور مشکلات کا بھی شکار ہیں۔ آپ کو ڈرنے کے بجائے یا مصلحت کا شکار ہونے کے بجائے اس پر ایک واضح رائے دینی چاہیے۔ ان کا یہ جو رویہ ہے، آپ جو اہل دین ہیں، اہل علم ہیں اور اہل دانش ہیں، آپ اس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

ڈاکٹر قبلہ ایاز

ہمارے ہاں اسلامی نظریاتی کونسل موجود ہے جس میں ہر مکتب فکر کے لوگ ہیں، ان کے نمائندہ مولانا مفتی ابراہیم قادری صاحب کی صورت میں موجود ہیں۔ وہ اپنی رائے سے ہمیں آگاہ فرمائیں۔

مولانا مفتی محمد ابراہیم قادری 

اصل میں ہمارے ہاں حکومت کی طرف سے اور سرکاری طو رپرایسا کبھی نہیں کیا گیا کہ کوئی فقہی پینل بنایا گیا ہو جو اس بات کا مجاز ہو کہ اپنی رائے فتوے کی صورت میں دے سکے۔ ایسا کوئی نظما ہے نہیں اور ہم اپنے آپ کو اور ہمارے ادارے اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہیں۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ بہت سے مدارس میں ایسے غیر ذمہ دار اور ایسے نا اہل اور بے علم لوگ موجود ہیں جو اپنے زعم میں اپنے آپ کو مفتی کہتے ہیں او روہ اس کے اہل ہوتے نہیں ہیں۔ جن چیزوں نے ہماری قوم میں جو فتنے کے بیج بوئے ہیں، ان میں سے ایک سبب یہ بھی ہے۔ جیسے ہمارے ہاں جو امامت ہے، اس کا کوئی معیار نہیں ہے، خطابت کا کوئی معیار نہیں ہے اور جس آدمی کا جی چاہتا ہے، اسے مسجد کا امام بنا دیا جاتا ہے اور پھر وہ تقریر کرتا ہے اور جب وہ منبر پر بیٹھتا ہے تو اس کے منہ میں جو آتا ہے، وہ بول دیتا ہے۔ تو ہمارے ہاں کوئی ایسا سرکاری طو رپر ضابطہ کار نہیں ہے جس کا کسی ادارے کو پابند بنایا جا سکے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ٹھیک ہے۔ البتہ یہ ہے کہ ہر ادارے پر اخلاقی طو رپر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ و اپنے ادارے میں یہ خدمات لائق آدمی کے ذمے لگائے جو اس کا اہل ہو اور جب بھی وہ فتویٰ دے تو قرآن کی روشنی میں، احادیث کی روشنی میں اور ائمہ دین کے اقوال اور شرعی کتب کی روشنی میں دے۔ یہ ہمارا ایک اخلاقی فریضہ ہے اور اس طریقے سے سوائے حکومت کی طاقت کے کوئی اور ہمارے پاس اتھارٹی نہیں ہے جو کسی کو اس کا پابند بنا سکے۔

مولانا محمد سلفی

موضوع کی مناسبت سے ایک بات عرض کرتا ہوں۔ دنیا ٹی وی پر ایک پروگرام میں مجھے شرکت کی دعوت دی گئی اور یہی موضوع پیش کیا گیا کہ پاکستان میں اب تک جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے، اس سب کو بھول کر یہ بتایا جائے کہ آنے والے مستقبل میں پاکستان کو مملکت اسلامیہ اور مملکت رفاہیہ اور دنیا میں اسلام کے نام سے مسلمانوں کی مملکت بنانے کے لیے کیا کیا جائے؟ وہاں میں نے اختصار کے ساتھ یہ بات کہی کہ کوئی بھی ملک یا کوئی بھی ملت یا قوم اپنی لیڈر شپ کی بنیاد پر آگے برھتی ہے۔ مثلاً ترکی میں طیب اردگان اور ایران میں محمود احمدی نژاد جب وہ ایک بات کہہ دیں تو سیاسی طور پر کسی کی یہ مجال نہیں ہوتی کہ اس کی مخالفت کرے۔ اسی طرح میں مختلف مسلم اور غیر مسلم ممالک میں گیا ہوں تو میں نے وہاں دیکھا کہ عیسائی یا مسلمان اپنا اپنا ایک لیڈر یا رہبر یا مفتی اعظم یا پوپ رکھتے۔ مسلکی یا دینی طور پر ان کا بڑا جو بات کہہ دے، اس کی مخالفت نہیں ہوتی۔ میں نے کہا کہ افسوس کا مقام ہے کہ ہم سیاسی طور پر بھی یتیم ہیں کہ ہماری کوئی ایسی لیڈر شپ ابھی تک نہیں ہے کہ وہ متفقہ طور پر کوئی بات کہے تو سارے پاکستان کے عوام اس پر لبیک کہہ دیں۔ اسی طرح دینی طور پر ہمارا کوئی مفتی اعظم نہیں ہے جبکہ اس کی ضرورت ہے اور اس کے وجود کی افادیت اتنی بڑی ہے کہ پوری قوم اور پورے مسلمان ملک کو متفق ومتحد کرنے کا یہ ایک بہت بڑا ذریعہ ہو سکتا ہے، لیکن ہم اس سے محروم ہیں، لہٰذا سچی بات یہ ہے کہ ہمیں بحیثیت علما، بحیثیت ادارے، بحیثیت مسلکی فرقے کے اس بات پر سوچنا چاہیے اور اس کی کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارے اندر اتفاق واتحاد اس حد تک پیدا ہو جائے کہ کسی ایک شخصیت کو اپنا بڑا مان لیں۔ بلاشبہ سارا دین ہمیں اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ امام کی پیروی کی اور بڑے کی پیروی کی جائے۔ ہم پانچ وقت کی نماز اپنے گھر میں بھی پڑھ سکتے ہیں، لیکن کیوں مسجد میں جا کر امام کے پیچھے پڑھتے ہیں؟ ساری باتیں اتحاد واتفاق اور کسی ایک کو بڑا بنانے کا اشارہ دے رہی ہیں جس میں ہم ابھی تک ناکام ہیں۔ اللہ رب العالمین ہی ہمیں کوئی راہ دکھا سکتا ہے، بشرطیکہ ہمارے اندر یہ نیت اور ارادہ اور کوشش ہو کہ ہم اتحاد واتفاق کے ذریعے ان چیزوں کا رواج پیدا کریں۔

محمد عمار خان ناصر

اس مسئلے کا ایک اور اہم پہلو بھی ہے جسے اس موضوع کی تنقیح اور تجزیہ کرتے ہوئے زیر بحث آنا چاہیے۔ فقہا لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی حکومت کے خلاف خروج تو جائز نہیں ہے، لیکن بہرحال یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ بعض دفعہ مسلمان حکمرانوں کی ناروا پالیسیاں اور ان کا ظلم وجبر کچھ لوگوں کو اس پر مجبور کر سکتا ہے کہ وہ ہتھیار اٹھا لیں۔ ایسی صورت میں باقی قوم عملاً باغیوں کا ساتھ تو نہیں دے گی، لیکن اگر ان کے مطالبات میں وزن ہے یا بغاوت کرنے کے لیے ان کے پاس انسانی سطح پر قابل فہم وجوہ موجود ہیں تو ان پر بہرحال توجہ دی جائے گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس پہلو سے ہمیں ان لوگوں کے موقف اور استدلال پر بھی سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے جنھوں نے ہمارے ہاں خروج کا راستہ اختیار کیا ہے۔
میرا طالب علمانہ تجزیہ یہ ہے یہ بات عرض کروں گا کہ ان لوگوں کو اس راستے پر ڈالنے اور اس کا فکری اور عملی جواز مہیا کرنے میں خود ہماری ریاست اور بڑی معذرت کے ساتھ عرض کروں گا، ہمارے مذہبی راہ نماؤں کا حصہ بھی کم نہیں ہے۔ ہمارے ریاستی اداروں کی دوغلی پالیسیوں اور خفیہ ایجنسیوں کا دو رخا طرز عمل اس سوچ کو پروان چڑھانے میں ایک بہت بڑے عامل کی حیثیت رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ دیکھیں کہ نائن الیون کے بعد ہم نے ریاست کی سطح پر تو یہ فیصلہ کیا کہ ہم طالبان کے ساتھ نہیں ہیں، بلکہ ان کے خلاف لاجسٹک سپورٹ امریکہ کو دیں گے۔ لیکن ظاہر ہے کہ ریاست نے یہ فیصلہ ایک جبر کے تحت کیا تھا اور یہ فیصلہ انھوں نے ریاست کی سطح پر تو کیا لیکن نیچے خاص طو رپر وہ علاقے جو افغانستان سے ملے ہوئے ہیں، وہاں پر اس کا کوئی عملی اہتمام نہیں کیا یا کرنا ممکن نہیں تھا کہ پاکستان کے باشندے اور پاکستان میں رہنے والے لوگ بھی اس جنگ میں شریک نہ ہوں۔ ریاست نے بین الاقوامی سطح پر جو علانیہ پالیسی اختیار کی، یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ وہ درست تھی یا غلط، لیکن اس کے حوالے سے دوغلا پن اختیار کر کے ریاست نے حالات کو مزید پیچیدہ اور گھمبیر بنا دیا۔ 
سیاسی طور پر ہم دنیا کو یہی کہتے رہے کہ امریکہ کے خلاف طالبان کی لڑائی سے ہمارا کوئی تعلق نہیں، لیکن درون خانہ ریاستی ایجنسیوں نے سرحد ی قبائلی علاقوں کو اور جہادی تنظیموں کو امریکہ کے خلاف جنگ میں شریک ہونے کی نہ صرف اجازت دی بلکہ ان کو پوری پوری سپورٹ بھی فراہم کی۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ ہماری ایجنسیوں نے اس وقت بھی ان کو خفیہ طو رپر سپورٹ کیا اور اب بھی کر رہی ہیں جو افغانستان میں جا کر لڑنا چاہتے ہیں۔ اس طرح خود ریاست کے بہت سے عناصر اس جنگ میں شریک ہوتے گئے۔ اب ظاہر ہے کہ ریاست بظاہر یہ کہہ رہی ہے کہ ہم اس جنگ میں ان کے ساتھ نہیں ہیں، لیکن خفیہ طو رپر ان کو سپورٹ کر رہی ہے تو اس سے لوگوں کو یہ پیغام ملا کہ یہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں، یہ صحیح ہے اور شرعی طور پر یہ بالکل ٹھیک ہے۔ اسی سے انھوں نے منطقی طور پر یہ نتیجہ نکالا کہ اگر ہم ریاستی پالیسی کے برعکس افغانستان میں امریکہ کے خلاف جہاد کر رہے ہیں تو کل اگر خود ہماری ریاست ہمیں اس سے روکتی ہے یا ہمارے خلاف اس بنیا دپر کوئی اقدام کرتی ہے کہ ہم وہاں جا کر کیوں لڑ رہے ہیں تو ہمارے لیے ان سے لڑنے کا بھی جواز موجود ہے۔ میرے خیال میں اپنے طرز عمل سے ایک جواز ریاست نے یا ہماری ایجنسیوں نے خود ان کو دیا ہے۔ یہ سامنے کی بات ہے کہ جس بنیاد پر آپ افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ لڑ رہے ہیں، اگر وہ درست ہے تو اسی بنیاد پر اگر پاکستان کی طرف سے کوئی اقدام ان کے خلاف ہوتا ہے تو یہاں پاکستانی فوج کے لڑنے کو بھی شرعی طورپر درست ہونا چاہیے۔
دوسری بات اس صورت حال میں یہ بھی غور کرنے کی ہے کہ ہمارے جو ذمہ دار علما ہیں، انھوں نے بھی اس موقع پر جب افغانستان پر امریکہ کا حملہ ہوا، ایک ایسا موقف اختیار کیا جو بعد میں چل کر خود ریاست پاکستان کے خلاف مسلح اقدام کے جواز کی بنیاد بن جاتا ہے۔ اس وقت دیوبندی مکتب فکر کے اکابر اور نمائندہ علما کی طرف سے باقاعدہ یہ فتویٰ دیا گیا اور وہ باقاعدہ رسائل وجرائد میں چھپا کہ افغانستان میں امریکہ کے حملے کے بعد جہاد فرض ہو گیا ہے اور وہاں امریکہ کے خلاف لڑنے والے مسلمانوں کی مدد کرنا، وہ جس صورت میں بھی ممکن ہو، مالی طور پر، اخلاقی طو رپر، سیاسی طور پر یہ لازم ہے اور جو حضرات وہاں جا کر لڑ سکتے ہیں، وہ وہاں جا کر لڑیں۔ اب دیکھیں، اس میں جو چیز ملحوظ نہیں رکھی جا رہی ، وہ یہ ہے کہ ریاست کی سطح پر یہ فیصلہ کیا جا چکا ہے کہ ہم اس جنگ میں ان کے ساتھ نہیں ہیں، لیکن خفیہ طو رپر یا نجی سطح پر ریاست بھی سپورٹ کر رہی ہے کہ ہاں جا کر لڑیں اور علما بھی اس کو جواز دے رہے ہیں تو ان دونوں چیزوں کے ملنے سے یہ لوگ خود اپنی ریاست کے خلاف لڑنے کے لیے بھی اگلے مرحلے پر تیار ہو گئے ہیں۔ میراخیال ہے کہ وہ کم سے کم اپنے استدلال کی حد تک معذور ہیں۔ ان کے پاس ایک استدلال موجود ہے جو ہماری ریاست نے او رہمارے علما نے اپنے فتوے کی صورت میں انھیں دیا ہے۔ اس کو بھی موضوع بنانا چاہیے کہ ان لوگوں نے اگر یہ لائحہ عمل اختیار کیا ہے اور اس کو وہ شرعی طو رپر جائز سمجھتے ہیں تو کس حد تک ان کے استدلال کی خامی ہے اور کس حد تک ہمارے ذمہ دار لوگوں نے ان کو یہ استدلال فراہم کیا ہے۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز

یہ ایک بہت اہم سوال آیا۔ یہ حقیقت ہے کہ اس وقت ہم اور خاص طور پر ہمارا دینی طبقہ بہت بڑے ابہام کا شکار ہے اور بہت سے مسائل کا ہمیں ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ مثلاً اس وقت جو زمینی حقیقت ہے جس کے بارے میں اخفا سے کام لینے کی کوئی ضرورت نہیں، وہ یہ ہے کہ پاکستان کے اندر جو طالبان ہیں، ان کے بڑے نمائندے ہیں جن میں ایک حافظ گل بہادر ہے اور دوسرا ملا نذیر ہے جن کی فعالیت وزیرستان کے اندر ہے اور دونوں وزیر قبائل سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ حکیم اللہ محسود، محسود قبیلے سے تعلق رکھتا ہے۔ اب ملانذیر اور گل بہادر کے ساتھ پاکستانی علما اور پاکستانی اداروں کے بہت ہی خوشگوار تعلقا ت ہیں اور یہ کہا جاتا ہے کہ یہ طالبان پاکستان کے خلاف کسی کارروائی میں ملوث نہیں ہیں، اس لیے یہ انھیں اچھے طالبان کہا جاتا ہے او ریہ لوگ افغانستان کے اندر کارروائیاں کرتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ لوگ پاکستان کے شہری ہیں اور اقوام متحدہ کے رکن کی حیثیت سے اور عام ریاستی اعلانات کی صورت میں ہمارا افغانستان کی ریاست کے ساتھ ایک معاہدہ ہے جس کے تحت ہم یہ اصول مان چکے ہیں کہ ہم کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے تو اس صورت میں اس قسم کے اقدامات کا کیا جواز ہے؟ کیا سورۂ انفال اور سورۂ توبہ میں معاہدات کی پابندی کے حوالے سے جو ہدایات دی گئی ہیں، ان کی رو سے اس قسم کی کوئی صورت واقعی جائز ہے؟ اسی طرح صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کے ساتھ یہ معاہدہ کیا کہ اگر کوئی مکہ کا کوئی باشندہ مسلمان ہوگا تو اس کو مدینہ آنے کی اجازت نہیں دی جائے۔ معاہدے پردستخط ہونے سے پہلے کچھ لوگ مسلمان ہو گئے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نے ان کو فرمایا کہ میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتا، کیونکہ میں یہ مان چکا ہوں کہ مکے کے کسی مسلمان کو پناہ نہیں دوں گا اور اسے مدینہ کی حدود کے اندر داخل نہیں ہونے دوں گا۔ تو اس اصول کا انطباق ہماری موجودہ صورت حال میں پر بھی ہوتا ہے یا نہیں؟ یہ وہ سنجیدہ سوالا ت ہیں جنھیں آئندہ محافل میں ہمیں سامنے رکھنا چاہیے۔
اس وقت حقا نی نیٹ ورک کا مسئلہ موضوع بحث ہے۔ حقانی گروپ پاکستانی نہیں ہے، یہ افغان ہے۔ یہ افغان جہاد کے زمانے میں یہاں آیا تھا جب پوری دنیا نے بلکہ اقوام متحدہ نے بھی افغان جہاد کے حق میں قرارداد پاس کی تھی، لیکن افغان جہاد کے بعد بھی حقانی نیٹ ورک یہاں موجود رہا۔ اب ایک اور صورت حال پیدا ہو گئی ہے کہ امریکہ کہتا ہے کہ طالبان کے ساتھ تو ہم گفتگو کے لیے تیار ہیں، لیکن حقانی نیٹ ورک کے ساتھ نہیں۔ اب اس موقف کے اندر ایک خامی ہے کہ جب آپ طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں تو حقانی گروپ نے بھی تو ملا عمر کے ہاتھ پر بیعت کی ہوئی ہے تو آیا وہ طالبان کا حصہ نہیں ہے؟ جب آپ ایک گروپ کے ساتھ جو مرکزی گروپ ہے، مذاکرات کی خواہش رکھتے ہیں تو اس کی بیعت کے اندر ایک دوسرے گروپ کے خلاف آپ پاکستانی حکومت یا اداروں کو کیوں مجبور کر رہے ہیں کہ ان کے خلاف کارروائی کریں اور مذاکرات نہ کریں۔ کیا اس دلیل کے اندر کمزوری نہیں ہے؟ کیا امریکہ سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اگر آپ واقعی مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو مذاکرات کے لیے آپ کے پاس مضبوط ترین گروپ حقانی گروپ ہے جو آپ کا ملا عمر کے ساتھ رابطہ بنا سکتا ہے؟ کیا ہم اس دلیل کو آگے نہیں بڑھا سکتے تاکہ ہم اپنے ملک، اپنے علاقے اور اس پورے خطے کے مفادات کا تحفظ کر سکیں؟ تو اس سوال پر بھی آئندہ محافل میں گفتگو ہو سکتی ہے۔

ڈاکٹر اعجاز صمدانی

ابھی طالبان کے حوالے سے جو گفتگو ہوئی، میرا خیال یہ ہے کہ یہ براہ راست ہمارے موضوع کا حصہ نہیں ہے، کیونکہ خروج یا تکفیر کا براہ راست اس سے تعلق نہیں ہے۔ جہاں تک ہمارے حکمرانوں یا حکومت کی پالیسیوں کا تعلق ہے کہ ظاہراً امریکہ کے سامنے ہاں کر دی اور ایجنسیاں کچھ اور کر رہی ہیں تو یہ ڈپلومیسی حکومتی پالیسیوں کا حصہ رہتی ہے۔ ان کو اپنا ملک بچانے کے لیے امریکہ کے سامنے ہاں کرنا پڑتی ہے، کیونکہ امریکہ نے کہا کہ نہیں کرو گے تو پتھر کے دور میں بھیج دیں گے۔ دوسری طرف وہ یہ بھی سوچتے ہیں کہ طالبان جو پاکستان کے سچے ہمدرد تھے، اگر ان سے بھی دشمنی مول لے لیں تو ہمارے لیے ملک بچانا مشکل ہو جائے گا۔ تو یہ مختلف لاجکس ہوتی ہیں جن کی وجہ سے وہ یہ کام کرتے ہیں۔ بہرحال یہ عنوان ایک مستقل بحث کا تقاضا کرتا ہے۔ میرے ذہن میں یہ ہے کہ جو گفتگو ہم نے خروج اور تکفیر کے حوالے سے کی ہے، اسی پر کچھ سوالات اٹھتے ہیں۔ اگر ہم ان کا احاطہ کرنے کی کوشش کریں تو زیادہ مناسب ہوگا۔
مثلاً ہم نے یہ کہا کہ صرف کفر بواح کی صورت میں اجازت ہے کہ آپ خروج کر سکتے ہیں۔ اس بات پر تقریباً سب متفق ہیں، لیکن مفتی اسد اللہ صاحب نے ایک حدیث سنائی۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ خرج نہ کرو جب تک وہ تمھارے مابین نماز کی اقامت کرتے رہیں۔ اقامت صلوٰۃ کا ایک مفہوم وہ ہے جو مفتی صاحب نے بیان کیا۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ اگر کفر بواح تو نہ ہو لیکن اقامت صلوۃ بھی ہو ہو، مثلاً حکمرانوں نے اجتماعی طو رپر نماز کا کوئی نظام نہ بنایا ہو، صدر مملکت بھی بے نماز ہیں، نماز نہ پڑھنے والے کی بھی کوئی تادیب نہیں کی جاتی تو کیا یہ صورت بھی ایسی ہے جس میں خروج کی اجازت ہوگی یا نہیں؟ اس کے بارے میں ہمیں محدثین کی آرا دیکھنی چاہییں۔ قاضی عیاض اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ ای ماداموا علی الاسلام، یعنی جب تک وہ اسلام پر قائم رہیں، اس و قت تک آپ ان کے خلاف خروج نہیں کر سکتے۔ اب اس تاویل کی مزید تشریح مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنی کتاب ’’جزل الکلام فی عزل الامام‘‘ میں کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس زمانے میں نماز کا پڑھنا اسلام کا شعار سمجھا جاتا تھا، جیسا کہ شد زنار کفر کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ حدیث بھی اس پر لے کر آئے کہ الفرق فی مابین العبد والکفر الصلوۃ، کہ مسلمان اور کافر کے مابین جو فرق ہے، وہ بنیادی طو رپر نماز کا ہے۔ اب نماز فارق بن رہی ہے، جبکہ بے نمازی کو آج کے دور میں کافر نہیں کہہ سکتے حالانکہ اکثریت آج کل کے دور میں بے نمازی ہے، لیکن کوئی فتویٰ کفر کا نہیں دے رہا۔ وجہ یہ ہے کہ یہ اس زمانے میں ایک علامت تھی جو آج کے دور میں مسلمان ہونے کی علامت نہیں رہی۔ تو کسی حدیث کی تشریح کرتے ہوئے اس کے مخصوص پس منظر کو بھی سامنے رکھا جائے تو اس سے صحیح نتیجے تک پہنچنے میں آسانی ہوتی ہے۔
اسی طرح کفر بواح کے تحت ایک بات آتی ہے اکراہ علی المعصیۃ، کہ حکمران مسلمانوں کو معصیت پر مجبور کرتا ہو کہ تم گناہ کرو۔ اکراہ علی المعصیۃ کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک ہے اکراہ علی المعصیۃ استخفافا کہ وہ شریعت اسلامیہ کا استخفاف کرتا ہے اور کہتا ہے کہ شراب پینا حلال ہے، اس لیے شراب پیو۔ یہ بھی کفر ہے کیونکہ وہ اعتقاداً حلت خمر کا قائل ہو گیا ہے۔ دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ ایسا ماحول پیدا کر دیا جائے جس کی وجہ سے نیکیوں پر عمل کرنا مشکل ہو جائے۔ مثلاً آج کل یہ حالات سامنے آ رہے ہیں اور واقعات بھی ہیں کہ اگر آپ نے ڈاڑھی رکھی ہوئی ہے تو آپ کو ملازمت ملنے میں مشکل پیش آتی ہے، آپ پر شک وشبہہ کیا جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ جی تو چاہتا ہے، آپ لوگ فضائل بھی سناتے ہیں اور ڈاڑھی نہ رکھنے پر ڈراتے بھی ہیں، لیکن کیا کریں، ملازمت جاتی ہے۔ اسی طرح شلوار قمیص پہننے میں مشکل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر جاب کرنی ہے تو آپ کو سوٹ پہن کر آنا ہوگا۔ اب یہ باتیں استخفافاً نہیں ہیں، بلکہ حالات وواقعات کے رخ سے اور ایمانی کمزوری کی وجہ سے ہیں۔ اس صورت میں یہ نہیں کہا جائے گاکہ حکومت نے چونکہ ضابطہ بنا دیا ہے اگر آپ کو بنک کی جاب کرنی ہے یا کوئی اور جاب کرنی ہے تو آپ کو سوٹ پہن کر آنا ہوگا، اس لیے یہ کفر ہوگیا ہے۔ یہ استدلال صحیح نہیں ہے۔
اسی طرح یہ پہلو بھی سامنے رہنا چاہیے کہ شریعت نے اس سے تو منع کر دیا ہے کہ آپ خروج نہ کریں، لیکن کچھ نہ کچھ تو کرنا چاہیے تاکہ بہتری آئے۔ خروج تو ہم نہیں کر سکتے، لیکن اگر کچھ بھی نہ کریں، گھر بیٹھ جائیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خیر آنے کی نہ توقع ہو اور نہ اس کے لیے کوئی قدم اٹھایا جائے۔ تو اس کے لیے بھی شریعت نے راہیں رکھی ہیں۔ 
ہمارے ہاں آج کل جو مغرب سے طریقہ آتا ہے، وہی زیادہ نافذ ہوتاہے۔ مثلاً مطالبات منوانے کے لیے ایک طریقہ ہڑتال کا ہے کہ دوکانیں بند کرا دی جائیں۔ اگر آپ شرعی نقطہ نظر سے دیکھیں تو یہ بھی بہت قابل اشکال طریقہ ہے، کیونکہ کوئی آدمی اپنی خوشی سے اپنی دکان بند کرے کہ میں کسی احتجاجی مقصد کے تحت آج کاروبار نہیں کروں گا تو اس کی تو گنجائش ہے، لیکن اس بات کی قطعاً کوئی اجازت نہیں کہ وہ کسی اور سے کہے کہ تم بھی دوکان بند کرو۔ اگر نہیں کرو گے تو ہم تمھاری دوکان کا سامان جلا دیں گے۔ تو یہ ہڑتال والا طریقہ غیر شرعی ہے۔ اللہ ہمیں معاف کرے، نہ صرف سیاسی اور دوسری جماعتیں اس کو اختیار کر رہی ہیں، بلکہ اب مذہبی جماعتوں نے بھی اس رنگ کو اختیار کرنا شروع کردیا ہے جس کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں۔ اپنے مطالبات کو منوانے کا شریعت نے جو بہترین اصول بتایا ہے، وہ حدیث میں آیا ہے کہ لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق، کہ اللہ کی نافرمانی ہے تو اس میں آپ نے حکومت کی بات نہیں ماننی۔ حکومت نے ایک قانون بنایا کہ آپ کو سودی بینکاری کرنی ہے۔ اب اگر تمام شہری یہ فیصلہ کر لیں کہ شریعت میں سود حرام ہے، ہم سودی بینکوں میں ڈپازٹ نہیں رکھیں گے اور ملازمین بھی کہیں کہ ہم اس میں ملازمت نہیں کریں گے تو حکومت مجبور ہو جائے گی کہ اس کا متبادل سوچے اور اس کا متبادل لانے کی کوشش کرے۔ اسی طرح کوئی بھی غیر شرعی بات ہو تو لوگ اس معاملے میں اپنے طور پر شریعت کے حکم پر عمل کرنے کی کوشش کریں اور یہ اسی صورت میں ہوتا ہے جب اپنے جسم پر شریعت نافذ کرنے کا جذبہ ہوتا ہے۔ اگر اپنے جسم پر شریعت نافذ کرنے کا جذبہ نہیں ہے تو ایک دن کی ہڑتال کر کے آدمی اپنے آپ کو تسلی دے لیتا ہے اور چونکہ یہ طریقہ مغرب میں چلتا ہوا آ رہا ہے اور ہم وہاں کی چیز کو زیادہ اچھا سمجھتے ہیں، اس لیے اس کو اختیار کرتے چلے جاتے ہیں۔
تکفیر کے بارے میں ایک بڑی عام غلط فہمی پائی جاتی ہے۔ امام ابوحنیفہ کی طرف یہ بات منسوب ہے کہ لانکفر احدا من اہل القبلۃ، جو اہل قبلہ ہیں، ہم ان کو کافر نہیں کہیں گے۔ اصل میں یہ عبارت شرح مقاصد میں آئی ہے۔ انھوں نے یہ عبارت المنتقی شرح الموطا سے نقل کی ہے اور نقل کرنے میں تھوڑی سی غلطی ہو گئی ہے۔ المنتقی میں جو اصل عبارت ہے، وہ یہ ہے کہ لا نکفر احدا من اہل القبلۃ بذنب۔ ہم اہل قبلہ میں سے کسی کو کسی گناہ کی وجہ سے کافر نہیں کہیں گے اور یہ بات ایک حدیث سے ثابت ہے جو حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : ثلاث من اصل الایمان، الکف عمن قال لا الہ الا اللہ ولا نخرجہ بعمل، یعنی تین چیزیں ایسی ہیں جو ایمان کی جڑ ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ جو آدمی کلمہ پڑھنے والا ہے، اس کا خون نہیں بہائیں گے اور کسی گناہ کی وجہ سے اس کوملت اسلامیہ سے خارج نہیں کریں گے۔ تو اہل قبلہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو شخص قبلے کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتا ہو تو وہ ہر حال میں مسلمان ہی ہے، چاہے وہ قادیانیت کے نظریات پر ہو، ختم نبوت کا انکار کرتا ہو۔ یہ بات نہیں ہے، بلکہ یہ اصل میں خوارج کی تردید ہے کہ اعمال کے اوپر کفر اور اسلام کا مدار نہیں، بلکہ اعتقادات کے اوپر مدار ہے۔ 
اسی طرح یہ سوال ہے کہ اگر کوئی شخص تاویل کرتا ہے تو کیا تاویل کی وجہ سے وہ کفر سے بچ جائے گا؟ تو تاویل کا اصول بھی یہی ہے کہ ایسی تاویل نہ ہو جو متواترات شرعیہ سے متعارض ہو۔ ورنہ تو پھر شیطان بھی کفر سے بچ جائے گا، کیونکہ اس نے جب سجدہ کرنے سے انکار کیا تو یہ تاویل کی کہ خلقتنی من نار وخلقتہ من طین، کہ مجھے آپ نے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے پیدا کیا۔
اسی طرح ایک چیز یہ ہے کہ جب آدمی کوئی کلمہ کفریہ بولتا ہے تو کیا بولتے ہی وہ کافر ہو جاتا ہے؟ اللہ معاف کرے، ہماری موجودہ سوسائٹی کی صورت حال کچھ ایسی ہو گئی ہے کہ عام لوگ گفتگو میں بھی ایسے کلمے بول جاتے ہیں جو کفریہ ہوتے ہیں۔ تو کیا اس سے آدمی فوراً کافر ہو جائے گا؟ فقہا نے اس کی تفصیل لکھی ہے کہ ایک ہے لزوم کفر اور ایک ہے التزام کفر۔ لزوم کفر کا معنی ہے ایسا کلمہ بولنا جس سے کفر لازم آتا ہو، جبکہ التزام کفر ہے اس کو اپنے اوپر لازم کرنا یعنی اس کو ماننا۔ تو کلمہ کفر بولنے سے لزوم کفر ہوتا ہے، التزام کفر نہیں ہوتا اور انسان کافر بنتا ہے التزام کفر سے، لزوم کفر سے کافر نہیں بنتا۔ مطلب یہ کہ اگر کسی آدمی نے ایسا کلمہ بولا جو کلمہ کفر یہ ہے تو آپ اس کو اس پر متوجہ کریں کہ دیکھو، یہ جو کلمہ بول رہے ہو، یہ کفریہ ہے۔ کیا آپ کی مراد یہی ہے؟ وہ کہے گا، نہیں نہیں، غلطی سے میری زبان سے نکل گیا یا یہ کہ مجھے اس کے کلمہ کفریہ ہونے کا علم نہیں تھا تو اس کو آپ کافر نہیں کہیں گے۔ آج کل ہمارے ہاں دار الافتاء میں سوالات آتے ہیں کہ فلاں آدمی نے ایسا جملہ بول دیا، اب بتائیں وہ کافر ہو گیا ہے یا نہیں؟ تو چونکہ ہمارے ہاں تحقیق کا اتنا ماحول نہیں ہے، تو جذباتیت میں ہم لکھ دیتے ہیں کہ جس نے یہ کلمہ بولا، وہ کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے، اس کا نکاح ٹوٹ گیا، بیوی جدا ہو گئی، اب وہ نئے سرے سے کلمہ پڑھے۔ اتنے لمبے احکام او رلمبی تفصیلات اس پر جاری کر دیتے ہیں، حالانکہ یہ تفصیلات جاری کرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے جو کلمہ کہا ہے، کیا اس کا کوئی صحیح محمل نکل سکتا ہے؟ کیا آپ نے اس کو متوجہ کیا ہے؟ اگر تحقیق کے بعد ثابت ہو جائے کہ صرف لزوم ہوا ہے، التزام نہیں ہوا تو کفر کا فتویٰ کیوں جاری کرتے ہیں؟ ان چیزوں کی احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز

میں سمجھتا ہوں کہ ہماری جو علمی گفتگو ہے، یہ بہت ہی قیمتی بنتی جا رہی ہے اور بہت اچھے اور بہت جامع نکات ہمارے سامنے آ رہے ہیں۔ ڈاکٹر صمدانی صاحب نے اپنی ابتدائی گفتگو کے حوالے سے کچھ دلائل بھی دیے اور نئے خیالات بھی سامنے آ گئے۔ یہ بات درست ہے کہ اس مجلس میں ہماری توجہ تکفیر اور خروج پر مرتکز ہونی چاہیے، لیکن جو سوالات ہمارے ساتھیوں کی طرف سے آئے ہیں، وہ دراصل اس مقصد کے لیے ہیں کہ اگر اس سلسلے کو ہم جاری رکھنا چاہیں آئندہ مذاکروں میں ہم ان نکات پر گفتگو کر سکتے ہیں۔ اس لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ جو تجاویز آئی ہیں، وہ بھی بہت وقیع اور قیمتی ہیں اور آئندہ ہمارے جو پروگرام ہیں، ان کے لیے بھی ہمارے پاس مواد موجود ہے۔
صمدانی صاحب کی طرف ایک بہت اچھا نکتہ یہ آیا کہ کوئی بھی موقف اختیار کرتے ہوئے ہم نے اس وقت کے جو حالات ہیں، ان کا مطالعہ کرنا ہے اور پھر جدید حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے شرعی احکام کا انطباق کرنا ہے۔ فقہا اس حوالے سے بہت ہی توسع کے قائل رہے ہیں اور انھوں نے ہمیشہ ہماری راہ نمائی کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فقیہ کے لیے ایک شرط یہ ہے کہ وہ بصیرا بزمانہ ہو، اپنے زمانے کے حالات سے پوری طرح آگاہ ہو۔ اگر وہ بصیر بالزمان نہیں ہے تو فقیہ کے لیے جو شرائط ہیں، ان شرائط میں سے وہ ایک بہت اہم شرط سے عاری ہے۔ 
مثلا خروج کا جو پرانا تصور ہے، وہ مسلح جدوجہد سے عبارت تھا۔ میرا خیال ہے کہ اگر آج کے دور میں خروج کی نوبت آئے تو پرامن خروج بھی بہت زبردست اور بہت موثر بن سکتا ہے۔ مثلاً اگر آپ انکار کر دیں کہ ہم ٹیکس نہیں دیں گے اور راے عامہ آپ کے ساتھ ہو تو پوری حکومت بیٹھ سکتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ۱۹۸۳ء میں جب میں برطانیہ کی ایک یونیورسٹی میں تھا تو وہاں دودھ دو پیسے مہنگا ہو گیا۔ وہاں صارفین کی انجمن نے نوٹس دے دیا کہ ایک ہفتے کے اندر اندر دودھ کو واپس پہلی قیمت پر لے آیا جائے، لیکن دودھ بنانے والی فیکٹریوں نے معذرت کر لی۔ اس کے بعد انجمن صارفین نے تمام لوگوں سے کہا کہ وہ دودھ پینا بند کر دیں اور میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ دو تین دن کے بعد دودھ کی بوتلیں اور دودھ کے ڈبے گل سڑ کر سڑکوں پر آگئے او رحکومت قیمتیں کم کرنے پر مجبور ہو گئی۔ راتوں رات تمام فیکٹریوں نے اعلان کیا کہ ہم دودھ کو واپس پہلی قیمت پر لانے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ اب یہ بہت پرامن طریقہ تھا، لیکن راے عامہ ہموار ہو گئی اور تمام لوگوں نے انکار کر دیا کہ ہم دودھ نہیں پئیں گے۔ اسی طرح ہمارے مثلاً چینی مہنگی ہو جاتی ہے اور حکومت کک بیک کی صورت میں کمیشن کھاتی ہے تو اگر ہم راے عامہ کو ہموار کر لیں اور لوگ فیصلہ کر لیں کہ ہم نے دودھ نہیں پینا، ہم نے چینی نہیں لینی تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ حکومت کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے، لیکن راے عامہ کو ہموار کرنا ضروری ہے۔ تو فقہا کا کام ہے کہ وہ بصیر بالزمان ہوں۔ جب وہ بصیر بالزمان ہوں گے تو جس طرح ہمارے پرانے فقہا نے اپنے دور میں امت کی راہ نمائی کی ہے، اسی طرح نئے حالات میں بھی بہت جامع او ربہت موثر طریقے سے قوم کی راہ نمائی کے لیے فقہا آگے آ سکتے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ رفتہ رفتہ ہماری بحث زیادہ نکھر کر سامنے آ رہی ہے۔ 

مفتی محمد ابراہیم قادری

آپ نے آئندہ ہونے والی علمی مجالس کا ایجنڈا ابھی سے بتا دیا جوبہت اچھی بات ہے۔ مزید یہ کہ جو منتظمین ہیں، ان کی کاوشوں کو خراج تحسین نہ پیش کرنا میں سمجھتا ہوں کہ بد اخلاقی کی بات ہوگی۔ انھوں نے بڑی کاوش کی ہے، لیکن میری گزارش یہ ہے کہ کسی بھی موضوع پر سیر حاصل بحث تب ہوتی ہے جب اس کے مثبت اور منفی دونوں پہلو سامنے آئیں اور ان دونوں پر گفتگو کی جائے۔ ہمارے علماے کلام نے علم کلام میں زیادہ تر خوارج اور معتزلہ کا رد کیا اور فلاسفہ یونان کا بھی رد کیا ہے۔ ان کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ پہلے اپنا نظریہ پیش کر کے دلائل دیتے ہیں۔ پھر مخالف کے دلائل کو لے کر اس کا تجزیہ کرتے ہیں۔ شرح عقائد، شرح مقاصد، شرح مواقف، یہ سب کتابیں اس سے بھری ہوئی ہیں۔ تو ایک تو یہ کیا جائے۔ 
دوسرا یہ کہ اس علمی پینل کو تھوڑا سا وسیع بھی کیا جائے۔ یہ آپ کی پہلی کاوش ہے او ربارش کا پہلا قطرہ ہے اور یہ کوشش لائق صد آفرین ہے، لیکن آئندہ مجالس میں ملک کے وہ نامور علما جو اپنے اپنے مکاتب فکر کے نمائندہ کہلاتے ہیں، ان کو اگر مدعو کیا جائے اور ان کو بحث میں شامل کیا جائے تو یہ آپ کے جو علمی مباحث ہیں، یہ انتہائی موثر اور مفید بن جائیں گے۔
ہماری کتب میں لکھا ہے اور بعض لوگوں نے امام اعظم ابوحنیفہ کی طرف بھی اس کی نسبت کی ہے کہ اگر کوئی شخص کوئی قابل اعتراض جملہ بولتا ہے اور اس میں سو احتمالات نکلتے ہیں جن میں سے ننانوے احتمال کفر کی طرف جاتے ہیں اور ایک احتمال اسلام کی طرف جاتا ہے تو ہمیں چونکہ اس مسلمان کی نیت کا علم نہیں ہے اور وہ جو عبارت ہے، نفیاً یا اثباتاً اس کی دونوں دلالتیں موجود ہیں تو جب تک اس کی طرف سے کفر کے پہلو کی صراحت سامنے نہیں آئے گی، ہم اسے کافر قرار نہیں دیں گے اور وہ جو ایک احتمال ایمان ہے، وہی غالب رہے گا اور ننانوے اس کے مقابلے میں مغلوب ہو جائیں گے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ تکفیر اور کفر کا معاملہ انتہائی حساس ہے اور ہم چھوٹتے ہی کسی کو کافر کہنے کی کوشش نہ کریں اور تکفیر نہ کریں۔ 
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرمان بھی ذہن نشین رہنا چاہیے۔ یہ بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف کفر کے معاملے میں نہیں فرمائی، شرک کے معاملے میں نہیں فرمائی، لعن کے بارے میں اور ہر اس برائی کے معاملے میں فرمائی ہے جو کسی کے سر تھوپی جائے تو اس کے ہوش اڑ جائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی کسی کو کافر کہتا ہے اور اس میں کفر موجود نہیں تو کفر خود کہنے والے کی طرف لوٹے گا۔ اگر کوئی شخص کسی کو مشرک کہتا ہے اور وہ مشرک ہے نہیں، لیکن الزام لگانے والا اپنے مزعوم نظریات اور فاسد خیالات کی بنیاد پر کسی کو نشانہ بناتا ہے اور اسے مشرک بناتا ہے تو اگر اس میں شرک کی بات اللہ اور اس کے رسو ل کے ہاں نہیں پائی گئی تو شرک اس کی طرف نہیں جائے گا بلکہ جس نے اس پر الزام شرک لگایا اور فتویٰ لگایا، شرک اس کی طرف لوٹے گا۔ یہ وہ باتیں ہیں جو ایک مسلمان کو عام مسلمان کو بھی سوچنی چاہییں، اہل علم تو پھر اہل علم ہیں۔
ڈاکٹر صمدانی صاحب اور مولانا عمار ناصر نے بعض باتیں علمی اٹھائی ہیں۔ مثلاً یہ اصول کہ لا نکفر احدا من اہل القبلۃ کہ ہم اہل قبلہ میں سے کسی کو کافر نہیں کہیں گے، مولانا نے ایک توجیہ اس کی پیش کی ہے اور وہ توجیہ بھی صحیح ہے کہ کہ کسی گناہ کی بنیاد پر ہم کسی مسلمان کو کافر نہیں کہیں گے جیسا کہ ہمارے علماے کلام نے لکھا کہ یہ خوارج کا مذہب ہے کہ وہ کبائر کے مرتکب کو کافر کہتے ہیں۔ البتہ ہمارے علما نے اسے عموم پر رکھ کر بھی اس کی توجیہات کی ہیں۔ یعنی ذنب کی قید نہ لگائیں اور اسے علی الاطلاق رکھا جائے، لا نکفر احدا من اہل القبلۃ، یہاں تک عبارت ہو تو بھی درست ہے اور اس کی توجیہ یہ ہے کہ یہاں اہل قبلہ سے مراد اس کا لغوی معنی نہیں ہے کہ جو لوگ قبلے کی طرف منہ کریں۔ یہ ایک خاص اصطلاح ہے۔ جیسے احادیث میں آیا ہے کہ جس نے لا الہ الا اللہ کہا، اس کا یہ حکم ہے۔ تو لا الہ الا اللہ یہ ایک مخصوص اصطلاح ہے۔ اس سے مراد صرف لا الہ الا اللہ تک پڑھ لینا نہیں ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حدیث میں لا الہ الا اللہ پڑھنے کے الفاظ ہیں تو ایمان تو قول کا نام نہیں ہے، ایمان تو تصدیق کا نام ہے۔ مقصد یہ ہے کہ جس نے لا الہ الا اللہ کہا یعنی جو مسلمان ہے، جو مومن ہے، جو اہل ایمان ہے۔ اسی طریقے سے لا نکفر احدا من اہل القبلۃ میں اہل قبلہ سے مراد لغوی معنی نہیں، بلکہ اہل قبلہ سے مراد وہی ہے جو مسلمان ہے، جو ضروریات دین کے قائل ہیں جن کی توضیح ہو چکی ہے۔ 
ایک آدمی کے متعلق ہم دیکھتے ہیں کہ اس کا قول وعمل مسلمانوں والا ہے۔ وہ نمازیں پڑھتا ہے، مساجد میں آتا ہے، جنازوں میں شریک ہوتا ہے، مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ رکھتا ہے تو ایسے شخص کو ہم مسلمان ہی سمجھیں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ من صلی صلاتنا واستقبل قبلتنا واکل ذبیحتنا فذالک المسلم الذی لہ ذمۃ اللہ وذمۃ رسولہ۔ جس شخص نے ہمار ی نماز جیسی نما زپڑھی، ہمارے قبلے کی طرف منہ کیا، ہمارا ذبیحہ کھایا، وہ مسلمان ہے اور اس کو اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ حاصل ہے۔ اب یہ اسلام کی متعارف علامات ہیں جن کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کیا۔اس کا معنی یہ ہیں کہ جو شخص اسلامی شعائر کا خیال رکھتا ہے اور اس میں اسلام کی مخصوص باتیں اور تشخصات ہم دیکھتے ہیں تو جب تک اس کے خلاف کوئی دلیل نہیں ہوگی، ہم اس کو مسلمان ہی سمجھیں گے۔ 
اس کے علاوہ اگر آپ اجازت دیں تو خروج وبغاوت کی طرف اس گفتگو کا سلسلہ موڑا جائے۔ خروج کیا ہے؟ ہمارے علما نے اس پر بحثیں کی ہیں کہ خروج کیا ہے، اس لیے کہ احادیث میں بھی خروج اور بغاوت کے الفاظ آئے ہیں اور قرآن کریم میں بھی بغاوت کے الفاظ آئے ہیں۔ کتب فقہ کا یہ خاص موضوع ہے۔ جیسا کہ ڈاکٹر علی اکبر صاحب نے کہا کہ خروج کی ایک تاریخ ہے اور وہ تاریخ ایسی ہے جو احادیث طیبہ میں مرقوم ہے۔ ہر زمانے کے جو باغی لوگ تھے، جو مسلح کارروائیاں کرتے تھے، ان کے پاس جتھے تھے۔ ان کی اپنی فوج تھی اور وہ اسلامی ریاست کو للکارتے تھے تو اس کے پیچھے ان کا ایک خاص نقطہ نظر ہوتا تھا جس کی بنیاد پر وہ ہتھیار اٹھاتے تھے۔ وہ نقطہ نظر یہ ہوتا تھاکہ یہ جو ریاست ہے، اس کے جو حکمران ہیں، یہ مسلمان نہیں ہیں اور یہ جو عوام ہیں، یہ ان کے سپورٹر ہیں، اس لیے یہ سب مارے جانے کے لائق ہیں، چنانچہ اہل خروج وبغاوت کا جو تاریخ اسلام کے حوالے سے پہلا طبقہ ہے ، وہ وہ ہے جو کھل کر امیر المومنین علی کرم اللہ وجہہ کے دور میں آیا اوران لوگوں نے حضرت علی پر جو خلیفہ راشد تھے اور اس وقت روے زمین کے سب سے بہترین اور افضل انسان تھے، ان کے بارے میں یہ کہا کہ وہ مشرک ہیں اور مشرک اس لیے ہیں کہ انھوں نے انسانوں کو حکم بنایا ہے، جبکہ ان الحکم الا للہ، حکم تو اللہ کے لیے ہے اور یہاں پر حکم کسی اور کو بنایا جا رہا ہے۔ 
البحر الرائق میں خروج کی وضاحت میں لکھا ہے کہ خوارج ایک قوم ہے جن کا ایک جتھہ ہوتا ہے، ان کی ایک قوت ہوتی ہے اور وہ ایسی تاویل کی بنیاد پر خروج کرتے ہیں جس کی بنا پر وہ اپنے مد مقابل کو، ریاست کے حکمرانوں کو کافر کہتے ہیں یا انھیں ایسی معصیت میں گرفتار سمجھتے ہیں جو موجب قتال ہو تو تاویل سے وہ انھیں کافر سمجھتے ہیں اور تاویل سے ان پر جنگ کرنا او ر چڑھائی کرنا جائز سمجھتے ہیں اور اسی بنیاد فاسد کی وجہ سے وہ مسلمانوں کے خون کو اور ان کے مالوں کو حلال سمجھتے ہیں۔ 
فتح الباری میں ہے: الخوارج جمع خارجۃ ای طائفۃ وہم قوم مبتدعون سموا بذلک لخروجہم عن الدین وخروجہم علی خیار المسلمین۔ خوارج، خارجہ کی جمع ہے اور یہ وہ اہل بدعت کا اور بد مذہب لوگوں کا ایک گروہ ہے۔ انھیں خارجی اس لیے کہتے ہیں کہ وہ دین سے نکل جاتے ہیں اور خیار مسلمین پر خروج کرتے ہیں۔
علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ نے، جن پر آج کل کے فقہا اور ماضی قریب کے فقہا بہت زیادہ اعتماد کرتے ہیں، لکھا ہے کہ اھل البغی کل فئۃ لہم منعۃ یتغلبون ویجتمعون ویقاتلون اہل العدل بتاویل یقولون الحق معنا ویدعون الولایۃ کہ اہل بغاوت وہ جماعت ہے کہ ان کے پاس قوت اور طاقت ہوتی ہے اور وہ اپنا تسلط جماتے ہیں، مجتمع ہوتے ہیں، اہل عدل سے وہ تاویل کے ساتھ جنگ کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ حق تو ہمارے ساتھ ہے اور ولایت ، تدبیر اور امور ریاست کے استحقاق کے مدعی ہوتے ہیں۔
حضرت علی پر جو خروج کیا گیا، اس کی بھی یہی وجہ ہے۔ ہمارے فقہا نے لکھا ہے کہ اگر باغی اور خارجی لوگ تاویل کے ساتھ مسلمانوں کے مالوں کو لوٹیں اور ریاست کے خلاف آواز اٹھائیں تو ان کے احکام یہ ہیں کہ پہلے ان کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں، انھیں سمجھایا جائے، ان کی باتوں کو سنا جائے، انھیں اطمینان دلایا جائے۔ قرآن کریم کا بھی یہی حکم ہے اور حضرت امیر المومنین کرم اللہ وجہہ کا بھی یہی عمل ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں فرمایا: و ان طائفتان .....۔ اور حضرت علی کے خلاف جب خروج ہوا تو انھوں نے فرمایا کہ یہ لوگ کیوں خروج کر رہے ہیں؟ بتایا گیا کہ یہ کہتے ہیں کہ آپ مشرک ہیں۔ فرمایا میں کیسے مشرک ہوا؟ انھوں نے کہا کہ آپ نے انسانوں کو حکم بنایا جبکہ قرآن میں آتا ہے کہ ان الحکم الا للہ، حکم تو اللہ کا ہے اور آپ نے اس میں بندوں کو شریک کیا۔ آپ نے فرمایا کہ کلمۃ حق ارید بہا الباطل، جو آیت پڑھی گئی ہے وہ تو حق ہے، لیکن جو مراد لی ہے، جو تاویل کی ہے، وہ باطل ہے۔ حضرت علی نے حضرت عبد اللہ بن عباس سے، جو ترجمان القرآن تھے، فرمایا کہ تم اہل بغی سے ملو، خارجیوں سے ملو اور دلائل کے ذریعے انھیں قائل کرنے کی کوشش کرو۔ حضرت عبد اللہ بن عباس گئے اور انھوں نے کہا کہ تم کیوں جھگڑا کرتے ہو؟ کہنے لگے کہ ان الحکم الا للہ اور انھوں نے حکم بنایا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ علی نے تو ایک حکم بنایا۔ قرآن پاک تو یہ فرماتا ہے کہ اگر میاں بیوی کے درمیان جھگڑا ہو تو فابعثوا حکما من اھلہ وحکما من اھلہا۔ ایک حکم عورت کے خاندان سے ہونا چاہیے اور ایک حکم مرد کے خاندان سے ہونا چاہیے۔ علی نے ایک حکم بنایا، قرآن تو دو حکم بنانے کا کہہ رہا ہے۔تاریخ کی کتابوں میں آتا ہے کہ پانچ ہزار خارجی تائب ہو گئے۔ جو باقی بچے، وہ نہیں سمجھے۔ پھر حضرت علی نے ان کے خلاف جنگ کی۔ 
تو ان بغاۃ کا حکم ہے کہ سب سے پہلے انھیں مذاکرات کی دعوت دی جائے، ان کی باتیں سنی جائیں، انھیں مطمئن کیا جائے۔ اور اگر یہ بات پھر نہ بنے تو پھر آخری جو پہلو ہے اور جو آخری بات ہے جس کے بعد کوئی بات نہیں بن سکتی، وہ ہے جنگ۔ پھر ان کے خلاف جنگ کی جائے۔ جیسے حضرت علی نے جنگ کی اور جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے واضح ہے۔

زاہد صدیق مغل ― (نیشنل یونیورسٹی فاسٹ، اسلام آباد)

مجھے افسوس ہے کہ میں پہلی نشست میں شامل نہیں ہو سکا۔ یقیناًاس میں بہت قابل قدر گفتگو ہو گئی ہوگی۔ پہلی بات میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں خود کو اس لائق نہیں سمجھتا کہ اس محفل کے اندر کوئی تفصیلی گفتگو کروں جہاں بہت قابل احترام اور ذی علم لوگ بیٹھے ہیں تاکہ شریعت کے نقطہ نظر سے اس پر گفتگو کریں کہ ان تمام موضوعات پر شریعت کا مدعا کیاہے۔ میرے ذہن میں دو تین پوائنٹس ہیں جو ایک قسم کے سوالات ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ اس پینل کے سامنے آنے چاہییں۔ میرا پس منظر یہ ہے کہ میں نے مغربی فکر اور فلسفہ کا کچھ طالب علمانہ مطالعہ کیا ہے۔ اس کی روشنی میں کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں جو وہ موجود ہ نظام کے اندر خروج کی نوعیت کو سمجھنے کے لیے بہت ضروری ہیں۔ مثلاً ابھی خوارج کی بات ہو رہی تھی تو اس میں قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ خوارج وہ گروہ تھا جنھوں نے خلیفہ راشد کے خلاف خروج کیا، اس وجہ سے ہماری تاریخ میں انھیں خوارج کہا گیا۔ آج کے دور میں خوارج کے احکام کو کسی گروہ پر اگر ہم منطبق کرنا چاہتے ہیں تو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ مد مقابل ریاست کیا خلافت راشدہ کا دعوے دار بننے کی کسی بھی طو رپر استحقاق رکھتی ہے یا نہیں؟ 
یہ بہت اہم سوال ہے اور میں اپنی گفتگو کو اسی نکتے پر مرکوز رکھنا چاہوں گا۔ ہمیں پہلے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جو موجودہ ریاستیں ہیں، وہ ہیں کیا؟ جب ہم خروج کی بحث اٹھاتے ہیں تو یہ pre-suppose کرتا ہے کہ اسلامی ریاست موجود ہے، یعنی اسلامی ریاست کہیں بنی ہوئی ہے، ریاست کے اسٹرکچر سارے اسلامی طریقے سے چل رہے ہیں، احکامات کا صدور اور ان کا نفاذ اسلامی شریعت کے مطابق ہو رہا ہے اور اب خرابی یہ پیدا ہو گئی ہے کہ کوئی ایسا شخص آ گیا ہے جو ان احکامات کے صدور اور نفاذ میں رخنہ اندازی کا باعث بن رہا ہے یا وہ کسی ایک ادارے کو صحیح طریقے پر، جیسا کہ اسلام چاہتا ہے، ویسے کام نہیں کرنے دے رہا۔ خروج کی بحث یہاں آتی ہے کہ اب ایسے آدمی کا کیا کریں۔ یعنی خروج ہمیشہ کسی آدمی کے خلاف ہوتا ہے، کسی فرد کے خلاف ہوتا ہے۔ یہاں میں واضح کر دوں کہ حکومت اور ریاست میں فرق ہوتا ہے۔ حکومت ریاست کا محض ایک چھوٹا سا ، گو کہ ایک اہم ادارہ ہے۔ تو جب خروج کی بحث اٹھائی جاتی ہے تو ہماری کلاسیکل فقہ میں ہمیشہ اس سے یہ مراد لی جاتی ہے کہ حاکم یا حکمران طبقے کے خلاف بغاوت کی جائے۔ یعنی اگر حکمران ریاست کے باقی اداروں کے کام میں، جو اسلامی طریقے سے چل رہے ہیں، رخنہ اندازی کر تے ہیں تو ان کے خلاف خروج ہونا چاہیے یا نہیں ہونا چاہیے۔
لیکن ایک ایسے تناظر میں جہاں خلافت ۱۹۲۴ء کے بعد دنیا سے ختم ہو گئی ہے، ایک ایسا تناظر جہاں دنیا پر لبرل ریاستی آرڈر نافذ ہے اور اس کو ہم گرافٹنگ کے ذریعے یعنی پیوند کاری کے ذریعے کسی طریقے سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ یہ کسی معنی میں اسلامی ہے، اس میں پہلے تو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا جو ریاستی اسٹرکچر ہے، وہ کوئی اسلامی ریاستی سٹرکچر ہے؟ کیا جمہوری اسٹرکچرز اسلامی ہوتے ہیں؟ مثال کے طور پر اگر ہم اس نتیجے پر پہنچ جائیں کہ وہ اسلامی نہیں ہوتے تو پھر اس کے بعد خروج کی بحث ہی لایعنی ہے۔ خروج کی بحث تو تب آتی ہے جب آپ اسلامی حکومت کی موجودگی پہلے سے فرض کر لیں۔ پہلی بات تو یہ ہے۔ اگر یہ بات طے ہو جائے کہ جو موجودہ اسٹرکچرز ہیں، وہ کسی معنی میں اسلامی نہیں ہیں تو اب بات دوسری ہوگی۔ 
عام طور پر خروج کے حوالے سے جب گفتگو ہوتی ہے تو یہ کہا جاتا ہے کہ اس میں قتل وقتال ہوگا، لوگوں کے اموال کا نقصان ہوگا، وغیرہ۔ اس سلسلے میں قرآن نے فرمایا ہے کہ والفتنۃ اشد من القتل۔ فتنے کا لفظ یہاں خاص سیاق میں آیا ہے یعنی ایسا نظام جو لوگوں کو آزمائش میں ڈال دے اور ایمان پرعمل کرنا ان کے لیے ناممکن ہوجائے، وہ ultimately انھیں جہنم میں پہنچا دے تو ایسے نظام فتنہ کے بارے میں قرآن نے کہا ہے کہ یہ تو قتل وغارت سے بھی زیادہ خطرناک چیز ہے کہ لوگ پرامن طریقے سے مر کر جہنم میں پہنچ جائیں اور انھیں اس بات کا احساس ہی نہ ہو۔ اب بحث کا نکتہ یہ بن جاتا ہے کہ ایک ایسا نظام جو لوگوں کو مآل کار جہنم میں لے کر جائے گا اور ہم اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں کہ یہاں جس شخصیت کی تشکیل ہوتی ہے، جو معاشرت پنپتی ہے، جو ریاستی اسٹرکچر بنتا ہے، اس کا غیر اسلامی ہونا بالکل واضح ہے۔ یہ بحثیں تھوڑی عجیب اس لیے لگتی ہیں کہ اب دنیا کا تناظر بالکل بدل چکا ہے۔ ایک لبرل ریاست کیا ہوتی ہے؟ how does it function? اس کی بنیاد پر ہم اپنے ارد گرد کے جن معاشروں یا ریاستوں کو اسلامی سمجھتے ہیں، ان کو پرکھ کر فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ کس حد تک اسلامی کہلانے کی حق دار ہیں؟
تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ طے ہو جائے کہ ریاست اسلامی نہیں ہے تو پھر خروج کی بحث irrelevant ہو جاتی ہے۔ اب بحث یہ ہو جاتی ہے کہ ایسی صورت حال میں کیا کرنا چاہیے؟
دوسرا نکتہ یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ خروج کا مطلب ہمارے ہاں صرف تلوار اٹھانا اور لڑائی جھگڑا سمجھا جاتا ہے۔ خروج کا اصل مطلب ہے اطاعت سے نکل جانا۔ یعنی آپ جو ریاستی اسٹرکچرز ہیں، ان کا انکار کریں اور ایک دوسرا اطاعت کا نظام قائم کریں جس کو آپ state within the state کہتے ہیں۔ خروج کا مطلب ہمیشہ یہی ہوتا ہے۔ اب بحث صرف یہ رہ جاتی ہے کہ کیا ایک ایسے نظام کے اندر جس کے بارے میں ہم یہ طے کر لیں کہ جو اسٹیٹ اسٹرکچرز ہم پر مسلط ہیں، وہ اسلامی نہیں ہیں، کیا ان کے مدمقابل کوئی اور اسٹیٹ اسٹرکچرز بنانا شریعت میں جائز ہے یا ناجائز ہے؟ میرے خیال میں گفتگو کا محور یہ بننا چاہیے کہ کیا ریاست در ریاست اس مفہوم میں کہ متبادل ایسے اسٹرکچرز کھڑے کیے جائیں جہاں پر اطاعت کی بنیاد ہیومن رائٹس کے فلسفے یا اور موجودہ آئینی اسٹرکچرز کے علاوہ کوئی اور چیز ہو، کیا یہ جائز ہے یا ناجائز ہے؟ اس کو اگر علماء کرام اس تناظرمیں دیکھیں کہ الفتنۃ اشد من القتل تو میرا خیال ہے کہ شاید بحث زیادہ نکھر کر سامنے آئے گی۔ 
دراصل درست تناظر میں بحث کرنے کی ضرورت ہے۔ خوارج کے احکام کو آج کل کے گروہوں پر منطبق کرنے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ اس وقت خلافت راشدہ تھی، مسلمانوں کا پورا ایک نظام تھا، صحابہ کرام کی جماعت تھی ، ان کے مدمقابل ایک چھوٹا سا گروہ نکل کھڑا ہوا۔ جبکہ ایک ایسی صورت جس میں خلافت راشدہ تو دور کی بات، خلافت ہی نہ ہو، اس سیاق میں پھر خروج کو کیسے دیکھا جائے گا؟ اگر اس پر غور وفکر کیا جائے تو شاید کچھ او رنتائج نکلیں یا کچھ اور پہلو واضح ہو سکیں۔ 
یہ چند سوالات ہیں کہ خوارج کے احکام کا کیا ہم آج کل انطباق کر سکتے ہیں؟ جبکہ ۱۹۲۴ء کے بعد یہ طے ہے کہ دنیا میں خلافت کہیں نہیں ہے۔ جہاں پر بھی ہم نے آزادی کی جدوجہد کی ہے، اس میں کہیں بھی خلافت کے ادارے کا احیا کرنے کی بات نہیں کی۔ ہم نے ہر جگہ جمہوری اسٹرکچرز کی بنیاد پر قومی ریاستیں بنائی ہیں۔ خلافت necessarily کبھی قومی ریاست نہیں ہوتی جیسا کہ بالکل واضح ہے، لیکن ہم نے جدوجہد کر کے جو بھی ملک بنایا ہے، وہ ایک نیشن اسٹیٹ کی صور ت میں قائم کیا ہے۔ تو ان سب نکات پر بحث ہونی چاہیے کہ لبرل ریاست کیا ہوتی ہے؟ کیا لبرل ریاست کی موجودگی میں ہم اسلام پر عمل کر سکتے ہیں؟ کیا فرد کی اور معاشرے کی ویسی تشکیل ممکن ہے جیسی اسلام چاہتا ہے؟ اگر یہ ناممکن ہے تو پھر خروج بمعنی ریاست در ریاست کی جدوجہد ایک دوسرے رنگ میں سامنے آئے گی جس میں ہو سکتا ہے کبھی وہ مقام بھی آ جائے کہ لڑنا بھی پڑ جائے۔ اس کا اگلا مرحلہ ہو سکتا ہے، جبکہ خروج سے ہمارے ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ پہلے ہی دن ہتھیار اٹھا لیں اور لڑ پڑیں، حالانکہ یہ بالکل آخری اسٹیج ہوتی ہے۔ جو لوگ اس وقت خروج کر رہے ہیں، میرے خیال میں ان کی بھی یہ غلط فہمی ہے کہ وہ خروج کا مطلب لڑنا ہی سمجھتے ہیں۔ بدقسمتی سے جو لوگ خروج کا جواز پیش کرتے ہیں، کوئی واضح لائحہ عمل ان کے پاس بھی نہیں ہے اور انھیں اس کا ادراک نہیں کہ جو موجودہ ریاستیں کیا ہیں اور ہم کس کے خلاف لڑ رہے ہیں؟ کیا اداروں کے خلاف؟ کیا یہ اسٹیٹ اسٹرکچرز ہیں جن کو ہم نے replace کرنا ہے یا بس زرداری صاحب کی جگہ کسی اور آدمی کو لا کر بٹھا دینا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز

زاہد صدیق مغل صاحب نے بہت اچھے سوالات اٹھائے ہیں۔ میں ایک بات کی یاد دہانی کرانا چاہوں گا کہ اس پوری محفل میں کوشش یہ ہوئی ہے کہ اسلامی حکومت کی اصطلاح کی جگہ ہم مسلم حکومت کا ذکر کریں، کیونکہ ظاہر ہے کہ حقیقی معنوں میں اسلامی حکومت موجود نہیں ہے، لیکن مسلم حکومتیں موجود ہیں۔ دوسری بات جو آپ نے کی، اس کو بھی ہم موضوع بحث بنا سکتے ہیں۔ بے شک ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ خلافت راشدہ کا دور تھا،لیکن اس کے بعد جو خلافتیں بنیں، مثلاً بنو امیہ کی یا بنو عباس کی یا مثلاً عثمانیوں کی خلافت جو ۱۹۲۴ء میں ختم ہوئی، کیا وہ واقعی خلافتیں تھیں یا ان کو بھی ہم اسی درجے میں رکھیں گے جو خلافت راشدہ کا تھا اور ان کے خلاف خروج اور بغاوت کو ہم وہی بغاوت اور وہی خروج سمجھیں گے جو خلافت راشدہ کے خلاف ہو؟ یہ بھی ہمارے علما کے لیے ایک قابل بحث سوال ہے، کیونکہ محض خلافت کا عنوان کافی نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ خلافت کے لیے ایک معیار ہے، تو جو عباسی خلفا اور عثمانی خلفا تھے، آیا وہ اس معیار پر پورا اترتے تھے یا نہیں؟ ان سوالات کے حوالے سے ہم علما سے راہنمائی چاہیں گے۔ کیونکہ بہت سے اموی، عباسی اور عثمانی خلفا ایسے تھے جو حد درجہ فسق وفجور میں ملوث تھے او رکسی طریقے سے بھی ہم ان کو خلیفہ راشد کے معیار پر نہیں کہہ سکتے۔ تو ایسے حکمرانوں کی موجودگی میں اس پورے نظام کو خلافت کا نام دے دینا، یہ بھی ایک قابل بحث سوال ہے۔

مفتی محمد ابراہیم قادری

آپ نے بہت اچھی بحث چھیڑی ہے۔ اصل میں جب اسلامی تاریخ کے حوالے سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کی روشنی میں خلافت کا ذکر ہوتا ہے تو اس سے مراد ہوتی ہے خلافت راشدہ اور خلافت علیٰ منہاج النبوۃ جو تسلسل کے ساتھ تیس سال قائم رہی۔ اس کے بعد بھی خلافت راشدہ کا عکس ہمیں بہت سے خلفا میں نظر آیا۔ علامہ علی قاری جو بہت بڑے محدث ہیں اور علماے احناف کے نمائندہ ہیں، انھوں نے شرح فقہ اکبر میں فرمایا ہے کہ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ تو تیس سال رہی، اس کے بعد جو حکمران آئے، وہ خلفا نہیں بلکہ ملوک وامرا تھے۔ ہم اس میں سے عمر بن عبد العزیز اور آنے والے امام مہدی کو الگ کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ خلافت کا لفظ لغوی معنی یعنی جانشینی کے معنی میں بھی بولا جاتا ہے۔ امیر کو بھی خلیفہ کہہ دیتے ہیں۔ علامہ شامی نے امراے بنو امیہ اور بنو عباس کے بارے میں لکھا کہ لا یخفی ان اولئک کانوا ملوکا تغلبوا والملوک تصح منہ ہذہ الامور کہ یہ سب بادشاہ تھے اور تغلب وتسلط کی بنا پر انھوں نے حکمرانی حاصل کی تھی اور ہمارے نزدیک دفع فتنہ کے لیے اور خون ریزی سے بچنے کے لیے ان لوگوں کی ملوکیت کو یا ان کی بادشاہت کو صحیح تسلیم کیا جائے گا۔
حموی ایک حنفی عالم گزرے ہیں، انھوں نے ایک کتاب لکھی ہے الاشباہ والنظائر۔ اس میں انھوں نے امام ابوحنیفہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ قال الامام واصحابہ لا یشترط فی تولیۃ السلطان ان یکون قرشیا ولا مجتہدا ولا عدلا۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب نے کہا ہے کہ بادشاہ کی بادشاہت اور اس کی تولیت کی صحت کے لیے نہ قرشی ہونا ضروری ہے (خلافت کے لیے تو قرشی ہونا ہمارے ہاں شرط ہے) نہ اجتہاد شرط ہے اور نہ ہی عدل اور تقویٰ شرط ہے۔ مطلب یہ کہ اگر یہ لوگ آ جاتے ہیں اور ہم پرمسلط ہو جاتے ہیں تو ہم ان کی تولیت کو مان لیں گے اور ان کے خلاف بغاوت نہیں کریں گے۔
امام ابوحنیفہ کا نظریہ اور فکر متداول کتب فقہ میں موجود ہے۔ مثلاً فقہ حنفی کی ایک بڑی مقبول اور قدیم کتاب ہدایہ ہے۔ ہدایہ کے باب البغاۃ میں لکھا ہے کہ والمروی عن ابی حنیفۃ من لزوم البیت۔ امام ابوحنیفہ سے مروی یہ ہے کہ جب امت میں فتنہ برپا ہو جائے تو اس وقت لوگوں کو چاہیے کہ وہ گھر میں دبک کر بیٹھ جائیں۔ اس کے بارے میں صاحب ہدایہ نے لکھا ہے کہ ھو محمول علی حال عدم الامام واما حالۃ امامۃ الامام الحق فمن الواجب عند الغنی والقدرۃ۔ امام ابوحنیفہ کا کہنا یہ ہے کہ جو امیر اور امام ریاست ہے، اگر اس کی حمایت کی طاقت اور قوت نہیں ہے تو گھر میں بیٹھ جائیں اور اگر قوت اور طاقت ہے تو اس کی حمایت کریں۔

ڈاکٹر علی اکبر الازہری

یہاں طالبان کے حوالے سے یہ بات کی گئی کہ ان کو کسی قدر ابہام ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ہماری اس مجلس میں اس واضح موقف کے بعد بھی یہ کہنے کی گنجائش ہے کہ بے گناہ مسلمانوں کا قتل کرنا اور عوامی مقامات پر خود کش حملے کرنا اور اس کے بعد اس کی ذمہ دار قبول کر لینا، یہ سب کام وہ کسی ابہام کی وجہ سے کر رہے ہیں۔ ابہام کوئی نہیں ہے، بڑی واضح بات ہے کہ وہ ایک کفریہ اور ناجائز عمل کر رہے ہیں۔ ہمیں اس پر متفق ہونا چاہیے اور کم از کم اس جیسے سنجیدہ فورم سے ہمیں اس طرح کی کسی بھی بات کی تائید نہیں کرنی چاہیے کہ خروج کی کوئی بھی شکل، حاکم چاہے جیسا بھی ہو، جائز ہو سکتی ہے۔ 
دوسری بات یہ کہ ہمارے نئے آنے والے دوست نے بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک نیا سوال سامنے رکھا ہے کہ کیا ہم خوارج کا حکم آج کے کسی گروہ پر لگا سکتے ہیں؟ کیونکہ خوارج نے تو خلیفہ راشد کے مقابلے خروج کیا تھا، لہٰذا اس کو ان کا بہت بڑا گناہ تصور گیا گیا، لیکن اس کے بعد چونکہ خلیفہ راشد نہیں ہے اور گناہ گار حکمران ہیں تو کیا ان کے مقابلے میں اٹھنے کا تقابل ہم خوارج کے خروج کے کر سکتے ہیں یا نہیں؟ یہ بڑا اہم سوال ہے۔ اس کی وضاحت میں، میں صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ابھی متعدد احادیث کا حوالہ دیا گیا ہے جن میں صحابہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کی وضاحت چاہی تو آپ نے فرمایا کہ بے شک وہ فاسق وفاجر ہوں، لیکن اگر وہ نماز پڑھتے ہوں تو پھر خروج جائز نہیں۔ کفر بواح کا بار بار اسی لیے تذکرہ ہو رہا ہے کہ حکمران کتنے ہی گناہ گار، بدعمل اور اسلام سے منحرف کیوں نہ ہوں، کفر بواح کے بغیر ان کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھایا جائے گا۔
میں نے اپنی ابتدائی گفتگو میں عرض کیا تھا کہ اس موضوع کا ہماری تاریخ سے بھی براہ راست تعلق ہے اور ہمیں تاریخ سے واقعات کو دیکھنا چاہیے۔ اس کے لیے تاریخ سے صرف دو واضح مثالیں دینا چاہوں گا۔ ایک دور قدیم سے اور ایک جدید دور سے۔ 
پہلے میں امام احمد بن حنبل کی بات کروں گا۔ آپ کو معلوم ہے کہ فتنہ خلق قرآن میں بنو عباس کی جو خلافت تھی، ان کے بڑے بڑے لوگ اس فتنے سے متاثر ہوئے اور معتزلی ہو گئے۔ اس وقت اہل سنت کے ائمہ کی قیادت بغداد میں امام احمد بن حنبل کر رہے تھے۔ ان کے پاس ائمہ آئے، فقہا اور محدثین آئے۔ امام بخاری اور مسلم ان کے تلامذہ میں سے ہیں تو ان کی اپنی شان کس قدر ہوگی۔ تو علما آئے اور انھوں نے کہا کہ ایک حد ہوتی ہے زیادتی کی۔ خلیفہ چونکہ بدعقیدہ ہو گیا ہے، اس کی فتنہ پروری کی وجہ سے ہم بعض چیزیں تو برداشت کرتے ہیں، بعض برداشت نہیں کر سکتے، لہٰذا آپ قیادت کریں اور ہم اس خلافت کے خلاف احتجاج کرتے ہیں یعنی خروج کرتے ہیں۔ وہاں امام احمد بن حنبل کے بڑے خوب صورت الفاظ ہیں۔ وہ ہمیں اپنے سامنے رکھنے چاہییں۔ آپ نے فرمایا کہ آپ لوگ مجھے اپنی قیادت کے لیے کہہ رہے ہیں کہ میں ا س حکومت کے خلاف احتجاج کروں یا جہاد کروں۔ آپ نے سبحان اللہ سبحان اللہ کے الفاظ کہے اور فرمایا کہ جو کچھ آپ حکومت کے خلاف احتجاج سے حاصل کرنا چاہتے ہیں، وہ اس سے بہت بدتر ہوگا۔ مسلمانوں کا خون گرے گا اور مسلمان مریں گے اور اس میں بے گناہ مسلمان بھی شامل ہوں گے اور جو اصلاح آپ چاہتے ہیں، اس کا دائرہ کم ہوگا اور جو بگاڑ ہوگا، اس کا دائرہ بہت بڑھ جائے گا۔لہٰذا آپ نے ان سب ائمہ کو، جن میں ظاہر ہے فقہا تھے، محدثین تھے، بڑ ے بڑے لوگ تھے، ان کو آپ نے منع کر دیا کہ یہ وقت گزر جائے گا او رہم بے گناہ مسلمانوں کے قتل میں شامل نہیں ہونا چاہتے۔ 
دوسری مثال میں ترکی سے دوں گا۔ یہ جو اس وقت ہمیں ترکی نظر آ رہا ہے، اس میں ترک قوم کا ایک revival دیکھ رہے ہیں۔ ان کی فارن پالیسی بدل رہی ہے، ان کے اسٹرکچر میں تبدیلی آ رہی ہے۔ ابھی ایک مہینہ پہلے مجھے ترکی میں جا کر بعض ادارے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ چونکہ ہماری زبان مختلف ہے اور زیادہ تر ہم اہل عرب کے حالات کو ہی جانتے ہیں، ترکی کے بارے میں زبان کی وجہ سے یا دوسرے اسباب کی وجہ سے ہم زیادہ نہیں جانتے۔ ترکی میں ایک مفکر دانش ور اور صوفی مجاہد ہوئے ہیں، سعیدنورسی۔ اس وقت جتنا بھی احیا کا کام ہو رہاہے، اس کی جڑیں اگر آپ تلاش کریں تو وہ انھی کی شخصیت میں آپ کو نظر آئیں گی۔ یہ علامہ اقبال کے ہم عصر ہیں اور بڑی ایمان افروز باتیں ان کے رسائل نور میں موجود ہیں۔ اگر آپ ان کا مطالعہ کریں تو اس وقت جن مسائل اور مصیبتوں کا ہم شکار ہیں، ان کا ذکر رسائل نور میں ملے گا۔ سعید نورسی نے اس وقت سیکولر ترکی کے علاج کے لیے جو لائحہ عمل سوچا، وہ ہمارے لیے بڑا ہی سبق آموز ہے۔
جب۱۹۲۴ء میں خلافت ختم کر دی گئی اور عثمانیوں کو دیس نکالا دے دیا گیا تو وہاں ایک سیکولر حکومت بن گئی۔ آپ کو پتہ ہے کہ مصطفی کمال اتاترک نے دھوکے سے ایک تو دار الخلافہ انقرہ سے استنبول منتقل کر دیا اور دوسرا لوگوں کو جہاد کے نام پر ساتھ ملا کر ایک نئی حکومت کا اعلان کیا اور اس کے فوراً بعد اس نے وہ کفر بواح کیا جس کا ہم بار بار ذکر کر رہے ہیں۔ ہمیں اپنی تاریخ میں کفر بواح کی جو چند مثالیں ملتی ہیں، ان میں مصطفی کمال اتاترک کے اقدامات سرفہرست ہیں۔ اس نے کلمہ طیبہ پر پابندی لگائی، نماز اور مسجدوں کو تالے لگا دیے، شعائر اسلام ڈاڑھی اور برقعہ پر اس نے حکماً پابندی لگائی اور باقاعدہ حکومتی طاقت سے ان فیصلوں کو نافذ کرواتا رہا۔ جو بھی اس کے مقابلے میں آتا تھا، اس کو وہ پھانسی دے دیتا تھا، عارضی عدالتیں اس نے بنائی ہوئی تھیں۔ بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ جس طرح کچھ لوگ جمع ہو کر امام احمد بن حنبل کے پاس گئے تھے اور انھوں نے ان لوگوں کو سمجھایا تھا اور لوگوں کو مسلح بغاوت سے باز رہنے کی تلقین کی تھی، اسی طرح مشرقی ترکی سے بعض علما سعید نورسی کے پاس گئے۔ ان میں زیادہ تعداد نقشبندی مشائخ کی تھی۔ سعید نورسی چونکہ ایک دانشور آدمی تھے اور مغربی فلسفہ، سائنس اور کلاسیکل علوم کے ماہر تھے اور ان کا ایک سوسائٹی پر اثر تھا، اس لیے علما سمجھتے تھے کہ اگر یہ شخص ہمارا ساتھ دے گا تو مصطفی کمال کی بے دینی کے خلاف ہماری جو مزاحمتی تحریک ہے، اس میں طاقت آ جائے گی۔ تو یہ لوگ وفد بنا کر نورسی کے پاس گئے۔ یہ ۱۹۲۴ء یا ۲۵ کی بات ہے۔ علما نے ان سے کہا کہ آپ ہماری سرپرستی کریں، چونکہ حکومت کی طرف سے اتنے واضح کفر کا ارتکاب ہو رہا ہے توہم احتجاجی تحریک شروع کرتے ہیں۔ نورسی صاحب نے زیادہ توقف کیے بغیر آنے والوں سے کہا کہ بات یہ ہے کہ تم جو بات کہہ رہے ہو، وج اپنی جگہ درست ہے، لیکن تم احتجاج کی اور مسلح بغاوت کی جو اسکیم بنا کر آئے ہو، یہ کتنا عرصہ جاری رہے گی؟ ایک سال، دو سال، تین سال؟ تمھارے پاس جتنے وسائل ہیں، وہ ختم ہو جائیں گے اور جیسے وہ باقی لوگوں کو پھانسیاں دے رہا ہے، اسی طرح تمھیں بھی پھانسی دے دے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خون خرابہ ہوگا اور مسلمانوں کا خون بہہ جائے گا۔ سعید نورسی نے کہا کہ میں آپ کے اس منصوبے کے ساتھ ہرگز متفق نہیں ہوں، حالانکہ سعید نورسی وہ آدمی ہے جس نے جنگ عظیم اول میں ترکوں کی باقاعدہ قیادت کی۔وہ کرنل کے عہدے پر فائز تھے اور روسیوں کے خلاف باقاعدہ لڑتے رہے۔ یہ باقاعدہ مجاہد اور عسکری میدان کے آدمی تھے، لیکن جب ترکی کے اندر مسلمانوں کی بغاوت کی بات ہوئی تو انھوں نے سختی سے اس سے منع کر دیا۔ 
اس کے بعد سعید نورسی نے ترکیوں کو ایجوکیٹ کرنے کے بارے میں ایک بالکل مختلف لائحہ عمل اختیار کیا۔ آپ کو پتہ ہے کہ ان کی زندگی کے دو حصے ہیں۔ ایک ۱۹۲۵ء سے پہلے کے سعید نورسی القدیم تھے اور ایک سعید نورسی الجدید تھے۔ اس کے بعد وہ گوشہ نشین ہو گئے اور ان کی زندگی کا زیادہ تر حصہ جیلوں میں اور تنہائیوں میں گزرا۔ درختوں پر بیٹھ کر اور جیلوں میں بیٹھ کر انھوں نے قوم کی راہنمائی کے لیے رسائل لکھنے شروع کیے۔ یہ رسائل بہت قیمتی لٹریچر کی حیثیت رکھتے ہیں اور اب نو دس جلدوں میں چھپ گئے ہیں۔ وہ دانش ور تھا، ذہین آدمی تھا، اللہ تعالیٰ نے اس سے یہ کام لینا تھا۔ اس نے اس عرصے میں علمی طریقہ پر دلائل سے سیکولرازم کا مقابلہ کیا، قرآن پر جو مغربی اعتراضات تھے، ان کا جواب دیا، انھوں نے عقلیت پسندی کو رد کیا، ایمان کو دلوں میں راسخ کیا۔ وہ اکیلا آدمی تھا اور بتایا جاتا ہے انھوں نے پورے ترکی میں جو رسائل لکھے، ان کی تعداد سات لاکھ تھی۔ ان کے رسائل لکھنے کا مطلب یہ تھاکہ جس آدمی کے پاس وہ خط جاتا تھا، اگر خط پکڑا جاتا تھا تو وہ سیدھا پھانسی گھاٹ پہنچ جاتا تھا۔ مصطفی کمال کے کارندے اس کو پھانسی چڑھا دیتے تھے۔ 
ترکی میں اگر اس وقت مسلح جدوجہد ہو جاتی اور نورسی اپنا کام نہ کرتے جس کے مثبت نتائج اب نکل رہے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ اتنا بڑا احیا وہاں نہ آتا۔ یہ ان کی دانش اور ان کی تحمل مزاجی تھی۔ انھوں نے دیکھاکہ نوجوان جوش وخروش میں آکر لڑیں گے، مریں گے، خون خرابہ ہوگا، دو تین سال کے بعد یہ بات نسیا منسیا ہو جائے گی۔ اگر وہ اس وقت جوش میںآ کر ہتھیار اٹھا لیتے اور لوگوں کو موبلائز کرتے تو بظاہر ایک بڑا آسان طریقہ تھا اور ان کے سامنے جواز بھی موجود تھا، لیکن آپ دیکھیں کہ انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر سعید نورسی ان لوگوں کے ساتھ شامل ہو جاتے تو اس وقت ترکی میں جو احیائی عمل ہو رہا ہے، وہ شاید نہ ہو سکتا۔ وہاں اب تعلیم کے ادارے کھل رہے ہیں، فوج اور صحافت سے سیکولر عنصر نکل رہا ہے، یعنی خود بخود ایک طہارت کا عمل ہے جو قدرت وہاں ترکی مسلمانوں سے کر وا رہی ہے اور وہ اپنی اصل کی طرف لوٹ رہے ہیں اور قدرت انھیں مسلمانوں کی قیادت کے لیے تیار کر رہی ہے۔ ابھی گزشتہ انتخابات میں طیب اردگان بھاری اکثریت کے ساتھ تیسری مرتبہ جیت گیا ہے۔ یہ ایران کے انقلاب سے بڑا انقلاب ہے،لیکن ان لوگوں کی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے اس کو کیش کروانے کے لیے نہ شور کیا ہے، نہ ہڑتال کی ہے، نہ نعرے لگائے ہیں اور نہ بڑے بڑ ے جلسے کیے ہیں۔ جو لوگ ان کاوشوں میں شامل ہیں، وہ بھی خاموشی سے کام کر رہے ہیں، اور جو فرنٹ پر ہیں، وہ بھی خاموشی سے کام کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ خرابی ہے کہ ہم نعرے بہت لگاتے ہیں، کام نہیں کرتے۔ وہ کام ہی کام کرتے ہیں، نعرہ نہیں لگاتے۔
ہمارے ہاں ایک عام نقطہ نظر اب پھیل رہا ہے کہ اسلام کی ترویج کے لیے اور کلمہ طیبہ کے احقاق کے لیے ہم تلواریں، کلاشنکوفیں اور بمبار ی کر کے ہی کوئی خدمت کر سکتے ہیں، حالانکہ جیسا کہ آپ نے فرمایا، خروج کے اور بے شمار طریقے ہیں۔ ایجی ٹیشن ہے، دھرنے ہیں، صحافت اب آزاد ہے، جمہوری ادارے ہیں، پہلے بادشاہتیں تھیں، اب بادشاہتیں نہیں ہیں۔ اب ادارے ہیں۔ تو قوم کے لیے یہ راہ نمائی کم سے کم ہماری طرف سے ہرگز نہیں جانی چاہیے کہ کسی بھی صورت میں مسلح خروج کی کوئی بھی شکل جائز ہے، خواہ حکمران کیسے ہی کیوں نہ ہوں۔ 
دور زوال میں، خلافت عثمانیہ کے ختم ہونے کے بعد مسلمانوں میں جو مزاحمتی تحریکیں اٹھتی رہی ہیں، یہ دو طرح کی تھیں۔ ہمیں ان کا تجزیہ کرنا چاہیے اوران پر بڑا غور وخوض کرنا چاہیے۔ ایک مزاحمتی تحریکیں وہ ہیں جو خلیج میں ہوئیں۔ انگریز نے عرب نیشنل ازم کا ایک نعرہ دیا عربوں کو جس کی وجہ سے عثمانی خلافت کے خلاف مزاحمت اور خروج ہوا اور خاص طور پر حجاز میں ہوا ہے۔ اس کے علاوہ جتنے بھی جہاد ہوتے رہے ہیں، لیبیا میں، الجزائر میں، مصر میں، تیونس میں، خو د پاکستان میں، وہ جہادی تحریکیں تھیں۔ یہ جہادی تحریکیں استعمار کے خلاف ہیں۔ ان دونوں قسموں میں ہم بعض اوقات فرق نہیں کرتے اور ان کو خلط ملط کر دیتے ہیں۔ پچھلے پچاس، سو سال میں ان تحریکوں کا جو نقد نتیجہ ہم اس وقت دیکھتے ہیں، جتنی بھی ہماری جہادی کاوشیں مسلم ممالک کے اندر ہوئی ہیں، ان کا نتیجہ سوائے خون خرابے کے ہمارے سامنے کوئی بھی نہیں ہے۔ آئندہ بھی اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا سوائے فتنہ پروری اور خون خرابے کے۔ اصل میں اسلام کو جو مطلوب ہے، وہ معاشرے کا تحفظ ہے، اہل اسلام اور اہل ایمان کے خون کا تحفظ اور معاشرتی امن زیاد ہ مطلوب ہے۔ باقی پرامن احتجاج کی بے شمار صورتیں ہیں جنھیں اختیار کیا جا سکتا ہے۔ اب تو میڈیا ہے، جمہوریت ہے، بے شمار چیزیں ہیں جو مقصد کے حصول میں معاون ہو سکتی ہیں۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز

ڈاکٹر علی اکبر صاحب کی طرف سے بڑے اچھے نکات سامنے آ گئے۔ مثلاً انھوں نے ایک قابل مطالعہ موضوع کی نشان دہی کی کہ ہماری جو مسلح تحریکات ہیں، ان تحریکات سے جو نتائج مرتب ہونے چاہیے تھے، وہ کیوں مرتب نہیں ہوئے؟ اس کا جائزہ لینا چاہیے۔ مثال کے طو رپر ۱۸۲۳ء، ۱۸۲۶ء میں ایک بہت ہی پرخلوص تحریک سید احمد شہید اور سید اسماعیل شہید نے اٹھائی، لیکن ہم نے دیکھا کہ خیبر پختون خواہ کے علاقے میں، جو پشتونوں کا علاقہ تھا اور بے انتہا دین کے ساتھ محبت کرنے والے لوگ تھے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ان کا انجام بہت ہی افسوس ناک ہوا۔ یا مثلاً ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی تھی جس میں دین دار طبقہ بھی شامل تھا، ہندو بھی شامل تھے، مسلمانوں کے دین دار طبقے کی قیادت تھی، لیکن وہ وجوہات کیا تھیں کہ جو نتیجہ مرتب ہونا چاہیے تھا، وہ مرتب نہیں ہوا۔ اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ دین دار طبقے نے ایک بڑی تحریک شروع کی جس کو ہم یاغستانی جہاد کہتے ہیں۔ پورا قبائلی علاقہ کوہ سیاہ سے لے کر وزیر ستان تک، یہ انگریزی استعمار کے خلاف برسرپیکار تھا۔ پھر اس کے نتیجے میں ریشمی رومال کی تحریک چلی جس میں یہ کوشش یہ کی گئی کہ ترکی کی حکومت، افغانستان کی حکومت اور سعودی عر ب کی مدد سے، جو اس وقت عربوں کا علاقہ تھا حجاز کا، انگریز کو برصغیر سے نکال جائے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ وہ بھی ناکام ہوئی۔ پھر ۱۹۱۹ء اور ۱۹۲۰ء میں علما پرامن تحریکات کی طرف آئے اور پھر حالات نے ایسی صورت اختیار کر لی کہ دو عالمی جنگوں کے بعد انگریز کی گرفت کمزور ہونے لگے اور انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنے استعماری مقبوضات سے دستبردار ہوا جائے اور محکوم قوموں کو آزادی دے دی جائے۔ تو یہ تمام حالات وواقعات ایسے کہ جن کا ہمیں سنجیدہ تجزیاتی مطالعہ کرنا ہوگا۔
اس کے ساتھ دو موضوعات ہیں جو میں سمجھتا ہوں کہ ہم آئندہ مباحث میں شامل کر سکتے ہیں۔ ہم نے پشاور یونیورسٹی میں ایک طالب علم کو کام دیا ہے کہ وہ ’’عصر حاضر میں استبدال اقتدار کے ممکنہ شرعی طرق‘‘ کے عنوان پر تحقیقی مقالہ لکھے۔ اس میں یہی نکتہ زیر بحث ہوگا کہ شرعی طریقوں سے regime change کی نئی صورتیں جدید دور میں کیا ہو سکتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس میں ہم نے احتجاج، انذار اور امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے جو پرانے اصول ہیں، ان کو جدید دور میں منطبق کرنا ہے۔ تو اس کو ہم آئندہ آنے والے کسی مذاکرے کاموضوع بناسکتے ہیں۔
ایک دوسرا موضوع ہے جو اب علماء کرام کے درمیان زیر بحث آنا چاہیے۔ہماری فقہ میں ایک اصطلاح ہے حرابہ۔ قدیم دور میں حرابہ کے دائرے میں قطاع الطریق والے، السرقۃ الکبریٰ والے مجرموں کو شمار کیا جاتا تھا۔ فقہا نے ہماری توجہ اس طرف مبذول کروائی ہے۔ جدید دور میں حرابہ کرائمز کیا ہو سکتے ہیں؟ میرے خیال میںآئندہ آنے والے پروگراموں میں یہ موضوع بھی علما کے سامنے رکھا جا سکتا ہے، کیونکہ اس موضوع پربھی ابھی تک کوئی ٹھوس علمی کام سامنے نہیں آیا۔ اگر اس بارے میں بھی ہم تحقیق کا عمل آگے بڑھانے کی کوشش کریں تو یہ ایک بڑی علمی خدمت ہوگی۔

ڈاکٹر اعجاز صمدانی 

زاہد صدیق صاحب نے بڑی اچھی گفتگو فرمائی اور فورم کے سامنے ایک سوال رکھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس پر غور کر لینا چاہیے۔ ان کی بات کا مطلب جو میں سمجھا ہوں، وہ یہ ہے کہ خروج کا تصور یہ ہے کہ خلافت کا پہلے ایک تصور ہو، پھر اس کی اطاعت سے نکلا جائے تو اس کو خروج کہتے ہیں۔ اگر ریاست پہلے سے ہی اسلامی ریاست نہیں ہے تو اگر کوئی اس کی اطاعت سے نکل رہا ہے تو اس کو خروج نہیں سکتے۔

مولانا محمد سلفی

دوسرے لفظوں میں آپ اس سوال کو یوں بھی بیان کر سکتے ہیں کہ کیا خلافت اسلامیہ کے خلاف جانا خروج ہے یا خلافۃ المسلمین کے خلاف جانا بھی خروج ہے؟ کہنے کو تو یہ چھوٹی سی بات ہے، لیکن یہ بہت بڑا فرق ہے۔ اس کی وضاحت ہونی چاہیے۔

زاہد صدیق مغل

شاید صحیح طرح سے میری بات کی وضاحت نہیں ہو سکی۔ خلافت کے نظام کی اصل روح یہ ہے کہ فیصلے کرنے کا، فیصلوں کے صدور اور ان کے نفاذ کاجو عمل ہے، وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکام کی بنیاد پر ہو اور جو ادارے ہیں، وہ اس بنیاد پر کام کریں۔ اب خلافت کے بہت سے درجات ہیں۔ ایک وہ ہے جس کو ہم خلافت راشدہ کہتے ہیں۔ خلفاے راشدین کے بعد بھی اموی یا عباسی خلافتیں تھیں۔ آپ انھیں سلطنت کہہ لیں یا امارت کہہ لیں۔ یہ اصطلاح کا اختلاف ہے۔ ایک امارت عادلہ ہوتی ہے کہ حاکم بہت نیک ہے اور بہت اچھے طریقے سے چلا رہا ہے، لیکن وہ تقوے کے اس معیار پر نہیں ہے جس پر خلفاے راشدین تھے۔ چونکہ ان سے کم تر معیار کا ہے، لہٰذا خلیفہ عادل کہلائے گا۔ اس کے بعد خلیفہ جابر آئے گاکہ جو نظام کے اندر معمولی نوعیت کی خرابیاں پیدا کرتا ہے۔ اس کے بعد ایک درجہ وہ آ جاتا ہے کہ خلیفہ بالکل گمراہ ہے جس کو خلافت ضالہ کہتے ہیں اور اس کے بعد ایک امارت کفریہ آ جاتی ہے۔ تو ہماری کلاسیکی فقہ میں خروج کی جو اصطلاح ہے، وہ خلافت عادلہ یا خلافت ضالہ کے تناظرمیں ہوتی ہے۔ ایسا خلیفہ ، ایسی خلافت جو گمراہ ہے اور حاکم کافسق وفجور بہت بڑھا ہوا ہے، اس کی اطاعت سے نکلنے کو خروج کہتے ہیں۔ میرے خیال میں وہ تمام احادیث جن میں خلفا کے خلاف خروج سے منع کیا گیا ہے، ان کا تعلق یا توخلیفہ عادل کے ساتھ ہے یا خلیفہ جابر کے ساتھ۔ کفریہ ریاست کے تناظر میں خروج کی نہیں، بلکہ جہاد کی بحث ہوتی ہے۔

ڈاکٹر اعجاز صمدانی 

خروج ایسا لفظ نہیں ہے کہ اس کو ایک خاص حد تک محدود رکھا جائے۔ خلفاے راشدین کے بعد بھی اگر کوئی خروج کر رہا ہے تو اس کو بھی خروج کہا گیا ہے۔ ابھی میں فتح الباری کی عبارت کا ایک حصہ پڑھ رہا تھا۔اس میں یہ ہے کہ: وقد اجمع الفقہاء علی وجوب طاعۃ السلطان المتغلب والجہاد معہ، وان طاعتہ خیر من الخروج علیہ۔ تویہ عبارت مفہوم کو کافی حد تک واضح کرتی ہے کہ اگر ایک سلطان ہے اور ہے بھی متغلب، خود بن کر بیٹھ گیا ہے جس کو ہم جبری حکومت کہتے ہیں، تو اس طرح کا کوئی آدمی اگر حکمران بن کر بیٹھ جاتا ہے تو ا س کے بارے میں تمام فقہا کا اجماع ہے کہ اس کی اطاعت کر لی جائے، یہ اس کے خلاف خروج کرنے سے بہتر ہے۔ تو فقہا اور شراح حدیث کے کلام سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ خروج کا لفظ کافی عام ہے اور اس کے اندر بہت زیادہ وسعت ہے۔ جیسے آپ نے ابھی ایک عنوان بتایا استبدال اقتدار کا۔ استبدال اقتدار کے لیے جدوجہد کرنا کہ موجودہ حکومت کی جگہ ہم اسلامی طرز کی حکومت لانے کی کوشش کریں، یہی خروج ہے۔ لا مشاحۃ فی الاصطلاح، ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ اس کے لیے خروج کا لفظ نہ کریں، کوئی اور کریں۔ اگر کر لیا جائے تو اسے لفظ کے عمومی مفہوم کے خلاف کہنا مشکل ہوگا۔

زاہد صدیق مغل

میں بالکل ان کی بات سے اختلاف نہیں کر رہا کہ خروج چاہے خلیفہ راشد کے خلاف کیا جائے یا خلافت ضالہ کے خلاف کیا جائے، اس پر خروج کی اصطلاح لاگو ہوتی ہے۔ بحث صرف یہ ہے کہ جائز خروج کون سا ہے اور ناجائز کون سا؟ یہ ایک الگ بحث ہے۔ میرا پوائنٹ یہ ہے کہ خروج کی جو بحث ہے، وہ اسلامی ریاست کے تناظر میں ہوتی ہے۔ جب اسلامی ریاست ہی نہ ہو تو پھر خروج کی بحث اٹھانا قبل از وقت ہے۔ اس میں پھر جہاد کی بحث متعلق ہوتی ہے نہ کہ خروج کی۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز

اس بحث سے جو نکتہ سامنے آ رہا ہے، وہ یہ ہے کہ اب لفظ خروج جو ہمارا فقہی لفظ ہے، جدید تناظر میں اس میں مزید تعبیرات کی گنجائش بن گئی ہے کہ جدید سیاسی اصطلاحات میں اس کے لیے کیا لفظ استعمال کیا جائے؟ اب ہم دور جدید میں خروج کے لیے جو اصطلاح استعمال کر سکتے ہیں، وہ ہے collective rejection of state authority۔ اگر لوگ اجتماعی انداز میں ریاست کی رٹ کو چیلنج کریں تو اس کو خروج کہا جا سکتا ہے۔
قدیم زمانے میں جو حالات تھے، اس زمانے میں جس طریقے سے استبدال اقتدار کی کوششیں ہوتی تھیں، اس کے لیے لفظ خروج عموماً حکومت کی طرف سے استعمال کیا جاتا تھا کہ یہ لوگ خروج کر چکے ہیں اور باغی ہیں، ان پر سزا کا نفاذ ہونا چاہیے۔ یہ سرکاری لفظ ہوا کرتا تھا۔ لیکن جو خروج کرنے والے لوگ تھے، وہ اس کو خروج نہیں سمجھتے تھے۔ وہ اس کو سلطان جائر کے خلاف ایک جہاد سمجھتے تھے۔ تو سرکا ر کے لیے وہ خروج ہوتا تھا جو ایک قابل سزا جرم ہے، لیکن استبدال اقتدار کی مساعی کرنے والے لوگوں کے لیے یہ جہاد تھا۔ مثلاً اس وقت صومالیہ میں جس جماعت کی حکومت ہے، اس کا نام ہے عدالت اسلامی، اور یہ وہ لوگ ہیں جو صومالیہ میں اسلامی تحریک کا ہراول دستہ رہے ہیں۔ انھوں نے بڑی جدوجہد کی جس کے نتیجے میں ان کی حکومت آئی، لیکن ان کے خلاف جو اب collective rejection of authority ہے، وہ شباب اسلامی کے لوگ ہیں جو اسی تحریک کاایک حصہ رہے ہیں۔ اب عدالت اسلامی کے لوگ ان کو خروج کا مرتکب قرار دہے ہیں جبکہ شباب اسلامی کے لوگ اپنی کوششوں کو جہاد قرار دے رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک قضیہ بن گیا ہے اور اس میں ہماری راہنمائی علماء کرام ہی کریں گے۔

مفتی محمد ابراہیم قادری

ریاست چاہے اسلامی ہو یعنی اس میں اسلامی نظام نافذ ہو، یا وہ ریاست مسلم ریاست ہو جہاں مسلمان رہتے ہیں اور اس کے حکمران مسلمان ہوں، جیسے بھی مسلمان ہوں، کسی بھی ریاست میں رہنے والا باشندہ اس ریاست میں رہ کر اس کا شہری بن کر اس کا عملاً اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ میں اس کی رٹ کو اور اس کی اتھارٹی کو، اس کی تولیت کو تسلیم کروں گا۔ دنیا میں جتنی ریاستیں قائم ہیں، ان میں رہنے والے جتنے باشندے ہیں، ان پر یہ لازم ہوتا ہے۔ کتب فقہ میں ہدایہ ہمارے ہاں معتبر کتاب ہے۔اس میں یہاں تک لکھا ہے کہ اگر کوئی مسلمان ویزا لے کر دار الحرب میں جاتا ہے، مثلاً اسرائیل میں جاتا ہے تو اس پر حرام ہے کہ وہ وہاں کے باشندوں کے جان ومال کو نقصان پہنچائے، کیونکہ ویزا لے کر جانے کے معنی یہ ہیں کہ آپ امان لے کر کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں اور اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ اس ملک کے لوگوں او راموال کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ جب ایک مسلمان دار الحرب میں امان لے کر جائے تو وہ عہد شکنی نہیں کر سکتا اور وہ درحقیقت وہ معاہد ہوتا ہے تو جو مسلمان ریاست میں رہے، پلے بڑھے، یہاں اس کا استحقاق ہو، یہاں اس کی تعلیم ہو، جینا مرنا ہو، اس کی نوکری یہاں ہو، اس کو فوائد اس مملکت سے حاصل ہوں تو یقیناًاس کا معاہدہ اس ریاست کے ساتھ ہوتا ہے، خواہ اس کے حاکم اور اہل اقتدار فاسق ہوں یا فاجر ہوں، وہ اس بات کا پابند ہے کہ ریاست کی رٹ کو اور ریاست کی اتھارٹی کو تسلیم کرے۔
رہا یہ معاملہ کہ وہ امرا جو ہم پر مسلط ہیں، اگر وہ فاسق وفاجر ہیں تو کیا ان کے مظالم کو اور فسق وفجور کو قبول کیا جائے، کیا خاموش رہا جائے تو ایسا تو نہیں ہے کہ خاموش رہا جائے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ من رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ ..... وذالک اضعف الایمان۔ اور فرمایا کہ افضل الجہاد کلمۃ حق عند سلطان جائر۔ تو ایک ہے احتجاج اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانا، یہ جائز ہے اور ایک ہے مسلح جدوجہد کے ذریعے حکومت کو گرانا۔ یہ ایک الگ معاملہ ہے، یہ جائز ہے یا نہیں ہے اوریہ خروج ہے یا نہیں ہے؟ تو یہ یقیناً خروج ہے۔ خروج کی تعریف صرف یہ نہیں ہے کہ خلافت حقہ راشدہ اور خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے خلاف ہتھیار اٹھانا بغاوت ہے۔ نہیں، عوام نے جن لوگوں کو منتخب کیا اور انھیں اپنا حاکم تسلیم کر لیا، ان کے خلاف بھی بغاوت کرنا او رمسلح جدوجہد کرنا یہ خروج ہے اور ہمارے ائمہ نے اسے خروج ہی کا نام دیا ہے۔ چنانچہ دیکھیں، میرے سامنے شرح العقیدۃ الطحاویہ پڑی ہے۔ اس میں متن کے الفاظ یہ ہیں: لا نر ی الخروج علی ائمتنا و ولاۃ امورنا۔اب علامہ طحاوی کے دور میں کوئی خلافت راشدہ تھی کیا؟ وہ اپنے زمانے کے ائمہ کی بات کر رہے ہیں کہ اپنے زمانے کے ائمہ اور ولاۃ امور اور ہمارے امرا او رارباب اقتدار کے خلاف خروج کو ہم جائز نہیں سمجھتے۔ شاید وہ نیک ائمہ کی بات کر رہے ہوں۔ فرمایا: وان جاروا۔ اگرچہ وہ حکومت، حکومت ظالمہ کیوں نہ ہو۔ ولا ندعو علیہم۔ ہم ان پر لعن طعن بھی نہیں کریں گے کہ فلاں پر لعنت اور ہم ان کے لیے بد دعا بھی نہیں کریں گے۔ ولا ننزع یدا عن طاعتہم۔ بس یہ جو طاعت سے ہاتھ کھینچنا ہے، اسی کو بغاوت اور خروج کہتے ہیں جس کو آپ نے اتھارٹی تسلیم نہ کرنے کا نام دیا ہے۔ فرمایا، یہ بھی ہم جائز نہیں سمجھتے۔ ونری طاعتہم من طاعۃ اللہ عز وجل فریضۃ۔ ہم ان کی اطاعت کو اللہ عز وجل کی اطاعت سمجھتے ہیں، فریضہ سمجھتے ہیں۔ ما لم یامروا بمعصیۃ۔ جب تک کہ وہ معصیت کا حکم نہ کرے۔ ندعوا لہم بالصلاح والمعافاۃ۔ ہم ان کے لیے صلاح اور معافاۃ کی دعا کریں گے۔ تو اگر ائمہ، ائمہ جائرین ہیں او روہ معصیت کا حکم دیتے ہیں تو لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق۔ ہم جائز طریقے سے احتجاج کر سکتے ہیں، لیکن خروج جائز نہیں ہے۔

ڈاکٹر اعجاز صمدانی

یہ بات ایک حدیث سے ثابت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ لا تشغلوا قلوبکم بسب الملوک، کہ اپنے دلوں کو بادشاہوں کی گالیوں سے مت بھرو، جیسے آج کل ہمارے ہاں کیا جاتاہے۔ ولکن تقربوا الی اللہ تعالی بالدعاء لہم، بلکہ تم ان کے لیے دعا کر کے اللہ کی قربت اختیار کرو۔ نتیجہ یہ نکلے گاکہ یعطف اللہ قلوبہم علیکم، اللہ ان کے دلوں کو تم پرنرم کر دیں گے۔ ہمارے ہاں ایک عام فیشن سا ہو گیا ہے کہ ہم نے اس کو گالی بنانا ہے۔ یہ جو کلچر ہے، اس سے بہتری نہیں ہوتی، مزید ظلمت پیدا ہوتی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ مثبت نکات کو سوچا جائے، دعا کی جائے، اپنی خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہ طریقہ زیادہ مفید ہے۔

مولانا محمد سلفی

آپ نے امراء ظالمین کے لیے دعا کا جو ذکر کیا ہے، اس کے بارے میں امام احمد بن حنبل کا یہ قول ہے کہ اگر مجھے پتہ ہو کہ اللہ رب العزت میری کون سی دعا قبول فرمالیں گے تو میں اپنے ائمہ سلطنت کے لیے اس دعا کو مخصوص کر دوں کہ مولا، تو ان کو سیدھا چلا دے۔ اس لیے کہ رہبر کے سیدھا چلنے میں امت کی بھلائی ہے اور رہبر کے ٹیڑھا ہونے میں امت کی ہلاکت ہے۔

محمد ضیاء الحق 

یہاں خروج کی بات ہو رہی ہے اور ہم طالبان کے خلاف بولنے سے بڑا گریز کر رہے ہیں۔ ایک تو ہم انھیں خوارج کے ساتھ تشبیہ دے رہے ہیں، گویا یہ بڑے پارسا لوگ ہیں کہ ہم ان کو تابعی کا درجہ دے رہے ہیں۔ ہم طرح طرح کے طریقوں اور بہانوں سے طالبان کو چھوٹ دے رہے ہیں اور ان کے لیے آسانیاں پیدا کر رہے ہیں۔ تو یہ کب تک یہ چلے گا؟ ٹھیک ہے کہ فوج ظالم ہوگی، پولیس ظالم ہوگی، لیکن ڈاکٹر سرفراز نعیمی بھی ظالم ہو گئے؟ کل کراچی میں ایس ایس پی کے گھر پر حملہ ہوا تو ایک خاتون بھی اس کا شکار ہو گئی جو اپنے چھوٹے بچے کو اسکول چھوڑنے جا رہی تھی، کیا وہ بھی ظالم ہو گئی؟ سوال یہ ہے کہ کب تک ہم ان کو قالین کے نیچے چھپائیں گے؟
دوسری بات یہ کہ سلفی صاحب نے فرمایا کہ یہاں کسی کو مفتی اعظم بنایا جائے۔ صورت حال یہ ہے کہ آٹھ نو مہینے قبل خانہ کعبہ کے امام نے ایک فتویٰ جاری کیا کہ ہیلو کہنا حرام ہے، کیونکہ ہیلو جہنم کو کہتے ہیں۔ جب ہم نے اس کی تحقیق کی تو ایسا نہیں تھا۔ ہم نے انگریزی کی ساری ڈکشنریوں کو چیک کیا، نہ تو وہ سپیلنگ تھے اور نہ جہنم اس کا مطلب بنتا تھا۔ ہم نے جامعہ نعیمیہ کی طرف سے فتویٰ دیا کہ خانہ کعبہ کے مفتی اعظم تھوڑا سا غور وفکر کریں۔ ہمارا جواب ٹھیک تھا،لیکن دوسری طرف سے چھوٹے چھوٹے بیانات آنا شروع ہو گئے کہ خانہ کعبہ کے امام کے خلاف بولا جا رہا ہے۔ جب ہمارے مرکز ہی ٹھیک نہیں ہوں گے اور خانہ کعبہ کے مفتی اعظم بھی ہیلو کے اوپر اس طرح کے فتوے دیں گے تو یہ کب تک چلے گا؟ اس پر علماء کرام کیا فرماتے ہیں؟

مولانا اعجاز صمدانی

میں نے یہ گزارش کی تھی کہ طالبان کے بارے میں گفتگو شاید ہمارے موضوع سے براہ راست متعلق نہیں ہے، اس لیے اس پر زیادہ گفتگو کرنا شاید زیادہ مفید بھی نہیں ہوگا۔ دوسری بات یہ کہ یہ جو واقعات پیش آ رہے ہیں، ہم تو ان کی تائید نہیں کر رہے۔ اس کو غلط کہتے ہیں۔ طالبان کے معاملے کو اور ان کی پوری صورت حال کو ہم نے ڈسکس بھی نہیں کیا۔ خاص طور پر افغانستان کے طالبان کو کو خروج کے زمرے میں لانا اس لیے بھی مناسب نہیں ہوگا کہ پہلے ان کی ایک حکومت قائم ہو چکی تھی۔ پھر امریکہ نے حملہ کیا۔ اس کے نتیجے میں وہ حکومت ٹوٹی۔ اب وہ لوگ اپنی حکومت دوبارہ حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ہاں اگر پاکستان کے طالبان مرادہیں تو ان کی حمایت ہمارے ہاں سے بالکل نہیں ہو رہی۔ یہ بات بالکل واضح ہے۔ پاکستان میں جو طالبان کے نام سے لوگ کام کر رہے ہیں، اس میں سب سے پہلا doubt تو یہ ہے کہ کیا یہ واقعتا طالبان وہ ہیں جن کا ان سے تعلق ہے؟ یہ بہت بڑا doubt ہے کہ یہ کون لوگ ہیں۔ہمیں ان کے بارے میں معلوم نہیں ہے کہ یہ کون لوگ ہیں۔ دوسری بات یہ کہ جو کچھ یہ لوگ کر رہے ہیں، اس کی ہم ہرگز تائید نہیں کرتے، مذمت کرتے ہیں۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز

جہاں تک قاتلانہ حملوں، اداروں اور رینجرز پر حملوں کی کارروائیوں کا تعلق ہے، اس کی تو کوئی بھی حمایت نہیں کرتا۔ جہاں تک اس بات کا تعین کرنا ہے کہ یہ کون کر رہا ہے یا کرا رہا ہے تو ظاہر ہے کہ اس کا ہمیں علم نہیں ہے۔

مفتی محمد ابراہیم قادری

مفتی اعظم سعودی عرب کی بات کی گئی تو میں یہ کہوں گا کہ یہ سوال میرے پاس بھی آیا تھا اور ایک معروف عالم دین ہیں، انھوں نے مجھ سے فون پر کہا کہ مفتی اعظم سعودی عرب کا فتویٰ آیا ہے کہ ہیلو کہنا حرام ہے، کیونکہ ہیلو جہنم کو کہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس کے خلاف ہم لکھ رہے ہیں اور اخبار میں اس کی خبردینا چاہتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ آپ کا نام بھی دے دیں۔ میں نے کہا کہ میرا نام آپ نہ دیں۔ انھوں نے کہا کہ وجہ؟ میں نے کہا کہ جب تک مجھے معلوم نہ ہو کہ مفتی اعظم سعودی عرب نے یہ فتویٰ دیا ہے، میں کوئی راے زنی نہیں کر سکتا۔ مجھے پتہ ہی نہیں تو میں کیسے کہہ سکتا ہوں؟ اس کے بعد مجھے یہ معلوم ہوا کہ یہ بات ہی غلط ہے اور یہاں کے اخبارات نے خواہ مخواہ کا ایک شوشہ چھوڑا ہے۔ ابھی مولانا محمد سلفی صاحب نے بھی مجھے بتایا کہ یہ سب جھوٹ ہے، ایسا کوئی فتویٰ نہیں دیا گیا۔

محمد عمار خان ناصر

یہاں مختلف حوالوں سے یہ بات ہوئی کہ ائمہ کے خلاف خروج کو، چاہے وہ جائر ہوں، فاسق ہوں، فاجر ہوں، ہمارے سلف کس زاویے سے دیکھتے تھے۔ اس پر واقعات کی روشنی میں اور حوالہ جات کی مدد سے بات ہوئی۔ اس کا ایک ایک پہلو بھی بڑا اہم ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس کو بھی سامنے آ جانا چاہیے کہ سلف اس معاملے کو کیسے دیکھتے ہیں۔ امام طحاوی کی جو عبارت مفتی محمد ابراہیم صاحب نے پڑھی، اس کی شرح کرتے ہوئے عقیدہ طحاویہ کے شارح قاضی علی بن علی بن محمد بن ابی العز الدمشقی نے اس کے وجوہ واضح کیے ہیں کہ کیوں یہ درست نہیں ہے کہ ائمہ جابر، ظالم، فاسق، فاجر ہوں تو پھر بھی ان کی اطاعت ہی لازم ہے۔ ایک تو انھوں نے وہی بات بیان کی جو سب حضرات بیان کر رہے ہیں کہ یترتب علی الخروج عن طاعتہم من المفاسد اضعاف ما یحصل من جورہم۔ ان کے ظلم اور جبر سے جو مفاسد پیدا ہو رہے ہیں، ان کی اطاعت سے دست کش ہونے کی صورت میں اس سے کئی گنا زیادہ مفاسد سامنے آئیں گے۔ دوسری بات وہ یہ کہتے ہیں کہ ان کے ظلم پر صبر کرنے سے ہمارے گناہ معاف ہوں گے اور ہمارا اجر بڑھے گا۔ مزید فرماتے ہیں کہ ان اللہ تعالی ما سلطہم علینا الا لفساد اعمالنا، اللہ نے جابر اور فاسق حکمران جو ہم پر مسلط کیے ہیں تو ہمارے ہی اعمال کے فساد کی وجہ سے کیے ہیں۔ والجزاء من جنس العمل۔ہمیں توجہ اس پر دینی چاہیے کہ ہم حکمرانوں کے ظلم وجبرسے خلاصی پانے کے لیے خود اپنے باہمی معاملات میں ظلم اور نا انصافی کو چھوڑ دیں۔ علینا الاجتہاد والاستغفار والتوبۃ واصلاح العمل فاذا اراد الرعیۃ ان یتخلصوا من ظلم الظالم فلیترکوا الظالم۔ تو اس معاملے کا یہ پہلو بھی بڑا اہم ہے۔ یہی بات بعض روایتوں میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ایک قول میں منقول ہے۔ ان سے کسی نے پوچھاکہ ہمیں اس طرح کے حکمران میسر نہیں جس طرح کے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر تھے۔ تو حضرت علی نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی رعیت ہم لوگ تھے اور ہماری رعیت تم لوگ ہو۔ تو یہ بھی اس کا ایک اہم پہلو ہے کہ سلف اس صورت حال کو یک رخے انداز میں صرف حکمرانوں کے بگاڑ کے حوالے سے نہیں دیکھتے، بلکہ پورے معاشرے کی جو صورت حال ہے، اس کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز

بہت خوب صورت محفل ہو رہی ہے اور ہمیں بہت علمی فائدہ بھی ہو رہا ہے، لیکن اچھی بات یہ ہوگی کہ ان محفلوں کو ہم تشنہ ہی رکھیں تاکہ آئندہ دوبارہ ملنے کی ایک طلب ہو اور تحقیق کی اور غور وفکر کی طلب اور آئندہ دوبارہ مل کر تبادلہ خیال کی طلب بیدا ررہے۔

مولانا عبدالحق ہاشمی

ہمیں اس بحث کے اندر نسبتاً توازن کو برقرار رکھنے کے لیے جس طرح توجہ کرنے کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ جب ہم خروج کی مختلف شکلوں کے ناجائز ہونے کی بات کرتے ہیں تو فطرتاً ذہن کے اندر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اپنے مدعا کے اظہار کے لیے، اپنے مطالبات کو منوانے کے لیے، اپنے حقوق کے حصول کے لیے کون سے ایسے ذرائع ہیں کہ جن کو ہمیں اختیار کرنا چاہیے؟ میرا خیال ہے کہ یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر اسی مجلس کو کسی وقت غور کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہ ایک نصیحت کا فورم ہے۔ ہمارے پاس تنفیذی طاقت تو نہیں ہے، یہ تو وعظ اورتبلیغ اور لوگوں تک اپنی بات پہنچانے کا ایک فورم ہے۔ تو جہاں ہم خروج کا راستہ اختیار کرنے والوں کے سامنے نصیحت کا یہ پہلو اور فتوے کا یہ پہلو رکھتے ہیں کہ جو کام تم کر رہے ہو، وہ برا ہے، ناجائز ہے، اس کو ترک کر دو تو اس کے نتیجے میں فطرتاً ہمیں یہ بتانا چاہیے کہ وہ کون سی جائز چیز ہے جس کو تم اختیار کر سکتے ہو۔ اس میں سیاسی حوالے سے عوامی بیداری ہے، لوگوں سے رابطہ ہے، لوگوں کی ذہن سازی ہے، لوگوں کے اندر ایک شعور پیدا کرنا ہے کہ حقوق کے حصول کے لیے یہ جائز طریقے اختیارکیے جا سکتے ہیں، ان کا ذکر بھی آنا چاہیے۔
دوسری بات جو اس موضوع سے متعلق ہے، وہ یہ ہے کہ ایک تو بحث ہے خروج کے جائز یا ناجائز ہونے کی۔ دوسرا اسباب خروج کی بحث ہے۔ جب ہم نصیحت کرتے ہیں عوام کو تو جو حکمران ظلم کر رہے ہیں ، ان حکمرانوں کو نصیحت کا کوئی میکنزم بھی ہمارے ہی سامنے ہونا چاہیے جس پر ہم لوگوں کو مزید منظم کریں تاکہ ان ذرائع اور وہ اسباب کی روک تھام کی جا سکے جو حکومتوں کی جانب سے مسلسل سامنے آتے اور ان کے نتیجے میں رد عمل پیدا ہوتا ہے اور خروج تک کی نوبت آ جاتی ہے۔ انسانی دنیا کے اندر دیکھا یہی گیا ہے اور تجربہ یہی ہے کہ جہاں بھی عدل وانصاف رہا ہے، وہاں کوئی خروج کی تحریک نمودار نہیں ہوئی۔ ہمیشہ ظلم وجور کے نتیجے میں اور تعدی کے نتیجے میں اس طرح کی تحریکیں پیدا ہوئی ہیں۔ توہماری نصیحت کا ایک مرکز تو عوام ہیں اور دوسرا محمل وہ حکمران بھی ہیں، ہمیں ان دونوں پہلووں پر اس طرح توجہ کرنی چاہیے کہ ہماری گفتگو یک طرفہ نہ ہو۔

ڈاکٹرقبلہ ایاز

میں نے ایک موضوع کی طرف اس محفل کی توجہ مبذول کرائی ہے ’’عصر حاضر میں استبدال اقتدار کے ممکنہ شرعی طرق۔‘‘ اگر ہم خروج کے خلاف باتیں کر رہے ہیں کہ خروج نامناسب ہے تو یہ بھی بتانا چاہیے کہ ممکنہ شرعی متبادل کیا ہیں؟ میں نے اسی وجہ سے یہ تجویز رکھی تھی۔

محمد نواز کھرل

زاہد صدیق صاحب نے ایک سوال ایسا اٹھایا ہے کہ جو تشنہ رہ گیا ہے، کسی نے اس کا جواب نہیں دیا۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں یہ بتانا پڑے گاکہ کون سا خروج درست ہے او رکون سا غلط ہے؟ میرے خیال میں ائمہ کرام میں سے کسی نے کسی بھی خروج کو جائز قرار نہیں دیا۔ اس حوالے سے اگر شرکاے محفل وضاحت کر دیں تو بہتر ہے۔

مولانا اعجاز صمدانی

مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنی کتاب ’’جزل الکلام فی عزل الامام‘‘ میں خروج کی مختلف صورتوں کا ایک پورا ٹیبل بنایا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ خروج یا مبنی علی الکفر ہوگا یا مبنی علی الفسق ہوگا۔ اگر مبنی علی الکفر البواح ہے تو خروج جائز ہے۔ اگرمبنی علی الفسق ہے تو پھر اس کی دو صورتیں ہیں۔فسق متعدی ہوگا یا غیر متعدی ہوگا۔ غیر متعدی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ خود اپنی حد تک فسق میں مبتلا ہے تو اس صورت میں بھی خروج جائز نہیں ہے۔ اگر فسق متعدی ہے تو پھر اس کی دو صورتیں ہیں۔ متعدی بالاموال ہے یا متعدی بالاعراض۔ اگر مالوں پر ہے تو پھر اس کی دو صورتیں ہیں۔ وہ جو مال ظلماً لے رہا ہے، اس کا کوئی شرعی جواز ہو سکتا ہے یا نہیں ہو سکتا۔ مثلاً ظالمانہ ٹیکس ہے تو ٹیکس لینے پر بھی خروج جائز نہیں ہے۔ اور اگر ایسا ظالمانہ ہے کہ بہت زیادہ ہے اور اس کا کوئی شرعی جواز نہیں ہے تو اس میں کہا ہے کہ اپنا دفاع کریں، خروج پھر بھی نہ کریں۔ پھر فسق متعدی کی بنیادی صورت ایک ہی ہے، اکراہ کہ حاکم دوسروں کو بھی گناہ پر مجبور کر دے۔اس کی میں نے وضاحت کی تھی کہ اس کی بھی صورتیں ہوں گی۔ اکراہ استخفاف کے ساتھ ہوگا یا نہیں۔ اگر بغیر استخفاف کے ہو تو اس میں بھی خروج جائز نہیں ہے۔ ہاں اگر استخفاف کے ساتھ ہے تووہ دراصل کفر کی ایک صورت ہے جس کے خلاف خروج کی گنجائش ہے۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز

میں سمجھتا ہوں کہ علماء اور فقہا نے ان موضوعات پر ہماری بڑی جامع راہ نمائی کی ہے، لیکن یہ راہ نمائی اس وقت نہ ہمارے دینی طبقے کے پاس عام طور پر موجود ہے اور نہ یہ راہنمائی ہم عوام تک پہنچا رہے ہیں۔انگریزی مقولے کے ساتھ میں اس محفل کو اختتام تک پہنچانا چاہوں گاکہ
It is not for you to complete the task, but neither are you free to withdraw from it. 
آپ پایہ تکمیل تک تو اسے نہیں پہنچا سکتے، لیکن اس کی بھی آپ کو اجازت نہیں ہے کہ آپ اس کو درمیان میں چھوڑ دیں۔ تو ان شاء اللہ ہم یہ سلسلہ جاری رکھیں گے۔ امید ہے کہ نئے موضوعات بھی سامنے آئیں اور یہ موضوعات بہت تفصیل طلب ہیں، ان کی تفصیل کی طرف بھی ہم آئیں گے۔ ان شاء اللہ ان موضوعات پر گفتگو کا سلسلہ جاری رہے گا۔

معاصر مسلم ریاستوں کے خلاف خروج کا مسئلہ (دوسری مجلس مذاکرہ)

ادارہ

(پاکستان مرکز برائے مطالعات امن (PIPS) اسلام آباد کے زیر اہتمام مجالس مذاکرہ کی روداد)

خروج کے جواز کے حق میں اہم استدلالات:

اصولی طور پر:

۱۔خروج کی ممانعت کا تعلق یا تو عادل حکمرانوں سے ہے یا ایسے حکمرانوں سے جو اپنی ذاتی حیثیت میں ظلم وجبر اور فسق کے مرتکب ہوں، لیکن ریاست کا نظام بحیثیت مجموعی شریعت پر مبنی ہو اور ریاست کے دیگر تمام ادارے شرعی نظام کے مطابق کام کر رہے ہوں۔ اگر نظام ریاست کفر پر مبنی ہو یا کفریہ قوانین کو تحفظ دیتا ہو یا شرعی قوانین کی عمل داری میں رکاوٹیں کھڑی کرتا ہو تو اس صورت سے ممانعتِ خروج کی احادیث بالکل غیر متعلق ہیں۔
۲۔ ظالم وجابر اور فاسق حکمرانوں کے خلاف خروج کی ممانعت بھی شرعی اور اصولی لحاظ سے فی نفسہ حرام نہیں، بلکہ یہ ہدایت زیادہ بڑی خرابی سے بچنے کے لیے دی گئی ہے۔ اگر حکمرانوں کا ظلم وجبر اور بگاڑ حد سے بڑھ جائے اور مسلح جدوجہد سے استبدال اقتدار کا امکان بھی دکھائی دیتا ہو، جس کا فیصلہ کرنا ایک اجتہادی امر ہے، تو خروج کا جواز موجود ہے۔ اگر خروج کو مطلقاً حرام کہا جائے تو اسلامی تاریخ کی جلیل القدر شخصیات مثلاً امام حسین، عبد اللہ بن زبیر ، زید بن علی اور نفس زکیہ کے اقدامات کی کیا توجیہ کی جائے گی، جبکہ بہت سے ائمہ اسلام نے ان اقدامات کی تائید بھی کی؟
۳۔ موجودہ جمہوری نظام کے تحت، جس کی بنیاد پر عصر حاضر کی مسلم ریاستیں قائم ہیں، مسلم ممالک میں معیاری اسلامی معاشرہ اور ریاست قائم نہیں ہو سکتی، کیونکہ یہ نظام بنیادی طور پر انسانی حقوق کے مغربی فلسفے پر مبنی ہے جو اسلام کے تصور حقوق وفرائض سے متصادم ہے۔ مسلم ریاستیں بین الاقوامی معاہدوں، اداروں اور قوانین کے ایک مضبوط جال میں جکڑی ہوئی ہیں جن کا مقصد انسانی حقوق کے ضمن میں مغربی تصورات اور اقدار کا تحفظ ہے، اس لیے اس نظام کے اندر رہتے ہوئے صرف حکومت تبدیل کی جا سکتی ہے، جبکہ پورے نظام کی تبدیلی مسلح انقلابی جدوجہد کے بغیر ممکن نہیں۔

پاکستان کے تناظر میں:

پاکستان کا دستوری اور قانونی ڈھانچہ غیر مشروط طور پر شریعت کی مکمل بالادستی کی ضمانت نہیں دیتا، بلکہ اس کے برعکس بعض خلاف اسلام امور کو تحفظ دیتا ہے، اس لیے نفاذ اسلام سے متعلق بعض آئینی شقوں اور قانون سازی کے باوجود یہ ایک ’کفریہ دستور‘ ہے، کیونکہ کسی غیر شرعی امور کو قانون کا درجہ یا قانونی تحفظ دینا ’کفر‘ ہے۔ مثلاً:
مزید برآں:
  • اگر افغانستان میں امریکی افواج اور ان کی معاونت کرنے والی افغان فوج کے خلاف لڑنا اور مظلوم طالبان کی مدد کرنا پاکستان کے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے، جس کا فتویٰ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد اکابر علماء نے دیا تھا، تو اسی اصول پر پاکستانی فوج کے خلاف لڑنا کیوں جائز نہیں؟

محمد مجتبیٰ راٹھور ― (پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز)

معزز علماء کرام ومہمانان گرامی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
پاک انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کی جانب سے میں آپ سب کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ ہم آپ سب حضرات کے تہہ دل سے مشکور ہیں کہ آپ نے انتہائی قیمتی موٖضوع پر اپنا وقت میں دیا۔ اس سے پہلے تکفیر وخروج پر ہونے والے ایک مکالمہ کی مختصر رپورٹ آپ کوبھجوائی گئی تھی۔ اسی سلسلے کا دوسرا پروگرام ہم یہاں منعقد کر رہے ہیں۔ میں جناب مولانا عمار خان ناصر صاحب سے درخواست کروں گا کہ وہ نشست کے میزبان کے طورپر پروگرام کا باقاعدہ آغاز فرمائیں۔

محمد عمار خان ناصر

جس اہم موضوع پر یہ مذاکراہ منعقد کیا جا رہا ہے، اس پرمذاکرے میں شریک اہل علم کو گفتگو کی دعوت دینے سے پہلے میں اس طرح کے مسائل کو اس فورم پر زیر بحث لانے کا مختصر پس منظر بیان کرنا مناسب سمجھتا ہوں تاکہ اس سے بحث کا رخ اور سمت متعین ہو جائے۔
خروج کی بحث ہمارے قدیم فقہی ذخیرے میں بھی ہوتی ہے، فقہا بھی اس کو زیر بحث لائے ہیں اور دور جدید میں بھی اسلامی احیا کی جو تحریکیں ہیں اور اسلام کی بالادستی کے لیے جدوجہد کرنے والے جو حلقے ہیں، ان کے سامنے بھی یہ بحث اہم مباحث میں سے ایک ہے۔ ایک فرق دور جدید میں اس بحث کو خاصا اہم بنادیتا ہے۔ قدیم فقہی لٹریچر میں یہ بحث ایک محدود فقہی مفہوم میں بیان کی گئی ہے۔ ایک مسلمان حکومت ہو جہاں اسلامی نظام معاشرت قائم ہو، اگر وہاں مسلمان حکمرانوں کی طرف سے ایسا رویہ اختیار کیا جائے جو ظلم وجبر پر اور فسق ومعصیت پر مبنی ہو تو اس صورت میں مسلح جدوجہد کر کے ان کو ہٹانا جائز ہے یا ناجائز؟ اس کے برعکس دور جدید میں خروج کی بحث کا تناظر اس محدود دائرے سے خاصا وسیع ہے۔ یہ بنیادی طور پر متعلق ہے اس تہذیبی زوال سے جس کا پوری امت مسلمہ اور عالم اسلام کو پچھلی دو صدیوں سے سامنا ہے۔ مغرب کے تہذیبی غلبے نے بہت سے اہم سوالات مسلمان مفکرین کے سامنے کھڑے کر دیے ہیں۔ خروج کی بحث بڑی حد تک انھی سوالات کے دائرے میں آتی ہے اور اس بنیادی تناظر سے الگ کر کے شاید اس بحث کو دور جدید میں سمجھنا ممکن نہ ہو۔ 
مغرب کے تہذیبی غلبے کے ضمن میں امت مسلمہ اور مسلم مفکرین کو جن بنیادی سوالات کا سامنا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس تہذیبی غلبے سے نمٹا کیسے جائے؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے کہ مغرب نے اپنا جو فکر وفلسفہ اور اپنا جو نظام سیاست اپنی معاشی وعسکری طاقت کے زور پر پوری دنیا پر مسلط کر دیا ہے، اس کے ساتھ مسلمانوں کے تعلق کی نوعیت کیا ہونی چاہیے؟ آیا اسے مسترد کر دیا جائے یا اس سے استفادہ کیا جائے؟ پھر یہ کہ اس نظام کے تحت پوری دنیا میں بظاہر جو آزاد مسلمان ریاستیں قائم ہیں، ان کی شرعی حیثیت کیا ہے او ایک مسلم ریاست کے حقوق وفرائض کے حوالے سے دور قدیم میں جو تصورات بیان کیے جاتے تھے، آج ان کا انطباق کیسے ہوگا؟ اسی طرح دور جدید میں استبدال اقتدار کے بعض طریقے جائز مانے جاتے ہیں اور بعض جائز تسلیم نہیں کیے جاتے۔ اس بحث کو قدیم فقہی لٹریچر کے ساتھ کیسے تطبیق دی جائے؟ خاص طور پر جمہوریت جو سیاسی سطح پر اس وقت پوری دنیا میں ایک مسلمہ نظام مانا جاتا ہے اور عرب ریاستوں میں بھی بڑی حد تک اس کو اپنایا گیا ہے، وہ حکمرانوں کے انتخاب اور ریاستی معاملات کو چلانے کا ایک خاص ڈھانچہ دیتا ہے۔ یہ کس حد تک اسلام کے مطابق ہے؟ یہ وہ اہم اور بنیادی سوالات ہیں جن کا جو بھی جواب متعین کیا جائے گا، اس سے ایک ذہنی فریم ورک بنے گا جس سے خروج کی ضمنی بحث کا جواب بھی ملے گا۔میرے خیال میں یہ دور جدید میں خروج کی بحث کا وہ پس منظر ہے جسے ملحوظ رکھے بغیر محض محدود فقہی مفہوم میں شاید اسے صحیح طور پر سمجھا نہ جا سکے۔
یہ بحث مسلمان ریاستوں کے آزاد ہونے کے بعد سب سے پہلے مرحلے پر بعض عرب ممالک میں پیدا ہوئی اور وہاں اس کے کچھ خاص پہلو نمایاں ہوئے۔ ہمارے ہاں بھی پچھلے دس سال کے عرصے میں ایک خاص طرح کی سیاسی صورت حال نے اس بحث کو جنم دیا ۔میرا طالب علمانہ تجزیہ یہ ہے کہ عرب ممالک میں بھی اور ہمارے ہاں بھی خروج کی بحث کا اصل محرک حکمرانوں کی طرف سے اختیار کردہ جبر واستبداد کی پالیسیاں ہیں جن کا رد عمل پیدا ہوا اور پھر تکفیر اور خروج جیسی اصولی بحثوں کی صورت میں اس رد عمل کو نظری تائید فراہم کی گئی۔ تاہم اگرچہ بحث کے عملی محرکات زیادہ تر سیاسی ہیں، لیکن جب ایک نقطہ نظر کو اصولی اور شرعی بنیاد پر پیش کیا جا رہا ہو تو پھر اہل علم کی یہ ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ اس پر غور کریں کہ اس میں کتنا وزن ہے۔ 
یہاں ہم جس فورم پر اس موضوع پر گفتگو کے لیے جمع ہوئے ہیں، یہ بنیادی طور پر اسلام آباد میں based ایک تنظیم ہے۔ پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کا بنیادی دائرۂ کار اس نوعیت کی علمی اور فقہی بحثیں نہیں۔ ان کا مطالعاتی اختصاص اس دائرے میں ہے کہ امن میں خلل انداز ہونے والے اسباب کیا ہیں؟ یہ اسٹریٹجک اسٹڈیز کا ایک ادارہ ہے، لیکن خروج سے متعلق علمی اور شرعی بحث بھی موجودہ حالات میں امن وامان کی صورت حال سے گہرے طو رپر متعلق ہے، اس لحاظ سے اس ادارے نے مختلف مکاتب فکر کے نمائندہ علماء کے ایک فورم کی تجویز پر اس میں دلچسپی محسوس کی کہ پاکستان میں امن وامان پر اثر انداز ہونے والے اس موضوع کا علمی وشرعی تناظر میں تجزیہ کرنے کے لیے اہل علم کو ایک فورم پر دعوت دی جائے جس میں بیٹھ کر وہ آپس میں مذاکرہ کریں۔ اس ضمن میں ایک مذاکرہ اس سے قبل اسلام آباد میں منعقد ہو چکا ہے۔ اس میں بھی اسی طرح ملک کے مختلف اہل دانش نے شرکت کی تھی اور خروج، کفر بواح اور موضوع سے متعلق دیگر سوالات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ آج کا مکالمہ دراصل اسی مکالمے کی ایک توسیع ہے۔ گزشتہ مکالمے میں جو بحثیں سامنے آئی تھیں، ان پر اہل علم نے اپنے نقطہ نظر کا اظہار کیا۔ اس کی ایک تلخیص آپ سب حضرات کو مہیا کی گئی ہے۔ اس کی روشنی میں اس بحث کو آگے بڑھانے کے لیے مزید سوالات کو ہم آج زیر غور لانے کی کوشش کریں گے اور توقع ہے کہ کچھ مزید پہلووں کی تنقیح ہو جائے گی۔
ترتیب کچھ یوں رکھی گئی ہے کہ پروگرام کے دو سیشن ہیں۔ بحث کو ہم نے د وحصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلی بحث تکفیر سے متعلق ہے اور پہلے سیشن میں ہم ان سوالات پر اپنی توجہ کو مرکوز کریں گے کہ کفر بواح کا مفہوم کیا ہے؟ اس کے اطلاق اور انطباق کے حدود وشرائط کیا ہیں؟ کیا موجودہ جمہوریت کفر ہے یا نہیں؟ اور جمہوری نظام میں کفر بواح کے تحقق کا فیصلہ کیسے جائے گا؟ وغیرہ۔ پھر کھانے کے وقفے کے بعد دوسرا سیشن ہوگا جس میں خروج سے متعلق سوالات کا جائزہ لیا جائے گا۔ 
اس مختصر تمہیدی وضاحت کے بعد اب میں دعوت دوں گا مولانا مفتی منصور احمد کو کہ وہ اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کریں۔

مفتی منصور احمد

سب سے پہلے میں تو اکابر کی موجودگی میں مجھ جیسے طالب علم کو اظہار خیال کی دعوت دینے پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں موضوع کے متعلق چند طالب علمانہ گزارشات پیش کرنا چاہوں گا۔
ہمارے ماحول میں دین کے اکثر معاملات میں جو افراط وتفریط پائی جاتی ہے، یہ موضوع بھی اسی کا شکار ہے۔ اسلامی تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طبقے نے ارتکاب کبیرہ کو بھی کفر قرار دیا اور دوسرے طبقے نے اس معاملے میں اتنی وسعت نظری اور وسعت مشرب کا مظاہرہ کیا کہ جب تک کوئی بندہ اپنی زبان سے یہ نہ کہہ دے کہ میں نے اسلام کو چھوڑ دیا، اس وقت تک اس کو کافر کہنے سے توقف ظاہر کیا۔ ظاہر ہے کہ یہ دو انتہائیں ہیں اور دونوں صحیح نہیں۔ ملت کا جو دائرہ ہے، جو اس دائرے کے اندر ہے، وہ اندر ہے اور جو باہر ہے، وہ باہر ہے۔ ان دونوں چیزوں کا اظہار ضروری ہے۔ آج بھی یہی مسئلہ ہے کہ ایک بہت بڑا طبقہ ایسا ہے جس نے تکفیر کی فیکٹری لگا رکھی ہے کہ جو بات ان کی سوچ، فکر اور نظریے کے مطابق نہیں ہے، فقہی طور پر وہ چاہے جیسی بھی ہو، وہ اسے کفر قرار دیتے ہیں۔ دوسرا بہت بڑا طبقہ دین، فکر اور دانش کے نام پر مرجۂ والی وسعت مشربی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ وہ کسی کو بھی کافر کہنے کے لیے تیار نہیں، حتیٰ کہ ایسے امور کے انکار پر بھی جو مسلمہ اور متفق علیہ ہیں اور جن کے بارے میں امت میں کبھی دو رائیں نہیں رہی ہیں کہ ان کا انکار کفر ہے۔ مثال کے طور پر ختم نبوت جیسے مسائل کا جو لوگ انکار کر رہے ہیں، یہ طبقہ ان کو بھی کافر کہنے سے ہچکچا رہا ہے اور توقف کر رہا ہے۔ اس رویے کو آج فیشن بنایا جا رہا ہے اور اسی کو آج علم سمجھا جا رہا ہے۔ تو بنیادی طور پر اس سلسلے میں رویوں کی اصلاح کی ضرورت ہے کہ ہم دیانت داری سے ملت اسلام کے دائرے سے، جو کتاب وسنت اور جمہور اہل علم کی آرا سے متفق علیہ ہے، اس سے باہر نکلنے والے کو کافر کہیں اور جو اس دائرے کے اندر ہو، اس کو مسلمان مانیں، اگرچہ وہ ہمارے نظریے اور ہماری سوچ سے اختلاف رکھتا ہو۔
میری دوسری گزارش اس سوال سے متعلق ہے کہ کفر بواح کی تعریف اور مفہوم کیا ہے اور اس کے اطلاق کا فیصلہ کون کرے گا؟ میرے خیال میں یہ چیزیں بہت پہلے سے متعین ہیں۔ اس میں سوالات اٹھانے کی اور بحث ومباحثہ کی چنداں ضرورت نہیں سمجھتا۔ محدثین اور فقہا نے اس سلسلے میں اپنی تحقیقات پیش کی ہیں۔ میں جو بات خاص طور پر عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس موضوع پر یہ بزم سجانے کی ضرورت جن مسائل کی وجہ سے پیش آئی ہے، اگر ہم ان مسائل پر بھی غور کر لیں تو شاید اس کا زیادہ فائدہ ہوگا۔ مثال کے طور پر مولانا عمار صاحب نے کہا کہ ہمارے ملک پاکستان میں پچھلے دس سال سے احیاے اسلام کے نام پر جو مختلف تحریکیں عملاً خروج کر رہی ہیں، اس بات کی ضرورت ہے کہ ان کے رویوں کو، ان کے کام کو اور ان کے دلائل کو شریعت کی کسوٹی پر پرکھا جائے اور اہل علم دیکھیں کہ آیا ان کے پاس اس کا جواز تھا یا نہیں اور انھوں نے جو راستہ اختیار کیا، وہ درست تھا یا نہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اگر ہم اس بات پر بھی غور کریں کو جو اسباب انھیں اس جگہ پر لے گئے ہیں اور ہماری جو پالیسیاں اور غلط فیصلے انھیں اس حد تک لے گئے ہیں، ان فیصلوں کے بارے میں بھی بات کی جائے۔ ہم ایک فکری رائے متعین کرنی چاہیے کہ یہ طبقے جس ظلم، جبر اور استبداد کے نتیجے میں خروج کے اقدام پر مجبور ہوئے ہیں، اس کے بارے میں ہماری متفقہ رائے اور فکر یہ ہے اور پھر جس طبقے نے خروج کیا، اس سے بھی کچھ کہا جائے تاکہ آئندہ یہ صورت حال رونما نہ ہو۔ تو ہمیں دونوں پہلووں پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک اور بات کی طرف بھی میں توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں کہ آج کے تناظر میں یہ بحث کھڑی ہو گئی ہے جو پہلے بھی رہی ہے، خاص طور پر شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اور ان کے حلقہ فکر میں یہ بحث ماضی میں بھی رہی ہے کہ تشریع کا اور قانون دینے کا اختیار شریعت کے پاس ہے۔ ان الحکم الا للہ۔ تو آج ہماری قانون سازمجالس کو جو یہ اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ چاہیں تو اسلام کے خلاف بھی قانون بنا لیں اور جمہوریت اکثریت کو مطلقاً قانون بنانے کا حق دے دیا گیا ہے، ہمارا وہ طبقہ جو خروج پر آمادہ ہے، وہ اس نظام کو طاغوت کے زمرے میں شامل کرتا ہے اور کتاب وسنت میں کفر بالطاغوت اور انکار طاغوت کے جو احکامات واضح طور پر دیے گئے ہیں، وہ ان کا انطباق موجوہ نظام پر کرتا ہے۔ ہمیں اس سلسلے میں بھی اپنی آرا اور اپنے افکار سے قوم کو آگاہ کرنا چاہیے کہ آیا یہ طاغوت ہے یا نہیں اور یہ کہ آیا ہر طاغوت کفر ہی ہوتا ہے یا کفر سے نیچے بھی طاغوت کچھ درجات ہیں؟
یہ وہ سوالات ہیں جو میں سردست اس مجلس کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔

محمد عمار خان ناصر

مفتی صاحب کی گفتگو سے چند سوالات میرے ذہن میں آئے ہیں جن پر گفتگو کے لیے میں کچھ دیر کے بعد دوبارہ انھیں زحمت دینا چاہوں گا۔ 
ایک بڑی اہم بات انھوں نے یہ کہی کہ تکفیر اور عدم تکفیر، دونوں کا اپنا اپنا دائرہ ہے اور دونوں کی اپنی اہمیت ہے۔ ان میں کسی بھی طرف آپ انتہا پر چلے جائیں تو شریعت کے جو تقاضے ہیں، وہ ملحوظ نہیں رہیں گے۔ دوسری اہم بات انھوں نے یہ کہی کہ خروج تک لے جانے والے اسباب وعوامل، مثلاً سیاسی پالیسیوں اور ان اقدامات کی شرعی حیثیت پر بھی بات ہونی چاہیے جن کے رد عمل کے طور پر خروج کا رویہ پیدا ہوا ہے۔ تیسری اہم بات جو انھوں نے کہی، وہ میرے خیال میں اس بحث کو آگے بڑھانے کے لیے ایک بڑا اہم نکتہ ہے۔ مفتی صاحب کی یہ بات درست ہے کہ خروج کا رویہ کچھ پالیسیوں کے رد عمل کے طور پر پیدا ہوا ہے، لیکن اس نے اپنے حق میں جو استدلال وضع کیا ہے، وہ ان مخصوص پالیسیوں تک محدود نہیں رہتا۔ یہ پالیسیاں اگر ختم ہو جائیں تو بھی استدلال نہیں رکتا۔ وہ یہ کہتا ہے کہ جس جمہوری نظام کے تحت ہم رہ رہے ہیں اور جس کو تمام مذہبی جماعتوں نے قبول کیا ہوا ہے اور جس کو وہ اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے ایک بہتر راستہ سمجھتے ہیں، وہ بنیادی طور پر کفر پر مبنی ہے، اس لیے اگر وہ پالیسیاں ختم ہو جائیں ، تب بھی یہ سوال قائم رہتا ہے کہ کیا ہمیں اسی نظام کے دائرے میں رہ کر جدوجہد کرنی چاہیے؟ ا س طبقے کے خیال میں تو یہ کفر پر مبنی نظام ہے اور اس کی اصلاح کی کوئی صورت اس کے اندر رہتے ہوئے ممکن نہیں۔ اس کو بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ آئندہ مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کیا جائے۔ تو یہ ایک سوال ہے جو اہل علم سے جواب مانگتا ہے اور میں چاہوں گا کہ اس سوال پر آج کی اس نشست کے شرکا خاص طورپر گفتگو کریں۔

علامہ خلیل الرحمن قادری

سب سے پہلے تو ایک سنجیدہ علمی موضوع پر مکالمہ منعقد کرنے اور پھر اس میں ہمیں مدعوکرنے کا شکریہ!
کفر بواح کی تعریف کے بارے میں، جس حدیث مبارکہ میں کفر بواح کا ذکر آیا ہے، اس کے ساتھ ہی آگے یہ تصریح موجود ہے کہ ’عندکم من اللہ فیہ برہان‘۔ یعنی کفر بواح وہ ہے جس پر آپ کے پاس اللہ کی طرف سے برہان یعنی کوئی واضح دلیل شرعی موجود ہو۔ البتہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہم نے کفر کا جو ایک مفہوم بالعموم لے لیا ہے کہ تکفیر صرف اس وقت کی جائے گی جب کوئی شخص ضروریات دین یا قطعیات اسلام میں سے کسی کا انکار کرے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک محدود مفہوم ہے۔ فقہاء امت نے بہت سی دیگر وجوہ کفر کو بھی وضاحت سے بیان کیا ہے۔ مثلاً استخفاف شریعت، یہ وجہ کفر ہے۔ اسی طرح رضا بالکفر کو فقہا نے کفر کہا ہے۔ یہ ساری چیزیں کفر کے دائرے میں آتی ہیں۔ 
مفتی منصور احمد صاحب نے بڑی اچھی بات کہی ہے کہ یہ معاملہ افراط وتفریط کا شکار ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض ایسے حضرات بھی موجود ہیں، آج بھی ہے اورپہلے بھی نظر آتے ہیں جوتکفیر میں اس حزم واحتیاط کا مظاہرہ نہیں کرتے جو کہ شریعت کو مطلوب ہے۔ مخبر صادق نے خود وضاحت فرمادی ہے کہ جب تم کسی مسلمان کی تکفیر کرتے ہو جو فی الواقع کافر نہیں تو کفر تمھاری طرف لوٹ آتا ہے، یعنی اس میں خود تکفیر کرنے والے کے ایمان کے جانے کا اندیشہ ہے۔ یہی اس میں حزم واحتیاط کا پہلو ہے۔ لیکن اس کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ حزم واحتیاط کا مظاہرہ یوں کیا جائے کہ کسی کی تکفیر کی ہی نہ جائے، خواہ اس سے کفر صریح کا ارتکاب ہو جائے۔ میں یہ طالب علمانہ رائے رکھتا ہوں کہ اگر آپ بلاوجہ کسی کی تکفیر کرتے ہیں تو بلاشبہ اس میں خود تکفیر کرنے والے کا نقصان ہے کیونکہ اس کا اپنا ایمان نہیں رہتا۔ اسی طرح جس کی تکفیر کی جاتی ہے، اس کے لیے بھی ضرر ہے کہ اس پر ارتداد آ جائے گا اور ارتداد کے بعد یا اس کو سزا دیں گے یا وہ توبہ کرے گا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ جب آپ کسی تکفیر سے بلاوجہ ہاتھ روکتے ہیں تو اس کا ضرر زیادہ ہے۔ وہ اس اعتبار سے کہ اس میں پوری ملت کے لیے ضرر ہے کیونکہ اس میں نماز کی امامت کا مسئلہ آ جاتا ہے، اس کا ذبیحہ کھانے کا مسئلہ آ جاتا ہے، نکاح ووراثت کے معاملات آ جاتے ہیں اور دیگر بہت سے معاشرتی معاملات اس کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے جب آپ کسی ایسے بندے کی تکفیر سے ہاتھ روکتے ہیں جس سے کفر صریح کا صدور ہوا ہو تو اس سے امت کے لحاظ سے ضرر زیادہ ہوتا ہے۔ لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ کسی صحیح العقیدہ مسلمان کی تکفیر کر دینا یا کسی ایسے آدمی کی تکفیر سے رک جانا جس نے کفر صریح کا ارتکاب کیا ہو ، یہ دونوں بڑی بھاری چیزیں ہیں، البتہ ضرر کے اعتبار سے دوسری صورت میں مضرت زیادہ پائی جاتی ہے۔
جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ تکفیر کا اختیار کس کے پاس ہونا چاہیے تو بالعموم یہ اختیار ہمارے ہاں صاحب فتویٰ لوگوں کو حاصل ہوتا ہے۔ لیکن سیدھی سی بات ہے کہ اگر ان کے ہاتھ میں یہ اختیار دیتے ہیں تو اس میں کئی قباحتیں سامنے آتی ہیں۔ وہی بے احتیاطی والی صورت حال جس کا ہم ذکر کر رہے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آپ کے پاس پارلیمنٹ ہے، اس کو یہ اختیار دے دیا جائے، لیکن یہ اس صورت میں موزوں ہے جب معاملہ کسی گروہ کا ہو۔ یعنی اگر کوئی گروہ کفر کو اختیار کر کے مسلمانوں سے کٹ جاتا ہے تو اس میں زیادہ بہتر اور محفوظ راستہ یہی ہے کہ اس کی تکفیر کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے۔ لیکن یہاں یہ سوال آ جاتا ہے کہ کون سی پارلیمنٹ؟ پارلیمنٹ میں بھی تو یہ صلاحیت ہو نا کہ وہ یہ دیکھ سکے کہ اس گروہ کے عقائد اسلام سے کس طرح انحراف کرتے ہیں۔ مثلاًہمارے سامنے احمدیوں کو اقلیت قرار دلوانے کا معاملہ ہے۔ یہ فیصلہ پارلیمنٹ نے کیا، لیکن وہ کیسی پارلیمنٹ تھی؟ اس میں فکری اعتبار سے علما کا غلبہ تھا اور جتنے بھی باقی پارلیمنٹیرین تھے، وہ ان کی علمی آرا کا احترام کرتے تھے اور اس معاملے میں ان کو اپنا بڑامانتے تھے۔ لیکن آج کی پارلیمنٹ اور کل کو آنے والی پارلیمنٹ کا معلوم نہیں کیا حال ہوگا جہاں اگر لوگوں کوسورۂ اخلاص پڑھنے کے لیے کہا جائے تو وہ بھی نہیں پڑھ سکتے۔ اس صورت حال میں یہ واقعتا ہمارے لیے بڑا قابل غور مسئلہ ہے کہ تکفیر کا اختیار کس کے پاس ہو؟ فرد کی تکفیر کا معاملہ اور ہے کہ اگر کسی آدمی سے کفریہ کلمہ کا صدور ہوا ہے تو کئی صاحب فتویٰ جو متقی، متدین اور مخلص ہو وہ اس پر فتویٰ دے سکتا ہے یا زیادہ سے زیادہ آپ یہ کر سکتے ہیں کہ تمام مکاتب فکر کی ایک باڈی تشکیل دے دیں جو افراد کے معاملے میں کفر کا فتویٰ دے سکتی ہو، یہ دیکھنے کے بعد کہ اس سے واقعی کفر صریح کا ارتکاب ہوا ہے۔ جو گروہی معاملہ ہے، اس میں بھی پارلیمنٹ کو اختیار دیتے ہوئے کچھ قیود آپ کے ضرور رکھنی پڑیں گی۔ یا تو پارلیمنٹ کی معاونت کے لیے علما کا کوئی بورڈ وہاں جائے تاکہ علمی اور فکری طور پر پارلیمنٹ کی راہنمائی کر سکے۔ تب اس بات کا اطمینان ہو سکتا ہے کہ پارلیمنٹ صحیح طور پر اس معاملے کا فیصلہ کرے گی، ورنہ موجودہ شکل میں پارلیمنٹ اس کی صلاحیت نہیں رکھتی۔

محمد عمار خان ناصر

تکفیر کے حوالے سے علامہ خلیل الرحمن قادری صاحب نے بڑی مفیداصولی گفتگو فرمائی ہے۔ یہاں اس فورم پر جو تکفیر کی بحث اٹھائی گئی ہے، وہ افراد یا گروہوں کی عمومی تکفیر سے اتنی متعلق نہیں ہے جتنی ریاست کے نظام سے متعلق ہے۔ یہ دراصل خروج کی بحث کی تمہید ہے۔ یہ جو استدلال پیش کیا گیا ہے کہ موجودہ مسلم ریاستوں کا نظام سیاست بنیادی طور پر کفر پر مبنی ہے، اس کے متعلق ہم جو زاویہ نگاہ اختیار کریں گے، اسی سے اگلے سوال کا جواب ملے گا کہ ان ریاستوں میں نظام کی اطاعت کی شرعی حیثیت کیا ہے اور اسی سے فقہی طور پر خروج کا حکم بھی متعین ہوگا۔ میں چاہوں گا کہ اگلے مرحلے میں آپ اس پہلو پر بھی روشنی ڈالیں۔

ڈاکٹر حافظ حسن مدنی

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے: شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحا والذی اوحینا الیک وما وصینا بہ ابراہیم وموسی وعیسی ان اقیموا الدین ولا تتفرقوا فیہ۔ اللہ تعالیٰ کایہ ہمیشہ سے سنت اور قانون رہا ہے کہ اس نے انبیا کے لیے اقامت دین کو لازمی رکھا ہے اور کہا ہے کہ اس میں افتراق سے بچو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کشتی میں کچھ لوگ سوار ہیں تو وہ لوگ جو کشتی میں نیچے موجود ہیں، وہ پانی لینے کے لیے ہر روز اوپر جائیں اور اوپر والے لوگ اس سے تکلیف محسوس کریں جس سے نیچے والے لوگ اپنی آسانی کے لیے کشتی میں سوراخ کر کے نیچے سے ہی پانی حاصل کرنا چاہیں تو اس صورت حال میں کشتی میں سوار تمام لوگوں کا فرض ہے کہ وہ ان کو روکیں۔ اگر نہیں روکیں گے تو سب کے سب غرق ہو جائیں گے۔یہی مثال مسلمانوں کے معاشرے کی ہے۔ اگر کچھ لوگ معاشرے کی کشتی میں سوراخ کریں گے اور باقی لوگ انھیں نہیں روکیں گے تو سب کے سب ہلاکت کے سمندر میں ڈوب جائیں گے۔ علماء کرام نے اس حدیث کو حدود اللہ اور احکام دین کی اقامت کے واجب ہونے کے باب میں بیان کیا ہے کہ حدود کو قائم کرنا اتنا ضروری ہے کہ اگر دین کو قائم نہ کیا گیا تو پورا معاشرہ ہلاکت کا شکار ہو جائے گا۔ جس طرح کشتی میں اوپر رہنے والوں پر واجب ہے کہ وہ نیچے والوں کو کشتی میں سوراخ کرنے سے روکیں، اسی طرح مسلمان حکمرانوں پر دین کو قائم کرنا واجب ہے۔آج ہم جن مسائل کا شکار ہیں، ان کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے من حیث المجموع اس معاملے میں کوتاہی کا ارتکاب کیا ہے۔
جہاں تک موجودہ بحث کا تعلق ہے تو سب سے پہلے ہمیں اس کا پس منظر واضح کرنا چاہیے۔ جب تک وہ واضح نہیں ہوگا اور اس پر گفتگو نہیں ہوگی، خروج کی بحث واضح نہیں ہو سکتی۔ 
اس وقت ہم پاکستان میں جس معاشرے میں رہ رہے ہیں، کیا ہمیں اس موضوع پر گفتگو کرنی ہے کہ ہمیں پرویز مشرف کے خلاف خروج کرنا ہے یا اس بات پر گفتگو کرنی ہے کہ ہم نے آصف علی زرداری کے خلاف خرج کرنا ہے۔ پرویز مشرف کے خلاف خروج کرنا شرعی مسئلے سے بڑھ کر ایک قابض کا مسئلہ تھا، ایک آمر کا مسئلہ تھا اور وہ معاشرے کی ایک خالص ضرورت تھی۔ وہاں پر شرعی مسئلے میں آنا تو کجا، جمہوریت کے کسی تقاضے کے مطابق بھی وہ بات درست نہ تھی۔ آج آصف علی زرداری کا جو نظام حکومت ہے، جمہوریت کو تو صرف نام ہے۔ عملاً اس میں امت مسلمہ پر جو ظلم ہے، وہ اس سے بھی بڑھا ہوا ہے۔ اس پریہ بنیادی سوال ہے کہ خروج کی آج جو بحث کر رہے ہیں۔ کیونکہ کوئی بھی جو مسئلہ ہے، شریعت کا کوئی بھی مسئلہ ہو تو جب تک حالات کو نہ دیکھا جائے، فقہ الواقع کو نہ دیکھا جائے تو فقہ الاحکام کی طرف بڑھنا ہی سمجھ نہیں آتا۔ ہم نے فقہ الاحکام کی طرف بعد میں بڑھنا ہے، پہلے ہم کن حالات میں گزر رہے ہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں اور آمریت کے دور میں اس کے خلاف خروج کرنا چاہیے یا نہیں، میرے خیال میں خروج کا مسئلہ نہیں بلکہ تدبیر اور امکانات کا مسئلہ ہے اور ہم سے بڑھ کر، دین سے بڑھ کر سول سوسائٹی کا بھی موضوع ہے کہ اس کے خلاف ہم سب کو متحد ہو کر کوشش کرنی چاہے تھی۔ پوری دنیا کا یہی تقاضا تھا۔ ایک آمر جب قابض ہو جاتا ہے تو سب کو یہی کرنا آتا ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت شرعی موضوع کو لانا خلط مبحث ہے۔
خلافت راشدہ تو بہت دورکی بات ہے، خلافت راشدہ کے بعد بارہ صدیوں تک مسلمانوں میں جو ایک نظام چلا ہے، اس کی کوئی ایک شکل بھی موجود نہیں ہے۔ اس معاملے کو اگر ہم بحث میں لائیں تو ہمیں اس تناظر میں چلنا چاہیے۔ 
جہاں تک اس کا پس منظر ہے، اس میں ایک اور بات بھی قابل غور ہے کہ یہ امت مسلمہ میں جو تکفیر کا مسئلہ ہے، یہ خالصتاً رد عمل کی پیداوار ہے۔ اگر یہ پاکستان میں نظر آتا ہے تو یہ نائن الیون کے بعد امریکہ کی جارحیت کے بعد نظر آتا ہے۔ اگر سعودی عرب میں نظر آتا ہے تو امریکی استعمار کے وہاں آنے کے بعد آتا ہے۔ ۱۹۹۰ء سے پہلے یہ بحثیں ہمیں وہاں نہیں ملتیں۔ تکفیر کی بحث مصر میں نظر آتی ہے، جماعت الہجرۃ والتکفیر کے ہاں تو وہ ان پر شدید ظلم وستم کے بعد نظر آتی ہے۔ ان مخصوص تناظروں کے علاوہ یہ بحث کہیں ہوتی ہی نہیں۔ یہ خالصتاًرد عمل کا مسئلہ ہے۔ جب مسلمانوں پر ظلم وستم کیا جاتا ہے تو وہ لوگ جو حساسیت رکھتے ہیں، غیرت رکھتے ہیں، وہ پھر اسلام کے کسی مسئلے سے اپنے لیے استدلال اور گنجائش نکالنا شروع کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر مصر میں الاخوان المسلمون پر ظلم ہوا تو وہاں جماعت الہجرۃ والتفکیر بن گئی۔ پاکستان میں جماعت اسلامی موجود ہے اور دوسری بڑی جماعتیں موجود ہیں۔ الحمد للہ یہاں وہ ظلم وستم نہیں ہوا، اس لیے وہ لوگ جو اقامت دین کا نظریہ رکھتے ہیں، ان کے ہاں تکفیر کا موضوع بھی نہیں شروع ہوا۔ تکفیرکا موضوع وہاں شروع ہوا جو روایتی مکتب فکر تھا۔ میری مراد حنفی مکتب فکر سے ہے۔ اصولاً اقامت دین کا جو نظریہ ہے، بظاہر وہ یہ تقاضا کرتا ہے کہ اقامت دین کے لیے جدوجہد کرنے والے اس موضوع کو اٹھائیں، لیکن پاکستان میں جماعت اسلامی آج تک اس مسئلے کا شکار نہیں ہوئی۔ یہ موضوع وہاں چھڑا ہے جہاں ظلم ہوا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ جب امریکہ افغانستان میں آیا ہے تو سرحد میں لوگوں نے اس مسئلے کو اٹھایا ہے۔ آپ دیکھ لیجیے کہ یہ خالص رد عمل ہے۔ اب ہم یہاں اس مجلس میں بیٹھ کر اس مزاحمت اور اس رد عمل کی مذمت کریں کہ اس خروج کا جواز کہیں نہیں ملتا۔ موجودہ جمہوری نظام میں دیکھیے تو وہ تو اس کا جواز دے گی ہی نہیں۔ اس کے بعد اسلامی نظام میں دیکھیے ۔پہلے اسلامی نظام کی بحث کی جائے۔ اس کے بعد اسلامی نظام میں جو خروج کا مسئلہ ہے، بہت ہی قیود وشروط کے ساتھ مقید ہے۔ دونوں جگہ جواز نہیں ملتا تو ہم کیا پوری مجلس کا حاصل یہ بنائیں کہ ان کی مزاحمت کی مذمت کرنی ہے؟ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ایک ناقص مقصد ہے، یہ درست ہیں ہے۔
اصل میں ہمار اس سے بڑا فرض یہ ہے کہ اس رد عمل کو جس غلط عمل نے یپدا کیا ہے، اس غلط عمل کی مذمت کریں۔ جو لوگ یہاں کوشش کرتے ہیں کہ معاشرے میں امن قائم ہونا چاہیے، انھیں امن کی کوشش ان لوگوں سے متاثر ہو کر کرنی چاہیے جو مظلوم ہیں۔ انھیں نشان دہی کرنے کا خیال آتا ہے۔ اس کے بجائے جو اس ظلم کو قائم کرنے والے ہیں، عالمی استعمار ہے یا ہمارے حکمران ہیں، ان سے پہلے ان کو ان کے بارے میں گفتگو کرنی چاہیے جہاں سے ظلم شروع ہوا ہے ۔اس ظلم کا رد عمل شروع ہو رہا ہے۔ امن کا اصل جو قیام ہے، وہ مظلوم کو یا متاثرین کو امن کی تلقین کرنے سے نہیں ہوگا۔ میں کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ امن کے جو ادارے ہیں، ان کی پالیسی دست نہیں ہے کہ وہ ان لوگوں کو امن کی تلقین کرتے ہیں جو اس معاملے میں مظلوم ہونے کی حیثیت رکھتے ہیں اور خالص رد عمل میں سارے معاملے کو کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں کوئی بھی کسی قسم کی مزاحمت کی جائے تو اس مزاحمت کا حاصل ہم یہ نکال لیں؟ کیونکہ خروج کے جواز کی طرف کوئی بھی نہیں جا سکتا، نہ سیاسی طورپر اور نہ شرعی طور پر۔ تو میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ہمیں سب سے پہلے فقہ الواقع کا تعین کرنا چاہیے۔
امت مسلمہ پر شدید ظلم ہو رہا ہے۔ بعض ممالک ایسے ہیں کہ جن کی صنعت ہی عسکریت ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ تاریخ میں یہ رویہ چلتا رہا ہے کہ وہ لوگ جنھوں نے خرابی کی، انھوں نے اس کے تدارک کے لیے متبادل نعرے بھی اختیار کیے۔ معتزلہ نے اپنا نام اہل العدل والتوحید رکھا۔ بعض لوگ ایسے ہیں جو انتشار پیدا کریں آپس میں اختلاف ہو اور اتحاد بین المسلمین کی کوشش کو اپنا نعرہ اور سلوگن بناتے ہیں۔ بعض لوگ ایسے ہیں جو دنای بھر میں عسکریت پیدا کرتے ہیں اور دنیا بھر میں اس کے ادارے ہی اس کو پروموٹ کرتے ہیں۔ بعض حکومتیں اس دور میں بھی ایسی ہیں۔ مجھے امریکہ کے ادارے ؟؟ میں جانے کا اتفاق ہوا ہے۔ یہ ادارہ آج کا نہیں، یہ نائن الیون کے بعد کا بنا ہوا ہے۔ تو اس کا پرچار کون سے ممالک کرتے ہیں؟ وہ لوگ جو دنیا بھر میں استعمار اور جارحیت کو پیدا کرنے کے اس وقت سب سے بڑے مجرم ہیں۔
میں اپنی بات کے پس منظر کو اس موڑ پر ختم کرتے ہوئے شرعی موضوع کی طرف بڑھتا ہوں۔ میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ ہمیں منظر نامہ پورا واضح کرنا چاہیے اور مزاحمت کرنے والے مظلوموں کی جائز آوز کو دبانے کی ہر کوشش سے پیچھے ہٹ کر ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ سب سے پہلے جو امن کو غارت کرنے کے اسباب ہیں، ان پر بات کی جائے۔ اس کے بعد جو حکمران پالیسیاں بنانے والے ہیں، ان پر بات کی جائے۔ اور یہ طریقہ جو مظلوم لوگوں نے اختیار کیا ہے، یہ بھی ٹھیک نہیں ہے لیکن یہ وہ آواز ہے جو غیرت اور حمیت کی بڑی پسی ہوئی باریک سی آاز ہے اور وہ شدید انتہا پسندی کا شکار ہیں، کیونکہ پوری امت میں اس ظلم کو ختم کرنے کے لیے کوئی امتی یا کوئی حکمران بھی اس کا ساتھ نہیں دے رہا، اس لیے فقہ الواقع میں ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہیے۔
اگلا نکتہ جو میں پیش کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ ہم خروج کی گفتگو جمہوریت کے تناظر میں کر رہے ہیں۔ جمہوریت کا بذات خود اسلامی ہونا، اس کے بارے میں بھی گفتگو کی جا سکتی ہے اور اس پر آرا موجود ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ بہت سے لوگ اس وقت جمہوریت پر مطمئن ہو کر بیٹھے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ پاکستان کے تمام لوگ اس سے متفق ہیں اور دستوری جدوجہد کر رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ واقعہ میں ایسا نہیں ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ جو دستوری جدوجہد کر رہے ہیں، وہ اس بنا پر کر رہے ہیں کہ اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ نہیں۔ امن کی حالت میں یہی ایک قابل عمل شکل بن سکتی ہے نہ کہ یہی ایک مثالی شکل ہے۔ اس وقت جو قانونی، دستوری جدوجہد پاکستان میں ہو رہی ہے، یہ خوشی اور پسند سے یا مثالی طریقے پر نہیں ہو رہی بلکہ یہ اس لیے ہو رہی ہے کہ اس کے علاوہ کوئی طریقہ بچا نہیں ہے۔ رینڈ کارپوریشن نے پوری دنیا میں جن جماعتوں کو اعتدال کا سرٹیفکیٹ دینا ہو یا جن حکومتوں کو اعتدال پسند اور روشن خیال قرار دینا ہو، اس کا جو معیار بنایا ہے، اس میں چھ چیزیں ہیں۔ 
۱۔ کیا وہ جماعت اپنے داخل میں جمہوری نظام کو پروموٹ کرتی ہے؟
۲۔ اس جماعت یا تنظیم کو اعتدال پسند کہا جائے گا جو مساوات مرد وزن پر یقین رکھتی ہو۔
۳۔ کیا وہ جماعت اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی بات کرتی ہے؟
۴۔ کیا وہ جماعت تشدد اور دہشت گردی کی نفی کرتی ہے؟
یہ وہ بنیادی معیار ہے جسے کوئی جماعت پورا کرے گی تو اس کے بعد عالمی استعمار اسے کہے گا کہ یہ معتدل جماعت ہے۔ اب یہ سوچنے کی بات ہے کہ جمہوریت کے نظریہ کو عالمی استعمار ہمارے لیے بنیادی امتحان قرار دیتا ہے اور ہم یہ سمجھیں کہ جمہوریت جسے عالمی استعمار ہمارے لیے معیار قرار دیتا ہے، وہی اسلام کا مثالی نظام ہے۔ میری ذاتی رائے کے مطابق جمہوریت اسلام کا کوئی مثالی نظام نہیں، بلکہ اس نظام پر سنگین ترین اعتراضات وارد ہوتے ہیں۔ ماضی میں اس نظام پر صرف یہ اعتراض کیا گیا کہ یہ صرف نمائندگی ہے۔ اس نظام پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ شریعت یا خلافت اسلامیہ شریعت کے نفاذ اور قیام کے لیے ہوتی ہے، اس میں مقننہ کوئی نہیں ہے۔ اللہ کی کتاب اور سنت موجود ہے اور کتاب وسنت کو ہم نے نافذ کرنا ہے اور جمہوریت جو ہے، وہ اللہ کی شریعت کے بجائے انسانوں کے جو فیصلے ہیں، ان کے نفاذ کے لیے ہوتی ہے جس کے لیے مقننہ کا پورا ایک ادارہ ہے۔ یہ بنیادی فرق ہے کہ ریاست کا مقصد کیا ہے؟ جمہوریت کا مقصد یہ ہے کہ انسانوں کے فیصلے نافذ کیے جائیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہم نے اس میں یہ شرط ڈال دی ہے کہ کوئی فیصلہ اسلام کے خلاف نہ ہو، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اسلام صرف ایک منفی رکاوٹ پیدا کرتا ہے یا اسلام کا مثبت طور پر کوئی اپنا سیاسی نظام بھی ہے؟ کیا اسلام کی صرف یہ حیثیت ہے کہ کوئی بات اسلام کے خلاف نہ ہو یا اسلام کے اپنے بھی قوانین ہیں جن کو نافذ کرنا ہے؟ یہ بہت ہی محدود تصور ہے جو ہم نے اختیار کیا ہے۔
جمہوریت کے اندر قانون سازی کا جو نظریہ ہے یا قانون سازی کے مسئلے میں احناف کے ہاں یہ بحث ملتی ہے کہ جہاں شریعت میں ایک مسئلے پر تین چار دلائل وامکانات موجود ہیں تعزیر کے باب میں تو حاکم ان میں سے کسی ایک کو متعین کر سکتا ہے اور یہ حاکم کا اختیار ہے جسے ہم کہتے ہیں کہ جمہوریت اس اختیار کو استعمال کرتی ہے، لیکن احناف کے ہاں یہ بحث اس دائرے میں ہے جن میں شریعت کے اندر گنجائش موجود ہے۔ مسلمہ معاملات میں احناف کے ہاں بھی قانون سازی کی گنجائش نہیں ہے۔ کچھ ابواب ایسے ہیں کہ جہاں پر گنجائش موجود ہے اور کچھ ابواب شریعت کے ایسے ہیں جہاں واضح موقف موجود ہے۔ ہماری جمہوریت، شریعت کے جو واضح موقف ہیں، ان پر بھی قانون سازی کرتی ہے تو احناف کے قانون سازی کے تصور سے اس کی تائید پیش نہیں کی جا سکتی۔ 
جمہوریت خالص طور پر ایک وطنی ریاست ہے جو مختلف الخیال لوگوں سے وجود میں آتی ہے۔ اسلام ایک وطنی ریاست نہیں، بلکہ ایک نظریاتی ریاست کا نام ہے جس کے اندر اک نظریے کا غلبہ ہو۔ اسلام میں یہ کہاں موجود ہے کہ مختلف الخیال لوگ مل کر رہیں گے؟ اسلام میں ایک نظریہ ہے۔ اس نظریے کو ماننے والے اس کے تحت آتے ہیں اور اس نظریے کو آگے بڑھایا جاتا ہے۔ تو خلاصہ یہ ہے کہ جمہوریت کا اسلام سے الگ ہونا اور اس کے مخالف اور متصام ہونا ایک واضح حقیقت ہے اور ماضی میں یہ حقیقت اگر واضح نہیں ہو سکی یا علما اس کو کہہ نہیں سکے تو اس کی بڑی وجہ تو یہ ہے کہ طریقہ اس کے علاوہ کوئی موجود نہیں ہے یا یہ ایک ایسا نظام ہے جو اس وقت تمام حکومتوں کے لیے اساس اور مجبوری بن چکا ہے۔ اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اس نظام کو جدوجہد کے ذریعے ختم کر لیں گے تو ایسا نہیں ہے۔ اس جمہوری نظام کو جس وقت بدلنے کی کوشش کی جائے گی، اس وقت اس کے تحفظ کے لیے نیٹو، امریکا کی قوتیں اور دنیا بھر کا میڈیا آ پ کے بالمقابل آ جائے گا۔ 
تو اس نظام میں خرابی کوئی ایک نہیں ہے۔ دستور کی خرابی نہیں ہے، مقننہ کی خرابی نہیں، پورا ایک نظام ہی مختلف ہے۔ اس بات کو واضح کرنے کے لیے میں صرف ایک نکتہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمارے ہاں یہ مغالطہ پایا جاتا ہے کہ مسلم ریاستیں ۱۹۴۷ء میں آزاد ہوئیں، حالانکہ امر واقعہ یہ نہیں۔ میں جس طرح صورت حال کو دیکھتا ہوں، وہ یہ ہے کہ دراصل دو سو سال میں مغرب نے اپنا عروج دیکھا۔ اس دور عروج میں ان کے درمیان اختلافات ہوئے۔ جنگ عظیم اول اور دوم میں انھیں جو کمزوری ہوئی، اس کے نتیجے میں مسلم ریاستیں بنائے بغیر ان کے لیے چارہ نہیں تھا۔ مسلمان اپنی قوت کی بنیاد پر آزاد نہیں ہوئے بلکہ دوسروں کی کمزوری کی بنا پر آزاد ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نظریاتی نظم تو ان ریاستوں میں پورے کا پورا وہی رہا جو جمہوری نظام ہے۔ ہمارے لیے آزاد ہونے کے بعد بھی کوئی چارہ نہیں تھا۔ ہم اسی کو اسلامی بنانے کی کوشش کرتے رہے، حالانکہ ہمارا ایک مستقل نظام ہے جس کا نام خلافت ہے۔ عجیب بات ہے کہ حضرت عمر کے جب کسی موقف کا ذکر آتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ حضرت عمر کا رویہ کتنا شاندار اور جمہوری ہے، جبکہ حضرت عمر کے جو رویے ہیں، وہ خلافت کے رویے ہیں اور خلافت کے اندر بھی آزادئ رائے ہے۔ اس کو جمہوریت سے منسوب کر کے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ جمہوری رویہ ہے، گویا کہ جمہوریت ہی ایک واحد معیار ہے۔
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ ہمیں کا صحیح تناظر متعین کرنا پڑے گا۔ جمہوریت کا مظہر آج آصف علی زرداری صاحب ہیں۔ اب ان کے بارے میں شخصی طور پر بات کریں یا نظام کی بات کریں؟ مسئلہ کسی ایک فرد کو پیچھے ہٹانے کا نہیں ہے۔ایک فرد کو ہٹایا جائے تو پورا نظام اس سے بدتر آدمی کو سامنے لے آتاہے۔ اس تناظر میں ہمیں اس بات کو واضح کرنا چاہیے۔ میں یہ کہہ کر اپنی گفتگو کو سمیٹنا چاہوں گاکہ تکفیر ہو، تفجیر ہو یا توحید حاکمیت ہو، یہ سارے سیاسی ہتھکنڈے ہیں۔ یہ ساری چیزیں صرف ایک مظلوم کی آواز ہیں۔ علامہ ناصر الدین البانی کی ایک کتاب کا عنوان ہے کہ توحید حاکمیت ایک سیاسی ہتھکنڈا ہے۔ سیاسی ہتھکنڈے کا مطلب یہ ہے کہ جب مظلوموں کو کوئی راستہ نہیں ملتا تو وہ کوئی شرعی دلیل ڈھونڈنا شروع کر دیتے ہیں۔ بہرحال اسلام کا طریق دعوت یہ نہیں ہے کہ ہم فلاں یا فلاں کو کافر کہیں، بم دھماکے کریں۔ یہ سارے کام غلط ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے، لیکن اس کے سوا کرنے کا طریقہ بھی کیا ہے؟ ظلم ہو رہا ہے اور مسلمانوں کے حکمران اس ظلم میں ظالموں کے ساتھ کھڑے ہیں تو مسلمانوں کے کچھ مخلص لوگ جن کے اندر غیرت اور حمیت ہے، وہ کیا کریں؟ جب وہ پوری امت کو اپنے خلاف دیکھتے ہیں تو وہ انتہا پسندی کا شکار ہو کر بم دھماکوں کی تربیت دیتے ہیں جو سو فی صد غلط کام ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں۔ 
یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ سعودی عرب کے علما جتنی اس کی تائید کرتے ہیں، ان کو اس سارے مسئلے کا اندازہ نہیں ہے۔ میں بحیثیت ایک طالب علم کے یہ سمجھتا ہوں کہ سعودی عرب کو توحید حاکمیت کے مسئلے سے کبھی واسطہ پیش نہیں آیا۔ وہاں پر دین کافی حد تک اور کافی وجوہ سے نافذ ہے۔ وہ علما نوجوانوں کو جتنی بھی تلقین کریں گے تو چونکہ ان کا اپنا تجربہ نہیں ہے۔ سعودی عرب کے علما جتنی بھی تعبیرات کر رہے ہیں، وہ اپنے مقامی حالات کے تناظر میں کر رہے ہیں۔ جس طرح ہم آج سے آٹھ سو سال پہلے کے محدثین وفقہا کی آرا کو آج کے حالات پر پوری طرح منطبق نہیں کر سکتے، اسی طرح سعودی عرب کے علما کی آرا کو ہم یہاں اپنے حالات پر منطبق نہیں کر سکتے۔ سعودی عرب کے لوگوں کو اس صورت حال سے واسطہ نہیں۔ 
دوسری بات یہ کہ سعودی عرب کے جو علما ہیں، وہ حنبلی ہیں اور حنبلیت کے اندر خروج نہیں ہے۔ دوسرے فقہا خروج کا جواز بتاتے ہیں جبکہ حنبلیت خرج کے خلاف سب سے شد ید موقف رکھتی ہے۔ سعودی عرب کے سلفی علما کے ہاں جو موقف پایا جاتا ہے، چونکہ انھیں حالات کا تجربہ نہیں ہے، اس لیے ان کی رائے اس سارے معاملے میں زیاہ وقیع نہیں ہے۔ یہ سارا تجربہ پاکستان میں رہنے والوں کا ہے، مصر اور شام میں رہنے والوں کا ہے، حتیٰ کہ کویت کے جو سلفی علما ہیں، وہ بھی توحید حاکمیت کی یہ ساری بحثیں کرتے ہیں۔

محمد عمار خان ناصر

بہت شکریہ۔ ڈاکٹر حسن مدنی صاحب نے براہ راست موضوع پر تفصیلی اظہار خیال کیا ہے۔ ایک بات تو انھوں نے وہی ارشاد فرمائی جو مفتی منصور احمد صاحب کہہ چکے ہیں کہ موجودہ صورت حال میں خروج کی تمام بحثیں رد عمل کا اظہار ہیں جبکہ شرعی جوازات واستدلالات اس رد عمل کو تائید فراہم کرنے کے لیے ہیں۔ اگر ہم ان اسباب پر گفتگو کریں گے اور ان کو دورکرنے کی کوشش کریں گے تو ان کے خیال میں شاید یہ استدلالات خود بخود ختم ہو جائیں گے۔ دوسری بات جو ہمارے موضوع سے براہ راست متعلق ہے اور جس سے ان کا نقطہ نظر بہت واضح ہو جاتا ہے، انھوں نے یہ کہی کہ موجودہ جمہوری نظام یہ کوئی معیاری نظام نہیں ہے اور جن حضرات نے اس نظام کے دائرے میں جدوجہد کا راستہ اختیار کیا، ایسا نہیں وہ بھی اس کو کوئی معیاری نظام نہیں سمجھتے، بلکہ انھوں نے صرف اس پہلو سے ایسا کیا کہ موجودہ حالات میں جو امکانات ہمیں میسر ہیں، اس میں یہی زیادہ قابل عمل طریقہ ہے۔
اس پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے جو ہمارے موضوع کے دوسرے حصے یعنی خروج سے متعلق ہے۔ میں وہ سوال اٹھا دیتا ہوں تاکہ اگلے مرحلے میں جب حسن مدنی صاحب گفتگو کریں تو اس سوال کے حوالے سے بھی ان کا جواب سامنے آ جائے۔ ڈاکٹرصاحب نے کہا ہے کہ موجودہ جمہوری نظام کوئی مثالی نظام نہیں ہے اور اس نظام کے اندر رہتے ہوئے اسے جوہری طور پر تبدیل کرنے کی کوئی گنجائش نہیں اور اس کو پورے عالمی سیاسی نظام اور بین الاقوامی اداروں اور عالمی استعمار کی جو تائید میسر ہے، وہ بھی اس میں تبدیلی کی اجازت نہیں دیتی۔ اس صورت حال میں یہ سوال بہت اہم بن جاتا ہے کہ دور حاضر میں جبکہ ایک خاص نظام ہم پر مسلط کر دیا گیا ہے، استبدال نظام کے ممکنہ شرعی طرق کیا ہو سکتے ہیں تاکہ اسلام جو ایک مثالی نظام پیش کرتا ہے، اس کے مطابق ایک معیاری اسلامی ریاست وجود میں لائی جا سکے؟ کیا موجودہ دور میں جمہوری نظام کے تحت جو کچھ ممکن ہے، اسی پر اکتفا کیا جائے گا یا کوئی مرحلہ ایسا بھی ہے جب اس نظام سے باہر نکلنے کی کوشش کی جائے گی اور پھر اس کا طریقہ کیا ہوگا؟ 

مفتی محمد خان قادری

سب سے پہلے تو ہم اس ادارے کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ انھوں نے بڑے اہم مسائل پر گفتگو کے لیے اہل علم کو پہلے اسلام آباد میں اور اب لاہور میں جمع کیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اہل علم سنجیدگی کے ساتھ ان مسائل کو لیں اور یہ ہمارا فریضہ ہے کہ ہم ان کا جواب قرآن وسنت سے فراہم کریں۔
ڈاکٹر حسن مدنی صاحب نے بڑی تفصیل کے ساتھ ہم سب کو ان حالات کی طرف متوجہ کیا ہے۔ یہ مسائل موجود ہیں اور اس کی وجہ میرے نزدیک یہ ہے کہ ہم لوگوں نے سستی کا مظاہرہ کیا اور ہماری گرفت معاشرے پر کمزور ہو گئی۔ جن اہل علم کے ہم حوالے دیتے ہیں، وہ ہر دور میں اپنی رائے کو دلائل کے ساتھ قوم کے سامنے رکھتے تھے، چاہے ان کی رائے سے کسی نے اختلاف کیا ہو یا نہ کیا ہو اور الحمد للہ جلد یا بدیر لوگ اس طرف آ جاتے تھے۔ بہرصورت ہم لوگ سنجیدگی کے ساتھ ان مسائل پر غور کرنے کے لیے یہاں بیٹھے ہیں تو مجھے امید ہے کہ ہمیں قرآن وسنت میں ان کا حل بھی ضرور ملے گا۔ مسائل کا ایک انبار ہے، بگڑے ہوئے معاملات ہیں، ہم شکست خوردہ لوگ ہیں۔ دوسری تہذیبیں غالب ہو چکی ہے۔ کفار غالب ہیں، ان کی چلتی ہے، جبکہ بارہ سو سال تک ہماری چلتی تھی۔ ان حالات میں آپ سنجیدگی کے ساتھ مکی دور کو پڑھ لیں تو بہت سے مسائل حل ہو جاتے ہیں۔
مثلاً تکفیر کا ہی مسئلہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے پر امت مسلمہ میں کافی عرصے سے اندھیر مچا ہوا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد تو یہ ملتا ہے کہ اجرؤکم علی الفتوی اجرؤکم علی النار کہ تم جتنی جلد بازی فتوے میں کرو گے، اتنا ہی تم جہنم میں جلدی جاؤ گے۔ ہم یہاں جتنے مسلمان بیٹھے نہیں، پتہ نہیں فتوے کے اعتبار سے ایک دوسرے کے نزدیک کیا ہیں۔ مدنی صاحب نے حقیقتیں بیان کی ہیں جن سے کوئی انکار نہیں کر سکتا، لیکن آخر ہم نے بہرحال ان مسائل پر بیٹھنا تو ہے اور ان مسائل پر غور وخوض کرنا ہے۔ 
تکفیر کے مسئلے پر میرا ذہن یہ بنتا ہے کہ ہم کوشش کریں کہ سب مل جل کر نصوص پر زیادہ قائم رہیں، کیونکہ ہم جتنا نصوص سے نیچے اترتے ہیں تو اقوال تو آپ جانتے ہیں کہ ہر قسم کے مل جاتے ہیں۔ ہر دور میں ثقہ علما بھی موجود رہے ہیں اور غیر سنجیدہ لوگ بھی ہر دور میں رہے ہیں۔ ان کی آرا آپ نے بھی پڑھی ہوں گی اور میں نے بھی پڑھی ہیں۔ یہاں تک لکھا ہے کہ حنفیوں اور شافعیوں کی آپس میں شادیاں نہیں ہو سکتیں۔ تو کیا ہم انھی اقوال کو لے کر چلتے رہیں گے؟ کس عالم نے آج اس قول کو پسند کیا ہے؟
دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اسلام کی جتنی فکر اللہ اور اس کے رسول کو ہے، اتنی ہمیں نہیں ہو سکتی۔ ہم بہت سے کام کرتے تو اسلام کے نام پر ہیں، لیکن ہو سکتا ہے اس کے پس منظر میں ہماری جہالت ہو۔ 
علامہ خلیل الرحمن قادری صاحب نے یہ بات فرمائی ہے کہ ہمارے ہاں کفر ضروریات دین کے انکار تک محدود ہے، حالانکہ اس کے علاوہ کوئی سات آٹھ صورتیں میں نے پڑھی ہیں جو علما نے بیان کی ہیں۔ مثلاً سید انور شاہ کاشمیری کی اس موضوع پر مستقل کتاب ہے، اکفار الملحدین۔ مثلاً کچھ لوگ کہتے تو خود کو مسلمان ہیں اور کرتے سب کچھ اس کے خلاف ہیں۔ میں نے یہ جملے سنے ہیں کہ اسلام کی سزائیں وحشیانہ سزائیں ہیں۔ اختلاف اس میں تو ہوا ہے کہ کبیرہ کے مرتکب کو مسلمان کہیں گے یا نہیں۔ یہ اختلاف تو کسی نے نہیں کیا کہ جو اسلام کا مذاق اڑائے، اس پر بھی کفر کا فتویٰ نہیں لگتا۔ یہ تو آج تک کسی نے نہیں کہا اور اس پر تو سارے متفق ہیں۔ باب المرتدین یا باب الکفر فقہ کا نکالیں، وہ تو چھوٹے چھوٹے معاملات میں بتاتے ہیں کہ اس سے کفر لازم آتا ہے۔
یہ جو توحید حاکمیت کا مسئلہ ہے، یہ بھی کہتے ہیں کہ سعودیہ میں پیدا ہوا ہے تو سعودیہ نے اقتدار کن لوگوں سے لیا تھا؟ اس وقت توحید حاکمیت کا مسئلہ نہیں تھا۔ اس پر سارے لوگ آئے ہیں، سعودیہ کے بھی اور اسلاف بھی کہ وہ مستحل کا لفظ بولتے ہیں کہ جو شریعت کے خلاف بات کرے اور وہ اسے حلال سمجھے، یہ شرط سبھی نے تسلیم کی ہے۔ شیخ ابن تیمیہ ہوں یا محمد بن عبد الوہاب ہوں۔ 
ایک چیز اس میں بھی کھٹکتی ہے کہ آپ ذرا اوپر سے نیچے تک آئیں تو امت مسلمہ زوال ہی کی طرف گئی ہے اور جب بھی لوگ کامیابی کی طرف بڑھے ہیں اور کچھ روشنی دکھائی تووہ امام حسین کا راستہ ہی ہے۔ اور تو کوئی راستہ ہمیں دکھائی نہیں دیتا، ورنہ رخصت کے راستے تو ہر کوئی نکالتا پھرتا ہے۔ جو چیز آپ کو فسق وفجور نظر آتی ہے، ہو سکتا ہے امام عالی مقام کو وہ کفر نظر آتی ہو۔ جتنی کسی کے اندر غیرت ہوتی ہے، اتنا ہی وہ مسئلہ اس کو چبھتا ہے۔ ہم ہر بات کو اپنے پیمانے سے سوچتے ہیں جس کی وجہ سے پریشانی بنتی ہے۔ مثلاً کئی لوگ ہیں جو غیرت کا مظاہرہ کرتے ہیں تو بھئی، غیرت ایمانی بھی تو کہیں جاگنی چاہیے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کفر بواح کی تصریح فرمائی اور یہ بھی کہہ دیا کہ تمھارے پاس کوئی دلیل ہونی چاہیے۔ ہم تو افواہوں پر چلتے ہیں۔ پھر حدیث میں برہان کا لفظ ہے اور برہان کے بارے میں ہم سب جانتے ہو کہ اس پر کوئی قطعی دلیل ہے۔ میری گزارش یہ ہے کہ کفر کو ضروریات دین کے انکار تک محدود نہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ بھی سات آٹھ شکلیں بنتی ہیں۔ مثلاً رضا بالکفر کی بات ہے یا کوئی شریعت کا استحقار کرتا ہے یا کوئی شریعت کو نافذ کرنے میں رکاوٹ بنتا ہے۔
رہ گیا جمہوریت کا مسئلہ تو اس میں مغربی جمہوریت کا لفظ بڑھانا چاہیے۔ ہمارے ہاں جو مسلط ہے، وہ مغربی جمہوریت ہے۔ ہمیں اسلام کا جو شورائی نظام ہے، اس کی طرف بڑھنا چاہیے۔ ہمارے دستور میں شق ۶۲ اور ۶۳ میں رکن پارلیمنٹ کے لیے جو صفات لکھی ہیں، ان پر عمل نہیں ہوتا ۔کم از کم انھی شرائط پر عمل ہو جائے تو کچھ اچھے لوگ آ سکتے ہیں۔
باقی رہ گیا اتھارٹی کا مسئلہ تو قرآن کریم کی یہ تصریح کہ فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لا تعلمون اس مسئلے کو کافی حل فرما دیتی ہے کہ اہل علم ہی، بلکہ اہل علم سے اگلا جو درجہ ہے، جو خوف خدا رکھنے والے ہیں، ان کا کوئی بورڈ بن سکتا ہے۔ پاکستان میں ہر قسم کے لوگ موجود ہیں۔ مسئلے پر غور وفکر کریں کہ یہ تکفیر کا مستحق ہے یا نہیں تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔

ڈاکٹر سید محمدنجفی

بنیادی طور پر ہماری گفتگو اس مجلس میں تکفیر کے موضوع پر ہے۔ اس بنیادی اور اہم ترین گفتگو میں داخل ہونے سے پہلے تھوڑا سا ضروری ہے کہ ہم کفر کا مفہوم ذہن میں لے آئیں کہ کفر کہتے کسے ہیں اور پھر جب کفر میں جائیں گے تو کفر کی کئی اقسام ہیں جن میں سے ایک کفر بواح ہے۔ اس کے متعلق خصوصیت کے ساتھ تذکرہ کریں گے۔
جہاں تک کفر کا تعلق ہے، یہ ایمان کے مقابلے میں ہے اور ایمان بالارکان نہیں ہوتا، بالجنان ہوتا ہے۔ قلبی طور پر دل میں اگر انسان شہادتین کا اقرار کرتا ہے، توحید ورسالت کا اقرار کرتا ہے تو اس کو مسلمان کہا جاتا ہے، البتہ ارکان کے ذریعے سے اس کے احکام ظاہر ہوتے ہیں۔ اس کے امور ظاہر ہوتے ہیں اور چیزوں کا پتہ چلتا ہے۔ لیکن جب جنان کے ساتھ، دل میں وہ اقرار کر لیتا ہے تو وہ مومن کہلاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں کافر ہے۔ سادہ لفظوں میں جو شہادتین کا منکر ہے، توحید کا یا رسالت کا منکر ہے، وہ کفر کے زمرے میں آ جائے گا۔ اس کو ہم مسلمان قطعاً نہیں کہہ سکیں گے۔ یہ کفر کے حوالے سے ہماری اصل بنیاد ہے۔ 
لغوی طورپر اگرہم دیکھیں تو ہر قسم کا انکار کفر ہے۔ ہرچیز سے رکاوٹ پیدا کرنا کفر ہے، لیکن ان میں بعض رکاوٹیں احسن ہیں اور بعض غیر احسن ہیں۔ بہرحال جب ہم اس تعریف سے ہٹ کر اصطلاحی کفر پر آئیں گے تو اس کے بعد میدان اتنا وسیع ہو جاتا ہے کہ، جیسا کہ محترم مفتی محمد خان قادری صاحب نے فرمایا، ان وسعتوں کو انسان جہاں تک لے جانا چاہے، لے جا سکتا ہے۔ مثلاً سب سے پہلے تو عدم اقرار شہادتین والا کافر ہو گیا۔ پھر جو اقرار کرتا شہادتین کا، اس کے لیے کفر کی کئی قسمیں نکل آئیں۔ بعض روایات میں تارک الصلوٰۃ کو کافر کہا گیا ہے۔ یہ اقرار شہادتین کے بعد گویا کفر کی ایک علیحدہ صورت ہے۔ ہمارے ہاں جس پہلو پربحث ہو رہی ہے، وہ شہادتین کا انکار کرنے والے کافر کی نہیں ہو رہی۔ ہم نے جس کفر بواح کو تلاش کرنا ہے، وہ یہ ہے کہ آدمی شہادتین کا تو اقرار کر رہا ہے، لیکن مثلاً تارک الصلوٰۃ ہے، کبائر کا ارتکاب کر رہا ہے۔ تو اس کی کئی قسمیں اور کئی صورتیں ہیں۔ اس وسعت کو اگر ہم مدنظر رکھیں تو جب ہم یہاں پہنچیں گے کہ کافر کون ہے اور کس کو کافر کہنا ہے اور کس کو کافر نہیں کہنا اور پھرجب معاملہ اور آگے جائے گا تو وسیع تر ہو جائے گا۔ اتنا وسیع باب ہے کہ آپ گنتی نہیں کر سکتے کہ یہ دس کام کرے گا تو کافر ہو جائے گا۔ ہو سکتا ہے کہ گیارہواں بھی کسی روایت میں نکل آئے۔ اس کے لیے کوئی عدد نہیں ہے۔
سب سے پہلے یہ دیکھنا ہے کہ جسے ہم کافر کہہ رہے ہیں، وہ پہلی اصطلاح کے لحاظ سے ہے یعنی جو شہادتین کا اقرار نہیں کر رہا یا دوسری اصطلاح کے مطابق ہے؟ پھر یہ دیکھنا ہے کہ ان دونوں میں آیا کوئی فرق بھی ہے یا نہیں؟ ان دونوں کے احکام میں بھی کوئی فرق ہے یا نہیں؟ ان دونوں کی حیثیات میں بھی کوئی فرق ہے یا نہیں؟ جب اس صورت حال میں جائیں گے تو ہمارے لیے بحث میں تھوڑی سی دقت ہو جائے گی کہ ہم اگر کسی کے پیچھے لگے ہوئے ہیں کفر کے عنوان سے تو کس حیثیت سے لگے ہوئے ہیں اور اس میں ہم کیا کہنا چاہتے ہیں؟
اگر ہم تاریخی طور پر بھی نظر ڈال لیں، سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی، مدنی زندگی اور خلفاے راشدین کے دور کو اگر ہم غور سے دیکھیں ، بالاخص سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو تو انسان حیران ہو جاتا ہے۔ میرے بزرگان تشریف فرما ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ میری اصلاح ہو جائے، لیکن مجھے ابھی تک کوئی ایسی چیز نظر نہیں آئی کہ سرور کائنات نے کسی کو کہا ہو کہ تم کافر ہو کیونکہ تم نے یہ کام کیا ہے۔ ہاں منافق کی اصطلاح آئی ہے۔ قرآن مجید میں بھی آئی ہے۔ مسجد ضرار کے افراد کا بھی پتہ ہے۔تاریخوں میں ان افراد کے نام بھی لکھے ہیں۔ اگرچہ کفرا وتفریقا کے الفاظ آئے ہیں، لیکن وہ اس اصطلاحی مفہوم میں نہیں آئے۔ سرور کائنات کی زندگی میں اور خلفاے راشدین کی زندگی میں چاہے لوگوں کو ملک بدر کیا گیا، لیکن میرے ذہن میں نہیں کہ یہ اصطلاح ان معنوں میں استعمال ہوئی ہو جس میں آج ہم استعمال کر رہے ہیں یا استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
خروج کی بحث سے ہٹ کر کہہ رہا ہوں کیونکہ وہ تو متبرک ہستیاں تھیں، وہاں پر تو خروج کا تصور ہی نہیں ہے۔ خلفاے راشدین کے دور تک ممکن ہی نہیں ہے کہ ہم خروج کی بحث کریں۔ ہاں اکا دکا چھوٹے چھوٹے واقعات ہو سکتے ہیں، ان کی بھی توجیہات اور تاویلات کی جا سکتی ہیں۔ بہرحال پہلی بات تو یہ ہو گئی کہ اس موضوع میں وسعت پائی جاتی ہے۔ شہادتین کا اقرار کرنے والے کو جب ہم کافر کہتے ہیں تو ہماری کیا ذمہ داری بنتی ے؟ دوسری بات یہ کہ ائمہ معصومین اور بالاخص خلفاے راشدین کے دور اور زمانے تک ہمیں یہ اصطلاح استعمال ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی، حالانکہ اس زمانے میں بھی لوگ تارک الصلوٰۃ تھے، کبائر کا ارتکاب بھی کرتے تھے۔ وہ جو خامیاں جن کا آج تذکرہ کیا گیا، اصطلاحاً بیان ہوئی ہیں اور روایات میں بھی ان کا تذکرہ ہے۔ ان سب کے باوجود سرور کائنات نے کسی کو کافر کہا نہ حضرت ابوبکر صدیق نے کسی کو کافر کہا نہ حضرت عمر فاروق نے کسی کو کافر کہا اور نہ کسی اور نے۔ اس دور میں میری نظر میں نہیں آیا کہ کسی نے کسی کو کافر کہا ہو۔ ہاں اس کے بعد یہ سلسلہ اور یہ گفتگو شروع ہوئی۔
ہم بحث کر رہے ہیں کہ جو شہادتین کا اقرار کر رہا ہو، اپنے آپ کو توحید اور رسالت کا کلمہ پڑھنے والا کہہ رہا ہو، اس میں ہم کفر کو تلاش کرنے جا رہے ہیں اور اس پر وہ سارے احکام لاگو کرنا چاہتے ہیں جو شہادتین کے منکر کے احکام ہیں۔ ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
اب کفر بواح کے موضوع کی طرف آتے ہیں۔ کم از کم آٹھ سے دس موارد حدیث میں آئے ہیں جن میں یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ مثلاً ذات اللہ کا کسی حوالے سے انکار کرتا ہے، وہ تو اقرار بالشہادتین کے انکار میں آ جاتا ہے۔ اقرار ایک دفعہ کرتا ہے، لیکن کام ایسے کرتا ہے جو توحید کے منافی ہیں۔ نظام اس کا ایسا ہے جو ذات اللہ کی نفی کرتا ہے۔ تو چونکہ اس میں بہت وسعت ہے، اس لیے متعین نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً میں ذات خدا کا تو منکر نہیں ہوں، لیکن نماز میں تاخیر کرتا ہوں، کسی کا حق کھا لیتاہوں، اگر اس موضوع کو وسعت دیں تو ذات خدا کا انکار پتہ نہیں کہاں تک چلا جاتا ہے۔ آج کی اس مجلس میں ہمیں یہ بھی تعین کرنا پڑے گا کہ ذات خداکی نفی سے کیا مرادہے؟ آیا ذات خدا کی نفی سے مراد ی ہے کہ خدا خالق نہیں ہے، مالک نہیں ہے، رزاق نہیں ہے، وہ جو صفات ثبوتیہ اور صفات سلبیہ ہم پڑھتے ہیں، اس حد تک محدود ہے یا یہ کہ ہر وہ کام جو توحید چاہتی ہے اور میں اس کے خلاف سرانجام دیتا ہوں، وہ ذات خدا کی نفی ہے؟ اگر یہ ہے تو یہ کفر بواح میں آتا ہے؟ یقیناًاس کے اندر آ جائے گا۔ تو اس کی تعیین ہمارے لیے ضروری ہے۔
دوسرا موضوع آ جاتا ہے کتاب کا۔ کتاب جس کا خداوند تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے، وہ یقیناًمحفوظ ہے، تاقیامت محفوظ رہے گی۔ اس کی آیات میں نہ کوئی تحریف ہے، نہ تحریف بالزیادۃ اور نہ تحریف بالنقص۔بہرحال اگر کوئی کتاب کا منکر ہے تو کفر بواح میں وہ بھی آ جائے گا۔ اسی طریقے سے سرور کائنات کی ذات کی کسی بھی حوالے سے نفی کرتا ہے، اس موضوع میں بھی ذات اللہ کی طرح بہت وسعت پائی جاتی ہے۔ سرور کائنا ت کے فرمان کو نہ ماننا کیا یہ سرور کائنات کی نفی ہے؟ سرور کائنات کہہ رہے ہیں کہ ہم یہ گناہ نہ کریں۔ ہم کر رہے ہیں تو کیا یہ نفی ہے یا نفی نہیں ہے؟ اس کی تعیین بھی آپ جیسے بزرگان کی موجودگی میں ہی ہمارے لیے ممکن ہو سکتی ہے۔
اس کے بعد زیادہ روایات جو کثرت سے اس موضوع کو آگے لے کر گئی ہیں، وہ ہے خداکے حوالے سے ۔ مثلاً دین خدا کا انسان منکر ہے، دین کا خیال نہیں کرتا۔ یہ اصطلاحیں بہت زیادہ استعمال ہوئی یں۔ اس سے موضوع میں اور زیادہ وسعت آ جائے گی، لیکن جب ہم دین تک پہنچیں گے تو معاملہ پھر اگلی وسعت میں چلا جائے گا۔ پہلے ہماری گفتگو ہو رہی تھی عدم اقرار بالشہادتین پر۔ فرض یہ کیا گیا ہے کہ آدمی شہادتین کا اقرار کر رہا ہے، کتاب کا اقرار کر رہا ہے۔ اب موضوع وہ کافر ہے جو دین میں رخنے ڈال رہا ہے، دین میں کمزوریاں ڈال رہا ہے، دین میں آ کر اس طرح کے امور سرانجام دے رہا ہے۔ یہاں پر بھی بنیادی طور پر روایات کہتی ہیں کہ دو طرح کے اشخاص ہیں۔ ایک تو دین کا منکر ہے، وہ تو یقیناًکافر ہے۔ اس کی تو بحث ہی نہیں۔ ایک بے چارہ منکر نہیں، غلط کار ہے۔ اس کی اصلاح ہونے والی ہے۔ وہ گناہ کر بیٹھتا ہے۔ گناہ کرنا بھی تو دین کا انکار ہے۔ گناہ کرنے والے کو منکر دین نہیں کہا جاتا۔ نماز نہ پڑھنے والا منکر دین نہیں۔ ہاں ضروریات دین کا انکار کرنا اور چیز ہے، ان کو انجام نہ دینا اور چیز ہے۔ وہ منکر نہیں ہے، کوتاہی وسستی کرتا ہے، انجام نہیں دیتا تو کیا دونوں کو ایک کٹہرے میں لائیں گے؟ ایک لائن میں کھڑا کریں گے یا نہیں؟ بنیادی طور پر یہ ہے کہ گناہ کرنا کفر نہیں ہے۔ اگرچہ بعض اصطلاحیں ایسی ہیں کہ لفظ کفر استعمال ہوا ہے لیکن وہ کفر اس اصطلاحی مفہوم میں نہیں ہے کہ وہ اقرار بالشہادتین نہیں کر رہا۔ ہاں حلالِ محمد کو حرام قرار دیتا اور حرامِ محمد کو حلال قرار دینا، یہ واضح کفر ہے اور اس کا کسی نے بھی انکار نہیں کیا۔ علماء کرام اس موقع پر بحث کرتے ہیں کہ حلال محمد کو حرام قرار دینے والا گویا محمد کو نہیں مانتا اور رسالت کا اقرار نہ کرنے والا کافر ہے۔ اور حرام محمد کو حلال قرار دینے والا گویا توحید کو نہیں مانتا او ر توحید کے منکر کوہم پہلے کافر کہہ چکے ہیں۔ یہ کفر بواح کے حوالے سے ہے۔ 
تیسرا موضوع ہے عالم گیریت اورجمہوریت اور عصر حاضر میں کفر بواح کا اطلاق۔ یہ موضوع مل جاتا ہے اس سوال کے ساتھ کہ کفر بواح کے لیے اتھارٹی کیا ہے؟ آیا یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں لوگوں کے اندر کفر کی باتیں تلاش کرں یا کسی کا خود کفر کا اظہار کرنا اس بات کی بنیاد بنے گا کہ اس کو کافر کہا جائے؟ یہ اہم ترین سوال ہے کہ کیا یہ میری ذمہ داری ہے کہ جاؤں اور جا کر تلاش کروں کہ پرویزمشرف میں کیا کیا خامیاں ہیں اور ان کو قوم کے سامنے لے آؤں یا یہ کہ پرویز مشرف کہتا ہے کہ میں یہ غلط کام کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا۔ یہ دو چیزیں بالکل علیحدہ ہیں۔ یہاں اگر ہم نے کفر بواح کا اطلاق تلاش کرنا ہے تو لزوم کفر اور التزام کفر کا فرق ہمیں مد نظر رکھنا ہوگا، کیونکہ لازم تو ہر ہر چیز کا ہوتا ہے اور ہر لازم کا ایک جیسا عمل نہیں ہوتا۔ بعض لزوم ایسے ہیں کہ اس کے سامنے ہمیں نکلنا اور کھڑا ہونا پڑتا ہے اور بعض لزوم ایسے ہیں کہ ان کے سامنے ہمیں کھڑا نہیں ہونا پڑتا۔
آخری سوال کے حوالے سے کہ کافر قرار دینے کے لیے اتھارٹی کون ہے تو میرے بھائی جناب خلیل الرحمن قادری صاحب نے بڑی خوب صورت بات کہی کہ آج جن حالات سے ہم گزر رہے ہیں، ان میں تو ایک گلی سے اٹھنے والا بچہ کہہ دیتا ہے کہ فلاں کافر، فلاں کافر۔ اس کی کوئی بنیاد ہی نہیں ہے۔ قاعدے کی روشنی میں تو یہ مسئلہ علما نے حل کرنا ہے، فقہا نے بتانا ہے کہ کس کے پاس اتھارٹی ہونی چاہیے، لیکن عوام اور جہلا کے پاس نہیں ہونی چاہیے، بازاروں میں پھرنے والے بازاری لوگوں کے پاس نہیں ہونی چاہیے۔ جب نہیں ہونی چاہیے تو میرے برادر جناب حسن مدنی صاحب اور قادری صاحب نے بڑی خوب صورت بات کہی کہ جب آپ پر کوئی کفر کا فتویٰ لاگو کرتا ہے تو یہ بہت بڑا ظلم ہے۔ جب ظلم ہے تو کیا میں اس ظلم کے خلاف اٹھتا ہوں؟یہ تو ایک نعرہ لگتا ہے اور میں بھاگ اٹھتا ہوں کہ فلاں شخص مزار پر جاتا ہے اور فلاں یہ کرا ہے۔ ہمیں بیٹھ کر یہ طے کرنا ہے کہ اگر ہمیں فقہ جعفر کے متعلق اشکال ہو تو فقہ جعفری والے سے پوچھیں۔ فقہ حنفی پر کوئی اشکال ہے تو ان کو وضاحت کا موقع دیں۔ فقہ حنفی کی وضاحت فقہ جعفری والا نہ کرے۔ فقہ جعفر ی کی وضاحت ٰشافعی نہ کرے اور شافعی کی وضاحت مالکی نہ کرے۔ اگر وہ خود وضاحت کریں تو یہ سارا موضوع خود بخود سمٹ جائے گا۔
بہرحال اتھارٹی سمجھ میں نہیں آتی سوائے اس کے کہ آپ فقہا کو کہیں کہ ان کے پاس اتھارٹی ہونی چاہیے، مجتہدین کے پاس ہونی چاہیے۔ قادری صاحب نے پارلیمنٹ کا نام لیا ہے تو پارلیمنٹ وہ ہونی چاہیے جو خلفاے راشدین کے دور میں تھی، معصومین اور سرورکائنات کے دور میں تھی۔ پھر اس کے بارے میں کچھ کہا جا سکتا ہے۔ جن لوگوں کو لکھنا نہیں آتا، انگوٹھے لگاتے ہیں، سراسر بے دین ہیں، پھر بھی ہم ان کو منتخب کرتے ہیں، وہ یہ بیٹھ کرکیا طے کریں گے کہ فلاں کافر ہے اور فلاں کافر نہیں ہے۔

محمد عمار خان ناصر

مجھے شاید دوبارہ موضوع کے اصل دائرے کی طرف توجہ دلانا پڑے گی۔ غالباً ہمیں عام معاشرتی سطح پر کفر اور تکفیر کے مسئلے کا اتنا سامنا ہے کہ توجہ زیادہ اسی پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ خہاں کفر کا جو خاص دائرہ زیر بحث ہے جس کے حوالے سے ہم چاہ رہے ہیں کہ اس کی تنقیح ہو، وہ ہے کفر بواح جو ریاست یا حکمران سے کفر کے صدور کے لیے بولا گیا ہے۔ 

ڈاکٹر نجفی

بنیادی طور پر میرے ذہن میں یہ مسئلہ تھا کہ خروج کی بحث ابھی ہونی ہے۔ میں نے جتنی بھی گفتگو کی ہے، وہ ایک رئیس وحاکم کے حوالے سے کی ہے، اگرچہ الفاظ میں نے عمومی استعمال کیے ہیں۔ چونکہ خروج پر گفتگو بعد میں کرنی ہے، اس لیے میں نے چاہا کہ اس موضوع کو ابھی نہ چھیڑا جائے۔

عمار خان ناصر

جو سوال اصل میں یہاں زیر بحث ہے اور جس کی تنقیح مطلوب ہے، وہ یہ ہے کہ ہم نے جس جمہوری نظام کو اپنایا ہوا ہے، کیا یہ کفر ہے اور کفر پر مبنی ہے؟ جمہوری نظام میں ظاہر ہے کہ افراد کی اہمیت نہیں ہوتی۔ فرد کو بدلا جا سکتا ہے۔ کم سے کم یہ بات تو یہاں موجود سبھی حضرات مان رہے ہیں کہ یہ کوئی معیاری اسلامی نظام نہیں ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کی اطاعت کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اگرچہ ہم کہہ رہے ہیں کہ اسی نظام کے اندر کام کرنا بہتر ہے، لیکن اس بنیادی مقدمے کو ماننے کے بعد یہ سوال لازماً پیدا ہوتا ہے کہ ایک گروہ یہ کہتا ہے کہ یہ نظام کفر ہے یا کفر پر مبنی ہے یا اسلامی شریعت کے نفاذ کے لیے کوئی معیاری ڈھانچہ ہمیں نہیں دیتا، اس لیے ہم اس کی اطاعت کو شرعاً لازم نہیں سمجھتے اور اس کو بدلنے کے لیے مسلح جدوجہد کرنا چاہتے ہیں۔ تو اس سوال پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ استدلال کیا ہے اور جو حضرات یہاں تشریف لائے ہیں، ان کا اس کے متعلق نقطہ نظر کیا ہے؟

مولانا احمد علی قصوری

میں یہ محسوس کر رہا ہوں کہ آپ کے ایجنڈے کے اندر اتنی شقیں رکھ دی گئی ہیں اور اتنی ان کے اندر وسعت ہے کہ اس محدود سے وقت کے اندر ان کا احاطہ کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ بہرحال میں چند گزارشات آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔
ڈاکٹر سید محمد نجفی صاحب کی گفتگو ابھی سنی ہے جو کفر بواح کے حوالے سے تھی۔ شہادتین کے حوالے سے تو انھوں نے درست کہا کہ ان کے منکر کے کافر ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں، لیکن میری طالب علمانہ نگاہ میں اللہ تعالیٰ کا پہلا فتویٰ جو قرآن کریم میں آیا ہے، وہ یہ ہے کہ ومن الناس من یقول آمنا باللہ وبالیوم الآخر وما ہم بمومنین۔ اس کے اندر صرف شہادتین کا ذکر نہیں بلکہ آخرت تک کا ذکر ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے اے ٹو زیڈ سب مان لیا، لیکن اللہ تعالیٰ کا فتویٰ یہ ہے کہ وما ھم بمومنین۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ شہادتین کی اہمیت اولیت کے اعتبار سے ہے۔ ترتیب ہی یہی بنتی ہے۔ ایمان اور کفر کی بنیاد ہی یہی بنتی ہے کہ سب سے پہلے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ اور اس کے بعد ترتیب میں اور امور بھی ہیں۔ لہٰذا ہمیں یہ نکتہ ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ بنیادی عقائد، اس کے اندر آخرت کا عقیدہ بھی، قدر کا مسئلہ بھی اور دیگر امور بھی آ جائیں گے۔
موجودہ حالات کے تناظر میں جب آپ بات کرتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ چاہے انفرادی زندگی ہے چاہے اجتماعی زندگی ہو، حالات اور موقع محل کو ملحوظ خاطر رکھنا بڑا ضروری ہے۔ ایمرجنسی کے اند ایک مریض آجاتا ہے۔ اس کا خون بہہ رہا ہے یا اس کو ہارٹ اٹیک ہو چکا ہے۔ اسی مریض کو کچھ کان میں بھی درد ہے، دانت میں بھی درد ہے، اس کے جسم پر کچھ پھوڑے پھنسیاں بھی ہیں تو کیا اس وقت جب علاج کے لیے اطبا priorities طے کریں گے تو وہ اس کے پھوڑے پھنسی ، دانت درد اور کان درد کا علاج کریں گے یایہ دیکھا جائے گا کہ اس وقت اس کی ضرورت کیا ہے؟ اس سادہ سے اشارے کے ساتھ میں یہ عرض کرنا چاہ رہا ہوں کہ ہم نے جو موضوع کا انتخاب کیا ہے، اس موضوع کی جزئیات اور تفصیلات کی اپنی جگہ کافی اہمیت ہے، لیکن اس سے پہلے چند امور ایسے ہیں کہ ان پر پہلے گفتگو کی ضرور ہے اور ترجیحات کا جب آپ تعین کریں تو ان کو پہلے لایا جائے۔
ایک تو یہ کہ کفر بواح کے صدور کا فیصلہ کون کرے گا، اتھارٹی کون ہے؟ یہ گفتگو کے اندر ایک اہم نکتہ ہے۔ میں اس میں تجزیے کے بجائے تجویز کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ اس وقت جو معروضی عالمی حالات ہیں، ان میں خاص طور پر ابلیسی، طاغوتی، لادینی استعماری قوتوں کا غلبہ ہے اور ان کا آپس میں اتحاد واتفاق بھی ہے۔ کم از کم امت مسلمہ اور عالم اسلام کے خلاف ان کا اتحاد واتفاق اس حد تک ہے کہ ہم پاکستان کے پڑوس میں چلے جائیں تو ستاون ممالک کی فوجیں یہاں بیٹھی ہوئی ہیں۔ ان کے آئین مختلف ہیں، دساتیر مختلف ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ اسلام دشمنی کے اندر ایک ہیں۔ ایسے حالات میں امت مسلمہ کے اس طرح کے جو علمی وفکری اور اعتقادی مسائل ہیں، ان میں اتھارٹی کس کو ہونا چاہیے؟ اس میں تو کوئی شک وشبہ نہیں کہ آج تک کی اسلامی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب بھی کسی دور میں کوئی فتنہ پیدا ہوا ہے تو ہمارے اکابر واسلاف نے اس دور کے فتنے کو پہچانا اور موقع ومحل کے مطابق تشخیص، علاج اور پرہیز انھوں نے بتایا اور ان فتنوں کا مقابلہ کیا ۔آج بڑے بڑے فتنوں کے اندر یہ بات خاص طور پر شامل ہے کہ میڈیا ایک سائنسی ذریعہ بن چکا ہے۔ اس دور میں بڑی سرعت پیدا ہو چکی ہے اور میڈیا کے ذریعے باطل پنے نظریات کو اس طریقے سے انجیکٹ کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں اہل علم نے حالات کے مطابق تیاری نہیں کی۔ اعدوا لہم ما استطعتم، ادھر ہم تیر کی جگہ سے میزائل پر آ گئے ہیں تو درست، اگر ہم گھوڑے اور اونٹ کی جگہ سے ٹینک پر آ گئے ہیں تو درست، لیکن یہ جو دینی ومذہبی امور تھے، ان میں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ تقاضا یہ بنتا تھا اور ہے جس کی طرف ہم جب بھی آئیں گے تو مسائل حل ہوں گے۔ وہ یہ کہ تمام مکاتب فکر کے مشترکات زیادہ ہیں اور مختلفات کی تعداد بہت کم ہے۔ ہو یہ رہا ہے کہ غیروں کی جو کچھ سازشیں ہیں، وہ تو غیر ہیں۔ انھوں نے divide and rule کے اور تخویف وتحریص کے سارے حربے استعمال کرنے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان کے مقابلے پر ہماے اہل علم اپنے تمام مشترکات ایک پلیٹ فارم پر لے آتے۔ اگرکوئی ایسی حکومت موجودہ ہوتی جس کو اسلامی کہا جا سکتا تو میں یہ عرض کرتا کہ وہ حکومت یہ کام کرے۔ اگر بدقسمتی سے کوئی حکومت اس معیار پر پورا نہیں اترتی تو اہل علم یہ کام کریں۔ 
اہل علم سے مراد صرف دینی اور مذہبی علما نہیں ہیں۔ قیادت ان کی ہو، سیادت ان کی ہو، باقی شعبہ ہاے حیا ت کے جو ماہرین ہیں، ان کو بھی معاون کے طور پر ساتھ شامل رکھا جائے اور جب فیصلہ کیا جائے تو غلبہ انھی کا ہو، راہ نمائی انھی کی ہو کیونکہ یہ انھی کا استحقاق اور انھی کا فریضہ ہے۔ وہ lead کریں اور باقی جو شعبہ ہاے حیات ہیں، ان کے ماہرین کو ساتھ رکھ کر مسائل کو حل کیا جائے۔ مفتی محمد خان صاحب فرما رہے تھے کہ کوئی بورڈ بن جائے۔ میں تو کہوں گا کہ وہ صرف پاکستان کا بورڈ نہ ہو بلکہ اس سے آگے کوشش کی جائے کہ مختلف ممالک کے اندر اسی طرح کے کچھ بورڈ تشکیل پائیں اور یہاں اگر ایک مسئلے پر بحث ہو رہی ہے تو آپ اپنی رائے تجویز کے لیے دیگر ممالک کے بورڈوں کے سامنے رکھیں۔ پھر آپ کے پاس خلاصہ آ جائے گا۔ جہاں اتفاق رائے ہو جائے، اس کو بنیاد بنا لیں اور جس جز پر اتفاق رائے نہ ہو سکے، اس جز کو pending کر دیا جائے۔
اس کے ساتھ ایک مسئلہ اور بھی ہے۔ یہاں جمہوریت کی بات ہوئی۔ آپ کو غور کرنا ہوگا کہ مروجہ جمہوریت کے پورے لٹو کی جو سوئی ہے جس پر وہ چلتا ہے، وہ ہے اکثریت کی رائے کی بنیاد پر فیصلہ، جب کہ اسلام میں یہ نہیں ہے۔ اسلام میں تو اللہ اور اس کے رسول کے احکام ہیں اور مستقل بالذات جو مراجع اطاعت ہیں، وہ اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول ہیں۔ علما بہتر طو رپر جانتے ہیں کہ واولی الامر منکم جب آیا ہے تو وہاں پر اطیعوا کا لفظ نہیں ہے ۔ پہلی دو اطاعتیں unconditional ہیں، غیر مشروط ہیں، ہر قیمت پر اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی اطاعت کی جائے گی۔ وہاں بھلے کسی کی عقل کچھ کہہ رہی ہو، کسی کی خواہش کچھ کہہ رہی ہو۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا وہ بڑا حکیمانہ قول ہے کہ اگر میں نے عقل محض کے ساتھ فیصلہ کرنا ہوتا تو میں عورت کو دوگنا دیتا اور مرد کو وراثت میں آدھا حصہ دیتا۔ تو مروجہ جمہوریت کی بنیاد اکثریت پر ہے اور قرآن کریم میں آپ بہت سے مقامات پر یہ لفظ دیکھیں گے کہ اکثرہم لایعقلون۔ اسلام میں اکثریت کی بنیاد پر فیصلے نہیں ہوتے۔ اس نکتے پر موجودہ جمہوریت کے ساتھ اسلام کا بنیادی تصادم ہے۔ لہٰذا اللہ اور رسول کے علاوہ جو مشروط اطاعت ہے، اس شرط کا مفہوم ہی یہ ہے کہ جو بنیادی مراجع اطاعت ہیں، ان کی اطاعت اگر کی جائے گی تو پھر تیسرے نمبر پر اولی الامر کی اطاعت ہوگی، ورنہ لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق۔
عوام الناس کی سطح پر، عام ائمہ وخطبا اور واعظین کی سطح پر کفر کا اطلاق کاکیا جاتا ہے اور کسی ایک طبقے کو، کسی ایک مکتب فکر کو مطلقاً کافر کہہ دیا جاتا ہے۔ ان چیزوں کو روکنا بھی ہمارے فرائض میں شامل ہے۔ وقت کے دامن میں تفصیل میں جانے کی گنجائش نہیں، اتنی بات ضرور ہے کہ اس میں ’علما‘ کے لفظ کا جو اطلاق ہے، اس کا دائرہ وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اعتقادی اور فکری امور ہیں۔ جس طرح فقہی امور کے اندر اختلاف کی مقدار کم ہے، مشترکات زیادہ ہیں ، اسی طرح یہ بھی جائزہ لینا چاہیے کہ جو آپ کا علم الکلام ہے، جو اجتہادی سطح کی صلاحیت رکھنے والے اہل علم موجود ہیں مختلف مکاتب فکر کے۔ پاکستان کی تاریخ کے اندر ایک واقعاتی شہادت موجود ہے کہ جب بھی کچھ ایسے مسائل پیدا ہوئے، علما نے راہ نمائی کی۔ پہلا دستور سازی کا مرحلہ ایا تو علماء کے بائیس نکات پاکستان کی دستوری تاریخ میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اکابر علما بیٹھے اور انھوں نے آئین اور دستور سے متعلق معاملات طے کیے۔ پھر ختم نبوت کا مسئلہ آیا تو علما علمی سطح پر بیٹھے۔ ان کا باہمی مکالمہ ومذاکرہ ہوا اور مشترکہ ومتفقہ نتائج سامنے آئے۔ اس کو سامنے رکھتے ہوئے کئی ایسا ادارہ معرض وجود میں آنا چاہیے جو ان امور کو بہتر طورپر دیکھے۔
تکفیر کے متعلق میں بس یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن پاک نے کہا ہے کہ ولا تنابزوا بالالقاب۔ ایک دوسرے کو برے القاب سے مت پکارو۔ کفر کا فتویٰ توسب سے آخری اسٹیج ہے۔ اس کی تہہ میں جائے بغیر، اس کے سمجھے بغیر کہ اس کا اطلاق کہاں ہو سکتا ہے اور کہاں نہیں ہو سکتا، یہ تو کفر سازی ہے۔ تبلیغ بنیادی طور پر دو حصوں میں ہے۔ غیر مسلم کو اسلام کی دعوت دینا اور مسلمان کہلانے والوں کو اسلام پر برقرار رکھنا۔ یہ جو تکفیر کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے، اس کا ان دونوں کے ساتھ ہی کوئی تعلق نہیں بنتا ۔جب ہم کفر کا فتویٰ دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جو مسلمان کہلانے والے تھے، ان کو ہم اسلام سے خارج کر رہے ہیں۔ ایک حدیث مبارکہ پیش کر کے میں اپنی گفتگو کو سمیٹتا ہوں۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من رمی مومنا بکفر فہو کقتلہ۔ جس نے کسی مومن کے اوپر کفر کا الزام لگایا، گویا اس نے اسے قتل کر دیا۔ اسی طرح بخاری شریف میں ہے کہ من دعا رجلا بالکفر او قال عدو اللہ ولیس کذالک الا عاد علیہ۔ اگر کسی نے کسی شخص کو کہا کہ وہ کافر ہے یا اسے کہا کہ یہ اللہ کا دشمن ہے حالا نکہ وہ ایسا نہیں تھا تو وہ الزام اسی پر پلٹ کر آ جائے گا۔ یہ بڑا نازک معاملہ ہے۔ کسی کو دائرۂ اسلام سے خارج کر دینا ایسے ہی ہے جیسے ہم قصابوں کو دل کے آپریشن کے لیے انسانوں کے ہسپتالوں میں متعین کر دیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم تو دل کے ایکسپرٹ ہیں۔ انسانی جسم بھی ایسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ جانوروں کا۔ ہم تو ایک ایک بوٹی کو جانتے ہیں۔ تو ایسے دعوے داروں کاراستہ روکنا ہوگا اور امت مسلمہ کو اس معاملے میں اجتہاد کی ضرورت ہے۔

علامہ خلیل الرحمن قادری

تکفیر کے متعلق ایک جز ہماری اس بحث میں نہیں آیا۔ اس کو بھی کسی وقت شامل کرنا چاہیے کہ اسلام نے کہا ہے کہ جو قطعی کافر ہے، وہ ہم کسی کے مرنے کے بعد ہی اس کو کہہ سکتے ہیں۔ ورنہ ایک شخص مسلمان ہے۔ اس کے بارے میں ہمیں شک پڑا کہ ہ کافر ہے۔ اب وہ فوت ہو جاتا ہے تو اس کو ہم قطعی کافر نہیں کہہ سکتے۔ کیا پتہ وہ ایمان پر فوت ہوا ہو۔ یعنی اگر کسی مسلمان کے بارے میں ہم نے فتویٰ دیا ہے تو کیا وہ مرنے کے بعد بھی قائم رہے گا؟ اس سوال کو بھی کسی وقت ہمیں ڈسکس کرنا چاہیے۔

محمد عمار خان ناصر

میں اس سیشن کے آخری مقرر مولانا زاہد الراشدی صاحب کو دعوت دینے سے پہلے یہ چاہوں گا کہ مفتی منصور احمد صاحب اور علامہ خلیل الرحمن قادری صاحب کی گفتگو میں جو کچھ پہلو تشنہ رہ گئے تھے، وہ اگر ان پر اظہار خیال کرنا چاہیں تو کر لیں۔
علامہ خلیل الرحمن قادری
محترم عمار صاحب نے متوجہ کیا کہ تکفیر کے حوالے سے آج کی گفتگو کا اصل تناظر ریاستی نظام کا کفر ہونا یا نہ ہونا ہے۔ اصل میں جو سوالات ہمارے سامنے رکھے گئے، ان سے کچھ اشتباہ پیدا ہوا، اس لیے میں نے جو گفتگو کی، وہ شخصی اور گروہی تکفیر کے حوالے سے تھی۔ حال امن وامان کے تناظر میں اس بحث کی بھی relevance بنتی ہے، اس لیے کہ جتنا تشدد اور باہمی جنگ وجدال اس بے احتیاطی کی وجہ سے معاشرے میں نظر آتا ہے تو وہ بھی ایک امن کی بحث ہے۔ بہرحال میں اصل سوال پر مختصر طور پر اپنی گزارشات پیش کرتا ہوں۔
حکمرانوں کے حوالے سے دو صورتیں ہیں۔ پہلی صورت تو یہ ہے کہ کسی حکمران سے ذاتی طور پر کفر کا صدور ہو۔ دوسری صورت نظام کے حوالے سے ہے یعنی جس نظام کے تحت فیصلے کیے جا رہے ہیں اور معاملات چلا ئے جا رہے ہیں، وہ نظام کیا ہے؟ اس کے بارے میں قرآن حکیم کی تصریحات موجود ہیں اور ظالم اورفاسق اور کافر کے الفاظ اس حوالے سے کہے گئے ہیں کہ جو بما انزل اللہ کے مطابق فیصلے نہیں کرتے۔ فقہا کے مابین اگر اختلاف ہے تو وہ خروج کی صورت میں ہے۔ کفر بواح کے بارے میں تو سارے متفق ہیں کہ خروج ہوگا، لیکن امام ابوحنیفہ کا موقف یہ ہے اور دلائل کی بنیاد پر انھوں نے یہ بات واضح فرمائی ہے کہ فاسق وفاجر اور ظالم امام کے خلاف بھی خروج کیا جا سکتا ہے اور عملاً آپ نے اپنے دور میں ایسے خروجوں کی تائید بھی کی۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد کے فقہاے احناف جمہور کے ساتھ موافق ہو گئے اور اس کی بنیاد یہ نہیں کہ دلائل شرعی میں کوئی کمزوری واقع ہو گئی تھی۔ دلائل شرعی موجود تھے، مصالح کے پیش نظر ایسا کیا گیا۔ ان مصلحتوں میں یہ معاملہ تھا کہ ایک طرف حکمران ہیں،ان کی فوجیں ہیں، ان کا سرمایہ اور ذرائع ہیں۔ دوسری طرف چند لوگ جو خروج کے لیے نکلے ہیں توخروج کے ان واقعات میں مال وانفس کا جو اتلاف ہوا، اس کے بعد جمہور کے ساتھ موافقت والی بات آئی کہ خروج سے ہاتھ روکا جائے۔ لیکن میں یہ بات پھر دہرا دیتا ہوں کہ کفر بواح کی صورت میں نہیں، صرف ظلم اور فسق کی صورت میں ہاتھ روکا جائے۔ ظلم کو برداشت کیا جائے، فسق کو برداشت کیا جائے یا جو دیگرمعاملات ہیں، نرم صورتیں ہیں، ان میں مسلح خروج سے گریز کیا جائے۔ آپ وعظ وتلقین کی بات کرتے ہیں، نصیحت کی بات کرتے ہیں، پرامن احتجاج کی بات بھی کرتے ہیں تو یہ ساری چیزیں ان کا دائرہ خروج سے ہٹ کر ہے۔ 
اس ضمن میں آج کے حالات میں دو چیزیں خاص طور پر قابل غور ہیں۔ پہلی چیز یہ ہے کہ آج کے حالات عدم خروج کے حوالے سے اور زیادہ شدید ہیں۔ اس وقت جو فوجیں ہیں، وہ زیادہ مسلح اور زیادہ منظم ہیں اور ان کے پاس زیادہ قوت اور زیادہ جدید اور بہتر اسلحہ ہے، جبکہ عوام جو خروج کے لیے نکلیں گے تو وہ اس سے محروم ہیں، لہٰذا جان ومال کا اتلاف جس کو دیکھتے ہوئے فقہاے احناف اس کی طرف گئے، وہ یہاں بدرجہ اتم موجود ہے، لہٰذا ہمارے لیے زیادہ ضروری ہے کہ ہم خروج کا راستہ اختیار کرنے سے بچیں۔ دوسری بات جو اس حوالے سے بڑی ضروری ہے، وہ یہ کہ جمہوری ریاست کا قیام، اس کے ارکان پارلیمنٹ، صدر اور وزیر اعظم کا انتخاب جس نظام کے تحت ہوتا ہے، اس نظام کو تو آپ سب قبول کیے بیٹھے ہیں۔ جب آپ اسی نظام کو قبول کر کے اپنے نمائندے منتخب کر کے اندر بھیج دیتے ہیں تو اس کے بعد آپ کیسے نظام کی بنیاد پر خروج کو سوچ سکتے ہیں۔ یہ تو بڑی عجیب بات لگتی ہے۔ میرے خیال میں اصل صورت حال یہ ہے کہ ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ ہمیں حکمرانوں سے ہٹ کر نظام کے خلاف بات کرنی ہے کہ یہ نظام ہم نہیں چلنے دیں گے اور اس نظام کو ہم بدلیں گے، ورنہ افراد تو بدلتے رہیں گے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ایک تو یہ چیز ہمارے پیش نظر رہنی چاہیے۔
دوسری یہ کہ جو متبادل صورتیں ہیں، متبادل صورتوں میں یہ ہے کہ دستور موجود ہے، آپ عدم اعتماد لے آئیں۔ اس حوالے سے میرا تحفظ یہ ہے کہ جو لوگ کسی شخص کو مامور کرتے ہیں، ان کو اسے معزول کرنے کا اختیار بھی ہونا چاہیے۔ یہ ہمارا اسلامی فلسفہ ہے۔ اب بات نمائندگان پر آ جاتی ہے۔ آپ سیاسی جماعتوں کے ارکان اسمبلی سے ان کی پارٹی کے کسی منتخب حکمران کی معزولی کی بات کریں گے تو وہ تو کبھی اس طرف نہیں آئیں گے۔ تو معزولی کی کوئی ایسی صورت جو جمہوری بھی ہو، پر امن بھی ہو ، اس کے لیے ریفرنڈم کی طرز کی کوئی شکل سوچنی پڑے گی تاکہ براہ راست عوام اپنی رائے کا اظہار کر سکیں۔ یہ کیا ہوا کہ عوام نے ایم این اے منتخب کر کے بھیج دیے اور ایم این اے سارے وزیر اعظم کی جیب میں ہیں۔ وہ کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ عدم اعتماد آئے۔ تو معزولی کی کوئی صورت اگر بنانی ہے تو ریفرنڈم کی بنائیں۔

مفتی منصور احمد

میزبان صاحب کی طرف سے یہ سوال اٹھایا گیا کہ اگرچہ خروج کا مسئلہ رد عمل کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے، لیکن اس کے حق میں جو استدلال پیش کیا جا رہا ہے، وہ یہاں رکتا نہیں۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو اسلامی ریاست کی جگہ مسلم ریاست اور جمہوری ریاست، یہ کوئی معیاری اسلامی نظام نہیں ہے۔ اس حوالے سے دو رائیں نہیں ہیں۔ ایک طبقہ جمہوریت پر مبنی ہمارے نظام حکومت کو کفر پر مبنی نظام کہتا ہے۔ سیدھی بات ہے کہ جمہوری نظام اور ڈیموکریسی اسلام کے متوازی ایک نظام ہے۔ آج جو نظام قائم ہے، اس کو ہم اگر اسلامی جمہوری بھی کہہ لیں تو اس سے یہ اسلامی نہیں ہو جاتا۔ یہاں تو اکثریت کا فیصلہ ہے۔ آج یہ اسلامی جمہوریہ ہے، کل وہ اکثریت کی رائے سے مسیحی جمہوریہ رکھ سکتے ہیں۔ بات تو اکثریت کی ہے۔ تو اسلامی نظام اور جمہوری نظام کا جو عمود ہے، وہ ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے۔ اسلامی نظام قرآن وسنت کی حاکمیت کو خلق خدا پر نافذکرنا چاہتا ہے، جبکہ جمہوریت اس سے الگ سوچ اور فکر لے کر آئی ہے۔ پاکستان کی موجودہ صورت حال کے تناظر میں تو میں معذرت کے ساتھ یہ بات عرض کرنا چاہوں گا کہ کوئی بھی اس کو اسلامی جمہوری نظام نہیں کہہ سکتا۔ اس کے ساتھ اسلامی کی قید لگانے سے یہ اسلامی نہیں ہو جاتا۔ آپ دیکھیں کہ یہاں جب سود کی حرمت کا فیصلہ آتا ہے تو اس کے مقابلے میں حکومت عدالت میں اپیل دائر کر دیتی ہے۔ یہاں پارلیمنٹ تحفظ حقوق نسواں کے نام پر غیر شرعی قوانین منظور کرتی ہے۔ حکمران اسلامی حدود اور اسلامی شعائر کا مذاق اڑاتے ہیں۔ تحفظ ناموس رسالت کا مسئلہ زیر بحث آتا ہے تو یہاں کا حکمران طبقہ اس کو ’’کالا قانون‘‘ کہتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس نظام کو اسلامی کہنا کہاں تک درست ہے!
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگرہم یہ کہتے ہیں کہ یہ ایک نظام زندگی ہے جس میں رہنے پر ہم مجبور کر دیے گئے ہیں یا مجبوراً رہ رہے ہیں اور ہمارے پا س کوئی اور طریقہ نہیں تو آیا اس سے اقامت دین کا وہ حکم جسے قرآن نے سنت اللہ کہا اور سنت انبیا کہا اور جس کو فقہا نے اہم الفرائض بعد الایمان کہا۔ امام جصاص نے اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے واضح طوپر کہا کہ اہم الفرائض بعد الایمان اقامۃ الدین۔ تو اقامت دین کا وہ حکم جو ہر مسلمان کی طرف متوجہ ہے، آیا اس نظام پر راضی رہنے سے وہ حکم متاثر تو نہیں ہوتا؟ اسی کو ایک طبقہ طاغوت کی اصطلاح میں بیان کرتا ہے کہ یہ کفر کا نظام ہے، یہ طاغوت ہے۔ قرآن کریم میں ہے کہ الم تر الی الذین ..... ضلالا بعیدا۔ اسی طاغوت کے بارے میں اگلی آیت میں یہ کہا گیا ہے کہ واذا قیل لہم تعالوا الی ما انزل اللہ والی الرسول قالوا حسبنا ما وجدنا علیہ آباءنا۔ تو آج کی جمہوریت بھی تویہی کہہ رہی ہے۔ پھر تکفیر کے سوال کے تناظر میں اس کو بھی دیکھا جائے کہ من یتولہم منکم فانہ منہم۔ آپ کے سامنے یہ کتابیں آئی ہیں کہ التبیان فی کفر امریکا عنان؟ ہماری حکومت، ہماری پارلیمنٹ ہمارا سارا بنیادی ڈھانچہ اور اسٹرکچر مسلمانوں کے خلاف عالمی استعمار کا ساتھی بنا ہوا ہے تو ہم ان کو کیسے مسلمان کی حیثیت سے دیکھیں؟ یہ الگ بات ہے کہ ہم اس نظام میں رہنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں، لیکن ہم اس کو کس حیثیت سے دیکھیں، یہ بہت واضح بات ہے۔

مولانا زاہد الراشدی

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم وعلیٰ آلہ واصحابہ واتباعہ اجمعین۔
سب سے پہلے تو میں پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کا شکر گزار ہوں کہ اس علمی وفکری محفل میں حاضری کا اور کچھ کہنے سننے کا موقع فراہم کیا۔ جو مسائل زیر بحث ہیں، ان میں اس وقت آج کے عالمی تناظر میں تکفیر پر بات ہو رہی ہے۔ خروج کی بحث دوسرے سیشن میں ہوگی، لیکن ہو سکتا ہے کہ اس وقت تک میں نہ رک سکوں، اس لیے میں اسی سیشن میں اس موضوع پر کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم جو بحث کر رہے ہیں، کیا وہ زیرو پوائنٹ سے کر رہے ہیں یا اس سے پہلے ہمارے اکابر نے جو بحثیں کی ہیں، وہ ہمارے سامنے ہیں؟ آزادی کے بعد ، پاکستان کے بننے کے بعد ساٹھ سال سے بحثیں ہو رہی ہیں، انھی سوالات پر بحثیں ہوئی ہیں۔ نتائج سامنے آئے ہیں، بات آگے بڑھی ہے۔ میرا پہلا سوال اور نکتہ یہ ہے کہ اس سے پہلے ساٹھ سال میں انھی مسائل پر ہمارے اکابر کے ہاں جو گفتگو ہو چکی ہے اور بعض مسائل میں ہم ایک نتیجے پر پہنچ چکے ہیں، کیا ہم اس کو نظر انداز کرکے زیرو پوائنٹ سے دوبارہ گفتگو کا آغاز کر رہے ہیں یا اس کو سامنے رکھ کر اس کی روشنی میں گفتگو کر رہے ہیں۔ اگر تو ہم اس سارے عمل کو ایک طرف رکھ کر زیرو پوائنٹ سے نئی بحث کا آغاز کر رہے ہیں تو ہماری ساری گفتگو ٹھیک ہے، لیکن اگر وہ ہمارے ماضی کا حصہ ہے اور ہماری بنیاد بنتا ہے تو ہمیں اس کو سامنے رکھ کر بات کرنی چاہیے۔
مثلاً تکفیر پر ہمارے ہاں ایک لمبی بحث چلی ہے اور وہ ایک نتیجے پر پہنچی ہے۔ جب ۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں قادیانیوں کے خلاف تحریکی چلی اور انکوائری کمیشن بنا تو اگر میرے دوستوں کی نظر سے جسٹس منیر انکوائری رپورٹ گزری ہو تو اس بحث کا آغاز وہاں سے ہوا تھا کہ قادیانیوں کو کافر کہنے سے پہلے اپنے بارے میں فیصلہ کریں کہ آپ میں سے کون مسلمان ہے اور کون کافر؟ اس بحث کا آغاز ہوا اور یہ بحث بڑھتے بڑھتے ایک نتیجے تک پہنچی۔ پھر جب ۱۹۷۳ء کا دستور تشکیل پا رہا تھا تو دستور ساز اسمبلی میں یہ سوال کھڑا ہو گیا اور تحدی کے طورپر کھڑا ہو گیا۔ اس وقت کے وزیر اطلاعات مولانا کوثرنیازی مرحوم نے اسمبلی کے فلور پر، جہاں مولانا نورانی اور مولانا مفتی محمود بھی بیٹھے تھے، کھڑے ہو کر کہا کہ اگر آپ لوگ مسلمان کی دستوری تعریف پر متفق ہو جائیں تو ہم آپ کے مطالبات مان لیں گے۔ آپ مسلمان کی ایسی تعریف کر دیں کہ دونوں طرف کے فتووں کے باوجود آپ دونوں مسلمان سمجھے جائیں۔ یہ سوال اسمبلی کے فلور پر چیلنج کے انداز میں مولانا کوثر نیازی نے کیا تھا۔ اس وقت اس پربڑی بحث ہوئی تھی۔ دو بڑے بزرگ، شیخ الحدیث مولانا عبد الحق آف اکوڑہ خٹک اور جامعہ امجدیہ کے شیخ الحدیث مولانا عبد المصطفیٰ ازہری، رات کو اکٹھے ہوئے اور بیٹھ کر مسلمان کی متفقہ تعریف متعین کی کہ مسلمان وہ ہے جو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اور جو دین آپ لے کر آئے، اس پر ایمان رکھتا ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد ’تبعا لما جئت بہ‘ کو ایک دستوری رنگ دے کر ان حضرات نے مسلمان کی تعریف بیان کی۔
میں یہ تفصیلات اس لیے پیش کر رہا ہوں کہ ہمیں اپنے ماضی کے مباحث کو سامنے رکھنا چاہیے۔ ہم جب کسی مسئلے پر گفتگو کا آغاز کرتے ہیں تو زیرو پوائنٹ سے کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے ماضی اوراپنے اکابر کے مباحث کو سامنے رکھنا چاہیے کہ ہم کچھ مسائل میں نتیجے پر پہنچ چکے ہیں اور نتیجے پر پہنچنے کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔ اب اس کو ری اوپن کر کے پینڈورا باکس کھولنا میرے خیال میں ٹھیک نہیں ہے۔ ہمیں اس بحث کو سامنے رکھ کر اس کے تناظر میں بات کرنی چاہیے۔
اس حوالے سے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جمہوریت اور اسلام کی بات کیا ہے؟ جمہوریت دو چیزوں پرمشتمل ہے۔ ایک تو یہ کہ فیصلوں کی اتھارٹی کون ہے؟ مغربی سیکولر فلسفے کے نزدیک اتھارٹی سوسائٹی ہے۔ سوسائٹی یا اس کے نمائندے جو کچھ کہتے ہیں، وہی حق وباطل کا معیار ہے، وہی حلال وحرام کا معیار ہے۔ اسلام ایک لمحے کے لیے بھی اس کو سوچنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ لیکن جمہوریت کا ایک اور پہلو ہے کہ حق حکمرانی کس کو ہے؟ ایک حاکم ، حاکم بنتا ہے تو وہ کس بنیاد پر بنتا ہے؟ حکومت کی تشکیل کس بنیاد پر ہوگی؟ حق حکمرانی کس بنیاد پر ملے گا؟ طاقت اور قوت کے بل بوتے پر یا کسی اور بنیاد پر؟ اگر ہم اپنے آغاز کو لیں تو میں سمجھتا ہوں کہ جناب صدیق اکبر کا انتخاب طاقت کی بنیاد پر نہیں ہوا، بلکہ ان کا انتخاب عوامی رائے کی بنیاد پراور عوامی بحث ومباحثہ کے بعد ہوا ہے۔ انھوں نے کھڑے ہو کر پہلا جو اعلان کیا، وہ یہ ہے کہ میں قرآن وسنت کے تابع ہوں۔ اس کے مطابق چلوں تو میرا ساتھ دو۔ اگر اس کے مطابق نہ چلوں تو تم پر میری اطاعت واجب نہیں ہے۔ میں یہ عرض کرتا ہوں کہ سوسائٹی کا یا سوسائٹی کے نمائندوں کا حرف آخر ہونا، اس کی تو اسلام مکمل نفی کرتا ہے، لیکن دوسرا سوال یہ ہے کہ حق حکمرانی عوام کی رائے سے ہوگا یا طاقت کے بل بوتے پر؟ اسلام ان میں سے کس بات کو قبول کرتا ہے؟ ہماری تاریخ کیا ہے؟ خلافت کا آغاز کیا کہتا ہے؟ ان دونوں باتوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا میرے خیال میں مناسب نہیں ہے۔ ہمارے ہاں قرارداد مقاصد اسی بنیاد پر طے ہوئی تھی کہ حکومت کا حق تو عوام کے منتخب نمائندوں کو ہوگا، لیکن وہ حکومت میں پابند ہوں گے اللہ اور اس کے رسول کی مرضی کے۔ یہ ایک اصول ہم طے کر چکے ہیں، اس کا اعلان کر چکے ہیں، اس پر ہمارا دستور بنا ہے، اس پر ہم اب تک چلے آ رہے ہیں۔ اب اگر اس کو ری اوپن کرنا ہے تو پھر ہمیں جمہوریت کی بحث دوبارہ چھیڑنی چاہیے او ر اگرہم اس کو تسلیم کرتے ہیں تو پھر ہمیں اس دائرے میں آگے بڑھنا ہوگا۔
تیسری بات میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ یہاں یہ بات ہوئی کہ ہم مذہب سے اپنے حق میں دلیلیں کشید کرتے ہیں۔ میرے نزدیک اصل مسئلہ یہ نہیں ہے۔ اصل مسئلہ ہمارے سماجی رویے ہیں جو قانون میں بھی وہی ہیں، سیاست اور مذہب میں بھی وہی ہیں۔ میری طالب علمانہ رائے یہ ہے کہ ہمیں اصل میں اپنے سماجی رویوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ مثلاً سیاست میں ہمارا سماجی رویہ یہ ہے کہ ہمارے پاس اپنے مخالف کے لیے غدار اور وطن دشمن سے کم کوئی فتویٰ نہیں ہے۔ وہی وطن دشمن کل میرے پیروں میں بیٹھا ہوتا ہے اور پرسوں میں اس کے پیروں میں بیٹھا ہوتا ہوں۔ یہ ہمارا عمومی رویہ ہے۔ وطن دشمن، غدار، ایجنٹ، سیاست میں اس سے کم کوئی فتویٰ ہمارے پاس اپنے مخالفین کے لیے نہیں ہے۔ قانون میں چلے جائیں، وہاں بھی ہمارا رویہ یہی ہے۔ ہمارے ہاں کسی قانون کا اطلاق کسی شخص پر اس لیے نہیں ہوتا کہ یہ قانون کا تقاضا ہے، بلکہ اس لیے ہوتا ہے کہ میں اس قانون کا اطلاق اس پر کرنا چاہتا ہوں۔ میں ایف آئی آر درج کرواتے ہوئے دنیا کی ہر اس دفعہ کا اندراج کرواتا ہوں جس کے تحت میں مخالف کو سخت ترین سزا دلوا سکوں۔ میں ایک لطیفے کی بات عرض کرتا ہوں۔ آج سے دس بارہ سال پہلے مجھے کسی کیس میں ایک ایف آئی آ ر درج کروانے کی ضرورت پیش آئی تو میں شہر کے ایک معروف اور ذمہ دار وکیل کے پاس گیا جو بار کے صدر رہ چکے ہیں۔ ان سے میں نے کہاکہ میں یہ کیس درج کروانا چاہتا ہوں۔ انھوں نے ایف آئی آر لکھوائی کہ اس میں یہ لکھو، یہ لکھو، یہ لکھو۔ جب لکھوائی تو میں نے کہا کہ میرے بھائی، اس میں کم از کم پچاس فی صد تو سچ ہو۔ آپ مجھ سے جو ایف آئی آر درج کروانا چاہتے ہیں کہ میرے ساتھ یہ ہوا، فلاں کے ساتھ یہ ہوا، میں نے فلاں کو یوں دیکھا، فلاں نے یہ کیا، خدا کے بندے ! پچاس فی صد تو سچ ہو ۔ آپ مجھ سے سو فی صد جھوٹ ایف آئی آر کے اندر درج کروانا چاہتے ہیں۔ وکیل صاحب نے کہا کہ مولوی صاحب، اس کے بغیر مقدمہ نہیں لڑا جائے گا۔ میں نے کہاکہ میں لڑتا ہی نہیں۔
یہ اصل میں ہمارے سماجی رویے ہیں۔ قانون کی بات ہو، وہاں بھی ہمارے پاس ہائی پوٹینسی دوا ہوتی ہے۔ سیاست میں بھی ہا ئی پوٹینسی کے سوا کوئی دوائی نہیں اور مذہب میں بھی ہمارا رویہ یہی ہے۔ اگرہم نے کسی کو ٹارگٹ کرنا ہے تو ہلکی پھلکی بات سے تو وہ ہوگا نہیں، کافر کافر کی بات سے ہی قابو میں آئے گا، ورنہ قابو میں نہیں آئے گا۔ اس میں مذہب ہمارا معاون بنتا ہے یا ہم اسے بنا لیے ہیں، یہ ہمارے سماجی رویے ہیں جن کو تبدیل کرنے کے لیے کچھ محنت کی ضرورت ہے۔ ہمیں ان سماجی رویوں کو بھی اپنے ان مباحث میں شامل کرنا چاہیے۔
ایک بات اور عرض کرنا چاہوں گا کہ یہ جو کفر اور اسلام کی بحث ہے، اس پر مجھے ایک بہت پرانی بات یاد آگئی۔ ۱۹۳۰ ء میں جب انگریزوں کا زمانہ تھا، قادیانیوں کے خلاف بہاولپور میں پہلا کیس چلا۔ بہاولپور کے سیشن جج نے قادیانیوں کے خلاف کفر کا عدالتی فیصلہ دیا۔ اس وقت علامہ انور شاہ کشمیری دیوبند سے گئے تھے اور مولانا غلام محمد گھوٹوی بریلوی مکتب فکر کی طرف سے پیش ہوئے تھے۔ وہاں جرح کے دوران قادیانی وکیل نے سوال کیا کہ مولانا، آپ دونوں یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ آپ ان کو کافرکہتے ہیں، یہ آپ کوکافر کہتے ہیں۔ آپ بتائیے کہ ہم آپ کو کیا کہیں؟ عدالتی جرح میں مولانا انور شاہ کشمیری سے سوال ہوا کہ یہ بریلوی تو آپ کو کافر کہتے ہیں، آپ اسلام کی وکالت کے لیے کیسے آ گئے؟ مولانا انور شاہ کشمیری نے دو باتیں بڑی عجیب کہیں۔ ایک یہ کہ میں دیوبندی جماعت کے وکیل کے طور پر پورے دیوبندیوں کی طرف سے عدالت میں اعلان کرتا ہوں کہ ہم بریلوی علما کی تکفیر نہیں کرتے۔ دوسری بات انھوں نے یہ کی کہ ایک فرق ہے۔ قادیانیوں کے ساتھ ہمارا اختلاف نفس قانون پر ہے اور بریلوی حضرات کے ساتھ ہمارا اختلاف واقعہ پر ہے۔ اس کی تعبیر میں یوں کرتا ہوں کہ قادیانیوں کے ساتھ ہمارا اختلاف اصول پر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نبی آئے گا، ہم کہتے ہیں کہ نہیں آئے گا۔ بریلویوں او ر دیوبندیوں کا جھگڑا تطبیق پر ہے۔ گستاخی رسول کو دونوں کفر کہتے ہیں۔ جھگڑا یہ ہے کہ فلاں عبارت پر اس کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں۔ شرک کو دونوں کفر کہتے ہیں۔ جھگڑا یہ ہے کہ فلاں بات پر شرک کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں۔ تو شاہ صاحب نے کہا کہ قادیانیوں کے ساتھ ہمارا جھگڑا قانون اور ضابطے پر ہے اور بریلویوں اور دیوبندیوں کا جھگڑا قانون کی تطبیق پر ہے۔ اصول پر ہم دونوں متفق ہیں۔ تو ہمارے ہاں یہ بحث ہو چکی ہے۔ ماضی کے اس سارے تناظر کو سامنے رکھ کر ہمیں بات کرنی چاہیے۔ 
ڈاکٹر سید محمد نجفی نے ایک بات فرمائی ہے کہ حضور کے زمانے میں اور خلفائے راشدین کے دور میں بھی کسی کی تکفیر نہیں کی گئی۔ میرے خیال میں تکفیر ہوئی ہے۔ حضرت صدیق اکبر کے دور میں مرتدین سے جو جنگیں ہوئی ہیں، ساری تکفیر کی بنیاد پر ہوئی ہیں۔ مانعین زکوٰۃ اگرچہ شہادتین کا اقرار کرتے تھے، اس کے باوجود ان کی تکفیر ہوئی۔ مسیلمہ کذاب پہلے کلمہ پڑھاتا ہی یہ تھا کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ مسیلمۃ رسول اللہ۔ شہادتین کا وہ اقرار کرتا تھا۔ نہ صرف یہ کہ واقعاتی طو رپر تکفیر ہوئی ہے بلکہ اس بنا پر جنگیں ہوئی ہیں۔
اب میں آخری بات عرض کرنا چاہوں گا۔ اگرہم اپنے اکابر کے اجتماعی رویوں اور ان کے طے کردہ اصولوں کو سامنے رکھ کر چلیں تو ہمارے لیے آج کے تناظر میں بھی کسی نتیجے پر پہنچنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ ہم ان فیصلوں کا احترام کرتے ہوئے ان کو آگے بڑھائیں اور ایک متفقہ فارمولے پر لوگوں کو لانے کی کوشش کریں۔ اس بات کی ضرورت ہے، لیکن اپنے بزرگوں اور اپنے اکابر کے فیصلوں اور ان کے اجتماعی رویوں کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا چاہیے اور اس پرکوئی فارمولا ایسا پیش کرنا چاہیے جس پر ہم تمام مکاتب فکر کی طرف سے اتفاق کا اظہار کر سکیں۔ میں آج بھی یہ سمجھتا ہوں کہ اسلام اور جمہوریت کے تناظر میں ہمارے بزرگوں نے جو فیصلہ ۱۹۵۱ء میں علماء کے بائیس دستوری نکات کی صورت میں اور قرارداد مقاصد کی صورت میں کیا گیا، ہمیں اس سے انحراف نہیں کرنا چاہیے اور انحراف کے راستے بھی تلاش نہیں کرنے چاہییں۔ ہمارے لیے سلامتی کا راستہ کل بھی وہی تھا، آج بھی وہی ہے اور آئندہ بھی وہی ہوگا۔ ان شاء اللہ

مولانا احمد علی قصوری

ایک نکتے کی طرف میں چاہوں گاکہ آپ حضرات توجہ کریں۔ میں یہ بات پہلے بھی ایک دو مواقع پر مشترکہ اجتماعات میں عرض کر چکا ہوں لیکن اس کوپذیرائی نہیں ملی۔ میں اس کو غیر معمولی طور پر اہم سمجھتا ہوں ، اس لیے آپ حضرات کے غور وفکر کے لیے دہرانا چاہتا ہوں۔ ۱۹۵۶ء کے دستور میں، ۱۹۷۳ء کے دستور میں حتیٰ کہ قرارداد مقاصد کے اندر بھی حق حکومت کے اہم ترین نکتے کوبیان کرتے ہوئے جو الفاظ موجود ہیں، ان کے اندر تبدیلی کی ضرورت ہے۔ عقیدہ جو بنتا ہے، اس کی حیثیت بیج کی سی ہے۔ بیج کے اندر اگر کوئی خرابی ہوگی، کیڑا لگا ہوا ہوگا تو آگے فصل بھی خراب آئے گا۔ اس میں خرابی یہ ہے کہ آئین، دستور اور قرارداد مقاصد کی عبارت یہ کہہ رہی ہے کہ حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے اور اس کے بعد ڈائریکٹ عوام پر آ جاتے ہیں۔ درمیان میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا، آپ کے منصب رسالت کا اور تشریع اور آئینی حاکمیت کے حوالے سے جو آپ کا منصب ہے، اس کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یہ محض خوش اعتقادی کی بات نہیں، بلکہ آئینی اور دستوری تقاضا بنتا ہے کہ اطیعوا اللہ کے ساتھ اطیعوا الرسول کا بھی ذکر ہو۔ آگے جا کر اہل تشیع اور اہل تسنن کے اندر دو نظریے پائے جاتے ہیں۔ ادھر خلافت کا اور ادھر وصیت کا۔ لیکن ایک نکتے پر دونوں کا اتفاق ہے کہ اہل سنت کے ہاں خلیفہ کا جب انتخاب کیا جائے گا تو وہ بھی نیابت کرے گا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اور اہل تشیع کے ہاں وصیت ہوگی تو وہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہوگی۔ تو دونوں مکاتب فکر کا اس بنیادی نکتے پر اتفاق ہے۔ لیکن ہماری دستوری دستاویزات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حاکمیت کا ذکر ہی نہیں۔ مجھے آج تک ایک طالب علم کی حیثیت سے یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ ہمارے علما اور اکابر کی اس طرف توجہ کیوں نہیں گئی۔ اگر میں غلط سمجھ رہا ہوں تو میر ی اصلاح کی جائے اور اگر یہ بات درست ہے تو دستور کے اندر اس خرابی کو دور کرنے کے لیے کاوش اور کوشش کی جائے۔ یہ ہم سب کا مشترکہ فریضہ بنتا ہے۔

مولانا زاہد الراشدی

میں آپ کی تائید کرتے ہوئے یہ اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ فقہا نے جو خلافت کی تعریف کی ہے، وہ بھی یہی ہے کہ امور اجتماعی کو انجام دینا نیابۃً عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔

ڈاکٹر حسن مدنی

میں اس فورم کا بہت شکر گزار ہوں کہ اس نے ہم جیسے نوجوانوں اور طالب علموں کو ان شخصیات کے سامنے بیٹھنے کا موقع دیا جن کے سامنے بات کرتے ہوئے ہماری نگاہیں جھک جاتی ہیں۔ ان کا احترام اور ان کی دینی خدمات بہت عظیم ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس کی توفیق دے، لیکن بہرحال جو اپنا نقطہ نظر ہے اور جو ایک مستقل فکر ہے، مکالمے کا تقاضا ہی یہ ہے کہ اس کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔
اس وقت تکفیر کی جو ساری بحث ہے، وہ خروج کے مسئلے اور پاکستان کے موجودہ حالات سے جڑی ہوئی ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ تکفیر کی جو صورت حال ماضی قریب میں اہل تشیع اور اہل تسنن کے مابین رہی ہے، وہ غالباً اس مجلس کا موضوع نہیں۔ 
میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب نے فرمایا ہے کہ ہمارے اکابر پہلے ایک بات کا تعین کر چکے ہیں۔ ہمارے اکابر نے ایک راستے کا تعین پاکستان کے قیام کے موقع پر کیا ہے تو ایک راستے کا تعین افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے موقع پر بھی کیا ہے اور اس کے نتائج بھی ہمارے سامنے ہیں۔ تین چار سال افغانستان میں طالبان کی حکومت رہی ہے اور وہاں اسلام کی برکات اور امن وامان کا دنیا بھر نے مشاہدہ کیا ہے۔ میری ناقص رائے میں، جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں، پاکستان کا قیام جس صورت حال میں ہوا، اس میں علما کو درکار گنجائش ہی وہ میسر تھی جس میں وہ قرارداد مقاصد کی طرف آ سکتے تھے۔ جب طالبان نے اس کو زور بازو پر یا اپنے اختیار سے حاصل کیا تو انھوں نے مثالی طریقہ کو حاصل کیا۔ اس لیے ماضی میں یا آج کے حالات میں دیکھ لیں کہ امت مسلمہ میں اگر کسی جگہ امن وامان اور اسلام کا نظام نافذ ہوا ہے تو وہ یا طالبان میں نظر آتا ہے یا اس کا کچھ حصہ سعودی عرب میں نظر آتا ہے۔ جس نظام جمہوریت پر ہم چل رہے ہیں، اس نظام نے اور اسلامی قانون سازی نے امت کو کسی ملک میں چین اور سکون نہیں دیا۔ اس لیے اکابرکا جو معاملہ ہے، اکابر کا احترام اپنی جگہ، لیکن جو حالات کا جبر ہے اور جو حالات کی پیچیدگی ہے، اس کو بھی ہمیں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ میں اس پہلو کو ترجیح دیتا ہوں کہ غالباً وہ حالات کا جبر تھا، ورنہ امت مسلمہ ہمیشہ خلافت کے نظریے پر قائم رہی ہے۔ کیا یہ مانا جائے کہ پاکستان کے علما نے خلافت کے نظام کو چھوڑ کر اسلامی جمہوریت کے اسلام کا سیاسی نظام ہونے پر اجماع کر لیا؟ میرا خیال ہے کہ یہ ایک مجبوری تھی۔ آج بھی مجبوری کی شکل یہی ہے کہ اسی دستوری جدوجہد کو کرنا ہے۔ 
اس سے اگلا مسئلہ یہ آتا ہے کہ آج ہم خروج کی بحث اسلامی جمہوریت کے تناظر میں کر رہے ہیں یا اسلامی خلافت کا جو ایک تصور ہے، اس کے تناظر میں کر رہے ہیں؟ دونوں الگ الگ پیرا ڈائم ہیں۔ جو نظام خلافت کا تصور ہے، وہ اسلامی جمہوریت کا تصور ہی نہیں ہے۔ جمہوریت میں تو دستوری تبدیلی کا تصور ہے۔ جب تناظر بدل جاتا ہے تو بحث کا پورا منظر نامہ ہی بدل جاتا ہے۔ یہ ایک بنیادی اختلاف ہے۔ میںیہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس وقت تکفیر کا جو منظرنامہ ہے، وہ سارے کا سارا توحید حاکمیت کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور توحید حاکمیت کے بارے میں میرا جو مختصر اور ناقص مطالعہ ہے، اس کی روشنی میں، میں کہہ سکتاہوں کہ تیرہ سو سال میں ملت اسلامیہ میں کوئی دستور نہیں رہا۔ قانون سازی سب سے پہلے مجلۃ الاحکام العدلیہ کی صورت میں فرانس سے خلافت عثمانیہ میں کروائی ہے۔ امت اسلامیہ میں اگر کبھی چین اور سکون آیا ہے تو وہ کتاب وسنت کی بنا پر آیا ہے جس پر افغانستان کا نظام عدل شاہد ہے۔ یہ ہمارے سامنے کی شہادت ہے۔ کتاب وسنت ہی وہ برکت رکھتے ہیں کہ ان کی بنا پر کوئی فیصلہ ہوتا ہے تو امت اسلامیہ اس پر عمل کر کے امن وامان حاصل کرتی ہے۔
تو یہ قانون سازی کا جو سارا معاملہ ہے، اس میں اس وقت تکفیر کی بحث جو ہمارے ہاں پندرہ بیس سال سے چلی ہوئی ہے، یہ ساری توحید حاکمیت کے تناظر میں ہے اور توحید حاکمیت کی بحث سعودی عرب میں سلفی علما میں سب سے پہلے محمد بن ابراہیم نے شروع کی۔ انھوں نے اس کی دو قسمیں کی ہیں۔ ایک ہے کفر عملی اور ایک ہے کفر اعتقادی۔ کفر اعتقادی کی چار شکلوں کو انھوں نے کفر اکبر قرار دیا اور بعد کے علما نے وہاں یہ بات نہیں کی کہ ہمارے اکابر یہ کہہ گئے ہیں۔ شیخ ابن عباس نے بعد میں یہ بات کہی کہ ہمارے اکابر سے غلطی ہو سکتی ہے۔ انھوں نے یہ بات کہی تھی کہ ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے۔ ہم اس کے بجائے جتنی بھی اس وقت عدالتیں موجود ہیں، ان تمام عدالتوں کے اقدام کو کفر اصغر کہیں گے، عملی کوتاہی کہیں گے۔ یہ تقسیم اور ساری بحث مجلہ ’’الاحیاء‘‘ میں تقریباً ستر صفحات میں موجود ہے۔
پاکستان میں اس وقت توحید حاکمیت کے تناظر میں جو تکفیر کی بحث ہے،اس میں تین طرح کے نقطہ نظر پائے جاتے ہیں۔ ایک نقطہ نظر ان لوگوں کا ہے جو عملاً اس وقت جہادی یا مزاحمتی مراحل میں ہیں۔ ان کا نقطہ نظریہ ہے کہ فوج اور حکومت کے تمام ادارے عین اسی طرح ہیں جس طرح کہ خود حکمران، اور اس کو وہ طاغوت قرار دیتے ہیں۔ یہ نقطہ نظر وہ موحدین کے نام سے پیش کر رہے ہیں۔ دوسرا نقطہ نظر اصلی اہل سنت کے نام سے پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ کراچی کا ایک ادارہ ہے اور سعودی موقف کو آگے لے کر آ رہے ہیں۔ وہ اس طرح کی کسی بات کو سرے سے تسلیم نہیں کرتے۔ تیسرا نقطہ نظر مجلہ ’’ایقاظ‘‘ میں شائع ہوا ہے۔ اس میں یہ ہے کہ ہم حکمرانوں کی تکفیر کرتے ہیں، عوام کی تکفیر نہیں کرتے۔ تو اس منظر نامے میں تکفیر براہ راست ہمارا موضوع نہیں ہے، توحید حاکمیت کے تناظر میں تکفیر اس وقت ہمارا موضوع ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ توحید حاکمیت کے تناظر میں جو ساری گفتگو ان تحریکوں نے کی ہے، وہ رد عمل اور ایک سیاسی مجبوری کی بنا پر ہے۔ اس ہمدردی کی نظر سے دیکھنا چاہیے، لیکن یہ اس بنا پر نہیں ہے کہ ہم یہ موقف رکھتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر اس پورے نظام کے بارے میں ایک موقف رکھتا ہوں، لیکن اس کو صحیح نہیں سمجھتا کہ کسی حکومت کو اس بنا پر طاغوت قرار دے کر قتل وقتال کا سلسلہ شروع کر دیا جائے۔
ہم ایک مجبوری کی حالت سے گزر رہے ہیں اور ہمیں پورے نظام کے بارے میں سوچنا چاہیے کہ کیا اس سے ہمیں اسلام حاصل ہو سکتا ہے یا نہیں؟ ہمارے ماضی کے بارہ سو سال اس طرح کی قانون سازی سے خالی ہیں۔ میثاق مدینہ یہود اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین ایک معاہدہ تھا جو یہود کے مدینے سے نکل جانے کے بعد ختم ہو گیا۔ اس کا تذکرہ بعد میں خلافت راشدہ کے کسی دور میں نہیں ملتا۔ علما کے ہاں قانون سازی ایک مستقل موضوع ہے۔ نہ صرف قانون سازی بلکہ جمہوریت کے تمام تصورات کی بنا پر جمہوریت ایک بالکل متوازی نظام ہے۔ یہ کہنا کہ عوامی اعتماد واحدچیز ہے، درست نہیں۔ اسلامی خلافت کا اصل نکتہ جو ہے، وہ نفاذ شریعت ہے اور عوامی اعتماد بھی اس کے اندر موجود ہے۔ حکمران کتاب وسنت کو نافذ کرنے کی بہترین صلاحیت رکھتا ہو، یہ اصل نکتہ ہے اور اس کے ساتھ دیگر نکات میں یہ بھی آتا ہے کہ اسے عوامی اعتماد بھی حاصل ہونا چاہیے۔ یہی اسلام اور جمہوریت کے مابین مابہ الامتیاز ہے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ ہمارے ہاں بھی عوامی اعتماد ہی اصل چیز ہے تو ہم میں اور مغرب کے جمہوریت کے بنیادی نظریے میں فرق کہاں ہوا؟ مغربی جمہوریت عوامی اعتماد اور عوام کی حاکمیت کی بات کرتی ہے اور اسلام، اللہ کی حاکمیت کی۔ ہمارے ہاں اللہ کی حاکمیت دستور کا زیب عنواں ہے، عملاً اللہ کی حاکمیت کا نظام کہیں نہیں ہے۔ جس طرح مولانا احمد علی قصور ی نے فرمایا کہ اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا پورا نظام آنا چاہیے۔ 
بہرحال اس بحث کو اس تناظر میں دیکھا جائے تو بہتر ہے۔ اس وقت جو سیاسی مجبوری ہے، اس مجبوری کی بنیاد پر خروج کی بحثوں کو جواز یا تکفیر کے نظریے کی تائید نہیں کی جا سکتی، لیکن ہمیں اس ظلم کو جس نے ان لوگوں کو کھڑا کیا ہے، اسے بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ وہ ظلم اصل وجہ ہے جس کی بناپر آج کچھ لوگ مجبور ہو کر انتہا پسندی کا راستہ اختیار کر چکے ہیں۔

مولانا زاہد الراشدی

میں نے وضاحت کی تھی کہ جمہوریت کا یہ پہلو کہ حق حکمرانی عوام کے اعتماد سے حاصل ہوگا، اس کا آغاز تو ہم نے خلافت صدیق اکبر سے کیا تھا۔ عوامی اعتماد سے حکومت تشکیل پائی تھی اور حاکم کا انتخاب عوام کی مرضی سے ہوا تھا۔

مولانا احمد علی قصوری

میں عرض کرتا ہوں کہ اس کی بنیاد یہ نہیں بنی تھی۔ جب بہت سے امیدوار سامنے آ گئے تو جس دلیل کی بنیاد پر اس سارے اجتماع نے سرنڈرکیا تھا، وہ قرآن کریم کی آیت ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم کی روشنی میں سیدنا فاروق اعظم کی پیش کردہ حدیث مبارکہ تھی۔ انھوں نے ایک واقعاتی اشارہ دیا تھا کہ جس شخصیت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے مذہبی ودینی امور کی امامت کے لیے عملاً کھڑا کیا، کیوں نہ ہم اپنے دنیوی امور بھی اسی شخصیت کے سپرد کر دیں، لہٰذا بنیاد یہ دلیل بنی تھی۔

مولانا زاہد الراشدی

بنیاد یہی دلیل بنی تھی، لیکن فیصلہ لوگوں نے کیا تھا۔
دوسری گزارش یہ ہے کہ ہمارے عزیز فاضل ڈاکٹر حسن مدنی نے فرمایا کہ قانون سازی کا ہمارے ہاں تصور نہیں ملتا۔ میرے خیال میں پہلی قانون سازی امام ابویوسف نے کی تھی۔ ہارون الرشید کے کہنے پر کی تھی اور کتاب الخراج معاشیات کا قانون تھا جو ہارون الرشید کے کہنے پر لکھا گیا تھا اور عباسی سلطنت میں نافذ ہوا تھا۔ قانون سازی کی روایت ہمارے ہاں بہت پرانی ہے۔

محمد عمار خان ناصر

حسن مدنی صاحب نے جو نکتہ اٹھایا ہے، وہ میرے خیال میں خاصا تکنیکی ہے۔ ان کی اپنی بات بھی پوری طرح شاید ان کی گفتگو سے واضح نہیں ہوئی اور وہ ہمارے موضوع سے براہ راست متعلق بھی نہیں ہے۔ ان کی بات کا تعلق بنیادی طورپر اس پہلو سے ہے کہ جب ایک اسلامی ریاست موجود ہو تو وہ اپنے ہاں نفاذ قانون کا اور قانون کی تعبیر وتشریح کا عمل کیسے انجام دے گی۔ اس کے متعلق یہ ایک تکنیکی نکتہ ہے۔ تکفیر کی جو بحث ہم کر رہے ہیں، غالباً اس سے بہت زیادہ متعلق نہیں ہے۔ اگر اس کو کسی مستقل نشست کا موضوع بنایا جائے تو بہتر ہوگا۔ 

مفتی منصور احمد

عوامی اعتماد حاصل ہونے کی ایک صورت تو یہ ہے کہ خلیفہ طے ہو جائے، اسلامی حکمران طے ہو جائے تو عوام اس کے ہاتھ پر یا اس کے نمائندوں کے ہاتھ پر بیعت کر لیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اعتماد پہلے حاصل ہو اور اس کے بعد ان کو حکمران متعین کیا جائے۔ ان دونوں میں فرق ہے اور اسلام اور جمہوریت میں غالباً یہی فرق ہے۔

محمد عمار خان ناصر 

میں چاہوں گا کہ اس سیشن میں جو گفتگو ہوئی ہے، اس کا اب خلاصہکر لیا جائے تاکہ ہم آگے کی طرف بڑھ سکیں۔ 
ایک بات تو یہ ہوئی کہ جہاں تک جمہوریت کے فلسفے کا تعلق ہے جس میں عوام کو حتمی حاکمیت حاصل ہے، اس سے کوئی اتفاق نہیں کر رہا۔ البتہ جمہوریت میں حکمرانوں کے انتخاب اور ان کے عزل ونصب کا جو نظام وضع کیا گیا ہے، اس کی ہمارے ہاں علما کی اکثریت نے تائید کی ہے اور ان کے خیال میں یہ اسلام سے متصادم نہیں ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اسی طریقے سے ہم نفاذ اسلام کی طرف آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ایک دوسرا نقطہ نظر بھی موجود ہے جس کی نمائندگی حسن مدنی صاحب اور مفتی منصور احمد صاحب نے کی۔ میں جس بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ اگرچہ ہمارے ہاں جمہوریت کو بطور سیاسی نظام کے قبول کرنے کا ایک عمل ہو چکا ہے اور ہماری مذہبی قیادت کے ہاں اس کو عملاً قبولیت بھی حاصل ہے، لیکن میری طالب علمانہ رائے میں چونکہ اس پورے عمل پر جس طرح سے علمی اور فکری مباحثہ ہونا چاہیے تھا اور مکالمہ ہونا چاہیے تھا اور اس کے مختلف گوشوں کی تنقیح ہونی چاہیے تھی، وہ نہیں ہوئی جس کی وجہ سے اس کے بارے میں اب تک سوالات بھی موجودہیں، اس کے متبادل تصورات بھی موجود ہیں اور عملاً ایک چیز رائج ہو جانے کے باوجود علمی وفکری سطح پر وہ اس طرح سے متفق علیہ نہیں بن سکی۔ اس سے ہمارے سامنے گفتگو اور بحث ومباحثہ کا ایک گوشہ سامنے آتا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں بحث ومباحثہ نہ ہونے کی وجہ سے ابہامات بھی موجود ہیں اور کنفیوژن بھی پیدا ہوتا ہے اور پھر اسی کنفیوژن سے بعض ایسے راستے بھی نکلتے ہیں جن کے بارے میں شاید ہم سب لوگ اتفاق کر رہے ہیں کہ وہ بہتر راستے نہیں ہیں۔ میرے خیال میں ایک تو ہمیں اس ضرورت کا احساس کرنا ہوگا کہ علمی وفکری طور پر ایک ایسا گوشہ موجود ہے جس پر مباحثے کی اور مکالمے کی ضرورت ہے۔ اگلے سیشن کاموضوع بھی کسی حد تک اس سے متعلق ہے اور اس پر بات ہوگی۔
دوسری بات جو ہمیں اس سیشن کی ساری گفتگو کے حاصل کے طور پر اگلے سیشن کی بحث کی طرف لے جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ جمہوریت کو خالص کفر جسے کفر بواح کہتے ہیں، شاید یہاں کوئی نہیں کہہ رہا۔ یہ بات بھی سب مان رہے ہیں کہ یہ اس طرح سے کوئی معیاری نظام نہیں ہے کہ اس کی مدد سے اسلام کے اجتماعی آئیڈیلز کو رو بہ عمل کیا جا سکے۔ اس صورت میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہم یہ مان رہے ہیں کہ جمہوریت کے اس نظام میں ہم اسلامی تصورات کو اس طرح سے رو بہ عمل نہیں کر سکتے، اس میں بہت سی رکاوٹیں ہیں، بہت سی تحدیدات ہیں، عالمی نظام کا جبر ہے، مسلمانوں کے اندر فکر وعمل کی جو کجیاں آ چکی ہیں، اس کے اثرات ہیں تو اس صورت حال میں آگے بڑھنے کے لیے اور بہتری لانے کے لیے بہتر راستہ کون سا ہے؟ اس سوال کا جواب اس لیے ضروری ہے کہ جمہوریت کے بارے میں اسی بنیادی مقدمے کی بنیاد پر ایک گروہ بہرحال یہ استدلال بھی رکھتا ہے اور اس کو تجویز بھی کر رہا ہے کہ چونکہ اس نظام کے اندر رہتے ہوئے اس میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی، اس لیے بہتر راستہ یہ ہے کہ ہم متبادل طریقوں کو اختیار کریں جن میں سے ایک خروج بھی ہے۔ توکیا یہ استدلال درست ہے؟ اس پر غور ہونا چاہیے۔ اور اگر یہ استدلال درست نہیں ہے تو پھر جو حضرات پرامن راستے سے اور موجودہ جمہوری نظام کے دائرے میں رہتے ہوئے جدوجہد کا طریقہ تجویز کر رہے ہیں، ان کے ذہن میں کیا لائحہ عمل ہے کہ خروج اور تصادم سے بچتے ہوئے اور موجودہ نظام کے بنیادی اسٹرکچر کو چیلنج کیے بغیر ایسی بہتری لائی جا سکے کہ شریعت کا معیاری ماڈل نافذ ہو سکے؟
میرے خیال میں یہ وہ سوالات ہیں جو اس گفتگو سے پیدا ہوتے ہیں اور یہ اگلے سیشن کا موضوع بھی ہیں۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ اگلے سیشن میں بھی آپ حضرات کا تعاون ہمیں حاصل رہے گا۔

مولانا احمد علی قصوری

آپ نے فرمایا کہ جمہوریت کو کسی نے کفر بواح نہیں کہا۔ جب آپ جمہوریت کا لفظ اس طرح مطلقاً بولیں گے اور اس کے ساتھ اس کی definition نہیں ہوگی تو پھر یہ بات نہیں کہی جا سکتی۔ جمہوریت کی کوئی تعریف کر کے پھر اگلی بات کرنی چاہیے۔ جمہوریت کی بہت سی شکلیں کفر بواح میں آتی ہیں۔ جیسے اکثریت کی رائے کو، شریعت کے احکام سے قطع نظر، معیار ماننا یہ کفر بواح ہے۔

محمدعمار خان ناصر

آپ کی بات درست ہے۔ جمہوریت سے مراد یہ تھی کہ جس طرح ہم نے پاکستان میں اسلام اور جمہوریت کا ایک ملغوبہ تیار کیا ہے، اس کو میرے خیال میں کسی نے کفر بواح نہیں کہا۔ ہاں اگر جمہوریت سے مراد مغرب کا فلسفہ ہے تو پھر آپ کی بات ٹھیک ہے۔ پاکستان میں ہم نے جمہوریت کو جس طرح سے اختیار کیا ہے، اس میں دستوری طور پر اسلام کی پابندی کو لازم قرار دیا گیا ہے اور عوام کو حکمرانوں کے انتخاب کا حق دیا گیا ہے۔ اس سے آپ اختلاف توکر سکتے ہیں، لیکن اس کو کفر بواح آپ نہیں کہہ سکتے۔ 

دوسرا سیشن

محمد عمار خان ناصر

تکفیر او ر خروج کے مسئلے پر صبح سے گفتگو چل رہی ہے۔ پچھلی نشستوں میں جو گفتگو ہوئی، اس سے بحث کو مربوط کرتے ہوئے میں وہ نکتہ عرض کرنا چاہوں گا جو دونوں موضوعات کو آپس میں جوڑ دیتا ہے۔ موجودہ دور میں مغرب نے دنیا کو ایک جمہوری نظام دیا اور بہت سی مسلمان ریاستوں میں خاص طور پر پاکستان میں علما نے جمہوریت کے ساتھ اسلامی شریعت کی بالادستی کی کچھ شرائط اور شقیں شامل کر کے اس کو اسلامائز کرنے کی کوشش کی اور یہ راستہ اختیار کیا کہ اس جمہوری نظام کے دائرے میں ہی سوسائٹی میں اسلام کی اقدار اور اسلام کی تعلیمات کی عمل داری کو قائم کرنے کی کوشش کرنا بہتر ہے۔ گزشتہ نشست میں اس نکتے پر ایک عمومی اتفاق دکھائی دیا کہ یہ کوئی معیاری ماڈل نہیں ہے اور معاشرے اور ریاست کی پالیسیوں کے حوالے سے اسلام کی جو ترجیحات ہیں، ان کو اس نظام میں پورے طو رپر رو بہ عمل کرنا مشکل ہے۔ اس نظام کے اندر کچھ نقائص ہیں۔ پھر یہ نظام ایک بین الاقوامی سیاسی نظام کا حصہ ہے جس کا اپنا ایک دباؤ ہے۔ اس وجہ سے بامر مجبوری دستیاب حالات میں اسے ایک قابل عمل طریقے کے طور پر اختیار کیا گیا۔
اس بنیادی مقدمے کو ماننے کے بعد دو سوال پیدا ہوتے ہیں جن پر ہم چاہتے ہیں کہ ا س سیشن میں اہل علم توجہ مرکوز کریں۔ ایک یہ کہ اگر یہ ایک معیاری نظام نہیں ہے اور بظاہر یہی لگتا ہے کہ اس کے ذریعے سے کبھی بھی ایک معیاری اسلامی معاشرہ اور اسلامی ریاست قائم کرنا ممکن نہیں ہوگا تو اس کو ہم کس اصول پر اور کب تک اختیار کیے رکھیں گے؟ یعنی جو حضرات پرامن طریقے سے اسی نظام کے دائرے میں جدوجہد کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں، ان کے ذمے اس سوال کا جواب بنتا ہے کہ جب آپ یہ مان رہے ہیں کہ اس نظام کے اندر رہتے ہوئے وہ تبدیلیاں نہیں لائی جا سکتیں جو کہ مطلوب ہیں تو پھر آخر ہم کیوں اور کب تک اس کے پیچھے چلتے رہیں گے اور کیا وہ مرحلہ آنے کا امکان ہے یا ہم اس مرحلے کا انتظار کر رہے ہیں کہ جب ہمارے لیے اس کو بدلنا ممکن ہوگا؟ 
دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی گروہ یا طبقہ اس سے مختلف کوئی راستہ اختیار کرنا چاہتا ہے کہ چونکہ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے اور علما نے بھی اجتہاد کر کے ہی اس نظام کے اندر جدوجہد کا راستہ اختیار کیا ہے تو اگر ایک دوسرا گروہ اس سے مختلف اجتہاد کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم اس جمہوری نظام کی پابندی کو قبول کیے بغیر یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ذہن میں جو اسلامی ریاست کا ایک نقشہ ہے، اس کو نافذ کریں اور اس کے لیے ہم جان کی قربانی دینے کے لیے بھی تیار ہیں اور تکلیفیں جھیلنے کے لیے بھی تیار ہیں، جیسا کہ ہمارے ہاں سوات میں اس کی ایک کوشش کی گئی تو اس استدلال کے بارے میں ہمارا نقطہ نظر کیا ہے؟ 
یوں یہ دو سوال بنتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہم اس جمہوری نظام کو کیوں اختیار کیے رکھیں اور کب تک کیے رکھیں جبکہ اسلامی ریاست کا تصور موجودہ نظام کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ نہیں ہے اور دوسرا یہ کہ اگر کوئی گروہ اجتہاداً یہ فیصلہ کرنا چاہتا ہے کہ جیسے افغانستان میں طالبان نے کیا، اسی طرح ہم دنیا کے دوسرے ملکوں میں، مثلاً پاکستان کے کسی خطے میں یا کسی اور جگہ پر اسی طرز کا کوئی تجربہ کرنا چاہتے ہیں تو ان کے اس موقف کے بارے میں ہمارا نقطہ نظر کیا ہوگا؟

مفتی منصور احمد

نہایت اختصار کے ساتھ دو تین باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔
پہلی بات تو وہی ہے جو پچھلی نشست میں بار بار دہرائی گئی کہ خروج کی اصطلاح اور خروج کا مسئلہ خالصتاً اسلامی نظام خلافت سے تعلق رکھتا ہے۔ جس جمہوری نظام میں ہم رہ رہے ہیں، یہاں اگر کوئی استبدال نظام کی مسلح جدوجہد کرتا ہے تو یہ سرے سے خروج ہے ہی نہیں۔ اس کو بغاوت کہیں یاکچھ اور، یہ خروج نہیں ہے۔ جیسے بلوچستان کے مسئلے کو کوئی بھی خروج نہیں کہتا، کراچی کے مسئلے کو بھی کوئی خروج نہیں کہتا، جناح پور کی بات کرنے کو کوئی بھی خروج نہیں کہتا ۔ تو یہ بنیادی طور پر خروج کی بحث ہی نہیں ہے۔ ہمارا مفروضہ یہ ہے کہ ہم جمہوری نظام میں رہ رہے ہیں جو کہ معیاری بھی نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ مجبوری کے عالم میں رہ رہے ہیں۔ اسے ایک اسلامی نظام نہیں کہہ سکتے۔
دوسری بات یہ ہے کہ بالفرض یہ مان لیا جائے کہ یہ اسلامی نہیں، لیکن مسلمان حکومت تو ہے تو اس صورت میں خروج صرف مسلح جدوجہد کانام نہیں ہے۔ خروج تو اس چیز کا نام ہے کہ اطاعت سے نکل جایا جائے۔ حکومت کی اطاعت جو ہم نے بحیثیت شہری کے اختیار کی ہوئی ہے، اس سے نکل کر ایک نیا نظام، ایک نیا اسٹرکچر، ریاست کے اندر ریاست کا نظام بنانا، یہ خروج کی تعریف میں شامل ہے۔ علامہ نووی نے حدیث ردۃ کے ذیل میں اسے انکار اور احتجاج سے تعبیر کیا ہے اور اسی خروج کا بڑا درجہ مسلح جدوجہد اور قتال ہے۔ 
اب اگر حکمران کافر ہیں اور نظام کافرانہ ہے تو اس حوالے سے علما میں دورائیں نہیں ہیں کہ اقامت دین اور غلبہ اسلام کے لیے ان کے خلاف جنگ کو آپ خروج یا جہاد یا جو بھی نام دے لیں، وہ جائز ہے۔ بات یہاں مختلف فیہ ہوتی ہے کہ اگر حکمران کو ہم مسلمان سمجھتے ہیں اور وہ فاسق فاجر اور جائر ہیں، اسلامی نظام کے راستے میں رکاوٹ ہیں تو ظاہر ہے کہ یہاں فقہا کی آرا شدت کے ساتھ اس خروج کے عدم جواز ہی کی طرف گئی ہیں، جبکہ جواز کی جو شکلیں ہیں، وہ اتنی حدود، شروط اور قیود کے ساتھ ہیں کہ عدم جواز تک ہی لے گئی ہیں۔ بہرحال ان ساری حدود وقیود وشروط کے ساتھ جو جواز کا احتمال یا جواز کا امکان ہے، وہ ظاہر ہے کہ باقی ہے اور باقی رہنا بھی چاہیے، ورنہ ظالم حکمرانوں کے خلاف آواز اٹھانا اگر کلمہ حق ہے تو اگلی بات بھی واضح ہے۔ البتہ احادیث وروایات میں خروج کی جو ممانعت آئی ہے، اس کی حکمت یہ ہے کہ مسلمانو ں کا نقصان ہوگا اور جانوں کا ضیاع ہوگا۔ یہ ساری چیزیں بہرحال ملحوظ رہنی چاہییں۔ یہ نہ ہو کہ خروج کا فتنہ حکومت کے فتنے سے بڑھ جائے۔ یہ بہرحال علما کی بیان کردہ شرائط ہیں۔
پاکستان کے تناظر میں یہ بات عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے ماحول میں جیسا کہ حضرت مولانا زاہدالراشدی نے فرمایا کہ ہمارے معاشرتی رویوں میں سے ایک رویہ ہے کہ ہم ایک بات پہلے طے کر لیتے ہیں یا حالات کا جبر ہمیں اس بات کی طرف لے جاتا ہے تو اس کے لیے ہم شریعت کو سہارا بناتے ہیں اور اپنے لیے دلائل تلاش کرتے ہیں اور دلائل کشید کرتے ہیں۔ دلائل کی روشنی میں اس نتیجے تک نہیں پہنچتے۔ عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے۔ 
ہمارے ہاں بھی یہ مسئلہ ہے کہ ہم نے افغانستان کے معاملے میں امریکا کا ساتھ دیا ور اس حد تک دیا کہ پاکستان کے قبائل جو پاکستان کے محافظ بھی تھے، پاکستان کی پناہ بھی تھے اور پاکستانی ہونے پر فخر بھی کرتے تھے اور پاکستان کے خلاف انھوں نے کبھی پٹاخہ بھی نہیں چلایا، ہم نے امریکا کے کہنے پر ان کو ہدف بنا لیا۔ افغان بارڈر کے ساتھ ملحق ہونے کی وجہ سے فطری طور پر یہ علاقے مجاہدین کی یا افغانستان کے طالبان کی پناہ گاہ بھی تھے، گزرگاہ بھی تھے اور آمد ورفت کا ذریعہ بھی تھے تو افغانستان کے بارڈر کو غیر محفوظ کرنا یہ امریکی مفاد تھا۔ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس میں ہمارے ملک کا یا مسلمانوں کا کوئی مفاد ہے۔ ہم نے وہاں ان کو ڈرون حملوں کی اجازت دی اور صرف اجازت نہیں، بلکہ ہمارے طیارے وہاں بمباری کرتے رہے۔ ہماری فوج کی سات میں سے چھے ایجنسیوں نے آپریشن کیا۔ اس کا رد عمل یہ ہوا کہ جن کے بچے یتیم ہوئے، عورتیں بیوہ ہوئیں اور گھر تباہ ہوئے، وہ پھر رد عمل میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہاں جو لوگ کھڑے ہیں، ان کے سامنے شریعت کے احکام نہیں ہیں۔ یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگوں کی اپنی ذاتی زندگی میں بھی شریعت نہیں ہے، لیکن وہ انتقام کے طور پر کھڑے ہیں،رد عمل کے طو ر پر کھڑے ہیں اور اپنے لیے انھوں نے چھتری بنایا ہے شریعت کو۔ ہمیں ان کے رویے کا بھی جائزہ لینا چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے غلط رویوں اور غلط فیصلوں کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ ہم غیر ملکی مفاد میں اپنے ہی بھائی بندوں کے خلاف اور اپنی ہی ملت کے خلاف، اپنے ہی لوگوں پر بم برسا رہے ہیں۔ تو ایک بنیادی مسئلہ تو یہ ہے جو ہمارے ہاں پیدا ہوا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہم نے علمی سطح پر اور اہل علم ہونے کے تقاضے سے جو ذمہ داری ہماری بنتی تھی، وہ بھی ہم نے پوری نہیں کی۔ کسی بھی طبقے نے سوات والوں سے جا کر یہ نہیں پوچھا کہ تمھارا مسئلہ کیا ہے؟ ہم آپ کی بات کرواتے ہیں۔ جو کر سکتے تھے، انھوں نے بھی نہیں کیا اور جن کے لیے مشکل تھا، انھوں نے بھی نہیں کیا۔ کوئی بھی جا کر وزیرستان والوں سے نہیں پوچھتا کہ تمھارا مسئلہ کیا ہے؟ تواہل علم ہونے کی حیثیت سے جو ہماری ذمہ داری بنتی تھی، وہ بھی نہیں ادا کی گئی۔ ہمیں اس سلسلے میں بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہیے۔ شرعی نقطہ نظر سے ان لوگوں کے ساتھ مکالمے کی ضرورت تھی اور ایک متفقہ رائے امت کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت تھی، وہ نہیں کی گئی۔ اگر کبھی کوئی بات سامنے آئی ہے تو وہ حکومتی فورم سے ایسے انداز میں آئی ہے کہ اس کو ہم جیسے اس ماحول میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے بھی قبول نہیں کیا تو جن کے اوپر بم برس رہے تھے اور جو مظلوم تھے، وہ کیسے اس کو قبول کرتے؟ 
اس کے ساتھ یہ بھی ہماری ایک کمزوری ہے کہ ہم نے بہت سے درست اور صحیح معاملات پر بھی اپنے موقف کی کماحقہ وضاحت نہیں کی۔ مثال کے طور پر افغانستان میں ایک حکومت قائم تھی جسے امارت اسلامیہ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے معیار کے مابق بھی وہ وہاں حکومت کے حق دار تھے۔ نوے فی صد علاقہ ان کے قبضے میں تھا اور ۸۰ فیصد لوگوں کی حمایت انھیں حاصل تھی۔ جمہوری نظام کے تحت بھی وہ وہاں حکومت کا استحقاق رکھتے تھے۔ اس جائز حکومت کو عالمی استعمار نے ظلم، زیادتی، جبر اور استبداد کے ذریعے ختم کر دیا اور ستاون غیر مسلم ممالک نے مل کر حملہ کیا۔ ان کے ساتھ کچھ مسلم ممالک نے اور ہم نے بھی اپنا گھر، اپنا ملک،اپنے کندھے ان مسلمانوں کو مارنے کے لیے اور ان کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے پیش کر دیے اور ان کے خلاف جو مجاہدین اٹھے اور وہ طالبان جنھوں نے امریکی استعمار کے خلاف آواز اٹھائی، ہم نے ان کو بھی اسی تناظر میں دیکھا اور جو اسلام آباد میں اور سوات اور وزیرستان میں حملہ آور تھے، ہم نے ان کو بھی اسی تناظر میں دیکھا۔ افغان مجاہدین کے بارے میں ہم نے اپنا موقف بالکل واضح نہیں کیا۔ اس کی وجہ سے بھی کنفیوژن اور بہت سے مسائل پیدا ہوئے۔ تو یہ اہل علم کی ذمہ داریاں ہیں۔
میں ایک طالب علم ہوں۔ اس مجلس میں آپ سب سے علم میں، عمل میں، عمر میں سب سے کم ہوں۔ میرا یہ ایک استفتا ہے کہ آپ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے ایک ملک پر ستاون غیر مسلم ممالک حملہ آور ہوئے ہیں اور وہاں کے مسلمان اپنے ملک سے کافروں کو نکالنے اور وہاں اسلامی حکومت کے قیام کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں تو کیا اس میں دو رائیں ہو سکتی ہیں کہ یہ جہاد نہیں ہے؟ لیکن اس جہاد کے بارے میں جو ہمارے بالکل قریب ہو رہا ہے، ہم نے کیا کیا؟ یہ تو فقہا نے بھی لکھا ہے کہ جس جگہ کفار نے حملہ کیا ہو، اگر وہاں کے مسلمان غفلت اور سستی کا مظاہرہ کریں یا وہ تعداد اور وسائل کے اعتبار سے کم ہوں تو الاقرب فالاقرب کے تحت ساری دنیا کے مسلمانوں پر جہاد فرض ہو جاتا ہے۔ اس نقطہ نظر سے بھی ہم دیکھیں کہ ہمارا اتنا بھی فرض نہیں تھا کہ ہم ان کے ساتھ کھڑے ہوتے؟ حکومت نے ا س سلسلے میں جو غلط فیصلہ کیا، اہل علم کی ذمہ داری تھی کہ اس سلسلے میں اپنی کوئی متفقہ رائے پیش کرتے۔
تو یہ وہ مسائل ہیں جنھوں نے یہ بحثیں پیدا کی ہیں۔ اس سلسلے میں جو ذمہ داریاں ہماری بنتی ہیں، وہ ہم ادا کریں اور جو ذمہ داریاں حکومت کی ہیں، ہمیں حکومت کو اس پر مجبور کرنا چاہیے اور اس کے لیے جو اقدامات ہو سکتے ہیں، ہمیں وہ کرنے چاہییں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات میرے اور آپ کے اور ان طبقات کے بھی سوچنے کی ہے جو پاکستانی فوج اور حکومت کے خلاف برسرپیکار ہیں اور انھوں نے خروج کا راستہ اختیار کر لیا ہے کہ اس خروج اور اس لڑائی کا فائدہ کس کو ہے؟ اگر وزیرستان میں ایک قبائلی شہید ہوتا ہے، ایک مجاہد شہید ہوتا ہے یا ایک فوجی شہید ہوتا ہے، تینوں صورتوں میں نقصان کس کا ہے اور فائدہ کس کا ہے؟ ہم اپنے گھر کی لڑائی سے باہر کے دشمن کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ اگر ہم اسلام کی بالادستی اور اسلام کی سربلندی کے لیے محنت کر رہے ہیں تو میرا موقف یہ ہے کہ اس وقت ساری دنیا کے مسلمانوں کو اپنی اخلاقی، مالی اور عملی تائید کا وزن طالبان کے پلڑے میں ڈالنا چاہیے کہ وہاں ایسی صورت حال ہے کہ عالمی استعمار کی حکومت جائے گی تو اس کی جگہ اسلامی حکومت آ جائے گی۔ درمیان میں کوئی بات نہیں ہے۔ وہاں ایک آئیڈیل اورایک نمونہ سامنے آ جائے گا تو اس کے بعد دوسرے ممالک کے لیے بھی اس کو کو قابل عمل سمجھنا اور اس کو اختیار کرنا ممکن ہو جائے گا۔ یہی ایک طریقہ ہے۔

ڈاکٹر محمد نجفی

اس نشست میں ہماری گفتگو اس نکتے پر ہے کہ اگر حکومت میں یا حاکم میں وہ خرابی نظر آ رہی ہے جس کو ہم نے کفر بواح کا نام دیا ہے تو اب ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ اس ذمہ داری کے تعین کے مختلف راستے ہیں جن میں سے ایک راستہ خروج کا ہے۔ جہاں تک خروج کا تعلق ہے تو میرے ناقص ذہن کے مطابق یہ لفظ صدر اسلام میں مثبت معنی میں نہیں تھا۔ اس وقت خروج کا لفظ ان لوگوں کے لیے بولا گیا جو حضرت امیر المومنین علی کے خلاف نکلے اور کچھ لوگ امیر شام کو قتل کرنے کے لیے نکلے تو ان کو خارجی کہا گیا۔ وہاں سے یہ اصطلاح جنگ صفین میں آئی۔ تو گویا اس وقت اس کا کوئی مثبت مفہوم نہیں تھا، بلکہ یہ تھا کہ اچھے حاکموں کے خلاف کچھ برے لوگ نکل کھڑے ہوئے۔ اب ہم اس کا استعمال جس صورت حال میں کرنا چاہتے ہیں، وہ اس کے بالکل الٹ ہے۔ حاکم غلط کار ہے اور جو لوگ ٹھیک ہیں، وہ حکمرانوں کو ٹھیک کرنے کے لیے ان کے خلاف نکلنا چاہتے ہیں۔ وہاں تو یہ تھا کہ حاکم اچھا ہے اور اس کے خلاف نکلنے والا باغی ہے، بغاوت کر رہا ہے، غلط کام کر رہا ہے۔ اس کو باغی کہا گیا، چاہے وہ جنگ صفین میں آیا یا اس کے علاوہ۔ آج ہم جس معنی میں لفظ خروج کو استعمال کرنا چاہتے ہیں، اس کے لیے لفظ قیام استعمال ہوتا تھا کہ فلاں نے اس کے خلاف قیام کیا۔ آج تو مفروضہ یہ ہے کہ حاکم خرابیوں کا مالک ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ ان خرابیوں کو دور کریں اور اس سے جان چھڑوائیں۔ تو دو بالکل الگ مفہوم ہیں۔
دوسرا سوال یہ دیکھنے کا ہے کہ خروج کا فیصلہ کون کرے گا اور کون لوگ اس میں اتھارٹی ہوں گے اور نکلنے والے افراد کون ہوں گے؟ آیا وہ عام لوگ ہیں یا فوج ہے یا علماہیں؟ تو جتنی قسم کے افراد ہوں گے، اتنے ہی اس کے مراتب بنتے جائیں گے اور کئی مصداقات ہوں گے۔ کہیں علما کے ذریعے سے ہو رہا ہے اور کہیں دوسرے لوگوں کے ذریعے سے ہو رہا ہے۔ اسی طرح خروج کے مراتب بھی ہیں۔ اگر کسی کا زبان سے برا بھلا کہنا زبان سے روک رہے ہیں تو ایک معنی خروج کا یہ ہو جائے گا۔ ایک معنی یہ ہے کہ تلوار اور بندو ق اٹھائی جائے اور حاکم کے ساتھ جا کر ہم مقابلہ کریں۔ 
اس بحث میں داخل ہونے سے پہلے جب ہماری نگاہ روایات پر پڑتی ہے تو وہ ہمیں روک رہی ہیں کہ آپ نے کچھ نہیں کرنا، خاص طور پر آپ حضرات کے نظریے کے مطابق۔ ہمارے ہاں اور آپ کے ہاں اولی الامر کے مفہوم میں بہت زیادہ فرق ہے۔ ہم اولی الامر سے مراد ائمہ معصومین لیتے ہیں، تمام حاکم مراد نہیں لیتے۔ اس لیے ہمارے معاملہ تھوڑا سا آسان ہے کہ اولی الامر چونکہ غلط کام نہیں کرتے، معصوم ہیں، اس لیے ان کی غیر مشروط اطاعت کی جائے۔ آپ کے ہاں اولی الامر کے مفہوم میں وسعت پائی اتی ہے، اچھاحاکم بھی آ سکتا ہے اور برا حاکم بھی آ سکتا ہے۔ تو حاکم کے حوالے سے ہمارے ہاں بھی روایات ہیں، اگرچہ وہ اولی الامر کے زمرے میں نہیں آتا۔ کہا گیا ہے کہ اس کے خلاف تلوار اٹھانے کی ممانعت ہے۔ یہ کہا گیا ہے کہ طاعتہ خیر من الخروج اور بعض روایات میں الفتنۃ اشد من القتل کے الفاظ آئے ہیں کہ آپ اس کے خلاف اٹھیں گے تویہ فتنہ بن جائے گا۔ یہ ساری چیزیں جب ہمارے سامنے آتی ہیں تو یہ گویا روک رہی ہیں کہ آپ خروج نہیں کریں گے۔
البتہ جب اس عام سے آپ استثنا کریں گے تو کہیں گے کہ اگر حاکم میں کفر بواح پایا جاتا ہے اور اس کی وجہ سے وہ فرضاً کافر ہو گیا ہے تو ہمیں یہ اجازت ملتی ہے کہ اس کے خلاف نکل سکتے ہیں۔ یہاں اگر فتنے والی بات ہے تو اہون البلیتین ہے۔ ایک بلا یہ ہے کہ خون بہے گا اور فتنہ ہوگا اور دوسری بلا سر پر بیٹھی ہے جو کفر کر رہی ہے جس کی وجہ سے شریعت میں خلل آ رہا ہے۔ ہمارے ہاں آئین میں کچھ ا س طرح کی چیزیں شامل ہو گئی ہیں جن کی وجہ سے کفریہ نظریات آ گئے ہیں۔ سود کا تحفظ اور دیگر معاملات اسی کا مصداق بنیں گے۔ 
بہرحال خروج کے حوالے سے یہ سارے سوال قابل غور ہیں کہ اگر کفر بواح کا تحقق ہو جائے تو خروج کا آرڈر ہمیں کون دے گا؟ پہلے کس درجے کا خروج ہم نے کرنا ہے؟ جو خروج ہم کرنا چاہتے ہیں، وہ وجوب کی حد تک ہے یا استحباب کی حد تک؟ ان سب باتوں کی تعیین ضروری ہے۔ وجوب کی حد تک فقط اس وقت جاتا ہے جب کفر صریح کا صدور حاکم سے ہوا ہو، لیکن اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ پہلے تو نبی، امام یا صحابی تھے۔ اب اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ آیا پارلیمنٹ کرے گی، مفتی صاحبان کریں گے، مجتہدین حضرات کریں گے یا عوام کریں گے؟ یہ سب سوالات قابل غور ہیں۔

ڈاکٹر فرید احمد پراچہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ آپ کا شکریہ۔ یہ ایک بڑی علمی بحث ہے۔ اس کے ایک پہلو پر، جو آپ کے موضوع کا پہلا حصہ ہے، اس کے بارے میں تو میں وقت بچانے کے لیے ایک کتابچہ آپ کو پیش کر دوں گا تاکہ اسے آپ اپنی گفتگو میں شامل کرلیں کہ نفاذ شریعت کا راستہ کیا ہے۔ گفتگو کا دوسر احصہ کہ متبا دل راستے کیا ہیں، اس کے بارے میں مختصراً عرض کروں گاکہ عام طور پر ایسے مذاکروں اور ایسے مباحثوں میں بحث کے صرف ایک ہی فریق کو بلایا جاتا ہے، یعنی اہل علم، لیکن اہل حکومت جن کے پاس زمام اقتدار ہے اور جن کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے ہیں، ان ان میں کسی کو ان میں شریک نہیں کیا جاتا۔ یہ ساری بحثیں جو آج ہم کر رہے ہیں، یہ بحثں علمی سے زیادہ عملی ہیں، جبکہ ارباب اقتدار کو شامل نہ کرنے سے یہ بحثیں عام طو رپر علمی نکات کے اظہار کی حد تک رہ جاتی ہیں جو کتابوں میں پہلے ہی موجود ہیں، لیکن اس سے صورت حال کی تبدیلی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ 
آج جتنی بھی اصطلاحیں استعمال ہو رہی ہیں، تکفیر ہے یا دار الحرب ہے، یہ ظلم کے رد عمل کے طور پر کچھ لوگ اٹھے ہیں جو ان اصطلاحوں کا سہارا لے رہے ہیں، اس لیے پس منظر کو سامنے رکھے بغیر سمجھ میں نہیں آئے گی۔ جماعۃ التکفیر والہجرۃ ۱۹۶۵ء میں مصر کی جیلوں کے اندر بنی جہاں جمال عبد الناصر نے ظلم کی انتہا کر دی تھی۔ اس نے اسلامی نظام اور حکومت الٰہیہ کا مطالبہ کرنے والوں سے جیلیں بھر دیں، ان پرکتے چھوڑے گئے اور ان کی عورتوں کو بے پناہ اذیتیں دی گئیں۔ یہ ایک لمبی داستان ہے۔ پھر اس کے بعد سید قطب اور ان کے ساتھیوں کو پھانسی دی گئی۔ ان کے ساتھ شہید ہونے والوں میں ایک علی اسماعیل بھی تھے۔ ان کے بھائی عبد الفتاح اسماعیل نے جماعۃ الہجرۃ والتکفیر قائم کی اور پھر اس کے اندر انتہا پسندی آتی چلی گئی۔ انھوں نے کہا کہ ہر ایک کافر ہے اور سلام کرنے کے بارے میں بھی توقف اختیار کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ دنیا کے اندر مساجد بھی صرف چار ہیں، باقی سب مساجد ضرار ہیں۔ یہ ساری چیزیں وہیں پیدا ہوئی ہیں۔
اگرہم اپنے ہاں دیکھیں تو ایک طبقہ ہے جس نے یہاں امریکہ کو آنے کی اجازت دی، اس کو اڈے دیے، اس کو تمام تر سہولتیں دیں اور اس کو ایک مسلمان ملک افغانستان پر حملے کے لیے اپنی زمین پیش کر دی، اس کو انٹیلی جنس سپورٹ دی، لوگوں کو پکڑ پکڑ کر حوالے کیا۔ اب یہ ساری بات کہیں زیر بحث ہی نہیں۔ اس کے نتیجے میں آج ڈرون حملے بھی ہو رہے ہیں۔ ڈرون حملوں کے نتیجے میں بے گناہ لوگ بھی مارے جا رہے ہیں۔ یہ دونوں پہلے اتنے ہی اہم ہیں۔ جتنا رد عمل کے طو رپر غلط راستہ چننے والے، بے گناہوں کو مارنے والے، مساجدکو نقصان پہنچانے والے اور عام گزر گاہوں پر حملے کرنے والے قصور وار ہیں، اتنا ہی وہ لوگ بھی جو اس ساری صورت حال کا سبب بنے ہیں اور امریکا کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ اس لیے ایک تو یہ بات انتہائی اہم ہے۔
دوسری بات اس کے ساتھ یہ ہے کہ کشمیر، افغانستان، عراق اور فلسطین، ان سب جگہوں پر جدوجہد کی بالکل مختلف صورتیں ہیں۔ پاکستان کے اندر تمام اہل علم کو اس بات کی طرف توجہ دینی چاہیے کہ متبادل راستوں کے اندر ایک اہم ترین چیز خود آئین پاکستان ہے جو تمام علماء کرام کی جدوجہد سے بنا ہے۔ اس سے پہلے تمام مکاتب فکر کے اکتیس جید علماء کرام بائیس نکات پر اکٹھے ہوئے تھے۔ یہ ایک لمبی جدوجہد ہے۔ اس کے بعد اگر اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا تو اس کے ذمہ دار آئین پر عمل نہ کرنے والے ہیں اور وہ تمام تحریکیں ذمہ دار ہیں جو جمہوریت کے منافی اٹھتی ہیں۔ اس پر عمل درآمد کے لیے بھی اہل علم، علما اور دینی جماعتوں کو پور ی کوشش کرنی چاہیے۔
آج کے دور میں متبادل ذرائع کے طو رپر عام طور پر انتخابات ہی ہیں۔ یہ ایک نقطہ نظر ہے، اس سے اختلاف بھی ہو سکتا ہے۔ قرآن پاک کی آیت: اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم میں جہاں اللہ کی اطاعت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے لیے اطیعوا کا لفظ آیا ہے، اولی الامر کے ساتھ اطیعوا کا لفظ نہیں ہے جس سے ایک تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اولی الامر کی اطاعت اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے تابع ہے۔ دوسری یہ کہ یہاں اولی الامر علیکم نہیں ہے، اولی الامر منکم ہے یعنی جو تم میں سے اولی الامر بنے، جو تم میں سے چنے جائیں۔ تو اول الامر کا معاملہ بادشاہت کی طرز کی آمریت کا، خاندانوں کے مسلط ہونے کا اور اس طرز کی تمام حکومتوں کی نفی کرتا ہے۔ دنیا کے اندر یہ انتخابات کے ذریعے سے تبدیلی لانے کا طریقہ کامیاب بھی ہوا ہے۔ ترکی میں ہوا ہے، فلسطین میں ہوا ہے اور دنیا کے دوسرے ممالک میں اسلامی نظام چاہنے والے ووٹ کے ذریعے سے ان کے قدم آگے بڑھ رہے ہیں۔ ابھی تیونس میں ایسے ہوا ہے، مصر کے اندر حالات اس طرف جا رہے ہیں۔ انڈونیشیا اور ملائشیا میں اور خود پاکستان میں بھی اہل دین انتخابات کے ذریعے سے برسر اقتدار آئے ہیں۔ 
میں یہ عرض کروں گا کہ آج ہماری جو سفارشات ہوں، ان میں یہ بات بھی ہو کہ عوامی تائید سے آگے آنے کو ہمارے حکمران ناقابل عمل نہ بنائیں۔ یہ جو جاگیردارانہ نظام ہے، یہ جو فوج اور بیورو کریسی کا گٹھ جوڑ ہے، یہ کسی بھی صورت میں نہ اہل علم کو آگے آنے دیتا ہے نہ اہل دین کو آگے آنے دیتا ہے نہ ان کے ہاں مڈل کلاس کی یا کسی پڑھے لکھے کی کوئی گنجائش ہے۔ اس نظام کو بدلنے کے لیے متناسب نمائندگی کا جو نظام ہے، وہ بڑی حد تک بہتر ہے۔ ترکی اور تیونس میں یہی متناسب نمائندگی کا نظام ہے۔ کم سے کم ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہیے اور یہ جو روکنے کی کوشش ہے کہ کسی طرح سے بھی دینی لوگ آگے نہ آ سکیں اور اپنی مرضی کی متبادل قیادتیں پیدا کی جاتی ہیں تو اس سلسلے میں بھی توجہ دلانی چاہیے۔ اسی طرح مغرب تک بھی یہ پیغام جانا چاہیے کہ مسلمان ممالک کے اندر تمھیں نہ بلٹ کا فیصلہ قبول ہے نہ بیلٹ کا فیصلہ قبول ہے، نہ صندوق کا فیصلہ قبول ہے اور نہ بندوق کا فیصلہ قبول ہے تو کیوں آپ بند گلی کے اندر دھکیل رہے ہیں کہ لوگ پھر خود کش حملہ آور بنیں۔ تو کم از کم بیلٹ کا فیصلہ تو قبول کریں۔ بیلٹ کا فیصلہ فلسطین میں تسلیم نہیں کیا گیا، جہاں جہاں بھی بیلٹ کا فیصلہ اہل دین کے حق میں ہوا، مغرب نے اس کو قبول نہیں کیا۔ ہمارے بارے میں اس نے طے کیاہوا ہے کہ مسلمان ممالک اسی طرح سے اسی حالت میں رہیں گے۔ تو ہمیں اپنی سفارشات میں ان این جی اوز کے ذریعے یہ پیغام بھی مغرب تک پہنچانا چاہیے کہ مغرب بھی اپنا دہرا معیار ختم کرے۔ اس دہرے معیار کی وجہ سے ہی یہ سارا رد عمل پیدا ہو رہا ہے۔

مولانا طاہر محمود اشرفی

سب سے پہلے تو میں مفتی منصور احمد صاحب کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ خروج کی اصطلاح ہم وہاں استعمال کریں جہاں خلافت اسلامیہ اور اسلامی نظام حکومت قائم ہو اور اس کے خلاف کچھ لو گ نکل کھڑے ہوں۔ 
جہاں تک پاکستان کے حالات کا تعلق ہے اور ہمیں جو حالات درپیش ہیں تو مجھے چونکہ جہاد سے اور مجاہدین سے بھی تعلق رہا ہے تو میں اپنے تجربات کی روشنی میں سب چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہوں گا کہ ہمارے اہل علم اور ہمارا دینی طبقہ اگر اپنی ذمہ داریاں پوری کرتا تو ممکن ہے کہ آج کا نوجوان جیکٹ پہننے سے پہلے کچھ سوچتا۔ ہم نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں اور آج بھی نہیں کر رہے۔ جب ہمارے پاس تنہائی میں آ کر نوجوان بیٹھتے ہیں توہم انھیں کچھ اور کہتے ہیں اور جب ہم اس طرح کی کسی محفل میں آتے ہیں یا کسی ٹاک شو میں جاتے ہیں یا جلسوں میں جاتے ہیں تو ہمارا رویہ کچھ اور ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اہل علم ایک طرف رہ گئے ہیں اور وہ لوگ جو تکفیری سوچ لے کر آرہے ہیں، وہ اب مدارس سے زیادہ جدید تعلیمی اداروں میں موثر انداز سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ میں گزشتہ دو ماہ سے کالجز اور یونیورسٹیز کے طلبہ کے ساتھ ہفتے میں دو نشستیں کر رہا ہوں۔ میں تو پریشان ہو گیا ہوں کہ جو ڈائریکشن وہ اختیار کر رہے ہیں، وہاں نہ کوئی دیوبندی کھڑا ہے، نہ بریلوی کھڑا ہے، نہ کوئی اہل حدیث کھڑا ہے۔ ان کی اپنی ڈائریکشن ہے اور اپنا راستہ ہے جو ممکن ہے کل ہم تبدیل کرنے کی کوشش کریں تو نہ کر سکیں۔ ہم میں سے کوئی بھی ان کا آئیڈیل نہیں ہے۔ تو یہ تکفیری سوچ ہمارے ہاں نائن الیون سے پہلے نہیں تھی۔
میں اس اجتماع میں موجود تھا جو نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف نے بلایا تھا اور جس میں یہ بات طے کی جانی تھی کہ ہم نے کس کا ساتھ دینا ہے۔ اٹھارہ جماعتوں کے نمائندے وہاں موجود تھے جن میں سے پندرہ پارٹیوں کے نمائندوں نے کہا تھا کہ ہمیں امریکا کا ساتھ دینا چاہیے۔ قاضی حسین احمد، مولانا سمیع الحق اور نواب زادہ نصر اللہ خان، یہ تین لوگ تھے جنھوں نے کھل کر کہا تھا کہ ہمیں طالبان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ باقی جتنی بھی مذہبی یا غیر مذہبی جماعتیں تھیں، ان کا رویہ دوسرا تھا۔ تو ہمیں یہ بات بھی دیکھنی چاہیے۔
دوسری بات میں یہ کرنا چاہتا ہوں کہ نائن الیون کے حملے کے بعد ملا عمر نے پاکستان کی جہادی تنظیموں سے کہا تھا کہ ہمیں آپ کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور ہمیںآپ کی مدد نہیں چاہیے۔ ہم یہ جنگ خود لڑیں گے۔ پھر ہم کیسے یہ جواز پیش کر سکتے ہیں کہ یہاں سے اٹھیں اور جا کر وہاں جنگ کرنا شروع کر دیں۔ ایک طرف ہم ملا عمر کو امیر المومنین بھی مانتے ہیں اور ان کی حکم عدولی بھی کریں اور یہ کہیں کہ ہمیں افغانستان جا کر لڑنا ہے۔ 
پاکستان کے کسی عالم نے پاکستان کے اندر خود کش حملوں کو جائز نہیں کہا۔ جب عبد القیوم ذاکر کو جو کہ طالبان کا کمانڈر انچیف ہے، ملا عمر نے ان کی قیادت میں بیت اللہ محسود کوپیغام بھجوایا کہ آپ پاکستان میں یہ کام بند کر دیں تو اس نے جواب میں کہا کہ میں یہ اسلام کے لیے نہیں بلکہ انتقام کے لیے کر رہا ہوں۔
اب جب ہم سوات کے حالات کو دیکھتے ہیں تو وہاں صوفی محمد کے پاس اکابرین کو بھجوانے اور ان سے ملاقات کرانے کا میں نے انتظام کیا تھا۔ ہم سمجھتے تھے کہ ہمیں جتنی بھی شریعت نافذ کرنے کا موقع مل جائے، اس کے اثرات جب دنیا دیکھے گی اور جب یہ اثرات پاکستان میں آئیں گے تو پاکستانی قوم بھی خود بخود شریعت کی طرف آئے گی۔ مولانا صوفی محمد کے ساتھ ڈاکٹر شیر علی شاہ، مولانا سمیع الحق ور دیگر بزرگوں کی چھے گھنٹے کی نشست ہوئی، لیکن مولانا صوفی محمد کسی بھی درمیانی بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔
میں اس بات کو کیسے جائز قرار دے دوں کہ میری جدوجہد اگر شریعت کے لیے ہے تو میں ان غریب یتیم بچوں کوجو بے چارے بازار میں ریڑھیاں لگائے بیٹھے ہیں اور ان عورتوں کو جو وہاں خریداری کرنے کے لیے گئی ہوئی ہیں، ان کے متعلق یہ کہوں کہ ان کا قتل جائز ہے اور یہ فتویٰ دے دوں کہ یہ لوگ تو مرنے کے بعد جنت میں چلے جائیں گے اور اگر کوئی سرکاری اہل کار مر گیا تو وہ جہنم میں جائے گا؟ کیا ہم نے کبھی اس امر پر غور کا ہے اور کبھی اس پر سوچا ہے کہ ہمارے اوپر اور بالخصوص مذہبی طبقے کے اوپر جو سٹمپ لگتی جا رہی ہے۔ آج ایسے ایسے لوگ مفسر قرآن بن کر آ گئے ہیں کہ جن بے چاروں کو قرآن کی آیت بھی تلاوت کرنا نہیں آتی۔ یہ جو خلا پیدا ہو رہا ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے اندر ابھی خروج کی نوبت نہیں آئی، لیکن تکفیری سوچ بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ مدارس کے طلبہ کی تو پھر کوئی ڈائریکشن ہے، وہاں تو پھر ان کے لیے کوئی مفتی، کوئی شیخ الحدیث، کوئی جماعت مشعل راہ بن رہی ہے۔ یونیورسٹیز کے جو طلبہ ہیں، ان میں حزب التحریر ٹائپ کی جو جماعتیں آ گئی ہیں، میں معذرت سے عرض کروں گا کہ کیا ہم نے اور اس ملک کے بڑوں نے سوچا ہے کہ ہم ان کو کہاں سٹاپ لگا سکتے ہیں؟ ان طلبہ کو جس انداز سے گمراہ کیا جا رہا ہے اور زید حامد جیسے فتنے جو اس وقت اٹھ رہے ہیں، کیا ہم نے ان کے تقابل میں اور ان کو جواب دینے کے لیے کوئی تیاری کی ہے؟
غزوۂ ہند کے بارے میں ایک حدیث بیان کی جاتی ہے جس پر کلام بھی ہے۔ آپ ماشاء اللہ اہل علم ہیں۔ میں تو طالب علم ہوں۔ کیا غزوۂ ہند کے حالات پیدا ہو گئے ہیں؟ نوجوانوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے کہ امام مہدی پیدا ہو گئے ہیں، بس کل آئے کہ پرسوں آئے۔ ہر کوئی امام مہدی کا قافلہ بنا کر نوجوانوں کو گمراہ کر رہا ہے۔ کیا ہم نے اس پر بھی سوچا ہے؟ دھڑا دھڑ کتابیں آ رہی ہیں۔ امریکی ڈالرکو رکھ کر بتایا جا رہا ہے کہ کانا دجال آ گیا۔ یہاں مفتی حضرات اور علما بیٹھے ہیں۔ وہ بتائیں کہ کیا وہ حالات اس وقت پیدا ہو چکے ہیں؟ تو یہ بنیادی اسباب ہیں اور ہمیں ان چیزوں کی طرف توجہ دینی چاہیے۔
جہاں تک افغانستان کے حالات کی بات ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ افغانستان کی جنگ ملا عمر نے جیت لی ہوئی ہے۔ وہ اس کا مسئلہ ہے اور وہ کہہ رہا ہے۔ اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ اصل بات کو کوئی پھیلانے کے لیے تیار نہیں۔ آپ یہ دیکھیں کہ ملا عمر نے عید الفطر کے موقع پر جو پیغام دیا ہے، وہ یہ ہے کہ افغانستان کے باہر ہمارا کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔ ہمارا ایجنڈا افغانستان ہے۔ عید الاضحیٰ کا پیغام دیکھیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارا ایجنڈا افغانستان ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے یہاں پاکستان میں بیٹھ کر ایک عالمی ایجنڈا بنایا ہوا ہے اور ہم عالمی طور پر سب کچھ کرنا چاہتے ہیں۔
جہاں تک ہمارے قبائل کی بات ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر کچھ لوگ افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں تو انھیں کس کی تائید حاصل ہے؟ کیا انھیں پاکستانی فوج یا آئی ایس آئی کی تائید حاصل ہے؟ نہیں، انھیں ان قوتوں کی تائید حاصل ہے جو افغانستان میں بیٹھی ہوئی ہیں اور وہ وہاں سے لوگوں کو تیار کر کے بھیج رہے ہیں۔ چودہ کیمپ ہیں افغانستان میں جو خود کش حملوں کی تربیت دیتے ہیں۔ وہ کس کے ہیں اور کس کی کمان میں چل رہے ہیں؟ جب تک ہم مرض کو جڑ سے نہیں پکڑیں گے، اس وقت تک ہم معاملات کو حل نہیں کر سکتے۔ معاملات کے حل کے لیے سب سے اہم چیز جو ضروری ہے، وہ یہ کہ ہم اپنے قول وفعل کا تضاد ختم کریں۔
جنرل پرویز مشرف ایک بہت بڑے مفتی صاحب سے بڑی محبت رکھتے تھے اور جنرل معین الدین حیدر اور جنرل پرویز مشرف دونوں ان مفتی صاحب کے پاس بڑی عقیدت اور احترام سے جاتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ بڑے اعلیٰ مفتی ہیں۔ جب پرویز مشرف پر حملہ ہوا اور لوگ گرفتار ہوئے تو ایک نوجوان نے بتایا کہ میں نے اس حملے کا فتویٰ انھی مفتی صاحب سے لیا تھا اور انھوں نے نہ صرف فتویٰ دیا بلکہ ساتھ پچاس ہزار روپے بھی دیے تھے اور یہ بھی کہا تھا کہ اگر اس کو مارتے ہوئے دو چار سو بندہ مر بھی جائے تو کوئی حرج نہیں۔ تو یہ تضاد بھی ہمیں ختم کرنا ہے۔ ہمارے جو لشکر جھنگوی کے لوگ تھے، جب میں ایڈوائزر تھا تو میں ان سے جیلوں میں جا کر ملا ہوں۔ انھوں نے مجھے فتوے دکھائے کہ جناب شیعہ اور قادیانیوں کی جو عورتیں ہیں، یہ باندیاں ہیں اور ان کا مال، مال غنیمت ہے اور یہ واجب القتل ہیں۔ ہم نے تو ان فتووں کی بنیاد پر ایسا کیا ہے۔ جب میں نے انھیں اسی دار الافتاء کا فتویٰ دکھایا کہ دیکھیں، وہ تو یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ ناجائز ہے تو ان نوجوانوں نے کہا کہ ہمیں بتائیں، نہ ہماری دنیا رہی نہ آخرت رہی۔ تو ہمیں اس طرف بھی توجہ کرنی چاہیے اور اس طرف بھی دیکھنا چاہیے کہ ہم جا کیسے رہے ہیں۔
یہاں ہمیں خروج کا معاملہ اتنا درپیش نہیں ہے اور نہ آصف علی زرداری کی قیادت میں کوئی خلافت اسلامیہ قائم ہے جس کے خلاف باغی کھڑے ہو گئے ہیں۔ بڑی معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ جب تک دینی طبقہ اپنے رویے ٹھیک نہیں کرے گا، جب تک مذہبی قوتیں اپنے رویے ٹھیک نہیں کریں گی، حالات درست نہیں ہوں گے۔ اس وقت تک یہاں نہ اسلامی نظام آ سکتا ہے، نہ خلافت اسلامیہ آ سکتی ہے اور نہ ہم یہاں بندوق سے خلافت اسلامیہ لا سکتے ہیں۔ یہاں اگر بندوق کی بات چلے گی تو اگر حرکت المجاہدین کے پاس دس ہزار نوجوان ہیں تو لشکر طیبہ کے پاس بھی دس ہزار ہوں گے۔ یہ خانہ جنگی کی صورت ہوگی جو ابھی ہم نے سال ڈیڑھ سال پہلے قبائل میں دیکھی بھی ہے۔ 
تو میں یہ گزارش کروں گا کہ اپنے نوجوانوں کو بچانے کے لیے اگر آپ نے توجہ کرنی ہے تو اس تکفیری مہم کی طرف کیجیے جو آپ کی یونیورسٹیوں اور کالجوں کے نوجوانوں کو تباہ کر رہی ہے اور ان میں اس طرح سرایت کر رہی ہے کہ آپ اور میں اس کا تصور ہی نہیں کر سکتے۔ میں چاہوں گا کہ آپ ان نوجوانوں میں سے بھی چند لوگوں کو بلائیے، ان کے دلائل اور گفتگو سنیے، آپ مبہوت ہو جائیں گے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں اسلامی جمعیت طلبہ کے علاوہ جو طلبہ تنظیمیں تھیں، وہ ویسے ہی ختم ہو چکی ہیں۔
جہاں تک مغرب اور برطانیہ کی بات ہے تو میں نے بارہ چودہ سال میں ہمارے ہاں جو فرقہ وارانہ تشدد آیاہے، ہم نے تو کہیں نہیں دیکھا کہ کسی کو امریکا نے پیسے دیے ہوں اور اس نے آکر کسی امام بارگاہ میں دھماکا کیا ہو یا کسی مسجد میں لوگوں کو قتل کیا ہو۔ یہاں ہم نے خود ایک دوسرے کے گریبان پکڑے ہوئے ہیں اور اس کا سبب یہی سوچ ہے۔ کیا اس کے خاتمے کے لیے ہم کوشش نہیں کر سکتے؟ اب یہ مرض کینسر کی طرح بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کوجڑ سے کاٹنا ہوگا، لیکن اس کے لیے کون آگے بڑھے گا، اللہ ہی جانتا ہے۔
تو میں گزارش کروں گا کہ اس طرح کی گفتگو ایک بڑے سیمینار کی صورت میں ہونی چاہیے اور پراچہ صاحب کی بات سے بھی اتفاق کروں گا کہ ان لوگوں کو بھی موقع ملنا چاہیے جن کا نقطہ نظر مختلف ہو۔

مولانا احمد علی قصوری

خروج کے ساتھ ساتھ ایک اور سوال ہے جس کا جواب تلاش کیا جانا چاہیے کہ تمکن فی الارض،وہ فرض ہے خاص طور پر حکمرانوں کے لیے اور اس فرض کی نوعیت ایسے ہی ہے جیسے انفرادی زندگی میں مثلاً نماز فرض ہے۔ نماز کی فرضیت کے حوالے سے حدیث میں یہاں تک الفاظ موجود ہے کہ من ترک الصلوۃ فقد کفر، اگرچہ اس کے ساتھ تشریحاً متعمدا کا لفظ موجود ہے، لیکن اگر اس تشریحی لفظ کو الگ کر دیا جائے تو انفرادی زندگی میں جیسے ترک صلوٰۃ کفر کی حد تک پہنچ جاتا ہے، اسی طرح جن کو تمکن فی الارض کے وسائل اور مواقع میسر ہوں اور یہ فریضہ ادا نہ کریں اور ادا نہ کرنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنے دور اقتدار میں اپنی زبان سے یا کسی اقدام سے کفر بواح کا اظہار نہ بھی کریں ، لیکن مسلم ریاست کے اندر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کر نے کی بجائے منکرات وفواحش کے نہ صرف خود مرتکب ہوں بلکہ ریاستی سطح پر ان کے فروغ اور استیلا کی بالواسطہ یا بلاواسطہ مسلسل سرپرستی کریں تو اس کاکیا حکم ہے؟ ماضی قریب میں ہم جائیں تو پرویزی دور حکومت میں قوم کی بیٹیوں کو نیکریں پہنا کر لاہور کی سرزمین پر دوڑایا گیا تھا تو ایسا کردار رکھنے والے افراد جب مسلط ہو جائیں، یہ الگ بحث ہے کہ وہ جبراً مسلط ہوں یا ایک فراڈ ریفرنڈم کے ذریعے سے یا کسی بھی عنوان سے آجائیں، تو ان کے خلاف اقدامات کرنے کا کیا حکم ہے؟ یہ سوالات بھی خروج کے حوالے سے قابل توجہ ہیں۔
دوسری طرف ہمیں یہ ملتا ہے کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من کرہ من امیرہ شیئا۔ اس کے مراحل بیان ہوئے ہیں۔ فلیصبر علیہ فانہ لیس احد من الناس خرج من السلطان شبرا فمات علیہ الا مات میتۃ جاہلیۃ۔ مسلم شریف میں یہ حدیث موجود ہے۔ تو ہمیں فرق کرنا ہوگا۔
تاریخ اسلام میں ہم دیکھتے ہیں کہ پہلی مرتبہ اس قسم کا اقدام جس کی ضرورت محسوس ہوئی اور جو سب سے پہلا عملی مظاہرہ ہوا، وہ کربلا کے میدان میں ہوا۔ خلافت راشدہ میں خلافت حق تھی۔ اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول کا سارا نظام موجود تھا۔ اگر کسی ایک گروہ نے زکوٰۃ کی ادائیگی اور فرضیت کا انکار کیا ہے تو صدیق اکبر نے ان کے خلاف جہاد کا حکم دیا ہے۔ جب یزید کا دور آتا ہے تو وہاں حضرت حسین کا جو کردار ہے، اس کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہے، اہل علم کو آج کے معروضی حالات کو بھی پیش نظر رکھنا ہے اور قرآن وسنت کی جو تعلیمات ہیں، ان کو بھی مدنظر رکھنا ہے اور تاریخ کے جو واقعات ہیں، ان کو بھی سامنے رکھنا ہے۔
جہاں تک مذہبی علما کی خامیوں کا تعلق ہے تو میں یہ عرض کروں گا کہ اگر دنیا کے نقشے پر جہاں بھی اسلام موجود ہے، کسی بھی رنگ میں موجود ہے، وہ سارے کا سارا، چند استثناء ات کے علاوہ، ان کے علما کے صدقے میں موجود ہے جن کو مطعون کیا گیا۔ کسی بھی طبقے کو نہ مکمل طور پر خراب کہا جا سکتا ہے نہ مکمل طور پر درست کہا جا سکتا ہے۔ میں عرض کروں گا کہ اس قسم کے تمام جتنے بھی مسائل ہیں، ان کے اندر بھی ترجیحات طے ہونی چاہییں کہ پہلے ہم کن مسائل کو لیں اور دوسرے نمبر پر کن مسائل کو لیں۔
اس وقت عالمی معروضی حالات میں ہمارے تین طبقات ہیں جو leading role ادا کرتے ہیں۔ بالخصوص اگر اسے امت مسلمہ کے اندر محدود کیا جائے تو وہ زیادہ درست بات ہوگی۔ نمبر ایک، حکمران اور سیاست دان۔ نمبر دو، سرمایہ دار طبقہ اور مترفین۔ نمبر تین، مذہبی طبقہ۔ پہلے دونوں طبقات اگر بگڑے ہوئے ہوں اور مذہبی طبقہ درست راہ پر چل رہا ہو تو پہلے جو دو بگڑے ہوئے ہیں، ان کی بھی اصلاح اور واپسی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ لیکن خدا نخواستہ خدا نخواستہ اگر تیسرا طبقہ بھی بگڑ جائے تو پھر اس قوم کو تباہی اور بربادی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ اس وقت امت مسلمہ کے جو احوال ہیں، ان میں اتنی بات درست کہی گئی ہے کہ اگر علما کہلانے والوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے اور ان کے جو فرائض بنتے ہیں، ان کو ادا نہ کیا اور صحیح طو ر پر مشترکات کو اجاگر کر کے سیکولر لابیوں اور لادینی قوتوں کا مقابلہ نہ کیا جو اکٹھی ہو کر سب کچھ کر رہی ہیں تو صورت حال بگڑتی جائے گی۔ آپ دیکھ لیں، عملاً صورت حال اس وقت یہ ہے کہ کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں ان سامراجی طاقتوں کے دلال پیدا نہ ہو چکے ہوں، چاہے وہ الیکٹرانک میڈیا ہو، پرنٹ میڈیا ہو یا آپ کے اینکر پرسن ہوں۔ جب حالات معمول کے مطابق ہوں تو معمولی اقدامات سے کام چل جاتا ہے ، لیکن غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں زیادہ سے زیادہ مشترکات اور متفقات کو سامنے لانا چاہیے۔
آپ کے فورم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ایک درخواست بھی ہے کہ اتنے مختصر وقت میں اتنے لمبے موضوعات نہ رکھے جائیں۔ اس کا طریقہ یہ رکھا جائے کہ دو یا تین سوال رکھ کر ہر مکتب فکر کے ایک ایک نمائندے کو گفتگو کے لیے کہا جائے اور باقی حضرات سوال وجواب کے ذریعے سے شریک ہوں تو یہ طریقہ زیادہ مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

علامہ خلیل الرحمن قادری

میں فی الجملہ اس بات کی تائید کروں گا کہ اگر اسباب سے ہٹ کر صورت حال کا تجزیہ کریں گے تو ہمارا تجزیہ غلط ہوگا۔ بات یہ ہے کہ ہر ملک کا حق ہے کہ وہ اپنے ہاں جس نظام کا چاہے، انتخاب کرے۔ وہ جمہوری نظام ہو، پارلیمانی ہو، صدارتی ہو، وفاقی ہو، وحدانی ہو، یہ اس کا حق ہے۔ ہاں جب اسلام کا تناظر سامنے آتا یہ تو اس میں نظام خلافت میں ترجیح دی جاتی ہے، لیکن کسی طاغوتی طاقت کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ آ کر یہ متعین کرے کہ کس ملک میں کیا نظام رائج ہونا چاہیے۔ اس ظلم اور تعدی کے بارے میں بھی سوچا جائے۔ طالبان نے اپنی حکومت کی بنیاد جیسے بھی رکھی تھی، جیسا کہ ہمارے بھائی نے کہا کہ ان کے پاس عددی اکثریت بھی تھی اور جمہوری نقطہ نظر سے بھی تمام تقاضے پورے تھے تو اس کے بعد ان کی حکومت کو destabilize کیوں کیا گیا؟ ایک ملک اٹھتا ہے اور عراق کے اوپر چڑھائی کر دیتا ہے۔ بیس لاکھ مسلمانوں کا قتل عام ہوتا ہے۔ بغداد شہر میں اس وقت پچیس ہزار یتیم بچے موجود ہیں اور وہاں کارپٹ بمبنگ کی گئی ہے۔ اتنا یورینیم پھینکا گیا ہے کہ ان کی آئندہ کئی نسلیں اس سے متاثر ہوں گی۔ ان ساری چیزوں کے بعد جب وہ طاقت وہاں سے جانے لگتی ہے تو رخصت ہوتے وقت کہہ دیتی ہے کہ اوہو، یہ تو غلطی تھی۔ یہ کیسی غلطی تھی جس کی پاداش میں بیس لاکھ مسلمان لقمہ اجل بن جاتے ہیں! تو ان اسباب کو جب ہم جوڑ کر نہیں دیکھیں گے تو ہم بالکل غلط نتائج پر پہنچیں گے۔
طالبان کی حکومت کے فہم اسلام سے پاکستان کی مذہبی جماعتوں کو کاملاً اتفا نہیں تھا اور وہ ان پر تنقید بھی کرتے تھے، لیکن بہرحال یہ ان کاحق تھا کہ وہ کیسی حکومت بناتے ہیں۔ امریکہ کو کوئی حق نہیں تھا۔ یہی باتیں یو این او کے پلیٹ فارم پر دو سال پہلے قذافی نے کی تھیں اور اس نے شور مچایا تھا کہ کل کو ہماری طرف بھی بحری جہاز آ جائیں گے۔ بہتر ہے کہ تعین کرو اور کچھ پرانی فائلیں کھولو۔ اس کی اپنی فائل کھل گئی۔ تو یہ صورت حال ہے جس پر کوئی غیرت مند، باشعورمسلمان سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔
دوسری بات جس سے میں تھوڑا سا اختلاف کرتا ہوں، میں نہیں سمجھتا کہ یہ کلیتاً ایسے لوگوں کی شرارت ہے جن کے بارے میں ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ بزور بازوشریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں اور وہی دھماکے کرا رہے ہیں۔ اور بھی بہت سے عناصر ہیں جو دھماکوں میں ملوث ہیں، ان کی پہچان بھی ہمیں کرنی چاہیے۔
تیسری بات جس کی طرف میں نے خروج کے حوالے سے پہلی گفتگو میں اشارہ کیا تھا۔ میں ذاتی طور پر مسلح خروج کا قائل نہیں ہوں کسی بھی ایسے حکمران کے خلاف جو اسلام کی پیوند کاری سے موجودہ جمہوری نظام چلا رہا ہو، لیکن یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ موجودہ جمہوری نظام کے بہت سے تقاضے ایسے ہیں جنھیں ہم اسلام اور جمہوریت کے مشترکہ تقاضے کہہ سکتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ کلیتاً نظام کفر ہے یا شق در شق کفر ہی ہے۔ یہ اکثریت کا جو فلسفہ ہے تو ہم جب مقننہ کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ان پر ہم اکثرہم لا یعقلون کا اطلاق نہیں کر سکتے، کیونکہ یہ بات قرآن مجید میں اور تناظر میں کہی گئی ہے۔ جن کو اختیار ہے، ان کے بارے میں آپ ایسا نہیں کہہ سکتے۔ اس کے اور بھی بہت سے پہلو ہیں۔ تاہم اسلام کے، جمہوریت کے فلسفے کے ساتھ اختلافات بھی ہیں۔ لیکن میں چونکہ اس سے اتفاق کرتا ہوں کہ پرامن جدوجہد ہونی چاہیے تو پھر مجھے کوئی نہ کوئی تجویز بھی دینی چاہیے۔ 
اس میں پہلی تجویز جو ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے دی ہے، میں اس سے اتفاق کرتا ہوں کہ ہمارا جو نظام انتخاب ہے، وہ بہت مہنگا ہے۔ اس میں کسی شریف آدمی کے آنے کی امید ہی نہیں کی جا سکتی۔ جو پانچ دس کروڑ روپیہ لگائے گا، وہی ایم این اے یا ایم پی اے بن سکتا ہے، لہٰذا جو proportionate representation (متناسب نمائندگی) کا نظام ہے جو بہت سے مغربی ممالک میں رائج ہے اور جمہوریت کا حصہ سمجھا جاتا ہے، اسے پاکستان میں رائج ہونا چاہیے۔ 
دوسری بات یہ کہ ہم نے جمہوریت کے ساتھ اسلام کی پیوند کاری کی جو بات کی تو اس میں ایک معاملہ وفاقی شرعی عدالت کا تھا۔ وفاقی شرعی عدالت بنائی ہی اس لیے گئی تھی اور اس کو سوموٹو اختیار بھی دیا گیا تھا کہ وہ جن قوانین کو خلاف اسلام سمجھے، ان کا جائزہ لے اور ان کو اسلام کے مطابق بنانے کے لیے ہدایات دے، لیکن اس کے فیصلوں کے ساتھ جو مذاق ہو رہا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ سود کا معاملہ ہی لے لیں۔ ۹۱ء میں وفاقی شرعی عدالت نے فیصلہ کیا تھا۔ اس کے بعد آپ کی حکومت نے ادھر ادھر سے کچھ فتوے لے لیے اور سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ میں اپیل دائر کر دی۔ اب بیس سال ہونے کو ہیں، اس اپیل کا کچھ نہیں بنا۔ سٹے آرڈر پر معاملہ چل رہا ہے۔ اسی طرح اور بھی بہت سی چیزیں ہیں۔ جاگیرداری کے نظام کے بارے میں جو فیصلے ہوئے، ان پر بھی خاصی تشویش ہے۔ توکہنے کا مقصد یہ ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کا کردار، ججوں کا کردار، ان کا اسٹیٹس، ان کی تقرری کا طریقہ، یہ بالکل ہائی کورٹ کے معیار پر ہونا چاہیے۔ اس سے ہٹ کر نہیں ہونا چاہیے۔ پسند کے جج لگانے اور اس طرح کی چیزوں سے احتراز کرنا ہوگا۔
تیسری چیز اسلامی نظریاتی کونسل کا رول ہے۔ یہ بھی ایک پیوند کاری تھی۔ ہم کہتے تے کہ اسلامی نظریاتی کونسل سفارشات مرتب کرے گی۔ ان کی سفارشات کو دیکھ کر شرم آتی ہے۔ وہاں سیاسی لوگ بیٹھے ہوئے ہیں، سارے علم سے بے بہرہ۔ کتنے اہل علم ہیں جو وہاں بیٹھے ہوئے ہیں؟ اور جو بیٹھے ہیں، وہ بھی کن کی بات کرتے ہیں؟ حکومت اوپر سے سفارشات impose کرتی ہے، یہ تائید کر دیتے ہیں۔ ایسی ایسی لایعنی باتیں ہیں اور ایسے ایسے لایعنی معاملات ہیں کہ جن کو دیکھ کر عقل پریشان ہوجاتی ہے۔ تو ان سارے انتظامات کوموثر بنانے کی ضرورت ہے۔
آخری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کے دستور میں کچھ غیر اسلامی دفعات بھی شامل ہیں۔ بے شک ہم یہ کہتے ہیں کہ ۷۳ء کا آئین متفقہ آئین ہے، لیکن یہ کوئی مقدس گائے نہیں ہے جس پر رائے زنی کی جا سکے۔ ہمارے علما سے بھی غلطی اور خطا ہو سکتی ہے۔ ہم نشان دہی کر سکتے ہیں کہ اس دستور میں غیر اسلامی دفعات اور اسلام سے متعارض دفعات شامل ہیں۔ پہلے تو ان کا خاتمہ کیا جائے اور پھر کسی ایسی دستوری دفعہ کو اس کا حصہ بنایا جائے جس میں یہ صراحت ہو کہ اسلامی قانون کو ہمارے موجودہ قانون پر مکمل supermacy دی جائے گی۔ یہ ایک عبوری قانون کے طو رپر رہے، جب تک کہ چھان پھٹک کے بعد تمام قوانین کی تطہیر نہیں ہو جاتی۔ سپریم لا کتاب وسنت ہے۔ اگر اس طرح کے دستوری انتظامات پر لوگ متفق ہو جائیں اور اس کو ہم مطالبوں کے ذریعے، احتجاج تحریکوں کے ذریعے سے منوا سکیں تو صورت حال میں کافی بہتری آ سکتی ہے۔

ڈاکٹر حسن مدنی

محترم عمار صاحب نے یہاں یہ سوال پیش کیا تھا کہ متبادل کیا ہے اور ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ تو ایک صورت ہے نظام کے اندر رہتے ہوئے اور ایک صورت ہے نظام کے متبادل کے طور پر۔ میری اس بارے میں طالب علمانہ گزارش یہ ہے کہ نظام کے اندر رہتے ہوئے جو بھی علما دستوری جدوجہد کر رہے ہیں یا سیاسی طور پر تبدیلی کی کوشش کر رہے ہیں یا دعوت وتبلیغ کا کام کر رہے ہیں یا جس انداز میں بھی کوئی کام کر رہے ہیں، یہ سارے کے سارے کام ہونے چاہییں۔ نظام کے اندر رہتے ہوئے جدوجہد کی تمام شکلیں ٹھیک ہیں اور ان میں بہرحال تیزی آنی چاہیے۔ اس وقت جو غورطلب نکتہ ہے، وہ یہ ہے کہ امت مسلمہ کو پچھلے بیس سال سے باقاعدہ ایک جارحیت کا سامنا ہے اور ہمیں ابھی تک اس کا احساس نہیں ہے۔ ہم اس وقت معرض جنگ میں ہیں، لیکن معرض جنگ میں ہمارے رویے وہی ہیں جو رویے عام حالات میں ہوتے ہیں۔ 
جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو اس سارے نظام سے پریشان ہیں، ان کے لیے بھی ایک حل ہے۔ اصل میں اسلام کا تصور یہ ہے کہ اسلام زمین پر نافذ نہیں ہوتا، افراد پر نافذ ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ میں تھے، تب بھی دین افراد پر قائم تھا۔ افراد جب دین کواپنے اوپر قائم کر لیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی رحمت حاصل ہوتی ہے۔ تو یہ بنیادی نکتہ ہے۔ جوحضرات یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سارا نظام ہی درست نہیں، انھیں اپنی ذات پر اور جو افراد ان کے ساتھ ہیں، انھیں بھی اپنی ذا ت پر دین کو بتمامہ نافذ کرنا چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ معاشرے پر نفاذ شریعت کے ان امکانات کو دیکھنا چاہیے جو عالمی سطح پر موجود ہیں اور ان سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ یہودی امریکا میں اپنے قانون پر عمل کر رہے ہیں۔ تو جہاں جہاں اس جدید نظام نے شرعی قوانین سے استفادہ کی گنجائش رکھی ہے، وہاں مسلمانوں کو بھی اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے، جیسا کہ برطانیہ میں اس کی مثال موجود ہے، امریکا میں مثال موجود ہے کہ اگر فریقین کسی قانون پرمتفق ہو جاتے ہیں تو انھیں اس کے مطابق فیصلے کرنے کی اجازت ہے۔ 
اگر ہم دین کو اپنی ذات پر انفرادی اور اجتماعی سطح پر نافذ کر لیں اور ایسے پانچ سو کامل افراد بھی کام کرنے والے مل جائیں تو ان شاء اللہ اس کے بعد زمین کا حصول اللہ کے انعام کے طورپر ہو جاتا ہے۔ زمین کا حصول کوئی لازمی تو نہیں۔ ان تمام امکانات کے لیے کوشش کی جا سکتی ہے جس میں ہمیں آپس میں کسی نظام کو لاگو کرنے کا اختیار حکومتیں ہمیں دیتی ہیں۔ کیا یہ ضروری ہے کہ تشدد کا راستہ اختیار کیا جائے؟ میری طالب علمانہ رائے یہی ہے بلکہ میں اصرار کے ساتھ کہوں گا کہ دعوت میں تشدد کے راستے کی اسلام میں بالکل گنجائش نہیں ہے۔ تکفیر یا تفجیر، یہ دونوں بالکل اسلامی راستے نہیں ہیں۔ یہ معاشرے کو انتشار میں او ر تخریب میں ڈالنے کے طریقے ہیں اور اسلام ان کی کبھی حمایت نہیں کرتا۔ اسلام کا نفاذ اور اسلام کا فروغ دعوت وتلقین کے ذریعے سے ہوتا ہے، عمل اور اخلاق کے ذریعے سے ہوتا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنی مساجد تک اور مخصوص افراد تک محدود ہو کر رہ جائیں، بلکہ دعوت کے دائرے کو فرد سے بڑھ کرمعاشرے کے تمام دائروں تک وسیع ہونا چاہیے اور اس کام میں پوری تیزی آنی چاہیے۔
اگر ہم تشدد کی کوئی شکل بھی اختیار کریں گے تو ایک حکمران بدل جائے گا لیکن اس سے بدتر حکمران سامنے آ جائے گا۔ یہ سارا مسئلہ نظام کا ہے اور نظام کی تبدیلی سے پہلے ہمیں اپنی تیاری اور اپنی محنت کی ضرورت ہے۔ جب محنت سے ایسے عمل کرنے والے لوگ بڑی تعداد میں مل جائیں گے تو اگلا مسئلہ بھی اللہ تعالیٰ حل کریں گے۔ مدینہ منورہ کی ریاست کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مطالبہ نہیں کیا۔ جب اتنے افراد جمع ہو گئے جنھوں نے اپنی ذات پر دین کو نافذ کر لیا تو ایک گروہ آیا اور اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ منورہ میں آنے کی دعوت دی اور تدریجاً وہاں اسلام نافذ ہو گیا۔
تو بہرحال متبادل کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ میری صرف اتنی گزارش ہے کہ تشدد کے ماسوا جن متبادلات پر کام ہو رہا ہے، وہ سارے ہی مناسب ہیں اور ان میں تیزی آنی چاہیے۔ تشدد کی شکلیں امت کے افتراق کی شکلیں ہیں اور یہ ساری غلط ہیں۔ 
ایک آخری بات یہ ہے کہ یہ کہنا کہ اسلام میں خروج کا تصور ہی نہیں، یہ بھی درست نہیں۔ اگر ہم یہ فرض کر بھی لیں کہ یہ ایک اسلامی ریاست ہے تو اسلام میں جس طرح حکمران کے خلاف خروج کی ممانعت موجودہے، وہاں تین شکلیں ایسی ہیں کہ جن میں خروج کے جواز پر اتفاق ہے۔ ایک یہ کہ کفر بواح کا ارتکاب اگر ہو تو خروج ہو سکتا ہے۔ دوسرا، نماز کو قائم نہ کرنے والے کے خلاف خروج ہو سکتا ہے ، یعنی جو اقامت دین نہ کرے۔ حدیث کے صریح الفاظ ہیں۔ شاہ ولی اللہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں فرمایا ہے کہ وبالجملۃ فاذا کفر الخلیفۃ بانکار ضروری من الضروریات الدینیۃ حل قتالہ بل وجب والا لا۔ یعنی ہمارے نظریات میں یہ بات موجود ہے۔ امام اعظم امام ابو حنیفہ کا فرمان بھی غالباً امام جصاص نے نقل کیا ہے۔ ان کے حالات میں بھی یہی چیزیں موجود ہیں کہ انھوں نے خروج کی تائید کی۔ امام ابن تیمیہ کے حوالے سے اگر یہ بات کہی جاتی ہے کہ انھوں نے حکمرانوں کے اتباع کی بات کی ہے تو علامہ ابن تیمیہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر کوئی طائفہ اسلام کی کھلم کھلا مخالفت کرے تو اس کے خلاف جہاد واجب ہے۔ وایما طائفۃ انتسبت الی الاسلام وامتنعت عن بعض شرائعہ الظاہرۃ المتواترۃ فانہ یجب جہادہ باتفاق المسلمین۔ تو یہ بات درست نہیں کہ ہم صرف ایک ہی بات سے فائدہ اٹھانا چاہیں کہ علامہ ابن تیمیہ کے افکار یہ ہیں کہ ہ خروج کو جائز نہیں کہتے۔ 
خروج کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ صحابہ کرام نے خرو ج کیا۔ اگر صحابہ نے خروج کیا ہے تو یہ ایک امر مشروع ہے۔ مسئلہ حالات اور مصلحت کا ہے، لیکن یہ ساری بحث جیسا کہ میں شروع میں کہہ چکا ہوں، خلط مبحث ہے۔ خلط مبحث اس لیے کہ نہ یہ شرعی ریاست ہے اور نہ شرعی نظام۔ مفتی منصور احمد صاحب نے بڑی اچھی بات کہی کہ جس طرح گریٹر بلوچستان کی تحریک ہے، یہ بھی ویسا ہی ایک مسئلہ ہے۔ لیکن اگر خروج کی بات بھی ہے تو ایسا نہیں ہے کہ اسلام ہمیں کوئی راستہ نہیں دیتا۔
آخری بات کہہ کر بات ختم کرتا ہوں کہ ہماری اس مجلس کو محض خروج یا تکفیر کی مذمت پر ختم نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں خروج کے اسباب کا بھی تجزیہ کرنا چاہیے اور مثبت طور پر یہ بھی بتانا چاہیے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ وہ کام تو غلط ہے، لیکن ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ میں مکرر کہنا چاہوں گا کہ ہم پچھلے بیس سال سے حالت جنگ میں ہیں۔ عالم کفرکی جتنی جنگیں اور جتنے اختلافات ہیں، اس وقت امت مسلمہ کے ساتھ ہیں۔ ڈیڑھ سو سال کے بعد کفر اپنے داخلی جھگڑوں سے نمٹ کر، جنگ عظیم اول اور دوم اور پھر سرد جنگ کے بعد ۱۹۹۰ء میں اپنا نیا ورلڈ آرڈر لایا ہے اور میں اپنی سمجھ کے مطابق یہ سمجھتا ہوں کہ یہ نیو ورلڈ آرڈر اسلام کے بارے میں ہے، جبکہ ہم ابھی تک انھی حالات میں بیٹھے ہیں۔ ہم اس وقت کوتاہی کر رہے ہیں اور وہ آدمی اس وقت سب سے بڑا خادم ہے جو کسی بھی میدان میں دین کی خدمت کر رہا ہے، دین کو تقویت دینے والا ہے اور کفر کے راستے میں کسی بھی طرح سے مزاحمت کر رہا ہے۔ جو اسلام کو کسی بھی طرح خراب کرنے والا ہے، وہ اسلام کا مخالف ہے۔ اس میں ہمیں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ہمارے ہاں اس جذبے کا نصف بھی نظر نہیں آتا اور یہ ہمارے لیے سب سے بڑی فکرمندی کی بات ہے۔ اگر اب بھی نظر نہیں آتا تو اس سے بڑی ذلت امت مسلمہ کے لیے کیا ہوگی؟

محمد عمار خان ناصر

میں دعا کے لیے مولانا مفتی محمد خان قادری صاحب سے درخواست کرنے سے پہلے محفل کے میزبان کے طور پر اپنی طرف سے اور اس مجلس کے منتظمین کی طرف سے آپ سب حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے پورا دن اس کے لیے فارغ فرمایا۔ بحث کے چونکہ کئی پہلو تھے اور یہ ایک طویل الذیل بحث ہے، کچھ نکات ہم نے مرتب کیے تھے، کچھ کا آپ نے اضافہ کیا۔ کچھ باہر کے نکات بھی آ گئے اور کئی باتیں تشنہ بھی رہ گئیں اور کچھ پر بالکل گفتگو نہیں ہو سکی۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ اس موضوع پر نہ پہلی نشست ہے اور نہ آخری۔ یہ سلسلہ آگے بڑھے گا۔ آپ حضرا ت نے آج کی نشست میں جو کچھ contribute کیا، امید ہے کہ وہ اس بحث کی تنقیح میں مددگار ثابت ہوگا۔ بے حد شکریہ!

معاصر مسلم ریاستوں کے خلاف خروج کا مسئلہ (تیسری مجلس مذاکرہ)

ادارہ

(پاکستان مرکز برائے مطالعات امن (PIPS) اسلام آباد کے زیر اہتمام مجالس مذاکرہ کی روداد)

ڈاکٹر خالد مسعود — (میزبان، سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل)

اس سے پہلے کہ ہم گفتگو شروع کریں، میں یہ شیئر کرنا چاہتا ہوں کہ میں اس مسئلے کو کیسے دیکھتا ہوں۔ تکفیر اور خروج دو مختلف مسائل ہیں، لیکن دونوں کی نزاکت اور اہمیت جو ہے، وہ دینی سے زیادہ سیاسی ہے اور اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی طورپر ایسے کہ یہ سیاسی نظام کی ساخت میں کبھی شامل ہو جاتی ہے اور کبھی شامل سمجھی جاتی ہے اور دوسرا یہ کہ سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ ہمارا اس نشست میں یہ کام ہوگا کہ اس بات پر غورکریں کہ جو مباحث ہیں، ان میں مسائل کیا ہیں اور ان میں حدود وقیود ہم نے کیا طے کی ہیں۔ ان سے پھر ہم اخذ کریں کہ اصول کیا ہیں۔ یہ بھی طے کرنا ضروری ہے کہ اس پر گفتگو کرنے کے آداب کیا ہیں۔ اس کے بغیر مشکل ہوگا کہ اس پر کھل کربات کی جا سکے۔ 
اس موضوع پر گفتگو کے لیے یا تو آپ فقہی کتابوں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ جو بحثیں ہمارے ہاں خاص طورپر جنوبی ایشیا میں رہی ہیں، ان کا علمی پس منظر تاریخی طور پر کیا تھا اور آج کے دور میں کیا ہے۔ پہلے یہ مسائل خالصتاً علمی تھے۔ علما کی محفلوں میں اس پر بات ہوتی تھی۔علما آپس میں بات کرتے تھے۔ یہاں تک کہ جو فتاویٰ ہیں، اس کے مخاطب بھی علما ہی ہوتے تھے، اس لیے اس کی زبان بھی بڑی مشکل تھی اور اس زبان میں بہت سی اصطلاحات استعمال ہوتی تھیں۔ اب یہ ساری چیزیں آن لائن ہو گئی ہیں۔ عالم آن لائن، فتویٰ آن لائن اور اس میں جو نزاکتیں ہیں، وہ پوری طرح سامنے نہیں رہتیں، نہ سننے والوں کی نہ بولنے والوں کی۔ اس کی وجہ بھی ہمیں سمجھ لینی چاہیے۔ ایک ہمارے دوست ہیں پی ٹی وی میں۔ ان کا کہنا ہے کہ آج کل مقابلہ ہے اسٹیٹ اور سیٹھ کے درمیان کہ سیٹھ جو ٹی وی کے مالکان ہیں، ان کو اس سے تعلق نہیں کہ نظریہ کیا ہے اور دین کیا ہے۔ ان کو اس سے تعلق ہے کہ زیادہ لوگ کس کو دیکھتے ہیں۔ rating کیا ہے۔ اگر کوئی بہت زیادہ ہنستا ہے تو اس کی ریٹنگ بھی زیادہ ہو جاتی ہے ، کوئی بہت زیادہ روتا ہے، بولتا ہے یا گالیاں دیتا ہے تو اس کی بھی ریٹنگ زیادہ ہو جاتی ہے۔ تو آج کا میڈیا سنجیدہ گفتگو کے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے، لیکن تکفیر اور خروج ایسے مسائل ہیں کہ جن پر بہت زیادہ سنجیدگی کے ساتھ اور بہت زیادہ سوچ بچار کے ساتھ بات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں جو غلط فہمیاں ہیں، ان کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اتفاق رائے شاید نہ ہو سکے، لیکن اس کے ضابطہ اخلاق کی پابندی کرنی چاہیے۔
پہلے جو گفتگو ہوئی، اس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس کے لیے علماکا ایک فورم ہونا چاہیے۔ ایک ایسی مجلس ہونی چاہیے جس میں علما اس پر گفتگو کر سکیں۔ ایک ایسی مجلس ہونی چاہیے جس میں علما گفتگو کر سکیں، اس کی ضرورت کو دیکھ سکیں اور اس کے طریقہ کار پر گفتگو کر سکیں۔ میں جو بات آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ بنیادی طور پر تاریخ اسلام میں بھی یہ بحثیں جب شروع ہوئی ہیں تو سیاسی پس منظر میں شروع ہوئی ہیں۔ دنیا بھر میں بھی، دین کی بنیاد پر بھی اوردوسرے مذاہب میں بھی جو تکفیر ار خروج کے مسائل ہیں، وہ تبھی پیدا ہوئے ہیں، قرون وسطیٰ میں بھی جب ان کو سیاسی حیثیت حاصل ہوئی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ قرون وسطیٰ میں جب بڑی بڑی ایمپائرز، سلطنتیں بنیں تو ان میں سیاسی وحدت کی بنیاد مذہب کو بنایا گیا۔ بادشاہ کی حمایت بھی دینی بنیادوں پر تھی اور بادشاہ نے جو justification اپنی ریاست کی، بادشاہت کی یا آئین کی بناتا تھا، وہ بھی دین کی بنیاد پر تھی۔ ایک تو بڑی وجہ یہ تھی۔ جو پرانی بڑی سلطنتیں تھیں سوائے رومن ایمپائر کے، ان کا اپنا مذہب، مذہب سے ہٹ کرتھا۔ باقی جتنی بھی سلطنتیں تھیں اور ایک طرح سے رومن ایمپائر کو بھی دیکھ لیں کہ ان کا اپنا مذہب بھی بت پرستی سے ہٹ کر تھا اور اس دین کو اس کی وحدت کی بنیاد اور اس کی justification کی بنیاد سمجھا جاتا تھا اور جو اس کے نہ ماننے والے ہوتے تھے، ان کے لیے قوانین بنائے جاتے تھے کہ ان کو کیسے رکھا جائے۔ 
اسلام نے ایک تو یہ کیا کہ جتنے بھی ادیان ہیں، ان کی اصل سماوی بتائی یا ان سب کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے روحانی طورپر ان کی بنیاد رکھی اور یہ کہا گیا کہ تمام مذاہب میں جو بات مشترک ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وحدت پر ایمان اور انبیا کا سلسلہ یہ باتیں تمام مذاہب میں کسی نہ کسی شکل میں موجود تھیں۔ اسلام نے تمام مذاہب کو ایک پیغام کے لیے اکٹھا ہونے کی دعوت دی، لیکن ہمارے ہاں جو کلامی بحثیں شروع ہوئیں اور اسلام میں بھی ریاست کا وجود بنا اور فتوحات کی بنیاد پر سلطنت کا وجود بنا تو ہم نے بھی اسلام کی تعریف یہ کرنا شروع کر دی کہ وہ دین جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وجود میں آیا، حالانکہ قرآن کریم میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں جو تصور اسلام کا ہے، وہ ایسا دین فطرت ہے جو شروع سے ہی انسان میں ودیعت ہے۔ حضرت آدم سے لے کر جتنے بھی انبیاء آئے ہیں، سب اسی کی دعوت دیتے رہے۔ اس لحاظ سے ہمارا جو دین کا تصور تھا، وہ بہت وسعت والا تھا۔ اس میں جو دین کی آزادی تھی، اس کو قرآ ن کریم میں مکمل طور پر بتایا گیا اور یہ کہ جب تک وہ آزادی انسان کو نہ دی جائے ، جب تک انسان کو حریت اور اختیار نہ دیا جائے، تب تک دین کا اعتبار بھی نہیں ہے ، ورنہ وہ منافقت ہوگی۔ 
تو یہ ساری چیزیں موجود تھیں، لیکن اسلام کی تاریخ میں بھی یہ ہوا کہ جب فتوحات کا دور آیا اور سلطنتیں بنیں تو جو ابتدائی سلطنتیں تھیں، جیسے عباسی سلطنت، اس میں بھی اسلام کی بنیاد پر اس کی justification اور اسلام کی بنیاد پر خلیفۃ کے ظل اللہ فی الارض ہونااور یہ ساری چیزیں آئیں۔ اسی زمانے میں کلامی بحثیں اور فلسفے اور فکری بحثیں شروع ہوئیں اور ان میں یہ سب تکفیر کے مسائل ، ارتداد کے مسائل اور خروج کے مسائل سب اس زمانے میں بنے اور ان میں بھی اگر ہم دیکھیں تو دین کا تصور محدود ہوتا گیا اور ریاست کو دین سے وابستہ کر دیا گیا۔ پھر معاشی تاریخ میں بھی اگر ہم دیکھیں تو اس میں بھی دین کی بنیادوں پر جو زمین دارطبقہ تھا اور جن کی agricultural areas میں سیادت تھی، اس کو بھی دینی انداز میں پیش کیا گیا۔ ہمارے ہاں جو تین بڑی سلطنتیں بنیں، عثمانی سلطنت، صفوی سلطنت ایران میں اور مغلیہ سلطنت برصغیر میں، اس میں بھی یہ کوشش کی گئی کہ بادشاہ کو مذہبی راہ نما بنایا جائے، مذہب کا نمائندہ بنایا جائے اور مذہب کی بنیاد پر اس کو اور اس کی سلطنت کو justify کیا جائے۔ 
زرعی نظام کے بعد جب صنعتی نظام آیا تو اس میں تبدیلی آئی اور بہت بڑی تبدیلی یہ تھی کہ اب ان کی ضرورت بطور justification اور وحدت کے نہیں سمجھی جاتی تھی بلکہ مشینی نظام نے اس کے بجائے ایک ایسا نظام بنانے کی کوشش کی جس میں دین کی تفریق ختم ہو جائے اور کوئی بھی دین کی identity نہ رہے۔ قومی ریاستیں جو آئیں، ان میں دین کی مکمل طور پر نفی کی گئی، لیکن اس میں جو چیز سامنے آئی، وہ یہ کہ اب قانونی نظام سامنے آ گیا۔ آئین کا نظام اور قانونی سسٹم جس میں عدالتیں تھیں اور بادشاہ کا ایک رول طے کر دیا گیا۔ اس میں ہمارے لیے خاص طور پر فقہا کے جو طے کردہ اصول تھے تکفیر کے اور خروج کے، ان کے لیے اب ایک نیا مسئلہ تھا، لیکن اس مسئلے کو ہم حل نہیں کر سکے۔ ہمارا تکفیر اور خروج کا جو قانونی نظام اور فریم ورک تھا، وہ قرون وسطیٰ والا رہا اور ہم اس کو آئین کی زبان نہیں دے سکے۔ عدالتی نظام کی زبان نہیں دے سکے، بلکہ ہم نے اس میں اور زیادہ ابہامات پیدا کر دیے۔ ہم ابھی قومیت سے اور قومی ریاست کے اصولوں سے بھی نپٹ نہیں پائے تھے کہ گلوبل ورلڈ کا تصور آ گیا، عالمی نظام کا تصور آ گیا جس میںیہ حدود اور یہ قومی ریاستیں بلکہ خود ریاست اتنی بنیادی یا اتنی اہم نہیں رہی۔ ہمارا جو سیادت اور اقتدار اعلیٰ کا تصور تھا، وہ گلوبل ازم میں اب کمزور پڑ گیا، لیکن ابھی ہم چونکہ اس سے نہیں نکلے تھے بلکہ دینی تصورات میں ہم قرون وسطیٰ سے ابھی نہیں نکلے تو یہ دو بڑی وجوہات ابہامات کی بن گئیں۔
میں اس پر بات ختم کروں گا کہ آئندہ جس طرف ہم جا رہے ہیں، ہم اس گلوبل ورلڈ سے نکل کر کائنات کی طرف جا رہے ہیں، خلا کی طرف جا رہے ہیں اور اگلی صدی تک دوسرے سیاروں میں زمین خریدی جا رہی ہوگی۔ پلاٹ ابھی سے بکنا شروع ہو گئے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے وسائل بہت جلد ختم ہو رہے ہیں اور ان وسائل کے لیے ہماری سائنسی ترقی اس کو ممکن بنا دے گی کہ نو آبادیات کا جو نظام ہے، اس کی طرف آئیں۔ لیکن ابھی ہم اس کو نہیں سوچ رہے۔ گلوبل ازم نے ہمیں مجبور کیا ہے کہ ہم مذاہب کے درمیان بین الاقوامی طور پر ہم آہنگی کی بات کریں۔ میرا خیال ہے کہ ہم نے اس میں سرسری طور پراو ر سطحی طور پر تو شرکت کرنا شروع کر دی ہے، لیکن جو مسائل ہیں اور ان کی وجہ سے ہمارے لیے جو مشکلات ہیں، اس کی طرف ابھی ہم نہیں آ رہے، لیکن آئندہ صدی تک خلائی عالمی نظام آنے والا ہے۔ اس میں یہ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کا اور زمین کی مرکزیت کا تصور بھی چیلنج ہوگا اور بہت سے نئے تصورات آئیں گے۔ میرا خیال ہے کہ اگر قرآن مجید کا مطالعہ کیا جائے تو قرآن مجید جس کائنات کا تصور دیتا ہے، وہ وہ نہیں جس میں ہم اس وقت پھنسے ہوئے ہیں۔ ہمارا جو کائنات کا تصور ہے، وہ بہت ہی ارضی ہے۔ ہم عالمین کی تشریح وتفسیر کرتے ہیں تو زیادہ تر یہ کہتے ہیں کہ ایک عالم حیوانات ہے، ایک عالم نباتات ہے، ایک عالم فلاں ہے اور یہ سب اسی زمین سے متعلق ہے، حالانکہ عالمین کا جو تصور قرآن پاک نے دیا ہے، وہ بہت وسیع ہے۔
یہ مختصر سی باتیں میں اس لیے عرض کر رہا ہوں کہ جہاں ہم تکفیر اور خروج کے مسائل پر بحث کریں اور جہاں اس کے اصول طے کریں، وہاں یہ بھی دیکھیں کہ جن لوگوں نے یہ اصول طے کیے، انھوں نے اپنے زمانے میں جو اس وقت کا تصور تھا، ا س کے تحت انھوں نے بہترین طریقے سے طے کیے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ فریم ورک ہر دور میں قابل عمل ہو۔ جو بہت بڑی تبدیلی آئی، میں اس کی طرف اشارہ کر رہا ہوں کہ ہم اپنی تاریخ سے گزر چکے ہیں۔ ابھی ہم اس پر بھی غور نہیں کر پائے کہ بہت سے نئے چیلنجز بھی بہت جلد ہمارے سامنے آنے والے ہیں، اس لیے ہمارا جو طرز فکر ہے اور جو سوچ ہے، ہ خاصی وسیع ہونی چاہیے، تبھی ہم ان کو صرف آج کے لیے نہیں ، بلکہ کل کے لیے بھی حل کر سکیں گے۔ تو میںیہ چند خیالات شیئر کرنا چاہتا تھا کہ ہم نے اپنے آپ کو بہت ہی محدود کیا ہوا ہے۔ ہمیں ان مسائل پر مسلسل نظر ثانی اور مسلسل غور کرنا چاہیے اور ایک ایسا فورم پاکستان میں بننا چاہیے جس میں صرف وقتی طور پر نہیں بلکہ مسلسل اس پر غور ہوتا ہے ۔
آخر میں، میں یہ عرض کروں گا کہ عرب دنیا کے بارے میں جو تصور تھا کہ بہت ہی authoritarian معاشرہ ہے، یہاں بھی انقلاب نہیں آئے گا، کبھی تبدیلی نہیں آئے گی، وہاں بھی انقلابات آ رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس میں مغرب کا ہاتھ ہے، لیکن یہ تبدیلیاں آئی ہیں اور اس میں مغرب کا ہاتھ بھی ہے کہ جب اندر صورت حال ایسی موجود تھی۔ اور وہ ابہامات جو ابھی تک ہمارے ہاں ہیں اور ہمیںآگے بڑھنے نہیں دے رہے، وہ ابہامات عرب دنیا میں کافی عرصہ پہلے ٹوٹ چکے تھے۔ یہ بہت سی بحثیں جو آج ہم کر رہے ہیں، وہ بہت عرصہ پہلے اور بہت کھل کر ہو چکی تھیں، باوجود اس بات کے کہ وہ بہت authoritarian سوسائٹی ہے۔ تو اندازہ کیجیے کہ ہمارے ہاں جب انقلاب آئیں گے تو وہ کس طرح کے ہوں گے۔

محمد مجتبیٰ راٹھور — (پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز)

موضوع کے حوالے سے بحث دو طرح کا تقاضا کرتی ہے۔ (1 ) قرآن و سنت اور فقہاء کی آراء پر مبنی دلائل پیش کئے جائیں۔ (2) عقلی، منطقی اور واقعاتی دلائل پیش کئے جائیں، واقعاتی دلائل سے مُراد موجودہ دور اور حالات کے اعتبار سے اجتہادی رائے قائم کی جائے۔
اس بحث کا سب سے اہم نکتہ ’’الولاء والبراء‘‘ ہے۔ یعنی ’’دوستی اور دشمنی‘‘۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج مسلمان ممالک بالخصوص پاکستان کے حکمرانوں کو اس دلیل کے ساتھ مرتد قرار دیا جا رہا ہے کہ انہوں نے یہودی اور عیسائی ممالک امریکہ وغیرہ سے دوستیاں کر رکھی ہیں اور وہ اسلام کو ختم کرنے میں انکا ساتھ دے رہے ہیں۔ ایسے قول کے حامل افراد کا یہ کہنا ہے کہ صلیبی جنگ کا آغاز ہو چکا ہے اور اس کفرواسلام کی جنگ میں جس نے کفر کا ساتھ دیا وہ مرتد ہوا۔ ان کے بقول یورپ و امریکہ کی اہل اسلام کے خلاف جنگ کا اصل مقصد نہ تو تیل یا زمین پر قبضہ ہے، اور نہ ہی سرمایہ دارانہ نظام کو غالب کرنا اس کا آخری ہدف ہے۔ یہ ایک خالص مذہبی جنگ ہے جس کا مقصد اللہ کے دین کو اور اس دین پر عمل کرنے والوں کو مٹانا یا کم از کم مغلوب کرکے رکھنا ہے۔‘‘ پاکستان نے چونکہ افغانستان میں امریکہ کو جنگ کے لئے لاجسٹک سپورٹ، انٹیلی جنس اور فضائی اڈے دئیے، اس لئے یہاں کے حکمران اور ادارے مرتد ہیں اور انکے خلاف جہاد بھی جہاد حقیقی ہے۔
جو دلائل انہوں نے پیش کیے ہیں، وہ درج ذیل ہیں:
(1) ’’اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بتاؤ۔ یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ اور جو شخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گا۔ وہ بھی انہی میں سے ہو گا۔‘‘ (سورۃالمائدۃ آیت 51 )
(2) اہل کتاب اور عام اہل کفر سے بھی دوستی نہ رکھنے کا حکم ہے: ’’اے ایمان والو! جن لوگوں کو تم سے پہلے کتابیں دی گئی تھیں۔ ان کو اور کافروں کو جنہوں نے تمہارے دین کو ہنسی اور کھیل بنا رکھا ہے۔ دوست نہ بناؤ‘‘ (سورۃ المائدۃ آیت 57)
(3) ’’اور اگر وہ خدا پر اور پیغمبر پر اور جو کتاب ان پر نازل ہوئی تھی، اس پر یقین رکھتے تو ان لوگوں کو دوست نہ بناتے۔‘‘ (سورۃ المائدۃ آیت81 )
اسی طرح سورۃ النساء آیت 139&140 بھی اسی مفہوم کو بیان کرتی ہے۔
اسی طرح حضرت عمر فاروقؓ کا قول ’’ذمیوں کے ساتھ مکاتبت نہ رکھو، ورنہ تم میں اور ان میں محبت پیدا ہو جائے گی۔ ان کو پناہ مت دو، اور ان کو ذلیل رکھو، مگر ہاں ان پر ظلم نہ کرو‘‘۔
ان تمام دلائل کی بنا پر وہ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ہم نہ تو ان حکمرانوں کے خلاف خروج کر رہے ہیں اور نہ ہی کوئی اقدامی جہاد، بلکہ ہم تو دفاعی جہاد کر رہے ہیں۔ کیونکہ پاکستان ایک مقبوضہ ملک ہے جس کو ہم امریکی قبضے سے چھڑوا رہے ہیں اور چونکہ افغانستان میں امارت اسلامیہ قائم تھی۔ پاکستانی فوج نے امریکہ کے ساتھ مل کر امارت اسلامیہ کو گرایاہے، لہٰذا ہم اس کے دفاع میں یہ جنگ کر رہے ہیں۔دوسرے ان کا یہ کہنا ہے کہ اگر ہم اسے خروج مان لیتے ہیں تو پھر بھی ہم برحق ہیں، کیونکہ مرتد حاکم کو معزول کرنا واجب ہے۔ اور پاکستان کی افواج اور حکومت کے ارتداد کے اسباب میں یہ بھی ایک سبب ہے کہ انہوں نے کفرو اسلام کی جنگ میں کفار کی مدد کی اور صریح کفر یا کفر بواح کے مرتکب ٹھہرے۔ اس کے دلائل میں مذکورہ قرآنی آیات کو پیش کرتے ہیں۔ ان کی دوسری دلیل علمائے کرام کے ایک گروہ کا فتویٰ ہے جس نے اکتوبر2001 ؁ء میں امریکہ کا ساتھ دینے والوں کے خلا ف کفر کا فتویٰ جاری کیا۔ اس کے ساتھ وہ 500 علماء کے دستخطوں سے وانا جنوبی وزیرستان میں پاکستانی افواج کے پہلے آپریشن پر لال مسجد سے جاری ہونے والے فتویٰ بھی بطور دلیل استعمال کرتے ہیں۔
تیسری ان کی دلیل یہ ہے کہ یہ سارے کا سارا نظام کفر پر مبنی ہے اور یہاں تمام قوانین کفریہ ہیں۔ اس لئے ایسے نظام کے خلاف جہاد کرنا واجب ہے۔اور وہ تمام ایسے علماء اور مسلمان جو ہمارے اس جہاد کے مخالف ہیں وہ مرتد اور گمراہ ہیں۔
ان دلائل سے جو نکات سامنے آتے ہیں، ان میں سے ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ کیا غیر مسلموں سے تعلقات قائم کرنا یا معاملات طے کرنا مطلقاً حرام قرار دے دیے گئے تو ایسا ہر گز نہیں ہے۔ اس حوالے سے ہمیں کتاب السیر کے عنوان سے بیان کی گئی احادیث اور فقہاء کی آراء کا مطالعہ کرنا ہو گا۔ امام فخر الدین رازی ان آیات کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یہ جان لیجیے، جو مومن بھی کسی کافر سے دوستی کرتا ہے، اس کی تین صورتیں ہیں۔ 
(1) اگر کوئی مسلمان کسی کافر سے اس کے کفر کی بناء پر دوستی کرتا ہے تو یہ شخص ایسا کام کرتا ہے جس سے صاف طور پر قرآن و سنت نے منع کر دیا ہے۔اس صورت میں اس کا مومن ہونے کی حیثیت پر برقرار رہنا ناممکن ہے۔
(2) دنیا کے اندر رہتے ہوئے ایک خوبصورت معاشرے کے قیام میں صرف ظاہری طور پر ان کے ساتھ رابطہ اور وابستگی رکھنا۔ ایسی صورت میں باہمی میل ملاپ اور حسن معاشرت منع اور حرام نہیں۔ (اپنے دین اور مذہب ، عقائد و نظریات کو قائم اور ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے باہمی تعلقات قائم کیے جا سکتے ہیں)
(3) کافروں سے دوستی کی تیسری صورت پہلی دو صورتوں کے درمیان ہے۔ وہ یہ کہ اگر کافروں سے دوستی ان کی طرف مائل ہونے، ان کی مدد کرنے، ان کو سپورٹ کرنے اور ان سے تعاون کرنے کی حد تک ہو اور یہ جھکاؤ یا مدد بھی کسی نسبی قرابت یا محبت بھرے جذبات کے سبب ہو، لیکن عقیدے اور نظریے میں یہ بات شامل ہو کہ جس کافر سے میری دوستی ہے، اس کا دین اور مذہب غلط ہے۔ اگر اس قسم کی دوستی ہو تو اس دوستی سے بندہ کافر نہیں ہو جاتا، مگر یاد رکھیے۔ اس سے دوستی کرنا ویسے ممنوع، ناجائز اور حرام ہے۔ اس لئے کہ صرف اس حد تک دوستی بھی آہستہ آہستہ اس مقام پر لے جائے گی کہ وہ ان کے طریقہ کار اور طرزِ حیات کو پسند کرنے لگے گا اور بالآخر ان کے دین اور مذہب کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھنے لگ جائے گا۔ صاف ظاہر ہے کہ اگر وہ اس حد تک پہنچ گیا۔ تو پھر یہ دوستی اس کو اسلام سے خارج کرکے کافرو مرتد بنا دے گی۔‘‘
اس تفسیر سے الولاء کے معنی کافی حد تک سمجھ میں آسکتے ہیں ۔ جبکہ البراء کے معنی کی طرف جائیں تو اسکا معنی ہے برأت کا اظہار کرنا، جسے دشمنی بھی کہا جاتا ہے۔ یعنی مسلمانوں کو یہ کہا گیا کہ وہ کفار سے برأت کا اظہار کریں۔ صحابہ کرامؓ کے حوالے سے قرآن پاک کی اس آیت ’’أشداء علی الکفار‘‘ کوا لبراء کے مفہوم میں بیان کیا جاتا ہے۔
قرآن پاک کی جن آیات سے الولاء والبراء ’’یعنی دوستی اور دشمنی کا مفہوم تصور کیا گیا ہے، ان کے اسباب نزول یاسیاق و سباق کو اگر ہم مدنظر نہ بھی رکھیں اور اسے ظاہری معنی پر محمول کریں تو پھر بھی قرآن پاک کی دیگر آیات جن میں کفارومشرکین اور أہل کتاب سے معاملات کا ذکر ہے، ان کے درمیان مطابقت قائم کرنے کے لئے ہمیں دوستی اور دشمنی کے معیار مقرر کرنا ہوں گے جیسا کہ امام فخرالدین رازی نے اپنی تفسیر میں ذکر کیا۔ قرآن پاک کی یہ آیات جن میں کفارومشرکین کے ساتھ دوستی کے انجام کا ذکر ہے، وہ یقیناًیہی صورت ہے جب ان سے ان کے کفر کی بناء پر یا ان کے مذہب کو درست سمجھتے ہوئے ان سے دوستی کی جائے۔اگر یہ تعلقات مستقل مخاصمت اور دشمنی پر مبنی ہوں، جیسا کہ ایک گروہ نے اس سے مفہوم اخذ کیا ہے، تو یہ صراحۃً اسلام کے اس آفاتی پیغام کی نفی ہے جس نے اسے تمام کائنات کا سب سے افضل مذہب قرار دیا ہے کہ یہ تمام انسانوں کے لئے باعث سلامتی ہے۔ اسلام ہی وہ مذہب ہے جو تمام کائنات کے لئے امن و سلامتی کا پیغام اور روشنی لے کر آیا۔ اسلام نے یہ قرار دیا کہ قوموں کے درمیان تعلقات کی بنیاد اسی طرح سلامتی پر مبنی ہو، جیسے افراد کے تعلقات ایک دوسرے کے ساتھ سلامتی پر مبنی ہیں۔ اسلام نے بہت سے ایسے قواعد بیان کیے ہیں جن میں تمام انسانیت کے تخفظ کی بات کی گئی ہے۔ بین الاقوامی تعلقات عامہ کے قوانین اور میشاق انسانی حقوق اسلام کے پیغام کے آئینہ دار ہیں۔ ڈاکٹر وہبۃ الزحیلی اپنی کتاب ’’آثارالحرب فی الفقہ الاسلامی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ یہ ملکی اور بین الاقوامی قوانین جس اصول کی آج پیروی کر رہے ہیں اس کا اعلان اسلام نے 14 صدیاں پہلے کر دیا۔ 
ملکی قوانین کے ماہرین کہتے ہیں کہ دو ممالک کے درمیان فطری طور پر ہی امن ہوتا ہے۔ اس امن کو تقویت اس وقت ملتی ہے جب دونوں ممالک کی تجارت شروع ہوتی ہے۔ حقیقت میں اسلام معاہدات کو فروغ دیتا ہے تاکہ عملی طور پر سلامتی ممکن ہو سکے۔ اس سلامتی کو برقرار رکھنے کے لئے بہت سی تدابیر اور حدود اختیار کرنی پڑتی ہیں۔اسلام نے فرد اور معاشرے کے درمیان تعلق کی بنیاد محبت پر رکھی۔ پھر تعاون اور امن سے اس کو مضبوط کیا تاکہ تمام افراد اور معاشرہ کے درمیان تعلق مضبوط ہو سکے۔در حقیقت دین اسلام امت مسلمہ کو امن و سکون کے ساتھ رہنے کے لئے تیار کرتا ہے۔ اسلام مسلمانوں سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ دوسری اقوام کے ساتھ تعلقات میں سلامتی کو ترجیح دیں اور ظلم و زیادتی نہ کریں۔ اور انہیں اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ وہ زیادتی کا جواب بقدر زیادتی دیں۔ اسلامی ممالک کے دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات کئی صدیوں سے قائم ہیں اور اسلام نے اپنے ابتدائی زمانے میں ہی سفارتی تعلقات کا ایک بہترین نظام مرتب کیا، یہ اسی طرح تھا جیسے آج کل سفیروں کا تبادلہ، وزراء کے وفود کا تبادلہ، مختلف معاہدات پر دستخط یہ ساری باتیں اسلام کے ابتدائی دور میں موجود تھیں۔ خاص طور پر جب دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد اقوام متحدہ کی تشکیل ہوئی تو تمام اسلامی ممالک نے اس کی تائید کی اور اس کا حصّہ بنے اور بین الاقوامی قوانین کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ 
ایک اور اہم نکتہ کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بین الاقوامی قوانین کی کوئی حیثیت نہیں یا یہ کہ یہ اسلام کے منافی ہیں یا یہ بات کہ چونکہ اقوام متحدہ میں بڑے ممالک کی اجارہ داری ہے، اس لئے ہم اسے نہیں مانتے۔ تو پہلی بات یہ کہ تمام اسلامی ممالک اقوام متحدہ کے ممبر کی حیثیت سے ان تمام قوانین کے بنانے اور انہیں تحریری شکل میں لانے کے تمام عمل میں شریک ہوتے ہیں۔ اگر کوئی ایسا قانون جو اسلامی تعلیمات کے منافی ہے اور اسلامی ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ اس کو منظور نہیں ہونا چاہیے تو بین الاقوامی قانون نے ریاستوں کا یہ حق تسلیم کیا ہے کہ وہ چاہیں تو اس مسّودے کو مسترد یا اس کی بعض دفعات کو ماننے سے انکار کر دیں اور اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کریں۔
دوسری بات یہ کہ بین الاقوامی قانون یا تو عرف یعنی رسم ورواج پر مبنی ہیں اور یا معاہدات کی شکل میں ہیں اور دونوں مآخذ کو غیر اسلامی نہیں قرار دیا جا سکتا۔ بین الاقوامی عرف اور رسم و وراج میں تو بہت سی باتیں ایسی ہیں جو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان مشترک ہیں۔ جیسے سفیروں کی حفاظت کا اصول شریعت نے خود فراہم کیا اور غیر مسلموں نے بھی تسلیم کیا۔ (اس بارے میں تفصیلی بحث پروفیسر محمد مشتاق احمد نے اپنی کتاب ’’جہاد، مزاحمت اور بغاوت‘‘ میں کی ہے)۔
دوسرے گروہ کا یہ استدلال کہ حکمرانوں نے یہودی یا عیسائیوں سے دوستیاں کر رکھی ہیں، ایک خام خیالی ہے۔ یہ دور ایسا آچکا ہے کہ یہاں مسلمان ممالک بھی آپس میں دوستیاں نہیں کرتے بلکہ اپنے اپنے ملک کا مفاد دیکھتے ہیں، چہ جائیکہ پاکستان کسی غیر مسلم ملک کے مفاد کے تحت کام کرے۔ آج کے حالات کی فہم رکھنے والا شخص کبھی بھی یہ بات نہیں کرے گا۔رہی بات صلیبی جنگ یا کفرواسلام کے معرکے کی تو ہمیں دنیا میں اس قسم کی کوئی صورتحال نظر نہیں آتی، وگرنہ غیر مسلم ممالک میں رہنے والے مسلمان ہم سے زیادہ سہولت میں نہ رہ رہے ہوتے۔ جب کوئی ایسا معرکہ آیا تو دنیا خود پکارے گی۔
پاکستان کا امریکہ یا NATO کا ساتھ دینا درست تھا یا غلط ،بین الاقوامی معاہدات کے تحت پاکستان اس بات کا پابند تھا کہ وہ اس موقع پر اقوام عالم کا ساتھ دیتا، لیکن اس تعاون کی حدود کا تعین یقیناًہماری حکومت کے اختیار میں تھا۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حکومت کے اس وقت کچھ فیصلے درست نہیں ہوں گے۔ لیکن قومی مفاد کے تناظر میں ہماری مذہبی اور سیاسی قیادت بھی حکومت وقت کے ساتھ ان فیصلوں میں شریک رہی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہماری قیادت اس بات پر متفق ہے کہ جو لوگ پاکستان پر حملے کر رہے ہیں، ان کے خلاف کارروائی کی جائے اگر وہ حکومت کے ساتھ مذکرات پر آمادہ نہ ہوں یا راہ راست پر نہ آئیں۔ سوات آپریشن اس کی واضح مثال ہے جب ساری قیادت نے اس کی تائید کی، البتہ کچھ مذہبی حلقے اس وقت بھی مخالفت میں تھے۔ لیکن ایک بڑا مذہبی طبقہ حمایت میں بھی تھاجس میں تمام مکاتب فکر شامل تھے۔ تو یہ کہنا کہ ساری زیادتی یا ظلم حکومت کی طرف سے ہو رہا ہے تو ہمارے مذہبی طبقہ کو اس جنگ کا کوئی نہ کوئی حل پیش کرنا ہو گا۔ اسی حوالے سے حکومت یا اداروں کے خلاف مرتد ہونے کا جو فتویٰ جاری کیا گیا ہے، ہمارے مذہبی راہنماؤں کو یقیناًاس کا موثر طور پر جواب دینا چاہیے۔
تکفیر کا جو مسئلہ ہے، فقہاء اور علمائے کرام کو اس پر بھی روشنی ڈالنی ہو گی کہ اگر کسی موقع پر ہمارے حکمران یاافواج کفرکے مرتکب ہوئے تو ہماری مذہبی قیادت میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ خود اس معاملہ کو دیکھ سکیں۔
اسی بحث کادوسرا اہم موضوع ’’شریعت کا نفاذ یا نظام کی تبدیلی ہے‘‘۔ ایک گروہ مسلسل یہ دلیل پیش کر رہا ہے کہ چونکہ پاکستان میں سارے کا سارا نظام ہی کفریہ ہے، یہاں تک کہ جمہوریت بھی کفریہ نظام ہے، یہاں کی عدلیہ، ادارے، حکمران اسی کفریہ نظام کا حصّہ ہیں اور وہ اس ملک میں اسلام کے نفاذ کی سب سے بڑے رکاوٹ ہیں، اس لیے ہم جہاد کے ذریعے اس نظام کو بدلنا چاہتے ہیں اور اسلامی نظام لانا چاہتے ہیں۔ جو دلیل حق میں پیش کی جاتی ہے، وہ أمربالمعروف و نہی عن المنکر ہے کہ چونکہ یہ علمائے کرام کا فریضہ ہے، اس لئے حدود اللہ اور اقامت دین ہم پر واجب ہے اور اس کے لئے جہاد کرنا ہم پر فرض ہے۔ اسی حوالے سے حدیث مبارکہ ’’تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے تو اسے ہاتھ سے روکے، اگر اسکی اسطاعت نہ ہو تو زبان سے اور اگر زبان سے روکنے کی قدرت نہ ہو تو دل میں برا خیال کرے‘‘ پیش کی جاتی ہے۔ 
جمہوریت، جمہوری نظام یا پاکستانی آئین کو غیر اسلامی ثابت کرنے کے لئے بے شمار کتابیں لکھی کی جا چکی ہیں، لیکن متبادل کے طور پر جو خلافت کا تصور پیش کیا جاتا ہے، اس کا حصول آج کے دور اور حالات میں دور دور تک نظر نہیں آتا۔ جب تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں توہمارے سامنے نبی کرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے جس کا مفہوم ہے کہ میرے بعد خلافت تیس سال تک جاری رہے گی، اس کے بعد ملوکیت ہو گی۔ خلافت راشدہ کا دور تو آنا ناممکن ہے، جیسا کہ ایک اور حدیث کے مطابق فقہائے کرام مختلف ادوار کو اس طرح تقسیم کرتے ہیں کہ سب سے بہترین دور نبی کریم کا ہے، پھر اس کے بعد خلافت راشدہ کا ہے۔ پھر اس کے بعد کا دور ہے۔ تو اس اعتبار سے دیکھا جائے تو آج ہم کہاں کھڑے ہیں۔ اگر قرآن پاک کے اس حکم کو دیکھا جائے کہ أطیعوا اللہ وأ طیعوا الرسول واودلی الأمر منکم۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ولی أمر جو ہو گا، وہ لوگوں میں سے ہی ہو گا۔ تو آج کے دور کے جو مسلمان ہیں، اسی اعتبار سے وہ حکمران بھی ہو گا۔ اگر کوئی فرشتہ آ بھی جائے، تو امور سلطنت چلانے کے لیے کیا ایک آدمی کافی ہوتا ہے؟ یا تو ایسا نظام لانے کے لئے افراد کی اس نہج پر تیاری کی جائے یا پھر موجودہ حالات کے مطابق کوئی ایسا نظام وضع کیا جائے جو شریعت سے مطابقت رکھتا ہو۔
رہی بات افراد کی تیاری کی، تو افراد تیار کرنے کے لیے ہمیں ایسے باکردار علماء کی ضرورت ہو گی جو دوسرے لوگوں کے لیے ایک نمونہ ہوں۔ کیونکہ جو راہنما ہوتا ہے، وہ عبادات، اخلاقیات، معاملات میں سب سے یکتا اور منفرد ہوتا ہے۔ مگر ہم یا تو عبادات پر زور دیتے رہتے ہیں اور اخلاق سے عاری ہوتے ہیں۔ یا اخلاق تو اچھا بنانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن عبادات اور معاملات پر توجہ نہیں دیتے۔دوسری بات اگر موجودہ حالات کے مطابق نظام وضع کیا جائے تو کیا ہم اتنی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کہ اس ملک میں ایسا نظام لے آئیں جو تمام طبقات کے لئے قابلِ قبول ہو یا جس کے خلاف بغاوت کا امکان نہ ہو یا ہمارے پاس اتنی عوامی حمایت ہے کہ ہم وہ نظام لا بھی سکیں گے۔اگر نہیں تو ہمیں اس پر غور کرنا ہو گا کہ جس طرح ہمارے مذہبی قائدین موجودہ جمہوری نظام کے اندر رہ کر جدوجہد میں مصروف ہیں۔ اور ساتھ ساتھ اگر عوامی رائے عامہ ہموار کر رہے ہیں۔ تو ان لوگوں کو بھی اپنے رویوں پر غور کرنا ہو گا جو تشدد کے ذریعے نظام کی تبدیلی کے حق میں ہیں۔اس بارے میں جماعت اسلامی کے راہنما مولانا گوہر رحمن صاحب مرحوم کا ایک کتابچہ نفاذ شریعت کا راستہ ’’مسلح یا دعوتی اور انتخابی‘‘ کا اگر مطالعہ کریں تو انہوں نے دلائل کے ساتھ کچھ حقیقتیں بیان کی ہیں۔
اب اگر ان شرعی دلائل کا موازنہ کیاجائے جو عسکری جدوجہد کے حق میں پیش کئے جاتے ہیں تو خروج کی بحث میں علمائے کرام اور فقہائے کرام نے بالتفصیل اس بات کا ذکر کیا ہے کہ کیا نفاذ شریعت کے لئے مسلم معاشرے میں خروج جائز ہے؟ فقہائے کرام نے کہا ہے کہ کفر بواح کی صورت میں بھی خروج اس وقت ضروری ہے جب دو شرطیں پائی جائیں۔ (1) تغییر بالید کی صحیح طاقت ہو، یعنی اس کے استعمال کے نتیجے میں اس سے بڑا کوئی فتنہ کھڑا ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔ (2) جو شرعی حدود ہیں ان کا پورا لحاظ رکھا جائے اور رائے عامہ ہموار کی جائے۔
اسی بحث کا دوسرا پہلو ’’أمربالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ ہے۔ اس حوالے سے اگر ہم قرآن و سنت کا مطالعہ کریں تو اسلام نے ’’امربالمعروف ونہی عن المنکر‘‘ کو مسلمانوں کے لئے فرض کفایہ قرار دیا ہے۔ 
’’اور چاہئے کہ تم میں ایک گروہ ایسا ہو جو لوگوں کو خیر کی طرف بلائے اور اچھائی کا حکم دے اور برائی سے روکے‘‘ (سورۃ آل عمران آیت104)
فقہائے کرام نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ آج کے دور میں علماء، فقہاء اور دین اسلام کی مکمل سمجھ بوجھ رکھنے والے مسلمان یہ فریضہ ادا کر سکتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ انفرادی سطح پر بھی ہر مسلمان پر یہ لازمی ہے کہ وہ اپنے دائرہ کار کے اندر اچھائی کی تلقین کرے اور برائی سے روکے، جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور اس سے اسکی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘
بعض مسلمانوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ’’من رأی منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ‘‘ سے استدلال کرتے ہوئے طاقت کے استعمال کو جائز قرار دیا ہے۔ فقہائے کرام اس سلسلے میں بنیادی اصول یہ بیان کرتے ہیں کہ نہی عن المنکر کے حکم کے لیے طاقت کے استعمال کے لئے ولایۃ یعنی قانونی اختیار کی موجودگی شرط ہے اور صاحب ولایہ صرف ان لوگوں کے خلاف طاقت استعمال کر سکتا ہے جن کے اوپر اسے ولایہ حاصل ہے۔یہ ولایہ یا تو باہمی تعلق کی بنا پر قائم ہوتی ہے، جیسے باپ کی اپنے بیٹے پر اور کفیل یا وکیل کی عقد کفالت اور وکالت میں اپنے نمائندے کے لئے ہوتی ہے، یا شریعت نے ولایہ کا اختیار حکومت کے سپرد کیا ہے جو مختلف عدالتوں کے ذمے یہ سونپ دیتی ہے۔ اب ان عدالتوں اور قاضیوں کا اختیار ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی حکم کو جبری نافذ کر سکیں۔ اگر کوئی عام شخص ایسا کرے گا تو وہ معاشرے میں فتنہ و فساد برپا کرنے کا سبب بنے گا۔
تاریخ اسلام بھی اس بات کی شاہد ہے کہ علمائے حق نے جابر حکمرانوں کے ظلم و ستم کا سامنا کیا اور کلمہ حق بلند کرتے رہے، مگر انہوں نے کبھی بھی عوام کو ہتھیار اٹھانے کے لئے نہیں کہا۔
بحث کاتیسرا اہم موضوع ’’فرضیت جہاد‘‘ ہے۔ جہاد کی فرضیت میں کسی مسلمان کو شک نہیں اور شک ہونا بھی نہیں چاہئے۔ علمائے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ جہاد کب فرض عین ہوتا اور کب فرض کفایہ لیکن اختلاف اس وقت پیدا ہوتا ہے جب مسلمانوں کا کوئی گروہ کسی جنگ میں کود پڑتا ہے اور اسے جہاد کا نام دے دیا جاتا ہے اور پھر جہاد فی سبیل اللہ کے نام پرسارے مسلمانوں کو اس جنگ کی ترغیب دی جاتی ہے۔ تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں تو ہمیں جنگوں کی ایک لمبی تاریخ ملتی ہے، لیکن ہر جنگ پر جہاد کا اطلاق نہیں کیا گیا۔ لیکن ہمارے ہاں جہاد اتنا منفعت بخش کاروبار بن چکا ہے کہ آپ اس کا اطلاق کہیں بھی کر سکتے ہیں۔ جہاد افغانستان کے نام سے اس کی ابتداء1980 ؁ء میں ہوئی۔ پھر جہاد کشمیر سامنے آیا اور اب کئی محاذوں پر جہاد کا نام استعمال ہو رہا ہے۔ افغانستان میں جہاد، پاکستان میں جہاد، امریکہ کے خلاف جہاد، ہندؤں کے خلاف جہاد، اسرائیل کے خلاف جہاد، شیعہ کے خلاف جہاد، شرک کے خلاف جہاد، سنیوں کے خلاف جہاد، اور پھر اسی تناظر میں جہاد کی اہمیت کے موضوع پر لاتعداد کتابیں تصنیف ہوئیں۔ آج کا مسلمان اسی مخمصے کا شکار ہے کہ وہ کس جنگ کو جہاد کہے اور کس کو نہ کہے۔ 
جہاد کے حوالے سے ایک گروہ کا یہ خیال ہے کہ ہمیں جہاد ہر حال میں جاری رکھنا چاہئے تاکہ دنیا سے کفر کا خاتمہ ہو، اور یہی منشائے اسلام ہے۔ الأقرب فالأقرب کے تحت وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں مظلوم مسلمانوں کا ساتھ دینا چاہئے اور اسی طرح اس جہاد کو پھیلاتے ہوئے ہندوستان کو فتح کرنا ہوگا اور پھر امریکہ، اسرائیل، برطانیہ وغیرہ کو جہاد کی بدولت حاصل کرنا ہے۔ اسی نقطۂ نظر کو عالمی جہادی ایجنڈے کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر ہمارے علمائے کرام اور مذہبی طبقہ جہاد کے تمام اصول وضوابط کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی جنگ کو جہاد قرار دیتے تو صورتحال یکسر مختلف ہوتی اور مسلمان بھی یوں نہ غوطے کھاتے، مگر ریاستی دباؤ اور مصلحت کے پیش نظرمسائل جنم لیتے رہے۔ 
آخر میں اس تمام بحث کے نتیجے میں یہ بات قابل غور ہوگی کہ جو لوگ یا گروہ اس وقت پاکستانی حکومت ، اداروں اور عام شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، ان پر کیا حکم لگایا جائے؟ اگرچہ کچھ لوگ تو اسے بدلے کی جنگ یا ردعمل قرار دیتے ہیں، لیکن اس کے باوجود کیا ان کا یہ عمل بغاوت اور خروج کے ضمن میں نہیں آئے گا؟ دینی اور مذہبی راہنما اور مفکر اس بارے میں عوام کو ضرور راہنمائی فراہم کریں۔ 

محمد زاہد صدیق مغل

آج کی جو گفتگو ہے تکفیر وخروج موجودہ حالات کے تناظر میں، میں جن نکات پر گفتگو کرنے کی کوشش کروں گا، وہ ہے عصر حاضر میں خروج کا جواز اور شبہات کا جائزہ۔ قبل اس کے کہ میں موضوع کی طرف آؤں، مناسب ہوگا کہ میں اپنی گفتگو کا اسٹرکچر آپ کے سامنے رکھ دوں۔ 
پہلے ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ جو عمومی رویہ ہے خروج کے بارے میں، وہ کیا ہے؟ جیسا کہ ابھی ایک مضمون پڑھا گیا، اس میں بھی ایک رائے سامنے آ گئی، لہٰذا میں اس پر کوئی خاص گفتگو نہیں کروں گا۔ دوسری چیز ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ موجودہ دور میں جو خروج کی تحریکیں ہیں، وہ کیوں عام ہوئیں اور جیسا کہ ابتداء میں اس پر گفتگو بھی ہوئی کہ عالمی تناظر میں کچھ ایسی تبدیلیاں آئیں کہ جس نے وہ فقہی تناظر جو فقہاء کرام نے ڈویلپ کیا تھا، وہ آج کیو ں relevant بظاہر نظر آتا ہے ۔ اور تیسرے مرحلے پر میں یہ گفتگو کروں گا کہ فقہاء کرام کے جن اقوال کو خروج کے خلاف بطو دلیل پیش کیا جاتا ہے، اس میں کیا بنیادی خامی ہے۔ خروج کے لیے علماء کرام نے بحیثیت مجموعی جو پوزیشن اختیار کی ہے اسلامی تاریخ میں اور ان کے جو دلائل ہیں، وہ کیا ہیں۔ اور آخری حصے میں عام طور پر جو خروج کے خلاف گفتگو کی جاتی ہے اور اس پر جو دلائل پیش کیے جاتے ہیں اور جو اعتراضات اور شبہات پیش کیے جاتے ہیں، اس میں کیا ابہامات ہیں اور کیا مسائل ہیں۔
جیسا کہ میں نے کہا، پہلے ضروری ہے کہ خروج کی بحث کو موجودہ context میں سمجھنے کے لیے آج کی جو کچھ اصولی تبدیلیاں یں اور اصولی مباحث ہیں، انھیں سمجھ لیں۔ پہلی بات جو کہ بہت اہم ہے اور سمجھنے کی ہے کہ ریاست اور حکومت میں بڑا بنیادی فرق ہوتا ہے۔ اس بنیادی فرق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بہت سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ ریاست سے مراد نظام اقتدار ہے۔ یہ system of obedience کا نام ہوتا ہے، جبکہ حکومت محض اس کا ایک جزو ہے۔ اس بات کو اگر ہم نے سمجھنا ہے تو جمہوریت سے اس کو سمجھ سکتے ہیں۔ ویسے تو جمہوریت کے بارے میں ہماری جو عام understandingہے، وہ بھی درست نہیں کہ ہم عام طور پر جمہوریت کو محدود کر دیتے ہیں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ تک، جبکہ جمہوریت بطور نظام ایک بڑے وسیع سسٹم کا نام ہے۔ تفصیل میں جانے کا وقت نہیں، کیونکہ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے کہ جمہوریت اصل میں ہے کیا؟ جمہوری نظام کے اگر کلیدی اداروں کا نام لوں جن کے ذریعے کسی معاشرے میں جمہوری نظام اطاعت قائم کیا جاتا ہے تو اس میں مقننہ، بیورو کریسی، ٹیکنو کریسی، سرمایہ دار طبقہ اور وہ علوم جن کو ہم social sciences کے نام سے جانتے ہیں۔ یہاں یہ بات واضح کرتا جاؤں کہ ہمارے نزدیک جن علوم کوہم سوشل سائنسز کہتے ہیں، ان کا سرمایہ داری سے وہی تعلق ہے جو کہ فقہ کا اسلام کے ساتھ ہے۔ 
فوج، پولیس، کارپوریشن اور فنانشل ادارے جن کو ہم محض معاشرتی ادارے کہتے ہیں، یہ بھی جمہوریت کے کلیدی ادارے ہیں جن کے ذریعے سے جمہوری system of obedience کی معاشرے پر مسلط کیا جاتا ہے۔ پھر اگر ہم وہ افراد دیکھیں جو جمہوری نظام کی عقلیت کو معاشرے میں فروغ دیتے ہیں، اس میں جو اہم لوگ ہیں، وہ دانش ور ہوتے ہیں جو سرمایہ دارانہ rationality کو فروغ دیتے ہیں۔ کلچرل ہیروز مثلاً سپورٹس مین، سائنس دان یہ وہ لوگ ہیں جو علما اور صوفیاء کی جگہ لے لیتے ہیں۔ جمہوریت کے اندر ٹیکنو کریٹ اور سرمایہ دار استعماری ایجنٹ ہوتے ہیں۔ نکتہ یہ ہے کہ جمہوریت صرف حکومت کی بالائی سطح کا نام نہیں ہے جس کو ہم مقننہ کہتے ہیں، بلکہ جمہوریت ان تمام اداروں کے ذریعے سے کسی معاشرے میں سرمایہ دارانہ عقلیت کو غالب کرنے کی کوشش کرنے کا نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر آپ ڈیما کریسی پر لٹریچر پڑھیں تو یہ بات بالکل واضح ہے، جمہوریت کے سیاسی نظریے کے جو طالب علم ہیں، وہ جانتے ہیں کہ جمہوریت کی دو شکلیں ہیں۔ ہم عام طور پر جمہوریت کو contrastکرنے کی کوشش کرتے ہیں ڈکٹیٹر شپ کے ساتھ جبکہ یہ غلط ہے۔ جمہوریت کی دو شکلیں ہیں۔ ایک ہے لبرل جمہوریت جس میں یہ ووٹنگ کا عمل ہوتا ہے اور ایک ہے آمرانہ جمہوریت جس کو illiberal democracyکہتے ہیں۔ illiberal democracy یہ ہوتی ہے کہ ادارے تو یہی ہوتے ہیں جن کے ذریعے سے system of obedience کو قائم کیا جاتا ہے، بس یہ ووٹنگ کا عمل ختم کر دیا جاتا ہے۔ وہ کیوں ختم کیا جاتا ہے، یہ ایک مستقل موضوع ہے۔ 
کسی انسانی تاریخ میں human beingکا کوئی تصور موجود نہیں رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی دنیا میں کسی معاشرے پر جمہوری نظام لایا گیا ہے، جبر اور قتل وغارت کے بغیر تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں دی جا سکتی کہ جمہوری نظام کو بغیر جبر کے مسلط کر دیا گیا ہو۔ اگر ہم اپنی تاریخ دیکھیں برصغیر کی تو ہمارے ہاں بھی جمہوریت ایسے نہیں آئی کہ ایک دن ہمیں احساس ہوا کہ بادشاہ بہت کرپٹ ہیں، ہم نے کتابیں لکھی ہیں اور اس کے بعد شعور بیدار ہوا اور جمہوریت آ گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم پر ایک استعمار آیا جس نے بذریعہ قوت وہ تمام ادارے جو system of obedience کو قائم کرتے ہیں، ہم پر بذریعہ جبر مسلط کیے گئے اور جیسے جیسے سرمایہ دارانہ عقلیت فروغ پاتی چلی جاتی ہے، لوگ human being ہوتے چلے جاتے ہیں، سول سوسائٹی عام ہوتی چلی جاتی ہے، اسی رفتار سے جمہوریت کو آمریت سے لبرل جمہوریت میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ یہ جو حالیہ عرب دنیا میں تبدیلی آ رہی ہے، یہ illiberal ڈیماکریسی کو لبرل ڈیما کریسی میں تبدیل کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
یہ گفتگو کرنے کامقصد یہ ہے کہ حکومت اور ریاست میں بڑا بنیادی فرق ہے۔ دوسری بات یہ سمجھ لینی چاہیے کہ جو جمہوری ریاست ہوتی ہے، وہ کوئی شخصی ریاست نہیں ہوتی۔ وہ institutional ریاست ہوتی ہے۔ تحریک تنویر کے بعد جو ایک سیاسی فکر ڈویلپ ہوئی ہے اور جو اس سے پہلے کی سیاسی فکر ہے، اس میں یہ ایک بڑا بنیادی فرق ہے۔ پہلے ہمیشہ بحث یہ ہوتی تھی کہ حکومت کن لوگوں کے ذریعے سے کی جا رہی ہے اور جو حکومت کر رہا ہے، وہ کیسا ہے جبکہ تنویری فکر کے بعد جو بات سیاسی کلچر کا جو محور ومرکز بن گئی، وہ یہ تھی کہ جن اداروں کے ذریعے حکومت ہو رہی ہے، وہ ادارے کیا ہیں قطع نظر اس سے کہ ان میں جو لوگ بیٹھے ہوئے ہیں، وہ کیا ہیں۔ یہ ایک بنیادی فرق ہے جو حکومت اور ریاست کے فرق کو اور خلافت اور ریاست کے فرق کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔ 
جب ہم خروج کے حوالے سے گفتگو کرتے ہیں اور فقہاء کرام کے اقوال پیش کرتے ہیں تو یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ خلافت اسلامی کے جو درجات ہیں، وہ کس طرح بیان کیے گئے ہیں اور ہمارے جو کلاسیکل یا متقدمین فقہا اور علما ہیں، انھوں نے اس کو کیسے دیکھا ہے؟ خلافت کا مطلب ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی نیابت یعنی اس بنیاد پر اجتماعی دائرے میں فیصلے کرنا کہ شارع کی رضا کیا ہے۔ خلیفہ خود بھی اس پر عمل کرے گا اور عوام کو بھی اس پر عمل کرانے کا پابند ہے۔ جب ہم خلافت کی درجہ بندی کی بات کرتے ہیں تو اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے مسلمانوں میں ایمان کے درجات ہیں۔ کچھ ایمان میں ابوبکر وعمر جیسے ہیں۔ کچھ دوسرے صحابہ جیسے ہیں۔ کچھ آج کے دور والے مسلمانوں جیسے بھی ہیں۔ خلافت کی مثال بالکل ایسے ہی ہے۔ اس کے سب سے اعلیٰ درجے کو خلافت راشدہ کہتے ہیں اور خلافت راشدہ سے مراد نیابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اجتماعی معاملات کو اسلامی طریقے سے حل کرتے وقت توسع اور رخصتوں کے بجائے تقویٰ کے اعلیٰ معیار کے مطابق فیصلہ کیا جائے۔ اس کی مثال میں یوں عرض کرتا ہوں کہ خلفائے راشدین کو، بعد میں جو ریاستیں قائم ہوئیں، ان سے ممیز کرنے والی اصل چیز جس کی وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ اس کو اپنایا جائے، وہ یہ ہے کہ خلفاے راشدین نے خلافت کواپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرنے کی ادنیٰ کوشش نہیں کی۔ مثلاً خلیفہ کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے لیے ایک کم سے کم معیار کا وظیفہ قبول کرے، لیکن خلفاے راشدین نے ہمیشہ کم سے کم تر پر اکتفا کیا۔ اسی طرح اپنی حفاظت کا بندوبست کرنا بھی جائز ہے، لیکن خلفاے راشدین نے اس کا کبھی کوئی اہتمام نہیں کیا۔ تو یہ جو ان کا مزاج ہے کہ نیابت رسول میں کوئی ادنیٰ درجے میں بھی اپنا کوئی ذاتی مقصد پورا نہیں کرنا چاہتے، یہ وہ بنیادی فرق ہے جو محض خلافت کو خلافت راشدہ سے ممیز کرتا ہے۔ 
اس کے بعد جو ریاستیں قائم ہوئیں، ان کو علماے کرام مختلف درجات میں تقسیم کرتے ہیں۔ امارت عادلہ سے مراد یہ ہے کہ خلیفہ عادل ہے، کبائر میں مبتلا نہ ہوتا ہو اور اگر کبائر ہو بھی جائیں تو اس پر وہ کبھی دوام اختیار نہیں کرتا۔ امارت جبر اور امارت ضالہ سے مراد ہے ایک ایسی امارت جس میں فساق مسلمانوں کے حکمران بن جائیں ، لیکن یہ فرق بہت اہم ہے کہ جو فساق ہیں، آیا ان کا فسق متعدی نوعیت کا ہے یا لازم نوعیت کا۔ آیا وہ اپنی ذات میں فسق وفجور کو اختیار کیے ہوئے ہیں یا وہ system of obedience کو بھی تہہ تیغ کرنے کے درپے ہیں۔ یہ بڑا بنیادی فرق ہے۔ اس کے بعد امارت کفر ہے جو بالکل واضح ہے کہ اس میں ریاست کی بنیاد شریعت کی بجائے کسی اور بنیاد پر قائم ہو جیسے ہیومن رائٹس ہیں، کیونکہ ہم ہیومن رائٹس کے بارے میں سمجھتے ہیں کہ یہ لبرل سرمایہ دارانہ نظام کی سیاسی صف بندی کا دوسرا نام ہے۔
قومی ریاستیں ابھی ہم نے آج قائم کی ہیں۔ قومی ریاستیں اسلام کی تاریخ میں کبھی پیش نہیں کی جا سکتیں جہاں یہ دعویٰ کیا جاتا ہو کہ ایک مخصوص جغرافیے کے اندر موجود لوگ کے مادی مفادات کا حصول اور وہ بھی لبرل سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے ان کو محفوظ کرنا، یہ کبھی اسلامی تاریخ کے اندر اس کی مثال موجود نہیں ہے کہ ایک عالمی نظام کے اندر غیر اسلامی بنیادوں پر قائم ہو۔ اسلامی نظام نیابت رسول کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے نہ کہ عوام کی نمائندگی کی بنیاد پر۔ یہ ہمارے ہاں ایک بڑی خلط مبحث کر دی جاتی ہے کہ ہمارے آئین میں یہ لکھا ہوا ہے۔ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔ عوام کے لیے تو تقلید ہے نہ یہ کہ وہ مجتہد بن کر قانون سازی کے لیے نمائندے بھیجتے پھریں۔
تیسری بات یہ ہے کہ اسلامی نظام خلافت میں جن علوم کی بالادستی ہوتی ہے، وہ علوم شرعیہ کی ہوتی ہے یعنی فیصلے اس وقت تک اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں ہو سکتے جب تک کلام، فقہ، تصوف کی معاشرتی بالادستی قائم نہ ہو جائے۔ جن معاشروں میں ہم رہتے ہیں، جس ریاستی تناظر میں ہم رہتے ہیں اور جو ہماری پالیسیاں ہیں بالکل علمی نوعیت کی، اس میں ہماری سوشل سائنسز کی بالادستی کی بنیاد پر ہمارے سارے سیاسی اور معاشرتی فیصلے ہو رہے ہیں۔ جو دستور ہے جس کو ہم ہیومن رائٹس کہتے ہیں، یہ ایک ایسی چیز ہے جس کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ نظام قضا جسے ہم شریعت کہتے ہیں اور ہیومن رائٹس یا دستور، یہ بالکل ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اسی طرح ایک بہت اہم فرق جس کو ہم undermine کرتے ہیں، وہ یہ کہ سول سوسائٹی یہ بالکل ضد ہے مذہبی معاشرت کی کیونکہ سول سوسائٹی جس rationality کو پروموٹ کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ ذاتی اغراض کی بنا پر، قطع نظر اس سے کہ جس سے میری اغراض پوری ہو رہی ہیں، وہ کافر ہے، فاسق وفاجر ہے یا کیسا ہے۔ تو یہ ایک بڑا بنیادی فرق ہے۔
یہاں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ جو اکثر کہا جاتا ہے کہ ہمارے آئین میں بہت سی اسلامی چیزیں موجود ہیں تو جیسا کہ میں نے کہا کہ جمہوریت کی دو شکلیں ہیں۔ illiberal ڈیما کریسی کے اندر جمہوریت جہاں پہلے دن جاتی ہے، وہاں کبھی پہلے دن peneterate نہیں کر پاتی، کیونکہ مقامی لوگوں کا تناظر ابھی ان کی زبان میں enlightenedنہیں ہوا ہوتا، وہ ابھی پوری طرح human being نہیں بنے ہوتے۔ ان کا تناظر یا تو ان کی روایات کے ساتھ موجود ہوتا ہے یا مذہبی وابستگیاں ہوتی ہیں یا ان کے کچھ اور تعصبات ہوتے ہیں، لہٰذا ضروری ہے کہ ان کے لیے جمہوری نظام کو قابل قبول بنانے کے لیے ایسی لفظی اور نفسیاتی چیزیں ہوں جو ان کی تسکین کا سامان کر سکیں۔ ان کو کچھ ایسی چیزیں فراہم کریں کہ ان کے لیے وہ نظام قابل قبول ہو اور جیسے جیسے یہ نظام جبراً مسلط کیا جاتا ہے، یہ peneterate کرتا چلا جاتا ہے اور ان لوگوں کی وابستگیاں روایات کے ساتھ کمزور ہوتی چلی جاتی ہیں، اسی رفتار سے جمہوری نظام کو illiberal سے لبرل کی طرف موڑ دیا جاتا ہے۔
یہ چار باتیں ہیں جو میرے نزدیک اصولی ہیں اور خروج کو سمجھنے کے یے بہت ضروری ہیں کہ امت مسلمہ میں خروج کی حالیہ جدوجہد کی وجوہات کیا ہیں۔ کیا وجوہات ہیں کہ امت مسلمہ میں خروج کی لہر بیسویں صدی میں اتنی تیز ہو گئی جو اس سے پہلے نہیں تھی۔ اگر ہم تاریخ میں جائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ۱۹۲۴ء سے قبل جب خلافت کسی نہ کسی صورت میں اسلامی معاشروں میں قائم تھی اور خلیفہ ریاست کی بنیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کی بنا پر حاصل کرتا تھا تو خروج کی مثالیں آپ کو نظر آئیں گی، لیکن شاذ۔ لیکن جب ایک بیرونی قوت نے فوجی، قانونی، سیاسی، سماجی، نظریاتی استبدادی نظام کے ذریعے مسلمان دنیا پراپنا نظام مسلط کر دیا جس کا مقصد مسلمانوں کو روایت پسندانہ اسلام سے enlightened اسلام کی طرف convert کرنا تھا، یہ امت مسلمہ کے لیے پہلی تبدیلی اس نوعیت کی تھی کہ اس سے قبل اسلامی دنیا میں کبھی ایسا دور نہیں گزرا کہ اسلامی ریاستوں اور معاشروں کی بنیاد اسلام کے علاوہ کوئی اور چیز بن گئی ہو اور یقیناًجب استعمار یہاں سے جاتا ہے تو واضح نظر آٹا ہے کہ تقریباً تمام مسلم دنیا میں ایسے لوگ جو سیکولر نظام کے اور لبرل سرمایہ دارانہ نظام کے حامی تھے، اقتدار ان کے ہاتھ میں سونپ دیا جاتا ہے جو اسلام پسند قوتوں کو دبا کر رکھیں۔ ان کے دو بنیادی کام تھے۔ ایک طرف وہ سرمایہ دارانہ نظام کے مقامی رکھوالے بنے اورساتھ ہی ساتھ انھوں نے اسلام پسند طاقتوں کو دیوار سے لگانے کا کام شروع کر دیا اور ایک بہت طویل عرصے تک اسلامی تحریکات کو جھانسا دیا گیا کہ اگر آپ ووٹنگ کے ذریعے سے رائے عامہ کو ہموار کر لیں گے تو اسلام آ جائے گا، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ کہیں غلطی سے اگر ایسا ہو بھی گیا، جیسا کہ ہم الجزائر میں دیکھتے ہیں تو وہاں پر اسلامی تحریکات کو اجتماعی نظام میں جو کامیابی حاصل ہوئی، اس کو کالعدم قرار دے کر ان کو اقتدار پر فائز ہونے کی اجازت نہیں دی گئی؟ 
یہاں پر ایک بڑی بحث ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جمہوریت will of allکی حکومت کا نام ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ جمہوریت will of all کی حکومت کا نہیں، یہ general will کی حکومت کا نام ہے۔ یعنی آپ آزادی، مساوات اور ترقی کو ریاست کی بنیاد کے طور پر قبول کریں۔ آزادی کے مختلف طریقے اختیار کرنے کی تو آپ کو جمہوریت میں اجازت ہے لیکن آزادی کو رد کر کے کسی اور بنیاد پر حکومت کی جمہوریت میں کوئی بنیاد موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہیومن رائٹس کسی بھی دستور کا preamble ہوتے ہیں جو کسی بھی طریقے سے ناقابل رد ہوتے ہیں۔ الجزائر میں اسلامک فرنٹ کی حکومت اسی بنیاد پر کالعدم قرار دی گئی کہ اس سے جمہوری نظام کے اور ہیومن رائٹس کے فریم ورک کا جو پورا نظام موجود تھا، اس کو خطرہ تھا، لہٰذا جمہوری مفکرین اس کو بالکل تضاد نہیں سمجھتے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کے تضادات ہیں۔ نہیں، یہ بالکل تضاد نہیں ہے۔ ان کے نزدیک illiberal ڈیما کریسی جائز ہوتی ہے جب جمہوری نظام کو خطرہ ہو، لہٰذا ان کے نزدیک will of all نے general will کو respond نہیں کیا۔ اس کو رد کرنا ان کے نزدیک کوئی جرم اور کوئی تضاد نہیں ہے۔
چنانچہ ایک طرف جب ان کا یہ عمل سامنے آیا اور دوسری طرف ہم نے مغربی فکر کا تفصیلی مطالعہ کیا تو یہ بات بالکل دو اور دو چار کی طرح واضح ہو گئی کہ جمہوریت will of all کی حکومت کا نام نہیں، بلکہ جنرل ول کی حکومت کا نام ہے۔ جس طرح اسلام نام ہے خدا تعالیٰ کی حاکمیت کا، نہ کہ اس بات کا کہ عوام کیا چاہتے ہیں، بالکل اسی طرح جمہوریت اس بنیاد پر حکومت کرنے کا نام نہیں ہے کہ عوام کیا چاہتے ہیں، بلکہ حکومت اس بنیاد پر کی جائے گی کہ عوام کو آزادی چاہنا ہے۔ اگر عوام آزادی نہیں چاہتے تو اس بنیاد پر ان پر ہرقسم کا جبر کرنا یعنی جمہوریت لانے کے لیے ہر قسم کا انقلاب لانا ان کے نزدیک جائز ہے، لیکن جمہوریت کے خلاف انقلاب یا خروج کی بنیاد پر جدوجہد کرنا ان کے نزدیک جائز نہیں ہے۔ 
اب اگر یہ تناظر واضح ہو جائے تو ہم فقہاء کرام کے اقوال کو بالکل سمجھ سکتے ہیں۔ فقہاء کرام نے امارت عادلہ کے خلاف خروج کو حرام قرار دیا ہے اور یہ بالکل جائز بات ہے کہ جب خلیفہ عادل ہے تو ایسے عادل خلیفہ کے خلاف جو خروج کرتا ہے، وہ یقیناًباغی ہے۔ اس کے ساتھ وہی معاملہ ہوگا جو باغیوں کے ساتھ ہوگا۔ اسی طرح سے خروج کے کچھ expected مفاسد ہوتے ہیں کہ قتل وغارت ہو سکتی ہے، اسلامی system of obedience کو نقصان پہنچ سکتا ہے، اسلام اور مسلمانوں کی شان وشوکت اپنے مخالفین کے مقابلے میں کم ہو سکتی ہے۔ اس تناظر میں فقہاء کرام نے ایسے بادشاہوں کے خلاف خروج سے بھی منع کیا ہے جن کے ہم نے امارت جابر کی اصطلاح استعمال کی ہے، یعنی جن کے مظالم یا ان کی خرابیاں ان کی اپنی ذاتی حیثیت میں ہیں اور وہ نظام اطاعت کو، اسلامی علوم کے غلبے کو اور اس نظام قضا کی بنیاد پر جو پورا نظام اطاعت قائم تھا، اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتے تھے۔ البتہ جب امارت جابرہ کا حاکم ایسا ہو جس کا فسق متعدی نوعیت کا ہو اور صرف اس کی ذات کے اعتبار سے نقصان دہ نہ ہو بلکہ اسلامی نظام کو بحیثیت مجموعی بھی نقصان پہنچ رہا ہو، اس کے متعلق فقہاء کرام کے درمیان شدید اختلاف ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فقہاء کرام کی ایک بہت بڑی تعداد ہے جنھوں نے اس کے خلاف بھی خروج کرنے سے منع کیا ہے اور وجہ وہی ہے جو بیان کر دی گئی ہے کہ جب قوت اتنی نہیں ہے کہ آپ ان کو تبدیل کر سکتے ہوں تو عقل کا تقاضا یہ ہے کہ خروج نہ کیا جائے۔ بہرحال وہ مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کو شریعت کے خلاف گزارنے پر مجبور نہیں کر رہے۔ بہرحال ایک اسلامی نظام قضا موجود ہے، اسلامی علوم کا غلبہ ہے، علما اور فقہا کی معاشرتی اور سیاسی بالادستی موجود ہے، لہٰذا ایسے نظام میں حکمرانوں کی جو چھوٹی برائیاں ہیں، وہ خروج سے پیدا ہونے والی متوقع بڑی برائیوں کے پیش نظر قبول کر لینی چاہییں۔ لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ فقہاء کرام کی ایک تعداد ایسی بھی ہے جو ان حالات میں امارت ضالہ کے خلاف خروج کو جائز سمجھتی ہے۔ ان کے سرخیل امام ابوحنیفہؒ ہیں۔
جہاں تک ان کے دلائل کا تعلق ہے تو قرآن مجید میں آیت ہے کہ واجتنبوا الطاغوت، یعنی طاغوت سے الگ رہو۔ طاغوت سے مراد علماے مفسرین نے بیان کیا یہ کہ ایسا شخص بھی ہے جو اللہ کے دین کے مقابلے میں کسی اور بنیاد پر نظام اطاعت یعنی دین قائم کرے۔ اسی طرح قرآن مجید میں ارشاد ہوا: تعاونوا علی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان، یعنی برائی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد مت کرو۔ ایک ایسی ریاست جو برائی کی بنیادپر اور طاغوت کی بنیاد پر قائم ہوئی ہو، اس کے ساتھ برضا ورغبت تعلق قائم کرنااس کے ساتھ تعاون ہی شمار ہوگا۔ اسی طرح مسلمانوں کی امامت کااصل حق دار کون ہے؟ تو قرآن مجید میں حضرت ابراہم علیہ السلام کا قول نقل ہوا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو امام بنایا تو انھوں نے کہا کہ 
قَالَ وَمِن ذُرِّیَّتِیْ قَالَ لاَ یَنَالُ عَہْدِیْ الظَّالِمِیْنَ (البقرہ: ۱۲۴)
’’کیا میری اولاد بھی امام بنے گی؟اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نہیں، ظالمین اس کے حق دار نہیں ہوں گے۔ ‘‘
اس سے علماے مفسرین مثلاً رازی، جصاص اور قرطبی نے یہ استدلال کیا ہے کہ ظالم اس منصب کا اصولاً حق دار ہے ہی نہیں اور مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ:
إِنَّ اللّہَ یَأْمُرُکُمْ أَن تُؤدُّوا الأَمَانَاتِ إِلَی أَہْلِہَا وَإِذَا حَکَمْتُم بَیْْنَ النَّاسِ أَن تَحْکُمُوا بِالْعَدْلِ إِنَّ اللّہَ نِعِمَّا یَعِظُکُم بِہِ إِنَّ اللّہَ کَانَ سَمِیْعاً بَصِیْراً (النساء: ۵۸)
’’یعنی امانتوں کو ان کے اہل لوگوں کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلے کرو تو وہ عدل کی بنیاد پر ہونے چاہییں۔ ‘‘
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ:
کُونُوا قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاء لِلّٰہِ (النساء: ۱۳۵)
’’مضبوطی سے عدل پر قائم رہنے والے بنو۔‘‘
اسی طرح اولو الامر کی اطاعت کو ’اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول‘ کے ساتھ مشروط کیا ہے اور یہ مشہور اصول سب کے سامنے ہے کہ لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ اللہ۔ اسی بات کو قرآن مجید نے یوں ارشاد فرمایا کہ:
وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَہُ عَن ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوَاہُ (الکہف: ۲۸)
’’اس شخص کی پیروی مت کرنا جس کے قلب کو ہم نے اپنی یا د سے غافل کر دیا اور وہ اپنی خواہشات نفس کی پیروی کرتا ہے۔‘‘
اسی طرح قرآن مجید میں ارشاد ہوا:
وَلَا تُطِیْعُوا أَمْرَ الْمُسْرِفِیْنَ الَّذِیْنَ یُفْسِدُونَ فِیْ الْأَرْضِ وَلَا یُصْلِحُونَ (الشعراء ۱۵۱، ۱۵۲) 
’’حد سے گزرنے والوں کے حکم کی پیروی مت کرو جو زمین میں فساد اور فتنہ برپا کرتے ہیں۔‘‘
یہاں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ہم اکثر یہ کہتے ہیں کہ ظلم کے خلاف جہاد ہے تو ظلم کی تعریف ہم نے متعین نہیں کرنی، بلکہ یہ وہی ہے جو قرآن وسنت میں بیان ہوئی ہے۔ ظلم مخالف ہے عدل کا اور عدل کا مطلب ہے شریعت۔ شریعت کے علاوہ عدل کی کوئی اور تعریف ممکن ہی نہیں۔ کفر اپنی تمام تشریحات میں ظلم کے اندر شامل ہے، کیونکہ ظلم کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکامات کے علاوہ کسی اور بنیاد پر اجتماعی معاملات کو چلانا جس میں اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت ہو جائے۔ اسی طریقے سے یہ حدیث مبارک بڑی مشہور ہے، متفق علیہ حدیث ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ آخری دور میں ایسے حکمران ہوں گے جن کو تم پہچانو گے اور تم انکار کرو گے۔ پس جس کسی نے ان کی حقیقت پہچان لی، وہ بری ہوگا اور جس کسی نے انکار کر دیا، وہ سلامتی کے راستے پر ہوگا، سوائے ان کے جو راضی ہو گیا اور ان کی اطاعت کرنے لگا۔ صحابہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ، کیا ایسے لوگوں کے خلاف ہمیں قتال نہیں کرنا چاہیے؟ آپ نے فرمایاکہ ’لا ما صلوا‘۔ جب تک وہ نماز کا نظام قائم رکھیں اور خود بھی نماز پڑھیں، تم ان کے خلاف قتال مت کرنا۔ علما نے یہاں بیان کیا ہے کہ یہاں صلوٰۃ کا لفظ صرف نماز کے لیے نہیں ہے بلکہ ان معنوں میں استعمال ہوا ہے کہ جو شعائر اسلام ہیں، ان کا اہتمام نہ کریں اور ان کے خلاف کام کریں۔ جو ایسا کریں، ان کے خلاف صرف احتجاج ہی نہیں، قتال کی بھی اجازت ہے، جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ’افلا نقاتلہم‘ کا لفظ استعمال ہواہے۔
اسی طریقے سے خیر القرون میں خروج کے جو سب سے اعلیٰ نظائر ہمارے سامنے ہیں، حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ اور حضرت امام حسینؓ کے خروج کی صورت میں موجودہیں جن کی جدوجہد کا مقصد اسلامی خلافت راشدہ کو جو خلافت سے ملوکیت میں تبدیل ہو رہی تھی، ان کا مقصد اس کو خلافت راشدہ کی طرف پلٹا دینے کی جدوجہد کرنا تھا۔ اسی طرح امام ابوحنیفہ نے بھی عباسی خلیفہ کے خلاف جو جہاد ہو رہا تھا، خروج کی جدوجہد ہو رہی تھی، اس کا بھرپور ساتھ دیا۔ خروج کی جدوجہد کا ساتھ دینا یا خروج کرنا یہ اسلامی تاریخ میں کوئی معدوم چیز نہیں ہے کہ جو کبھی نہ پائی گئی ہو۔ اسی طرح قواعد فقہ کی روشنی میں بھی خروج پر استدلال کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ قواعد فقہ میں ہے کہ ’الضرر یزال‘ یعنی نقصان کا ازالہ کرنا لازم ہے۔ اسی طرح فرمایا گیا ہے کہ ’یزال الضر ر الاکبر بالاصغر‘ یعنی اگر بڑی نوعیت کی خرابی پیدا ہو رہی ہو تو اس کو چھوٹے ضرر کے ذریعے تبدیل کرنا لازم ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ علماے کرام نے خروج کی جدوجہد کو شرائط کا پابند کیا ہے جن میں سے دو شرطیں یہ ہیں کہ خروج کب کیا جائے۔ امام اابویوسف، محمد، سرخسی، کاسانی، شاہ ولی اللہ اور علامہ شامی کی اگر تصانیف دیکھیں تو انھوں نے یہ بات بالکل واضح لکھی ہے کہ خروج اس وقت کیا جائے جب اسلامی نظام بالکل معطل ہو کر اسلامی احکامات کی جگہ غیر اسلامی احکامات کا اجرا ہو جائے۔ اسی طرح میں امام ابن تیمیہ کو پڑھتا ہوں تو وہ فرماتے ہیں کہ جب دین یعنی نظم اطاعت غیر اللہ کے لیے ہو جائے تو قتال واجب ہو جاتا ہے۔ چنانچہ جو لوگ اسلام کے واضح اور متواتر احکامات کی پابندی نہیں کرتے، ان سے قتال کے واجب ہونے پر میں علماے اسلام میں کوئی اختلاف نہیں جانتا۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ جلد ۲۸)
دوسری شرط یہ ہے کہ حالات اتنے سازگار ہوں اور اتنی قوت ہو کہ ان کو یہ لگے کہ اگر جدوجہد کی جائے تو کامیابی ہو سکتی ہے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ یہ ایک اجتہادی امر ہوتا ہے کہ آیا حالات ایسے ہیں اور قوت اتنی موجود ہے کہ نہیں، البتہ علامہ ابن تیمیہؒ نے بہت خوب صورت بات لکھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انکار منکر کے چار درجات ہیں۔ ایک درجہ یہ ہے کہ منکر ختم ہو جائے اور اس کی جگہ معروف قائم ہو جائے۔ ایسا کرنا مشروع ہے۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ منکر ختم نہ ہو لیکن کم ہو جائے۔ یہ بھی مشروع ہے۔ تیسرا یہ کہ ایک منکر ختم ہو جائے اور اس کی جگہ دوسرا ویسا ہی منکر پیدا ہو جائے۔ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے کہ واقعی ایسا ہوگا یا نہیں۔ چوتھا یہ کہ ایک منکر ختم ہو جائے اور اس کی جگہ اس سے بڑا منکر پیدا ہو جائے۔ ایسا کرنا حرام ہے۔ رہی یہ بات کہ جب خروج کرنے کی استعداد نہ ہو تو اس کا جواب یہ نہیں کہ اس کو روز محشر تک کے لیے خیربادکہہ دیا جائے، بلکہ یہ ہے کہ مناسب تیاری کی جائے۔ شیخ عبد المنعم المصطفیٰ حلیم نے اس کے مختلف درجات بیان کیے ہیں۔ ایک تو یہ کہ حسب استطاعت فکری وعملی تیاری کی جائے۔ دوسرا یہ کہ حکمرانوں سے علیحدگی اختیار کر کے نظام باطل کی مضبوطی نہ بنا جائے یعنی ایسے امور ترک کر دیے جاءں جن سے ان کی سلطنت مضبوط ہو اور اس کا اثر ورسوخ بڑھے۔ اس کی مثال امام ابوحنیفہؒ کی زندگی میں نظر آتی ہے جنھوں نے باوجود سرکاری جبر کے منصور کی سلطنت میں قاضی القضاۃ کا عہدہ قبول نہ کیا۔ تیسرا یہ کہ ان کے آئین وقانون کو برضا ورغبت تسلیم نہ کیا جائے اور نہ ہی ایسی بات کی جائے جو اعتراف حق میں قبولیت نظام کا فائدہ دے۔ اگر کچھ لوگ متفق ہو کر ان سے علیحدہ ہونے یا تیاری کرنے کا طریقہ اپنائیں تو ان کا فکری اور عملی سطح پر ساتھ دیا جائے۔
خلاصہ بحث کا یہ ہو اکہ فقہا کی آرا کے مطابق تمام احادیث جن میں خروج سے منع کیا گیا ہے،ان کا تعلق یا تو انفرادی اور شخصی حقوق کے پامال ہونے سے ہے یا پھر خلیفہ کی انفرادی برائیوں سے۔ اس بات کا قرینہ اس حدیث مبارکہ میں موجود ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے بیعت لی تو فرمایا کہ آپ امیر کی بات سنیں گے اور اطاعت کریں گے، خوشی کی حالت میں بھی اور تنگی کی حالت میں بھی، آسانی میں بھی اور اس حالت میں بھی کہ ہم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے۔ اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہو رہا ہے کہ اگر ذاتی نوعیت کے اختلافات ہوں تو اس میں خلیفہ کے خلاف خروج کرنا جائز نہیں ہے۔ چنانچہ اس قبیل کی احادیث کو یہ معنی پہنانا کہ دین سے منحرف اور سرمایہ داری کی ایجنٹ ریاست کے ساتھ بھی التزام جماعت شریعت کا تقاضا ہے، یہ درحقیقت نصوص میں تضاد پیدا کرنے کی ایک صورت ہے۔ اسی طرح اصول حدیث کا ایک اصول ہے کہ احادیث ایک دوسرے کی تشریح کرتی ہیں۔ اس اصول کی رو سے ایسی تمام احادیث جن میں اطاعت امیر کے لیے اطاعت شارع کی شرط لگائی گئی ہے، وہ ان تمام احادیث کی تشریح کرتی ہیں جن میں بظاہر اس قید کا ذکر موجود نہیں ہے۔ امام قرطبی فرماتے ہیں کہ امام وہ ہوتا ہے جس کا دامن گناہ کبیرہ سے داغ دار نہ ہو، احسان کی صفت سے متصف ہو اور اس میں حکومتی ذمہ داریوں کو بجا لانے کی صلاحیت بھی ہو۔ ان خوبیوں والے امام کے متعلق ہی نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ ان سے مت جھگڑو، لیکن جو فاسق وفاجر ہوں، وہ امامت کے حق دار ہی نہیں۔
علماء کرام کے اقوال میں تطبیق دینے کی صورت یہ ہے کہ اصولاً خلاف خروج اقوال کو امارت عادلہ اور جابرہ کے خلاف خروج پر محمول کیا جائے اور اگر علماے کرام کے خلاف خروج اقوال کو امارت ضالہ پر محمول کیا بھی جائے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ اصولاً خروج کے خلاف ہیں اور اس کو حرام سمجھتے ہیں، بلکہ وہ متوقع نقصانات ہیں جن کی جہ سے اور قوت کی عدم دست یابی کی وجہ سے وہ حکم دیتے ہیں کہ ایسا نہ کیا جائے، کیونکہ ریاستی نظام بحیثیت مجموعی مسلمانوں کو اپنی زندگیاں شریعت کے مطابق گزارنے سے نہیں روکا بلکہ ممد ومددگار ہی ہوتا ہے، البتہ فقہا کے ان اقوال کو غیر اسلامی ریاستوں کے ساتھ جوڑنا کسی صورت میں علمی بات نہیں ہے۔ پھر فقہا کے اقوال ایک دوسرا بہت اہم پہلو یہ ہے کہ فقہاء کرام نے جو خروج کے خلاف گفتگو کی ہے، وہ اسلامی ریاست کو pre-suppose کر تے ہوئے کی ہے اور اگر اسلامی ریاست ہی موجود نہ ہو اور ایک نظام اطاعت معاشروں پر مسلط ہو جو سرمایہ دارانہ خطوط پر قائم ہو تو فقہا کے اقوال کے ذریعے اس کو defend کرنے کا کوئی تناظر موجود نہیں رہ جاتا۔
یہاں میں سرمایہ داری کے لفظ کے بارے میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ الحمد للہ مجھے شرح صدر ہے کہ سرمایہ دری ایک نظام زندگی ہے اور جب ہم کہتے ہیں کہ یہ چیز ایک نظام زندگی ہے تو اس میں تین باتیں ہیں۔ ہر نظام زندگی کا اپنا ایک تصور فرد ہوتا ہے، اپنا تصور معاشر ہ ہوتا ہے اور اپنا تصور ریاست ہوتا ہے۔ سرمایہ داری ان معنوں میں ایک پورا نظام زندگی ہے۔وہ مذہبی انفرادیت کو بدل دینا چاہتی ہے human being میں اور مذہبی معاشرت کو تبدیل کرتی ہے سول سوسائٹی میں اور خلافت کو تبدیل کرتی ہے جمہوریت میں۔ ہم کہتے ہیں کہ اس وقت جو ریاستی تناظر ہے تو یہاں اسلامی ریاست موجود ہی نہیں جس کے تناظر میں فقہا نے عدم خروج کے فتوے دیے ہیں۔ یہ ایک بنیادی غلطی ہے۔ جب اسلامی ریاست موجود ہی نہیں تو فقہا کے اقوال کا حوالہ بھی نہیں دیا جا سکتا۔

ڈاکٹر خالد مسعود

آپ نے بہت عمدگی سے اپنا موقف بیان کیا کہ عصر حاضر میں فقہا کے اقوال کو کیسے سمجھا جائے۔ البتہ اس میں میرے لیے کچھ مزید ابہامات پیدا ہو گئے ہیں، وہ میں سوال کے طورپر رکھتا ہوں۔جب بات آگے چلے گی تو جواب دیجیے گا۔ آپ نے کہا کہ ۱۹۲۴ء سے پہلے خروج کی مثالیں نہیں ملتیں۔ میرا خیال ہے کہ اس میں تاریخی طو رپر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح آپ نے سوشل سائنسز کو بہت زیادہ مطعون قرار دیا تو میرا خیال ہے کہ سوشل سائنسز کو تھوڑا سا اسلام کی طرف لے آئیں یا دیکھیں کہ اس میں کتنی گنجائش ہے۔ بہرحال آپ کی گفتگو ہمارے لیے بے حد مفید ہے۔ آپ نے بنیادی طور پر یہ بات کی کہ فقہا نے جو خروج کے خلاف فتوے دیے، وہ اسلامی ریاست کے تناظر میں دیے ہیں جبکہ موجودہ مسلم ریاستوں کو اسلامی ریاستیں نہیں کہا جا سکتا۔ یہ بات ہمارے لیے قابل غور ہے۔ بہت بہت شکریہ!

ڈاکٹر رشید احمد — (شعبہ اسلامیات، پشاور یونیورسٹی)

تکفیر اور خروج کے مسئلے میں، میں تھوڑا سا علمی انداز میں کچھ پوائنٹس شیئر کرنا چاہوں گا۔ صدر مجلس نے ابتدا میں ایک دو باتیں سامنے رکھیں جو واقعی قابل غور باتیں ہیں کہ تکفیر کا جو مسئلہ ہے، کیا وہ صرف سیاسی مسئلہ ہے یااس کا کوئی مذہبی بیک گراؤنڈبھی تھا؟ ہم دیکھتے ہیں کہ فرقہ مرجۂ، قدریہ اور معتزلہ پیدا ہوئے تو میں اس حد تک آپ کے ساتھ اتفاق کرتا ہوں کہ ابتداءً اس کی سیاسی وجوہات تھیں، لیکن بعد میں یہ اچھا خاصا علم کا مسئلہ بن گئے اور اس میں مختلف فرقے پیدا ہوئے۔ اس میں خلود فی النار اور یہ چیزیں شامل تھیں۔ 
مفتی صاحب نے بھی اشارہ کیا کہ جب ایک اسلامی ریاست ہوتی ہے تو آئین اور دستور کے لحاظ سے اس کے خلاف تکفیر اور خرج کی کیا حیثیت ہوگی؟ میرے خیال میں آج بھی یہ مسئلہ اتنا ہی relevant ہے جتنا کہ پہلے کسی زمانے میں تھا۔ تکفیر کے مسئلے میں ہمیں دو چیزیں determineکرنی ہیں۔ ایک انفرادی لحاظ سے تکفیر ہے کہ آج کل انفرادی طور پر جو لوگ تکفیر کرتے ہیں تو اس کی حیثیت کیا ہوگی اور تکفیر کے میدان کون کون سے ہیں جہاں تکفیر کی جا سکتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اجتماعی طور پر جب ہم تکفیر کرتے ہیں تو اس میں ’الولاء والبراء‘ کا جو تصور ہے اور اسلامی ریاست کی جو خارجہ پالیسی ہے، وہ بھی اس میں آ جائے گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ تکفیر اور خروج ایک دوسرے سے الگ چیزیں نہیں ہیں بلکہ تکفیر کے نتیجے میں ہی خروج ہوتا ہے۔ 
تکفیر کے حوالے سے سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ قرآن وحدیث میں ایمان کی تعریف کیا ہے اور ایمان کی حقیقت کیا ہے؟ اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ سورۂ بقرہ میں دوسرے پارے میں ’لیس البر ان تولوا وجوہکم قبل المشرق والمغرب‘ اور اس قسم کی جو آیات ہیں، ان کا کیا مفہوم ہے؟ یا ایک کافر مسلمان کیسے بنتا ہے، اسلام میں کیسے داخل ہوتا ہے؟وہ کیا کہے کہ مسلمان ہو جائے؟ یا جو مومن ہوتا ہے، وہ کافر کیسے بن جاتا ہے؟ کون سے امور ہیں جن کے ارتکاب سے وہ کافر بن جاتا ہے؟ استصحاب اصول فقہ کا ایک مسلمہ قاعدہ ہے کہ ہر شخص بری ہے، اس کو مجرم نہیں کہا جا سکتا جب تک اس کے خلاف یہ ثابت نہ کر دیا جائے کہ اس نے کسی جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ تو ہم دیکھیں گے کہ جس شخص کی طرف کفر کو منسوب کیا جاتا ہے، اس نے کس سطح پر اور کس انداز میں اس کا ارتکاب کیا ہے؟ عقیدہ طحاویہ میںیہ صراحت موجود ہے کہ لا نکفر اہل القبلۃ، بلکہ السیر الکبیر میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’ثلاث من اصل الایمان الکف عمن قال لا الہ الا اللہ ان تکفروہ بذنب ولا تخرجوہ من الاسلام بعمل والجہاد ماض منذ بعثنی اللہ‘۔ 
اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ ایما ن کے نواقض چار قسم کے ہیں۔ ہمیں عملی طور پر دیکھنا چاہیے کہ وہ دائرے کون سے ہیں جن میں ہم کفر کا فتویٰ لگائیں۔ پھر میں وہی بات کہوں گا کہ انفرادی طور پرتکفیر کی حیثیت کیا ہوگی اور اجتماعی لحاظ سے تکفیر کی کیا حیثیت ہوگی؟ اگر ایک شخص اللہ کی ربوبیت کا انکارکرتاہے یا وہ اللہ تعالیٰ کے اسماء اور صفات میں کوئی کمی یا زیادتی کرتا ہے، اللہ کے علم میں کوئی نفی کرتا ہے یا عیب لگاتا ہے نعوذ باللہ یا اللہ کے لیے کوئی ایسی بات ثابت کرتا ہے کہ اس کا بیٹا یا بیٹی ہے یا الوہیت کا انکار کرتا ہے اور الوہیت پر کوئی طعن کرتا ہے تو اس سے تکفیر کی جائے گی۔ انبیاء کرام کی شان میں گستاخی ، یہ بھی تکفیر کا باعث ہے، لیکن اس کی تفصیل میں جانا ہوگا۔ یہ طے کرنا ہوگا کہ کون کون سی باتیں ہیں جن سے توہین ہوتی ہے۔ امام ابن تیمیہ نے ’’الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول‘‘ لکھی، لیکن خود ان پر توہین رسول کا الزام لگا۔ تو یہ اہم سوال ہے کہ یہ کیسے طے ہوگا کہ واقعی توہین ہوئی ہے۔ تکفیر کے ضمن میں صحابہ کرام کے خلاف بات کرنے اور گالی دینے کی بات بھی آتی ہے۔ اگر کوئی شخص تمام صحابہ کرام کو گالی دیتا ہے تو تمام فقہا کا اس پر اتفاق ہے کہ اس کے کفر میں کوئی شک نہیں۔ بعض صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کرنا اور بعض کی نہ کرنا، اس کے بارے میں طے کرنا ہوگا۔ ہم سنی یا شیعہ کا نام نہ لیں، بلکہ اصولی طور پر بات کریں کہ جس کے یہ یہ خیالات ہوں تو یہ کفر کے خیالات ہیں اور یہ فسق کے خیالات ہیں اور یہ افکار اسلام کے خلاف ہیں، بجائے اس کے کہ ہم افراد کو یا فرقوں کو ہدف بنائیں۔
آپ نے ایک بہت اچھی بات کہی کہ ایک باڈی ہونی چاہیے جس میں یہ سارا کام ہونا چاہیے۔ ہماری تو اسلامی نظریاتی کونسل سے بہت توقعات تھیں کہ یہ کام وہاں سے ہونا چاہیے کہ یہ ایک ایسا فورم ہے کہ اس قسم کے فتوے وہاں سے ایک اجتماعی شکل میں جاری ہونے چاہییں۔ 
اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ تکفیر کے جو عواقب ہیں، دو قسم کے ہیں۔ ایک تکفیر کرنے والے کے لیے اور دوسرا جس کی تکفیر کی جاتی ہے، اس کے لیے۔ جس کی تکفیر کی گئی ہے، اس کے لیے عواقب یہ ہوں گے کہ اس کا عمل حبط ہو جاتا ہے، عمل ضائع ہوجاتا ہے۔ وَمَن یَرْتَدِدْ مِنکُمْ عَن دِیْنِہِ فَیَمُتْ وَہُوَ کَافِرٌ فَأُوْلَءِکَ حَبِطَتْ أَعْمَالُہُمْ فِیْ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ وَأُوْلَءِکَ أَصْحَابُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خَالِدُونَ (البقرہ ۲۱۷)۔ یہ تو آخرت کے لحاظ سے ہے۔ اور دنیا میں اس پر ارتداد کی سزا ہوگی۔ اب ارتداد کی سزا دینا کس کا کام ہے؟یعنی انفرادی طور پر ایک شخص کسی کو کہے کہ وہ کافر ہے تو یہ کون طے کرے گا کہ واقعی کافر ہو گیا ہے؟ یہ کام عدالت کے پاس جائے گا، ریاست کے پاس جائے گا۔ تو اس کے عواقب پر بھی ہمیں بحث کرنی چاہیے۔ ایک فریم ورک اس کے لیے بھی وضع کرنا ہوگا۔
کفر اگر کسی کے اعتقاد میں ہوگا تو اللہ کو پتہ ہوگا۔ اگر وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہتا ہے، نماز پڑھتا ہے تو دل سے اس پر ایمان رکھتا ہے یا نہیں، اس کے اعتقاد کے حوالے سے ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ قول کے لحاظ سے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک شخص نے انکار ربوبیت یا انکار الوہیت کیا ہے یا انبیاء کرام یا صحابہ کو طعن کیا ہے، لیکن ایک خطرناک کام ہے تکفیر بالافعال جو آج کے حوالے سے بہت relevant ہے۔ مثلاً آج کے زمانے میں کوئی قرآن کو جلائے تو اس کے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں۔ بعض دفعہ قرآن مجید کے بہت سے بوسیدہ اوراق جمع ہو جاتے ہیں۔ میں اس کو کسی پاک جگہ پر جمع کر کے آگ لگا دیتا ہوں پھر اس پر پانی ڈال دیتا ہوں تو اس میں یہ دیکھنا پڑے گا کہ میری نیت کیا ہے۔
خروج پر بہت اچھی باتیں کہی گئی ہیں، میں ان کی تائید کرتا ہوں۔ تھوڑا اختلاف اس میں ہے کہ ضروری نہیں کہ خروج پہلے زمانے میں کم تھے اور آج زیادہ ہو گئے ہیں۔ اس پر بحث ہو سکتی ہے۔ دوسرا یہ کہ خروج اگر تاویل کے ساتھ ہو تو اس کا حکم مختلف ہے۔ خارجی فرقہ نے تاویل کے ساتھ خروج کیا، اس کی حیثیت اور ہوگی، اور جو بغیر تاویل کے کرتا ہے تو وہ راہ زن اور ڈاکو ہے۔ فتح القدیر میں تفصیل سے ان خواج کی چار categories بیان کی ہیں۔ تو یہ دیکھنا ہوگا کہ کس خروج کو ہم کس انداز میں لیں اور پھر کسی نتیجے پر پہنچیں۔
اسلامی ریاست کے خلاف جو لوگ مسلح جدوجہد کرتے ہیں، ان کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ میرے خیال میں تمام فقہا کا اس پر اتفاق ہے کہ فاسق کے خلاف خروج ہرگز نہیں ہے۔ حدیث میں صرف کفر بواح آیا ہے کہ جب تک وہ کفر بواح نہ کرے۔ فقہا نے یہ بات بہت تفصیل کے ساتھ لکھی ہے کہ جب تک کسی بات کو کسی بھی طریقے سے اچھے محمل پر محمول کر سکتے ہیں تو اس کو کرنا چاہیے، بجائے اس کے کہ ہم اسلام کے دائرے سے اس کونکال دیں۔ ابن انشا نے ’’اردو کی آخری کتاب‘‘ میں بہت اچھا لکھا ہے کہ پہلے اسلام کا دائرہ ہوا کرتا ہے اور ہم اس میں لوگوں کو داخل کرتے تھے، آج ہم لوگوں کو نکال رہے ہیں۔ اس پر غور کرنا چاہیے کہ ہر چیز پر ہم کفر کی مہر نہ لگائیں۔ جہاں تاویل کی گنجائش موجود ہے، اس کو دیں تو میرے خیال میں یہ زیادہ مناسب ہوگا۔

مولانا مفتی محمد زاہد

موجودہ حالات کے تناظر میں جس انداز سے تکفیر اور خروج کی بات ہو رہی ہے، اس کا فکری پس منظر یہ ہے کہ مسلمانوں کے جو موجودہ حکمران ہیں، وہ تحکیم بغیر ما انزل اللہ کی وجہ سے مرتد ہو چکے ہیں اور صرف یہ نہیں کہ حکمران مرتد ہیں، بلکہ پورے کے پورے ریاستی ڈھانچے ور ادارے بھی دائرۂ اسلام سے خارج ہیں، لہٰذا یہ افواج بھی اور دوسرے ریاستی ادارے بھی دائرۂ اسلام سے خارج ہیں، اس لیے ان کے خلاف جو خروج ہے، یہ ہم ایک کفریہ نظام کے خلاف خروج کر رہے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ جو بحث ہے کہ فاسق کے خلاف خروج ہوگا یا نہیں ہوگا، وہ موجودہ حالات میں جو لوگ مسلح ہیں، ہتھیار اٹھانے والے ہیں، ان کے نقطہ نظر سے کافی حد تک غیر متعلق ہے۔ 
میں سمجھتا ہوں کہ برصغیر کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو یہ سوچ یہاں کے حالات کے اعتبار سے imported ہے۔ آج سے دس پندرہ سال پہلے اس کا یہاں کوئی وجود نظر نہیں آتا۔ اصل میں التکفیر والہجرۃ کی جو فکر ہے، یہ بنیادی طور پر مصر میں پیدا ہوئی۔ ۶۰ء کی دہائی میں جمال عبد الناصر کی طرف سے جو زیادتیاں ہوئیں، جو جبر ہوا، جو تشدد ہوا، اس کے نتیجے میں مصر کی جیلوں میں یہ فکر پروان چڑھی اور آگے بڑھی۔ یہ اخوان المسلمین سے نکلے ہوئے لوگ تھے، خود الاخوان کے لوگوں کی طرف سے ان کے خلاف لکھا گیا۔ ان میں مثال کے طور پر حسن الہضیبی کی کتاب ’’دعاۃ لا قضاۃ‘‘ بڑی مشہور ہے اور اس کے بعد بھی عرب دنیا میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ ہمارے ہاں اس سوچ کو جو نشو ونما ملی ہے اور جو پذیرائی ملی ہے، وہ نائن الیون کے بعد ملی ہے۔ نائن الیون کے بعد کتوبر ۲۰۰۱ء میں جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو ا س کے نتیجے میں تحکیم بغیر ما انزل اللہ کا جو عنصر تھا، جو اس تکفیری سوچ کی اصل بنیاد تھی، اس کے ساتھ ایک دوسری چیز شامل ہو گئی کہ ہمارے جو حکمران ہیں، یہ ہمارے ایک علاقے پر ایک غیر مسلم طاقت نے قبضہ کر لیا ہے و اس کے خلاف نکلنا ضروری ہے اور جو ان سے اختلاف کرتا ہے، وہ گویا ایک طرح سے جہاد کے منکر ہیں۔ ’الولاء والبراء‘ کے نقطہ نظر کے مطابق ان کا لٹریچر اگر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ اس کو بہت ہی اہم اور بنیادی مسئلہ سمجھتے ہیں اور اس کی بنیاد پر افغانستان اور پاکستان کی افواج کو بھی مرتد افواج کہتے ہیں۔ مرتد سے کم لفظ تو شاید ان کے لٹریچر میں موجود نہیں۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں یہ سوچ اور اس سوچ کو جو پذیرائی ملی ہے، یہ پچھلے دس پندرہ سال کے درمیان ملی ہے۔ اس سے پہلے یہ موجود نہیں تھی۔ برصغیر کی سیاسی تاریخ میں علما کی جو جدوجہد ہے، اس کے تناظر میں، میں نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ آیا اس میں بھی اس فکر کے اثرات یا کوئی سراغ ملتا ہے تو شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ نے انیسویں صدی کے شروع میں ہندوستان کے دار الحرب ہونے کا فتویٰ دیا۔ اس وقت سے لے کر ۱۹۴۷ء تک کا جو دور ہے، اس دور میں اگر برصغیر کے علما کی جدوجہد کو، سیاسی جدوجہد کو اور عسکری جدوجہد کو دیکھیں اور اس کی فکری بنیادوں کو دیکھیں تو اس میں ہمیں اس سوچ کا سراغ نہیں ملتا۔ خود شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ نے جس دور میں ہندوستان کے دار الحرب ہونے کا فتویٰ دیا تو اس میں ہندوستان کے دار الحرب ہونے کا تو ذکر ہے، جہاد کا کوئی ذکر نہیں ہے اور اس کے بعد کے بھی کافی فتوے ایسے ملتے ہیں جن سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ شاہ صاحب کے پیش نظر صرف ہندوستان کی فقہی حیثیت کومتعین کرنا تھا۔ اس سے زیادہ شاید ان کی بات نہیں تھی۔ 
ہمارے ہاں یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ اگر کسی خطے پر غیر ملکی فوج یا غیر مسلم طاقت قابض ہو جائے تو فور ی طور پر عسکری آپشن اختیار کرنا ضروری ہو جاتا ہے، اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہوتا۔ فوری طور پر ایسا فتویٰ دینا علما پر لازم ہو جاتا ہے اور اسی وجہ سے جلد بازی میں بھی ہمارے ہاں فتوے دیے گئے، جبکہ شاہ عبد العزیز اور ان کے بعد کے جو اسی لائن کے علما ہیں، ان کے انداز کو اگر دیکھیں تو اس میں ہمیں یہ چیز نہیں ملتی۔ انھوں نے فقہی طور پر ایک اصطلاحی انداز میں بتا دیا کہ یہ دار الحرب ہے، لیکن آگے کی بات انھوں نے نہیں کی۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس فتوے سے بہت سے مفکرین اور علما نے اختلاف بھی کیا۔ خود شاہ صاحب کے شاگردوں کے جو حلقے تھے، مثلاً شاہ محمد اسحاق صاحب کے شاگردوں میں مولانا نذیر حسین دہلوی نے اختلاف کیا، مولانا عبد الحئی لکھنوی فرنگی محلی نے اختلاف کیا۔ ان کا بڑا مفصل فتویٰ مجموعۃ الفتاویٰ میں موجود ہے۔ اس میں انھوں نے ہندوستان کو دار الحرب قرار دینے کی رائے سے اختلاف کیا ہے۔
اسی طریقے سے جب ۱۸۵۷ء کے حالات پیدا ہوئے تو ہم سب جانتے ہیں کہ وہ باقاعدہ کسی منصوبے کا نتیجہ نہیں تھا، بلکہ اتفاقاً یہ چیزیں وہاں سے پھوٹ پڑی تھیں، حتیٰ کہ مولانامناظر احسن گیلانی نے ۱۹۵۰ء کے لگ بھگ ’’سوانح قاسمی‘‘ لکھی ہے۔ اس میں انھوں نے لکھاکہ آج سے کچھ عرصہ قبل ۱۸۵۷ء کے واقعے کو لوگوں نے جنگ آزادی کہنا شروع کر دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو جہاد آزادی یا جنگ آزادی کا جو لقب ملا، یہ بھی بہت بعد میں ملا ہے۔ میں اس تفصیل میں نہیں جاتا کہ اس کی حیثیت کیا تھی۔ میں جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ اس وقت بھی علما میں یہ مان لیا گیا تھا کہ ہمارے ہاں انگریزوں کی عمل داری قائم ہو چکی ہے۔ اس کے باوجود علما کے ایک حلقے میں اس پر غور کرنے کی باقاعدہ ضرورت محسوس کی گئی کہ آیا میں ہتھیار اٹھانے چاہییں یا نہیں اٹھانے چاہییں؟ خاص طور پرحاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کا جو ایک حلقہ تھا اور ان کا تھانہ بھون میں جو اجتماع ہوا اور مشاورت ہوئی، اس میں ابتدا کے اندر مولانا نانوتوی کے علاوہ تقریباً سب کی رائے یہ تھی کہ ہمیں ہتھیار نہیں اٹھانے چاہییں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی غیر ملکی عمل داری قائم ہو جانے کا یہ لازمی اور منطقی تقاضا نہیں ہے کہ ہتھیار اٹھا لیے جائیں، بلکہ ہتھیار اٹھانا یا نہ اٹھانا یہ الگ مسئلہ ہے۔ اگر کوئی لازمی تقاضا ہوتا تو کسی غور وفکر کی ضرورت ہی نہیں تھی، ویسے ہی اٹھا لیتے۔ 
اس کے بعد جو اہم بات ہے ، وہ یہ ہے جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں، الولاء والبراء کے حوالے سے خاص طور پر کہ اسی دور میں انگریز کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے والے، ان کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے، انگریزی حکومت کو سایہ رحمت قرار دینے والے یا ان کی تعریفیں کرنے والے ، یہ ایک فکر موجود تھی۔ ان میں سرسید احمد خان اور ان کا حلقہ سرفہرست ہے اور یہ فکر موجود تھی، لیکن اس بنیاد پر ان کے خلاف کبھی کفر کا فتویٰ آیا ہو، کم از کم میرے ناقص مطالعے میں اس طرح کی کوئی بات نہیں آئی۔ اس دور میں انگریز فوج کے اندر ہندوستانی بھرتی ہوتے تھے، مسلمان بھی بھرتی ہوتے تھے۔ خاص طور پر جہلم سے لے کر اوپر تک ہماری جو پوری لائن ہے، یہ اس زمانے میں اس حوالے سے بھی بڑی معروف تھی۔ انگریزوں کی باقاعدہ چھاؤنیاں تھیں۔انگریز افسر تو بہت تھوڑے ہوتے تھے۔ سپاہی اور چھوٹے رینک کے افسر زیادہ تر دیسی ہوتے تھے۔ ا ن میں مسلمان بھی ہوتے تھے۔ چھاؤنیاں بھی موجود تھیں، لیکن ان فوجی چھاؤنیوں کو اس طرح کے خطرات نہیں تھے اور برطانوی دور میں اتنے سکیورٹی کے انتظامات نہیں کرنے پڑے جو آج ہمیں اپنی چھاؤنیوں کے اندر نظر آتے ہیں، جبکہ یہ جو فوج ہے، بہرحال مسلمانوں کی کمان کے اندر ہے،اور اس وقت جو فوج تھی، وہ باقاعدہ برطانوی فوج کے اندر بھرتی ہورہے تھے۔ یہ فتوے تو ملتے ہیں کہ برطانوی فوج میں بھرتی ہونے کو ناجائز قرار دیا گیا، لیکن اس بنیاد پر تکفیر کی گئی ہو کہ فوج مرتد ہو گئی ہے، اس لیے جہاں بھی چھاؤنی ملے، جا کرخود کش حملہ کر دو، اس طرح کی سوچ ہمیں نہیں ملتی۔
ایک اور چیز کا میں ذکر کروں گا۔ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی جب مالٹا سے واپس آئے تو جہاز سے اترتے ہی ایک عالم نے ان سے ملاقات کی اور ملاقات کا مقصد شیخ الہند کو یہ سمجھانا تھا کہ آپ جو انگریزوں کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں، اس کو ترک کر دیں اور اطمینان سے گھر میں بیٹھیں۔یہ مشورہ دینے والے صاحب مولانا رحیم بخش صاحب تھے جو بہاولپور کی ریاست میں بڑے عہدے پر فائز تھے۔ ان کے بارے میں مولانا حسین احمد مدنی کے ایک سوانح نگار نے جو انھی کے خاندان کے ہیں، مولانا فرید الوحیدی، انھوں نے ان کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ریاست بہاولپور میں مدار المہام تھے۔ حضرت گنگوہی کے متوسلین میں اور علماے کرام کے بڑے معتقد تھے، تاہم حکومت برطانیہ کے خیر خواہ اور معتقد تھے۔‘‘ اس کے ساتھ انھی کے بارے میں ایک اور بات بھی ملتی ہے۔ مولانا مدنی کے والد، مولانا حبیب احمد صاحب کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے جب وہ کسی زمانے میں حج کے لیے آئے تو اتفاق سے اسی زمانے میں نواب صاحب بہاولپور بھی حج وزیارت کے لیے حاضر ہوئے تھے۔ اس دور میں حضرت مدنی کے والد کے حالات کافی کمزور تھے۔ لکھتے ہیں کہ نواب بہاولپور کے وزیر اعظم مولانا رحیم بخش (وہی جو حکومت برطانیہ کے معتمداور خیر خواہ تھے) ’’بڑے عالم، متقی اور باخدا شخص تھے۔‘‘ ان کو مولانا حبیب احمد صاحب سے خصوصی تعلق اور عقیدت ہو گئی اور نواب صاحب آئے تو موصوف نے ان کی جانب سے بھی دس روپیہ ماہوار کا وظیفہ مقرر کروادیا۔
ایک دو باتوں کی طرف توجہ دلا کر اپنی بات کو ختم کرتا ہوں۔ ہمارا جو دور ہے، ظاہر ہے کہ یہ وطنی ریاستوں کا دور ہے اور فوری طور پر ہم اس صورت حال سے نکل نہیں سکتے۔ دوسرا یہ بھی ظاہر ہے کہ جمہوریت کا دور ہے۔ جمہوریت میں بڑی خرابیاں، بڑے مفاسد بیان کیے جاتے ہیں اور بڑی تنقید کی جاتی ہے۔ وہ ساری تنقید اپنی جگہ، لیکن میں جس چیز کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ ہمارا جو اسلامی قرون وسطیٰ کا دور ہے، اس میں جو ہمارے حکومتی نظام تھے، ان کا جمہوریت کے ساتھ ایک تقابلی مطالعہ کرنا چاہیے کہ کیا وہ واقعی جمہوریت سے بہتر تھے اور کیا ان میں موجودہ جمہوریت سے کم مفاسد تھے؟ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر اس طرح کی کوئی ریاست ہو جس طرح کی عثمانیوں کے دور میں تھی، عباسیوں کے دور میں تھی یا سلجوقی تھے، صفوی تھے، مغل تھے، اگر اس طرح کا ہمارے ہاں سسٹم آ جائے تو اس کے خلاف خروج کی ممانعت والی بات درست متعلقہ بحث ہوگی اور جمہوری دور میں یہ غیر متعلقہ ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمیں ان دونوں نظاموں کا ایک تقابلی مطالعہ کرنا چاہیے اور جتنا ہم اپنے حال کا تنقیدی جائزہ لے رہے ہیں کہ جمہوریت میں کیا کیا خرابیاں ہیں، اسی طرح ہمیں اپنی تاریخ کا بھی تنقیدی مطالعہ کرنے یا تنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
مولانا مناظر احسن گیلانی کی تصوف پر جو کتاب ہے ’’مقالات احسانی‘‘، اس میں انھوں نے بڑی عجیب وغریب مثالیں ذکر کی ہیں اس دور کے حکمرانوں کے اللے تللے کی۔ ایک عباسی خلیفہ کے بیٹے کی شادی ہوئی سلجوقیوں کی طرف تو اس کی بارات کے موقع پر فضول خرچی کے حالات لکھے ہیں۔ اندلس کے ایک امیر کا واقعہ المنتظم لابن الجوزی کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس کی بیوی نے دیکھا کہ ایک مزدور عورت عمارت کے لیے گارا بنا رہی ہے اور اس کے اندر گھسی ہوئی ہے۔ وہ اپنے پاؤں سے اس میں گھس کر گارا بنا رہی تھی۔ امیر کی بیوی کو بھی شوق ہوا کہ میں نے بھی ایسا کرنا ہے تو امیر اندلس نے باقاعدہ منوں کے حساب سے کستوری منگوائی اور اس میں پتہ نہیں کون سا عرق ڈلوایا اور بیوی سے کہا کہ لو، اس میں تم بھی گھس جاؤ۔ آج ہمارے صدر زرداری صاحب کے گھر میں اس طرح کی عیش وعشرت کا ایک لاکھواں حصہ بھی اگر ہو رہا ہو تو میرا خیال ہے کہ سارے چینل چیخ رہے ہوں گے۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک مسلمان معاشرے میں منکر کے خلاف ایک الرجی ہونی چاہیے۔ ا س الرجی کا اظہار جمہوریت میں زیادہ ہوتا ہے بہ نسبت اس طرحکی آمریتوں کے یا اس طرح کی مطلق العنان بادشاہتوں کے جن میں اینٹی الرجک گولیاں اور دوائیاں دے دی جاتی ہیں۔ اینٹی الرجک دوائیاں دو طرح کی ہوتی ہیں۔ خواب آور بھی ہوتی ہے اور غیر خواب آور بھی۔ تو وہ گولیاں لوگوں کو دے دی جاتی ہیں اور ہم آج تک ان گولیوں سے مسحور ہیں کہ ان کے خلاف تو خروج جائز نہیں تھا اور آج ہماری جمہوریت چونکہ بہت گندی ہے، بہت بری ہے، اس لیے اس کے خلاف خروج جائز ہے۔ ٹھیک ہے، جہاں سے یہ جمہوریت آئی ہے، اس کی فکری بنیادیں الگ ہوں گی، لیکن جس معاشرے میں کوئی نظام جاتا ہے تو وہ اپنی فکری بنیادوں کو ساتھ لے کر نہیں جاتا۔ وہاں جا کر اپنے آپ کو بدلتا ہے، وہاں کے حالات کو اپنے سامنے رکھتا ہے۔ اس بات کو ضرور مدنظر رکھنا چاہیے۔ اسی پر میں اپنی بات کو ختم کرتا ہوں۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز

بڑی مفید گفتگو ہو رہی ہے اور سچی بات ہے کہ بہت کچھ سیکھنے کو مل رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم لازماً یہ اعزاز عامر رانا صاحب اور مجتبیٰ راٹھور صاحب کو دیں گے کہ اس قسم کے حالات میں جب کہ پاکستان میں خوف کی وجہ سے یا عدم دلچسپی کی وجہ سے اہل علم کا ایک ساتھ بیٹھنا مشکل ہو گیا ہے، انھوں نے ایک جدید موضوع پر بہت ہی قابل قدر دانش ور، علماء کرام کو جمع کیا ہے۔ 
اس وقت جو صورت حال ہے مسئلہ تکفیر وخروج کے حوالے سے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ اسی طرح متعلق ہے جس طرح ۱۹۲۴ء سے پہلے تھی۔ چونکہ جس جانب سے تکفیر وخروج کی بحث آ رہی ہے، وہ بھی اس مسئلے کے لیے فقہی دلائل ہی دے رہے ہیں تو جب وہاں سے دلائل فقہی ہیں تو ظاہر ہے کہ ہمیں اس موضوع کو فقہی تناظر میں ہی دیکھنا ہوگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ۱۹۲۴ء کے پہلے کے جو حالات تھے، اگر ہم اس کو صحیح اسلامی میزان میں دیکھیں تو وہ نام کی خلافت تو بے شک تھی، لیکن خلافت علیٰ منہاج النبوۃ نہیں تھی۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اس وقت جو خلفا تھے، خواہ وہ اموی ہوں یا عباسی یا عثمانی، اور ہمارے جو مسلم حکمران تھے، صفوی تھے، سلجوقی تھے، غوری تھے، غزنوی تھے، وہ خالصتاً اسلامی طرز خلافت کے مطابق آئے تھے یا اس کے مطابق حکومت کر رہے تھے؟ لیکن ہمارے فقہا نے اسی تناظر میں اور انھی حالات میں کام کیا اور فقہا نے انھی حالات کے اندر رہ کر اصلاح کی کوشش کی۔انھوں نے جس طریقے سے توسع سے کام لے کر مسلمانوں کی راہنمائی کی، اس میں ہمارے لیے ۱۹۲۴ء کے بعد بھی راہ نما اصول موجود ہیں۔
اس وقت جو تکفیر وخروج کا موجودہ تناظر ہے، ہم یہ دیکھیں گے کہ خطے کے حالات میں پاکستان میں بھی تکفیر اس وقت موجود ہے۔ ہم اپنے آپ کو افغانستان سے لاتعلق نہیں رکھ سکتے۔ پاکستان میں یہ سوچ نائن الیون سے بھی پہلے موجود ہے۔ جب بحیثیت جماعت ایک بہت بڑا فتویٰ آیا کہ شیعہ کافر ہیں اور دیواروں پر لکھا گیا کہ شیعہ کافر ہے اور پھر اس کے لیے یہ بڑے بڑے علما کے پاس گئے اور ان کے دستخط بھی حاصل کیے۔ کچھ علما ایسے تھے جنھوں نے حکمت اور مصلحت کے ساتھ اس فتوے سے اپنے آپ کو محفوظ کر لیا، لیکن وہ بھی یہ جرات نہ کر سکے کہ کھلم کھلا ان سے کہہ دیں کہ آپ کے فتوے سے ہمیں اتفاق نہیں ہے۔ انھوں نے یہ کہا کہ بھئی، آپ نے یہ فتویٰ اگر لکھنا ہے تو پھر اس کو ذرا وضاحت سے لکھو اور اس میں وہ بڑے بڑے نام بھی شامل کر لو جو شیعہ تھے، لیکن ہمارے قائدین تھے۔ آپ کو معلوم ہے کہ اس میں بڑے بڑے نام آتے ہیں۔ جب معذرت کی گئی کہ ہم نام شامل نہیں کریں گے تو اس طرح فتویٰ دینے والوں کی جان چھوٹ گئی جو نہیں چاہتے تھے کہ اس فتوے پر دستخط کریں۔
نائن الیون سے پہلے تکفیر وخروج کا جو مسئلہ تھا، یہ افغانستان میں بھی موجود تھا۔ نائن الیون سے پہلے طالبان کی حکومت تھی تو طالبان نے ان لوگوں کو جو ان کی حکومت سے اختلاف کرتے تھے، ان کو باقاعدہ باغی قرار دیا اور یہ کہا کہ یہ ہمارے خلاف خروج کر رہے ہیں۔ ان میں پھر کچھ ایسے لوگ تھے کہ جن کو انھوں نے جہاز میں بٹھا کر جہاز سے پھینک دیا۔ وہ جہاز سے گر کر مر گئے۔ تو یہ تکفیر وخروج کا جو مسئلہ ہے، یہ اس وقت سے موجود ہے۔ پھر ماضی قریب میں یہ ہوا کہ ایک بندہ آیا اور اس نے خود ہی یہ فیصلہ کیا کہ فلاں بندہ اہانت رسول کا مرتکب ہوا ہے۔ وہ خود مدعی بنا، خود ہی وکیل بنا، خود قاضی بنا اور خود ہی اس نے جلاد کا کام کیا اور سزا نافذ کر دی۔ تو یہ تکفیر کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔
ہم نے یہ سوچنا ہے کہ بعد از امریکہ جو افغانستان کے حالات آنے والے ہیں، اس میں کیا صورت ہونی چاہیے؟ کیا اس میں بھی یہ تکفیر اور خروج کا سوال آئے گا یا نہیں کہ بعد ا زامریکہ افغانستان میں کس قسم کی حکومت ہونی چاہیے اور کس قسم کی نہیں؟ ظاہر ہے کہ پاکستان میں ہمارے جو علما ہیں، انھوں نے اب سے اس حوالے سے سوچنا ہے ، کیونکہ امریکہ نے ساری عمر یہاں نہیں رہنا۔ ایک نہ ایک دن جانا ہے۔ جس طرح انھوں نے عراق سے نکلنے کی راہ اختیارکی، ایسے ہی افغانستان میں بھی وہ نکلنے کے حالات بنانے کی کوشش کریں گے۔ یہاں سے بہرحال امریکہ نے ایک نہ ایک دن نکلنا ہے۔ تو علمائے کرام اس حوالے سے ہماری راہنمائی کریں۔
حضرت نے فرمایا کہ مسلح جدوجہد انگریزوں کے دور میں تھی، لیکن ہم نے دیکھا کہ وہی علما جنھوں نے مسلح جدوجہد کی حمایت کی، ان کے لیے مددطلب کی، بلکہ ہمارے ہاں بالخصوص وزیرستان میں کچھ علما تھے، ان کا انگریزوں کے خلاف جرمنوں سے رابطہ تھا او ر اس وقت کی جو دستاویزات سامنے آئی ہیں، ان کے مطابق جرمن باقاعدہ ان کی مدد کرتے تھے۔ وہ علما بھی بہرحال بعد کی دہائی میں پرامن جدوجہدکی طرف آئے اور انھوں نے باقاعدہ کانگریس سے الحاق کر کے اور آئینی ودستوری جدوجہد کے راستے سے اپنے ملک کی آزادی کے لیے اپنا کردار اداکیا۔ 
ایک بات جو میں اس مجلس کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، یہ ہے کہ اس وقت تکفیری ذہن کے لوگ جو خیبر پختون خوا سے متصل قبائلی علاقوں میں ہیں، ان کے بارے میں یہ بات ہمارے ذہن میں ہونی چاہیے کہ ان میں علما کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ میں ایک ایک کا نام آپ کو بتا سکتا ہوں۔ مثلاً بیت اللہ محسود عالم نہیں تھا۔ حکیم اللہ محسود عالم نہیں ہے۔ منگل باغ ایک بس کا کنڈکٹر تھا۔ سوات کا فضل اللہ وہ کشتی کا ملاح تھا اور ایک کنارے سے دوسرے کنارے پر لوگوں کو لے جاتا تھا۔ کوئی عالم نہیں تھا۔ اگر کوئی مسجد میں بیٹھ کر چند کتابیں پڑھ لے تو اس کو آپ ہرگز عالم نہیں کہہ سکتے۔ تو یہ جو تکفیری معاملات ہیں، یہ ہرگز علما کے پاس نہیں ہیں۔ یہ نیم حکیم خطرۂ جان نیم ملا خطرۂ ایمان والے لوگ ہیں۔ علما وہ تھے جنھوں نے ان کو سمجھانے کی کوشش کی اور پھر وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔مولانا حسن جان ہیں، کراچی کے کچھ علما ہیں جن میں مفتی نظام الدین شامزئی ہیں۔ ایک اور بہت بڑے عالم آئینی جدوجہد کے ذریعے تبدیلی لانے کی کوشش کرتے ہیں تو ان پر قاتلانہ حملے ہوئے اور حملے کرنے والے لوگ انھی دینی مدرسوں میں موجود اور محفوظ ہیں۔ ہمارے ہاں سب لوگ ان کو جانتے ہیں۔
اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ غیر محسوس طریقے سے ہمارے دینی طبقے اور ہمارے دینی مدارس میں حنفیت کی جگہ سلفیت کی سوچ آ گئی ہے۔ ان کو اس کا ادراک اور علم نہیں ہے۔ سلفیت کی سوچ آ گئی اور حنفیت کی سوچ تقریباً پس منظر میں جا چکی ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ حنفی سوچ کا احیا ہو اور ایک قسم کی سعی ہو۔ امام ابوحنیفہ کی جو سیاسی فکر ہے، اس میں اب تک صرف ایک کتاب مولانا مناظر احسن گیلانی کی ہے۔ میں خود کو ان کے پایے کا نہیں سمجھتا، ان کی خاک پا کے برابر ہوں، لیکن وہ کتاب ہمیں کسی نتیجے تک نہیں پہنچاتی۔ وہ کتاب بہت گنجلک ہے۔ اس کتاب میں دلائل کے درمیان ربط نہیں ہے۔ اس میں ثانوی مآخذ کو استعمال کیا گیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جید علماء کرام کی ایک ٹیم ہو جو امام ابوحنیفہ کی فکر پر کام کرنے کی کوشش کرے۔ اسی طریقے سے امام ابن تیمیہ کی سوچ کا اگر عمیق جائزہ لیا جائے تو جس طرح یہ لوگ اس سے استنباط کرتے ہیں، اس استنباط کے اندر بھی بڑی خامیاں ہیں اور بہت کمزوریاں ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ازسرنو اس کا جائزہ لینے کی کوشش کریں۔
تیسری بات یہ کہ مجتہد کے بارے میں یہ بات بالکل صحیح ہے کہ اس کے لیے اجتہاد کی گنجائش ہے، لیکن جو لوگ تکفیر کے حوالے سے کردار ادا کر رہے ہیں، وہ ہرگز مجتہد نہیں ہیں۔ ان کا علمی معیار میں نے آپ کے سامنے رکھا ہے۔ اور اگر کوئی مجتہد ہو بھی تو ہمارے فقہا نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ اجتہاد میں خطا کا احتمال موجود ہوتا ہے اور مجتہد کو ہرگز اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنے اجتہاد کی ’’تحمیل‘‘ یعنی زبردستی نفاذ کی ذمہ داری بھی اپنے کندھوں پر لے لے۔
ایک اور بات ذہن میں آ گئی کہ ہم اس وقت سرمایہ دارانہ نظام میں جی رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت جو دنیا ہے، گلوبلائزڈ دنیا یہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت جی رہی ہے۔ حال ہی میں مغرب میں چھوٹی سی ایک تحریک اٹھی وال اسٹریٹ کے خلاف، لیکن میں نہیں سمجھتا کہ یہ تحریک کامیاب ہوگی۔ سرمایہ دارانہ نظام اس وقت موجود ہے اور اب ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ یہ جو سکہ رائج الوقت ہے، یہ جو نظام ہے، اس کے اندر رہتے ہوئے بہتری کی کیا صورت اور کیا کوشش ممکن ہے۔ عزیمت کا راستہ بے شک یہی ہے کہ کوئی ایسی صورت ہو کہ ہم اس نظام کی طرف دوبارہ لوٹ جائیں، لیکن جب تک نہ جا سکیں، اس وقت تک بہتری کی کیا صورت ہوگی؟ وہی ہوگی جو فقہا نے ہمیں بتائی ہے۔ ۱۹۲۴ء تک جو نظام تھا، خلافت راشدہ علیٰ منہاج النبوۃ نہیں تھا، لیکن اس میں اصلاح کی کوشش اور بہتری کی کوشش ہوئی۔ 

ڈاکٹر خالد مسعود

اب ہماری سوال وجواب کی نشست ہے۔ میں چاہوں گا کہ تفصیلی بحث کے بجائے اصولی بات کریں۔ چند سوالات میں اٹھاتا ہوں۔
ایک توہمارا جو بنیادی مسئلہ ہے تکفیر وخروج کا، اس کے اور بھی بہت سے تاریخی پہلو ہیں، لیکن اس کو موجودہ تناظر میں خاص طور پر رکھنا ہے۔ موجودہ تناظر میں یہ بات یاد رہے کہ یہ ایک بہت ہی مخصوص تناظر ہے۔ اس میں ہم فکری دلائل کو کس طرح عمومی حیثیت دیں گے اور کس طرح انھیں ان خاص حالات پر منطبق کریں گے۔ پاکستان کے بھی اپنے مخصوص حالات ہیں اور اس خطے کے بھی مخصوص حالات ہیں اور عالمی طور پر بھی۔ اس میں ہمیں یہ سوال ہوگا کہ کیا جو فقہی آرا ہیں یعنی فقہا کی آرا، وہ ایسی عمومی ہیں کہ ہر دور میں وہ آئیں گی اور اگر وہ ایسی ہیں تو پھر ہمارے جو خاص حالات ہیں، ان میں وہ کیسے آئیں گی؟ مثلاً کفر کے بارے میں مختصراً عرض کروں گا کہ قرآن کریم میں کفر دو اصطلاحوں میںآیا ہے۔ ایک تو کفر اس معنی میں کہ ایمان کے خلاف ہے۔ دوسرا جو زیادہ استعمال ہوا ہے، وہ کفر بمقابلہ شکر ہے اور ہم اس کو کبھی بھی زیر بحث نہیں لاتے۔ میرا خیال ہے کہ کفر کا جو کلامی اور خاص طور پر تاریخی پس منظر ہے، اس میں ان سب کے معانی بدل گئے ہیں۔ 
اسی طرح عدل ہے۔ عدل کے بارے میں جو یونانی فکر تھی اور اس میں جو ظلم کا تصور تھا، وہ یہ تھا کہ دنیا میں ایک نظام ہے اور ہر شخص کا ایک مقام ہے۔ اس کے مطابق اس کو جگہ دی جائے۔ یہ قرآن مجید کا تصور نہیں ہے۔ یہ وہاں سے لیا گیا ہے اور ہم نے اس کے لحاظ سے عدل کی تعریف کی۔ اس طرح کی بہت سی چیزیں ہمیں دیکھنی ہیں کہ جن کو آج کے دور میں ہم کیسے تطبیق دے سکتے ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام کی بہت بات ہوئی، لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ ہمارے دور جدید کی تاریخ میں علما نے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف تو ضرور بات کی ہے لیکن چاہے اخوان المسلمون کی تحریکیں ہوں، چاہے جماعت اسلامی کی تحریک ہو، عالمی نظام میں انھوں نے جو خروج کیا، وہ سوشلسٹ نظام کے خلاف کیا، سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف نہیں کیا۔ یہ جتنی بھی بحثیں ہیں، امام ابن تیمیہ کا احیاء اور ان کی فکر کا احیا اور سلفیت کا احیا، یہ سارا اس وقت ہوا جب سرمایہ دارانہ نظام کو خطرہ تھا جمال عبد الناصر سے اور سوشلسٹ سسٹم سے۔ اس وقت یہ تحریکیں اٹھیں اور انھوں نے پورے اسلام کی جو تعبیر تھی، وہ اس انداز سے کی کہ سرمایہ دارانہ نظام کو مدد ملی۔ مثلاً سید قطب کی کتاب ’’العدالۃ الاجتماعیۃ‘‘ کے بارے میں ان کے بھائی کہتے ہیں کہ میری یہ خواہش تھی کہ یہ کتاب نہ چھپتی۔ وہ کتاب اگر آپ دیکھیں تو سید قطب کے افکار میں اس کتاب کی اہمیت کا کہیں بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔ تومیرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی مخالفت ضرور ہوئی ہے، لیکن اصلمیں وہ مخالفت سوشلسٹ نظام کے خلاف تی اور اس میں دراصل سپورٹ امریکا کو ہوئی، چاہے وہ عرب کا علاقہ ہو، چاہے افغانستان کا۔ وہ جو نظام تھا کولڈ وار کا، اس میں ہم نے حصہ لیا اور اس میں اسلام فریق بن گیا۔ چنانچہ اس نظام کولڈ وار ٹو پاور ختم ہونے کے بعد سارا نزلہ ہم پر گر گیا۔ 
اس بحث میں دوسرا سوال جو بہت اہم اٹھا ہے، وہ یہ کہ علما کا کردار کیا ہوگا؟ علما ہیں کون؟ زیادہ تر بحث کا جو اس وقت ابہام ہے، وہ اس وجہ سے ہے کہ جو بحث کے محرک ہیں اور جو بحث میں شامل لوگ ہیں، ان کا اپنا علم کا معیار یا اجتہاد کا معیار کیا ہے؟ اس کے بارے میں کوئی نہیں پوچھ رہا اور ان کے جو دلائل ہیں، وہ چونکہ ہمارے فقہا کے حوالے دیتے ہیں، قرآن وحدیث کے حوالے دیتے ہیں، اس لیے ہم اسے کافی سمجھتے ہیں۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ جو ہمارے فقہا تھے، ان کی ان selected دلیلوں کے پیچھے ان کا تصور کیا تھا۔ چنانچہ یہ بڑا اچھا سوال ہوا کہ دو قطب ہیں۔ ایک امام ابوحنیفہ اور ایک امام ابن تیمیہ۔ دونوں کی سیاسی فکر کا گہرا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ہمارا جو برصغیر کے علما کا جو کردار ہے، اس کو بھی بہت غور سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ اس میں بدقسمتی سے دو قسم کی رائیں بن گئی ہیں۔ ا س لحاظ سے بھی ہم اس کو دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ ہیں جو اس ساری کوشش کو مسلح جدوجہد کے طور پر لیتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو اس کو دوسرے انداز سے لیتے ہیں، صلح کلی انداز سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ اس بات کو بھی explain کرتی ہے کہ علما پھر کانگریس کے ساتھ کیوں چلے گئے۔
یہ چیزیں سامنے آئی ہیں جو بہت ہی اہمیت کی حامل ہیں۔ یہ چند نکات میرے فہم میں آئے تھے۔ اب میں چاہوں گا کہ آج کی بحث میں جو اصولی نکتے اٹھے ہیں، باقی لوگ بھی ان پر بات کریں۔

محمد مجتبیٰ راٹھور

ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب سے ایک بات کی وضاحت چاہوں گا کہ انھوں نے فرمایا کہ جو لوگ یہ دلائل پیش کرتے ہیں یا جو لوگ ان کے حامی ہیں، وہ علما نہیں۔ آپ اہل علم حضرات بیٹھے ہیں۔ میں صرف یہ پوچھنا چاہوں گا کہ ان کو انھی نکات پر جو علماء کرام کی خاموش تائید حاصل ہے، کیا وہ سمجھتے ہیں کہ اہل علم بھی ان کو سپورٹ کرتے ہیں یا نہیں؟ وہاں سے وہ فتوے جاری کرتے ہیں اور پاکستان میں جو حضرات بیٹھے ہیں اور جو بڑے بڑے لوگ ہیں، ان کے بارے میں جو خاموش تائید دیتے ہیں، ان کے بارے میں کیا رائے ہے؟

محمد عامر رانا

مفتی زاہد صاحب نے ایک مسئلہ اٹھایا ہے کہ یہ نائن الیون کے بعد کا مسئلہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ نائن الیون سے پہلے بھی یہ بحث شروع ہو گئی تھی۔ میرے محدود علم کے مطابق ۱۹۹۱ء اور ۱۹۹۳ء دو ایسے سال ہیں جب پشاور میں مختلف عرب مجاہدین کے گروپوں کے درمیان تصادم ہوا اور دونوں تصادموں کے نتیجے میں پاکستانی حکومت نے کچھ عرب مجاہدین کو یہاں سے نکالا جس پر بہت سی مذہبی جماعتوں سیاسی جماعتوں نے احتجاج بھی کیا۔ ایک واقعے میں سترہ عرب افراد کو جن میں دو سال کی بچی اور تین سال کا بچہ بھی تھا، ان کو دھماکے سے اڑا کر رکھ دیا گیا اور یہ مسئلہ وہی تھا کہ جو بحث مصر کی جیلوں میں چل رہی تھی، وہی بحث یہاں شروع ہوئی تھی تکفیر کے مسئلے پر تو لامحالہ ان کا تعلق جن افغانستان کے مجاہدین سے تھا اور پاکستان کے مجاہدین سے تھا، اس کے افراد اس میں آنا شروع ہو گئے۔عبد اللہ عزام کی شہادت کے پیچھے شبہ یہ ہے کہ بنیادی طور پر اس کا محرک یہی بحث تھی۔ اس وقت جو عربی رسائل تھے، ’’بنیان مرصوص‘‘ اور عبداللہ عزام صاحب کا اپنا رسالہ ’’الجہاد‘‘ تھا، ان میں ان بحثوں کے ابتدائی نقوش واضح ہوتے ہیں کہ کس تناظر سے اس کو دیکھا جا رہا تھا۔ پھر بہت سے عربی اور مذہبی مدارس کے رسائل میں ایک بحث شروع ہوئی تھی۔ حسن مدنی صاحب کو پتہ ہوگا۔ وہ کشمیر کے جہاد پر ہوئی تھی اور اسی قسم کے دلائل دیے گئے تھے۔
جہاں تک ان کے علمی معیار کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت جو دو کمانڈر ہیں، ولی الرحمن اور مولوی فقیر محمد، ان کے علاوہ کوئی بھی مدرسے کا گریجویٹ نہیں ہے، لیکن ان کی طاقت ان کا اپنا علمی معیار نہیں ہے۔ ان کے پیچھے وہ لوگ ہیں۔ اگر ان کے ذرائع آپ کی پہنچ میں ہوں، چاہے وہ ’’نوائے افغان جہاد‘‘ کی صورت میں ہوں چاہے ’’حطین‘‘ کی صورت میں یا جو ویڈیوز آ رہی ہیں اور آن لائن مل جاتی ہیں، بے شک وہ طالبان کی ہوں یا القاعدہ کی یا عربوں کی ہوں، بنیادی طور پر اس پوری فکر کی قوت وہ ہیں۔ ’’حطین‘‘ اور ’’نوائے افغان جہاد‘‘ کے جو مضامین ہیں تکفیر اور خروج کے مسئلے پر، ان کے علمی دلائل اور ان کا اکیڈمک فریم ورک خاصا مضبوط ہے۔
ایک اور بحث جو خروج کے حوالے سے ہے، یہ سوال تمام شرکا سے بھی ہے کہ یہ بحث جو ہمارے ہاں آئی ہے، وہ بھی یہاں سے پیدا نہیں ہوئی۔ جیسا کہ تکفیر کی کہ مصر کے اثرات آئے۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ حزب التحریر کے ذریعے آئی ہے یا المہاجرون کے ذریعے آئی ہے۔ جتنے بھی دلائل ہیں، وہ سارے وہی دلائل ہیں جن کا مفتی زاہد صاحب نے ذکر کیا ہے کہ ہمارے ہاں شاید تناظر مختلف تھا موضوعات کو دیکھنے کا۔ تو میری گزارش ہوگی تمام معزز علماء کرام سے کہ اس کو اس حوالے سے دیکھا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر حسن مدنی

خالد مسعود صاحب نے فرمایا ہے کہ اسلام میں عدل کا جو تصور ہے، وہ یونانی فلسفے کے تناظر میں آیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان جو حضرت علی نے بیان کیا ہے، وہ یہ ہے کہ ’کتاب اللہ فیہ نبا ما قبلکم وخبر ما بعدکم وحکم ما بینکم‘۔ اس کے آخر میں آتا ہے کہ: ’من حکم بہ عدل ومن دعا الیہ ہدی الی صراط مستقیم‘۔ تو اسلام میں عدل کا تصور موجود ہے۔ قرآن کریم کی آیت بھی ہے: ’ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ہم الظالمون‘۔ تو ظلم براہ راست مخالف ہے عدل کے۔ تو اسلام میں عدل کا ایک بڑا واضح تصور ہے بلکہ سعودی علما نے اس پر بڑی بحث کی ہے کہ مساوات کا جو لفظ ہے، وہ اسلامی نہیں ہے بلکہ اصل اسلامی اصطلاح تو عدل ہے۔ مساوات تو ایک مغربی اصطلاح ہے۔ مرد وزن کے درمیان عدل ہونا چاہیے، مساوات کی اصطلاح مناسب نہیں۔ شیخ محمد یاسین کی اس پر مستقل کتاب ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ ہمارے ہاں عدل کا کوئی مستقل تصور نہیں، میں اس بات پر جناب خالد مسعود صاحب سے سوال کرنا چاہتا ہوں کہ اسلام ہمیں عدل کا ایک واضح تصور دیتا ہے اور یہ یونانی فلسفے کے علاوہ مستقل بالذات ہے اور قرآن وسنت پر قائم ہے۔
عدل کا تصور جو ہمارے ہاں اہل سنت میں ہے، وہ یونانی فکر سے نہیں آیا۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ کن کے ہاں تصور عدل یونانی فکر سے آیا ہے۔ اسلامی تاریخ میں دو گروہ ایسے ہیں جنھوں نے عدل کو بطور independent اصول کے، اسلامی احکامات اخذ کرنے کے لیے قبول کیا۔ وہ ہیں معتزلہ اور اہل تشیع حضرات۔ ان دونوں کے ہاں عدل بطور ایک انڈی پینڈینٹ اصول کے موجود ہے اور اسلامی احکامات اخذ کرنے کے لیے اسے معیار ماناجاتا ہے کہ فلاں چیز شریعت میں جائز ہے یا نہیں۔ ان کے ہاں شریعت سے ماورا عدل کا ایک تصور موجود ہے جو انھوں نے یونانی فکر سے اخذ کیا ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں آپ دیکھیں گے کہ اہل سنت والجماعت کے ہاں عدل بطور ایک انڈی پینڈنٹ اصول شریعت کے بالکل موجود نہیں ہے، حالانکہ اہل سنت نے عدل کو ہمیشہ شریعت ہی کے تناظر میں پیش کیا ہے۔ یہ بڑا بنیادی فرق ہے۔ شیعہ فکر پر جس طرح علم الکلام کا اور منطق کا اثر ہوا ہے، ورنہ ہمیں فخر ہے اس بات پر کہ ہمارے ہاں امام ابو الحسن الاشعری اور امام غزالی جیسے لوگ پیدا ہوئے جنھوں نے یونانی فکر کے تہافت واضح کر دیا تھا۔اہل سنت کے ہاں کوئی ایسی چیز موجود نہیں کہ انھوں نے اپنا تصور عدل یونانی فکر سے ماخوذ کیا ہو۔
ایک چھوٹا سا سوال اور بھی کہ یہاں ہمارے لیے کسی مخصوص مکتب فکر کے افکار کی تحقیق کے لیے کہ فلاں حوالہ فلاں مکتب فکر میں تھا، فلاں میں نہیں تھا، میرا خیال ہے کہ اہل علم کو یہ مناسب نہیں ہے۔ اگر کوئی حوالہ سلفیت کی طر ف سے آیا یاحنبلیت کی طرف سے آیا ہے تو اگر حالات ہمارے ہاں وہ آ گئے ہیں تو وہ استدلال بھی ہمارے پاس آ سکتا ہے۔ میں صرف ایک اشارہ کرنا چاہوں گا کہ وہ مسئلہ جو اخوان المسلمون میں ۱۹۶۵ء میں آیا تھا، اخوان المسلمین کا فکری رابطہ پاکستان میں جماعت اسلامی سے تھا، لیکن جماعت اسلامی میں وہ رابطہ آج پینتالیس سال میں بھی ہیں پہنچا۔ وہ اقامت دین اور تکفیر کے اس نظریے کے آج بھی قائل نہیں ہیں۔ اصل میں بنیادی رابطہ وہ حنفیت میں تھا۔ بعد میں حنفیت پر بھی ظلم ہوا۔ تو بنیادی قدر مشترک جو ہے، وہ نظریہ اقامت دین نہیں ۔ قدر مشترک نظریہ تحکیم بغیر ما انزل اللہ کا مسئلہ ہے۔ اصولی طور پر اخوان اور جماعت اسلامی کا یہ دعویٰ ہے۔ ۱۹۶۵ء میں اس کو پاکستان میں منتقل ہو جانا چاہیے تھا، لیکن یہ منتقل نہیں ہوا کیونکہ پاکستان میں ظلم ۱۹۹۰ء کے بعد یا براہ راست نائن الیون کے بعد آیا جب امریکہ یہاںآیا۔ تب اس حلقے میں جن کا یہ نظریہ اقامت دین کا براہ راست نہیں تھا، یہ سوچ پید اہوئی۔ اس کا حوالہ مفتی صاحب بھی دے چکے ہیں کہ حنفی مکتب فکر میں اس کی گنجائش اور ایسی بحثیں کم تھیں، لیکن جب وہ ظلم آیا اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس طرح کی راہنمائی سلفیت یا عرب مجاہدین نے کی، لیکن کوئی صحیح بات اگر انھوں نے کی تو کیا کتاب وسنت کی بنا پر ایک دوسرے سے استفادہ کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ ہم صرف اس حوالے سے ان کو مطعون کریں کہ چونکہ یہ حوالہ فلاں کا تھا، اس لیے اس کو بحث میں نہیں لانا چاہیے، میرا خیال ہے کہ علما کے طبقے میں یہ رجحان بہتر نہیں ہے۔ہم اگر مکتب فکر کے تعصب میں بیٹھ کر بات کریں کہ یہ بات فلاں نے کی ہے تو یہ صحیح نہیں۔ بات اس تناظر میں ہونی چاہیے کہ اس کا معیار کیا ہے اور کتاب وسنت میں یہ بات ہے یا نہیں۔

خورشید احمد ندیم

بہت سی چیزیں ہیں جو کہنے کی ہیں، وہ میں روکتا ہوں اگلی نشست کے لیے جب آپ اپنی بات کہنے کا موقع دیں گے۔ دو باتیں یہاں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ 
ایک تو جمہوریت کے ضمن میں جو گفتگو ہوئی، اس میں ایک سوال اٹھ آیا اور میں چاہتا ہوں کہ مغل صاحب اس کا جواب دے سکیں تو شاید ساری بحث سمجھ میں آ جائے۔ ایک یہ کہ یہ فیصلہ کہ ایک مسلمان معاشرے میں حکومت کون کرے گا،ایک ریاست میں حکومت کون کرے گا، یہ کس کو حق حاصل ہے کہ یہ فیصلہ کرے؟ ہم بھی یہ کہتے ہیں کہ سلطان کو عادل ہونا چاہیے، خلیفہ میں یہ خوبیاں ہونی چاہییں، لیکن یہ فیصلہ کہ فلاں شخص میں یہ خوبیاں ہیں اور اس کو آپ حق اقتدار منتقل کر دیں، یہ فیصلہ کون کرے گا؟ اس میں قرآن وسنت کی راہنمائی کیا ہے اور ان کا جو فہم دین ہے، وہ کیا کہتا ہے؟
دوسری چیز جو حسن مدنی صاحب نے فرمائی، اس کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اصولی بات جو انھوں نے کی ہے، وہ بالکل صحیح ہے کہ چیزوں کو سلفی یا حنفی تناظر میں دیکھنے کے بجائے براہ راست دین کے تناظر میں دیکھا جائے تو مناسب ہے۔ اگرچہ اس کو ہم ایک narrative کے طور پر لیتے ہیں کہ یہ حنفی نیریٹو ہے اور یہ سلفی نیریٹو تو علمی طور پر اس میں کوئی برائی نہیں ہے، لیکن اس کو ایک بڑے تناظر یں دیکھا جانا چاہیے۔ البتہ انھوں نے اس کا جو اطلاق کیا ہے، مجھے اس سے اتفاق نہیں ہے کہ ۶۰ء کی دہائی میں مصر کا پس منظر کچھ اور تھا اور پاکستان کا کچھ اور تھا، لہٰذا اخوان اور جماعت کے رد عمل میں فرق رہا۔ میرے نزدیک ماحول ایک تھا، صرف ردعمل میں فرق رہا اور اس کا تعلق تفہیم دین سے تھا۔ ۶۰ء کی دہائی میں وہاں جمال عبد الناصر کی آمریت تھی اور پاکستان میں ایوب خان کی آمریت تھی۔ وہاں اگر سید قطب کو سزائے موت دی گئی تو یہاں ایک دور میں مولانا مودودی کو بھی سزائے موت سنائی گئی۔ تو یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ وہ کیسی مسلمان حکومت ہے جس نے مولانا موددی جیسے عالم دین کو سزائے موت سنا دی؟ آپ اس بنیاد پر مقدمہ کھڑا کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں ۔پاکستان میں بھی ریاست جو تھی، وہ مخالف تھی اور آپ کو یاد ہے کہ ۶۳ء میں جماعت اسلامی کے اجتماع میں جب ریاست کی طرف سے حملہ ہوا اور ایک آدمی مار دیا گیا تو اس کے بعد رد عمل کیا ہوا جماعت اسلامی کا؟ ۶۲ء جماعت اسلامی پر پابندی لگ گئی تھی اور رد عمل یہ رہا کہ انھوں نے کہا کہ ہم عدالت میں جائیں گے اور اس کو چیلنج کریں گے۔ ہم ریاست کے خلاف کوئی اقدام نہیں کریں گے۔ یہ انھوں نے طے کیا اور یہ مولانا مودودی کا فہم دین تھا۔ آپ اس سے اختلاف کر سکتے ہیں۔ میں رد عمل کا فرق بتا رہا ہوں۔ وہاں مصر میں رد عمل یہ تھا کہ آپ ریاست سے ٹکرا جائیں، اس لیے کہ ریاست یہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ یہاں رد عمل مختلف تھا۔
جماعت اسلامی نے اپنے دستور میں لکھ دیا کہ ہم کوئی خفیہ سرگرمی اس ملک میں نہیں کریں گے۔ انھوں نے طے کر لیا اپنے دستور میں کہ ہم کوئی خلاف آئین اقدام نہیں کریں گے۔ یہ ان کی تفہیم دین ہے۔ ایک تفہیم دین اخوان کے لوگوں کی ہے۔ یہ دونوں میں فرق تھا، ریاست کے رویے میں فرق نہیں تھا۔ فرق علما کا یا دینی تحریکوں کے رد عمل کا تھا اور اس میں ان کی تفہیم دین کا بنیادی رول ہے۔

عبد السبوح سید — (نمائندہ جیو نیوز، راولپنڈی)

میرے دو سوال ہیں۔ ایک مفتی زاہد صاحب سے کہ جب نوشہرہ میں دار العلوم دیوبند کی ڈیڑھ سو سالہ کانفرنس ہوئی تھی تو اس کا جو اشتہار چھپا تھا، اس میں باقاعدہ جو سب سے پہلا کردار لکھا گیا تھا، وہ انگریز کے خلاف جہاد تھا اور تحریک ریشمی رومال کو بھی اس میں بتایا گیا تھا کہ یہ دار العلوم کی کارکردگی ہے۔ اسی طرح شاملی کے میدان میں جو کچھ ہو، وہ سارا انھوں نے اپنے کریڈٹ میں ڈالنے کی کوشش کی۔ اس میں سارے دیوبندکے علما تھے۔ 
دوسرا سوال میرا اپنے استاد محترم ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب سے ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ طالبان کی قیادت اور تکفیری فتوے دینے والے علما نہیں ہیں۔ مجھے ایسے لوگوں سے براہ راست ملنے کا اتفاق ہوا ہے۔ وہ باقاعدہ مدرسوں سے فارغ لوگ ہیں۔ میں مفتی منیر شاکر صاحب سے ملا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب خود بھی ان کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ وہ عالم دین ہیں۔ مولانا صوفی محمد جنھوں نے کہا کہ جمہوریت بھی کفر ہے اور یہ سارا عدالتی نظام بھی کفر ہے، وہ باقاعدہ عالم دین ہیں۔ قاری حسین بھی عالم دین ہے، ولی الرحمن بھی عالم دین ہے، مولوی فقیر محمد صاحب بھی عالم دین ہیں۔ منگل باغ کے پاس جب ہم گئے تو اس کے پاس اکیس رکنی علما کا بورڈ بیٹھا ہوا تھا۔ جب ہم کوئی مذہبی مسئلہ ڈسکس کرتے تو وہ علما سے کہتا تھاکہ آپ اس کا جواب دیں۔ بیت اللہ محسود کے پاس بیس رکنی علما کی ٹیم ہے جو فتویٰ دیتی ہے۔ احمد الیاس خان صاحب کو جانتے ہوں گے۔ جب وہ کسی کے قتل کے بارے میں فتویٰ دیتے ہیں تو باقاعدہ ان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور اس کے بعد باقاعدہ اس کو نافذ کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ گڑھی شاہو خیل جو ہنگو سے اوپر علاقہ ہے، جہاں مفتی امین صاحب تھے جو بنوری ٹاؤن سے فارغ تھے۔ جب ان کے مدرسے پر بمباری ہوئی، اس کے بعد میں وہاں گیا تو وہاں ایسے لوگ موجود تھے جنھوں نے انٹرویو کے لیے پیش کش کی کہ ہم آپ کو آگے لے جاتے ہیں اور آپ کا انٹرویو بھی کرواتے ہیں۔ 
مفتی نظام الدین شامزئی صاحب کے بارے میں میرے استاد محترم ڈاکٹر رشید احمد صاحب نے کہا کہ وہ اس قسم کی بات نہیں کرتے تھے، لیکن مفتی صاحب نے پاکستان میں موجود امریکیوں کے خلاف فتویٰ دیا تھا کہ ان کو مار دیا جائے۔ ا س کے نتیجے میں ۱۹۹۶ء میں مانسہرہ میں ایک بٹ پل ہے، اس کے قریب سیاحوں کی ای بس جا رہی تھی، اس پر حملہ ہوا۔ یہ ساری چیزیں جوہیں، ان کے پیچھے سوچ علما کی ہے۔ باقی عام لوگ جب متحرک ہوتے ہیں تو پھر وہ آگے بڑھ کر کارروائیاں کرتے ہیں۔ پیچھے علما موجود ہیں۔

محمد عمار خان ناصر

کچھ سوالات تو مجتبیٰ راٹھور صاحب کی گفتگو سے متعلق ہیں اور کچھ زاہد صدیق صاحب کی گفتگو سے متعلق ہیں۔
مجتبیٰ راٹھور صاحب نے اپنی گفتگو میں اپنا نقطہ نظر پورا بیان کر دیا ہے۔ میرا یہ احساس ہے کہ جب آپ کسی کے نقطہ نظر پر تنقید کرتے ہیں اور اس کا جائزہ لیتے ہیں تو اس فریق کی جگہ پر کھڑے ہو کر اگر آپ صورت حال کو دیکھیں اور اس کے احساسات کو محسوس کرنے کی کوشش کریں تو شاید زیادہ بہتر تنقید ہو سکتی ہے۔ مثلاً ولاء وبراء کے بارے میں آپ نے القاعدہ کا نقطہ نظر بیان کیا کہ وہ ’ومن یتولہم منکم فانہ منہم‘ اور اس مفہوم کی جو دوسری نصوص ہیں، ان کی بنیاد پر وہ اس وقت حکمرانوں کی اور خاص طور پر پاکستانی حکمرانوں کی تکفیر کرتے ہیں۔ آپ نے اس کا جواب دیتے ہوئے رازی کی تفسیر سے ایک اقتباس پڑھا جس میں وہ کفار کے ساتھ تعلق کے تین درجے بیان کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اتنی بات سے ان لوگوں کا اشکال دور نہیں ہوتا، اس لیے کہ ان کے فہم کے لحاظ سے ہمارے حکمرانوں نے جو معاملہ کیا ہے، وہ رازی نے جو دو تین درجات بیان کیے ہیں، وہ ان کے دائرے میں نہیںآتا۔ خاص طور پر یہ بات جس میں ہمارے فقہا قریب قریب بالکل واضح ہیں کہ کسی مسلمان گروہ کے خلاف کسی غیر مسلم کی مدد کرنا اور ان کے ساتھ تعاون کرنا جائز نہیں۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ ایسا کرنا کفر کے درجے تک چلا جاتا ہے یا نہیں، لیکن میرے علم کی حد تک فقہا اتنی بات کی حد تک بہت واضح ہیں کہ مسلمان اور مسلمان کا جو آپس میں رشتہ ہے اور اسلامی اخوت کی رو سے شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی کہ ایک مسلمان گروہ پر ایک غیر مسلم گروہ حملہ کرے اور آپ اس کا ساتھ دیں، چاہے اس سے کچھ زیادتی ہوئی ہو اور چاہے وہ باغی ہو۔ باغیوں کے بارے میں بھی فقہا بہت وضاحت سے کہتے ہیں کہ باغی جومسلمان ریاست کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں تو گو انھوں نے ظلم بھی کیا ہے اور ناحق لوگوں کو مارا بھی ہے، لیکن ان کے خلاف کوئی غیرمسلم ملک حملہ کر دے تو آپ اس کا ساتھ نہیں دیں گے۔
اس لحاظ سے تکفیری گروہ کی جگہ پر کھڑے ہو کر اگر ہم سوچیں تو کہہ سکتے ہیں کہ امریکا کا ساتھ دینے کے معاملے پر وہ جو تکفیری فتویٰ لگاتے ہیں، اس کے متعلق یہ تو دیکھا جا سکتا ہے کہ اس میں کچھ بے احتیاطی پائی جاتی ہے یا نہیں پائی جاتی، لیکن ان کا بنیادی مقدمہ میرے خیال میں جینوئن ہے کہ افغانستان کے مسلمانوں کے خلاف امریکہ کو مدد فراہم کرنے کی اجازت ہم ازروئے شریعت کیسے دے سکتے ہیں؟ یا تو اس بنیاد کو واضح کرنا چاہیے کہ کیا شریعت خاص حالات میں مخصوص شرائط کے ساتھ اس کی اجازت دیتی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کوئی غیر مسلم ملک حملہ کرے اور آپ اس کا تعاون کریں؟ میرا خیال ہے کہ آپ کے استدلال سے یہ بات واضح نہیں ہوتی۔
دوسرا سوال علۃ القتال سے متعلق آپ کی گفتگو سے ہے۔ مجھے جہاں تک اس بحث کو پڑھنے کاموقع ملا ہے، مجھے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ فقہا کے ہاں جو یہ بحث اٹھی ہے کہ قتال کی علت کفر ہے یا کچھ اور، وہ بنیادی طورپر جنگ شروع کرنے کے تناظر میں نہیں ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ فقہا کا ایک گروہ یہ کہتا ہو کہ اگر آپ نے غیر مسلموں کے خلاف جنگ شروع کرنی ہے تو اس کی وجہ کفر ہے اور دوسرا کہتا ہو کہ اس کی وجہ ظلم ہے۔ اس پر سب متفق ہیں کہ غیر مسلم ملک کے خلاف جنگ کرنے کا ابتداءً آپ کو حق حاصل ہے۔ ہاں، اس کے بعد آپ نے جنگ ختم کہاں کرنی ہے، غایت کیا ہے؟ یہاں وہ فرق کرتے ہیں کہ کیا آپ نے ان کو لازماً اسلام قبول کرنے پر مجبور کرنا ہے یا اگر وہ اسلام قبول کیے بغیر مسلمانوں کی محکومیت قبول کر لیں تو آپ جنگ کو روک دیں گے۔ تو یہ بحث ابتداے قتال کے حوالے سے نہیں، انتہاے قتال کے تناظر میں ہوئی ہے۔ میری سمجھ میں فقہا کا موقف یہی آیا ہے۔ اگر آپ نے ا س سے مختلف کوئی چیز اخذ کی ہے تو اس کی وضاحت فرما دیں۔
زاہد صدیق مغل صاحب کی گفتگو سے متعلق ایک سوال تو یہ سامنے آتا ہے کہ انھوں نے جمہوریت کی، سرمایہ دارانہ نظام کے تناظر میں پورے سسٹم کی اور اس کے اداروں کی ایک تفہیم پیش کی کہ یہ بنیادی طو رپر ایک خاص تصور ہے اور ایک پورا پیکج ہے، اس کے اجزا کو آپ الگ الگ نہیں کر سکتے۔ اس مقدمے پر الگ سے بہت سے سوالات ہیں جن کو اس وقت عرض کرنا میں مناسب نہیں سمجھتا کہ وہ کافی تفصیل چاہتے ہیں۔ جو سوال اس وقت کی بحث سے متعلق ہے، وہ یہ ہے کہ آپ یہ بات کہہ رہے ہیں خروج کے جواز اور عدم جواز کے تناظر میں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جمہوریت کے پورے سسٹم کی ایک تفہیم ہے اور اس پر کچھ نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ یہ نکتہ کہ جمہوریت کا نظام کیا ہے اور کیا نہیں ہے اور یہ کہ وہ کس حد تک اسام کے موافق ہے یایا نہیں ہے اور یہ بھی فرض کر لیں کہ وہ بہت سے پہلووں سے اسلام کے مخالف ہے تو بھی اس کے حوالے سے ہمیں عملاً کیا رویہ اختیار کرنا ہے، یہ تینوں چیزیں اجتہادی ہیں۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان تینوں سوالات کے حوالے سے جو نتائج فکر آپ نے پیش کیے ہیں، وہ اتنے قطعی اور واضح ہیں کہ اس پرکسی اجتہادی اختلاف کی گنجائش نہیں ہے۔ اس وقت پاکستان میں جو علما جمہوریت کی تائید کر رہے ہیں، ان کا جمہوری نظام کی تفہیم کے حوالے سے مختلف نقطہ نظر موجود ہے۔ ا س نظام میں سے کتنا قابل اخذ ہے اور کتنا قابل ترک ہے، اس کے متعلق بھی آرا مختلف ہیں۔ اسی طرح اس میں جتنا قابل اعتراض ہے، ا س کے حوالے سے ہمیں عملی طورپر کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے، یہ تینوں اجتہادی بحثیں ہیں۔
اب آپ نے جس طرح اپنی بات کوبیان کیا ہے، اس سے مجھے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ اگرچہ مسلمان معاشرے کی اکثریت، وہاں کے علما اور مذہبی طبقات ایک اجتہادی نقطہ نظر رکھتے ہیں اور اسی بنیاد پر معاشرے کو تشکیل دینا چاہتے ہیں، اس کے باوجود آپ کسی خاص گروہ کو یہ حق دیتے ہیں جو اس اجتہادی تعبیر سے مختلف رائے رکھتا ہے کہ وہ اپنی تعبیر کے درست ہونے کے یقین کی بنیاد پر اٹھے اور خروج کر کے ایک دوسرا نظام پورے معاشر ے پر مسلط کرنے کی کوشش کرے۔ میں ا س امکان کو مانتا ہوں کہ ان کی بات ٹھیک ہی ہو اور ان کا سارا مقدمہ درست ہو، لیکن وہ یہی اجتہادی اختیار معاشرے کی اکثریت کو کیوں نہیں دیتے کہ وہ ان سے مختلف تعبیر کو اختیار کرے؟ وہ نظری بحث کریں، لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کریں، استدلال کریں، لیکن جب تک مسلمان معاشرہ ان کے استدلال کا قائل نہیں ہو جاتا، اس سے پہلے کیا آپ اس کو یہ حق دیتے ہیں کہ وہ اپنے فہم کو بالجبر نافذ کرنے کے لیے خروج کرے؟ یہ ایک سوال ہے۔
اسی طرح دوسرا سوال یہ ہے کہ آپ نے یہ کہا کہ قومی ریاست کا اسلام میں کوئی تصور نہیں۔ اگر تو یہ بات اس مفہوم میں ہے کہ قومی ریاست کے ساتھ عام طور پر جو تعصبات نتھی ہو جاتے ہیں جو اس کو حق وباطل کا معیار بنا دیتے ہیں تو ظاہر ہے کہ اس کا اسلام میں کوئی تصور نہیں۔ یہ ایک بالکل قابل فہم بات ہے۔ لیکن اگر قومی ریاست کی تقسیم کچھ انتظامی مصالح کے تحت ہو، مثلاً مسلمانوں کے دو الگ الگ خطے ہیں، وہ اپنے لیے حکمرانوں کا انتخاب الگ الگ کرنا چاہتے ہیں یا مثال کے طور پر قانونی دائرۂ اختیار (Jurisdiction) کا مسئلہ ہے، اس میں فرق کرنا چاہتے ہیں یا اس دنیا میں رہتے ہوئے اجتماعی سیاسی ذمہ داریوں کامسئلہ ہے، اس میں تقسیم چاہتے ہیں تو ان پہلووں کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں؟ کیا ان بنیادوں پر بھی الگ الگ ریاستوں کا وجود غیر اسلامی ہے؟ 
اگر یہ بات ہے تو اس پر کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً یہ بات کہ مسلمانوں کے ایک ہی وقت میں دو الگ الگ سیاسی مراکز اطاعت ہوں، یہ تو صحابہ کے دور میں موجود رہا ہے۔ حضرت علی کی الگ حکومت تھی، حضرت معاویہ کی الگ تھی۔ ا س کے بعد کے دور میں بھی اسلامی تاریخ میں ہمیشہ یہ صورت موجود رہی ہے۔ جیورس ڈکشن کے لحاظ سے یہ فرق مانا گیا، ذمہ داریوں کے لحاظ سے بھی فرق مانا گیا کہ ایک مسلمان گروہ پر جو انتظامی لحاظ سے الگ منظم ہے، کچھ ذمہ داریاں عائد ہوں اور دوسرے گروہ پر عائد نہ ہوں۔ تو یہ کچھ انتظامی اور عملی پہلو ہیں۔ اگر آپ اس لحاظ سے بھی یہ کہتے ہیں کہ اسلام میں اس کا کوئی تصور نہیں تو اس کی وضاحت ہونی چاہیے۔
ایک خاص سوال یہ ہے کہ آپ نے خروج کے جائز ہونے پر یہ دلیل دی کہ صحابہ کے دور میں خروج ہوا۔ مجھے جہاں تک فقہی لٹریچر پڑھنے کا موقع ملا ہے تو اس دور میں جتنے بھی خروج ہوئے، ان کے بارے میں فقہا نے یہ تو بیان کیا ہے کہ ان حضرات کے لیے یہ راستہ اختیار کرنے کی ایک اجتہادی گنجائش تھی، لیکن اس سے مثبت طور پر کوئی جواز اخذ نہیں کیا گیا۔ امام حسین نے جس صورت حال میں یہ کیا، ان کے لیے اجتہادی گنجائش ہے کہ انھوں نے ان نصوص کو کس محمل پر محمول کیا جن میں ممانعت بیان کی گئی ہے یا ان کے سامنے کیا صورت حال تھی یا ان کو کیا صورت حال بتائی گئی تھی، لیکن میرے علم کی حد تک ان کے خروج سے عام طور پر فقہا یہ بات اخذ نہیں کرتے کہ چونکہ امام حسین نے خروج کیا تھا، اس وجہ سے یہ درست ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے حضرت علی کی اطاعت حضرت امیر معاویہؓ نے قبول نہیں کی تو اس ضمن میں اہل سنت کا عمومی موقف یہ رہا ہے کہ وہ حضرت معاویہ کے اس عمل کے لیے ایک اجتہادی گنجائش تو مانتے ہیں لیکن اس سے جواز اخذ نہیں کرتے کہ ان کا اقدام کوئی معیاری اقدام تھا۔

ڈاکٹر حسن مدنی

میرے خیال میں سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ کیا اس وقت دنیا میں کوئی دار الاسلام موجود ہے؟ اگر موجود ہے اور ہم کسی جگہ کو دار الاسلام مانتے ہیں تو سارے احکامات اس کی بنیاد پر تبدیل ہوں گے۔ اس سوال کا تعلق اس بات سے ہے کہ کیا ہم اسلام کا کوئی نظام سیاست بھی مانتے ہیں؟ کیا اسلام کا نظام سیاست جمہوریت کے آنے کا منتظر تھا کہ مغرب کا ارتقا ہوگا اور جمہوریت کے نام پر ایک نظام وجود میں آئے گا تو اس کے بعد اسلام کا سیاسی نظام بنے گا اور ا س سے پہلے مکمل نہیں ہوگا؟ تو اس مجلس کے شرکا کے سامنے یہ بنیادی سوال ہے کہ کیا وہ کسی خطے کو اس وقت شرعی وفقہی نقطہ نگاہ کے مطابق دار الاسلام مانتے ہیں؟

ڈاکٹر خالد مسعود

مجھ سے جو سوال کیا گیا، اس کا جواب یہ ہے کہ عدل کے دو مفہوم ہیں۔ ایک تو اس کا کلامی مفہوم ہے جس طرح کہ معتزلہ اور شیعہ کے ہاں ہے اور اس میں زیادہ تر بحث اللہ تعالیٰ کی صفات کے حوالے سے ہے۔ دوسرا مفہوم اس کا اطلاقی ہے اور اس میں عام طور پر عدل، ظلم کے مقابلے میں آتا ہے۔ جب بھی آپ عدل کی تعریف پوچھتے ہیں تو وہ ظلم کی تعریف کرتے ہیں اور ظلم کی تعریف جو عام طور پر میں نے پڑھی ہے، وضع الشئ فی غیر محلہ۔ یہ بالکل لفظی طور پر یونانیوں سے لیا گیا ہے۔ ارسطو جیسا مفکر اس بات کا قائل تھا کہ غلامی فطری چیز ہے، غلام فطری طو رپر غلام پیدا ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں وہ فکر اس طرح آئی کہ معاشرے میں جس کا جو بھی مقام ہے، اس کے مطابق احکام ہوں گے۔ چنانچہ وضع الشئ فی غیر محلہ جو ظلم کی تعریف ہے، وہ ہمارے ہاں عدل کے لیے آ گئی اور سیاست عادلہ اور سیاست ظالمہ کی اس لحاظ سے تعریف کی گئی۔ آپ نے مساوات کی جو مثال دی، اس سے اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ ہم خواتین کو برابر کے حقوق اس لیے نہیں دیتے کہ خواتین کامقام ہمارے معاشرے میں مختلف ہے، اسی طرح جس طرح کہ غلام کامقام مختلف تھا۔ تو یہ جو تصور ہے، یہ اسلام اور قرآن کا تصور نہیں تھا۔ فقہ میں اور علم الکلام میں جب یہ بحثیں شروع ہوئیں تو یہ ساری چیزیں باہر سے ہم نے لیں۔ یقیناًایران سے لی ہوں گے۔ میں بحث کو صرف وہاں تک رکھنا چاہتا ہوں کہ یہ تصور چونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ آج کے تصور کے خلاف ہے، اس لیے ہم عوام کو وہ دیتے ہوئے کتراتے ہیں کہ ہمارے ہاں ابھی تک ظلم کا وہی تصور ہے۔ ایک hierarchy ہے، کچھ مراتب ہیں اور ان کو ہمیں ا س لحاظ سے ٹریٹ کرنا ہے۔

ڈاکٹر رشید احمد

مدنی صاحب نے اسلامی ریاست کے حوالے سے بہت اہم نکات اٹھائے ہیں اور اس کاموضوع سے بہت گہرا تعلق ہے کہ آج کے زمانے میں کوئی اسلامی ریاست ہے یا نہیں، کیونکہ یہ جو دار الاسلام اور دا الکفر کا تصور تھا، یہ اصل میں امر واقع کے طور پر تھا، شرعی حکم نہیں تھا کہ قرآن وحدیث میں یہ کہا گیا ہو کہ یہ دار الاسلام ہے اور یہ دار الکفر ہے۔ امام شافعی سرے سے اس بات کے قائل ہی نہیں کہ کوئی دوسرا دار ہو۔ وہ ساری دنیا کو ایک ہی دار سمجھتے ہیں۔ تو اس بات پر بہت زیادہ بحث کی گنجائش موجود ہے کہ کوئی ریاست کب یہ دار الاسلام سے دار الحرب میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ برصغیر پاک وہند کو ایک خاص موقع پر دار الحرب قرار دیا گیا، یعنی اس سے پہلے یہ دار الحرب نہیں تھا۔ تو میرے خیال میں آج کے حالات کے حوالے سے یہ ایک اصولی بحث ہے کہ جب کسی ریاست میں حکومت مسلمانوں کی ہو، اقتدار اعلیٰ اللہ تعالیٰ کے لیے ہو، وہاں آئین ودستور اسلامی ہو تو اس کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟ اسی کے ضمن میں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ا س حکومت کے خلاف کوئی خروج کرتا ہے تو اس کی شرعی حیثیت کیا ہوگی اور اسلامی ریاست کو ہم کیسے دیکھتے ہیں۔ تو میرے خیال میں یہ بہت اچھا نکتہ ہے اور اس پر بات ہونی چاہیے۔
جماعت اسلامی نے جو طریق کار اختیار کیا اور مصر میں اخوان المسلمون نے جو طریقہ اختیار کیا، اس کے متعلق خورشید ندیم صاحب نے جو کہا، میں اس کی تائید کرتا ہوں۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے اور میرے خیال میں بہت relevant ہے اور اس پر مزید بات ہونی چاہیے کہ یہ جو رد عمل کا فرق ہے، اس کا پس منظر کیا ہے۔ دونوں حوالوں سے ہم ان لوگوں کو appreciate کرتے ہیں باوجود اس کے کہ ان پر ظلم ہوا۔ یہ قرآن وحدیث کے مطابق ہے کہ جب ظالم وجابر حکمران ہوں تو آپ پر صبر لازم ہے۔ تو یہ جو دو باتیں ہیں، ان کا ہمارے موضوع سے بہت گہرا تعلق بنتا ہے۔

ڈاکٹر خالد مسعود

میرے خیال میں بہت اچھا نکتہ ہے۔ خلافت راشدہ کے بعد پوری اسلامی تاریخ میں ہم سمجھتے ہیں کہ خلافت کا صحیح نظام نہیں تھا تو یہ بھی سوال ہے کہ دار الاسلام سے کیا مراد ہے؟

ڈاکٹر قبلہ ایاز

کچھ نکات کی طرف عامر رانا صاحب نے اشارہ کیا اور ایک سوال ہمارے شاگرد عبد السبوح صاحب کی طرف سے آیا۔ میرے خیال میں بڑی خوشی کی بات استاد کے لیے یہ ہوتی ہے کہ شاگرد اپنے استاد کی گرفت کرے اور ایسے شاگردوں پر استاد کو فخر ہونا چاہیے۔
میں نے یہ بھی تھا کہ ہمارے خیبر پختون خوا اور قبائلی علاقوں کے جو ہمارے علما ہیں، وہی ہیں جو ہمارے دینی مدرسوں سے جاتے ہیں تو ان میں حنفیت سے زیادہ لاشعوری طو رپر ، نہ جانتے ہوئے بھی سلفیت کا اثر آ رہا ہے۔ جب میں حنفیت اور سلفیت کی بات کر رہا ہوں تو ہرگز کسی فرقہ وارانہ تناظر میں یا تنگ نظری کے حوالے سے نہیں کر رہا، بلکہ اس پورے مسئلے کے موجودہ تناظر اور مذہب اور بشریات ، ان تینوں کو ملانے کی کوشش کر رہا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ہم مانیں یا نہ مانیں، اس وقت مسئلے کی جو جڑ ہے، باقی اس کا collateral damage ہے، وہ پشتون بیلٹ میں ہے۔ آپ مانیں یا نہ مانیں، پوری دنیا کی سیاست اس وقت پشتون بیلٹ کے گرد گھوم رہی ہے۔ یہ باقی باتیں بعد میں آئی ہیں۔ طالبان کی بھی غالب اکثریت پشتون ہے۔ قبائلی علاقہ مکمل پشتون ہے۔ پھر خیبر پختون خوا میں جو پشتون علاقہ ہے، مسئلہ اس میں ہے۔ ہزارہ میں نہیں ہے، چترال میں نہیں ہے۔ مسئلہ پشتون بیلٹ میں ہے۔ 
اب پشتون جو ہیں، اس میں آپ نے لازماً بشریات کے حوالے سے اس مسئلے کو دیکھنا ہوگا۔ میں نہیں سمجھتا کہ سلفیت کوئی بری چیز ہے۔ قرآن وسنت کے حوالے سے ایک تعبیر حنفی حوالے سے ہے اور ایک سلفی حوالے سے۔ اسے ہمیں ایک صحت مند انداز سے لینا چاہیے، لیکن پشتون جو ہیں، وہ ننانوے اعشاریہ ننانوے فیصد حنفی ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ تنگ نظری کے حوالے سے نہیں، بلکہ پشتون مزاج کے لحاظ سے حنفی تعبیر ہی اس کے لیے بہترین تعبیر ہے۔ یہ بات میں بشریا کے حوالے سے کہہ رہا ہوں۔ اگر پشتون سلفی نقطہ نگاہ کے ہوتے تو شاید اور بہت سے مسائل کھڑے ہو جاتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ پشتونوں پر اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ وہ حنفی ہیں، کیونکہ حنفیت میں correction of authority ہے اور سلفیت میں rejection of authority ہے۔ یہ میں ایک سادہ تعبیر کر رہا ہوں۔ اب چونکہ نہ جانتے ہوئے بھی ہماری مذہبی سوچ میں rejection of authority کا اثر زیادہ آرہا ہے جو حنفی تعبیر نہیں، اس وجہ سے مسئلے پیدا ہو رہے ہیں۔
ایک بات میں نے یہ کہی تھی کہ خیبر پختون خوا کے ساتھ متصل جو قبائلی علاقہ ہے، اس میں جو لوگ اس وقت باغی عناصر کی قیادت کر رہے ہیں، ان کی اکثریت عالم نہیں ہے۔ البتہ یہ آپ نے درست کہا کہ وہ اتھارٹی علما کو بناتے ہیں۔ جو عالم ہیں، وہ استنباط کرتے ہیں۔ لٹریچر ان کی پشت پر ہے۔ اس لٹریچر پر جو اثرات ہیں، وہ عبد اللہ عزام، القاعدہ، الولاء والبراء کے تصور کے ہیں جو سلفی تصور ہے۔ تکفیری حوالے سے بھی جو کچھ پنجاب میں ہوا اور جس طریقے سے وہ بندہ مقبول ہوا۔ اس وقت آپ پشتونوں کے دینی مدارس میں حنفی تعبیر بیان نہیں کر سکتے۔ وہاں پر اس پورے مسئلے کی سلفی تعبیر ہی مانی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کو آپ حنفی میزان پر پرکھیں گے تو کچھ اور نتائج سامنے آئیں گے۔

مولانا مفتی محمد زاہد

مجتبیٰ راٹھور صاحب نے بڑا دکھتا ہوا سوال کیا ہے کہ علماء خاموش کیوں ہیں۔ میرا خیال ہے کہ قبلہ ایاز صاحب نے اس جملے میں اس کا جواب دے دیا ہے کہ وہ حضرت حسین نہیں بننا چاہتے۔ بہرحال یہ ایک بڑا سنجیدہ سوال ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہی ہے کہ کوئی حضرت حسین بننے کے لیے تیار نہیں ہے، لیکن بہرحال کسی نہ کسی وقت تو یہ بات کرنی پڑے گی۔ دوسرا ، میں یہ سمجھتا ہوں کہ ابھی علما کے حلقوں میں کافی کنفیوژن ہے اور صورت حال پر باقاعدہ debate سرے سے ان حلقوں میں ہوئی ہی نہیں۔ اب جو نوجوان علما آ رہے ہیں، شاید ان میں کچھ کہنے سننے کا حوصلہ ہے، لیکن وہ جو status quo کا جو ایک ذہن ہوتا ہے کہ میرا ایک ادارہ چل رہا ہے، میری ایک شخصیت بنی ہوئی ہے تو مجھے کیا ضرورت ہے کہ میں خواہ مخواہ اپنے آپ کو کسی دباؤ میں لاؤں! یہ بھی ایک نفسیاتی سی چیز ہوتی ہے۔ ان ساری چیزوں پر ہمیں سوچنا چاہیے۔ بہرحال یہ ایک اہم سوال ہے۔
جناب عامر رانا صاحب نے بڑی تفصیل سے ہمارے علم میں اضافہ فرمایا کہ نائن الیون سے بھی پہلے یہ تکفیری سوچ پاکستان میں موجود تھی اور انھوں نے باقاعدہ واقعاتی حوالے بھی دیے۔ یقیناًایسے ہی ہے، لیکن میرا اصل مدعا یہی تھا کہ ہمارا جو ان معاملات کو دیکھنے کا برصغیر کا اصل تناظر تھا، وہ پس منظر میں چلا گیا اور میں سلفیت نہیں کہوں گا، سلفیت کا ایک version غالب آ گیا۔ یہ ۹۰ء سے پہلے ہو یا ۸۰ء کی دہائی میں ہوا ہو، بہرحال برصغیر کے اعتبار سے یہ سوچ imported ہے۔ یہاں کا جو ایک تاریخی تناظر ہے علما کا، اس کے لحاظ سے بہرحال یہ ایک غیر متعلقہ سوچ ہے اور یہ بات لوگوں کے سامنے واضح کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ نوجوان خاص طور سے جو پشتون ہیں، وہ برصغیر کے علما سے بے پناہ عقیدت رکھتے ہیں اور ان کو مجاہد اسلام سمجھتے ہیں اور خاص طو رپر علما کی جو ایک خاص لائن ہے، اس سے خاص عقیدت رکھتے ہیں۔ اگر ان علما کی تاریخ کو صحیح طور پر پڑھ لیا جائے اور ان کے سامنے رکھ دیا جائے تو میرا خیال ہے کہ بہت سے مسائل کو حل کرنے میں یا بہت سے نوجوانوں کو راہ راست پر لانے میں ہمیں مدد مل سکتی ہے۔
ایک اور پہلو جس کو میں زیادہ اہم سمجھتا ہوں، وہ یہ ہے کہ ۱۹۱۷ء تک عسکری آپشن پرکام کرنے کے بعد برصغیر میں علما کی وہ لائن جو دار الحرب والے تصور کے تحت کام کرتی چلی آ رہی تھی، انھوں نے ایک مشاورت کے نتیجے میں اپنے لائحہ عمل میں شعوری طور پر تبدیلی کی اور یہ فیصلہ کیا کہ ہم عدم تشدد پر مبنی آئینی جدوجہد کا راستہ اختیار کریں گے۔ ہمارے ہاں یہ کہا جاتا ہے کہ جو لوگ کسی کافرانہ نظام حکومت کا حصہ بن گئے، وہ کافر ہیں۔ انگریزوں نے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ء میں نافذ کیا اور اس کے تحت انتخابات کرائے اور مختلف مراحل پر الیکشن ہوتے رہے تو یہ ایک کافروں کا بنایا ہوا نظام تھا اور کافر ہی اسے چلا رہے تھے، لیکن اس کے باوجود علما اس میں شریک ہوئے ۔ وہ ہندووں کے ساتھ بھی بیٹھے اور ان لوگوں کے ساتھ بھی بیٹھے جو بعض لوگوں کے نقطہ نظر کے مطابق فاسق وفاجر تھے۔ جناح صاحب کے ساتھ بھی بیٹھے۔ اب لائحہ عمل میں جو تبدیلی ہوئی تو اس کے بعد اس تبدیلی کی حمایت میں بہت کچھ لکھا گیا۔ مولانا محمد میاںؒ نے بڑی تفصیل سے لکھا، مولانا حسین احمد مدنی نے بڑی تفصیل سے لکھا۔ وہ آج اگر ہم اکٹھا کر کے آج کی نوجوان نسل اور خاص طور پر ایک مخصوص طبقے کے سامنے رکھ دیں تو میرا خیال ہے کہ اس سے مسئلے کے حل میں بہت مدد مل سکتی ہے۔
سبوح سید صاحب نے سوال اٹھایا کہ کیا علماء دیوبند نے جہاد میں حصہ نہیں لیا تھا؟ میں نے یہ بات نہیں کہی۔ میں نے جو عرض کیا، وہ یہ تھا کہ انھوں نے جو لائن اختیار کی، اگر اس سے ہٹ کر کسی نے لائن اختیار کی تو اس کی تکفیر نہیں کی گئی حتیٰ کہ سرسید کی بھی اس بات پر تکفیر نہیں کی گئی کہ وہ گورنمنٹ کے حامی ہیں۔ جو فوج میں بھرتی ہونے والے تھے، ان کی بھی تکفیر نہیں کی گئی۔ باقی رہی یہ بات کہ فلاں جلسے کے فلاں اشتہار میں یہ بات لکھی ہوئی ہے تو جلسوں کا اپنا ایک ماحول ہوتا ہے اور میں یہ بات کئی اور جگہوں پر بھی عرض کر چکا ہوں کہ ہمارے ہاں جلسوں کے ماحول میں تقریروں میں نعروں کے ساتھ جس انداز سے برصغیر کے علما کی جدوجہد کو بیان کیا جاتا ہے، اس تاریخ کو صحیح طور پر سمجھنے اور اس کی صحیح تفہیم کی ضرورت ہے کہ اس سے بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں اور یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ آئینی جدوجہد والا جو پہلو ہے، یہ آج کے دور میں کسی کے ذہن میں موجود ہی نہیں ہے۔ مولانا مدنی اور اس طبقے کے دوسرے علما نے اس پر بڑی تفصیل سے لکھا ہے۔
دار الاسلام کے حوالے سے بھی ایک سوال اٹھایا گیا ہے۔ اول تو جیسا کہ ڈاکٹر رشید احمد صاحب نے کہا، یہ جو دار الاسلام اور دار الکفر کی تقسیم ہے، یہ بذات خود قابل بحث ہے۔ ہمارے دور کے فقہا نے کافی تفصیل سے اس پر لکھا بھی ہے کہ یہ تقسیم فقہا نے اپنے زمانے کے حالات کے اعتبار سے کی ہے۔ لیکن فقہا نے جو دار الاسلام کی تعبیر کی ہے، اس حوالے سے بھی دیکھیں تو جہاں جہاں مسلمانوں کی عمل داری قائم ہے، اس کو ہم دار الاسلام ہی کہیں گے، حتیٰ کہ علما کا ایک طبقہ، جیسا کہ میں نے عرض کیا، مولانا سید نذیر حسین دہلویؒ ، مولانا عبد الحئی لکھنوی اور مولانا احمد رضا خان بریلوی برصغیر میں اس زمانے میں بھی جبکہ انگریزوں کی عمل داری قائم ہو چکی تھی، اس زمانے میں بھی ہندوستان کو دار الحرب ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ جو لوگ ہندوستان کو دار الحرب کہتے تھے، ان میں علما کی وہ لائن جو آگے چل کر جمعیت علماء ہند کی شکل میں سامنے آئی، میں اس کے ایک دو حوالے آپ کے سامنے پیش کر دوں۔
مولانا مدنی نے ’’نقش حیات‘‘ میں ایک جگہ اس پر بحث کی ہے۔ غالباً ان کے ذہن میں یہ سوال ہے کہ ہم دارالحرب کی بنیاد پر جو آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں، جب کانگریس کے ساتھ مل کر ہندوستان آزاد ہو گیا تو پھر ہم اس کی کیا حیثیت متعین کریں گے؟ مولانا مدنی نے بڑی ذہانت سے اس کا جواب دیا ہے۔ یہ ایک لمبا اقتباس ہے۔ میں اس کا تھوڑا سا حصہ پڑھتا ہوں۔ شاہ عبد العزیز کا ایک اقتباس نقل کرنے کے بعد مولانا مدنی لکھتے ہیں کہ 
’’اس سے یہ ثابت ہوا کہ اگر کسی ملک میں سیاسی اقتدار اعلیٰ کسی غیر مسلم جماعت کے ہاتھوں میں ہو، لیکن مسلمان بھی بہرحال اس اقتدار میں شریک ہوں اور ان کے دینی ومذہبی شعائر کا احترام کیا جاتا ہو، تو وہ ملک حضرت شاہ عبدالعزیزؒ کے نزدیک بے شبہ دار الاسلام ہوگا اور ازروئے شرع مسلمانوں کا فرض ہوگا کہ اس ملک کو اپنا ملک سمجھ کر اس کے لیے ہر نوع کی خیر خواہی اور خیر اندیشی کا معاملہ کریں۔‘‘
ایک اور اقتباس بھی ہے۔ مولانا رشید احمد گنگوی نے بھی دار الحرب ہونے کا فتویٰ دیا، اگرچہ اس موضوع پر ان کے دو متضاد فتوے ہیں، لیکن جو ذرا تفصیلی فتویٰ ہے، اس میں وہ لکھتے ہیں کہ:
’’کفار کا غلبہ تو ہوا، لیکن بعض حیثیات سے اس میں اسلام کا غلبہ بھی باقی ہے تو اس کو اب بھی دار الاسلام ہی کہا جائے گا نہ کہ دار الحرب۔ اتنی بات پر سب ائمہ کا اتفاق ہے۔‘‘
میں عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ فقہا کی جو روایتی تعبیر ہے دار الحرب اور دار الاسلام کی، اس کو بھی اگر پیش نظر رکھیں تو اس وقت جہاں جہاں مسلمانوں کی عمل داری قائم ہے، بشمول پاکستان اور افغانستان کے کہ وہاں ان کی اپنی پارلیمنٹ ہے، انتخابات ہوتے ہیں، جیسے کیسے بھی ہوتے ہیں، منتخب صدر بھی موجود ہے، ان سب چیزوں کی موجودگی میں ہم افغانستان کو دار الحرب نہیں کہہ سکتے، دار الاسلام ہی کہیں گے۔ میں کسی جنگ کے حوالے سے نہیں کہہ رہا کہ کون صحیح ہے اور کون غلط ہے، لیکن یہ بات میں آخر میں ضرور عرض کروں گا کہ ہم بات کرتے ہوئے افغانستان اور پاکستان، ان دونوں کو الگ الگ نہیں کر سکتے۔ اگر یہ کہیں گے کہ پاکستان فوج کے خلاف لڑنا تو گناہ ہے، یہ خروج ہے اور دوسری طرف اسی طرح کا کام کیا جائے تو اس کے بارے میں ہم کچھ اور انداز اختیار کر لیں تو میرا خیال ہے کہ یہ درست نہیں ہوگا۔ ہمیں دونوں کو اکٹھے ہی دیکھنا چاہیے۔

محمد مجتبیٰ راٹھور

عمار صاحب نے دو تین باتیں کیں۔ ایک تو شاید انھوں نے میرے انداز بیان پر بات کی ہے کہ دوسرے فریق کی جگہ پر کھڑے ہو کر اس کے موقف کو سمجھنا چاہیے۔ میں نے اس فورم پر صرف ان لوگوں کا موقف دلائل کے ساتھ علما کے بیان کیا ہے تاکہ جو نکات اٹھائے جائیں، ان پر مناسب انداز میں بات ہو سکے۔ دوسری چیز جو الولاء والبراء کا تصور ہے، میں نے امام رازی کے جو تین تصورات پیش کیے، ا س سے بالکل یہ مقصود نہیں تھا کہ حکمران ان تین صورتوں میں آتے ہیں یا نہیں آتے۔ جو ایک بحث چل رہی ہے کہ اس کا رد عمل کیا ہے، یا ظلم کی بحث چل رہی ہے، اس پر کیا موقف علماے کرام یامذہبی طبقہ لے سکتا ہے۔ اسی سے یہ بحث نکلتی ہے۔ مقصد صرف یہ تھا کہ جو تین صورتیں بیان کی گئی ہیں، وہ اس حوالے سے بہت زبردست ہیں کہ علماء کرام اس پر متفق ہو سکتے ہیں۔ اس حوالے سے میں نے بات کی تھی۔
تیسری چیز کہ علۃ القتال کی جو بحث میں نے بیان کی، صرف اس نقطہ نظر سے تھی کہ یہ لوگ جو موقف اختیار کرتے ہیں کفر کے علۃ القتا ل ہونے کی بنا پر اور ہر ایک سے لڑتے ہیں، تو اس پر فقہا نے یہ لکھا ہے کہ کفر کی بنیاد پر ہر کسی سے نہیں لڑنا چاہیے۔ وجوہات کیا ہیں؟ وہ کفرمحاربہ ہے۔ کسی غیر مسلم ملک پر حملے کی وجہ محاربہ ہی ہے۔ یا وہ آپ کے ملک کے خلاف جنگ کرنے کی سازش کر رہے ہوتے ہیں یا ڈائریکٹ آ کر آپ پر حملہ کرتے ہیں تو آپ پر جہاد فرض عین ہو جاتا ہے۔ تو یہ علۃ القتال کی بحث صرف اس وجہ سے فقہا نے بیان کی ہے تاکہ یہ مفہوم واضح ہو سکے۔ کچھ آیات کی تفسیر کی جس سے یہ استدلال ہوتا ہے کہ یہ صرف کفر کی وجہ سے ہے۔

زاہد صدیق مغل

ایک نکتہ یہ اٹھایا گیا کہ جب سرمایہ دارانہ نظام کے حوالے سے ہماری گفتگو ہوتی ہے تو جو جہادی تحریکات ہیں، انھوں نے بالعموم سوشل ازم کے خلاف تو خروج کیا، لیکن لبرل ازم کے خلاف نہیں کیا۔ میں یہ واضح کرنا چاہوں گا کہ سرمایہ داری کی تین بڑی تشریحیں ہیں۔ ہمارے ہاں عام طو رپر یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ سوشلزم سرمایہ داری سے الگ کوئی چیز ہے۔ سرمایہ داری کا مطلب ہے آزادی اور مساوات کی بنیاد پر معارتی وریاستی نظم قائم کیا جائے۔ اب یہ ریاستی نظم کیسے قائم کیا جائے گا، اس کی تین بڑی تشریحیں ہیں۔ ایک وہ جس کو ہم لبرل ازم یا مارکیٹ اکانومی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سرمایہ داری کی دوسری تشریح وہ ہے جس کو مارکسزم کے نام سے پیش کیا جاتا ہے۔ ایک مارکیٹ کیپٹل ازم ہے اور ایک اسٹیٹ کیپٹل ازم۔ مارکس نے کبھی اس بات سے انکار نہیں کیا کہ آزادی اور مساوات کی بنیاد پر اسٹیٹ قائم ہو۔ اس کی تنقید یہ تھی کہ مارکیٹ اکانومی میں آزادی اور مساوات نہیں ملتی۔ مارکس ازم اور لبرل ازم میں بنیادی فرق صرف یہ ہے کہ ایک آزادی کی انفرادی تشریح کرتا ہے اور دوسرا آزادی کی collective تشریح کرتا ہے، اس لیے ایک اسٹیٹ کیپٹل ازم ہے اور دوسری لبرل کیپٹل ازم۔ سرمایہ داری کی تیسری بڑی تشریح قوم پرستی ہے۔ قوم پرستی کے تناظر میں جو سوال پوچھا گیا، اس کے جواب میں یہ نکتہ اہم ہے کہ سرمایہ داری کی ایک تیسری تشریح ہے قوم پرستانہ نظریہ اختیار کرنا۔ ان تینوں کے درمیان اپنے اپنے فرق موجود ہیں۔
جہاں تک یہ بات ہے کہ عام طور پر جہادی تحریکات نے سوشل ازم کے خلاف جدوجہد کی تو اس کے دو تین تناظر ہیں جس میں یہ بات سمجھی جا سکتی ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ لبرل ازم کے اندر مذہبی انفرادیت کے اظہار کے جس قدر مواقع موجود ہیں، سوشل ازم اتنے بھی نہیں دیتا۔ یعنی اگر آپ سوشل ازم کی تاریخ دیکھیں تو یے پناہ مظالم انھوں نے روس میں کیے، چین میں کیے۔ سوشل ازم مذہبی آزادی اتنی بھی نہیں دیتا جتنی لبرل ازم دیتا ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے جس کی وجہ سے علماء کرام نے بالعموم سوشل ازم کو شیطان بزرگ کے طو رپر دیکھا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہماری رائے یہ ہے کہ ہمارے ہاں دار الحرب اور دار الاسلام کی جو کنفیوژن ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ علماء کرام نے سرمایہ داری کو بحیثیت ایک نظام زندگی کے ان معنوں میں نہیں لیا۔ انھوں نے یہ سمجھا کہ یہ جو لبرل ازم میں آزادیاں ہیں، یہ اسلامی آزادیاں ہیں ، جبکہ لبرل ازم جس طرح بہت سے لوگوں کو کھلاڑی بننے کی اجازت دیتا ہے، اسی طرح مسلمان ہونے اور عیسائی بننے کی بھی اجازت دیتا ہے۔ لبرل ازم کے بارے میں عام طور پرعلما کے ہاں نرم گوشہ اس وجہ سے نہیں پایا جاتا کہ معاذ اللہ ان کی نیت میں شک ہے یا وہ لبرل ازم کو حق سمجھتے ہیں، بلکہ ہمارے خیال میں لبرل ازم کے بارے میں ان کے ذہن میں کنفیوژن ہے اور جس دن یہ کنفیوژن دور ہو جائے گی، علماء کرام نے جس طریقے سے سوشل ازم کے خلاف خروج کیا، اسی طریقے سے لبرل ازم کے خلاف بھی ہو جائے گا۔
تیسری بات یہ کہ عام طور پر جہاد افغانستان کے تناظر میں بھی یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ مجاہدین نے امریکہ سے مدد لی۔ بات یہ ہے کہ انٹر نیشنل تناظر میں ہر ملک کے اپنے مفادات ہوتے ہیں اور جہاں آپ کے مفادات کسی کے ساتھ reconcile کرتے ہیں، آپ کو فائدہ اٹھانا ہوتا ہے۔ ہر شخص اٹھاتا ہے۔ اگر مجاہدین ایک زمانے میں سوشل ازم کے خلاف جہاد کرتے ہوئے امریکہ کے ساتھ گئے اور اس کا ساتھ دیا تو یہ ان کے لاجسٹک مفاد میں تھا۔ اگر تو تاریخ ہمیں یہ بتاتی کہ جن مجاہدین نے امریکہ کے ساتھ مل کر جہاد کیا، وہ بعد میں امریکہ کے اتحادی بن گئے تو یہ الزام بالکل ان پر بجا تھا کہ وہ ایک زمانے میں امریکہ کے Tool بن گئے، لیکن ہم تو دیکھتے ہیں کہ جو لوگ امریکہ کے ساتھ مل کر جہاد کرنے میں پیش پیش تھے، آج وہی لوگ ہیں جو امریکہ کے خلاف جہاد کر رہے ہیں۔ یہ ان کا صرف ایک لاجسٹک فیصلہ تھا ۔ ہم اسلامی تاریخ میں دیکھیں تو اس کی بے شمار مثالیں مل جائیں گی کہ کفار کے ساتھ بظاہر لاجسٹک مفاد کے لیے تعلق بنایا گیا۔ آپ لاجسٹک مفاد کے لیے ساتھ ’’لے‘‘ سکتے ہیں، ’’دے‘‘ نہیں سکتے۔ میرے خیال میں ساتھ لینے اور ساتھ دینے میں بڑا بنیادی فرق ہے۔ ہاں، ہر فریق اپنے زاویہ سے یہ کہہ سکتا ہے کہ ہم نے فائدہ اٹھایا۔ امریکہ کہتا ہے کہ اس نے فائدہ اٹھا لیا اور ہم کہتے ہیں کہ ہم نے فائدہ اٹھایا۔ تو یہ دو طرفہ رائے تو بہرحال پائی جا سکتی ہے۔
ایک سوال خورشید ندیم صاحب کی طرف سے آیا تھا کہ مسلمان معاشروں میں حکومت کیسے قائم ہوگی۔ اس پر میرا ایک تفصیلی مضمون ہے جس میں، میں نے ان دلائل کا تجزیہ کیا ہے جو عام طو رپر جمہوریت کے حق میں دیے جاتے ہیں۔ مثلاً قرآن مجید کی ایک آیت ہے جسے rhetorically پڑھا جاتا ہے کہ امرہم شوری بینہم۔ اس آیت سے استدلال میں جتنے مسائل ہیں، وہ سب میں نے اپنے مضمون میں بیان کر دیے ہیں۔ بنیادی غلطی یہ ہے کہ ہم جمہوریت کو محض تبدیلی حکومت کا ایک نظام سمجھتے ہیں، جبکہ جمہوریت صرف حکومت تبدیل کرنے کا نام نہیں ہے۔ میں نے عرض کیا کہ جمہوریت تو illiberal بھی ہوتی ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں جو فوج اقتدار میں آ جاتی ہے تو وہ جمہوریت نہیں رہتی؟ ایسا نہیں ہے، وہ illiberal democracy ہو جاتی ہے۔ جمہوریت تو اس اداراتی صف بندی کا نام ہے جس کے ذریعے سے نظام اطاعت قائم کیا جاتا ہے۔ سو جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم جمہوریت کے خلاف ہیں تو اس سے مراد یہ نہیں کہ حکومت بدلنے کا یہ طریقہ چھوڑ کر کوئی اور طریقہ اختیار کر لیا جائے تو سب ٹھیک ہو جائے گا یا کوئی اسلامی جماعت جیت کر اقتدار میں آ جائے گی تو اسلامی نظام قائم ہو جائے گا۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ جن اداروں کے ذریعے سے حکومت کی جا رہی ہے، ان کے ذریعے سے سرمایہ دارانہ نظام کے مقاصد کو تو محفوظ کیا جا سکتا ہے، لیکن شریعت کی بالادستی کبھی قائم نہیں کی جا سکتی۔ نظام کے اسٹرکچر میں اور اس کے مقاصد میں ایک in-built relationship ہوتا ہے۔ آپ ان کو علیحدہ نہیں کر سکتے۔ Form اور Essence دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔ تو یہ جو جمہوری اسٹرکچر میں حکومت کے جتنے ادارے ہیں، وہ آزادی، مساوات اور ترقی میں لا محدود اضافے کے ایجنٹ ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ ایک بڑی بنیادی بات ہے جو کاش ہماری سمجھ میں آ جائے۔
رہ گیا یہ سوال کہ اگر جمہوریت نہیں ہوگی تو حکومت کیسے آئے گی تو میں اس کے الزامی جواب کے طو رپر ایک سوال کرتا ہوں کہ کالج اور یونی ورسٹی میں یہ کیسے طے ہوتا ہے کہ ڈین کسے مقرر کرناہے؟ کیا چپڑاسی سے لے کر سینئر اساتذہ تک، سب کی رائے لی جاتی ہے کہ جس کے حق میں زیادہ لوگ رائے دے دیں گے، اس کا فیصلہ ہو جائے گا؟ ایسا کبھی بھی نہیں ہوتا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں جتنے ادارے ہیں، وہ اسی طرح کام کر رہے ہیں، سوائے چھوٹی سی حکومت کے اور میں واضح کر سکتا ہوں کہ گلوبلائزیشن کے نتیجے میں جس ادارے کا جمہوریت میں سب سے کم کردار رہ جاتا ہے، وہ مقننہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوری حکومتوں میں حکومتیں بدلتی ہیں، پالیسیاں کبھی نہیں بدلتیں۔ یہ صرف پاکستان میں نہیں، امریکا میں بھی ایسے ہی ہے اور اس کا براہ راست نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگ جمہوری عمل میں حصہ لینا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ ٹرن آؤٹ پچاس فی صد سے کم ہو جاتا ہے۔ تو بنیادی بات یہ ہے کہ ہمارے جتنے بھی معاشرتی اور ریاستی ادارے ہیں، ان میں ہم کہیں بھی جمہوری بنیاد پر فیصلے نہیں کرتے کہ سربراہی کس کو ملے گی، لیکن اس کے باوجود کبھی خلا پیدا نہیں ہوا اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ یونیورسٹیوں میں لوگوں نے ڈنڈے اٹھائے ہوئے ہوں اور لڑ رہے ہوں کہ ڈین کون بنے گا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ڈین بھی بن جاتے ہیں، کالجوں کے پروفیسر بھی طے ہا جاتے ہیں، مسجدوں کے امام مقرر کرتے وقت کبھی ایسا جھگڑا نہیں ہوا کہ کہ لوگ ڈنڈے لے کر آ گئے ہوں۔ کچھ مثالیں ایسی مل جاتی ہیں جہاں لوگ فرقہ وارانہ بنیاد پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سے انکار نہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مساجد اسلامی ریاست کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ 
تو میرا سوال یہ ہے کہ ان سب اداروں میں فیصلے کیسے ہو رہے ہیں؟ دیکھیں، ہر سسٹم کے اندر جو لوگ ٹاپ پر آتے ہیں، وہاں تک پہنچنے کے پروسس ہوتے ہیں۔ جب آپ اسلامی ریاست قائم کریں گے، اسلامی نظام قائم کریں گے تو تقویٰ کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ پتہ ہی نہ چلے کہ کون متقی ہے اور اہل الرائے کون ہے اور لوگ پریشان ہو جائیں کہ اب عوام بتائیں کہ کون متقی ہے اور کس کو خلیفہ ہونا چاہیے۔ یہ فیصلہ اہل الرائے کریں گے۔ اگر آپ یہ سوال اٹھائیں کہ اہل رائے کیسے آئیں گے تو میرا جواب وہی ہوگا کہ صرف اس پراسس پر غور کر لیں جس کے ذریعے ہمار ے تمام اداروں میں وہ لوگ آ جاتے ہیں جن کو ہم اہل الرائے سمجھتے ہیں۔ اسلامی ریاست میں بھی بالکل اسی طرح لوگ آ جائیں گے۔
عمار صاحب نے یہ سوال اٹھایا کہ ہم جو بات کہہ رہے ہیں، وہ ظاہر بات ہے کہ ایک اجتہادی رائے ہے جبکہ جمہوریت کے بارے میں علماء کرام کی بھی ایک انڈر اسٹینڈنگ ہے۔ اس میں ہمیں کوئی کلام نہیں اور نہ ہی ہم یہ سمجھتے ہیں۔ انھوں نے خود واضح کر دیا کہ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے۔ جیسے علماء کرام نے ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد مدارس کے ذریعے سے ایک علمی جدوجہد برپا کی اور اسلامی علوم کا تحفظ کیا۔ ظاہر ہے کہ میں یہ سوال اٹھا سکتا ہوں کہ ان کو یہ نہیں کرنا چاہیے تھا، بلکہ لڑنا چاہیے تھا۔ تو اصل بات یہ ہے کہ ہر شخص اپنے حالات کے اعتبار سے کسی چیز کو ممکن سمجھتا ہے اور اپنے تجزیے کی بنیاد پر ایک نتیجے تک پہنچتا ہے۔ انیسویں صدی میں علماء کرام نے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک جدوجہد کی۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ وہ غلط تھی۔ وہ اپنی جگہ جائز تھی۔ تو جن علماء کرام کی انڈرسٹینڈنگ یہ ہے کہ اس جمہوری نظام کے اندر اسلام کا آنا ممکن ہے، ان کی نیت پر ہم شک نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر میں اسلامی بنکاری کے بھی خلاف ہوں، لیکن میں یہ نہیں کہتا کہ جو لوگ اسلامی بینکنگ کر رہے ہیں، وہ معاذ اللہ امت کے بدخواہ ہیں یا ان کی نیتوں میں فتور ہے۔ یہ ان کی انڈرسٹینڈنگ ہے اور ان شاء اللہ جس دن ان کو میری بات سمجھ میں آ جائے گی یا ان کی بات میری سمجھ میں آ جائے گی تو ہم ایک جگہ پر آ جائیں گے۔ 
میں بنیادی طور پر کسی کی تکفیر نہیں کر رہا اور نہ ہی خروج کی کسی مخصوص جدوجہد کو جواز دے رہا ہوں کہ فلاں خروج جائز تھا یا یہ خروج ناجائز ہے۔ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ جو لوگ یہ کہہ رہے کہ خروج ہے ہی ایک شجر ممنوعہ، ان کا استدلال غلط ہے۔ میرا یہ موقف ہے۔ آگے یہ سوال انھوں نے اٹھایا ہے کہ کیا ایک گروہ اپنی تفہیم کی بنیاد پر جدوجہد کر سکتا ہے اور کیا یہی حق اجتماعیت کو نہیں دینا چاہیے؟ اس کا جواب ایک تو یہ ہے کہ امام حسینؓ اور حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ نے جو خروج کیاہے، وہ ہماری تاریخ میں واضح ہے۔ ظاہری بات ہے کہ سارے صحابہ کرام ان کے ساتھ نہیں تھے۔ اب اس بنیاد پر ہمارے علما نے کبھی یہ نہیں لکھا کہ ان کا خروج ناجائز تھا۔ اہل سنت کی بات کر رہا ہوں۔ اگر اہل سنت سے باہر کسی کی رائے ہو تو میں اس کا ذمہ دار نہیں ہوں، لیکن اہل سنت والجماعت کے جو معتبر علماء کرام ہیں، کیا کسی نے اسلامی تاریخ میں یہ بات کہی ہے؟ ویسے معذرت کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ اہل سنت میں اب ناصبی بھی آ گئے ہیں جو ان کے خلاف لکھ دیتے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ خروج کے لیے علما نے کبھی یہ شرط نہیں لکھی کہ وہ عوامی رائے کی بنیاد پر ہو۔ جو حضرات کہتے ہیں کہ خروج کے لیے عوامی رائے ہونی چاہیے تو اس کی بھی تو دلیل چاہیے۔ علما نے یہ شرط لکھی ہے کہ آیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کے پاس اتنی افرادی قوت ہے کہ آپ کامیاب ہو جائیں گے؟ یہ شرط تو موجود ہے فقہا کے لٹریچر میں، لیکن یہ بات مجھے کہیں نظر نہیں آئی کہ فقہا نے یہ لکھا ہو کہ عوامی رائے بھی ساتھ ہونی چاہیے۔ ظاہر ہے کہ جو گروہ یہ سمجھتا ہے کہ اسے جدوجہد کرنی ہے، اسی کوفیصلہ بھی کرنا ہوگا۔ یہ ایسے ہی ہے کہ ۱۸۶۵ء میں یہ فیصلہ کس نے کیا کہ مدارس کا علمی تحفظ کرنا چاہیے؟ ظاہر ہے کہ جس گروہ کی یہ رائے تھی کہ آج یہ کرنے کا وقت ہے، انھوں نے وہی کر لیا۔ اسی طرح جو گروہ یہ سمجھتا ہے کہ اسے طاقت اور قوت کو جمع کرنا ہے اور وہ اس کے لیے جدوجہد کر رہا ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ میں لڑ پڑوں تو ظاہری بات ہے کہ فیصلہ تو اسی کا ہوگا۔ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ پورے پاکستان کو اس کے لیے تیار کیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ جمہوریت اسی طریقے سے پوری دنیا میں نافذ کی گئی ہے؟ اگر میں آپ کو ہیومن رائٹس کی تاریخ بتاؤں کہ یہ کس نے لکھے تھے تو یہ ۵۴ سفید فام امریکی مردوں نے لکھے تھے جن کو پوری دنیا کے قانو ن کے طور پر مسلط کر دیا گیا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ ساری دنیا کی رائے عامہ کو پہلے تیار کیا جائے اور پھر کوئی اقدام کیا جائے۔

ڈاکٹر رشید احمد

ہمارے ہاں سوات میں فوجی آپریشن کی وجہ سے وہاں کے لوگوں کی جتنی جائیداد تھی، تباہ ہو گئی ور عورتیں سارے خیبر پختون خوا میں در بدر ہو گئیں۔ عورتوں کی بے عزتی ہوئی، اموال تلف ہو گئے۔ اللہ نہ کرے کہ یہاں پر بھی اس طرح کا کوئی آپریشن ہو، تب آپ لوگوں کو اس کا صحیح اندازہ ہوگا کہ خروج کتنا صحیح ہے اور اس کا شرعی جواز کتنا ہے!

مفتی محمد زاہد

ایک چھوٹی سی وضاحت کر دوں کہ جب ہم خروج کی بات کرتے ہیں تو اس سے ہماری مراد مسلح مزاحمت ہوتی ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ حضرت امام حسین کو خروج کی اس بحث میں نہیں لانا چاہیے، اس لیے کہ وہ کوئی مسلح سعی نہیں تھی۔

ڈاکٹر خالد مسعود

میرے خیال میں بحث بہت سے اہم نکات کو کھول رہی ہے اور ہم کافی آگے چلے جائیں گے اور اس کے لیے بہت سی نشستوں کی ضرورت ہوگی۔ ایک سوال جو میرے ذہن میں اٹھتا ہے، وہ میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں کہ جس طرح اسلام میں آنے کے لیے نیت ضروری ہے اور ایک غیر مسلم آدمی نمازیں پڑھنا شروع کر دے تو اس کو اسلام قبول کرنا نہیں کہیں گے تو کفر کی بحث میں بھی اس کی نیت کا اعتبار کیا جائے گا یا نہیں؟ 

ڈاکٹر حسن مدنی

حدیث مبارکہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحابہ کرام کا یہ مکالمہ موجود ہے۔ صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ بایعنا علی السمع والطاعۃ فی منشطنا ومکرہنا وعسرنا ویسرنا وان لا ننازع الامر اہلہ ..... الا ان تروا کفرا بواحا۔
جہاں تک خروج کی بات ہے تو خروج خلافت اسلامیہ کا ایک مستقل تصور ہے۔ صحابہ کرام اور سیدنا حسین نے عملاً خروج کر کے خروج کی شرعی حیثیت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے، ائمہ ثلاثہ خروج کے جواز کے قائل ہیں۔ احادیث میں امرا اور خلفا کی اطاعت کی واضح تاکید ملتی ہے، تاہم صحیح احادیث کی رو سے تین صورتوں میں اصولاً خروج پر اتفاق رائے پایا جاتاہے۔ خروج کی چار شکلیں ہیں جن میں سے تین اتفاقی ہیں۔ چوتھی صورت کے بارے میں اختلاف ہے۔ اتفاقی صورتوں میں کفر بواح ہے، اقامت صلوٰۃ نہ کرنا ہے اور اقامت دین نہ کرنا ہے۔ جو حکمرانوں کا فسق وفجور ہے، اس کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ حنابلہ اس کے قائل نہیں ہیں اور باقی تین ائمہ فسق وفجور کی صورت میں بھی اس کے قائل ہیں۔ علامہ ابن تیمیہ نے، امام ابوحنیفہ نے، شاہ ولی اللہ نے، حافظ ابن حجر نے خروج کی وجوہ پر صریح گفتگو کی ہے۔ یہ سب خروج بعض شکلوں میں خروج کو واجب بھی مانتے ہیں۔ 
ہمارے ہاں جو بنیادی نکتہ زیر بحث ہے، اس نکتے کے ساتھ ملا کر میں اس کو دیکھتا ہوں۔ بنیادی سوال جو غور طلب ہے کہ دار الاسلام کیا ہے؟ دار الاسلام کے بارے میں یہاں جو بات کہی گئی، بڑی معذرت کے ساتھ میں کہوں گا کہ اسے دار الاسلام نہیں، دار المسلمین کہنا چاہیے جہاں مسلمانوں کی حکومت ہے، جیسے بھی وہ حکومت کرتے ہیں۔ یہ دارالمسلمین ہے، دار الاسلام نہیں ہے۔ دار الاسلام کا اطلاق اس حکومت پر ہوتا ہے جو کتاب وسنت کو نافذ کرتی ہے اور اس کا دعویٰ کرتی ہے۔ یہی بات ہمارے ائمہ کرام پہلے کہہ چکے ہیں۔ شاہ ولی اللہ کی شخصیت مسلمہ ہے۔ ان کی ایک عبارت سے دونوں ہی استدلال ہوتے ہیں۔ حجۃ اللہ البالغہ میں ان کا فرمان موجود ہے کہ ’وبالجملۃ فاذا کفر الخلیفۃ بانکار ضروری من ضروریات الدین حل قتالہ بل وجب والا لا لانہ حینئذ فاتت مصلحۃ نصبہ بل یخاف مفسدتہ علی القوم فصار قتالہ الی الجہاد فی سبیل اللہ‘۔ جب خلیفہ ضروریات دین میں سے کسی کا انکار کر دے تو قتال کرنا حلال بلکہ واجب ہے۔ شاہ ولی اللہ نے اس عبارت میں ایک تو خلیفہ کے ضمن میں خروج کی بات کی ہے اور دوسرا انھوں نے یہ بتایا ہے کہ خروج کب کیا جائے گا۔ جب ضروریات دین کا خاتم ہو جائے۔ یعنی مسلمانوں کی حکومت کی بات نہیں ہے۔ نفاذ دین، ضروریات دین کا جہاں نفاذ ہوگا، اسے ہم اسلامی ریاست کہیں گے۔ شاہ ولی اللہ نے خروج کے بارے میں وجوب کی بات بھی کہی ہے اور وجوب کی واضح عبارت بھی موجود ہے۔
امام ابوحنیفہ کے بارے میں الموفق مکی نے ’’مناقب ابی حنیفہ‘‘ میں امام ابوحنیفہ کے بارے میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ خروج کو واجب سمجھتے تھے۔ امام ابوبکر جصاص کا بھی یہی قول ہے۔ جہاں تک یہ مسئلہ ہے کہ دار الاسلام کسے کہتے ہیں تو علامہ ابن تیمیہؒ کی بھی ایک عبارت سامنے رہنی چاہیے۔ وہ فرماتے ہیں: وایما طائفۃ انتسبت الی الاسلام وامتنعت عن بعض شرائطہ الظاہرۃ المتواترۃ فانہ یجب جہادہ باتفاق المسلمین۔ یعنی وہ جماعت جو اسلام کا نام لے، لیکن اسلام کے ظاہری اور متواتر احکامات سے رو گردانی کرے تو اس کے بارے میں امت کا اجماع ہے کہ اس کے خلاف خروج ہونا چاہیے۔
تو پہلا نکتہ تو یہ ہے کہ دار الاسلام ہم کسے کہتے ہیں؟ میں بڑی معذرت کے ساتھ عرض کروں گاکہ اس وقت ہم مسلمان جو کچھ کر رہے ہیں، اگر یہی اسلام ہے تو اسلام پر اس سے بڑا طعن کوئی نہیں ہے۔ ہم مسلمانوں کے موجودہ رویے کو اسلام نہیں مانتے اور سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کا موجودہ طرز عمل اسلام کے لیے باعث شرم ہے، لیکن مسلمانوں کا یہی رویہ اگر سیاست کے میدان میں ہو تو وہ اسلام کی گارنٹی اور ضمانت کیسے دے سکتا ہے؟ مسلمان جب سیاسی میدان میں کام کر رہے ہیں تو وہ دار الاسلام بن گیا، یہ ایسی تعبیر ہے جس سے میں اتفاق نہیں کر سکتا۔ ہمارے ہاں یہ مسلمہ نظریہ رہا ہے کہ ہم مسلمانوں کی تاریخ اور ہے جبکہ اسلام کی تاریخ اور ہے۔ صرف اسلام کو عصمت حاصل ہے، پاکستان کے شہریوں کو عصمت حاصل نہیں ہے۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ دار الاسلام وہ ہے جہاں کتاب وسنت کا نفاذ ہے اور جہاں اللہ کا دین قائم ہے۔ 
یہ دار الاسلام میرے نقطہ نظر کے مطابق خلافت عثمانیہ کے آخری دور تک، ۱۹۲۴ء تک کسی نہ کسی شکل میں قائم رہا ہے۔ کم تر شکل میں، کمی بیشی کے ساتھ، وہ ہمیشہ قائم رہا ہے۔ اس کے بعد یہ اللہ کی حکمت بالغہ ہے کہ وہاں سے سعودی عرب میں منتقل ہوا اور وہاں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے، کم تر شکل کہہ لیں۔ آج کے دور میں اگر اس کی کوئی بہتر شکل ملتی ہے تو وہ امارت اسلامیہ افغانستان کی ہے جہاں سعودی عرب سے بھی بہتر شکل میں دار الاسلام قائم کیا گیا۔ اگر ہم دعویٰ کر سکتے ہیں تو کسی نہ کسی درجے میں ان کے بارے میں دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ یہ کہنا کہ اموی اور عباسی خلفا میں بھی بہت سی خامیاں تھیں تو دراصل کسی بھی حکمران کا ذاتی کردار اصل مسئلہ نہیں ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ وظیفہ قیادت کیا ادا کر رہا ہے۔ آج اگر سعودی عرب کے حکمران ملوکیت پر قائم ہیں اور بہت زیادہ عیاشیاں کر رہے ہیں تو انھوں نے کتاب وسنت کا نظام بھی قائم کیا ہے۔ میں اس کو حکمرانوں کے ذاتی کردار کے بجائے اس تناظر میں دیکھوں گاکہ وہ وظیفہ حکومت کیا انجام دے رہے ہیں؟ اس پر انحصار ہے۔ 
علامہ ابن تیمیہ کا واضح نظریہ ہے سیاست شرعیہ میں کہ ایسا حکمران جو ذاتی طور پر فاسق ہو لیکن دین کو نافذ کرنے کی بہتر اہلیت رکھتا ہو تو ایسے فاسق کو حکومت دی جائے گی بجائے ایسے آدمی کے جو ذاتی طور پر تو بہت دین دار ہے، لیکن حکومت کی اہلیت نہیں رکھتا۔ آپ پاکستان کی مثال لے لیں۔ یہاں صدر فاروق لغاری رہے ہیں، رفیق تارڑ رہے ہیں، میاں محمد سومرو رہے ہیں۔ ذاتی طور پر دین دار ہیں، لیکن انھوں نے اپنے فرائض منصبی کے ساتھ انصاف نہیں برتا۔ تو ذاتی کردار واقعتا اہمیت رکھتا ہے۔ خلافت راشدہ کا یہ امتیاز تھا کہ اس میں ذاتی طور پر بھی خلفا میں یہ معیار موجود تھا جو بعد میں بہت کم ہوتا چلا گیا، لیکن اسلامی شریعت کسی نہ کسی درجے میں خلافت کے آخری دور تک قائم رہی ہے۔
اب میں اصل نکتے کی طرف آتا ہوں۔میرا نظریہ یہ ہے کہ پاکستان کے دستوری تناظر میں خروج کی بحث سرے سے ہی درست نہیں، کیونکہ ہمارے دستور میں خروج کے بارے میں کوئی بات موجود نہیں ہے۔ یہ دستور خروج کے متعلق کسی قسم کی گفتگو نہیں کرتا۔ اس میں خروج کا کوئی تصور نہیں، کیونکہ خروج خلافت اسلامیہ کا ایک تصور ہے۔ جہاں خلافت اسلامیہ ہوگی، وہاں خروج کی بات کریں گے۔ اس وقت اسلام کا سیاسی نظام، خلافت یا امارت، دنیا میں کسی بھی جگہ پر قائم نہیں۔ سعودی عرب کے بارے میں بھی میں کسی درجے میں کہہ رہا ہوں۔ کسی ملک کو حقیقی دار الاسلام اس وقت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ہماری جو مسلم ریاستیں ہیں، وہ جدید مغربی تصورات پر قائم قومی ریاستیں ہیں۔ یہ وطنی بنیادوں پر قائم ہیں اور خلافت اسلامیہ ایک خالص نظریاتی ریاست ہوتی ہے جو اللہ کے دین کے نفاذ کے لیے ہوتی ہے۔ تو واقع کو اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں قرآن وسنت کے قوانین کو دیگر قوانین پر کوئی بالاتر حیثیت حاصل نہیں ہے۔ دستور پاکستان میں اسلامی دفعات کے خوش نما نعرے اور پالیسی بیانات بہت موجود ہیں، لیکن عملی طور پر ان کے نفاذ کا کوئی میکنزم نہیں ہے۔ حاکمیت اعلیٰ کا نعرہ محض زیب عنوان ہے۔ درون خانہ حاکمیت عوام کا پورا نقشہ قائم ہے اور ملک میں سرکاری سطح پر کوئی اسلام نظر نہیں آتا۔ اسلام کو اختیار کرنے یا ترک کرنے کی گنجائش تو موجود ہے، یعنی ایک فرد کے لیے تو یہ گنجائش ہے کہ اسلام کو لے لے یا چھوڑ دے، لیکن اسلام کو ریاستی سطح پر ٹکڑے ٹکڑے کر کے عوامی نمائندوں کی منظوری کے ساتھ اسلام کو نافذ کرنا، یہ تومنون ببعض الکتاب وتکفرون ببعض کے ضمن میں آتا ہے۔
پاکستان میں علماے کرام ابتدائی دور سے جو بھی دستوری جدوجہد کر رہے ہیں، بائیس نکات ہوں، ۱۹۷۳ء کا آئین ہو، قانون توہین رسالت ہو یا حدود قوانین ہوں، یہ ساری جدوجہد ایک مثالی لائحہ عمل کی بجائے قابل عمل یا ممکنہ طریق کار کے طور پر کی گئی۔ ہمارے پاس اس وقت ممکنہ طریقہ یہی ہے، یہ نہیں کہ ہم اس کو کوئی مثالی شکل سمجھتے ہیں۔ ہمارے دور میں اسلام کو اگر خالص شکل میں نافذ کیا گیا تو وہ افغانستان میں تھا۔ طالبان کو پورا موقع ملا اور انھوں نے اسلام کو خالص امارت اسلامیہ کے طور پر نافذ کیا۔ 
تو خلاصہ یہ ہے کہ خروج کے متعلق ہم فقہ الواقع کو دیکھ کر فیصلہ کریں گے کہ صورت حال کیا ہے؟ جس صورت حال میں ہم کھڑے ہیں اور آج جو خروج ہو رہا ہے، اس کو ہم کیا کہتے ہیں؟ فقہ الواقع کے بغیر ہم فقہ الاحکام پر بات نہیں کر سکتے۔ میرے خیال میں پاکستان کے دستور میں خروج کی کوئی بحث ہی نہیں، یہاں بغاوت کی بحث ہے۔ یہاں خلافت تو کیا، جمہوریت بھی نہیں ہے۔ جمہوریت میں شمسی ایئر بیس اور جیکب آباد ایئر بیس غیروں کے حوالے کر کے اہل وطن پر ہلاکت اور بمباری مسلط نہیں کی جاتی۔ جمہوریت میں بادشاہانہ جانشینی نہیں ہوتی جو پاکستان کی نام نہاد جمہوری جماعتوں کا وتیرہ ہے۔ خروج کی بحث اگر کی جا سکتی ہے تو کسی درجے میں ملا عمر کے قائم کردہ نظام امارت اسلامیہ کے تناظر میں ہو سکتی تھی جو عالمی تقاضوں کے مطابق بھی ۸۰ فی صد علاقے پر قابض تھے، لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ آج ایسے لوگ موجود ہیں جو ماضی میں پرویز مشرف کے باغیانہ اقدامات کے حامی رہے ہیں اور انھوں نے نظریاتی اور علمی سطح پر پرویز مشرف کے ناجائز اقدامات کو سہارا دینے کی کوشش کی تھی جو غاصبانہ قبضے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ 
اپنے ملک کی سرزمین اور عوام کو دشمن کے حوالے کر کے اس سے تائید وتحفظ کی بھیک مانگنے والے مشرف کے خلاف شریعت اسلامیہ کے عاملین تو کجا، ہر طبقہ زندگی حتیٰ کہ سول سوسائٹی کو بھی میدان میں نکلنا چاہیے تھا جو اسلام سے کوئی دلچسپی اور تعارف رکھتی ہو۔ آج وہ لوگ جو پرویز مشرف کے اقدامات کو جائز قرار دیتے ہیں، امریکہ کے افغانستان پر قبضے کو مبنی بر انصاف باور کراتے ہیں، وہی لوگ ہیں جو فلسطین وکشمیر میں مسلمانوں کی مزاحمت کو دہشت گردی باور کرتے ہیں۔ انھیں اصل باغی کے خلاف جمہوری جدوجہد کی تو کوئی ضرور ت محسوس نہیں ہوتی، لیکن وہ ظالم اور غاصب کے ظلم کے نتیجے میں کھڑے ہونے والے عوام پر خروج کی بحثیں کر کے ان کی آہ کو بھی بند کرنا چاہتے ہیں۔ جو لوگ امن کے داعی ہیں، انھیں امن کے اصل مجرموں کے خلاف اپنی شکایت قائم کرنی چاہیے۔ پاکستان اور افغانستان میں امن کو تباہ کرنے والا سب سے پہلے عالمی استعمار ہے۔ امریکی قیادت نے پانچ ہزار افراد کی ہلاکت کا بدلہ ہزاروں دیہات اور لاکھوں انسانوں کو ہلاک کر کے لے لیا ہے اور اب بھی اس کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہو رہا۔ پھر امن کو پامال کرنے والے ہمارے حکمران ہیں جنھوں نے امریکہ کی ہاں میں ہاں ملائی۔ اگر ہم امن کی دعوت میں مخلص ہیں تو ہمیں پہلے امن کے اصل مجرموں کے خلاف سیمینار منعقد کرنا چاہیے۔ آج یہ روایت پختہ ہو چکی ہے کہ جنگ کو export کرنے والے ممالک امن مشنوں اور انسانیت کو شرمندہ کرنے والے انسانی حقوق کا سرٹیفکیٹ بانٹ رہے ہیں۔ 
یہ سوال بھی غور طلب ہے کہ اس تکفیر وخروج کو سیاسی تکفیر وخروج سے تعبیر کیا جائے تو زیادہ بہتر ہے، کیونکہ یہ کوئی مستقل مسئلہ نہیں ہے۔ مصر میں جمال عبد الناصر کے قتل عام کے نتیجے میں تکفیر وخروج کا مسئلہ پہلی مرتبہ پیدا ہوا۔ مختصراً میں یہ کہنا چاہوں گاکہ ہمارے اس دور میں سیاسی تکفیر وخروج کا جو مباحثہ ہے، یہ سارا خالصتاً رد عمل کے تناظر میں ہے۔ ۱۹۹۰ء کے بعد سعودی عرب میں امریکی اڈوں کے بعد اسامہ بن لادن اور ان کے ہم نوا مخلص نوجوان ملت اسلامیہ کے دفاع کے لیے سامنے آئے تھے۔ انھوں نے حکمرانوں کو بھی، کبار علما کو بھی کہا اور اس کے بعد تکفیر کی تحریک شروع ہو گئی۔ پاکستان میں تکفیر کی تحریک کا باضابطہ سلسلہ ۲۰۰۰ء کے بعد شروع ہوا ہے، اس سے پہلے شاذ ونادر ہی کہیں ملتا ہے۔ اس کا جو اصل تناظر ہے، وہ رد عمل اور ظلم ہے۔ اس سے پہلے یہ خطہ تکفیر وخروج کی بھاری بھرکم بحث سے ناآشنا ہے، حتیٰ کہ جہادی گروہ القاعدہ کا وجود بھی سراسر امریکی جارحیت کا رد عمل ہے۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ملت اسلامیہ میں ۱۹۵۰ء سے ۱۹۹۰ء تک کوئی جہادی گروہ نہیں تھا۔ جب سے نیو ورلڈ آرڈر آیا ہے اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکہ نے تہذیبوں کے تصادم کا راستہ اختیار کیا ہے تاکہ اس کی اسلحہ سازی کی صنعت چلتی رہے، اس کے نتیجے میں اسلام اور ملت اسلامیہ امریکہ کا ہدف بن گئے ہیں۔
میرا موقف تکفیر وخروج کے سلسلے میں یہ ہے کہ یہ موجودہ تحریک خالصتاً سیاسی تناظر میں چل رہی ہے اور ان پر ظلم ہوا ہے۔ اس ظلم سے پہلے میرے علم کے مطابق تکفیر وخروج کی بحث مجھے نظر نہیں آتی۔ اگر جمال عبد الناصر نے ظلم کیا تو اس کے نتیجے میں یہ سلسلہ شروع ہوا ہے۔ تو ہمیں ظلم کرنے والوں کی مذمت بھی کرنی چاہیے اور یہ کام جو یہ لوگ کر رہے ہیں، وہ بھی اسلام نہیں ہے۔ اسلام میں تشدد کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اسلام میں فدائی حملوں کا کوئی نظام نہیں ہے، لیکن جس طرح طالبان کے نام پر ملک بھر میں دھماکے کیے جاتے ہیں اور طالبان خود جو غلط راستے اختیار کرتے ہیں، وہ غلط ہیں۔ اسی طرح خروج کی جو بحث ان کے ہاں شروع ہوئی ہے، یہ بھی خلط مبحث ہے۔ یہ موضوع ہی نہیں ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے بلوچستان کے اندر لوگ اپنے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں۔ جب ان پر ظلم ہوا ہے تو ظلم سے دفاع کے لیے انھوں نے شریعت کانام استعمال کیا ہے۔ یہ خروج کی بحث بنتی ہی نہیں۔ یہ تو کھلم کھلا ظلم اور اس سے دفاع کی بحث ہے اور ظلم اور اس سے دفاع کی بحث میں ہمیں مظلوم کا ساتھ دینا چاہیے۔کم از کم اگر ہم ان کی عملی مدد نہیں کرتے تو مزاحمت کے راستے میں ان کی آہ کو بند نہیں کرنا چاہیے اور انھیں جائز راستہ دکھانا چاہیے۔
ہم یہ کہیں کہ تشدد گوارا ہے تو نہیں، اس کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم تشدد یا خروج کو یا ان بم دھماکوں کو صحیح سمجھتے ہیں، لیکن جو کچھ ان کے ساتھ ہوا ہے، یہ اس کی justification ہے۔ آج وہ اس انتہا پر اس لیے پہنچے ہیں کہ پورے ملک کے لوگوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ سرحد میں جو ظلم وہلاکت اور بربریت مسلط ہوئی ہے، اس میں اگر ملک کے لوگ ان کا ساتھ دیتے تو شاید وہ اس حد تک نہ پہنچتے۔ میں ان کے ساتھ ہمدردانہ رویہ رکھتا ہوں اور اگر حالیہ دھماکے وغیرہ ان کا اقدام ہے تو بہرحال یہ اسلامی اقدام نہیں ہے۔ اگر وہ کر رہے ہیں تو ٹھیک نہیں کر رہے کیونکہ اسلام تشدد کو پسند نہیں کرتا۔ اسلام جوابی مزاحمت کے جائز راستے ہمیں بتاتا ہے۔ اس طرح کی عمومی ہلاکت کا راستہ نہیں دکھاتا۔

محمد عمار خان ناصر

میں نے آج کی نشست کے لیے جو باقاعدہ تفصیلی مضمون لکھا ہے، اس میں القاعدہ کے راہنما شیخ ایمن الظواہری کی کتاب ’’الصبح والقندیل‘‘ کا ناقدانہ جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے اپنا موقف پیش کیا اور اس پر دلائل کی وضاحت کی ہے کہ پاکستان کا جو دستور ہے، اس کے بارے میں عام طور پر مذہبی حلقوں میںیہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ یہ اسلامی دستور ہے، کیونکہ اس میں اسلامی شقیں موجود ہیں اور شریعت کی بالا دستی کی بات کی گئی ہے اور اسی کی وجہ سے اب تک لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے۔ اس تصور کو انھوں نے اس میں چیلنج کیا ہے۔ میں نے ان کے استدلال کا جو جائزہ لیا ہے، اسے یہاں مکمل بیان کرنا ممکن نہیں، اس لیے ظواہری کے استدلال کے بنیادی مقدمات کی وضاحت کرنے پر اکتفا کرتا ہوں۔ 
یہاں میں یہ تنقیح کرنا چاہوں گا کہ ظواہری کا جو استدلال ہے، وہ بعض دوسرے استدلالات سے مختلف ہے جن میں سے بعض اس مجلس میں بھی پیش کیے گئے۔ مثلاً ابھی حسن مدنی صاحب نے یہ بات کی کہ اب تک پاکستان میں جو کچھ بھی کیا گیا ہے اسلامائزیشن کے حوالے سے، وہ کافی نہیں ہے۔ اس میں بہت سے نقائص ہیں، بہت سے خلا ہیں اور یہ کہ دستور ہمیں اس بات کی پوری ضمانت نہیں دیتا شریعت کی بالا دستی عملاً قائم ہو۔ یہ ایک تنقید ہے اور یہ ظواہری کی تنقید سے مختلف ہے۔ ظاہر ہے کہ اس پر بات کسی اور انداز سے ہوگی۔ ایک دوسری تنقید ہے جس پر برادرم زاہد صدیق صاحب نے گفتگو کی۔ وہ یہ ہے کہ اگرچہ بہت سی اسلامی دفعات دستور میں شامل ہیں اور اس طرح کی مزید دفعات بھی شامل کی جا سکتی ہیں، لیکن سرمایہ دارانہ نظام ایسا ہے اور وہ کچھ ایسے بنیادی مفروضات کو مان کر چلتاہے کہ ہم کسی بھی ملک کے دستور میں چاہے اس طرح کی کتنی ہی ضمانتیں شامل کر لیں، عملاً وہ نتیجہ خیز ہو ہی نہیں سکتیں۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ استدلال کا ایک دوسرا پہلو ہے۔ 
ظواہری کی تنقید ان دونوں سے مختلف ہے۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ دستور میں دی گئی ضمانتیں ناکافی ہیں۔ وہ یہ بھی نہیں کہتے کہ آپ جو چاہیں دستور میں لکھ لیں، عملاً سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے کچھ نہیں کر سکتے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا جو دستور ہے، اس میں صریحاً کچھ ایسی شقیں موجود ہیں جو اس کو کفر تک لے جاتی ہیں۔ یہ ان کی بنیادی تنقید ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے آٹھ دفعات ہیں جن کی باقاعدہ نشاندہی کی ہے کہ یہ دفعات کفر کا درجہ رکھتی ہیں۔ اس کے ساتھ ایک فقہی نکتہ بھی انھوں نے اس میں شامل کیا ہے کہ یہ چیزیں خلاف شریعت ہیں اور جب کسی خلاف شریعت چیز کو آپ باقاعدہ قانون کا درجہ دے دیں تو وہ کفر بن جاتا ہے۔ ان کا ایک استدلال تو یہ ہے۔ ایک اور استدلال انھو ں نے یہ پیش کیا ہے جو اس حلقہ فکر کا عام استدلال ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیے قانون سازی کا حق تسلیم کرنا یہ کفر ہے اور یہ اللہ کے اختیارات میں شرک ہے۔ پھر وہ جمہوریت کو اس کے ساتھ اس طرح relate کرتے ہیں کہ دیکھیں یہ ٹھیک ہے کہ دستور میں شریعت کی بالادستی کی بات کی گئی ہے، لیکن جمہوری نظام میں ہر قانون اپنے نفاذ میں اس بات کا محتاج ہے کہ پہلے اس کو پارلیمنٹ منظور کرے۔ اس کا مطلب سے کہ شریعت خود اتھارٹی کے طور پر نہیں مانی جا رہی، وہ بنیادی طور پر عوام کی حاکمیت اور اس کے نمائندوں کی منظوری کے تصور کے تحت لائی گئی ہے۔ وہ منظوری دیں گے تو شریعت نافذ ہو گی، وگرنہ نہیں ہو گی۔ یہ اصل میں شریعت کو با لا دست ماننے کی بات نہیں ہے۔ یہ تو آپ کی مرضی ہے کہ آج آپ نے منظور کر لیا، کل آپ اس کو رد بھی کر سکتے ہیں۔ 
اس کو انھوں نے ایک خاص نکتے کے تحت بیان کیا ہے کہ دستور پاکستان میں ایک دفعہ ہے جس کی رو سے پارلیمنٹ کو یہ اختیار ہے کہ وہ کسی بھی دفعہ کو منسوخ کر سکتی ہے اگر اس کے پاس دو تہائی اکثریت ہے۔ اس دفعہ کو ظواہری نے خاص طور پر highlight کیا ہے کہ اس میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی، کوئی قید نہیں لگائی گئی کہ اس اختیار کا استعمال شریعت کی بالادستی کے خلاف نہیں کیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دستور پارلیمنٹ کو یہ حق دیتا ہے کہ آج اگر اس نے دستو رمیں یہ لکھ دیا ہے کہ ہم شریعت کی پابندی کریں گے تو کل اس کو یہ بھی اختیار ہے کہ وہ دو تہائی اکثریت سے اس کو ختم کر دے۔ یہ ظواہری کے دو بنیادی استدلالات ہیں کہ اصل میں دستور جو ہے، وہ شریعت کو اس جگہ سے اتھارٹی نہیں مان رہا جس جگہ سے ایک مسلمان کوماننا چاہیے۔ وہ اس کو عوام کی حاکمیت کے تصور کے تحت لا رہا ہے۔
اس کے علاوہ انھوں نے کچھ مزید دفعات کی بھی نشان دہی کی ہے جو اس دستور میں شامل ہیں اور وہ ظواہری کے بقول شریعت کے قانون کے خلاف ہیں۔ مثلاً یہ کہ دستور میں بعض افراد مثلاًصدر کو جب تک وہ صدر ہے اور گورنر اور وزراے اعلیٰ کو اور بعض اداروں کو محاسبے سے بالاتر قرار دیا گیا ہے۔ ظواہری کہتے ہیں کہ بعض افراد کو شریعت اور قانون سے بالاتر قرار دینا یہ شریعت کے خلاف ہے۔ اسی طرح انھوں نے نشان دہی کی ہے کہ دستور کی رو سے صدر کو کسی بھی جرم میں سزاے موت معاف کرنے کا جو اختیار دیا گیا ہے، یہ بھی شریعت کے خلاف ہے۔ قاضی کے لیے عادل ہونے کی شرط نہیں ہے اور مسلمان ہونے کی شرط بھی نہیں ہے۔ صرف شرعی عدالت کے جج کے لیے مسلمان ہونے کی شرط ہے۔ تو یہ ہر قسم کے افراد کو قاضی مقرر کرنے کی جو شق ہے، یہ شریعت کے خلاف ہے۔ مزید یہ کہ سربراہ ریاست کے لیے مرد ہونے کی شرط عائد نہیں کی گئی۔ 
اس کے ساتھ ساتھ دو تین تکنیکی نکتے بھی انھوں نے اٹھائے ہیں۔ دستور کی ایک دفعہ میں کہا گیا ہے کہ جب تک قانونی طور پر کسی جرم کو جرم نہ قرار دیا گیا ہو، اس سے پہلے اگر کسی نے جرم کا ارتکاب کیا تو اس کو سزا نہیں دی جا سکتی۔ اس کو ظواہری ا س بات پر محمول کرتے ہیں کہ جرم کو جرم ماننے میں آپ شریعت کو اتھارٹی نہیں مانتے۔ اگر ایک چیز شریعت میں جرم ہے، لیکن آپ کے قانون نے اس کو جرم قرار نہیں دیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ شریعت کو بالادست نہیں مانتے بلکہ اپنے قانون کو بالادست مانتے ہیں۔ دستور کی رو سے ایک جرم پر دو مرتبہ کسی کو سزا دینے کی ممانعت ہے اور یہ بالکل مطلق ہے، جبکہ شریعت اس اطلاق کو نہیں مانتی۔ ایک چیز ظواہری نے یہ بیان کی ہے کہ دستور یہ کہتا ہے کہ سود کو ختم کیا جائے گا جیسے ہی ممکن ہوگا۔ ظواہری کہتے ہیں کہ یہ صرف ایک وعدہ ہے جس پر آج تک عمل نہیں ہوا۔ پھر ا نھوں نے ایک مثال دی ہے کہ اگر ایک آدمی یہ کہتا ہے کہ میں مسلمان ہو جاؤں گا تو محض وعدے پراسے مسلمان نہیں کہا جا سکتا۔ اسی طرح اگر کوئی یہ کہے کہ میں نماز پڑھوں گا، لیکن نماز نہیں پڑھتا تو محض کہہ دینے سے وہ نمازی نہیں ہو جائے گا۔ ظواہری نے اسی پر سود سے متعلق دستوری شق کو بھی قیاس کیا ہے۔
ظواہری نے اپنی کتاب میں دستور کو الگ ڈسکس کیا ہے اور یہاں کے حکمران طبقے پر الگ بات کی ہے۔ حکمران طبقے کے کفر کا پہلو انھوں نے ولاء اور براء کے تصور کے حوالے سے واضح کیا ہے۔ یعنی امریکہ نے ایک صلیبی جنگ چھیڑی ہے اور وہ مسلمانوں پر حملہ آور ہے۔ یہاں کا جو حکمران طبقہ ہے، وہ امریکہ کا ساتھ دے رہا ہے اور اس کی معاونت کر رہا ہے تو یہ بھی اصل میں کفر اور ارتداد کی جگہ پر پہنچ چکا ہے۔ ان سارے استدلالات کے ساتھ ظواہری نے خاص طور پر پاکستان کے مذہبی طبقے کو مخاطب کیا ہے کہ آپ حضرات غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ ظواہری کہتے ہیں کہ پاکستان کے علما کا تجزیہ یہ ہے کہ پاکستان کا دستور اور یہاں حکومت چلانے کے لیے جو نظام بنایا گیا ہے، وہ بنیادی طور پر ٹھیک ہے اور خرابی جو ہے، وہ ارباب اقتدار کے رویے میں ہے کہ وہ دستور کی پابندی نہیں کرتے اور اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے یہ لوگ مطمئن ہیں کہ اگر ارباب اختیار کا رویہ ٹھیک ہو جائے یا اچھے لوگ اقتدار میں آ جائیں تو معاملات درست ہو سکتے ہیں۔ ظواہری نے ا س کو چیلنج کیا ہے اوربتایا ہے کہ اصل میں آپ کے دستور میں اور آپ کا جو پورا نظام ہے، اسی میں بنیادی خرابیاں ہیں جس کی وجہ سے آپ اس نظام کے اندر کبھی اسلام نافذ نہیں کر سکتے۔ اس کے لیے آپ کو جہاد کا راستہ اختیار کرنا پڑے گا جس سے آپ اس پورے نظام کو جڑ سے اکھاڑ دیں اور اس کی جگہ متبادل نظام لے آئیں جس میں شریعت کو غیر مشروط بالادستی حاصل ہو۔
یہ ظواہری کے بنیادی استدلال کا خلاصہ ہے۔ میں نے اپنی تنقید میں بنیادی نکتہ یہ اٹھایا ہے کہ اصل میں ہماری شریعت کا جو بنیادی امتیاز ہے، وہ یہ ہے کہ غلطیوں اور انحرافات پر حکم لگاتے ہوئے ان کی صحیح درجہ بندی کی جائے کہ کس غلطی کا درجہ کیا ہے اور اس غلطی کو آپ نے کس کیٹگری میں رکھنا ہے۔ یہ ہماری شریعت اور فقہ کا امتیاز ہے۔ اسی لیے فقہا نے حکومت اور باغیوں، دونوں کے حوالے سے اس کوبیان کیا ہے۔ انھوں نے یہ بات بھی بیان کی ہے کہ جب عام لوگ اور علما حکمرانوں کی پالیسیوں کی اور ان کے طرز عمل کی شرعی حیثیت متعین کریں تو اس میں بھی اس اصول کو ملحوظ رکھیں کہ اگر اسلام کی نسبت قائم ہے تو ان کے غلط کردار یا غلط پالیسیوں اور ناروا طرز عمل کی وجہ سے آپ انھیں کفار کا درجہ نہیں دیں گے۔ دوسری طرف فقہا نے یہ بھی بیان کیاہے کہ ایک عادل اور راست رَو اسلامی ریاست کے جو باغی ہیں، اگرچہ انھوں نے ایک عادل حکمران کے خلاف بغاوت کی ہو، لیکن اگر ان کے پاس کوئی تاویل ہے اور وہ کسی وجہ سے غلط فہمی میں مبتلا ہو کر ایسا کر رہے ہیں تو آپ کو ان کی تکفیر بھی نہیں کرنی۔ آپ نے ان کو صحیح جگہ سے treatکرنا ہے کہ وہ مسلمان ہیں، غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ آپ نے پہلے ان سے مذاکرات کرنے ہیں، ان کو راہ راست پر لانے کی کوشش کرنی ہے۔ اگر نہیںآتے تو پھر آپ نے ان کی قوت توڑنی ہے، بے جا قتل وغارت نہیں کرنی۔
میرا خیال ہے کہ یہ جو ہمارے ہاں ہر طبقے میں عدم توازن آ گیا ہے کہ آپ نے مخالف فریق کی غلط پالیسیوں اور غلط طرز عمل پر بات کرنی ہے تو آپ ابتدا ہی کفر کے فتوے سے کریں، اس پر غور کی ضرورت ہے۔ اس وقت بحیثیت مجموعی جو رویہ خروج کرنے والوں کے بارے میں پایا جاتا ہے، اس میں بھی یہی عدم توازن پایا جاتا ہے اور بہت سے طبقے ہیں جو سرے سے ان کے ساتھ گفتگو کو ہی خارج از امکان سمجھتے ہیں۔ ان کے خلاف کفر کا فتویٰ شاید نہیں دیتے، لیکن ان کو treat اسی جگہ سے کرتے یں۔ یہی رویہ دوسری طرف بھی ہے کہ حکمرانوں پراگر تنقید کرنی ہے یا اختلاف کرنا ہے یا ان کی ناروا پالیسیوں کی نشان دہی کرنی ہے تو کفر کا لفظ پہلے بولیں اور اگلی بات بعد میں کریں۔ یہ میری تنقید کا بنیادی نکتہ ہے۔ اس کے بعد میں نے ظواہری کے استدلالات کا بھی ایک ایک کر کے جائزہ لیا ہے اور اس کا تجزیہ کیا ہے کہ جن امور کی انھوں نے نشان دہی کی ہے، ان کو کفر قرار دینے میں شریعت اور فقہ اسلامی کے کون کون سے اصول مانع ہیں۔ اگر ان کو ملحوظ رکھا جائے تو اس جگہ سے بات نہیں کی جائے گی جہاں سے ظواہری کر رہے ہیں۔ واللہ اعلم

خورشید احمد ندیم

بہت سی باتیں ہو گئیں۔ ان کو دہرانے سے گریز کرتے ہوئے میرا خیال ہے کہ تین بنیادی سوالات ہیں جو اگر فکری طور پر زیر بحث آئیں گے تو شاید یہ بحث آگے بڑھے گی، ورنہ ہر مسئلے کے بارے میں ایک سے زیادہ آرا موجود ہیں۔ خود ہم نے یہاں دیکھا کہ جس مسئلے کو بھی ہم define کرنا چاہتے ہیں، خود ہماری روایت کے اندر، فقہا اور علما کے اندر اس پر ایک سے زیادہ آرا موجود ہیں۔ اب یہ اختلاف تو کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس کو manage کیسے کیا جائے؟ اس وقت سوال یہ نہیں ہے کہ کون سی رائے صائب ہے اور کون سی غلط، بلکہ سوال یہ ہے کہ معاشر ے کے اندر، ریاست کی سطح پر وہ کون سی رائے ہے جس کو ہم قبول کریں۔ میرے نزدیک تین سوالات ہیں جن پر اگر ہم غور کریں گے تو شاید کچھ آگے بڑھ سکیں۔
پہلا سوال یہ ہے کہ جس کو آپ نظم اجتماعی کہتے ہیں، اس کے قیام کی علت کیا ہے؟ یہ بنیادی سوال ہے جو اس بحث میں زیر بحث نہیں آ رہا۔ بالعموم یہاں یہ بات کی گئی کہ اقامت دین شاید وہ علت ہے جس کی بنیاد پر نظم اجتماعی قائم ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس سوال پر غور ہونا چاہیے کہ اصل علت ایک پرامن معاشرے کو وجود بخشنا ہے اور یہ نظم اجتماعی کی ذمہ داریوں میں شامل ہے کہ وہ شریعت بھی نافذ کرے گی اور باقی کام بھی کرے گی۔ ’الجماعۃ‘ جس کوآپ کہتے ہیں، اس کے قیام کی علت کیا ہے؟ ایک ہے نظم اجتماعی کی ذمہ داریاں اور ایک ہے کہ وہ کیوں وجود پذیر ہوتی ہے۔ جب ہم اس کے قیام کی بات کرتے ہیں تو لوگوں کو پرامن معاشرہ اور پرامن طرز زندگی فراہم کرنا اس کی علت ہے یا شریعت کا نفاذ اور اللہ کے احکامات کا نفاذ اس کی علت ہے؟ میرا خیال ہے کہ یہاں اہل علم میں اس سوال پر غور ہونا چاہیے۔
دوسرا سوال جو اہم ہے، وہ یہ ہے کہ کیا کافر اور غیر مسلم ایک ہی چیز کا نام ہے؟ جب ہم کسی شخص کے بارے میں یہ طے کرتے ہیں کہ وہ دائرۂ اسلام سے باہر کھڑا ہے تو ہم اس کے کفر کا فیصلہ کرتے ہیں یا اسلام سے باہر ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں؟ اسلام کے معلوم ڈھانچے سے باہر کھڑا ہونا کیا کفر ہے؟ آپ کے علم میں ہے کہ کفر کو جب ہم ایمان کے مقابلے میں رکھتے ہیں تو ایمان ایک قلبی معاملے کا نام ہے۔ جب قلب تک رسائی نہیں ہے تو تکفیر کیسے ہوگی؟ آپ کی رسائی تو ظاہر تک ہے۔ آپ کسی کے طرز عمل کو دیکھ رہے ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ وہ نماز نہیں پڑھتا۔ آپ دیکھتے ہیں کہ وہ ضروریات دین میں سے کسی چیز کا انکار کر رہا ہے تو آپ کہتے ہیں کہ اس بنیاد پر ہم کہتے ہیں کہ وہ مسلمان نہیں رہا۔ اسلام کے مقابلے میں غیر مسلم ہے۔ یعنی آپ یوں کہیے کہ کافر اور مسلمان کا فرق ہے جو مسلم اور غیر مسلم کی تقسیم کر رہا ہے۔ ایک ہے ایمان وکفر کا فرق جو مسلمان اور کافر کی تقسیم کر رہا ہے۔ توکیا یہ دونوں مترادف ہیں یا کافر ہونا اور غیر مسلم ہونا دو مختلف چیزیں ہیں؟ اور اگر یہ دو مختلف چیزیں ہیں تو کیا دونوں کے احکامات ایک ہوں گے؟ یہ سوال بھی اس ساری بحث کے اندر بڑا اہم ہے۔
تیسرا اہم سوال یہ ہے کہ کسی فرد یا گروہ کے متعلق یہ حکم لگانا کہ وہ دائرۂ اسلام سے باہر ہو گیا ہے، یہ کس کی ذمہ داری ہے؟ فرد کی یا علما کی کسی مجلس کی یا نظم اجتماعی کی؟ یہ بھی اہم سوال ہے کیونکہ اگر اس کے بارے میں ہم طے نہیں کر پائیں گے تو شاید اس بحث کو آگے نہ بڑھا سکیں۔ علما کے کسی ادارے کو اگر آپ یہ اختیار دیں گے تو اس ادارے کی حیثیت متعین کریں کہ کون اس ادارے کو بنائے گا؟ کیا ریاست بنائے گی؟ اگر ریاست بنائے گی تو پھر ہم یہ حق نظم اجتماعی کو دے رہے ہیں۔ اگر ریاست نہیں بنائے گی اور علما کے مختلف فورمز اپنے طو رپر کسی چیز کا تعین کرتے ہیں تو آپ اس سلسلے کو کہاں جا کر روکیں گے؟ اس کی کیا صورت ہو جائے گی؟ مثلاً ابھی ذکر ہوا اہل تشیع کی تکفیر کا۔ بہت جید لوگوں نے فتویٰ دیا اور سیکڑوں کی تعداد میں لوگوں نے اس پر دستخط کیے۔ مولانا منظور نعمانی جیسی شخصیت نے اس کو مرتب کیا اور مولانا علی میاں جیسی جلیل القدر شخصیت کی ان کو تائید حاصل رہی۔ تو اس کی نوعیت کیا ہے؟ کیا وہ علما کا ایسا نمائندہ فورم قرار پائے گا اور جو اس سے انحراف کرے گا، اس کی کیا نوعیت ہوگی؟ مولانا یوسف لدھیانوی صاحب کی معروف کتاب ہے ’’اختلاف امت اور صراط مستقیم‘‘، اس میں وہ کہتے ہیں کہ جو آدمی مطلقاً حیات النبی کا انکار کرے گا، وہ بھی دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ تو جب علما کے کسی فورم کو آپ حق دیں گے تکفیر کا تو یہ تکفیر کا سلسلہ کہاں پر رکے گا کہ کون مسلمان ہے اور کون غیر مسلم ہے؟ 
پھر اس میں بڑا مسئلہ تاویل کا ہے۔ تاویل کاحق آپ کس کو کتنا دیتے ہیں اور کتنا اس کو قبول کرتے ہیں؟ مثلاً دین میں توحید سے بڑی کوئی چیز نہیں۔ ہمارے ہاں جو بریلوی نقطہ نظر ہے عمومی طور پر، اس پرآپ غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ توحید سے اس کا کوئی تعلق نہیں بنتا۔ وہ توحید جو ہم قرآن سے سیکھتے ہیں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھتے ہیں۔ یعنی ایک perception یہ ہے،لہٰذا اس کی بنیاد پر جو توحید کو نہیں مانتا، تکفیر کا سب سے زیادہ مستحق تو وہی ہوگا، لیکن آپ اس کو تاویل کاحق دیتے ہیں کہ وہ توحید کو مانتے ہیں، لیکن اس کی ایسی تاویل کرتے ہیں جو آپ کی تاویل سے مختلف ہے۔ سوائے ایک قلیل گروہ کے، میرے علم میں نہیں ہے کوئی بریلوی حضرات کی تکفیر کرتا ہو۔ سب ان کو مسلمانوں کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اہل تشیع کو بھی سمجھتے ہیں اور اسی بنیاد پرسمجھتے ہیں کہ آپ ان کو تاویل کا حق دیتے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ جب توحید جیسے بنیادی مسئلے میں آپ تاویل کا حق دیتے ہیں تو دیگر مسائل میں کیوں نہیں دیتے؟ اور کیا وہ مسائل توحید سے زیادہ اہم ہو گئے کہ ان کی تاویل پر آپ لوگوں کی تکفیر کرتے ہیں، حتیٰ کہ لوگوں کو واجب القتل قرار دے کر ان کو قتل بھی کر دیتے ہیں؟ کیا توحید سے زیادہ sensitive issue بھی کوئی ہے؟ تاویل کی کیا limits ہیں اور تاویل کہاں تک مانی جائے گی اور اگر تاویل کا حق امر مسلم ہے تو اس کا اطلاق کہاں تک ہوگا؟
آخری سوال یہ ہے کہ جب کوئی عالم یا گروہ کسی کے بارے میں یہ رائے رکھتا ہے کہ وہ دائرۂ اسلام سے باہر ہے تو اس کے بعد جو سماجی رویہ وجود میں آتا ہے، وہ کیا ہے؟ یہ بڑا اہم سوال ہے کہ کیا آپ کے یہ رائے دینے کے بعد کہ کوئی گروہ یا نقطہ نظر ایسا ہے، اس کے جینے کا حق بھی ختم ہو جاتا ہے اور کیا مسلمان معاشرے کے اندر اس کا وجود بھی تسلیم نہیں کیا جائے گا؟ اسی سے وابستہ سوال یہ ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ فلاں شخص غیر مسلم ہے اور وہ اصرار کرتا ہے کہ نہیں، میں تو اسلام پر ہوں، اسلام ہی کو دین مانتا ہوں تو فیصلہ کیسے ہوگا؟ جیسے مثلاً قادیانیوں کے بارے میں جب آپ نے یہ فتویٰ دیا تو آپ نے یہ حق نظم اجتماعی کو دیا۔ نظم اجتماعی نے ایک فیصلہ سنا دیا اور وہ نافذ ہو گیا۔ اب یہ بحث آگے چلتی ہے اہل تشیع کے بارے میں اور دوسرے لوگوں کے بارے میں۔ آپ کہتے ہیں کہ وہ مسلمان نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ تو یہ جو صورت حال پیدا ہوئی ہے، اس میں قول فیصل کس کا ہے اور آپ کس کو یہ اختیار دیتے ہیں؟ اور جب آپ کوئی رائے قائم کرتے ہیں تو اس کے بعد جو سماجی رویے وجود میں آتے ہیں اور دین کے اعتبار سے آپ سماجی رویوں کی تشکیل کرتے ہیں تو پھر لوگوں کو کیا sugget کرتے ہیں؟
میرے نزدیک یہ چار پانچ عملی سوالات ہیں جو چیزوں کو سمجھنے کے لیے بہت ضروری ہیں۔ ہمارا موضوع پاکستان کا دستور ہے اور مجھے پتہ ہے کہ میں نے ابھی اس پر براہ راست نہیں کی۔ پاکستان کے دستور کی حیثیت جو ابھی انھوں نے یہاں بیان کی تھی کہ اگر مسلمان مل کر یہ طے کر لیں، ایک social contract کرلیں کہ ہم اللہ اور اس کے رسول کی برتری کو چیلنج نہیں کریں گے اور اس کے بعد وہ اپنے فہم کے لحاظ سے ایک تعبیر دین اختیار کرتے ہیں، ان کی پارلیمنٹ اس تعبیر دین کو اختیار کر لیتی ہے تو اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ جیسے اقبال پارلیمنٹ کو عصر حاضر میں اجماع کا متبادل قرار دیتے ہیں۔ پارلیمنٹ آج ایک تعبیر دین کو اختیار کرتی ہے تو کل کسی اور کو۔ اگر یہ حق آپ پارلیمنٹ کو دیتے ہیں تو پھر آپ کا دستو رمسلمان ہو گیا اور پھر اس سے جو انحراف کرے گا، وہ خروج کرے گا، پھر وہ اس کے خلاف بغاوت کرے گا۔ آپ نے آرٹیکل ۶ رکھ دیا کہ اس کو پھر سزائے موت بھی دیں گے۔ 
تو کیا نظم اجتماعی اگر ایک social contract پر اتفاق کر لیتا ہے اور اس میں اللہ اور اس کے رسول کی حاکمیت کو وہ چیلنج نہیں کرتا تو اس کی حیثیت اصول میں اور بنیادی طور پر کیا ہے؟ اگر تو وہ پرویز صاحب کی اصطلاح میں مرکز ملت کے قائم مقام ہے تو کیامرکز ملت ہونے کی جو حیثیت ہے، اگر میں یہ کہوں کہ اولی الامر کوئی سوشل کنٹریکٹ بنا لیتے ہیں تو اس کا مصداق جو ہے، اس کو آپ کیا حیثیت دیتے ہیں؟ اور آرٹیکل ۶ کے تحت جو اس سے فرار اختیار کرتا ہے، جو اس سے گریز کرتا ہے، اس کی آپ جان لیتے ہیں، اس کوآپ پرانی terminology میں خروج قرار دیتے ہیں۔ اگر تو آپ نظم اجتماعی کے بنائے ہوئے دستور کو یہ حق دے رہے ہیں اور عوام، پارلیمان کو حق دے رہے ہیں کہ وہ طے کرے کہ کون کافر ہے اور کون خروج کا مرتکب ہو رہا ہے تو پھر اس سے جو گریز ہے، اس سے جو انحراف ہے، وہ عصری تعبیر کے مطابق خروج کے دائرے میں آتا ہے۔ 
یہ بنیادی سوالات ہیں جو بہت اہم ہیں اور اس سوال کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں کہ خود دین کے بارے میں آپ کی تعبیر کیا ہے۔ سید ابو الاعلیٰ مودودی نے یہ بات لکھی ہے کہ دین کا مطلب اسٹیٹ ہے۔ یہ انھوں نے ’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘‘ میں لکھا ہوا ہے۔ تو اسٹیٹ اگر دین ہے تو یہ خود بڑا بنیادی سوال ہے کہ کیا آپ اس کو مانتے ہیں کہ اسٹیٹ دین ہے؟ اور اگر اسٹیٹ دین ہے تو پھر بغاوت کی جو ساری debate ہے اور خروج کی جو ساری debate ہے، وہ اسٹیٹ کے ارد گرد گھومے گی۔ تو میرا خیال ہے کہ یہ بنیادی سوالات ہیں۔ اصل چیز رویوں کی تشکیل ہے۔ غلط یا صحیح کا فیصلہ شاید نہیں ہے، کیونکہ وہ ہم نہیں کر سکتے۔ کبھی ہوا بھی نہیں ہے اس امت کی تاریخ میں۔ ایک سے زیادہ آرا ہر مسئلے میں موجود رہی ہیں اور ابھی ہمارے زاہدصدیق صاحب نے جو سارا thesis پیش کیا، جو بنیادی نصوص انھوں نے پیش کی، ان نصوص کی بھی انھوں نے تفہیم پیش کی ہے۔ علما یہ کہتے ہیں، فقہا یہ کہتے ہیں، فلاں یہ کہتا ہے۔ تو یہ تفہیم کا جو دائرہ ہے، یہ ظاہر ہے کہ ایک عہد تک تو محدود نہیں ہے، یہ بعد میں بھی پھیلے گا۔ اس لیے میرے نزدیک اصل چیز شاید حق وباطل کا فیصلہ کرنا نہیں ہے۔ فصل نزاع ہے کہ اس ایشو کو آپ اپنے دور میں نظم اجتماعی کے تحت کیسے حل کریں گے۔ اور وہ آپ نہیں کر پائیں گے اگر میرے خیال میں آپ یہ چند بنیادی سوالات ہیں جن کو آپ پیش نظر نہیں رکھیں گے۔ 

ڈاکٹر خالد مسعود

بہت شکریہ۔ اس میں ایک آخری سوال کا اضافہ کر لیں کہ کیا فقہا کی آرا اور قرآن وسنت کی جو تعبیرات ہیں، ان کو بھی قرآن وسنت کا درجہ حاصل ہے؟ میرا خیال ہے، یہ بنیادی سوالات کا حصہ ہے۔ اقتدار اعلیٰ اللہ کا اقتدار اعلیٰ ہے یا عوام کا اقتدار اعلیٰ ہے جس کو ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں تضاد کے طریقے سے پاکستان میں پیش کیے جاتے رہے۔ Objectives Resolution میں اس مسئلے کو حل کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے کہ کسی طرح دونوں کو متناسب اور متوازن کیا جائے، لیکن اس کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ چونکہ اس میں واضح طو رپر شریعت کی بالادستی سامنے نہیںآئی، اس لیے بعض لوگوں کے نزدیک یہ اب بھی اسلامی نقطہ نظر نہیں، بلکہ کفریہ نقطہ نظر ہے۔ اور تیسرا نقطہ نظر یہ بھی آیا کہ اگرچہ اس میں بہت سے اسلامی امور اور اسلامی شقیں شامل ہو گئی ہیں، لیکن چونکہ اس کا نفاذ نہیں ہو رہا، اس لیے نفاذ کی ضرورت ہے۔ نفاذ کرنے والے کم از کم قومی ریاست کو اور اس ڈھانچے کو، آئین کو مانتے ہیں، لیکن ایک طبقہ ایسا ہے جو سرے سے ان بنیادی چیزوں کو نہیں مانتا او رمیرا مطالعہ چونکہ بہت کم ہے، کم از کم میری نظر سے نہیں گزرا کہ انھوں نے اس کا متبادل کیا رکھا ہے کہ جب جمہوریت بھی کفر، پارلیمنٹ بھی کفر، یہ سارا آئین کا سلسلہ بھی کفر ہے تو پھر ہمارے پاس دوسرا لائحہ عمل ہے؟ تو اس میں ایک تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی بھی شخص جو قرآن مجید کی کسی ایک آیت سے استدلال کرے یا کسی ایک حدیث سے استدلال کرے، کیا اس کی جو تعبیر ہے، اس کی جو تفہیم ہے، اس کو ہم قرآن مجید سمجھ لیں؟ اس کو فائنل سمجھ لیں یا اس پر بحث کی گنجائش رہتی ہے؟
چونکہ نقطہ نظر عام طو رپر عوام کا بھی یہی ہوتا ہے کہ کسی نے چار پانچ آیتیں یکے بعد دیگرے کسی مسئلے پر پڑھ دیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید سے استدلال ہو گیا۔ یہ بات سامنے نہیں رہتی کہ اس پر دوسرے لوگ دوسرا نقطہ نظر بھی پیش کریں گے۔ تو جو سوالات خورشید ندیم صاحب نے سامنے رکھے ہیں، اگر ان کو ہم لے لیں تو اس میں ساری بحث کا خلاصہ بھی بنتا ہے اور وہ ایک طرح سے ہمارے آئندہ غور وفکر کے لیے بھی راہ ہموار کرتے ہیں۔ میں چاہوں گا کہ اگر آپ اس سے اختلاف بھی کرتے ہیں تو ان سوالات کی طرف توجہ دیں اور ان کا جواب دیں۔ پھر جب ایک ایک نکتے پر ہم بات کر رہے ہوتے ہیں تو اس میں وضاحت کے لیے ہم دوسرے سوالات بھی شامل کر سکتے ہیں۔ 
پہلا سوال جو انھوں نے یہ اٹھایا ہے، وہ یہ ہے کہ اسلام کے حوالے سے نظم اجتماعی کی بنیاد کیا ہے؟ اس کا مقصد کیا ہے؟ کیا بنیادی طور پر ہم ایک وسیع نقطہ نظر کو لے سکتے ہیں کہ جس میں ایک پر امن معاشرہ قائم کرنا ہو جس میں عدل ہو، ظلم نہ ہو، یا پھر یہ ہے کہ سیدھا سادا شریعت کا نفاذ؟ پہلے اس سوال کو لے لیتے ہیں۔

زاہد صدیق مغل

اس سوال پر جب ہم غور وفکر کرتے ہیں کہ کیا نظم اجتماعی کی بنیاد شریعت ہے یا امن وغیرہ تو جیسا کہ خورشید صاحب نے اپنی ایک preference کا اظہار کیا کہ لگتا ایسے ہے کہ جیسے یہ امن کا قیام ہے اور شریعت اس میں بعد میں شامل ہوتی ہے۔ تو بنیادی بات یہ سمجھنے کی ہے کہ جس طرح ہمارے ہاں بہت ساری termsکو ہم نے نیوٹرل سمجھ کر قبول کر لیا ہے، ان میں سے ایک تصور امن بھی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تصور امن گویا کسی نیوٹرل چیز کا نام ہے، جبکہ ایسا نہیں ہے۔ امن کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ امن کا مطلب ہوتا ہے کسی ایک مخصوص تصور عدل کو معاشرے پر نافذ کرنا۔ تھوڑی سی تفصیل میں جانا چاہوں گا۔ امن کا مطلب یہ ہوتا ہے، حقوق اور فرائض کی جو تقسیم ہے سوسائٹی میں، وہ کس بنیاد پر ہو رہی ہے؟ امن کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایک نظام فرد کو جن حقوق کا مکلف گردانتا ہے، اس کو باہم طو رپر وہ حقوق میسر ہوتے چلے جائیں۔ چونکہ حقوق اور فرائض کی تعیین اور تفسیر میں اختلافات پائے جاتے ہیں، لہٰذا امن کے متعلق بھی تصورات مختلف ہیں۔ مثلاً مارکسسٹ تصور کے اندر پرائیویٹ پراپرٹی کی جگہ نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ تو ظلم ہے، جبکہ لبرل ازم کے اندر امن کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کو پرائیویٹ پراپرٹی کا بھی حق حاصل ہو۔ تو امن کیا ہے، یہ بذات خود ایک relative چیز ہے جو ڈیفائن ہوتی ہے کسی میٹا فزکس سے۔ جب ہم اسلامی نقطہ نظر سے امن کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد ہوتا ہے شریعت، اور کوئی چیز نہیں ہے۔ 
ہم سمجھتے ہیں کہ امن کوئی نیوٹرل تصور ہے۔ سوال یہ ہے کہ کس اصول کی بالادستی کی بنیاد پر امن قائم ہوگا؟ موجودہ contextکے اندر ہم لبرل ازم کے اندر اس کو confuse کر دیتے ہیں۔ لبرل ازم کے اندر امن کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ یہ اصول مان لیں کہ انفرادی زندگی کے اندر فرد جو کرنا چاہے، کرے۔ اپنی زندگی کے اندر خیر اور شر کا جو تصور اختیار کرنا چاہے، کرے۔ یہ ان کا بنیادی تصور امن ہے کہ اگر یہ حق باہمی طور پر ہر شخص کو مل رہا ہے تو یہ امن ہے۔ اب ظاہر بات ہے کہ اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

ڈاکٹر خالد مسعود

یہاں تک تو وضاحت ہو گئی۔ ذرا آگے بتائیے کہ شریعت سے مراد کیا ہے؟

زاہد صدیق مغل

شریعت سے مراد ہے کہ وہ حقوق جو قرآن وسنت میں بیان ہوئے ہیں اور اجماع امت کی صورت میں ہم تک منتقل ہوئے ہیں۔ یعنی جو دین کے بنیادی ماخذات کے اندر موجود ہیں۔

ڈاکٹر خالد مسعود

اس کا تعین کون کرے گا؟ اس کا فیصلہ کون کرے گا؟

زاہد صدیق مغل

اس کا فیصلہ وہی لوگ کریں گے جو ظاہر ہے کہ علماء کرام ہیں، جو دین کی تشریح کر سکتے ہیں۔

ڈاکٹر حسن مدنی

میں یہ سمجھتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم معاشرے میں آئے تومعاشرے میں امن پہلے بھی موجود تھا۔ ہمارے دنیا میں آنے کا مقصد اللہ کی بندگی ہے اور اللہ کی بندگی صرف عبادات میں نہیں ہے، بلکہ پورے معاشرتی اجتماعی نظام حیات میں ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ معتزلہ کا تصور ہے کہ انسان اپنے تئیں امن کا ایک خود ساختہ ماڈل بنا سکتا ہے۔ ہمیں شریعت کی ضرورت ہے اور انسان کی فطرت میں وہ اہلیت نہیں ہے کہ انسان اللہ کی راہ نمائی سے بالاتر ہو کر ازخود ایک امن کاماڈل بنا لے۔ اور آخری بات یہ ہے کہ دنیا کے جو اس وقت کے حالات ہیں، وہ یہ بتا رہے ہیں کہ ۱۹۹۰ء کے موقع پر دنیا میں امن قائم ہو گیا۔ دنیا میں مفادات جو ہیں، وہ آخر کار ہمیں لے جاتے ہیں مفادات کی طرف اورہر انسان کی فطرت قرآن کریم میں ہے: بغیا بینہم۔ انسان دوسروں پر سرکشی کرتے ہیں، اس لیے امن کا تصور محض ایک مجرد چیز نہیں ہے اور شریعت کے بغیر دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ مفادات کی جنگ ہے اور ہمیں اللہ کی بندگی کا حکم ہے۔ اس لیے مسلمان ہونے کے ناتے امن کا تصور ایک ہی ہے اور وہ شریعت ہے اور شریعت نے عدل اور انصاف عملاً دکھایا ہے، خلافت راشدہ نے دکھایا تھا۔ آج کا نظام امن دینے سے عاری ہے۔ سعودی عرب میں امن قائم ہے، افغانستان میں بھی کچھ عرصے تک قائم ہوا۔ طالبان نے دو سالوں میں ایک جنگی خطے میں امن قائم کر کے دکھایا، جبکہ مجھے واشنگٹن جانے کا موقع ملا تو واشنگٹن میں ایک تہائی شہر آج بھی امن سے عاری ہے۔ میں وائٹ ہاؤس کے سامنے گھوم رہا تھا۔ انھوں نے کہا کہ وہاں نہ جائیے۔ آج بھی واشنگٹن کے ایک تہائی علاقے پر ،جو دنیا کا دار الخلافہ ہے، وہاں اس وقت امن قائم نہیں ہے۔ شکاگو کے علاقے میں قائم نہیں ہے۔ تو انسانوں کا بنایا ہوا نظام امن دے نہیں سکتا۔ دے ہی اللہ کا نظام سکتا ہے۔

ڈاکٹر خالد مسعود

سوال یہ ہے کہ شریعت کا تعین کیسے ہوگا اور کون کرے گا؟

ڈاکٹر حسن مدنی

اس کے متعلق عرض کرتا ہوں کہ علما کا شریعت کا تعین کرنا، یہ تھیوکریسی ہے۔ ہم کسی انسان کو یہ حق نہیں دیتے۔ حاکمیت صرف اللہ کو حاصل ہے۔ دراصل یہ ایک اہلیت ہے اور یہ اہلیت جس شخص میں موجود ہے، وہ اہلیت کا استعمال کرے گا۔ ہمارا مقصد اللہ کی بندگی ہے اور ہم کتاب وسنت کے پیروکار ہیں۔ علما کا کام صرف نشان دہی کرنا ہے۔ علما کو عصمت حاصل نہیں ہے، شریعت کو عصمت حاصل ہے۔ تو اہلیت کو پیدا کرنا اور اہلیت کے مطابق شریعت کی تشریح کرنا علما کا کام ہے۔ اب یہ کیسے ہوگا؟ جن دن علما، ایسے اہل علم جو کتاب وسنت کے مطابق بات کرنے والے ہیں، جس دن ان کو موقع مل گیا تو امت مسلمہ اس مخمصے سے نکل جائے گی جیسے سعودی عرب کے اندر نکلی کہ وہاں پر علما بھی مل گئے، سیاست بھی مل گئی اور مسئلہ حل ہو گیا۔ آج سیاسی اقتدار ان لوگوں کو ملا ہوا ہے جو علم کے خود حامل نہیں تھے۔ اب علم ان کے لیے غیب ہے۔ تو عملاً یہ ایک سیاسی، ایک واقعاتی، ایک قومی مسئلہ ہے۔ جس دن یہ مسئلہ حل ہو گیا، ہم اس مخمصے سے نکل جائیں گے۔

ڈاکٹر خالد مسعود

سعودی عرب کے قیام سے پہلے شریعت کیا ہے، کیسے نافذ ہوگی، ان کے پاس ماڈل موجود تھا۔ امارت اسلامیہ افغانستان میں وہ ماڈل موجود نہیں تھا۔ پاکستان میں ہمارے پاس وہ ماڈل موجود نہیں ہے۔ اگر ہے تو مختلف ہے، اس مسئلے کو کیسے حل کریں گے؟

ڈاکٹر حسن مدنی

جب علما اس معاملے کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر محسوس کریں گے اور علما میں اس کی محنت ہوگی تو اس کی عملی شکل بھی واضح ہوگی۔ علما میں وہ اہلیت بھی نہیں ہے اور وہ نکھار بھی نہیں ہے اور ہمیں اس نکھار کی کوشش کرنی ہے اور سیکھنا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جس طرح دنیا دار طبقہ، لبرل طبقہ سیکولر ہے، علما بھی سیکولر ہیں۔ سیکولر عالم وہ ہے جو اجتماعیات کے میدان میں دین کے نظام کو نہیں جانتا۔ اسے اسلام کے نظام عدل کا پتہ نہیں ہے، اسلام کے نظام سیاست کا علم نہیں ہے تو یہ سیکولر ازم ہے، عالمی نظام کو ماننا ہے۔ تو علما کو یہ سیکھنا ہوگا۔ علما ان تمام نظاموں کو سیکھیں گے تو اسلام کا جو سوشل سسٹم ہے، اس کے تمام عناصر کو سیکھیں گے ۔

ڈاکٹر خالد مسعود

اس سے تو میری مایوسی میں اضافہ ہوتاہے کہ علما نے ابھی تک نہیں کیا اور جب انھیں موقع ملے گا تو کریں گے۔

ڈاکٹر حسن مدنی

جزوی طور پر ایسے لوگ پائے جاتے ہیں، لیکن اسے بہتر ہونا چاہیے۔ یہ ریاست کا فرض ہے۔ ریاست کو سکھانا چاہیے اس کو۔

محمد عمار خان ناصر

میں یہ گزارش کرنا چاہوں گا کہ یہ ایک خالصتاً فلسفیانہ بحث کہ آپ کسی ’قدر‘ کو کیسے ڈیفائن کریں گے۔ میں صرف اشارہ کروں گا کہ ایک بحث ہمارے قدیم علم کلام میں پائی جاتی ہے حسن وقبح والی جس کا حوالہ دیا جا رہا ہے۔ معتزلہ نے ایک بات کہی تھی جسے عام طور پر اہل سنت کے متکلمین نے قبول نہیں کیا۔ لیکن ہمارے ہاں شریعت کی تفہیم میں اور شریعت کیسے بنتی ہے، اس میں ایک بڑی بنیادی بحث شاہ ولی اللہ نے بھی کی ہوئی ہے اور وہ ہمارے روایتی علم کلام سے بہت مختلف ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ شاید انھوں نے معتزلہ ہی کے تصور کو آگے بڑھایا ہے۔ جب ہم یہ بات کر رہے ہیں کہ اسلام کے ہاں معاشرتی قدروں کا تعین کیسے ہوتا ہے تو اس میں ان کی بحث بھی سامنے رہنی چاہیے۔ مثلاً یہ جو بات ہے کہ امن ایک ایسی چیز ہے جو بالکل مجرد ہے اور ہر آدمی کا اپنا ایک تصور امن ہے، میرا خیال ہے اس میں تھوڑا سا مبالغہ ہے۔ امن کا بنیادی تصور میرے خیال میں سب انسانوں کے درمیان مشترک ہے۔ ہاں، کس صورت میں کوئی آدمی امن کا مستحق ہے یا نہیں، اس کے اطلاقات میں اور بعض مخصوص صورتوں میں بحث ہو سکتی ہے۔ یہ ایک سادہ بات ہے کہ ایک آدمی کو معاشرے میں جان کا تحفظ ہونا چاہیے۔ یہ ایک انسانیت کا مشترک تصور ہے۔ ہاں، جب وہ کوئی جرم کرے، اس پر اس کو سزا ملنی چاہیے۔ یہ بھی ایک مشترک تصور ہے۔ البتہ اس پر اختلاف ہو سکتا ہے کہ ایک چیز ایک مذہب میں یا ایک تہذیب میں جرم ہے اور دوسری تہذیب میں جرم نہیں ہے۔ میرے خیال میں جو چیزیں مشترک ہیں، ان کو مشترک مان کر یہاں بات کی جائے کہ اسلام امن دیتا ہے، جان کا تحفظ دیتا ہے، دنیا کے سارے معاشرے دیتے ہیں، جرم کامواخذہ سب مانتے ہیں۔ جرم کیا چیز ہے اور کیا نہیں ہے، یہاں آ کر اسلام اختلاف کرتا ہے۔ مغرب ہو سکتا ہے کہ ایک شراب پینے والے کو امن دے کہ یہ قابل مواخذہ نہیں ہے، لیکن اسلام اس پر مواخذہ کرے گا۔

ڈاکٹر رشید احمد — (پشاور یونیورسٹی)

سوال بہت اہم ہے۔ ہمارے ہاں ایک تصور ہے مقاصد شریعت کا جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ شریعت کے مقاصد پانچ ہیں اور وہ پانچوں کے پانچوں امن ہیں۔ تحفظ دین، تحفظ نسل، تحفظ جان، تحفظ عقل اور تحفظ حسب ونسب۔ تحفظ کا مطلب امن ہی ہے تو امن کا قیام شریعت کا ہی مقصد ہے۔

مولانا مفتی محمد زاہد

میرا خیال ہے کہ اگر ہم اس بحث میں جائیں گے کہ نظم اجتماعی کا کیا مقصد ہے تو وہ پورا جو اسلام کا ایک تصور ریاست ہے، اس بحث میں داخل ہو جائیں گے اور میں نہیں سمجھتا کہ اتنے مختصر وقت میں ہم اس کو کسی نتیجے تک پہنچا سکتے ہیں۔ البتہ ایک آدھ بات میں عرض کروں گا کہ ریاست کے مقاصد کیا ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کے تناظر میں، قرارداد مقاصد کے اندر پاکستان کے لبرل طبقوں نے اور مذہبی طبقات نے چند نکات پر اتفاق کر لیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود لازم نہیں ہے کہ ہر ایک اس سے اتفاق ہی کرے، اختلاف بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن جب تک ہمارا دستوری ڈھانچہ قرارداد مقاصد کے اس دائر ے کے اندر ہے، اس سے سو اختلاف ہم کریں، کم از کم اس کی تکفیر کرنا، اسے کفر یہ کہنا، اس میں ہمیں احتیاط کرنی چاہیے ، کیونکہ اس میں بڑے بڑے علما رہے ہیں اور ا س میں علما کا ایک نقطہ نظر ہے۔ جس مسئلے میں علما کا اور دین کی تعبیر کا اختلاف آ جائے، وہاں آپ اپنے دلائل دے سکتے ہیں، لیکن دوسرے نقطہ نظر کو کفر نہیں کہہ سکتے۔ اس میں، میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں احتیاط کرنی چاہیے۔ اب جو بے احتیاطی ہو رہی ہے ، وہ یہ ہے، جیسا کہ عمار صاحب نے ایمن الظواہری کے حوالے سے نقل کیا کہ وہ چیز جس کو پاکستان کے جید علما طے کر چکے ہیں، ا س کو ایک سرجن اٹھ کر کفر کہہ دے۔ ایک طرف ہم کہتے ہیں کہ علما سب کچھ طے کریں گے اور دوسری طرف ہم نے پورا تصور جہاد سعودی عرب کے ایک انجینئر اور مصر کے ایک سرجن کے حوالے کیا ہوا ہے اور جو وہ کہہ دیں، ہم اندھے مقلد ہیں۔ دوسری طرف ہم کہتے ہیں کہ نہیں، علما کی بات مانی جانی چاہیے۔ علما کی کون سنتا ہے؟ سارا معاملہ تو ہم نے ان کے حوالے کر دیا۔ یہ ہمارے اپنے رویوں کے اندر تضاد ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے اندر یہ چیز آ گئی ہے کہ جو ذرا زیادہ زور سے بولتا ہو اور اس کا گلا زیادہ طاقت ور ہو اور وہ جہاد کا نعرہ لگا دے تو وہاں کسی استدلال کی، کسی دلیل کی ضرورت باقی رہتی نہیں۔ 

ڈاکٹر خالد مسعود

علما کے مرتب کردہ ۲۲ نکات کی خوبی یہ تھی کہ انھوں نے جدید سیاسی نظم کو جو پہلے نہیں تھا، اس کو تسلیم کرتے ہوئے بات کی۔ اس میں ریاست کو مانا، پارلیمنٹ کو مانا، آئین کو مانا، قانون سازی کو مانا۔ یہ ریاست کے سارے جدید تصورات تھے، جبکہ جو ہمارا جو انارکسٹ سوشلسٹ گروپ ہے، وہ ریاست کو، قانون کو بنیادی طور پر نہیں مانتا۔ دوسری طرف جو القاعدہ کے کچھ لوگ اور عام طور پر جو اقدامی جہاد کے قائل ہیں، وہ بھی قومی ریاست کے تصورکو، پارلیمنٹ کو سرے سے نہیں مانتے۔ اس لیے بنیادی اختلاف وہاں پر موجود ہے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کا کہنا یہ ہے کہ شریعت کے نفاذ سے دار الاسلام ہو جائے گا، اسلامی سلطنت بن جائے گی جو کہ وہ ابن تیمیہ سے لے رہے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے میرے نزدیک کہ اگر ایسا ہے تو اس گروہ کو ابھی سے کوشش شروع کر دینی چاہیے کہ اگر موقع ملے گا تو ہمارے پاس یہ لوگ ہیں جو شریعت کو جانتے ہیں اور نافذ کریں گے۔ جب یہ بات کی گئی تو تمام لوگوں کا جواب یہ تھا کہ مدرسوں سے ایسے لوگ تیار ہو رہے ہیں۔ اب مجھے نہیں معلوم کہ مدرسے سے جو فارغ التحصیل ہے، کیا اس میں فوراً یہ صلاحیت ہے کہ وہ قانون ساز بھی بنے، مفتی بھی بنے، قاضی بھی بنے، اور حکومت بھی چلائے؟ کیا اس طرح کی کوئی ٹریننگ دی جاتی ہے؟ اس کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔
یہاں سے مایوسی شروع ہوتی ہے کہ ایک طرف تو آپ کہتے ہیں کہ نفاذ شریعت، نظم اجتماعی کا مقصد ہے۔ دوسری طرف اس کی تیاری نہیں ہے اور یہ سمجھنا کہ جب موقع ملے گا تو ہم تیار ہو جائیں گے، یہ بڑی خطرناک بات ہے۔ 

مولانا مفتی محمد زاہد

ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ تیاری ہوتی ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ نہیں ہوتی۔ میرا خیال یہ ہے کہ اگر ایسا ماحول بن جائے تو تیار تو ہو سکتے ہیں، لیکن فی الحال نہیں ہے اور نہ ہی ان چیزوں سے، جیسا کہ مدنی صاحب نے فرمایا، ہمارے علما واقف ہوتے ہیں۔ اجتماعی پہلو جو ہیں اسلامی نظام کے اور ہمارے حالات میں وہ کیسے نافذ ہوگا، نقطہ نظر جو بھی ہو اس کی تنفیذ کا، لیکن کوئی واضح ذہن موجود نہیں، حتیٰ کہ بالکل انتہا پسندانہ ذہن جو ہے، وہ بھی کلیئر نہیں ہوتا۔ کوئی واضح ذہن ہمارے مدارس کے فضلا کے اندر موجود نہیں ہوتا۔

خورشید احمد ندیم

ہم ابھی پہلے سوال پر بات کر رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ جو گفتگو دوستوں نے کی، اس پہلے سوال کا جواب نہیں آیا کہ نظم اجتماعی کے قیام کی علت کیا ہے اور نصوص اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ جو گفتگو یہاں ہوئی، وہ یہ ہے کہ قیام امن جو ہے، وہ شریعت ہی سے ممکن ہے۔ قیام امن، اقامت دین سے ممکن ہے۔ شریعت ہی امن دیتی ہے، اس کے علاوہ کوئی شکل ممکن نہیں ہے۔ 

زاہد صدیق مغل

شریعت ہی امن کا نام ہے۔ شریعت کے علاوہ امن کی کوئی تعریف ممکن ہی نہیں ہے۔ شریعت کے علاوہ جو کچھ ہے، وہ ظلم ہے۔

ڈاکٹر حسن مدنی

جس طرح ہم نماز پڑھنے کے پابند ہیں، اسی طرح اللہ کے نظام کو نافذ کرنے کے پابند ہیں۔ یہ دین ایک کامل دین ہے۔ اگر صرف امن مقصود ہوتا تو امن مکہ مکرمہ میں قائم تھا۔ نبی کریم نے یہ سارا معاملہ کیوں شروع کیا؟ امن مقصود ہوتا تو لکم دینکم ولی دین سے امن ہو گیا تھا۔ 

ڈاکٹر خالد مسعود

یہاں آپ تاریخی سوالات پیدا کر رہے ہیں۔ رسول اللہ نے بھی جنگوں میں حصہ لیا۔ پورا جزیرۂ نماے عرب جنگوں میں مبتلا تھا۔ اس کے لیے عربی زبان میں’حرب‘کی اصطلاح ہے اور اسلام نے حرب کی جگہ ’جہاد‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ اہل عرب جنگوں میں مبتلا تھے، پھنسے ہوئے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی انھوں نے چین نہیں لینے دیا۔ تیرہ سال جو مکے کے تھے، وہ ظلم اور جبر کے تھے۔ یہ کہنا کہ امن تھا، صحیح نہیں۔ امن تو تھا ہی نہیں اس نظام میں۔

خورشید احمد ندیم

میں ذرا تھوڑا سا اپنی بات کو آگے بڑھانا چاہتا ہوں۔ سعود ی عرب کی یہاں بات ہوئی۔ ابھی ہم نے جو پاکستان کی حکومت کے خلاف بڑا مقدمہ قائم کیا ہے اور تکفیر کی ساری بحث اسی تناظر میں ہو رہی ہے، وہ یہ ہے کہ وہ طاغوت کی سرپرستی میں زندگی گزارتے ہیں اور ایک جو کفریہ نظام ہے، طاغوت کی جو نمائندہ قو ت ہے امریکہ، اس کے وہ اتحادی ہیں، لہٰذا اس بنیاد پر جو بنیادی مقدمہ کھڑا ہو رہا ہے، وہ ان کے خلاف کھڑاہو رہا ہے۔ کیا اس پہلو سے سعودی عرب کے حکمرانوں میں اور پاکستان کے حکمرانوں میں کوئی فرق ہے؟ اور اگر نہیں ہے تو دونوں پر الگ الگ احکامات کا اطلاق کیسے ہو رہا ہے؟ یہ بات میرے نزدیک بڑی اہم ہے۔ فرق کہاں پر ہے؟ ابھی حسن مدنی صاحب نے فرمایا کہ ان کے شخصی کردار میں جو فسق وفجور ہے، وہ اتنا زیر بحث نہیں ہے کیونکہ وہ نظم اجتماعی میں شریعت کے تقاضوں کا لحاظ رکھ رہے ہوتے ہیں، اس لیے وہ قابل قبول ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ جو بات ہے کہ آپ طاغوت کی اطاعت میں اپنی ساری خارجہ پالیسی بنائیں ، کیا جو ان کی شرعی ذمہ داریاں ہیں نظم اجتماعی کے ضمن میں، کیا اس دائرے کی چیز نہیں ہے اور اگر ہے تو پھر یہ اطلاقات مختلف کیوں ہیں؟ یہ بنیادی سوال ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس پر ضرور گفتگو ہونی چاہیے۔

ڈاکٹر حسن مدنی

جہاں تک سعودی عرب کے ضمن میں بات ہے، ہم اس کے مدافع نہیں ہیں۔ صرف ایک نظریاتی تعلق ہے، جیسے ہمارا امارت اسلامیہ افغانستان سے مسلمان ہونے کے ناتے سے تعلق ہے۔ بہرحال میرا مشاہدہ اور مطالعہ یہ ہے کہ سعودی عرب میں امریکہ کی جارحیت اور خلیج کی جنگ ہوئی اور اس کے بعد القاعدہ کا سارا سلسلہ شروع ہوا، لیکن سعودی عرب نے وہاں پر اس جارحیت کو محدود کیا۔ امریکی افواج کو bases سے باہر نہیں نکلنے دیا۔ انھوں نے manage کیا اس بات کو اور میں وہاں گیا تو میرے علم میں آیا کہ ۲۰۰۳ء میں وہاں سے تمام افواج جا کر قطر میں بیس بنا چکی ہیں۔ آخر کار القاعدہ کا جو مقدمہ ہے یا اسامہ بن لادن کا جو مقدمہ ہے، وہ سعودیہ کے حق میں غلط ثابت ہوا اور پاکستان کے حق میں درست ثابت ہوا۔ ایک تو بنیاد یہ ہے۔ طاغوت کا ساتھ دینے کی غلطی ان کے ہاں بھی موجود ہے اور بنیادی غلطی ہماری سیاسی کمزوری ہے۔ اسلام ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتا اور اس کام میں سعودیہ پاکستان سے زیادہ گناہ گار ہے کہ اس نے اپنے اوپر عائد ہونے والے دفاع کے فرائض پورے نہیں کیے۔ لیکن سعودی عرب نے پھر بھی اس غلطی کو manageکر لیا اور پاکستان میں ہم نے جس ہلاکت کا سامنا کیا، وہ سعودیہ نے نہیں کیا۔ 
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ تحکیم بما انز ل اللہ کا جونکتہ ہے، اس میں سعودی عرب پاکستان سے بہت آگے ہے۔ سعودی عرب کا سیاسی نظام غلط ہوگا، لیکن اگر سکون اور اطمینان وہاں موجود ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟ وہاں پر فیصلے آج بھی کون کرتا ہے؟ وہاں پر قاضی بننے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مدرسے کا فارغ التحصیل ہو۔ مدرسے سے مراد مدینہ یونیورسٹی کی جو کلیۃ الشریعہ ہے، اگر اس کا گریجویٹ ہوگا یعنی دوسرے لفظوں میں پکا مولوی ہوگا تو وہ آدمی قاضی بن سکتا ہے کتاب وسنت کی بنا پر۔ دستو ربھی ان کے ہاں جو موجود ہے، کوئی Penal Code نہیں ہے۔ تو دوسری ترجیح یہ ہے۔
عملی ترجیح یہ ہے کہ ان کے ہاں طاغوت کے ساتھ دوستی کا جو فساد تھا، وہ بہت زیادہ پھیلا نہیں اور آخرکار انھوں نے اس سے گلوخلاصی حاصل کر لی اور سعودی عرب کے لوگ پاکستان کی بہ نسبت زیادہ دانا ثابت ہوئے اور ہمارے ہاں ہلاکت آج بھی موجود ہے۔ اسامہ بن لادن کا مقدمہ وہاں غلط ثابت ہوا، لیکن طالبان کا مقدمہ پاکستان میں درست ثابت ہوا۔ 

ڈاکٹر خالد مسعود

امریکہ کا جو قریب ترین اتحادی ہے، پاکستان سے بھی زیادہ، وہ سعودی عرب ہے۔ 

ڈاکٹر حسن مدنی

اس میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ امریکہ جو ہے، اسی نے سعودی عرب کی تشکیل کی ہے۔ اس کے تمام نظامات امریکہ نے بنائے ہیں اور حتیٰ کہ وہاں پر جو پورا تمدنی انقلاب ہے، وہ پورا سعودی حکومت کے ساتھ مل کر انھوں نے برپا کیا ہے۔ عالمی سیاست میں ان کا جو کردار ہے، وہ غلط ہوگا۔ یا اس کی ایک ہمدردانہ توجیہ یہ کی جا سکتی ہے کہ آپ سعودیہ میں اتریں تو آپ کو لگتا ہے کہ آپ دنیا سے کٹ کر ایک علیحدہ خطے میں آ گئے ہیں اور وہاں اسلام کسی نہ کسی درجے میں موجود ہے۔ صرف حجاز مقدس میں نہیں، سارے سعودیہ میں ہے۔ سعودی عرب بہت وسیع ہے۔ ریاض وہاں سے بارہ گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ وہاں بھی اسلام موجود ہے۔ تو سعودی عرب نے اگر یہ کام کیا ہے تو میں ہمدردانہ طور پر یہ توجیہ کرتا ہوں کہ دنیا کے اس وقت ایک بڑے طاقت ور ملک کے ساتھ مفاہمت کر کے انھوں نے تحفظ حاصل کیا ہوا ہے، ورنہ سعودی عرب اس وقت دنیا سے ایک علیحدہ جزیرہ قائم کر کے دین کو قائم کر ہی نہیں سکتا۔ تو یہ اس کی ایک مناسب توجیہ ہے اور یہ اس کی ضرورت بھی ہے اور حکمت عملی بھی ہے۔ انھوں نے امریکہ سے فائدہ اٹھایا ہے کہ اپنے آپ کو تحفظ دیا ہے۔ بہرحال اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سعودی عرب کا تمدن کا پورا ماڈل امریکہ کا ماڈل ہے۔ 

خورشید احمد ندیم

ایک ہی جملہ بس میں کہنا چاہوں گا کہ یہ جو ہمدردانہ توجیہ ہم سعودی حکمرانوں کے لیے کرتے ہیں، کیا اس کا اطلاق ہم پاکستان کے حکمرانوں پر بھی کر سکتے ہیں؟

ڈاکٹر حسن مدنی

یہ نتائج پر منحصر ہے۔ وہاں ملت اسلامیہ کو یا اسلام اور قرآن کو جو نتائج مل رہے ہیں، اگر وہ ملیں تو غور ہو سکتا ہے۔ میں افغانستان میں کبھی گیا نہیں، لیکن ہمیں یہاں کیا مناسبت ہے؟ اسلام کے تعلق کی مناسبت ہے۔ اگر نتائج میں آپ کو سعودی عرب میں جا کر کچھ اسلام نظر آتا ہے تو ہمدردی ہونی چاہیے۔ کوئی بندہ وہاں دس سال رہتا ہے ، وہ نمازی بن جاتا ہے۔ یہ ان کی خوبی ہے۔ یہاں جو نظام مدارس میں چل رہا ہے، وہاں وہ یونیورسٹیوں میں چل رہا ہے۔ یہ ہمدردی ہم رکھتے ہیں،ورنہ کوئی تعلق اس کے علاوہ نہیں ہے۔

مولانا مفتی محمد زاہد

بات ہو رہی تھی امن کی کہ نظم اجتماعی قائم کرنے کی جو علت یا مقصد ہے، وہ امن ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ اگر ہم نے یہ بحث کرنی ہی ہے، اگرچہ یہ بہت طویل بحث ہے، جلدی ختم ہونے والی نہیں ہے تو امن کے ساتھ دو قدریں اور ہیں۔ ان کو ملا کر اگر بات کی جائے تو شاید سمجھنے میں آسانی ہو۔ ایک قدر ہے عدل۔ یہ ضروری ہے، ورنہ ایک پھنے خاں قسم کا آدمی بھی محلے میں ایک قسم کا امن قائم کر سکتا ہے۔ ایک ڈاکو بھی امن قائم کر سکتا ہے۔ اکیلا امن نہیں، امن وہ جو عدل کے ساتھ ہو۔ تیسری جو قدر ہے، وہ میں نہیں سمجھتا کہ وہ مغربی قدر ہے۔ وہ اسلامی قدر ہے، اگرچہ بعض کو شاید وہ عجیب سی لگے۔ وہ ہے آزادی۔ کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشاد ہے: وقد ولدتہم امہاتہم احرارا۔ آزادی بھی ایک بنیادی قدر ہے۔ یہ تینوں قدریں ضروری ہیں۔ وہ امن جو عدل اور آزادی کے ساتھ ہو، وہ معتبر ہے۔ سعودی عرب میں امن ہوگا، لیکن وہاں آزادی نہیں ہے۔ یہاں ہم حکومت کی پالیسیوں پر تنقید بھی کرتے ہیں۔ وہاں جس وقت جزیرۂ عرب میں امریکی فوجیں موجود تھیں، اب یہ کہہ رہے ہیں کہ نکل گئی ہیں، لیکن جب موجودتھیں، اس وقت بھی حرمین شریفین کے کسی امام کو یہ جرات نہیں تھی کہ وہ خطبے میں لوگوں کو یہ حدیث سنا سکے۔ یہ کہا گیا کہ القاعدہ کا مقدمہ پاکستان میں صحیح ثابت ہوا۔ صحیح ثابت نہیں ہوا۔ یہاں بولنے کی آزادی ہے، وہاں بولنے کی آزادی نہیں ہے۔ یہاں بھی اگر حکومت وہی انداز اختیار کرتی، اسی طریقے سے زبانیں بند کر دیتی تو یہاں پر بھی القاعدہ کا مقدمہ غلط ہوتا۔ پاکستان کے علاوہ کہیں بھی وہ مقدمہ صحیح نہیں ہے۔ جہاں جہاں حکومتوں نے جکڑ کر رکھا ہوا، وہاں وہاں القاعدہ کا مقدمہ غلط ہے اور جہاں کچھ بولنے کی آزادی ہے، وہاں القاعدہ کا مقدمہ ٹھیک ہے۔ وہ امن جس کے ساتھ عدل نہ ہو، جس کے ساتھ آزادی نہ ہو، ایسا امن جو ہے، وہ ریاست کے مقاصد میں شامل نہیں ہو سکتا۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز

میرا خیال ہے کہ اس بحث میں بعض چیزوں کو ہم بہت سادہ انداز سے لے رہے ہیں، لیکن یہ چیزیں اتنی سادہ نہیں ہیں۔ اس میں بہت گہری باتیں ہیں اور ظاہر ہے کچھ باتیں ایسی ہیں جو ہم عام محفلوں میں کر بھی نہیں سکتے۔ 
خورشید ندیم صاحب نے جو سوالات اٹھائے ہیں، یہ الگ سے ایک سیمینار کا تقاضا کرتے ہیں کہ ان پر باقاعدہ مقالے لکھے جائیں اور ان پر بحث کی جائے۔ بہت علمی جوابات ان کے مطلوب ہیں اور عام انداز میں سرسری طور پر ہم ان کا جواب نہیں دے سکتے۔ اب بہت سی باتیں علما کے درمیان زیر بحث رہی ہیں اور مدتوں زیر بحث رہی ہیں۔ مثلاً کیا مقصد اعلیٰ قیامِ حکومت الٰہیہ ہے یا دینی طبقات کا کام انذا ر ہے؟ آیا معاشرے کی اسلامیت ضروری ہے یا لازماً حکومت میں الٰہی نظام یا شریعت کا قیام ضروری ہے؟ اب شریعت کا نظام جو ہے، وہ ایک ایسے ملک میں تو قائم ہو سکتا ہے جہاں اکثریت مسلمانوں کی ہو۔ جہاں اکثریت مسلمانوں کی نہیں ہے، وہاں پر دینی طبقات کی کیا ذمہ داری ہے؟ 
دوسری بات یہ ہے کہ سعودی عرب یا طالبان کی جو حکومت ہے، ان کو ایک اسلامی نظام مملکت کا نمائندہ representative قرار دینا میرے خیال میں اس پر بڑی بحث کی گنجائش ہے، اس لیے کہ اگرہم طالبان کے نظام حکومت کو خالصتاً اسلامی نظام کا نمائندہ قرار دے دیں تو پھر جب ان کی حکومت ختم ہوئی اور کافروں نے ختم کی تو اس کے بعد پھر لوگوں میں سب سے زیادہ منافع حجاموں اور نائیوں نے کیوں کمایا؟ اس لیے کہ وہ انداز جو تھا، جو طریقہ نفاذ کا تھا، شاید وہ اسلام کی روح کے مطابق نہیں تھا۔ جب نفاذ کا طریقہ اسلامی روح کے مطابق نہ ہو تو پھر اس کا رد عمل یہی ہونا تھا جو ہوا جو کہ ایک افسوس ناک بات ہے۔ کسی مسلمان کو اس بات پر خوشی نہیں ہو سکتی کہ لوگ قطار در قطار حجام کے انتظار میں بیٹھے ہوں۔ یہ کوئی اچھی بات نہیں تھی، لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ کہیں نہ کہیں مسئلہ موجود تھا۔
دوسری بات یہ کہ اگر صرف قضا کے نظام کو ہم اسلام قرار دیں تو میں آپ کو بتاؤں کہ تاریخی طور پر جب سے افغانستان قائم ہوا ہے، ۱۷۵۷ء میں احمد شاہ ابدالی بابا نے جب جرمنی کے ذریعے افغانستان قائم کیا تو نظام قضا کا ہی تھا حتیٰ کہ ظاہر شاہ کے دور حکومت میں بھی ظاہر شاہ امیر تھا، اپنے آپ کو امیر المومنین کہلواتا تھا اور اس کا قاضی القضاۃ تھا اور ہر ضلع میں ان کے قاضی تھے اور حنفی فقہ کے مطابق افغانستان میں فیصلے ہوتے تھے۔ 
تیسری بات یہ ہے کہ ہمارے لیے ترکی کے اسلام پسندوں کی حکمت عملی میں راہ نمائی کا بڑا سامان ہے۔ ۱۹۲۴ء کے بعد وہاں جو صورت حال تھی، اس میں یہ بھی بڑی کامیابی ہے کہ کم از کم اسکارف کی اجازت پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بھی مل گئی ہے۔ اب اگر آپ طالبان کی نظر سے ترکی کا نظام دیکھیں تو کہیں گے یہ کافرانہ نظام ہے۔ لیکن ترکی کی صورت حال میں آپ اس کو ایک بڑی کامیابی قرار دے سکتے ہیں۔ اسی طریقے سے اب مثلاً مصر میں یا تیونس میں یا باقی جگہوں پر جو تبدیلیاں آ رہی ہیں، اب آپ اخوان کا نقطہ نظر اس وقت دیکھیں اور آج سے دس سال پہلے دیکھیں۔ آج اخوان کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہم ترکی کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ تیونس کی اسلامی جماعت کہہ رہی ہے کہ ہم ترکی کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ یہ ساری باتیں ہمیں بتا رہی ہیں کہ جب تک مسئلوں کا حل ہم تلاش نہیں کریں گے ،بہت سے سوالوں کا جواب ہمارے لیے تشنہ ہوگا۔

زاہد صدیق مغل

یہ جو امن کے حوالے سے گفتگو ہو رہی تھی، اس پر میں ایک دو چیزوں کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا۔ ایک تو قرآن مجید کی آیت ہے جو بالکل واضح ہے۔ الذین ان مکناہم فی الارض اقاموا الصلوۃ وآتوا الزکوۃ وامروا بالمعروف ونہوا عن المنکر۔ یہ آیت یہ واضح کر رہی ہے کہ اگر اجتماعی طو رپر مسلمانوں کو کوئی موقع ملے گا تو وہ کیا کریں گے۔ دوسری بات، اگر امن اسلام سے ماورا کوئی قدر ہوتی تو اس کا موقع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ میں ملا جیسا کہ سیرت طیبہ میں واقعہ ہے کہ وہ سارے عرب کے جو سردار تھے، وہ حضور کے پاس آئے اور انھوں نے کہا کہ بادشاہت چاہیے تو بادشاہ بن جاؤ۔ رسول اللہ کے پاس بڑا اچھا موقع تھا کہ کہتے کہ چلو ٹھیک ہے، میں بادشاہ بن جاتا ہوں، امن قائم کر لیتے ہیں۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پیش کش ٹھکرا دی۔ تو بنیادی بات یہ سمجھنے کی ہے کہ جب میں یہ کہتا ہوں کہ اسلام ہی امن ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ امن کو اسلام سے ماورا ڈیفائن کرنے کا کوئی پیراڈائم موجود ہی نہیں ہے۔ اس کو آپ یوں سمجھیں کہ اسلام میں امن صرف یہ نہیں ہے کہ جان اور مال اور عزت محفوظ ہو۔ مثال کے طور پر میں اسلامی معاشرے میں خود کو اس چیز سے بھی محفوظ سمجھوں کہ جو حدود اللہ کی پامالی کرنے کی طرف راغب کرنے والی جو چیزیں ہیں، خود کو، اپنی اولاد کو ان سب سے محفوظ پاؤں کہ زنا کی طرف کسی بھی طریقے سے ان کو ترغیب نہ دی جائے۔ تو وہ تمام جو شریعت کے احکامات ہیں، ان کی خلاف ورزی کرنے کے ماحول سے میں خود کو محفوظ پاؤں، یہ بھی تصور امن میں داخل ہے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ امن سے مراد ہے شریعت۔ اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز موجود نہیں ہے۔

ڈاکٹر حسن مدنی

میں سب سے پہلے شکر گزار ہوں جناب صدر کا کہ آپ کی علم دوست شخصیت نے ما شاء اللہ اتنا مخلصانہ اور ہمدردانہ ماحول پیدا کیا اور ساتھ جناب عامر رانا صاحب کا کہ انھوں نے ان تمام لوگوں کو جمع کیا اور ایک مناسب ماحول میں گفتگو ہو رہی ہے۔ جو ہمارا اصل موضوع ہے، کیا اس وقت شمسی ایئر بیس سے ڈرون حملے جن لوگوں پر ہوئے ہیں، کیا ان لوگوں کو مزاحمت کا یا چیخ پکار کا یا کچھ کہنے کا حق ہم دیتے ہیں یا نہیں دیتے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر وہ چیخ پکار کریں گے تو وہ دہشت گردی ہے۔ یہ تو بات درست نہیں کہ وہ باضابطہ تکفیر وخروج کے نام پر پورا نظام کھڑا کر دیں، فدائی حملے شروع کر دیں۔ یہ تو ظلم ہے، لیکن ہم پر بھی کیا کوئی فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ زیادتی جس کو پورے اہل پاکستان زیادتی مان چکے ہیں کہ یہ ہمارے حکمرانوں کی زیادتی تھی اور ہم نے دس سال ایک نادانی کی ہے، اس کے خلاف آواز اٹھائیں؟ دس سال نادانی کے بعد آج ہمیں اصل مخالفوں کا پتہ چلا ہے۔ تو میں صرف یہ سوال اس فورم کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں کہ جن بے گناہوں پر قتل وہلاکت مسلط کی گئی، کیا ان کا بھی کوئی حق موجود ہے آہ وبکا کا ، کچھ بولنے کا اور ہمارا بھی کچھ فرض بنتا ہے یا نہیں ان کی کچھ تائید کرنے کا؟

ڈاکٹر خالد مسعود

دیکھیے۔ اس میں دو چیزیں ہیں۔ ایک تو آپ کی بات اس مفروضے پر مبنی ہے کہ گویا پاکستانیوں نے اس پر کوئی احتجاج نہیں کیا، پاکستان کے کسی طبقے نے احتجاج نہیں کیا۔ یہ بات درست نہیں کہ احتجاج نہیں ہوا۔احتجاج مسلسل ہوتا رہا ہے۔ اور یہ بھی غلط فہمی دور ہو جانی چاہیے کہ ڈرون حملوں کوکسی بھی لبرل طبقے نے پاکستان میں اور کسی حکومتی طبقے نے کبھی اس کی حمایت نہیں کی۔ دوسرے، کچھ عرصہ قبل میں انٹرنیشنل لاء کے ایک سیمینار میں شریک تھا۔ وہاں لوگ کہہ رہے تھے کہ آپ کی نظر میں سب سے زیادہ امریکی حکومت کا کون سا اقدام ہے جس سے پاکستانیوں کو نفرت ہو رہی ہے؟ میں نے کہا کہ ڈرون حملے۔ یہ ان کے لیے بڑے تعجب کی بات تھی۔ آپ اس کو سمجھیں کہ امریکیوں کے نزدیک وہ ڈرون حملوں کے ذریعے پاکستان کی مدد کر رہے ہیں۔ جو پاکستان نہیں کر سکتا، وہ اس کی مدد کر رہے ہیں۔ یہ سارا کچھ پاکستان کے جو بھی ذمہ دار ہیں، ان سب کی رضامندی کے ساتھ ہوا ہے اور تحریری معاہدوں کی بنیاد پر ہوا ہے۔ 

ڈاکٹر حسن مدنی

لیکن کیا ہم نے اپنا فرض ادا کیا جب ہمارے اہل وطن پر ظلم ہو رہا تھا؟ میں تو اپنے ذاتی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ اگر چند کلمات لکھے تو بہت چھوٹافرض تھا، کیونکہ ان کا کوئی گناہ نہیں تھا۔ اہل پاکستان ہونے کے ناتے وہی نظریہ، اسلام کی محبت کا تو ہم بھی رکھتے ہیں۔ 

ڈاکٹر خالد مسعود 

لیکن دوسری طرف یہ ہے کہ جن لوگوں کوخود کش حملوں کا نشانہ بنایا گیا اور جن پر یہاں تباہی مسلط کی گئی، مسجدوں میں خود کش حملوں میں نشانہ بنایا گیا، ان کی بھی بات اسی طرح اسی زور وشور سے ہونی چاہیے کہ جو بھی اس طرح کے کام ہوئے، چاہے وہ شریعت کے نفاذ کے نام پر کیے گئے، وہ غلط تھے۔ 

ڈاکٹر حسن مدنی

معذرت کے ساتھ، بس آخری بات یہ عرض کروں گا کہ میرے خیال میں پاکستان میں اللہ کا بڑا شکر ہے کہ پچھلے چھے ماہ سے امن ہے اور امن وامان کی صورت حال اللہ کرے ہمیشہ قائم رہے۔ ہمارا وطن ایسے ہی رہے۔ تو جب بھی دہشت گردی ہوگی، جب بھی ڈرون حملے گریں گے تو مصنوعی طور پر دہشت گردی کھڑی ہو جائے گی، ورنہ میں نہیں سمجھتا۔ ہمارے ملک میں pre-planned دہشت گردی ہوتی ہے، باہر کے ایجنٹ ہوتے ہیں۔ یہاں کے لوگوں نے کبھی ایسا نہیں کیا۔ ۲۰۰۰ء سے پہلے بھی طالبان موجود تھے، سرحد پورا موجود تھا۔ وہاں یہ بد امنی اور تکفیر نہیں تھی۔ آج بھی جیسے ہی یہ معاملے کو ختم کر دیں گے تو بد امنی کم از کم سکون میں بدل جائے گی۔ اس وقت وہ صورت حال تو نہیں ہے جو۲۰۰۹ء میں تھی۔ ہمیں اس چیز کو اس کے اصل تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ یہ شروع کہاں سے ہوئی؟ اس تناظر کو نظر انداز کر کے صرف آج کے غلط اقدام کرنے والوں کو بر ابھلا کہہ دینا میں سمجھتا ہوں کہ آدھا سچ ہے۔ 

مولانا مفتی محمد زاہد

انھوں نے تصویر کے دونوں رخ پیش کیے اور بہرحال جن پر یہ حملے ہو رہے ہیں، ہم ڈرون کا لفظ بول رہے ہیں، جبکہ کسی بھی طریقے سے حملہ ہو، وہ برا ہے۔ ہم اس طریقے سے یہ لفظ دہراتے ہیں کہ اگر وہ کسی اور طریقے سے حملہ کریں تو شاید وہ ٹھیک ہوگا۔ میں جو بات کہنا چاہتا ہوں، اس پر بھی توجہ دینی چاہیے کیونکہ اپنی صفوں کو ٹھیک کرنا، یہ زیادہ اہم ہے۔ وہ لوگ جو ہم سے پوچھتے ہیں کہ داتا دربار پر کون سے ڈرون حملے ہوئے؟ ہم جب کہتے ہیں کہ اسباب پر غور کرو تو داتا دربار سے کون سے ڈرون اڑے تھے؟ میں سمجھتا ہوں کہ یہ محض ایک justification ہے، ہم اوپر اوپر سے بات کر رہے ہیں۔ ہمیں اپنی صفوں کے اندر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ ان کے ساتھیوں میں بھی، میرے ساتھیوں میں بھی، ان کے شاگردوں میں بھی، میرے شاگردوں میں بھی جو میرے سامنے بیٹھ کر پڑھتے ہیں، ہمیں اعتراف کر لینا چاہیے کہ یہ عنصر موجود ہے اور کم سے کم اپنے ماحول کے اندر اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ٹھیک ہے جب ہم امریکہ سے بات کریں تو اس وقت ڈرون حملوں کی بات کریں، لیکن جب ہم اپنے ماحول میں ہوں تو ہمارے اپنے ماحول کے اندر جو تصورات کی غلطیاں ہیں، ان کا ہمیں نہ صرف اعتراف کرنا چاہیے، بلکہ ان کو اچھے طریقے سے سمجھانا چاہیے۔امریکہ جوکچھ کر رہا ہے، اس کو اسلام نہیں کہا جاتا۔ لیکن یہ جو کچھ ہو رہا ہے، اس کو اسلام کہا جا رہا ہے۔ ایک عالم دین کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ جس چیز کو اسلام کے نام پر پیش کیا جا رہا ہے، اس کے بارے میں یہ فیصلہ کرے کہ وہ واقعتا اسلام ہے یا نہیں۔ 

ڈاکٹر حسن مدنی

آپ کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے عرض کروں گا کہ ملا عمر نے تین سال پہلے کہا کہ جنھیں جہاد کا شوق ہے اور جو مزاحمت کرنا چاہتے ہیں، وہ سب کے سب افغانستان میں آ جائیں۔ پاکستان کے طالبان کی یہاں کے علما نے کبھی تائید نہیں کی۔ جس نے داتا دربار پر یا کسی بھی جگہ پر حملہ کیا، اس نے انتہائی ظلم کیا۔ شریعت میں ا س کا کوئی جواز نہیں تھا۔ جس طرح آپ نے فرمایا ہے کہ ہمارے درمیان دشمن کے لوگ بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ لوگ جنھوں نے لوگوں کے گھر تباہ کیے ہیں، ان میں غیر مختون بھی ملے ہیں۔ جب ہم ہمدردی سے دیکھتے ہیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب ایجنٹوں کا کردار ہے اور اگر طالبان نے یہ کام کیا تو غلط کیا، ورنہ ملا عمر جو طالبان کے قائد ہیں، ان کا یہ موقف نہیں اور پاکستان کے کسی عالم نے اس ایجنڈے کی تائید نہیں کی۔ جس نے کیا، اس نے غلط کیا اور ایجنٹوں کا کردار بھی اس میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

ڈاکٹر خالد مسعود

میں جس پوائنٹ کی طرف آپ کو لانا چاہ رہا ہوں، وہ یہ ہے کہ ہم اس بات کا خیال رکھیں کہ ہم دین کے نام پر استعمال تو نہیں ہو رہے؟

اختتامی کلمات: عامر رانا — (ڈائریکٹر PIPS)

اس وقت ملکی سلامتی اور امن وامان کے حوالے سے جو مسائل ہمیں درپیش ہیں، ان میں تکفیر اور خروج ایک اہم مسئلہ ہے۔ پورا مسئلہ بہت complex ہے جیسا کہ قبلہ ایاز صاحب نے بھی کہا۔ بہت سے لوگوں نے کہا کہ مسئلہ بنیادی طورپر سیاسی ہے اور اس کا جو cover ہے، وہ مذہب ہے۔ میں چونکہ سیاسیات کا اور اسٹریٹجک اسٹڈیز کا طالب علم ہوں، سب سے بڑا پرابلم کسی بھی فریم ورک کو ڈویلپ کرنے میں تب آتا ہے جب ideological tendencies اس میں fall کرتی ہیں۔ میرا تو یہ میدان نہیں ہے اور یہ کوئی PIPS کا intiative بھی نہیں تھا کہ تکفیر اور خروج پر ہم اس بحث کا آغاز کریں۔ اس کا پس منظر بہت سے لوگوں کو یہاں معلوم ہے کہ علما کی تجویز تھی۔ جب ہم نے کہا کہ پرامن اور متوازن معاشرے کے قیام میں علما کیا کردار ادا کر سکتے ہیں تو علما کی طرف سے تجویز پیش کی گئی کہ ہمیں تین سطحوں پر کام کرنا چاہیے۔ اس میں ایک کام علمی وفکری سطح کا تھا۔ 
جہاں تک ڈرون حملوں کی بات ہے تو سب سے پہلے پاکستان میں ان حملوں کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے کے لیے جو انٹرنیشنل ایکسپرٹ بلائے گئے تھے، وہ PIPS نے ہی بلائے تھے اور یہی ادارہ تھا کہ جب سوات میں Collateral damage ہوا، وہ ملٹری کی طرف سے زیادہ سویلین مارے گئے تھے، طالبان کی طرف سے بھی مارے گئے تھے تو اس ایشو کو بھی اسی چھوٹے سے ادار ے نے ہائی لائٹ کیا تھا۔ تو جو بھی اکیڈمک ہو اپنے ڈسپلن کا تو اسے اپنے ڈسپلن کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ ہمارا ادارہ بھی اس کا خیال رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ 
تین مذاکرے ہم نے کر لیے اور ہر مذاکرے کے بعد تشنگی بڑھتی جا رہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہم اس سلسلے کو یہاں روک دیں۔ آج آپ نے شروع میں یہ بات کی کہ ہمیں اور بھی کئی مسائل کا اور چیلنجز کا سامنا ہے جن کا براہ راست تعلق ہماری معاشرت کے ساتھ ہے۔ یہ جو موضوع ہے ، بے شک اس کا تعلق ہماری قومی سلامتی کے ساتھ اور ہماری ریاست کے ساتھ، ہمارے region کے ساتھ بہت سارے معاملات سے جڑا ہوا ہے۔ اگر ہم ان چیلنجز سے جن کا آپ نے ذکر کیا، اگر ان سے بات شروع کریں تو شاید آہستہ آہستہ پیش رفت ہو اور ہم تکفیر اور خروج جیسے گنجلک مسائل کی طرف پیش قدمی کر سکیں، ان کے لیے راہ ہموار کرسکیں۔ 
بہرحال تینوں محفلیں بڑی بھرپور ہوئیں۔ آج کی نشست میں آمد کے لیے آپ تمام معزز علماء کرام اور دانش وروں کی آمد کا بہت بہت شکریہ۔ ہم آپ کے انتہائی مشکور ہیں کہ آپ کی آمد کی وجہ سے بہت سے پہلو جو پچھلی دو محفلوں میں سامنے نہیںآئے تھے، وہ بھی سامنے آئے اور میرا خیال ہے کہ یہ بحث انفرادی سطح پر اور اجتماعی سطح پر اب چلتی رہے گی۔ آپ کی آمد کابہت بہت شکریہ!

پاکستان ایک غیر اسلامی ریاست ہے

الشیخ ایمن الظواہری

(مصنف کی کتاب ’’الصبح والقندیل‘‘ کے اردو ترجمہ سے اقتباسات۔)

جب سے میں پاکستان سے متعارف ہوا ہوں، مسلسل کئی پاکستانی بھائیوں اور اسلامی جماعتوں کے داعی اور کارکن حضرات کو ایک بات دہراتے سنا ہے۔ ان سب حضرات کی رائے کا خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان کا نظام حکومت دیگر مسلم ممالک میں قائم نظام ہائے حکومت سے قدرے مختلف ہے، کیونکہ پاکستان کا دستور صحیح اسلامی اساس پر قائم ہے۔ یہ دستور عامۃ المسلمین کو اپنے نمائندے چننے اور شریعت کی روشنی میں اپنے حکام کا محاسبہ کرنے کی مکمل آزادی فراہم کرتا ہے۔ پس مسئلہ دستور یا نظام کا نہیں، بلکہ اس فاسد حکمران طبقے کا ہے جو کبھی بزور قوت اور کبھی دیگر ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے اقتدار پر قابض رہتا ہے اور دستور میں درج امور کی پابندی نہیں کرتا۔
یہ باتیں سن کر میرے ذہن میں کچھ سوالات جنم لیتے تھے۔ مثلاً یہ کہ اگر پاکستانی نظام حکومت واقعتا اسلامی بنیادوں پر قائم ہے تو پھر اس سے اس قدر فساد وبگاڑ اور مغرب کی اندھی غلامی کیونکر پیدا ہو رہی ہے؟ اگر پاکستانی نظام واقعتا اسلامی بنیادوں پر قائم ہے تو پھر اس کا نظام تعلیم اس قدر مہلک اور تباہ کن کیوں ہے؟ آخر کیوں اس نظام تعلیم سے ایسی نسلیں تیار ہو رہی ہیں جو اسلام سے جذباتی وابستگی رکھنے کے باوجود قول وعمل میں مکمل طور پر مغربی ثقافت اختیار کر چکی ہیں؟ اگر پاکستان کا نظام واقعتا اسلامی بنیادوں پر قائم ہے تو پاکستان کی فوج، جو اس ملک کی بے تاج بادشاہ ہے، کے لیے امریکی غلامی کو اپنے گلے کا ہار بنانا کیسے ممکن ہو پایا ہے؟ بھلا یہ کس طرح ممکن ہے کہ پاکستانی نظام اسلامی بنیادوں پر قائم ہو اورپھر بھی ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے نام پر جاری اسلام کے خلاف جنگ میں پاکستان امریکہ کا سب سے بڑا اتحادی بن جائے؟ یہ اور ایسے کئی دیگر سوالات میرے لیے حیرت وپریشانی کا باعث بنے رہے، لہٰذا میں نے پختہ عزم کر لیا کہ مجھے جب کبھی فرصت ملی، میں دستو رپاکستان کا مطالعہ ضرور کروں گا، لیکن ایک عرصے تک میری مصروفیات اس ارادے کی تکمیل میں حائل رہیں۔ بالآخر جب مجھے دستور پاکستان پڑھنے کا موقع ملا تو مجھ پر ان اوہام وشبہات کی حقیقت کھلی جن کا پاکستان کی دینی جماعتوں میں کام کرنے والے بہت سے بھائی شکار ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان اشکالات کا سبب اس دستور سے عدم واقفیت ہے یا اندھی اتباع کرنے کی روش! ا س مطالعے کے نتیجے میں دستور پاکستان میں موجود واضح تناقضات مجھ پر ظاہر ہوئے جو شریعت کا ادنیٰ سا علم رکھنے والے کسی شخص سے بھی پوشیدہ نہیں رہ سکتے۔
اس مطالعے کے نتیجے میں مجھے اپنے مذکورہ بالا سوالوں کا جواب بھی مل گیا۔ میں پوری بصیرت کے ساتھ اس نتیجے پر پہنچا کہ پاکستان ایک غیر اسلامی مملکت ہے اور اس کا دستو ربھی غیر اسلامی ہے، بلکہ اسلامی شریعت کے ساتھ کئی اساسی اور خطرناک تناقضات پر مبنی ہے۔ نیز مجھ پر یہ بھی واضح ہوا کہ پاکستانی دستور بھی اسی مغربی ذہنیت کی پیداوار ہے جو عوام کی حکمرانی اور عوام کے حق قانون سازی کے نظریے پر یقین رکھتی ہے اور بلاشبہ یہ نظریہ اسلام کے عطا کردہ عقیدے سے صراحتاً متصادم ہے۔ 
مغرب کا سیاسی نظام ’’وطنی وقومی ریاست‘‘ (nation-state) کے نظریے پر قائم ہے اور اس نظریے پر قائم ہونے والی ریاست کی تمام تر دوڑ دھوپ کا محور اپنے وطن میں بسنے والی قوم کے مفادات کا تحفظ اور اس کے لیے زیادہ سے زیادہ دنیاوی فوائد ومنافع کا حصول ہوتا ہے۔ یہ وطنی ریاست عوامی اکثریت کی رائے کے سوا کسی اصول وعقیدے اور اخلاق واقدار کی پابند نہیں ہوتی۔ چیزوں کو حلال وحرام قرار دینے سمیت ہر قسم کی قانون سازی کثرت رائے کی بنیاد پر کرتی ہے اور وطنیت کو ہی معیار بناتے ہوئے انسانوں میں تفریق روا رکھتی ہے۔۔۔۔۔۔۔
مغرب کی ایک الگ تاریخ اور ان خاص تاریخی حالات کے زیر اثر جنم لینے والے کچھ مخصوص تصورات ہیں جنھیں ہم سے یا ہمارے دین سے کوئی ادنیٰ سی بھی مناسبت نہیں، لہٰذا مسلم معاشروں میں پائے جانے والے مغربی تصورات کے حامل افراد اور گروہ قطعاً اس کے اہل نہیں کہ وہ امت مسلمہ کے لیے کسی بھی قسم کا دستور یا قانونی نظام وضع کریں۔ ایسی ہر کوشش کے نتیجے میں کچھ عجیب مضحکہ خیز مرکب اور کفر واسلام کے ملغوبے معرض وجود میں آتے ہیں جن سے فساد اور انحراف میں اضافے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ یہی وہ کہانی ہے جو پاکستان بننے کے بعد سے ساٹھ سال تک دہرائی جاتی رہی ہے۔ پاکستان کی سرزمین ہمیشہ بدلتے موسموں کے ساتھ رنگ بدلتی رہی ہے اور بالآخر آج اسلام کے خلاف لڑی جانے والی عالمی صلیبی صہیونی جنگ میں جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے سب سے بڑے امریکی اڈے میں تبدیل ہو چکی ہے۔
دستور پاکستان کے بغو رمطالعے سے مجھ پر یہ بات بھی واضح ہوئی کہ اس دستور کو لکھنے والوں کے پیش نظر کسی اسلامی حکومت یا شرعی نظام کا قیام نہ تھا، بلکہ یہ دستور تو لکھا ہی اس لیے گیا تھا کہ اس کے ذریعے مغربی طرز حکمرانی پر عمل پیرا ایک ایسی ریاست قائم ہو جو اسلام دشمن ’’بین الاقوامی نظام‘‘ میں ضم ہو سکے، وہ بین الاقوامی نظام جسے عیسائی طاقتوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد اس غرض سے قائم کیا تھا کہ وہ پوری دنیا کے انسانوں کو ان کا تابع فرمان بنائے اور ان کے مفادات کا پوری طرح تحفظ کرے۔ یہی وہ باطل بین الاقوامی نظام ہے جس نے امت مسلمہ سے فلسطین چھینا اور یہی وہ نظام آج تک آزادئ کشمیر کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔
دستور پاکستان کے مطالعہ سے مجھ پر یہ حقیقت بھی منکشف ہوئی کہ یہ دستور کچھ ایسے مکر وفریب کے انداز میں لکھا گیا ہے کہ مسلم عوام سے شریعت کے نفاذ کا وعدہ بھی ہو جائے، لیکن وہ وعدہ کبھی وفا بھی نہ ہو سکے۔ مجھے تو تعجب ہوتا ہے کہ اس وقت کے بڑے بڑے علماء اور داعی حضرات بھی اس دھوکے کا شکار ہو کر دستور کی تعریف وتقدیس بیان کرتے رہے۔ (ہاں، اس میں کچھ شک نہیں کہ ان حضرات کا اس دستور سے نیا نیا واسطہ پڑا تھا اور ابھی اس کے عملی اثرات بھی پوری طرح واضح نہیں ہو پائے تھے، لہٰذا غلط فہمی میں مبتلا ہو جانے کا امکان شاید موجود تھا۔) البتہ اصل تعجب کے لائق تو ہمارے وہ فاضل دوست ہیں جو نفاذ شریعت کے جھوٹے وعدوں کو ساٹھ (۶۰) سال گزر جانے کے بعد بھی وہی گھسے پٹے اوہام واشکالات دہرائے چلے جا رہے ہیں اور آج تک دستور پاکستان کی اسلامیت کے فریب سے دامن نہیں چھڑا پائے۔
آج یہ بات سب پر عیاں ہو چکی ہے کہ یہ وہ پاکستان نہیں جس کی تمنا ہند کے مسلمانوں کی اکثریت نے کی تھی۔ یہ وہ سرزمین نہیں جس کے بارے میں خواب دیکھا گیا تھا کہ وہ دنیا بھر کے مسلمانون کا مرکز اور جائے پناہ بنے گی، بلکہ اس کے برعکس یہ سرزمین تو برصغیر، جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف لڑی جانے والی صلیبی جنگ میں سب سے اہم امریکی اڈے کا کام دے رہی ہے۔ آج یہ امر ہر صاحب بصیرت پر عیاں ہو گیا ہے کہ پاکستان پر آغاز سے اب تک فاسد ومفسد طبقات ہی حکمرانی کرتے آئے ہیں اور یہ سلسلہ مسلمانوں کے قاتل مشرف کے سیاہ دور سے گزرتا ہوا ’’مسٹر ٹین پرسنٹ‘‘ کے لقب سے مشہور، اموال مسلمین لوٹنے والے امریکی غلام زرداری کے عہد حکومت میں داخل ہو گیا ہے۔ (وہ زرداری جسے نہ صرف عسکری قوتوں کی حمایت حاصل ہے، بلکہ انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ متعدد دینی جماعتوں نے بھی انتخابات کے موقع پر اسی طرح اس کی تائید کی جیسا کہ اس سے پہلے ان جماعتوں نے پرویز کی آئینی ترامیم اور صدارتی انتخاب کے موقع پر اس کا ساتھ دیا تھا)۔ ۔۔۔۔۔۔
برصغیر پاک وہند کے مسلمان بھی اسی المیے سے دوچار ہوئے جس سے عصر حاضر میں دیگر بہت سے علاقوں کے مسلمانوں کو دوچار ہونا پڑا۔ ’’المیہ‘‘ سے میری مراد یہ ہے کہ قربانیاں تو ہر جگہ عامۃ المسلمین نے دیں، لیکن ان قربانیوں کے ثمرات کوئی اور لے اڑا۔ قربانیوں کے ایک طویل دور کے بعد جب بھی زمام اقتدار سنبھالنے کا مرحلہ آیا تو قیادت پر ایسے طبقات قابض ہو گئے جو امت کے عقائد، امنگوں اور خوابوں میں ان کے شریک نہ تھے۔ ا س بدطینت طبقے نے امت کے ساتھ قدم قدم پر وعدہ خلافی کی اور امت کی قربانیوں سے صریح خیانت کی۔
سید احمد شہید رحمہ اللہ کی برپا کردہ تحریک مجاہدین کمزور پڑ جانے کے بعد شیخ الہند اور سید حسین احمد مدنی رحمہما اللہ نے ازسرنو برطانیہ کے خلاف جہادی تحریک کی بنیادیں ڈالیں، لیکن سلطنت عثمانیہ سے مدد کے حصول میں ناکامی اور سقوط خلافت کے سبب یہ تحریک بھی ناکامی سے دوچار ہوئی اور یہ دونوں حضرات مالٹا میں اسیر ہو گئے۔ پھر ایک مختصر وقفے کے بعد ہند کے مسلمانوں میں ایک عوامی تحریک اٹھی جس نے ہندووں (اور انگریزوں) کے ظلم وجبر سے خلاصی کے لیے ایک الگ، آزاد خطہ زمین کا مطالبہ کیا، لیکن دینی مزاج کی حامل اس عوامی تحریک آزادی میں کوئی ایسے عناصر بھی شامل ہو گئے جو اپنے عقائد وافکار میں عامۃ المسلمین سے بہت مختلف تھے۔
ان عناصر میں انگریزی ثقافت کا تربیت یافتہ اور فرنگی تہذیب کا دلدادہ ایک طبقہ بھی شامل تھا۔ اس طبقے کی ذہنی مرعوبیت کے پیچھے بھی کئی عوامل کارفرما تھے:
(الف) مسلمانوں کی عسکری اور جہادی تحریکیں بظاہر ناکام ہو چکی تھیں اور یہ تو انسانی فطرت ہے کہ وہ طاقت اور صاحب طاقت سے متاثر ہوتا ہے۔
(ب) اس طبقے کی پرورش مغربی نظام تعلیم کے تحت ہوئی تھی اور انسان اسی طرز زندگی کا خوگر ہوتا ہے جس پر اس کی تربیت ہوئی ہو۔
(ج) عالم اسلام سیاسی، اجتماعی اور علمی اعتبار سے شدید بگاڑ کا شکار ہو چکا تھا۔ ظلم وجبر اور خود غرضی عام ہو چکی تھی، اختیار واقتدار زور وزبردستی سے غصب کیا جاتا تھا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے فرائض مٹتے جا رہے تھے اور منافقت، مداہنت، چاپلوسی، بے جا طرف داری اور نا انصافی جیسے رذیل اوصاف پھیل چکے تھے۔ بہت سے علما ایسی جامد تقلید اختیار کر چکے تھے کہ امراض ملت کی دوا ڈھونڈنے کی بجائے حالات سے لاتعلقی اختیار کر لینا ہی ان کا شیوہ بن گیا تھا۔
(د) یہ طبقہ مغرب، بالخصوص انگریز کی اس جھوٹی دعوت پر ایمان لے آیا تھا کہ وہ آزادی، انصاف، مساوات اور مظلوموں کی مدد ونصرت کے علمبردار ہیں، حالانکہ اللہ گواہ ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں مغربی ممالک سے زیادہ ظلم وفساد پھیلانے والا کوئی نہیں گزرا۔ اس پر مستزاد یہ ہے کہ وہ اس بات کی بھی تصدیق کر بیٹھے کہ مغرب کی ظاہری ترقی دین سے دوری اور دین کو محض کلیسا تک محدود کرنے کی مرہون منت ہے۔
مغربی عقائد وافکار کا حامل یہ طبقہ امت کو بھی مغربی تہذیب کا دلدادہ بنانے کے لیے مستقل کوشاں رہا، لیکن اسے مشکل یہ درپیش تھی کہ ہند کے مسلمانوں کی تحریک آزادی ایک خاص وصف کی حامل تھی جو اسے عالم اسلام میں برپا ہونے والی بہت سی دیگر تحریک ہائے آزادی سے ممتاز کرتا ہے۔ اس تحریک کا تو بنیادی نعرہ ہی یہ تھا کہ ایک اسلامی سلطنت قائم کی جائے جو مسلمانوں کی حرمات کی محافظ اور ان کے حقوق کی نگہبان ثابت ہو۔ پس مسلمانان ہند کے اس عمومی دینی مزاج کو دیکھتے ہوئے یہ مغرب نواز طبقہ اپنے سیکولر عقائد اور مغربی تہذیب سے اپنی محبت وقربت چھپانے پر مجبور ہوا تاکہ مسلمانوں کی صفوں اس کے لیے کچھ جگہ بن سکے۔ یہی نہیں، بلکہ اس طبقے نے مسلمانوں میں مقبولیت حاصل کرنے کے لیے ان کے جذبات سے کھیلا اور طرح طرح کے خوشنما وعدے کر کے انھیں پیچھے چلایا۔ کبھی ایک سراب کی سمت دوڑایا اور کبھی دوسرے کی سمت اور عملاً کتاب وسنت کی حکمرانی قائم کرنے کی بجائے ہمیشہ مستقبل کے عہد وپیماں باندھے۔
چنانچہ یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ دستور پاکستان اور ریاست پاکستان کا وجود میں آنا بھی اسی کھیل تماشے کا تسلسل ہے جس کی دلیل طلب کرنے کی بجائے پاکستان کی ساٹھ سالہ تاریخ پر نگاہ ڈال لینی چاہیے کہ پاکستان کہاں سے چلا تھا اور کن کن مراحل سے گزرتا ہوا آج کہاں آن کھڑا ہے، بلکہ یوں کہنا بہتر ہوگا کہ کس گڑھے میں جاگرا ہے! آج پاکستان کی حیثیت امریکی فوج اور امریکی خفیہ ایجنسیوں کے لیے خدمات مہیا کرنے والی ایک کمپنی کی سی ہے۔ اس ملک کے قائدین اور سیاست دانوں کی باگ ڈور کا کل مقصود یہ ہے کہ کسی طرح اپنے آپ کو ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے نام پر لڑی جانے والی امریکہ ومغرب کی اسلام دشمن صلیبی مہم میں باقیوں سے بڑھ کر امریکہ کا وفادار ثابت کر پائیں۔ امریکہ کی رضا کی خاطر آج دین وعقیدے اور نظریہ پاکستان سمیت ہر شے قربان کی جا چکی ہے۔
پاکستان بننے کے بعد سے اس حکمران طبقے نے نہ صرف نفاذ اسلام کے جھوٹے وعدوں پر مشتمل ایک مغربی طرز کا دستور تشکیل دیا ہے، بلکہ اس دستور میں مرحلہ وار ایسی عبارتیں بھی شامل کروائی ہیں جو ان کی بے راہ روی اور فساد کو تحفظ دے سکیں۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ’’رشوت‘‘ پاکستان کے سیاسی معاملات میں ایک اہم ترین عامل بن چکی ہے۔ جب بھی کوئی نیا حکمران آتا ہے تو ارکان پارلیمان اور سیاست دانوں کو مٹھی میں لینے کے لیے امت کا مال رشوت کے طور پر بے دردی سے لٹاتا ہے۔ پھر انھی عوامی نمائندوں سے ایسی دستوری ترامیم منظور کرواتا ہے جو اسے ہر قسم کی جواب دہی اور محاسبے سے تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔
زیر نظر کتاب پر دو بنیادی اشکالات پیش کیے جا سکتے ہیں:
(۱) پاکستان کے آئینی وجمہوری نظام کے خلاف بغاوت دراصل عوام کی حکمرانی کے خلاف بغاوت ہے اور اس کی آڑ میں استبدادی نظام کے غلبے اور فرد واحد کی حکمرانی کی سمت دعوت دینا مقصود ہے اور درحقیقت یہ دین کے نام پر لوگوں کی قسمت، حقوق، اموال اور حرمات پر تسلط کی ایک مذموم کوشش ہے۔
(۲) صاحب کتاب کا موقف ہے کہ پاکستان کے قانونی ودستوری نظام میں اصولی اور مہلک خرابیاں پائی جاتی ہیں، لیکن پاکستان کی بہت سی دینی تحریکوں کے قائدین اور داعیان دین اس رائے سے اختلاف رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک پاکستانی نظام اصولی اعتبار سے بالکل ٹھیک ہے اور تمام تر بگاڑ نظام پر قابض حکمران طبقے کا پیدا کردہ ہے۔ یہ لوگ پاکستان کے حالات سے زیادہ آگاہ ہیں اور اصلاح احوال کے طریقہ کار کو زیادہ بہتر طور پر جانتے ہیں۔ تو پھر مصنف ان سب حضرات کی رائے کو وزن کیوں نہیں دیتے اور اسے کیوں نہیں اپناتے؟ خصوصاً جبکہ پاکستانی نظام کو غیر شرعی قرار دینے کے نتیجے میں تشدد، تصادم اور فتنوں کی آگ بھڑک اٹھنے کا امکان ہے جس سے تباہی وبربادی کے سوا کچھ نہیں حاصل ہوگا۔
پہلے شبہے کا جواب یہ ہے کہ ہم دین کے نام پر استبدادی نظام کے غلبے اور فرد واحد کی حکمرانی کی دعوت نہیں دے رہے، بلکہ اسے بھی فساد کی ایک شکل اور خلاف اسلام سمجھتے ہیں۔ ہم تو امت کو شوریٰ اور عدل وانصاف کے سنہرے شرعی اصولوں کی طرف دعوت دیتے ہیں اور تقویٰ وعمل صالح کے علاوہ کسی بنیاد پر انسانوں میں تفریق کے قائل نہیں۔ ہماری دعوت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی طرف دعوت ہے۔ ہماری تو خواہش ہے کہ حاکم ومحکوم، ادنیٰ واعلیٰ، قوی وکمزور، سب بلا تمیز وتفریق شریعت کے سامنے جھک جائیں، امت اپنے حکمران خود شرعی طریقہ کار کے مطابق چنے اور پھر ان کا محاسبہ بھی اسی انداز میں کرے جیسا کہ خلافت راشدہ کے سنہری دور میں ہوا کرتا تھا۔
البتہ ہمیں اندیشہ اس بات کا تھا کہ پاکستان کا حکمران طبقہ ہماری اس پاکیزہ دعوت کو قبول کرنے کی بجائے حاکمیت شریعت، اسلامی اخوت اور خلافت راشدہ کے احیا کی کوششوں میں روڑے اٹکائے گا اور قومی عصبیت وہوائے نفس کی حاکمیت اور وطنی ریاست کی بقا پر اصرار کرے گا اور آج ہم اسی بات کا کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہیں۔
دوسرے شبہے کا جواب یہ ہے کہ:
(الف) اس کتاب میں کوئی ذاتی رائے نہیں پیش کی گئی بلکہ دستور پاکستان اور پاکستانی عدالتوں کے فیصلوں ہی سے اس نظام کا اصولی اعتبار سے ایک منحرف وفاسد نظام ہونا ثابت کیا گیا ہے اور بہت سی مثالوں کے ذریعے یہ بات واضح کی گئی ہے کہ پاکستانی دستور وقانون میں شرعی احکامات سے متصادم بہت سا مواد پایا جاتا ہے۔ 
(ب) کتاب میں بیان کردہ موقف کا سب سے بڑا ثبوت خود پاکستان کی عملی صورت حال ہے۔ ایک فاسد دستوری وقانونی نظام پر قائم یہ ریاست اپنے قیام کے ساٹھ سال گزرنے کے بعد بھی بد سے بدتر کی طرف گامزن ہے۔ خائن ملت فوجی اور سیاسی قائدین یکے بعد دیگرے اسی بہانے کے ساتھ اقتدار پر قابض ہوتے رہے ہیں کہ وہ ملکی سیاست سے بدعنوانی ورشوت ستانی کا خاتمہ کرنے اٹھے ہیں، لیکن اقتدار سنبھالنے کے بعد ہر بار وہی مکروہ کھیل دہرایا جاتا ہے۔ یعنی پہلے سرکاری خزانے سے بھاری رشوتیں دے دے کر سیاست دانوں کی وفاداریاں خرید ی جاتی ہیں اور پھر ارکان پارلیمان کی غالب اکثریت کو اپنے ساتھ ملا کر ایک نئی آئینی ترمیم منظور کی جاتی ہے جس کے ذریعے حکمرانوں اور ان کے حاشیہ نشینوں کو ہر قسم کی عدالتی کارروائی اور جواب دہی سے تحفظ حاصل ہو جاتا ہے۔ یوں لوٹ مار اور فساد وبگاڑ کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس کے خاتمے کے لیے جلد ہی کوئی دوسرا نجات دہندہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ 
اس سب لوٹ مار کا منطقی نتیجہ یہی نکلا ہے کہ پاکستان اب ایک کرایے کا نوکر بن کر رہ گیا ہے۔ جہاں سے بھی زیادہ پیسے ملیں، ریاست پاکستان اسی کو اپنی خدمات پیش کرتی ہے۔ چنانچہ آج پاکستان صلیبی لشکروں کا خادم بن کر اپنے مسلمان پڑوسیوں کو، بلکہ اپنے آپ کو بھی تباہ کر رہا ہے اور اس سب کے عوض حکمران طبقے کی جیبیں رشوتوں سے بھر رہی ہیں۔ اب خود ہی بتائیے کہ کیا ان سب حقائق سے انکا رکرنا ممکن ہے؟ کیا ان میں کسی شک وشبہے کی گنجائش موجود ہے؟ کیا پاکستان اسلام کے خلاف جنگ میں مصروف نہیں؟ کیا پاکستان کے دار الحکومت اسلام آباد میں مساجد ومدارس کو طلباء وطالبات سمیت ملیا میٹ نہیں کیا گیا؟
(ج) اگر ہم یہ تسلیم کر بھی لیں کہ تمام تر بگاڑ وفساد کا سبب محض حکومت پر قابض حکمران طبقہ ہے تو بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے حکمرانوں کے خلاف خروج کرنے والوں کی مدد نہیں کی تھی، حالانکہ وہ حکمران ان پاکستانی حکمرانوں سے ہزار گنا بہتر تھے؟ کیا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے امام زید بن علی رحمہ اللہ اور پھر محمد نفس زکیہ اور ان کے بھائی ابراہیم رحمہم اللہ کی مالی امداد نہیں کی تھی؟ خروج کی یہ تحریکیں تو ایسے حکمرانوں کے خلاف تھیں جو جہاد بھی کرتے تھے، نماز بھی قائم کرتے تھے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر بھی عامل تھے، شریعت کی حاکمیت اور شرعی نظام قضا بھی قائم کر رکھا تھا۔ ان کا قصور تو صرف یہ تھا کہ انھوں نے اختیارات پر ناجائز طور پر قبضہ کر رکھا تھا اور لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھاتے تھے، لیکن اس کے باوجود بھی امام صاحب رحمہ اللہ نے ان کی تائید ونصرت کی۔
پس اگر آپ کلی طور پر ہماری موافقت نہ بھی کریں تو اتنا تو کر ہی سکتے ہیں کہ جرات ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارے فقہی موقف کی درستی تسلیم کریں اور ان ظالم وفاجر لوگوں کی صفوں میں شامل ہونے سے انکار کر دیں جو دشمنان دین کے ساتھ بن کر ہمارے مقابل کھڑے ہیں۔ آپ کو تو اللہ تعالیٰ نے صادقین سے جا ملنے کا حکم دیا ہے، اہل حق کا ساتھی بن کر باطل پرستوں سے بھڑ جانے، نیکی کا حکم دینے، برائی سے روکنے اور لوگوں کو اسی کی طرف دعوت دینے کی ہدایت کی ہے۔ پس قبائل میں برسرپیکار مجاہدین کی حمایت کرنا آپ کا شرعی فریضہ ہے۔ آخر یہی تو وہ فی سبیل اللہ مجاہدین ہیں جو نہ صرف امریکہ اور عالمی صلیبی طاقتوں کے مد مقابل ڈٹے ہوئے ہیں، بلکہ اس صلیبی اتحاد کے اساسی رکن، پاکستان کی فوج کے مظالم بھی ثابت قدمی سے برداشت کر رہے ہیں۔ لہٰذا ان حالات میں شریعت کا کم سے کم تقاضا بھی یہ ہے کہ امریکہ کی وفادار اور اسلام سے غدار حکومتوں کے خلاف خروج کرنے والوں کی مخالفت نہ کی جائے۔

عصر حاضر میں خروج کا جواز اور شبہات کا جائزہ

محمد زاہد صدیق مغل

چند روز قبل ایک این جی او کی طرف سے راقم الحروف کو مکالمہ بعنوان ’’عصر حاضر میں تکفیر و خروج‘‘ کے موضوع پر شرکت کی دعوت دی گئی جس میں مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام نے شرکت فرمائی۔ چند وجوہات کی بناء پر راقم مکمل پروگرام میں شرکت نہ کرسکا، البتہ پروگرام کی ریکارڈنگ کے ذریعے شرکائے گفتگو کا مقدمہ اور ان کے دلائل سننے کا موقع ملا۔ پوری نشست کا خلاصہ یہ ہے کہ تقریباً تمام ہی شرکائے محفل نہ صرف یہ کہ عصر حاضر میں مسلم ریاستوں کے خلاف خروج کے اصولی عدم جواز پر متفق ہیں بلکہ قریب قریب ان کا یہ نظریہ ایک آفاقی قضیہ بھی ہے، یعنی ماسوا کفر بواح خروج ہر حال میں ناجائز و حرام ہے۔ رہی یہ بات کہ کفر بواح کی صورت میں کیا کیا جائے تو شرکائے مجلس کے رجحانات ذیل میں سے ایک تھے: 
شرکائے مجلس نے دلائل کے طور پر قرآنی آیات واحادیث سے بھی اپنے استدلال کو مزین فرمانے کی کوشش کی۔ نیز اس سلسلے میں (سیاق و سباق سے کاٹ کر) کتب فقہ کی عبارات سے بھی اپنے دعوے کو تقویت پہنچانے کی کوشش کی۔ ممانعت خروج کی حکمتوں پر انتہائی شدو مد کے ساتھ زور دیتے ہوئے کہا گیا کہ خروج سے منع کرنے کی وجہ مسلمانوں کو فساد سے بچانا نیز امن و سلامتی پر مبنی ریاست قائم کرنا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ تقریباً ساڑھے تین گھنٹے جاری رہنے والے اس مکالمے میں جہاں یکطرفہ طور پر خروج کی ممانعت ثابت کرنے کیلئے اس کے مختلف پہلووں کا جائزہ لیا گیا، وہاں حضرت عبداللہ بن زبیرؓ اور حضرت حسینؓ کے خروج کا کلیتاً ذکر تک نہ ہوا کہ جاری بحث کی روشنی میں ان دونوں حضرات کے خروج کی شرعی حیثیت کیا ہے۔ 
اس مضمون کے پیش نظر دو مقاصد ہیں: اولاً اپنے موقف کو پیش کرنا (جس کا موقع پروگرام میں نہ مل سکا)۔ ثانیاً، دیگر شرکائے محفل کے موقف کا جائزہ پیش کرنا ۔ دھیان رہے، نفس مضمون کا مقصد یہ ثابت کرنا نہیں کہ خروج کرنا ہر حال میں واجب ہے یا مصلحانہ اسلامی جدوجہد کرنا باطل ہے اور نہ ہی اس کا مقصد کسی مخصوص تحریک خروج کا جواز فراہم کرنا ہے، بلکہ یہ واضح کرنا ہے کہ جس طرح اصلاحی تحریکات کا دین میں مخصوص مقام ہے، اسی طرح انقلابی جدوجہد (خروج وجہاد) بھی ایک جائز حکمت عملی ہے اور موجودہ دور میں اس کی ضرورت و اہمیت کا انکار کرنے والے حضرات نہ صرف یہ کہ غلطی پر ہیں بلکہ ایک جائز و اہم طریقہ تبدیلی کے مواقع کو اپنے ہاتھ سے ضائع کردینے والے ہیں۔ مباحث مضمون چار حصوں میں تقسیم کیے گئے ہیں: 
۱) بنیادی مدعا یہ ہے کہ دور حاضر کی ریاستیں کسی بھی درجے میں خلافت اسلامیہ کے ہم پلہ نہیں، بلکہ درحقیقت یہ سرمایہ دارانہ ریاستیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان ریاستوں کے خلاف خروج کی بحث اصولاً غلط ہے کیونکہ خروج تو فاسق و فاجر مگر ’اسلامی ریاست ‘ کے خلاف ہوتا ہے۔ چنانچہ موجودہ ریاستوں کے خلاف انقلابی جدوجہد کا جواز خروج سے بھی آگے بڑھ کر مباحث جہاد سے فراہم کیا جا نا چاہیے۔ اس بنیادی دعوے کی تفہیم کے لیے جن اصولی مباحث کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے، ان کی وضاحت حصہ اول میں کی گئی ہے ۔ ان مباحث سے اقوال فقہاء سمجھنے میں بھی مدد حاصل ہوگی ۔
۲) موجودہ سرمایہ دارانہ مسلم ریاستوں کے خلاف خروج کا عدم جواز ثابت کرنے والے مفکرین اپنے دعوے میں وزن پیدا کرنے کے لیے فقہائے کرام کے جن خلافِ خروج اقوال کا سہارا لیتے ہیں، ان اقوال کا درست فقہی تناظر حصہ دوئم میں واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
۳) حصہ سوئم میں منکرین خروج کے ان شکوک و سوالات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے جنہیں اکثر و بیشتر انقلابی وجہادی جدوجہد کے خلاف بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے ۔
۴) آخری حصے میں تحریکات اسلامی کی خدمت میں اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ اسلامی قوت کا بھر پور اظہار کس طرح ممکن ہے۔ وما توفیقی الا باللہ 

(۱) خروج کے ضمن میں چند اصولی مباحث 

زیر بحث موضوع پر درست زاویہ نگاہ سے غور کرنے کے لیے چند اصولی نکات کی وضاحت ضروری ہے، لہٰذا پہلے ان کی مختصر وضاحت کی جاتی ہے۔ 

ریاست و حکومت کا فرق 

خروج کی بحث کو درست طورپر سمجھنے کے لیے حکومت و ریاست کا فرق سمجھنا نہایت ضروری امر ہے اور حقیقت یہ ہے کہ حکومت کو ریاست کے ہم معنی سمجھنا ہی بے شمار علمی و فکری مسائل کی اصل وجہ ہے۔ درحقیقت جب تک یہ فرق واضح نہ ہو، فقہائے کرام کی خلاف خروج عبارات کا اصل محل سمجھنا نہایت دشوار امر ہے۔ چنانچہ ریاست کا معنی ’نظام اقتدار‘ یا نظام اطاعت و جبر ہوتا ہے جبکہ حکومت محض اس کا ایک جز وہے نہ کہ کل ریاست ۔ نظام اقتدار کا دائرہ خاندان سے لے کر حکومت تک پھیلا ہوتا ہے جس میں نظام تعلیم، معاشرتی تعلقات کی حد بندیاں ، نظام تعزیر ، قضا، حسبہ اور انہیں نافذ کرنے والے ادارے وغیرہ سب شامل ہوتے ہیں جن میں سے ایک اہم مگر جز وی ادارہ حکومت بھی ہوتا ہے۔
درج بالا فرق کی وضاحت ہم جمہوریت کی مثال سے سمجھ سکتے ہیں۔ جمہوریت محض تبدیلی حکومت کے ایک مخصوص طریقے ( ووٹنگ) کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک مکمل ریاستی نظام ہے جسکا نقشہ کچھ یوں کھینچا جا سکتا ہے: 

جمہوری نظم ریاست کے کلیدی ادارے:

مقننہ، بیوروکریسی (انتظامیہ ) وٹیکنوکریسی (سرمایہ دارانہ علوم کے ماہرین)، عدلیہ، کورٹس، پولیس، فوج ، کارپوریشن وفائنانشل ادارے (مثلاً بینک)، تعلیمی نظام، انٹرسٹ گروپس ، آزاد میڈیا وغیرہ۔

جمہوری نظم ریاست میں سرمایہ دارانہ عقلیت کے فروغ میں سرگرم کلیدی کردار:

دانشور، کلچرل ہیروز (سپورٹس مین، سائنسدان وغیرہ)، ٹیکنوکریٹ ، استعماری ایجنٹ ۔

جمہوری نظام نمائندگی کے اہم ادارے:

انٹرسٹ گروپس، ہیروز کی پرستش، سیاسی پارٹیاں، ایڈمنسٹریشن ، سرمایہ دارانہ تحریکیں ۔

جمہوری نظام نفاذ کے اہم ادارے:

فوج و پولیس، کورٹس اور عدلیہ کا نظام، شمولیت (سیاسی مخالفین کو ساتھ ملانا)، اخراج (مخالفین کو بے دست وپا کر دینا)، سوشل ویلفیئر، صنعتی تعلقات ۔
درحقیقت جمہوریت ایک پیچیدہ اور گنجلک ریاستی نظام ہے جس میں طاقت کے بے شمار مراکز ہوتے ہیں (۱) اور ان کا مقصد فرد و معاشرے پر سرمایہ دارانہ عقلیت (rationality) و علوم کی فرماروائی قائم کرنا ہے۔ جمہوری ’ریاست‘ کے اس نقشے کی روشنی میں حکومت اور ریاست کا فرق سمجھنا ممکن ہے، یعنی جمہوری حکومت سے مراد محض مقننہ (وہ بھی محض ایوان زیریں) ہے جبکہ جمہوری ریاست (نظام اطاعت) سے مراد درج بالا تمام ادارے ہیں۔ اب فرض کریں، اگر محض حکومت بدلنے کے طریقے کو تبدیل کرکے کوئی خاندان جمہوری نظام ریاست پر قبضہ کرلے اور پھر بعینہ انہی جمہوری اداروں کے تحت حکمرانی کرنے لگے تو اسے جمہوری نظام کی تبدیلی نہیں کہا جاتا بلکہ اس قسم کی جمہوریت کو ’آمرانہ جمہوریت‘ (ill-liberal democracy) کہتے ہیں (مثلاً جیسے پاکستان میں فوجی مداخلت کے بعد قائم ہونے والی جمہوریت ہوتی ہے)۔ چنانچہ کئی مسلم مفکرین (۲) کے خیال میں ایسی مسلم ریاستیں جہاں روایت پسند اسلام اور روایت پسند اسلامی تحریکات کا زور بہت زیادہ ہے، وہاں لبرل جمہوریت قائم کرنا سرمایہ دارانہ ریاستی نظم کے لیے شدید خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔ (مثلاً اگر عوام ایسی پارٹی کو ووٹ دے کر حکومت میں لے آئیں جو آزادی، مساوات، ترقی، ہیومن رائٹس وغیرہ کو رد کرتی ہو تو پھر عین ممکن ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام ہی لپیٹ دیا جائے)۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ایسے مسلم اکثریتی علاقوں میں آمرانہ جمہوریتیں (بصورت استعمار دوست بادشاہوں یا ڈکٹیٹروں کی حکومت) قائم کی جائیں تاکہ وقت گزرنے کے ساتھ جس قدر سرمایہ دارانہ نظام مستحکم ہوتا چلا جائے گا، اسی قدر اس بات کے امکانات بڑھ جائیں گے کہ روایت پسندی جدیدیت پسندی میں تبدیل ہوجائے گی، سرمایہ دارانہ علوم و اداروں کا فروغ لوگوں کو اسلام کے بجائے خواہشات نفس کا خوگر بنا دے گا، ساتھ ہی ساتھ اسلامی تحریکیں بھی جمہوری نظام میں اپنی جگہ بنانے کیلئے حقوق کی سیاست کرنے پر آمادہ ہوتی چلی جائیں گی اور جب یہ اطمینان ہو جائے کہ ا ب جمہوری نظام کو کوئی خطرہ نہیں، تب آمرانہ جمہوریت کو لبرل جمہوریت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ (عرب دنیا میں جاری بے چینی کی حالیہ لہر درحقیقت آمرانہ جمہوریتوں کو لبرل جمہوریتوں میں تبدیل کرنے کی کوشش ہے، انہیں اسلامی تبدیلی کا پیش خیمہ سمجھنا سادہ لوحی کے سوا کچھ نہیں )۔ چونکہ جمہوری نظام ریاست جس شیطانی انفرادیت (یعنی ہیومن بینگ) کے وجود کا تقاضا کرتا ہے، وہ انسانی فطرت کے کلیتاً منافی ہے، لہٰذا یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کسی خطے میں آج تک جمہوری ریاست بذات خود جمہوری طریقے سے نافذ نہیں کی جاسکی بلکہ اس کے لیے ابتدائی دور میں قتل و غارت گری اور جبر و استبداد سے کام لینا پڑتا ہے اور جس رفتار سے جمہوری ریاستی ادارے مستحکم ہوجاتے ہیں، اسی قدر جمہوریت کو بھی لبرل بنادیا جاتا ہے۔ اسی طرح فرض کریں، اگر کسی جمہوری ریاست میں آزاد میڈیا نہ ہو (جیسے پاکستان میں مشرف کے دور سے پہلے نہ تھا) یا عدلیہ کرپٹ ہو تو اسے جمہوری ریاست کے عدم وجود کے ہم معنی نہیں کہا جاتا۔ حکومت و ریاست کا یہ فرق ذہن میں رکھنا نہایت ضروری ہے کیونکہ اس کی روشنی میں ہم ان شاء اللہ فقہاء کرام کے اقوال سمجھنے کی پوزیشن میں آجائیں گے۔ 

خلافت اسلامی کے درجات 

خروج کے ضمن میں فقہائے کرام کے اقوال کی درست تعبیر بیان کرنے کے لیے اسلامی خلافت اور اس کے درجات کو پیش نظر رہنا بھی نہایت اہم امر ہے۔ ذیل میں اس کا مختصر خاکہ پیش کیا جاتا ہے۔ 
اسلامی خلافت وریاست (نظام اقتدار) کی بنیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی نیابت ہے، یعنی یہ ماننا کہ انفرادی اور اجتماعی تمام معاملات میں فیصلے اس بنیاد پر ہوں گے کہ شارع کی رضا کیا ہے ، حکمران خود بھی اس پر عمل کرے گا اور عوام کو بھی عمل کرائے گا ۔ اس نیابت میں درجات کی مثال درحقیقت درجات ایمان کی سی ہے، یعنی جیسے مسلمانوں کے ایمان کے درجات ہوتے ہیں، کچھ وہ ہیں جنہیں ہم ابو بکرؓ و عمرؓ وصحابہؓ کہتے ہیں ، کچھ اس سے کم ایمان رکھتے ہیں، کچھ ہم جیسے کمزور ایمان والے ہیں، ان میں بھی کچھ کم درجے کے فاسق ہیں اور کچھ انتہا ئی درجے کے فاسق، لیکن اس توافق درجات کے باوجود سب کے سب مسلمان ہی ہیں۔ گو کہ مطلوب اصل تو صحابہؓ جیسا ایمان ہی ہے، لیکن اس درجہ ایمانی سے کم ایمان والے لوگوں کو ہم مسلمان کہنے کے بجائے کچھ اور نہیں کہتے۔ بعینہ یہی معاملہ خلافت کا بھی ہے کہ اس میں ایک درجہ وہ ہے جسے ہم ’خلافت راشدہ ‘ کہتے ہیں جو خلافت اسلامی کے اظہار کا بلند ترین درجہ تھا جبکہ اس کے بعد گو کہ خلافت تو موجود رہی، مگر اس کے اظہار کا وہ معیاری درجہ مفقو دہوگیا۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ چونکہ خلافت راشدہ کے بعد خلافت کا آئیڈیل نظام باقی نہ رہا اور مطلوب اصلی وہی نظام ہے، لہٰذا ہم بعد والے دور کو خلافت کے بجائے کسی اور نام (مثلاً مسلمانوں کی تاریخ) سے پکاریں گے تو یہ کہنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخض یہ کہے کہ چونکہ آئیڈیل اور مطلو ب ایمان تو صحابہؓ کا ہی تھا اور اس کے بعد مطلوب ایمان کا درجہ قائم نہ رہا، لہٰذا ہم بعد والے لوگوں کو مسلمان کے علاوہ کچھ اور (مثلاً مسلمانوں جیسے) کہیں گے۔ پھر جیسے ہر ریاست کے ذمے چند اندرونی اور بیرونی مقاصد کا حصول اور اس کے لیے لائحہ عمل وضع کرنا ہو تا ہے، اسی طرح خلافت کے بھی دو تقاضے ہیں: ریاست کے اندرونی معاملات کی سطح پر اقامۃ دین کے لیے نفاذ شریعت ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی بنیاد پر نظام اقتدار کی تشکیل اور بیرونی معاملات میں اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے جہاد وتبلیغ کا کام مر تب کرنا۔ درجات خلافت کی تفصیلات درج ذیل طریقے سے بیان کی جاسکتی ہے: 

الف) خلافت راشدہ:

اس کا مفہوم یہ ہے کہ نیابت رسول میں بندگان خدا کی اصلاح ، امر بالمعروف ونہی عن المنکر، نفاذ شریعت واعلاء کلمۃ اللہ کے لیے جہاد کے سوا ذاتی سطح پر ہرگز بھی کچھ مطلوب نہ ہو ۔ یعنی اتباع نفس و مرغوبات نفسانیہ کا ہرگز بھی کوئی گذر نہیں ہوتا یہاں تک کہ رخصتوں ، مباحات و توسع کے بجائے عزیمت ، تقویٰ و احتیاط کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اس رویے کی وضاحت خلفائے راشدین کے طرز عمل کی دو مثالوں سے ہوجاتی ہے: (۱) باوجود اس کے کہ اسلام میں خلیفہ کے لیے متوسط درجے کا معیار زندگی اختیار کرنا جائز ہے، خلفائے راشدین نے ہمیشہ کم سے کم تر پر ہی اکتفا کیا۔ (۲) باوجود اس کے کہ خلیفہ کے لیے اپنی حفاظت کا مناسب بندوبست کرنا جائز ہے، خلفائے راشدین نے کبھی اس کا اہتمام نہ فرمایا، حالانکہ تین خلفاء شہید تک ہوئے۔ نیابت رسول میں اختیار عزیمت و احتیاط کا یہ پہلو ہر معاملے میں اپنایا جاتا تھا اور خلفائے راشدین کے طرز عمل سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ کسی بھی خلیفہ راشد نے اقتدار کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرنے کی ادنی درجے میں بھی کوشش نہیں کی۔ درحقیقت یہی وہ پہلو ہے جو خلافت راشدہ کو محض خلافت سے ممیز کرتا ہے۔

ب ) خلافت /امارت / سلطنت

سے مراد یہ ہے کہ نفاذ شریعت و جہاد کے ساتھ ساتھ دنیاوی مقاصد، مثلاً مرغوبا ت نفسانیہ ، مال وجاہ کی خواہش، اقربا پروری، امصار و بلدان پر تسلط اور طول حکومت کی آرزو وغیرہ بھی شامل حال ہوجاتے ہیں۔ اس ہوا ہوس کے بھی کئی مراتب ہیں جن کی بنا پر خلافت کی درجہ بندی کی جاسکتی ہے: 
اول: امارت عادلہ کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمان حکمران عادل ہو، جیسے عمر بن عبد العزیزؒ ، سلیمان بن عبد الملکؒ ، اورنگ زیب عالمگیرؒ وغیرہم ۔ یعنی نیابت رسول میں ظاہر شریعت حاکم کے ہاتھ سے نہ چھوٹتی ہو، نہ ہی فسق و فجور میں مبتلا ہوتا ہو۔ اگر معصیت میں مبتلا ہو بھی جائے تو اس پر دوام اختیار نہ کرتاہو، نیز مباحات و توسعات کے درجے میں لذات نفسانیہ تلاش کرلیتا ہو ۔
دوئم : امارت جابرہ سے مراد فاسق مسلمان حکمران ہے، لیکن اس کا فسق انتہائی درجے کا نہیں ہوتا۔ یہ ایسا حاکم ہوتا ہے جس سے احکامات شرعیہ میں کوتاہی ہوجاتی ہے، یعنی اطاعت نفس میں دائرہ شریعت سے باہر نکل کر فسق و فجور میں مبتلا ہو جاتا ہے اور پھر اس پر پشیماں بھی نہیں ہوتا اور نہ ہی توبہ کی فکر کرتا ہے، لیکن اس کے باوجود نفاذ شریعت و مقاصد شریعت کے نظام کو قصداً تہہ و تیغ نہیں کرتا بلکہ انہیں جوں کا توں بجا لانے کی روش برقرار رکھتا ہے ۔
سوئم : امارت ضالہ کا معنی ایسا مسلمان حکمران ہے جو انتہائی فاسق ،فاجر و ظالم ہو۔ تکبر ، ظلم و تعدی کی بنیاد ڈالتا ہے، نفس پرستی میں ہمت صرف کرتا ہے، فسق و فجور کے طریقوں کو عام کرنے کو اپنی پالیسی بنا لیتا ہے، بیت الما ل کو ذاتی ملکیت بنا لیتا ہے وغیرہ۔ گویا امارت جابرہ و ضالہ میں فرق کرنے والی ایک اہم شے حکمران طبقے کے فسق و ظلم کا اسلامی ریاستی نظم کے لیے لازم یا متعدی ہونا ہے ۔
چہارم : ا مارت کفر ایک ایسی ریاست جو شریعت کے برعکس کسی دوسری بنیاد (مثلاً ہیومن رائٹس) پر قائم ہوتی ہے۔ یہاں خود ساختہ قوانین کو شرع پر ترجیح دی جاتی ہے، حرام کو قوانین کا درجہ دے دیا جاتا ہے، حلال پر قدغنیں عائد کردی جاتی ہیں، شارع کے واضح احکامات کو بھی پس پشت ڈال کر دشمنان اسلام کے طریقوں کو رائج کرکے ان کے ہاتھ مضبوط کیے جاتے ہیں وغیرہ۔ کسی ریاست کے کفریہ ہونے کے لیے یہ بات غیر اہم ہے کہ اس کا حاکم مسلمان ہے یا کافر۔ مثلاً بارک اوبامہ (یا کسی اور مسلمان ) کے امریکہ کے صدر بن جانے سے امریکہ دارالاسلام نہیں بن جائے گا۔ یا جیسے افغانستان میں اشتراکی نظام نافذ کرنے والے تمام لوگ بظاہر کلمہ گو ہی تھے، مگر ان کا یہ دعوائے ایمانی کسی اشتراکی ریاست کو اسلامی کہلانے کے لیے کفایت نہ کرے گا۔
اس تقسیم سے ضمناً یہ اہم بات واضح ہوتی ہے کہ ہماری تاریخ میں اقتدار ( نظام جبر ) بحیثیت مجموعی اسلامی تھا گو کہ اچھی بری حکومتیں آتی رہیں ۔ یقیناًاسلامی تاریخ میں برائیاں رہی ہیں، مگر اس کی وجہ یہ نہیں کہ اسلامی ریاست ناپید ہوگئی تھی، بلکہ صرف اس لیے کہ مسلمان فرشتے نہیں بلکہ دوسرے انسانوں کی طرح انسان ہی ہیں جن سے غلطی اور گناہ کا صدور ممکن ہے۔ چنانچہ بیرونی طور پر اسلام مخالف طاقتوں کا مقابلہ اور ان سے جہاد اور اندرون ریاست مذہبی و تمدنی زندگی کے اداروں و شعبوں میں احکامات شرعیہ کے نفاذ کے مقاصد مختلف درجات میں ادا کیے جاتے رہے، گو خلافت راشدہ کے بعد اس کے ساتھ ذاتی مفادات اور عملی کوتاہیوں کے معاملات بھی شامل حال ہوگئے تھے۔ (اس نکتے کی مزید وضاحت درج بالا مثال سے سمجھی جا سکتی ہے)۔ 

موجودہ مسلم حکومتوں کی حیثیت 

اقوال فقہاء کو درست طور پر سمجھنے نیز موجودہ دور پر انہیں چسپاں کرنے کی غلطی سمجھنے کے لیے خلافت اور موجودہ مسلم ریاستوں کے فرق پر غور کرنے کی بھی سخت ضرورت ہے جس سے یہ واضح ہوسکے گا کہ اکثر و بیشتر مسلم ریاستیں خیر القرون کی خلافت تو کجا خلافت عثمانیہ و مغلیہ کے ہم پلہ بھی نہیں۔ درج ذیل تمام نکات بذات خود تفصیل طلب موضوعات ہیں، لیکن نفس مضمون اور خوف طوالت ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہم ان کی طرف اشارہ کیے دیتے ہیں (۳) : 
اول: قومی بمقابلہ اسلامی ریاست 
دوئم : نمائندگی عوام بمقابلہ نیابت رسول
سوئم : سوشل سائنسز بمقابلہ علوم شرعیہ کی بالادستی 
چہارم : دوستور (ہیومن رائٹس ) بمقابلہ شریعت (نظام قضاء) کی بالادستی 
پنجم : مذہبی معاشرت بمقابلہ سول سوسائٹی 
ان نکات کی نوعیت سے واضح ہے کہ موجودہ مسلم ریا ستیں دانستہ و نا دانستہ طور پر ایک ایسے نظام پر مبنی اور اس کی حامی و ناصر ہیں جہاں خدا کے بجائے عوام کی حاکمیت، علوم شرعیہ کے بجائے سرمایہ دارانہ علوم اور شرع کے بجائے دستور نافذ ہے۔ درحقیقت جدید مسلم ریاستیں ہیومن رائٹس کی بالا دستی کا اقرار کرکے بذات خود اپنے سرمایہ دارانہ ہونے کا کھلم کھلا اعلان کررہی ہیں اور یہ بات پولیٹیکل سائنس کے ہر طالب علم پر واضح ہے کہ ہیومن رائٹس پر مبنی جمہوری ریاست ایک pluralistic (کثیر الخیر تصوراتی) ریاست ہوتی ہے جہاں کسی مذہب کی بالادستی کا دعویٰ سرمایہ دارانہ نظام کے استحکام کے لیے بطور ایک حربہ کچھ عرصے قبول تو کیا جاسکتا ہے (جسے آمرانہ جمہوریتیں کہا جاتا ہے) البتہ ایسی ریاست کے اندر مذہبی حاکمیت کو محفوظ کرنا اور فروغ دینا ناممکن الوقوع شے ہے۔ یہ ریاستیں ’خیر ‘ نہیں بلکہ ’حقوق ‘ پر مبنی ریاستیں ہوتی ہیں، لہٰذا ہر وہ ریاست جو ہیومن رائٹس کو جزوی یا کلی طور پر قبول کرتی ہے، وہ سیکولر ریاست ہوتی ہے۔ جمہوری ریاست کے اندر عبوری دور کے لیے کسی قسم کی مذہبیت کو محض اس لیے روا رکھا جاتا ہے کہ چونکہ مقامی لوگ ابھی پوری طرح Enlightened (مہذب یعنی ہیومن بینگ ) نہیں ہو سکے ہیں، لہٰذا انہیں ان کے مقامی تعصبات (مثلاً مذہبی یا روایتی وابستگیوں) کے ساتھ ہیومن رائٹس کی بالادستی قبول کرنے کا پابند بنا یا جائے تاکہ ایک طرف ان کی ’نفسیاتی تسکین ‘ کا سامان بھی فراہم ہوجائے اور دوسری طرف ’عملاً سرمایہ دارانہ نظام کو قبولیت عامہ ‘ فراہم کرنے کے لیے ادارتی صف بندی کرنے کا موقع بھی میسر آجائے۔ جوں جوں سرمایہ دارانہ نظام مستحکم ہوتا چلا جاتا ہے، روایتی مذہبی عقلیت و علمیت تحلیل ہوکر بے معنی ہوتی چلی جاتی ہے۔ چنانچہ دنیا میں ہر جگہ سرمایہ دارانہ نظام کو اسی حربے کے ذریعے آفاقی قبولیت فراہم کی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عصر حاضر کا سب سے بڑا اور غالب ترین کفر بواح ’ہیومن رائٹس کی حقیقت واضح ہوجانے کے بعد اس کا اقرار کرنا‘ ہے (۴)۔ 
اس مختصر وضاحت سے معلوم ہوا کہ موجودہ مسلم ریاستیں درحقیقت سرمایہ دارانہ ریاستیں ہیں گو انہیں چلانے والے مسلمان ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارے ریاستی اداروں کے ممبران بہر حال مسلمان ہی ہیں (جن میں سے کئی ایک مخلصین بھی ہیں)، مگر یہ ایسے ہی ہے جیسے مسلمان عیسائی یا ہندو ریاست قائم کرکے اس کے کے قانون کے ما تحت زندگیاں بسر کرنے لگیں۔ انہیں معنی میں موجودہ دور میں پائی جانے والی عمومی صورت حال نئی اور منفرد ہے کہ ’قومی نوعیت ‘ کے مسلمان حکمران (باستثناے چند) اس سے پہلے کسی ’باطل نظام ‘ کے تحت حکمرانی نہیں کیا کرتے تھے ، بلکہ ان کا جرم فسق و فجور کی نوعیت کا ہوتا تھا نہ کہ کسی نظام باطل کے حامی و ناصر ہونے کا۔ (ان معنوں میں کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ مسلم ریاستیں تو یزید کی امارت سے بھی بدتر ہیں، کم از کم وہ کسی اسلام کش نظام کا حامی تو نہیں تھا۔ خیال رہے ہم یزید کی حمایت نہیں کررہے بلکہ موجودہ مسلم ریاستوں کو اس کی امارت سے بھی بد تر کہہ رہے ہیں)۔ اکثر و بیشتر مسلم ریاستیں جس علمیت، قانون ، معاشرت و سیاست کو فروغ دے رہی ہیں، وہ سرمایہ دارانہ خدوخال پر مبنی ہیں جن کا اسلام سے ہرگز کوئی تعلق نہیں۔ 

امت مسلمہ میں خروج کی حالیہ لہر کی وجوہات 

یہ بات سمجھنا بھی نہایت اہم ہے کہ آخر پچھلی نصف صدی میں ہی امت مسلمہ کے اندر خروج کی اس قدر تحریکات کیوں برپا ہورہی ہیں۔ مختصراً ذیل کے نکات پر غور کرنے سے اس کی جائز فکری بنیادیں سمجھی جاسکتی ہیں: 

(۲) اقوال فقہاء اور خروج 

ان اصولی مباحث کے بعد اب آئیے اقوال فقہاء کی طرف۔ معاصر منکرین خروج اپنے دعوے کے اثبات کے لیے فقہائے کرام کے ان اقوال کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں جن میں فاسق و متغلب ملوک کے خلاف خروج سے منع کیا گیا ہے۔ درحقیقت اقوال فقہاء کو بطور دلیل پیش کرنے سے پہلے ان کا درست محل سمجھنا ضروری ہے جسے دو پہلووں سے سمجھا جا سکتا ہے ۔ ایک اسلامی خلافت کے درجات کی روشنی میں دوئم خلافت اور جدید ریاستوں کے فرق کی روشنی میں۔ ذیل میں دونوں پر بالترتیب گفتگو کی جائے گی۔ 

(۲.۱) اقوال فقہاء کا ایک پہلو 

جیسا کہ واضح کیا گیا خروج سے مراد فاسق مسلمان حکمران کی اطاعت سے نکل کر بذریعہ قوت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی جدوجہد برپا کرناہے۔ خروج کی اصل اطاعت امیر کااطاعت شارع سے مشروط ہو نا اور مسلمانوں پر امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا لازم ہونا ہے ۔ یہ امر کہ خروج کب کیا جائے، علماء کے ہاں ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے ۔ اس مسئلے میں درج ذیل امور اہمیت کے حامل ہیں: 
الف) قرآن مجید میں ارشاد فرمایا گیا: واجتنبوا الطاغوت (نحل ۳۶) یعنی ’طاغوت سے الگ ہوجاؤ‘ ۔ علمائے تفسیر (۶)نے صراحت کی ہے کہ طاغوت سے مراد اللہ کے دین کے مقابلے میں اطاعت کرانے والا بھی ہے۔ سرمایہ دارانہ ریاست چونکہ طاغوت ہے، لہٰذا یہ الجماعۃ کا مصداق کیسے ہوسکتی ہے جبکہ طاغوت سے بچنے والوں کو قرآن خوشخبری سنا رہا ہے۔ (زمر ۱۷) ساتھ ہی انہیں سیدھے ومضبوط راستے کا مژدہ سنا رہا ہے (بقرۃ ۲۵۶)، اور طاغوت کی اطاعت کرنے والوں کو لعنتی، شیطان کے ساتھی اور بدترین لوگ قرار دیا گیا ہے (نساء ۵۱ ۔۵۲، ۷۶ اور مائدہ ۶۰)۔ 
ب) قرآن میں ارشاد ہوا: تعاونوا علی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان (مائدہ ۲) ’ایک دسرے کی مدد کرو نیکی اور تقوے کے کاموں میں اور مددمت کرو گناہ اور زیادتی کے معاملات میں‘ ۔ معلوم ہوا کہ گناہ و عدوان پر مبنی اور انہیں فروغ دینے والی ریاست (مثلاً جمہوری ریاست) کے ساتھ تعاون جائز نہیں، اور ایسی ریاست کی برضا و رغبت اطاعت کرنا درحقیقت اس کی مدد کرنے ہی کی ایک صورت ہے۔
ج) اہل ایمان کی امامت کا حقدار کون ہے؟ اس ضمن میں ارشاد ہوا : قال انی جاعلک للناس اماما قال ومن ذریتی قال لا ینال عہد الظالمین (بقرۃ: ۱۲۴) ’’اللہ نے (جب ابراہیم ؑ ) سے کہا کہ بے شک میں تمہیں تمام انسانوں کا پیشوا بنانے والا ہوں (تو ابراہیم ؑ نے) عرض کی کیا میری اولاد سے بھی؟ فرمایا میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں‘‘۔ امام جصاصؒ ، امام رازیؒ اور امام قرطبیؒ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ ظالم اصولاً منصب امامت کا حقدار ہے ہی نہیں۔ 
د) اس ضمن میں مزید ارشاد ہوا : ان اللہ یامرکم ان تؤدواالامانات الی اھلھا (نساء: ۵۸) ’’بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں انہیں سپرد کرو جو اس کے حقدار ہیں‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ منصب امامت ایسے شخص کو دینا چاہیے جو اس کا اہل ہے یعنی اس کی شرائط پوری کرتا ہو ۔
ھ) اذا حکمتم بین الناس ان تحکموا بالعدل (نساء: ۵۸) ’’(اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ) جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل (یعنی شریعت) کی بنیاد پر کرو‘‘۔ اسی طرح فرمایا گیا : یا ایہا الذین امنوا کونوا قوامین بالقسط شہداء (نساء ۱۳۵) ’’اے ایمان والو عدل پر مضبوطی سے قائم رہنے والے بن جاؤ‘ ‘۔
و) اطعیوااللہ واطیعوا الرسول والی الامر منکم (نساء: ۵۹) ’’اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں‘‘۔ معلوم ہوا کہ اطاعت امیر درحقیقت اطاعت شارع سے مشروع ہے، اگر وہ اس کی خلاف ورزی کرے تو اس کی اطاعت ضروری نہیں ۔
ذ) حدیث شریف میں اصول بیان ہوا : لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ اللہ (متفق علیہ) یعنی اللہ کی نافرمانی کے معاملے میں کسی مخلوق کی اطاعت معتبر نہیں۔ نیز فرمایا: لا طاعۃ لمن لم یطع اللہ (فتح الباری، کتاب الاحکام) یعنی جو اللہ کی اطاعت نہیں کرتا، اس کی کوئی اطاعت نہیں ۔ اسی بات کو قرآن میں یوں بیان کیا گیا : لاتطع من اغفلنا قلبہ عن ذکرنا واتبع ہواہ (کہف : ۲۸) ’’ اس کی اطاعت نہ کرو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا اور وہ اپنی خواہش نفس کی پیروی کرتا ہے‘‘ ، نیز : لاتطیعوا امر المسرفین الذین یفسدون فی الارض ولا یصلحون (شعراء : ۲۔۱۵۱) ’’حد سے گزرنے والوں کے حکم کی پیروی مت کرو، یہ وہ ہیں جو زمین میں فساد برپا کرتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے‘ ‘۔ 
ان نصوص سے معلوم ہوا کہ امیر کی اطاعت اطاعت شارع سے مشروط ہے، فسق و فجور اور نظام باطل برپا کرنے والوں کی اطاعت جائز نہیں، نیز مسلمانوں پر عدل و قسط پر قائم رہنا لازم ہے۔ 
ح) ایک حدیث مبارکہ میں فرمایا گیا: ستکون امراء فتعرفون و تنکرون فمن عرف بری ومن انکر سلم ولکن رضی و تابع قالوا افلا نقاتلہم قال لا ما صلوا (مسلم) یعنی عنقریب ایسے حکمران ہوں گے جنہیں تم پہچانتے ہو گے اور ان کا انکار کرو گے، پس جس کسی نے ان (کی حقیقت) پہچان لی، وہ بری ہوگا۔ جس کسی نے برملا ان کا انکار کیا، وہ تو سلامتی کے راستے پر ہوگا سوائے اس کے جو ان پر راضی ہوگیا اور ان کی اطاعت کرنے لگا (یعنی نہ وہ بری ہے اور نہ سلامتی کے راستے پر)۔ صحابہ نے عرض کی، اے اللہ کے رسول، کیاایسے امرا کے خلاف ہمیں قتال نہیں کرلینا چاہیے؟ آپ نے فرمایا جب تک وہ نماز ادا کرتے رہیں، ایسا مت کرنا۔ 
اس حدیث سے پتہ چلا کہ فاسق حکمرانوں کی اطاعت کی کم از کم شرط یہ ہے کہ وہ نظام صلوٰۃ قائم رکھیں (یعنی خود بھی ادا کریں، اس کی ادائیگی کا اہتمام کریں، نیز رعایا کو بھی اس کا حکم دیں)۔ اس حدیث میں لفظ ’قتال‘ یہ واضح کررہا ہے کہ اس شرط کی عدم موجودگی میں محض احتجاج (منازعت) نہیں بلکہ ’ مسلح جدوجہد‘ کی اجازت بھی ہے۔ اس کے علاوہ بھی ایسی احادیث ہیں جن سے حکمرانوں کے خلاف بذریعہ قوت نہی عن المنکر پر استدلال ہوتا ہے۔ 
اس حدیث پر گفتگو فرماتے ہوئے کچھ حضرات نے یہ نکتہ پیش کیا کہ چونکہ قرون اولیٰ میں نماز ان معنی میں شعائر اسلام سمجھی جاتی تھی کہ ہر کوئی نماز پڑھتا تھا، لہٰذا اس کی عدم ادائیگی پر خروج کی اجازت دی گئی لیکن چونکہ آج کے دور میں اکثریت بے نمازیوں کی ہے، لہٰذا آج یہ اس طور پر شعائر اسلام نہیں رہی ،اس لیے آج ترک صلوٰۃ پر خروج جائز نہ ہوگا۔ ہم اس تاویل کا سر اور پیر دونوں ہی تلاش کرنے سے قاصر ہیں، اہل علم خود ہی اس تاویل کی حقیقت سمجھ سکتے ہیں۔ البتہ اتنا عرض کرنا ضروری ہے کہ حدیث شریف کا مدعا یہ بتانا ہے کہ اقامت صلوٰۃ ہر دور کے لیے حقیقی اسلام کے اظہار کا کم سے کم درجہ ہے۔ گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پیمانہ بتا دیا جس میں تول کر فیصلے کیے جاسکتے ہیں۔ اسی لیے فرمایا کہ مومن اور کافر میں فرق کرنے والی شے نماز ہے۔ اس نکتہ شناسی کا مطلب یہ ہوا کہ شعائر اسلام کا تعین قرآن و سنت کی نصوص سے نہیں بلکہ فاسق مسلم اکثریت کے اعمال سے ہونا چاہیے۔ 
ط) پھر خیر القرون میں خروج کی سب سے اعلی نظیر حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ اور امام حسینؓ کے طرز عمل میں نظر آتی ہے جس کا مقصد اسلامی خلافت و ریاست کو امارت و سلطنت کے بجائے خلافت راشدہ کی طرف پلٹادینے کی جدوجہد کرنا تھا۔ دوسرے لفظوں میں ان اصحاب کی جدوجہد اختیار عزیمت کی اعلی مثال ہے جسے علماء اہل سنت نے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ ان دونوں حضرات کی نظیر اہل سنت و الجماعت کے نزدیک اسلامی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔ اسی طرح امام ابوحنیفہؒ کا نفس زکیہ وغیرہ کے خروج کا ساتھ دینا بھی اہل علم کو خوب اچھی طرح معلوم ہے ۔
ی) اسی طرح متعدد قواعد فقہ سے بھی خروج پر استدلال ہوتا ہے، مثلاً: ان الضرر یزال،یعنی نقصان کا ازالہ کیا جانا ضروری ہے، نیز : ازالۃ الضرر الاکبر بالضرر الاصغر یعنی بڑے نقصان کا ازالہ نسبتاً کم تر نقصان سے کیا جائے گا، وغیرہ۔
★ خروج کی اجازت دینے والے علماء کے نزدیک بھی اس کی اجازت چند شرائط کے ساتھ مشروط ہے: 
اول: خروج تب کیا جائے جب بگاڑ بڑی نوعیت کا ہو ، یعنی جب حکمران کھلے بندوں واضح احکامات شرعیہ کی دھجیاں بکھیرنے لگیں، اسلامی نظام اطاعت معطل ہو کر غیر اسلامی نظام اطاعت غالب آچکا ہو۔ دوسرے لفظوں میں خروج امارۃ ضالہ و کفر کے خلاف کرنا چاہیے۔ فقہاء کرام نے جواز خروج کی جس شرط پر سب سے زیادہ زور دیا ہے، وہ شریعت اسلامی کا معطل ہوجانا ہی ہے: 
دوئم: حالات اتنے ساز گار اور قوت اتنی ہو کہ خروج کی صورت میں کامیابی کے امکانات روشن ہوں ۔ کامیابی کے امکانات اور تیاری کے مراحل بہر حال اجتہادی مسائل ہیں کیونکہ نہ تو حالات ہی ہمیشہ یکساں کیفیت کے ہوتے ہیں اور نہ تیاری کے لگے بندھے اصول ہیں بلکہ تیاری کی کیفیت و مراحل کو در پیش حالات پر منطبق کرنے کے نتیجے میں ایک حکمت عملی وضع کرناہوتی ہے جس کی نوعیت ہمیشہ مختلف ہواکرتی ہے۔ البتہ جدوجہد کے متوقع نتائج کے اعتبار سے علامہ ابن قیم ؒ کی بات بہت خوبصورت ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ انکار منکر کے چار درجات ہیں: 
۱) ایک منکر ختم ہوجائے اور اس کی جگہ معروف قائم ہوجائے، ایسا کرنا مشروع ہے ۔
۲) ایک منکر کم ہوجائے اگرچہ ختم نہ ہو، یہ بھی مشروع ہے ۔
۳) ایک منکر ختم ہوجائے، مگر اس کی جگہ ویسا ہی منکر قائم ہوجائے، یہ اجتہادی مسئلہ ہے (کہ آیا واقعی اسی درجے کا دوسرا منکر آجائے گا یا نہیں ) ۔
۴) ایک منکر ختم ہوجائے، مگر اس کی جگہ اس سے بھی بڑا منکر قائم ہوجائے، ایسا کرنا حرام ہے ۔
★ رہی یہ بات کہ جب بذریعہ قوت خروج کی استطاعت نہ ہو تو کیا کیا جائے تو اس کا جوا ب یہ نہیں کہ اس جدوجہد کو روز محشر تک کے لیے خیر باد کہہ دیا جائے بلکہ یہ ہے کہ مناسب تیاری کی جائے، یعنی ایسی صورت میں خروج کی تیاری کرنا لازم ہے کیونکہ واجب کا مقدمہ بھی واجب ہواکرتا ہے ۔ شیخ عبد المنعم المصطفی حلیم فرماتے ہیں کہ اس تیاری کی کئی صورتیں اور درجے ممکن ہیں: 
۱) حسب استطاعت فکری و عملی تیاری کرنا تاکہ ایک طرف خروج کے لیے ذہن سازی ہو سکے تو دوسری طرف متبادل ادارتی صف بندی کی کوشش کی جاسکے تاکہ قوت کو موجودہ اداروں و افراد سے چھین کر (یعنی ان کا اقتدار معطل کرکے ) متبادل اداروں و افراد میں مجتمع کردیا جائے تاکہ خروج کے لیے راہ ہموار ہو اور امت مسلمہ کو باطل کے غلبے سے نجات ملے۔
۲) حکمرانوں سے علیحدگی اختیار کرکے نظام باطل کی مضبوطی کا باعث نہ بننا۔ یعنی ایسے امور ترک کردیے جائیں جن سے ان کی سلطنت مضبوط ہو یا ملک پر ان کا اثرو رسوخ بڑھے۔ اس کی اعلیٰ مثال امام ابوحنیفہؒ کی زندگی میں نظر آتی ہے جنہوں نے باوجود سرکاری جبر کے منصور کی سلطنت میں قاضی القضاۃ کا عہدہ قبول نہ کیا ۔
۳) ان کے آئین و باطل قوانین کو برضا و رغبت تسلیم نہ کیا جائے اور نہ ہی ایسی بات کی جائے جو اعتراف حاکمیت یا قبولیت نظام کا فائدہ دے اور اگر کچھ لوگ متفق ہوکر ان سے علیحدہ ہونے اور ان کے خلاف تیاری کرنے کے رویے کو اپنائیں تو ان کا فکری وعملی سطح پر ساتھ دینا چاہیے تا کہ باطل نظام اقتدار کمزور ہو اور اس سے نجات مل سکے ۔
یاد رہے کہ باطل نظام اقتدار پر مطمئن رہنا درحقیقت اس سے رضا مندی کی علامت ہے کیونکہ اقتدار کے معاملے میں لاتعلقی یا نیوٹرل رویے کی کوئی حقیقت نہیں ، یعنی یا تو آپ کسی نظام اقتدار کے خلاف ہوتے ہیں یا اس کے حق میں۔ ان کے درمیان کوئی راستہ موجود نہیں۔ 

خلاصہ بحث:

اس تمام بحث کا خلاصہ یہ ہوا کہ: 
★  ایسی احادیث جن میں خروج سے منع فرمایا گیا ہے، ان کا تعلق یا تو انفرادی و شخصی حقوق سے ہے یعنی اگرحکمران ذاتی طور پر تم پر ظلم کررہا ہو مگر ریاست کی بنیاد شریعت ہو تو تم صبر کرو اور اجتماعیت کو نقصان نہ پہنچاؤ اور یا پھر حکمران کی انفرادی برائیوں سے ہے۔ اس استدلال کا قرینہ اس حدیث میں موجود ہے: 
’’حضرت عبادہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بلایا تو ہم نے آپ کی بیعت کرلی۔ آپ نے بیعت کے لیے جو شرطیں لگائیں، ان میں سے ایک یہ تھی کہ ہم اپنے امیر کی بات سنیں گے اور اطاعت کریں گے، خوشی کی حالت میں بھی اور ناخوشی کی حالت میں بھی، تنگی میں بھی اور آسانی میں بھی، اور اس حالت میں بھی کہ ہم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے اور یہ کہ ہم اہل امور سے جھگڑا نہیں کریں گے، یہاں تک کہ تم ان میں ایسا کھلا کفر دیکھ لو جس کے کفر ہونے پر تمہارے پاس اللہ (کی کتاب) کی طرف سے کھلی دلیل ہو۔‘‘ (بخاری کتاب الفتن و مسلم کتاب الامارۃ)۔ 
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انفرادی حقوق تلفی (مثلاً باوجود اہلیت عہدہ نہ ملنے ) کی بنیاد پر اطاعت امیر سے نکلنا جائز نہیں البتہ نظم اجتماعی میں واضح رخنہ اندازی کی صورت میں ایسا کرنا جائز ہے۔ چنانچہ اس قبیل کی دیگر احادیث کو یہ معنی پہنانا کہ دین سے منحرف اور سرمایہ داری کی ایجنٹ ریاست کے ساتھ بھی التزام جماعت تقاضائے شریعت ہے، درحقیقت نصوص میں تضاد پیدا کرنا ہے ۔
★  اصول حدیث کے مسلمہ اصول ’’احادیث ایک دوسرے کی تشریح کرتی ہیں‘‘ کی رو سے ایسی تمام احادیث جن میں اطاعت امیر کیلئے اطاعت شارع کی شرط لگائی گئی ہے ان تمام احادیث کی تشریح کرتی ہیں جن میں بظاہر اس قید کا ذکر موجود نہیں۔ چنانچہ امام قرطبیؒ سورۃ بقرۃ آیت ۱۲۴ کے تحت فرماتے ہیں: ’’امام وہ ہوتا ہے جس کا دامن گناہ کبیرہ سے داغدار نہ ہو، احسان کی صفت سے متصف ہوتا ہے اور اس میں حکومت کی ذمہ داریوں کو بجا لانے کی صلاحیت بھی ہو۔ ان خوبیوں والے امام کے متعلق ہی نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ ان سے مت جھگڑو لیکن جو فاسق و فاجر ہوں وہ امامت کے حقدار ہیں ہی نہیں‘‘۔ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو جن آخری باتوں کی وصیت فرمائی ان میں سے ایک یہ بھی تھی: ولواستعمل علیکم عبد یقودکم بکتاب اللہ فاستمعوا لہ واطیعوا (بخاری) یعنی اگر تم پر ایک غلام بھی امیر بنا دیا گیا ہوجو تمہاری امارت اللہ کی کتاب کے مطابق کررہا ہو تو اسکی بات سنو اور اطاعت کرو ۔
★  علماء کرام کے اقوال و افعال میں تطبیق دینے کی صورت یہ ہے کہ اصولاً خلاف خروج اقوال کو امارۃ عادلہ اور جابرہ کے خلاف خروج پر محمول کیا جائے ۔
★  اگر علماء کرام کے خلاف خروج اقوال کو امارۃ ضالہ پر بھی محمول کیا جائے تو اس کی وجہ فساد برپا ہونے کا اندیشہ ہے نہ کہ خروج کا اصولاً ہر حال میں ناجائز ہونا ۔ امارۃ ضالہ کے خلاف خروج کے ان اقوال کا پس منظر یہ ہے کہ گو ان میں گوں نہ گوں برائیاں پائی جاتی ہیں، البتہ ان امارتوں کے ذریعے اسلامی ریاستی (بشمول تعلیمی، عدالتی، معاشرتی، ادارتی، تعزیری، تبلیغی، جہادی وغیرہم) نظم بہر حال محفوظ اور قائم و دائم ہوتا ہے اور ریاستی نظام بحیثیت مجموعی مسلمانوں کو اپنی زندگیاں شارع کی رضا کے مطابق گزارنے سے نہیں روکتا بلکہ اس میں مدد و مددگار ہوتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ایسی حکومتوں کو بھی بصورت عدم دستیابی قوت برداشت کرلیا جائے کہ بصورت دیگر خیر کم اور شر زیادہ پھیلنے کا اندیشہ ہے ۔
★  البتہ ان اقوال فقہاء کا تعلق غیر اسلامی ریاستوں کے ساتھ جوڑنا یا تو علمی خیانت ہے اور یا پھر نا سمجھی ۔

(۲.۲) اقوال فقہاء کا دوسرا پہلو 

حصہ اول میں بیان کردہ اصولی مباحث سے واضح ہوتا ہے کہ: 
★  عدم خروج کے جو اقوال کتب فقہ میں موجود ہیں وہ فاسق حکمران کی موجودگی میں ہی صحیح مگر اسلامی ریاست (نہ کہ محض حکومت) کی موجودگی کو بہرحال فرض (pre-suppose) کرتے ہیں ۔
★  لہٰذا علمائے متقدمین نے خروج کے خلاف جو فتوے دئیے تھے انہیں موجودہ صورت حال پر منطبق کرنا درست نہیں کیونکہ یہاں تو سرے سے وہ اسلامی ریاست ہی مفقودہے جس کے خلاف خروج پر وہ فتوے دئیے گئے تھے، یعنی جس ’اسلامی ریاست کے اندر ‘ فساد کے اندیشے کی وجہ سے یہ فتوے دیے گئے، وہ ریاست ہی جب سرے سے مفقود ہے تو ان فتووں کی آڑ میں موجودہ ریاستوں کو تحفظ دینے کا کیا مطلب؟ ہماری فقہ کے اہم اصول پہلی اور دوسری صدی ہجری میں مرتب ہوئے جب بنوامیہ اور عباسی خلافتیں قائم تھیں۔ آج کے دور میں تو مسلمان آبادیوں اور حکمرانوں سب پر طاغوت کا غلبہ ہے، لہٰذا ان حالات میں بجائے انقلابی جدوجہد کی ضرورت کا دفاع کرنے کے انہیں غلط طور پر ان اصولوں پر منطبق کرنے کی کوشش کرنا جو فقہاء کرام نے ’خلافت اسلامیہ ‘ کے تناظر میں مرتب کیے تھے، قیاس مع الفارق ہے۔ پس فقہائے کرام کے اقوال منکرین خروج کے حق میں دلیل بننے سے قاصر ہیں، اگر وہ واقعی اپنے حق میں کوئی دلیل پیش کرنا چاہتے ہیں تو فقہائے کرام کے ایسے اقوال پیش کریں جن کے مطابق غیر اسلامی ریاست کے خلاف ہر حال میں جہاد (خروج) کرنا ناجائز قرار دیا گیا ہو۔ اگر ایسا کوئی قول ہے تو براہ مہربانی پیش کیا جانا چاہیے کیونکہ موجودہ ریاستوں کے تناظر میں خلاف خروج اقوال پیش کرنا ظلم (وضع الشیء علی غیر محلہ) کا مصداق ہے کہ یہ تمام اقوال تو ’اسلامی ریاست‘ نہ کہ ’غیر اسلامی ریاست ‘ کے پس منظر میں نقل ہوئے ہیں۔ پس موجودہ حکومتوں کے خلاف انقلابی جدوجہد کو خروج کہنا ایک کم تر اور نسبتاً کمزور دلیل سے اسکا جواز فراہم کرنا ہے کیونکہ اس کے لیے زیادہ مناسب اور بہتر علمی اصطلاح شاید جہاد ہونی چاہیے۔ (۷)۔ 
فقہ اسلامی میں خروج سے مراد ’اسلامی ریاست‘ کی اصلاح کیلئے اسلامی حکومت کے خلاف بذریعہ قوت جدوجہد کرنا ہے۔ خروج بطور حکمت عملی تب محل بحث ہوسکتی ہے جب اسلامی ریاست موجود ہو۔ البتہ جب اسلامی ریاست سرے سے موجود ہی نہ ہو تو ایسے حالات میں ریاست کے خلاف بذریعہ قوت کی جانے جدوجہد خروج نہیں بلکہ اصطلاحاً جہاد کہلاتی ہے (جیسے تاتاری حکومت کے خلاف برپا کی گئی اسلامی جدوجہد)۔ دوسرے لفظوں میں تصور خروج خلافت اسلامی کی موجودگی کو فرض کرتا ہے اور اسکی عدم موجودگی میں جو شے مدار بحث ہونی چاہئے وہ خروج سے آگے بڑھ کر جہاد ہونی چاہئے۔ یہ بات درست ہے کہ فاسق و فاجر اسلامی حکومت کے خلاف جائز خروج بھی معناً جہاد کے زمرے میں شمار ہوتا ہے (جیسا کہ حدیث شریف میں بیان ہوا: ’’جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق بلند کرنا بہترین جہاد ہے‘‘، نیز تفسیر جصاص میں نفس زکیہ کے خروج کے حق میں امام ابوحنیفہؒ کا قول منقول ہے کہ آپ نے اسے کفار کے خلاف جہاد سے افضل قرا ر دیا )، البتہ یہاں بات اصطلاح کی ہو رہی ہے۔ یہ فرق بالکل ایسا ہے جیسے لفظ ’حد‘ بطور فقہی اصطلاح اوربطور قرآنی اصطلاح میں معنوی فرق ہے۔ پس دور جدید میں خروج کی بحث اٹھانے والے حضرات پر درحقیقت موجودہ مسلم ریاستوں کی اصل حقیقت ہی واضح نہ ہوسکی۔ 
جمہوریت کی درج بالا مثال پر قیاس کرتے ہوئے چند اہم باتوں کو بھی سمجھا جا سکتا ہے : 
★  اسلامی خلافت بھی محض تبدیلی حکومت کے مخصوص نظام (شوریٰ کے مشورے سے خلیفہ کے تعین) کا نام نہیں بلکہ یہ بھی ایک مکمل نظم اطاعت ہے، لہٰذا کسی ایک ادارے کے کرپٹ ہوجانے سے پورا اسلامی نظام ختم نہیں ہوجاتا۔ دور ملوکیت میں جو بنیادی ادارتی خرابی پیدا ہوئی وہ یہ تھی کہ ’اہل الرائے ‘ کے مشورے سے خلیفہ کی نامزدگی کا نظام ختم ہو گیا اور ریاست و حکومت کے اس فرق کو نہ پہچاننے کی وجہ سے خلافت راشدہ کے بعد اسلامی نظام اقتدار میں آنے والی جزوی تبدیلی (اہل الرائے کے مشورے سے خلیفہ کے تعین) کو جدید مفکرین نے بذات خود اسلامی ریاست کی تبدیلی پر محمول کر لیا۔ یہی وجہ ہے کہ فقہائے کرام نے بادشاہوں کے فسق کے باوجود خروج سے منع فرمایا ہے کہ ان انفرادی خرابیوں کے باوجود ریاستی نظام بحیثیت مجموعی اسلامی تھا اور خروج کے نتیجے میں نظم اطاعت کو خطرہ ہوسکتا تھا 
★  یہاں سے یہ بات بھی سمجھی جاسکتی ہے کہ خروج کا وقت اجتہادی مسئلہ کیوں ہے۔ جیسا کہ واضح کیا گیا، ریاست درحقیقت ایک پیچیدہ ساخت ہوتی ہے جس کا مقصد مخصوص علمیت و عقلیت کے مطابق احکامات کا صدور و نفاذ کرنا ہوتا ہے۔ چانچہ یہ فیصلہ کہ آیا نظام اطاعت میں کتنی تبدیلی کے بعد نظام اطاعت کی ’بنیاد ‘ تبدیل ہوگئی ہے اور اب خروج (بذریعہ قوت اصلاح ) کے لیے نکلنا ضروری ہوگیا، ایک مشکل امر ہوتا ہے اور لامحالہ ایک مجتہد فی مسئلہ ہے۔ خروج کاو قت طے کرنے کا مسئلہ محض فقہاء اسلام ہی نہیں بلکہ جمہوری مفکرین کے لیے بھی ایک خاصا مشکل امر ہے۔ ان مفکرین کے نزدیک جمہوری انقلاب برپا کرنے کے لیے تو ہر قسم کی جدوجہد (بشمول مسلح جدوجہد) جائز ہے کیونکہ ان کے نزدیک جمہوریت تو عقل و فطرت کا تقاضا ہے، البتہ جمہوریت کے خلاف کوئی انقلابی جدوجہد جائز نہیں، لیکن یہ طے کرنا کہ کب اور کہاں آمرانہ جمہوری ریاست بنانے کا وقت آگیا ہے، ایک مشکل فیصلہ ہوتا ہے جس کے ضمن میں یہ مفکرین ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہیں۔ (مثلاً کچھ امریکی مفکرین کا خیال ہے کہ عرب دنیا یا پاکستان میں آمرانہ حکومتوں کا ساتھ دینے سے امریکہ کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے جبکہ کچھ کے خیال میں حالات کی روشنی میں ایسا کرنا ضروری ہوتا ہے) ۔
★  اسی طرح یہ بھی واضح ہوگیا کہ موجودہ دور کی مسلم ریاستوں کو فقہاء کے اقوال کی روشنی میں جانچتے وقت یہ بات ملحوظ خاطر رہنا چاہیے کہ تقریباً تمام ہی مسلم ریاستیں یا تو لبرل یا آمرانہ جمہوری نظم کے تحت کام کررہی ہیں اور جن کا اسلامی نظم اطاعت سے دور دور کا کوئی واسطہ نہیں۔ لہٰذا ان ریاستوں کو غلط طور پر اسلامی فرض کرکے انہیں ان اقوال کی روشنی میں خروج سے پناہ دینا قیاس مع الفارق ہے۔ پس ائمہ سلف کے فتاوی کو ان کے پورے محل سے کاٹ کر الگ اور بے محل پیش کرنے کے بجائے اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ یہ فتوی کن حالات اور کن امور کو پیش نظر رکھتے ہوئے دیا گیا تھا۔ 

(۳) منکرین خروج کے اشکالات کا جائزہ 

درج بالا بحث کے بعد اب ہم منکرین خروج کی طرف سے پیش کئے جانے والے اہم شکوک و شبہات کا جائزہ پیش کرتے ہیں۔ یہ مسلمہ اصول شرعی ہے کہ کسی شے کے عدم جواز کے لیے دلیل شرعی کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ منکرین خروج پر اپنے مقدمے کو دلیل شرعی سے ثابت کرنا لازم ہے ، بصورت دیگر یہ محض ان کی رائے کہلائے گی۔ خروج کا انکار کرنے والے حضرات کا دعوی درج ذیل میں سے کسی ایک حالت پر محمول ہوتا ہے: 

(۳.۱) اسلامی حکومت (چاہے وہ کیسی ہی ہو) کے خلاف خروج مطلقاً ( حالات کیسے ہی ہوں) ناجائز ہے:

اگر کسی کا دعویٰ یہی ہے (جیسا کہ بعض شرکائے مجلس نے بھی کیا) تو اسے اپنی دلیل قرآن و سنت، آثار صحابہ اور اجماع امت سے پیش کرنا ہوگی، محض چند فقہاء کی عبارات پڑھ دینا اسے کفایت نہیں کرے گی۔ پھر اس شخص پر لازم ہے کہ وہ ان تمام احادیث کی توجیہ بھی بتا دے جن میں کفر بواح یا ترک اقامت صلوٰۃ ( یعنی ترک فرائض) کی صورت میں خروج کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ پھر اس شخص پر حضرت عبد اللہ بن زبیر اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کے خروج کے بارے میں بھی اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کرنا لازم ہے اور ساتھ ہی اسے یہ بات بھی صاف صاف بتا دینا چاہیے کہ ان دونوں حضرات کے خروج کے بارے میں اہل سنت کی جو اجماعی رائے رہی ہے، اس کے بارے میں وہ کیا رائے رکھتا ہے۔ (ظاہر ہے اس مضمون کے مخاطبین اہل سنت ہی کے گروہ ہیں) ۔

(۳.۲) مخصوص حالات میں اسلامی حکومت کے خلاف خروج جائز تو ہے، مگر ’موجودہ مسلم ‘ (نہ کہ اسلامی ) حکومتوں کے خلاف خروج ناجائز ہے:

فرض کریں یہ شخص اپنے درج بالا عمومی دعوے سے ایک قدم پیچھے ہٹ کر یہ دعوی کرتا ہے کہ چند ناگزیر حالات (مثلا کفر بواح وغیرہ ) میں خروج جائز ہوتا ہے اور اس بنا پر وہ حضرت عبد اللہ بن زبیر اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کا خروج جائز قرار دے کر خود کو اہل سنت کا ہم نوا ثابت کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ مگر چونکہ اس کی اصل دلچسپی تو محض موجودہ حالات میں خروج کا عدم جواز ثابت کرنا ہے، لہٰذا وہ یہ لاحقہ بھی لگا دیتا ہے کہ ’’’موجودہ حالات میں یہ ناجائز ہے، بالکل اسی طرح جیسے مسلمان بادشاہوں کے خلاف فقہا نے اس کا ناجائز ہونا لکھا ہے‘‘، مگر یہ تاویل بھی اس کی مشکلات حل نہیں کرپائے گی کیونکہ اب اسے یہ بتا نا ہوگا کہ : 
★  امارت یزید میں آخر امت مسلمہ کو ایسا کون سا ’کفر بواح‘ پیش آگیا تھا جو آج کی (مفروضہ) اسلامی ریاستوں میں درپیش نہیں؟ ہماری عاجزانہ رائے میں یزید کے تمام جرائم اپنی جگہ مسلم، مگر اس کی امارت کئی وجوہات کی بنا پر آج کی مسلم ریاستوں سے بہتر تھی ۔
★  پھر اس شخص کے بقول اگر فقہاء کے نزدیک ظالم بادشاہ کی اطاعت لازم ہے تو پھر اسے چاہیے کہ ان اقوال کی روشنی میں حضرت عبد اللہ بن زبیر اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کے خروج کو پرکھ کر یا تو ان حضرات کے خروج کو باطل قرار دے اور یا پھر ان میں کوئی ایسی تطبیق پیش کرے جسے عقل قبول کرنے پر آمادہ ہوسکے ۔
★  پھر اس شخص کو یہ بھی واضح کرنا چاہیے کہ فقہائے کرام کے جن اقوال کو وہ پڑھ کر سنا رہا ہے، ان کا تعلق ’اسلامی ریاست‘ سے ہے یا ’مسلم ریاست‘ سے؟ منکرین خروج کے خیال میں اگر کسی علاقے میں بسنے والوں کی اکثریت مسلمانوں کی ہو اور وہ اپنی مرضی سے چند افراد کو اپنا حاکم چن لیں تو ایسی ریاست ’مسلم ریاست‘ (بمعنی عادلانہ ریاست) کہلاتی ہے، علی الرغم اس سے کہ ان کا نظم اجتماعی کس بنا پر قائم ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ’مسلم ریاست‘ کا یہ اچھوتا و نرالا فلسفہ کس دلیل شرعی سے کشید ہ گیا ہے، کیونکہ فقہ اسلامی میں ریاست یا تو اسلامی (بشمول فاسق) ہوتی ہے اور یا پھر کافر، بالکل اسی طرح جیسے ایک شخص یا تو مومن ہوتا ہے اور یا پھر کافر۔ آخر اہل سنت کے ہاں معتزلہ کے ’المنزلۃ بین المنزلتین‘ کے جس عقیدے کو فرد کے لیے غیر عقلی و باطل سمجھا گیا ہے، اسے ریاست کے لیے کس شرعی و عقلی دلیل کی بنا پر جواز فراہم کیا جا رہا ہے؟ اگر اقوال فقہاء کا تعلق اسلامی ریاست سے ہے تو انہیں موجودہ مسلم ریاستوں پر چسپاں کرکے کیا علمی خیانت نہیں کی جارہی ؟ 
★  درج بالا سیکشن میں طاغوت کا مفہوم واضح ہوجانے نیز دیگر نصوص کے بعد یہ سوال ہی غیر متعلق ہوجاتا ہے کہ حکومت کو عوام الناس کا اعتماد حاصل ہے یا نہیں۔ نصوص شریعت میں امارت عادلہ کی شرط ’شریعت کا پابند ہونا ‘ بتائی گئی ہے نہ کہ عوامی رائے پر قائم ہونا۔ مثلاً اوپر ذکر کی گئی نصوص میں یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ اگر طاغوت عوامی رائے پر مبنی ہو تو اس کی حکمرانی اور اطاعت نہ صرف جائز بلکہ لازم ہوتی ہے۔ چنانچہ جو بھی ریاست اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے انحراف پر قائم ہو، طاغوت کے حکم میں شامل ہے، خواہ وہ استبدادی بادشاہت ہو، یا لبرل و آمرانہ جمہوریت۔ یہ دلیل دینے والے حضرات پر لازم ہے کہ اپنے دعوے پر ایسی شرعی دلیل پیش کریں جس سے نصوص میں تعارض واقع نہ ہو۔ جدید مفکرین کا مسئلہ یہ ہے کہ دور جدید میں پائے جانے والے ہر تصور کو اسلامیانے کے لیے ایک ایسی ’لمبی چھلانگ ‘ لگاتے ہیں جس کا ذکر اسلامی علمیت میں کہیں نہ پایا جاتا ہو۔ چنانچہ کسی معتبر اسلامی سیاسی مفکر نے یہ بات نہیں لکھی کہ عوامی رائے پر مبنی ریاست علی الرغم اس سے کہ وہ شریعت کی پابند ہے یا نہیں عادل ریاست ہوتی ہے۔ مثلاً شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ ازالۃ الخفا (ص ۲) میں خلافت کی تعریف اور اس کے فرائض منصبی کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: ’’خلافت وہ عمومی ریاست ہے جو اقامت دین کے لیے عملاً متوجہ رہتی ہو (اور دین کو قائم رکھنے کے لیے) دینی علوم کی اشاعت اور احیا کا فرض انجام دیتی ہو، ارکان اسلام کو قائم رکھتی ہو، جہاد اور اس سے متعلقہ امور کے لیے کمر بستہ اور تیار رہتی ہو...، عدالتی نظام قائم رکھتی ہو، شرعی سزائیں قائم کرتی ہو، مظالم کا خاتمہ کرتی ہو، نیکی کا حکم دیتی ہو اور برائی سے روکتی ہو اور یہ سارے فرائض ریاست وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کے طور پر انجام دیتی ہو‘‘۔ گویا جو ریاست یہ امور سر انجام نہ دے، وہ خلافت ہے ہی نہیں۔ اسی طرح علامہ ابن تیمیہؒ کی کتاب السیاسۃ الشرعیہ اور امام ماوردیؒ کی الاحکام السلطانیہ بھی متجددین حضرات کے اس نظریے کا چیخ چیخ کا رد بیان کرتی ہیں۔
★  اگر یہ سنہری اصول مان لیا جائے کہ ہر وہ حکومت جسے عمومی رائے عامہ حاصل ہو، امارت عادلہ ہوتی ہے علی الرغم اس سے کہ وہ شریعت کی پابند ہے یا نہیں، تو موجودہ دور کی تمام کافر حکومتیں بھی عین امارت عادلہ قرار پائیں گی۔ اتنا ہی نہیں بلکہ موجودہ دار الحرب بھی عین عادلانہ ریاستیں کہلانے کی مستحق ٹھہریں گی ، فیا للعجب ۔
★  پھر ’عوامی رائے پر مبنی موجودہ مسلم ریاستوں کے خلاف خروج ناجائز ہونے ‘ کی اس دلیل کا تقاضا یہ بھی ہے کہ فرض کریں، اگر مستقبل میں کبھی امریکہ کی ایک اکثریت مسلمان ہوجائے اور جمہوریت کی بنا پر وہاں حکمرانوں کی اکثریت مسلمانوں پر ہی مشتمل ہوجائے اور اپنے دل کو بہلانے اور عوام الناس کو جھانسا دینے کے لیے وہ اپنے آئین میں اس جملے کا اضافہ کرلیں کہ ’ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا‘ (اور اس کے ساتھ ہی مضحکہ خیز طور پر ہیومن رائٹس پر عمل درآمد کی یقین دہانی بھی کر وا دیں جیسا کہ آئین پاکستان میں ہے) جبکہ سارا کا سارا نظام جوں کا توں ویسا ہی چلتا رہے جیسا کہ آج چل رہا ہے، تب بھی اس ریاست کو روز محشر تک کے لیے خروج کے خلاف ’اسلامی پناہ گاہ‘ میسر آجائے گی ۔
★  پھر اس اصول کا مطلب یہ بھی ہوا کہ عمومی رائے عامہ کے بغیر قائم ہونے والی تمام ریاستیں غیر عادلانہ کہلائی جانی چاہئیں۔ خدا نخواستہ اگر کہیں محمد بن قاسمؒ بھی عادلانہ ریاست کے قیام کے لیے ’عوامی تائید‘ کی اس غلط فہمی کا شکار ہوتا تو کبھی ہندوستان میں اسلامی ریاست کی بنیاد نہ ڈالتا۔ ’عوامی تائیدکی شرط‘ کے اس فلسفے کے مطابق ہندوستان اور اندلس کی اسلامی ریاستیں یقیناًغیر اسلامی ٹھہریں گی، کیونکہ ان علاقوں میں مسلمانوں کو کبھی عوامی اکثریت حاصل نہیں ہوئی۔ گویا اموی دور سے لے کر ترک خلافت تک تقریباً تمام ریاستیں غیر عادلانہ اسلامی ریاستیں تھیں ۔
★  منکرین خروج کو یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ آخر مسلمانوں کی مرضی سے قائم شدہ ریاست غیر اسلامی کیسے ہوسکتی ہے! اس مشکل کا حل انہوں نے یہ نکالا ہے کہ اگر مسلمان کسی جگہ اپنے اجتماعی معاملات اپنی مرضی سے طے کرنے کے مجاز ہوں تو بس اتنی اجازت ہی ان کے معاملات کے اسلامی ہونے کے لیے کافی دلیل ہے، حالانکہ اس مفروضے کی غلطی سمجھنے کے لیے اس متفقہ اصول پر غور کرلینا کافی ہوگا جسے سب مانتے ہیں کہ کسی امر پر مسلمانوں کا اجتماعی طرز عمل اس امر کے اسلامی ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہوتی۔ چنانچہ اسی اصول کی بنا پر مسلمانوں کے بے شمار اخلاقی، سماجی و مالی معاملات کو شریعت کی روشنی میں پرکھ کر ان کے باطل ہونے کا حکم لگاد یا جاتا ہے، حالانکہ وہ سب کے سب رویے مسلمان اپنی مرضی سے اجتماعی زندگی میں اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اس اصول کو دین کے دیگر تمام معاملات میں تو متفقہ طور پر قبول کیا جاتا ہے، مگر سیاسی معاملات میں نہ جانے کیوں یہ عجیب و غریب مفروضہ بنا لیا گیا ہے کہ ریاستی معاملات میں مسلمان اجتماعی طور پر جو جی میں آئے کرلیں، بس اسی طرز عمل کا نام اسلام ہے۔ گویا مسلمانوں کا اجتماعی ارادہ، علی الرغم اس سے کہ وہ مطابق شریعت ہے یا نہیں، خدا کی مرضی کا مظہر و تفسیر ہے۔ ظاہر بات ہے اسلامی علمیت میں اس مفروضے کی کوئی دلیل موجود نہیں، کیونکہ اگر مسلمانوں کا طرز عمل شریعت کی تعبیر کا دوسرا نام ہے تو پھر شارع کی رضا معلوم کرنے کے لیے اصول وضع کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ 
درحقیقت ان حضرات کا خروج کے خلاف زیر بحث مقدمہ دو مفروضوں پر قائم ہے : (۱) خلافت راشدہ کے بعد قائم ہونے والی امارت اسلامیہ گویا موجودہ مسلم ریاستوں ہی کے حکم میں ہیں، اور چونکہ فقہاء نے ان امارتوں کے خلاف خروج سے منع کیا ہے، لہٰذا موجودہ مسلم ریاستوں کو بھی ان اقوال فقہاء کی آڑ میں چھپانا ممکن ہے۔ منکرین خروج کے اس مفروضے کی غلطی ہم حصہ دوئم میں واضح کرچکے ہیں۔ (۲) سرمایہ دارانہ ریاستی عمل و علمیت کو غیر اقداری فرض کرلینا جو بالکلیہ باطل تصور ہے۔ 

(۳.۳) مخصوص دینی مصالح و منہاج کی بناء پر موجودہ مسلم حکومتوں کے خلاف خروج نا جائز ہے:

اب فرض کریں، ہمارے محترم منکرین خروج ایک قدم اور پیچھے ہٹ کر اپنے دعواے انکار خروج کو ’دینی حکمتوں اور مصالح‘ تک محدود کردیتے ہیں۔ اگر واقعی ان کا دعویٰ یہی ہے تو اب بحث کا دائرہ ’دلیل شرعی و فقہ الاحکام ‘ کے بجائے ’حکمت عملی‘ اور ’فقہ الواقع‘ کے ابواب میں سکڑ گیا۔ لیکن یہ بالکل واضح ہے کہ ’حالات کے تجزیے کی روشنی میں اختیار کردہ حکمت عملی‘ ایک فرد کی اجتہادی رائے سے زیادہ کوئی دینی حیثیت نہیں رکھتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ منکرین کو اس معاملے میں اجتہاد کرنے اور اپنی رائے قائم کرنے کا پورا حق حاصل ہے، مگر وہ گروہِ مخالف کے حق کو بھی کسی دلیل شرعی کی بنا پر ان سے سلب نہیں کرسکتے۔ اگر وہ دین کا درد رکھتے ہوئے اپنی رائے پر ثابت قدم ہیں تو انہیں سمجھ لینا چاہیے کہ گروہ مخالف بھی غیرت دینی سے پوری طرح معمور ہے۔ لہٰذا اپنی انفرادی اجتہادی رائے پر مبنی حکمت عملی کو ’عین قرآن و سنت‘ اور گروہ مخالف کی رائے کو ’ باطل اور گمراہی‘ کہنے سے گریز کرنا چاہیے۔ 
موجودہ جہادی حکمت عملی کو غلط ثابت کرنے کیلئے ایک مزید دلیل یہ بھی تراش لی گئی ہے کہ موجودہ صورت حال میں یہ طریقہ سنت نبوی کے منہاج کے خلاف ہے۔ (بعینہ یہی دلیل ایک فاضل مصنف اویس پاشا قرنی صاحب نے ماہنامہ الشریعہ ۲۰۱۱ کے شمارہ ستمبر مضمون ’’’عصر حاضر میں غلبہ اسلام کے لیے جہاد‘‘ میں دہرائی ہے)۔ اس دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ جہاد مدنی دور میں فرض ہوا جبکہ موجودہ حالات میں مسلمان مکی دور سے گزر رہے ہیں، اور مکی دور کا تقاضا صرف اور صرف دعوت و تبلیغ پر ساری توجہ مرکوز کردینا ہے۔ چلیے ہم ایک لمحے کے لیے قرآنی آیت: الیوم اکملت لکم دینکم کو نظر انداز کرکے ان کی اس ترتیب احکام اور حکمت منہاج کے فلسفے کو مان لیتے ہیں، پھر بھی ان سادہ لوح مفکرین سے کوئی پوچھے کہ جناب مکی و مدنی دور کے منہاج میں فرق کرنے والی شے آخر کیا تھی؟ یہی نا کہ مدینہ میں باقاعدہ ایک ریاست میسر آگئی تھی۔ ہم تاکید کے لیے پھر کہے دیتے ہیں کہ منہاج کا فرق کرنے والی شے مدینہ میں باقاعدہ ایک ریاست کا میسر آجانا ہی تھا نا؟ اگر ایسا ہی تھا جیسا کا امر واقعہ ہے اور منکرین کو بھی قبول ہے تو دور حاضر میں مسلمانوں نے جو یہ درجنوں اسلامی یا مسلم ریاستیں قائم کر رکھی ہیں، کیا اتنی طویل المدت اور ڈھیر ساری ریاستوں کے قیام کے بعد بھی مدنی دور کا آغاز نہیں ہوا؟ آخر اس مدنی دور کا آغاز کس طلوع آفتاب سے ہوگا؟ اس مقام پر منہاج کی یہ دلیل دینے والے حضرات کو کوئی ایک راستہ اختیار کرنا ہوگا: 
★  یا تو اس حقیقت کا اعتراف کرلیں کہ موجودہ ریاستیں سرے سے اسلامی ہیں ہی نہیں (مگر یہ ماننا ان کے لیے مصیبت ہے، کیونکہ اسی کی آڑ میں تو ان کے خلاف خروج کو ناجائز کہا جارہا ہے۔) 
★  یا یہ دعویٰ کریں کہ یہ ریاستیں محض ’مسلم‘ ہیں۔ اس صورت میں انہیں ’بغیر اسلام‘ مسلم ہونے کا فارمولا قرآن و سنت اور اقوال فقہاء کی روشنی میں سمجھا نا پڑے گا۔
★  اور یا پھر اپنے منہاجی فلسفے کی روشنی میں ان ’شرائط‘ (ہم یہ لفظ فقہی اصطلاح میں استعمال کررہے ہیں) کا ٹھیک ٹھیک تعین فر مادیں جو مدینہ میں تو جہادی حکمت عملی کا وجہ جواز بن سکتی تھیں، لیکن موجودہ حالات میں مانع ہیں۔ 
درحقیقت منکرین کے اس ’منہاجی فلسفے‘ کا منطقی تقاضا یہ تھا کہ انہیں موجودہ حالات میں نہ صرف یہ کہ جہاد کا سب سے بڑا حامی ہونا چاہیے تھا بلکہ پاکستان کو اس کا بیس کیمپ بنانے پر اصرارکرنا چاہیے تھا کہ پاکستانی ریاست تو (بقول ان کے) بنائی ہی اسلام کے لیے گئی تھی، چنانچہ جب ریاست بھی بن گئی تو اب مکی دور کی دہائی کا کیا مطلب؟ 

(۳.۴) خروج و انقلابی جدوجہد کے نتائج فسادا ور نقصانات سے عبارت ہیں، لہٰذا انہیں ترک کردینا چاہیے:

اس مقام پر منکرین ایک اور پلٹی لے کر خروج و جہاد کو غلط ثابت کرنے کے لیے نتیجہ خیزی یا نتیجیت پسندی (pragmatism) اختیار کرلیتے ہیں اور یہ دعویٰ کرنے لگتے ہیں کہ طویل عرصے پر محیط تجربات کے تجزیے سے یہ ثابت ہوچکا کہ انقلابی جدوجہد نہ صرف یہ کہ کوئی مفید نتائج پیدا کرنے سے قاصر رہی ہے بلکہ امت مسلمہ کے لیے نقصان دہ ثابت ہورہی ہے۔ اس دلیل کا اصولی جواب تو یہ ہے کہ فائدوں اور نقصانات کا تعلق بھی حکمت کے باب سے ہے نہ کہ اصل دلائل شرعیہ سے، لہٰذا ان کی بنا پر کسی شے کی مخالفت ایک اجتہادی رائے سے زیادہ کچھ نہیں۔ پھر ’فائدے اور نقصان‘ کا تعین طرز فکر سے ہوتا ہے یعنی ایک شے جو کسی ایک نقطہ نظر کے لحاظ سے فائدہ سمجھی جاتی ہے، عین ممکن ہے کسی دوسرے نقطہ نظر کے اعتبار سے نقصان قرار پائے۔ جس طرح منکرین کو اپنے نقطہ نظر سے فائدے اور نقصان کا تعین کرنے کا حق حاصل ہے، بالکل اسی طرح دوسروں کو بھی اسکا حق حاصل ہے۔ نتائج کی بنیاد پر کسی شے کا حکم متعین کرنا اصول فقہ میں ’سد الذرائع‘ کہلاتا ہے، اور یہ اصول فقہ کا نہایت ہی پیچیدہ باب ہے جہاں فیصلہ کرتے وقت کسی ایک نہیں، بلکہ تمام عوامل (مقاصد شریعت، سماجی حقائق و ضروریات، وقت کی ترجیحات وغیرہ) کو مد نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ 
مثلاً فرض کریں کوئی شخص یہ مطالبہ کرتا ہے کہ چونکہ ہر روز ٹریفک حادثات میں ہزاروں جانیں ضائع ہوجاتی ہیں، لہٰذا زیادہ سے زیادہ حد رفتار دس کلو میٹر فی گھنٹہ کردینی چاہیے۔ گو کہ اس قانون کے ذریعے ٹریفک حادثات کو تو زیرو کی سطح پر لایا جا سکتا ہے، لیکن ایسا کرنے کا لازمی نتیجہ انسانی زندگی کو معطل کردینا ہوگا، لہٰذا قانون بنانے والے حضرات اس عنصر کو بھی سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کریں گے۔ چونکہ دنیا کی ہر شے میں کسی نہ کسی پہلو سے شر ضرور موجودہ ہوتا ہے، لہٰذا حکم لگاتے وقت کسی ایک پہلو پر ہی ساری توجہ مرکوز نہیں کی جاسکتی بلکہ مکمل پیکیج کو سامنے رکھنا ہوگا۔ لہٰذا اس بنیاد پر کیا گیا فیصلہ بہر حال ایک اجتہادی امر ہوتا ہے جس سے علمی اختلاف تو کیا جا سکتا ہے لیکن فریق ثانی کو گمراہ یا فاسق کہنا بھی حد درجہ بے اعتدالی ہے۔ اگر یہ طرز عمل اپنا لیا جائے تو کوئی گروہ اس کی زد سے بچ نہ سکے گا۔ مثلاً منکرین خروج کی یہ خواہش ہے کہ مسلمان انقلابی جدوجہد ترک کرکے خود کو جمہوری جدوجہد کے اندر سمو کر یہ امید رکھیں کہ اس طریقے سے وہ غلبہ اسلام کے قابل ہوسکیں گے۔ اس پر ہمارا تبصرہ محض اتنا ہے کہ ایں خیال است ومحال است و جنوں۔ یہ خواہش ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص ببول کے درخت کی آبیاری کے نتیجے میں پھول کھل اٹھنے کی خواہش رکھے۔ تو اگر اس تجزیے کی بنیاد پر کوئی شخص منکرین خروج کو گمراہ، فاسق اور خارجی کہے تو اسے حد درجہ ظلم نہیں کہا جائے گا؟ 
چلیے نتیجیت پسندی کے فلسفے ہی کو معیار بنا لیجیے تو کیا بعینہ یہی سوال پر امن اصلاحی و جمہوری جدوجہد کرنے والی تحریکات پر نہیں اٹھایا جاسکتا؟ آخر ان کے نامہ اعمال میں کامیابیوں کی ایسی کون سی نہ شمار ہونے والی سنہری لسٹ موجود ہے؟ چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان ’پرامن اصلاحی و جمہوری تحریکات‘ نے مغرب کے باطل تصورات کی بودی اسلام کاری کرکے امت مسلمہ کو عالمی سیکولر ریاستی نظم میں سمو کر جس قدر نقصان پہنچایا ہے، اس کا ازالہ کرنے کے لیے شاید ایک صدی کا عرصہ بھی کم ہوگا۔ مثلا اصلاحی و جمہوری جدوجہد کے نقصانات میں سے چند یہ ہیں: 
منکرین خروج کی یہ دلیل درحقیقت دلیل سے زیادہ الزام ہے اور اس قسم کی الزام تراشیوں کے جواب میں شیخ عبد المنعم المصطفی حلیم نے نہایت نفیس نکات بیان کیے ہیں: 
’’جہادی و انقلابی جدوجہد کے جن مفاسد کی طرف اکثر و بیشتر اشارہ کیا جاتا ہے، درحقیقت ان کے پھیلنے کا سبب راہ خداوندی میں جہاد اور طاغوتی حکمرانوں کے خلاف خروج کرنا نہیں بلکہ ہمارا اپنا نفس اور حکمت عملی کی غلطیاں ہیں۔ ان غلطیوں میں سے چند ایک یہ ہیں: 
۱) مطلوبہ تعداد و تیاری ہونے سے پہلے ہی اقدام کردینا یعنی جلد بازی کا مظاہرہ کرنا ۔
۲) دائرہ عمل کا مجاہدین و انقلابیوں کی طاقت اور صلاحیت سے بڑا ہونا ۔
۳) دور حاضر کی طاغوتی قوتوں کی فکر ، وسائل اور لائحہ عمل کا غلط اندازہ لگاکر توکل کے جذبات سے ان کا مقابلہ کرنا۔
۴) جہادی کاروائیوں کے بارے میں بعض اوقات شدت پسندی کا ایسا رویہ اختیار کرنا جو خارجیوں کے اصولوں پر استوار ہے ۔
۵) اپنی جدوجہد کی کامیابی کے لیے استعمار کی وفادار حکومتوں اور خفیہ ایجنسیوں سے اس طرز کا تعلق رکھنا کہ ان کی مدد کے بغیر جہادی تنظیموں کا وجود ہی برقرار نہ رہ سکے۔ اسی بنا پر جہادی لشکروں کو کارروائیوں کے نتائج حاصل کیے بغیر ہی لوٹنا پڑتا ہے ۔
۶) مسلمانوں کی اکثریت کا مجاہدین کی نصرت و حمایت سے ہاتھ کھینچ کر کھیل تماشوں، دنیاوی لہو لہب اور لغویات میں مشغول ہوجانا ۔
۷) آپس میں مسلکی گروہ بندیوں کا شکار ہونا اور اپنی جدوجہد کو دیگر دینی کاموں سے مربوط کرنے کے بجائے تفریق کے اصول پر کار بند ہوکر باقی سب کاموں کو لایعنی قرار دے کر محض اپنے کام کو دینی کام سمجھنا ۔
۸) سب سے بڑھ کر یہ کہ مبادیات واخلاقیات اسلام و دیگر مقدس امور جن کی بناء پر اللہ تعالی کی جانب سے مدد اترا کرتی ہے، ان میں سست روی اختیار کرنا ۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمیں جہاد کی ابتدا ہی میں ایسی مشکلات اور غلطیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے ، لیکن بڑا ظلم کرتا ہے وہ شخص جو ان غلطیوں کو ناقص حکمت عملی کے بجائے خود جہاد کے آثار و نتائج گرداننے لگے۔ ‘‘
یہ درست ہے کہ جہادی و انقلابی تحریکات میں درج بالا نوع کی خرابیاں موجود ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی بنا پر اس جدوجہد ہی کو ترک کردیا جائے بلکہ کرنے کا کام ان کی اصلاح و تزکیہ ہے ۔ اگر ایسی کمزوریوں کو بہانہ بنا کر مجاہدین و انقلابی تحریکات کی مخالفت کرنا جائز سمجھ لی جائے تو پھر ساری دینی تحریکات کی مخالفت کا رویہ اپنانا پڑے گا کیونکہ ان میں سے اکثر و بیشتر اور ان کے علاوہ کئی دیگر خرابیاں ایسی ہیں جو صرف جہادی تنظیموں کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ تقریباً سب ہی دینی جماعتیں و تحریکات بشمول مدارس کے علماء، خانقاہوں کے صوفیاء، تبلیغی و دعوتی تحریکات وغیرہ ان میں مبتلا ہیں۔ تو کیا یہ سارے دینی کام بند کرکے ہم ’مسند تنقید‘ سنبھال لیں؟ 
پھر یہ بات بھی یاد رہے کہ ہر جدوجہد محتاط اندازے و تخمینے کے مطابق ہی کی جاتی ہے جس میں کامیابی و ناکامی کے امکانات ’جدوجہد کرنے والوں‘ کے خیال میں برابر ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان امکانات کا تخمینہ لگانا ’جدوجہد سے باہر ‘ کسی بیرونی ادارے، افراد یا تحریک کا نہیں بلکہ خود جدوجہد کرنے والوں کا کام ہوتا ہے اور اس ضمن میں انہی کا قول ’قول فیصل‘ سمجھا جانا چاہیے کیونکہ خروج کرنے والا گروہ زیادہ بہتر طور پر جان سکتا ہے کہ اس کے پاس کتنی قوت ہے اور کب اس کو استعمال کیا جائے۔ پھر کامیابی و ناکامی کے امکانات طے کرنے کاکوئی سائنٹفک معیار و طریقہ کار موجودہ نہیں ہوتا اور نہ ہی جدوجہد سے پہلے اس کی عوامی مقبولیت کا کوئی معین اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ماضی قریب میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ جب آغاز جدوجہد میں ناقدین اسے ناکامی کا سرٹیفیکیٹ دے چکے تھے لیکن حالات و واقعات نے ایسی کروٹیں لیں کہ طاقتور ترین دشمن گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگیا۔ 
پھر فائدوں اور نقصان پر غور کرتے وقت کسی ’مثالی نکتہ نگاہ ‘ سے نہیں بلکہ حقائق کی دنیا میں رہ کر ہمہ جہت پہلووں سے غور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے (۸) ۔ چنانچہ بعض اوقات یہ پہلو بذات خود نہایت اہم ہوتا ہے کہ اگر ایک معاملہ ’پوری طرح‘ ہمارے حق میں نہیں بیٹھ رہا تو ہم اسے مخالف کے حق میں بھی پوری طرح نہیں بیٹھنے دے رہے، یا یہ کہ اگر کوئی شے ہمارے حق میں بہتر نہیں ہورہی تو ہم اسے بدتر حالت میں نہیں جانے دے رہے، یا اگر یہ بھی ہمارے بس سے باہر ہے تو ہم حالات کو اپنے مخالف کے حق میں اتنا سازگار نہیں ہونے دے رہے جتنا کہ وہ چاہتا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ بعض اوقات اتنا سا نتیجہ نکالنے کے لیے بھی ڈھیر ساری جدوجہد صرف کرنا پڑتی ہے۔ انقلابی جدوجہد کلیتاًرد کرنے کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ہم استعمار کا غلبہ قبول کرکے اسے اپنی زمینیں، انفرادیت، معاشرت، ریاست و علمیت روند ڈالنے کی کھلی چھٹی دے دیں اور درحقیقت یہی اصل نقصان ( فتنہ) ہے۔ مسلمانوں کا اجتماعی فائدہ اور نقصان یہ ہے کہ آیا نفاذ اسلام اور کفر کی راہ میں مزاحمت کے مواقع پیدا ہورہے ہیں یا نہیں۔ اسلام کا کام صرف عقائد درست کرنا ہی نہیں بلکہ ان عقائد پر نظام عبادت قائم کرکے پوری زندگی کو اس کے تابع کرنا ہے اور یہ کام نظام اقتدار تبدیل کیے بغیر نا ممکن ہے جس کے لیے جہادی و انقلابی جدوجہد مرتب کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا اصلاحی جدوجہد۔ 
درج بالا دلیل دینے والے مفکرین اس بات پر نہایت شد و مد سے زور دیتے ہیں کہ خروج وغیرہ سے قتل و غارت اور فساد کا اندیشہ ہوتا ہے جو شریعت کو قطعا مطلوب نہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ قتل نفس انتہائی معیوب عمل ہے اور تشکیل حکمت عملی میں اس سے حتی الامکان بچنا ضروری ہے، مگر یہ قرآنی خبر بھی ذہن نشیں رہنی چاہیے کہ ’فتنہ‘ قتل سے بھی بڑی برائی و گناہ ہے۔ (بقرۃ ۱۹۱، ۲۱۷)۔ فتنے کا معنی آزمائش ہے اور اس سے مراد ہر وہ کیفیت ہے جس میں صاحب ایمان کے لیے ایمان پر قائم رہنا اور اسلام پر چلنا مشکل ہو جائے۔ زیر نظر آیات میں اس سے مراد کفر کا غلبہ اور حق کی راہیں مسدود کرنا ہے، ان معنی میں دور حاضر کے معاشرے و ریاستیں فتنہ ہیں جہاں حلال کے راستے مسدود ہیں جبکہ حرام کے لیے کھلی چھٹی ہے، حیا و عصمت کی زندگی بسر کرنا مشکل ہے جبکہ بدکاری و فحاشی کے فروغ کی کھلی اجازت ہے، زہد، فقر و تقوے کے بجائے حرص، حسد و شہوت کا فروغ معاشرتی عمل کی بنیاد ہے، واضح حرام کو قوانین کا درجہ دے کر حدوداللہ کی پامالی کا ماحول ساز گار کردیا گیا۔ پس جس معاشرے و ریاست پر باطل کا غلبہ ہوگیا، وہ فتنہ ہے اور اسے ختم کرنا حفاظت نفس سے بھی اہم تر ہے۔ چنانچہ اسلام میں فتنے کے خاتمے (حفاظت دین) کو حفاظت نفس پر ترجیح دی گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ شریعت میں جہاد کا حکم دیا گیا ہے کہ اگرچہ اس میں جان کا ضیاع ہے، مگر یہ دین کی حفاظت و بقا اور فتنے کے خاتمے کا ذریعہ ہے (قرآن میں جہاد کی غرض و غایت فتنے کا خاتمہ ہی قرار دی گئی ہے: بقرۃ ۱۹۳)۔ دور حاضر کا سب سے بڑا فتنہ غالب سرمایہ دارانہ نظام ہے جس نے اسلامی انفرادیت، معاشرت و ریاست سب کچھ پراگندہ کر رکھا ہے، لہٰذا اس کے خاتمے کے لیے حالات کے تناظر میں ہر قسم کی حکمت عملی کو اپنانا اصولاً جائز ہوگا ۔ 

(۳.۵) اسلام امن چاہتا ہے:

خروج وجہاد کے خلاف ایک عجیب تاویل کچھ یوں پیش کی جاتی ہے کہ ’اسلام درحقیقت امن کا مذہب ہے اور یہ ہر حال میں قیام امن چاہتا ہے اور صرف اسی ذریعے سے اس کا فروغ ممکن ہے، لہٰذا ہمیں تشدد پر مبنی جدوجہد ترک کردینا چاہیے‘۔ یہ نظریہ امن بداہتاً باطل ہے، کیونکہ امن کا کوئی غیر اقداری اور آفاقی تصور (universal conception of peace) ممکن نہیں، ہر نظام زندگی ایک مخصوص تصور امن کا حامل ہوتا ہے جس کی وجہ حقوق کی تعیین و تفسیر میں اختلاف پایا جانا ہے۔ امن کا مطلب یہ ہے کہ ایک نظام زندگی فرد کو جن حقوق کا اہل قرار دیتا ہے، وہ نظام فرد کے ان حقوق کو محفوظ کرکے اسے ان حقوق کا مکلف بناتا چلا جائے۔ چونکہ حقوق کی تعیین و تفسیر میں اختلاف ہے، لہٰذا امن کے تصورات بھی جداگانہ ہیں۔ مثلاً اشتراکی نظام فرد کو نجی ملکیت کا حق عطا نہیں کرتا، لہٰذا اشتراکی نظریے کے مطابق فرد سے نجی ملکیت چھین کر سرکاری تحویل میں لے لینا کوئی ظلم نہیں۔ دوسرے لفظوں میں لبرل نظام جس اصول (نجی ملکیت کی حرمت) کو امن کا لازمی جزو گردنتا ہے، اشتراکیت عین اسی شے کو ظلم اور فساد کی بنیاد کہتی ہے۔ اس بنیادی نکتے کو نہ سمجھنے اور امن کو آفاقی و غیر اقداری تصور فرض کرنے کی وجہ سے مسلم مفکرین لبرل فریم ورک کے فراہم کردہ حقوق (مثلاً انفرادی عبادات کی ادائیگی کی اجازت، جان و مال کی حرمت وغیرہم) کی روشنی میں کسی علاقے کی اسلامیت و کفر کو جانچنے کی غلط فہمی کا شکار ہوگئے۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے امن کا مطلب صرف جان و مال کا تحفظ ہی نہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ ایک فرد خود کو تمام حدود اللہ کی خلاف ورزی پر اکسانے والے ماحول سے بھی محفوظ و مامون پائے (مثلاً خود کو اس چیز سے محفوظ سمجھے کہ اس کی اولاد فحا شی کی طرف راغب ہو یا اسے سود لینا و دینا پڑے وغیرہ)۔ ظاہر ہے لبرل ریاست فرد کو یہ تحفظ فراہم نہیں کرتی۔ پس معلوم ہوا کہ شریعت اسلامیہ کے علاوہ کسی دوسری شے کی بنیاد پر قائم کردہ امن ہرگز معتبر نہیں کیونکہ امن کا مطلب صرف شریعت کے عطا کردہ حقوق کو محفوظ و نافذ کرنا ہے۔ شریعت کے علاوہ حقوق کی کسی دیگر تفسیر (مثلاً ہیومن رائٹس) کو محفوظ و نافذ کرنا درحقیقت ظلم و فساد فی الارض کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ شرعی حقوق کا تحفظ و نفاذ اسلامی ریاست ہی کرسکتی ہے، لہٰذا امن اسی وقت قائم ہوسکتا ہے جب طاغوتی ریاست معطل ہوکر اسلامی ریاست قائم ہوجائے۔ جب تک ایسا نہ ہوگا امن قائم نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا موجودہ حالات میں قیام امن کے سلسلے میں علماء کرام کے کرنے کا ایک اہم کام انقلابی جدوجہد کی لیڈرشپ سنبھالنا ہے۔ 
یہ دعویٰ (۹) کرنے والوں کا مفروضہ یہ ہے کہ اسلام کا مقصد دنیا کی ہر ریاست (چاہے وہ کیسی ہی ہو) چلانے کے لیے پر امن اور وفادار رعیت فراہم کرنا ہے۔ گویا ان کے خیال میں اسلام محض چند عقائد اور اصول اخلاق کا نام ہے جو ہر نظام زندگی میں کھپ سکتاہے ۔ لیکن اگر معاملہ یہی ہوتا تو اسلام دیگر مذاہب سے کچھ مختلف چیز نہ ہوتا۔ اس کے برخلاف اسلام خود ایک نظام زندگی اور علمیت ہے جس میں عقائد، عبادات، اخلاقیات کے ساتھ ساتھ انفرادی و اجتماعی زندگی کے تمام معاملات سے متعلق احکام و قوانین بھی ہیں۔ پھر اسلا م کا اپنے بارے میں دعوی یہ نہیں کہ میں بہت سے تصورات حق میں سے ایک حق ہوں بلکہ وہ خود کو ’الحق‘ (the truth)کہتا ہے، یعنی وہ پورے یقین کے ساتھ کہتا ہے کہ صرف میرا ہی نظام بر حق ہے اور اسی میں نوع انسانیت کی بھلائی و کامیابی ہے، نیز میرے علاوہ سب دعوتیں و نظام تباہی و بربادی کے راستے ہیں۔ (آل عمران: ۱۹، ۸۵؛ انعام: ۱۵۳) یہ بات تو ہر معمولی ذہن رکھنے والا شخص بھی سمجھتا ہے کہ دنیا کا کوئی صحیح الدماغ شخص جس شے کو حق اور جسے باطل گردانتا ہے ان دونوں کو کبھی اپنی زندگی میں مساوی حیثیت نہیں دیتا اور نہ ہی انہیں پنپنے کے برابر مواقع فراہم کرتا ہے، تو کیا اللہ کے دین ہی سے یہ امید لگائی جارہی ہے کہ ایک طرف تو وہ پوری قوت کے ساتھ اپنے لیے یہ دعویٰ کرے کہ صرف میں ہی حق ہوں، باقی سب باطل ہیں، نیز صرف میرا ہی راستہ حقیقی کامیابی اور نجات کا ضامن ہے، باقی سب جہنم و بربادی کے راستے ہیں ، لیکن اس کے بعد اس اصولی دعوے کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے معاشرے میں جہنم اور بربادی کی طرف لے جانے والی باقی تمام باطل قوتوں کا راستہ نہ صرف یہ کہ کھلا چھوڑ دے بلکہ ان کے فروغ کے لئے ہر قسم کی سہولتیں بھی فراہم کرے ؟ اگر واقعی اسلام ہی حق ہے تو یہ ماننا بھی ناگزیر ہے کہ اسلام زمین میں اپنے نظام کے علاوہ دوسرے نظامات زندگی کو مغلوب کرنے کا تقاضا بھی کرے۔ 
یہ بات ہی سراسر مہمل ہے کہ ایک نظام زندگی کو باطل بھی کہا جائے اور پھر اسکا غلبہ بھی برداشت کیا جائے۔ وہ صرف ایک فاتر العقل انسان ہی ہوسکتا ہے جو بیک وقت اپنے پیش کردہ نظام کو حق بھی کہے، اس کی پیروی کا حکم بھی دے، مگر ساتھ ہی اپنے ماننے والوں کو دوسرے باطل نظامات کے اندر پر امن وفادارانہ زندگی بسر کرنے کی تعلیم بھی دے۔ آخر دنیا میں وہ کون شخص ہے جو جس شے کو شر سمجھتا ہے پھر اسے پھیلنے کی مکمل آزادی اور حق بھی دے دے؟ ایسی بے وقوفی کی امید تو ایک عام انسان سے بھی نہیں کی جاسکتی چہ جائیکہ اس کی نسبت اللہ اور اس کے رسول کی طرف کرنے کی جسارت کی جائے۔ اسلام کا خود کو حق کہنا اور اس کی طرف پوری قوت سے دعوت دینا اس بات کو مستلزم ہے کہ وہ دوسرے نظامات کو ہٹا کر ان کی جگہ اپنا نظام اقتدار قائم کرنے کا مطالبہ کرے اور اپنے ماننے والوں کا طرہ امتیاز اسی کو قرار دے کہ آیا وہ اس جدوجہد میں جان و مال کھپا تے ہیں یا نہیں۔ اس معاملے میں یہ سوال ہی غیر اہم ہے کہ کفار ہماری اس جدوجہد کو برداشت کریں گے یا نہیں یا ہمیں غیر مسلموں کا تعاون حاصل ہوگا یا نہیں۔ 
بلاشک و شبہ اسلام امن و سلامتی کا حامی ہے مگر اس کی نگاہ میں حقیقی امن اور سلامتی وہی ہے جو نفاذ شریعت سے حاصل ہوتی ہے۔ جو کوئی اسلام میں امن و سلامتی کا مطلب یہ سمجھا کہ شیطانی و طاغوتی نظاموں کے زیر سایہ سارے کاروبار زندگی پورے اطمینان سے چلتے رہیں اور مسلمان کو خراش بھی نہ آئے، وہ اسلام کا نقطہ نظر بالکل نہیں سمجھا ۔ اسی لیے اقبالؒ نے فرمایا: 
چوں می گویم مسلمانم بلرزم
کہ دانم مشکلات لا الہ را 
(جن مسلم مفکرین کے خیال میں ’ہر حال میں قیام امن‘ اسلام کا اولین اصول ہے، وہ سرمایہ داری کو بطور ایک معاشرتی و ریاستی عمل اور ایک علمیت نہیں پہچانتے۔ ان مفکرین کے خیال میں حالت ’امن‘ گویا کسی نیوٹرل مقام کا نام ،ہے حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں، کیونکہ اصل سوال یہ ہے کہ ’امن کس اصول کی بالادستی و غلبے پر قائم ہوا ہے؟‘ یہ مفکرین اس سوال کا جواب نہیں دے سکتے کہ اگر واقعی ہر حال میں امن اسلام کا اولین اصول ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین مکہ کی درخواست کے باوجود صلح حدیبیہ کو کالعدم قرار دے کر مکہ پر حملہ کیوں کیا تھا؟ )۔ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام کو کفر و طاغوت کا قائم کردہ امن نہیں، بلکہ اپنا قائم کردہ امن مطلوب ہے اور اسی میں وہ انسان کی سلامتی دیکھتا ہے (۱۰) ۔ 
کفرو طاغوت کی بالادستی پر مبنی قیام امن کا مطلب صرف یہ ہے کہ نوع انسانیت اطمینان و سکون کے ساتھ جہنم کے راستے پر چلنے پر راضی ہوجائے اور مسلمان ٹس سے مس نہ ہوں۔ ظاہر ہے قیام امن کا یہ تصور اس مقصد ہی کے خلاف ہے جس کے لیے امت مسلمہ برپا کی گئی ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا: کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنہون عن المنکر ’’تم دنیا میں وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کی ہدایت کے لیے برپا کی گئی ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور بدی سے روکتے ہو‘‘۔ (آل عمران: ۱۱۰) ۔ معروف حدیث میں بیان ہوا: ’’تم میں سے جو شخص برائی ہوتے دیکھے تو اسے ہاتھ سے روک دے، اس کی استطاعت نہ ہو تو زبان سے روک دے، یہ بھی نہ کر سکتا ہو تو دل سے برا جانے، مگر یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔‘‘ حدیث سے معلوم ہوا کہ برائی کو ہاتھ سے روکنا ایمان کا سب سے اعلی درجہ ہے، وعظ و نصیحت کے درجے سے بھی زیادہ۔ جو لوگ محض نصیحت کو کافی سمجھتے ہیں، گویا وہ مسلمانوں کو ایمان کے اعلی درجے پر فائز ہونے سے منع کررہے ہیں۔ پھر یہیں سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اگر ہاتھ سے روکنے کی صلاحیت نہیں تو اسے حاصل کرنے کی کوشش کرو کیونکہ مومن تو ہمیشہ ایمان کے خوب سے خوب تر درجے کا ہی متلاشی رہتا ہے۔ گویا جو لوگ محض نصیحت و دعوت کے فلسفے کے قائل ہیں وہ امت کو ’دل سے برا جاننے‘ کی کیفیت سے اوپر اٹھا کر ’زبان سے برا کہنے‘ کے درجے پر لانے کے تو قائل ہیں مگر ’ہاتھ سے روکنے‘ کا درجہ دلانے کے انکاری ہیں۔ 

(۳.۶) اسلام دعوت و اصلاح کا مذہب ہے:

یہ دلیل بھی ایک قسم کی بے اعتدالی کا شاخسانہ ہے کیونکہ اس میں دین کے کسی ایک پہلو کو دیگر تمام پہلووں کی ضد کے طور پر باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے جو سراسر ظلم ہے۔ اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ دین اسلام میں دعوت و تبلیغ کی بہت اہمیت ہے، لیکن یہ بات ماننا بھی عقل کا تقاضا ہے کہ انسانی زندگی و معاشرت کی اصلاح کے لیے جس قدر اہمیت دعوت، تبلیغ و نصیحت کی ہے اسی قدر ضرورت جبر و تنظیم (structures and discipline) کی بھی ہے۔ دنیا کا ایسا کوئی معاشرتی و ریاستی ادارہ نہیں جو محض نصیحت کی بنیاد پر قائم و دائم رہ سکے۔ کیا نہیں دیکھتے کہ مدارس اسلامیہ جن کا مقصد ہی علوم دینیہ پڑھانا ہے، وہاں بھی طلباء و اساتذہ پر نصاب، دروس ، حاضری ، ٹائم ٹیبل، امتحانات وغیرہ کا ایک جبری نظام لاگو کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے کہ اگر یہ سب نہ ہو تو ’ادارہ ‘ چل نہیں سکتا۔ ظاہر ہے اس سب جبر و نظم کا مقصد اصلا ح ہی ہوتا ہے (اسی طرح والدین بچوں کی اصلاح کی خاطر ان پر جبر اور نظام اطاعت نافذ کرتے ہیں)۔ تو اگر ایک مدرسے میں طلباء کی اصلاح و تعلیم کے نظام کو جاری و ساری رکھنے کے لیے جبر (نظام اطاعت) کے بغیر چارہ نہیں، تو کیا یہ منطق عجیب نہیں کہ پورے معاشرے اور افراد کو کسی نظم اطاعت سے منسلک کیے بغیر ہی اصلاح کی امید کی جائے؟ ظاہر ہے جہاں اصلاح کے لیے جبر کی ضرورت ہے، وہاں محض نصیحت پر تکیہ کرنا کہاں کی عقلمندی ہے؟ یہ تو عجیب بات ہے کہ طاغوتی طاقتوں کو تو ہر قسم کی ریاستی قوت استعمال کرکے حق کے راستے مسدود کرنے کی اجازت ہو، مگر اہل حق محض نصیحت ہی پر کفایت کئے رکھیں؟ اگر نصیحت کافی ہے تو دنیا کی تمام درس گاہوں اور آفسوں سے حاضری ، امتحانات ، ٹائم ٹیبل وغیرہ کے نظاموں کو ختم کرکے وہاں محض واعظین کو بٹھا دینا چاہیے، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا کہیں نہیں ہورہا۔ تو آخر دین کے چاہنے والوں ہی کو یہ سبق کس نے پڑھا دیا ہے کہ جناب اصلاح کے لیے محض نصیحت کافی ہے؟ (یہ دلیل دینے والوں کا مضحکہ خیز فکری پہلو یہ ہے کہ ان کے نزدیک ’نفاذ شریعت بذریعہ قوت ‘ تو ناجائز ہوتی ہے مگر ’نفاذ آئین ‘ کے لیے ہر قسم کی فوج کشی و جبر عین جائز قرار پاتا ہے، فیا للعجب!)
اصلاح کے لیے محض نصیحت پر اکتفا کرنے والے مفکرین کا یہ مفروضہ غلط ہے کہ اسلامی انفرادیت کا سیاسی اظہار اور ترتیب اقتدار خودبخود رونما ہو جاتا ہے۔ (کئی مصلحانہ اسلامی تحریکات کا خیال ہے کہ اگر سب لوگوں کو اچھا مسلمان بنادو گے تو معاشرہ و ریاست خود بخود ٹھیک ہوجائے گا)۔ ظاہر ہے جب اسلامی علمیت کے تحفظ کیلئے شعوری طور پر ادارتی صف بندی عمل میں لانا لازم ہے، محض افراد کو اس کی اہمیت بتلا دینے سے کام نہیں چلتا تو اسلامی اقتدار کے قیام کے لیے مطلوبہ صف بندی سے صرف نظر کیسے کیا جاسکتا ہے اور اس کا ظہور خود بخود کیسے ہوجائے گا؟ اس میں کچھ شک نہیں کہ فرد کی اصلاح نہایت اہم کام ہے، مگر اس کی اصلاح کو ترتیب اقتدار کے ہم معنی یا ترتیب اقتدار کو اصلاح کا غیرشعوری منطقی نتیجہ سمجھنا بھی غلط ہے۔ پس دور حاضر میں اقتدار (نہ کہ محض حکومت) اور غلبے کے مسئلے پر دینی کام کو مربوط کرنے کی سخت ضرورت ہے کہ اگر یہ نہ کیا گیا تو کچھ نفوس کی انفرادی اصلاح تو ہوجائے گی، لیکن اس کے نتیجے میں کافر اقتدار کو نقصان نہیں پہنچے گا اور بالآخر اصلاح نفوس بھی مشکل ہوتا چلا جائے گا کیونکہ اصلاح کتنی ممکن ہے، اس کا انحصار واقعیت (facticity) کی ان معاشرتی و ریاستی جکڑ بندیوں پر ہوتا ہے جن سے ایک فرد دوچار ہوتا ہے۔ اسلامی انفرادیت کے فروغ کے لیے ایسی ترتیب اقتدار چاہیے جو واقعیت کو بدل دے اور اسلامی انفرادیت کے فروغ کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کردے۔ 

(۳.۷) دین کے تمام احکامات پر عمل کرنا کوئی مطلق حکم نہیں:

دور جدید کے چند مفکرین یہ استدلال عام کرنے کی کوشش بھی کررہے ہیں کہ دین کے احکامات پر عمل کرنا کوئی مطلق حکم نہیں ہوتا بلکہ یہ اضافی اور حالات کے ساتھ مقید ہوتا ہے۔ مثلاً گو کہ صاحب نصاب پر زکوٰۃ دینا اور صاحب استطاعت پر حج کرنا فرض ہے البتہ صاحب نصاب و استطاعت بننا کوئی شرعی فرض نہیں۔ یہی معاملہ دین کے اجتماعی احکامات کا بھی ہے کہ ان پر عمل بھی حالات کے تقاضوں کے ساتھ مشروط ہے۔ چنانچہ اگر حالات سازگار نہیں تو شریعت کا یہ کوئی حکم نہیں کہ مسلمان ساری شریعت لاگو کرنے کی فکر کریں، بلکہ ’حالات جس قدر اجازت دیں ‘ اسی پر اکتفا کرنا چاہیے۔ 
اس دلیل کا ممانعت خروج سے تعلق سمجھنے سے ہم بالکلیہ قاصر ہیں، کیونکہ زیر بحث موضوع یہ نہیں کہ کیا مسلمانوں پر ہر حالات میں ساری شریعت پر عمل کرنا ضروری ہے یا نہیں بلکہ یہ ہے کہ کیا مسلمانوں پر اپنے اجتماعی معاملات کو بمطابق شریعت بنانے کی ’کوشش کرنا‘ ضروری ہے یا نہیں؟ ظاہر سی بات ہے اپنے حالات (facticity) کو تبدیل کرنے کی جدوجہد کرنا اگر غیر ضروری ٹھہرے تو صرف انقلابی جدوجہد ہی نہیں بلکہ اصلاحی و دعوتی جدوجہد کرنا بھی ناجائز ٹھہرے گا، کیونکہ ان کا مقصد بھی فرد و معاشرے کے حالات تبدیل کرنے کی کوشش کرنا ہی ہے۔ نیز یہ بات بالکل واضح ہے کہ خروج کا مقصد بھی اجتماعی حالات کو تبدیل کرنے کے سوائے اور کچھ نہیں، تو اگر تبدیلی حالات کے لیے اصلاحی جدوجہد جائز ہے تو انقلابی جدوجہد کس دلیل شرعی سے ناجائز ہوئی؟ اگر یہ دلیل خروج کے خلاف معتبر مان لی جائے تو پھر ہر تبلیغی، دعوتی، تدریسی، اصلاحی جدوجہد کو آج سے بند کردیا جانا چاہیے۔ پھر اس دلیل کی رو سے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کی ساری جدوجہد ہی لایعنی قرار پائے گی کیونکہ آپ جس ماحول میں مبعوث ہوئے، وہاں تو توحید تک کا اقرار کرنا ممکن نہ تھا۔ پس اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ اپنے صحابہ کو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہنے کی تلقین کرنے کے علاوہ کبھی کوئی دوسرا حکم نہ دیتے کیونکہ حالات جو ٹھیک نہیں تھے! 
اس دلیل کا دوسرا کمزور پہلو یہ ہے کہ یہاں فرض کفایہ کو فرض عین کے ساتھ خلط ملط کردیا گیا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ حج کرنے کی استطاعت حاصل کرنا فرض عین نہیں، البتہ فقہا ء نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ حج کا بندوبست کرنا نیز اس کی ادائیگی فرض کفایہ ضرور ہے۔ چنانچہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سارے مسلمان حج ادا کرنا چھوڑ دیں، نیز اس کے بندوبست کا بھی کوئی انتظام نہ کریں تو کیا یہ شرع کو مطلوب ہے؟ ان حالات میں شریعت کا حکم کیا ہے؟ کیا ان حالات میں اگر مسلمان ’حج کا حکم مطلق نہیں ہے‘ کا سرٹیفکیٹ حاصل کرکے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہیں تو ان پر کوئی گناہ ہوگا یا نہیں؟ اسی بات پر امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور دیگر اجتماعی معاملات شرعیہ کے قیام کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے کہ یہ بھی فرض کفایہ ہیں جن کی عدم موجودگی میں ان کے بندوبست کی کوشش کرنا شرعی تقاضا ہے۔ 

(۳.۸) خروج کے لیے عوامی حمایت ضروری ہے:

انقلابی جدوجہد کے جواز کو پرکھنے کے لیے یہ انوکھا پیمانہ بھی قائم کرلیا گیا ہے کہ ’اگر کسی گروہ کے نزدیک خروج کی ضرورت ہے ، تب بھی اس گروہ کو عملاً خروج کرنے کی اجازت نہیں جب تک کہ اسے بڑی تعداد میں عوامی حمایت نہ حاصل ہو‘ ۔ یعنی آیا خروج کرنا ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ مخصوص گروہ نہیں بلکہ مسلمانوں کی اجتماعیت کرے گی اور جب تک ایسی عوامی حمایت حاصل نہ ہوجائے، اس وقت تک خروج کرنا ناجائز ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں عوامی حمایت خروج کے لیے بمنزلہ شرط ہے۔ 
ہم نہیں جانتے کہ خروج کے لیے ’عوامی تائید کی شرط‘ کس دلیل شرعی کی بنیاد پر اخذ کی گئی ہے۔ اصولیین جس شے کو ’شرط ‘ کہتے ہیں، اس کے لییجس درجے کی دلیل کی ضرورت ہوتی ہے، اگر ایسی کوئی دلیل ہے تو پیش کی جائے، ورنہ محض قیاسات اور تاویلات کی بنیاد پر کسی بات کو شرط قرار دینے کی اسلامی علمیت میں کوئی گنجائش موجود نہیں۔ ( درحقیقت اسے بدعت کہتے ہیں کہ دین میں ایسا اضافہ کرنا جس کی کوئی اصل و دلیل دین میں موجود نہ ہو)۔ فقہائے اسلام نے خروج کے لیے مناسب تیاری اور کامیابی کے امکانات کا ذکر تو کیا ہے لیکن عوامی تائید کی اس شرط کا سراغ جدید فقیہان امت کے سوا اسلامی علمیت میں کہیں نہیں ملتا۔ 
یہ ایک اصولی و بدیہی بات ہے کہ ہر جدوجہد کا فیصلہ کرنے کا حق اسی فرد اور گروہ کو ہوتا ہے جو اس کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، نہ کہ اس مجمع عام کو جو اس کا مخاطب ہے۔ اگر یہ اصول نہ مانا جائے تو پھر ہر دینی جدوجہد پر ہی سوالیہ نشان اٹھ کھڑا ہو گا۔ مثلاً: 
اس نوع کی بے شمار مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ چنانچہ اگر یہ انوکھا اصول مان لیا جائے کہ احیائے دین کی ہر جدوجہد شروع کرنے سے قبل عوامی تائید ہونا ضروری ہے تو سارے دینی کام نہ صرف یہ کہ غیر شرعی کہلائیں گے بلکہ کوئی دینی کام کبھی عملاً شروع ہی نہ ہونے پائے گا (کہ نہ نو من تیل ہو اور نہ رادھا ناچے)۔ اگر احیائے دین کے دیگر کام شروع کرنے کے لیے عوامی تائید ضروری نہیں تو خروج کس دلیل کی بنا پر اس اصول سے مستثنیٰ ہے؟ پس یہ انتہائی مضحکہ خیز بات ہے کہ جدوجہد شروع کرنے کا فیصلہ خود اس گروہ کے پاس نہیں جو اس کا داعی ہے بلکہ اس گروہ سے باہر کسی دوسرے ایجنٹ کے پاس ہونا چاہیے۔ 
ممکن ہے، اس بحث پر یہ کہا جائے کہ خروج کے عملی نتائج بہت دور رس اور وسیع ہوتے ہیں، لہٰذا جتنے لوگ اس سے اثر انداز ہوسکتے ہیں ان سب کی رائے شامل حال ہونا ضروری ہے۔ لیکن یہ بھی محض ایک عذر لنگ ہے۔ کیا کوئی عقلمند انسان یہ مان سکتا ہے کہ دعوتی، تبلیغی، تعلیمی و جمہوری جدوجہد دور رس و وسیع نتائج کی حامل نہیں؟ کیا جدوجہد کے ان منہاج نے موجودہ امت اور ہماری آنے والی نسلوں کی فکری و عملی جہات پر کسی قسم کے اثرات مرتب نہیں کیے ہیں؟ اگر کیے ہیں اور جیسا کہ امر واقعہ ہے تو اس خروج ہی کے اثرات اتنے بڑھا چڑھا کر کیوں بیان کیے جاتے ہیں؟ حقیقت تو یہ ہے کہ بشریات و سماجیات کا ادراک رکھنے والے حضرات جانتے ہیں کہ عملی انقلابی جدوجہد کے زیادہ تر اثرات وقتی (spontaneous) نوعیت کے ہوتے ہیں جبکہ اصلاحی دعوت مستقل و دیرپا اثرات کی حامل ہوتی ہے۔ تو اس اصول کے مطابق اگر خروج کے لیے عوامی رائے کوئی شرط ہے تو اصلاحی جدوجہد کے لیے اسے بدرجہ اولیٰ شرط ہونا چاہیے۔ 

(۳.۹) جہاد کے لیے ریاست کا وجود لازم ہے، لہٰذا اس کے بغیر کی جانے والی جدوجہد غیر اسلامی ہے (۱۱):

انقلابی جدوجہد کے خلاف یہ دلیل بکثرت دہرائی جاتی ہے، لہٰذا اس کا جائزہ متعدد جہات سے پیش کیا جاتا ہے: 
★  پہلی بات: جو حضرات یہ دلیل پیش کرتے ہیں ان پر لازم ہے کہ اس کے لیے قطعی شرعی دلیل قائم کریں ۔
★  دوسری بات: پھر جو حضرات یہ دلیل پیش کرتے ہیں، کیا ان کے نزدیک اسلامی ریاست کا قیام کوئی واجب شے ہے بھی یا نہیں؟ ان کی اکثریت یا تو غلط طور پر موجودہ سرمایہ دارانہ مسلم ریاستوں ہی کو اسلامی سمجھتی ہے اور یا پھر خلافت اسلامیہ کے قیام کو غیر ضروری اور اضافی شے قرار دیتی ہے۔ بھلا ایسے مفکرین کو تعمیر ریاست کے لیے انقلابی جدوجہد کا جواز کیوں کر سمجھ آسکتا ہے جو سرے سے اس کے قیام ہی کے قائل نہیں؟ 
★  تیسری بات: کیا دفاعی جہاد کے لیے بھی یہی شرط عائد کی گئی ہے؟ اگر ہاں تو نقل و عقل کی روشنی میں اسپر دلیل پیش کی جائے؟ 
★  چوتھی بات: کتب احادیث میں حضرت ابوجندلؓ اور ابو بصیرؓ کے بغیر اولی الامر مسلح کارروائی کرنے کی جو روایات درج ہیں، ان کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ 
★  پانچویں بات: کتب احادیث میں قتال کے لیے جہاں امام کا ذکر ہے (مثلاً: انما الامام جنۃ یقاتل من وراۂ یعنی امام ڈھال کی مانند ہے جس کے پیچھے رہ کر قتال کیا جاتا ہے) تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ جب امام عادل خود جہاد کررہا ہوتو اس کے ساتھ مل کر جہاد کرنا چاہیے۔ اس سے یہ کیسے ثابت ہوگیا کہ جب امام ہو ہی نہ، یا استعمار کا ایجنٹ ہو تو جہاد سمیت تمام امور اجتماعی (بشمول جماعت، جمعہ، قضاء، امربالمعروف ونہی عن المنکر) ساقط ہوجائیں گے؟ درحقیقت یہ حدیث تو امام عادل کے ساتھ مل کر قتال کرنے کا حکم بتارہی ہے، اسے ’امام عادل غیر حاضر‘ کے حالات پر کیسے منطبق کرلیا جائے؟ دوسری بات یہ کہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ امام تو اصل میں ہوتا ہی وہ ہے جس کے ساتھ مل کر قتال کیا جاتا ہے نہ کہ وہ جو قتال کو ساقط قرار دے۔ گویاحدیث ’جہاد بلا امام‘ نہیں ’امام بلا جہاد‘ کی مذمت بیان کررہی ہے۔ ظاہر ہے جو امام مسلمانوں کے بجائے استعمار کی ڈھال کا کام کررہا ہو، اس کا مسلمانوں کی امامت سے کیا لینا دینا؟ 
★  چھٹی بات: کیا شرائط کی رعایت کرنے کا اصول صرف جہاد کے لیے خاص ہے یا دین کی دیگر تمام اجتماعی صف بندیوں کو پرکھ کر انہیں ’دینی‘ قرار دینے کے لیے اپنانا بھی ضروری ہے؟ اگر ضروری ہے (جیسا کہ منطقی طور پر ہونا چاہیے) تو کیا ہماری ہم عصر بہت سے ایسی صف بندیاں جنہیں ہم ’دین‘ کا کام قرار دیتے ہیں، کیا وہ بھی ’غیر دینی‘ نہ ہوجائیں گی؟ پھر کیا شریعت نے جہاد کے علاوہ کسی اور معاملے پر کوئی شرائط عائد نہیں کیں؟ مثلاً پڑوس میں رہنے کی شرائط وغیرہ۔ کیا ہم نے تمام معاملات عین مطابق شریعت حل کر لیے ہیں؟ آخر جہاد ہی کی شرائط پورا کرنے پر اسقدر زور کیوں دیا جاتا ہے؟ 
★  ساتویں بات: کتب فقہ میں شرائط جہاد کے ضمن میں ریاست کا ذکر ملتا ہے یا امیر کا؟ اگر شرط امیر کی ہے تو کیا یہ شرط دور حاضر کے ہر جہاد میں پوری ہوتی ہے یا نہیں، خصوصاً طالبان افغانستان کے جہاد میں کہ انہوں نے تو ریاست بھی قائم کردی تھی؟ 
★  آٹھویں بات: اگر کہا جائے کہ امیر سے مراد تمام مسلمانوں کا مشترکہ امیر ہے تو اس صورت میں کیا ہر مسلم حکومت کا اعلان جہاد بھی غیر معتبر نہیں ہو گا کیوں کہ ہر ملک تمام مسلمانوں کی نہیں بلکہ مخصوص جغرافیائی حدود پر قائم ایک قومی ریاست ہی ہے اور اس کے حکمران تمام مسلمانوں کے حکمران نہیں مانے جاتے؟ 
★  نویں بات: پھر کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ قرآن میں جہاں استخلاف فی الارض کا مومنین سے وعدہ کیا گیا ہے، وہاں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ جب بھی انھیں زمین میں اقتدار حاصل ہوگا تو وہ چار کام کریں گے: اقامت صلوٰ ۃ ،زکوٰۃ کا قیام اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر (الذین ان مکنہم فی الارض اقاموا الصلوۃ واتوالزکوۃ وامروا بالمعروف ونہوا عن المنکر)۔ اسلامی ریاست کے یہ چار بنیادی فرائض قرآن میں بیان کیے گئے ہیں، چنانچہ اس آیت سے منکرین جہاد کی طرح کوئی منکر صلوٰۃ و زکوٰۃ یہ استدلال کرسکتا ہے کہ جناب زکوٰۃ وصلوٰۃ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر بھی ریاست کا فریضہ اور وظیفہ ہے، لہٰذا مسلمانوں پر یہ تمام کام بھی اسلامی ریاست کے قیام تک ترک کرنا لازم ہے۔ چونکہ اسلامی ریاست موجود نہیں ہے، لہٰذا مساجد تعمیر نہ کی جائیں، نیزنظام صلوٰۃ کا اہتمام بند کیا جائے، کیونکہ زکوٰۃ وصول کرنے والی ریاست نہیں ہے، لہٰذا زکوٰۃ بھی ساقط ہے اور ساتھ ہی ’منہاجی فلسفے‘ کی بنیاد پر یہ استدلال بھی پیش کردے کہ دیکھیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں مسجد کا کوئی اجتماعی بندوبست نہیں کیا اور نہ ہی کسی سے زکوٰۃ لی۔ اسی طرح اچھے کاموں کا حکم دینا اور برائی سے روکنے کا فریضہ بھی اسلامی ریاست کی سرپرستی اور موجودگی میں ہی اداکیا جاسکتا ہے، لہٰذا ان کاموں کو بھی ترک کردیا جائے۔ کیوں جناب، کیسا رہا یہ استدلال؟ 
اس مقام پر یہ کہنا بھی درست نہیں کہ ’کسی نظیر یا مثال کا سوفیصد انطباق نہیں ہوتا بلکہ کسی نسبت سے اُس کا اطلاق ہوتا ہے اور کسی پہلو سے نہیں بھی ہوتا۔ اُسوۂ حسنہ کو سامنے رکھتے ہوئے موجودہ حالات کی رعایت کے ساتھ عمل کرنا مقصود ہوتا ہے اور یہ عقل عام کی بات ہے‘۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر آج یہ فیصلہ ’کون‘ اور ’کس پیمانے ‘ کی بنیاد پر کرے گا کہ مقیس اور مقیس علیہ میں مماثلت و عدم مماثلت کن کن معاملات میں معتبر اور کن میں غیر معتبر مانی جائے گی؟ 
★  دسویں بات: چلیے، بطور بحث مان لیا کہ جہاد کرنے کا موزوں ترین طریقہ اس کا ریاست کے زیر سر پرستی ہونا ہی ہے۔ مگر سوال یہ نہیں کہ جہاد کرنے کا مثالی درست طریقہ کیا ہے، بلکہ یہ ہے کہ جب اسلامی ریاست سرے سے مفقود ہو یا وہ اتنی بزدل ہو کہ کفر کے غلبے کے مقابلے میں ذلت کی زندگی کو ترجیح دے یا کفر کی آلہ کار بن چکی ہو اور جہاد کرنے والوں کی مخالفت پر اتر آئے تو ایسی صورت حال میں کیا کرنا چاہیے؟ آپ کے خیا ل میں ہمیں صرف ریاست کو اس ذمہ داری کا احساس دلانا چاہیے، کیونکہ غیر ریاستی سطح پر ایسے کام کرنے سے بہت سی قباحتیں پیدا ہوتی ہیں، لیکن یہ طرز فکر صائب نہیں کیونکہ اس میں ایک طرح کا تضاد ہے۔ وہ ایسے کہ اگر ریاست بذات خود نفاذ شریعت اور اعلاء کلمۃ اللہ کے مقاصد سے دور اور طاغوتی نظام کی حامی ہو تو پھر کیا کیا جائے؟ یقیناًایسی صورت میں حکومت تبدیل کرنے کی جدوجہد کرنی چاہیے اور اس کے لیے دو میں سے ایک طریقہ اختیار کرنا ہوگا: (۱) پر امن جمہوری طریقہ، (۲) انقلابی طریقہ۔ پہلے طریقے سے ریاست کی تبدیلی نا ممکن ہے کیونکہ جمہوری سیاست سرمایہ دارانہ نظام اقتدار میں ضم ہوجانے کا دوسرا نام ہے ۔ اب رہ گیا دوسرا طریقہ تو وہ غیر ریاستی سطح پر قوت جمع کرکے کشت و خون کے انہیں موہوم خطرات سے ہو کر گزرتا ہے جو جہادی تحریکات کا حصہ ہوتے ہیں۔
★  گیارہویں بات: جہاد کے معاملے میں ریاست کو محض اس کی ذمہ داری کا احساس دلا دینا کافی نہیں، کیونکہ اگر اس طریقے کا اعتبار ہر معاملے پر کر لیا جائے تو دین کے بہت سے مصالح فوت ہو جائیں گے۔ مثلاً : 
(۱) لوگوں کے جان و مال کو حفاظت فراہم کرنا ریاست کا کام ہے، لیکن اگر پولیس خود چور، بے ایمان اور رشوت خور ہو اور لوگ اپنی جان و مال کی حفاظت کی خاطر پرائیویٹ سکیورٹی کا بندوبست کریں (جیسے ہمارے ہاں عام ہو گیا ہے) تو کیا یہ فعل غیر شرعی ہوگا؟ سب کو معلوم ہے کہ کراچی کی کئی سکیورٹی ایجنسیاں جعلی نکلیں، گارڈز نے لوگوں کے گھر، دوکانیں یہاں تک کہ بینک بھی لوٹ لیے اور کئی دفعہ یہ گارڈز لوگوں کو قتل تک کر دیتے ہیں۔ تو کیا ان مفاسد کی بنا پر پرائیویٹ سکیورٹی ناجائز ہو جائے گی؟ کیا لوگوں کا کام بس اتنا ہی ہے کہ وہ ڈاکووں سے اپنے بچاؤ کی تدبیر کرنے کے بجائے صرف بے ایمان پولیس افسروں کو اصلاحی دروس دلوانے کے لیے اچھے واعظ تلاش کرتے پھریں؟ 
(۲) اسی طرح لوگوں کے معاملات کو احکامات شرعیہ کے مطابق طے کرنے کے لیے نظام قضاء کا قیام بھی ریاست کی ذمہ داری ہے، لیکن جب ریاست نے یہ سرپرستی چھوڑ دی تو علماء نے نجی طور پر اور مدارس کی سطح پر فتووں کے ذریعے یہ کام سر انجام دیا ۔ سب جانتے ہیں اس طریقہ کار کے ذریعے بہت سے غلط فتوے جاری ہوئے جن کی وجہ سے کئی مفاسد سامنے آئے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا سب مفتیان کرام دارالافتاء بند کرکے سپریم کورٹ آف پاکستان میں نظام قضاء کے قیام کے لیے مقدمہ دائر کرکے اس کی پیروی کے لیے ایک قابل وکیل تلاش کرنا شروع کردیں؟
(۳) یہ بات عیاں ہے کہ نظام زکوٰۃ کے ثمرات تبھی ظاہر ہوتے ہیں جب حکومت اسے قائم کرے، لیکن جب ریاست ایسا نہ کرے تو کیا اس دلیل سے کہ بہت سے ٹھگ اور غیر مستحقین لوگوں سے زکوٰۃ لے اڑتے ہیں، افراد زکوٰۃ دینا بند کرکے محکمہ سی بی آر کو اس کام کی اہمیت کا احساس دلانا شروع کردیں؟ 
(۴) اور تو اور مسجدوں کا موجودہ ’مسجد کمیٹی‘ نظام کیا عین اسلامی ہے؟ سب کو معلوم ہے کہ جب سے مسجدیں بنانے کی کھلی آزادی ملی ہے، مسجدوں کو فرقہ بندی کے لیے استعما ل کیا جانے لگا ہے، باقاعدہ مسجدوں پر قبضے ہوتے ہیں، مسجدوں کے نام پر پلاٹوں پر قبضہ کیا جاتا ہے۔ تو کیا مسلمان ساری مسجدیں بند کرکے زرداری صاحب کو اقامت صلوٰۃ کی اہمیت بتلانے پر سارا زور صرف کردیں؟ 
اس قبیل کی اور بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں ۔ بات یہ ہے کہ ایک کام جب اپنے مثالی طریقے کے بجائے کسی دوسرے طریقے سے کیا جاتا ہے تو اس میں گوں نا گو ں خرابیاں پیدا ہونے کا اندیشہ بہر حال ہوتا ہے اور جہادی تحریکات کی جدوجہد کو بھی اسی پر قیاس کرلینا چاہیے۔ اس موقع پر اکثر لوگ کہتے ہیں کہ قتل کی صورت میں فرد کو خود قصاص لینے کے بجائے صبر کرنا چاہیے، لیکن عقل عام کہتی ہے کہ اگر ریاست قتل کرنے والوں سے اغماض کرنے کو نہ صرف یہ کہ اپنی مستقل پالیسی بنالے بلکہ ان کی پشت پناہی کرے تو افراد اپنے تئیں قصاص لینے پر مجبور ہوجائیں گے جس سے بہت سی خرابیاں جنم لیں گی اور پھر کسی مفتی کے فتوی دینے سے کام نہیں چلے گا۔ انسانی زندگی کسی جمود کا نام نہیں اور نہ ہی یہ خلا میں متشکل ہوتی ہے۔ جب حصول مقاصد میں مدد گار ایک قسم کی اکائیاں تحلیل ہوتی ہیں تو اس کی جگہ دوسری اکائیاں لازماً جنم لیتی ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ انسانی معاشرت ایک قسم کی اکائی ختم ہو جانے کے بعد ضروری مقاصد چھوڑ کر خلا میں معلق ہو جاتی ہے۔ پس جس طرح اسلامی علمیت کی حفاظت اور فروغ کیلئے مثالی ماحول یعنی ریاستی سرپرستی معدوم ہوجانے کے بعد علماء نے مساجد و مدارس کی سطح پر اس کا انتظام کیا ، اسی طرح دفاع و غلبہ امت کے آئیڈیل نظام کے ختم ہوجانے کے بعد مجاہدین اسلام نے اپنی بے مثال قربانیوں اور جہادی صف بندی کے ذریعے اس چراغ کو روشن رکھ کر احیاے اسلام کے مواقع زندہ رکھے ہیں۔ 

(۴) اسلامی قوت کا اظہار: چند قابل غور پہلو 

زیر نظر مضمون میں دور حاضر میں خروج کے جواز و اہمیت پر گفتگو کی گئی۔ اب ہم اس سوال پر چند نکات پیش کرتے ہیں کہ غلبہ و دفاع اسلام کا کام کرنے والی تحریکات کی جدوجہد برآور کیسے ثابت ہوسکتی ہے نیز اس قدر بڑے پیمانے پر جاری کام کے باوجود اسلامی قوت نظر کیوں نہیں آتی۔ مباحث مضمون کی روشنی میں ذیل کے نکات کو سمجھنے سے ان کا جواب مل جائے گا : 
★  جو لوگ موجودہ دور کے اصل چیلنج یعنی سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے جواب میں امت مسلمہ میں برپا جدوجہد کی ہمہ گیریت کا درست ادراک نہیں رکھتے، وہ معاصر جہادی جدوجہد کو اصلاحی جدوجہد کا متبادل و مد مقابل سمجھتے ہیں جبکہ درحقیقت یہ دونوں ایک دوسرے کا تکملہ ہیں۔ اصل بات یہ سمجھنے کی ہے کہ تبدیلی ریاست کے بہت سے طریقے اور سطحیں ہیں اور ان تمام طریقوں اور سطحوں کو آپس میں مربوط کرنے کی سخت ضرورت ہے، نہ کہ کسی ایک طریقے کو یکسر کالعدم قرار دے کر ترک کردینے کی۔ جان لینا چاہیے کہ سرمایہ دارانہ نظام فرد، معاشرے اور ریاست تینوں سطحوں پر اسلام کے ساتھ بر سر پیکار ہے، اور یہ اسلامی انفرادیت کو ہیومن بینگ، اسلامی معاشرت کو سول سوسائٹی اور خلافت اسلامی کو جمہوریت سے بدل دینا چاہتاہے۔ اب تک سرمایہ دارانہ استعمار کے جواب میں احیائے اسلام کے لیے بے شمار تحریکات برپا ہوئیں جن کے کام کو تقسیم کار کے اعتبار سے چارسطحوں پر دیکھا جاسکتا ہے: 
۱۔ مدرسین اور مزکی: ان کا بنیادی ہدف اسلامی علوم کا تحفظ اور اسلامی انفرادیت و تشخص کا فروغ ہے۔ ان کے بنیادی ادارے مسجد، مدرسہ اور خانقاہ ہیں ۔
۲۔ مبلغین اور مصلحین: ان کا بنیادی مقصد اسلامی معاشرت کا استحکام و فروغ ہے اور جو دینی تہذیبی روایات کے تحفظ و فروغ اور حلال کاروبار کے پھیلاؤ میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں ۔
۳۔ انقلابی: ان کا نقطہ ماسکہ ریاست کی اسلامی نہج پر اصلاح و قیام ہے اور یہ رائج شدہ نظام اطاعت میں مکمل تبدیلی کے خواہاں ہیں ۔
۴۔ مجاہدین: ان کا مرکزی نکتہ بھی تعمیر و غلبہ اسلامی ریاست ہے اور یہ استعماراور اس کے ایجنٹوں سے عسکری سطح پر بر سر پیکار ہیں اور طاغوتی طاقتوں کے پھیلاؤ کے مدمقابل مزاحمت پیدا کرکے اسلامی ریاستوں کے قیام کے مواقع فراہم کررہے ہیں ۔
اول الذکر دو تحریکات دفاع امت جبکہ موخر الذکر دونوں غلبہ دین کی تحریکات ہیں۔ یہ تمام راسخ العقیدہ دینی گروہ پورے اخلاص کے ساتھ اپنے اپنے کام میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ البتہ ان کے کاموں میں ایک بنیادی کمزوری یہ ہے کہ یہ تینوں کام (فرد، معاشرے و ریاست کی تطہیر) ان معنی میں جدا جدا ہوگئے ہیں کہ تطہیر نفس اور اصلاح معاشرے کاکام وہ علماء ، صوفیا ء اور جماعتیں کررہی ہیں جو تعمیر ریاست کے کام سے بالکل لاتعلق ہیں، اسی طرح تعمیر ریاست اور جہاد کا کام وہ جماعتیں کررہی ہیں جن کے پاس بالعموم تطہیر قلب کا کوئی واضح ضابطہ موجود نہیں۔ نتیجتاً تطہیر قلب کا کام محض تبلیغ و تطہیر اور ریاست کا کام محض قتال یا جمہوری عمل بن کر رہ گیا ہے۔ تقریباً ہر اسلامی گروہ اور جماعت اپنے کام کو دوسرے اسلامی گروہ کے کام کا متبادل (substitute) اور اس سے اعلیٰ و ارفع سمجھتی ہے جبکہ حقیقتاً ان کے درمیان تعلق ایک دوسرے کے تکملے (complementarity) کا ہے اور ان تینوں میں سے کسی دینی کام کو دوسرے دینی کام پر کوئی اقداری فوقیت حاصل نہیں۔ اصل ضرورت کسی ایک طریقے کو چھوڑدینے، یا نئے دینی کام کو شروع کرنے یا ایک دینی کام کو چھوڑ کر کسی دوسری دینی جماعت میں ضم ہوجانے یا کوئی ایسی نئی دینی جماعت بنانے کی نہیں جو سب کام کرے، کیونکہ الحمد للہ مختلف انفرادی دینی جماعتوں کا کام مل کر مطلوبہ مجموعی دینی کام کی کفایت کرتا ہے۔ اصل ضرورت موجودہ دینی تحریکات کے کام میں ارتباط پیدا کرنے کی ہے۔ ہر دینی گروہ اس بات کو لازم پکڑے کہ اپنے کارکنان کو دوسری دینی تحریکات کا قدر دان بنائے اور ان کے ساتھ اشتراک عمل کرنے اور انکے مخصوص پہلووں سے فائدہ اٹھانے پر رغبت دلائے۔ جب تک اسلامی گروہوں میں اشتراک عمل کا یہ طرز فکر عام نہ ہوگا، دوسرے گروہ کے دینی کام کو برابر اہمیت نہ دی جائے گی اور مجموعی کام کو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط نہیں کیا جائے گا، انقلابی جدوجہد کا سہ جہتی (three dimensional) کام ادھورا ہی رہے گا۔ 
★  موجودہ دور میں خروج کا مقصد محض حکمران ٹولے کو تبدیل کرنا نہیں (جیسا کہ قرون اولیٰ میں تھا، کیونکہ نظام اسلامی تھا) بلکہ پورے ریاستی نظم کو تبدیلی کرنا ہے، کیونکہ جمہوری ریاست شخصی نہیں ہوتی اور نہ ہی طاقت کے سر چشمے کو کسی ایک معین ادارے میں محدود کرنا ممکن ہوتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ایسی انقلابی جدوجہد برپا کی جائے جس کا مقصد اقتدار (نہ کہ محض حکومت ) کو متبادل اداروں اور افراد میں جمع کرکے موجودہ اداروں اور افراد کے اقتدار کو معطل کرنا ہو۔ جب تک ایسا نہ ہوگا، کوئی معنی خیز تبدیلی نہ آسکے گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ خروج صرف قتال تک محدود نہیں بلکہ اس کا مطلب اطاعت سے نکل کر متبادل نظم اطاعت (state within state) کے قیام کی کوشش کرنا ہے۔ گویا قتال لازماً خروج کا پہلا زینہ نہیں ہوتا، بلکہ خروج میں قتال کا وقت بھی آسکتا ہے جس کا فیصلہ حالات اور تیاری کی روشنی میں ہی طے کرنا ہوگا ۔
★  لہٰذا انقلابیوں کے لیے لازم ہے کہ وہ موجودہ نظام کا باریک بینی سے جائزہ لے کر اسے اچھی طرح سمجھیں تاکہ اپنی جدوجہد کو موثر طور پر مربوط کرسکیں۔ بصورت دیگر ایک چہرے کے بعد دوسرا چہرہ آتا چلا جائے گا مگر نظام نہیں۔ سب دیکھ سکتے ہیں کہ مملکت پاکستان میں فوج ، سیکولر سیاستدان یا دینی تحریکوں میں سے جو بھی حکومت میں ہو، نظام بہر حال جوں کا توں چلتا ہے ۔
★  انقلابی جدوجہد محض تخریبی عمل نہیں بلکہ تعمیری عمل کا نام بھی ہے، یعنی انقلاب کا مقصد صرف موجودہ نظام کو نقصان پہنچانا یا اسے تباہ کرنا نہیں ہوتا بلکہ متبادل نظام اطاعت تعمیر کرنا اور اس کے جواز و فروغ کا انتظام کرنا بھی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انقلابیوں کو اصلاحی تحریکات کے ساتھ اپنا کام مربوط کرنے کی سخت ضرورت ہے کیونکہ یہی تحریکات عوام الناس میں اقتدار کے جواز اور فروغ کا باعث بنتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کی صحیح معنی میں ’عوامی اسلامی تحریکات ‘ یہی اصلاحی تحریکات ہیں جو نچلی سطح تک اسلامی اقتدار کو سرایت کرانے میں انتہائی مفید کام سرانجام دے سکتی ہیں۔ ان اصلاحی تحریکات کے کارکنان اگر انقلابی تحریکات کے قدردان اور دست و بازو بن جائیں تو ایسی قوت جمع کی جاسکتی ہے جس سے کفر کے ایوانوں میں لرزا طاری ہوجائے۔ لہٰذا ان اصلاحی تحریکات کے ساتھ اشتراک عمل کا رویہ اپنائے بغیر انقلابی تحریکات کے لیے کوئی بڑی اور پائیدار ریاستی تبدیلی حاصل کرنا قریب قریب ناممکن ہے ۔
★  دفاع اسلام کا کام کرنے والی اصلاحی تحریکات کو بھی جان لینا چاہیے کہ محض نصیحت کے زور پر ریاستی اداروں کا جبر ختم کرنا ممکن نہیں ہے بلکہ انہیں اپنے کام کو انقلابی تحریکات کے ساتھ مربوط کرنا ہوگا۔ جب تک دفاع کے کام کو غلبے کے کام سے مربوط کرکے قوت یکجا نہیں کی جائے گی، اصلاح کا دائرہ بھی سکڑتا چلا جائے گا ۔
★  اسلامی تحریکات کو ایک دوسرے کی نیتوں پر شک کرنے، اپنے درمیان مسالک کی بنیاد پر تفریق پیدا کرنے یا دوسرے کے کام کو غیر ضروری یا کم اہم کہنے کے بجائے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ سب کے سب ایک بہت بڑے کام کے مختلف حصوں کا کام سرانجام دے رہے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے (۱۲) جیسے کوئی بہت بڑی تصویر بنانے کا کام جاری ہے، جسے پورا کا پورا بنانا کسی ایک فرد کے بس سے باہر ہے۔ ایسی صورت حال میں دوسرے کے کام پر تنقید کرنے کے بجائے ہر شخص و گروہ کو اپنے حصے کا کام کرڈالنا چاہیے کہ جب تک یہ سب چھوٹے چھوٹے کام نہیں ہوں گے، تب تک مکمل تصویر سامنے نہیں آئے گی۔ اور اگر مکمل تصویر بنتی دکھائی نہیں دیتی نہ سہی، اللہ تعالیٰ کے ہاں کامیابی کا پیمانہ تصویر مکمل کرنا نہیں بلکہ اس میں پورے خلوص کے ساتھ اپنا حصہ ڈال دینا ہے اور بس۔ یا اسکی مثال ایسے ہے جیسے کوئی نہایت بلند و بالا اور عالی شان عمارت کا کام جاری ہے جہاں کچھ لوگ صفائی کے کام، کچھ دیواریں بلند کرنے، کچھ فرش بنانے، کچھ لکڑی کے کام اور کچھ رنگ و روغن وغیرہ میں مصروف ہیں۔ اگر ان میں سے ہر گروہ اپنے کام کو دوسرے کا متبادل یا دوسرے کے کام کو غیر ضروری سمجھ کر اسے بند کرانے کی کوشش کرے گا تو بھلا یہ عمارت کیسے قائم ہوسکے گی؟ اگر عمارت کا فرش بنانے والے مزدوروں نے عمارت کی دیواریں کھڑی کرنے والے مزدوروں کی ضروریات کا خیال نہ رکھا تو اسلامی نظام زندگی کی عظیم الشان عمارت کس طرح کھڑی کی جا سکے گی؟ پس یہ عمارت کسی ایک فرد، جماعت یا مسلک نے اکیلے نہیں بلکہ سب نے مل کر بنانی ہے۔ 
پھر یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ جس طرح ان ’مختلف دینی‘ کاموں میں ’کم اور زیادہ اہم ‘ کا سوال لایعنی ہے، اسی طرح ان کی ’تقدیم و تاخیر ‘ کا سوال بھی غیر اہم ہے۔ اسلامی انقلاب کا کام ایک مسلسل عمل (process) ہے، اسی لیے اداروں (institutions) کا قیام ناگزیر ہے جو ایک مستقل عمل کو چلاتے رہیں اور ہمیشہ نیتیں بھی ٹھیک ہوتی رہیں، ہمیشہ حال بھی درست ہوتا رہے، ہمیشہ لوگ اپنے معاملات بھی ٹھیک کرتے رہیں اور ہمیشہ جہاد بھی جاری و ساری رہے۔ یہ سب بیک وقت کرنے کے کام ہیں۔ ان میں پہلے اور بعد یا زیادہ اہم اور کم اہم کا سوال نہیں ہے۔ کیا نہیں دیکھتے کہ کسی معاشرے میں جب تعلیم کو عام کرنا ہو تو وہاں اسکولوں کی تعمیر، اساتذہ کی تربیت، بچوں کی تعلیم، ماں باپ میں تعلیم کی اہمیت کے احساسات کا فروغ ، نصاب کی تعمیر و تطہیر ، ریاستی تعلیمی پالیسی کا وضع کرنااور اس کی پشت پناہی کے لیے مناسب قانونی انتظام کا بندوبست وغیرہ سب پر ایک ساتھ توجہ کی جاتی ہے۔ یہاں پہلے اور بعد کا سوال غیر اہم ہے کہ پہلے ’ایک دینی کام یا مرحلہ ‘ سر ہوجائے پھر دوسرا کام شروع کیا جائے گا، کیونکہ معاملہ یہ ہے کہ ’سب جماعتوں کا کام سب جماعتوں پر منحصر ہے‘ اور کسی ایک کا عدم وجود دوسرے کے عدم وجود کا پیش خیمہ ہے۔ اگر کسی ایک جماعت نے کوئی خیر جمع کر لیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جو بظاہر غلطی پر نظر آرہے ہیں انہوں نے دین کے بعض اہم شعبوں کو سنبھال رکھا ہے اور اس طرح انہوں نے آپ کو یہ موقع دیا ہے کہ آپ دوسرے کاموں سے مطمئن و یکسو ہو کر اپنا کام کر سکیں۔ 
★  تحریکات اسلامی کے درمیان اشتراک عمل کی ضرورت اس وجہ سے بھی بڑھ جاتی ہے کہ کوئی ایک جماعت سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں دین کا سارا کام اپنے زور بازو سے کرنے کی صلاحیت نہ تو رکھتی ہے اور نہ ہی ایسا کرنے کی متحمل ہو سکتی ہے۔ ہر جماعت صرف وہی کام کرسکتی ہے، اور اسے وہی کرنا چاہیے جس کے لییے اس نے خود کو تاریخی طور پر مخصوص انداز سے منظم کیا اور اپنے افراد کو اس کے لیے تیار کیا ہے، اس جماعت سے کسی دوسرے کام کی توقع رکھنا عبث ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ ایک بڑھئی سے یہ امید رکھیں کہ وہ رنگ و روغن کا کام بھی سر انجام دے، ظاہر ہے اس نے خود کو اس کام کیلئے تیار ہی نہیں کیا۔ افراد کی طرح یہی حال جماعتوں کا بھی ہوتا ہے، ہر جماعت خود کو ایک مخصوص کام کیلئے منظم کرتی ہے اور اس کے اختیار کردہ تعلقات کی وہ مخصوص ترتیب اسی مقصد کو سر انجام دینے کے لیے ہی ممد و مددگار ہوتی ہے۔ چنانچہ مجاہدین کی تنظیمیں عوام کی اصلاح کا کام نہیں کرسکتیں کیونکہ اپنی تنظیم سازی میں وہ اس کام کے لیے کو ئی مہارت پیدا نہیں کرتیں، یہ کام تو وہی تحریکیں سر انجام دیں گی جنہوں نے اس کے لیے خود کو خوب تیار (specialize) کیا۔ اسی طرح مصلحانہ تحریکوں سے یہ شکوہ کہ وہ قتال کیوں نہیں کرتیں یہ بھی ایک ناقابل عمل خواہش ہے کیونکہ انہوں نے خود کو اس کے لیے تیار کیاہی کب تھا، البتہ وہ جہاد کے کام کا عوامی جواز اور بالائی سطح پر قائم ہونے والے اسلامی اقتدار کو محلے، بازار اور مسجد (grassroot level) تک توسیع دینے میں مہارت تامہ رکھتے ہیں۔ پس انہیں یہی کام کرتے رہنا چاہئے، کیونکہ مجاہدین یہ کام ہرگز نہیں کرسکتے۔ 
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اصلاحی تحریکیں عوام کو مسجد تک کھینچ لانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں، لیکن اس سے آگے کا لائحہ عمل ان کے پاس نہیں، مگر جو ’آگے کا لائحہ عمل ‘ رکھتے ہیں، وہ عوام کو مسجد لانے کے ماہر نہیں۔ نتیجتاً مسجد آنے والا مخلص مسلمان ادھوری بات سن کر رہ جاتا ہے اور آگے والے اس عوام کو مخاطب بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں جو مسجد ہی کم آتے ہیں۔ کیا اسلام کا پیغام ’مسجدکے اندر والے‘ کو سمجھانا آسان ہے یا اسے جو مسجد کا رخ ہی نہیں کرتا؟ تو اگر یہ مسجد لانے والے اور مسجد سے آگے لے جانے والے مل جائیں تو کتنی قوت جمع کی جاسکتی ہے؟ اگر ان دونوں طرح کے کام کرنے والی جماعتوں کے کارکن دونوں جماعتوں کے نمائندے بن جائیں تو بھلا منزل کتنی دور ہے؟ بات یہ ہے کہ سب کو اپنا اپنا کام اس طرح کرنا ہے کہ دوسرے کے کام کو تقویت ملے، کسی کو اپنا کام چھوڑنے کی ضرورت نہیں۔ دیکھئے حضرت ابو ہریرہؓ نے ساری زندگی حدیث پڑھائی، مگر جہاد نہ کیا۔ اس کے برعکس خالد بن ولیدؓ ساری عمر گھوڑے کی پیٹ پر ہی سوار نظر آئے، مگر حدیث نہ پڑھائی؛ لیکن کیا کبھی کسی سے خالد بن ولیدؓ کا یہ شکوہ سنا کہ ’ابو ہریرہؓ کو تو دیکھو، بیٹھا حدیثیں سناتا رہتا ہے، کبھی جہاد تو کرتا نہیں‘، یا کسی نے ابو ہریرہؓ کا یہ قول سنا کہ ’خالدؓ بھی کوئی عاشق رسول ہے کہ آپ کی حدیث سے کوئی شغف ہی نہیں رکھتا‘؟ اصل یہ ہے کہ ابو ہریرہؓ ساری عمر جہاد کی فضیلت اور اس سے متعلق حدیثیں سناتے رہے اور خالد بن ولیدؓ حفاظت دین کے لیے علم حدیث کی اہمیت کے قائل رہے۔ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ کہا : ’’میرے صحابہ تو ستاروں کی مانند ہیں، جس کسی کی اتباع کرو گے ہدایت ہی پاؤ گے۔‘‘ پس آج اس اسوہ صحابہ سے سبق لینے کی سخت ضرورت ہے ۔
★  اسی طرح مدارس میں اسلامی علوم سکھانے والے علماء کرام کا کردار بھی بھولنا نہ چاہیے کہ یہی وہ طبقہ ہے جس نے اسلامی علمی ورثہ کو بعینہ اپنی اصل صورت میں محفوظ کیا ہے اور بیسویں صدی میں جمع کیا جانے والا یہ اتنا بڑا خیر ہے جسے شاید عام عقل سمجھ ہی نہ پائے۔ اصلاحی و انقلابی تحریکیں کامیاب ہو بھی جائیں، لیکن اگر اسلامی علوم ہی محفوظ نہ ہوں تو ریاستی عمل کو شارع کی رضا کے مطابق چلانے اور قائم رکھنے کی سرے سے کوئی بنیاد ہی باقی نہ رہے گی۔ درحقیقت علماء کرام ہی اس لائق ہیں کہ وہ ’ہر محاذ‘ پر امت کی راہنمائی اور سرپرستی فرمائیں، کیونکہ انبیاء کے وارث تو بس وہی ہیں اور انبیاء کے مشن (لیظہرہ علی الدین کلہ) کو توڑ چڑھانے کا یہ قرض سب سے زیادہ انہی کے کاندھوں پر ہے۔ جب تک وہ ایسا نہ کریں گے، یہ قرض ادا ہونے والا نہیں، چاھے کوئی کتنا ہی زور لگا لے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ کسی علاقے میں کوئی وبا پوری طرح پھیل گئی (جیسے ڈینگی) مگر ڈاکٹروں نے علاج کی ذمہ داری سے ہاتھ کھنچ لیا ۔ ایسے میں چند خیرخواہ لوگ آگے بڑھ کر لوگوں کی بیماری کم کرنے کے لیے دوا دارو کا بندوبست کرنے لگے، مگر چونکہ وہ علم طب کے ماہر نہیں اس لیے یا تو وہ غلط علاج کریں گے اور یا پھر ادھورا علاج۔ جب تک علم طب کا ماہر اس کام پر کمر بستہ نہ ہوگا، وبا سے چھٹکارا نا ممکن ہے، چاہے کتنے ہی خیر خواہ کیوں نہ جمع ہو جائیں۔ پس علماء کی مثال ماہر طبیب کی ہے اور سرمایہ دارانہ نظام وہ وبا ہے جس نے امت کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور علماء کی قیادت سے محروم دینی جماعتیں امت کے خیر خواہوں کی مانند ہیں جو اپنی اپنی سمجھ کے مطابق پورے خلوص کے ساتھ علاج تجویز کررہے ہیں، اگر وہ طبقہ میدان میں آجائے جو دین متین کے مقاصد اور شارع کی رضا معلوم کرنے کا اہل ہے تو وبا کا علاج کچھ دور نہیں۔ پھر اس طبقے کو یاد رہنا چاہیے کہ جب تک اظہار دین کا یہ فریضہ وہ سرانجام نہیں دیں گے، اس وقت تک جہاں نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کا قرض ان کے ذمے باقی رہے گا، وہیں اسلامی علوم کے تحفظ، جس پر انہوں نے خود کو معمور کررکھا ہے، اس کا اصل مقصد (یعنی ان کی معاشرتی و ریاستی بالادستی ) بھی پورا نہ ہوسکے گا ۔
ہذا ما عندی، واللہ اعلم بالصواب ۔

حواشی: 

(۱) سرمایہ دارانہ نظام ریاست کی ہئیت سمجھنے کے لیے دیکھئے ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری صاحب کا نہایت قیمتی و اہم مضمون ’’لبرل سرمایہ دارانہ ریاست‘ ‘ ، مشمولہ کتاب ’’جمہوریت یا اسلام‘ ‘۔
(۲) لبرل اور آمرانہ جمہوریتوں کا فرق، ان کے وجہ جواز اور برائے نام اسلامی ریاستوں کی حقیقت سمجھنے کے لیے دیکھیے فرید زکریا کی کتاب Future of Freedom ۔
(۳) ان کی مختصر وضاحت کے لیے دیکھئے راقم کا مضمون ’’اسلامی خلافت اور موجود ہ مسلم ریا ستوں کا تاریخی تناظر میں موازنہ‘ ‘، مشمولہ کتاب ’’جمہوریت یا اسلام‘‘۔
(۴) ہیومن رائٹس کی تفصیلی وضاحت نیز اسلامی تعلیمات میں اس کے جائزے کے لیے دیکھئے راقم الحروف کا مضمون ’’جدید اعتزال کے فکری ابہامات کا جائزہ‘‘ ، ماہنامہ محدث نومبر ۲۰۰۹۔ نیز جمہوری ریاست کے اندر اسلامی جدوجہد کی لایعنیت سمجھنے کے لیے دیکھیے ہمارا مضمون ’’جمہوریت اور اس کے تناظر میں برپا اسلامی جدوجہد کا تنقیدی جائزہ‘‘ ، مشمولہ کتاب ’’جمہوریت یا اسلام‘‘۔ 
(۵) انقلابی تحریکات کے لییے قدرے نرم گوشا رکھنے والے مفکرین و علماء کا بھی یہ خیال ہے کہ یہ تحریکیں علمی و نظریاتی نہیں، بلکہ منافق قسم کے مسلم حکمرانوں کے خلاف انتقام ، ناامیدی و غصے کے جذبات کا (ناجائز) اظہار ہیں، حالانکہ یہ تجزیہ محل نظر ہے۔ کیونکہ جس طرح انیسویں صدی کے مخصوص حالات میں علمائے کرام کا سیاسی صف بندی سے کنارہ کش ہوکر مدارس کی سطح پر اسلامی علوم کو محفوظ کرنے کا فیصلہ خالصتاً علمی و نظریاتی (اور الحمد للہ کامیاب) اجتہاد تھا، بالکل اسی طرح بیسویں صدی میں انقلابی و جہادی تحریکات کا زور پکڑنا بھی ایک شعوری و نظریاتی اجتہادی فیصلہ ہے۔
(۶) مثلاً دیکھئے تفسیر ابن جریر سورۃ بقرۃ ۲۵۶، ابن کثیر سورۃ نساء۔ ماضی قریب کے تقریباً تمام روایت پسند مکاتب فکر کے مفسرین نے اس سے یہی مراد لیا ہے ۔
(۷) البتہ مسلمانیت کے فرق کی بنا پر دونوں کے فقہی معاملات میں یقیناًفرق کیا جائے گا، مثلاً یہ کہ مسلمانوں کو غلام نہیں بنایا جائے گا اور نہ ہی ان کے اموال کو مال غنیمت سمجھا جائے گا وغیرہ ۔
(۸) فائدوں اور نقصان کے تناظر پر حامد کمال الدین صاحب نے اپنے مضمون ’’معاصر جہاد اور کچھ عمومی اشکالات‘‘ میں بہت عمدہ بحث کی ہے، دیکھیے ماہنامہ ایقاظ جولائی تا دسمبر ۲۰۱۱۔ یہ نکتہ اسی سے اخذ کردہ ہے ۔
(۹) یہ نکتہ مولانا مودودی مرحوم کے مضمون ’’اسلام کا تصور رواداری‘‘ سے لیا گیا ہے ۔
(۱۰) منکرین خروج درحقیقت لبرل مغربی مفکرین کے اس جھوٹے دعوے سے مرعوب ہیں کہ لبرل سیکولر ریاست خیر کے معاملے میں غیر جانبدار اور اسی لیے Tolerant ہوتی ہے اور وہ ہر خیر کے پنپنے کے مساوی مواقع فراہم کرتی ہے؛ لہٰذا ہم لوگوں کو بھی جمہوری طریقوں سے اسلامی مطالبات منوانا چاہیے ۔ یہ بنیادی طور پر ایک باطل دعویٰ ہے کیونکہ خیر کے معاملے میں غیر جانبداری کا رویہ ممکن ہی نہیں۔ مختصراً یہ کہ لبرل جمہوری ریاست بھی ایک مخصوص تصور خیر کو تمام دیگر تصورات خیر پر بالاتر کرنے کی ہی کوشش کرتی ہے اور وہ تصور خیر آزادی ہے، یعنی یہ تصور کہ تمام تصورات خیر مساوی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہنا کہ تمام تصورات خیر مساوی ہیں، غیر جانبداری کا رویہ نہیں بلکہ بذات خود خیر کا ایک مستقل مابعد الطبعیاتی تصور ہے کہ ’’اصل خیر تمام تصورات خیر کا مساوی ہونا ہے‘‘، اور اسی تصور خیر کے تحفظ اور فروغ کی لبرل جمہوری دستوری ریاست پابند ہوتی ہے۔ یہ سمجھنا کہ لبرل جمہوری ریاست کوئی tolerant ریاست ہوتی ہے ایک فریب ہے، کیونکہ اپنے دائرہ عمل میں یہ صرف انہیں تصورات خیر کو برداشت کرتی ہے جو اس کے اپنے تصور خیر (یعنی تمام تصورات خیر کی مساوات و لایعنیت ) سے متصادم نہ ہو، اور ایسے تمام تصورات خیر جو کسی ایک چاہت کو بقیہ تمام چاہتوں سے بالاتر سمجھ کر اس کی برتری کے قائل ہوں، ان کی بذریعہ قوت بیخ کنی کردیتی ہے جس کی مثال طالبان کی حکومت پر بمباری سے عین واضح ہے۔ درحقیقت خیر کے معاملے میں لبرل جمہوری ریاست بھی اتنی ہی dogmatic (راسخ العقیدہ ) اور intolerant (ناروادار) ہوتی ہے جتنی کوئی مذہبی ریاست کیونکہ دونوں ہی اپنے تصورات خیر سے متصادم کسی نظریے کی بالادستی کو روا نہیں رکھتیں۔ خوب یاد رہے کہ تمام تصورات خیر کی لایعنیت کا مطلب غیر جانبداری نہیں بلکہ مساوی آزادی (سرمائے کی بالادستی) بطور اصل خیر کا اقرار ہے۔ یہ اسی کا مظہر ہے کہ پختہ (matured) جمہوری ریاستوں میں ارادہ انسانی یعنی اس کے حق کی بالادستی تمام تصورات خیر پر غالب آجاتی ہے اور کسی مخصوص خیر کی دعوت دینا ایک لایعنی اور مہمل دعوت بن کر رہ جاتی ہے۔ ایسی ریاستوں میں آپ کسی مخصوص خیر (مثلاً مذہبیت) کے اظہار کو ’’بطور ایک حق‘‘ کے پریکٹس (Practice) تو کرسکتے ہیں مگر اسے دیگر تمام تصورات خیر اور زندگی گزارنے کے دوسرے طریقوں پر غالب کرنے کی بات نہیں کرسکتے کہ ایسا کرنا ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی ہے۔
(۱۱) اس جواب کے بہت سے نکات ماہنامہ ایقاظ جولائی تا دسمبر ۲۰۱۱ کے مضمون ’’معاصر جہاد اور کچھ عمومی اشکالات‘‘ سے حاصل کیے گئے ہیں۔
(۱۲) یہ مثال بھی حامد کمال الدین صاحب کے مضمون ’’معاصر جہاد اور کچھ عمومی اشکالات‘‘ سے حاصل شدہ ہے۔

غلط نظام میں شرکت کی بنا پر تکفیر کا مسئلہ ۔ خطے کے موجودہ حالات کے تناظر میں

مولانا مفتی محمد زاہد

خروج اور تکفیر کے حوالے سے علمائے امت میں ہمیشہ سے کئی ایشوز زیر بحث رہے ہیں۔ آج کل کے حالات کے تناظر میں بالخصوص ہمارے خطے کے تناظرمیں جوسب سے اہم سوال ہے وہ یہ ہے کہ ایک طبقے کے خیال میں پاکستان جیسے ملک نہ تودارالاسلام ہیں اورنہ اسلامی ریاست کہلانے کے قابل ۔اس طرح کے ملکوں کے نظام کفریہ ہیں،اس لئے ان میں حصہ لینے والے، ان کے مدداگار بننے والے ،یا ان کی حفاظت کرنے والے سب کے سب کفریہ نظام کاحصہ ہیں ،اس لئے وہ بھی کافرہیں۔ایک سوچ یہ بھی موجود ہے کہ ایسے لوگ واجب القتل ہیں ۔چنانچہ ایسے خاص طبقے کے لٹریچر میں پاکستان اورافغانستان کے ریاستی اداروں کے ملازمین کے لئے مرتد کالفظ بکثرت استعمال ہوتا ہے۔ ایسی تصریحات بھی ملتی ہیں کہ پاکستان کے آئین کی بعض غلطیاں صرف فسق نہیں ،کفر کی حدتک پہنچی ہوئی ہیں(۱)۔اس سوچ کا اس امر سے کوئی تعلق نہیں کہ کسی ملک پرکسی غیرمسلم فوج کاقبضہ ہے یانہیں ،اس لئے کہ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اوران کی اصطلاح میں ’’تحکیم بغیر ماأنزل اﷲ ‘‘کی وجہ سے انہیں اوران کے نظام میں شامل لوگوں کوکافر کہنے کی سوچ افغانستان اورعراق پرامریکی حملے سے پہلے موجود ہے ۔چنانچہ جماعۃ التکفیر والہجرۃ کے عنوان سے معروف جماعت ساٹھ کی دہائی میں جمال عبدالناصر کے اسلام پسندوں پربے پناہ تشدد اورمظالم کے ردّ عمل کے طورپر وجودمیں آئی ،ابتدامیں اس کوجوکچھ پذیرائی ملی وہ بھی زیادہ تر مصرکے علاقے صعید میں تھی ،خودمصرسے باہریہ سوچ بہت زیادہ قبولیت حاصل نہیں کرسکی(۲)۔
ہمارے خطے میں اس سوچ کوتقویت اس وقت حاصل ہوناشروع ہوئی جب امریکا کی سربراہی میں کئی ملکوں کی افواج نے افغانستان پر حملہ کرکے وہاں موجود مقامی لوگوں کی حکومت کوختم کردیااورحکومت کے خلاکوپرکرنے کے لئے ایک بڑے جرگے کے ذریعے افغانستان ہی کے ایک باشندے کوملک کاصدرمقررکیاگیا اوراس کی سربراہی میں افغانوں پر مشتمل ایک کابینہ معرضِ وجود میں لائی گئی،پھرباقاعدہ ایک آئین بناکر جس میں اسلامی دفعات بھی شامل ہیں انتخابات کرائے گئے ۔اب تک دومرتبہ انتخابات ہوچکے ہیں جن کی مصداقیت (crediblity)پرسوالات موجود ہیں۔افغانستان میں غیر ملکی افواج کی آمد سے پہلے مذکورہ تکفیری سوچ کو کسی بھی اسلامی ملک میں خصوصاً پاکستان اورافغانستان میں خاص پذیرائی نہیں ملی۔تاہم غیرملکی افواج کی موجودگی کی وجہ سے بہت سے نوجوانوں میں اس سوچ کوپذیرائی حاصل ہوئی ،اس لئے یہ کہاجاسکتاہے کہ ہمارے خطے میں موجود اس تکفیری سوچ کی پذیرائی کاافغٖانستان میں مغربی فوجوں کی موجودگی کے ساتھ گہراتعلق ہے ، اس لئے کہ نوجوانوں کاایک طبقہ اس سوچ کواجنبی افواج کے خلاف مزاحمت کاایک مظہر سمجھ رہاہے ،جبکہ بنیادی طورپر اس سو چ کاتعلق اس امر سے ہے کہ کیاکسی کی غلط پالیسی یا اس کا غلط عمل اسے دائرہ اسلام سے خارج کردیتاہے ؟ شاید یہ اندازہ درست ہوکہ خطے سے اجنبی افواج کے انخلاکے بعد بھی ’’تحکیم بغیر ماأنزل اﷲ ‘‘کے عنوان سے یہ تکفیری سوچ موجود رہے ،لیکن اس کی شدت اورپذیرائی میں ضرور کمی واقع ہوگی۔
جہاں تک اہل السنۃ والجماعۃ کے نقطۂ نظر کاتعلق ہے تواس کے مطابق کسی کوکافر یادائرہ اسلام سے خارج قراردینے کے لئے بہت سی سخت شرائط ہیں ۔اہل السنۃ الجماعۃ کاایک بنیادی اصول یہ ہے کہ کسی بھی کلمہ گو کواس کی بدعملی کی وجہ سے خواہ وہ کتنی ہی سنگین کیوں نہ ہواس کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج قرارنہیں دیاجاسکتا۔حضرت انسؓ کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادنقل کیاگیاہے کہ آپ نے فرمایاکہ تین چیزیں ایمان کی جڑ (اصل) ہیں، ان میں سے پہلی بات ہے: الکف عمن قال لاإلہ إلااﷲ ،لانکفرہ بذنب ولانخرجہ من الإسلام بعمل(۳)۔ اس حدیث کی اسنادی حیثیت پر بات ہوسکتی ہے ،لیکن اس کایہ مضمون بہرحال اہل السنۃ ولجماعۃ کامسلمہ اصول ہے۔ کسی معاملے میں کسی بھی غلط طاقت کاساتھ دینا پالیسی کی غلطی ہوسکتی ہے ،اسے کسی حالت میں بہت بڑاگناہ بھی قراردیاجاسکتاہے ، لیکن اس کی وجہ سے ایسی پالیسی اختیارکرنے والادائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوگا۔یہ بات بھی بعض اوقات کہی جاتی ہے کہ کسی غلط پالیسی کا نفاذجبکہ اسے دستور کاحصہ بنالیاگیاہوبعض اوقات حرام کوحلال سمجھنے کے زمرے میں آتاہے ،اوراستحلالِ حرام کفرہے۔لیکن اس اصول کا اطلاق بھی اس صورت میں ہوتاہے جبکہ ایک توجس چیز کوحرام کہاجارہاہے اس کی حرمت بالکل قطعی ہو،دوسرے اس میں کسی تاویل کی گنجائش نہ ہو تیسرے متعلقہ شخص کی نیت واقعی حکمِ شارع کاانکار کرنے کی ہو۔پاکستانی دستورکے تناظر میں تاویل کے دیگر پہلوؤں کے علاوہ سامنے کی بات یہ ہے کہ اس دستوراوراس کی بنیادوں کوپاکستان کے جلیل القدر علمانے نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اس کے تحت کئی مرتبہ حلف بھی اٹھایا ۔ یہاں تکفیر کی بات خروج کے تناظر میں ہورہی ہے ۔حدیث کی روشنی میں خروج کے لیے کفربواح شرط ہے۔ کیادستورمنظورکرنے اورکرانے والے اوراس کے تحت حلف اٹھانے والے تمام جلیل القدر علماکوکفربواح کامرتکب یا کم از کم اس کا حامی یا اس کے بارے میں مداہنت کا مرتکب قراردے دیاجائے۔کیاشیخ الحدیث مولاناعبدالحق رحمہ اللہ بانی دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کو بھی، جوبہت سے مجاہدین اورطالبان راہ نماؤں کے شیخ یاشیخ الشیوخ ہیں، کفر بواح کاحصہ مان لیا جائے ؟
اس تکفیری سوچ پر اب تک بہت کچھ لکھاجاچکاہے ،بالخصوص عرب دنیامیں ،تاہم ہمارے خطے میں اس سوچ نے جونیاجنم لیاہے، اس کوسامنے رکھ کراس پرمزیدکام کی ضرورت ہے۔زیرنظر سطورمیں اس سوچ کا صرف ایک پہلوسے جائزہ لینے کی کوشش کی جائے گی اوروہ یہ کہ برِّصغیر میں مسلمانوں بالخصوص علماءِ اسلام کی جوسیاسی سوچ چلی آرہی ہے، اور جس اندازمیں انہوں نے پچھلی دوصدیوں کے دوران جدو جہد کی ہے، کیااس میں اس تکفیری سوچ کاکوئی سراغ ملتا ہے؟ یہ سوال ایک تواس لئے اہم ہے کہ برصغیر کے ان علماء کے پیشِ نظر جوصورتِ حال تھی، اس میں اصل مسئلہ حکام کی بے راہ روی کانہیں تھاجیساکہ جماعۃ التکفیر والہجرۃ کی جائے ولادت مصرمیں تھا ،بلکہ اصل مسئلہ غیر ملکی تسلط تھااوریہی نکتہ ہمارے خطے میں اس سوچ کی پذیرائی کاسبب بناہے ۔ دوسرے اس لیے کہ کسی نہ کسی اندازسے اس سوچ سے متاثر ہونے والے یااس کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے پرجوش نوجوانوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جوبرصغیر کی سیاسی جدوجہد میں حصہ لینے والے علما بالخصوص شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے لے کر جمعیت علمائے ہند سے وابستہ آخری دورکے اکابرتک سے والہانہ عقیدت ومحبت رکھتے ،انہیں سچا مجاہدِ اسلام شمارکرتے ،ان کے نام کے نعرے لگاتے اوران سے انسپائریشن لیتے ہیں ۔ان نوجوانوں کے نقطۂ نظر سے یہ سوال بہت زیادہ اہمیت رکھتاہے کہ امریکا اوراس کے اتحادیوں اورمسلمان ملکوں کے حکمرانوں کے حوالے سے پائی جانے والی آج کی سوچ کاان بزرگوں کی سوچ اورطرزِ عمل سے کوئی تعلق واسطہ بنتاہے یانہیں۔
آنے والی سطورمیں برصغیر کے علماکی اس جدوجہد کاجائزہ مندرجہ ذیل سوالات کی روشنی میں لیاجائے گا:
برصغیر کے علماکی سیاسی جدوجہد کاآغازشاہ عبدالعزیزؒ کے اس فتوے کوقراردیاجاتاہے جس میں انہوں نے ہندوستان کودارالاسلام کی بجائے دارالحرب قراردیااوراس کی تفصیلی وجوہات ذکرکیں ،جن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگرچہ برائے نام مغلیہ بادشاہت موجود ہے ،لیکن ان بادشاہوں کی عمل داری کہیں موجود نہیں ہے ،یہ کوئی حکم جاری نہیں کرسکتے ،یہ کوئی عزل ونصب کافیصلہ نہیں کرسکتے ،اصل عمل داری نصاری یعنی ایسٹ انڈیاکمپنی کی ہے ۔اس سلسلے میں شاہ عبدالعزیزؒ کے متعدد فتاوی موجودہیں(۴)۔ لیکن دلچسپ امریہ ہے کہ ان فتووں میں ہندوستان کودارالحرب قراردینے کے باوجود ان میں سے کسی بھی فتوے میں نہ تومسلمانوں کوانگریزوں کے خلاف جہاد کاکہاگیا ہے اورنہ ہی انہیں دار الحرب بن جانے والے ہندوستان سے ہجرت کرنے کامشورہ دیاگیا ہے ۔بحیثیتِ مجموعی ان فتاوی کامقصدیہ معلوم ہوتاہے کہ ہندوستان کی فقہی حیثیت متعین کی جائے ،اس لئے کہ جہاد کے علاوہ بھی کئی احکام کاتعلق اس فقہی حیثیت کے ساتھ ہے ،مثلاً فقہا کے ایک قول کے مطابق غیر مسلموں سے مسلمان کے سودلینے کا مسئلہ، جس کاذکر مذکورہ بالافتاویٰ میں سے متعدد فتاوی میں موجودبھی ہے۔ یہ کہنا کہ یہ فتوی انگریزوں کے خلاف جہاد ہی کی ایک تمہید تھی ایک تجزیہ توہوسکتاہے خودشاہ صاحب کے فتویٰ میں اس طرح کاکوئی اشارہ موجود نہیں ہے۔ بہرحال شاہ عبدالعزیزکا اس موقع پرہندوستان کے دارالحرب ہونے کے باوجود وجوبِ جہاد کافتویٰ صادرنہ کرنابلکہ جہادکاسرے سے تذکرہ ہی نہ کرناایک بہت بڑا سوال جنم دیتاہے۔ کیااس سے یہ نتیجہ اخذنہیں ہوتاکہ کم ازکم ولی اللٰہی خانوادے کی فکر کے مطابق یہ تاثردرست نہیں ہے کہ غیرملکی تسلط کے فوراًبعد علماکی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ حالات کے تمام پہلوؤں کاتجزیہ کئے بغیر فوری طورپر نہ صرف جہاد کی فرضیت بلکہ اس کے فرضِ عین ہونے کا اعلان کریں۔ آگے چل کرہم ذکرکریں گے ایک وقت ایسابھی آیاکہ علماء کی اسی لڑی نے جن کے نزدیک ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا یہ فتویٰ بنیادی اہمیت رکھتاتھا ۱۹۱۵ء اور۱۹۲۰ء کے درمیانی عرصے میں عسکری جدوجہد کوچھوڑ کرپرامن سیاسی اورآئینی جدوجہد کاراستہ اختیار کیا جس کامطلب اس بات کوتسلیم کرناہے کہ غیر ملکی تسلط کی صورت میں اس کے خلاف ہتھیار اٹھاناہی واحد آپشن نہیں ہے ،بلکہ شرعی لحاظ سے اوربھی راستے ممکن ہیں۔
یہاں جودوسرانکتہ قابلِ توجہ ہے وہ یہ ہے کہ ہندوستان تودارالحرب بن گیا ،لیکن کیوں بنا؟کس کی وجہ سے بنا،اس کے اصل ذمہ دار کون تھے؟ظاہر ہے کہ اس میں جہاں ایسٹ انڈیاکمپنی کی سازشوں ،چالاکیوں اورجبرکادخل تھاوہیں اس وقت کے مغلیہ بادشاہوں سمیت باستثنائے چند ،مسلمان حکمران بھی ذمہ دارتھے ،ایسٹ انڈیاکمپنی کو مراعات دینے بلکہ اس کی چاپلوسی کرنے میں مغلیہ بادشاہ پیش پیش تھے۔ انہوں نے کبھی بھی اس ابھرتی ہوئی طاقت کے بارے میں سنجیدگی سے نہیں سوچا۔۱۶۱۲ء میں جہانگیر نے اپنے تمام گورنرزاورفوجی حکام کوحکم جاری کیاکہ وہ ایسٹ انڈیاکمپنی کے لوگوں کوبلاروک ہرجگہ آنے جانے ،کاروبارکرنے اورصنعتیں لگانے کی اجازت دیں ،اس کے بدلے میں یہ طے ہواکہ کمپنی کے لوگ نوادرات اورقیمتی اشیاء بادشاہ کے محل کے لئے پیش کریں گے(۵)۔ سوال یہ ہے کہ کیااس زمانے میں یہ بحث اٹھی کہ ہمارے یہ حکمران چونکہ نااہل ،اپنی ذمہ داریوں سے ناآشناغیروں کے آگے گھٹنے ٹیکنے والے ان کے اشاروں پرناچنے والے او ر کٹھ پتلی ہیں اس لئے سب سے پہلے ان ’’منافقوں ‘‘کے خلاف ہتھیاراٹھاکران سے جان چھڑائی جائے۔ یہاں اختصار کے پیش نظر بات مخصوص تناظر میں ہورہی ہے وگرنہ اسی سوال کوذراوسیع پیمانے پربھی موضوعِ بحث بنایاجاسکتاہے کہ مسلمانوں کی تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں ملتی ہیں جب اس طرح کے نااہل حکمران مسلط رہے ، ان کے ہاں بعض غیر اسلامی چیزیں رواج کاایساحصہ رہیں کہ انہیں اس دور کے غیر تحریری دستوراورآئین کاحصہ قرار دیا جا سکتا ہے۔اگرواقعتا ایساہی تھاتوکیاان ادوار میں اس طرح کے غلط دستوروں کی وجہ سے تکفیر کی مہم چلی۔
پھرہندوستان کے دارالحرب ہونے کاجوفتویٰ شاہ عبدالعزیزؒ نے جاری کیاتھا اس کی جہاں اس زمانے اوربعد کے زمانے کے بے شمار علمانے تائید کی وہیں شاہ صاحب کے شاگردوں اوران کے بھی بعد کے طبقے کے متعدد علمانے اس سے اختلاف بھی کیا،جن میں مثال کے طورپر مولاناسید نذیرحسین دہلوی ؒ اورعبدالحی لکھنوی فرنگی محلیؒ قابلِ ذکر ہیں۔مولانافرنگی محلی کاایک مفصل فتویٰ ان کے ’’مجموعۃ الفتاویٰ‘‘ میں شامل ہے ،جس میں انہوں نے فقہ حنفی کی عبارات کی روشنی میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ موجودہ حالات میں ہندوستان دارالحرب نہیں ہے(۶)۔ اسی طرح سید احمدشہیدؒ کے ایک خلیفہ مولاناکرامت علی جون پوریؒ کلکتہ محمڈن لٹریری سوسائٹی کے اہم رکن رہے ، یہ سوسائٹی ہندوستان کے دارالحرب ہونے اورانگریزوں کے خلاف جہاد کے نظریات کے برعکس کام کررہی تھی ،اس پلیٹ فارم کے ذریعے مولاناکرامت علی جون پوریؒ نے کھل کر ہندوستان کے دارالحرب ہونے اوراس میں جہاد کرنے کے نظریے کی مخالفت کی،یہاں تک کہ انہوں نے بنگال کی فرائضی تحریک کے لوگوں کواپنے زمانے کے خوارج قرار دیا(۷)۔ کیاان علماکواس اختلافِ رائے کی بنیادپر جان کے خطرات کبھی لاحق ہوئے ،ظاہر ہے کہ نہیں۔
ہندوستان کی تاریخ کاایک بہت ہی اہم واقعہ ۱۸۵۷ء کی جنگ کاہے جوبنیادی طورپرکسی طے شدہ پروگرام اور منصوبے کانتیجہ نہیں تھا ،بلکہ بعض وقتی واقعات یاافواہوں کانتیجہ تھا۔تاہم ایسٹ انڈیاکمپنی کی عمل داری اوراس کی حاکمیت کے خلاف پہلے سے موجود جذبات نے اس سلسلے میں بڑاہم کرداراداکیا۔اس موقع پرکئی راہ نما ؤں کو خیال ہواکہ شاید اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوستان سے غیر ملکی تسلط کوختم اوربادشاہ کومضبوط کیاجاسکے۔اسی لئے بعدکے ادوارمیں اسے جنگِ آزادی سے بھی تعبیر کیاگیا۔مولانامناظراحسن گیلانی نے سوانح قاسمی پچاس کے عشرے میں لکھی ہے ،اس کتاب میں ان کاکہنایہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے سے ۱۸۵۷ء کے ان واقعات کوجنگِ آزادی یاجہادِ آزادی سے تعبیر کیاجانے لگاہے(۸)۔ ۱۸۵۷ء سے پہلے انگریزوں کے مکمل تسلط کی وجہ سے ہندوستان کے دارالحرب ہونے کافتوی آئے کافی عرصہ گذرچکاتھالیکن غیرملکی تسلط کایہاں بھی یہ منطقی اورلازمی نتیجہ نہیں سمجھاگیا کہ اس غیر ملکی طاقت کے خلاف عسکری آپشن استعمال کیا جائے، ۱۸۵۷ء میں جب از خود ایک محاذ کھڑا ہوگیا تو اس بات پر الگ سے غور ہواکہ ازخوداٹھ کھڑے ہونے والے اس محاذ میں انگریزوں کے خلاف اپناحصہ ڈالا جائے یانہیں۔ اس سلسلے میں اختلافِ رائے بھی ہوا۔ اورآگے چل کر ذکرکیاجائے گاکہ عسکری آپشن اختیارکرنے والے حضرات کے اخلاف نے بھی ۱۹۱۵ء اور۱۹۲۰ء کے درمیانی عرصے میں اسے ترک کرنے کا باقاعدہ فیصلہ کرلیا۔مولانامناظراحسن گیلانی نے تویہ بھی لکھاہے کہ جب تھانہ بھون میں علماکے ایک طبقے کا۱۸۵۷ء میں اجلاس ہوا۔جواصل واقعات شروع ہونے کے کافی بعد ہواتھا۔تو’’اس موقع پر جہاد کے سب خلاف تھے ،صرف حضرت نانوتوی ؒ مدعیانہ طریقہ پر اس میں پیش پیش تھے‘‘(۹)۔ بظاہر یہ معلوم ہوتاہے کہ جوبھی فیصلہ ہوا وہ درحقیقت مولانا نانوتوی ؒ کی قادر الکلامی اورقوتِ استدلال کانتیجہ تھا۔ چنانچہ چند سطروں بعدمولاناگیلانی نقل کرتے ہیں: ’’سب نے جوحجتیں خلاف پیش کیں، حضرت نانوتوی نے جوش کے ساتھ سب کامسکت جواب دیا‘‘۔ بہرحال کہنے کامقصد یہ کہ ایسے وقت میں جبکہ غیرملکی تسلط یقینی طورپر موجود ہے اورکچھ لوگ اس کے خلاف اٹھ بھی کھڑے ہوئے ہیں ،ایسی حالت کابھی یہ لازمی اورمنطقی تقاضا نہیں سمجھاگیاکہ فوری طورپر اعلانِ جہاد کردیاجائے بلکہ اس کے لئے الگ سے غور کرنے کی ضرورت سمجھی گئی۔جن لوگوں نے عسکری آپشن کی مخالفت کی یاکسی بھی طریقے سے سرکاری نظام کاحصہ رہے، ان کے بارے میں کبھی یہ نہیں سمجھا گیاکہ جس طرح انگریزی فوج سے قتال کیاجائے، اسی طرح اس فوج کامعاون ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کوبھی نشانہ بنایاجائے گا، بلکہ عسکری آپشن سے اختلاف کرنے والوں میں ایسی شخصیات بھی ہیں جن کانام ہمیشہ عقیدت واحترام سے لیاگیا۔مولاناعبیداللہ سندھی فرماتے ہیں:
’’اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مولانامحمداسحاق [شاہ محمد اسحاق دہلوی]کے متبعین کی پہلی صف میں سے علمااورصوفیہ کا کثیرحصہ سلطانِ دہلی کی لڑائی میں غیرجانب داربن گیا‘‘(۱۰)۔
غیر جانب دارہونے کامطلب عسکری راستے سے اختلاف کرناہی ہے۔
جن حضرات نے عسکری راستہ اختیار کرنے سے انکار کیاتھا، ان میں مولانامحبوب علیؒ کانام قابلِ ذکر ہے جوکہ شاہ عبدالعزیزکے نمایاں شاگردوں میں سے تھے ۔یہ سید احمد شہید کے لشکر میں بھی شامل ہوئے تھے ،لیکن مزاج نہ ملنے یاشرحِ صدرنہ ہونے کی وجہ سے واپس آگئے تھے (۱۱)۔ ۱۸۵۷ء کے واقعات میں بھی ان کانقطۂ نظرمجاہدین سے مختلف تھا۔ انگریزوں نے کامیابی کے بعد بطورِانعام انہیں جاگیردینے کی پیشکش کی ،لیکن یہ انہوں نے اس پیش کش کویہ کہہ کرٹھکرادیاکہ میں نے جوموقف اختیار کیااپنی دیانت دارانہ رائے کی وجہ سے کیا،کسی انعام کے لالچ یاکسی کوخوش کرنے کے لئے نہیں(۱۲)۔
جب شیخ الہند مولانامحمودحسن ؒ مالٹا کی اسارت سے واپس آئے توان سے ملاقات کرنے والوں اورانہیں انگریز کے خلاف جدوجہد سے الگ ہونے کامشورہ دینے والوں میں ایک نام مولانارحیم بخش ؒ کابھی ہے۔مولاناسید حسین احمدمدنیؒ کے سوانح نگارمولانافریدالوحیدی ان کے تعارف میں لکھتے ہیں:’’ریاست بہاولپورکے مدارالمہام تھے، حضرت گنگوہی کے متوسلین میں اورعلماء کرام کے بڑے معتقدتھے ، تاہم حکومتِ برطانیہ کے خیرخواہ اورمعتمد تھے‘‘(۱۳)۔انہی مولانارحیم بخش کے بارے میں مولانامدنی کے والد ماجد مولوی سید حبیب اللہ صاحبؒ کے حالات میں لکھاہے:
’’اتفاق سے اسی زمانے میں نواب صاحب بہاولپور بھی حج وزیارت کے لئے حاضر ہوئے ۔ان کے وزیراعظم مولانارحیم بخش صاحب بڑے عالم،متقی اورباخداشخص تھے اورحضرت قطب عالم گنگوہی ؒ کے متوسلین میں سے تھے ۔انتظامات کے لئے وہ نواب صاحب کی آمد سے پہلے ہی مدینہ طیبہ حاضر ہوئے ۔قدرتی طورپران کومولوی صاحب[مولوی حبیب اللہ ]اوران کے حضرت گنگوہی کے خلفا صاحبزادگا ن سے خصوصی تعلق اورعقیدت ہوگئی اورنواب صاحب آئے توموصوف نے ان کی جانب سے دس روپیہ ماہوار کاوظیفہ مقررکرا دیا،یہ ساری مستقل آمدنیاں تھیں‘‘ (۱۴)
گویاایک طرف تومولانارحیم بخش حکومتِ برطانیہ کے’’ خیرخواہ اورمعتمد ‘‘تھے دوسری طرف وہ ’’بڑے عالم،متقی اورباخداشخص ‘‘تھے اور ان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت وہ ہے جواقتباس بالاسے سمجھ میں آرہی ہے ۔
اس کے علاوہ بے شمار مسلمان سرکاری ملازمتیں اختیارکرکے اس برطانوی نظام کاحصہ بن چکے تھے ،ان میں کئی لوگ پولیس اور انتظامی مشینری کے دیگراداروں میں شامل تھے جوکسی نہ کسی طرح اس حکومت ونظام کی مضبوطی کاذریعہ تھے ۔لیکن خاص ملازمتوں کوان میں ادا کئے جانے والے بعض افعال کی وجہ سے توناجائز کہاگیالیکن محض اس کافرانہ نظام کاحصہ ہونے کی وجہ سے اس طرح کی کسی ملازمت کو ناجائز نہیں کہاگیا ۔پھرجیسی بھی ملازمت ہواس کے کرنے والے کی جان کومحض اس وجہ سے خطرہ لاحق نہیں ہواکہ وہ سرکار کے فلاں شعبے میں کام کررہاہے۔ اور تو اور، سرسید احمدخان نے جس انداز سے کھل کر نہ صرف عسکری آپشن کے خلاف رائے دی بلکہ مسلمانوں کوانگریزوں سے بہتر تعلقات کابھی مشورہ دیا، لیکن کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ اس طرح کی باتوں کی وجہ سے ان کے خلاف کوئی ایسی بات کہی گئی ہو یا فتویٰ د یا گیا ہوجس سے ان کی جان کوخطرات لاحق ہوجائیں۔سب سے بڑھ کریہ کہ مسلمانوں کی خاصی تعدادبرطانوی ہندکی فوج میں بھی شامل تھی،جوبنیادی طورپرتاجِ برطانیہ کی وفادارتھی۔جائزناجائز کامسئلہ توالگ ہے، لیکن فوج میں ان بھرتی ہونے والوں کوکبھی بھی مرتد نہیں کہا گیا جس طرح آج ان مسلمان افواج کوکہاجارہاہے جوبراہِ راست کسی کافر طاقت کے ماتحت نہیں ہیں۔برطانوی ہند میں جگہ جگہ فوجی چھاؤنیاں موجودتھیں ،یہ چھاؤنیاں مسلمان اکثریت والے علاقوں میں بھی موجودرہیں۔لیکن انہیں کبھی اس طرح کے سیکورٹی انتظامات کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی جیسے آ ج کل ان فوجوں کے بارے میں نظرآتی ہے جوبراہِ راست کسی کافر طاقت کی کمان میں نہیں ہیں۔
۱۹۱۷ء کے لگ بھگ جمعیت علماءِ ہند سے وابستہ علمانے باقاعدہ یہ فیصلہ کیاکہ اب آزادی کی جنگ عسکری کی بجائے سیاسی میدان میں جمہوری انداز میں لڑی جائے گی۔ انہوں نے گاندھی کے فلسفۂ عدمِ تشدد کواختیار کیا اوراسے اسلامی تعلیمات کاتقاضا قرار دیا۔ جمعیت علماء ہند کے ناظمِ اعلیٰ اوراس کے مؤرخ مولانامحمدمیاں نے لائحہ عمل کی اس تبدیلی کے حق میں تفصیلی دلائل ذکر کئے(۱۵)۔
مولانا محمد میاں کی گفتگو سے معلوم ہوتاہے کہ اُس زمانے میں اس تبدیلی کے خلاف آوازیں اٹھ رہی تھیں ،چنانچہ وہ لکھتے ہیں : ’’ایک عام پروپیگنڈاہے کہ علماآیاتِ جہاد کوبھول گئے، وغیرہ وغیرہ ‘‘۔اس کے جواب میں انہوں نے نئے پر امن سیاسی راستے کی وکالت کرتے ہوئے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ’’علمائے ملت نے اس راستے کو نادانی یا بزدلی یاغفلت سے اختیار نہیں کیا‘‘(۱۶)۔
مولانا مزید لکھتے ہیں:’’حضرت سید صاحب شہیدؒ کی تحریک کے آغازسے ۱۹۱۵ء تک یعنی صرف ۸۵سال کے عرصے میں ہندوستان کی صرف یہی ایک جماعت ہے جس نے چارمرتبہ انقلاب کی جدوجہد کی‘‘مطلب یہ کہ اب لائحہ عمل میں جوتبدیلی ہورہی ہے سابقہ تجربات کے تجزیے پر مبنی ہے۔مولانانے ثابت کیاہے کہ عدمِ تشددپرمبنی طریقہ کار بھی جہاد ہی کی ایک شکل ہے بلکہ حدیث افضل الجہاد کلمۃ عدل عند سلطان جائز کی روسے جہاد کی افضل شکل ہے ،اوریہ کہ مکی دور میں نازل ہونے والی صبر وغیرہ کی آیات منسوخ نہیں بلکہ آج بھی ان کاحکم باقی ہے ۔ مولانانے یہ بھی تسلیم کیاہے کہ عسکری جدوجہد کسی بیرونی طاقت کے تعاون کے بغیرممکن نہیں ،وہ لکھتے ہیں:’’جب کہ کوئی بیرونی طاقت پشت پرنہ ہوتوسوال یہ پیداہوتاہے کہ اسلحہ اورقوت کے ساتھ انقلابی جدوجہد کے لئے خرچ کاکیاانتظام ہو‘‘۔ یہاں اب تک کن بیرونی طاقتوں کی مددحاصل تھی اس کاجواب مولاناکے ان لفظوں میں ملتاہے:
’’جنگِ عمومی نے جرمنی اورترکی کوشکست دے کر ان تمام واقعات کوختم کردیاجن کی بنیاد پر ۱۹۱۵ء تک انقلابی سازشیں ہوتی رہیں اوراب انگریزکی طاقت پہلے کی طرح نسبتاًکئی گنابڑھ گئی اورحدودِ سلطنت اتنے وسیع ہوگئے کہ ان میں آفتاب نہیں چھپتا‘‘۔
مزیدلکھتے ہیں:’’جلیانوالہ باغ اورپنجاب کے مارشل لانے ہندوستانیوں کوکافی سبق دے دیاکہ شورشِ بغاوت کوایک جابراورقاہر حکومت کس طرح کچل سکتی ہے ‘‘۔اس کامطلب یہ بھی ہواکہ پالیسی امورپر غوراوربحث میں اپنے مدمقابل کی طاقت وقوت اوراپنی کمزوریوں کادرست ادراک اوراظہار کسی قسم کی بزدلی کے زمرے میں نہیں آتا۔ چونکہ دشمن طاقت ورہے، اس لئے جنگی محاذ پرہمیں اس کے مد مقابل نہیں آناچاہیے۔یہ وہ استدلال ہے جو ۱۹۱۵ء کے بعدپیش کیا جا رہا ہے ۔بعینہٖ یہ وہی استدلال ہے جو ۱۸۵۷ء میں ان حضرات نے پیش کیاتھا جواس وقت عسکری جدوجہد کی رائے نہیں رکھتے تھے،اب وہی بات وہ حضرات بھی کہہ رہے ہیں جواب تک عسکری راستے پر گامزن تھے۔ اس کامطلب یہ ہواکہ فرق نتیجۂ فکر کانہیں وقت کاہے ۔ کچھ حضرات نے وہی بات نصف صدی پہلے کہہ دی تھی جوباقی حضرات نصف صدی کے تجربات کے بعدکہہ رہے ہیں ۔
مولانامحمدمیاںؒ کی اسی کتاب میں ڈاکٹرابوسلمان شاہ جہاں پوری نے مفتی کفایت اللہؒ کے حالات پر مشتمل اپناایک مضمون شامل کیا ہے ، اس میں وہ لکھتے ہیں:
’’بیسویں صدی کی پہلی دودہائیوں کے اختتام تک پرجوش نوجوانوں کے سامنے قوت کے زورپر آزادی چھین لینے کاپروگرام تھا ، لیکن زمانہ بہت آگے بڑھ گیاتھا۔وقت کاتقاضا دوسراتھا۔ملک کے نہتے اورمسائل میں گرفتار عوام کے لئے کسی ایسے پر امن پروگرام کی ضرورت تھی ،جسے اختیارکرکے دنیاکی سب سے بڑی اورجابرقوت کو رولٹ ایکٹ کے جابرانہ قوانین اوران کے تحت حکومت کونہایت ظالمانہ اختیارات واپس لینے پر مجبور کردیاجائے ۔یہی طریقہ آزادی کے حصول کاتھا۔اگرچہ یہ ایک طویل اورصبرآزماطریقہ تھا ۔ہندی میں اس کے لئے ستیہ گرہ اوراردومیں مقاومت بالصبر کی ترکیب استعمال کی گئی تھی ۔۔۔
’’حضرت مفتی صاحبؒ [مفتی کفایت اللہ]اوران کے رفقانے ازخوداس پروگرام کی اہمیت اورافادیت وقت کے حالات میں محسوس کرکے جمعیت علمائے ہند کے قیام سے پہلے حصہ لیاتھا۔۱۹۲۰اوراس کے بعدتویہ [پرامن پروگرام]ہندوستان کی ایک معروف تحریک بن گئی تھی اورعام طورپرحریت پسند جماعتوں نے اسے اختیار کرلیاتھااوررفتہ رفتہ انقلابی اورخفیہ جماعتیں بھی اس کی قائل ہوتی چلی گئیں‘‘(۱۷)۔ 
اس کامطلب یہ ہواکہ کوئی جماعت اگرایک وقت عسکری راہ اختیار کرنے کوضروری سمجھ رہی ہوتوتاریخی تجربہ ہمیں بتاتاہے کہ یہ امکان ذہن سے اوجھل نہیں ہوناچاہیے کہ شاید یہی جماعت کچھ عرصہ کے تجربات کے بعداپنی راہ بدلنے پرمجبورہوجائے۔ ان حضرات کی طرف سے عدمِ تشددپرمبنی آئینی جدوجہد کاراستہ اختیارکرنے کے بعد اس لائحہ عمل یایوں کہیے کہ پرامن سیاسی جدوجہد کی تائید میں انہوں نے تفصیل سے لکھا،اورعدمِ تشددکوبھی جہادہی کی ایک قسم بلکہ افضل قسم قراردیا،خصوصاًمولاناحسین احمد مدنیؒ ،مولانامحمدمیاں ؒ نے ۔ان حضرات کے کچھ اقتباسات راقم الحروف کے ایک مضمون مطبوعہ ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ میں بھی ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں(۱۸)۔
جب تاریخی تجربے کی بات چلی ہے توضمناًیہ عرض کرناغیر متعلق معلوم نہیں ہوتاکہ شیخ الہند مولانامحمودحسنؒ کے سفرِحجاز کے دوران جب شریفِ مکہ نے آپ کی گرفتاری کے احکام جاری کئے اوریہ بات تقریباًیقینی تھی کہ وہ آپ کوانگریزوں کے حوالے کرے گاتوابتدامیں آپ روپوش ہوگئے۔جب آپ کے متعددمتعلقین کوگرفتارکرلیاگیا اوران کے بارے میں سخت دھمکیاں دی گئیں توآپ نے ازخودروپوشی ختم کرکے گرفتاری دینے کافیصلہ کرلیااورجہ یہ بیان کی ’’مجھے گوارانہیں میرے باعث میرے کسی دوست کا بال بیکاہو‘‘(۱۹)۔ جیسا کہ عرض کیا کہ اول توآج کل کے نظریہ ’’الولاء والبراء ‘‘کے تحت شریفِ حجازانگریزوں کے ساتھ گٹھ جوڑکی وجہ سے خوددائرہ اسلام سے خارج تھا۔ دوسرے یہ یقینی تھاکہ وہ آپ کوپکڑکرانگریزوں کے حوالے کرے گا۔ گویاگرفتاری دیناہرحال میں خودکوکافروں یاان کے ایجنٹوں کے حوالے کرناتھا، لیکن شیخ الہندؒ نے یہ کام اپنے لوگوں کو بچانے کے لئے کیا۔ نائن الیون کے بعد جب امریکاکی طرف سے ایک شخصیت کی حوالگی کامطالبہ سامنے آیااوراس مطالبے کوماننے یانہ ماننے کے عواقب ونتائج بھی سامنے تھے توایک سوال تویہ تھاکہ آیااسے حوالے کرناجائز ہے یا نہیں۔ دوسراسوال یہ ہوسکتاتھاکہ وہ شخصیت اپنی میزبان اورمحسن اسلامی حکومت اورخطے کے عوام کوبچانے کے لئے خود کو امریکا یا اس کے ایجنٹوں کے حوالے کردیتی۔ اس وقت کا جو ماحول تھااور شاید بعض سطحوں پرابھی بھی باقی ہے، اس میں اس طرح کے سوال کوقابل غورسمجھنا کم ازکم الفاظ میں پرلے درجے کی بزدلی سمجھی جا رہی تھی۔ حیرت اس بات پر ہے کہ شیخ الہند کے پیروکاروں کواس وقت یہ مثال یادنہ آئی اوراس شخصیت کو اس مثال کی پیروی کرنے کانہیں کہاگیا۔ بلکہ شیخ الہندؒ کے بھی استاذ مولانامحمدقاسم نانوتویؒ کایہ واقعہ بکثرت بیان کیاجاتاہے کہ انہوں نے انگریزوں کی طرف سے گرفتاری کے خوف سے صرف تین دن تک روپوشی اختیارکی اور پھر روپوشی یہ کہہ کرترک کردی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن تک ہی روپوشی اختیارکی تھی۔ اگرمولانانانوتویؒ کے پیروکاروں میں سے کوئی ۲۰۰۱ء میں اس شخصیت کوبھی اس سنت کے اختیار کرنے کامشورہ دے دیتاتوشاید تاریخ کا دھاراآج کسی اوررخ پربہہ رہاہوتا۔ 
اسی طرح ۱۹۲۱ء میں مشہور مقدمہ کراچی میں جب مولاناحسین احمد مدنیؒ کوگرفتارکرنے کے لئے انگریز پولیس آفیسرزدیوبندآئے تو عوام شدیدمشتعل تھے ۔’’عوام میں اتناشدیدغم وغصہ تھاکہ ان انگریزافسروں کوجان سے مارنے پر تیار تھے‘‘۔ عوام قابوسے باہر ہورہے تھے اور مطالبہ کررہے تھے کہ انگریزوں کوہمارے حوالے کردو‘‘۔لیکن اس موقع پر مولانامدنیؒ نے ایک مفصل تقریرکی’’جس میں اپیل کی کہ عوام قانون کوہاتھ میں نہ لیں اورجوش وخروش کوہنگامہ آرائی اورغلط راستوں میں استعمال نہ کریں‘‘۔ آخر میں حضرت نے اپناعمامہ سرسے اتارا اورعوام کے سامنے کرکے فرمایاکہ آپ لوگ میری پگڑی کی لاج رکھ لیں اورخاموشی اورصبرکے ساتھ مجھے گرفتارہونے دیں‘‘(۲۰)۔ خود کو اس طرح کافروں کے قانون کے حوالے کرنا،لوگوں کوانگریزافسران کومارنے کے جذبات سے روکتے ہوئے قانون ہاتھ میں لینے سے منع کرناآج کے نظریہ ’’الولاء والبراء‘‘کے نامعلوم کس خانے میں فٹ بیٹھتاہے !
بہرحال ۱۹۱۵ء اور۱۹۲۰ء درمیان لائحہ عمل کی اس تبدیلی کے بعد علماکی یہ جماعت اس وقت کے رائج سیاسی نظام کانہ صرف حصہ بن گئی بلکہ یہ حضرات انڈین نیشنل کانگریس کی صورت میں ہندؤوں اورمسلم لیگ کی صورت میں ’’فساق‘‘ کے ساتھ بھی بیٹھے۔اس کے بعد خود انگریزوں کے وضع کردہ دستوری نظام کے تحت مثلا Government of Idia Act 1935کے تحت جس سطح پرجوانتخابات بھی ہوئے علماء کی اس جماعت سمیت تقریباًہرطبقۂ خیال کے مسلمانوں نے ان میں حصہ لیااس طرح اس ’’کافرانہ نظام ‘‘کاحصہ بنے جسے چلا بھی خودانگریزہی رہے تھے ۔حالانکہ آج کی پاکستان اورافغانستان کی صورتِ حال اس وقت کے سسٹم سے کہیں بہترہے۔ اس لئے اس وقت نظام تکنیکی طورپربھی تاجِ برطانیہ کے ماتحت تھا،اورمتحدہ قومیت کے حامی علماکے نقطۂ نظر کے مطابق توخالص مسلمانوں کے نظام کے آنے کاسرے سے کوئی امکان ہی نہیں تھا۔یہاں ہمارااصل مقصود اس بات کاجائز ہ لیناہے کہ غیرشرعی نظام یاغیرمسلم افواج کی موجودگی کی بنیادپر جوتکفیری سوچ اس وقت بعض حلقوں کی طرف سے پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے اورمسئلہ ’’الولاء والبراء‘‘کے عنوان سے کہاجارہا ہے کہ فلاں نظام کاحصہ یا بالواسطہ معاون بننے والے کافرہیں وغیرہ وغیرہ اس سوچ کابرصغیر میں پہلے سے موجوددینی سیاسی فکرسے کوئی تعلق بنتاہے یانہیں ۔ نیز یہ کہ ’’الولاء والبراء‘کایابہادری اورعزیمت کے آج کے معیارکاان علماپراطلاق کیاجائے تونتیجہ کیاسامنے آئے گا۔
اس سارے تاریخی جائزے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ موجودہ دورکے نظاموں میں شرکت یاان نظاموں کے اداروں سے وابستگی کوکفر وارتدادقراردینابالکل نئی سوچ ہے ۔خصوصاًبرصغیر کے تناظر میں اگردیکھاجائے تویہ سوچ اس خطے کی پہلے سے چلی آرہی کسی بھی معروف دینی سیاسی سوچ سے موافقت نہیں رکھتی۔ اس تناظر میں یہ سوال بڑااہم ہے کہ پاکستان میں توتقریباًہرمکتبِ فکر کے دینی راہ نما کسی نہ کسی سطح پرسیاسی عمل کاحصہ بنتے ہیں ،کم ازکم اس کوجائز توسب سمجھتے ہیں لیکن افغانستان میں کسی انتخابی عمل میں حصہ لینے یاکسی اور طریقے سے نظام کاحصہ بننے کاکیاحکم ہوگا۔’’الولاء والبراء‘‘کے نظریے کی خاص تشریح رکھنے والوں کامعاملہ تو اپنی جگہ پر،پاکستان کے علماء جو یہاں کے سیاسی عمل میں شریک ہیں یااس کوجائز کہتے ہیں، ان کے نقطۂ نظر سے افغانستان کی صورتِ حال کاکیاحکم ہوگا۔ظاہر ہے کہ موجودہ افغانستان ۱۹۴۷ء سے پہلے کے ہندوستان سے توکہیں بہترہے ۔جب وہاں اپنے نظریات اورہندوستان کی مکمل آزادی کے مطالبے کے ساتھ سیاسی عمل کاحصہ بننادرست فیصلہ تھا تویہی کام کرنے کامشورہ یاکم ازکم اس کی اجازت افغانستان کے دینی حلقوں کودینے میں کیاحرج ہے ۔ افغانستان میں جولوگ یہ سوچ کر کہ اچھے لوگوں کوبھی اس نظام کاحصہ بنناچاہیے، اس طرف آناچاہتے ہوں، ان کے لیے بھی کوئی واضح بات پاکستان کے علماکی طرف سے آنی چاہیے۔ اس لئے کہ اگرعسکری راہ اختیارکرنے والوں کے پاس پاکستان ہی کے بعض فتاویٰ کی تائید موجودہے تواگردینی طبقے کے کچھ لوگ برصغیرکے مذکورہ بالا علماکی اتباع میں اجنبی افواج کے مکمل انخلاکے مطالبے کے ساتھ وہاں کی آئینی سیاسی جدوجہد میں بھی حصہ لیناچاہتے ہوں تو انہیں بھی انہی بزرگوں کے پیروکاراہلِ افتاکی طرف سے کسی واضح فتوے کی تائید حاصل ہوجائے تواس میں کیاقباحت ہے ۔وگرنہ یہ سوال ہوگا کہ پاکستان اورافغانستان کے لئے معیارالگ الگ ہونے کی کیادلیل ہے ۔ 
یہ درست ہے کہ ۲۰۰۱ء میں طالبان کی حکومت کوانتہائی غلط طریقے سے ختم کیاگیا تھا۔ جن ایشوزکاسہارالے کریہ ساراکچھ کیاگیا، ان کے حل کے لئے جنگ کے علاوہ بیسیوں راستے اوربھی ہوسکتے تھے ۔کسی بھی حکومت کے خاتمے کااختیار خوداس ملک کی فوج کے لئے جب مہذب دنیا میں تسلیم نہیں کیاجاتاتوغیر ملکی افواج کے لئے کیسے تسلیم کیاجاسکتاہے ۔ اس لحاظ سے طالبان اپنی ختم شدہ حکومت کی بحالی کے لئے کوشاں ہیں،لیکن اسی کے ساتھ کوئی اس انداز سے بھی سوچ سکتاہے کہ جب کسی واقعے پرکچھ وقت گذرجاتاہے تووقت کو پیچھے کی طرف چلانے کا مطالبہ مشکل ہو جاتا ہے۔ ہندوستان کی آزادی کے مطالبے میں یہ نہیں کہاگیا تھاکہ پہلے مغلیہ خاندان کے کسی چشم وچراغ کوتخت پر بٹھا کر ۱۸۵۷ء والی پوزیشن بحال کی جائے اس کے بعدکچھ اورسوچاجائے ۔یا۲۰۰۸ء میں پرویز مشرف سے یہ مطالبہ نہیں کیا گیاتھاکہ ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ء والی پوزیشن بحال کی جائے ۔اسی طرح اگرکسی کایہ خیال ہوکہ افغانستان کی قسمت کے اصل مالک اوراصل سٹیک ہولڈرز عوام ہیں، اس لئے ہمیں عوام کے پاس جاناچاہئے تواس خیال کے بارے میں پاکستان کے کم ازکم ان علماکوتوضروراپنی رائے کاواضح اظہارکرناچاہئے جو پاکستان میں قراردادِ مقاصد سے لے کر مختلف دستاویزات میں اللہ تعالیٰ کے بعدعوام کے حق حاکمیت کومان چکے ہیں۔
آگے بڑھنے سے پہلے یہاں یہ عرض کرنامناسب معلوم ہوتاہے کہ شاہ عبدالعزیزؒ نے ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا فتوی صادر کیا۔ علما کا جو طبقہ اس فتوے کولے کرآگے چلا، ان کے نزدیک یہ سوال اہم تھاکہ اب یہ دوبارہ دارالاسلام کیسے بنے گا؟ اس سلسلے میں مولانا حسین احمد ؒ کاجواب یہاں قابلِ ذکر ہے ۔وہ تحریرفرماتے ہیں:
’’شاہ صاحب (شاہ عبدالعزیز)کسی ملک کے دارالاسلام ہونے کے لئے اس میں محض مسلمانوں کی آبادی کوکافی نہیں سمجھتے،بلکہ اس کے لئے وہ یہ بھی ضروری جانتے ہیں کہ مسلمان باعزت طریقہ پررہیں اوران کے شعارِ مذہبی کااحترام کیاجائے۔اس سے یہ ثابت ہوا کہ اگرکسی ملک میں سیاسی اقتدارِاعلیٰ کسی غیرمسلم جماعت کے ہاتھوں میں ہو، لیکن مسلمان بھی بہرحال اس اقتدارمیں شریک ہوں اوران کے مذہبی ودینی شعائر کااحترام کیاجاتاہوتو وہ ملک حضرت شاہ [شاہ عبدالعزیز] صاحب کے نزدیک بے شبہ دارالاسلام ہوگااورازروئے شرع مسلمانوں کافرض ہوگاکہ وہ اس ملک کواپنا ملک سمجھ کر اس کے لئے ہرنوع کی خیرخواہی اورخیراندیشی کامعاملہ کریں‘‘(۲۱)۔
غالباًمولانامدنی ؒ آزادی کے بعدکے ہندوستان کی بات کرناچاہتے اوراس کے بارے میں مذکورہ بالارائے کااظہار کررہے ہیں ۔ مولانامدنیؒ کے اس معیار کے مطابق پاکستان اورافغانستان توبطریقِ اولیٰ اس قابل ہیں کہ انہیں دارالاسلام سمجھ کر ان کے لئے ’’ہرنوع کی خیر خواہی اورخیر اندیشی ‘‘کامعاملہ کیاجائے ،کیونکہ یہاں مسلمانوں کو شراکتِ اقتدارسے بڑھ کر حیثیت حاصل ہے اورشعائرِ دین بھی قائم ہیں۔تقریباًاسی کے قریب قریب بات مولانارشید احمد گنگوہی ؒ نے بھی کہی ہے ۔ہندوستان کی حیثیت کے بارے میں ان کے دومختلف فتوے موجودہیں ۔ایک میں انہوں اس مسئلے میں ترددکااظہارکیاہے(۲۲)، لیکن ان کاایک دوسرامفصل فتویٰ موجودہے جس میں انہوں نے ہندوستان کادارالحرب ہوناثابت کیا۔اس فتوے میں وہ لکھتے ہیں:
’’اگرکفارکاغلبہ توہو،مگر بعض حیثیات سے اس میں اسلام کاغلبہ بھی باقی ہے اس کواب بھی دارالاسلام ہی کہاجائے گانہ کہ دارالحرب ۔اتنی بات پرسب ائمہ کااتفاق ہے‘‘(۲۳)۔
اب ظاہر ہے کہ پاکستان اورافغانستان کی حالت اتنی کئی گذری توبہرحال نہیں ہے کہ ان میں بعض حیثیات سے بھی اسلام کاغلبہ نہ رہاہو۔ شاہ عبدالعزیزمحدث دہلویؒ کے فتوی دارالحرب میں بھی اجرائے احکامِ کفرکامطلب یہ بیان کیا گیا کہ ’’کفار بطورخود حاکم شوند‘‘یعنی کفار براہِ راست تمام امورکوخود چلانے لگیں۔ظاہرہے کہ پاکستان اور افغانستان کی یہ صورتِ حال نہیں ہے ۔یہاں جیسے کیسے بھی ہیں مسلمانوں کے اپنے ادارے موجودہیں ،منتخب پارلیمنٹ موجودہے ، منتخب حکمران موجودہیں۔یہ الگ بات ہے کہ یہ بہت سے فیصلے اپنے پاؤں پرکھڑے ہوکرکرنے کی بجائے باہر کی ڈکٹیشن کی بنیادپرکرتے ہیں۔لیکن اس کاحل بھی صرف یہ ہے کہ دونوں ملک اندرسے مضبوط ہوں ،یہاں کے عوام زیادہ بااختیارہوں۔اگراندرکی کشمکش جاری رہی تو ظاہر ہے اس سے کمزوری آئے گی اوراس کمزوری سے دشمن فائدہ بھی اٹھائے گا۔اور اگر حکمرانوں کو یقین ہوگا کہ ہماری حکمرانی عوام کی مرہونِ منت ہے تو وہ حکمرانی کے لئے بیرونی آقاؤں کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے عوام کے جذبات کو مد نظر رکھیں گے۔
حاصل یہ کہ پاکستان اور افغانستان دارالحرب نہیں ہیں۔یہاں کے ریاستی اداروں اوربعض مسلح تنظیموں کے درمیان جو تصادم ہے وہ ایمان وکفرکانہیں بلکہ نئی پیداشدہ صورتِ حال میں پالیسی امورکااختلاف ہے ۔مقامی طورپرسارے فریق مسلمان ہیں۔ اس لئے اس کشمکش پرمسلم اورغیر مسلم کشمکش والے احکام جاری نہیں ہوں گے بلکہ مسلمانوں کے مختلف دھڑوں کے درمیان جوجنگ ہوتی ہے اس کے احکام جاری ہوں گے۔اس میں صحیح ،غلط ، ظالم، مظلوم کی بحث توہوسکتی ہے مسلمان اورمرتد ،کافریامنافق کی نہیں ۔اس سلسلے میں مقامی قوتیں خواہ وہ کوئی بھی ہوں ایک دوسرے کے وجودکوتسلیم کرکے جتنی ایک دوسرے کے قریب آئیں گی اتناہی بیرونی اثرورسوخ کم کرنے میں مدد ملے گی اورجتنی یہ ایک دوسرے سے دست وگریبان ہوں گی اتناہی اجنبی قوتوں کوفائدہ پہنچے گا۔مقامی اورخطے کی قوتوں کے ایک دوسرے کے قریب آنے والی بات اس لئے بھی اہم ہے کہ جن نظریات کی بنیاد پر مقامی ریاستی اداروں کے مسلمان ہونے ہی کوتسلیم نہیں کیاجارہاوہ نظریات بنیادی طورپر اس خطے کی مقامی سوچ سے دورہیں۔

حواشی 

(۱) ملاحظہ ہو:أیمن الظواہری ،الصبح والقندیل،الباب الاول الفصل الاول۔
(۲) جماعۃ الہجرۃ والتکفیرکے بارے میں ملاحظہ ہوں:
http://www.saaid.net/feraq/mthahb/29.htm 
visited: 12/12/2011
http://www.islamweb.net/fatwa/index.php?page=showfatwa&Option=FatwaId&Id=24860 
visited: 12/12/2011
http://www.sandroses.com/abbs/t85841/ 
visited: 12/12/2011
مذکورہ بالاسائٹس پراس موضوع پرمزید مطالعے کے لئے کتابوں کے نام بھی دستیاب ہیں۔
(۳) سنن ابوداؤد ،حدیث نمبر ۲۵۳۲کتاب الجہاد:باب فی الغزمع ائمۃ الجور۔
(۴) ملاحظہ ہوفتاوی عزیزی(اردو)ص۵۵۲تا۵۵۷ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱۹۸۰ء
(۵) http://en.wikipedia.org/wiki/IndiaCompany 
visited: 16/12/2011
(۶) مجموعۃالفتاوی(اردو)ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ج۱ص۱۲۳۔
(۷) مولاناکرامت علی جون پوری کے اس فتوی اوراس جیسے دیگرفتاوی کے لئے ملاحظہ ہو محمدارشدکامقالہ بعنوان ’’جدوجہد آزادی اورفتاوی‘‘پیش کردہ سیمنار :’’جنوبی ایشیامیں اسلامی قانون فکراورادارے‘‘ ،زیراہتمام ادارہ تحقیقاتِ اسلامی اسلام آباد۔
(۸) مناظر احسن گیلانی : سوانح قاسمی ،ج۲ص۸۱مکتبہ رحمانیہ لاہور۔
(۹) سوانح قاسمی ج۲ص۱۲۲۔
(۱۰) محمدمیاں ،مولانا: علماء ہند کاشاندارماضی ،مکتبہ رشیدیہ کراچی ۱۹۸۶ء ج۴ص۱۴۳و۱۶۵۔
(۱۱) ابوالحسن ندوی ،مولانا: تاریخ دعوت وعزیمت حصہ ششم (جلددوم)ص۵۳مجلس نشریات اسلام کراچی۔
(۱۲) علماء کاشاندارماضی ج۴ص۱۴۴۔
(۱۳) فرید الوحیدی،مولانا،شیخ الاسلام مولاناحسین احمدمدنی :ایک تاریخی وسوانحی مطالعہ ص۲۱۷مکتبہ محمودیہ لاہور۱۹۹۵ء۔
(۱۴) حوالہ بالاص۵۵۔
(۱۵) ملاحظہ ہو:علماء ہند کاشاندارماضی جلد پنجم باب نہم بعنوان’’ حصول آزادی کے لئے پروگرام:لائحہ عمل کی تبدیلی‘‘
(۱۶) علماء ہند کاشاندارماضی ج۵ص۳۲۱۔
(۱۷) علماء ہند کاشاندارماضی ج۵ص۵۲۲۔
(۱۸) الشریعہ جلد ۲۰شمارہ ۱۱۔۱۲نومبر،دسمبر ۲۰۰۹ء
(۱۹) علماء ہند کاشاندارماضی ج۵ص۲۴۶۔
(۲۰) مولانافریدالوحیدی :شیخ الاسلام مولاناحسین احمد مدنی ص۳۶۵۔
(۲۱) حسین احمدمدنی مولانا،نقش حیات ،المیزان لاہورج۲ص۱۷۔
(۲۲) فتاوی رشیدیہ،ادارہ اسلامیات لاہور۱۹۸۷ء ص۴۱۲۔
(۲۳) فتاویٰ رشیدیہ ص۶۵۹۔

تکفیر اور خروج : دستورِ پاکستان کے تناظر میں

محمد مشتاق احمد

موضوعِ زیر بحث کے کئی گوشے ہیں۔ جو لوگ خروج کے قائل ہیں ان میں سے بعض تو حکمرانوں کے بعض اقوال یا افعال کی بنا پر ان کی تکفیر کرکے ان کی معزولی کو واجب قرار دیتے ہیں جبکہ بعض کا استدلال یہ ہے کہ پاکستان کا دستور ’ کفریہ ‘ ہے اور اس ’کفریہ نظام ‘ میں کہیں کہیں اگر اسلام کی پیوند کاری کی بھی گئی ہے تو اس کے باوجود اسے اسلامی نہیں مانا جاسکتا۔ پھر بسا اوقات بحث میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کا حوالہ بھی آجاتا ہے۔ یہ بحث بھی چھڑ جاتی ہے کہ پاکستان دار الاسلام ہے یا نہیں ؟ دستور نے اگر پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار دیا ہے تو کیا یہ شرک نہیں ہے ؟ بالخصوص جبکہ قانون سازی کا یہ اختیار مطلق ہے ؟ ریاست اگر اقتدار اعلی کی حامل ہے تو کیا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے لیے اقتدار اعلی کی صفت مانی جاسکتی ہے ؟ بین الاقوامی قانون اگر غیر مسلموں کی جانب سے مسلمانوں پر مسلط کیا گیا ہے تو کیا ان قوانین اور معاہدات کو مان لینے کے بعد کوئی ریاست اسلامی رہ سکتی ہے؟ 
خلطِ مبحث سے بچنے کے لیے اس مقالے میں کوشش کی گئی ہے کہ ان تمام امور کا الگ الگ تجزیہ کیا جائے اور ان کے متعلق اسلامی قانون کی پوزیشن معلوم کی جائے۔ اس مقصد کے لیے مقالے کو پانچ فصول میں تقسیم کیا گیا ہے : 
فصلِ اول میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے، یا ذمہ داری، پر روشنی ڈالی گئی ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ اس فریضے کے ضمن میں طاقت کب استعمال کی جاسکتی ہے اور کون استعمال کرسکتا ہے؟ 
فصلِ دوم میں خروج اور بغاوت کی اصطلاحات کی وضاحت کی گئی ہے اور باغیوں اور عام قانون شکن گروہ میں قانونی فرق کی وضاحت کی گئی ہے۔ 
فصلِ سوم میں فرد کی تکفیر کے حوالے اسلامی قانون کے بنیادی اصول پیش کیے گئے ہیں۔ 
فصلِ چہارم میں ریاست کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے پر تفصیلی بحث کی گئی ہے اور اس ضمن میں ریاست، دار، اقتدار اعلی، انسان کے بنائے گئے قانون اور اسلامی شریعت کے تعلق، قانون سازی کے مطلق اختیار اور بین الاقوامی قانون کی حیثیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ 
فصلِ پنجم میں پاکستان کے دستور پر اٹھائے گئے چند اہم اعتراضات کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں دستور کی دفعات کے علاوہ اہم عدالتی نظائر کے حوالے دیے گئے ہیں۔ 

فصلِ اول: امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا اختیار

۱۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر انفرادی طور پر ہر مسلمان کا بھی فریضہ ہے اور اجتماعی طور پر مسلمانوں کے نظم اجتماعی کا، یا حکمران، کا بھی۔ 
۲۔ چنانچہ انفرادی سطح پر ہر مسلمان پر اس کے دائرۂ کار کے اندر لازم کیا گیا ہے کہ وہ اچھائی کی تلقین کرے اور برائی سے روکے اور اگر اسے اس راہ میں تکلیف اٹھانی پڑے تو وہ اسے پوری ہمت سے سہے، اگر اس سخت رد عمل کو سامنا ہو تو صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے اور شیطان کے بہکاوے میں آکر اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز نہ کرے۔ اگر کوئی حق بات قبول کرنے سے انکاری ہو تو اسے زبردستی حق کے آگے جھکانے کی ذمہ داری ان کی نہیں ہے۔ 
۳۔ پس اگر کوئی مسلمان کسی غلط کام کو دیکھے تو اس پر نہی عن المنکر واجب ہوجاتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ اس کام کو زبردستی روکنے کا حق رکھتا ہے ؟ اسی طرح اگر وہ کسی کو اچھائی کی طرف راغب کرنے کا فریضہ ادا کر رہا ہے، تو کیا اسے اختیار ہے کہ وہ اسے زبردستی وہ اچھا کام کرنے پر مجبور کردے ؟ ایک مشہور حدیث میں اس فریضے کے متعلق تین درجوں کا ذکر کیا گیا ہے : دل میں برائی کے بدلنے کا عزم پالنا ؛ برائی کو تبدیل کرنے کے لیے زبانی نصیحت اور یاددہانی کے ذریعے کوشش ؛ اور زبردستی برائی کو تبدیل کرنے کی کوشش۔ 
۴۔ جہاں تک برائی کو دل میں برائی سمجھنے اور اچھائی کو دل میں اچھائی سمجھنے اور برائی کو اچھائی میں بدلنے کا عزم دل میں پالنے کا تعلق ہے تو اس کے متعلق تو دو رائیں نہیں ہوسکتیں کہ یہ ایمان کا لازمی اور کم سے کم تقاضا ہے۔ 
۵۔ اسی طرح اچھائی کی تلقین اور برائی سے باز رہنے کی نصیحت ہر مومن کا فریضہ ہے۔ تاہم اگر برائی کا ارتکاب کرنے والا جابر ہو، طاقتور ہو، بڑا گروہ ہو، حکمران ہو، اور اسے زبانی سمجھانے میں موت کا اندیشہ ہو، تو خاموش رہنا جائز ہوگا بشرطیکہ خاموش رہنا والا اسے دل میں برا سمجھے اور کم از کم دل میں اس برائی کو اچھائی میں بدلنے کا ارادہ رکھے۔ تاہم ایسی صورت میں برائی کو برائی کہنے اور اس کی پاداش میں ہر سزا برداشت کرنے کی راہ عزیمت کی راہ ہے۔ البتہ ضروری ہے کہ حکمت اور موعظتِ حسنہ کے تقاضوں کی پابندی کی جائے۔ 
۶۔ نہی عن المنکر کے لئے طاقت کے استعمال کے لئے ولایۃ یعنی ’’قانونی اختیار ‘‘کی موجودگی شرط ہے اور صاحب ولایۃ صرف ان لوگوں کے خلاف طاقت استعمال کرسکتا ہے جن کے اوپر اسے ولایۃ حاصل ہے۔ یہ ولایت دو طرح سے وجود میں آتی ہے : 
الف۔ کبھی تو بعض افراد کو بعض دیگر افراد پر، مثلاً باپ کو نابالغ بیٹے پر، شریعت کے کسی حکم کی رو سے حاصل ہوتی ہے ؛ اور 
ب۔ کبھی باہمی معاہدے کے نتیجے میں کسی کو ولایت حاصل ہوجاتی ہے، مثلاً عقد وکالت (Contract of Agency) کے نتیجے میں وکیل (Agent) کو اصیل (Principal) کی نمائندگی کے لئے ولایت حاصل ہوجاتی ہے۔ 
۷۔ پس دین کا علم اور فہم رکھنے والا شخص کسی برے کام کو برا تو کہہ سکتا ہے اور اس برائی کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش بھی اس کا فرض ہے لیکن اس برائی کی جبراً روک تھام کے لیے اگر اس کے پاس ولایت نہیں ہے تو وہ زبردستی اسے نہیں روک سکتا۔ وہ صرف انھی لوگوں کو جبراً اس برائی سے روک سکتا ہے جن پر اسے ولایت حاصل ہو۔ دیگر لوگ، جن پر اسے ولایت حاصل نہ ہو، اگر اس برائی کا ارتکاب کررہے ہوں تو اسے صاحبِ ولایت کی طرف رجوع کرنا چاہیے تاکہ وہ انہیں جبراً روکے۔ و الامر بالمعروف بالید الی الامراء لقدرتھم، و باللسان الی غیرھم۔ ( الہدایۃ ) 
۸۔ تاہم مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جب وہ لوگ جن لوگوں کو ولایت حاصل ہو برائی کو نہ روکنا چاہیں، یا وہ اسے برائی ہی نہ کہیں، اور جو لوگ برائی کی روک تھام چاہتے ہوں انھیں ولایت حاصل نہ ہو۔ چنانچہ اسی مسئلے کی آخری اور انتہائی شکل یہ ہے کہ کیا کسی حکمران کے ناجائز کاموں کی وجہ سے اسے زبردستی معزول کیا جاسکتا ہے ؟ کیا اس کے خلاف خروج کیا جاسکتا ہے ؟ 
۹۔ امام ابو حنیفہ کا موقف اس سلسلے میں یہ ہے کہ جابر اور فاسق حکمران کے خلاف خروج جائز ہے، بشرطیکہ اس کے خلاف نکلنے والے متبادل صالح قیادت فراہم کرسکتے ہوں، اور تبدیلی کی اس کوشش میں جو نقصان ہو، وہ اس نقصان سے کم ہو جو جابر یا فاسق حکمران کے برقرار رہنے کی صورت میں رونما ہورہا ہے۔ 

فصلِ دوم: خروج کا مفہوم 

۱۔ فقہِ اسلامی کی تین اصطلاحات یہاں قابلِ ذکر ہیں : خروج، بغی اور حرابہ۔ 
خروج کے لغوی معنی ’’ نکلنے ‘‘ کے ہیں۔ اصلاً یہ لفظ ان لوگوں کی روش کے لیے استعمال ہوا تھا جو سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی اطاعت سے نکل گئے تھے اور اسی بنا پر ’’ خارجی ‘‘ ( جمع : خوارج ) کہلائے۔ تاہم اموی اور عباسی دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ بیت کے بعض افراد کی سرکردگی میں حکومت کی تبدیلی کے لیے وقتاً فوقتاً جو مسلح جد و جہد ہوئی اسے خروج کہا جانے لگا۔ گویا خروج ظالم حکمران کے خلاف عادل افراد کی جانب سے کی جانے والی مسلح جد و جہد کو کہا گیا۔ اس کے برعکس ’’ بغی ‘‘ کے لغوی معنی سرکشی، زیادتی اور فساد پھیلانے کے ہیں۔ چنانچہ عادل حکمران کا تختہ الٹنے کے لیے کی جانے والی مسلح جد و جہد کو بغی کہا جانے لگا۔ 
۲۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی مسلح جد و جہد کے جواز یا عدم جواز کے متعلق بالعموم ایک سے زائد آرا پائی جاتی ہیں۔ اسی طرح حکمران کے ظالم یا عادل ہونے، یا اس کی معزولی کے وجوب یا عدمِ وجوب، کے متعلق بھی عام طور پر اختلاف پایا جاتا ہے، اور ایک ہی جد و جہد کو ایک شخص خروج اور دوسرا بغی کہتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ باغی ہمیشہ خود کو مبنی بر حق کہیں گے اور حکمران ہمیشہ انھیں فسادی قرار دیں گے۔ اس لیے فقہا نے جدوجہد کے عادلانہ یا ظالمانہ ہونے کے پہلو کو نظر انداز کرکے اس پہلو پر توجہ مرکوز کی کہ حکومت کی تبدیلی کے لیے مسلح جدوجہد ہورہی ہے۔ 
۳۔ اب ظاہر ہے کہ حکومت کی تبدیلی کے لیے مسلح جدوجہد تبھی کی جاسکے گی جب جدوجہد کرنے والے ایک مضبوط جتھے کی صورت میں ہوں اور حکومت سے ٹکرانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اس خصوصیت کو فقہا نے ’’ منعۃ ‘‘ کا نام دیا۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ ڈاکو بھی مضبوط جتھا رکھتے ہیں اور حکومت کے خلاف مزاحمت بھی کرتے ہیں۔ چنانچہ فقہا نے باغیوں اور ڈاکووں میں فرق ضروری سمجھا۔ 
۴۔ باغیوں اور ڈاکووں میں یہ بات مشترک ہوتی ہے کہ انھوں نے باقاعدہ ایک قوت اور طاقت رکھنے والے گروہ کی شکل اختیار کی ہوتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ باغیوں کی طرح ڈاکووں نے بھی کسی مخصوص خطے پر اپنا تسلط قائم کرلیا ہو۔ تاہم ڈاکووں کا کام بنیادی طور پر مالی و مادی مفاد کے حصول یا شخصی انتقام کی حد تک ہوتا ہے، جبکہ باغی نظامِ حکومت یا حکمران کی تبدیلی چاہتے ہیں، یا اس اجتماعی نظم سے علیحدگی چاہتے ہیں، کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حکمران ناجائز بنیاد پر حکومت کررہا ہے، یا یہ نظام ہی سرے سے غلط بنیادوں پر قائم ہے۔ اس طرح وہ اپنے تئیں باطل کو ہٹا کر حق قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس حقیقت کی تعبیر فقہا اس طرح کرتے ہیں کہ باغیوں کے پاس ان کے موقف کے متعلق ’’تأویل‘‘ ہوتی ہے۔ یہ تاویل کبھی صحیح ہوتی ہے اور کبھی غلط، لیکن ہر دو صورتوں میں جب منعۃ رکھنے والا گروہ تاویل بھی رکھتا ہو تو پھر ان کی جدوجہد کو رہزنی اور ڈکیتی کے بجاے بغاوت قرار دیا جائے گا۔ 
۵۔ اگر ایک یا زائد اشخاص حکومت یا ریاست کو ناجائز قرار دے کر اس کی تبدیلی یا خاتمے کو ضروری قرار دیتے ہوں لیکن ان کے پاس مسلح جدوجہد کی طاقت نہ ہو تو وہ باغی نہیں ہیں۔ اسی طرح اگر حکومت یا ریاست کے خلاف مزاحمت کی صلاحیت رکھنے والا گروہ حکومت یا ریاست کو ناجائز قرار دے کر اس کی تبدیلی یا خاتمے کے لیے جدوجہد نہ کرتا ہو تو وہ ڈاکووں کا گروہ ہے، نہ کہ باغیوں کا۔ پس بغاوت کے احکام کا اطلاق تبھی ہوگا جب کسی گروہ میں منعۃ اور تأویل دونوں خصوصیات بیک وقت موجود ہوں۔ 
۶۔ ڈاکووں اور رہزنوں سے ریاست کے فوجداری قانون کے تحت نمٹا جاتا ہے۔ چنانچہ ڈاکے کی ایک خاص نوعیت کو حرابہ کہا جاتا ہے جو اگر ایک مخصوص ضابطے اور شرائط کے تحت ثابت ہو تو اس پر ایک مخصوص سزا کا اطلاق ہوتا ہے جسے حد کہا جاتا ہے۔ اس کے برعکس باغیوں پر جنگ کے قانون کا اطلاق ہوتا ہے اور حدود و قصاص کی سزائیں باغیوں کو نہیں دی جاسکتیں، بالکل اسی طرح جیسے حکومت کی فوج پر ان سزاوں کا اطلاق نہیں ہوتا۔ البتہ جنگ کے قانون کی خلاف ورزی پر باغیوں کو بھی سزا دی جاسکتی ہے اور حکومت کی فوج کو بھی۔ نیز باغیوں کو فساد پھیلانے کی بنا پر حکمران مناسب سزا دے سکتا ہے جسے فقہا ’’ سیاسۃ‘‘ کہتے ہیں۔ یہ سزا دیتے وقت اسلامی قانون کے قواعدِ عامہ کی پابندی کی جائے گی۔ 

فصلِ سوم : انفرادی سطح پر تکفیر کا مسئلہ 

ماضی میں بالعموم خروج کے جواز و عدمِ جواز، یا وجوب و عدمِ وجوب، کا مسئلہ حکمران کے فسق یا کفر سے متعلق سمجھا جاتا تھا۔ اب بھی کئی قائلینِ خروج حکمرانوں کی تکفیر یا تفسیق کو ہی بنیاد بناتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ کسی فرد کی تکفیر کے متعلق اسلامی قانون کے بنیادی اصول بھی یہاں مختصراً ذکر کیے جائیں : 
۱۔ کسی مسلمان کی تکفیر پر چونکہ ارتداد کے احکام کا اطلاق ہوتا ہے، اور ارتداد کی سزا حد ہے، اس لیے اس جرم کے اثبات کے لیے صرف دو ہی طریقے ہیں، کسی تیسرے طریقے سے اس جرم کو ثابت نہیں کیا جاسکتا : ایک مجرم کی جانب سے عدالت کے سامنے آزادانہ اقرارِ جرم اور دوسرا اس کے خلاف گواہی، جو ایک مخصوص نصاب کے مطابق ہو۔ وہ مخصوص نصاب یہ ہے کہ کم سے کم دو ایسے مسلمان عاقل بالغ مرد گواہی دیں جن کا کردار بے داغ ہو۔ 
۲۔ پھر چونکہ یہ حد کی سزا ہے اس لیے یہ شبھۃ سے ساقط ہوجاتی ہے۔ یہاں شبھۃ سے مراد یہ ہے کہ جس قول یا فعل کی بنیاد پر کسی شخص کو ارتداد کا مرتکب قرار دیا جارہا ہو، اس کے جواز و عدمِ جواز کے متعلق ملزم کے ذہن میں اشتباہ پایا جاتا تھا۔ کبھی تو ملزم کے ذہن میں یہ اشتباہ حقیقتاً پایا جاتا ہے اور کبھی قانون اس کی موجودگی فرض کرلیتا ہے۔ ہر دو صورتوں میں تکفیر ناجائز ہوگی اور ارتداد کی سزا نافذ نہیں کی جائے گی۔ 
۳۔ چنانچہ کسی بھی ایسے قول یا فعل کی بنیاد پر یہ سزا نہیں دی جاسکتی جس کے کفر ہونے یا نہ ہونے میں اہل علم کا اختلاف ہو۔ 
۴۔ اسی طرح اگر کسی قول یا فعل کی ایک سے زائد تعبیرات ممکن ہوں اور ان میں کوئی تعبیر ایسی ہو جس کی رو سے اسے کفر نہ قرار دیا جاسکتا ہو تو اسی تعبیر کو اپنایا جائے گا۔ 
۵۔ پس ملزم سے پوچھا جائے گا کہ اس قول یا فعل سے اس کی مراد کیا تھی، سواے اس صورت کے جب وہ کفر بواح کا مرتکب ہوا ہو۔ 
۶۔ اگر ملزم کفر سے انکاری ہو تو اس کے انکار کو قبول کیا جائے گا خواہ اس کے خلاف گواہ موجود ہوں کیونکہ اس کے اس انکار کو رجوع اور توبہ سمجھا جائے گا۔ 

فصلِ چہارم : ریاست کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کی بحث 

خروج کی بحث ماضی میں جس طرح حکمران کی تکفیر یا تفسیق سے متعلق ہوتی تھی، اسی طرح معاصر قائلینِ خروج بالعموم ریاستی نظام کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کی بنیاد پر خروج کے احکام مرتب کرتے نظر آتے ہیں۔ عام طور پر یہ موقف یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ریاست کے دستور میں فلاں فلاں شقوں کی موجودگی کی وجہ سے ریاست غیر اسلامی ہوگئی ہے ؛ یا اس ریاست کو دار الاسلام نہیں مانا جاسکتا۔ اس سلسلے میں استدلال کے لیے بالعموم جن شقوں کا حوالہ دیا جاتا ہے ان میں ریاست کے لیے ’’ اقتدار اعلی‘‘ (sovereignty) کا، یا پارلیمان کے لیے قانون سازی کے ’’ مطلق اختیار‘‘ (absolute authority) کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اس لیے ان امور پر بھی فقہی و قانونی اصولوں کی وضاحت ضروری محسوس ہوتی ہے۔ 

اولاً : کیا کوئی ریاست ’’ اسلامی ‘‘ یا ’’ غیر اسلامی‘‘ ہوسکتی ہے ؟ 

سب سے پہلے ’’ اسلامی ریاست‘‘ کا تصور لے لیجیے: 
۱۔ معاصر قوانین کے تحت ’’ریاست‘‘ کو ایک ’’شخص‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ قانون کے تحت اس شخص حقوق و فرائض بھی ہوتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے انسان، جسے ’’ شخصِ حقیقی ‘‘ کہا جاتا ہے، حقوق و فرائض رکھتا ہے۔ معاصر بین الاقوامی قانون کی رو سے جب کسی ’’ وجود‘‘ (entity) میں چار صفات پائی جائیں تو قانون اسے ’’ معنوی شخصیت ‘‘ عطا کردیتا ہے اور وہ ’’ ریاست ‘‘ بن جاتا ہے۔ یہ چار صفات یہ ہیں : 
الف۔ مخصوص خطۂ زمین ؛ 
ب۔ مستقل قیام پذیر آبادی ؛ 
ج۔ نظمِ حکومت ؛ اور 
د۔ دوسری ریاستوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی صلاحیت۔ 
فقہاے اسلام نے جس قانونی نظام کی تعمیر کی ہے اس میں اس طرح کے ’’شخصِ اعتباری‘‘ کے لئے کوئی گنجایش نہیں ہے۔ ( ۱ ) 
۲۔ شخصِ اعتباری کا تصور تسلیم کرنے کے نتیجے میں چند بدیہیات بھی تسلیم کرنی پڑیں گی۔ ان میں سے ایک اہم یہ ہے کہ شخصِ اعتباری پر کسی قسم کی دینی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ اس بات کی تعبیر فقہی اصطلاح میں یوں کریں گے کہ خطاب العبادات شخصِ اعتباری کی طرف متوجہ نہیں ہوسکتا۔ مثال کے طور پر اگر کارپوریشن کو شخص اعتباری مان لیا جائے تو اس شخص کی املاک پر زکاۃ عائد نہیں ہوگی۔ اسی طرح ریاست کو شخص اعتباری کہا جائے تو ساتھ ہی ماننا پڑے گا کہ اس کی طرف خطاب العبادات متوجہ نہیں ہے۔ پس جہاد ریاست کا نہیں بلکہ امام کا فریضہ ہوگا۔ اس بات کی تعبیر فقہا اس طرح کرتے ہیں: و أمر الجھاد موکول الی الامام و اجتھادہ۔ یہی بات امر بالمعروف و نہی عن المنکر، اقامت صلاۃ و ایتاء زکاۃ اور اس طرح کے دیگر فرائض کے متعلق بھی کہی جائے گی۔ بہ الفاظ دیگر، خالص قانونی و فقہی لحاظ سے ریاست کا اسلامی یا غیر اسلامی ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اس لیے ریاست جیسے مسلمان نہیں ہوسکتی، اسی طرح مرتد یا فاسق بھی نہیں ہوسکتی ! 
۳۔ البتہ موجودہ دور کے عرف میں ’’ اسلامی ریاست ‘‘ کی ترکیب دو مفاہیم میں استعمال کی جارہی ہے : ایک مفہوم وہ ہے جو مولانا ابو الاعلی مودودی اور دیگر اہلِ علم کی کاوشوں سے رائج ہوا اور جس کے مطابق اس سے مراد وہ ریاست ہے جہاں شریعت کو بالادستی حاصل ہو ؛ دوسرا مفہوم وہ ہے جو بین الاقوامی اداروں نے بالعموم اختیار کیا ہے اور جس کے مطابق ہر وہ ریاست اسلامی ریاست ہے جہاں آبادی کی اکثریت مسلمان ہو۔ اس دوسرے مفہوم کے لحاظ سے اسلامی کانفرنس کی تنظیم کے ہر رکن کو اسلامی یا مسلمان ریاست کہا جاتا ہے۔ ان دونوں مفاہیم کو چاہے آپ غلط العام کا درجہ دیں، یا اسے کچھ اور کہیں، لیکن یہ محض عرفی تعبیرات ہیں۔ ان کا قانونی اثر کچھ بھی نہیں ہے۔ ( ۲) 
کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اس وقت تمام ریاستیں غیر اسلامی ہیں ؟ ہر گز نہیں۔ کوئی بھی ریاست غیر اسلامی نہیں ہوسکتی۔ قانونی پہلو سے ریاست کے معاملے میں اسلامی و غیر اسلامی کی بحث ہی سرے سے غیر متعلق ہے۔ 

ثانیاً : دار الاسلام سے مراد کیا ہے؟ 

۱۔ دار الاسلام کے تصور کی بنیاد ملت پر نہیں تھی۔ اگر ایسا ہوتا تو دار الاسلام کے اندر رہنے والے مسلمانوں کے حقوق و فرائض اور دار الاسلام سے باہر رہنے والے مسلمانوں کے حقوق و فرائض میں فقہا فرق نہ کرتے۔ ایسا تسلیم کیا جائے تو عدالتوں کے اختیارِ سماعت کے متعلق حنفی فقہ کی تمام جزئیات دریابرد کرنی پڑیں گی۔ نیز ایسا ہونے کی صورت میں دو میں سے ایک نتیجہ لازماً تسلیم کرنا پڑتا: 
الف۔ یا تو پوری دنیا کو دار الاسلام میں تبدیل کرنا لازم ہوتا کیونکہ کسی بھی لمحے کہیں بھی کوئی بھی شخص اسلام قبول کر سکتا ہے ؛ 
ب۔ یا ہر مسلمان پر دار الاسلام کی طرف ہجرت واجب ہوتی۔ 
۲۔ فقہا کے نصوص کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ دار کے تصور کی بنیاد غلبہ و قہر پر تھی۔ جہاں غلبہ مسلمانوں کو حاصل ہوتا وہ دار الاسلام ہوتا اور جہاں غلبہ کافروں کو ہوتا وہ دار الکفر۔ البقعۃ انما تنسب الینا أو الیھم باعتبار القوۃ و الشوکۃ۔
۳۔ اگر غلبہ مسلمانوں کو حاصل ہو تو اما م پر لازم ہوگا کہ وہ احکام اسلام کا اجرا کرے۔ بعض احکام کے عدمِ اجرا پر وہ گنہگار ہوگا اور اس کے خلاف خروج جائز ہوگا، جبکہ بعض احکام کے عدم اجرا پر یا بعض احکامِ کفر کے اجرا پر اس کا عزل واجب ہوجائے گا اور اگر دیگر شرائط پوری ہوں تو اس کے خلاف خروج واجب بھی ہوجائے گا لیکن جب تک اس معاشرے میں من حیث المجموع مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہو تو اس دار کو دار الکفر نہیں کہا جائے گا۔ 
۴۔ اس کی مزید وضاحت اس امر سے ہوتی ہے کہ دار الاسلام میں کفار کی جانب سے احکامِ کفر کے اجرا کی صورت میں بھی امام ابو حنیفہ اسے اس وقت تک دار الکفر نہیں قرار دیتے جب تک دو مزید شرائط ہوری نہ ہوں : 
الف۔ مسلمانوں کا امان ختم ہو ؛ اور 
ب۔ یہ علاقہ ہر طرف سے دار الکفر میں گھرا ہوا ہو (متاخمۃ دار الکفر)۔ 
ان میں پہلی شرط اس بات کے تعین کے لیے ہے کہ منعۃ کس کے پاس ہے ؟ جبکہ دوسری شرط اس بات کے تعین کے لیے یہ ہے کہ یہ تبدیلی عارضی ہے یا مستقل رہے گی ؟ پس جب متعین ہوجائے کہ غلبہ و قہر اور منعۃ کفار کا ہے تو ولایۃ بھی ان کو حاصل ہوجائے گی اور اس علاقے کو دار الاسلام نہیں کہا جائے گا۔ پس اصل سوال منعۃ و ولایۃ کا ہے ! اس بات کی مزید وضاحت آگے اقتدار اعلی پر بحث کے ضمن میں آئے گی۔ 
۵۔ باقی رہا یہ مسئلہ کہ دار الاسلام ایک ہے تو یا ایک سے زائد بھی ہوسکتے ہیں تو اسلامی شریعت کا مفروضہ یہ ہے کہ دار الاسلام ایک ہی ہے۔ اس کی وضاحت کے لیے یہ جزئیہ کافی ہوگا کہ جب دار الاسلام میں دو حکومتیں قائم ہوجائیں، ایک اہل عدل کی اور دوسری باغیوں کی، تب بھی فقہا دونوں حکومتوں کے زیر تسلط تمام علاقے کو ایک ہی دار قرار دیتے ہیں، باوجود اس کے کہ حکومت اور منعۃ کے الگ ہونے کی وجہ سے فقہا کئی قانونی اثرات مانتے ہیں۔ تاہم چونکہ قانوناً دار ایک ہی ہوتا ہے اس لیے دار کی تبدیلی سے واقع ہونے والے قانونی اثرات یہاں مرتب نہیں ہوں گے۔ 
۶۔ پس اسلامی کانفرنس کی تنظیم کے ممبر ممالک کو ایک ہی دار الاسلام کہا جائے گا تاہم منعۃ کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ اگر منعۃ کے اصول پر نظر رکھی جائے تو صورتحال کچھ یوں نظر آتی ہے کہ ایک دار الاسلام ہونے کے باوجود یہ علاقہ ۵۷ مختلف حکمرانوں کے منعۃ کے تحت ہے۔ ایک حکمران کے ماتحت جو علاقے ہیں وہاں جرم ہو جائے تو دوسرا حکمران، جو کسی اور علاقے میں منعۃ رکھتا ہے، اس جرم پر سزا دینے کا اختیار نہیں رکھتا۔ پس ان مختلف حکمرانوں کو اپنے اپنے علاقوں پر بطور امر واقعی (de facto) ولایۃ حاصل ہے لیکن بطور امر قانونی (de jure) ضروری ہے کہ اس تمام علاقے پر ایک ہی حکمران کو ولایۃ عامۃ حاصل ہو اور باقی حکمران اس کے ماتحت ہوں۔ بہ الفاظ دیگر ایک مرکزی خلافت کا قیام ایک واجب شرعی ہے، جس کے ترک پر سب گنہگار ہوں گے لیکن اس مطلوب صورت کے وجود میں آنے تک جن لوگوں کو عملاً منعۃ حاصل ہے ان کو ولایۃ بھی حاصل ہے اور معروف میں ان کی اطاعت کی جائے گی۔ بالکل اسی طرح جیسے متغلب کو ولایۃ حاصل ہوتی ہے اور معروف میں اس کی اطاعت کی جاتی ہے۔ مرکزی خلافت کا قیام مطلوب سہی لیکن اس کے قیام تک لوگوں کو فوضی لا سراۃ لھم نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اس اصول کی بنیاد پر دار الاسلام کے ان ۵۷ ٹکڑوں کو مزید چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹنا بھی ناجائز ہوگا۔ 

ثالثاً : اقتدار اعلیٰ کی بحث 

۱۔ عصر حاضر میں ریاست کے تصور کی طرح اقتدار اعلی کا تصور بھی خلطِ مبحث کا شکار ہوگیا ہے۔ یورپ میں یہ تصور دراصل روم کی مرکزی حکومت سے بغاوت کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا۔ جب نشاۃِ ثانیہ اور تحریکِ اصلاحِ مذہب کے نتیجے میں رومی حکومت کا کنٹرول کم ہوا اور علاقائی قوتوں نے خود مختاری کا دعوی کیا تو جنگوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا۔ بالآخر ویسٹ فالیہ کے معاہدے (۱۶۴۸ء ) کے نتیجے میں ’’مقدس رومی بادشاہت ‘‘ کے خاتمے کا باضابطہ اعلان ہوا اور علاقائی قوتوں کا الگ تشخص اور ان کی الگ حیثیت تسلیم کرلی گئی۔ اس وقت کے سیاسی مفکرین نے اس الگ تشخص کی بنیاد متعین کرنے کے سلسلے میں ’’اقتدار اعلی ‘‘ کے تصور سے مدد لی۔ چنانچہ یہ مان لیا گیا کہ جو علاقے ایک ہی اقتدار اعلی کے تحت ہوں وہ ایک ریاست میں شامل متصور ہوں گے، اور جہاں اقتدار اعلی کسی دوسری طاقت کا ہوگا وہ الگ ریاست ہوگی۔ اس تصور کو فقہی اصطلاح میں دیکھیں تو یہ ’’منعۃ‘‘ کے تصور کے مترادف معلوم ہوتا ہے، اور منعۃ کے ساتھ ولایۃ کا تصور خودبخود آجاتا ہے۔ یہیں سے اختیار سماعت اور دیگر متعلقہ مسائل کے لئے بنیاد فراہم ہوتی ہے۔ 
۲۔ اقتدار اعلی کے اس سیدھے سادھے تصور کو اٹھارھویں اور انیسویں صدی میں سیاسی مفکرین نے کہیں سے کہیں پہنچادیا۔ پھر اس طرح کی بحثیں شروع ہوئیں کہ کیا اقتدار اعلی قابل تقسیم ہے ؟ کیا یہ قابل اشتراک ہے ؟ کیا یہ قابل انتقال ہے ؟ کیا اقتدار اعلی کا حامل کسی کو جوابدہ ہوتا ہے ؟ ان چاروں سوالات کا ابتدائی جواب تو نفی میں سامنے آیا۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ جب نئی ریاستیں نئے انداز میں سامنے آئیں اور نظامہائے حکومت میں بھی دور رس تبدیلیاں وجود میں آئیں تو پھر ان مباحث نے نئی کروٹ لی اور مغربی مفکرین حنابلہ، اشاعرہ، معتزلہ اور ماتریدیہ کی طرح تاویلات در تاویلات اور سوال، جواب اور جواب الجواب کا شکار ہوگئے۔ امریکہ میں جب وفاقی ریاست قائم ہوئی تو اقتدار اعلی کے ناقابل تقسیم ہونے کا تصور مسترد کردیا گیا۔ اسی طرح جب مغرب میں جمہوریت نے جڑیں پکڑ لیں تو سوال پیدا ہوا کہ اقتدار اعلی کس کے پاس ہے ؟ اگر کہا جائے کہ حکومت کے پاس ہے تو وہ تو پارلیمنٹ کو جوابدہ ہوتی ہے، اور اگر پالیمنٹ کے پاس ہے تو اسے تو عوام منتخب کرتے ہیں۔ اسی طرح اگر اقتدار اعلی عوام کے پاس ہے تو وہ تو خود پالیمنٹ کے وضع کردہ قوانین کے ماننے پر مجبور ہوتے ہیں۔ مزید برآں، جب بین الاقوامی معاملات میں ریاستوں کا ایک دوسرے پر انحصار بڑھنے لگا اور ریاستوں نے چند ضوابط کی پابندی ضروری سمجھی تو خارجی سطح پر بھی اقتدار اعلی کا تصور خود بخود ختم ہوگیا۔ 
۳۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد ریاستوں کے لیے اقتدار اعلی صرف تصوراتی دنیا میں ہی باقی رہا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مونٹی ویڈیو کنونشن ۱۹۳۳ء میں ریاست کے لئے اقتدار اعلی کے بجائے ’’ دوسری ریاستوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی صلاحیت ‘‘ کی ترکیب استعمال کی گئی ہے۔ بہ الفاظ دیگر بات واپس منعۃ اور ولایۃ کے تصور تک پہنچ گئی۔ اگرچہ اقوام متحدہ کے منشور اور دیگر معاہدات میں اور بین الاقوامی عرف میں اب بھی ریاست کے لئے اقتدار اعلی کی صفت استعمال ہوتی ہے اور ریاستوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کو ناجائز تصور کیا جاتا ہے، مگر عملاً یہ تصور اب صرف منعۃ اور ولایۃ تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ پس یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کن چیزوں پر اپنی ولایۃ برقرار رکھنے پر بضد ہیں ؟ ان معاملات میں آپ کے منعۃ کی وجہ سے کوئی مداخلت نہیں کرسکے گا اور وہ آپ کے ’’اندرونی معاملات ‘‘ قرار پائیں گے، وگرنہ ہر معاملے میں دوسرے مداخلت کرتے رہیں گے اور آپ کی ولایۃ کسی معاملے میں باقی نہیں رہ پائے گی۔ پس اصل اہمیت منعۃ اور ولایۃ کی ہے نہ کہ اقتدار اعلی نام کی موہوم شے کی۔ 
۴۔ فقہاے اسلام ولاےۃ اور منعۃ کو امام کی طرف منسوب کرتے تھے، نہ کہ دار کی طرف۔ تاہم امام کے پاس کوئی اختیار از خود نہیں آیا، بلکہ یا تو اسے شریعت نے عطا کیا ہوتا ہے یا امت کے وکیل کی حیثیت سے اسے بعض اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں شریعت کی بالادستی مسلم ہوتی ہے۔ موجودہ دور میں امت، امام، دار اور منعۃ و ولایۃ کے مجموعے کو بین الاقوامی عرف میں ایک ’’ شخص ‘‘ متصور کرلیا گیا ہے، اور اس شخصِ اعتباری کے لئے کچھ حقوق و فرائض متعین کیے گئے ہیں۔ ہمیں غیروں کی اصطلاح میں بات کرنے کے بجائے اپنی اصطلاحات کی روشنی میں موجودہ صورتحال کی شرعی تکییف کرنی ہوگی۔ 

رابعاً : قانونِ وضعی کی حیثیت 

۱۔ اگر انسانوں کے وضع کردہ قوانین کو لازماً شرک فی الحکم سمجھاجائے تو پھر یہی درجہ خلفائے بنو امیہ سے لے کر عثمانی خلفاء تک سب حکمرانوں کے جاری کردہ فرامین اور وضع کردہ قواعد کو بھی دینا ہوگا۔ اس کے جو سنگین نتائج برآمد ہوتے ہیں وہ اتنے واضح ہیں کہ ان پر تبصرے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ 
ہر قانونی نظام میں صحیح (Valid) اور غیر صحیح (Invalid) قوانین میں فرق کے لئے قواعد و ضوابط ہوتے ہیں۔مثلاً پارلیمنٹ کسی موضوع پر قانون سازی کے لئے بنیادی قواعد ایک قانون کے ذریعے طے کردیتی ہے جو Parent Act کہلاتا ہے۔ اس ایکٹ کے ذریعے کسی دوسرے ادارے کو قانون سازی کے اختیارات تفویض (Delegate)کر دیے جاتے ہیں۔ وہ ادارہ جو قوانین وضع کرتا ہے اگر وہ Parent Act کے وضع کردہ قواعد کی رو سے صحیح ہوں تو انہیں ملک کے قانونی نظام کا حصہ سمجھا جائے گا، باوجود اس کے کہ ان قوانین کو پارلیمنٹ کے بجائے ایک ماتحت ادارے نے وضع کیا ہوتا ہے۔ پھر ہر قانونی نظام میں ایک اساسی قاعدہ (grundnorm ) ہوتا ہے جو خود صحیح ہوتا ہے اور اسی کی بنیاد پر دیگر تمام قوانین کی صحت یا عدم صحت کا فیصلہ کیاجاتاہے۔ 
اسلامی قانون کا grundnorm یہ ہے: ان الحکم الا للہ (سورۃ یوسف، آیت ۴۰)
پس وضعی قوانین کو الہامی نہیں قرار دیا جاسکتا لیکن وہ اسلامی قانون ہی کا حصہ ہوتے ہیں بشرطیکہ وہ مذکورہ بالا grundnorm کی رو سے صحیح ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ فقہا تعزیری سزاؤں کا ذکر کتاب الحدود میں ہی کرتے ہیں۔ جب قرآن و سنت نے اس طرح کے معاملات میں قانون سازی کا اختیار اولوالامر کو دیا ہے تو پھر اس پر اعتراض کی گنجائش نہیں ہے۔ 
البتہ وضعی قوانین پر یہ اعتراض یقیناًوزنی ہے کہ وہ اسلامی قانون کے بجائے انگریزوں کے وضع کردہ قوانین سے ماخوذ ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ پاکستان میں قانون ساز اداروں اور شعبۂ قانون سے وابستہ بہت سے افراد کا موقف یہ ہے کہ جو قوانین قرآن وسنت سے ’’متصادم‘‘ نہیں ہیں وہ از خود صحیح ہیں۔ اس سلسلے میں نہ صرف یہ کہ اسلامی قانون کے قواعد عامہ نظر انداز کردیے جاتے ہیں بلکہ ’’عدم تصادم ‘‘کو ’’مطابقت‘‘ کے مترادف سمجھ لیا جاتا ہے۔
۲۔ فقہا نے اسلامی قانون کا جو ڈھانچہ بنایا ہے اس میں ہر قسم کا قانون ایک خاص قسم کے حق کے ساتھ منسلک ہے۔ ان حقوق میں باہم ترجیح کے لیے فقہا نے خاص اصول بھی وضع کیے ہیں۔ جب تک حقوق کے اس نظام کو اچھی طرح نہ سمجھ لیا جائے اسلامی قانون کے متعلق بہت سی غلط فہمیاں برقرار رہیں گی۔ اس ڈھانچے میں ہر قانون کا تعلق یا تو اللہ کے حق سے ہوتا ہے، یا بندے کے حق سے جسے حق العبد کہتے ہیں۔ بعض اوقات قانون کا تعلق ریاست یا معاشرے کے حق سے ہوتا ہے جسے حق السلطان یا حق السلطنۃ کہتے ہیں۔ حق جس کا ہوتاہے اسے جرم کی معافی کا بھی اختیار ہوتا ہے۔ اگر حقوق اللہ اور حقوق السلطان ایک ہی ہوتے (جیسا کہ کئی معاصر اہلِ علم نے فرض کیا ہے ) تو پھر جن جرائم کو حقوق اللہ سے متعلق سمجھا جاتاہے (حدود) ان میں ریاست کے پاس معافی کا اختیارہوتا۔ اسی طرح حق کے مختلف ہونے کی وجہ سے جرم کے ثبوت اور بعض دیگرمتعلقہ مسائل (مثلاً شبہہ کااثر) بھی تبدیل ہوجاتے ہیں۔ بعض اوقات دو قسم کے حقوق مل کر ایک مشترک حق بناتے ہیں۔ 
ایسے جرائم جن کا تعلق حق السلطان سے ہے اور جن کی سزا کی مقدار کا تعین بھی اولوالامر کے ذمے ہے، ان کوفقہاے احناف ’’سیاسۃ‘‘ جرائم کہتے ہیں۔ ان جرائم میں معیار ثبوت کا تعین بھی حکومت کے پاس ہے اور معافی کا اختیار بھی وہ رکھتی ہے۔ جرم کی نوعیت کے مطابق سزا کا تعین حکومت کرتی ہے اور اس سلسلے میں ایسی کوئی قید نہیں ہے کہ سزا حد کی مقدار سے زائد نہ ہو۔ چنانچہ بعض حالات میں سزاے موت بھی دی جاسکتی ہے۔ 
۳۔ باقی رہا سوال پارلیمانی نظام حکومت کا تو وہ آمریت اور تغلب کے طریق کار سے بدرجہا بہتر ہے۔ اگر کوئی غلام امارت حاصل کرے اور اس کی اطاعت معروف میں واجب ہے، اگر کسی متغلب حاکم کی بھی معروف میں اطاعت لازم ہے، تو ایسے حاکم کی اطاعت تو بدرجۂ اولی لازم ہونی چاہیے جو عوام کی مرضی سے حکومت حاصل کرے۔ یہ بات اور بھی واضح ہوجاتی ہے جب ہم اس حقیقت پر نظر ڈالتے ہیں کہ امام دراصل مامومین کا وکیل ہوتا ہے۔ تغلب کی صورت میں وہ عقد وکالۃ کے بغیر یہ منصب حاصل کرتا ہے، جبکہ چناؤ کی صورت میں وہ موکل کی مرضی سے وکیل بن جاتا ہے۔ خواہ مرضی کا یہ اظہار کتنا ہی ناقص ہو یہ تغلب سے بہتر ہے۔ 
۴۔ پارلیمنٹ کیا ہر قسم کی قانون سازی کرسکتی ہے ؟ کیا اس کا یہ اختیار مطلق ہے ؟ مغرب میں اقتدار اعلیٰ کے متعلق جو بحثیں ہوئیں ان کے نتیجے میں پہلے نظری سطح پر یہ بات مان لی گئی کہ اقتدار اعلی عوام کے پاس ہے۔ انتخاب کی صورت میں وہ یہ اختیار اپنے نمائندوں کو تفویض کردیتے ہیں۔ تاہم اس تفویض کے عمل سے دو باتیں از خود ثابت ہوجاتی ہیں : ایک یہ کہ جن کو اختیار تفویض کیا گیا وہ مطلق اختیار کے حامل نہیں ہیں؛ دوسری یہ کہ جنہوں نے اختیار تفویض کیا وہ بھی مطلق اختیار کے حامل نہیں رہے۔ بہ الفاظ دیگر اقتدار اعلی کسی کے پاس نہیں رہا۔ 
؂ نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز ! 
اب یہ بات صرف کاغذات تک ہی محدود ہے کہ پالیمنٹ اقتدار اعلی کی حامل ہے۔ حقیقت یہ ہے، جیسا کہ پیچھے واضح کیا گیا، کہ ریاست بھی اقتدار اعلی کی حامل نہیں ہے چہ جاے کہ پارلیمنٹ ! برطانیہ کے نظامِ حکومت کو پارلیمانی نظام حکومت کی سب سے بہترین مثال سمجھا جاتا ہے لیکن وہاں بھی پارلیمنٹ کے اقتدار اعلی کا تصور ختم ہوتا جارہا ہے اور اس کی جگہ ’’ کابینہ کی آمریت ‘‘ کے تصور نے جنم لیا ہے۔ امریکہ میں جہاں عدالتوں کو اختیار حاصل ہے کہ وہ کانگرس کے وضع کردہ قانون کو ختم کرسکتی ہے وہاں کانگرس کے بجائے دستور کی بالادستی کی بات کی جاتی ہے جس کی محافظ عدالتِ عظمی ہے۔ اسی طرح عدالتِ عظمی کو اختیار دیا گیا کہ وہ صدر کے جاری کردہ فرامین کو بھی کالعدم قرار دے۔ تاہم کانگرس دستور میں ترمیم کرسکتی ہے جو اگرچہ ایک نہایت مشکل کام ہے لیکن بہر حال اس کا اختیار کانگرس کے پاس ہے۔ اس طرح کانگرس عدالت کے اختیارات کو محدود کرسکتی ہے۔ کانگرس کے اس اختیار پر ایک قدغن لگانے کے لیے سربراہِ ریاست، یعنی صدر، کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کانگرس کے منظور کردہ قانون کو ویٹو کے اختیار کے استعمال کے ذریعے مسترد کردے۔ بھارت میں پارلیمنٹ کے اس اختیار کو مزید محدود کردیا گیا ہے کہ وہ دستور میں اس طرح کی ترمیم نہیں کرسکتی کہ اس سے دستور کا بنیادی ڈھانچہ ہی تبدیل ہوجائے۔ پس ’’ قانون سازی کے مطلق اختیار ‘‘ کا وجود کہیں بھی نہیں ہے۔ یہ محض ایک تخیل اور وہم ہے۔ پاکستان کے نظام پر آگے کچھ تفصیلی بحث آئے گی۔ 
۵۔ پارلیمنٹ کے لیے مطلق اختیارات کے تصور کے پیچھے یہ اصول کارفرما تھا کہ ریاست اقتدار اعلی کی حامل ہے۔ تاہم یہ تصور اب صرف نظریات کی حد تک ہی باقی رہا ہے۔ عملی دنیا میں اس تصور کے لئے کوئی گنجایش نہیں ہے۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی مد نظر رہے کہ ریاست کے لیے اقتدار اعلی کے قائل صرف وہ مغربی مفکرین رہے ہیں جن کو Positivists کہا جاتا ہے۔ مغربی مفکرین ہی میں ایک گروہ ایسا رہا ہے جس نے اس مطلق اختیار پر سخت تنقید کی اور اعلان کیا کہ ریاست بذات خود مقصد نہیں بلکہ ایک اعلی تر مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے۔ انہوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ وضعی قانون کے اوپر ایک اور اعلی اور بالادست قانون موجود ہے جسے انہوں نے ’’ قانونِ فطرت ‘‘ کا نام دیا۔ انہوں نے قرار دیا کہ ریاستی وضعی قانون صرف اسی وقت واجب التعمیل ہوگا جب وہ اس قانون فطرت سے موافق ہو۔ اگر ریاست کا وضع کردہ قانون اس بالاتر قانون سے متصادم ہو تو ریاستی قانون کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ان Naturalists نے قرار دیا کہ حقوقِ انسانی کا منبع یہی قانون فطرت ہے اور ریاست کا مقصدِ وجود یہ ہے کہ وہ ان حقوق کی حفاظت کرے نہ کہ ان کو معطل کرے یا محدود کرے۔ ان میں سے بعض نے قانون فطرت کو خدائی قانون کا حصہ قرار دیا۔ ( ۳ ) 
Naturalistsکی کاوشوں سے ریاست اور پارلیمنٹ کے مطلق اختیارات پر ایک بڑی قدغن لگ گئی۔ ایک دوسری قدغن، جس کا پیچھے بھی ذکر کیا گیا، عدالتوں نے بالخصوص Judicial Review کے اختیار کے ذریعے لگائی۔ نیز خود مغربی مفکرین کو مطلق العنانی کے سد باب کے لئے ’’اختیارات کی تقسیم ‘‘ کا نظریہ پیش کرنا پڑا، جس کے تحت قانون سازی کا اختیار پارلیمنٹ کو دیا گیا، تعبیر قانون کا اختیار عدالتوں کو اور تنفیذ قانون کا اختیار انتظامیہ کے سپرد کردیا گیا۔ پھر مغرب میں یہ بحث بھی چھڑ گئی کہ اگر قانون سازی کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہے تو جج کا کیا کردار ہے؟ کیا وہ قانون سازی کرتا ہے یا وہ محض قانون کی تعبیر کرتا ہے۔ اگر قانون کی تعبیر سے مراد صرف یہ ہے کہ لفظ کے ظاہر تک محدود رہے تو پھر نئے پیش آمدہ مسائل کا حل کیسے پیش کیا جائے گا۔ پھر وہاں اسی طرح کے مباحث نے جنم لیا جس سے مسلمان اہل علم پہلے ہی آشنا تھے، یعنی اہلِ ظاہراور اہل راے کے مباحث ! جہاں کہیں کسی جج نے قانون کے پیچھے کارفرما اصولوں کا استخراج کرکے کسی مسئلے کا حل پیش کیا بعض ظاہر پسندوں نے اسے ’’ قانون سازی ‘‘ قرار دیتے ہوئے پارلیمنٹ کے اختیارات پر حملہ قرار دیا۔ تاہم ’’ اہل راے ‘‘ ججوں کی کاوشوں سے سینکڑوں نئے مسائل کا حل دریافت ہوا اور قانون نے ارتقا کا سفر جاری رکھا۔ 
ان میں سے کوئی مبحث مسلمان اہلِ علم کے لئے انوکھا اور نیا نہیں ہے مگر اسے تشریع من دون اللہ کہنا بہت بڑی زیادتی ہوگی۔ 

خامساً : بین الاقوامی قانون کی حیثیت کا مسئلہ 

۱۔ بین الاقوامی قانون کے متعلق بھی یہ تصور صرف Positivists کا رہا ہے کہ اس کا ماخذ ریاست کی مرضی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چونکہ ریاست اقتدار اعلی کی حامل ہے اس لئے اس پر بالادست قانون کوئی نہیں ہوسکتا کیونکہ بالادستی کا مطلب ریاست کے اقتدار اعلی کی نفی ہے۔ تاہم اقتدار اعلی کا حامل شخص خود اپنے اوپر بعض پابندیاں عائد کرسکتا ہے۔ چنانچہ بین الاقوامی قانون ان پابندیوں کا مجموعہ ہے جو ریاست نے اپنے اوپر صراحتاً یا دلالۃً عائد کی ہیں۔ اول الذکر کو معاہدہ اور ثانی الذکر کو رواج کہتے ہیں۔ تاہم یہ انتہائی حد تک سادہ موقف اب بالکل متروک ہوچکا ہے۔ چنانچہ جیسا کہ پیچھے ذکر کیا گیا، ریاست کے اقتدار اعلی کا تصور صرف اعلان کی حد تک محدود رہ گیا، اس کے قانونی اثرات باقی نہیں رہے۔ قانونی اثرات صرف منعۃ اور ولایۃ کے ہیں۔ مزید برآں جب ریاست رواج یا معاہدے کی دفعات پر عمل کی پابند ہوگئی تو وہ اقتدار اعلی کی حامل باقی ہی نہیں رہی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بین الاقوامی عدالت انصاف کے ضابطے میں تصریح کی گئی ہے کہ بین الاقوامی قانون کے مآخذ میں محض رواج اور معاہدات ہی شامل نہیں ہیں بلکہ بین الاقوامی عدالتوں کے فیصلوں اور ممتاز ماہرین قانون کی تحریرات کے علاوہ مہذب اقوام کے نظامہائے قانون کے مسلمہ قواعد اور اصول بھی شامل ہیں۔ ان مآخذ میں کچھ ثانوی حیثیت رکھتے ہیں اور کچھ بنیادی، تاہم اتنی بات طے ہے کہ ان سب کا ماخذ ریاست کا اقتدار اعلی نہیں ہے۔ اس پر مزید اضافہ Naturalists کی کاوشوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حقوق انسانی کے ذخیرے کا بھی کیجئے تو معلوم ہوتا ہے کہ اقتدار اعلی کے تصور کی جڑ ہی کٹ گئی ہے۔ 
۲۔ شریعت نے دار الاسلام اور دار الکفر کے درمیان جنگ و امن کے تعلقات کی تہذیب کے لئے کچھ قوانین نصوص کے ذریعے دیے ہیں اور دیگر امور کے لئے سیاسۃ کے قاعدے کے تحت امام کو اختیار دے دیا ہے۔ مسلمانوں کے لئے شریعت کے احکام ہر صورت میں واجب الاطاعت رہیں گے خواہ فریق مخالف ان کو مانے یا نہ مانے، اور خواہ وہ ان کی پابندی کرے یا خلاف ورزی۔ گویا دیگر امور کی طرح اس شعبے میں بھی مسلمانوں پر شریعت کے احکام کی پابندی کی بنیاد تماثل اور مجازاۃ نہیں ہے۔ ہاں اگر فریق مخالف بھی ان امور کی پابندی پر آمادہ ہے اور ان کو معاہدات کے ذریعے منضبط کرنا چاہتا ہے تو یہ اور بھی بہتر ہے۔ امام محمد بن الحسن الشیبانی، جو فی الحقیقت آیۃ من آیات اللہ تھے، نے السیر الکبیر میں کئی ایسے فرضی معاہدات پر بحث کی ہے جو مسلمان دیگر اقوام کے ساتھ آداب القتال کے سلسلے میں کرسکتے ہیں۔ اس لئے یہ کہنا کہ ’’ یہ معاہدہ نہیں بلکہ قانون ہے لہٰذا ناجائز ہے ‘‘ ایک انتہائی حد تک غلط موقف ہے کیونکہ، جیسا کہ پیچھے واضح کیا گیا، محض قانونی حیثیت حاصل ہونے کی وجہ سے یہ ناجائز نہیں ہوجاتا، بالخصوص جبکہ اس معاہدے میں وہی کچھ طے کیا گیا ہو جو شریعت نے مسلمانوں پر لازم ٹھہرایا ہو۔ 
۳۔ باقی رہی یہ بات کہ اگر معاہدے میں کوئی شق شریعت کے خلاف ہو تو کیا اس معاہدے پر دستخط کرنا ناجائز نہیں ہوگا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ خلاف شریعت کسی شرط کا ماننا مسلمانوں کے لئے جائز نہیں ہے (المسلمون عند شروطھم الا شرطاً أحل حراماً أو حرم حلالا)۔ اس قسم کی شرط ماننا یقیناًناجائز ہے۔ بلکہ اگر اس قسم کی شرط مان بھی لی گئی تو اس پر عمل ناجائز ہوگا۔ تاہم بعض شرائط کے مقتضیات کے تعین پر اختلاف ہوسکتا ہے۔ چنانچہ یہ ممکن ہے کہ بعض شروط کے ماننے سے بعض لوگوں کے نزدیک کفر کی بالادستی ماننی لازم آتی ہو، جبکہ بعض دوسرے لوگوں کے خیال میں ہوسکتا ہے کہ یہ ان شروط کے ماننے کا لازمی تقاضا نہ ہو۔ اس لئے کوئی sweeping statement دینا مناسب نہیں ہوگا، بلکہ ضروری ہوگا کہ ہر ہر شرط کے مقتضیات پر الگ الگ بحث کی جائے اور پورے معاہدے کے مجموعی اثر پر اس کے بعد نظر ڈالی جائے۔ اس کے بعد ہی اس معاملے کی صحیح شرعی تکییف کی جاسکے گی۔ عقود اور شروط کے متعلق اصل صحت، نفاذ اور لزوم کا ہے۔ جو شخص دعوی کرے کہ کوئی شرط یا عقد اس اصل کے خلاف ہے تو ثبوت کا بار بھی اسی کے ذمے ہے۔ 
۴۔ پچھلے مباحث کی روشنی میں یہ امر اصولی طور پر بالکل جائز ہے کہ مسلمان دیگر اقوام کے ساتھ مل کر ایسا معاہدہ کریں جس کے ذریعے وہ آپس کے تنازعات کے حل کے لئے کوئی پر امن طریقہ متعین کریں۔ اس معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے فریق کے خلاف باہمی تعاون بھی اصولی طور پر جائز ہے۔ البتہ تفصیلات اور جزئیات پر بحث کی ضرورت ہے۔ 
۵۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اگر دو گروہوں کے درمیان تنازعہ ہو اور ہمیں کسی ایک فریق کا ساتھ دینا پڑے تو کیا ہم اس بنیاد پر فیصلہ کریں گے کہ ان گروہوں میں مسلمان کون ہے ؟ یا یہ دیکھیں گے کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون ؟ اگر ظالم اور مظلوم کے سوال کو نظر انداز کرکے ہم ہر حال میں صر ف ’’ مسلمان ‘‘ ہی کا ساتھ دیں تو کیا یہ اسی طرح کی ’’ قوم پرستی ‘‘ نہیں ہوجائے گی جس پر مسلمان اہلِ علم عموماً تنقید کرتے ہیں ؟ 

فصلِ پنجم: کیا پاکستان کا دستور ’ کفریہ ‘ ہے ؟ 

پچھلے مباحث کی روشنی میں جب ہم پاکستان کی مخصوص صورتحال پر نظر ڈالتے ہیں تو چند نتائج بدیہی طور پر سامنے آجاتے ہیں : 

اولاً : پاکستان دار الاسلام ہے۔ 

پاکستان میں شامل علاقے یقیناًدار الاسلام کی تعریف پر پورا اترتے ہیں۔ یہاں کی آبادی کی غالب اکثریت مسلمان ہے جنہوں نے باہمی معاہدے کے ذریعے یہ بھی طے کیا ہوا ہے کہ ان کا سربراہ مسلمان ہوگا۔ اگر بعض لوگوں کے خیال میں اس معاہدے کی بعض شقیں یا دیگر قوانین کی بعض جزئیات ’’ ظہور احکام کفر ‘‘ کے ضمن میں آتی ہیں تو اس کے باوجود دار الاسلام کے دار الکفر میں تبدیل ہونے کے لئے جو دو مزید شرطیں درکار ہیں وہ یہاں نہیں پائی جاتیں۔ یہاں غلبہ اور قہر مسلمانوں کا ہے جس کی وجہ سے یہ علاقہ مسلمانوں کو ہی منسوب ہے اور دار الکفر کی متاخمت کی شرط بھی بدیہی طور پر مفقود ہے۔ ان امور کی مزید وضاحت کے لیے درج ذیل نکات پر غور کریں : 
۱۔ ۱۹۴۹ء میں پہلی دستور ساز اسمبلی نے قراردادِ مقاصد منظور کی جس کی رو سے یہ طے پایا کہ پاکستان میں اسلامی قانون کو بالادستی حاصل ہوگی۔ اس قرارداد کے ذریعے پاکستان کے دستوری نظام کے بنیادی مقاصد کا تعین کیا گیا۔ یہ قرارداد پاکستان کے تینوں دساتیر ۱۹۵۶ء، ۱۹۶۲ء اور ۱۹۷۳ ء میں دیباچے کے طور پر شامل کی گئی۔ پھر ۱۹۷۳ء کے دستور میں آٹھویں ترمیم کے ذریعے ۱۹۸۵ء میں اسے دفعہ ۲۔ الف کے تحت دستور کا باقاعدہ حصہ بنا دیا گیا۔ اعلی عدالتوں نے کئی فیصلوں میں اس قرارداد کو انتہائی مقدس دستاویز قرار دیا ہے یہاں تک کہ دستور سے انحراف کے دور میں بھی قراردادِ مقاصد کو ناقابلِ تنسیخ و تعطیل سمجھا گیا اور اسی بنا پر عاصمہ جیلانی کیس ۱۹۷۲ء میں قرار دیا گیا کہ مارشل لا کا نظام ناجائز ہے اور حکومت کو مجبور کیا گیا کہ وہ مارشل لا ختم کرکے دستوری نظام بحال کرلے۔ 
۲۔ ۱۹۵۲ ء میں پاکستان کے تمام مکاتبِ فکر کے جید علماے کرام نے دستور کی اسلامی حیثیت ماننے کے لیے بائیس نکات دیے۔ پاکستان میں تمام دساتیر میں ان بائیس نکات کی روشنی میں اسلامی دفعات شامل کی گئیں۔ مثال کے طور پر سربراہِ ریاست کے لیے مسلمان ہونے کی شرط ضروری قرار دی گئی ہے۔ ۱۹۷۴ ء میں دستوری ترمیم کے ذریعے ’’ مسلمان ‘‘ کی تعریف بھی دستور میں شامل کی گئی جس کے تحت نہ صرف قادیانی بلکہ بہائی بھی غیر مسلم قرار پائے۔ دستور کی دفعہ ۲ کے تحت قرار دیا گیا ہے کہ اسلام پاکستان کا ’’ریاستی مذہب ‘‘ہے۔ دفعہ ۲۲۷ کے تحت قرار دیا گیا ہے کہ تمام قوانین کو اسلامی شریعت کے مطابق کیا جائے گا اور تمام غیر اسلامی قوانین ختم کردیے جائیں گے۔ اس مقصد کے لیے پارلیمنٹ کی رہنمائی کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل بھی تشکیل دی گئی ہے۔ 
۳۔ ۱۹۷۷ ء کے انقلاب کے بعد پہلے عدالت ہاے عالیہ میں شریعت بنچ قائم کیے گئے، بعد میں یہ بنچ ختم کرکے ان کی جگہ وفاقی شرعی عدالت قائم کی گئی جسے یہ اختیار دیا گیا کہ وہ اسلامی شریعت سے متصادم قوانین کو تصادم کی حد تک کالعدم قرار دے۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف جب سپریم کورٹ میں اپیل کی جاتی ہے تو اس کی سماعت کے لیے خصوصی شریعت اپیلیٹ بنچ قائم کی گئی ہے۔ وفاقی شرعی عدالت اور شریعت اپیلیٹ بنچ دونوں میں علما جج بھی تعینات کیے جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ اگر وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل نہ ہو تو پھر اس فیصلے کی پابندی سپریم کورٹ پر بھی لازم ہوتی ہے۔ 
۴۔ وفاقی شرعی عدالت کے دائرۂ اختیار سے ابتدا ( ۱۹۸۰ ء ) میں چار قوانین خارج کیے گئے : 
الف۔ دستور
ب۔ عدالتوں کے طریقِ کار سے متعلق قوانین 
ج۔ مسلم شخصی قوانین اور 
د۔ مالیاتی امور سے متعلق قوانین۔ 
یہ ایک انتظامی قسم کا فیصلہ تھا اور اس سے مراد یہ ہر گز نہیں کہ یہ قوانین شریعت پر بالادست ہیں۔ نیز ان استثناء ات کی تعبیر وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ نے اس طور پر کی ہے کہ بہت ہی کم قوانین اب ان استثناء ات کے ذیل میں آتے ہیں۔ مثال کے طور پر ملکیتِ زمین کی تحدید کے مسئلے کو ابتدا میں وفاقی شرعی عدالت کے دائرۂ سماعت سے باہر قرار دیا گیا کیونکہ زمینی اصلاحات کو ایک قسم کا دستوری تحفظ حاصل تھا۔ تاہم قزلباش کیس ( ۱۹۸۹ء ) میں سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ نے اس خیال کو مسترد کردیا۔ اسی طرح شفعہ سے متعلق قانون کو ابتدا میں عدالتی طریقِ کار سے متعلق قوانین میں شامل سمجھا گیا لیکن سید کمال شاہ کیس ( ۱۹۸۶ء ) میں اس کی نفی کی گئی۔ مسماۃ فرشتہ کیس ( ۱۹۸۰ ء ) میں شخصی قوانین کی ایسی تعریف پیش کی گئی جس کی رو سے مسلم عائلی قوانین آرڈی نینس ۱۹۶۱ء بھی وفاقی شرعی عدالت کے دائرۂ سماعت سے باہر سمجھا گیا۔ تاہم ڈاکٹر محمود الرحمان فیصل کیس ( ۱۹۹۳ ء ) میں سپریم کورٹ نے شخصی قوانین کی ایک اور تعریف پیش کی جس کے بعد یہ آرڈی نینس وفاقی شرعی عدالت کے دائرۂ سماعت میں آگیا اور اس نے اللہ رکھا کیس ( ۲۰۰۰ ء ) میں اس کی کئی شقوں کو اسلامی شریعت سے متصادم قرار دیا۔ اس فیصلے کے خلاف اپیل کا فیصلہ ابھی نہیں ہوسکا ہے۔ مالیاتی امور سے متعلق قوانین کو ابتدا میں ۲ سال، پھر ۵ سال اور پھر ۱۰ سال کے لیے وفاقی شرعی عدالت کے دائرۂ سماعت سے باہر کیا گیا۔ یہ مدت ۱۹۹۰ء میں پوری ہوچکی ہے۔ اس لیے عدالت اب ان قوانین کا جائزہ لے سکتی ہے۔ نیز اس دوران میں عدالت نے اس اصطلاح کی ایسی تعبیر پیش کی جس کی رو سے کئی قوانین مالیاتی قوانین کی تعریف سے باہر ہوکر عدالت کے دائرۂ سماعت میں آگئے۔ 
۵۔ پاکستان کے حکمرانوں اور عدالتوں کے فیصلوں کی شرعی حیثیت کے متعلق ایک اہم دستاویز وہ فتوی ہے جس کا اصل موضوع تو رویتِ ہلال کا مسئلہ تھا لیکن اس سے زیر بحث مسئلے میں بھی نہایت واضح اور دو ٹوک رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد رویتِ ہلال کے سلسلے میں عمومی اتفاق قائم کرنے کی ایک اہم کوشش مولانا مفتی محمد شفیع نے کی۔ انھوں نے پہلے ایک سوالنامہ مرتب کرکے ہند و پاک کے ممتاز علما کے پاس بھجوایا۔ پھر ستمبر ۱۹۵۴ء میں قاسم العلوم ملتان میں جید علماے کرام کا ایک اہم اجتماع منعقد کرایا جس میں دو دن کے تفصیلی مباحثہ کے بعد ’’زبدۃ المقال فی رؤیۃ الہلال ‘‘ کے عنوان سے ایک متفقہ فتویٰ تیار کیا گیا۔ ( ۴ ) اس فتوے میں پاکستانی حکومت کے فیصلوں کی شرعی حیثیت کے متعلق جو سوالات قائم کیے گئے ہیں اور ان کے جو جوابات دیے گئے ہیں، وہ زیر بحث مسئلے میں قولِ فیصل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لیے یہاں اس فتوے سے چند اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں اور عدالتوں کی شرعی حیثیت کے تعین کے لیے اس فتوے میں تین سوالات قائم کیے گئے : 
’’ پہلا سوال یہ ہے کہ جو شخص قوت کے بل بوتے پر اقتدار پر غالب ہوجائے اوار ارباب حل و عقد اس کی حکمرانی پر راضی نہ ہوں کیا اس کی حکومت صحیح ہے اور اس کی جانب سے قاضیوں کی تقرری جائز ہے ؟ 
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا فاسق قضا کے لیے اہل ہے ؟ 
تیسرا سوال یہ ہے کہ احکامِ شرعیہ سے عدم واقفیت کسی قاضی کی اہلیت قضا ختم کردیتی ہے ؟ ‘‘ 
ان میں پہلے سوال کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اگرچہ احادیث نبویہ اور عبارات فقہیہ کے بموجب اصولاً حکمران کا ارباب حل و عقد کے مشورے سے مقرر کرنا ضروری ہے، لیکن اس کے باوجود اگر کوئی شخص طاقت کے بل بوتے پر حکومت پر قابض ہوجائے تو جائز امور میں اس کی اطاعت سب مسلمانوں پر واجب ہوتی ہے اور اس کی ماتحتی میں قضا اور دیگر مناصب کی ذمہ داری قبول کرنا جائز ہوتا ہے، خواہ مسلمانوں کے اہل علم میں کسی ایک نے بھی اس کی بیعت نہ کی ہو، جب تک کہ وہ کفر بواح کا مرتکب نہ ہوجائے۔ اس کے بعد پاکستان کے حکمرانوں کے تناظر میں لکھا گیا ہے کہ پاکستان میں حکام کئی معاملات میں شرعی قوانین پر عمل کرسکتے ہیں اور اس قسم کے فیصلے شرعاً صحیح اور نافذ ہوں گے کیونکہ قاضی کے ہر فیصلہ کا شرعی حکم الگ ہے ( بعض صحیح اور نافذ ہوں گے اور بعض غیر صحیح اور غیر نافذ ہوں گے )۔ 
دوسرے سوال کے جواب میں واضح کیا گیا ہے کہ فقہاء کے نزدیک قضا کے لیے عدل شرط جواز نہیں بلکہ شرط اولوی ہے، یعنی اس صفت کا قاضی میں موجود ہونا بہتر ہے اگرچہ اس کے بغیر بھی قاضی کے منصب پر تعیناتی جائز ہے۔ یہاں ابنِ عابدین کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ اگر یہ بات مان لی گئی کہ فاسق قضا کا اہل نہیں ہے تو بالخصوص ہمارے دور میں قضا کا کام سرے سے ناممکن ہوجائے گا۔ اس کے بعد ابن الھمام کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ جسے سلطان کی جانب سے قضا کا منصب سونپ دیا گیا اس کے فیصلے نافذ ہوں گے خواہ وہ جاہل یا فاسق ہو۔ البتہ ایسے قاضی کو دوسروں کے فتویٰ پر فیصلہ دینا چاہیے۔ 
تیسرے سوال کے جواب میں پھر ابن الھمام کے مذکورہ بالا قول کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس میں صراحتاً قرار دیا گیا ہے کہ جاہل کے فیصلے نافذ ہوں گے۔ 
واضح رہے کہ یہ فیصلہ ان علماے کرام نے ۱۹۵۴ء میں اس وقت دیا تھا جب ابھی پاکستان کا پہلا دستور بھی نہیں لکھا گیا تھا۔ ۱۹۵۶ء میں پاکستان نے دستوری طور پر ’’ اسلامی ریاست ‘‘ ہونے کا اعلان کرلیا اور قرار دیا کہ پاکستان میں تمام قوانین اسلامی احکام کے مطابق ہوں گے۔ ۱۹۶۲ء کے دستور میں اس عزم کا اعادہ کیا گیا اور قوانین کو اسلامیانے کے لیے دو ادارے اسلامی مشاورتی کونسل اور ادارۂ تحقیقات اسلامی تشکیل دیے گئے۔ ۱۹۷۳ء کے دستور میں مزید اسلامی دفعات کا اضافہ کیا گیا اور ۱۹۷۴ء میں ایک دستوری ترمیم کے ذریعے دستور میں ’’ مسلمان ‘‘ کی تعریف بھی داخل کی گئی جس کی رو سے ختم نبوت کے منکرین غیر مسلم قرار پائے۔ ۱۹۷۷ء کے انقلاب کے بعد بڑے پیمانے پر قوانین میں تبدیلیاں لائی گئیں اور کئی قوانین کو اسلامی شریعت کے سانچے میں ڈھالنے کی کوششیں کی گئیں۔ وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ کے علاوہ سپریم کورٹ اور عدالت ہاے عالیہ نے پچھلے چونسٹھ برسوں میں کئی اہم فیصلے دیے جنھوں نے پاکستان کے قانونی نظام کے اسلامی تشخص کو محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ پس اس امر میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ پاکستان دار الاسلام ہے۔ 

ثانیاً : دستورِ پاکستان کی حیثیت مسلمانوں کے مابین ایک معاہدے کی ہے جو اصلاً صحیح، نافذ اور لازم ہے۔ 

۱۔ دستورِ پاکستان کی حیثیت یہاں کے مسلمانوں کے درمیان ایک معاہدے کی سی ہے۔ 
۲۔ پس اس پر معاہدے سے متعلق قواعد لاگو ہوں گے جن میں سے ایک یہ ہے کہ معاہدے اور اس کی شقوں کو اصولاً صحیح مانا جائے گا۔ 
۳۔ جہاں کہیں کوئی شق اسلامی قانون کی رو سے غیر صحیح ہو اس کی ایسی تاویل کی جائے گی جو اسے اسلامی قانون کے مطابق کردے۔ 
۴۔ اگر کسی شق کی ایسی تاویل ممکن نہ ہو تو وہ باطل ہے اور اس پر عمل جائز نہیں ہے، خواہ معاہدے میں صراحتاً یہ بات لکھی گئی ہو کہ اس شق پر عمل واجب ہے، اور خواہ اس شق پر عمل کو عدالتوں نے بھی واجب قرار دیا ہو۔ اسلامی قانون کا مسلمہ اصول ہے کہ قاضی کا فیصلہ اگر نصِ قطعی یا اجماع کے خلاف ہو تو وہ نافذ نہیں ہوگا۔ 

ثالثاً : مسلمانوں کے لیے شریعت کے کسی حکم پر عمل عدالت کے فیصلے سے مشروط نہیں ہے۔ 

۱۔ مسلمانوں کے لیے شریعت کے کسی حکم پر عمل اس سے مشروط نہیں ہے کہ پہلے اس حکم کے متعلق عدالتی فیصلہ آئے۔ اس لیے اگر بینک کا انٹرسٹ کسی کے فہم کے مطابق ربا ہے ( اور میرے نزدیک یقیناًہے ) تو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس انٹرسٹ سے میں اس لیے اجتناب نہیں برت سکتا کہ ابھی اس کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے،بلکہ اس پر واجب ہوگا کہ وہ اس سے اجتناب کرے۔ 
۲۔ پاکستان میں سودی نظام کے بقا کی وجہ یہ نہیں کہ عدالت نے اسے ناجائز ٹھہرانے سے انکار کیا ہے، بلکہ اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت اس معاملے میں یا تو بے حس ہے اور یا بے خبر۔ بلکہ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ عدالت میں جن ججوں نے اس معاملے میں تساہل اور مداہنت کا مظاہرہ کیا ہے وہ بھی انہی میں سے کسی ایک یا دونوں اسباب کی بنا پر کیا ہے۔ پس اصل مسئلہ لوگوں کے فہم اور دینی حس کا ہے۔ 
۳۔ جہاں تک دار الاسلام میں سودی لین دین کا تعلق ہے وہ بہر صورت ناجائز ہے، خواہ مسلمانوں کی اکثریت اس میں مبتلا ہو ؛ خواہ انھوں نے معاہدے میں قرار دیا ہو کہ اس پر پابندی لگانے میں ابھی کچھ دیر ہے ؛ اور خواہ وہاں کی عدالت نے اسے ناجائز کہنے میں توقف کیا ہو۔ اس لیے اگر کسی ماتحت عدالت کے کسی جج کے سامنے سودی لین دین کا تنازعہ آئے تو اس پر واجب ہے کہ سود کو باطل قرار دے۔ لیکن کتنے جج ہیں جو ایسا کرسکیں گے ؟ اور جو نہیں کرسکیں گے تو وہ کس وجہ سے نہیں کرسکیں گے ؟ کیا وہ یہ کہیں گے کہ اگرچہ قرآن و سنت میں اسے حرام قرار دیا گیا ہے مگر ہم پر قرآن و سنت کے بجائے دستور اور اعلی عدالتوں کے فیصلے کی اتباع واجب ہے ؟ اگر وہ ایسا کہیں گے تو ظاہر ہے کہ وہ کفر کا ارتکاب کریں گے۔ اس لیے ان میں کچھ اسے سود قرار دینے میں تامل کریں گے، کچھ اسے سود قرار دیتے ہوئے اپنی کمزوری کا اعتراف کریں گے، اور کچھ سرے سے اس بحث سے ہی کنارہ کشی کریں گے۔ ان تینوں گروہوں کو کچھ بھی کہا جائے مگر ان کا حکم پہلے گروہ سے مختلف ہوگا۔ 

رابعاً : پارلیمنٹ کا قانون سازی کا اختیار مطلق نہیں ہے۔ 

۱۔ یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ خواہ دستور میں قرار دیا گیا ہو کہ پارلیمنٹ کا قانون سازی کا اختیار مطلق ہے اس کے باوجود وہ مطلق نہیں ہے۔ ایک تو اس وجہ سے کہ پارلیمنٹ اقتدار اعلی کی حامل نہیں ہے۔ دوسرے اس وجہ سے کہ پارلیمنٹ کے ارکان کی غالب اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ پس اگر اس پارلیمنٹ نے کوئی ایسا قانون منظور کیا جو قرآن و سنت سے متصادم ہو تو اس قانون پر سرے سے عمل جائز نہیں ہوگا کیونکہ یہ پارلیمنٹ نے اپنے جائز اختیارات سے تجاوز کیا ہوگا۔ بلکہ اگر پارلیمنٹ دستور میں ترمیم کے ذریعے اس سے تمام اسلامی دفعات کا خاتمہ کرے، تب بھی وہ ترمیم ہی سرے ناجائز ہوگی۔ 
۲۔ اس کی وجہ صرف یہ نہیں ہوگی کہ ججز کیس ( ۱۹۹۶ء ) میں سپریم کورٹ نے طے کیا ہے کہ پارلیمنٹ دستور سے اسلامی دفعات کا خاتمہ نہیں کرسکتی، بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہوگی کہ اسلام کے دعویدار ہوتے ہوئے ارکانِ پارلیمنٹ ایسا کر نہیں سکتے۔ 
۳۔ اگر انھوں نے ایسا کیا بھی، تو اسلام کے دعویدار ججز پر لازم ہوگا کہ اسے کالعدم قرار دیں۔ 
۴۔ اگر انھوں نے بھی اسے کالعدم قرار دینے سے انکار کیا تو پاکستان کے شہریوں پر، جن کی غالب اکثریت اسلام کی دعویدار ہے، لازم ہوگا کہ اسے ماننے سے انکار کریں۔ 
۵۔ اگر بفرضِ محال انھوں نے بھی اس پر خاموشی اختیار کی، تب بھی اس کا ماننا ان کے لیے جائز نہیں ہوگا۔ ( ۵) 
۶۔ ہاں اگر انہوں نے اسے جائز قرار دیا تب یہ امکان پیدا ہوسکتا ہے کہ پاکستان دار الاسلام نہ رہے۔ تاہم، جیسا کہ واضح ہے، یہ آخری صورت تبھی ممکن ہوسکے گی جب یہاں کے لوگوں کی اکثریت مرتد ہوجائے، و العیاذ باللہ !( ۶) 
۷۔ یہی کچھ عدالتوں کے متعلق بھی کہا جائے گا۔ جج اگر مسلمان ہیں تو وہ ایسا نہیں کرسکتے اور اگر انھوں نے ایسا کیا تب بھی اس فیصلے کا ماننا پاکستان کے مسلمانوں کے لئے ناجائز ہوگا۔ پس تکفیر و خروج کے قائلین جس امکان کا ذکر کرتے ہیں، وہ اتنا موہوم ہے کہ اس پر اس مسئلے کے حکم کا بنا کرنا کسی طور مناسب نہیں ہے۔ 

خامساً : شرعی عدالت کے اختیار سماعت سے جو قوانین باہر ہیں وہ شریعت سے بالاتر نہیں ہیں۔ 

۱۔ جہاں تک شرعی عدالت کے اختیار سماعت سے بعض قوانین کے اخراج کا معاملہ ہے تووہ ایک انتظامی فیصلہ ہے۔ اگر یہ عدالت عائلی قوانین کے متعلق فیصلہ نہیں سنا سکتی تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ قوانین شریعت پر بالادست ہوگئے۔ اگر یہ مسلمانوں کا علاقہ ہے اور یہاں منعۃ اور ولایۃ مسلمانوں کے پاس ہے تو دستور سمیت یہاں کے تمام قوانین شریعت کے ماتحت ہیں، اور رہیں گے، خواہ کوئی عدالت ان کے خلافِ شریعت ہونے کا فیصلہ کرسکے یا نہ کر سکے۔ بالکل اسی طرح جیسے کسی قانون کو اگر یہ عدالت خلافِ شریعت قرار دے تو وہ فیصلہ اس کو مستلزم نہیں کہ وہ قانون واقعتاً خلافِ شریعت ہے۔ 
۲۔ باقی رہا اپیل کا معاملہ تو وہ صرف اس وجہ سے ہے کہ عدالت کا فیصلہ بہر حال انسانی کاوش ہے۔ اس لیے اس پر بعض دیگر انسان مزید غور و فکر کریں تو غلطی کا احتمال کم ہوجاتا ہے۔ اگر اس اختیار کو بعض لوگوں نے غلط استعمال کیا ہے تو کون سا ایسا جائز کام ہے جسے ناجائز کام کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا ؟ تو کیا اس بنا پر ہر جائز کام کو ناجائز قرار دیا جائے گا ؟ 

سادساً : پارلیمنٹ کو اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات ماننے کا پابند نہیں کیا جاسکتا۔ 

۱۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی حیثیت ’’ ریاستی مفتی ‘‘ کی ہے اور اس وجہ سے حکومت پر اس کی ’’تجاویز ‘‘کو ماننا لازم نہیں ہے۔ جب ہارون الرشید مختلف ائمۂ کرام کو اکٹھا کرکے ان سے استفتا کرتا تھا تو اس کے بعد ان میں کسی کی رائے پر عمل کرنا اس نے خود پر لازم قرار دیا تھا یا حتمی فیصلہ اسی کا ہوتا تھا ؟ 
۲۔ نیز کیا ان نتائج پر بھی غور کیا گیا ہے جو اس کونسل کے فیصلے کو لازم قرار دینے سے پیدا ہوتے ہیں ؟ اس فیصلے کو لازم کردینے سے قبل آپ کو یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ اس کونسل کے ارکان کون ہوں گے ؟ کیا وہ حکومت کے نامزد کردہ ہوں گے ؟ یا ان کا بھی انتخاب کیا جائے گا ؟اگر انتخاب کے مسئلے کو ’’ قدرتی چناو ‘‘ کے سپرد کردیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا قدرتی چناو کا عملاً مطلب یہ نہیں ہوگا کہ معاملہ حکمران کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ؟ قبائلی اور بدوی زندگی میں قدرتی چناؤ اتنا دشوار نہیں ہوتا جتنا شہری اور متمدن زندگی میں ہوتا ہے۔ پس آخر الامر معاملہ حکمران کی صوابدید پر ہی جا رکتا ہے ! 
۳۔ بہر حال ارکان خواہ کسی طرح چنے گئے ہوں، مزید سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سعودی عرب کی ہئیۃ کبار العلماء کے ارکان کی طرح وہ پوری عمر اس کے رکن رہیں گے یا کسی مقررہ مدت تک؟ ایران میں مجلسِ بزرگان کے فیصلوں کو اگر لازمی حیثیت دی گئی ہے تو وہ اس لیے قابلِ فہم ہے کہ وہاں شیعہ مذہب کے اثرات کی وجہ سے امامت کے تصور کے ضمن میں علما کا ایک شجرہ وجود میں آگیا ہے، جن میں مختلف درجات باقاعدہ متعین ہیں۔ اس لیے یہ معاملہ اتنا سیدھا سادھا نہیں ہے جتنا اس کو سمجھا جارہا ہے۔ 

سابعاً : اسلامی نظریاتی کونسل اور شرعی عدالت مثالی ادارے نہیں ہیں مگر صحیح سمت میں اہم پیش رفت ہیں۔ 

۱۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے برعکس وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے لازمی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ اس کی حیثیت ’’ ریاستی قاضی ‘‘ کی ہے۔ وفاقی شرعی عدالت اور شریعت اپیلیٹ بنچ نے بعض غیر اسلامی قوانین کے خاتمے اور بعض نئے اسلامی قوانین کے اجرا کے سلسلے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسی طرح ان عدالتوں نے شرعی قوانین کی توضیح اور تنفیذ کے سلسلے میں بعض اہم فیصلے سنائے ہیں۔ مجموعی لحاظ سے ان کی کارکردگی مثالی اور معیاری نہ سہی لیکن انہیں صحیح سمت میں پیش رفت کا نام ضرور دیا جاسکتا ہے۔ مثلاً شرعی عدالت کے اختیار سماعت سے جن قوانین کو استثنا دیا گیا ہے ان کو بھی اس کے دائرۂ اختیار میں لانا چاہیے۔ بلکہ زیادہ مناسب صورت تو یہی تھی کہ عدالت ہاے عالیہ میں شریعت بنچ ہوں۔ 
۲۔ تاہم محض شریعت بنچوں یا شرعی عدالت سے کام نہیں چلے گا بلکہ ابھی بہت کام کی ضرورت ہے۔ نہ ہی اس سے کام چلے گا کہ ان عدالتوں میں ’’ علما ‘‘ کی تعداد بڑھائی جائے۔ ان علما میں کتنے ہیں جو معاشرتی سطح پر قانون کی تنفیذ کی پیچیدگیوں کا ادراک رکھتے ہیں ؟ پھر ان میں کتنے ایسے ہیں جو وضعی قانون کی اصل خامیوں، کمزوریوں اور مفاسد سے واقف ہیں ؟ اور ان میں کتنے ایسے ہیں جو عصر حاضر کے اسلوب میں شریعت اسلامی کی صحیح تعبیر پیش کرسکتے ہیں ؟ نیز ججوں اور قانون دانوں میں کتنے ایسے ہیں جو شریعت کی اساسیات سے ہی واقف ہیں ؟ 

ثامناً : پاکستانی دستور نے پر امن تبدیلی کا راستہ کھلا رکھا ہے۔ 

۱۔ جو لوگ موجودہ حکمرانوں یا طرز حکمرانی سے نالاں ہیں اور اس لیے نظام کی تبدیلی اور انقلاب کے نعرے بلند کرکے لوگوں کو خروج کی طرف دعوت دیتے ہیں انھیں یہ بات مد نظر رکھنی چاہیے کہ خروج کے جواز کے لیے ایک بنیادی شرط پاکستان میں مفقود ہے کیونکہ یہاں تبدیلی پر امن ذرائع سے ممکن ہے۔ 
۲۔ اسلامی شریعت نے غیر مسلموں کے خلاف جنگ کی اجازت بھی صرف اس صورت میں دی ہے جب جنگ بالکل ہی ناگزیر ہوجائے تو مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کا مسئلہ تو اس سے بدرجہا زیادہ سنگین ہے۔ اس لیے اس کی اجازت اس صورت میں قطعاً نہیں دی جاسکتی جب تبدیلی و اصلاح کے لیے پر امن ذرائع میسر ہوں۔ 

تاسعاً : موجودہ حالات میں خروج زیادہ بڑے فساد کا باعث ہوگا۔ 

امام ابو حنیفہ اگرچہ اپنے معاصر اموی خلفا اور ان کے بعد عباسی خلفا کی نااہلیت کے قائل تھے اور ان کے شدید ناقدین میں تھے، نیز آپ تبدیلی کے حامی بھی تھے اور اصولاً خروج کے جواز کے قائل بھی تھے۔ اس کے باوجود انھوں نے خروج کا راستہ اختیار کرنے سے گریز کیا اور جب خراسان کے مشہور فقیہ ابراہیم الصائغ نے انھیں خروج کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی تو آپ نے فرمایا : 
’’ یہ کام ایک آدمی کے بنانے سے نہیں بن سکتا۔ انبیا بھی اس کے کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے جب تک وہ اس کام کے لئے آسمان سے مامور نہ کیے جاتے۔ یہ فریضہ دیگر فرائض کی طرح نہیں ہے جنھیں کوئی بھی شخص تنہا ادا کرسکتا ہے۔ یہ کام ایسا ہے کہ تنہا آدمی اس کے لیے کھڑا ہوگا تو اپنی جان دے گا اور خود کو ہلاکت میں ڈالے گا، اور مجھے اندیشہ ہے کہ وہ اپنے قتل میں اعانت کا ذمہ دار ٹھہرے گا۔ پھر جب ایک ایسا شخص قتل کیا جائے گا تو پھر کوئی دوسرا اس کام کے لئے اپنی جان ہلاکت میں ڈالنے کی ہمت نہیں کرپائے گا۔ ‘‘ 
خروج کے داعیوں سے یہی گزارش ہے کہ امتِ مسلمہ کے ذہین اور مخلص نوجوانوں کو خروج کی راہ دکھا کر وہ غیروں کا نہیں بلکہ اپنوں کا ہی نقصان کررہے ہیں۔ 

عاشراً : ایسے ذہین افراد کی ضرورت ہے جو شریعت اور قانون دونوں میں مہارت رکھتے ہوں اور اس کا واحد طریقہ تعلیم اور تربیت کا ہے۔ 

ان لوگوں کی اسلامی تربیت، اسلامی قانون کی عصری اسلوب میں صحیح تعبیر اور عصر حاضر کے چیلنجز کے حل کے لیے اسلامی قانون کی رہنمائی کی توضیح بہت زیادہ محنت کا کام ہے۔ اس لیے ہتھیلی پر سرسوں جمانے کے بجاے اس کام کے لیے باصلاحیت لوگوں کو آگے بڑھ کر کام کرنا چاہیے۔ یہ ایک فرض کفائی ہے جس کی ادائیگی کے لئے ’’ کافی ‘‘ لوگ دستیاب نہیں ہیں۔ جو لوگ یہ کام کرسکتے ہیں وہ اور کاموں میں الجھے ہوئے ہیں، اور جن کا یہ کام نہیں ہے وہ خود کو اس کے ماہر قرار دے کر اپنی عاقبت بھی خراب کررہے ہیں اور دوسروں کا بھی بیڑہ غرق کر رہے ہیں۔ فالی اللہ المشتکی! 
ھذا ما عندی، و العلم عند اللہ۔ اللھم أرنا الحق حقاً و ارزقنا اتباعہ، و أرنا الباطل باطلاً و ارزقنا اجتنابہ۔ 

حواشی 

۱۔ جن اہلِ علم نے کمپنی یا کارپوریشن کے تصور کو جواز عطا کرنے کے لیے وقف یا بیت المال اور اس طرح کی دیگر مثالوں کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسلامی قانون شخصِ اعتباری کا قائل ہے، ان سے بہت بڑا تسامح ہوا ہے۔ اس غلط بنیاد پر انھوں نے جو تفصیلی احکام مستنبط کیے ہیں، بناء الفاسد علی الفاسد کی وجہ سے ان کا فساد بھی عیاں ہے۔ اس تصور کے جواز کے لیے کیے جانے والے استدلال کے بطلان پر اسلامی قانون کے اصول و قواعد کی روشنی میں تفصیلی بحث کے لیے دیکھیے : 
Imran Ahsan Khan Nyazee, Islamic Law of Business Organization: Corporations (Islamabad: Islamic Research Institute, 1998). 
۲۔ یہ بالکل اسی طرح کامعاملہ ہے جیسے پارٹنر شپ فرم کو حسابات میں آسانی کی خاطر ’’ فرم ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے، حالانکہ فرم کوئی شخصِ اعتباری نہیں ہے، اور پارٹنرز میں ہر ایک شخصِ حقیقی ہوتا ہے۔اسی طرح عرف عام میں اسلامی ریاست سے مراد چاہے کچھ بھی ہو، قانونی لحاظ سے کوئی ریاست اسلامی نہیں کہلائی جاسکتی۔ 
۳۔ مثلاً تھامس ایکویناس نے قرار دیا کہ خدائی قانون د و طرح کا ہے۔ کچھ ایسے امور ہیں جن کی اچھائی اور برائی کی پہچان عقل سے نہیں ہوسکتی اس لئے ان امور کے لئے انسان کی رہنمائی وحی کے ذریعے کی گئی۔ دیگر معاملات جن میں عقل سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے ان میں قانون کی دریافت کا کام عقل کے سپرد کردیا گیا۔ عقل جب اس قانون کا ادراک کرے تو در اصل امر خداوندی ہی کا ادراک کرتی ہے۔ واضح رہے کہ ایکویناس ابن رشد سے بہت متاثر تھا اور اس نے ابن رشد کی شروح پڑھی تھیں جو اس نے ارسطو کے کام پر لکھی تھیں۔ یوں ابن رشد کے واسطے سے ایکویناس تک اور پھر اس سے دیگر مفکرین تک وہ تمام مباحث پہنچ گئے جو حسن اور قبح کے متعلق معتزلہ، اشاعرہ اور دیگر متکلمین کے درمیان چھڑے ہوئے تھے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ابن رشد صرف ایک فلسفی اور متکلم ہی نہیں تھا بلکہ ایک اعلی پائے کا فقیہ بھی تھا۔ اس لئے ایکویناس اور دیگر Naturalistsکے موقف کو یکسر مسترد کردینے سے پہلے کم از کم ابن رشد کا لحاظ کرتے ہوئے ان پر ایک غائر نظر تو ڈال ہی دینی چاہیے۔ نیز اگر عقل کی حیثیت کے متعلق ان کے موقف کو شرک اور کفر قرار دیا جائے تو پھر نہ صرف معتزلہ کو بلکہ کسی حد تک اشاعرہ کو ( اور ان سے کچھ زیادہ حد تک ماتریدیہ ) کو بھی اسی طرح کے شرک اور کفر کا مرتکب ماننا پڑے گا، و العیاذ باللہ ! 
۴۔ اس فتویٰ کے مرتبین میں مولانا محمد یوسف بنوری، مفتی محمد شفیع، مولانا ظفر احمد عثمانی، مولانا احمد علی لاہوری، مفتی محمد سیاح الدین کاکاخیل، مفتی رشید احمد لدھیانوی، مولانا عزیز الرحمان بجنوری، محمد عبد المصطفی الازہری اور محمد ناظم ندوی جیسے کبار اہلِ علم شامل تھے۔ علماے کرام کی مکمل فہرست کے لیے دیکھیے : مفتی رشید احمد لدھیانوی، احسن الفتاویٰ (کراچی : محمد سعید اینڈ سنز، ۱۳۷۹ ھ )۔ ص ۳۵۰۔ ۳۵۱۔ 
۵۔ یہ آخری صورت ترکی میں مسلمانوں نے اختیار کی جب مصطفی کمال نے ترکی کو سیکولر ائز کیا۔ 
۶۔ واضح رہے کہ جب بھارت میں پارلیمنٹ نے دستور میں ترمیم کرکے صراحتاً قرار دیا کہ وہ دستور کی کسی بھی شق کو ختم یا تبدیل کرسکتی ہے تو وہاں کی سپریم کورٹ نے اس پر فیصلہ سناتے ہوئے پھر قرار دیا کہ ترمیم کا یہ اختیار مطلق نہیں ہے ! اگر وہ اپنے سیکولر نظام کو بچانے کے سلسلے میں اتنی غیرت کا مظاہرہ کرسکتے ہیں تو ہم مسلمان ہوتے ہوئے کیوں معذرت خواہانہ رویہ اپنائیں ؟ ہم پر تو شرعاً واجب ہے کہ پارلیمنٹ کے اس مطلق اختیار کی نفی کریں (اگرچہ مطلق اختیار اس کے پاس ویسے بھی نہیں ہے، جیسا کہ پیچھے واضح کیا گیا )۔ 

کیا دستور پاکستان ایک ’کفریہ‘ دستور ہے؟ ایمن الظواہری کے موقف کا تنقیدی جائزہ

محمد عمار خان ناصر

القاعدہ کے راہنما شیخ ایمن الظواہری نے کچھ عرصہ پہلے ’’الصبح والقندیل‘‘ کے زیر عنوان اپنی ایک کتاب میں دستور پاکستان کی اسلامی حیثیت کو موضوع بنایا ہے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ ’’سپیدۂ سحر اور ٹمٹماتا چراغ‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ ظواہری دستور پاکستان کے مطالعہ کے بعد ’’پوری بصیرت‘‘ کے ساتھ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ’’پاکستان ایک غیر اسلامی مملکت ہے اور اس کا دستور بھی غیر اسلامی ہے، بلکہ اسلامی شریعت کے ساتھ کئی اساسی اور خطرناک تناقضات پر مبنی ہے۔ نیز مجھ پر یہ بھی واضح ہوا کہ پاکستانی دستور بھی اسی مغربی ذہنیت کی پیداوار ہے جو عوام کی حکمرانی اور عوام کے حق قانون سازی کے نظریے پر یقین رکھتی ہیں اور بلاشبہ یہ نظریہ اسلام کے عطا کردہ عقیدے سے صراحتاً متصادم ہے۔‘‘ (ص ۱۶، ۱۷)
ظواہری کے طرز استدلال کو درست طو رپر سمجھنے اور اس کی علمی وفکری قدر وقیمت متعین کرنے کے لیے نہ صرف مصنف کے فکری پس منظر بلکہ حالات وواقعات کی ترتیب کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے۔ ایمن الظواہری کا تعلق مصر سے ہے جو عالم عرب کی معروف انقلابی مذہبی تحریک الاخوان المسلمون کی جاے پیدائش ہے۔ مصر کے ارباب اقتدار کی طرف سے اسلام پسندوں کے خلاف جبر وتشدد کے رد عمل میں حکمرانوں کے خلاف نفرت کی ایک شدید لہر پیدا ہوئی جس نے بعض شرعی تصورات کا سہارا لے کر باقاعدہ ایک فکر کی صورت اختیار کر لی۔ اس فکر کی رو سے جدید جمہوری نظام حکومت کفر اور شریعت کی بالادستی کی نفی پر مبنی ہے اور مسلمان ممالک میں نظام کی تبدیلی کے لیے حکمرانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانا ایک دینی فریضے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایمن الظواہری اسی انقلابی نظریہ سیاست کے داعی ہیں اور اخوان سے نکلنے والے ایک انتہا پسند مسلح گروہ ’’اسلامی جہاد‘‘ کے ساتھ منسلک رہے ہیں۔ ۸۰ء کی دہائی میں افغان جنگ کے دوران میں وہ یہاں منتقل ہو گئے اور طالبان کے دور حکومت میں افغانستان ان کی امریکہ مخالف سرگرمیوں کا مرکز قرار پایا۔ ان کا شمار القاعدہ کی صف اول کی قیادت میں ہوتا ہے اور وہ نہ صرف نائن الیون اور اس نوعیت کے دوسرے واقعات کو شرعی طور پر جائز سمجھتے ہیں بلکہ ان کی ذمہ داری بھی قبول کرتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد جب امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک نے افغانستان میں اپنی فوجیں بھیجیں تو امریکی صدر کی دھمکی پر اس وقت کے حکمران جنرل پرویز مشرف نے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ میں امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا۔ اگرچہ عسکری پالیسی سازی کی قیادت میں اس حوالے سے دو مخالف رجحانات موجود رہے، تاہم جنرل مشرف چونکہ پوری دیانت داری اور ذہنی یکسوئی کے ساتھ یہ فیصلہ کر چکے تھے، اس لیے اس کے نتیجے میں بہرحال القاعدہ اور ا س کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے عناصر کو پاکستانی فوج کی کارروائیوں کا نشانہ بننا پڑا اور یوں پاکستان اور پاکستانی فوج بھی بتدریج جہادی عناصر کے غم وغصہ کا نشانہ اور اس کی مسلح کارروائیوں کا ہدف بنتی چلی گئی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ افواج پاکستان کو شمالی علاقہ جات میں مختلف قبائل کے خلاف باقاعدہ فوجی آپریشن کرنے پڑے۔
اس تناظر میں پاکستان کے مذہبی حلقوں کا عمومی موقف یہ رہا ہے کہ حکومت کا افغانستان پر حملہ کرنے میں امریکا کو تعاون فراہم کرنے اور اسی کے ذیل میں قبائل کے خلاف فوجی آپریشن کا فیصلہ شرعی لحاظ سے درست نہیں ہے اور امریکا کے ساتھ تعاون کا سلسلہ فی الفور ختم کر کے قبائل کے ساتھ اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے سے پرامن طریقے سے حل کرنا چاہیے، تاہم مذہبی طبقات نے صورت حال کی پیچیدگی کا بجا طور پر ادراک کرتے ہوئے حکومتی پالیسیوں پر تنقید کے باوجود ریاست کے خلاف بغاوت اور ریاستی اداروں کے خلاف مسلح جدوجہد کا طریقہ اختیار کرنے کی بھی کوئی واضح تائید یا حمایت عمومی طور پر نہیں کی اور ایک مخصوص صورت حال کے تناظر میں بڑی حد تک حالات کے جبر کے تحت اختیار کی جانے والی ناروا حکومتی پالیسیوں کو اس بات کے لیے مناسب جواز تسلیم نہیں کیا کہ پورے ریاستی نظام کی رٹ کو چیلنج کر دیا جائے یا اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے یا کمزور کرنے کی کوششیں شروع کر دی جائیں۔ 
ظواہری کی زیر نظر تصنیف دراصل اسی صورت حال میں پاکستان کے عوام اور اہل علم کے نقطہ نظر کو تبدیل کرنے کی ایک کوشش ہے اور چونکہ مقصود پاکستان کے عوام کے سامنے شریعت کی بالادستی قائم کرنے کا کوئی متبادل لائحہ عمل پیش کرنا یا جمہوری جدوجہد سے ہٹ کر کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرنے پر آمادہ کرنا نہیں، اس لیے کم سے کم زیر نظر تصنیف میں ان پہلووں پر کوئی بحث بھی نہیں کی گئی۔ اس تصنیف کی حد تک ظواہری کا مطمح نظر بس اتنا ہے کہ ریاست پاکستان اور شمالی علاقہ جات (جہاں مبینہ طور پر القاعدہ کی قیادت پناہ لیے ہوئے ہے) کے بعض قبائل کے مابین جاری جنگ میں ریاست کے بجائے باغی عناصر کا ساتھ دیا جائے یا کم سے کم ان کی مخالفت نہ کی جائے۔ ظواہری لکھتے ہیں:
’’پس اگر آپ کلی طور پر ہماری موافقت نہ بھی کریں تو اتنا تو کر ہی سکتے ہیں کہ جرات ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارے فقہی موقف کی درستی تسلیم کریں اور ان ظالم وفاجر لوگوں کی صفوں میں شامل ہونے سے انکار کر دیں جو دشمنان دین کے ساتھی بن کر ہمارے مقابل کھڑے ہیں۔ .... پس قبائل میں برسرپیکار مجاہدین کی حمایت کرنا آپ کا شرعی فریضہ ہے۔ آخر یہی تو وہ فی سبیل اللہ مجاہدین ہیں جو نہ صرف امریکہ اور عالمی صلیبی طاقتوں کے مد مقابل ڈٹے ہوئے ہیں، بلکہ اس صلیبی اتحاد کے اساسی رکن پاکستان کی فوج کے مظالم بھی ثابت قدمی سے برداشت کر رہے ہیں۔ لہٰذا ان حالات میں شریعت کا کم سے کم تقاضا یہ بھی ہے کہ امریکہ کی وفادار اور اسلام سے غدار حکومتوں کے خلاف خروج کرنے والوں کی مخالفت نہ کی جائے۔‘‘ (ص ۱۸۳)
ظواہری کی کاوش کے اس عملی محرک کو سامنے رکھا جائے تو وہ پاکستان کے علما اور عوام کی صحیح راہ نمائی سے زیادہ تحفظ ذات کے جذبے کی غمازی کرتی ہے۔ وہ دستور کے فنی تجزیے، اسلام اور جمہوریت کے علمی تقابل اور پاکستانی نظام کی خرابیوں جیسی اعلیٰ علمی بحثیں چھیڑ کر تاثر تو یہ پیدا کرتے ہیں کہ ان کے لیے اس ساری جہد وکاوش کا محرک نفاذ شریعت کی جدوجہد میں پاکستان کے اہل علم اور مذہبی قیادت کا قبلہ درست کرنے کاجذبہ بنا ہے، لیکن بحث کی تان جس نکتے پر آکر ٹوٹتی ہے، وہ یہ ہے کہ شمالی علاقہ جات کے قبائل کی بغاوت کی تائید کی جائے جو اس وقت القاعدہ کی قیادت کے لیے بظاہر دنیا کی آخری پناہ گاہ ہے۔ ہمارے نزدیک یہ نکتہ ان کی اس ساری سعی کی فکری قدر وقیمت متعین کرنے میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔
بہرحال، آئیے پاکستان کو ایک غیر اسلامی ریاست اور دستور پاکستان کو ایک غیر اسلامی دستور ثابت کرنے کے لیے ظواہری کے استدلالی مقدمے کا جائزہ لیتے ہیں۔
پاکستان میں اسلامی جماعتوں کے داعی اور کارکن عام طور پر یہ رائے رکھتے ہیں کہ ’’پاکستان کا دستور صحیح اسلامی اساس پر قائم ہے ۔یہ دستور عامۃ المسلمین کو اپنے نمائندے چننے اور شریعت کی روشنی میں اپنے حکام کا محاسبہ کرنے کی مکمل آزادی فراہم کرتا ہے۔ پس مسئلہ دستور یا نظام کا نہیں، بلکہ اس فاسد حکمران طبقے کا ہے جو کبھی بزور قو ت اور کبھی دیگر ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے اقتدار پر قابض ہے اور دستور میں درج امور کی پابندی نہیں کرتا۔‘‘ (ص ۱۵، ۱۶) ظواہری کو اس رائے سے اختلاف ہے ۔ ان کا موقف یہ ہے کہ:
’’دستور پاکستان کے مطالعہ سے مجھ پر یہ حقیقت بھی منکشف ہوئی کہ یہ دستور کچھ ایسے مکر وفریب کے انداز میں لکھا گیا ہے کہ مسلم عوام سے شریعت کے نفاذ کا وعدہ بھی ہو جائے، لیکن وہ وعدہ کبھی وفا بھی نہ ہو سکے۔ مجھے تو تعجب ہوتا ہے کہ اس وقت کے بڑے بڑے علماء اور داعی حضرات بھی اس دھوکے کا شکار ہو کر دستور کی تعریف وتقدیس بیان کرتے رہے۔ (ہاں! اس میں کچھ شک نہیں کہ ان حضرات کا اس دستور سے نیا نیا واسطہ پڑا تھا اور ابھی اس کے عملی اثرات بھی پوری طرح واضح نہیں ہو پائے تھے، لہٰذا غلط فہمی میں مبتلا ہونے کا شاید کوئی امکان موجود تھا) .... البتہ اصل تعجب کے لائق تو ہمارے وہ فاضل دوست ہیں جو نفاذ شریعت کے جھوٹے وعدوں کو ساٹھ (۶۰) سال گزر جانے کے بعد بھی وہی گھسے پٹے اوہام واشکالات دہرائے چلے جا رہے ہیں اور آج تک دستور پاکستان کی اسلامیت کے فریب سے دامن نہیں چھڑا پائے۔‘‘ (ص ۲۶)
ظواہری نے جن استدلالات کی بنیاد پر دستور پاکستان کا مبنی بر’کفر‘ ہونا ثابت کیا ہے، ان پر نظر ڈالنے سے پہلے تکفیر کے ضمن میں فقہا کے دو متفقہ اصولوں کا ذکر کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے۔
تکفیر کا سب سے بنیادی اصول یہ ہے کہ کوئی بھی قول، چاہے وہ بظاہر کفریہ ہی کیوں نہ دکھائی دیتا ہو، اگر وہ ایک سے زیادہ مفاہیم کا احتمال رکھتا ہو اور ان میں سے کوئی ایک ضعیف احتمال بھی ایسا ہو جو اسے کفر کے دائرے سے نکال دیتا ہو تو اسے اسی مفہوم پر محمول کیا جائے گا تا آنکہ قائل خود یہ صراحت نہ کر دے کہ اس کی مراد کفریہ مفہوم ہی ہے۔ ابن نجیم لکھتے ہیں:
اذا کان فی المسالۃ وجوہ توجب التکفیر ووجہ واحد یمنع التکفیر فعلی المفتی ان یمیل الی الوجہ الذی یمنع التکفیر تحسینا للظن بالمسلم (البحر الرائق ۵/۱۳۴)
’’اگر کسی مسئلے میں کئی احتمال ایسے ہوں جو تکفیر کو واجب کرتے ہوں اور صرف ایک احتمال تکفیر سے مانع ہو تو مفتی کا فرض ہے کہ وہ مسلمان کے ساتھ حسن ظن کی بنیاد پر اس وجہ کو اختیار کرے جو تکفیر سے مانع ہو۔‘‘
علماء کلام نے اس کی ایک واضح نشانی یہ بتائی ہے کہ جس قول یا عمل کو کفر کہا جا رہا ہے، اس کا کفر ہونا ایسا واضح ہو کہ مسلمان بالاجماع اسے کفر قرار دینے میں کوئی تردد محسوس نہ کریں۔ باقلانی لکھتے ہیں:
ولا یکفر بقول ولا رای الا اذا اجمع المسلمون علی انہ لا یوجد الا من کافر ویقوم دلیل علی ذلک فیکفر (فتاویٰ السبکی ۲/۵۷۸)
’’کسی بات یا رائے پر اس وقت تک تکفیر نہ کی جائے جب تک مسلمانوں کا اس پر اجماع نہ ہو کہ وہ بات کسی کافر ہی سے صادر ہو سکتی ہے اور اس پر دلیل قائم ہو جائے، تب اسے کفر قرار دیا جائے گا۔‘‘
دوسرا اصول یہ ہے کہ کسی استنباطی یا اجتہادی شرعی مسئلے کے انکار کی بنیاد پر، چاہے اس پر فقہا کا اجماع ہی کیوں نہ ہو، کسی کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔ تکفیر کے لیے ضروری ہے کہ آدمی نے قطعی، واضح اور غیر محتمل نص سے ثابت شریعت کے کسی اصولی اور اساسی حکم کا انکار کیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل ایوب خان کے دور میں جو عائلی قوانین منظور کیے گئے، اس کی بہت سی شقیں متفق علیہ شرعی احکام کے منافی تھیں، لیکن چونکہ وہ دین کے اصولی نہیں، بلکہ فروعی مسائل تھے اور قطعی طور پر منصوص نہیں بلکہ استنباطی تھے، اس لیے اس وقت سے آج تک کسی بھی ذمہ دار عالم یا مفتی نے اس پر ’کفر‘ کا فتویٰ صادر نہیں کیا۔
ان اصولوں کی رعایت ایک عام فرد کی تکفیر میں بھی ضروری ہے، جبکہ معاملہ اگر ایک پورے نظام ریاست اور اس کے دستور کا ہوجس کی ترتیب وتدوین میں وقت کے جید ترین اور اکابر علما شریک رہے ہوں اور وہ پورے اعتماد کے ساتھ اس دستور کو ایک اسلامی دستور قرار دے رہے ہوں تو اس دستور کی کسی دفعہ سے ’کفر‘ اخذ کرتے ہوئے مذکورہ اصولوں کی اہمیت کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
ان اصولوں کی روشنی میں اب یہ دیکھیے کہ ظواہری نے دستور پاکستان کو ’کفر‘ قراردینے کے لیے کیا دلائل پیش کیے ہیں۔
ظواہری نے سب سے پہلا اور بنیادی نکتہ یہ اٹھایا ہے کہ دستور، ارکان پارلیمان کو مطلق طور پر دستور کی کسی بھی شق میں ترمیم کا حق دیتا ہے اور چونکہ یہاں بظاہر ایسی کوئی قید نہیں لگائی جس سے معلوم ہوتا ہو کہ پارلیمنٹ قرآن وسنت کی بالادستی کو تسلیم کرنے اور قانون سازی میں شریعت کی پابندی کی شقوں میں ترمیم کرنے کی مجاز نہیں ہے، اس لیے اپنے اطلاق کے لحاظ سے یہ دستور پارلیمنٹ کو اختیار دیتا ہے کہ وہ چاہے تو شریعت کی بالادستی کو تسلیم کرنے سے بھی انکار کر سکتی ہے۔
ہم نے تکفیر کا جو پہلا اصول بیان کیا ہے، اس کی روشنی میں دیکھا جائے تو ظواہری کا یہ استدلال سرے سے بے بنیاد ہے۔ سیدھا سا سوال ہے کہ کیا آئین میں ترمیم کا حق دینے والی اس شق کی جو تعبیر ظواہری نے پیش کی ہے، وہی اس کی واحد ممکن تعبیر ہے یا اس کے علاوہ بھی کوئی تعبیر ممکن ہے جو اسے ’کفر‘ سے بچاتی ہو؟ ہمارے علم کی حد تک پاکستان کی دستوری تاریخ میں اس شق کا یہ مطلب سب سے پہلے ظواہری نے پیش کیا ہے، جبکہ علما، ججز اور قانون دان طبقے میں سے کسی نے بھی اس سے یہ مفہوم اخذ نہیں کیا۔ یہ ایک سادہ اصول ہے کہ کسی بھی دستاویز کے کسی جز کا منشا ومراد اس دستاویز کے اصولی ونظری مفروضات، مجموعی مزاج اور دستاویز میں شامل دیگر تصریحات کو نظر انداز کر کے متعین نہیں کیا جا سکتا۔ آئین یہ تصریح کرتا ہے کہ اسے ایک اسلامی مملکت کے منتخب نمائندے اس مقصد کے لیے وضع کر رہے ہیں کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس ملک کے اجتماعی نظام کو اللہ اور اس کے رسول کی منشا کے مطابق چلایا جا سکے۔ گویا ’مسلمان‘ ہونا اور اللہ اور اس کے رسول کی ہدایات کی پابندی کو قبول کرنا آئین کا بنیادی مفروضہ ہے، جبکہ اس کی کسی بھی شق کے محض ظاہری الفاظ کے اطلاق سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ دستور کو تشکیل دینے والے اپنے لیے قرآن وسنت کی بالادستی کے انکار کی گنجائش بھی دستور میں رکھنا چاہتے ہیں، اس بنیادی مفروضے کے بالکل خلاف ہے۔ اس لحا ظ سے ظواہری کا یہ استنتاج صرف احمقانہ اور بے بنیاد نہیں، بلکہ سخت اشتعال انگیز بھی ہے۔
مذکورہ بنیادی نکتے کے علاوہ ظواہری نے دستور میں سات مزید ایسے امورکی نشان دہی کی ہے جو شریعت کے منافی ہیں۔ یہ امور حسب ذیل ہیں:
۱۔ آئین میں بعض اشخاص اور اداروں کو قانونی محاسبہ سے بالاتر رکھا گیا ہے۔
۲۔ آئین کی رو سے سربراہ ریاست کو کسی بھی جرم پر سزاے موت کو معاف کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
۳۔ آئین میں قاضی کے لیے عادل ہونے کی شرط نہیں لگائی گئی جبکہ مسلمان ہونے کی شرط صرف شرعی عدالت کے قاضی کے لیے لگائی گئی ہے۔
۴۔ آئین میں سربراہ ریاست کے لیے مرد ہونے کی شرط نہیں لگائی گئی۔
۵۔ ایسے افراد کو سزا سے تحفظ فراہم کیا گیا ہے جنھوں نے اس فعل کو قانونی طور پر جرم قرار دیے جانے سے پہلے اس جرم کا ارتکاب کیا ہو۔
۶۔ ایک جرم پر دو مرتبہ سزا دینے کی ممانعت کی گئی ہے۔
۷۔ دستور میں سو د کے خاتمے کا صرف وعدہ کیا گیا ہے جس پر آج تک عمل نہیں ہوا۔
ظواہری کا کہنا ہے کہ مذکورہ تمام امور شریعت کے خلاف ہیں اور کسی بھی خلاف شریعت امر کو قانون کا درجہ دینا کفر ہے، اس لیے مذکورہ امور کو دستور کا حصہ بنانا اسے ایک ’کفریہ‘دستور کا درجہ دے دیتا ہے۔ 
مذکورہ دفعات کی نشان دہی اور پھر ان کا تجزیہ کرتے ہوئے ظواہری نے دستور اور قانون کے فہم کا ایک ایسا نمونہ پیش کیا ہے جسے کسی بھی طرح قابل رشک نہیں کہا جا سکتا۔ ان کے ’تکفیری‘ رجحان کا سب سے دل کش نمونہ سود کے حوالے سے دستور کی دفعہ ۳۸ کو کفر قرار دینے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ یہ دفعہ یہ کہتی ہے کہ عوام کی معاشی او ر معاشرتی فلاح وبہبود کی خاطر جس قدر جلد ممکن ہو، سود کو ختم کیا جائے گا۔ اب اس دفعہ کو مثبت ذہن سے دیکھا جائے تو یہ دستور کی ’اسلامیت‘ کا اظہار کرتی ہے کہ اس میں سود کے خاتمے کو مقصد قرار دیا گیا ہے، البتہ چونکہ اسے پورے نظام سے فوری طور پر ختم کرنا ممکن نہیں، اس لیے اسے حالات کی سازگاری پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ تاہم ظواہری کی باریک بیں نگاہ نے اس دفعہ میں بھی ’کفر‘ کو تلاش کر لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ محض ایک وعدہ ہے جسے آج تک ایفا نہیں کیا گیا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس پر کیا تبصرہ کیا جائے؟ اگر وعدے کو ایفا نہیں کیا گیا تو یہ دستور کا قصور ہے یا قانون ساز اداروں کا؟ ارباب اقتدار کے منافقانہ رویوں کی وجہ سے دستور کی یہ دفعہ جو انھیں سود کے خاتمے کا پابند بنا رہی ہے، کیسے ’کفر‘ بن گئی؟ اپنی بات سمجھانے کے لیے ظواہری نے یہ مثال دی ہے کہ ’’جیسے ایک شخص کہے کہ میں عنقریب نماز پڑھوں گا یا میں عنقریب اسلام قبول کروں گا تو کیا محض ایک زبانی وعدے پر یہ شخص نمازی یا مسلمان کہلا سکتا ہے؟‘‘ (ص ۱۲۱) یہ ارشاد بھی ’جو بات کی، خدا کی قسم لا جواب کی‘ کا ایک نمونہ ہے۔ اگر ایک مسلمان یہ کہتا ہے کہ میں عنقریب نماز پڑھوں گا اور پھر نہ پڑھے تو اسے یقیناًنمازی نہیں کہا جائے گا، لیکن کیا اس سے وہ ’کافر‘ ہو جائے گا؟ دستور کی ہدایات اور اس پر عمل درآمد کرنے والی قانونی وانتظامی مشینری کے باہمی فرق کو سامنے رکھا جائے تو ظواہری کے اس فتوے کی مثال یوں بنتی ہے کہ اگر ایک شخص دوسرے سے یہ کہے کہ تم سود لینا چھوڑ دو، لیکن دوسرا شخص اس کی ہدایت پر عمل نہ کرے تو اس سے پہلا شخص کافر ہو جائے گا۔ 
اگر ظواہری یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سود کے خاتمے کے لیے مہلت دینا اور ’تدریج‘ کا طریقہ اختیار کرنا ’کفر‘ہے تو پھر یہ مسئلہ ایک نازک اصولی بحث سے متعلق ہو جاتا ہے۔ اگر وہ واقعی عملی حکمت ومصلحت کے لحاظ سے کسی فرد یا گروہ یا معاشرے کو احکام شریعت کا پابند بنانے میں تدریج کے طریقے کو ’کفر‘ سمجھتے ہیں تو پھر انھیں اس سوال کا جواب دینا ہوگا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو اسلام قبول کرنے کے بعد اس کے مطالبے پر یہ رخصت کیوں دی تھی کہ وہ سردست صرف دو نمازیں ادا کر لیا کرے؟ (الآحاد والمثانی، رقم ۹۴۱۔ اسد الغابہ، ۶/۴۷۵) اسی طرح آپ نے بنو ثقیف سے اسلام کی بیعت لیتے ہوئے ان کی یہ شرط کیوں قبول کی کہ وہ زکوٰۃ نہیں دیں گے اور جہاد بھی نہیں کریں گے؟ آپ نے فرمایا کہ جب وہ صحیح معنوں میں مسلمان ہو جائیں گے تو زکوٰۃ بھی دینے لگیں گے اور جہاد بھی کریں گے۔ (سنن ابی داود، رقم ۳۲۰۵) 
’کفر سازی‘ اور ’کفر‘ کشید کرنے کے اسی ذہنی رجحان کا اظہار ظواہری نے باقی مثالوں میں بھی کیا ہے۔ مثال کے طور پر دستور کی دفعہ ۴۸ صدر کے کسی کو جواب دہ نہ ہونے کے معاملے کو واضح طور پر ان مخصوص معاملات تک محدود کرتی ہے جن میں اسے دستور کی رو سے صواب دیدی اختیار حاصل ہو، جبکہ اس کے علاوہ باقی امور کی انجام دہی میں صدر کو کابینہ یا وزیر اعظم کے مشورے کا پابندبنایا گیا ہے۔ واضح لفظوں میں لکھی ہوئی اس تصریح کے باوجود ظواہری اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ’’یہ دفعہ صدر کو اس کے ہر فعل میں کھلی چھوٹ اور تحفظ فراہم کرتی ہے، خواہ اس کا فعل شریعت سے موافق ہو یا شریعت کے مخالف۔‘‘ (ص ۸۹) اس کی مثال انھوں نے یہ دی ہے کہ ’’اگر صدر پاکستان فوج کو یہ حکم دے کہ قبائل پر حملہ کر کے انھیں روند ڈالو ..... یا اسی طرح انھیں حکم دے کہ گرفتار شدہ مجاہدین امریکہ کے حوالے کر دو تو اسے یہ سب احکامات صادر کرنے کا اختیار حاصل ہے ..... نہ اس سے پوچھ گچھ ممکن ہے نہ ہی اس کے خلاف یہ حجت قائم کرنا ممکن ہے‘‘ (ص ۸۸)۔ دستور اور نظام حکومت سے واقف ایک مبتدی طالب علم بھی یہ جانتا ہے کہ مذکورہ احکامات سرے سے صدر کے دائرۂ اختیار میں آتے ہی نہیں۔ یہ اختیار وزیر اعظم کے پاس ہے جو اپنے فیصلوں کے لیے پارلیمنٹ کو جواب دہ ہے۔ یہاں دستور کو سمجھنے کے لیے ظواہری نے دراصل جنرل پرویز مشرف کے ان فیصلوں اور اقدامات کو اپنا ماخذ بنایا ہے جو انھوں نے دستور کو پامال کر کے سارے اختیارات طاقت کے زور پر اپنی ذات میں مرتکز کر لینے کے بعد کیے تھے۔ 
یہی صورت حال دستور کی دفعہ ۱۴۸ کی ہے جو صدر، وزیر اعظم، گورنر، وزراے اعلیٰ اور وفاقی وصوبائی وزرا کو ان افعال کے لیے عدالتی جواب دہی سے مستثنیٰ قرار دیتی ہے جو انھوں نے اپنے حکومتی فرائض کی انجام دہی کے دوران میں کیے ہوں۔ اس پر ظواہری کا تبصرہ یہ ہے کہ یہ دفعہ ’’جو بعض حکومتی عہدے داران کو عدالت میں پیشی سے تحفظ فراہم کرتی ہے، شریعت سے صراحتاً متصادم ہے اور یہ بات تو ہم پہلے ہی بیان کر چکے ہیں کہ شریعت کی مخالفت کو قانون کی شکل دینا کفر ہے، اگرچہ وہ مخالفت بذات خود صرف فسق ہی ہو۔‘‘ (ص ۹۱)
یہاں بھی قانون کا وہی سطحی فہم کارفرما ہے جس کا نمونہ ہم گزشتہ مثال میں دیکھ چکے ہیں۔ دستور کی یہ دفعہ مذکورہ حکومتی عہدے داروں کو مطلقاً محاکمے اور محاسبے سے نہیں، صرف ’’عدالتی‘‘ محاسبے سے مستثنیٰ قرار دے رہی ہے اور اس کے پس منظر میں ان کے قانون سے بالاتر ہونے کا تصور نہیں بلکہ نظام حکومت کو چلانے میں مختلف اداروں کو ایک دوسرے کے دائرۂ کار میں بے جا مداخلت سے روکنا ہے۔ یہ انتظام اس لیے کیا گیا ہے کہ اگر حکمرانوں کو عدالتی محاسبہ سے مستثنیٰ نہ رکھاجائے تو ان کے لیے روز مرہ کے انتظامی اور حکومتی معاملات چلانا بھی دشوار ہو جائے گا۔ یقیناًاس کے کچھ منفی اثرات بھی ہیں اور اس انتظام سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے، لیکن بہرحال اس کا اصل پس منظر یہی ہے اور اسے ’کفر‘سے موسوم کرنا محض ظواہری کی انتہا پسندانہ سوچ کا نتیجہ ہے۔ اس سے ملتی جلتی ایک نظیر خود اسلامی فقہ میں موجود ہے، چنانچہ امام ابوحنیفہ ایک خاص قانونی نکتے کی روشنی میں اس بات کے قائل ہیں کہ ریاست کا سربراہ اعلیٰ اگر کسی قابل حد جرم مثلاً زنا، چوری وغیرہ کا مرتکب ہو تو اس کا مواخذ ہ نہیں کیا جا سکتا۔ ابن الہمام لکھتے ہیں:
وکل شی فعلہ الامام الذی لیس فوقہ امام مما یجب بہ الحد کالزنا والشرب والقذف والسرقۃ لا یواخذ بہ الا القصاص والمال .... لان الحد حق اللہ تعالی وہو المکلف باقامتہ وتعذر اقامتہ علی نفسہ لان اقامتہ بطریق الخزی والنکال ولا یفعل احد ذلک بنفسہ ولا ولایۃ لاحد علیہ لیستوفیہ (فتح القدیر ۵/۲۷۷)
’’قصاص اور مالی بدعنوانی کے علاوہ ہر ایسا قابل حد جرم جس کا ارتکاب وہ حکمران کرے جس کے اوپر کوئی حکمران نہیں، جیسا کہ زنا، شراب نوشی، قذف اور چوری، اس کا مواخذہ نہیں کیا جائے گا، کیونکہ حد، حق اللہ ہے اور حاکم اعلیٰ ہی حدود کو (رعیت پر) قائم کرنے کا مکلف ہے۔ اس کا خود اپنی ذات پر حد قائم کرنا متعذر ہے کیونکہ حد تو رسوائی اور عبرت کے طریقے پر قائم کی جاتی ہے اور کوئی شخص خود اپنے ساتھ یہ سلوک نہیں کر سکتا، جبکہ کسی دوسرے کو اس پر ولایت (قانونی اختیار) حاصل نہیں کہ وہ اس پر حد نافذ کر سکے۔‘‘
اس رائے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، لیکن بہرحال یہ ائمہ مجتہدین میں سے ایک مسلمہ اور مستند امام کی رائے ہے جسے ظواہری اپنے سطحی قانونی فہم کے تحت چھوٹتے ہی ’کفر‘ کا عنوان دے دیا ہے۔
سربراہ ریاست کے مرد ہونے اور قاضی کے مسلمان اور عادل ہونے کی شرائط اپنی جگہ اہمیت رکھنے کے باوجود ایسی نہیں ہیں کہ دستور میں ان کو شامل نہ کیے جانے کو ’کفر‘ کے ہم معنی قرار دیا جائے۔ قاضی کے مسلمان اور عادل ہونے کی شرائط فقہا کی استنباط کردہ ہیں اور قرآن یا حدیث کی کسی نص میں واضح طور پر قاضی کے لیے ان شرائط کولازم نہیں کہا گیا۔ حکمران کے مرد ہونے کی شرط نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک تبصرے سے اخذ کی گئی ہے جو آپ نے اہل فارس کے کسریٰ کی بیٹی کو حکمران بنانے پر کیا تھا۔ اصول فقہ کی رو سے اس ارشاد کو براہ راست حرمت کا بیان نہیں کہا جا سکتا، اس لحاظ سے یہ شرط بھی بنیادی طور پر استنباطی ہے۔ مزید برآں ماضی قریب میں برصغیر کے ایک جید فقیہ اور عالم مولانا اشرف علی تھانوی یہ نقطہ نظر پیش کر چکے ہیں کہ اس ممانعت کی اصل علت عورت کی رائے پر حتمی اور کلی انحصار ہے، اس لیے جمہوری نظام حکومت میں ، جہاں حکمران اپنے فیصلوں کے لیے اصولی طور پر پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے، عورت کے حاکم بننے پر پابندی نہیں۔ چنانچہ دستور میں مذکورہ شرائط میں سے کسی بھی شرط کو شامل نہ کرنا شریعت کے نہیں، بلکہ شریعت کی ایک خاص اجتہادی واستنباطی تعبیر کے خلاف ہے جسے کسی بھی لحاظ سے ’کفر‘ سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔
ظواہری کے پیش کردہ نکات میں سے صرف ایک نکتہ ایسا ہے جسے فی الواقع دستور میں شریعت کے ساتھ تصادم کی مثال کے طو رپر پیش کیا جا سکتا ہے ، یعنی سربراہ مملکت کے لیے کسی بھی جرم میں سزاے موت کو معاف کر دینے یا اس میں تخفیف کرنے کا اختیار ۔ قصاص کے مقدمات کے علاوہ عمومی طور پر سربراہ مملکت کے لیے یہ اختیار تو ہمارے نزدیک شریعت کے کسی صریح حکم کے ساتھ متصادم نہیں، اگرچہ اس پر بعض دیگر سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں، البتہ قصاص کے مقدمے میں سزاے موت کی معافی ازروے شریعت مقتول کے ورثا کی رضامندی کے ساتھ مشروط ہے جس کا اس دفعہ میں لحاظ نہیں رکھا گیا۔ اس اعتبار سے اس شق کو جزوی طورپر شریعت کے منافی کہا جا سکتا ہے، تاہم تکفیر کے پہلے اصول کے تحت اس کو ’کفر‘ سے تعبیر کرنا اس لیے ممکن نہیں کہ اول تو دستور وضع کرنے والوں کے نیت اور ارادے کے بارے میں یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ انھوں نے اس شق کے الفاظ کو قصداً اور ارادۃً یہ جانتے ہوئے عام رکھا ہے کہ اس کا نتیجہ شریعت کی ایک ہدایت کی خلاف ورزی کی صورت میں نکل رہا ہے۔ ایسا بالکل ممکن ہے کہ یہ شق دستور میں درج کرتے ہوئے اس کا یہ اطلاقی پہلو کہ بعض صورتوں میں یہ اختیار شریعت کے منافی ہے، سرے سے واضعین کے سامنے ہی نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ توجہ نہ ہونے کی بنا پر نادانستہ ایسی کوئی بات کہہ دینے سے ہرگز کفر لازم نہیں آتا۔ پھر یہ کہ دستور کی اس شق کے بارے میں عدالتی سطح پر یہ باقاعدہ بحث رہی ہے کہ دستور کی ان شقوں کی موجودگی میں جو شریعت کی بالادستی کی ضمانت دیتی ہیں، زیر بحث شق قابل عمل اور قابل نفاذ بھی ہے یا نہیں۔ 
ظواہری نے اس ضمن میں حاکم خان کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا ہے جس میں قرار دیا گیا ہے کہ دستور کی یہ دونوں شقیں مساوی درجہ رکھتی ہیں اور کوئی ایک شق دوسری کو کالعدم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ تاہم یہ واضح ہے کہ دستور کی تعبیر کے حوالے سے یہ رائے کوئی اتنی واضح اور قطعی نہیں کہ اس سے مختلف کسی تعبیر کا امکان ہی نہ ہو اور اسی نکتے کے حوالے سے ہائی کورٹ اس کے برعکس یہ رائے دے چکی ہے کہ اسلامی شریعت کی بالادستی کی دفعہ دیگر دفعات پر بالادستی رکھتی ہے۔ اگرچہ عملی طور پر اس معاملے میں سپریم کورٹ کی تعبیر موثر ہے، لیکن ہائی کورٹ کے فیصلے سے یہ بات بہرحال واضح ہے کہ علمی طو رپر اس سے مختلف تعبیر کا امکان موجود ہے۔ پھریہ کہ اس شق کے حوالے سے تمام تر قانونی بحث کا حاصل صرف یہ ہے کہ دستور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی جو ضمانت دی گئی ہے، اس کے حوالے سے ایک ایسی الجھن موجود ہے جو ’’تکنیکی‘‘ طور پر اس بات سے مانع ہے کہ عدالتیں دستور کی اس شق کی بنیاد پر قرآن وسنت کے منافی کسی حکم کو کالعدم قرار دیں، نہ یہ کہ اس ضمانت کی سرے سے کوئی حیثیت ہی نہیں، جیسا کہ ظواہری اس سے یہ نتیجہ اخذ کر کے دستور کو ’’کافرانہ‘‘ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حاکم خان کیس میں عدالت نے اس نکتے کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اس تکنیکی الجھن کے حل کے لیے عدالت عالیہ کی طرف نہیں، بلکہ پارلیمنٹ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ 
یہ ہے دلائل کی وہ کل کائنات جن سے ظواہری نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ پاکستان میں مسئلہ محض حکمران طبقے کا نہیں، بلکہ پاکستان کا دستور او ر نظام حکومت بھی غیر اسلامی ہے اور اس وقت ملک میں اور خاص طور پر ریاستی پالیسیوں کی سطح پر جو بگاڑ نظر آ رہا ہے، وہ غیر اسلامی دستور ہی کا نتیجہ ہے۔ ظواہری کے پہلے سے طے شدہ مقصد کے لحاظ سے ان کا یہ استدلال قابل فہم ہے، کیونکہ اگر ریاست کو نظری اساسات کی حد تک ’اسلامی‘ تسلیم کر لیا جائے جبکہ بگاڑ کا ذمہ دار صرف ارباب اقتدار کے فکری رویوں اور پالیسیوں کو سمجھا جائے تو اس کی وجہ سے پورے ریاستی نظام کے خلاف بغاوت کا جواز ثابت نہیں کیا جا سکتا، جبکہ ظواہری یہ چاہتے ہیں کہ مذہبی طبقات اور اہل علم کو ریاست کے خلاف خروج کی باقاعدہ تائید پر آمادہ کیا جائے۔ اس پہلو سے دستور کے کفریہ ہونے کی بحث کسی حد تک اس نتیجے تک پہنچا سکتی ہے جو ظواہری کو مطلوب ہے۔ تاہم ان کے اس تجزیے پر چند در چند منطقی سوالات پیدا ہوتے ہیں جن کا کوئی جواب ان کے ہاں نہیں ملتا۔
مثال کے طور پر ظواہری کے استدلال کا ایک منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انھوں نے دستور میں جن خرابیوں کی نشان دہی کی ہے، اگر انھیں درست کر لیا جائے تو پھر عملی بگاڑ کی جو صورت حال ہے، وہ باقی نہیں رہنی چاہیے۔ ظاہر ہے کہ جب ان کے تجزیے کے مطابق خرابی کا اصل منبع مقتدر طبقات کے رویے نہیں، بلکہ خود دستور ہے تو پھر اس کی اصلاح کے بعد وہ نتائج بھی باقی نہیں رہنے چاہییں جنھیں ظواہری ایک غیر اسلامی دستورکا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر دستور میں ارکان پارلیمان کو دو تہائی اکثریت سے کسی بھی ترمیم کا جو حق دیا گیا ہے، اگر اسے مطلق رہنے کے بجائے مقید کر دیا جائے، بعض اشخاص اور اداروں کو محاسبہ ومواخذہ سے حاصل استثنا ختم کر دیا جائے، صدر مملکت کا بعض سزاؤں کی معافی کا اختیار کالعدم کر دیا جائے، سربراہ مملکت کے لیے مرد ہونے جبکہ قاضی کے لیے عادل اور مسلمان ہونے کی شرط لگا دی جائے ، سود کے خاتمے کے ایک غیر معین وعدے کے بجائے اسے ایک متعین مدت میں ختم کر دینے کی پابندی عائد کر دی جائے، شریعت کی بالادستی کے ضمن میں دستور کی بعض دفعات میں پائے جانے والے تضاد کو دور کر دیا جائے اور وفاقی شرعی عدالت کے دائرۂ اختیار کو تمام قوانین تک وسیع کر دیا جائے تو ظواہری کے طرز استدلال کی رو سے نظام ریاست کا بگاڑ درست ہو جانا چاہیے، کیونکہ ان کے خیال میں بگاڑ کی اصل وجہ حکمران طبقات نہیں، بلکہ دستور کے مذکورہ نقائص ہیں۔ اب یہ استدلال منطقی لحاظ سے کتنا مضبوط ہے، اس پر شاید تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں۔
ظواہری نے اپنے موقف پر خود یہ سوال اٹھایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’صاحب کتاب کا موقف ہے کہ پاکستان کے قانونی ودستوری نظام میں اصولی اور مہلک خرابیاں پائی جاتی ہیں، لیکن پاکستان کی بہت سی دینی تحریکوں کے قائدین اور داعیان دین اس رائے سے اختلاف رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک پاکستانی نظام اصولی اعتبار سے بالکل ٹھیک ہے اور تمام تر بگاڑ نظام پر قابض حکمران طبقے کا پیدا کردہ ہے۔ یہ لوگ پاکستان کے حالات سے زیادہ آگاہ ہیں اور اصلاح احوال کے طریقہ کار کو زیادہ بہتر طور پر جانتے ہیں ..... تو پھر مصنف ان سب حضرات کی رائے کو وزن کیوں نہیں دیتے اور اسے کیوں نہیں اپناتے؟‘‘ (ص ۱۸۱)
ظواہری اس سوال کے جواب میں دستور وقانون کی مذکورہ خرابیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اس کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ:
’’کتاب میں بیان کردہ موقف کا سب سے بڑا ثبوت خود پاکستان کی عملی صورت حال ہے۔ ایک فاسد دستوری وقانونی نظام پر قائم یہ ریاست اپنے قیام کے ساٹھ سال گزرنے کے بعد بھی بد سے بد تر کی طرف گام زن ہے۔ خائن ملت فوجی اور سیاسی قائدین یکے بعد دیگرے اسی بہانے کے ساتھ اقتدار پر قابض ہوتے رہے ہیں کہ وہ ملکی سیاست سے بد عنوانی ورشوت ستانی کا خاتمہ کرنے اٹھے ہیں، لیکن اقتدار سنبھالنے کے بعد ہر بار وہی مکروہ کھیل دہرایا جاتا ہے ..... یعنی پہلے سرکاری خزان سے بھاری رشوتیں دے دے کر سیاست دانوں کی وفاداریاں خریدی جاتی ہیں اور پھر ارکان پارلیمان کی غالب اکثریت کو اپنے ساتھ ملا کر ایک نئی آئینی ترمیم منظورکی جاتی ہے جس کے ذریعے حکمرانوں اور ان کے حاشیہ نشینوں کو ہر قسم کی عدالتی کارروائی اور جواب دہی سے تحفظ حاصل ہو جاتا ہے۔ یوں لوٹ مار اور فساد وبگاڑ کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس کے خاتمے کے لیے جلد ہی کوئی دوسرا نجات دہندہ اٹھ کھڑا ہو جاتا ہے۔‘‘ (ص ۱۸۲)
لیکن بالبداہت واضح ہے کہ یہ اصل سوال کا جواب نہیں۔ سوال یہ تھا کہ اس سارے بگاڑ کی ذمہ داری حکمران طبقات پر عائد ہوتی ہے یا دستور پر؟ ظواہری کو جواب میں یہ بتانا چاہیے تھا کہ دستور کی فلاں فلاں شقیں ہیں جو حکمرانوں کے مذکورہ طرز عمل کو جواز یا تائید فراہم کرتی ہیں، جبکہ معمولی عقل رکھنے والا شخص بھی یہ سمجھ سکتاہے کہ ایسا نہیں ہے۔ ظواہری نے دستور میں جن خرابیوں کی نشان دہی کی ہے، ان کے اپنی جگہ قابل توجہ ہونے کے باوجود اس بگاڑ کے ساتھ ان کا براہ راست کوئی تعلق نہیں جس کی منظر کشی ظواہری نے کی ہے۔ ظواہری کے سارے زور بیان کے باوجود حقیقت حال یہی ہے کہ پاکستان میں اصل مسئلہ دستور یا آئین کا نقص نہیں، بلکہ قوم کا فکری ونظریاتی انتشار اور حکمران طبقات بلکہ تمام کے تمام طبقات کی غلط اور مفاد پرستانہ ترجیحات ہیں۔ ظواہری نے دستور میں جتنی خرابیوں کی نشان دہی کی ہے، اگر مقتدر طبقات کا فکری قبلہ درست ہو جائے تو ان خرابیوں کو درست کرنے کا داعیہ ازخود بیدار ہو جائے گا۔ 
ظواہری لکھتے ہیں:
’’دستور پاکستان کے مطالعہ سے مجھ پر یہ حقیقت بھی منکشف ہوئی کہ یہ دستور کچھ ایسے مکر وفریب کے انداز میں لکھا گیا ہے کہ مسلم عوام سے شریعت کے نفاذ کا وعدہ بھی ہو جائے ، لیکن وہ وعدہ کبھی وفا بھی نہ ہو سکے۔‘‘ (ص ۲۶)
ظواہری کی اس تنقید سے واضح ہے کہ وہ پاکستان میں دستوری اور قانونی سطح پر اسلامائزیشن کی پوری جدوجہد اور اس کے مختلف مراحل سے بالکل ناواقف ہیں۔ غالباً ان کا خیال یہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد اوپر بیٹھی ہوئی کسی طاقت نے عوام اور علما کو دھوکہ دینے کے لیے دستور میں کچھ اسلامی قسم کی باتیں اس انداز سے لکھ دی تھیں کہ لوگ مطمئن ہو جائیں کہ یہ ایک اسلامی مملکت ہے، لیکن عملاً اسلام نافذ نہ ہو سکے اور چونکہ دستور بنانے والوں کی نیت اور عزائم میں کھوٹ تھا، اس لیے دستور میں جان بوجھ کر ایسے نقائص رکھ دیے گئے جو اسے حقیقت کے اعتبار سے ایک ’کفریہ‘ دستور بنا دیتے ہیں۔ اب جو شخص بھی دستور کی اسلامائزیشن کی تاریخ سے واقف ہے، وہ سمجھ سکتا ہے کہ ظواہری کی اس تنقید کو (جو بالبداہت ایک سطحی اورجذباتی تنقید ہے) درست مانا جائے تو اس کی زد میں براہ راست پاکستان وہ چوٹی کی مذہبی قیادت آتی ہے جو دستور سازی کے مختلف مراحل میں شریک رہی اور ان کے اتفاق اور جدوجہد سے ہی پاکستان نے دستوری اعتبار سے ایک اسلامی مملکت کا تشخص حاصل کیا۔ یہی معاملہ قوانین کا ہے۔ ریاست پاکستان کو انگریزی دور کا قانونی ڈھانچہ وراثت میں ملا تھا اور علی الفور اس کی جگہ ایک متبادل قانونی ڈھانچہ کھڑا کر دینا نہ قابل عمل تھا اور نہ مطلوب، چنانچہ قوانین کی اصلاح کے لیے تدریج کا طریقہ اختیار کیا گیا اور مختلف مراحل پر بعض اہم شعبوں میں قوانین کی اسلامائزیشن کے میدان میں قابل لحاظ پیش رفت سامنے آئی۔ تاہم ظاہر ہے کہ اس سارے عمل میں بہت سے نقائص اب بھی موجود ہیں۔ اب اگر دستور اور قانون کی ساری غیر شرعی خامیوں پر ظواہری کی پوری تنقید کو من وعن درست مان لیا جائے تو بھی زیادہ سے زیادہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ مذہبی طبقے کی اب تک کی ساری جدوجہد کے باوجود دستور اور قانون میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو شریعت کے مکمل نفاذ کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ تنقید اس حد تک ہوتی تو وہ بجا بھی ہوتی اور اس کا وزن بھی محسوس کیا جاتا، لیکن ظواہری کا اصل مقصد چونکہ ریاست پاکستان کے خلاف خروج کا شرعی جواز ثابت کرنا ہے، اس لیے وہ مجبور ہیں کہ نہ صرف دستور کو سرے سے ایک ’کفریہ‘ دستور قرار دے دیں بلکہ اس کی ترتیب وتدوین میں شریک اعلیٰ ترین مذہبی قیادت کے خلوص اور نیک نیتی پر بھی حملہ آور ہوں اور دستور کی اسلامائزیشن کی اس ساری جدوجہد پر دھوکے او ر فریب کا لیبل چسپاں کر دیں۔
ظواہری نے افغانستان پر امریکی حملے کے حوالے سے پاکستان کی ریاستی پالیسی اور خاص طور پر پاکستانی فوج کے کردار کا بھی بالکل یک رخا اور نہایت جانب دارانہ تجزیہ کیا ہے اور چونکہ وہ ایک غیر جانب دار مبصر کی حیثیت سے نہیں، بلکہ جنگ کے ایک فریق کی حیثیت سے اپنا موقف بیان کر رہے ہیں، اس لیے ظاہر ہے کہ انھیں ایسا ہی کرنا چاہیے۔ تاہم یہ ساری صورت حال پیدا کرنے کی بنیادی ذمہ داری خود القاعدہ پر بھی عائد ہوتی ہے۔ اس ضمن میں القاعدہ کے کردار پر جو سوالات کسی بھی سوچنے سمجھنے والے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں، ظواہری نے ان سے کوئی تعرض نہیں کیا۔ مثلاً ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ امریکا کو کس کی ’حرکتوں‘ نے افغانستان میں آنے کی دعوت دی اور وہ اقدامات جن کو جواز بنا کر اس نے افغانستان پر حملہ کیا، ان کا ذمہ دار کون تھا؟ آخر شریعت اور فقہ کا یا عمومی اخلاقیات کا کون سا اصول بن لادن اور ظواہری کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ افغانستان میں بیٹھ کر وہاں کی اسلامی حکومت کی اجازت کے بغیر امریکہ پر حملوں کی منصوبہ بندی کریں جس کے نتیجے میں اپنے ان کرم فرما مہمانوں کی میزبانی کرتے ہوئے طالبان کو اپنا اقتدار قربان کرنا پڑے، پھر یہ حضرات وہاں سے بھاگ کر پاکستان کے علاقے میں پناہ لے لیں اور پاکستانی سرزمین کو اس جنگ میں استعمال کر کے ریاست پاکستان کو بھی اس مشکل سے دوچار کر دیں کہ وہ یا تو اپنی سرزمین پر امریکہ کے براہ راست حملے کا خطرہ مول لے اور یا پھر اس جنگ میں اپنی سرزمین کے استعمال کو (دنیا کی نظروں میں ہی سہی) روکنے کے لیے اپنے ہی باشندوں کے خلاف عسکری کارروائی کرے؟ جنگ کے ایک فریق، بلکہ لڑائی کا شیرہ لگانے والے کی حیثیت سے ظواہری کے لیے یہ الزام لگانا بہت آسان بھی ہے اور ان کے مفاد کا تقاضا بھی کہ پاکستانی فوج اس ’’صلیبی جنگ‘‘ میں مکمل طور پر امریکا کی آلہ کار بن چکی ہے، لیکن حالات وواقعات پر نظر رکھنے والے کوئی بھی غیر جانب دار مبصر اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتا کہ پاکستانی فوج نے امریکا کو لاجسٹک سپورٹ دینے یا قبائلی علاقوں کے آپریشن میں سے کوئی بھی فیصلہ خوش دلی اور آزادانہ اختیار کے ساتھ نہیں کیا۔ ان فیصلوں کی غلطی کتنی ہی سنگین اور نتائج کے لحاظ سے کتنی ہی تباہ کن کیوں نہ ہو، عملی محرکات کے لحاظ سے یہ صرف اور صرف حالات کے جبر کے تحت کیے گئے فیصلے تھے جس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ہماری خفیہ ایجنسیاں شروع سے اب تک کسی نہ کسی انداز میں افغانستان میں جا کر طالبان کی حمایت میں لڑنے والوں کو سہولیات فراہم کر رہی ہے اور ایسے بہت سے قبائل کے ساتھ جو افغانستان کی جنگ میں عملاً شریک ہیں لیکن ریاست پاکستان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتے، فوج اور ریاست کے دوستانہ تعلقات قائم ہیں۔ پاکستان کی ریاستی وعسکری پالیسی کے نقائص اپنی جگہ ناقدانہ تجزیے کے مستحق ہیں اور خاص طور پر ان میں پایا جانے والا دوغلا پن اور جنگی اخلاقیات کی پامالی کسی بھی لحاظ سے تائید کی مستحق نہیں، لیکن ظواہری کو پاکستانی ریاست اور فوج کے کردار پر انگلی اٹھانے سے پہلے خود اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ انھوں نے نائن الیون جیسا تباہ کن اقدام کر کے دو مسلمان ملکوں کی ریاست، فوج اور عوام کو کشت وخون کی جس دلدل میں لا پھنسایا ہے، اس پر اسلام اور مسلمان دوستی کا آخر کون سا تمغہ ان کے سینے پر سجایا جائے؟
القاعدہ اور اس قبیل کے عناصر کی اب تک کی ساری جہد وکاوش کا خلاصہ یہی ہے کہ وہ مسلم معاشرے کی تائید اور ہمدردی حاصل کرنے کے لیے نعرہ تو بلند کرتے ہیں اسلام دشمن طاقتوں کے مقابلے کا، لیکن حکمت عملی ایسی اختیار کرتے ہیں کہ ان کی سرگرمیوں، جدوجہد اور تباہ کاریوں کا سارا رخ خود مسلم معاشروں کے داخلی نظام اور ڈھانچے کی طرف ہو جاتا ہے۔ پھر جب ایک طرف امت کی مشکلات کے حل میں کوئی کامیابی نہیں ہوتی اور دوسری طرف خود مسلم معاشرے بھی اس طرز فکر کو عمومی تائید فراہم نہیں کرتے تو اس سے ایک نفسیاتی فرسٹریشن پیدا ہوتی ہے جس کا اظہار مسلم حکمرانوں اور بارسوخ فکری طبقات کی تکفیر اور عام مسلمانوں کی کم سے کم تفسیق اور تنفیق کے فتووں کی صورت میں اور جہاں موقع ملے، ان کے خلاف مسلح جدوجہد کی شکل میں ہوتا ہے۔ جذباتی لفاظی اور الفاظ کی ملمع سازی سے صرف نظر کر لیا جائے تو القاعدہ کا اب تک کا نامہ اعمال اس کے سوا کچھ نہیں کہ اس نے ’’جہاد‘‘ کے نام پر نائن الیون اور سیون سیون جیسے غیر شرعی کارنامے انجام دیے جس کے نتیجے میں پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کی نہایت منفی تصویر ابھری اور امریکہ کو وار آن ٹیرر کے نام سے افغانستان اور عراق پر حملے کرنے کا موقع ملا۔ اسی کے براہ راست نتیجے کے طور پر افغانستان کی امارت اسلامیہ کا سقوط ہوا اور پھر افغانستان میں گھیرا تنگ ہونے پر ان عناصر نے پاکستان کے قبائلی علاقہ جات میں آ پناہ لی۔ یوں اپنے وجود اور حرکتوں سے اس علاقے کے مسلمانوں کو بھی شدید مشکلات ومصائب کا نشانہ بنا دیا۔ اور اب امت مسلمہ کے مفاد میں یہ ساری ’’خدمات‘‘ انجام دینے کے بعد ان کی نظر کرم پاکستان پر ہے اور وہ یہاں کے عوام اور اہل علم کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ پاکستان کے امن وامان اور ریاستی وحکومتی ڈھانچے کو تباہ کرنے کے اس ’’کار خیر‘‘ میں ان کا ہاتھ بٹائیں تاکہ عراق اور افغانستان کی طرح امریکہ اور عالمی طاقتوں کو یہاں بھی گھس آنے کا موقع ملے اور یوں ’’مجاہدین‘‘ امت مسلمہ کی سربلندی کا ایک اور کارنامہ اپنے نامہ اعمال میں درج کرا سکیں۔
یہ طرز فکر اور حکمت عملی دراصل ایک خاص ذہنی رویے کی پیداوار ہے اور وہ یہ ہے کہ ہماری غیرت وحمیت نے اسلام کا بول بالا کرنے کے لیے جو حکمت عملی ہمیں سجھا دی ہے، وہ باقی ہر چیز سے زیادہ قیمتی اور خطا کے امکان سے کلیتاً مبرا ہے ۔ چنانچہ اگر طالبان کی حکومت کو اس کی بھینٹ چڑھایا جا سکتا ہے جو دنیا کی واحد حکومت تھی جس نے ساری دنیا کی مخالفت مول لے کر القاعدہ کی قیادت کو اپنا مہمان بنا رکھا تھا تو پاکستان کے دستور کے اسلامی تشخص کی بیک قلم نفی کر دینا کیا معنی رکھتا ہے، بھلے پاکستان کی مذہبی قیادت ساٹھ سال سے اسے قائم رکھنے کے لیے مسلسل اور ان تھک جدوجہد کر رہی ہو اور چاہے اسے پاکستان میں مذہبی طبقات کی سیاسی جدوجہد کے تنہا حاصل کی حیثیت حاصل ہو۔ کسی فر د یا گروہ نے عملاً کسی میدان میں جدوجہد کر کے کوئی مقصد حاصل نہ کیا ہو تو اسے اس کی واقعی قدر وقیمت کا احساس نہ ہونا ایک قابل فہم بات ہے، لیکن القاعدہ کی ذہنی کیفیت ’عدم احساس‘ سے کہیں آگے بڑھی ہوئی ہے اور وہ دوسرے مذہبی طبقات کی محنت اور جدوجہد کے ہر اس حاصل کو قربانی کی بھینٹ چڑھا دینے کو عین دین وشریعت کا تقاضا تصور کرتی ہے جو اس کی حکمت عملی سے ہم آہنگ نہ ہو۔ 
ظواہری کے بعض جملوں سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ان کا ذہن اس پہلو کی طرف کم از کم متوجہ ضرور ہو سکتا ہے ۔ چنانچہ پاکستان کو ایک کفریہ ریاست قرار دینے کے ضمن میں اپنے موقف پر، جو یہاں کے جمہور اہل علم سے مختلف ہے، انھوں نے خود یہ سوال اٹھایا ہے کہ:
’’مصنف ان سب حضرات کی رائے کو وزن کیوں نہیں دیتے اور اسے کیوں نہیں اپناتے؟ خصوصاً جبکہ پاکستانی نظام کو غیر شرعی قرار دینے کے نتیجے میں تشدد، تصادم اور فتنوں کی آگ بھڑک اٹھنے کا امکان ہے جس سے تباہی وبربادی کے سوا کچھ نہیں حاصل ہوگا۔‘‘ (ص ۱۸۱)
تاہم سوال اٹھانے کے بعد وہ اس خاص پہلو کا براہ راست کوئی جواب نہیں دیتے اور ہمارے خیال میں خود سوال اٹھا کر جواب میں خاموشی اختیار کر لینا بڑا معنی خیز ہے بلکہ بجائے خود ایک واضح جواب کا درجہ رکھتا ہے۔ گویا وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے فلسفے کے مطابق تو ’’تشدد، تصادم اور فتنوں کی آگ بھڑک اٹھنے‘‘ میں ہی امت کی نجات پوشیدہ ہے اور اس سے ’’تباہی وبربادی کے سوا‘‘ بھلے کچھ حاصل نہ ہو، ’’فریضہ جہاد‘‘ کا احیا تو بہرحال ہو ہی جائے گا! اس ذہنی رویے پر ان کی خدمت میں اس کے سوا کیا عرض کیا جا سکتا ہے کہ
ہوئے تم دوست جس کے، دشمن اس کا آسماں کیوں ہو!

پروفیسر مشتاق احمد کا مکتوب گرامی

محمد مشتاق احمد

(جناب ایمن الظواہری کی کتاب پر راقم کے تنقیدی تبصرے پر محترم پروفیسر مشتاق احمد صاحب نے درج ذیل خط ارسال فرمایا جسے موضوع کی مناسبت سے یہاں درج کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ مدیر)

برادر محترم عمار خان ناصر صاحب 
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ 
ایمن الظواہری کی کتاب پر آپ کا تبصرہ پڑھا ۔ ماشاء اللہ تبصرے کا حق ادا کردیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔
مجھے آپ کے مقدمات و دلائل اور وجہِ استدلال سے مکمل اتفاق ہے ۔ البتہ دو امور کی وضاحت ضروری محسوس ہوتی ہے : 
ایک یہ کہ آپ نے حنفی فقہا کے متعلق درست فرمایا ہے کہ وہ سربراہِ حکومت ( ریاست نہیں کیونکہ ریاست نامی شخصِ اعتباری کا تصور اسلامی قانون کے لیے اجنبی ہے ) کو حد کی سزا دینے کے قائل نہیں ہیں ۔ البتہ اس کی فقہی توجیہ کچھ وضاحت کی محتاج ہے ۔ حنفی فقہا کی یہ راے صرف حدود کی سزاوں کے متعلق ہے جنھیں وہ ’’ حقوق اللہ ‘‘ سے متعلق قرار دیتے ہیں ۔ اپنے ایک پچھلے مضمون میں ، جو الشریعہ میں شائع ہوا تھا ، میں نے اس بات کی کچھ تفصیل پیش کی تھی کہ حق کے مختلف ہونے سے قانونی اثرات کس طرح مختلف ہوجاتے ہیں ۔ حنفی فقہا حدود کو ایک بہت ہی خاص نوعیت کی سزا سمجھتے ہیں جسے بہت ہی خاص حالات کے تحت نافذ کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے اثبات کا طریقِ کار از حد دشوار ہے ۔ پھر مقدمے کے دوران میں فیصلے تک ، بلکہ فیصلے کے نفاذ تک ملزم ( حتی کہ مجرم بھی ) بہت سی رعایتوں کا مستحق ہوتا ہے ۔ مزید یہ کہ اس کا نفاذ صرف حکمران یا اس کا نائب ، جسے حکمران نے یہ اختیار تفویض کیا ہو ، کرسکتا ہے ۔ اس آخری اصول کی بنا پر حنفی فقہا کہتے ہیں کہ وہ امام جس کے اوپر کوئی امام نہ ہو ، اگر حد کے جرم کا ارتکاب کرے تو ’تکنیکی بنیادوں پر ‘ اس سزا کو نافذ نہیں کیا جاسکے گا ۔ البتہ اموال کا معاملہ اس سے مختلف ہے کیونکہ اموال کا تعلق ’’حقوق العبد ‘‘ سے ہے اور فقہا نے تصریح کی ہے کہ حکمران کے پاس حقوق العبد کے اسقاط کا اختیار نہیں ہے ۔ اسی طرح قصاص کی سزا بھی اسے دی جاسکے گی کیونکہ قصاص ایسے ’’ حقِ مشترک ‘‘ سے متعلق ہے جس میں حق العبد غالب ہے ۔ قذف کی سزا دیگر حدود کی طرح نہیں دی جاسکے گی کیونکہ یہ بھی اگرچہ حق مشترک سے متعلق ہے لیکن اس میں حق اللہ غالب ہے ۔ جیسے میں نے عرض کیا ، آپ کا مقدمہ صحیح ہے اور جو استدلال آپ کررہے ہیں وہ بھی درست ہے ، لیکن اس مسئلے کی کچھ توضیح ضروری محسوس ہوئی ۔ 
دوسری بات حاکم خان کیس کے فیصلے کے متعلق ہے جس کے بارے میں میری راے یہ ہے کہ اس فیصلے میں سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان نے نہ صرف اپنی دستوری ذمہ داری پوری کرنے سے گریز کیا ہے ، بلکہ دستور اور قانون کی تعبیر کے اصولوں سے روگردانی بھی کی ہے ۔ جب سپریم کورٹ نے ایک دفعہ یہ مان لیا کہ دستور کی دو دفعات کے در میان تصادم ہے تو اس تصادم کو دور کرنا سپریم کورٹ ہی کی ذمہ داری تھی ، نہ کہ پارلیمنٹ کی ۔ سپریم کورٹ نے حاکم خان کیس سے قبل اور اس کے بعد بھی متعدد کیسز میں دستور کی شقوں میں بظاہر پیدا ہونے والے تعارض کو رفع کیا ہے اور اس تعارض کو رفع کرنے کی ذمہ داری پارلیمنٹ کو نہیں سونپی ۔ (اپنے ایک اور مضمون میں اس فیصلے پر میں نے تفصیلی تنقید کی ہے جسے میں نے ۲۰۰۹ء میں ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی ، اسلام آباد ، کے زیر اہتمام فقہی سیمینار میں پیش کیا تھا ۔ وہ مضمون ادارۂ تحقیقات اسلامی اپنے مجموعۂ مقالات میں شائع کررہا ہے ۔ )تاہم آپ کا اخذ کردہ نتیجہ بہر حال درست ہے کہ حاکم خان کیس کے فیصلے کے باوجود دستورِ پاکستان کو ’کفریہ ‘ قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ 
والسلام 
محمد مشتاق احمد 
۲۲ محرم الحرام ۱۴۳۳ھ (۱۸ دسمبر ۲۰۱۱ء) 

خروج ۔ کلاسیکل اور معاصر موقف کا تجزیہ، فکر اقبال کے تناظر میں

محمد عمار خان ناصر

(اقبال اکادمی لاہور اور یونیورسٹی آف گجرات کے زیر انتظام ۱۵؍ نومبر ۲۰۱۱ء کو ’’ریاست و حکومت: اقبال اور عصری مسائل‘‘ کے عنوان پر منعقدہ سیمینار کے لیے لکھا گیا۔)

ریاست و حکومت سے متعلق عصری مسائل پر غور کرتے ہوئے فکر اقبال کے تناظر میں ’’خروج‘‘ کے موضوع کو زیر بحث لانا بظاہر عجیب دکھائی دیتا ہے، اس لیے کہ ’’خروج‘‘ کی بحث بنیادی طور پر ایک فروعی اور اطلاقی فقہی بحث ہے جبکہ اس نوعیت کی بحثیں عام طور پر اقبال کے غور وفکر کے موضوعات میں داخل نہیں۔ تاہم ذرا گہرائی سے موضوع کا جائزہ لیا جائے تو اس بحث کے ضمن میں فکر اقبال کی relevance اور اہمیت بہت نمایاں ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔
فقہ اسلامی میں ’خروج‘ کی اصطلاح اس مفہوم کے لیے بولی جاتی ہے کہ مسلمانوں کی ریاست میں بسنے والا کوئی گروہ اپنے کسی مذہبی تصور کی بنیاد پر، جس میں وہ اپنے آپ کو برحق اور اپنے مخالفین کو باطل پر سمجھتا ہو، یا حکمرانوں کے واقعی ظلم وجبر یا فسق وفجور کے تناظر میں مسلمانوں کے نظم اجتماعی کے خلاف ہتھیار اٹھا لے اور طاقت کے زور پر نظام حکومت کو تبدیل کرنے کی کوشش کرے۔ اس بنیادی نکتے کے لحاظ سے ’خروج‘ کے مفہوم میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا اور دور جدید میں ریاستی نظم کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے والوں پر یہ اصطلاح اسی طرح قابل انطباق ہے جس طرح دور قدیم میں تھی۔ تاہم فکری پس منظر اور عملی محرکات اور اسباب کے اعتبار سے دور قدیم کے ’خروج‘ اور دور جدید کے ’خروج‘ میں بعض بنیادی نوعیت کے فرق پائے جاتے ہیں جن کا درست فہم حاصل کیے بغیر اس بحث کی تنقیح نہیں کی جا سکتی۔
کلاسیکی دور میں ’خروج‘ کی بحث اسلامی ریاست کے داخلی دائرے میں علم سیاسیات کے اس سوال کا جواب دینے تک محدود تھی کہ اگر حکمران اپنی ان ذمہ داریوں سے گریز کی روش اختیار کر لیں جن کی ادائیگی کے لیے انھیں اس منصب پر فائز کیا گیا ہے تو کیا ان کا حق حاکمیت برقرار رہتا ہے یا نہیں اور اگر نہیں تو پھر انھیں ان کے منصب سے معزول کرنے کا طریقہ کیا ہونا چاہیے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں اس اصول کا ذکر تو بہت وضاحت سے ملتا ہے کہ عوام پر حکمرانی کا حق اسی طبقے اور انھی لوگوں کو حاصل ہے جنھیں لوگوں کا اعتماد حاصل ہو اور وہ انھیں اپنے اوپر حکمران دیکھنا چاہتے ہوں، چنانچہ آپ نے اپنے بعد جزیرۂ عرب میں قائم ہونے والی ریاست میں حکمرانی کے حق کو اسی بنیاد پر قریش کے لیے مخصوص قرار دیا کہ اہل عرب اس وقت کے مخصوص تمدنی اور تاریخی پس منظر کے لحاظ سے اس منصب پر انھی کو فائز دیکھنا چاہتے تھے اور ان کے علاوہ کسی اور گروہ کی قیادت وسیادت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ تاہم، اسلامی سیاست کے اس بنیادی اصول کی وضاحت سے آگے بڑھ کر، شرعی نصوص میں حکمرانوں کے طریق انتخاب اور خاص طور پر انھیں ان کے منصب سے معزول کرنے کے ضمن میں کوئی متعین راہ نمائی نہیں ملتی۔ 
منصب اقتدار پر فائز ہونے کے بعد کسی صاحب منصب کو اس کی زندگی میں معزول کرنے کی ظاہری صورتیں تین ہی ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ حکمران کے عزل ونصب کے لیے اس سے بالاتر کوئی اتھارٹی ہو جس کا فیصلہ اس پر قانوناً نافذ العمل ہو۔ مسیحیت میں یہ اختیار خدا کی براہ راست نمائندگی کے تصور کے تحت پوپ کو حاصل تھا، لیکن اسلام میں نہ صرف یہ کہ ایسا کوئی ادارہ تجویز نہیں کیا گیا، بلکہ اس تصور کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ دوسرے یہ کہ حکمران ازخود اقتدار سے دست بردار ہونے کے لیے تیار ہو جائے جو ظاہر ہے کہ ایک نادر الوقوع صورت ہے۔ تیسرے یہ کہ خود رعایا کو اپنے حکمرانوں کو معزول کرنے کا اختیار حاصل ہو۔ اسلام کے مزاج اور اس کے تعلیم کردہ سیاسی تصورات سے ہم آہنگی رکھنے والی صورت یہی تھی، تاہم عوام کے اپنے اس اختیار کو پرامن انداز میں موثر طور پر بروے کار لانے کے لیے ریاستی قوت کے بالمقابل جن اجتماعی اداروں کی ضرورت تھی، وہ اس وقت کے حالات میں دست یاب نہیں تھے اور چونکہ تمدنی اور تہذیبی احوال میں کوئی جوہری تبدیلی چند دنوں یا سالوں میں پیدا نہیں کی جا سکتی، اس لیے مستقبل قریب میں بھی اس کی بظاہر کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی تھی۔ اس تناظر میں راہ راست سے ہٹ جانے والے حکمرانوں کی معزولی کا طریقہ جو عملی طور پر موثر اور نتیجہ خیز ہو سکتا ہو، یہی بچتا تھا کہ لوگ ہاتھ میں تلوار لے کر حکمرانوں کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوں اور بزور قوت انھیں ان کے منصب سے معزول کرنے کی کوشش کریں۔ اس طریقے کو اختیار کرنے کے نتیجے میں مسلمانوں کے معاشرے میں خون خرابے اور فساد کی جس صورت حال کا رونما ہونا یقینی تھا، اس کے پیش نظر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت نہیں دی اور ’کم تر برائی‘ (lesser evil) کے اصول پر اس کی جگہ حکمرانوں کے بگاڑ کو گوارا کرنے کو قابل ترجیح قرار دیا۔ آپ نے اپنے متعدد ارشادات میں اس صورت حال کو موضوع بحث بنایا اور یہ واضح فرمایا کہ اگر مسلمانوں کے حکمران اصولی طور پر اسلام کے ساتھ وابستگی کا اظہار کریں لیکن اپنے طرز عمل، فیصلوں اور پالیسیوں میں دین کی تعلیمات سے انحراف کا طریقہ اختیار کریں تو ان کی اطاعت سے دست کش ہونا جائز نہیں، البتہ حق بات کسی خوف کے بغیر ہر حال میں کہی جائے اور اگر کسی شخص کو کوئی غیر شرعی امر بجا لانے کا حکم دیا جائے تو اسے چاہیے کہ وہ صرف معروف میں حکمرانوں کی اطاعت کرے جبکہ معصیت میں ان کی اطاعت سے انکار کر دے۔ اس سے آگے حکمرانوں کے دائرۂ اختیار میں مداخلت کرنے یا ان کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے کی آپ نے سخت حوصلہ شکنی کی اور فرمایا کہ تم پر ایسے بدترین حکمران مسلط ہو جائیں جن سے تم شدید نفرت کرتے ہو اور ان پر لعنت بھیجتے ہو، تب بھی ان کی بدعملی سے نفرت کرنا، لیکن ان کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچنا۔
اس کے باوجود اسلامی تاریخ کے صدر اول میں بعض نہایت نمایاں مذہبی شخصیات کی طرف سے نظم اجتماعی کی اطاعت قبول نہ کرنے یا اس کے خلاف خروج کرنے یا ایسا کرنے والوں کی تائید کی بہت سی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ اس ضمن میں سیدنا حسین، عبد اللہ بن زبیر، زید بن علی اور نفس زکیہ کے واقعات بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ ان حضرات کا زاویہ نظر یہ تھا کہ امام کی اطاعت کا حکم اور اس کے خلاف خروج کی حرمت اس صورت میں ہے جب اس کی حکومت حقیقتاً مسلمان عوام کی تائید اور مشورے سے قائم ہوئی ہو اور اسے راے عامہ کا اعتماد حاصل ہو۔ مذکورہ واقعات میں ان حضرات کے فہم کے مطابق یہ صورت نہیں پائی جاتی تھی، چنانچہ وہ اس بات کی گنجائش سمجھتے تھے کہ منصب اقتدار پر فائز افراد کی اطاعت سے نکل جایا جائے۔ مثلاً سیدنا علی کی خلافت کے انعقاد پر مسلمانوں کا اتفاق تام نہیں ہوا تھا اور جن حالات میں ان کی بیعت کی گئی، اس میں قاتلین عثمان کے ان کے کیمپ میں شامل ہو جانے سے ابتدا ہی سے شبہے کی ایسی صورت پیدا ہو گئی تھی کہ سیدنا معاویہ اور ان کی قیادت میں اہل شام ان کی بیعت کے لیے آمادہ نہ ہوئے اور باہمی قتل وقتال کے بعد یہ سلسلہ بالآخر مسلمانوں کی دو متوازی حکومتوں کے قیام پر منتج ہوا۔ پھر جب سیدنا معاویہ نے اپنی عمر کے آخری حصے میں سیاسی اثر ورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے یزید کو اپنا ولی عہد مقرر کیا تو بظاہر اس پر عمومی اتفاق رائے دکھائی دینے کے باوجود یہ سوال پیدا ہو گیا تھا کہ موروثی جانشینی کا یہ طریقہ عوام الناس کے حقیقی اعتماد اور تائید کی شرط کو کس حد تک پورا کرتا ہے۔ خاندان نبوت کی جن شخصیات نے بنو امیہ کے حکمرانوں کے خلاف خروج کیا، وہ اسی اساس پر تھا کہ ارباب حل وعقد کو عوام کی حقیقی تائید اور حمایت حاصل نہیں اور ان کا اقتدار محض طاقت اور جبر کے زور پر قائم ہے، چنانچہ ان شخصیات نے یہ دیکھتے ہوئے کہ راے عامہ حکمرانی کے منصب پر انھیں فائز دیکھنا چاہتی ہے اور اس سلسلے میں جدوجہد کی کامیابی کے امکانات بھی بظاہر موجود ہیں، خروج کا فیصلہ کر لیا۔ ان میں سے سیدنا حسین، زید بن علی، نفس زکیہ اور محمد بن الاشعث وغیرہ اپنی کوشش میں ناکام ہوئے جبکہ عبد اللہ بن زبیر کو حجاز میں اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ گویا راے عامہ کی حقیقی تائید اور اعتماد کا نکتہ ان حضرات کے نزدیک بنیادی تھا اور وہ خروج کی ممانعت کو اس صورت میں قابل اطلاق نہیں سمجھتے تھے جب حکمران عوام کے حقیقی اعتماد سے محروم ہوں۔ 
مذکورہ نکتے کی روشنی میں ان حضرات کے اقدامات کے لیے ایک اجتہادی گنجائش پیدا ہو جاتی ہے اور انھیں شریعت کے کسی صریح حکم کی دیدہ ودانستہ خلاف ورزی کا مرتکب قرار دینا ممکن نہیں رہتا۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی بالکل درست ہے کہ جمہور صحابہ واہل علم نے ان اقدامات میں نہ صرف یہ کہ ان حضرات کا ساتھ نہیں دیا، بلکہ انھیں اس اقدام سے باز رکھنے کی کوشش کی اور اس کے نتیجے میں مسلمانوں میں باہمی خوں ریزی اور فتنے کی جو صورت حال پیدا ہوئی، اس پر سخت اور تیز وتند تبصرے کیے۔ پھر تاریخ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں ارباب حل وعقد کے خلاف خروج اور بغاوت کے نتیجے میں مسلم معاشرے کو جس قتل وغارت اور انتشار وافتراق کا سامنا کرنا پڑا، اس کے پیش نظر ائمہ اہل سنت کا اس بات پر ایک عمومی اتفاق ہو گیا کہ غیر عادل حکمرانوں کے خلاف خروج حرام ہے۔ چنانچہ فقہ حنبلی کی معروف کتاب ’الانصاف‘ میں ہے:
ونصوص الامام احمد رحمہ اللہ ان ذالک لا یحل وانہ بدعۃ مخالف للسنۃ وآمرہ بالصبر وان السیف اذا وقع عمت الفتنۃ وانقطعت السبل فتسفک الدماء وتستباح الاموال وتنتہک المحارم (ج ۱۰، ص ۳۱۱)
’’امام احمد کی تصریحات یہ ہیں کہ خروج حلال نہیں اور یہ کہ یہ بدعت ہے اور سنت کے خلاف ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ میں ایسی صورت حال میں صبر کی تلقین کرتا ہوں۔ تلوار جب ایک دفعہ نکل آتی ہے تو فتنہ عام ہو جاتا ہے، راستے بے امن ہو جاتے ہیں، خون بہائے جاتے ہیں، اموال مباح کر لیے جاتے ہیں اور اللہ کی قائم کردہ حرمتیں پامال کی جاتی ہیں۔‘‘

دور جدید میں ’خروج‘ کے فکری اسباب میں ایک خاص dimension کا اضافہ ہوا ہے اور وہ ہے مسلم معاشروں پر مغربی فکر وتہذیب اور اس کے بطن سے پیدا ہونے والے نظام سیاست ومعیشت کا غلبہ اور استیلا۔ مغربی فلسفہ وتہذیب کے غلبے نے مسلم معاشروں کے فکر واعتقاد، داخلی معاشرتی ساخت اور بین الاقوامی سطح پر ان کے سیاسی کردار کو اتنے بڑے پیمانے پر اور اتنی تیزی سے تبدیل کر دیا ہے کہ مذہبی ذہن اگر اس سے اجنبیت اور وحشت محسوس نہ کرتا تو یہ بات خود غیر فطری اور تعجب خیز ہوتی۔ مغربی تہذیب کے زیر اثر مسلم اقوام کی معاشرت، قانون اور سیاست میں در آنے والے تغیرات کا منظرنامہ کچھ یوں بنتا ہے:
اس تجزیے سے واضح ہے کہ دور جدید میں مسلمان ریاستوں میں ’خروج‘ کا مسئلہ ایک بالکل مختلف پس منظر میں پیدا ہوا ہے جو ماضی کے مقابلے میں سادہ نہیں، بلکہ پیچیدہ ہے اور اس کی تہہ میں دنیا کی تہذیب، تاریخ اور سیاست میں رونما ہونے والی نہایت گہری اور دور رس تبدیلیاں کارفرما ہیں۔ آج اس مسئلے پر محدود فقہی دائرے میں غور کرنا کافی نہیں ہوگا، اس لیے کہ اس کی جڑیں بنیادی طور پر کسی فقہی حکم کی تفہیم وتعبیر میں نہیں، بلکہ دنیا کے منظر نامے پر رونما ہونے والی جوہری تبدیلیوں کے فہم اور تجزیے میں پائی جاتی ہیں۔ 
مسلمانوں کے بعض طبقات نے اپنے فہم وبصیرت کی حد تک کلاسیکی اسلامی ریاست کے خط وخال کو معیار مانتے ہوئے اس صورت حال کا جو تجزیہ کیا، اس نے انھیں اس نتیجے تک پہنچایا کہ دور جدید کے جمہوری تصورات کے تحت مسلمانوں کی جو ریاستیں اس وقت قائم ہیں، وہ نہ صرف اسلامی ریاست کی تمام بنیادی خصوصیات سے محروم ہیں، بلکہ الٹا معاشرے کی تشکیل میں ان مغربی اقدار اور تصورات کو تحفظ اور تقویت فراہم کر رہی ہیں جو خیر وشر کے اسلامی پیمانے سے مختلف اور متصادم ہیں۔ ان کا فہم انھیں یہ بتاتا ہے کہ اسلامی نظام سیاست کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ قانونی وتشریعی سطح پر حاکمیت کا حق صرف اللہ کے لیے تسلیم کیا جائے اور شرعی مآخذ میں منصوص یا ان سے مستنبط احکام وقوانین کے علاوہ، جنھیں فقہ اسلامی میں بیان کیا جاتا ہے، انسانوں کے لیے اپنے فہم وبصیرت اور تجربات کی روشنی میں قانون سازی اور تشریع کا حق تسلیم نہ کیا جائے، جبکہ جدید جمہوری نظام قانون سازی میں بنیادی سرچشمہ عوام کی پسند وناپسند کو قرار دیتا ہے جس کی وجہ سے ریاست کے نظام میں ان غیر نظریاتی عناصر، مثلاً غیر مسلموں اور لادین وسیکولر طبقات کو بھی شریک کرنا پڑتا ہے جو سرے سے شریعت کی حاکمیت پر ایمان ہی نہیں رکھتے۔ خارجی سطح پر ان کے تجزیے نے انھیں اس نتیجے تک پہنچایا کہ دنیا میں امت مسلمہ کے غلبہ اور سربلندی کی ضمانت ’جہاد‘ کا شرعی حکم تھا جس سے روگردانی کے نتیجے میں مغربی طاقتیں اور ان کی لادینی تہذیب ہر سطح پر مسلمانوں پر غالب آ گئی ہے۔ ان دو مقدمات کی روشنی میں ان حضرات نے جب یہ دیکھا کہ مسلمانوں کے مقتدر طبقات نے اپنے شخصی وطبقاتی مفادات کی خاطر مغربی تہذیب کے غلبے اور مغربی جمہوری نظام کے سامنے نہ صرف سر تسلیم خم کر دیا ہے بلکہ غلبہ اسلام اور جہاد کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہوئے مغربی تہذیب کے حلیف کا کردار بھی قبول کر لیا ہے تو اس کا حل انھیں اس کے علاوہ کچھ نہ دکھائی دیا کہ اس پورے نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دیا جائے اور اس کی جگہ خالص اسلامی وشرعی نظام قائم کرنے کی کوشش کی جائے اور چونکہ موجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے اس میں کوئی بنیادی تبدیلی پیدا کرنا ممکن نہیں، اس لیے مطلوبہ تبدیلی کے لیے مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کرنا ان کے طرز فکر کا منطقی نتیجہ قرار پایا۔
ظاہر ہے کہ اس ذہنی رویے کو فکری اور نفسیاتی بنیادوں پر مخاطب بنانے کے لیے فقہی بحثیں کافی نہیں، اس لیے کہ فقہی بحثیں کبھی گروہوں اور قوموں کے اجتماعی ذہنی رویے کو تشکیل نہیں دیتیں اور نہ ان میں کوئی تبدیلی پیدا کر سکتی ہیں۔ یہ بحثیں پہلے سے طے شدہ ذہنی رویوں کے زیر اثر پیدا ہوتی اور قانونی زبان میں انھی رویوں کے عملی اظہارات کی توجیہ کی خدمت انجام دیتی ہیں۔ جو ذہن اس وقت ہمارا مخاطب ہے، اس کے لیے محرک کا کردار کسی فقہی نوعیت کے تصور یا بحث نے نہیں، بلکہ ذہن وفکر اور نفسیات کی سطح پر موثر چند دوسرے عوامل نے ادا کیا ہے، اس لیے اس کے لیے فقہی اصول اور حدود وقیود بھی وہی قابل قبول ہوں گے جو اس کے بنیادی فکری احساس کے ساتھ ہم آہنگ ہوں۔ 

اب آئیے، یہ دیکھتے ہیں کہ ا س پوری صورت حال میں فکر اقبال ہماری کیا راہ نمائی کرتی ہے:
۱۔ اقبال مغربی تہذیب کے لادینی تصورات اور الحاد پرستانہ واباحیت پسندانہ رجحانات کے سخت ناقد تھے اور انھیں دین اسلام کی روح اور اس کے مزاج کے لیے زہر قاتل سمجھتے تھے، تاہم دو حوالوں سے ان کا رجحان مغربی تہذیب سے متعلق مثبت دکھائی دیتا ہے۔ ایک یہ کہ اہل مغرب نے تہذیبی ارتقا کے نتیجے میں اپنے مذہبی، سماجی اور سیاسی ڈھانچے میں جو تبدیلیاں کی ہیں، ان کے زیر اثر مسلمانوں کے طرز فکر اور انداز معاشرت پر ملوکیت اور ملائیت کے زیر سایہ صدیوں سے طاری جمود کو توڑنے اور فکر وعمل کی نئی راہیں تلاش کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ دوسرے یہ کہ رعایا اور حکمرانوں کے حقوق واختیارات کے باہمی توازن کے حوالے سے مغرب نے جمہوریت کے عنوان سے جو سیاسی نظام اور جو سیاسی ادارے متعارف کروائے ہیں، ان سے مسلمان معاشرے بھی استفادہ کر سکتے ہیں اور انھیں ایسا کرنا چاہیے۔ 
بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے اقبال کے ہاں متضاد رویے پائے جاتے ہیں، بلکہ ارشاد احمد حقانی مرحوم نے اپنے ایک کالم میں جناب ڈاکٹر جاوید اقبال کا یہ تبصرہ نقل کیا تھا کہ اقبال آخر وقت تک مغربی تہذیب کے حوالے سے اپنا کوئی واضح رد عمل متعین نہیں کر سکے۔ کچھ ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کسی بھی قوم کے تہذیبی تجربات اور حاصلات کو اس کے مخصوص فکری اور فلسفیانہ پس منظر سے الگ نہیں کیا جا سکتا اور جمہوریت کا نظام بھی چونکہ ایک مخصوص فکری رو کا نتیجہ اور اس کی پیداوار ہے جو اسلام کے نظام فکر سے ہم آہنگ نہیں، اس لیے مغربی طرز کے جمہوری سیاسی نظام میں اسلام کی اجتماعی اقدار کی حقیقی عمل داری قائم کرنا ممکن نہیں۔ بہرحال یہ گفتگو کا ایک مستقل موضوع ہے۔ یہاں صرف یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ اقبال مغربی تہذیب کو کلیتاً مسترد کر دینے کے بجائے اس سے اخذ واستفادہ کے قائل تھے اور اہل مغرب کے تہذیبی وتمدنی تجربات کو اسلامی تصورات کے قالب میں ڈھالے جانے کو ایک قابل عمل اور مفید امکان خیال کرتے تھے۔
۲۔ اقبال کے طرز فکرکی ایک خصوصیت یہ دکھائی دیتی ہے کہ وہ مسلم امہ کے مسائل کے درست تجزیے اور ان کا حل تجویز کرنے کے ضمن میں کسی ایک مخصوص طبقے کو اجارہ دار نہیں سمجھتے۔ ان کے نزدیک یہ مسئلہ مختلف ومتنوع زاویہ ہاے نظر رکھنے والے، امت کے سارے طبقات کا مشترک مسئلہ ہے اور وہ سب کی فکری ونظری کاوشوں کو امت کا مجموعی اثاثہ تصور کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے خطبہ اجتہاد میں انھوں نے ترکی کے مسلمانوں کے ہاں فکری بیداری کے بعض نتائج پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اصولی طور پر اس رجحان کے پیدا ہونے کی تحسین کی اور لبرل طبقات کے ہاں ممکنہ فکری کجی کے حوالے سے خدشات ظاہر کرنے کے باوجود اسلام اور امت مسلمہ کی تشکیل نو کے ضمن میں ان سے اہم اور بنیادی کردار کی توقع وابستہ کی ہے۔ 
۳۔ دور جدید میں اسلامی قانون کی تعبیر وتشریح کے ضمن میں اقبال نے بڑی صراحت کے ساتھ ’اجتہاد مطلق‘ کی دعوت دی اور اس حوالے سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی آزادئ فکر کو بطور نمونہ پیش کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
The question which confronts him to-day, and which is likely to confront other Muslim countries in the near future is whether the Law of Islam is capable of evolution--a question answered in the affirmative, provided the world of Islam approaches it in the spirit of Umar--the first critical and independent mind in Islam who, at the last moments of the Prophet, had the moral courage to utter these remarkable words: 'The Book of God is sufficient for us.' (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p. 129) 
’’جو سوال آج انھیں (ترکوں کو) درپیش ہے اور مستقبل قریب میں دوسرے مسلم ممالک کو بھی پیش آنے والا ہے، یہ ہے کہ کیا اسلامی قوانین میں ارتقا کی کوئی صورت ممکن ہے؟ یہ سوال شدید فکری کاوش چاہتا ہے اور یقیناًاس کا جواب اثبات میں ہوگا، بشرطیکہ ہم سوال کا ادراک اس انداز سے کریں جس انداز میں اس کی روح حضرت عمرؓ کے ہاں ملتی ہے جو اسلام میں پہلے تنقیدی اور طبع زاد ذہن کے حامل نقاد تھے اور جنھوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری لمحات میں یہ قابل قدر الفاظ کہنے کی جسارت کی: خدا کی کتاب ہمارے لیے کافی ہے۔‘‘ (ترجمہ: ڈاکٹر وحید عشرت)
...since things have changed and the world of Islam is confronted and affected to-day by new forces set free by the extraordinary development of human thought in all its sections, I see no reason why this attitude should be maintained any longer. Did the founders of our schools ever claim finality for their reasonings and interpretations? Never. The claim of the present generation of Muslim liberals to reinterpret the foundational legal principles, in the light of their own experience and the altered conditions of modern life is, in my opinion, perfectly justified. The teaching of the Qur'an that life is a process of progressive creation necessitates that each generation, guided but unhampered by the work of its predecessors, should be permitted to solve its own problems. (The Reconstruction, p. 133, 134) 
’’اب چونکہ صورت حال بدل چکی ہے اور عالم اسلام کو ان نئی قوتوں کی طرف سے آج نئے مسائل وحوادث کا سامنا ہے جو انسانی فکر کے ہمہ جہت اور غیر معمولی ارتقاکی آفریدہ ہیں، لہٰذا مجھے کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ ہم اس طرح کا رویہ اپنائے رکھیں۔ کیا ہمارے ائمہ فقہ نے اپنے استدلال اور تعبیرات کے لیے قطعیت کا کبھی کوئی دعویٰ کیا تھا؟ بالکل نہیں۔ موجودہ دور کے لبرل مسلمانوں کا یہ دعویٰ کہ اس کے اپنے تجربات کی روشنی میں اور زندگی کے بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر اسلام کے بنیادی اصولوں کی ازسرنو تعبیرات ہونی چاہئیں، میری نظر میں مکمل طور پر جائز اور انصاف پر مبنی ہے۔ قرآن کی یہ تعلیم کہ زندگی ایک ارتقا پذیر تخلیقی عمل ہے، خود اس امر کی مقتضی ہے کہ ہر نسل کواپنے اجداد کی رہنمائی میں انھیں رکاوٹ سمجھے بغیر یہ اجازت ہونی چاہیے کہ وہ اپنے مسائل خود حل کر سکے۔‘‘
۴۔ اقبال مسلم ریاست میں اسلامی قانون کی تعبیر وتشریح کے حق کو مذہبی علما تک محدود رکھنے کے بجائے جدید قانون اور دیگر شعبہ ہاے زندگی کے ماہرین کو شریک کرنے کے قائل ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے تھیاکریسی کے تصور کی مکمل نفی کرتے ہوئے اجتہاد کا حق مسلمانوں کی منتخب پارلیمنٹ کو دینے اور پارلیمنٹ کی راہ نمائی کے لیے مذہبی علما کو اس کا حصہ بنانے کی تجویز پیش کی جسے پاکستان میں عملی طور پر اختیارکر لیا گیا۔
۵۔ عالمی سطح پر امت مسلمہ کی سیاسی وحدت کو رو بہ عمل کرنے کے لیے اقبال نے ’خلافت‘ کے قدیم سیاسی نظام کے بجائے معروضی حقیقتوں سے ہم آہنگ ایک نیا قابل عمل اور مفید طریقہ تجویز کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
For the present, every Muslim nation must sink into her own deeper self, temporarily focus her vision on herself alone, until all are strong and powerful to form a living family of republics. A true and living unity, according to the nationalist thinkers, is not so easy as to be achieved by a merely symbolical overlordship. It is truly manifested in a multiplicity of free independent units whose racial rivalries are adjusted and harmonized by the unifying bond of a common spiritual aspiration. It seems to me that God is slowly bringing home to us the truth that Islam is neither Nationalism nor Imperialism but a League of Nations which recognizes artificial boundaries and racial distinctions for facility of reference only, and not for restricting the social horizon of its members. (The Reconstruction, p. 126) 
’’موجودہ صورت حال میں ہر مسلمان قوم کو اپنے آپ میں گہرے طور پر غوطہ زن ہونا چاہیے اور عارضی طور پر اپنی نظر خود اپنے آپ پر جما لینی چاہیے حتیٰ کہ تمام اس قدر مضبوط اور مستحکم ہو جائیں کہ وہ جمہوریتوں کا ایک زندہ خاندان تشکیل دے سکیں۔ ایک سچی اور زندہ وحدت نیشنلسٹ مفکرین کے مطابق کوئی ایسی آسان نہیں کہ اسے محض ایک علامتی عالمگیر حکمرانی کی وساطت سے حاصل کر لیا جائے۔ اس کا سچا اظہار خود مختار اکائیوں کی کثرت سے ہوگا جن کی نسلی رقابتوں کو مشترک روحانی امنگوں کی وحدت سے ہم آہنگ اور ہموار کر دیا گیا ہو۔ مجھے یوں نظر آتا ہے کہ خدا ہمیں آہستہ آہستہ اس حقیقت کے ادراک کی طرف لا رہا ہے کہ اسلام نہ تو قومیت ہے اور نہ ملوکیت، بلکہ ایک مجلس اقوام ہے جومصنوعی حد بندیوں اور نسلی امتیازات کو محض پہچان کے لیے تسلیم کرتی ہے، نہ اس لیے کہ ان رکن ممالک کے اپنے اپنے سماجی آفاق کو تنگ کر دیا جائے۔‘‘
مذکورہ چند نکات سے دور جدید میں ریاست سے متعلق بنیادی سوالات ومسائل کے حوالے سے اقبال کا فکری رخ بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔

ریاست سے متعلق عصری مسائل پر فکر اقبال کی روشنی میں غور وفکر کی یہ بحث ادھوری اور تشنہ رہے گی اگر ہم اس سوال پر اپنی توجہ مرکوز نہ کریں کہ جن سوالات کا جواب اقبال نے آج سے پون صدی قبل مسلم ریاستوں کی آزادی سے بھی پہلے سوچ لیا تھا، ہم ابھی تک انھی سوالات سے کیوں نبرد آزما ہیں؟ ہمارے نزدیک اس ضمن میں درج ذیل نکات اہل علم ودانش کی سنجیدہ توجہ کے مستحق ہیں:
۱۔ فکر اقبال سے راہ نمائی لیتے ہوئے سب سے اہم پہلو جو بطور خاص ہماری توجہ کا مستحق ہے، وہ ہے اس ساری صورت حال میں سیکولر عناصر کا طرز فکر اور رویہ جو ہمارے خیال میں مذہبی شدت پسندی کی پیدائش کے اسباب وعوامل میں سے ایک اہم عامل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ بات معلوم ہے کہ جدید تہذیبی وسیاسی تبدیلیوں اور اہل مغرب کے سماجی تجربات سے بھرپور استفادہ کا قائل ہونے کے باوجود اقبال نے سیکولرزم یعنی ریاستی واجتماعی معاملات سے مذہب اور اہل مذہب کی بے دخلی کے نظریے کی کبھی تائید نہیں کی، بلکہ اس پر سخت الفاظ میں تنقید کی ہے۔ تاہم ہمارے ہاں سیکولر طرز فکر کے زیر اثر تربیت پانے والے مقتدر طبقات کا فکری وعملی رویہ دین اور ریاست کی جدائی ہی کے تصور کا مظہر رہا ہے جو بجائے خود جمہوریت کی اصل روح کے منافی اور معاشرہ وریاست کی تشکیل کی بنیاد اکثریت کی خواہش اور اعتقاد کے برعکس ایک محدود مگر مقتدر اقلیت کے خیالات وتصورات پر رکھنے کے مترادف ہے۔ ہمارے نہایت بلند پایہ سیکولر دانش ور بھی اس زمینی حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں یا خود کو ذہنی اور نفسیاتی طور پر اسے قبول کرنے پر آمادہ نہیں کر پاتے کہ مذہبی جماعتوں اوران کے مطالبات ۔چاہے وہ بظاہر کتنے ہی خیالی، فرسودہ، غیر حقیقت پسندانہ اور عملی تقاضوں سے دور سمجھے جاتے ہوں۔ کو حاصل اثر ورسوخ کا اصل راز عوام کی اسلام کے ساتھ گہری جذباتی اور اعتقادی وابستگی میں ہے۔ مذہبی طبقات اسی وابستگی کو معاشرتی اور سیاسی سطح پر اظہار بخشتے اوراس کی نمائندگی کرتے ہیں اور اس کے مطالبات ومظاہر کا اپنے فہم کے لحاظ سے تعین کرتے ہیں۔ سیکولر حلقہ دانش یہ چاہتا ہے کہ معاشرے اور ریاست میں مذہب او رمذہبی طبقات کے کردار کو محدود کرنے کے جس نقطہ نظر کا وہ قائل ہے، اسے فکری بنیادوں پر اس ملک کے عوام سے تسلیم کرائے بغیر، جس کی کامیابی کا اگر امکان بھی ہو تو ظاہر ہے کہ وہ ایک بہت طویل اور صبر آزما کام ہے، اس تصور کو زبردستی معاشرے پر ٹھونس دے اور اگر یہ نہ کر سکے تو کم از کم ریاستی قوانین اور پالیسیوں میں مذہبی عنصر کے نمایاں اور موثر ہونے کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتا رہے۔ 
سوال یہ ہے کہ کیا انسانی زندگی اور معاشرت میں مذہب کے کردار کی یہ تحدید عوام الناس نے قبول کر لی ہے اور کیا وہ مذہب کے اپنے سابقہ تصورات سے دست بردار ہو کر سیکولر حلقے کی فکری دریافتوں پر اعتماد کرتے ہوئے اس کی راہنمائی قبول کرنے کے لیے تیار ہیں؟ بالبداہت واضح ہے کہ ایسا نہیں ہے اور ایسا ہونا ممکن بھی نہیں، اس لیے کہ مذہب بنیادی طور پر انسان کے جس ذہنی وفکری اضطراب کو address کرتا ہے اور جس سے مطمئن ہو کر انسان اس دنیا میں اس کی راہنمائی کو ایک نہایت گہری نفسیاتی اور اعتقادی سطح پر قبول کرتا ہے، وہ دنیا کی مادی زندگی کے مسائل ومشکلات نہیں، بلکہ کائنات کی حقیقت ومعنویت، انسان کے مقصد وجود اور موت کے تصورات ہیں جن کا کوئی تشفی بخش جواب کسی غیر مذہبی مادی فلسفے کے پاس نہیں ہے۔ ایسا کوئی بھی فلسفہ ان سوالات کو انسان کے ذہن سے محو کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس کی ساری تگ وتاز کا ہدف بس یہ ہے کہ انسان اپنی توجہ ان سوالات سے ہٹا دے اور زندگی کے فوری نوعیت کے مسائل (immediate concerns) پر قانع ہو جائے۔ فرض کر لیجیے کہ مذہب، انسان کے توہم اور اس کی نفسیاتی ضرورتوں کی پیداوار ہے، لیکن وہ مادی کائنات سے ماورا ایک دنیا اور اس کے ایک مقتدر خالق اور پھر حیات بعد الموت کا تصور پیش کر کے بہرحال انسان کے نفسیاتی تقاضوں کا ایک ایسا جواب فراہم کرتا ہے جو چاہے غیرحقیقی اور خیالی کیوں نہ سمجھا جائے، انسان کے لیے اطمینان بخش ہے جبکہ محض مادی زندگی کے دائرے میں محدود کوئی بھی فلسفہ اس صلاحیت سے یکسرمحروم ہے۔ پھر یہ کہ عملی طور پر کائناتی قوتوں کے علم اور ان کی تسخیر او ر اس کے نتیجے میں انسان کے ذہنی اضطرابات اور پریشانیوں کے دور ہو جانے کا تصور ایک elitist تصور ہے جس سے بہت آسودہ حال اور مادی پریشانیوں سے بے نیاز افراد یا طبقے ہی لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ مادی وسائل کی فراوانی کے باوجود وسائل معاش کی منصفانہ تقسیم کا سوال ابھی تک انسان کے لیے حل طلب ہے اور جمہوری اصولوں اور آزاد معیشت کے خود کار جادوئی کرشموں کا منظر ہر چند سال کے بعد پوری دنیا کو دیکھنے کو ملتا رہتا ہے۔ 
ان وجوہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سوال لبرل حلقے کی طرف سے بے حد سنجیدہ غوروفکر کا متقاضی ہے کہ وہ زندگی اور اس کے مسائل کی توجیہ غیر مذہبی اساس پر کرنے اور مذہبی روایت اور اس کے نمائندوں کے کردار کو محدود ترکرنے کا جو نسخہ کیمیا (panacea) تجویز کر رہا ہے، ایک مسلمان معاشرے میں اس کی قبولیت کے عملی امکانات کتنے پائے جاتے ہیں۔ ہم پوری دیانت داری کے ساتھ سمجھتے ہیں کہ لبرل حلقے کے تمام تر جائز اور ناجائز تحفظات بلکہ کسی قدر تعصبات کے باوجود مذہبی شدت پسندی کا حل مذہب اور مذہبی عناصر کے معاشرتی کردار کو محدود کرنے اور انھیں غیر موثر بنانے میں نہیں، بلکہ انھیں ایک حقیقی جمہوری فضا میں معاشرے اور اس کے مسائل کے حوالے سے مذہبی نقطہ نظر پیش کرنے اور معاشرے کی تعلیم وتربیت اور ملک وقوم کی اجتماعی پالیسیوں کی تشکیل میں بھرپور کردار ادا کرنے کا موقع دینے میں ہے۔ مذہبی عناصر کا فہم اسلام یقیناًاس وقت قابل رشک نہیں اور وہ ملک وقوم کے حقیقی مسائل کے بارے میں زیادہ بصیرت نہیں رکھتے، لیکن صورت حال ان طبقوں کے ہاں بھی زیادہ مختلف نہیں جو اس وقت طاقت واقتدار کے سرچشموں پر قابض ہیں۔ اگر سیاسی جماعتوں، فوج، عدلیہ، ذرائع ابلاغ اور مختلف معاشرتی طبقات کے بارے میں یہ توقع کی جاتی ہے کہ جمہوری عمل کے تسلسل کے نتیجے میں ان کے فہم وادراک میں بہتری آتی جائے گی اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ ایک ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے لگیں گے تو مذہبی عناصر کے لیے اس سے مختلف معیار وضع کرنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں۔ مذہبی عنصر کے لیے معاشرت، قانون اور سیاست کے میدان میں موثر کردار ادا کرنے اور ان دائروں میں ملکی وقومی پالیسیوں میں اس کی نمائندگی یا اثرات کو قبول کرنے سے انکار ایک خاص متعصبانہ اور تنگ نظر ذہنیت کی غمازی کرتا ہے جو کسی طرح بھی قومی سطح پر ہم آہنگی پیدا کرنے اور معاشرے میں رواداری اور انسانی وجمہوری قدروں کے فروغ میں مددگار نہیں، بلکہ اس کے لیے شدید نقصان دہ ہے۔
۲۔ موجودہ نظام سیاست ومعیشت پر کلی عدم اطمینان اور اس کے خلاف بغاوت کا ذہنی رویہ دنیا پرمغرب کے عمومی استیلا اورمسلمانوں کے سیاسی اور تہذیبی زوال سے پیدا ہونے والے احساس محرومی، عدم تحفظ اور فرسٹریشن کی پیداوارہے۔ اقتدار اور اختیار، انسان کے لیے ایک نفسیاتی اطمینان کا موجب ہوتا ہے اور یہ ذہنی سہارا موجود ہو تو افراد اور طبقات مختلف نوع کے خطرات اور چیلنجز درپیش ہونے کے باوجود frustration کی کیفیت میں مبتلا نہیں ہوتے بلکہ یہ چیزیں بالعموم ان کے جذبہ عمل کو انگیخت کرنے کا باعث بنتی ہیں، لیکن طاقت اور اقتدار سے محروم ہونے کے بعد ایک طرف احساس محرومی اور دوسری طرف اپنی پوزیشن کی کمزوری کا احساس خارجی خطرات کے حوالے سے انسان کو نہایت شدید طو رپر حساس بنا دیتا ہے اور ایسی صورت میں انسان عام طور پر نئی صورت حال کے امکانات اور مواقع کا مثبت طور پر جائزہ لینے کی صلاحیت سے کام لینے کے بجاے ہر معاملے کو تحفظاتی زاویہ نگاہ سے دیکھنے اور معمولی اوربعض اوقات غیر حقیقی خطرہ سامنے آنے پر بھی لڑنے مرنے پر تیار ہو جاتا ہے۔ دنیا کے سیاسی اور تہذیبی حالات میں تغیر آنے کے بعد مسلمانوں کے جو طبقات اس کے ساتھ ذہنی اور نفسیاتی ہم آہنگی پیدا کر چکے ہیں اور یقیناًبعض اوقات ایسا اپنی مذہبی اور تہذیبی روایت اور اپنے آزاد تشخص کی قیمت پر ہوا ہے ان کے لیے تو کوئی مسئلہ نہیں، لیکن جو طبقات اپنے مذہب اور اپنی تہذیب سے وابستگی کو ترک کرنے کے لیے تیار نہیں اور اس کے ساتھ ساتھ انھیں جدید طرز معاشرت میں اپنے لیے کوئی موثر کردار ادا کرنے کے امکانات اورمواقع دکھائی نہیں دیتے، ان میں مزاحمت اور بغاوت کے رجحان کا پیدا ہونا ایک قابل فہم بات ہے۔ 
اس ذہنی کیفیت میں کوئی پائیدار تبدیلی لانے کے لیے تاریخ وتہذیب کے وسیع تر تناظر میں بعض بنیادی سوالات کو موضوع بحث بنانا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر اہل مذہب کو آسمانی صحائف اور انسانی تاریخ کی روشنی میں دنیا میں قوت واقتدار اور سربلندی کے خدائی قوانین کا نیا فہم حاصل کرنا ہوگا۔ قریش، جنھیں خود خدا کے پیغمبر کی زبان نے حکومت واقتدار کی زمام سپرد کی تھی، ان کی قیادت وسیادت بھی اس بات کے ساتھ مشروط تھی کہ وہ دینی اوراخلاقی اعتبار سے اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کیے رکھیں گے۔ قرآن مجید کے صریح بیان (ذلک بان اللہ لم یک مغیرا نعمۃ انعمہا علی قوم حتی یغیروا ما بانفسہم) کی رو سے مسلم اقوام کا زوال ان کی اپنی بداعمالیوں کا نتیجہ ہے۔ اسباب کے درجے میں یقیناًاس میں اغیار کی سازشوں نے بھی پورا پورا کردار ادا کیا ہے، لیکن یہ سازشیں خدا کی نصرت سے محرومی کا سبب نہیں بن سکتی تھیں جب تک کہ خود مسلمان اپنے اعمال سے اس کا جواز مہیا نہ کرتے۔ اب اگر مسلمانوں کو دنیا میں دوبارہ غلبہ نصیب ہوگا تو خدا کی اس سنت کے برخلاف نہیں بلکہ اس کے تحت ہی ہوگا۔ احادیث میں بیان ہونے والی پیش گوئیاں اپنی جگہ درست ہیں، لیکن یہ مفروضہ، جس کا ہمیشہ کی طرح ان دنوں بھی مذہبی حلقوں میں بہت چرچا ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی دینی اور اخلاقی حالت کا لحاظ کیے بغیر محض ان کی زبوں حالی پر ترس کھا کر کسی ظاہر ہونے والے کو ظاہر اور کسی نازل ہونے والے کو نازل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، نہایت تباہ کن ہے۔ اپنی نااہلیوں کا مداوا خدائی فیصلوں میں ڈھونڈنے کا رویہ نہ پہلے کوئی نتیجہ پیدا کر سکا ہے اور نہ اب اس کا کوئی امکان ہے۔ دنیا میں سرفرازی اور سربلندی کسی قوم کا استحقاق نہیں، بلکہ خدا کا انعام ہے۔ اس باب میں بنی اسرائیل کی نفسیات اور مسلمانوں کی موجودہ مذہبی نفسیات کے مابین جو حیرت انگیز مشابہتیں پائی جاتی ہیں، ان کی طر ف بھی توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح یہ اس تصور بھی، جو درحقیقت ہماری کمزور اور بیمار نفسیات کی پیداوار ہے، بے حد نظر ثانی کا محتاج ہے کہ اسلام بحیثیت ایک عالمی مذہب کے صرف اسی صورت میں زندہ رہ سکتا اور مسلمان اس کی تبلیغ واشاعت کا فرض تبھی ادا کر سکتے ہیں جب انھیں دنیا میں سپر پاور کی حیثیت حاصل ہو۔ مسلمانوں کو دنیا کی تاریخ میں اور خود ان کی اپنی تاریخ میں وہ مثالیں بہ تکرار یاد دلانے کی ضرورت ہے جب علم واستدلال، اعلیٰ انسانی ومذہبی اخلاق، صبر وحوصلہ اور حکمت وتدبیر نے سیاسی طاقت کا سہارا لیے بغیر دشوار سے دشوار تر حالات میں یہ مقصد کامیابی سے حاصل کیا۔ صدیوں تک اسلام اور عالمی اقتدار کا باہمی تعلق ایک تاریخی واقعہ ہے نہ کہ کوئی مذہبی فریضہ۔ اللہ تعالیٰ نے آج تک دنیا میں کسی قوم کے ساتھ، حتیٰ کہ اپنی چنیدہ اور برگزیدہ قوم، ذریت ابراہیم کے ساتھ بھی ابد الآباد تک سیاسی سربلندی اور عالمی اقتدار کا اجارہ نہیں کیا۔ تاریخ بدلتی رہتی ہے اور خدا اپنی حکمتوں کے تحت یہ منصب دنیا کی مختلف قوموں کو دیتا رہتا ہے، چنانچہ دنیا میں اسلام کے کردار کو ایک مخصوص تاریخی سانچے سے نکال کر جدید تہذیبی حقائق کی روشنی میں ازسرنو دریافت اور متعین کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ مسلمانوں کی فکری اور مذہبی قیادت کی ذمہ داری تھی کہ وہ قوموں کے عروج وزوال کے بے لاگ قوانین کی روشنی میں نئی عالمی صورت حال کی تفہیم کے ساتھ ساتھ اس کے خطرات اور ان سے نبرد آزما ہونے کی حکمت عملی سے ایسے اسلوب میں آگاہ کرتی کہ مذہبی ذہن بے فائدہ ٹکراؤ کے بجاے خود اعتمادی کے ساتھ نئی طرز معاشرت اور سیاسی انتظام میں مثبت طور پر حصہ لینے پر آمادہ ہوتا۔ یقیناًایک محدود سطح پر ایسی کوششیں ہوئی ہیں، لیکن عملی نتائج بتاتے ہیں کہ عظمت رفتہ کی بازیابی کے نفسیاتی محرک کو انگیخت کرنے اور عملی حقائق کا ادراک کر کے حکمت عملی کو اس سے ہم آہنگ بنانے کے مابین توازن پوری طرح ملحوظ نہیں رکھا جا سکا اور نفسیاتی تحریک غلبہ پا کر عجلت پسندی، فرسٹریشن اور desperation پیدا کرنے کا موجب بن گئی ہے۔ پھر یہ کہ نئے ماحول کے عملی تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر فکری راہنمائی کرنے والی احیائی تحریکوں کا دائرۂ اثر بنیادی طور پر جدید تعلیم یافتہ طبقات تک محدود رہا ہے، جبکہ مختلف اسباب کے تحت روایتی مذہبی ذہن اس سے مستفید نہیں ہو سکا۔ یہ ذہن اب بھی دو صدی پہلے کے عالمی ماحول، قدیم طرز معاشرت اور ماضی کے فقہی تصورات کی دنیا میں رہتا ہے۔ وہ حالات کے تغیر کو بطور ایک واقعہ کے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور حالات کے اتار چڑھاؤ میں مسلسل ایسے امکانات دیکھتا رہتا ہے جن کے نتیجے میں زمینی حقائق اور تاریخ کے dynamics کو نظر انداز کر کے، تکوینی طور پر مسلمانوں کے اقتدار کی بحالی کی راہ دوبارہ ہموار ہو جائے۔ 
۳۔ ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اقبال کے اجتہادی فکر کی روشنی میں ریاست پاکستان کی تشکیل جن خطوط پر ہوئی ہے، ہر سطح پر ان کی فکری اور شعوری تفہیم کو اہتمام کے ساتھ موضوع بنایا جائے اور خاص طو رپر مذہبی طبقات کو فکری ابہام اور ذہنی الجھاؤ کی اس کیفیت سے باہر نکالنے کی کوشش کی جائے جس سے وہ اس وقت دوچار ہیں۔ جہاں تک اعلیٰ سطحی مذہبی قیادت کا تعلق ہے تو یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں نفاذ اسلام کا بنیادی فریم ورک متعین کرنے میں اس نے کسی rigidity کا مظاہرہ نہیں کیا، بلکہ پیش نظر صورت حال کے لحاظ سے نہایت اہم معاملات میں اجتہادی زاویہ نگاہ اختیار کیا اور نئے اجتہادی تجربات کو قبول کیا ہے۔ اس ضمن میں بنیادی نوعیت کے چند اہم اور نمایاں اجتہادات کا حوالہ دینا مناسب ہوگا:
مذہبی علما نے یہ اجتہادات صرف عملی مجبوری کے تحت قبول نہیں کیے، بلکہ اسلامی سیاست کے تصورات کو جدید قالب میں ڈھالنے کے حوالے سے باقاعدہ علمی بحثیں بھی کی ہیں اور نئے حالات کے تناظر میں قدیم فقہی ذخیرے پر کلی انحصار کے رویے پر سوالات بھی اٹھائے ہیں۔ اس ضمن میں ایک مختصر مگر جامع اقتباس یہاں نقل کرنا مناسب ہوگا جو ممتاز مذہبی عالم اور دانش ور جناب مولانا زاہد الراشدی کی ایک تحریر سے ماخوذ ہے۔ خلافت کے موضوع پر ایک کتاب پر ناقدانہ تبصرہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
’’۱۔کتاب قرآن وسنت اور فقہ اسلامی کے علمی ذخیرے کی بنیاد پر لکھی گئی ہے اورآج کے عالمی حالات اور معروضی حقائق کی طرف توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے میری رائے یہ ہے کہ اگر خلافت کا نظام آج سے دوسوسال قبل کے ماحول میں قائم کرنا ہے تو اس کے لیے یہ کتاب کافی ہے، لیکن اگر آج کی دنیا میں خلافت کے نظام کی بحالی مقصود ہے تو یہ مواد اور تجزیے قطعی طور پر ناکافی ہیں اوریہ موجودہ مسائل کا حل پیش نہیں کرتے۔
۲۔خلافت کے لیے سنت کے حوالے سے معیار قائم کرنے میں جو حوالہ پیش کیاگیاہے، وہ بہت بہتر ہے، لیکن اس کے لیے مسلم شریف کی یہ روایت بھی شامل کر لی جائے تو زیادہ بہتر ہوگی کہ ’’تمہارے اچھے حکمران وہ ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور وہ تم سے محبت کرتے ہیں اور تمہارے برے حکمران وہ ہیں جن سے تم بغض رکھتے ہو اور وہ تم سے بغض رکھتے ہیں‘‘۔ میرے نزدیک اس ارشاد کا مقصد یہ ہے کہ حکومت اور عوام کے درمیان اعتماد کا رشتہ قائم ہونا اور باقی رہنا ضروری ہے اور اس کے لیے عملی طور پر حالات کے تحت کوئی بھی طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔
۳۔ انعقاد خلافت کا ایک صورت میں صرف ’’ارباب حل وعقد‘‘کو ذریعہ قرار دیاگیاہے جو درست نہیں ہے۔ امامت وخلافت کے بارے میں اہل سنت اور اہل تشیع کا بنیادی اختلاف ہی یہ ہے کہ ان کے نزدیک یہ منصوص ہے جو نامزدگی اور خاندان کی بنیاد پر طے ہوتاہے جبکہ ہمارے نزدیک خلافت نہ منصوص ہے اور نہ ہی خاندانی ہے، بلکہ اسے امت کی صوابدید اور اختیار پر چھوڑ دیا گیا ہے اور امت سے مراد امت ہے، صرف ’’اہل العقد والحل ‘‘نہیں ہیں۔ آپ نے خود حضرت عمرؓ کے ارشاد میں ’’عن غیر مشورۃ من المسلمین‘‘ کا جملہ نقل کیاہے، اس لیے خلیفہ کا انتخاب پوری امت کا حق ہے۔ حضرت عمرؓ کے اس خطبہ کو بخاری شریف میں دیکھیں تو اس میں یہ جملہ بھی ملے گا کہ جو لوگ مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر خلیفہ کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں، وہ ان کے حقوق اور اختیارات کو غصب کرنا چاہتے ہیں۔
۴۔ خلافت کے نظام میں صرف شوریٰ نہیں، بلکہ نمائندگی بھی ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ حنین کے قیدیوں کی واپسی کے لیے بارہ ہزار پر مشتمل اسلامی لشکر کی اجتماعی رائے کو کافی نہیں سمجھا تھا، بلکہ ’’نقبا‘‘ کے ذریعہ ان کی رائے الگ الگ طور پر معلوم کی تھی، اس لیے جہاں عوامی مسائل کی بات ہوگی، وہاں شورائیت کے نظام میں وہ تمام افراد حصہ دار ہوں گے جن کے حقوق حکومتی فیصلوں اور اقدامات سے منسلک ہوں گے۔ ......
۵۔خلافت کے لیے تسلط کو ’’نظریہ ضرورت‘‘ کے تحت ذریعہ تسلیم کیا گیاہے کہ اگر کسی وقت ایساہوجائے تو فتنہ وفساد سے بچنے کے لیے اسے قبول کر لیا جائے گا، لیکن اسے ایک مستقل طریق انتخاب اور انعقاد خلافت کے ایک باقاعدہ ذریعہ کے طور پر پیش کرنا درست نہیں ہے۔ بالخصوص آج کے دور میں ایک مستقل ’’طریقہ انعقاد وخلافت‘‘ کے طور پر پیش کریں گے تو اس سے کسی متفقہ خلیفہ کا انتخاب تو ممکن نہیں رہے گا، البتہ عالم اسلام میں اس حوالے سے سو ڈیڑھ سو مقامات پر خانہ جنگی ضرور ہو جائے گی۔
۶۔میرے نزدیک آج کے دور میں خلافت کے انعقاد کی صرف ایک ہی صورت عملاً ممکن ہے کہ عالم اسلام میں آٹھ دس مقامات پر اسلامی امارتیں قائم ہوں جن کی بنیاد شوریٰ اور نمائندگی پر ہو۔ وہ انہی دو بنیادوں پرآپس میں کنفیڈریشن قائم کرکے اپنے اوپر خلافت کا ادارہ قائم کرلیں اور ا س کے حق میں ضروری اختیارات سے دست برداری اختیار کر کے باہمی مشورہ سے امیرا لمومنین کا انتخاب کرلیں۔ اس کے سوا آج کے دور میں اسلامی خلافت کے قیام کی کوئی صورت عملاً ممکن نہیں ہے ۔.........
۹۔ اقوا م متحدہ عالم اسلام پر( غلط یا صحیح )جو حکمرانی کررہی ہے، وہ یک طرفہ اور جبری نہیں ہے بلکہ ایک معاہدہ کے تحت ہے جس میں ہم باضابطہ طورپر شریک ہیں اور اس سے نکلنے کا مکمل اختیار رکھتے ہیں، اس لیے اس کی ساری ذمہ داری اقوام متحدہ پر ڈال دینا مناسب نہیں ہے۔ 
۱۰۔ نیز بین الاقوامی معاملات کے بارے میں بھی ہمیں کوئی اصول قائم کرناہوگا۔ جو بین الاقوامی معاہدہ ہمارے اقتدار اعلیٰ اور قرآن وسنت کے منصوص احکا م کے منافی ہے، اسے ہمیں کلیتاً مسترد کردینا چاہیے بلکہ اس میں شامل ہونا بھی غلط ہے، لیکن جو معاملات ہماری خود مختاری کی نفی نہیں کرتے اور قرآن وسنت کے کسی صریح اور منصوص حکم کے منافی بھی نہیں ہیں، انہیں یکسر مسترد کردینا درست نہیں ہوگا۔‘‘ (ماہنامہ الشریعہ، دسمبر ۲۰۱۱، ص ۴۹۔۵۱)
مذکورہ اجتہادات بدلتے ہوئے حالات اور ان کے تقاضوں کے گہرے شعور کی غمازی کرتے ہیں، لیکن مذہبی حلقے کے فکری جمود کا عالم یہ ہے کہ خود اس کے اکابر علما نے عملی طور پر جو اجتہادی فیصلے کیے، دینی مدارس کی سطح پر ان کی شعوری تفہیم اور اس کے عملی مضمرات اور تقاضوں سے طلبہ کو آگاہ کرنے کا سرے سے کوئی اہتمام موجود نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مدارس کے نظام تعلیم سے فیض یاب ہونے والا عالم دین آج بھی معاشرہ، شریعت اور قانون کا وہی تصور ذہن میں رکھتا اور اسی کو نفاذ اسلام کی معیاری صورت تصور کرتا ہے جو اس نے صدیوں پہلے لکھی گئی فقہی کتابوں میں پڑھی ہے۔ اسے نہ تہذیب وتمدن کے ارتقا کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عملی تغیرات سے کوئی آگاہی ہوتی ہے اور نہ اس بات کا ہی پتہ ہوتا ہے کہ خود نفاذ اسلام کی جدوجہد کی قیادت کرنے والے علما نے عملاً کیا کیا اجتہادات کیے ہیں۔ چنانچہ اگرچہ مذہبی طبقات کی نمائندگی کرنے والی باقاعدہ سیاسی جماعتیں سیاسی عمل میں حصہ لیتی ہیں، لیکن اس تبدیلی کا کوئی شعوری فہم حاصل نہ ہونے کی وجہ سے یہ باقاعدہ سوچ پائی جاتی ہے جو دن بدن بڑھ رہی ہے کہ آیا جمہوری عمل کے ذریعے سے نفاذ اسلام ممکن بھی ہے یا نہیں اور یہ کہ مذہبی اکابر نے اگر کسی خوش فہمی کی بنا پر اس عمل میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا تو اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ 
ہمارے نزدیک اس صورت حال کی ذمہ داری بنیادی طور پر ہماری مذہبی قیادت پر عائد ہوتی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ دینی مدارس دہشت گردی کا مرکز نہیں اور نہ مدارس کے ارباب حل وعقد بحیثیت مجموعی دہشت گردی کی ذہنیت پیدا کرنے یا اسے فروغ دینے میں کوئی دلچسپی رکھتے یا اس صورت حال کو اطمینان کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کے لیے ایسا کرناممکن ہی نہیں، کیونکہ ارباب مدارس جدید معاشرہ اور اس کے مسائل وضروریات سے کتنے ہی باخبر کیوں نہ ہوں، وہ خود اپنے تحفظ وبقا کے جذبے سے تہی دامن اور اس کے بنیادی تقاضوں سے ناواقف نہیں ہو سکتے، چنانچہ کسی بھی سماجی ادارے کے لیے ایسے کسی زاویہ نظر کا فروغ جو معاشرے کے امن اور اطمینان کو غارت کرنے اور مآل کار خود ان اداروں کی تباہی پر منتج ہو، سماجی نفسیات کے بنیادی اصولوں کے منافی ہے۔ مدارس کا جرم یہ نہیں کہ وہ دہشت گردی کی تربیت دیتے یا اس کے لیے فضا ہموار کرتے ہیں۔ ان کی سادگی یہ ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں کے ذریعے سے لاشعوری طور پر وہ تمام فکری اور نفسیاتی لوازمات فراہم کر رہے ہیں جس کے بعد اسے دہشت گردی کا روپ دینے کے لیے بس کسی خارجی محرک، کسی استعمال کرنے والے ہاتھ اور ایک جرات رندانہ کی ضرورت رہ جاتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ ایک خاص ماحول میں طلبہ کی ذہنی تربیت کر کے ان کے اور معاشرے کے دوسرے طبقات کے مابین اجنبیت کی دیوار کھڑی کر دینا، جدید معاشرت اور تمدن کے عملی تقاضوں سے روشناس کرانے کے بجاے قدیم فقہی سانچے کو ان کے سامنے واحد معیار اور آئیڈیل کے طو رپر پیش کرنا، حالات کے معروضی تناظر میں نفاذ اسلام کی حکمت عملی اور اس کے تقاضوں کا شعور دینے کے بجاے محض ایک جذباتی نعرہ ان کو دے دینا، دو عالمی طاقتوں کے ٹکراؤ میں مدارس کے طلبہ کو جذبہ جہاد کے زیر سایہ مسلح تربیت کے مواقع فراہم کرنا اور پھر جب یہ سارا انتظام واہتمام انڈے بچے دینے لگے تو اکابر علما کا جمع ہو کر یہ فتویٰ دے دینا کہ خود کش حملے اور مسلح جدوجہد افغانستان میں تو کی جا سکتی ہے لیکن پاکستان میں نہیں، ایک ایسی سادگی ہے جس پر صرف مرا جا سکتا ہے۔ اگر علما وقتاً فوقتاً پاکستان میں خود کش حملوں کے عدم جواز کے فتوے جاری کرنے کے بجاے صرف ایک دفعہ یہ اعتراف کر لیں کہ پاکستانی قوم کی ایک پوری نسل کو عالمی سیاست کی بچھائی ہوئی بساط میں احیاے اسلام کے خواب دکھانا ان کی غلطی تھی تو یہ درجن بھر فتوے جاری کرنے سے زیادہ موثر خدمت ہوگی، لیکن ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرنے کے لیے جو حقیقت پسندی اور اخلاقی جرات درکار ہوتی ہے، موجودہ مذہبی قیادت سے اس کی توقع کرنا شاید خود فریبی ہو۔
۴۔ مذہبی طبقات کے مابین ا س نکتے کو بھی بطور خاص غور وفکر کا موضوع بنانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں اعلیٰ سطحی مذہبی دانش نے یہاں نفاذ اسلام کے لیے جمہوری جدوجہد کا راستہ کسی خوش فہمی یا غلط فہمی کی وجہ سے نہیں، بلکہ پوری طرح سوچ سمجھ اور علیٰ وجہ البصیرت اختیار کیا تھا اور یہ کہ موجودہ نسل کو اس ضمن میں کوئی نیا اور جذباتی راستہ اختیار کرنے سے پہلے اپنے ان اکابر کے زاویہ نظر اور فیصلوں کا سنجیدگی اور دقت نظر سے جائزہ لے لینا چاہیے جن میں تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء کرام مسلسل شریک چلے آ رہے ہیں۔ اس ضمن میں پاکستان میں جمہوری نظام کے دائرے میں نفاذ اسلام کی جدوجہد کرنے والے علماء اور قائدین کے نقطہ نظر کی ترجمانی کے طو رپر مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ کی بعض اہم تصریحات کو یہاں نقل کر دینا مناسب ہوگا۔
مولانا سے سوال کیا گیا کہ ’’کیا موجودہ صورت حال میں آئینی ذرائع سے انقلاب لانا مشکل نہیں ہو گیا؟‘‘ اس کے جواب میں فرمایا:
’’فرض کیجیے کہ بہت سے لوگ مل کر آپ کی صحت بگاڑنے میں لگ جائیں تو کیا آپ ان کی دیکھا دیکھی خود بھی اپنی صحت بگاڑنے کی کوشش میں لگ جائیں گے؟ بہت برا کیا گیا کہ غیر آئینی طریقوں سے کام لیا گیا ہے اور بہت برا کریں گے اگر ہم بھی ایسا ہی کریں گے۔ غیر آئینی طریقوں کو اختیار کرنے کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک علانیہ اور دوسری خفیہ۔ آپ دیکھیں کہ دونوں صورتوں میں کیا نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔
علانیہ طور پر غیر آئینی طریقوں سے جو تغیر پیدا ہوگا، وہ زیادہ برا ہوگا۔ اس طرح کی کوششوں سے پوری قوم کو قانون شکنی کی تربیت ملتی ہے اور پھر سو سال تک آپ اسے قانون کی اطاعت پر مجبور نہیں کر سکتے۔ ہندوستان میں تحریک آزادی کے دوران قانون شکنی کو ایک حربے کی حیثیت سے جو استعمال کیا گیا تھا، اس کے اثرات آپ دیکھ رہے ہیں۔ آج پچیس سال ]؟[ بعد بھی لوگوں کو قانون کا پابند نہیں بنایا جا سکا۔
اگر خفیہ طریقے سے غیر آئینی ذرائع کو اختیار کیا جائے تو نتائج اس سے بھی زیادہ خطرناک ہوں گے۔ خفیہ تنظیموں میں چند افراد مختار کل بن جاتے ہیں اور پھر ساری تنظیم یا تحریک ان ہی کی مرضی پر چلتی ہے۔ ان سے اختلاف رکھنے والوں کو فوراً ختم کر دیا جاتا ہے۔ ان کی پالیسی سے اظہار بے اطمینانی سخت ناگوار اور ناپسندیدہ قرار دی جاتی ہے۔ اب آپ خود سوچیں کہ یہی چند افراد جب برسر اقتدار آئیں گے تو کس قدر بدترین ڈکٹیٹر ثابت ہوں گے۔ اگر آپ ایک ڈکٹیٹر کو ہٹا کر دوسرے ڈکٹیٹر کو لے آئیں تو خلق خدا کے لیے اس میں خیر کا پہلو کون سا ہے؟
میرا مشورہ ہمیشہ یہی رہا ہے کہ خواہ آپ کو بھوکا رہنا پڑے، گولیاں کھانی پڑیں، مگر صبر کے ساتھ، تحمل کے ساتھ، کھلم کھلا علانیہ طور پر اپنی اصلاحی تحریک کو قانون، ضابطے اور اخلاقی حدود کے اندر چلاتے رہیے۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق کار بھی علانیہ اور کھلم کھلا تبلیغ کا طریقہ تھا۔ .... آپ سے میری درخواست ہے کہ آپ اپنی اخلاقی ساکھ کو کبھی نقصان نہ پہنچنے دیں اور غیر آئینی طریقوں کے بارے میں سوچنے والوں کی قطعاً حوصلہ افزائی نہ کریں۔ حالات جیسے کچھ بھی ہیں، ہمیں ان حالات کو درست کرنا ہے۔ غلط طریقوں سے حالات درست نہیں ہوتے بلکہ اور بگڑ جاتے ہیں۔‘‘ (تصریحات ص ۲۵۷، ۲۵۸)
مزید فرماتے ہیں:
’’بکثرت لوگ اس الجھن میں پڑ گئے ہیں کہ آیا جمہوری طریقوں سے یہاں کوئی تبدیلی لائی جا سکتی ہے یا نہیں اور ایک اچھی خاصی تعداد یہ سمجھنے لگی ہے کہ ایسے حالات میں غیر جمہوری طریقے اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہ بجائے خود ہمار ے حکمرانوں کی بہت بڑی نادانی ہے کہ انھوں نے لوگوں کو اس طرح سوچنے پر مجبور کر دیا ہے، لیکن ہم اس پوری صورت حال کو دیکھتے ہوئے اور اس کی پیدا کردہ تمام صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے بھی اپنی اس رائے پر قائم ہیں کہ اسلامی نظام جسے برپا کرنے کے لیے ہم اٹھے ہیں، جمہوری طریقوں کے سوا کسی دوسری صورت سے برپا نہیں ہو سکتا اور اگر کسی دوسرے طریقے سے برپا کیا بھی جا سکے تو وہ دیرپا نہیں ہو سکتا۔
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے آپ جمہوری طریقوں کا مطلب واضح طور پر جان لیں۔ غیر جمہوری طریقوں کے مقابلے میں جب جمہوری طریقوں کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ نظام زندگی میں جو تبدیلی بھی لانا اور ایک نظام کی جگہ جو نظام بھی قائم کرنا مطلوب ہو، اسے زور زبردستی سے لوگوں پر مسلط نہ کیا جائے، بلکہ عامۃ الناس کو سمجھا کر اور اچھی طرح مطمئن کر کے انھیں ہم خیال بنایا جائے اور ان کی تائید سے اپنا مطلوبہ نظام قائم کیا جائے۔ .....
کوئی دوسرا نظام مثلاً کمیونزم لوگوں پر زبردستی ٹھونسا جا سکتا ہے بلکہ اس کے قیام کا ذریعہ ہی جبر اور جباریت ہے اور خود اس کے ائمہ علانیہ یہ کہتے ہیں کہ انقلاب بندوق کی گولی ہی سے آتا ہے۔ استعماری نظام اور سرمایہ داری نظام اور فسطائی نظام بھی رائے عام کی تائید کے محتاج نہیں ہیں، بلکہ رائے عام کو طاقت سے کچل دینا اور اس کا گلا گھونٹ دینا ہی ان کے قیام کا ذریعہ ہے، لیکن اسلام اس قسم کا نظام نہیں ہے۔ وہ پہلے لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کرنا ضروری سمجھتا ہے، کیونکہ ایمان کے بغیر لوگ خلوص کے ساتھ اس کے بتائے ہوئے راستوں پر نہیں چل سکتے۔ پھر وہ اپنے اصولوں کا فہم اور ان کے برحق ہونے پر اطمینان بھی عوام کے اندر ضروری حد تک اور خواص (خصوصاً کار فرماؤں) میں کافی حد تک پیدا کرنا لازم سمجھتا ہے، کیونکہ اس کے بغیر اس کے اصول واحکام کی صحیح تنفیذ ممکن نہیں ہے۔ اس کے ساتھ وہ عوام وخواص کی ذہنیت، انداز فکر اور سیرت وکردار میں بھی اپنے مزاج کے مطابق تبدیلی لانے کا تقاضا کرتا ہے، کیونکہ یہ نہ ہو تو اس کے پاکیزہ اور بلند پایہ اصول واحکام اپنی صحیح روح کے ساتھ نافذ نہیں ہو سکتے۔ یہ جتنی چیزیں میں نے بیان کی ہیں، اسلامی نظام کو برپا کرنے کے لیے سب کی سب ضروری ہیں اور ان میں سے کوئی چیز بھی جبراً لوگوں کے دل ودماغ میں نہیں ٹھونسی جا سکتی، بلکہ ان میں سے ہر ایک کے لیے ناگزیر ہے کہ تبلیغ، تلقین اور تفہیم کے ذرائع اختیار کر کے لوگوں کے عقائد وافکار بدلے جائیں، ان کے سوچنے کے انداز بدلے جائیں، ان کی اقدار (Values) بدلی جائیں، ان کے اخلاق بدلے جائیں اور ان کو اس حد تک ابھار دیا جائے کہ وہ اپنے اوپر جاہلیت کے کسی نظام کا تسلط برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ یہی وہ چیز ہے جس کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ جمہوری طریقوں کے سوا اس کے حصول کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے اور آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ اسلامی نظام کو عملاً برپا کر دینے کے لیے کوئی اقدام اس وقت تک نہیں کیا جا سکتا جب تک اس مقصد کے لیے کام کرنے والوں کو اس نوعیت کی عوامی تائید حاصل نہ ہو جائے۔‘‘ (تصریحات ص ۳۲۰-۳۲۲)
مولانا سے سوال ہوا کہ اسلامی انقلاب فوری طور پر کیسے آئے گا؟ جواب میں فرمایا:
’’یہ آپ سے کس نے کہہ دیا کہ اسلامی انقلاب بہت جلد آ رہا ہے؟ آپ اس قسم کی غلط توقعات قائم نہ کریں۔ بے جا توقعات سے مایوسی ہوتی ہے۔ پاکستان کی تشکیل سے پہلے بھی اخلاقی حالت بگڑی ہوئی تھی۔ پاکستان کے بعد اس بگاڑ میں اور اضافہ ہوا۔ اس ساری مدت میں اصلاح کی طرف کماحقہ توجہ نہ ہوئی۔ ہمارے بس میں جو کچھ ہے، وہ ہم کر رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ نوجوان نسل سے جو افراد دین کی حقیقت سے واقف ہو چکے ہیں، وہ سرگرمی کے ساتھ اصلاح کے کام کا بیڑا اٹھائیں۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس تمام تر مساعی کے نتیجے میں حالت کب بدلے گی۔ ایک طرف شیطان اپنا کام کر رہا ہے، دوسری طرف ہم اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں، لیکن ہمیں توقع ہے کہ اللہ کا دین غالب ہو کر رہے گا۔ ہمارے کرنے کی جو چیز ہے، وہ یہ ہے کہ ہم اپنی کوشش میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں۔ باقی معاملات اللہ کے اختیار میں ہیں۔‘‘ (تصریحات ص ۳۴۰)
’’میں اصولاً قانون شکنی اور غیر آئینی طریق کار اور زیر زمین کام کا سخت مخالف ہوں۔ میری یہ رائے کسی سے خوف یا کسی وقتی مصلحت کی بنا پر نہیں ہے، بلکہ میں سالہا سال کے مطالعے سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ قانون کا احترام مہذب معاشرے کے وجود کے لیے ناگزیر ہے اور کوئی تحریک اگر اس احترام کو ایک دفعہ ضائع کر دے تو پھر خود اس کے لیے بھی لوگوں کو قانون کا پابند بنانا سخت دشوار بلکہ محال ہو جاتا ہے۔ اسی طرح زیر زمین کام اپنے اندر وہ قباحتیں رکھتا ہے جن کی وجہ سے اس طریقے پر کام کرنے والے آخر کار خود ان لوگوں سے بھی بڑھ کر معاشرے کے لیے مصیبت بن جاتے ہیں جن کو ہٹانے کے لیے وہ یہ طریقے اختیار کرتے ہیں۔ انھی وجوہ سے میرا عقیدہ یہ ہے کہ قانون شکنی اور خفیہ کام قطعی غلط ہے۔ میں نے ہمیشہ جو کچھ کیا ہے، علانیہ کیا ہے اور آئین وقانون کے حدود کے اندر رہ کر کیا ہے، حتیٰ کہ جن قوانین کا میں شدید مخالف ہوں، ان کو بھی میں نے آئینی وجمہوری طریقوں سے بدلوانے کی کوشش کی ہے مگر کبھی ان کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔ .... یہی عقیدہ جماعت اسلامی کا بھی ہے۔ اس کے دستور کی دفعہ ۵ میں اس امر کی صراحت موجود ہے کہ ہم ایسے ذرائع اور طریقے کبھی استعمال نہیں کریں گے جو صداقت ودیانت کے خلاف ہوں یا جن سے فساد فی الارض رونما ہو۔ ہم جو کچھ کریں گے، جمہوری اور آئینی طریقوں سے کریں گے اور خفیہ طریقوں سے نہیں بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کریں گے۔‘‘ (تصریحات ص ۹۲)
۵۔ معاصر تناظر میں خروج کی بحث کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ نکتہ بھی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونا چاہیے کہ عالم عرب میں اور ہمارے ہاں، دونوں جگہ بعض طبقات کے لیے حکمرانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کا بنیادی محرک حکمران طبقات کا جابرانہ، مستبدانہ اور منافقت پسندانہ طرز عمل بنا ہے، جبکہ شرعی وفقہی استدلال نے محض ثانوی طور پر خروج کے طرز عمل کو نظری جواز فراہم کرنے کا کردار ادا کیا ہے۔ چنانچہ دیکھیے، اسلام کے فلسفہ جہاد کی تشریح وتوضیح کے حوالے سے مولانا مودودی اور الاخوان المسلمون کے راہ نماؤں مثلاً سید قطب شہید کے طرز استدلال میں بہت بنیادی اشتراکات پائے جاتے ہیں جنھیں بعض حوالوں سے فکری توارد کی حیرت انگیز مثال کے طورپر پیش کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اصولی اور نظریاتی اشتراک کے باوجود اخوان نے بحیثیت مجموعی ایک تشدد پسند تحریک کی صورت اختیار کر لی جبکہ مولانا موودی نے عدم تشدد اور جمہوری اصولوں کی پاس داری کو اپنی تحریک کا بنیادی پتھر قرار دیا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ حاکمیت الٰہیہ اور اسلامی شریعت کے غلبے کا تصور فی نفسہ ایسا نہیں کہ اس کے نتیجے میں جمہوری طرز حکومت سے تنفر، مسلم حکمرانوں کی تکفیر اور نظم ریاست کے ساتھ تصادم جیسے تشدد پسندانہ فکری رجحانات کا پیدا ہونا ناگزیر ہو، بلکہ اس کے اسباب اس خارجی ماحول میں تلاش کرنے چاہییں جس میں یہ رجحانات پیدا ہوئے۔ اخوان کے حلقوں میں یہ رجحانات اس ظلم وستم اور تشدد کے جواب میں رد عمل کے طور پر پیدا ہوئے جو مصر اور شام کے قوم پرست سیکولر حکمرانوں کی طرف سے ان کے خلاف روا رکھا گیا، چنانچہ الہجرۃ والتکفیر، اسلامی جہاد اور حزب التحریر جیسے تمام گروہوں کی تاریخ پیدائش اخوان کے خلاف کیے جانے والے ان اقدامات کے بعد کی ہے۔ عالم عرب، خاص طو رپر مصر اور شام میں حکمرانوں کے جبر واستبداد کا شکار ہونے والے جن تحریکی اور انقلابی عناصر میں بغاوت اور تشدد کا جذبہ پیدا ہوا، ظاہر ہے کہ انھیں اپنے طرز عمل کے لیے ایک ’’شرعی‘‘ جواز درکار تھا۔ چونکہ حکمرانوں کے محض ظلم وجبر کی بنیاد پر ان کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی صریح ممانعت شرعی نصوص میں بیان ہوئی ہے، اس لیے ’’مسلم‘‘ حکمرانوں کے خلاف بغاوت کو justify کرنے کا راستہ انھیں یہی دکھائی دیا کہ وہ مسلم حکمرانوں کو سرے سے ’’مسلمان‘‘ تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیں اور یوں بظاہر حاکمیت الٰہیہ کے مخصوص تصور جبکہ بباطن مزاحمت ومقاومت کو شرعی جواز مہیا کرنے کی عملی ضرورت کے بطن سے جمہوریت کے ’’کفر‘‘ اور مسلم حکمرانوں کے ’’کافر‘‘ ہونے کے انتہا پسندانہ فلسفے نے جنم لیا۔ اس فلسفے کو کتنا ہی اصولی اور نظری استدلالات کی مخمل میں لپیٹ کر پیش کیا جائے، حالات وواقعات کی ترتیب پر نظر رکھنے والا کوئی شخص اس کے ’’عملی‘‘ محرکات سے صرف نظرنہیں کر سکتا۔ 
یہی صورت حال ہمارے یہاں بھی پیدا ہوئی۔ ہمارے عسکری پالیسی سازوں نے اس معاملے میں سب سے پہلا ’’ظلم‘‘ یہ کیا کہ افغان جنگ کے دوران میں پہلے تو دنیا بھر سے جہادی جذبہ رکھنے والے افراد کے لیے یہاں آکر روس کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کا راستہ ہموار کیا اور ایک ایسی جنگ میں جو پاکستانی پالیسی سازوں کے نقطہ نظر سے خالصتاً پاکستان کے اسٹریٹجک مفادات کے تحفظ کے لیے مقامی طور پر ایک محدود اور متعین ہدف کے لیے لڑی جا رہی تھی، ’’جہاد‘‘ جیسے مذہبی جذبے کو عنوان بنا کر جہادی عناصر میں یہ توقع اور امید پیدا کی کہ شاید روس کی شکست اس جنگ کا خاتمہ نہیں، بلکہ خلافت اسلامیہ کے قیام اور عالمی سطح پر جہاد کے عمل کا نقطہ آغاز بن جائے گی۔ تاہم روس کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد جب دنیا بھر سے جمع ہونے والے ان مجاہدین کی ضرورت باقی نہ رہی تو انھیں ایک خطرے کے طور پر ’’ڈیل‘‘ کرنا شروع کر دیا گیا اور بہت سے افراد کو خود پکڑ پکڑ کر ان کی حکومتوں کے حوالے کیا گیا۔ پھر نائن الیون کے نتیجے میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد پاکستانی پالیسی سازوں نے fair طرز عمل اختیار کرنے کے بجائے دوغلی پالیسی کے تحت ایک طرف بین الاقوامی فورم پر یوٹرن لیتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ کا حصہ بننے کا فیصلہ کر لیا جبکہ دوسری طرف جہادی عناصر کے ساتھ درون خانہ موافقت کا رویہ بھی اپنائے رکھا، البتہ جہاں ضرورت پڑی، اپنی سیاسی مجبوریوں کے تحت ان کے خلاف اقدام کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ جب جہادی عناصر کی ایک بڑی تعداد نے اس دوغلی پالیسی پر بے اطمینانی کا اظہار کرتے ہوئے خود پاکستانی افواج کو بھی دشمن کی نظر سے دیکھنا شروع کر دیا تو ملک کے مختلف علاقوں میں ان کے خلاف آپریشن شروع کر دیے گئے۔ یہ طرز عمل بدیہی طور پر ’خرق اعتماد‘ (breach of trust) کی نوعیت رکھتا ہے اور اس کے نتیجے میں جہادی عناصر میں اس رجحان کا پیدا ہونا فطری تھا کہ افواج پاکستان ان کو کچلنے کے لیے امریکہ کی چھیڑی ہوئی جنگ کا حصہ بن چکی ہیں، چنانچہ ان کے خلاف مسلح کارروائیاں کرنے کا پورا شرعی جواز موجود ہے۔ اس صورت حال سے افغان جہاد کے دور میں عالم عرب سے درآمد کی جانے والی اس فکر نے فائدہ اٹھانا شروع کر دیا جو دور جدید میں حکمرانوں کی تکفیر اور خروج جیسے تصورات کی اصل موجد ہے اور آج پاکستان کا نوجوان مذہبی ذہن ریاست سے متعلق ان بنیادی سوالات کا جواب ازسر نو متعین کرنے میں مصروف ہے جن کے حوالے سے قیام پاکستان کے بعد اعلیٰ سطحی مذہبی قیادت نے ایک واضح اور متعین موقف اختیار کرتے ہوئے نفاذ اسلام کی جدوجہد کو جمہوری نظام کے دائرے میں محدود رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔
اگر مذکورہ تمام سوالات اور نکات پر سنجیدگی سے توجہ دی جائے اور معاملے کے تمام فریق (ریاستی ادارے، سیکولر طبقات، مذہبی قیادت اور خروج کے مویدین) فکر اقبال سے راہ نمائی لیتے ہوئے اپنے رویوں اور طرز عمل پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس کر لیں تو یقیناًپاکستان اور پاکستانی قوم کو اس بحران سے نکالا جا سکتا ہے جس میں وہ اس وقت مبتلا ہے۔ ہذا ما عندی والعلم عند اللہ

تعارف و تبصرہ

ادارہ

امیر عبد القادر الجزائریؒ ۔ سچے جہاد کی ایک داستان

لاہور کے معروف اشاعتی ادارے ’’دار الکتاب‘‘ نے اپنی تازہ ترین مطبوعات میں امریکی مصنف جان ڈبلیو کائزر کی کتاب کا اردو ترجمہ ’’امیر عبد القادر الجزائری: سچے جہاد کی ایک داستان‘‘ کے عنوان سے پیش کیا ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی کے دوران مسلم ممالک پر یورپ کے مختلف ممالک کی استعماری یلغار کے خلاف ان مسلم ممالک میں جن لوگوں نے مزاحمت کا پرچم بلند کیا اور ایک عرصہ تک جہاد آزادی کے عنوان سے داد شجاعت دیتے رہے، ان میں الجزائر کے امیر عبد القادر الجزائریؒ کا نام صف اول کے مجاہدین آزادی میں شمار ہوتا ہے جن کی جرات واستقلال، عزیمت واستقامت اور حوصلہ وتدبر کو ان کے دشمنوں نے بھی سراہا اور ان کا نام تاریخ میں ہمیشہ کے لیے ثبت ہو گیا۔
امیر عبد القادر مئی ۱۸۰۷ء میں الجزائر میں، قیطنہ نامی بستی میں ایک عالم دین اور روحانی راہنما الشیخ محی الدینؒ کے ہاں پیدا ہوئے اور اپنے والد محترم سے اور ان کے زیر سایہ دیگر مختلف علماء کرام سے ضروری دینی وعصری تعلیم حاصل کی اور ان کے ساتھ ۱۸۲۵ء میں حج بیت اللہ کی سعادت سے بھی بہرہ ور ہوئے۔ 
یہ وہ دور تھا جب مغرب کے استعماری ممالک ’’انقلاب فرانس‘‘ کی کوکھ سے جنم لینے والی جدید مغربی تہذیب وثقافت کی برتری کے نشے سے سرشار تھے اور سائنسی ترقی سے حاصل ہونے والی عسکری قوت اور ٹیکنالوجی کی صلاحیت نے انھیں پوری دنیا پر حکمرانی کا شوق دلا دیا تھا۔ عالم اسلام کی دو بڑی قوتیں خلافت عثمانیہ اور مغل بادشاہت ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھیں، چنانچہ برطانیہ، فرانس، اٹلی، ہالینڈ، پرتگال اور دوسرے ممالک نے ان دونوں قوتوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے مختلف اطراف میں یلغار کی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ افریقہ اور ایشیا کے ایک بڑے حصے کو نو آبادیات میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ خلافت عثمانیہ اور مغل بادشاہت کا سب سے بڑا المیہ یہ تھا کہ وہ سائنسی ترقی اور دنیا میں ہونے والی تہذیبی ومعاشرتی اور سیاسی تبدیلیوں کا بروقت ادراک نہ کر سکیں اور ان کی یہ غفلت استعماری یلغار کے سامنے عالم اسلام کے ایک بڑے علاقے کے سرنڈر ہونے کے اسباب میں ایک اہم سبب ثابت ہوئی۔
بہرحال جب بہت سے مسلم ممالک نے مختلف یورپی ممالک کی نوآبادیاتی غلامی کا طوق گردنوں میں پہنا تو ہر جگہ حریت پسندوں اور آزادی کے متوالوں نے حالات کے اس جبر کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور بہت دیر تک بغاوت اور سرکشی کا محاذ گرم رکھا۔ الجزائر پر فرانس کے تسلط کا آغاز انیسویں صدی کی تیسری دہائی کے آخر میں ہوا۔ یہ وہ دور تھا جب جنوبی ایشیا میں برطانوی تسلط ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے ہو چکا تھا اور امام ولی اللہ دہلویؒ کے مکتب فکر بلکہ خانوادے سے تعلق رکھنے والے مجاہدین کا ایک گروہ سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کی قیادت میں پشاور کے علاقے میں جہادی سرگرمیوں میں مصروف تھا۔ ان کا وقتی سامنا اگرچہ سکھوں سے تھا، لیکن اپنے عزائم اور اہداف کے حوالے سے وہ برطانوی استعمار کے تسلط کے خلاف جہاد کے لیے بیس کیمپ حاصل کرنے میں مصروف تھے۔ اس قافلہ حریت نے ۱۸۳۰ء میں پشاور کے صوبہ پر قبضہ اور کم وبیش سات ماہ حکومت کرنے کے بعد ۶؍ مئی ۱۸۳۱ء کو بالاکوٹ میں جام شہادت نوش کیا تھا۔
الجزائر میں جب ۱۸۳۰ء میں فرانس نے تسلط قائم کرنے کی کوشش کی تو علماء کرام اور مجاہدین کی ایک جماعت نے امیر عبد القادرؒ کے والد محترم الشیخ محی الدینؒ کی قیادت میں تحریک مزاحمت کا آغاز کیا، مگر دو سال کے بعد ۱۸۳۲ء میں یہ دیکھتے ہوئے کہ اس مزاحمت کا سلسلہ بہت دیر تک قائم رہ سکتا ہے، تحریک مزاحمت کی مستقل منصوبہ بندی کی گئی اور الشیخ محی الدین کے جواں سال اور جواں ہمت بیٹے امیر عبد القادر کو باقاعدہ امیر منتخب کر کے مزاحمت کی جدوجہد کو مستقل بنیادوں پر جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔
امیر عبد القادرؒ جذبہ جہاد کے ساتھ ساتھ فراست وتدبر کی نعمت سے بھی مالامال تھے، اس لیے انھوں نے اپنی تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے الجزائری عوام اور قبائل کو اعتماد میں لیا، وسیع تر مشاورت کا سلسلہ قائم کیا، آزادی کی فوج کو وقت کے ہتھیاروں اور جنگ کی نئی تکنیک سے مسلح کیا اور ایک باقاعدہ فوج منظم کر کے الجزائر پر حملہ آور فرانسیسی فوجوں کے خلاف میدان جنگ میں نبرد آزما رہے۔ انھوں نے ۱۸۳۲ء سے ۱۸۴۷ء تک مسلسل سولہ سال تک فرانسیسی فوجوں کے خلاف جنگ لڑی، بہت سے معرکوں میں فرانسیسی فوجوں کو شکست سے دوچار کیا اور ایک بڑے علاقے پر کنٹرول حاصل کر کے امارت شرعیہ کا نظام قائم کیا۔ وہ اس وقت تک لڑتے رہے جب تک الجزائری عوام اور اسباب ووسائل نے ان کا ساتھ دیا اور جب حالات کی نامساعدت نے انھیں بالکل تنہا کر دیا اور الجزائر کے قبائل ایک ایک کر کے الگ ہوتے گئے تو ۱۸۴۸ء میں انھوں نے اور کوئی چارۂ کار نہ دیکھتے ہوئے ہتھیار ڈال دیے۔
انھیں گرفتار کر کے ۱۸۵۳ء تک فرانس کے مختلف قلعوں میں محبوس رکھا گیا اور پھر آزاد کر کے دمشق کی طرف جلاوطن کر دیا گیا۔ انھوں نے ۲۳؍ دسمبر ۱۸۴۷ء کو ایک مشروط معاہدے کے تحت خود کو فرانسیسیوں کے حوالے کیا تھا، مگر ان کی شرائط کو قبول کیے جانے کے بعد بھی حسب معمول بالاے طاق رکھ دیا گیا تو ایک موقع پر انھوں نے اس حسرت کا اظہار کیا کہ:
’’اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ ہمارے ساتھ یہ کچھ ہونا ہے جو ہو رہا ہے تو ہم جنگ ترک نہ کرتے اور مرتے دم تک لڑتے ہی رہتے۔‘‘
وہ پہلے استنبول گئے اور پھر خلافت عثمانیہ کی ہدایت پر دمشق آ گئے جہاں انھوں نے درس وتدریس کا سلسلہ شروع کر دیا۔ وہ مالکی فقہ کے بڑے علما میں سے تھے اور تصوف میں الشیخ الاکبر محی الدین بن عربیؒ کے پیروکار اور ان کے علوم کے شارح تھے۔ دمشق میں قیام کے دوران انھیں ایک اور معرکے سے سابقہ درپیش ہوا کہ خلافت عثمانیہ کی طرف سے شام میں مقیم مسیحیوں پر جزیہ کا قانون تبدیل کیے جانے کے بعد اس مسئلے پر مسلم مسیحی کشمکش کا آغاز ہوا اور بہت سے حلقوں کی طرف سے قانون کی اس تبدیلی کو ناکام بنانے کے لیے مسیحیوں کے خلاف مسلمان عوام کو بھڑکانے کا سلسلہ شروع کیا گیا جس پر امیر عبد القادر الجزائریؒ نے مسیحیوں کے خلاف اس یلغار کی مخالفت کی اور ان کی حمایت وتحفظ کے لیے کمربستہ ہو گئے۔ اس وقت غصے میں بپھرے ہوئے عوام کے لیے امیر عبد القادر کا یہ اقدام قابل اعتراض تھا، لیکن وہ اپنے اس موقف پر قائم رہے کہ بے گناہ مسیحیوں کی جانیں بچانا ان کا شرعی فریضہ ہے اور وہ ایسا کر کے اپنے اسلامی فرض کی تکمیل کر رہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ امیر عبد القادر الجزائری کے اس جرات مندانہ اقدام کی وجہ سے کم وبیش پندرہ ہزار مسیحیوں کی جانیں بچیں جس کی وجہ سے انھیں مغربی دنیا میں بھی تحسین کی نظر سے دیکھا جانے لگا اور انھیں ’’امن کا ہیرو‘‘ قرار دے کر مغرب کے چوٹی کے سیاسی راہ نماؤں اور دانش وروں نے خراج تحسین پیش کیا، جبکہ نیو یارک ٹائمز نے ان کے کردار کی عظمت کا اعتراف ان الفاظ میں کیا کہ ’’عبدالقادر کے لیے یہ یقیناًعظمت کا اور حقیقی شان وشوکت کا باب ہے۔ اس بات کو تاریخ میں رقم کرنا کوئی معمولی بات نہیں کہ مسلمانوں کی آزادی کے لیے لڑنے والا سب سے ثابت قدم سپاہی اپنے سیاسی زوال اور اپنی قوم کے ناگفتہ بہ حالات میں عیسائیوں کی زندگیوں اور حرمت کا سب سے نڈر نگہبان بن کر سامنے آیا۔ جن شکستوں نے الجزائر کو فرانس کے آگے جھکایا تھا، ان کا بدلہ بہت حیرت انگیز طریقے سے اور اعلیٰ ظرفی سے لے لیا گیا ہے۔‘‘
امیر عبد القادر الجزائری کا یہ کردار دیکھ کر مجھے متحدہ ہندوستان کی تحریک آزادی کے ایک بڑے لیڈر مولانا عبید اللہ سندھیؒ یاد آ جاتے ہیں اور مجھے ان دونوں بزرگوں میں مماثلت کے بعض پہلو بہت نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ مثلاً مولانا عبید اللہ سندھیؒ اگرچہ میدان جنگ کے نہیں، بلکہ میدان فکر وسیاست کے جرنیل تھے، مگر ان کی سوچ یہ تھی کہ ہمیں سیاست وجنگ کے روایتی طریقوں پر قناعت کرنے کی بجائے ان جدید اسالیب، تکنیک اور ہتھیاروں کو سیاست اور جنگ کے دونوں میدانوں میں اختیار کرنا چاہیے اور وہ عمر بھر اسی کے داعی رہے۔ 
انھوں نے جب دیکھا کہ وہ حرب وجنگ کے ذریعے سے برطانوی تسلط کے خلاف جنگ جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تو انھوں نے اس معروضی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی جدوجہد کے لیے عدم تشدد کا راستہ اختیار کر لیا اور بقیہ عمر پرامن جدوجہد میں بسر کر دی۔
امیر عبد القادر کی طرح مولانا سندھی نے بھی عملی تگ وتاز کے میدان کو اپنے لیے ہموار نہ پاتے ہوئے تعلیم وتدریس کا راستہ اختیار کیا اور ہندوستان واپسی کے بعد دہلی اور دوسرے مقامات میں قرآن کریم کے تعلیمی حلقے قائم کر کے اپنے فکر وفلسفہ کی تدریس وتعلیم میں مصروف ہو گئے۔
مولانا سندھیؒ مغربی تہذیب وثقافت اور تکنیک وصلاحیت کی ہر بات کو مسترد کر دینے کے قائل نہیں تھے، بلکہ اس کی ان باتوں کو اپنانے کے حامی تھے جو اسلامی اصولوں سے متصادم نہیں ہیں اور ہمارے لیے ضروری ہیں۔ اس کی وجہ سے انھیں بہت سے حلقوں کی طرف سے مطعون بھی ہونا پڑا۔
امیر عبد القادر الجزائری کو شیخ اکبر محی الدین ابن عربیؒ کا پیروکار، ان کے علوم کا شارح اور ان کے فلسفہ وحدت الوجود کا قائل ہونے کی وجہ سے ان کے فکر کے ڈانڈے ’’وحدت ادیان‘‘ کے تصور سے ملانے کی کوشش کی گئی (جس کی جھلک جان کائزر کی زیر نظر کتاب میں بھی دکھائی دیتی ہے)، حالانکہ وحدت الوجود اور وحدت ادیان میں زمین وآسمان کا فرق ہے اور شیخ اکبرؒ کے نظریہ وحدت الوجود کا مطلب وحدت ادیان ہرگز نہیں ہے۔ اسی طرح مولانا عبید اللہ سندھی کو بھی فرنگی تسلط کے خلاف سیاسی طور پر ہندوستانی اقوام کے ’’متحدہ قومیت‘‘ کے نظریہ پر ہدف تنقید بنایا گیا اور انھیں ’‘وحدت ادیان‘‘ سے جوڑنے کی کوشش کی گئی۔
امیر عبد القادر الجزائریؒ مغربی استعمار کے تسلط کے خلاف مسلمانوں کے جذبہ حریت اور جوش ومزاحمت کی علامت تھے اور وہ اپنی جدوجہد میں جہاد کے شرعی واخلاقی اصولوں کی پاس داری اور اپنے اعلیٰ کردار کے حوالے سے امت مسلمہ کے محسنین میں سے ہیں۔ ان کے سوانح وافکار اور عملی جدوجہد کے بارے میں جان کائزر کی یہ تصنیف نئی پود کو ان کی شخصیت اور جدوجہد سے واقف کرانے میں یقیناًمفید ثابت ہوگی۔ ایسی شخصیات کے ساتھ نئی نسل کا تعارف اور ان کے کردار اور افکار وتعلیمات سے آگاہی استعماری تسلط اور یلغار کے آج کے تازہ عالمی منظر میں مسلم امہ کے لیے راہ نمائی کا ذریعہ ہے اور اس سمت میں کوئی بھی مثبت پیش رفت ہمارے لیے ملی ضرورت کی حیثیت رکھتی ہے۔ 
(ابو عمار زاہد الراشدی)

جان ڈبلیو کائزر ایک معروف امریکی مصنف ہیں۔ تین چار سال قبل ان کی طرف سے Commander of the Faithful  (امیر المومنین) کے زیر عنوان ان کی ایک تصنیف کا انگریزی مسودہ تنقیدی جائزہ کی غرض سے مجھے موصول ہوا۔ یہ کتاب انیسویں صدی کے نصف اول میں الجزائر میں فرانس کے استعماری تسلط کے خلاف آزادی کی جدوجہد کرنے والے نامور مسلمان راہ نما امیر عبد القادر الجزائری کی سوانح حیات سے متعلق ہے اور بحیثیت مجموعی مستند تاریخی واقعات پر مبنی ہوتے ہوئے کسی حد تک ناول کے انداز میں لکھی گئی ہے۔ مجھے اس سے قبل امیر عبد القادر کی حیات اور ان کی جدوجہد سے متعلق زیادہ تفصیل سے پڑھنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ کائزر کے ارسال کردہ مسودے نے اس کی تحریک پیدا کی اور میں نے ان کی کتاب کا تفصیلی جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ امیر عبد القادر کی حیات کے بارے میں عربی اور انگریزی میں میسر دیگر مواد کا بھی مطالعہ کیا جو میرے لیے ایک ایمان افروز تجربہ تھا۔
میں نے کتاب سے متعلق اپنے مختصر تاثرات مصنف کو بھجوائے تو اس میں یہ تجویز بھی دی کہ اس کتاب کا عربی، اردو اور دیگر مشرقی زبانوں میں ترجمہ ہونا چاہیے، کیونکہ امیر عبد القادر کو جن حالات کا سامنا تھا اور انھوں نے جن شرعی واخلاقی اصولوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک غاصب استعماری طاقت کے خلاف جدوجہد کی، وہ نہ صرف یہ کہ اسلام کے تصور جہاد کی بڑی حد تک درست ترجمانی کرتی ہے، بلکہ اس میں عصر حاضر کے ان جہادی عناصر کے لیے بھی راہ نمائی کا بڑا سامان موجود ہے جو بدقسمتی سے اشتعال اور انتقام کے جذبات سے مغلوب ہو کر جہاد سے متعلق واضح شرعی وفقہی اصولوں کو نظر انداز اور پامال کرنے پر اتر آئے ہیں اور یوں اپنی جدوجہد سے الٹا اسلام اور امت مسلمہ کے لیے بدنامی اور نقصان کا باعث بن رہے ہیں۔ مختلف زبانوں میں کتاب کے ترجمے کا خیال غالباً پہلے سے کائزر کے ذہن میں تھا۔ بہرحال اس کی طرف پیش رفت ہوئی اور ایک فاضل مترجم نے (جن کا نام میرے علم میں نہیں) اسے اردو میں منتقل کر دیا۔ 
اردو ترجمے پر نظر ثانی اور ا س کی تسہیل کے لیے مسودہ دوبارہ مجھے بھجوایا گیا اور بحمد اللہ اس کے اردو متن کو آخری شکل دینے اور پھر پاکستان میں اس کی اشاعت کا انتظام کرنے میں مجھے بھی حصہ ڈالنے کا موقع ملا۔ اردو بازار، لاہور کے اشاعتی ادارے، دارالکتاب کے مالک اور ہمارے دوست حافظ محمد ندیم صاحب نے ازراہ عنایت اس کی اشاعت کے لیے آمادگی ظاہر کی اور چند ماہ قبل یہ کتاب ’’امیر عبد القادر الجزائری: سچے جہاد کی ایک داستان‘‘ کے عنوان سے دارالکتاب کے زیر اہتمام شائع ہو کر منظر عام پر آ چکی ہے۔
انیسویں صدی میں عالم اسلام کی وہ شخصیات جنھوں نے مسلم ممالک پر یورپ کے مختلف ممالک کی استعماری یلغار کے خلاف مزاحمانہ جدوجہد کی، ان میں الجزائر کے امیر عبد القادر الجزائریؒ کا نام اس حوالے سے ممتاز ہے کہ ان کی جرات واستقلال، عزیمت واستقامت، حوصلہ وتدبر اور فکر وکردار کی عظمت کو ان کے دشمنوں نے بھی سراہا اور ان کا نام تاریخ میں ہمیشہ کے لیے ثبت ہو گیا۔ امیر عبد القادر نے انیسویں صدی کی چوتھی اور پانچویں دہائی میں الجزائر میں فرانسیسی استعمار کے خلاف آزادی کی جدوجہد کی اور ایک ایسا نمونہ پیش کیا جسے بلاشبہ اسلام کے تصور جہاد اور جنگی اخلاقیات کا ایک درست اور بڑی حد تک معیاری نمونہ کہا جا سکتا ہے۔ امیر عبد القادر کے تصور جہاد کے اہم اور نمایاں پہلو حسب ذیل ہیں:
۱۔ ان کے نزدیک مسلمانوں کے ملک پر کسی غیر مسلم طاقت کے تسلط کی صورت میں اس سے آزادی حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنا ایک شرعی اور دینی فریضے کی حیثیت رکھتا ہے،چنانچہ انھوں نے اسی جذبے سے روحانی غور وفکر اور تعلیم وتدریس کی زندگی کو ترک کر کے فرانس کے خلاف مسلح جدوجہد آزادی کو منظم کیا۔
۲۔ ان کے ہاں جہاد کا مقصد طاقت یا اقتدار کا حصول نہیں تھا، چنانچہ انھوں نے جدوجہد آزادی کی قیادت خود سنبھالنے سے قبل بھی شاہ مراکش سے درخواست کی کہ وہ اس جدوجہد کی سرپرستی اور راہ نمائی کریں اور پھر جب ایسا نہ ہو سکنے کی وجہ سے انھیں خود اس جدوجہد کی قیادت کی ذمہ داری سنبھالنا پڑی تو الجزائر کے ایک وسیع علاقے میں اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کے بعد انھوں نے دوبارہ شاہ مراکش کو خط لکھا کہ وہ اس الجزائر کو اپنی سلطنت کا حصہ بنا لیں اور یہاں کے معاملات کو چلانے کے لیے اپنا کوئی نمائندہ مقرر کر دیں۔
۳۔ امیر کے ہاں اس امر کا احساس بھی بہت واضح ہے کہ کسی غیر ملکی طاقت کے خلاف جدوجہد آزادی چند لازمی شرائط کے پورا ہونے پر منحصر ہے اور ان کو پورا کیے بغیر کامیابی کا حصول ناممکن ہے۔ مثال کے طور پر انھوں نے نہایت دانش مندی سے یہ سمجھا کہ مسلح جدوجہد کا فیصلہ کسی فرد یا کسی گروہ کو اپنے طور پر نہیں بلکہ پوری قوم کے اتفاق رائے سے کرنا چاہیے تاکہ جدوجہد مضبوط اخلاقی اور نفسیاتی بنیادوں پر قائم ہو اور اسے قوم کی اجتماعی تائید حاصل ہو، کیونکہ اگر قوم ہی اس جدوجہد کے نتائج کا سامنا کرنے اور اس کے لیے درکار جانی اور مالی قربانی دینے کے حوصلے سے محروم ہو تو کوئی گروہ اپنے بل بوتے پر اسے کامیابی سے ہم کنار نہیں کر سکتا۔ اسی وجہ سے امیر نے فرانس کے خلاف لڑائی شروع کرنے سے پہلے الجزائر کے بڑے بڑے قبائل کے سرداروں سے مشاورت کر کے ان کی تائید اور حمایت کو یقینی بنایا۔ اسی طرح امیر نے یہ بات بھی وضاحت سے کہی کہ ایک منظم فوج کے خلاف جنگ کسی دوسری منظم طاقت کی سرپرستی کے بغیر نہیں لڑی جا سکتی، چنانچہ انھوں نے ابتدا شاہ مراکش سے اس جدوجہد کی سیاسی سرپرستی کی درخواست کی اور پھر اس میں ناکامی کے بعد الجزائر کی نمائندہ قبائلی طاقتوں کی تائید سے اپنی امارت قائم کرنے کے بعد ہی عملی جدوجہد کا آغاز کیا۔ 
۴۔امیر عبد القادر نے اس بدیہی حقیقت کا بھی ادراک کیا کہ جنگ میں فریقین کے مابین طاقت کے ایک خاص توازن اور عسکری تربیت میں دشمن کی برابری حاصل کیے بغیر زیادہ دیر تک میدان جنگ میں نہیں ٹھہرا جا سکتا،چنانچہ انھوں نے اپنی فوج کو مغربی طرز پر منظم کیا اور جدید طرز کی اسلحہ سازی کے لیے مغربی ملکوں سے مطلوبہ سامان اور ماہرین فراہم کرنے کی طرف بھرپور توجہ دی۔ امیر کی حکمت عملی کا یہ پہلو بھی بے حد قابل توجہ ہے کہ انھوں نے اپنی جدوجہد کا ہدف کسی نظری آئیڈیل کی روشنی میں نہیں بلکہ زمینی حقائق کی روشنی میں متعین کیا اور الجزائر کی سرزمین سے فرانس کو کلیتاً بے دخل کر دینے کو اپنا ہدف قرار دینے کے بجائے اس بات کو قبول کیا کہ فرانس کی عمل داری ساحلی شہروں تک محدود رہے جبکہ الجزائر کے باقی علاقے میں مسلمانوں کی ایک آزاد امارت قائم ہو۔
۵۔امیر کے ہاں عملی حقائق کے ادراک کا ایک ممتاز پہلو یہ بھی ہے کہ انھوں نے عالمی حالات اور دنیا کے تہذیبی ارتقا پر نظر رکھتے ہوئے درست طور پر یہ سمجھا کہ مغربی اقوام نے تمدن اور سائنس کے میدان میں جو ترقی کی ہے،وہ درحقیقت انسانیت کی مشترکہ میراث ہے اور مسلمان بھی اس سے پوری طرح مستفید ہو سکتے ہیں،چنانچہ انھوں نے نہ صرف فرانسیسی حکمرانوں کے نام خطوط میں جابجا اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ فرانس اور الجزائر کے مابین دشمنی کے بجائے دوستی کا تعلق قائم ہونا چاہیے تاکہ دونوں قومیں مفادات کے اشتراک کی بنیاد پر ایک دوسرے کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا سکیں،بلکہ عملاً بھی اپنی امارت کے تحت الجزائری قوم کی تنظیم نو میں امیر نے مغرب کے تجربات سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ 
۶۔ امیر کی جدوجہد سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ وہ مسلمانوں کے جان ومال کو جنگ میں بے فائدہ ضائع کروانے اور ایک لاحاصل جدوجہد کو جاری رکھنے کو شرعی تقاضا نہیں سمجھتے اور ان کے نزدیک کسی غیر مسلم قابض کے خلاف جہاد کی ذمہ داری اسی وقت تک عائد ہوتی ہے جب تک اس کی کامیابی کے لیے درکار عملی اسباب ووسائل میسر اور امکانات موجود ہوں۔ چنانچہ انھوں نے اپنی جدوجہد کے آخری مرحلے پر جب یہ دیکھا کہ الجزائری قوم ان کا ساتھ چھوڑ کر فرانسیسی کیمپ کا حصہ بن چکی ہے اور خود ان کے ساتھ وابستہ ایک چھوٹا سا گروہ بھی مسلسل خطرے میں ہے تو انھوں نے کسی جھجھک کے بغیر نہایت جرات سے یہ فیصلہ کر لیا کہ الجزائر کی سرزمین پر فرانس کی حکمرانی خدا کی منشا ہے اور اس کو تسلیم کر لینا ہی دانش مندی ہے۔
۷۔ امیر عبد القادر کے تصور جہاد کا ایک نہایت اہم پہلو اسلام کی جنگی اخلاقیات کی پابندی کرنا ہے اور اس ضمن میں ان کا پیش کردہ نمونہ ہی دراصل مغربی دنیا میں ان کے تعارف اور تعظیم واحترام کی اصل وجہ ہے۔ امیر نے نہ صرف جدوجہد آزادی کے دوران میں فرانسیسی قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی مذہبی ضروریات کا فراخ دلی اور اعلیٰ ظرفی سے بندوبست کیا بلکہ دمشق میں رہائش کے زمانے میں ۱۸۶۰ میں ہونے والے مسلم مسیحی فسادات میں بھی ہزاروں مسیحی باشندوں کی حفاظت کے لیے عملی کردار ادا کر کے اسلامی اخلاقیات کی ایک معیاری اور قابل تقلید مثال پیش کی۔ 
میں سمجھتا ہوں کہ مذکورہ تمام حوالوں سے امیر عبد القادر کی جدوجہد عصر حاضر میں مغرب کے سیاسی واقتصادی تسلط کے خلاف عسکری جدوجہد کرنے والوں گروہوں کے لیے اپنے اندر راہ نمائی کا بڑا سامان رکھتی ہے اور امیر عبد القادر کے فلسفہ جنگ اور طرز جدوجہد کے ان پہلووں کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ 
(محمد عمار خان ناصر)

امیر عبد القادر الجزائری (۱۸۰۷ء۔۱۸۸۳ء) تحریک آزادئ الجزائر کے عظیم مجاہد اور سرفروش قائد وراہنما تھے۔ انھوں نے انیسویں صدی عیسوی کے ابتدائی عشروں میں الجزائر پر فرانس کے غاصبانہ قبضے کے خلاف علم جہاد بلند کیا اور الجزائری قوم میں اسلامیت کی لہر دوڑا دی۔ الجزائر کے مختلف قبائل کو متحد کیا اور ایک اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی۔ وہ تیرہ سال تک اس اسلامی مملکت کے امیر رہے۔ اس دوران انھوں نے کئی بار فرانسیسی افواج کو ناکوں چنے چبوائے، مگر اپنوں کی غداری کی وجہ سے انھیں بالآخر فرانس کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہونا پڑا۔ کچھ شرائط کے ساتھ معاہدہ ہوا اور امیر نے خود کو فرانسیسیوں کے حوالے کر دیا جنھوں نے اپنے وعدوں کی پاس داری نہ کرتے ہوئے انھیں برس ہا برس تک قید میں رکھا۔ پھر فرانس لے جائے گئے اور وہاں نظر بند رہے اور آخر رہا کر کے جلا وطن کر دیے گئے۔ عمر کا آخری حصہ دمشق میں گزرا تا آنکہ وقت آخر آ گیا۔
امریکی مصنف جان ڈبلیو کائزر کی یہ کتاب (اردو ترجمہ) اسی مرد مجاہد کے سچے جہاد کی داستان ہے جس کے مطالعہ سے انسانی فکر ونظر کے تغیر وتبدیل اور ارتقا کا اندازہ ہوتا ہے اور پتہ چلتا ہے، مسلمان کس قدر سادہ اور اعتماد کرنے والا ہوتا ہے جبکہ اہل یورپ کس قدر عیار اور بدعہد ہوتے ہیں۔ وہ معاہدوں کی پاس داری نہیں کرتے، بلکہ معاہدے کرتے ہی اس لیے ہیں کہ انھیں توڑا جائے اور کمزور کی بے بسی اور بے سروسامانی کے مزے لیے جائیں۔
یہ کتاب انسانی زندگی کے نشیب وفراز کی کہانی ہے کہ جوانی میں انسانی رگوں میں خون نہیں، سیال فولاد دوڑتا ہے۔ وہ پہاڑوں سے ٹکراتا اور سمندروں کوپھلانگتا ہے، مگر جب عمر ڈھلتی ہے تو پھر اس کی سوچ بدل جاتی ہے اور پھر کچھ ایسا کرنا چاہتا ہے جس سے دوسروں کو سکھ اور چین میسر آ ئے۔ امیر عبد القادر نے جب فرانس کی بھرپور حربی طاقت کے مقابلے میں اپنی فوجی قوت کا جائزہ لیا تو مکمل تباہی کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔ ایسے وقت میں انھوں نے ایک دانش مندانہ فیصلہ کیا اور اپنے ہم وطنوں اور ساتھیوں کو مروانے کے بجائے زندہ رکھنے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے اپنی قیمت پر اپنی قوم کو زندگی دی۔ ایک دانش مند قائد کی یہی نشانی ہوتی ہے کہ وہ اپنی فکر کی بجائے قوم کے مستقبل کی فکر کرتا ہے۔
کتاب کا مطالعہ بتاتا ہے کہ مسلمانوں نے جب بھی اہل یورپ سے شکست کھائی، اپنے ہی گھر کے چراغوں کی غداری سے کھائی اور یہ بھی یورپی ممالک کس طرح دوسرے ممالک کے قائدین، تحریکوں اور نظریات کے بارے میں اپنے عوام کو اندھیرے میں رکھ کر جھوٹ بولتے ہیں۔ یہ کتاب یورپی اور مغربی نفسیات کا پتہ دیتی ہے۔ یہ کتاب بتاتی ہے کہ تاریخ میں ’’امیر عبد القادر‘‘ کی صورت میں رہ کر بھی زندہ رہا جا سکتا ہے اور مسلمان صرف مسلمانوں کا ہی نہیں، انسانوں کا خیر خواہ ہوتا ہے۔
ایک وہ وقت تھا جب امیر یورپ کی نظروں میں وقت کے سب سے بڑے دہشت گرد تھے اور جب انھوں نے دمشق میں قیام کے دوران مسلم عیسائی فسادات میں پندرہ ہزار عیسائیوں کی جانیں بچائیں تو انھیں امن کا عظیم علمبردار اور دیوتا قرار دے دیا گیا۔
یہ کتاب معروضی حالات سے آنکھیں بند کر کے محض جوش سے کام لینے والے روایتی دوستوں کو شاید پسند نہ آئے، مگر سعید روحوں کے لیے اس میں بڑے سبق ہیں۔ سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ جب حالات موافق نہ ہوں تو خود کو اور اپنی قوم کو بچا لینا سب سے بڑی بہادری ہوتی ہے۔ امیر صرف جنگجو رہنما ہی نہ تھے، ایک جید عالم دین اور صوفی بزرگ بھی تھے۔ ان کے یہ الفاظ ہم سب کے لیے بالعموم اور وراثت پیغمبر کے حاملین کے لیے خاص پیغام رکھتے ہیں:
’’پیغمبر ایک دوسرے کی تردید نہیں کرتے، کم از کم بنیادی اصولوں کی حد تک تو نہیں کرتے۔ ان سب کا ایک ہی پیغام ہے کہ اللہ کی بڑائی بیان کرو اور مخلوق کے ساتھ رحم دلی سے پیش آؤ۔‘‘ (ص: ۳۸۵)
اہل علم کو سوچنا چاہیے کہ کیا واقعی ان کے شب وروز اپنے ہی لوگوں کی تردید وتغلیط میں نہیں جا رہے؟ اس کتاب کا مقدمہ مولانا زاہد الراشدی صاحب نے لکھا ہے اور امیر کا تعارف کروایا ہے جو بجائے خود ایک معرکۃ الآرا مقالہ ہے۔ دار الکتاب لاہور کے حافظ محمد ندیم صاحب نے یہ کتاب شائع کر کے ایک کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ ’’القاسم‘‘ محسوس کرتا ہے کہ اگر کتاب کا مطالعہ اس کی روح کے مطابق کیا جائے تو ذہنوں میں انقلاب آئے گا جو آج کے دور میں امت مسلمہ کے لیے بہت مفید ثابت ہوگا۔ بہ حیثیت مسلمان ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہر ایک سے جنگ وجدل، مخالفت اور مخاصمت نے ہمیں کیا دیا ہے؟ کیا ہم ’’مسلمان‘‘ بن کر نہیں رہ سکتے؟
(بشکریہ ماہنامہ ’’القاسم‘‘، نوشہرہ)


’’اسلام کا تصور جہاد اور القاعدہ‘‘

ہمار ا ایک بڑا المیہ یہ رہا ہے کہ ہم شہرت، دولت اور امارت جیسی چیزوں کو عزت کے اسباب قرار دے کر تخلیقی اور علمی صلاحیتوں کے حامل ان لوگوں کی قدر اور عزت افزائی سے گریز کرتے ہیں جو کہ معاشرہ کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کر کے بعض مواقع پر اپنی سلامتی اور مستقبل کو بھی داؤ پر لگانے سے گریز نہیں کرتے۔ کہتے ہیں، مسلمان اپنے مزاج کے مطابق مردہ پرست واقع ہوتے آئے ہیں۔ اس کی تشریح کچھ یوں کی جا سکتی ہے کہ ہم زندہ لوگوں کی یا تو قدر افزائی نہیں کرتے یا ان کی خدمات کا اعتراف نہیں کرتے۔ اسی رویے کا نتیجہ ہے کہ ہم مثبت کردار کے لوگوں کی ناقدری کے باعث مثبت معاشرتی رویوں کی بھی حوصلہ شکنی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ 
پشتون بیلٹ میں جاری خوں ریزی نے ہمارے معاشرے کو عملاً تباہ کر کے اس کے مستقبل کو سوالیہ نشان بنا دیا ہے، تاہم ہمارے دانش وروں، صحافیوں اور دوسرے باشعور حلقوں نے جاری خوں ریزی کے اسباب، اس کے کرداروں کے تعین اور مسئلہ کے نظریاتی توڑ جیسی بنیادی چیزوں کو اجاگر کرنے کا اپنا فریضہ اس طریقے سے پورا نہیں کیا جس کی ضرورت تھی۔ اس طرز عمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم عوام کو ظالم، مظلوم اور قاتل، مقتول کا فرق سمجھانے کے اپنے فرض اور ذمہ داری میں بھی ناکام رہے۔ ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے جنھوں نے عوام کو درست معلومات پہنچانے کے علاوہ شعور دینے کا اپنا فریضہ بھی درست طریقے سے انجام دیا ہے۔ ضلع شانگلہ سے تعلق رکھنے والے صاحب مطالعہ اور باجرات انسان سیف الحق چکیسری ان چند لوگوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے جاری جنگ کے اسباب، کرداروں، مقاصد اور واقعات کو انتہائی جرات اور موثر طریقے سے اپنی تحریروں کے ذریعے عوام تک پہنچانے کا مشکل اور خطرناک فریضہ بہت احسن طریقے سے نبھایا۔
موصوف کی کتاب ’’اسلام کا تصور جہاد اور القاعدہ‘‘ سال ۲۰۱۰ء کو مینگورہ سوات کے شعیب سنز پبلشرز اینڈ بک سیلرز نے بہت خوب صورت ترتیب اور پیکنگ کے ساتھ چھاپا ہے۔ ۴۵؍ ابواب اور ۶۵۰ صفحات پر مشتمل اس کتاب کے مطالعہ کے بعد ہم جیسے ان لوگوں کو بھی قدم قدم پر اپنی کم علمی کا احساس ہونے لگتا ہے جو کہ جاری جنگ کے معاملہ پر خود کو بہت باخبر اور ماہر سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ اگر سیف الحق چکیسری کا تعلق کسی بڑے شہر سے ہوتا یا ان کی مذکورہ کتاب کسی بڑے کمرشل ادارے نے چھاپی ہوتی تو اپنے مواد کے سبب اس کاوش کا شمار آج پاکستان کے بیسٹ سیلر بکس میں ہوتا اور موصوف کو ان ایشوز پر ایک مستند ماہر کا مقام حاصل ہو جاتا۔ افسوس محض اس بات کا ہے کہ وہ تیسری دنیا کے تیسرے درجے کے ایک ملک کے تیسرے درجے کے ایک صوبے کے ایک تیسرے درجے کے علاقے سے تعلق رکھنے والے محقق ہیں۔ اس کتاب کو اگر جہاد، دہشت گردی، بد امنی، ریاستی ناکامیوں اور سیاسی کوتاہیوں کی تفصیلات کے تناظر میں موثر ترین اور مستند ترین دستاویز کا نام دیا جائے تو یہ اس کاوش کی مناسب ترین تعریف ہوگی۔شعیب سنز نے سوات میں رہ کر بھی اس کتاب کی اشاعت کا اہتمام کر کے بڑی جرات کا کام کیا ہے جبکہ اس ادارے نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ ایک نسبتاً بہت چھوٹے شہر میں رہ کر بھی اتنی اچھی اور خوب صورت کتابی چھاپی جا سکتی ہے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ یہ کاوش دیکھ اور پڑھ کر جہاں اس طالب علم کی معلومات میں بہت اضافہ ہوا ، وہاں اس امر کی بہت خوشی ہوئی کہ جس علاقہ سے میں تعلق رکھتا ہوں، وہاں کے لوگ انتہائی نامساعد حالات میں بھی اس طرح کا کام کر سکتے ہیں، ورنہ ہم تو لکیر کے فقیر بننے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اور اکثر مواقع پر حقائق پر پردہ ڈالنا اپنا قومی مزاج سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ ایک کارکن صحافی اور اس خطے کے ایک باشندے کی حیثیت سے اس طالب العلم نے جاری جنگ کو نہ صرف یہ کہ بہت قریب سے دیکھا ہے بلکہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے باعث اس پیچیدہ جنگ پر سیکڑوں خبریں فائل کرنے کے علاوہ لاتعداد تبصرے بھی کیے ہیں جبکہ اس موضوع پر تین کتابیں بھی تحریر کی ہیں۔ تاہم سیف الحق چکیسری کی اس کاوش اور تخلیق کے سامنے ہمارا کام بہت ہی کم، سطحی اور محدود رہا ہے۔ کتاب کے مطالعہ کے دوران مجھے قدم قدم پر یہ سوچ کر شرمندگی محسوس ہوتی رہی کہ میں نے اپنی عادت اور ضرورت کے مطابق معاوضہ ادا کر کے اتنی اہم دستاویز سے استفادہ کیوں نہیں کیا۔ اس کے باوجود کہ میں ان موضوعات پر پاکستانی دانش وروں اور صحافیوں کے علاوہ عالمی تجزیہ کاروں کی قریباً تمام کتابیں پڑھ چکا ہوں، میرا ذاتی مشاہدہ اور تاثر فقط یہی ہے کہ ان موضوعات پر یہ اب تک کی مستند ترین دستاویز ہے اور اس کے مطالعہ کے بعد عام قارئین تو ایک طرف، ہم جیسے لوگوں کو بھی دوسری کوئی کتاب، تخلیق یا دستاویز پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ 
۱۴۵؍ ابواب اور ۶۵۰ صفحات پر مشتمل اس کاوش کی قیمت محض ۳۸۰ روپے رکھی گئی ہے جو کہ کسی بھی شخص کے لیے کوئی زیادہ رقم قطعاً نہیں ہے۔ سیف الحق چکیسری نے بے مثال تخلیق، ناقابل تردید معلومات، درکار حوالہ جات اور دل دہلا دینے والے واقعات کو جس خوب صورت طریقے سے قلم بند کر کے انھیں عوام، خواص کے لیے ذاتی رسک لے کر پیش کیا ہے، وہ نہ صرف یہ کہ ان کے صاحب مطالعہ اور صاحب مشاہدہ ہونے کا عملی نمونہ ہے، بلکہ یہ اس بات کا بھی ایک بڑا ثبوت ہے کہ شانگلہ میں محض سیاست اور دولت کے باعث شہرت پانے والے نہیں، بلکہ اس علاقہ میں ۷۴ سالہ وہ تخلیق کار اور باجرات قلمی مجاہد بھی رہتا ہے جس کی اس کاوش کو اگر ہم آج نظر انداز کر دیں تو بھی مستقبل کی تاریخ اور محققین کے لیے اس کاوش کو بہ طور حوالہ پیش کیے بغیر آگے بڑھنا بہت مشکل ہوگا۔
اس کتاب کا سب سے خوب صورت حصہ وہ ہے جس میں مصنف نے یہ تفصیل بیان کی ہے کہ دوسروں کے علاوہ ان کے اپنے کوالی فائیڈ صاحب زادے بھی اس کوشش پر کمنٹس دینے سے گریزاں تھے اور یہ بھی کہ ان میں سے شاید ایک یا دو تو مصنف کے دلائل سے اتفاق بھی نہیں رکھتا تھا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کاوش کو لمحہ ضائع کیے بغیر پڑھا اور سمجھا جائے۔ سیاست، ریاست اور صحافت کے شہ سواروں کے لیے تو یہ کتاب پڑھنا انتہائی ضروری ہے۔ چلتے چلتے امن کی علم بردار صوبائی حکومت اور علاقہ میں سیاست کرنے والے صاحب حیثیت لوگوں کو مفت میں ایک مشورہ یہ بھی دیا جا سکتا ہے کہ وہ اربوں اور کروڑوں کی قومی اور ذاتی دولت میں سے چند لاکھ خرچ کر کے اس کتاب کو اپنے اداروں اور کارکنوں کے لیے خرید کر اپنی امن پسندی اور حب الوطنی کی مثال پیش کرنے کی کوشش ضرور کریں۔
(تبصرہ: عقیل یوسف زئی۔ روزنامہ آزادی، سوات)

اپریل ۲۰۱۲ء

حکیم الاسلام قاری محمد طیبؒ ۔ چند تاثراتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
’’کچھ تو سمجھے خدا کرے کوئی‘‘ (۲)مولانا محمد بدر عالم
’’میری علمی و مطالعاتی زندگی‘‘ (ڈاکٹر طاہر مسعود سے انٹرویو)عرفان احمد
رخصتی کے وقت ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمرمحمد عمار خان ناصر
مکاتیبادارہ
سیمینار: ’’سرکاری تعلیمی اداروں میں قرآن مجید کی تعلیم‘‘ادارہ
صحت کی بحالی کے لیے کم خرچ بالا نشیں عاداتحکیم محمد عمران مغل

حکیم الاسلام قاری محمد طیبؒ ۔ چند تاثرات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قدس اللہ سرہ العزیز کی زیارت میں نے طالب علمی کے دور میں پہلی بار کی۔ سن یاد نہیں، لیکن اتنا ذہن میں ہے کہ انار کلی لاہور میں جلسہ عام تھا ،میرا بچپن اورلڑکپن کا درمیان کا زمانہ تھا،والد محترم شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم جلسہ سننے کے لیے گوجرانوالہ سے لاہورگئے تو مجھے ساتھ لے گئے۔ انار کلی بازار میں بہت بڑا اجتماع تھا اور حضرت قاری صاحب نورّ اللہ مرقدہ نے اس سے خطاب فرمایا۔ خطاب کے مشتملات ذہن میں نہیں ہیں اورنہ ہی میں اس وقت عمر کے اس مرحلہ میں تھا کہ تقریر کے موضوع اور مواد کو ذہن میں محفوظ کرسکتا، البتہ حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کا چہرہ، جلسے کا ماحول اور اسٹیج کی بعض جھلکیاں اب بھی ذہن کی سکرین پر جھلملا رہی ہیں۔اس کے بعد یاد نہیں کہ کتنی بار دیکھا اور کہاں کہاں زیارت سے فیض یاب ہوا، مگر دو مواقع کی یاد ذہن میں ایسے تازہ ہے جیسے کل کی بات ہو۔ 
میرا بیعت کا تعلق شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری قدس اللہ سرہ اللہ العزیز کے فرزند وجانشین حضرت مولانا عبیداللہ انور صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ سے تھا اورحضرت سے جماعتی تعلق بھی گہرا تھا کہ وہ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے ذمہ دار راہ نماؤں میں سے تھے اور میں جمعیۃ کا اس دور میں فعال کارکن تھا۔ اس دوہرے تعلق کی وجہ سے شیرانوالہ لاہور میں اکثر آنا جانا رہتاتھابلکہ زیادہ تر وقت وہیں گزرتاتھا۔ حضرت حکیم الاسلام جب بھی لاہور تشریف لاتے، حضرت مولانا عبیداللہ انورؒ کی خواہش اور کوشش ہوتی کہ وہ شیرانوالہ میں بھی جلوہ افروز ہوں اور کئی بار حضرت حکیم الاسلام تشریف بھی لائے۔ ایک موقع پر ایک مخصوص سی نشست میں حضرت حکیم الاسلام تشریف فرماہوئے اور پاکستان کے معروف سیاستدان نواب زادہ نصر اللہ خان مرحوم بھی شریک مجلس تھے۔ نواب زادہ صاحب متحدہ ہندوستان کے دور میں آل انڈیا مجلس احرار الاسلام کے سیکرٹری جنرل رہے ہیں۔ علماء دیوبند سے نہ صرف متاثر تھے بلکہ مسلکا متصلب دیوبندی اور فرائض وواجبات کے پابند شب زندہ دار بزرگ تھے۔ اس محفل کی تیسری بڑی شخصیت حضرت مولانا عبیداللہ انور ؒ کی تھی جومیزبان تھے اورجہاں تک مجھے یاد پڑتاہے، خطیب اسلام حضرت مولانا محمد اجمل خان ؒ بھی موجود تھے۔ ان بزرگوں کے درمیاں دیوبند اورعلماء دیوبند کے حوالہ سے جو گفتگو ہوئی اور جس انداز میں انہوں نے باہمی محبت کے ساتھ پرانی یادیں تازہ کیں، اس کا منظر ابھی تک ذہن میں نقش ہے۔ یہ حضرات گفتگو فرمارہے تھے اورہم ان کی باتوں کی خوشبو سے دل ودماغ کو معطر کررہے تھے۔
حضرت حکیم الاسلام ؒ کی زیارت کا ایک او ر منظر جو ذہن میں ابھی تک تازہ ہے، دارالعلوم دیوبند کے صدسالہ اجلاس کے حوالہ سے ہے۔ حضرت مولانا مفتی محمود قدس اللہ سرہ العزیز کی قیادت میں صد سالہ اجلاس میں جانے والے قافلہ میں میرا نام بھی شامل تھا، لیکن میں قافلہ کے ساتھ سفر نہ کر سکا تھا۔قافلہ کی روانگی کے بعد دوسرے دن سفر کے لیے نکلا اور واہگہ سے سرحد کراس کرکے انبالہ،دہلی اور سہارنپور سے ہوتاہوا جب دیوبند پہنچا تو صد سالہ اجلاس کی آخری نشست جاری تھی اور حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قدس اللہ سرہ العزیز اختتامی خطاب فرمارہے تھے۔ عجیب منظر تھا، چاروں طرف لاکھوں مسلمانوں بلکہ علماء کرام کا ہجوم تھا اورحضرت قاری صاحبؒ صد سالہ اجلاس کی شاندار کامیابی پر سراپا تشکر بنے الوداعی کلمات ارشاد فرمارہے تھے۔
یہ تو چند مناظر وہ ہیں جو آنکھوں دیکھے ہیں اور جو میری زندگی کے بہترین لمحات میں سے ہیں۔ اس سے ہٹ کر غائبانہ ملاقاتوں اور حضرت قاری صاحب کی تحریرات وخطبات سے استفادہ کے مواقع کو شمار کرنا تو کجا میں اندازے سے بھی ان تصوراتی او ر فکری ملاقاتوں کی تعداد بیان نہیں کرسکتا۔ میری ولادت تقسیم ہند سے ایک سال بعد کی ہے۔ اس لیے تقسیم ہند سے قبل ہمارے اکابر کے درمیان مختلف حوالوں سے تقسیم کے جو دائرے سننے اور پڑھنے میں آتے ہیں، وہ میری ولادت سے پہلے کے ہیں، لیکن اس دور کے واقعات پڑھتا اور سنتاہوں تو کبھی کبھی ذہن میںآتاہے کہ اگر میں اس دور میں ہوتاتو اپنی ذہنی افتاد اور انداز فکرکے حوالے سے اسی کیمپ میں ہوتا جسے معروف معنوں میں ’’مدنی گروپ‘‘ کہا جاتا ہے اور جس کی نسبت شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ سے ہے، لیکن اس فکری وابستگی اور جانبداری کے باوجود حکیم الامت حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانویؒ نور اللہ مرقدہ اور ان کے رفقا کے بارے میں عقیدت، محبت، احترا م، قلبی وابستگی او ر استفادہ کے حوالہ سے دل کے کسی کونے میں کوئی ایسی بات بحمد اللہ تعالیٰ محسوس نہیں کرتا جسے فرق سے تعبیر کیا جا سکتاہو اور بلاشبہ ان بزرگوں میں سے میری عقیدت ومحبت کا سب سے بڑا مرکز حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی قدس اللہ سرہ العزیز کی ذات گرامی رہی ہے اور اس کی کچھ وجوہ ہیں جن کا اظہار ضروری خیال کرتاہوں۔
سب سے پہلی اور بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ کے خاندان سے ہیں اور ان کے پوتے ہیں۔ میں نسبتوں کے حوالے سے بہت خوش عقیدہ شخص ہوں اور نسبتوں کی برکات پر نہ صرف یقین رکھتاہوں، بلکہ جب اور جہاں موقع ملے، ان سے استفادہ کی کوشش بھی کرتاہوں۔ حجۃ الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی ؒ اور قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کی دو عظیم شخصیات کو جنوبی ایشیا کی مسلم تاریخ میں ایک ایسے سنگم کی حیثیت حاصل ہے جنہوں نے ۱۹۵۷ء کے بعد مسلم جنوبی ایشیا کا رشتہ ۱۹۵۷ء سے پہلے کے مسلم جنوبی ایشیا کے ساتھ برقرار رکھنے میں فیصلہ کن کردار اداکیا اور یہ ان کی اجتہادی بصیرت اور مومنانہ فراست کا ثمرہ ہے کہ جنوبی ایشیا کے طول وعرض میں ہر طرف نہ صرف قال اللہ وقال الرسول کی صدائیں شب وروز گونج رہی ہیں، بلکہ۱۸۵۷ء سے پہلے کی مسلم تہذیب اور معاشرت کا عملی نمونہ پوری آب وتاب کے ساتھ ہر جگہ موجود ہے اور مغرب کی مادہ پرستانہ تہذیب وتقافت کی انتہائی طاقت ور اور طوفانی یلغار جنوبی ایشیا میں غلبہ پانے میں اگر کسی طبقہ اور ادارہ سے خوف اور رکاوٹ محسوس ہورہی ہے تو وہ یہی مولانا نانوتویؒ اور مولانا گنگوہی ؒ کا قافلہ ہے جو کفرو الحاد کی تہذیب کے سامنے سد سکندری بنا ہوا ہے۔ 
حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب نور اللہ مرقدہ کے ساتھ میری محبت وعقیدت کی دوسری بڑی وجہ دارالعلوم دیوبند اور اس قافلہ حق کے لیے ان کی طویل او ر مسلسل خدمات ہیں جن میں کوئی دوسری شخصیت ان کی مثل نہیں ہے۔ ان کے طویل دور اہتمام میں دارا لعلوم دیوبند نے جو ترقی کی اور وسعت وتنوع کے جن دائروں سے یہ ازہر ایشیا متعارف ہوا، وہ علمی تاریخ کا ایک مستقل باب ہے اور نہ صرف خاندان قاسمیؒ بلکہ قافلہ رشیدؒ وقاسمؒ کے لیے باعث فخر واعزاز ہے۔ انہوں نے اپنے عظیم دادا کے ورثہ کو نہ صرف قائم رکھابلکہ اس میں بیش بہا اضافہ کرکے اسے تاریخ میں زندہ جاوید بنا دیا اور تاریخ کے اوراق میں جب بھی دارالعلوم دیوبند کا تذکرہ ہوگا، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب رحمہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے بغیر کبھی مکمل نہیں ہوسکے گا۔
حضرت قاری صاحب کے ساتھ میری عقیدت ومحبت کی تیسری اور سب سے بڑی وجہ ان کا علمی مقام اور متکلمانہ شان ہے۔ وہ علم کا پہاڑ اور معلومات کا سمندر تو تھے ہی، مگر اس علم کے اظہار اور ابلاغ کے لیے ان کا انداز واسلوب ایسا حکیمانہ اور فطری تھا کہ ان کو سننے اور پڑھنے والا افادہ اور استفادہ کے اس سفر میں خود کو ان کے قدم بہ قدم چلتا ہوا محسوس کرتاتھا۔ میں ایک طالب علم کے طور پر دیوبندی مکتب فکر میں تین بزرگوں کو سب سے بڑا متکلم سمجھتا ہوں۔ (۱) حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ ، (۲) حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ ، (۳) حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ ، مگر اس ترتیب کے ساتھ کہ حضرت نانوتوی ؒ اہل علم کی اوپر کی سطح کے لیے متکلم تھے۔ اس سے نچلے درجہ کے اہل علم کے لیے بھی ان سے استفادہ آسان کام نہیں تھا۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے علوم قاسمی کی قد رے تسہیل کرکے اس سے عام اہل علم کو استفادہ کا موقع فراہم کیا جبکہ حضرت مولانا قاری محمد طیب ؒ نے اس دائرے کو مزید وسعت دی اور عام اہل علم اور طلبہ کے ساتھ جدید پڑھے لکھے لوگوں کو بھی اس میں شامل کرلیا۔ میں اس حوالے سے جنوبی ایشیا کے عوامی خطبا میں سے دو شخصیتوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوں کہ مشکل سے مشکل علمی مسئلہ کو پبلک اجتماع میں ایسے سادہ اور فطری لہجے میں بیان کرتے تھے کہ سننے والوں میں سے شاید ہی کوئی استفادہ سے محروم رہتاہو۔ ان میں پہلا نمبر حکیم الامت حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ کا ہے جبکہ میرے مطالعہ ومشاہدہ کے مطابق اس فن کے دوسرے امام ہمارے پاکستان کے معروف احراری خطیب حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ تھے۔ انہیں بھی ا للہ تعالیٰ نے اس فن سے نوازاتھا کہ مشکل ترین علمی مسئلہ کو عام فہم انداز میں اس سادگی اور بے تکلفی کے ساتھ بیان کرجاتے تھے کہ کسی ان پڑھ دیہاتی کو بھی اسے سمجھنے میں دشواری پیش نہیں آتی تھی۔
علم کلا م دین کے اہم ترین شعبوں میں سے ہے اور اسلامی عقائد واحکام کی تشریح ووضاحت کے لیے اپنے دور کے اسلوب بیان، اصطلاحات، زبان اور لوگوں کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے ہر شخص اورطبقہ کی ذہنی سطح کے مطابق گفتگو کرنا دین کا اہم تقاضا ہے۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے اسی ہتھیار کا کامیابی کے ساتھ استعمال کرکے اپنے دور میں اسلامی عقائد کے خلاف مسیحیت اور آریہ سماج کے طوفانی حملوں کو ناکام بنایاتھا اور اپنے معاصرین میں اسلام کی برتری کے ساتھ ساتھ اپنی علمی وجاہت اورتفوق کا پرچم بلند کیا تھا۔ آج دین کی اہم ضروریات کا یہ پہلو ہماری نگاہوں سے اوجھل ہوتا جا رہا ہے اورہم آج کی دنیا میں اپنے ایک صدی پہلے کے علمی اسلوب اور اصطلاحات کے ذریعے دین سمجھانے کے درپے ہیں جس سے افہام وتفہیم کا ماحول بننے کی بجائے الجھاؤ اور کنفیوژن میں اضافہ ہورہاہے۔ میری طالب علمانہ رائے میں حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور حکیم الاسلام قاری محمد طیب قاسمیؒ کو خراج عقیدت پیش کرنے کا سب سے بہتر ذریعہ یہ ہے کہ اسلام کی دعوت وتبلیغ اور دینی احکام وقوانین کی تشریح میں ان کے اسلوب کا احیا کیا جائے اور وقت کے تقاضوں، اسلوب، اصطلاحات اور نفسیات کا ادراک کرتے ہوئے پورے شعور وحکمت کے ساتھ آج کے دور میں اسلام کو درپیش فکری اور علمی چیلنجز کا سامنا کیا جائے۔

’’کچھ تو سمجھے خدا کرے کوئی‘‘ (۲)

مولانا محمد بدر عالم

(افتراق و تفریق کا فکری، نفسیاتی اور سماجی تجزیہ۔)

۱۱۔ دیگر مذاہب کے اثرات

خارجی اثرات نے بھی بہتوں کو گمراہ کیا۔ اسلام جزیرہ عرب سے باہر نکلاتو بجلی کی سی رفتار سے بڑھنے لگا۔ غیر اقوام ومذاہب کے لوگ جو غلط عقائد پر اپنی عمریں گذار چکے تھے۔ ترک مذہب کرکے داخل اسلام ہوئے تولاشعوری طور پر سابقہ اثرات بھی ہمراہ لائے کئی مسائل جو ان کے دماغی سانچے میں ماقبل اثرات کی وجہ سے درست نہ بیٹھے تو انہوں نے ان کی نئی تعبیر پیش کردی۔ انہی لوگوں سے مسلمانوں کااختلاط ہواتو ان کے عقائد ورسوم کا بہت کچھ اثر ان مسلمانوں نے بھی قبول کیا جو لاعلم یاکم علم تھے۔ ایسے ہی اثرات اس وقت بھی مرتب ہوئے جب غیر اقوام کی کتابیں مسلمانوں کے مطالعے میں آئیں۔جن لوگوں کو علم میں رسوخ حاصل تھا انہوں نے صحیح کو غلط سے تمیز کرلیاجو رسوخ فی العلم سے بے بہرہ تھے غیر محسوس طور پر ان کے دماغ ان کی سمیت سے متاثر ہوتے گئے۔ یہی زہر منہ کے راستے باہر کو اْبلااور جہاں جہاں اس کے چھینٹے پڑے وہاں وہاں کی فضا مسموم ہوتی گئی۔متحدہ ہندوستان میں غالب ہونے کے باوجود مسلمانوں نے ہندوؤں کے بہت کچھ اثرات قبول کیے۔ اس عہد میں کئی فتنے اٹھے جو اسلام اور ہندومت کے ملغوبہ تھے۔ برطانوی راج کے دوران نیچریت اور دہریت کے اثرات نے مسلمانوں میں راہ پائی اورفتنہ وفرقہ کا بازار گرم کیے رکھا۔ہندوانہ عقائد ونظریات کی چھاپ توتقریباً تمام ہی معاشرے پر ہے۔ مگر انگریزی تعلیم یافتہ کے عقائد پر مستشرقوں کا بھی بہت بڑا اثر ہے۔ ان کاجائزہ لے کر اس حقیقت کا بخوبی مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ 

۱۲۔ سیاسی اختلاف 

سیاسی وانتظامی امور میں اختلاف بھی فرقہ بندی کا سبب بنا۔ ابتداء میں وجہ اختلاف سیاست تھی۔زور پیدا کرنے کیلئے ان پر مذہبی رنگ چڑھایاگیااورآخر کار یہ اختلاف فرقہ بندی میں ڈھل گیا۔

۱۳۔ دقت پسندی

بعض طبائع فطرتاً دقت پسند ہوتی ہیں۔ بال کی کھال اتارنے والی۔دقت پسندی حدِ اعتدال میں رہے تو خوبی ہے۔ اس سے مسئلے کا ہر پہلو نکھر جاتاہے۔ معمولی جزئیات تک بھی روشن ہوجاتی ہیں۔ فقہی قانون سارے کا سارا اور فقہ حنفی خاص طور پر دقت نظر کی بہترین مثال ہے۔ جب ایک قدم آگے بڑھا کر یہ حد ودِ عقائد میں پہنچتی ہے تو سارا کھیل بگڑ جاتاہے۔ عقائد پر اس طرح ایمان لانا ہی سلامتی ہے جس طرح وہ قرآن وسنت میں وارد ہوئے۔ یہی ایمان بالغیب کا لطف ہے۔دقت پسندطبیعت جزئیات سمیت انہیں حلقۂ عقل میں لانے کی کوشش کرتی ہے جو کہ ممکن نہیں اس لیے جو دام عقل میں آئے وہ عقیدہ بن جاتاہے جو باہر رہے اسے رد کردیاجاتاہے۔ پھر چونکہ فہم اور قوتِ ادراک ہر ایک کی یکساں نہیں اس لیے نتائج میں لازماً اختلاف پیداہوتاہے۔

۱۴۔ ذوقِ اختلاف

ذوق میں افراد باہم دگر مختلف ہوتے ہیں۔ کبھی ایک کا ذوق ایک چیز کو پسند کرتاہے اور ایک کی طبیعت دوسری چیز کو۔ان کے معتقدین تک یہ ذوق اس طرح پہنچتاہے کہ وہ اس کو دین کی ایسی اصل قرار دے دیتے ہیں جس سے انحراف گناہ ہو۔ یوں نوبت اختلاف سے تفریق تک پہنچتی ہے۔

۱۵۔ غلو

اس کا مطلب ہے احکام کی درجہ بندی میں طبعی شدت کی وجہ سے ردو بدل کرنا۔ مندوب کو فرض اور مکروہ کو حرام بنادینا۔ غلو کے زیادہ تر مظاہر زہد وتقشف کی زندگی میں نظر آتے ہیں۔ بر بنائے احتیاط ،سداً للذرائع یا کسی دوسری وجہ سے لوگ مستحب کے ساتھ واجب کا مکروہ کے ساتھ حرام کا معاملہ کرتے ہیں۔ مگراس کا عقیدہ نہیں رکھتے۔ بعد کے لوگ سب سے قطع نظر کرتے ہوئے اس عادت کو عقیدہ بنالیتے ہیں۔غلو جس طرح فرقہ بندی کا سبب ہے، اسی طرح فرقہ واریت کا بھی اہم عنصر ہے۔ غلو کو شدت پسندی سے تعبیر کیاجاسکتاہے اگرچہ دونوں میں قدرے فرق ہے۔ غلو پسند آدمی وہ ہوتاہے جو مستحب کے ساتھ فرض اور مکروہ کے ساتھ حرام کااعتقاد رکھے،غیرلازم کو لازم بنادے اورشدت پسند جو ہرمعاملہ انتہائی نظر سے دیکھے۔ غالی آدمی جس سے اختلاف کرے وہ اختلاف بڑھ تو سکتاہے کم ہونا بہت مشکل ہے۔ فرقہ واریت مٹانے کے لیے نرمی اور اعتدال بہت ضروری ہے جن کا غالی آدمی میں قحط اور فقدان ہے۔غلو کی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ جاہل لوگ پیشوا بن جاتے ہیں جو کہ احکام کے شرعی مقام سے ناآشنا ہوتے ہیں اوربمطابق حدیث خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اوردوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔ان غالی اورمتشددلوگوں کا عمل دیکھ کرعوام یہ سمجھتے ہیں کہ یہ عمل اسی طرح ہی شارع کی مرضی اورحکم شرعی ہے۔ 
غلو اجتہاد ی وانتظامی امور میں اختلاف آراء کوتفریق تک پہنچادیتاہے۔ یہی تفریق پھراس وقت نفرت وعداوت میں بدل جاتی ہے جب کوئی فریق اپنی رائے اورسوچ کوحرف آخر اوردوسرے فریق کی رائے کو بہرحال غلط سمجھتے ہوئے اس پرجدال ومخاصمت کا راستہ اختیار کرتاا ور دوسرے فریق کے خلاف پیالی میں طوفان کھڑاکردیتاہیاس کی مثال میں سپاہ صحابہ اورجے یوآئی کا اختلاف پیش کیاجاسکتاہے۔

۱۶۔ شدت پسندی

شدت پسندی فرقہ واریت کا جزو اعظم اور رکنِ رکین ہے۔ شدت پسندی کیاہے؟ یہی کہ جو مقام نرمی کا مقنضی ہے وہاں سختی کی جائے۔جہاں جتنے سخت ردِ عمل کی ضرورت ہے اس سے بڑھ کر سختی کی جائے۔ ہر معاملہ انتہائی نظر سے دیکھاجائے۔ شدت قول وعمل سے جھلکتی ہے اورقلب ونظرسے ٹپکتی ہے۔ زبان سے سخت الفاظ استعمال کرنااور حکم عائد کرنے میں سختی کرناشدت پسندی کی وجہ سے ہوتاہے۔نماز روزہ حج زکوآ کی طرح کفر ،فسق ،الحاد زندقہ ،ارتداداوربدعت بھی اسلام کے احکام ہیں جن کے مخصوص ومتعین معنی ہیں۔ان کے استعما ل کے مخصوص مواقع ہیں جنہیں استعمال کرنے میں حدود کا خیال کرنا بہت ضروری ہے۔ اکثرلوگ ان حدود کا خیال نہیں کرتے۔ان میں تساہل برتنا بھی اگرچہ درست نہیں مگر تشدد اختیار کرنا اس سے بڑافتنہ ہے۔مولانا گنگوہی ؒ نے کسی موقع پرفرمایا تھا اوربالکل بجافرمایاتھاکہ تشدد سے اصلاح نہیں ہوتی۔بدعت کو بدعت نہ کہنا اگرغلطی ہے توغیربدعت کو بدعت بنادینا بھی بہت غلط ہے۔عام طور پر ہوتایہ ہے کہ فاسق کے ساتھ کافر کا اورمبتدع کے ساتھ مرتدکا سلوک کیا جاتاہے مثلاً جن باتوں سے کفر لازم نہیں آتا ان پر بھی پکا ٹھکا کافر بنادینا یا مثلاً جو لوگ امام کے پیچھے قراء ت فاتحہ کے قائل نہیں یارفع یدین نہیں کرتے، ان کی نمازیں فاسد ہونے کاحکم لگادینا یا مثلاً جو گیارہوں بارھویں کرتے اور محفل میلاد مناتے ہیں، انہیں مشرک کہنااور جو اس کے قائل نہیں، انہیں گستاخ رسول اور منکراولیاء کہنا شدت پسندی کی مثالیں ہیں۔اعتدال بہترین راستہ ہے مگرافسوس کہ معدودے چندلوگوں کے سوا کوئی بھی اس پر کاربندنہیں رہتا۔بالخصوص وہ دوگروہ جن کی باہمی چپقلش جاری ہو، وہ فتویٰ بازی میں حد سے گزرجاتے ہیں۔ مثلاً مسئلہ سماع موتی اورتوسل بالذوات الصالحہ وغیرہ میں ایک دوسرے کے خلاف جو زبان استعمال کی جاتی ہے اس کے کیا ہی کہنے۔یہ تو کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ غایت شدت پر مبنی درج ذیل فتویٰ ملاحظہ کریں۔
’’ایسے ہی وہابی، قادیانی، دیوبندی، نیچری، چکڑالوی جملہ مرتدین ہیں کہ ان کے مرد یاعورت کاتمام جہان میں جس سے نکاح ہوگا مسلم ہو یا کافر اصلی یا مرتد(اور)انسان ہو یا حیوان محض باطل اور زنا خالص ہوگااور اولاد ولدالزنا۔‘‘ (ملفوظات ص۵۰۱،ج۲)
سختی و شدت کاوفور اور کلام کا لہجہ دیکھئے۔ یوں کہنے سے بھی مطلب حاصل ہوجاتا کہ نیچری چکڑالوی وغیرہ مرتد ہیں، ان کا کسی کے ساتھ اور کسی کا ان کے ساتھ نکاح جائز نہیں۔ لیکن افسوس کہ شدت وغضب میں مفتی صاحب حد سے گذر کر یوں فرمانے لگے کہ جانوروں کے ساتھ بھی ان کا نکاح جائز نہیں۔ ایسی شدت سے اللہ بچائے۔ غور کرنے کی بات ہے، کیا انسان کاجانور سے نکاح اسلام یا کسی بھی آسمانی شریعت میں جائز ہے ؟بہرحال ہمیں شدت پسندی کاایک نمونہ دکھانا مقصود تھا۔ ایسے ہی رخصت کے پہلو کو ساقط کردینا مخالف کی وضاحت کو یااس کی مراد اور تاویلِ کو اگرچہ صحیح بھی ہو قبول نہ کرنا، حتی الوسع مسلمانوں کوکافر بنانے کی کوشش کرنا شدت پسند طبیعتوں کو بہت مرغوب ہے۔ شدت کااظہار زبان اور تحریر کے علاوہ عمل سے بھی ہوتاہے۔ شدت پسند لوگ اختلافی مسائل حل کرنے کے لیے بھی مخالف سے مل بیٹھنے کو تیار نہیں ہوتے۔ دلائل کے بجائے تحکم اور ماردھاڑ کارویہ اختیار کرتے ہیں۔ دوسرے لوگوں کو ابھارتے ہیں کہ وہ مخالفین سے مقاطعہ بلکہ ان کو قتل کردیں۔ انہیں اگر طاقت مل جائے تو گناہ گار اور بے گناہ پر یکساں استعمال کرتے ہیں۔ اختلاف رائے کوبرداشت نہیں کرتے۔ شدت پسندی مزاج، غیض وغضب یا کسی سازش کا نتیجہ ہوسکتی ہے وجہ جو بھی ہو فرقہ واریت پھیلانے میں اس کا اہم ترین کردار ہے۔

۱۷۔ تعصب

تعصب ایک بری عادت ہیجو افتراق وتفریق کا سبب بنتی ہے۔اس کا مطلب ہے غلط ہونے کے باوجود اپنی بات کی پچ کرنایا ناحق اپنی قوم ومسلک کا دفاع کرنا جس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ مخالف کے حق پر ہونے کے باوجود اس کی تردید کی جاتی ہے اور قبول حق سے اباکیاجاتاہے۔ یہ جاہلی عصبیت آج بھی فرقوں میں زور وشور سے پائی جاتی ہے۔ دوسروں کو اگرچہ وہ صحیح ہوں گھٹانے کی اور خود کو اگرچہ کسی مسئلے میں غلط ہوں بڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے اور خدانخواستہ مخالف سے کوئی غلطی ہوجائے تو پھر تو بہ ہی بھلی ،آسمان سر پر اٹھالیاجاتاہے یوں باور کرایاجاتاہے گویا اس کے سوا کبھی کسی نے غلطی نہیں کی اور یہ غلطی تو اتنی بڑی ہے کہ اس کی تلافی کی کوئی صورت ہی نہیں۔غیروں کے یہ خوردہ گراپنی غلطیوں کو مٹانے چھپانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ اس پر بات بڑھتی ہے اور فرقہ واریت جنم لینا شروع کردیتی ہے۔

۱۸۔ حسد

حسد بھی فرقہ واریت کا مخفی سبب بن جاتاہے۔ خصوصاً اس شخص کے لیے جو کسی مسلک کا پیشوا ومقتدا ہوکہ وہ اندرونی زہر فرقہ واریت کے راستے باہر نکالتاہے۔

۱۹۔ ذرائع ابلاغ تک رسائی

یہ ذرائع فرقہ واریت پیدا نہیں کرتے ہاں اس تندورکو گرم کرنے میں استعمال ضرور ہوتے ہیں۔ کب؟جب متشدد، متعصب ،غالی، بدخلق، حاسد، بدفہم اور سازشی عناصر ان تک رسائی حاصل کرلیں۔ اصل کتاب میں انسانی ذہن پر میڈیا کی کارفرمائی اور تسخیری قوت کی کرشمہ سازیاں قدرے بیان ہوچکی ہیں۔ یہ ایک طاقت ہے جو مذکورہ کردار کے حامل لوگوں کے ہاتھ میں ہوتو صاعقہ آسمانی سے زیادہ خطرناک اور ایٹم بم سے زیادہ دھماکہ خیز ثابت ہوتی ہے۔ اس کے ذریعے مذموم مقاصد کا حصول ممکن بنایا جاتاہے۔یادرہے کہ ذرائع رسل ورسائل اور محراب ومنبر بھی میڈیا کا حصہ ہیں۔

۲۰۔ حساسیت

فرقہ واریت میں اس کا بھی ایک کردار ہے۔ ہوتایہ ہے کہ جب دوآدمی باہم اختلاف کرتے ہیں توقطع نظر اس سے کہ کون صحیح اور کون غلط ہے ،دونوں کی الگ شکل اور ایک نیا تشخص پیداہوجاتاہے۔ دونوں میں سے ہر ایک اضطراری طور پر چاہتاہے کہ کہیں کسی موقع پر اس کا یہ تشخص مجروح نہ ہونے پائے کیونکہ یہ تشخص مجروح ہونے کی صورت میں اس کے اندر یہ احساس پیدا ہوتاہے کہ میرے مخالف کی پوزیشن اپ ہوگئی ہے اوریہ ’’غلط‘‘ آدمی یاگروہ بالادست ہوکر سامنے آرہاہے۔میںیا میراگروہ دب گیاہے، ہوسکتاہے لوگ اس طرف نہ جھک پڑیں۔خاص طور پر اس وقت جب دونوں میں سے کسی ایک کی طرف سے یہ اختلاف عوام تک پہنچ جائے تواس وقت یہ احساس شدید تر ہو جاتا ہے۔ ہر فریق احقاق اور لوگوں کو گمراہی سے بچانے کے گرداب میں غوطے کھانے لگتاہے۔ چنانچہ اس وقت کبھی اختیاری اور کبھی اضطراری طور پر اس تشخص کو برقرار اور نمایاں کرنے کی کوشش کرتاہے۔ مثلاً جا و بیجا اس کو بیان کرنا، اس پر کتب ورسائل تالیف کرناوکروانا اس پر شدت اختیار کرنا۔ مخالف کی تقریر، جلسہ واجتماع کو برداشت نہ کرنا، جواب اور جواب الجواب ضروری سمجھنا، پمفلٹ اور ہینڈبل شائع کرنا، مخالف اوراس کے حلقے سے ہر تعلق منقطع کرلینا، اس کی ہر بات کو اسی اختلاف کی طرف مشیر سمجھنا۔ اس حساسیت میں یہاں تک اضافہ ہوتاہے کہ پھر اس اختلاف کے حوالے سے کوئی چیز برداشت نہیں ہوتی۔ رفتہ رفتہ وہ اسی تشخص سے معروف ہوجاتاہے۔ یہی صورت تفریق میں بھی پیش آتی ہے اوراس وقت بھی جب کوئی شخص کسی ایسے مسئلے کے خلاف آواز بلند کرتاہے جو مروج ہو مگر ثابت نہ ہو۔ اس کے ذہن میں ہروقت یہی بات گردش کرتی رہتی ہے کہ ہر شخص کے دل میں اتنی حقیقت کیسے اتاردی جائے کہ وہ اس سے روگردانی نہ کرسکے۔حساسیت کا مطلب کسی چیز کی قدر جواز کوبھی ممنوع قراردینا بل کہ اس کے اسباب بعیدہ کو بھی حکم میں اس کے ساتھ نتھی کرنا ہے۔
حساسیت زدہ افراد اس ضرب المثل پر عمل کرتے ہیں :
نہ رہے بانس نہ بجے بانسری
یا اس شعر پر عمل پیرا ہوتے ہیں 
مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو
کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا
یاد رہے کہ بطورسد ذرائع کے کسی چیز پر پابندی عائد کرنا امردیگر اور خارج از بحث ہے۔سد ذرائع کا مطلب کسی امر ممنوع تک پہنچنے کے جو ذرائع ہیں انہیں مسدود کردینا۔مثلااصل حرمت شراب استعمال کرنے کی ہے۔یہ ممنوع ہے جس تک پہنچانے کے دیگر کئی ذرائع کو بھی حکم میں اسی کے ساتھ نتھی کرتے ہوئے حرام قرار دے دیاگیا۔مثلاً شراب بنانا بھی حرام ،شراب بیچنا بھی حرام ،شراب لاد کر لیجانا بھی حرام ،یہ تما م کام کرنے والے بھی گنہ گار اورمرتکب حرام۔مگر ایسا نہیں کہ اس سے بچنے کے لیے انگور ،کھجور ،گندم یا جو کی کاشت کو ناجائز کہا گیا ہو،یا سرکہ اور نبیذ بنانا بھی حرام قرار دیاگیاہو۔سلسلہ شراب میں جو امور ممنوع ہیں ان تمام میں شراب بالفعل موجو د ہے۔

۲۱۔ مضبوط مرکز یا خلافت کا نہ ہونا

یہ تفریق کی اہم وجہ ہے جب خلافت باقی تھی اورمضبوط مرکز مسلمانوں کو حاصل تھا اس وقت یہ تفریق نہیں تھی جو آج کل دکھائی دیتی ہے اورجو تھی وہ بھی اندر ہی اندر تھی اس پر مرکزیت کا پردہ پڑاہواتھا۔کیوں کہ خلافت کا حکم اوررعب ایک حد سے آگے نہیں بڑھنے دیتاتھا۔دین کی اشاعت اورحفاظت کے تمام انتظامات خلافت کی ذمہ داری تھی۔خلفاء کے حکم پر قتال ہوتا،تبلیغ ہوتی ،تعلیم وتدریس ہوتی اورانہی کی طرف سے فتوی دینے نہ دینے کااختیارملتا۔قانون اسلامی تھا،فیصلے اس کے مطابق ہوتے۔جو گروہ تفریق کے ذریعے ملت کومتفرق کرنے کی کوشش کرتااس کی مناسب سرکوبی کی جاتی۔ علماء ،خانقاہوں اورمدارس کے انتظام کی اکثرخلافت ہی کفیل ہوتی۔دشمنوں پر حملہ کرکے زمین فتح کی جاتی سیاسی طورپر وہاں تسلط حاصل کیا جاتااس کے بعد علماء وصوفیاء آگے آتے جو وہاں کے لوگوں میں اسلام کا بیج بوتے اگرکوئی عالم یا صوفی کسی ایسے علاقے میں چلاجاتاجہاں اسلامی حکومت نہ ہوتی تب بھی زیادہ خطرہ اس لیے محسوس نہ ہوتاکہ پیچھے ایک مضبوط حکومت کی پشت پناہی ہوتی۔یہ بات صرف خلافت سے مختص نہ تھی بلکہ جو سلاطین اسلام خلافت کے ماتحت ہوتے وہ بھی اس سب کا خیال کرتے۔ان کے اٹھتے ہی مسلمان تسبیح کے دانوں کی طرح بکھری اورکئی جماعتوں میں منقسم ہوگئے۔
کچھ وہ تھے جنہوں نے اس سب کو گویاتقدیر کا لکھا سمجھ کرقبول کرلیااورہاتھ پرہاتھ رکھ کر بیٹھ گئے، کچھ وہ تھے جنہوں نے ان حالات کا مطالعہ کیا اورزوال وادبار سے نکلنے کی سوچی ہر ایک کا مطالعہ اورفہم اسے ایک سبب کی طرف لے گیا۔ایسے لوگ بھی تھے اوراب تک بھی ہیں جنہوں نے سوچی سمجھی منصوبہ بندی سے کوئی کام نہیں کیا بلکہ حالات کے دھارے پر بہتے رہے اورحالات کاجو تقاضا سامنے دکھائی دیا، اس کے مطابق کام کرگزرے۔مثلاً بعض لوگوں نے اشاعت اسلام سے حفاظت اسلام کو مقدم سمجھا اورکوشش کی کہ مسلمانوں کی تہذیب وتمدن محفوظ رہے۔ اس کی خاطر انہوں نے دینی تعلیم وتعلم کو اہمیت دی ،کچھ نے عصری تعلیم اورمغربی تمدن کو ضروری قراردیا اوراس کے حصول کی کوششوں میں لگ گئے۔ یہ دونوں الگ الگ گروپ بن گئے۔کسی نے تزکیہ نفس کی کمی کو سبب جانا اوراس میں لگ گئے اور یوں خانقاہی لوگوں اورگدی نشینوں کا ایک الگ گروہ وجود میںآگیا۔بعض نے معاشرے پر نظر دوڑائی اورمعاشرتی دینی تنز ل کودیکھتے ہوئے اصلاحی جماعتوں کی نیواٹھائی۔یہ اصلاحی کوششیں کرنے والے ایک علیحدہ جماعت میں بٹ گئے۔ ان جماعتوں میں سے بعض نے اصلاح عقائدکواہمیت دی بعض نے اصلاح اعمال کو اوران میں سے ہرایک الگ الگ جاعتوں میں بٹتاچلاگیا۔پھر یہ مصلحین بھی دوطرح کے تھے، متشدداورمتساہل۔ اس لحاظ سے بھی گروپ بندی ہوئی۔فرقہ بندی کے جواسباب میں پہلے بیان کرچکا ہوں خلافت کی کمزوری اورخاتمے سے وہ نمایاں ہوگئے۔برساتی مینڈکوں کی طرح نت نئے نظریات جنم لینے لگے۔بعض نے ان کا ازالہ مقدم سمجھا اوروہ ان کے ابطا ل میں لگ کرایک جماعت بن گئے۔بعض نے سیاسی زیردستی کومسائل کی جڑ سمجھا اوروہ سیاسی بالادستی حاصل کرنے کے لیے متوجہ ہوئے۔یہ بھی تین طرح کے تھے۔ ایک، فاتح قوم کی عادات وتہذیب اپنانے والے جن کا اوپر ذکر ہوچکاہے۔ دوم، سیاسی اورقانونی جدجہد کرنے والے۔ سوم، جہاد وقتال کو ذریعہ بنانے والے۔ہرایک مستقل گروہ بن کر سامنے آیا۔
ہرگروہ نے اپنی پوری طاقت اس کام میں لگادی جو وہ کررہاتھا۔کہیں کہیں انہوں نے تھوڑابہت ایک دوسرے کا ساتھ بھی دیا یا اپنے شعبے کے ساتھ دوسرے شعبے کا کام بھی کیا مگر وہ وقتی اورثانوی تھا۔چوں کہ تمام شعبے ہی دین کے تھے اس لیے ہرشعبے سے متعلق تاکیدات وفضائل بھی قرآن وسنت میں موجود تھے۔اسلاف میں ان کے مطابق عمل کرنے والے بزرگوں کی زندگیاں بھی سامنے تھیں اورلوگوں کو اس کی ترغیب دینے کے لیے ان کی اشاعت بھی ضروری تھی۔اس لیے نتیجہ یہ نکلاکہ ہر ایک اپنے شعبے ہی کو مداردین جاننے لگا۔مگریہ رفتہ رفتہ ہوا۔ابتدامیں چوں کہ مخصوص جماعتی سانچہ مضبوط نہیں تھااسلئے دوسرے شعبوں کی تحقیرومذمت بھی نہیں تھی۔آہستہ آہستہ کام آگے بڑھا۔ ایک ہی رخ پر مسلسل کوشش کرنے سے دماغ پر دین کا ایک خاص سانچہ مسلط ہوگیاجس سے اپنے شعبے کے تفوق اوردوسرے شعبے کی حقارت نے جنم لیا۔اسی طرح جب انہوں نے اپنے کام کے فوائدکو دیکھا تو ان کی نظر انہی پرگڑگئی اوران جزوی فوائد ہی کو وہ کل دین کا فائدہ سمجھنے لگ گئے۔اوراس کے بالمقابل جو نقصان تھا وہ انہیں نظر نہ آیا یا قابل التفات نہ ٹہرا۔ پھرچوں کہ ہرایک کی کوشش یہ تھی کہ اسے زیادہ سے زیادہ کام کرنے والے ملیں مگر ہر شخص کی ذہنی اپچ ایک جیسی نہیں بل کہ جداجداہوتی ہے، اس لیے مثلاً دس جماعتیں اگر کام کررہی ہیں ایک یا دوتین افراد اپنی اپچ کے اعتبار سے ایک کی طرف آئیں گے اور 7،8،یا 9افراد دوسری جماعتوں کی طرف جائیں گے۔یہ ایک نقصان تھا اوراس ممکنہ نقصان سے بچنے کے لیے بھی ضروری تھاکہ دوسرے شعبے کی حقارت اوراپنے تفوق کا مسئلہ اٹھایاجائے۔
دین کے مخصوص سانچے نے جماعتوں کی دوسری نسل پر زیادہ اورتیسری نسل پر بہت زیادہ غلبہ پالیا۔ایک انتہاپر جانے کا جو عمل پہلی نسل سے شروع ہوا تھا وہ تیسری پر جاکرمکمل ہوگیااورجماعتیں بالکل ایک دوسرے سے دور ہو گئیں۔ مثلاً دیکھیے جمعیت علماء ہند کی پہلی نسل حضرت شیخ الہند ،حکیم اجمل اورڈاکٹرانصاری اوردوسری نسل حضرت مدنی، حضرت مفتی کفایت اللہ، حضرت شبیراحمد عثمانی اورمولاناظفراحمد صاحب وغیر ہ اورتیسری نسل مولانا مفتی محمود ،مولانا غلام غوث ہزاروی اورمولاناعبدالحق اورمولانااحتشام الحق تھانوی وغیرہ۔تبلیغی جماعت کی پہلے نسل حضرت مولانا الیاس کاندھلوی کا اپنا زمانہ دوسری نسل حضرت جی کا دور اوراس کے بعدسے تیسری نسل مولاناانعام الحسن، مولانا محمد عمر پالن پوری اور موجودہ تبلیغی علماء۔ سپاہ صحابہ کی پہلی نسل مولانا حق نواز جھنگوی، مولاناایثارالقاسمی، دوسری نسل مولانا ضیاء الرحمن فاروقی، مولانااعظم طارق اورتیسری نسل اب موجودہ قیادت۔اگر آ پ غوروفکر سے کام لیں تو جماعتوں کی مخصوص نفسیات اورسانچے پر کام ایک مستقل موضوع ہوسکتا ہے۔ 
افتراق وتفریق کے یہ اسباب تھے جو میرے ناقص مطالعے میں آئے اورمیں نے انہیں صفحہ قرطاس پر منتقل کر دیا۔ یادرہے کہ تفرقہ ہمیشہ عداوت کے ساتھ ہوتاہے اور اختلاف دیانت کے ساتھ معرض وجود میں آتاہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں اختلاف رونما ہوتارہتا تھامگر تفرقہ اورتفریق نہیں پیداہوتی تھی۔ خلاف ہوتاتھا، مخالفت نہیں ہوتی تھی۔ افتراق وتفریق کے کئی دیگرعلمی اسباب بھی ہوتے ہیں جن سے میں نے تعرض نہیں کیا۔مثلاً اختلاف تاویل وتفسیر یا ضعیف روایات، شاذو مرجوح اقوال کو مداربنانا۔ جزئی کو کلی اوراصول فکر بنالینا ،منشائے کلام کونہ سمجھنااور ناسخ ومنسو خ کی معرفت نہ رکھنا وغیرہ۔
افتراق وتفریق کے نتائج:افتراق وتفریق دراصل اپنے بھیانک نتائج کی وجہ سے ہی زیادہ خطرناک ہیں۔ غورکرنے سے ان کے تین بڑے خطر ناک نتائج سامنے آتے ہیں :

۱۔  دوسروں کی تحقیر و مذمت

افتراق وتفریق سے صرف دوسری جماعتوں اورگروہوں کی حقارت اورمذمت ہی پیدا نہیں ہوتی بلکہ کبھی بات اس سے آگے بڑھ کر دین کے دوسرے شعبوں تک پہنچ جاتی ہے اورجو شخص جس شعبے میں کام کر رہا ہے، وہ اپنے جماعتی تفوق کی نفسیات میں باقی شعبوں کو حقیر سمجھنے لگتاہے اورظاہر ہے کہ یہ کتنی خطرناک سوچ ہے۔ دوسری جماعت یا گروہ کی حقارت ومذمت کرنا بدخلقی کے زمرہ میں آتاہے۔ فرقہ بندی میں تو چلو کسی درجے میں اس کی گنجائش ہو سکتی ہے کہ جب ایک فرقہ کسی کے نزدیک دین کا مخالف ہے تو اسے فوقیت کیسے دی جائے اوراس کی تعریف کیسے کی جائے مگر تفریق میں تو اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ فرقہ بندی ،فرقہ واریت اورتفریق کے تمام اسباب کو اگر سمیٹاجائے تو انہیں دو لفظوں میں بیان کیا جاسکتاہے: اخلاقی کمزوری اور سازشیں۔ تہذیب وشائستگی سے عاری افراد فرقہ واریت پھیلانے اور تفریق پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ گوکہ اس اخلاقی نقص کا شکار عوام اور علماء دونوں ہی ہوتے ہیں مگر عوام کے ذہنوں میں یہ ناشائستگی اور بدتہذیبی ان لوگوں کی طرف سے اترتی ہے ،جو پیشوائی کا شرف رکھتے اور محراب ومنبر کی زینت ہوتے ہیں۔ ہرفرقے اورگروہ میں ایسے علما وزعما موجود ہوتے ہیں جو احقاقِ حق کے نام پر مسلمہ تہذیب وشائستگی کا جنازہ نکال دیتے ہیں، فرقہ واریت کی آگ بھڑکاتے ہیں اورقوم کو تفریق در تفریق کے پاٹوں میں پھنسا دیتے ہیں۔
افسوس کہ جن حضرات کو علم کی شرافت اور بزرگی حاصل ہے وہ اپنے عمل سے اس شرافت کو بٹہ لگاتے ہیں۔ ٹھیک ہے کوئی فرقہ کسی کی نظر میں تارک قرآن وسنت ہوتوہومگر خود کو تو وہ عامل بالکتاب والسنۃ اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا عاشق صادق ہی سمجھتا ہے اور تعجب ہے کہ خود ہی اس بھرم کو توڑ دیتاہے۔ قرآن وسنت کا علم رکھنے والے انہی کے نام پر کیسے ان کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ قرآن کہتاہے:
لایجرمنکم شنآن قوم علی ان لاتعدلوا اعدلوا
’’کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس پر آمادہ نہ کردے کہ تم عدل نہ کرو(خبردار) عدل سے کام لینا۔‘‘
اور فرمایا:
لاتنابزوا بالالقاب بئس لاسم الفسوق بعد الایمان۔
’’ایک دوسرے کو برے نا موں سے نہ پکارو،ایمان کے بعد فسق کا نام ہی براہے۔‘‘
یہاں تک ارشاد ہوتاہے:
لاتسبواالذین یدعون من دون اللہ فیسبو اللہ عدواً بغیر علم
’’(کفار ومشرک) اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں۔انہیں گالی نہ دو(کیونکہ) پھر دشمنی کرتے ہوئے لاعلمی سے وہ (حقیقی معبود)اللہ کو گالی دیں گے۔‘‘
اورفرمایا:
ادع الی سبیل ربک بالحکم والموغط الحسنہ وجادلم بالتی ھی احسن 
’’اپنے پروردگار کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلااور(اگر ان سے بحث ومناظرہ کی نوبت آجائے تو) اچھے طریقے سے ان سے بحث کر۔‘‘
اور کہتا ہے :
لاتستوی الحسنہ ولا السیءۃ ادفع بالتی ھی احسن
’’نیکی اوربرائی برابر نہیں برائی کو اچھے طریقے سے دورکرو۔‘‘
لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ
’’یقیناًتمہارے لیے رسول اللہ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔‘‘
رسول خدا نے پتھروں کے جواب میں کیا طرزِ اختیار کیا۔آپ کو برے ناموں سے پکارا گیاآپ نے جواب میں کیسا ردِ عمل دیا؟تعجب کی بات ہے کچھ حضرات دوسروں کے بزرگوں کو یہ کہہ کر برابھلا کہتے ہیں کہ ہمارے بزرگوں کو پہلے انہوں نے برا کہا ہم ردِ عمل میں ایسا کررہے ہیں۔ گویا مخالف اگر بھونکا ہے تو جواب میں ہم بھی بھونکیں گے۔ پھر دونوں میں فرق کیارہا ؟ادب مانع نہ ہوتا تو میں کھل کر اس پر کلام کرتا۔ فرقہ واریت کا نتیجہ کیاہوتاہے؟مولانا طارق جمیل صاحب بیان فرمارہے تھے کہ میں ایک سلسلے میں کسی کے گھر گیا۔ وہاں دیگر لوگ بھی موجود تھے۔ ایک بوڑھے بزرگ سے مصافحہ کرنا چاہا تو اس نے ہاتھ پیچھے کرلیے کہ تم وہابی ہو۔ فرقہ واریت کا اثر یہ ہے کہ تبلیغی جماعت بریلویوں کی مسجد میں چلی جائے تو وہ انہیں نکالتے ہی نہیں، مسجد بھی دھوتے ہیں۔
فرقہ واریت اورتفریق کے نتیجے میں مطلع ابرآلود اور فضا مکدرہوجاتی ہے۔ فرقوں اورجماعتوں میں باہم سر پھٹول رہتی ہے۔ایک دوسرے کے خلاف دھواں دھارتقریریں ہوتی ہیں۔ بیانات داغے جاتے ہیں ،رسالے لکھے جاتے ہیں، کتابیں تالیف ہوتی ہیں۔ اس کو اسلام کی بہت بڑی خدمت تصور کیاجاتاہے۔ یہاں تک نوبت پہنچتی ہے کہ اگر کوئی مقرر مخالف فرقے کے لیے نرمی سے کام لے یا تہذیب کے دائرے میں رہ کر تقریر کرے تو کہاجاتاہے کہ اس نے اچھی تقریر نہیں کی، دوبارہ اسے بلانے سے توبہ کرلی جاتی ہے۔ قدروقیمت اسی خطیب کی ہوتی ہے جو مخالف کو خوب للکارے، اس کا کچا چٹھا کھولے اور بہت سی ناگفتنی کام میں لائے۔ معلوم نہیں یہ کون سا اسلام ہے جس کی بنیاد مسلمانوں کو مخالف سمجھنے اوران کی تحقیر ومذمت کرنے پر ہے۔ فرقہ پرست لوگ دلوں کو جوڑنے کے بجائے توڑنے کااور کافروں کو مسلمان کرنے کی بجائے مسلمانوں کو کافر بنانے کاکام کرتے ہیں۔ میں نے چند ایسے حالات میں اپنے بعض شدت پسند حضرات سے کہا کہ خیر سے آپ نے احقاقِ حق کر لیا مخالف کو مع شئی زائد جواب دے دیا۔ وہ وہاں، آپ یہاں خوش مگرآپ کی اس روش سے ضد وعناد اور نفرت توپید اہوتی ہے اصلاح نہیں ہوتی۔ اگر وہ غلط ہیں تو ان کی اصلاح آپ کی ذمہ داری ہے اس کیلئے آپ نے کیا سوچا؟مجھے کوئی خوش کن جواب نہیں ملا۔
اس شدت پسندی کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ لوگ ان سے کٹنے لگتے ہیں۔ وہی چند لوگ ان کے ساتھ رہ جاتے ہیں جو پوری طرح ان کے رنگ میں رنگے ہوئے ہوں۔ ان کا مقصد بھی یہ نہیں ہوتا کہ دوسروں کی اصلاح ہو۔ بس اتنا کافی ہوتا ہے کہ ’’اپنوں‘‘میں سے کوئی کٹ کر ادھر نہ چلاجائے ،اس لیے خوب خوب دوسرے کی مذمت کرتے ہیں اوراتنی زیادہ گویا کہ اس مخالف سے بڑادشمن اسلام کوئی ہے ہی نہیں ۔ملک کی عمومی دینی فضا دیکھیں بے دینی کی لہر بڑھتی جارہی ہے۔ گناہوں کا سیلاب امڈا چلا آرہاہے۔ کل تک جو برائیاں بڑے شہروں کاخاصہ سمجھی جاتی تھیں۔ آج چھوٹے چھوٹے دیہات تک پہنچ چکی ہیں۔ ہر آنے والا دن اس میں اضافہ کررہاہے۔ ایک آدمی سنورتا ہے تو دس بگڑتے ہیں اور یہ اس ملک میں ہورہاہے جہاں مدارس کاجال بچھا ہواہے۔ علماء کی کثرت ہے۔ لاکھوں طلباء دینی تعلیم حاصل کرتے رہے ہیں۔ ہر محلے میں مسجد موجود ہے۔ اس سب کے باوجود ایساہورہاہے آخر کیوں؟اگر گذشتہ معروضات آپ کے ذہن میں ہیں تو جواب کچھ مشکل نہیں۔ میں سمجھتاہوں گنتی کے چند اہل حق علماء کی مساعی نہ ہوتیں تو یہ دینی فضا بھی نظر نہ آتی۔ افتراق وتفریق کے زہرسے مسموم ایسے زعماء کے جلسوں کاآپ جائز لیں تو معلوم ہوگا کہ 98 فیصد وہی لوگ ہیں جو مسلکاً ،ذہناً اور مزاجاً ان سے ہم آہنگی رکھتے ہیں۔2فیصد وہ ہیں جو ہم مسلک ہیں ہم آہنگ نہیں یا غیر جانبدار ہیں۔ مخالف تو شاید ہزار میں سے ایک ہو۔98فیصد میں سے بھی 85,80فیصد وہ جومدارس سے تعلق رکھتے ہیں، یعنی طلباء ومدرسین۔ اس پر بھی طرہّ یہ کہ ہم سے بڑا خدمت گارِ اسلام شاید کوئی نہیں۔
فرقہ واریت اورتفریق ہر لحاظ سے نقصان دہ ہے۔ فرقہ پرستی کرنے والیاورتفریق کی خلیج پیداکرنے والے دنیا آخرت میں مستحق سزا ہیں۔ آخرت کا جو نقصان ہے وہ تو ہے ہی دنیا کا نقصان یہ کہ کفر کو کھل کھیلنے کاموقع ملتاہے۔ ان کی جو صلاحیتیں کفر کو مٹانے اوراسلام کی اشاعت وحفاظت میں صرف ہونی چاہئیں، وہ آپس میں ایک دوسرے کے خلاف لگ جاتی ہیں۔باہمی چپقلش سے ان کی قوت کمزور ہوتی ہے اور یہ کمزوری بالواسطہ یا بلاواسطہ کفر کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ اصل کتاب میں یہ واضح کیاجاچکاتھا کہ مسلمانوں میں دین سے تعلق رکھنے والا طبقہ ہی عالمی کفر اور مسلمان نما منافقوں کااصل حریف ہے۔ یہ کفار ومنافقین ان کااتفاق کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے۔
یہاں یہ بات یادرکھنے کی ہے کہ فرقہ بندی ہو یا فرقہ واریت وتفریق، اس کا الزام کسی صورت اس گروہ یا شخص کو نہیں دیاجاسکتا جو حق پر ہونے کے ساتھ ساتھ اعتدال سے باہر قدم نہیں رکھتااور جن اسباب افتراق وفرقہ واریت کا پہلے ذکر کیاجاچکاہے ان میں مبتلا نہیں ہوتا۔ کیونکہ حق کے ساتھ وابستگی اصل ہے اوراصل پر قائم رہنے والا محمود ہی ہے، مجرم وہ ہے جو حق سے گریزاں ہے۔ گرچہ اپنے زعم میں وہ یہ سمجھتا ہوکہ میں حق پرہوں۔مطلب یہ ہوا کہ حق سے کٹنے والا فرقہ واریت میں مبتلا نہ ہوتب بھی ترک حق کی وجہ سے بلحاظ اصل مذموم اور حق پر ڈٹنے والے میں اگر فرقہ واریت باتفریق میں سے کوئی سبب پایاجائے تب بھی بلحاظ اصل وہ محمود ہے اس کاجرم اگر ہے تو فرعی ہے۔

۲۔ عصبیت یاتعصب

تفریق کا دوسرا بڑانقصان جاہلی بدبودارعصبیت کا پیداہوجاناہے۔جیساکہ میں نے کہا کہ ابتدامیں تو ایسی بات نہیں ہوتی مگر جیسے جیسے جماعتی سانچہ مضبوط ہوتاجاتاہے ویسے ویسے اپنی برتری اوردوسرے کی کمتری کے جراثیم بھی پیداہونا شروع ہوجاتے ہیں اوربرتری کمتری کے اسی احسا س سے عصبیت جنم لیتی ہے۔تفریق کا مارا ہوا ذہن اپنے گروہ کی شان میں قصیدے پڑھتا اوردوسروں کی ہجو کرتاہے۔خود کو آگے بڑھاتا اوردوسروں کو گراتا ہے۔ اپنے گروہ کی خامیوں غلطیوں کو چھپاتااوران کا دفاع کرتاہے جب کہ دوسروں پرکیچڑ اچھالتاہے۔اپنی غلطیوں کی پچ کی جاتی ہے اوردوسروں کی خامیوں کواچھالاجاتاہے۔اسی کی مانی جاتی ہے جو اپنے شعبے ،گروہ اورجماعت سے تعلق رکھتاہے دوسرے کی بات اگر حق ودرست بھی ہو تو اسے تسلیم نہیں کیا جاتا۔اگر دوجماعتوں میں کسی موقع پرتعاون ہوجائیتو ان میں سے ہرایک خود کونمایاں کرنے کی کوشش کرتی ہے۔جھنڈوں کے ذریعے ،بینروں کے ذریعے، نعروں کے ذریعے ،وقت کی تقدیم وتاخیر کے ذریعے۔کسی دوسری جماعت کے صحیح اوردرست کام میں شرکت سے محض اس لیے گریز کیا جاتاہے کہ جماعتی طور پر اس میں شرکت کا فیصلہ نہیں ہوا۔حق کو یاکم از کم افضلیت کو اپنی تحریک اورجماعت میں منحصر سمجھ لیا جاتاہے۔جس کا لازمی نتیجہ یہی ہوتاہے کہ دوسروں کی حقارت دل میں پیداہوجاتی ہے یا کم سے کم اس کام کی واقعی وقعت دل میں نہیں رہتی۔کبھی اس عصبیت میں اتنی شدت پیداہوجاتی ہے کہ محض اپنے جماعتی تعصب میں دوسروں کے صحیح کام کی مخالفت کی جاتی ہے۔
اس میں کسی گروہ ،مسلک اورجماعت کا استثنا ء نہیں۔خود دیوبندی حلقوں میں بیسیوں جماعتیں ہیں جو کہ آپس میں ایک دوسرے سے لگانہیں رکھتیں۔ جے یوآئی ف اورجے یوآئی س کی دھڑے بندی ،خدام اہل سنت کا ہر کام میں الگ تشخص کوئی پردے کی بات نہیں ،مرکزی جے یوآئی تھانوی گروپ گو کہ صرف رسالوں کتابوں میں رہ گیا مگر تھانوی حضرات کی طرف سے ابھی تک اس مخالفت کا سلسلہ جاری ہے۔تحفظ ختم نبوت کا سٹیج جو باہمی اتفاق کا ایک فورم تھا، اول تو وہ بھی تین چار حصوں میں تقسیم ہوگئی، پھر اس میں بھی جزوی اختلافات نے راہ پالی۔ جے یوآئی اورسپاہ صحابہ کی عصبیت ڈھکی چھپی نہیں ،تبلیغیوں اورمجاہدوں کی باہمی مخالفت کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ مجاہدین کی تنظیمیں بے شمار اورہرایک دوسرے کی مخالف۔بعض بزرگوں کی کوششوں سے ان کو متحد کیا گیا حرکۃ الانصار کے نام سے مگر چند ہی سال بعد وہ کارتوس سے نکلے ہوئے چھروں کی طرح پھٹے اوروہ گند اڑایاکہ الامان والحفیظ۔ اب تو خیرسارے ہی کیموفلاج ہوچکے ہیں ۔اشاعۃ التوحید والسنۃ کی اپنی ہی ایک الگ مسجد ہے، نہ ہم کسی کے نہ ہماراکوئی۔ جے یوآئی اوریہ ہمہ وقت ایک دوسرے سے روٹھے ہی رہتے ہیں۔پہلے اس کے قائدین تحفظ ختم نبوت کے فورم پر نظر آتے تھے۔ اب نہیں معلوم نہیں یہ ختم نبوت والوں کی تنگ نظری ہے یا اشاعت والوں کی سختی کہ دونوں کے درمیان فاصلے پیداہوگئے۔حیاتیوں مماتیوں کی چپقلش ،مخاصمت ،مخالفت اورعصبیت بھی ظاہر وباہر ہے۔ اب تو یہ حال ہوگیا کہ علماء کو حیاتی مماتی میں تولنا شروع کر دیا گیا۔ وہ کہتے ہیں یہ دیوبندی نہیں، یہ کہتے ہیں وہ دیوبندی نہیں۔ بقیہ جماعتوں کاحال بھی یہی ہے۔دین سے متعلق لوگوں اوراہل حق ہونے کا دعواکرنے والوں کا یہ حال ہے تو قیاس کیا جاسکتاہے کہ ان لوگوں اورجماعتوں کا حال کیا ہوگاجو دین سے بے بہرہ ہیں۔جولوگ اپنے بھائیوں کے ساتھ بھی مل بیٹھنے کوتیار نہیں ان کی بات سننے سمجھنے کے لیے آمادہ نہیں بلکہ ان کے صحیح کو بھی غلط بناکر دکھانے والے ہیں وہ کوئی بڑاکام کرسکیں گے ؟کیا انقلاب کا ہراول بن سکیں گے؟ کیا امت کی ناؤ کنارے پر لگاسکیں گے؟
ہرعلاقے یامسجد کے مولوی صاحب اس عصبیت کو بڑھاتے اوراس کی بنیاد پر دوسروں کی مخالفت کا بازارگرم کیے رکھتے ہیں۔سیاسی میدان میں مولوی صاحب امت کے اجتماعی یا قومی اورعالمی مفادکو سامنے رکھنے کے بجائے مقامی جماعتی مفادکوسامنے رکھ کر فیصلے کرتے ہیں اوراس بنیاد پر علاقے کے بے دین جاگیر داراورملک کی سپورٹ کریں گے مگر جے یوآئی کا کوئی امید وار ہوا تو اسے ووٹ نہیں دیں گے۔کسی علاقے میں ف گروپ کا امیدوارکھڑاہوتوس گروپ بھی اپناامید وار کھڑا کرے گا اگر چہ اس کی شکست یقینی ہو۔اسی طرح اس کے برعکس بھی ہوجاتا ہے۔
جماعتوں کے لیڈر سٹیج پر آکر کبھی بصد ادب واحترام دوسروں کی شکایت کرتے ہیں ،کبھی رمز واشارے سے کام لیتے ہیں ان کے سٹیج پرکیے جانے والے اشارے کنائے اورتعریضات وشکایات کارکنوں تک پہنچ کرکھلم کھلادشمنی اورمخالفت کا روپ دھارلیتے ہیں۔ عصبیت دوچند ہوجاتی ہے،عمل کا میدان محدودہوتاہے اورقوت اپنوں کے خلاف صرف ہوناشروع ہوجاتی ہے۔یہاں مولانافضل الرحمن صاحب کو داد نہ دینا زیادتی ہوگی۔میں نے ان کی تقاریرسنیں ،اخباری بیانات پڑھے انٹرویوسنے۔ کبھی کہیں انہوں نے حلقہ دیوبندکے علماء اورجماعتوں کے بارے میں علانیہ کوئی منفی بات نہیں کی، یہاں تک کہ اشارے کنایے میں بھی نہیں۔ان کی تقریراس قسم کی تمام ہزلیات سے پاک ہوتی ہے۔دیگر اورعلماء بھی ہوں گے، اس مزاج اورطبیعت کے میں اس سے انکار نہیں کرتا، مگر میری معلومات میں ابھی تک ان کے علاوہ کوئی نہیں آیا۔

۳۔ قوت کی تقسیم

یہ تفریق کا تیسرابڑااوراہم نتیجہ ہے جو پہلے دونتائج پر متفرع ہے۔یہی پہلوسب سے زیادہ خطرناک ہے۔کسی کام کے مختلف شعبے اگر کسی نظم کے تحت تقسیم کردیے جائیں تووہ ایک دوسرے کے ممد ومعاون ثابت ہوتے اورباہم دگر شعبوں کو تقویت پہنچاتے ہیں ۔ایک نظم میں پروئے ہوئے ہونے کی وجہ سے قوت بظاہر تقسیم ہونے کے باوجود مجتمع ہوتی ہے۔مگر تفریق میں ایسا نہیں ہوتا۔وہاں کسی مافوق نظم کے بغیر ہر ایک اپنا شعبہ سنبھالتا ہے اور کوشش دوسرے کو مضبوط کرنے کے بجائے یہ ہوتی ہے کہ باقی شعبے ختم ہوجائیں اوریہی جاری رہے۔ یا اس کو سب سے زیادہ اہمیت دی جائے۔یا یہ سوچ پیداہوجاتی ہے کہ دیگر شعبوں کا کام چوں کہ خاص اہمیت کا حامل نہیں اوران شعبوں میں کام کرنے والے بھی کارآمد نہیں، اس لیے ہم وہ بھی اوریہ بھی کام کریں گے۔ایسے لوگ بجائے اپنے شعبے پرتوجہ دینے کے دوسرے شعبوں کو سدھارنے کا کام سرانجام دینے لگتے ہیں۔ یا یہ ہوتاہے کہ ایک ہی شعبے میں کئی کئی ٹیمیں الگ الگ نظم کے ساتھ گھس آتی ہیں۔ ان کے دو اصول ہوتے ہیں ایک یہ کہ دیگر شعبوں کا کام کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ جو ہم کررہے ہیں، وہ سب سے اعلیٰ ہے۔ دوسرایہ کہ اس شعبے میں کام کرنے والے دیگر لوگ صحیح کام نہیں کررہے اورہمارا کام سب سے بہتر ہے۔ اس سے ٹکراؤپیداہوتاہے۔اپنا کام کرنے کے بجائے ایک شعبے میں کام کرنے والے دوسرے افراد ہدف بن جاتے ہیں۔ رفیق وہ ہوتے ہیں جو انہی کے نظم کے تحت کام کریں اوردشمن وہ سمجھے جاتے ہیں جو اس نظم سے ہٹ کرکام کریں۔
یہ بات ایک مثال سے سمجھیے: فوج ایک بڑاادارہ ہے جس کا اصل کام ملکی سرحدوں کی حفاظت ہے۔اس ادارہ میں مزید کئی شعبے اورپھر ان کی بھی ذیلی تقسیم ہے جو اس ادارے کو صحیح طورپرچلانے کے لیے بہت ضروری ہے۔لوگوں کو فوج کی طرف راغب کرنا۔ان کو بھرتی کرنا۔ان کی تربیت کا بندبست کرنا۔ان کے کھانے پینے رہنے سہنے علاج معالجے اورکپڑے لتے کا بندوبست کرنا۔ہرایک کا اورہرچیز کا مکمل ریکارڈ رکھنا۔اسلحہ خریدنا۔اس کو چالوحالت میں رکھنا اس کے لحاظ سے فوج کو تقسیم کرنا۔ہرایک ان میں فوج کا شعبہ اوراس کے لیے لازمی ہے۔ہرایک کی اپنی حدود اورذمہ داریاں ہیں ۔یہ سب مل کرفوج کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ غنیم کا مقابلہ کرسکے۔اس سارے عمل میں جس طرح ایک ڈاکٹرکا حصہ ہے اسی طرح ایک دھوبی کا بھی۔جس طرح ایک انجینئر کی ضرورت ہے اسی طرح ایک درزی اورنائی کی بھی۔جس طرح ایک کلرک اس میں شریک ہے ویسے ہی ایک خریداری کرنے والابھی۔جس طرح رسد پہنچانے والے ہیں اسی طرح بالفعل لڑنے والے بھی۔ایک شعبے کے لوگ اگر دوسرے میں دخل اندازی شروع کردیں تو تنظیم پارہ پارہ ہوجائے۔ایک حصہ یہ سمجھنا شروع کردے کہ ہم ہی ہم ہیں اورکسی کا کوئی کردار نہیں تو ادارہ زمیں بوس ہوجائے۔
تفریق کے نتیجے میں یہی صورت حال پیداہوتی ہے۔دین کے مختلف شعبے ہیں ہرشخص جو کام کررہاہے وہ اپنی حدود اورذمہ داری کا احسا س کرے۔دوسرے شعبوں کی تنقیص اوران میں دخل اندازی نہ کرے۔بلکہ اس بات کو دوسرے کام کرنے والے مسلمان بھائیوں کا احسان سمجھے کہ یہ کام بھی بحیثیت مسلم میرے کرنے کا تھا مگرایک آدمی ہرطرف پورانہیں ہوسکتا۔ شکر ہے کہ یہ طرف خالی نہ رہی اورانہوں نے اسے سنبھال لیاہے۔اگرایسا ہوگیاتو ہرشعبہ دوسرے کا معاون ومددگاربن کراسلام کی عمارت کوبلند اور مضبوط کردے گا۔

’’میری علمی و مطالعاتی زندگی‘‘ (ڈاکٹر طاہر مسعود سے انٹرویو)

عرفان احمد

میں 1957ء میں سابق مشرقی پاکستان کے شہرراج شاہی میں پیداہوا۔ میرے والد صاحب کتابوں کے تاجر تھے۔ راج شاہی میں اُن کی کتابوں کی تقریباً تین دکانیں تھیں۔ میں نے جب سکول جانا شروع کیاتو میرے راستے میں ہی ہماری کتابوں کی دکان تھی۔ اُس کانام اُردو لابئریری تھا تو میں سکول کی واپسی پراُس دکان میں ٹھہرتا تھا۔ اُس کے پچھلے حصے میں ایک میز پر کتابیں رکھی ہوتی تھیں۔ اُس پربیٹھ جاتا تھا اورکتابیں نکال کے اُن کامطالعہ کرتارہتا تھا۔ تواُس زمانے میں وہاں رسائل بھی آتے تھے،اخبارات بھی آتے تھے۔ اردو ڈائجسٹ کی بڑی شہرت تھی۔ اُس کامطالعہ کرتا تھا۔ پھروہ ادبی رسائل جن میں نقوش وغیرہ اس طرح کے رسائل وغیرہ آتے تھے، اُن کابھی مطالعہ کیاکرتا تھا۔اردو کاجوداستانی ادب ہے جیسے طلسم ہوشرباوغیرہ تواُن کامطالعہ میں نے اُسی لائبریری میں کیا تھا۔ گھنٹوں بیٹھا رہتا تھا وہاں پہ، تو اُس سے یہ ہواکہ میری اردو بہت اچھی ہوگئی۔ اسکول میں بعض اوقات یہ ہوتا تھا کہ جب میں نویں جماعت میں تھا تودسویں جماعت میں طالب علموں کوشرمندہ کرنے کے لیے اردو کے استاد نے کسی لفظ کے معنی پوچھنے ہوتے تھے تووہ مجھے بلاتے تھے۔ مجھے بُلاکے پوچھتے تھے کہ بتاؤ ان کو۔ تو اُسی اسکول سے میں نے میٹرک کیا۔ پھر جب وہاں ہنگامے شروع ہوئے توجولائی 1971ء میں ہی ہمارا گھر نذرآتش کردیا گیا۔ بڑی مشکل سے ہماری جان بچی۔ 1971ء میں ہم کراچی آگئے۔ یہاں جامعہ ملیہ کالج سے جو ڈاکٹر محمود حسین صاحب کاقائم کردہ تھا، انٹرمیڈیٹ کیا اورپھر اُس کے بعدمیں نے آنرزاور ایم اے کی تعلیم جامعہ کراچی سے حاصل کی ۔
ہمارے والدین مہاجرتھے۔ میرے دادا ڈاکخانہ میں ملازم تھے۔ ویسے مجھے گلہ ہی رہا کہ سکول کے زمانے میں مجھے کوئی ایسا استاد نہیں ملاجومجھے پڑھنے لکھنے کی طرف لائے۔ یہ جوکچھ میں نے پڑھا، اپنے شوق سے، کتابوں کے ملنے کی وجہ سے۔ چونکہ گھرمیں کتابیں آتی تھیں، رسائل آتے تھے تواُن کامطالعہ کیا کرتاتھا۔
کالج میں ہمارے ایک پروفیسر تھے وحید اﷲ نظمی صاحب جوسیاسیات کے استاد تھے اورایک پروفیسر عطاء اﷲ حسینی صاحب جواسلامک اسٹڈیز کے استاد تھے۔ ان اساتذہ سے میں کافی متاثر رہا۔ یہ وسیع المطالعہ لوگ تھے۔ ان کے پاس لائبریری بھی اچھی تھی۔ عطاء اﷲ حسینی کالج میں ہی رہائش پذیر تھے۔ میں اُن کے گھرجایاکرتا تھا۔ اُن کے گھرمیں ایک اچھی خاصی لائبریری تھی۔ کتابیں بڑی ترتیب اور سلیقے سے سجی ہوتی تھیں۔ میں اُن سے کتابیں لیتا تھا۔ باقاعدگی سے جایاکرتا تھا، کیونکہ کالج میں اُس زمانے میں ہنگامے بہت زیادہ ہوتے تھے تومیں اُس وقت لائبریری چلاجایاکرتا تھا اورلائبریری میں بیٹھ کر وہاں کتابیں پڑھا کرتا تھا۔
میرا رجحان زیادہ تر ادب کی طرف تھا اورمیری مطالعاتی زندگی کی ابتدا بھی ادب ہی سے ہوئی تھی۔ اُس میں خاص طور پرافسانے (Short stories)۔ ناولوں کا بھی بڑا مطالعہ کیا، مثال کے طور پر کرشن، منٹو، بیدی کے افسانے۔ پھربعد میں آگے چل کر قرۃ العین حیدر اور انتظار حسین کی کہانیوں نے مجھے بہت Inspireکیا۔ اسکول کے زمانے میں، میں نے لکھنا شروع کردیا۔ ایک واقعہ ہے جس کی یاد اب بھی مجھے شرمندہ کرتی ہے۔ لکھنے کاشوق مجھے اسکول کے زمانے سے ہی تھا، لیکن یہ نہیں سمجھ آتا تھا کہ کیا لکھو ں توایک بہت پرانا رسالہ مجھے اپنی لائبریری سے ملاتو اُس میں ایک کہانی مجھے بہت پسند آئی تووہ کہانی نکال کر میں نے ایک رسالہ نکلتا تھا ’’نقاد‘‘، اُسے بھیج دی۔ وہ کہانی اس رسالے نے بڑے اہتمام کے ساتھ شائع کی۔ نقادمیں پہلے احمد ندیم قاسمی کاافسانہ تھا، پھرمیری کہانی تھی۔ اب جب چھپ کر رسالہ آیا تومجھے اندیشہ پیداہوا کہ جس رسالے سے میں نے بھیجا ہے، اب اگرکسی کی نظر اس پرپڑگئی توکیا ہوگا اوراگر میری چوری پکڑی گئی تومیراحشر کیاہوگا؟ میں اسکول میں آٹھویں جماعت کاطالب علم تھا۔ اُس زمانے میں میری بڑی واہ واہ ہوگئی کہ اس کاافسانہ چھپا ہے تومیں نے اُس رسالے کوجس سے افسانہ نقل کیاتھا، اُس کوجلا دیا، لیکن اس سے میرے اندر ایک شرمندگی، ایک غلطی کااحساس پیداہوا کہ میں نے یہ غلط کیا ہے اورسوچا کہ مجھے خود لکھنا چاہیے تھا ۔
پھر میں نے ایک کہانی لکھی۔ اسی ادارے سے ایک اوررسالہ نکلتا تھا ’’آداب عرض‘‘ جس میں سچی کہانیاں چھپتی تھیں۔ اُس میں کہانی لکھ کر بھیجی۔ ہمارے پڑوس میں ہی ایک Love affair ہوا تھا۔ اُس میں کچھ واقعات وغیرہ ایسے تھے جومجھ تک پہنچے تومیں نے اُس کوایک افسانوی پیرایے کارنگ دے دیا اور ’’آداب عرض‘‘ میں ارسال کیا۔ اُس سے میرے اندر اعتماد پیداہوا کہ میں خود بھی لکھ سکتا ہوں۔ پھراُس کے بعد میں نے خود لکھنا شروع کیا۔ 
اُسی زمانے میں کچھ شاعری پڑھنی شروع کی۔ شاعری پڑھنے کے سلسلے میں واقعہ یہ ہوا کہ میرے چھوٹے چچا تھے جومیڈیکل کی تعلیم حاصل کررہے تھے۔ اُن کے پاس ایک چھوٹی سی الماری تھی، اُن میں کتابیں وغیرہ رکھی ہوئی تھیں۔ ایک دن میں اُن کی غیرموجودگی میں اُس الماری کوکھول کروہ کتابیں دیکھ رہا تھا تو اُس میں ایک شعری مجموعہ مجھے ملا ’’تلخیاں‘‘ ساحر لدھیانوی کا۔ اُسے جومیں نے پڑھا تومیرے توہوش اڑگئے۔ نظم غزل کے ہرشعر پر میں نہال ہوگیا۔ تواُس سے مجھے کچھ شعر کہنے کاشوق ہوا۔ پھرمیں نے کچھ شعرکہنے شروع کیے اوروہاں ایک شاعر تھے، اُن سے اصلاح بھی لی۔ میں نے مشاعروں میں غزلیں وغیرہ بھی پڑھنی شروع کیں۔ اُس زمانے میں ایک رسالہ نکلتا تھا ’’چاند‘‘ اُس میں شاعری کی پیروڈی چھپتی تھی تواُس طرح کی پیرڈوی میں نے بھی لکھ کربھیجی۔ اس طرح سے لکھنے لکھانے کاشوق پروان چڑھا۔
زمانہ طالب علمی میں مجھے قرۃ العین حیدر کے دوناولوں نے بہت متاثر کیا۔ اُن میں ایک ’’آخر شب کے ہم سفر‘‘اور دوسرا ’’آگ کادریا‘‘ ہیں۔ اسی طرح میں ’’اُداس نسلیں‘‘ سے بھی بہتُ متاثر ہوا اورایک عزیز احمدکاناول ’’کیسی بلندی کیسی پستی‘‘، کرشن چندر کاناول ’’شکست‘‘، اس طرح کے ناول تومیں نے بہت پڑھے، لیکن قرۃ العین حیدرسے میں بہت متاثرہوا۔ ’’اداس نسلیں‘‘ کے بارے میں کچھ نقادوں کاخیال ہے کہ عبداﷲ حسین نے کردارنقل کیے ہیں قرۃ العین حیدر کے ناولوں سے، جبکہ عبداﷲ حسین کاکہنا ہے کہ وہ قرۃالعین حیدر کو قابل ذکر ناول نگار نہیں سمجھتے۔ لکھنے والا کسی سے متاثر ہوسکتا ہے، مثلاً انتظار حسین نے یہ لکھا کہ میں کرشن چندر سے بہت متاثر تھا اور انہی کے انداز میں لکھنے کی کوشش کیاکرتا تھا توہر لکھنے والے اپنے عہد کے لکھنے والے سے متاثر توہوتا ہے۔ ’’اداس نسلیں‘‘ عبداﷲ حسین کاپہلا ناول تھا۔ اب اُن کے اوربھی بہت سے ناول آئے ہیں، اب وہ اُس کے اثرات سے نکل آئے ہیں۔ اردو کے اگردس اچھے ناول چنے جائیں تو پہلا ناول ’’آگ کادریا‘‘ ہے۔ بعض لوگوں نے امراؤجان ادا کو اچھا ناول قراردیاہے۔پہلے دس میں عزیز احمد کے ناول، منشی پریم چند، خدیجہ مستورکاناول ’’آنگن‘‘ بھی آئیں گے۔ فضل احمدکریم فضلی نے ایک ناول’’ خون جگر ہونے تک‘‘ لکھا تھا۔ انہوں نے دوناول لکھے۔ ایک ’’سحرہونے تک‘‘، ایک ناول مشرقی پاکستان کے پس منظر میں، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں جوتنقید لکھی گئی ہے، اُس میں اس کاذکر ذرا کم کم ملتا ہے۔ حیرت ہے کہ نقادوں نے اُن کونظرانداز کیا۔ 
اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ ہمارے ہاں لکھنے والوں نے تکنیک باہر سے لی ہے۔ مثلاً کرشن کے جوافسانے ہیں مثلاً ’’دوفرلانگ لمبی سٹرک’’ ہے، ’’زندگی کے موڑ پہ‘‘، ’’بالکونی‘‘ اس طرح کے جوافسانے ہیں، وہ بالکل نئی تکنیک میں لکھے گئے ہیں، اس لیے اُن افسانوں نے بہت چونکا یا اورپڑھنے والے اور ادبی حلقے بہت متاثر ہوئے۔ وجہ یہ ہے کہ کرشن کامطالعہ مغربی ادب کابہت اچھا تھا۔ مغربی فکشن کاانہوں نے بہت مطالعہ کیا تھا۔ یہ ناول ،افسانہ یہ ساری اصناف ہی دراصل مغرب سے آئی ہیں۔ شعور کی رو کاذکر کیاجاتا ہے۔ قرۃ العین حیدر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ورجینیا وولف کے زیر اثر شعور کی رو کی تکنیک میں کہانیاں لکھیں، لیکن قرۃ العین حیدر اس سے انکار کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ میں نے جب یہ لکھا، تب میں نے ورجینیا وولف کونہیں پڑھا تھا اوراپنے طور پرمیں نے یہ چیزیں لکھی تھیں۔ اس حد تک ٹھیک ہے کہ بعض تکنیکیں مغرب سے آئی ہیں، لیکن یہ کہ سارے کاساراسرقہ ہے،یہ غلط ہے۔ یہ طبع زاد افسانے ہیں، اُن کے موضوعات، اُن کے کردار یہ ساری کی ساری اپنی ہے۔ 
’’تلخیاں‘‘ کی نظمیں مجھے زبانی یادہوگئیں ۔اس کے بعدمیں نے غالب کوسکول کے زمانے ہی پڑھا، لیکن جدیدشاعروں میں جس نے مجھے متاثر کیا، اُن میں منیر نیازی ہیں۔ منیرنیازی کاشعری مجموعہ ’’جنگل میں دھنک‘‘ جو ہے، اُس میں مجھے اک ایسی جھلک نظرآئی کہ جس کے تناظر میں مجھے دنیا بڑی منفرد نظرآئی۔ میں نے ان کے دوسرے شعری مجموعے بھی پڑھے، لیکن ظاہر سی بات ہے، اس سے میں یہ تونہیں کہتا کہ وہ فیض سے بڑے شاعر ہیں، اس لیے کہ فیض کے نام میں زیادہ کشش اور زیادہ تاثیر ہے اوروہ منیرنیازی سے بڑے شاعر ہیں، لیکن وہ شعرا جوہمارے عہد میں تھے، زندہ تھے اورلکھ رہے تھے، اُن میں سے منیرنیازی میں زیادہ طاقت، اُن کی سوچ میں زیادہ انفرادیت نظرآئی۔ ناصرکاظمی کے کلام نے بھی متاثر کیا، احمدمشتاق کی بعض غزلیں بہت اچھی ہیں، لیکن زیادہ تردلچسپی مغربی فکشن سے، افسانے سے اور ناولوں سے رہی۔ ’’راجہ گدھ‘‘ پرمیں نے ایک مضمون بھی لکھا، اس ناول نے مجھے بہت متاثر کیا۔ جب میں نے اس کامطالعہ کیاتومیں کئی دنوں تک بہت ہی Depression کاشکار رہا۔ اُن کے کردار مجھے haunt کرتے رہے۔ میں نے ’’راجہ گدھ‘‘ اپنے تحریر کردہ مضمون میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ راجہ گدھ میں جو فلسفہ بیان کیا گیا ہے، وہ سارے کا سارا اشفاق احمدکافلسفہ ہے۔ مصنفہ تو اس کی بانو قدسیہ ہیں۔ جیسے رزق کاجوفلسفہ ہے، رزق حرام کا جوفلسفہ بیان کیا گیا ہے، اشفاق احمد نے بعض مذاکروں میں جن خیالات کااظہار کیا تھا، وہ سب کے سب وہی ہیں۔ گویا یہ ناول اشفاق احمد صاحب کے فیض تربیت کانتیجہ ہے۔
کالج لائف تک تومیں ادبی مطالعہ ہی کرتا رہا۔ اُس زمانے میں کتابوں سے دلچسپی بہت زیادہ تھی۔ اُس زمانے میں پیسے بھی نہیں ہواکرتے تھے، کتابیں خریدنے کا بڑامسئلہ رہتا تھا۔ یہاں ایک دکان ہواکرتی تھی ’’کتاب محل‘‘، اس دکان کے مالک قسطوں پرکتابیں دیاکرتے تھے۔ ان سے میں کتابیں خریدتا رہتا تھا کیونکہ مشرقی پاکستان سے کراچی آنے کے بعدمعاشی حالات بڑ ے خراب ہوگئے تھے۔ والد صاحب کاانتقال ہوگیا تھا اورجودوست احباب تھے، وہ بھی اسی طرح معاشی تنگی کاشکار تھے۔ کتابوں کے مطالعے میں ادب کے بعد فلسفے کی کچھ کتابوں سے دلچسپی رہی۔ فلسفہ مجھے ہمیشہ بہت مشکل لگا۔ فلسفیانہ مسائل پر میری گرفت کبھی بھی نہیں ہوسکی اورنفسیات پربھی کتابیں پڑھتا رہا۔ تاریخ پرکتابیں پڑھتا رہا۔ دراصل میرا منظم مطالعہ کبھی نہیں رہا۔ جو جو چیزیں ہاتھ لگتی گئیں، پڑھتا رہا۔
زمانہ طالب علمی میں جس دینی اسکالر نے متاثر کیا، وہ مولانامودودی صاحب تھے۔ اُن کی کتابیں میں نے پڑھیں۔ اُن میں جیسے ’’خلافت وملوکیت‘‘ ہے۔ بعد میں دوسری کتابیں پڑھ کر مجھے محسوس ہوا کہ ’’خلافت وملوکیت‘‘ میں احتیاط کادامن چھوڑ دیا گیاہے اور بہت سی چیزوں کوجس طرح رقم کیا گیا ہے، اگرنہ کرتے توزیادہ بہتر تھا۔ اُس کے علاوہ اُن کی دوسری کتابیں جیسے ’’سود‘‘ ہے، ’’معاشیات اسلام‘‘ ہے، ’’اسلام اورجدید معاشی نظریات‘‘ ہے اور ’’پردہ‘‘ ہے، وہ ساری کی ساری کتابیں میں نے پڑھیں۔ ان کتابوں نے میرے خیالات کو، میری فکرکو مذہب کی طرف موڑنے میں بڑا اہم کردار اداکیا اور پھر آگے چل کرمیں نے جب اُن کی تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ پڑھی تواُس سے میرے اندرایک انقلاب آیا اوریہ داڑھی جو آپ دیکھ رہے ہیں اورنمازکی پابندی، اس میں ’’تفہیم القرآن‘‘ کابہت اہم کردار ہے۔ اس کے پڑھنے سے پہلے دل میں یونہی ایک خیال سا آیاکہ کتابیں بہت پڑھتا رہتا ہوں، لیکن اگرقیامت کے دن اﷲ مجھ سے سوال کرے گا کہ ایک کتاب میں نے بھی تمہارے لیے اتاری تھی، تونے اُسے پڑھا کیوں نہیں تواس کا میرے پاس کیا جواب ہوگا؟ اس خیال کے بعد میں نے سوچا کہ مجھے ’’تفہیم القرآن‘‘ کامطالعہ کرنا چاہیے، قرآن کوسمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ توتفہیم کا ایک کمال تواُس کاترجمہ ہی ہے جسے انہوں نے قرآن حکیم کی ترجمانی کہا ہے۔ اُس ترجمے کوپڑھنے کے دوران مجھ پریہ کیفیت طاری ہوگئی تھی کہ میں اسے پڑھتا جاتا تھا اور روتا جاتا تھا۔ تفہیم القرآن کوکہوں گا کہ میری زندگی کارخ بدلنے میں اس نے بڑا اہم کردار اداکیا۔
’’تفہیم القران‘‘ سے میرے اندر ذوق پیداہوا کہ میں دوسری تفاسیر کوبھی پڑھوں اورپھر میں نے ’’تفسیر عثمانی‘‘، مفتی محمدشفیع صاحب کی تفسیر ’’معارف القرآن‘‘، مولانا امین احسن اصلاحی کی ’’تدبر قرآن‘‘ پڑھیں۔ اس طرح قرآن فہمی کاذوق مولانا مودودی صاحب کی تفہیم القرآن سے پیدا ہوا اورپھرمیرا مطالعہ دینی کتابوں کی طرف مڑگیا اور میں نے دینی کتابیں پڑھیں۔ شکیب ارسلان کی ’’اسباب زوال امت‘‘، امیر علی کی ’’روح اسلام‘‘ اور دوسری بہت سی دینی کتابیں پڑھیں۔ پھر مجھ میں تصوف کا ذوق پیدا ہوا تو میں نے تصوف پر بہت سی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ اس میں خاص طور پر مولانا اشرف علی تھانوی کے مواعظ اور دیگر کتابیں شامل ہیں۔ جدید ذہنوں کو متاثر کرنے میں مولانا مودودی کی تحریریں اور قلم بہت متاثرکن ثابت ہوتا ہے،لیکن دین کی اصل تفہیم میں اوردین کے لحاظ سے اعمال کی تربیت میں اور تزکیہ نفس کے عمل میں مولانا کی تحریریں اتنی موثر ثابت نہیں ہوتیں جتنی مولانا اشرف علی تھانوی اور مفتی محمدشفیع صاحب کی تحریریں ثابت ہوتی ہیں۔
سیرت کے حوالے سے شبلی نعمانی اورعلامہ سیدسلیمان ندوی کی جو کتاب ہے، میرے خیال میں شاید اس سے زیادہ اچھی سیرت عربی میں بھی نہ لکھی گئی ہو۔ سیرت پرایک کتاب جومجھے بہت اچھی لگی، مولانا وحیدالدین کی ایک کتاب ہے’’ پیغمبر انقلاب‘‘۔ سیرت پر چھوٹی سی کتاب ہے جس میں انہوں نے حضورؐ کی حیات طیبہ کوبہت اچھے طریقے سے قلم بند کیا ہے۔ ’’محسن انسانیت‘‘ کوبھی پڑھا ہے۔ 
ادب میں روسی افسانوی اور ناولوں نے مجھے بہت متاثر کیا۔ خاص طور پر ٹامسٹائی، دوستوفیسکی، گورکی، گوگول وغیرہ کی کتابیں زمانہ طالب علمی میں ہی پڑھ ڈالی تھیں۔ طنز ومزاح میں پطرس سے لے کر ابن انشا تک، یوسفی، کرنل محمد خان تک سب کی تحریر یں میری نظروں سے گزری ہیں، لیکن سچی بات یہ ہے کہ پطرس کے بعد اگرکسی نے مجھے متاثر کیاتو ابن انشانے کیا۔یوسفی صاحب کی لوگ بہت تعریف کرتے اوربہت متاثر ہوتے ہیں۔ اُن کے جملے بڑے quote کیے جاتے ہیں، لیکن یوسفی صاحب کاجومزاح ہے، وہ مجھے بڑی محنت کے بعد بنایاہوا مزاح لگتا ہے۔ جملہ تراشنے میں وہ بڑی محنت کرتے ہیں،سوچتے ہیں اورسوچ کرمزاحیہ جملہ وضع کرتے ہیں، لیکن ابن انشاء کے اندر بڑی برجستگی ہے اور ان کا مزاح بہت بے ساختہ مزاح ہے۔ ’’اردو کی آخری کتاب‘‘ دیکھ لیں یاجو اُن کے کالموں کامجموعہ ہے ’’خمار گندم‘‘ یا ’’آپ سے کیا پردہ‘‘ وغیرہ، اُن میں جوبات ہے، زبان و بیان کے اعتبار سے بھی اور مزاح کے اعتبار سے جوبے ساختہ مسکراہٹ ہے، وہ کسی اور میں نظر نہیں آئی۔
کالموں میں ابن انشا کے کالم مجھے بہت پسند آئے اورعطاء الحق قاسمی کے کالموں کی پہلی کتاب ’’روزن دیوار سے‘‘ مجھے بہت اچھی لگی۔عبدالقادر حسن کا کالموں کا جو مجموعہ ہے، ’’غیر سیاسی باتیں‘‘ وہ بھی اچھا ہے۔ جاوید چودھری کے کالم بھی بہت اچھے ہوتے ہیں۔ ادب کے میدان میں قرۃ العین حیدرکاہی نام لوں گا اور اُس کے بعد انتظار حسین صاحب کا۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان دونوں مصنفوں کے موضوعات کافی حدتک ملتے جلتے ہیں۔ جیسے ہجر ت کامسئلہ یااخلاقی اقدار کامسئلہ، لوگوں کے رویوں کے بدلنے کامسئلہ ہے۔
بہت سی کتب نے اپنے اپنے وقت میں مجھ پراثرات مرتب کیے۔ ’’خداکی بستی‘‘ بھی بہت اچھی لگی، یہ شوکت صدیقی کا ناول ہے۔ شوکت صدیقی ہمارے بڑے اہم ناول نگار ہیں۔ ان کی کہانیوں کا مجموعہ ’’کیمیاگر‘‘ میں جو پہلی کہانی ہے، وہ بہت طاقت ور اور متاثر کر دینے والی ہے۔ 
صبح فجرنمازکے بعد اخبارات کامطالعہ کرتاہوں۔ گھر میں توتین اخبارات کا مطالعہ کرتاہوں، لیکن اپنے شعبے کی لائبریری میں جاکر کچھ دوسرے اخبارات کودیکھتا ہوں، مثلاً جیسے نوائے وقت،Nation وغیرہ میرے گھر آتا ہے، جنگ اورایکسپریس ڈیپارٹمنٹ کی لائبریری میں جاکر دیکھتا ہوں۔ 
دوران سفر ہمیشہ ہی ہلکے پھلکے لٹریچر کامطالعہ کرتا ہوں۔ خاص طورپرافسانے یاسفرنامے میں نے پڑھے ہیں اور مجھے بہت اچھے بھی لگے ہیں۔ ’’دھنک پرقدم‘‘، ’’سات سمندر پار‘‘ وغیرہ۔ آپ بیتی اورسوانح عمریاں بھی پڑھی ہیں۔ آب بیتیوں میں سررضا علی کا ’’اعمال نامہ‘‘ بہت اچھی لگی۔ ابھی حال میں ہی میں نے انتظار حسین کی یادداشتیں ’’چراغوں کا دھواں‘‘ بھی مجھے پسند آئی اور آپ بیتیوں میں خواجہ حسن نظامی کی آپ بیتی مجھے اس لیے اچھی لگی کیونکہ اُس میں بڑی سچائی ملتی ہے۔ اپنے بارے میں انہوں نے لکھا ہے کہ میں بڑامنافق آدمی ہوں۔ اُس سچائی نے مجھے متاثرکیا۔ ایسی آپ بیتیاں ذراکم لکھی گئی ہیں جس میں اپنے آپ کوexposeکیاگیا ہو۔ اس سلسلے میں روسو کی آپ بیتی ’’اعترافات‘‘ کی بڑی شہرت ہے۔ پھر یہ روایت بھی چل نکلی کہ آپ بیتی میں آدمی اپنے بارے میں سچ بولے، جیسے کشور ناہیدنے آپ بیتی لکھی ہے ’’بری عورت کی کتھا‘‘۔ اُس میں اُس نے اپنے بارے میں اوراپنے معاصرین کے بارے میں بہت زیادہ صاف گوئی کامظاہرہ کیا ہے۔ مختارمسعود کی کتاب ’’آواز دوست‘‘ بہت پسند آئی۔ اُس میں ایسی نثر لکھی گئی تھی جوہمارے ہاں کم لکھی جاتی ہے۔ اُن کی کتاب ’’لوح ایام‘‘ بھی بڑی اچھی کتاب ہے، انقلاب ایران پر بڑی موثر کتاب ہے۔ شیخ منظور الہٰی کی ’’درِ دل کشا‘‘ بھی بہت اچھی کتاب ہے۔
مطالعہ کاایک طریقہ یہ ہے کہ آپ اگرسنجیدہ تحریروں کایاعلمی تحریروں کامطالعہ کرتے ہیں تواُس کاطریقہ یہ ہے کہ آپ باقاعدہ نوٹس لیں یعنی منظم مطالعہ تواسی کوکہتے ہیں۔ میں جب علمی مطالعہ کرتاہوں تو ضرورت محسوس کرتاہوں، نوٹس وغیرہ لے لیتا ہوں، اس لیے کہ پڑھنے کے بعدساری چیزوں کوذہن میں رکھنا بہت مشکل ہوتاہے اورپھر اُس کے لیے ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ میں دوبارہ اُن کوپڑھوں۔ مثلاً علامہ اقبال کے بارے میں، میں نے پڑھا کہ ابن عربی کی کتاب کاتیرہ مرتبہ انہوں نے مطالعہ کیا۔ شمس الرحمان فارقی صاحب نے کہیں لکھا کہ بعض چیزیں میں چارچار ،پانچ پانچ مرتبہ پڑھتا ہوں ۔اُس کی وجہ غالباً یہی ہے کہ تفہیم کی خاطر اورحافظے میں محفوظ رکھنے کے لیے علمی کتابوں کالوگ کئی بارمطالعہ کرتے تھے۔ نہرو نے اندراگاندھی کوجوخطوط لکھے ہیں، اُن میں انہوں نے لکھا ہے کہ مطالعہ کے بعد اگروہ آپ کے ذہن میں محفوظ نہیں رہتا تویہ ایسے ہی ہے جیسے گھاس کھودنا۔
قرۃ العین حیدر کوپڑھنے کے بعدمیری بہت تمنا تھی کہ اُن سے ملوں۔ چنانچہ 1993ء میں جب ہندوستان گیا توگوکہ میرا یہ علمی سفرتھا، میں اپنے PHDکے مطالعے کے لیے گیا تھا یعنی اپنے تحقیقی مقالے ’’اردوصحافت انیسویں صدی میں‘‘ کی تحقیق کے سلسلے میں گیا تووہاں ایک سیمینار میں بھی شرکت کی، لیکن بعد میں، میں نے اُسے اپنے علمی سفرمیں تبدیل کرلیا۔ نہ گھوما پھرا اور نہ کسی سے ملاقات کی، بس لائبریروں کی خاک چھانتا پھرا۔ ہندوستان کے پانچ چھ شہر گھومے یعنی کلکتہ میں، لکھنو میں گھوما۔ اُس میں دو چیزیں میں نے اپنی خواہش سے کیں۔ ایک توتاج محل دیکھا اور دوسرا قرۃالعین حیدرسے ملاقات کی۔ ابوالکلام قاسمی جواردو کے بہت اچھے نقاد ہیں، اس ملاقات میں میرے ہمراہ تھے۔ وہ مجھے قرۃ العین سے ملوانے کے لیے اُن کے فلیٹ میں لے گئے جہاں میں نے اپنی محبوب مصنفہ سے ملاقات کی۔ 
میری بہت دیرینہ خواہش رہی کہ میں اپنے بچوں کے اندربھی مطالعے کاذوق پیداکروں چنانچہ اُن کوکتابیں خریدکردینے کاسلسلہ شروع کیا، لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ٹیلی ویژن اورکمپیوٹر دوچیزوں کی وجہ سے مجھے اس کوشش میں ناکامی کاسامنا کرنا پڑا اورمیرے بچے ٹیلی ویژن اورکمپیوٹرمیں جتنی دلچسپی لیتے ہیں، اتنی غیرنصابی کتابوں میں دلچسپی نہیں لیتے۔ مثلاً جب میرے بچے چھوٹے تھے تومیں انہیں کہانیاں پڑھ کرسنایا کرتاتھا اورجب وہ بڑے ہوگئے اورمیں نے اُن کوکہانیاں اورکتابیں دیں اورتلقین کی کہ بھئی ان کوپڑھو توانہوں نے ان کوپڑھنے کے بجائے ٹیلی ویژن دیکھنے کوترجیح دی اوراس کا مجھے بڑا قلق ہے کہ میں اپنے بچوں کے اندر وہ ذوق مطالعہ پیدانہیں کرسکا۔ میری لائبریری میں تقریباً 4 یا 5 ہزارکتابیں ہوں گی اوراب مسئلہ کتابوں کورکھنے کا ہے۔ جگہ نہیں ہے گھر میں، اس وجہ سے بڑے اختلاف رہتے ہیں۔ بیگم کہتی ہیں کہ گھر میں جگہ نہیں ہے اورآپ کتابوں پہ کتابیں لائے جاتے ہیں۔ رکھیں گے کہاں؟ اس وجہ سے نئی کتابوں کاراستہ رُک گیا ہے۔ ڈیپارٹمنٹ میں جومیرا کمرہ ہے، اُس میں بھی میرے پاس اچھی خاصی کتابیں ہیں۔ 
میں نے محسوس کیاہے کہ کتاب دیکھتے ہی آدمی کاذوق مطالعہ بیدار ہوجاتاہے اور پھر وہ کتاب فوراً طلب کرلیتا ہے اورکتاب ایسی چیز ہے کہ جسے تقاضا کیے بغیر لوگ بہت کم لوٹاتے ہیں اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ اگر کتابوں کی واپسی کاتقاضا کریں تو برامان جاتے ہیں۔ کسی اورچیز کومانگنے میں تو شاید تکلف ہوتا ہو، لیکن کتاب مانگنے میں کوئی تکلف نہیں کرتا۔ میں اپنے کتب خانے کی طرف یہاں آنے والوں کوذراکم ہی لے جاتاہوں کیونکہ ان میں سے جب کوئی کتاب مانگتا ہے تودل پہ چھری سی چل جاتی ہے، کیونکہ یہ یقین ہوتا ہے کہ کتاب واپس نہیں آئے گی۔ میرے کتب خانے سے بہت اچھی اچھی کتابیں چوری ہوئی ہیں۔ مثلاً جب میں دلی گیا تھا تووہاں سے خشونت سنگھ کاناول ’’دلی‘‘ لے کر آیا تھا انگریزی ورژن۔ اس طرح کافکا کی کتابوں کا ایک ترجمہ لے کر آیا تھا۔ اسی طرح منیر مسعود کی کہانیوں کا مجموعہ، وہ سب کتابیں مجھے یادہیں، لیکن وہ میرے کمرے سے غائب ہوگئی ہیں۔ 
ادبی مطالعے کی ایک اہمیت یہ ہے کہ اس سے زبان سے آشنائی پیداہوتی ہے اور انسان زبان کے مختلف اسالیب کے بارے میں سیکھتا ہے اور دوسری بات یہ کہ چیزوں کودیکھنے کے Perspectiveمیں تبدیلی آتی ہے کہ چیزوں کوکس رنگ میں دیکھنا چاہیے، چیزوں کو کس طرح محسوس کرنا چاہیے۔ بہترانسان بننے میں ادبی مطالعہ بہت اہمیت کاحامل ہے۔ ادبی مطالعہ نہ ہوتو انسان کی شخصیت ادھورے پن کا شکار ہو جاتی ہے جب کہ ادبی مطالعے سے آدمی باطنی طورپر بہت Rich ہوتا ہے، بہت زیادہCultural Behaviourاُس کے اندر پیداہوتا ہے۔ اُس کے اندر شائستگی آتی ہے اور نتیجتاً وہ بہتر انسان بنتا ہے اور اس کے لیے ادب کامطالعہ کرنا بہت ضروری ہے اور آج جتنی بے چینی اور سفاکی آپ کونظرآتی ہے، جوایک بے روح مادیت پسندی نظرآتی ہے، اُس کی وجہ بھی میراخیال یہی ہے کہ لوگ ادب کامطالعہ نہیں کرتے یا پھر ادب سے اُن کا رشتہ کمزور پڑ گیا ہے۔ 
ابھی چند دنوں پہلے کی بات ہے کہ ساقی فارقی صاحب کی کتاب آئی ’’آپ بیتی پاپ بیتی‘‘ اسے پڑھ کرمجھے بہت غصہ آیا، بڑی کراہت محسوس ہوئی اورایک احساس ہواکہ کیاکوئی آدمی اس طرح کی بھی باتیں لکھ سکتاہے۔
باقی زندگی کے لیے تفاسیر اورسیرت کی کتابیں لوں گا۔فوری طور پر کوئی نام ذہن میں نہیں آرہے ہیں۔

رخصتی کے وقت ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر

محمد عمار خان ناصر

حدیث وسیرت کی روایات میں بیان ہوا ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو ان کی عمر چھے سال تھی، جبکہ ان کی رخصتی اس کے تین سال بعد مدینہ منورہ میں ہوئی۔ حدیث وسیرت کے کلاسیکی اہل علم کے ہاں اسی بات پر اتفاق چلا آ رہا ہے، تاہم دور جدید میں بعض اہل علم نے متعدد پہلووں سے ان روایات پر شبہات وارد کیے ہیں اور ان کے تاریخی وواقعاتی استناد کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ اس ضمن میں ان حضرات کی تحریروں سے اس زاویہ نظر کا بنیادی محرک تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ پر مستشرقین کے اعتراض کی بنیاد کو ختم کرنا چاہتے ہیں جو اس کم سنی میں ام المومنین کے ساتھ آپ کے نکاح کو ایک غیر اخلاقی فعل کے طور پر پیش کرتے ہیں، تاہم متعلقہ روایات کو ناقابل قبول ثابت کرنے کے لیے ان حضرات کی طرف سے متعدد علمی نکات بھی اٹھائے گئے ہیں۔ یہ بحث ایک عرصے سے جاری ہے اور زیر بحث روایات کی تائید یا تردید کے ضمن میں متعدد اہل قلم کی نگارشات سامنے آ چکی ہیں، تاہم بعض پہلووں سے یہ بحث کسی قدر تشنہ محسوس ہوتی ہے۔ اسی تناظر میں ہم زیر نظر سطور میں اس بحث کے مختلف پہلووں کے حوالے سے اپنا طالب علمانہ نقطہ نظر واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔

روایات کی اسنادی حیثیت 

سب سے پہلا اور اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ محدثانہ معیار کے لحاظ سے زیر بحث روایات کا مقام ومرتبہ اور حیثیت کیا ہے؟ اس حوالے سے متعدد ناقدین نے جس نکتے کو بہت نمایاں طور پر بلکہ استدلال کے مرکزی نکتے کے طور پر پیش کیا ہے، وہ یہ ہے کہ اس مضمون کی روایات کے مرکزی راوی کی حیثیت ہشام بن عروہ کو حاصل ہے جو محدثین کی تصریح کے مطابق مدینہ منورہ سے بصرہ چلے جانے کے بعد آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہو گئے تھے اور چونکہ ان سے زیر بحث روایات کو نقل کرنے والے تمام راوی اہل بصرہ میں سے ہیں، جبکہ ان کے مدنی تلامذہ میں سے کسی نے یہ روایت نقل نہیں کی، اس لیے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ روایت انھوں نے اپنے اختلاط کے دور میں بصرہ میں بیان کی تھی اور یہ چیز ان کے بیان کو قابل اعتماد نہیں رہنے دیتی۔
واقعہ یہ ہے کہ یہ نکتہ جس قدر زور وشور سے اٹھایا گیا ہے، علمی وتاریخی لحاظ سے اتنا ہی کمزور اور بے بنیاد ہے، اس لیے کہ حدیث وسیرت کی کتب میں اس مضمون کی روایات کے تتبع سے معلوم ہوتا ہے کہ نکاح اور رخصتی کے وقت ام المومنین کی عمر بالترتیب چھے اور نو سال ہونے کی بات خود ام المومنین سے ایک درجن کے قریب الگ الگ سندوں سے مروی ہے اور ام المومنین کے متعدد شاگردوں نے یہ روایت ان سے مختلف الفاظ میں اجمالاً یا تفصیلاً نقل کی ہے۔ ان رواۃ کی تفصیل حسب ذیل ہے:
۱۔ عروہ بن زبیر 
ان سے اس روایت کو ان کے درج ذیل چار شاگردوں نے نقل کیا ہے:
الف۔ ہشام بن عروہ (بخاری، ۳۶۸۱۔ مسلم، ۱۴۲۲)
ب۔ ابن شہاب زہری (مسلم، ۱۴۲۲)
ج۔ ابو الزناد (المعجم الاوسط، ۶۹۵۷)
د۔ عبد اللہ بن عروۃ (معرفۃ الثقات، ۲۳۴۳)
گویا عروہ بن زبیر سے اس روایت کو نقل کرنے میں ہشام متفرد نہیں ہیں، بلکہ ان کے تین متابع بھی موجود ہیں جن میں حدیث وسنت کے جلیل القدر امام، ابن شہاب زہری بھی شامل ہیں۔
۲۔ اسود بن یزید (مسلم، ۱۴۲۲)
۳۔ عبد اللہ بن صفوان (مستدرک حاکم، ۶۷۳۰)
۴۔ عبد اللہ ابن ابی ملیکۃ (سنن النسائی الکبریٰ، ۵۳۶۵)
۵۔ ابو سلمہ بن عبد الرحمن (سنن النسائی، ۳۳۷۹)
۶۔ قاسم بن محمد (الآحاد والمثانی ۳۰۰۷۔ طبرانی، المعجم الکبیر ۲۳/۲۲)
۷۔ عبد الملک بن عمیر (طبرانی، المعجم الکبیر ۲۳/۲۹)
۸۔ عبد الرحمن بن محمد بن زید بن جدعان (طبرانی، المعجم الکبیر ۲۳/۳۱)
۹۔ یحییٰ بن عبد الرحمن بن حاطب (مسند احمد، ۲۵۸۱۰۔ مسند ابی یعلیٰ، ۴۶۷۳۔ مسند اسحاق بن راہویہ، ۱۱۶۴)
۱۰۔ عمرۃ بنت عبد الرحمن (ابن سعد، الطبقات الکبریٰ ۸/۵۸)
۱۱۔ ابو عبیدۃ (سنن النسائی الکبریٰ، ۵۳۶۹)
اس کے ساتھ اگر ذخیرۂ حدیث وسیرت کی ان روایات کو بھی شامل کر لیا جائے جن میں ام المومنین عائشہ کا واسطہ موجود نہیں اور بعض دوسرے صحابہ یا تابعین نے یہی مضمون بیان کیا ہے تو اس بات کا تاریخی ثبوت مزید یقینی ہو جاتا ہے۔ یہ روایات درج ذیل ہیں:
۱۲۔ ابو عبیدۃ عن عبد اللہ بن مسعود (ابن ماجہ، رقم ۱۸۷۷)
۱۳۔ ابو اسحاق عن مصعب بن سعد (الطبقات الکبریٰ ۸/۶۰)
۱۴۔ یزید بن جابر عن ابیہ (مستدرک، ۶۷۱۴)
۱۵۔ ابوعبیدہ عن جابر بن زید (مسند الربیع، ۵۲۲، ۷۴۱)
۱۶۔ حبیب مولیٰ عروۃ (مستدرک، ۶۷۱۶)
۱۷۔ جعفر بن برقان عن الزہری (الطبقات الکبریٰ ۸/۶۱)
۱۸۔ سعید بن ابی عروبۃ عن قتادۃ (طبرانی، المعجم الکبیر، ۲۳/۱۹)
یہ ڈیڑھ درجن روایات بنتی ہیں اور ہشام بن عروہ کا نام ان میں سے صرف ایک سند یعنی عروہ بن زبیر کی سند میں آتا ہے، جبکہ باقی تمام سندوں سے ان کا سرے سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے، اس لیے یہ نکتہ کہ بوقت رخصتی ام المومنین کی عمر نو سال ہونے کی بات اکیلے ہشام بن عروہ نے اپنے اختلاط کے دور میں بیان کی ہے، علمی لحاظ سے بالکل ناقابل التفات ہے۔

مخالف تاریخی قرائن ودلائل

بحث کی تکمیل کے لیے ان تاریخی استدلالات کا ایک جائزہ لینا بھی ضروری ہے جو اس دعوے کے حق میں پیش کیے گئے ہیں کہ ام المومنین کی عمر اس موقع پر نو سال سے کہیں زیادہ تھی اور یہ کہ وہ اس وقت اٹھارہ یا انیس سال کی نوجوان لڑکی تھیں۔ اس نوعیت کے استدلالات کا ایک جامع خلاصہ مولانا حبیب الرحمن کاندھلویؒ نے اپنے رسالہ ’’تحقیق عمر عائشہ‘‘ میں بیان کر دیا ہے، اس لیے سہولت کی غرض سے ہم نے نقد وتبصرہ کے لیے انھی کی تحریر کو بنیاد بنایا ہے۔ 
مولانا کاندھلویؒ نے اس ضمن میں کل چوبیس دلیلیں بیان کی ہیں۔ ان میں سے بیشتر تو اس قیاس پر مبنی ہیں کہ مختلف روایات میں ام المومنین کا اور ان کے مختلف ذمہ داریاں انجام دینے کا ذکر جس انداز سے ہوا ہے، ان سے ایک نوعمر بچی کا نہیں بلکہ ایک جوان لڑکی کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ مثلاً یہ کہ:
  • جب حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد خولہ بنت حکیم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نکاح کی ترغیب دی تو آپ کے پوچھنے پر انھوں نے کہا کہ میرے ذہن میں دو رشتے ہیں۔ ایک کنواری لڑکی یعنی عائشہ ہے اور دوسری ایک شوہر دیدہ خاتون یعنی سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا۔
  • ہجرت کے بعد جب ام المومنین کے اہل خانہ نئی آب وہوا کے موافق نہ ہونے کی وجہ سے بیمار ہو گئے تو وہ ان کی تیمار داری کرتی رہیں۔
  • وہ غزوۂ احد میں، (بلکہ مولانا کاندھلوی کی تحقیق کے مطابق غزوۂ بدر میں بھی) شریک ہوئیں اور خواتین کے ساتھ مل کر زخمیوں کی دیکھ بھال کرتی رہیں، جبکہ اسی غزوے میں چودہ سال کے لڑکوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شرکت کی اجازت نہیں دی تھی۔
  • ایک موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ وہ اسامہ بن زید کی ناک پونچھ دیں یا ان کے زخم سے خون صاف کر دیں۔
معمولی غور سے واضح ہو جاتا ہے کہ مذکورہ امور کو اس دعوے کے حق میں تائیدی قرائن کے طور پر اسی وقت پیش کیا جا سکتا ہے جب کسی دوسری صریح اور مضبوط دلیل سے بنیادی مقدمہ ثابت ہو جائے۔ اس کے بغیر مذکورہ تمام قرائن ایک کمزور اور بالواسطہ استنباط سے زیادہ درجہ نہیں رکھتے اور ان کی بنیاد پر خود ام المومنین کے واضح اور صریح بیان کو علمی طور پر رد نہیں کیا جا سکتا۔
مولانا کے پیش کردہ بعض استدلالات ایسے مفروضات پر مبنی ہیں جن کا اپنا ثبوت تاریخی لحاظ سے یقینی نہیں۔ مثلاً ام المومنین سے روایت ہے کہ جب مکہ مکرمہ میں سورۂ قمر کی آیت: ’بل الساعۃ موعدہم والساعۃ ادہی وامر‘ اتری تو میں ایک لڑکی تھی اور کھیلتی پھرتی تھی۔ (بخاری، ۴۵۹۵) اس سورہ کی پہلی آیت میں شق قمر کے معجزے کا ذکر ہوا ہے جو مکی دور نبوت میں رونما ہوا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس معجزے کے ظہور کے وقت ام المومنین کی عمر اتنی تھی کہ وہ کھیلتی پھرتی تھیں اور انھیں اس بات کا بھی شعور تھا کہ قرآن کی فلاں آیت نازل ہوئی ہے۔ چونکہ سورہ کے داخلی اسلوب سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ساری سورہ یک بارگی نازل ہوئی ہوگی، اس لیے اگر متعین طور پر معلوم ہو جائے کہ شق القمر کا معجزہ کس سن میں رونما ہوا تھا تو ام المومنین کا مذکورہ بیان کسی حد تک قرینہ بن سکتا ہے، تاہم ذخیرۂ سیرت میں اس معجزے کے زمانہ ظہور کی تعیین سے متعلق کوئی قابل وثوق قرائن موجود نہیں۔ 
اردو کے سیرت نگاروں میں سے مولانا مودودی نے اس واقعے کو ہجرت سے تقریباً پانچ سال پہلے کا واقعہ قرار دیا ہے۔ (تفہیم القرآن، ۵/۲۲۹) تاہم انھوں نے ان قرائن یا دلائل کا ذکر نہیں کیا جن سے انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے۔ اس کے برخلاف سید سلیمان ندوی کی رائے یہ ہے کہ یہ واقعہ ہجرت مدینہ سے کچھ ہی پہلے کا ہے ۔ (سیرت النبی ۳/۱۷۰) فرض کیجیے کہ یہ واقعہ ہجرت سے پانچ سال قبل کا ہے تو بھی اس وقت ام المومنین کی عمر معروف روایت کے مطابق تین سال بنتی ہے اور ایک غیر معمولی طور پر ذہین وفطین بچی کو اس عمر میں سنی ہوئی ایک آیت کا یاد رہ جانا کوئی بعید از امکان بات نہیں۔
یہاں مولانا کاندھلوی نے جو کچھ لکھا ہے، وہ بظاہر ناقابل فہم ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ’’شق قمر کا واقعہ ہجرت سے پانچ سال قبل کا ہے۔ مفسرین کا بیان ہے کہ یہ سورت سن ۴ نبوی میں نازل ہوئی۔‘‘ (ص ۱۸) یہ دونوں باتیں باہم متضاد ہیں۔ اگر شق قمر کا واقعہ ہجرت سے پانچ سال قبل رونما ہوا ہو تو یہ ۸ نبوی کا سن بنتا ہے، چنانچہ سورۃ القمر کا نزول بھی اس کے بعد ہی ماننا چاہیے۔ واقعہ اگر ۸ نبوی کا ہے تو سورۃ ۴ نبوی میں کیونکر نازل ہو سکتی ہے؟ 
اسی طرز استدلال کی ایک اور مثال دیکھیے:
ایک روایت میں ام المومنین یہ بیان کرتی ہیں کہ جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حبشہ کی طرف ہجرت کا ارادہ کیا تو انھیں صورت حال کا پورا شعور تھا۔ (بخاری، ۴۶۴) اس بیان کو کسی دلیل کے بغیر ۵ نبوی میں (جو عام روایت کے مطابق ام المومنین کا سن ولادت بھی ہے) کی جانے والی اجتماعی ہجرت حبشہ پر محمول کیا گیا ہے، حالانکہ حبشہ کی طرف اجتماعی ہجرت اس کے بعد یعنی ۷ نبوی میں بھی ہوئی، جبکہ سیدنا صدیق اکبر کے ارادۂ ہجرت کے بارے میں محدثین کا خیال یہ ہے کہ وہ شعب ابی طالب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے محصور کیے جانے کے بعد ۷ یا ۸ نبوی کاواقعہ ہے، (فتح الباری ۷/۲۳۲) بلکہ بعض ارباب سیرت نے اسے ہجرت مدینہ کے بالکل قریب ۱۳ نبوی کا واقعہ قرار دیا ہے۔ (السیرۃ الحلبیۃ، ۳/۴۹۹۔ تاریخ الخمیس، ۳/۳۱۹) ظاہر ہے کہ ان مختلف احتمالات کی موجودگی میں یقینی طورپر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ام المومنین کی روایت میں حبشہ کی طرف جس ارادۂ ہجرت کا ذکر ہے، وہ ۵ نبوی ہی کی ہجرت حبشہ ہے۔
مولانا کے پیش کردہ بعض استدلالات بالکل سوء فہم پرمبنی ہیں۔ مثال کے طور پر طبری نے سیدنا ابوبکر کے نکاحوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انھوں نے زمانہ جاہلیت میں دو نکاح کیے تھے۔ ایک قتیلہ بنت عبد العزیٰ سے جن سے عبد اللہ اور اسماء پیدا ہوئیں اور دوسرا ام رومان سے جن سے عائشہ اور عبد الرحمن پیدا ہوئے۔ اس موقع پر طبری نے لکھا ہے:
فکل ہولاء الاربعۃ من اولادہ ولدوا من زوجتیہ اللتین سمیناہما فی الجاہلیۃ وتزوج فی الاسلام اسماء بنت عمیس (تاریخ طبری ۲/۳۵۱)
’’ان کے یہ چاروں بچے ان کی زمانہ جاہلیت کی دو بیویوں سے پیدا ہوئے جن کا ہم نے ذکر کیا ہے، جبکہ اسلام کی حالت میں انھوں نے اسماء بنت عمیس سے نکاح کیا۔‘‘
یہاں ’فی الجاہلیۃ‘ کا تعلق ’زوجتیہ‘ سے ہے اور مراد ہے وہ دو بیویاں جن سے سیدنا ابوبکر نے زمانہ جاہلیت میں نکاح کیا تھا، لیکن اس کا تعلق ’ولدوا‘ سے جوڑتے ہوئے مطلب یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ یہ چاروں بچے زمانہ جاہلیت میں پیدا ہوئے تھے۔
بعض دلیلوں میں روایات سے صریحاً کھینچ تان کر، بلکہ ان کے اصل مدعا کے بالکل برعکس نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر ام المومنین کا یہ بیان منقول ہے کہ:
لم اعقل ابوی الا وہمایدینان الدین ولم یمر علینا یوم الا یاتینا فیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طرفی النہار بکرۃ وعشیۃ (بخاری، ۴۶۴)
’’مجھے اپنے والدین کے بارے میں شعور ہوا تو وہ اس دین کو اختیار کیے ہوئے تھے اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح اور شام کو ہمارے ہاں تشریف نہ لاتے ہوں۔‘‘
ام المومنین کی مراد یہ ہے کہ بدو شعور سے ہی انھوں نے اپنے والدین کو اسلام پر قائم دیکھا۔ اسلوب سے واضح ہے کہ بعثت نبوی اور ان کے والدین کے اسلام کو قبول کرنے کا واقعہ ان کے شعور کی عمر سے پہلے ہو چکا تھا، چنانچہ اپنے شعور کی ابتدا سے ہی انھوں نے جو کیفیت دیکھی، وہ یہ تھی کہ والدین اسلام پر قائم تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر روز صبح اور شام کے اوقات میں ان کے گھر آیا کرتے تھے۔ لیکن اس روایت سے جو نتیجہ نکالا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ ’’اس حدیث میں برملا یہ دعویٰ فرما رہی ہیں کہ بعثت نبوی کے وقت میں صاحب عقل وہوش تھی اور یہ جو کچھ پیش آتا رہا، میری نظروں کے سامنے ہوتا رہا۔‘‘ (حبیب الرحمن کاندھلوی، ’’تحقیق عمر عائشہ‘‘، ص ۳۱) یہ بدیہی طور پر اپنے ذہنی مفروضات کو روایت کے الفاظ میں پڑھنے کی ایک افسوس ناک مثال ہے۔
مولانا کی پیش کردہ ایک اور دلیل میں بھی غالباً سوء فہم ہی کارفرما ہے۔ انھوں نے طبری کے حوالے سے یہ بات نقل کی ہے کہ جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مکی عہد میں حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا ارادہ کیا تو یہ چاہا کہ اپنی بیٹی عائشہ کو، جن کی نسبت اس سے پہلے جبیر بن مطعم کے ساتھ طے ہو چکی تھی، رخصت کر دیں۔ انھوں نے اس سلسلے میں مطعم بن عدی اور ان کی اہلیہ سے بات کی تو انھوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ تمھاری بیٹی ہمارے بیٹے کو بھی بے دین بنا دے گی۔ مولانا نے اس سے یہ استدلال کیا ہے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ام المومنین اس وقت کوئی چھوٹی بچی نہیں، بلکہ جوان اور رخصتی کے قابل تھیں۔ 
تاہم مولانا نے سیدنا ابوبکر اور مطعم بن عدی کے مکالمے کا واقعہ جس تناظر میں بیان کیا ہے، طبری میں وہ اس سے بالکل مختلف سیاق میں نقل ہوا ہے۔ وہاں نہ تو سیدنا ابوبکر کے ارادۂ ہجرت کا ذکر ہے اور نہ ام المومنین کو رخصت کر کے جبیر بن معطم کے گھر بھیج دینے کے حقیقی ارادے کا۔ طبری نے یہ واقعہ یوں نقل کیا ہے کہ جب سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد خولہ بنت حکیم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے پر سیدنا ابوبکر سے سیدہ عائشہ کے رشتے کے لیے بات کی تو ان کی والدہ ام رومان نے کہا کہ عائشہ کے رشتے کی بات مطعم بن عدی اپنے بیٹے کے لیے کر چکے ہیں اور ابوبکر وعدہ کر کے اس کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے۔ اس پر سیدنا ابوبکر ام المومنین کی رخصتی کے ارادے سے نہیں، جیسا کہ مولانا کاندھلوی نے بیان کیا ہے، بلکہ اپنے وعدے کی ذمہ داری سے بری الذمہ ہونے کے لیے مطعم بن عدی اور ان کی بیوی کے پاس گئے اور اس موقع پر جو گفتگو ہوئی، اس میں مطعم اور ان کی اہلیہ نے یہ کہا کہ اگر ہم تمھاری بیٹی کے ساتھ اپنے بیٹے کی شادی کر دیں گے تو وہ اسے بھی بے دین بنا دے گی۔ (طبری، ۲/۲۱۲)
معلوم نہیں مولانا نے اس واقعے کو سیدنا ابوبکر کے حبشہ کی طرف ہجرت کے ارادے سے کیسے جوڑ دیا اور پھر یہ نتیجہ کیسے اخذکر لیا کہ وہ واقعی اس موقع پر ام المومنین کو رخصت کر کے جبیر بن مطعم کے گھر بھیجنا چاہتے تھے۔ 
مولانا نے عربی زبان وادب اور تاریخ وانساب میں ام المومنین کی مہارت کو بھی اس بات کی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے کہ رخصتی کے وقت ان کی عمر نو سال نہیں ہو سکتی۔ ان کا فرمانا ہے کہ ’’مدینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشاغل مکہ کی زندگی سے بالکل مختلف تھے۔ یہاں قرآن، صوم وصلوٰۃ کے مسائل اور ملکی مہمات پیش نظر رہتیں۔ یہاں کا ماحول یہی تھا۔ اس ماحول کا انساب، تاریخ، شعر وشاعری سے کوئی دورکا واسطہ نہ تھا۔ ....... لہٰذا یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ام المومنین نکاح سے قبل عاقلہ اور بالغہ تھیں۔ انھوں نے یہ تمام فنون اپنے والد سے حاصل کیے۔‘‘ (ص ۴۹، ۵۰)
یہ ایک عجیب وغریب استدلال ہے۔ اس وقت کے عرب تمدن میں مذکورہ علوم سکھانے کے لیے کوئی باقاعدہ تعلیمی یا تحقیقی ادارے قائم نہیں تھے جن سے وابستگی علمی وتحقیقی مہارت پیدا کرنے کے لیے ضروری ہو۔ یہ چیزیں خدادا د فہم وفراست کے ساتھ ساتھ ارد گردکے ماحول اور شخصیات سے ہی سیکھی جاتی تھیں اور ام المومنین کو اس کے مواقع شادی کے بعد بھی پوری طرح میسر تھے۔ اپنے والد کے ساتھ بھی ان کا رابطہ تھا اور مدینہ میں موجود مہاجرین اورانصار کی خواتین، بلکہ یہودی عورتیں بھی ان سے ملنے کے لیے آتی رہتی تھیں۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی وہ شعر وشاعری نہ سہی، تاریخ وانساب کا علم بہرحال سیکھ سکتی تھیں، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت قرآن اور صوم وصلوٰۃ ہی کی باتیں نہیں کرتے رہتے تھے، بلکہ مجلس کی مناسبت سے ہر طرح کے موضوع پر گفتگو میں شریک ہوتے تھے اور مختلف امور سے متعلق آپ کی معلومات پر بسا اوقات صحابہ بھی حیرت زدہ رہ جاتے تھے۔
تاریخی اعتبار سے مولانا کی پیش کردہ صرف دو دلیلیں ایسی ہیں جن میں کھینچا تانی اور تکلف کا عنصر نہیں پایا جاتا اور جو کسی حد تک قابل توجہ ہیں۔
ایک یہ کہ مورخ ابن اسحاق نے، جن کا بیان ابن ہشام نے بھی نقل کیا ہے، اپنی سیرت میں عہد مکی میں ان حضرات کا ذکر کرتے ہوئے جنھوں نے بعثت نبوی کے بعد بالکل ابتدائی دور میں اسلام قبول کیا، دوسرے بہت سے افرادکے ساتھ سیدنا ابوبکر کی صاحب زادیوں سیدہ اسماء اور سیدہ عائشہ کا بھی نام درج کیا ہے اور لکھا ہے کہ عائشہ اس وقت چھوٹی عمر کی تھیں۔ (سیرۃ ابن اسحاق ۲/۱۲۴۔ سیرت ابن ہشام ۲/۹۲)
بظاہر اس بیان سے مولانا کا یہ نتیجہ اخذ کرنا درست ہے کہ ’’ابن ہشام کی تصریح کے مطابق ..... ام المومنین حضرت عائشہؓ حضرت عمرؓ کے اسلام لانے سے کافی قبل سن ۱ نبوت میں مشرف بااسلام ہو چکی تھیں۔‘‘ (تحقیق عمر عائشہ، ص ۳۵) تاہم ابن اسحاق کے اس بیان کو ام المومنین کے اپنے بیان کی تردید کے لیے بنیاد بنانا اس لیے درست نہیں کہ اول تو ابن اسحاق نے اپنے اس بیان کا کوئی ماخذ نہیں بتایا۔ یہ یا تو ان تک پہنچی ہوئی کوئی ایسی اطلاع ہے جس کی سند معلوم نہیں اور یا پھر محض سبقت قلم ہے۔ دوسرے امکان کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ ابن اسحاق اور ان کے شاگرد ابن ہشام، دونوں نے سیدہ عائشہ کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح کا ذکر کرتے ہوئے ام المومنین کا وہی معروف بیان نقل کیا ہے جس میں وہ بتاتی ہیں کہ ان کا نکاح چھے سال کی عمر میں جبکہ رخصتی نو سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ (سیرۃ ابن اسحاق، ۵/۲۳۹۔ سیرت ابن ہشام، ۶/۵۷)
دوسرا استدلال جسے اس معاملے میں بظاہر نتیجہ خیز کہا جا سکتا ہے اور اسی وجہ سے اسے اس نقطہ نظر کے کم وبیش سبھی حاملین نے بیان کیا ہے، یہ ہے کہ ام المومنین کی ہمشیرہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کے متعلق یہ معلوم ہے کہ ان کی وفات ۷۳ھ میں عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے چند دن بعد ہوئی تھی۔ اس ضمن میں تاریخی روایات میں دو مزید باتیں ملتی ہیں۔ ایک ان کے بیٹے عروہ بن زبیر کا یہ بیان کہ وفات کے وقت سیدہ اسماء کی عمر سو سال تھی (ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق ۶۹/۲۲) اور دوسرے، ابن ابی الزناد کا یہ بیان کہ اسماء، ام المومنین عائشہ سے عمر میں دس سال بڑی تھیں۔ (ابن عبد البر، الاستیعاب ۲/۶۱۶۔ بیہقی، السنن الکبریٰ ۱۱۹۲۷۔ ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق ۶۹/۱۰) ان دونوں بیانات کو ملانے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہجرت کے موقع پر سیدہ اسماء کی عمر ۲۷ سال تھی اور چونکہ وہ ام المومنین عائشہ سے دس سال بڑی تھیں، اس لیے ہجرت کے موقع پر ام المومنین کی عمر ۱۷ سال ہونی چاہیے۔
یہ دلیل اس ضمن میں پیش کی گئی سب دلیلوں میں زیادہ قوی اور متاثر کن ہے، تاہم ہمارے خیال میں دو وجوہ اسے فیصلہ کن قرار دینے میں مانع ہیں۔ 
ایک یہ کہ مذکورہ نتیجہ عروہ بن زبیر اور ابن ابی الزناد، دونوں کے بیانات کو درست مان کر باہم ملائے بغیر نکالنا ممکن نہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ان میں سے عروہ بن زبیر تو سیدہ اسماء کا بیٹا ہونے کی حیثیت سے گھر کے آدمی ہیں اور کوئی وجہ نہیں کہ ان کے بیان پر اعتماد نہ کیا جائے، لیکن ابن ابی الزناد کے بیان کی حیثیت یہ نہیں ہے۔ وہ تبع تابعی ہیں، یعنی ام المومنین کے ہم عصر نہیں۔ اس کے اس بیان کا ماخذ بالکل معلوم نہیں اور عین ممکن ہے کہ یہ محض ان کا اندازہ یا کوئی سنی سنائی بات ہو۔ پھر ابن عبد البر نے ان کے بیان کے الفاظ یہ نقل کیے ہیں کہ ’کانت اکبر من عائشۃ بعشر سنین او نحوہا‘۔ (الاستیعاب ۲/۶۱۶) اس کا مطلب یہ ہے کہ متعین طور پر دس سال کے فرق کو وہ بھی جزم کے ساتھ بیان نہیں کر رہے۔ غالباً ذہبی نے اسی بات کے پیش نظر یہ لکھا ہے کہ:
کانت اسن من عائشۃ ببضع عشرۃ سنۃ (سیر اعلام النبلاء ۲/۲۸۸)
’’اسماء، عائشہ سے تیرہ تا انیس سال بڑی تھیں۔‘‘
دوسری بات یہ کہ عروہ بن زبیر نے جس سیاق میں اپنی والدہ کی عمر سو سال ہونے کی بات کہی ہے، اس سے یہ قوی تاثر ملتا ہے کہ ان کا مقصد متعین طور پر (Exactly) ان کی عمر بتانا نہیں، بلکہ دراصل ان کے بڑھاپے کو نمایاں کرنا ہے۔ عروہ کا بیان ہے:
کانت اسماء وقد بلغت ماءۃ سنۃ ولم یقع لہا سن (تاریخ مدینۃ دمشق ۶۹/۲۷)
’’اسماء کی عمر سو سال کو پہنچ گئی تھی، پھر بھی ان کا کوئی دانت نہیں گرا تھا۔‘‘
تاریخ وسیرت کی روایات میں کسور کا اعتبار نہ کرتے ہوئے پوری دہائیوں کے لحاظ سے تاریخیں اور عمریں بیان کر دینے کا اسلوب عام ہے، اس لیے اگر ۷۳ھ میں وفات کے وقت ان کی عمر چرانوے یا پچانوے سال بھی ہو تو زبان کے عام اسلوب کے مطابق اس کو سو سال سے تعبیر کر دینے میں کوئی مانع نہیں۔ خاص طور پر جب گفتگو کا سیاق سیدہ اسماء کے بڑھاپے کو نمایاں کرنے کا تقاضا کر رہا ہو تو ایسے موقع پر مبالغے کے اسلوب میں یہ کہہ دینا کہ ’’سو سال کی عمر میں بھی ان کے دانت بالکل سلامت تھے‘‘ ہرگز اس کا متحمل نہیں ہے کہ اس کی بنیاد پر سیدہ اسماء کی عمر متعین طور پر پورے سو سال قرار دی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ مورخین بھی اس نتیجے کو ماننے پر متفق نہیں ہیں اور علامہ ذہبی نے ابن ابی الزناد کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ:
فان کان ما ذکرہ ابن ابی الزناد صحیحا من ان اسماء تکبر عائشۃ بعشر سنوات فہذا یعنی ان اسماء ماتت عن عمر ۹۱ سنۃ (تاریخ الاسلام ۵/۳۵۴۔ نیز دیکھیے سیر اعلام النبلاء ۳/۳۸۰)
’’اگر ابن ابی الزناد کا یہ بیان درست ہے کہ اسماء، عائشہ سے دس سال بڑی تھیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا انتقال اکانوے سال کی عمر میں ہوا۔‘‘
فرض کر لیں کہ نکاح کے وقت اپنی عمر کے بارے میں خود ام المومنین کے اپنے صریح اور مستند بیان کو چھوڑ دوسرے افراد کی عمر اور تاریخ وفات سے ان کی عمر متعین کرنے کی علمی طور پر گنجائش ہے۔ اس صورت میں سوال یہ سامنے آتا ہے کہ تاریخی کتابوں میں صرف سیدہ اسماء کی عمر اور سن وفات مذکور نہیں، بلکہ سیدہ عائشہ کی عمر اور سن وفات بھی ذکر کی گئی ہے۔ ان کے سن وفات کے متعلق ۵۶ھ، ۵۷ھ، ۵۸ھ اور ۵۹ھ کے مختلف اقوال موجود ہیں، تاہم عام طور پر مورخین نے ۵۸ھ کے قول کو قبول کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تاریخ وسیرت کی کتابو ں میں اس کی بھی تصریح ہے کہ وفات کے وقت ام المومنین کی عمر ۶۶ برس تھی۔ (الطبقات الکبریٰ، ۸/۷۸۔ تاریخ مدینۃ دمشق ۳/۲۰۳۔ المنتظم ۵/۳۰۳) ۶۶ میں سے ۵۸ برس نکال دیے جائیں تو ہجرت مدینہ کے وقت ان کی عمر ۸ سال بنتی ہے جو ام المومنین کے اس بیان کے عین مطابق ہے کہ ان کی رخصتی ہجرت مدینہ کے بعد نو سال کی عمر میں ہوئی تھی۔

کم سنی کی شادی کی اخلاقی حیثیت

جہاں تک اس اشکال کا تعلق ہے کہ نو سال کی کم سن بچی کے ساتھ نکاح کرنا اخلاقی طور پر ایک معیوب بات لگتی ہے تو یہ اشکال دراصل معاشرت اور تمدن کے تغیر اور تہذیب وثقافت کے اختلاف کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ یہ سامنے کی بات ہے کہ اگرچہ انسانی نفسیات میں حاسہ اخلاقی (Moral Sense) کا وجود اور بنیادی اخلاقی تصورات کا شعور تمام انسانوں کے مابین ایک مشترک چیز ہے، لیکن کسی مخصوص معاملے پر اخلاقی اصولوں کا انطباق کرتے ہوئے اسے اخلاقی یا غیر اخلاقی قرار دینے میں انسانوں کے زاویہ نظر اختلاف ہو سکتا ہے اور اس ضمن میں کسی بھی تہذیب یا معاشرت کے اپنے مخصوص تجربات، ماحول اور عرف ورواج کا بھی خاصا دخل ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ عین ممکن ہے کہ ایک معاشرت میں ایک چیز اخلاقی طور پر بالکل درست سمجھی جاتی ہو، جبکہ کوئی دوسرا معاشرہ بعینہ اسی چیز کو غیر اخلاقی تصور کرتا ہو۔ مثال کے طور پر ہندو معاشرے میں صدیوں تک ’ستی‘ کی رسم رائج رہی ہے اور اس کا باقاعدہ اخلاقی اور مذہبی جواز پیش کیا جاتا تھا، لیکن اسلامی تصورات کی رو سے اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسی طرح اسلام میں مختلف معاشرتی جرائم کا ارتکاب کرنے والے مجرموں پر ہاتھ کاٹنے، کوڑے مارنے اور سنگسار کرنے جیسی سزائیں نافذ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جبکہ جدید مغربی تہذیب ان سزاؤں کو غیر انسانی اور وحشیانہ سزائیں قرار دیتی ہے۔ یہی معاملہ بہت سے ایسے امور کا ہے جنھیں مغربی تہذیب میں اخلاقی لحاظ سے بالکل درست سمجھا جاتا ہے، لیکن دنیا کے دوسرے معاشرے اور خاص طور پر مسلمان معاشرے اپنی مذہبی واخلاقی روایات کی روشنی میں انھیں جائز تسلیم نہیں کرتے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ حاسہ اخلاقی اور بنیادی اخلاقی تصورات کے سارے انسانوں کے مابین مشترک ہونے کے باوجود ان کے عملی انطباق میں اختلاف ہو سکتا ہے اور عملاً ایسا اختلاف دنیا میں موجود ہے۔ ایسی صورت میں یہ طے کرنے کے لیے کہ کسی مخصوص معاملے میں کسی فرد یا گروہ کا کوئی عمل اخلاقیات کے دائرے کے اندر تھا یا اس سے متجاوز، اس بنیادی نکتے کو ملحوظ رکھنا بے حد اہم ہے کہ جس معاشرے اور ماحول میں اس عمل کو انجام دیا گیا، وہاں اس کی اخلاقی حیثیت کیا سمجھی جاتی تھی اور عمومی طور پر لوگ اس کو کس نظر سے دیکھتے تھے۔ کسی بھی شخص کو دانستہ بد اخلاقی کا مرتکب قرار دینے کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود اپنے معاشرتی تصورات کی رو سے اسے ایک غیر اخلاقی عمل سمجھتا ہو اور اس کے باوجود اس نے اس کا ارتکاب کیا ہو۔ کسی دوسرے معاشرتی ماحول سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے تصورات اور عادات کے لحاظ سے اس پر اچنبھا بھی محسوس کر سکتے ہیں اور اسے غیر اخلاقی بھی قرار دے سکتے ہیں، لیکن یہ محض ان کے اپنے احساس کا بیان ہوگا جسے ایک آفاقی معیار کی حیثیت دینا بعض صورتوں میں خود بہت سے اخلاقی اصولوں کو مجروح کیے بغیر ممکن نہیں۔
کم سنی کی شادی کے متعلق جدید ذہن کا منفی تاثر بھی ہمارے نزدیک اسی نوعیت کی چیز ہے۔ متعدد وجوہ سے، جن میں جدید طبی تحقیقات اور ناگوار معاشرتی تجربات زیادہ اہم ہیں، جدید ذہن کم سنی میں لڑکی کی شادی سے ایک طرح کا توحش محسوس کرتا ہے جو ایک مخصوص تناظر میں بجا اور قابل فہم بھی ہے، تاہم عہد نبوی کی عرب معاشرت میں نو سال کی عمر میں لڑکی کی رخصتی کوئی عجیب اور خاص طور پر کوئی غیر اخلاقی معاملہ ہرگز نہیں سمجھی جاتی تھی۔ یہ بات اول تو اسی سے واضح ہے کہ ام المومنین کو رخصت کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیج دینے کی پیش کش خود ام المومنین کے والد سیدنا ابوبکر نے کی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول فرمایا تھا۔ اس پر کسی بھی طرف سے کوئی منفی رد عمل سامنے نہیں آیا، حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی اور آپ کے ایک ایک عمل پر نہ صرف مشرکین اور یہود ونصاریٰ بلکہ خود مسلمانوں کی صف میں شامل منافقین کے گروہ کی بھی خاص طور پر نظر تھی اور وہ آپ کی شخصیت کو اخلاقی طور پر مجروح کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ام المومنین سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے ساتھ آپ کے نکاح کو اس درجے میں منفی پراپیگنڈے کا موضوع بنایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کو سورۃ الاحزاب میں باقاعدہ اس مسئلے کی نوعیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس نکاح کی غرض وغایت اور حکمت واضح فرمانا پڑی۔ اس کے برعکس ام المومنین عائشہ کے ساتھ نکاح کے حوالے سے اس قسم کے کسی اعتراض کا کوئی ذکر حدیث وسیرت کی روایات میں نہیں ملتا۔ 
پھر عرب معاشرت کے عرف اور ماحول کے لحاظ سے نو سال کی عمر میں لڑکی کے قابل نکاح ہونے پر مزید روشنی اس بات سے پڑتی ہے کہ خود ام المومنین سے باقاعدہ یہ فقہی فتویٰ منقول ہے کہ جب لڑکی نو سال کی عمر کو پہنچ جائے تو وہ ’عورت‘ ہوتی ہے۔ (ترمذی، ۱۱۰۹۔ بیہقی، السنن الکبریٰ ، ۱۴۲۵) مزید برآں اسی زمانے میں صرف خاندان قریش میں کم سے کم دو مثالیں ایسی ملتی ہیں جن میں اس عمر میں لڑکیوں کی رخصتی کر دی گئی۔ 
پہلا واقعہ سیدنا علی کی دختر سیدہ ام کلثوم کا ہے جن کا نکاح صغر سنی میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی فرمائش پر ان کے ساتھ کیا گیا۔ نکاح کے وقت ان کی متعین عمر کا ذکر تو ہمیں کسی روایت میں نہیں ملا، تاہم یہ بات ذکر کی گئی ہے کہ سیدنا عمر کی فرمائش پر سیدنا علی نے ابتداءً ان کے سامنے یہ عذر پیش کیا کہ ام کلثوم کی عمر ابھی بہت کم ہے، لیکن سیدنا عمر نے کہا کہ میں یہ نکاح محض نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کے ساتھ رشتہ جوڑنے کے لیے کرنا چاہتا ہوں جس پر سیدنا علی نے رضامندی ظاہر کر دی۔ (بیہقی، السنن الکبریٰ، ۱۳۱۷۲)
دوسرا واقعہ امیر المومنین معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہند کا ہے جن کا نکاح عبد اللہ بن عامر بن کریز کے ساتھ کیا گیا اور نو سال کی عمر میں ان کی رخصتی کر دی گئی۔ (ابن عساکر، تاریخ دمشق ۷۰/۱۸۸)
مذکورہ بحث کا حاصل یہ ہے کہ جن معاملات میں شریعت نے وجوب اور فرضیت کے درجے میں کسی بات کا حکم نہیں دیا، ان میں کسی بھی معاشرت اور ثقافت کی مخصوص حساسیتوں کو ملحوظ رکھنا یقیناًحکمت ومصلحت کا تقاضا ہے، تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کو ایک مطلق معیار مان کر دوسرے معاشروں اور خاص طور پر عہد نبوی کی مسلم معاشرت بلکہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں اور اقدامات کو بھی اس پر پرکھنا شروع کر دیا جائے۔ چنانچہ جس طرح عہد نبوی کی بعض مثالوں کی بنیاد پر اس بات پر اصرار کرنا درست نہیں کہ ہر دور اور ہر معاشرے میں کم سنی کی شادیوں کو لازماً جائز رکھا جائے اور اس ضمن میں عملی حالات اور تجربات سے جو مفاسد سامنے آئے ہیں، انھیں بھی ملحوظ نہ رکھا جائے، اسی طرح یہ طرز فکر بھی درست نہیں کہ جدید معاشرتی تصورات کو معیار مان کر عہد نبوی وعہد صحابہ کی معاشرت کو ان پر پرکھنا شروع کر دیا جائے اور ہر اس بات کی نفی کا طریقہ اختیار کر لیا جائے جو ثقافت، تمدن اور طرز معاشرت کے فرق کی وجہ سے آج کے جدید ذہن کو اجنبی اور غیر مانوس محسوس ہوتی ہے۔
یہاں یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ اگرچہ نو سال کی عمر میں کسی لڑکی کی رخصتی عہد نبوی کی عرب معاشرت کے لحاظ سے کوئی قابل اعتراض بات نہیں تھی اور عملاً بھی ایسا کوئی اعتراض اس نکاح کے حوالے سے نہیں کیا گیا، لیکن یہ بات بہرحال مسلم ہے کہ اس عہد میں لڑکیوں کی رخصتی عام طورپر اتنی کم عمر میں نہیں کی جاتی تھی۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ام المومنین کے معاملے میں عام رواج سے ہٹ کر اس نوعمری میں نکاح اور پھر رخصتی کا طریقہ اختیار کیا گیا؟
یہ ایک اہم سوال ہے اور اس کے جواب پر غور کیا جائے تو معاملے کے بہت سے اہم پہلووں کو درست تناظر میں سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اس ضمن میں ایک بنیادی نکتہ تو یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ کم عمری میں ام المومنین عائشہ کی رخصتی اصلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش یا مطالبے پر نہیں، بلکہ خود ام المومنین کے اہل خانہ کی خواہش پر ہوئی تھی۔ جہاں تک ام المومنین کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام نکاح کو قبول کرنے کا تعلق ہے تو سیدنا ابوبکرکے زاویہ نظر سے یہ فیصلہ اس لیے قابل فہم تھا کہ نکاح کا پیغام کسی عام آدمی کی طرف سے نہیں، بلکہ اللہ کے پیغمبر کی طرف سے آیا تھا جنھیں وہ اپنی جان ومال اور دنیا کے ہر رشتے سے زیادہ عزیز رکھتے تھے، چنانچہ بدیہی طور پر ان کا احساس یہی ہونا چاہیے تھا کہ اگر ان کی بیٹی خدا کے پیغمبر کے گھر میں چلی جائے تو نہ صرف بیٹی کے لیے بلکہ خود سیدنا ابوبکر اور ان کے پورے خاندان کے لیے بھی اس سے بڑا شرف اور اعزاز کوئی نہیں ہو سکتا۔ نکاح کے وقت سیدہ عائشہ کی کم عمری کی وجہ سے فوری رخصتی نہیں ہو سکتی تھی اور ممکن ہے، عام حالات میں ام المومنین کی رخصتی کے لیے بھی اسی عمر کا انتظار کیا جاتا جس میں عام طور پر اہل عرب میں لڑکیوں کو رخصت کیا جاتا تھا، تاہم اسی دوران میں ہجرت مدینہ کا مرحلہ آ گیا۔ مدینہ میں اگرچہ ام المومنین سودہ بنت زمعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں تھیں، لیکن غالباً ان کے عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے سیدنا ابوبکر کے اہل خانہ کی توجہ اس طرف گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کو آباد کرنے کے لیے عائشہ کی رخصتی جتنی جلدی ہو سکے، کر دی جانی چاہیے۔ چنانچہ ام المومنین کے اپنے بیان کے مطابق ان کی والدہ انھیں رخصتی سے پہلے اس ارادے سے عمدہ اور جسم کو بھر دینے والی خوراک کھلایا کرتی تھیں کہ انھیں رخصت کر کے رسول اللہ کے گھر بھیجا جا سکے۔ (ابن ماجہ، رقم ۳۳۲۴)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زاویہ نظر سے دیکھیے تو اس فیصلے کی ایک نمایاں وجہ تو یہ سمجھ میں آتی ہے کہ آپ سیدنا ابوبکر کے ساتھ اپنے تعلق کو مزید مستحکم بنانا اور دوستی کے اس تعلق کو ایک مضبوط خاندانی رشتے میں بدل دینا چاہتے تھے۔ یہ معلوم ہے کہ قبائلی معاشرت میں اس طرح کے رشتے سماجی لحاظ سے غیر معمولی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور انھیں دو گھرانوں اور قبیلوں کے مابین تعلقات کے استوار کرنے اور انھیں مضبوط تر کرنے میں بے حد موثر ذریعے کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قریب ترین ساتھیوں یعنی خلفاے راشدین کے ساتھ تعلق اور وابستگی کے اظہار اور اسے مضبوط تر بنانے کے لیے ان کے ساتھ صہری رشتے قائم کرنے کا طریقہ اختیار فرمایا۔ سیدنا عمر کی بیٹی حفصہ بیوہ ہوئیں تو عدت گزرنے پر آپ نے ان کے لیے نکاح کا پیغام بھیج دیا۔ سیدنا عثمان کے نکاح میں یکے بعد دیگرے اپنی دو بیٹیاں، زینب اور ام کلثوم دیں اور سیدنا علی کے ساتھ اپنی بیٹی فاطمہ کا نکاح فرمایا۔ 
ام المومنین عائشہ کے ساتھ نکاح میں بھی سیدنا ابوبکر کے ساتھ تعلق کو صہری رشتے کی صورت دینے کی اس خواہش کا، کار فرما ہونا عین قرین قیاس ہے۔ اس مقصد کے لیے ام المومنین کی بڑی بہن سیدہ اسماء کا انتخاب بھی ممکن تھا، تاہم قرائن سے واضح ہوتا ہے کہ سیدہ خدیجہ کی وفات کے بعد جب نئے نکاح کا معاملہ زیر غور آیا تو اس وقت تک سیدہ اسماء کا یا تو زبیر بن العوام کے ساتھ باقاعدہ نکاح ہو چکا تھا یا کم سے کم نسبت ضرور طے ہو چکی تھی۔ چنانچہ ابن حجر کی تحقیق کے مطابق ہجرت کے پہلے سال انھوں نے اس حالت میں مکہ سے مدینہ کا سفر کیا کہ وہ حاملہ تھیں اور مدینہ پہنچتے ہی انھوں نے عبد اللہ بن زبیر کو جنم دیا جو مدینہ میں مہاجرین کے ہاں پیدا ہونے والے پہلے بچے تھے۔ (بخاری، رقم ۳۶۹۷) ظاہر ہے کہ یہ اسی وقت ممکن ہے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی عہد میں ہی ان کا نکاح زبیر بن العوام سے ہو چکا ہو۔ اس کی مزید تائید اس سے ہوتی ہے کہ جب سیدہ خدیجہ کی وفات کے بعد خولہ بنت حکیم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سیدنا ابوبکر کی بیٹی کے ساتھ نکاح کی تجویز پیش کی تو سیدہ اسماء کے بجائے سیدہ عائشہ کا نام لیا، (مستدرک حاکم، رقم ۲۷۰۴) حالانکہ اگر سیدہ اسماء اس وقت زبیر کے نکاح میں نہ ہوتیں یا ان کی نسبت نہ طے ہوئی ہوتی تو فطری طور پر خولہ کو انھی کا نام لینا چاہیے تھا۔
اس سارے معاملے میں ایک خاص پہلو سے منشاے خداوندی بھی شامل تھی، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ایک موقع پر ام المومنین عائشہ کو بتایا کہ مجھے دو مرتبہ خواب میں تم ریشم کے ایک کپڑے میں لپٹی ہوئی پیش کی گئیں اور مجھ سے کہا گیا کہ کپڑا ہٹا کر دیکھیے، یہ آپ کی بیوی ہے۔ میں نے کپڑا ہٹایا تو وہ تم تھیں۔ میں نے کہا کہ اگر یہ خواب اللہ کی طرف سے ہے تو وہ اس کو شرمندۂ تعبیر بھی کر دے گا۔ (بخاری، رقم ۳۶۸۲)اس لحاظ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ام المومنین سے نکاح کا فیصلہ کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہن میں اللہ کی ایک منشاکو رو بعمل کرنے کا پہلو بھی یقیناًموجود تھا۔ 
سورۂ احزاب میں اللہ تعالیٰ نے تفصیل سے واضح فرمایا ہے کہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں ایک طرف چند اعلیٰ دینی واخلاقی اوصاف اور دوسری طرف دین کو سیکھنے اور سکھانے کی صلاحیت اور جذبہ مطلوب ہے۔ ان دونوں پہلووں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ کے طور پر ام المومنین عائشہ کا انتخاب اللہ تعالیٰ کی منشا اور اس کے بتائے ہوئے معیار کے عین مطابق دکھائی دیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں ام المومنین کا جو مقام تھا، وہ احادیث میں کثرت سے بیان ہوا ہے۔ آپ کی وفا ت کے بعد ام المومنین کو اپنے علم وفضل، خداداد فراست اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت وتربیت کی بدولت امت کی دینی وعلمی راہ نمائی کے دائرے میں بلند مقام حاصل ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی روایت اور علمی وفقہی مسائل کی وضاحت کے ضمن میں انھوں نے غیر معمولی خدمات انجام دیں۔ خاص طور پر رسول اللہ کی دوسری ازواج مطہرات کے تقابل میں دیکھا جائے تو علم دین کے حوالے سے امت کو جتنا فیض سیدہ عائشہ کی ذات سے پہنچا ہے، وہ دوسری کسی زوجہ کے حصے میں نہیں آیا۔
ہمارے خیال میں معاملے کے مذکورہ تمام پہلووں کو پیش نظر رکھا جائے تو نہ صرف یہ کہ اس سوال کا جواب مل جاتا ہے کہ ام المومنین کی رخصتی کے سلسلے میں عرب کے عام رواج سے ہٹ کر کیوں معاملہ کیا گیا، بلکہ یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ ام المومنین کے ساتھ نکاح میں جن بلند تر دینی مصالح کی رعایت پیش نظر تھی، وہ نکاح اور رخصتی کے حوالے سے عام رواج کی پابندی سے کہیں زیادہ اہم تھے۔
مذکورہ امور کے ساتھ ساتھ اگر دو مزید نکتوں کو بھی ملحوظ رکھا جائے تو ہمارے خیال میں جدید ذہن کو اس الجھن سے نکلنے میں مدد مل سکتی ہے جس میں وہ گرفتار ہے: 
ایک یہ کہ روایات میں بظاہر جو بات بیان ہوئی ہے، وہ یہ ہے کہ نو سال کی عمر میں سیدہ عائشہ کو رخصت کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر بھیج دیا گیا اور اس کے بعد سے وہ بیوی کی حیثیت سے آپ کے ہاں مقیم رہیں۔ ام المومنین کے اسلوب بیان اور عمومی قیاس کا تقاضا یہی بنتا ہے کہ ام المومنین اس وقت جسمانی طور پر بلوغت کو پہنچ چکی تھیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رخصتی کے وقت سے ہی تعلقات زن وشو قائم کر لیے تھے۔ تاہم اگر یہ فرض کیا جائے کہ ام المومنین اس وقت بلوغت کو نہیں پہنچی تھیں اور جسمانی طور پر تعلقات زن وشو قائم کرنا مناسب نہیں تھا تو پھر یہ قیاس کرنے میں نہ صرف یہ کہ علمی وعقلی طور پر کوئی مانع نہیں، بلکہ یہ فرض کرنا علم وعقل کا عین تقاضا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جسمانی تعلق قائم کرنے کے لیے یقیناًمناسب وقت کا انتظار فرمایا ہوگا۔ جب آپ ام المومنین کی کم سنی کا لحاظ کرتے ہوئے اس بات کا اہتمام فرماتے تھے کہ ان کو اپنی عمر کے مطابق دل بہلانے کے لیے کھلونے میسر ہوں (مسلم، ۱۴۲۲۔ الطبقات الکبریٰ، ۸/۶۲) اور ان کی ہم عمر سہیلیاں ان کے ساتھ آ کر کھیلیں (بخاری، ۵۷۷۹) بلکہ ام المومنین کی دلداری کے لیے آپ خود انھیں مسجد نبوی میں ہونے والے کھیل تماشوں کو دیکھنے کی دعوت دیتے اور خود بھی دیر تک ان کے ساتھ کھڑے رہتے تھے (بخاری، ۴۸۹۴) تو یہ کیسے گمان کیا جا سکتا ہے کہ آپ نے ام المومنین کے ساتھ تعلقات زن وشو کو کسی بھی پہلو سے اور خاص طور پر کم سنی کی وجہ سے نامناسب محسوس کرنے کے باوجود اس پر اصرار کیا ہوگا؟ 
ان معاملات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حساسیت کی کیفیت یہ تھی کہ جب بنو کندہ کے سردار نعمان بن ابی الجون نے آپ سے خود فرمائش کر کے اپنی بیوہ بیٹی امیمہ کا نکاح آپ سے کر دیا اور وہ اپنے قبیلے سے رخصت ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ کے طور پر مدینہ منورہ پہنچ گئی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے قریب تشریف لے گئے تو یہ محسوس کر کے کہ اسے آپ کا قرب پسند نہیں، آپ نہ صرف فوراً پیچھے ہٹ گئے ، بلکہ اسے فوری طور پر نکاح سے آزاد کر کے واپس اس کے اہل خانہ کے پاس بھجوا دیا۔ (بخاری، ۴۹۵۵۔ مسند احمد، ۱۶۱۰۵) زیر بحث مسئلے میں بھی اس نکتے کے حوالے سے کوئی قیاس کرتے ہوئے کہ آیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رخصتی کے فوراً بعد تعلقات زن وشو قائم کر لیے ہوں گے، آپ کی شخصیت کے اس مسلمہ پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، اس لیے کہ کسی بھی شخصیت اور اس کے کسی بھی عمل کے بارے میں رائے قائم کرتے ہوئے اس شخصیت کے عمومی مزاج، اخلاق وکردار اور رجحانات کو ملحوظ رکھنا دنیا کا ایک مسلمہ اصول ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اسی نوعیت کے امور کے پیش نظر یہ فرمایا تھاکہ:
اذا حدثتکم عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فظنوا برسول اللہ الذی ہو اہناہ واہداہ واتقاہ (ابن ماجہ، ۱۹، ۲۰)
’’جب میں تمھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات بتاؤں تو (اس کا مفہوم متعین کرتے ہوئے) رسول اللہ کے بارے میں ایسا گمان رکھو جو زیادہ خوش گوار، زیادہ راستی اور زیادہ تقویٰ پر مبنی ہو۔‘‘
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ام المومنین کے ساتھ صغر سنی کے نکاح میں جدید ذہن کو جتنی بھی ’’قباحتیں‘‘ دکھائی دیتی ہیں، وہ سب ام المومنین کے سامنے بھی تھیں، بلکہ وہ تو خود صاحب معاملہ تھیں۔ یہ رشتہ ام المومنین سے پوچھ کر طے نہیں کیا گیا تھا اور نہ رخصتی کے وقت ہی ان کا عندیہ معلوم کیا گیا۔ یہ عمر جس میں ان کے کندھے پر خانگی ذمہ داریوں کا بوجھ ڈال دیا گیا، ان کے کھیلنے کودنے کی عمر تھی اور فرض کر لیجیے کہ وہ جسمانی طور پر بھی بلوغت کو نہیں پہنچی تھیں۔ ان کی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر میں پینتالیس سال کا فرق تھا جو عام طور پر میاں بیوی کے مابین جذباتی موافقت کے پیدا ہونے میں مانع ہوتا ہے۔ ان سب باتوں کی بڑی اہمیت ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ان سب باتوں کے حوالے سے ام المومنین کا رد عمل کیا تھا اور خود ان کے اپنے تاثرات اور احساسات کیا تھے؟ یہ اس معاملے کا سب سے اہم اور بنیادی سوال ہے جسے غیر مسلم معترضین بھی کلی طور پر نظر انداز کر دیتے ہیں اور ان کے اعتراضات کے زیر اثر خود مسلمانوں کا جدید ذہن بھی اس نکتے پر توجہ نہیں دے رہا۔ 
اگر تو خود صاحب معاملہ کا تاثر اور احساس یہ تھا کہ اس کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے اور اس کے حقوق اور جذبات واحساسات مجروح ہوئے ہیں تو مذکورہ تمام اعتراضات بے حد وزنی بن جاتے ہیں، لیکن ذخیرۂ حدیث سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جذباتی وابستگی اور محبت کی جو کیفیت ام المومنین عائشہ کے ہاں دکھائی دیتی ہے، اسے کسی مبالغے کے بغیر میاں بیوی کی باہمی محبت کے ایک آئیڈیل نمونے کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ام المومنین کے جذباتی تعلق کا حال یہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے اپنی مرحوم اہلیہ سیدہ خدیجہ کا ذکر سن کر بھی وہ رقابت کے جذبات محسوس کرتی تھیں اور وہ بعض اوقات محبت اور ناز میں یہ کہہ کر آپ کو ٹوک بھی دیا کرتی تھیں کہ اللہ نے آپ کو اس سے اچھی بیوی عطا کر دی ہے، پھر آپ کیوں ایک بڑھیا کا ذکر کرتے رہتے ہیں؟ (بخاری، ۳۶۱۰) وہ اپنی باری کی رات میں اندھیرے میں ٹٹول ٹٹول کر دیکھتی رہتی تھیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس ہی موجود ہیں یا کہیں اور چلے گئے ہیں ، بلکہ ایک موقع پر وہ رات کے اندھیرے میں تلاش کرتے کرتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے قبرستان جا پہنچی تھیں جہاں آپ اہل ایمان کے لیے دعا اور استغفار میں مصروف تھے۔ (مسلم، ۴۸۶، ۹۷۴) ایک موقع پر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم کے مطابق اپنی تمام ازواج کو یہ اختیار دیا کہ اگر وہ چاہیں تو آپ سے علیحدگی کا فیصلہ کر سکتی ہیں اور ام المومنین عائشہ کو یہ اختیار دیتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ فیصلہ کرتے ہوئے جلدی نہ کرنا، بلکہ اپنے والدین سے مشورہ کر لینا تو ام المومنین نے یہ کہہ کر اسی وقت یہ اختیار واپس کر دیا تھا کہ: ’افیک یا رسول اللہ استشیر ابوی؟‘ (مسلم، ۱۴۷۸) ’’یارسول اللہ، کیا میں آپ سے متعلق اپنے ماں باپ سے مشورہ کروں گی؟‘‘ وہ ان خواتین کے متعلق جو اپنے آپ کو نکاح کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیتی تھیں، یہ کہا کرتی تھیں کہ کیا کسی عورت کو اپنے آپ کو کسی مرد کے سامنے پیش کرتے ہوئے شرم محسوس نہیں ہوتی؟ پھر جب قرآن مجید میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی خواتین کو اپنے نکاح میں لے لینے کی باقاعدہ اجازت دے دی گئی تویہ ام المومنین ہی تھیں جنھوں نے یہ تبصرہ کیا کہ ’ما اری ربک الا یسارع فی ہواک‘ (بخاری، ۴۵۱۰، ۴۸۲۳) ’’آپ کا رب آپ کی خواہش کو پورا کرنے میں بڑی جلدی دکھاتا ہے۔‘‘
اس تعلق پر ام المومنین کو جو ناز تھا، اس کا اظہار وہ ایک خاص پیرایے میں کیا کرتی تھیں۔ فرماتی تھیں کہ:
اعطیت سبعا لم یعطہا نساء النبی صلی اللہ علیہ وسلم: کنت من احب الناس الیہ نفسا واحب الناس الیہ ابا، وتزوجنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بکرا ولم یتزوج بکرا غیری، وکان جبریل ینزل علیہ بالوحی وانا معہ فی لحاف ولم یفعل ذلک لغیری، وکان لی یومین ولیلتین وکان لنساء ہ یوم ولیلۃ، وانزل فی عذر من السماء کاد ان یہلک بی فئام من الناس، وقبض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بین سحری ونحری (طبرانی، المعجم الکبیر ۲۳/۳۰)
’’مجھے سات ایسے اعزاز حاصل ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری ازواج کو حاصل نہیں: میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب تھی، میرے والد سے آپ سب سے بڑھ کر محبت رکھتے تھے، آپ نے میرے علاوہ کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں کیا، جبریل اس حالت میں بھی آپ پر وحی لے کر نازل ہو جاتے تھے کہ میں آپ کے ساتھ ایک ہی لحاف میں ہوتی تھی جبکہ میرے علاوہ کسی اور کے ساتھ یہ معاملہ نہیں کیا گیا، آپ میرے پاس دو دن اور دو راتیں قیام کرتے تھے (کیونکہ حضرت سودہ نے اپنی باری بھی حضرت عائشہ کو دے دی تھی) جبکہ باقی ازواج کے لیے ایک دن اور ایک رات تھی، مجھ پر لگائے گئے الزام کی صفائی آسمان سے نازل ہوئی جس کی وجہ سے کچھ گروہ میرے بارے میں (بد گمانی کا شکار ہو کر) ہلاکت کے قریب جا پہنچے تھے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال اس کیفیت میں ہوا کہ آپ (کا سر مبارک) میرے سینے اور گردن کے درمیان رکھا ہوا تھا۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق کے حوالے سے ام المومنین رضی اللہ عنہا کے ان جذبات واحساسات کو پیش نظر رکھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ انسانی حقوق، عدل وانصاف اور اخلاقیات کی خلاف ورزی کا اصل اعتراض نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر نہیں بلکہ خود معترضین پر وارد ہوتا ہے جو شوہر اور بیوی کی ایک دوسرے کے ساتھ اس درجے کی محبت اور جذباتی وابستگی کو وزن دینے کے بجائے، جو رشتہ نکاح میں اصل چیز ہے، اپنے محدود اور ناقص اخلاقی پیمانوں سے اس رشتے کی قدر وقیمت متعین کرنا چاہتے ہیں۔
مذکورہ بحث کا حاصل یہ ہے کہ رخصتی کے وقت ام المومنین رضی اللہ عنہا کی عمر کے متعلق تاریخی طور پر وہی بات مستند ہے جو عام طور پر مانی جاتی ہے۔ اس مضمون کی روایات پر جو اعتراضات کیے گئے ہیں، نہ تو ان میں علمی طور پر کوئی وزن ہے اور نہ وہ دلائل ہی لائق اعتنا ہیں جو ام المومنین کی عمر کو تاریخی طورپر اس سے زیادہ ثابت کرنے کے لیے پیش کیے گئے ہیں۔ رخصتی کے وقت ان کی عمر نو سال ہونے کی روایات خود ام المومنین سے اتنی کثرت سے مروی ہیں کہ ان کے مقابلے میں پیش کیے گئے تاریخی قیاسات یا بعض مبہم ومحتمل بیانات کوئی وقعت ہی نہیں رکھتے۔ جن اہل علم نے اس ضمن میں متبادل تحقیق پیش کرنے کی کوشش کی ہے، ان کا جذبہ محرکہ بے حد قابل قدر ہے، تاہم علم وعقل اور دیانت وانصاف کا تقاضا یہی ہے کہ تاریخی حقائق کو اسی طرح تسلیم کر کے جس طرح وہ واقع میں رونما ہوئے، انھیں سمجھنے کی کوشش کی جائے، نہ یہ کہ ایک مخصوص تاثر کے تحت کمزور اور واہی استدلالات کا سہارا لے کر انھیں جھٹلانے کی سعی شروع کر دی جائے۔ ہذا ما عندی والعلم عند اللہ۔

مکاتیب

ادارہ

(۱)
۹ ربیع الاول، ۲ فروری ۲۰۱۲
بخدمت محترم مولانا زاہد الراشدی زید مجدہم
محترم مولانا۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔
آپ کو یہ جان کر یقیناًخوشی ہوگی کہ وہ شخص جس کے لیے آپ نے قارئین الشریعہ سے دعائے صحت کی درخواست کی تھی، وہ بالآخر اتنا صحت مند ہو ہی گیا کہ مایوسی کے ساتھ ہندوستان جا کر پھر لندن لوٹ آیا ہے۔ آپ ہی نے سب سے پہلے خاکسار کے لیے دعائے صحت کی درخواست کی تھی، سو آپ ہی کو سب سے پہلے بہتری کی اطلاع دے رہا ہوں۔ ڈیڑھ سال سے قلم ہاتھ میں نہیں لیا تھا۔ اسی کا اثر ہے کہ حروف صاف نہیں بن رہے۔ بالفاظ دیگر لکھنا بھول گیا ہوں۔ کمپیوٹر کی وجہ سے لکھنے کی عادت چھوٹ بھی گئی تھی۔
ایک ہفتہ ہوا یہاں آیا ہوں۔ سال گزشتہ کے کچھ شمارے مع جنوری ۲۰۱۲ء کے شمارے کے رضی سلمہ سے نکلوائے اور سب ہی پڑھ ڈالے۔ ماشاء اللہ فورم میں گرما گرمی بہت بڑھ رہی ہے۔ مگر جس بات پر لکھے بغیر رہا نہیں جا رہا، وہ تو آپ کی ’’علمی او رمطالعاتی زندگی‘‘ ہے اور جو لکھے بغیر رہا نہیں جا رہا، وہ صرف یہ ہے کہ اپنے مولانا تو بڑے چھپے رستم نکلے۔ اس بندے کو دعائیں جس نے ساری کتاب زندگی کھلوا کے رکھ دی۔ والسلام
میاں عمار صاحب کو سلام دیں۔
ممنون کرم
(مولانا) عتیق الرحمن (سنبھلی)
(۲)
برادرم ۔۔۔ صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
آپ کا بے حد شکریہ کہ آپ نے بڑی دلچسپی اور بھرپور تنقیدی نظر سے میری معروضات کا مطالعہ کیا اور تنقیح طلب نکات کی تعیین فرمائی۔ آپ کے سوالات کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر آئندہ سطور میں پیش کر رہا ہوں۔
۱۔ میرے خیال میں جسمانی بلوغت اور ذہنی پختگی میں فرق کرنے اور ہر عمر کے طبعی فطری رجحانات کو مناسب وزن دینے کی ضرورت ہے۔ تعلقات زن وشو کے لیے اخلاقی طور پر جس بات کا لحاظ ضروری دکھائی دیتا ہے، وہ یہ ہے کہ لڑکی جسمانی طور پر اس کی صلاحیت رکھتی ہو۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین کے ساتھ نو سال کی عمر میں یہ تعلق قائم کیا تو یقیناًاس کو ملحوظ رکھا ہوگا، بلکہ ان سے بھی پہلے خود ام المومنین کے والدین کے سامنے یہ نکتہ لازماً رہا ہوگا جنھوں نے نکاح کے بعد تین سال تک اسی بات کے پیش نظر انھیں رخصت نہیں کیا اور پھر مدینہ منورہ آنے کے ایک سال بعد خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی رخصتی کی پیش کش کی۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس عمر میں کھیل کود کے ساتھ طبعی دلچسپی ہی سرے سے باقی نہ رہے۔ اس چیز کا تعلق بلوغت سے نہیں اور ہم جانتے ہیں کہ بلوغت کے بعد بھی لڑکپن کی عمر میں ایسی دلچسپیاں خاصی دیر تک برقرار رہتی ہیں۔ ام المومنین کا یہ ارشاد بھی جسمانی بلوغت کے تناظر ہی میں ہے کہ ’’نو سال کی عمر میں لڑکی کو ’’عورت‘‘ سمجھا جائے‘‘۔
۲۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ام المومنین کی جذباتی وابستگی کا نکتہ میں نے مذکورہ بنیادی نکتے کے بعد اس کی مزید تائید کے طور پر پیش کیا ہے۔ بنیادی بات یہی ہے کہ نو سال کی عمر میں اگر ام المومنین کی رخصتی کو ان کے والدین اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول کیا تو ان کی جسمانی صلاحیت کو دیکھ کر ہی کیا۔ اس کی مزید تائید اس سے ہوتی ہے کہ ام المومنین سے اس معاملے سے متعلق کوئی منفی تاثر منقول نہیں، بلکہ وہ اس بات پر فخر کیا کرتی تھیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سے ایک وہی ہیں جن کے ساتھ آپ نے کنوارے پن کی حالت میں نکاح کیا۔ 
آپ نے جو مثال دی ہے، وہ صورت حال کی نوعیت کو سمجھنے کے لیے بڑی مفید ہے۔ اگر کوئی بہت عظیم المرتبت شخص میری رقم چرا لے اور اس کے باوجود میں اس کی شخصی عظمت کی وجہ سے اس پر برا نہ مانوں اور دیگر وجوہ سے اس سے میری محبت قائم رہے تو یقیناًاس سے رقم چرانے کا اخلاقی جواز ثابت نہیں ہوتا، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوگا کہ میں اس بات پر فخر کروں کہ اس نے میری رقم چرائی ہے یا اس بات کی خواہش کروں کہ وہ صرف میری ہی رقم چرایا کرے اور اگر میرے علاوہ وہ شخصیت کسی اور کی رقم بھی چراتی ہو تو میں اس پر رقیبانہ جذبات محسوس کروں۔ اگر میں ایسا کروں تو یہ اس بات کی دلیل ہوگی کہ جس چیز کو لوگ بظاہر چوری کا عمل سمجھ رہے ہیں، وہ چوری نہیں ہے بلکہ اس کی نوعیت اس سے بہت مختلف ہے جسے صحیح تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔
۳۔ نو سال کی عمر میں نکاح کے بارے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ عہد نبوت میں اس کا عام رواج تھا۔ میں نے صرف یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اگر لڑکی میں اس عمر میں جسمانی بلوغت کی علامات ظاہر ہوجائیں تو اس وقت کی سماجی اخلاقیات کے لحاظ سے یہ کوئی غیر اخلاقی عمل نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس کے لیے بہت زیادہ مثالوں کا پایا جانا شاید ضروری نہیں۔ ممکن ہے اس کا عام رواج نہ ہو، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص معاملے میں دوسرے بہت سے وجوہ اور مصالح کے پیش نظر اسے اختیار کرنے میں کوئی حرج نہ سمجھا گیا ہو۔ اس ضمن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خانگی ضروریات کے علاوہ ام المومنین عائشہ کے لیے آپ کی صحبت میں علم دین میں رسوخ حاصل کرنے کے مواقع فراہم کرنا خاص طور پر اہم ہیں۔ یہ بھی ملحوظ رہنا چاہیے کہ اس معاملے میں خود اللہ تعالیٰ کی منشا بھی شامل تھی جسے مکہ مکرمہ میں ایک خواب کی صورت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ظاہر کیا گیا تھا۔
۴۔ ہشام بن عروہ کے یہ روایت مدینہ میں بیان نہ کرنے کا نکتہ اس تناظر میں بالکل غیر اہم ہو جاتا ہے کہ اس روایت کا مدار ان پر نہیں ہے۔ انھوں نے یہ روایت عروہ بن زبیر سے نقل کی ہے اور عروہ سے اسی روایت کو ان کے علاوہ بھی تین راویوں نے نقل کیا ہے۔ ممکن ہے، ہشام نے مدینہ میں بھی یہ روایت بیان کی ہو، لیکن کتابوں میں نقل نہ ہو سکی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ مدینہ میں ام المومنین سے اس بات کو نقل کرنے والے دوسرے بہت سے اصحاب کی موجودگی کی وجہ سے ہشام کو وہاں یہ روایت بیان کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی ہو۔ بہرحال جو بھی صورت ہو، ام المومنین کی طرف اس بیان کی نسبت میں ہشام کا واسطہ بالکل غیر اہم ہے۔
۵۔ یہ بات کہ عروہ بن زبیر کے علاوہ اس روایت کی باقی سندیں قوی نہیں، محض ایک فنی نکتہ ہے جو اگر محدثانہ تحقیق کے لحاظ سے بظاہر درست ہو (جس کے متعلق میں سردست کچھ نہیں کہہ سکتا) تو بھی تاریخی ثبوت کے اصولوں کے لحاظ سے زیادہ قابل توجہ نہیں ہے۔ کسی روایت کی مختلف سندوں میں، جن کی تعداد زیربحث معاملے میں ایک درجن ہے، ہر سند کے کسی نہ کسی راوی میں کوئی خرابی دکھا کر محدود ’’فنی‘‘ مفہوم میں توتنقید کی جا سکتی ہے، لیکن یہ با ور کرنا بے حد مشکل ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں راویوں نے محض ایک بے اصل بات ام المومنین کی طرف منسوب کر دی ہے۔
۶۔ سورۂ قمر کے نزول کے وقت ام المومنین ایک ’’جاریہ‘‘ تھیں ، یہ بات تو درست ہے، لیکن سورۂ قمر کا نزول کب ہوا؟ یہ بات متعین طو رپر معلوم نہیں۔ عربی میں لفظ ’’جاریۃ‘‘ صرف نوجوان لڑکی کے لیے نہیں، بلکہ چھوٹی عمر کی بچی کے لیے بھی بولا جاتا ہے اور روایت میں ام المومنین کے الفاظ : کنت جاریۃ العب (میں ایک لڑکی تھی اور کھیلتی پھرتی تھی) اس کا قرینہ ہیں کہ یہاں نوجوان لڑکی نہیں، بلکہ بچی ہی مراد ہے۔
۷۔ سیدہ فاطمہ کے سن ولادت اور ان کی اور سیدہ عائشہ کی عمر کے باہمی فرق سے متعلق بھی حتمی طور پر کوئی بات نہیں کہی جا سکتی۔مورخین کے قیاسات اس ضمن میں مختلف ہیں۔ ابن حجر کے نزدیک اگر یہ فرق پانچ سال کا تھا تو ذہبی نے آٹھ سال بیان کیا ہے۔ (سیر اعلام النبلاء ۳/۴۲۹) پھر یہ کہ ابن اثیر کے بیان کے مطابق ۲ ہجری میں سیدنا علی کے ساتھ نکاح کے وقت سیدہ فاطمہ کی عمر پندرہ سال پانچ ماہ تھی۔ (اسد الغابہ ۷/۲۱۶) اگر ابن حجر کا بیان درست مانا جائے تو بھی ام المومنین کی عمر سیدہ فاطمہ کے نکاح کے وقت دس سوا دس سال سے زیادہ نہیں بنتی۔ ان کا سن ولادت ۵ قبل نبوت ہونے کی بات بھی یقینی نہیں۔ ابن عبد البر اور حاکم کی تحقیق یہ ہے کہ وہ بعثت نبوی کے پہلے سال پیدا ہوئیں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر اکتالیس سال تھی۔ (الاستیعاب ۴/۳۷۴۔ المستدرک ۳/۱۷۶) ظاہر ہے کہ ام المومنین کے اپنے صریح بیان کو چھوڑ کر اس طرح کے مشتبہ تاریخی معاملات سے ان کی عمر متعین کرنے کی کوشش علمی طور پر درست نہیں ہو سکتی۔
۸۔ جنگ احد میں ام المومنین کی شرکت سے استدلال دو وجوہ سے درست معلوم نہیں ہوتا۔ ایک تو یہ کہ وہ وہاں لڑائی میں شریک ہونے کے لیے نہیں، بلکہ دوسری خواتین کے ساتھ زخمیوں کی دیکھ بھال وغیرہ کے لیے گئی تھیں، اس لیے پندرہ سال سے کم عمر کے مردوں کو، جو ظاہر ہے کہ لڑائی کے لیے جانا چاہتے تھے، اگر اس غزوے میں ساتھ نہیں لے جایا گیا تو اس ضابطے کا اطلاق خواتین پر کسی طرح نہیں ہوتا۔ دوسری یہ کہ اس جنگ میں شرکت کے لیے پندرہ سال کی عمر کی قید نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بیان نہیں فرمائی جس سے کوئی عمومی ضابطہ اخذ کیا جا سکے۔ دراصل عبد اللہ بن عمرؓ نے بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب نوجوان لڑکوں کو پیش کیا گیا جو جنگ میں شریک ہونا چاہتے تھے تو آپ نے ان میں سے بعض کو اجازت دے دی جبکہ ابن عمر کو اجازت نہیں دی۔ اب یہ ابن عمر کا اپنا بیان ہے کہ اس وقت میری عمر چودہ سال تھی۔ اس سے یہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اجازت نہ دینے کی وجہ بھی ان کا چودہ سال کا ہونا تھا۔ 
۹۔ سیدہ اسماء کی عمر سے جو استدلال کیا گیا ہے، وہ میری نظر میں دو وجہ سے کمزور ہے۔ ایک تو یہ کہ تاریخی ثبوت کے لحاظ سے اسے ام المومنین کے اپنے بیان پر، جو ان سے درجن بھر راویوں نے نقل کیا ہے، ترجیح نہیں دی جا سکتی، خاص طور پر اس لیے کہ سیدہ اسماء کی عمر بوقت وفات سو سال ہونے کی بات ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے نقل کی ہے، جبکہ عروہ ہی نے ام المومنین کا یہ بیان بھی نقل کیا ہے کہ رخصتی کے وقت ان کی عمر نو سال تھی۔ دوسری یہ کہ اس استدلال کی صحت کا سارا مدار اس بات پر ہے کہ عروہ کے بیان میں سو سال سے مراد متعین طور پر سو سال اور ابن ابی الزناد کے بیان میں دس سال سے مراد متعین طور پر دس سال ہی ہوں، جبکہ عمروں کے بیان میں اہل عرب کا عام اسلوب اسے حتمی طور پر قبول کرنے سے مانع ہے۔ یہ محض ایک اندازہ نہیں، بلکہ حدیث وسیرت کی روایات میں یہ اسلوب عام ہے۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کے متعلق مستند ترین روایات میں اس کی واضح مثالیں موجود ہیں۔
امید ہے کہ مذکورہ توضیحات کسی حد تک مفید ہوں گی۔ بے حد شکریہ
محمد عمار خان ناصر
(۳)
محترم مدیر، ماہنامہ’’ الشریعہ‘‘ 
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
آپ کے مؤقر مجلہ ماہنامہ ’’ الشریعہ‘‘ میں ’’ معارف اسلامی‘‘ کی جانب سے ڈاکٹر محمود احمد غازی کی یادمیں خصوصی اشاعت پر محترم قاری محمد طاہر صاحب کا تبصرہ پڑھنے کا موقع ملا۔تبصرہ پڑھ کر اس لحاظ سے دلی خوشی محسوس ہوئی کہ ہمارے ہاں الحمدللہ اب بھی ایسے اہل علم حضرات موجود ہیں جو نہ صرف یہ کہ مضامین و مقالات کو پڑھتے ہیں بلکہ بہت غور و خوص کے ساتھ پڑھتے ہیں اورمقالات پر اپنی Observation بھی دیتے ہیں ۔راقم الحروف چونکہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے کلیہ علوم اسلامیہ کے شعبہ تدریس و تحقیق سے منسلک ہے اور مذکور ہ خصوصی اشاعت کے تمام مراحل سے براہ راست آگاہی رکھتا ہے، اس لیے قاری صاحب کے تبصرہ پر چند معروضات آپ کے مؤقر مجلہ کی وساطت سے قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔
(۱) تبصرہ نگار نے ڈاکٹر چشتی صاحب کے تاثرات میں درج علامہ اقبال کے شعر کے دوسرے مصرعہ پر بحث کی ہے اور اسے شعری اصولوں کے خلاف قرار دیا ہے، حالانکہ بقول چشتی صاحب یہ مصرعہ علامہ اقبالؒ ہی سے منقول ہے اور ڈاکٹر چشتی صاحب کے مرشد محترم شیخ طفیل احمد فاروقی اس روایت کو زیادہ پسند فرماتے تھے اور ادب کے مایہ ناز شاعر غلام محمد شمسی ؒ کے پاس علامہ اقبال کے غیر مطبوعہ کلام کا جو مخطوط تھا اس میں علامہ کا یہ شعر اسی ترمیم کے ساتھ درج تھا۔ مناسب ہوتا اگر قاری صاحب تبصرہ کرنے سے پہلے چشتی صاحب سے رابطہ کر لیتے اور اس شعر کے بارے میں صحیح صورتحال قارئین کو بتا دیتے ۔
(۲) تبصرہ نگار نے ڈاکٹر ثناء اللہ حسین کے مقالے کے بارے میں لکھا ہے کہ ایک ہی عنوان سے دو مرتبہ لکھا گیا ہے، حالانکہ ایسی بات نہیں ہے ۔معارف اسلامی کو اچھی طرح پڑھ لیں۔ یہ مقالہ ایک ہی عنوان سے دو بار کہیں بھی نظر نہیں آئے گا۔ تفسیر کے موضوع پر ڈاکٹر عبد الحمید خان عباسی نے مستقل مقالہ لکھا ہے اور ثناء اللہ حسین نے جو معلومات جمع کی ہیں، وہ بالکل مختلف ہیں۔ دونوں مقالات میں کسی پہلو سے تکرار نہیں ۔مناسب ہوتا کہ تبصرہ نگار ایسی رائے دینے سے پہلے دونوں مقالات کو اچھی طرح سے پڑھ لیتا۔
(۳) تبصرہ نگار نے حدیث اور فقہ کے ضمن میں مقالات کا تذکرہ نہیں کیا ،حالانکہ یہ سارے مقالات ڈاکٹر محمود غازی کے مطبوعہ محاضرات پر مبنی ہیں اور ان میں مقالہ نگار حضرات نے بڑی محنت اور عرق ریزی کے ساتھ مواد جمع کیا ہے۔ مناسب ہوتا کہ تبصرہ میں ڈاکٹر تاج الدین الازہری، ڈاکٹر عبد الغفار بخاری،ڈاکٹر غلام یوسف اور ڈاکٹر شہزاد اقبال شام کی کاوش کو بھی شامل کر لیا جاتا۔ یہ سب وہ حضرات ہیں جنہوں نے ڈاکٹر غازی صاحب کی رفاقت میں طویل عرصہ تک علمی سفر کیااور جنہیں ڈاکٹر غازی صاحب کے ساتھ محض ظاہری اور سطحی نہیں بلکہ عقیدت و ارادت کا رشتہ ہے۔
(۴) مطبوعہ تبصرہ میں حصہ عربی کے مقالات کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے ۔حالانکہ عربی کے دونوں مقالات نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔ ڈاکٹر عصمت اللہ صاحب نے فنی اعتبار سے ڈاکٹرغازی ؒ کا تعارف پیش کیا ہے اور ڈاکٹر فضل اللہ نے ڈاکٹر غازی صاحب کے عربی زبان و ادب پر عبور کے اس پہلو کو اجاگر کیا ہے جس سے عام طور پر ہمارے ہاں لوگ واقفیت نہیں رکھتے ۔
(۵) خصوصی اشاعت کے حصہ انگریزی کے بارے میں قاری صاحب لکھتے ہیں کہ یہاں محض تکرار ہے اور اردو مقالات کا ترجمہ دیا گیا ہے،حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اصل میں قاری صاحب نے اردو اور عربی مقالات کے Abstracts کو دیکھ کر اس طرح کہا ہے۔ Abstractsکے بعد انگریزی میں تین مقالات شامل کیے گئے ہیں۔ پہلا مقالہ ڈاکٹر محمد الغزالی صاحب ہے جس کا عنوان My Brothaer ,Mahmood Ahmad Ghaziہے۔ اس آرٹیکل میں ڈاکٹر غزالی صاحب نے محض اپنے تاثرات نہیں بلکہ اپنے دل کے جذبات مرتب کیے ہیں اور بڑی خوبصورتی کے ساتھ مرتب کئے ہیں ۔اگر یوں کہا جائے کہ یہ آرٹیکل اس خصوصی اشاعت کی جان ہے تو بے جا نہ ہو گا۔
دوسرا آرٹیکل ڈاکٹر محمود احمد غازی کے خطاب پر مبنی ہے۔ یہ خطاب ڈاکٹر غازی ؒ نےU.K میں ایک خصوصی موقع پر کیا تھا جس میں علوم دینیہ کے مراکز اور مدارس اور خاص طور پر بر صغیر میں علوم اسلامی کی ترویج اور اشاعت پر بحث کی گئی ہے۔ یہ خطاب اپنے موضوع پر ایک شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے اور اس خصوصی اشاعت کی قدرو قیمت میں اس نے نمایاں اضافہ کیا ہے ۔تیسرا آرٹیکل داکٹر جنید ندوی کا ہے جس کا تعلق ڈاکٹر غازی ؒ کی کتاب"The Life & Work of the Prophet of Islam,"V.1 by Mahmood Ahmad ghazi: A Reading ہے۔ ڈاکٹر جنید ندوی نے اس کتاب پر بہت جامع اور وقیع تبصرہ کیا ہے ۔اور اس کے اہم پہلوؤں کو اجاگرکرنے کی کوشش کی ہے۔
یہ چند معروضات محض اس لیے آپ کی خدمت میں بھیج رہا ہوں تا کہ محترم قاری طاہر کے تبصرہ میں جو پہلو رہ گئے ہیں، وہ ماہنامہ الشریعہ کے قارئین کے سامنے آ سکیں اور بعض اہم نکات کی وضاحت ہو سکے ۔
ڈاکٹر ثناء اللہ حسین 
لیکچرر شعبہ قرآن و تفسیر 
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد
(۴)
محترم جناب عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج گرامی بخیر!
’’ماہنامہ الشریعہ‘‘نے جدید انداز میں بحث ومباحثہ اور مکالمہ کے ذریعہ دین کو سمجھنے اور سمجھانے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا، وہ بہت اچھا تھا مگر اب اس میں کچھ ایسے لوگ بھی شامل ہوتے جارہے ہیں جو جھوٹ اور دجل وفریب کا سہارا لے کر اسلام دشمن قوتوں کوخوش کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام اور اسلامی شخصیات کو نشانہ تنقید بنارہے ہیں جو قطعاًدرست نہیں۔ مجھے مخدوم محترم حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب مدظلہ اور آنجناب کی نیت پر بالکل بھی شک نہیں، مگر آپ سے دانستہ یا نادانستہ یہ سہو ضرور ہورہا ہے کہ آپ اس مؤقر جریدے میں بعض دفعہ ایسے لوگوں کو جگہ دیتے ہیں جو اپنی بے تکی لفاظی کے ذریعے ’’الشریعہ ‘‘کے صفحات سیاہ کرنے کے سواکوئی خدمت سرانجام نہیں دے رہے۔امید کرتا ہوں کہ آپ اس سلسلہ میں غور فرمائیں گے۔
ماہ فروری کے ماہنامہ الشریعہ میں مکاتیب کے عنوان سے ایک مکتوب کے جواب میںآپ کی تحریر پڑھ کر جہاں آپ کے افکار ونظریات سے آگاہی ہوئی، وہیں دکھ بھی ہوا جس کا شاید فون پر بھی آپ سے اظہار کیا تھا۔آپ اپنی رائے کا اظہار کرنے کا حق تو یقیناًرکھتے ہیں، مگرآپ کو اپنی رائے کے اظہار کے ساتھ ساتھ کسی کی بلکہ ان لوگوں ( جنہیں امت کے مقتدر حلقوں کی تائید وسرپرستی حاصل ہے )کی جدوجہد کو شرارت کا نام دینے یا انہیں فسادی قرار دینے کاکوئی حق حاصل نہیں ہے۔ گذشتہ چند شماروں میں مسئلہ تکفیر کی بحث میں اہل تشیع کی تکفیر کے متعلق آپ کی امام ابن تیمیہؒ کے حوالے سے پیش کردہ باتوں سے مجھے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ میرے نزدیک وہ تمام کی تمام باتیں درست ہیں، مگر ان تمام باتوں سے کسی صورت یہ ثابت نہیں ہوتا کہ روافض کی تکفیر نہ کی جائے بلکہ ان کی نسبت اسلام کا خیال رکھا جائے۔ ماہ دسمبر کے شمارے میں آپ نے اپنی کسی مجلس میں کی جانے والی اپنی گفتگو کو تحریری صورت میں پیش کیا ہے جس میں آپ یہ باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ امام ابن تیمیہؒ کا مؤقف یہ ہے کہ کسی کلمہ گومسلمان کے کفریہ عقائد یا مستلزم کفر عقائد کی بناپر اس کی تکفیر نہ کی جائے بلکہ اس کی نسبت اسلام کو ترجیح دی جائے۔آپ کا یہ فرمان بالکل بجا اور حضرت امام ابن تیمیہؒ کا نقطہ نظر بھی بالکل درست، مگر اس کے باوجود امام ابن تیمیہؒ روافض کی تکفیر کے قائل ہیں۔ایک ہے، امام ابن تیمیہ ؒ کے مؤقف کو آپ کا سمجھنا اور پھر اپنی سمجھ کے مطابق اس کا من پسند مطلب نکالنا اور ایک ہے امام ابن تیمیہ کا مؤقف جس کی وضاحت انہوں نے خود کھل کر بیان فرمادی ہے جو آپ کی رائے کے بالکل برعکس ہے۔اب آپ ہی بتائیں کہ آپ کی رائے کو درست سمجھا جائے یا امام ابن تیمیہؒ کے مؤقف کو درست سمجھا جائے جبکہ آپ اس مسئلہ میں جابجا امام ابن تیمیہؒ کے مؤقف کودرست قرار دیتے ہیں۔ انتہائی اختصار کے ساتھ میں یہاں صرف دوعبارتیں پیش کررہا ہوں جن سے امام ابن تیمیہ کے مؤقف کی وضاحت ہوجاتی ہے۔
امام ابن تیمیہ ؒ نے اپنی تصنیف الصارم المسلول علی شاتم الرسول میں دوعنوان قائم کیے ہیں جنکی عبارتیں پیش خدمت ہیں ۔ان عنوانات کے تحت وہ بہت ساری عبارتیں ایسی لائے ہیں جن سے آپ کے مؤقف کی تردید ہوجاتی ہے۔ 
پہلا عنوان یہ ہے: وقد قطع طائفۃ من الفقہاء من اہل الکوفۃوغیرہم بقتل من سب الصحابۃ وکفر الرافضۃ۔ (الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول ص ۴۱۲)
ترجمہ: ’’اہل کوفہ ودیگر فقہا نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو گالیاں دینے والے کے قتل اور روافض کی تکفیر کو یقینی قرار دیا ہے۔‘‘
دوسرا عنوان کچھ یوں ہے: صرح جماعات من اصحابنا بکفر الخوارج المعتقدین البراءۃ من علی وعثمان وبکفر الرافضۃ المعتقدین لسب جمیع الصحابۃ الذین کفروا الصحابۃ وفسقوھم وسبوھم۔ (الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول ص۴۱۳ )
ترجمہ: ’’علماء کی بہت ساری جماعتوں نے خوارج کے کفر کی تصریح کی ہے جو حضرت عثمان وحضرت علی رضی اللہ عنہماسے برأت کا عقیدہ رکھتے ہیں اور اسی طرح روافض کے کفر کی تصریح کی ہے جو تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالیاں دینے کا عقیدہ رکھتے ہیں جنہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تکفیر کی ہے،انہیں فاسق قرار دیا ہے اور انکو گالیاں دی ہیں۔ ‘‘
آپ نے اپنی تحریر میں اہل تشیع کے کفر پر اجماع نہ ہونے کی بھی بات کی ہے بلکہ اجماع ہونا ناممکن قرار دیا ہے۔اس کے متعلق صرف ایک حوالہ پیش خدمت ہے امید ہے کہ یہی کافی ہوگا۔حضرت ملا علی قاری ؒ فرماتے ہیں کہ قلت وھذا فی غیر حق الرافضۃ فی زماننا فانہم یعتقدون کفر اکثر الصحابۃ فضلاً عن سائر اہل السنہ والجماعۃ کفرۃ بالاجماع بلانزاع۔ (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ج۹ص۱۳۷
ترجمہ:میں کہتا ہوں یہ بات ان رافضیوں کے بارے میں ہے جو ہمارے زمانے کے نہیں ہیں(ملا علی قاریؒ کے زمانے سے پہلے کے رافضی) کیونکہ جو ہمارے زمانے کے رافضی ہیں وہ اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم کی تکفیر کا عقیدہ رکھتے ہیں چہ جائیکہ وہ تمام اہل سنت والجماعت کو کافر کہیں ۔بس یہ بالاجماع کافر ہیں بغیر کسی اختلاف کے۔
اب یہ فیصلہ آپ خود کرسکتے ہیں کہ اجماع ممکن ہے یا ناممکن ۔تاہم میں سمجھتا ہوں کہ اس عنوان پر قدرے تفصیل کے ساتھ بات کرنے کی ضرورت ہے جس کا یہ خط متحمل نہیں ہوسکتا۔ آپ اگراس عنوان پر کوئی تحریری مکالمہ یا مباحثہ کروالیں اور فریقین کے نقطہ نظر سے آگاہی کا موقع دیں تو پھر اپنی معروضات بھی پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔
محمد یونس قاسمی
جہانیاں، خانیوال
(۵)
محترم عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم
آپ کو خط لکھ کر زحمت اس لیے دے رہا ہوں کہ ماہ فروری کے ’الشریعہ‘ کے کلمہ حق سے اصولی طور پر سارے مضمون سے اس خاکسار کو اختلاف ہے، مگر الاتقان فی علوم القرآن سے جو روایت سیدنا علی کے حوالے سے بیان کی گئی ہے، اہل حدیث تو اسے پیش کرتے ہی تھے، مگر آپ لوگوں نے اسے پیش کر کے قرآن کریم سے اپنی بے خبری کا بھی ثبوت دیا اور یوں قران پر بھی بہتان لازم آیا اور علی رضی اللہ عنہ کے ذمے بھی ایک جھوٹی بات لگا دی:
’’علی رضی اللہ عنہ نے جب ابن عباس کو خوارج سے گفتگو کے لیے بھیجا تو اسی خدشے کے پیش نظر ان سے فرمایا تھا: ۔۔۔ ’’ان کے پاس جاؤ اور ان سے بحث کرو، لیکن ان کے سامنے قرآن کریم سے استدلال نہ کرنا، اس لیے کہ قرآن کریم کے الفاظ میں مختلف معانی کا احتمال ہوتا ہے، بلکہ ان کے ساتھ سنت کے حوالے سے گفتگو کرنا۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے کہا کہ اے امیر المومنین، میں قرآن کریم کو ان سے زیادہ جاننے والا ہوں۔ یہ تو ہمارے گھروں میں اترا ہے (یعنی قرآن کریم کے حوالے سے گفتگو میں بھی وہ مجھ پر غالب نہیں آ سکتے)۔ حضرت علی نے فرمایا کہ تم ٹھیک کہہ رہے ہو، لیکن قرآن کریم احتمالات کا حامل ہے۔ تم ایک مطلب بیان کرو گے تو وہ دوسرا مطلب نکال لیں گے۔ تم ان کے ساتھ سنن کی بنیاد پر بحث کرنا، کیونکہ ان سے بھاگنے کی راہ انھیں نہیں ملے سکے گی۔‘‘
قرآن میں ہرگز احتمالات نہیں، بلکہ برعکس طو رپر قرآن تو اپنے مبین ہونے کا دعوے دار ہے۔ دیکھیں: (۱) حم والکتاب المبین، (الزخرف آیت ۱،۲) ’’قسم ہے اس واضح کتاب کی‘‘۔ یہ حتمی طور پر فیصلہ کن ہے۔ (۲) انہ لقول فصل۔ (الطارق آیت ۸۶) ’’بے شک یہ قرآن دوٹوک فیصلہ کرنے والا کلام ہے۔‘‘ (۳) لا یاتیہ الباطل من بین یدینہ ولا من خلفہ تنزیل من حکیم حمید (حم السجدۃ آیت ۴۲) ’’اس کے پاس باطل پھٹک بھی نہیں سکتا، نہ اس کے آگے سے اور نہ اس کے پیچھے سے۔ یہ ہے نازل کردہ حکمتوں والے خوبیوں والے اللہ کی طرف سے۔‘‘
لا ریب، یہ روایت کسی دشمن قرآن نے وضع کر کے سیدنا علی اور قرآن پر الزام لگایا ہے۔ صحیح مسلم کے مقدمہ میں ابن عباس سے اسی قسم کی روایات کے بارے میں یہ بات موجود ہے کہ ’’علی رضی اللہ عنہ ایسے فیصلے ہرگز نہیں کہہ سکتے۔‘‘ یہ روایت قرآن کی بے شمار آیات کے خلاف ہے اور آپ تو اصول حدیث مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ خلاف قرآن کوئی روایت قبول نہیں ہوتی۔ ابن الصلاح، خطیب اور ابن تیمیہ کی اصول حدیث کی عبارات تو آپ کو ازبر ہوں گی۔ 
آپ کو پہلے بھی ایک خط پروفیسر اکرم ورک کے حوالے سے لکھا تھا جس میں آں محترم نے قرآن کو اپنی تشریح وتاویل کے لیے حدیث وسنت کا محتاج لکھا تھا، مگر میرے خط کا جواب نہ آں محترم نے دیا اور نہ ہی آپ نے۔ اس خاکسار کی رائے میں یہ جملہ اور اس بات الاتقان کے حوالے سے علی رضی اللہ عنہ کی جو روایت پیش کی گئی ہے، توہین وتنقیص قرآن پر مبنی ہیں۔ اللہ ہمیں غلطی سے توبہ کی توفیق بخشیں۔ آمین
محمد امتیاز عثمانی، راولپنڈی
(۶)
بخدمت گرامی قدر مخدوم العلماء حضرت علامہ زاہد الراشدی مدظلہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج گرامی؟
آپ کی وساطت سے چند امور الشریعہ کے قارئین کرام اور دیگر متعلقہ حلقوں کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ 
(۱) احقر جمعیت علماء اسلام کا ایک کارکن ہے، لیکن غیر متحرک ہے۔ غیر متحرک ہونے کی وجہ غیر معقول قسم کی گروپ بازی ہے جو کہ سراسر ذاتیات پر مبنی ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور امر پر بھی بہت دل دکھتا ہے۔ وہ یہ کہ آج تک جمعیت علمائے اسلام کا مستقل بنیادوں پر کوئی مرکزی دفتر نہیں ہے، نہ ہی ماہنامہ ’’ترجمان اسلام‘‘ کا مکمل ریکارڈ دستیاب ہے۔ ہر دو گروپوں کے قائدین کے پاس بھی شاید ہی مکمل ریکارڈ اور دیگر دستاویزات موجود ہوں۔ المیہ بر المیہ یہ ہے کہ قائدین جمعیت جو کہ قائدین انقلاب کہلاتے ہیں، آج تک جمعیت علمائے اسلام کی مستند اور مکمل تاریخ بھی نہیں لکھوا سکے۔ 
الجمعیۃ راولپنڈی کے تازہ خاص نمبر میں مولانا فضل الرحمن صاحب کے جلسہ کراچی کی مکمل رپورٹ پڑھ رہا تھا اور یہ سو چ رہا تھاکہ مضمون نگار حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب کے ناقدین کو تلخ وتند جوابات دینے پر جو صلاحیتیں صرف کر رہے ہیں، کاش کہ وہ جمعیت کی تاریخ لکھنے پر صرف کرتے تو بہت فائدہ ہوتا۔ قائد جمعیت کا ذاتی دفاع مستحسن ہے، لیکن جمعیت کی تاریخ لکھنا اس سے زیادہ اہم امر ہے۔ قائدین جمعیت ملک گیر جلسوں پر جو کثیر رقوم خرچ کرتے ہیں، اگر وہ رقوم بچا کر مرکزی دفتر قائم کرنے کا اہتمام کر لیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ ایسا دفتر جس میں ریسرچ اسکالرز کے لیے جمعیت کی تاریخ کے متعلق کتب ورسائل موجود ہیں، دیگر لوازمات موجود ہوں، بہت ضروری ہے۔ اسی طرح جمعیت کے متعلق علمی وتحقیقی کام کی تڑپ رکھنے والوں کے لیے ایک یا زیادہ ایسی ویب سائٹس کا قیام ضروری ہے جس میں تمام رسائل، کتب اور دیگر ضروری امور موجود ہوں۔ 
بہت سے حلقوں کا یہ بجا شکوہ ہے کہ جمعیت کے ضلعی، صوبائی اور مرکزی عہدیداروں سے ملنا ایک مصیبت برداشت کرنے سے کم نہیں۔ یہ حضرات عوام کو قریب نہیں آنے دیتے۔ انقلاب کیا آئے گا؟
احقر کا انداز تحریر شاید گستاخانہ قرار پائے، متعلقہ تمام قائدین وکارکنان سے معذرت خواہ ہوں۔ یہ ایک دکھی دل کی آواز ہے۔ کاش کہ متعلقہ اکابر اور حلقوں تک پہنچ سکے اور وہ اس پر عمل کر سکیں۔
(۲) دو ماہ پہلے الشریعہ میں دینی مدارس کے اساتذہ کرام کے مسائل پر ایک خط چھپا تھا۔ حیران ہوں کہ اس بحث کو کسی نے آگے نہیں بڑھایا، حالانکہ اس کی سخت ضرورت ہے۔ المیہ یہ ہے کہ مہتمم حضرات، مدرسین کے حوالے سے ماضی کا پچاس سالہ ماحول اور اپنے لیے پچاس سال بعد کا ماحول فرض کر لیتے ہیں۔ مدرسین کی ایک بڑی تعداد چار پانچ ہزار روپے تنخواہ پر گزارہ کر رہی ہے۔ بیسیوں مدارس ایسے ہیں جہاں مدرسین کے لیے مساجد کی امامت وخطابت شجر ممنوعہ ہے۔ مدرسہ کی مختلف نظامتیں، نگرانیاں اور نگرانوں کی نگرانی، عجیب ماحول ہے۔ محتاط الفاظ استعمال کرنا سخت مشکل ہے۔ مدرسین چار پانچ ہزار میں کیسے گزارہ کرتے ہیں؟ عقل مند کے لیے ان کی مشکلات کو جاننا مشکل نہیں۔
اساتذہ کے لیے دو دو کمروں کے مختصر کوارٹر جہاں صحن سرے سے مفقود ہے، موسم گرما اور لوڈ شیڈنگ میں ان اساتذہ کے اہل خانہ کیسے زندگی گزاریں گے؟ متعلقہ مہتمم کو احساس نہیں۔ ایک مہتمم صاحب نے اساتذہ کی میٹنگ میں فرمایا کہ اب ہمارے پاس کافی فنڈز جمع ہیں، سوچ رہے ہیں کہ سال دو سال بعد تنخواہیں بڑھا دی جائیں۔ اساتذہ کی سالانہ ترقی سو دو سو روپے اور مہنگائی اس سے کئی گنا زائد ہے۔ مہتمم صاحبان اوران کی اولاد کے لیے بے شمار سہولیات، صواب دیدی فنڈز ہیں اور اساتذہ کے لیے مقررہ تنخواہ سے ایک روپیہ بھی زائد نہیں۔ بعض مدارس میں مدرسہ کے ناظم مالیات مہتمم کے اختیارات استعمال کرتے یں۔ سالانہ ترقی لگانے نہ لگانے میں وہ اپنی پسند اور ناپسند مقدم رکھتے ہیں۔ بیس بیس سال تدریس کرنے والوں اور نئے بھرتی ہونے والے مدرسین کی تنخواہیں کئی مدرسوں میں برابر ہیں۔ مہتمم حضرات کی مرضی کا نام اصول ہے۔
پنجاب کے غالباً پچاس فی صد مدارس میں اساتذہ کو بندۂ بے دام کی حیثیت دی جاتی ہے۔ صبح کی اذان سے لے کر رات گئے تک بے چاروں کے لیے مصروفیت ہی مصروفیت ہے۔ اضافی کاموں کا معمولی معاوضہ ملتا ہے اور بعض مدارس میں ملتا ہی نہیں اور نوکری کا عدم تحفظ اس پر مستزاد ہے۔ یہ وہ احوال ہیں جو بندہ کے مشاہدہ میں آئے یا معتبر ذرائع سے سنے۔ جزئیات کا احاطہ کرنا دشوار ہے۔ 
احقر عمومی حالات عرض کر رہا ہے۔ ان واقعات کو کسی خاص مدرسہ یا مہتمم پر منطبق نہ کیا جائے اور بدگمانی نہ کی جائے۔ بعض مہتمم حضرات اپنے مدرسین کی کامیابی اور ہر دل عزیزی برداشت نہیں کر سکتے اور ان کی ناکامی کے اسباب مہیا کرتے ہیں۔ کیا وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے اکابرین ان حالات پر غور فرمائیں گے؟ اکابرین سے دست بستہ گزارش ہے کہ وہ اس صورت حال کا ادراک کریں اور احقر کی رائے یہ ہے کہ مذکورہ حالات صر ف کسی خاص مسلک کے مدارس کے ساتھ خاص نہیں۔ تمام مسالک کے بیسیوں مدارس یکساں صورت حال سے دوچار ہیں۔ 
(۳) گزشتہ ایک صدی سے امت مسلمہ کے زوال پر محققین کی طبع آزمائی بلکہ زور آزمائی جاری ہے۔ کسی کو اس زوال کا سبب یہ نظر آتا ہے کہ قرآن مجید کی صداقت مشکوک ہے۔ کسی کے ہاں احادیث مشکوک ہیں۔ کوئی فقہ وفقہا کی کاوشوں سے نالاں ہے۔ کسی کے نزدیک متکلمین کی کاوشیں اس تباہی کا سبب ہیں۔ ایک عجیب طوفان برپا ہے۔ نئے نئے محققین ہیں، نئی نئی تحقیقات ہیں۔ حال ہی میں ’’ادراک زوال امت‘‘ کے نام سے انڈیا سے دو ضخیم جلدیں منظر عام پر آئی ہیں۔ موصوف کی محنت اپنی جگہ، کئی جگہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کا اپنا ذہن صاف نہیں۔ حقائق کا پورا علم نہیں رکھتے، وہ مثبت امور کو بھی منفی انداز سے لیتے ہیں۔
احقر یہ کہنا چاہتا ہے کہ ہمارے مسلک کے موجودہ اکابر میں آپ، علامہ ڈاکٹر خالد محمود اور حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ اس لائق ہیں کہ اپنے انداز میں قلم اٹھائیں اور زوال امت کی مستند تاریخ لکھ دیں کہ امت مسلمہ قرن اول سے دور حاضر تک کن فکری، معاشی، معاشرتی، سیاسی بحرانوں، المیوں اور طوفانوں سے دوچار ہوئی۔ یہ تجزیہ مستند انداز میں لکھا جانا بہت ضروری ہے جو کہ آپ حضرات ہی لکھ سکتے ہیں۔ دور حاضر میں دو قسم کے مصنفین بکثرت پائے جاتے ہیں۔ ایک قینچی مار مصنفین جو اپنے دماغ سے ایک سطر بھی نہیں لکھ سکتے اور دوسرے وہ حضرات جن کا مطالعہ وسیع مگر سطحی ہے۔ اس میں گہرائی، اعتدال اور سلامت فکر نہیں ہے۔ زیادہ تر لوگ وہ ہیں جو ایک نتیجہ ذہن میں مرتب کر کے اس کے مطابق حقائق کو ڈھال لیتے ہیں۔ آپ اور دیگر دونوں بزرگوں پر سب حضرات کو اعتماد ہے۔ اگر لکھنے کی فرصت نہ ہو تو مختلف فورموں پر سلسلہ وار خطبات کی ایک سیریز ریکارڈ کروا دیں جنھیں بعد میں کتابی صورت دی جا سکے۔ آپ سمیت تینوں شخصیات سے گزارش ہے کہ وہ اس موضوع کی اہمیت کو محسوس کریں اور نوجوان نسل کی راہنمائی فرمائیں۔ 
یہ موضوع اس لیے بھی اہم ہے کہ ایک مخصوص بہت منظم طریقے سے پھیلائی جا رہی ہے اور اس فکر کے حاملین کے ہاں ان کی اسلامی تعبیر کے علاوہ باقی سب گمراہی اور کفر ہے۔ ان جذباتی عناصر کے سامنے بند باندھنا بھی بہت ضروری ہے۔ ایک مجلس میں ایک صاحب کی گفتگو سنی۔ وہ فرما رہے تھے کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی کی فکر بھی غلط تھی، مولانا راشدی اور مولانا محمد تقی عثمانی بھی غلط کہتے ہیں۔ ایک دو اور اصحاب کے نام لیے کہ وہ بھی غلط ہیں اورع : مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔ اس جارحانہ انداز سے احقر کو بہت صدمہ پہنچا۔ اکابر پر سے اعتماد ختم کرنے کی تحریک بہت سے اپنے کہلانے والے بھی چلا رہے ہیں۔ اس تحریک کے بھیانک نتائج نکلیں گے۔ شاید سردست اندازہ نہ ہو سکے۔
(۴) الشریعہ کے ذریعے کچھ عرصہ پہلے آپ سے بھی گزارش کر چکا ہوں۔ آپ سے، حضرت عثمانی صاحب سے، مختلف یونیورسٹیوں، کالجوں میں چھپے ہوئے اصحاب فضل وکمال سے گزارش ہے کہ جدید علم کلام پر قلم اٹھانا بہت ضروری ہے۔ اسلام سے لگاؤ رکھنے والا جدید تعلیم یافتہ طبق بہت سی علمی الجھنوں اور تشنگیوں کا شکار ہے۔ وہ آپ جیسے اصحاب فضل وکمال کی طرف ترسی ہوئی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں، لیکن سب بزرگوں کی اپنی اپنی مصروفیات، ترجیحات اور مسائل ہیں۔ سوال بارش کے پہلے قطرے کا ہے جس کے لیے کوئی بزرگ جرات نہیں کر رہا۔ اگر کسی ایک بزرگ نے پہل کر دی تو سلسلہ چل نکلے گا۔
حضرت امام اہل سنتؒ نے راقم کے نام اپنے ایک مکتوب گرامی میں لکھا تھاکہ میرے علاوہ دوسرے لوگوں کو بھی لکھنا چاہیے۔ غلطی کس سے نہیں ہو تی، طبع اول کی کوتاہی طبع ثانی میں دور ہو جائے گی۔ ان کا یہ فرمان قصداً لکھا ہے تاکہ اہل علم لکھنے کے لیے ذہن بنا سکیں۔ مذکورہ تین اکابرین کے ساتھ مفتی ابولبابہ شاہ منصور مدظلہ کا نام لکھنا بھول گیا۔ ان کے پاس وسائل بھی ہیں، افرادی قوت بھی اور کتب خانہ بھی میسر ہے۔ الشریعہ کے واسطے سے ان سے بھی توجہ کی درخواست ہے۔
حضرت شیخ الحدیث کی تصوف پر کتاب لکھنے کی وصیت آپ محاضرات کی صورت میں پوری کر دیں۔ان محاضرات کو کتابی صورت دے دی جائے۔ ہمت تو آپ نے ہی کرنی ہے۔ حضرت تھانویؒ مریدوں کو فرماتے تھے کہ سستی کا علاج چستی ہے۔ 
مشتاق احمد عفی عنہ
ادارہ مرکزیہ دعوت وارشاد، چنیوٹ
۲ مارچ ۲۰۱۲ء

سیمینار: ’’سرکاری تعلیمی اداروں میں قرآن مجید کی تعلیم‘‘

ادارہ

(الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام ایک روزہ سیمینار)

پنجاب اسمبلی نے ۸ مارچ ۲۰۱۲ء کو محترمہ عاصمہ ممدوٹ کی پیش کردہ ایک قرارداد متفقہ طور پر پاس کی ہے جس میں قرآن کریم کی تعلیم وتدریس کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ:
  • سرکاری تعلیمی اداروں کے نصاب تعلیم میں قرآن کریم کو نصابی کتاب کے طو رپر شامل کیا جائے۔
  • مکمل قرآن کریم ترجمہ سمیت پڑھایا جائے۔
  • اس کے لیے حکومت کی طرف سے تمام ضروری وسائل فراہم کیے جائیں۔
  • قرآن وحدیث کی تعلیم وتدریس کو تعلیمی اداروں میں یقینی بنانے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں۔
یہ اگرچہ ایک قرارداد ہے جس کی حیثیت صرف سفارش کی ہے، اس کے باوجود اس حوالے سے یہ خوش آئند ہے اور اسے منظور کرنے پر تمام ارکان اسمبلی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ یہ قرآن کریم کے ساتھ ملک کے سب سے بڑے صوبے کی منتخب اسمبلی کی طرف سے تعلق کا اظہار ہے اور اس سے پاکستان کی نظریاتی اسلامی شناخت ایک بار پھر جمہوری انداز میں سامنے آئی ہے۔
اس سلسلے میں ۲۲  مارچ کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں ایک سیمینار کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت معروف ماہر تعلیم اور المشرق سائنس کالج گوجرانوالہ کے سربراہ ڈاکٹر عبد الماجد حمید المشرقی نے کی اور اس میں الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی کے علاوہ مختلف تعلیمی شعبوں سے تعلق رکھنے والے حضرات نے شرکت کی۔ اجلاس میں پنجاب اسمبلی کی مذکورہ قراردادکی روشنی میں قرآن وحدیث کی تعلیم کے حوالے سے موجودہ صورت حال کا جائزہ لیا گیا اور اس قرارداد کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے پیش کرنے والی خاتون رکن اسمبلی محترمہ عاصمہ ممدوٹ اور منظور کرنے والے تمام ارکان اسمبلی کو مبارک باد دی گئی اور اس کے ساتھ ساتھ اس خواہش کا اظہار کیا گیا کہ قرارداد کے بعد اس سلسلے میں کوئی باقاعدہ بل بھی اسمبلی میں اسی طرح پیش ہو کر متفقہ طور پر منظور ہونا چاہیے تاکہ محض سفارش کی بجائے باضابطہ قانون سازی کے ذریعے ارکان اسمبلی کی اس خواہش کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔
اجلاس میں اس امر کو لمحہ فکریہ سے تعبیر کیا گیا کہ قیام پاکستان کو پینسٹھ برس گزر جانے کے باوجود ابھی ہم اس مرحلے میں ہیں کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کی اسمبلی صرف یہ سوچ رہی ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم ہمارے تعلیمی اداروں میں کسی حد تک ہونی چاہیے اور ترجمہ کے ساتھ ہونی چاہیے اور حکومت کو اس کے لیے ضروری وسائل فراہم کرنے چاہییں۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ سرکاری تعلیمی نظام میں اس وقت بھی ناظرہ قرآن کریم کی تعلیم مڈل تک ضروری ہے اور اس کے لیے امتحان میں نمبر بھی مختص کیے گئے ہیں، لیکن عملاً ا س کا کوئی اہتمام موجود نہیں ہے۔ نہ تو قومی تعلیمی پالیسی کے تحت جاری ہونے والی ہدایات میں اس سلسلے میں کوئی راہ نمائی ہوتی ہے، نہ ہی سرکاری تعلیمی اداروں کے سربراہ اور اساتذہ اس کی طرف توجہ دیتے ہیں اور نہ ہی قرآن کریم کی تعلیم اور امتحان کا کوئی اہتمام ہوتا ہے، بلکہ اکثر اداروں میں تعلیم اور امتحان کے بغیر ہی قرآن کریم کے نمبر امتحانی پرچوں پر لگا دیے جاتے ہیں اور اسے دوسرے مضامین کے امتحانات میں طلبہ کے نمبروں کی کمی کو پورا کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ ایک اسکول ٹیچر نے سیمینار کے دوران بتایا کہ انھوں نے ایک کلاس کے امتحان میں قرآن کریم کا باقاعدہ امتحان لے کر طلبہ کو ان کی حیثیت کے مطابق نمبر دے تو اسکول کے دوسرے اساتذہ نے ان سے ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ نے طلبہ پر ظلم کیا ہے، اس لیے کہ یہی نمبر تو طلبہ کے دوسرے مضامین میں نمبروں کی کمی کو پورا کرتے ہیں اور امتحان میں ان کے پاس ہونے کا ذریعہ بنتے ہیں۔
اجلاس میں اس صورت حال کو محکمہ تعلیم، تعلیمی اداروں کے سربراہوں اور ایسا کرنے والے اساتذہ کی غفلت اور بے پروائی قرار دے کر سخت افسوس کا اظہار کیا گیا اور اس کی تلافی کے لیے مختلف تجاویز پر غور کیا گیا۔ ایک تجویز میں کہا گیا کہ قومی تعلیمی پالیسی کے تحت دی جانے والی ہدایات میں یہ ہدایت شامل کی جائے کہ سرکاری نصاب کے مطابق قرآن کریم کی تعلیم وتدریس اور امتحان کو تعلیمی اداروں میں یقینی بنایا جائے اور جس طرح ڈینگی کے بارے میں باقاعدہ مہم چلائی جا رہی ہے، اسی طرح قرآن کریم کی تعلیم کو یقینی بنانے کے لیے مہم چلائی جائے۔ ایک تجویز یہ پیش کی گئی کہ مڈل یا میٹرک کی سند کو قرآن کریم کی تعلیم کے ساتھ مشروط کیا جائے اور قرآن کریم ناظرہ کا باقاعدہ امتحان لینے کے بعد سند جاری کی جائے، البتہ اس سے غیر مسلم طلبہ کو مستثنیٰ قرار دیا جا سکتا ہے۔ 
ایک تجویز اس سلسلے میں یہ سامنے آئی کہ اس سلسلے میں اساتذہ کے تربیتی کورسز کا اہتمام کیا جائے جن میں اساتذہ کو قرآن کریم کی تعلیم کی اہمیت وضرورت کا احساس دلانے کے ساتھ ساتھ ان کی عملی راہ نمائی اور ٹریننگ کا انتظام کیا جائے۔ ایک تجویز یہ پیش کی گئی کہ ہر اسکول میں پہلا پیریڈ قرآن کریم کے لیے مخصوص کیا جائے جس میں قرآن کریم کے ساتھ ساتھ نماز اور ضروریات دین کی تعلیم کو ضروری قرار دیا جائے اور متعلقہ استاذ کو ہدایت کی جائے کہ وہ محض وقت گزاری کی بجائے سنجیدگی اور دلچسپی کے ساتھ یہ تعلیم دے۔
اجلاس میں اس صورت حال کا جائزہ لیا گیا کہ یہ تو قرآن کریم کی تعلیم کے اس حصے کی بات ہے جو آج بھی تعلیمی نصاب ونظام کا حصہ ہے، مگر محکمہ تعلیم اور اساتذہ، دونوں کی کوتاہی کی وجہ سے اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا، جبکہ پنجاب اسمبلی کی قرارداد میں مکمل قرآن کریم باترجمہ کی بات کی گئی ہے اور قرآن وحدیث کی ضروری تعلیم کو یقینی بنانے کے لیے کہا گیا ہے۔ اس سلسلے میں پنجاب قرآن بورڈ کا کردار بھی زیر بحث آیا جو حکومت پنجاب کی طرف سے باقاعدہ طور پر قائم ہے اور مختلف حوالوں سے متحرک ہے۔ سیمینار میں طے پایا کہ پنجاب قرآن بورڈ سے رابطہ کر کے اسے اس طرف توجہ دلائی جائے کہ وہ پنجاب کے تعلیمی اداروں میں قرآن کریم کی تعلیم وتدریس کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لے جو مبینہ طور پر انتہائی افسوس ناک ہے اور جس کی اصلاح کے لیے خاصی محنت کی ضرورت ہے۔ پنجاب قرآن بورڈ سے یہ گزارش کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا کہ وہ اس افسوس ناک صورت حال کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لے کر اس سلسلے میں پائی جانے والی کوتاہیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے ان کی اصلاح کے لیے جامع رپورٹ مرتب کرے اور سرکاری تعلیمی اداروں میں قرآن وحدیث کی تعلیم وتدریس کی باقاعدہ نگرانی کا نظام وضع کرے۔ پنجاب قرآن بورڈ سے یہ استدعا کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا کہ وہ پنجاب اسمبلی کی مذکورہ قرارداد پر عمل درآمد کو اپنے باقاعدہ پروگرام میں شامل کرے اور اسے قانونی بل کے طور پر اسمبلی میں پیش کرانے اور منظور کرانے کے لیے لابنگ اور بریفنگ کا کردار ادا کرے۔
اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے کہا کہ نئی نسل کو قرآن وسنت کی تعلیمات سے روشناس کرانا دستوری طو رپر بھی حکومت کی ذمہ داری ہے اور شرعی حوالے سے بھی ایک مسلمان حکومت کی ذمہ داریوں میں یہ شامل ہے کہ وہ عام شہریوں کی دینی تعلیم وتربیت کا اہتما م کرے۔ مسلم شریف کی ایک روایت کے مطابق امیر المومنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ایک خطبہ جمعہ میں مسلم حکام کی ذمہ داریاں بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ مختلف شہروں اور علاقوں میں انھوں نے جن حکام کو مقرر کیا ہے، ان کے فرائض میں یہ شامل ہے کہ ’’لیعلمہم دینہم وسنۃ نبیہم‘‘، وہ لوگوں کو ان کے دین کی تعلیم دیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی تعلیم کا اہتما م کریں، لیکن ہمارے ہاں اس سلسلے میں مسلسل کوتاہی سے کام لیا جا رہا ہے اور حکومتی اداروں کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں کے سربراہ اور اساتذہ بھی اس کوتاہی میں شریک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری نئی نسل میں اخلاقی بے راہ روی اور فکری انتشار بڑھتا جا رہا ہے اور سیکولر لابیاں اور غیر ملکی فنڈز سے چلنے والی این جی اوز ہماری نئی نسل کی قرآن وسنت کی تعلیمات سے بے خبری کی آڑ میں اپنے گمراہ کن ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں مصروف ہیں، اس لیے حکومتی اداروں کو توجہ دلانے کے ساتھ ساتھ ہم سب کی اپنی اپنی جگہ بھی یہ ذمہ داری ہے کہ نئی نسل کو قرآن وسنت کی تعلیمات سے روشناس کرانے کے لیے کردار ادا کریں اور نور کے علم کے ساتھ جہالت اور جاہلیت دونوں کا موثر مقابلہ کریں۔

الشریعہ اکادمی کی لائبریری کے لیے ’’مسند احمد‘‘ کا ہدیہ

گزشتہ دنوں جامعہ لاہور الاسلامیہ کے سربراہ جناب مولانا حافظ عبد الرحمن مدنی اور ان کے دست راست جناب ڈاکٹر حافظ حسن مدنی نے الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کی لائبریری کے لیے ’’المحصل لمسند الامام احمد بن حنبل‘‘ کا وقیع علمی ہدیہ عنایت کیا۔ یہ جناب عبداللہ بن ابراہیم بن عثمان القرعاوی کی گراں قدر علمی کاوش ہے جس میں علم حدیث کے عظیم ذخیرہ مسند احمد بن حنبل کی تمام روایات کو موضوعاتی ترتیب سے جمع کیا گیا ہے اور یوں حدیث کے اس انسائیکلو پیڈیا سے استفادہ کو علم حدیث کے طلبہ کے لیے بہت آسان بنا دیا گیا ہے۔ ۲۵ جلدوں پر مشتمل یہ مجموعہ ریاض، سعودی عرب کے اشاعتی ادارے دار العاصمۃ کی طرف سے شائع کیا گیا ہے۔ 

صحت کی بحالی کے لیے کم خرچ بالا نشیں عادات

حکیم محمد عمران مغل

گزشتہ اشاعت کو اکثر قارئین کرام نے حد سے سوا پسند فرمایا جس کا مجھے اندازہ نہ تھا۔ میں نے اسی موضوع پر مزید عرض کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ اکثر قارئین کرام منتظر ہیں کہ میں علم کے سمندر سے کون سا قیمتی موتی ان کے لیے نکال کر لاتا ہوں۔ میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے ماہنامہ الشریعہ میں زیب داستاں کے لیے کوئی بات اب تک نہیں لکھی کہ یہ پرچہ قارئین کو فرش سے عرش پر لے جاتا ہے۔ ملک کا ذی وقار طبقہ اس کا منتظر رہتا ہے۔ علماء کرام کی اکثریت اس سے نہ صرف مانوس ہے بلکہ اسے اپنے علم میں اضافہ کا باعث سمجھتی ہے۔
یہی اضافہ ایک متقی پرہیز گار عالم دین کو مانسہرہ سے کھینچ لایا۔ دوا دارو کے بعد بات آگے بڑھی تو فرمانے لگے کہ بحر ہند کے بہت ہی قیمتی موتی کی نشان دہی کرتا ہوں۔ اسے نکال کر اس کی تراش خراش کر کے طب اسلامی کی انگوٹھی میں نصب کریں۔ پھر دیکھیں کہ اس کی کرنیں کہاں تک پہنچتی ہیں۔ اس موتی کے نام سے میں واقف تھا، لیکن کام سے اب واقفیت ہوئی۔ یہ موتی عالم اسلام کی مایہ ناز شخصیت استاذ العلماء مولانا غلام رسول خان صاحب مرحوم ومغفور تھے۔ اللہ ان پر کروڑہا برکات نازل کرے۔ جامعہ اشرفیہ لاہور میں علوم وفنون کے دریا بہا گئے۔ مانسہرہ کے مولوی صاحب فرما رہے تھے کہ (۱) حضرات دوران اسباق فضول گفتگو نہ فرماتے تھے، صرف تبسم سے کام چلاتے تھے۔ (۲) خور ونوش کی کوئی چیز پسند نہ ہوتی تو اسے کبھی ہاتھ نہ لگاتے۔ (۳) صبح شام نظم وضبط کے ساتھ سیر فرماتے۔ حکیم آفتاب قریشی مرحوم نے ایک بار انٹرویو میں فرمایا کہ میں نے حضرت سے صحت کا راز اور لمبی عمر پانے کی حکمت عملی پوچھی تو فرمانے لگے کہ گرمی ہو یا سردی، خزاں ہو یا بہار یا برف باری، میری سیر میں ناغہ نہیں ہوتا۔ (۴) ہر کھانے کے ساتھ دہی ضرور کھاتے تھے۔ (۵) برف کے استعمال سے واقف نہ تھے۔ (۶) پسینہ آتا تو پنکھے کا استعمال نہ فرماتے تھے۔
میں نے پہلے عرض کیا تھا کہ چین کے لوگ کھانے کے ساتھ معمولاً گرم پانی پیتے ہیں۔ ہم نے صبح سے شام تک ٹھنڈی بوتلیں پی پی کر اپنے جگر اور گردوں کو خراب کر کے رکھ دیا ہے۔ ہمارے ملک کے مایہ ناز حکیم جناب صابر ملتانی کی تحقیقات حرف آخر ہیں۔ قوم کی بدحالی اور امراض کی بھرمار سے سخت بدظن ہو کر دنیا سے منہ موڑ لیا۔ ان کی ایک کتاب ’’تحقیقات امراض‘‘ موتیوں سے بھرپور ہے۔ اس کا ضرور مطالعہ فرمائیں۔ آپ اپنے اکثر امراض کو سمجھ کر ان کا سہل الحصول علاج کر سکیں گے۔ فریز میں یخ بستہ اشیائے خور ونوش بھی امراض کا باعث ہیں۔ میری ان گزارشات کامقصد یہ ہے کہ آپ اپنے خون پسینے کی کمائی سے صحت نہیں خرید سکتے تو بیماریاں بھی نہ خریدیں۔

مئی ۲۰۱۲ء

میثاقِ امنادارہ
ہندوستان کی روایتی اسلامی فکر میں تاریخ اور قانونی معیاریت (۱)ڈاکٹر ابراہیم موسٰی
استاذ گرامی حضرت مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ / مرزا غلام احمد کے دعاوی اور قادیانیوں کی تکفیرمحمد عمار خان ناصر
مولوی انتقام لیتا رہے گانجم ولی خان
وہ کام جو اقبال ادھورے چھوڑ گئےڈاکٹر جاوید اقبال
شیخ ایمن الظواہری پر حافظ عمار ناصر کی تنقید کا محاکمہمحمد عادل فاروقی
’’عافیہ‘‘ ۔ ایک تنقیدی جائزہمحمد رشید
سیمینار: ’’ائمہ و خطبا کی مشکلات، مسائل اور ذمہ داریاں‘‘ (۱)ادارہ
ایک فالج زدہ نو مسلم کا واقعہحکیم محمد عمران مغل
مولانا قاضی حمیداللہ خان بھی رخصت ہوگئےمولانا ابوعمار زاہد الراشدی

میثاقِ امن

ادارہ

(۲۶ مارچ ۲۰۱۲ء کو اسلام آباد میں ORE (ادارۂ تعلیم و تحقیق Organization for Research and Education) کے اہتمام میں ’’اور ڈائیلاگ فورم‘‘ کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں ممتاز علمی، مذہبی، فکری اور سماجی شخصیات نے شرکت کی۔ فورم نے اپنے اجلاس میں متفقہ طور پر ایک ’’میثاقِ امن‘‘کی منظوری دی جسے اس کی عمومی افادیت کے پیش نظر یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔ ادارہ)

امن آج پاکستان کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ امن کے بغیر معاشی خوش حالی ممکن ہے نہ سماجی ترقی۔ لہٰذا امن کو پہلی ترجیح بنائے بغیر اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ معاشی ترقی کا کوئی منصوبہ نتیجہ خیز ہو یا سماجی اصلاح کا کوئی ہدف قابل حصول ہو۔امن کے لیے جہاں حکومت و ریاست کی سطح پر بعض اقدامات لازم ہیں وہاں اس بات کی بھی اشد ضرورت ہے کہ معاشرتی سطح پر تبدیلی کی ایک مہم اُٹھائی جائے جو عدم تشدد، رواداری، بردباری اور مکالمے کے کلچر کو عام کرنے کا سبب بنے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ سول سوسائٹی کے تمام ادارے اور شعبے قیامِ امن کے لیے یکسو ہوں اور اپنا کردار کریں۔امن کے لیے معاشرتی وسماجی انصاف ضروری ہے۔ اس کے بغیر امن ممکن نہیں، اس لیے تمام طبقات سماجی انصاف کا ماحول پیداکرنے کے لیے جدوجہد کریں اور خلافت راشدہ کو اس سلسلے میں بنیاد بنایا جائے۔
’’اور ڈائیلاگ فورم‘‘ جو معاشرے کے مختلف طبقات کی نمائندہ شخصیات پر مشتمل ہے، اس مقصد کے لیے درج ذیل اقدامات تجویز کرتا ہے جن کے مخاطب تمام معاشرتی گروہ ہیں۔

اہلِ سیاست

۱۔ سیاسی جماعتیں ایک روادار معاشرے کے قیام کو اپنے منشور کا حصہ بنائیں۔
۲۔ وہ حکومت میں ہوں یا حزبِ اختلاف میں، ایک ایسے کلچر کے فروغ کے لیے کام کریں جو مکالمے، برداشت اور بردباری کی بنیادوں پر کھڑا ہو۔
۳۔ ٹی وی ٹاک شوز، اخباری بیانات اور جلسہ ہائے عام میں ایسے لہجے اور اسلوبِ کلام سے گریز کریں جو ایک روادار اور جمہوری معاشرتی اقدار سے متصادم ہو۔
۴۔ اختلاف کو شخصی کے بجائے نظری اور سیاسی مباحث تک محدود رکھیں۔
۵۔ سماجی سطح پر اپنے کارکنوں کو رواداری اور مختلف سیاسی گروہوں کے ساتھ میل جول کی تلقین کریں۔
۶۔ ایسا سیاسی نظام بنائیں جس میں مذکورہ بالا اصولوں کی روشنی میں کارکنوں کی سیاسی تربیت کی جائے۔
۷۔ سیاسی راہ نماؤں اور کارکنوں میں سیرت نبوی، خلافت راشدہ اور دیگر اسلامی واخلاقی تعلیمات کی روشنی میں اسلامی وفلاحی ریاست وحکومت کا شعوراجاگرکیا جائے اور فکری تربیت کا ماحول پیدا کیا جائے جو کہ ایک آئینی ضرورت ہے۔
۸۔ ریاستی اداروں اور ملک میں قانون پر عمل درآ مد کے لیے جد وجہد کی جائے گی۔

میڈیا

۱۔ ایسے بیانات، مضامین اور کالموں کی اشاعت سے گریز کیا جائے، جن سے مقصود دوسروں کی پگڑی اچھالنا ہو۔
۲۔ تحریروں کے قابلِ اشاعت ہونے کے لیے شائستگی و استدلال کو بنیادی لوازم قرار دیا جائے۔
۳۔ کسی خبر کو برائے اشاعت قرار دینے کے لیے ضروری قرار دیا جائے کہ اس کا مواد رواداری و باہمی احترام کی مسلمہ تعبیرات سے متصادم نہ ہو۔ نیز قومی ومعاشرتی افادیت یا نقصان کو بھی ترجیح کی وجوہ میں شامل کیا جائے اور اس کے لیے ضابطہ اخلاق طے کیا جائے۔
۴۔ ٹی وی ٹاک شوز میں صحت مندانہ تنقید اور مکالمہ کے آداب کو ملحوظ رکھا جائے۔
۵۔ جو سیاست دان اور راہنما، ان آداب کا لحاظ نہیں رکھتے، انہیں ٹاک شو میں بلانے سے گریز کیا جائے۔
۶۔ خبر میں سنسنی خیزی اور اشتعال سے مکمل اجتناب کیا جائے۔
۷۔ میڈیا اپنی کمرشل ضرویات کے لیے ریٹنگ سے زیادہ پروگراموں کے موادکو بہتر بنانے پر توجہ دے گا۔ عوام کے ذوق اور اخلاق کی تعمیر کوبھی پیشِ نظر رکھا جائے گا۔

علماء

۱۔ علمی و فکری اختلاف کو فرقہ واریت کے فروغکا سبب بننے سے روکا جائے۔
۲۔ اختلاف کے آداب میں اسلاف کی روایت کو زندہ کیا جائے جو باہمی احترام سے عبارت ہے۔
۳۔ بین ا لمذاہب مکالمے کو رواج دیا جائے۔
۴۔ دوسرے مذاہب کی برگزیدہ شخصیات اور راہنماؤں کے احترام کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھا جائے۔
۵۔ ایک فرد کے جرم کو کسی گروہ یا اجتماع سے منسوب نہ کیاجائے۔
۶۔ مذہبی اختلاف کو اشتعال انگیز نہ بنایا جائے۔
۷۔ ایسے مقررین اور مضمون نگاروں کی حوصلہ شکنی کی جائے جو سماج میں اشتعال کو فروغ دیتے ہیں۔
۸۔ قانون، سماجی روایات اور دوسرے مذاہب کے احترام کو دینی مدارس کے نظامِ تعلیم و تربیت کا حصہ بنایا جائے۔
۹۔ علمی اسلوب اور شائستگی کی بنیاد پر فکری ارتقا کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
۱۰۔ مسجد اور دوسرے مذہبی اداروں کو سارے معاشرے کے لیے جائے امن قرار دیا جائے۔
۱۱۔ دینی مدارس، یونیورسٹیوں اور کالجوں کے اساتذہ وطلبہ کے درمیان میل جول، باہمی مکالمہ ومباحثہ اور مفاہمت ومعاونت کے رجحانات کی حوصلہ افزائی کی جائے اور مشترکہ اجتماعات کا اہتمام کیا جائے۔

اہلِ علم و دانش

۱۔ معاشرتی سطح پر مکالمے اور برداشت کے کلچر کو فروغ دیا جائے۔
۲۔ تعلیمی اداروں میں مکالمے اور رواداری کے لیے بطورِ خاص کوشش کی جائے۔
۳۔ طالبِ علموں کی تربیت میں سماجی روایات کے احترام کو شامل کیا جائے۔
۴۔ ایسے نصاب اور تعلیمی ماحول کی تشکیل کے لیے کوششیں کی جائیں جو رواداری اور برداشت کو فروغ دیں۔
۵۔ طلبا اور اساتذہ کی تنظیموں میں روابط بڑھائے جائیں۔
۶۔ دینی اور عمومی تعلیم کے طلبا و طالبات کے مابین فاصلوں کو کم کرنے کی شعوری کوشش کی جائے۔
۷۔ نصابِ تعلیم کو علم اور انسان دوست بنایا جائے۔
۸۔ تعلیمی اداروں کے ماحول میں علم دوستی اور تحقیق کی مشرقی و مغربی روایات کو پیشِ نظر رکھا جائے۔
۹۔ تعلیمی پالیسی کی ترجیحات میں قرآن وسنت کی تعلیمات اور مسلمہ مسلم دانش وروں کے افکار کو بنیاد بنایا جائے۔

سماجی مصلحین

۱۔ معاشرتی تعمیرکی کاوشوں کو مقامی مذہبی و سماجی روایات سے ہم آہنگ بنایا جائے۔
۲۔ معاشرتی سطح پر موجود گروہ بندی کو کم کرنے کی کوشش کی جائے۔
۳۔ ایسی سرگرمیوں سے گریز کیا جائے،جن سے کسی گروہ کے خلاف نفرت اور اشتعال پیدا ہوتا ہو۔
۴۔ علما اور وکلا باہمی تنازعات کے حل میں ثالث کا کردار ادا کریں اور ثالثی کے نظام کو فروغ دینے کے لیے مربوط ومنظم محنت کی جائے۔
۵۔ جمہوریت، رواداری اور برداشت جیسی روایات سے غیر مشروط وابستگی کا مظاہرہ کیا جائے۔
۶۔ سماجی انصاف اور معاشی تفاوت کے خاتمے کے لیے مذہبی و سماجی اداروں کو مضبوط بنایا جائے۔
۷۔ خواتین، بچوں اور دوسرے محروم طبقات کے حقوق کے لیے کوششوں کو منظم کیا جائے اور باہمی تعاون کو بڑھایا جائے۔
۸۔ کرپشن، نا اہلی اور کام چوری کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے دیانت وامانت اور فرض شناسی کی اہمیت کو ہر سطح پر اور ہر شعبہ میں اجاگر کرنے کے لیے محنت کی جائے۔
’’اور ڈائیلاگ فورم‘‘ سے اس بات کی کوشش کی جائے گی کہ معاشرے کے تمام نمائندہ طبقات کومذکورہ بالا مقاصد کی یاددہانی کرائی جاتی رہے اور ان کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھا جائے تاکہ ہم پاکستان کو ایک پر امن سماج دے سکیں۔جس میں سب کے بنیادی حقوق محفوظ ہوں اور کسی کے جان ، مال اور عزتِ نفس کو کوئی خطرہ درپیش نہ ہو ۔ یوں معاشی خوش حالی اور سماجی ترقی کو یقینی بنایا جاسکے۔اﷲ تعالیٰ اس کارِ خیر میں ہماری معاونت کرے۔

فورم کے شرکاء:

۱۔ ڈاکٹر خالد مسعود،ڈائریکٹر جنرل ادارہ تحقیقاتِ اسلامی،بین الاقوامی اسلامی یو نیورسٹی اسلام آباد
۲۔ مو لانا زاہد الراشدی، ڈائریکٹر الشریعہ اکادمی، گوجرانوالہ
۳۔ مفتی عبدالقوی، مہتمم جامعہ عبیدیہ، ملتان
۴۔ وصی شاہ،شاعر، ادیب،کالم نگار،ڈرامہ نگار۔ لاہور
۵۔ بیرسٹر دانش افتخار،ایڈیٹر روزنامہ ’’اساس‘‘،راولپنڈی
۶۔ سلیم صافی، کالم نگار روزنامہ’’جنگ‘‘۔اینکر جیو ٹی وی چینل
۷۔ سید شاہد گیلانی، صدر راولپنڈی گروپ آف کالجز
۸۔ علامہ امین شہیدی،مجلس وحدت المسلمین،اسلام آباد
۹۔ رومانہ بشیر،کرسچین سٹڈی سنٹر،راولپنڈی
۱۰۔ قاسم شاہ ،مشیر وزیراعظم پاکستان
۱۱۔ محمد آصف محمود،ایڈووکیٹ
۱۲۔ خورشید احمد ندیم،چیئرمین ادارہ تعلیم وتحقیق
درج ذیل اراکین فورم اجلاس میں شریک نہ ہوسکے لیکن انہوں نے ’’میثاق امن‘‘ سے اتفاق کیا۔
۱۔ قمر زمان کائرہ،سیکرٹری اطلاعات پاکستان پیپلز پارٹی
۲۔ صدیق الفاروق، راہنما پاکستان مسلم لیگ(ن)
۳۔ مجیب الرحمن شامی، چیف ایڈیٹر روزنامہ ’’پاکستان‘‘لاہور
۴۔ ڈاکٹر محمد شکیل اوج، صدر شعبہ علوم اسلامیہ، کراچی یونیورسٹی
۵۔ بیرسٹر ظفر اللہ خان،قانون دان، اسلام آباد

ہندوستان کی روایتی اسلامی فکر میں تاریخ اور قانونی معیاریت (۱)

ڈاکٹر ابراہیم موسٰی

ترجمہ: وارث مظہری
(قاری محمد طیبؒ کے افکار کی روشنی میں اسلامی شریعت کا مطالعہ)

’’ایک زمانہ وہ تھا جب ہم یہ کہہ سکتے تھے کہ ہم کون ہیں؟ لیکن اب ہم صرف ایک ایسے اداکار کی طرح ہیں جو صرف اپنے حصے کا مکالمہ دہرا دیتا ہے۔‘‘ (John M. Coetzee, Elizabeth Costello)
’’ ماضی بعید ان چیزوں میں سے ہے جو جہالت کو ثروت مند بنا سکتی ہے ۔ یہ مستقبل کے مقابلے میں اپنے اندر بے انتہا لچک رکھنے والی ہے او ر بہت زیادہ اہم ہے ۔ اس کے لیے ہمیں کم سے کم کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔یہی وہ معروف موسم ہے جسے تمام اساطیر کا تحفظ حاصل ہے۔‘‘ (Jorge Luis Borges,"I, a Jew": Selected New Fictions)

تعارف

کم و بیش دو صدیوں سے مسلم مفکرین اجتہاد کے نظریے کی وکالت و اشاعت کرتے رہے ہیں۔ (۱)اجتہاد کی کوئی سادہ تعریف آسان نہیں ہے اس لیے کہ اب اس کے معنی میں بہت کچھ فرق آگیا ہے۔ وہ اب اپنے لفظی معنوں میں مستعمل نہیں ہوتا(۲)۔ اس کی ایک تعریف علمی اور دانش ورانہ کد و کاوش (Intellectual effort) سے بھی کر سکتے ہیں۔ اس کے تاریخی پہلوؤں کو سامنے رکھیں تو اس کے بہت سے معنی سامنے آتے ہیں۔ اسلامی فکرو قانون کی یہ اصطلاح مسلمانوں کی ہیئتِ اجتماعیہ کی سطح پر صدیوں پر پھیلی مسلمانوں کی سماجی و سیاسی جد و جہد کی عکاسی کرتی ہے۔ ابتدائے اسلام میں جبکہ یہ لفظ اصطلاح کے طورپر رائج نہیں ہوا تھا ، اس کا ایک معنی ’’ معلوم رائے‘‘(informed opinion) تھا۔ چنانچہ حضرت معاذ بن جبلؓ سے یمن روانہ ہوتے وقت پیغمبر اسلام(ﷺ) نے پوچھا تھااکہ اگر تم کو کتاب و سنت میں کوئی شرعی حکم نہ ملے تو تم کیا کروگے ؟تو انہوں نے جواب میں کہا تھا کہ:’’ أجتہد براءي ولا آلو ( میں اپنی مقدور بھر کوشش کروں گا)۔(۳)‘‘ فقہی مذاہب کی تشکیل کے مرحلے میں فقہائے مجتہدین کی ایسی کوششوں کو اجتہاد سے تعبیر کیا گیا جو کسی شرعی حکم کے استنباط کے لیے کتاب و سنت کی واضح دلیل نہ ہونے کی بنیاد پر قیاس کا استعمال کرتے ہوئے کی جائیں۔(۴) آگے چل کر اہل سنت کے یہاں اجتہاد کو انہی فقہائے مجتہدین کے ساتھ خاص کر دیا گیا اور ان کی تقلید پر اتفاق کر لیا گیا۔ اصول فقہ کی روشنی میں مستند فقہی احکام متقدمین فقہا کی ابتدائی آرا کے ساتھ وابستہ ہو کر رہ گئے اور مختلف فقہا کی تقلید پر لوگوں نے اتفاق کر لیا(۵) مزید برآں چند مخصوص صورتوں میں ہی اجتہاد کی اجازت دی گئی اور اس کے لیے مجتہد کے اندر بہت سی مختلف شرطوں کے پائے جانے کو ضروری قرار دیا گیا۔(۶)
نئے مسلم مفکرین خواہ وہ روایت پسند ہوں یا جدت پسند، احیائیت پسند ہوں یا تکمیلیت پسند (maximalist)ان کی نظر میں اجتہاد کے مختلف معنی اور حیثیتیں ہیں۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اجتہاد وہ بنیادی دوا ہے جس سے مسلمانوں کے تمام تر امراض کا کافی و شافی علاج ممکن ہے۔ اجتہاد کی وکالت کرنے والے ایک اسکالر یا نظریہ ساز زور دے کر یہ بات کہتے ہیں کہ اجتہاد کے باب میں ماضی کی روایت یا عمل سے چپک کر رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگرچہ حقیقت میں اجتہاد کی خشک اور بے لچک بحثوں میں دانش و معرفت کے مختلف نکتہائے نظر کا سراغ ملتا ہے۔ یہ نکتہائے نظر ایک طرف دانشورانہ اور تہذیبی نشاۃ ثانیہ کے حامی اور روایت کا مکمل انکار نہ کرتے ہوئے حریت فکر و نظر کی بھی خواہش اپنے اندر پاتے ہیں۔ دوسری طرف وہ فقہ و تشریع کے باب میں دانش ورانہ مساوات پسندی کی بھی وکالت کرتے ہیں۔ یہ بات بکثرت سامنے آتی ہے کہ جو لوگ اجتہاد کی موقوفیت کے شاکی ہیں وہ تاریخ کو اس کے لیے مورد الزام ٹھہراتے ہیں ۔ ایسی تاریخ جو مسلمانوں کے سیاسی و علمی اور فکری زوال سے عبارت ہے ۔ ان کے خیال میں اگر اجتہاد کا عمل جاری ہو جائے تو ان حوادث سے پہنچنے والے نقصانات کی بالکل معجزانہ انداز میں تلافی ہو سکتی ہے۔(۷)
اکثر اصلاح پسند ،مسلمانو ں کے افسوس ناک مسائل کے لیے بعض روایتی اصول و قانونی معیارات کو الزامات کی بنیاد بناتے ہیں۔ تاہم یہ حقیقت اہم ہے کہ یہ مصلحین بھی اس تعلق سے کوئی بہت زیادہ نئی چیز کا اضافہ نہیں کر پاتے۔ اس تعلق سے سب سے قابل غور اور اہم بات یہ ہے کہ یہ اصلاح پسند بھی اپنی نظریاتی عمارت انہی روایتی اور علمیاتی بنیادوں پر کھڑی کرتے ہیں جن پر ان کے پیش رو عہد وسطیٰ کے مفکرین نے اپنے نظریات کی عمارت کھڑی کی تھی۔ اس علمی اثاثے کی تقدیس و احترام کے رویے کو انہوں نے اختیار کیا۔ ایسے اصلاح پسند بہت کم ہیں جنہوں نے ’’اجتہادی نشاۃ ثانیہ ‘‘کے تعلق سے دانشورانہ روایت کی صحیح تحقیق و دریافت اور نصوص کی تفہیم کے ضابطوں اور مسلم طرز فکر کی از سر نو تعمیر کی کوشش کی ہو۔ اس اعتبار سے ایک شخص یہ بات یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ نئے علم کے حصول کے ایک مضبوط عہد اور تحقیق کے بغیر اس تعلق سے کی جانے والی کوششیں محض بے سود اور بے نتیجہ ہیں۔
’’ بروس لارینس‘‘(Bruce Lawrence)نے اسلام کے نئے مظاہر سے متعلق کیے گئے اپنے مطالعے میں اس نظریے کو بخوبی ثابت کر دکھایا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جدید اسلامی مطالعات سے متعلق کام کرنے والوں میں سے بعض لوگوں نے بجائے اس کے کہ وہ اسلام کے فقہی اثاثے کی صحیح طورپر چھان پھٹک کریں، انہوں نے چاہا کہ اس کے ایک بڑے حصّے کو اٹھا کر پھینک دیا جائے۔ انتہا پسندی کے شکاربعض لوگوں نے کوشش کی کہ و ہ شریعت کے ان پہلوؤں کو اس سے علاحدہ کر دینے میں کامیاب ہو جائیں جن سے عہد وسطیٰ کے فقہا نے شریعت کو گراں بار کر دیا تھا۔(۸) وہ مزید لکھتے ہیں کہ بعض مسلم احیائیت پسندوں نے اس بات سے انکار کر دیا کہ وہ ان شرعی احکامات میں وسعت لانے کی کوشش کریں جن میں اجتہاد کے ذریعہ وسعت کی گنجائش و اجازت نکل سکتی تھی۔ اس کے بجائے انہوں نے شرعی احکام کو اُسی شکل میں پیش کرنے کی کوشش کی جو بالکل بے لچک تھی۔( ۹)ا بہت سے اصلاح پسندوں نے مقاصد شریعت کے نظریے کو بنیادی حل کے طورپر پیش کرنے کی کوشش کی۔ اس کا مطلب یہ بتایا گیا کہ اسلامی قانون یا شریعت کا مقصد پانچ چیزوں کے تحفظ کو یقینی بناناہے: حفظِ جان، حفظ عقل، حفظ نسل، حفظ مال اور حفظ دین۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہیں کہ اجتہاد یا ناکام اجتہاد کے حق میں یا تو اعتدال پسندوں کے مختلف گروپوں کی طرف سے آوازیں بلند ہوئیں جیسے مشرق وسطیٰ میں اخوان المسلمین اور جنوبی ایشیا میں جماعت اسلامی یا بعض ریڈیکل گروپ کی طرف سے جیسے القاعدہ۔
لارینس کی رائے میں، جنھوں نے سنّی روایت پسندوں کی قانون سے زیادہ تصوف پر لکھی گئی تحریروں کا تحقیقی مطالعہ کیا ہے، اجتہاد سے دامن کشی کے باوجود اس روایت پسند گروہ کی نظر میں وہ اپنی محدود شکل و صورت میں مطلوب تھا۔ اگر چہ ان کا نظریۂ اجتہاد ان اصلاح پسندوں کے اجتہاد مطلق کے نظریے سے بالکلیہ مختلف تھا ، جنہوں نے اسلامی قانون کی ایک رواں اور سیدھی سادی تعبیر پیش کی۔ قانون کی یہ شکل اپنی اساسیات کی تشکیل میں ایک پالیسی دستاویز کی مانند زیادہ تھی بہ نسبت دلیل و حجت پر مبنی معقول روایت کے۔ اجتہاد مطلق یا اجتہاد غیر مقید اور اسلامی قانون کی سیدھی سادی یہ تعبیر اپنے نتیجے کے اعتبار سے ہندوستان کے ان روایت پسندوں کی فکر کے مطابق نہیں تھی جو تصوف کے چشتیہ سلسلے سے منسلک تھے۔ کارل ارنسٹ(Carl Ernest)کے اشتراک سے لارینس نے ہندوسان میں چشتی فکر کے بنیادی ماخذ کی تلاش و تحقیق کا فریضہ انجام دیا(۱۰)۔ اگر چہ ان دونوں حضرات نے تفصیل اور دقت رسی کے ساتھ چشتیہ سلسلے کے روحانی نظریات کا جائزہ لینے کی کوشش کی تاہم انہوں نے تصوف کے ما بعد الطبیعاتی نظریات اور شریعت کے پیچیدہ مباحث کے درمیان موجود ربط کو اپنے غور و فکر کا مرکز نہیں بنایا۔ خاص طورپر ایک فقیہ کے اندر پائی جانے والی ایسی قابلیت اور روحانی بنیاد، جس پر وہ اجتہادی کوششوں کے ذریعہ شرعی حکم کا استنباط کرتا ہے۔ اس تعلق سے دلچسپ بات یہ ہے کہ بر صغیر ہند کے چشتی صوفیوں کے ذریعہ اٹھائے گئے فقہ واجتہاد کے مباحث کو تو نظر انداز کر دیا جاتا ہے جبکہ تصوف سے متعلق انہی کے نظریات و خیالات کی تحسین کی جاتی ہے۔ 
میں مولانا اشرف علی تھانویؒ کے ایک شاگرد مولانا قاری محمدطیبؒ صاحب کو اس موضوع (اجتہاد کے عمل میں روحانیت کا مرکزی کردار) تعلق سے بنیاد بنا کر اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔ اس امید کے ساتھ کہ میرے اس مطالعہ سے موضوع کے دوسرے رخ پر روشنی پڑ سکے گی اور اس سے لارینس اور کارل ارنیسٹ کے فقہ سے متعلق مطالعے میں تصوف وروحانیت کی مرکزیت کا پہلو زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آسکے گا۔ قاری طیب صاحبؒ نے اسلامی قانون اور روحانیت سے تعلق رکھنے والے پیچیدہ مباحث پر اجتہاد و تقلید کے حوالے سے روشنی ڈالی ہے۔ اپنی تمام تر پیچیدگیوں کے ساتھ ، اسلامی معاشرے میں پائے جانے والے ان روایت پسند ناقدین اور ان کے خیالات کو سمجھنے کے لیے تصوف اور اسلامی قانون کے فکری مباحث کے درمیان تداخل پرزور ڈالنا ضروری نہیں ہے۔ جنوبی ایشیا کے بعض چشتی صوفیا کی نظر میں تصوف فقہ کے مقصد و معنی کو مزید گہرائی اور گیرائی عطا کرتا ہے۔ لیکن جہاں تک فقہ کی بات ہے تو وہ تصوف کے جوش وحیویت کو محدود کر دیتی ہے۔ میں اسی کے ساتھ یہ بات پیش کرنا چاہتا ہوں کہ اجتہاد کی حمایت یا مخالفت میں کی جانے والی بحثیں تاریخ کی مادی یا عارضی صورت حال اور فرداور اجتماع سے متعلق مخصوص نظریات پر پردہ ڈال دیتی ہیں۔
قاری محمد طیب صاحب ( وفات: ۱۹۸۳)نے اپنے مقالے ’’ اجتہاد و تقلید‘‘ میں جو ۱۹۶۰کے اواخر یا۱۹۷۰کے اوائل میں لکھا گیا تھا، اجتہاد کے تعلق سے تجدد پسندوں، اصلاح پسندوں یا احیائیت کے علمبرداروں کی عام روش سے ہٹ کر نیا رخ اختیار کیا ہے۔ اگرچہ قاری محمد طیب صاحبؒ کی عالمانہ اور مفکرانہ حیثیت سے ہندو پاک کے مدارس کی دنیا سے باہر کے کم ہی لوگ واقف ہیں، تاہم روایتی بزرگی اور حنفی دیوبندی مسلک کے تعلق سے ان کی شخصیت امتیازی حیثیت کی حامل ہے۔ وہ تقریباً پانچ دہائیوں تک دارالعلوم دیوبند کے مسند اہتمام پر متمکن رہے اور انہیں اپنے حلقے میں زبردست دینی عظمت حاصل رہی۔

اجتہاد اور تقلید

اسلامی قانون یا فقہ کے تعلق سے اجتہاد و تقلیدمیں قاری طیب صاحب نے حضرت شاہ ولی اللہؒ (وفات:۱۷۶۲) کی پیروی کی۔ چنانچہ انھوں نے شاہ ولی اللہ کی طرح قانون اور ما بعد الطبیعات کی بحث کو تقریباً ایسی چیز کے ساتھملادیاجو قانون و اخلاقیات کے تاریخی و عمرانی فلسفے سے قریب تر ہے۔ اسلامی قانون ،جسے مذہب میں اخلاقی فلسفہ کا عنوان دیا جاتا ہے، کو موضوع بحث بناتے ہوئے ایسے غیر ایجابی عناصرپر کم ہی توجہ دی گئی ہے جن پر عموماً قانونیات سے متعلق تحریروں میں توجہ دی جاتی ہے۔ اکثر قانون یا فقہ سے متعلق تحریروں کو جن کی زبان ما بعد الطبیعات اور تصوف کی زبان سے ہم آہنگ ہوتی ہے، روحانیات کے مطالعے کے عنوان سے الگ حیثیت دیتے ہوئے انہیں مذہبی مطالعے کے خانے میں ڈال دیا جاتاہے۔ اس طرح اسلامی قانون کے ساتھ ان کا رشتہ منقطع ہو جاتا ہے۔ حقیقت میں، جیسا کہ بابر جوہانسن (Baber Johansen)نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے، قانونی اثباتیت نے اسلامیفقہ کا مطالعہ کرنے والی اہم عرب مسلم شخصیات کے ذریعے ایک نئی قسم کی راسخ العقیدگی اور معیاریت کی اساس کی شکل اختیار کر لی ہے۔(۱۱)
اپنے مقالے میں قاری محمد طیب صاحب نے اجتہاد اور فقہ کی تشکیل کے بعد کے مرحلے میں اس کے استعمال پر روشنی ڈالی ہے۔ علاوہ ازیں اس بات سے بھی بحث کی ہے کہ تقلید کے ساتھ کس طرح تعامل کیا جائے؟(۱۲)
انہوں نے اس پہلو کو واضح کیا کہ بعض فقہابعض شخصی فقہی رایوں سے شدت کے ساتھ وابستہ رہے اور انہوں نے فقہا کی رایوں کی اس طرح پیروی کی جیسے وہ خدا کی طرف سے نازل کردہ قانون ہے۔(۱۳)
ان کی نظر میں فقہی مذاہب اجتہادی کوششو ں کے نتیجے میں وجود میں آئے ہیں اور اجتہاد سے متعلق قاری محمد طیب صاحب کے افکار و نظریات کو انیسویں اور بیسویں صدی میں مختلف اسلامی ممالک میں اجتہادکے بارے میں جاری بحثوں سے تقابل کی بنیاد پر زیادہ بہتر طورپر سمجھا اور پرکھا جا سکتا ہے۔ انیسویں صدی کے اختتام پر مشرق وسطیٰ میں اجتہاد کو عمل میں لائے جانے کا پرزور مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ ہندوستان میں قرآن کی حدیث سے مطابقت کی کوششوں میں اہل حدیث تحریک سب سے پیش پیش رہی ہے۔ اہل حدیث مستقل طورپر کتاب وسنت کے صحیح احکام تک رسائی کے لیے اجتہاد کو مسلمانوں پر فرض تصور کرتے ہیں۔ اس جماعت نے اصلاح پسندانہ ذہنیت کے تحت فقہی مکاتب فکر کی تشکیل کے نقطۂ نظر سے اختلاف کیا ، لیکن حقیقت میں اس کا اصلاحی نظریہ ملک و ملت کی تعمیر اور سماجی بدلاؤ کے بجائے قدامت پسندانہ انداز میں محض بعض مذہبی رسوم و اشکال کی اصلاح پر مرکوز رہا۔ ہندوستانی اہل حدیث رائج فقہی مکاتب کے بجائے زیادہ تر محمد بن علی الشوکانی ، احمد محمد شاکر اورسعودی عرب کے سلفی علما کے افکار و نظریات سے قریب رہے(۱۴)۔ ہندوستان کے متجددین بھی اجتہاد کے زبردست حامی تھے ۔ وہ اس سلسلے میں شاہ ولی اللہ دہلوی اور ان کے بعد ڈاکٹر علامہ اقبال کے افکار و نظریات کو اپنے تجدد پسندانہ مقاصد کے تعلق سے نمونہ اور مثال تصور کرتے تھے۔
بر صغیر ہند کے حنفی علما کی اس دوران اپنے مکتب فقہ سے وابستگی پوری طرح باقی رہی۔ انہوں نے اپنے مکتب فقہ کی معتبریت اور استناد کا کھل کر دفاع کیا۔ دیوبندی اور بریلوی علما باہم شدید مخاصمت کے باوجود یہ سمجھتے رہے کہ فقہ حنفی اسلامی شریعت کی رہنمائی کے تعلق سے ان کی ضروریات کی بخوبی تکمیل کرتی ہے۔ اسی طرح برطانوی حکومت کی طرف سے جو چیلنجز لوگوں کو در پیش ہیں وہ ان کا جواب دینے کی بھی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔(۱۵)
مشرق وسطیٰ کے ممالک کے علما میں اصلاح و تجدد کے تعلق سے جو جوش و خروش پایا جاتا تھا، اس سے ہندوستان کے علما کیوں محروم رہے؟ اس کی مختلف وجوہات ہیں۔ ایک اہم وجہ ان علما کا فقہ کے باب میں اجتہاد کی روش پر قدغن لگانا ہے۔ یہ صرف مغربی قانونی ضابطوں کے مقابلے میں حنفی فقہ کی برتری کا ان کا اعتقادہی نہیں بلکہ عرب ممالک میں اجتہاد کی تائید میں بلند ہونے والی آوازوں کے متوقع نتائج کو دیکھ کران کا یقین اجتہاد کی نفی میں پختہ ہو چلا تھا۔ ہندوستانی علما نے محسوس کیا کہ تدریجاً غیر شعوری طورپر اجتہاد کی وکالت کرنے والے عرب علما بھی جدید طرز حیات کی اخلاقیات کے ساتھ سمجھوتہ کرتے ہوئے سیکولر کاری کے آگے گھٹنے ٹیک رہے ہیں۔(۱۶) روایتی حنفی علما کی نظر میں عرب علما کی مذکورہ صورت حال اجتہاد پسند خیمے کا انتہائی خطرناک پہلو ہے۔ مزید برآں خطرے کی بات یہ تھی کہ یہ اجتہاد کا حامی گروہ اجتہاد کی بنیاد پر تہذیبی نشاۃ ثانیہ کا شدید خواہاں تھا۔طبعی طورپر نشاۃ ثانیہ کے بلند بانگ نعروں میں اجتہاد کی ضرورت پر زور دینے والی وہ آوازیں بھی شامل تھیں جن پر نیشنلزم اور سوشلسٹ رجحانات کی چھاپ تھی۔ اگرچہ مشرق وسطیٰ کے بہت سے روایتی علما سیاست و تہذیب کے حوالے سے اجتہاد کی حمایت میں ہونے والی بحث و گفتگو میں شریک رہے تاہم جنوبی ایشیا کے علما نے اس سے اپنی دوری بنائے رکھی۔
جنوبی ایشیا کے حنفی علما نے اجتہادی کوششوں کی مزاحمت کیوں کی؟ اس کی شاید ایک نفسیاتی وجہ بھی تھی۔ اگر یہ علما اجتہاد کی راہ اختیار کرتے تو یہ ان کی طرف سے اپنی حریف جماعت ، جماعت اہل حدیث جو بہر حال جدیدیت سے خائف نہیں تھی، کے آگے گھٹنا ٹیک دینے اور یہ ان کے نکتۂ نظر کو قبول کر لینے کا اشاریہ ہوتا۔ دارالعلوم دیوبند کے وجود و بقا کے اسباب میں سے ایک سبب جماعت اہل حدیث کی طرف سے احناف کو لاحق چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونا بھی تھا۔ علمائے اہل حدیث احناف کے اس تعلق سے شدید ناقد تھے کہ وہ کتاب و سنت سے تازہ کاری کی روح کے ساتھ براہ راست استفادے پر تقلید و روایت پسندی کے رجحان کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس اعتبار سے قاری محمد طیب صاحب روایتی طرز کے ایک تقلید پسند عالم تھے۔ وہ اس رجحان کے خلاف تھے کہ اجتہاد کی بنا پر خود سے فقہی احکام کا استنباط کیا جائے۔ انہوں نے جدیدیت پسندوں اور سلفی علما کے اس رویے کو ناپسند ٹھہرایا کہ وہ اس پہلو پر زیادہ توجہ نہیں دیتے کہ استنباطِ قانون کا حق و اختیار کس کو حاصل ہے اور کس کو نہیں؟ اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہ انہوں نے روایتی علمی طریق کار کو نظر انداز کر کے نیا طریق کار اختیار کر لیا ہے،انھوں نے ان دونوں طبقے کے لوگوں کو اس پہلو سے شدید ترین تنقیدوں کا نشانہ بنا یا کہ وہ اجتہاد کے علم بردار تو ہیں لیکن اس کی صلاحیتوں سے قطعی بے بہرہ ہیں۔(۱۷) ان کی نظر میں کتاب و سنت کی بصیرت رکھنے والی علمائے دیوبند کی جماعت شریعت کے تعلق سے عقلی اور ما بعد الطبیعاتی پہلوؤں سے پوری طرح واقف و آگاہ تھی۔ قاری صاحب کی نظر میں کسی بھی مستنبط شرعی حکم کے لیے ضروری ہے کہ وہ کلیت اور تعقل کے مفہوم سے مربوط ہو اور ان دونوں کے درمیان ما بعد الطبیعاتی رشتہ قائم ہو۔(۱۸)یہ نظریہ اس عام اور غالب مسلم علمیاتی فکر سے متغائرہے جواسلامی نصوص کی مربوط و منظم تشریح سے پہلو بچائے ہوئے عقل عام کے اصولوں کی بنیاد پر کتاب و سنت کے مطالعے کی روشنی میں اخذ کردہ خالص شرعی احکام کو ہی مکمل معتبریت اور استناد فراہم کرتا ہے۔ قاری محمد طیب صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’ ہر علم جزئی میں ایک علم کلّی ہوتا ہے ۔ اور ہر علم کلی میں حکمت و مصلحت کلیہ پوشیدہ ہوتی ہے، پھر ہر مصلحت کا تعلق کسی نہ کسی شانِ کمال سے ہوتا ہے پھر ہر شانِ کمال کسی نہ کسی صفت الٰہی سے مربوط ہوتی ہے۔‘‘(۱۹)
قاری صاحب نے جو زبان اجتہاد سے متعلق اپنے نظریات کی وضاحت کے لیے استعمال کی ہے اس میں کلّیت اور عقل و حکمت کے الفاظ کا استعمال اور ان کو فقہ، اخلاقیات اور ’ مصلحت عامہ‘ سے مربوط کرکے قاری صاحب کی توجہ ما بعد الطبیعاتی امور کی طرف مبذول کی گئی ہے۔ اسی طرح انہوں نے احسان اور تقویٰ کے مفہوم کا مخصوص طورپر استعمال کرتے ہوئے صفات الٰہیہ کی کاملیت و اکملیت کے حوالے سے انسانی نفسیات کی تشریح کی گئی ہے۔
قانون سے متعلق اس پیچیدہ اومختلف سطح اور ابعاد رکھنے والے اس نکتۂ نظر کو جنوب ایشیائی اسلامی فکر کے بعض حلقوں میں اب بھی مقبولیت حاصل ہے۔ اس خطے میں روایتی حنفی علما اور اسکالرس کا گروہ بلا تامل کائناتی تناظر میں فقہی احکام و ضوابط کے متعلق گفتگو کرتا ہے۔ یہ رجحان دیوبندی اور بریلوی دونوں مکتب فکر کے علما میں نظر آتا ہے۔ علم و دانش کے ان حلقوں میں قانون کے مباحث میں ما بعد الطبیعات ، کلام اور تصوف کی بھرپور آمیزش شامل ہوتی ہے۔(۲۰)

ماورائیت ، حکایت اور تاریخ

اجتہاد سے متعلق قاری طیب صاحبؒ کے بیانات میں تاریخ سے متعلق ان کا نظریہ غیر محسوس طورپر در آیا ہے ، جو ہماری توجہات کا زیادہ مستحق ہے۔ تاریخ سے متعلق ان کا نظریہ مختلف پہلوؤں سے قصہ. (historia)سے مشابہ ہے جس کے مطابق، ان کے تعبیری نمونوں سے متعلق ان کے بیانات سے نہایت اہم سوالات ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ یہ تاریخ وار مرتب تاریخ کے بالمقابل ایک بیانیہ تاریخ کے مشابہ ہے۔ ہیڈن وہائٹ(Hayden White) کہتے ہیں: 
’’ بیانیہ تاریخ ، تاریخی واقعات کو ڈرامائی اور تاریخی عمل کو نادر شکل میں ڈھال دیتی ہے جس کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہوتا ہے کہ بیانیہ تاریخ جن حقائق سے تعامل کرتی ہے ان کا نظم و اسلوب سماجی و سائنٹفک تاریخ کے حقائق سے کافی مختلف ہوتا ہے۔‘‘(۲۱)
بیان سے جو حقائق منکشف ہو کر سامنے آئے انہوں نے تاریخ کو کونیات بلکہ شاید مفروضات کے ساتھ وابستہ کرنے کا کام انجام دیا۔ چنانچہ موضوعیت سے مکمل وابستگی کے ساتھ حقائق کو واشگاف کرنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود ، جیسا کہ ’’ ہرمن ہیس(Hermann Hess) Glass Bead Gameمیں لکھتے ہیں: ہمیں اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ تاریخ سے متعلق تحریریں ادبیات کے ضمن میں ہی آتی ہیں۔(۲۲) وہ مزید بصیرت کے ساتھ کہتے ہیں:’’ تاریخ کا تیسرا بعد ہمیشہ مفروضات ہی ہوتے ہیں۔‘‘
قاری طیب صاحبؒ کی بیانیہ تاریخ کے شاعرانہ اور عاقلانہ(poetic and noetic) دونوں پہلو ان کے فلسفۂ فقہ کی خبر دیتے ہیں۔ ان کے مباحثے میں دو اصطلاحیں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ مستعمل ہوتی ہیں: تکوین اور تشریع ۔تکوین سے مراد خلق کائنات اور تشریع سے قانون سازی مراد ہے۔ مسلم ماہرین دینیات یا فقہاء نے مادہ سے اشکال و صور کے پیدا ہونے کا نظریہ قائم کیاہے۔(۲۳) دوسرے لفظوں میں یہ بعض مادوں کی موجودگی تھی جو وجود کے لبادے میں ظاہر ہوئی یا ایک با اختیار ہستی کے منشا اور علم سے اس کا ظہور ہوا۔(۲۴) جس طرح تدریجی طورپرتکوین کا عمل مکمل ہوا۔ اسی طرح تشریع بھی ان کی صفات الٰہیہ سے وابستہ رہی جو ایک ماڈل کے طور پر تاریخ میں تدریجیت کے آغاز کا پیش خیمہ بنی۔
تدریجیت کے خد و خال’’ ربوبیت‘‘ کے اوصاف سے ظہور پذیر ہوئے ہیں۔ ربوبیت تدریجی طورپر پرورش اور دیکھ بھال کا نام ہے۔(۲۵) ۔ دوسرے لفظوں میں اسلامی قانون تاریخ کے مختلف مراحل میں تشکیل پذیر ہوا اور مادی اور انسانی کوششوں کے دائرے میں ظاہر ہوا۔ اس طرح کائناتی اور تشریعی دونوں نظاموں کا تعلق وقت سے ہے۔ کائنات کی تخلیق پر اس لیے زیادہ زور دیا گیا تاکہ ایک منظم کائنات کے ارتقا میں وقت کی اہمیت کی نشان دہی کی جا سکے نہ کہ تخلیق کے محدود نظریے کی۔
قاری صاحب نے اپنے افکار کی تشکیل مختلف مطابقتوں اور مشابہتوں(homologies)کو سامنے رکھ کر کی ہے۔’’ ریمونڈ ولیمس‘‘ (RaymondWilliams) کے خیا ل میں مشابہت کا تعلق اصل اور ارتقا سے ہے اور یہ قیاسanalogy) )سے مختلف ہے۔(۲۶) قاری طیب صاحب کے مطابق، تکوین اور تشریع کے عمل کے درمیان ایک مطابقت پائی جاتی ہے اور یہ مطابقت تکوین اور تشریع سے ہٹ کر کائنات اورموجودات میں جو مماثلت پائی جاتی ہے، اس کے تعلق کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔ اس کے بعد قاری صاحبؒ دوبارہ اس مماثلت کی طرف رخ کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں فطری طورپر ایک شخص خدا کے کام اور کلام کا شاہد ہوتا ہے۔ وہ اس طرح کہ خدا کے عمل کا ادراک کرکے انسان عمل تخلیق کی حقیقت سے آشنا ہوتا ہے اور خدا کے الفاظ کی تصدیق کر کے وہ وحی کے عمل کی حقیقت سے آشنا ہوتاہے۔ انھوں نے کتاب فطرت اور کتاب اللہ کے درمیان جو متوازی نسبت قائم کی ہے اس کی وضاحت کی مزید ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔(۲۷) قاری صاحب کے نزدیک فطرت پر مبنی کائنات اور وحی کی بنیاد پر تشریع ایک دوسرے سے ہم آہنگ اور اپنے وجود میں ایک ہی کلیے کا حصہ ہیں۔
ایک طرف تکوین اور دوسری طرف تشریع کی شروعات ایک ہی وقت میں عمل میں آئی ہے، یہ دونوں دو کائناتی عوالم( عالم الخلق والامر) کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ اصطلاح قرآن سے لی گئی ہے جو ایک ایسے دائرے کی ضرورت پر زور دیتی ہے جہاں امور کائنات اور امور تشریع ایک دوسرے کے ساتھ گھلے ملے نظر آتے ہیں۔ قاری صاحب کی نظر میںآغاز کائنات پر ایک بیان سے روشنی پڑتی ہے۔ انہوں نے قرآن کے بیان سے یہ مطلب اخذ کیا ہے کہ ایک کائناتی دن ایک ہزار زمینی دن کے برابر ہے۔ ابراہیمی مذاہب کے معروف مافوق الادراک تفصیل کے مطابق، کائنات کی تخلیق کل چھ دنوں میں عمل میں آئی ہے۔ اگرچہ مختلف مفسرین کے نظریے کے مطابق، تخلیق کا عمل ہمیشہ سے پُراسرار اور مبہم رہا ہے(۲۸)۔ قاری طیب صاحب کی ایک بڑی ناکامی اور کمزوری کی بات ان کی بھونڈی حرفیت پسندی ہے جو اسلامی نظریۂ ارتقا کا ایک دھندلا اور نہایت موہوم خاکہ پیش کرتی ہے۔ اس نظریے کے تحت یہ دعوا سامنے آتا ہے کہ ہماری یہ دنیا6000سالوں میں بن کر تیار ہوئی ہے(۲۹)۔ اس تعلق سے انہوں نے روایتی تفسیری تعبیرات کو بھی نظر انداز کر دیا۔ روایتی مفسرین میں سے بعضوں نے وحی میں موجود کونیاتی اشاروں اور حوالوں کی تجربی نوعیت سے متعلق کچھ بھی تخمینہ لگانے یا کہنے سے گریز کیا(۳۰)۔اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں آفرینش پر مبنی تخلیق کائنات سے متعلق پیش کردہ وہ نظریات جواب نا قابل اعتبار ٹھہرائے جا چکے ہیں؛ کے قبیل کی بھی بعض چیزیں قاری طیب صاحب کے یہاں راہ پا گئیں۔ تقریباً دو صدی پیشتر بائبل کے علم توارث کی روشنی میں یہ بات کہی گئی کہ زمین کی عمر چھ ہزار سال ہے جبکہ قاری طیب صاحب کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام محمد(ﷺ) کی پیدائش بنی نوع انسان کے پہلے فرد ( حضرت آدم علیہ السلام) کے اس دنیا میں آنے کے ٹھیک چھ ہزار سال بعد ہوئی ہے(۳۱)۔ قاری طیب صاحب کی فکر میں پائی جانے والی اس طرح کی کمزوریوں کے باوجود میرے خیال میں ان کی فکر کا اکثر حصّہ قابل قبول ٹھہرتا ہے۔ جس طرح کونیاتی نظام کا ظہور تاریخی یا فطری وقت کے مطابق ہوا، اسی طرح تشریعی نظام بھی فطری زمانے کے مطابق رونما ہوا۔ اس طرح ان دونوں میں با ضابطہ مطابقت بالکل واضح تھی: کائنات کی تاریخ کے مختلف مراحل میں جس طرح کائنات کی پرتیں نکلیں، اس کے رازہائے سربستہ منکشف ہوئے، اسی طرح طویل انسانی اعمال و تجربات کے ذریعے بتدریج شریعت کی تشکیل ہوئی اور وہ محمد (ﷺ) کے توسط سے تکمیل کو پہنچی ہے۔ کونی اور ارضی زمانے کے درمیان بھی ایک رابطہ موجود تھا۔ مولانا قاری طیب صاحب لکھتے ہیں کہ چھ ہزار سال کے عرصے کے دوران تکوین کائنات اور تشریع سے تعلق رکھنے والے امور کمال کو پہنچ گئے۔ آگے جو کچھ انھوں نے لکھا ہے اس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ان کی نظر میں کائنات اور موجودات کائنات کے درمیان تعلق ایسا ہی ہے جیسے جسمانی اور معاشرتی ارتقا کے نمایاں خد و خال کے درمیان۔ اگرچہ ایک شخص ان کے اس عمل میں صرف ہونے والے زمانے کے تخمینے کو مسترد کر سکتا ہے (۳۲)۔
تکوینی اور تشریعی عمل میں جو اشتراک تھا وہ نہایت گہرائی کے ساتھ غیر متبدل اور کائناتی اصولوں اور ضابطوں سے تعلق رکھتا ہے۔ قاری طیب صاحب جس کو نیات کی بات کرتے ہیں وہ بہت سی کلیات سے مرکب ہے۔ ارسطو اور ابن سینا کے حوالے سے وہ عناصر اربعہ : آب، خاک، آتش اور ہوا کو کلیات قرار دیتے ہیں جن سے مزید دوسری کلیات پیدا ہوئیں جیسے: اپنے نظام مدارج کے اعتبار سے جمادات، حیوانات اور نباتات۔(۳۳)
اسی طرح سائنٹفک قانون سازی کے میدان میں مذہب کے مبادی اور کلیات بھی کچھ ضوابط،قوانین ، نظریات اور اقدار پر مبنی ہیں۔ قاری طیب صاحب کی تطبیق میں تکوینی اور تشریعی بیانات کس طرح فٹ بیٹھتے ہیں؟ حقیقت میں غیر متبدل اورمستحکم کلیات کے ذریعہ ان میں توافق پیدا کیا گیا ہے - قاری طیب صاحب کے مثبت فریم ورک میں عمومات پر تاکید محض کلیدی عنصر ہی نہیں بلکہ خصائص بھی عمومات کا اثر رکھتے ہیں جب انہیں مربوط طرز میں پیش کیا جائے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ آیات و احادیث میں جس قدر بھی جزئی احکام مذکور ہوئے ہیں، جو زید، عمر و بکر کی طرح پھیلے ہوئے ہیں ان کی تشکیل وہ اصول وکلیات اور علل و اسرار کرتے ہیں جوان جزئیات میں مستور ہوتے ہیں کہ ہر جزئی میں ایک علم کلی ہوتا ہے اور ہر علم کلی میں حکمت و مصلحتِ کلیہ پوشیدہ ہوتی ہے۔ پھر ہر مصلحت کا تعلق کسی نہ کسی شان کمال سے ہوتا ہے۔ پھر ہرشان کمال کسی نہ کسی صفتِ الٰہی سے مربوط ہوتی ہے۔‘‘(۳۴)
لیکن کلی کامطلب یہ نہیں کہ ایک جامد نظام غالب ہے۔قاری صاحب کہتے ہیں: جب کوئی فطرت اور نظام تکوین کاجائزہ لیتاہے، تو یہ ممکن ہو جاتا ہے کہ نئے عجائب اور اسرار کا انکشاف ہو۔فطرت کے مخفی خزانوں کی تحقیق نے تہذیب کے لیے لا انتہا ایجادات پیش کر دی ہیں۔ تشریعی قانون کی معرفت آدمی کو اس قابل بنا دیتی ہے کہ وہ تکوین، اس کے قوانین، ضوابط اور اقدار کے پوشیدہ اسرار اور خفیہ معارف تک رسائی حاصل کر سکے۔ ان استدلالی آلات کو استعمال کرنے سے انسان - قاری صاحب کے خیال میں- نئے ثانوی خیالات ، لطافتیں، نکات، حقائق اور تدین کے نئے معانی پیدا کر سکتاہے۔(۳۵)
’’جیسے کہ سائنسی اکتشاف ہمارے تکوینی علم میں اضافہ کرتاہے ۔ ویسے ہی اجتہاد سے ہمیں تشریع کے دقائق کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔‘‘
وہ کہتے ہیں: 
’’ جس طرح تکوین کے ان منظم اور مرتب مادوں اور علوی و سفلی ذخیروں سے بواسطہ فکر و تدبر نئے نئے عجائبات کاانکشاف کیا جا سکتاہے اور ان کی چھپی ہوئی طاقتوں کا سراغ لگا کر تمدن کے نئے نئے کارنامے دنیا کو دکھائے جا سکتے ہیں جن کی کوئی حد نہیں کہ لاتنقضی غرائبہ۔ اسی طرح تشریع کے منظم احکام و مسائل اور قواعد وکلیات کے مخفی علوم و اسرار کا پتہ لگا کر ان سے تدین کے نئے فروعی مسائل ، لطائف و ظرائف اور حقائق و معارف پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ اس تکوینی انکشاف کانام ایجاد ہے اور تشریعی استخراج کا نام اجتہاد ہے، نہ ایجاد کی کوئی حد ہے نہ اجتہاد کی۔ یہ الگ بات ہے کہ جیسے ایجادات ہر زمانہ کی ذہنیت اور ضرورت کے مطابق ہوتی ہیں اور فطرتا موجدوں کی طبیعتیں ان ہی ایجادوں کی طرف چلتی ہیں جن کی زمانہ کو ضرورت ہوتی ہے اور جب وہ ضرورت ختم ہو جاتی ہے تو طبائع کی یہ دوڑ بھی ختم ہو جاتی ہے، آگے صرف ان ایجادات سے فائدہ اٹھانا رہ جاتا ہے، ایسے ہی اجتہادات کا رنگ بھی ہر دور کی علمی ذہنیت اور وقت کے تقاضوں کے مطابق ہوتا ہے مجتہدوں کے قلوب فطرتا چلتے ہی اس استخراج کی طرف ہیں جس کی اس قرن کو ضرورت ہوتی ہے۔اس تکمیل ضرورت کے بعداجتہاد کا وہ دور نہیں لوٹتا جو آچکتاہے، اب صرف اس سے نفع اٹھانے کا موقع باقی رہ جاتا ہے۔‘‘(۳۶)

قاری محمدطیب کی اجتہا د کے جواز میں یہ بلند آہنگ گفتگو قانون اور اخلاقی فلسفہ پر مبنی ہے۔ ان کے خیال میں اجتہاد اور تقلید دونوں ہی شریعت میں مطلوب ہیں (۳۷) لہٰذا دونوں میں سے صرف کسی ایک پر زور دینا درست نہ ہوگا۔ صرف اجتہاد کو ہی مرکز توجہ بنانے سے تقلید کو نقصان پہنچے گا۔اس کے بجائے دونوں ہی کے مثبت پہلوؤں کو آگے بڑھا یاجائے۔اجتہاد و تقلید دونوں ہی اصطلاحات مجازی کے طورپر اقتدار اور تخلیق کے ایک پورے نظام سے متعلق ہیں اور دونوں جبھی مؤثرہوں گے جب دونوں پر مخصوص نظام میں عمل درآمد ہو۔ قطع نظراس سے کہ وہ نظام مذہبی ہو یا سیکولر۔ اس نظام کا کردار زیادہ اہم ہے نہ کہ اس کی شکل۔ یہ نہ جبری ہو اور نہ جامد۔ قاری محمد طیب کے خیال میں یہ نظام مجموعی طورپر مؤثر ہوگا ٹکڑوں میں نہیں۔ 

(جاری)

حواشی و حوالہ جات:

۱۔ اجتہاد متعدد المعنی اصطلاح ہے ۔اس لیے اس کا کئی طرح سے ترجمہ ہوسکتاہے۔اس مقالے میں اس کا ترجمہ ان معنوں میں کیا گیاہے:خود اختیار کردہ اور مستقل فکر،مستقل فقہی توجیہ،خود توثیق کردہ اصول اور فقہی صوابدید وغیرہ۔
۲۔ اس اصطلاح سے متعلق ایک بحث کے لیے دیکھیے:
Gayatri Chakravorty Spivak, A Critique of Postcolonial Reason (Cambridge, Mass & London: Harvard University Press, 1999), 331. Also see the Oxford English Dictionary, s.v. 145 catachresis.146
۳۔ ابوحامد محمد بن محمد الغزالی:المستصفی من علم الاصول،ترتیب:سلیمان الاشقر(بیروت مؤسسہ الرسالہ ۱۴۱۷ھ/۱۹۹۷)، ۲/۱۶۴۔
۴۔ محمد ابن ادریس الشافعی :الرسالہ ترتیب :احمد محمد شاکر(بیروت،المکتبہ العلمیہ ،تاریخ مذکور نہیں)، ص، ۷۰۵۔۴۱۵۔ 
۵۔ مجتہد مطلق اور مجتہد منتسب کی بحث کے لیے دیکھیے:
۶۔ دیکھیے:
Wael B. ed. Hallaq, Islamic Law and Society: Issues and Problems, Vol. 3, No. 2, vol. 3 (1996) Also Mohammad Fadel, "The Social Logic of Taqlid and the Rise of the Mukhatasar," Islamic Law and Society 3, no. 2 (1996), Sherman A. Jackson, "Taqlid, Legal Scaffolding and the Scope of Legal Injunctions in Post-Formative Theory Mutlaq and `amm in the Jurisprudence of Shihab Al-Din Al- Qarafi," Islamic Law and Society 3, no. 2 (1996). 
۷۔ابوالحسن علی ندوی: Islam and the World( Lacknow,Islamic Research Academy) 1980 ۔اس طرح کے مختلف نظریات پر محمد عابد جابری نے تبصرہ کیا ہے۔نحن والتراث)بیروت االمرکزالثقافی العربی ۱۹۹۳ (خاص طور پر دیکھیے ص،۱۱۔۷۲
۸۔
Bruce B. Lawrence, Defenders of God: The Fundamentalist Revolt against the Modern Age (San Francisco: Harper & Row, 1989;  reprint, Columbia: University of South Carolina Press, 1995),p. 214
۹۔ایضا ص:215
۱۰۔
Carl W. Ernst and Bruce B. Lawrence, Sufi Martyrs of Love: The Chishti Order in South Asia and Beyond (New York: Palgrave Macmillan, 2002), p.118-125
۱۱-
 Johansen Baber:Contingency in a Sacred Law:Legal and Ethical Norms in the Muslim Fiqh,ed.Ruud Peters and Bernard Weiss,Studies in Islamic Law and Society,Vol.7(Leiden,Koln:Brill,1999
۱۲۔ میں اس بات سے واقف ہوں کہ بعض لوگ تقلید کاترجمہ’’نقل‘‘((imitation کرتے ہیں ۔میں نے اس کا ترجمہ اتباع یا کسی چیز پر کاربند ہونے کے معنی میں مجا زا کیا ہے۔
۱۳۔ قاری محمدطیب :اجتہاد اور تقلید (لاہو ر ادارہ اسلامیات ۸۷۹۱)ص،۶
۱۴۔ ایضا
۱۵۔ حنفی علما نے فقہ پر نظرثانی کی تحریک کا بہت زیادہ اثر قبول نہیں کیا ۔ہوسکتا ہے اس کی دوسری وجوہات بھی ہوں۔حنفی فقہی روایت کو دو واقعات سے بہت زیادہ تحریک اور تقویت ملی۔یہ دونوں واقعات نسبتا کم مدت کے اندر اندر پیش آئے اور ان کے حنفی فقہی روایت پر زبردست اثرات مرتب ہوئے۔ایک ہندوستان میں اورنگ زیب عالم گیرکی سرپرستی میں فتاوی عالمگیری (جسے فتاوی ہندیہ سے بھی موسوم کیا جاتاہے)کی ترتیب دوسرے ترکی میں عثمانی حکومت کے تحت مجلۃ الاحکام العدلیہ کا مرتب کیا جانا۔اس کی ترتیب وزیر انصاف احمد جودت پاشا کی نگرانی اور سرپرستی میں عمل میں آئی۔حنفی فقہ میں کی جانے والی اس اصلاحی کوشش کے اثرات ہندوستان میں وسط ایشیا کے راستے سے اور عالم عربی میں عرب حنفی علما کے ترکوں سے تعامل کے ذریعے وہاں پہنچے۔مجلہ الاحکام العدلیہ کے کام کو آگے بڑھانے میں سب سے اہم کردار علاء الدین محمد بن محمد ابن عابدین(وفات:۶۰۳۱/۹۸۸۱ ( کا ہے۔علاء الدین مشہور عالم وفقیہ محمد امین عابدین(۲۵۲۱ھ/ ۶۳۸۱ء)کے بیٹے تھے۔جن کی لکھی ہوئی کتاب:رد المحتار علی درالمختار بیسیویں صدی کی حنفی فقہ کی اہم ترین کتاب شمار ہوتی ہے۔نوجوان علاء الدین نے اپنے والد کی انسائکلو پیڈیائی نوعیت کی مذکورہ کتاب کے بعض ادھورے حصے کی نہ صرف تکمیل کی بلکہ جودت پاشا نگرانی میں جو کمیٹی اسلامی قانون کی تدوین نو کر رہی تھی اس کے رکن کے طور پر انہوں نے استنبول میں تین سال قیام بھی کیا۔ہندو پاک کے روایتی حنفی علما کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ فقہ کوقانون کے بجائے اخلاق کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔یہ بات اس تناظرمیں مختلف اور اہم ہے کہ مشرق وسطی کے فقہی حلقوں میں کچھ عرصے تک علما فقہ کو قانون کا درجہ دیتے رہے ہیں۔
۱۶۔ منیر غلام فرید:
Legal Reform in Muslim World The Anatomy of a Scholarly Dispute in the 19th and Early 20th Centuries on the Usage of Ijtehad as a Legal Tool(SanFrancisco&and London:Austin & Winfield,1996
۱۷ ۔مثال کے طورپر دیکھیے کہ یٰسین اختر مصباحی ،جو بریلوی فرقے کے اہم عالم ہیں،کس شدت کے ساتھ تنقید کرتے ہیں کہ انہوں نے ترقی کے نام پر اسلامی احکام پر عمل آور ی کو رجعت پسندی کے خانے میں ڈا ل کر ہر اسلامی حکم کو پس پشت ڈالنا شروع کردیا ہے۔مایوسی کے ساتھ وہ اشتراکیت،سوشلزم اور عرب قومیت کے عربوں پر اثرات کا ذکر کرتے ہیں ۔ ا حمد رضا بریلوی کی کتاب :جد الممتار علی رد المحتار جلد ۱،ص:۶(طبع حیدر آباد ،المطبع العزیزیہ ۲۸۹۱) کا تعارف جو مولانا مصباحی نے کلمات المجمع اکیڈمی کے نوٹ کے طور پر تحریر کیاہے۔ 
۱۸۔ قاری طیب :۳۶
۱۹۔ ایضا ۹۳۔۴۴:
۲۰۔ ایضا:۸۱
۲۱۔ مولانا احمد رضا خان کی تحریر وں میں یہ بات بھی وضاحت کے ساتھ ملتی ہے۔ 
۲۲ ۔
Hayden White, The Content of the Form, 44. 
۲۳۔
Hermann Hesse,The Glass Bead Game(New York:Picador,1990 ,P,48- 
۲۴۔ سمیح دوغائیم:موسوعۃ مصطلحات علم الکلام الاسلامی ،۲ جلدیں(بیروت ،مکتبہ لبنان، ۱/۷۹۳۔۷۷۹۱) ص،۴۳۲۔ التفتازانی۔تفتازانی کی کتاب ہندوپاک کے مدارس میں پڑھائی جاتی ہے۔ قاری طیب صاحب کادارالعلوم دیوبند بھی اس میں شامل ہے۔تفتازانی تکوین کی تشریح اس طرح کرتے ہیں کہ یہ ایسا نظریہ ہے جوفعل،خلق ،تخلیق،ایجاد ،احداث اور اختراع وغیرہ پر دلالت کرتاہے۔اور یہ سب خدا کی صفات ہیں۔دیکھیے :سعد الدین مسعود بن عمر التفتازانی: شرح العقائد النسفیہ فی اصول الدین وعلم الکلام،مرتب کلاؤڈی سلامہ(دمشق وزارۃ الثقافۃ والارشاد القومی۱۹۳۷)ص،۶۲ یا دوسرے لفظوں میں یہ اضافی نسبتیں ہیں جیسا کہ ایک شارح نے لکھا ہے۔دیکھیے:عبد العزیز پر ہاروی ،النبراس شرح شرح العقائد،)بندیال شریف ،سرگودھا ،شاہ عبد الحق اکیڈ می۷۹۳۱ / ۷۷۹۱)ص،۴۳۲۔
۲۵ ۔محمد اعلی تھانوی ، موسوعۃ کشاف اصطلاحات الفنون والعلوم ترتیب:رفیق العجم۲جلدیں(بیروت ،مکتبہ لبنان،۶۹۹۱)۱/۵۰۵ و۵۸
تھانوی کہتے ہیں کہ وسط ایشیا کا ماتریدی مکتب فکر یہ نظریہ رکھتا ہے کہ تکوین خداکی ازلی صفت ہے۔یعنی ایک ایسا وجود جو مستقل طور پر ماضی میں قائم ودائم رہا ہے۔پارتھوی اس کی یہ تشریح کرتے ہیں کہ ماتریدی تکوین کو صفت مؤثرہ تصور کرتے ہیں اور اس کو کئی نام دیتے ہیں جس کا تعلق مختلف نوع کے افعال سے ہے،دیکھیے،پارتھوی:ص:۵۳۲ 
۲۶ ۔قاری طیب :ایضا ص۹ 
۲۷۔
 ( Oxford: Oxford University Raymond Willi a m s / Marxism and Literature, Press/1986) p.105 
۲۸۔قاری طیب صاحب نے مختلف اعتبارات سے پاکستانی مصنف غلام جیلانی برق کے اس خیال کی شدت کے ساتھ تنقیدکی ہے کہ کتاب اللہ سے زیادہ اہمیت کتاب فطرت کو حاصل ہے۔دیکھیے،قاری طیب ،نظریہ دو قرآن پرایک نظر (دیوبند ،اعظمی بک ڈپو۲۰۰۶) 
۲۹ ۔ کائنات کی تخلیق سے متعلق قرآنی حوالوں کی تشریح وتوضیح بارے میں پائے جانے والے مختلف قدیم و جدید نظریات اور اس سے متعلق معذرت خواہیوں کے لیے دیکھیے: محمد رشید رضا:تفسیر القرآن الحکیم الشہیر بتفسیرالمنار ،(بیروت ،دارالمعرفہ ،تاریخ مذکورنہیں)،: ص،۴۴۴۔۴۵۴ 
۳۰ ۔قاری محمد طیب اپنی بات کے ثبوت میں مسلم مؤرخین کا حوالہ دیتے ہیں،جن میں ابن جریر طبری بھی شامل ہیں۔طبری کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام محمد ﷺکے پاس وحی حضرت آدم کی تخلیق کے تقریبا چھ ہزار سال کے بعد آئی۔وہ قرآن(الاعراف:۵۴)کا حوالہ دیتے ہیں جو زمین و آسمان کی تخلیق سے متعلق ہے اور اس کو قرآن کی سورہ الحج :۴۷ سے متعلق کرتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ آخرت کا ایک سال زمین کے ایک ہزار سال کے برابرہے۔
۳۱۔ الحافظ امداد الدین ابوالفدا اسماعیل ابن کثیر و محمد علی الصابونی (مرتب) مختصر تفسیر ابن کثیر،(بیروت، دارالقرآن الکریم ، ۲/۵۲(۲۰۴۱/ھ۱۸۹۱ء)
۳۲۔ دیکھیے
H.Allen Orr:AReligon for Darwinians? The New York Review of Books/16, Aug.2007,P.33
۳۳ ۔ قاری طیب ص،۲۱ 
۳۴۔ ایضا۔مزید دیکھیے :
Aristotle'' Metaphysics''in The Basic Works of Aristotle ed.Rechard McKeon(New York:The Modern Library,2001)697 Seyyed Hossein Nasr/An Introduction to Cosmological Doctrines(Bath:Thames & and Hudson/1978
۳۵۔ قاری طیب ،
۳۶۔ ایضاً،ص،۱۳ 
۳۷۔ ایضاً

استاذ گرامی حضرت مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ / مرزا غلام احمد کے دعاوی اور قادیانیوں کی تکفیر

محمد عمار خان ناصر

(’’خاطرات‘‘ کے عنوان سے ایک سلسلہ شذرات کا آغاز کافی عرصے سے ذہن میں تھا جس میں مختلف علمی، فکری، فقہی، معاشرتی وتہذیبی اور مشاہداتی موضوعات کے حوالے سے، جو راقم الحروف کے زیر غور رہتے ہیں، اپنے طالب علمانہ نتائج فکر کو مختصر تحریروں کی صورت میں قارئین کے سامنے پیش کرنا مقصود ہے۔ زیر نظر شمارے سے اس سلسلے کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ کوشش کی جائے گی کہ اس عنوان سے کچھ نہ کچھ معروضات تسلسل کے ساتھ پیش کی جاتی رہیں۔ واللہ الموفق۔ عمار ناصر)

استاذ گرامی حضرت مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ 

مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ کم وبیش نصف صدی تک درس وتدریس اور دعوت وتبلیغ کی سرگرمیوں سے بھرپور زندگی بسر کرنے کے بعد گزشتہ دنوں دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
والد گرامی نے جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں مولانا مفتی عبد الواحد مرحوم کی نیابت میں خطابت کا سلسلہ ۱۹۷۰ء میں شروع کیا۔ اس وقت تک والد گرامی، والدہ محترمہ کے ہمراہ گکھڑ میں دادا محترم شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز صفدرؒ کے ساتھ انھی کے گھر میں سکونت پذیر تھے۔ غالباً ۱۹۷۹ء میں ہمارا گھرانہ گوجرانوالہ میں منتقل ہوا تو میں اس وقت تقریباً چار سال کا تھا اور نئی جگہ منتقل ہونے کی کچھ نہ کچھ جھلکیاں میرے ذہن میں محفوظ ہیں۔ اس کے بعد سے قاضی صاحب کی وفات تک تیس سے زائد سال کا عرصہ میں نے جامع مسجد شیرانوالہ باغ اور مدرسہ انوار العلوم کے اسی ماحول میں بسرکیا ہے جس میں قاضی حمید اللہ خان درس وتدریس کی خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ یوں بحمد اللہ مجھے ان کی شخصیت ومزاج کو بہت قریب سے دیکھنے اور ان کے روز مرہ معمولات کا مشاہدہ کرنے کے مواقع مسلسل حاصل رہے ہیں۔
ابتدا ہی سے انھیں دن کے اوقات میں مدرسہ انوار العلوم کے طلبہ کو اپنے بلند آہنگ میں اسباق پڑھاتے اور مغرب کی نماز کے بعد عوام الناس کو درس قرآن دیتے ہوئے دیکھنا ہر روز کا معمول تھا۔ ۱۹۸۵ء تک میں جامع مسجد میں حفظ قرآن کا طالب علم تھا اور مغرب کی نماز کے فوراً بعد طلبہ سب لوگوں کے ساتھ قاضی صاحب کے درس قرآن میں شریک ہوتے اور پھر اپنی کلاس میں بیٹھتے تھے۔ وعظ وتبلیغ میں قاضی صاحب کے سادہ، موثر اور دل نشیں انداز بیان کا گہرا نقش اسی وقت سے دل ودماغ پر ثبت ہے۔ 
دینی علوم اور خاص طو رپر درس نظامی میں شامل معقولات کے میدان میں قاضی صاحب کی تدریسی مہارت کا تاثر بھی اسی زمانے سے ذہن میں قائم ہے۔ مجھے یاد ہے کہ اس زمانے میں ہمارے چچا محترم مولانا رشید الحق خان عابد، جو اس وقت مدرسہ نصرۃ العلوم میں زیر تعلیم تھے، عصر کے بعد قاضی صاحب سے معقولات کے کچھ اسباق، غالباً حمد اللہ وغیرہ پڑھنے کے لیے آیا کرتے تھے۔ میں نے ۱۹۸۶ء میں مدرسہ انوار العلوم میں ہی درس نظامی کے اسباق کا آغاز کیا۔ قاضی صاحب ابتدائی درجات کی کتابیں نہیں پڑھاتے تھے، اس لیے ان سے تلمذ اور استفادہ کا موقع ۱۹۸۹ء میں ملا اور درجہ رابعہ میں ہم نے ان سے ملا جامی کی شرح کافیہ پڑھی۔ قاضی صاحب درس وتدریس کا غیر معمولی ذوق بھی رکھتے تھے اور شوق بھی اور معمول کے اسباق کے علاوہ طلبہ کی فرمائش پر انھیں کوئی بھی کتاب پڑھانے کے لیے فوراً آمادہ ہو جاتے تھے۔ چنانچہ شرح ملا جامی کے ساتھ ساتھ انھوں نے اسی طرح کی فرمائش پر ہماری جماعت کے طلبہ کو رسالہ ایساغوجی اور تلخیص المفتاح کا متن بھی پڑھایا۔
درس نظامی کی تعلیم کے دوران میں مجھے درسی کتب کو زیادہ محنت اور لگن سے پڑھنے کی کوئی خاص رغبت اپنے اندر محسوس نہیں ہوتی تھی اور اس کے بجائے (مدارس کی خاص اصطلاح میں) ’’خارجی‘‘ کتابیں پڑھنے کا رجحان زیادہ غالب تھا۔ اسی دور میں بعض اسباب سے مجھے بائبل اور مسیحیت سے متعلق مناظرانہ موضوعات کے مطالعہ سے دلچسپی پیدا ہو گئی تھی اور اس حوالے سے کتابیں جمع کرنے اور مطالعہ کرنے کے علاوہ مبتدیانہ نوعیت کی مشق قلم کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا تھا۔ تاہم قاضی صاحب کی طرف سے ’’صلائے عام‘‘ کا رویہ دیکھتے ہوئے شرح جامی کے سال کے اختتام پر میں نے چھٹیوں میں ان سے فرمائش کی کہ میں کافیہ پر رضی استراباذی کی مشہور شرح بھی آپ سے سبقاً پڑھنا چاہتا ہوں۔ قاضی صاحب نے فوراً ہامی بھر لی، لیکن ساتھ ہی فرمایا کہ ایک شرط پر پڑھاؤں گا اور وہ یہ کہ دینی علوم کی تحصیل سے فارغ ہونے کے بعد ادھر ادھر کا کوئی مشغلہ اپنانے کے بجائے مدرسے میں بیٹھ کر طلبہ کو پڑھاؤ گے۔ میں نے وعدہ کر لیا اور پھر قاضی صاحب نے ایسی غیر معمولی شفقت فرمائی کہ مجھے اپنے پاس طلب کرنے کے بجائے وہ بذات خود روزانہ عصر کے بعد جامع مسجد تشریف لاتے رہے اور میں اور میرے ساتھ چند ایک دوسرے طلبہ جامع مسجد کے صحن میں ان سے رضی کی شرح کافیہ کا درس لیتے رہے۔ کتاب کا نسخہ ایک ہی میسر تھا جو میں نے حضرت مولانا مفتی عبد الواحد مرحوم کے پوتے جناب مولانا رشید احمد علوی صاحب سے مستعار لیا تھا، لیکن یہ نسخہ میرے ہی پاس تھا، جبکہ قاضی صاحب روزانہ سبق سے متصل پہلے اسی نسخے سے تیاری کر کے ہمیں سبق پڑھاتے تھے۔ یاد پڑتا ہے کہ رجب اور شعبان کی چھٹیوں میں ہم نے غالباً غیر منصرف کی بحث تک کتاب کا ابتدائی حصہ پڑھا اور پھر رمضان کی آمد کے ساتھ یہ سلسلہ منقطع ہو گیا۔
قاضی صاحب کا اسلوب درس دیگر اساتذہ سے اس لحاظ سے مختلف تھا کہ وہ طلبہ کو کتاب کے مطالب حل کر کے لانے کا نہیں کہتے تھے ، حتیٰ کہ عام طور پر ان کے سبق میں طلبہ سے کتاب کی عبارت پڑھوانے کا طریقہ بھی رائج نہیں تھا۔ وہ خود ہی کتاب کی عبارت پڑھتے جاتے اور اپنے مخصوص اسلوب میں مطالب کی توضیح کرتے جاتے تھے۔ ساتھ ساتھ چٹکلوں اور طلبہ کے ساتھ مزاح کا سلسلہ بھی جاری رہتا تھا۔ طلبہ کو مختلف القاب دینا ان کے التفات کا ایک خاص انداز تھا۔ کسی طالب علم کو وہ ’’فارابی‘‘، کسی کو ’’ارسطو‘‘ اور کسی کو ’’تبلیغی‘‘ کا لقب دیتے تھے اور کتاب کے مطالب سمجھانے کے لیے کوئی مثال دیتے ہوئے عام طور پر سامنے موجود طلبہ میں سے ہی کسی پر اسے منطبق کر کے دکھاتے تھے۔
دوران سبق کے علاوہ بھی وہ ہمیشہ بڑی محبت اور اپنائیت کے ساتھ پیش آتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک موقع پر جب والد گرامی بیرون ملک کے سفر پر گئے اور زیادہ عرصے کے لیے وہاں ٹھہر گئے تو ان کی غیر موجودگی میں قاضی صاحب کچھ دنوں کے وقفے سے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنے ساتھ بازار لے جاتے اور پھل کی دوکان سے تازہ موسمی پھلوں کا لفافہ خوب بھر کر مجھے دے دیتے تھے کہ یہ گھر لے جاؤ۔ قاضی صاحب کے بچوں کا ہمارے گھر آنا جانا رہتا تھا، بلکہ ان کی تین چار بچیاں بچپن میں قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ہمارے ہاں والدہ محترمہ کے پاس ہی آیا کرتی تھیں۔ خوش طبعی اور سادگی قاضی صاحب کے مزاج کا حصہ تھی۔ ہمیشہ صاف ستھرا سفید لباس زیب تن فرماتے تھے اور باریک سیاہ دھاریوں والا ایک رومال ان کے کندھے پر یا ان کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔ 
مجھے اپنے گھر کے ماحول تک محدود رہنے اور سفر سے طبعاً گریزاں ہونے کی وجہ سے اپنے دور کے بہت کم بزرگوں اور اہل علم کی زیارت وملاقات کا موقع ملا ہے، تاہم جن بزرگوں کو دیکھنے اور کسی بھی حوالے سے ان کی شفقتوں اور عنایتوں سے کچھ بہرہ پانے کی سعادت حاصل ہوئی ہے، وہ بحمد اللہ کسی محرومی کا احساس نہیں ہونے دیتی۔ ان بزرگوں کی محبت اور شفقت کی یاد ہمیشہ دل میں تازہ رہتی اور دل کو تازہ رکھتی ہے۔ قاضی حمید اللہ خان صاحبؒ سمیت ان میں سے بیشتر بزرگ دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات کو بلند سے بلند تر فرمائے اور ان کے ساتھ تعلق اور نسبت کو ہمارے لیے دنیا وآخرت میں سعادت ونجات کا ذریعہ بنا دے۔ جو بزرگ بقید حیات ہیں، اللہ تعالیٰ صحت، عافیت اور سلامتی کے ساتھ ان کا سایہ ہمارے سروں پر قائم رکھے اور اس چند روزہ زندگی کی ہر قسم کی آزمائشوں اور آفات سے ہم سب کو محفوظ رکھتے ہوئے آخرت میں بلا استحقاق اپنے ابدی انعام واکرام کا حق دار بنا دے۔ آمین

مرزا غلام احمد کے دعاوی اور قادیانیوں کی تکفیر 

جناب مولانا وحید الدین خان نے اپنی بعض حالیہ تحریروں میں مرزا غلام احمد قادیانی کے دعوائے نبوت کے حوالے سے اس پرانی بحث کو ایک بار پھر چھیڑنے کی کوشش کی ہے کہ مرزا صاحب نے فی الواقع اصطلاحی مفہوم میں اپنے لیے نبوت کے منصب کا دعویٰ کیا تھا یا نہیں، البتہ انھوں نے اس ضمن میں صرف مرزا صاحب کے بعض بیانات پر انحصار کرتے ہوئے گزشتہ ایک صدی کے حالات وواقعات اور اس بحث کے حوالے سے رونما ہونے والے فکری وعملی ارتقا کو بالکل نظر انداز کر دیا ہے۔ 
اصل یہ ہے کہ مرزا صاحب کی تحریروں میں اس حوالے سے جو مختلف ومتضاد بیانات ملتے ہیں، ان کے پیش نظر خود ان کے معتقدین ان کی وفات کے بعد لاہوری اور قادیانی گروہوں میں تقسیم ہو گئے تھے اور اس موضوع پر ان کے مابین مناظرانہ بحثوں کا سلسلہ بھی چلتا رہا ہے۔ تاہم اس داخلی نزاع میں جو گروہ عملاً جماعت احمدیہ کی ایک بڑی اکثریت کو اپنے ساتھ وابستہ کرنے اور جماعت کی قیادت کا منصب سنبھالنے میں کامیاب رہا، وہ قادیانی گروہ ہے اور اس گروہ کے قائدین مختلف مواقع پر ایک تسلسل کے ساتھ اپنا یہ موقف دوٹوک انداز میں واضح کر چکے ہیں کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کو خالص اصطلاحی مفہوم میں خدا کا ایک واجب الاطاعت پیغمبر تسلیم کرتے اور ان پر ایمان نہ لانے والوں کو دائرۂ اسلام سے خارج تصور کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے دنیا سے چلے جانے کے بعد جماعت احمدیہ کے کفر واسلام کا فیصلہ کرنے میں خود مرزا غلام احمد قادیانی کی اپنی تحریریں اور ان میں دکھائی دینے والے مختلف وجوہ اور احتمالات زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ اس کا مدار عقلی ومنطقی طور پر قادیانی جماعت کے موقف پر ہونا چاہیے کہ وہ مرزا صاحب کو کیا حیثیت دیتی ہے اور اسی کی روشنی میں یہ فیصلہ کیا جانا چاہیے کہ جماعت احمدیہ سے وابستہ حضرات مسلمان ہیں یا نہیں۔ فرض کر لیجیے کہ مرزا صاحب نے حقیقتاً نبوت کا دعویٰ نہیں کیا، لیکن جماعت احمدیہ کے لوگ بہرحال انھیں نبی قرار دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں بنیادی اہمیت مرزا صاحب کے بیانات کی نہیں، بلکہ قادیانی جماعت کے اعتقاد کی ہے۔ لاہوری گروہ کے بارے میں، البتہ، یہ سوال ہو سکتا تھا کہ انھیں کس طرف شمار کیا جائے ا ور بعض اہل علم، مثلاً مولانا مودویؒ ابتداءً ا ان کی تکفیر میں کچھ تردد کا شکار رہے ہیں، لیکن ۱۹۷۴ء میں آئینی فیصلے کے موقع پر انھوں نے قادیانی ولاہوری، دونوں گروہوں کی تکفیر کے حوالے سے کیے جانے والے متفقہ فیصلے میں شرکت اور اس کی تائید کی ہے۔
مرزا غلام احمد اور ان کے معتقدین کی تکفیر کے ضمن میں ایک اور بحث کا ذکر بھی موقع کی مناسبت سے یہاں کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ مرزا صاحب کی طرف سے وحی کے نزول اور منصب نبوت عطا کیے جانے کے دعووں کے سامنے آنے کے بعد علماء کی غالب اکثریت نے ابتداء ہی سے یہ واضح موقف اختیار کر لیا تھا کہ جماعت احمدیہ سے وابستہ حضرات اسلام کے ایک اساسی عقیدہ یعنی عقیدۂ ختم نبوت کے انکار کی وجہ سے دائرۂ اسلام سے خارج ہیں۔ تاہم علما کے معروف حلقے میں دو شخصیتیں ۔مولانا عبید اللہ سندھیؒ اور مولانا عبد الماجد دریابادیؒ ۔ ایسی تھیں جنھوں نے اس فیصلے پر تحفظات ظاہر کیے۔ جہاں تک عقیدۂ ختم نبوت کے اسلام کا ایک اساسی عقیدہ ہونے اور اس کے انکار کے فی نفسہ کفر ہونے کا تعلق ہے تو ظاہر ہے کہ اس میں کسی باشعور عام مسلمان کو بھی کوئی شبہہ نہیں ہو سکتا، چہ جائیکہ کوئی عالم دین اس ضمن میں کسی شک وشبہہ کا شکار ہو۔ اسی طرح ایک مدعی نبوت کی حیثیت سے خود مرزا غلام احمد کے کفر وارتداد میں بھی بدیہی طو رپر کسی تردد کی گنجائش نہیں تھی۔ مذکورہ اہل علم کے تحفظات کا تعلق دراصل بطور ایک گروہ کے پوری جماعت احمدیہ کے بارے میں ’تکفیر‘ کی حکمت عملی اختیار کرنے سے تھا اور وہ بعض پہلووں سے اس جماعت میں شامل ہو جانے والے عام اور سادہ مسلمانوں کو ’تاویل‘ کی رعایت دیتے ہوئے کفر کے فتوے سے بچانے کی طرف میلان رکھتے تھے۔ (اس ضمن میں مولانا سندھیؒ کے خیالات پروفیسر محمد سرور مرحوم کے مرتب کردہ ’’افادات وملفوظات‘‘ میں دیکھے جا سکتے ہیں، جبکہ مولانا دریابادیؒ کے حوالے سے اس مناقشے پر نظر ڈال لینا مناسب ہوگا جو چند سال قبل ماہنامہ ’’الحق‘‘ اکوڑہ خٹک کے صفحات پر مولانا مدرار اللہ مدرارؒ اور جناب طالب الہاشمیؒ کے مابین جاری رہا ہے۔)
مولانا عبد الماجد دریابادیؒ نے مسلمان فرقوں کی تکفیر کے حوالے سے چند سوالات اپنے شیخ مولانا اشرف علی تھانویؒ کے سامنے پیش کیے تو لکھا کہ:
’’میرا دل تو قادیانیوں کی طرف سے ہمیشہ تاویل ہی تلاش کرتا رہتا ہے۔‘‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے جواب میں مولانا تھانوی نے انھیں توبہ کی تلقین کرنے یا سطحی درجے کا مولویانہ ومفتیانہ رویہ اپناتے ہوئے ایمان اور نکاح کے ٹوٹ جانے کا فتویٰ صادر کرنے کے بجائے صرف اس قدر فرمایا کہ:
’’یہ غایت شفقت ہے، لیکن اس شفقت کا انجام سیدھے سادے مسلمانوں کے حق میں ’’عدم شفقت‘‘ ہے، وہ اچھی طرح ان کا شکار ہوا کریں گے۔‘‘ 
یہ تفصیلی سوال وجواب امداد الفتاویٰ جلد چہارم، ص ۵۸۴ تا ۵۸۷ میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
مذہبیات کے ایک طالب علم کے طور پر راقم الحروف کافی عرصہ تک اس نقطہ نظر کی طرف جھکاؤ محسوس کرتا رہا ہے اور میری کچھ عرصہ قبل کی بعض تحریروں میں بھی اس کی جھلک قارئین کو دکھائی دے گی۔ البتہ، جیسا کہ واضح ہے، اشکال عقیدۂ ختم نبوت کے دین کا ایک اصولی اور اساسی عقیدہ ہونے یا خود مرزا غلام احمد قادیانی کے کفر و ارتداد میں نہیں، بلکہ صرف اور صرف ان عام قادیانیوں سے متعلق تھا جو لاعلمی، ناواقفیت اور جہالت کی بنا پر قادیانی تاویلات کے جال میں گرفتار ہو کر اس ڈر سے مرزا صاحب پر ایمان لانے کو اپنی نجات کے لیے ضروری خیال کر بیٹھے ہوں کہ ان کا شمار کہیں خدا کے ایک فرستادہ کا انکار کر کے جہنم کی آگ کا مستحق بن جانے والوں میں نہ ہو جائے۔
بہرحال کافی غور وخوض اور معاملے کے جملہ نظری وعملی پہلووں کا جائزہ لینے کے بعد مجھ پر یہ واضح ہوا کہ اس باب میں علما کا عمومی موقف ہی اسلام کے نظام عقائد اور دیگر دینی وشرعی مصالح کے تحفظ کے پہلو سے اقرب الی الصواب ہے اور اگر دین وشریعت کا مزاج کسی بھی معاملے میں نظری پہلووں سے زیادہ عملی نتائج واثرات کو زیادہ وزن دینے کا ہے تو پھر مرزا صاحب کی نبوت پر ایمان رکھنے بلکہ ان کی ذات سے کسی بھی نوعیت کا مذہبی اعتقاد وابستہ کرنے والوں کی بلا تفریق تکفیر ہی عام مسلمانوں کو اس فتنے سے محفوظ رکھنے کے لیے مفید اور موثر ہو سکتی ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے مولانا دریابادی کے اشکال کے جواب میں اسی پہلو کو واضح فرمایا ہے۔ قادیانی گروہ چونکہ ایک نئی نبوت پر ایمان کو کفر وایمان کا معیار قرار دے کر تبلیغی مہم شروع کر چکا اور اسلام کے لبادے میں سادہ لوح عوام کو کفر وضلالت کے ایک نئے فتنے میں مبتلا کرنے کے لیے سرگرم عمل ہو چکا تھا، اس لیے عقیدۂ ختم نبوت کی قطعی اور اساسی اہمیت کو واضح کرنے اور اسلام کے نظام عقائد کو اس طرح کی کسی بھی رخنہ اندازی سے محفوظ رکھنے کے لیے علما نے بجا طو رپر اسی بات کو مناسب سمجھا کہ اس فرقہ نوپید کو مسلمانوں کے اندر اپنی جڑیں مضبوط کرنے کا موقع دینے سے پہلے ہی اسے جسد امت سے بالکل کاٹ دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ اس تناظر میں قادیانی گروہ کے خواص اور عوام میں کوئی فرق کرنا نہ صرف یہ کہ عملی طور پر ممکن نہیں تھا، بلکہ اس سے عوام الناس کو اس گروہ کے اعتقادی شر سے بچانے کا وہ مقصد بھی بالکل فوت ہو جاتا جس کے پیش نظر تکفیر کا یہ فیصلہ کیا گیا تھا۔
مذکورہ وجوہ سے میرے نزدیک قادیانیوں کو من حیث المجموع قانونی اعتبار سے کافر قرار دینے کا فیصلہ تو بالکل درست اور دینی وشرعی مصالح کے مطابق ہے، تاہم یہ نکتہ اپنی جگہ برقرار رہتا ہے کہ عام مسلمانوں میں سے جو لوگ لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے قادیانی تاویلات کے فریب کا شکار ہو چکے ہیں، ان کے ساتھ نفرت و مخاصمت اور سماجی مقاطعہ کا رویہ درست نہیں، بلکہ وہ اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ ایک داعیا نہ ہمدردی کے ساتھ انھیں مسلمانوں کے قریب تر کرنے اور ان کے لیے اسلام کے صحیح عقائد سے متعارف ہونے کے مواقع پیدا کیے جائیں، اس لیے کہ دعوت دین کا کام لوگوں کو حق اور اہل حق سے دور رکھنے کا نہیں، بلکہ راہ حق سے بھٹک جانے والے لوگوں تک پہنچ کر انھیں حق کے قریب لانے کی جدوجہد کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ 

مولوی انتقام لیتا رہے گا

نجم ولی خان

شاد باغ میں ایک قاری نے بارہ سالہ بچے کو اتنا مارا کہ وہ مر ہی گیا اور یہ ایک ہی جگہ ہونے والا ایک ہی واقعہ نہیں‘ ہمارے بہت سارے ’’عالم دین‘‘ اس کے لیے بدنام ہیں اور اس بدنامی کو بڑھانے میں ہمارے ہی معاشرے کے دین سے بے زار طبقے نے بھی بڑا کردار ادا کیا ہے۔ مگر کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی گئی کہ وہ ’’مولوی‘‘ جسے معاشرے میں عزت‘ وقار کا حامل ہی نہیں، اعلیٰ اخلاقی اقدار کا علم بردار بھی ہونا چاہیے، اس کا یہ رویہ کیوں ہے؟ وہ اپنے مدرسوں میں بچوں کو زنجیروں سے باندھ کر کیوں رکھتا ہے؟ جب وہ سبق پڑھا رہا ہوتا ہے تو اس کے پاس ایک موٹا ڈنڈا کیوں ہوتا ہے جس کے استعمال میں بھی اسے کچھ عار نہیں؟ شاد باغ والے واقعے میں قاری کا نام بھی محمد جمیل اور بچے کا نام بھی محمد جمیل۔ بچے کو پیٹ میں ڈنڈے اور ٹھڈے مارے گئے اور وہ بارہ دن تک کرب و اذیت کا شکار رہنے کے بعد دم توڑ گیا۔ میں جب کسی عالم دین سے بات کرتا ہوں تو وہ اس رویے کی حمایت کرتا نظر نہیں آتا۔ 
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ علامہ سرفراز نعیمی شہید کے ساتھ جامعہ نعیمیہ کے صحن میں ان کی شہادت سے قریباً ایک سال پہلے ایک محفل سجائی گئی تھی۔ میرے پیش نظر دو سوال تھے کہ ہم بچوں کو مدرسوں میں کیا ماحول دے رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں ان مدرسوں سے فارغ التحصیل بچے ملک و قوم کو کیا لوٹا رہے ہیں؟ اس وقت دہشت گردی کا دور دورہ تھا اور کچھ عرصہ بعد جب ڈاکٹر سرفراز نعیمی نے دہشت گردی کے خلاف متفقہ فتویٰ جاری کیا تو ان کو بھی انھی کے مدرسے میں نماز جمعہ کے بعد بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔ میں سرفراز نعیمی شہید جیسے مجاہد کی بات نہیں کرتا جو میرے پروگرام میں بھی آیا کرتے تھے تو ان کے پاس ایک پرانی سی موٹر سائیکل ہوا کرتی تھی اور ایک آدھ مرتبہ تو اس کے خراب ہونے کی وجہ سے پروگرام میں تاخیر بھی ہوئی۔ وہ خود کش حملہ آور بھی تو کسی مدرسے سے آیا ہوگا جہاں اسے بتایا گیا ہوگا کہ سرفراز نعیمی نام کا ایک شخص اپنی مسجد اور مدرسے میں بیٹھ کر ’’جہاد‘‘ کی مخالفت کر رہا ہے جو اللہ کے حکم کی مخالفت ہے اور اسلامی معاشرے کے قیام اور اس جدوجہد کی بقا ہی اس میں ہے کہ سرفراز نعیمی کو مار دیا جائے۔ مارنے والے کو یقینی طور پر بتایا گیا ہوگا کہ جیسے ہی وہ ’’جہاد کے اس منکر‘‘ کو فنا کرتے ہوئے شہید ہوگا، اسے آبِ کوثر سے لبالب بھرا پیالہ پلایا جائے گا اور جنت کی حوریں بانہیں پھیلائے اس کی منتظر ہوں گی۔ اساتذہ کرام اپنی تعلیم اور افکار کے ذریعے بچوں کے ذہنوں پر اسی طرح اثر انداز ہوتے ہیں، مگر ہم جن کو استاد بنا رہے ہوتے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ وہ کہاں سے آتے ہیں؟ ہم مولوی نامی جس مشین سے اپنے بچوں کی اسلام سازی کرواتے ہیں، وہ مشین کس خام مال سے اور کس فیکٹری سے تیار ہوتی ہے؟ اس پر غور کرنا بہت ضروری ہے۔ علمائے کرام مجھے بتاتے ہیں کہ پاکستان میں دینی تعلیمی اداروں یعنی مدرسوں کے انتظام و انصرام کے لیے پانچ ادارے کام کر رہے ہیں۔ ان میں دیوبندی وفاق المدارس، بریلوی تنظیم المدارس، اہل حدیث وفاق المدارس، شیعہ وفاق المدارس اور جماعت اسلامی کا وفاق المدارس شامل ہیں۔ ان اداروں سے الحاق رکھنے والے مدرسوں میں تعلیم و تدریس کے لیے باقاعدہ قواعد و ضوابط بنائے گئے ہیں۔ اس کے باوجود سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں ایسے مدارس موجود ہیں جن کا کسی بھی مکتبہ فکر کے ادارے سے باقاعدہ الحاق نہیں۔
کیا یہ امر ایک حقیقت نہیں کہ اگر آپ ایک کھاتے کماتے شخص ہیں تو آپ نے کبھی یہ نہیں سوچا ہوگا کہ آپ اپنے لخت جگر کو مولوی، امام مسجد، قاری یا عالم دین بنائیں گے؟ آپ اور آپ کی اہلیہ نے ہمیشہ بچوں کے لیے انجینئر، پائلٹ، ڈاکٹر بننے کے خواب دیکھے اور دکھائے ہوں گے۔ ہمارے پاس اس وقت مساجد کے اماموں کی صورت میں علمائے کرام کی جو کھیپ موجود ہے، وہ ایسے دور میں تیار ہوئی ہے جب اُن بچوں ہی کو مدرسوں میں بھیجا جاتا تھا جو اسکولوں میں نہ چل سکیں یا جن کے والدین کے اتنے مالی وسائل نہ ہوں کہ وہ اپنے بچوں کے کھانے اور کپڑوں کے انتظام کے ساتھ ساتھ تعلیمی اخراجات بھی برداشت کر سکیں۔ یہ مدرسے بچوں کو دینی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ ان کے تمام تر اخراجات بھی اٹھاتے ہیں جنہیں زکوٰۃ و صدقات سے پورا کیا جاتا ہے۔ میں نے تو دیہات بارے یہاں تک سنا ہے کہ وہاں بچوں کو ایک بالٹی دے کر نکال دیاجاتا تھا۔ یہ بچے ہر گھر جاتے اور ہر گھر سے پکا ہوا سالن اس بالٹی میں اکٹھا ہی ڈلوا کر لے آتے اور وہی ان کا کھانا ہوتا۔ ان بچوں کو زکوٰۃ و صدقات اکٹھے کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا اور اُن کو درس و تدریس کے ایسے طریقے سے عالم بنایا جاتا جس میں والدین محاورتاً ہی نہیں بلکہ واقعتاً اپنی زبان میں مولوی صاحب کو کہہ کر آتے کہ ہمارا یہ بچہ بہت شرارتی ہے، پڑھتا لکھتا بالکل نہیں۔ بس اس کو پڑھا دیں، اس کی ہڈیاں ہماری اور کھال آپ کی، یعنی پھینٹی لگانے کی کھلی ڈلی اجازت وہاں باپ دے کر آتا۔ میں سوچتا ہوں کہ ایسے بچوں کی نفسیات کیا ہوتی ہوگی جو مانگے کا کھاتے اور پہنتے، پیار نہیں مار کے فلسفے کے تحت تعلیم حاصل کرتے تھے؟ گویا معاشرے کا سب سے باعزت طبقہ تیار کرنے کے لیے ہمارے پاس جو خام مال آتا ہے، وہ سب سے کم درجے کا ہوتا ہے۔ ہم اس خام مال کو تیاری کے دوران بدترین حالات فراہم کرتے ہیں اور جب پروڈکشن سامنے آجاتی ہے تو ہم اس سے توقع کرتے ہیں کہ سب سے زیادہ بہتر اخلاق اور سماجی رویوں کی علم بردار بن جائے۔ 
اس طریقہ کار کے تحت بنے ہوئے مولویوں کے سامنے معاشرے کے دیگر لوگوں کی طرح سب سے بڑا مقصد تو روزگار کا حصول ہوتا ہے اور ہماری مساجد کے اماموں کی بہت بڑی اکثریت اب بھی دو ہزار سے سات آٹھ ہزار ماہانہ تک ’’تنخواہ‘‘ وصول کر رہی ہے جو اس وقت کسی مزدور کی کم سے کم تنخواہ کے برابر بھی نہیں ہے، مگر وہ مولوی اس کے جواب میں سمجھتا ہے کہ اس کی ڈیوٹی بہت زیادہ ہے۔ وہ اس تنخواہ کے لیے فجر سے عشاء تک اللہ کے نہیں، بلکہ مسجد کمیٹی اور نمازیوں کے سامنے حاضر ہوتا ہے۔ اس کے لیے چھٹی بہت مشکل ہے۔ اس کا اوورٹائم اور بونس یہی ہے کہ وہ بچوں کو پڑھا لے اور مسجد میں ویسے بھی پڑھانے کا بالعموم کچھ ادا نہیں کیا جاتا۔ گھر کی ٹیوشن سے پھر کچھ مل جاتا ہے یا پھر وہ ختم پڑھانے جاتا ہے تو کھانا، کپڑوں کا جوڑا اور دو چار سو روپے خدمت کا وصول پا لیتا ہے۔ ایک ایسا مولوی تیار ہوتا ہے جس نے مسجد ہی سنبھالنی ہوتی ہے۔ وہ بے وسیلہ اور بے مایہ ہونے کی وجہ سے بالعموم کوئی کاروبار بھی نہیں کرپاتا اور میرے جیسے عام مسلمان کی نظر میں وہ نماز اور قرآن پڑھانے کے پیسے لے کر قرآن کے اس حکم کی بھی خلاف ورزی کر رہا ہوتا ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی آیات کو تھوڑے داموں فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے۔ وہ جس طرح مولوی بنتا، جس طرح اپنی مولویت نبھاتا ہے، وہ خود جانتا ہے یا اس کا رب جانتا ہے، مگر ہم اسے دھلے ہوئے سفید کپڑوں میں ملبوس نیکی کی تلقین کرتا ہوا ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ معاشرہ اس کے دامن میں پرورش سے تعلیم اور تعلیم سے جوانی تک کانٹے ہی کانٹے ڈال کر امید رکھتا ہے کہ وہ ہمارے بچوں کو پھول پیش کرے۔ ایسا کیسے ممکن ہے؟ وہ انسان ہے۔ جائیں کسی ماہر نفسیات سے پوچھیں کہ اس کے ذہن میں کیسے کیسے جوار بھاٹے اٹھتے ہوں گے۔ وہ عام نوجوانوں کی طرح سوسائٹی کو گالیاں بھی نہیں دے پاتا کہ اس کی تربیت ایسی نہیں ہوتی۔ ہاں، کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی تیز ذہن کا بچہ مولوی بن جائے تو پیر بھی بن جاتا ہے اور وسائل اکٹھے کر کے بڑی بڑی گاڑیاں اور بڑی بڑی جائیدادیں بھی بنا لیتا ہے۔ 
ہمیں اپنے بچوں کو دین کی تعلیم دینی ہے تو پھر تعلیم دینے والوں کے حالات بہتر بنانے کے بارے بھی سوچنا ہوگا۔ محکمہ اوقاف اس سلسلے میں کچھ کردار ادا کر رہا ہے اور میں نے اپنے علاقے میں اوقاف کی ایسی مسجد بھی دیکھی ہے جہاں پارک، لائبریری، انٹرنیٹ وغیرہ کی سہولتیں فراہم کی گئی ہیں، مگر مجموعی طور پر علمائے کرام کو آپس میں سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ وہ ایک مولوی کو تیار کرنے کا عمل کتنا بہتر بنا سکتے ہیں۔ میں چاہے اس مولوی کے خلاف جتنا بھی بول لوں، میرا ایمان ہے کہ اسی نے میرے اسلام کو لے کر آگے جانا ہے، دور حاضر میں اسی نے مجھے نجات کا راستہ دکھانا ہے، مگر کوئی ہے جو معاشرے کی تلچھٹ کو نہیں بلکہ ’’بالائی‘‘ کو عالم دین بناتے ہوئے باعزت تعلیم اور روزگار کا مستقل نظام بنا دے، ورنہ یہ مولوی ہمارے بچوں سے معاشرے کی دی ہوئی محرومیوں کا انتقام لیتا رہے گا۔ 
(شہرِ یاراں ۔ روزنامہ پاکستان، ۲۴ اپریل ۲۰۱۲ء)

وہ کام جو اقبال ادھورے چھوڑ گئے

ڈاکٹر جاوید اقبال

(یہ مقالہ اقبال اکادمی لاہور اور یونیورسٹی آف گجرات کے زیر انتظام ۱۵؍ نومبر ۲۰۱۱ء کو ’’ریاست وحکومت: اقبال اور عصری مسائل‘‘ کے عنوان پر یونیورسٹی آف گجرات میں منعقدہ سیمینار کے لیے لکھا گیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی خواہش پر اسے عمومی مباحثہ کے لیے ’الشریعہ‘ کے صفحات میں شائع کیا جا رہا ہے۔ مدیر)

بعض اہم موضوعات پر علامہ اقبال نے شعر یا نثر میں کچھ نہ کچھ تحریر کرنے کے منصوبے تو بنائے مگر زندگی نے وفا نہ کی، اس لیے اُن کی تکمیل نہ ہو سکی۔ مثلاً مہاراجہ کشن پرشاد کو خط میں ’’بھگوت گیتا‘‘ کا اردو اشعار میں ترجمہ کرنے کے ارادے کا ذکر کرتے ہیں۔صوفی غلام مصطفی تبسم کو خط میں انگریزی میں ایسی کتاب لکھنے کا ذکر کرتے ہیں جس کا عنوان ہوگا ’’اسلام میرے نقطۂ نگاہ سے‘‘ نذیر نیازی فرماتے ہیں کہ حادثہ کربلا پر ہومرکے ’’اوڈیسے‘‘کی طرز پر ایک طویل نظم لکھنا چاہتے تھے۔ جاوید نامہ میں اضافی ارواح سے ملاقاتوں کے بارے میں لکھنے کا سوچتے تھے۔ انگریزی میں ایک غیر معروف پیغمبر کی کتاب تحریر کرنے کا منصوبہ تھا۔
آخری ایام میں نواب بھوپال سے وعدہ کیا کہ ’’اجتہاد کی تاریخ و ارتقا‘‘ کے موضوع پر کتاب لکھیں گے۔ اس سلسلے میں میاں محمدشفیع(م ۔ش) سے انگریزی میں کچھ ابتدائی نوٹس بھی لکھوائے گئے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے نام خط محررہ ۲۸؍مئی ۱۹۳۷ء میں فلاحی ریاست کے قرآنی تصور کا حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اصل سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غریت کا مسئلہ کیسے حل کیا جائے؟
خوش قسمتی سے اسلامی قانون کے نفاذ اور جدید نظریات کی روشنی میں اُس کی آئندہ ارتقاء میں حل موجود ہے۔ اسلامی قانون کے طویل اور محتاط مطالعہ سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر یہ ضابطۂ قانون صحیح طور پر سمجھ کر نافذ کر دیا جائے تو ہر ایک کے لیے کم از کم زندہ رہنے کا حق محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن قانونِ شریعت کا نفاذ اور ارتقاء اس سر زمین میں ناممکن ہے جب تک کہ آزاد مسلم ریاست یا ریاستیں وجود میں نہ لائی جائیں۔ اسلام کے لیے ’’سوشل ڈیماکریسی‘‘ کو کسی مناسب شکل میں جو اسلامی قانون کے اصولوں کے مطابق ہو، قبول کر لینا’’ انقلاب‘‘ نہیں بلکہ اسلام کی اصل پاکیزگی کی طرف واپس جانا ہے۔‘‘
ان منصوبوں میں بعض تو ادبی نوعیت کے ہیں، بعض کا تعلق فلسفہ، مابعد الطبیعیات یا دینیات سے ہے اور بعض خالصتاً عنقریب وجود میں آنے والی مسلم ریاست(پاکستان) کی عملی ، سیاسی اور معاشی ضروریات سے متعلق ہیں۔ مثلاً ہم کہہ سکتے ہیں کہ بھگوت گیتا کا اردو ترجمہ، حادثہ کربلا پر ہومر کے اوڈیسے کی طرز پر نظم لکھنا یا جاوید نامہ میں اضافی ارواح شامل کرنا، ایسے ادبی منصوبے تھے جو شاعر کے تخیلی سمندر میں مضطرب لہروں کی طرح ابھرے اور ڈوب گئے، لیکن باقی منصوبوں کے بارے میں ایسا گمان کرنا درست نہ ہوگا ۔ ’’اسلام میرے نقطہ نگاہ سے‘‘ یا ’’ایک غیر معروف پیغمبر کی کتاب‘‘ جیسی کتب تحریر کرنے کا اگر اُنھیں موقع مل جاتا تو تخلیقی سوچ کے اعتبار سے وہ خطبات اسلامی فکر کی تشکیل نو کی توسیع ہوتیں۔ اسی طرح ’’اجتہاد کی تاریخ و ارتقا‘‘ اور ’’فلاحی ریاست کا قرآنی تصور‘‘ کے موضوعات پر اگر وہ کتب تحریر کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو اُن کے افکار مسلمانان پاکستان کی مزید فکری رہبری کا باعث بن سکتے تھے۔
خطبات تشکیل نو کن کے لیے تحریر کیے گئے؟ علامہ اقبال فرماتے ہیں:
’’ان لیکچروں کے مخاطب زیادہ تر وہ مسلمان ہیں جو مغربی فلسفہ سے متاثر ہیں اور اس بات کے خواہش مند ہیں کہ فلسفہ اسلام کو فلسفہ جدید کے الفاظ میں بیان کیا جائے اور اگر پرانے خیالات میں خامیاں ہیں تو اُن کو رفع کیا جائے۔‘‘
جب یہ لیکچر علی گڑھ یونی ورسٹی کے طلبہ نے سنے تو صدر شعبۂ فلسفہ ڈاکٹر سید ظفر الحسن نے علامہ اقبال سے کہا:
’’جناب والا! آپ نے اسلام میں فلسفہ دین کی تشکیل نو کی بنیاد رکھ دی۔ مسلمانوں کی موجودہ اور آئندہ نسلیں اس کے لیے آپ کی ممنونِ احسان ہیں۔ آپ کی فکر افزا مثال اور لوگوں کی بھی ہمت بندھائے گی۔‘‘
خطبات کے ایک مبصر سلیم احمد تحریر کرتے ہیں:
’’اقبال کے نزدیک مغربی تہذیب کا چیلنج ایک نئی الٰہیات کی تشکیل کا مطالعہ کر رہا تھا۔ اقبال کی نئی الٰہیات کی کوشش کا حقیقی مقصد مغربی اور اسلامی تہذیب کے درمیان مشترکہ عناصر کی جستجو ہے۔ اگر ہمیں مغربی تہذیب کو قبول کرنا ہے یا اسے اپنے اندر جذب کرکے فائدہ اٹھانا ہے تو ہمیں مغربی اور اسلامی تہذیب کی روح میں اتر کر اُن کی ہم آہنگی کو الٰہیاتی بنیادوں پر ثابت کرنا پڑے گا۔تشکیل جدید ان ہی معنوں میں ایک زبر دست کارنامہ ہے جسے جدید اسلام کی بائبل کہنا چاہیے۔‘‘
یہ سب اپنی جگہ درست۔ حقیقت یہی ہے کہ خطبات علامہ اقبال کی ایسی تصنیف ہے جسے علماء نے اگر پڑھنے کی کوشش کی تو اُسے ناپسند فرمایا۔ مولانا سید سلیمان ندوی نے تو صاف کہہ دیا کہ یہ کتاب اگر نہ لکھی جاتی تو بہترہوتا۔ جہاں تک مسلمانوں کی ’’مغرب زدہ‘‘ نئی نسل کا تعلق ہے ، انھوں نے خطبات کو ، جس توجہ کے وہ مستحق تھے، نہیں دی۔ پس علامہ اقبال کی ’’فکر افزائی‘‘ اوروں کی ہمت نہ بندھا سکی۔
خطبات کے مطالعہ سے ظاہر ہے کہ اُنھیں تحریر کرنے کی کئی وجوہ تھیں۔پہلی یہ کہ علامہ اقبال کو احساس تھا کہ دنیائے اسلام ہر طور پر مغرب کی طرف جھکتی چلی جا رہی ہے۔ وہ اس تحریک کے مخالف نہ تھے کیونکہ یورپی تہذیب عقل و دانش کے اعتبار سے اُنھی نظریات کی ترقی یافتہ صورت پیش کرتی ہے جن پر اسلام کی تمدنی تاریخ کے مختلف ادوار میں غور و فکر کیا گیا۔ دوسرے الفاظ میں وہ یورپی تہذیب کو ایک طرح سے اسلامی تہذیب ہی کی توسیع خیال کرتے تھے۔ اور مسلمانوں کی نئی نسل کے اس مطالبے کو جائز سمجھتے تھے کہ اسلامی عقائد اور نظریۂ حیات کا ایک بار پھر جائزہ لے کر ایسی نئی تعبیر یا تشریح کی ضرورت ہے جو وقت کے جدید تقاضوں سے مطابقت رکھتی ہو۔ اُنھیں خدشہ صرف اس بات کا تھا کہ مادہ پرست یورپی کلچر کی ظاہری چمک دمک ہمیں اتنا متاثر نہ کر دے کہ ہم اس کلچر کے حقیقی باطن تک پہنچ سکنے کے قابل نہ رہیں۔
دوسری وجہ یہ تھی کہ بقول اقبال انسان مختلف قسم کے رشتوں کے ذریعے خدا اور کائنات سے جڑا ہوا ہے۔ لہٰذا مطالعۂ فطرت یا سائنسی تحقیق بھی اپنی طرح کی عبادت ہے۔ وہ مسلمانوں کی نئی نسل کی توجہ سائنسی علوم کی طرف مبذول کرنے کی خاطر اُن پر واضح کرنا چاہتے تھے کہ اسلام روحانی دنیا کے ساتھ مادی دنیا کو بطور حقیقت تسلیم کرتا ہے اور انسان کو مشاہداتی یا تجربی علوم کی تحصیل سے تسخیر کائنات کی دعوت دیتا ہے۔
تیسری وجہ یہ تھی کہ علامہ اقبال کے نزدیک روحانی (یا مذہبی) تجربہ بھی ایک نوع کا علم ہے جسے دیگر علوم کی طرح حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے خطبات میں فکری نقطۂ نگاہ سے اسلام کو بطور ارفع مذہب پیش کیا اور بعض آیات کی تعبیر سے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مابعد الطبیعیات ، طبیعیات یا مادے اور زمان و مکاں سے متعلق فکری یا تجربی علوم کے نئے انکشافات کی تصدیق قرآن سے کی جا سکتی ہے۔
خطبات کا مطالعہ مختلف جہتوں سے کیا جا سکتا ہے اور اُنھیں تحریر کرنے کی اور وجوہ بھی بیان کی جا سکتی ہیں۔ جس طرح پہلے کہا جا چکا ہے ، اگر علامہ اقبال ’’ اسلام میرے نقطہ نگاہ سے‘‘ یا ’’ایک غیر معروف پیغمبر کی کتاب ‘‘ لکھنے میں کامیاب ہو جاتے تو یقیناًوہ خطبات تشکیل نو کی توسیع ہوتیں۔ لیکن اس حقیقت سے انکار کرنا مشکل ہے کہ یہ کام صرف علامہ اقبال خود ہی انجام دے سکتے تھے۔ اس میدان میں اُن کی ’’فکر افزا‘‘ مثال نے پہلے کسی کی ہمت نہ بندھائی تو اب کیا بندھائے گی۔
اب علامہ اقبال کے ’’اجتہاد کی تاریخ و ارتقا‘‘ کے موضوع پر کتاب لکھنے کے ارادے کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ ’’اجتہاد‘‘ کے مطالبے میں علامہ اقبال نے پہل نہیں کی ۔ برصغیر کے مسلمانوں کے سیاسی و تمدنی زوال و انتشار کے عالم میں دراصل شاہ ولی اللہ نے اس مسئلے کو اٹھایا اور اپنے وضع کردہ فقہی اصول’’ تلفیق‘‘ کے تحت اہل سنت والجماعت فرقے کو اُن کے چار مدرسہ ہائے فقہ (حنفی ، شافعی، مالکی، حنبلی) میں سے ہر کسی معاملے میں سب سے سہل راہ اختیار کرنے کی تلقین کی ۔ یہ صحیح معنوں میں اجتہاد تو نہ تھا، مگر اس کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ سنیوں کے چاروں فقہی مذاہب کے علماء ایک دوسرے پر کفرکے فتوے صادر کرتے رہے۔ شاید اسی بنا پر بعد میں سر سید احمد خان نے ارشاد فرمایا کہ مسلمانوں نے اگر’’تقلید‘‘ کو نہ چھوڑا تو برصغیر میں اسلام کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ علامہ اقبال نے ۱۹۲۴ء میں جب ’’اجتہاد‘‘ کے موضوع پر اپنا پہلا خطبہ دیا تو اُن پر کفر کے فتوے لگے تھے۔ بعد ازاں اسی خطبے کو بہتر صورت میں خطباتِ تشکیل نو میں شامل کیا گیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ علامہ اقبال کے ’’اجتہادِ مطلق‘‘ پر اصرار کے اسباب کیا تھے؟
علامہ اقبال نے مسلمانوں کے عالمی دینی ، سیاسی ، تہذیبی، معاشرتی زوال کی جو وجوہ بیان کی ہیں اُن میں نمایاں تین ہیں: ملوکیت، ملائیت اور خانقاہیت۔ اُن کے خیال میں اسلام کا ’’نزول‘‘ اس وقت ہوا جب انسان کی عقلِ استقرائی بالغ ہو چکی تھی اور اُسے نبیوں، مذہبی پیشواؤں اور بادشاہوں جیسے سہاروں کی ضرورت نہ رہی تھی۔ اسلام نے اعلان کیا کہ نبوت ختم ہو گئی۔ اسلام میں پرانے مذاہب کی مانند کسی قسم کی پاپائیت یا مذہبی پیشوائیت کا وجود نہیں۔ مسلمانوں نے ابتدا ہی میں ساسانی اور رومن سلطنتوں کا خاتمہ کرکے ثابت کر دیا کہ ملوکیت کا تعلق عہدِ جاہلیت سے تھا۔ پس بقول علامہ اقبال اسلام کا پیغام سلطانیِ جمہور کا قیام ہے اور یہ کہ اب شعور کی بلوغت کے سبب انسان وحی اور اُس کے احکام کی تعبیر و تشریح خود کر سکتا ہے اور اُس کی بقا اسی میں ہے کہ کرتارہے۔
علامہ اقبال ’’اجتہاد مطلق‘‘ پر اس لیے بھی زور دیتے ہیں کہ اُن کے مطابق اسلام مسلمانوں کو ’’ثبات فی التغیر‘‘کے اصول پر زندگی گزارنے کی تلقین کرتا ہے۔ مطلب یہ کہ قرآنی احکام جو عبادات سے متعلق ہیں اُن میں کسی ردو بدل کی گنجائش نہیں، انھیں ثبات حاصل ہے۔ لیکن جن احکام کا تعلق ’’معاملات‘‘ سے ہے وہ اصولِ تغیر کے تحت ہیں اور وقت کے جدید تقاضوں کے مطابق اُن میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ اسی سبب علامہ اقبال کی رائے میں ’’اجتہاد‘‘ بطور عمل اسلام کی ابتدا ہی کے ساتھ جاری ہو گیا تھا۔ علامہ اقبال ’’اجتہاد‘‘ کی تعریف ’’اصولِ حرکت‘‘کے طور پر کرتے ہیں۔ اس بنا پر فرماتے ہیں کہ جو اجتہادات ماضی میں کیے گئے وہ اپنے اپنے زمانوں کے مطابق درست تھے۔ مگر وہ حال کی ضروریات کے مطابق صحیح قرار نہیں دیے جا سکتے۔ جو کوئی بھی اجتہاد کی تاریخ اور ارتقا کے موضوع پر مستند کتاب لکھنے کا اہل ہو گا، وہ اپنے وقت کا مجدد قرار پائے گا۔ یہ بھی فرماتے ہیں کہ شاید یہ ایک شخص کاکام نہ ہو بلکہ اسے انجام دینے کے لیے فقہاء کا ایک بورڈ قائم کرنا پڑے۔ اور اُس کی تکمیل کے لیے خاصی مدت لگے۔
اگر سوال کیا جائے کہ علامہ اقبال کی سوچ کا ’’عطر ‘‘ کیا ہے؟ تو اس کا جواب اُن کے جاوید نامہ کے اُن چند اشعار سے دیا جا سکتا ہے، جب وہ خدائے اسلام کے حضور میں کھڑے ہیں اور خدا وند تعالیٰ کے منہ ہی سے کہلواتے ہیں:
ہر کہ او را قوتِ تخلیق نیست
پیش ما جز کافر و زندیق نیست
از جمالِ ما نصیبِ خود نبرد
از نخیلِ زندگانی بر نخورد
(ہر وہ جو تخلیقی سوچ کی قوت نہیں رکھتا، ہمارے نزدیک اصل کا فر اور منافق ہے۔ اُس نے ہمارے جمال میں سے اپنا نصیب حاصل نہیں کیا اور وہ زندگانی کے درخت کا پھل کھانے سے محروم رہا۔)
علامہ اقبال کو اس المیے کا بخوبی احساس تھا کہ تحریکِ پاکستان سے پیشتر برصغیر کے مسلمانوں کی سیاسی تحریکیں، یعنی تحریک (وہابی) مجاہدین اور اُس کے بعد تحریک خلافت، جو اسلام کے نام پر چلیں، اس لیے نا کام ہوئیں کہ اُن کے پیچھے سوچ ’’تقلیدی ‘‘تھی۔ تحریکِ پاکستان بھی اسلام ہی کے نام پر چلی، لیکن اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی، اس لیے کہ اُس کے پیچھے سوچ ’’اجتہادی ‘‘ تھی۔علامہ اقبال نے ’’علاقائی قومیت‘‘ کے مغربی تصور کو ’’اسلامی یا مسلم قومیت‘‘ کے تصور کے طور پر پیش کیا۔ یعنی اگر مشترک علاقہ، زبان یا نسل کی بنیاد پر انسانوں کا گروہ ایک قوم بن سکتا ہے تو مشترک روحانی مطمحِ نظر کی بنیاد پر مسلمان ایک قوم کیوں نہیں کہلا سکتے؟۱۹۳۰ء میں خطبہ الٰہ آباد میں علامہ اقبال نے’’ مسلم قومیت‘‘کے اسی اصول کی بنیاد پر علیحدہ ’’ریاست‘‘کا مطالبہ کیا۔ اُس سے پیشتر ۱۹۳۰ء میں وہ اپنا خطبہ ’’اجتہاد بطور اصولِ حرکت ‘‘ دے چکے تھے۔ وفات سے چند روز قبل اسی موضوع پر علامہ اقبال کا مناظرہ دیوبند کے مولانا حسین احمد مدنی کے ساتھ ہوا۔ مولانا کا موقف تھا کہ برصغیر کے مسلمان قوم کے اعتبار سے ہندوستانی ہیں مگر ملت کے اعتبار سے مسلمان۔ علامہ اقبال نے اختلاف کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ مسلمانوں کے نزدیک ’’قوم و ملت‘‘ میں کوئی امتیاز نہیں، دونوں کے ایک ہی معانی ہیں۔ پس بالآخر اسی اجتہادی سوچ کے نتیجے میں برصغیر کے مسلم اکثریتی صوبوں نے پاکستان کو وجود میں لا کر سیاسی و تہذیبی آزادی حاصل کی۔
اگر پاکستان اجتہادی سوچ کا نتیجہ ہے تو اسلامی قانون سازی کے معاملے میں اجتہاد ہی کے ذریعے زندہ رہ سکتا ہے۔ اسی بنا پر علامہ اقبال آئین کے تحت جمہوری طور پر منتخب پارلیمنٹ(اجماع یا شوریٰ) کو اجتہاد کا حق دیتے ہیں۔ اُن کے نزدیک آئندہ کے مجتہد وہ قانونی ماہرین یا وکلاء ہونے چاہییں جنھوں نے ’’اسلامی فقہ‘‘ اور ’’جدید جو رسپروڈنس‘‘ کے تقابلی مطالعہ کے موضوع پر اعلیٰ تربیت حاصل کی ہو۔ ایسے قانونی ماہرین کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے ٹکٹ پر منتخب ہو کر قانون ساز ادارے یعنی پارلیمنٹ کے رکن بن سکتے ہیں اور اسلامی قانون سازی میں مدد فراہم کر سکتے ہیں۔
افسوس اس بات کا ہے کہ برصغیرمیں مسلمانوں نے تقریباً آٹھ سو سال حکومت کی ۔ اس دوران بادشاہوں نے قلعے بنائے تو اپنی حفاظت کے لیے، محل بنائے تو اپنی عیش و عشرت کے لیے ، مقبرے بنائے تو اس لیے کہ یاد رکھے جائیں اور مساجد تعمیر کرائیں تاکہ اللہ تعالیٰ اُن کے گناہ معاف کر دے۔ لیکن نہ کوئی دار العدل کی عمارت نظر آئے گی نہ دارالعلم کی۔ بادشاہوں کی تاریخ کتب سے ہم اتنا جانتے ہیں کہ فیروز تغلق کے زمانے میں آئین فیروز شاہی لاگو ہوا یا اورنگ زیب کے عہد میں فتاویٰ عالمگیری کی روشنی میں انصاف کیا جاتا تھا۔ ایسی کتب جن سے معلوم ہو سکے کہ اس دوران عدل گستری کے لیے نافذ قوانین کی نوعیت کیا تھی؟ اسی طرح ایسی کتب موجود نہیں جو اس دوران ہمیں اپنی تہذیبی ارتقا کے بارے میں معلومات فراہم کر سکیں۔ یعنی کیا اس مسلم دور کے ہندوستانی مدرسوں نے علم الکلام، فلسفہ یا تجربی علوم میں کوئی اہم یا قابلِ ذکر ہستیاں پیدا کیں؟ اگر علامہ اقبال قیام پاکستان کے بعد زندہ رہتے تو ایسے سب میدانوں میں تحقیق کی ضرورت پر زور دیتے۔
اب قائد اعظم کے نام علامہ اقبال کے خط میں ’’فلاحی ریاست کے قرآنی تصور‘‘ کے بارے میں غور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ علامہ اقبال نے اس موضوع پر کوئی مستند مقالہ یا خطبہ تو تحریر نہیں کیا۔ شعر و نثر میں چند اشارے موجود ہیں۔ البتہ وہ مارکسنرم، کمیونزم یا اشتراکیت کے اتنے ہی خلاف تھے جتنے کیپیٹلزم، سرمایہ داری یا جاگیرداری کے۔ اُن کے خیال میں انسانی بہبود یا فلاح کا ہر وہ نظام جو روحانیت سے عاری ہو، انسان کے لیے صحیح سکون و اطمینان کا باعث نہیں بن سکتا۔ شاید اسی بنا پر انھوں نے خطبات میں شامل اپنے خطبہ ’’اجتہاد‘‘ میں فرمایا کہ اسلام کا اصل مقصد ’’روحانی‘‘ جمہوریت کا قیام ہے۔ علاوہ اس کے پیش گوئی کی تھی کہ سویٹ روس میں کمیونزم بطور نظام ختم ہو جائے گا، جو بالآخر درست ثابت ہوئی۔ مغربی تہذیب کے روحانیت سے عاری سرمایہ دارانہ نظام کے استبداد کے بارے میں بھی وہ سمجھتے تھے کہ شاخِ نارک پر بنا یہ آشیانہ نا پائیدار ہو گا۔ علامہ اقبال کی تحریروں سے ظاہر ہے کہ وہ سرمایہ اور محنت کے درمیان توازن کو اسلامی نظامِ معیشت قرار دیتے ہوئے اُسے ’’اقتصاد‘‘ کا نام دیتے ہیں یعنی درمیانے طبقے کی فلاحی ریاست ۔بہرحال یہاں یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ اگرچہ علامہ اقبال نے ابتدائی زمانہ میں ’’پولیٹکل اکانومی‘‘ پر کتابچہ تحریر کیا اور قیام انگلستان کے دوران ’’اکانومکس‘‘ کی کلاسوں میں بھی شریک ہوتے رہے، وہ صحیح معنوں میں تربیت یافتہ اکانومسٹ یا اقتصادیات کے ماہر نہ تھے۔
۱۹۲۶ء میں علامہ اقبال پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے رکن منتخب ہوئے۔ اُس زمانہ میں ’’انڈسٹری‘‘ کے میدان میں تو مسلمانوں کی کوئی خاص اہمیت نہ تھی۔ البتہ ’’جاگیرداری‘‘ کا مسئلہ تھا۔ لہٰذا اس موضوع پر کونسل میں اُن کی تقریروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خدا کو زمین کا مالک سمجھتے تھے۔ یعنی اُن کے نزدیک چار بنیادی عنصر جن سے کائنات تشکیل کی گئی۔ آگ ، پانی، ہوا اور زمین، سب خدا کی ملکیت ہیں۔ لہٰذا انسان اصولی طور پر زمین کا مالک نہیں، محض ’’ٹرسٹی‘‘ہے تاکہ اُس کے ذریعے روزی کما سکے۔ اس اصول کا اطلاق وہ ’’کراؤن ‘‘ یا ’’سٹیٹ‘‘ پر بھی کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ ’’کراؤن‘‘ (اسٹیٹ) کے تصرف میں جو اراضی ہے وہ آسان قسطوں پر بے زمین کاشتکاروں میں بانٹ دی جائے۔ نیز جاگیردار کے پاس اتنی اراضی رہنے دی جائے جو وہ خود کاشت کرتا ہو۔ گویاعلامہ اقبال جاگیردار کے ’’ٹیننٹ‘‘ سے ’’بٹائی‘‘ (مخابرہ )لینے کے بھی خلاف تھے۔ اسی طرح اُس زمانہ میں بڑے زمینداروں پر ’’ایگریکلچرل‘‘ ٹیکس لگانے کی تجویز پیش کی جو ٹیکس عشر اور زکاۃ کی وصولی کے علاوہ تھا ۔ علامہ اقبال مسلم جاگیرداروں پر اسلامی قانونِ وراثت کے سختی کے ساتھ اطلاق سے بھی سمجھتے تھے کہ یوں چند نسلیں گزرنے کے بعد جاگیرداری کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ ان باتوں سے ظاہر ہے کہ علامہ اقبال ’’لینڈ ریفارم‘‘ کے بارے میں مخصوص نظریہ رکھتے تھے۔ 
تاریخی نقطۂ نگاہ سے دیکھا جائے تو مسلم معاشرہ کی معیشت کی بنیادیں دراصل ابتدا ہی سے ’’فیوڈل‘‘ (جاگیرداری) نظام پر قائم ہونے کی بجائے ’’مرکنٹائیل‘‘ (تجارتی) نظام پر قائم تھیں۔ اسی لیے اسلامی فقہ میں ’’مال ‘‘ سے مراد ’’سرمایہ‘‘ (ولتھ) بھی ہے اور ’’اراضی‘‘ (اسٹیٹ)بھی ۔ نیز تجارت کے ذریعے پیداوار بڑھانا یا منافع کمانا اخلاقی طور پر عمدہ اسلامی خصائل سمجھے جاتے تھے۔ ’’تجارتی معیشت’’ (مارکیٹ اکانومی)کے لیے ’’سرمایہ‘‘ کی فراہمی کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ اس لیے اگرچہ اسلامی قانون کے مطابق ربوٰ حرام ہے ، لیکن ایسے لین دین کو مختلف ’’حیلوں‘‘ کے ذریعے جاری رکھا گیا ۔ بقول ناصر خسرو گیارھویں صدی اصفہان میں’’تبادلہ سرمایہ‘‘ (منی ایکسچینج) کی خاطر دوسو کے قریب کاروباری ادارے موجود تھے یہی کاروبار کرتے تھے ۔ علامہ اقبال معاشرہ میں ’’سرمایہ‘‘ (کیپٹل) کی قوت کو بالکل ختم کرنا نہیں چاہتے بلکہ ’’مارکیٹ اکانومی‘‘ کے فروغ کے لیے اس کی موجودگی کو اہم خیال کرتے ہیں۔ اسی سبب مولانا شبلی کی طرح بنک کے سود کو ’’منافع‘‘ قرار دیتے ہیں کیوں کہ اس میں استحصال کا ویسا امکان نہیں جو ربوٰ کی وصولی میں ہے۔ 
پرانے زمانے کی اسلامی ریاست کی آمدنی کے ذرائع مختصراً یہ تھے : ذمیوں سے ’’جزیہ‘‘ اور اگر اراضی کے مالک ہوں تو ’’خراج‘‘ کی وصولی ۔ غینمہ۔ مسلمانوں سے ، اگر اراضی کے مالک ہوں تو ’’عشر‘‘ اور اُس کے علاوہ ’’ زکاۃ‘‘ کی وصولی (اگر رضاکارانہ طور پر ادا نہ کی گئی ہو تو)۔ ریاست کو ’’تجارتی معیشت‘‘ کے ذریعے منافع پر مختلف نوعیت کے ٹکسوں کی آمدنی بھی ہوتی تھی۔ معاشیات کے بارے میں تحریر کرنے والوں میں امام ابو یوسف کی کتاب الخراج معروف ہے۔مگر ابن خلدون ، البیرونی ، ابن تیمیہ، ناصر طوسی، ابن مسکویہ اور اخوان الصفا نے بھی اپنی کتاب میں ایسے مسائل پر بحث کی ہے۔ 
جہاں تک انسان کے بنیادی حقوق کا تعلق ہے، قرآن کی سورۃ طٰہٰ آیات ۱۱۸،۱۱۹ میں اللہ تعالیٰ آدم سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں: اے آدم، تمہارے لیے یہاں انتظام ہے۔ نہ بھوکے ننگے رہو گے، نہ گرمی تمھیں ستائے گی۔‘‘ ان آیات کے ساتھ اگر ترمذی کی بیان کردہ حدیث پڑھی جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد کیا: آدم کے بیٹے کے تین حقوق ہیں، رہنے کو مکان، ننگاپن چھپانے کو کپڑا اور کھانے پینے کو روٹی اور پانی‘‘ تو اسلامی فلاحی ریاست کے ارباب بست و کشاد پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ہر شہری کو یہ سہولتیں فراہم کریں۔ اور اب تو اُن میں دو مزید حقوق، یعنی بلا معاوضہ تعلیم اور مفت طبی امداد کا اضافہ ہو گیا ہے۔ یہاں یہ بتا دینا مناسب ہے کہ علامہ اقبال خاندانی منصوبہ بندی کے اس طرح قائل تھے کہ اگر بیوی اولاد پیدا نہ کرنا چاہے تو خاوند اُسے مجبور نہیں کر سکتا۔
علامہ اقبال جب قائد اعظم کو اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ اسلامی قانون کے طویل مطالعے سے وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس کی ’’جدید نظریات‘‘ کی روشنی میں ارتقا کے ذریعے قابل قبول’’سوشل ڈیماکریسی‘‘ قائم کی جا سکتی ہے، تو سوال پیدا ہوتا ہے: وہ اپنے اس دعویٰ کی بنیاد کن قرآنی آیات پر استوار کرتے ہیں، عین ممکن ہے انھوں نے فلاحی ریاست کے قرآنی تصور کی بنیاد سورۃ البقرہ آیت ۲۱۹ اور سورۃ الذاریات آیت ۱۹ پر رکھی ہو۔ سورۃ البقرہ آیت ۲۱۹ میں حکم ہے : ’’پوچھتے ہیں اللہ کی راہ میں کیا خرچ کیا جائے ؟ قل العفو  (کہو جو ضرورت سے زاید ہے)!!‘‘اس ضمن میں علامہ اقبال کے اشعار قابل غور ہیں:
قرآں میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدّت کردار
جو حرف ’’قل العفو‘‘ میں پوشیدہ ہے اب تک
اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار
’’قل العفو‘‘کے بارے میں ’’تقلیدی‘‘ سوچ تو یہی ہے کہ انسان رضا کارانہ طور پر جو اپنی ضرورت سے زاید یا فالتو سمجھے خدا کی راہ میں دے دے۔ مگر ’’جدت کردار‘‘ سے علامہ اقبال کی کیا مراد ہے؟ کیا یہ طے کرنے کے لیے کہ ضرورت سے زاید یا فالتو کیا ہے، ریاست کی مداخلت ضروری ہے؟ سورۃ الذاریات آیت ۱۹ میں ارشادہوتا ہے ’’دولت مندوں کے مال میں ناداروں اور محروموں کا حصہ ہے۔‘‘ کیا علامہ اقبال کے نزدیک اس حصے کا تعین کرنے کی خاطر بھی ریاست کی مداخلت ضروری ہے؟ علامہ اقبال کے ارشادات سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے بنیادی حقوق کے قرآنی تصور اور دولت مندوں کی ذمہ داری سے متعلق قرآنی احکام کے تحت ’’روحانی‘‘ بنیادوں پر قائم ’’سوشل ڈیماکریسی‘‘ یا ’’اسلامی فلاحی ریاست ‘‘ وجود میں لائی جا سکتی ہے۔
بہر حال خصوصی طور پر ’’اجتہاد کی تاریخ و ارتقا‘‘ اور ’’فلاحی ریاست کا قرآنی تصور‘‘ کے موضوعات پر کتب تحریر کرنا ایسے کام تھے جو علامہ اقبال تو ادھورے چھوڑ گئے مگر علامہ اقبال کے نام پر قائم سرکاری یا غیر سرکاری ادارے انجام دے سکتے ہیں۔ یہی امید ہمیں اس ادارے سے رکھنی چاہیے جو میاں اقبال صلاح الدین اور اُن کے رفقاء نے علامہ اقبال کے نام پر قائم کیا ہے۔ شاید ’’اجتہاد کی تاریخ و ارتقا‘‘ پر کوئی مستند کتاب تحریر کرنے کی خاطر علماء و فقہاء کا بورڈ قائم کرنے کی ضرورت پڑے ۔ اسی طرح ’’فلاحی ریاست کا قرآنی تصور‘‘کے موضوع پر کچھ تحریر کرنے کی خاطر ماہرین اقتصادیات کی خدمات حاصل کرنی پڑیں۔ علامہ اقبال احیائے اسلام کے شاعر ہیں۔ انھوں نے فرما رکھا ہے کہ وہ ’’حرف آخر ‘‘ نہیں ۔ اگر اُن کا شروع کردہ عملِ احیا واقعی جاری ہے تو بقول اُن کے، اُن کے پیش کردہ نظریات سے بہتر نظریات سامنے آ سکتے ہیں۔ ضرورت صرف اُن کے اس شعر کو ملحوظ خاطر رکھنے کی ہے:
ہر کہ او را قوّت تخلیق نیست
پیشِ ما جز کافر و زندیق نیست

شیخ ایمن الظواہری پر حافظ عمار ناصر کی تنقید کا محاکمہ

محمد عادل فاروقی

(جہاد کے موضوع پر الشریعہ کی اشاعت خاص (مارچ ۲۰۱۲ء) میں جناب ایمن الظواہری کی تصنیف ’’الصبح والقندیل‘‘ پر شائع ہونے والی، راقم الحروف کی تنقید کے جواب میں درج ذیل تحریر ہمیں ای میل کے ذریعے سے موصول ہوئی ہے جسے من وعن قارئین کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔ میں اس کے جواب میں کچھ کہنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ قارئین خصوصی اشاعت میں میری اصل تحریر اور زیر نظر تنقید کا خود موازنہ کر سکتے ہیں۔ مدیر)

الشریعہ کی اشاعت خاص (جہاد: کلاسیکی اور عصری تناظر میں) میں حافظ عمار ناصر کا مضمون پڑھنے کے بعد قلب و ذہن کی عجیب کیفیت ہے کہ خیر القرون کے ایک تابعیؒ اور شر قروں کی طرف محو سفر زمانے کی ایک کافرہ نے بیک وقت فکر و خیال کو اپنے گھیرے میں لے لیا ہے۔ اہل علم کے بقول پیغمبرانہ اسلوب بیان رکھنے والے مشہور تابعی بزرگ شیخ حسن بصریؒ نے ایک بار فرمایا: ’’ ما لی اریٰ رجالا و لا اریٰ عقولا‘‘ (الحسن البصری، ابن جوزی ،ص ۶۹) کیا معاملہ ہے کہ مجھے آدمی تو نظر آتے ہیں مگر عقلیں نایاب ہیں۔یاد رہے کہ شیخ ؒ یہ سب کچھ خیر القرون ہی میں فرما رہے ہیں اور وہ زمانہ عہد حاضر کے دانش گرد ’’علماء‘‘ سے ابھی محفوظ تھا۔ دوسری بات واشنگٹن پوسٹ کی خاتون صحافی ، اپلینا بائیٹ کی ہے جس نے کفار کی کڑی حفاظت میں رہنے والے خود ساختہ ’’شیخ الاسلام‘‘ ڈاکٹر طاہر القادری کی کتاب ’’ دہشت گردی اور فتنہ خوارج‘‘ کے چھپنے پر ایک تبصرہ کیا تھا جو پسپائی کو مکالمہ اور بے حمیتی کو برداشت کی دل موہ لینے والی اصطلاحات کا جامہ پہنانے والوں کی اوقات واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔ وہ کہتی ہے: ’’ کیا وجہ ہے ہے کہ عالم اسلام سے اتنی زیادہ تعداد میں دہشت گردی کے خلاف فتاویٰ آنے کے باوجود یہ ختم کیوں نہیں ہو رہی؟ وجہ یہی ہے کہ ابھی تک عالم اسلام میں سے ایسے لوگوں نے اس کے خلاف باقاعدہ فتویٰ نہیں دیا جو حکومتوں اور دنیا سے دور ہوں۔‘‘ یہی بات اس خاتون کے علاوہ کئی دوسرے مغربی’’ دانش ور‘‘ مختلف پیرایہ ہاے اظہار میں کر چکے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ جس بات کو کافر سمجھ گیا ہے، وہ بات ہمارے ہاں کے عمار ناصر ایسے ان ’’اجل صاحبان علم و فضل‘‘ کو سمجھ نہیں آرہی۔
اس مضمون پر بقیہ بحث کرنے سے قبل اسی شمارے کے سو (۱۰۰) سے زائد صفحات پر پھیلے PIPS کے اس مذاکرے کے بارے میں تھوڑی سی بات ہو جائے جس کے تانے بانے امریکی این جی اوز کے واسطے سے ہوتے ہوئے کہیں اور جا ملتے ہیں۔ ابھی حالیہ اخباری رپورٹ کے مطابق امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو جیتنے کے لیے پاکستان میں میڈیا کو اپنے حق میں کرنے کی خاطر۶۲ ملین ڈالر مختص کیے ہیں۔ (روزنامہ جنگ، کالم نصرت مرزا) اس سے چند ماہ قبل کی وہ خبر بھی ذہن میں تازہ کیجیے جس کے مطابق طالبان کے خلاف مہم چلانے کے لیے بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والے ’’سنی اتحاد کونسل‘‘ کو ایک دفعہ کی ادائیگی میں ۳۶۰۰۰ ڈالرسے کچھ اوپرکے فنڈز دینے کا تذکرہ کیا تھا جس پر اس کونسل نے پہلے امریکہ پر ہتک عزت کا دعو یٰ دائر کرنے کی بڑ ہانکی اور بعد میں اپنے چند عہدے داروں کو اس حرکت پر ’’فارغ‘‘ کر کے ’’ گونگلووں سے مٹی جھاڑ دی‘‘اور خود کو کوثر و تسنیم میں دُھلے صدق و صفا کا پیکر قرار دے دیا۔ اسی طرح اس سے بھی چند ہفتے قبل کی وہ خبر بھی دُہرا لیجیے جس کے مطابق پچھلے سال مئی میں شیخ اسامہ بن لادن ؒ کی شہادت کے بعد امریکی سفارت خانے نے پاکستان میں ایک خصوصی سیل قائم کیا جو شیخ ؒ کی شہادت کے بعد القاعدہ کو ایک آخری دھچکہ لگانے کے لیے کام کرے گا۔ اس سیل میں ’’علماء‘‘ بھی معاونت کے لیے موجود ہوں گے اور یہ سیل سٹکر اور پمفلٹ سے لے کر فلم تک بنائے گا جو اسی طالبان مخالف مہم کا حصہ ہے۔
رازی اور کشاف کے نکات و معارف پردسترس اورعبور رکھنے کے زعم میں مبتلا صاحب مضمون بھول گئے کہ اقبال ؒ کیا کہہ گئے تھے:
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف
عالمانہ شان تو دور کی بات، موصوف کے طرز استدلال میں دیانت، فکر یااخلاق و مروت کی پرچھائی تک بھی نہیں ملتی۔ غامدی فکر کے اس پرچارک کی جہادی تفہیم و تشریح اُسی کاوش اور مہم کا تتمہ ہے جوجہاد مخالفت میں اس بر صغیر میں کوئی ڈیڑھ صدی قبل ۱۸۵۷ء کے جہاد کے بعد شروع کی گئی تھی۔ راقم صد کوشش کے باوجود مجبور ہے کہ اِس بازاری زبان کا جواب اِس سے ملتے جلتے محاورے میں ہی دے، کیوں کہ اصول ہے کہ ’’لوگوں سے ان کی عقلی سطح کے مطابق کلام کرنا چاہیے‘‘ اور ’’نزلوا الناس منازلہم‘‘ یعنی لوگو ں کو ان کے مقام کے مطابق عزت دو۔
عمار ناصر نے علمی اور تاریخی ہر دو سطح پر بد دیانتی سے کام لیا ہے۔ علمی حوالے سے اس طرح کہ شیخ ایمن الظواہری مدظلہ العالی کی کتاب میں جن دلائل کاتذکرہ کیا گیا ہے اور بحث کو جس منطقی انداز میں انھوں نے سمیٹا ہے، اس کو نہ تو درست انداز میں ذکر کیا ہے اور نہ ہی ان ابحاث کا ’’مزعومہ رد‘‘ اس گراں قدر تحریر کے شایاں کیا ہے۔ جناب کی یہ کاوش شاعری کے عنفوانِ شباب کی منزلیں طے کرتے اس نوجوان شاعر جیسی ہی ہے جس نے متنبی کی ہجو کہی تھی تا کہ مشہور ہو جائے۔ دلائل کے معاملے میں ہر تہی دست کی طرح، مرتب اور مسکت دلائل نہ ہونے کی وجہ سے، جناب نے اپنے مخاطب دیوبندی حلقے (جو موصوف کے غامدی فکر کے مناد اور نقیب ہونے، دلائل کے Academic Framework میں اکابرکے فہم دین سے کئی بڑے اور بنیادی انحرافات اور ’’نادر تحقیقات‘‘ کی وجہ سے ان سے سخت نالاں ہے) کو جذباتی انداز میں قائل کرنے کی کوشش کی ہے، مثلاً: ’’ظواہری کی اس تنقید کو درست مانا جائے تو اس کی زد میں براہ راست پاکستان کی وہ چوٹی کی مذہبی قیادت آتی ہے جو دستور سازی کے مختلف مراحل میں شریک رہی۔‘‘ (ص ۶۲۵)‘‘ حالانکہ کتاب کے مصنف نے ان حضرات کی نیتوں پر کوئی طعن نہیں کیا، بلکہ اس بات کابرملا اظہار کیا ہے کہ جدید دستوری ضابطوں کے مفاسد ان اکابرین امت کے دور میں ابھی واضح انداز میں ظاہر نہیں ہوئے تھے، اِس لیے ہم اُن حضرات کے بارے میں کوئی بات نہیں کریں گے ۔
القاعدہ کے جمہوریت کو کفریہ قرار دینے کو جبر و تشدد کا رد عمل (ص ۶۱۵) قرار دینے کی بد دیانتی کرتے وقت عمار ناصر یہ بھول گئے کہ اس نظام کے ابتدائی سطح ہی کے مفاسد کو دیکھتے ہوئے اکابر کااس بارے میں کیا موقف رہا ہے۔ ہم زیادہ طوالت میں نہیں جاتے اور عہد حاضر کے نامور محقق علامہ خالد محمود صاحب کی رائے پر ہی اکتفا کرتے ہیں جو خود بھی یورپ میں رہ چکے ہیں اورعمار ناصر اُن پر جبر و اکراہ کے رد عمل کی وجہ سے ایسی رائے دینے کا طعن بھی نہیں کر سکتے۔ ایک سوال کے جواب میں لندن سے چھپنے والی اپنی کتاب ’’عبقات‘‘ میں علامہ جمہوریت کے متعلق لکھتے ہیں۔’’اسے صحیح سمجھنا اور حق جاننا کفر ہے۔‘‘ (ص ۴۲۰)
جہاد اور مجاہدین سے بغض و عناد کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ شیخ ایمن الظواہری مد ظلہ العالی کی شریعت کی تفہیم و تشریح کے متعلق موصوف انتہائی تمسخرانہ انداز اپناتے ہیں۔ مثلاً شیخ کی رائے کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے پوری بصیرت کے لفظ کو تمسخرانہ انداز میں واوین میں لکھتے ہیں۔ ملاحظہ ہو: ’’ظواہری دستور پاکستان کے مطالعے کے بعد ’’پوری بصیرت‘‘ کے ساتھ اس نتیجے پر پہنچے ہیں۔۔۔‘‘(۶۱۵) جبکہ پرویز مشرف، جس کے بارے میں اپنی نجی محفلو ں میں اکثر مفتیان کرام مرتد ہونے کا فتویٰ لگاتے ہیں، سے نمک حلالی کا ثبوت دیتے ہوئے انتہائی مثبت اسلوب اپناتے ہیں۔ مضمون نگار لکھتے ہیں: ’’تاہم جنرل مشرف چونکہ پوری دیانت داری اور ذہنی یکسوئی کے ساتھ یہ فیصلہ کر چکے تھے‘‘ (ص، ۶۱۶)۔ اس سے چند سطور بعدعمار ناصر کی شرعی زبان پڑھیں اور سر دھنیں:
’’ ایک مخصوص صورت حال کے تناظر میں بڑی حد تک حالات کے جبر کے تحت اختیار کی جانے والی ناروا حکومتی پالیسیوں کو اس بات کے لیے مناسب جواز تسلیم نہیں کیا کہ پورے ریاستی نظام کی رٹ کو چیلنج کر دیا جائے۔‘‘ (ص، ۶۱۶) 
دین میں مسلمات کی حیثیت رکھنے والے مسائل سے رو گردانی کی جائے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اولاد عرب مسلمان بھایؤں، بہنوں اوربیٹیوں کو کفار کے ہاتھوں بیچ دیا جائے، صرف ابتدائی ایک ہی سال میں ہمسایہ مسلمان بھائیوں پر ۵۸۰۰ ہزار فضائی حملوں کے لیے پاکستانی ہوائی اڈے فراہم کر دیے جائیں، روزانہ اسلحہ، گولہ بارود اور خوراک سے لدے ۴۰۰ کنٹینروں کو باحفاظت افغانستان پہنچایا جائے، امریکہ سے لڑنے کی خواہش رکھنے والے مجاہدین سے اپنے عقوبت خانوں کو بھر دیا جائے اور ان تمام جرائم کے ارتکاب پرعمار ناصر کے قلم سے فتویٰ نکلے تو صرف’’ ناروا حکومتی پالیسی‘‘ ، جیسے ٹی وی پر بیٹھے کسی نام نہاد ’’غیر جانبدار‘‘ مبصر نے تبصرہ کیا! اپنے پیسے لیے اور گھر کی راہ لی! باقی امت جانے اور دین کا محافظ رب خود جانے۔ 
یہ ہے بنی اسرائیل کے علماء سے پوری پوری مشابہت رکھنے والے عمار ناصر کا فہم دین اور اعلان حق کہ ’’ طاقت وروں کے اور دین اور کمزوروں کے لیے اور دین‘‘!
شیخ ایمن الظواہری مد ظلہ العالی نے سنت کے مطابق نیکی کے درجات پر قیاس کرتے ہوئے اسلامیانِ پاکستان سے کم از کم سطح پر یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ اگر مجاہدین کی مدد و نصرت نہیں کر سکتے تو کم از کم ان کے خلاف برسر جنگ امریکی آلہ کاروں کے ہاتھ مضبوط نہ کریں اور مجاہدین کی مخالفت سے اپنے آپ کو روکے رکھیں کیوں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ ولسم نے امت کو نیکی کی درجہ بندی کی ایسی ہی تربیت دی ہے۔ آپ نے فرمایا: ہر مسلمان پر صدقہ واجب ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: اے اللہ کے رسول، اگر اس کے پاس کچھ بھی نہ ہو تو وہ کیا کرے؟ آپ نے فرما:یا وہ اپنے ہاتھوں سے کام کرے، پھر اپنی ذات کو بھی فائدہ دے اور صدقہ بھی کرے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے گزارش کی ! اگر وہ اس کی بھی استطاعت نہ رکھتا ہو تو کیا کرے؟ آپ نے فرمایا: وہ ضرورت مند مصیبت زدہ کی مدد کرے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: اگر وہ یہ بھی نہ کر سکتا ہو؟ آپ نے فرمایا: تو وہ نیکی کا حکم دے۔ صحابہ کرام رضی اللہ نے عرض کی: اگر اس سے یہ بھی نہ ہو سکے تو؟آپ نے فرمایا: وہ برائی سے باز رہے اور کسی کو تکلیف نہ دے، یہی اس کے لیے صدقہ ہے۔‘‘ (بخاری: ۱۴۴۵، مسلم : ۵۵؍۱۰۰۸) مگر عمار ناصر کے احمقانہ اور سفیہانہ طرز استنباط نے سنت سے اس حد درجہ تمسک سے بھی ’’تحفظ ذات کے جذبے‘‘ (ص ۶۱۶) کا نکتہ نکالا ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
دستورِ پاکستان کے بارے میں احتمالات کی بات کرتے ہوئے بھی عجیب نکات بیان کیے گئے ہیں۔ ’’احتمال‘‘ اور ’’یقین‘‘ کا فرق عمار ناصر جیسے تیرہ فکر فقہیوں کو معلوم ہو گا۔ اگر کسی شخص میں ننانوے احتمال کفر کے ہوں تو اس پر کفر میں توقف کیا جاسکتا ہے، کیوں کہ محتمل تو متعد د معانی و وجوہ کا مورد ہو سکتا ہے، لیکن اس قول کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ ننانوے احتمال ایمان کے ہوں اور ایک یقینی کفر ہو تووہ پھر بھی مومن رہے گایا ننانوے یقینی کفر کو صاحب فتویٰ پوری محنت صرف کر کے احتمال بنائے گا۔ سوال یہ کہ حکومت و افواج پاکستان کا امریکیوں کو اڈے دینااور انٹیلی جنس مدد فراہم کرنا یقین ہے یا احتمال؟ مسلماتوں کو گرفتار کر کے صلیبیوں کے ہاتھ فروخت کرنا یقینی ہے یا محض احتمال؟افواج پاکستان کا لال مسجد میں فاسفورس بموں سے خواتین کو بے دردی سے شہید کرنا، مسجد کو تباہ کرنا اور اس سب پر جارج بش کا تحسین کرنا، یہ محض احتمال ہی ہے؟ اسی طرح قیام پاکستان سے آج تک حکومتوں کے نظم معیشت کو سود پر چلانااور اس پر اصرار کرنا محض احتمال ہی ہے اور یہ ابھی تک یقین نہیں بنا؟ شرعی حدود کا پاکستانی آئین کے تحت غیر آئینی ہو کر ابھی تک نافذ نہ ہونا ابھی تک احتمال ہی ہے؟ مانعین زکوٰۃ جن پر اجماع صحابہؓ کے تحت کفر کا فتویٰ لگا اور صحابہؓ نے ا ن کے خلاف قتال کر کے ان کی عورتوں کو لونڈیاں بنایا، ان میں تو ایمان کے احتمالات نہیں بلکہ یقینیات موجود تھے۔ کیا وہ شہادتین کے منکر تھے؟ کیا وہ صلوٰۃکے منکر تھے؟ کیا وہ زکوٰۃ کو ایک تاویل کے ساتھ دینے سے مانع نہیں تھے کہ: خذ من اموالھم کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تھااور آپؓ خلیفۃ الرسول کی حیثیت سے نہیں لے سکتے تو اس کو صحابہؓ نے احتمالِ ایمان نہیں سمجھا! مسیلمہ کذاب اور اس کے ساتھی شہادتین کا اقرار کرتے تھے مسلمانوں کے سب شعار پر کاربند تھے تو کیا صحابہؓ نے اس سے احتمال ایمان اخذ کیا؟
جنابِ عمارناصر نے جس طرح جعل سازی کر کے تدریج کا اصول بنانے کی کوشش کی ہے، اگر با لفرض محا ل مان بھی لیا جائے تو پھر بھی یہ اصول نسلی مسلمانوں پر کیسے منطبق ہو گا جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کفر سے اسلام کی طرف آنے والوں کو یہ رخصتِ وقتی دے رہے ہیں۔ یہ تو قیاس مع الفارق ہے ۔ تدریج کے اس منہج کے ضمن میں حضرت بشیر السدوسیؓ والی وہ حدیث یاد رکھیں جب قبول اسلام کے وقت انھوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ’’جہاد اور صدقے‘‘ کی رخصت چاہی کہ میں یہ نہیں کر سکتا تو آپ نے فرمایا کہ ’’ بشیر پھر جنت میں کیسے جاؤ گے‘‘ تو نبی کے اس جاں نثار نے فورا ان دونوں باتوں کو بھی قبول کر لیا۔ دوسرا یہ کہ تدریج کا بھی کوئی انتہائی وقت ہوتا ہے یا صدیوں تدریج جاری رہتی ہے؟ جس طرح طاہر القادری کے نزدیک ابھی تقریبا ۱۷۵۰ سال تک ظہور مہدی نہیں ہونا۔ قیام پاکستان سے لے کر آج چونسٹھ سال تک تدریج زور و شور سے جاری ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت پاکستان سود کو جاری رکھنے کے لیے فیڈرل شریعت کورٹ کے خلاف Stay لے چکی ہے، لیکن تدریج کا جن بوتل میں بند ہونے کو تیار نہیں۔ تیسرا یہ کہ کیا جناب عمار ناصر اس مذہب کی روشنی میں آج عمومی نسلی مسلمانوں کو شراب، زنا ، اور ترکِ صلوٰۃ و زکوٰۃ کی اجازت دیں گے کیوں کہ معاشرے کی مکمل تبدیلی کے باعث کئی’’دانش وروں‘‘ کا نوجوانوں کے لیے یہ مشورہ ہے؟
حاکم خان کیس میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ دستور کی اسلام کے مطابق شق اور اسلام کے خلاف شق مساوی درجہ رکھتی ہیں اور ایک دوسرے کو کالعدم نہیں کر سکتیں۔ شیخ ایمن الظواہری مد ظلہ العالی نے بالکل بجا طور پر سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو کفر قرار دیا ہے۔ عمار ناصر کو شیخ کے اس استدلال کا کوئی جواب نہیں سوجھا! شاید شیطان نے وحی نہ کی ہو! اس لیے اس کے رد میں جو لکھا ہے، اس کے جواب میں یہی کہنا کافی ہے کہ ’’عقل نئیں تے موجاں ای موجاں‘‘۔ جناب خود اس تعبیر کے بارے میں لکھ بھی رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کی یہ تعبیر موثر ہے (ص ۶۲۲) مگر بے ضمیری کا چسکا لگا ہو تو صریح نصوص کا انکا ر بھی آسان ہو جاتا ہے ا ور نقطہ نظر کے بالکل واضح خلا ف دلیل بھی سمجھ نہیں آتی۔
شیخ ایمن الظواہری مد ظلہ العالی کی کتاب میں اختصار کی وجہ سے ہو سکتا ہے، بعض مقامات پرکسی کوکوئی اشکال پیدا ہو، مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ تنظیم القاعدہ کی دوسری کتب اور لٹریچر کو بھی سامنے رکھاجائے تا کہ مسئلے کا پورا حل سمجھ میں آئے۔ عمار ناصر نے بد دیانتی کا ارتکاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ چونکہ مقصود پاکستان کے شہریوں کے سامنے شریعت کی بالا دستی قائم کرنے کا کوئی متبادل لائحہ عمل پیش کرنا نہیں‘‘ (ص ۶۱۶) حالانکہ القاعدہ پورا اور مکمل شرعی حل پیش کرتی ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کے مواد کا مکمل مطالعہ کیا جائے۔ حضرت امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد دامت برکاتہم العالیہ کے عہد امارت میں جب ایک امریکی جاسوس کو سزائے موت سنائی گئی تو انگریز صحافی نے متعلقہ حکومتی اہلکار سے پوچھا کہ آپ نے جدید طرز کا کوئی مقدمہ نہیں چلایا تو انھوں نے جو جواب دیا، وہ مسائل فقہیہ کی جدیداصول اجتہاد پر تدوین نو کرنے اور تجدد پسند لائحہ عمل پیش کرنے کی ضرورت پر زور دینے والے عمار ناصر کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ انھوں نے فرمایا: ’’ ہماری کتبِ فقہ کے اندر صدیوں پہلے مقدمات چلائے اور فیصلے سنائے جا چکے، ہمیں تو بس ایک ایسا خطہ درکار تھا جہاں ہم ان کو نافذ کر دیں‘‘۔
حرم کے نام پر کھانے والوں کے لیے یقیناًاسلامی مقدسات اہم نہیں ہیں اور نہ ہی دین۔ تاریخی حقائق کے سلسلے میں بد دیانتی کرتے ہوئے عمار ناصر افغانستان پر حملے کے محرکات کا تذکرہ کرتے ہوئے اس بات کو گول کر گئے (ص، ۶۲۵) کہ شیخ اسامہ ؒ اور امریکہ کے درمیان جنگ کب اور کیوں شروع ہوئی۔ یہ غلطی ہمارے ہاں کے کئی دوسرے ’’اسکالرز‘‘ اور بعض مخلص اہل علم بھی کرتے ہیں اور بیچارے صحافی سلیم شہزاد کو بھی ایک ٹی وی پروگرام میں ایسا ہی سچ بولنے پر موت کی سزا سنا دی گئی۔ اس نے بھی یہی کہا تھا کہ ’’ یہ جنگ پاکستانی فوج نے شروع کی ہے۔ القاعدہ نے تو مجبوراً فوج کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہیں، لہٰذا اب جنگ بندی میں بھی پہل فوج ہی کو کرنی پڑے گی‘‘ 
اب ہم اشارتاً آتے ہیں شیخ اسامہ ؒ کے مجاہدین کے خلاف پاکستانی فوج کی اقدامی جنگی تاریخ کی طرف! 
  • جب صومالیہ کے مسلمانوں کی نصرت کا فریضہ ادا کرتے ہوئے شیخ اسامہؒ کے مجاہدین نے امریکی فوج کو گھیرے میں لیا اور خوب عسکری نقصان پہنچایا تو امریکی فوج کو باحفاظت فرار کروانے کی ساری خدمت امن فوج میں شامل پاکستانی دستوں نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر انجام دی، مجاہدین نے صبر کر لیا اورپاکستانی فوج کو کچھ نہ کہا! 
  • ۱۹۹۶ میں شیخ اسامہ ؒ پر افغانستا ن میں امریکی کمانڈوز نے حملہ کیا۔ ہیلی کاپٹر کراچی کے ساحل پر کھڑے امریکی بحری بیڑے سے اڑے، مجاہدین نے صبر کر لیا اورپاکستانی فوج کو کچھ نہ کہا! 
  • ۱۹۹۸ میں شیخ اسامہ ؒ کے مرکز پر افغانستان میں امریکی کروز میزائلوں سے حملہ ہوا، میزائل کراچی کے ساحل پر کھڑے امریکی بحری بیڑے سے داغے گئے (جہانگیر کرامت سے امریکی سٹاپ اوور لینے کا معاملہ اخبارات کی زینت بھی بنا)، مجاہدین نے صبر کر لیا اورپاکستانی فوج کو کچھ نہ کہا! 
  • سقوط قندھار کے بعد آزاد قبائل کی پناہ میں آنے والے مجاہدین کو بچوں، بہنوں، ماؤں اور بیٹیوں سمیت پکڑ کر امریکہ کے حوالے کر دیا گیا، مجاہدین نے صبر کر لیا اورپاکستانی فوج کو کچھ نہ کہا! 
  • اس کے بعدمکمل چار برس تک ایجنسیاں اور پولیس کتوں کی طرح مجاہدین کا پاکستان کے طول و عرض میں پیچھا کرتی اور پکڑتی بیچتی رہی، شیخ ابو زبیدہ (اللہ ان کو گونٹا نامو سے رہائی نصیب فرمائے) کو گرفتا ر کرنے کا واقعہ تو اخبارات میں بھی آیا کہ جب ان کے سامنے امریکی سے پہلے پاکستانی اہلکارآیا تو انھوں نے یہ کہ کر اپنی بندوق پھینک دی کہ کاش میرے سامنے کوئی امریکی ہوتا۔ اب بھی مجاہدین نے صبر کر لیا اور پاکستانی فوج کو کچھ نہ کہا!
  • قبائل میں آپریشن اور پاکستانی فوج کی زمینی جاسوسی کی مددسے امریکی ڈرون حملے شروع ہوگئے ، مجاہدین نے صبر کر لیا اور پاکستانی فوج کو کچھ نہ کہا!
  • قبائلی علاقوں کے آپریشن کے خلاف،جامعہ حفصہؓ اور لال مسجدکے علماء نے اللہ کے سامنے جواب دہی کے خوف اور شرعی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے جب اس آپریشن کے حرام ہونے کا فتویٰ دیا تو اس جرم پرپاکستانی فوج اور اس کے سربراہ پرویز مشرف نے عمار ناصر کے فہم دین کے مطابق پوری دیانت داری سے عبرت ناک سزا دینے کے لیے حملہ کر کے مسلمانو ں کے جان و مال اور عزت و آبرو کے ساتھ ساتھ شعار دینی مسجدو مدرسہ کی حرمت کو بھی پامال کر دیا تو اب مجاہدین کا صبر جواب دے گیا ۔ اب مجاہدین نے اس کفریہ نظم مملکت کے خلاف’’شریعت یا شہادت‘‘ کے مقصد کے تحت جدوجہد کا آغاز کر دیا ۔ 
لیکن یہ سب کچھ تو اس کی آنکھیں کھولنے کے لیے ہے جو دیدہ بینا رکھے! جو بنی اسرائیل کی بالشت بالشت پیروی سے باز رہے! جو اپنے اندرحق کو حق کہنے کی جرات رکھے! اور ایک اللہ کو جواب دہی کا خوف دل میں رکھتا ہو!
سب نے ملائے ہاتھ یہاں تیرگی کے ساتھ
کتنا بڑا مذاق ہوا روشنی کے ساتھ

’’عافیہ‘‘ ۔ ایک تنقیدی جائزہ

محمد رشید

عالم اسلام کی بیٹی۔۔۔عافیہ صدیقی کی مظلومیت، بے بسی،لاچاری اور اذیت ناک قید پر جتنا بھی دکھ اور افسوس کیاجائے، کم ہے۔ عافیہ کے ساتھ انسانیت سوز سلوک انسانی سماج اورتہذیب کے منہ پر ابلیس کا ایک زوردار تھپڑ ہے۔ یہ اکیسویں صدی کے بھیانک ترین انسانی المیوں میں سے ایک ہے۔ پاکستانی قوم کی ایک نہایت ذہین اور اعلیٰ تعلیم یافتہ حافظ قرآن بیٹی کے ساتھ امریکہ کے وحشیانہ اور حیوانی سلوک کا اصل محرک کون سی بات بنی؟ عافیہ صدیقی کی زندگی، نظریات اورموومنٹ کی تفصیلات کیا رہی ہیں؟ یہ اور اس قسم کے دوسرے سوالات ہر اس پڑھے لکھے انسان کے ذہن میں اٹھتے ہیں جو اکیسویں صدی کے بھیانک ترین المیوں میں سے اس خونچکاں المیے کے لیے اپنے دل میں درد اور سینے میں چبھن محسوس کرتا ہے۔
اکیسویں صدی کے فرعون اعظم کے بھیانک ترین مظالم اوراذیتوں کی خبروں نے عالم اسلام کے بچے بچے کے دل میں عافیہ صدیقی کے لیے بے پناہ ہمدردی اور رحم پیدا کردیا، اسے ایک ہیرو کا درجہ دے دیاکہ آخر اس مظلوم لڑکی میں کوئی تو ایسی خوبی اور طاقت تھی کہ جس سے اکیسویں صدی کافرعون اعظم بھی خوفزدہ ہوگیا۔ ظالم ہمیشہ بزدل ہوتا ہے۔ تمام دنیا نے امریکی بزدلی اور نامردی کا یہ تماشا دیکھا کہ اس نے ایک کمزورعورت پر اپنی وحشیانہ طاقت کا زور آزمایا، لیکن اپنی تمام تروحشیانہ تعذیبوں اورحیوانی سلوک کے باوجود اس کمزور اور ناتواں عورت کا حوصلہ اور ایمان توڑنے میں ناکام رہے۔ اکیسویں صدی کی اس مظلوم ترین عورت کے مقابل اپنے آپ کو لاکر وقت کی سپر پاورنے ثابت کردیا کہ اس کا زور صرف نہتے، بے بس اور مجبورلوگوں پر چلتا ہے۔ یہ ظلم کرکے درحقیقت امریکہ نے تمام عالم کے لوگوں میں اور خود امریکی سماج کے شائستہ لوگوں میں اپنے خلاف بدترین نفرت اور حقارت کے بیج بوئے ہیں۔
اس مختصر سی تمہید کے بعد اب ہم اس موضوع پر شائع ہونے والی ایک کتاب ’’عافیہ‘‘پر اپنی حقیر رائے کااظہار کرنا چاہتے ہیں۔ ہفت روزہ ضرب مومن میں تسلسل کے ساتھ اس کتاب کا اشتہار بڑے تزک و احتشام کے ساتھ شائع ہورہا ہے۔ اشتہار سے متاثر ہوکر ہم نے کتاب خریدنے کا سوچا۔بُک سینٹرجاکر کتاب کے فہرست مضامین دیکھے تو بڑے متاثر ہوئے کہ کتاب واقعتا عافیہ صدیقی کی زندگی کے تفصیلی اور تحقیقی حالات پر مشتمل ہوگی، کیونکہ اشتہارمذکور میں موضوع سے متعلق بہت سے حقائق آشکارا ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے، لیکن کتاب پڑھ کر ہمیں مایوسی ہوئی کہ ہم اخباروں کے ذریعے سے اپنی محترم بہن عافیہ صدیقی کے بارے میں جو کچھ جان چکے تھے، اس ضخیم کتاب نے ان معلومات میں کوئی قابل ذکراضافہ نہیں کیا۔
مصنف نے کتاب ناول کے انداز میں لکھنے کی کوشش کی ہے، لیکن ہمیں نہایت افسوس سے عرض کرنا پڑرہا ہے کہ وہ نہ ہی ناول کے انداز کو نبھا سکے ہیں اور نہ ہی تحقیقی رپورٹ کا انداز اپنا سکے ہیں۔ کتاب میں بہت کچھ ہے۔۔۔معلومات ہیں۔۔۔ نصائح ہیں۔۔۔ خوبصورت اور کردار ساز احادیث کا بیان ہے۔۔۔کئی معلومات ہیں۔۔۔لیکن ہمیں پھر افسوس سے عرض کرنا پڑرہا ہے کہ یہ سب کچھ لکھنے کے لیے ’’عافیہ صدیقی ‘‘ کا عنوان نامناسب ہی نہیں، بڑی حد تک غیر متعلق بھی ہے۔ اگر بہت ہی رعایت کی جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ کتاب میں 10فیصدتذکرہ عافیہ صدیقی کاہے اور باقی 90 فیصد مصنف کی دیگر معلومات اور مطالعہ کو زبردستی ’’عافیہ ‘‘ کے عنوان کے تحت تحریر کردیاگیا ہے۔جس ادارہ سے مصنف کا تعلق ہے، ہم اس ادارہ سے عقیدتمندانہ تعلق رکھتے ہیں، لیکن تمام تر عقیدتمندی اور خوش گمانی کے باوجود ہمارا خیال ہے کہ مصنف نے اپنی متنوع معلومات کوقارئین تک پہنچانے کے لیے 21ویں صدی کے فرعون اعظم کے مظالم کا شکار جدید دورکی اس مظلوم ترین محترم خاتون کے نام’’عافیہ‘‘ کا عنوان اختیار کرکے عدل اور دیانت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اخباری کالموں کے طرز پر مبنی تبصروں،رپورٹوں اوراظہار خیال کے لیے امت کی اس مظلوم ترین بیٹی کے نام کا عنوان ایک نامناسب طرزعمل ہے۔ کتاب پڑھنے کے بعد جب ہم ضرب مومن میں شائع ہونے والے اشتہارکے اس دعویٰ ’’ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی زندگی پر پہلی تفصیلی کتاب جس میں بہت سے حقائق آشکارہوتے ہیں‘‘کو دیکھتے ہیں تو اس میں ہمیں حقیقت بیانی کی بجائے اشتہاربازی نظرآتی ہے۔
ایک ناول پڑھنے والے کو یہ کتاب ایک substandard صنف کا ناول لگتا ہے جس کی وجہ سے وہ بہت جلد کتاب میں اپنی دلچسپی کھودیتا ہے۔۔۔ ایک تحقیقی رپورٹ کے شوقین قاری کویہ کتاب عافیہ صدیقی کی زندگی کے حقیقی رخ،نظریات اورمقاصدکی مستندتفصیلات سے عاری محسوس ہوتی ہے۔۔۔عافیہ صدیقی کی زندگی کی مستند معلومات اور تفصیلات کی کمی کو سطحی تبصروں اور سطحی جذبات کے اظہار سے پوری کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
مصنف اسلام سے اور مسلمانوں سے محبت کرتے ہیں، نوجوان ہیں، عالم دین ہیں،سلیس زبان میں مافی الضمیر کا اظہار کرنا جانتے ہیں۔۔۔ان کی یہ ساری خوبیاں ہمارے دل میں ان کے لیے احترام کو جگہ دیتی ہیں۔لیکن ان کی باتوں میں جس چیز کی ہم نے بے حد کمی اور فقدان کو محسوس کیا، وہ ہے تحقیقی انداز۔ہم دست بستہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ یہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے مغرب نے ہمیں پچھاڑدیا ہے۔ہم اپنی تمام تر خوش عقیدتوں،خوش فہمیوں اورمذہب پسندیوں کے باوجود اسلام اور عقل کے لوازمات یعنی تحقیق پسندی کی جان جوکھوں سے چونکہ دوربھاگتے ہیں، اس لیے دین اور دنیا دونوں میں شدید ترین زوال سے دوچار ہیں۔میں اپنے محترم دوست جناب انورغازی سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میرے محترم! آپ کے پاس اگرکسی موضوع پر صرف دس پندرہ صفحات کا مواد ہے اور آپ اسے کھینچ تان کر چار سو صفحوں پر پھیلانا چاہتے ہیں تویہ نہ صرف ایک غیر علمی اورغیر سنجیدہ وطرزعمل ہے بلکہ اپنا اور قارئین کا وقت ضائع کرنے کے مترادف بھی ہے۔ ہمیں جہاں مصنف محترم کے مطالعہ میں پھیلاؤ پرخوشی ہوئی، وہاں ان کے مطالعہ میں گہرائی اوررسوخ کی کمی شدت سے محسوس ہوئی۔سطحی تجزیوں،سطحی معلومات اور سطحی تبصروں سے مارکیٹ میں تو شاید جگہ بن جاتی ہو، یہ چیزیں عوامی نعروں اور عوامی تقریروں کی طرح تو شاید عوام میں پذیرائی حاصل کرلیتی ہوں، لیکن یہ چیز ٹھوس تعمیری کام میں قطعاً مفید ثابت نہیں ہوتی۔
مصنف محترم نے جہاں امت کی ایک نہایت مظلوم بیٹی پر اسلام دشمن درندوں کے ظلم و ستم پرآنسوبہائے ہیں، وہاں اسلامی اسکالر ہونے کے ناطے ان کا فرض بنتا تھا کہ وہ نہایت نصح اور خیرخواہی سے قارئین پر واضح کرتے کہ ایک مسلم خاتون کا اپنے وطن سے ہزاروں میل دوردجالی تہذیب کے نمائندہ ملک میں تعلیم کی غرض سے سفرکرکے جانا اور حیاسوز معاشرے میں مخلوط تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرنا اسلام کے نزدیک ایک ناپسندیدہ اورناجائز عمل ہے۔ اسلام ایک مسلمان کے لیے ایمان کے بعد اہم ترین قدریااثاثہ آبروکی حفاظت کوقرار دیتا ہے۔لہٰذا ایسی کسی تعلیم کی اسلام قطعاً اجازت نہیں دیتا جس کے حصول میںآبروکو خطرات لاحق ہوں۔اسلام اور دجالی تہذیب کا یہ وہ بنیادی فرق ہے کہ اسلام کے نزدیک تو آبروکی حفاظت اس کے اہم ترین مذہبی ومعاشرتی اقدار میں سے ہے جبکہ مغربی دجالی تہذیب ومعاشرت کی نمایاں پہچان اور امتیازی شان ہی آبروکی حفاظت کے تمام فکری وعملی عوامل کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔لہٰذا ہماری مظلوم بہن عافیہ صدیقی کے خونچکاں المیہ کے بعد عالم اسلام کے مسلمانوں کو جو اہم ترین فیصلہ کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ وہ کبھی بھی کسی بھی صورت میں اپنی عصمت مآب بیٹیوں کو تعلیم کے مقدس نام پر مغرب کے ناپاک دجالی معاشرے میں نہیں بھیجیں گے بلکہ اپنے ہی ملکوں میں خواتین کے لیے اعلیٰ ترین تعلیمی ادارے قائم کریں گے۔ اسے ایک اصول اور پالیسی کے طور پر تمام اسلامی ممالک کو اختیار کرنے کی دعوت دینی چاہیے۔
مصنف محترم نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور ارفع کریم کے حوالے سے تحریر فرمایا ہے کہ دونوں قوم میں تعلیمی انقلاب لانے کی متمنی تھیں۔خاص طور پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں یہ انکشاف کیاگیا ہے کہ انہوں نے ایک ایسا نصاب تشکیل دیاتھا جس کے نتیجے میں صرف دس سال میں قوم میں تعلیمی انقلاب لایاجاسکتا تھا۔ہمیں اس دعویٰ میں ایک جھول محسوس ہورہا ہے کہ اگر ایسا کوئی تعلیمی نصاب واقعتا ہماری محترم ومظلوم بہن نے تشکیل دیاتھا تواسے منظرعام پر لانا چاہیے۔خاص طور پردین و ملت کا درد رکھنے والے افراد اوراداروں کو یہ نصاب بحث کے لیے پیش کیاجانا چاہیے۔اس نصاب کی تفصیلات کی عدم دستیابی اس بات کو تقویت دیتی ہے کہ یہ محض مصنف کادعویٰ ہے جس کے ثبوت کے لیے کوئی تحریری مواداور شہادت موجود نہیں ہے۔تعلیم کے میدان میں بحیثیت قوم ہم جس دردناک ترین اور بھیانک ترین دور سے گزررہے ہیں،ان حالات میں قوم میں تعلیم کے احیاکاایسا صالح منصوبہ قوم کی امانت بن جاتا ہے جس کا منظر عام پر لاناازبس ضروری ہوجاتا ہے۔
امید ہے کہ ہماری ان چندگستاخانہ گذارشات کو ایک ادنیٰ خیرخواہ کی خیرخواہی کے طور پر لیا جائے گا اور جن نکات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ان پرضرور غور فرمایاجائے گا۔

سیمینار: ’’ائمہ و خطبا کی مشکلات، مسائل اور ذمہ داریاں‘‘ (۱)

ادارہ

(الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے زیر اہتمام سیمینار)

ڈاکٹر حافظ سمیع اللہ فراز 

(خطیب جامع مسجد ٹی بلاک، DHA، لاہور)
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد
محترم علماء کرام اورحاضرین محترم!
الشریعہ اکیڈمی اپنی روایات کو برقراررکھتے ہوئے اس اہم ترین مذہبی اورمعاشرتی مسئلہ پر سیمینار منعقد کرانے پرمبارکباد کی مستحق ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے منتظمین کو اور معاونین کو اجرعظیم سے نوازے۔
مجھ سے ایک ہفتہ قبل میرے بھائی محترم عمار خان ناصر نے ارشاد فرمایا کہ آپ جس جگہ پرخطابت کی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں،وہ سوسائٹی اوروہ علاقہ باقی علاقوں سے کئی لحاظ سے منفرد ہے۔ لامحالہ وہاں کے مذہبی مسائل یاوہاں کی مساجد کا ماحول،اس کا جو آپ تجربہ رکھتے ہیں، وہ ہمارے حاضرین کے ساتھ، امہ اورخطباکے ساتھ شیئر کریں تاکہ کچھ سیکھنے کا موقع بھی ملے اور جو ائمہ کی ذمہ داریاں ہیں،عملی بنیادوں پر اس کا کوئی حل بھی ہمارے سامنے آئے۔ چنانچہ ا س حوالے سے میں اپنی معروضات کو دوحصوں میں تقسیم کرتاہوں۔ پہلایہ کہ جس ادارے میں، میں خطابت کی ذمہ داریاں سرانجام دے رہاہوں، اس کا نظم ونسق کیاہے ۔جب میں تفصیل سے بیان کروں گاتو یقینی طور پر بہت سی چیزیں عام سوسائٹی سے ہٹ کر وہاں نظر آئیں گی اور جوہمارے منتظمین حضرات ہیں، ان کے لیے بھی بہت سے اصول ان تفصیلات کے اندر موجود ہیں۔ دوسری چیز جوآج کی نشست کاعنوان ہے، وہ ہے ائمہ حضرات کی مشکلات۔ بہرحال ان مشکلات اور ان کے حل کی طرف بھی ہم کچھ توجہ دیں گے۔
حضرات محترم!
(DHA) لاہور (ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی) یہ پاکستان آرمی کے ماتحت ایک بااختیار ادارہ ہے۔ اس ادارے کا بنیادی مقصد اپنے رہائشیوں کوعالمی سطح کی رہائشی سہولیات فراہم کرنا ہے،لیکن ظاہر بات ہے کہ مسلم سوسائٹی کے اندر کوئی بھی کالونی، کوئی بھی رہائشی ادارہ بنے گا تومساجد تومسلم معاشرے کاایک اہم حصہ ہیں چنانچہ اپنے قیام سے لے کرآج تک گزشتہ پچیس برسوں سے ہمارے ہاں ڈی ایچ اے (DHA) لاہور میں مساجد کا ایک منظم ااورمستحکم شعبہ ہے جو اپنے رہائشی خواتین وحضرات کی دینی اورروحانی ضروریات کوپوراکررہاہے۔ اس وقت ہمارے ہاں کل ستائیس مساجد تعمیر ہوچکی ہیں جن میں سے چار جامع یعنی بڑی مساجد ہیں اورباقی تئیس سیکٹر یعنی محلے کی مساجد ہیں۔ تفصیلات اور خصوصیات میں عرض کرتاہوں۔ 
ایک چیز جس کی بنیادپر (DHA) کا پورے کا پورامذہبی ماحول کھڑاہے اورشعبہ مساجد کام کررہاہے، وہ ایک جملہ ہے: ’’مسجد تمام مسلمانوں کے لیے ہے‘‘۔ ہمارے ہاں جو روایتی کلچر ہے مساجد کا، اس سے ذرا ہٹ کر ہمارے ہاں ہر مسجد ہرمسلمان کے لیے ہے۔ مثلاً ہمارے ہاں مساجد کے نام متعین نہیں ہیں۔ جامع مسجد رضوی قادری نہیں ہے، جامع مسجد حنفی مدنی نہیں ہے، کسی مسجد کا کوئی نام نہیں ہے۔ہمارے ہاں مساجد منسوب ہیں محلے یاسیکٹر کے ساتھ، مثلاً جامع مسجد فیز ۱، جامع مسجد فیز ۲، جامع مسجد سیکٹر۔ یوں ہمارے ہاں کسی مسجد کا کوئی نام نہیں ہے، اس لیے کہ ہمارے لوگ پہلے سے ہی تقسیم شدہ ہیں۔ جونہی کسی علاقے میں کوئی نئی مسجد بنتی ہے، وہ لوگوں کے درمیان اجتماعیت کی بجائے ایک اور تقسیم کی بنیاد رکھتی ہے،چنانچہ یہ وحدت امت کا ایک عالمی تصور ہم نے وہاں رائج کرنے کی کوشش کی ہے کہ مسجد تمام مسلمانوں کے لیے ہے۔ جن کو ہم مسلمان یعنی اہل سنت والجماعت کہتے ہیں، سب کو مسجد میں داخلہ کی اجازت ہے۔ اسی طرح ہمارے ہاں جو ائمہ اورخطبا کاتقرر ہوتا ہے، وہ بھی روایتی طرز سے ذراہٹ کر ہوتا ہے۔ عام طور پر ائمہ وخطبا کا تقرر کسی ذاتی تعلق یاکسی کی سفارش پر یاجو وہاں کی منتظمہ کمیٹی ہوتی ہے، اس کی صواب دید ہے کہ وہ جس مولوی کا چرچا سنیں یا اس کی خصوصیات ان کے سامنے ہوں، اس کو وہاں پر متعین کرتے ہیں۔ (DHA) لاہور میں ایک باقاعدہ پروسیجر ہے،پوراایک نظم ہے ائمہ اورخطبا کی بھرتی کے لیے۔ مثلاً ہمارے ہاں جتنی جگہیں خالی ہوتی ہیں یاجتنے افراد ہمیں مطلوب ہوتے ہیں، ان کے لیے مشہور اخبار میں اشتہار دیے جاتے ہیں۔ اشتہار دیکھ کر جودرخواستیں ہمارے پاس موصول ہوتی ہیں، ان درخواستوں کا جائزہ لیاجاتاہے، سندات چیک کی جاتی ہیں،ان کے وفاقوں اوران کی یونیورسٹیوں سے ان کی سندیں چیک ہوتی ہیں۔ پھر جو امیدوار اہل قرار پاتے ہیں،جوشخص مسلسل آٹھ سال کا درس نظامی پڑھ کر نہیں آیا، اس کے اندر وہ علمی پختگی ہوہی نہیں سکتی، اس کے مقابلہ میں جوآٹھ سال پڑھتا رہا، آٹھ سال کا درس نظامی اوراس کے علاوہ کسی بھی یونیورسٹی سے ایم اے کی سند ہونا کسی بھی مضمون میں ایم اے کاہونا ضروری ہے، جبکہ موذن اورخادم کے لیے میٹرک اورحفظ وتجوید، یہ اس کے لیے لازم ہے ،چنانچہ جب درخواستیں ہمارے پاس آجاتی ہیں توپھر ان امیدواران کوہم تحریری امتحان کے لیے لکھ دیتے ہیں کہ فلاں دن آپ کا تحریری امتحان ہوگا۔یہ تحریری امتحان دورۂ حدیث اورایم اے کو ملا کر بنایاجا تا ہے، وہ آسان نہیں ہوتا۔ جوقابل علماء کرام ہوتے ہیں، وہ ہی اس میں کچھ نمبر حاصل کرپا تے ہیں، ور نہ اکثریت علماء کرام کی جوگزر کرآئے ہوتے ہیں، وہ ہمارا ٹیسٹ پاس نہیں کر پاتے۔
اس تحریری امتحان کوپاس کرلینے کے بعد وہیں پر اسی نشست کے بعد حفظ وتجوید کاامتحان ہوتا ہے۔ ہمارے ہی ڈیفنس کے جومستند علماء کرام ہیں، وہ تجوید اور حفظ کا امتحان لیتے ہیں۔ ان دومرحلوں میں جوحضرات پاس ہوتے ہیں، ان حضرات کی لسٹ عصر کے وقت دفتر کی طرف سے آویزاں کردی جاتی ہے اوراس سے اگلے روز ان دونوں مرحلوں سے پاس شدہ امیدواران کوہم انٹرویوکے لیے بلاتے ہیں ۔ اس انٹرویو پینل میں تین حاضر سروس فوجی آفیسر ہوتے ہیں اور د وعلماء کرام ۔ ان پانچ لوگوں کا بورڈ ہوتاہے جوایک ایک کرکے ان کا انٹرویو کرتاہے۔ ان کی علمی، فنی، شخصی قابلیت دیکھتے ہیں۔ اگر وہ اپنے انٹرویوپینل یا ان حضرات کو مطمئن کردیں تواس کے بعد ان کا انتخاب ہوجاتا ہے، لیکن وہ انتخاب مشروط ہوتا ہے کہ ہمارے ادارے کے جوایڈ منسٹریٹر جوبریگیڈیئر صاحب ہیں اور وہ بھی دینی ذہن والے ہوتے ہیں، آخری مرحلے پر وہ انٹرویو کرتے ہیں۔ کسی بھی مرحلے پر کوئی کمی محسوس کی جائے تواس امیدوار کاانتخاب منسوخ کیا جا سکتا ہے۔ اس پورے پروسیجر میں کہیں بھی کوئی رشوت نہیں لی جاتی، کہیں پر کوئی سفارش یا ذاتی تعلق کام نہیں آتا، حتیٰ کہ جو پیپر تحریری طور پر لیے جاتے ہیں، ان پر بھی رول نمبر لکھاجاتاہے، نام نہیں لکھا جاتا اوراس وقت جو تمام علماء کرام ڈیوٹی پرموجود ہوتے ہیں، ان کو اپنا موبائل فون اپنے پاس رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ یوں اس پورے نظام اوراس پوری ترتیب کے بعد جو علماء کرام ہمارے پاس منتخب ہوکرآتے ہیں، وہ الحمد للہ ہرلحاظ سے قابل ہوتے ہیں۔ 
اب جب کسی کا انتخاب ہوجاتاہے توان ائمہ وخطبا کو ان کے فرائض منصبی تحریری طور پر لکھ کر دیے جاتے ہیں کہ امام صاحب! آپ نے یہ یہ کام کرنے ہیں۔ بائیس نکات ہیں جن کی پا بندی ہرامام وخطیب کے لیے لازمی ہے۔مثلاً اس کے اندر سب سے بنیادی چیز جس کو بہت حساسیت کامعاملہ قرار دیاجاتا ہے، وہ یہ ہے کہ مسجد میں غیر فرقہ وارانہ ماحول کو قائم کرنا، کسی بھی قسم کی جانبداری یاکسی بھی لحاظ سے مسلکی وابستگی کا اظہار، خاص قسم کا عمامہ یاخاص قسم کے کلمات جن سے فرقہ واریت یاجانبداری جھلکتی ہو، اس پر پابندی ہے۔ اس کے فوائد میں عرض کرتا ہوں۔ میں الحمد للہ نصرت العلوم سے فارغ ہوں، میری ساری تعلیم وہاں سے ہے ،مولانا زاہدالراشدی صاحب خصوصی شفقت فرماتے ہیں۔ میرا ساراگھرانہ الحمدللہ علماء دیوبند سے وابستہ ہے اورانہی سے وابستگی کو ہم اپنی سعادت سمجھتے ہیں، لیکن حالا ت اورماحول کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں جوروایتی ہمارا ماحول ہے جہاں پر پہلے ہم رہے ہیں اورجودوسرا ماحول ہے جہاں پر جاکر ہم نے یہ دیکھا کہ کسی مسلکی وابستگی کوعوام الناس کے سامنے ظاہر نہ کیاجائے تو اس کے زیاد ہ فوائد ہوتے ہیں۔ اس کی مثال میں عرض کرتاہوں۔ ائمہ مساجد کو جوفرائض منصبی دیے جاتے ہیں، ان میں سب سے مقدم چیز یہ ہوتی ہے کہ آپ مسجد کے غیر فرقہ وارانہ ماحول کوبرقرار رکھیں، نماز پنجگانہ کی آپ امامت کرائیں ۔اسی طرح نماز عیدین، تراویح، جمعۃ المبارک کے خطبات آپ دیں گے اورمساجد کے انتظام، ان کی صفائی کی نگرانی اور نمازی حضرات کے ساتھ مثالی اخلاقی رویہ رکھیں اورصبر وتحمل کاہر وقت اظہار،پاک و صاف اورشرعی لباس ہر وقت زیب تن رکھنا، نکاح وغمی کی تقریبات جومحلے کے اندر ہوں، ان کے اندر شرکت کرنا ،یہ امام و خطیب کے فرائض منصبی تحریری طور پر ہمارے ہاں دیے جاتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے ہاں (DHA)لاہور میں جوجمعہ کے خطبات ہوتے ہیں یاجوعیدین کے خطبات ہوتے ہیں، وہ بھی ایک باقاعدہ ترتیب کے بعد ایک نظم کے بعد Deliver ہوتے ہیں اور عوام الناس کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں جس کا انتظام شاید ہی کہیں ہوتاہو۔ مثلاً قمری سال کے آخری مہینے میں پانچ علماء کرام پر مشتمل ایک کمیٹی بنادی جاتی ہے۔ وہ کمیٹی باقی تمام علماء کرام سے تجاویز لیتی ہے کہ اگر آپ کو خطبہ لکھنے کوکہاجائے توآپ کاتحقیقی دلچسپی کا عنوان کیاہے؟ان سے تجاویز لے کر ہر سال کے ۵۴ خطبات ،عیدین سمیت محرم شروع ہونے سے پہلے ترتیب دیے جاتے ہیں۔ ان کے عنوانات اوران کے مرتب کرنے والے حضرات ،اس کی ایک فہرست بنادی جاتی ہے اوروہ فہرست تمام ائمہ میں تقسیم کردی جاتی ہے۔ ہر خطیب صاحب سال میں تقریباً تین خطبے لکھتے ہیں، بعض کے حصے میں دوآتے ہیں۔ لکھنا خطیب صاحب نے ہے، وہ اپنی تحقیق کرنے لائبریری میں جائیں،کتابیں کھنگالیں، جہاں سے بھی تیار کریں۔ وہ خطبہ لکھنا کیسے ہے؟ اس کا بھی فارمیٹ یااس کا انداز وہ ائمہ کرام کوپہلے سے تقسیم کر دیا جاتا ہے ۔لکھائی کا اتنا سائز ہو،اتنی لائنیں ہوں،اتنے صفحے ہوں، وہ سب کے علم میں ہوتاہے۔
خطیب صاحب نے جب خطبہ ترتیب دے دیا تووہ اپنی مرکزی مسجد کے خطیب اعلیٰ کے پاس جائیں گے۔ مثلاً ہمارے ڈیفنس کے اندرآبادپانچ فیز ہیں اورہر فیز کے اندر کئی سیکٹر، کئی محلے ہیں۔ میں فیز ٹو کانگران ہوں اورمیرے ماتحت آٹھ مساجد ہیں۔ ان آٹھ مساجد کے خطیب صاحب اپناخطبہ تیار کر کے میرے پاس آتے ہیں۔ میں اس کو اپنی نظرسے یعنی اصلاح سے بھرپور تنقیدی نظر سے دیکھوں گا اورجہاں پر کوئی کمی دیکھوں یا کوئی قابل اصلاح چیز دیکھوں، وہیں پر لکھ دیا۔اگر زیاد ہ تبدیلی ہے توخطیب صاحب سے کہاجائے گا کہ اس کویوں کر کے لائیں۔ اگرگزارا ہے تو پھر میں اپنے تاثرات لکھ کر جوڈائریکٹر دینی امور ہیں، ان کے پاس بھیج دوں گا۔ہمارے جوڈائریکٹر دینی امور ہیں، وہ الحمدللہ جامعہ بنوری ٹاؤن سے فارغ ہیں اورساتھ ساتھ آرمی سے بریگیڈیئر فارغ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو دونوں شانیں دی ہیں۔ انتہائی علمی شخصیت ہیں۔ وہ ا س کو دیکھیں گے اورپھر اس پورے نظم سے گزرنے کے بعد ستائیس مساجد کے علماء کرام کے پاس اس کی فوٹوکاپی پہنچ جائے گی۔ خطبہ deliver ہونے سے ،اس جمعہ سے تقریباً ایک ہفتہ پہلے خطیب صاحب اس کو اپنے طور پر پڑھیں گے ۔ہمارے ہاں ہرہفتے تمام خطباء کرام کے تقریباً دواجلاس ہوتے ہیں اورہراجلاس کے اندر شعبہ مساجد کا تمام عملہ موجود ہوتا ہے۔ خطیب صاحب (تمام خطبا) ہفتے میں سوموار کے روز آتے ہیں۔ نوسے لے کر ساڑھے دس تک ہماری میٹنگ ہوتی ہے۔اس میں ہر خطبہ لفظ بلفظ پڑھاجاتا ہے۔ اس کو پڑھنے کے بعد تمام علماء کرام جہاں بھی مناسب سمجھیں، تجویز دے سکتے ہیں کہ یہاں پر یہ ہوناچاہیے یا ا س فقہی مسئلے کے اندر یہ تفصیلات ہیں، اس کو یوں ہوناچاہیے۔ ڈائریکٹر دینی امور تمام علماء کرام کی موجودگی میں اگروہ رائے درست ہوتواس کو بھی ساتھ درج کردیاجاتاہے۔ یوں سوموارکے دن اس خطبے کاصحیح طورپر تنقیدی جائزہ ہوتا ہے۔
جمعرات کے دن نوسے لے کے ساڑھے دس تک دوسری بار تمام علماء کرام اسی جگہ اکٹھے ہوتے ہیں اورایک خطیب صاحب اورایک مؤذن صاحب اس خطبہ کو اسی طرح بیان کرتے ہیں جس طرح انہوں نے کل جمعہ کولوگوں کے سامنے بیان کرنا ہوتا ہے۔ہمارے ہاں پچیس سے تیس منٹ کا جمعہ کاخطبہ ہوتا ہے اور وہ پورا وقت ان کو دیاجاتاہے۔ وہ بیان کرتے ہیں، اس کے بعد جوسامعین علماء کرام بیٹھے ہیں، ان کو کہاجاتا ہے کہ آپ ان کے خطبہ پر تبصر ہ کیجیے۔انہوں نے کہاں پر تلفظ کی غلطی کی ہے، کہاں پر ان کے بیان میں زور نہیں رہااورکس چیز کو کیسے بیان ہوناچاہیے تھا۔ تمام علماء کرام کوفری ہینڈ ہے کہ وہ آزادانہ طور پر اپنا تبصرہ دے سکیں اور الحمدللہ ہمارے علماء کرام اسے وسعت قلبی کے ساتھ سنتے ہیں۔ یوں جہاں پر ہمارے جمعہ کاخطبہ پورے ہفتہ کے دوران تیار ہورہاہے، وہیں پر تمام خطباء کرام ستائیس خطبا، پانچ نائب خطبا ہمارے ہاں تقریباً ۶۵افرادکے قریب مساجد کا عملہ ہے، ان لوگوں نے جہاں ہفتے میں دوبار ایک دوسرے کو ملنا ہے، جہاں پر خطبہ کی تیاری ہورہی ہے، وہیں پر ان کا آپس کاجو ربط وتعلق ہے، وہ پروان چڑھ رہاہے۔ 
ہمارے ہاں ڈیفنس کے اندر چار سال کے اندر چار بڑے اجتماع ہوتے ہیں۔جمعہ اورعیدین کے علاوہ ،مثلاً ہرمہینے ایک اصلاحی بیان ہوتاہے۔اس اصلاحی بیان میں جواصلاحی عنوانات ہوتے ہیں عوام کے فائدے کے لیے ان کو منتخب کیاجاتاہے کہ ایک عام آدمی کامسئلہ کیاہے۔ ایک عام آدمی کو مسجد کے آداب کاپتہ ہوناچاہیے ،ایک عام آدمی کو اپنی دکان،اپنے دفتر میں بیٹھے ہوئے اپنی تجارت میں کن اسلامی اصولوں کاخیال رکھناچاہیے،یعنی ہمارے جو معاشرتی مسائل ہیں، ہم ان کو فوکس کرتے ہیں اورہر مہینے میں ایسی مجلس قائم ہوتی ہے اوراس کی ترتیب بھی سال کے شروع میں طے کردی جاتی ہے کہ یہ علماء کرام ان عنوانات پر فلاں مسجد میں خطاب فرمائیں گے اورہمارا یہ دورانیہ مغرب سے عشا تک ہوتا ہے ۔یہ کچھ خصوصیات ہیں جومیں نے آپ حضرات کے سامنے عرض کیں۔ ہمارے ہاں جونظم ونسق چل رہا ہے، اس کی وجہ سے لاہور کی اکثر رہائشی کالونیوں نے ہم سے رابطہ کیا،مثلاً گرین سٹی ،بحریہ ٹاؤن ،پیراگاؤن سٹی ، لیک سٹی وغیرہ یہ بڑے بڑے رہائشی منصوبے ہیں جنہوں نے ہمارا پورے کا پورا مساجد کا نظام اٹھاکر اپنی مساجد میں نافذ کر دیا ہے۔ میں آپ سے یہ عرض کرر ہاہوں کہ ہم جو دینی طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں،ہمیں فرقہ واریت اوراس تقسیم کی سنگینی کا شاید اتنا احساس نہ ہو جتنا کہ ایک عام آدمی کو ہے یاجوخصوصی طورپر شہروں میں آباد ہیں یاجواچھی کالونیوں کے اندررہنے والے ہیں وہ جس قدر حساس ہوتے ہیں ۔وہ چاہتے ہیں کہ ہم مولوی کی لڑائی میں نہ پڑیں۔ چنانچہ وہ شروع سے ہی اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ہم کوئی ایسا نظام یہاں پر نافذکریں کہ جوکسی بھی قسم کی فرقہ واریت اور مسلکی تعصب سے پاک ہو۔ 
یہ تفصیل تومیں نے عمار ناصر صاحب کے حکم پر عرض کردی کہ شاید بہت ساری قابل تقلید چیزیں اوراصول ہیں، وہ علما اخذ کرسکیں۔اب جو ہماری آج کی نشست کا عنوان ہے اورمیری گفتگو کا جودوسرا حصہ ہے، وہ یہ ہے کہ جوہمارے دیگر علاقے یادیگر شہر ہیں، وہاں جوموجود مساجد ہیں، ان کے ائمہ کے کون کون سے مسائل اورمشکلات ہیں اور ان کا حل کیاہے جس کے لیے ہماری یہ آج کی نشست منعقد کی گئی ہے۔ ائمہ اورخطبا کے چھوٹے بڑے تمام مسائل کوتقسیم کیاجائے تووہ تین طرح کے ہیں۔
۱۔سب سے پہلے مولوی صاحب کا انتظامی مسئلہ ہے۔
۲۔دوسرے امام صاحب معاشی طور پر پریشان ہیں۔
۳۔تیسرے جو ائمہ اور خطباکومسائل درپیش ہیں، وہ علمی مسئلے ہیں۔
ائمہ اور خطباکے جتنے مسائل ہیں، وہ ان تین اقسام کے اندر آجاتے ہیں۔
اب میںآپ کو جہاں کی بات سنا رہاہوں، وہاں ایک بااختیار اتھارٹی ہے ،ایک ادارہ ہے جوفوجیوں کے تحت چلتاہے اورفوجی اپنی بات منوانا جانتے ہیں۔ ان کے پاس ایک ایسا نظم ہے کہ ہر ایک کو اس کے اندر چلنا پڑتاہے۔ میں یہاں پر یہ عرض کروں گا کہ انتظامی طور پر سب سے بڑی ضرورت ہے خود احتسابی کی۔ امام نے خود کو ٹھیک رکھناہے۔ عام آبادیوں میں تقرر جیسا کہ میں عرض کیاکہ کسی ذاتی تعلق کی وجہ سے ہوتاہے، کسی کمیٹی کو کوئی صاحب پسند ہوتے ہیں یاکسی کی شہرت سنی ہوتی ہے، ان کو بلالیتے ہیں کہ آپ ہمارے ہاں خدمت سرانجام دیںیااس طرح کے ذرائع سے کسی کا تقرر کسی کی مسجد میں ہوتاہے اوردیکھنے میں یہ آیاہے کہ اکثر ائمہ حضرات اپنی کمیٹی سے یامنتظم فرد سے نالاں نظر آتے ہیں۔ ہرچند کہ تمام کمیٹیاں ایسی نہیں ہیں، کچھ لوگ ہیں، لیکن بہرحال یہ شکایات موجود ہیں۔ اب کمیٹی کو امام صاحب سے یہ شکایت ہے کہ امام صاحب اپنے فرائض منصبی سے غفلت برت رہے ہیں۔ امام صاحب کو کمیٹی سے شکایت ہے کہ ان کو جواختیارات ہیں، وہ ان کا ناجائز استعمال کررہے ہیں۔ یوں دونوں کی شکایت ایک دوسرے سے ہے اورمیں یہ عر ض کروں کہ دونوں کی شکایت ایک دوسرے سے بجا ہے۔امام صاحب بھی اپنے فرائض منصبی سے غفلت برتتے ہیں، الاماشاء اللہ اورکمیٹی والے بھی اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہیں، الا ماشاء اللہ۔ اس کامناسب حل جو میں سمجھتاہوں، وہ یہ ہے کہ جب بھی کسی امام اورخطیب صاحب کا تقرر ہونے لگے تو کمیٹی کے ذمہ دار افراد کے ساتھ بیٹھ کر اپنے فرائض منصبی اوران کے اختیارات ان دونوں چیزوں کو تحریری صورت میں لایاجائے۔امام صاحب اپنے فرائض منصبی بھی ان سے لکھوا لیں اور ان کے اختیارات بھی ان سے لکھوا ئیں۔ پھر اس کے بعد اپنے فرائض منصبی کی پاسداری کی جائے اوراس کے بعد جن کو اختیارات ہیں، ان کو بھی پتہ ہوگا کہ ان کے اختیارات کہاں تک ہیں اورکہاں تک نہیں ہیں۔ یہ ہوتاہے کہ کچھ عرصہ بعد امام صاحب سے شکایات بڑھتی ہیں توکمیٹی کی طرف سے کہاجاتاہے کہ آپ یہ نہیں کرتے، آپ یہ نہیں کرتے ۔جب ایک چیز لکھی ہوئی ہوگی کہ امام صاحب کو یہ کرناہے اوریہ نہیں کرناتو امام اسی پابندی کے اندر رہ کر اپنی مصروفیات ترتیب دیں گے۔اپنے فرائض منصبی کے علاوہ وہ اسکول میں جاکربھی پڑھائیں، اپنی دکان میں بھی جاکر بیٹھیں، کسی کو کوئی اعتراض بھی نہیں ہوگا، اس لیے کہ امام صاحب اپنے فرائض منصبی کو پورا کر رہے ہیں۔ 
دوسرے قسم کے معاشی مسائل، یہ انتہائی سنگین مسائل ہیں۔ اب تنخواہ کاکم ہوناہرمولوی صاحب کویہ شکایت ہے۔ اس تنخواہ کی کمی کو پوراکرنے کے لیے کسی اسکول یااکیڈمی کوجوائن کرنا، بھئی بچوں کاپیٹ بھی پالناہے، گھر کاسرکل بھی چلانا ہے، پانچ چھ ہزار جومسجد والے دے رہے ہیں، اس میں خرچ پورانہیں ہورہا۔ لامحالہ طورپر وہ دوسری سرگرمیوں کومنتخب کرے گا اوران میں مشغول ہوگا۔ اب ان معاشی مصروفیات کی وجہ سے اس کے فرائض منصبی میں سستی آتی ہے توپھر کمیٹی کے ساتھ اختلافات اورنتیجہ امام صاحب کی رخصتی۔
میرے محترم علماء کرام!اگر ہم معاشیات کے اصول کو دیکھیں تومعاشیات میں کسی چیز کی ویلیو بڑھانے کے لیے دو کام کیے جاتے ہیں۔ پہلاکام یہ طلب اوررسد یعنی ڈیمانڈ اورسپلائی کے اندر قدرتی ایک ربط ہوتا ہے۔ اس میں آپ بہت زیادہ فرق ڈال دیں تو قیمت گر جاتی ہے۔سادہ مثال ہے کہ چینی مارکیٹ میں نہ ہوتو وہ بہت زیادہ مہنگی ہوگی اورجب مارکیٹ میں بہتات ہوگی توچینی سستی ہوگی۔ اب یاتو علماء کرام مارکیٹ میں آنا یامسجدوں میں آنا بند ہوجائیں یا شارٹ ہو جائیں کہ مدارس سے کوئی ایسی کھیپ نہیں کہ مسجدیں خالی پڑی ہیں توپھر علماکی مانگ میں اضافہ ہوگا۔ یہ ہونہیں سکتا۔ الحمدللہ ہمارے ہاں علماء کرام کی بہتات ہے اوریہ ہمارے معاشر ے پر اللہ کا فضل ہے۔اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ہم علماء کرام کی سپلائی روک دیں ۔دوسرا اصول مارکیٹ کا یہ ہے کہ جوچیز ہم مارکیٹ میں دے رہے ہیں، اس کا معیار اور کوالٹی ہم بہتر کردیں کہ خریدنے والا کہے کہ یہ چیزاگر مجھے دس ہزارروپے میں بھی لینی پڑے گی تو میں لوں گا۔ جوامام اورخطیب معاشرے کے اندر عملی میدان میں آرہے ہیں، ان کا معیار اورکوالٹی اتنی اعلیٰ ہو کہ کمیٹی والے افراد اور دوسرے لوگ یہ کہیں کہ اگر یہ امام صاحب بیس ہزار بھی مانگیں تو ہم ان کی علمی،شخصی اورذاتی قابلیت کی وجہ سے ان کو تیس ہزار دینے کو بھی تیار ہیں۔ یہ دوہی راستے ہیں اپنی مانگ بڑھانے کے۔ پہلاحرام ہے اوردوسرا شریعت نے ہمارے لیے جائز کیاہے کہ ہم علماء کرام اور خطباء کرام اپنی مانگ میں خود اضافہ کریں۔ اپنی علمی، شخصی، اخلاقی قابلیت لوگوں کو مجبور کردے کہ وہ ہم کو منہ مانگے دام دیں۔ پھر ہی ہمارے معاشی مسائل حل ہوں گے۔ اس کے لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے ہاں تقریباً سترفیصد علماء کرام جو ائمہ اورخطبا کی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں، میں معذرت کے ساتھ یہ عرض کروں گا کہ وہ حادثاتی طور پر امام یاخطیب بنتے ہیں۔ حالات ان کو امام یا خطیب بنادیتے ہیں، اس لیے کہ وہ کہیں جانہیں سکتے ،کہیں وہ پڑھا نہیں سکتے اور کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے۔ساری زندگی دین پڑھا ہے، اب ظا ہر ہے کہ دین کی ہی خدمت کریں گے۰ ان ائمہ وخطبا کوچاہیے کہ جیسے ہمارے اکابر نے ہماری رہنمائی کے لیے لٹریچر لکھ دیاہے جیسے حضرت تھانوی کا مکمل لٹریچر، اسی طرح حکیم الاسلام مولاناقاری محمد طیب قاسمی کے خطبات، ہمارے بزرگ مولانا عبدالرؤف چشتی صاحب، انہوں نے بڑی پیاری کتاب لکھی ہے ’’خطیب اورخطابت‘‘، وہ اپنے مطالعے میں رکھیں۔ اس طرح کے لٹریچر جو فنی طور پر ہماری مدد کرسکتے ہیں، وہ اپنے مطالعے میں رکھیں۔ یوں ہماری مانگ اورہماری قدر میں اضافہ ہوگا۔
تیسرے نمبر پر ہمارے علمی مسائل ہیں۔ ہمارے اکثر علما اور خطبا فارغ التحصیل علماکرام جن میں، میں بھی شامل ہوں، ہم جب مدارس سے نکلتے ہیں تو اپنے مطالعہ اورعلمی ترقی کووہیں پر روک دیتے ہیں اور روایتی طرز کے چند خطبات، کتابیں اور کیسٹیں جو ہماری مرکز نظر ہوتی ہیں، ان کو دیکھ کر ہم اپنے جمعہ کے خطبات تیار کر لیتے ہیں اور اس وقت ہم جہاں پر رہ رہے ہیں، اس دور کے کیامسائل ہیں؟عام آدمی کو کون کون سا مسئلہ درپیش ہے؟ وبائیں پھیل رہی ہیں، ڈینگی آرہاہے، یہ تو حقائق ہیں۔ ہمارے ہاں مساجد میں عبادات پر توبہت بات ہوتی ہے، ہونی بھی چاہیے، لیکن معاملات، عقائد، شخصی تعمیر، اخلاقی کردار سازی، نکاح، طلاق، بیوع فاسدہ، خلع اور دیگر فقہی مسائل یہ شاید علماء کرام کے خطبات میں یہ چیزیں شامل نہیں ہوتیں جو ایک المیہ ہے اورشاید یہی وجہ ہے کہ عوام الناس کو وہ رہنمائی بھی نہیں ملتی جس کے وہ خواہش مند ہوتے ہیں۔ 
میں یہ سمجھتاہوں کہ ان تینوں مسائل کے حوالے سے جو میں نے تجاویز پیش کی ہیں اپنے علم کی روشنی میں،اگر ہم اپنے انتظامی مسائل کودور کرنے کے لیے کمیٹی کے ساتھ باتیں تحریر کرلیں تووہ تجاویز ہم کو یقینی طور پر فائدہ دے سکتی ہیں۔ معاشی حوالے سے اپنی قابلیت میں اضافہ کریں اورعلمی حوالے سے اپنے خطبات کے اندر اپنے دروس کے اندر جدت لے کرآئیں اورجوایک عام آدمی کے مسائل ہیں، ان کو قرآن و سنت کی روشنی میں لوگوں کے سامنے پیش کریں۔ اس کے علاوہ ایک آخری بات جو علماکرام کو تجویز ہے کہ ہمارے ہاں وسائل کم ہو سکتے ہیں۔ اگر ایک علاقے کے علماء کرام کا آپس میں ربط ہو، ہفتہ میں ایک بار یا مہینے میں ایک بار کھانے کے بہانے یا کسی اورمجلس کے بہانے علماء کرام ایک دوسرے کو ملیں، اپنے مقامی مسائل دوسرے بااعتماد ہم خیال لوگوں کے ساتھ شیئر کریں کہ میری انتظامیہ میرے لیے یہ مسئلے پیداکرتی ہے ،جب علماکرام سے رابطہ ہوگا اور مشورے میں برکت ہوگی توبہت سارے مسائل کا حل آپ کو اپنے گھر سے ملے گا۔ممکن ہے کہ دوسرے صاحب ان مسائل سے گزر چکے ہوں،اس لیے ضروری ہے کہ علماء کرام کاآپس کاربط وتعلق ہی مضبوط بنیادوں پرہو ، ٹانگیں کھینچنے یاحسد کی بنیاد پر نہ ہو،بلکہ اصلاحی ہمارے تعلقات ہونے چاہییں۔امید ہے کہ میری ان گزارشات کو آپ نے برداشت بھی کیاہوگا اورکچھ ان میں یقینی طور پر ہمیں رہنمائی کی باتیں بھی ملی ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ و ہ پوری زندگی دین مبین کے لیے دین کی استقامت اورتمام مسائل کے حل کے لیے ہمیں وسائل عطافرمائیں۔واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین ۔

مولانا مفتی فخرالدین عثمانی

(مدرس مدرسہ اشرف العلوم، گوجرانوالہ)
نحمد ہ ونصلی علی رسولہ الکریم، امابعد!
میرے بھائیواورمیرے دوستو !
آپ نے بڑا علمی، تفصیلی اور معلوماتی بیان سنا ہے۔ چونکہ ہم لوگ یہاں پر جمع ہیں، اپنے اپنے تجربات کی روشنی میں تذکرہ کرناہے۔ کوئی مسجد کا امام ہے اور کوئی خطیب ہے، مسجد کے ساتھ تعلق ہے، مسائل ہیں اورکچھ کوتاہیاں ہیں۔ بڑی مفید باتیں سامنے آئی ہیں۔ میں اپنے ذہن میں کچھ باتیں سوچ کرآیاتھا، ان کا تذکرہ کروں گا۔ چونکہ انتظامیہ یہاں موجود نہیں ہے، ائمہ وخطباموجود ہیں، اس لحاظ سے میں اسی پہلوپر تھوڑے وقت کے اندر اپنی گزارشات پیش کروں گا۔
سب سے پہلی بات جس کے بارے میں، میں عرض کرناچاہ رہا ہوں، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ ائمہ وخطبا جو ہیں، وہ نبیوں کے وارث ہی ہیں۔ انبیاکی کیاذمہ داریاں ہوتی تھیں؟ انبیاء کرام کن کن شعبوں میں کام کرتے تھے؟ آج ہم نے ایک شعبہ لے لیا، نماز کا، عبادت کا شعبہ لے لیا۔ ائمہ وخطبا کی ایک بڑی کوتاہی کی بات یہ ہے کہ جن کا کسی کالج، اسکول، مدرسے کے ساتھ تعلق نہیں ہے، نماز فجر کے بعد بہت دیر تک سوتے رہتے ہیں۔ گیارہ بارہ بجے سے پہلے ان کو اٹھنا نہیں ہے۔ وہاں لکھاہے کہ آپ نماز کے وقت خطیب صاحب سے مل سکتے ہیں، یعنی نمازسے پہلے ملنے کا کوئی ٹائم نہیں ہے۔ میرے بھائی!یہ بڑی کوتاہی کی بات ہے۔ علماء کرام انبیاء کے وارث ہیں اورانبیاء کے ہاں اس طرح کا سسٹم نہیں تھا کہ فلاں وقت ملاقات ہے اور فلاں وقت نہیں ہے۔ اپنے اوقات کے بارے میں محاسبہ کریں۔ اوقات ایک بڑاسرمایہ ہیں اوراس وقت کو برباد کردینا سمجھداری کی بات نہیں ہے۔ سونے جاگنے کے بارے میں ایک نظم بنایا جائے۔
جس طرح میرے بھائی نے کہا کہ ریٹ بڑھاناہے تو اپنامعیار بڑھاؤ، معیار بڑھے گا توریٹ بڑھے گا۔ سونے سے معیار نہیں بڑھتا۔ جومعیار بڑھاتے ہیں، وہ راتوں کو جاگتے ہیں اورمحنت کرتے ہیں، اس لیے میں آپ سے گزارش کروں گا اوراپنے آپ سے بھی کہوں گا کہ لمبا سونا دن کے وقت یہ شایان شان نہیں ہے، کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ خطبااور ائمہ حضرات کااپنے ساتھیوں کے ساتھ خلط ملط ہو جانا، دکھ درد کا ساتھی بن جانا، وہ مقتدی حضرات ائمہ اورخطبا کے بارے میں یہ سمجھیں کہ ہمارے خیر خواہ ہیں، یہ ہمیں بہتر رائے دینے والے مشیر ہیں۔اس طرح ان کے ساتھ خلط ملط ہوجانا ضروری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرز زندگی سے کیاپتہ چلتا ہے؟ حضرات صحابہ کرام اسی طرح آپ کے ساتھ خلط ملط تھے، اپنے گھریلو مسائل اسی طرح آپ کے ساتھ شیئر کرتے تھے، اپنے مسائل گھر میں حل کرنے کی کوشش کرتے تھے اورجب وہ گھر میں حل نہیں ہوتے تووہ آپ کے سامنے ان کو پیش کرتے تھے۔
مجھے واقعہ یاد ہے کہ ایک صاحب نے آپ کے سامنے اپنے بیٹے کی شکایت کی کہ بیٹے کی شادی کی ہے، وہ رات بھر نفل پڑھتاہے اوردن میں روزے رکھتاہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلایا۔ مسلم شریف میں تفصیل ہے۔ آپ نے اس سے کہا کہ بہترین روزہ وہ ہے جوحضرت داؤد علیہ السلام رکھتے تھے اورپھر آپ کا یہ فرماناکہ ان لنفسک علیک حقا وان لزوجک علیک حقا۔ تفصیل کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔آج ہمارے پاس کسی مقتدی کی بات آجائے گی، وہ تذکرہ کردے گا اور پھر ہم نے چوراہے میں محلے میں اس کا اشتہار لگا دینا ہے۔ آج ہمارے مقتدی کو اعتماد نہیں ہے۔ وہ یہ سمجھتاہے کہ اگر میں نے اپنے گھر کی بات خطیب صاحب سے کردی تووہ دوسری محفل میں جولوگ ہوں گے، ان کے سامنے تذکرہ کردیں گے کہ فلاں صاحب ایسے ہیں اور ان کے گھر کامسئلہ یا ان کے گھر کی بات ایسے ہے۔ 
امامت کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ میں نے ایک جگہ حدیث پڑھی ہے، حوالہ مجھے ابھی یاد نہیں ہے کہ آپ کا ارشاد ہے کہ جتنے مقتدی نماز پڑھیں گے، ان ساروں کاثواب امام کو ملے گا ۔مقتدی کو اپنی اپنی نماز کا ثواب ملے گا۔بڑا درجہ ہے، جیسے بھائی نے حدیث پڑھی ہے: الامام ضامن کہ امام ذمہ دارہے اور ذمہ داری کا تقاضایہ ہے کہ جو ذمہ داری ہے، اس کو پوراکرے ۔میری اورآپ کی کوتاہی یہ ہے کہ اگر نماز کا وقت دوبجے ہے توامام صاحب دوبجے پہنچ جائیں گے۔ کسی کی کیا جرات کہ پوچھ لے کہ امام صاحب، ظہر کی سنتیں بھی ادا کی ہیں یانہیں کیں؟ اور پھر اس کے بعد مقتدی ابھی سنتوں میں مگن ہیں تو امام صاحب نے چھلانگ لگانی ہے، سائیکل پکڑنی ہے اور ٹیوشن سنٹر پہنچ جاناہے۔ میرے بھائی! یہ بھاگ دوڑ کی نماز، اس کے اندر وہ خشوع وخضوع نہیں رہتا۔ مجھے اپنے استاد کی بات یاد ہے کہ وہ زمانہ تھا کہ جب نفلوں کے لیے بہترین جگہ گھر تھی۔ آج جو پرفتن دور ہے، اس کے لیے بہترین جگہ مسجد ہے۔ امام صاحب کوچاہیے کہ پہلے کے نوافل بھی اور بعد کے نوافل بھی بلکہ سنت مؤکدہ سمیت پوری نماز مسجد کے اندر پڑھے۔ عام ائمہ کے بارے میں مقتدیوں کا یہ خیال ہے کہ یہ سنتیں اور نوافل ادا نہیں کرتے۔غلط فہمیوں سے اپنے مقتدیوں کو بچانا یہ بھی ذمہ داری ہے۔
پھر حلال اورحرام کے مسائل ہیں، ان کے بارے میں معلومات لینااور ان معلومات کو اپنے مقتدیوں کے ساتھ شیئر کرنایہ ذمہ داری ہے۔ ہمارے مقتدیوں کا ان کے بارے میں ذہن نہیں ہے کہ یہ حلال ہے یاحرام ہے۔ جہاں میں امامت کراتاہوں، وہاں ہمارے ایک دوست ہیں اور سرکاری محکمے میں ہیں اورایسے محکمے میں جہاں پر بڑا مال جمع کیا جا سکتا ہے، لیکن ایک پائی انہوں نے حرام کی نہیں لی ہے۔بڑا صاف زمانہ اور بڑی حلال کمائی کو انہوں نے جمع کیاہے۔
دوسرا یہ ہے کہ امام حضرات کے لیے چاہیے کہ اذان ہو تو وہ مسجد میں ہوں۔ میں رمضان المبارک میں چند نمازیں پڑھاتا ہوں اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ جب امام مقتدیوں سے پہلے جاتا ہے، خشو ع وخضوع سے سنتیں ونوافل پہلے ادا کرتاہے تو اس نماز کا لطف اورمزہ ہی کچھ اورہے۔ مجھے خود بھی اور مقتدیوں کو الگ مزہ آتاہے ۔جب بھاگ دوڑ کے ساتھ آدمی پہنچتاہے اور نماز اداکرتاہے اورپھر بھاگ دوڑ میں لگا رہتاہے تو اس میں نماز کا مزہ بھی نہیں آتا، نہ امام کو آتاہے اورنہ مقتدیوں کو آتاہے۔میراخیال ہے اور میں اس میں اپنی کوتاہی سمجھتاہوں اور یہ سمجھتاہوں کہ مجھے اس بارے میں کوشش کرنی چاہیے کہ جب نماز پڑھانی ہے اور اذان ہوتواذان کے قریب قریب آدمی مسجد میں چلا جائے۔ اب ہوتا کیاہے کہ خادم صاحب کہیں مسجد میں نہیں ہیں۔ امام کہتاہے کہ میں نے نماز پڑھانی ہے۔ پنکھے چلتے ہیں، نہیں چلتے، صفیں سیدھی ہیں، نہیں سیدھی، مسجد کی موٹر چلی ہے نہیں چلی، وہ کہتاہے کہ یہ کام خادم کا ہے۔ نہیں، میرے بھائی! مسجد میں جتنے لوگ ہیں، سب خادم ہیں۔ خطیب ہو، امام ہو، خادم ہو، یہ سارے خادم ہیں۔ جو منصب کے لحاظ سے بڑا ہے، اس کی ذمہ داریاں زیادہ ہیں۔ جو لوگوں کے کہنے سے پہلے جومسجد کی ضرورت ہے، اس کا خیال رکھے۔ پنکھا چلانا ہے، موٹر چلانی ہے یا صفیں درست کرنی ہیں، ان سب چیزوں کا خیال رکھے اورجوبعد والے نوافل ہیں، ان کا بھی اہتمام کرے۔ اگر کوئی مقتدی کسی وقت کوئی کڑوی بات کہہ دے تو یہ مزاج کاجیسا بھی ہو، اس کی بات کو بردباری کے ساتھ برداشت کرے، اس لیے کہ یہ امام کی ذمہ داریوں کے اندر ہے۔ اگر لوگوں کا معاملہ یارویہ اس کے ساتھ اچھا نہ بھی ہو تو اس کو چاہیے کہ اپنے مقتدیوں کے معاملہ اچھے طریقے کے ساتھ اخلاقی پہلوؤں کو اوراخلاقی قدروں کا لحاظ رکھتے ہوئے ان کے ساتھ معاملہ کرے۔
جس طر ح کہ مولاناصاحب نے کہا کہ غمی، خوشی کے جومعاملات ہیں، ان کے اندر شرکت کرنی چاہیے، لیکن خوشی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسٹیج کے ایک طرف مرد بیٹھے ہیں اور ایک طرف عورتیں بیٹھی ہیں ۔ معاف فرمانا، لاہور کینٹ میں ایک ہی جگہ عورتیں بھی موجود ہیں اور مرد بھی۔ ہمارے خطیب صاحب نے کہا تھا لاہور سے آئے تھے کہ خوشی میں شامل ہونا۔امامت اور خطابت کے کچھ تقاضے ایسے بھی ہیں کہ ایسے خوشیوں کے موقع پر ہم کو اپنے آپ کو بچانا ہوگا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ مجھے بھی اور سب کو بھی جو ضامن کی ذمہ داری بنتی ہے، وہ احسن طریقے سے پوری کرنے کی توفیق عطافرمائے۔
جوامام صاحب ہیں، و ہ تو نماز میں پہنچ جائیں گے ۔اب جس جگہ پر ایک امام اور ایک خطیب ہے، آپ دیکھیں گے کہ خطیب صاحب سب سے آخر والی صف کے اندر ہوں گے، کیونکہ انہوں نے نماز نہیں پڑھانی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم پر اوربھی ذمہ داریاں ہیں۔ سب سے آخری صف میں خطیب صاحب اورمفتی صاحب ہو ں گے، اس لیے کہ انہوں نے امامت نہیں کرانی۔ یہ ہماری کوتاہیاں ہیں اورہمیں ا ن کوتاہیوں کا محاسبہ کرناچاہیے۔ ہمارے معاشرتی معاملات بڑے غلط ہیں۔ کہیں عزیزداری ہے اور کہیں رشتہ داری ہے، اگر کہیں کسی کے ساتھ اختلاف ہے تو ایسے اڑ گئے کہ کوئی لچک نہیں ہے۔ کسی کو سمجھانایاسمجھنا تو اپنے دنیاوی لحاظ سے معاملات ہیں۔ ایک مولوی کو سمجھانااورایک مولوی کو سمجھنا بڑامشکل مرحلہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ علماء نبیوں کے وارث ہیں۔ آپ بہترین معلم تھے، آپ بڑے مہربان اور رحیم تھے۔ آپ نے وہ واقعہ توسنا ہوگا کہ مسجد میں کسی نے پیشاب کر دیا تو آپ نے نہ مارا نہ پیٹااورنہ ہی اس کو ڈانٹا اور نہ ہی سختی کی، بلکہ پیار اور محبت کے ساتھ اسے سمجھا دیا اورمسجد کی صفائی کرا دی۔ اسی طرح جو مسجد کے مسائل ہیں، ان کو احسن طریقے سے پوراکریں۔مختلف مزاج کے لوگ ہیں۔ جن کی کہیں نہیں چلتی، وہ مسجد میں اپنی چلانے کی کوشش کرتے ہیں ۔احسن طریقے کے ساتھ ان کی جنگ اوران کے فتنے سے اپنے دامن کوبچاکراپنے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اس کو بڑ ی عبادت سمجھ کر اور بڑی ذمہ داری سمجھ کر ادا کرنا چاہیے۔اللہ تعالیٰ کوتاہیوں کی اصلاح کرنے کی توفیق عطافرمائے اوران ذمہ داریوں کو قبول ومنظور فرمائے۔ 
(جاری)

ایک فالج زدہ نو مسلم کا واقعہ

حکیم محمد عمران مغل

لاہور میں بھاٹی چوک انتہائی پر رونق اور تاریخی جگہ ہے جہاں دلچسپ واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ سامنے ہی حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کا مرقد ہے جہاں فاتحہ خوانی کے لیے ہر وقت عوام وخواص کا جمگھٹا لگا رہتا ہے۔ سفید پوش، درویش اور بد اندیش ہر ایک نے یہاں اپنی حاضری لگانی ہوتی ہے۔ ایک دن میں جونہی بھاٹی چوک کے وسط میں پہنچا تو بیچ چوراہے کے ایک نوجوان نے مجھے روک لیا جیسے وہ برسوں سے مجھے جانتا ہو۔ کہنے لگا کہ یہ عورت میری بیوی ہے جس کے سہارے میں چل پھر رہا ہوں۔ اس کی حالت بتا رہی تھی کہ اس پر فالج کا دردناک حملہ ہو چکا ہے۔ بتانے لگاکہ میں ایک عرصہ سے عیسائیت سے تائب ہو کر مسلمان ہو چکا ہوں۔ میری کس مپرسی دیکھ کر ایک دردمند مسلمان نے کوٹھا پنڈ (ملحق ماڈل ٹاؤن) میں ایک فلیٹ میرے نام الاٹ کر دیا ہے۔ بعض دیگر مسلمان بھائیوں نے میرا وظیفہ بھی مقرر کیا ہے، مگر اللہ کی طرف سے آزمائش میں گرفتار ہو چکا ہوں۔ ہر طرح کے علاج معالجہ کے باوجود فالج کا اژدہا مجھے نگلتا جا رہا ہے۔ کسی صاحب نے آپ کی نشان دہی کی ہے۔ اگر آپ میرے حالات پر نظر کرم فرمائیں تو ممنون ہوں گا۔ میں نے عرض کیا کہ :
رومی نہیں، حافظ نہیں، اقبال نہیں ہیں
کچھ آپ سے بہتر تو بہرحال نہیں ہیں
کس نے میری نشان دہی کر دی؟ لیکن نومسلم کی لجاجت حد سے بڑھتی جا رہی تھی، جبکہ میرے پاس اس کی خواہش کی تکمیل کا کوئی حیلہ نہ تھا۔ اس کی نوجوان بیوی کہنے لگی کہ آپ اس وقت ہمارے آخری مسیحا اور وسیلہ ہیں، ہمیں مایوس نہ کریں۔ میں نے سوچا کہ بھیجنے والا یقیناًمجھے جانتا ہوگا۔ اس وقت میری جیب کے ساتھ ذہن بھی خالی تھا، لیکن اس نومسلم جوڑے کو خالی ہاتھ بھیجنا بھی مناسب نہ تھا۔ چند قدم کے فاصلے پر عبد اللہ جہانیاں والے رحمۃ اللہ علیہ کے ہر دلعزیز فرزند ارجمند جناب حکیم عبد الوحید سلیمانی کے دواخانہ پر نظر پڑی جن سے ایک عرصہ سے میری شناسائی تھی۔ میں نے حکیم صاحب کے کتب خانہ کی کوئی کتاب نہیں چھوڑی جس کا میں نے مفت مطالعہ نہ کیا ہو، لیکن انھوں نے میرے حالات دیکھ کر کبھی ماتھے پر شکن نہیں ڈالی۔ ان کی فیاضی کی انتہا تھی کہ ایک موقع پر مجھے پیشاب میں کالے رنگ کے لاتعداد چھلکے آنے لگے تو میری داستان سن کر وہ گھبرا گئے اور کہا کہ آپ کو پتہ نہیں کہ آپ کس مرض میں گرفتار ہو چکے ہیں۔ فوراً بے قراری کے ساتھ انھوں نے ایک نہایت قیمتی نسخہ مرحمت فرمایا۔ اس قسم کی بے بہا خوبیاں جہانیاں کا خاندان اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔
خیر، حکیم صاحب کے دوا خانے پرنظر پڑتے ہی جان چھڑانے کی ایک ترکیب سوجھ گئی۔ میں نے کاغذ کے ایک پرزے پر لکھا کہ یہ نومسلم نوجوان آپ کی توجہ کا مستحق ہے۔ اگر آپ نے فیاضی کا مظاہرہ کیا تو بہت ممکن ہے کہ آپ کے ہاتھوں اس نومسلم جوڑے کی دنیا سنوار جائے۔ نیچے میں نے اپنا نام لکھ دیا۔ چٹ اس نومسلم کو دی کہ یہ سامنے حکیم صاحب بیٹھے ہیں، جا کر ان کو دے دیں۔ ساتھ ہی میں نے اپنی سمجھ کے مطابق ریٹھے کا نسخہ بھی بتا دیا۔ میری خواہش تھی کہ کسی بھی آبرومندانہ طریقے سے میری جان چھوٹ جائے اور کچھ نہ کچھ ان کے درد کا بھی مداوا ہو جائے۔ غالباً چار ماہ کے بعد اچانک اسی نوجوان مسلم جوڑے سے سر راہ ملاقات ہو گئی۔ میں نے حال احوال پوچھا تو کہنے لگا کہ ہاتھ ملائیں۔ میں نے ہاتھ ملایا تو کہنے لگا کہ اب ہاتھ چھڑائیں۔ میں واقعی اس کی گرفت سے اپنا پنجہ نہ چھڑا سکا۔ کہنے لگا کہ آپ کے ردی کے کاغذ پر لکھے گئے رقعے نے میری دنیا بدل دی۔ میں آپ کا رقعہ لے کر حکیم سلیمانی صاحب کے پاس گیا تو انھوں نے فوراً ایک چھوٹا سا لفافہ روپوں سے بھر کر کچھ ادویہ بھی مرحمت فرمائیں اور ساتھ ہی آپ کے نسخے کی تائید وتصدیق فرمائی اور کہا کہ میرے ساتھ رابطے میں رہیں۔ جب تک مرض ختم نہیں ہوتا، دوا برابر لیتے رہیں، مگر ایک ہی بار کے بعد پھر ضرورت محسوس نہ ہوئی۔
حکیم صاحب نے میرے ایک معمولی کاغذ کے پرزے کو اتنی پذیرائی بخشی کہ میں شرم کے مارے آج تک ان کا شکریہ بھی ادا نہیں کر سکا۔

مولانا قاضی حمیداللہ خان بھی رخصت ہوگئے

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مولانا قاضی حمیداللہ خانؒ کو آج (۱۹؍ اپریل، جمعرات کی) صبح شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد ان کے آبائی وطن چارسدہ کے لیے رخصت کیا تو کم وبیش گزشتہ نصف صدی کی تاریخ نگاہوں کے سامنے گھومنے لگی۔ قاضی صاحب شوگر کے مریض خاصے عرصے سے تھے۔ کچھ دنوں سے گردوں کا عارضہ بھی ہوگیا اور وہ گردوں کی مشینی صفائی کے مرحلہ سے گزار رہے تھے جس کے بعد جگر نے بھی متاثر ہونا شرو ع کردیا اور آج وہ ان تمام مراحل سے گزرکر اپنے خالق ومالک کے حضور پیش ہونے جارہے ہیں ۔ ان للہ مااخذ ولہ مااعطی ولکل شئی عندہ اجل مسمّیٰ، انا للہ واناالیہ راجعون۔
مولانا قاضی حمیداللہ خان رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ میری رفاقت کا عرصہ چارعشروں سے متجاوز ہے۔ میں ۱۹۷۰ء میں مرکزی جامع مسجد کے خطیب حضرت مولانا مفتی عبدالواحد قدس سرہ العزیز کی نیابت وخدمت کے لیے آیا تو مولانا حمیداللہ خان کو یہاں آئے ایک سال ہوچکا تھا۔ وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک سال مدرسہ اشرف العلوم باغبانپورہ گوجرانوالہ میں مدرس رہے اور پھر ۱۹۶۸ء میں مرکزی جامع مسجد کے مدرسہ انوارالعلوم میں آگئے اور سال رواں کے آغاز تک کم وبیش پینتالیس برس تک مسلسل تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے۔وہ معقولات ومنقولات پر یکساں دسترس رکھتے تھے، مگر معقولات میں ان کی تدریس کی شدت زیادہ تھی اور دوردراز سے طلبہ ان سے درسی استفادہ کے لیے ذوق وشوق کے ساتھ جمع ہوتے تھے۔ ان کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جو پاکستان کے علاوہ بھارت، افغانستان، ایران، بنگلہ دیش اور وسطی ایشیا کے ممالک تک پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ ان تھک مدرس تھے۔ ایک زمانہ میں وہ صبح کی نما زکے بعد پڑھانے بیٹھتے اور عشاء کے بعد تک مسلسل پڑھاتے رہتے۔ بیک وقت روزانہ بیس سے زائد اسباق پڑھاکر بھی وہ تازہ دم اور چاق وچوبند دکھائی دیتے۔ لیکن گوجرانوالہ اور گردونواح میں ان کی زیادہ مقبولیت وشہرت ان کے اس عوامی درس کی وجہ سے ہوئی جو وہ مغرب کی نماز کے بعد مرکزی جامع مسجد میں عوام الناس کے لیے دیتے تھے اور وہ اپنے دور میں شہر کا مقبول ترین عوامی درس شمار ہوتا تھا۔ مرکزی جامع مسجد میں ایک عرصہ تک یہ سلسلہ رہا ہے کہ صبح کی نماز کے بعد میرا درس ہوتا تھا جو نماز فجر کے معمول کے نمازیوں کے لیے ہوتا ہے اور اب تک بحمداﷲتعالیٰ جاری ہے، جبکہ مغرب کے بعد مولانا قاضی حمیداللہ خانؒ درس دیتے تھے جس کے لیے شہر اور گردنواح سے لوگ جوق درجوق آتے تھے اور بڑی محبت وعقیدت کے ساتھ ان کا درس سنتے تھے۔ اس درس کے ذریعے بہت سے لوگوں کی اصلاح ہوئی ہے، لوگ دین سے جڑے ہوئے ہیں، ان میں نماز کی پابندی اور سنت نبوی کی پیروی کا ذوق پیدا ہوا ہے اور خیر کے کاموں کی رغبت بڑھی ہے۔قرآن وحدیث کے ساتھ ساتھ امام رازیؒ اور امام غزالیؒ کے ارشادات بھی ان کے مطالعہ کے دائرے میں رہتے تھے تو ان کی بات سامعین کے دلوں میں اترتی چلی جاتی تھی۔
میری ان کے ساتھ تدریسی رفاقت کم وبیش اٹھارہ بیس برس رہی ہے، مگرمیں صبح نماز کے بعد دو تین اسباق پڑھاکر فارغ ہوجاتا تھا اور وہ سارا دن پڑھاتے رہتے تھے اور ہر فن اور موضوع کی کتاب بلاتکان پڑھالیتے تھے۔ انہوں نے مدرسہ مظاہرالعلوم کے نام سے ایک الگ مدرسہ بھی بنایا اور دونوں مدرسوں میں ان کی تدریس کا سلسلہ آخر وقت تک جاری رہا۔ ۱۹۸۲ء تک جب تک حضرت مولانا مفتی عبدالواحدؒ حیات تھے، ہم دونوں کی حیثیت ان کے نائب ومعاون کی تھی۔ حضرت مفتی صاحب مہتمم اور خطیب تھے۔ قاضی صاحب مرحوم مدرسہ کے معاملات میں اور راقم الحروف مسجد کے معاملات میں ان کی نیابت کی خدمت سرانجام دیتے تھے۔ حضرت مفتی صاحب کی وفات کے بعد ہم دونوں نے باہمی مشورہ کے ساتھ اس تقسیم کار کو مستقل شکل دے دی اور پھر اس کے مطابق اب تک ہمارے معاملات چلتے آرہے ہیں۔ بہت سے مواقع پر اختلافات پیدا ہوتے رہے جو فطری بات ہے، لیکن اس انڈراسٹینڈنگ کا انہوں نے بھی پوری طرح احترام کیا، میں نے بھی حتی الوسع اس کی کوشش جاری رکھی اور ہمارے معاملات کا بھرم بحمداللہ قائم رہا۔ 
۱۹۷۵ء کے دوران جامع مسجد نور مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں منعقد ہونے والے جمعیت علمائے اسلام کے ملک گیر ’’نظام شریعت کنونشن‘‘ میں حضرت مولانا مفتی محمود قدس سرہ العزیز نے پرائیویٹ شرعی عدالتوں کے قیام کا اعلان کیا اور اس کے لیے مختلف سطحوں پر ملک کے بہت سے حصوں میں قاضی مقرر کیے گئے تو مولانا قاضی حمیداللہ خان کو گوجرانوالہ کے لیے ضلعی قاضی مقرر کیا گیا جس کے بعد قاضی کا خطاب ان کے نام کا لازمی حصہ بن گیا ۔ورنہ اس سے قبل وہ مولانا حمیداللہ خان کے نام سے پکارے جاتے تھے، اس موقع پر بعض مقدمات بھی فیصلے کے لیے ان کے پاس آتے پھر قضاء کا یہ سلسلہ تو نہ چل سکا لیکن مولانا حمیداللہ خان کو مستقل طور پر قاضی حمیداللہ خانؒ کا مقام حاصل ہوگیا۔
قاضی صاحب مرحوم مزاجاً سیاسی نہیں تھے، لیکن جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ ہمیشہ وابستہ رہے، حتیٰ کہ جس زمانے میں جمعیت علمائے اسلام درخواستی گروپ اور فضل الرحمن گروپ کے نام سے دو دھڑوں میں تقسیم تھی، میں درخواستی گروپ میں سرگرم تھا، مگر قاضی صاحب فضل الرحمن گروپ کے سرکردہ حضرات میں شمار ہوتے تھے۔ اس طرح مرکزی جامع مسجد اور مدرسہ انوارالعلوم ،ان دونوں گروپوں کی باہمی کشمکش کا میدان تھا۔ ہماری کشمکش بھی چلتی تھی اور رفاقت بھی جاری تھی جبکہ مشترکہ کاموں میں اکٹھے کام بھی ہم کرلیتے تھے۔
متحدہ مجلس عمل کے قیام کے بعد جب جمعیت علمائے اسلام نے قاضی حمیداللہ خانؒ کو قومی اسمبلی کی شہری سیٹ کے لیے متحدہ مجلس عمل کا امیدوار بنانے کا اعلان کیا تو عوامی حلقوں نے انہیں خاصی پذیرائی بخشی اور وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے، اس میں مختلف مذہبی مکاتب فکر کے اتحاد کے ساتھ ساتھ قاضی صاحب کی شخصیت اور ان کے ان عوامی درسوں کا بھی بہت بڑا حصہ تھا جو وہ مرکزی جامع مسجد اور شہر کی دیگر بہت سی مساجد میں دیا کرتے تھے اور جن کی مقبولیت کا دائرہ بہت وسیع تھا۔
قومی اسمبلی کا رکن ہوتے ہوئے انہوں نے گوجرانوالہ میں ’’میراتھن ریس‘‘ کو روکنے کے لیے جو جرأت مندانہ کردار ادا کیا ،وہ ان کی دینی وقومی حمیت کے اظہار کے علاوہ گوجرانوالہ کے مذہبی ماحول اور دینی حلقوں کے جذبات کی ترجمانی بھی تھی جس پر ان حلقوں نے اطمینان کا سانس لیا اور قاضی صاحب موصوف کو خراج تحسین پیش کیا جو اسلامی روایات اور مشرقی ثقافت کے تحفظ میں دلچسپی رکھتے ہیں اور مغربی وہندوثقافت کے مسلسل فروغ سے پریشان ہیں۔ آج مولانا قاضی حمیداللہ خان رحمہ اللہ تعالیٰ ہم سے رخصت ہوگئے ہیں مگر ان کی یادیں باقی ہیں اور گوجرانوالہ میں ان کی دینی وتعلیمی خدمات کے اثرات ایک عرصہ تک لوگوں کے دلوں میں ان کی یاد کو تازہ رکھیں گے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جواررحمت میں جگہ دیں اور پسماندگان کو صبرجمیل کی توفیق سے نوازیں آمین یا رب العالمین۔

جون ۲۰۱۲ء

امریکی فوجی اسکول کے نصاب میں اسلام کی کردار کشیمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا محمد اسلم شیخوپوری کی شہادتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
’’میری علمی و مطالعاتی زندگی‘‘ (ڈاکٹرصفدر محمود سے انٹرویو)عرفان احمد
مولانا محمد اسلم شیخوپوریؒ / مختلف کلامی تعبیرات کی حقیقت اور ان سے استفادہ کی گنجائش / قربانی کے ایاممحمد عمار خان ناصر
ہندوستان کی روایتی اسلامی فکر میں تاریخ اور قانونی معیاریت (۲)ڈاکٹر ابراہیم موسٰی
سر سید احمد خان کی سیاسی فکر اور اس کے نتائج و اثرات ۔ ایک تنقیدی جائزہکے ایم اعظم
سیمینار: ’’ائمہ و خطبا کی مشکلات، مسائل اور ذمہ داریاں‘‘ (۲)ادارہ
تعارف و تبصرہادارہ
نفسیاتی علاج کی اہمیتحکیم محمد عمران مغل

امریکی فوجی اسکول کے نصاب میں اسلام کی کردار کشی

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امریکی فوج کے اسکولوں میں اسلام کے بارے میں پڑھائے جانے والے ایک نصاب پر ان دنوں بحث جاری ہے۔اخباری رپورٹوں کے مطابق خود امریکی فوج کے سربراہ جنرل مارٹن ڈیمپسی نے اس نصاب کو قابل اعتراض قرار دیا ہے جبکہ پینٹاگون نے تصدیق کی ہے کہ مذکورہ کورس کے بارے میں ان کی ویب سائٹ پر موجودہ نصاب اصلی ہے۔ ایک برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کسی امریکی فوجی کی شکایت سامنے آنے پر جنرل مارٹن نے اس کورس کا نوٹس لیا ہے اور اسے قابل اعتراض اور دوسرے مذاہب کے احترام کے بارے میں امریکی اقدار کے منافی قرار دے کر اس کی انکوائری کا حکم دیا ہے۔ مذکورہ کورس کے حوالے سے ان رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ اس کورس کے ذریعے امریکی فوجیوں سے کہا جاتا ہے کہ اسلام میں اعتدال پسندی نام کی کوئی چیز نہیں ہے اور وہ ان کے مذہب کو اپنا دشمن تصور کریں۔ کورس میں یہ بھی درج ہے کہ امریکہ دنیا کے تمام مسلمانوں کے ساتھ جنگ کی حالت میں ہے اور یہ ممکن ہے کہ امریکہ مسلمانوں کے مقدس مقامات مکہ اور مدینہ کو (نعوذ باللہ) جوہری ہتھیاروں کے ذریعے تباہ کر دے۔
جنرل مارٹن ڈیمپسی کی طرف سے انکوائری کا کیا نتیجہ سامنے آتا ہے، اس کے بارے میں ہم کچھ کہنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے، اس لیے کہ اس میں مسلمانوں کے غم وغصہ اور جذبات کو کم کرنے کی حکمت عملی کے تحت یقیناًلیپا پوتی سے کام لیا جائے گا اور وہی کچھ ہوگا جو اس قسم کی رپورٹوں میں عام طو رپر ہوا کرتا ہے۔ البتہ اس کورس کے بارے میں کچھ گزارشات پیش کرنے کی ضرورت بہرحال محسوس ہو رہی ہے۔
ہمیں اس کورس اور اس کے امریکی فوج کے اسکولوں میں پڑھائے جانے کے اس انکشاف پر کوئی تعجب نہیں ہوا، اس لیے کہ یہ نہ تو پہلی بار ہو رہا ہے اور نہ ہی امریکی جنرل کی طرف سے انکوائری کے آرڈر پر یہ سلسلہ رک جائے گا۔ یہ تو مغرب کی صدیوں سے چلی آنے والی پالیسی ہے جس کے سیکڑوں مظاہر ومشاہدات تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں اور مغرب کی تعلیم گاہوں میں پورے اہتمام کے ساتھ اس بات کی کوشش ہوتی آ رہی ہے کہ دنیا کے سامنے، خاص طو رپر مغربی دنیا کے سامنے اسلام او رمسلمانوں کی ایسی تصویر پیش کی جائے جو نفرت او رکراہت کا باعث بنے اور اسے دیکھنے والوں کے ذہن اسلام کے بارے میں کوئی مثبت رائے قائم کرنے کی پوزیشن میں نہ رہیں۔ 
چند سال قبل جب سربیا اور بوسنیا کا تنازع عالمی سطح پر زیر بحث تھا، ان دنوں کی بات ہے کہ برطانیہ کے شہر لیسٹر میں محترم پروفیسر خورشید احمد کے ادارے ’’اسلامک فاؤنڈیشن‘‘ نے اس سلسلے میں ایک سیمینار منعقد کیا جس میں برطانوی پارلیمنٹ کے ممبر جم مارشل نے بھی شرکت کی۔ میں ان دنوں وہیں تھا اور اس سیمینار میں شریک ہوا تھا۔ جم مارشل نے اس موقع پر بہت فکر انگیز گفتگو کی جس میں انھوں نے کہا کہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مغربی دنیا کے ذہنوں میں جوکنفیوژن پایا جاتا ہے، اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ کنفیوژن یہ ہے کہ ہمارے ذہنوں میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ایک تصویر وہ ہے جو ان معلومات سے قائم ہوتی ہے جو ہمارے بڑے نسل در نسل ہمیں روایتی انداز میں فراہم کرتے آ رہے ہیں اور یہ بڑی خوف ناک تصویر ہے۔ دوسری تصویر وہ ہے جو تاریخ کے مطالعہ اور مستندمواد تک رسائی سے ہمارے ذہنوں میں تشکیل پاتی ہے۔ یہ پہلی تصویر سے یکسر مختلف ہے، مگر آج کے ان مسلمانوں کو دیکھ کر جو ہمارے ساتھ رہتے ہیں، جو تصویر ذہنوں میں بنتی ہے، وہ ان دونوں تصویروں سے مختلف ہے۔ جم مارشل نے اس کنفیوژن کاذکر کرتے ہوئے مسلمان دانش وروں سے کہا کہ وہ اس کنفیوژن کو دور کرنے کی کوشش کریں اور یہ کہ اگر اس کنفیوژن کو دور کیا جا سکے تو مغربی دنیا اسلام کی بات سننے کے لیے آج بھی تیا رہے۔
جم مارشل کی اس تقریر کا حوالہ ہم نے ا س لیے دیا کہ مغربی خاندانوں میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں جو تاثرات اور احساسات نسل در نسل چلے آ رہے ہیں، وہ تاریخ کے مطالعہ اور موجودہ مسلمانوں کو دیکھ کر قائم ہونے والے احساسات اور تاثرات سے بالکل مختلف ہیں اور یہی تاثرات امریکی فوج کے اسکولوں میں پڑھائے جانے والے اس کورس کی بنیاد ہیں، اس لیے ہمیں اس پر افسوس ضرور ہے، مگر تعجب بالکل نہیں ہے، اس لیے کہ ایسا صدیوں سے ہو رہا ہے اور آج بھی مذہب سے لاتعلقی کے ٹائٹل اور سیکولرزم کے عنوان کے باوجود مغربی حکمرانوں کی مجبوری ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کی کوئی ایسی تصویر دنیا کے سامنے نہ آنے دیں جو اسلام کے بارے میں مثبت سوچ پیدا ہونے کا ذریعہ بن سکے۔
کچھ عرصہ قبل جب پاکستان کے دینی مدارس کے خلاف مغربی دنیا کی پروپیگنڈا مہم عروج پر تھی، ان دنوں ایک دستاویزی فلم کا بہت شہرہ ہوا جو مختلف مغربی ممالک کے مقتدر حلقوں کو بطور خاص اہتمام کے ساتھ دکھائی گئی۔ میں نے بھی وہ فلم ان دنوں دیکھی تھی۔ اس میں پاکستان کے کسی بھی مکتب فکر کے کسی معیاری دینی مدرسے کا تذکرہ موجود نہیں تھا جو کم وبیش ملک کے ہر بڑے شہر میں پائے جاتے ہیں، بلکہ کسی دور دراز دیہات کے ایک مدرسے کو فوکس کیا گیا تھا جو کچھ بعید نہیں کہ اس مقصد کے لیے خاص طو رپر تیار کیا گیا ہو اور دینی مدرسے کے اندرونی ماحول کو انتہائی مکروہ انداز میں پیش کر کے نفرت پھیلانے کی کوشش کی گئی تھی۔ مجھے یہ ’’دستاویزی فلم‘‘ دیکھنے کا موقع لندن میں ملا تھا اور فلم دکھانے کے بعد مجھ سے میرے تاثرات کے بارے میں پوچھا گیا تو میں نے عرض کیا تھا کہ میں بیسیوں نہیں بلکہ سیکڑوں ایسے مدارس کی نشان دہی کر سکتا ہوں جن میں سے ایک کو بھی اس دستاویزی فلم کا حصہ بنا لیا جائے تو وہ سارا تاثر خاک میں مل جاتا ہے جو اس فلم کی تیاری اور تشہیر کا مقصد دکھائی دیتا ہے۔
امریکی فوج کے اسکولوں میں مبینہ طور پر پڑھائے جانے والے اس کورس پر مختلف حلقوں کی طرف سے جو احتجاج جاری ہے، وہ ملی حمیت کا تقاضا ہے اور ہر مسلمان کو اپنے اپنے انداز میں اس احتجاج میں ضرور شریک ہونا چاہیے، لیکن اس سے کہیں زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ آج کے ابلاغ کے وسیع تر ذرائع سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے اسلام کی تعلیمات اور آج کے حالات میں قرآن وسنت اور خلافت راشدہ کے احکام وقوانین کی تطبیق کی قابل عمل صورتوں کو اجاگر کیا جائے۔ اپنی بات اپنے انداز میں کہنے اور اسے دنیا کے ہر کونے میں پہنچانے کی جو سہولتیں آج میسر ہیں، اس سے پہلے کبھی وہ ہماری دسترس میں نہیں تھیں، اس لیے مغرب کی علمی وفکری دھاندلی کے خلاف احتجاج اور غم وغصہ کے اظہار کے ساتھ ساتھ ہمارے علمی اداروں کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔ آج کے عالمی حالات کے تناظر میں اور مستقبل کی فکری وعلمی ضروریات کے پیش نظر سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے۔

مولانا محمد اسلم شیخوپوری کی شہادت

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

گزشتہ ماہ کے دوران میں ملک کے تین معروف علما، مولانا نصیب خان، مولانا سید محمد محسن شاہ اور مولانا محمد اسلم شیخوپوری کو مختلف واقعات میں شہید کر دیا گیا۔ یہ سب حضرات ہمارے محترم تھے اور سب کی شہادت اور جدائی پر ہم غم زدہ ہیں، لیکن مولانا محمد اسلم شیخوپوری کی شہادت پر ہمارا صدمہ دوہرا ہے، اس لیے کہ وہ ہمارے ساتھی تھے اور انھوں نے طالب علمی کا ایک دور ہمارے درمیان گزارا ہے۔ 
مولانا محمد اسلم شیخوپوری نے دینی تعلیم کا آغاز باغبانپورہ لاہور میں ہمارے مخدوم حضرت مولانا محمد اسحاق قادری قدس اللہ سرہ العزیز کے ہاں کیا تھا جو شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری کے ارشد تلامذہ میں سے تھے۔ مولانا شیخوپوری نے صرف ونحو کی ابتدائی تعلیم ان سے حاصل کی اور ان کے بچوں کے ساتھ کچھ عرصہ ان کے گھر میں رہے۔ حضرت مولانا محمد اسحاق قادری کی اہلیہ محترمہ ان سے اپنے بچوں کی طرح پیار کرتی تھیں اور وہ بھی ان سے بہت مانوس تھے۔ مولانا محمد اسلم شیخوپوری نے درس نظامی کی تکمیل جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں کی اور وہیں دورۂ حدیث کر کے فراغت حاصل کی۔ بعد میں وہ کراچی تشریف لے گئے اور غالباً جامعہ بنوری ٹاؤن کے دورۂ حدیث میں بھی شریک ہوئے۔ قرآن کریم کے درس کا ذوق انھوں نے اپنے دو بزرگ اساتذہ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی سے پایا اور وہ اس کا مختلف مواقع پر تذکرہ بھی کرتے تھے۔ 
مولانا محمد اسلم شیخوپوری شہید آج کے دو رمیں شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی کی اس تعلیمی وفکری جدوجہد کا اہم کردار تھے جو حضرت شیخ الہند نے مالٹا کی قید سے رہائی کے بعد ہندوستان واپس پہنچنے پر شروع کی تھی کہ مسلمانوں میں اجتماعیت کے فروغ کی محنت کی جائے اور قرآنی تعلیمات عام مسلمانوں تک پہنچانے کی جدوجہد کی جائے۔ مولانا شیخوپوری نے قرآن کریم کے درس کے لیے جو اسلوب اختیار کیا، وہ آج کے نوجوان علماء کرام کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
مولانا انیس الرحمن درخواستی سے لے کر مولانا محمد اسلم شیخوپوری کی شہادت تک ہمارے جتنے بزرگ اور ساتھی شہید ہوئے ہیں، ان سب میں مشترک بات یہ تھی کہ وہ دین کے لیے ہمہ وقت متحرک تھے اور ان کے گرد علماء کرام کے ساتھ ساتھ عوام بھی جمع ہو رہے تھے۔ ان حضرات کی شہادت سے ہم غم زدہ ضرور ہیں، مگر مایوس قطعاً نہیں ہیں اور نہ ہی شہادتوں کا یہ سلسلہ ہمارے حوصلوں کو ناکام بنا سکتا ہے۔ یہ ہمارے بزرگوں کی جدوجہد ہے جو اپنی روایات کے مطابق آگے بڑھتی رہے گی۔ اللہ تعالیٰ تمام شہدا کو جنت الفردوس میں جگہ دے اور ہم سب کو ان کا مشن جاری رکھنے کی توفیق سے نوازے۔ آمین یا رب العالمین

’’میری علمی و مطالعاتی زندگی‘‘ (ڈاکٹرصفدر محمود سے انٹرویو)

عرفان احمد

گجرات کے ایک چھوٹے سے قصبے ڈنگہ سے میراتعلق ہے، جو کھاریاں رسول روڈ پر صدیوں سے واقع ہے، سندر داس ایک بہت بڑابزنس مین تھا اُس نے ڈنگہ میں بہت ہی شاندار بلڈنگ ہائی سکول کے لیے بنوائی تھی، اب یہ ہائر سکینڈری سکول ہے آٹھویں تک میری تعلیم وہاں ہوئی جس تعمیر ملت سکول رحیم یار خان سے میں نے میٹرک کیا وہ سکول بنیادی طورپر جماعت اسلامی کے اراکین کی زیر نگرانی چلتا تھا، اس سکول میں فکری نشوونما اور کردار سازی پربڑی توجہ دی جاتی تھی۔ امتحان سے زیادہ کردار سازی پرتوجہ ہوتی تھی فکری نشوونما پرزیادہ زورتھا اُس کے بعدگورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور بی اے آنرز کیا اورپھر ایم اے کیا اورپھرگورنمنٹ کالج لاہور میں ہی لیکچرار کی حیثیت سے تقرر ہوا جہاں سے میں نے (1967) میں CSS کا امتحان پاس کیا اور سول سروس میں چلا گیا۔ 
میں بچپن ہی سےCreativeتھا ایک ایسا لڑکا جوتصورات اورتخیل کی دنیا میں رہتا ہو مجھے یادہے جب میں بہت چھوٹا بھی تھا تو عام طور پر تخیل میں گم سارہتا تھا جہاں تک مجھے یاد ہے میں چھٹی کلاس میں تھا میرے پاس کوئٹہ سے ایک ماہانہ رسالہ ’’زمانہ‘‘ آیاکرتا تھا مجھے جہاں تک یاد پڑتا ہے میری پہلی کہانی اس رسالے میں چھپی تھی پھرجب میں نویں، دسویں میں تھا اور میں رحیم یارخان میں پڑھتا تھا تولاہور سے نکلنے والے رسالہ’’ بچوں کی دنیا‘‘ میں میری چھوٹی موٹی کہانیاں کبھی کبھار چھپتی تھیں جس کی تصیح میرے استاد انیس احمد اعظمی صاحب کیا کرتے تھے میں اپنے اُستاد کو اپنی ہر تحریر دکھاتا تھا۔ انیس صاحب میری حوصلہ افزائی کرتے اور اس کو ٹھیک کر دیتے تھے اُس کے بعدگورنمنٹ کالج کے زمانے میں بھی مسلسل لکھتا رہا۔ ہمارے زمانے میں گورنمنٹ کالج کے میگزین راوی کا شمار اچھے پرچوں میں ہوتاتھا اورراوی سال میں تین دفعہ چھپا کرتا تھا اس طرح آپ اسے ایک طرح کاسہ ماہی رسالہ بھی کہہ سکتے ہیں جتناعرصہ میں گورنمنٹ کالج میں رہا شاید ہی کوئی ایسا راوی ہو جس میں میراکوئی مضمون یاافسانہ نہ چھپا ہو۔ انہی دنوں میں نے اخبارات اور رسائل میں تقریریں لکھنا شروع کیا، روزنامہ مشرق، نوائے وقت، ہفت روزہ قندیل اور اقدام میں بھی عام طور پر لکھا کرتا تھا اور نیم ادبی رسالوں کے علاوہ پنجاب یونیورسٹی کے میگزین میں بھی میرے افسانے چھپتے رہتے تھے اسی دور میں میری ایک کہانی خوشتر گرامی کے رسالے بیسویں صدی میں چھپی جس کا ادبی حلقوں میں خاصا ذکر رہا۔ بیسویں صدی معیاری اور مقبول رسالہ تھا چنانچہ مجھے بہت سے خطوط موصول ہوئے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں ہر سال کانوکیشن کے موقع پر بہترین لکھاری کا ایوارڈ دیا جاتا ہے میں بی اے آنرز کا طالب علم تھا جب 1963میں مجھے بہترین لکھاری (اردو) اور طارق علی خان کو بہتری لکھاری (انگریزی) کے ایوارڈ ملے۔ بہترین لکھاری کا ایوارڈ کالج کا بہت بڑا اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں طالب علم تھا تو میں نے نیو ہوسٹل سے ایک رسالے کا آغاز کیا جس کا نام ’’پطرس‘‘ ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ وہ رسالہ ابھی تک شائع ہو رہا ہے اور اس میں میرا نام پہلے ایڈیٹر کی حیثیت سے شامل ہوتا ہے۔ گویا گورنمنٹ کالج لاہور ککے دور میں ہی میں لکھنے پڑھنے میں خاصا مصروف ہو گیا۔ ریڈیو کے پروگراموں میں شرکت کرنے، یونی ورسٹی اور کالج میگزین اور اخبارات کی وجہ سے لاہور کے اخباری حلقوں میں میرا نام طالب علمی کے زمانے میں ہی مانوس ہو گیا تھا۔ 
دراصل کچھ لکھنے پڑھنے کی صلاحیت قدرت کی طرف سے ودیعت ہوتی ہے اور اگراچھا ماحول اورمناسب اساتذہ مل جائیں تووہ اس صلاحیت کی نشوونما کرکے پروان چڑھا دیتے ہیں اورآپ کی تربیت کرکے آپ کی تخلیقی صلاحیتوں کو مزید اجاگرکردیتے ہیں ۔ میرے کردار پہ کسی حد تک اثرمیرے رحیم یارخاں کے سکول کے ایک استاد کاہے جن کانام انیس احمد اعظمی ہے یہ اعظم گڑھ (یوپی) کے رہنے والے تھے ۔جماعت اسلامی سے متاثر تھے اور جماعت پر تنقید بھی کرتے تھے میرے زمانے میں وہ تعمیر ملت سکول رحیم یار خان میں میرے استاد تھے وہ مجھے کتابیں دیاکرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ پڑھ کے مجھے بتاؤ کہ تم نے کیاپڑھا ہے، اس طرح بچپن سے ہی انہوں نے میرے اندر تاریخ کاشوق پیداکیا اورپھر یہ شوق زندگی بھر کے لیے میرا یہ ذوق بن گیااورمیرے مزاج کاحصہ بن گیا اُن کے نام سے میں نے ایک اپنی کتاب بھی منسوب کی ہے جس کانام ہے ’’پاکستان تاریخ و سیاست‘‘ اُس کے بعدجب میں گورنمنٹ کالج لاہور پہنچا توپروفیسر مرزا محمدمنور صاحب نے مجھ پرخاصی توجہ دی۔ اقبالیات اور تحریک پاکستان کے بارے میں میرے اندر ذوق و شوق پیداکیا اورپھر زندگی کے آخری دنوں تک میرااُن سے قلبی و ذہنی تعلق رہا جو میری زندگی کا بیش بہا اثاثہ ہے ان کے ساتھ گزارے ہوئے وقت کو میں زندگی کے قیمتی لمحات سمجھتا ہوں۔ مرزا محمد منور بہت پڑھے لکھے اور درویش صفت کے انسان تھے عالم فاضل،عاشق رسولؐ، عاشق اقبال،عاشق قائداعظم تحریک پاکستان سے گہری وابستگی رکھتے تھے۔اُنہوں نے مجھ پرتوجہ بھی دی اورخاص طور پر قائداعظم، اور تحریک پاکستان سے محبت کا ایک رشتہ قائم کردیا۔ محبت اورشوق کا یہ رشتہ قائم کرنے میں اُن کابنیادی کردار تھا۔ سکول اور کالج کی سطح پر جن استادوں نے مجھ پرتوجہ دی میں اُن کااحسان زندگی بھرنہیں بھولوں گا بعدازاں ان اساتذہ سے میرا تعلق دوستی کے رشتے میں ڈھل گیا۔ دوستی کا یہ رشتہ آج تک قائم ہے۔ 
طالب علمی کے زمانے میں ایک Rolling Stoneکی مانند تھا لیکن آج واپس مڑکردیکھتاہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ بعض اوقات کچھ لوگ ہوتے ہیں جو کسی شعبہ یا مضمون سے وابستہ ہو جاتے ہیں اور یہ صرف اسی کا مطالعہ کرتے ہیں۔ کم ازکم ایم اے تک میری یہ کیفیت نہیں تھی جوبھی کتاب ملی وہ پڑھ لی مثلاً میرے اُستاد جن کامیں نے ابھی ذکر کیاانیس احمداعظمی صاحب انہوں نے مجھے9thاور10thمیں جوکتابیں دیں اُن میں سب سے پہلی کتاب مولانا ابوالکلام کی غبارخاطر تھی اورمجھے آج تک یاد ہے کہ وہ کتاب میں نے ایک رات میں پڑھ ڈالی تھی شام کوبستر پہ لیٹ کرشروع کی اور ختم کرکے اٹھا ،اور اگلے دن اُن کوجاکر واپس کردی اس کتاب میں سے پڑھے ہوئے اشعار مجھے اب بھی یاد ہیں۔ پھرمیں نے افسانے بے پناہ پڑھے نقوش کے کئی افسانہ نمبرآئے جنہیں میں شوق سے پڑھتا رہا۔ راجندرسنگھ بیدی سے لے کر منٹو، کرشن چند، قرۃ العین، ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور، احمد ندیم قاسمی، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، ممتاز مفتی، شہاب سبھی کو اس دور میں پڑھا۔ بعد ازاں منشا یاد کے افسانوں سے متاثر ہوا اور صادق حسین، انتظار حسین کو شوق سے پڑھا۔ جدید شعراء میں فیض سے اسرار الحق مجاز، ساحر لدھیانوی،احمد ندیم قاسمی تک میں نے تقریباً سبھی شعرا کوپڑھا اوراُس زمانے تک جتنے دیوان فیض صاحب کے چھپ چکے تھے۔ تقریباً تین چارمجھے زبانی یاد تھے۔ کلام اقبال کا مجھے بے حد شوق تھا، میں ہوسٹل میں کمرہ بندکرکے کلام اقبال کو اونچی آواز سے اورذوق وشوق سے پڑھا کرتا تھا مطلب یہ کہ مطالعے کی حد تک شاعری بھی ساتھ ساتھ چلتی رہی۔ ایم اے کرنے کے بعدجاکر مجھ پروہ اسٹیج آئی کہ میں نے تحریک پاکستان اور تاریخ پاکستان کواپنا اوڑھنا،بچھونا بنا لیا۔Rolling stoneہونے کی وجہ سے مجھے ایک فائدہ یہ ہوا کہ اگرچہ میں ساری زندگی باقاعدہ اردو ادب کا طالب علم نہیں رہا لیکن مجھے اردو لٹریچر سے تھوڑی سی شناسائی حاصل ہو گئی۔ اقبالیات کوبھی پڑھا دنیا جہان کی جوچیزیں مجھے ملتی گئیں میں پڑھتا گیا۔ جب میری اپنی اولاد جوان ہوئی اورمیں یونیورسٹی اورکالجوں میں جاتا رہا قائد اعظم یونی ورسٹی میں وزٹنگ پروفیسر رہا اور پھر ایک یونیورسٹی کا وائس چانسلر بھی رہا اس طرح میرا طالب علموں سے گہرا رابطہ رہا تو پتاچلا کہ آج کے طلبہ اپنے Subject کے علاوہ دنیا کی کوئی اور بات جانتے ہی نہیں تب مجھے محسوس ہوا ہمارے استادوں کی پالیسی ٹھیک تھی کہ ان کی بنیاد وسیع کرو۔ مثلاً میں نے قرآن حکیم کی تفسیر پڑھیں، سیرت النبیؐ پر چند ایک کتابیں پڑھیں مجھے یاد ہے کہ میٹرک کاامتحان دینے کے بعد ابوالکلام آزاد کی تفسیر ترجمان القرآن خاص طور پر پوری پڑھ ڈالی شبلی نعمانی اور سلیمان ندوی سے ہوتے ہوئے جتنے حضرات کی کتب سیرت النبیؐ پر مل سکیں میں نے پڑھیں ہمارے دور میں طلبہ کا مطالعہBroad baseہوتا تھا وہ صرف ایک مضمون ایک شعبہ تک محدود نہیں رہتے تھے بلکہ ہمہ جہتی اور متنوع موضوعات کا تھوڑا تھوڑا علم سبھی کے پاس ہوتا تھا علمی زندگی اور تحقیق کی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد میں نے خاص طورپر اپنے لیے جو مضمون چنا وہ پاکستانیات ہے۔ 
پاکستانیات کوجب آپ چنتے ہیں توظاہر ہے آپ کوتحریک پاکستان بھی پڑھنی پڑتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ قائداعظم اور اقبال کوبھی اُس حوالے سے پڑھنا پڑھتا ہے اورپاکستان کی تاریخ و سیاست اُس کومیں نے خاص طور پرتحریر اور مطالعہ کا موضوع بنایا۔ مجھے یادہے کہ میں نے 1964ء میں ایم اے کاامتحان دیا 1965ء میں ہمارا رزلٹ نکلا اوراُسی سال میں گورنمنٹ کالج لاہور میں لیکچررہوگیا اور1965ء میں روزنامہ نوائے وقت لاہورمیں جواُس وقت مغربی پاکستان کاسب سے بڑااخبار ہواکرتا تھا انہوں نے بدھ کے دن پورا آدھا Editorial pageمیرے لیے مخصوص کیاہوا تھا اور میں اس اخبار میں گاہے گاہے بازخواں کے نام سے تاریخ پاکستان کے مختلف پہلوؤں پر لکھا کرتاتھامیری عمر اُس وقت 22،23 برس تھی۔اُس کے بعدمیں نے پاکستانیات کواپناایک مستقل موضوع بنالیا اوراُس کوموضوع بنانے میں بھی ایک واقعہ کاخاص عمل دخل ہے ایم اے میں میراThesisتھا مسلم لیگ کادورحکومت1947ء سے لے کر 1954ء تک بعدازاں میں نے اس پر مزید محنت کی انڈیاآفس لائبریری میں بیٹھا واشنگٹن کے خفیہ پیپرز دیکھے، دنیاجہاں کا مواد کھنگال لینے کے بعد اس کی پُوری شکل ہی بدل گئی۔ اس کتاب میں زیادہ مواد طالب علمی کے دور کے بعد کاہے۔ مصیبت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں تحقیق کے لیے کوئی سہولت نہیں ہے ۔ہم اب بھی اُس لحاظ سے1965 کے دورمیں ہیں، میں ایک دفعہ انڈیا آفس لائبریری میں بیٹھا تھاتومیں نے ایک اسسٹنٹ سے کہا کہ میں نےLondon Timesاخبارکا مطالعہ کرنا ہے1947ء سے لے کر 1954ء تک میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ پاکستانی سیاست کے بارے میں لندن ٹائمز میں کیا خبریں، تبصرے اور تجزیے چھپے۔ لائبریرین نے مجھے کہاکہits very simple۔یہ انڈیکس پڑاہواہے ۔انڈیکس کھولیں کتابوں کی صورت میں لندن ٹائمز کا انڈیکس انہوں نے چھاپا ہوا ہے ہرسال کا انڈیکس نکالو۔ اُس میں پاکستان نکالو اُس میںPolitics نکالو اور صفحہ نوٹ کرلو۔ اخبار کا ریکارڈ مائیکرو فلم پر موجود ہے جو پڑھنا چاہتے ہو پڑھ لو۔ اس طرح وہ کام میں نے تقریباً سات دن میں مکمل کرلیا جبکہ پاکستان میں جب میں نے اخبارات دیکھنا شروع کئے تو پاکستان ٹائمز سول ملٹری گزٹ نوائے وقت ، ڈھاکہ ٹائمز اور ڈان کی فائلیں پڑھنے میں کئی برس لگ گئے۔ ان اخبارات کا ایک ایک صفحہ مجھے پڑھنا پڑتا تھا اوراُس میں جومجھے میرے کام کا مواد ہوتا تھا وہ ہاتھ سے کاپی پرنوٹ کرتاتھا اور اُس کے نتیجے میں اتنا مواد اکٹھا ہواکہ ہمارے گھر میں رضائیوں والا صندوق میری کاپیوں اوررجسٹروں سے بھرگیا پاکستان میں Researchکرنا گدھوں والا کام ہے آپ کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ آپ کام کیسے کریں گے اکانومسٹ لندن کاجوبڑامعتبر رسالہ ہے میں نے ایک دن میں سات سال کی فائل پڑھ لی۔ ریسرچ کے دوران میں پاکستان ٹائمز کی لائبریری میں زرد بلب کے نیچے بیٹھ کرمٹی سے بھرے ہوئے اخبارات کاایک ایک صفحہ اپنی انگلی سے الٹ کر پڑھتا تھا۔ پرانے اخبارات کی مٹی اور بو میری سانسوں کا حصہ بن جاتی تھی۔ وہاں میں نے گلے کی خرابی کا مستقل روگ پالا۔ 
میں نے پاکستانیات کواپنا اوڑھنا بچھونا اس لیے بنایا کہ پاکستان کی محبت میرے رگ و پے میں موجود تھی۔ جس زمانے میں میں تحقیق کے لیے پاکستان ٹائمز کی لائبریری میں کام کر رہا تھا اُسی زمانے میں آکسفورڈ کاایک طالب علم وہاں آیا ہواتھا جوPolitical parties of pakistan کے عنوان پر Thesis لکھ رہاتھا۔ لائبریری میں صرف دو ہی تحقیق کرنے والے ہوتے تھے۔ ہماری آپس میں گپ شپ دوستی شروع ہوئی پھرمیں اُسے کھانے پہ لے گیا، بے تکلفی ہوگئی وہ آدمی آکسفورڈسے ڈاکٹریٹ کررہا تھا اور یونی ورسٹی والوں نےMaterial اکٹھا کرنے کے لیے اُسے پاکستان بھیجا تھا۔اس پروہ بڑاExtensiveکام کررہا تھا ایک دن اُس نے باتوں باتوں میں مجھ سے پوچھا کہ کیاتم مجھے کوئی پاکستان میں ایک ایسی کتاب Suggestکرسکتے ہو جسے پڑھ کرمیں پاکستان کے تمام پہلوؤں سے آشنا ہوجاؤں تومیں بغلیں جھانکنے لگا۔اُس کے بعدمجھے بڑی شرم آئی کہ پاکستان بنے ہوئے 17برس گزرچکے ہیں ہم نے کوئی کام ہی نہیں کیاتوپھر میں نے فیصلہ کیا کہ میں صرف پاکستان پر کام کروں گا اس طرح میں کام میں لگارہا اورآج جوآٹھ ،دس کتابیں ہیں وہ پاکستان کے مختلف پہلوؤں پر ہیں تحریک پاکستان کامطالعہ ،قائداعظم اورعلامہ اقبال کامطالعہ اُس پس منظر کوسمجھنے کے لیے ضروری تھا چنانچہ میں نے اپنی حد تک ان موضوعات کو سمجھنے کی کوشش کی لیکن میرا مرکزومحور مطالعہ پاکستان ہی رہا۔
میں گزشتہ کئی سالوں سے کوئی تحقیقی کتاب نہیں لکھ سکا میری زندگی کا تجربہ یہ بتاتا ہے اور میرے استاد منور صاحب یہی کہا کرتے تھے کہ جس وقت جوتمہارا جی چاہ رہا ہے۔ وہ لکھو،اگر افسانہ لکھنے پر طبیعت مائل ہو تو افسانہ لکھو شعر کہنا چاہتے ہو تو شعر لکھو، طنز و مزاح لکھنے کو جی چاہتا ہے تو وہ لکھو، بہرحال وہ ایک طرح سے میری تربیت کرتے رہے اب کچھ عرصے سے میں اپنے آپ میں ہمت نہیں کر پاتا اور نہ ہی طبیعت راغب ہوتی ہے کہ میں جم کربیٹھ کرتحقیق کروںیا کوئی مستقل ریسرچ کروں جہاں تک مجھے یادپڑتا ہے کہ میری آخری تحقیقی کتاب 1980ء میں آئی اور اس کے کوئی 8دس سال کے وقفے کے بعدمیری کتاب Pakistan Political Roots and Deue...... منظر عام پر آئی یہ کتاب آکسفورڈ نے شائع کی ہے۔ اور تقریباً پوری دنیا میں پھیل گئی ہے میں دنیا کی جس بھی لائبریری میں جاتا ہوں وہاں اپنی کتابیں دیکھ کر مجھے اس بات کی خوشی ہوتی ہے مثلاً امریکہ کی میں تقریباً سب بڑی یونیورسٹیوں میں گیا ہوں کولمبیا۔برکلے میں نے امریکہ کی ہریونیورسٹی لائبریری میں اپنی کتابیں دیکھی ہیں اُن کے پاس کئی ایسی کتابیں بھی ہیں جن کی کاپی میرے پاس بھی نہیں ہے۔ میں برکلے یونی ورسٹی میں گیا تواُن کاایک طریقہ ہوتا ہےWelcomeکرنے کاوہاں ایک پروفیسر Steven Poulis ہے جو ساؤتھ ایشین ڈیپارٹمنٹ کا وائس چےئرمین ہے۔اُس کے ساتھ ایک آدھ دن گپ شپ رہی اگلے دن اُس نے کہا کہ ہماری گریجوایٹ کلاسزز کوتین چار لیکچرزدوپھرایک دن اُس نے کہاکہ آؤ میں آپ کو لائبریری دکھاؤں وہ مجھے برکلے یورنیورسٹی کی سنٹرل لائبریری میں لے گیا۔ برکلے یونیورسٹی دنیا میں عالمی سطح کی ایک یونیورسٹی مانی جاتی ہے اُس نے لائبریرین سے میرا تعارف کرایا کہ یہ ڈاکٹرصفدر محمود ہیں پاکستان سے آئے ہیں توانہوں نے کہاJust waitاُس نے کمپیوٹرمیں میرانام انٹرکیا تومیری کتابوں کی لسٹ نکل آئی جو انہوں نے مجھے دے دی میرابیٹا آسٹن میں پڑھتا تھا تووہ کہتاہے کہ ایک دن مجھے پاکستان پرریسرچ کرنی تھی ریسرچ کرتے کرتے کہیں آپ کانام سامنے آگیا ۔کلک کیاتو آپ کی سب کتابیں میری لائبریری میں موجود تھیں مطلب یہ کہ میں جہاں بھی گیا مجھے میری کتابیں اُن لائبریریوں میں موجود ملیں یہی صورت میں نے جاپان میں بھی دیکھی لیکن اس کے بعد میں کالم نگاری کے چکر میں ایسا پھنسا کہ کتاب لکھنے کے لیے وقت ہی نہیں رہا۔ 
میں بڑی دیر تک سوچتا رہا کہ وہ کون سی ایسی کتاب ہو سکتی ہے جس نے مجھے بہت متاثرکیا ہو سچی بات تو یہ ہے کہ بہت سی کتابیں متاثربھی کرتی رہیں کچھ کتابیں اپنی گہری تحقیق کی وجہ سے یا کچھ کتابیں اپنے جذبوں اور اسلوب کی وجہ سے کچھ کتابیں اپنے مشاہدات، فکر اور تاریخی حقائق کی وجہ سے بھی متاثر کرتی رہیں۔ سیکھتا بھی رہا لیکن اگرآپ مجھے یہ کہیں کہ کوئی ایسی کتاب کانام بتائیں جس نے مجھے بہت زیادہ متاثرکیا ہو جس نے میرے ذہن پرمستقل اثرات چھوڑے ہوں وہ یاد نہیں پڑتی۔ میں علامہ اقبال سے بے حد متاثرہوں تھوڑابہت مولانامودودیؒ صاحب کوبھی پڑھا ہے۔ تحریک پاکستان اور قائد اعظم پراب تک جتنی اچھی کتابیں اندرون بیرون ملک چھپی ہیں تقریباً سبھی کومیں نے پڑھا اور کچھ میں جھانکا لیکن ایسی کوئی کتاب جس نے مجھے جھٹکا دیاہو یادنہیں پڑتی۔
ابتدامیں مجھے ابوالکلام آزاد کو استاد نے پڑھایا توظاہر ہے کہ ابوالکلام آزاد نے سکول کی عمر میں مجھے بہت متاثر کیا۔میٹرک کا امتحان دے کر چھٹیوں میں نسیم حجازی، پرم چند، منٹو اور دوسرے افسانہ نگاروں کو خوب پڑھا۔ ساتھ ہی ساتھ اقبال کی سوانح عمری پر اور سیرت النبیؐ پر بھی کتابیں پڑھتا رہا۔ 
میں ابتدامیں تو افسانے کاقاری تھا۔ یہ ایک لمبی فہرست ہے مثلاً قراۃ العین حیدر، راجندر سنگھ بیدی ،پریم چند کومیں نے میٹرک کے بعدپڑھا اس طرح منٹو، حاجرہ مسروراور خدیجہ مستور، احمدندیم قاسمی کوکالج کے دورمیں توجہ سے پڑھا۔ عصمت چغتائی کوبھی پڑھا لیکن ان افسانہ نگاروں میں مجھے جس شخص نے مجھے سب سے زیادہ متاثرکیا وہ سعادت حسن منٹوتھا۔لیکن ایک ایک افسانہ مجھے شاید سب کاہی یادہوگا۔مثلاً کرشن چند کا تائی اسیری، بیدی کا ایک طویل ’’اک چادر میلی سی‘‘ مجھے آج تک یادہے۔ احمدندیم قاسمی کا ایک افسانہ ’’سناٹا‘‘ اچھا لگا اشفاق احمد کا ’’گدڑیا‘‘ متاثر کر گیا لیکن اس دور میں جس افسانے نے متاثر کیا وہ تھا ’’اکھیاں میٹ کے سینا تکیا‘‘ میں یوں کہہ سکتا ہوں کہ جتنے افسانہ نگار قیام پاکستان سے لے کر 1970ء تک نمایاں ہوئے میں نے تقریباً ان سب کو پڑھا لیکن میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے سب کے افسانے پڑھے۔ 
شاعری میں اقبال نے فکری لحاظ سے بہت گہرا اثر ڈالا اورجدید شعرا میں فیض احمدفیض مجھے بہت پسند ہیں۔اسرار الحق مجازبہت پسند تھا، قاسمی صاحب کی شاعری کو بھی پڑھا ۔ قتیل شفائی اورساحر لدھیانوی کو بھی میں نے پڑھا اور خوب پڑھا نوجوانی میں ایک اسٹیج آتی ہے جب آپ کوساحر لدھیانوی بہت پسند ہوتا ہے ’’تلخیاں‘‘ ہم بڑے ذوق شوق سے پڑھا کرتے تھے لیکن جوشاعر میرے ساتھ ساری زندگی رہے وہ اقبال اورفیض ہیں اورجب سیاست کے حوالے سے پڑھتا ہوں توحبیب جالب بھی یاد آتا ہے۔
علاقائی زبانوں میں میں نے پنجابی میں صوفیانہ کلام پڑھا۔ میاں محمد بخش‘ سلطان باہو، بابا فرید اور بلھے شاہ شوق سے مطالعہ کیا اور ان سے خاصا متاثربھی ہوا ان صوفی شعراء کا بھی میرے مزاج پر گہرا اثرہے بابافرید اور سلطان باہوخاص طورپر۔ محسوس کرتاہوں کہ میرے لاشعور میں بلھے شاہ کے کلام کا بھی اثرہے میرے اندر روشنی کی ایک کرن پیداکرنے یابعداززندگی کوسمجھنے میں اور عشق مجازی یاعشق حقیقی کوسمجھنے میں ان کابہت اہم کردارہے۔ افسانوی ادب میں متاثر کرنے والا اشفاق احمدکاافسانہ گڈریا ہے جسے میں کبھی نہیں بھول سکا اُس میں ایک کردارتھا باؤجی ۔ اُس نے مجھے بہت متاثرکیا یہ اُن افسانوں میں سے ہے جنہوں نے میرے ذہن پر ٹیچر کی Dedication کے حوالے سے نقوش مرتب کیے۔ استاد کی Commitment کیاہونی چاہیے اس افسانے کو پڑھ کر سمجھ آتی ہے۔ 
گورنمنٹ کالج لاہور کے رسالے ’’راوی‘‘ کے صد سالہ اور ایک سو پچیس سالہ انتخابات کتابی صورت میں چھپ چکے ہیں۔ مجھے یہ اعزازحاصل ہے کہ طنزومزاح کے انتخاب میں بھی میرا مضمون شامل ہے اورافسانوں کے انتخاب میں بھی میراافسانہ شامل ہے۔ صد سالہ اور ایک سو پچیس سالہ انتخاب میں شامل ہونا ایک اعزاز ہے۔ 
طنزح ومزاح میں مشتاق احمد یوسفی کو پڑھا۔یلدرم کاایک مضمون مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ بہت اچھا لگا پھراُس کے بعدکرنل محمد خان کی جنگ آمد بجنگ آمد بہت اچھی لگتی ہے ۔ مشتاق یوسفی کی پہلی دوکتابیں چراغ تلے اور خاکم بدہن مجھے بہت اچھی لگیں ،شوکت تھانوی کالم نگاری کی حدتک ٹھیک تھے لیکن پطرس تو سرتاپا فطری مزاح ہے جو مجھے بے حد پسند ہے۔ پطرس کا مزاح کبھی باسی نہیں ہوتا۔ شفیق الرحمان صاحب کوبھی میں نے پڑھا کرنل محمد خان اورضمیر جعفری کے تو میں طویل عرصے تک ساتھ بھی رہا کسی زمانے میں کرنل محمدخان،ضمیر جعفری اورمیں نے مل کرراولپنڈی سے طنزومزاح کاایک بہت معیاری سہ ماہی رسالہ ’’اردو پنج‘‘ نکالتے تھے ’’اردو پنچ‘‘ میں اعلیٰ معیار کے مزاحیہ مضامین شامل ہواکرتے تھے کرنل محمدخان اپنے ذاتی تعلق کی بنیاد پرشفیق الرحمن سے اورمشتاق یوسفی سے اور باقی دوستوں سے بھی مضامین لینے میں کامیاب ہوجایا کرتے تھے طویل عرصے تک کرنل محمد خان ضمیر جعفری صفدر مسعود سلطان رشک اُس کے ایڈیٹررہے یہ رسالہ کئی برس تک چھپتا رہا۔ اُس زمانے میں اس کی دھوم تھی۔ شاعروں میں انور مسعود صاحب ہیں انعام الحق جاوید ہیں جو طنزیہ مزاحیہ شاعری کرتے ہیں مجھے پسند ہیں ضمیرجعفری صاحب کے بعض قطعات اوررباعیات زبان زدعام ہیں مجھے یاد بھی ہیں اور میں نے انہیں جعفری صاحب کی زبان سے سنا بھی ہے۔ 
کوئی ایک نہیں جس کا بہت اثر ہوا ہو میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ ہر لکھاری اپنے اپنے انداز کے مطابق کچھ نہ کچھ اثرات چھوڑتا چلاگیا۔
موجودہ کالم نگاروں میں مجھے جاویدچودھری، عطاالحق قاسمی اور عبدالقادر حسن پسندہیں باقی کالم نگاروں کے کالموں میں بھی روزانہ جھانکتا ہوں کہ یہ ایک مجبوری ہے عطاالحق قاسمی جب سیاست پرلکھتے ہیں تووہ مجھے اپیل نہیں کرتا۔ مجھے ان کا ادبی اور مزاحیہ کالم پسند آتا ہے۔ جب کہ جاوید چودھری کے کالم مجھے عام طورپراچھے لگتے ہیں۔ اخبارات میں تقریباً سارے ہی دیکھتا ہوں اورپھرانتخاب کرتاہوں کہ ان میں کن مضامین کوپڑھنا ہے۔
دوران سفربڑے لفظ کے پرنٹ والی کوئی ادبی کتاب اپنے ساتھ رکھتاہوں تاکہ عینک نہ لگانی پڑے،فلسفہ، ادب مذہبی کتاب زیادہ پسند آتی ہے زندگی میں کبھی کتاب کے بغیرمیں نے سفر نہیں کیا یہ الگ بات کہ بعض اوقات کتاب ساتھ تو رہی پڑھی نہ جا سکی۔ 
زمانہ طالب علمی میں حافظہ کی صورت یوں تھی کہ شعرپاس سے بھی گزرتا تومجھے یادہوجاتا تھا اب صورت یہ ہے کہ بعض شعرجومجھے بہت اچھے لگتے ہیںیاد نہیں رہتے۔منیرنیازی ،ناصرکاظمی کومیں بہت بڑاشاعر سمجھتا ہوں اب تک مجھے جتنے بھی شعریاد ہیں وہ تقریباً وہی ہیں جو جوانی تک میں نے پڑھے تھے، اب تو بعض اوقات کسی شعر کو لکھتے وقت تسلی کے لیے دیوان دیکھنا پڑتا ہے۔ جب سے میرا رجحان پاکستانیات کی طرف ہوا ہے اور یہ میرے قلب و ذہن کا حصہ بنا ہے۔ پاکستان کے بارے میں اکثر حوالے اور تاریخیں تقریباً 90فی صد یاد ہیں، چنانچہ اب شعرو شاعری اور ادب پیچھے رہ گئے ہیں اور صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ مجھے اپنے حافظہ سے یہ شکایت رہتی ہے کہ بہت سی چیزیں یادنہیں رہتیں۔ جوانی کے دور میں حفیظ جالندھری، پروفیسر منور، شورش کاشمیری، حمید جالندھری، مجیب الرحمن شامی، فتح محمد ملک، منور حسین یاد، صادق حسین، ڈاکٹر جمیل جالبی، داکٹر وحید قریشی، قیوم نظیر، اکرام رانا، محمد طفیل نقوش، ضمیر جعفری سے محفلیں رہتی تھیں لیکن وقت نے ان محفلوں کو ویران کر دیا۔ 
مطالعہ کے دوران نوٹس لینے کی عادت نہیں تھی۔ اب کچھ عرصے سے مجھے یہ شکایت شروع ہوئی ہے کہ میراحافظہ میراساتھ نہیں دیتا چنانچہ پچھلے سات آٹھ سال سے جو کتاب پڑھ رہاہوتاہوں اُس کے آخری Blank page پرمیں اپناانڈیکس بنانا شروع کردیتاہوں میں قلم سے لکھنا شروع کردیتا ہوں کہ فلاں صفحے پر یہ بات تحریر ہے یہ انڈکس سوالوں کے کام آتا ہے۔ 
ذاتی لائبریری میں کتابوں کی تعدادکبھی گنی نہیں ہے۔تقریباً 3چار سوکتابیں تو ایک لائبریری کوDonateکرچکا ہوں جن کے بارے میں میرا خیال تھا کہ اب ان کے حوالوں کی ضرورت نہیں رہی اور اب جومیرے پاس کتابیں ہیں یہ وہ کتابیں ہیں جومیرے مرنے کے بعدمیری اولاد کسی لائبریری کوDonateکردے گی یا ردی میں بیچے گی لیکن نہیں میں اپنی لائبریری کو صدقہ جاریہ کے طور پر کسی لائبریری کے حوالے کروں گا تاکہ طلبہ اور ریسرچ سکالرز اس سے استفادہ کر سکیں۔ 
میرے بچے بچپن سے ہی میرے مطالعے میں شریک رہے ہیں اوریہی وجہ ہے کہ میرے بچے چار میں سے تین ایسے ہیں جو ملکی معاملات میں بڑی گہری دل چسپی رکھتے ہیں چوتھا بچہ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں گم ہو چکاہے۔ بچپن سے ان کے ساتھ میں باتیں Share کرتا رہا ہوں ان کوواقعات سناتا رہاہوں اور ان کے ذہنوں میں پاکستانیات کے نئے مستقل جگہ بناتا رہا ہوں۔ اُن میں ایک بیٹاتو اتنا involveہے کہ امریکہ میں رہنے کے باوجود بھی چاہتا ہے کہ پاکستانی سیاست میں کسی انقلابی پارٹی کوجوائن کرے۔ گزشتہ دنوں وہ تحریک انصاف کا سرگرم رکن تھا جو پیچھے ہٹ گیا۔ 
میراتجربہ یہ ہے کہ کتاب بڑی مہربان شے ہوتی ہے اس کوجوبھی اغواکرکے لے جائے یہ احتجاج نہیں کرتی یہ ایک دفعہ لائبریری سے نکل جائے تو عام طور پر واپس نہیں آتی میری کتابیں جولوگوں نے مستعارلیں وہ کبھی واپس نہیں کیں اوربعض دوست ایسے بھی ہیں جو وقتاً فوقتاً مجھے کہتے رہتے ہیں کہ تمہاری فلاں کتاب میں نے واپس کرنی ہے لیکن میرے بعض ایسے دوست بھی ہیں جن سے بعض اوقات میں نے کتاب لی اور اگر وہ کتاب میرے مضمون سے متعلق ہو تو میں کہہ دیتا ہوں کہ یہ تمہیں واپس نہیں ملے گی۔ 
مجھے تحریک پاکستان، قائد اعظم،اقبالیات اور پاکستان کی تاریخ وسیاست پرکتابوں کی تلاش رہتی ہے۔اُس میں بعض اوقات مجھے دقت اس لیے نہیں ہوتی کہ یہ ایسے موضوعات ہیں جن پر کتابیں پاکستانی مارکیٹ میں مل جاتی ہیں ورنہ امریکہ یا برطانیہ میں کسی دوست سے منگوالیتا ہوں۔تحریک پاکستان کے جذبے سے میری وابستگی کا یہ عالم ہے کہ میں جب حکومت پنجاب میں سیکرٹری اطلاعات و ثقافت (1986-89) تھا تو میں نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ تحریک پاکستان کے مجاہدوں، کارکنوں اور قائد اعظم کے سپاہیوں کی عزت افزائی اور پہچان کے لیے انہیں طلائی تمغے دینے اور ان کی دیکھ بھال کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ سلسلہ میں نے میاں نواز شریف کی سرپرستی میں 1987میں شروع کیا جس سے ملک بھر میں جوش و خروش پیدا ہوا۔ 1990میں جناب غلام حیدر وائیں وزیر اعلیٰ بنے تو اسے ٹرسٹ کی حیثیت سے رجسٹر کروایا گیا اور وائیں صاحب نے اس ٹرسٹ کے لیے نہ ہی صرف عمارت تعمیر کروائی بلکہ فنڈز بھی دئیے۔ شکر الحمد للہ کہ سرکاری ملازمت کے دوران رزق حلال کھایا، اصولوں کی پاسداری کی اور حاکموں کی خوشامد سے دور رہا۔ اللہ کا شکر ہے کہ ذہن پر کسی زیادتی کا بوجھ نہیں اور سکون کی نیند سوتا ہوں۔ عمر بھر قومی و ملکی خدمت کو اولین ترجیح بنائے رکھا۔ نامور لکھاریوں کے ساتھ ساتھ صوفیا اور اولیا اکرام کی مجلسیں بھی نصیب ہوئیں۔ حکمرانوں سے لڑائیاں بھی ہوتی رہیں اور اس کی سزا بھی ملتی رہی لیکن میں نے ہمیشہ مشاہدہ اور تجربہ کیا کہ بچانے والا مارنے والے سے کہیں زیادہ طاقت ور ہے ورنہ جنرل ضیاء الحق، جنرل مشرف اور بے نظیر بھٹو میری تنقیدی تحریروں سے سیخ پا بھی رہے لیکن خواہش کے باوجود نوکری سے نہ نکال سکے کیوں کہ بچانے والا میرے ساتھ تھا۔ 
یہ ایک قدرتی بات ہے اس کوآپ ارتقائی عمل کہہ لیں جیسے جیسے آپ تحقیقی کتابیں پڑھتے ہیں اس سے آپ کی معلومات میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور آپ کے فہم و ادراک کی بھی تشکیل ہوتی ہے۔ بعض چیزوں کے بارے میں آپ کی رائے بہتر سے بہتر اوربعض چیزوں کے بارے میں آپ کے رائے بدل جاتی ہے مثلاً یہ ایک بڑی عجیب وغریب بات ہے اور میں اس کو کہہ دینامناسب سمجھتا ہوں۔اس بارے میں میری Controversiesبھی چلتی رہتی ہیں۔مثلاً یہ کہ میں طویل عرصے تک قائداعظم کو مغربی طرز کی ماڈرن شخصیت سمجھتا رہا سیکولرقسم کی شخصیت لیکن بہت سی چیزیں پڑھنے اور مواد کے دریا میں اترنے کے بعد پتہ چلاکہ قائداعظم کے اندر ایک سچا مسلمان موجود تھا جس کی طرف ہماری نظربہت کم گئی ہے مجلس ترقی ادب نے قائداعظم کی تقاریر پرچارجلدیں شائع کی ہیں اگر آپ پڑھیں توآپ کواندازہ ہو گا کہ قائداعظم کی شخصیت کیاہے جب میں نے ان کی ذاتی زندگی کواندرسے جھانکا تومیری رائے ان کے بارے میں پہلے سے مزید بہترہوگئی ہے۔
ایسی کتابیں جن میں وطن عزیز پاکستان کے بارے میں مایوسی اورناامیدی پھیلائی گئی ہو وہ میری ناپسند کی فہرست میں آتی ہیں۔مثلاً طارق علی کی بعض کتابیں ایسی متعصب کتابیں جو 1971ء کی Tragedyکے بارے میں لکھی گئی ہیں۔ باقی مطالعہ کے لیے سیرۃ النبیؐ شبلی نعمانی اورسیدسلمان ندوی کی کتابیں مجھے بے حدپسند ہیں اورتفاسیرمیں تفہیم القرآن مجھے بہت پسند ہے۔ فلسفے اور سیاسیات اور پاکستانیات پر کتابیں شوق سے پڑھتا ہوں۔ دل میں ایک آواز تڑپتی رہتی ہے کہ مرنے سے قبل کوئی بڑی قومی خدمت کر جاؤں اور کسی ایسے صدقہ جاریہ کی بنیاد رکھ جاؤں جو بخشش اور روحانی بلندی کا ذریعہ بنے۔ اب تک اسی آرزو کی تکمیل کے لیے زندہ ہوں۔ دیکھئے خدا کو کیا منظور ہے کیوں کہ اس کی رضا کے بغیر ایسے کام نہیں ہو سکتے۔

مولانا محمد اسلم شیخوپوریؒ / مختلف کلامی تعبیرات کی حقیقت اور ان سے استفادہ کی گنجائش / قربانی کے ایام

محمد عمار خان ناصر

مولانا محمد اسلم شیخوپوریؒ

مولانا محمد اسلم شیخوپوری سے میرا پہلا تعارف ۔جو غائبانہ تھا اور آخر وقت تک بنیادی طور پر غائبانہ ہی رہا۔ ۹۰ء کی دہائی میں اپنے زمانہ طالب علمی کے اواخر میں ہوا جب ’’ندائے منبر ومحراب‘‘ کے عنوان سے ان کا سلسلہ خطبات منظر عام پر آنا شروع ہوا۔ مجھے تقریر وخطابت سے اور خاص طور پر اس کے مروجہ اسالیب سے طبعی طور پر کبھی مناسبت نہیں رہی، تاہم مولانا شیخوپوری کے سنجیدہ اور بامقصد انداز گفتگو کا ایک اچھا تاثر ذہن پر پڑنا یاد ہے۔ شاید اس زمانے میں اس سلسلے کی کچھ جلدیں بھی نظر سے گزری ہوں۔
۹۰ء کی دہائی میں ہی والد گرامی کے ساتھ پہلی مرتبہ کراچی جانا ہوا تو جامعہ بنوریہ سائٹ کراچی کے دورے کے موقع پر مولانا شیخوپوری کی زیارت بھی ہوئی جو ان دنوں وہاں استاذ حدیث تھے اور غالباً صحیح مسلم کی تدریس کر رہے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کا ’’مکتبہ حلیمیہ‘‘ کے نام سے کتابوں کی اشاعت کا بھی ایک چھوٹا سا نظم تھا اور وہ اپنی بعض مطبوعات وقتاً فوقتاً والد گرامی کی خدمت میں بھیجتے رہتے تھے۔ چند سال قبل والد گرامی ہی کی معیت میں کراچی کے ایک سفر میں ہم جامعۃ الرشید میں ٹھہرے اور مفتی ابو لبابہ شاہ منصور، مولانا سید عدنان کاکاخیل اور دیگر حضرات کی پرتکلف میزبانی کا لطف اٹھاتے رہے۔ حسن اتفاق سے ان دونوں مولانا شیخوپوری جامعۃ الرشید میں تدریسی خدمات سرانجام دے رہے تھے اور جامعہ ہی کے رہائشی کوارٹر میں مقیم تھے۔ ہمارے فاضل دوست مولانا احسان الحق تبسم بھی کئی سال سے یہیں تعلیم وتدریس میں مصروف ہیں۔ ایک موقع پر ان کی رہائش گاہ کی طرف جاتے ہوئے راستے میں مولانا شیخوپوری سے بھی مختصر سلام دعا ہوئی جو (پیدائشی معذوری کے باعث) اس وقت وہیل چیئر پر مسجد کی طرف جا رہے تھے۔ 
ان دو مختصر ملاقاتوں کے علاوہ مولانا کے ساتھ کبھی تفصیلی ملاقات یا تبادلہ خیالات کا موقع میسر نہیں آیا، تاہم غائبانہ تعارف اور سلام وپیغام کا تعلق قائم تھا اور ایک آدھ دفعہ فون پر بھی ان سے بات ہوئی۔ دو تین سال قبل وہ خطبہ جمعہ کے لیے گوجرانوالہ میں کسی جگہ تشریف لائے تو ایک طالب علم کے ذریعے سے سلام بھیجا اور میرے مرتب کردہ خطبہ حجۃ الوداع کے متن کا نسخہ طلب فرمایا جو والد گرامی کے توضیحی محاضرات کے ساتھ الشریعہ اکادمی کی طرف سے شائع ہوا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ طبقہ علماء کی عام روایت کے برخلاف استحقاقاً نہیں بلکہ قیمتاً طلب فرمایا۔ 
مولانا کے مزاج اور طرز فکر میں ایک خاص بات یہ تھی کہ اکابر دیوبند کے منہج فکر سے پختہ وابستگی کے باوجود ان کے ہاں ’’مسلکیت‘‘ کا وہ سطحی انداز دکھائی نہیں دیتا تھا جس کا تناسب دیوبندی مکتب فکر میں اب خاصا بڑھتا جا رہا ہے، بلکہ طبقاتی ہمدردیاں حاصل کرنے کا سستا ترین نسخہ بنتا جا رہا ہے۔ مولانا شیخوپوری نے اپنی محنت کے لیے درس وتدریس اور عوامی اصلاح کا اور گزشتہ کئی سالوں سے درس قرآن اور مستقل اخباری کالم تحریر کرنے کا میدان منتخب کیا اور بڑے اعتدال اور توازن کے ساتھ دین کا پیغام مثبت انداز میں لوگوں تک پہنچاتے رہے۔
مولانا کے متوازن انداز فکر کا اندازہ دو مثالوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ چند سال قبل انھوں نے ’’درس صحیح مسلم‘‘ کے نام سے جناب مولانا محمد تقی عثمانی کی معروف عربی تصنیف ’’تکملہ فتح الملہم‘‘ کے مباحث کی اردو تلخیص مرتب کی۔ ہمارے ہاں مدارس میں درس حدیث عام طور پر فقہی معرکہ آرائیوں کا عنوان ہوتا ہے اور احناف ہوں یا اہل حدیث، اساتذہ کی تقاریر وتحقیقات کا مطمح نظر ہر حال میں احادیث کی رو سے اپنے فقہی مسلک کی ترجیح ثابت کرنا ہوتا ہے۔ مولانا تقی عثمانی کے ہاں یہ اسلوب نہیں ہے۔ مولانا کی درسی تقاریر کا مجموعہ ’’درس ترمذی‘‘ اس پہلو سے حدیث کے طلبہ کے لیے بہت مفید ہے اور خود میں نے زمانہ طالب علمی میں اس سے بے حد استفادہ کیا ہے۔ مولانا عثمانی کے ہاں وسعت ظرفی کے اس رجحان پر ’’ٹھیٹھ مسلکی‘‘ طبقوں میں زیادہ اطمینان نہیں پایا جاتا اور میں نے بعض حضرات کو یہ تک کہتے ہوئے سنا ہے کہ مولانا تقی عثمانی ’’مسلک کی جڑیں کاٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘ خیر، مولانا محمد اسلم شیخوپوری نے ’’درس صحیح مسلم‘‘ کے عنوان سے مولانا عثمانی کی تحقیقات کا ایک بڑا عمدہ اور جامع خلاصہ مرتب کیا تو اس کے مقدمے میں بڑی وضاحت سے لکھا کہ:
’’تکملہ کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کا خالص علمی اور تحقیقی انداز ہے جس میں مسلکی تعصب اور مناظرانہ حجت بازی کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ الشیخ عثمانی مدظلہم نے کتاب کے مقدمہ میں اپنے والد ماجد مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی محمد شفیع صاحب قدس سرہ کے حوالہ سے ایک جملہ لکھا ہے جو حقیقت میںآب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ انھوں نے طلباء کی ایک جماعت سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’تم اگر فقہی مذہب کے اعتبار سے حنفی بن جاؤ تو کوئی حرج نہیں، لیکن احادیث نبویہ کو حنفی بنانے کی کبھی کوشش نہ کرنا۔‘‘
حضرت مولف نے اپنے والد ماجد نور اللہ مرقدہ کی اس زریں نصیحت کو تکملہ کے ہر ہر باب میں ملحوظ رکھا ہے اور جہاں کہیں دلائل کے اعتبار سے کسی دوسرے امام کا مسلک قوی نظر آیا ہے توبلا چون وچرا اس کا اظہار کر دیا ہے اور اپنی حنفیت کو اظہار حق میں آڑے نہیں آنے دیا اور ایسا ایک دوجگہ نہیں، متعدد مسائل میں کیا ہے۔‘‘ (ص ۲۶)
مولانا کے علمی وتحقیقی مزاج اور فکری وسعت نظر کی دوسری مثال خود راقم الحروف کے خیالات ورجحانات سے تعلق رکھتی ہے۔ ۲۰۰۸ء میں ’’حدود وتعزیرات۔چند اہم مباحث‘‘ کے عنوان سے میری تصنیف منظر عام پر آئی تو میں نے بہت سے دوسرے اہل علم کے علاوہ مولانا شیخوپوری کو بھی اس کا ایک نسخہ بھجوایا۔ اس کتاب میں درج میرے بعض نتائج فکر کے حوالے سے بہت سے حضرات کے شدید رد عمل سے ’الشریعہ‘ کے قارئین بخوبی واقف ہیں۔ تاہم اس پوری فضا میں مولانا شیخوپوری کا تبصرہ حیرت انگیز طور پر بالکل مختلف تھا۔ انھوں نے کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد میرے نام ایک خط تحریر کیا جو ’الشریعہ‘ کے نومبر/دسمبر ۲۰۰۸ء کے شمارے میں چھپ چکا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس موقع پر اپنی تعریف کے پہلو سے نہیں، بلکہ مولانا مرحوم کے انداز نظر کی وسعت اور توازن کو واضح کرنے کے لیے اسے دوبارہ نقل کر دیا جائے۔ مولانا نے لکھا:
’’برادرم مولانا محمد عمار خان ناصر صاحب زید مجدہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کی وقیع اور قابل قدر علمی کاوش ’’حدود وتعزیرات‘‘ کے عنوان سے وصول ہوئی۔ اس کتاب کا ہر عنوان اور ہر صفحہ گواہی دیتا ہے کہ آپ نے اخذ واستنباط، محنت اور جستجو کا حق ادا کیا ہے۔ بڑا نازک موضوع تھا جس پر آپ نے قلم اٹھایا مگر مشکل مقامات سے جس طرح آپ دامن بچا کر نکلے ہیں، اس نے صغر سنی کے باوصف علمی حلقوں میں آپ کا قد بہت اونچا کر دیا ہے۔ ’’شاب شیخ‘‘ کی ترکیب بجا طو رپر آپ پر صادق آتی ہے۔ مخدوم ومحترم حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب دامت برکاتہم خوش نصیب ہیں کہ انھیں آپ جیسا ذہین وفطین اور مطالعہ کا شوقین فرزند عطا ہوا۔
یقیناًآپ کی تحقیق کے بعض نتائج سے اختلاف کیا جائے گا اور اختلاف کرنا بھی چاہیے کہ اختلاف رحمت ہے اور خوب سے خوب تر کو سامنے لانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، مگر شرط یہ ہے کہ اختلاف، اختلاف ہی رہے، ضد او رخلاف میں تبدیل نہ ہو جائے۔ امید ہے کہ آپ بھی دلائل کی بنیاد پر کیے جانے والے اختلاف کو خندہ پیشانی سے برداشت کریں گے اور اپنے موقف میں لچک پیدا کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ ظاہر نہیں کریں گے۔
دعا ہے کہ باری تعالیٰ شرور وفتن سے آپ کی حفاظت فرمائے اور آپ کے علم، قلم، زبان اور ذہنی صلاحیتوں سے امت مرحومہ کو بیش از بیش فائدہ پہنچے۔‘‘
مولانا نے میری تعریف میں جو الفاظ درج کیے ہیں، ان کی اہمیت میری نظر میں ثانوی ہے اور بدیہی طور پر وہ حقیقت واقعہ سے زیادہ مولانا کے حسن ظن اور علمی قدر افزائی کے جذبے کی غمازی کرتے ہیں، لیکن اس سے علمی وتحقیقی مباحث کے ضمن میں ان کا جو زاویہ نظر سامنے آتا ہے، وہ ان کے طبقے کے علما میں یقینی طو رپر ایک جنس نایاب ہے۔
مولانا محمد اسلم شیخوپوریؒ کا قتل اس سلسلہ کشت وخوں کی ایک تازہ کڑی ہے جو ہمارے ہاں مذہب، نسل اور قومیت کے نام پر ایک طویل عرصے سے جاری ہے۔ کراچی میں یہ تمام عوامل یکجا ہیں، اس لیے یہ متعین کرنا مشکل ہے کہ مولانا کے قاتلوں کے نزدیک ان کا جرم سنی ہونا تھا یا دیوبندی یا پنجابی یا اعتدال پسند یا کچھ اور۔ پس منظر جو بھی ہو، نتیجہ بہرحال ایک ہی ہے کہ معاشرہ ایک جید، صاحب کردار، متوازن خیالات ورجحانات کے حامل اور نہایت موثر اور مثبت انداز میں دین کی دعوت وتبلیغ کا فریضہ انجام دینے والے ایک عالم دین سے محروم ہو گیا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہم لاتحرمنا اجرہ ولا تفتنا بعدہ۔

مختلف کلامی تعبیرات کی حقیقت اور ان سے استفادہ کی گنجائش

ابو عثمان عمرو بن بحر بن محبوب الجاحظ (۱۶۳--۲۵۵ھ) دوسری/تیسری صدی ہجری کا ایک باکمال ادیب اور متکلم ہے۔ اس کا شمار معتزلہ کے ائمہ اور کبار میں ہوتا ہے، تاہم اس کی تحریروں سے واضح ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف نصوص کی اتباع اور عقل وقیاس کی رعایت کے مابین توازن کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے، بلکہ مختلف ذہنی وفکری سطحوں کی دینی ضروریات کے لحاظ سے اپنے اپنے دائرے میں معتزلہ اور متکلمین کے الگ الگ مناہج کی افادیت کا بھی معترف ہے، چنانچہ اس نے لکھا ہے کہ: لولا مکان المتکلمین لھلکت العوام من جمیع الامم ولولا مکان المعتزلۃ لھلکت العوام من جمیع النحل (کتاب الحیوان، ص ۷۵۲ وص ۷۹۳، طبع دار الکتاب العربی بیروت، ۲۰۰۸ء)۔ ’’اگر متکلمین نہ ہوتے تو تمام امتوں (یعنی مذاہب) سے تعلق رکھنے والے عوام (یعنی ان کا عقیدۂ وایمان) برباد ہو جاتا اور اگر معتزلہ نہ ہوتے تو (دائرۂ اسلام میں داخل) تمام مذہبی گروہ (یعنی ان کا عقیدۂ وایمان) تباہ ہو جاتا۔‘‘ جاحظ کی مراد یہ ہے کہ متکلمین کے ہاں نصوص سے قریب تر رہنے کے جس منہج کو ترجیح دی گئی ہے، اس میں عوام الناس کی ذہنی سطح کی زیادہ رعایت پائی جاتی ہے اور انھیں دین وایمان سے وابستہ رکھنے کے لیے یہی طریقہ مفید اور موثر ہے، لیکن ایک مختلف ذہنی سطح پر دینی حقائق پر غور وفکر سے مسلمانوں کے جو کلامی فرقے وجود میں آئے ہیں، ان کی تشفی متکلمین کے طریقے سے نہیں ہو سکتی اور ان کے لیے معتزلہ کا طریقہ ہی راہ نجات کا درجہ رکھتا ہے۔
کلامی نوعیت کے بیشتر اختلافات اور نزاعات کی اصل حقیقت یہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل علم دینی وعلمی مصالح کے تناظر میں بوقت ضرورت ایسی تعبیرات سے بھی استفادہ کرتے رہے ہیں جنھیں عام طو رپر ’اہل السنۃ‘ کے منہج سے ہٹا ہوا قرار دیا گیا ہے۔ مثال کے طو رپر قرآن مجید کے ’معجز‘ ہونے کا مطلب اہل سنت کے متکلمین کے نزدیک یہ ہے کہ یہ کلام اپنے اندر داخلی طور پر ایسے کمالات واوصاف رکھتا ہے کہ اس کی نظیر پیش کرنا کسی فرد بشر کے بس میں نہیں۔ اس کے برعکس معتزلہ کا مسلک یہ بیان کیا جاتا ہے کہ قرآن کے اعجاز کا تعلق داخلی اوصاف سے نہیں، بلکہ اس بات سے ہے کہ اگر کوئی انسان اس کی مثل کلام بنانے کی کوشش کرتا ہے تو فی نفسہ ممکن ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے اسے ایسا کرنے سے عاجز کر دیتے ہیں۔ امام رازی نے قرآن کی مختصر سورتوں میں اعجاز کا پہلو واضح کرتے ہوئے اسی تعبیر کی مدد لی ہے۔ ابن کثیرؒ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: 
وہذہ الطریقۃ وان لم تکن مرضیۃ لان القرآن فی نفسہ معجز لا یستطیع البشر معارضتہ کما قررنا الا انہا تصلح علی سبیل التنزل والمجادلۃ والمنافحۃ عن الحق (تفسیر ابن کثیر، البقرہ، آیت ۲۳، ۲۴)
’’اگرچہ یہ طریقہ پسندیدہ نہیں ہے، کیونکہ ہم واضح کر چکے ہیں کہ قرآن فی نفسہ معجز ہے اور انسانوں کے لیے اس کی نظیر پیش کرنا ممکن نہیں، تاہم برسبیل تنزل اور حق کا دفاع کرتے ہوئے اس طریقہ استدلال کو اختیار کرنا درست ہے۔‘‘ اسی طرح مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اپنے دروس ترمذی میں ایک جگہ فرمایا ہے کہ صفات باری تعالیٰ کے بارے میں سلف کا مسلک امرار علی الظاہر اور عدم تاویل تھا (بلکہ ایک خاص دور میں اسے راہ راست اور گمراہی کے مابین امتیاز کی حیثیت حاصل رہی ہے)، تاہم متاخرین نے تاویل کے طریقے کو عوام کی ذہنی سطح کے زیادہ قریب پاتے ہوئے مصلحت کی خاطر اسی مسلک کو اختیار کر لیا۔ 
مختلف ذہنی سطحوں اور ہر زمانہ کے خاص ذہنی معیارات کے لحاظ سے دینی حقائق ومسائل میں تعبیرات کا یہ تنوع اور اختلاف ہر دور کی دینی ضرورت رہا ہے اور رہے گا، اس لیے دینی علوم کے طلبہ اور اساتذہ کو ذمہ داری کے ساتھ یہ بات گہرائی میں جا کر سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ ان کے ماحول میں ان کے ذہن وفکر کے لیے نامانوس جو دینی تعبیرات پیش کی جا رہی ہیں، ان میں سے کون سی فی الواقع کفر اور الحاد وزندقہ کے دائرے میں آتی ہیں اور کون سی ایسی ہیں جن کا اصل محرک دینی حقائق کو کسی خاص فکری وذہنی سطح کے لیے مانوس بنانا ہے اور جن سے ایک خاص دائرے میں استفادہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ واللہ اعلم

قربانی کے ایام

عید الاضحی کے موقع پر قربانی کے ایام کے ضمن میں جمہور فقہا کی رائے یہ ہے کہ یہ تین دنوں (یعنی دس، گیارہ اور بارہ ذی الحجہ ) میں ہی کی جا سکتی ہے، جبکہ چوتھے دن کی قربانی معتبر نہیں۔ امام مالک نے اس کی تائید میں سیدنا علی اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کے اقوال نقل کیے ہیں (موطا، ۱۰۳۵، ۱۰۳۶) اور عام طور پر اس بحث میں انھی سے استدلال کیا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں امام ابن ابی شیبہ کی ’المصنف‘ کے مطالعہ کے دوران میں کتاب الحج میں ایک روایت نظر سے گزری جس میں یہی رائے زیادہ صریح الفاظ میں سیدنا عمر سے نقل کی گئی ہے۔ چونکہ ان کا یہ قول قربانی کے ابواب کے بجائے کتاب الحج میں ایک دوسرے مسئلے کے تحت ضمناً نقل ہوا ہے، اس لیے غالباً اہل علم کی اس طرف توجہ نہیں ہو سکی اور متداول علمی مآخذ میں مجھے اس بحث میں سیدنا عمر کے اس قول کا کوئی حوالہ دکھائی نہیں دیا۔ (البتہ برادرم مولانا عبد الجبار سلفی نے بتایا ہے کہ جناب علامہ خالد محمود نے اپنے کسی پرانے مضمون میں اس کا ذکر کیا ہے۔) یقیناًیہ ایک مسئلہ اجتہادی ہے اور کوئی واضح اور صریح نص نہ ہونے کی وجہ سے اس میں فقہا کے مابین اختلاف بھی واقع ہوا ہے، تاہم سیدنا عمر کا یہ قول ہمارے خیال میں ترجیحی دلائل میں ایک اہم دلیل کی حیثیت رکھتا ہے۔ 
ماعز بن مالک یا مالک بن ماعز ثقفی کا بیان ہے کہ میرے والد اپنی اور اپنی اہلیہ اور بیٹی کی طرف سے قربانی کرنے کے لیے دو جانور ساتھ لے کر گئے جو ذی المجاز میں ان سے گم ہو گئے۔ جب یوم النحر آیا تو انھوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو یہ بات بتائی۔ سیدنا عمر نے فرمایا کہ :
تربص الیوم وغدا وبعد غد فانما النحر فی ہذہ الثلاثۃ الایام (مصنف ابن ابی شیبہ، ۱۴۶۵۶) 
’’آج کا دن اور کل اور پرسوں کا دن انتظار کرو، کیونکہ قربانی انھی تین دنوں میں کی جاتی ہے۔ ‘‘

ہندوستان کی روایتی اسلامی فکر میں تاریخ اور قانونی معیاریت (۲)

ڈاکٹر ابراہیم موسٰی

ترجمہ: وارث مظہری
(قاری محمد طیب کے افکار کی روشنی میں اسلامی شریعت کا مطالعہ۔)

اجتہاد کی تشریحات

قاری طیب صاحب کی اجتہاد کی مجموعی تشریح میں تین متلازم عناصر ہیں: تقویٰ،علمیات اور تاریخ۔ ان تینوں زاویوں کو نظر انداز کرنے سے ان کے تصور اجتہاد کی غلط تفہیم اور ساتھ ہی ان چیزوں کے ان کے تصور کی تحریف ہو سکتی ہے۔ زمانۂ حال کے آزاد خیال تصور اجتہاد اوراخلاقیات کی تشریح و تعبیر میں مشکل ہی سے ایسی قواعد سازی یا قواعد کی تلاش کا سراغ ملے گا، جس کو تقویٰ اور فقیہ و عالم کے شخصی اخلاق کا پابند بنایا گیاہو۔ اس کے برعکس قاری صاحب نہ صرف اس زاویہ کو خاصی اہمیت دیتے ہیں بلکہ مذہبیات کی تعبیر کی اپنی گفتگو میں وہ اسے مرکزی مقام دیتے ہیں۔
آگے وہ اپنی گفتگومیں عالم تکوین میں نئی ایجادات و ممکنات کی تلاش کو بھی مرکزی خیال بناتے ہیں جوکتابِ فطرت ہے اور عالم تشریع بھی جوکہ کتابِ الٰہی ہے، اُسی کے مماثل ہے۔ پھراس مثلث کے تیسری ترکیبی جز پر یوں گفتگو کی گئی ہے کہ کیسے ہر انسانی قلب و روح پر الٰہی نقوش ظہور پذیر ہوتے ہیں جنہیں صوفیا لوحِ قلب سے موسوم کرتے ہیں۔(۳۸)

تقویٰ

قاری طیب صاحب بتاتے ہیں کہ وحی خدا کے فرستادوں کے لیے شخصی اوصاف کو شامل ہے اور اخلاقیات کا بڑاحصہ بقیہ انسانیت کو ان کے شخصی اوصاف سے ہی ملتا ہے۔اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے پیغمبروں نے خارجی و سائل سے تبھی کام لیا ہے جب داخلی طورپر ان کی شخصیتیں کامل اور پاکیزہ ہو گئیں اور روحانی طورپر بلند پیغمبروں کو واضح فائدے بھی ملے، کیونکہ لوگوں کو ان میں رشد و ہدایت کے رول ماڈل مل گئے۔ چونکہ خدا کے رسولوں کو روحانی اور اخلاقی کاملیت کا وہ درجہ ملا تھا جو عام لوگوں سے بہت ارفع تھا، لہٰذا انہیں اپنے پیرو کاروں کے لیے اخلاقی تعلیمات کا مفہوم بتانا آسان ہو گیا۔(۳۹)
دوسری طرف ان سے کم درجہ کے لوگ مثلاً علماء کو سب سے پہلے اخلاقی اور قانونی نظام کے ثانوی ضوابط اس علم کی روشنی میں تلاش کرنے پڑتے ہیں جوانہیں تعلیم و تحقیق کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے اور جب یہ طبقہ روحانی برکات اور تزکیۂ نفس و تصفیۂ قلب کے اعتبار سے ارتقاء کرتا ہے جیسے یہ تمام داخلی احوال جو احتسابِ نفس اور مراقبہ وغیرہ کی سخت محنت کے بعد حاصل ہوتے ہیں، وہ بھی بتدریج اخلاقی تعلیمات میں پنہاں اخلاقی اسباب اور تکوینی اسباب کے ابعاد دریافت کرنے لگتے ہیں۔ اس قسم کی روحانی تیاری ایسے علماء کو قیاسی ضابطے وضع کرنے اور اشباہ و نظائر کے صحیح اطلاق کے قابل بنا دیتی ہے۔انہیں اخلاص کا وہ درجہ ملتا ہے جس سے وہ اجتہاد کے اصول و ضوابط تلاش کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ ایمان و یقین اور علم و عمل سے نہ صرف ان کی ثقاہت بڑھتی ہے بلکہ رحمت خداوندی بھی ان پر مہربان ہوتی ہے۔(۴۰)یہاں قاری طیب صاحب اپنی تائید میں ایک حدیث بھی پیش کرتے ہیں کہ: من عمل بماعلم ورثہ اللہ علم ما لم یعلم’ جس نے اپنے علم پر عمل کیا تو اللہ تعالی اسے ایک ایسے علم کا وارث بناتا ہے جو اب تک اس کے پاس نہ تھا۔ (۴۱) متصوفانہ فقہی خطاب میں اخلاقی تشکیل کے لیے ایک لفظ جو اکثر استعمال ہوتا ہے وہ ذوق ہے جس کا لفظی مفہوم مزہ یا taste ہے، لیکن اصطلاحاً اس کا مفہوم ہے روحانی بصیرت اور الوہی اشیا کا علم۔ اس میں یہ فرض کیا جاتا ہے کہ انسان کو اخلاقی و روحانی تربیت سے گزرنا ضروری ہے تاکہ وہ اخلاقی احساس کے تئیں ایک جمالیاتی حس کو ارتقا دے سکے جس کے ذریعے اسے باطنی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ یہ صلاحیت حاصل کر کے اب ایک فقیہ مزید علم حاصل کرتا ہے جس سے وہ ظاہری علم میں مطابقت دے سکے اور شریعت کے مجموعی مقصد یعنی سلامتی کے حصول کو پورا کرے۔
فقہاے مجتہدین جنھیں تقویٰ و پرہیزگاری کی یہ صفت ملی تھی اور انھوں نے قاری صاحب کے الفاظ میں، اس صلاحیت کو بہت بڑھا لیا تھا، انھیں اجازت تھی کہ وہ خود کو عطاکردہ علم لدنی کو کام میں لائیں۔ استدلال و قیاس کرتے وقت وہ فقہی حذر و احتیاط برتتے ہوئے اپنی اسی صلاحیت و موہبت کوکام میں لاتے تھے۔ شروع میں اس نظریہ کو پیش کرنے میں قاری صاحب بہت محتاط اسی وجہ سے تھے کہ اس سے وہ لوگ دور ہو جائیں گے جوان کے متصوفانہ خیال سے اتفاق نہیں رکھتے، پھر بھی قاری طیب صاحب متصوفانہ تقویٰ اور شرع کی اخلاقی ہدایات میں تطبیق دینے کی طرف بہت زیادہ مائل ہیں۔
متقی و پرہیزگار عالم کے اپنے قدسی علم کو استعمال کرنے کے پہلو کو واضح کرنے کے لیے وہ فقہ کے حنفی مکتبِ فکر کی طرف توجہ دلاتے ہیں جس کو عقلیت اور رائے کی طرف زیادہ مائل کہا جاتا رہا ہے۔ اس خیال سے اختلاف کرتے ہوئے انھوں نے اس پر نرم وشائستہ تنقیدیں کی ہیں۔ انھوں نے ناراضگی کے ساتھ کہا کہ محض وہ لوگ جو اخلاقیات کی پیچیدگیوں کو نہیں سمجھتے، وہی عالمانہ نظریات کو ’’ صرف مشابہت‘‘ قرار دینے کی جرأت کرتے ہیں یا ان کے پیروؤں کو ’’صاحب الرائے‘‘ کہنے کی جسارت کر سکتے ہیں۔حنفی مکتبِ فکر کے ناقدوں کی طرف سے یہ لفاظی اس لیے کی گئی کہ اس کے پیرو کاروں کو یہ الزام دیا جا سکے کہ وہ اصل شرعی مصادر سے کم اور عقلی رجحانات سے زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔
قاری صاحب شکایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جو لوگ ایسی غلط تنقیدیں کرتے ہیں، وہ یہ سمجھنے میں ناکام رہے ہیں کہ حقیقی فقیہ وہی ہو سکتا ہے جو عقلیت اور روحانیت دونوں کا امتزاج رکھتا ہو۔ یہ کہتے ہوئے واضح طورپر قاری صاحب کے ذہن میں سلفی مکتبِ فکر رہا ہے۔ انہوں نے بغیر کسی معذرت کے یوں اظہار خیال کیا ہے:
’’ فقیہ کبھی شاہد سے غائب کی طرف جاتا ہے جب کہ واضح جزئیہ سے اس کی مستور علت نکالتا ہے اور کبھی غائب سے شاہد کی طرف آتا ہے جبکہ کلیہ سے جزئیات کی طرف لوٹتا ہے اور یہ دونوں ایاب و ذہاب عوام اور عام علماء کی نگاہوں سے اوجھل ہوتے ہیں۔ اس لیے فقیہ مجتہد ان کی نگاہوں میں شریعت میں ذاتی رائے سے متصرف دکھائی دیتا ہے۔ کوئی نا سمجھی سے اسے از راہ طعن قیاس کہتا ہے اور کوئی صاحب الرائے وغیرہ، حالانکہ اس کی یہ رائے اور قیاس محض عقلی نہیں ہوتا اور نہ محض قوت فکر یہ کا ثمرہ ہوتا ہے کہ اُسے تصرف ذاتی کہا جائے، بلکہ اس ذوقی قوت کا ثمرہ ہوتا ہے جو شریعت ہی کے علم و مزاولت سے بطور تجربۂ صادق اُ س کے قلب میں من اللہ تعالیٰ القاء کی جاتی ہے۔ پس وہ تصرف خود شریعت ہی کا عینِ شریعت میں ہوتا ہے نہ کہ اس کا۔ مگر ہاں اس کا ظہور اسی کے ذریعہ ہوتا ہے جیسا کہ تمام شرائع سماویہ کا ظہور محض من اللہ ہے، مگر ہوتا ہے نبی کے ہی لسان و قلب پر۔اور یہ نہ طعن کی چیز ہے نہ حیرت و تعجب کی۔انبیا کے بعد امت میں محدَث بھی ہوتے ہیں جن کی خبر دی گئی، انبیاء کو لسان شریعت میں متکلم فرمایا گیا ہے اور غیر انبیا کو جو ان کشوف الٰہی اور علومِ تشریعی تک الہام کے ذریعہ پہنچائے جائیں اصطلاح شریعت میں محدَث کہا گیا ہے۔‘‘(۴۲)
شریعت کے اس صوفیانہ اورمتقیانہ تصور میں قاری صاحب علم کو الوہی اشراق سے وابستہ کر کے اسے بھی وحی کا حصہ بنا دیتے ہیں۔ اگر کسی موقع پر متن کے ظاہری معنی میں علم لدنی تبدیلی کر دے تو قاری صاحب واضح طورپر اسے جواز دینے کا رجحان رکھتے ہیں۔ انہوں نے ایک حدیث بیان کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ قرآن سات حرفوں (سبعۃ احرف )پر نازل ہوا ہے اور ہر آیت کاایک ظاہری معنی (ظہر) اور ایک باطنی معنی ( بطن) ہے۔ اور ہرحد کے لیے’’مطلع‘‘( جداگانہ طریقۂ اطلاع) ہے یعنی وہ متصوفانہ اور روحانی پہلو رکھتا ہے۔(۴۳)
یہاں تفسیری نکتہ ایک حقیقی منظر نامہ میں بدل جاتا ہے جہاں سے ہر چیز کامشاہدہ وضوح اور احساس کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔(۴۴) یہ بھی نوٹ کیا جانا چاہیے کہ فہم کی ایک مخصوص صفت بھی مجتہد کے ساتھ جڑی ہوئی ہے جو قاری طیب صاحب نے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے لکھی ہے۔ فہم و استدلال کے ساتھ ہی ایک طرح الہام بھی مجتہد کے لیے ضروری ہے۔ جس کو الہامی بصیرت ہو، اُسے محدَث کہتے ہیں جسے فطرت نے اخلاق اور انسانیت کے لیے تسکین بخش تعلیم سے نوازا ہے۔(۴۵) 
مجتہد کے روحانیت اور مخصوص الہامی بصیرت سے متصف ہونے کا تصور صرف دیوبندی مکتب فکرکے ساتھ خاص نہیں، اگرچہ ان کے ہاں اس تصور کی زیادہ وضاحت ملتی ہے۔ چوتھی صدی ہجری کے فقیہ تقی الدین ابن تیمیہ نے بھی فہم و شعور کی تعریف کرتے ہوئے اسے روحانیت سے مربوط کیا ہے۔ (۴۶) روحانیت ایک تابناک چراغ ہے۔ شب تاریک میں ایک قندیل رہبانی ہے اور جس میں جتنی طاقت ور روشنی ہوگی اتنی ہی اس سے ماحول میں روشنی پھیلے گی۔ اسی طرح جن مومنین کو قلبی روشنی (الالہام القلبی) حاصل ہوتا ہے، وہ رہنما اصول نہ ملنے کی صورت میں بھی اپنے وجدان سے طے کر سکتے ہیں کہ سچائی کے ساتھ کیا چیز مطابقت رکھتی ہے جو قرآن کے مطابق بھی ہو؟
یہ وجدانی پیش قیاسی غلط اور باطل چیز کو رد کرنے کے سلسلے میں متنی بیانات(یعنی القول، العلم اور الظن) کے استناد کے متوازی ہے جنہیں ایک فقیہ اپنے کام میں استعمال کرتا ہے۔ پھر ابن تیمیہ محدث کی حیثیت رکھنے والے لوگوں کے فضائل بیان کرنے والی حدیثیں بیان کرتے ہیں۔ مثلاً حضرت عمرؓ بھی اُنہیں میں سے ایک ہیں۔ محدث کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ وہ الملہم المخاطب فی سرہ ہے(۴۷) یعنی ایسا شخص جس پر خدا کی طرف سے الہام ہو۔ خدا اس سے خطاب کرے۔

علمیات

قاری طیب صاحب ایک طرف تو مجتہد کی داخلی کاملیت اور تقویٰ کے مابین ،دوسری جانب علمیاتی اور استدلالی علوم کے مابین ایک واضح رابطہ دیکھتے ہیں۔ فی الحقیقت انھوں نے فقیہ کی روحانی معرفت اور روایتی و قیاسی علوم میں ایک جدلیاتی رشتہ استوار کرنے کی تجویز دی ہے۔ جس شخص کو بھی قیاس و استدلال سے دلچسپی ہو، اسے سب سے پہلے ’’روایت‘‘اور دینی علوم حاصل کرنے چاہئیں۔ دوسرے وہ درایت کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتا۔(۴۸) 
علوم آلیہ ،مثلاً احادیث و آثار کی توثیق، متن کا استناد اور مختلف زمانوں میں ان کی روایت کے طریقے اور آخر میں ان کی تعبیر و تشریح، سب کے سب قاری صاحب کے نظریہ میں ، ایک بڑی خدائی اسکیم کا حصہ ہیں۔اگر وہ شخص جو تعلیم و تعلم اور روایت و تفسیر کے طریق کار سے وابستہ ہے، بزرگانہ فضائل سے محروم ہو تو یقینی طور پر وہ وحی کی ثقاہت کو مجروح کرے گا۔ شخصی تقویٰ ثقاہت کااشاریہ ہے اور معلومات کے مصادر کی کمی کو پورا کرتا ہے جو عمق اور وسعت اجتہاد کے لیے ضروری ہے۔ وہ کئی چیزوں سے متعلق ہے۔مثلاًمجتہد وحی کی تعبیر و تشریح میں اہم رول ادا کرتا ہے، پھر کتاب و سنت کی تعلیم کو احتیاط کے ساتھ قوم کو دیتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں جو کام فقیہ کو کرنا ہے، وہ اسے تقدس و اعتبار بخشتا ہے۔ اس طرح فقیہ کے کاندھے پر جو ذمہ داری ہے، اسی لحاظ سے اس روایت کو آگے بڑھانے اور منتقل کرنے کے باعث اسے زبردست استناد بھی حاصل ہوتا ہے۔

تاریخ

قاری صاحب مجتہد کے کام کو ایک بڑے تاریخی فریم میں رکھتے ہیں۔ وہ مختلف حالات کو سمجھنے کے لیے انسانی اختلاف کو تسلیم کرتے ہیں۔ ہاں اس میں فرق مراتب ہو سکتا ہے۔ پھر بھی ان کا احساس ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ جو زیادہ ذہین و فطین معلم ہو وہ بڑامجتہد بھی ہو: 
’’یہ امر بھی مخفی نہ رہنا چاہیے کہ اس تفاوت افہام کے سلسلہ میں ذہانت و نطانت کا ہر درجہ معتبر نہیں یعنی ہر فہیم مجتہدیا فقیہ نہیں کہلایا جائے گا بلکہ اس بارے میں فہم کا صرف وہی درجہ معتبر ہوگاجو معتد بہ ہو اور محض موہبت ربانی ہو، جو بطور علم لدنی قلبِ مجتہد میں القاء کیا گیا ہو۔ یعنی جس طرح کائنات خلق کے سلسلہ میں نہ ہر چھوٹے بڑے فہم کا آدمی موجد ہو سکتا ہے، باوجودیکہ ہر دور میں موجدوں کی بھرمار ہوتی ہے، بلکہ حق تعالیٰ کی حکمت جب کبھی تمدن کے کسی خاص پہلو میں ترقی دیکھنا پسند کرتی ہے تو قرنوں اور زمانوں میں چند مخصوص دماغ منتخب کر کے ان سے ایجاد کا کام لیتی ہے اور وہ تمدن کے ان گوشوں کو آراستہ کر دیتے ہیں جن کی زیبائش کی ضرورت تھی۔‘‘(۴۹)
قاری صاحب اپنے قاری کے ذہن میں اس بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں چھوڑتے کہ وہ تاریخ کے فہم کاایک خاص ادراک رکھتے ہیں۔ اس نکتہ کو مؤکد کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں: 
’’نہ ہر فہیم و ذہین مجتہد ہوسکتا ہے نہ ہر دور میں مجتہد پید ا ہوتے ہیں بلکہ حکمت ربانی تدین کے کسی مخفی گوشے کو نمایاں کرنا چاہتی ہے توخاص خاص ذہنیت کے افراد پید ا کرکے ان کے قلوب میں ذوق اجتہاد ڈالتی ہے اور وہ اپنے اس خاص وہبی ذوق سے تدین کے ان پہلووں کو واضح اور صاف کرکے اور گویا بال کی کھال نکال کر امت کے سامنے پیش کردیتے ہیں جن کے اظہارکی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘ (۵۰) 
قاری صاحب کی تشریح دو محسوس اثر ڈالتی ہے۔ سب سے پہلے تو وہ یہ مان کر چلتے ہیں کہ انسانی امور میں غیب کا غیر محسوس ہاتھ کام کر رہاہے اور مخصوص وقتوں میں یہ ہاتھ مخصوص صلاحتیں، رجحانات اور ضرورتیں وضع کرتا ہے۔ یعنی ان کے خیال میں ایک خاص سماجی ارتقا کام کر رہا ہے۔ آدم اسمتھ کی غیر فطری بازگشت سے الگ، اس غیبی ہاتھ نے زندگی کے ہر مرحلہ میں مفاد عام کی چیزوں کو منضبط کیاہے اور ضروری چیزیں فراہم کی ہیں۔(۵۱) 
دوسرے پہلو میں قاری صاحب تاریخ کی تقسیم کی اہمیت کوظاہر کرتے ہیں۔ مسلم علما کی ہر نسل نے روایت کی تنقیح و توضیح میں مخصوص کردار ادا کیا۔ ان کے تصور کے مطابق ہر زمانہ کے لوگ مخصوص صلاحیت، مخصوص اوصاف اور کردار کے حامل ہوتے ہیں اور وہی غیبی ہاتھ ہر زمانہ میں ان کی دست گیری کرتا ہے۔ اسی وجہ سے محنت کی تقسیم مفاد عامہ اور زندگی کی ضرورتیں مادی ہوا کرتی ہیں۔
قاری طیب صاحب کے یہاں اسلام کے قانون اور اخلاقیات کی تشریح میں مادیت مرکزی مقام رکھتی ہے۔ وقت کا ایک خاص تصور ان کے فلسفۂ تاریخ کی بنیاد ہے۔ دوسرے الفاظ میں ان کا اصرار ہے کہ مختلف تاریخی زمانوں میں بنیادی عقلی اختلافات ہوتے ہیں اور ہر مخصوص زمانہ کے مخصوص اوصاف ہوتے ہیں۔ گویا وہ ہر زمانہ کو اس کا خاص ’’ڈی این اے‘‘ دیتے ہیں۔ اپنے وضع کردہ منظر نامے میں انھوں نے یہ فرض کیا ہے کہ ہر مخصوص قوم کو مخصوص زمانوں میں خاص احوال، امکانات اور صلاحیتیں عطا ہوتی ہیں جن سے وہ اپنے مختلف کام انجام دیتی ہے۔ کچھ وقتوں کے بعد ، جس کی انھوں نے کوئی تحدید نہیں کی، یہ صلاحتیں معدوم ہو جاتی ہیں اور اس کے زمانہ کے حسبِ حال اور صلاحتیں اور توانائیاں عطا کر دی جاتی ہیں۔
مثال کے طورپر و ہ یہ مانتے ہیں کہ شریعت کی روایت میں گزشتہ نسلوں نے کافی محنت کر دی ہے۔ خطابیات میں زبردست یاد داشت کو بہتر طریقہ پر استعمال کر لیا گیا جس سے عرب کے نوزائیدہ معاشرے کی سرگرمیوں کا ریکارڈ بعد والوں کے لیے محفوظ ہو گیا۔ اگر اس زمانہ میں غیر معمولی یاد داشت نہ ہوتی تو بہت ممکن تھا کہ اسلام کے بنیادی مصادر کا آزادانہ مطالعہ نہ کیا جا سکے، لیکن خدا کا کرنا تھا کہ کئی نسلوں تک یہ صلاحیتیں زبردست انداز میں رہیں، جن میں بعد میں انحطاط آیا، اس قسم کی ممتاز صفات تاریخ کے ایک خاص زمانہ تک ہی اپنی معنویت برقرار رکھتی ہیں۔
ارتقا کی اصطلاح کو استعمال کیے بغیر ہی قاری محمد طیب جوکچھ کہنا چاہتے ہیں بہت وضاحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ جب مخصوص صلاحیتیں مطلوب نہیں ہوتیں تو وہ سماجی ارتقا کے ساتھ ہی عموماً غائب ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح کا پیٹرن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے نقل و روایت اور تدوین میں دیکھا جا سکتا ہے۔ تاریخی طورپر حدیث مصدقہ نقل و روایت اور ان کے بے شمار ثقہ راویوں کے سلسلہ کو کہتے ہیں۔ قاری صاحب کے خیال میں یہ علمی عمارت پہلے ہی مکمل ہو چکی ہے۔ موجودہ زمانہ میں نقل و روایت کی نقد و تنقیح کی ضرورت بہت کم رہ گئی ہے؟ اس لیے کہ اس طرح کے کام کے لیے جو صلاحیت اور رجحان درکار ہے وہ اب نہیں پایا جاتا۔
اسی طرح شریعت کے وسیع خطوطِ کار کی درایت کا کام بھی ما قبل کی نسلیں انجام دے چکی ہیں۔ اس لیے بغیر حقیقی ضرورت اور وجہ جواز کے ان کاموں کو از سر نو کرنا ایک فضول کام ہوگا۔ حقیقت میں قاری صاحب اس سلسلہ میں ایک فطری دلیل پیش کرتے ہیں کہ انسان اب ارتقا پذیر ہو چکاہے اور عقیدہ کے اصیل بیانات کے فہم کی صلاحیتوں کا اظہار نہیں کرتا۔ مثال کے طورپر ابتدائی زمانہ کے مجتہدین نے فقہی واخلاقی نظام کے کلیات وضع کیے اور ان سے بے شمار حقائق حیات اور جزئیات نکالے۔ ممکن ہے ان کی اس بات پر زیادہ اطمینان نہ کیا جا سکے کہ اب اس طرح کے بڑے کام کی صلاحیت ہم میں نہیں ہے۔ انہوں نے مجرد مادی صلاحیتوں پر زور دیا اس میں یہ شک بڑھ جاتا ہے کہ گویا ڈائناسورس کی مانند مخصوص قسم کے کام اور صلاحیتیں اب ہم سے ’’ نیست و نابود‘‘ ہو چکی ہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ قاری محمد طیب کے خیال میں نظریات، اعمال اور ضوابط پر اسی طرح غور و فکر کے ذریعہ جیسے قرون اول کے علما نے کیا، اجتہاد کرنابھی ایک بے کار کا عمل ہے۔ شروع کے مجتہدین نے پوری ذہانت کے ساتھ اصول و شرائع کی تفسیر و تشریح کا یہ کام انجام دے دیا ہے۔ ان کے خیال میں اس طرح کا کام پھر کرنے کا مطلب ہے ایک بے کار کام میں لگنا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہی فطری اصول ہے کہ جب ایک ہدف حاصل ہو جاتا ہے تو اس ہدف تک پہنچنے کے لیے ضروری توانائی بھی ختم ہوجاتی ہے۔(۵۲) حیرت کا مقام ہے کہ قاری طیب صاحب آج کے معلومات کے زمانہ کے بارے میں کیا کہتے جب سائنٹفک ایجادات و ترقیات نے نئے امکانات اور نئے مواقع کھول دیے ہیں جنہوں نے ماضی کے تمام تصورات کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ کیااس انفارمیشن کے زمانہ کا اسلامی فکرکے ارتقا میں کوئی حصہ نہیں ہوگا؟ بنیادی طورپر ایک بالکل مختلف انداز میں کلاسیکل مسلم علما کے تصور سے جدا ہوگا؟
اگر قاری طیب صاحب کے خیالات کاتقابل انیسویں صدی کے تصورِ تاریخ سے کیا جائے جس میں ماضی کے تمام قدیم دینیاتی، ما بعد الطبعیاتی اور نظریاتی تصورات سے آزاد ہو کر ماضی کے مطالعہ کی خواہش پائی جاتی ہے تو ان کے خیالات کو بمشکل ہی اس تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اگرچہ ماضی کی نظریاتی فضا سے آزاد ہو کر اس کا مطالعہ توقع سے زیادہ چیلنج سے پُر ثابت ہوا۔ نظریہ کی تفہیم یوں کی گئی کہ وہ مخصوص ایمانیات اور ماضی کے معلومات کا ایک سیٹ ہے۔ طیب صاحب کی تھیوری نظریاتی پابندیوں سے آزاد نہ تھی، تاہم اس بارے میں وہ کوئی الگ تھیوری نہ تھی۔ تاریخی مطالعات بھی ،جیسے کہ ہائڈن وائٹ نے اشارہ کیا ہے، ایک پیچیدہ عقدہ کا شکار ہیں۔ (۵۳) ایک علم کے بطور تاریخ کو بھی ایک تھیوری کی ضرورت تھی۔ لیکن نظریہ میں دلچسپی لینے کا مطلب ہے کہ غیردلچسپ معلومات کے انبار کو بند کر دینا۔ اس مشکل کا حل ہسٹاریکل حقیقت کا تاریخی تناظر ہے۔ اس خیال نے تاریخیت کو دنیا میں وجود کے سماجی تشکل کی صورت دے دی ہے۔ تاریخیت نے دنیا میں ایک مخصوص سماجی تشکل کو بڑھایا ہے جس میں مادی تجربات کی کار فرمائی ہے ، مگر یہ تصور قاری طیب صاحب کے تصور سے یکسر مختلف ہے۔
رین ہارٹ کوسیلیک (Reinhart Koselleck) کے کام کی بنیاد پر ہائڈن وہائٹ تاریخی وقت اور فطری وقت کے ما بین ایک نقطۂ امتیاز کھینچنے میں کامیاب ہوئے۔ اس طرح وہائٹ کے نزدیک : تاریخ کے معنی کی تشریح ایک معاشرتی حقیقت کے بطور کی جا سکتی ہے جو تغیر پذیر ہے، لیکن اس طریقہ پر نہیں جس سے فطرت گزری ہے۔(۵۳) اس کے اختلاف ، تعدد معیار اور اجتہاد کے تباین الوان کے ذریعہ، اسی تعدد کے ساتھ وقت کی تاریخ وقت کی فطرت سے مختلف ہے۔لوگ یہ بھی مانتے ہیں کہ تاریخی، زمان انسانی عمل کے ذریعہ اور مقصدیت کے باعث متاثر ہو سکتاہے، فطری زمان نہیں ہو سکتا۔تاریخ بنائی اور بگاڑی جا سکتی ہے، اور یہ کہ تاریخی علم تصور کے مطابق ہوتا ہے بشرطیکہ سماجیات کے تصورات تجربات کو معتدل کریں اور مستقبل میں امید اور یقین کو جگائیں۔(۵۵) 
قاری صاحب کے اخلاقی فلسفہ میں مادیت کو جو مرکزیت حاصل ہے اس کو سمجھنے میں وائٹ کے خیالات سے مجھے کافی روشنی ملی، کیونکہ اگر قاری صاحب صاحب تاریخی زمان پر اتنا زیادہ زور دیتے ہیں تو اس لیے کہ انھوں نے مادیت کی جینیٹکس کو اسلام کی اخلاقی اور فقہی تاریخ میں مرتب کیا ہے۔ قاری طیب کے نظریہ میں افتراضی میلانات، احساسات سے لے کر روحانی توجیہات تک سب مختلف زمانوں میں بڑے پیمانہ پر مختلف ہوتے ہیں ۔ اگر یہ ماننے یا کہنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ قاری صاحب جان گوٹ فرائڈ وان ہرڈر(Johann Gottfried Von Herder) کے خیالات سے آگاہ تھے، تاہم پر اسرار طورپر اٹھارہویں صدی کے اس جرمن مفکر اور بیسویں صدی کے ہندوستانی عالم کے ما بین کسی قدر ہم آہنگی موجود ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دونوں حضرات روایت کو اہمیت دیتے ہیں۔ ’’ہر ڈر‘‘ کا ایک اقتباس بھی اسی سے ہم آہنگ ہے۔ کانٹ(Kant) کے بارے میں لکھتے ہوئے ہرڈر نے لکھا ہے:
’’ حقیقت میں جو چیز بھی تغیر پذیر ہو وہ اپنے زمانہ میں اپنا ایک پیمانہ رکھتی ہے جو جاری رہتا ہے۔ دو دنیاوی چیزیں ایک زمانہ میں ایک ہی پیمانہ نہیں رکھ سکتیں..... لہٰذا (جرأت سے کہا جا سکتا ہے) کہ کائنات میں ایک مخصوص زمان میں بے شمار متعدد زمانے ہو سکتے ہیں۔‘‘(۵۶) 
جبکہ ہر ڈر کا مطلب زمان کے تعددی اور جزوی فطرت کا بیان تھا، پھر بھی اس نے ہر تغیر پذیر اشیا کو زمان سے جوڑ دیا ہے۔ ٹھیک اسی طرح قاری صاحب بھی کرتے ہیں کہ ان کے خیال میں بھی دو لمحے اور دو چیزیں بھی برابر اور یکساں نہیں ہوتیں۔ ہر ایک ممتاز ہوتی ہے۔ مادیت کا یہی تصور ہندوستانی فلسفی شاعر محمد اقبال نے بھی بیان کیا ہے۔
اپنے اس بیان کے دوران قاری محمد طیب نے تقریباً بے شعوری میں یہ بھی بتا دیا ہے کہ ایک مسلمہ روایت کیسے کام کرتی ہے۔ روایات فی الواقع بنیاد پرستی پر مبنی تنقید اور اعادہ کا شکار ہو سکتی ہیں اور اس اعادہ کو روکانہ جائے تو اس روایت کے معماروں نے جو بنیادی کام کیاہے، وہ متاثر ہو سکتا ہے۔ اگر ایسا ہے اور اگر بنیادوں کو ہی متاثر ہونے دیا جائے تو یقیناًاس روایت کے استحکام کو نقصان پہنچے گا۔ قاری صاحب جدید مسلم مفکروں سے ناراضگی ظاہر کرتے اور اپنے مذکورہ خدشہ کا اظہار کرتے ہیں جواجتہاد کے دروازہ کو عقلی آزادی اور اسلام کی تشریحِ نو کے لیے کھولنا چاہتے ہیں۔وہ ان کا خاکہ اڑاتے ہوئے ایک وارننگ بھی دیتے ہیں کہ اجتہاد میں مصروف ہونے کا مطلب ہے کہ ماضی کے علما کے فکری ورثہ کو تباہ کرنا۔ اور اس سے بھی زیادہ خراب یہ کہ مسلمات کو برباد اور اسلام کی محرف شکل سامنے لانا ہے۔
ان کی شدید اخلاقی وابستگی کے ساتھ، ان سے اتفاق کیے بغیر، یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ کیوں قاری صاحب اپنے تصورِ روایت کو مخصوص و حدتوں میں فطرت سے ہم آہنگ (Naturalize)کرتے اور اسے مخصوص خصائص سے متصف قرار دیتے ہیں۔ فطری مادیت کو بیان کرنے کے بعد انہوں نے بعینہ وہی پیمانہ تاریخی مادیت کے لیے استعمال کیا ہے۔ زمانہ کی خصوصیت اور جو چیزیں اس میں پیش کی گئیں ، ان سے قاری صاحب فقہا ے مجتہدین کو ایک استثنائی رنگ میں پیش کرتے ہیں، کیونکہ ان کا زمانہ بے نظیر تھا جو غیب سے ظہور میں آیا، اور اس طرح کے حالات پھر کبھی پیش نہیں آئے۔ یہاں وہ اس’’فطری غلطی‘ میں پڑ جاتے ہیں کہ وہ’’ کیاہے‘‘ سے ’’ کیا ہونا چاہیے‘‘ کو اخذ کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ چیزوں کوجس طرح انسان سمجھتا ہے، ویسے ہی انہیں ہونا چاہیے۔اس غلطی پر تعجب اس لیے نہیں کہ انہوں نے فطری زمان اور تاریخی زمان میں کوئی فرق نہیں کیا، دونوں کو یکساں قرار دے دیا۔ ان کے غور و فکر کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کچھ ذہنی کاوشیں اور سوالات ایسے ہوتے ہیں جن پر توجہ نہیں دی جانی چاہیے۔
اس طرح کے اجتہاد کی اگر ماضی میں کچھ نظیریں ملتی ہیں تو اب ان کو دہرایا جانا نہیں چاہیے۔ ایسا کیوں؟ ان نظائر کا اعادہ کیوں نہیں ہو سکتا؟ اس کا کوئی اطمینان بخش جواب قاری طیب کے پاس نہیں ہے۔ یہ بھی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ ان کی تشریح علما کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے، جن کا کردار، اس صورت میں روایت کے شارحین کے بطور ناگزیر ہو جائے گا، یا یہ نہ بھی ہو تو کم از کم یہ کہا جا سکتاہے کہ انہوں نے اس بات کی کوشش کی کہ مدون فقہ کو جارحانہ اور بنیادووں کو ہلا ڈالنے والے سوالات سے بچایا جا سکے۔
قاری محمد طیب صاحبؒ نے اجتہاد کی صرف اس شکل کو روا رکھا ہے جسے وہ ’’ قرآن و سنت کے اسرار و مصالح کی جستجو اور دقائق کی تلاش‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں(۵۷) ۔ اس ضمن میں اجتہاد کا مطلب ہوگا ایسے ضوابط تشکیل دینا جن کے ذریعہ ہر زمانہ میں احکامات کا ایک معیار متعین کیا جا سکے اور مناسب اخلاقی اور قانونی فتوے دیے جا سکیں۔ اجتہاد کی دوسری قسم جس کی وہ اجازت دیتے ہیں، وہ ہے اسلام پر ہو رہے حملوں کا جواب دینا۔مدافعینِ اسلام کو نصوصِ شرع سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے جن میں قرآن و سنت کے ساتھ میں قدما کے اجتہادات بھی شامل ہیں، خاص طورپر وہ جنھیں مسلمہ روایت کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ یہاں انفرادی اجتہاد کو بڑھانے کے مقصد سے قاری محمد طیب دینیات میں جدت اور توافق کو بنظر استحسان دیکھتے ہیں اور اس طرح نئے جدت پسند اہم مسلم مفکرین مثلاً شبلی نعمانی اور محمد اقبال کے موقف کے وہ بہت قریب قریب پہنچ گئے ہیں۔(۵۸)

خلاصہ

قاری طیب صاحب مختلف علم کے ذریعہ مسلم معاشرہ کے اخلاقی دائرۂ عمل میں غیب کا ہاتھ کام کرتے دیکھتے ہیں۔ یوں تو ان کے بیانات میں ہر ڈر سے کئی مشابہتیں پائی جاتی ہیں پھر بھی یہ کہے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ ان کا بیان بھی معذرت خواہانہ ہے۔ قاری صاحب کے تصور میں مرکزی جگہ تاریخ کی ہے اور اس خیال کو قبول کیے بغیر ان کے تصورات کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے فطری زمان کو تاریخی زمان کے مترادف سمجھا ہے۔ ان کے نزدیک تاریخ زمان میں واقع ہوتی ہے اور فطری زمان اور تاریخی زمان بالکل ایک ہی چیز ہے۔انھوں نے دونوں کو مخلوط کر دیا ۔ انھوں نے جویہ خیال ظاہر کیا کہ تاریخ زمانہ کے ذریعہ ہی وقوع پذیر ہوتی ہے۔ یہ بات خود ایک جدید تصور ہے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ قاری صاحب کے اجتہاد کی تفہیم ان کے اور ان کی نسل کے ساتھ ہی قبر میں چلی جائے گی یا ان کے پیرو کار اسے مستقبل میں آگے بڑھانے کا کوئی لائحہ عمل ترتیب دیں گے، کم از کم سو سالوں کے لیے۔
ابن خلدون کے بارے میں لکھتے ہوئے بروس لار نس کہتے ہیں کہ پندرہویں صدی کے شمالی افریقہ کے اسکالر کی مختلف بات اس کی وہ دراکی تھی کہ وہ تصور کی دنیا میں اپنے ماحول سے آگے کی سوچ سکتا تھا اور معاصرین سے دور رہتے بھی ان سے متعلق تھا(۵۹)۔ اس تعبیر میں ’’مختلف ہونے‘‘ پر سارا زور ہے۔
قاری صاحب اور ان کے دیوبندی پیرو کار ایک مخصوص سماجی تصور کو عزیز رکھتے ہیں جسے میں نے یہاں پیش کرنے کی کوشش کی ہے، مجھے امید ہے کہ اس میں کامیاب ہوا ہوں۔اور یہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ کس زاویہ سے وہ کچھ سے جدا ہیں، تاہم کچھ معاصرین سے وابستہ بھی ہیں۔ اس سے سوال اٹھتا ہے کہ کیا قاری طیب صاحب اور ان کے پیرو مشرقی ایشیا میں ایک ایسے رجحان کی نمائندگی کرتے ہیں جو اجتہاد و تقلید کی مخلوط روایت پر مبنی ہے؟ اور اس طرح اصلاحِ مذہبی کا یہ رجحان مشرق وسطیٰ میں رائج جدید اصلاحی رجحانات اور طریقۂ کار سے ممتاز ہے؟ یا یہ بھی معذرت خواہانہ روایت پسندانہ دینیات کی ہی ایک قسم ہے جس کی معنویت پر آج سنجیدہ سوالات کھڑے ہو سکتے ہیں؟ میں فیصلہ کرنے میں جلد بازی سے کام لینا نہیں چاہتا۔ کیا ہم اسے ’’ روایت پسندانہ عجوبہ، سنکی ذہنیت، حسیت کہیں یا ذہانت‘‘۔ لارینس کا ایک بار پھر حوالہ دینا ان کی دلیل کی قوت سے انکار نہ ہوگا۔ (۶۰) لارینس کے خیال میں قاری طیب کی اس روحانیت آمیز روایت پسندی کو نہ صرف جدید مسلم تحریکیں چیلینج کر رہی ہیں بلکہ اسے انٹر نیٹ پر دستیاب عالمی سطح پر موجود مسلم اسکالروں سے بھی چیلنج کا سامنا ہے جو کہ ایک نیا ظاہرہ ہے(۶۱)۔لارینس لکھتے ہیں کہ: ’’انٹر نیٹ اس عہد میں اب اس سے زیادہ وسیع اختیارہو کر رہ گیا ہے جتنا کہ دو سو سال بلکہ دس سال پہلے تھا‘‘ اور اجتہاد جو صرف پہلے علما کا حق تھا، اب اس پر ’’ الیکٹرونک اجتہاد‘‘ کا تصرف ہے جو انٹر نیٹ کے ذریعہ ہو رہا ہے، جس میں عورتیں بھی شامل ہیں۔ جہاں آپ کی آواز بطور خاص سنی جا سکتی ہے۔ اس ’’ای میل اجتہاد‘‘ کا اثر کیا ہوگا یہ کہنا تو بڑا مشکل ہے تاہم کسی قدر تیقن کے ساتھ یہ پیش قیاسی کی جا سکتی ہے کہ انٹر نیٹ پر جو اجتہاد کیا جا رہاہے وہ زمانوں سے چلی آرہی مسلم روایت اور عمل پر ضرور اثر انداز ہوگا بالکل ایسے جیسے جدیدیت پسندوں کے دباؤ سے گزر کر یہ اجتہاد تبدیل ہوا ہے۔ ای میل اجتہاد کے کی حقیقت کے بارے میں ، ظاہر ہے قاری طیب صاحب اپنے وقت میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے چہ جائیکہ اس کا مقابلہ کرتے ۔
یہ واضح ہے کہ کم از کم اسلامی قدامت پسندی میں استدلالی روایت کا ایک رجحان اسلامی ہند میں ’’ اسلامی شریعت‘‘ یا قانون کو اس طورپر سمجھتا ہے کہ مادی احوال اور ہنگامی حالات کے لیے یہ نہیں ہے بلکہ یہ بہت قریب سے وجودیاتی یا موضوعی سوالوں سے وابستہ ہے۔ میری معلومات میں مشرقی ایشیا اور ایران کے روایتی اسکالرز اس روایت کی آخری علامت رہ گئے ہیں جہاں مذہبیت کے روحانی اور دینیاتی زاویوں کو بڑی احتیاط کے ساتھ قانونی خطاب کے ایک حصہ کے بطور اختیار کیا جاتا ہے۔ اوپر کی مثالوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کس طرح قانون سازی کا عمل روحانیت سے گہرائی کے ساتھ پیوست ہے۔ یعنی ایک فقیہ اس تصور کے مطابق محض استدلالیت پر عامل نہیں ہوتا بلکہ وہ روحانیت اور تقویٰ سے بھی اثر پذیر ہوتا ہے۔
شیخ یعنی روحانی پیشوا کے رول کے سلسلہ میں گفتگو کرتے ہوئے، عہد وسطیٰ کے ہندوستان میں، لارینس نے بھی مختصراً متقی فقہا کے کردار کو تقریباً اسی طرح ذکر کیا ہے جیسے قاری طیب کرتے ہیں کہ ’’ قوم میں مشائخ مخصوص زمانہ میں خدا کی مشیت کے ترجمان ہوتے ہیں۔ وہ قرآن اور سنت کی زندہ تقدیس ہوتے ہیں۔ وہ قصہ، کہانی، شعرو شاعری کے ذریعہ صحیح نکتۂ نظر اور حسن کردارپر زور دیتے ہیں۔ بعض اوقات روحانی مجاہدہ کی مشقت سے راحت دینے کے لیے بھی ان چیزوں کو کام میں لاتے ہیں۔ایک شیخ پرہیزگاری کا پیکر ہوتا ہے۔ علم و امید کی جوت جگاتاہے۔ وہ عبادت کرتا ہے ، تعلیم دیتا ہے اور تعلیم دیتا اور عبادت کرتا ہے‘‘(۶۲) ۔ مختصراً روحانی اور اخلاقی تشکیل روحانیت پسند فقہا کی عادت ثانیہ بن جاتی ہے اور قانون سازی یا روزمرہ کی زندگی میں اخلاقی و روحانی قدروں کی رعایت بھی خدا کو اتنی ہی مطلوب ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ یہ کہنا زیادہ درست ہو سکتا ہے کہ قاری طیب صاحب کے خیال میں فقیہ قدرت کا آلہ کار ہے، اور اس معنی میں فقیہ کا رول پیغمبرانہ ہو جاتا ہے کیونکہ وہ وراثت نبوت کا حامل ہے اور خدائی الہام کا مخاطب (مُحدَث ) بھی۔

حوالہ جات وحواشی

۳۸۔ ایضاص، ۶۵ 
۳۹۔ ابوحامد محمد بن غزالی :کتاب التوحید والتوکل،احیاء علوم الدین(بیروت دارالکتب العلمیہ ۱۲۴۱ھ/۱۰۰۲ء)۴/۹۱۲ 
۴۰۔ طیب،ص،۲۵ 
۴۱۔ اخلاقیات میں باطنی یا سری علوم کے کردار کے لیے دیکھیے:محب اللہ ابن عبدالشکور،مسلم الثبوت فی اصول الفقہ۲/۱۰۴۔۲۰۴
۴۲۔ قاری طیب ص،۶۲ 
۴۳۔ ایضا ، ۷۲ 
۴۴۔ معطلہ کے بارے میں مطالعے کے لیے دیکھیے،
Louis Massignon/ Essay on the Origins of the Technical Language of Islamic Mysticism, trans. Benjamin Clark (Notre  Dame,Indiana:University of Notre Dame Press 1997) 95
۴۵۔ ۔پانوپٹیکن کا حوالہ فوکالٹ سے لیا گیا ہے جوجیرمی بنتھم کے ٹاور کا استعمال کیا ہے،جس سے جیل کے تمام قیدی اچھی طرح دیکھے جاسکتے تھے۔دیکھیے مائکل فوکالٹ: 
Discipline & Punish: The Birth of the Prison (trans.) Alan Sheridan (New York: Vintage Books, 1995),p.200
۴۶۔ قاری طیب ص، ۲۷ 
۴۷۔ تقی الدین احمد ابن تیمیہ ،ترتیب ،امیرالجزار اور انور الباز:معجم الفتاوی،( دار الوفاء۱۴۱۹ھ/ ۱۹۹۸منصورہ، مصر)۱۹/ ۲۹
۴۸۔ ایضا 
۴۹۔ قاری طیب ص، ۶۰ 
۵۰۔ ایضاص، ۴۰ 
۵۱۔ ایضا 
۵۲ ۔دلچسپ بات ہے کہ آدم اسمتھ نے ’’خفیہ ہاتھ‘‘ (invisible hand) کے لفظ کومختلف طریقوں سے استعمال کیا ہے۔ایک جگہ فلکیات کے تناظر میں تحقیر و مذمت کے معنی میں اس لفظ کو استعما ل کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ حتی کہ دورقدیم کے ناواقفوں نے بھی غیرمعمولی ترقیات کو مشتری کے خفیہ ہاتھ کی طرف منسوب نہیں کیا۔The Moral Sentiments میں اس کا استعمال خوشی کے ذرائع کی تقسیم کے حوالے سے ہواہے۔ اور In The Wealth of the Nations میں انہوں نے اس کا استعمال مفاد عامہ کے فروغ کے لیے کیاہے۔ دیکھیے: 
AdamSmith and D.D.Rapahel,Macfied,A.L.The Theory of Moral Sentiments (Indianapolis:Liberty Fund/Oxford Press,1984) p.184 esp.fn.7
۵۳۔ قاری طیب ص،۶۰ 
۵۴۔
 Hayden White, Foreword to Reinhart Koselleck, The Practice of Conceptual History: Timing History, Spacing Concepts (Stanford, CA: Stanford University Press, 2002), x.
۵۵۔
 Hayden White, Foreword to Ibid., xi. 
۵۶۔ ایضا 
۵۷۔
Reinhart Koselleck, Futures Past: On the Semantics of Historical Time, trans. Keith Tribe (Cambridge, Mass & London: The MIT Press,  1985), xxii. Also see Johann Gottfried Von Herder and Michael N. Forster (trans & ed.), Philosophical Writings (Cambridge:Cambridge  University Press,2002
۵۸۔ قاری طیب ص،۴۶
۵۹۔ دیکھیے: 
Mehr Afroz Murad, Intellectual Modernism of Shibli Nu`mani (Lahore: Institute of Islamic Culture, 1976); Muhammad Khalid Mas`ud, Iqbal146s Reconstruction of Ijtihad (Lahore: Iqbal Academy Pakistan, 2003).
۶۰۔
 Bruce B. Lawrence, "Introduction to the 2005 Edition," in The Muqaddimah, ed. Franz Rosenthal and N.J. Dawood (Princeton & Oxford: Princeton University Press, 2005),p. viii.
۶۱ ۔ایضا 
۶۲۔
Miriam Cooke and Bruce B. Lawrence, Introduction "In Muslim Networks from Hajj to Hip Hop".

سر سید احمد خان کی سیاسی فکر اور اس کے نتائج و اثرات ۔ ایک تنقیدی جائزہ

کے ایم اعظم

برصغیر ہند و پاکستان کے مسلمانوں کی صد سالہ سیاست (۵۳۸۱ء تا ۷۴۹۱ء) پر دو اشخاص مکمل طور پر چھائے ہوئے ہیں۔ ایک ہیں لارڈ تھامس میکالے (۰۰۸۱۔۹۵۸۱) اور دوسرے ہیں سر سید احمد خان (۷۱۸۱۔۸۹۸۱)۔ جب انگریز کانگریس کے ذریعے ہندوؤں پر غلبہ پانے میں ناکام رہ گئے تو اُن کی توجہ ہندوستان کے مسلمانوں کی طرف مبذول ہو گئی۔ مسلمانوں پر غلبہ حاصل کرنے میں سر سید احمد خان نے انگریزوں کا ہاتھ خوب بٹایا۔ انہوں نے مسلمانوں کو ہندوؤں کے اثر و رسوخ سے نکالنے کے لیے دو قومی نظریہ پیش کیا۔ سر سید احمد خان کے فلسفہ اور ان کی مسلسل جدوجہد نے ہندی مسلمانوں کو سیاسی آزادی تو دلوا دی مگر انہیں انگریزوں کا ذہنی غلام بنا دیا۔ اُنہوں نے یہ پروگرام ایسی مضبوط لائنوں پر استوار کیا کہ ہم آج تک فرنگیوں کی ذہنی غلامی سے نہ نکل پائے۔ 
لارڈ میکالے نے ہندوستان میں چار سال (۴۳۸۱ تا ۸۳۸۱) قیام کیا۔ اپنے اس قیام کے بعد جب وہ برطانیہ واپس پہنچا تو اُس نے ہاؤس آف لارڈز میں ۲ فروری ۵۳۸۱ء کو یہ تقریر کی:۔
’’میں نے ہندوستان کے شمال سے جنوب تک اور مشرق سے مغرب تک پالکی میں بیٹھ کر سفر کیا ہے۔ اس سفر کے دوران مجھے سارے ہندوستان میں نہ تو کوئی فقیر ملا اور نہ ہی کوئی چور۔ میں نے ہندوستان کے مال و دولت اور اس کے باشندوں کی بے پناہ قابلیت اور اعلیٰ اخلاق کا مشاہدہ کیا۔ میرے خیال میں ہم اس ملک کو کبھی بھی فتح نہ کر سکیں گے۔ اگر ہم نے اس ملک کو فتح کرنا ہے تو ہمیں اس کی ریڑھ کی ہڈی کو توڑنا پڑے گا جو کہ اس کا روحانی اور ثقافتی ورثہ ہے۔ چنانچہ میرا مشورہ یہ ہو گا کہ ہم ان کے قدیم نظام تعلیم اور تمدن کو کلی طور پر بدل دیں۔ یہاں تک کہ ہندوستانی یہ محسوس کرنے لگیں کہ غیر ملکیوں کی ثقافت اور اُن کی انگریزی زبان ہماری ثقافت اور زبان سے بہتر ہے۔ اس طرح وہ اپنا وقار، عزت نفس اور ثقافت کو کھو دیں گے۔ جب یہ ہو گا تو ہم اُن کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ڈھال لیں گے اور وہ حقیقتاً ایک غلام قوم بن جائے گی۔‘‘
فرنگیوں کے اس پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سر سید احمد خان نے ایک بے مثل کردار ادا کیا جس کا اندازہ آپ اُن کے ان خیالات سے لگا سکتے ہیں۔ مندرجہ بالا لارڈ میکالے کی تقریر کے فقط ۴۳ سال بعد سر سید احمد خان علی گڑھ کی سائنٹیفک سوسائٹی کے سیکرٹری کو لنڈن سے اپنے خط مورخہ ۵۱ اکتوبر ۹۶۸۱ء میں رقمطراز ہیں:۔
’’انگریزوں کی خوشامد کئے بغیر، میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ہندوستان کے باشندے خواہ ان کا تعلق اونچے درجے سے ہو یا نچلے درجے سے، سوداگر اور چھوٹے دوکاندار، پڑھے لکھے اور اَن پڑھ جب اُن کا موازنہ انگریزوں سے اُن کی تعلیم، اخلاق اور حق گوئی میں کریں تو انگریزوں کی قابلیت اور وجاہت کے مقابلے میں ہندوستانیوں کی حالت ایسے ہے جیسے ایک گندے جانور کی۔‘‘ 
یقین نہیں آتا کہ ہندوستانی قوم صرف ۴۳ سال میں گندگی کے جوہڑ میں گر جائے گی۔ ۵۳۸۱ء میں تو لارڈ میکالے ہندوستانیوں کو ایک نہایت اعلیٰ و ارفع قوم گردانتا ہے جبکہ ہمارے اپنے ممدوح سر سید احمد خان ۹۶۸۱ء میں ان پر ذلت اور خواری کا لیبل لگا رہے ہیں۔ سر سید احمد نے اگر کوئی سیاسی سبق دیا تھا تو وہ یہ تھا کہ مسلمان ہند اپنی زبان اور عمل سے انگریز حکمرانوں کو یہ یقین دلا دیں کہ وہ اُن کی وفادار رعیت ہیں۔ سر سید احمد خان نے مسلمانوں کو انگریزوں کے اطاعت کا سبق دیا۔ اُنہوں نے ہندی مسلمانوں کو نصیحت کی کہ وہ نوکریوں اور مراعات کے لیے انگریزوں سے التجا کریں، بطور حق نہ مانگیں، جیسے اُن کی زندگی کا مقصد بس ان قلیل مادی مراعات کے سوا اور کچھ بھی نہ ہو۔ سر سید کو انگریزوں اور انگریزی زبان سے اس قدر محبت تھی کہ وہ اپنے سب بچوں کے نام بھی انگریزوں کے ناموں پر رکھنا چاہتے تھے۔ اُن کو افسوس یہ تھا کہ وہ فقط اپنے ایک پوتے، سر راس مسعود، کو ہی انگریزی نام دے سکے۔ 
حکومت برطانیہ کے سرکاری ریکارڈ پر ایک نظر ڈالنے سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ ہندوستان میں انگریز حکمرانوں کی پالیسی ’’تفرقہ ڈالو اور حکومت کرو‘‘ پر مبنی تھی۔ وزیر ہند‘ چارلس ووڈ گورنر جنرل‘ لارڈ ایلگلن کو رقمطراز ہیں کہ ’’ہندوستان میں ہماری طاقت کا راز ایک حصے کو دوسرے حصے سے لڑانے میں ہے۔ چنانچہ ہمیں اس حکمت عملی پر قائم رہنا چاہئے۔ تمہیں اپنا پورا زور اس بات پر لگا دینا چاہئے کہ ہندوستانیوں میں کوئی مشترکہ عوامی جذبہ نہ ابھرنے پائے۔‘‘ وزیر ہند جارج ہیملٹن گورنر جنرل لارڈ کرزن کو اپنے 26 مارچ 1886ء مراسلہ میں یہ مشورہ دیتے ہیں ’’کہ تعلیمی درسی کتب اس طرح سے ترتیب دی جائیں کہ وہ دونوں قوموں میں اختلافات کو اجاگر کریں‘‘۔ یہی انگریز حکمرانوں کا تاریخ ہند کو مسخ کرنے کا طریق کار تھا جس میں انہوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کو دو متحارب کیمپوں میں بانٹ دیا جن کے درمیان کوئی بھی شے مشترک نہ تھی۔ ان کی اسی تقسیم نے بعد میں دو قومی نظریہ کے لیے راستہ صاف کیا۔
یہودی نژاد وائسرائے ہند، لارڈ ریڈنگ وزیر ہند کو اپنے 21 ستمبر 1922ء کے مراسلہ میں رقمطراز ہیں کہ وہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مکمل تفرقہ ڈالنے میں قریب قریب کامیاب ہو گئے ہیں اور اس مقصد کو حاصل کرنے میں اُنہیں سر محمد شفیع کی بھرپور اعانت حاصل ہے، جو کہ ایک باوقار مسلمان ہیں۔ بے شک ہندو گماشتے بھی ایسی خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ بالآخر برطانوی استعمار اپنی سازش میں پوری طرح کامیاب ہو گیا۔ ہندو مسلم اتحاد قصہ پارینہ بن گیا۔ ہندو مسلم فسادات جگہ جگہ پھوٹ پڑے اور فرقہ وارانہ کشیدگیاں نفرت کے قالب میں ڈھل گئیں۔ بے شک ایک استعماری حکومت ایک محکوم ملک کے اندرونی اتحاد کی خواہشمند نہیں ہو سکتی۔
مقام حیرت ہے کہ کس طرح دس کروڑ جنگجو‘ جہادی مسلمانوں پر مشتمل قوم‘ جس نے آٹھ سو سال تک ہندوستان پر بلا خوف اور بلا شرکت غیرے حکومت کی تھی یکدم ایک خوفزدہ اقلیت میں تبدیل ہو کے رہ گئی۔ بے شک مسلمان ہندوستان میں ایک اقلیت تھے مگر وہ ایک کمزور اقلیت نہ تھے اور ہندوستان کے مارشل شمالی صوبہ جات میں اکثریت میں تھے اور ان کی حیثیت ہندوستانی فوج اور پولیس میں ریڑھ کی ہڈی کی سی تھی۔ کتنی درد ناک بات ہے کہ آج تک ہم سر سید احمد خان کی دی ہوئی عقلی و مادہ پرستانہ تعلیمات کو نہیں بھولے۔ یہ اُنہی کی تعلیمات کا ہی اثر تھا کہ ہم نے اپنی تحریک آزادی کی جدوجہد کی زمام بھی فرنگی پرست اشرافیہ کے طبقے کے حوالے کر دی‘ جو آج تک ہم پر مسلط ہیں اور ہم قیادت کی شمع اصحاب علم و فہم کے حوالے نہیں کر پائے۔
محترم ڈاکٹر اسرار احمد کے بقول ہندوؤں کی عددی اکثریت کا خوف ہی مطالبہ پاکستان کی بنیادی وجہ تھی‘ جبکہ اسلام کے نعروں کی ضروری مگر ثانوی حیثیت تھی۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا پاکستان کی بقا ہندوؤں کے خوف اور نفرت اور اسلام کے نعروں پر ہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ آج کل نفاذ اسلام کے بلند بانگ نعرے بلند کرنے والے تقریباً سارے کے سارے علما قیام پاکستان کے مخالف تھے۔ سوال یہ سر اٹھاتا ہے کہ اگر ہندو کا خوف ہی تخلیق پاکستان کی بنیادی وجہ تھا تو پھر مسلمانوں کی ایک کمزور اقلیت کو ہندو اکثریت کے رحم و کرم پر چھوڑنا کہاں کی عقل مندی تھی۔ اسلام کی ابدی حکمت نفرت پر نہیں‘ عالمگیر اخوت انسانی اور محبت کی فراوانی پر مبنی ہے۔
یہی مقصود فطرت ہے‘ یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہانگیری‘ محبت کی فراوانی
(بانگ درا)
افغانستان میں وسیع علاقوں پر اتنا لمبا عرصہ قائم رہنے والے قتل و غارت اور دنگا و فساد کے بعد جب ۲۰۰۲ء میں کابل میں لوی60ہ جرگہ منعقد ہوا تو افغان قائدین نے یہ سوال اٹھایا کہ ہمارے ہیرو کون ہیں؟ بے شک ایک زندہ قوم کی یہی نشانی ہوتی ہے کہ انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ اُن کے ہیرو کون ہیں۔ جہاں تک ہمارا اپنا تعلق ہے ہم حقیقت کو پانے سے قاصر رہ جاتے ہیں کیونکہ ہمارا رویہ ظاہر پرستی اور گہرائی میں نہ جانے کا ہے۔ چنانچہ قومی سطح پر ہمیں اپنے ہیروز کا صحیح شعور نہیں ہوتا۔ سر سید احمد خان نے دو قومی نظریہ پر مسلمانوں کو اکٹھا کیا اور پھر ان کے نئے ملک کو چلانے کے لیے علی گڑھ کے ذریعے ایک بیوروکریسی کا بھی بندوبست کر دیا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے بیوروکریٹ عموماً سر سید احمد کے مداح ہیں جبکہ اسلام کی طرف مائل عوام انہیں اچھا نہیں سمجھتے۔
قومی اصلاح کے لیے ہمارے ہم وطنوں کے اٹھائے ہوئے پرعزم اقدام بار بار زمینی حقائق کی سنگلاخ چٹانوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو چکے ہیں۔موجودہ حالات میں ایک عام شہری کو شدید پریشانیوں کا سامنا ہے اور وہ بے بسی کے عالم میں کسی نجات دہندہ ، مہدی یامسیحا کے ظہور کا منتظر ہے۔ عسکری قیادت کی لائی ہوئی تبدیلیوں کا پراشتیاق استقبال کرنے کے بعد عوام ہر بار انقلاب کے ظہور سے ناامید ہو کر دل شکستگی اور نفسیاتی پژمردگی کاشکار ہورہے ہیں اور اب تو یہ خطرہ بھی لاحق ہوگیا ہے کہ کہیں وہ پاکستان سے ہی مایوس نہ ہو جائیں۔
ملک کے اکابرین اور دانشور استحکام پاکستان کے لیے متنوع انواع کی تجویزات اور لائحہ عمل تشکیل کر رہے ہیں۔ آج کل ان میں ایک ہیجانی کیفیت پائی جاتی ہے۔ شاید اس لیے کہ مسائل گمبھیر ہیں اور وقت بہت کم۔ بے شک ان کی یہ کوششیں قابل تحسین ہیں مگر ان سب میں ایک ہی کمی پائی جاتی ہے اور وہ ہے کہ ہمارے سب مصلحین کی توجہ فروعی مسائل اور زمینی مشکلات پر مرکوز رہتی ہے، جبکہ حقیقی مسائل پر کوئی توجہ صرف نہیں کی جاتی۔ شاید اس بنیادی غلطی کی وجہ سے قومی اصلاح کا کوئی لائحہ عمل متوقع نتائج برآمد کرنے سے قاصر رہ جاتا ہے۔ بقول حضرت سعدیؒ 
خشت اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج
ہماری قوم تعبیر کی دوبنیادی غلطیوں کی وجہ سے پریشان حال ہے اور اسے مسلسل کوشش کے باوجود قومی انحطاط کا کوئی حل نظر نہیں آرہا۔ پہلی تعبیر کی غلطی ہمارے ممدوح سر سید احمد خان سے ہوئی جب انہوں نے قوم رسول ہاشمی کی ترکیب کو اقوام مغرب پر قیاس کرکے اسے زوال سے نکالنے کا جو طریق کار مادہ پرستی ، ملازمتوں کے حصول اور انگریزوں کی رضا جوئی کی شکل میں پیش کیا وہ دور اندیشی اورتاریخ کے عمیق فہم پر مبنی نہ تھا۔
سرسید اور ان کے معاونین کی نیت پر شبہ نہیں کیاجاسکتا لیکن ان کی تحریک کامہلک نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانان ہند اپنے شاندار اور محترم ماضی سے آہستہ آہستہ دور ہوگئے ۔ سرسید احمد کی تعبیر کی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے اسباب زوال کی بنیادی حقیقت ، وہن (یعنی دنیا کی محبت اور موت کا ڈر) کو نظر انداز کرکے قوم کی مادی منفعتوں کو مطلوب و مقصود بنالیا اور ان منفعتوں سے عارضی محرومی کو زوال کا حقیقی سبب جان لیا ۔ بے شک ایسے انداز فکر سے مستقل قومی فلا ح کی امید رکھنا خوش فہمی سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ سرسید احمد اور ان کے رفقاء کی تربیت یافتہ نسل نے مسلمان ہند کی علمی ، فکری، روحانی اور تمدنی زندگی کی مقتدر روایات کو درخود اعتنا نہ سمجھا بلکہ مادی زندگی کی آسائشوں کو ملی زندگی کے اس قابل قدر تسلسل پر ترجیح دی۔ ان کے نزدیک بقول اکبر الہ آبادی زندگی کی معراج کلر کی کرنے ، ڈبل روٹی کھانے اور خوشی سے پھول جانے میں تھی۔
علی گڑھ نے حالی ، شبلی اورنذیر احمد جیسی نابغہ روزگار شخصیات تو کیا پیدا کرنی تھیں، وہ ان اکابرین کی قائم کردہ روایت کو آگے بڑھانے والے حضرات بھی وجود میں نہ لاسکا۔ ایک اجنبی زبان کے ذریعے تعلیم و تدریس کے فیصلے نے برصغیر کے باشندوں کو ذہنی مرعوبیت اور مغلوبیت کا شکار کرکے ان کی تربیت کے سلسلے میں بڑی حد تک منفی کردار ادا کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قوم کا ایک فعال حصہ اپنی شاندار تاریخی روایات سے بے تعلق اور متنفر ہوگیا۔ علی گڑھ تحریک کی ابتداء جس اصلاحی جوش وخروش اور ترقی کے ولولہ سے ہوئی تھی وہ آہستہ آہستہ ظاہری چمک دمک ، دنیوی کامیابی اور زمانہ سازی کے جذبے کے نیچے دبتا چلا گیا۔ علی گڑھ کی تربیت یافتہ نسل نے اسلام کو بھی انگریزی مصنفوں کی کتابوں کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کی، جس کی وجہ سے ایک ناقص فہمِ دین اور تصوف سے دشمنی ہی اُن کے حصے میں آئیں۔
قوم ابھی اس ضرب شدید سے سنبھلنے نہ پائی تھی کہ ہمارے دینی زعما نے تعبیر کی ایک دوسری دور رس غلطی کر دی۔ انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں ہمارے آباؤاجداد اور سیاسی و دینی رہنماؤں پر مغربی ترقی و تسلط کا رعب اس قدر تھا کہ وہ اپنی سیاسی نجات کے لیے مغربی طریق کار کو اپنائے ہوئے تھے۔ وہ مغربی انداز فکر بالخصوص نظریہ آئیڈیالوجی سے بہت متاثر تھے‘ جس کے تحت افراد کی تھوڑی سی تعداد نے مختصر سے عرصے میں یورپ کے کئی ایک ملکوں پر اپنا تسلط قائم کر لیا تھا۔ یہ مغربی ترقی و تسلط کا اثر تھا کہ ہمارے سیاسی‘ علمی اور دینی زعما نے مغربی فکر کو تقریباً کلی طور پر اپنا لیا‘ یہاں تک کہ تاویل کے ذریعے قرآن کے ابدی پیغام کو بھی مغربی فکر کے ہم آہنگ کرنے کی مسلسل کوششیں کی گئیں۔ ان کے مغرب کی طرف فکری جھکاؤ نے ان کو آئیڈیالوجی کی اساس پر غلبہ اسلام کے تصور سے روشناس کروایا۔ یہ اسی سیکولر فکری روایت کا اثر ہے کہ ہمارے دینی زعما اب بھی سسٹم یا نظام کی بات کر رہے ہیں اور انہیں اس بات کا احساس نہیں کہ ایک مسلمان کے لیے اس کی باطنی اور ظاہری قوت کا راز تعلق باللہ میں ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اگر ان کے حکمرانوں کا اللہ کے ساتھ تعلق برحق تھا تو ہر قسم کے سیاسی نظاموں یا اداروں نے اچھے نتائج پیدا کئے اور جب کبھی یہ تعلق ماند پڑ گیا تو کوئی بھی ادارہ بشمول خلافت اچھے نتائج پیدا نہ کر سکا۔
مغرب کے سامراجی غلبہ کے تحت ہم نے زندگی کے ہر شعبہ میں مغربی انداز فکر کو اپنالیا ، جس کے تحت روحانی ترقی کو پس پشت ڈال کر ہم نے مادی ترقی کو ہی مطمح نظر بنالیا۔ اس نظریاتی تغیر (Ideological Shift) نے ہماری قومی زندگی پر بہت دور رس نتائج مرتب کئے۔ مثلًا یہ کہ غلبہ طاقت سے حاصل کیا جاسکتا ہے نہ کہ اخلاق سے۔ نتیجتاً ہماری قوم کی توجہ انسان سازی کے اسلامی طریق کار سے ہٹ کر مغربی نظریات، ابلاغیات (Mass Media) اور عوامی تحریکوں (Mass Movements) پر مرکوز ہوگئی او ر ہمارا مطمح نظر ووٹوں کا حصول جا ٹھہرا۔ شمع سے شمع جلانے کا قدیم فن ختم ہوگیا اور ہمارے دینی زعما اس سوئچ کی تلاش میں سرگرداں ہوگئے، جس کے دبانے سے ساری کی ساری بتیاں یک لخت جل اٹھیں۔ اس دنیاوی کشمکش میں و ہ اپنے اندر کی بتی بھی جلانا بھول گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے دینی زعما کو باہر کی دنیا تو نہ ملی مگر ان کے اندر کی دنیا برباد ہوکر رہ گئی۔ ہم ظاہری دنیا میں اتنا گم ہوئے کہ اندرکے انسان کو بھول گئے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ پچھلی صدی کے دوران غلبہ اسلام کے نام پر اٹھنے والی کوئی جماعت کسی بھی مسلمان ملک میں کیوں کامیاب نہیں ہوئی۔
ہمارے اکابرین کی اس فکری روش کانتیجہ یہ نکلا کہ ہندوستان کے مسلمان نظریاتی ، معاشرتی اور روحانی بحران کا شکار ہوگئے، جس سے ہم آزادی کے چونسٹھ سالوں بعد بھی نکل نہ پائے۔ شاید ہمارے دینی اکابرین کو تاریخ کا ایک ازلی سبق یاد نہیں رہا کہ وہ قومیں جو موت سے نہیں ڈرتیں، اللہ انہیں حکمران بنا دیتا ہے اور وہ قومیں جو موت سے ڈرتی ہیں انہیں محکوم۔ دراصل توحید ہی انسانوں کو صحیح معنوں میں آزاد کرتی ہے اور وہن ان کو غلام بنا دیتا ہے۔ جب تک ہم پاکستانی اپنے دلوں کو اس ازلی حق سے آشنا نہ کرلیں گے ، ہم ذہنی غلامی، حلقہ بگوشی، محتاجی، اور اطاعت غیر کے گورکھ دہندوں میں مقید رہیں گے۔ تعبیر کی ان دوبنیادی غلطیوں کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ جب تک ہم تعبیر کی ان دو بنیادی غلطیوں کی بھول بھلیوں سے نہیں نکلیں گے قومی سلامتی اور دینی فضیلت کا راستہ ہماری نظروں سے اوجھل رہے گا۔ 
پاکستان ایک شدید انحطاط کے دور سے گزر رہا ہے۔ یہ پاکستان کے زیریں طبقات ہی ہیں جو پاکستان سے محبت کرتے ہیں جبکہ بالائی طبقات عموماً اس کی لوٹ کھسوٹ میں مصروف رہتے ہیں۔ ہمارے اس وطن عزیز میں سیاسی قوت کو مال و زر سمیٹنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ دولت کو سیاسی قوت کے حصول کا ذریعہ بنایا جاتا ہے اور یہ دونوں یعنی سیاسی قوت اور دولت فلاح کی بجائے ظلم کا موجب بنتی ہیں۔ دولت مند اور با اثر افراد قانون شکنی کے باوجود قانون کے محافظ بنے رہتے ہیں۔ 
ہمارے پاکستانی ہم وطن گو اسلام ہی کو اپنے وطن کی اساس مانتے ہیں، مگر ہندوستان کی مسلم تاریخ سے تقریباً کلی طور پر بے بہرہ ہیں، بلکہ اس کے متعلق ناروا خیالات رکھتے ہیں، جبکہ چاہیے تو تھا یہ کہ وہ استحکام پاکستان کی بنیاد مسلم ہند کی تاریخ کے اعلیٰ شعور پر رکھتے۔ ایک طرف تو بقول علامہ اقبال ’’ شاید ہندوستان ہی ایک ایسا ملک ہے جس میں اسلام کی وحدت خیز قوت کا بہترین اظہار ہوا۔ ‘‘ (خطبہ الٰہ آباد) تو دوسری طرف مسلمان حکمران اتنے وسیع اور عریض ملک میں آٹھ سو سال پر محیط ایک ایسا کثیر النسل و عقیدہ معاشرہ (Plural Society) قائم رکھنے میں کامیاب ہوگئے، جس کی مثال تاریخ انسانی میں نہیں ملتی ۔مسلمانوں کی حکومت کے دو واضح اصول مذہبی آزادی اور معاشرتی انصاف تھے۔ ہندوستان میں اپنی کثیر التعداد رعایا کے ساتھ مسلمان حکمرانوں کا میل جول عدل و انصاف و رواداری اور مروت و شفقت پر مبنی تھا اور ہندو رعایا ان کی مداح اور قدر دان تھی بلکہ ان پر دل و جان سے فدا تھی ۔ اسلامی ریاست کی توسیع اور دفاع میں ہندو رعایا ہر وقت سینہ سپر رہتی اور مسلمان حکمرانوں سے انعام و اکرام پاتی۔ بقول پروفیسر تھامس آرنلڈ اسلام کی تبلیغ جو مسلمانوں کا اہم نصب العین تھا بزور شمشیر نہیں کی گئی تھی۔ تمدنی طور پر مسلمانوں نے ہندوستان کی تہذیب پر نمایاں اثرات مرتب کیے۔ بقول ڈاکٹر تارا چند ’’ یہ بلند مرتبہ لوگ تھے اور یقیناًان کے ساتھ کثیر تعداد میں کم شہرت یافتہ اہل دین تھے جو ہندوستان آئے اور جدوجہد کرتے رہے۔ ‘‘ ہندوستان کے مسلم دور میں ہندی مسلم معاشرہ نے ایک خوشنما شکل اختیار کرلی، جس کا دارومدار اخوت کی جہانگیری اور محبت کی فراوانی پر تھا۔ اس معاشرہ کی تشکیل میں مسلم سول سوسائٹی، جس کے روح رواں مسلمان عالم، فقیہ، فلسفی، صوفی، عارف، شاعر اور ہنر مند تھے، سب نے ایک مرکزی کردار ادا کیا۔ 
ہندوستان کی جنگ آزادی (۷۵۸۱ء) مغل بادشاہ کے پرچم کے نیچے مسلمانوں اور ہندوؤں نے یکجا ہوکر لڑی تھی۔ ۰۲۹۱ء تک ہندو مسلم آپس میں شیر و شکر تھے۔ اس دور میں قائد اعظم ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ مگر ۰۲۹۱ء کے بعد انگریز حکمرانوں نے انتشار، نفاق اور نفرت و حقارت کی خوب آبیاری کی اور ہندو اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے میں کامیاب ہوگئے۔ سر سید احمد خان شروع میں ہندو مسلم اتحاد کے زبردست پرچارک تھے مگر پھر اچانک اُنہوں نے ہندوؤں کی عددی اکثریت کا ہوا کھڑا کر دیا اور مسلمانوں کو خود اعتمادی سے محروم بنانے اور خوف و ہراس کا شکار کرنے پر کمر بستہ ہو گئے۔ سر سید احمد خان کو اس شے کا احساس نہ تھا کہ قوت کا دارومدار تعداد پر نہیں بلکہ کردار اور روحانی طاقت پر ہوتا ہے۔ جنگ آزادی کے جانثاروں کو مطعون ٹھہرانے والے بھی ہمارے ممدوح سرسید احمد خان ہی تھے۔ 
دور حاضر میں ان دو قوموں کے درمیان محبت اور نفرت کے دریا ساتھ ساتھ بہہ رہے ہیں۔ کسی فرد کے مطمح نظر کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ کس دریا کے کنارے پر کھڑا ہے۔ دراصل دو قومی نظریہ کی ضرورت ہمیں اس وقت ہوتی ہے جبکہ مسلمان تکثیر میں کمزور عنصر بن کے رہ جائیں اور ان کو یہ خطرہ لاحق ہوجائے کہ وہ اپنے دین کا تحفظ نہ کرپائیں گے یا پھر ان کا دین ان کا تحفظ نہ کرسکے گا۔ پاکستان میں غیر مسلموں کی تعداد فقط دو فیصد ہے، اس لیے اب ہم کو دو قومی نظریہ کی ضرورت نہیں۔ دو قومی نظریہ کے تناظر میں دراصل بات سمجھنے کی یہ ہے کہ مسئلہ زبان و نسل کا نہیں ہے۔ در حقیقت دو قومی نظریہ کی اصل اساس قرآن کریم مہیا کرتا ہے۔ قرآنِ کریم کلمہ طیبہ اور کلمہ خبیثہ کی صورت میں دو نظریات حیات پیش کرتا ہے۔ کلمہ طیبہ کی مثال ایک ایسے صالح درخت کی ہے، جس کی جڑیں تو زمین کی گہرائی میں ہوں مگر شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہوں اور ہمہ وقت پھل سے لدی ہوئی ہوں۔ اس کے برعکس کلمہ خبیثہ کی مثال ایک بدذات درخت کی سی ہے، جو زمین کی سطح سے اکھاڑ پھینکا گیا ہو (۴۱:۴۲ تا ۷۲)۔ کلمہ طیبہ (توحید، رسالت اور آخرت) پر ایمان رکھنے والے لوگ، قوم حقہ، کہلاتے ہیں، جبکہ کلمہ خبیثہ (شرک، بے حیائی اور فحاشی) کے پیروکار، قوم باطلہ، قرار دیے جاتے ہیں۔ ان دو جماعتوں کو قرآنِ حمید حزب اللہ (۵:۶۵؛ ۸۵:۲۲) اور حزب الشیطان (۸۵:۹۱) بھی کہتا ہے۔ دراصل دو قومی نظریہ انہی دو قوموں کے درمیان خط تقسیم ہے۔ یہ ایسا خط ہے، جو باپ کو بیٹے سے اور بھائی کو بھائی سے متصادم کرادیتا ہے۔ اس دو قومی نظریہ کے سامنے تو وطن، زبان، جغرافیہ اور تاریخ حتی کہ حسب و نسب بھی ملیا میٹ ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ اس پیرائے میں ہمیں اپنے معاشرتی حالات کا بھی محاسبہ کرنا ہوگا کیونکہ قرآنِ کریم سرکشوں کو کبھی معاف نہیں کرتا، خواہ وہ انبیاء کے قریبی رشتے دار ہی کیوں نہ ہوں (ھود :۶۴)۔ 
ہمیں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ دو قومی نظریہ کی بنیاد وطن پرستی (Nationalism) پر ہے جسے علامہ اقبال مذہب کا کفن قرار دیتے ہیں۔ انسانی وحدت کا مغربی تصور مشترکہ زبان، نسل اور علاقہ پر مبنی ہے۔ جبکہ انسانی وحدت کا اسلامی تصور ایک مشترکہ مطمۂ نظر ہے۔ حضرت علامہ اقبال تا دم آخر دور حاضر کے تین فتنوں وطنی قومیت (Territorial Nationalism) دین و ریاست کی دوئی (Secularism) اور دہریانہ مادہ پرستی (Atheistic Materialism) کے خلاف برسر پیکار رہے۔ یہ تینوں فتنے ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ لادینیت ہی مادیت کی اساس ہے اور مادیت کا وطنی قومیت کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے۔ مادیت ہی سے غلبہ بالقوہ کا تصور ابھرتا ہے جو تشدد کو جنم دیتا ہے۔ یہ مادی انداز فکر ہی تھا جس کے باعث اللہ کی مخلوق پر پچھلی صدی میں دو خوفناک جنگیں مسلط کی گئیں۔ جب مادیت زیادہ قوت پکڑتی ہے تو وطن پرستی سے نسل پرستی اور قبیلہ پرستی کی طرف سفر کرتی ہے اور پھر اللہ کی زمین پر ہر طرف فساد برپا ہوجاتا ہے اور وہ عبادت گاہیں جن میں صبح و شام اللہ کا نام لیا جاتا ہے، تباہ و برباد ہوجاتی ہیں (البقرہ:۴۱۱)۔ 
جنگ و جدل سے مغلوب یورپ کے مقتدر دانشور اور مؤرخ آرنلڈ ٹائن بی (Arnold Toynbee ) نے ۲۵۹۱ء میں اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ مغربی وطن پرستی کی روایت عالم اسلام کے لیے ایک مشتبہ نعمت ہے۔ ان کے خیال میں عالم اسلام کے لیے یہ بہتر ہوتا کہ وہ مختلف مملکتوں میں بٹ جانے کی بجائے اسلام کی اخوت پر ایک علاقائی ریاست (خلافت) کی ترویج کرتے تو ان کا یہ عمل عالمی اخوت انسانی کے قیام کی طرف ایک مثبت قدم ہوتا، جس کی جوہری اسلحہ کے اس دور میں اشد ضرورت ہے۔ 
اسی پیرائے میں علامہ اقبال کی فکری کاوش اور قائد اعظم کی سیاسی جدوجہد ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک خطہ ارضی حاصل کرنے تک محدود نہ تھی بلکہ ان کا مطمح نظر اس خطہ زمین کے لیے اسلام کے آفاقی نصب العین کی طرف پیش قدمی تھا۔ مگر پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد اس طویل عرصے میں اسلام کی آفاقی نصب العین کی طرف پیش رفت تو درکنار، ہم اسلام کا مرحلہ بھی طے نہ کرپائے۔ آج تو حالات اس ڈگر کو پہنچ گئے ہیں کہ ملک میں دہشت گردی اور قتل و غارت کا بازار گرم ہے۔ مسجدیں تک محفوظ نہیں رہیں اور اسلام وحدت سازی کے اعتبار سے بے اثر ہوتا جارہا ہے۔ اگر وحدت خیز قوت کی حیثیت سے اسلام پاکستان ہی میں بے اثر رہ گیا تو دنیا میں انسانی اخوت کی ایک عالم گیر تحریک برپا کرنے میں کیا کردار ادا کرسکے گا۔؟ 
سر سید احمد خان کا مذہبی فکر کمزور تھا جبکہ دنیاوی فکر کے وہ بادشاہ تھے۔ سر سید احمد خان رُوح اور فرشتوں پر یقین نہ رکھتے تھے اور وحی کے متعلق اُن کا علم ناقص تھا۔ سر سید احمد خان مسلمانوں کے لیے ایک کامیاب ریاست کے خواہاں تھے۔ اُن کا مطمح نظر ایک اسلامی ریاست کا قیام نہ تھا۔ قائداعظم بھی مسلمانوں کے لیے ایک کامیاب ریاست قائم کرنا چاہتے تھے۔ قائداعظم کے لیے اسلام ایک بنیادی مسئلہ نہ تھا۔ قائداعظم پاکستان کے مسلمانوں کی ایک جدید، جمہوری اور فلاحی ریاست کے آرزومند تھے۔ ایک کٹر رجعت پسند، جہادی ریاست کا تصور ان کے ذہن میں نہ تھا۔ بہرحال قائداعظم ایک سیاست دان تھے اور انہوں نے موقعہ محل کے مطابق کئی باتیں کیں جو شاید ظاہراً متضاد نظر آئیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے اس موضوع پر تمام بیانات اور تقاریر کا تقابلی مطالعہ کر کے کوئی رائے قائم کی جائے۔ اس موقع پر قائداعظم کے قریبی ساتھی امیر محمد خان راجہ محمود آباد کا مضمون ’’چند یادیں‘‘ قابل غور ہے:۔ 
’’لمبی زندگی اور فکری پختگی سیاسی تحریکوں کے لیے بھی اتنی اہم ہے جتنی کہ انسانوں کے لیے۔ جس تیزی اور تندی کے ساتھ مسلم لیگ کو دس سال کے مختصر عرصہ میں پاکستان کے ہدف کی طرف بڑھنا پڑا اس میں تنظیم کی تطہیر نہ ہو سکی۔ مسلم لیگ کو اپنی تیز رفت کامیابی کی قیمت ادا کرنی پڑی۔ اس کی بینڈ گاڑی پر مختلف انواع کے لوگ سوار ہو گئے ان میں سے کچھ لوگ قدامت پسند تھے، جو لیگ کے ترقی پسند پروگرام میں رکاوٹ بنے۔ پھر اس میں جاگیردار اور سرمایہ دار بھی آ گھسے، جنہوں نے قدامت پسند لوگوں کے ہاتھ مضبوط کئے۔ لیگ کی تیز رفتار بینڈ گاڑی پر رجعت پسند لوگ بھی آن سوار ہوئے جن کی فکر ایام خلافت سے آگے نہ بڑھی تھی اور جن کے ذہن میں جدید ریاست کا کوئی تصور نہ تھا۔ ایک گروہ یونیورسٹی لیکچررز کا بھی تھا جو پاکستان میں ایک اسلامی ریاست کے قیام کا خواہاں تھا۔ میں (راجہ محمودآباد) بھی اس گروہ سے متاثر تھا۔ میں نے اس سوچ کو اپنی تقاریر میں زور و شور کے ساتھ اجاگر کرنا شروع کر دیا۔ قائداعظم نے لیگ کے پلیٹ فارم سے ان خیالات کے ابلاغ کو پسند نہ فرمایا اور مجھے اس قسم کی تقاریر سے منع فرما دیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ یہ سمجھنے لگیں کہ مجھے ان خیالات کے اظہار میں قائداعظم کی تائید حاصل ہے۔ میں خیالات کے اس اختلاف کی وجہ سے قائداعظم سے دور ہوتا چلا گیا۔ مگر اب جب میں پیچھے کی طرف دیکھتا ہوں تو مجھے اپنی غلطی کا شدت کے ساتھ احساس ہوتا ہے۔‘‘
پاکستان کے علماء اور دینی اکابرین چونسٹھ سال گزرنے کے بعد فیصلہ نہ کر پائے کہ اسلامی نظام ہے کیا؟ آج بھی اس موضوع پر کوئی محفل سجا لیں پھر دیکھیں ان کا آپس میں دست و گریباں ہو جانا۔ ہمارے علماء کو اس بات کا بھی کچھ شعور نہیں کہ فقہی نظام کی قانونی موشگافیاں اور ان کے پیدا کئے ہوئے مسائل یہودی طرز فکر کی نقل ہیں۔ 
ہماری خود پسندی، انائیت اور کج فہمی کا ماتم یہ ہے کہ ہم نے سمجھ رکھا ہے کہ اگر پاکستان میں یہ دین حق قائم نہ ہوا تو کہیں بھی نہیں ہو گا۔ یہ بات بھی کہ پاکستان بنایا ہی اسلامی نظام کے قیام کے لیے تھا، تاریخی طور پر مصدق نہیں ہے۔ ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ‘‘ مسلم لیگ کا پالیسی بیان نہ تھا بلکہ اس زمانے میں سیالکوٹ کے ایک غیر معروف شاعر، اصغر سودائی کی ایک طویل نظم کا ٹیپ کا مصرعہ تھا۔ قیام پاکستان سے پہلے جب حضرت قائداعظم سے پوچھا گیا کہ آپ کے نئے ملک میں اسلام کا نقشہ کیا ہو گا؟ تو اس کے باوجود کہ وہ اسلام کے بنیادی اصولوں، حریت، اخوت اور مساوات سے کماحقہ آشنا تھے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے تو آپ کو مسجد کے لیے جگہ لے دی ہے۔ اب قیام پاکستان کے بعد اس کا فیصلہ آپ خود کریں کہ مسجد کا طرز تعمیر کیا ہو گا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قائداعظم نے پاکستان کو ہمیشہ مسلمانوں کی ریاست کہا نہ کہ اسلامی ریاست۔ پاکستان کے عوام کی اکثریت بھی اسلامی ریاست کی نہیں، کامیاب ریاست کی خواہاں ہے۔ ویسے بھی ایک کامیاب ریاست بنائے بغیر اسلامی ریاست نہ بن پائے گی۔ 
اس مضمون کا مرکزی سوال یہ ہے کہ عالم اسلام میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے نام پر اٹھنے والی تحریکیں آخر کامیاب کیوں نہیں ہو رہیں؟ حالانکہ بقول ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی ہند و پاکستان میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے جدوجہد کے پہاڑ ضائع ہو گئے۔ اب جب کہ پاکستان میں مختلف رنگ کی اسلامی جماعتوں کے سالانہ اجتماعات میں تقریباً 40 لاکھ سرگرم کارکن جمع ہونے لگے ہیں تو وہی سوال پھر ابھر کے سامنے آتا ہے کہ اتنی بڑی اسلامی حرکت کے باوجود ہمارے اس وطن عزیز کے حالات سال بہ سال‘ ماہ بہ ماہ‘ دن بدن بدتر کیوں ہوتے جا رہے ہیں؟ ہماری تبلیغ آخر اتنی بے اثر کیوں ہے؟ ہمارا جہاد رائیگاں کیوں جا رہا ہے؟ آخر کیا کمی ہے جس کی وجہ سے ہمارا مقتدر اسلامی مشن کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو رہا؟ اللہ جل جلالہ اور رسول عالی مرتبت ﷺ کے نام پر معرض وجود میں آنے والی اس مملکت خداداد میں خاتم الرسل ﷺ کا دین قیم آخر رائج کیوں نہیں ہو پا رہا؟ گزشتہ چونسٹھ سالوں میں کئی ایک بار نفاذ اسلام کی پرجوش تحریکیں اٹھیں مگر سب کی سب یا تو زمینی حقائق کی سنگلاخ چٹانوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گئیں یا پھر دینی اکابرین کے ذاتی مفادات کی نذر ہو گئیں۔ دوسرے الفاظ میں نفاذ اسلام کے بلند بانگ نعرے تو لوگوں نے بارہا سنے مگر نتیجہ کچھ بھی نہ دیکھا۔ ان حالات میں پاکستان میں ایک تشویشناک روش دیکھنے میں آ رہی ہے۔ اور وہ ہے لوگوں کی اسلام سے روز بروز بڑھتی ہوئی بیزاری۔ جب اسلام عوام کے مسائل حل نہ کر پائے گا تو لوگوں کا اس کے بلند بانگ نعروں سے بیزار ہونا ایک قدرتی رد عمل ہو گا۔ دوسری طرف بے مروت‘ رجعت پسند اور متشدد اسلامی تحریکیں لوگوں کو دین سے قریب لانے کی بجائے دور کر رہی ہیں۔ صدیوں پر محیط ناکامیوں کے بعد مسلمان اپنے دین اور اپنے آپ سے بد دل اور ناامید ہو رہے ہیں۔ اس لیے انہیں کوئی تبدیلی کا آسان راستہ بھی بتائے تو وہ یقین نہیں کرتے اور ان کی توجہ آسانیوں کی بجائے مشکلات پر مرکوز رہتی ہے۔ 
پاکستان کو معرض وجود میں آئے چونسٹھ سال بیت چکے ہیں۔ اس طویل عرصے میں اسلام کے آفاقی نصب العین کی طرف پیش رفت تو درکنار‘ ہم نفاذ اسلام کا مرحلہ بھی نہ طے کر پائے۔ چنانچہ ہم دنیا کو یہ بتانے کے بھی قابل نہیں کہ اسلام‘ اقتصادی اور معاشرتی مسائل‘ جو آج کے انسان کو درپیش ہیں اس طرح حل کرتا ہے۔ عملی مثال کے نہ ہونے کی وجہ سے کوئی بھی اسلام کے متعلق ہمارے بلند بانگ نعروں پر اعتبار نہیں کرتا۔ آج تو حالات اس ڈگر کو پہنچ گئے ہیں کہ ملک میں دہشت گردی اور قتل و غارت کا بازار گرم ہے۔ مسجدیں تک محفوظ نہیں رہیں اور اسلام وحدت سازی کے اعتبار سے بے اثر ہوتا جا رہا ہے۔ اگر وحدت خیز قوت کی حیثیت سے اسلام پاکستان میں ہی بے اثر رہ گیا تو دنیا میں انسانی اخوت کی ایک عالمگیر تحریک برپا کرنے میں کیا کردار اداکر سکے گا۔ عمومی طور پر قومیت اور مادیت سے مغلوب مسلمان اسلام کی آفاقیت کو صحیح تناظر میں دیکھنے سے قاصر ہیں اور انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ صحیح مسلمان بس ایک روایتی مسلمان ہوتا ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اس پس منظر میں انسان دوستی‘ احترام آدمیت اور ظلم کے خلاف جہاد کے اسلامی نظریات کا علم اب ان قوموں نے اٹھا لیا ہے جن کی وطنی قومیت اور دہریانہ مادہ پرستی نے دنیا میں ہر سو ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا تھا۔
ہمارے لیے غور و فکرکا ایک نہایت ہی اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ چلیں انگریزی زبان میں تعلیم یافتہ طبقہ کی ناقص تعلیم و تربیت کے لیے تو ہم انگریزوں کو مطعون قرار دے سکتے ہیں لیکن اگر ہمارے مشائخ اور علماء کا کردار ہی قابل ستائش نہ ہو تو اس کے لیے کسے ذمہ دار ٹھہرائیں گے۔ اس سلسلے میں ایک غور طلب بات یہ ہے کہ مسلمان ہندوستان میں تقریباً آٹھ سو برس حکمران رہے۔ گو اس طویل دور میں ملک ہمہ وقت اسلام کی درخشاں ہستیوں سے فیض یاب رہا‘ مگر ان میں سے کسی ایک نے بھی کسی اسلامی جماعت کی داغ بیل نہ ڈالی اور نہ ہی سرفرازی اسلام کے لیے کوئی تحریک چلائی گئی مگر ان علماء‘ فقہا ء اور صوفیاء نے اپنے اخلاق‘ تقویٰ اور بے غرض ایثار کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ اتنا عرصہ گذر جانے کے بعد وہ آج بھی مسلمانوں کے دلوں کو گرماتی ہیں۔ ہمارے اسلامی اکابرین اسلام کے چلتے پھرتے نمونے ہونے چاہئیں۔ جب ہمارے علماء اور مشائخ ہی طاغوت کا شکار ہو جائیں گے‘ تو ان کے منہ سے دین کی بات دین کو بدنام کرنے کے مترادف ہو گی۔ جب تک کسی تحریک کی داعی قیادت کے کردار اعلیٰ اور ارفع نہ ہوں گے اور ان کی زندگیاں تحریک کے اغراض و مقاصد سے مطابقت نہیں رکھیں گی‘ تو اس وقت تک اس تحریک کی کامیابی کی امید نہیں کی جا سکتی۔ پاکستان کی اسلامی تحریکوں میں یہ روایت زور پکڑ گئی ہے کہ وہ بندکمروں میں بھی اپنی تعریف ہی کرتے ہیں اور اس غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کیونکہ وہ ظاہراً اسلامی کام ہی کر رہے ہیں اس لیے انہیں اللہ کی خوشنودی حاصل ہے‘ جیسے انصاف کا ترازو اللہ کے ہاتھ میں نہیں‘ ان کے اپنے ہاتھ میں ہو۔ زمینی حقائق تو یہ پتہ دے رہے ہیں کہ وہ اب تک رضوان اللہ کے حصول میں کامیاب نہیں ہوئے ورنہ جب اللہ کی خوشنودی حاصل ہو جائے تو کسی اور کی خوشنودی کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
دراصل ہمارے علماء کی خود پرستانہ اور ذاتی مفادات کی طرف مائل تفسیریں اور فقہی ترجیحات موجودہ دور کے بڑے بت ہیں۔ دینی جماعتیں اور فرقے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول عالی مرتبت ﷺ سے زیادہ توجہ اپنے لیڈر یا امیر کو دیتے ہیں۔ ان کے اجتماعوں میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول عالی مقام ﷺ سے بڑھ کر ذکر ان کے اپنے حضرت یا مولانا کا ہوتا ہے۔ مختلف دینی جماعتوں اور تحریکوں کا یہ رویہ امت مسلمہ کو ٹکڑے ٹکڑے کر رہا ہے۔ اور اصل میں یہی فساد کی جڑ ہے۔ ہر جماعت صرف اپنے آپ کو دین کا سچا محافظ خیال کرتی ہے اور ان جماعتوں کے کارکنوں کا خود ستائی و پارسائی کا مغرورانہ رویہ مسلم عوام کو اپنے دین سے دور کر رہا ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ یہ مولانا حضرات امت کو متحارب فرقوں میں بانٹ کر ان ہی میں تفرقہ ختم کرنے کے لیے روز بروز آپس میں ملتے بھی رہتے ہیں۔ شاید ہمارے ایسے ہی زعما کے لیے ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ جن کے دلوں میں کجی ہوتی ہے ان کو گمراہ کرنے کے لیے میری یہ کتاب ہی کافی ہے (سورۃ ال عمران:7 )۔ ان دینی زعما کا ایک اور المیہ یہ ہے کہ وہ جو کہتے ہیں‘ وہ کرتے نہیں (سورۃ الصف: 2) اور عوام سے جھوٹے وعدے فرما کے اپنے آپ کو اور اپنے دین کو بدنام کرتے ہیں۔ اسلامی نظام کے قیام کے سلسلے میں وہ اہداف اور اسباب میں تمیز کرنے سے قاصر رہتے ہیں‘ مثلاً اس دور میں ان کی اولین توجہ ربا کے خاتمے پر مرکوز رہتی ہے حالانکہ ربا کا خاتمہ ان کئی طریقوں میں سے ایک ہے‘ جن کو ایک عدل و مساوات پر مبنی اسلامی معاشرہ کے قیام کے سلسلے میں بروئے کار لانا ہو گا۔ 
ہماری دینی جماعتوں نے پاکستان کو اس کے مقصود تک نہیں پہنچایا۔ اُن کا واحد کارنامہ قرارداد مقاصد ہے جس کی حیثیت کاغذ کے ایک ٹکڑے سے زیادہ نہیں ہے۔ دنیا میں اسلام کے مروجہ تین ماڈل کسی بھی صحیح الفکر مسلمان کو قبول نہیں ہیں اور یہ ماڈل ہیں: (۱) طالبان کا ماڈل (۲) ایران کا ماڈل اور (۳) سعودی عرب کا ماڈل۔ ترکی اور ملیشیا کے ماڈلز سیکولر ہیں، اسلامی نہیں۔ بہرحال اگر ہم اسلام کو رائج نہیں کر سکتے تو کم از کم اپنے ملکوں میں کامیاب حکومتیں تو قائم کر لیں۔ 
اسلام کا مقصد ایک ایسا معاشرہ کی تشکیل ہے جس کے تحت انسان کو اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کا خوف نہ رہے اور اللہ کے سوا اسے کسی اور کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی حاجت نہ ہو اور وہ جب حصول رزق کے لیے اپنے گھر سے نکلے تو اس کی اپنی اہلیت و قابلیت کے سوا کوئی اور رکاوٹ اس کے راستے میں حائل نہ ہو۔ اگر اس میں کوئی کمی من جانب اللہ ہو تو ریاست کا نظام احسان وہ کمی پوری کر دے۔ معاشرتی و معاشی نظام ایسا ہو کہ اسے تعلق باللہ کی نشو و نما کے لیے بھی فراغت مل جائے‘ جس کی برکت سے اس میں فقط اپنے حقوق کی بجائے‘ اپنے فرائض اور دوسروں کے حقوق کا شعور اجاگر ہو جائے۔
اسلام زمین کے ساتھ انسان کے تعلق کو اتنا اجاگر نہیں کرتا کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا تعلق ماند پڑ جائے اور وہ دنیا کا ہی ہو کے رہ جائے۔ اسلام رنگ و نسل و زبان اور وطنیت کی نفی کر کے توحید کی بناء پر ایک روحانی الذہن قوم کی تشکیل کا خواہاں ہے۔ اسلام زمین اور خون کے رشتوں کی بجائے انسانی وحدت کو ایک مشترکہ نصب العین‘ عالمگیر اخوت انسانی اور احترام آدمیت کے اصولوں پر استوار کرنا چاہتا ہے۔ حدیث نبویؐ شریف ہے: ’’الخلق عیال اللہ‘‘۔
اسلامی نظام کے اہداف اور ہماری روزمرہ کی زندگی کے درمیان خلیج بہت ہی وسیع ہے۔ نظریاتی دینداری کے پیچھے بھاگتے ہوئے ہم مسلم ہندوستان کی شاندار تاریخ سے کٹ کر بے راہ رو ہو گئے ہیں۔ بنیاد پرست علماء ایسے متن پرست، کٹر اور مجرد اسلام کی تعلیم دیتے ہیں، جس کا کوئی تاریخی پس منظر نہیں۔ نظریاتی نعرہ بازی ہمارے جذبات کو ابھار دیتی ہے، جن کو ہمارا عمومی اخلاق سنبھال نہیں سکتا اور ہمارے نعرے تعمیر کی بجائے تخریب کا باعث بن جاتے ہیں۔
اسلام مادہ پرستی کی بجائے انسانی زندگی کی بنیاد روحانیت‘ تعلق باللہ اور تقویٰ پر رکھتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ انسان پھلے پھولے تو زمین پر مگر اس کی جڑیں آسمان پر ہوں۔ اسلام کا مرکزی سوال یہ ہے کہ انسان کو زمین کی محبت اور مادہ پرستی سے کیسے آزاد کیا جائے؟ آج کے دور کی بے لگام مادہ پرستی کی وجہ سے انسان کے تین بنیادی تعلقات مسخ ہو کے رہ گئے ہیں اور یہ ہیں بندے اور اللہ کے درمیان تعلق‘ انسان اور انسان کے درمیان تعلق اور انسان اور ماحولیات کے درمیان تعلق۔ عموماً ہم ان حیات بخش تعلقات میں اپنے پورے من و تن کے ساتھ داخل نہیں ہوتے بلکہ اپنی ذات کی ایک کسر کے ساتھ ہی یہ مقدس رشتے استوار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہماری اس مجہول کوشش کی وجہ سے ہمارا اللہ کے ساتھ رشتہ جزوی‘ انسان کے ساتھ رشتہ مطلبی اور ماحول کے ساتھ استحصالی ہو کے رہ جاتا ہے۔

سیمینار: ’’ائمہ و خطبا کی مشکلات، مسائل اور ذمہ داریاں‘‘ (۲)

ادارہ

مولانا عبد الواحد رسول نگری 

(مدرس مدرسہ اشرف العلوم، گوجرانوالہ)
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم، امابعد!
انتہائی لائق احترام علماء کرام، ائمہ کرام! آج کی اس مبارک نشست میں بڑے قیمتی بیانات آپ سماعت فرماچکے ہیں۔ عنوان ہے ’’ائمہ اورخطبا کی ذمہ داریاں اور مشکلات‘‘۔
محترم دوستو!امام اور خطیب کی ذ مہ داری سمجھنے سے پہلے ہمیں اس اہم نکتے کی طرف بھی توجہ دینی ہے کہ امام اور خطیب کا تعارف مسجد کی مناسبت سے ہوتاہے اوراس کی تمام تر ذمہ داریاں بھی مسجد کے عنوان سے ہیں۔خود مسجد اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کیامقام رکھتی ہے اوراسلامی سوسائٹی میں کیامقام رکھتی ہے اوراسلامی سوسائٹی میں مسجد مسلمانوں کی کن کن ضروریات کو پوراکرسکتی ہے؟جب مسجد کی وہ حیثیت جس سے ہم فائدہ اٹھا سکتے ہیں، سامنے آئے گی تومسجد کی مناسبت سے امام اورخطیب کا بھی تعارف ہے، وہ بھی سامنے آئے گا۔ 
مسلمانوں کی چار اہم ترین ضروریات ہیں جومسجد سے پوری ہوتی ہیں۔ پہلی ضرورت یہ ہے کہ ہر مسلمان کو ایک عبادت گاہ چاہیے۔ دوسری ضرورت یہ ہے کہ ہرمسلمان کواسلامی زندگی گزارنے کے لیے ایک درس گاہ چاہیے جہاں سے وہ اپنی روزمرہ زندگی میں علمی طورپر رہنمائی لے سکے۔ تیسری چیز یہ ہ یکہ ہرمسلمان کو اپنے کردار، احوال اورقلب کی اصلاح کے لیے کوئی تربیت گاہ چاہیے اور چوتھی چیز مسلمانوں کے پاس ایک ایسا ادارہ ہو جہاں وہ باہم ملاقات کر سکیں، بہت قریب ہو کر ملیں، ایک دوسرے کو دیکھ سکیں، ایک دوسرے کے پاس بیٹھ سکیں،کھڑے ہوسکیں۔ یہ چار چیزیں مجموعی طور پر ہماری ضرورت ہیں۔ عبادت گاہ کا وجود، درس گاہ، تربیت گاہ، باہمی رابطے اورملاقات کاادارہ۔ غور کریں تومسجد کو اللہ پاک نے ان چیزوں کا مرکز بنایاہے اور مسجد کا امام وخطیب ان چاروں چیزوں کا نگران اور ذمہ دارہے۔ امام وخطیب کی ذمہ داریوں میں سب سے پہلی چیز اس حوالے سے کہ مسجد عبادت گاہ ہے، یہ شامل ہے کہ ہر وقت عبادت کا اہتمام کرے،لوگوں کو عبادت کی ادائیگی میں سہولیات فراہم کرے۔اوقات نماز ،اذان وغیرہ امام ان کو اپنی ذمہ داریوں میں لے۔یہ معنی نہیں کہ خود وہ اذانیں دے بلکہ یہ کہ بر وقت اذان ہورہی ہے، جماعت ہورہی ہے ،اس کا دھیان رکھے۔ ایسے ہی امام کی ذمہ داریوں میں عبادت کی ادائیگی کے وقت، نمازیوں پر دھیان رکھنا کہ ان کی صفیں درست ہیں، صفوں کے اندر کوئی خلل تو نہیں اور آج کل ایک اور چیز کی طرف توجہ دلانا بھی امام کی ذمہ داریوں میں آچکاہے۔ جب کوئی نمازی نماز کے لیے مسجد میں آتا ہے توتقریباً ہر نمازی کی جیب میں موبائل فون بھی ہوتاہے۔ اس بات کی طرف توجہ دلانی چاہیے کہ فون کو بند کر لیاجائے تاکہ عبادت کی ادائیگی میں کوئی خلل واقع نہ ہو ۔امام چونکہ عبادت کا نگران بھی ہے، اس کی ذمہ داریوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ عبادت کی ادائیگی میں نمازیوں کا لحاظ کرے۔ جیسے حدیث مبارکہ میں تخفیف قراء ت کا تذکرہ ہے کہ اس کے پیچھے نماز پڑھنے والوں میں ،بیمار ہیں ،مسافر ہیں، کمزور ہیں، ضعیف ہیں۔ امام صرف اپنے ذوق عبادت کوسامنے رکھ کر امامت نہ کرائے۔
یہ تو ذمہ داریاں ہیں جن کا تعلق اس بات سے ہے کہ مسجد عبادت گاہ ہے۔مسجد کا خطیب جمعہ کی خطابت کے لیے وقت مقررہ کاضرور لحاظ رکھے ۔ہماری کوتاہیوں میں سے ایک کوتاہی یہ بھی ہے کہ ہم جووقت لوگوں کوبتادیتے ہیں، اس وقت پر عبادت کا اہتمام نہیں کرتے ۔لوگوں میں چہ میگوئیاں شروع ہوجاتیں ہیں اور ہمارے دل میں بات آتی ہے کہ دومنٹ اوربات کرلیں، شاید لوگوں کے دل میں دین کی اورباتیں بھی آجائیں۔ میرے بھائیو! لوگ وقت مقررہ سے ایک سیکنڈ بھی اوپر ہو جائے تو اس کو بوجھ سمجھتے ہیں۔ 
مسجد کا ایک تعارف اس حوالے سے ہے کہ مسجد مسلمانوں کی درس گاہ ہے ۔حضور نبی کریم ﷺ کے مبارک ز مانہ میں مسجد نبوی میں مسلمانوں کی درس گاہ کاکردار ادا کیا گیا۔ آج بھی مسلمانوں کی بنیادی دینی تعلیم کی ضروریات مسجد ہی سے پوری ہورہی ہیں۔ مثلاً ہرمسلم گھرانے کی سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ ان کے بچے کم از کم ناظرہ توپڑھ سکیں، لہٰذا اسی بنیاد پر مسجد دیہات کی ہو یا شہر کی،کینٹ کی ہویا ڈیفنس کی، وہا ں اس بنیادی ضرورت کا ضرور اہتمام ہوتاہے ، لیکن اس سے آگے بڑھ کر روز مرہ زندگی کے تمام شعبہ جات میں دینی،علمی رہنمائی کی فراہمی بھی مسجد سے متعلق ہے۔ اگر کوئی شخص تجارت سے وابستہ ہے تو اس کی تجارت کے مسائل میں رہنمائی ،کوئی شخص زراعت سے وابستہ ہے تو اس کی اس میں رہنمائی، کوئی شخص کسب یعنی محنت مزدوری سے وابستہ ہے تو اس کی اس میں رہنمائی،پھرگھریلواحکام ومسائل طلاق، نکاح وغیرہ اور ا س کے علاوہ بے شمار مسائل ہیں۔ یہ سارے کے سارے مسائل مسجد کے منبر ومحراب سے پورے ہوں گے۔ بالخصوص آج کے زمانہ میں اس کی ضرورت اوربڑھ گئی ہے۔ جب مسجد منبر ومحراب سے یہ ضرورت پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی تو وہ ٹی وی چینلوں کی طرف رجوع کرنے لگے ہیں اورٹی وی چینلوں کے سامنے بیٹھے ہوئے دانش وروں سے اپنے خوابوں کی تعبیر پوچھنے لگے ہیں۔وہ اپنے استخارے، مسائل اور دیگر لغویات کے لیے امام وخطیب کی طرف رجوع کرنے کی بجائے کسی کی اور طرف کربیٹھے۔ وہ کیوں گئے؟ یہ ایک الگ عنوان ہے ۔ان میں ایک کوتاہی میری اورآپ کی ہے کہ ہمارا مطالعہ بہت قلیل ہے ۔ہم صحیح طریقے سے ان کی رہنمائی کرہی نہیں سکتے۔ آدمی نے روزہ رکھا ہے تو کن چیزوں سے روزہ ٹوٹ جاتاہے، نماز پڑھ رہے ہیں تو دوران نماز میں کن چیزوں سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔اگر میں اورآپ یہ مسائل بتلانہیں سکتے توکم از کم بتلانے والوں کی ضرورت اوراہمیت توان کے دلوں میں بٹھاسکتے ہیں کہ بھائی آپ ان شعبوں میں لگے ہیں، اس شعبہ کے مسائل جاننے کے لیے آپ مدرسہ نصرت العلوم چلے جائیں، مظاہرالعلوم چلے جائیں، دارالعلوم چلے جائیں، کسی مدرسے کی طرف رجوع کریں۔
ایک کوتاہی ہماری یہ ہوتی ہے کہ ہمارا رویہ بہت سخت ہوتاہے۔ ایک نوجوان کے دل میں بہت سے سوالات کھڑے ہو سکتے ہیں۔ دین کے حوالے سے وہ غلط فہمی کا شکار ہوسکتاہے۔ کوئی زہریلا مواد اس کے دل میں اشکال پیدا کر سکتا ہے۔ وہ اشکال انتہائی سنگین ہوسکتاہے۔ اب اگر وہ اپنے ذہن میں اٹھنے والے سوال کو امام کے سامنے عرض کرتا ہے تو فوراً ہماری طرف سے سخت ترین جملہ اس کی طرف جائے گا: توتودہریہ ہورہاہے، تو توبددین ہورہاہے ۔اس کو کچھ کہنے دیں، اس کی زبان کی بات دل پر آنے دیجیے۔ وہ آئے گی اور اس کی فکر اس کی سوچ کا اندازہ ہوگا توہم اس کی رہنمائی کریں گے۔
ایک اوربات اسی مناسبت سے کہ مسجددرس گاہ ہے اور لوگوں کی علمی رہنمائی کا مؤثر ادارہ ہے، یہ بھی عرض کردوں کہ ایک امام وخطیب یہ دیکھے کہ میری یہ مسجد آئینی،قانونی اوردستوری طور پر جس مسلک سے وابستہ ہے اوریہاں کے نمازی جس مسجد سے وابستہ ہیں، اگر ان نمازیوں کواپنے مسلک پر عمل کرتے ہوئے کوئی بات پوچھنے کی نوبت آجاتی ہے، مثلاً کوئی آدمی کسی دوسرے مسلک کی مسجد میں چلاگیا اور وہاں کسی نے کوئی بات ذہن میں ڈال دی تواس کی ٹھیک ٹھاک علمی رہنمائی کی جائے۔ مثال کے طور پر میں حنفی المسلک ہوں۔ میرے نمازی بھی حنفی المسلک ہیں۔ یہاں کوئی دوسرے مسلک کاآدمی آجائے تووہ اونچی آواز میں آمین کہہ دیتا ہے اورلوگ اس کو ڈانٹیں تو وہ دوچار حدیثیں سنا دیتا ہے۔ اب لوگ لامحالہ طور پر امام صاحب کی طرف رجوع کریں گے کہ یہ کیاکہہ رہاہے توامام صاحب کو ایسے میں کم از کم اپنے مسلک کی علمی بنیاد انتہائی مضبوط رکھنی چاہیے اوروہ خود بھی اس کے لیے تیار رہے ۔مسجد کے ساتھ ایک لائبریری کا انتظام بھی ہوناچاہیے۔
میرے بھائیو!باتیں تو بہت زیاد ہ ہیں۔ میں نے دوحیثیتوں کے حوالے سے بات کی ہے۔ایک تویہ کہ مسجد عبادت گاہ ہے،میری اس حوالے سے کیاذمہ داری ہے ۔دوسری مسجد درس گاہ ہے ،میری اس حوالے سے کیاذمہ داری ہے۔ اس ذمہ داری کے اندر یہ شامل ہے کہ لوگ جو مسجد سے علم حاصل کریں گے، اس کے مختلف ددرجے ہیں۔ایک درجہ تو یہ ہے کہ باضابطہ وہ درس گاہ کے اندر آکر پڑھیں ۔یہ بہت محدود درجہ ہے ،بہت محدود لوگ آئیں گے ۔ترجمہ القرآن کی کلاس لگ گئی، بہت لوگ آئے ۔عام لوگوں کوزیادہ سے زیادہ علمی معلومات فراہم کرنے کے لیے درس قرآن اور درس حدیث کا انتظام ہوناچاہیے اورپھر اس سے بھی وسیع دائرہ ہے اوروہ جمعۃ المبارک ۔ہماری ترجمہ کلاس میں تھوڑے لوگ ہوں گے،جمعہ میں زیادہ ہوں گے۔ درس سے زیادہ لوگ جمعہ کے موقع پرآئیں گے ۔جمعہ کی نماز میں خطبہ میں ہمارا بیان مضبوط علمی بنیادوں پرہوناچاہیے۔کوئی وقت تھا کہ لمبی تقریر کرنے والے شخص کی خطابت کاچرچا اورشہر ت ہوتی تھی۔ ساری ساری رات تقریر چلتی تھی۔ آج معیار بدل چکاہے۔لوگوں کے پاس مختصر وقت ہے، اس مختصر وقت میں اپنی بات لوگوں کوسنائیں۔ ایک وقت تھا کہ ایک خطیب الفاظ کے انتہائی نادر نمونوں کا ذخیرہ رکھتاتھا۔ تقریرمیں ایک لفظ آگیا تو دوبارہ نہ آئے۔ لوگ اس کا معنی مفہوم سمجھنے کے لیے لغت کی کتابیں دیکھتے رہیں۔ لیکن آج یہ معیار بدل چکا ہے۔ انتہائی سادہ لب ولہجہ اورلوگوں کی سطح کے مطابق گفتگو کی جائے۔ لفظوں کی بادشاہت وہاں نہ ہوبلکہ جتنے گمراہ لوگ ہیں جنھوں نے لوگوں کوگمراہ کیا، انہوں نے طرز گفتگو انتہائی سادہ رکھاہے۔ طرز گفتگو خطیب کا انتہائی سادہ ہو۔ تیسری چیز یہ کہ کوئی وقت تھاکہ لوگوں کی معلومات کا مکمل مرکز وہ خطیب کی خطابت ہوتی تھی۔ مولاناصاحب نے جو بیان فرما دیا، وہی ان کا دین ہے اوروہی ان کی شریعت ہے۔لیکن معاف کرنا، آج لوگوں کی معلومات کے ذرائع بڑھ چکے ہیں۔آج کسی عنوان پر بات شروع کریں لو تو گ فوراً کہہ دیں گے کہ یہ بات میں نے فلاں جگہ پر پڑھی ہے۔ آج نیٹ کی سہولت ہرنوجوان کے پاس ہے ،کمپیوٹر،بڑی سے بڑی لائبریری ایک پرزے کے اندر جمع ہے اوروہ منٹوں میں اسے دیکھ لیتے ہیں، اس لیے میں اورآپ مجمع کے سامنے تقریر کرتے ہوئے انتہائی احتیاط سے کام لیں کہ لوگوں کی معلومات کا انحصار اب صرف میری خطابت پر نہیں بلکہ خارجی ذرائع پر ہے۔
تو خلاصہ یہ ہے کہ مسجد درس گاہ ہے، علم کا مرکز ہے ،خطیب اورامام کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کی اس دائرے میں بھرپور رہنمائی کریں۔مسجد باہمی ملاقات اوررابطے کاادارہ ہے،امام یہاں کن کن طریقوں سے لوگوں سے رابطہ کرے، کیسے لوگوں کو جوڑے،یہ ان کی ذمہ داریاں ہیں اوران ذمہ داریوں کواداکرنے میں کیاذمہ داریاں ہیں، میرے خیال میں ان مشکلات کو تفصیل کے ساتھ لانا ضروری نہیں۔ واخردعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

مولانا عبدالرؤف فاروقی 

(مہتمم جامعہ اسلامیہ، کامونکی)
الحمد للہ وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ۔
محترم علماء کرام اورمیری تمام برادری کے دوستو!آپ حضرات نے آج کے موضوع کی مناسبت سے بڑی فکر انگیز گفتگو علماء کرام سے سنی ہے۔ یہ بہت طویل موضوع ہے اوراس پر تقاریر نہیں، کئی دنوں تک بیٹھ کرتبادلہ خیال ہونا چاہیے۔ مشکلات سامنے آئیں، مسائل سامنے آئیں، ذمہ داریوں پرگفتگو ہو، مسائل ومشکلات کوحل کرنے کی تجاویز سامنے لائی جائیں۔ 
۱۹۷۳ء میں، میں باقاعدہ امامت کے مصلے پر کھڑا ہوا۔ جس مسجد میں مجھے امامت کی ذمہ داریاں سونپی گئی ،اس مسجد میں، میں واحد خدمت کرنے والا تھا یعنی غسل خانہ کی صفائی،وضوکی جگہ کودھونا ،موٹرچلانا،پانی کا انتظام کرنا، یہ سب میری ذمہ داریاں تھیں۔ پہلے پوری مسجد کی صفائی کرنا، صفیں درست کرنا،اذان کے ٹائم پر اذان دینا،پھر قراقلی ٹوپی پہن کر منبرپر کھڑے ہو جانا یابیٹھ جانا، میری ابتدا یہاں سے ہوئی۔ایک ڈیرے اور گاؤں کا امام ہے، اس کے مسائل کیا ہیں۔ ایک قصبے اور شہر کا امام ہے، اس کے مسائل کیا ہیں۔ پھر شہروں اور قصبوں میں ایک شخصی مسجد ہے کہ ایک شخص نے بنائی ہے، وہی اس کا منتظم ہے، وہی اس کا متولی ہے، اسی کا قاعدہ کلیہ چلتاہے، اس مسجد کے امام کے کیا مسائل ہیں۔ محلے کی مساجد کی منتظمہ ہے،محلے کی کمیٹی بنی ہوتی ہے جس میں کوئی دودھ بیچنے والا، سودی کاروبار کرنے والا، اس طرح کے لوگ اس کمیٹی کے منتظم اور صدر، نائب صدر، خزانچی وغیرہ ہوتے ہیں، وہاں کے امام کے مسائل کیا ہیں۔ پھر اوقاف کی سرکاری مساجد کے ائمہ ہیں، ان کے مسائل ہیں۔ بہت سی قسمیں ہیں اماموں کی۔
میری اپنے رائے یہ ہے کہ ذمہ داریاں توسب جگہ کی ایک جیسی ہیں۔ایک بڑے عالم کے پاس شیخ الحدیث کے پاس بہت سے اماموں کے مسائل آتے ہیں۔یہاں مولانا زاہدالراشدی صاحب تشریف فرماہیں، ان کے پاس بھی بہت سے ائمہ کے کیس، مقدمات آتے رہے،یہ نبھاتے رہے ۔ہم وکیل صفائی ہوتے ہیں اماموں کے۔ مولوی کی وکالت کرنا،اس کے اوپر لگے ہوئے الزامات کودھونایہ ہماری فطرت میں شامل ہے۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس سیمینار کے انعقادپر مولانا زاہدالراشدی صاحب مبارکبادکے مستحق ہیں،لیکن سیمینارکی بجائے اگر ایک جرگہ بنایاجاتااوروہاں پر دیہاتوں کے امہ کو بھی دعوت دی جاتی اوران سے بھی کہتے کہ تم اپنے مسائل بتاؤ، ہم اپنے بتاتے ہیں۔اس طرح ہم خیالات کا تبادلہ کرسکتے ہیں۔ وقت کی بہت قلت ہے اورمسائل بہت زیادہ ہیں اوربہت سے مسائل جن سے ہمیں واسطہ پڑتاہے، اس پر بہت لمبے عرصے کے لیے گفتگو کی ضرورت ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ الشریعہ اکیڈمی کبھی اس کا بھی اہتمام کرے گی کہ ہم مل کر بیٹھیں گے اور آپس میں تبادلہ خیال کریں گے۔ مسائل ہرکسی کے مختلف ہیں۔ ہم جیسے لوگ مسائل میں گھرے ہوئے ہیں اور مولانا سمیع اللہ فراز جیسے لوگ ہم پر طنز کرسکتے ہیں کہ ہم یہ نہیں کرسکے، وہ نہیں کر سکے۔ جب ہم سب مل کر بیٹھیں گے، تبھی ہم لوگ مسائل کو حل کرسکیں گے۔
میں اپنی بات ختم کرتے ہوئے عرض کرتاہوں کہ ذ مہ داریوں کا انداز بالکل ایک ہے، امام اور خطیب کی ذمہ داریوں کا دائرہ متعین ہے کیونکہ امام اورخطیب روحانی باپ ہوتاہے اپنے تمام متوسلین کا ،اپنے نمازیوں کا اوراسے اپنے نمازیوں، مقتدیوں اوراپنے سامنے بیٹھ کر سننے والے لوگوں کے ساتھ بالکل باپ جیسی شفقت سے پیش آنا چاہیے۔ آپ دیکھیں، عیسائی اپنے مذہبی رہنماکو فادر کہتے ہیں یاپادری کہتے ہیں۔ پدر بھی فارسی میں باپ کو کہتے ہیں۔ جیسے وہ پادری نہ صرف اپنے مذہب کے لوگوں کے ساتھ بلکہ ہمارے مذہب کے غریب لوگوں،دیہات کے لوگوں اوربہت سے مجبور لوگوں کے ساتھ انتہائی شفقت کامعاملہ کرتاہے، حالانکہ ان کے پاس مذہب کی سچائی نہیں ہے، لیکن وہ پھر بھی اپنے اخلاقی رویے کی وجہ سے لوگوں میں مقبول ہوجاتاہے، اسی طرح ایک امام اورخطیب کولوگوں کے ساتھ شفقت کا معاملہ کرنا چاہیے۔
میںیہ سمجھتا ہوں کہ مسائل بہت ہیں، ذمہ داری کا دائرہ متعین ہے، لیکن حل ایک ہی ہے کہ ہرامام اور ہر خطیب انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء اور العلماء ورثۃ الانبیاء کانمونہ بن جائے۔ دین نبی کریم کی وراثت ہے، انبیا کی وراثت ہے اوردین صرف عبادات کے شعبے کانام نہیں ہے۔ امورسیاست،سیاست مدنی جسے ہم سیاسی امور کہتے ہیں جس سے ہم نے اپنے آپ کو بے دخل کرلیا ہے، یہ سب سرداردوعالم لی اللہ علیہ وسلم کی وراثت ہے اور امام اورخطیب کوجہاں عبادت اور سیاست دونوں میدانوں کاشہسوارہوناچا ہیے، وہاں خشیت الٰہی سے اس کا دل بھرا ہوا ہونا چاہیے۔ حضرت مولانا زاہدالراشدی صاحب تشریف فرماہیں، آپ حضرات اختلاف کر سکتے ہیں،آج سے پچیس تیس سال پہلے جب دیوبندی علما سیاست سے وابستہ تھے،ہرمسجد کا امام اورخطیب سیاسی ہوتا تھا۔ جمعیت علمااسلام اوپر سے لے کر نیچے تک مضبوط تھی۔ اس وقت مسائل کم ہوتے تھے ۔جس دن ہم نے پسپائی اختیار کی ہے،مسجدوں کاانتظام مقامی کمیٹیوں کے سپرد کر دیا ہے جس میں ایک بریلوی ہوتاہے، ایک غیر مقلد ہوتا ہے، ایک جماعت اسلامی کا، ایک پیپلزپارٹی کاآدمی ہوتاہے،ایک تحریک انصاف کا ہوتاہے ،یوں مختلف خیالات کے لوگوں کا مرکب یعنی مغلوبہ ساہوتاہے اورآپ جانتے ہیں کہ نتیجہ توبہرحال اقل اورارذل کے تابع ہوتاہے اوریہ کمیٹیا ں ایک سازش کے تحت بنی ہیں۔ جمعیت علماء اسلام نے، دیوبندی مولوی نے ۱۹۷۰ء کی دہائی میں یا اس سے پہلے یا اس کے بعد بہت سی قوتوں کو شکست دی اوراس بری طرح دی کہ وہ آج تک اپنے زخم چاٹ رہے ہیں۔سازش تیارہوئی کہ اس ملاکو کسی طرح پابند کر دیا جائے اورپابندکرنے کے لیے یہ سارانظام بنایاگیا۔ آج ہم خشیت الٰہی سے اتقوا اللہ حق تقاتہ  (اللہ سے ڈروجس طرح اس سے ڈرنے کا حق ہے) اورڈرنے کا حق کیاہے کہ صرف اللہ سے ڈرو، اس کے سوا کسی سے نہ ڈرو اور ہمار ا حق ہے تنقید کرناحکمرانوں پر ،ہمارا حق ہے تعاونوا علی البر والتقوی کی بنیاد پر سیاست کرنااورکسی کو کوئی حق نہیں ہے کہ اس ملک پر جواسلامی جمہوریہ پاکستان ہے ۔اے این پی کوحق نہیں ہے ،پیپلز پارٹی کو،مسلم لیگ ن کو حق نہیں ہے کہ وہ سیاست کرے اس لیے کہ قرارداد پاکستا ن کی بنیاد پر اس کا قبلہ متعین ہے ۔اسلام اس کا ریاستی مذہب ہے توکون حق دارہے کہ وہ سیاست کرسکے؟ وہ صرف ملااورمولوی اورپیغمبردوعالم کاوارث ہے ۔اگر ہم اس پر آجائیں تومسائل ایک دم نہ سہی،ایک ایک کرکے حل ہوتے جائیں گے ۔میں اپنی گفتگو کا خلاصہ دولفظوں میں بیان کرتاہوں کہ ذمہ داریاں سب کی متعین ہیں،دائرہ واضح ہے،پیغمبر دوعالم اورصحابہ کرام ہمارے سامنے نمونہ ہیں۔ہم سب اللہ سے ڈرنے کانمونہ بن جائیں توان شاء اللہ مسائل حل ہوجائیں گے ،مشکلات ختم ہوجائیں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس مقام پر واپس آنے کی توفیق عطافرمائے۔واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔ 

مولانا حافظ گلزاراحمد آزاد 

(جمعیت اہل سنت، گوجرانوالہ)
عنوان کے حوالے سے یہ پروگرام ایک الگ اورمنفرد سا پروگرام سے ہے۔عموماً ہمارے ہاں اس قسم کے موضوعات پر پروگرام نہیں ہوتے۔ذمہ دارریوں کے حوالے سے پہلی نشست میں، میں نے اور آپ نے بہت سی کام کی باتیں سنی ہیں۔اللہ عمل کی توفیق دے اورجن سے بچنا ہے،ان سے بچنے کی توفیق دے۔علماء کی ذمہ داریاں معاشرے کے حوالے سے، اسلامی سوسائٹی کے حوالے سے ،خطابت کے حوالے سے ،مسجد کے حوالے سے ہم نے پوری کرنی ہیں۔ علماء کے مسائل بھی بے پناہ ہیں۔ایک ایک مسئلہ آپ دیکھیں کہ اس میں سے کتنے مسائل نکلتے ہیں۔ کیاکیا مجبوریاں اور دشواریاں ہیں، آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ان مسائل کو یہاں بیان بھی کیاگیاہے، آگے ان کا حل تو وہ دور دور تک دکھائی نہیں دے رہاکہ ائمہ کے مسائل ہم کس حد تک حل کرپائیں گے یاواقعتا ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ہمارے پاس وسائل ہیں یاہم سنجیدہ کوشش کرنا چاہ رہے ہیں۔ابھی تواس بات کا بھی یقین نہیں آرہا، کیوں کہ مختلف عنوانات پر پروگرام ہوتے ہیں، سیمینار ہوتے ہیں اورکہتے ہیں کہ بھائی نیاپروگرام تھا بڑااچھا ہوا،لیکن عملی پیش رفت ہوتی نظر نہیں آتی۔ایک مزید رکاوٹ ہے کہ ہمارے ہاں ایسے منفی طرزعمل پر کسی کوتوڑنے کے لیے پروگرام ہوتے ہیں،لیکن مثبت اورمعیاری عنوانات پرمعاشرے کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے کوئی کام نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے میں الشریعہ اکادمی کے اراکین کو مبارکباد اورخراج تحسین پیش کرتاہوں کہ وہ ایسے پروگرام کے لیے بہت کوشش اورجدوجہد کررہے ہیں۔ ان شاء اللہ جیسے جیسے آگے چلتے جائیں گے، پیش رفت ہوتی جائے گی۔
ذمہ داریوں کے حوالے سے میں مختصرسابیان کروں گا کیوں کہ اتنا وقت نہیں ہے۔ ۷۰ء سے پہلے سے میں گوجرانوالہ میں ہوں اورجمعیت اہل سنت والجماعت سے منسلک ہوں اوریہ علما سے تعلق کی وجہ سے ہے۔میں آج بڑے اعتماد سے کہتا ہوں کہ ہمارے عام ائمہ کرام اور خطبا میں محلو ں کے اندر جن کو ہم عام زبان میں چھوٹے مولوی کہتے ہیں، جتنی قربانی ہمارے مسلک کے علمادیتے ہیں،آپ کو اتنی قربانی کہیں نہیں ملے گی۔جتنے مسائل کے اندر رہ کر وہ دین کا یہ سلسلہ چلا تے ہیں، آپ کو مثال ملنا مشکل ہوگا ۔جوں جوں آپ ان پر غورکرتے جائیں گے، آپ کو مسائل کھلتے ہوئے نظر آئیں گے ۔وجہ کیاہے کہ تین ہزار روپے امام صاحب لے رہے ہیں، اس کے آٹھ بچے ہیں، دو میاں بیوی ہیں، والدین بھی آگئے، وہ بھی ان کے پاس ہیں۔ اب بتائیں، یہ بجٹ کیسے بنایاجائے گا؟ ۳۵۰۰میں یہ مہینہ کیسے چلائے گا؟ ایک آدمی کا ناشتہ نہیں چلتا،لیکن یہ لے کر پھر کام کررہے ہیں اورکس طرح کام کررہے ہیں، یہ وہ جانتے ہیں یاان کا اللہ جانتا ہے۔کیونکہ ان کے ذہن کے اندر پیشہ نہیں، مشن ہے اور وہ یہ مشن لے کر چلتے ہیں۔ہمارے اکابر کا بھی یہ یہی ورثہ تھا کہ ایک جگہ بیٹھ کر بھوکے پیاسے رہو ،لیکن نئی نسل تک ورثہ پہنچا دو۔
یہاں وزیرآباد میں واقعہ پیش آیاکہ ایک پڑھی لکھی خاتون نے ایک قادیانی سے نکاح کرلیا۔ یہاں سے سب علما گاڑیاں بھر کر گئے۔یہاں کی انتظامیہ سے بھی بات ہوئی اور وہاں کی انتظامیہ سے بھی بات ہوئی، لیکن میں جاتے ہوئے راستے میں یہ سوچ رہاتھا کہ قادیانیوں کے خلاف بچے بچے کے دل میں نفرت ہے، پھر اس خاتون نے جوکافی پڑھی لکھی ہے، اس نے مرزائی کے ساتھ کیوں نکاح کرلیا؟ جب ہم وہاں پہنچے تومجھے پتہ چلاکہ اس پورے گاؤں میں ایک بھی مسجد علماء دیوبند کی نہیں ہے ۔میں سمجھ گیاکہ اگر ہمارا ایک چھوٹا سا ورکر بھی یہاں اصلاح کا کام کرتا تویہ سانحہ پیش نہ آتا۔اورکچھ ایسے علما ہمارے ضلع کے جو ان پڑھ تھے ،سادہ قرآن پاک پڑھا ہوا تھا، علاقہ کے اندر انہوں نے کام کیا۔ وہ اردومطالعہ کرتے رہے اورعلماسے جڑے رہے،پورے علاقے کا نقشہ ہی بدل گیا ۔ایک گاؤں نہیں، کئی گاؤں کے اندر یہ اثرپھیلتا چلا گیا۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ سب سے پہلے ہمیں اپنے آپ کو بنانا چاہیے،جب اپنے آپ کو بنالیں گے توپورا معاشرہ بن جائے گا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے اندر تشریف فرما ہیں، صحابہ کرام بھی بیٹھے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اب جو آدمی آئے گا، وہ جنتی ہوگا۔صحابہ کرام بہت متجسس ہوئے کہ وہ کون آدمی ہے ؟اتنے میں ایک آدمی آیا۔ تازہ وضو کیے ہوئے تھا،بائیں ہاتھ میں جوتیاں پکڑے ہوئے ہے، سلام کیا اور آکر بیٹھ گیا۔دوسرے دن پھر مجلس جمی ہوئی تھی۔ آپ نے فرمایا کہ اب جو آدمی آئے گا، وہ جنتی ہے ۔صحابہ کرام پھر انتظار میں ،جستجو میں۔ وہی آدمی اسی حالت میں آیا۔ تیسرے دن پھر اسی طرح آپ نے فرمایا کہ ابھی جو آدمی آئے گا، وہ جنتی ہوگا۔ وہ آیا، اسی طرح سلام کیا اوربیٹھ گیا ۔عبداللہ بن عمروبن العاصؓ فرماتے ہیں کہ میں نے یہ ارادہ کیا کہ آج میں ا س کے پیچھے جاتا ہوں ،پتہ کرتاہوں کہ یہ کون سا کام کرتاہے کہ اس کے بارے میں آقا نے فرمایا کہ یہ جنتی ہے۔چنانچہ میں اس کے پیچھے گیا۔ جب ان کے گھر کے پاس گئے تو اس آدمی نے محسوس کیا کہ میرے پیچھے کوئی ہے۔عبداللہ بن عمروالعاص ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اس سے کہاکہ میں نے قسم کھائی ہے کہ میں تین دن اپنے گھر نہیں جاؤں گا۔مہربانی فرماکر مجھے اپنے گھر رہنے کی اجازت دو۔وہ آدمی کہنے لگا کہ ٹھیک ہے، رہ لو۔حضرت عبداللہ کہتے ہیں کہ میں رات کو جاگتا رہاکہ یہ آدمی کیاکرتاہے ۔اس آدمی نے عشاء کی نماز پڑھی،تھوڑا بہت پڑھا اور سو گیا،تہجد کے لیے اٹھا ہی نہیں،فجر کی نماز کے لیے اٹھا ۔میں تین دن رہا، لیکن ان تین دنوں میں اس نے کوئی منفرد کام نہیں کیا۔میں بڑا حیران ہوا کہ یہ ایسا کیاکام کرتاہے کہ آقا نے فرمایا کہ یہ جنتی ہے۔ میں نے اس آدمی کے سامنے ساری صورت حال بیان کی تواس نے کہا کہ سارامعاملہ تمہارے سامنے ہے۔میں بڑا مایوس ہوا، واپس جانے لگا تو اس آدمی نے کہا کہ اے اللہ کے بندے، میں کوئی اورکام تونہیں کرتا البتہ میرے دل میں کسی آدمی کے لیے کینہ یابغض نہیں ہے۔ شاید یہ عمل ہی خداپاک کو پسند آ گیا۔ حضرت عبداللہؓ کہنے لگے، میری آنکھیں کھل گئیں کہ واقعتا یہی وہ عمل ہوگا کہ جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جنت کی بشارت سنادی ہے۔
یہ توعام آدمی کے بارے میں ہے۔ اگرہم علما کے بارے میں سوء ظن رکھنا شروع کردیں، حسد اورکینہ شروع کر دیں،ایک جماعت دوسری جماعت سے حسد شروع کردے توبہتری آسکتی ہے؟ سب سے پہلے اگر ہم اپنے سینے کو صاف کریں، سب سے محبت کریں، جوسیاسی علماہیں،جوجہاد کاکام کرنے والے ہیں، جوتبلیغ کا کام کرنے والے ہیں، ان کو اپنے گھر کافرد سمجھیں،ان کو دل میں جگہ دیں توپھر ان شاء اللہ اس کارواں کو کوئی روک نہیں سکتا۔
مساجد کی کمیٹیوں کے بارے میں بات ہوئی۔ ہم بھی کمیٹیوں کے ماتحت کام کرتے ہیں ۔مولاناراشدی صاحب نے فرمایاہے کہ اگر امام طاقتور ہوتوکمیٹی بھاگ جاتی ہے اور اگرکمیٹی طاقتور ہوتوامام بھاگ جاتا ہے۔ مولانا کا تجربہ تویہ ہے۔ میں چالیس سال سے امام ہوں، میں سمجھتاہوں کہ امام طاقتور ہے۔مولانا شمس الدین صاحب کا جنازہ تھا ۔مولانا اعظم صاحب اہل حدیث مکتب فکر کے بڑے عالم ہیں۔ وہ کہنے لگے کہ یار تم اچھے ہو، ہمیں توکمیٹیاں ہی چلنے نہیں دیتیں۔ یعنی ان کے ذہن میں یہ ہے کہ دیوبندی کمیٹیوں کا محتاج نہیں ہے۔یہ تو ہم ہی جانتے ہیں کہ ہمارے ساتھ کیا بیتتی ہے۔ لیکن جو مخلص ہوکرچلے ،پیشہ نہ سمجھے، مشن سمجھ کر چلے گا، ایک دن آئے گا کہ کمیٹیاں ماتحت ہوجائیں گی ان شاء اللہ۔ میں تویہ کہتاہوں کہ یہ فیصلہ کرلو کہ کوئی مطالبہ نہیں کرنا، مجھے جودیناہے اللہ نے دیناہے۔کسی سے کوئی مطالبہ نہیں کرنا اوردوسرایہ فیصلہ کرلیں کہ یہ سمجھیں کہ مجھے حاجی صاحب نے رکھا ہواہے یاصدرصاحب نے رکھا ہوا ہے،بلکہ یہ سمجھیں کہ مجھے اللہ نے رکھا ہوا ہے۔جب یہ فیصلہ کرلیں گے تو ان شاء اللہ ،اللہ راہیں کھول دے گا۔
میرا چھوٹاسامحلہ ہے ،وہاں چھوٹی سے مسجد ہے۔ اس مسجدمیں، میں نے تقریر کی علامہ اقبال کے خلاف۔اس وقت میں طالب علم تھا اورنوائے وقت کے فرنٹ پیج پر خبرآتی تھی مولانا حسین احمدمدنی ؒ کے خلاف کہ یہ پاکستان کے لیے خطرہ ہیں۔مجھے غصہ آگیا ،میں نے جمعہ کاسارا خطبہ علامہ اقبال کے خلاف کیا کہ تم اس کی بات کرتے ہو کہ جس کے منہ پر ڈاڑھی بھی نہیں تھی ۔میں نے بہت کچھ کہہ دیا،لیکن آخر میں اللہ کے فضل سے میں نے کہا کہ علامہ اقبال اگر بنا ہے تواحمدعلی لاہوری ؒ کی نظر سے بناہے، علامہ انورشاہ کاشمیری ؒ کی نظر سے بناہے، عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی مجلس سے بنا ہے، اس وجہ سے ہم اس کا احترام کرتے ہیں۔جمعہ پڑھانے کے بعد ہمارے سارے دیوبندی حضرات آگئے اورکہنے لگے کہ آپ صبح صبح چلے جائیں کہ سارا محلہ آپ کے خلاف ہو گیا ہے، گولیاں چل جائیں گی۔ میں نے کہا کہ صبح کیا جانا ہے، میں ابھی جاتا ہوں۔وہاں سے نکلاتونصرت العلوم چلاگیا۔ اس وقت میں وہاں پرزیرتعلیم تھا۔حضرات !تین دن گزرے تھے،اللہ کاکرم ایسا ہوا کہ جومیرے مخالف تھے،وہ آگئے اورکہنے لگے کہ لوگ کہتے ہیں کہ جب تک حافظ صاحب نہیں آئیں گے، نہ اذان ہوگی نہ نماز ہوگی۔آپ کی مہربانی واپس چلیں۔میں نے کہا کہ آپ صوفی عبدالحمید سواتی صاحب کے پاس آؤ،وہ جو فیصلہ کریں گے میں ماننے کو تیارہوں ۔چنانچہ وہ صوفی صاحب کے پاس آئے۔،صوفی صاحب نے بات سنی اورفرمانے لگے کہ جاؤ بیٹا، جاکر خدمت کرو۔یہ سب کچھ میرا کمال نہیں تھا ،یہ میں نے اپنے اکابر کے حوالے سے گفتگو کی تھی ۔اگر آج ہم سب اپنا ذہن مثبت بنا کرکام کریں گے توبہت سے مسائل کا حل ہوسکتا ہے۔
میں آخر میں بس دوباتیں کہتا ہوں کہ ہماری جتنی بھی جماعتیں ہیں، فکری ہیں،مذہبی ہیں ،سیاسی ہیں،سماجی ہیں، تبلیغی ہیں، سب کا احترام کرو،سب کاادب کرواوردوسری بات یہ ہے کہ اللہ کوحاضرناظرکرکے اپنے اکابر کے مشن کو آگے بڑھانے کی کوشش کرو۔اللہ ہم سب پر کرم فرمائے گا۔ واخردعواناان الحمدللہ رب العالمین۔

مولانا عبدالحق خان بشیر صاحب 

(حق چاریار اکیڈمی، گجرات)
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم، امابعد!
معزز علماء کرام، قابل صداحترام بزرگو اور دوستو!
سب سے پہلے تومیں الشریعہ اکادمی کے منتظمین کومبارکباد پیش کرتاہوں کہ وہ آج کی عصری وسماجی ضروریات کے حوالے سے مختلف قسم کے سیمینار منعقد کرتے ہیں اوریہ آج کا پروگرام بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔مجھے جوموضوع دیا گیا ہے، وہ ہے ’’خطبہ جمعہ کے لیے موضوع کا انتخاب اوراس کی تیاری‘‘۔مجھ سے پہلے میرے دوست مولانا گلزار احمد آزاد صاحب مساجد کی کمیٹیوں اور ائمہ وعلما کی مشکلات پربات کررہے تھے ۔اس حوالے سے والد محترم امام اہل سنت مولانا سرفرازخان صفدر ؒ دوباتیں ارشاد فرمایاکرتے تھے کہ مسجد کی کمیٹی کے اندر موجود سرمایہ دار چاہے اس کی پیشانی پر تہجد کے اور سجدوں کے نشانات اورمحراب پڑ جائے، وہ مولوی کے معاملے میں سرمایہ دار ہی ہے۔دوسری بات حضرت شیخ فرمایاکرتے تھے کہ اللہ رب العزت نے مولوی کولوگوں کی اصلاح کے لیے بھیجا ہے اور ہر مسجد میں ایک بابا مولوی کی اصلاح کے لیے ہوتا ہے۔شیخ فرمایاکرتے تھے کہ جومولوی اللہ کی رضا کے لیے اس بابے کو برداشت کرجائے اوراپنے مشن کو اس کی وجہ سے ترک نہ کرے، میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔محض اللہ کی رضا کے لیے اس بابے کو برداشت کرجائے۔
اب میں اپنے موضوع کی طرف واپس آتاہوں۔ خطابت ایک فن ہے جس کی ہردورمیں اہمیت رہی ہے اوراس فن نے معاشرے کے اندر انفرادی اوراجتماعی اصلاح میں بڑا کردار اداکیاہے۔اس فن سے تحریکیں اٹھی ہیں ،تحریکوں کو عروج ملاہے ،تحریکیں کامیاب ہوئی ہیں۔لیکن یہ فن اس وقت تک اہمیت کاحامل بھی رہاہے،اس کا ایک کردار بھی رہا ہے جب تک یہ فن سوسائٹی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے ۔جب یہ فن ایک سوسائٹی کی بجائے ایک خطیب کی ضرورت بن گیا،اس وقت سے یہ فن اپنی اہمیت کھوگیاہے ۔یہ فن دراصل سوسائٹی کی ضرورت کے لیے ہے، اس نے ہر دور کے اندرسوسائٹی کی اصلاح میں بنیادی کردار اداکیے ہیں۔آج ہمیں یہ شکوہ ہے کہ جمعہ کے موقع پر ہماری مساجد کے اندر نفری کم کیوں ہوگئی ہے یاجونفری ہے، وہ تقریر کے ٹائم کی بجائے خطبے کے ٹائم پر یانماز کے ٹائم پر کیوں آتی ہے۔ یہ شکوہ توہم کرتے ہیں،لیکن کیاکبھی ہم نے یہ سوچامنبرپربیٹھ کر ہم ان لوگوں کی ضرورت کو پوراکررہے ہیں؟سوسائٹی کے جو مسائل ہیں ،سماج کی جوضروریات ہیں ،کیاہم منبر پر بیٹھ کر ان ضروریات کو پورا کررہے ہیں؟ آج خطابت صرف اورصرف نقالی اور رٹے کا نام رہ گئی ہے اور میں بطورلطیفہ عرض کرتاہوں کہ ہمارے علاقے کے بڑے ممتاز خطیب ہیں،تقریر فرمارہے تھے اور میں ان کی تقریر سے اندازہ کررہاتھا کہ یہ تقریر حضرت مولانا عبدالشکور دین پوریؒ کی ہے۔ تقریر میں فرمارہے تھے کہ میں نے امیرشریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ سے ملاقات کی۔ تقریر کے بعد کھانے پہ بیٹھے ہوئے تھے،میں نے ان سے پوچھا کہ حضرت آپ کا سن ولادت کیاہے؟ فرمانے لگے ۱۹۷۵ء۔ میں نے کہا کہ حضرت جس شخصیت کی ملاقات کے بارے میں آپ تقریر میں فرمارہے تھے، وہ اس سے پندرہ یاسولہ سال پہلے دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ یعنی کتاب کے اندر ایسے ہی لکھا تھا جس طرح وہ بیان فرمارہے تھے ۔یعنی رٹے کے اندر بھی اگر آدمی عقل سے کام لے تو کام چل سکتاہے۔میں یہ عرض کررہاہوں کہ ہمارے ہاں خطابت نقالی اور رٹے کا نام رہ گیاہے۔اگراپنے دورکاایک خطیب،اس کاانداز یہ ہے کہ وہ کرسی پرپاؤں رکھ کر تقریر کرتاہے توہم اس کی بھی نقالی کریں گے۔ تقریر بھی اسی کی نقل کریں گے،انداز بھی اسی کا نقل کریں گے ۔یہ چیز ہم میں آگئی ہے کہ ہم نے نقالی اوررٹا خطابت کے اندر گھسیڑ دیاہے۔اس وقت سے خطابت اپنی اہمیت کھو چکی ہے۔
اگر ہم اس چیز کو محسوس کریں کہ سوسائٹی کی ضرورت ہم نے پوری کرنی ہے اور سوسائٹی کے تقاضے کیاہیں توہمیں سوسائٹی کے اندر رہنا ہوگا، سوسائٹی سے روابط رکھنے ہوں گے، سوسائٹی سے ان کی مشکلات اور ضروریات معلوم کرنی ہوں گی۔ ہمارے ہاں حالت کیاہے کہ گلیوں میں یوم یکجہتی کشمیر منایا جا رہا ہوتا ہے اورمیں مسجد میں بیٹھ کر بریلویوں کا دھڑلہ، اہل حدیثوں کا دھڑلہ نکال رہا ہوتا ہوں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اس کی ضرورت نہیں، اپنے مقام پر اس کی بھی ضرورت ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ آج پوری کی پوری قوم کراچی سے لے کر خیبر تک جس عنوان پر اکٹھی ہورہی ہے، مجھے اس کے لیے قوم کے اس تقاضے کو بھی پورا کرنا ہے۔ کشمیر کے بارے میں ہماراموقف کیاہے ،کشمیرکے ساتھ ہماری ہمدردی کی بنیاد کیا ہے،ان کے ساتھ ہمارا ربط وتعلق کیا ہے۔ ہمیں پبلک کے سامنے اس چیز کابھی اظہارکرناہے، لیکن نہیں۔ مجھے انتہائی افسوس کے ساتھ کہناپڑ رہاہے کہ ہمارے ۹۰فیصد سے زائد خطیب سوسائٹی کی ضرورت کااحساس نہیں کرتے اورجب تک ہم سوسائٹی کی ضرورت کااحساس نہیں کریں گے، تب تک ہم صحیح عنوان کاانتخاب نہیں کر سکتے۔ 
ہمارے ہاں خطبا کاایک طبقہ تو وہ ہے جنہوں نے مہینوں کے حساب سے خطبات یادکرلیے ہیں۔یہ ربیع الاول کے ہیں، یہ ربیع الثانی کے ہیں، یہ ذوالقعدہ کے ہیں، یہ ذوالحجہ کے ہیں۔اگلاسال شروع ہوتاہے پھر وہی ترتیب شروع ہوجاتی ہے کہ پچھلے سال کی تقریر کس کو یاد ہے اور ایک طبقہ وہ ہے کہ جو سیاست کے اندر اس قدرگھس گئے ہیں کہ ان کے لیے ہفتے کی اخبارات کافی ہوتی ہیں۔ ہفتہ کی اخبارات سامنے رکھیں اور جمعہ پڑھادیا۔ یہ دونوں طرز درست نہیں ہیں۔ ہمیں پبلک کی ضرورت محسوس کر کے موضوع کا انتخاب کرناچاہیے ۔اس وقت سوسائٹی کے اندر حدوداللہ کا مسئلہ چل رہاہے۔ ہم نے پبلک کو سمجھاناہے کہ حدوداللہ کیاہیں،ان کا حکم کیا ہے۔ اگرسوسائٹی کے اندرناموس رسالت کا مسئلہ چل رہاہے ،توہمیں پبلک کو سمجھاناہے کہ اس کی ا ہمیت کیاہے۔اگرسوسائٹی کے اندرعورتوں کا دن، والدین کا دن، بچوں کا دن، مزدوری کا دن چل رہاہے توہمیں پبلک کو اسلام کے حوالے سے ان دنوں کی اہمیت کوبتاناہے۔لیکن اس طرف ہماری توجہ نہیں ہے۔ہماری سوسائٹی کے اندرنفرتیں بڑھتی جارہی ہیں،ہمیں اس بات کااحساس نہیں ہے کہ ہم سوسائٹی کی ان نفرتوں کو کیسے دور کریں۔ ہمارا پورے کاپوراخاندانی نظام بگڑ رہاہے ۔والدین اوراولاد کے درمیان، بھائی بھائی کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی ہورہی ہے،لیکن کیا کبھی ہم نے محسوس کیا کہ ہم منبر پر بیٹھ کر بھی ان نفرتوں کو دورکرنے کے لیے کوئی کردار اداکریں؟جب تک ہم ان ضروریات کو محسوس نہیں کرتے اس وقت تک ہم اپنافرض ادانہیں کرسکیں گے۔
سیدنا ابوبکرصدیقؓ کایوم وفات آتاہے ،ضرورت ہے کہ لوگوں کو بتاناچاہیے، لیکن کیاابوبکرصدیق ؓ کامقام اتناہی ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معاونت کی ،ان کے ساتھ ہجرت کی، تمام جہادوں میں شریک رہے؟ کیایہ بتاناہماری ذمہ داری نہیں کہ ابوبکرصدیقؓ نے خلافت کا نظام کیسے چلایا؟حضرت عمر فاروقؓکی شخصیت کوبھی ایک ہی دائرے میں بندکردیاہے کہ کیسے انہوں نے اسلام قبول کیا، کیسے ہجرت کی،کیسے مدینہ منورہ میں رہے ،کیسے شہیدہوگئے۔درمیان میں جوان کا خلافت کادور ہے،اپنی خلافت کوچلانے کے لیے ان کی سیاست کانظام کیاتھا؟ عدالت کانظام کیاتھا؟ انہوں نے روم وایران کی پرانی تہذیبوں کے اندر سے کیسے ایک نئی تہذیب متعارف کرائی۔ کیایہ سب بتاناہماری ذمہ داری نہیں ہے؟ہم جب شخصیات کے حوالے سے بھی دیکھتے ہیں تو ہمارے عنوانات شخصیت کے ایک مخصوص حصے تک محدودہوتے ہیں۔ تومیں یہ عرض کرناچاہوں گا کہ جب تک ہم سوسائٹی کی ضرورت اورسوسائٹی کے مسائل کونہیں سمجھتے، اس وقت تک ہمارے لیے موضوع کا تعین اور اس تعین کے ساتھ اپنے فرض کواداکرناہمارے لیے ممکن نہیں ہوگا۔
دوسری چیزہے’’موضوع کی تیاری‘‘۔ میں انتہائی افسوس کے ساتھ عرض کروں گا کہ ہمارے ہاں مارکیٹ میں بکنے والے خطبات نے ہمارے نوجوانوں کے مطالعے کاذوق تباہ وبربادکردیاہے۔اپنی پسندکے ایک خطیب کے خطبات لیے،اس کو دیکھا اور جمعہ پڑھادیا ۔یہ سوچے بغیر کہ وہ خطیب کس ما حول میں بات کررہاتھا ۔ وہ تیس سال پہلے کے ماحول میں بات کررہا تھا اورمیں تیس سال بعد جب کہ ماحول بہت حد تک بدل چکاہے۔میں ماحول کی پروا کیے بغیر بیس، پچیس سال پہلے کے ماحول میں کی گئی تقریریں رٹ کر جمعہ پڑھا رہا ہوں۔ میرا ۱۹۸۵ء سے اپنا طرزیہ رہاہے اور اب تک یہی معمول ہے کہ میں جمعرات کادن باہرنہیں دیتا۔ ایک موضوع کاانتخاب کرتا ہوں۔ عشاء کی نماز سے لے کر فجرتک میں جمعہ کی تیاری کرتا ہوں۔سب سے پہلے میں موضوع کے مطابق آیات تلاش کرتاہوں،پھران آیات کے لیے میرے پاس جو دستیاب تفاسیر ہیں، انہیں دیکھتا ہوں۔ پھراس کے مطابق احادیث دیکھتاہوں،ان احادیث کی شروحات نکالتاہوں، پھرمیں اپنے مضمون کوترتیب دیتاہوں۔ ہمارے موضوع کا ایک پہلودین کے حوالے سے ہے۔ اگرہم نے اپنے اندرذوق مطالعہ کو برقراررکھا، جسے برقراررکھناچاہیے اورصرف مطبوعہ خطبات پر انحصار نہیں کیا توپھراس موضوع کے متعلق قرآن پاک کی آیات، ضروری نہیں کئی تفاسیر ہوں ،اگردوتفاسیربھی ہیں،یا ایک بھی ہے جیسے معارف القرآن ہے،جیسے تفسیر عثمانی ہے، اگر ایک تفسیرسے بھی ان آیات کی تشریح پڑھ کر ان سے متعلق احادیث اور جو ان کی شروحات دستیاب ہیں، ان کو دیکھ کر اگرتیاری کی جائے تومیں پورے وثوق سے کہتاہوں کہ اس سے ذوق مطالعہ بھی بڑھے گا اور ان شاء اللہ علم بھی بڑھے گا۔ اس کے علاوہ یہ کہ یہاں اگر کچھ سٹور ہوگا عقل اسی کے مطابق سپلائی کرے گی۔ یہاں اگر کچھ سٹور نہیں ہے توعقل کے آگے جوکچھ انسان بولتاچلاجائے گا۔ہمیں یہاں موضوع سے متعلق کچھ سٹورکرناہے ،پوری توجہ کے ساتھ اس کو ذہن میں بٹھاناہے۔
حضرت شیخ ؒ فرماتے تھے۔ مجھے یادہے، ۱۹۷۷ء کی تحریک مصطفی کے دوران شیخ نے میری تقریر سنی اورمجھے گھر بلا کر بڑے غصے سے کہا کہ کیاکر رہے تھے تم؟ یہ تقریرتھی؟ تقریرآستین چڑھانے کانام نہیں، تقریرمنہ سے تھوک نکالنے کا نام نہیں ہے۔ تقریرنام سے دوچیزوں کا۔ ایک یہ کہ جو تم کہہ رہے ہو، اس کے بارے میں تمہارا دل مطمئن ہے اورجوتم کہہ رہے ہو، وہ لوگوں کو سمجھ آرہاہے ۔اگر یہ دوچیزیں ہیں توتقریرتقریر ہے۔ تو موضوع کی تیاری کے لیے ضروری ہے کہ جوموضوع منتخب کیاہے، اس موضوع کے حوالے سے آیات قرآنیہ،ان کی تفاسیر ،احادیث اوران کی شروحات دیکھی جائیں۔ اگران کے اندرفقہی مسائل ہیں توان مسائل کو بھی دیکھ لیاجائے۔اگر بزرگوں کے مسائل بھی اس موضوع کے مطابق مل جائیں تونورعلی نورہے۔ اس کے اندر اورجان پیداہوجائے گی۔ اوراس کا ایک پہلوہے جو سماجی بھی ہوسکتاہے،سیاسی بھی ہوسکتاہے، تاریخی بھی ہوسکتاہے۔موضوع کے اندرجوسیاسی ،سماجی پہلوہیں، ان کے لیے بھی ہمیں قابل اعتماد مواد حاصل کرناہے اوروہ قابل اعتماد ذریعہ تلاش کرناہے جس سے مجھے ٹھیک مواد مل جائے۔ میں اس مقام پر یہ ضرور کہوں گا کہ اس کے لیے علما کا میڈیا کے ساتھ وابستہ رہنابہت ضروری ہے ۔میں یہ نہیں کہتا کہ الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ تعلق رکھو،لیکن اب ہمیں روزنامہ اسلام کے خول سے باہر نکلنا چاہیے اوراس خول سے باہر نکل کرآگے بڑھناہے۔ ہمیں صرف اسی پر انحصارنہیں کرناکہ صبح روزنامہ اسلام پڑھ لیا، بس کافی ہے۔ نہیں بلکہ ہمیں میڈیا کے ساتھ وابستہ ہوناہے اور میڈیا سے معلومات حاصل کرکے ہم نے اس موضوع پر جودینی پہلوکے ساتھ دوسرا پہلوہے،خواہ وہ سماجی ہے یا سیاسی ہے، اس کے لیے معلومات حاصل کرنی ہیں۔ اگر ہم ان چیزوں کا خیال رکھ سکیں تومیرا خیال ہے کہ ایک خطیب منبرپربیٹھ کراپنی منصبی ذمہ داری کو پوری طرح نبھاسکتاہے۔واٰخردعواناان الحمد للہ رب العالمین
(جاری)

تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’جہاد ۔ کلاسیکی وعصری تناظر میں‘‘  (ماہنامہ الشریعہ کی خصوصی اشاعت)

ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ سے الشریعہ اکادمی کی طرف سے شائع ہونے والا ملک کا نامور ماہنامہ ہے جس کے رئیس التحریر جانشین امام اہل السنۃ شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا زاہد الراشدی اور مدیر ان کے صاحبزادے ممتاز اسلامی اسکالر مولانا حافظ محمد عمار خان ناصر ہیں۔ بحث و مباحثہ کے پلیٹ فارم پر اس رسالہ نے اہل علم اور عوام الناس میں غیر معمولی شہرت حاصل کی ہے۔ جہاں بہت سے اہل علم و قلم اس کی پالیسی کو سراہتے ہیں،وہاں کچھ شدت پسند لوگ اسے ہدف تنقید بھی بناتے ہیں۔ بہر حال یہ ہر ایک کے اپنے اپنے ذوق کی بات ہے۔
ماہنامہ الشریعہ اس سے قبل بھی کئی اہم خصوصی اشاعتیں مختلف موضوعات پر منظر عام پر لاچکا ہے۔ یہ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ جہاد کے موضوع پر کئی اہل علم و قلم کے مضامین، مقالات اور مذاکرات اس کتاب کا حصہ ہیں۔جہاد اسلام کا ایک اہم عمل ہے جو کبھی فرض عین اور کبھی فرض کفایہ ہوتا ہے۔ اس کے اصلی ڈھانچے پر ایمان رکھتے ہوئے غیر منصوص ضروریات اور طریقہ کار پر جب تک جہاد جاری رہے گا، اس کے لیے اجتہادی بحث و مباحثہ کی گنجائش بھی باقی رہے گی، لہٰذا یہ خاص اشاعت بھی بحث و مباحثہ کے حوالہ سے کوئی حرف آخر نہیں ہے، چنانچہ ابتدائیہ کے صفحہ ۱۲ پر مدیر صاحب نے بڑی صفائی کے ساتھ لکھ دیا ہے کہ ’’ان موضوعات پر ’’الشریعہ‘‘ کے صفحات پر پہلے بھی بحث و مباحثہ ہوتا رہا ہے اور آئندہ بھی شاید کافی عرصے تک اس کو جاری رکھنے کی ضرورت محسوس کی جاتی رہے گی۔‘‘ نیز ’’یہ اشاعت خاص عصر حاضر کے ایک نہایت اہم اور حساس موضوع کے بہت سے علمی و عملی گوشوں کو واضح کرنے اور اس ضمن میں بحث و مباحثہ کے عمل کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہو گی۔‘‘ بلفظہ۔
اس خصوصی اشاعت میں (۱) اسلام کا تصور جہاد۔ چند توضیحات، (۲) جہاد۔ ایک مطالعہ، (۳) معاصر مسلم ریاستوں کے خلاف خروج کا مسئلہ، (۴) دستور پاکستان سے متعلق القاعدہ کے مؤقف پر ابحاث بطور خاص مذکور ہیں۔ ۶۶۲ صفحات پر مشتمل اس اشاعت کی کمپوزنگ،کاغذ و طباعت اور رنگین کارڈ کور معیاری ہے۔ قیمت۵۰۰ روپے، ناشر الشریعہ اکادمی ،ہاشمی کالونی کنگنی والا گوجرانوالہ۔علماء و طلباء اور عامۃ المسلمین سب ہی یکساں استفادہ کر سکتے ہیں۔
(تبصرہ: مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی، بشکریہ ماہنامہ ’’نصرۃ العلوم‘‘ گوجرانوالہ)

’’جرح وتعدیل‘‘

جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث وسنت کے بیسیوں پہلوؤں پر صدیوں سے علمی وتحقیقی کام ہو رہا ہے، مگر ہنوز تشنہ ہے اور اس علمی اور تحقیقی محنت کے دائرہ میں توسع وتنوع کی مسلسل پیش رفت جاری ہے۔
ائمہ محدثین نے حدیث کی سند اور رواۃ کو پرکھنے کے لیے جرح وتعدیل کے جو ضابطے بنائے ہیں اور جن کی بنیاد پر روایت حدیث کا عظیم الشان علمی ڈھانچہ استوار ہے، وہ بیسیوں محدثین کے لکھے ہوئے ہزاروں بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ اوراق میں بکھرے ہوئے ہیں اور نئی نسل کے لیے اس بات کی ضرور ت محسوس ہو رہی ہے کہ ان قواعد وضوابط اور اصول ترجیح کو ان کے دیگر متعلقات کے ساتھ آج کی آسان زبان میں عام فہم اسلوب کے ساتھ پیش کیا جائے تاکہ علوم حدیث کے قدیم ذخیروں تک آج کے نوجوان علماء او رنئی نسل کی رسائی آسان ہو جائے۔
فاضل محترم جناب ڈاکٹر اقبال محمد محمد اسحاق حفظہ اللہ تعالیٰ نے ’’جرح وتعدیل‘‘ کے عنوان سے اپنی اس ضخیم کتاب میں اسی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے جو لائق داد ہے۔ انھوں نے جرح وتعدیل کے اصول وقواعد اوران سے متعلق دیگر ضرور ی معلومات کو اچھے انداز میں مرتب کر دیا ہے جو علم حدیث سے تعلق رکھنے والے طلبہ اور اساتذہ دونوں کے لیے افادیت کا حامل ہے۔ اگرچہ بعض مقامات پر ان کے مسلکی ذوق کی ترجیحات جھلکتی دکھائی دیتی ہیں جو ایک فطری سی بات ہے، لیکن مجموعی طو رپر ان کی یہ علمی کاوش وقت کی ایک اہم ضرورت کو پورا کرتی ہے۔
یہ ضخیم کتاب مکتبہ قاسم العلوم، اردو بازار لاہور کی طرف سے شائع کی گئی ہے۔ (تبصرہ: ابو عمار زاہد الراشدی)

’’تحقیقات حدیث‘‘

حدیث اور علوم حدیث پر مشتمل ایک علمی وتحقیقی سہ ماہی مجلہ ’’تحقیقات حدیث‘‘ کا شمارہ ۳ (ستمبر ۲۰۱۱ء) اس وقت میرے سامنے ہے جو جامعہ خیر العلوم خیر پور ٹامیوالی کے شعبہ ’’زاویہ علم وتحقیق‘‘ کی طرف سے شائع ہو رہا ہے اور ہمارے فاضل دوست سید عزیز الرحمن صاحب اس کی ادارت کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ یہ مجلہ ’’نجیب الطرفین‘‘ ہے کہ اس کی نسبت ایک طرف جامعہ خیر العلوم ٹامے والی سے ہے جو ہمارے مخدوم ومحترم بزرگ اور اپنے وقت کے جید عالم دین ومفتی حضرت مولانا مفتی غلام قادر صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کی یادگار اور صدقہ جاریہ ہے اور دوسری طرف یہ مجلہ ایک عارف باللہ اورمحقق بزرگ حضرت مولانا سید زوار حسین شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے خانوادہ سے منسوب ہے کہ ہمارے ممدوح سید عزیز الرحمن صاحب حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے پوتے ہیں۔
اس مجلہ میں علم وتحقیق کا ذوق اور اس کے ساتھ فکر وشعور کا امتزاج رکھنے والیوں کے لیے بھی تسکین کا سامان وافر مقدار میں موجود ہے جو ایک مستقل دعوت فکر کی حیثیت رکھتا ہے۔ حدیث اور علوم حدیث کے حوالے سے ہمارے ہاں روایت اور روایتی اسلوب کے دائرہ میں تو بحمد اللہ تعالیٰ خاصا کام ہو رہا ہے، لیکن درایت کا یہ پہلو کہ عصری اسلوب میں حدیث نبوی کو پیش کیا جائے اور عصر حاضر کے تناظر میں حدیث نبوی کی تطبیق کی راہیں تلاش کی جائیں، ہمارے تعلیمی وتدریسی دائروں میں ابھی تک پوری توجہ حاصل نہیں کر پا رہا۔ ’’تحقیقات حدیث‘‘ دینی وعلمی حلقوں کو اس ضرورت کی طرف توجہ دلانے کی ایک اچھی کوشش ہے جس پر مسرت واطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اس کی ترقی، تسلسل اور کامیابی کے لیے بارگاہ ایزدی میں دست بدعا ہوں۔ آمین
(تبصرہ: ابو عمار زاہد الراشدی)

الشریعہ اکادمی کی لائبریری کے لیے موصول ہونے والے ہدیہ ہائے کتب

  • الکنز المتواری فی معادن لامع الدراری (صحیح بخاری پر شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا سہارنپوریؒ کے تشریحی افادات) ۲۴ جلدیں (ہدیہ از جناب مولانا عبد الحفیظ مکی مدظلہ، سعودی عرب)
  • مشاہیر (مکتوبات) بنام مولانا سمیع الحق (۸ جلدیں) ہدیہ از جناب مولانا سمیع الحق زید مجدہم
  • طبقات القراء للذہبیؒ (۲ جلدیں) ہدیہ از جناب ڈاکٹر احمد خان صاحب، اسلام آباد
ادارہ ان گراں قدر کتب کا ہدیہ پیش کرنے پر مذکورہ تمام حضرات کا شکر گزار اور ان کے لیے دعا گو ہے۔ 

نفسیاتی علاج کی اہمیت

حکیم محمد عمران مغل

حکیم ابوبکر رازیؒ کی حذاقت کا یہ واقعہ کتب میں مرقوم ہے کہ حاکم وقت کا لڑکا ذہنی اور نفسیاتی امراض میں جکڑا گیا۔ آخری علاج رازیؒ نے ہی کیا۔ بادشاہ کا لڑکا اپنی ضد پر قائم تھا کہ میں گائے ہوں، مجھے ذبح کیا جائے۔ رازی نے چند منٹ میں اس کی نفسیاتی کیفیت کو سمجھ کر علاج کیا اور شہزادہ ٹھیک ہو گیا۔ رازی نے کہا کہ میں ابھی آپ کو ذبح کرتا ہوں، لیکن یہ تو بتائیں کہ آپ کے جسم پر نہ گوشت پوست اور چربی ہے اور نہ ہی خون ہے۔ ہڈیوں پر چھری کیسے چلے گی؟ اس لیے آپ کچھ کھا پی لیں تاکہ گوشت پیدا ہو۔ اتنی سی با ت پر شہزادے نے کھانا پینا شروع کر دیا اور اس کا ذہنی توازن ٹھیک ہو گیا۔
ہماری بود وباش اس سطح پر پہنچ چکی ہے اور اس میں اتنی تبدیلی آ چکی ہے کہ اگر کوئی معالج نفسیاتی طور پر ناکام ہے تو وہ جسمانی علاج قطعی طورپر نہیں کر سکتا۔ کچھ عرصہ قبل مجھے ایک متمول، دوبئی پلٹ مگر نہایت متقی وپرہیز گار خاتون کے علاج کے لیے بلایا گیا۔ سارا گھرانہ ڈاکٹروں پر مشتمل تھا۔ اس عورت کا بہنوئی لاہور کے بہت بڑے ہسپتال کا سربراہ تھا۔ پورا زور لگایا گیا، مگر مریضہ ٹھیک نہ ہو سکی۔ بیماری یہ تھی کہ مریضہ جو کچھ کھاتی، فوراً قے کے ذریعے خارج ہو جاتا۔ جون جولائی کا مہینہ تھا۔میری تشخیص اور تدبیر بھی غلط نکلی۔ میں صبح سے شام تک سوچتا رہا۔ مریضہ کی بڑی بہن بڑی تجربہ کار، متقی پرہیز گار ، نماز گائنا کالوجسٹ تھی۔ میں نے اپنی تشخیص کا رخ موڑا۔ گھر والوں سے عرض کیا کہ مجھے آخری کوشش پوری کرنے دیں۔ مغرب کے قریب اللہ نے میری مدد کی اور میں قے بند کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ میں نے علم نفسیات کی مدد سے بات آگے بڑھائی تو یہ راز کھلا کہ محترمہ کی ایک نہایت لائق بیٹی نے سارے خاندان کو نظر انداز کرتے ہوئے قانونی طور پر مجسٹریٹ صاحب کے روبرو ایک نوجوان سے شادی رچا لی ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ اس خاتون کے سامنے اس کی لکھی پڑھی خوبرو لڑکی کے ساتھ ایک نوجوان گزرتا تو اس کی حالت غیر ہو جاتی۔ گرمی کا موسم تھا۔ میں نے گرم موسم کا خیال کرتے ہوئے پودینہ کے عرق کی پوری بوتل منگوائی اور ایک ایک پیالی پلاتا گیا، مگر قے نہ رکی۔ آخر بوتل ختم ہونے کو آئی تو قدرت نے میری کوشش کو قبول کر لیا۔ محترمہ کی نہ صرف قے رک گئی بلکہ ساتھ ہی وہ نیند کی آغوش میں چلی گئیں۔
بات یہ تھی کہ ماں نہیں چاہتی تھی کہ وہ نوجوان اس کا داماد بنے، جبکہ لڑکی اسی لڑکے سے شادی کی خواہش مند تھی۔ اسی کشمکش میں وقت گزرتا گیا اور ماں کی حالت غیر ہوتی گئی۔ جونہی وہ اپنے داماد کو دیکھتی، اس کے اندرونی نظام نفسیاتی طو رپر شدید متاثر ہوتا اور کھایا پیا باہر آ جاتا۔ پودینے کے عرق نے سارے جسم کو ٹھنڈا کر دیا اور قے رک گئی۔ میں نے تھوڑی سی کوشش کر کے اپنی تشخیص کا رخ موڑا تو مسئلہ حل ہو گیا۔ پرانے اطبا نے نفسیات کے علم کے بول بوتے پر پیچیدہ امراض کا علاج کر کے سیکڑوں مریضوں کی جان بچائی ہے۔

جولائی ۲۰۱۲ء

نوجوان علماء کرام کی تربیت: ضرورت اور تقاضےمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
’’مشاہیر بنام مولانا سمیع الحق‘‘مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
سال ۲۰۱۲ء اور دنیا کی تباہی کے مفروضےمولانا محمد عبد اللہ شارق
سرمایہ دارانہ انفرادیت کا حال اور مقام (۱)محمد زاہد صدیق مغل
نفاذ شریعت کی حکمت عملی: ایک فکری مباحثے کی ضرورت / مورث کی زندگی میں کسی وارث کی اپنے حصے سے دست برداری / ایک غزل کے چند اشعارمحمد عمار خان ناصر
سیدہ عائشہ کی عمرجاوید احمد غامدی
اسلامی سیاسی فکر ۔ جدید اسلامی فکر کے تناظر میںڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی
سیمینار: ’’ائمہ وخطبا کی مشکلات، مسائل اور ذمہ داریاں‘‘ (۳)ادارہ
تعارف و تبصرہادارہ
خاموش قاتل کا خاموش علاجحکیم محمد عمران مغل

نوجوان علماء کرام کی تربیت: ضرورت اور تقاضے

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(مجلس صوت الاسلام کراچی کے زیر اہتمام ۲۸۔۲۹۔۳۰ مئی ۲۰۱۲ء کو میریٹ ہوٹل اسلام آباد میں منعقد ہونے والے ’’علماء امن کنونشن‘‘ کی ایک نشست میں گفتگو۔)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ 
مجھے سب سے پہلے آج کے اس کنونشن کو اسلام آباد کے ایک اعلیٰ ہوٹل میں منعقد کرنے کے بارے میں کچھ عرض کرنا ہے جسے بعض حلقوں میں تعجب کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے، مگر میں چونکہ ہر بات کو اس کے مثبت اور رجائی پہلو سے دیکھنے کا عادی ہوں، اس لیے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں اس میں افادیت کاایک بڑا پہلو دیکھ رہا ہوں کہ دینی تعلیم اور ذوق کو معاشرہ کے اعلیٰ طبقات میں فروغ دینے کی بھی ضرورت ہے اور دین کا علم اور پیغام ان طبقوں تک پہنچانے کے لیے ان کے معیار اور نفسیات کے مطابق ان تک رسائی وقت کا اہم تقاضا ہے۔ قرآن کریم نے مال و دولت کے بارے میں فرمایا ہے کہ کی لا یکون دولۃ بین الاغنیاء منکم  کہ دولت کی گردش صرف مالداروں تک محدود نہیں رہنی چاہیے، اور زکوٰۃ کا فلسفہ یہ ہے کہ وہ سوسائٹی میں دولت کی گردش کو اوپر سے نیچے لاتی ہے جس سے غریب اور محروم طبقات بھی دولت کے ثمرات سے مستفید ہوتے ہیں۔ اس کی روشنی میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ علم کی گردش بھی صرف فقراء اور غرباء تک محدود نہیں رہنی چاہیے اور اسے سوسائٹی کے اعلیٰ طبقات تک بھی پہنچنا چاہیے۔ 
ایک دور میں ہماری یہ ضرورت تھی کہ دین و علم کی محنت کو نچلی سطح پر لایا جائے تاکہ انہیں زمانہ کی دست برد سے بچایا جا سکے اور اگلی نسلوں تک پہنچنے کے لیے دین و علم کی حفاظت کی جا سکے۔ یہ جبر کا دور تھا اور دینی علوم و روایات کے خلاف برطانوی استعمار کی یلغار کا دور تھا جس میں دین و علم کی حفاظت اور ضرورت کے لیے ہمارے اکابر اس کی محنت کو انتہائی نچلی سطح پر لے گئے تا کہ اسے خطرہ نہ سمجھا جائے اور مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ کے بقول ہمارے بزرگوں نے دین و علم کی محنت کو چٹائیوں اور تپائیوں تک محدود کر کے اسے کمیوفلاج کر دیا اور راڈار کی رینج سے نیچے لے گئے جس کی وجہ سے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے۔ مگر آج کا دور اس سے مختلف ہے، آج دین و علم کی اس محنت کو نچلے طبقوں میں بدستور جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ معاشرہ کے بالائی طبقات تک لے جانے کی بھی ضرورت ہے اور ان طبقوں کو علم و دین کے ساتھ مانوس کرنے کی ضرورت ہے جو ملک میں حکمرانی کر رہے ہیں، لیکن دین اور دینی علم سے بے بہرہ ہیں۔ اگر ہم ان طبقات کو دین اور اس کے علوم کے ساتھ مانوس کر سکیں تو یہ اسلام کی بڑی خدمت ہوگی اور وقت کی ایک اہم ضرورت کی تکمیل ہوگی۔ ظاہر بات ہے کہ ان لوگوں تک دین کی بات اور علم پہنچانے کے لیے ان کے پاس اسی سطح پر جانا ضروری ہے جہاں وہ بات سننے کے عادی ہیں۔ اس لیے میرے خیال میں مجلس صوت الاسلام کراچی کی یہ محنت قابل تعریف ہے اور ہم سب کو اس سے تعاون کرنا چاہیے۔ 
اس کے بعد میں اپنے اصل موضوع کی طرف آتا ہوں کہ نوجوان علماء کی تعلیم و تربیت کی آج کے دور میں ضروریات اور تقاضے کیا ہیں؟ میں اسے مختلف دائروں میں تقسیم کروں گا۔ 
سب سے پہلا دائرہ تکمیل کا ہے کہ ایک فارغ التحصیل عالم دین نے جو کچھ دینی مدارس میں پڑھا ہے، اس کی تکمیل کی جائے اور جو خامیاں اور کمزوریاں دوران تعلیم رہ گئی ہیں ان کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ ہمارے ہاں پرانے دور میں تکمیل کے نام سے فراغت کے بعد مزید تعلیم کا یہ ذوق اور نظام موجود رہا ہے کہ فارغ التحصیل علماء کرام درس نظامی کی رسمی تعلیم کے بعد کسی صاحب فن کے پاس کچھ عرصہ رہتے تھے اور فنون میں مزید تعلیم حاصل کرتے تھے جسے تکمیل ہی کہا جاتا تھا، اب بھی بعض علاقوں میں یہ روایت موجود ہے۔ خود ہمارے ہاں مدرسہ انوار العلوم گوجرانوالہ میں حضرت مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ کی ’’دورۂ تکمیل‘‘ کے نام سے مستقل کلاس ہوتی تھی جس میں فنون کی تدریس ہوتی تھی اور معقولات پر بطور خاص توجہ دی جاتی تھی۔
اس کے بعد ’’تخصصات‘‘ کا دائرہ ہے کہ کسی خاص علم یا فن سے دل چسپی اور اس کا ذوق رکھنے والے فضلاء اس فن کے ماہرین کے پاس جاتے تھے اور مختلف سطحوں پر تعلیم حاصل کرتے تھے۔ ان میں دورۂ تفسیر قرآن کریم، دورۂ صرف و نحو اور دورۂ میراث کے حلقے بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
یہ دونوں دائرے آج بھی مختلف شکلوں میں موجود ہیں اور سینکڑوں اصحابِ ذوق ان دائروں میں محنت کر رہے ہیں، لیکن ان کی افادیت میں اضافہ کے لیے ان کی درجہ بندی اور ترجیحات پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ میرے خیال میں جس طرح یونیورسٹیوں میں ایم فل اور پی ۔یچ ڈی کے درجات ہیں اور اس کے ساتھ ہی اساتذہ کی تربیت کے مختلف کورسز ہیں، دینی مدارس میں اسی طرز کی درجہ بندی ضروری ہے۔ اگر تکمیل کو ایم فل اور تخصص کو پی۔ایچ ڈی کی طرح منظم کیا جائے، اس کے ساتھ بی ایڈ اور ایم ایڈ قسم کے کورس اساتذہ کی فکری و عملی تربیت کے لیے مرتب کر کے ان کا اجرا کیا جائے اور ان کے نصابات میں آج کی ضروریات اور تقاضوں کو متوازن انداز میں ایڈجسٹ کر لیا جائے تو تکمیل اور تخصص کے ان حلقوں کو با مقصد اور مؤثر بنایا جا سکتا ہے اور ان کی افادیت میں کئی گنا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ 
نوجوان علماء کرام کی تعلیم و تربیت کا تیسرا دائرہ میرے خیال میں ’’تحسین‘‘ کا ہے جس کا مطلب میرے نزدیک وہ ’’احسان‘‘ ہے جس کا ذکر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں موجود ہے اور جس سے حضرات صوفیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ ’’سلوک و احسان‘‘ کے نظام کے لیے راہ نمائی حاصل کرتے ہیں، یعنی دین اعمال پر پختگی کے ساتھ ساتھ ان میں مزید حسن پیدا کرنا اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کے ساتھ قلوب کو منور کرنا ہے جو ایک عالم دین کی صلاحیتوں کو جِلا دیتا ہے اور اخلاق و آداب میں عمدگی پیدا کرتا ہے۔ میں عام طور پر نوجوان علماء کرام کو مشورہ دیا کرتا ہوں کہ وہ کسی شیخ کامل کے ساتھ روحانی تربیت کا عملی تعلق قائم کریں اور ان کی باقاعدہ صحبت اختیار کریں یا کم از کم تبلیغی جماعت کے ساتھ کچھ وقت لگائیں جس سے ان کی عبادات اور دینی معمولات میں باقاعدگی پیدا ہوگی، کارکن کی سطح پر کام کرنے کا ذوق بیدار ہوگا۔ یہ باتیں آج ہم میں نہیں ہیں لیکن آج کے دور میں دین کی صحیح محنت کے لیے ضروری ہیں۔ 
اس سلسلہ میں چوتھا دائرہ میرے نزدیک تطبیق کا ہے کہ جو کچھ پڑھا ہے سوسائٹی میں اس پر عملدر آمد کی صورتیں ہمارے ذہن میں واضح ہوں، ہم قرآن کریم کی کوئی آیت پڑھ رہے ہوتے ہیں، جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کر رہے ہوتے ہیں، حتیٰ کہ فقہ کا کوئی جزئیہ زیر بحث ہوتا ہے مگر آج کے عمومی حالات میں اس کی ضرورت کہاں ہے اور اس کی تطبیق کی موجودہ صورت کیا ہے؟ یہ بالکل ہمارے ذہن میں نہیں ہوتا، ہم اگر تطبیق کی بات کرتے بھی ہیں تو جس فقیہ اور مجتہد کا بیان کردہ جزئیہ ہمارے پیش نظر ہوتا ہے، اسی کے دور کے حالات کاتناظر بھی ہمارے سامنے ہوتا ہے اورا س بات کی طرف ہمارا ذہن نہیں جاتا کہ عرف و تعامل کی تبدیلی سے تطبیق کی صورتیں بدل جاتی ہیں۔ اور یہ بات قطعی طور پر ضروری نہیں ہے کہ مثلاً صاحبِ ہدایہ نے اپنے دور کے حالات کے تناظر میں اور اس دور کے عرف و تعامل کی روشنی میں کوئی جزئیہ تحریر کیا ہے تو وہ آج کے دور میں بھی اسی طرح فٹ ہو اور آج کے حالات سے بھی اسی طرح مطابقت رکھتا ہو۔ 
اس کے لیے سوسائٹی کے عمومی ماحول سے واقفیت، عرف و تعامل سے آگاہی اور لوگوں کی نفسیات و روایات سے شناسائی ناگزیر ضرورت کی حیثیت رکھتی ہے جس کی طرف ہماری سرے سے توجہ نہیں ہے، بلکہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ہم نے حالات سے بے خبر رہنے کو کمال کی بات سمجھ رکھا ہے اور مسائل و مشکلات سے بے خبری کو ہم نے ان کا حل قرار دے لیا ہے، ہمارے ہاں علم اور بزرگی کا ایک بڑا معیار یہ بن گیا ہے کہ اردگرد کے حالات کی کچھ خبر نہ ہو اور دنیا میں کیا ہو رہا ہے، اس سے کوئی دل چسپی نہ ہو، یہ طرز عمل درست نہیں ہے، اسے تبدیل کرنا ہوگا اور خاص طور پر فارغ التحصیل ہونے والے علماء کرام میں یہ ذوق پیدا کرنا ہوگا کہ وہ نہ صرف اپنے ملک کے بلکہ عالمی حالات سے بھی با خبر رہیں، دنیا اور معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھیں، قرآن و سنت، فقہ اسلامی اور تاریخ اسلامی کے ذخیرے سے استفادہ کرتے ہوئے خود کو فکری و عملی طور پر تیار رکھیں۔ 
نوجوان علماء اور فضلاء کی تعلیم و تربیت کا پانچواں دائرہ میرے خیال میں ان کی فکری تربیت اور ذہن سازی کا ہے جس کا ہمارے ہاں کوئی بامقصد اور منظم اہتمام موجود نہیں ہے، آج کی دنیا افکار و خیالات کے عروج کی دنیا ہے ، اور افکار و خیالات کی اشاعت اور فروغ میں جدید میڈیا نے جو ہمہ گیری اور وسعت پیدا کی ہے اس نے ہماری ذمہ داریوں میں بہت زیادہ اضافہ کر دیا ہے، فکر و فلسفہ کی عالمی تحریکات، ان کے اہداف، ان کے طریق کار اور عالم اسلام پر ان کے مثبت و منفی اثرات پر نظر رکھنا، اور منفی خیالات کا توڑ تلاش کرکے متاثرہ لوگوں پر متبادل افکار و خیالات پہنچانا علمی و فکری محنت کا ایک مستقل دائرہ ہے جو ہماری توجہ کی رینج میں نہیں ہے، اور پریشان کن بات یہ ہے کہ ہم نے عقائد اور افکار و نظریات کو ایک ہی دائرہ کی چیز سمجھ رکھا ہے حالانکہ عقائد اور ان کی تعبیرات کی سطح اور دائرہ الگ ہے اور افکار و نظریات کی دنیا اس سے بالکل مختلف ہے مگر ہم کسی نئے فکر و نظریہ کا جواب فکر و نظریہ کی صورت میں دینے اور علمی و منطقی طور پر اس کی کمزوری واضح کرنے کی بجائے ہر بات کا رَد فتویٰ کی زبان میں دینے کے عادی ہوگئے ہیں جس سے کنفیوژن بڑھتا جا رہا ہے۔ عقیدہ کی بنیاد وحی پر ہے جبکہ فکر و نظریہ کا تعلق عقل سے ہے اور عقل کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ افکار و نظریات میں رد و بدل ہوتے رہنا ایک فطری بات ہے۔ اس لیے جو فکر و نظریہ وحی سے صریح متصادم نہ ہو اسے غلط عقیدہ قرار دے کر رد کر دینا قرین قیاس نہیں ہے، لیکن میں اس بحث کو مزید آگے بڑھانے کی بجائے اصولی طور پر یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے مدارس کے فضلاء میں سے جو علماء اس کی اہلیت و صلاحیت رکھتے ہیں انہیں آج کے مروجہ نظریات و افکار اور فلسفہ و ثقافت سے آگاہی حاصل کرنا اور دور حاضر کی فکری و تہذیبی کشمکش سے روشناس کرا کے انہیں اسلام کے فطری نظام اور ثقافت و تمدن کی علمی زبان میں ترجمانی کے لیے تیار کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ 
حضرات محترم! میں نے آج کے حالات اور ضروریات کے تناظر میں دینی مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والے علماء کرام کی تعلیم و تربیت کے چند ناگزیر تقاضوں کا ذکر کیا ہے، اس سلسلہ میں ’’مجلس صوت الاسلام کراچی‘‘ کی محنت میرے نزدیک انتہائی مفید اور بروقت ہے اور میں اس پروگرام میں مسلسل شریک رکھنے پر مجلس صوت الاسلام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس کی ترقی و کامیابی اور ثمرات و نتائج کے ساتھ بارگاہِ ایزدی میں اس کے لیے قبولیت و رضا کے لیے بھی تہہ دل سے دعا گو ہوں۔ آمین یا رب العالمین۔ 

’’مشاہیر بنام مولانا سمیع الحق‘‘

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مولانا سمیع الحق صاحب باہمت اور صاحبِ عزیمت بزرگ ہیں کہ اس بڑھاپے میں مختلف امراض وعوارض کے باجود چومکھی جنگ لڑ رہے ہیں اور مختلف شعبوں میں اس انداز سے دینی وقومی خدمات میں مصروف ہیں کہ کسی شعبہ میں بھی انہیں صفِ اول میں جگہ نہ دینا ناانصافی ہوگی۔ دارالعلوم حقانیہ کے اہتمام وتدریس کے ساتھ ساتھ امریکی ڈرون حملوں اور نیٹو سپلائی کی ممکنہ بحالی کے خلاف عوامی محاذ کی عملی قیادت کررہے ہیں جس میں انہیں ملک کے طول وعرض میں مسلسل عوامی جلسوں اور دوروں کا سامنا ہے، جبکہ قلمی محاذ پر رائے عامہ کی راہ نمائی اور دینی جدوجہد کی تاریخ کو نئی نسل کے لیے محفوظ کرنے میں بھی وہ اسی درجہ میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق رحمۃ اللہ علیہ اور خود اپنے نام مشاہیر کے خطوط کو آٹھ ضخیم جلدوں میں جمع کرکے جو عظیم کارنامہ سرانجام دیا ہے، اسے دیکھ کر میں خود تحیر وتعجب کے ساتھ خوشیوں کے سمندر کی گہرائی میں ڈبکیاں کھا رہا ہوں۔ بحمداللہ تعالیٰ میرا شمار بھی بے ہمت لوگوں میں نہیں ہوتا، مگر مولانا سمیع الحق کی ہمت کی بلندی پر نظر ڈالنے کے لیے باربار ٹوپی سنبھالنا پڑرہی ہے۔
گزشتہ روز میں نے جب اس کتاب پر بلکہ کتابوں کے اس مجموعہ پر نظر ڈالی تو میرا پہلا تاثر یہ تھا کہ سارے کام کاج چھوڑکر اسی کے سامنے دوزانو بیٹھ جانا چاہیے۔ تاریخ میرے مطالعے کا پسندیدہ موضوع ہے اور اس میں سے اہل حق کی جدوجہد اور خدمات کی تاریخ کے دائرے میں کچھ نہ کچھ کارروائی میں بھی وقتاً فوقتاً ڈالتا رہتا ہوں۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق اور ان کے فرزند دل بند مولانا سمیع الحق کے نام وقت کے مشاہیر کے خطوط جن میں سیاست دان، حکمران، علمائے کرام، مشایخ عظام، اربابِ فکر ودانش، مفکرین ومدبرین، وکلاء، صحافی اور دیگر طبقات کی سرکردہ شخصیات شامل ہیں، تاریخ کا ذوق رکھنے والے اسکالروں اور میرے جیسے طلبہ کے لیے اتنا قیمتی اثاثہ ہیں کہ اس کی قدر وقیمت کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔
خدا جانے اس کے تفصیلی مطالعہ کا وقت کب ملتا ہے، جو بظاہر شوال المکرم کی تعطیلات سے پہلے بہت مشکل دکھائی دے رہا ہے، مگر اس کے سرسری تعارف کے لیے میں نے سردست اس کی پہلی جلد کا انتخاب کیا ہے جو شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق کے نام ان کے معاصر مشاہیر کے خطوط پر مشتمل ہے اور دینی جدوجہد کے ایک پورے دور کا احاطہ کرتی ہے۔’’مشاہیر‘‘ کے عنوان سے آٹھ ضخیم جلدوں پر مشتمل اس کتاب کی عمومی ترتیب یہ ہے کہ پہلی جلد شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق رحمۃ اللہ علیہ کے نام خطوط کے لیے مخصوص ہے، جلد دوم سے جلد پنجم تک حروف تہجی کے لحاظ سے مشاہیر کے مولانا سمیع الحق کے نام خطوط کی چار جلدیں ہیں، جلد ششم افغانستان کے جہاد کے دوران کی اہم رپورٹوں اور جہادی راہ نماؤں کے خطوط اور سرگرمیوں کا احاطہ کرتی ہے، جلد ہفتم میں بیرونی ملکوں کے مشاہیر کے خطوط شامل کیے گئے ہیں، جبکہ جلد ہشتم ضمیمہ جات، اضافات اور توضیحات کو سمیٹے ہوئے ہے۔
حضرت مولانا عبدالحق رحمۃ اللہ علیہ کے نام مشاہیر کے خطوط کے لیے مخصوص پہلی جلد پونے سات سو کے لگ بھگ صفحات پر مشتمل ہے۔ ان مشاہیر کی فہرست پر میں نے اس خیال سے نظرڈالی کہ اس کالم میں تذکرہ کے لیے ان میں سے چند زیادہ اہم بزرگوں کے ناموں کا انتخاب کرسکوں، مگر مجھے اس میں کامیابی نہیں ہوئی کہ کوئی نام بھی ایسا نہیں ہے جسے اہمیت کے خانہ نمبر دو میں رکھا جاسکے، البتہ اس حوالے سے مولانا سمیع الحق کا بے حد شکرگزار ہوں کہ حضرت شیخ الحدیث کے نام راقم الحروف کے تین خطوط شامل کرکے ان کے اس نیازمند وعقیدت مند کو بھی ’’خریداران یوسف‘‘ کی اس فہرست میں شریک کرلیا ہے جو میرے لیے اعزاز وافتخار کی بات ہے۔
حضرت مولانا عبدالحق رحمۃ اللہ علیہ کا شمار پاکستان ہی نہیں، بلکہ جنوبی ایشیا کی ان عظیم شخصیتوں میں ہوتا ہے جو نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ وسطی ایشیا میں علوم دینیہ کی ترویج واشاعت اور اسلامی اقدار وروایات کے تحفظ وفروغ کا ذریعہ بنیں۔ تعلیمی اور تہذیبی حوالے سے مولانا عبدالحق کی دینی، علمی، تدریسی اور فکری خدمات جنوبی ایشیا اور اس کے ساتھ ساتھ وسطی ایشیا میں دینی جدوجہد کی اساس کی حیثیت رکھتی ہیں اور افغانستان کو دیکھا جائے تو اس کی پشت پر مولانا عبدالحق کی شخصیت پوری آب وتاب کے ساتھ کھڑی دکھائی دیتی ہے جو بظاہر ایک منحنی سا وجود رکھتے تھے، لیکن علم وفضل اور عزم وہمت کے اس کوہِ گراں کے ساتھ کمیونزم کے فلسفہ ونظام نے سر پٹخ پٹخ کر اپنا حلیہ بگاڑلیا اور آج کا مورخ یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ جہاد افغانستان کی علمی، فکری اور دینی اساس مولانا عبدالحق کی شخصیت اور ان کی نگرانی میں کام کرنے والا تعلیمی ادارہ دارالعلوم حقانیہ ہے جس کے اثرات افغانستان اور وسطی ایشیا کو اپنے حصار میں لیے ہوئے ہیں۔
’’جہاد افغانستان‘‘ کی علمی وفکری آبیاری میں ہمارے بہت سے بزرگوں کا حصہ ہے، مگر میں تاریخ کے ایک طالب علم اور اس جدوجہد کے ایک شعوری کارکن کے طور پر تین شخصیات کو ان سب کا سرخیل سمجھتا ہوں، ان میں سے سب سے پہلا نام حضرت مولانا عبدالحق کا ہے اور ان کے بعد جہاد افغانستان کے علمی وفکری سرپرستوں میں میرے خیال میں حضرت مولانا محمد عبداللہ درخواستی اور مولانا مفتی محمود کا نام آتا ہے جنہوں نے نہ صرف پاکستان کے علماء وطلبہ کو جہاد افغانستان کے لیے ذہنی طور پر تیار کیا، افغان مجاہدین کی سیاسی واخلاقی پشت پناہی کی، جہاد افغانستان کے خلاف مختلف اطراف سے اٹھائے جانے والے شکوک واعتراضات کا جواب دیا اور جہاد افغانستان کی ہر لحاظ سے پشتیبانی کی۔
حضرت مولانا عبدالحق کی خدمات کو میں ایک اور حوالہ سے بھی تاریخ کا اہم حصہ شمار کرتا ہوں، وہ پاکستان میں نفاذاسلام کی دستوری جدوجہد کا باب ہے۔ پاکستان کی دستورساز اسمبلیوں میں شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کے بعد جس شخصیت نے دستور سازی میں سب سے زیادہ سنجیدہ کردار ادا کیا ہے اور دستورسازی کے تمام مراحل میں پوری توجہ اور تیاری کے ساتھ محنت کی ہے، وہ حضرت مولانا عبدالحق ہیں۔ 73ء کے دستور کی تیاری کے مرحلہ میں حضرت مولانا مفتی محمود قائدحزب اختلاف تھے اور حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی، مولانا صدرالشہید، مولانا نعمت اللہ، مولانا عبدالحکیم، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا محمد ذاکر، مولانا ظفراحمد انصاری اور بہت سے دیگر بزرگوں نے اس دستور کو زیادہ سے زیادہ اسلامی بنانے کے لیے محنت کی، مگر دستورساز اسمبلی کی کارروائی کا مطالعہ کیا جائے اور دستورسازی کے مختلف مراحل پر نظرڈالی جائے تو حضرت مولانا عبدالحق کے جداگانہ اور امتیازی کردار کا تذکرہ بہرحال ضروری ہوجاتا ہے۔ حضرت مولانا عبدالحق ہمارے ملی اور قومی محسنین میں سے ہیں اور ان کے نام ان کے معاصر مشاہیر کے یہ خطوط ان کی جدوجہد اور خدمات کے مختلف پہلوؤں کی نشان دہی کرتے ہیں۔ میں ان خطوط کی اشاعت پر مولانا سمیع الحق کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ دینی جدوجہد اور تاریخ کا ذوق رکھنے والے حضرات اس سے بھرپور استفادہ کریں گے۔

سال ۲۰۱۲ء اور دنیا کی تباہی کے مفروضے

مولانا محمد عبد اللہ شارق

بعض لوگ اس خوف میں مبتلا ہیں کہ 2012ء میں کچھ ہونے والا ہے۔ کچھ لوگو ں کو اس سال قیامت واقع ہوتی نظر آرہی ہے۔ بعض لوگوں کو دجال کی چاپ قریب سنائی دے رہی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سال بدی کی قوتوں کا امام’’ امریکا‘‘ قدرتی آفات وبلیات کی خوف ناک لپیٹ میں آکر سمندر برد ہوجائے گا۔ بعضوں کا خیال ہے کہ رواں سال ’’اسرائیل‘‘ صفحۂ ہستی سے مٹ جانے والا ہے۔ مغربی معاشرے اس حوالہ سے کچھ یادہ ہی خوف میں مبتلا ہیں۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اس خوف کا اصل بخار مغربی معاشرہ کو ہی چڑھا ہوا ہے۔ان کے بعض حلقوں میں یہ بات عقیدہ کی حد تک راسخ ہوچکی ہے کہ 2012ء کے دوران یہ دنیا مختلف موسمیاتی یا ماورائی تبدیلیوں کا شکار ہوکر ٹوٹ پھوٹ جائے گی اور یوں اس زمین پہ زندگی اپنے اختتام کو پہنچ جائے گی۔ مغرب کے کئی مفکر اور اسکالرزاس نکتۂ نظر کے پرزور حامی ہیں۔ اس حوالہ سے جس تاریخ کا خصوصی طور پر ذکر کیا جاتا ہے‘ وہ 21؍ دسمبر 2012ء ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت ساٹھ ہزار ویب سائٹس ایسی ہیں جہاں اس تاریخ کے بارہ میں پیشین گوئیوں پر مبنی مواد موجود ہے۔ ان میں سے بعض ویب سائٹس پر باقاعدہ ڈاؤن کاؤنٹر لگے ہوئے ہیں جن کے ذریعہ ہر لمحہ بتایا جارہا ہے کہ دنیا کس طرح لمحہ بہ لمحہ اپنے خاتمہ کی طرف محوِ سر ہے اور اس کے خاتمہ میں مزید کتنے لمحات باقی ہیں۔ اس کے علاوہ اس موضوع پر مغرب میں بے شمار کتابیں بھی لکھی جاچکی ہیں۔ مشرق میں یہ خوف مغرب سے ہی برآمد ہوکر آیا ہے۔ 
دلائل اور حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس موضوع پر قلم اٹھانے والے لکھاریوں کے دعوی کے مطابق اہلِ دنیا کا یہ خوف بلاوجہ نہیں۔ ان کے مطابق اس بات کے کئی ماورائی اور سائنسی ثبوت موجود ہیں کہ 2012ء میں دنیا کے اندر کچھ غیر معمولی تغیرات اور تبدیلیاں رونما ہونے والی ہیں۔ ذیل میں ہم ان شواہد کا ایک جائزہ لیتے ہیں اور ان پہ رائے زنی کی کوشش بھی کرتے ہیں کہ آیا واقعی ان کی بنیاد پر 2012ء سے ڈرنا اور خوف کھانا درست ہے؟؟
ماورائی شواہد کے ضمن میں مختلف مذاہب کی مذہبی روایات ذکر کی جاتی ہیں‘ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ان مذہبی روایات میں سے بعض کے اندر تو سرے سے کوئی ایسا اشارہ ہی نہیں ملتا جس معلوم ہو کہ بنی نوع انسان کو 2012ء سے ڈرنے کی ضرورت ہے‘ بلکہ اس کے برعکس ان پیشین گوئیوں میں (مجمل الفاظ کے اندر) یہ خوش خبری اور نوید نظرآتی ہے کہ 2012 ء میں حق اور سچائی کا آفتاب طلوع ہونے والا ہے۔ مثلاً ہندومت کی روایات کے مطابق 2012ء سے حق اور صداقت کے دور کا آغاز ہونے والا ہے۔ بدھ مت کے بعض راہبوں کے مطابق ’’بدھا‘‘ کی پیشین گوئی کی روسے2012ء میں ایک سنہری دور (golden age) شروع ہونے والا ہے۔ تاہم یہودی اور عیسائی روایات کے مطابق اگرچہ 2012ء کے دوران یا اس سے پہلے دنیا کے اندر قتل وغارت ‘ خوں ریزی اور فتنہ وفساد کے کچھ واقعات رونما ہوں گے‘ مگر ان میں بھی انجامِ کار حق کے پیروکار صاف بچ جائیں گے اور منکرینِ حق پر عذابِ الہی نازل ہوگا۔ یوں اپنی اپنی روایات کی روشنی میں عیسائیوں اور یہودیوں کو بھی 2012ء سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ اپنے ہی عقیدہ کے مطابق خدا کے محبوب اور لاڈلے ہیں اور ان کی اپنی روایات کے مطابق خدا اس سال اپنے فرماں برداروں کو ’’فتحِ مبین‘‘ عطا فرمائے گا۔ نہ جانے پھر مغرب اور خصوصاً امریکا میں ایسی فرمز کیوں روز بروز مقبول ہوتی جارہی ہیں جو 21؍دسمبر 2012ء کی تباہی سے بچنے کے لیے زیرِ زمین پناہ گاہیں تیار کرکے فروخت کرتی ہیں اور نہ جانے انہیں خریدار کہاں سے میسر آجاتے ہیں!رہ گئے مسلمان تو دوسرے مذاہب کی روایات پر ان کا سرے سے ایمان ہی نہیں اور ان کا اپنا مذہب اس حوالہ سے بالکل خاموش ہے۔ لہذا ان کا 2012ء سے ڈرنااور گھبرانا تو بالکل ہی کوئی معنی نہیں رکھتا۔
سائنسی انکشافات اور شواہد کے ضمن میں جن امور کا ذکر کیا جاتا ہے‘ ان میں بھی کوئی ایسا نہیں جسے اطمینان بخش ‘ حتمی اور قطعی کہا جا سکے ۔ اس سلسلہ میں مایان قوم کے کیلنڈر اور امریکی خلائی ادارے ناسا کی تحقیق کا بطورِ خاص ذکر کیا جاتا ہے۔ مایان قوم کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ یہ سائنسی اعتبار سے ایک انتہائی ترقی یافتہ قوم تھی۔ 2000قبل مسیح سے 250ء کے درمیان ان کا زیادہ عروج رہا۔ اس قوم نے شمسی اورقمری کیلنڈر کے علاوہ ایک کیلنڈر ’’ورلڈ ٹائم کیلنڈر‘‘ کے نام سے تیار کیا تھا۔ یہ کیلنڈر 5126 سالوں پر مشتمل تھا۔ یہ کیلنڈر مختلف سائنسی خصوصیات کا حامل تھا جو انہوں نے اپنے کائناتی مشاہدہ کی روشنی میں تیار کیا تھا۔ یہ کیلنڈر31؍اگست3114 قبل مسیح سے شروع ہوکر اب 21؍دسمبر 2012ء کو ختم ہورہا ہے۔ان کا دعوی تھا کہ 21؍دسمبر 2012ء کے بعد ہمیں اندھیرا نظر آرہا ہے۔یعنی انہوں نے دعوی کیا کہ مذکورہ تاریخ کو دنیاکی عمر مکمل ہوجائے گی۔ جو لوگ 2012ء میں دنیا کی تباہی پر مصر ہیں‘ ان کی ایک بڑی لیل یہی کیلنڈر ہے۔ ان لوگوں کا دعوی ہے کہ مایان قوم نے گذشتہ ادوار کے لیے جو پیشین گوئیاں کی تھیں‘ ان میں بھی اکثردرست ثابت ہوئی تھیں۔ موجودہ دور میں سائنسی علوم سے وابستہ بعض مغربی مفکرین جب محض اس بنیاد پر مایان کیلنڈر کو تسلیم کرنے پر اصرار کرتے ہیں کہ ماضی میں بھی مایان قوم کی بعض پیشین گوئیاں درست ثابت ہوئی تھیں تو ان پہ حیرت ہوتی ہے۔ مایان قوم کا مذکورہ کیلنڈر ایک ایسے دور میں تیار ہوا جب سائنس ظن اور تخمین کے دور سے گزر رہی تھی۔[ضمناً جان لیجئے کہ سائنس کو اپنے تاریخی ارتقاء کے اعتبار سے تین ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے:(۱)ظن وتخمین کا دور۔ اس دور میں کوئی بھی سائنسی نکتۂ نظر محض ظن وتخمین او راٹکل پچو کی بنیاد پر قائم کیا جاتا تھا۔(۲)تجربہ کا دور۔ جب سائنس کی باگ ڈور مسلمانوں کے ہاتھ آئی تو اب کسی بھی سائنسی نکتۂ نظر کے ثبوت کے لیے تجربہ شرط قرار پایا۔ (۳)مشاہدہ کا دور۔ جب سائنس کی زمامِ کار مغرب کے ہاتھ آئی تو اب کسی بھی سائنسی دعوی کے لیے مشاہدہ ضروری ٹھہرا۔] اب جبکہ مشاہدہ اور مائیکرو اسکوپ کا دور ہے ‘ اس دور کے اندر پتھر کے دور میں بنائے گئے کیلنڈر کا حوالہ دینا اور محض اس بنیاد پر کہ اس قوم کی بہت سی سابقہ تحقیقات درست تھیں‘ اتنا بڑا دعوی کرنا کہ 2012ء میں دنیا مکمل طورپر تباہ ہوجائے گی‘ چہ معنی دارد؟اگر واقعی ایسا کچھ ہونے والاہے تو آخر وہ ایسا کون سا ذریعہ تھا جس کی مدد سے مایان قوم کوتو ہزاروں سال پہلے پیدا ہوکر 2012ء میں واقع ہونے والے اس عظیم حادثہ کی معلومات حاصل ہوگئیں جبکہ عہدِ جدید 2012ء میں داخل ہوکر اپنی تمام تر حشرسامانیوں کے باوجود سر پہ آپہنچنے والی اس قیامت کے بارہ میں بالکل بے خبر ہے۔اگر کسی کی دس باتوں میں سے چار باتیں درست ثابت ہوجائیں تو ضروری نہیں کہ باقی چھ بھی درست ہی ہوں۔تجربہ اور مشاہدہ کی بات کرنے والے مغربی مفکر (جو خدا کا انکار بھی محض اس لیے کرتے ہیں کہ وہ نظر نہیں آتا) نہ جانے ان میں بعض کو مایان قوم کے حوالہ سے عقیدت کا ایساکیا ہیضہ ہوا ہے کہ اپنے ان سب اصولوں کو بھول گئے ہیں اور مایان قوم کے کیلنڈر پرمن وعن ایمان لے آنا ضروری خیال کرتے ہیں۔ 
سائنسی شواہد کے ضمن میں جو دوسرا ’’معتبر نام‘‘ لیا جاتا ہے‘ وہ امریکی خلائی ادارے ’’ناسا‘‘ کا ہے۔ اس سلسلہ میں ’’ناسا‘‘ کی طرف بہت کچھ منسوب کیا جاتا ہے‘ مگر میں نے خود’’ناسا‘‘ کی ویب سائٹ پر اس حوالہ سے جو کچھ دیکھا‘ اس کی ایک جھلک آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ:
Nothing bad will happen to the Earth in 2012. Our planet has been getting along just fine for more than 4 billion years, and credible scientists worldwide know of no threat associated with 2012.
’’2012ء میں دنیا کے اندر کوئی برا واقعہ پیش نہیں آئے گا۔ ہمارا سیارہ چار ارب سال سے زیادہ عرصہ کے لیے بالکل فٹ فاٹ ہے۔ معتبر سائنس دان 2012ء میں پوری دنیا کو لاحق کسی بھی خطرہ کے بارہ میں کچھ نہیں جانتے۔‘‘
یہ اقتباس اور 2012ء کے بے بنیاد خوف سے متعلق دیگرتمام تفصیلات NASA کی سرکاری ویب سائٹ پر ملاحظہ کرنے کے لیے درج ذیل لنک پر کلک کریں: 
http://www.nasa.gov/topics/earth/features/2012.html
ایک مسلمان کا ایمان ہے کہ یہ دنیا تباہ ہونے کے لیے بنی ہے اور ایک دن تباہ ہوکر ہی رہے گی۔ ایک صاحبِ ایمان کے نزدیک اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اس تباہی کا مقررہ وقت معلوم کیا جائے ‘ یہ تباہی تو کسی بھی وقت آسکتی ہے‘ عین اس وقت بھی کہ جب ’’ناسا‘‘ والے بالکل مطمئن اوربے خوف بیٹھے ہوں کہ ابھی چار ارب سال تک تو اس دنیا کے تباہ ہونے کے کوئی امکانات نہیں! کیونکہ یہ تباہی ناسا والوں کی نہیں ‘ اللہ کی اجازت اور مرضی سے آنی ہے جو بحر وبر کا بادشاہ اور بلا شرکتِ غیرے مالک ہے۔ اس کے ایک ہی اشارہ سے ہوائیں‘ پہاڑ‘ سمندر‘ ستارے‘ زلزلے‘ وبائیں‘ سیلاب‘ آفتیں اور سینکڑوں قسم کی بلائیں پلک جھپکتے میں اس دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر تہس نہس کرسکتی ہیں۔ایک مسلمان کی نگاہ میں اصل مسئلہ یہ ہونا چاہئے کہ میں نے تباہی کے اس دن کے لیے کیا تیاری کی جب ماں بیٹے کو بھول جائے گی اور اولاد والدین کو۔آسمان پھٹ پڑے گا‘ زمین میں خوف ناک زلزلے ہوں گے‘ ایسی خوف ناک اور ہیبت ناک آندھیاں چلیں گی کہ پہاڑ روئی کے گالے بن جائیں گے‘قبریں شق ہونے لگیں گی اور اندر سے مردے نکل رہے ہوں گے‘ ستارے بکھرتے ہوئے نظر آئیں گے‘سمندروں میں آگ بھڑک اٹھے گی ‘ صورِ اسرافیل کی دہشت ناک آواز کانوں کے پردے پھاڑ رہی ہوگی اور دہشت ووحشت کے اس عالم میں چھ فٹ کے انسان کو اپنی اوقات یاد آجائے گی۔تب بدحواسی اور وحشت زدگی کی حالت میں اس کی آنکھیں تن جائیں گیاور وہ سوچنے پہ مجبور ہوجائے گا کہ کیا اس نے آج کے دن کے لیے کوئی نیکیاں ذخیرہ کی تھیں یا لہو ولعب اور شغل ومستی کے اندر ہی اپنی ساری زندگی برباد کرآیا ہے۔ایک طرف شرمندگی‘افسردگی اور خوف زدگی کی خوف ناک تصویریں ہوں گی‘ جن کی کتاب ان کے بائیں ہاتھ میں پکڑائی جائے گی۔ ان کے چہرے ہیبت ناک حدتک سیاہ اور تاریک پڑجائیں گے۔ دوسری طرف کچھ کھلکھلاتے اور مسکراتے چہرے ہوں گے‘ جن کے دائیں ہاتھ میں ان کا اعمال نامہ پکڑایا جائے گا۔ خوشی اور مسرت ان کے انگ انگ سے ٹپک رہی ہوگی اور لوگ ان کو رشک بھری نگاہوں سے دیکھیں گے۔ ان کا بس نہیں چل رہا ہوگا کہ کس طرح خوشی سے چھلانگیں لگائیں اور سب محشر والوں کو بتائیں کہ انہیں کتنی بڑی کامیابی کا پروانہ مل گیا ہے۔ جب نفسانفسی کا عالم ہوگا‘ زمین دہکتا توا بن جائے گی‘ دنیا میں گزری زندگی کے پل پل کا حساب ہوگا‘ شعلے اگلتی جہنم سامنے ہوگی‘ پل صراط بڑوں بڑوں کا پتہ پانی کردے گی‘ میزانِ اعمال کے پاس عجیب مناظر ہوں گے۔ اس دن صرف وہی بچ پائے گا جسے خدا کی رحمت اپنی آغوش میں لے لے گی۔ اس رحمت کو متوجہ کرنے اور اپنا مقدر سنوارنے کا آج بہت انمول موقع اس زندگی کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔
یہ سب لفاظی نہیں‘ حقائق ہیں کیونکہ اس سب کی خبر ہمیں اس کائنات کے رب اعلی اور اس کے سچے رسول نے دی ہے ۔ جب یہ سب منظر سامنے ہوں گے تو آنکھیں حیرت اورخوف کے مارے پھٹ جائیں گی۔کیا مسلمان سچے اللہ اورسچے رسول کی ان خبروں اور تنبیہوں کو بھول گئے ہیں کہ اب مچھروں اور ڈنگروں پہ تحقیق کرنے والے سائنس دانوں سے پوچھ کر فیصلہ کریں گے کہ انہیں کس وقت ا ور کس چیز سے ڈرنا چاہئے!!! یہ جہاں تو آنی جانی چیز ہے ‘ اس نے آج نہیں تو کل مٹ ہی جانا ہے۔ یہ جی لگانے کی جگہ نہیں‘ مٹ جانا اس کا مقدر ہے۔ خدا کے فیصلے نہ مایان کیلنڈر کے پابند ہیں‘ اور نہ ہی ناسا والوں کے اٹکل پچوؤں کے۔ ہمیں 21؍ دسمبر 2012ء سے نہیں‘ ہر لمحہ اور ہر آن خدا کی گرفت سے اور اس موت سے ڈرنا چاہئے جو کسی بھی وقت ‘ کسی بھی حال میں ہماری آنکھوں کو بے نور کرسکتی ہے۔ 21؍ دسمبر سے ڈرنا انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ فرض کیجئے کہ دنیا کی تباہی کا یہ وقت صحیح بھی ہو تو کیا ضروری ہے کہ میں 21؍دسمبر تک زندہ رہوں؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ میں اس سے پہلے ہی اس دنیا کو چھوڑ جاؤں؟اور فرض کیجئے کہ اگر 21؍ دسمبر کو کچھ بھی غیرمعمولی واقعہ پیش نہیں آتا او ریہ دن خیروعافیت سے گزر جاتا ہے تواس میں میرے لیے خوشی کی کیا بات ہے؟ کیا میں اس کے بعد موت کے چنگل سے بچ جاؤں گا؟؟ اور اگر 21؍ دسمبر کو سب کے ساتھ ہی مرنا میرے مقدر میں لکھا ہے تو اس میں اضافی پریشانی کی کیا بات ہے ؟مرنا تو ایک دن تھا ہی ‘ اکیلے نہ سہی ‘ سب کے ساتھ سہی ۔ہمیں ہر جہت اور ہر پہلو سے اللہ کے رنگ میں رنگ جانا چاہئے اور ہر اس چیز سے ڈرنا چاہئے جس سے اس مالک الملک نے ہمیں ڈرایا ہے۔ یہی ڈرنے کی اصل باتیں ہیں۔ باقی سب خرافات ہیں۔ ان سے ڈرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ افسوس کہ جس امت نے دوسروں کو یہ الوہی اور ملکوتی سبق پڑھانا تھا‘ وہ خود غیروں کی خرافات امپورٹ کرنے میں لگی ہوئی ہے اور اپنا سبق بھول گئی ہے۔
(بشکریہ روزنامہ اسلام)

سرمایہ دارانہ انفرادیت کا حال اور مقام (۱)

محمد زاہد صدیق مغل

جاوید اکبر انصاری / زاہد صدیق مغل 

اس مضمون کا مقصد سرمایہ دارانہ نظام زندگی کی تفہیم کے لیے چند مطلوب بنیادی مباحث کو مربوط انداز میں پیش کرنا ہے۔ سرمایہ داری یا کسی بھی نظام زندگی پر بحث کرتے وقت مفکرین کا نقطہ ماسکہ اجتماعی زندگی اور اسکے لوازمات کی تشریح و تنقیح رہتی ہے اور وہ انفرادیت جو ان تمام اجتماعی معاملات کو جنم دیتی ہے نظروں سے اوجھل رہتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اجتماعی زندگی فرد کے تعلقات کے مجموعے کے سواء اور کچھ بھی نہیں (۱)۔ انسانی زندگی ایک مربوط عمل ہے۔ انسان کی سوچ، عمل اور تعلقات میں گہرا ربط ہے۔ عمل اور تعلقات سوچ کے اظہار کا ذریعہ ہیں۔ سوچ کی بنیاد احساس ہے۔ ہر شخص اپنے عمل کا خود ذمہ دار ان معنوں میں ہے کہ وہ لامحالہ اپنی انفرادی حیثیت میں یہ فیصلہ کرتا ہے کہ خیر اور شر کیا ہیں؟ اس دنیا میں اس کا مقام کیا ہے؟ اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ اور ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے اس کو کیسے اعمال و افعال اختیار اور کیسے تعلقات استوار کرنے چاہئیں؟ اسی بنیادی انفرادی ذمہ داری کا یہ اظہار ہے کہ ہر شخص اپنی انفرادی موت سے دو چار ہوتا ہے اور اس کو انفرادی طور پر اپنی قبر میں اپنے اعمال کا جواب دینا ہوتا ہے۔ اپنی انفرادیت کے تعین کے لیے ہر شخص اس سوال کا جواب دینے پر مجبور ہے کہ ’میں کون ہوں؟‘ آج کل کے زمانہ میں اس سوال کے دو جوابات مقبول ہیں: (۱) میں مسلمان ہوں ، (۲) میں آزاد ہوں۔ ان میں سے جو جواب بھی دیا جائے گا وہ ہر چند قبل از احساس اور قبل از فکر پر مبنی مفروضات پر منحصر ہوتا ہے۔ اسی چیز کو ’’ایمان‘‘ کہتے ہیں۔ ایمان دلیل اور وجدان پر منحصر نہیں، دلیل اور وجدان ایمان پر منحصر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت نظام الدین اولیا ؒ کسی شخص کے ایمان لانے کو معجزہ کہا کرتے تھے (آپ کے دست مبارک پر ہزاروں لوگ ایمان لائے)۔ کوئی شخص محض اپنے احساسات یا اپنی سوچ کی بناء پر ایمان نہیں لاتا۔ نہایت عظیم مفکر ین اور روحانی پیشوا مثلاً ارسطو، گاندھی، ووکانندا، کانٹ، آئن اسٹائن وغیرہ ایمان نہیں لائے کیونکہ ایمان کی دولت اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم کے نتیجے میں ملتی ہے۔ 
امام غزالیؒ المنقذ من الضلال میں فرماتے ہیں کہ علوم شرعی و عقلی کی تفتیش میں جن علوم میں میں نے مہارت حاصل کی اور جن طریقوں کو میں نے اختیار کیا ان سب سے میرے دل میں اللہ کی ربوبیت، نبوت اور یوم آخرت پر ایمان بیٹھ گیا۔ ایمان کے یہ تینوں اصول کسی دلیل خاص سے میرے دل میں راسخ نہیں ہوئے تھے بلکہ ایسے اسباب اور قرائن اور تجربوں سے راسخ ہوئے تھے جن کی تفصیل احاطہ حصر میں نہیں آسکتی۔ مزید فرماتے ہیں کہ جس شخص نے یہ گمان کیا کہ کشف حقیقت مجرد دلائل پر موقوف ہے تو اسنے اللہ کی وسیع رحمت کو نہایت تنگ سمجھا۔ احساس اور فکر کی بنیاد ایمان پر ہوتی ہے۔ اسی چیز کو صوفیاء تصورِ حال سے تعبیر کرتے ہیں۔ جو شخص اسلام پر ایمان لایا اس کے احساسات اور افکار اسی کے ایمان کا پر تو ہوتے ہیں اور اعمال و تعلقات اپنے احساس اور تفکرات ہی کا اظہار ہیں۔ چنانچہ اجتماعی تعلقات فرد کے مخصوص احساسات کا مظہر ہوتے ہیں اورانکا اظہار معاشرے اور ریاست کی دو سطحوں پر ہوتا ہے۔ معاشرہ ان تعلقات کے اجتماع کو کہتے ہیں جو افراد بغیر جبر و اکراہ اپنی انفرادیت کے اظہار کے لیے قائم کرتے ہیں اور چونکہ انفرادیت کا تعین مختلف ہے، کچھ لوگ مسلمان ہیں اور کچھ کافر لہٰذا معاشرے بھی مختلف النوع ہوتے ہیں۔ معاشرہ رضاکارانہ (voluntary) صف بندی سے وقوع پذیر ہوتا ہے یعنی معاشرے میں مختلف ادارے وجود میں آتے ہیں، مثلاً خاندان، مسجد، بازار، محلہ، قبیلہ، برادریاں، مدرسہ، مدینہ، نظامِ شفع وغیرہ۔ ان اداروں کے قیام کی بنیاد تاریخی روایات کا تسلسل ہوتاہے اور ہر ادارہ معاشرتی تسلسل کا مظہر ہوتا ہے۔ وہ انہی اقدار کی غمازی کرتا ہے جو قدیم زمانے سے معتبر تسلیم کیے جاتے ہیں، لیکن جیسے جیسے ان اقدار میں تبدیلی آتی ہے معاشرتی ادارتی تنظیم بھی تغیر پذیر ہو تی ہے۔ مثلاً مسلم معاشرے میں خانقاہی نظام تقریباً مکمل طور پر معطل ہوگیا ہے، بالخصوص بازار کی زندگی پر خانقاہ کا اثر تقریباً ختم ہوگیا اور اس کی جگہ Chamber of Commerce نے لے لی ہے۔ اسی طرح یورپی معاشرے میں خاندان اور برادری کا ادارہ ناپید ہوتا جا رہا ہے اور اس کی جگہ Cohabitation اور NGOs نے لے لی ہے اور اسی کی مماثل تبدیلیاں عبادت و محافل ذکر ونعت کی جگہ Entertainment industry اور فنون لطیفہ وغیرہ کا فروغ ہے۔ 
اس نوعیت کی تبدیلیاں جبر کی بنیاد پر وقوع پذیر نہیں ہوتیں۔ کراچی اور لاہور کے تاجروں نے بہ رضا و رغبت بغیر کسی جبر کے خانقا ہوں سے اپنے قدیم تعلقات آہستہ آہستہ منقطع کرلئے ہیں۔ نیویارک کا نوجوان زنا کو نکاح پر ترجیح دیتا ہے کوئی اس کو زنا کرنے پر مجبور نہیں کرتا۔ معاشرتی تغیر (Social Change) کے عمل کی بنیاد اقدار کی تبدیلی ہے جبر نہیں ہے(۲)۔ ہر معاشرے کو ایک نظامِ جبر کی ضرورت ہے، اس نظامِ جبر کوریاست کہتے ہیں۔ ریاست سے مراد افراد کے جبری تعلقات کا مجموعہ ہے اور ریاست معاشرتی اقدار کی بنیاد پر جائز و ناجائز حلال اور حرام کے ان تصورات اور پیمانوں کو نافذ العمل بناتی ہے جن کو معاشرتی سطح پر مقبولیت حاصل ہے یا جن کو معاشرہ برداشت کرنے پر آمادہ ہے۔ ریاست محض نظامِ جبر نہیں بلکہ اقتدار کا وہ نظامِ جبر ہے جس کو عام مقبولیت یا عام برداشت حاصل ہو۔ ریاست مقبول اور برداشت کی جانے والی معاشرتی اقدار کو نافذ العمل بنانے کے لیے جبری صف بندی عمل میں لاتی ہے۔ 
اس گفتگو سے واضح ہوا کہ انسانی حیات کا اظہار تین سطحوں پر ہوتا ہے: 
(۱) انفرادی سطح پر جہاں فرد اپنی ایمانیات کا تعین کرتا ہے اور ان ایمانیات کی بنیاد پر اپنے حال اور مقام کا تعین کرتا ہے۔
(۲) معاشرتی سطح پر جہاں ان اقدار کے فروغ کے لیے جو افراد نے غیر اکراہی طور پر اختیار کی ہیں انکے لئے غیر اکراہی یا رضاکارانہ صف بندی عمل میں لاتے ہیں ۔
(۳) ریاستی سطح پر جہاں جبری مقبول عام یا عام طور پر برداشت کیے جانے والے اقدار کو قانون اور قوت کے ذریعہ نافذ العمل بنایا جاتا ہے ۔
ان تینوں سطحوں کے ارتباط کو ’نظامِ زندگی‘ کہتے ہیں یا اسے ’تہذیب‘ بھی کہا جاسکتا ہے۔ ہر تہذیب ایک مخصوص انفرادیت، ایک مخصوص معاشرت اور ایک مخصوص ریاست کو فروغ دیتی ہے، اور ہم انفرادیت، معاشرت اور ریاست کو الگ الگ خانوں کے طور پر تصور نہیں کرسکتے (۳)۔ ایک خاص انفرادیت ایک مخصوص معاشرت اور مخصوص ریاست ہی میں پنپ سکتی ہے، غیر مسلم معاشرے اور ریاست میں اسلامی انفرادیت عام نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ فقہائے کرام نے بلا ضرورت شرعی غیر مسلم علاقوں میں سکونت اختیار کرنے سے منع فرمایاہے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھنی چاہئے کہ سرمایہ داری محض کسی ’معاشی نظرئیے ‘ کا ہی نام نہیں، بلکہ ایک نظام زندگی ہے جس کا ایک خاص تصور فرد،معاشرہ اور ریاست ہے اور یہ تینوں تصورات باہم مربوط ہیں جو مل کر مذہب سے متصادم تہذیب وجود میں لاتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ عقلیت اور سرمایہ دارانہ عمل معاشی جدوجہد تک محدود نہیں رہ سکتے، آج دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں جہاں سرمایہ دارانہ معیشت ترقی کررہی ہو لیکن خاندان تباہ نہ ہو رہے ہوں،زنا عام نہ ہو رہا ہو، ادب اور ثقافت دھوکہ ،غلیظ ترین اور فحش ترین رجحانات کی عکاسی نہ کر رہا ہو، استبداد، ظلم اور جعل سازی عام نہ ہو ۔ سرمایہ داری سے ہماری مراد وہ نظم زندگی ہے جہاں عقلیت اور فیصلوں کی بنیاد آزادی (یعنی حرص و حسد) کا فروغ ہو۔ چنانچہ سرمایہ داری : 
  • فرد کو انسان (عبد) سے ہیومن بینگ (Human being) بنا دیتی ہے ۔
  • معاشرے کو مذہبی معاشرت سے سول سوسائٹی میں تبدیل کردیتی ہے ۔
  • ریاست کو خلافت سے ریپبلک (Republic) بنادیتی ہے ۔
سرمایہ داری کی مکمل تفہیم کے لیے ضروری ہے کہ ہم سرمایہ دارانہ تصور انفرادیت، معاشرت و ریاست تینوں کا جائزہ لیں۔ البتہ اس مضمون میں ہمارا ہدف صرف تصور انفرادیت کی تفصیل بیان کرنا ہے۔ تصور انفرادیت کی بحث اس لئے اہمیت کی حامل ہے کہ قیام دین کی جدوجہد میں بنیادی حیثیت فرد کی ہے، یعنی ہم فرداً فرداً ہر شخص کو اس کا وہ عہد یاد دلانا چاہتے ہیں جو اس کی روح نے اللہ تعالی سے کیا تھا کہ ’تو ہی ہمارا رب ہے‘(۴)۔ یہ دعوت ہر شخص کی اصلاح اور اسے جنت کا مستحق بنانے کی دعوت ہے۔ ہماری دعوت کی بنیاد یہی ہے کہ دنیا کا ہر شخص اس بات کا مستحق ہے کہ ہم کوشش کریں کہ وہ جنت میں جائے۔ انہی معنی میں اسلامی تحریکات ایک روحانی دعوت دیتی ہیں اور انکی کامیابی اس بات پر منحصر ہے کہ دعوت دینے اور قبول کرنے والوں کے حال و میلانات اور قلبی کیفیات تبدیل ہوجائیں۔ اس مضمون میں ہماری کوشش ہوگی کہ اس انفرادیت و شخصیت کے خدوخال بیان کریں جس کے تعلقات کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ نظم اجتماعی نمو پزیر ہوتا ہے۔ تصور انفرادیت کی تفہیم کے ضمن یاد رکھنا چاہئے کہ تعیین انفرادیت کی بنیاد احساس پر قائم ہوتی ہے اور یہی بنیادی نکتہ سمجھنے سے تصوف کی ضرورت و اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔ اس مرکزی بحث کے بعد ہم سرمایہ دارانہ شخصیت کا حال بیان کریں گے اور پھر تعمیر شخصیت کے ضمن میں اصلاح اسلامی کے کام کی نوعیت کو بیان کریں گے۔ وما توفیقی الا باللہ 

۱۔ تعیین و تعمیر انفرادیت میں احساس کی اہمیت 

تعمیر شخصیت میں احساس (feelings)کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ مغربی معاشرتی علوم اور فلسفہ احساس کی عقلی اور مادی تشریح اور تعبیر کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ اسی نہج علم کی پیروی کرتے ہوئے ماہرین نفسیات نے احساس کے عقلی و مادی تجزئیے کے لیے متعدد سائنسی طریقے مرتب کیے ہیں۔ مغربی علوم کا مرکزی دھارا (۵) احساس سے بالاتر ہو کر حقیقت تک رسائی حاصل کرنے کا دعوی کرتا ہے اور احساس کو علم کا ذریعہ تصور نہیں کرتا بلکہ اس کے مطابق احساسات اور میلانات عقلی تحقیق اور جستجو کو منفی طور پر متاثر کرتے ہیں۔ اسی لئے مغربی عقلیت و علمیت یہ عمومی دعوی کرتی ہے کہ تمام ایمانیات، احساسات و جذبات سے اوپر اٹھ کر ہی انسان حقیقت کا معروضی (objective)مطالعہ اور مشاہدہ کرسکتا ہے (۶) ۔ اس کے برعکس علوم اسلامی میں احساس کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔ احساس کا سرچشمہ قلب ہے اور آقائے دوعالمﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’جان لو کہ انسانی جسم میں خون کا ایک لوتھڑا ہے کہ وہ اگر درست ہوجائے تو سارا جسم درست ہوجائے اور اگر فساد کا شکار ہوجائے تو سارا جسم فساد کا شکار ہوجائے، آگاہ رہو کہ وہ قلب ہے‘‘ (متفق علیہ)۔ اسلامی عقلیت قلب کی فوقیت کو تسلیم کرتی ہے۔ قرآن مجید حضورﷺ کے قلب پر اتارا گیا اور صحابہ رضوان اللہ اجمعین کے قلوب میں محفوظ رہا۔ یاد رہنا چاہئے اسلامی دعوت بنیادی طور پر قلب کو مخاطب کرتی ہے اور اسی لئے اہل دل ہی دعوت اسلامی کے فطری امام ہیں ۔ امام غزالیؒ نے فرمایا: ’معرفت کی صلاحیت و استعداد قلب کو عطا کی گئی ہے اور اوامرو نواہی کا مخاطب قلب ہے‘۔ امام صاحبؒ احیاء العلوم میں فرماتے ہیں کہ قلب سے مراد ایک روحانی لطیفہ ہے جسکا جسمانی قلب سے تعلق ہے اور یہی لطیفہ مدرک (یعنی ادراک کرنے والا) بھی ہے اور عالم بھی۔ یہاں ہم یہ دکھانے کی کوشش کریں گے کہ احساسات کیونکر حصول علم اور تعمیر انفرادیت میں بنیادی اکائی کی حیثیت رکھتے ہیں نیز یہ کہ عقلیت دماغی (Reason of the mind) یعنی خرد درحقیقت قلبی عقلیت (Reason of the heart) کے تابع ہے۔ 
قلب و عقل کے اس تعلق کو سمجھنے کے لیے جاننا چاہئے کہ احساسات عقل سے ما قبل ہوتے ہیں اور انکے بغیر دماغی عقل فیصلہ کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ ایک شخص کسی موذی حیوان مثلاً شیر کے سامنے جو بھی رویہ اختیار کرتا ہے وہ مخصوص احساسات کا اظہار ہوتا ہے۔ مثلاً عقل شیر سے بچنے کی کوئی تدبیر تب سجھاتی ہے کہ جب فرد کے نفس میں خوف کی کیفیت پیدا ہو، لڑنے کا طریقہ کار تب سکھاتی ہے جب نفس میں بہادری کا احساس اجاگر ہو وغیرہ۔ الغرض اگر احساسات کو فرد سے منہا کردیا جائے تو اس کی زندگی انتشار کا شکار ہوکررہ جائے گی اور وہ کبھی یہ فیصلہ نہ کرسکے گا کہ مخصوص حالات میں اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ چنانچہ احساسات فرد کے لیے یہ فیصلہ کرنا ممکن بناتے ہیں کہ مخصوص حالات میں لامتناہی ممکنہ افعال میں سے دماغی عقل کو کن افعال کی تکمیل کے لیے استعمال کیا جائے۔ یہاں سے یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ دماغی عقل قلبی عقل کے ایجنٹ کے طور پر کام کرتی ہے (۷) ۔ درحقیقت احساسات ہی وہ شے ہیں جسے دماغی عقل بطور ’معیار عقل ‘ پہچانتی ہے، دوسرے لفظوں میں احساسات بذات خود معقول یا غیر معقول ہوتے ہیں۔ درج ذیل دو مثالوں پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہوسکے گی: 
(۱) کسی روز تین بجے زید کے ساتھ آپکی ملاقات ہونا طے ہے۔ فرض کریں آپ تین منٹ تاخیر سے پہنچنے پر معذرت پیش کرتے ہیں مگر زید آگ بگولہ ہوکر آپ پر بری طرح برس پڑتا ہے اور آپ کو غیر ذمہ دار اور سخت سست کہتا ہے 
(۲) زید کو فون آتا ہے کہ اس کے والد سخت زخمی حالت میں ہسپتا ل لائے گئے ہیں اور اس وقت وہ ICU میں داخل ہیں۔ فرض کریں زید کہتا ہے ’اوہو، آج تو مجھے کرکٹ میچ دیکھنے جانا تھا، چلو اب ہسپتال ہی چلتے ہیں‘ 
دونوں مثالوں میں زید کے رویے کو ’غیر معقولیت ‘ سے تعبیر کیا جائے گا۔ پہلی مثال میں اس کا رویہ غیر معقول ہے کیونکہ اسنے ’مطلوبہ مقدار سے زیادہ‘ جذبات کا اظہار کیا جبکہ دوسری مثال میں ’مطلوبہ مقدار سے کم ‘ ۔ دونوں صورتوں میں اس کا رویہ معقول تب کہا جائے گا جب وہ ’ مناسب مقدار میں مناسب جذبے ‘ کا اظہار کرے۔ دوسرے لفظوں میں کسی مخصوص حالات میں جس رویے کو معقول کہا جاتا ہے وہ مخصوص احساسات یعنی قلبی عقلیت کا ہی اظہار ہوتا ہے۔ 
اب یہ جاننا چاہئے کہ عقل اور قلب جس طریقے سے کسی چیز کے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں ان میں بنیادی نوعیت کا فرق ہے اور دعوت کے کام کو سمجھنے کے لیے ان دونوں کا فرق سمجھنا نہایت اہم ہے۔ احساس قلبی عقلیت کے اظہار کا ذریعہ ہے اور یہ حقیقت کے مکمل ، فوری اور بلاواسطہ ادراک کا وسیلہ ہیں۔ خرد مشاہدے (observation)کے ذریعے علم حاصل کرتی ہے جبکہ قلب و احساس کا ذریعہ علم شرکت (participation)ہے۔ قلب کسی چیز کا علم اسے اپنا کر حاصل کرتا ہے۔ مشاہدے میں کوشش یہ ہوتی ہے کہ مشاہد (observer)خود کو مشہود (observed) سے جتنا دور کرسکے اتنا بہتر ہے، نیز مشاہد اور مشہود کے درمیان جتنے تعلقات ہیں ان سے صرف نظر کیا جا سکے۔ اس کے برعکس احساسات کے ذریعے جو علم حاصل ہوتا ہے اس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ مشاہد و مشہود ایک دوسرے کے درمیان کس قسم کا تعلق قائم کرپاتے ہیں اور کس قدر ایک دوسرے کے وجود میں شرکت اختیار کرسکتے ہیں۔ مشاہد حقیقت کو ایک خارجی شے (reality as an external observer) کے طور پر پہچاننے کی کوشش کرتا ہے جبکہ احساس کے ذریعے ہم کسی شے میں شرکت کرکے اس کی حقیقت کا ادراک حاصل کرتے ہیں۔ مشاہدے کے ذریعے کسی شے کی حقیقت کی وہ داخلی بصیرت (insight) حاصل نہیں ہوسکتی جو اسمیں شرکت کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ ایک ہی شے کے بارے میں ہمارا ادراک حقیقت شرکت سے پہلے اور بعد یکسر مختلف ہوا کرتا ہے۔ کسی اجنبی شخص کی موت کا معنی موت کی اس حقیقت سے یکسر مختلف ہواکرتا ہے کہ جب کوئی اپنا عزیز فوت ہوتا ہے جسکی وجہ صرف یہ ہے کہ اپنے عزیز رشتہ دار کی ہستی میں ہم احساس محبت کے ذریعے شرکت کرتے ہیں۔ ایک شخص کسی قریبی عزیز کے مر نے کے بعد کس کیفیت میں مبتلا ہوتا ہے اس کا ادراک بطور مشاہد ممکن نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے لیے اس کی ذات میں شرکت کرنا ضروری ہے۔ گویا کسی کیفیت میں مبتلا ہونے سے پہلے اور اس میں شرکت کے بعد ہم دو مختلف چیزوں کا ادراک حاصل کرتے ہیں اور یہ تبدیلی در حقیقت ہمارے ان احساسات کی مرہون منت ہوتی ہے جسکے ذریعے ہم اس شے سے اپنا تعلق قائم کرتے ہیں۔ جب ہم کسی کو دیکھتے ہیں تو ہم مشاہدہ کرتے ہیں لیکن جب ہم کسی کے لیے محسوس کرتے ہیں تو ہم اس کا مشاہدہ نہیں کرتے بلکہ ہم اس سے یا تو محبت کرتے ہیں یا نفرت کرتے ہیں۔ اگر ہم لاتعلق ہیں تو کسی کے لیے محسوس نہیں کرتے بلکہ صرف مشاہدہوتے ہیں۔ جذبات کے ذریعے کلی مشاہدہ صرف ان معنوں میں نہیں ہوتا کہ ہم اس کو سمجھ لیتے ہیں بلکہ اس چیز سے ہمیں اپنا تعلق سمجھ میں آجاتا ہے اور وہ ہماری ہستی کو مکمل کرنے میں ایک اہم جزو کی حیثیت حاصل کرلیتی ہے۔ چنانچہ احساسات یہ طے کرتے ہیں کہ مخصوص حالات میں ہم خود کو کیسے پاتے ہیں (how do we find ourselves in a given situation) اور کسی شے کے بارے میں میری بصیرت کا انحصار اسی شے پر ہے کہ اس شے کے ساتھ میں خود کو کیسا پاتا ہوں یعنی میرا اس کے ساتھ کیسا تعلق ہے۔ جب ہم کسی کے لیے محسوس کرتے ہیں تو من و تو کے فاصلے عبور ہوتے ہیں اور ہمارے اور اس کے درمیان تعلق قائم ہوکر ایک ہستی (shared-subjectivity) وجود میں آتی ہے جس میں وہ اور ہم بیک وقت شریک ہوتے ہیں اور اس شرکت کی بنیاد پر ہم ایک دوسرے کو جانتے اور پہچانتے ہیں۔ علمیاتی (epistemologically) طور پر وہ علم جو شرکت کی بنیاد پر حاصل ہوتا ہے وہ اس علم سے بالکل مختلف ہے جو ہم مشاہدے کے ذریعے حاصل کرتے ہیں۔ شرکت کے ذریعے حاصل کردہ علم مقدم اور بنیادی ہے۔ 
چنانچہ عقلیت قلبی اور خرد میں یہی بنیادی فرق ہے۔ خرد آہستہ آہستہ ، قدم بقدم ، جزواً جزواً حقیقت کا ادراک حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ وہ اطلاع اور مشاہدے کی بنیاد پر بتدریج معلومات کو جمع کرکے ان سے منطقی نتائج اخذ کرتی ہے اور اپنی اس کوشش میں کلی حقیقت کو اجزاء میں تحلیل کرکے سمجھنے کی نامکمل سعی کرتی ہے۔ اس کے برعکس احساس کے ذریعے ان بنیادی معروضات کا براہ راست اور کلی مشاہدہ ممکن ہوپاتا ہے جو دماغی عقلیت کی رسائی سے پرے ہیں۔ جس شخص کے احساسات پاک ہوں گے اس کا حال درست ہوگا اور جس کا حال درست ہوگا وہ ان ماورائی حقائق تک وجدانی (intuitive) رسائی حاصل کرسکتا ہے جو یا تو خرد کی دسترس سے کلیتاً باہر ہیں یا ان کے قریب پہنچنے کے لیے دماغی عقلی مباحث نہایت پیچیدہ اور عمیق ہیں اور مکمل تیقن کے ساتھ کبھی ان ما بعدالطبعیاتی حقائق کا اثبات نہیں کرسکتے۔ مثلاً خدا کے وجود کی کوئی بھی ایسی دلیل نہیں جسکو دماغی عقلیت کی بنیاد پر رد نہ کیا جاسکتاہو۔ اس کے برعکس جس وقت نبی کریم ﷺ نے حضرت ابوبکرؓ کے سامنے دعوت پیش کی تو آپؓ نے اسے یوں قبول کیا گویا وہ اس کے منتظر تھے۔ زمانہ جاہلیت میں بھی آپؓ کی قلبی کیفیت نہایت پاکیزہ تھی۔ صدیق اکبرؓ نے جن احساسات کی بنیاد پر اپنی دماغی عقل کو استعمال کیا وہ انکی قلبی طہارت کے غماز ہیں اور ابوجہل نے جن جذبات کی بنیاد پر حضور پر نورﷺ کی دعوت کو مٹانے کے لیے اپنی دماغی عقلیت کو استعمال کیا وہ اس کی قلبی کثافت کے عکاس ہیں۔ قبل از اسلام بیشتر صحابہؓ اسی حال میں تھے جس میں ابوجہل تھا لیکن صحابہؓ کے حال بدل گئے مگر ابوجہل کی قلبی کیفیات نہ بدلیں، اس کی دماغی عقلیت اس کے کافر دل کے تابع رہی تاآنکہ وہ جہنم واصل ہوگیا۔ یہ بات اچھی طرح سمجھنا چاہئے کہ لوگ ایمان دل میں تبدیلی کی وجہ سے لاتے ہیں۔ حضرت نظام الدین اولیاء ؒ فرمایا کرتے کہ جب کوئی شخص صدق دل سے ایمان لاتا ہے تو معجزہ رونما ہوتا ہے (۸)۔ چونکہ ایمان دل کے بدلنے کا متقاضی ہے اس لئے احساسات کو پاک کرنا اور اس کے ذریعے لوگوں کے حال کو بدلنا دعوت اسلامی کا کام کرنے والوں کے لیے اشد ضروری ہے۔ حال یعنی احساسات کی دستگی کے بغیر دماغی عقلیت کو اسلامی خطوط پر پروان چڑھانا ناممکن ہے۔ 
احساس کو سمجھنے کے لیے تعلق کا استوار کرنا لازم ہے۔ مادی تغیرات کا مشاہدہ صرف خارج سے ممکن ہے جیسے ایک ڈاکٹر ایک مریض کے جسم کا مطالعہ کرتا ہے۔ ڈاکٹر مریض کے جذبات و احساسات سے جتنا دور اور لاتعلق ہوگا اس کی تشخیص اتنی ہی سائنسی اور معروضی سمجھی جاتی ہے (۹)۔ لیکن اگر ڈاکٹر مریض کے احساسات کو سمجھنا چاہتا ہے تو خارجی مشاہدہ کافی نہ ہوگا، اسے مریض سے ہمدردی اور انسیت کا ایک ایسا تعلق پیدا کرنا ہوگا جسکے نتیجے میں ڈاکٹر مریض کی زندگی پر اثر انداز ہونے کے قابل ہوجائے گا۔ جن ہستیوں میں ایسے تعلقات قائم ہوجاتے ہیں وہ ایک دوسرے کے وجود میں شرکت کرلیتی ہیں۔ دماغی عقلیت محض اجسام کا مشاہدہ کرسکتی ہے، اس کے ذریعے کسی کے احساسات کا ادراک ممکن نہیں ہے۔ احساسات کے ادراک کے لیے غیر کو اپنانا ہوگا اور انہیں سمجھنے کے لیے خارجی سطح سے اوپر اٹھ کر روحانی تعلقات استوار کرنا ہوں گے۔ اس روحانی تعلق کو محبت کہتے ہیں جسکا مطلب غیر کی ذات کو اسطرح اپنا لینا ہے کہ اس کی خوشی و غم اپنے وجود کا حصہ بن جائے۔ محبت کرنے والوں کے وجود بلاشبہ جدا ہوتے ہیں لیکن وہ ایک دوسرے کے وجود میں شرکت اختیار کرکے مشترکہ ہستی قائم کرتے ہیں (۱۰) ۔ خارجی مشاہدے کے ذریعے احساسات کا ادراک ممکن نہیں اس کے لئے شرکت ناگزیر ہے جسکی بنیاد یا محبت ہوتی ہے اور یا نفرت۔ نفرت کرنے والا شاہد مشہود کے وجود کو تباہ کرتا ہے جبکہ محبت کرنے والا شاہد اسے نمو بخشتا ہے۔ احساسات کے ذریعے حقائق کا داخلی مطالعہ ممکن ہوپاتا ہے اور ہم حقائق تک رسائی وجود میں شریک ہوکر حاصل کرتے ہیں۔ اسی کیفیت کو قرآن مجید میں ’ادخلوا‘ (۱۱) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یعنی اسلام کو محض خارجی طور پر سمجھنا کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لئے اسلام میں داخل ہونا ضروری ہے۔ اسلام میں داخل ہونے کے لیے انسان کے افعال اور احساسات (یعنی حال) وہ ہونے چاہئیں جو اسکو کائنات کے اساسی حقائق تک رسائی کے قابل بناسکیں۔ اگر وہ احساسات پیدا نہ ہوں تو سالہا سال کے مطالعے اور مشاہدے کے باوجود فرد محض اسلام کا مداح بن سکے گا لیکن اس میں داخل نہ ہوسکے گا، جیسا کہ دور حاضر میں مسلمانوں کی عظیم اکثریت کا حال ہے کہ وہ اسلام کو پسند تو کرتے ہیں اور اس کے حق میں عقلی دلائل بھی دیتے ہیں مگر اسمیں داخل نہیں ہوتے۔ 
پس واضح رہنا چاہئے کہ احساس کی پرورش کے لیے تعلقات کا قیام و تسلسل نہایت ضروری ہے۔ تصوف سے فیض کسی شیخ کی توجہ اور تصرف فی الذات کے بغیر ممکن نہیں ہے، جب تک پیر ومرید اپنی ذاتی انفرادیت کوبرقرار رکھتے ہوئے وجود میں شریک نہ ہوں وہ احساسات مرتب نہیں ہو سکتے جو تصوف کو دخول اسلام کا ذریعہ بنادیں (۱۲) ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ افراد جو صوفی تعلیمات و کردار کا محض خارجی مطالعہ کرتے ہیں اور انکو محسوس نہیں کرتے انکے ذریعے اسلام میں داخل نہیں ہوپاتے۔ امام غزالیؒ المنقذ من الضلال میں فرماتے ہیں کہ طریقہ تصوف کی خاص الخاص باتیں سیکھنے سے نہیں آسکتیں بلکہ وہ درجہ حال و تبدیلی صفات سے پیدا ہوتی ہیں۔ کس قدر فرق ہے ان دوشخصوں میں جن میں سے ایک صحت و شکم سیری اور ان کے اسباب و شرائط کو جانتا ہے اور دوسرا فی الواقع تندرست اور شکم سیر ہے۔ جو شخص صحت مند ہے تعریف صحت اور اس کے علم سے ناواقف ہے وہ خود حالت صحت میں ہے لیکن اسے علم نہیں، دوسرا شخص صحت مند نہیں ہے مگر وہ اسباب صحت سے خوب واقف ہے۔ طبیب حالت مرض میں گو تعریف صحت ، اس کے اسباب اور اس کی دوائیں جانتا ہے مگر صحت سے محروم ہے۔ اسی طرح اس بات میں کہ تجھے حقیقت زہد اور اس کے شرائط و اسباب کا علم حاصل ہو جائے اور اس بات میں کہ تیرا حال عین زہد بن جائے اور نفس دنیا سے ذہول ہوجائے بہت فرق ہے۔ غرض صوفیاء صاحب حال ہوتے ہیں نہ کہ صاحب قال۔ 
اب تک کی بحث سے یہ نکتہ واضح ہوجانا چاہئے کہ ادراک حقیقت میں انسان کے احساسات یعنی اس کے حال کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ احساس اسی چیز کا نام ہے کہ ہم خود کو اس دنیا میں کس حال میں پاتے ہیں (۱۳) ۔ ’تمہارا حال کیا ہے؟‘ کا معنی یہی ہے کہ تمہارے احساسات کی کیفیت کیا ہے، تم کن خواہشات کے قابو میں ہووغیرہ ۔ احساسات کائنات میں شرکت کا ذریعہ ہیں، اور جس طریقے سے ہم کائنات میں شریک ہوتے ہیں وہ اس بات پر منحصر نہیں ہے کہ ہمارا مشاہدہ کیا ہے بلکہ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہمارا حال کیا ہے۔ ایک مسلمان اور سائنسدان کے نزدیک زلزلے کی معنویت میں جوفرق ہے وہ انکے مشاہدے کے نہیں بلکہ حال میں فرق کی بناء پر ہوتا ہے (مسلمان کو زلزلہ خدائی عذاب یا تنبیہ دکھائی دیتا ہے جبکہ سائنسدان کو انسانی آزادی کی حد، مسلمان کی عقلیت زلزلے سے توبہ و اصلاح کا سبق سیکھتی ہے جبکہ سائنسدان کی عقلیت زلزلہ پروف گھر بنانے کا)۔ چنانچہ حال اس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ اس کائنات کے بارے میں ہماری بنیادی بصیرت (insight)کیا ہے۔ گویا حال ہمارے احساسات کی خاص ترتیب اور کیفیت (quality) کا آئینہ دار ہوتا ہے، جس قسم کی ہماری کیفیات اور احساس ہوں گے ویسا ہی ہمارا حال ہوگا۔ چونکہ مومن، کافر اور فاسق کے نفوس کی حالت جدا جدا ہوگی اس لئے انکا حال یعنی دنیا سے انکا تعلق بھی جدا ہوگا۔ 
۱۔ مومن اطمینان کی حالت میں ہوگا، وہ اپنے رب کے تمام فیصلوں سے راضی ہوگا اور اس کی رضا کی جستجو میں ہوگا۔ وہ صابر اور شاکر ہوگا ۔
۲۔ کافر اضطراب کی حالت میں ہوگا۔ وہ خود کو قدرت کے جبر سے مغلوب تصور کرے گا۔ وہ شہوت اور غضب کے ذریعے اس قدرتی نظام میں فساد پھیلاکر اپنی خدائی قائم کرنے کی پیہم جستجو کرے گا ۔
۳۔ فاسق گو مگو کی کیفیت میں ہوگا۔ اس پر کبھی ایمانی جذبات غالب ہوں گے اور کبھی کافرانہ۔ اگر کافر یا فاسق کو مومن کی توجہ میسر آجائے اور وہ انکے ساتھ گہرے تعلقات استوار کرے (یعنی انکی ذات میں تصرف کرے) تو عین ممکن ہے کہ اللہ کے فضل و کرم سے انکا حال بدل جائے ۔
جس طرح ان تینوں کے حال میں فرق ہے اسی طرح انکے مقام بھی مختلف ہیں: 
۱۔ مومن کا مقام عبدیت کاہے۔ مومن کو اللہ نے خلافت فی الارض سے سرفراز فرمایا ہے ۔
۲۔ کافر کا مقام باغی و سرکش کا ہے۔ وہ زمین میں فتنہ و فساد برپا کرتا اور اسے قائم رکھتا ہے ۔
۳۔ فاسق ایک گستاخ اور حکم ٹالنے والا ملازم ہے۔ وہ اللہ کو اپنا مالک تصور کرتا ہے اور اپنی عبدیت کا انکار نہیں کرتا لیکن مالک کے حکم کو بجا لانے سے جی چراتا ہے اور گاہے بگاہے اپنے نفس کی بندگی بھی کرتا ہے ۔
واضح ہوا کہ مومن و کافر اپنے زمانی و مکانی حال اور مقام کو احساس کی بنیاد پر متعین کرتے ہیں۔ مغربی عقلیت کا یہ دعوی کہ مابعد الطبعیاتی حقائق تک خرد کے ذریعے رسائی حاصل کی جاسکتی ہے ایک باطل اور جھوٹا دعوی ہے۔ مغربی فلسفے کے پاس ایسی کوئی دلیل اور سائنس کے پاس ایساکوئی مشاہدہ موجود نہیں جس کی بنیاد پر وجہ تخلیق کائنات اور کائنات میں انسان کے مقام کا تعین کیا جا سکے۔ ادراک حقیقت کا واحد معتبر ذریعہ تعلیمات انبیاء پر ایمان لانا اور ان کے مطابق احساسات کی تطہیر کرنا ہے جس کے بعد ہی ان حقائق تک رسائی ممکن ہوسکتی ہے۔ 

حواشی 

* مضمون میں ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری صاحب کے مضامین ’حال و مقام‘ ، ’فرد، معاشرہ و ریاست‘ اور ’عالم اسلام اور مغرب کی کشمکش: نئے تناظر میں‘‘ سے جا بجا مدد لی گئی ہے اور ان کے اقتباسات نقل کیے گئے ہیں ۔
۱۔ اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ معاشرتی تعلقات بھی احساسات پر اثر انداز ہوتے ہیں کیونکہ ان تعلقات کے نتیجے میں فرد اپنی ذات کا ادراک کرلیتا ہے کہ وہ کون ہے اور اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے ۔
۲۔ یہ بات بھی دھیان میں رہے کہ ریاست اپنے جبر کے ذریعے مخصوص اقداری تبدیلی کو ممکن اور سہل بنا دیتی ہے ۔
۳۔ جو لوگ انسانی زندگی کی کلیت کو سمجھنے سے قاصر رہے انہوں نے مذہبی تعلیمات کو اصل اور اضافی کے خانوں میں بانٹ کر یہ کہا کہ وہ تعلیمات جنکا تعلق فرد کی ذاتی زندگی سے ہے وہی شریعت کا اصل مدعا ہیں، باقی رہیں اجتماعی تعلیمات تو انکی حیثیت اضافی اعمال کی ہے نیز انکے قیام کا فرد سے کوئی لازمی مطالبہ نہیں۔ اس فلسفے کے تحت انہوں نے فریضہ اقامت دین کو سرے سے ساقط ٹھرا دیا اور یہ دعوے کیے کہ ’اسلام مکمل بندگی کا نام ہے نہ کہ مکمل نظام کا‘۔ نجانے انسانی زندگی کے مکمل نظام کو خدائی اطاعت کا پابند بنائے بغیر مکمل بندگی اختیار کرسکنے کا کون سا طریقہ ممکن ہے؟ 
۴۔ قرآنی آیت ’انا ربکم الاعلی قالوا بلی‘ کی طرف اشارہ ہے ۔
۵۔ مغربی فلسفے کے مرکزی دھارے سے مرادفکر تنویر (Enlightenment) ہے جسکا آغاز سترہویں صدی میں ڈیکارٹ سے ہوا اور جسے لاک، ہیوم، کانٹ، ہیگل اور مارکس وغیرہ نے مرتب کیا ۔ مغربی فکر کا دوسرا دھارا تحریک رومانویت (Romanticism)تھی جسے تحریک تنویر کے مقابلے میں خاطر خواہ کامیابی نہ ہوسکی ۔
۶۔ یہ تصور سب سے زیادہ وضاحت کے ساتھ کانٹ نے پیش کیا ۔
۷۔ ہیوم کا مشہور قول ہے کہ 'Reason is the slave of passions'
۸۔ معجزہ وہ چیز ہے جس کی توجیہہ دماغی عقلیت کے لیے ناممکن ہو۔ چونکہ نو مسلم کے قلب میں تغیر واقع ہوتا ہے اور قلبی تغیر کی وجوہات دماغی عقلیت کی پہنچ سے باہر ہوتی ہیں اس لئے ایک معجزہ ہوتی ہیں ۔
۹۔ یہاں یاد رکھنا چاہئے گو سائنس میں یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ سائنسی طریقہ علم (scientific method) سے حاصل کردہ علم محض دماغی عقلیت کا مظہر ہوتاہے اور جو شخصی خصوصیات سے ماوراء ہوتا ہے مگر یہ دعوی غلط ہے کیونکہ سائنٹفک میتھڈ بذات خود مخصوص (سرمایہ دارانہ ) انفرادیت ہی کا اظہار ہے۔ سائنسی مشاہدے کے لیے سائنسی تناظر اختیار کرنا لازم ہے بصورت دیگر سائنسی مشاہدہ ممکن نہیں ہوتا۔ سائنٹفک میتھڈ ان معنی میں اور بھی زیادہ خطرناک ہے کہ یہ شخصیت کو بھی جامد (fix) کردیتا ہے اور ہر وہ شخص جو اس طریقہ علم کو اختیار کرتا ہے لازماً اس مخصوص انفرادیت میں ڈھل جاتا ہے ۔
۱۰۔ وجود اور ہستی میں فرق کرنا لازم ہے۔ وجود اللہ تعالی کی نعمت ہے جو اس نے ہر فرد کو عطا فرمائی۔ وجود ہر شخص کا جدا ہے اور اس کی انفرادیت قائم رکھنا نہایت ضروری ہے ، اسی لئے شریعت پر عمل ہر حال میں لازم ہے۔ ہستی تعلقات کے اس مجموعے کا نام ہے جس کے ذریعے انسان دوسرے افراد سے، کائنات سے اور خدا سے اپنے تعلق کو سمجھتا بھی ہے اور قائم بھی رکھتا ہے۔ ہستی کو قائم کرنے کا بنیادی ذریعہ ذکر یعنی یاد ہے اور اسی وجہ سے ذکر اللہ کی اہمیت بیان فرمائی گئی ہے ۔
۱۱۔ سورۃ آل عمران کی آیت ادخلوا فی السلم کافۃ کی طرف اشارہ ہے ۔
۱۲۔ تصور شیخ کی بحث اور اس کی اہمیت کو اس تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے ۔
۱۳۔ حال ظاہری اعمال و قلبی کیفیات دونوں کے مجموعے کا نام ہے ۔
(جاری)

نفاذ شریعت کی حکمت عملی: ایک فکری مباحثے کی ضرورت / مورث کی زندگی میں کسی وارث کی اپنے حصے سے دست برداری / ایک غزل کے چند اشعار

محمد عمار خان ناصر

نفاذ شریعت کی حکمت عملی: ایک فکری مباحثے کی ضرورت

۲۰۰۹ء میں جن دنوں سرحد حکومت اور سوات کی تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ مولانا صوفی محمد کے مابین ’’نظام عدل ریگولیشن‘‘ کے نفاذ کی بات چل رہی تھی، مجھے ۱۰ اور ۱۱ مارچ کے دو دن پشاور ہائی کورٹ کی طرف سے بھیجے جانے والے ایک وفد کے ہمراہ، جس میں دو درجن کے قریب سول اور سیشن جج صاحبان کے علاوہ ہائی کورٹ کے ذمہ دار افسران بھی شامل تھے، سوات کے شہر مینگورہ میں گزارنے کا موقع ملا۔ مجھے بتایا گیا کہ سرحد حکومت اور مولانا صوفی محمد کے مابین سوات میں امن وامان کے قیام اور شرعی نظام عدل کے نفاذ کے سلسلے میں جو معاہدہ ہوا ہے، اس پر عمل درآمد کے لیے ججوں کی ایک دو روزہ تربیتی ورکشاپ منعقد کی جا رہی ہے جس میں دوسرے مقررین کے علاوہ، مجھے بھی حدود وتعزیرات کے اہم پہلووں پر گفتگو کرنا ہوگی۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ اس ورک شاپ میں ججوں کے علاوہ علاقے کے علما اور خود مولانا صوفی محمد اور تحریک نفاذ شریعت محمدی کے راہنما بھی شریک ہوں گے، جبکہ اسلام کے نظام قضا کے مختلف پہلووں پر نصف درجن سے زائد ماہرین دو روز تک لیکچر دیں گے۔ میرے لیے اس سفر میں دلچسپی کا پہلو ایک تو یہ تھا کہ اس طرح مجھے حدود وتعزیرات اور اسلام کے نظام قضا سے متعلق بعض اجتہاد طلب امورپر اپنے نتائج فکر، جس کی تفصیل میں نے اپنی کتاب ’’حدود وتعزیرات۔ چند اہم مباحث‘‘ میں بیان کی ہے، قضا کے شعبے سے عملی طور پر متعلق جج صاحبان اور ان کے علاوہ تحریک نفاذ شریعت محمدی کے طرز فکر کے علما کے سامنے پیش کرنے اور ان کا رد عمل جاننے کا موقع ملے گا اور دوسرا یہ کہ اس طرح اس علاقے کی صورت حال کو زیادہ قریب سے اور ایک بہتر سطح پر زیادہ گہرائی کے ساتھ سمجھنے کا موقع ملے گا، چنانچہ میں نے طبیعت کی ناسازی اور سفر کے ممکنہ خطرات کے باوجود، ابتداءً تردد ظاہر کرنے کے بعد، اس موقع سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کر لیا۔ ان دنوں میں سوات کی طرف زمینی سفر چونکہ زیادہ محفوظ تصور نہیں کیا جا رہا تھا، اس لیے ہمیں پشاور سے مینگورہ لے جانے اور پھر وہاں سے واپس لانے کے لیے پاک فضائیہ کے ہیلی کاپٹرز کی مدد حاصل کی گئی اور یوں مجھے زندگی میں پہلی مرتبہ ہیلی کاپٹر کے سفر کا بھی تجربہ ہوا۔
اس سفر میں بعض رفقاے سفر کے ساتھ تبادلہ خیال کے نتیجے میں علاقے کی صورت حال اور اس کی پیچیدگیوں کا تو کسی حد تک یقیناًاندازہ ہوا، تاہم سفر کا جو اصل مقصد بتایا گیا تھا، اس کے حوالے سے ارباب اقتدار کے غیر سنجیدہ اور غیر حکیمانہ طرز عمل کا براہ راست مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ دو درجن کے قریب افراد پر مشتمل یہ وفد سوات لے جانے کا مقصد سرے سے نہ تو کسی شرعی نظام قضا کی تربیت دینا تھا اور نہ اس نظام کے نفاذ کے سلسلے میں کوئی عملی پیش رفت کرنا، چنانچہ دو دن مینگورہ ایک ہوٹل میں گپ شپ کرنے اور دوسرے دن ڈیڑھ دو گھنٹے کے لیے ایک رسمی سی نشست کے انعقاد کے علاوہ اس موضوع پر کوئی گفتگو نہیں ہوئی۔ یہ سارا تکلف صرف مولانا صوفی محمد کو مطمئن کرنے کے لیے کیا گیا تھا کہ ان کے ساتھ نظام عدل ریگولیشن کے نفاذ کا جو معاہدہ کیا گیا ہے، حکومت اس سلسلے میں عملی اقدامات کر رہی ہے اور اس مقصد کے لیے ججوں کی ٹریننگ شروع کر دی گئی ہے۔ 
مولانا صوفی محمد سوات میں نظام عدل کے قیام کا جو نقشہ ذہن میں رکھتے تھے، اس میں دستور پاکستان کی پابندی قبول کرنے اور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کو اعلیٰ عدالتی اتھارٹی تسلیم کرنے کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ ان کا مطالبہ مملکت کے دستور اور مروجہ نظام سے بالکل ہٹ کر ایک متوازی نظام عدل کے قیام کا تھا۔ سرحد حکومت سوات کے طالبان کی طرف سے اٹھائی گئی نفاذ شریعت کی پرتشدد تحریک کا راستہ روکنا چاہتی تھی اور اس مقصد کے لیے اسے مولانا صوفی محمد کے تعاون کی ضرورت تھی، لیکن ظاہر ہے کہ آئین کے حدود سے ماورا اس نوعیت کا کوئی قانونی انتظام اس کے لیے ممکن ہی نہیں تھا۔ اس بنیادی الجھن کو درست طریقے سے سلجھانے کے بجائے، جو ظاہر ہے کہ ہنگامی نوعیت کی سطحی کوششوں سے نہیں ہو سکتا تھا، صوفی محمد کو ابہام میں رکھ کر کام چلانے اور سیاسی انداز میں ’’وقت گزارو‘‘ قسم کے اقدامات کرنے کی کوششیں کی گئیں جو ظاہر ہے کہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکیں اور پھر انگریزی محاورے کے مطابق: The rest is history۔
میری اس سے پہلے بھی یہ سوچی سمجھی رائے تھی اور اس سارے معاملے سے بھی اس کی تائید ہوئی کہ پاکستان کے موجودہ سیاسی وعدالتی نظام کے خلاف مذہبی استدلال کی بنیاد پر عدم اعتماد کی موجودہ پر تشدد تحریک سے نبرد آزما ہونے کے لیے سیاسی وعسکری اقدامات سے کہیں زیادہ ضرورت ایک عمومی فکری ونظریاتی مباحثے کی ہے جس میں موجودہ نظام کی خامیوں، قباحتوں اور منافقتوں کا بھی بے باک تجزیہ کیا جائے اور اس کی اصلاح کی درست اور موثر حکمت عملی کے بنیادی اصول، اہداف، خط وخال اور عملی حدود بھی علمی وفکری بنیادوں پر ازسر نو طے کیے جائیں۔ قیام پاکستان کے بعد یہاں کی اعلیٰ سطحی مذہبی قیادت نے نفاذ اسلام کے ضمن میں اپنی جدوجہد کو جمہوری سیاسی دائرے میں محدود رکھنے کرنے کا جو فیصلہ کیا تھا اور جو بنیادی طور پر بالکل صائب اور درست تھا، بہت سے اسباب وعوامل اور خاص طور پر جہاد، اسلامی حکومت اور امارت وخلافت کے ایک مخصوص تصور کے فروغ نے اس فیصلے کو فکری واخلاقی بنیادوں پر چیلنج کر دیا ہے۔ اس ذہنی وفکری لہر نے جو سوالات اٹھا دیے ہیں، حالات کا رخ بتا رہا ہے کہ پاکستان کے اہل علم زیادہ دیر تک ان سے صرف نظر کرنے کے متحمل نہیں ہو سکیں گے اور جلد یا بدیر انھیں واضح فکری بنیادوں پر ان سوالات کے حوالے سے اپنا متعین جواب قوم کے سامنے رکھنا ہوگا۔ اب تک مختلف مواقع پر اس حوالے سے جو کچھ کہا گیا ہے، وہ محض یہاں کی جمہوریت پسند مذہبی قوتوں کے ’’موقف‘‘ کا بیان ہے جس کا ان طبقات کی نظر میں کوئی وزن نہیں جو عسکریت کے راستے کو اختیار کر چکے ہیں یا اس کی طرف رجحان رکھتے ہیں۔ یہ فکری معرکہ کسی قسم کے انفرادی یا اجتماعی فتوے جاری کرنے یا وقتاً فوقتاً قراردادوں کی صورت میں اپنا موقف بیان کر دینے سے کسی انجام تک نہیں پہنچے گا۔ اس کے لیے مباحثہ ومکالمہ کے ایک عمومی، وسیع اور ہمہ جہت عمل کا آغاز کرنا ضروری ہے جس میں بحث کے تمام فریقوں کو اپنا موقف اور استدلال واضح کرنے کا آزادانہ موقع دیا جائے اور استدلال کی قوت ہی یہ فیصلہ کرے کہ کس کی بات میں کتنا وزن ہے۔ کیا ہمارے اکابر علما، اہل فکر ودانش اور مذہبی سیاسی قائدین وقت کی اس اہم ترین ضرورت پر توجہ مرکوز کرنے کی زحمت گوارا فرمائیں گے؟

مورث کی زندگی میں کسی وارث کی اپنے حصے سے دست برداری

ہمارے ہاں عام فقہی تصور یہ ہے کہ مرنے والے کی وفات سے پہلے کسی وارث کا وراثت میں سے اپنے حصے کو چھوڑ دینے کا کوئی اعتبار نہیں اور یہ کہ اگر کوئی وارث مرنے والے کی زندگی میں اپنے حق سے دست بردار ہونے کا فیصلہ کر لے تو بھی مورث کی وفات کے بعد وہ اپنا حصہ وصول کر سکتا ہے۔ اس کی بنیاد اس قانونی نکتے پر ہے کہ وارث کا حق مورث کے مال سے دراصل متعلق ہی اس وقت ہوتا ہے جب مورث مر جائے، اس لیے کسی مال کے ساتھ حق متعلق ہونے سے پہلے اس سے دست بردار ہونے کا کوئی اعتبار نہیں۔ خالص قانونی نقطہ نظر سے اس استدلال میں وزن دکھائی دیتا ہے، تاہم اس کے مقابلے میں دیگر اہم تر شرعی وسماجی مصالح یہ تقاضا کرتے ہیں کہ مورث کی زندگی میں کیے جانے والے اس نوعیت کے انتظامات اور تصرفات کو قانونی وزن دیا جائے۔ اس تناظر میں سیدنا عثمان کا درج ذیل اثر بڑی اہمیت کا حامل ہے:
شعبی نے نقل کیا ہے کہ ام البنین بنت عیینہ بن حصن، عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھی۔ جب باغیوں کی طرف سے ان کامحاصرہ کیا گیا تو عثمان نے اسے طلاق دے دی۔ انھوں نے اسے پیغام بھیج کر اس سے اپنی وراثت میں سے اسے ملنے والا آٹھواں حصہ خریدنے کی کوشش کی تھی، لیکن اس نے انکار کر دیا جس پر سیدنا عثمان نے اسے طلاق دے دی۔ جب سیدنا عثمان کو شہید کر دیا گیا تو ام البنین علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور انھیں یہ واقعہ بتایا۔ علی نے کہا کہ عثمان نے اسے چھوڑے رکھا، یہاں تک کہ جب موت کے قریب پہنچ گئے تو اسے طلاق دے دی! چنانچہ علی نے ام البنین کو ان کا وارث قرار دیا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، ۱۹۳۸۱)
وراثت کا حصہ خریدنے سے مراد یہ ہے کہ عثمان یہ چاہتے تھے کہ ام البنین معاوضہ لے کر اپنے اس حصے سے دست بردار ہو جائے جو ان کی وفات کے بعد ام البنین کو ان کی بیوی ہونے کی حیثیت سے ان کی وراثت میں سے ملنا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مورث کی وفات سے پہلے ورثا میں سے کسی کے، اپنے حصے سے دست بردار ہو جانے کو درست اور مورث کی وفات کے بعد قانوناً نافذ العمل سمجھتے تھے اور اسی لیے انھوں نے اپنی بیوی کو معاوضہ دے کر اپنی وراثت میں سے ملنے والے حصے سے دست بردار کرنے کی کوشش کی تھی۔ ہمارے معاشرے میں وراثت کی تقسیم کے معاملے میں لوگوں کو جن چند در چند پیچیدگیوں سے سابقہ پیش آتا ہے، ان میں سے بہت سی الجھنوں کا تعلق اس نکتے سے بھی ہے کہ مورث کے لیے بسا اوقات اپنی زندگی میں عملاً مال کی تقسیم کرنا ممکن نہیں ہوتا، جبکہ اپنی وفات کے بعد پیدا ہونے والے نزاعات کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر وہ اپنی زندگی میں ورثا کے مابین ان کی رضامندی سے کوئی تصفیہ کرنا چاہے جو اس کی وفات کے بعد موثر ہو تو اسے اس کی وفات کے بعد فقہی طور پر موثر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اس ضمن میں اگر سیدنا عثمان کے مذکور اثر کی روشنی میں مناسب فقہی اجتہاد کیا جا سکے تو ہمارے خیال میں یہ اسلام کے قانون وراثت کی روح اور اس کے مقاصد کے عین مطابق ہوگا۔

ایک غزل کے چند اشعار

شعر وشاعری سے لگاؤ اور کسی حد تک، تک بندی کی مشق زبان وادب سے دلچسپی رکھنے والے کسی بھی شخص کے لیے ایک معمول کی بات ہے۔ شاعری کو ایک مستقل مشغلے کے طو رپر اختیار کرنے کے لیے جس قسم کا مزاج، افتاد طبع اور ذہنی یکسوئی درکار ہے، وہ تو مجھے نصیب نہیں۔ البتہ طبیعت موزوں ہونے پر کبھی کبھی غزل کے انداز میں دو چار اشعار جوڑ لینے کی مشق زمانہ طالب علمی سے چلی آ رہی ہے۔ چند ماہ قبل اسی طرح دو تین شعر موزوں ہوئے تو میں نے بے تکلفی کا رشتہ رکھنے والے چند حضرات کو بھی بھیج دیے۔ بزرگوارم جناب احمد جاوید صاحب (ڈپٹی ڈائریکٹر اقبال اکادمی، لاہور) ان حضرات میں سے ہیں جو عمر اور علم وفضل میں اپنی بزرگی کے باوجود مشفقانہ توجہ اور محبت سے نوازتے ہیں۔ انھوں نے یہ اشعار دیکھے تو اسی وزن اور قافیے میں فی البدیہ چند اشعار مزید عنایت فرما دیے۔ تبادلہ اشعار چونکہ SMSکے ذریعے سے ہوا تھا اور احمد جاوید صاحب کی افتاد طبع کے لحاظ سے یقین ہے کہ انھوں نے اپنے ان اشعار کو کہیں محفوظ کرنے کا اہتمام نہیں کیا ہوگا، اس لیے حفاظت کی غرض سے انھیں یہاں درج کر رہا ہوں۔ قارئین اس سے یہ بھی اندازہ کر سکیں گے کہ ٹاٹ میں مخمل کا پیوند کیسے لگایا جاتا ہے۔
میرے اشعار:
سفر کیسا، کہاں منزل! غبارِ راہ ہے جس سے
الجھنے کا تکلف بس دلِ ناشاد کرتا ہے
نہ ہونے سے کبھی جن کے یہ محرومِ محبت ہے
مرا دل اُن ملاقاتوں کو اکثر یاد کرتا ہے
’’بھروسہ کر نہیں سکتا غلاموں کی بصیرت پر‘‘
وہی کرتا ہوں جو ایک بندۂ آزاد کرتا ہے
اضافہ از احمد جاوید صاحب:
جو معنی آفرینی اور سخن ایجاد کرتا ہے
مری کج مج بیانی پر بھی دیکھو صاد کرتا ہے
ہو جس کی خامشی ظرف آشنائے قلزمِ معنی
وہی ویرانہ صوت وصدا آباد کرتا ہے
جنوں قلب وخرد پر ملتفت ہوتا ہے جب ناصر
اِسے مجذوب، اُس کو صاحب ارشاد کرتا ہے

سیدہ عائشہ کی عمر

جاوید احمد غامدی

عام طور پر مانا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکاح کے وقت ام المومنین سیدہ عائشہ کی عمر چھ سال تھی۔ یہ نکاح سیدہ خدیجہ کی وفات کے بعد مکہ میں ہوا تھا۔ اُن کی رخصتی اِس کے تین سال بعد مدینہ میں ہوئی۔حدیث و سیرت کی کتابوں میں اُن کے بارے میں یہی بات بیان ہوئی ہے۔ اِس سلسلہ کی روایات بخاری و مسلم میں بھی ہیں اور حدیث کی بعض دوسری کتابوں میں بھی۔ اِس میں شبہ نہیں کہ دیہاتی اور قبائلی تمدن کی بعض ضرورتوں کے تحت اِس طرح کے نکاح ہوتے رہے ہیں۔ اِس کی مثالیں خود ہمارے معاشرے سے پیش کی جا سکتی ہیں۔ یہ بات بھی درست ہے کہ بنیادی اخلاقیات سے جو سماجی رویے وجود میں آتے ہیں ،وہ مختلف معاشروں میں اُن کے احوال وتجربات کی بنیاد پر مختلف ہو سکتے ہیں اور اُن میں سے کسی ایک کو معیار بنا کر دوسرے کی اخلاقی حیثیت متعین نہیں کی جا سکتی۔ یہ سب باتیں تسلیم کی جا سکتی ہیں، مگر اِس نکاح کا معاملہ یہ نہیں ہے۔ اِس کے بارے میں جوسوال ہر صاحب نظر کے ذہن میں خلجان پیدا کرتا ہے، وہ یہ ہے کہ اِس نکاح کی ضرورت کیوں پیش آئی اور جو ضرورت آج تھی، اُسے پورا کرنے کے لیے ایک ایسا اقدام کیوں کیا گیا جس سے وہ کئی سال کے بعد بھی پوری نہیں ہو سکتی تھی؟اِس طرح کے نکاح ہو جاتے ہیں، اِس کو ماننے میں تامل نہیں ہے، مگر بغیر کسی ضرورت کے اور آج کی ضرورت کو برسوں کے بعد پورا کرنے کے لیے بھی ہو جاتے ہیں، یہ ماننا آسان نہیں ہے۔
سیدہ کے نکاح کی تجویز اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے پیش کی گئی ہوتی تو ہم کہہ سکتے تھے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ایما سے ہوا ۔ سیدہ نے جو کردار آپ کی زندگی میں ادا کیا اور علم و حکمت کا جو خزانہ اُن کی ذات والا صفات سے امت کو حاصل ہوا، وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا۔ چنانچہ فیصلہ کیا گیا کہ اُنھیں اِسی عمر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص کر لیا جائے۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ آپ نے یہ نکاح اپنی دعوت کی مصلحت سے کیا۔ سیدہ کے والد آپ کے شب و روز کے ساتھی تھے۔ قبائلی زندگی میں رشتے ناتے تعلقات کی مضبوطی میں غیر معمولی کردار ادا کرتے ہیں۔ آپ نے مناسب سمجھا کہ اپنے ایک رفیق خاص کے ساتھ یہ رشتہ بھی قائم کر لیا جائے تاکہ دوستی اور محبت کا تعلق مضبوط تر ہو جائے۔
اِسی طرح نکاح کی تجویز اگر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف سے پیش کی گئی ہوتی تو کہا جا سکتا تھا کہ وہ اپنے لیے، اپنی بیٹی اور اپنے خاندان کے لیے اِس شرف و اعزاز کے متمنی تھے کہ جس ہستی کو وہ خدا کا پیغمبر مانتے ہیں، اُس کے ساتھ اُنھیں صہری تعلق کی نسبت بھی حاصل ہو جائے۔ سیدہ اسما کی شادی کے موقع پر اُن کا دھیان اِس طرف نہیں گیا۔ اُن کے بعد یہی ایک بیٹی تھی جس کے ذریعے سے وہ یہ شرف و اعزاز حاصل کر سکتے تھے۔ چنانچہ اُنھوں نے نکاح کی تجویز پیش کی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عزیز دوست کی دل داری کے خیال سے قبول کر لیا۔
لیکن ہم جانتے ہیں کہ اِن میں سے کوئی بات بھی نہیں ہوئی ۔ سیدہ کے بارے میں اگر کسی رؤیا کی بنا پر اِس طرح کا کوئی خیال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں رہا بھی ہو تو آپ نے ہرگز اِس کا اظہار نہیں کیا۔ حدیث و سیرت کا ذخیرہ آپ کی طرف سے اِس نوعیت کے کسی ایما، اشارے یا تجویز سے بالکل خالی ہے۔ صدیق رضی اللہ عنہ کا معاملہ بھی یہی ہے۔ وہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ تعلق قائم کرنا چاہتے تو سیدہ کا رشتہ مطعم بن عدی کے بیٹے سے کیوں طے کرتے؟ روایتیں بتاتی ہیں کہ اِس تجویز سے پہلے وہ یہ کر چکے تھے۔ پھر یہی نہیں، اُن کے بارے میں تو بیان کیا گیا ہے کہ جب یہ تجویز اُن کے سامنے آئی تو اُنھیں تعجب ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے بچوں کے لیے چچا کی طرح ہیں، اِس رشتے کے ساتھ نکاح کی تجویز کس طرح پیش کی جا سکتی ہے؟ اُن کے الفاظ ہیں: ’ھل تصلح لہ ، انما ھی ابنۃ اخیہ‘ (احمد بن حنبل، رقم ۲۵۲۴۱) کیا وہ اُن کے لیے جائز ہے؟ وہ تو اُن کے بھائی کی بیٹی ہے۔
روایات بالکل واضح ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدہ کے نکاح کی تجویز ایک صحابیہ حضرت خولہ بنت حکیم نے پیش کی۔ اُنھی نے آپ کو توجہ دلائی کہ سیدہ خدیجہ کی رفاقت سے محرومی کے بعد آپ کی ضرورت ہے کہ آپ شادی کر لیں، ’یا رسول اللّٰہ ، کانی اراک قد دخلتک خلۃ لفقد خدیجۃ...افلا اخطب علیک؟‘(الطبقات الکبریٰ، ابن سعد ۸/ ۵۷) آپ کے پوچھنے پراُنھی نے آپ کو بتایا کہ آپ چاہیں تو کنواری بھی ہے اور شوہر دیدہ بھی۔ آپ نے پوچھا کہ کنواری کون ہے، تو اُنھی نے وضاحت کی کہ کنواری سے اُن کی مراد عائشہ بنت ابی بکر ہیں۔ (احمد بن حنبل، رقم ۲۵۲۴۱) بیوی کی ضرورت زن و شو کے تعلق کے لیے ہو سکتی ہے، دوستی اور رفاقت کے لیے ہو سکتی ہے، بچوں کی نگہداشت اور گھر بار کے معاملات کو دیکھنے کے لیے ہو سکتی ہے۔ یہ تجویز اگر بقائمی ہوش و حواس پیش کی گئی تھی تو سوال یہ ہے کہ چھ سال کی ایک بچی اِن میں سے کون سی ضرورت پوری کر سکتی تھی؟ کیا اُس سے زن و شو کا تعلق قائم کیا جا سکتا تھا؟ کیا اُس سے بیوی کی رفاقت میسر ہو سکتی تھی؟ کیا وہ بچوں کی نگہداشت کر سکتی تھی؟ کیا گھر بار کے معاملات سنبھال سکتی تھی؟ سیدہ کی عمر سے متعلق روایتوں کے بارے میں فیصلے کے لیے یہ قرائن میں سے ایک قرینہ نہیں، بلکہ بنیادی سوال ہے۔ کیا عقل باور کر سکتی ہے کہ جو ضرورت آج ہے، اُس کو پورا کرنے کے لیے ایک ایسی تجویز پیش کی جائے جس کے نتیجے میں وہ برسوں کے بعد بھی پوری نہیں ہو سکتی ؟ ابن خلدون نے بالکل درست لکھا ہے کہ تاریخی واقعات کی روایت میں اصلی اہمیت امکان وقوع کی ہے۔ یہ محض اِس بنیاد پر قبول نہیں کیے جا سکتے کہ اِن کی سند میں فلاں اور فلاں ہے اور یہ متعدد طریقوں سے نقل کیے گئے ہیں۔ (مقدمہ ابن خلدون، ۷ ۳)
اِس وقت جو اہل علم اِس موضوع پر داد تحقیق دے رہے ہیں، اُنھیں سب سے پہلے اِس سوال کا جواب دینا چاہیے۔ اُنھیں بتانا چاہیے کہ روایت کا یہ داخلی تضاد کس طرح دور کیا جائے گا؟ اور اگر دور نہیں کیا جا سکتا تو علم و عقل یہ تقاضا کیوں نہیں کرتے کہ چھ سال کی عمر میں نکاح کی روایت کو محل نظر ٹھیرایا جائے اوراُن اہل علم کی راے پر بھی غور کر لیا جائے جو یہ کہتے ہیں کہ ’بنت ست‘ کے بعد ’بعد العشر‘ کا مفہوم سیدہ کی گفتگو میں مقدر تھا جسے راویوں نے سمجھنے کی کوشش نہیں کی؟ اِس سوال سے تعرض کیے بغیر جو تحقیق بھی پیش کی جائے گی، وہ کسی صاحب نظر کے لیے ہرگز لائق التفات نہیں ہو سکتی۔ 
(بشکریہ ماہنامہ ’’اشراق‘‘ لاہور)

اسلامی سیاسی فکر ۔ جدید اسلامی فکر کے تناظر میں

ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

(یہ مقالہ 28-29 اپریل 2012ء  کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے شعبہ سیاسیات اور اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیاکے اشتراک سے ’’اسلام کا تصور سیاست‘‘ پر منعقدہ دو روزہ قومی سیمینار میں پیش کیا گیا۔)

عصر حاضر میں جس طرح قرآن ،حدیث فقہ جیسے خالص اسلامی علوم پر زبردست کام ہواہے۔ اوربیش بہاتحقیقات منظرعام پر آئی ہیں ۔اسی طرح علوم اسلامیہ کے دوسرے میدانوں میں بھی علماء اورارباب فکرونظرنے بہترین کاوشیں کی ہیں۔چنانچہ اسلام کی سیاسی فکرپر بھی بہت کچھ لکھاگیاہے فقہ وافتاء کے مباحث اورفتاوی کے ضمن میں بھی سیاسی مباحث سے تعرض کیاگیاہے(1) اورخاص اسلامی سیاست پر لکھی گئی تحریروں میں بھی۔بعض اصحاب فکرنے قدماء کی کئی رایوں سے اختلاف کا اظہاربھی کیاہے اوربعض نے اکثروبیشتران کے خیالات کی ترجمانی پر اکتفاکیاہے بعض نے ان پر کچھ اضافے بھی کیے ہیں ۔اس مقالہ میں یہ جائزہ لیاجائے گاکہ حالیہ زمانہ بیسویں صدی کے ربع اخیراوراکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں جدیداسلامی فکرکے تناظرمیں اسلام کے سیاسی فکرمیں کیااضافہ ہواہے کون سے نئے مباحث زیرغورآئے ہیں اورکن نئی رائیو ں کا اظہارکیاگیاہے ۔
آج جب اس پہلوسے مطالعہ وتحقیق کی جائے کہ اسلامی سیاسی فکرمیں کیاکچھ نیاہواہے تو سب سے پہلے فقہ الاقلیات(2) اورفقہ الواقع (3)سے اعتناء کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔کہ اسلامی سیاسی فکرپرنئے لکھنے والوں(4)نے موجودہ دوراوراس کے سیاسی واجتماعی رجحانات کو سامنے رکھاہے اور مسلم اقلیتوں اوران کے مسائل وایشوزسے بھی بحث کی ہے۔کیونکہ مسلم اقلیتیں دنیاکی کل مسلم آبادی کا چالیس فیصدبتائی جاتی ہیں ( 5) لہٰذااسلامی سیاست پر گفتگومیں اتنی بڑی تعدادکو نظرانداز نہیں کیاجاسکتااورخاص طورپر جب بعض ممالک میں یہ اقلیتیں نظام حکومت میں برابرکی شریک بھی ہوں جیسے کہ ہمارے ملک ہندوستان میں ہے ۔
چونکہ اسلامی سیاسی فکر کے مطالعہ سے یہ محسوس ہوتاہے کہ قرآنی آیات یااحادیث نبویہ جو سیاست سے متعلق کلام کرتی ہیں وہ صرف اصولیات پر گفتگوکرتی ہیں،جزئیات اورتفصیلات سے نہیں ،اس لیے بیشترلوگوں کارجحان یہ ہے کہ شرعی حدودمیں رہتے ہوئے اور الاصل فی الاشیاء الاباحۃ کے قاعدہ فقہیہ سے استفادہ کرتے ہوئے تمدنی وسیاسی مسائل کی جزئیات وتفاصیل میں ہم آزادہوں گے اورانسانی تجربات اورافکارسے اس سلسلہ میں فائدہ اٹھایاجا سکے گا۔
اسلامی سیاست پر لکھنے والے موجودہ مصنفین ومفکرین نے واضح طورپر لکھاہے کہ اسلامی سیاسی فکرمیں اصولی احکام یہ ہیں کہ:
۱۔ حاکمیت مطلقہ یاsovereigntyصرف خداکی ہے نہ کسی بادشاہ کی ہے اورنہ جمہورکی ۔اسلام میں مذہب زندگی کا ایک ضمیمہ نہیں بلکہ پوری زندگی پر حاوی ہے۔وہ خدااوربندے کے تعلق کے علاوہ انسان اورانسان کے تعلق سے بحث کرتاہے ،ساتھ ہی انسان اورکائنات سے تعامل سے بھی بحث کرتاہے ۔ اورحاکمیت الٰہ کا لازمی تقاضہ رسول اللہﷺ کی اطاعت بھی ہے۔
۲۔دوسرایہ کہ مسلمانوں کے باہمی معاملات شوری اورنمائندگی پر مبنی ہوں گے
۳۔تمام شہریوں کے بنیادی وشخصی انسانی حقوق اورحریتوں کی حفاظت کی جائے گی جن میں حریت دین وعقیدہ اورحریت فکروعمل بھی داخل ہیں۔ان اصولوں کے دائرہ میں رہتے ہوئے دوسرے نظامہائے سیاست سے تمدنی ،تیکنیکی اورانتظامی امورمیں استفادہ کیاجاسکتاہے اس بارے میں صاحب زادہ ساجدالرحمن صدیقی کہتے ہیں:’’مثال کے طورپر اسلام میں شوری اورنمائندگی کا اصول موجودہے مگراس شوری کے وجودمیں لانے کی کوئی محسوس ومخصوص صورت متعین نہیں کی گئی ہے۔امیرالمومنین کو امورحکومت طے کرنے کے لیے مشورہ کا حکم ہے ۔اب وہ حصول مشورہ کے لیے کیاطریقہ اختیارکرے ،قومی اسمبلی ہو،سینیٹ ہویاان جیساکوئی ادارہ اسلام اس سے بحث نہیں کرتا ۔(6) لہٰذاجمہوریت وڈیموکریسی سے اس ضمن میں فائدہ اٹھایاجاسکتاہے ۔اور انتم اعلم بامور دنیاکم (مسلم :حدیث نمبر6127)کی نص اس سلسلہ میں رہنمااصول بن سکتی ہے جس سے یہ مستنبط ہوتاہے کہ تمدنی وانتظامی امورکی جزئیات وتفاصیل میں شرع انسانی تجربہ وعقل کو آزادچھوڑناچاہتی ہے۔
اسی طرح موجودہ زمانے میں بنیادی حقوق اورانسانی آزادیوں کے تحفظ پر بڑازوردیاجاتاہے ،اسلام نے بھی اصولی طورپر انسانی جان ومال کے احترام ،عقیدہ فکرکی آزادی کی ضمانت دی ہے لہذااس معاملہ میں اسلام مغرب کے ساتھ ہے ۔جمہوری نظام میں نظری طورپر کئی خرابیاں موجودہیں ،ان خرابیوں سے دامن بچاتے ہوئے اس کی اچھائیوں کو اختیارکرنے میں کوئی حرج نہیں۔بعض لوگ الفاظ کے پیچ وخم میں الجھتے ہیں اورجمہوریت وسیکولرازم سے ہرحال میں بڑا انقباض محسوس کرتے ہیں اوربعض تو ان کو مطلقا کفروشرک قراردینے سے بھی نہیں چوکتے ،لیکن ایک فقیہ کی رائے میں : ’’ الدولۃ الاسلامیۃ دولۃ شوریۃ تتوافق مع جوھر الدیمو قراطیۃ ‘‘۔(7) اس بنیادپر اسلام کی سیاسی فکر کو حرکی اورڈائنامک کہاجاسکتاہے۔
۴۔عدل وانصاف : ارشاد باری تعالی ٰہے : اعدلوا ہو اقرب الی التقوی (انصاف کیاکرو،یہی پرہیز گاری کی بات ہے ۔ المائدہ :8) ساجدالرحمن صدیقی کے لفظوں میں’’اب یہ انصاف مہیاکرنے کے لیے کون سا نظام ترتیب دیاجائے ،عدالتوں کے کتنے درجے مقررکیے جائیس اسلام کو ان تفاصیل سے بحث نہیں ،اس کا تقاضاتو حصول انصاف کا ہے ذرائع سے کوئی سروکارنہیں (8)
ان اصولی احکام کے دائرہ میں رہتے ہوئے جزئیات وتفاصیل میں اسلامی سیاست دوسرے وضعی نظامہائے سیاست سے بہت سے امورمیں استفادہ کرسکتی ہے ۔مثال کے طورپر ووٹنگ اور انتخاب کے طریقۂ کارسے کام لیاجاسکتاہے ۔یہ دونوں ایسے طریقے ہیں جن سے ابجابی اورمنفی دونوں دائروں میں کام لیاجاسکتاہے ۔اس طریقہ سے اچھا حکمراں اور اچھے نمائندے اقتدارمیں لائے جاسکتے ہیں تو ان کی غلطیوں اورنقصان سے بچنے کے لیے ان کو اسی طریقہ سے کام لے کر ہٹایابھی جاسکتاہے ۔مسیحیت میں پوپ (مذہبی رہنما)کو خداکا براہ راست نمائندہ سمجھاجاتااورحکمرانوں سے بالاتراتھارٹی ماناجاتاتھا۔اسلام میں نہ صرف یہ کہ ایساکوئی ادارہ تجویز نہیں کیاگیابلکہ اس تصورکی نفی کی گئی ۔مفتی محمدزاہداس سلسلہ میں اپنی رائے یوں دیتے ہیں: ’’اب فرض کریں کہ منصب اقتدارپر جولوگ فائز ہیں وہ اگراپنے فرائض ٹھیک سے ادانہیں کرتے ہیں تو ان کے عزل ونصب کی جو چندصورتیں ممکن ہوسکتی ہیں وہ یہ ہیں۔ (۱)حکمرانوں کے اوپرکوئی بالاتراتھارٹی ہوجوکہ اس کام کوکرسکے ۔ایساادارہ آئڈیل اسلامی تصورسیاست میں خلافت کا ہے ۔خلیفہ یہ کام کرسکتاہے مگرموجودہ صورت حال میں عالم اسلامی میں نہ تو خلافت کا ادارہ قائم ہے اورنہ مستقبل قریب میں اس کاکوئی امکان دکھائی دیتاہے ۔(۲) حکمراں خود معزول ہوجائے اوررضاکارانہ اپنے اقتدارکو کسی دوسرے کو منتقل کردے ،یہ صورت بھی بظاہربہت rare ہے ۔(۳) ایک شکل یہ ہے کہ خودرعایاکو اپنے حکمرانوں کو معزول کرنے کا اختیارحاصل ہو۔اسلام کے مزاج اوراس کے تعلیم کردہ سیاسی تصورات سے یہی صورت زیادہ ہم آہنگ ہے۔موجودہ دورمیں جمہوریت کے انتخابی سسٹم اوراورووٹنگ سے اس سلسلہ میں فائدہ اٹھایاجاسکتاہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ریاستی قوت کے بالمقابل جن اجتماعی اداروں کی ضرورت ہوتی ہے وہ پہلے عوام کو دستیاب نہیں ہواکرتے تھے اب تمدنی وتہذیبی احوال کے بدل جانے سے ان اداروں سے کام لیناعوام کے لیے بھی ممکن ہے ۔ماضی میں اقتدارمیں تبدیلی لانے کے لیے عوام کو تلوارہاتھ میں لینے کی ضرورت ہواکرتی تھی اب وہ کام تلوارکی بجائے ووٹنگ سے لیاجاسکتاہے ۔آج انتخابی نظام نے یہ ممکن بنادیاہے کہ بغیرقوت استعمال کیے ان کو الیکشنی طریقہ کارکے ذریعہ بدل دیاجائے۔(9)
مسلم اصحاب فکر میں کئی لوگوں نے پارلیمنٹ اورجمہوریت کے سلسلہ میں منفی خیالات کا اظہارکیاہے ۔مثال کے طورپر ڈاکٹرمستفیض احمدعلوی رقم طرازہیں: ’’ایک جمہوری طرز حکومت میں قوم کے تمام اجتماعی فیصلے عوام الناس کی خواہشات کے مطابق اوران کی مرضی کے تابع ہوناضروری ہیں ،قرآن وسنت اوراسلامی تاریخ سے جمہوریت کے اس تصورکے حق میں کوئی ثبوت نہیں ملتا۔قرآن نے اکثریت کی حکمرانی کا کوئی ذکرنہیں کیابلکہ اکثریت کے بے سوچے سمجھے فیصلہ کو بطوراصول تمدن اپنانے سے سختی سے روک دیاہے۔(10)
البتہ آگے چل کر علوی یہ بھی کہتے ہیں کہ :’’قرآن حکیم حکمرانی کے کسی ایک ماڈل آئڈیل یالازم قرارنہیں دیتااوریہ اس کے ابدی وآفاقی ہونے کا ایک مظہربھی ہے ۔کیونکہ ماڈلmodelاورسسٹمsystemزمان ومکان کی حدودکے پابندہیں۔ان کی شکلیں زمانے کے حالات اورسیاسی وسماجی تبدیلیوں کے ساتھ تبدیل ہوسکتی ہیں۔ لہٰذا طرز حکومت جوبھی اپنایاجائے ،پیمانہ یہ ہے کہ انسانوں پر حکمرانی خداخوفی ،انصاف اورانسانیت کی بھلائی پر مبنی ہونی چاہیے‘‘۔ (11)
تاہم بعض حضرات نے اس سلسلہ میں تھوڑی تفصیل کی ہے جیساکہ آگے ذکرکیاجائے گا۔ ڈاکٹر اسرار احمد جو عصرحاضرمیں نظام خلافت کے سب سے پرجوش داعی رہے ہیں، وہ مختلف مروجہ نطامہائے سیاست اور ان کی ظاہری صورتوں کے بارے میں کہتے ہیں : ’’خلافت کا نظام صدارتی نظام سے قریب ترہے ۔۔۔میں ہمیشہ کہتا آیا ہوں کہ پارلیمانی اور صدارتی دونوں نظام جائزہیں،وحدانی unitary نظام وفاقی federalنظام اورکنفیڈرل confederalسب جائز ہیں ۔۔۔دنیامیں کئی سیاسی نظام چل رہے ہیں وحدانی صدارتی وفاقی صدارتی،وفاقی صدارتی (جیسے امریکہ میں ہے )کنفیڈرل صدارتی،پھرپارلمانی ،وفاقی پارلیمانی اورکنفیڈرل پارلیمانی یہ چھ کے چھ جائزہیں‘‘۔(12)
اسلامی سیاست کے جدیدمباحث کے سلسلہ میں ناگزیرہے کہ عصرحاضرکے دومخصوص اورمقبول عام سیاسی تصورات سیکولرازم اورجمہوریت سے بھی بحث کی جائے جن کی ہندوستان کے تناظرمیں گفتگومیں خاص اہمیت بھی ہے۔ عبدالحق انصاری نے اس پر تھوڑی سی تفصیل دی ہے جس کی یہاں پرتلخیص کی جارہی ہے : ’’سیکولرازم کا لفظ دو سیاق میں بولاجاتاہے ۔ایک سیاق میں وہ زندگی کے بارے میں ایک مخصوص نقطۂ نظر کا نام ہے ۔جس کے مطابق انسانی زندگی کے ذاتی اورنجی حصہ میں مذہب یاالہامی ہدایات کو ماناجاسکتاہے ۔اجتماعی امورمیں تمام فیصلے انسانوں کو عقل وتجربہ کی روشنی میں انجام دینے چاہییں نہ کہ کسی آسمانی کتاب کی روشنی میں۔دوسرے سیاق میں سیکولرازم ریاست کا ایک اساسی تصورہے ۔نظری طورپر سیکولرریاست اجتماعی امورمیں مذہب کا دخل نہیں مانتی ،مگراس کے تفصیلی انطباق میں دنیامیں تین طرح کی ریاستیں ہیں: (۱) مذہب مخالف جیسی کہ کمیونسٹ ریاستیں(۲)مذہب فرینڈلی (فردکی نجی زندگی کی حدتک ) (۳) مختلف مذاہب کے لیے غیرجانبدار،ہندوستان آخرکے دونوں معنوں کے لحاظ سے ایک سیکولرریاست ہے ۔
جمہوریت کا اطلاق بھی تین معنوں میں ہوتاہے ۔(۱) وہ ریاست جس میں حاکمیت (Sovereignty) کاحقدارریاست کے جمہورکو ماناجاتاہے ۔اورجہاں قانون کا مآخذکوئی خاندان ،طبقہ یافردنہیں ہوتا۔(۲) وہ طرز حکمرانی جس میں حکومت عوام کے منتخب نمائندوں کی ہوتی ہے ۔موروثی طورپر کسی خانوادہ کی یامخصوص طبقہ اورافراد کی نہیں ۔جمہوریت میں منتخب نمائندوں کا احتساب کرنے اوران کو بدل دینے کا اختیاربھی رہتاہے ۔(۳) جمہوریت کچھ قدروں کا نام بھی ہے ۔جس میں فکروخیال کی آزادی ،عقیدہ ومذہب کی آزادی ،بنیادی حقوق کا تحفظ ،قانون کی بالادستی، ہر ایک کے لیے ترقی کے یکساں مواقع وغیر ہ شامل ہیں ۔اس طرح پہلے معنی میں تو جمہوریت اوراسلامی ریاست میں کھلاتصادم ہے ۔کیونکہ اسلامی طرزحکومت میں حاکمیت جمہورکی نہیں بلکہ اللہ تعالی کی ہوتی ہے اورقانون کا مآخذ جمہور نہیں بلکہ کتاب وسنت ہوتے ہیں۔البتہ دوسرے دونوں معنوں کے اعتبارسے اسلام اورجمہوریت میں کوئی تصادم نہیں اوران آج کی جمہوریت اوراسلامی حکومت میں کوئی فرق نہیں اوراسی مناسبت سے اسلامی حکومت کو بھی اسلامی جمہوریت کہہ دیاجاتاہے۔ (13)
یہاں یہ وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ سیکولرازم کا یہ تصورکہ ریاستی واجتماعی معاملات سے مذہب واہل مذہب کو مکمل طورپر بے دخل اوردین وسیاست کو جداسمجھاجائے ایک گمراہی ہے اوراسلام میں نظری طوراس کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ وہ اس کو عملی طورپر انگیز تو کرسکتاہے مگراس سے راضی نہیں ہوسکتا۔لیکن سیکولرزم کی یہ تعبیرکہ ’’ریاست تمام مذاہب کے ساتھ یکساں سلوک کرے گی اورخوداس کا کوئی مذہب نہ ہوگااوروہ کسی مذہب کے لیے جانب دارنہ ہوگی ‘‘ نہ صرف یہ کہ قابل قبول ہے بلکہ غیرمسلم اکثریتی ممالک مثلاہندوستان ،میں مسلمانوں کو اس کو تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے ۔

پارلیمنٹ 

قرآن کریم میں قدیم قوموں اوربادشاہوں کے بیان میں کئی جگہوں پر ملاء قوم کا ذکرآیاہے ۔جس سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ دورقدیم سے ہی سربراہ حکومت کے نظام مملکت کو چلانے کے ذمہ دارافراد کا ایک ادارہ موجودرہاہے ۔ایرا ن میں اس کا نام مجلس بزرگاں اوریونان میں ہیلیایامجلس پنج صدکے نام سے اس کے وجودکا ثبوت ملتاہے ۔(14)
سرزمین عرب میں مکہ کی شہری ریاست میں اس کو دارالندوہ کہاجاتاتھا۔جدیدجمہوریت نے تھوڑے سے تغیرکے ساتھ یونان کے اسی روایتی ایوان کو پارلیمنٹ یاایوان نمائندگان کی شکل دیدی ہے ۔یوروپ میں اس ادارہ کا ارتقاء بارہویں اورتیرہویں صدیوں میں ارتقاء کوپہنچااوربیسویں صدی میں اس کو پوری دنیامیں پذیرائی مل گئی۔(15) پارلیمنٹ کے بارے میں بعض اہل فکرنے یہ رائے دی ہے :’’پارلیمنٹ کے حوالہ سے ایک اہم پہلوجوجدیدجمہوریت کی بنیادوں میں سے ہے اوراسلامی اصول سیاست سے مطابقت رکھتاہے ،وہ نظام شورائیت ہے ۔پارلیمنٹ یانمائندہ اسمبلی بحث وتمحیص کے نتیجہ میں عوام الناس یارعایاکے لیے بہترسے بہترفیصلہ ،ان کے عوامی نمائندوں کی آراء کی بنیادپر کرتی ہے ۔یہ پہلواسلامی اصول سے مطابقت رکھتاہے ،کیونکہ اہل اسلام کے امورمشاورت کے ساتھ طے پانے کو پسندیدہ قراردیاگیاہے‘‘۔(16) 
علامہ یوسف القرضاوی نے خیال ظاہرکیاہے کہ اسلامی سیاسی فکرپر ابھی عصرحاضرکے تناظرمیں بہت کام کیاجاناباقی ہے اوراس سلسلہ میں اجتہادوتجدیدفکرکی ضرورت ہے (17) اصل میں جب اسلامی فقہ کی تدوین شروع ہوئی تو اس وقت عالم اسلام وقت کاسپرپاورتھا اورپوری اسلامی ریاست ایک خلیفہ کے ماتحت تھا یاکم ازکم نظری طورپر ایک خلیفہ کی اتھارٹی کو چیلنج نہ کیاجارہاتھا اورمسلم سلاطین اس کی وفاداری کا دم بھرتے تھے ،ایسے ماحول میں فقہاء اسلام نے جوسیاسی اصول مدون کیے یامسلم مفکرین سیاست نے جو تحریریں چھوڑیں وہ زیادہ تر نظری باتوں پر مشتمل ہیں اورعصرحاضرکے نت نئے مسائل کا ان میں کوئی مرتب حل نہیں پایاجاتاہے ۔مثلااس سوال کا مدون اسلامی فقہ یااسلامی سیاسی فکرجوجواب دیتی ہے کہ اگرکوئی غیرمسلم ریاست جومسلمانوں کے خلاف جارحیت کی مرتکب نہیں ہوتی تو اسلامی ریاست کے تعلقات اس کے ساتھ بھی محاربہ پرمبنی ہوں گے یامسالمہ پر ،وہ بہت زیادہ relevantنہیں۔کہ فقہاء کی اکثریت بظاہرپہلی رائے کی حامل ہے جوموجودہ حالات میں قابل عمل نہیں۔مستشرقین اوران کے ہم نوا بعض مسلمان اسکالر وں کے نزدیک اسلامی فقہ تمام تر اسلام کی حکمرانی کی فضاء میں پروان چڑھی ۔اسی وجہ سے وہ مسلمانوں کو اس صورت حال کے بارے میں تو تفصیلی رہنمائی دیتی ہے،جب وہ حاکم ہوں،لیکن جب مسلمان خود محکومی کی حالت میں ہوںیا محکومی سے مشابہ حالت ہویا تھوڑے بہت وہ خود بھی اقتدار میں شریک ہوں جیسے کہ ہندوستان میں ہے،تو ایسی صورت حال کے لیے مدون فقہ اسلامی رہنمائی دینے سے قاصر ہے۔
بلاشبہ اس دعویٰ میں صحت کا کچھ نہ کچھ عنصر موجود ہے اوردارالاسلام اور دارالحرب کی قدیم فقہی بحثیں اس صورت حال کو مزید الجھا دیتی ہیں۔تاہم ہماری بنیادی غلطی اس معاملہ میں یہ ہے کہ ہم ساری رہنمائی لکھی لکھائی شکل میں فقہ قدیم کی کتابوں میں ڈھونڈنا چاہتے ہیں جب کہ فقہ اسلامی(مدون)سے باہر اور بھی اسلامی علوم ہیں جن میں رہنمائی کا وافر سامان موجو دہے۔اس لیے عبدالحمید ابو سلیمان اس نکتہ پر بجا طورپر زور دیتے ہیں کہ فقہ اسلامی اورسیربذات خود شریعت نہیں،وہ اس کا صرف ایک جزء ہے۔ (18)
ہمارا مدعا یہ ہے کہ مدون فقہ سے باہر سیرت نبوی،سیرت صحابہ اوربعد کی اسلامی تاریخ میں مسلمانوں کا غیروں سے تعامل،ان سب سے استفادہ کرنے او رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے تو شاید وہ سوال سرے سے کھڑاہی نہ ہو جس کی نسبت مستشرقین وغیرہ کی طرف کی گئی ہے۔
اس نکتہ کی مزید وضاحت محموداحمدغازی نے کی ہے ’’کہ مسلم اقلیتیں ہر دور میں پائی جاتی رہی ہیں۔حتی کہ عہد نبوی اور عہد راشدی میں بھی اور خلافت راشدہ کے بعد کے زمانے میں بھی۔چنانچہ نبیﷺ کے زمانہ میں بھی مسلم اقلیت تھی۔(19)۔ حبشہ میں مسلم اقلیت تھی اس کے علاوہ صلح حدیبیہ کے بعد حضرت ابوبصیرؓ کے ساتھیوں نے سرحد شام پر ایک اقلیت تشکیل دے لی تھی جو مدینہ کے Jurisdictionسے باہر تھی۔عہد راشدی میں معبر،مالابار اور سیلون (سری لنکا)جیسے دوردراز کے علاقوں میں مسلمان مبلغین اورتاجر آباد ہوگئے تھے اور مسلم اقلیتیں وجود میں آگئی تھیں۔(20)۔ ایسے میں دیکھنا یہ چاہیے کہ ان مسلم اقلیتوں کا اپنے اپنے متعلقہ معاشروں کے ساتھ کیا تعامل رہا۔ پھر اس تعامل کو سامنے رکھ کر ہم آج کے لیے نئی اسلامی سیاسی فکرکی تشکیل کرسکتے ہیں۔چنانچہ ایک بھی مثال ایسی اسلامی تاریخ میں نہیں ملتی کہ حبشہ یا مکہ مکرمہ (فتح مکہ سے پہلے)اورعہد راشدی میں معبر ،سری لنکا اورساحل اندلس کی چھوٹی چھوٹی مسلم اقلیتوں کو اس کا مکلف ٹھہرایا گیا ہو کہ وہ اسلام کے اجتماعی قوانین (فوجداری)اورحدود وتعزیرات و غیرہ اپنے اپنے علاقہ میں نافذ کریں۔ہاں ان کے لیے نماز ،روزہ،زکوٰۃ،حج، نکاح و طلاق،وراثت،وصیت،حجاب اورحلال و حرام وغیرہ ،احکام کی بجاآوری کو ضروری قراردیاگیا۔اسلام کے اجتماعی قوانین مثلاً فوجداری قانون حدود وغیرہ کے نفاذ کے لیے اسلامی حکومت کا ہونا ضروری شرط ہے۔جہاں یہ شرط پائی جائے گی وہاں مسلمان ان کا نفاذکریں گے اورجہاںیہ شرط نہ پائی جائے گی وہاں وہ ان پر عمل درآمد کے مکلف ہی نہ ہوں گے۔‘‘
غازی نے مزیدلکھاہے : ’’زکوٰۃ اسی وقت واجب ہوگی جب آدمی صاحب نصاب ہو،رمضان کے روز ے رمضان میں ہی رکھے جائیں گے شوال میں نہیں۔شریعت نے کسی کو اس کا مکلف نہیں کیا کہ وہ زکوٰۃ اداکرنے کی خاطر پہلے دولت اکٹھی کر کے صاحب نصاب بنے اورپھر زکوٰہ ادا کرے۔
اس سے واضح ہوتاہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ چونکہ اسلامی حکومت کے بغیر بہت سے اسلامی احکام پر عمل نہیں کیا جا سکتا ،لہٰذا ان احکام پر عمل کے لئے اسلامی حکومت قائم کرنی چاہیے ،وہ نہایت لچر بودی اور الٹی بات کہہ رہے ہیں، ایک ایسی بات جو 14سو سال پہلے کسی فقیہ کے ذہن میں نہیں آئی ۔مثلاً وراثت کے احکام پر عمل کرنے کا مقتضا کسی فقیہ نے یہ نہیں سمجھا کہ آدمی کو کوشش کرکے مرنے سے قبل دولت جمع کر جانی چاہیے تاکہ اولاد کو وراثت کے ااحکام پر عمل کرنے کا موقع ملے۔ہر فقیہ و عالم نے صرف یہ سمجھاکہ مرنے والا اگر کچھ دولت چھوڑکر مرتاہے تو اس ترکہ کو اسلامی وراثت کے مطابق تقسیم کیاجائے۔اور اگر کچھ نہیں چھوڑ تا ہے تو احکام و وراثت پر عمل کا کوئی مطلب نہیں بنتا۔(21)
پروفیسرنجات اللہ صدیقی کی رائے یہ ہے کہ آج مسلم ریاست میں مسلم اورغیرمسلم شہریوں کے مابین تفریق کرناممکن نہ ہوگابلکہ تمام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک کرنامناسب ہوگا (22) کیونکہ تفریق کی صورت میں جن ممالک میں مسلمان اقلیت میں ہیں ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے آوازاٹھانااوران کے لیے یکساں سلوک کا مطالبہ کرناہمارے لیے کیسے ممکن ہوگا؟(23) اسی طرح پاکستان کے ممتاز اسلامی عالم ومحقق عمار خان ناصرنے جزیہ کی تفہیم جدیدکی کوشش کی ہے اور اس ضمن میں ماضی وحال کے کئی فقہاء کے حوالے دیے ہیں۔(24)
اس کے علاوہ مطلقاً تبدیلئ مذہب کی سزاقتل قراردینے کوموجودہ دورمیں آزادی رائے کے خلاف سمجھاجاتاہے، اس پربھی اسلامی سیاسی فکرمیں نئی آراء کا اظہارکیاگیاہے اوران کی تائیدبعض علماء سلف کے اقوال سے بھی ہوتی ہے۔ چنانچہ مولاناعنایت اللہ سبحانی اوروحیدالدین خاں اس سلسلہ میں سلف سے متوارث تشریح سے اختلاف کرتے ہیں۔ 25) ) 
برصغیرکے علماء نے سیاسی فکرمیں حرکیت اوراجتہادکا ثبوت دیاہے ۔چنانچہ 1917کے لگ بھگ جمعیہ علماء ہندنے باقاعدہ یہ فیصلہ کیاکہ اب آزادی کی لڑائی عسکریت کے بجائے سیاسی میدان میں لڑی جائے گی ۔حالانکہ انہی سرفروش علماء کا گروہ تھا جس نے 1857سے لے کربالاکوٹ اورشاملی کے میدانوں میں اپناگرم گرم خون جہادکے لیے پیش کیاتھااورانگریز نے دہلی پر قبضہ کرکے ہزارہاعلماء کوپھانسی پر لٹکایاتھاان کا جرم یہی تھاکہ غیرملکی استعمارکی غلامی ان کو کسی حال میں قبول نہ تھی۔مگراب انہوں نے گاندھی جی کے عدم تشددکے فلسفہ کو قبول کرلیاجس کو وہ ایک حدتک اسلامی تعلیمات سے غیرمتصادم اوروقت کا تقاضاسمجھتے تھے۔جمعیۃ علماء ہندکے ناظم اعلی اورمؤرخ مولانامحمدمیاں نے اس تبدیلی کے حق میں تفصیلی دلائل دیے ہیں(26)
انہوں نے یہاں تک کہاکہ عدم تشددپر مبنی طریقہ کاربھی جہادہی ایک شکل ہے بلکہ جہادکی افضل شکل ہے ۔(27) توسیاسی میدان میں عالمی سطح پر جوتبدیلیاں آئی ہیں ان کے پیش نظراجتہادسے کام لے کرآج بھی بعض اسلا ف کرام سے منقول بعض سیاسی رایوں پر نظرثانی کی جاسکتی ہے اورکی جارہی ہے۔مثال کے طورپر غیراسلامی ملک کی شہریت، ایسے ممالک کے سول اداروں سے استفادہ ،ان میں سرکاری نوکریاں اورفوجی ملازمتیں اوران میں قائم غیراسلامی نظام کے تحت ہونے والے الیکشنوں اورانتخابات میں امیدواربننا،ووٹ دینااوراسمبلی یاپارلیمان کا رکن بننا،ایسی حکومتوں میں وزارت ،عدلیہ اوربیوروکریسی میں اعلی عہدے اورمناصب قبول کرناوغیرہ اسیے مسائل ہیں جن پر موجودہ دورکے فقہاء یوسف القرضاوی ،وہبہ الزحیلی ،طٰہٰ جابرعلوانی وغیرہم نے اپنی رائیں دی ہیں۔اہل علم بجاطورپر اس خیال کا اظہارکرتے رہے ہیں : ’’چونکہ انسانی معاشرہ تغیرپذیرہوتااورہمیشہ نت نئی تبدیلیوں سے دوچاررہتاہے جس کے پیش نظراسلامی شریعت میں پیش آمدہ مسائل سے نبردآزماہونے کے لیے رہنمااصول موجودہیں۔اس لیے ’’ عصری حالات اورتقاضوں کے پیش نظربعض فقہی مسائل کی ازسرنوتعبیروتاویل کی ضرورت ہے ‘‘۔ (28)
انہی مسائل میں ذمہ ،دارالحرب ودارالاسلام کی تقسیم ہے کہ یہ تقسیمات دائمی نہیں ہیں۔وہ فقط ایک دورکی عملی ضرورت کا اظہارتھیں ۔اس وقت وہ ایک زمینی حقیقت ،ایک امرواقع کی تعبیرتھی ،آج وہ حالات نہیں ہیں ،وہ کل کا عرف تھا جو آج بدل چکاہے لہذاعلامہ یوسف القرضاوی یہ دعوت دیتے ہیں کہ غیرمسلمین کے مسائل پر(پھرسے ) غورکیاجاناچاہیے۔ (29) نجات اللہ صدیقی کے مطابق ’’اہم چیز اس بات کا شعورہے کہ نئے حالات ایک نئے موقف کا تقاضاکرتے ہیں‘‘۔ (30) آج کئی مفکرین اورفقہاء کی تلقین ہے کہ ’’مغربی ممالک کے مسلمان ان ملکوں کے شہری بن کرشہریت کے تمام حقوق سے فائدہ اٹھائیں اورشہریت کے تمام فرائض اداکریں۔(31)
طارق رمضان نے شہریت سے وابستہ فرائض کی ادائیگی کو ،جن میں سب کے ساتھ مل کرعدل وانصاف کے لیے جدوجہدسرفہرست ہے ایک دینی تقاضاقراردیاہے ۔(32) احمدصدقی دجانی نے بھی اسی طرح کی رائے کا اظہارکیاہے ۔(33) راشدغنوشی نے اقلیتی مسلمانوں کے لیے اپنے ملک کے نظام حکومت سے کنارہ کشی کرنے اورحالات بدلنے کے انتظارکے رویہ کو غلط قراردے کراس بات پر زوردیاہے کہ ’’ایسے لوگوں کے لیے بہترین راستہ یہ ہے کہ وہ سیکولرجمہوری جماعتوں کے ساتھ مل کرایک ایسے سیکولرنظام کے قیام کے لیے جدوجہدکریں جس میں انسانی حقوق کا احترام کیاجائے ۔جن حقوق میں کہ وہ ضروری مصالح شامل ہیں جن کے تحفظ کے لیے اسلام آیاہے مثلا جان ،عقل ،مال ،آزادی اورخوددین ،جس میں اس سوسائٹیوں میں مسلمانوں کے عقیدہ ،مذہبی شعائراورپرسنل لاز کا تحفظ شامل سمجھاجاتاہے(34) اس سے بھی آگے بڑھ کر وہ اس کو مقاصدشریعت کی روشنی میں واجب قراردیتے ہیں۔’’جن حالات میں ایک جمہوری اسلامی نظام کا قیام ناممکن ہوان حالات میں ایک ایسے سیکولرجمہوری نظام کے قیام کی کوششوں میں حصہ لینے سے کیسے باز رہاجاسکتاہے ؟ ابن خلدون کے الفاظ میں (35) اگرشرع کی حکمرانی ناممکن ہوتو عقل کی حکمرانی قائم کی جائے ۔اشتراک عمل سے دوری ہرگز مناسب نہیں بلکہ واجب شرعی ہے کہ مسلمان ایسے نظام کے قیا م کی کوششوں میں انفرادی اوراجتماعی طورسے شرکت کریں ۔(36)
آج دارالاسلام اوردارالکفریادارالحرب کی بحث اس لیے بھی irrelevant  معلوم ہوتی ہے کہ سرحدوں کے فاصلے سمٹ گئے ہیں ،گلوبلائزیشن اورنئی انفارمیشن ٹیکنالوجی نے جغرافیائی حدود کو بے معنی بنادیاہے ۔اس کے علاوہ تلخ حقیقت ہے کہ اسلام اورمسلمانوں کوبعض مسلم ملکو ں سے کہیں زیادہ آزادی تو غیرمسلم ممالک میں حاصل ہے ۔عبدالرحمن مومن لکھتے ہیں’’: عام طورپر یہ سمجھاجاتاہے کہ اسلامی ملکوں میں رہنے والے مسلمانوں کو اپنے دینی شعائرپر عمل پیراہونے کی پوری آزادی حاصل ہے جبکہ غیراسلامی ملکوں میں رہنے والے مسلمانوں کو اپنی دینی وتہذیبی شناخت قائم رکھنے میں رکاوٹیں درپیش ہیں۔یہ بات علی الاطلاق صحیح نہیں ہے ۔بیشترمغربی ممالک میں مسلمان لڑکیاں برقعہ اورحجاب کے ساتھ درس گاہوں اورجامعات میں تعلیم حاصل کرتی ہیں جبکہ ترکی جیسے اسلامی ملک میں جامعات اورسرکاری دفتروں میں خواتین کے حجاب اوربرقعہ پہننے پر پابندی عائدہے ۔ہندوستان کی مسلم خواتین کو جو آئینی حقوق ومراعات حاصل ہیں ان سے عرب ممالک کی خواتین محروم ہیں’’۔(37)

عالم اسلام کا مطلوبہ کردار

اس سلسلہ میں بعض اہل فکرنے یہ رایے ظاہرکی ہے : ’’عام حالات میں عالم اسلام کی ضرورت ہے کہ اس کے ہاں’’خلافت اسلامیہ‘‘کا معیاری نظام ہو،جس سے آج کی سیکولرروایت کے برعکس حکومت وسیاست کے پلیٹ فارم سے دنیائے انسانیت کی نسبت سے اسلام کی رحمت وبرکت کا اظہارہوسکے۔جب کہ حقیقی داخلی مفادات کا تحفظ بھی اس مبنی برعدل اسلامی حکومتوں کے نظام سے وابستہ ہے ۔اس روشنی میں پھیلے ہوئے عالم اسلام میں آج کی اکثروبیشترقابل اصلاح مسلمان حکومتیں متحدہ خلافت کے مطلوبہ نظام پر متفق نہ بھی ہوسکیں تو ان کی کم سے کم ضرورت ہے کہ موجودہ اقوام متحدہ اوراس کے اس جیسے دوسرے سیکولرذیلی فورموں کے جال سے نکل کراصولی اسلامی حکومت پر مبنی مؤثراورکارگروفاق کے نظام سے اپنے کو منسلک کریں ‘‘۔(38)

جزیہ 

سلطان احمداصلاحی سوال کرتے ہیں:’’دوسراسوال یہ ہے کہ مسلمان نہ ہونے کی صورت میں کیاغیرمسلم انسانیت کو زیرکرکے اسے جزیہ کا پابنداوراسلامی حکومت کا تابع فرمان بناناضروری ہے جیساکہ ماضی میں اسلام نہ لانے کی صورت میں اسلامی ریاست کے غیرمسلم عوام کے لیے اس کی پابندی تھی ۔۔۔جہاں تک جزیہ کا سوال ہے تواس سلسلہ میں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اس کا مطلب کسی طرح اسلام کے زیرسایہ غیرمسلم عوام کی تحقیروتذلیل نہیں تھی ۔۔۔دوسرامسئلہ اس زیادہ اہم اورنئے حالات میں نئی رائے بنانے کا تقاضاکرتاہے ۔اسلام کی دعوت کے باوجودغیرمسلموں سے جنگ شروع کرکے ان کو جذیہ کے دائرہ میں لانایہ رائے پرانے عرف کے مطابق تھی ،آج کے دورمیں اس کے سلسلہ میں نئی رائے بنانے کی ضرورت ہے ۔مولانااصلاحی کے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ ’’اول یہ موجودہ عالم اسلام اپنی کمزوریوں کے ساتھ اس کا اہل نہیں کہ کسی ملک کو بزورطاقت فتح کرکے وہاں کے غیرمسلموں پر جذیہ نافذکرسکے ۔دوسرے عہدحاضرکی دوررس تبدیلیوں کے پس منظرمیں جس کی تفصیل اوپرگزری ،دین پسند،اہل اورمثالی عالم اسلام کے لیے بھی ماضی کے انداز کی عسکری یوروش ویلغارکو بمشکل ہی قرآن وسنت اورمطلوبہ دینی مصلحت کے مطابق قراردیاجاسکتاہے۔ (39)
ماضی میں کسی خطے اورعلاقے کے حکمراں طبقہ کی قوت وشوکت کو توڑے بغیراس کی قلمرومیں اپنی بات کہنے اوراپناپیغام پہنچانے کا کوئی موقع نہ تھا۔۔۔جس کی ضرورت سے ریاست کی مالی ذمہ داریوں میں حصہ داری کی مجبوری سے اس کے غیرمسلم شہریوں کے لیے جذیہ کو گواراکیاگیا۔۔۔آج کے بدلے ہوئے حالات میں دعوت اسلامی کے مقصدسے جب فوج کشی ضروری نہیں رہی تو ہرحال میں دنیاکے غیرمسلموں سے جزیہ لینابھی ضروری نہیں باقی رہتا( 40)

صلح

اسلام کے قانون بین الاقوام کا اصل الاصول صلح ہے ۔جیساکہ قرآن کہتاہے والصلح خیر ( اورصلح خوب چیز ہے :(النساء: 128 ) اس کے علاوہ سورہ انفال میں فرمایا :اوراگریہ لوگ صلح کی طرف مائل ہوں توتم بھی اس کی طرف مائل ہوجاؤاورخداپربھروسہ رکھو،کچھ شک نہیں کہ وہ سب کچھ سنتااورجانتاہے۔( 61) اسی پر پوری سیرت نبوی کے واقعات شاہدعدل ہیں۔پھرایساکیوں ہے کہ موجودہ دورکے مسلمان مصفین اوراسلامی مفکرین کے استثناء کے ساتھ پوری اسلامی تاریخ میں غیرمسلموں سے تعلقات کی اصل نسبت صلح نہیں بلکہ جنگ اورمسالمہ وموادعہ نہیں بلکہ محاربہ دکھائی دیتی ہے؟ جہادپر ایک نئے لکھنے والے اس سوال کا جواب یوں دیتے ہیں: ’’ اس کا سبب اس زمانہ کا تمدن اوربین الاقوامی اورسیاسی صورت حال تھی اوراس زمانہ کے لیے یہی شرعی حکم تھا ۔اصل میں اس زمانہ میں دنیامیں کہیں بھی مستقل صلح کا کوئی تصورنہیں تھا۔عملاہی نہیں نظری طورپر بھی ریاستوں کے درمیان ایسی دائمی صلح سیاسی اوراخلاقی فکرکے لیے اجنبی چیز تھی ۔۔۔ قدیم زمانہ میں ریاستیں واضح طورپرکوئی نہ کوئی مذہب رکھتی تھیں بلکہ ہرریاست تعصب کی حدتک مذہبی تصورات پر قائم ہوتی تھی اوراِس کااُس دورمیں کوئی تصورہی نہ تھاکہ کوئی غیرمسلم حکومت اپنے زیراقتدارعلاقوں میں اللہ کے بندوں کو اس کے دین کی طرف بلانے کے لیے امکانات کھلے چھوڑدے ۔یہ بات اُس وقت بالکل ناقابل تصورتھی ۔۔۔ لہٰذااُس صلح کا لازمی نتیجہ یہی نکلناتھاکہ امت اِس پورے خطہ کے بارے میں صبرکرلے اوروہاں کے انسانوں کو اللہ کی عبادت کی طرف بلانے اوراس کی بندگی کے راستہ پر چلانے کی جدوجہدنہ کرنے کو منظورکرلے ۔ظاہرہے کہ امت مسلمہ کے لیے اِس صورت حال کو مستقل طورپر تسلیم کرنے کی کسی طرح اجازت نہیں دی جاسکتی ۔یہ بات امت مسلمہ کے لیے اپنے فرض منصبی کے خلاف ہے ۔اس لیے علماء امت نے اس زمانہ میں بجاطورپر یہ خیال ظاہرکیاکہ صلح برائے مصلحت اورعارضی طورپر ہی کی جائے ۔۔۔لیکن اس صورت حال سے الگ کرکے اس مسئلہ میں غورکریں تو قرآن کی یہ بات اپنی جگہ قائم رہتی ہے کہ ۔۔۔اسلام کے قانون بین الاقوام میں اصل صلح ہی ہے۔(41)

ذمہ ،اہل ذمہ اورجزیہ

ذمہ اورجزیہ کے بارے میں صحیح اورراجح قول یہ ہے کہ وہ حقوق شہریت سے بالکل متصادم نہیں،نہ ان سے ہرگز بھی یہ مرادہے کہ اہل ذمہ اورجزیہ دینے والوں کا درجہ گھٹاکران کو ریاست کے ثانوی درجہ کے شہری قراردیاجائے یاان کی تحقیروتذلیل مطلوب ہے۔جن روایتوں سے ایساعندیہ ملتاہے وہ سب کمزوروضعیف ہیں (42 )
اصل میں جزیہ ایک نظام محاصل تھا جو ایرانیوں کے ہاں رائج تھا ۔اسلامی ریاست کے غیرمسلم شہریوں پر اِس کو بطورریاستی ٹیکس کے نافذکیاجاتاتھا۔جس کا سبب یہ تھا کہ ریاست ہی ان کے تحفظ کی پابندتھی اورجو غیرمسلم اسلامی ریاست کی جنگی خدمت انجام دیتے تھے ان سے یہ ساقط ہوجاتاتھا۔اورمسلمانوں سے زکوۃ وصدقات کی صورت میں جزیہ سے کہیں زیادہ بھاری ٹیکس لیے جاتے تھے ۔چونکہ زکوۃ ایک دینی فریضہ اورمالی عبادت ہے اس لیے غیرمسلموں سے نہیں لی جاسکتی تھی ۔اس لیے اسلامی ریاست کے غیرمسلم شہریوں پر زکوۃ سے کافی ہلکاٹیکس جزیہ نافذکیاگیا۔(43)
تاہم لفظ جزیہ اورذمہ کے بارے میں حضرت عمرؓکا اسوہ موجودہے جس سے گویایہ اصول طے فرمادیاکہ غیرمسلم شہری جزیہ اورذمہ وغیرہ اصطلاحات ترددوتوحش کا شکارہو ں تو ان ناموں پر اصرارکرناکوئی ضروری نہیں (44) مزیدبرآں جدیددورکے فقہاء اورعلماء مثلامصطفی سباعی ،علامہ یوسف القرضاوی ،عبدالکریم زیدان ،وہبہ الزحیلی ،اورمصطفی الزحیلی اس کے قائل ہیں کہ آج کی مسلم ریاستو ں میں جزیہ نافذ نہیں کیاجائے گا(45)اس کے علاوہ برصغیرکے متعدد علماء ومفکرین بھی یہی رائے رکھتے ہیں(46)

صلح پسندغیراسلامی ریاست کے خلاف اقدام نہیں ہوگا

اگرچہ فقہاء کی اکثریت اِس بات کی قائل ہے کہ اسلامی ریاست کے واقعات غیرمسلم ریاست سے محاربہ پر مبنی ہوں گے ۔مگرترک اوراہل حبشہ کے بارے میں حدیث میں اقدام کرنے سے منع کیاگیاہے ۔فرمایا: اترکو الحبشۃ ماودعوکم واترکو الترک ماترکوکم (ابوداؤ کتاب الملاحم ،باب فی النھی عن تھییج الترک والحبشۃ ) اس حدیث کو نقل کرکے مولاناجلال الدین عمری لکھتے ہیں: ’’اس حدیث میں صاف کہاگیاہے کہ جب تک یہ ریاستیں اسلامی ریاست کے معاملات میں دخل انداز نہیں ہورہی ہیں اوراس سے الگ تھلگ اورکنارہ کش ہیں ان سے محاذآرائی کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا‘‘۔ انہوں نے ا س سے یہ نتیجہ بھی نکالاہے کہ جوقوم جنگ نہ کرے اس سے جنگ نہ کی جائے گی اورپرامن ملکوں کے ساتھ اسلامی ریاست خواہ مخواہ کی کشمکش مول نہ لے گی ۔( 47)
ڈاکٹرمحموداحمدغازی واضح کرتے ہیں کہ مسلم اقلیتوں کے فکری مسائل کی جڑ میں ۔دوسری چیزوں کے ساتھ ۔یہ بھی ہے کہ ان کے ایک بڑے طبقہ کو تحدیدی طورپر یہ معلوم نہیں کہ ان کی دینی ذمہ داریاں کیا اورکس حد تک ہیں؟اسلام ان سے،ان کے حالات کے مطابق ،کس چیز کامطالبہ کرتاہے؟کیونکہ مسلمانوں کی ایک خاصی بڑی تعداداس کنفیوژن میں مبتلاہے کہ تمام مسلمانوں کے فرائض وواجبات یکساں ہیں۔بعض لوگ اس کنفیوژن میں خود بھی مبتلا ہیں اور دوسروں کو بھی کررہے ہیں کہ اقلیتی مسلمانوں کے فرائض بھی وہی ہیں جو اکثریتی ممالک کے مسلمانوں کے ہیں۔
حالانکہ اکثرمسلم علماء وفقہاء کے نزدیک اکثریتی ممالک کے مسلمانوں کے فرائض میں یہ بھی ہے کہ وہ اسلامی شریعت کے نفاذ کی کوشش کریں اوراسلامی نظام قائم لریں۔مگریہی فریضہ ان کے نزدیک مسلم اقلیتوں پر لازم نہیں ہوتا۔اب اگرکوئی قرآن وسنت کے عمومی نصوص کے حوالے سے جنوبی افریقہ یا امریکہ و انگلینڈکے اقلیتی مسلمانوں کو ان ممالک کے نظام حکومت کے خلاف اٹھ کھڑاہونے کی تبلیغ کرے جن کی تعداد 10فیصد یا اس سے بھی کم ہے- تو اس کانتیجہ اس کے سوا کیا نکلے گا کہ یہ حکومتیں مسلمانوں کے وجود کو ہی ختم کرنے کی کوشش کریں۔یہ محض مفروضہ نہیں حقیقتاً ایسا ہو چکا ہے۔ترینداد میں بالکل ایسی ہی صورت حال پیش آئی تھی۔(48)چنانچہ مسلم اقلیتوں کے لائحہ عمل کے سلسلہ میں ڈاکٹرمحموداحم غازی کے نزدیک یہ سمجھنا بہت بہت ضروری ہے کہ مسلمان اقلیتوں کی نہ یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ملک کے قائم شدہ نظام کو بدل کر وہاں اسلامی حکومت قائم کردیں اور نہ ہی عملاً ان کے لیے ممکن ہے۔اللہ کی شریعت نے یہ ذمہ داری ایک بااختیار و آزاد اسلامی ملک یا خطہ (دارالاسلام)کے باشندوں پر ڈالی ہے ۔غیر مسلم اکثریتی ممالک میں بسنے والے مسلمانوں پر نہیں ہے۔قاضی مجاہدالاسلام قاسمی ؒ اس با ت کویوں تعبیرکیاکرتے تھے کہ ’’عذرانفرادی بھی ہوتاہے اوراجتماعی بھی ہوتاہے ‘‘۔
اس مقالہ کے اختتام پرہم عبدالحمیداحمدابوسلیمان کے یہ الفاظ نقل کرتے ہیں جو اس پوری بحث کا ماحصل بھی ہیں: ’’بین الاقوامی تعلقات کے سلسلہ میں اپنے اصولوں ،اقداراوراہداف کے اعتبارسے اسلام آج بھی مکمل طورسے قابل عمل ہے اورکامیاب وتعمیری خارجہ تعلقات کی رہنمائی کی صلاحیت رکھتاہے۔بشرطیہ مسلمان ان جامع اورہمہ گیراصولوں اوراہداف کی پابندی کریں۔انہیں اسلام کے دوراول سے متعلق اپنے فہم کو ازسرنومرتب کرنااوراس کے مطابق مربوط طریقہ پر بین الاقوامی تعلقات کا تجربی اسلامی مطالعہ کرناچاہیے۔اسی صورت میں مسلم مفکرین اورسیاسی مدبرین اپنی امت ،بحیثیت مجموعی انسانیت اوراسلام کی خدمت کے لیے متبادل کامیاب روش عمل کا حقیقی تعین کرسکیں گے ۔(49)
اسی طرح نئی اسلامی سیاسی فکرکی تشکیل میں ہمیں اسلامی نظریۂ کائنات یااسلامک ورلڈ ویوکو سامنے رکھنا ہوگا۔ کیونکہ اسلامی نظریۂ کائنات کے حوالہ سے ہی نئی اسلامی سیاسی فکرکی تشکیل کی جاسکتی ہے ۔

حواشی وحوالہ جات

1۔ مثال کے طورپر ملاحظہ ہوحافظ سعداللہ مدیرمنہاج لاہورکا مقالہ ، غیرمسلم حکومت کی اطاعت اورا س کے ساتھ تعلق کے حدودوضوابط فکرونظر جنوری ۔مارچ 2009،ادارہ تحقیقات اسلامی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد
2۔ فقہ الاقلیات کا تصوربالکل نیانہیں ہے ۔ماضی کے فقہی ذخیرہ میں نئے پیش آمدہ مسائل ومعاملات سے متعلق فقہی احکام الحوادث والنوازل کے تحت ذکرکیا۔بقول عبدالرحمن مومن بعض فقہاء نے فقہ الضرورۃ اورفقۃ النوازل کی اصطلاحات بھی استعمال کی ہیں۔ اس لیے فقہ الاقلیات کو فقہ النوازل کی ایک نوع قراردیاجاسکتاہے ۔اگرچہ آج فقہ الاقلیات مغربی ممالک میں رہائش پذیریاان سے قریبی ربط رکھنے والے علماء نے یہ اصطلاح وضع کی ہے ان علماء وفقہاء میں ڈاکٹرطٰہٰ جابرعلوانی ،علامہ یوسف القرضاوی سرفہرست ہیں علوانی کا اصرارہے کہ فقہ الاقلیات کو ایک خودمختارفقہ سمجھناچاہیے۔
3۔ اپنے حالات کو صحیح طورپر سمجھ کر دینی ذمہ داریوں کا تعین ہی فقہ الواقع ہے۔اس سلسلہ میں ملاحظہ ہودکتورطٰہٰ جابرعلوانی، مفاھیم محوریۃ حول المنہج والمنہجیۃ دارالسلام، قاہرہ مصر2003) 
4۔ یہاں اسلامی سیاسیات پر لکھنے والوں سے ہماری مرادوہ مصنفین ہیں جن کا نقطہ نظراسلامی ہے۔
5۔ ملاحظہ ہو غطریف شہباز ندوی ،ہندوستان میں مسلم اقلیتوں کے مسائل ،مطالعات شمارہ نمبر16،اقلیات نمبراپریل 2012انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹواسٹڈیز نئی دہلی
6۔ ملاحظہ ہواسلامی معاشرہ کی تشکیل ،صاحب زادہ ساجدالرحمن صدیقی صفحہ217)
7۔ د یوسف القرضاوی ،الدولۃ الاسلامیۃ انٹرنیٹ سے ماخوذ) 
8۔ دیکھیں،اسلامی معاشرہ کی تشکیل ،صاحب زادہ ساجدالرحمن صدیقی صفحہ 221)
9۔ دیکھیں جہادپر ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ پاکستان کی خصوصی اشاعت (مارچ ۱۲۰۲) ۔
10۔ ملاحظہ ہوفکرونظر،اپریل ۔جون 2008شمارہ 4ادارہ تحقیقات اسلامی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد)
11۔ ایضاً۔
12۔ دیکھیں ڈاکٹراسراراحمد، پاکستان میں نظام خلافت ،امکانات خدوخال اوراس کے قیام کاطریقہ کار صفحہ 36)
13۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو،ڈاکٹرعبدالحق انصاری ،سیکولرازم ،جمہوریت اورانتخابات صفحہ 6-7)
14۔ ملاحظہ ہوفکرونظر،اپریل ۔جون 2008شمارہ 4ادارہ تحقیقات اسلامی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد)
15۔ ایضا
16۔ ایضاصفحہ ۳۷
17۔ ملاحظہ ہوکتاب الدین والسیاسۃ ،نیٹ پردستیاب ہے ،خاص طورپر باب الاقلیات الاسلامیۃ والسیاسۃ۔
18۔ ملاحظہ عبدالحمیداحمدابوسلیمان ،اسلام اوربین الاقوامی تعلقات منظراورپس منظر ،ترجمہ عبدالحی فلاحی قاضی پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرزنئی دہلی 13،صفحہ 42)
19۔ اسلام کا قانون بین الاقوام(خطبات بھاولپور 2)،ڈاکٹرمحموداحمدغازی ،دعوہ اکیڈمی اسلام آباد-13باب مسلم اقلیت جدید لادین ریاستوں میں۔ خاص کر صفحات509,510,511,512اور513ملاحظہ ہو۔
20۔ ایضا
21۔ ایضا
22۔ ملاحظہ ہونجات اللہ صدیقی ،اسلام ،معاشیات اورادب ،مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی صفحہ419 
23۔ ایضا صفحۃ 420 
24۔ ملاحظہ ہوجہادپران کا مبسوط مقالہ مشمولہ الشریعہ کی جہادپر خصوصی اشاعت (مارچ ۲۰۱۲) ۔
25۔ ملاحظہ ہو عنایت اللہ سبحانی تبدیلی مذہب اوراسلام ،ادارہ احیاء دین بلریاگنج ،جنوری 2002اوروحیدالدین خاں ،شتم رسول کا مسئلہ ،مکتبہ الرسالہ نئی دہلی 
26۔ ملاحظہ ہومولانامحمدمیاں،علماء ہندکا شاندارماضی مکتبہ رشیدیہ کراچی 1986جلدپنچم ،با ب نہم بعنوان ،حصول آزادی کے لیے پروگرام : لائحہ عمل کی تبدیلی 
27۔ ماہنامہ الشریعہ (خصوصی اشاعت برجہاد)مارچ 2012شریعہ اکیڈمی گوجرانوالہ پاکستان ،صفحہ 587
28۔ ملاحظہ ہوپروفیسرعبدالرحمن مومن ،عمرانیات فقہ اسلامی اورمسلم اقلیتیں مطالعات ج4،شمارہ4،اکتوبر تا دسمبر2009انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹواسٹڈیز نئی دہلی
29۔ بحوالہ پروفیسرنجات اللہ صدیقی ،مقاصدشریعت ،مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی صفحہ191۔
30۔ ایضا 191۔
31۔ ایضا 182۔
32۔ ایضا 182۔
33۔ ایضا 182۔
34۔ ایضا صفحہ 186۔
35۔ بحوالہ نجات اللہ صدیقی ،مقاصدشریعت ،صفحہ186
36۔ پروفیسرنجات اللہ صدیقی ،مقاصدشریعت، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی صفحہ 186۔
37۔ ملاحظہ ہوپروفیسرعبدالرحمن مومن ،عمرانیات فقہ اسلامی اورمسلم اقلیتیں مطالعات ج4،شمارہ4،اکتوبر تا دسمبر2009انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹواسٹڈیز نئی دہلی 
38۔ مسلمان اقلیتوں کا مطلوبہ کردار سلطان احمداصلاحی فکروآگہی بھورمؤتکیہ کلاں اعظم گڑھ یوپی طبع دوم (2002ء)ص 44۔
39۔ مسلمان اقلیتوں کا مطلوبہ کردار سلطان احمداصلاحی فکروآگہی بھورمؤتکیہ کلاں اعظم گڑھ یوپی طبع دوم (2002ء) صفحہ 59۔ نظام خلافت کے احیا ء کے سلسلہ میں اس سے مماثل رایوں کا اظہاراسلام کے بین الاقوامی قوانین کے دوبڑے ماہروں ڈاکٹرمحمدحمیداللہؒ اورڈاکٹرمحموداحمدغازی ؒ نے بھی کیاہے ۔(ملاحظہ ہو،غطریف شہبازندوی ،ڈاکٹرمحمدحمیداللہ ،مجددعلوم سیرت ،2003فاؤنڈیشن فاراسلامک اسٹڈیز ،نئی دہلی ،صفحہ77 ،اوراسلام کا قانون بین الاقوام خطبات بہاولپور(2)، ڈاکٹرمحموداحمدغازی ،دعوہ اکیڈمی اسلام آباد،آخری باب ۔
40۔ ملاحظہ ہووہی مصدرصفحہ (61)
41۔ یحیٰ نعمانی ،جہادکیاہے ،صفحہ134-135۔
42۔ ایضا صفحہ 262-268 
43۔ تفصیل ملاحظہ ہو،جہادکیاہے صفحہ ۰۷۲تا۵۷۲،یحیٰ نعمانی ،المعہدالعالی للدراسات الاسلامیہ لکھنؤجولائی 2011۔
44۔ نفس مصدر صفحہ274۔
45۔ نفس مصدرصفحہ 274۔
46۔ نفس مصداورر دیکھیں سلطان احمداصلاحی ،مسلم اقلیتو ں کا کردار، صفخہ 180-181 جزیہ کے بارے میں کلاسیکل موقف اور حالیہ موقف کے بارے میں دیکھیں، عمار خان ناصر، ’’جہاد۔ایک مطالعہ‘‘، ماہنامہ الشریعہ (خصوصی اشاعت برجہاد) مارچ 2012، شریعہ اکیڈمی گوجرانوالہ پاکستان ،صفحہ288 تا 293 ۔
47۔ ملاحظہ ہو،سیدجلال الدین عمری ،غیرمسلموں سے تعلقات اوران کے حقوق ،صفحہ 280،ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی علی گڑھ ستمبر1998
48۔ ٹرینڈاڈجزا ئرغرب الہند میں ایک چھوٹا ساملک ہے اور چند جزائرپر مشتمل ہے ۔وہاں مسلمانوں کا تناسب تقریباً 16.15فیصد ہے۔لیکن اقلیت میں ہونے کے باوجود کچھ عرصہ پہلے ان کو اتنا اثر رسوخ حاصل تھا کہ اس ملک کا صدر ،پارلیمنٹ کا اسپیکر اورعدالت کا چیف جسٹس مسلمان تھے۔یعنی تین بڑے بڑے عہدے ان کے پاس تھے صرف وزیر اعظم عیسائی اکثریت میں سے ہوتا تھا۔اب یہ ہوا کہ بیرون ملک سے کچھ پر جوش مگر کم علم مبلغ وہاں پہنچے اور انہوں نے نادانی میں اس طرح کی تقریریں کیں کہ جنگ بدر میں313مسلمانوں نے بے سرو سامانی میں سارے عرب کے مشرکین کو چیلنج دیاتھااورعظیم الشان فتح حاصل کی تھی۔ لہذا جہاں بھی313مسلمان ہوں ان کا فرض بنتاہے کہ وہ کفر کو چیلنج دیں اوراسلامی نظام قائم کریں۔ان کی پرجوش تقریروں سے متاثر ہوکر کم پڑھے لکھے اور سادہ لوح مگرجوشیلی طبیعت کے مالک کالے مسلمان جوش و خروش سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اسلامی انقلاب لانے کا اعلان کردیا۔ملک میں توڑ پھوڑ مچائی،پارلیمنٹ میں گھس گئے ،غیر مسلموں کی املاک کو آگ لگائی۔ ان کے لیڈروں نے ٹیلی ویژن اورریڈیو اسٹیشن پر قبضہ کر کے وہاں نفاذ اسلام کا اعلان کردیا۔نتیجہ کیا نکلا؟فوج نے زبردست کارروائی کی ،پارلیمنٹ ،ریڈیو اسٹیشن اورٹیلی ویژن کو ان سے چھڑایا ،ہزاروں لوگوں کو گرفتار کر لیا،اسلامی نظام تو کیا قائم ہوتا،مسلمانوں سے تمام کلیدی عہدے اورمراعات چھین لی گئیں۔دعوت و تبلیغ پر پابندی لگی۔غیر مسلموں سے خیر سگالی کے سارے تعلقات ختم،اچھے تاثرات یکایک برے اثرات میں بدل گئے۔یہ بے تدبیری اسی لیے ہوئی کہ وہ غریب مبلغین فقہ الواقع کا ادراک نہ رکھتے تھے۔ان کے جوش جنون نے اسلام کا راستہ مسدود کر کے رکھ دیا جس کو اب تک غیر مسلم دشمن بھی نہ کرسکے تھے۔ ملاحظہ ہواسلام کا قانون بین الاقوام(خطبات بھاولپور 2)،ڈاکٹرمحموداحمدغازی ،دعوہ اکیڈمی اسلام آباد
49۔ عبد الحمید احمد ابو سلیمان، اسلام اور بین الاقوامی تعلقات منظر اور پس منظر، ترجمہ عبدالحی فلاحی قاضی پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرز نئی دہلی ۳۱، صفحہ 282)

سیمینار: ’’ائمہ وخطبا کی مشکلات، مسائل اور ذمہ داریاں‘‘ (۳)

ادارہ

ٰمولانا مفتی محمد طیب 

(مہتمم جامعہ امدادیہ، فیصل آباد)
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم، امابعد! فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم۔ ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم۔
جناب صدرمکرم، علماء کرام اور معززحاضرین !
جس موضوع پہ یہ سیمیناررکھاگیاہے، یہ موضوع انتہائی اہم بھی ہے اور انتہائی مشکل بھی۔مساجد کے متعلق مسائل بھی بہت ہیں اورضروریات بھی بے شمار ہیں۔لیکن اس موضوع پر ہمارا کوئی اجتماعی فورم نہیں ہے کہ اس پرہم اکٹھے ہو کران مسائل کوسوچیں اور غورکریں۔ ضرورت کااحساس ہے لیکن ساتھ مشکلات کودیکھ کرہم پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ ہمارے فیصل آباد میں جمعیت المدارس ہے۔ ایک موقع پر مفتی زین العابدین ؒ کے خلاف حکومت نے کوئی ایکشن لیا تھا، اس کے ردعمل میں یہ بنی اورپھر بنی رہی اورالحمدللہ اس کے کافی فوائد بھی حاصل ہوئے۔ گزشتہ سال مولاناضیاء القاسمیؒ کے مدرسے پر حملہ ہوا اور اس کے ردعمل میں علمااس پلیٹ فارم پرجمع ہوئے ۔اس سے پہلے قادیانیت کے موضوع پرجمع ہوئے اورقادیانیوں کی جوفیصل آباد میں ریشہ دوانیاں تھیں، ان کو پسپا ہوناپڑا۔جمعیت المدارس کے لیے جب علماجمع ہوتے ہیں تو وہاں پر ہمارے پرانے بزرگ ہیں، قاری عبداللہ صاحب عالم بھی ہیں ،قاری بھی ہیں۔وہ ہرنشست میں کہتے ہیں کہ مساجد کے بڑے مسائل ہیں، آپ نے مدارس کے موضوع پر توکمیٹی بنالی، لیکن مساجد کے بھی بہت مسائل ہیں۔ لیکن فیصل آباد کے علما نے اس موضوع پر سوچنے کی ابھی ہمت نہیں کی، کیونکہ مسائل ہی اتنے پیچیدہ ہیں۔ اسی طرح وفاق المدارس کی مجلس عاملہ کاجوآخری اجلاس کراچی میں ہوا، وہاں ایجنڈے میں ایک چیز وفاق المساجد بھی تھی کہ مساجد کا بھی ایک وفاق بنناچاہیے توبات اسی پر آکرختم ہوئی کہ یہ ایسامشکل موضوع ہے کہ اس کو نبھانابہت مشکل ہے۔ زیادہ سے زیاد ہ یہ کیاجاسکتا ہے ائمہ اور خطباکی تربیت کا کوئی نہ کوئی نظام بنادیاجائے۔
واقعتایہ موضوع اہم بھی ہے اور مشکل بھی۔ اس لیے کہ مساجد اسلامی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی مثال رکھتی ہے اورانبیاء کرام نے اپنے کام کی بنیاد مسجد کو بنایاہے اورجس طرح مسجد کی اہمیت ہے، اس سے زیادہ مسجدمیں بیٹھنے والے عالم کی اہمیت ہے۔سب سے پہلی مسجد بیت اللہ کی ہے اور اس کی اہمیت قرآن پاک نے خود بیان کی ہے اور اللہ نے اس کی تعمیر انبیاکرام سے کرائی اوراس کی شان یہ بتائی کہ ھدی للعالمین ہے ۔لیکن اس مسجد کی تعمیر کے بعد ابراہیم ؑ کوجس چیز کی ضرورت محسوس ہوئی، وہ یہ ہے کہ اس مسجد کو آباد کرنے کے لیے رسول ہوناچاہیے ،کتاب ہونی چاہیے،مدرسہ ہوناچاہیے اوریہ بیت اللہ کی جوعالمی حیثیت ہے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تک نمایاں نہیں ہوئی۔مکہ معظمہ شرک کامرکز تھا۔ رسول اللہ کی بعثت اورآپ کی اکیس سالہ جدوجہد کے بعد پھرمکہ فتح ہوااورمکہ کی وہ حیثیت (ھدی للعالمین) جوقرآن پاک نے بیان فرمائی و ہ بحال ہوئی اورقیامت تک بحال رہے گی۔تومسجد جہاں اہم ہے، وہاں مسجد کا ٖخطیب اورمسجد کا امام بھی بہت زیادہ اہم ہے۔ 
آج مسجدوں کے جومسائل ہیں، ان میں ایک مسئلہ تویہ ہے کہ اس وقت زیادہ مدارس علمادیوبند کے ہیں اورپھر طلبا کی تعدادبھی علمادیوبند کی زیادہ ہے تواس کا اثریہ ہوناچاہیے کہ ان کی مساجد بھی زیادہ ہوں، لیکن مساجد ان کی زیادہ کیوں نہیں ہیں؟ اس کی وجہ کیاہے؟ فیصل آباد میں ایک مرتبہ علما بیٹھے تھے تواس پر غورہوناشروع ہوا۔فرمانے لگے کہ جونئی کالونیاں بنتی ہیں توشروع میں ایک دومکان بنتے ہیں اوروہ ایک دومکینوں کی بات نہیں ہوتی کہ وہ مسجد کو آباد کرسکیں اور دیوبندی عالم یہ چاہتاہے کہ مجھے مسجد بھی ملے اورمکان بھی ملے، تب آکرمیں کام شروع کروں گا۔ ہمارے ملک کے کچھ ایسے لوگ بھی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ مسجد کا پلاٹ چاہیے اور لاؤڈ سپیکر چاہیے اور اس کے بعد سارا کچھ خود بخود ہو جائے گاتواس مجاہدے کے لیے اہل حق تیارنہیں ہیں اور جو لوگ تیارہیں، وہ ان حالات میں آکرپلاٹ پر قبضہ کرلیتے ہیں اور ان کا کام چل جاتاہے۔ اس لیے ان کی مساجد زیادہ ہیں ہماری نہیں ہیں۔ایک وجہ تویہ ہے۔
دوسرایہ ہے کہ دیہاتوں میں کام بہت کم ہے۔ دیہاتوں میں جومساجد ہیں، ان کا حال بہت خراب ہے۔ مساجد موجود ہیں، لیکن دیہات کے لوگوں کو کلمہ ٹھیک نہیں آتا، قرآن پاک صحیح نہیں آتا۔دیہات میں جیسے دنیاوی اعتبار سے جہالت ہے، وہاں دینی اعتبار سے بھی جہالت ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم مدارس میں شہری زندگی میں رہ کر پڑھتے ہیں اور لوٹ کر دوبارہ دیہات کی زندگی میں جانا نہیں چاہتے۔علماتوہمارے کافی فارغ ہورہے ہیں، لیکن دیہات میں نہیں جاتے۔ اس کی وجہ سے آج بھی دیہات میں شرک ہے، بدعات ہیں، رسومات ہیں۔ وہ سب اس وجہ سے ہیں کہ ہم دیہات میں پہنچتے نہیں ہیں۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ شہری زندگی میں ہم مساجدمیں بیٹھے ہیں، لیکن مساجد میں بیٹھ کر لوگوں کو ہم دین نہیں سکھارہے۔لوگوں کو قرآن شریف پڑھانا، فقہی مسائل سمجھانا، دین کے سارے معاملات سمجھانا، پورے طورپردین کے موضوع پر ہماری مساجدجو میں محنت ہونی چاہیے، وہ ہماری مساجد میں نہیں ہے۔باقی ہمارے بھی مسائل ہیں۔ تنخواہ کم ہے،ملتاکم ہے، گزارا نہیں ہوتا۔اس کا حل توہمارے اختیارمیں نہیں ہے، لیکن دین کا کام کرنا، دین کی محنت کرنا، جس مسجد میں ایک عالم بیٹھ جائے، اس کا گھر گھر قرآ ن وسنت کی روشنی پہنچانا، یہ سب کچھ اگر ایک عالم صحیح معنی میں ارادہ کر لے تووہ کام کرسکتاہے۔ لیکن ہمارا کام جمعہ کے خطبہ اورپانچ وقت کی نمازتک محدودہوتاہے۔ ہمارے اکابر نے قرآن پا ک کادرس دیاہے، لیکن آج بیشتر مساجدمیں درس قرآن نہیں ہورہا۔آپ مشکوٰۃ شریف لے کر، ریاض الصالحین لے کر حدیث کادرس دیناشروع کریں تولوگوں کو بہت سی دین کی معلومات حاصل ہوسکتی ہیں۔ لیکن اگر مساجد کاسروے کریں توپتہ چلتاہے کہ بہت سی مساجد ہیں کہ جن میں درس حدیث کاکام نہیں ہورہا۔ آپ فقہی مسائل کی کلاس لگاسکتے ہیں، لیکن فقہی مسائل لوگوں کو بتائے نہیں جا رہے۔ مساجد میں درس قرآن پاک ،درس حدیث ،فقہی مسائل ،ناظرہ قرآن پاک، یہ وہ بنیادی کام ہیں جو آج ہماری شہری مساجد میں جہاں پر ہم موجود ہیں، نہیں ہورہے۔
ایک کمی یہ ہے کہ بعض موضوعات کو ہم دوسرے فرقوں کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ مثلاً اہل بیت ہیں، حضرت حسینؓ ہیں کہ ان کے متعلق گفتگو یا تو شیعہ کریں گے یابریلوی کریں گے ۔ہمارے موضوعات میں یہ شامل نہیں ہے۔ ہمارے بزرگان دین میں بعض ایسے ہیں کہ ان کاکردار بہت اونچاہے۔ مثلاً عبدالقادرجیلانی ؒ ،خواجہ معین الدین اجمیری ؒ ہیں اوریہ بڑے بڑے اکابر ہیں توان کے ایام ولادت یاایام وفات آتے ہیں توباقاعدہ پورے ہفتے منائے جاتے ہیں اور اس موضوع پر کلام کیاجاتاہے، لیکن ہم ان موضوعات کوچھوڑ دیتے ہیں تونتیجہ یہ نکلتاہے کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ علماء دیوبند ابل بیت کا نام بھی نہیں لیتے اور اولیاء اللہ کا نام بھی نہیں لیتے۔مجھے یہاں آکر باتیں سن کر بہت فائدہ ہوا اورمیں بیٹھے یہ تمناکررہاتھاکہ کاش میں صبح کی نشست میں بھی موجود ہوتا، آپ نے بھی استفادہ کیاہے مجھے بھی فائدہ حاصل ہو جاتا۔
مولانا فرمارہے تھے کہ حالات حاضرہ کے متعلق بات کرنی چاہیے۔ حالات حاضرہ کے متعلق بات کرنے کے لیے ایک تو میڈیا کے ساتھ تعلق رکھنے کی ضرورت ہے،دوسرا اگر خطبات دیکھیں تواپنے قریب کے ان بزرگوں کے جن کے ہاتھ امت کی نبض پر ہیں۔اس سے ہمارے خطبات میں جان پیداہوسکتی ہے ۔ہمارے موجودہ دور کے بزرگوں میں ایک بڑانام ہے مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم کا، ان کے خطبات ہیں اورہمارے بزرگ مولانازا ہدالراشدی صاحب کے بھی خطبات ہیں۔ ہمارے ماضی قریب کے بزرگوں میں مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ اورمولانا قاری محمد طیب صاحب، یہ وہ بزرگ تھے کہ جومعاشرے سے بے خبر نہیں تھے،امت کی نبض پر ان کے ہاتھ تھے۔ ان کی کتابوں سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرناچاہیے۔
میری آخری گزارش یہ ہے کہ آپ نے ایک بہت اہم اور مشکل موضوع کوچھیڑا ہے۔میری تمناہے کہ گوجرانوالہ اس موضوع پر امامت کا کردار اداکرے،اس موضوع کو آگے بڑھائے اور اس موضوع پر اکٹھے ہونے کی روایت ڈالے۔اس کا طریقہ یہ ہوسکتاہے کہ جوبڑے بڑے ادارے ہیں، وہ پروگرام کی میزبا نی کو بانٹ لیں کہ اس مہینے فلاں ادارے میں پروگرام ہوگا، دومہینے بعد دوسرے میں،پھر تیسرے میں۔ اس طرح علما بھی اکٹھے ہوں گے اورموضوع بھی آگے بڑھے گا۔ رفتہ رفتہ صورتحال بھی نکھر جائے گی اورلائحہ عمل بھی سامنے آجائے گا۔ یہ چند بکھری باتیں تھیں جومیں نے آپ حضرات کے سامنے پیش کی ہیں۔ 
اس کے علاوہ حضرت فرمارہے تھے کہ تجربات بھی بیان کرنے ہیں توتجربات حضرت کے زیادہ ہیں، ان کی زندگی بھی زیادہ مسجد میں گزری ہے۔حضرت امام اہل سنت کی تو ساری زندگی مسجدمیں گزری ہے اور وہ ہمارے لیے ایک نمونہ بھی ہے کہ شیخ الحدیث کی مسند پر بیٹھے اورمسجد کی خدمت بھی کرے ،امامت بھی کرے، یہ دونوں باتیں جمع ہوجانا بڑی بات ہے۔میں اپنا تھوڑا سا تجربہ بیان کر دیتا ہوں ۔کراچی میں ۸۲ء میں، میں نے تخصص کیا تھامفتی رشید صاحب ؒ کے پاس۔اس سے پہلے بنوری ٹاؤن میں دورہ کیاتھا۔ ایک دن میں دوپہر کوبنوری ٹاؤن آیا توحضرت مفتی ولی حسن صاحب نے فرمایا کہ کچھ لوگ بیٹھے ہیں، یہ لیاری کے علاقے کے ہیں ،آگرہ تاج کالونی کی جامع مسجد ہے تو یہ اس کے لیے خطیب چاہتے ہیں۔ آپ وہاں چلے جائیں ۔یہ وہ مسجد تھی جہاں سیدعبدالمجید ندیم صاحب نے خطابت کاآغاز کیاتھا اوراس کے بعد بھی اسی معیار کے خطیب وہاں رہ چکے تھے اورمجھے اب بھی خطابت نہیں آتی۔میں چلا گیا۔ شروع میں تو بڑی تنگی پیش آئی کہ وہ جس انداز کی خطابت تھی، وہ مجھے آتی نہیں تھی بلکہ ایک صاحب (مجھ سے پہلے جمعیت اشاعۃ التوحید والسنۃ کے ایک خطیب وہاں رہ چکے تھے) مجھے کہنے لگے کہ یہاں توحید بیان ہواکرے ۔میں نے کہا کہ ٹھیک ہے، میں بیان کروں گا۔
میں نے درس قرآن شروع کیا اوراز خود لوگوں کو ناظرہ قرآن پاک پڑھانا شروع کیا،کسی اور کے ذمے نہیں لگایا اورپھر ناظرہ قرآن والوں میں سے ایک جماعت نکالی جن کو بہشتی زیورپڑھانا شرو ع کیا۔ تقریباً چرپانچ مہینے میں وہاں رہا، اس کے بعد میرا تخصص ختم ہوگیا اورمیں فیصل آباد واپس آگیا اورماضی قریب تک وہ لوگ یہ ہی کہتے رہے کہ آپ جب بھی کراچی آئیں تو یہ مسجد حاضر ہے۔ جب میں وہاں گیاتھا، وہاں پر فقہ کے مسائل اوردوسرے مسائل بہت محنت سے سکھائے اوراس کی وجہ سے بڑی تبدیلی آئی۔اس علاقے میں جماعت اسلامی بہت مضبوط تھی۔ انہوں نے میری مخالفت شروع کردی۔ ایک آدمی نے پوچھا کہ کیوں مخالفت کرتے ہو؟ ان کا قصور کیاہے؟ کہنے لگے کہ انہوں نے ہمارے انداز سے کام کرنا شروع کردیاہے، اورکوئی بات نہیں ہے تومیں آپ کو یہ ہی پیغام دینا چاہتاہوں کہ آپ جس مسجد میں بیٹھے ہیں، وہاں کے لوگوں کواپنا ہم خیال بنائیں، ان کو اپنا شاگرد بنائیں ۔دیہاتوں کی طرف رخ کرنے کی بہت ضرورت ہے، ادھر بہت کمی ہے ۔ اللہ تعالی میری اور آپ کی حاضری کو قبول ومنظور فرمائے۔واخردعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

مولاناعبدالخبیر آزاد

(امام وخطیب بادشاہی مسجد، لاہور)
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم۔
بہت ہی خوبصورت عنوان پر آج کی اس نشست کا الشریعہ اکیڈمی کی طرف سے انعقاد کیاگیا ہے۔ اس کے انعقادپر میں حضرت شیخ الحدیث کامشکور ہوں کہ یہ پروگرام آج کی ضرورت ہے بلکہ جیسا کہ مولانا فاروقی صاحب کہہ رہے تھے کہ ایک بڑے میدان میں اس پروگرام کوہونا چاہیے اور ان شاء اللہ ہم راشدی صاحب کی سرپرستی میں پنجاب کی سطح پر اورپورے پاکستان کی سطح پر اس عنوان پرپروگرام کروائیں گے۔
یقیناامام کے بہت سے مسائل ہیں۔ یقیناًآج چھوٹی جگہ کے امام کو بھی مسائل درپیش ہیں اوربڑی جگہ کا امام ہے تو مسئلہ اس کو بھی درپیش ہے، مگر بات وہی آجاتی ہے جوحضرت استاذالحدیث نے فرمائی ہے کہ امام کو طاقتور بننا ہے، امام کو مضبوط بنناہے۔ آج کل معاشرے کے اندر سب سے زیادہ بگاڑ پیداکرنے والی وہاں کی کمیٹی ہے اورآپ کو یہ بات بتاکرمیں خوشی محسوس کروں گا کہ بادشاہی مسجد لاہور میں آج تک ہم نے کوئی کمیٹی بنانے نہیں دی ہے۔ چاہے وہ اوقاف کی مسجد ہے، لیکن ہم نے آج تک وہاں نہ توکوئی کمیٹی بننے دی ہے اور نہ ہی ضرورت محسوس کی ہے۔ باقی اوقاف کی مساجد میں کمیٹیاں ہوتی ہیں۔ ہمارے والد صاحب حضرت مولانا عبد القادر آزاد صاحب ؒ بھی کمیٹی نہ بنانے کے حق میں تھے۔جومسائل امام کے لیے پیداکیے جاتے ہیں، وہ سب سے زیادہ مسجد کی کمیٹی پیداکرتی ہے۔
امام معاشرے میں عزت وقدرکانام ہے۔ وہی لوگ جو امام سے قرآن وحدیث سنتے ہیں،وہ اس کے پیروکار ہوتے ہیں۔ میں یہ سمجھتاہوں کہ امام کو مضبوط ہونے کی ضرورت ہے۔ امام کی کیا حیثیت ہے؟ کیا مقام ہے، کیا بلندی ہے؟ اور اس کو کس منصب پر فائز کیا گیا ہے؟ مگر آج معاشرے نے اس امام کو بگاڑ کررکھ دیاہے اورمعاشرے نے اس کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک دیہات کاامام ہے ،اس کو سال میں چالیس بوریاں گندم کی اور بیس بوریاں چاول کی دینی ہیں۔ اب اسی کو اکٹھا کرنے کے لیے لگادیا اوراس کے لیے اتنا بڑامسئلہ پیداکردیا کہ یہ مانگتارہے گا توگھر چلے گا اورپھر امام کو اس چیز پر لگادیاکہ روٹی گھر سے آئے گی تو یہ کھائے گا اورجب کھائے گا توہم اس پر حکمرانی بھی کرسکتے ہیں تویہ بہت سی چیزیں ہیں جواکٹھی ہوجاتی ہیں۔
اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ چاہے وہ مسجد پرائیویٹ ہو، چاہے گورنمنٹ کی ہو، ہم مضبوطی کے ساتھ، طاقت کے ساتھ اوراپنے اس بل بوتے پر کہ ہم نے جو علم سیکھاہے، اس علم کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے فرائض منصبی انجام دیں۔ ہمارے جو پہلے علما تھے، انہوں نے محنت کی اوراتنی محنت کی کہ وہاں پر کوئی بات کرنے والا نہیں تھا۔ سچی بات ہے کہ ابتدا میں ہمارے علمانے جتنی محنتیں کیں، آج وہ ہم نہیں کررہے۔ہم کوشش کرتے ہیں کہ کچھ نمازیں پڑھائیں، کچھ نہ پڑھائیں۔ چلے گئے، اپنے دوسرے کاموں کاپوراکیااور ان چیزوں کوایک طرف رکھ دیا۔ آج لوگ کیوں اس طرح کے نہیں بن رہے ہیں جیسا کہ ہمارے اسلاف یا ہمارے بزرگان دین جب کوئی بات کرتے تھے تو وہ بات لوگوں کے دلوں پراثرکرتی تھی اور لوگ جوق درجوق مسجدوں میں آتے تھے۔ مسجدیںآبادہوتی تھیں، مگرآج مسجدیں خالی ہوتی جارہی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جوامام نے کام کرناتھا، وہ بھی اس میں بخل کررہا ہے۔
میں ہندوستان گیا۔ وہاں گول مسجد دہلی کے خطیب مولانا الیاس صاحب نے ایک تنظیم بنائی ہے، تنظیم ائمہ مساجد۔ وہ اسی لیے بنائی ہے کہ ائمہ کرام کے مسائل پر غورکیاجائے اورجہاں پرکوئی مسئلہ ہو، اس کو حل کیاجائے۔ میں تووہاں سے یہ سوچ کرآیاتھا کہ جس طرح ہم دوسرے امورپرکام کررہے ہیں، ہمیں اس موضوع پر بھی کام کرناچاہیے۔ جب سے درسوں کا سلسلہ ختم ہواہے، لوگ بھی دور ہوناشروع ہوگئے ہیں، دور بھی ایسے ہوئے ہیں کہ مساجد میں آنا تک بند کردیا ہے۔ امام کے ساتھ جوتعلق تھا، و ہ نماز پڑھنے تک رہ گیاہے۔ درس دینے کاسلسلہ اورذہن سازی کاسلسلہ ختم ہو گیا ہے۔ اب محفل قراء ت یامحفل نعت کا سلسلہ رہ گیا۔پہلے جلسے ہوتے تھے تو حضرت امیر شریعت بات کررہے ہیں، باقی علما بات کررہے ہیں،ان کی بات دلوں پر اثر کرتی تھی۔ اس طرح ذہن سازی ہوتی تھی، اسی طرح ہمارے علما نے کام کیا۔ آج ہر امام کو چاہیے کہ وہ اس ضرورت کو محسوس کرے اوریقیناًجب وہ اس طرح کے کام اپنی مسجد میں کرے گا تو لوگ بھی بنیں گے۔ اسی طرح عقائد بھی سمجھائے جاسکتے ہیں ۔اگر کمیٹیاں محفل میں بیٹھیں گی تو ان پربھی اثر ہوگا۔ جب ان کے عقائد درست ہوں گے تووہ امام کے پیچھے ہوں گے اورامام ان کے آگے ہوگا۔ جس طرح عیسائیوں میں فادرکو رہبر ورہنما سمجھا جاتا ہے، سکھوں میں گرو کو رہبر ورہنما سمجھا جاتا ہے، ہندوؤں میں پنڈت کو رہبر ورہنما سمجھا جاتا ہے، اسی طرح امام کودین اسلام نے اور حضرت محمدرسول اللہ کی امت میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ امام کو بھی اپنے کام پورے کرنے چاہییں۔
امام کے ہوتے ہوئے ان کمیٹیوں کی بھی کیاضرورت ہے؟ ان کو ختم کرناچاہیے اورامام کو خود آگے بڑھنا چاہیے۔ نمازیں امام نے پڑھانی ہیں، خطیب امام ہے، سب کچھ امام نے کرناہے جبکہ کمیٹی کا چیئرمین کوئی چوہدری ہوتاہے، کوئی جٹ ہوتا ہے، کوئی ارائیں ہوتاہے۔ وہ کمیٹی کا صدر بننے کے لیے تیارہوجاتے ہیں، پھر وہ طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ اس کی بجائے یوں ہونا چاہیے کہ ڈویژنل سطح پرجوکمیٹیاں ہیں، ان کے چیئرمین بھی امام ہوں۔یہ اتناآسان کام تو نہیں ہے، لیکن جب امام خودچیئرمین ہوگاتومسائل سارے اسی کے پاس آئیں گے۔ 
پھر ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارے اپنے ہی لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ دست وگریباں ہو جاتے ہیں۔ ہمیں جوبھی مسئلہ پیش آتاہے، وہ اپنوں کی وجہ سے آتا ہے ۔آج ان سب مسائل کوبھی درست کرناہے۔ جیسے حضرت نے فرمایا کہ ملک ٹوٹ گئے،وہ اسی وجہ سے ٹوٹے کہ اتحاد باقی نہیں رہ سکا کہ لوگ اپنی پلاننگ میں کامیاب ہوتے۔ آج بھی یہ ہے کہ ہم اپنی جنگ مسلک کے ساتھ لڑ رہے ہیں اورہمارے ہی لوگوں کو تیارکیا جا رہا ہے۔ ہمارے مسائل اپنے مفادات تک ہیں، مسلک کی مسلک جانے۔ جن کی وجہ سے ہمیں عزت ملی ہے، اگر ہم نے اس کی پہرہ داری نہیں کرنی توپھر میرے اور آپ کے اس مسلک پرکھڑے ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔الحمد للہ اپنے والد صاحب کی دعاؤں سے اور ان حضرات کی سرپرستی سے میرے پاس کوئی بھی آدمی مسئلہ لے کرآجائے کہ ہمارا یہ مسئلہ ہے، آپ حل کروائیں تومیں الحمدللہ اس کے ساتھ ڈی آئی جی کے پاس جاتاہوں۔ کمشنر کے پاس جاتاہوں۔ اگرلا ہور کانہیں تومیں فون پر بات کرتا ہوں اورپھر اس مسئلے کوہم ختم کراتے ہیں۔ کتنی ہی مساجد ہیں جن کے مسائل ہیں۔ ہم نے اس کو اسی لیول پر ختم کیا اورآج وہاں پر اسی طرح نظام اور سلسلے چل رہے ہیں۔
بائیس مسجدوں کے مسائل آئے۔ حضرت مولانا فاروقی صاحب اورحضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب جانتے ہیں۔ وہ بھی اسی مجلس میں شامل تھے۔ حکومت پنجاب کی طرف سے کہاگیاکہ یہ بائیس مساجد مزارات کے ساتھ منسلک ہیں۔چونکہ مزارات بریلویوں کے ہیں، لہٰذا یہ مساجد بریلویوں کودے دی جائیں۔ اس کے بارے میں نوٹیفیکیشن جاری ہوگیاتھا۔ میں حج سے واپس آیا تو اس مسئلے کو دیکھا۔ ایک ایک عالم کے پاس میں گیااورکچھ سے فون پر بات کی اوریہ تحریک چلائی کہ ہم ایک مسجد بھی ان کے پاس نہیں جانے دیں گے اور اللہ کا فضل ہے کہ اللہ نے اس میں اپنی غیبی مدد کے ساتھ کامیابی عطا کی۔ میاں صاحب خود کہنے لگے کہ جو آرڈر میں نے دے دیے، وہ ٹھیک ہیں۔ باقیوں پر پھر بات کرلیں گے۔ مولاناقاری حنیف جالندھری صاحب نے کہا کہ باقیوں پرنہیں، اسی پربات ہوگی۔ اس مسئلے کو لے کر میں چلا اور تقریباً پورے پنجاب کے علماء کرام کو لا کر میاں صاحب کے سامنے بٹھا دیااوران کو قائل کیاکہ یہ مسئلہ جوآپ کو بتایا گیا ہے، وہ غلط ہے۔ محکمہ اوقاف بننے سے پہلے اورقیام پاکستان کے بعدسے یہ مساجد علمادیوبندکے پاس ہیں اور یہ مزارات بھی دس پندرہ سال پہلے کے بزرگوں کے نہیں ہیں بلکہ سوڈیڑھ سوسال پہلے فوت ہونے والے بزرگوں کے ہیں اوراس وقت تو یہ مسلکوں کی بات بھی نہیں تھی، لہٰذا جس مسلک کے بھی علماء کرام آتے رہے، ان کے ساتھ یہ مزارات بھی منسلک رہے۔ پھر ہم نے وہ لسٹ بھی ان کو دی۔
ایسے ایسے مسائل ہیں جو ہم کو وہاں بیٹھ کر حل کرنے پڑتے ہیں۔ اس کی وجہ سے مصائب بھی آتے ہیں کہ یہ لوگ ہرکام میں شامل ہونے کی کوشش کرتے ہیں، اس کا کوئی حل کیا جائے۔جب حل نظر نہیں آتا توکوشش کرتے ہیں کہ ان میں سے دوچار آدمی لے لیے جائیں جومفاد پرست ہوں، ان کو لے کر ان کو پیچھے کردیاجائے،مگر ہوناوہی ہوتاہے جو حکم ربی ہے، جوفیصلہ اللہ کی طرف سے ہے۔ میں نے یہ مشاہدہ کیاہے کہ جو فیصلہ رب کر چکا ہے، اس کے فیصلے میں کوئی کسی قسم کی دخل اندازی نہیں کرسکتا۔ یہ نہیں کہ آپ کمیٹیوں کو جاکر فارغ کردیں یا ان کا سر پھاڑ دیں بلکہ آپ حکمت عملی کے ساتھ، ہمت کے ساتھ ماحول بنائیں، ان شاء اللہ اس ماحول کی وجہ سے ایک وقت آئے گا کہ لوگ آپ کے ماتحت ہو جائیں گے۔
لاہورمیں بادامی باغ کی مسجد کا مسئلہ آیا۔ وہاں ہرروز لڑائی ہوتی تھی۔ ایک گھر تھاجودوسرے مسلک کا تھا، وہ تنگ کر رہا تھا، لڑائی کی طرف بات جارہی تھی۔میں نے ان سے کہاکہ لڑائی نہیں کرنی۔ ایک دن وہ وہاں جلوس لے آئے۔ ہمارے بھی سینکڑوں بندے وہاں جمع ہوگئے۔ دوتین مرتبہ انہوں نے وہاں پرجلوس بٹھائے۔ ،تبلیغی جماعت کی مسجد تھی اور ہم سے وابستہ تھی،ان کے امیر اس بات کوبرداشت نہ کرسکے۔ ان کو ادھر ہی ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ ادھر ہی فوت ہوگئے۔ اب پرچہ اس آدمی پر بھی ہوا اورآنے والوں سب پرہوا۔ وہ دیوار بھی بنی اورمسجد بھی بن رہی ہے۔ ہمارے ایک ساتھی کی قربانی توہوگئی، مگر الحمد للہ وہ ناکام اوربرباد ہوئے، کامیابی اللہ نے ہمیں دی۔ آپ جانتے ہیں کہ ایک دفعہ پہلے والد صاحب بادشاہی مسجد لاہور میں القاری الکبیر حضرت باسط صاحب کو لائے۔ بادشاہی مسجد میں ایک جم غفیر تھا۔ لوگ حیران تھے کہ اتنا ہجوم ہے توبعض لوگوں نے کچھ کو شرارت کے لیے بھیجا۔ شرارت ہوئی، پھر مقدمات کاسلسلہ، پھر تحریک، تحریک میں یہ سب حضرات موجود تھے۔ آپ میں سے بھی کچھ گئے ہوں گے جنہوں نے ماریں کھائیں۔ اللہ نے ہمیں وہاں پر بھی فتح نصیب فرمائی۔ 
اللہ کاشکر ہے کہ آج پوری دنیا میں مسلک دیوبند کی ترجمانی کر رہے ہیں اور دنیا کا کوئی کونا ایسا نہیں ہے جہاں پر مسلک دیوبند کا فرزند کام نہ کررہاہو اورہرجگہ ائمہ اور خطباکام کرہے ہیں۔ تھوڑی اپنی ناچاقیاں ہیں، ان کوختم کردیں اورنچلی سطح پرہمیں ضرورت ہے کہ ان کوختم کردیں۔ صحابہ کرام کے دلوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی تعلیم تھی جس کی وجہ سے وہ آپس میں پیار اورمحبت سے رہتے تھے، اس لیے اللہ نے قرآن پاک میں رحماء بینہم کہا کہ آپس میں پیار محبت سے رہتے ہیں۔ جب محبت کے ساتھ قافلے چلتے ہیں تو اللہ کی طرف سے فتح ونصرت کے باب کھلتے ہیں۔ میرااورآپ کا وقار اس سے وابستہ ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعاہے کہ ہم معاشرے میں ایک ایسا امام پیدا کریں کہ وہ اس معاشرے کے مسائل درست کرسکے اوراسی کی آج معاشرے کو ضرورت ہے۔ یہ سب کچھ مدارس سکھا رہے ہیں، استاداوراکابر سکھا رہے ہیں۔ جب ان کو مان کرچلیں گے توعزتیں بھی ہیں، رفعتیں بھی ہیں، وقار اور بلندیاں بھی ہیں اورحق کا بول بالابھی ہوگا۔
ابھی چند دن پہلے جرمنی کے شہر میونخ میں ایک کانفرنس ہوئی جس میں اسی (۸۰) ممالک سے لوگ آئے۔ وہاں پر جب میرا نام لیا گیا کہ سید عبدالخبیرآزاد امام بادشاہی مسجد لاہور آپ سے خطاب کریں گے تومیں نے وہاں پر وہ سارے مسائل بیان کیے جودنیا کے لیے چیلنج ہیں۔میں نے کہاکہ آپ لوگ کہتے ہیں کہ دہشت گرد پیداہوگئے ہیں، کبھی آپ نے سوچاکہ اس کے اسباب کیاہیں؟ آپ لوگ دوسرے ملکو ں پر قبضے کرکے اوروہاں کے لوگوں کو تہس نہس کرکے،حملے کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ آپ وہاں پرامن قائم کررہے ہیں تویہ غلط ہے۔ اگرآپ چاہتے ہیں کہ دنیامیں امن قائم ہو تو جنگوں کے ساتھ نہیں بلکہ ڈائیلاگ کے ساتھ ان مسائل کاحل نکالنا ہوگا۔ ہم پھر ہی دنیا میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ اسلام امن پسند اورمحبت کوپھیلانے والا مذہب ہے اورآج ہمیں اپنے دین کے مطابق اپنے اپنے دین میں رہتے ہوئے اپناکام کرناہے۔ اور بھی بہت کچھ بیان کیا تو یقین جانیں، تقریباً پندرہ منٹ تک لوگ تالیاں بجاتے رہے۔ تقریباً ہرمذہب کے لوگ وہاں موجود تھے۔ 
ہمارے والد کوامام السلاطین کالقب ملا۔ آپ دیکھیں کہ جب اللہ قدرومنزلت بڑھانے پرآتاہے توبادشاہوں کا بھی امام بنادیتاہے۔ کراچی میں تمام بادشاہ پیچھے کھڑے تھے، وہ آگے کھڑے تھے۔ ایک جوڑااسی کو دیکھ رہاتھا تواس نے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ شکل وصورت اچھی ہے۔ وہ یہ سمجھے کہ شاید کوئی بادشاہ ہے تو پتہ چلاکہ نہیں، یہ ایک فقیر درویش ہے جو ان کی امامت کرا رہاہے۔ وہ جوڑاغیرمسلم تھا۔ ادھر ہی اس نے کلمہ پڑھا اوراسلام قبول کرلیاتوجب قدرومنزلت بڑھتی ہے تودنیا کے اندر ڈنکا بجتاہے۔ آج الحمدللہ علماء دیوبند ڈنکا بجارہے ہیں اوران شاء اللہ قیامت تک بجاتے رہیں گے۔ اللہ تبارک وتعالی مجھے آپ کو عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔
میں ایک دفعہ پھر مولانا زاہدالراشدی صاحب کا اوران کے صاحبزادہ صاحب کا شکریہ اداکرتاہوں کہ انہوں نے اتنے خوبصورت موضوع پر یہ نشست منعقد کی۔ ہمیں کام کرنا ہے، بلکہ ہم علما کی مشاورت کے ساتھ اس کام کو آگے بڑھائیں گے بلکہ ہرسطح پر، ہرڈویژن پر ایسی کمیٹیاں بنائی جائیں گی جوامام کی قدرومنزلت کواجاگر کریں گی۔ ہمیں چاہیے کہ جوکوتاہیاں ہیں، ہم ان کو ختم کریں۔ جب ہم متحد ہوجائیں گے تویہ سب لوگ ہمارے سامنے کچھ بھی نہیں ہیں۔ یہ بہت کمزورلوگ ہیں۔ اللہ ہمیں عمل کی توفیق عطافرمائے۔ واٰخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

مولانا زاہدالراشدی

(ڈائریکٹر الشریعہ اکادمی، گوجرانوالہ)
سب سے پہلے تومیں مفتی صاحب کا شکریہ اداکرتاہوں کہ انہوں نے اپنے تاثرات ،مشاہدات اور تجربات سے مستفید فرمایا۔دوتین باتوں کے ساتھ میں بھی اس میں شرکت کرناچاہوں گا ۔تجربات توبہت ہیں، لیکن مشاہدات کی بات کروں گا۔
آج کل ہمارا بڑا مسئلہ ایک یہ ہے جودن بدن بڑھتا جارہاہے،خطبا کے لیے بطور خاص، کہ لوگ بالکل خطبہ کے وقت آتے ہیں،خطبہ سنتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں اورچلے جاتے ہیں۔ہماری گفتگو سے سامعین کو زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی۔ اکثر مساجد میں یہی ہوتاہے۔ اس کی ایک وجہ میں عرض کرتاہوں۔آج سے دس پندرہ سال پہلے جنگ اخبار برطانیہ میں ایک نوجوان کا مراسلہ شائع ہوا ۔ اس نے لکھاکہ اب ہم نے یہاں مساجد میں جانا کم کردیاہے،کیوں کہ اس کی تین وجوہات ہیں۔ ایک وجہ تویہ کہ خطیب صاحب جس موضوع پر گفتگوکررہے ہوتے ہیں، وہ ہماری دلچسپی کے موضوع نہیں ہیں۔ ہماری ضرورت کے مسائل اورہیں۔ حلال وحرام کے مسائل ،معاشرت، نکاح ،طلاق کے مسائل ہیں اوروہ کسی اور موضوع پر گفتگو کر رہے ہوتے ہیں، اس لیے جو وہ کہہ رہے ہیں ان سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔دوسری وجہ یہ ہے کہ جس زبان میں و ہ بات کررہے ہوتے ہیں، وہ ہمیں سمجھ نہیں آتی۔ان کی زبان اورہے اورہماری زبان اور ہے۔ یہ ادھر کامسئلہ ہے کہ نئی نسل زبان کو نہیں جانتی۔ اور تیسری وجہ یہ ہے کہ ہم تو مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے جاتے ہیں اور تقریباً ہر نماز کے بعد کوئی صاحب اٹھتے ہیں اور اپیل کرنے لگتے ہیں یادامن پھیلادیتے ہیں توہم چندہ دینے تونہیں جاتے، مسجد میں نماز پڑھنے جاتے ہیں۔ ہرنماز کے بعد تو ہم چندہ نہیں دے سکتے ۔یہ تین وجوہا ت اس نے اپنے مراسلہ میں لکھی تھیں۔
ایک اور مشاہدہ عرض کرتاہوں۔ برمنگھم میں ختم نبوت کانفرنس ہوتی ہے۔ وہاں گرمیوں میں صبح نوبجے سے لے کر شام آٹھ بجے تک وقت ہوتاہے۔ایک مرتبہ وہاں کانفرنس ہوئی۔ میں نے بھی وہاں تقریباً بیس ،پچیس منٹ بات کی۔ ہمارے پنجاب کے جسٹس نذیرغازی بریلوی مکتب فکرسے تعلق رکھتے ہیں،لیکن ختم نبوت میں ہمیشہ ساتھ رہے ہیں۔ اس وقت وہ پنجاب کے ڈپٹی ایڈووکیٹ جنرل تھے،انہوں نے بھی وہاں تقریر کی۔ شام کو نودس گھنٹے کی کانفرنس کے بعد جب عصر کی نماز پڑھ کر فارغ ہوکرنکل رہے تھے تو ایک نوجوان نے مجھے پکڑ لیاکہ مولوی صاحب میری بات سنیں ۔ ہم صبح سے آئے ہیں، ثواب کی نیت سے آئے ہیں، ثواب کی نیت سے بیٹھے ہیں،سمجھ میں کچھ نہیں آیا کہ آپ لوگوں نے کیا کہا ہے۔ کچھ آپ کی بات سمجھ میں آئی ہے اورکچھ نذیرصاحب کی تقریر سمجھ میں آئی ہے، باقی ہمیں کچھ پتہ نہیں چلا کہ آپ ہمیں کیاپیغام دینا چا ہتے ہیں۔
آج کی اصطلاحات،آج کے اسلوب ،آج کی نفسیات بالکل مختلف ہیں۔آج سے پچا س سال پہلے کے اسلوب سے زبا ن بدل گئی ہے،معیار بدل گیاہے ،محاورے بدل گئے ہیں ،نفسیات بدل گئی ہیں۔بات سمجھانے کے لیے عرض کرتا ہوں۔ہمارے بڑے مفکرین میں گزرے ہیں مولانا ابوالکلام آزاد۔ ان کی تقریر ،ان کی خطابت اپنے دور کی پرشکوہ خطابت تھی،اپنے دورمیں معیاری سمجھی جاتی تھی ۔آج اگر ان کے لہجے میں بات کریں تولوگ کہتے ہیں کہ مولانا صاحب کوئی وظیفہ پڑھ رہے ہیں۔ ایک لطیفہ بھی ہے اس کے بارے میں،پتہ نہیں لوگوں نے خود گھڑا ہے یاواقعی سچ ہے۔ کہتے ہیں کچھ لوگ مولانا صاحب کے پاس آئے ،انہوں نے بات پوچھی،کوئی سوال پوچھا۔ مولانا صاحب نے اپنے اندازمیں کوئی جواب دیا جس میں آد ھی فارسی ،آدھی عربی تھی۔آج سے پچاس سال پہلے کی گفتگو تھی ،مشکل محاورے ،مشکل باتیں۔ اس زما نے میں جتنی مشکل گفتگو ہوتی تھی ،جتنے مشکل کوئی محاورے بولتا تھا، وہ اتناہی بڑا خطیب ہوتا تھا۔ مولانا صاحب نے ان دیہاتیوں کو اپنی زبان میں جواب دیا توچوہدری اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا کہ چلو بھئی چلتے ہیں،کیوں کہ مولانا صاحب تو اس وقت کوئی وظیفہ کررہے ہیں۔ تو آج کی زبان وہ نہیں ہے۔ آج تو آپ سادہ لہجے میں بات کریں گے۔ 
آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے گفتگو کا معیار یہ تھا کہ آپ نے عشا کی نماز کے بعد گفتگو شروع کی ہے اور،صبح فجر ہوگئی ہے۔ لوگوں کو پتہ نہیں چلا ٹائم کا،لوگ آرام سے بیٹھے سن رہے ہیں۔ اب آپ آدھے گھنٹے سے زیادہ بات کریں گے تولوگ کہیں کہ یہ کیا بور کر رہا ہے۔ مولوی صاحب بس وی کرو۔ سادہ لہجوں میں مختصر وقت میں آپ اپنی بات سمجھا سکتے ہیںیانہیں سمجھا سکتے۔ حضرت مولانا محمد علی جالندھری ؒ نے مجھے خطابت پر لیکچر دیاتھا،اس کا صرف ایک جملہ میں عرض کروں گا۔ مولانا فرمایا کہ ’’مولوی صاحب خطیب کینوں کہندے نیں؟ جے سامنے بیٹھے بندے تیری گل سمجھ دے نیں تے توں خطیب ایں، نہیں تے گھٹا تے سواہ ایں۔‘‘ آج خطابت یہ نہیں ہے کہ مولوی صاحب تقریر کرکے جائیں تولوگ کہیں کہ واہ واہ بہت زبردست تقریرکی ہے ۔کیاکہاتھا؟پتہ نہیں ہے۔ 
ہمیں یہ محسوس کرناچاہیے کہ ہمارے ساتھ لوگوں کے انس کی کمی کے اسباب کیاہیں ۔ایک وجہ تویہ ہے کہ ہم لوگوں لوگوں کے مانوس لہجے میں بات نہیں کرتے ،لوگوں کی نفسیات کے مطابق بات نہیں کرتے۔ ہماری خطابت وہی پرانی، مناظرانہ، مجادلانہ، طعن وتشنیع، بازوکس لینا، ہماری خطابت آج سے تیس سال پہلے والے سنٹر پر کھڑی ہے اوراب جو خطابت کے میدان میں تبدیلی آئی ہے، وہ ہم نے محسوس نہیں کی ہے، اس کو اپنایانہیں ہے ۔آج کی زبان اورتحریر دونوں سادہ ہیں۔ جتنی سادہ اورمختصر آپ بات کریں گے، اتنے بڑے آپ خطیب ہیں۔دوسری بات جومیں عرض کرنا چاہتا ہوں ،یہ بات میں اکثر کہاکرتاہوں کہ اب عام پڑھے لکھے لوگوں کے پاس بھی معلومات کاذریعہ میں یا آپ نہیں ہیں۔ آج سے تیس،چالیس سال پہلے معلومات کا ذریعہ ہم ہی تھے۔پڑھا لکھا آدمی بھی ہماری دی ہوئی معلومات کو ٹھیک سمجھ لیتا تھا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ جھوٹی یاسچی، میرے علاوہ اورلوگوں کے پاس معلومات کے ذرائع بھی ہیں۔ کوئی انٹر نیٹ پر بیٹھا ہے، کوئی اخبارات پڑھتا ہے،میگزین پڑھتاہے ،چینل پروگرام دیکھتاہے۔ میں غلط یا صحیح کی بات نہیں کر رہا، لیکن اس کی معلومات کا دائرہ ہم سے وسیع ہے۔ آج کے اس میڈیا کے پھیلاؤ نے ایک عام آدمی کو معلومات کی بہت سی کھڑکیاں دے دی ہیں۔ وہ اپنی میز پر بیٹھے بیٹھے ایک بٹن کلک کرتا ہے، ایک طرح کی معلومات لے لیتا ہے۔ دوسرابٹن کلک کرتاہے، دوسری طرح کی معلومات لے لیتا ہے۔ اس کے بعد وہ آپ سے مسئلہ پوچھتا ہے۔ ہمیں اپنے قارئین کو مطمئن کرنے کے لیے اپنی معلومات کا دائرہ وسیع کرناپڑے گا۔ہمیں معلومات کے ساتھ محاکمہ بھی کرنا پڑے گا۔عام آدمی صرف معلومات پرفیصلہ کرے گا۔یہ ہمارا کام ہے کہ ہمارے پاس جومعلومات ہیں، ہم اس پر ٹھیک فیصلہ کریں کہ یہ ٹھیک اوریہ دلیل شرعی کی بات ہے اوریہ ٹھیک نہیں ہے۔ ہم یہ کام نہیں کررہے ہیں۔ نہ لوگوں کی ذہنی سطح پرآرہے ہیں، نہ ہماری معلومات کا دائرہ وسیع ہے۔ ہم تو بہت سی جگہوں پر خارجی مطالعہ کو ویسے بھی حرام سمجھتے ہیں۔
ایک دفعہ ایک مسئلہ پر میں معلومات لے رہا تھا۔ ایک کتاب تھی جوایک دینی مسئلے پر تھی اورکسی پروفیسر کی لکھی ہوئی تھی۔ایک صاحب مجھے دیکھ کر پریشان ہوگئے کہ مولوی صاحب! آپ یہ کتابیں پڑھتے ہیں؟ میں نے کہا کہ ہاں بھئی پڑھتاہوں۔ معلومات توجہاں سے بھی ملیں، لے لینی چاہییں۔ دیکھیں، لوگ ہمارے پاس کس لیے آتے ہیں؟ دینی معلومات لینے کے لیے۔ خطبے یاجمعے کیوں سنتے ہیں،درس کیوں سنتے ہیں؟ اگر وہی بات اس کو رات کوکسی چینل میں مجھ سے اچھے لہجے میں مل جائے تووہ میرے پاس کیوں آئے گا؟ میں اسلوب کی ،لہجے کی بات کررہاہوں۔ وہ بات مجھ سے اچھے لہجے میں نے رات کو کسی چینل میں سنی ہے تووہ میری بات سنے گا یا چینل کی بات سنے گا ؟ وہ کہے گا کہ وہی بات رات انہوں نے بڑی اچھی کی تھی۔ بات صرف اسلوب کی ہوتی ہے ،لہجے کی ہوتی ہے ،شائستگی کی ہوتی ہے۔ جو بات میں لڑائی کے انداز میں کررہاہوں، وہ رات چینل میں بیٹھا ہوا کوئی آدمی بڑی محبت کے انداز میں کررہاہوتاہے توسننے والے کو وہ بات پسند آجاتی ہے کہ اس نے کتنی اچھی بات کی ہے۔
تومیں یہ عرض کررہاہوں کہ حالات کے رخ پر جوتبدیلیاں ہیں ،ان کو محسوس کرناچاہیے ۔حالات کے مطابق ڈھلنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں اپنا موقف ،اپنا مذہب یااپنا عقیدہ چھوڑ دوں۔ نہیں،بلکہ اپنے لہجے کو،اسلوب کو،اپنی گفتگو کے انداز کو، تحریر کے انداز کو آج کے حالات کے مطابق اپنانا ہوگا ۔ہم لوگ درس نظامی میں بڑے شوق سے مقامات حریری اورمقامات ہمدانی پڑھتے ہیں۔ آج اس زبان میں آپ خطبہ دیں گے ؟وہ ہزار سال پہلے کی زبان ہے،اس دور کی زبان سے واقفیت کی اپنی افادیت ہے۔ لیکن آج اگر حریری کا کوئی خطبہ آپ نقل کر لیں تولوگ کہیں گے کہ مولوی صاحب وظیفہ کررہے ہیں۔ آج کا اسلوب اختیار کریں ، لوگوں کی ذہنی سطح سمجھیں۔ لوگوں کے ہم سے دور ہونے کا ایک بڑاسبب یہ بھی ہے جومیں نے بیان کیاہے۔ 
میں آخر میں یہ کہوں گاکہ جوکچھ علماء کرام نے تجاویز پیش کیں ہیں، ہم ان کو مرتب کرکے شائع کریں گے اور یہ سیمینار ہمارا آخری سیمینار نہیں ہے،ان شاء اللہ جب تک ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچ جاتے ،ہم یہ سیمینار چلاتے رہیں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ مجھے ،آپ کو عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ یہ ایک جامع رپورٹ آئے گی کہ امہ اور خطباکے مسائل کیاہیں اوران کا حل کیاہے ۔میں آخر میں سب حضرات کا بہت شکریہ اداکرتاہوں اورخداحافظ کہتاہوں۔ 

تعارف و تبصرہ

ادارہ

ماہنامہ ’الشریعہ‘ کی خصوصی اشاعت بعنوان ’’جہاد ۔ کلاسیکی وعصری تناظر میں‘‘

گوجرانوالہ سے شائع ہونے والا ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ ممتاز عالم دین، محقق ومصنف اور جامعہ نصرۃ العلوم کے شیخ الحدیث حضرت مولانا علامہ زاہد الراشدی صاحب کی زیر سرپرستی گزشتہ تیئس سال سے شائع ہو رہا ہے۔ ایک عرصہ تک خود علامہ راشدی صاحب اس کی ادارت کے فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں اور اب یہ علمی جریدہ ان کے جواں سال صاحبزادے محمد عمار خان ناصر کی زیر ادارت شائع ہو رہا ہے۔ اس علمی جریدے نے روز اول سے عمومی گروہ بندی اور فرقہ بندی سے اٹھ کر فکری حوالے سے ایسی ساکھ بنا لی ہے کہ یہ جریدہ ’’پڑھے جانے والے جرائد‘‘ میں سرفہرست ہے۔ اس کے مضامین تنوع کے ساتھ ساتھ اجتماعیت کا رنگ نمایاں ہے جو گہرائی اور گیرائی کے ساتھ لکھے جاتے ہیں اور شائع کرنے سے پہلے ان کے مندرجات پر ادارتی ٹیم ان مضامین پر خاصا غور وفکر بھی کرتی ہے۔
’’الشریعہ‘‘ کی ادارتی ٹیم کالج ومدرسہ کے اہل علم وقلم پر مشتمل ہے جو علامہ راشدی صاحب کے فکر ودانش کا پتہ دیتی ہے۔ اگرچہ جناب عمار خان ناصر کے بعض تفردات پر علمی حلقوں میں اضطراب پایا جاتا ہے، ’’القاسم‘‘ میں بھی ان کے تفردات پر گرفت کی گئی ہے، مگر جہاں تک اس جریدہ کے مضامین کی ندرت کا تعلق ہے، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس علمی جریدہ نے مختلف حوالوں سے اپنی خصوصی اشاعتوں میں فکری رہنما کاکردار ادا کیا ہے۔
زیر نظر خصوصی اشاعت جہاد اور خروج کے عنوان پر ترتیب دی گئی ہے۔ جہاد کے موضوع پر مولانا محمد یحییٰ نعمانی (مدیر الفرقان، لکھنؤ) اور محمد عمار خان ناصر کے طویل مضامین بڑے معرکے کے ہیں۔ دونوں حضرات نے اپنے اپنے انداز میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کے مخصوص فلسفہ جہاد (الجہاد فی الاسلام) کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے اپنا نقطہ نظر پیش کیا ہے اور ان کے نقطہ نظر نے اس موضوع پر تحقیق ومطالعہ کی نئی راہیں متعین کی ہیں۔ محمد رشید نے مولانا وحید الدین خان دہلوی کے فلسفہ امن، جو درحقیقت انگریزی عہد کے فلسفہ عدم تشدد کا تسلسل ہے، کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔
خصوصی اشاعت کا دوسرا موضوع یا حصہ ’’عہد حاضر کی مسلم ریاستوں کی شرعی حیثیت اور مسئلہ خروج‘‘ کے موضوع پر ہے۔ مولانا زاہد الراشدی نے اسلام آباد کے ایک ادارے ’’پاکستان مرکز برائے مطالعات امن‘‘ (PIPS) کے تحت ایک سیمینار کی روداد قلم بند کی ہے۔ ایک مضمون معروف حریت پسند راہنما الشیخ ایمن الظواہری کی کتاب کے بعض اقتباسات پر مشتمل ہے۔ شیخ الظواہری نے اس کتاب میں پاکستان کوایک غیر اسلامی ریاست قرار دیا ہے، جبکہ محمد عمار خان ناصر نے شیخ کے خیالات کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ مفتی محمد زاہد اور محمد مشتاق احمد نے ’’مسئلہ تکفیر اور خروج‘‘ پر بحث کی ہے۔
یہ خصوصی اشاعت ۶۶۰ صفحات پر مشتمل ہے اور اس کی قیمت ۵۰۰ روپے ہے اور حافظ محمد طاہر، انچارج شعبہ ترسیل سے رابطہ نمبر 0306-6426001 سے براہ راست رابطہ کر کے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
(تبصرہ: مولانا عبد القیوم حقانی۔ بشکریہ ماہنامہ ’’القاسم‘‘ خالق آباد، نوشہرہ)

’’خطبہ حجۃ الوداع‘‘ اور ’’اسلام اور انسانی حقوق‘‘

گزشتہ دنوں میں ماہنامہ ’الشریعہ‘ گوجرانوالہ کے تازہ شمارے کے ساتھ الشریعہ اکادمی کی طرف سے دو کتابیں بھی موصول ہوئیں۔ پہلی کتاب کا عنوان ہے ’’خطبہ حجۃ الوداع: اسلامی تعلیمات کا عالمی منشور‘‘ اور دوسری کتاب ہے ’’اسلام اور انسانی حقوق: اقوام متحدہ کے عالمی منشور کے تناظر میں‘‘۔ یہ دونوں کتابیں الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ نے اکتوبر ۲۰۱۱ء میں طبع کی ہیں۔ بظاہر یہ دو کتابیں ہیں اور انھیں طبع بھی الگ الگ کیا گیا ہے، لیکن فی الحقیقت یہ دونوں کتابیں ایک ہی سلسلے کی مربوط کڑیاں ہیں اور ہر ایک، دوسری کے بغیر ناتمام تصور ہوتی ہے۔
یہ دونوں خوب صورت اور عمدہ کتابیں معروف صاحب قلم وصاحب بصیرت شخصیت مولانا زاہد الراشدی کے محاضرات ہیں جو حجۃ الوداع کے موقع پر ہادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے لبوں سے سرزد ہونے والے مبارک ومسعود کلمات یعنی خطبہ حجۃ الوداع کی روشنی میں دیے گئے ہیں، لیکن اس کے اصل مخاطب عصر حاضر کے وہ لوگ ہیں جو اقوام متحدہ کے ۱۰؍ دسمبر ۱۹۴۸ء کو جاری کیے گئے عالمی منشور کی تیس دفعات کے سحر میں مبتلا ہیں۔
ان کتابوں کے مولف کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں تحریر، تدریس اور تقریر کے تینوں شعبوں پر بہت ہی گہری اور عمدہ دسترس عطا فرمائی ہے۔ ان کا قدیم اور جدید کتب کا مطالعہ اور قدیم اور جدید دور کا مشاہدہ قابل رشک ہے۔ پھر جیسے حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھ میں لوہا موم ہو جاتا ہے، اسی طرح ان کے سامنے قدیم اور جدید مسائل وموضوعات یوں نرم اور موم ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنے علم سے ان کا ایک ایک پرت کھولتے جاتے ہیں اور ان کے قلب وذہن پر مضامین اور افکار کا ورود ہوتا رہتا ہے۔ وہ بیک وقت اپنے عظیم والد، امام اہل سنت مولانا سرفراز خان صفدر کے مسند نشین ہیں اور وسری طرف علم وادب کی دنیا میں اور اپنے حکمت وتدبر میں امام العصر شاہ ولی اللہ دہلوی اور دوسرے اسلاف وعلماء کی یادگار ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے قلب ونظر اور ان کے قلم میں مزید زور وحکمت پیدا فرمائے۔
مولانا راشدی کو اللہ تعالیٰ نے جن ا نعامات سے خصوصی طو رپر نوازا ہے، ان میں سے ایک انعام قدیم اور جدید علوم کا مطالعہ اور ان کا تجزیہ وتبصرہ بھی ہے۔ یہ دونوں کتب حقیقت میں اسی امر کا مظہر اتم ہیں۔ 
حجۃ الوداع کے حوا لے سے شائع کی جانے والی کتاب ان کے ان دروس او رخطبات کا مجموعہ ہے جو ۳؍ ستمبر سے ۹؍ ستمبر ۲۰۰۷ء تک مسلسل پانچ روز خطبہ حجۃ الوداع کے موضوع پر دار الہدیٰ، اسپرنگ فیلڈ، ورجینیا (واشنگٹن) میں دیے گئے اور جسے مولانا کے چھوٹے صاحب زادے ناصر الدین خان عامر نے آڈیو ریکارڈنگ کی مدد سے تحریر کا جامہ پہنایا اور اس پر مولانا کے بڑے صاحب زادے حافظ محمد عمار خان ناصر نے کچھ اضافے کیے۔
عام طو رپر واعظوں کے وعظ میں رنگ محفل جمانے کے لیے رطب ویابس ہر قسم کی باتیںآ جاتی ہیں اور عصر حاضر میں خطبات، مواعظ اور ارشادات وغیرہ کی صورت میں مختلف علماء وخطباء کی مجالس وعظ وارشاد کے جو مجموعے دیکھنے اور مطالعہ کرنے کو ملتے ہیں، ان سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ واقعی بیان اور شے ہے اور تصنیف وتالیف اور شے ہے، لیکن مولانا راشدی کے امتیازات میں سے ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ ان کا ’’وعظ وخطبہ‘‘ بھی ایسے ہی ہوتا ہے جیسے کہ ان کی تحریر وتصنیف اور ان کی تحریر وتصنیف ویسے ہی شگفتہ اور دلچسپی کے رنگ لیے ہوتی ہے جیسے کہ ان کی تقریر اور ان کا بیان۔
اس مجموعے میں مولانا نے خطبہ حجۃ الوداع پر بڑی عمدہ نظر ڈالی ہے اور اس کا موازنہ اقوام متحدہ کے ۱۰ دسمبر ۱۹۴۸ء کو جاری کیے جانے والے عالمی منشور اور اس کی دفعات سے کیا ہے جس سے جدید قوانین اور جدید معاشروں میں رونما ہونے والی حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں اور جدید سائنس کی روشنی میں آنے کے باوجود مغربی معاشرے کے چہرے کی بوقلمونی پر ان کی نظر کی گہرائی کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
مولانا نے ان دونوں کتابوں میں اسلامی نقطہ نظر پیش کرنے کے ساتھ ساتھ مغربی معاشرے کا تضاد بھی پیش کیا ہے، چنانچہ مغربی معاشرے کی بنیاد جن افکار پر اٹھائی گئی ہے، ان میں ایک نمایاں فکر فلسفہ کذب وافترا بھی ہے۔ اس فلسفے کے تحت مغربی دانش ور اتنی ڈھٹائی اور اتنی صفائی سے جھوٹ بولتے ہیں کہ ان کے جھوٹ پر سچ کا گمان ہونے لگتا ہے۔ مولانا نے بڑی مہارت کے ساتھ مغربی دنیا کا یہ بھیانک روپ دنیا کو دکھایا ہے۔ مولانا کی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے یہ تمام باتیں مغرب میں بیٹھ کر کہی ہیں اور مغرب کو دوغلے پن اور منافقت کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ ایک جگہ مولانا امریکہ کے ’’حقوق انسانی‘‘ کے علمبردار ہونے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’امریکہ میں رہنے والے افریقی نسل کے لوگوں کو ۱۹۶۴ء تک ووٹ کا حق حاصل نہیں تھا۔ کونڈولیزا رائس امریکہ کی وزیر خارجہ رہی ہے۔ ۔۔۔ ا س عورت کا باپ ان لوگوں میں شامل تھا جنھوں نے ووٹ کا حق لینے کے لیے امریکہ میں عدالتی جنگ لڑی۔ اس کے باپ کو ووٹ کا حق حاصل نہیں تھا، اس لیے کہ وہ افریقی النسل کالا تھا ۔۔۔ میں یہ بتانا چاہ رہا ہوں کہ اس بات کو ابھی آدھی صدی بھی نہیں گزری اور اب یہ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے غلامی ختم کی ہے۔‘‘ (اسلام اور انسانی حقوق، ص ۷۱)
مولانا نے اس کتاب میں نہ صرف اقوام متحدہ کے منشور کے طور پر جاری ہونے والے تیس نکات کے متن کا اردو ترجمہ شامل کیا ہے بلکہ اس کی اہم دفعات کا حجۃ الوداع کے خطبے میں شامل حقوق انسانی کے ساتھ موازنہ اور تقابل بھی کیا ہے اور جگہ جگہ مغربی لوگوں، خصوصاً مذہبی پادریوں کے ساتھ اپنی گفتگو کو بھی دہرایا ہے جس میں انھوں نے مغربی معاشرے میں مذہبی اقدار کی تباہی کا اعتراف کیا ہے اور ایک پادری نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ وہ لوگ تو ہمار ی یعنی مسلمانوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
حقوق انسانی اور اس جدید فکر کا مطالعہ مولانا کی خصوصیت ہے، چنانچہ انھوں نے خود ایک مقام پر لکھا ہے کہ وہ گزشتہ ربع صدی سے اس عنوان پر مسلسل بول اور لکھ رہے ہیں۔ (اسلام اور انسانی حقوق، ص ۸) یہ پختہ کاری ان کی تحریر کی ہر سطر میں نظر آتی ہے اور اسلام اور اسلام کے عطا کردہ حقوق اوران کی تاریخ پر ان کی بڑی گہری نظر ہے۔ اس طرح وہ تقابلی حقوق پر بڑی مستند شخصیت تصور ہوتے ہیں۔
ہمارے دینی مدارس میں جو نصاب تعلیم پندرہویں صدی؍ اکیسویں صدی میں پڑھا جا رہا ہے، اس میں آج بھی اشاعرہ، ماتریدیہ، معتزلہ، خوارج اور مرجۂ وغیرہ فرقوں کا تو ذکر ہے، مگر عہد حاضر کے جدید مسائل خصوصاً حقوق انسانی جیسا اہم ترین معاملہ، جس کے بغیر اقوام متحدہ کسی بھی ریاست کو رکنیت دینے کے لیے تیار نہیں ہے، اس کے متعلق واجبی سا علم بھی نہیں پڑھایا جاتا۔ اسی طرح عہد حاضر کے معتزلہ یعنی منکرین حدیث اور نام نہاد اہل قرآن، حتیٰ کہ قادیانیت، عیسائیت اور قرامطہ کی جدید شکل آغا خانیت کے متعلق بھی مکمل طو رپر خاموشی روا رکھی جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب طلبہ دینی مدارس سے نکل کر معاشرے میں جاتے ہیں تو اپنے ماحول سے مطابقت پیدا کرنے میں بری طرح ناکام ہو جاتے ہیں۔
میرے نزدیک یہ دونوں کتابیں، خصوصاً ’’اسلام اور انسانی حقوق‘‘ کو جدید دینی مدارس کے نصاب میں شامل ہونا چاہیے۔ اگر ارباب وفاق کو اس کے اردو میں ہونے پر اعتراض ہو تو اسے عربی کا جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح یہ کتابیں خصوصی طور پر جدید پڑھے لکھے طبقوں کو بھی ضرور پڑھنی چاہییں اور جامعہ پنجاب سمیت تمام جامعات کے ’’مطالعہ علوم اسلامیہ‘‘ میں اسے Recommended Books میں شامل کیا جانا چاہیے۔
آخر میں ایک طالب علمانہ سی خواہش کا اظہار بھی مناسب ہوگا۔ وہ یہ کہ جب اس کتاب کا اگلا ایڈیشن آئے تو اس میں خطبہ حجۃ الوداع کی روشنی میں مسلمانوں کے طرز عمل کا بھی ایک جائزہ لے لیا جائے کہ ہم نے اپنی تاریخ میں کس حد تک اس خطبے اور اس کی دفعات پر عمل کیا اور ہم نے مساوات انسانی کے اس عالمی منشور کی کہاں کہاں اور کس کس طرح خلاف ورزی کی اور اسلام کی منشا کے خلاف کس طرح لونڈی غلاموں کا غلط اور ناجائز استعمال کیا اور ابھی تک ہمارے معاشرے میں غلامی کی کون کون سی صورتیں رائج ہیں اور یہ کہ ہمیں اپنی تاریخ میں اس کے کیا کیا نقصانات اٹھانا پڑے۔
مختصراً یہ کہ یہ دونوں کتابیں اپنے موضوع پر ’’بنیادی کتب‘‘ میں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ مصنف کو جزائے خیر عطا فرمائے اور ان کی تمام تحریروں سے عالم اسلام میں استفادہ کو عام فرمائے۔
(تبصرہ:ڈاکٹر محمود الحسن عارف)

خاموش قاتل کا خاموش علاج

حکیم محمد عمران مغل

ہائی بلڈ پریشر اس قدر عام ہو چکا ہے کہ ادھر اس کا حملہ ہوا، ادھر مریض کو خاموشی سے میٹھی نیند سلا دیا۔ اس لیے اس کا نام عموماً خاموش قاتل مناسب سمجھا گیا ہے۔ اس مرض کو اپنے ہاں مہمان بنانے میں ہماری طرز بود وباش، خود غرضی، بے رخی، لاابالی پن، لالچ، بغض وعناد کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ ان میں لالچ میری دانست میں سرفہرست ہے۔
مجھے نہایت کم عمری میں حضرت استاذ الاساتذہ جناب مولانا سرفرا زخان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں جاننے کا اشتیاق پیدا ہوا۔ جب معلومات میں اضافہ ہوا تو حضرت صوفی صاحب المعروف سواتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ملنے کا شوق پیدا ہوا۔ آخر ایک دن میں گوجرانوالہ ان کی خدمت میں آپہنچا۔ پہلی بار استاذ عبد الحمید سواتی رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات ہوئی۔ ان کی گفتگو اور برتاؤ سے ظاہر ہو رہا تھا کہ میرے بارے میں اچھا تصور رکھتے ہیں۔ مجھے تو بس اتنا پتہ تھا کہ وہ ایک دینی مدرس ہیں۔ بہرحال خوب کھل کر باتیں ہوئیں۔ فرمانے لگے کہ میں آپ کی تحریریں پڑھتا رہتا ہوں۔ مجھے ہائی بلڈ پریشر کا سستا مگر تیر بہدف نسخہ بتائیں جو بارہ ماہ ملک کے ہر حصے میں مل بھی سکے اور آپ نے استعمال بھی کیا ہو۔میں نے عرض کیا کہ یہ تو میرے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے اور نسخہ سستا بھی ہے اور اتنا موثر بھی کہ بلڈ پریشر کا مریض خدا نخواستہ آخری دموں پر ہو تو بھی پہلی خوراک سے چند منٹوں میں اٹھ بیٹھتا ہے۔ 
دو بڑے چمچ تربوز کے بیجوں کے چھلکے سمیت کسی بھی طریقے سے رگڑ لیں۔ بعد میں تھوڑا پانی ملا کر پھر رگڑیں۔ پھر اسے چھان کر دن میں دو تین بار پانی میں ملا کر پی لیں۔ میٹھا شامل کر سکتے ہیں۔ ان شاء اللہ کسی دوسرے علاج کی ضرورت نہیں ہوگی۔ یہی نسخہ میں نے چند سال قبل ایک مریض کو فون پر بتایا تھا جو اسلام آباد کے ایک چوٹی کے ہسپتال میں بی پی کے ماہرین کے زیر علاج تھا اور آخری دموں پر تھا۔ میں نے فون پر یہی ہدایات دیں تو رات کو ہی ہسپتال کو خیرباد کہہ کر وہ گھر آ گیا تھا۔
ایک اور نسخہ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ ان شاء اللہ تا زیست بلڈ پریشر آپ کو نہ ستائے گا:
انار دانہ، ادرک، پودینہ اور لہسن ہم وزن کی چٹنی بنا لیں۔ روٹی کا پہلا لقمہ اس چٹنی کے ساتھ کھائیں۔ پھر جتنی طلب ہو، کھانا کھا لیں، مگر آخری لقمہ پھر اسی چٹنی کا ہو۔ اللہ کے فضل سے آپ کا یہ عمل آپ کو ساری زندگی خاموش قاتل سے بچا کر رکھے گا اور تین چار ماہ کے لگا تار استعمال سے آپ کے کئی جسمانی روگ خصوصاً امراض دل، گردہ وجگر وغیرہ بھی ختم ہوجائیں گے۔
یاد رکھیں اس مرض میں پرہیز کو بڑا دخل ہے۔ نصف علاج تو گویا پرہیز ہی ہے۔ آلو گوبھی، چاول، پراٹھا، حلوائی اور بیکری کی تمام اشیاء، برف، چینی یا بوتلیں بالکل نہ پییں۔ ایک پرہیز بہت ضروری ہے اور وہ مرغی کا گوشت۔ انڈہ تو بالکل نہ لیں۔ بازار کی خور ونوش کی تقریباً ہر چیز میں کیمیکل کی ملاوٹ ہے جس سے کئی امراض جنم لے رہے ہیں۔ خصوصاً پھلوں کودھوئے بغیر کھانے کی غلطی قطعاً نہ کریں کہ ان پر سپرے کیا جانے والا مادہ کئی بیماریوں کا منبع ہے۔

اگست ۲۰۱۲ء

سنجیدہ اور ہوش مندانہ حکمت عملی کی ضرورتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
اصالتِ دین کی تلاش میں حدیث کا تاریخی کردار ۔ کائناتی تناظر میں ایک افقی و عمودی مطالعہپروفیسر میاں انعام الرحمن
سرمایہ دارانہ انفرادیت کا حال اور مقام (۲)محمد زاہد صدیق مغل
تعریفاتِ علوم کی ماہیت، مقصدیت اور اہمیتمولانا محمد عبد اللہ شارق
مولانا زاہد الراشدی کی مجلس میںحافظ زاہد حسین رشیدی
ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے ناقدانہ طرز فکر کا ایک مطالعہمحمد عمار خان ناصر
اسلامی تحریکوں کی کارکردگی / برما کے مسلمانوں کی حالت زار / شام کا بحرانمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
تعارف و تبصرہادارہ
گود سے گور تک ایک ہی نسخہحکیم محمد عمران مغل

سنجیدہ اور ہوش مندانہ حکمت عملی کی ضرورت

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

محترم مولانا زاہد حسین رشیدی کا مضمون ’’الشریعہ‘‘ کے اسی شمارہ میں ماہنامہ ’’فقاہت‘‘ لاہور کے شکریہ کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے جو انہوں نے راقم الحروف کے ساتھ ایک ملاقات اور گفتگو کے حوالے سے تحریر فرمایا ہے۔ اس میں انہوں نے جن اہم امور کی طرف توجہ دلائی ہے، ان کے بارے میں کچھ معروضات پیش کی جا رہی ہیں:
  • علمی و فکری مباحثہ کو فروغ دینے اور علمی مسائل پر علمی انداز میں بات چیت کی ضرورت کا احساس دلانے کے لیے ’’الشریعہ‘‘ گزشتہ دو عشروں سے جو محنت کر رہا ہے، وہ چونکہ علماء کے حلقہ کی بات ہے، اس لیے میرا معمول ہے کہ عمومی مجالس میں اس پر گفتگو نہیں کرتا بلکہ اسے مفید بھی نہیں سمجھتا۔ البتہ اپنے اسباق کے دوران اور اہل علم کی مجالس میں حسبِ ضرورت اس کا تذکرہ کرتا ہوں اور متعلقہ سوالات کا جواب بھی دیتا ہوں۔ میری کوشش علماء، طلبہ، مدرسین اور اصحابِ فکر کو ان مسائل کی طرف توجہ دلانے کی ہوتی ہے جو امت مسلمہ کو کسی نہ کسی سطح پر درپیش ہیں مگر ہماری عدم توجہ کی وجہ سے دوسرے علمی حلقوں میں وہ پہلے زیر بحث آجاتے ہیں جن کے نتائجِ فکر سے ہمیں اختلاف ہوتا ہے۔ میرے خیال میں اس کے بعد مسئلہ کو زیر بحث بنانے سے بہتر ہے کہ ہم آغاز میں ہی اس مسئلہ کی طرف توجہ دیں اور اس کے بارے میں علمی اور سنجیدہ انداز میں اپنی رائے کا مناسب اظہار کردیں۔ اس کے بعد جس طرف سے جو رائے بھی آئے گی، اس کی حیثیت بہرحال ثانوی اور دفاعی ہوگی، جبکہ موجودہ طرز عمل میں ہماری رائے رد عمل تصور کی جاتی ہے اور ثانوی و دفاعی درجہ اختیار کرنے کے باعث پوری طرح موثر نہیں ہو پاتی۔ 
  • خلافتِ راشدہ کے بارے میں میرا مشاہدہ اور تاثر یہ ہے کہ ہمارے ہاں اس کے صرف اعتقادی پہلو پر کسی حد تک بات کی جاتی ہے اور وہ اس جزوی دائرہ تک محدود رہتی ہے جس کا تعلق اہل تشیع کے ساتھ اختلاف و تنازع کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس سے ہٹ کر ہم خلافت اور خلافتِ راشدہ کے موضوع پر سرے سے بات ہی نہیں کرتے، حالانکہ ہماری عمومی دینی ضرورت یہ ہے جو آج کے عالمی سیاسی و تہذیبی تناظر میں اور زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہے کہ خلافتِ راشدہ کے نظام کی سیاسی بنیادوں، خلافتِ راشدہ کے معاشرتی ماحول، خلافتِ راشدہ کے معاشی اصولوں اور طریق کار، بیت المال، رفاہی ریاست، خلافتِ راشدہ کے دور میں معاشرہ کے مختلف طبقات کو حاصل ہونے والے مذہبی، سیاسی، معاشرتی اور معاشی حقوق، خلفائے راشدینؓ کے طرزِ حکومت اور ان کے طرزِ زندگی اور آج کے عالمی سیاسی، معاشرتی اور معاشی نظاموں کے ساتھ خلافتِ راشدہ کے نظام کے تقابل و تجزیہ پر کھل کر بات کی جائے۔
    مجھے ذاتی طور پر جہاں مناسب محسوس ہوتا ہے، ان میں سے بعض امور پر گفتگو کرتا ہوں اور اس سلسلہ کے چند بیانات تحریری صورت میں شائع بھی ہو چکے ہیں لیکن جس سطح پر اور جن دائروں میں اس کام کی ضرورت ہے، ان میں کام کرنے کا حوصلہ، وسائل اور مصروفیات دونوں حوالوں سے اپنے اندر نہیں پاتا۔ اگر خلافت کے موضوع پر کام کرنے والی جماعتیں، بالخصوص اہل سنت کے عقائد و مفادات کے تحفظ کا دعویٰ رکھنے والے حلقے اس سلسلے میں کسی علمی و فکری محنت کے لیے سنجیدہ ہوں تو مجھے تعاون کر کے خوشی ہوگی اور میں اسے اپنے لیے باعث سعادت و نجات تصور کروں گا۔ 
  • پاکستان میں اور اس سے بڑھ کر مشرق وسطیٰ میں سنی شیعہ تنازع جو صورت اختیار کرتا جا رہا ہے اور کشمکش کے جو دائرے تیزی کے ساتھ ابھرتے دکھائی دے رہے ہیں، وہ انتہائی پریشان کن ہیں اور مستقبل کاا نتہائی افسوسناک منظر پیش کر رہے ہیں۔ گیارہویں اور بارہویں صدی عیسوی کے دوران مشرقِ وسطیٰ کے بہت سے حصوں میں فاطمی حکومت تاریخ کا اہم حصہ رہی ہے اور سولہویں صدی عیسوی کے آغاز میں مصر کے مملوک حکمرانوں کے خلاف عثمانی خلیفہ سلطان سلیم اولؒ کی جنگ کا تناظر بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ خلافت عثمانیہ کے آخری شیخ الاسلام مصطفی صیری رحمہ اللہ تعالیٰ نے مملوکوں کے خلاف سلطان سلیمؒ کی جنگ اور مصر پر ترکوں کے قبضہ کا پس منظر یہ بیان کیا ہے کہ مصر کے مملوک حکمرانوں کا رجحان ایران کی صفوی حکومت کی طرف بڑھتا جا رہا تھا اور صفوی حکمرانوں کی کوشش تھی کہ شیعی مذہب و عقائد کو قوت کے زور پر مصر کے ذریعے خلافت عثمانیہ کے علاقوں میں پھیلایا جائے۔ سلطان سلیمؒ نے اس کا راستہ روکنے کے لیے مصر پر قبضہ کر لیا اور مملوکوں کو راہ سے ہٹا دیا۔ اس دوران سلطان سلیمؒ اور صفویوں کے درمیان جو معاہدات ہوئے، ان کے بارے میں شیخ الاسلام مصطفی صیریؒ کا کہنا ہے کہ ان میں سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ، سیدنا حضرت عمر فاروقؓ اور سیدتنا حضرت عائشہؓ کی توہین سے باز رہنے کی شقیں بھی موجود تھیں۔ 
مجھے مستقبل قریب میں مشرق وسطیٰ کے بہت سے علاقوں میں یہ کشمکش پھر سے شروع ہوتی دکھائی دے رہی ہے جبکہ خلافت عثمانیہ اور سلطان سلیمؒ کا دور دور تک کوئی نشان نظر نہیں آتا۔ ان خدشات و خطرات کے سدِّباب کے لیے اگر کوئی کردار ادا کرنا ہے تو اس خطہ کی دینی قیادت نے کرنا ہے جسے سرے سے ان مسائل اور اس صورت حال کا ادراک ہی نہیں ہے اور نہ ہی اس کی ضرورت و اہمیت کا کوئی احساس پایا جاتا ہے۔ اس محاذ پر ہماری جدوجہد اور محنت عوامی جذبات کو بھڑکانے، نعرے لگوانے، جلسوں میں دھواں دار تقریریں کرنے اور قیمتی کارکنوں کو قربان کرتے چلے جانے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے اور اسی طرزِ عمل کو ہم نے اپنی کامیابی اور نجات دونوں کا مدار قرار دے لیا ہے۔ معاملہ فہمی، مسائل کا ادراک، تدبر، حکمت اور حوصلہ کے ساتھ مسائل کو حل کرنے اور اپنی قوت کو محفوظ رکھتے ہوئے اس کے صحیح اور بر وقت استعمال کا ذوق اور صلاحیت ہم نے فریق ثانی کے لیے مختص کر دیے ہیں۔ 
میں سالہا سال سے متعلقہ حضرات سے گزارش کر رہا ہوں کہ اہلِ فکر و دانش کے باہم مل بیٹھنے کی ضرورت ہے، اس طرزِ عمل پر نظر ثانی کی ضرورت ہے، پورے خطے کی مجموعی صورتحال کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے، اس سلسلے میں مختلف ممالک میں کام کرنے والوں کے ساتھ رابطہ و مشاورت کی ضرورت ہے، عالمی استعماری قوتیں اس کشمکش کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کے لیے جس طرح مستعد و متحرک ہیں، اسے سمجھنے کی ضرورت ہے اور جذباتیت و سطحیت سے ہٹ کر مضبوط علمی و فکری اساس پر جدوجہد کی نئی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، مگر جہاں خود اپنی ہی طے کردہ حکمت عملی اور پالیسیوں پر نظر ثانی کو کفر کا درجہ دیا جانے لگا ہو ، وہاں ان باتوں کو کون سنتا ہے اور ان پر کون توجہ دیتا ہے؟
بہرحال اگر کچھ ’’اصحابِ فکر و دانش‘‘ اس مقصد کے لیے مل بیٹھنے کو تیار ہوں تو علمی و فکری مشاورت کے دائرہ میں میری خدمات ہر وقت حاضر ہیں۔ دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت ہم سب کو صورت حال کا صحیح ادراک نصیب فرمائیں اور خلوص، حوصلہ اور حکمت کے ساتھ دینی جدوجہد کو آگے بڑھانے کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔

اصالتِ دین کی تلاش میں حدیث کا تاریخی کردار ۔ کائناتی تناظر میں ایک افقی و عمودی مطالعہ

پروفیسر میاں انعام الرحمن

جب سے انسان نے اس کُرّہ ارض پر قدم رکھا ہے، تب سے گوناں گوں چیلنجزاسے دعوتِ مبارزت دیتے چلے آ رہے ہیں۔ ہتھیار ڈالنے کے بجائے ڈٹ جانے کی جبلّی صلاحیت نے انسان کو اس کارزارِ حیات میں فتوحات سے نوازا ہے۔ آج اکیسویں صدی میں کرہ ارض پر انسان کی موجودگی درحقیقت اپنے پیچھے انہی فتوحات کی عظیم الشان داستان لیے ہوئے ہے۔ اس دل گداز داستان میں کئی نشیب و فراز آئے ہیں، جن میں کہیں تسخیر فطرت کے جھلملاتے تاب ناک مناظر سے سابقہ پڑتا ہے اور کہیں انسان کی ذات (man-himself) سے وابستہ خصوصیات (properties-virtues) کے، مختلف آلات میں منتقل ہونے کے اندوہ ناک واقعات سامنے آتے ہیں۔ 
واقعہ یہ ہے کہ اپنی فتوحات و ترقیات کے جس مرحلے میں انسان نے چھاپہ خانہ (press) ایجاد کیا، اس وقت سے اس کا حافظہ آہستہ آہستہ کم زور ہوتا چلا گیا اور انسان نے ’’یاد‘‘ رکھنے کی اپنی خصوصیت (property of memory) غیر محسوس انداز میں چھاپے خانے کو منتقل (transfer) کرنا شروع کر دی۔ اس کے بعد کمپیوٹر آیا جو حافظے کو معدوم کرنے کے درپے ہے۔ انسانی فتوحات و ترقیات کی دیگر کئی اقسام بھی، انسان کی بعض امتیازی خصوصیات (distinctive virtues of man) کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہیں۔ جس کے نتیجے میں اس کی داخلی شخصیت مسلسل کھوکھلی ہوتی جا رہی ہے اور انسان، بحیثیت انسان اپنی شناخت کھوتا جا رہا ہے۔
یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ کوئی بھی ترقی یا فتح اچانک حاصل نہیں ہو جاتی، بلکہ اس کے پیچھے(اصلاً) فاتحوں کی مخصوص ثقافت (cultural roots) کارفرما ہوتی ہے۔انسانی فتوحات کی تاریخ پر سرسری نظر ڈالنے سے عیاں ہوتا ہے کہ انسانی ذات (man-himself) سے وابستہ خصوصیات (properties-virtues) کو، مختلف آلات کی نذر کرنے والی ’فتوحات‘ زیادہ تر مغربیوں کے حصے میں آئی ہیں۔ اس کا ایک واضح مطلب یہ ہے کہ مغربیوں کے ہاں ذاتِ انسانی کی خصوصیات کو (انہیں explore کرنے کے نام پر) تج دے کر مختلف آلات میں منتقل کرنے کے طور طریقے (techniques)، مغربی ثقافت میں بنیاد لیے ہوئے ہیں۔ اسی لیے آج مغربی کرّے کا انسان نسبتاً زیادہ کھوکھلا ہے اور اس کا باطنی وجود، معدومیت کی آخری سرحدیں چھو رہاہے۔ مغرب کے مشہور نقاد ٹی۔ایس۔ایلیٹ نے شاعرانہ اظہار کو جذبات یا شخصیت کے اظہار کے بجائے ’’فرار‘‘ قرارد یتے ہوئے، غیر شعوری طور پراسی کھوکھلے پن کا اعتراف کیا ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ جدید مغربی ادب، جدید انسان کو معدومیت کی اتھاہ گہرائی میں دھکیل رہا ہے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ انسان کی فتوحات و ترقیات میں مسلم تہذیب نے بھی فراخ دلی سے حصہ لیا ہے۔ اس سلسلے میں یہ عظیم تہذیب ایک عظیم داستان کی حامل ہے۔ اس داستان کا یہ پہلو البتہ کافی حیرت انگیز ہے کہ چھاپے خانے اور کمپیوٹر جیسی ایجادات کے باوجود مسلم تہذیب کے ثقافتی رویے نے حفظِ قرآن کی روایت ترک نہیں کی۔ آج ہمارے اپنے دور میں قرآن مجید اربوں کی تعداد میں شائع ہو رہے ہیں، اور سی ڈیز ویڈیوز کے ذریعے قرات اور لہجے بھی پوری طرح محفوظ ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حفظِ قرآن کا مقصد (قرات اور لہجے سمیت) حفاظتِ قرآن ہے تو کیا وہ مقصد آج حفظ کے بغیر بخوبی پورا نہیں ہو رہا؟ کیا حفظ کی روایت کا انتقال (transformation) مطبوعہ قرآنی صحائف اور سی ڈیز ویڈیوز میں قابلِ اطمینان حد تک ہو نہیں گیا؟ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ مسلم ثقافت نے حفظِ قرآن کی ’’خوامخواہ کی مشقت‘‘ سے ابھی تک جان نہیں چھڑائی؟ بلکہ دیکھا جائے تو واقعاتی شواہد اس کے بالکل برعکس ملتے ہیں کہ حفظِ قرآن کی روایت سے وابستگی میں دن بدن مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ 
مذہبیت سے قطع نظر (کہ نماز تراویح میں حفاظ کی ضرورت باقی رہتی ہے) واقعہ یہ ہے کہ مسلم تہذیب کے ثقافتی رویے میں حفظِ قرآن کی روایت کی روزافزوں مقبولیت اپنی اصالت میں، ایک انسانی خصوصیت ’حافظے‘ (property of memory) سے دست برداری کے خلاف مزاحمت کی زندہ و جاوید علامت ہے۔ اس کا ایک واضح مطلب یہ ہے کہ مسلم ثقافت، ذاتِ انسانی (man-himself) سے وابستہ کسی بھی بنیادی خصوصیت (main virtue or property) کے کسی آلے میں انتقال (transformation) میں اگرچہ مزاحم نہیں ہوتی، لیکن اس خصوصیت کی ذاتِ انسانی سے وابستگی کی بابت بہت حساس اور چوکنا رہتی ہے۔ اس لیے ہمیں مسلم تہذیب میں (مثلاً)چھاپے خانے اگرچہ بکثرت ملتے ہیں، کمپیوٹر کے استعمالات کے کئی نمونے ملتے ہیں، لیکن اس کے متوازی ذاتِ انسانی کے حیاتیاتی اثبات (biological assertion of man as man) کے مضبوط ثقافتی رویے بھی پوری شان کے ساتھ ڈٹے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ کوئی بھی انسانی خصوصیت جس شدت کے ساتھ کسی آلے میں منتقل ہو کر ہتھیار ڈال دیتی ہے، مسلم ثقافتی رویہ اس سے زیادہ شدت کے ساتھ اپنا رنگ دکھاتاہے اور آلے کی افادیت تسلیم کرنے کے باوجود انتقال شدہ انسانی خصوصیت (transformed human virtue-property) کو ذاتِ انسانی سے وابستہ و پیوستہ رکھتا ہے۔ لہٰذا یہاں یہ اخذ کرنا درست ہو گا کہ حفظِ قرآن کی روایت، ایک انتہائی بنیادی انسانی خصوصیت، یاد اور حافظے کے تسلسل سے عبارت ہے اور اس تسلسل کا امین مسلم ثقافتی رویہ یا مسلم اجتماعی لاشعور ہے۔ 

یہ حقیقت مسلم تہذیب کے علمی مسلمات میں سے ہے کہ صدیوں کی مسافت کے باوجود قرآن مجید فرقان حمید، حرف حرف لفظ لفظ محفوظ چلا آ رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے اس کی حفاظت کا ذمہ خود اٹھایا ہے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید کو اللہ رب العزت نے تاریخ کے سپرد نہیں کیا۔ تاریخ سے ورائیت کے ضمن میں یہی جان لینا کفایت کر سکتا ہے کہ تکمیلِ قرآن کے بعد، اس کی نزولی ترتیب کو بدل دیا گیا تھا۔ آج دنیا میں نزولی ترتیب کے مطابق قرآن مجید کا ایک بھی مستند نسخہ موجود نہیں ہے۔ نزولی ترتیب ایک خاص زمانے اور خاص سیاق و سباق کی اہمیت اجاگر کرتی ہے۔ وہ خاص زمانہ ایک خاص (عربی) زبان کا حامل ہے اور خاص سیاق و سباق، شانِ نزول یا آیات کے نازل ہونے کے واقعاتی اسباب کی نشاندہی کرتے ہیں۔ نزولی ترتیب سے منسلک یہ دونوں پہلو(خاص زمانہ اور خاص سیاق) قرآن مجید کو تاریخ کا حصہ بنا دیتے ہیں کہ ان کی مدد کے بغیر قرآن کا درست فہم ( true understanding of Quran) حاصل نہیں ہو سکتا اور واقعہ یہ ہے کہ ان دونوں (خاص زمانہ اور خاص سیاق) تک رسائی تاریخی عمل کی تحلیل کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ لہٰذا نزولی ترتیب سے قرآن مجید کا اٹھا دیا جانا اسے نہ صرف مخصوص زمانے کی مخصوص (عربی) زبان سے ماورا کر دیتا ہے (کہ قرآن کی عربی، عربی مبین ہے) بلکہ نزول کے مخصوص اسباب سے ماورا کرتے ہوئے کسی بھی تاریخی عمل کی بھینٹ چڑھنے سے بچا لیتا ہے، کہ آخر کو اس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ رب العالمین نے اٹھایا ہوا ہے۔
یہاں ضمناً ایک سنگین فروگزاشت کی طرف توجہ دلانا برمحل ہو گا کہ بعض مذہبی حلقے فہمِ قرآن کے لیے جاہلیہ شاعری اور شانِ نزول کو انتہائی درجے میں اہمیت دیتے ہیں جس کے نتیجے میں قرآن کا فہم ایک مخصوص دور کی عربی زبان اور ایک مخصوص دور کے سیاق و سباق کی نذر ہو کر اپنے پیچھے یہ سوال چھوڑ جاتا ہے کہ اللہ رب العزت نے نزولی ترتیب پر ہی قرآن پاک کو قائم کیوں نہیں رکھا؟ واقعہ یہ ہے کہ نزولی ترتیب سے قرآن مجید کا اٹھا دیا جانا اسے ان علائق(تاریخی جبر) سے بالاتر کر دیتا ہے۔ اگر مخصوص مذہبی حلقے اپنے موقف پر بضد قائم ہیں تو انہیں سب سے پہلے نزولی ترتیب کے مطابق قرآن مجید کا کوئی ایڈیشن متعارف کروانا چاہیے اور پھر اسے ہی رواج دینے کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔ 

بحث کے اس مقام پر یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حدیث بھی قرآن مجید کے مانند تاریخ سے ماورا ہے؟ اس کا دیانت دارانہ جواب یہی ہے: نہیں۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے حدیث کا تعلق تاریخ سے ہے۔ تدوینِ حدیث کے جواز کو مدِنظر رکھا جائے تو نہایت صراحت سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ سنتِ نبی خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب امت کے اجتماعی عمل سے رخصت ہوتی چلی گئی تو یہ خدشہ پیدا ہو گیا کہ وہ وقت شاید بہت قریب ہے جب سنتِ نبی خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کثیر حصہ ’’تعاملِ امت‘‘ کی نذر ہو جائے گا اور بعد کی مسلمان نسلوں کے لیے نبی خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتِ مطہرہ سے فیض یاب ہونا تقریباً نا ممکن ہو جائے گا۔ اس لیے اصلاً، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کے قرآنی حکم کے تتبع میں، تعاملِ امت کی کم زوری کااعتراف کرتے ہوئے امت کے حساس اذہان نے، سنتِ مطہرہ کے یکسر غائب ہونے کے متوقع سانحے کو بھانپتے ہوئے تدوینِ حدیث کی داغ بیل ڈال دی۔ 
واقعہ یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کے واضح قرآنی احکامات، سنتِ نبی خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریعی حیثیت کو اگرچہ ٹھوس جواز فراہم کرتے ہیں، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت تک رسائی کے لیے کوئی متعین راہ واضح نہیں کرتے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟اس سلسلے میں اگر قرآنی اسلوب پیشِ نظر رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سنت تو کجا، انبیا کرام علیھم السلام کی اکثریت کے نام تک کا ذکر قرآن مجید میں نہیں کیا گیا (اگر انبیا علیہم السلام کی تعداد سوا لاکھ کے قریب مان لی جائے)۔ اور پھر جن انبیا کرام علیھم السلام کا ذکر قرآن مجید میں کیا گیا ہے ان کی زندگی کے تمام حالات تفصیلاً بیان نہیں کیے گئے۔ قرآن مجید میں مذکور انبیا کرامؑ کے قصوں کا محتاط مطالعہ مترشح کرتا ہے کہ اللہ رب العزت نے انبیاکرام کے حالات میں سے انتہائی زیادہ اہمیت کے حامل محض ایسے واقعات بیان فرمائے ہیں جن کی حکمت کی تابانیاں دائمی اور آفاقی ہیں۔ اسی تسلسل اور رَو میں نبی خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کے بھی چنیدہ واقعات قرآن مجید کی زینت بن چکے ہیں۔ اگر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ کے نبوی پہلو کو دیکھا جائے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قرآن مجید نازل ہونا شروع ہوا، تو کہا جا سکتاہے کہ پورے کا پورا کلامِ پاک نبی خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ۲۳برس(چالیس سے تریسٹھ) کی داستانِ حیات سمیٹے ہوئے ہے۔ اوپر کی سطروں میں جو سوال اٹھایا گیا کہ اطاعتِ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واضح قرآنی احکامات، سنتِ نبی خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریعی حیثیت کو ٹھوس جواز فراہم کرنے کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت تک رسائی کی کوئی متعین راہ کیوں نہیں دکھاتے؟ کا جواب یہاں بظاہر یہ ملتاہے کہ پورے کا پورا قرآن مجید (ایک اعتبار سے) سنت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی داستان ہی تو ہے اور یہ داستان تاریخ سے ماورا ہونے کے ناتے بہت معتبر بھی ہے۔

اگر قرآن مجید ہی (ایک اعتبار سے) نبی خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے تو تعامل امت میں سنت کے کم زور پڑنے یا اٹھ جانے کا مطلب سوائے اس کے اور کیا ہو سکتا ہے کہ امت کے اجتماعی عمل میں فہمِ قرآن کی نبوی روایت افراط و تفریط کا شکار ہو گئی۔ اس لیے حدیث (کے علم و فن) کی ضرورت ان معنوں میں سنت کی حفاظت کے لیے نہیں ہے جس طرح ہمارے مذہبی حلقوں میں عام طور پر سمجھ لی گئی ہے، بلکہ حدیث کی اصلاً ضرورت، فہمِ قرآن کی روایت کی درستی کے لیے ہے جو اپنے نتیجے کے لحاظ سے اگرچہ سنت کا اثبات چاہتی ہے لیکن اس سنت کا جو دائمی آفاقی اور تاریخ سے ماورا ہے (کہ قرآن مجید ہی (ایک اعتبار سے) نبی خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے)۔ 
بحث کے اس مقام پر اب دیانت کا تقاضا ہے کہ یہ سوال اٹھایا جائے، کیا اللہ رب العزت نے تاریخ سے ماورا دائمی آفاقی سنت کو تاریخ (حدیث:علم و فن) کے سپرد کر دیا ہے؟ اس کا جواب ہے، جی ہاں۔ کیونکہ مسلم تاریخ کے جس مرحلے میں تعاملِ امت، سنتِ نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم (یعنی فہمِ قرآن کی نبوی روایت) سے منحرف ہونا شروع ہوا، اس نازک مرحلے پر مسلم تہذیب کا اجتماعی لاشعور دو راہے پر کھڑا تھا کہ: 
۱۔ تعاملِ امت کی کم زوری، جو کہ واقعاتی اور تکوینی اعتبارات سے درحقیقت منہ زوری تھی، کے سامنے ہتھیار ڈال دیے جائیں اور من مانی تشریحات و رسومات کے ماحول کو فروغ دیتے ہوئے قرآن کے نبوی فہم کو تاریخ کی نذر ہونے دیا جائے۔
۲۔ سنتِ نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم سے انحراف پر مبنی تعاملِ امت کی منہ زوری کو نکیل ڈالی جائے اور تاریخی عمل کی مسلسل تحلیل کے ذریعے نبوی اعمال و اقوال کی جزئیات تک رسائی پاکر فہمِ قرآن کی روایت درست نہج پر لائی جائے۔ 
یہ حقیقت بھی مسلم تہذیب کے علمی مسلمات میں سے ہے کہ مسلم تہذیب کے اجتماعی لاشعور یا ثقافتی رویے نے اپنی تاریخ کے اس انتہائی نازک موڑ پر دوسری راہ کا انتخاب کیا، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس راہ میں پھولوں کی وادیوں اور ستاروں کی کہکشاؤں سے واسطہ نہیں پڑے گا بلکہ دشت دشت سیاحی اور قدم قدم کانٹے بچھے ملیں گے۔ 
یہاں ایک بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسان کی لاشعوری سطح(چاہے وہ اجتماعی ہو) کسی عمل کو ایسی سندِ جواز عطا کر سکتی ہے، جسے علمی گردانا جا سکے؟ ہماری رائے میں یہ نکتہ بحث طلب ہے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ تاریخی عمل کی مسلسل تحلیل کے ضمن میں حدیث (علم و فن) کی داغ بیل صرف اور صرف مسلم اجتماعی لاشعور کے حصے میں ہی نہیں آئی، بلکہ اس سلسلے میں اصلاً مسلم تہذیب کے ایسے اہلِ علم حضرات نے نہایت کلیدی کردار ادا کیا جن کا فہمِ قرآن تعاملِ امت کی منہ زوری کے مقابل، شعوری سطح پر نبوی روایت سے منسلک رہا۔ یہ اہلِ علم یہ سمجھنے میں بالکل درست تھے کہ قرآن مجید میں اطاعتِ رسول کا حکم (implied) ایک سندِجواز رکھتا ہے کہ اطاعت رسول کے لیے ’’درکاراقدامات‘‘ لازماً اٹھائے جائیں۔ جب تعامل امت کی کم زوری کے نتیجے میں اطاعتِ رسول(یا فہمِ قرآن کی نبوی روایت) صحیح معنوں میں ممکن نہ رہی تو اسی implied حکم کے تحت اہلِ علم حضرات نے حدیث کی تدوین کے قرآنی جواز کو ملحوظ رکھتے ہوئے فہمِ قرآن کی نبوی روایت کو افراط و تفریط سے بچانے کا اہتمام کیا اور عامۃالمسلمین کے لیے سنتِ تشریعی پر عمل کو ممکن بنایا۔ (اس بحث کا ایک مطلب یہ ہوا کہ ابتدائی چند صدیوں کے بعد تعاملِ امت اور سنتِ تشریعی آمنے سامنے کھڑے ہو گئے۔ لہٰذا تعاملِ امت کو حجت گرداننے والے اصالتِ دین کے نام پر جس چیز کو فروغ دینا چاہتے ہیں، وہ سنت سے منحرف فہمِ قرآن کی بگڑی روایت کے سوا اور کچھ نہیں)۔ 

بحث کے اس مقام پر قدرتی طور پر ایک سوال ابھرتا ہے کہ اگر جاہلیہ شاعری اور شانِ نزول کے تناظر میں قرآن فہمی کی کوئی کوشش، قرآن کو ورائیت کے بجائے تاریخ کا حصہ بنا دیتی ہے، تو پھر حدیث (علم و فن) کے تناظر میں فہمِ قرآن کی کوششوں پر یہ اصول کیوں لاگو نہیں ہوتا؟ کہ جاہلیہ شاعری کی دریافت کی طرح حدیث کی دریافت بھی تاریخی واردات کے ذریعے ہی ممکن ہو سکی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہر دو میں ثقاہت اور فقاہت کے اعتبار سے بہت ہی بنیادی فرق پایا جاتا ہے: 
۱۔ جاہلیہ شاعری اور حدیث تک رسائی میں تاریخی عمل کا کردار یکساں نہیں ہے۔ حدیث، تاریخ جانچنے کے کسی بھی معتبر پیمانے پر پورا اترتی ہے، جبکہ جاہلیہ شاعری کو یہ اعتبار حاصل نہیں۔ 
۲۔ جاہلیہ شاعری کے ذریعے قرآنی الفاظ کے معانی متعین کرنا، مخصوص قرآنی رنگ سے انحراف کے مترادف ہے۔ اس رو گردانی یا انحراف سے مراد یہ ہے کہ جاہلیہ شاعری جن اشخاص سے منسوب ہے ان کا قرآن مجید سے براہ راست کوئی تعلق واسطہ نہیں۔ جبکہ حدیث کی نسبت نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے جن پر قرآن مجید نازل ہوا۔ اس لیے جب یہ ثابت ہو جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے یہی الفاظ نکلے ہیں تو قرآنی عربی (عربی مبین) کے معانی کے تعین میں یقیناًان سے مدد لی جا سکتی ہے بلکہ لازماً مدد لی جانی چاہیے۔ لہٰذا قرآن کو قرآن کے اپنے رنگ میں سمجھنے کی کوشش جاہلیہ شاعری کے بجائے حدیث کے ذریعے سے ہی ممکن ہے۔ 
۳۔ خالص لسانیاتی حوالے سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جاہلیہ شاعری میں برتی گئی عربی زبان یک دم وجود میں نہیں آ گئی تھی۔ یقیناً اس کی نوعیت بھی اسی طرح ارتقائی ہے جیسا کہ ہر زبان کی ہیت و ساخت میں اس کی ارتقائی نوعیت چھپی ہوتی ہے۔ اس لیے اس بابت دو آرا نہیں ہو سکتیں کہ ہر زبان کے مانند جاہلیہ شاعری میں بھی اس کے الفاظ اور الفاظ کے معانی متعین کرنے میں اس کے پیچھے موجود ارتقا کا کردار نہایت کلیدی ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب جاہلیہ شاعری کے ذریعے قرآنی الفاظ کے معانی متعین کرنے کی کوشش کی جائے گی تو کیا جاہلیہ شاعری کا مخصوص پس منظر اس سارے عمل میں کسی بھی اعتبار سے اثر انداز نہیں ہوگا؟ جب کہ حدیث کے ساتھ معاملہ اس کے بالکل بر عکس ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک صفاتی نام امّی بھی ہے۔ اسی لیے حدیث میں برتی گئی زبان کا ویسا کوئی مخصوص پس منظر نہیں ہے جیسا کہ جاہلیہ شاعری کا ہے۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کے امّی ہونے کی نسبت سے، حدیث مبارک کو (قرآنی الفاظ کے معانی کے تعین میں)قرآنی پس منظر کا درجہ مل جاتا ہے۔ 
۴۔ جاہلی شاعری، تعیناتِ معانی کے عمل میں ایجابی نوعیت لیے ہوئے ہے۔ ایک تو یہ قرآنی رنگ اور قرآنی پس منظر سے باہر ہے اس پر مستزاد اس کی ایجابی نوعیت۔ اس لیے یہ فہمِ قرآن کی نبوی روایت سے قریب آنے کے بجائے الگ راہ اپنا لیتی ہے۔ جبکہ حدیث اپنی عمومیت کے دائرے میں سلبی نوعیت کی حامل ہے۔ جیسے یہ کہا جاتا ہے کہ خدا کیا ہے؟ اس کا تعین نہیں کیا جا سکتا، جبکہ خدا کیا نہیں ہے اس کو کسی نہ کسی درجے میں طے کیا جا سکتا ہے، بالکل اسی طرح حدیث اپنے سلبی اعتبار کے ساتھ فہمِ قرآن کی روایت کو کہ وہ ’’کیا نہیں ہو سکتی‘‘ کسی نہ کسی درجے میں طے کر دیتی ہے، جبکہ وہ ’’کیا ہو سکتی ہے‘‘ کو امکانی سطح پر مستور رکھتی ہے۔ اس طرح حدیث کی سلبی نوعیت ’’تحدیدی توسع‘‘ کی راہ دکھاتی ہے، کہ اس کے توسط سے فہمِ قرآن میں مخصوص حد بندی کے ساتھ پھیلاؤ کے ان گنت امکانات موجود ہیں، جنہیں زرخیز اذہان وجود میں ڈھال سکتے ہیں۔ فہمِ قرآن کے امکانی توسعات پر حدیث کی کتر بیونت کا عمل اسے (فہمِ قرآن کو) قرآنی رنگ (سنتِ تشریعی) سے دور نہیں جانے دیتا۔ ہمارے خیال میں جاہلیہ شاعری سے اس سارے عمل کی توقع رکھنا عبث ہے۔ 

مذکورہ بحث کا ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی کلاسیکل علمی روایت سمیت عصری جدت پسندی کی رسائی ابھی تک، حفظِ قرآن کی روایت اور علمِ حدیث کے داخلی تعلق تک نہیں ہو پائی۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ حفظِ قرآن کی روایت نے بنفسہٖ، یاد اور حافظے کی محافظت میں تاریخ سے پختہ و شعوری وابستگی کے لیے مسلمانوں کو وہ ٹھوس بنیاد فراہم کی ، جس کی ضرورت بعد ازاں سنت (جو ابتدائی صدیوں میں تعاملِ امت کی صورت میں موجود تھی) سے حدیث تک کے فیصلہ کن مرحلے میں مسلمانوں کو پیش آئی۔ اس لیے سنت سے حدیث تک کا سفر اتنا سادہ نہیں ہے جتنا سمجھ لیا گیا ہے۔ یہ سفر محض سفر نہیں بلکہ رمز کی حامل ایک پوری داستان ہے۔ اس داستان کے باطن میں جھانکنے کی کبھی زحمت نہیں کی گئی۔ اس لیے کئی مذہبی حلقے، حدیث کے اصل مقام اور اس کی تشریعی حیثیت کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حدیث کی وہ جہت جسے سنت سے تعبیر کیا جاتا ہے، حجت کی حامل اور تاریخ سے ماورا ہے۔ جبکہ حدیث کی وہ جہت جسے ’’علم و فن‘‘ کہا جاتا ہے، اپنی واقعیت کے اعتبار سے تاریخ کا حصہ ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جدید دور میں بعض حلقے، علم و فن کو حجت قرار دینے پر مصر ہیں تو دوسری طرف بعض حلقے حدیث کی اس جہت کے ہی سرے سے منکر ہیں جو اپنی حقیقت میں سنت ہے اور حجت کی حامل ہے۔ 
ہمارے خیال میں علم و فن کی سطح پر حدیث کو پرکھتے وقت یہ نکتہ ہمیشہ ملحوظ رکھنا چاہیے کہ قرآن مجید کی نزولی ترتیب کا بدل دیا جانا، اسے تاریخ سے ماورا کر دیتا ہے، جبکہ حدیث علم و فن کے اعتبار سے خالصاً تاریخ اور یادِ ماضی سے شعوری وابستگی کا دوسرا نام ہے۔ اوریہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ مطالعہ تاریخ کا درست منہج، تاریخی واقعات کے پس منظراور تقدیم و تاخیر کی منطقی ترتیب سے کماحقہ آگاہی کا تقاضا کرتا ہے کہ اس کے بغیر تاریخی عمل میں سے حقیقی صورتِ حال کے نِکھر کر سامنے آنے کے امکانات کم کم ہوتے ہیں۔ 
حدیث کی وہ جہت جسے ہم نے سنت سے تعبیر کیاہے، اصولی طور پر تشریعی ہونے کے باوجوداپنے تک رسائی اور اظہار کے لیے حدیث کی اس جہت کی مرہونِ منت ہے جسے علم و فن گردانا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جدید دور میں سنت تک رسائی تعاملِ امت کے بجائے حدیث کے’ علم و فن‘ کے ذریعے سے ہی ممکن ہے اور یہ علم و فن اپنی اپروچ میں تاریخی عمل کی مسلسل تحلیل کا تقاضا کرتا ہے۔ اندریں صورت، متونِ حدیث کے سیاق و سباق کے اطراف کی جانکاری اور ایک ہی موضوع پر مختلف احادیث کے متون میں موجود فرق کا زمانی و مکانی ادراک، تلاشِ سنت کے عمل کا ایک ناگزیر لازمہ ٹھہرتا ہے۔ ہماری رائے میں علمِ حدیث پر مسلمانوں کے کلاسیکل لٹریچر میں اس ناگزیر لازمے کو اس توجہ سے نہیں نوازا گیا جس کا یہ حقیقت میں مستحق ہے۔ 

بحث کے اختتام پر ایک بنیادی نکتہ تنقیح طلب رہ جاتا ہے کہ اگر سنتِ تشریعی (فہمِ قرآن کی نبوی روایت) تک رسائی حدیث (علم و فن) کے ذریعے ہی ممکن ہے تو کیا یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ چونکہ حدیث (علم و فن) اپنی حقیقت میں تاریخ ہے، اس لیے جدید دور میں فہمِ قرآن کی درستی، تاریخ کے باطن میں جھانکنے کا تقاضا کرتی ہے؟ جی ہاں! سچ یہی ہے۔ اسی لیے مسلم ثقافت نے ماضی میں حفظِ قرآن کی روایت سے شہ پا کر نہ صرف حدیث(علم و فن) کی داغ بیل ڈالی، بلکہ عصرِ حاضر میں جب بظاہر اس (حفظِ قرآن) کی ضرورت باقی نہیں رہی، اسے ذاتِ انسانی کی بنیادی خصوصیت (یاد) کے تحفظ کی غرض سے مزید پروان چڑھا کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہر شعبہ زندگی میں ایسی ترقی یا فتح جو انسان کی ذات سے وابستہ کسی بنیادی خصوصیت پر حملہ آور ہوئی ہے، مسلم ثقافت نے اسے ہمیشہ counter کیا ہے۔ (شاید counter کرنے کا یہ عمل کہیں کہیں encounter تک جا پہنچا ہے جس کی وجہ سے جدید مادی ترقی میں مسلم تہذیب کا کردار ویسا نہیں ہے جیسا کم از کم ہونا چاہیے تھا)۔ 
بحث سمیٹتے ہوئے ہم گزارش کریں گے کہ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ انسان کی معلوم تاریخ (known history) میں تاریخ کو علمی بنیاد فراہم کرنے کا سہرا ایک مسلمان کے سر بندھاہے اور اسے تاریخ کا باوا آدم (founding father) گرداناگیاہے۔ جی ہاں! یہ ابنِ خلدون ہی ہے جس نے بڑی بوڑھیوں کے قصے کہانیوں والی تاریخ اور اس سے آنکھیں بند کر کے کی جانے والی وابستگی کے بجائے تجزیہ و استدلال پر مبنی شعوری وابستگی کو تاریخ قرار دیا۔ واقعہ یہ ہے کہ ’مقدمہ‘ کوئی مسلمان ہی تخلیق کر سکتا تھا، کیونکہ غیر مسلموں کی علمی روایت میں حفظِ قرآن اور حدیث کی طرز کا کوئی علم و فن نہیں پایا جاتا(اگرچہ یاد اور حافظے کو کم زور کرنے والے آلات؛ چھاپہ خانہ کمپیوٹر وغیرہ ضرور نظر آتے ہیں)۔ اس لیے حدیث (علم و فن) کی نوعیت کا غیر جانب دارانہ اور معروضی مطالعہ مترشح کرتا ہے کہ اس کی بنت و بافت کے پیچھے مسلم تہذیب کا ثقافتی رویہ یا مسلم اجتماعی لاشعور کارفرما ہے۔ لہٰذابلا مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ حدیث(علم و فن) بلا شبہ، مسلم تہذیب کی داخلی مضبوطی کا خارجی اظہار ہے اور تاریخی اعتبار سے اصالتِ دین کی تلاش میں اس کا کردار نہایت کلیدی ہے۔ 

سرمایہ دارانہ انفرادیت کا حال اور مقام (۲)

محمد زاہد صدیق مغل

جاوید اکبر انصاری / زاہد صدیق مغل 

۲۔ سرمایہ دارانہ انفرادیت (Capitalist Subjectivity) 

اب ہم دیکھیں گے کہ سرمایہ دارانہ یعنی موجودہ مغربی تہذیب کا عام باشندہ عقائد اور حال کے فساد کا شکار ہے۔ پہلی صدی عیسوی کے آخر تک بیشتر عیسائیوں نے ان عقائد کے ایک حصے کو رد کردیا جنکی تبلیغ حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمائی اور جنہیں انکے حواریوںؓ نے قبول کیا تھا۔ دوسری سے چودھویں صدی عیسوی تک کی مغربی عیسائیت حضرت مسیح علیہ السلام اور یونانی افکار کا ایک مرکب بن گئی تھی۔ تحریک نشاۃ ثانیہ اور تحریک اصلاح مذہب (Renaissance and Reformation) نے مسیحی عقائد کو تقریباً مکمل طور پر رد کردیا اور یونانی عقائد و افکار کی ایک مسیحی تشریح پیش کی۔ انقلاب فرانس کے بعد اس ظاہری نمائشی عیسائی ملمع کاری کو بھی ترک کردیا گیا (۱۴) اور ہیوم جیسے فلسفیوں نے دہریت کے عقائد کی وکالت کی جو فی العمل یورپی عوام پر اثر انداز ہوئی۔ یورپی عوام کافر تو ہمیشہ سے تھے لیکن مسیحی تعلیمات کے زیر اثر قرون وسطی میں وہ بہیمیت اور دہریت سے قدرے محفوظ رہے اور ان میں عبدیت کا احساس موجود رہا گو کہ یہ احساس صرف مذہبی امور تک ہی محدود تھا۔ اٹھارویں صدی کے آخر تک یہ احساس نہایت مجروح ہوگیا اور ہیوم اور کانٹ کے فلسفوں نے عبدیت کو بے دخل کرکے آزادی یعنی بغاوت (۱۵) کو یورپی عوام کا اساسی عقیدہ اور احساس بنا دیا۔ یوں ایک عام یورپی کا حال اور مقام تبدیل ہوگیا۔ اس کی زندگی میں اضطرار (frustration / anxiety) نے اطمینان کی جگہ لے لی اور وہ عبدیت کے مقام سے گر کر مذہبی دائرے میں بھی خدا کا باغی بن گیا۔ اس مراجعت کی وجہ یہ تھی کہ ایک عام یورپی کانٹ اور ہیوم وغیرہ کے فلسفوں پر اسی طرح ایمان لے آیا جس طرح ایک عیسائی انجیل پر ایمان رکھتا ہے(۱۶)۔ واضح رہنا چاہئے کہ کانٹ اور ہیوم کے فلسفوں کے ما بعد الطبعیاتی مفروضے بھی ان کے احساسات پر نہ کہ کسی دماغی عقلیت کے فراہم کردہ شواہد اور دلائل پر قائم تھے۔ 

سرمایہ دارانہ شخصیت کی اساسی اقدار: آزادی، مساوات اور ترقی 

الحاد پرستی پر مبنی مغربی فلسفے کے مرکزی دھارے یعنی تحریک تنویر (Enlightenment) کا کلیدی تصور "Humanity" ہے۔ "Humanity" کا ترجمہ ’’انسانیت‘‘ کرنا غلط ہے۔ ’’انسانیت‘‘ کا درست انگریزی ترجمہ "Mankind" ہے۔ یہی لفظ انسانی اجتماعیت کے لیے انگریزی زبان میں ۱۸ ویں صدی سے قبل رائج تھا۔ "Humanity" کا تصور ’’انسانیت‘‘ کے تصور کی رد ہے۔ Humanity انسانیت کے تصور کا ان معنوں میں رد ہے کہ human being عبدیت اور تخلیقیت کا اصولاً اور عملاً رد ہے۔ Kant کے مطابق human being کا بنیادی وصف اور اس کی اصل "autonomy" یعنی خود ارادیت اور خود تخلیقیت ہے۔ انسان اپنے رب کے ارادے کا مطیع ہوتا ہے جبکہ human being خود اپنا رب ہوتا ہے اور وہ جو چاہتا ہے اسے کر گزرنے کا مکلف سمجھتا ہے۔ چنانچہ تصور humanity نے جس قدر کو فرد کا مقصد وجود قرار دیا وہ تھا آزادی۔ آزادی کس سے ؟ خدا کی بندگی سے۔ آزادی کی طلب گار انفرادیت کیا چاہتی ہے؟ یہ کہ جو چاہنا چاہے چاہ سکنے اور اسے حاصل کرنے کا حق۔ آزادی کا مطلب ہے ارادہ انسانی کے اظہار کے ’حق‘ کو ’خیر‘ پر فوقیت دینا یعنی خیروشر کا تعین کرنے کا مساوی حق ہر انسان کو ہونا چاہئے ما ورائے اس سے کہ انسان اس حق کو استعمال کرکے اپنے لئے خیر وشر کا کونسا پیمانہ طے کرتا ہے کیونکہ اصل خیر یہی ہے کہ انسان خود خیر وشر طے کرنے کا مکلف و مجاز ہو ۔ چنانچہ فرد اپنی ترجیحات کی جو بھی ترتیب مرتب کرے گا وہی اسکے لئے خیر ہوگا۔ اگر ہنری پتے گننے کو اپنی زندگی کا مقصد بنالے تو یہی اسکے لئے خیر ہوگا، اگر ابرار گلوکار بننا چاہتا ہے تو یہی اسکا خیر ہوگا اور اگر عبداللہ مسجد کا امام بننا چاہتا ہے تو یہ اسکا خیر ہوگا۔ الغرض اصل بات یہ نہیں کہ وہ اپنی آزادی کو کس طرح استعمال کرتا ہے بلکہ اصل خیر یہ ہے کہ وہ اپنے لئے خیر وشر طے کرنے کا حق استعمال کرنے میں آزاد ہو۔ دوسرے لفظوں میں آزادی کا مطلب ہے choice of choice (جو چاہنا چاہوں چاہ سکنے کا حق)، یعنی کوئی عمل فی نفسہ اچھا یا برا نہیں اور نہ ہی ہیومن کے ارادے کے علاوہ کوئی ایسا پیمانہ ہے جسکے ذریعے کسی عمل یا شے کی قدر (value)متعین کی جاسکے، human being معیارات خیر وشر خود متعین کرتا ہے۔ 
Kant کے مطابق خیر و شر کے تعین کے لیے human being کو اس سوال کا جواب دینا چاہیے کہ کیا وہ عمل صفت آفاقیت (Universalisation) کا متحمل ہوسکتا ہے یا نہیں، یعنی کیا تمام افراد کو اس عمل کی اجازت دینے کے بعد بھی اس عمل کو کرنا ممکن ہوگا یا نہیں؟ اس اصول کے مطابق ایک فرد کا ہر وہ فعل اور خواہش قانوناًجائز ہے جسے وہ خواہشات میں ٹکراؤ پیدا کیے بغیر تمام انسانوں کو کرنے کی اجازت دینے پر تیار ہوسکتا ہے۔ کانٹ کے اصول کی طرح نظریہ افادیت (Utilitarianism) نے بھی قدر کے تعین کا ایک پیمانہ پیش کیا ہے اور وہ ہے شدت لذت (Intensity of Pleasure) ۔ مثلاً اگر ہنری زنا کرنے سے زیادہ اور کتاب پڑھنے سے کم لذت حاصل کرتا ہے تو وہ زنا کو بدرجہ کتاب زیادہ قدر دے گا لیکن اسے بش کا یہ حق تسلیم کرنا ہو گا کہ وہ کتاب پڑھنے سے حاصل شدہ لذت کو زنا سے حاصل شدہ لذت کے مقابلہ میں زیادہ قدر دے۔ تعین قدر کے ان دونوں تصورات میں human being آزاد ہے کہ وہ قدر کو اپنے ارادہ کے مطابق متعین کرے، لیکن قدر کا تعین اس طریقہ سے کیا جائے گا کہ ہر human beingکو قدر کا تعین اپنے ارادے کے مطابق کرنے کا اختیار حاصل ہو۔ 
واضح ہوا کہ Humanist تصورِ انفرادیت آزادی کے بعد جس قدر کو مرکزی اہمیت دیتی ہے وہ ہے مساوات (Equality) ، یعنی یہ ماننا کہ چونکہ ہر فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے لئے قدر کا جو پیمانہ چاہے طے کرلے، لہٰذا ہر شخص کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ دوسروں کے اس مساوی حق کو تسلیم کرے کہ وہ بھی اپنی زندگی میں خیر اور شر کا جو پیمانہ چاہیں طے کرلیں اور اس با ت کو مانے کہ خیر و شر کے تمام معیارات مساوی (Equal)ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر شخص کے تعین قدر کی ترتیب کو یکساں اہمیت دی جائے اور کسی بھی فرد کے معیار خیر وشر اور اقداری ترجیحات کی ترتیب کو کسی دوسرے کی ترتیب پر فوقیت نہیں دی جانی چاہئے۔ پس خود ارادیت اور خود تخلیقیت (autonomy) کا ہر human being یکساں مکلف ہے اور سرمایہ دارانہ شخصیت کی تعمیر کے لیے صرف آزادی کافی نہیں بلکہ مساوی آزادی (equal freedom) کوتسلیم کیا جانا ضروری ہے۔ معلوم ہوا کہ آزادی کچھ نہیں بلکہ یہ عدم محض (empty space OR nothingness) ہے، یعنی یہ صرف اس ’صلاحیت ‘ کا نام ہے جو مجھے میری ’ہر چاہت‘ حاصل کرسکنے کا مکلف بنا دے، ماورائے اس سے کہ وہ چاہت کیا ہے۔ ہیومن یا سرمایہ دارانہ انفرادیت کیا چاہتی ہے؟ یہ کہ ’میں جو چاہنا چاہوں چاہ سکنے کا حق ‘ (preference for preference itself) نہ کہ کوئی مخصوص چاہت ، کیونکہ جونہی میں کسی مخصوص چاہت کو اپنی ذات کا محور و مقصد بناتا ہوں آزادی ختم ہوجاتی ہے جسے یوں بیان کرتے ہیں کہ "his self can possess ends but cannot be constituted by them" ۔ جمہوریت سرمایہ دارانہ انفرادیت کے سیاسی اظہار کا نام ہے جسکا مقصد ایسی ریاستی صف بندی فراہم کرنا ہے جسکے ذریعے ہر شخص کے لئے یہ ممکن ہوسکے کہ وہ جو چاہنا چاہے چاہ سکنے اور اسے حاصل کرسکنے کا مکلف ہوجائے۔ البتہ مغربی تہذیب کا یہ دعوی کہ سرمایہ دارانہ نظام زندگی میں ہر فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ’جو‘ چاہنا چاہے چاہ سکے ایک جھوٹا دعوی ہے کیونکہ فرد کو آزادی یعنی سرمایہ دارانہ نظام زندگی رد کرنے کا حق حاصل نہیں ہوتا۔ میں اگر گوشت کھانا چاہتا ہوں تو چاہوں، ہمہ وقت کھیلنا چاہتا ہوں تو چاہوں، مگر میں ایسا کچھ نہیں چاہ سکتا جس سے اصول آزادی یعنی دوسروں کا اپنی چاہت چاہنے اور اسے حاصل کرنے کا حق سلب ہوجائے۔ مثلاً میں یہ نہیں چاہ سکتا کہ کسی شخص کو شرعی منکر (مثلاً زنا) سے روک دوں کیونکہ جونہی میں اپنی اس چاہت پر عمل کرتا ہوں اصول آزادی کی خلاف ورزی ہوگی اور جمہوری ریاست مجھے ایسا کرنے سے بذریعہ قوت روک دے گی (۱۷) ۔ چنانچہ فرد اپنے کسی مخصوص تصور خیر مثلاً اظہار مذہبیت پر ’بطور ایک حق‘ عمل تو کرسکتا ہے مگراسے دیگر تمام تصورات خیر پر غالب کرنے کا ارادہ نہیں کرسکتا کہ ایسا کرنا اصول آزادی کے خلاف ہے اور اگر اصول آزادی ہی رد کردیا گیا تو پھر میرا یہ حق کہ میں جو چاہنا چاہوں چاہ سکتا ہوں خود بخود فسخ ہوجائے گا۔ لہٰذا سرمایہ دارانہ نظام زندگی میں ہر فرد اپنی انسانیت ترک کرکے ہیومن بننے پر مجبور ہوتا ہے، وہ آزادی کے سواء اور کچھ نہیں چاہ سکتا۔ فرد کی ہر وہ خواہش قانوناً اور اخلاقاً ناجائز اور قابل تنسیخ ہے جو اصول اظہار آزادی کے خلاف ہویعنی جسکے نتیجے میں دوسروں کی آزادی چاہنے کی خواہش میں تحدید ہوتی ہو۔ مشہور لبرل مفکر Rawls کہتا ہے کہ مذہبی آزادی کو لبرلزم کے لئے خطرہ بننے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، وہ مذہبی نظریات جو لبرل آزادیوں (یعنی فرد کے تعیین خیر وشر کے حق) کا انکار کریں ان کو عملاً کچل دینا اتنا ہی ضروری ہے جتنا امراض کو ختم کرنا ضروری ہے۔ 
مساوی آزادی کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ human being اپنے ارادے کو غیر human اشیاء پر مسلط کر کے انہیں اپنے ارادے کا تابع کرے (ان غیر human موجودات میں غیر human انسان اور فطری قوتیں دونوں شامل ہیں)۔ Human ارادے کے اس کائناتی تسلط کو progress یا ترقی کہتے ہیں جو سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی اور انفرادیت کی تیسری اہم قدر ہے۔ Progress کا ذریعہ سرمایہ کی بڑھوتری ہے۔ محمد مارماڈیوک پکتھالؒ نے سرمایہ کو تکاثر کے مماثل کہا ہے اور اپنے ترجمہ قرآن میں تکاثر کے انگریزی معنی "Rivalry in Wordly Increase" بیان فرمائے ہیں۔ سرمایہ میں بڑھوتری آزادی کے فروغ کی عملی شکل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک شخص اپنے human ہونے کو تسلیم کرتا ہے تو وہ خواہشات کی زیا دہ سے زیادہ تکمیل (maximum satisfaction) کو مقصد حیات کے طور پر قبول کرتا ہے اور ارادہ انسانی کی یہی منتہا تکمیل ترقی کا جوہر ہے ۔ وہ سرمایہ کی بڑھوتری کو اپنی زندگی کے اولین مقصد کے طور پر قبول کرتا ہے کہ آزادی کا مطلب ہی سرمایہ کی بڑھوتری ہے اس کاکوئی دوسرا مطلب نہیں، جو شخص آزادی کا خواہاں ہے وہ لازماً اپنے ارادہ سے اقدار کی وہ ترتیب متعین کرے گا جس کے نتیجے میں اس کی آزادی میں اضافہ ہو کیونکہ سرمایہ ہی وہ شے ہے جو میری اس صلاحیت میں اضافے کو ممکن بناتا ہے کہ میں جو چاہنا چاہوں چاہ سکوں۔ ترقی درحقیقت وہ طریقہ ہے جسکے ذریعے آزادی اور مساوات کا اظہار ممکن ہوتا ہے، یعنی اگر کوئی معاشرہ آزادی اور مساوات کے اصول پر زندگی گزارنا چاہتا ہے تو وہ واحد طریقہ جسکے نتیجے میں ہر فرد اپنی خواہشات کی ترتیب طے کرنے اور اسے حاصل کرسکنے کا مکلف بن سکتا ہے ترقی یعنی سرمائے میں لامحدود اضافہ کرنے کی جدوجہد ہے۔ Rawls کہتا ہے کہ human being کی زندگی میں صرف چار مقاصد اصل خیر ہوتے ہیں، (ا) دولت، (۲) آمدنی، (۳) قوت اور (۴) اختیار۔ یہی اقدار خیر مطلق (absolute goods) ہیں اور ان میں اضافے کی جدوجہد ہی حاصل زندگی ہے۔ چنانچہ سرمائے میں لامحدود اضافے کے علاوہ اور کوئی ایسا مقصد ہے ہی نہیں جسے سرمایہ داری کے اندر تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہو۔ یہی وہ واحد شے ہے جو ہر تصور خیر کے پنپنے کے امکانات ممکن بنا تی ہے لہٰذا اصل خیر جس سے ہر ہیومن منسلک (committed) ہوتا ہے وہ سرمائے میں لامحدود اضافے کی خواہش ہے اور اسی کیلئے وہ اپنا تن من دھن سب کچھ وار دیتا ہے۔ ہر تصور خیر کے پنپنے کے مواقع میں اضافہ (maximization of opportunities)جمہوری ریاست کااصل مقصد (end in itself)ہوتا ہے ماورائے اس سے کہ وہ مواقع کس شے کے اظہار کیلئے استعمال ہو رہے ہیں۔ مواقع کے بدستور اضافے کے اس عمل کا اظہار ہمیشہ معاشی اعدادوشمار (economic indicators) کی کارکردگی کی صورت میں ناپا جاتا ہے جو یہ بتاتے ہیں کہ سرمائے میں اضافے کا مجموعی عمل کس رفتار سے بڑھ رہا ہے۔ مواقع اور سرمائے کا اضافہ ہی ارادہ محض کے اظہار کا واحد ممکن اور جائز طریقہ ہے۔ 

سرمایہ دارانہ شخصیت (ہیومن بینگ) کا معیار عقلیت 

جیسا کہ اوپر واضح کیا گیا کہ دماغی عقلیت یعنی خرد مخصوص احساسات ہی کو بطور معیار عقل قبول کرتی ہے، سرمایہ دارانہ عقلیت کے نزدیک بھی عقلیت کا معیار آزادی سے ماخوذ شدہ احساسات ہیں۔ چنانچہ علم معاشیات فرد کو یہ باور کراتا ہے کہ وہ اپنی انفرادیت (یاآزادی) کا اظہار عمل صرف (Consumption) کے ذریعے کرتا ہے یعنی وہ جتنی اشیاء صرف (Consume) کرتا ہے اتنی ہی زیاد ہ خواہشات کی تسکین کر سکتا ہے اورایک صارف (Consumer) زیادہ سے زیادہ خواہشات کی تسکین تبھی کر سکتا ہے جب اس کے پاس زیادہ سے زیاد ہ اشیاء خریدنے کے لیے آمدنی (Income) ہو۔اسی طرح معاشیات کا مضمون یہ بھی کہتا ہے کہ human being کی خواہشات لامحدود (Infinite) ہونی چاہئیں اور وہ انہیں پورا کرنے کا مکلف بھی ہے۔ مگر چونکہ ان خواہشات کو پورا کرنے کے ذرائع لامحدود نہیں ہیں، لہٰذا زیادہ سے زیادہ خواہشات کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ فرد اپنے ذرائع کو اپنے وجود کی ممکنہ حد تک بڑھانے کی کوشش میں لگارہے اور ذرائع میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرنے کی اس خواہش ہی کو ماہرین معاشیات عقلیت (Rationality) کا معیار کہتے ہیں ، یعنی عقلمند شخص (Rational agent) وہی ہے جو سرمائے میں لامحدود اضافے کی خواہش رکھتا ہو۔ سرمایہ دارانہ عقلیت ہر human being سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ وہ اپنی خواہشات کو اس طرح مرتب کرے کہ ان کے حصول (realisation) کی جدوجہد سرمایہ کی بڑھوتری کے فروغ میں ممد اور معاون ہو۔ خواہشات کی ہر وہ ترتیب جو انسان کو سرمایہ کی بڑھوتری کے عمل کا آلہ کار نہیں بناتی، اس عقلیت کے خلاف ہے یعنی irrational ہے۔ معلوم ہوا کہ سرمایہ دارنہ انفرادیت کا نفس جن دو بنیادی اقدار و احساسات سے مغلظ ہوتا ہے وہ حرص اور حسد ہیں۔ یعنی سرمایہ دارانہ معیارعقلیت کے مطابق فرد کو ہر وقت اپنا معیار زندگی بلند کرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ مادی ذرائع کے حصول کی خواہش اور کوشش کرتے رہنا چاہئے، نیز چونکہ سرمایہ دارانہ معاشرے میں ہر شخص لامحدود خواہشات کی تکمیل کیلئے محدود ذرائع کے حصول میں سرکرداں ہے لہٰذا حصول ذرائع کیلئے ہر فرد دوسرے شخص سے مسابقت میں مصروف رہے ۔ فرد کو محض زیادہ کی خواہش پر اکتفا نہیں کرناچاہئے بلکہ ’دوسرے سے زیادہ‘ کو اپنی جدوجہد کا محور بنانا چاہئے۔ اتنا ہی نہیں کہ افراد محض عمل تکاثر ( حسد) میں مصروف ہوں بلکہ وہ اس عمل سے بھی لذت حاصل کریں اور اس عمل کو بالذات مقصد اور عقلمندی کا تقاضا سمجھیں۔ حرص و حسد کا فروغ ہی سرمایہ دارانہ عقلیت کا اصل وظیفہ ہے اور انہی کا فروغ human being کے تمام فیصلوں کی بنیاد ہے ۔ جیسا کہ امام غزالی ؒ نے تہافۃ الفلاسفہ میں فرمایا کہ عقلیت کے کئی جاہلانہ تصورات ہیں، سرمایہ دارانہ عقلیت وہ جاہلانہ عقلیت ہے جو human being کے ارادہ محض (یعنی سرمایہ کی بڑھوتری) کو اصل الاصول اور اصل مقصد کے طور پر فرض (presume) کرتی ہے اور ہر عمل اور شے کی قدر اس فاسد اور باطل مقصد (یعنی سرمایہ کی بڑھوتری) کے حصول کے ذریعہ کی حیثیت کی بنیاد پر متعین کرتی ہے۔ مگر سرمایہ دارانہ عقلیت درحقیقت جہالت ہے جیسا کہ امام صاحبؒ فرماتے ہیں کہ عقلمندی تو خدا کا خوف ہے۔ حدیث شریف میں ارشاد ہوا راس الحکمۃ مخافۃ اللہ یعنی اللہ کا خوف دانش مندی کی بلند ترین چوٹی ہے۔ 

سرمایہ دارانہ شخصیت (ہیومن بینگ) کے تعلقات 

دھیان رہے کہ آزادی کا مطلب ہے خود کفیل (autonomous or self-sufficient) ہو جانے کا دعوی کرنا (۱۸) یعنی تمام تعلقات کی نفی کرنا ۔ چونکہ سرمایہ دارانہ انفرادیت خواہشات کی تمام ترجیحات کو برابر تسلیم کرتی ہے نیز اسکے پاس خواہشات کی قدر متعین کرنے کا کوئی پیمانہ موجود نہیں، لہٰذا یہ محبت اور ذات میں شرکت کی نفی کرتی ہے۔ محبت کیلئے ضروری ہے کہ دوسرے کی خواہشات کو اپنا لیا جائے اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ جب خواہشات میں ترجیح کا پیمانہ قائم کرنا ممکن ہو۔ تعلیمات انبیاء کے سواء نفس کے پاس ایسا کوئی پیمانہ و اصول موجود نہیں جسکی بنیاد پر وہ خواہشات کو جانچ سکے۔ آزادی کی پرستار انفرادیت غیر کو اپنا نہیں سکتی کیونکہ وہ وسیع سے وسیع تر احاطہ میں اپنی ربوبیت قائم کر نا چاہتی ہے۔ لہٰذا دوسرا فرد لازماً ’اسکا غیر ‘ ہے اور ان معنوں میں اسکا مدمقابل ہے کہ غیر کا وجود اس کی آزادی (جو چاہنا چاہے چاہ سکنے کی خواہش) کی تحدید کرتا ہے۔ بقول سارتر 'hell is other people' (Sartre) (یعنی جہنم کیا ہے، میرے علاوہ دوسرے لوگ ہی میری جہنم ہیں)۔ سرمایہ دارانہ انفرادیت کے پاس اپنے جیسے دوسرے افراد کے ساتھ بسنے کیلئے تعلقات کے بجائے معاہدے (contract) کا تصور ہوتا ہے(۱۹) ۔ یہ انفرادیت خود اپنے آپ اور دوسروں کو ’مجرد فرد ‘ (ahistorical and asocial anonymous individual ) کے طور پر پہچانتی ہے نہ کہ ماں پاب، بھائی بہن، استاد شاگرد، میاں بیوی، پڑوسی وغیرہ کے ۔ اس فرد مجرد کے پاس پہچان (identity) کی اصل بنیاد ذاتی اغراض ہوتی ہیں، یعنی وہ یہ تصور کرتا ہے کہ میری طرح ہر فرد کے کچھ ذاتی مفادات ہیں اور ہمارے تعلقات کی بنیاد اور مقصد اپنے اپنے مفادات (self-interests)کا حصول ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہئے۔ ان اغراض کی تکمیل کیلئے وہ معاہدے پر مبنی تعلقات استوار کرتا ہے جنکی بنیاد اس کی اپنی اغراض (interests)ہوتی ہیں اور انہیں اغراض اور حقوق کے تحفظ کی خاطر وہ جدوجہد کرتا ہے۔ چنانچہ اس کی معاشرت میں ہر شخص اپنے مفادات کے تحفظ و حصول کیلئے اپنی اغراض کی بنیاد پر interest-groups (اغراض پر مبنی گروہ) بناتا ہے، مثلاً مارکیٹ کمیٹیاں، مزدور تنظیمیں، اساتذہ و طلبہ تنظیمیں، صارفین و تاجروں کی یونین، عورتوں اور بچوں کے حقوق کی تنظیمیں و دیگر این جی اوز وغیرہ اسکے اظہار کے مختلف طریقے ہیں جہاں تعلقات کی بنیاد صلہ رحمی یا محبت نہیں بلکہ انکی اغراض ہوتی ہیں۔ ذاتی اغراض کی ذہنیت (rationality) در حقیقت محبت کی نفی ہے۔ سرمایہ دارانہ انفرادیت دوسرے شخص سے صرف اسی وقت اور اتناہی تعلق قائم کرتی ہے جو اس کی اپنی اغراض پوری کرنے کا باعث بنیں۔ ایک مذہبی معاشرے میں استاد کا تعلق اپنے شاگرد سے باپ اور مربی کا ہوتا ہے،اس کے مقابلے میں مارکیٹ (یا سرمایہ دارانہ) سوسائٹی میں یہ تعلق ڈیمانڈر اور سپلائیر (demander and supplier) کا ہوتا ہے یعنی استاد محض ایک خاص قسم کی خدمت مہیا کرنے والا جبکہ طالب علم زر کی ایک مقررہ مقدار کے عوض اس خدمت کا طلب گار ہوتا ہے اور بس۔ شاگرد سے فیس لینے کے علاوہ استاد کو اس کی زندگی میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی اور یہی حال شاگرد کا ہوتا ہے۔ ہر وہ تعلق جس کی بنیاد طلب ورسد (demand and supply)اور زر (money and finance)کی روح پر استوار نہ ہو سرمایہ دارانہ معاشرے میں لایعنی، مہمل، بے قدرو قیمت اور غیر عقلی (irrational)ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ معیار عقلیت کے مطابق عقل مندی (rationality) اسی کا نام ہے کہ آپ ذاتی غرض کی بنیاد پر تعلق قائم کریں۔ معاہدات پر مبنی یہ معاشرت خاندان کو تباہ و برباد کردیتی ہے کیونکہ خاندان اور برادری کی بنیاد محبت و صلہ رحمی ہے نہ کہ ذاتی اغراض کی تکمیل۔ لازم تھا کہ ہم سرمایہ دارانہ معاشرے (سول سوسائٹی) کی خصوصیات پر مزید کچھ گفتگو کرتے کیونکہ یہی وہ معاشرت ہے جہاں سرمایہ دارانہ انفرادیت نشونما پاکر دوام اختیار کرتی ہے لیکن یہ بحث ہمارے موضوع سے براہ راست تعلق نہیں رکھتی۔ مگر یاد رکھنا چاہئے کہ معاشرتی تعلقات اور صف بندی کی نوعیت کو سمجھنا نہایت اہم ہے کیونکہ یہ تعلقات وہ جال ہیں جن کے اندر شامل ہوکر فرد اپنی شناخت کرتا ہے کہ ’میں کون ہوں؟‘ معاشرتی تعلقات کی بنیاد پر فرد ایک خاص قسم کی اغراض اور شخصیت کو قبول کرلیتا ہے۔ 

سرمایہ دارانہ شخصیت (ہیومن بینگ) کے بنیادی احساسات 

آزادی کے طلب گار مغربی فرد کا المیہ احساس کی کثافت ہے۔ اس کا قلب شہوت اور غضب کے احساسات سے مغلوب ہے اور یہی حال ان لوگوں کا ہے جو مغرب سے متاثر ہیں۔ اس پر اضطرار اور یاسیت (frustration and boredom) کی کیفیات بالعموم طاری رہتی ہیں۔ احساس محرومی اور تنہائی نے اسے ابدی طور پر گھیر لیا ہے۔ عیسائی تعلیمات کے مطابق اضطرار انسان کا وہ ابدی ورثہ ہے جو اسنے پہلے گناہ (original sin) کی وجہ سے اپنے اوپر مسلط کرلیا ہے۔ عیسائی مفکرین مثلاً کیرکگارڈ (Kirkegard) کے بقول آدمؑ جنت میں اپنی تنہائی کی وجہ سے اضطرار کا شکار ہوئے اور پہلا گناہ کر بیٹھے۔ لہٰذا تنہائی اور اضطرار کا احساس مقدم اور دائمی ہے اور ان احساسات سے دنیاوی زندگی میں نجات ناممکن ہے۔ مغربی دہریت بھی احساس اضطرار و تنہائی کا اقرار کرتی ہے۔ یہ دہریت فرد کو آزادی حاصل کرنے یعنی خدا (الصمد) بن جانے کی تلقین کرتی ہے۔ مگر آزادی کا مطلب ہی تعلقات کی نفی کرناہے، لہٰذا معلوم ہوا کہ آزادی احساس تنہائی کا دوسرا نام ہے۔ انسان جتنا تنہا ہوگا اس کی آزادی اتنی بڑھے گی۔ چونکہ اضطرار اور یاسیت کی وجہ تنہائی ہے، اس لئے : 
  • جیسے جیسے آزادی بڑھے گی ویسے ویسے تنہائی بڑھے گی 
  • جیسے جیسے تنہائی بڑھے گی اضطرار اور یاسیت بڑھے گی اور انسان کا احساس محرومی اور اسکا غضب و شہوت قلب کو مسخر کرے گا 
چنانچہ اضطرار مغربی انسان یعنی ہیومن کا اساسی احساس ہے اور مغربی مفکرین مثلاً ہائیڈیگر اور سارت وغیرہ کے نزدیک یہ انسان کی فطری کیفیت ہے۔ ہائیڈیگر کہتا ہے کہ ’اضطرار بالکل غیر معین ہے اور یہ عدم محض کی تلاش اور جستجو کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے‘۔ پھر آزادی کا حصول بھی ناممکن ہے جسکی چار بڑی وجوہات ہیں: 
(۱) مغربی فرد وجود کی لامعنویت کا قائل ہے، وہ وجود کا واحد مقصد حصول آزادی قرار دیتا ہے اور چونکہ آزادی خود کچھ نہیں بلکہ عدم محض اور تعلقات کے عدم وجود کا نام ہے لہٰذا وجود کچھ حاصل کرنے سے قاصر ہے۔ اسلئے اسکے نزدیک زندگی محض کھیل تماشا ہے جس میں معنویت انسانی خواہشات پیدا کرتی ہیں اور چونکہ ہر خواہش ان معنی میں لایعنی ہے کہ اس کی کوئی قدر نہیں لہٰذا وہ زندگی کو معنی دینے کیلئے اظہار ذات کے نت نئے طریقوں کی تلاش میں رہتا ہے (۲۰) ۔ مگر چونکہ آزادی عدم محض ہے، لہٰذا اسکا قلب لامعنویت اور اضطرار کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا رہتا ہے اور اسے کبھی اطمینان کی دولت نصیب نہیں ہوتی کیونکہ اطمینا ن تو کسی شے کے حصول اور اسپر راضی ہوجانے کے بعد نصیب ہوتا ہے اور اسکا واحد منبع ذکر الہی ہے جو انسان کو اسکے ابدی مقام کی مسلسل یا ددلاتا ہے 
(۲) پھر کوئی شخص بھی اپنے جینیاتی (genetic)ورثہ اور اپنے تاریخی وقوع (historical situation) کو خود متعین نہیں کرسکتا۔ میں محمد صدیق کا بیٹا اور مرد ہونے پر مجبور ہوں۔ میں اپنے ارادے کے بغیر مجبوراً یکم دسمبر ۱۹۷۸ کو کراچی کے ایک مسلمان اور متوسط آمدنی کے گھرانے میں پیدا ہوگیا۔ نہ میں اپنا زمان و مکان خود متعین کرسکتا ہوں اور نہ اپنی صلاحیتیں خود منتخب کرسکتا ہوں۔ ان تمام مجبوریوں کے پیش نظر میری آزادی کس قدر محدود ہے 
(۳) ان سب سے بڑھ کر آزادی کو محدود کرنے والی شے موت ہے کہ میں عنقریب اپنے کسی ارادے کے بغیر مرجاؤں گا، پھر آزادی کا کیا مطلب؟ 
(۴) اور پھر آزادی طلب کرنے کیلئے فرد کو آزادی یعنی سرمائے کا جبر قبول کرنا پڑتا ہے۔ آزادی (choice of choice) چاہنے کیلئے ضروری ہے کہ میں سرمائے کو چاہوں کہ یہی وہ شے ہے جو ہر تصور خیر کے پنپنے کے امکانات ممکن بنا تی ہے۔ لہٰذا اصل خیر جس سے ہر ہیومن کو منسلک (committed) ہونا پڑتا ہے وہ سرمائے میں لامحدود اضافہ کرنے کی خواہش ہے اور اس مقصد کے حصول کیلئے وضع کی جانے والی ادارتی صف بندی (institutionalization) کو اسے قبول اور برداشت کرنا پڑتا ہے۔ فرد اس دھوکے میں رہتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو خود اپنی مرضی سے معنی دے رہا ہے جبکہ حقیقتاً وہ اپنی خواہشات کو اسی طرح ترتیب دینے پر مجبور ہے جسکی مارکیٹ اسے اجازت دیتی اور مواقع فراہم کرتی ہے (اور مارکیٹ اخلاق رزیلہ ہی کے اظہار کے مواقع فراہِم کرتی ہے) 
ان خیالات کو قبول کرکے جو بھی شخص آزادی کی جستجو میں ہے اپنی زندگی کو لایعنی بنا لیتا ہے۔ مشہور جرمن فلسفی ہائیڈیگر کہتا ہے کہ ’انسان اشیاء کو پاتا ہے انہیں تخلیق نہیں کرسکتا، وہ کائنات میں پھینک دیا جاتا ہے ‘ (we are thrown into the universe)۔ بقول سارت کون کس وقت کیوں کائنات میں پھینکا گیا یہ ہم نہیں جان سکتے اور چونکہ انسان کائنات میں پھینک دیا جاتا ہے، چونکہ وہ کائنات میں تنہا ہے، چونکہ اسکے وجود کو ایک دن ختم ہوجانا ہے، چونکہ وہ واقعیت (facticity) کی جکڑ بندیوں میں ازلی ابدی طور پر جکڑا ہوا ہے، چونکہ واقعیت کی جکڑ بندیاں صرف یہی نہیں کہ وہ اپنے جینیاتی ورثہ اور تاریخی وقوع کے بارے میں مجبور ہے بلکہ واقعیت اس بات کا بھی احاطہ کرتی ہے کہ وہ نیک ہے یا بد، جس طرح وہ جینیاتی اور تاریخی وقوع کے اعتبار سے مجبور ہے اسی طرح میلانات کی پاکیزگی یا کثافت کے اعتبار سے بھی مجبور ہے، لہٰذا نیکی اور بدی کے پیمانے بھی ازلی اور ابدی نہیں ہیں ۔ موت وجود کو ختم کردیتی ہے اور مغربی تصورات خیروشر انفرادی موت کا احاطہ کرنے سے قاصر ہیں۔ اگر موت وجود کو ختم کردیتی ہے تو خیروشر کے ایسے پیمانے جو ذاتی اخلاقیات پر محیط ہوں پیش نہیں کئے جاسکتے، بالخصوص ان حالات میں جب فرد حصول آزادی کو مقدم رکھتا ہو۔ ہر وہ انفرادی فعل جائز ہوگا جس کے ذریعے موت کو موخر یا بھلایا جاسکے ۔ مغربی انفرادیت کے پاس خیر کا کوئی substantive (مثبت،منجمدیا حقیقی ) تصور سرے سے موجود ہی نہیں، کیونکہ جس آزادی کو وہ خیر اعلی گردانتا ہے اسکا مافیہ کچھ نہیں بلکہ وہ عدم محض ہے۔ یہاں خیر ’کوئی مخصوص چاہت ‘ نہیں بلکہ ’کسی بھی چاہت کو اختیار کرسکنے کا حق‘ ہے۔ دوسرے لفظوں میں مغربی تصور خیر درحقیقت عدم خیر (absence of any good) ، یعنی ہر خیر کی نفی کا نام ہے اور یہ عدم خیر ہی اسکے خیال میں خیر اعلی ہے۔ انہی معنی میں مغربی تصور خیر اصلاً شر محض (absolute evil)ہے کیونکہ شر درحقیقت عدم خیر ہی کا نام ہے اسکااپنا علیحدہ کوئی وجود نہیں۔ اسی لئے مارماڈیوک پکتھال فرمایا کرتے تھے کہ مغربی تہذیب در حقیقت تہذیب نہیں ’بربریت‘ (savagery) یعنی تہذیب کی ضد ہے، اور مغربی انفرادیت یعنی ہیومن درحقیقت ابلیس (۲۱) ہے۔ 

سرمایہ دارانہ شخصیت (ہیومن بینگ) کا تصور علم 

معلوم ہوا کہ سرمایہ دارانہ انفرادیت حالت اضطرار میں اس لئے مبتلا ہے کیونکہ وہ شہوت و غضب کا شکار ہے۔ جس شے کو وہ مفروضے اور عقلمندی کے طور پر قبول کرتی ہے وہ آزادی یعنی ارادہ انسانی کی بالا دستی یا حصول لذات و غضب کو زندگی کا مقصد سمجھنا ہے۔ اس بیماری کی حالت میں جس شے کا علم وہ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے وہ دنیا ہے۔ ادراک ذات کے امکان کو وہ سرے سے ناممکن سمجھتی ہے کیونکہ ادراک ذات کیلئے ضروری ہے کہ خواہشات میں ترجیح کا پیمانہ قائم کیا جائے جو اسکے لئے ممکن نہیں ہے۔ Rawls  کہتا ہے کہ تم جو کچھ بھی چاہتے ہو وہ ٹھیک ہے یعنی اس بات کو حتمی سمجھو کہ انسان جو چاہتا ہے وہ اس کا مکلف ہے اور یہ ممکن ہی نہیں کہ تم کہہ سکو کہ انسان کو کیا چاہنا چاہئے اور ہر انسان اس چاہنے کے حق میں برابر ہے۔ گویا یہ لاعلمی لازم جانو کہ ہمارے پاس ایسی کوئی اطلاع نہیں ہے جو یہ بتائے کہ انسان جو چاہتا ہے اسے چاہنا چاہئے یا نہیں۔ پس جتنا زیادہ وہ دنیا پر تصرف کرتا ہے اتنی ہی زیادہ تسکین حاصل کرسکتا ہے۔ لہٰذا ایسا فرد جس شے کو علم سمجھتا ہے وہ دنیا کے بارے میں اس کی وہ اطلاع ہے جو اسکے کلیات (faculties) مثلاً حواس اسے فراہم کرتے ہیں۔ وہ اپنے رب کا باغی ہے اور سمجھتا ہے کہ علم اور معنی کا منبع اس کی ذات ہے۔ دنیا کے علاوہ ہر علم کا وہ انکاری ہے، مگر ہم اس کی معلومات کو علم نہیں مانتے کیونکہ جیسا کہ امام غزالیؒ نے فرمایاکہ علم تو خدا کا ڈر ہے یعنی جو معلومات خشیت پیدا کرے وہ علم ہے اور جو ایسا نہیں کرتی وہ جہالت ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء یعنی علم رکھنے والے ہی اللہ سے ڈرتے ہیں، معلوم ہوا کہ علم کا حاصل تقوی ہے ۔ سرمایہ دارانہ انفرادیت کے پاس دنیا کی چیزوں کی اطلاعات بہت ہیں لیکن یہ اسے کوئی علم مہیا نہیں کرتیں۔ جو بھی اطلاعات اسے ملتی ہیں صرف ان چیزوں سے متعلق ہیں جو محسوسات سے تعلق رکھتی ہیں اور ظاہر ہے محض محسوسات کی بناء پر جو اطلاعات فراہم ہوتی ہیں انکی یہ حیثیت نہیں کہ فرد کے اندر خوف خدا پیدا کردیں ۔ خوف خدا پیدا ہونے کیلئے ضروری ہے کہ فرد ان تمام اطلاعات کا مشاہدہ کرنے کیلئے صحیح مقام (عبدیت) پر ہو، بصورت دیگر وہ اطلاعات اسے محض اس بات پر تقویت دیں گی کہ وہ ایک خدا ہے جو کہ اس کی قلبی بیماری ہے۔ گویا اس کے پاس اطلاعات تو ہیں لیکن چونکہ وہ مشاہدہ درست مقام سے نہیں کرتا، اسلئے اسکے پاس علم نہیں آتا بلکہ وہ ان تمام اطلاعات کو ترتیب دیکر اپنی لذات کی تسکین اور غلبے کی کوشش کرتا ہے۔ قرآن نے اس حقیقت سے یوں پردہ اٹھایا فاعرض عن من تولی عن ذکرنا ولم یرد الا الحیوۃ الدنیا ذالک مبلغہم من العلم  (جو لوگ میرے ذکر سے منہ موڑتے ہیں اور صرف دنیاوی زندگی کے طالب ہیں ان سے اعراض کرو، ان کے علم کا مقصد و محور بس اتنا ہی ہے)۔ یاد رکھو کہ علم کی بنیاد ما بعد الطبعیات پر مبنی مفروضات ہوتے ہیں، جاننے کا عمل محض جاننے کیلئے نہیں بلکہ ’کسی لئے جاننا ‘ ہوتا ہے۔ یعنی جانناعالم و معلوم کے درمیان ایک تعلق کا نام ہے اور اس تعلق کی نوعیت عالم کے مقصد سے متعین ہوتی ہے ۔ اگر مقاصد جدا ہونگے تو جاننا بھی جدا ہوگا۔ میرے استاد اور باس کے مجھے جاننے میں جو فرق ہے وہ ان کے مقاصد کے فرق کی بناء پر ہے۔ میرے باس میری ذات کو بطور یونیورسٹی میں علم معاشیات کے مضامین پڑھانے والے ایک وجود کی حیثیت سے پہچانتے ہیں جبکہ میرے اساتذہ مجھے تحریکات اسلامی کے ایک کارکن کے طور پر پہچانتے ہیں کہ خدمت اسلام کے ضمن میں مجھ سے کیا کام لینا ممکن ہے۔ مغربی انفرادیت کے نزدیک جاننے کا مطلب رضا ئے الہی کے حصول کا طریقہ جان لینا نہیں بلکہ جاننے کا واحدجائز مقصد تصرف فی الارض و تسخیر کائنات یعنی ارادہ انسانی کو کائنات پر مسلط کرنا ہے کیونکہ اسکے نزدیک زندگی کے معنی ہی ارادہ انسانی کی تکمیل ہے۔ اسکا علم اس جاہلانہ ذہنیت و جنون کو پروان چڑھاتا ہے کہ عقل انسانی کو استعمال کر کے فطرت کے تمام رازوں سے پردہ اٹھا نا نیز انسانی ارادے کو خود اسکے اپنے سواء ہر بالا تر قوت سے آزاد کرنا عین ممکن ہے ۔ کانٹ کہتا ہے کہ انسانی ذات (self) کے اندر ایسا نظام (structure) اور ترتیب (order) موجود ہے جو انسانی تجربے کو ہئیت (form) اور معنی (meaning) فراہم کرتا ہے، ذات کے اس اندرونی نظام کے بغیر تجربہ ممکن نہیں ہوسکے گا۔ کائنات اپنے اندر کوئی معنی نہیں رکھتی، جب ذات کے اندر موجود نظام کو اس پر مسلط کیا جاتا ہے تو اس میں معنی پیدا ہوتے ہیں۔ کائنات کو ایک معقول کائنات کے طور پر سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ اسے ذات کے نظام کے ذریعے سمجھا جائے، یعنی تعقل، معانی، ربط و ضبط، نظام زندگی ہر چیز کا منبع انسانی ذات ہے اور اس منبع نور کے علاوہ علم کا اور کوئی ذریعہ نہیں ۔ کانٹ کے نزدیک ذات کی اس صلاحیت پر ایمان لانے کے بعد ہم ایسے عمومی اصول وقوانین و ضع کرسکتے ہیں جو آفاقی ہوں، اسکے لئے کسی شریعت کی ضرورت نہیں۔ اسکے خیال میں انسانی نفس جانتا ہے اور جاننے کا ذریعہ ہے، مگر ذات خود اپنی حقیقت کے ادراک کے سوال پر مکمل خاموش ہے ۔ ہاں انسانی ذات کے نظام کو درست طریقے سے استعمال کرکے (جسے scientific methodکہتے ہیں) ایسا مثالی اور عادلانہ معاشرہ ترتیب دینا ممکن ہے جسے کانٹ Kingdom of Endsسے تعبیر کرتا ہے ، جہاں ریاست ہر فرد کا یہ اختیار تسلیم کرلے کہ وہ خود مختار (autonomous)اور قائم بالذات (self-determined)ہے، جہاں ہر شخص اس بات کا تعین کرسکے گا کہ وہ کیسی زندگی گزارے گا یعنی جہاں ہر شخص کیلئے خیر وشر کی تعیین اور اپنے ارادے کی تکمیل ممکن ہو سکے گی۔ 

سرمایہ دارانہ شخصیت (ہیومن بینگ) کی مختلف تعبیرات 

انسان جب عبدیت کا انکارکرتا ہے تو خدا کہ جگہ یا تو اپنی ذات کو رکھتا ہے اور یا پھر اپنی نوع کو۔ یاد رکھو کہ سرمایہ دارانہ انفرادیت کے اظہار کی بعض تعبیرات انفرادی ہیں اور بعض اجتماعی۔ چنانچہ سرمایہ دارانہ انفرادیت کا اظہار بطور نوع کے دو بڑے نظریات ہیں، ایک اشتراکیت اوردوسرا قوم پرستی ۔ اسی طرح سرمایہ دارانہ انفرادیت کی خدائی بطور ذات کے بڑے نظریات لبرل ازم اور انارکزم (Anarchism)ہیں(۲۲) ۔ ان سب میں قدر مشترک یہ ہے کہ سب آزادی کے طلب گار اور خدا کے باغی ہیں جبکہ فرق کرنے والی شے آزادی کے حصول کا طریقہ ہے۔ سرمایہ دارانہ انفرادیت کی جو تفصیل اوپر بیان کی گئی وہ لبرل مفکرین اور قائدین کی فکر سے ماخوذ ہے۔ لبرل مفکرین فرداً فرداً ہر شخص کو الوہیت انسانی کا مکلف سمجھتے ہیں، یعنی انکے خیال میں یہ حق ہر ’فرد‘ کا ہے کہ وہ اپنی خواہشات کی جو ترتیب متعین کرنا چاہے کرے۔ یہ مفکرین فرد کو تاریخ اور معاشرے سے ماوراء وجود کی حیثیت سے پہچانتے ہیں اور الوہیت انسانی کے مقصد کے حصول کیلئے ذرائع پیداوار میں اضافے کو ہدف قرار دیکر انہیں مارکیٹ نظم کے تابع کردینا چاہتے ہیں کیونکہ یہی نظم انکے خیال میں فرد کی منتہا آزادی کا محافظ ہے۔ وہ جمہوری معاشرہ اور ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں کہ یہی معاشرتی و ریاستی تنظیم ا س بات کو ممکن بناتی ہے کہ فرد جو چاہنا چاہے چاہ سکے۔ اشتراکی اور قوم پرست سرمایہ داری کے مفکرین بھی تحریک تنویر کے ورثاء ہیں جن میں سب سے نمایاں نام Hegal, Marx اور Neitzshe وغیرہ کے ہیں۔ یہ تینوں بھی الوہیت آدم کے قائل ہیں اور ان کا مشن بھی انسان کو human being بنانا ہے۔ یہ بھی آزادی، مساوات اور ترقی کو اقدار کے طور پر قبول کرتے ہیں اور بڑھوتری سرمایہ کو ان مقاصد کے حصول کے ایک ناگزیر اور لازمی ذریعہ سمجھتے ہیں۔ قوم پرست اور اشتراکی سرمایہ داری کے فلاسفر ہیگل، مارکس اور نطشے humanity کو بحیثیت نوع الوہیت کا مکلف سمجھتے ہیں۔ لبرل مفکرین کے برخلاف یہ فلاسفہ کہتے ہیں کہ Human being انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی وجود کا اظہار ہے۔ Human being اپنی الوہیت کا اظہار تاریخی عمل میں کشمکش کے ذریعہ کرتی ہے۔ قوم پرست مثلاً نطشے کہتا ہے کہ یہ کشمکش مختلف اقوام کے درمیان ہوتی ہے جبکہ اشتراکی سرمایہ داری کے وکیل مثلاً مارکس اس کشمکش کو طبقاتی سمجھتے ہیں۔ اشتراکیوں کا خیال ہے کہ طبقاتی کشمکش کے ذریعے تاریخ کے آخری سرے پر ایک ایسا معاشرہ قائم کیا جا سکتا ہے جہاں ہر خواہش کی تسکین ممکن ہوگی۔ ایسے معاشرے کے حصول کیلئے ذرائع پیداوار اور قوت کو استحصالی طبقے سے چھین کر مظلوم طبقے کے قبضے میں کرنے کی سعی لازم ہے اور یہی وہ جدوجہد ہے جسکے نتیجے میں وہ انفرادیت (specie being) پیدا ہوگی جو اشتراکی معاشرے کو قائم کرے گی۔ اس معاشرے میں اخلاقیات کی بحث لایعنی ہوگی کیونکہ وہاں مکمل آزادی ہوگی اور کسی فعل پر قدغن کا سوال نہیں ہوگا۔ انسان ہر اس چیز کی خواہش کرسکتا اور اس کی تکمیل کرسکتا ہوگا جسکی وہ خواہش کرنا چاہتا ہے۔ یہ سوال کہ انسا ن کو کس چیز کی خواہش کرنا چاہئے اشتراکی ، لبرل یا قوم پرست نقطہ نگاہ سے ایک ناقابل تفہیم سوال ہے۔ چونکہ ان تینوں نظریات کے مطابق حصول آزادی واحد مقصد حیات ہے اور چونکہ وہ انسان کو خدائی صفات کا مکلف گردانتے ہیں لہٰذا انکے نزدیک ہر شخص کو مساوی حق ہے کہ وہ جو چاہتا ہے چاہے۔ چونکہ خواہشات لا محدود ہیں لہٰذا اشتراکی، لبرل یا قوم پرست مثالی معاشرے کا کوئی واضح تصور ممکن نہیں۔ بقول نطشے وہ محض لامعنویت کی ابدیت (eternalisation of absurdity) ہے۔ قوم پرست فکر میں لامعنوی ابدیت کے حصول کیلئے ایک فوق البشر (super man) یا فوق البشر قومیت کی تعمیر ضروری ہے، ایک ایسی شخصیت یا قوم کا وجود جسکے پاس تمام کائناتی قوت مجتمع ہو اور جو خود خیروشر کی تخلیق کرے۔ الغرض دونوں قسم کے مفکرین کی رائے ہے کہ اس تاریخی کشمکش میں جو قوم یا طبقہ (class) غالب آتا ہے وہی human being کا اصل نمائندہ (representative) ہوتا ہے اور وہی اپنے ارادہ کے نفاذ کے ذریعہ الوہیت human being کا اظہار کرتا ہے۔ چنانچہ پوری human نسل کا فرض ہے کہ وہ اس غالب قوم یا طبقے کی اطاعت کرے۔ یہی غالب قوم یا طبقہ خیر اور شر کی تعبیر اور تنفیض کا حق دار ہے اور تمام human انفرادیتوں کو اسی غالب قومی یا طبقاتی انفرادیت میں ضم ہوجانا چاہیے۔ یہ غالب قومی یا طبقاتی انفرادیت ان تمام خصوصیات کی حامل ہوتی ہے جو لبرل مفکرین شخصی انفرادیت کے ضمن میں بیان کرتے ہیں۔ اس غالب قوم یا طبقے کا مقصد وجود آزادی اور ترقی کا حصول ہوتا۔ یہ غالب قوم یا طبقہ آزادی اور قوت کے اضافے کی تگ و دو میں انتہا درجہ کا حریص اور حاسد ہوتا ہے اور اپنی آزادی اور ترقی کے لیے سرمایہ کی بڑھوتری ہی کو اصل ذریعہ سمجھتا ہے ۔ وہ اپنی آزادی اور ترقی کے لیے لوٹ مار، قتل و غارت اور بدترین سفاکیت اور بہیمیت کو نہ صرف جائز بلکہ فرض عین گردانتا ہے کیونکہ اسی قتل و غارت، لوٹ مار اور دھوکہ اور فریب کے ذریعہ ہی اس کی آزادی اور ترقی ممکن ہوتی ہے اور اس طبقے اور قوم کا غلبہ ہی الوہیت ہیومن بینگ [human being] کا اظہار ہے حق صرف وہ ہے جو اس اظہار کو ممکن بناسکے(۲۳)۔ اشتراکی، قوم پرست اور لبرل نظریات کسی ابدی اخلاقیات کی نشاندہی نہیں کرسکتے۔ ان کا مقصد حصول آزادی ہے اور چونکہ آزادی کچھ نہیں صرف عبدیت اور دیگر تعلقات کی نفی ہے لہٰذا قدر کا اثبات کرنے سے قاصر ہے۔ قدر کا مطلب ہی یہ ہے کہ انسان یہ سوال اٹھاسکے کہ اسے کیا چاہنا چاہئے اور کیا نہیں، کیا اہم ہے اور کیا غیر اہم۔ ان نظریات میں اخلاقیات کی بنیاد صرف انسانی خواہشات ہیں۔ مگر یہ واضح ہے کہ نفس لوامہ خواہشات کو صرف احکام الہی کے سامنے تول کر ہی پرکھ سکتا ہے اور اگر احکامات الہی سے انکار کرکے انسان خدا بن بیٹھے تو روح اور نفس کا تعلق کمزور پڑ جاتا ہے اور نفس امارہ نفس لوامہ پر غالب آجاتا ہے۔ ہائیڈیگر کہتا ہے کہ مغربی علمی تناظر میں ’نفس لوامہ کی بحث صرف خاموشی ہے‘ (discourse of discriminatury self is pure silence)۔ وہ نفس جسکے احکام کی بنیاد خواہشات ہوں قدر کی پہچان اور علم و عرفان کے حصول سے قاصر رہتا ہے۔ قدر کا تعین صرف احکام الہی کی بنیاد پر ممکن ہے۔ امام غزالیؒ کا ارشاد ہے کہ علم خشیت الہی سے حاصل ہوتا ہے اور اسی خشیت کو پروان چڑھا کر مومن اپنے حال پر مطمئن اور مقام سے آگاہ ہوتا ہے۔ یہی آگاہی اسے بندگی کیلئے تیار کرتی ہے۔ صوفیاء کا مشہور قول ہے ’جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا‘۔ اپنے نفس کی حقیقت کی آگاہی انسان کو عبدیت پر راضی کرتی ہے۔ اب ہم مختصراً اس کام کی نوعیت بیان کرتے ہیں جسے اصلاح انفرادیت کے ضمن میں تحریکات اسلامی کو مد نظر رکھنا چاہئے۔ 

حواشی

۱۴۔ آزادی کی پرستار انفرادیت اظہار ذات کے تمام طریقوں کے سامنے پیش کی جانے والی ہر قسم کی رکاوٹوں (مذہبی، معاشرتی، ریاستی وغیرہ) کو ہٹا دینا چاہتی ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ یہ تمام رکاوٹیں یک جنبش ختم ہوجاتی ہیں بلکہ یہ تدریجی عمل ہوتا ہے جیسا کہ عیسائی تاریخ کے مطالعے سے واضح ہے کہ سب سے پہلے باغی انفرادیت کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے مذہب کی معتبر تاریخ کو ترک کرکے اصلاح و تعبیر مذہب کے نام پر نئے تقاضوں کی مذہب میں گنجائش پیدا کی جاتی ہے اور آہستہ آہستہ جب نفس پرست انفرادیت کے نفس امارہ کی خوب پرورش ہوجاتی ہے اور وہ منکرات کا رسیا ہوجاتا ہے تو وہ رہی سہی مذہبیت کا بھی انکاری ہوجاتا ہے۔ یہی حال موجودہ دور میں متجدیدین کا ہے کہ بجائے نفس پرست انسان کی تطہیر قلب کی فکر کرنے کے وہ نئے تقاضوں کی روشنی میں اسلام کی تشریحات کرکے فنون لطیفہ وغیرہ کا جواز فراہم کرنے میں مصروف ہیں 
۱۵۔ آزادی کیلئے قرآنی اصطلاح بغی ہے جیسا کہ سورۃ نحل میں فرمایا ’ان اللہ یامر بالعدل والاحسان وایتاء ذی القربی وینہی عن الفحشاء والمنکر والبغی‘ 
۱۶۔ سرمایہ دارانہ انفرادیت کے ورود میں انقلابات برطانیہ و فرانس ، استعماری دور میں ہونے والی لوٹ مار، عیسائی تعلیمات کی کمزوری اور عیسائی علماء کے نفاق وغیرہ نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ تفصیلات کیلئے دیکھئے ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری کا مضمون ’عالم اسلام اور مغرب کی کشمکش: نئے تناظر میں‘ ، ماہنامہ ساحل شمارہ اگست ۲۰۰۶ 
۱۷۔ مجاہدین لال مسجد کے ساتھ ہونے والا سلوک اس کی واضح مثال ہے جہاں ریاست نے زنا کاری پھیلانے والے عناصر کی خبر لینے کے بجائے اصول آزادی کی خلاف ورزی کرنے والے مجاہدین پر مظالم توڑ کر ہیومن رائٹس کا تحفظ کیا 
۱۸۔ کانٹ کہتا ہے کہ انسان قائم بالذات (autonomous) ہے، وہ کہتا ہے کہ Enlightement کا مطلب ہی یہ ہے کہ انسان اپنی صمدیت (self-sufficiency) کو پہچانے اور ہر بیرونی سہارے کو رد کرے، جو ایسا نہیں مانتا وہ کم عقل (immature) ہے اور ہیومن کہلانے کا اہل نہیں 
۱۹۔ سوشل سائنسز میں خلوص، محبت، صلہ رحمی، گناہ وغیرہ کی اصطلاحات کلیتاً غائب ہیں کیونکہ انکی جگہ ’عمرانی معاہدے ‘ کے تصور نے لے لی ہے 
۲۰۔ فیشن کا مطلب ہے بے معنی کاموں میں معنی تلاش کرنا ۔ کیونکہ مغربی فرد وجود کی لامعنویت کا قائل ہوچکا لہٰذا وہ ہر اس طریقے سے اپنی خودی کا اظہار کرتا ہے جسے لوگ عام طور بے معنی سمجھتے ہیں۔ اس طرز عمل کی بین مثالیں اچھوتے لباس، داڑھی اور سر کے بالوں کے مختلف انداز، نت نئے کھیلوں کی ایجاد ، گانے بجانے کے بے ڈھنگ طریقوں، فنون لطیفہ کے فروغ وغیرہ کی شکل میں نظر آتی ہیں۔ الغرض خبط پن کے ہر طریقے کو ذات کے با معنی اظہار کا ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے 
۲۱۔ انگریزی میں ابلیس کا لغوی معنی the frustrated one ہیں یعنی وہی کیفیت جسکا مغربی فرد شکار ہے 
۲۲۔ سرمایہ داری کوئی نظریہ نہیں بلکہ نظام زندگی ہے جسکے مختلف نظریات اور تعبیرات (لبرلزم، قوم پرستی، اشتراکیت) ہیں۔ ہر تعبیر کی تفصیلات میں اختلاف ہے البتہ مقصد سب کے نزدیک یکساں ہے (یعنی انسانی ارادے کی بالادستی )۔ یہ اسی بات کا اظہار ہے کہ لبرل ممالک (مثلاً امریکہ یا یورپ) ہوں یا اشتراکی (مثلاً روس یاچین)، ہر جگہ اخلاق رزیلہ سے متصف ایک ہی جیسی انفرادیت پروان چڑھتی ہے نیز ہر جگہ یکساں نوعیت کی غلیظ معاشرت عام ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ ایک معاشرے میں ولی اللہ ، عبادت گزار اور متقی پیدا ہوتے ہیں اور دوسری جگہ فساق و فجار۔ نہیں بلکہ ان میں سے جو بھی نظریہ کسی معاشرے پر غالب آیا وہاں بلا کسی استثناء خدا کی باغی اور جہنمی اعمال کرنے والی انفرادیت عام ہوئی 
۲۳۔ قوم پرست اور اشتراکی سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کا نظام اقتدار (state) لبرل نظام اقتدار سے مختلف ہوتا ہے۔ اس نظامِ اقتدار میں غالب قوم یا طبقہ کی نمائندگی ایک رہبر (ہٹلر، اسٹالن) یا ایک پارٹی (نازی یا کمیونسٹ) کرتی ہے۔ اس فرد یا جماعت کا حق ہے کہ وہ خیر اور شر کی تعبیر و تشریح کرے جو اس کی آزادی اور ترقی کے لیے سب سے زیادہ فائدہ مند ہو اور اس غالب فرد یا جماعت کا فائدہ ہی پوری قوم اور طبقہ کا فائدہ تصور کیا جاتا ہے۔ دیگر افراد کا فرض ہے کہ وہ اپنی انفرادیت، غالب پارٹی یا رہنما کی انفرادیت میں ضم کر دیں۔ اس عمل میں مہمیز دینے کے لیے چین میں ۱۹۶۶ء میں مشہور ثقافتی انقلاب (Cultural Revolution) برپا کیا گیا اور نازی جرمن اور سویت یونین کی ثقافتی پالیسی سوپرمین (Superman)، نیومین (New man)اور سوویٹ مین(Souvait man) کو وجود میں لانے کی کوشش کرتی رہی۔ لیکن تاریخ نے ثابت کر دیا جب سرمایہ کی بڑھوتری مقصد وجود کے طور پر اجتماعی سطح پر قبول کیا جاتا ہے تو بیشتر افراد کی زندگی فاسد اور رذیل رجحانات سے ملوث ہوجاتی ہے جس کا اظہار نظام اقتدار اور غالب قائد یا پارٹی کرتی ہے۔ لہٰذا قوم پرست یا اشتراکی انفرادیت کو عام آدمی ہیجانی ادوار کے علاوہ کبھی بھی قبول نہ کرسکا اور غالب قیادت کی پالیسیوں کے نتیجہ میں ایک آدمی کی زندگی میں ہوس، حرص، شہوت رانی، دنیا پرستی، خود غرضی اور سفاکیت نے فروغ پایا اور اس کو اشتراکی اور قوم پرست نظام اقتدار کے فروغ اور استحکام کے لیے ریاستی استبداد کے ذریعہ عام آدمی کو مسلسل مجبور کرنا پڑا۔ جیسے جیسے ریاستی استبدادی گرفت ڈھیلی پڑی، عام آدمی نے اشتراکی نظام سے چھٹکارا حاصل کر کے بدترین اخلاقی رزائل کو اپنا لیا۔ لوٹ مار، جھوٹ، دھوکہ اور فریب، جنسی بے راہ روی اور فحاشی کا جو سیلاب مشرقی یورپ، روس اور چین کے ساحلی شہروں میں آیا ہوا ہے اس کی مثال تو یورپ اور امریکہ کے غلیظ ترین معاشرہ میں بھی نہیں ملتی۔ اس سے ثابت ہوا کہ اشتراکی یا قوم پرست انفرادیت کوئی علیحدہ چیز نہیں سرمایہ دارانہ انفرادیت وہ انفرادیت ہے جو: 
  • الوہیت human being کی طالب ہے
  • جس کے احساسات اور خواہشات پر حرص اور حسد شہوت اور غضب حاوی ہوجاتے ہیں 
  • اور جو اپنی عقل کو ان ہی رذائل کے اظہار کے لیے بذریعہ بڑھوتری سرمایہ استعمال کرتی ہے 
یہ انفرادیت شخصی بھی ہوسکتی ہے اور اجتماعی (قومی طبقاتی) بھی، دونوں صورتوں میں اس انفرادیت کو پنپنے کے لیے سرمایہ دارانہ معاشرت کی ضرورت ہوتی ہے۔ 
(جاری)

تعریفاتِ علوم کی ماہیت، مقصدیت اور اہمیت

مولانا محمد عبد اللہ شارق

آپ جانتے ہوں گے کہ کسی بھی علم کے آغاز میں اس کی’’ تعریف‘‘ (Definition) کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ تعریف عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ’’تعارف ‘‘ کے ہیں۔ علم کی ’’تعریف‘‘ سے مقصود بھی علم کا ایک اجمالی تعارف ہوتا ہے تاکہ نو آموز طالبِ علم اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں نہ مارتا رہے بلکہ علم کے شروع کرنے سے پہلے ہی اس کے ذہن میں اس کا ایک ہلکا پھلکا سا خاکہ اور تاثر موجود رہے ۔ ’’تعریفات ‘‘ کو علوم کے دیباچہ اور ابتدائیہ کا حصہ بنانے سے اولاً یہی مقصود تھا ‘ مگر یہ مقصود رفتہ رفتہ دھندلاتا چلا گیا اور وہ تعریف جودراصل علم کے حصول کو آسان تر بنانے کے لیے تھی‘ بذاتِ خود ایک جنجال اور وبالِ جان بنتی چلی گئی۔ اس کا ذمہ دار وہ پرتکلف ‘مشکل پسند اور فلسفیانہ ذہن تھا جو بال کی کھال اتارنے کا عادی تھااور معاملات کو ان کے اصل اور فطری روپ میں لینے کی بجائے خواہ مخواہ مصنوعی رنگ دینے کا شوقین تھا۔

تعریف کا جامع اورمانع ہونا

ہوا کچھ یوں کہ تعریف کے اصول وضوابط میں ایک اصول یہ شامل کیا گیا کہ وہ ’’جامع ‘‘ اور ’’مانع‘‘ ہو۔ یعنی تعریف کے لیے یہ ضروری قرار دیا گیا کہ وہ موضوعِ بحث علم کا جامع اور کامل تصور پیش کرے۔ ’’جامعیت‘‘ اور ’’مانعیت‘‘ د و لفظ ہیں اور دونوں الگ الگ مفہوم رکھتے ہیں۔ کوئی بھی تعریف جو جامعیت اورمانعیت سے خالی ہو‘ اسکو ایک مکمل تعریف قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جامعیت کے معنی ہیں کہ تعریف کے اندر ایسے الفاظ کا چناؤ کیا جائے جن سے علم کا کوئی جزو اور حصہ تعریف سے خارج نہ رہے۔ مانعیت کے معنی ہیں کہ تعریف کے اندر کوئی ایسا غیر ضروری اضافہ نہ کیا جائے کہ جس سے غیر متعلقہ چیزیں تعریف میں در آئیں اوروہ امور تعریف کا حصہ بننے لگیں جو در حقیقت متعلقہ علم سے خارج ہیں۔ 
مثال کے طور پر اگر’’علمِ دین‘‘ کی تعریف یوں کی جائے کہ ’’یہ کفار کے غیر اسلامی رویوں سے بحث کرتا ہے ‘‘ تویہ تعریف مکمل نہیں ہوگی اور جامع نہیں کہلا سکے گی کیونکہ علمِ دین میں خود مسلمانوں کی اعلی اور بلند پایہ صفات پر بھی پھر پور گفتگو کی جاتی ہے اور اس کا ذکر تعریف میں نہیں کیا گیا۔ اسی طرح اگر ’’علمِ دین‘‘ کی تعریف یوں کی جائے کہ ’’اس میں بنی نوع انسان کے مختلف افکار‘ رجحانات اور اندازہائے معاش ومعاشرت پر گفتگو کی جاتی ہے‘‘ تویہ تعریف مانع نہیں ہوگی اور ناواقف کے ذہن میں ’’علمِ دین‘‘ کا کوئی تسلی بخش تصور پیدا نہیں کرسکے گی کیونکہ علمِ دین انسانوں کی زیست اور معاشرت کے تمام متنوع پہلوؤں پر گفتگو نہیں کرتا( مثال کے طور پر یہ کہ بنگالی چاول زیادہ کیوں کھاتے ہیں؟ سندھی آگے سے کٹی ہوئی ٹوپی کیوں پہنتے ہیں ؟ ایران کے رہنے والے فارسی اور پاکستان کے رہنے والے اردو کیوں بولتے ہیں؟ یہ معاملات علمِ دین کے موضوع سے خارج ہیں) جبکہ مذکورہ بالا تعریف کے الفاظ انسانی زندگی کے تمام اختلافات اور تنوعات کو علمِ دین کا حصہ بنارہے ہیں۔ ہاں! اگر علمِ دین کی تعریف یہ کی جائے کہ ’’ یہ تمام انسانوں کو اپنے خود ساختہ اختلافات ترک کرواکے ایک خدائے واحد کی بندگی پر لانا چاہتا ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ خدا کی طرف سے بھیجے گئے آداب وا حکام کے مطابق زندگی بسرکرنے کے اصول سکھاتا ہے ‘‘ تو یہ البتہ ایک جامع اور مانع تعریف کہلا سکتی ہے۔

تعریف کے نام پر مشکل پسندی

جامع اور مانع کا اصول فی نفسہ ایک سنہری اصول ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک ’’تعریف‘‘ ایک معتد بہ حد تک جامع اور مانع نہ ہو‘ کسی ناواقف کی تسلی کاسامان نہیں کرسکتی اورنہ ہی اس کے قلب ودماغ میں اس علم کا کوئی درست اور قابلِ اعتبار تصور قائم ہوسکتا ہے کیونکہ جامعیت اورمانعیت کے بغیر کسی تعریف میں امتیاز پیدا نہیں ہوسکتا جو اسے دیگر امور سے ممتاز کرے اور ظاہر ہے کہ جو تعریف ایک امر کو دیگر امور سے ممتاز نہ کرے ‘ وہ ’’تعریف ‘‘ کہلانے کی سرے سے حق دار نہیں‘ بعینہ ایسے ہی جیساکہ ایک ’’تعارف‘‘ اگر کسی شخص کی شخصیت کو واضح اور اجاگر نہ کرے تو وہ ’’تعارف‘‘ کہلانے کا حق دار نہیں۔ جامعیت اورمانعیت کا معاملہ اس حد تک تو درست تھا‘ پیچیدگی تب پیدا ہوئی کہ جب اس اصول کو ’’تعریف‘‘ کے لفظی اور منطقی آپریشن کا بہانہ بنا لیا گیا اور تعریفات کی جامعیت ومانعیت پر اعتراضات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ یوں وہ ’’تعریف ‘‘ جو علم کے حصول کو آسان تر بنانے کے لیے علم کے آغاز میں رکھی گئی تھی‘ بذاتِ خود طالبِ علم کے لیے ایک وبال اور عذابِ جان بن کر رہ گئی۔ جامعیت اورمانعیت کا اصول تعریف کو ایک اجمالی خاکہ اور ناواقف کے ذہن میں متعلقہ علم کا ایک سادہ سا تصور قائم کرنے کے قابل بنانے کے لیے وضع کیا گیا تھا۔ اب فرض کیجئے کہ اگر کوئی ’’تعریف‘‘ اپنا یہ ’’فریضہ‘‘ ادا کررہی ہے اور اجمالی تصور فراہم کرنے کی اہل ہے تو محض لفظوں کا کھیل پوراکرنے کے لیے اس تعریف کی جامعیت اور مانعیت پر بے بحاشا اعتراضات در اعتراضات کرتے جلے جانا حصولِ علم سے قبل طالبِ علم کے ذہن کو روشن کرنے بجائے الٹا تشویش اور تشتت میں مبتلا کریتا ہے ۔ کاش کہ ہمارے ’’ماہرینِ تعلیم ‘‘ اس امر کا ادراک کرسکتے۔ مقصد سے زیادہ مقصد کے نام پر بنائے گئے مصنوعی اصول وضوابط ہمارے ہاں اہمیت رکھتے ہیں۔دیگر المیوں کی طرح یہ بھی ہمارا ایک بڑا المیہ ہے۔

تعریفات کا لفظی آپریشن

ہم جب تک درسِ نظامی کے مروجہ تعلیمی نصاب کے مرحلہ سے گزر رہے تھے تو سمجھتے تھے کہ ’’تعریفاتِ علوم‘‘ کا یہ بکھیڑا صرف عربی مدارس کے اندر مرغوب اور مروج ہے‘ مگر جب عصری تعلیم کے لیے قدم بڑھایاتو وہاں بھی اسی صورتِ حال کا سامنا ہوا۔ مختلف موضوعاتی علوم کے آغاز میں مختلف تعریفات اور ان کے نقائص بیان کرتے کرتے پورا ایک باب ختم ہوجاتا ہے ۔ نجانے کس افادیت کو پیشِ نطر رکھ کر نو آموز کا ذہن شروع سے اس ’’چنین وچناں ‘‘ میں پھنسا دیا جاتا ہے جو اس کے لیے ترغیب کی بجائی تنفیر کا باعث بنتا ہے ۔ آپ معاشیات کو لیجئے !کلاسیکی تعریف‘نوکلاسیکی تعریف اور پروفیسر رابنز کی تعریف‘ پھر ہر تعریف کی الگ الگ کئی کئی: 
(الف) ۔۔۔خصوصیات
(ب) ۔۔۔خوبیاں
(ج)۔۔۔ خامیاں
پھر ہرخصوصیت ‘خوبی اور خامی کا الگ الگ عنوان اور پھر اس کے ذیل میں اس کی تفصیل۔۔۔۔۔۔(۱)تعریف یا اجمالی تعارف کے نام پر اس طویل و عریض تفصیل کاایک طالبِ علم کو سوائے انتشارِ ذہنی کے کیا فائدہ ہے ؟ایک ذرا سے تدبر کی ضرورت ہے ! 
اسی طرح صحافت کو لیجئے !اس میں ابلاغ‘صحافت‘ خبر ‘فیچر‘ مضمون ‘کالم اور اداریہ سمیت کئی الفاظ کی دسیوں اور بعض اوقات بیسیوں تعریفات (جو مختلف ماہرین سے منقول ہیں)پڑھائی جاتی ہیں‘ مگر تقابلی جائزہ کے باوجود کوئی ایسی تعریف دریافت نہیں ہو پاتی جس پہ سب ماہرین مطمئن اور متفق ہوں یا جسے بے عیب قرار دیا جاسکے۔(۲)
عربی مدارس کے اندر یہ اسلوب اور زیادہ مقبول ہے ۔بعض اوقات کسی علم کی تعریف کا تعین کرتے ‘اس سلسلہ میں مختلف تعریفات کا لفظی آپریشن کر تے اور ان پر اعتراضات وارد کرتے کرتے مہینوں گزر جاتے ہیں‘ مگر پھر بھی منزل ہے کہ مل کے نہیں دیتی۔جی ہاں! مہینوں اور عشروں کے بحث ومباحثہ کے بعد بھی مطلوبہ علم کی کوئی پاک وصاف اور بے عیب تعریف دریافت نہیں ہو پاتی۔ مصاحبینِ علم ومطالعہ ’’تعریف‘‘ کے ضمن میں کھیلی جانے والی ’’اس لفظی شطرنج‘‘اور اس کی بے نتیجگی سے اچھی طرح واقف ہوں گے ۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہ بے نتیجہ بحث باقاعدہ اہتمام اور دینی خدمت کے نام پر بھر پور اہمیت کے ساتھ بچوں کو پڑھائی جاتی ہے۔’’التوضیح والتلویح‘‘ درسِ نظامی کی معروف اور انتہائی درجہ کی ایک دقیق کتاب ہے۔(۳) اس کتاب کے آغاز میں ’’اصول الفقہ ‘‘ کی کسی بے عیب تعریف کا تعین کرتے کرتے ’’۱۲‘‘ اور ’’۱۴‘‘ کے فونٹ میں ’’A-4‘‘سائز کے تقریباً ۱۸؍ صفحے سیاہ ہوگئے ۔(۴) پھر اسی پر بس نہیں۔’’التوضیح والتلویح‘‘ کاکوئی درسی اور نصابی نسخہ لے لیں۔کتاب کے اطرف پر چڑھا ہوا حاشیہ ( جو اصل کتاب سے بلا مبالغہ دس گنا بڑا ہے)وہ الگ دعوتِ مطالعہ دیتا ہے۔نیز التوضیح والتلویح کا ماہر استاد اسے سمجھا جاتا ہے جو صاحبِ کتاب کے اٹھائے گئے تنقیدی نکات واضح کرنے پر اکتفاء نہ کرے ‘ بلکہ ان پر کچھ اور اضافے بھی کرے۔ صاحبِ کتاب کی طرف سے اٹھائے گئے اعتراضات کے شرح وبسط کے ساتھ نہ صرف حواب دے بلکہ نئے سے نئے نکات پیش کرے(۵)(جو قارئین اس کتاب کو پڑھ ‘ پڑھا چکے ہیں‘ وہ اس بات کو علی وجہ البصیرہ سمجھ رہے ہوں گے) مگر اس غیر معمولی باربرداری کے باوجود بھی نتیجہ وہی دھات کے تین پات۔ اصول ‘ الفقہ اور اصول الفقہ کی کوئی بے عیب دریافت نہ ہوسکی۔ اس لغو اور لایعنی کھیل کے جو دینی مضرات ہیں اور اس میں ’’والذین ہم عن اللغو معرضون‘‘ (۶) اور ’’من حسن اسلام المرء ترکہ مالایعنیہ‘‘ (۷)جیسی نصوص سے جو عملی انحراف ہے ‘ اس سب سے قطع نظر کرکے یہ دیکھ لیجئے کہ کیا تعلیمی نکتۂ نظر سے ایک طالبِ علم کے سامنے‘ علم کے آغاز میں ہی لفظی اکھاڑ پچھاڑ کا ایسا دنگل سجا لینا اس کی ذہنی تربیت اور علمی نشوونما کے لیے مفید ہے؟

تعریفاتِ علوم کی مقصدیت

تعریف کے نام پر یہ بے اعتدالی اور مشکل پسندی اس لیے رونما ہوئی کہ تعریف کی مقصدیت اور عرض وغایت نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ ’’تعریف‘‘ کا مقصد جیساکہ پہلے عرض کیا گیا ‘ طالبِ علم کے سامنے متعلقہ علم کا محض ایک اجمالی تعارف پیش کرنا اور اس کے ذہن میں علم کا ایک سرسری سا پیشگی خاکہ قائم کرنا تھا اور یہ مقصد کسی بھی تعریف کی بقدرِ ضرورت ہلکی پھلکی نو ک پلک سنوار کے پورا کیا جاسکتا ہے۔ بے عیب اورہر نقص سے پاک تعریف کی تلاش میں مفروضوں پہ مفروضے اور اعتراض پہ اعتراض ڈالتے چلے جانا اور ورقہا ورق سیاہ کردینا طالبِ علم کے لیے پیچیدگیاں پیدا کرتا اور سرے سے تعریف کے مقصد کو ہی فوت کردیتا ہے جو دراصل طالبِ علم کے لیے سہولت فراہم کرناتھا۔ تعریف کے مقصد کو سامنے رکھا جائے تو کسی پیچیدگی کی ضرورت نہیں رہتی ‘ اس مقصد کے حصول کے لیے کوئی بھی مناسب تعریف کارآمد ثابت ہوسکتی ہے جو سادہ انداز میں طالبِ علم کے سامنے ’’متعلقہ علم‘‘ کے لبِ لباب کا ایک اجمالی نقشہ پیش کردے خواہ اس میں کچھ لفظی نقائص پائے جاتے ہوں‘ جیساکہ کسی شخص کا تعارف کراتے ہوئے انداز اختیار کیا جاتا ہے۔

تعریف کے عناصرِ ترکیبی

تعریف کبھی تو علم کے موضوع اور کبھی غرض وغایت سے مرکب ہوتی ہے۔ کسی بھی علم کا موضوع وہ اجزائے ترکیبی ہیں جو اس علم کے اندر زیرِ بحث آتے ہیں اور غرض وغایت دراصل اس فائدہ کو کہتے ہیں جو مطلوبہ علم حاصل کرلینے کے بعد طالبِ علم کو بطورِ نتیجہ حاصل ہوتا ہے اور جسے نصب العین بنا کر وہ اس علم کے حصول کی کوشش کرتا ہے۔ مثال کے طور پر معاشیات کا بنیادی موضوع در اصل وہ اصول اوررویے ہیں جو معیشت کے لیے نفع بخش یا نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ جبکہ اس کی غرض وغایت نظامِ معیشت سے کما حقہ آگاہی حاصل کرنا ہے۔ ’’تعریف‘‘ در اصل موضوع یا غرض سے مرکب ہوتی ہے ۔ یہ الگ سے کوئی چیز نہیں ہے ۔مثال کے طور پر معاشیات کی تعریف اب دو انداز سے ہوسکتی ہے:
(الف)۔۔۔معاشیات ایک ایسا علم ہے کہ جس میں وہ اصول اور رویے زیرِ بحث آتے ہیں جو معیشت کے لیے نفع بخش یا نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔
(ب)۔۔۔معاشیات ایک ایسا علم ہے جس سے مقصود نظامِ معیشت کی تہہ میں کارفرما اساسوں او رنفع بخش یا نقصان دہ اصولوں سے آگاہی حاصل کرنا ہے۔

’’مبادئ ثلاثہ‘‘ کی اصطلاح

بغور دیکھا جائے تو اِن دونوں کا حاصل ایک ہی ہے ۔ حقیقت یہی ہے کہ ’’موضوع‘‘ اور ’’غرض‘‘ دراصل ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں۔ فرق صرف اسلوب کا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ’’علمِ منطق‘‘ کو لے لیجئے ! اس کا موضوع ’’فکری ونظری خطاء سے محفوظ رکھنے والے اصول‘‘ ہیں اور اس کی غرض وغایت ’’فکری ونظری خطاء سے محفوظ رہنا‘‘ ہے۔ مگر اِن تینوں ( تعریف ‘ موضوع ‘ غرض وغایت) کو الگ الگ شمار کیا جاتا ہے اور عربی اصطلاح میں انہیں ’’مبادئ ثلاثہ ‘‘ کہا جاتا ہے۔ تاہم حقیقت یہی ہے کہ اِن میں سے کوئی سا ایک بیان ہوجائے تو وہ باقی دو کی ضرورت سے مستغنی کردیتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور میں عصری مضامین کے آغاز میں صرف ’’تعریف‘‘ پر ہی اکتفاء کیا جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خود تعریف کی افادیت اور مقصدیت کو بھی ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے تعریف کے نام پر مشکل پسندی اور مغلق گفتگو سے گریز کی جائے ۔

تعریف اور تجزیہ میں تمیز ضروری ہے

تعریفات کے الفاظ کا اختلاف بعض اوقات بے معنی ہوتا ہے اور بعض اوقات علم سے متعلق ماہرین کے متنوع زاویہ ہائے نگاہ کو بیان کرتا ہے۔ ایسا اختلاف جو ماہرینِ علم کی متنوع آراء کو واضح کرے‘ کار آمد اور لائقِ استفادہ ہوتا ہے جو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم فکری زاویوں کے اِس تنوع سے کماحقہ وہی آدمی مستفید ہوسکتا ہے جو کم از کم اس علم کی سدھ بدھ رکھتا ہے۔ایسا آدمی جو ابھی اس علم کے میدان میں نووارد ہے ‘ اسے شروع میں ہی ’’تعریف‘‘ کے نام پر اس مباحثہ میں الجھا دینا کہ کونسا مفکر اس علم کو کونسی نگاہ سے دیکھتا ہے اور کونسا ماہر کس زاویہ سے‘ یہ ہرگز مفید نہیں۔یہ بحث قابلِ حذف نہیں ‘ مگر اس کی جگہ کتاب کا پہلا یونٹ بھی ہرگز نہیں۔ علم کی تعریف اور مختلف مفکرین کے اس کے بارہ میں تجزیات اور سوچنے کے انداز سراسر دو مختلف چیزیں ہیں۔ انہیں گڈمڈ نہیں کیا جا سکتا۔ ’’تعریف‘‘ کا صحیح محل کتاب کا پہلا یونٹ اور مفکرین کے مختلف تجزیاتی زاویوں کا صحیح محل آخر ی یونٹ ہے۔ مثال کے طور پر ’’معاشیات‘‘ کی وہ تعریف جو سطورِ بالا میں ذکر کی گئی ہے‘ اس سے ملتی جلتی تعریف پہلے باب کی ضرورت کے لیے کافی وافی ہے۔ پھراس ضمن میں ایڈم سمتھ‘ الفریڈ مارشل اور ڈاکٹر رابنز کے خیالات(۸) در اصل اس طالبِ علم کے سامنے بیان ہونے چاہییں جوا س علم کے مندرجات پر کم از کم ایک نظر ڈال چکا ہے۔ ایسا طالبِ علم ہی ان ماہرانہ آراء کی حقیقت اور افادیت کو سمجھ سکتا ہے اور اس سلسلہ میں خود اپنی کوئی رائے قائم کرنے کا اہل بھی ہوسکتا ہے۔ بصورتِ دیگر اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے والی بات ہے۔ علم پڑھائے بغیر طالبِ علم کو ان اختلافی آراء میں الجھا دینا ایسے ہے جیسے کسی آدمی کی آنکھوں پہ ٹیپ چسپاں کردی جائے اور اسے ہاتھی کے پاس کھڑا کرکے مجبور کیا جائے کہ ہاتھی کے بارہ میں مختلف فیل بانوں کے تبصرے اور تجزیے سن کر ہی ہاتھی کو سمجھنے کی کوشش کرے کہ وہ کیسے ہوتا ہے؟ جبکہ آسان طریقہ یہ تھا کہ اس آدمی کی آنکھیں کھول دی جاتیں اور وہ اپنی آنکھوں سے خود دیکھ لیتا کہ ہاتھی کیاہوتا ہے! اس کے بعد لوگوں کی مختلف آراء کو علی وجہ البصیرہ سن بھی پاتا اور ان پہ کوئی رائے زنی بھی کرپاتا۔ صحافت کی مذکورہ بالا اصطلاحات کو لیجئے ! جتنا وقت تعریفات کے ذریعہ ان اصطلاحات کا مصداق سمجھتے سمجھتے صرف کیا جاتا ہے ‘ اس سے پانچ گنا کم وقت میں عملاً اِن اصطلاحات کا مصداق دکھا کر طالبِ علم کو زیادہ بہتر طور پر سمجھایا جاسکتا ہے کہ ابلاغ ‘ صحافت‘ خبر ‘ فیچر‘ کالم اداریہ اور مضمون کا مصداق کون سے امور ہیں؟ اسی طرح سے مثلا علمِ حدیث کو لیجئے ! اس کی تعریف پر بھی بہت الجھی ہوئی اور پیچیدہ بحث کی جاتی ہے ۔اگرچہ بعض حضرات پورا زور صرف کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان میں زیادہ بہتر تعریف کون سی ہے ! مگر حقیقت یہی ہے کہ وہ ترجیح دی گئی تعریف بھی کئی طرح کے اعتراضات سے خالی نہیں ہوتی۔ علمِ حدیث کا صحیح تعارف اور اس کی ہیئت کا درست علم طالبِ علم کو تب ہی ہوتا ہے جب وہ عملاً علمِ حدیث کی ایک دو کتابیں خود پڑھ اوردیکھ لیتا ہے۔ مختلف ماہرین کی تعریفوں کے درمیان محاکمہ دینے کے لیے گھنٹوں تک ہونے والا مباحثہ طالبِ علم کے ذہن کو الجھتا تو ہے ‘ اجالتا نہیں۔ تعریف کی ضرورت ’’تعریف‘‘ ہی سے پوری ہوسکتی ہے ‘ ماہرین کے طویل وعریض تجزیاتی مباحثوں اور محاکموں سے نہیں۔علم کو پڑھے بغیر اس کے بارہ میں ماہرین کے مختلف اندازے جتنی بھی شد ومد کے ساتھ بیان کیے جائیں‘ طالبِ علم کی تشنگی دور کرنے کی بجائے اسے اور بڑھاوا دیتے ہیں۔بالکل ایسے ہی جیسا کہ ساحلِ سمندر پہ بیٹھ کر پانی میں غوطہ لیے بغیرمحض تیراکی کے اصول سنتے رہنا‘سننے والے کو فکری انتشار میں مبتلا کردیتا ہے۔
(میں یہاں تک اپنا مضمون مکمل کرکے چھپنے کے لیے ’’الشریعہ ‘‘ کو بھیج چکا تھا‘ مگر بھائی عمار ناصر صاحب نے ازراہِ عنایت اطلاع دی کہ حافظ ابنِ تیمیہ نے بھی کتاب الرد علی المنطقیین میں اسی موضوع پر خامہ فرسائی فرمائی ہے۔ میں نے جب محولہ بالا کتاب کی طرف مراجعت کی تو زیرِ نظر مضمون میں اس کا حوالہ دینا مناسب محسوس ہوا۔ اسی غرض سے ذیل میں ایک پیراگراف کا اضافہ کیا جارہا ہے)۔

حافظ ابنِ تیمیہ کی تنقید

تعریف کو منطقی اصطلاح میں ’’حد‘‘ اور ’’رسم‘‘ کہا جاتا ہے۔ ’’حد‘‘ اور ’’رسم‘‘ دونوں دراصل تعریف کی دو اقسام ہیں۔ پھر ان میں سی ہر ایک قسم کو مزید دودو اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان کی تفصیلات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے‘ صرف یہ بتلانا مقصود ہے کہ تعریف کے نام پر مشکل پسندی کا آئیڈیادراصل منطقیوں اور فلسفیوں کے زرخیز ذہن کی پیدا وار ہے اور وہی اس میں سب سے زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔وہ نہ صرف علوم کو ‘ بلکہ ہر ایک چیز کو اس کی لفظی تعریف سے ناپتے ہیں اور ہر ہر امر اور شے کی لفظی تعریف ضروری سمجھتے ہیں۔حافظ ابنِ تیمیہ نے کتاب الرد علی المنطقیین میں جہاں منطقیوں اور منطق کے دیگر نقائص ومفاسد پر سیر حاصل بحث کی ہے‘ وہاں تعریف کے نام پر منطقیوں کے ہاں ہونے والی دنگل بازی پہ بھی خاصی گفتگو کی ہے۔ اس ضمن میں حافظ ابن تیمیہ نے منطقیوں کے دلائل کو رد کرنے کے لیے بعض دقیق مباحث بھی چھیڑے ہیں‘ جنہیں یہاں درج کرنا ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ اس میں جو باتیں عام استفادہ کی ہیں تو ان میں سے بھی بہت سی باتیں میں پہلے ہی اپنے مضمون میں اپنے طور پر تحریر کرچکا تھا‘ شیخ ابنِ تیمیہ کی کتاب میں بعینہ وہی باتیں دیکھ کر اس ’’اتفاقی مطابقت‘‘ پر قلبی مسرت ہوئی۔ فالحمدللہ علی ذلک! 
شیخ ابنِ تیمیہ نے لکھا ہے کہ دینی علوم کے اندر ’’منطقی حدود وتعریفات‘‘ کے اس طرز اور اسلوب کو اپنانے والے سب سے پہلے فرد امام غزالی ہیں۔ [صفحہ ۵۶] انہی سے پھر یہ سلسلہ آگے چلا۔نیز انہوں نے امام غزالی ہی کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ ان کی رائے میں بھی کسی امر یا علم کی پاک وصاف اور بے عیب منطقی تعریف دریافت کرلینا انتہائی مشکل ہے۔[صفحہ ۶۱] حافظ ابنِ تیمیہ کے مطابق تعریف کے نام پر مشکل پسندی کی ابتداء منطقیوں سے ہوئی اور باقی سب علوم اور شعبوں میں یہ اسلوب اور طرز منطق سے ہی برآمد ہوکر آیا ہے۔انہوں نے مشہور نحوی ابن الانباری [وفات۳۲۸] کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ جب سے نحویوں نے منطقی تعریفات کے اسلوب کو اپنایا ہے تو دیگر اصطلاحات سے قطع نظر ‘ صرف ایک نحوی اصطلاح ’’اسم‘‘ کی تقریبا ستر تعریفات اب تک ان کی طرف سے سامنے آئی ہیں‘ مگر ان میں سے کوئی بھی تعریف بے عیب اور اعتراضات سے خالی نہیں۔ [صفحہ۵۰]اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بے عیب تعریف کی تلاش محض ایک کارِ لاحاصل ہے۔’’حدود وتعریفات‘‘ کی ضرورت واہمیت پر منطقیوں کے ہاں ضرورت سے زیادہ زور دیا جاتا ہے ‘ ابنِ تیمیہ نے بھی جواباً اس کی تردید کرتے ہوئے خاصی مبالغہ آمیزی اور دقت آفرینی سے کام لیا ہے جس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید وہ سرے سے تعریف کے قائل ہی نہیں اور اس کی اہمیت سے بالکل انکاری ہیں۔ تاہم یہ درست نہیں۔ ان کی اپنی تصنیفات میں بھی جابجا مختلف امور اور شرعی تصورات کی تعریفات ذکر کی گئی ہیں‘ حقیقت یہ ہے کہ وہ تعریف کو اجمالی تعارف کی حدتک تو مفید سمجھتے ہیں ‘ مگر تعریف کے نام پر ذہنی عیاشی کے لیے لڑائے جانے والے’’بوکاٹوں‘‘ کے شدید مخالف ہیں۔(۹)

حواشی

(۱) مثلا : علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ‘ اسلام آباد کی کتاب ’’معاشیات‘‘ برائے انٹرمیڈیٹ کا پہلا یونٹ ملاحظہ فرمائیں۔
(۲) مثلاً دیکھئے: ہنی ’’صحافت‘‘ برائے بی۔اے(پرچہ الف ‘پرچہ ب) ۔مطبوعہ: ہنی بکس ‘اردو بازار گلگشت‘ ملتان
(۳) یہ کتاب ایک متن ‘ ایک شرح اور ایک حاشیہ پر مشتمل ہے۔ متن کا نام ’’التنقیح‘‘ اور شرح کانام ’’التوضیح‘‘ ہے۔ ان دونوں کے ایک ہی مصنف بزرگ حنفی عالمِ دین‘ صدرالشریعہ قاضی عبیداللہ بن مسعود البخاری الحنفی (وفات:۷۴۷ھ) ہیں۔ انہوں نے اصولِ فقہ کے موضوع پر اولاً ’’التنقیح‘‘ تحریر کی اور بعد ازاں ’’التوضیح‘‘ کے نام سے ا س کی شرح بھی خود ہی لکھی۔ حاشیہ کا نام ’’التلویح‘‘ ہے اور اس کے مؤلف ‘ تاریخِ اسلام کے شہرہ آفاق معقولی اور امیر تیمور لنگ کے مقرب‘ علامہ سعدالدین مسعود بن عمرالتفتازانی (وفات: ۷۹۲)ہیں۔ متن ‘ شرح اور حاشیہ ‘تینوں کا مجموعہ ایک عرصہ سے بر صغیر کے عربی مدارس میں داخلِ نصاب ہے اور تینوں کی تدریس ایک ساتھ کی جاتی ہے ۔ تینوں کتابوں کا یہ مجموعہ ’’التوضیح والتلویح‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔
(۴) دیکھئے: التوضیح مع التلویح ‘ صفحہ نمبر ۱۵ تا صفحہ نمبر۳۲۔ مطبوعہ : قدیمی کتب خانہ ‘ کراچی
(۵) اسی طرزِ تدریس کا نتیجہ ہے کہ پورا سال اِس کتاب کے چند ابتدائی صفحات اور اصولِ فقہ کی چند ابتدائی اصطلاحات کی تعریفات پڑھتے پڑھتے ہی ختم ہوجاتا ہے اورکتاب کے اصل مباحث سرے سے پڑھنے کی نوبت ہی نہیں آتی۔اس کا داخلِ نصاب حصہ کل کتاب کا تقریباً ساتواں(۷/۱) یا آٹھواں حصہ((۸/۱) بنتا ہے۔
(۶) سورۃ المؤمنون‘ آیت نمبر ۳۔ اس آیت میں مومنوں کو تعلیم دی گئی ہے کہ وہ لغو‘ بے فائدہ اور بے مقصد امور سے الگ رہیں!
(۷) جامع الترمذی ‘ حدیث نمبر ۲۳۱۷۔۔اس حدیث میں بھی یہی ارشاد فرمایا گیا ہے کہ بے مقصد ‘ بے نتیجہ او ربے فائدہ باتوں‘ بحثوں اور کاموں میں الجھنا مسلمان کو زیب نہیں دیتا۔
(۸) یہ تینوں نام ’’علمِ معاشیات واقتصادیات‘‘ کے نام ور اورعہد ساز مفکرین کے ہیں۔ ایڈم سمتھ کلاسیکی ‘ الفریڈ مارشل نیوکلاسیکی اور ڈاکٹر رابنزماڈرن اسکول آف تھاٹ کے بانی سمجھے جاتے ہیں۔ ایڈم سمتھ کے نزدیک حصولِ دولت اور صرفِ دولت‘ الفریڈمارشل کے نزدیک انسان کی معاشی سرگرمیاں اور رابنزکے نزدیک معاشی مسئلہ’’معاشیات‘‘ کا مرکزی نکتہ ہیں۔
(۹) کتاب الرد علی المنطقیین کے جو حوالے دیے گئے ہیں ‘ وہ مؤسسۃ الزیات کے مطبوعہ نسخہ کے مطابق ہیں۔

مولانا زاہد الراشدی کی مجلس میں

حافظ زاہد حسین رشیدی

مخدوم و محترم حضرت علامہ زاہد الراشدی زید مجدہم کے ساتھ عقیدت و محبت کا تعلق تو ہے ہی، علاوہ ازیں باہم رشتہ داری کی ایک ڈوری بھی بندھی ہے جو میرے لیے استفادہ کے مواقع پیدا کرتی رہتی ہے۔ حضرت المخدوم مدظلہ کے چھوٹے بھائی حضرت مولانا حافظ عبد الحق خان بشیر نقشبندی مدظلہ میرے ہم زلف ہیں۔ چنانچہ بعض مواقع پر اس واسطہ سے حضرت علامہ مدظلہ تک بے تکلف رسائی ممکن ہو جاتی ہے اور یہ طالب علم اظہار ما فی الضمیر کی جسارت کے ساتھ ساتھ آں محترم کی شفقتیں اور محبتیں بھی سمیٹتا ہے۔ 
عشاقِ زلف زندہ جاوید کیوں نہ ہوں
ہاتھ آگیا ہے سلسلہ عمرِ دراز کا
(عزیز نواب عبد العزیز خان)
۲۲ اپریل ۲۰۱۲ء، حضرت مولانا حافظ عبد الحق خان بشیر نقشبندی زید مجدہم کے بڑے فرزند، عزیز محترم مولانا احسن خدامی سلمہ کے ولیمہ اور دختر نیک اختر سلمہا کے نکاح و رخصتی کی تقریب میں حضرت علامہ راشدی حفظہ اللہ سے چند ایک پہلوؤں پر گفتگو ہوئی جو اس خیال سے قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے کہ شاید افادۂ عام کا باعث ثابت ہوں۔ 
(۱) رسمی علیک سلیک اور دریافت خیریت کے بعد حضرت مخدوم مدظلہ نے ہمارے دیرینہ دوست مولانا عبد الرحیم چاریاری مدظلہ کے بیٹے کی خیریت و دستیابی کے متعلق استفسار فرمایا جو گزشتہ چند ہفتوں سے لاپتہ ہے۔ (مولانا چاریاری صاحب کے اس بیٹے کا نام علی حیدر تھا جسے شہید بھی کر دیا گیا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون) حضرت علامہ کے لہجے میں ہمدردی، اپنائیت اور تشویش نمایاں تھی۔ اظہارِ افسوس بھی کر رہے تھے اور دعائیں بھی۔ یاد رہے کہ مولانا چاریاری مدظلہ نے حضرت علامہ پر تنقید کرتے ہوئے ایک کتاب تیار کی اور اسے اپنے ادارہ کی طرف سے شائع کرتے ہوئے مزید ’’نوازشات‘‘ کا عزم ظاہر کیا۔ اپنے مخالفین کی بابت یہ طرزِ عمل یقیناًدل گردے کا کام ہے جو سنت نبویہ علیٰ صاحبہا التحیۃ والسلام کا عملی نمونہ بھی ہے اور ہم چھوٹوں کے لیے بہترین سبق بھی ۔۔۔
(۲) حضرت مولانا راشدی مدظلہ الشریعہ اکادمی کے پلیٹ فارم سے تحمل و برداشت کے ساتھ مذہبی و ملکی ایشوز پر تبادلۂ خیال اور مباحثہ و مکالمہ کا جدید اسلوب متعارف کروا رہے ہیں جس کی افادیت بھی تسلیم ہے اور بعض منطقی نتائج پر تحفظات بھی ہیں۔ تاہم روایتی مذہبی حلقے میں اس کی پذیرائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ 
راقم نے حضرت علامہ سے گزارش کی:
’’الشریعہ‘‘ سے جو اسلوب آپ متعارف کروا رہے ہیں، اس سے روایتی مذہبی حلقے کو ایک خاص قسم کی ’’وحشت‘‘ کیوں ہے؟ اور اس کے تدارک کے لیے آپ کیا کر رہے ہیں؟‘‘
حضرت علامہ نے مخصوص مسکراہٹ کی آمیزش کے ساتھ فرمایا:
’’میری عادت یہی ہے کہ تقاریب میں کسی خاص عنوان کے تحت ہی گفتگو کرتا ہوں۔ لہٰذا ’’الشریعہ‘‘ کا اسلوب کبھی زیر بحث نہیں لاتا، البتہ نجی مجالس میں علماء کرام سے بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ اشکالات دور کرتا ہوں اور وہ مطمئن بھی ہوتے ہیں۔ تاہم اس کی بنیادی وجہ مطالعہ کی خوفناک حد تک کمی ہے۔ جب مطالعہ کا ذوق ہی نایاب ہے تو کہاں تقابلی مطالعہ اور کہاں سنجیدہ بحث و تمحیص؟‘‘
طالب علم نے رائے دی کہ آپ مختلف سیمینارز، کانفرنسز اور دستار فضیلت سمیت دیگر عوامی اور روایتی مذہبی حلقے کی تقاریب سے مخاطب ہوئے ہیں۔ آپ اپنی فکر کو یہاں زیر بحث لایا کریں تا کہ یہ ’’وحشت‘‘ دور ہو اور دلیل سے اختلاف رائے کا حوصلہ و جذبہ پروان چڑھ سکے۔ 
(۳) اہل تشیع اور اہل سنت والجماعت کے مابین جملہ نزاعی مسائل میں ایک اہم اور اصولی مسئلہ ’’امامت و خلافت‘‘ کا ہے جس پر جانبین کی طرف سے بہت کچھ رقم ہے۔ تاہم اس میدان میں کام کرنے والے سنی نوجوان بھی اس سے کم اہمیت کے حامل مسائل میں مصروفِ عمل ہیں اور ’’امامت و خلافت‘‘ کے عنوان پر وہ توجہ نہیں دے پاتے جو اس کا حق ہے۔ اس کی ایک وجہ شاید موجود لٹریچر کا قدرے مشکل اسلوبِ تحریر و استدلال ہے۔ 
حضرت علامہ راشدی مدظلہ نے جامعہ اسلامیہ کلفٹن کراچی کے فضلاء سے مسلسل تین روز ’’خلافت‘‘ کے عنوان پر خطاب کیا جس کی روئیداد روزنامہ اسلام ۳۰،۳۱ جنوری اور یکم فروری ۲۰۱۲ء میں ’’اسلامی خلافت ۔ دلیل و قانون کی حکمرانی‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی ہے۔ بہت سے دوستوں کا خیال ہے کہ امامت و خلافت کے مسئلہ پر جس آسان اور عام فہم انداز میں یہ گفتگو کی گئی ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ہمیں پہلی دفعہ اس مسئلہ کی اہمیت کا بھی ادراک ہوا اور یہ بھی علم میں آیا کہ اس پر اہل تشیع سے گفتگو یا اس عنوان پر عوام سے خطاب انتہائی آسان ہے۔ البتہ تشنگی برقرار ہے۔ 
راقم نے حضرت علامہ سے درخواست کی کہ اس موضوع پر تفصیلی مقالہ تحریر فرمائیں، خدا کرے کہ انہیں فرصت دستیاب ہو اور یہ اہم کام پایۂ تکمیل تک پہنچ سکے۔ اللّٰہم آمین۔
(۴) سنی، شیعہ کشمکش کے حوالہ سے مشرق وسطیٰ میں اہل تشیع کی سرگرمیوں اور پاکستان میں نصاب تعلیم میں تبدیلی سمیت دیگر معاملات میں اہل تشیع کی پیش قدمی اور اہل سنت کی زبوں حالی پر علامہ راشدی مدظلہ نے روزنامہ اسلام ۱۳؍ مارچ ۲۰۱۲ء میں ’’علیحدگی کے نتائج پر بھی غور کر لو‘‘ کے عنوان سے ایک کالم تحریر کیا تھا جس میں آں محترم نے انتہائی پتے کی بات تحریر فرمائی تھی:
’’اس موضوع پر سنجیدگی کے ساتھ کام کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ معروضی صورت حال اور مستقبل کے امکانات و خدشات کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لیا جائے اور عقائدِ اہل سنت کے تحفظ، ناموسِ صحابہ کرامؓ کے تحفظ و دفاع اور اہلِ سنت کے حقوق و مفادات کی پاسداری کے لیے جذباتیت و سطحیت سے ہٹ کر اور اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے ارباب علم و دانش کو اعتماد میں لے کر جدوجہد کی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت و اہمیت اس حوالہ سے اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں عوامی بیداری کی مختلف لہروں میں سنی شیعہ کشمکش کی لہریں اب نمایاں ہوتی جا رہی ہیں۔‘‘
راقم نے اس ملاقات سے قبل بھی اسی کالم کے تناظر میں حضرت مخدوم مدظلہ کی خدمت میں عریضہ کے ذریعے گزارش کی تھی کہ بہت بہتر ہوگا اور بڑی خدمت کہ آپ اس میدان میں کام کرنے والوں کے لیے ’’کوئی ٹھوس حکمت عملی‘‘ تحریر فرما دیں جو اس حوالے سے جدوجہد کرنے والوں کے لیے راہ نمائی کا کام دے سکے۔ حضرت علامہ کے خیال میں یہ معاملہ فردِ واحد کے بجائے اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے افراد کے مابین مشاورت سے حکمت عملی طے پانے کا تقاضا کرتا ہے۔ حضرت کے بقول میں نے بہت سے دوستوں سے بات کی ہے، میں معاونت اور مشاورت کے لیے تیار ہوں لیکن احباب کی طرف سے سنجیدگی نظر نہیں آرہی۔ آپ کوئی مجلس طے کر لیں اور اس موضوع سے لگاؤ رکھنے والے دوست بلا لیں، میں ہمہ وقت حاضر ہوں۔
راقم جو گھنٹی حضرت مخدوم کے گلے میں باندھنا چاہ رہا تھا، وہ میرے گلے باندھ دی گئی۔ کوشش ہوگی کہ آں محترم کی توقعات پر پورا اترتے ہوئے اس حوالہ سے کوئی کردار ادا کر سکوں۔ وما توفیقی الا باللّٰہ العلی العظیم۔
(بشکریہ ماہنامہ ’’فقاہت‘‘ لاہور)

ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے ناقدانہ طرز فکر کا ایک مطالعہ

محمد عمار خان ناصر

(انجمن خدام القرآن لاہور کے زیر اہتمام ڈاکٹر اسرار احمد صاحب مرحوم کی یاد میں منعقد کردہ ’’سالانہ قرآنی محاضرات‘‘ (۲۰۱۱ء) میں پڑھا گیا۔)

بیسویں صدی میں مسلم قومی ریاستوں کے ظہور نے حیات اجتماعی کے دائرے میں مسلمان معاشروں کی تشکیل نو اور بالخصوص مذہب کے کردار کو اہل دانش کے ہاں غور وفکر اور بحث ومباحثہ کا ایک زندہ موضوع بنا دیا۔ اسلام چونکہ محض پوجا اور پرستش کا مذہب نہیں، بلکہ انسانی زندگی میں مخصوص اعتقادی واخلاقی اقدار اور متعین احکام وقوانین کی عمل داری کو بھی اپنا مقصد قرار دیتا ہے، اس لیے مذہب کے اجتماعی کردار کا سوال اپنے متنوع پہلوؤں کے ساتھ ان مفکرین کے غور وفکر اور مطالعہ وتحقیق کا موضوع بنا جو جدید تہذیبی رجحانات کے علی الرغم ریاست اور مذہب کے باہمی تعلق کو نہ صرف مضبوط دیکھنا چاہتے تھے، بلکہ ریاست کو خالص مذہبی ونظریاتی اساسات پر استوار کرنا چاہتے تھے۔ اس نوع کے اہل فکر کی جدوجہد اور خدمات کو درست تناظر میں دیکھنے کے لیے یہ نکتہ سامنے رہنا چاہیے کہ یہ سب حضرات بنیادی طور پر امت مسلمہ کے زوال کو موضوع بناتے ہیں جو مغرب کے تہذیبی اور سیاسی استیلا کے نتیجے میں عالم اسلام پر مسلط ہوا ہے اور جس نے بحیثیت مجموعی مسلمانوں کے انداز فکر، ترجیحات اور طرز زندگی کو ان خطوط سے بالکل مختلف خطوط پر استوار کر دیا ہے جس کی تعلیم ان کے دین نے دی ہے۔ کسی اجنبی تہذیب کے سامنے فکر واعتقاد اور تہذیب ومعاشرت کی سطح پر سر تسلیم خم کر دینا چونکہ خود داخلی سطح پر ایمان واعتقاد کی کمزوری اور فکری وعملی ترجیحات کی کجی کے بغیر ممکن نہیں، اس لیے ان تمام اہل فکر کی توجہ فطری طور پر خود امت مسلمہ کے فکر وعمل کی اصلاح کی طرف مبذول ہوئی۔ اگرچہ ان سب کی فکری کاوشوں میں مغربی فکر وتہذیب کا حوالہ مسلسل پایا جاتا ہے اور اس کی فکری ونظریاتی اساسات کے تجزیہ وتنقید پر بھی انھوں نے بھرپور فکری توانائیاں صرف کی ہیں، تاہم اس ساری گفتگو کا مخاطب اصلاً مغربی ذہن نہیں، بلکہ مغربی انداز نظر کے اثرات کو قبول کرنے والے مسلمان ہی ہیں۔ اس لحاظ سے یہ کہنا درست دکھائی دیتا ہے کہ ماضی قریب اور حال کی تمام احیائی تحریکیں، اپنے انداز نظر اور حکمت عملی کے تمام تر تنوع کے باوجود، امت مسلمہ کی عظمت رفتہ کی بازیابی کی کلید خود مسلمانوں کے فکر ونظر میں تبدیلی کو قرار دیتی ہیں۔
ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کا شمار ہمارے دور کے ان نامور اہل فکر میں ہوتا ہے جنھوں نے امت مسلمہ کو درپیش صورت حال، اس کے اسباب وعوامل اور اصلاح احوال کی حکمت عملی پر پوری آزادی، گہرائی اور originality  کے ساتھ غور وفکر کیا اور ان کے غور وفکر نے جن نتائج تک انھیں پہنچایا، انھوں نے قدیم یا جدید او رروایتی یا غیر روایتی طبقات کی پسند یا ناپسند کا لحاظ کیے بغیر بلاخوف لومۃ لائم پوری جرات کے ساتھ ان کا اظہار بھی کیا۔ ان کے نتائج فکر سے یقیناًاختلاف کیا جا سکتا ہے، لیکن اپنی حریت فکر اور آزادانہ انداز نظر کے لحاظ سے وہ بلاشبہ اقبال کے اس مصرعے کا مصداق تھے کہ: ’نے ابلہ مسجد ہوں، نہ تہذیب کا فرزند‘۔ چنانچہ جہاں انھوں نے تہذیب مغرب کی فکری ونفسیاتی اساسات اور اس کے تباہ کن نتائج اور خاص طور پر مسلمان معاشروں میں اس تہذیب کے فکری وعملی اثرات کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والے طبقات کو اپنے ناقدانہ تجزیوں کا موضوع بنایا، وہاں خود ان طبقات کے انداز فکر کی تنقید میں بھی انھوں نے کوئی رعایت نہیں برتی جو مغرب زدہ طبقے کے بالمقابل اسلام اور امت مسلمہ کی سربلندی کا جذبہ اور مسلمانوں کے قومی مفاد سے گہری وابستگی رکھتے ہیں۔ ایک صاحب فکر خود جس حلقہ فکر سے تعلق رکھتا ہو اور بحیثیت مجموعی اس طبقے کے احساسات وجذبات کی ترجمانی کرتا ہو، اس کے لیے خودتنقیدی کا یہ عمل بہت مشکل ہوتا ہے، چنانچہ سطحی سیاست کاروں کے برعکس جو عوامی جذبات واحساسات کو محض سیاسی کھیل تماشے کے لیے استعمال کرنا جانتے ہیں، خود تنقیدی کی یہ ذمہ داری سنجیدہ، دیانت دار اور حقیقی طور پر امت کے خیر خواہ اہل دانش ہی انجام دے سکتے ہیں۔ میرے نزدیک اس نوع کے اصحاب فکر کا سب سے بڑا کنٹری بیوشن جس کا تسلسل ان کے حلقہ فکر اور متوسلین کو ہر حال میں قائم رکھنے کا اہتمام کرنا چاہیے، یہی ہے، کیونکہ ان کے انداز فکر کے اس حرکی پہلو کو نظر انداز کر کے اگر مخصوص نتائج فکر تک اپنے آپ کو محدود کر لیا جائے تو اسی سے وہ تقلیدی جمود وجود میں آتا ہے جس سے خود یہ اصحاب فکر زندگی بھر نبرد آزما رہے۔
اس تناظر میں، آج کی اس نشست میں، میں نے گفتگو کے لیے ڈاکٹر اسرار احمد صاحب رحمہ اللہ کے فکر ونظر کے متنوع اور گوناگوں پہلووں میں سے اسی خاص پہلو کو منتخب کیا ہے۔ میں ڈاکٹر صاحب کی کی مختلف تحریروں اور خطابات سے جمع کیے گئے کچھ منتخب اقتباسات پیش کروں گا جن میں مذہبی یا نیم مذہبی انداز فکر کے چند مخصوص پہلوؤں کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔ ان اقتباسات کا انتخاب اتفاق رائے یا تائید کے اصول پر نہیں کیا گیا، بلکہ اصل مقصد ڈاکٹر صاحب کے ناقدانہ زاویہ نظر کو واضح کرنا ہے جو میرے نزدیک اختلاف کی گنجائش کے باوجود فی نفسہ ایک نہایت قابل قدر اور قابل تقلید چیز ہے۔ یہ کام مختصر وقت میں بالکل سرسری انداز میں ہی کیا جا سکا ہے، تاہم امید ہے کہ پیش نظر نکتے کو واضح کرنے کے لیے کسی حد تک مفید ہوگا۔

اسلام میں عدل اجتماعی کا تصور اور روایتی فقہی انداز نظر

نفاذ اسلام کے ضمن میں قائد اعظم وعلامہ اقبال کے تصورات کے بالمقابل مذہبی طبقات کے تصور اسلام کی محدودیت کو واضح کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے:
’’موسسین پاکستان اقبال اور جناح کے افکار میں تو زیادہ زور اسلام کے نظام اجتماعی پر تھا، یعنی اسلام کا سیاسی، اقتصادی اور سماجی نظام (System of Social Justice as given by Quran) لیکن تحریک پاکستان کی، علما ومشائخ نے جو حمایت کی تھی، ان کے پیش نظر یہ تھا کہ اس خطے میں اسلامی قوانین اور اسلامی شریعت نافذ کی جائے۔ ..... یہ دونوں پہلو سامنے رکھیے جو ایک دوسرے سے قدرے مختلف، لیکن درحقیقت لازم وملزوم ہیں۔ قائد اعظم اور علامہ اقبال دونوں کے نزدیک اسلام کا نظام اجتماعی تھا جو انسان کو عدل دیتا ہے، جبکہ علما ومشائخ کے نزدیک اسلامی قوانین وشریعت خصوصاً حدود وتعزیرات کا نفاذ تھا جو اس نظام کو سہارا دیتے ہیں۔‘‘ (پاکستان کے وجود کو لاحق خطرات وخدشات، ص ۱۸)
ڈاکٹرصاحب نے روایتی فقہی ذخیرے کے بعض مخصوص تصورات کو بھی اسی تناظر میں نقد وجرح کا موضوع بنایا ہے۔ مثال کے طو رپر مزارعت کو جائز قرار دیے جانے سے اسلام کے معاشی مقاصد پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’جیسے جیسے ملوکیت اور جاگیرداری کی جڑیں زمین میں گہری اترتی گئیں، حالات کے جبر اور ’’نظریہ ضرورت‘‘ کے عمل دخل کا ظہور ہوا اور امام ابوحنیفہ کے شاگرد رشید قاضی ابو یوسف نے ..... امام صاحب کے دوسرے شاگرد امام محمد کے اتفاق رائے کے ساتھ مزارعت پر کچھ شرائط عائد کر کے اس کے جائز ہونے کا فتویٰ بھی دے دیا۔ بعد میں وہ شرائط تو طاق نسیاں کے حوالے ہو گئیں اور پورے عالم اسلام میں ’’مزارعت‘‘ شیر مادر کی مانند حلال وطیب ہو گئی اور اس طرح شہنشاہیت اور جاگیرداری کو دوام واستحکام حاصل ہو گیا۔‘‘ (اسلام میں عدل اجتماعی کی اہمیت، ص ۴۲، ۴۳)
’’سو ڈیڑھ سو برس بعد جبکہ ملوکیت بھی اپنی پوری شان اور کروفر کے ساتھ جلوہ گر ہو چکی تھی اور ’’قرون مشہود لہا بالخیر‘‘ (یعنی وہ ادوار جن کے خیر کے حامل ہونے کی گواہی خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے) کا زمانہ بھی بیت چکا تھا، علماے اسلام اور فقہاے کرام کا حالات کے جبر سے متاثر ہو جانا ہرگز نہ بعید از قیاس ہے نہ ان کے لیے موجب توہین۔‘‘ (اسلام میں عدل اجتماعی کی اہمیت، ص ۴۶)
فقہ اسلامی کی تشکیل میں اس دور کے جو مخصوص تمدنی حالات اور ضروریات کارفرما رہی ہیں، اس کے پیش نظر ڈاکٹر صاحب نے فقہاے اسلام کے اخذ کردہ مخصوص نتائج فکر کی پابندی کے بجائے قرآن وسنت سے براہ راست اخذ واستنباط کی ضرورت واہمیت کو بھی بڑی تاکید سے واضح کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’ایسے اصحاب علم ودانش آگے بڑھیں جو کتاب وسنت کے نصوص کی پابندی کے عزم مصمم کے ساتھ ساتھ صرف سلف کی اجتہادی آرا کے مقلد جامد بن کر نہ رہ جائیں، بلکہ شریعت کے اصل مقاصد واہداف کو بھی پیش نظر رکھ سکیں اور جہد وجہاد کے جذبے سے سرشار ہونے کے ساتھ ساتھ قیاس واجتہاد اور اس کے ضمن میں مصالح مرسلہ اور مفاد عامہ کو بھی ملحوظ رکھ سکیں۔‘‘ (اسلام میں عدل اجتماعی کی اہمیت، ص ۲۹)
’’ایک مجلس کی تین یا تین سے بھی زائد طلاقوں کے ضمن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو ایک رعایت اور نرمی فرمایا کرتے تھے، اسے حضرت عمر نے مصلحت امت کے پیش نظر اپنے ایک اجتہادی فیصلہ سے ختم کر دیا تو اس پر تو اہل سنت کے چاروں مکاتب فقہ کا اس درجہ عزم بالجزم کے ساتھ اصرار ہے کہ کسی بھی صورت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رعایت کو دوبارہ جاری کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔‘‘ (اسلام میں عدل اجتماعی کی اہمیت، ص ۴۵)

احیائی تحریکوں کی یک رخی فکری ترجیحات

بیسویں صدی کی مسلم احیائی تحریکوں کے ہاں اسلام کو بطور ایک اجتماعی نظام کے نمایاں کرنے کی کوشش اس انداز سے ہوئی ہے کہ دین کا روحانی اور باطنی پہلو مقدم الذکر پہلو کا خادم اور تابع قرار پا کر بڑی حد تک دب گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس پہلو کی بجا طو رپر نشان دہی کی ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:
’’ذرا دقت نظر سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان تحریکوں کا مطالعہ اسلام اسی مغربی نقطہ نظر پر مبنی ہے جس میں روح پر مادے اور حیات اخروی پر حیات دنیوی کو فوقیت حاصل ہے۔ چنانچہ اسلام کے ان ماوراء الطبیعاتی اعتقادات کا اقرار تو ان کے یہاں موجود ہے جن کے مجموعے کا نام ایمان ہے، لیکن انھیں کچھ زیادہ درخور اعتنا اور لائق التفات نہیں سمجھا گیا اور نگاہیں کلیۃً اس ہدایت ورہنمائی پر مرکوز ہیں جو حیات دنیوی کے مختلف شعبوں کے لیے اسلام نے دی ہیں اور جن کے مجموعے کا نام ’اسلامی نظام زندگی‘ رکھا گیا ہے۔ ..... اسی نقطہ نظر کا کرشمہ ہے کہ دین اسٹیٹ (State) کا ہم معنی قرار پایا ہے اور عبادت، اطاعت کے مترادف ہو کر رہ گئی ہے۔ نماز کا یہ مقام کہ وہ معراج المومنین ہے، نگاہوں سے بالکل اوجھل ہے اور نفس انسانی کا اس سے ایسا انس کہ ’قرۃ عینی فی الصلوۃ‘ کی کیفیت پیدا ہو سکے، ناپید ہے۔ ..... زکوٰۃ کا یہ پہلو کہ یہ روح کی بالیدگی اور تزکیے کا ذریعہ ہے، اس قدر معروف نہیں جتنی اس کی یہ حیثیت کہ یہ اسلامی نظام معیشت کا اہم ستون ہے۔ روزہ کے بارے میں یہ تو خوب بیان کیا جاتا ہے کہ یہ ضبط نفس (Self control) کی مشق وریاضت ہے، لیکن اس کی اس حقیقت کا یا تو سرے سے ادراک ہی نہیں ہے یا اس کے بیان میں ’حجاب‘ محسوس ہوتا ہے کہ یہ روح کی تقویت کا سامان اور جسد حیوانی کی اس پر گرفت کو کمزور کرنے کا ذریعہ ہے۔ ....اسی طرح حج کے بارے میں یہ تو معلوم ہے کہ اس کے ذریعے ’’خدا پرستی کے محور پر ایک عالمگیر برادری‘‘ کی تنظیم ہوتی ہے، لیکن اس سے آگے اس کی روحانی برکات کا کوئی تذکرہ نہیں ہوتا! ..... کہنے میں تو اگرچہ یہ آیا کہ اسلام فلاح انسانی کا جامع پروگرام ہے جس میں فلاح اخروی اور فلاح دنیوی دونوں شامل ہیں، لیکن نگاہیں چونکہ فی الواقع صرف حیات دنیوی پر مرکوز ہیں، لہٰذا آخری تجزیے میں اسلام ایک ’‘سیاسی وعمرانی نظام‘‘ (Politico-Social System) بن کر رہ گیا۔ ..... اس اعتبار سے غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تحریکیں فی الواقع ’مذہبی‘ سے زیادہ ’سیاسی وعمرانی‘ اور ’دینی‘ سے زیادہ ’دنیوی‘ ہیں اور آخری تجزیے میں دوسری سیاسی ومعاشرتی تحریکوں سے صرف اس اعتبار سے مختلف ہیں کہ ان کے نزدیک سرمایہ دارانہ جمہوریت یا اشتراکیت بہتر نظام ہائے حیات ہیں اور ان کے نزدیک اسلام انسانی زندگی کے جملہ مسائل کو بہتر طور پر حل کرتا ہے۔ .... یہی سبب ہے کہ یہ تحریکیں بے لنگر کے جہازوں کے مانند ادھر ادھر بھٹک رہی ہیں اور ان کا حال اکثر وبیشتر اس مسافر کا سا ہے جسے نہ تو منزل ہی کا پتہ رہا اور نہ ہی یہ یاد رہا کہ سفر شروع کہاں سے کیا تھا۔‘‘ (نشاۃ ثانیہ ص ۱۱ تا ۱۷)
ڈاکٹر صاحب نے غلبہ دین کا مقصد حاصل کرنے کے لیے ان احیائی تحریکوں کی عجلت پسندانہ حکمت عملی پر بھی تنقید کی ہے۔ لکھتے ہیں:
’’بیسویں صدی عیسوی کی یہ اسلامی تحریکیں جو انڈونیشیا سے مصر تک متعددمسلمان مماک میں تقریباً ایک ہی وقت میں شروع ہوئیں، بہت سے پہلووں سے ایک دوسرے سے بہت مشابہ ہیں اور یہ کہنا بہت حد تک صحیح ہے کہ تقریباً ایک ہی تصور دین ان کی پشت پر کام کر رہا ہے اور ایک ہی جذبہ ان میں سرایت کیے ہوئے ہے۔ ..... یہ تحریکیں تقریباً ثلث صدی سے مختلف مسلمان ملکوں میں برسر عمل ہیں اور ملت اسلامی کی نوجوان نسل کا ایک خاصا قابل ذکر حصہ ان کے زیر اثر آیا ہے، لیکن عملاً ان میں سے کسی کو کوئی نمایاں کامیابی کہیں حاصل نہیں ہو سکی، بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ تحریکیں اپنا وقت پورا کر چکی ہیں اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے خواب کی تعبیر کا وقت ابھی نہیں آیا۔ چنانچہ مصر میں اخوان المسلمون کا اندرون ملک تقریباً خاتمہ ہو چکا ہے اور اس کے باقیات الصالحات جلاوطنی کے عالم میں دول عرب کی باہمی آویزش کے سہارے جی رہے ہیں۔ رہی برصغیر کی تحریک اسلامی تو اس کا جزو اعظم پاکستانی سیاست کے نذر ہو چکا ہے اور اب اس کا مقام تحریک جمہوریت کی حاشیہ برداری سے زیادہ کچھ نہیں رہا۔ 
ان تحریکوں کی ناکامی کا سبب بظاہر تو یہ ہے کہ انھوں نے بے صبری سے کام لیا اور اپنے اپنے ملکوں میں سوچنے سمجھنے والے لوگوں کی معتد بہ تعداد کے ذہنوں کو بدلے بغیر سیاست کے میدان میں قدم رکھ دیا جس کے نتیجے میں قومی قیادتوں اور ’ترقی پسند‘ عناصر سے قبل ازوقت تصادم کی نوبت آ گئی، لیکن درحقیقت ان کی ناکامی براہ راست نتیجہ ہے ان کے تصور دین کی خامی اور مطالعہ اسلام کے نقص کا۔‘‘ (نشاۃ ثانیہ ص ۱۱ تا ۱۷)

ہندو مسلم منافرت کی تاریخی بنیادیں

برصغیر میں ہندو مسلم منافرت کا جو مسئلہ اس وقت اس پورے خطے کے امن واستحکام کے لیے ایک بہت بڑے چیلنج کی صورت اختیار کر چکا ہے، تاریخی بنیادوں پر اس کا تجزیہ کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے یک طرفہ طور پر ہندوؤں کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے خود مسلمانوں کو بھی اپنے گریبان میں جھانکنے کی دعوت دی ہے، چنانچہ مسلمان بادشاہوں کے طرز حکومت کے حوالے سے فرماتے ہیں:
’’بدقسمتی سے ہمارے ملک کے بعض دانش وروں نے ہندوستان کے ہندووں اور مسلمانوں کے مابین نفرت کے ’’چلتے ہوئے جھکڑ‘‘ اور بد اعتمادی کی ’’اٹھتی ہوئی آندھی‘‘ کے ایک سبب کو اس درجہ اچھالا ہے اور اس شدت کے ساتھ تحریر وتقریر کا موضوع بنایا ہے کہ دوسرے جملہ عوامل نگاہوں سے بالکل اوجھل ہو کر رہ گئے۔ چنانچہ عوام کے اذہان میں اس پوری صورت حال کے واحد سبب کی حیثیت صرف ہندووں کی عمومی چھوت چھات، برہمنوں کے سامراجی مزاج اور بنیوں کی چاپلوسانہ عیاری کی ذہنیت کو حاصل ہو گئی ہے۔ چنانچہ ایک جانب یہ پہاڑ جیسی عظیم حقیقت نگاہوں سے اوجھل ہو گئی کہ ہندو معاشرہ صرف برہمنوں اور بنیوں ہی پر مشتمل نہیں ہے بلکہ اس میں راجپوت اور شودر بھی موجود ہیں جو اپنا اپنا جداگانہ مزاج رکھتے ہیں۔ مزید برآں خود برہمنوں اور بنیوں میں بھی ’’نہ ہر زن زن است ونہ ہر مرد مرد -- خدا پنج انگشت یکساں نہ کرد‘‘ کے مصداق ہر مزاج اور کردار کے لوگ موجود ہیں اور دوسری جانب ان دو اہم عوامل سے تو کامل ذہول ہو گیا جن میں سے ایک کا تعلق ماضی بعید اور خود مسلمانوں کے اپنے کردار سے ہے اور دوسرے کا ماضی قریب اور انگریزوں کے کردار سے!
ان میں سے مقدم الذکر سے صرف نظر اور غض بصر کا معاملہ تو
’’وابستہ میری یاد سے کچھ تلخیاں بھی تھیں
اچھا کیا جو مجھ کو فراموش کر دیا‘‘
کے عین مطابق ہے، اس لیے کہ اس تلخ حقیقت کا اعتراف بہت مشکل ہے کہ خود ہم مسلمانوں نے ہندوستان میں اپنی ’’ہزار سالہ‘‘ حکومت کے دوران اکثر وبیشتر وہی ’’اقوام غالب‘‘ والا کردار اختیار کیا تھا جس کا اوپر ذکر ہو چکا ہے اور نہ صرف یہ کہ اپنے ان فرائض کو تو سرے سے ادا ہی نہیں کیا تھا جو امت مسلمہ اور امت محمد (علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) ہونے کی حیثیت سے ہم پر عائد ہوتے تھے ، یعنی اللہ کے پیغام کی دعوت وتبلیغ اور اسلام کے عادلانہ نظام زندگی اور دین حق کے نظام عدل وقسط کے قیام کے ذریعے خلق خدا پر اللہ کی رحمانیت ورحیمیت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمۃ للعالمینی کا عملی مظاہرہ اور اس طرح اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے ہندوستان میں بسنے والوں پر اتمام حجت، بلکہ بہت سے حکمرانوں نے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ قائم رکھنے کے علاوہ ذاتی عیاشی اور بو الہوسی کے وہ جملہ انداز اختیار کیے جو ہمیشہ سے ملوکیت اور بادشاہی کے لوازم میں سے رہے ہیں اور ان سب کی بنا پر ہندوؤں میں عمومی طو رپر وہ انتقامی جذبہ موجود تھا جو سقوط ڈھاکہ کے حادثہ فاجعہ کے موقع پر ع ’’نکل جاتی ہے جس کے منہ سے سچی بات مستی میں‘‘ کے مطابق فتح مندی کی سرمستی میں پنڈت موتی لال نہرو جیسے وسیع المشرب انسان کی پوتی اور جواہر لال نہرو جیسے سیکولر اور سوشلسٹ مزاج کے حامل شخص کی بیٹی مسز اندرا گاندھی کے منہ سے نکلنے والے ان الفاظ سے ظاہر ہو گیا کہ ’’ہم نے اپنی ہزار سالہ شکست کا بدلہ چکا لیا ہے!‘‘ (پاک بھارت تعلقات، ص ۱۲،۱۴۳)
پاکستان اور ہندوستان کے باہمی تعلقات کی آئیڈیل صورت کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے دونوں سب سے بڑے علم برداروں، یعنی مصور ومفکر پاکستان علامہ اقبال اور معمار وموسس پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے تقسیم کے بعد کے حالات کے ضمن میں جو خواب دیکھے تھے، وہ اس صورت حال کے بالکل برعکس تھے۔ چنانچہ اس ضمن میں قائد اعظم نے تو صرف یہ کہنے پر اکتفا کی تھی کہ ’’بھارت اور پاکستان کے تعلقات ایسے ہی ہوں گے جیسے ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور کینیڈا کے مابین ہیں‘‘، لیکن علامہ اقبال نے تو اس سے بھی آگے بڑھ کر اپنے خطبہ الٰہ آباد (دسمبر ۱۹۳۰ء) میں یہاں تک فرما دیا تھا کہ ’’ہندوستان کے شمال مغرب میں واقع مسلم ریاست ہر نوع کی جارحیت کے مقابلے میں ہندوستان کے دفاع کا فریضہ بہترین طو رپر سرانجام دے گی، خواہ وہ جارحیت نظریات کی ہو خواہ ہتھیاروں کی۔‘‘ (پاک بھارت تعلقات، ص ۲۸)

پاک بھارت تعلقات اور مسئلہ کشمیر

ڈاکٹرصاحب نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اختیار کی جانے والی حکمت عملی پر بھی تنقید کی اور ہمارے ہاں پائے جانے والے غالب لیکن جذباتی طرز فکر کے برعکس مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے جنگ کے راستہ کو عملاً غیر موثر اور غیر نتیجہ خیز قرار دیا۔ فرماتے ہیں:
’’سب سے پہلے جنگ کو لیجیے جس کی آج کل بار بار دہائی دی جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ فی الواقع اور خصوصاً بحالات موجودہ کوئی قابل عمل حل ہے؟ کیا ہم جنگی صلاحیت کے اعتبار سے بھارت کے مقابلے میں آج کی نسبت ۱۹۶۵ء میں کہیں زیادہ بہتر حالت میں نہیں تھے؟ پھر اگر اس وقت کامیابی حاصل نہیں ہو سکی تھی تو آج اس کی کتنی امید کی جا سکتی ہے؟
مسلمانان کشمیر پر بھارت کی ننگی جارحیت اور بے پناہ ظلم وبربریت کے خلاف پاکستان کی جانب سے کھلم کھلا اعلان جنگ صرف اس صورت میں ہو سکتا تھا کہ ہمیں اپنے موقف کے مبنی برحق وانصاف ہونے کے ساتھ ساتھ سورۂ آل عمران کی آیت ۱۶۰ کے ان الفاظ مبارکہ کے مطابق کہ: ان ینصرکم اللہ فلا غالب لکم  یعنی ’’اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں آ سکتا!‘‘ اللہ تعالیٰ کی نصرت وتائید کا یقین بھی حاصل ہوتا، جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم سودی معیشت کے نظام کو جاری رکھنے کے باعث خود ہی اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ برسر جنگ ہیں، لہٰذا فرمان نبوی ’فانی یستجاب لذالک‘ یعنی ’’ایسے شخص کی دعا کیسے قبول ہو سکتی ہے؟‘‘ کے مطابق ہمیں اللہ کی نصرت وتائید کی امید کیسے ہو سکتی ہے!بنا بریں لے دے کر سارا معاملہ صرف مادی اسباب ووسائل کی کمیت اورکیفیت کا رہ جاتا ہے جس کا تقابلی جائزہ اور موازنہ آئے دن اخبارات کی زینت بنتا رہتا ہے۔‘‘ 
’’رہا مسلمانان کشمیر کا سرفروشانہ اور بے مثال جہاد حریت تو اس کے ضمن میں بھی جذبات سے ہٹ کر عقل سے کام لینے کی ضرورت ہے کہ کسی کھلم کھلا اور ٹھوس بیرونی امداد کے بغیر آخر وہ اسے حکومت پاکستان کی صرف اخلاقی اور سفارتی مدد اور بعض نجی اداروں کی جانب سے چوری چھپے اور وہ بھی اونٹ کے منہ میں زیرہ کے بقدر، امداد کے بل پر کب تک جاری رکھ سکیں گے؟ واقعہ یہ ہے کہ اس معاملے میں بھی بہت سے حلقوں، بالخصوص مذہبی گروہوں کی جانب سے عوام کو بہت بڑے بڑے مغالطے دیے جا رہے ہیں۔ چنانچہ اولاً جہاد افغانستان کا حوالہ دیا جاتا ہے، حالانکہ ہر شخص جانتا ہے کہ اس معاملے میں ایک سپر پاور کی کھلم کھلا، اعلانیہ اور فیصلہ کن مالی اور جنگی مدد حاصل تھی (جس کی بہتی گنگا میں خود پاکستان کے بہت سے مقتدر افراد اور مذہبی جماعتوں نے خوب خوب ہاتھ دھوئے) لہٰذا کشمیر کے معاملے میں افغانستان کا حوالہ قیاس مع الفارق کی حیثیت رکھتا ہے۔ ‘‘ (پاک بھارت تعلقات، ص ۳۶، ۳۷، ۳۸)
جنرل ضیاء الحق صاحب کے دور میں کشمیر میں خفیہ دراندازی کی جو پالیسی شروع کی گئی اور جسے بعد میں حالات کے جبر کے تحت بڑی حد تک ترک کر دینا پڑا، ا س کے نتائج ومضمرات پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے:
’’جس جہاد کو ہم چودہ سال سے سپانسر کر رہے تھے اور اسے جہاد فی سبیل اللہ قرار دے رہے تھے، اس سے بھی ہم نے ہاتھ اٹھا لیا۔ اس کا رد عمل کشمیریوں میں یہ ہوا ہے کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان نے ہم سے دھوکہ کیا ہے، اس نے ہم کو مروایا ہے۔ میں جہاد کے نام پر کشمیر میں خفیہ مداخلت کا ہمیشہ سے مخالف تھا۔ اب میں بڑی تلخ بات کہہ رہا ہوں کہ پاکستان نے کشمیریوں سے ۱۹۶۵ء کا بدلہ لیا ہے۔ پاکستان نے ۱۹۶۵ء میں اپنے بہترین کمانڈوز کو اس توقع پر کشمیر میں داخل کر دیا تھاکہ کشمیری مسلمان مدد کریں گے، لیکن کشمیریوں نے کوئی حمایت نہیں کی اور وہ تقریباً سارے کے سارے شہید ہو گئے۔ اس کے برعکس یہ ہواکہ بھارت پلٹ کر لاہور پر حملہ آور ہو گیا اور ہماری ساری کوشش ناکام ہو گئی۔ کشمیریوں کے جہاد حریت میں اگرچہ پاکستان سے بھی بہت سوں نے وہاں جا کر جانیں دی ہیں، لیکن مصائب کا اصل پہاڑ تو کشمیریوں پر ٹوٹتا رہا ہے۔ عصمت دری تو ان کی عورتوں اور بیٹیوں کی ہوئی ہے، انھی کے گھروں کو مسمار کیا گیا ہے، انھی کی آبادیاں تھیں جو تھوک کے حساب سے جلا دی گئیں اور انھی کی دکانیں ختم ہوئی ہیں۔ میرے نزدیک پاکستان نے کشمیریوں سے گویا ۱۹۶۵ء کا بدلہ لیا ہے، جبکہ انھوں نے پاکستان کی حمایت نہیں کی تھی۔‘‘ (پاکستان کے وجود کو لاحق خطرات وخدشات، ص ۳۳)

جہاد فی سبیل اللہ کی اصطلاح کا غلط استعمال

عالم اسلام کے طول وعرض میں مغرب اور مغرب زدہ حکمران طبقات کے تسلط سے نجات حاصل کرنے کے لیے ’جہاد‘ کی اصطلاح اپنی اثر انگیزی اور عملی افادیت کی وجہ سے بڑے پیمانے پر استعمال کی گئی۔ ڈاکٹر صاحب نے اس سے بھی اختلاف کیا ہے، چنانچہ فرماتے ہیں:
’’ایک دوسری چیز جس نے میرے نزدیک جلتی پر تیل کا کام کیا ہے اور پھر اس کی وجہ سے اصل بدنامی مسلمانوں کے حصے میں آئی ہے، یہ مغالطہ ہے کہ مسلمان جب بھی جنگ کرے، وہ جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ اس غلط فہمی کے بدترین نتائج نکلے اور اس نے جہاد فی سبیل اللہ کی اصطلاح کو بری طرح بدنام کیا۔ ظاہر بات ہے کہ ہمارے دور ملوکیت میں بادشاہ جو جنگیں کرتے تھے، ان کا محرک ان کی ہوس ملک گیری ہوتی تھی تاکہ بڑے سے بڑے محل بنا سکیں اور زیادہ سے زیادہ محصولات (Revenues) اکٹھے ہو سکیں، لیکن ان جنگوں کو بھی جہاد فی سبیل اللہ کہا گیا۔ ظاہر ہے اس کے نتیجے میں اس مقدس اصطلاح کو تو بدنام ہونا ہی تھا۔
اس ضمن میں تازہ ترین مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔ اسی (بیسویں) صدی کے وسط یعنی پچاس کی دہائی میں الجزائر میں فرانس سے آزادی کی جنگ لڑی جا رہی تھی۔ حصول آزادی کے لیے مسلمانوں کی جنگ ایک جائز جنگ ہے، مگر آزادی کی ہر جنگ جہاد فی سبیل اللہ نہیں ہے، لیکن الجزائر کی اس جنگ آزادی کو جہاد فی سبیل اللہ کا نام دے دیا گیا۔ .....اس ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کا نتیجہ کیا نکلا؟ جب وہ جہاد کامیاب ہو گیا تو وہاں ایک سوشلسٹ ریاست وجود میں آ گئی۔ عجیب بات ہے کہ جو درخت آم کا تھا، اس پر برگ وبار کسی اور شے کے آ گئے۔ درحقیقت وہ جنگ آزادی تھی، جہاد حریت تھا، جہاد فی سبیل اللہ نہیں تھا۔ چنانچہ کامیابی کی صورت میں وہاں کے ایلیٹ طبقہ کے اذہان، فکر اور نظریات کے مطابق نظام بن گیا۔
یہی حال ہمارے پڑوسی ملک افغانستان میں ہوا۔ افغانستان میں جو جنگ لڑی گئی، وہ بھی بنیادی طور پر جہاد حریت یعنی آزادی کی جنگ تھی۔ اس میں اصل زور اس وقت آیا جب روسی افواج افغانستان میں داخل ہو گئیں۔ اس موقع پر تمام علماء بھی اٹھ کھڑے ہوئے، اس لیے کہ ہمارے فقہی تصورات کی رو سے بھی کسی مسلمان ملک پر کسی غیر مسلم حکومت کی فوجیں حملہ آور ہو جائیں تو پھر دفاع فرض عین ہو جاتا ہے، لہٰذا اس جذبے سے سرشار ہو کر پوری قوم اپنی آزادی کے تحفظ کے لیے کھڑی ہو گئی۔ ہم نے اس پر بھی جہاد فی سبیل اللہ کا لیبل دے دیا اور دنیا بھر میں اس کا ایسا ڈنکا بجا کہ جذبہ شہادت سے سرشار نوجوان پوری دنیا سے کھنچ کر چلے آئے۔ میں سمجھتا ہوں ان کے دل میں وہی جہاد فی سبیل اللہ کا جذبہ تھا، لیکن اس کی اصل کیفیت اور نوعیت تو جہاد حریت کی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ روسی افواج افغانستان سے نکل گئیں اور آپس میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ جہاد فی سبیل اللہ کا یہ نتیجہ کبھی نہیں ہو سکتا۔‘‘ (جہاد فی سبیل اللہ، ص ۶، ۷)

پر تشدد حکمت عملی کے مضرات

یہ بات نہیں کہ ڈاکٹر صاحب دینی مقاصد کے لیے قوت، زور بازو اور مسلح جدوجہد کے جواز کے قائل نہیں۔ وہ نہ صرف اس کے قائل بلکہ داعی ہیں، یہاں تک کہ انھوں نے اہل سنت کے ہاں پائے جانے والے اس عمومی تصور سے بھی اختلاف کیا ہے کہ مسلمان حکمرانوں کے خلاف مسلح بغاوت کسی حال میں جائز نہیں، تاہم اس کے ساتھ ساتھ وہ مسلح جدوجہد کی کامیابی کے لیے مطلوبہ شرائط اور خاص طور پر ایسے کسی بھی اقدام کے عملی نتائج کو ملحوظ رکھنے کو بھی ضروری قرار دیتے ہیں اور اسی تناظر میں انھوں نے موجودہ حالات میں اس طریقے کو اختیار کرنے والے عناصر کی تائید نہیں کی۔ فرماتے ہیں:
’’مسلمانوں کے ایک خاص طبقے میں ایک خیال پیدا ہوا کہ ہمارا بھی تو ایک نظام ہے۔ یہ انگریز کا لایا ہوا بھی ایک نظام تھا، فرانسیسیوں کا دیا ہوا نظام بھی ایک نظام تھا اور ہمارا بھی ایک نظام ہے، ہم کیوں نہ اس کو نافذ کر دیں۔ یہ اصل میں اس آزادی کا ایک ثمرہ تھا کہ مسلمانوں میں ایک خود آگاہی پیدا ہوئی اور انھوں نے اسلام کو بطور ایک دن کے سمجھا، لہٰذا احیائی تحریکیں ابھریں۔ انڈونیشیا میں مسجومی پارٹی، انڈوپاک میں جماعت اسلامی، ایران میں فدائین، عرب دنیا میں الاخوان المسلمون جیسی تحریکیں ابھریں۔ یہ ساری تحریکیں اس لیے اٹھیں کہ اسلام دین ہے اور دین اپنا غلبہ چاہتا ہے، ہمیں دین کو غالب کرنا ہے۔
لیکن بعض عوامل کی وجہ سے ان تحریکوں کو آج تک کہیں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ .... ان مسلمان تحریکوں نے طریق کار غلط اختیار کیا۔ دنیا میں اسلام ایک نظام کی حیثیت سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے برپا کیا تھا اور یہ دوبارہ برپا ہو سکتا ہے تو صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق ہو سکتا ہے۔ انھوں نے سمجھا وہ تو آؤٹ آف ڈیٹ ہے، پرانا ہے، لہٰذا الیکشن میں حصہ لے کر اس سے اسلام نافذ کریں گے۔ اس میں ناکامی ہوئی تو گولی چلانی شروع کر دی کہ فلاں فلاں کو مار دو۔ چنانچہ سادات کو قتل کر دیا گیا، سادات گیا تو حسنی مبارک آ کر براجمان ہو گیا (چند روز قبل میرے پاس ایک نوجوان آیا کہ میرا دم گھٹ رہا ہے، میں چاہتا ہوں کہ پرویز مشرف کو قتل کر دوں۔ میں نے کہا تمہارا دماغ خراب ہے؟ تم ایک پرویز کو قتل کرو گے، کوئی اور پرویز آ کر بیٹھ جائے گا، فائدہ کیا ہوگا؟) تو کہاں تبدیلی ہوئی ہے؟ فوجی حکومت کے ذریعے سے کوئی تبدیلی ہوئی ہے؟ اس اعتبار سے اس غلط طریق کار نے ان تحریکوں کو کہیں کامیاب نہیں ہونے دیا۔ ..... دینی تحریکوں کا طریق کار غلط ہے۔ انھوں نے ballot یا bullet کا راستہ اختیار کیا۔ یہ دونوں راستے غلط ہیں اور یکساں غلط ہیں۔‘‘ (موجودہ حالات میں اسلام کا مستقبل، ص ۳۳، ۳۴، ۳۵)
’’آج کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ طریق انقلاب واضح ہو جائے۔ آج مسلمانوں میں جذبے کی کمی نہیں ہے۔ ہزاروں لوگ جانیں دے رہے ہیں۔ اپنے جسموں سے بم باندھ کر اپنے جسموں کو اڑا رہے ہیں۔ کشمیر کے اندر جو جذبہ ابھرا، اسے پوری دنیا نے دیکھ لیا۔ کشمیریوں کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ تو لڑنے والی قوم ہے ہی نہیں، اب اس کے اندر جان پیدا ہو چکی ہے۔ پاکستان سے جا کر کتنے لوگوں نے وہاں پر جام شہادت نوش کر لیا۔ لیکن اسلامی انقلاب کا طریق کار یہ نہیں ہے۔ اس سے کہیں کامیابی نہیں ہوگی۔ اس طریقے سے آپ صرف اپنا غصہ نکال سکتے ہیں۔ آپ نے جا کر افریقہ میں امریکہ کے دو سفارت خانوں کو بم سے اڑا دیا، اس سے امریکی تو دس پندرہ مرے، جبکہ ۲۰۰ وہاں کے لوکل افریقی مر گئے۔ فائدہ کیا ہوا؟ بس یہی کہ آپ نے اپنا غصہ نکال لیا۔ تو ان طریقوں سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔‘‘ (ص ۳۱)
’’اگر ہم مشتعل ہو کر اسلحہ اٹھائیں تو کس کے خلاف اٹھائیں گے؟ بری افواج یا ایئر فورس کے خلاف؟ کیا ہماری ماضی کی حکومتوں نے بلوچستان میں دو مرتبہ ایئر فورس استعمال نہیں کی؟ کیا ایئر فورس کے ذریعے سے حافظ الاسد نے ایک دن میں ہزاروں اخوان ختم نہیں کر دیے تھے اور ان کا مرکز بمباری کر کے تباہ وبرباد نہیں کر دیا تھا؟ تو آج مقابلہ بہت غیر مساوی (unequal) ہے۔ .... جنگ اگرچہ جائز ہے، لیکن موجودہ حالات میں عملاً ممکن نہیں ہے۔ آج کے مسلمان حکمرانوں کے خلاف یک طرفہ جنگ ہی موزوں لائحہ عمل ہے۔‘‘(ص ۲۹، ۳۰)

ان چند اقتباسات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب مرحوم غلبہ اسلام کے مقصد کے ساتھ ایک والہانہ وابستگی رکھنے کے باوجود اس ضمن میں کی جانے والی جدوجہد پر نقد ونظر کی ضرورت سے نہ صرف واقف تھے بلکہ اس پورے عمل پر مسلسل ناقدانہ نظر رکھے ہوئے تھے۔ ان کے ہاں احیاے اسلام صرف ایک جذباتی خواہش کا عنوان نہیں جو ان تحریکوں کی غیر حکیمانہ ترجیحات سے صرف نظر کرنے پر آمادہ کر دے، بلکہ وہ سمجھتے تھے کہ اسلام کے احیا اور امت مسلمہ میں فکری انقلاب کی دعوت لے کر اٹھنے والی یہ تمام تحریکیں بہرحال انسانی بصیرت اور اجتہاد ہی کی مرہون منت ہیں اور نتیجتاً ان تمام کمزوریوں اور نقائص کی زد میں ہیں جن سے انسانی فکر کبھی کلی طور پر مبرا نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس طرح کی تحریکوں کے ہاں فکری وعملی ترجیحات کے لحاظ سے Trial and error کے انداز کا ایک ارتقا پایا جاتا ہے اور شاید یہ کہنا درست ہوگا کہ منزل تو دور کی بات ہے، ابھی تک ان کے ہاں جادۂ منزل کی تعیین کے حوالے بھی مجموعی اعتبار سے کوئی یکسوئی نہیں پائی جاتی۔ کہیں ہدف کی تعیین میں غلطی ہو گئی ہے، کہیں موثر حکمت عملی وضع کرنے میں کوتاہی فکر مانع ہو گئی ہے، کہیں طول مسافت نے صبر وحوصلہ کا دامن ہاتھ سے چھڑوا دیا ہے اور کہیں پڑاؤ کے مقامات کو منزل یا منزل کا متبادل سمجھ کر وہیں ڈیرہ ڈال لیا گیا ہے۔ اس صورت حال کا ایک لازمی تقاضا یہ بنتا ہے کہ خود ان احیائی تحریکوں کے انداز فکر، ترجیحات، حکمت عملی اور کارکردگی کو کڑی تنقید کی کسوٹی پر مسلسل پرکھا جاتا رہے اور اس قافلے کو سوے منزل رواں دواں رکھنے کے لیے فکر تازہ کی حدی کسی انقطاع کے بغیر سنائی جاتی رہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب اپنے حصے کی ذمہ داری ادا کر کے دنیا سے تشریف لے جا چکے ہیں۔ اب یہ ان کے قائم کردہ حلقہ فکر کی ذمہ داری ہے کہ وہ پورے شعور، بصیرت اور استقامت کے ساتھ اس روایت کے تسلسل کو قائم رکھے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بعض دوسری اصلاحی واحیائی تحریکوں کی طرح ایک فکری کیمپ کے ساتھ وابستگی کا احساس رفتہ رفتہ اتنا غالب آ جائے کہ حریت فکر اور خود تنقیدی کی جگہ سکوت واغماض لے لیں اور نقائص اور کمزوریوں کی جرات مندانہ نشان دہی کی جگہ پردہ پوشی بلکہ بعض صورتوں میں حمیت جاہلیہ کا رویہ پروان چڑھنے لگے۔ اللہم انصر من نصر دینک واجعلنا منہم واخذل من خذل دینک ولا تجعلنا معہم۔ آمین

اسلامی تحریکوں کی کارکردگی / برما کے مسلمانوں کی حالت زار / شام کا بحران

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

پاکستان شریعت کونسل ایک فکری و علمی فورم ہے جس میں نفاذ شریعت کے شعبے میں انتخابی سیاست سے ہٹ کر فکری و نظریاتی حوالے سے باہمی تبادلہ خیالات ہوتا ہے اور جو بات سمجھ میں آئے، اس کا علمی و عوامی حلقوں میں جب موقع ملے، اظہار کر دیا جاتا ہے۔ اس بار مدرسہ تعلیم القرآن، لنگرکسی بھوربن، مری میں امیر مرکزیہ مولانا فداء الرحمن درخواستی کی زیر صدارت ۱۶۔۱۷ جون ۲۰۱۲ء کو منعقد ہونے والے دو روزہ اجلاس میں مختلف مسائل زیر بحث آئے جن میں دو امور زیادہ اہمیت کے حامل ہیں اور ان پر ہونے والی بحث کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ 
پہلا مسئلہ تو مسلم ممالک میں نفاذ اسلام کی تحریکوں کے طریق کار کے بارے میں ہے اور دوسرا پاکستان میں قومی اداروں میں جاری کشمکش کا ہے جس کا سنجیدگی سے جائزہ لیا گیا اور ملک کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام نے باہمی مشاورت کے ساتھ ان پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ 
مسلم ممالک میں نفاذِ اسلام کی تحریکوں کو ایک عرصے سے اس صورت حال کا سامنا ہے کہ جو تحریکیں عسکری انداز میں ہتھیار اٹھا کر نفاذِ شریعت کا پروگرام رکھتی ہیں، انہیں نہ صرف اپنے ملک کی فوجی قوت کا سامنا ہے بلکہ عالمی سطح پر انہیں دہشت گرد قرار دے کر ان کے خلاف کردار کشی کی مہم چلائی جاتی ہے اور ایک طرح سے پوری دنیا ان کے خلاف یک آواز ہو جاتی ہے، جبکہ دوسری طرف وہ تحریکیں ہیں جو سیاسی انداز میں نفاذِ اسلام کے مقصد کی طرف آگے بڑھتی ہیں، جمہوری راستہ اختیار کرتی ہیں، رائے عامہ اور ووٹ کو ذریعہ بناتی ہیں اور عدمِ تشدد کے اصول پر پُر امن سیاسی جدوجہد کرتی ہیں۔ ان کی عوامی ، سیاسی اور جمہوری جدوجہد کے نتائج کو مسترد کر دیا جاتا ہے اور مقتدر قوتیں مختلف حیلوں سے ان کے مقابل آکر ان کا راستہ روک دیتی ہیں۔ ایک عرصے سے یہ کھیل جاری ہے جس کی وجہ سے سیاسی اور جمہوری عمل پر سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے اور ان حلقوں کو تقویت مل رہی ہے جو نفاذ اسلام کے لیے سیاسی اور جمہوری جدوجہد کو کارِ لاحاصل سمجھتے ہیں اور عسکری جدوجہد کو نفاذ شریعت کا واحد جائز طریق کار قرار دے کر اس کے لیے مسلسل محنت بلکہ پیش رفت کر رہے ہیں۔ 
جہاں تک ہمارا تعلق ہے، ہم نے قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک نفاذِ اسلام کے لیے پُر امن سیاسی اور جمہوری جدوجہد کو ہی صحیح سمجھا ہے، ہمیشہ اسی کی حمایت کی ہے اور اب بھی پاکستان یا کسی بھی مسلم ممالک کے اندر نفاذِ اسلام کے لیے ہتھیار اٹھانے کو ہم درست عمل نہیں سمجھتے۔ لیکن جمہوری اور سیاسی عمل کے جمہوری اور سیاسی نتائج کو جس بے دردی کے ساتھ کچلا جا رہا ہے، اس کے باعث ہمارے لیے اب سیاسی اور جمہوری عمل کی حمایت اور دفاع مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ دو عشرے قبل الجزائر میں دینی جماعتوں کے اتحاد اسلامک سالویشن فرنٹ نے عوامی انتخابات کے پہلے مرحلے میں مبینہ طور پر ۸۰ فی صد ووٹ حاصل کیے تو فوج سامنے آگئی، الیکشن کے نتائج کو مسترد کر دیا گیا اور دوسرے مرحلے کو منسوخ کر دیا گیا جس کے رد عمل میں بہت سے مذہبی حلقوں نے ہتھیار اٹھا لیے۔ اس ہتھیار اٹھانے کے مسئلے پر ان کے درمیان بھی اختلافات پیدا ہوگئے یا کر دیے گئے، ملک میں تکفیر یعنی ایک دوسرے کو کافر قرار دینے اور باہمی قتل و قتال کا بازار گرم ہوگیا جو کم و بیش دس سال جاری رہا اور اس میں مجموعی طور پر ایک لاکھ کے لگ بھگ افراد قتل ہوئے۔ 
گزشتہ دنوں کویت میں عام انتخابات کے دوران دینی جماعتوں کے اتحاد نے عوامی ووٹوں کے ذریعے پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کی اور پارلیمنٹ کے ذریعے قرآن و سنت کو ملک کا سپریم لاء قرار دیا گیا تو اسے بادشاہت کے اختیار سے مسترد کر دیا گیا، جبکہ مصر کی قومی اسمبلی میں اخوان المسلمین اور سلفی جماعتوں نے اکثریت حاصل کی تو سپریم کورٹ نے انتخابات کو غیر قانونی قرار دے کر عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی قومی اسمبلی کو تحلیل کر دیا۔ ادھر پاکستان کی صورت حال یہ ہے کہ دستوری طور پر قرآن و سنت کی بالادستی تسلیم کی گئی ہے، پارلیمنٹ کو قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی کا پابند قرار دیا گیا اور اسلام کو ریاستی مذہب تسلیم کیا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود قرآن و سنت کے احکام و قوانین کو ملک میں نفاذ کا راستہ نہیں دیا جا رہا اور مقتدر قوتیں نہ صرف متحد ہو کر نفاذِ اسلام میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں بلکہ جو چند قوانین عوامی دباؤ کے باعث نافذ کرنا پڑے ہیں، حیلوں بہانوں سے انہیں بھی منسوخ یا کم از کم غیر موثر بنانے کی مہم ہر وقت جاری رہتی ہے۔ 
پاکستان شریعت کونسل کی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں اس بات کو محسوس کیا گیا کہ پاکستان کے مقتدر حلقوں کا ایجنڈا بھی (خاکم بدہن) یہی نظر آرہا ہے کہ نفاذِ اسلام کے جمہوری اور سیاسی راستوں کو مسدود کر کے ان کا اعتماد ختم کیا جائے اور الجزائر کی طرح پاکستان کے دینی حلقوں کو بھی تشدد، تکفیر اور خانہ جنگی کی دلدل کی طرف زبردستی دھکیلا جائے تاکہ الجزائر والا کھیل پاکستان میں بھی کھیلا جا سکے۔ اس لیے پاکستان شریعت کونسل نے اس صورت حال کو انتہائی تشویشناک اور اضطراب انگیز قرار دیتے ہوئے ملک کے تمام مکاتب فکر کے علمی حلقوں، دینی مراکز اور سیاسی قیادت سے اپیل کی ہے کہ وہ مستقبل کے ان خطرات و خدشات کے سدباب کے لیے باہمی مشاورت کے ساتھ قوم کی علمی و فکری رہنمائی کا اہتمام کریں۔ 
پاکستان میں داخلی طور پر قومی اداروں کے درمیان جاری کشمکش کے بارے میں پاکستان شریعت کونسل کی رائے ہے کہ یہ دستورِ پاکستان میں قرآن و سنت کی بالادستی کو عملاً نظر انداز کر دینے کا منطقی نتیجہ ہے کہ دستور نے جس کو بالادست اور بالاتر قرار دیا ہے، اس کی بالادستی کے سامنے سرنڈر ہونے کی بجائے قومی ادارے ایک دوسرے پر اپنی بالادستی قائم کرنے کی فکر میں الجھے ہوئے ہیں۔ اگر قیامِ پاکستان کے بعد سے ہی اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ اور قرآن و سنت کی بالادستی کے سامنے سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے قومی پالیسیوں کو اس دائرے میں مرتب کیا جاتا، خلفائے راشدین کے طرزِ حکومت کو اپنایا جاتا اور معاشرت و معیشت کی اسلامی روایات کو فروغ دیا جاتا تو نہ کرپشن کا عفریت کھڑا ہوتا، نہ طبقاتی کشمکش اور گروہی بالادستی کی جنگ کا مکروہ منظر دکھائی دیتا اور نہ ہی قومی اداروں میں بالاتری کی یہ کشمکش سامنے آتی۔ یہ سب کچھ پاکستان کے نظریاتی بنیادوں، اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ اور قرآن و سنت کی بالادستی سے انحراف اور روگردانی کا نتیجہ ہے اور آج بھی اس دلدل سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ قرآن و سنت کی بالادستی کو عملاً تسلیم کیا جائے اور خلافتِ راشدہ کی طرز کی فلاحی ریاست کو اپنی منزل قرار دے کر خلفائے راشدینؓ کے طرزِ حکومت کو اپنایا جائے۔ 

برما کے مسلمانوں کی حالت زار

برما جسے اب سرکاری طور پر ’’میانمار‘‘ کہا جاتا ہے، بدھ اکثریت کا ملک ہے جو بنگلہ دیش کے پڑوس میں واقع ہے اور طویل عرصہ تک متحدہ ہندوستان کا حصہ رہا ہے۔ برطانوی استعمار نے اسے ایک الگ ملک کی حیثیت دی تھی، جبکہ اراکان مسلم اکثریت کا علاقہ ہے جو صدیوں تک ایک آزاد مسلم ریاست کے طو رپر اس خطے کی تاریخ کا حصہ رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ بنگلہ دیش کا ساحلی شہر چٹا گانگ بھی ایک زمانے میں اراکان میں شامل تھا مگر نوآبادیاتی دور میں برطانوی استعمار نے چٹا گانگ کو بنگال میں اور اراکان کو برما میں شامل کر دیا جس سے اراکان کا یہ علاقہ جو مسلم اکثریت کا خطہ ہے، بودھ اکثریت کے ملک برما کا حصہ بن گیا۔ تب سے اس علاقہ کے مسلمان بودھ اکثریت کے متعصبانہ رویے کے ساتھ ساتھ ریاستی جبر کا شکار بھی چلے آ رہے ہیں او ربہت سے مسلمان گروپ مسلم اکثریتی علاقہ ختم ہونے کے بعد اراکان کی آزادی جدوجہد میں بھی مصروف چلے آ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ مسلم اکثریت کا علاقہ ہے او رماضی میں ایک آزاد ریاست رہا ہے، اس لیے آزادی اس کا حق ہے، لیکن عالمی سطح پر ان کے اس موقف اور مطالبہ کو توجہ حاصل نہیں ہو رہی، بلکہ ان پر ریاستی جبر اور بودھ انتہا پسندوں کے مظالم میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس سے قبل مختلف مراحل میں اس قسم کے جبر اور مظالم سے تنگ آ کر وہ اپنے پڑوسی ملک بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں پناہ لے چکے ہیں اور پاکستان میں بھی برمی مہاجرین کی ایک خاصی تعداد موجود ہے۔ 
انسانی حقوق کے عالمی ادارے خاموشی کے ساتھ اس سارے منظر کو دیکھ رہے ہیں اور مسلم ممالک بھی ’’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘‘ کی تصویر بنے ہوئے ہیں، حتیٰ کہ انھیں برما میں بسنے والے مسلمانوں کی طرف سے بھی وہ رسمی اور ظاہری حمایت حاصل نہیں ہے جس کی وہ ان سے توقع رکھتے ہیں۔ ان حوالوں سے اراکان کی صورت حال مقبوضہ کشمیر سے ملتی جلتی ہے۔ البتہ دو باتوں کا فرق ہے۔ ایک یہ کہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو کسی نہ کسی درجے میں ووٹ دینے اور اقتدار میں برائے نام شرکت کا حق ہے، مگر اراکان کے مسلمانوں کو یہ سہولت میسر نہیں ہے اور دوسری یہ کہ مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کو پڑوسی مسلمان ملک پاکستان کی حمایت اور سرپرستی میسر ہے، جبکہ اراکان کا پڑوسی ملک بنگلہ دیش اراکانی مہاجرین کو پناہ دینے اور پناہ گزین کے طور پر ان کی امداد کرنے سے زیادہ اس سلسلے میں کسی مزید پیش رفت کے موڈ میں نہیں ہے جس سے اراکانی مسلمانوں کی بے بسی دوچند ہو گئی ہے۔
اس حوالے سے اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ اراکانی مسلمانوں کا یہ مسئلہ عالمی سطح پر اٹھایا جائے، مسلم حکومتوں کو اس طرف متوجہ کیا جائے کہ وہ اس مسئلہ کے حل کے لیے موثر کردار ادا کریں اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کو احساس دلایا جائے کہ اراکان کے مسلمانوں کا ’’ماگ‘‘ جیسی دہشت گرد فورسز کے مظالم کا شکار ہونا بھی انسانی حقوق کی پامالی کا مسئلہ ہے اور ان مظلوموں کو اس جبر وتشدد سے بچانا بھی انسانی حقوق کے تحفظ کا تقاضا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ عالمی سیکولر حلقوں کی امداد سے چلنے والی این جی اوز کو تو اس مسئلے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، لیکن کیا پاکستان اور بنگلہ دیش کی دینی جماعتیں بھی اس سلسلے میں کوئی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں؟

شام کا بحران

شام کا بحران دن بدن سنگین ہوتا جا رہا ہے اور ان سطور کی اشاعت تک اس کا کوئی نہ کوئی نتیجہ شاید سامنے آ چکا ہو، مگر اب تک کی صورت حال کے پیش نظر یہ گزارش ہے کہ شام کی صورت حال کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ عرب ممالک میں آمر اور مطلق العنان حکمرانوں کے خلاف عوامی احتجاج کی لہر تیونس، لیبیا اور مصر کے بعد شام میں بھی اپنی جولانیاں دکھا رہی ہے اور عوام کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر ہے جو بشار الاسد کی حکومت کے جبر اور تشدد کا شکار ہے اور سیکڑوں شامی شہری اس میں جاں بحق ہو چکے ہیں، لیکن اس کا ایک مذہبی پہلو ہے جس نے اس بحران کی شدت کو مزید دو آتشہ کر دیا ہے۔ وہ یہ کہ شام کے صدر بشار الاسد اور فوجی قیادت کی اکثریت کا تعلق نصیری فرقہ سے ہے جو اہل تشیع میں بھی انتہاپسند گروہ شمار ہوتا ہے اور جس کا عقیدہ یہ بتایا جاتا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ خود خدا تھے جو انسانی شکل میں دنیا میں چند روز کے لیے تشریف لائے تھے۔ ہمیں اس سے غرض نہیں کہ ان کے عقائد کیا ہیں، البتہ ا س بحران کے تاریخی پس منظر کی وضاحت کے لیے یہ ذکر شاید نامناسب نہیں ہوگا کہ بشار الاسد کے والد حافظ الاسد کے دور حکومت میں بھی اب سے ربع صدی قبل یہ سانحہ پیش آیا تھا کہ اہل سنت کے مذہبی مرکز ’’حماۃ‘‘ کو ایک مرحلے میں بلڈوز کر دیا گیا تھا، کم وبیش دس ہزار علماء کرام اور کارکنوں نے اس سانحے میں جام شہادت نوش کیا تھا اور بہت سے علماء کرام جلاوطنی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو گئے تھے جن میں ہمارے استاذ محترم الاستاذ عبد الفتاح ابو غدۃ رحمہ اللہ تعالیٰ بھی شامل ہیں جو اس وقت اخوان المسلمون شام کے رئیس تھے اور جلاوطن ہو کر سعودی عرب آ گئے تھے۔ اب بھی عوامی مظاہرین اور ان پر تشدد کرنے والی سرکاری فورسز کی تقسیم کا منظر یہی بیان کیا جاتا ہے اور گزشتہ روز جدہ میں ایئر پورٹ کے قریب مسجد عائشہؓ میں نماز مغرب کے دوران امام محترم سے شامی حکمرانوں کے خلاف ’’قنوت نازلہ‘‘ سن کر ہمیں اس پہلو کی شدت کا اندازہ ہوا۔ بہرحال ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے شامی بھائیوں کو اس بحران میں سرخ روئی اور کامیابی سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔

تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’تعلیقات فی تفسیر القرآن الکریم‘‘

مصنف: مولانا حمید الدین فراہیؒ 
ترتیب: ڈاکٹر عبید اللہ فراہی
صفحات: جلد اوّل ۴۵۰، جلد دوم، ۵۱۴
ناشر: دائرہ حمیدیہ، مدرسہ الاصلاح، سرائے میر، اعظم گڑھ، یو۔پی، انڈیا
قرآن کریم فرقان حمید اپنے نزول کے وقت ہی سے امت کے عالی دماغ جہابذہ کی فکری تگ وتاز کا مرکز رہا ہے۔ حبر الامت ابن عباس سے لیکر اس وقت تک ان گنت طالبین قرآن نے اپنے نتائج فکر امت کے سامنے رکھے لیکن لا تنقضی عجائبہ کے مصداق
ابھی اس بحر میں باقی ہیں لاکھوں لو لوئے لالا
قرون متاخرہ میں برعظیم پاک وہند میں جو رجالِ دین پیدا ہوئے، انہوں نے بجا طور پر متقدمین کی یاد تازہ کر دی۔ انہی شخصیات میں ایک مولانا حمید الدین فراہی ہیں جنہوں نے عمر عزیز کا ایک طویل عرصہ یکسوئی کے ساتھ تدبر قرآن میں گزارا، اس کے مطالعہ کے براہ راست طریقہ کی استعداد بہم پہنچائی اور یوں بیسویں صدی کے تفسیری رجحانات میں فراہی سکول کی مساعی ایک روشن باب ہے۔ اس سکول کے طریقہ کار اور افکار ونظریات سے یقیناًاختلاف ہو سکتا ہے، لیکن خصوصاً قرآن فہمی کے سلسلہ میں اس کی جہود قابل قدر ہیں اور اس نے تدبر قرآن کے نئے آفاق وا کیے ہیں۔
مولانا فراہی نے قرآن کی تفسیر ’نظام القرآن‘ شروع کی تھی لیکن کچھ مختصر سورتوں اور سورہ بقرہ کی نامکمل تفسیر کے علاوہ وہ مزید نہ لکھ سکے اور یوں یہ عظیم کام (ان کے دیگر بہت سے کاموں کی طرح) تشنہ تکمیل رہ گیا۔ مولانا فراہی کی مذکورہ تفسیر کے علاوہ ان کا ایک قابل قدر کام یہ ہے کہ وہ تدبر قرآن کے دوران مصحف کے حاشیہ پر اپنے نتائج افکار، اشارات کی شکل میں نوٹ کرتے رہے ہیں۔ مولانا امین احسن اصلاحی جب پاکستان آئے تو یہ مصحف اپنے ساتھ لے آئے تھے اور ان کی اور باقی کام کی معاونت سے اپنی مشہور تفسیر ’تدبر قرآن‘ لکھی۔ مولانا فراہی کے مذکورہ حواشی ہنوز منتظر طباعت ہیں اور پاکستان میں فکر فراہی کے علمبردار ادارہ ’المورد‘ میں ان کی کمپوزنگ اور تحقیق و تعلیق کا کام ہو رہا ہے اور مستقبل قریب میں ان کی اشاعت کی امید ہے۔
مولانا فراہی کے دوسرے نامور شاگرد مولانا اختر احسن اصلاحی نے اسی مصحف کے حواشی کو اپنے قلم سے نقل کیا تھا۔ ’دائرہ حمیدیہ‘ (انڈیا) کے رفیق ڈاکٹر عبید اللہ فراہی نے ان کو مرتب کیا اور محمد امانت اللہ اصلاحی کی نظرثانی کے بعد یہ گزشتہ سال (۲۰۱۰ء) زیورِ طباعت سے آراستہ ہوئے۔ تاہم یہ کہنا ابھی از وقت ہوگا کہ یہ نقل کس حد تک مطابق اصل ہے جب تک مولانا فراہی کا وہ اصل نسخہ طبع نہ ہو جائے جس کا ذکر سطور بالا میں ہوا، کیونکہ ’المورد‘ کے بعض رفقاء سے یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ مولانا اختر احسن کے حواشی میں ان کے ذاتی نوٹس بھی ہیں جو انہوں نے مولانا فراہی کے دروس کے دوران قلمبند کیے تھے۔
مولانا فراہی کے ہاں چونکہ نظم قرآن کے تصور کو فہم قرآن میں کلیدی حیثیت حاصل ہے، اس لیے ان تعلیقات میں سورتوں کے داخلی نظم اور سورتوں کی باہم دگر مناسبات سے بھرپور تعرض کیا گیا ہے،سورۃ فاتحہ کے ذیل میں لکھتے ہیں:
’فہذہ سورۃ الشکر و البقرہ سورۃ الإیمان‘ (۱/۱۰)
اس سورت کا موضوع ’شکر‘ اور بقرہ کا ’ایمان‘ ہے۔
سورۃ بقرہ کے تحت لکھا ہے: 
سورۃ الایمان المطلوب وھو الإیمان ببعثۃ محمدﷺ فجمعت دلائلہا (۱/۱۴)
اس سورت کا موضوع وہ ایمان ہے جو مطلوب ہے اور وہ ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت پر ایمان چنانچہ یہ سورت اس کے دلائل کی جامع ہے۔
داخلی نظمِ سورت کے تعین کے لیے سورت کو مختلف پیراگرفوں میں تقسیم کی طرف اشارات بھی ملتے ہیں۔
سورۃ بقرہ کے تحت مرقوم ہے۔
(۱۔۱۵۱) تمہید الشرائع۔
(۱۵۲۔۲۸۶) الشرائع من الذکر۔۔۔ وادآء الأمانۃ۔ (۱/۴۴۔۲۵)
آیات ۱ سے ۱۵۱ شرعی احکام کی تمہید پر مشتمل ہے اور ۱۵۲ سے ۲۸۶ میں ان احکام (ذکر۔۔۔ ادا ء امانت) کی تفصیل ہے۔ یہ تعداد میں چالیس ہیں۔(۱/۲۵)
ان احکام اور ان کی تمہید کو سورت کے عمود (بعثت محمدیﷺ)سے بہت خوبصورت انداز میں یہ کہ کر مربوط کیا گیا ہے کہ یہ اصل میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کا جواب ہے جس میں انہوں نے ایک رسول کی بعثت کا سوال کیا تھا جو لوگوں پر تلاوت آیات کرے، انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے(بقرہ: ۱۲۹) غور کیا جائے تو ان چالیس احکام میں ان امور کا احاطہ ہوتا نظر آتا ہے۔ سورہ بقرہ کی مذکورہ بالا عمومی تقسیم کے بعد اس کو مزید مختلف حصوں میں بھی موضوعات کی مناسبت سے تقسیم کیا گیا ہے۔
قرآن کریم کے بہت سے مفردات کے حوالہ سے مولانا فراہی کی رائے عام مفسرین سے ہٹ کر تھی اور ان کے معنی کی تعیین کے بارے میں وہ اپنی منفرد رائے رکھتے تھے جس کی بنیا دکلام عرب کے استعمالات پر تھی۔ اپنے اس نقطہ نظر کی وضاحت انہوں نے اپنی ناتمام تصنیف ’مفردات القرآن‘ میں کی ہے۔ ’’تعلیقات‘ میں بھی اس پہلو پر اشارات ملتے ہیں۔ مثلاً ’’قرآن کریم‘‘ میں ایک لفظ ہے: آلآء جس کا معنی تقریباً سبھی مفسرین نے نعمتوں سے کیا ہے۔ مولانا فراہی نے اس معنی کو لینے سے انکار کیا ہے، فرماتے ہیں: آلاَ اللّٰہ، شؤونہ العجیبۃ من لطفہ وبطشہٖ، وترجمتہ فی الفارسیۃ: ’کرشمۂ ایزدی‘ (۲/۳۰۳) ’’آلآء اللّٰہ سے مراد اللہ کی رحمت و عذاب کی وہ بوقلموں نیرنگیاں، ہیں جن کو فارسی میں ’کرشمۂ ایزدی‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔‘‘ اس معنی کو مراد لینے کے لئے انہوں نے کلام عرب سے اجدع ہمدانی کے ایک شعر کی طرف بھی اشارہ کیا ہے اور نعمتوں والے معنی کو مذکورہ معنی کا لازمی معنی قرار دیا ہے۔(۲/۳۰۴)
’تعلیقات‘ میں کئی جگہ پر کسی آیت کی تفسیر میں مختلف اقوال اور مولانا فراہی کے ہاں راجح قول کی تعیین ملتی ہے۔ اس ترجیح کی بنیاد عام طور پر قرآن کے سیاق اس کے نظائر وشواہد اور کلام عرب پر ہوتی ہے۔
سورہ قلم میں ارشاد ہے: ’یوم یکشف عن ساق ویدعون الی السجود فلا یستطیعون‘ (القلم: ۴۲)
کشف ساق کی مولانا فراہی نے دو تاویلیں ذکر کی ہیں۔
اوّل: لوگوں کا روز محشر مقام وقوف کی طرف دوڑنا
دوم: نار جہنم کا اہل دوزخ کی پنڈلیوں کے گوشت کو جلا کر بھسم کر دینا کہ ہڈیاں ظاہر ہو جائیں۔
مولانا فراہی نے پہلی تاویل کو لیا ہے اور اس کی بنیاد سیاق اور ذوالرمہ کے ایک شعر پر رکھی ہے۔ (۲ /۳۷۔۳۷۸)
(آیات کی تاویل کے ضمن میں کہیں کہیں سابقہ مفسرین کی آراء کا رد بھی ملتا ہے۔(۲؍۳۲۹)
مولانا فراہی کی قرآنی بلاغت پر بہت گہری نظر تھی، اس مقصد کے لئے انہوں نے ’جمہرۃ البلاغہ‘ تصنیف کی، جس میں جرجانی اور سکاکی کے اسلوب بلاغت کو یونانی اصول بلاغت سے ماخوذ مان کر اس پر تنقید کی ہے۔ مولانا فراہی کے تفسیری افادات میں بلاغت قرآن سے جابجا تعرض کیا گیا ہے۔
نحوکے مسائل سے تعرض بھی جابجا دیکھنے میں آتا ہے۔(مثلاً دیکھئے :۲؍۳۳۰۔۳۳۲)
غرض کہ مولانا فراہی کے پیش نظر جتنے بھی اصول تفسیر ہیں ان سے ان تعلیقات میں استمداد کیا گیا ہے اور قرآن کے فہم کے لئے جو داخل اور خارجی وسائل ہیں ان سے بھرپور رہنمائی کی جھلک ان میں آگئی ہے اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ ’تفسیر نظام القرآن‘ کے تشنہ وتکمیل رہ جانے کی جو کمی تھی ان تعلیقات نے بڑی حد تک اس کا مداوا کیا ہے۔
آخر میں ایک بات کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان حواشی کی اشاعت سے پہلے بظاہر یہ گمان ہوتا تھا کہ مولانا اصلاحی نے ’تدبر قرآن‘ میں جو نتیجہ فکر پیش کیا ہے اس میں بہت سے امور میں، جن میں ان کے سامنے مولانا فراہی کی طرف سے کوئی تحریری نمونہ موجود نہ تھا (مثلاً ان کی مطبوعہ تفسیر کے اجزاء میں مدنی سورتوں کے نظام (جو کہ سورتوں کی طوالت اور مضامین کے تنوع کی وجہ سے بہت پیچیدہ اور دشوار ہے) کا کوئی واضح خاکہ نہیں ملتا) یہ احساس ہوتا ہے کہ ان سورتوں میں نظام کی دریافت میں اصالت کا سہرا مولانا اصلاحی کے سر بندھتا ہے۔ ڈاکٹر مستنصرمیر کی کتاب "Coherence in the Quran"سے یہی تاثر ملتا ہے، لیکن ان تعلیقات کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ مولانا اصلاحی نے مدنی سورتوں کے نظام کی تعیین میں فقط فراہی اصول وکلیات پر اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ عملی تطبیق میں بھی حواشی کے ذخیرہ سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ انہوں نے اگرچہ اس کی صراحت کہیں نہیں کی تاہم انہوں نے مقدمہ تفسیر میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ انہوں نے تمام عمر استاد کے سر سے ہی اپنا سر ملانے کی کوشش کی ہے۔ (اس مسئلہ کی مکمل تفصیل کے لیے ایاز احمد اصلاحی ؒ کا تصور نظم قرآن اور امام فراہیؒ (دیکھئے: مطبوعہ ششماہی علوم، خصوصی اشاعت، ’’قرآن علوم بیسویں صدی میں‘‘ سیمینار نمبر)
’دائرہ حمیدیہ‘ نے تعلیقات کو عرب دنیا کی کتابوں کے معیار پر طبع کیا ہے۔جلد بندی مضبوط اور کاغذ عمدہ ہے۔ پروف کو باریکی سے دیکھا گیا ہے جس کی وجہ سے مخطوط کی پہلی ہی اشاعت غلطیوں سے مبرا ہے۔ قرآنیات کا شغف رکھنے والوں کے لیے یہ ایک بہترین تحفہ ہے۔ پاکستان میں اس کو جناب سجاد الٰہی لاہور (0300-4682752) سے طلب کیا جا سکتا ہے۔ 
(تبصرہ: سید متین احمد شاہ)

’’جہاد۔کلاسیکی وعصری تناظر میں‘‘ (ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کی اشاعت خاص)

موجودہ عالمی حالات، بالخصوص امریکا کی سربراہی میں نیٹو افواج کے افغانستان پر حملہ کرنے کے بعد اسلام کا تصور جہاد علمی، تحقیقی اور دینی حلقوں میں زیر بحث ہے۔ بقول مدیر الشریعہ برادر عزیز مولانا محمد عمار خان ناصر سلمہ اس بحث کے تین پہلو بہت نمایاں اور اہم ہیں:
۱۔ اسلام میں جہاد کا اصولی تصور اور اس کی وجہ جواز کیا ہے اور عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور عہد صحابہ رضی اللہ عنہم میں مسلمانوں نے جو جنگیں لڑیں، ان کی حقیقی نوعیت کیا تھی؟ امت مسلمہ کے لیے دنیا کی غیر مسلم قوموں کے ساتھ باہمی تعلقات کی اساس کیا ہے؟ 
۲۔ جہاد و قتال کی عملی شرائط اور اخلاقی حدود وقیود کیا ہیں؟ مسلمانوں کا کوئی بھی گروہ جہاد کا فیصلہ کر سکتا ہے یا یہ فیصلہ مسلم معاشرے کی اجتماعی دانش اور ارباب حل وعقد کو کرنا چاہیے؟ 
۳۔ موجودہ مسلم ریاستوں کی شرعی وقانونی حیثیت کیا ہے؟ اور ان ریاستوں میں قائم نظام اطاعت کی پابندی کس حد تک ضروری ہے؟ بالخصوص یہ کہ مسلم ریاستوں کا موجودہ سیاسی نظام اگر شریعت کی بالادستی کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہو رہا ہو اور پرامن ذرائع سے اس میں خاطر خواہ تبدیلی کے امکانات بظاہر دکھائی نہ دیتے ہوں تو اس صورت حال میں مسلح جدوجہد کے ذریعے ریاستی نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش کا کس حد تک جواز، امکان اور ضرورت ہے؟
’’الشریعہ‘‘ کی مذکورہ اشاعت خاص میں مذکورہ بالا نکات کے اہم ترین گوشوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ موضوع کی ضرورت، اہمیت، افادیت اور نزاکت کا لحاظ رکھتے ہوئے بلاشبہ یہ ایک گراں قدر، لائق تحسین اور قابل داد کاوش ہے۔ بالخصوص مولانا محمد یحییٰ نعمانی (لکھنؤ)، برادر عزیز محمد عمار خان ناصر، حضرت مولانا زاہد الراشدی، مولانا مفتی محمد زاہد، جناب زاہد صدیق مغل، جناب محمد رشید اور جناب محمد مشتاق احمد نے موضوع سے متعلق اہم سوالات کے جواب تحقیقی وعلمی انداز میں دیے ہیں۔
ہماری ناچیز رائے میں عوام میں سے اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے حضرات کے لیے اس اشاعت کا مطالعہ ’’فرض کفایہ‘‘ ہے، لیکن اہل علم بالخصوص نوجوان فضلاء ومدرسین کے لیے اس کا مطالعہ ’’فرض عین‘‘ ہے۔ اس کے بغیر وہ خطے میں برپا جنگ کی حقیقت، نوعیت اور ضرورت کو نہیں سمجھ سکتے۔ الشریعہ اکیڈمی ’’جہاد‘‘ سے متعلق اس سنجیدہ علمی وتحقیقی کاوش پر مبارکبار کی مستحق ہے۔ 
(تبصرہ نگار: مولانا محمد ازہر۔ بشکریہ ماہنامہ ’’الخیر‘‘ ملتان)

گود سے گور تک ایک ہی نسخہ

حکیم محمد عمران مغل

طب مشرق میں جہاں اور بہت سی خوبیاں ہیں، وہاں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ کسی دواکی مقدار کو کئی گرام تک دیتے ہیں تو ایک خشخاش کے برابر مقدار بھی، جسے عرف عام میں ’’ککھ‘‘ کہا جاتا ہے۱ اثر کر جاتی ہے۔ یہ ’’ککھ‘‘ اصل میں کشتہ سازی کا فن ہے۔ ا س کا مطلب ہے کہ دوا کو حکمت کی رو سے اتنا لطیف اور باریک کیا جائے کہ ایک خشخاش کے برابر آپ کے خون میں شامل ہو کر آپ کو ہلا کر رکھ دے۔ اطبا نے دوا کے زہریلے اثرات کو محسوس کرتے ہوئے اور دودھ پیتے بچے کو بھی کھلانے کے لیے نہایت عقل مندی کا مظاہرہ کیا ہے اور ایسا طریقہ اختیار کیا ہے کہ تمام پیچیدہ امراض کو انسانی جسم کے کے نزدیک بھی نہ آنے دیا جائے اور گود سے گور تک ایک ہی نسخہ استعمال کیا جائے، جو مجرب بھی ہو اور سستا بھی۔ یہ عمل اختیار کرنے سے شوگر، گردوں کا فیل ہونا، کینسر، دل کا اٹیک، تھکاوٹ ، ہڈیوں کے امراض، وقت سے پہلے بڑھاپا، جگر کی خرابی، بلڈ پریشر، الغرض آج کے دور کے وہ تمام امراض جن سے ایک دنیا تڑپ رہی ہے اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر رہی ہے، یہ امراض انسان کے نزدیک بھی نہیں آئیں گے۔ ان شاء اللہ
آپ اب تک اس راز سے واقف نہ ہوں تو کسی بزرگ معالج سے دریافت فرما لیں کہ جونہی کسی کو گردے کے درد سے تکلیف ہوتی، پرانے اطباء اسے تانبے کا ایک ٹکڑا دیتے تھے کہ اسے منہ میں رکھ کر چوسو۔ تھوڑی دیر میں گردے کا درد آناً فاناً ختم ہو جاتا، اس لیے کہ گردے میں سارا تانبہ ہوتا ہے۔ اس عمل سے اولاد کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا ہے۔
تانبے کے برتنوں کو ہفتہ وار قلعی کروائیں۔ پکاتے وقت چمچے یا کھونچہ خوب رگڑیں کہ قلعی کے ساتھ تانبہ بھی رگڑ کھا کر پکنے والی خوراک میں شامل ہوتا جائے ۔ کسی زمانے میں کانسی کے برتن یا تانبے کے برتن اسی لیے بنائے جاتے تھے کہ چمچے کی رگڑ سے تانبہ اور قلعی کھانے میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اس سے ساری زندگی گردوں کا فیل ہونا اور شوگر جیسی بیماری نہیں لگتی تھی۔ بھرت بھی انھی اشیا کے مجموعے سے بنتی تھی۔ آج یہ طریقہ ناپید کر دیا گیا ہے اور بلڈ پریشر اور دل کا دورہ عام ہو چکا ہے۔ پلاسٹک اور سلور کے برتن مذکورہ امراض کو جنم دے رہے ہیں۔ 
اگر گھر میں تانبے کے برتن نہ ہوں تو مٹی کے برتن استعمال کریں۔ اس سے بھی مذکورہ امراض سے ان شاء اللہ حفاظت رہے گی۔

ستمبر ۲۰۱۲ء

انسانی حقوق، اقوام متحدہ اور عالم اسلاممولانا ابوعمار زاہد الراشدی
شام لہولہان اور عالم اسلام پر بے حسی طاری!ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی
منفی اقدار کے فروغ میں میڈیا کا کردارمحمد رشید
میری علمی و مطالعاتی زندگی (حکیم محمود احمد برکاتی سے انٹرویو)عرفان احمد
رؤیت ہلال کا مسئلہ اور ہمارے قومی رویے / توہین مذہب کا تازہ واقعہ۔ توجہ طلب امورمحمد عمار خان ناصر
سرمایہ دارانہ انفرادیت کا حال اور مقام (۳)محمد زاہد صدیق مغل
پاکستان میں نفاذِ اسلام کی جدوجہد ۔ قرآنی نظریہ تاریخ کی روشنی میں ایک عمرانی مطالعہپروفیسر میاں انعام الرحمن
ماہنامہ ’الشریعہ‘ اہل علم و ادب کی نظر میںادارہ
تن ہمہ داغ داغ شد ۔۔۔حکیم محمد عمران مغل
شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہےادارہ

انسانی حقوق، اقوام متحدہ اور عالم اسلام

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(مذکورہ بالا عنوان پر الشریعہ کے رئیس التحریر کے زیر طبع تفصیلی مقالہ کا ایک حصہ۔)

مغرب میں انسانی حقوق کے حوالہ سے جو تاریخ بیان کی جاتی ہے، اس کا آغاز ’’میگنا کارٹا‘‘ سے کیا جاتا ہے۔ ۱۲۱۵ء میں برطانیہ کے کنگ جان اور جاگیرداروں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کا معاہدہ اس عنوان سے ہوا تھا جس کا اصل مقصد تو بادشاہ اور جاگیرداروں کے مابین اختیارات اور حدودکار کی تقسیم تھا لیکن اس میں عام لوگوں کا بھی کسی حد تک تذکرہ موجود تھا، اس لیے اسے انسانی حقوق کا آغاز تصور قرار دیا جاتا ہے۔ 
مغربی ممالک میں ایک عرصہ تک حکمرانی کا حق اور اس کے تمام تر اختیارات تین طبقوں کے درمیان دائر رہے ہیں: 
(۱) بادشاہ (۲) جاگیردار اور (۳) مذہبی قیادت۔
ان میں مختلف مراحل میں آپس میں کشمکش بھی رہی ہے لیکن عام شہری اس تکون کے درمیان جو دراصل جبر اور ظالمانہ حاکمیت کی تکون تھی صدیوں تک پستے رہے ہیں، مغرب خود اس دور کو جبر و ظلم اور تاریکی و جاہلیت کا دور کہتا ہے اور اس تکون سے نجات حاصل کرنے کے لیے مغربی دنیا کے عوام کو طویل جدوجہد اور صبر آزما مراحل سے گزرنا پڑا ہے۔ بہرحال ان حکمران طبقات کی باہمی کشمکش کے پس منظر میں کنگ جان اور جاگیرداروں کے درمیان اختیارات کی باہمی تقسیم کے معاہدہ کو ’’میگناکارٹا‘‘ کہا جاتا ہے اور مغربی دنیا اسے انسانی حقوق کی ابتدائی دستاویز قرار دیتی ہے جو ۱۲۱۶ء میں ۱۵ جون کو طے پایا تھا۔ 
اس کے بعد ۱۶۸۴ء میں عوامی بغاوت کے نتیجے میں انقلابی فوج نے پارلیمنٹ کے اقتدار اعلیٰ کا قانون پیش کیا اور ۱۶۸۹ء  میں برطانوی پارلیمنٹ نے ’’بل آف رائٹس‘‘ (حقوق کے قانون) کی منظوری دی جو اس سمت پیش رفت کا اہم مرحلہ تھا۔ 
ادھر امریکہ میں تھامس جیفرسن نے ۱۲ جولائی ۱۷۷۶ء کو برطانوی استعمار کے تسلط سے امریکہ کی مکمل آزادی کا اعلان کیا اور ۱۷۸۹ء  میں امریکی کانگریس نے دستور میں ترامیم کے ذریعہ عوامی حقوق کو دستور کا حصہ بنایا۔ 
فرانس میں زبردست عوامی جدوجہد اور بغاوت کے ذریعہ ۱۷۸۹ء کو جاگیرداری، بادشاہت اور ریاستی معاملات میں چرچ کی مداخلت کو مسترد کر کے قومی اسمبلی سے شہری حقوق کا قانون ’’ڈیکلریشن آف رائٹس آف مین‘‘ منظور کرایا اور پورے سیاسی اور معاشرتی نظام کی کایا پلٹ دی، اسے ’’انقلابِ فرانس‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور مغرب میں ظلم و جبر اور حقوق کے درمیان حد فاصل قرار دیا جاتا ہے، اسی انقلاب فرانس کے ذریعہ نہ صرف بادشاہت اور جاگیرداری کا مکمل خاتمہ ہوگیا بلکہ اقتدار میں مذہبی قیادت کی شرکت کی بھی نفی کر دی گئی جس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ چرچ، پوپ اور مذہبی قیادت نے عوام پر بادشاہ اور جاگیرداروں کی طرف سے ہونے والے دوہرے مظالم اور شدید جبر و تشدد میں عوام کا ساتھ دینے کی بجائے بادشاہ اور جاگیردار کا ساتھ دیا تھا اور مذہب عملاً بادشاہت اور جاگیرداری کا پشت پناہ بن کر رہ گیا تھا۔ اس لیے بادشاہ اور جاگیردار کے ساتھ ساتھ پوپ کی سیاسی قیادت کا بوریا بستر بھی لپیٹ دیا گیا تھا اور نئے نظام میں ہمیشہ کے لیے طے کر دیا گیا کہ مذہب اور چرچ کا تعلق انسان کے عقیدہ، عبادت اور اخلاقیات کے ساتھ رہے گا جبکہ سیاسی و معاشرتی معاملات میں رائے دینے، راہ نمائی کرنے اور مداخلت کرنے کا مذہب، پادری اور چرچ کو کوئی حق نہیں ہوگا، اسی کو آگے چل کر ’’سیکولرازم‘‘ سے تعبیر کیا گیا اور اسی کو معیاری نظام قرار دے کر پوری دنیا سے اسے اختیار کرنے اور اس کی پابندی کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ 
بیسویں صدی عیسوی کے دوسرے عشرہ میں یورپی ممالک یعنی برطانیہ اور جرمنی وغیرہ کے درمیان جنگ ہوئی جس میں پوری دنیا بالواسطہ یا بلا واسطہ لپیٹ میں آگئی، اس لیے اسے ’’جنگ عظیم اول‘‘ کا نام دیا جاتا ہے، اس میں عالم اسلام کی نمائندہ حکومت ’’خلافت عثمانیہ‘‘ نے جرمنی کا ساتھ دیا تھا اور جرمنی کے ساتھ ساتھ وہ بھی شکست سے دوچار ہوگئی تھی اور اسی کے نتیجے میں خلافت عثمانیہ کا خاتمہ بھی ہوگیا تھا۔ اس جنگ میں لاکھوں انسانوں کے قتل ہو جانے کے بعد اقوام و ممالک کی ایک بین الاقوامی تنظیم ’’لیگ آف نیشنز‘‘ قائم کی گئی تھی جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اقوام و ممالک کے درمیان پیدا ہونے والے تنازعات کو جنگ کی صورت اختیار نہ کرنے دی جائے اور اس بین الاقوامی فورم کے ذریعہ ان تنازعات کا حل نکال کر قوموں اور ملکوں کی باہمی جنگ کو روکا جائے، لیکن ’’لیگ آف نیشنز‘‘ اپنے اس مقصد میں ناکام ہوگئی اور بیسویں صدی کے چوتھے اور پانچویں عشرے کے درمیان پھر عالمی جنگ بپا ہوئی جس میں جرمنی اور جاپان ایک طرف اور برطانیہ، فرانس اور روس وغیرہ دوسری طرف تھے۔ اس جنگ نے پہلی جنگ سے زیادہ تباہی مچائی اور اس کے آخری مراحل میں امریکہ نے اتحادیوں کی حمایت میں جنگ میں شریک ہو کر جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا کر اسے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا جس پر جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا۔ 
اس کے بعد ۱۹۴۵ء میں ایک اور بین الاقوامی تنظیم ’’یونائیٹڈ نیشنز‘‘ (اقوام متحدہ) کے نام سے وجود میں آئی جو ابھی تک نہ صرف قائم ہے بلکہ بین الاقوامی معاملات کا کنٹرول اسی کے ہاتھ میں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اقوام متحدہ کے تنظیمی اور پالیسی سازی کے اختیارات اور معاملات پر اجاری داری کی وجہ سے اقوام متحدہ پر مغربی ممالک کی بالادستی قائم ہے اور اسے عام طور پر انہی کے حق میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ 
اقوام متحدہ کی تنظیمی صورت حال یہ ہے کہ اس کی ایک ’’جنرل اسمبلی‘‘ ہے جس میں تمام ممبر ممالک برابر کے رکن ہیں اور سال میں ایک بار تمام ممالک کے حکمران یا ان کے نمائندے جمع ہو کر عالمی مسائل پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں جس کے نتیجے میں قراردادیں پاس ہوتی ہیں۔ لیکن ان قراردادوں کی حیثیت صرف سفارش کی ہوتی ہے، ان کا نفاذ ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ چنانچہ جنرل اسمبلی کی سینکڑوں سفارشی قراردادیں اقوام متحدہ کے سیکرٹریٹ کی فائلوں میں دبی پڑی ہیں۔ 
اقوام متحدہ میں پالیسی سازی، فیصلوں اور ان کے نفاذ کی اصل قوت ’’سلامتی کونسل‘‘ ہے جس کے گیارہ ارکان میں سے پانچ ارکان (۱) امریکہ (۲) برطانیہ (۳) فرانس (۴) روس اور (۵) چین مستقل ممبر کی حیثیت رکھتے ہیں جبکہ چھ ارکان دنیا کے مختلف ممالک میں سے باری باری دو دو سال کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔ یہ گیارہ رکنی سلامتی کونسل اقوام متحدہ کی اصل قوت اور اتھارٹی ہے لیکن ان میں سے پانچ مستقل ارکان کو ویٹو پاور یعنی حق استرداد حاصل ہے کہ امریکہ، روس، چین، برطانیہ اور فرانس میں سے کوئی ایک ملک بھی سلامتی کونسل کے کسی فیصلے کو مسترد کر دے تو وہ کالعدم ہو جاتا ہے۔ اس طرح پوری دنیا کے نظام پر اقوام متحدہ کے نام سے اصل حکمرانی اور کنٹرول ان پانچ ممالک کا ہے اور یہ پانچ ممالک جس بات پر متفق ہو جائیں پوری دنیا کو وہ فیصلہ بہرحال تسلیم کرنا ہوتا ہے۔ 
اقوام متحدہ کا اصل مقصد تو قوموں اور ملکوں کے درمیان ہونے والے تنازعات کا حل تلاش کرنا اور جنگ کو روکنا ہے، لیکن ۱۰ دسمبر ۱۹۴۸ ؁ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسانی حقوق کا عالمگیر چارٹر منظور کر کے اور اس کی پابندی کو تمام ممالک و اقوام کے لیے لازمی قرار دے کر دنیا کے سیاسی اور معاشرتی نظام میں راہ نمائی اور مداخلت کو بھی اپنے دائرہ کار میں شامل کر لیا اور اس کے بعد سے ممالک و اقوام کے درمیان جنگ کو روکنے کے ساتھ دنیا بھر کے ممالک کے سیاسی اور معاشرتی نظاموں کو کنٹرول کرنا بھی اقوام متحدہ کی ذمہ داری سمجھا جا رہا ہے اور اقوام متحدہ اس سلسلہ میں مسلسل کردار ادا کر رہی ہے۔ 
کہا یہ جاتا ہے کہ اقوام متحدہ ایک بین الاقوامی تنظیم ہے اور اس کے تحت متفقہ طور پر یا اکثریت کے ساتھ طے ہونے والے فیصلے ’’بین الاقوامی معاہدات‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن تاریخ اور معاشرت کے ایک طالب علم کے طور پر مجھے اس سے اختلاف ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اپنے جن فیصلوں کو دنیا پر نافذ کرنا چاہتی ہے وہ عملاً نافذ ہوتے ہیں، ان کی خلاف ورزی کرنے والے ملکوں کو سزا دی جاتی ہے حتیٰ کہ خلاف ورزی کرنے والے ملکوں پر فوج کشی بھی کی جاتی ہے اور انہیں اقوام متحدہ کا فیصلہ تسلیم کرنے پر بزور مجبور کیا جاتا ہے، اس لیے انسانی حقوق کا چارٹر اور اقوام متحدہ کے دیگر فیصلے صرف ’’معاہدات‘‘ نہیں بلکہ عملاً ’’بین الاقوامی قانون‘‘ بن چکے ہیں اور خود اقوام متحدہ صرف بین الاقوامی تنظیم نہیں بلکہ عملاً ایک عالمی حکومت کا درجہ رکھتی ہے جس کے ذریعہ سلامتی کونسل میں ویٹو پاور رکھنے والے پانچ ممالک عملاً پوری دنیا پر حکومت کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اس عملی کردار کو سامنے رکھنا بالخصوص عالم اسلام کے ان حلقوں کے لیے انتہائی ضروری ہے جو اسلامی نظام کے نفاذ، اسلامی معاشرہ کے قیام اور خلافت اسلامیہ کے احیاء کے لیے دنیا کے کسی بھی حصہ میں محنت کر رہے ہیں تاکہ انہیں یہ معلوم ہو کہ اس سلسلہ میں ان کا مقابلہ اصل میں کس قوت سے ہے۔ ہمارے ہاں عام طور پر ایسی جدوجہد کرنے والے حلقے اور طبقے اس غلط فہمی کا کا شکار رہتے ہیں کہ ہم اپنے ملک میں اپنے مقتدر حلقوں سے نفاذِ اسلام کا مطالبہ کر رہے ہیں یا ان سے نفاذِ اسلام کے لیے لڑ رہے ہیں جبکہ حقیقی صورت حال یہ نہیں ہے بلکہ دنیا کے کسی بھی حصے میں نفاذِ اسلام یا شریعت کے قوانین کی ترویج کی جدوجہد ہو اس کا سامنا اصل میں ایک بین الاقوامی نظام سے ہے اور ایک مضبوط عالمی نیٹ ورک سے ہے جو ساری دنیا میں ’’انسانی حقوق کے چارٹر‘‘ کے عنوان سے مغرب کا طے کردہ سیاسی اور معاشرتی نظام نافذ کرنے کے لیے پوری طرح مستعد ہے۔ 

شام لہولہان اور عالم اسلام پر بے حسی طاری!

ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

شام (سیریا) کی سرزمین وہ ہے جس کو خود قرآن پاک میں متعد مقامات پر مقدس وبابرکت قرار دیا گیا ہے۔ زبانِ رسالت سے جس کے لیے علیکم بالشام  (شام کو لازم پکڑو)، طوبی للشام  (شام کے لیے خوش خبری ہو) اور کنانۃ الاسلام  (اسلام کی چھاؤنی )جیسے الفاظ آئے ہیں ، جس کے لیے آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہم بارک فی شامنا  (اے اللہ ہمارے شام میں برکت دے )کہہ کردعافرمائی ہے اورجس کی برکت وفضیلت میں اتنی حدیثیں آئی ہیں کہ کسی اورسرزمین کے تقدس کے بارے میں نہیںآئیں،وہ شام جہاں سیدنا بلالؓ ، امینِ امت ابوعبیدہ بن الجراحؓ، اللہ کی تلوار خالدبن ولیدؓ،کسرائے عرب امیرمعاویہؓ ،ام المومنین ام حبیبہؓ ،معاذبن جبلؓ ابودرداءؓ ،سعدبن عبادہؓ ،ابی بن کعبؓ اور حضرت دحیہ کلبیؓ جیسے کبارصحابہؓ آسودۂ خاک ہیں، جہاں عمربن عبدالعزیزؒ جیسے خلیفۂ راشد،صلاح الدین ایوبیؒ ؒ ؒ جیسے مجاہدکے علاوہ ابن الصلاحؒ ،ذہبی ؒ ،ترمذیؒ ؒ ؒ ؒ ،ابن کثیرؒ ،ابن عساکرؒ ، نوویؒ اور ابن تیمیہؒ جیسے ائمۂ اعلام کی آرام گاہیں ہیں،وہی شام آج لہولہان ہے اورعالم اسلام پر اس کے سلسلہ میں بے حسی طاری ہے۔
دوسال ہونے کو آرہے ہیں جب مارچ ۲۰۱۱ء میں شام میں انقلاب کی شروعات ہوئی ۔یہ انقلاب عالم عرب کے دوسرے ممالک تیونس ،مصراورلیبیامیں آنے والے عوامی انقلابوں سے بھی inspire ہواتھااورخودسیریامیں ا س انقلاب کی جڑیں بہت گہری تھیں۔ اس کی وجہ ۱۹۷۰ء سے چلے آنے والے اسدخانوادے کی جابرانہ وآمرانہ سفاک علوی حکومت ہے جوفوج کی مددسے سیریاکے اکثریتی سنی مسلمانوں پر کسی عفریت کی طرح مسلط ہے۔ واضح رہے کہ شام پر بدعقیدہ اورملحدعلوی نصیری مسلط ہیں جوحضرت علیؓ کی الوہیت کے قائل ہیں اورتقیہ پر یقین رکھتے ہیں۔یہ سنیوں کے بدترین دشمن ہیں اوریہ فرقہ شیعوں کا ایک غالی فرقہ ہے جس کو خودراسخ العقیدہ شیعہ امامیہ کافرمانتے ہیں ۔ یہ سب لوگ عرصہ ہائے دراز سے پیشۂ سپہ گری سے وابستہ رہے ہیں اوربیسویں صدی کے آغاز میں جب عرب دنیانے اپنی پہلی ہمالیائی غلطی بلکہ اسلام کے ساتھ غداری کی تھی کہ خلافتِ عثمانیہ کے خلاف بغاوت کرکے انگریزوں اور فرانسیسیوں سے ہاتھ ملالیاتھا۔اس وقت اس علوی نصیری فرقہ کو فرانس نے اپنے وسیع مقاصدکے لیے گودلے لیاتھا۔ اس نے ان کو فوجی تربیت دی اورسنیوں کے خلاف لڑنے کے لیے تیارکردیاتھا۔اس کے بعدحافظ الاسدجیسے ملحد اور اسلام دشمن فوجی جنرل کے ہاتھ ان کی قیادت آگئی تواس نے نہ صرف ملک کے اقتدار پر قبضہ کرلیابلکہ شام کے دروبست پر اورزندگی کے ہرشعبہ میں کلیدی عہدوں پر ان کو مسلط کردیا۔
آغاز میں یہ انقلاب بالکل پر امن مظاہروں پر مشتمل تھا اور اس کا مطالبہ جابرانہ ملکی قوانین میں تبدیلی اور سیاسی نظام میں مثبت تبدیلیاں لانے کاتھا اورحکومت وقت یعنی ظالم وجابرصدربشارالاسدکے نظام کوختم کرنے کا مقصد ظاہرنہیں کیا گیا تھا، مگر جب بشارالاسدکی حکومت نے کسی بھی مطالبہ کوسننے اورماننے سے قطعی انکارکرکے پرامن مظاہرین کا استقبال گولیوں،توپوں کے دہانوں اور قید وبندسے کیا، ان کو سیریاکے بدنام زمانہ جیلوں میں ڈال کر شدید ٹارچر و تعذیب کی انتہاکردی تویہ پر امن مظاہرے منظم سیاسی احتجاج میں بدل گئے اور خاصے دنوں تک دمشق ،حلب، اریحا، ریف ،غوطہ ،حمص وغیرہ شہروں میں روزانہ یہ مظاہرے نکلنے لگے ۔ احتجاجیوں نے کئی پلیٹ فارم منظم کیے ،حقوق انسانی کے گروپ بنے ، انہوں نے باہر کی دنیا سے رابطہ کیا ۔ بشار الاسد اور اس کے ظالم وجابر باپ کرنل حافظ الاسدکے زمانہ سے جو لوگ اس نظام کے خلاف تھے اور سیریا سے بھاگ کرفرانس ،ترکی اور دوسرے یوروپی ممالک میں پناہ لیے ہوئے تھے، انہوں نے فرانس اور ترکی میں اپنے آپ کو منظم کرنا شروع کردیا۔ سیریائی اپوزیشن پارٹیوں نے احتجاجیوں کی حمایت کی اور بشارا لاسد کے نظام کے خلاف سیاسی عمل کے لیے زور ڈالنا شروع کردیا۔انہوں نے کئی محاذبنائے جن میں سب سے بڑے محاذ کے صدربرہان غلیوم ہیں۔اب انقلاب کانشانہ موجودہ نظام کو ختم کرنااوراس کی جگہ ایک جمہوری واسلامی سیریاکی تشکیل تھی ۔
سیریامیں انقلاب کی بڑی وجہ داخلی ہے کہ وہاں ۱۹۷۰ سے کرنل حافظ الاسدنے فوجی بغاوت کرکے جمہوری وعوامی حکومت کا تختہ پلٹ دیاتھااورجن لوگوں نے بھی ان کے خلاف کوئی آواز اٹھائی، ان کو سختی سے کچل کررکھ دیاتھا اور انسانی حقوق بری طرح پامال ہورہے ہیں ۔ اسی خوں خوارحافظ الاسدنے حماۃ شہرمیں اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے انقلابیوں کو بری طرح بمباری کرکے ہلاک کردیاتھا ۔اس کی خونریزی سے تین ہزاردین پسندمسلمان شہیدہوئے تھے۔ اس کے بعدسے سیریاجمہوریت پسندوں اورمذہبی لوگوں کے لیے ایک کھلا قیدخانہ بن گیا۔جولوگ پابندی سے نماز پڑھتے انٹی جنس کے لوگ ان کے پیچھے لگ جاتے ،پریس کی آزادی سلب کرلی گئی، آزادخیال صحافی اوردانشوراورادیب اورعلماء ایک ایک کرکے سیریاکو چھوڑ کر چلے گئے یااسدکے عقوبت خانوں میں پوری عمریں گزارکردنیاسے چلے گئے ۔کتنے لوگوں کوپولیس نے پکڑ ا اور پھر ان کا کوئی پتہ نہیں چل سکا۔
جب یہ انقلاب شروع ہواتوباپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بشار الاسد نے ان نہتے اور غیرمسلح احتجاجیوں کے خلاف ہر شہر میں فوج اتار دی اور فوج نے راکٹوں، فوجی ہیلی کاپٹروں، توپوں اور ٹینکوں کے ساتھ ان کے گلی محلوں پر چڑھائی کردی ۔ مختلف شہروں میں بہت سے کمپاؤنڈ، مارکیٹیں اور محلے اڑادیے گئے ۔ پورے کے پورے محلے قبرستان بنا دیے گئے ۔ بہت سارے علاقوں، خاص طور پر ریفِ دمشق ،حلب اور غوطہ ،دیرالزور،درعااورادلب جیسے شہروں میں یہ وحشیانہ کارروائیاں اب بھی جاری ہیں ۔جس وقت یہ سطریں لکھی جارہی ہیں، حلب اوروسطی دمشق میں سیریاکی سرکاری فوج اورآزادفوج کے جیالوں میں معرکہ آرائی جاری ہے۔ روزانہ سودوسوآدمی شہیدکیے جارہے ہیں۔اب تک ۵۱ ہزار سے زیادہ بے قصور عوام فوج کے جبر وتشدد کا نشانہ بن چکے ہیں اورا س سے کئی گنا زیادہ تعدا جیلوں میں سڑ رہی ہے۔ کتنے علماء کو اغوا کر لیا گیا ہے ، کتنوں کو مارڈ الا گیا ہے اور کتنی ہی مسجدیں زمیں بوس کی جا چکی ہیں۔ شام کے مظلوم عوام اپنا دوسرا رمضان ان ناگفتہ بہ حالات میں گزار رہے ہیں کہ جب حلب کا فوجی محاصرہ کیا ہوا ہے اور فوجی ہیلی کاپٹروں سے اس پر بمباری جاری ہے۔ لوگوں کو کھانے پینے کے سامان کی قلت ہے ،دوا اور علاج دستیاب نہیں ،بڑے پیمانے پر نوجوانوں اورلڑکوں کی بے محابا گرفتاریاں مسلسل جاری ہیں۔ شورش زدہ علاقوں کی لائٹ کاٹ دی جاتی ہے ،ان کی پانی کی سپلائی روک دی جاتی ہے، غرض وہ انتہائی شدیدحالات سے دوچارہیں جس کی تھوڑی سی جھلک الجزیرہ کی رپورٹوں اوراس کی سیریافائل (ملف سوریا ) میں دیکھی جاسکتی ہے ۔ اندازہ کیاجاسکتاہے کہ ان کی عیدکیسی ہوگی !! 
سیریاکی حکومت نے غیرملکی صحافیوں اورذرائع ابلاغ پر مکمل طورپر پابندی لگائی ہوئی ہے اورانہی صحافیوں کو ملک میں داخلہ کی اجازت ملتی ہے جن کو مختلف ممالک میں اس کے سفارت خانے بھیجتے ہیں،جوظاہرہے کہ وہی خبریں دیتے ہیں جن سے انقلابیوں کی شبیہ خراب ہو اور حکومت کا مثبت امیج بنے ۔غیرملکی ریلیف ورک بھی نہیں ہونے دیاجارہاہے اورامدادی سامان مستحقوں تک نہیں پہنچ پاتاکیونکہ شامی سرکاری فوج کے علاوہ حکومت کے مسلح مخبرجوسادہ کپڑوں میں ہوتے ہیں، ہرجگہ پھیلے ہوئے ہیں اور لوگوں کوخوف زدہ اورہراساں کرنے کاسب سے بڑاآلہ بنے ہوئے ہیں۔ ان کوسیریامیں الشبیحہ  کہتے ہیں، اردومیں ان کوکرایہ کے قاتل کہہ سکتے ہیں۔بشارالاسدکابھائی ماہرالاسدسیریائی انٹیلی جنس کاسربراہ اورانتہائی سفاکانہ طبیعت رکھتاہے ،اس کوشام میں ماہرالجزار(قصائی )کہتے ہیں۔اس نے نوجوانوں کو قیدکرنے اور ٹارچر کرنے کا رکارڈ قائم کیاہے اورحقوق انسانی کی وہ خلاف ورزیاں کی ہیں جن پر جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔
مہینوں تک سیاسی لڑنے اور پرامن مطالبات کے بعد آخر خود شام کی سرکاری فوج سے فوجیوں کے بھاگنے اورانقلابیوں میں شامل ہونے کا عمل شروع ہوااورکرنل ریاض الاسعدکی قیادت میں الجیش السوری الحر(آزاد سیریائی فوج )کی بنیادڈالی گئی ۔شروع میں اس کے اندر صرف چندہزارنفرتھے، اب ترکی کی فوجی تربیت اور اسلحہ کی سپلائی کے باعث یہ آزادفوج بھی بہترپوزیشن میں ہے اورسرکاری فوج سے لوہا لے رہی ہے۔مگراس فوج کے پاس اورانقلابی رضاکاروں کے پاس ہلکے پھلکے اسلحہ ہیں ،ان کے پاس نہ بمبارجہازہیں نہ ٹینک اور توپ ،مگرظالم وجابرنظام سے آزادی حاصل کرنے کا جذبہ ہے جوان کو اپنی جوانیاں لگانے اور جانیں قربانیں کرنے کے لیے مہمیز کررہا ہے ۔
ترکی میں شامی مہاجرین کی تعداد سرکاری اعدادوشمارکے مطابق تعدادساٹھ ہزارتک پہنچ چکی ہے۔ بشارالاسدنے ایک سنی، ریاض الحجاب کو جوان کے پرانے وفادارتھے ،وزیراعظم بنادیاتھا، لیکن گزشتہ ہفتہ وہ بشارالاسدکا ساتھ چھوڑکر انقلابیوں سے مل گئے اورشام سے نکل گئے ہیں۔ ابھی وہ عمان میں ہیں اورانہوں نے شامی فوج سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کا قتل عام نہ کریں اوربشار الاسدکا ساتھ چھوڑکر عوام کا ساتھ دیں۔
سترہ مہینے کی لگاتارجدوجہدکرنے والے اورایک وحشی فوج سے نبردآزماشام کے ان انقلابیوں میں بڑاحصہ ان مذہبی لوگوں کا ہے جواخوان المسلمون کی فکرکے حامل ہیںیاسلفی گروپ سے تعلق رکھتے ہیں ۔اس کے علاوہ ایک قلیل تعدادان لوگوں کی بھی ہے جونیم مذہبی یالبرل ہیں مگرجمہوریت اوراستبدادی نظام سے آزادی چاہتے ہیں۔ان سترہ مہینوں کے اندر شامی قوم پر قیامت گزرگئی ہے ،وہ بدترین عذاب جھیل رہی ہے ۔ مگرابھی تک ہزاروں بیٹوں اورفرزندوں کی قربانیاں دے کربھی اس نے حوصلہ نہیں کھویاہے۔اس سلسلہ میں بدقسمتی سے ۵۷ رکن ممالک والی اوآئی سی اور عرب لیگ عالم اسلام کی دونوں تنظیمیں ان مظلوموں کی کوئی مددکرنے اورشام کے بحران کاکوئی حل نکالنے میں ناکام رہی ہیں ۔عرب لیگ نے اب سے کئی مہینے پہلے اپنے دوسومبصرین شام میں تعینات کیے تھے اورحکومت سے اپیل تھی کہ وہ خون خرابہ بندکردے مگرہزارزبانی دعووں اورعالمی برادری سے کیے گئے وعدوں کے باوجودحکومت نے اپنے تمام جارحانہ اقدامات جاری رکھے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ کئی بارعرب لیگ نے امن منصوبے پیش کیے مگرحکومت نے سردمہری سے کام لیااوراپناظلم وجبرترک نہیں کیا۔عالمی قوتوں میں روس اورچین کی ہمدردیاں شام کو حاصل ہیں کیونکہ دونوں ملکوں کے وسیع تجارتی مفادات اس سے جڑے ہوئے ہیں۔ چونکہ برسراقتدار بعث پارٹی کمیونزم کا عربی ورژن ہے، اس لیے روس سے اس کی زبردست قربت چلی آرہی ہے ،یہاں کہ ۱۹۵۶ء سے دونوں میں دفاعی معاہدہ بھی چلاآرہاہے۔اسی لیے روس سلامتی کونسل میں اس کے خلاف ہر قرارداد کو ویٹو کر دیتا ہے اوراس نے اس کا اعلان بھی کررکھاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ شام کو ناٹوکی کارروائی کا خوف نہیں ہے۔
مسلم دنیا میں ایران اس کا سب سے بڑاحمایتی ہے اوراس کی ہرطرح مددکررہاہے۔ اسی طرح لبنان کی طاقت ور ملیشیااورسیاسی قوت حزب اللہ بھی اس کی زبردست حمایتی ہے۔ایران اورحزب اللہ دراصل مسلکی بنیادوں پر اس کے ساتھ ہیں، کیونکہ شام میں علوی نصیری فرقہ مسلط ہے جوصرف ۱۰ سے ۱۵ فیصد ہے، مگرملکی زندگی کے سیاہ وسفیدپر اسی کا تسلط ہے اوراس علوی آمرانہ نظام نے فوج کی مددسے ۸۵ فیصدسنی اکثریت کو بدترین استحصال اورظلم و بربریت کا نشانہ بنا رکھا ہے۔ عرب علماء اور ان میں خاص طورپر شیخ یوسف القرضاوی نے واضح طور پر اس جابرنظام حکومت کے خلاف فتویٰ دیاہے اور اس نظام کو بیخ وبن سے اکھاڑپھینکنے کی اورشام کے مظلوم سنی مسلمانوں کی تائیدوحمایت کی اپیل کی ہے۔ ان کے علاوہ شام کے شیخ محمدغسان نجار،شیخ ہشیم المالح،سلفی جماعت کے شیخ عدنان عرعور،جامع اموی کے سابق خطیب معاذ الخطیب الحسنی اورنمایاں کردلیڈرسب انقلاب کے حامی ہیں اوراس میں شامل ہو کر ہرطرح کی قربانیاں دے رہے ہیں۔نیز دنیاکے مختلف ممالک میں سیریائی سفارت کاروں نے بھی اپنی حکومت سے انحراف شروع کردیا ہے۔
اقوام متحدہ اوردوسرے عالمی ادارے بھی اس محاذپر ناکام ثابت ہوئے ہیں ۔یواین اوکے سابق سیکریٹری جنرل کوفی عنان کو اقوام متحدہ نے اپناسفیربناکرخصوصی مشن پر سیریابھیجاتھا ۔ان کا مشن سیریامیں امن کا قیام ،سیاسی اصلاحات میں تیزی لانااورحکومت کواس پر راضی کرنا تھا کہ وہ فوج کوشہروں اورآبادیوں سے ہٹاکرواپس بیرکوں میں بھیجے اورانقلابیوں کے ساتھ گفت وشنیدکرے، مگربالآخر ان کا یہ مشن بھی سیریا حکومت کی ہٹ دھرمی کے آگے فیل ہوگیا۔ سچی بات تویہ ہے کہ امریکہ اورناٹووغیرہ اگرکوئی کارروائی سیریاکے خلاف کرتے ہیں تو اس کے خلاف سب سے زیادہ غل بھی مسلمان اورعرب ہی مچائیں گے اورہنگامہ کریں گے کہ صلیبی دنیاایک اورمسلم ملک پر چڑھ دوڑی، مگر وہ خوداپناگھردرست کرنے کی کوشش نہیں کرتے اورالمیہ یہ ہے کہ ہم ہروقت مغرب کو کوستے کاٹتے بھی ہیں اور اپنے مسائل کے حل کے لیے بھی مغربی دنیاکی طرف ہی دیکھتے ہیں!!ان سطورکے لکھے جانے کے وقت مکہ میں تنظیم اسلامی کانفرنس کے وزرائے خارجہ کی چوٹی کانفرنس ہو رہی ہے۔ اس کے صدرنے یہ عندیہ دیاہے کہ سیریاکو تنظیم سے نکالاجاسکتاہے۔ یادرہے کہ ایک ماہ قبل اس کوعرب لیگ سے بھی نکال دیا گیا ہے،مگرایران کی پرجوش حمایت کے باعث ایسے علامتی اقدامات سے اس پر کوئی اثرپڑنے والانہیں ہے۔امریکہ اوردوسرے مغربی ملکوں نے شام پر اقتصادی پابندیاں عائد کررکھی ہیں۔ اس کے ساتھ کاروبارکی بندش کے علاوہ درجنوں اشخاص کے اثاثے بھی منجمدکردیے ہیں اور ان کے سفرکرنے پر بھی پابندی ہے ۔آج امریکہ نے تنظیم اسلامی کانفرنس پر زوردیاہے کہ وہ شام میں فوجی مداخلت کرے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ ایک صحیح مشورہ ہے اورمسلم ملکوں کو بہت پہلے ہی یہ قدم اٹھالیناچاہیے تھا، مگرمسلمانان عالم کی قیادتوں کا جورخ ہے، اس سے نہیں لگتاکہ وہ کوئی ٹھوس قدم اٹھاسکیں گے ۔
لیبیامیں انقلاب اسی طرح رونماہواتھا کہ عوام نے اقتداروقت کے خلاف ہتھیاراٹھالیے اورمحض چندمہینے میں قذافی کا خاتمہ کردیا۔ سیریا میں یہ تجربہ اس لیے نہیں دہرایاجاسکتاکہ لیبیادنیامیں بالکل تنہاپڑگیاتھااورآس پاس کے کسی ملک نے اس کی حمایت نہیں کی تھی، جبکہ مشرق وسطی میں سیریا،ایران اورحزب اللہ کی ایک تکون بن گئی ہے جسے بجا طور پر Axis of evil (بدی کامحور) کہاجاسکتاہے اوریہ محورہم مسلک بھی ہے، یعنی سب شیعہ قوتیں یک جاہوگئی ہیں جو سیریا کے سنی مسلمانوں کا قافیہ تنگ کیے ہوئے ہیں۔ان کے مقابلے میں سیریاکے سنی بڑی نازک پوزیشن میں ہیں۔ مغربی دنیاان کی مددنہیں کررہی ،اقوام متحدہ اورحقوق انسانی کے دوسرے ادارے ان کے لیے زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھتے، پڑوسی عرب ممالک سب بدترین درجہ کے منافق حکمرانوں کے قبضہ میں ہیں جو پون صدی سے چلے آرہے مشرق وسطی کے ناسورفلسطین کا مسئلہ نہیں حل کرا سکے توان سے سیریاکے مسئلہ کے حل کی توقع رکھناخودفریبی کے سوا کچھ نہیں۔ البتہ سعودی عرب، قطر اور دوسرے ممالک نے ریلیف پہنچائی ہے اوراخلاقی طورپر انقلابیوں کی مددکی ہے۔
حال ہی میں دمشق میں آزاد سیریائی فوج نے ۴۸؍ ایرانیوں کوپکڑاہے اوراسی طرح کئی لبنانی باشندے بھی پکڑے گئے ہیں جو حزب اللہ کے لوگ ہیں ۔چنانچہ الجزیرہ نے آزاد سیریائی فوج کے حوالہ سے نقل کیاہے کہ یہ ایرانی باشندے جن کو زائرین باورکرایاجارہاہے کہ وہ دمشق میں واقع روضہ سیدہ زینب کی زیارت کے لیے آئے تھے،دراصل ایرانی فوجی ہیں جوزائرین کے بھیس میں سننی علماء اورمشائخ کو نشانہ بنانے کے لیے آئے تھے ۔آزاد سیریائی فوج کے اس الزام میں اس لیے قوت محسوس ہوتی ہے کہ سیریامیں انقلاب کے آغازکوسترہ مہینے گزرچکے ہیں اوریہ انقلابی لہرپورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے توآخرایسے بحرانی دورمیں کوئی محض مذہبی زیارت کے لیے دوسرے ملک کیوں جائے گااوراسے اتنی آسانی سے ویزاکیونکرمل جائے گااوروہ بھی ایک دونہیں سینکڑوں کی تعدادمیں؟
حیرت ہوتی ہے کہ ہندوستانی مسلمان جوروایتی طورپر پوری امت مسلمہ کے لیے تڑپتے ہیں اورہمیشہ امیرمینائی کے اس شعرکے مصداق ثابت ہوئے ہیں ؂ 
خنجرچلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے 
سیریاکے مظلوم مسلمانوں کے لیے کیوں بے حس بن گئے ہیں؟ ان کے اخبارات وجرائدخاموش ،ان کی ملی تنظیمیں جو ہر چھوٹے بڑے مسئلہ پر غل مچانے میں اپناجواب نہیں رکھتیں، وہ خاموش ۔میرااندازہ ہے (کاش کہ یہ انداز ہ غلط ہو!) کہ ان کے کسی اجلاس اورکسی کانفرنس نے اس لمبی مدت میں سیریاکے مسئلہ پرانقلابیوں کی حمایت اورجابرحکومت کی مذمت میں کوئی قراردادجاری نہیں کی ۔صرف فقہ اکیڈمی کااستثنا ہے جس نے اپنے علی گڑھ کے سیمینارمیں اس مضمون کی باضابطہ ایک قرارداد پاس کی تھی ۔اس کے علاوہ مادرعلمی دارالعلوم ندوۃ العلماء کے عربی رسائل الرائداورالبعث میں شام پر برابرمضامین شائع ہوتے رہے ہیں۔اردومیں ہندوستانی علماء ودانشوروں میں صرف پروفیسر محسن عثمانی ندوی کی کئی چھوٹی بڑی تحریریں اس سلسلہ میں شائع ہوئی ہیں اورموقع موقع سے ان کے مضامین کئی اخبارات ورسائل میں آئے ہیں اورانہوں نے اپناخون جگرصفحہ قرطاس پر انڈیلاہے ۔ان کے علاوہ بالکل سناٹاہے اورہزاروں علماء ودانشوروں کی بھیڑمیں کوئی نہیں جو ملی غیرت کا ثبوت دے اورمصلحتوں کا دامن چھوڑکرحق کے دوبول بول سکے ۔یہاں تک کہ وہ تنظیمیں اوروہ لوگ بھی جوخودکو اخوان المسلمون کاہم خیال بتاتے ہیں،وہ بھی مصلحتوں کے اسیرہیں ،چونکہ ان میں سے بعض کے مفادات ایران سے وابستہ ہیں اورجو ایرانیوں اورحزب اللہ کے اتحادبین المسلمین کے کھوکھلے نعروں پر ایسے ایمان لائے ہوئے ہیں جیسے وہ وحی ہوں،اس لیے وہ اس کے خلاف نہیں جاسکتے اوربآوازبلندحق کی بات نہیں کہہ سکتے ۔اردوکے بہت سے اخبارات اوراردوکے کئی صحافی جو ایرانیوں کے پے رول پر ہیں اوران کے علاوہ کچھ وہ لوگ جن کوسیریائی سفارت خانہ نے سیریاکا سفرکرایاہے، وہ ابھی تک بشارالاسدکے قصیدے پڑھ رہے ہیں -
بدنام زمانہ سیریائی صدرجن کے ہاتھ سے زمین آہستہ آہستہ سرک رہی ہے ہوش کے ناخن نہیں لے رہے ہیں۔اب وہ دن دورنہیں جب ان کے وحشی خانوادے اوران کے وفاداروں کا یوم حساب شروع ہوگااوران ظالموں کوخوددنیاکے اندرہی اسی حشرسے دوچارہوناہوگاجس سے ان جیسے سینکڑوں جابراورآمردوچارہوچکے ہیں۔

منفی اقدار کے فروغ میں میڈیا کا کردار

محمد رشید

جدید دنیا کے تعلیمی اداروں، فکری رہنماؤں، دانشوروں، قلمکاروں اور صحافیوں پر اس مغربی ابلیسی تہذیب کا ایسا سحر طاری ہے کہ اس عریانیت وفحاشی پر مبنی ’’فلم انڈسٹری‘‘کے خلاف اگر کبھی کوئی آواز اٹھتی ہے تو ابلیسی سحر میں گرفتار یہ دانشور،قلمکار اور صحافی انسانیت کی دشمن اس ابلیسی پروگرام کو منوانے کے لیے میدان میں نکل کھڑے ہوتے ہیں اور انسان کی تخریبی صلاحیتوں کو ابھارنے والی اس شیطانی موسیقی اور فلم انڈسٹری کو فن، آرٹ اور تخلیقی صلاحیت کا نام دے کر اسے منوانا چاہتے ہیں اور جو اس پر تنقید کرے اوراس شیطانی انڈسٹری کو فروغ دینے والوں پر تنقید کرے تو ہمارے یہ صحافی اور دانشور اسے آڑے ہاتھوں لیتے ہیں اور ایسے افراد پر مبنی پوری قوم کو’’بیمار قوم‘‘ کا نام دے کر پوری قوم کے منہ پر طمانچے رسید کرتے ہیں۔
جاوید چودھری صاحب۷؍اگست ۲۰۱۲ء کے روزنامہ ایکسپریس کے کالم کا خلاصہ یہ ہے کہ ساری دنیا گلوکاروں، موسیقاروں، فلم سازوں، اداکاروں اور تصویرسازوں کو عزت و احترام دے رہی ہے اور انہیں ڈالروں میں تول رہی ہے، جبکہ اس کے برعکس پاکستانی معاشرہ ابھی تک فلم سٹارز کو احترام اور عزت دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔چنانچہ اپنے کالم کے کلائمکس میں فرماتے ہیں:
’’دنیا وہاں جارہی ہے اور ہم ۱۲۰۲ میں یہ بحث کر رہے ہیں ہمارے میڈیا نے راجیش کھنہ کو سارا دن کوریج کیوں دی؟ راجیش کھنہ اداکار تھا، اداکاری سولائزیشن اور تہذیب کی علامت ہے اور مہذب معاشرے راجیش کھنہ جیسی علامتوں کو عزت دیتے ہیں۔‘‘
ندامت اور شرمندگی کا بدترین مقام یہ ہے کہ ایک مسلمان ملک کے میڈیا کے طور پر ہمارے ذرائع ابلاغ کو جو سب سے بڑا افسوس کرنا چاہیے تھا کہ ’’آج ایک اورصلاحیتوں سے مالا مال غیرمسلم اپنی صلاحیتوں کو گمراہی اور بے حیائی کی اشاعت میں خرچ کرتے کرتے ایمان کے دولت سے محروم دنیا سے چلا گیا اور ابدی زندگی میں ہمیشہ ہمیش کی دوزخ اس کامقدر ہوگئی۔ہم مسلمانوں سے بہت بڑی کوتاہی ہوئی کہ ہم نے اسلام اور ایمان کی دولت اس تک پہنچانے میں مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کیا،اے کاش! اگر ہم اسے ایمان اور اسلام کی دولت سے ہمکنار کرپاتے تو اس مرنے والے کی غیرمعمولی صلاحیتیں بے حیائی اور بے مقصدیت کی اشاعت کی بجائے حیا اور اعلیٰ مقاصد پھیلانے میں خرچ ہونے لگ جاتیں‘‘۔بجائے یہ افسوس کرنے کے ہم نے دنیا میں شیطانی فلم انڈسٹری کے اس ایک ورکر(راجیش کھنہ) کو ایک ہیرو،ایک بہت بڑی تخلیقی شخصیت بناکر اس کے عریانی اور فحاشی پر مبنی گانے بار بار قوم کو دکھائے۔اگر اس پر قوم کے چند افراد کی طرف سے تنقید کی گئی توقوم کے ان افراد کے شکر گزار ہونے کی بجائے ’’فن اور آرٹ‘‘ کے گمراہ کن الفاظ کی آڑ میں ہمارے یہ محترم صحافی انہیں ’’بیمار قوم‘‘ کا لقب دے کر اپنے مجرمانہ کردار کو چھپانے کو شش کررہے ہیں۔ ہمارے اس طاقتورطبقہ کی ڈھٹائی ملاحظہ فرمایے کہ یہ ناپاکی اور عریانی کے ایک بہت بڑے پروموٹراور مبلغ فلمی اداکار کی طبعی موت پر اس کی فلموں کے جنسی ہوس اور بوس و کنار پر مبنی جھلکیاں بار بارقوم کو دکھا کر اسے ایک ہیرو کے طور پر منوانے کی ناپاک کوشش کرتا ہے مگر عین انہی لمحوں میں برما میں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کمزور،نہتے اور مظلوم مسلمانوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح موت کی طرف دھکیلا جاتا ہے، لیکن ابلیسی تہذیب سے ہم آہنگ ہمارا یہ طاقتور میڈیا اتنے بڑے انسانی المیے کی معمولی سی بھنک اورخبر بھی ناظرین تک نہیں پہنچنے دیتا۔
وہ قوم جس میں ہرروزامریکہ کے ظالمانہ ڈرون حملوں کے نتیجے میں سینکڑوں افراد بے گناہ قتل کا نشانہ بن رہے ہیں۔۔۔ وہ قوم جس کی بے گناہ اور معصوم بیٹی عافیہ کو تہذیب اور تمدن کے نمائندہ و علمبردار امریکہ نے تاریخ انسانی کے بدترین ظلم و تشدد کانشانہ بنایاہوا ہے ۔۔۔وہ قوم جس میں امریکی استعمار کی مخالفت پر کمربستہ جید اور بالغ النظر عالم دین مفتی نظام الدین شامزئی شہید کردیے جاتے ہیں۔۔۔وہ قوم جس میں مولانا اسلم شیخوپوری جیسے انسانیت کے سچے خیر خواہ اور مدرس قرآن دن دیہاڑے شہیدکردیے جاتے ہیں۔۔۔وہ قوم جس میں غیر معمولی قوت بیان اور منطق کی صلاحیتوں کے حامل ڈاکٹر اسرار احمد جیسے مدرس قرآن ۔۔۔اورغیرمعمولی تعمیری و تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال عظیم استاد اور علم کا ہمالیہ ڈاکٹر محمود احمد غازی انتقال کرتے ہیں تو میڈیا کو جیسے سانپ سونگھ جاتا ہے، لیکن یہی میڈیاانسانیت دشمن شیطانی تہذیب کے ایک اہم ادارے ’’فلم انڈسٹری‘‘ کے ایک ورکر کی موت پر اسے ایک ہیرو بنا کر اس کی فلموں کے گندے اور ناپاک سین پر مبنی جھلکیاں قوم کو بار بار دکھاتاہے اور خاموش لفظوں میں یہ مطالبہ کرتا ہے کہ شیطان کے ان پیروکاروں کو اپنا ہیرو اور آئیڈیل بناؤ۔اس پر ایک مسلمان ملک کے میڈیا کے اس مجرمانہ طرزعمل پر قوم کے چند افراد تنقید کرتے ہیں تو ہمارے جاوید چودھری صاحب جیسے صحافی ’’بیمار قوم‘‘ کی لٹھ لے کر ان کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور اپنے قلم کی تلوار کی نوک قوم کی پیٹھ میں چبھاکرمطالبہ کرتے ہیں کہ چونکہ ساری دنیا فلم انڈسٹری کے اداکاروں کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے اس لیے تم بھی انہیں وہی عزت دو جو عزت انہیں خدا بیزار اورمشرکانہ وملحد دنیا میں حاصل ہے۔ یہ مطالبہ کرتے وقت یہ صحافی اپنے اسلام اور اپنے ایمان کو پرانے کپڑے کی طرح اتار کر ایک طرف رکھ دیتے ہیں اور الحاد(سیکولرزم) کا جدید اور نظر کو خیرہ کردینے والا لباس پہن کراپنی قوم کو ’’بیمار قوم‘‘ کی گالی دینے کے بعدقوم کی بیماری کا علاج یہ تجویز کرتے ہیں کہ گندگی، فحاشی، عریانیت اور گناہ کے علمبرداروں کو آرٹسٹ،فنکار اور تخلیق کار کا نام دے کر انسانی معاشروں میں عزت و احترام کا جو بلند ترین مقام ہوسکتا ہے وہ انہیں عطا کردیاجائے۔ 
مہذب دنیا اور سولائزیشن کی دہائی دے کرفکری سطح پر برائی اور غلامانہ ذہنیت کی دعوت دیتے وقت ہمارے یہ محترم صحافی بھول جاتے ہیں کہ فن، آرٹ اور تخلیقی صلاحیت کا اظہار اگر گناہ کو پھیلانے، فحاشی و عریانی اور تشدد و خون خرابے پر مبنی فلم انڈسٹری کی ترقی کے لیے استعمال ہوتوایسا فن اور آرٹ شیطانی آرٹ کہلایاجائے گا، ایسی تخلیقی صلاحیت برائی اور بگاڑ کو خوبصورت بناکر پیش کرنے کی وجہ سے درحقیقت ایک خوفناک تخریبی عناصرکا مجموعہ ہونے کی وجہ سے حوصلہ شکنی، پابندی اور ممنوع قرار دیے جانے کی مستحق ہے۔ہمارے یہ صحافی حضرات یہ بات بھی شاید جان بوجھ کر بھول جاتے ہیں کہ صرف اسی صورت میں فن، آرٹ اور تخلیقی صلاحیت کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جائے گا، جب یہ فن، آرٹ اور تخلیقی صلاحیت دنیا میں روحانیت، انسانیت، خلوص، محبت، وفا، ہمدردی، خیرخواہی اور پاکیزگی و طہارت کے فروغ کے لیے استعمال کی جائے گی۔دنیا میں اچھائی ،انصاف اور سچ کے علمبردار بھی فن، آرٹ اور تخلیقی صلاحیت سے مالا مال رہے ہیں اور برائی، ظلم اور جھوٹ کے علمبردار بھی ’’انسان‘‘ ہونے کی وجہ سے ان صلاحیتوں کے حامل رہے ہیں۔ اسلام فن، آرٹ اور تخلیقی صلاحیت کے پہلی قسم کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور اسے عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہے جبکہ دوسری قسم کے استعمال کا خاتمہ کرنا اسلام کا مقصود اور اس کا مشن ہے ۔مذہب کے خلاف پانچ سو سالہ محنت کے نتیجے میں جدید تہذیب اور جدید دنیا میں آج برائی، ظلم اور جھوٹ اور بے حیائی کے علمبردار انسان ہی کے فن، آرٹ اور تخلیقی صلاحیت کو سلام کیاجاتا ہے اور اسے عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔جبکہ دوسری طرف پاکیزگی، حیا، امن، سچائی، وفا، خلوص اور انسانی ہمدردی کے فروغ کے لیے آرٹ، فن اور تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال انتہائی کمیاب ہی نہیں بلکہ نایاب نظر آتا ہے۔
عام طور پر چھوٹی سکرین یعنی ٹی وی کو بڑی سکرین یعنی سینما (فلم) کے مقابلے میں بہت ہی صاف ستھرا قسم کا حامل ادارہ سمجھاجاتا ہے۔ لہٰذا چھوٹی سکرین کے اداکار اکثر ان خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں کہ بڑی سکرین (فلم انڈسٹری) گناہ اور بدکاری (اسکینڈل)کے مواقعوں سے اس حد تک بھرچکی ہے کہ وہ اس کی طرف جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ٹی وی اور فلم انڈسٹری کے اس فرق کو ذہن میں رکھیے اور پھر آئیے دیکھیے کہ امریکہ کے ایک نہایت ناموراور مقبول مصنف سٹیفن آرکووے اپنی شہرہ آفاق کتاب The 7 Habits of Highly Effective Families  میں ٹی وی کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ وہ لکھتے ہیں کہ:
’’یہ سچ ہے کہ ٹی وی کے بیشمار فوائد بھی ہیں جن میں اچھی معلومات اور پرلطف تفریح شامل ہے تاہم ہمارے اور اہلخانہ کے لیے اس میں نقصان کا پہلو زیادہ ہے۔ ٹی وی سے مثبت شے تلاش کرنا ایسے ہی ہے جیسے آپ کوڑے کے ڈھیر میں سلاد کے لیے پتے ڈھونڈ رہے ہوں۔ ہوسکتا ہے آپ انہیں ڈھونڈ لیں تاہم اس دوران آپ کا جس قدر گندگی اور مکھیوں سے واسطہ پڑے گا اس کا آپ بخوبی تصور کرسکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔امریکہ میں ہونے والے ایک سروے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہاں کے 90فیصد لوگ اخلاقی انحطاط کا شکار ہورہے ہیں اور 62فیصد افراد کا خیال ہے کہ اس میں ٹی وی کا سب سے بڑا ہاتھ ہے۔‘‘
غور کیجئے جب ٹی وی کے بارے میں مغربی دنیا کے ایک غیرمسلم منصف مزاج دانشورکی یہ رائے ہے تو پھر فلم انڈسٹری اور فلمی دنیااخلاق و حیا کے لیے کس حد تک تباہ کن ثابت ہوئی ہے، اس کا اندازہ بخوبی لگایاجاسکتا ہے۔
اسلام ایسی حیا باختہ اور ناپاک تہذیب کا سب سے بڑا مخالف ہے اور اسے انسانیت کے لیے تباہی و بربادی کا سبب سمجھتا ہے، لہٰذا ایسی لعنتی تہذیب جس میں بے حیائی، عریانی، فحاشی اور بے مقصدیت کو پھیلانے والی اداکاری کو معاشرے میں عزت واحترام کی علامت سمجھا جاتا ہو، کسی صورت برداشت نہیں کرتا۔مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال نے اسی تہذیب کو فساد (دہشت گردی)قرار دیتے ہوئے فرمایا تھا:
فسادِ قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب
کہ روح اس مدنیت کی رہ نہ سکی عفیف
رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید
ضمیر پاک، خیال بلند، ذوق لطیف
اسی ناپاک تہذیب کے بارے میں حکیم مشرق فرماتے ہیں:
اہل نظر ہیں یورپ سے نومید
کہ ان امتوں کے باطن نہیں پاک
اسی تہذیب کاگہرا ادراک اور واضح شعوررکھنے والے علامہ محمد اقبال اپنی نظم ’’ابلیس کی عرضداشت‘‘میں ابلیس کا مکالمہ ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں :
ناپاک جسے کہتی تھی مشرق کی شریعت
مغرب کے فقہیوں کا یہ فتویٰ ہے کہ ہے پاک!
اور پھر اس نظم کا اختتام ان الفاظ میں کرتے ہیں:
جمہور کے ابلیس ہیں ارباب سیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تہ افلاک!
ابلیس کہہ رہا کہ عصرحاضر کی تہذیب کے ذریعے سے ہر معاشرے کے انسانوں میں سے بڑے بڑے شیطان ان کی سیاسی زندگی پر قابض ہیں، لہٰذا اب آسمان کے نیچے میری ضرورت باقی نہیں رہی۔یہ ہے آج کی سولائزڈ دنیا اور تہذیب جس کی دہائی دے کر ہمارے صحافی ہمیں ناپاک علامتوں کا احترام کرنے کی تلقین کررہے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ اپنے کامل دین کی کامل تعلیمات کی پیروی نہ کرنے اورسر تا پا گناہوں میں ڈوبے ہونے کی وجہ سے پاکستانی قوم ایک ’’بیمار قوم‘‘ بن چکی ہے۔لیکن اس ’’بیمار قوم‘‘ کا ضمیر اور تحت الشعور زندہ ہونے کی یہ ایک علامت ہے کہ وہ سر تاپیر برائی میں ڈوبی ہونے کے باوجود بہرحال برائی کو برائی سمجھ رہی ہے۔۔۔گناہ کو گناہ سمجھتی ہے۔۔۔ظلم کو ظلم ہی سمجھتی ہے۔بجائے اس کے کہ قوم میں ایمان کی اس بجھتی ہوئی آگ میں سے اس بچھی کھچی چنگاریوں کو کام میں لاکر ذرائع ابلاغ کے مقدس پیشہ سے وابستہ صحافی قوم کا ایمان اور اس کی مرتی ہوئی اقدار کو زندہ کرنے کی کوشش کرتے ۔بجائے قوم کی بیماری کا یہ درست علاج کرنے کے اس بیمارقوم کے طاقتور صحافی فکری اور روحانی سطح پر اجتماعی خودکشی کی دعوت دیے چلے جارہے ہیں کہ یہ قوم گناہ اور ظلم کو برائی سمجھنا ہی چھوڑ دے، بلکہ وہ عریانی وبے حیائی کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھنا شروع کردے۔فکری سطح پر موت کی اس دعوت کوہمارے یہ صحافی عین حیات قرار دے رہے ہیں۔جناب عالی!اگر یہ قوم گناہ کو گناہ سمجھ رہی ہے، ظلم اور ناانصافی کو ظلم ہی کہہ رہی ہے، گناہ کی فلمی دنیا کے اداکاروں کو عزت دینے سے انکار کررہی ہے تو یہ شعوری یا لاشعور ی سطح پرنبی اکرمﷺ کی اس نصیحت پر عمل کررہی ہے کہ ایمان کا کمزورترین درجہ برائی کو دل سے برا سمجھنا ہے۔اپنے عظیم رسول ﷺ کے اس حکم کی وجہ سے، کہ ’’اگر کوئی برائی کو دل سے بھی برا نہ سمجھے تو اس کے سینے میں ایک ذرہ کے برابر بھی ایمان نہیں‘‘ ، اس بیمار قوم کا اجتماعی ذہن بدترین زوال کا شکار ہونے کے باوجود ظلم کو ظلم سمجھ رہا ہے، فلمی دنیا کے ناپاک کرداروں کو عزت و احترام دینے سے انکار کررہا ہے۔جبکہ میڈیا ناپاک فلمی دنیا کے ہندواداکاروں کے مقابلے میں دنیا بھر میں کروڑوں مسلمانوں کی جان ، مال،عزت اور آبروکو زیادہ اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں۔کشمیر،فلسطین، چیچنیا، افغانستان، عراق اور بوسنیا اوراب برما کے کمزوراورنہتے مسلمانوں پر عالمی دہشت گردطاقتیں اور ابلیسی تہذیب کے علمبردارغنڈے حملہ آورہیں، لیکن میڈیاکے مجرم طبقہ کی پریشانی یہ ہے کہ پاکستانی قوم برما کے مظلوم اور قتل و غارت گری کے شکار مسلمانوں کے مقابلہ میں فلمی اداکاروں کو زیادہ اہمیت اور عزت اور احترام دینے پر آمادہ نہیں ہے۔
جناب جاوید چودھری جیسی پسندیدہ شخصیت اورصحافی پر گرفت کرنا ایک تکلیف دہ فریضہ تھا ۔اس فریضہ کی ادائیگی صرف اور صرف نصح و خیرخواہی اور دینی حمیت کے جذبے کے تحت کی گئی ہے۔ہماری شدید خواہش ہے کہ ہماری معروضات ہمارے محترم صحافی کو اپنے ناپسندیدہ طرزعمل پر نظرثانی پر مجبورکردیں۔ وہ صحافی جس کی کتاب ’’زیروپوائنٹ۔1‘‘ کو ہم ان کی تخلیقی صلاحیتوں اور مثبت وتعمیری سوچ کا نقطہ عروج سمجھتے ہیں اورکچھ سال پہلے ان کی یہ کتاب پڑھ کر راقم کے دل سے شدید خواہش ابھری کہ پاکستان کے موجودہ حالات میں اس کتاب کو میٹرک کے ہر طالب علم کو مطالعہ کرانا لازم قرار دیاجانا چاہیے، لیکن افسوس ہمارے یہی محترم صحافی اپنے حالیہ متعدد کالموں میں شدید فکری واخلاقی بحران میں مبتلا نظرآتے ہیں۔اے کاش! ہماری یہ چند حقیر معروضات ہمارے اس غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل مسلمان صحافی کومحمد رسول اللہﷺ کی دی ہوئی تہذیب اور شریعت کی نفی کرنے والی ابلیسی تہذیب کی حیا باختہ علامتوں کے احترام کی تباہ کن سوچ ترک کرنے پر مجبور کردیں اور ان کے ذہن اور فکر کو قرآن وسیرت سے حتمی روشنی کے حصول پر آمادہ کردیں۔

میری علمی و مطالعاتی زندگی (حکیم محمود احمد برکاتی سے انٹرویو)

عرفان احمد

میری ولادت ریاست ٹونک میں 1926 میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم وطن میں پھر درس نظامی کی تکمیل اجمیر میں، پھر طب کی تحصیل طبیہ کالج دہلی میں، فراغت کے بعد مطب اور تدریس، 1952میں پاکستان کی طرف ہجرت، یہاں 1957 سے مطب کا سلسلہ اور برکاتی دواخانے کی بنا۔ 1964میں برکات اکیڈمی کا قیام، اب اجل مسمی کا بے تابی سے انتظار۔
تالیفات: سیرت فریدیہ از سرسید کی تدوین 1964، فضلِ حق خیر آبادی اور سن ستاون 1975، شاہ ولی اللہ اور ان کا خاندان (تخلیق مرکز لاہور، مکتبہ جامعہ دہلی)، مولانا معین الدین اجمیری: افکار و کردار، مولانا معین الدین اجمیر: تلامذہ کا خراج عقیدت، ترجمہ اتفاق العزفان فی ماہیۃ الزمان از مولانا برکات احمد (اقبال اکیڈمی لاہور دو ایڈیشن)، ترجمہ الروض المجود فی تحقیق حقیقۃ الوجود داز علامہ فضل حق خیر آبادی (مکتبہ قادریہ لاہور)، مولانا حکیم برکات احمد: سیرت و علوم، شاہ ولی اللہ اور ان کے اصحاب (ادارہ یادگار غالب کراچی اور مکتبہ جامعہ دہلی)، حیات شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی (شاہ ابوالخیر اکیڈمی دہلی)، سفر و تلاش، مقالات، کراچی، کشکول برکاتی (جامعہ کراچی)۔ 
مطالعہ کا ذوق بلکہ لت مجھے بدوشعور سے ارزانی ہوئی۔ میں نے جو کتاب سب سے پہلے پڑھی تھی، وہ حیات سعدی (خواجہ حالی) تھی۔ اس وقت میری عمر12سال تھی۔ پڑھی کیا تھی، چکھی تھی۔ شاید 25فی صد مواد کسی حد تک سمجھ میں آیا ہو۔ والد مرحوم کے کتب خانے میں مختلف علوم کی کتابوں کے ساتھ بہت سی اردو کتابیں بھی تھیں، جامعہ عثمانیہ کے دارالترجمہ کی، دارالمصنفین اعظم گڑھ کی خواجہ حسن نظامی کی مطبوعات وغیرہ۔ میں روز ان میں سے دو ایک کتابیں نکالتا تھا۔ کسی کی زیارت کر کے، کسی اور کی ورق گردانی کر کے واپس الماری میں رکھ دیتا۔ اپنے اس ذوق کو میں خون کا اثر کہوں گا۔ والد مرحوم مجھے چھ سال کا چھوڑ کر دنیا سے چلے گئے تھے۔ دوسرے جو بزرگان خاندان تھے، وہ صرف تعلیم کو ضروری سمجھتے تھے۔ مطالعہ کی طرف انہوں نے کبھی متوجہ نہیں کیا اور چوں کہ میں کھیل کود کی بجائے کتب خانے میں وقت گزارتا تھا، اس لیے وہ مطمئن تھے۔ا س ذخیرے میں سیماب وساغر کے ماہ نامہ پیمانہ کے شمارے بھی تھے (جو والد مرحوم کے لیے اعزازی آیا کرتے تھے)، الہلال و البلاغ کے فائل بھی تھے۔ مولانا راشد الخیری والد مرحوم کے زیر علاج رہے تھے۔ اس لیے ان کے یہاں رسائل و مطبوعات بھی تھے۔ علامہ مشرقی کی کتاب تذکرہ جو بہت اعلیٰ کاغذ پر چھپی ہوئی تھی، اس کی جلد بھی اعلیٰ تھی۔ اس لیے وہ بار بار اٹھا کر دیکھتا اور رکھ دیتا تھا۔ والد مرحوم نے میری ہمشیرہ کے لیے کئی زنانہ رسائل جاری کروائے تھے وہ والد مرحوم کے بعد بھی منگواتے رہے۔ ان میں سے دو کے نام اس وقت یاد آرہے ہیں: ’’آواز نسواں‘‘ اور ’’تہذیب نسواں‘‘ وہ میں پڑھ لیتا تھا۔ اسی زمانے میں لاہور کے ناشر علامہ اقبال اور خواجہ دل محمد وغیرہ کی نظمیں چھوٹے چھوٹے اور خوش نما کتابوں کی شکل میں چھاپتے تھے۔ وہ ایک مقامی تاجر کتب کے یہاں سے خرید لاتا اور یہ نظمیں جھوم جھوم کر پڑھتا۔ حافظہ اس دور میں بہت اچھا تھا، اس لیے زیادہ تر نظمیں مجھے زبانی یاد ہو جاتی تھیں۔ مولانا شبلی کے کلیات (شاید ’’مجموعہ نظم شبلی‘‘ نام تھا) بھی ہم (آپا جان اور میں) پڑھتے تھے اور بہت متاثر ہوتے تھے اور یاد ہو گئے تھے۔ دادی صاحبہ اور والدہ صاحبہ اکثر فرمائش کر کے ہم سے سنا کرتی تھیں۔ 
میرا ماحول سراسر مشرقی اور قدامت پسندی کا تھا۔ میں درس نظامی کا متعلم تھا۔ درسی کتابوں پر جو توجہ دینا ہوتی، وہ دیتا۔ اساتذہ کو کبھی مجھ سے بے شوقی اور غفلت کی شکایت نہیں ہوئی۔ مگر وہ نصاب سے خارج خاص طور پر اردو کتابوں کے مطالعہ کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔ معیاری اور مخرب اخلاق کتابوں کا تو سوال ہی نہیں تھا۔ میرے ہاتھ میں جب بھی دیکھتے کوئی علمی یا ادبی کتاب ہوتی مگر ان کی پیشانی پر شکن آجاتے۔ یہ تھا اس ماحول میں میرے مطالعہ کا آغاز۔ جیسے جیسے عمر بڑھتی گئی، صلاحیت بڑھتی گئی۔ غیر نصابی کتابوں کے مطالعہ کی رفتار بھی بڑھتی گئی۔ منقولات، معقولات، تاریخ (امصار و دیار کی تاریخ) علوم کی تاریخ، تصوف، نظم، افسانہ (ناول کے مطالعہ میں کبھی دل نہ لگا، صرف شرر کے دو ناول پڑھ سکا تھا) سفر نامے، خود نوشت تحریریں، علمی و دینی ادبی رسائل (طب کا ذکر آپ کو مطلوب نہیں)۔ اس طرح برسوں مطالعہ کا جنون شباب پر رہا۔ مگر طول عمر، ضعف قویٰ، ضعف دماغ و بصارت کے سبب یہ جنوں اعتدال پر آگیا ہے اور مطالعے کی رفتار سست ہوئی ہے اور موضوعات کا دائرہ بھی سکڑ گیا ہے۔ اب ہر قسم کی کتابیں اور ہر قسم کے رسائل نہیں پڑھتا۔ میرے چھوٹے بھائی مسعود احمد برکاتی کے پاس بکثرت رسائل آتے ہیں۔ مہینے میں ایک دو بار جا کر ان سب پر بھی ایک سرسری نظر ڈال لیتا ہوں۔ بعض کتابوں سے مصافحے اور معانقے پر اکتفا کرتا ہوں اور رسائل میں سے بعض بعض کے خاص خاص مضامین پڑھ کر رسالہ سامنے سے ہٹا دیتا ہوں۔ مختصر یہ کہ مرض میں افاقہ ہے مگر ابھی اس کا ازالہ نہیں ہو سکا۔ 
غیر نصابی کتابوں کے مطالعہ کی ترغیب میں کسی بھی شخصیت کا نام یاد نہیں آرہا، اصل ترغیب و تحریک اس کولوں اور کالجوں کے ہم عمر طلبہ سے ہوئی ہے۔ ہم لوگ اپنی زیر مطالعہ کتابوں اور رسائل کا باہم ذکر کرتے اور باہم تبادلہ کیا کرتے تھے۔ 
کتابیں اور رسالے بکثرت پڑھتا رہا ہوں، دائرہ مطالعہ کافی وسیع تھا۔ بس جو کتاب یا رسالہ ہاتھ آیا پڑھ ڈالا مگر چند خاص موضوعات یہ تھے:
شعر و ادب جس کا مجھے فطری ذوق تھا، چنانچہ شعرا (متقدمین و معاصرین) کے دو اوین اور مجموعے پڑھتا رہتا تھا۔ 1944سے 1948تک دلی میں رہا، اس لیے جدید شعراء کے مجموعہ ہائے کلام میں شاید ہی کوئی مجموعہ میری نظر سے بچا ہو۔ فارسی شعرائے متقدمین کے دو اوین خوب پڑھے۔ مگر عربی شاعری مجھے کبھی نہیں بھائی۔ عربی شعرا کے تذکرے کرکے ضرور پڑھتا تھا۔ ویسے ہمارے نصاب میں جاہلی دور اور اسلامی دور کے شعرا کے کافی انتخاب شامل تھے۔ تصوف کا ذوق مجھے ورثے میں ملا تھا، لیکن کئی سال تک یہ ذوق سر نہ ابھار سکا۔ جب میں نے تصوف کے خلاف فضلا کے مقالات پڑھے تو اس طرف رجوع ہوا اور اکابر صوفیہ کی عربی و فارسی کی کتابیں، صوفیہ کے تذکرے، ملفوظات، مکتوبات وغیرہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑھنے شروع کیے تو صوفیہ اور تصوف کے متعلق بہت سی غلط فہمیاں دور ہوئیں اور متاخرین کے تصور میں در آنے والے بعض فلسفیانہ اور بعض تدابیر غیر اسلامی عناصر کا سراغ ملا اور تکثیر مسلمین کے سلسلے میں ان کی خدمات جلیلہ کا اندازہ ہوا۔ براعظم پاک و ہند کے صوفیہ (جن میں سے اکابر تو بیرون ہند سے ہی آئے تھے) کی دینی خدمات کے ساتھ ان کی سیاسی خدمات کا بھی علم ہوا اور پھر میں نے صوفیائے کرام پر ایک کتاب لکھنے کا ارادہ کیا اور بہت سا مواد جمع کر لیا اور اس سلسلے میں چند مضامین بھی لکھے جو شائع بھی ہوئے۔ صوفیہ اور حصول علم صوفیا اور مقامی زبانیں صوفیا کے ذرائع معاش، صوفیا اور خدمت خلق، پھر یہ کام آگے نہ بڑھ سکا۔ حسرت ہی رہی کہ کام مکمل ہو جاتا۔ 
تاریخ درس نظامی میں ایک بہت بڑی کمی یہ ہے کہ اس میں جغرافیہ اور تاریخ کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ تاریخ میں صرف تاریخ الخلفاء(جلال الدین سیوطی) ایک مختصر سی کتاب داخل تھی۔ خلافت راشدہ سے سیوطی نے اپنے دور تک کے خلفا کو نمٹا دیا ہے۔ تاریخ و جغرافیہ سے بے خبر ہونے کا احساس کسی بھی موضوع کی کتاب کے مطالعہ کے دوران شدید ہوتا تھا۔ خصوصاً جب اپنے ہم سنوں سے میں شمال و جنوب سنایا قطب شمالی یا قطب جنوبی سنایا کسی تاریخ واقعہ اس کے محل وقوع کی وضاحت کے ساتھ سنتا تو بڑی الجھن ہوتی۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے میں سکولوں کی ابتدائی جماعتوں کے طلبہ سے ان کی جغرافیہ کی نصابی کتابیں لے کر پڑھتا اور پرائمری اور سکینڈری کے طلبہ سے ان کی تاریخ کی کتابیں لے لے کر پڑھیں۔ پھر یہ لے بڑھتی گئی اور میں نے ہند کی تاریخ، عرب کی تاریخ، یورپ کی تاریخ، انبیا علیہ السلام کی تاریخ غرض جو جو ملا خرید کر عاریتاً لے کر پڑھا۔ اب خود میرے پاس تاریخ و سوانح کا الحمد اللہ اچھا خاصہ ذخیرہ ہے۔ 
میں صرف عربی، فارسی اور اردو کی کتابیں پڑھتا ہوں۔ انگریزی کی مجھے شُدبُد ہے۔ طب جدید کی انگریزی کتابوں کا کسی حد تک مطلب نکال لیتا ہوں۔ 
پسند میں عمر کے ساتھ تو کمی و بیشی اور تبدیلی ہوتی ہے۔ میرے پسندیدہ مصنف مولانا شبلی نعمانی، مولانا سید سلمان ندوی، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، نعیم صدیقی، مولانا عبدالماجد دریا آبادی، مولانا مناظر احسن گیلانی، مالک رام، قاضی عبدالودود، علامہ اقبال وغیرہ ہیں۔ 
جہاں تک میری پسندیدہ کتابوں کا تعلق ہے، وہ کثیر ہیں، خاص کر قرآن و متعلقات قرآن اور سنت نبوی اور علوم دینیہ کی کتب درس نظامی کا طالب علم ہونے کی وجہ سے اور طب کی کتابیں اپنے فن کی وجہ سے اور قدیم فلسفہ کی کتب خیر آبادی خاندان کی وراثت کی وجہ سے زیر مطالعہ رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ جن کتب کا بار بار مطالعہ کو دل چاہتا ہے، ان میں مولانا آزاد کی تذکرہ، غبار خاطر، کلام نعیم صدیقی کلیات علامہ اقبال اردو، فارسی، دیوان حافظ، وغیرہ ایک محدود انتخاب ہے۔ 
اب تو برسوں سے افسانے پڑھنے کا وقت نہیں ملتا۔ کرشن چندر کے افسانے پسند آتے تھے۔ کالم ایک زمانے میں مرحوم ابن انشاء کے کالم پڑھنے میں لطف آتا تھا۔ 
جن شخصیات کا میری شخصیت پر زیادہ اثر ہوا ہے، ان میں پہلے نمبر پر مولانا ابوالکلام آزاد، دوسرے نمبر پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی۔
جہاں تک اخبارات کا تعلق ہے، ہمیشہ کراچی کا کوئی ایک روزنامہ پڑھتا رہا ہوں۔ کسی زمانے میں روزنامہ انجام کراچی، کسی زمانے میں روزنامہ حریت کراچی۔ اب تو عرصے سے روزنامہ جنگ کراچی پڑھتا ہوں جو ایک مکمل روزنامہ ہے، اگرچہ اسلام دشمن طاقتوں کا آلہ کار ہے اور جب سے روزنامہ جسارت کراچی جاری ہوا ہے، التزاماً پڑھتا ہوں۔ اگرچہ ایک ناقص روزنامہ ہے مگر کاروان عزیمت کا ایک مسافر ہے۔ 
جب تک ریل میں سفر کرتا تھا تو مسلسل پڑھتا تھا کیوں کہ مجھے سفر میں نیند نہیں آتی۔ ہوائی جہاز میں بھی جب بھی طویل سفر کیا ہے، تمام وقت پڑھتے ہوئے گزرتا ہے۔ 
مطالعہ کے اوقات اب تو وہی ہیں جو فراغت کے ہیں یعنی مطب اور تالیف کے اوقات، مگر دوران تعلیم درس گاہ سے فراغت کے بعد باقی وقت سیر و تفریح کی بجائے مطالعہ میں صرف کرتا تھا۔ ٹونک میں تو صرف کتابیں پڑھتا تھا۔ جب اجمیر پہنچا تو وہاں کتابوں کے علاوہ چند تازہ دینی اور ادبی رسائل بھی مل جاتے تھے۔ وہاں ایک لائبریری تھی جس میں علمی و ادبی کتابوں کا اچھا خاصا ذخیرہ تھا مثلاً انجمن ترقی اردو کے رسالے اردو کا پورا فائل تھا۔ نگار کا بھی فائل تھا اور کئی رسالے جو بند ہو گئے ، ان کے بھی فائل تھے۔ 
پہلے وہ کتاب پڑھتا تھا جو ہاتھ آجاتی تھی، چاہے کسی موضوع پر ہو اور کسی بھی سطح کی ہو، لیکن اب بہت دن سے ان کے انتخاب کا دائرہ تنگ کر دیا ہے، بلکہ کر دینا پڑا ہے۔ جسمانی قوی کے اضمحلال، دماغ اور بصارت کے ضعف کی وجہ سے موضوعات کی فہرست مختصر کر دی ہے۔ بہرحال جو کتابیں ہدیتہ ملتی ہیں، انہیں ضرور سرسری انداز میں پڑھ ڈالتا ہوں۔ ایسی کتابوں کے نام بھی بھولنے لگا ہوں مگر معیاری کتابوں اور ان کے مضامین کے ناموں کو بھلانے پر قادر نہیں ہوں۔ 
اگر کتاب اپنی ہو تو اس پر نشان بین السطور لائنیں لگاتا ہوں اور جلد کے سادہ اوراق پر خاص خاص مشمولات کے صفحات لکھ دیتا ہوں۔ مطالعہ کے ساتھ میں قلم اور کاغذ تقریباً پچاس سال سے ساتھ رکھتا ہوں جس پر کچھ عبارتیں نقل کرتا رہتا ہوں جو بعد میں فائل میں لگا دیتا ہوں۔ 
پڑھنے کے لیے سکون مطلوب تھا اور وطن میں تو یہ حاصل تھا، مگر پاکستان میں چھوٹے گھروں میں یہ سہولت بہت کم مل سکی، اس لیے ہر حالت میں پڑھ لیتا ہوں۔ 
بیگم کو الحمد اللہ مطالعہ کا ذوق ہے، مگر وہ صرف سیرت نبویﷺ، سیر صحابہؓ و صحابیات اور فقہ کی کتابیں پڑھتی ہیں، اخبارات پر چند منٹ کے لیے نظر ڈالتی ہیں۔ میرے ایک بیٹے جامعہ کراچی میں استاد ہیں۔ وہ زیادہ تر سائنس کی کتابیں اور دو بیٹے طبیب ہیں، وہ زیادہ تر طب کی کتابیں پڑھتے ہیں۔ تین بچیوں میں سے دو کو یہ ذوق ہے اور ان کے پاس اچھا خاصا ذخیرہ کتب بھی ہو گیا ہے۔ یہ دونوں زیادہ تر اسلامی اور مسلمین کی تاریخ اور دینی موضوعات پر کتابیں پڑھتی ہیں۔ 
میرے کتب خانے میں سولہ RACKS ہیں جن میں عربی، فارسی، اردو کی تقریباً پانچ ہزار کتابیں ہیں۔ رسائل کے فائل ان کے علاوہ ہیں۔ اس ذخیرے کی ابتدا میرے محترم پردادا حکیم سید دائم علی سے ہوئی۔ پھر محترم داداد سید برکات احمد پھر والد محترم سید محمد احمد اس میں اضافہ کرتے رہے۔ میں بھی اس میں اضافہ کرتا رہا۔ پھر ترک وطن جن حالات میں کرنا پڑا، ان میں مطبوعات کی بڑی تعداد امانتاً اعزا کے ہاں رکھ دی گئی کیوں کہ وہ ذخیرہ قانوناً اور عملاً ساتھ نہیں لایا جا سکتا تھا۔ اس لیے مخطوطات میں سے بھی نوادار، مطبوعات میں بھی قدیم الطبع اور کم یاب مطبوعات ساتھ لے کر چلا۔ وہ بھی اس طرح کہ والدہ محترمہ اور بیگم نے اس سفر ہجرت کے لیے سخت انتخاب کے بعد دوصندوق تیار کیے تھے۔ میں نے ان میں سے بے دردی کے ساتھ تمام قیمتی ملبوسات نکال لیے اور ان کی جگہ کتابیں رکھیں اور دونوں سے عرض کی کہ یہ سب چیزیں ان شاء اللہ وہاں دوبارہ مل جائیں گی۔ الحمد اللہ مل گئیں مگر یہ کتابیں یہ خزانہ پھر ہاتھ نہیں آئے گا۔ دو صندوق صرف کتابوں کے الگ بھرے اور الحمد اللہ یہ خزانہ یہاں پہنچ گیا۔ پھر اس ذخیرے میں ہر فن اور زبان کی کتابوں کا اضافہ ہوتا رہا۔ میں بھی خریدتا رہا اور متعدد حضرات نے میرا ذوق اور یہ ذخیرہ دیکھ کر اپنا ذخیرہ مجھے عطا کیا۔ کسی نے پندرہ کتابیں اور کسی نے اس سے زیادہ جن میں کچھ کم یاب کتابیں بھی اور چند مخطوطات بھی تھے۔ اسی طرح نظم و نثر کی وہ کتابیں اس ذخیرے میں اضافہ کرتی رہیں جو شعرا اور اہل قلم احباب اور مریضوں نے دیں۔ یوں ساٹھ سال میں حدیث، تفسیر، فقہ، اصول فقہ، تصوف، منطق، فلسفہ، علم الکلام، طب، عربی، فارسی ادب، اردو ادب، تاریخ عالم، تاریخ ہند، تاریخ اسلام وغیرہ کا یہ ذخیرہ جمع ہوا۔
اپنی تصانیف نظم و نثر عطا کرنے والے حضرات میں جو نام یاد آرہے ہیں، ان میں اختر شیرانی، ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی، ڈاکٹر اسلم لاہور سید ابوالخیر کشفی، حکیم محمد سعید حکیم نیر واسطی لاہور، مولانا ماہر القادری، ڈاکٹر معین الحق، سید محمد سلیم، ڈاکٹر معین الدین عقیل، ڈاکٹر سید اسلم کراچی، ابواللیث صدیقی، ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہان پوری، محمد ایوب قادری، سید الطاف علی بریلوی، سید مصطفی علی بریلوی، ثناء الحق صدیقی، نادم سیتا پوری، مسلم ضیائی، ڈاکٹر سفیر اختر، مولانا مفتی مظہر بقا صاحب، محمود احمد عباسی، مولانا فضل اللہ، جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن، کے پروفیسر مجتبیٰ احسن، ڈاکٹر وقار احمد رضوی، مولانا عرشی امرتسری، ضیاء الدین لاہوری، رئیس علوی وغیرہ ہیں۔ کراچی کے شعرا میں سے رئیس امرہوی، راغب مراد آبادی، انجم اعظم، قمر ہاشمی، سحر انصاری، سرشار صدیقی، امید فاضلی، رضی اختر شوق، ظفر محمد خان ظفر انجم وغیرہ۔ 
نادر کتابوں میں المشجر الکبیر، یحییٰ بن نوادرماسویہ کتاب 597ہجری۔ برعظیم میں اس کے تین نسخے ہیں جن میں سے دوسرا پٹنے میں اور تیسرا رام پور میں ہے۔ مگر میرا یہ مخطوطہ چھٹی صدی ہجری میں کتابت ہوا۔ دوسرا پٹنے کا مخطوطہ آٹھویں صدی ہجری میں اور رام پور کا نسخہ۔ گیارہویں صدی ہجری میں بیرون ملک کے جن ذخائر کی فہرست نظر سے گزری ہیں، ان میں اس کا ذکر نہیں ہے۔ مگر اب یہ نسخہ کراچی نیشنل میوزیم ہے۔ 
تاریخ یمنی ترجمہ مولانا فضل امام خیر آبادی۔ یہ مولانا فضل امام کا اصلی نسخہ ہے۔ 
بیاض مولانا فضل حق خیر آبادی (جن میں چند مکاتیب کے مسودے اور چند قصہ) 
حاشیہ شفا (ابن سینا) از آقا حسین خوانساری۔ 
حاشیہ قدیمہ برشرح تجدید۔ محقق طوسی کی کتاب تجدید الکلام کی شرح علامہ قوشیخی نے کی تھی، اس پر محقق دوانی نے تین حاشیے یکے بعد دیگرے لکھے تھے، ان میں سے یہ پہلا حاشیہ ہے۔ 
حاشیہ خوانساری۔ ابن سینا کی کتاب الاشارات کی ایک شرح امام نے کی تھی اور ایک محقق طوسیٰ نے۔ علامہ قطب الدین رازی نے ان دونوں پر محاکمہ کیا تھا۔ اس کتاب کا حاشیہ خوانساری نے لکھا تھا۔ یہ محفوظ خوانساری کے شاگرد محمد اشرف کاخی نے خوانساری کی حیات میں خود محنسی کے نسخے سے نقل کیا تھا۔ 
کتاب التحصیل (منطق، طبیعات، الہیات) از بہمار بن و زباں آزربائیجان)، یہ ابن سینا کے شاگرد تھے۔ 
ابن سینا کی کتاب الشفا کے حصہ الہیات کا حاشیہ از مولانا عبدالحق خیر آبادی۔ 
جی ہاں مستعار بھی کی ہیں۔ مگر ہر بار سعی بلیغ کی ہے کہ بہت احتیاط سے کتاب کا مطالعہ کیا جائے۔ کتاب جلد سے جلد واپس کی جائے، کتاب خود جا کر مالک کے ہاتھ میں دی جائے، مالک کی عدم موجود میں اہل خانہ یا اطفال کرام کو نہ دی جائے بلکہ اس کام کے لیے دوبارہ جائیں۔ 
مستعار دینے کے تجربے بڑے تلخ اور ناقابل فراموش ہیں۔ بارہا یہ ہوا کہ کتاب واپس نہ آسکی اور اگر آئی تو حسرت موہانی سے زیادہ باحال زار آئی۔ مثلاً بے احتیاطی اور کتاب سے غیر عالمانہ معاملہ کیے جانے کے عواقب کا میرزبوں ہو کر چند کتاب شناس احباب نے اجازت اور کتاب کی عمر دیکھے بغیر فوٹو اسٹیٹ بنوا لیے جس سے اس عجوزہ بڑھیا کی صحت مزید متاثر ہوئی۔ چند مستعیر حضرات نے کتاب اپنے احباب کو پیش کر دی کہ تم بھی فائدہ اٹھاؤ۔ مستعیر ثانی نے بھی اسی شان سے مشق ستم کی میری ڈھٹائی کہ ان تخریبی اعمال سے خوب خوب متمتع ہو کر بھی میں کتاب دینے سے باز نہ آسکا۔ یہ سن کر کہ کسی کو کسی موضوع پر کام کرنے کے سلسلے میں جس کتاب کی ضرورت ہے، وہ میرے پاس ہے مجھ سے یہ کہے بنا رہا نہیں جاتا کہ یہ میرے پاس ہے، آپ لے جائیے۔ دل گوارا نہیں کرتا کہ کسی علمی و دینی کام میں خدمت سے محروم رہ جاؤں۔ کتاب دینے کے بعد واپس خود تو کم ہی شرفا کرتے ہیں ورنہ تقاضا کرنا پڑتا ہے مگر کبھی تو یہ جواب ملا کہ آپ کو یاد نہیں ہے۔ میں نے آپ سے یہ کتاب واپس کرنے سے پہلے وفات پا لی۔ دو تین بار اپنی دی ہوئی کتاب کبھی ٹھیلے پر بکتی ہوئی خریدی۔ ایک صاحب نے فرمایا تھا کہ میں واپس کر گیا تھا آپ بھول گئے ہیں مگر میں نے کتاب ان کے اور اپنے کسی مشترک دوست کے یہاں دیکھی۔ کتاب پر میرا نام بھی لکھا تھا اس لیے سوال کیا کہ آپ کے پاس کیسے؟ تو انہوں نے مستعیر اول کا نام لے کر بتایا کہ انہوں نے مجھے دے دی تھی۔ 
جی ہاں، مطالعے سے بھی اور عمر کے ساتھ بھی نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ اگر باقی زندگی میں کوئی ایسا لمحہ تنہائی آیا تو میں قرآن مجید کا جو حصہ بھی یاد ہے اس کی تلاوت اور اس پر تدبر میں وقت صرف کروں گا۔ 
جب تک اپنے وطن ٹونک میں رہا جو ایک چھوٹا شہر ہے تو بہت کم مشابہہ سے نیاز حاصل ہو سکا اور مشابہ کا تصور ذہن میں مافوق البشر کا سا تھا، مگر تین سال اجمیر میں رہا وہاں خواجہ اجمیر کی درگاہ تھی، اس لیے یہاں ملک کے گوشے گوشے سے متعقدین شعراء، علماء، سیاسی زعما کثرت سے آتے رہتے تھے۔ اس لیے ان میں سے کسی سے سلام کا تبادلہ کسی سے مصافحہ، کسی سے سرسری گفت گو اور کسی سے مفصل ملاقات ہوتی رہی تھی اور مشابہ کا وہ بت چکنا چور ہو گیا اور مرعوبیت بالکل نہیں رہی۔ پھر چار سال دہلی میں رہا تو وہاں کثرت سے علما، شعرا، مصنفین کو سونگھا چکھا، تناول کیا، افسوس ہوا کہ کاش ہم ان کو اتنے قریب سے نہ دیکھتے کہ ان کا قد اتنا بلند ہے جتنا ہم نے قیاس کیا تھا۔ ان کا کردار بے داغ نہیں ہے، یہ اتنے بڑے نہیں ہیں جتنا ہم انہیں دیکھنے سے پہلے سمجھ بیٹھے تھے۔ کسی کو بہت پست قامت پایا اور اندازہ ہوا کہ شہرت صرف کمال اور جمال میں سے حاصل نہیں ہوتی، بہت کم صلاحیتوں کے ساتھ بھی بہت سے ذرائع سے شہرت حاصل کی جاتی ہے۔ پھر جب میں دہلی پہنچا تو مے خانے کا در کھل گیا۔ وہاں ایک طرف بہت سے اہل علم و قلم، قدیم و جدید مدارس کے معلمین، نام ور مصنفین، شعر و سخن کے اساتذہ جمع تھے۔ علمی و ادبی اجتماعات ہوتے رہتے تھے اس لیے دہلی پہنچ کر معلوم ہوا کہ تہہ خانے سے نکل کر میدان میں آگیا ہوں۔ وہاں ندوۃ المصنفین کا مشہور علمی ادارہ اور ماہ نامہ برہان کا دفتر تھا۔ یہ ہمارے کالج کے قریب تھے ادارے کے ارکان مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، مولانا سعید احمد اکبر آبادی، مولانا عتیق الرحمن عثمانی اور مولانا بدر عالم میرٹھی زندگی میں پہلی بار کوئی علمی ادارہ دیکھا تھا، اس لیے میں اکثر وہاں جاتا تھا۔ سراسر علمی ماحول، ارکان اپنے اپنے کمروں میں خاموشی سے مصروف کار، ہر کمرے میں الماریاں کتابوں سے معمور۔ انتظام مفتی عتیق الرحمن کے ہاتھ میں تھا۔ وہ کتابوں اور ماہ نامے کے پیکٹ بنوانے، کتابت کروانے، پروف کی اصلاح وغیرہ میں مصروف ہوتے اور میں برہان کے تبادلے میں آئے تازہ رسائل اور الماریوں میں سے اپنی پسند کی کتابیں نکال کر پڑھنے بیٹھ جاتا اور ضحیم کتاب بھی مفتی صاحب مجھے لے جانے کی اجازت دے دیتے تھے۔ 
جامعہ ملیہ اسلامیہ کا مرکز اس وقت تک قرول باغ میں اجمل روڈ پر ہی تھا۔ جامعہ کا کتب خانہ اور دارالمطالعہ بھی اسی روڈ پر تھا۔ میں وہاں بھی حملے کرتا رہتا تھا اور اپنی علمی بھوک اور پیاس بجھانے کی کوشش کرتا۔ شہر میں دو اور دارالمطالعے تھے۔ ایک پنجابی سوداگر دہلی کا اور دوسرا ہارڈنگ لائبریری۔ میں تقریباً دونوں جگہ کے پھیرے کرتا تھا۔ ہمارے اساتذۂ طب حکیم خواجہ رضوان، حکیم فریداحمد عباسی، حکیم عبدالحفیظ صاحبان کے کتب خانوں تک بھی میری تگ و تاز تھی، ان کتب خانوں میں طبی کتابوں کے علاوہ ان اساتذہ کے ذوقِ مطالعہ کی وجہ سے علمی و دینی و تاریخی کتابیں بھی ہوتی تھیں۔ یہ حضرات میرے بزرگوں سے نہ صرف واقف بلکہ ارادات مند تھے، اس لیے مجھ سے دوسرے طلبہ کے بہ نسبت خصوصی معاملہ فرماتے تھے اور میں ان کے یہاں سے نادر مطبوعات تک لے آتا تھا۔ ہارڈنگ لائبریری کے انچارج اس زمانے میں اسرار الحق مجاز تھے۔ وہ دارالمطالعہ میں ایک اونچے چبوترے پر ایک بڑی سی میز پر بیٹھے اور روزانہ ان سے سلام کا تبادلہ ہوتا تھا۔ ایک دن میں نے ان سے کہا کہ آپ مجھے بہت اچھے لگتے ہیں مگر جب وقت ختم ہونے کا گھڑیال بجاتے ہیں تو آپ پر بہت غصہ آتا ہے تو انہوں نے بہت لطف لیا۔ رئیس احمد جعفری کی قائد اعظم پر ایک ضخیم کتاب ایک دن لائبریری میں داخل ہوئی تھی۔ مجھے اس کے مطالعے کا اشتیاق تھا مگر میں لائبریری کا ممبر نہیں تھا۔ اس لیے اپنے نام جاری نہیں کروا سکتا تھا۔ فرط اشتیاق سے میں مجاز صاحب کے پاس لے کر گیا اور درخواست کی کہ اسے اپنے نام سے جاری کروا دیں۔ یہ سوال ان کے لیے غیر متوقع تھا، اس لیے سن کر مسکرائے اور کچھ دیر سوچتے رہے، پھر اپنے نام سے کتاب جاری کروا دی۔ میں کتاب لے آیا اور صبح ہوتے ہوتے کتاب پڑھ ڈالی۔ دوسرے روز حسب معمول عصر کے بعد لائبریری پہنچ کر کتاب مجاز صاحب کو پیش کر دی۔ انہوں نے حیرت سے کتاب ہاتھ میں تولنے کے انداز میں پوچھا کتاب پڑھ لی؟ میں نے کہا جی ہاں پڑھ کر واپس کرنے لایا ہوں رات بھر پڑھ کر ختم کر دی صبح اپنے دوسرے فرائض ادا کیے اور اب واپس کرنے آیا ہوں۔ مجاز صاحب استفہام انکاری کے لہجے میں کہنے لگے: اتنی ضخیم کتاب ایک رات میں؟ میں نے کہا مجاز صاحب میں قائد اعظم پر تین کتابیں پڑھ چکا ہوں۔ اس کتاب میں قائد اعظم اور دوسروں کی تقاریر کے طویل طویل اقتباسات میرے لیے نئے نہیں تھے۔ اجلاسوں کی رودادیں بار بار پڑھی ہیں، ان کا پڑھنا کیوں ضروری تھا۔ باقی ہر نئی چیز میں نے پڑھ لی ہے، آپ امتحان لے لیں۔ 
مطالعہ کی اس جوع البقر کا یہ عالم تھا کہ رسالوں کا فلمی حصہ جس میں فلموں کی خبریں، اداکاروں کی کارکردگی پر تبصرے وغیرہ ہوتے تھے، میں وہ بھی پڑھ ڈالتا تھا، حالانکہ نہ اس وقت تک کوئی فلم دیکھی تھی نہ کبھی اس کا شوق ہوا تھا۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ دلچسپ ہوا۔ میں چند دن کے لیے اپنے اعزہ کے یہاں ملنے کے لیے گیا۔ وہاں بزرگوں سے زیادہ اپنے ہم سن عزیزوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارتا تھا۔ ایک دن ان حضرات نے تواضع کی خاطر مجھے فلم دکھانے کا پروگرام بنا لیا اور جب مجھ سے ذکر کیا تو میں نے یہ دعوت قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ احباب نے اس انکار کو تکلف پر محمول کیا مگر میں انہیں بتایا کہ میں نے آج تک کوئی فلم دیکھی ہے اور نہ اس کو جائز سمجھتا ہوں تو وہ حیرت زدہ رہ گئے۔ ان کی حیرت کی وجہ یہ تھی کہ اس عرصے میں ان سے جب بھی گفت گو ہوئی اور وہ اپنے ذوق کے مطابق فلموں کی بات کرتے تو میں بھی اس گفت گو میں حصہ لیتا تھا اور فلموں اور اداکاروں کے متعلق اپنے ماہرانہ تبصرے اس شان اعتماد سے بیان کرتا کہ فلم میں نے خود دیکھی ہو۔ میری یہ معلومات رسالوں کے فلمی صفحات کے حرف بحرف پڑھنے کا نتیجہ تھیں۔ 
رسائل اور کتابوں کے علاوہ شعر و ادب کی طرف بھی زیادہ دلچسپی رہی اور شعرا و ادبا کے ساتھ ادبی موضوعات پر مذاکروں کا سلسلہ جاری رہتا، اس دور میں ترقی پسند ادب بھی ہمارا خاص موضوع بحث تھا اور اس موضوع کے حامیوں اور مخالفوں کی جو کتابیں شائع ہوئی تھیں، وہ میں ضرور پڑھتا تھا۔ اسی طرح شعراء کے مجموعہ ہائے کلام بھی کثرت سے شائع ہو رہے تھے اور وہ میں التزاماً پڑھتا تھا چنانچہ جان نثار اختر نے مولانا ماہر القادری سے ایک محفل میں میرے متعلق کہا کہ تازہ شائع ہونے والا ہر مجموعہ یہ ضرور حاصل کرتے اور پڑھتے ہیں۔ انہی دنوں مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب غبارِ خاطر کے زیر طباعت ہونے کی خبر ملی میں اردو بازار دہلی میں ناشر کی دوکان کے روز چکر لگانے لگا آخر ایک روز وہ بازار میں آگئی اور میں جب دوکان پر پہنچا تو دوکان کے مالک نے اس کتاب کا ایک نسخہ میز کی دراز میں سے نکال کر مجھے دیا کہ لاٹ میں سے پہلا نسخہ میں نے آپ کے لیے پہلے الگ کر لیاتھا کہ سب سے زیادہ انتظار آپ کوہی تھا۔ 

رؤیت ہلال کا مسئلہ اور ہمارے قومی رویے / توہین مذہب کا تازہ واقعہ۔ توجہ طلب امور

محمد عمار خان ناصر

رؤیت ہلال کا مسئلہ اور ہمارے قومی رویے

عید کے موقع پر چاند کی رؤیت کے حوالے سے اہل علم کے مابین بعض فقہی اختلافات عالم اسلام کے کم وبیش تمام حصوں میں موجود ہیں، مثلاً یہ کہ کیا چاند کی رؤیت کا فیصلہ فلکیاتی حسابات کی بنیاد پر بھی کیا جا سکتا ہے یا اس کے لیے چاند کو آنکھوں سے دیکھنا ضروری ہے؟ اسی طرح یہ کہ کیا ایک علاقے میں چاند کے دیکھے جانے پر دوسرے علاقوں کے لوگ، جہاں چاند نظر نہیں آیا، رمضان یا عید کا فیصلہ کر سکتے ہیں یا ہر علاقے کے لوگوں کے لیے ان کی اپنی رؤیت کا اعتبار ہے؟ وغیرہ۔ تاہم ہمارے ہاں چاند کے دیکھے جانے کا فیصلہ کرنے کے لیے علماء کی سربراہی میں رؤیت ہلال کمیٹیوں کی صورت میں جو نظام بنایا گیا ہے، اس نے اس اختلاف کو مستقل طو رپر ایک ایسی نزاع کی شکل دے دی ہے جو فقہی سے زیادہ سیاسی، مسلکی اور صوبائی تعصبات کے اظہار کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ 
حالیہ عید کے موقع پر بھی یہی ہوا۔ ۱۸؍ اگست کو وزیرستان میں وہاں کے مقامی علما نے بعض ’’گواہیوں‘‘ کی بنیاد پر عید منانے کا فیصلہ کیا تو ایک مضحکہ خیز فیصلہ ہونے کی وجہ سے بدیہی طو رپر اسے زیادہ اہمیت نہیں دی گئی، لیکن خیبر پختون خواہ کی صوبائی رؤیت ہلال کمیٹی نے اپنی سابقہ روایت کے مطابق مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے فیصلے کے برعکس ۱۹ ؍ اگست کو عید کا اعلان کر دیا تو حسب سابق مخصوص مسلکی اور علاقائی تعصبات متحرک ہو گئے اور بہت سی ذمہ دار شخصیات کی طرف سے یہ بیانات سامنے آنا شروع ہو گئے کہ چونکہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی نے خیبر پختون خواہ کی کمیٹی کو موصول ہونے والی شہادتوں کو نظر انداز کر کے چاند نظر نہ آنے کا فیصلہ کیا ہے، اس لیے یہ جانب دارانہ فیصلہ ہے اور یہ کہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کو ازسرنو تشکیل دینا چاہیے۔ 
جہاں تک شہادتوں کو نظر انداز کرنے کا تعلق ہے تو ہمارے نزدیک یہ اعتراض علمی واصولی طو رپر زیادہ وزن نہیں رکھتا۔ ماہرین فلکیات کے حسابات کے مطابق ۱۸؍ اگست کی شام کو چاند کی مدتِ پیدائش اس سے کم ہونے کی وجہ سے جو چاند کے دکھائی دینے کے لیے ضروری ہے، پورے جنوبی ایشیا میں کہیں بھی چاند دکھائی دینے کا امکان نہیں تھا۔ علما کا عمومی موقف یہ ہے کہ محض ماہرین فلکیات کے حسابات پر مدار رکھتے ہوئے چاند کی رؤیت کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا، تاہم علما، ماہرین فلکیات کی رائے کو اس حد تک پورا وزن دیتے ہیں کہ اگر فلکیاتی حسابات کی رو سے کسی مخصوص تاریخ کو کسی مخصوص علاقے میں چاند کے دکھائی دینے کا امکان نہ ہو تو اس علاقے میں چاند کے دیکھے جانے کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے اس حوالے سے مکہ مکرمہ کی فقہ اکیڈمی میں ہونے والے مباحثات کی جو روداد اپنے ایک حالیہ مضمون میں بیان کی ہے، اس کے مطابق اس وقت عالم اسلام کے ممتاز ترین علما وفقہا کی اکثریت اسی کی قائل ہے، جبکہ فلکیاتی حسابات کی رو سے چاند کی رؤیت ممکن نہ ہونے کے باوجود محض گواہیوں کی بنیاد پر چاند کے دیکھے جانے کا فیصلہ کرنے کی رائے ایک ’’شاذ‘‘ رائے کا درجہ رکھتی ہے۔ اس تناظر میں اگر مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی نے ۱۸؍ اگست کی شام کو چاند کے دکھائی نہ دینے کا اعلان کیا تو یہ فقہی اصولوں کا عین تقاضا تھا، بلکہ ہمارے خیال میں تو اس صورت میں ۱۸؍ اگست کو چاند دیکھنے کا تکلف کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ ماہرین فلکیات کی مذکورہ پیش گوئی یوں درست ثابت ہوئی کہ خیبر پختون خواہ کے علاوہ پورے جنوبی ایشیا میں اس تاریخ کو کہیں چاند دکھائی نہیں دیا اور ہر جگہ ۲۰؍ اگست کو ہی عید منائی گئی۔ اس لحاظ سے علمی وفقہی اعتراضات کا ہدف دراصل خیبر پختون خواہ کی رؤیت ہلال کمیٹی کے فیصلے کو بننا چاہیے تھا کہ جب ۱۸؍ اگست کو چاند کا دیکھا جانا ممکن ہی نہیں تھا تو وہ آخر کیسے نظر آ گیا، لیکن یہ مسلکی وصوبائی تعصبات کا کمال ہے کہ اعتراض کا ہدف الٹا مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے فیصلے کو بنا لیا گیا اور یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ جیسے ساری خرابیوں کا منبع کمیٹی کا موجودہ ڈھانچہ اور خاص طور پر اس کے سربراہ مولانا مفتی منیب الرحمن کی ذات ہے۔
اجتماعیت اور قومی وحدت کسی بھی قوم کے لیے اللہ کی بہت بڑی نعمت بھی ہے اور عزت وسرفرازی کی علامت بھی، لیکن اس نعمت کا حق دار وہی قوم ہوتی ہے جس کے ذمہ دار طبقات اپنے اندر کچھ مخصوص رویوں اور اخلاقیات کو پیدا کر لیں۔ ان میں سب سے بنیادی اخلاقی اصول یہ ہے کہ اختلاف رائے کے مواقع پر اختلاف کے اظہار کے باوجود عملاً وحدت اور اجتماعیت کو قائم رکھا جائے اور کوئی گروہ اپنی رائے کے تسلیم نہ کیے جانے کو بہانہ بنا کر کوئی الگ راستہ اختیار نہ کرے کہ یہی چیز تفرقہ اور انتشار کے پیدا ہونے کی بنیاد بن جاتی ہے۔ صحابہ وتابعین کے ہاں ہمیں اس کی بڑی روشن مثالیں ملتی ہیں۔ مثال کے طور پر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے جب اپنے عہد خلافت میں حج کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور پہلے خلفاء کے معمول کے برعکس منیٰ میں ظہر اور عصر کی چار رکعتیں ادا کرنا شروع کر دیں تو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان پر سخت تنقید کی اور کہا کہ ’’میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی منیٰ میں دو رکعتیں پڑھی ہیں اور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ بھی دو دو رکعتیں ہی پڑھی ہیں۔ پھر تم لوگوں کے راستے الگ الگ ہو گئے۔ مجھے تو یہی پسند ہے کہ میں چار رکعتوں کی جگہ دو رکعتیں ادا کروں جو (اللہ کے ہاں) قبول ہو جائیں۔‘‘ اس کے باوجود جب نماز کا وقت ہوا تو انھوں نے سب لوگوں کے ساتھ سیدنا عثمان کے پیچھے منیٰ میں چار رکعتیں ہی ادا کیں۔ لوگوں نے ان سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ افتراق پیدا کرنا شر کی بات ہے۔ (سنن ابی داود، حدیث نمبر ۱۹۶۰) جلیل القدر تابعی امام شعبی سے منقول ہے کہ انھوں نے اس دن کے متعلق جس کے بارے میں لوگ کہتے ہوں کہ یہ رمضان کا پہلا دن ہے (لیکن ارباب حل وعقد کی طرف سے اس کا اعلان نہ کیا گیا ہو)، کہا کہ تم حکمران کے فیصلے سے ہٹ کر ہرگز روزہ نہ رکھنا، کیونکہ (مسلمانوں میں) تفریق کی ابتدا اسی جیسے معاملات سے ہوئی تھی۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث نمبر ۹۵۹۸)
ہمارے ہاں رؤیت ہلال کے حوالے سے اس اجتماعی اصول کی پامالی نے ایک مستقل اور طے شدہ پالیسی کی شکل اختیار کر لی ہے جس کا مظاہرہ کم وبیش ہر عید کے موقع پر کیا جاتا ہے۔ فرض کر لیجیے کہ مرکزی کمیٹی کسی موقع پر چاند کے حوالے سے غلط فیصلہ کر لیتی ہے۔ اس کے باوجود دین کی تعلیمات کا تقاضا یہی ہے کہ اس کے فیصلے کی پابندی کی جائے اور ایک اجتماعی معاملے میں اس نوعیت کے اختلاف کو افتراق پیدا کرنے کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔ ویسے بھی اصولی طور پر چاند کے دکھائی دینے یا نہ دینے کے فیصلے کا اختیار مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے پاس ہے اور صوبائی کمیٹیاں اس کی معاونت کے علاوہ چاند کی رؤیت کا اعلان کرنے کا کوئی مستقل اختیار نہیں رکھتیں۔ اس لحاظ سے کسی بھی صوبے کی رؤیت ہلال کمیٹی کی طرف سے ایسا کوئی فیصلہ کیا جانا اجتماعیت کے مذکورہ اصول کی پامالی کے علاوہ اپنے دائرۂ اختیار سے تجاوز کی بھی ایک افسوس ناک مثال ہے۔
اجتماعیت کا دوسرا بنیادی اصول یہ ہے کہ جب کسی شخص کو کسی قومی منصب پر فائز کر دیا جائے اور اسے اس منصب سے متعلق ذمہ داریوں کے دائرے میں فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیا جائے تو شخصی ناپسندیدگی، طبقاتی پس منظر، ذاتی جھگڑوں یا فکری ونظریاتی اختلافات کی وجہ سے اس کے فیصلوں کو قبول کرنے سے گریز کی راہیں تلاش نہ کی جائیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اجتماعیت کے اس اصول کی تعلیم ان الفاظ میں دی تھی کہ اگر تم پر کسی نک کٹے حبشی غلام کو بھی، جس کا سر کشمش کے دانے کی طرح چھوٹا سا اور سکڑا ہوا ہو، امیر مقرر کر دیا جائے تو تم اس کی بات سننا اور سر تسلیم خم کر دینا۔ ہمارے ہاں اس اصول کی خلاف ورزی بھی ایک اجتماعی ’شعار‘ کا درجہ رکھتی ہے۔ سیاسی ومسلکی تعصبات کی موجودہ صورت حال میں رؤیت ہلال کمیٹی کی سربراہی اور اس طرح کے دیگر سرکاری عہدوں نے مختلف مسالک اور فرقوں کے مابین ایک مستقل استخوان نزاع کی شکل اختیار کر لی ہے اور کسی ایک مسلک سے تعلق رکھنے والی شخصیت ایسے کسی عہدے پر رونق افروز ہوتی ہے تو دوسرے مسالک کے لوگوں کو یہ بات اچھی نہیں لگتی اور ان کی طرف سے کسی نہ کسی حوالے سے نکتہ چینی اور تنقید کا مشغلہ اختیار کر لیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے بین المسالک تعلقات میں تناؤ بھی بڑھتا ہے اور علما کا عمومی وقار بھی معاشرے کی نظروں میں مجروح ہوتا ہے۔ 
مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کا قیام سنجیدہ دینی حلقوں کے تقاضے پر عمل میں لایا گیا تھا جس کا مقصد ملک بھر میں رؤیت ہلال کے علاقائی پرائیویٹ حلقوں کے نظام سے پیدا شدہ ملک گیر خلفشار کو ختم کرنا اور مرکزیت پیدا کرنا تھا، کیونکہ اس سے قبل ملک کے کم وبیش ہر بڑے شہر میں یہی صورت حال ہوتی تھی جو اب خیبر پختون خواہ کے بعض علاقوں میں پائی جاتی ہے۔ افسوس ہے کہ جو نظام خود دینی حلقوں کے تقاضے پر اور ان کی کوششوں سے ملک میں وحدت اور اجتماعیت پیدا کرنے کے لیے بنایا گیا تھا، دینی حلقوں ہی کے غیر متوازن رویوں کی وجہ سے اس کی افادیت پر سوالیہ نشان کھڑا ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارے نزدیک اس صورت حال سے یہ بنیادی حقیقت بھی سمجھی جا سکتی ہے کہ ہمارے ہاں قومی سطح پر پائے جانے والے ہمہ گیر بگاڑ کی اصلاح درحقیقت مختلف قسم کے ’’قومی فورم‘‘ یا ’’اجتماعی ادارے‘‘ بنانے سے نہیں، بلکہ اخلاقی اصولوں کی پاس داری کے حوالے سے قوم کی تربیت کرنے سے ہی ہو سکتی ہے، اس لیے کہ فکر اور مزاج کی درست تربیت کے بغیر اس نوعیت کی ہر کوشش اسی انجام سے دوچار ہوگی جو مثال کے طور پر ہم مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے حوالے سے اس وقت دیکھ رہے ہیں۔
پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ قوموں میں اجتماعی رویے محض وعظ وتلقین سے پیدا نہیں ہوتے۔ اس کے لیے ذمہ دار اور مقتدر طبقات کو اپنے عمل سے اس کی مثال پیش کرنی پڑتی ہے اور سب سے پہلے خود ان رویوں اور اخلاقی اصولوں کی پابندی کا مجسم نمونہ بننا پڑتا ہے۔ اس کی ذمہ داری سب سے بڑ ھ کر اہل مذہب پر عائد ہوتی ہے، اس لیے کہ قوم اپنی مذہبی واخلاقی تربیت کے لیے سب سے زیادہ انھی سے کردار ادا کرنے کی توقع رکھتی ہے اور اس منصب کے مدعی بھی سب سے بڑھ کر وہی ہیں۔ انھیں محسوس کرنا ہوگا کہ اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے انھیں اپنے قول وعمل کے تضاد کو دور کرنا ہوگا اور جن اخلاقی اصولوں کی پاس داری کی وہ دن رات ساری قوم کو تلقین کرتے ہیں، اپنے طرز عمل سے بھی ان کی پاس داری کا یقین دلانا ہوگا، اس لیے کہ:
گر یہ نہیں ہے بابا، پھر سب کہانیاں ہیں

توہین مذہب کا تازہ واقعہ۔ توجہ طلب امور

اسلام آباد کے نواحی علاقے سے تعلق رکھنے والی ایک مسیحی لڑکی کی طرف سے مبینہ طو رپر قرآن مجید کے اوراق جلائے جانے کے واقعے نے ایک بار پھر توہین رسالت کے قانون اور اس کے منفی استعمال کو ملکی وغیر ملکی میڈیا میں موضوع بحث بنا دیا ہے۔ ابتدائی اخباری اطلاعات (۲۰؍ اگست) کے مطابق مسلمانوں کے ایک ہجوم کی طرف سے ملزمہ کے گھر کے گھیراؤ کرنے اور اس پر قرآن مجید کے اوراق جلانے کا الزام عائد کرنے پر پولیس نے لڑکی اور اس کے والدین کو اپنی کسٹڈی میں لے لیا ہے اور صدر آصف علی زرداری کی خصوصی ہدایت پر اس ضمن میں تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔
توہین رسالت یا توہین قرآن کا ارتکاب کرنے والے کسی شخص کو کیا سزا دی جانی چاہیے اور کیا اس نوعیت کے ہر مجرم کے ساتھ ایک ہی انداز کا معاملہ کیا جانا چاہیے؟ یہ ایک الگ بحث ہے اور اس ضمن میں کچھ عرصہ قبل اخبارات وجرائد میں تفصیلی علمی بحثیں شائع ہو چکی ہیں۔ اسی طرح اس سوال کو بھی سردست ایک طرف رکھ دیجیے کہ اسلامی شعائر کے تحفظ واحترام کے تناظر میں کیا یہ رویہ ازروئے حکمت مناسب ہے کہ کسی بھی کونے کھدرے میں رونما ہونے والے ہر واقعے کو مسلمان ازخود منظر عام پر لاتے ہوئے اس کی تشہیر کریں اور جس واقعے کی منفی تاثیر ایک مضافاتی علاقے کی کسی گلی تک محدود تھی، اس کو بڑھا چڑھا کر بین الاقوامی میڈیا کا موضوع بحث بنا دیں؟ ان دونوں سوالوں سے صرف نظر کرتے ہوئے سردست توہین قرآن کے اس تازہ واقعے کے حوالے سے اخباری رپورٹوں کی روشنی میں تین امور ہیں جن کی تحقیق قانون کے مطابق مقدمے کے اندراج اور اس پر عدالتی کارروائی کے لیے بالکل غیر جانب دارانہ طو رپر ضروری ہے:
سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ کیا واقعتا قرآن مجید کے اوراق جلائے گئے ہیں؟ ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق ایک مقامی پولیس افسر قاسم نیازی کا کہنا ہے کہ جب لڑکی کو تھانے میں لایا گیا تو اس کے پاس موجود ایک شاپنگ بیگ میں جزوی طو رپر جلے ہوئے مذہبی نوعیت کے کچھ دوسرے اوراق تو موجود تھے، لیکن ان میں قرآن مجید کے اوراق شامل نہیں تھے۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر واقعے میں جتنی سنگینی پائی جاتی ہے، اس کو اسی حد تک محدود رکھنا ملکی قانون اور اسلامی فقہ، دونوں کی رو سے واجب ہے۔
دوسری چیز یہ ہے کہ کیا ملزمہ کی ذہنی حالت درست ہے اور کیا شرعی، اخلاقی اور قانونی طو رپر اس پر قانون کا نفاذ کیا جا سکتا ہے؟ یہ اس لیے ضروری ہے کہ لڑکی کے والدین کے بیان کے مطابق وہ ذہنی طو رپر بیمار اور ایک مخصوص دماغی بیماری کا شکار ہے۔ یہ دعویٰ خلاف واقعہ ہو سکتا ہے، لیکن قانون کے منصفانہ نفاذ کے لیے اس پہلو کی غیر جانب دارانہ تحقیق بہرحال ضروری ہے۔
تیسری چیز ملزمہ کی عمر کا مسئلہ ہے۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق ملزمہ مبینہ طور پر نوعمر ہے اور اس کی عمر گیارہ سے سولہ سال کے درمیان ہے۔ اگر واقعتا ایسا ہے تو اس کے خلاف مقدمہ چلاتے ہوئے پاکستان کے قانون کے مطابق اس کی عمر کا لحاظ رکھنا اور بالغ اور نابالغ مجرم کے مابین جس فرق کو دنیا کا ہر قانون ملحوظ رکھتا ہے، اس کو پیش نظر رکھنا ضروری ہوگا۔
ان تینوں باتوں کی تحقیق نفاذ قانون کی بنیادی شرائط میں سے ہے اور ان کو نظر انداز کرتے ہوئے اگر محض عوامی جذبات یا مذہبی طبقات کے سیاسی دباؤ کو اس معاملے میں اصل فیصلہ کن عامل کا درجہ دیا جائے گا تو یہ قانون اور انصاف کا خون کرنے کے مترادف ہوگا جو پاکستان کے عمومی حالات کے لحاظ سے کوئی نادر الوقوع چیز نہیں۔
ایک مسلمان ریاست میں توہین رسالت یا توہین قرآن پر سزا کے قانون کا موجود ہونا اور جو مجرم فی الواقع سزا کے مستحق ہوں، ان پر اس قانون کا نافذ ہونا ہمارے نزدیک اسلام، جمہوریت اور عقل عام، تینوں کا ایک بدیہی تقاضا ہے، لیکن اسلام اور عمومی اخلاقیات کا اس سے بھی بڑھ کر تقاضا یہ ہے کہ اس قانون کا نفاذ نہایت منصفانہ، غیر جانب دارانہ اور کتاب قانون میں درج شرائط اور ضوابط کے مطابق ہو اور اس میں مذہبی تعصب، فرقہ واریت اور خاص طور پر اقلیتی گروہوں کے احساس تحفظ کو ناروا طور پر مجروح کرنے کا عنصر کسی بھی درجے میں نہ پایا جائے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں نفاذ قانون کی اخلاقیات کے حوالے سے عمومی مذہبی ومعاشرتی رویے اس کے بالکل برعکس ہیں اور میں یہ بات نہایت ذمہ داری کے ساتھ عرض کر رہا ہوں کہ اس نوعیت کے مقدمات کی ایک بڑی تعداد کے پیچھے اصل عوامل اور محرکات وہی ہوتے ہیں جن کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق پاکستان میں توہین رسالت کے قانون کے تحت اب تک جن افراد کے خلاف مقدمہ چلایا گیا ہے، ان میں سے نصف سے زیادہ مقدمات میں ملزم غیر مسلم نہیں بلکہ مسلمان ہیں، جبکہ یہ سامنے کی بات ہے کہ کوئی مسلمان، اسلام پر قائم ہوتے ہوئے بقائمی ہوش وحواس اس جرم کا ارتکاب نہیں کر سکتا۔ ایسے مقدمات عام طو رپر یا تو کسی ایک فرقے سے وابستہ لوگوں کی طرف سے اپنے مخصوص عقائد پر تنقید کی بنیاد پر مخالف فرقے کے کسی فرد کے خلاف درج کرائے گئے ہیں (مثلاً ایک واقعے میں دیوار پر لکھے ہوئے ’’یا رسول اللہ‘‘ کے الفاظ میں سے ’’یا‘‘ کا لفظ مٹا دینے پر توہین رسالت کا مقدمہ درج کروا دیا گیا، جبکہ ایک دوسرے مقدمے میں مدعی نے کہا کہ ملزم نے میلاد مصطفی کانفرنس کا پوسٹر پھاڑا ہے جو کہ توہین رسالت ہے) اور یا کسی ذاتی یا گروہی عناد اور مخاصمت کو مذہبی رنگ دیتے ہوئے مخالفین پر توہین رسالت کا الزام عائد کر دیا گیا ہے۔ بعض دینی حلقوں بالخصوص اہل حدیث مکتب فکر کی مختلف جماعتوں کی طرف سے ان تحفظات کا اظہار بھی ہو چکا ہے کہ مسلکی اختلافات کی بنیاد پر توہین رسالت کے متعدد مقدمات درج کرائے گئے ہیں اور ان میں بہت سے لوگوں کو مقدمات اور دار وگیر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے واقعات بھی موجود ہیں جن میں ملزم کی ذہنی حالت درست نہیں، لیکن نہ تو مدعی اس پہلو کا لحاظ کرنے پر آمادہ ہیں اور نہ عدالتیں ہی عوامی دباؤ کو نظر انداز کرتے ہوئے خالص قانونی بنیادوں پر مقدمے کو نمٹانے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔
غیر مسلموں کے خلاف توہین مذہب کے مقدمات کا معاملہ اس سے بھی زیادہ نازک ہے، کیونکہ اگر کسی مسلمان فرقے سے تعلق رکھنے والے کسی فرد پر یہ الزام عائد کیا جائے تو اس کی معاشرتی حیثیت اور اثر ورسوخ کے لحاظ سے اسے اپنے طبقے کی طرف سے حمایت اور دفاع کی کچھ نہ کچھ سہولت میسر آہی جاتی ہے، لیکن الزام کسی غیر مسلم پر عائد کیا گیا ہو تو گویا پورا معاشرہ مدعی کی جگہ پر آ کھڑا ہوتا ہے اور بپھرے ہوئے ہجوم عام طو رپر ایسے مواقع پر الزام کی منصفانہ تحقیق اور ملزم کو کسی قسم کی صفائی کا موقع دینے کے بجائے اسی کو اپنے دین وایمان اور مذہبی حمیت کا تقاضا سمجھتے ہیں کہ قانون کو خود ہاتھ میں لے کر بر سر موقع ’’مجرم‘‘ کو نمونہ عبرت بنا دیں۔ 
یہ صورت حال بے حد افسوس ناک ہے اور اس سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ مذہبی طبقات کی طرف سے اس رجحان کی روک تھام کے لیے جس قدر کوشش کی ضرورت ہے، اس کی ادنیٰ خواہش بھی ان کے ہاں دکھائی نہیں دیتی۔ اس کے نتیجے میں غیر مسلم اقلیتیں، جو اصولی طورپر توہین رسالت پر سخت سزا کے قانون کے خلاف نہیں اور ان کے اعلیٰ سطحی ذمہ دار راہ نما اپنا یہ موقف برملا ظاہر کر چکے ہیں، جب کسی مشکل سے دوچار ہوتی ہیں تو انھیں اپنے حق میں آواز اٹھانے کے لیے مذہبی راہ نما اور علما نہیں، بلکہ غیر مذہبی قائدین ہی میسر آتے ہیں۔ اس صورت حال میں مسیحی راہ نماؤں کا یہ سوال اپنے اندر بے حد وزن رکھتا ہے کہ اگر مسلمانوں کے مذہبی راہ نما خود اپنے پیروکاروں کے طرز عمل کو حدود کا پابند رکھنے کی عملی ذمہ داری اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تو وہ مسیحی اقلیت سے یہ مطالبہ کس منہ سے کرتے ہیں کہ وہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے سیکولر لابیوں کی مہم کو تقویت پہنچانے کے بجائے اپنا وزن اسلام پسندوں کے پلڑے میں ڈال دیں؟
توہین رسالت پر سزا کا مسئلہ اس وقت مغرب اور مغرب سے متاثر فکری طبقات کا خاص ہدف ہے۔ ان کی طرف سے اس قانون کی مخالفت کی بنیادیں فکری اور نظریاتی ہیں، لیکن اس کے خلاف استدلال کے لیے عام طو رپر اس قانون کے غلط اور جانب دارانہ استعمال کی مثالوں کو نمایاں کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے عمومی مذہبی ومعاشرتی رویے اس استدلال کو جواز بھی فراہم کر رہے ہیں اور مسلسل تقویت بھی پہنچا رہے ہیں۔ میں اپنی نجی مجالس میں کئی دفعہ یہ عرض کر چکا ہوں کہ ہمارے ہاں جس بے دردی سے کسی بھی شخص پر توہین رسالت کا الزام عائد کر دینے کا رجحان فروغ پذیر ہے، اس کے نتیجے میں بعید نہیں کہ کچھ عرصے کے بعد خود مذہبی طبقات اور مذہب سے مخلصانہ وابستگی رکھنے والے عوام بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں کہ اس صورت حال کے مقابلے میں تو اس قانون کو ختم یاعملاً معطل کر دینا ہی باعث عافیت ہے۔ اگر نوبت یہاں تک پہنچتی ہے تو میں بلا خوف لومۃ لائم یہ کہوں گا کہ اس کی بنیادی ذمہ داری خود اہل مذہب کے غیر متوازن رویوں پر عائد ہوگی، چاہے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دینے کے لیے اسے ’’دشمنان اسلام کی سازش‘‘ کا پرفریب عنوان دے دیا جائے۔ 


دعائے صحت کی اپیل

پاکستان شریعت کونسل کے نائب امیر اور ملک کے ممتاز عالم اور محقق حضرت مولانا قاضی رویس خان ایوبی (میر پور، آزاد کشمیر) کچھ عرصہ قبل دماغ کی نس پھٹنے کی وجہ سے علیل اور صاحب فراش ہیں۔ 
جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے مہتمم اور استاذِ حدیث مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی نے بھی گزشتہ دنوں پتے کا آپریشن کروایا ہے اور بستر علالت پر ہیں۔
قارئین سے درخواست ہے کہ ان حضرات کے لیے خصوصی طور پر اور ان کے علاوہ تمام بیماروں کے لیے عمومی طور پردعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انھیں صحت کاملہ وعاجلہ سے نوازیں۔ آمین

سرمایہ دارانہ انفرادیت کا حال اور مقام (۳)

محمد زاہد صدیق مغل

جاوید اکبر انصاری / زاہد صدیق مغل 

۳۔ اصلاح انفرادیت کے اسلامی کام کی نوعیت 

یاد رہنا چاہیے کہ مغربی فرد کے اضطرار کی بنیاد گناہ سے آگاہی ہے۔ یعنی اللہ تعالی نے انسان کو عبد پیدا کیا ہے اور جب وہ عبدیت سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو درحقیقت اپنی اصل اور فطرت سے لڑتا ہے اور نتیجتاً ہر وقت اضطرار اور گناہ کے احساس سے معمور رہتاہے اور گناہ پر مطمئن ہونے کے لیے لغو تعبیریں تلاش کرکے خود کو دھوکا دیتا ہے۔ گناہ سے چھٹکارا اس وقت ممکن ہے جب انسان عبدیت کی نیت کرے، اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا اور گناہ معاف کردیتا ہے۔ اس کے دل کو اضطرار سے نجات دلا کر اطمینان کی دولت سے نوازتا ہے۔ حقیقت نفس کی آگاہی انسان کو عبدیت پر راضی کرتی ہے۔ لہذا تعمیر شخصیت میں کرنے کا سب سے پہلا کام نیتوں کو ٹھیک کرنے کا ہے یعنی فرد کی نیت حصول رضائے الہی کے سواء اور کچھ نہ رہے اور وہ ہر کام اور فیصلے کو اس بنیاد پر جانچے کہ اس کے نتیجے میں اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے یا نہیں۔ پھر محض نیت ٹھیک ہونے سے انسان اللہ کی رضا حاصل کرنے کے قابل نہیں ہوجاتا بلکہ نیت کے ساتھ ساتھ اس کو اپنے حال کو بھی ٹھیک کرنا ہے۔ حال کو ٹھیک کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر معاملے میں اتباع سنت کی جائے۔ فرد اپنی ذاتی زندگی میں وہ پیمانے مقرر کرے کہ ہر چھوٹے سے چھوٹے عمل سے لیکر بڑے سے بڑے عمل تک اپنے محبوب نبیﷺ کی اتباع کرے۔ ہر شخص کا حال اتنا ہی ٹھیک ہے جتنا وہ اتباع سنت کرتا ہے اور جو اتباع سنت سے جتنا دور ہے اس کا حال اتنا ہی خراب ہے ، ممکن ہے اس کی نیت ٹھیک ہو۔ گویا ہم چاہتے ہیں کہ فرد کی محض خواہش ہی نہ ہو کہ وہ اللہ کی رضا حاصل کرنا چاہتا ہے بلکہ وہ افعال بھی انجام دے ۔ وہ آپﷺ کی زندگی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالے اور آپﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کا خواہش مند ہوجائے(۲۴) ۔ دھیان رہے کہ حال سے ہماری مراد ظاہری اعمال اور احوال قلب دونوں ہیں کیونکہ احساس قلبی کیفیات اور جسمانی کیفیات دونوں کے تعلق کو بیان کرتا ہے۔ جس طرح قلبی میلانات انسان کے ظاہر پر اثر انداز ہوتے ہیں اسی طرح جسمانی اعمال بھی قلبی احوال پیدا کرنے میں مدد گار ہوتے ہیں، الغرض دونوں کا تعلق نہایت پیچیدہ اور پہلو دار ہے۔ البتہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ قلبی کیفیات کی تشکیل میں جسمانی کیفیات کے علاوہ دیگر ماورائے جسم ذرائع کا بھی اہم کردار ہے۔ رویائے صادقہ کا ورود عموماً باوضو اجسام پر ہوتا ہے لیکن باوضو ہونا رویائے صادقہ کے لیے نہ تو ضروری ہے اور نہ ہی کافی۔ احساسات کو سمجھنے کے لیے محض بدنی، ماحولیاتی اور دیگر مادی حالات کا سمجھنا کافی نہیں بلکہ اس کے لیے تعلقات استوار کرکے ذات میں شرکت کرنا لازم ہے۔ تو دعوت اولاً نیت کو ٹھیک کرتی ہے اور اس کی بنیاد پر حال کو راہ راست پر لاتی ہے۔ 
جب یہ حال کو ٹھیک کرتی ہے تو انسان کو اس بات کے لیے تیار کردیتی ہے کہ وہ کائنات میں اپنے مقام کی پہچان (appreciate) کر کے معرفت حاصل کرلے ، یعنی یہ کہ وہ یہاں کس آزمائش میں رکھا گیا ہے اور اس کی حقیقی پوزیشن کیا ہے۔ وہ یہ ’محسوس کرنے ‘ لگے کہ اللہ تعالی کے ساتھ اس کے تعلق کی نوعیت کیا ہے، دوسرے بندوں کے ساتھ اس کا تعلق کیا ہے اور اس کائنات کے ساتھ اس کا معاملہ کیا ہونا چاہیے۔ یاد رہے جب تک حال ٹھیک نہیں ہوگا وہ قلبی کیفیات اور تناظر (perspective) قائم نہیں ہوسکے گا جسکے نتیجے میں انسان اپنے مقام کو پہچان کر اسپر راضی ہوجائے۔ جس شخص کا قلب گناہوں کا اثیر ہو وہ اپنے مقام کو نہیں پہچان سکتا۔ حدیث شریف میں بیان ہوا کہ جو شخص گناہ کرتا ہے تو اس کے قلب پر ایک سیاہ دھبہ لگا دیا جاتا ہے، اگر وہ توبہ کرکے اپنے حال کو درست کرلے تو اسے مٹا دیا جاتا ہے اور اگر وہ گناہوں کی روش برقرار رکھے تو آہستہ آہستہ اس کا سارادل سیاہ ہوجاتا ہے اور اس شخص سے توبہ کی توفیق سلب کرلی جاتی ہے۔ پس ادراک حقیقت کے لیے گناہوں سے توبہ کرکے حال کی درستگی لازم ہے۔ خود قرآن نے کہا کہ میں ھدی للمتقین  ہوں۔ جب انسان اپنا مقام پہچان لیتا ہے تو اس کے اندر شہوت و غضب کے خبیث میلانات کم یا ختم ہو جاتے ہیں (اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کس کا حال کتنا درست ہوا)۔ جب انسان اپنے اصل مقام کو پہچان لیتا ہے کہ وہ اللہ کا بندہ ہے، اس کی مرضی کو قبول کرنا اور اسے نافذ کرنا اس کا مقصد ہے ، اپنے نفس کو تابع بنا کر خود کو اللہ کے سپرد کردیتا ہے، اپنی تمام قوتوں کو خواہشات کی تسکین کے لیے صرف نہیں کرتا یعنی اپنے آپ کو خدا بنانے کی کوشش ترک کردیتا ہے اور اپنے مقام پر راضی ہوجاتا ہے تو شہوت و غضب جو عبدیت کو رد کرنے اور اسے خدا بنانے کے ہتھیار ہیں ان کے لیے اس کے دل میں کراہیت پیدا ہوجاتی ہے اور اس کے میلانات تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو فرد کا حال ٹھیک نہیں ہے اور اہل دعوت و دل اسی بنیاد پر انسان کو چانچتے ہیں کہ اسمیں کس حد تک اپنے مقام پر راضی رہنے کی صلاحیت موجود ہے نیز کس حد تک اس کے اندر لذات کی رغبت موجود ہے۔ شیوخ فرد کی تربیت اسی بنیاد پر کرتے ہیں کہ وہ غضب اور شہوت کو ترک کرکے عبدیت کو چاہے جس کی شکل عشق ہے (۲۵) ۔ تو خوب دھیان رہے کہ مقام کو پہچاننا صرف کوئی فکری (intellectual) چیز نہیں ہے بلکہ یہ ایک فطری و قلبی چیز ہے، یہ ظاہر کا نہیں ہے بلکہ اندرون کا معاملہ ہے۔ اس کے ادراک کے لیے یہ کوشش کار آمد نہیں ہوسکتی کہ داعی کوئی منطقی دلیل دے کر یہ ثابت کردے کہ اللہ رب ہے اور میں اس کا بندہ ہوں یا یہ کہ کائنات مخلوق ہے، بلکہ یہاں تو معاملہ فرد کے اندر جذبات اور احساسات کا ہے کہ وہ رزائل کو دور کرکے عبدیت پر راضی ہوجائے۔ کتنی ہی اسلامی تحریکات ہیں جو لوگوں کے قلوب تک پہنچنے کے بجائے محض عقلی تقریر وں کی بنیاد پر ان کے مقام کو درست کرنے کی ناکام سعی کرتی ہیں۔ آخر کیا راز ہے کہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت باوجود عقلی مسلمان ہونے کہ اسلام میں داخل نہیں ہوپاتی؟ 
جب انسان کی یہ کیفیت ہوتی ہے کہ وہ اپنا مقام پہچان کر اس میں بلندی حاصل کرلے تو وہ مشاہدے کے قابل ہوجاتا ہے کہ جو کچھ اس کے حواس کے سامنے پیش آئے اور جو کچھ اس کے قلب پر وارد ہو اس سے صحیح نتائج اخذ کرسکے۔ جب تک اس کے اندر عبدیت اور ربوبیت کو قبول کرنے اور اسپر راضی ہونے کی کیفیت نہیں ہوگی تو اس کا زاویہ نگاہ (vision) اور تناظر ٹھیک نہیں ہوگا۔ ایسا اس لیے کہ اصل میں تو وہ عبد ہے مگر جب رب کا بندہ بننے کی خواہش نہ ہوگی تو جس چیز کا بھی وہ مشاہدہ کرے گا غلط مقام و نقطہ نگاہ (distorted vision)سے دیکھے گا اور نتیجتاً اس کی حقیقت تک رسائی حاصل نہ کرسکے گا۔ مگر جب اس کے ادراک کامقام درست ہوگا تو وہ معروضیت یعنی objectivity (چیزوں کو جیسی وہ ہیں ویسی دیکھنے) کے لائق ہوجاتا ہے کیونکہ شہوت وغضب کو رد کرکے وہ اس مقام سے دیکھنے لگتا ہے جو اس کا اصل مقام ہے۔ جب قلب شہوت و غضب سے پاک اور عشق الہی سے معمور ہو تو ایسے شفاف آئینے کی مانند ہوجاتا ہے جہاں انوار الٰہی منعکس ہوتے ہیں ۔ 
حدیث شریف میں ارشاد فرمایاگیا کہ ’بندۂ مومن اللہ کے نور سے دیکھتا ہے‘، ایسا قلب ادراک حقیقت کے قابل ہوجاتا ہے اور اسی کو معروضیت کہتے ہیں۔ حدیث شریف میں بیان ہوا کہ جب بندہ مومن فرائض اور نوافل پر استقامت اختیار کرکے اپنے رب کا قر ب اختیار کرتا ہے تو پھر اللہ تعالی اس کی آنکھ بن جاتا ہے جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے کان بن جاتا ہے جس سے وہ سنتا ہے۔ خوب سن لو کہ معروضیت کی بلند ترین سطح یہی ہے کہ انسان پوری طرح خدائی تناظر (perspective) میں آجائے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا: فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنْ یَّہْدِیَہُ یَشْرَحْ صَدْرَہُ لِلْاِسْلاَمِ  (اللہ تعالی جس شخص کو راہ راست دکھانا چاہتا ہے تو اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے)۔ رسول اللہﷺ سے سوال کیا گیا کہ شرح صدر سے کیا مراد ہے تو آپ نے فرمایا کہ اس سے مراد وہ نور ہے جو اللہ تعالی دل میں ڈالتا ہے اور جب پوچھا گیا کہ اس کی علامت کیا ہے تو حبیب خداﷺ نے فرمایا ’اس دار غرور سے کنارہ کشی اور ہمیشہ رہنے والے گھر کی طرف رجوع اختیار کرنا‘۔ قرآن میں ارشاد ہوا: یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا (انفال: ۲۹) ’اے ایمان والو اگر تم خدا خوفی اختیار کرو گے تو اللہ تمہیں ایک کسوٹی فراہم کردے گا (جسکے ذریعے تم حق و باطل میں تمیز کرسکوگے )‘۔ جان لو تقوی و زہد ہی معروضیت ہیں ، بجز تقوی اور نفس کشی کے ادراک حقیقت اور سعادت اخروی کی امید نہیں کی جاسکتی۔ 
وہ لوگ جو اللہ ہی کے لیے ہو لیتے ہیں امام ابو نصر سراج طوسیؒ نے ان کے بالترتیب سات مقامات بیان فرمائے ہیں: (ا) مقام توبہ (۲) مقام ورع (۳) مقام زھد (۴) مقام فقر (۵) مقام صبر (۶) مقام توکل اور (۷) مقام رضا (۲۶) ۔ انہی مقامات کے ادراک میں درجات بلند کرکے بندہ مومن ادراک حقیقت کے لائق ہوتا چلا جاتا ہے۔ پس جسکا حال اور مقام جتنا بلند ہوتا ہے اس کا مشاہدہ بھی اتنا ہی معروضی اور درست ہوتا ہے۔ معروضیت قلب کو غضب و شہوت سے پاک کرکے اسے انوار الہی کا مسکن بنانے سے حاصل ہوتی ہے، عقلیت دماغی کے استعمال اور فروغ سے حاصل نہیں ہوتی۔ جو قلب طاہر نہیں وہ حقیقت کا شناسا نہیں ہوسکتا اور اس کا غضب و شہوت اس کے احساس پر غالب ہوتے ہیں۔ قرآن مجید میں کفار کے بارے میں ارشاد ہوا : بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوبِہِمْ مَّا کَانُوا یَکْسِبُونَ  (دراصل ان کے قلوب پر ان کے گناہوں کے سبب زنگ چڑھ گیا ہے)۔ چونکہ ایسے شخص کا حال درست نہیں لہذا وہ کائنات میں اپنے مقام سے نہ آگاہ ہوسکتا ہے اور نہ مطمئن۔ ایسا شخص حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ وہ اپنی کائنات تخلیق کرنا چاہتا ہے، ایک ایسی کائنات جو اس کی خودی (شہوت و غضب) کا اظہار بن سکے ۔ خود اظہاری (self-expression) کی اسی جستجو کو subjectivity (یعنی چیزوں کو اپنی ذات کی عینک سے دیکھنا) کہتے ہیں۔ خود اظہاری یا نفس پرستی کی یہ جستجو قلب اور حقیقت کے درمیان ایسے تاریک پردے حائل کردیتی ہے کہ انسان کو کائنات کی ہر شے میں اپنی ذات کا پرتو نظر آتا ہے۔ ایسا شخص ہر چیز کو ذاتی تناظر میں (subjectively) دیکھے گا، یعنی جو چیزیں اس کے مشاہدے میں آرہی ہیں کس طرح اس کے غضب یا شہوت کی تسکین کا باعث بن سکتی ہیں۔ معروضیت درحقیقت فنا (تمام خواہشات کو ختم کرکے نفس مطمئنہ کا درجہ حاصل کرلینے) کا دوسرا نام ہے۔ چونکہ فی الواقعہ انسان عبد ہے اس لیے اس subjectivity میں ہی objectivity ہے اس لیے کہ حقیقت یہی ہے اور فرد خود کو اس پوزیشن میں لے آتا ہے جو اس کا اصل میں حق مقام ہے۔ اسی لیے اللہ کا ایک نام حق بھی ہے اور ہم عبد الحق ہیں۔ یاد رکھو عقلیت دماغی عقلیت قلب کے ماتحت ہے۔ اگر قلب شہوت و غضب سے مغلوب ہے تو عقلیت دماغی شہوت و غضب کے فروغ کے طریقوں کی نشاندہی کرے گی۔ عقلیت دماغ کے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں جس کی مدد سے قلب کو شہوت و غضب سے پاک کیا جا سکے۔ سترہویں صدی سے لیکر آج تک کی مغربی تاریخ اسی بات کی تصدیق کرتی ہے کہ وہاں عقلیت دماغی کو شہوت و غضب کی تسکین و فروغ کا ذریعہ بنایا گیا ہے (۲۷) ۔ 
دھیان رہے کہ یہ جو غیر جانبدار (neutral) ہونے کی دعوت دی جاتی ہے محض فریب اور جھوٹ ہے، اس دنیا میں ایسا کوئی مقام نہیں جہاں پہنچ کر انسان غیر جانبدار ہوجائے۔ یہ جو کہتے ہیں کہ ’تم مسلمان کے بجائے غیر جانبدار ہو کر غور کرو ‘ یہ نری جہالت ہے، کیا اسلا م سے باہر نکل کر انسان کافر ہوتا ہے یا غیر جانبدار ؟ کیا کفر بذات خود ایک جانبدارانہ مقام نہیں؟ ائمہ علم الکلام نے جو ’ المنزلۃ بین المنزلتین‘ (۲۸) کے عقیدے کی بیخ کنی فرما ئی یہ اسی گمراہی سے امت کو بچانے کے لیے فرمائی۔ عبدیت سے باہر نکل کر انسانی عقل غیر جانبدار نہیں بلکہ خواہشات اور شیاطین کی غلام ہو جاتی ہے جیسا کہ ارشاد ہوا : فَاِن لَّمْ یَسْتَجِیبُوا لَکَ فَاعْلَمْ اَنَّمَا یَتَّبِعُونَ اَھْوَاءَہُمْ وَمَنْ اَضَلَّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ھَوَاہُ بِغَیْرِ ھُدًی مِّنَ اللّٰہِ  (پس اے رسول اگر وہ قبول نہ کریں آپ کے ارشاد کو تو جان لو کہ وہ اپنی خواہشات نفس کے پیرو کارہیں اور اس شخص سے بڑا گمراہ کون ہوگا جو خدائی ہدایت کے بجائے اپنی خواہشات کی پیروی کرے)، مزید فرمایا: لاَ تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہُ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ھَوَاہُ  (اس شخص کی اطاعت نہ کرجس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا اور جس نے اپنے خواہش نفس کی پیروی اختیار کرلی ہے) ، نیز: مَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَہُ شَیْطَاناً فَہُوَ لَہُ قَرِینٌ  (جو کوئی رحمن کے ذکر سے منہ موڑتا ہے تو ہم اس کے اوپر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں جو اس کا دوست بن جاتا ہے)۔ 
جب فرد اپنے مقام کو پہچان کر مشاہدے کے قابل ہوجاتا ہے تو پھر اس مشاہدے کے دو طریقے ہیں، ایک وہ جسے مراقبہ کہتے ہیں اور دوسرے کو مجاہدہ۔ مشاہدہ ایک تو اس چیز کا ہے کہ انسان پر ان حقیقتوں کو وارد کرے جو عقل و حواس سے ماوراء ہیں، یعنی جن کا تعلق عالم لاہوت وغیرہ سے ہے۔ یہ وہ دائرہ ہے جن سے مابعد الطبعیات (metaphysics) بحث کرتی ہے اور جہاں عقل کی رسائی ممکن نہیں۔ ان حقائق کو قلبی کیفیات پر وارد کرنے کی سعی کو مراقبہ کہتے ہیں۔ انسان جتنا زیادہ اپنے مقام کا ادراک حاصل کرتا ہے اور اس کا مشاہدہ جتنا زیادہ معروضی ہوجاتا ہے اس کے قلب پر بذریعہ مراقبہ سکون نازل ہوتا ہے اور اس کا قلب مطمئن ہوجاتا ہے ۔ مراقبے سے مراد وہ عمل ہے جس کے ذریعے انسان اپنے قلب کو پاک کرلے اور اس کے اندر وہ کیفیت پیدا ہوجائے جسے نفس مطمئنہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ وہ ذریعہ ہے جس سے گزر کر فرد استقامت اختیار کرتا ہے اس نعمت پر جو اللہ تعالی اسے عطا فرماتا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ محض مراقبہ کافی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ جہاں لوگ گمراہ ہیں وہاں ہدایت و ارشاد کی شمع جلانا اور جہاں غیر اللہ کا حکم جاری ہے وہاں غلبہ اسلام کی کوشش کرنا بھی لازم ہے، بصورت دیگر مراقبہ ایک بے جان شے بن کر رہ جاتا ہے کیونکہ مراقبہ انسان کو فنا فی اللہ کے لیے تیار کرتا ہے لیکن اگر گرد وپیش کے ماحول میں فنا کے مواقع ہی موجود نہ ہوں تو مراقبہ صرف اپنے اندر جانے کی چند ٹیکنیک کا نام رہ جاتا ہے۔ مراقبہ کے ذریعے عالم انوار تک رسائی کے لیے ضروری ہے کہ فنا عملاً ممکن ہوسکے یعنی ایسی معاشرت و ریاست موجود ہو جو تطہیر قلب اور اسلامی انفرایت کے فروغ کو ممکن بنائے ۔ حصول فنا کا جو طریقہ سنت نبویﷺ سے ثابت ہے وہ جہاد کا طریقہ ہے کیونکہ منزل جہاد منصب ارشاد کا لازمی نتیجہ ہے اور جب صوفیاء تحریکیں جہاد سے ہاتھ کھینچ لیتی ہیں تو نہ صرف یہ کہ ان کا معاشرتی اثر بھی زائل ہوجاتا ہے بلکہ وہ ایک بے جان ساخت بن کر رہ جاتی ہیں ۔ 
واضح رہنا چاہیے کہ اصلاح معاشرہ اور قیام ریاست بذات خود مطلوب نہیں بلکہ تطہیر قلوب کا ذریعہ ہے ۔ تعمیر معاشرہ اور ریاست کی کوشش اسی حد تک رضائے الہی کے حصول کا ذریعہ بن سکتی ہیں جس حد تک ان کے ذریعے تطہیر قلوب ممکن ہو (۲۹)۔ غلبہ اسلام تطہیر قلب کے ہم معنی ہے، ہر تاریخی دور میں اسلام اتنا ہی غالب ہوتا ہے جتنی عقیدے اور حال کی درستگی عام ہوتی ہے۔ اسلامی ریاست کا کام یا اس کے اثر اور حدود میں توسیع تطہیر قلوب کا ذریعہ بن کر غلبہ اسلامی کو ممکن بناتا ہے۔ پس غلبہ اسلامی تطہیر قلوب کا ہم معنی ہے قیام و استحکام ریاست کا ہم معنی نہیں۔ تطہیر قلوب کا اسلامی طریقہ تصوف ہے اور اسی طریقے پر امت کا عمل رہا ہے۔ تصوف کا تربیتی نظام قلوب کو شہوت و غضب سے پاک کرکے ان کو عشق الہی سے معمور کردیتا ہے۔ معروف سلسلہ ہائے تصوف سے تعلق اتنا ہی ضروری اور مفید ہے جتنا آئمہ اربعہ سے مطابقت اور تعلق ضروری اور مفید ہے۔ جن تحریکات نے تطہیر قلوب کے لیے طریقہ تصوف کو ترک کیا وہ اپنے کارکنان کے لیے تطہیر قلوب کا کوئی دوسرا طریقہ وضع نہ کرسکے اور نتیجتاً وہ بڑے خیر سے محروم ہوگئیں۔ 
المختصر دعوت کا مقصد فرد کے لیے جنت میں داخلے کو آسان بنانا ہے۔ اسی مقصد کی خاطر تحریکات اسلامی اس بات کی کوشش کرتی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ افراد کو ان تمام مراحل سے گزار لیں، یعنی : 
(۱) فرد کی نیت ٹھیک کردیں ۔
(۲) اس کا حال ٹھیک کردیں ۔
(۳) وہ اپنے مقام کو پہچان کر اسپر راضی ہوجائے ۔
(۴) اس پہچاننے اور راضی ہونے کی بناء پر وہ اس مشاہدے کے لائق ہوجائے جس کے ذریعے حقیقت تک رسائی ممکن ہے۔
(۵) پھر اس رسائی کو تعمیر کرنے اور تقویت دینے کے لیے لوگوں کو مراقبے کے لیے تیار کریں کہ وہ اپنی نیت حال اور مقام پر مستحکم رہیں اور اس دعوت کو عام کرنے کے لیے جہاد بطور بنیادی طریقہ اختیار کریں کہ جسکے ذریعے فرد اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ سنت نبویﷺ کو نہ صرف قائم کرسکے بلکہ قائم رکھ بھی سکے 
خوب سمجھ لو کہ اگر جہاد کو ترک کردیا جائے تو باقی تمام مراحل بگاڑ کا شکار ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ نیتیں بھی آلودہ ہونے لگتی ہیں (یعنی فرد میں حصول رضائے الٰہی اور حصول جنت کا جذبہ مدہم پڑجاتا ہے اور شہوت و غضب اس کے قلب کو گھیر لیتے ہیں )۔ اسی طرح اگر جہاد کا تعلق بھی باقی تمام مراحل سے کٹ جائے تو محض قتال بن جاتا ہے اور ایسا جہاد معاشرے اور تاریخ پر اثر نہیں چھوڑتا۔ یہ بھی اچھی طرح جان لو کہ یہ سب کام ایک مسلسل عمل (process) ہے، ان میں تقدیم و تاخیر کا سوال غیر اہم ہے۔ یعنی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ آج میں اپنی نیت ٹھیک کرلوں، کل حال کی فکر کروں گا، پرسوں مقام کو پہچانوں گا، پھر مشاہدہ کرکے جمعہ کے روز جہاد کروں گا۔ ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ یہ ایک مسلسل عمل ہے اسی لیے اداروں (institutions) کا قیام ناگزیر ہے جو ایک مستقل عمل کو چلاتے رہیں اور ہمیشہ نیتیں بھی ٹھیک ہوتی رہیں، ہمیشہ حال بھی درست ہوتا رہے، ہمیشہ لوگ اپنا مقام بھی پہچانتے رہیں اور ہمیشہ جہاد بھی جاری و ساری رہے۔ یہ سب بیک وقت کرنے کے کام ہیں۔ ان میں پہلے اور بعد یا زیادہ اہم اور کم اہم کا سوال نہیں ہے۔ کیا نہیں دیکھتے کہ کسی معاشرے میں جب تعلیم کو عام کرنا ہو تو وہاں اس کولوں کی تعمیر، اساتذہ کی تربیت، بچوں کی تعلیم، ماں باپ میں تعلیم کی اہمیت کے احساسات کا فروغ ، نصاب کی تعمیر و تطہیر ، ریاستی تعلیمی پالیسی کا وضع کرنااور اس کی پشت پناہی کے لیے مناسب قانونی انتظام کا بندوبست وغیرہ سب پر ایک ساتھ توجہ کی جاتی ہے۔ پس اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ عقائد کا درست ہونا حال کے درست ہونے پر اور کائنات میں اپنے صحیح مقام کو پہچاننے پر منحصر ہے۔ حال درست اس وقت ہوتا ہے جب قلب ایمان باللہ اور اخلاص فی اللہ سے معمور ہو۔ اگر ایمان کمزور اور اخلاص نا پید ہو تو انسان کے احساسات ایسے نہ ہونگے جو حال کی درستگی اور مقام کی اصلیت تک پہنچنے کے لیے مدد گار ہوں۔ 
حقیقت الہی کا ادراک صرف ان قلوب کے لیے ممکن ہوتا ہے جو عشق سے سرشار اور شہوت و غضب سے پاک ہوں۔ عشق عبادت اور خود فراموشی کو ممکن بناتا ہے۔ عشق مومن کا دائمی حال اور تحریکات اسلامی کا اساسی جذبہ ہے۔ تحریک اسلامی کا کارکن اصلاً اور فطرتاً ایک عاشق ہوتا ہے۔ اسے خدا سے محبت ہوتی ہے اسے عبادت کہتے ہیں، اسے خدا کے بندوں سے محبت ہوتی ہے اسے رفاقت کہتے ہیں۔ تحریک اسلامی کا کارکن عشق کے جذبے سے سرشار ہو کر ہی میدان کارزار میں اترتا ہے۔ اس کو اپنے رفیقوں کی فلاح اور اخروی کامیابی کی تمنا ہوتی ہے اور وہ انہیں جہنم کی آگ سے بچانے کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیتا ہے۔ اس کی یہی وارفتگی اور خود فراموشی دعوت کے مخاطب کا حال بدل دیتی ہے۔ وہ تحریک اسلامی کے کارکن کو اپنا محب، محسن اور اپنا اتنا بہی خواہ سمجھنے لگتا ہے کہ اپنا سب اس کے سپرد کردیتا ہے۔ خوب سن رکھو کہ لوگ ایمان دل کے بدلنے کی وجہ سے لاتے ہیں۔ دعوت اسلامی اگر پنپ سکتی ہے تو صرف محبت کی بنیاد پر خود غرضی اور حسد کی بنیاد پر ہرگز نہیں پنپ سکتی۔ خود غرضی اور حسد کو بنیاد بنا کر غیر کو اپنایا نہیں جاتا بلکہ اسے تباہ و برباد کیا جاتا ہے۔ تمام غیر اسلامی تحاریک (مثلاً لبرل ازم، قوم پرستی ، اشتراکیت وغیرہ) غیر کو فنا کرنے کی تحاریک ہیں۔ ان کی دعوت خود غرضی اور نفس پرستی کی دعوت ہے، وہ شہوت اور غضب کو فروغ دیتی ہیں۔ لبرلزم فرد کو یہ تعلیم دیتی ہے کہ وہ اپنی انفرادی آزادی کے حصول اور توسیع کو ہر چیز پر مقدم رکھے، کسی غیر کو اس کی خواہش کی تحدید کا حق حاصل نہیں ہے۔ اس کی زندگی کا مقصد نفسانی خواہشات کی تسکین کے سواء کچھ نہیں ہوتا۔ وہ فطرتا شہوت اور ہوس سے مغلوب ہوتا ہے۔ قوم پرستی اور اشتراکیت انسانی گروہ کی خدائی کے قیام و استحکام کے دلدادہ ہیں۔ ایک قوم پرست اپنی شخصیت اپنی قوم میں سمو دیتا ہے، وہ اپنی قوم کو دیگر اقوام پر فوقیت دیتا ہے اور اسی فوقیت کا تحکم اس کی زندگی کا مقصد بن جاتا ہے۔ وہ دیگر قوموں کو اپنا حریف سمجھتا ہے اور ان سے سب کچھ چھین لینا چاہتا ہے ۔ ایک قوم پرست کے قلب پر غضب کا پردہ پڑا رہتا ہے اور یہی اس کی subjectification ہے کہ وہ غضب کو فروغ دیکر اپنی قوم کی پرستش کرتا ہے۔ اگر تم قوم پرست اور اشتراکی کی قلبی کیفیات پر غور کرو تو جان لو گے کہ اشتراکی کا قلب بھی حسد اور غضب کے اندھیروں کا شکار ہوتا ہے۔ حقیقت کا شناسا عشق کے جذبے سے سرشار ہوتا ہے اور یہی مومن کا اصل حال ہے۔ فتح مکہ کے وقت حضور پر نورﷺ نے جو اسوہ حسنہ اختیار فرمایا وہ ایک مومن اور قوم پرست کے حال کا فرق واضح کرتا ہے۔ مومن عشق سے معمور ہوتا ہے جبکہ کافر و فاسق شہوت و غضب سے مغلوب ہوتے ہیں۔ کافر صرف اپنی ذات سے محبت کرسکتا ہے، وہ ہستی کو قائم نہیں رکھ سکتا۔ ہستی کی بقا اس بات پر منحصر ہے کہ وہ تمام تعلقات استوار کیے جائیں جو انسان کے حقیقی مقام کا تعین کرتے ہیں۔ ہستی کی بقا کا وسیلہ محبت ہے: 
  • خدا سے محبت جو کہ عبدیت ہے 
  • بندوں سے محبت جو کہ رفاقت ہے 
  • کائنات سے محبت جو کہ خلافت ہے 
کافر خدا کی ربوبیت کا انکار کرکے خود خدا بننے کی جستجو میں دوسرے انسانوں پر ظلم کرکے انہیں اپنا بندہ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی باطل جستجو میں وہ کائنات کو مسخر کرتاہے۔ وہ رفاقت اور خلافت کا اہل نہیں کہ اس کا قلب شہوت و غضب کی آماجگاہ ہوتا ہے۔ اس کا مقام ایک سرکش باغی کا مقام ہے۔ اس کی معاشرت اغراض کی معاشرت ہے۔ اغراض کی اس جستجو کو اسنے حقوق (قومی حقوق، انسانی حقوق وغیرہ) کا نام دیا ہے۔ اس کی سیاست بھی حقوق کی سیاست ہوتی ہے جسکا مقصد انسانوں کی ربوبیت یعنی جمہوریت کا قیام و استحکام ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ انفرادیت کی نیت حصول آزادی اور پرستش نفس ہے، اس کا حال شہوت و غضب اور اضطرار ہے، اس کا مقام باغی کا مقام ہے، اس کا مشاہدہ دنیا ہے اور اس کا مجاہدہ اسی مقصد یعنی تصرف فی الارض میں لامحدود اضافے کی سعی کرنا ہے۔ اللہ تعالی ہمیں اس برے حال اور مقام سے محفوظ فرمائے ۔

حواشی 

۲۴۔ امام ابو نصر طوسیؒ اپنی کتاب اللمع فی التصوف میں بندہ مومن کے جن احوال کا ذکر فرماتے ہیں وہ یہ ہیں: (۱) حال مراقبہ (۲) حال قرب (۳) حال محبت (۴) حال خوف (۵) حال رجاء (۶) حال شوق (۷) حال انس (۸) حال اطمینان (۹) حال مشاہدہ اور (۱۰) حال یقین
۲۵۔ حال کا انحصار دو چیزوں پر ہے، ایک نیت اور دوئم اخلاص۔ صوفیاء کے نزدیک وہ حال جسکی بنیاد پر نیت اور اخلاص کو ٹھیک رکھا جا سکتا ہے وہ محبت کی کیفیت ہے۔ یعنی اگر کیفیت ایک عاشق کی ہے تو ہماری نیت بھی ٹھیک ہوسکتی ہے اور اخلاص بھی قائم رہ سکتا ہے اور ہم کائنات میں اپنے مقام پر مطمئن اور راضی ہوسکتے ہیں۔ ہائیڈیگر کے الفاظ میں we are in home at the world والی کیفیت ہوگی۔ اگر بنیادی کیفیت عشق کی نہیں ہے تو جیسا صوفیاء نے ارشاد فرمایا کہ دو ہی کیفیات ہو سکتی ہیں، (۱) شہوت (۲) غضب۔ ان دونوں کیفیات کے نتیجے میں ہم اس مقام سے مطمئن نہیں رہ سکتے جس میں خود کو پاتے ہیں اس لیے یا تو ہمیں ہوس اور شہوت دامنگیر ہوگی اور یا پھر حسد و غضب ۔ دونوں خبیث قوتوں کا بنیادی جذبہ تخریب ہے، یہ جذبہ ہمیں کائنات کو مسخر کرنے کے لیے آمادہ کرتا ہے جسکے نتیجے میں فساد برپا ہوتا ہے اور ہمیں ایک ایسا مقام حاصل کرنے کی طرف راغب کرتا ہے جو ہمارا حقیقی مقام نہیں ہے۔ ظاہر ہے ان حالات میں نہ تو ہماری نیت ٹھیک رہ سکتی ہے اور نہ ہی حال ۔
۲۶۔ دیکھیے ان کی کتاب اللمع فی التصوف 
۲۷۔ آج کا پس جدیدی (post-modern) فلسفہ اس بات کا معترف ہے کہ عقلیت دماغی کے ذریعے غضب اور شہوت پر قابو پانا ناممکن ہے۔ عقلیت دماغی کسی معروضی اور آفاقی اخلاقیات کی نشاندہی یا تعبیر کرنے سے قاصر ہے۔ شہوت و غضب سے مغلوب ہوکر عقلیت دماغی کے ذریعے عیسائی اخلاقیات کو رد تو کردیا گیا لیکن اس کی جگہ کوئی اثباتی اخلاقی نظام آج تک مروج نہ ہوسکا اور جو کچھ مغرب میں قائم ہے تو وہ محض سرمایہ دارانہ اخلاقی قدروں (شہوت و غضب) کا غماز ہے ۔
۲۸۔ معتزلہ کا عقیدہ تھا کہ کفر اور اسلام کے درمیان ایک ایسا مقام بھی ہے جہاں انسان نہ کافر ہوتا ہے اور نہ مسلمان۔ ان کے خیال میں گناہ کبیرہ کا مرتکب اسلام سے نکل کر اس مقام پر پہنچ جاتا ہے ۔
۲۹۔ تطہیر قلب ، اصلاح معاشرہ اور قیام ریاست کے کاموں کے ربط کو اچھی طرح سمجھنا تحریکات اسلامی کے کارکنان کے لیے نہایت ضروری ہے۔ آج کل یہ تینوں کام ان معنی میں جدا ہوگئے ہیں کہ تطہیر نفس اور اصلاح معاشرے کاکام وہ علماء وصوفیا ء اور جماعتیں کررہی ہیں جو تعمیر ریاست کے کام سے لاتعلق ہیں، تعمیر ریاست کا کام وہ جماعتیں کررہی ہیں جن کے پاس بالعموم تطہیر قلب کا کوئی واضح ضابطہ موجود نہیں ہے۔ نتیجتاً تطہیر قلب کا کام محض تبلیغ و تطہیر اور ریاست کا کام محض قتال یا جمہوری عمل بن کر رہ گیا ہے۔ تقریباً ہر اسلامی گروہ و جماعت اپنے کام کو دوسرے اسلامی گروہ کے کام کا متبادل (substitute) اور اس سے اعلی و ارفع سمجھتی ہے جبکہ حقیقتاً ان کے درمیان تعلق ایک دوسرے کے تکملے (complementarity) کا ہے اور ان تینوں میں سے کسی دینی کام کو دوسرے دینی کام پر کوئی اقداری فوقیت حاصل نہیں۔ اصل ضرورت کسی نئے دینی کام کو شروع کرنے، یا ایک دینی کام و جماعت کو چھوڑ کر کسی دوسری دینی جماعت میں ضم ہوجانے یا کوئی ایسی نئی دینی جماعت بنانے کی نہیں جو سب کام کرے کیونکہ الحمد للہ مختلف انفرادی دینی جماعتوں کا کام مل کر مطلوبہ مجموعی دینی کام کی کفایت کرتا ہے، اصل ضرورت موجودہ دینی تحاریک کے کام میں ارتباط پیدا (relate) کرنے کی ہے۔ ہر دینی گروہ اس بات کو لازم پکڑے کہ اپنے کارکنان کو دوسری دینی تحاریک کا قدر دان بنائے اور ان کے ساتھ اشتراک عمل کرنے پر رغبت دلائے۔ جب تک اسلامی گروہوں میں اشتراک عمل کا یہ طرز فکر عام نہ ہوگا، دوسرے گروہ کے دینی کام کو برابر اہمیت نہ دی جائے گی اور مجموعی کام کو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط نہیں کیا جائے گا انقلابی جدوجہد کا سہ جہتی (three dimensional) کام ادھورا ہی رہے گا۔

پاکستان میں نفاذِ اسلام کی جدوجہد ۔ قرآنی نظریہ تاریخ کی روشنی میں ایک عمرانی مطالعہ

پروفیسر میاں انعام الرحمن

قیامِ پاکستان کے بعد سے اس ملک میں نفاذِ اسلام کی جدوجہد بجائے خود، ایک اجتماعی معاشرتی خواہش (collective social will) کی مظہر رہی ہے کہ اسلام نافذ کیا جائے اور مملکت کے تینوں دساتیر (۵۶، ۶۲، ۷۳) کے بنیادی ڈھانچے ایک حد تک اسی معاشرتی خواہش کے سیاسی نتائج (political output) دیتے چلے آئے ہیں۔ ۱۹۷۳ کے آئین میں تو خیر سے ریاست کو بھی کلمہ پڑھوا دیا گیا ہے کہ اسلام، مملکت کا سرکاری مذہب قرار پایا ہے۔ اس لیے جہاں تک آئین و قوانین کی بات ہے، معاشرتی خواہشات کے سیاسی ثمرات میں ڈھلنے کا تعلق ہے، حالات و واقعات بہت زیادہ سنگین اور تشویش انگیز نہیں ہیں۔ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ نفاذِ اسلام کی اجتماعی معاشرتی خواہش (collective social will) کی کسی نہ کسی حد تک صورت پذیری (actualization) کے باوجود، اس مملکت کی غالب اکثریت ان فوائد سے اب تک یک سر کیوں محروم ہے جو اس کے خیال میں نفاذِ اسلام کے بعد حاصل ہونے چاہییں تھے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد بے اطمینانی، غربت، افلاس، پس ماندگی اور جہالت کا شکار ہے؟ ہر طرف افراتفری کا عالم کیوں برپا ہے؟........... کیا نفاذِ اسلام کی معاشرتی خواہش کی تھوڑی بہت سیاسی صورت پذیری کے (تھوڑے بہت) مثبت اثرات سامنے نہیں آنے چاہییں تھے؟ یقیناً ایسا ہونا چاہیے تھا لیکن ایسا ہوا نہیں، اور نہ ہی سرِدست ایسا ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔ اندریں صورت سوال پیدا ہوتا ہے کہ معاشرت۔سیاست کے وسیع میدان کے آخر کس کس گوشے میں ایسی کون سی بنیادی گڑ بڑ ہو رہی ہے جو مطلوب و مقصود تک راہ ہم وار نہیں ہونے دے رہی؟ اور اس گڑبڑ کی ’نوعیت‘ کیا ہے؟کیا اسلام کو نافذ کرنے کی معاشرتی خواہش بجائے خود غلط ہے؟ کیا اس اجتماعی خواہش کے سیاسی روپ میں کوئی بنیادی نقص رہ گیا ہے؟ اور اسی وجہ سے یہ سیاسی روپ، معاشرتی خواہش کی مطابقت میں نہیں ہے؟ یا پھر سرے سے نفاذِ اسلام کی اجتماعی عاشرتی خواہش (collective social will) کو سیاسی صورت پذیری (political actualization) کے پیچھے لگا دینا ہی ہماری بنیادی غلطی ہے؟ 
(۲)
واقعہ یہ ہے کہ ملکی آبادی کی غالب اکثریت کے عمومی رجحان کا لحاظ رکھا جائے تو نفاذِ اسلام کی اجتماعی۔معاشرتی خواہش (collective social will) برخود غلط معلوم نہیں ہوتی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ خواہش سادہ لوحی پر مبنی اور انتہائی خام صورت میں ہے۔ یہ خواہش، جذباتی نعرہ بازی کی شور شرابہ تکنیک کے ذریعے، ایک پریشر کی صورت میں جب بھی (خام شکل میں) سامنے آتی ہے تو مقتدر حلقے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں کہ ملکی آئین و قوانین میں معمولی سی تبدیلی، حفاظتی والو (safety valve) کا کام دے سکتی ہے۔ اس لیے اگر ملکی آئین اور قوانین میں موجود اسلامی شقوں کا (ان کے پس منظر سمیت) غیر جانب دارانہ تنقیدی مطالعہ کیا جائے تو نفاذِ اسلام کی خواہشِ اجتماعی کی سیاسی صورت پذیری، حفاظتی والو کے سوا اور کچھ بھی نہیں معلوم ہوتی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ نفاذِ اسلام کی جدوجہد کرنے والے اس حفاظتی والو کو اپنی کامیابی گردانتے ہیں۔ ایسا شاید اس لیے ہے کہ یہ لوگ بزعمِ خود جس امر کو اسلام سمجھ رہے ہیں اس کا منتہٰی (the end) آئین و قانون ہے۔ اور آئین و قانون، منتہٰی اس لیے ہے کیونکہ وہ خود مثالی (حقیقی) مسلمان نہیں ہیں بلکہ اصلاً صرف اور صرف ’قانونی‘ مسلمان ہیں۔ مقتدر حلقے (بغیر تحفظات کے) ان قانونی مسلمانوں (کے دینی عزائم) کی مطابقت میں ملکی آئین و قوانین کو اسلام کا جامہ پہناتے جاتے ہیں۔ البتہ یہ مقتدر حلقے نہایت مکاری سے جان بوجھ کر کہیں کہیں روڑے بھی اٹکا دیتے ہیں جس کا مقصد قانونی مسلمانوں کی نظر میں کسی قانون کی اسلامیانے (Islamization) کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہوتا ہے، جس کے پیچھے حقیقی مقصد یہ چھپا ہوتا ہے کہ وہ (قانونی مسلمان) قانون کی اسلامیانے کی حد پر قانع (content) ہو جائیں۔ ایسا ہو بھی جاتا ہے، ملکی تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا چلا آیا ہے۔
(۳)
مقتدر حلقوں کے استحصالی ہتھکنڈوں کی جتنی مذمت کی جائے، کم ہے۔ لیکن ملکی آبادی کے اکثریتی قانونی مسلمان بھی ایک کھلے تضاد کا شکار ہیں۔ یہ لوگ اپنی ذات کی حد تک، دینِ اسلام کے تصورات ومقاصد کا نفاذ نہیں کر پائے، صرف کلمہ پڑھ کر مطمئن ہوئے بیٹھے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ لوگ ایک کلمہ پڑھوائی ریاست سے اسلام کے تصورات و مقاصد کی ’’مثالی تنفیذ‘‘ کی امید اور توقع کیوں باندھے ہوئے ہیں؟ کہیں وہ اس غلط فہمی میں تو مبتلا نہیں کہ ریاست، افراد سے بالکل الگ تھلگ (isolated) کوئی مافوق الفطرت ہستی ہے؟ حالاں کہ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ ریاست تو افراد کے مجموعہ کا نام ہے اور یہ افراد کے ایسے مجموعی منشا (collective will) کی نمائندگی کرتی ہے جو افردِ معاشرہ میں فرد فرد بکھری ہوتی ہے۔ اب اگر ریاست کے افراد، فرد فرد اپنے تئیں قانونی مسلمان ہونے پر قانع ہیں تو پھر ریاست کے قانونی مسلمان ہونے پر (کہ سرکاری مذہب اسلام ہے) قناعت کیوں نہیں کرلیتے؟ 
مذکورہ بحث دھیان میں رہے تو پتا چلتاہے کہ نفاذِ اسلام کی خواہشِ اجتماعی، جذباتی نعرہ بازی کے شور شرابہ میں آئین و قانون کو مطلوب و مقصود تو بنا لیتی ہے، لیکن اس مقصد کے حصول کے کچھ عرصہ بعد ہی اسے احساس ہو جاتا ہے کہ ’’حقیقی مقصد‘‘ ذرہ برابر بھی حاصل نہیں ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اصل مسئلہ آئین و قانون کو مطلوب و مقصود بنا لینا ہے۔ اور آئین و قانون کو مطلوب و مقصود اس لیے بنا لیا جاتا ہے کیونکہ ملکی آبادی کی اکثریت، قانونی مسلمان ہونے کے ناتے آئین و قانون کے اسلامیانے کو ہی اسلامی تصورات و مقاصد کا عین حصول سمجھ رہی ہوتی ہے۔ یہاں منطقی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ ایسا کیوں سمجھتی ہے؟ جواب یہ ہے کہ اس کے اذہان میں پچھلی کئی صدیوں سے اسلام کی یہی تعریف نقش کر دی گئی ہے۔ لہذا معلوم ہوا کہ اس وقت اسلام کی تعریف پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے۔ اور یہ اسلام کی نئی تعریف ہے جو نفاذِ اسلام کی خواہشِ اجتماعی کو ایسے راستے پر گامزن کر سکتی ہے جس کی منزل، آئین و قانون کے بجائے اسلام کے حقیقی مقاصدسے ہم آہنگ ہو گی۔ 
(۴)
اسلام کی نئی تعریف کی تلاش کا عمل خاصا گھمبیر (complex) ہے۔ نئی تعریف کی تلاش کی بنیادی شرط یہ ہے کہ مروجہ تعریف سے چھٹکارہ پایا جائے، کیونکہ فرسودہ قانونی تعریف کی موجودگی میں نئی تعریف کے لیے جگہ (space) نہیں بچ پاتی۔ لیکن اب ایسا بھی نہیں کہ مروج قانونی تعریف کے مکمل خاتمے کے بعد ہی نئی تعریف کی ترویج کا سوچاجائے۔ کیونکہ عملاً (تاریخی اعتبار سے) ایسا ہوتا آیا ہے اور ایسا ہی ہو گا کہ نئی تعریف کی تلاش شروع کر دی جائے، جیسے جیسے نئی تعریف وقیع اور پختہ ہوتی جائے گی، ویسے ویسے فرسودہ قانونی تعریف پیچھے ہٹتی جائے گی اور نئی تعریف پیدا شدہ میسر خلا کو پُر کرتی جائے گی۔ اس کا ایک واضح مطلب یہ ہوا کہ بے ثمرقانونی تعریف اور اس کی پیدا کردہ ابتری کا مسئلہ اتنا اہم نہیں ہے جتنا نئی تعریف کی عدم موجودگی ا ور عدم دستیابی کا ہے۔ اس لیے ادھر ادھر کی ہانکنے اور اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے بجائے کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ فی الفور نئی تعریف کی عدم موجودگی و عدم دستیابی کے اسباب تلاش کیے جائیں۔
تلاشِ اسباب کے دوران میں سب سے پہلی نظر اجتہاد کے بند دروازے کے افسانے پر پڑتی ہے۔ اسلام کی مروج بے ثمر قانونی تعریف کے متعلق تحفظات (reservations) رکھنے والے (متجددین) اجتہاد کے بند دروازے کی بابت چیخ و پکار کرتے نظر آتے ہیں۔ اس چیخ و پکار اور غوغا آرائی سے متجددین یہ تاثر پھیلانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ علمائے دین نے اجتہاد کا دروازہ مقفل کر کے چابی اپنے قبضے میں لے رکھی ہے۔ اب نہ تو وہ خود دروازہ کھولتے ہیں اور نہ ہی کسی اور کو دروازہ کھولنے کے لیے چابی دینے کو تیار ہیں۔ سچ یہ ہے کہ متجددین کا پیدا کردہ یہ تاثر اپنی اصالت میں، حقیقت کم اور افسانہ زیادہ ہے۔ 
واقعہ یہ ہے کہ اجتہاد کے بند دروازے کا افسانہ متجددین کا گھڑا ہوا ہے۔ اس افسانے کے پیچھے یہ حقیقت ان کا منہ چڑا رہی ہے کہ اصل میں ان کی اپنی نالائقی، کم ہمتی اور علمی بے بضاعتی نے اس دروازے کو مقفل کر رکھا ہے۔ رہے جمود پسند علمائے دین؟ وہ تو اسلام کی فرسودہ قانونی تعریف سے چمٹے ہوئے ہیں، انھیں نئی تعریف کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ یہ در اصل متجددین ہیں جو نئی تعریف کی بات کرتے ہیں ......... اور بس بات ہی کرتے ہیں۔ متجددین میں علمی و اخلاقی اعتبار سے اتنی پختگی نہیں پائی جاتی کہ مروجہ بے ثمر قانونی تعریف کو چیلنج کر کے ایک متبادل قابلِ قبول (alternatively acceptable) تعریف دے سکیں۔ اگر ان کی طرف سے کوئی نئی تعریف ’’پختگی‘‘ سموئے سامنے بھی آتی ہے تو وہ قابلِ فہم اور با معنی نہیں ہوتی۔ 
دوسری طرف جمود پسند علما، اجتہاد کادروازہ بند رکھنے کے لیے جو افسانہ گھڑتے ہیں وہ بھی بے سر و پا (absurd) ہے۔ ان کا موقف ہے کہ ائمہ اربعہ کے بلند پایہ علمی کام کے بعد اس کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اور اگر خوامخواہ کی ذہنی عیاشیوں کے لیے یہ دروازہ کھولا گیا تو بکھری ہوئی امت مزید داخلی انتشار کا شکار ہو جائے گی جس کا دشمن بے اندازہ فائدہ اٹھائیں گے۔ علمائے دین کی سادہ لوحی (simpilicity) کا احترام اپنی جگہ! لیکن واقعہ یہ ہے کہ اجتہاد کے دروازے کی بندش کا نہ تو ائمہ اربعہ کے بلند پایہ علمی کام سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی امت کے تشتت و انتشار سے اس کا کوئی دور کا بھی واسطہ ہے۔ بلکہ کڑوہ سچ یہ ہے کہ پچھلی کئی صدیوں سے مسلم معاشرہ اخلاقی اور فکری لحاظ سے زوال کی انتہائی پستیوں کو چُھو رہا ہے۔ اس معاشرے کی تخلیقی قوت (دیانت و صلاحیت) اب قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ ورنہ فطرت تو یہی بتاتی ہے کہ جس بیج میں دم ہو وہ اپنا آپ ضرور دکھاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اجتہاد اور اسلام کی نئی تعریف کے لیے جس درجے کے جمالیاتی شعور کی ضرورت ہے، اس معاشرے کا نام نہاد جمال دوست تخلیق کار اور فقیہ اس سے کوسوں دور ہے۔ دیانت اور صلاحیت، اب کتابوں میں ہیں یا پھر غیروں (دشمنوں) کے طور اطوار کا حصہ ہیں۔ اس لیے جمود پسند علمائے دین اس خوش فہمی میں نہ رہیں کہ ان کی شب و روز کی محنتوں، مشقتوں اور کوششوں سے اجتہاد کا دروازہ بند ہوا ہے۔ ہاں البتہ! اتناضرور ہوا ہے کہ اس بندش کے نتیجے میں وہ ’’عالی مقام‘‘ پر فائز ہو گئے ہیں اور اسلام کی ایک (فرسودہ) قانونی تعریف کے تسلسل کو یقینی بنائے ہوئے ہیں۔ 
(۵)
مذکورہ بحث سے معلوم ہوا کہ اجتہاد کے بند دروازے کے افسانے کو حقیقت کی دنیا میں کھولنے کے لیے، مسلم معاشرے کی کھوئی ہوئی تخلیقی قوت (دیانت۔صلاحیت) کی جمالیاتی بازیابی، ایک بنیادی شرط کا درجہ رکھتی ہے۔ اگر تخلیقی و حرکی قوت موجود ہو گی تو اپنے جمالیاتی اظہار کی خاطر اجتہاد کا راستہ ضرور اپنائے گی۔ تخلیقی قوت کے دو بڑے عناصرِ ترکیبی (دیانت و صلاحیت) کو ذرا تنقیدی نظر سے جانچئے اور غور کیجیے کہ ان کی عدم موجودگی میں کسی معاشرے کی اخلاقی و فکری حالت کیا ہوسکتی ہے؟وہی ناں، جو اس وقت ہمارے معاشرے کی ہے۔ جمود پسند علمائے دین اپنے تئیں تخلیقی و حرکی قوت کے نتیجے ’اجتہاد‘ کو ملی وحدت کے عنوان سے دابے بیٹھے ہیں، لیکن ان کی اکثریت اس سامنے کی بات سے بھی آگاہ نہیں ہے کہ اصلاً، عمومی سماجی رویے (general social behaviour) سے ’دیانت و صلاحیت‘ کی بے دخلی پر یہ لوگ مطمئن ہوئے بیٹھے ہیں۔ بڑی عجیب بات ہے کہ علمائے دین اس امر پر خاصے حیران و پریشان رہتے ہیں کہ ان کی ان تھک شبانہ روز مخلصانہ کوششوں کے باوجود ملی وحدت حقیقت کی دنیا میں کیوں نہیں ڈھل پائی؟ اب انھیں یہ بتانے کی جرات کون کرے، بھلے لوگو! آخر دیانت و صلاحیت کے بغیر ملی وحدت کیسے اور کیونکر پروان چڑھ سکتی ہے؟ بہرحال! اس بحث سے یہ نکتہ سامنے آتا ہے کہ تخلیقی وقت (دیانت۔صلاحیت) کی بازیابی کے لیے بنیادی شرط (pre-requisite)، اس قوت کی عدم موجودگی اور اس کے نتیجے میں ہونے والے شدید اخلاقی و فکری اور جمالیاتی نقصان کا احساس ہے۔ نہایت افسوس کی بات ہے کہ طبقہ علما کی بہت بڑی اکثریت اس نقصان کے احساس سے بالکل عاری ہے۔ 
(۶)
اگرچہ تخلیقی قوت کے عناصرِ ترکیبی کی بابت بحث کی جا سکتی ہے، لیکن ان میں سے دو عناصر (دیانت اورصلاحیت) کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان دو کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ صلاحیت تو خدا داد (God gifted) ہوتی ہے جس میں انسان کی اپنی کاوشوں کا کوئی خاطر خواہ عمل دخل نہیں ہوتا۔ ایک فرد میں صلاحیت کم اور دوسرے میں زیادہ ہو سکتی ہے۔ یہ خدائی تقسیم ہے جس کے سامنے انسان بے اختیار اور بے بس ہے۔ لیکن اس خدا داد صلاحیت سے فائدہ اٹھانا یا نہ اٹھانا انسان کے دائرہ اختیار میں شامل ہے۔ اس لیے عین ممکن ہے ایک زیادہ صلاحیت کا حامل انسان اپنی خداداد صلاحیت سے فائدہ اٹھانے میں بخیل اور ناکام ثابت ہو، اور دوسرا کم صلاحیت رکھنے والا نسبتاً بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر کے سخاوت کا عملی نمونہ پیش کر دے۔ 
دیکھا جائے توخدا داد انسانی صلاحیت کا ایک داخلی لازمہ (a necessary corolla)، امانت ہے۔ صلاحیت اپنے حامل کے، امین ہونے کا تقاضا لیے ہوتی ہے۔ یعنی، انسان اپنی صلاحیت کو امانت کے طور پر لیے ہوتا ہے۔ کیونکہ صلاحیت، اختیاری نہیں بلکہ خدا داد ہے، اسی لیے اس کی حیثیت امانت کی ہوتی ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ ہوا کہ انسان اصلاً امین ہے۔ اب اگر وہ صلاحیت کا اظہار نہیں کرتا تو امین ہونے کا حق ادا نہیں کرتا، بلکہ خائن (perfidious) شمار ہوتا ہے۔ 
یہاںیہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسانی زندگی میں وہ کون سی چیز ہے جس کے ذریعے انسان اپنی صلاحیت سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتا ہے اور امین ہونے کا حق ادا کر سکتا ہے؟ اور کس چیز کی کمی اس کی صلاحیت کو زنگ آلود کر کے اسے خائن بنا ڈالتی ہے؟ اس کا جواب ہے، دیانت۔ جی ہاں! وہ چیز صرف اور صرف دیانت ہے۔ اس لیے بلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ ارضی احوال و ظروف میں انسان کی اصل جولاں گاہ ’دیانت‘ ہے۔ 
(۷)
مذکورہ نکتے سے یہ واضح ہو گیا کہ اللہ رب العزت نے انسان کوبے شمار صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ پاکستانی معاشرہ نوازشاتِ الٰہیہ سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ اگر کہیں کوئی گڑبڑ ہے کوئی مسئلہ ہے تو ان صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے ’ذریعے‘ میں ہے اور وہ ذریعہ دیانت ہے۔ اب کیا یہ باقاعدہ بتانے والی بات ہے کہ (صلاحیت کی) امانت ادا کرنے میں اگر دیانت، دھیان میں نہ رہ پائے تو صلاحیت کی کیا درگت بنتی ہے؟ اور اس کے نتیجے میں لوگوں کی عمومی اخلاقی و فکری حالت کیا ہوتی ہے؟ اور ان کے جمالیاتی شعور پر کیا بیتتی ہے؟(اگر بے چارہ کسی طور کچھ بچ رہا ہو) ۔
تنقیدی نظر سے پرکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے خود اپنے ساتھ اور دوسروں کے ساتھ تعلق میں، دیانت اور اس کے روبہ عمل ہونے کا ایک ناگزیر لازمہ جسے ہم ’حیا‘ سے موسوم کر سکتے ہیں، بہت ہی زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن اس حیا کے معانی وہ نہیں ہیں جو عموماً مراد لیے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں حیا کو جنسی اور جسمانی تناظر میں دیکھا جاتا ہے، جس کی ایک اپنی اہمیت ہے۔ یہاں سمجھنے والی بات یہ ہے کہ اس کے علاوہ حیا کی ایک جہت اور بھی ہے جس کا بنیادی تعلق معاشرے میں بسنے والے افراد کے تعامل (inter-action) سے ہے۔ یعنی یہ حیا اپنی ماہیت میں معاشرتی نوعیت کی حامل ہے۔ کسی بھی معاشرے میں، اصلاً یہ حیا ہوتی ہے جو افرادِ معاشرہ کو (انفرادی طور پر) باہمی معاملات میں بد دیانتی سے روکنے کا انتہائی اہم اور حساس فریضہ سر انجام دیتی ہے۔ اس حیائی روک کے بعد ہی افرادِ معاشرہ (انفردای طور پر) اس قابل ہو پاتے ہیں کہ باہمی معاملات میں دیانت کا اظہار کریں، بلکہ دیانت کا ’’خودکارانہ‘‘ اظہار کریں۔ واقعہ یہ ہے کہ جب بھی کسی معاشرے میں دیانت، خودکار اظہار شروع کر دیتی ہے اس معاشرے کے افراد کی خوابیدہ صلاحیتیں بیدار ہو جاتی ہیں اور ایسا معاشرہ جمالیاتی شعور کے تخلیقی اظہار پر قادر ہو جاتا ہے۔
(۸)
اب تک کی بحث سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ خدا داد صلاحیت کی امانت کو خیانت سے بچانے کی اولین شرط، حیا (modesty) ہے۔ اگر کوئی فرد یا معاشرہ خائن ہونے سے بچ جاتا ہے یا دوسروں لفظوں میں بے حیا نہیں ہونے پاتا، تو اس کا خودکار انداز میں دیانت کے توسط سے خدا داد صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ایک لازمی امر ہوتا ہے۔ اب اس اصول پر اپنے معاشرے کو پرکھ لیجیے۔ تھوڑی دیر کے لیے ذرا اپنے ارد گرد موجود عوام و خواص کے رویوں کا تنقیدی جائزہ لیجیے، بے حیائی غراتی نظر آئے گی اور بے چاری دیانت دبکی بیٹھی دکھائی دے گی .......... بلکہ دوسروں کوچھوڑیے، اپنے ہی رویے کو جانچ لیجیے...... لیکن مسئلہ تو وہی ہے اب اپنے رویے کو بے حیائی کے دامن سے چھڑانے کا دعوی بھلا کون کرے؟ البتہ دعوی کے بجائے ’عزم‘ کا ارادہ کر لیاجائے تو شاید بات کچھ بن جائے۔ ایسے عزم کی اچھی نیت کے بکھیڑوں میں الجھنے کے بجائے مناسب یہی ہے کہ زیر بحث نکتے کے حوالے سے چند کرداروں کا جائزہ لے لیاجائے۔ اپنے ہاں کے وزرا کو دیکھ لیجیے، کسی مسئلے پر (شرم کھا کر) مستعفی ہونے کی کتنی مثالیں موجود ہیں؟ اور (بے شرمی و ڈھٹائی سے) ڈٹے رہنے کے کتنے نظائر (precedents) ہماری قومی تاریخ کا حصہ ہیں؟ اب ذرا سچ سچ بتایے کہ شرم اور بے شرمی کی مثالوں کی تعداد میں کوئی پست درجے کی بھی نسبت ہے؟ ہماری پوری قومی تاریخ میں مستعفی ہونے کی ’جسارت‘ شاید ہی کسی وزیر نے کی ہو۔ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کو لیجیے۔ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کو لیجیے۔ لاہور کے اس مقام کو لیجیے جہاں اس صوبے کے اعلیٰ ترین عہدے دار انتظام و انصرام سنبھالے بیٹھے ہیں۔ جی ہاں! پنجاب سیکریٹریٹ کی بات ہو رہی ہے۔ اب اس عمارت کے مرکزی دروازے پر کھڑے ہو جایے اور کروڑوں کی آبادی والے اس صوبے میں، لاکھ نہیں، ہزار نہیں، سو نہیں، پچاس نہیں، دس نہیں، بلکہ صرف اور صرف ’’ایک‘‘ ایسے سائل شہری کو ڈھونڈ نکالیے جو اس عمارت سے برآمد ہو کر آپ کو یہ بتائے کہ اس کا کام روٹین میں ہو گیا ہے۔ (ہمیں اس ’’ایک‘‘ کے عدد پر معاف کر دیجیے گا کیونکہ اس سے کم ممکن ہی نہیں ہے)۔ اس ’’مثالی انتظام و انصرام‘‘ والی عظیم عمارت میں داخل ہونے والا کوئی ایک ایسا شہری بھی تلاش کر دیجیے جو اپنے داخل ہونے سے پہلے پر اعتماد ہو کہ اس کا کام روٹین میں ہو جائے گا اور اس کی عزتِ نفس بھی محفوظ رہے گی۔ تجربہ کرنے پر آپ جان جائیں گے کہ ہماری نشاندہی مبالغے پر مبنی نہیں ہے۔ کیا اجتماعی بے حیائی کی اس سے بڑی مثال پیش کی جا سکتی ہے؟
مسئلہ یہ ہے کہ بات یہیں نہیں ختم ہو جاتی بلکہ انزالِ اثر (trickle down effect) کے تحت یہ انتظامی و انصرامی بے شرمی پورے صوبے میں پھیلی ہوئی ملتی ہے۔ اس معاملے کا دل چسپ پہلو یہ ہے کہ پنجاب سیکریٹریٹ اور باقی کے تمام دفاتر میں ایک دو نہیں بلکہ ہر سائل کا کام بالآخرہو بھی جاتا ہے، کیونکہ بے حیائی کے اظہار سے دیانت دبک کر کسی کونے کھدرے میں چھپ جاتی ہے اور بد دیانتی کو خوب کھل کھیلنے کا موقع ملتا ہے۔ بمشکل پانچ فی صد شہریوں کا کام کسی تگڑی سفارش سے ہو جاتا ہے اور باقی سائلین، بانی پاکستان قائد اعظم کی سفارش میں پناہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔
یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ہمارے دیگر ریاستی و معاشرتی کردار بھی بے حیائی اور بد دیانتی میں گندھے ہوئے ہیں۔ چاہے ڈاکٹرز، اساتذہ ہوں یا وکلا، ججز اور صحافت سے وابستہ افراد ہوں، چاہے ٹی وی چینلز و اخبارات کے مالکان اور ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے مدارلمہام ہوں یا مسلح افواج کے اعلیٰ عہدے داران ہوں، اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ 
(۹) 
اب تک کے مباحث سے یہ معلوم ہوا کہ کسی قوم یا معاشرے میں سے ’حیا‘ کا مکمل اٹھ جانا، اس کے اخلاقی و فکری زوال کا بنیادی سبب بن جاتا ہے۔ ایسی قوم یا معاشرے کا جمالیاتی شعور، بد دیانتی کے سرکنڈوں سے لہولہان ہو جاتا ہے۔ اپنے جمالیاتی شعور کی قیمت پر پلنے والی ایسی قوم کے تخلیقی سوتے بالکل خشک ہو جاتے ہیں اور ایک کریہہ منحوس منظر اسے ہر طرف سے گھیر لیتا ہے، اور ........ اجتہاد کا دروازہ خودبخود بند ہو جاتا ہے۔ 
یہاں علمائے دین کے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اجتہاد کے دروازے کی بندش کا ان کی ملتِ اسلامیہ کے لیے درد مندی سے کوئی تعلق نہیں، اور نہ ہی اسلاف کے کارنامے کبھی بھی اتنے بڑے اور دیوہیکل ہو سکے ہیں کہ ان کے سامنے زندگی کا تخلیقی و حرکی پہلو ہتھیار ڈال دے۔ حقیقت یہ ہے کہ زندگی کے تخلیقی و حرکی رویے کی عدم موجودگی نے ہی اسلاف کے کارناموں کو ابھی تک کارناموں کی فہرست میں رکھا ہوا ہے۔ زندگی کا حرکی و تخلیقی رویہ پروان ہی تب چڑھتا ہے، جب صلاحیت کی امانت میں خیانت نہ کی جائے۔ خیانت سے صرف حیادار (modest) لوگ ہی بچ پاتے ہیں، پھر یہی لوگ دیانت کے سہارے خدا داد صلاحیتوں کے جمالیاتی اظہار میں زندگی کے حرکی و تخلیقی تسلسل کو دوام بخشتے ہیں۔
اس لیے علمائے دین کو اجتہاد کے دروازے کی بندش کے جواز (rationale) نہیں تلاشنے چاہییں بلکہ اس بندش کے اسباب پر نہایت سنجیدگی سے غور و فکر کرنا چاہیے کہ یہ اسباب (خیانت،بے حیائی،بد دیانتی) بہت ہی سنگین نوعیت کے ہیں۔ علمائے دین اس حقیقت سے آنکھیں کیسے چرا سکتے ہیں کہ اجتہاد کے دروازے کی بندش کے پیچھے اصلاً، خیانت، بے حیائی اور بد دیانتی جیسے انتہائی مکروہ عناصر کارفرما ہیں۔ وہ بھلے اجتہاد کا دروازہ نہ کھولیں، اس مقفل دروازے کی چابی کو کہیں دور کوہ قاف میں پھینک دیں، اس سے ذرہ برابر فرق نہیں پڑتا۔ لیکن انھیں خیانت کو جڑ سے اکھاڑنے کی تدابیر کرنی چاہییں، بے حیائی کے تدارک کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہییں اور بد دیانتی کے خاتمے کے لیے موثر کوششیں کرنی چاہییں۔ اگر زبانی جمع خرچ کے بجائے عملی طور پر یہ سب کچھ کر لیا جاتا ہے تو خاطر جمع رکھیے، اجتہاد کا بند دروازہ خودبخود کھل جائے گا(کھل جا سم سم)۔ 
(۱۰)
یہاں یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ کیا علمائے دین سے، مطلوب طرزِ عمل کی انجام دہی کی توقع کی جا سکتی ہے؟ اس سوال کا دیانت دارانہ جواب نہیں میں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ علمائے کرام بجائے خود، خدا داد صلاحیت کی ا مانت میں خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اپنی صلاحیتوں کو جتنی فراخ دلی سے بے کار فضول مباحث کی نذر علما نے کیا ہے شاید ہی کوئی دوسرا طبقہ ان کا ثانی ہو۔ ان میں مقبولِ عام فروعی مسائل کی نوعیت کا جائزہ لیجیے اور ان مسائل کو بیان کرنے کے اسالیب کو پرکھیے، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ ذرا سچ سچ بتائیے کہ بے حیا ہوئے بغیر کیا کسی مسجد پر ’’قبضہ‘‘ کیا جا سکتا ہے؟ کیا بے حیا ہوئے بغیر کسی علاقہ میں کئی مساجد کے موجود ہوتے ہوئے بھی ’’اپنی مسجد‘‘ کی تعمیر اٹھائی جا سکتی ہے؟ یہ بھی بتا ہی دیجیے کہ جب حیا نہ رہے تو اصلاحی موضوعات پر کتنی دیانت سے قلم اٹھایا جا سکتا ہے؟ اور کیا کسی دل جلے کو دینی خدمت کے نام پر شائع ہونے والے لٹریچر کے پس منظر میں حیا اور مواد میں دیانت، ڈھونڈے سے بھی مل پاتی ہے؟
اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا داد صلاحیت کی امانت کی سنبھال کی سب سے زیادہ ضرورت تو طبقہ علما کو ہے۔ اس امانت کو خیانت سے بچانے کا بنیادی تقاضا حیا ہے۔ علمائے کرام سے بہتر کون جانتا ہے کہ ہر دین کا ایک امتیازی وصف ہے اور اسلام کا امتیازی وصف حیا ہے۔ اس لیے اس امر میں کوئی شک نہیں کہ اپنی ذات اور دوسروں کے ساتھ تعلق میں حیا کے در آنے سے، طبقہ علما اپنی صلاحیتوں کا دیانت دارانہ اظہار بھی کر سکتا ہے۔
(۱۱) 
اس ساری بحث کا ایک قابلِ اعتنا پہلو یہ ہے کہ ہم لوگ بغیر دیکھے بھالے بڑی آسانی سے اہلِ مغرب پر ’’بے حیائی‘‘ کا لیبل چسپاں کر دیتے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حیا کے مذکور معنوں میں وہ لوگ با حیا نہیں ہیں؟ اور نتیجتاً دیانت دار نہیں ہیں؟ کیا ان کے وزرا شرم کھا کر عموماً مستعفی نہیں ہو جاتے؟ کیا ان کے دفاتر میں ہر شہری کا کام روٹین میں نہیں ہوتا؟ وغیرہ وغیرہ۔ واقعہ یہ ہے کہ اسی حیا اور دیانت (modesty and honesty) کی وجہ سے ان کی اخلاقی و فکری حالت ہم سے بہت بہتر ہے۔ اسی اخلاقی و فکری برتری کے نتیجے میں جمالیاتی شعور کے ذریعے، وہ لوگ ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں اور دنیا کی قیادت کر رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں ہمارے پاس تو صرف نعرہ بازی کی شور شرابہ تکنیک ہے اور بے حیائی و بد دیانتی کا طوفانِ بد تمیزی ہے۔ 
(۱۲) 
اس تحریر کے آغاز میں نفاذِ اسلام کی جدوجہد کے ثمرات کے متعلق بات ہوئی تھی کہ ہمارے معاشرے کی اکثریتی آبادی، آئین و قوانین کی اسلام کاری (Islamization) کی صورت میں اپنی خواہش کی تکمیل کے بعد، حیران و پریشان کھڑی منہ تکتی رہ جاتی ہے کہ اسے تو کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ اس لا حاصلی یا نامرادی کی حالت کاذمہ وار اس کا وہ فہمِ اسلام ہے جس کے مطابق قانون بنا دینے سے مقصد پورا ہو جاتا ہے(law is an end in itself)۔ ہمارے معاشرے کی اکثریتی آبادی کے ذہن میں، اسلام کے اس قانونی ایڈیشن کو نقش کرنے میں، ہمارے مذہبی طبقے نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اس طبقے کا ذہن اس لیے قانونی ہے کیونکہ اسے اسلاف کے کارناموں میں سے ائمہ اربعہ کے صرف وکیلانہ کارنامے بھلے لگتے ہیں۔ پاکستان کے مذہبی طبقے کو تو امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ اور ان کے نام ور شاگردوں کے علاوہ دیگر اماموں کے کارہائے نمایاں بھی نظر نہیں آتے۔ بات یہ ہے کہ صدیوں پہلے جس وقت اسلام کے قانونی ایڈیشن کا ظہور ہوا، ہو سکتا ہے یہ اس وقت کے تقاضوں کی مطابقت میں ہو۔ عین ممکن ہے اس وقت ضرورت ہی اسلام کے فقط قانونی دوائر کے تعینات کی رہی ہو۔ لیکن اب صورتِ حال بدل چکی ہے۔ اگر پاکستان کا مذہبی طبقہ دین اسلام کی ترویج میں واقعی سنجیدہ اور مخلص ہے تو اسے ان قانونی دوائر کی حد بندیوں کو لازماً پھلانگنا ہو گا۔ اس طبقے کو اب احساس ہو جانا چاہیے کہ اسلام کے قانونی ایڈیشن کی پرستش نے (انفرادی اور معاشرتی سطح پر) ، خیانت، بے حیائی اور بد دیانتی کو خوب فروغ دیا ہے۔
اس وقت رائج اسلام کی قانونی تعریف کا (داخلی لحاظ سے) اصلی مسئلہ یہ ہے کہ یہ روایتی فقہ کی بھی مطابقت میں نہیں ہے۔ کیونکہ ائمہ اربعہ کی وضع کردہ قانونی تعریف، ہمارے معروف معنوں کے قانون (law) جیسی نہیں ہے۔ ان ائمہ کے استنباطات، قانونِ محض (pure law)کے دائرے میں نہیں آتے، بلکہ فقہ کی وسعتوں (law in broader sense) سے ہم کنار ہیں۔ اس لیے ان جلیل القدر ہستیوں کی وضع کردہ فقہ میں اصولِ قانون، فلسفہ قانون اور مقاصدِ قانون کے اطراف و اکناف اکھٹے ہو گئے ہیں۔ ہمارے زمانے کے علما تک پہنچتے پہنچتے اس فقہی روایت کی داخلی روح کہیں کھو گئی ہے اور خالی خولی ظاہری قانونی ڈھانچہ باقی رہ گیا ہے۔
فقہ کے سمندر سے قانون کے چھپڑ تک، صدیوں پر محیط اس سفر کے دوران میں مختلف تاریخی عوامل کا کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس سلسلے میں یورپ کی نوآبادیاتی یلغار کے منفی اثرات کی مثال دی جا سکتی ہے۔ اگر روایتی فقہ، تاریخی جبر کا شکار نہ ہوتی، اور اپنے ظاہری قانونی ڈھانچے کے ساتھ ساتھ اپنی داخلی روح اور حقیقی جوہر کو بھی ہمارے زمانے کے علما تک پہنچا پاتی، تو اسی روایت کے تسلسل سے اسلام کی نئی تعریف لازمی طور پر خود بخود برآمد ہوتی۔ واقعہ یہ ہے کہ ایسا نہیں ہو سکا۔ اور ایسا نہ ہونے سے ، داخلی روح کے یکسر غائب ہونے سے، علما نے معذرت خواہانہ دفاعی پوزیشن لیتے ہوئے روایتی فقہ کے ظاہری قانونی ڈھانچے کو سنبھالنے میں ہی عافیت جانی۔ 
(۱۳)
اس کی وجوہات کچھ بھی ہوں، اب جب کہ روایتی فقہ اپنی داخلی روح اور حقیقی جوہر سے محروم ہو چکی ہے، اس کے ظاہری ڈھانچے سے پیچھا چھڑائے بغیر، نفاذِ اسلام سے حاصل ہونے والے حقیقی مقاصد تک رسائی ممکن نہیں ہے۔ جو مذہبی حلقے اس بے جان ڈھانچے میں فکرِنو کے گلوکوز لگا کر بہتری کی آس لگائے ہوئے ہیں، ان کے خلوص پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی اور نہ ہی ان کے جذبات و احساسات قابلِ گرفت سمجھے جا سکتے ہیں۔ ایسے احباب کے اخلاص کو چیلنج کیے بغیر ہم گزارش کریں گے کہ داخلی روح اور حقیقی جوہر سے محروم بے جان ڈھانچہ اب بہت بوسیدہ ہو چکا ہے، فکرِ نو کا گلوکوز جس خاص وقت میں کارآمد ہو سکتا تھا وہ وقت کب کا گز رگیا ہے۔ اس لیے خوامخواہ کی پیوند کاری (patch-work) میں الجھنے کے بجائے اسلام کی نئی تعریف کی تلاش کی کوشش کرنی چاہیے۔ 
ہمیں نئی تعریف کی تلاش کے لیے اسلام کے دورِ اول کی طرف دیکھنا ہو گا کہ اس وقت کی سماجی صورتِ حال میں دین کی ترویج کن اصولوں کے تحت ہوئی، جس کے نتیجے میں مقصود حاصل ہو گیا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے تو نزولِ قرآن مجید کو لیجیے، اور بتایے کہ کیا اس کی آیاتِ مبارکہ، بالکل مجرد روپ میں (in purely abstract form) نازل ہوتی رہیں اور اسی طرح ان کا نفاذ بھی سماجی صورتِ حال سے کٹ کر (in isolation from social condition) ہوتا رہا؟ یا یہ کہ تقریباً ہر آیت کسی صورتِ حال کے جواب میں (in response to a given situation) نازل ہوئی؟ واقعہ یہ ہے کہ شانِ نزول کی مستند روایات کے علاوہ خود قرآن مجید میں ایسے داخلی شواہد موجود ہیں جو اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ تقریباً ہر آیت کسی نہ کسی صورتِ حال کا جواب تھی۔ 
اب ذرا توقف کر کے غور کیجیے کہ اصلاً کوئی نہ کوئی ’’صورتِ حال‘‘ ہی آیات کے نزول کا سبب بنتی رہی۔ اس لیے اس سارے عمل میں سے صورتِ حال کو خارج کر دیا جائے تو نزولِ آیات کا جواز (rationale) ختم ہو جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ صورتِ حال موجود نہ ہوتی تو قرآن مجید کا بھی نزول نہ ہوتا۔ اگر بات کو غلط رنگ نہ دیا جائے تو ہمیں کہنے دیجیے کہ اس تناظر میں متنِ قرآن (text of Quran) سے کہیں بڑھ کر صورتِ حال (the given situation) اہم ہو جاتی ہے۔ متن قرآن تو ’’لوح محفوظ‘‘ میں پہلے سے موجود تھا، اس کے بتدریج نزول کی اہمیت یہی ہے کہ اسے اس صورتِ حال کی مطابقت میں نازل کیا گیا۔ صورتِ حال نے اسے مجرد شکل میں اپنے سر نہیں لیا۔ یہاں نکتے کی بات یہ ہے کہ متنِ قرآن اور صورتِ حال میں مطابقت کی بنیادی شرط، اس صورتِ حال کی صداقت پر مبنی غیر جانب دارانہ بالائے تعصب، کلی تفہیم تھی۔ اس لیے متنِ قرآن نہیں بلکہ حقیقت میں صورتِ حال کی اس مبنی بر صداقت تفہیم نے، اس سماج کو قرآن پاک کی وہ معنویت عطا کی جس نے بعد ازاں اس صورتِ حال کو اپنے قابو میں کر لیا،........ اور اسے بدل کر رکھ دیا۔ 
(۱۴)
مذکورہ بحث کے بین السطور یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکت کے ’’اسوہ کامل‘‘ ہونے کا ایک درخشندہ پہلو، اپنے دور کی سماجی صورتِ حال اور اس سے منسلک مطالبوں کے مکمل ادراک پر محیط ہے۔ نبوت عطا ہونے کے بعد سے وصال تک کے ۲۳ برس کے عرصہ میں کتاب اور صاحبِ کتاب، قرابتِ مسلسل (intimacy) میں رہے۔ اس لیے اسوہ کامل کے اس خاص پہلو (کتاب اور صاحبِ کتاب کی قرابتِ مسلسل) سے فیض یاب ہونے کے لیے قرآن مجید کی ترتیبِ نزولی اور ترتیبِ نزولی کی تفہیم کی اساس، (آیات مبارکہ کا شانِ نزول)اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔ اندریں صورت شانِ نزول سے متعلق احادیثِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر مستند تاریخی آثار کا تنقیدی مطالعہ، اس زمانے کی عمرانی صورتِ حال سے واقفیت کا ایک مطالبہ اور لازمہ (prerequisite) بن جاتا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ اب نہ تو قرآن مجید ترتیبِ نزولی کی صورت میں موجود ہے اور نہ ہی ایسی مستند احادیث و روایات پائی جاتی ہیں جو پورے قرآن مجید یا اس کے کثیر حصے کے نزول کے اسباب واضح کرتی ہوں۔ اس لیے یہاں یہ غور کرنے کا مقام ہے کہ اللہ رب العزت نے ترتیبِ نزولی کی بدلی صورت (قرآن مجید کی حتمی ترتیب) کو تشریعی کیوں قرار دیا ہے؟ اور پھر اس بدلی ترتیب کی تشریعیت (divine status) کے تحفظ کے لیے، تکوینی ذریعے سے شانِ نزول سے متعلق آثار و احادیث کی بہت ہی کم تعداد کیوں باقی رہنے دی ہے؟ 
ہماری رائے میں ان سوالات کا تعلق قرآن مجید کے نظریہ تاریخ سے ہے۔ قرآن مجید نے انبیائے کرام ؑ کے واقعات بیان کرتے ہوئے، ایک تو تمام انبیاعلیہم السلام کا ذکر نہیں کیا، دوسرا یہ کہ جن انبیا ئے کرامؑ کے قصے بیان کیے ہیں ان کی زندگیوں کا بھی مکمل احاطہ نہیں کیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن کے مطابق تاریخ کی تمام تر تفصیلات (چاہے ان کا تعلق انبیاؑ سے ہو) کا جاننا بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے ضروری نہیں ہے۔ بلکہ ضروری امر تو یہ ہے کہ تاریخی تفصیلات و جزئیات کا لازمی طور پر نچوڑ (gist) لیا جائے (نچوڑنے کے کیا اصول ہیں؟یہ الگ بحث ہے)۔ تہذیبِ اسلامی میں تاریخ کے حاصل و نچوڑ (gist of history) کے اس اصول کا بجائے خود اطلاق، شانِ نزول جیسی روایات و احادیث کی تکوینی چھانٹی میں نظر آتا ہے۔ جس کے نتیجے میں قرآنی نظریہ تاریخ کا ایک تشریعی مطالبہ پورا ہوجاتا ہے۔ 
دیکھا جائے تو اس خاص حوالے سے نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم پر بتدریج نازل ہونے والا قرآن پاک نہ صرف ماقبل ضروری تاریخ کا احاطہ کیے ہوئے ہے بلکہ ما قبل تاریخ کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعثت کی عمرانی صورتِ حال کے ساتھ نامیاتی طور پر جوڑ بھی دیتا ہے۔ اس لیے ترتیبِ نزولی کا حامل قرآن تاریخ کے نچوڑ کے جلو میں، عصری مطالبات کی تکمیل کرتا دکھائی دیتا ہے۔ یعنی ایک لحاظ سے نزولِ قرآن کا یہ خاص پہلو صراحت کرتا ہے کہ تاریخ نہیں بلکہ چھانٹی شدہ تاریخ (selected history) سے ایک حد تک مدد لے کر عصری مسائل سے نمٹا جا سکتا ہے۔ (اسبابِ نزول کی روایات چونکہ بنیادی طور پر تاریخ ہیں اس لیے تاریخ سے ایک حد تک مدد کے قرآنی ضابطے کی مطابقت میں (تکوینی ذریعے سے) انھیں ایک حد تک ہی باقی رہنے دیا گیا ہے)۔ قرآن مجید، تاریخ کی چھانٹی یا نچوڑ کس اصول کے تحت کرتا ہے، تفصیلی تجزیے سے بچتے ہوئے قصص القرآن کے اجمالی جائزے سے ہی کم از کم ایک اساسی اصول دریافت ہو جاتا ہے۔ وہ اصول یہ ہے کہ تاریخی تفصیلات کی چھانٹی کے عمل میں، کسی ایسی عمرانی صورتِ حال اور اس کے مطالبات کو قرآن مجید میں کوئی جگہ نہیں دی جاتی، جو کسی بھی لحاظ سے کسی عمومی عمرانی صورتِ حال سے میل نہ کھاتے ہوں۔ اس لیے قصص القرآن میں مذکورواقعات کے مجمل اور مفصل ہونے کا تعین، کسی بھی عمومی عمرانی صورتِ حال سے ان کی مطابقت سے ہوتا ہے۔ 
(۱۵)
اسلام کے دورِ اول کے مذکورہ علائق و قرائن، اسلام کی نئی تعریف کے لیے ایک واضح راہ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یہ ہمیں بتاتے ہیں کہ قرآن مجید خالی خولی مجرد حالت میں نازل نہیں ہوا تھا بلکہ تاریخ کے نچوڑ کے عمل کی ہم راہی میں، معاصر عمرانی صورتِ حال سے جڑا ہوا تھا۔ اس تناظر میں اسوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کی ترتیبِ نزولی کا باہمی تعلق (co-relation) جہاں اہم ہو جاتا ہے، وہیں اس تعلق کے مطالعے کی افادیت، کسی بھی عمرانی صورتِ حال میں قرآن و سنت کے نفاذ کے لیے رول ماڈل بن جاتی ہے۔ اس مطالعے کے دوران میں ایک اساسی نکتہ دھیان میں رکھنا بہت ضروری ہے کہ کتاب اور صاحبِ کتاب کی اس نوع کی تفصیلات، قرآنی نظریہ تاریخ کی روشنی میں کھنگال لینی چاہییں۔ یعنی ان تفصیلات میں سے ترجیحی طور پر ان امور کو زیرِ بحث لانا چاہیے جو کسی بھی عمومی عمرانی صورتِ حال سے مطابقت رکھے ہوئے ہوں۔ ایک لحاظ سے یہ وہی کام ہے جو شارع نے خود نزولِ قرآن کے وقت، ماقبل تاریخ کی چھانٹی اور نچوڑ کی صورت میں کیا تھا، اب اس کام کی ذمہ داری امتِ مسلمہ کے کندھوں پر ڈال دی گئی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ محدثین کرام رحمۃ اللہ علیھم نے کتاب اور صاحبِ کتاب کی تفصیلات جمع کرنے میں اگرچہ تساہل نہیں برتا، لیکن ابھی تک ان تفصیلات کی چھانٹی، قرآنی نظریہ تاریخ کی روشنی میں قابلِ اطمینان حد تک نہیں ہونے پائی۔ 
(۱۶)
اس بحث کا ایک قابلِ اعتنا پہلو یہ ہے کہ قرآن مجید کی ترتیبِ نزولی کے بدل دیے جانے پر صورتِ حال بدل جاتی ہے۔ اسوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کی ترتیبِ نزولی کے باہمی تعلق کی حیثیت ’’تاریخ‘‘ کی ہو جاتی ہے۔ اب اس مخصوص عمرانی صورتِ حال کی حامل تاریخ میں سے نچوڑی عمل کے ذریعے سے حاصل شدہ تاریخ (gist of history)، جو کسی بھی عمرانی صورتِ حال کے موافق ہو سکے، اصولاً (قرآن کے داخل میں) محفوظ کر لی جانی چاہیے تھی۔ اور اسے محفوظ کر بھی لیا جاتا ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ جب تاریخی چھانٹی کا اطلاق کیا جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں قرآن مجید کی نزولی ترتیب (مخصوص تاریخی تفصیلات اور علائق و قرائن سے اوپر اٹھ کر) بجائے خود چھانٹی شدہ تاریخ کی صورت اختیار کر جاتی ہے۔ جس سے قرآن کی دو حیثیتیں سامنے آتی ہیں:
۱۔ قرآن مجید کی حتمی ترتیب اس کے چھانٹی شدہ تاریخ ہونے پر دلالت کرتی ہے۔
۲۔ یہی حتمی ترتیب کا حامل قرآن لوحِ محفوظ کی زینت ہے۔
قرآن مجید کی پہلی حیثیت ایک اعتبارسے اس امر کی علامت بن جاتی ہے کہ شارع نے تاریخ کی چھانٹی کا عمل قرآن کے داخل میں کر دکھایا ہے، اس لیے قرآن سے باہر خارج (روایات و احادیث وغیرہ) میں بھی تاریخی چھانٹی کا اطلاق، خود انسانوں کو کرنا چاہیے۔ قرآن مجید کی یہی پہلی حیثیت، قرآن مجید کے چھانٹی شدہ تاریخ ہونے کی بنا پر ایک مطالبہ بھی کرتی ہے کہ اسے ہر وقت کسی نہ کسی عمرانی صورتِ حال سے جوڑ (relate) کر رکھا جائے تا کہ وہ اپنے داخل میں پنہاں معنویت آشکارا کر سکے(جیسے نزول کے وقت قصص القرآن ایک طرف چھانٹی شدہ تاریخ تھے تو دوسری طرف انھیں اس کی وقت کی عمرانی صورتِ حال کے موافق کیا گیا)۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو قرآن مجید ایک مجرد صورت (abstract form) اختیار کر جاتا ہے(جیسے قصص القرآن کو عمرانی صورتِ حال سے جوڑا نہ جاتا تو وہ مجردِ محض (pure abstract) کے درجے میں رہتے)۔ اس لیے قرآن مجید کو گوشہ تنہائی سے نکالنے کے لیے از بس ضروری ہے کہ اسے عمرانی صورتِ حال سے لازمی تطبیق دی جائے، اور یہ حقیقت ڈھکی چھپی نہیں کہ صورتِ حال کا مکمل ادراک، اس مطابقت و موافقت کا بنیادی مطالبہ ہے۔ اس نکتے کا ایک مطلب یہ ہوا کہ آج بھی قرآن کے متن کے بجائے، موجود صورتِ حال کے مکمل ادراک کی اہمیت اسی طرح بہت زیادہ ہے جیسے نزولِ قرآن کے وقت تھی، ...... کہ نزولِ قرآن کے دوران میں شارع نے، اس وقت کے انسانی اور عمرانی مطالبات کو پوری طرح دھیان میں رکھتے ہوئے، حسبِ منشا آیات کو (پردہ غیب میں موجود) لوحِ محفوظ سے نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی تک پہنچایاتھا۔ 
نزولِ قرآن کی تکمیل کے بعد لوحِ محفوظ پردہ غیب میں نہیں رہی، بلکہ ایک لحاظ سے قرآن مجید کی حتمی ترتیب کی صورت میں منکشف ہو چکی ہے۔ جیسا کہ اوپر کی سطروں میں بیان کیا گیا کہ تاریخی چھانٹی کے بعد قرآن کی دو حیثیتیں سامنے آتی ہیں، ان میں سے دوسری یہی ہے کہ لوحِ محفوظ کی زینت، حتمی ترتیب کا حامل قرآن ہے۔ لوحِ محفوظ میں ہونے کے ناتے سے یہ قرآن، زماں و مکاں (time and space) سے ماورا ہے۔ قرآن کی یہ ماورائی حیثیت اسے ما بعد کی تاریخ پر بھی حاوی کر دیتی ہے۔ اس لیے اگر کسی کو قرآن پاک کے باطن میں جھانکنے کی توفیق مل جائے تو وہ شخص حال میں رہتے ہوئے بھی مستقبل کے ہفت خواں بآسانی طے کر سکتا ہے۔ 
(۱۷)
ہماری نظر میں اسلام کی نئی تعریف کابنیادی تعلق، شارع کے اس مطالبے سے ہے کہ (منکشف) لوحِ محفوظ میں سے حسبِ منشا آیات، عمرانی صورتِ حال کے موافق تلاش کی جائیں، ...... یعنی، قرآن کوپھر سے نازل ۔وحی کیا جائے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اب نہ تو خدا نازل کرے گا اور نہ ہی کوئی نبی ہو گا جس پر نازل کرنا خدا کا منشا ہو۔ لیکن قرآن اپنی اس حیثیت میں، کہ یہ نچوڑی ہوئی چھانٹی شدہ تاریخ ہے، اپنے جواز کے لیے کسی عمرانی صورتِ حال سے مطابقت کا مطالبہ کرتا ہے۔ اور اپنی دوسری حیثیت میں، کہ یہ زماں و مکاں سے ماورا (منکشف) لوحِ محفوظ ہے، اپنے میں سے انزال (اطلاق و انطباق) کی سہولت بھی دیتا ہے۔ اور یہ وہ کام ہے جو شارع نے ایک خاص زمانے کی عمرانی صورتِ حال کے موافق اسے نازل کر کے ’’رول ماڈل‘‘ کے طور پر کر دکھایا ہے، اور اب ہم سے وہی کچھ کرنے کی توقع کی جا رہی ہے۔ بہرحال! اس نکتے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ایک طرف قرآن مجید، چھانٹی شدہ تاریخ ہونے کے ناتے عمرانی صورتِ حال سمجھنے کا مطالبہ کرتا ہے تو دوسری طرف، لوحِ محفوظ سے انزال (اطلاق و انطباق) کی سہولت میں عمرانی صورتِ حال پر قابو پانے میں معاون بھی ثابت ہوتا ہے۔اس کا ایک سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ ہم مطالبہ پورا کریں گے تو صرف اسی صورت میں تعاون ملے گا۔ 
اس بحث کے تناظر میں اسلام کی نئی تعریف کی تلاش کے دو بنیادی تقاضے سامنے آتے ہیں:
۱۔ موجود واقعی صورتِ حال کا مکمل ادراک حاصل کیا جائے۔ 
۲۔ قرآن کے باہر خارج میں پائی جانے والی تاریخی تفصیلات کی قرآنی نظریہ تاریخ کی روشنی میں چھان پھٹک کی جائے۔ اپنے اسلاف کے کارناموں کی تفصیلات میں سے صرف معاصر صورتِ حال کے موافق مواد لینے پر اکتفا کیا جائے۔ تاریخ کے نچوڑ کے اس عمل کے نتیجے میں، ہو سکتا ہے کہ بعض ایسے افراد کے نام تک سامنے نہ آنے پائیں، جنھیں ہم اکابرین میں شمار کرتے ہیں۔ لیکن ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ اس سے ان کابرین کی ذرہ برابر تحقیر نہیں ہوتی، کہ خود قرآن نے تاریخی نچوڑ کے عمل میں کئی انبیا علیھم السلام کے نام تک نہیں لیے۔ 
اہم بات یہ ہے کہ یہ دونوں تقاضے ایک دوسرے کی تکمیل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ صورتِ حال کے مکمل ادراک سے، تاریخی جزئیات کی چھان پھٹک کے بعد معاصر صورتِ حال کے موافق تاریخی مواد الگ کرنے میں سہولت ہوتی ہے، اسی طرح تاریخی تفصیلات کی چھانٹی کے عمل سے معاصر صورتِ حال کا ادراک نہ صرف تاریخی شعور سے بہرہ مند ہوتا ہے بلکہ درست سمت میں بھی گامزن رہتا ہے۔ 
بہرحال! ان دو مطالبوں کی تکمیل کے بعد (منکشف) لوحِ محفوظ(حتمی ترتیب کے حامل قرآن) سے حسبِ منشا آیات لینے کامرحلہ آتا ہے۔ یہ مرحلہ اس اعتبار سے بہت حساس ہے کہ کوئی بھی شخص اپنی مرضی کی آیت لے کر اس کا اطلاق کر سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے عملی طور پر ایسا کرنا ممکن نہیں ہو گا کیونکہ مذکورہ دو مطالبوں کی تکمیل بجائے خود، اس کی من چاہی مرضی میں رکاوٹ ثابت ہو گی،....... اس لیے اسلام کی نئی تعریف کی تلاش کے اس مرحلے پر موضوعیت (subjectivity) کو در آنے کا کم سے کم موقع ملے گا۔ 
(۱۸)
اہلِ علم کو اس نکتے پر غور کرنا چاہیے کہ نزولی ترتیب کا حامل قرآن خدا نے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا، لیکن چونکہ یہ ایک خاص عمرانی صورتِ حال میں نازل ہوا، اور اس کے مخاطبین اسی صورتِ حال کے پروردہ تھے، اسی لیے اس پورے نزولی قرآن کو مخصوص صورتِ حال اور مخصوص مخاطبین تک محدود کرنے کے لیے، اور آنے والے زمانوں کو اس نزولی قرآن کے علائق و قرائن سے محفوظ رکھنے کے لیے پورے نزولی قرآن کی پوری ترتیب کو بدل دیا گیا۔ اب اہلِ علم کے غور کرنے کا مقام ہے کہ کیا ائمہ اربعہ یا دیگر فقہاو اصولیین کی اختراعات، (جو کہ مخصوص عمرانی صورتِ حال کی پیداوار اور اس کی مطابقت میں تھیں)اس نزولی قرآن سے بہت بڑھ کر ہیں کہ ہم انھیں ہمیشہ کے لیے ساتھ لیے پھریں؟ 
فی زمانہ ایک ایسا ٹھیٹھ مذہبی حلقہ بھی پایا جاتا ہے جس کے افراد جسمانی طور پر معاصر عمرانی صورتِ حال سے جڑے ہوئے ہیں، لیکن ذہنی طور پر ابتدائے اسلام کے دور میں رہتے ہیں۔ انھیں بھی اس نکتے پر غور کرنا چاہیے کہ ابتدائے اسلام کے علائق و قرائن ایک خاص حکمت کے تحت ہی صرف اسی دور کے لیے مخصوص کیے گئے تھے(جیسا کہ اوپر کی سطور میں واضح ہو چکا)۔ اگر یہ لوگ اپنے موقف پر بضد قائم ہیں تو انھیں چاہیے کہ اولاً، ویسی ہی عمرانی صورتِ حال پیدا کریں، دوم ، اسی نبوی نزولی ترتیب کا دوبارہ اطلاق کرکے صورتِ حال کی اصلاح کریں۔ ہماری نظر میں یہ دونوں کام محال (impossible) ہیں۔ 
(۱۹) 
خلاصہ بحث یہ ہے کہ اسلام کی نئی تعریف کی تلاش کے لیے سب سے پہلے واقعی صورتِ حال کا ادراک درکار ہے۔ انسانی مسائل کی نشاندہی، مسائل کی نشاندہی میں ترجیحات وغیرہ۔ اس کے بعد ہمیں حتمی ترتیب کو (بتدریج) اپنے مخصوص احوال کے تناظر میں (نئی) نزولی ترتیب میں ڈھالناہے، جو عہدِنبوی ﷺ کی نزولی ترتیب سے کافی مختلف ہوسکتی ہے، اور ضروری نہیں یہ ترتیب مکمل بھی ہو۔ عجیب بات یہ ہے کہ نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں پورا قرآن مجید ایک ہی وقت میں نازل نہیں ہوا، یعنی نبوی نزولی ترتیب میں پورے کا پورے قرآن یک دم سامنے نہیں آیا۔ لیکن اب پورا قرآن موجود ہے اور ہم اسے پور ا ہی نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ حالاں کہ نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی مکمل قرآن لوح محفوظ میں (مستور) موجود تھا، اب وہی مستور لوح محفوظ ، حتمی ترتیب کی صورت میں ہمارے سامنے افشا ومنکشف ہے۔ حتمی ترتیب کا حامل یہ قرآن پاک اسی طرح پورا ہے جیسے نبوی عہد میں نزول کے دوران میں (مستور) لوحِ محفوظ میں پورا اور مکمل موجود تھا۔ پھر اسی پورے اور مکمل قرآن میں سے بتدریج اور صورتِ حال کے موافق آیات نازل ہوتی رہیں۔اب ہمیں بھی نزولِ قرآن کی حکمت کے اتباع میں، افشا لوحِ محفوظ(حتمی ترتیب کے حامل موجودہ قرآن) سے نئی نزولی ترتیب بنانی ہے۔ اب ہمیں بھی لوح محفوظ (حتمی ترتیب) سے نزولی ترتیب کی طرف آنا ہے،اب لوح محفوظ سے حسبِ منشا آیات لینے میں خدا اور جبریل ؑ کا کوئی کردار نہیں ہے کہ مشیتِ ایزدی کے تحت اہلِ علم کو یہ کام خود کرنا ہے۔ البتہ اس دوران میں نبوی نزولی ترتیب اور اس کے حاصلات کو ’’ماڈل‘‘ کے طور پر لینا ہے، کہ کہیں صورتِ حال پر غالب آنے کے بجائے الٹا اس کا شکار نہ ہو جائیں۔ 
(۲۰)
بحث کے اختتام کی طرف بڑھتے ہوئے ہم گزارش کریں گے کہ عصرِ حاضر میں (پاکستان جیسے ممالک میں) اسلام کے نفاذ کی جدوجہد کرنے والے، کسی نہ کسی درجے میں اپنے نام نہادمقاصد پا لینے کے باوجود، حقیقی مقاصد اس لیے حاصل نہیں کر پاتے، کیونکہ وہ اسلام کی ایک فرسودہ (out dated) قانونی تعریف سے چمٹے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ انھوں نے اپنی کوششوں کے بل بوتے پر اجتہاد کا دروازہ بند رکھا ہوا ہے اور امت کو بہت بڑے انتشار سے بچایا ہوا ہے۔ ہم اوپر کے مباحث میں دیکھ آئے ہیں کہ اجتہاد کے بند دروازے کے افسانے کے پیچھے ، اصلاً اخلاقی اقدار (امانت،حیا،دیانت) کے جنازے کا سانحہ، امت مسلمہ پر قیامتِ صغریٰ بن کر ڈھ چکا ہے۔ یہ سانحہ، اسلام کی نئی تعریف کی دریافت (اجتہاد) میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ 
اہلِ علم کو یہ نکتہ دھیان میں رکھنا چاہیے کہ نبوت ملنے سے پہلے نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفاتِ مبارکہ میں سے ’’امانت اور دیانت‘‘ کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شدید ترین مخالفین بھی قائل اور معترف تھے۔ یہ دونوں صفات اگرچہ ذاتی ہیں، لیکن اپنے دائرہ کار کے لحاظ سے معاشرتی ہیں۔ مذکورہ مباحث کے تناظر میں ہم یہ اخذ کر سکتے ہیں کہ نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم ’’امانت و دیانت کی معراج‘‘ پر تھے، اسی لیے (پردہ غیب میں موجود) لوحِ محفوظ سے قرآن پاک آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا۔ یعنی بنیادی طور پر صفاتِ امانت و دیانت کی بدولت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کا حق دار ٹھہرایا گیا، اور قرآن کو پردہ غیب سے ظہور میں لایا گیا۔ عام انسانوں کے لیے امانت و دیانت کی اس سطح تک پہنچنا محال ہے۔ اس لیے عام انسان اپنی دیانت کے بل بوتے پر پردہ غیب سے تو قرآن کو ظہور میں نہیں لا سکتے(اسی لیے اللہ رب العزت نے اپنی خاص رحمت (رحمت للعالمین ﷺ) کے ذریعے انسانوں کی یہ مشکل آسان کر دی ہے)، لیکن عام انسان دیانت کے خالصاً انسانی درجے کے ذریعے، پہلے سے ظہور میں آئے ہوئے قرآن کا(دوبارہ) انزال تو کر سکتے ہیں۔ مشیتِ الٰہی، انسانی دیانت سے اسی انزال کا مطالبہ کرتی ہے۔
اس لیے یہ توقع رکھنا غلط نہیں ہو گا کہ اسلام کی فرسودہ قانونی تعریف سے چمٹے رہنے کے بجائے اگر مسلمان قرآن کے تاریخی نظریے کی روشنی میں تاریخی شعور سے بہرہ مند ہو جائیں تو باحیا (modest) ہونے کے ناتے خداد داد صلاحیتوں کی امانت میں خیانت کے مرتکب نہیں ہوں گے، جس کے نتیجے میں ان کے لیے معاصر عمرانی صورتِ حال کے بھر پور ادراک کے بعد دیانت کے بل بوتے پر قرآن مجید کو زندہ مسائل کی مطابقت و موافقت میں لینا مشکل نہ رہے گا۔ آخر میں ہم گزارش کریں گے کہ نفاذِ اسلام کی جدوجہد کرنے والوں کو اس حقیقت سے واقف ہو جانا چاہیے کہ عصرِ حاضر میں اسلام کی تنفیذ کوئی قانونی قسم کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ حقیقت میں اخلاقی اور فکری نوعیت کا مسئلہ ہے۔ مسئلے کی اخلاقی و فکری اور جمالیاتی نوعیت، نفاذ (implementation) کی نہیں بلکہ نفوذ (penetration) کا تقاضا کرتی ہے۔ اس لیے اسلام کی قانونی تنفیذ کے پیچھے اپنی صلاحیتیں ضائع کرنے کے بجائے ان حضرات کو ’’تفقہ فی الدین‘‘ کی بلاغت پر اپنی عمریں کھپانی چاہییں۔ 

استدراک

پاکستان میں ریاستی اور معاشرتی سطح پر جس درجے کی بے حیائی بے ایمانی اور بددیانتی رواج پا چکی ہے، اسے دیکھتے ہوئے اصلاحِ احوال کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ ہم نے یہ مضمون رمضان المبارک میں تحریر کیا ہے۔ رمضان کے مبارک مہینے میں پاکستان کی مسلم اکثریتی آبادی کا ایک ایساطرزِ عمل مشاہدے میں آتا ہے جس سے بہتری کی آس لگ جاتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت روزہ رکھتی ہے اور ہم سمیت تقریباً سبھی لوگ بھوکاپیاسا رہنے ہی کو روزہ سمجھتے ہوئے کھانا پینا ترک دیتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ہم لوگ روزہ دار ہوتے ہوئے بھی باہمی معاملات میں اگرچہ بڑی ڈھٹائی سے ایک دوسرے کو ہاتھ کراتے ہیں لیکن خدا سے شرم کھاتے ہیں اور کثرتِ مواقع کے باوجود کھانے پینے سے مکمل پرہیز کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے اندر کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی درجے میں خدا سے ایسے تعلق کی خوبو موجود ہے جو ہمیں باور کراتی رہتی ہے کہ خدا دیکھ رہا ہے۔ اگر ہم سماجی و ریاستی فریضے کی انجام دہی میں بھی خدا پر ایمان اور اس کے دیکھنے کا یہ تصور لے آئیں تو نہ صرف باحیا ہو سکتے ہیں بلکہ اپنی صلاحیتوں کے دیانت دارانہ اظہار سے انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔ 

ماہنامہ ’الشریعہ‘ اہل علم و ادب کی نظر میں

ادارہ

اہل علم وادب کے پیغامات اور تبصروں کا ایک انتخاب


’’میں روز اول ہی سے اس رسالے کا باقاعدہ قاری ہوں۔ آپ کی تحریروں اور مضامین میں جو اعتدال اور توازن ہوتا ہے، وہ گزشتہ کچھ عرصے سے کم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ آپ کی تحریریں ملک میں ایک متوازن اور معتدل مذہبی رویے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کریں گی۔‘‘ 
(ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ، سابق صدر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد)

’’آپ نے ایک نئی طرح ڈالی ہے۔ باعث دلچسپی ہے۔ خدا کرے رفتہ رفتہ یہ تجربہ ایسے نہج میں ڈھل جائے کہ سوچ کی مثبت اور مفید تبدیلی کو راہ ملے۔ آپ کو ما شاء اللہ رفقائے قلم اچھے میسر آگئے ہیں۔ شاید نئی نہج ہی کی برکت ہے۔‘‘ 
(مولانا عتیق الرحمن سنبھلی، سرپرست ماہنامہ الفرقان، لکھنو)

’’آپ کا رسالہ ’الشریعہ‘ ایک مدت تک میری نظر سے گزرتا رہا۔ مسائل حاضرہ کو ان کے صحیح تناظر میں دیکھنے پر آپ کو مبارک باد دیتا ہوں۔‘‘ 
(ڈاکٹر رشید احمد جالندھری، سابق ڈائریکٹر ادارۂ ثقافت اسلامیہ، لاہور)

’’اپنے علمی اور دینی معیار کے اعتبار سے اور موضوعات کے تنوع کے لحاظ سے بلاشبہ ’الشریعہ‘ صف اول کا جریدہ ہے۔ .... ’الشریعہ‘ وہ واحد اردو جریدہ ہے جسے اول تا آخر پڑھتے ہوئے خوشی ہوتی ہے۔ ۔۔۔ اختلاف رائے کو رواداری کے ساتھ قبول کرنا، دوسرے کی رائے کو احترام کے ساتھ سننا، اگر اس سے اتفاق نہ ہو تو نہایت ہی احترام کے ساتھ اس سے اختلاف کا اظہار کرنا۔ یہ ایک ایسی خوشگوار اور ایسی حیرت انگیز روایت اس ادارے نے قائم کی ہے کہ آپ کو پورے پاکستان میں اس کی مثال نہیں مل سکتی۔‘‘ 
(ڈاکٹر ممتاز احمد، صدر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد)

’’الشریعہ شکریے اور مبارک باد کا مستحق ہے کہ اس نے اس لوٹ کھسوٹ کے دور میں بھی علمی مباحثے کا فورم مہیا کیا ہوا ہے جس کے نتیجے میں گراں قدر علمی تحقیقات سے استفادے کا موقع میسر آ جاتا ہے۔ ۔۔۔ ماہنامہ الشریعہ جس قدر اہم، وقیع، علمی اور تحقیقی مجلہ ہے، اس کے معیار، مقام، اثرات اور محبوبیت کا کارپردازان الشریعہ کو کماحقہ علم یا احساس نہیں‘‘ 
(ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی، سابق ڈین فیکلٹی آف اسلامک اسٹڈیز، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد)

’’الشریعہ‘‘ اتنا بڑا ماڈل ہے کہ ڈاکٹر ظفر الاسلام (مدیر ملی گزٹ، دہلی) نے مجھ سے کہا کہ ہمیں ’الشریعہ‘ جیسا فکری پرچہ انڈیا سے بھی نکالنا چاہیے۔‘‘ 
(مولانا محمد وارث مظہری، مدیر ’’ترجمان دار العلوم‘‘ دہلی)

’’میں الشریعہ کی تحریروں کا خاص توجہ سے مطالعہ کرتا ہوں۔ ایسا فکری جریدہ ہمارے ہاں انڈیا سے شائع نہیں ہوتا۔‘‘ 
(مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی، مدیر سہ ماہی ’’احوال وآثار‘‘ کاندھلہ، انڈیا)

’’الشریعہ کی پاکستان کے علمی حلقوں میں اپنے مخصوص اسلوب اور سنجیدہ تحریروں کے باعث امتیازی پہچان ہے۔ الشریعہ قدیم علمی مباحث کے بجائے امت کو درپیش زندہ مسائل میں راہنمائی کو فوقیت دیتا ہے۔ ...... ہماری دانست میں سنجیدہ علمی تحریروں سے دلچسپی رکھنے والے قارئین کے لیے ’الشریعہ‘ کا انتخاب بالکل بجا ہے۔‘‘ 
(مولانا محمد ازہر، مدیر ماہنامہ ’’الخیر‘‘ ملتان)

’’الشریعہ کسی دوسرے درجے کے رسالے کا نام نہیں، بلکہ مبالغہ نہ ہو تو میں اسے پاکستان کے چند نمایاں ترین علمی جرائد میں شمار کروں گا۔‘‘
(آصف محمود ایڈووکیٹ، کالم نگار روزنامہ ’’آج کل‘‘)

’’میں ہر طرح کا لٹریچر اور ہر مکتبہ فکر کی کتابیں یکساں دلچسپی سے پڑھنے کا عادی ہوں، لیکن سچ پوچھیے تو میں آہستہ آہستہ ’’الشریعہ‘‘ کا مستقل قاری بن گیا۔ اس کی وجہ اس مجلے کا متوازن مزاج بھی تھا اور اس کا جواں سال ایڈیٹر محمد عمار ناصر خان بھی۔ اس مجلے میں مجھے پروفیسر شاہدہ قاضی کے عالمانہ مگر تلخ حقائق پر مبنی تحقیقی مضامین بھی پڑھنے کو ملے اوران پر پروفیسر انعام ورک کی تنقید بھی۔‘‘ 
(راجہ انور، دانش ور وصحافی)

’’الشریعہ میں ان کا تحریر کردہ اداریہ فکر ونظر کی بالیدگی کا بھی ذریعہ تھا اور عصر حاضر کی ضرورتوں اور تقاضوں کو سمجھنے اور ان کے لیے راہ عمل کی طرف راہنمائی بھی کرتا تھا۔‘‘ 
(مولانا صلاح الدین یوسف، دار السلام، لاہور)

’’ہر مہینے ’’الشریعہ‘‘ میں آپ کی نگارشات پڑھتا ہوں جو ہمیشہ فکر انگیز اور بصیرت آموز ہوتی ہیں۔ علمی گہرائی کے ساتھ ساتھ نقطہ نظر کی اعتدال پسندی اور تجزیے کی معروضیت ان نگارشات کو ہمارے دینی اور ذہنی ادب کا شاہکار بنا دیتی ہے۔‘‘
(قاضی جاوید، ڈائریکٹر ادارۂ ثقافت اسلامیہ لاہور)

’’الشریعہ‘ ایک ایسا پرچہ ہے جس کا انتظار رہتا ہے اور اس انتظار کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس میں سلگتے ہوئے دینی واجتماعی مسائل پر ’’سود وزیاں‘‘ سے بالاتر رہتے ہوئے بحث کی گنجائش پیدا کی گئی ہے۔‘‘ 
(پروفیسر سلیم منصور خالد، ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘)

’’یہ محض زبانی الفاظ نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ دینی رسالوں کے ایک جم غفیر میں مجھے یہ ہی رسالہ ایسا لگا کہ جسے میں اپنے پڑھے لکھے دوستوں میں پیش کر سکتا ہوں۔ ....انگریزی میں ایک محاورہ ہے: Food for thought۔ .....آپ کا رسالہ دراصل یہی ’ذہنی غذا‘ فراہم کر رہا ہے، اور واللہ یہ آج کی بہت ہی نایاب جنس ہے۔‘‘ 
(ڈاکٹر حافظ صفوان محمد چوہان)

’’آپ نے آزادانہ علمی بحث کے ذریعے مسائل کو سمجھنے کا بہترین طریقہ اختیار فرمایا ہے جو انتہائی قابل قدر ہے اور اس سے ایک دوسرے کو سمجھنے سمجھانے کا بہت اچھا فائدہ حاصل ہوا ہے۔‘‘ 
(محمد یونس قاسمی، ایڈیٹر ’’خلافت راشدہ‘‘)

’الشریعہ‘کا ہر صاحب دل ونظر قاری محسوس کر سکتا ہے کہ آپ جیسے صاحبانِ علم کا قلم نفرتوں کی بھسم کرتی ہوئی آگ پر محبتوں کی برکھا برسانے اور قومی وجود پر جگہ جگہ موجود زخموں پر پھاہے رکھنے کی اپنی سی کوشش میں مصروف ہے۔‘‘ 
(ڈاکٹر محمد شہباز منج، شعبہ اسلامیات، سرگودھا یونیورسٹی)

’’روایتی مذہبی میگزین یا رسالوں کے لیے تو کوئی گنجائش نہیں نکلتی، لیکن آپ کا ’الشریعہ‘ جب ہاتھوں میں آتا ہے تو نہ نہ کرتے ہوئے بھی محض ورق گردانی کے دوران اس کے بیشتر حصے پڑھتا چلا جاتا ہوں۔ یہ آپ کے میگزین کی خوبی یا دلچسپی ہے کہ چھٹتی نہیںیہ کافر منہ کو لگی ہوئی۔‘‘ 
(افضال ریحان، کالم نگار روزنامہ پاکستان، لاہور)

’’حالات حاضرہ اور بعض علمی نکات کے حل میں الشریعہ کا شاید ہی کوئی ثانی ہو۔ اللہ تعالیٰ آپ کی اس سعی کو شرف قبولیت سے نوازے۔ آمین‘‘ 
(مولانا محمد فاروق کشمیری)

’’ماہنامہ الشریعہ ہر مہینے وصول ہو کر ہوا کا ایک تازہ جھونکا مہیا کرتا رہتا ہے۔ ..... الشریعہ جیسے جریدے میں اپنے نقطہ نظر کی اشاعت میں ایک فائدہ یہ بھی متوقع ہے کہ اسے تنقید اور بحث کی چھلنی سے گزرنے کا موقع مل جائے گا اور اس سے مختلف کوئی رائے ہوگی تو وہ بھی سامنے آ جائے گی۔ دیگر دینی جرائد میں یہ بات تقریباً ناپید ہے۔‘‘ 
(مولانا مفتی محمد زاہد، شیخ الحدیث جامعہ امدادیہ، فیصل آباد)

’’ماہنامہ ’الشریعہ‘ باقاعدگی سے فکر ونظر کی تازگی کے لیے موصول ہو رہا ہے۔ بظاہر مجلہ پچاس کے لگ بھگ صفحات پر مشتمل ہوتا ہے، لیکن ان صفحات میں جو مواد ہوتا ہے، وہ نہایت قیمتی اور فکر انگیز ہوتا ہے۔ مجلہ کو جب تک اول تا آخر پڑھ نہ لیا جائے، چین نہیں آتا۔‘‘ 
(ڈاکٹر محمد عبد اللہ، شعبہ اسلامیات، جامعہ پنجاب)

’’ادارہ میں آنے والے جرائد ورسائل میں ایک ’الشریعہ‘ بھی ہے جسے بالاستیعاب پڑھتا ہوں اور اس کے مضامین سے استفادہ کرتا ہوں۔‘‘ 
(مولانا ارشاد الحق اثری، ادارۂ علوم اثریہ، فیصل آباد)

’’ماہنامہ الشریعہ ایک معیاری رسالہ ہے جس میں عصر حاضر کے اہم موضوعات، حالات وواقعات پر خوبصورت مواد پڑھنے کو ملتا ہے جو کہ ہمارے طلبا وطالبات، ریسرچرز اور اساتذہ کرام کے لیے دلچسپی کا باعث ہے۔ ‘‘ 
(رفعت رفیق، لائبریرین، شعبہ علوم اسلامیہ، جامعہ پنجاب)

’’دیگر اسلامی جرائد بھی موصول ہوتے ہیں، لیکن الشریعہ کا فکری رنگ ہی منفرد اور جداگانہ ہے۔ میں ہرشمارہ بڑی توجہ سے پڑھتاہوں اور کئی مرتبہ اس کے روشن خیالی اور شعور انسانیت پر مبنی فکر انگیز مضامین اپنے ہم خیال مسلم دوستوں کو بھی پڑھنے کے لیے دیتاہوں۔‘‘ 
(ڈاکٹر کنول فیروز، مسیحی راہنما)

’’یہ مختصر سا رسالہ علمی وادبی جرائد میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ مباحثہ ومکالمہ کے مضامین نہایت اہمیت رکھتے ہیں۔ ..... ماشاء اللہ دیکھا جائے تو الشریعہ میں سب کچھ ہی پڑھنے کے قابل ہے۔ ‘‘ 
(جاوید اختر بھٹی، ادیب ونقاد، ملتان)

’’ماہنامہ الشریعہ ۔۔۔ ملک کا نامور ماہنامہ ہے ۔۔۔ بحث و مباحثہ کے پلیٹ فارم پر اس رسالہ نے اہل علم اور عوام الناس میں غیر معمولی شہرت حاصل کی ہے۔‘‘ 
(مولانا محمد فیاض خان سواتی، ماہنامہ ’’نصرۃ العلوم‘‘، گوجرانوالہ)

’’اس علمی جریدے نے روز اول سے عمومی گروہ بندی اور فرقہ بندی سے اٹھ کر فکری حوالے سے ایسی ساکھ بنا لی ہے کہ یہ جریدہ ’’پڑھے جانے والے جرائد‘‘ میں سرفہرست ہے۔ اس کے مضامین میں تنوع کے ساتھ ساتھ اجتماعیت کا رنگ نمایاں ہے جو گہرائی اور گیرائی کے ساتھ لکھے جاتے ہیں ۔۔۔ اس علمی جریدہ نے مختلف حوالوں سے اپنی خصوصی اشاعتوں میں فکری رہنما کاکردار ادا کیا ہے۔‘‘
(مولانا عبد القیوم حقانی، ماہنامہ ’’القاسم‘‘ نوشہرہ)

’’جس علمی اور فکری تحریک کی ہمیں اس وقت ضرورت ہے، اس کے لیے ہمیں ایسی ہی کاوشیں درکار ہیں جو ذہنوں میں سوال اٹھائیں، سوچنے پر مجبور کریں اور منجمد ذہنوں کو جنبش دیں۔ یہ بات میں الشریعہ میں چھپنے والے مضامین میں موضوعات کے انتخاب، زاویہ ہائے بحث اور موجودہ حالات میں ان کے انطباق کے حوالے سے کہہ رہا ہوں۔‘‘ 
(صفدر سیال، ماہنامہ ’’تجزیات‘‘ اسلام آباد)

تن ہمہ داغ داغ شد ۔۔۔

حکیم محمد عمران مغل

ایک دبلے تلے اور نحیف نوجوان محمد احمد سے سر راہ ملاقات ہوئی۔ کہنے لگے کہ آپ سے ملاقات کا ارادہ تھا۔ میں وہیں رک کر ان کی داستان الم سننے لگا۔ کہنے گے کہ میں میاں چنوں کے علاقے اقبال نگر سے تعلق رکھتا ہوں۔ اب رزق کی تلاش میں ایک عرصے سے لاہور میں مقیم ہوں اور منوں ٹیکسٹائل مل لاہور میں بطور کیشئر خدمات انجام دے رہا ہوں۔ اگرچہ ملازمت تو شایان شان ہے، مگر کھانا اطمینان سے نصیب نہیں ہوتا، عموماً بازار سے کھانا پڑتا ہے۔ علاج کی تمام امکانی کوششیں رائیگاں جاتی نظر آتی ہیں۔ اپنے طور پر میں نے ہر بڑے معالج کی دکان پر دستک دی ہے۔ مل مالکان نے اپنی پوری کوشش کی ہے کہ میری سابقہ صحت لوٹ آئے۔ مجھے پوری اجازت تھی کہ جہاں سے چاہوں، جیسے چاہوں، مل کی رقم سے اپنا علاج کرا لوں، مگر اب تو معالجوں سے امید ٹوٹ گئی ہے۔ نوجوان نے بتایا کہ مل مالکان ان کی حسن کارکردگی کو دیکھتے ہوئے ان کا علاج بیرون ملک سے کرانے کا سوچ رہے ہیں۔ 
نوجوان کی جسامت، رنگ، چال ڈھال سے بخوبی اندازہ ہو رہا تھا کہ اس کھنڈر کی عمارت کبھی عظیم تھی۔ ان کے ہر فعل سے کارکردگی کا مظاہرہ ہو رہا تھا۔ساتھ یہ بھی احساس ہو رہا تھا کہ ابھی زندگی کے کئی نازک لمحات سے انھوں نے گزرنا ہے اور ان کا دل ابھی سے زندگی سے اچاٹ ہو گیا ہے۔ میں نے پوچھا کہ آخر تکلیف کیا ہے اور کتنے عرصے سے ہے؟ کہنے لگے کہ تمام جسم میں دردیں ہیں، خصوصا کھانا کھانے سے دردیں، قے او رمتلی ہونے لگتی ہے۔ کبھی بے حد اشتہا محسوس ہوتی ہے اور کبھی بھوک بالکل بند ہو جاتی ہے۔ کبھی قبض، کبھی پیچش۔ منہ سے مسلسل بدبو، سردرد اوربخار۔ گویا تن ہمہ داغ داغ شد پنبہ کجا کجا نہم۔ ادھر بیماریوں کی بھرمار، ادھر معالج لاچار۔
اس سے پہلے میرا بیماریوں کے ایسے چھتے سے واسطہ نہ پڑا تھا اور نہ میرے پاس کوئی تیر بہدف نسخہ تھا۔ صلاح مشورے کے بعد میں نے ان سے کہا کہ اللہ کے فضل سے علاج ہو جائے گا، بیرون ملک جانے کی ضرورت پیش نہ آئے گی۔ میں نے بیماریوں کے بحر ظلمات میں اطبا کے مجربات سے مزین گھوڑے کو دوڑا دیا۔ نوجوان کو خطرناک ترین مرض السر (معدے کا پھوڑا) تھا اور کوڑی کا درد بھی۔ معدہ کے علاوہ پتہ، گردہ، انتڑیوں اور جگر کا ورم بھی عروج پر تھا۔ ایک ماہ کی تگ ودو کے بعد ایک تیر نشانے پر جا لگا اور اللہ نے مریض کو صحت عطا کر دی۔ 
ہو الشافی: دن میں تین بار ہر کھانے کے بعد ہمدرد دواخانہ کی قرحین اور سوسی، صبح وشام سادہ پانی سے استعمال کریں۔ بادی اشیاء سے مکمل پرہیز کامیاب علاج ہے۔ ایک ماہ کے بعد مریض ہشاش بشاش، تنو مند، چاق وچوبند ہوگا۔ 

شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے

ادارہ

کیسی بخشش کا یہ سامان ہوا پھرتا ہے
شہرا سارا ہی پریشان ہوا پھرتا ہے

ایک بارود کی جیکٹ اور نعرۂ تکبیر
راستہ خلد کا آسان ہوا پھرتا ہے

کیسا عاشق ہے تیرے نام پہ قرباں ہے مگر
تیری ہر بات سے انجان ہوا پھرتا ہے

شب کو شیطان بھی مانگے ہے پناہیں جس سے
صبح وہ صاحب ایمان ہوا پھرتا ہے

ہم کو جکڑا ہے یہاں جبر کی زنجیروں نے
اب تو یہ شہر ہی زندان ہوا پھرتا ہے

جانے کب کون کسے مار دے کافر کہہ کر
شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے

(شاعر: نامعلوم)

اکتوبر ۲۰۱۲ء

توہین رسالت، مغرب اور امت مسلمہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گاپروفیسر محسن عثمانی ندوی
اہانت اسلام کے واقعات اور مسلمانوں کا رد عملمولانا محمد یحیی نعمانی
فلم کا فتنہخورشید احمد ندیم
توہین رسالت کا مسئلہ اور ہماری حکمت عملیمولانا وقار احمد
عصری تعلیم کے اسکولوں پر توجہ کی ضرورتصادق رضا مصباحی
احکام شریعت بطور نعمت الٰہی / احتجاج وانتقام اور اسلامی اخلاقیاتمحمد عمار خان ناصر
غامدی صاحب کے ایک سوال کا جوابحافظ زبیر علی زئی
آئیے تاریخ پڑھیں!طلحہ احمد ثاقب
جماعت اسلامی کا داخلی نظم سید وصی مظہر ندویؒ کی نظر میں (۱)چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ
مکاتیبادارہ
تین افسانےمحمد بلال
الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے تعلیمی وتربیتی پروگرام (۲۰۱۲ء)ادارہ

توہین رسالت، مغرب اور امت مسلمہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

توہین رسالت کا مسئلہ ایک حالیہ امریکی فلم کے حوالے سے ایک بار پھر پوری دنیا میں موضوع بحث ہے اور دنیا بھر کے مسلمان اس سلسلہ میں اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں جو ان کے ایمان وعقیدت کا مظہر ہے اور اس حقیقت کا عالمی فورم پر ایک بار پھر بھرپور اظہار ہے کہ دنیا کا کوئی بھی مسلمان کسی بھی حوالے سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کو برداشت نہیں کر سکتا اور اس سلسلے میں دنیا کے ہر خطے کے مسلمانوں کے جذبات ایک جیسے ہیں۔ 
میں نے وہ فلم نہیں دیکھی، نہ دیکھنا چاہتا ہوں اور نہ ہی شاید دیکھ سکوں، اس لیے کہ ایک عام انسان کی توہین پر بھی میرے دل میں کچھ نہ کچھ کسک ضرور پیدا ہوتی ہے، کائنات کی سب سے محترم شخصیت حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کا منظر کیسے دیکھ سکوں گا؟ میں نے سلمان رشدی کی بدنام زمانہ تصنیف ’’شیطانی آیات‘‘ بھی چند صفحات پر نظر ڈال کر چھوڑ دی تھی کہ اس سے آگے پڑھنے کی مجھ میں سکت نہیں تھی۔
اخبارات میں اس شرمناک فلم کے ہدایت کار نکولا سبیلی نکولا کا ایک بیان شائع ہوا ہے جس میں اس نے کہا کہ مسلمانوں میں برداشت اور حوصلہ نہیں ہے، انھیں اختلاف اور تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہیے۔ یہ بات مغرب کے بہت سے دانش ور عرصے سے کہتے آ رہے ہیں اور آج بھی یہ بات سب سے زیادہ زور دے کر کہی جا رہی ہے کہ مسلمانوں کو اپنے اندر اختلاف اور تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہیے۔ میرا مغرب کے ان دانش وروں سے سوال ہے کہ اختلاف وتنقید اور اہانت وتحقیر میں کوئی فرق ہے یا نہیں؟ اور کیا اختلاف وتنقید کے نام پر ہم سے تمسخر واستہزا اور توہین وتحقیر کا حق تو نہیں مانگا جا رہا؟ جہاں تک اختلاف اور تنقید کا تعلق ہے، اس کو مسلمانوں سے زیادہ کس نے برداشت کیا ہے؟ مغرب کے مستشرقین صدیوں سے اسلام، قرآن کریم، جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی تہذیب وکلچر کے خلاف مسلسل لکھتے آ رہے ہیں اور مغرب کی یونیورسٹیوں کی لائبریریاں اس قسم کی کتابوں اور مقالات سے بھری پڑی ہیں۔ مسلمانوں نے ہمیشہ ان کا جواب مقالات اور کتابوں کی صورت میں دلائل کے ساتھ دیا ہے اور اب بھی دلیل اور متانت کے ساتھ کیے جانے والے اعتراضات کا جواب دلیل اور متانت کے ساتھ ہی دیا جا رہا ہے، لیکن تمسخر واستہزا اور توہین وتحقیر کو کسی دور میں بھی برداشت نہیں کیا گیا۔ وہ آج بھی برداشت نہیں ہے اور آئندہ بھی کبھی برداشت نہیں ہوگا۔ 
مسلمانوں میں اختلاف اور توہین کے درمیان فرق کا شعور بحمد اللہ قائم ہے اور وہ تنقید اور استہزا کے درمیان فاصلے کو بحمد اللہ اچھی طرح سمجھتے ہیں، البتہ مغرب نے یہ فاصلے ختم کر دیے ہیں۔ انھوں نے استہزا، تمسخر، توہین، تحقیر اور تذلیل کو بھی اختلاف اور تنقید کا عنوان دے رکھا ہے اور مسلمانوں سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اختلاف اور تنقید کو برداشت کرنے کے عنوان سے اسلام دشمنوں کو اس بات کی کھلی آزادی دے دیں کہ وہ قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سمیت مسلمانوں کی کسی بھی محترم اور مقدس شخصیت کو استہزا وتمسخر اور توہین وتحقیر کا جب چاہیں، نشانہ بناتے رہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا اور کبھی نہیں ہوگا۔ نکولا سبیلی نکولا اور اس کے ہم نوا مغربی دانش ور اور میڈیا اس حقیقت کو جتنی جلدی سمجھ لیں، ان کے لیے بہتر ہوگا۔ اس کے بغیر مسلمانوں سے امن یا برداشت کے نام پر کوئی اپیل کارگر نہیں ہوگی، اس لیے کہ مسلمان کا خمیر ہی غیرت وحمیت کے مقدس پانی میں گوندھا گیا ہے۔
توہین رسالت پر مبنی امریکی فلم کے علاوہ پاکستان میں بھی رمشا مسیح کیس کے تناظر میں اس مسئلے کے مختلف پہلووں پر بحث وتمحیص کا سلسلہ جاری ہے اور اس کے دو تین پہلو بہرحال ارباب فکر ودانش کی سنجیدہ توجہ کے مستحق ہیں۔
ایک یہ کہ اس عنوان سے بین الاقوامی سیکولر لابیاں مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے اور لابنگ کے لیے اس قسم کے کیسوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں اور خاص طور پر ورلڈ چرچ کونسل کی طرف سے آئندہ چند روز میں اس موضوع پر منعقد ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس سے قبل اس طرح کا ماحول بنایا جا رہا ہے کہ اس کانفرنس کو پاکستان میں توہین رسالت پر موت کی سزا کے قانون کو غیر موثر بنانے کے لیے زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جا سکے۔ بین الاقوامی سیکولر لابیاں پاکستان کے اسلامی تشخص، پاکستان میں نافذ چند اسلامی احکام وقوانین اور خاص طور پر ناموس رسالت کے تحفظ اور قادیانیوں کی غیر اسلامی سرگرمیوں کی روک تھام کے قوانین کے درپے ہیں اور ان کی مسلسل کوشش ہے کہ ان قوانین کو ختم کرا دیا جائے یا کم از کم عملی طور پر غیر موثر بنا دیا جائے۔ یہ صورت حال ملک کے دینی حلقوں اور علمی مراکز کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
ہمارا عمومی مزاج یہ بن گیا ہے کہ اس قسم کے معاملات میں وقتی دباؤ کے تحت ہم اکٹھے ہو جاتے ہیں اور احتجاجی میدان میں کچھ نہ کچھ کر بھی دیتے ہیں جس کے فوائد وقتی طو رپر مل جاتے ہیں، لیکن اس بارے میں مستقل طو رپر کوئی پروگرام ہمارے ہاں نظر نہیں آ رہا جس سے ہم عالمی سیکولر لابیوں کی اس مہم کا سنجیدگی کے ساتھ مستقل طو رپر سامنا کر سکیں اور اس کے سد باب کا کوئی معقول راستہ تلاش کر سکیں۔ اگر مسلم حکومتیں اس سلسلے میں کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو دینی قوتوں کو ہی باہمی مشاورت کے ساتھ اس کا اہتمام کر لینا چاہیے۔ 
دوسری طرف یہ صورت حال بھی ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ہم لاکھ انکار کریں، مگر توہین رسالت کی سزا کے قانون کا مبینہ طو رپر غلط استعمال اس مسئلے پر ہماری پوزیشن کو مسلسل کمزور کرتا جا رہا ہے اور مسلکی تنازعات میں توہین رسالت کے قانون کی آڑ میں ہم خود اس قانون کو غیر موثر بنانے کا باعث بن رہے ہیں۔ دوسرے واقعات کو ایک طرف رکھیں، گوجرانوالہ میں تین ایسے واقعات خود میرے مشاہدے میں موجود ہیں جو ہمارے لیے جگ ہنسائی کا باعث بن چکے ہیں۔
چند سال قبل گرجاکھ میں ایک مسجد کے امام صاحب قرآن کریم کے بوسیدہ اوراق تلف کرنے کے لیے جلا رہے تھے کہ ان کے ایک مسلکی مخالف نے دیکھ لیا اور شور مچا کر لوگوں کو جمع کر لیا۔ مولوی صاحب کو گرفتار کر لیا گیا، مقدمہ کا اندراج ہوا اور توہین قرآن کریم کے جرم پر انھیں سزا دلوانے کی مہم شروع ہو گئی۔ پولیس نے ہم سے رابطہ کیا تو خود میں نے لکھ کر دیا کہ قرآن کریم کے بوسیدہ اوراق کو تلف کرنے کے لیے جلانے کی روایت موجود ہے اور فقہائے کرام نے بھی بعض صورتوں میں اجازت دی ہے، اس لیے اس عمل کو غیر محتاط اور ناپسندیدہ قرار دے کر اس پر سرزنش تو کی جا سکتی ہے، مگر اس پر توہین کی دفعات کا اطلاق درست نہیں ہے۔ اس پر اس غریب امام صاحب کی جان چھوٹی۔
پھر کچھ عرصہ کے بعد کھیالی میں ایک حافظ قرآن کو اسی طرح کے ایک عمل پر ان کے مخالف مسلک کے امام نے مسجد کا لاؤڈ اسپیکر کھول کر شور کر دیا اور لوگوں کو جمع کر کے اس قدر اشتعال دلایا کہ اس حافظ صاحب کو سڑک پر گھسیٹ پر تھانے لے جایا گیا اور اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اس ساری کارروائی کے بعد بات کھلی کہ یہ اس کے خلاف مسلکی عناد کی وجہ سے کی گئی تھی۔
ابھی گزشتہ سال کھوکھرکی میں توہین رسالت کا ایک واقعہ سامنے آیا اور اس میں چند مسیحی افراد کو ملوث ظاہر کر کے ان کی گرفتاری کے لیے عوامی مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ کمشنر گوجرانوالہ نے دانش مندی کی کہ فوری طور پر شہر کے سرکردہ علمائے کرام سے رابطہ کر لیا جنھوں نے بروقت مداخلت کر کے صورت حال کو کنٹرول کر لیا، ورنہ بہت کچھ ہو سکتا تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ کارروائی کسی کاروباری رقابت میں چند لوگوں کو پھنسانے کے لیے کی گئی تھی، لیکن مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علمائے کرام نے مداخلت کر کے صورت حال کو زیادہ سنگین ہونے سے بچا لیا۔
یہ تین واقعات میرے شہر کے ہیں اور میرے چشم دید ہیں، اس لیے یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ توہین رسالت کی سزا کے قانون کا غلط استعمال نہیں ہو رہا، بلکہ اس قسم کے مقدمات کی چھان بین کی جائے تو گزشتہ دس سال میں درج ہونے والے مقدمات کی تعداد بیسیوں میں ہوگی، اس لیے ہمیں تحفظ ناموس رسالت کے قانون کا مکمل دفاع اور تحفظ کرتے ہوئے اس کے دوسرے پہلو پر بھی غور کرنا چاہیے اور کوئی معقول موقف اور طرز عمل اختیار کرنا چاہیے۔

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

پروفیسر محسن عثمانی ندوی

ابھی کل کی بات ہے کہ امریکی اہانت آمیز فلم کے خلاف پورے عالم اسلام میں غیظ وغضب کے شرارے بلند ہونے لگے تھے۔ مظاہرین نے سفارت خانوں میں آگ لگا دی، سفارت کاروں کی زندگی کا چراغ گل کر دیا اور ابھی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ دنیا محو حیرت ہے، دنیا والوں کو اندازہ ہی نہیں کہ پیغمبر اسلام کے خلاف دریدہ دہنی اور ہرزہ سرائی مسلمان کے لیے کس قدر ناقابل برداشت ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے ساتھ مسلمانوں کی وفاداری کس قدر ناقابل شکست ہے۔ مسلمان ناموس رسول کے لیے اپنی جان بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتے ہیں۔ اس محبت رسول کو نہ کوئی ختم کر سکتا ہے اور نہ اس خزانہ میں کوئی نقب لگا سکتا ہے۔ یہ محبت اس ذات کی ہے جو افضل البشر ہے اور جس کی حمد وثنا مالک حقیقی نے اپنی کتاب قرآن میں کی ہے اور جس کی تعظیم وتوقیر پچھلے انبیا نے اور تمام حکما اور دانشوروں نے کی ہے اور کرتے رہیں گے اور جس کی ذات مسلمانوں کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ دین اسلام نے تو کفار ومشرکین کے بتوں تک کی توہین سے منع کیا ہے۔ اس دین اسلام کے ماننے والے کسی بھی نبی اور رسول کی اہانت گوارا نہیں کرسکتے ہیں، چہ جائیکہ اس رسول کی اہانت کو گوارا کریں جو ختم الرسل اور مولائے کل اور دانائے سبل ہو ، جس کے لیے خدا اور اس کے فرشتے اور تمام اہل ایمان رات دن درود بھیجتے ہوں اور جس کی شان میں شاہ عبد العزیز محدث نے یہ شعر کہا تھا:
لا یمکن الثناء کما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر 
رسول کوئی بھی ہو، اس صفخہ ہستی پر وہ رب العالمین اور مالک کائنات کا سفیرہوتا ہے اور مالک کائنات کے سفیر کی بے حرمتی کی سزا قتل ہے اور اس پر تمام ائمہ کا اتفاق ہے۔ امام ابن تیمیہ نے اس موضوع پر پوری کتاب السیف المسلول علیٰ شاتم الرسول کے نام سے لکھ دی ہے۔ مرتد اگر تائب ہوجائے تو وہ قابل معافی ہے، لیکن شاتم رسول کو رسول کے جانب سے معاف کرنے کا کسی کواختیار نہیں ہے۔ جو لوگ شاتم رسول کی سزائے قتل کا انکار کرتے ہیں، مغربی معاشرہ کا وائرس ان کے ذہنوں میں سرایت کرگیا ہے۔ حیرت انگیز بات ہے کہ انگلستان میں بھی اہانت رسول کا قانون موجود ہے، لیکن یہ امتیازی قانون ہے اور صرف حضرت عیسیٰ کے ناموس کا تحفظ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں سلمان رشدی جیسے لوگوں کو پیغمبر اسلام کے خلاف دریدہ دہنی کی کھلی اجازت ہے ۔
افسوس ہے کہ اس موقع پر آزادی اظہار کے حوالے غلط طور پر دیے جارہے ہیں۔ دوسروں کے مقدسات اور برگزیدہ پیغمبروں کی اہانت آزادی اظہار کے دائرہ میں نہیں آتی۔انگریزی کا مشہور محاورہ ہے کہ تمہاری آزادی وہاں ختم ہوجاتی ہے جہاں پڑوسی کی ناک شروع ہوتی ہے۔ مطلب یہ کہ آزادی یہ ہے کہ دوسروں کی آزادی میں خلل ڈالے بغیر اور دوسروں کو ایذ ا پہنچائے بغیر کوئی کام کیا جائے۔ کروڑوں انسانوں کے مقتدا کی اہانت کرنا اظہار کی آزادی نہیں ہے، یہ دوسروں کو ایذا پہنچانا ہے اور ان کے جذبات کو مجروح کرنا ہے، کیونکہ مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت پر کٹ مرنے کے لیے تیار ہوسکتا ہے اور ایک جان نہیں، ہزار جانوں کو قربان کرسکتا ہے۔ وہ رسول اللہ کی جوتیوں کی خاک کو بھی دنیا کے بڑے سے بڑے حکمران کے تاج سے افضل سمجھتا ہے۔
اظہار خیال کی آزادی عین اسلامی طریقہ ہے ۔ اسلام میں ہر شخص کو اظہار خیال کی آزادی دی گئی ہے جب تک کہ اس کا غلط استعمال نہ ہو اور خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی اس میں نہ ہو اور دوسروں کو ایذا نہ پہنچائی جائے۔ہر شخص کو اپنی پسند اور اپنے ضمیر کے مطابق عقیدہ رکھنے اور عبادت کرنے کی پوری آزادی اسلام میں حاصل ہے۔ اعلان کردیا گیا ہے: لا اکراہ فی الدین یعنی دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں ۔ اور صاف کہہ دیا گیا ہے: قد تبین الرشد من الغی فمن یکفر بالطاغوت ویومن باللہ فقد استمسک بالعروۃ الوثقی یعنی سچائی اور ہدابت کا راستہ گمراہی کے راستہ سے الگ ہو گیا ہے اور واضح ہو گیا ہے۔ اب جس کسی نے بدی اور طاغوت کا انکار کیا، اس نے مضبوط رسی کو پکڑ لیا۔ اسلام نے یہ موقف اس لیے اختیار کیا ہے کہ عقیدہ کا مسئلہ انسان کے ضمیر سے متعلق ہے۔ اس معاملہ میں کسی طرح کا دباؤ غلط اور نا مناسب ہے ۔ اسلام اظہار خیال کے بارے میں یہ موقف رکھتا ہے۔اس کے مقابلے میں عیسائیت کی تاریخ بتاتی ہے کہ مذہب ہی نہیں، سائنسی نظریات کے علم برداروں کو بھی زندہ نذر آتش کردیا جاتا تھا اور اظہار خیال کی کوئی آزادی کسی کو حاصل نہیں تھی۔دوسروں کو چھوڑیے، آج عیسائی دنیا یہ الزام مسلمانوں پر عائد کرتی ہے کہ اسلام میں اظہار خیال کی آزادی نہیں ۔ اردو کا ایک محاورہ ہے: سوپ تو سوپ وہ چھلنی بھی بولی جس میں بہتر چھاج۔
اسلام انسانوں کے درمیان مساوات کا قائل ہے۔ تمام بنی نوع انسان برابر ہیں۔ زبردستی کسی پر کوئی نظام حیات تھوپا نہیں جاسکتا۔ تمام انسان اللہ کی مخلوق ہیں اور اور سب آدم کی اولاد ہیں۔ صحیح راستہ کو سمجھنے اور اختیار کرنے کا حق سب کو یکساں طور حاصل ہے۔ سب مکرم اور قابل احترام ہیں: ولقد کرمنا بنی آدم  اس لیے سب ایک دوسرے کے لیے قابل احترام ہیں۔ اسلام نے عالمی اخوت اور بھائی چارگی کا درس دیا ہے، ایک دوسرے پر ظلم، ایک دوسرے کی توہین اور ایذا رسانی کی اجازت نہیں ہے۔ عالمی امن کا یہ بنیادی اصول ہے جس کی اسلام تعلیم دیتا ہے ۔ بدامنی اور جنگ وجدال کی ابتدا اس وقت ہوتی ہے جب اصول شکنی ہوتی ہے اور ایک دوسرے کے مقدسات اور عقیدہ کی اہانت کی جاتی ہے۔ اسلام نے تمام پیغمبروں پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے یہاں تک کہ مشرکین کے بتوں کو بھی برا کہنے سے روکا گیا ہے۔ اگر دنیا ان زریں اصولوں پر عمل کرنے لگے تو امن کا گہوارہ بن جائے۔ بد امنی وہاں پیدا ہوتی ہے جہاں ان اصولوں کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ اسلام کے لغوی معنی ہی امن اور سلامتی کے ہیں اور اللہ کے ناموں میں ایک نام سلام بھی ہے۔ جو دین امن عالم کا نگہبان ہے، اس میں زور اور زبر دستی اور اظہار خیال پر پابندی کی گنجائش نہیں، بشرطیکہ یہ اظہار خیال کسی کی توہین اور تذلیل کے لیے نہ ہو ۔ اس زمانے میں لوگ اسلام اور اس کے مقدسات کی توہین کرتے ہیں اور مسلمانوں پر اعتراض کرتے ہیں کہ ان میں تحمل اور برداشت نہیں ہے۔ انہیں اپنی غلطی نظر نہیں آتی، وہ مسلمانوں کے احتجاج پر معترض ہوتے ہیں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ کوئی شخص ان کے سامنے ان کے والدین کو گالی دے اور ان کے بزرگوں کے لیے نامناسب الفاظ استعمال کرے تو انہیں کیسا لگے گا؟ بدگوئی، تہمت، الزام تراشی کوئی شخص اپنی بہن ماں اور بیٹی تک کے بارے میں برداشت نہیں کرسکتا، پھر خیر البشر اور افضل الانبیاء کے بارے میں بد زبانی توہین اور جسارت کو کئی مسلمان کیسے برداشت کرسکتا ہے؟
اب سوال یہ ہے کہ اہانت اسلام یا اہانت رسول کے سلسلے میں ہمارا رد عمل کیا ہو نا چاہیے؟ کئی اسلامی ملکوں میں امریکی اور دیگر سفارت خانوں پر حملے ہوئے اور سفیروں کی جان گئی۔ کیا یہ طرز عمل اسلام اور تعلیمات اسلام کے مطابق ہے؟ ہمیں اس بارے میں بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنی چاہیے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کرنا چاہیے: قل اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول۔ مسلمان ہوتے ہوئے اس سے مفر نہیں کہ مسلمان سیرت رسول، اسوہ رسول اور آپ کے ہر فرمان اور قول کی بے چون وچرا اطاعت کرے۔ دنیا کے تمام مسلمانوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اسلام میں سفیر اور سفارت کا احترام کیا گیا ہے۔ سفیر کی جان محترم ہے، اگر چہ وہ دشمن ملک ہی کا سفیر کیوں نہ ہو۔ سفیر کی جان ومال اور آبرو پر اور سفارتکاروں پر حملہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ مسیلمہ کذاب کے دو سفیر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے یہ بھی اقرار کر لیا کہ وہ اب مرتد ہو چکے ہیں تو آپ نے ان سے فرمایا کہ اگر تم قاصد اور سفیر نہ ہوتے تو تمہیں قتل کردیا جاتا، چنانچہ آپ نے ان کو واپس کردیا اور ان سے تعرض نہیں کیا۔ ’’ لولا ان الرسل لاتقتل لضربت اعناقکمتا  (احمد وابو داود) حکم یہ ہے کہ کوئی سفیر اگر پیشگی امان لے کر حاضر نہ ہو اور کوئی سفارت کی دستاویز پیش نہ کرے اور صرف یہ اطلاع دے کہ وہ سفیر بن کر آیا ہے، تب بھی اس سے کوئی تعرض نہیں کیا جائے گا :
فان دخل بغیر امان فان قال جئت رسولا فالقول قولہ لانہ تتعذر اقامۃ البینۃ علی ذلک ولم تزل تا تی من غیر بینۃ (المغنی ۹ ؍ ۲۸۱)
یعنی اگر دار الاسلام سے باہر کا کوئی شخص بلا امان داخل ہو جائے تو اس سے تحقیق کی جائے گی۔ اگر وہ کہے کہ میں سفیر یا قاصد بن کر آیا ہوں تو اس کے قول پر اعتبار کیا جائے گا، کیونکہ اس پر دلیل قائم کرنا دلیل اور بینہ قائم کرنا دشوار ہے اور سفراء ہمیشہ پیشگی اطلاع کے بغیر آمد ورفت کرتے تھے۔ ( بحوالہ قاموس الفقہ جلد چہارم )
اسلام میں سفارت کا ا حترام اس قدر ہے کہ جب قریش مکہ نے ابو رافع کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سفیر بنا کر بھیجا اور ان کے دل میں ایمان میں جگمگا اٹھا اور انھوں نے یہ عرض کیا کہ وہ اب قریش کے پاس واپس نہیں جانا چاہتے اور ایک مسلمان کی حیثیت سے آپ کے پاس رہنا چاہتے ہیں تو آپ نے فرما کہ کہ میں عہد کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا اور تمہیں روک نہیں سکتا۔ ابھی تم وا پس جاؤ اور اگر واپس جانے کے بعد بھی تمہارے دل کی یہی کیفیت رہے تو ہمارے پاس واپس آجانا۔ ( احمد و ابو داؤد)
حکم یہ ہے کہ اگر کفار اپنے پاس مسلمانوں کو قتل کردیں، اس حال میں بھی ان کے قاصد کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ بخاری اور مسلم کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے کسی کو امان اور پناہ دی اور پھر اس کو قتل کردیا تو میں اس شخص سے بری ہوں، خواہ وہ مقتول کافر ہی کیوں نہ ہو ۔ اسلام میں کسی کو امان دینے کے بعد امان کی رعایت کرنے اور اس کی خلاف ورزی نہ کرنے کا حکم ہے ۔ سفیر وہ ہوتا ہے جسے اسلامی حکومت کی پناہ حاصل ہوتی ہے، اس لیے اسلامی حکومتوں کی اور مسلمانوں کی شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کا ہر حال میں خیال رکھیں۔ سفیر اور سفارت خانوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔ تعدی اور ایذا رسانی سے مکمل پر ہیز کریں۔ اس لیے اس وقت اسلامی دنیا میں امریکہ میں اہانت رسول سے متعلق فلم کے خلاف بطور احتجاج سفارتوں پر حملہ اور سفیر کے قتل کے جو واقعات پیش آ ئے ہیں، وہ افسو ناک ہیں۔ اس رد عمل کو کسی اعتبار سے صحیح نہیں قرار دیا جاسکتا۔ یہ علماء کی ذمہ داری ہے کہ اس بارے میں اسلامی تعلیمات کو بیان کریں اور عوام کے جوش وخروش کو صحیح اور درست سمت کی طرف موڑ نے کی کوشش کریں۔ محبت رسول میں حکم رسول کی خلاف ورزی کی اجازت کسی حال میں نہیں دی جاسکتی۔ 
سفارت خانوں پر حملے کے مسلم حکومتوں کے ذریعے اقوام متحدہ اور بین الاقوامی تنظیموں پر یہ دباؤ ڈالنا چاہیے کہ ایسا قانون وضع کیا جائے جس کے ذریعے دنیا کے تمام مذاہب اور بانیان مذاہب اور مقدسات کا احترام ضروری ہو، ورنہ دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکے گا۔ مذاہب اور پیغمبران عالم کی توہین اور ان کے بارے میں بد گوئی اور بدکلامی آزادی رائے کے دائرہ میں ہرگز نہیں آتی، لیکن مسلمانوں کا اصل اور مثبت رد عمل یہ ہونا چاہیے کہ دنیا کے تمام ملکوں میں اور دنیا کی تمام زبانوں میں پیغمبر امن واخلاق کی تعلیمات کو مؤثر انداز میں پھیلایا جائے اور اس کے لیے تمام جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال کیا جائے۔ اس دنیا میں لاکھوں سعید روحیں اس کی منتظر ہیں کہ اسلام کا پیغام امن ان کے پاس پہنچے۔ یہ کام تعلیم یافتہ عوام وخواص سب کے کرنے کا ہے اور مسلم حکومتوں کی اولین ذمہ داری ہے۔ ہر مسلمان کو یہ سوچنا چاہیے کہ کیا اس نے اپنے غیر مسلم پڑوسی اور غیر مسلم دوست اور احباب تک اس سوغات نجات کو پہنچانے کی کوشش کی ہے ؟ دلوں کے بند دروازے پر دستک دینا اور اسلام کے لیے دلوں کو نرم کرنا اصل کام ہے جس کے لیے امت کو کھڑا ہونا ہے۔
وہ ادائے دلبری ہو یا نوائے عاشقانہ 
جو دلوں کوفتح کرلے وہی فاتح زمانہ

اہانت اسلام کے واقعات اور مسلمانوں کا رد عمل

مولانا محمد یحیی نعمانی

ہمارا عقیدہ اور ایمان ہے کہ اسلامی شریعت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں ہر قسم کے حالات کے لیے رہنمائی اور نمونہ موجود ہے۔ خصوصاً ایسے اجتماعی مسائل جن کا تعلق پوری امت سے اور مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تعلق جیسے نازک مسائل سے ہو، ان میں ہمارا دینی فرض ہے کہ اللہ ورسول کی رہنمائی کے بغیر ایک قدم بھی نہ بڑھائیں۔ موجودہ زمانے میں اسلام اور رسول اللہ کے ناموس مبارک کی توہین کے ملعون واقعات بھی اسی زمرہ کی چیز ہیں۔ اب کون سمجھ دار ہوگا جو مغرب کے مہذب، معقولیت پسند اور روشن خیال ہونے کی غلط فہمی میں مبتلا ہو، بے چارے نے اپنے چہرے پر پڑی ہر نقاب خود ہی نوچ کر پھینک دی ہے۔ نائن الیون کے بعد سے اس پر اسلام دشمنی کا جو ہسٹریا طاری ہے، وہ ہر فریب خوردہ کی آنکھیں کھول چکا ہے۔
مسلمان کے لیے اس کی سب سے قیمتی متاع اللہ اور رسول کی محبت اور دین کا احترام ہے۔ یہ بڑی قیمتی اور مبارک چیز ہے کہ ایک مسلمان اللہ کے رسول کی عزت کی خاطر جاں سپاری کرنا اپنے لیے بڑی سعادت کی بات سمجھتا ہے۔ اسی جذبے سے ا س کی زندگی میں رونق وحسن ہے، یہی اس کے ایمان کا محافظ اور یہی اس کے لیے ابدی سعادت اور جنت کے حصول کا ذریعہ ہے۔ مسلمانوں کا مزاج رہا ہے کہ وہ ہر تکلیف اپنی جان پر برداشت کر سکتے ہیں، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کانٹا چبھے، یہ ان کے لیے ناقابل برداشت بات ہے۔ پھر کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ رسول اللہ کے کارٹون بنائے جائیں، ان کی تضحیک کی جائے، معاذ اللہ ان پر سنگین اور گھناؤنی تہمتیں لگائی جائیں اور مسلمانوں کو سخت برا نہ لگے۔ یقیناًبرا لگنا، بلکہ شدید تکلیف واذیت محسوس کرنا فطری ہے۔ ایسا نہ ہو تو ایمان میں کمی ہے، لیکن اس تکلیف اور اذیت کے عالم میں کیا رد عمل ظاہر کرنا ہے؟ یہ خود اسی رسول سے سیکھنا اور اس کی سنت سے معلوم کرنا ہے جس نے صاف کہہ دیا تھا کہ مجھے ایسے ایمان والے مطلوب ہیں جو اپنے دل کی ہر خواہش کو میری ہدایات واحکام کے تابع کر دیں۔
رسول اللہ کے زمانے میں اہانت اسلام کی حرکتیں بھی واقع ہوتی ہیں اور توہین رسول کی لعنتیں بھی۔ آپ کو گالیاں بھی دی گئیں، یہاں تک کہ آپ کی پاکیزہ زوجہ مطہرہ ام المومنین حضرت عائشہؓ پر ملعون منافقین نے گھناؤنے الزام بھی لگائے۔ ہم کو یہ دیکھنا ہے کہ آپ نے مختلف موقعوں پر کیا طرز عمل اختیار فرمایا اور قرآن حدیث نے مسلمانوں کو کیا کرنے کا حکم دیا؟
۱۔ اسلامی شریعت میں مجرم کو قانونی سزا دینے کا اختیار (Authority) باقاعدہ قائم حکومت کو ہے، لہٰذا ایسی حرکت کا مجرم اسلامی ریاست کا باشندہ ہوا تو آپ نے اس کو سخت سزا دی۔ یہ ایک مشہور یہودی مجرم کعب بن الاشرف کا واقعہ ہے۔
۲۔ لیکن عبد اللہ ابن ابی ابن سلول نے جب ایسی حرکت کی اور آپ نے اس کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تو اندازہ ہوا کہ اس سے فتنہ پیدا ہو جائے گا تو آپ نے اس کو چھوڑ دیا۔ (صحیح مسلم، کتاب التوبہ، باب فی حدیث الافک)
اسی شخص کی اسلامی ریاست کے خلاف ایک ایسی ہی خطرناک سازش اور فتنہ انگیز حرکت پر بعض صحابہ نے مشورہ دیا کہ اس کو قتل کی وہ سزا دی جائے جو قانونی طور پر مقرر ہے تو آپ نے فرمایا کہ نہیں، اس سے لوگوں کو ہم کو بدنام کرنے اور یہ کہنے کا موقع مل جائے گا کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کرا دیتے ہیں۔ (سنن ترمذی، تفسیر سورۂ منافقون)۔
آپ کے اس طرز عمل سے واضح راہنمائی ملتی ہے کہ اگر کسی ایسے مجرم کو سزا دینے سے فتنہ وخوں ریزی کا خطرہ ہو یا صورت حال ایسی ہو کہ اعدائے اسلام کو پروپیگنڈا اور بدنام کرنے کا موقع مل جائے گا اور اس پروپیگنڈے کے موثر اور کامیاب ہونے کا بھی اندیشہ ہو تو پھر ایسی حرکتوں پر اسلامی ریاست (قانونی اختیار ہونے کے باوجود) کوئی اقدام نہیں کرے گی۔
۳۔ اور اگر اہانت اسلام یا توہین رسول کے واقعات کا مجرم اسلامی ریاست سے باہر ہوتا تھا یا اس کو سزا دینا ممکن نہیں ہوتا تھا تو ایسی صورت میں آپ کا طرز عمل صرف اور صرف نظر انداز کر دینے اور صبر کرنے کا تھا اور یہی قرآن کا حکم تھا۔
مسلمان وہ امت ہیں جن کے پاس واضح رہنمائی اور خدائی احکام ہیں۔ قرآن نے مسلمانوں کو صاف آگاہ کیا تھا:
وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ أُوتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ أَشْرَکُوْا أَذًی کَثِیْراً وَإِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا فَإِنَّ ذَلِکَ مِنْ عَزْمِ الأُمُورِ (آل عمران:۱۸۶)
’’تم ان لوگوں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی اور مشرکین سے بہت سی دل دکھانے والی باتیں سنو گے، لیکن اگر تم صبر کرو گے او رتقویٰ پر قائم رہو گے تو یہ ہوگی مضبوطی اورہمت والی بات۔‘‘
یہ اہل کتاب مدینہ کی اسلامی ریاست میں رہتے تھے۔ مسلمان اس ریاست کا طاقتور اور مضبوط حصہ تھے، مگر دیکھیے قرآن کہہ رہا ہے کہ ایسی دل آزار حرکتوں کا جواب ہمت ودانش کے ساتھ اختیار کیا گیا صبر کا رویہ ہے اور اس کے ساتھ تقویٰ والی زندگی اور اس کی جدوجہد مسلمانوں کا اصل مشن ہے۔
عربوں کا میڈیا ان کی شاعری تھی۔ قصیدوں کے ذریعے جو ہجو کی جاتی تھی، برق رفتاری سے قبائل میں پھیل جاتی تھی۔ مکہ کے شعراء رسول اللہ کی ہجو کہتے تھے اور آپ کا نام بجائے ’’محمد‘‘ کے ’’مذمم‘‘ رکھتے تھے۔ محمد کے معنی ہیں قابل تعریف اور مذمم کے ’’قابل مذمت‘‘۔ آپ بڑی حکمت کے ساتھ صحابہ کرام کو دلاسہ دیتے اور فرماتے، دیکھو! اللہ ان کے سب وشتم سے مجھے کیسے بچا رہا ہے۔ وہ ’’مذمم‘‘ کو گالیاں دے رہے ہیں اور میں محمد ہوں۔ (بخاری)۔ یہ تھا رسول اللہ کا رد عمل۔ نہ اشتعال، نہ بے صبری، نہ اودھم کود۔
آزادئ اظہار مغرب کی محبوب شے ہے جس سے اس کو سب سے زیادہ عشق ہے۔ اس کی زد میں اگر عیسائیت بھی آتی ہے تو مغرب کو کچھ پروا نہیں ہوتی۔ وہاں حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم کے حق میں ہر خباثت ہوتی ہے اور یہ بدنصیب وگمراہ قوم اس کو اس آزادئ اظہار کے نام پر روا رکھتی ہے۔ 
اہانت اسلام کے ان واقعات کے کیا مقاصد ہیں؟ یہ جاننے کے لیے زیادہ ذہانت کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ سب ان شاطر تنظیموں اور لابیوں کی کارستانی ہے جو مغرب میں اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کی عام فضا پیدا کرنا چاہتی ہیں۔ اہانت اسلام کی حرکتیں کرنے والے دیکھ رہے ہیں کہ ان حرکتوں کے ذریعے ان کا کام کتنی آسانی سے پورا ہو رہا ہے۔ ہر کچھ دنوں کے بعد وہ کوئی ایسی حرکت کر دیتے ہیں اور بس مسلمان جلوس نکال رہے ہیں، آگ لگا رہے ہیں، سفارت خانوں پر حملہ کر رہے ہیں اور اپنی ہی پولیس کی گولیاں اور لاٹھیاں کھا رہے ہیں اور اپنا اور اپنے بھائیوں کا خون بہا رہے ہیں او ربڑی آسانی کے ساتھ میڈیا کو یہ پروپیگنڈا کرنے کا موقع مل رہا ہے کہ مسلمان بے انتہا جھگڑالو اور اندھا دھند تشدد کے خوگر ہیں۔
کیوں مسلمانوں کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ان احتجاجوں اور مظاہروں اور مذمتی بیانات سے توہین اسلام کے مرتکبوں کا کچھ بگڑنے والا نہیں؟ اور وہ عقل سے نہیں سمجھتے تو سالوں کے لگاتار تجربات ان کو سبق کیوں نہیں دیتے کہ آج تک کے ان کے ان احتجاجوں کا الٹا ہی اثر ہوا ہے۔ کیا آج تک کسی احتجاج نے اس سلسلے کو روکا ہے؟ اگر ہم ان حرکتوں کو قرآن وسنت کی تعلیم کے مطابق مطلق نظر انداز کر دیتے تو ان کارٹونوں اور فلموں کو کتنے لوگ دیکھتے؟ بس چند ہزار۔ مگر افسوس یہ ہماری نادانی ہے کہ ہم ان کو پوری دنیا میں شہرت دے دیتے ہیں۔ خدایا میری قوم کو عقل دے دے۔
مسلمان جتنا مشتعل ہوتے ہیں اور ان حرکتوں پر جتنا سخت رد عمل ظاہر کرتے ہیں، مغربی میڈیا اتنا خوش ہوتا ہے اور اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے، بلکہ وہ ان واقعات کو بھی اسی احتجاج کے کھاتے میں ڈالتا ہے جو کسی طرح اس سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ ابھی تازہ امریکی فلم کے رد عمل میں مسلمانوں کی طرف سے احتجاجی مظاہروں کی لہر چلی، مغربی میڈیا نے افغانستان میں ناٹو کے اڈے پر طالبان کے حملے کی خبر دی تو بے حیائی کے ساتھ یہ جھوٹ بولا کہ یہ حملہ فلم پر احتجاج میں کیا گیا۔ کابل میں ایک خود کش حملے میں حملہ آور مغربی ملکوں کے افراد مارے گئے تو بھی یہی کہا گیا کہ یہ فلم کا بدلہ لیا گیا ہے۔ غور کیا جائے تو اکیلی یہ بات ہی یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ یہ احتجاج ان مفسدوں اور دشمنوں کے کتنے کام کی چیز ہے۔ مگر افسوس مسلمانوں کے اندر عقل وشعور کی کتنی کمی ہے۔ ان کو جو دشمن جب چاہے، جس طرح چاہے، کھلونا بنا لے اور مزہ دیکھے۔
اہانت اور سب وشتم کرنے والے سے صرف نظر، کوئی مجبورانہ فیصلہ نہیں ہوتا، بلکہ اگر دانش مندی سے کیا جائے تو یہ ایک کامیاب حکمت عملی ہوتی ہے جو جھوٹے الزام کو دفن بھی کر دیتی ہے اور بدگو اور بد باطن دشمن کو انسانیت کی آنکھوں میں ذلیل بھی۔ اسی سے ہمدردیاں حاصل ہوتی ہیں اور اسی سے اسلام اور رسول اسلام کی عزت بھی بڑھتی ہے۔ اسی لیے قرآن نے اس کو ’’عزم الامور‘‘ یعنی مضبوطی اور ہمت کی بات کہا ہے۔
اگر مسلم عوام کی جذباتیت اور بے شعوری پر نہایت افسوس ہے تو اس سے کہیں زیادہ الم ناک واندوہناک یہ بات ہے کہ اکثر وبیشتر ایسے احتجاجی مظاہرے مسلم سیاسی گروہوں کی خالص خود غرضانہ سیاست کا موضوع بن گئے ہیں۔ رسول اللہ کے نام پر اور اسلام کی عزت کے نام پر بری طرح مفادات کی سیاست ہو رہی ہے۔ کیسے کہا جائے کہ عوام کی بے شعوری سے زیادہ مسلمانوں کے قائدین کی یہ بے غیرتی خطرناک ہے کہ وہ ناموس رسول پر بھی اپنی سیاسی دکان چمکانے سے نہیں چوکتے!
جس قوم کی قیادت ایسی ہو، وہ یقیناًاپنے عیار دشمنوں کے لیے سدا نرم چارہ ثابت ہوگی اور ہر داؤ میں چت ہوگی۔ قیادت کا تو کیا رونا کہ وہ تو ہماری بد قسمتی ہی بن گئی ہے، مگر حیرت کی انتہا نہیں کہ اس وقت علماء دین بھی سامنے نہیں آئے کہ یہ سب جو کچھ ہو رہا ہے، یہ سراسر حماقت اور الٹا دشمن کے مقاصد کو پورا کرنے والی بات ہے۔

فلم کا فتنہ

خورشید احمد ندیم

’’اہلِ کتاب !آؤ اس کلمے کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے‘‘۔
’’لبرل‘‘ڈیموکریٹس تو ممکن ہے غور نہ کریں لیکن ’’قدامت پرست‘‘ ریپبلکنز کیا آزادئ رائے کے اپنے تصورات پر نظرثانی کریں گے؟
یہ فتنہ کس نے اٹھایا ،تا دمِ تحریر متحقق نہیں ہوا۔لوگ ٹیری جونز کا نام لے رہے ہیں اور مصر کے بعض تارکینِ وطن قطبی مسیحیوں کا بھی۔بعض صیہونی یہودیوں کا ذکر بھی ہورہا ہے۔تاہم یہ واضح ہے کہ فتنہ امریکی سرزمین ہی سے اٹھا۔فتنہ سازوں نے ایک عالم کا چین لوٹ لیا۔ لیبیا میں امریکی سفیر کی جان بھی لے لی۔ غصہ اور احتجاج فطری ہے، تاہم بات وہی صحیح ہے جو بہادر شاہ ظفر نے کہی۔ طیش میں خوفِ خدا اور عیش میں یادِ خدا سے بے نیازی، ان کا شیوہ نہیں جو ایمان رکھتے اور خود کو پروردگار کے حضور میں جواب دہ سمجھتے ہیں۔
میرا تجزیہ یہ ہے کہ یہ بین المذاہب اختلافات یا تعصب کا شاخسانہ نہیں، وسیع ترتناظر میں اقدار کا جھگڑا ہے، دونظام ہائے فکر کا۔ ایک وہ جو خود کو الہامی روایت سے وابستہ کہتا ہے اور دوسرا وہ جو غیرالہامی روایت سے۔ اہلِ مذاہب میں سے ایک انتہاپسند اقلیت ٹیری جونز کی طرح دیا سلائی دکھاتی ہے اور یوں معرکہ برپا ہوجاتا ہے۔
انسانوں کے مابین غوروفکر کے دوہی ماخذ رہے ہیں۔آسمانی الہام یا پھر عقل وخرد۔ الہامی روایت میں عقل متروک نہیں ہے۔ تاہم اس روایت میں الہام یا وحی کو بطور ذریعۂ علم، عقل پر برتری ہے۔ اس کے برخلاف دوسری روایت میں انسانی عقل علم کا تنہا ماخذ ہے۔ ایک الہامی روایت ہے اور دوسری لبرل۔ الہامی روایت یہ ہے کہ اس عالم کا ایک پروردگار ہے اور وہی انسان کا بھی خالق ہے۔ ابن آدم کو زندگی کیسے گزارنی ہے، اس کا فیصلہ تو عالم کا پروردگار ہی کرے گا۔ اس کی ہدایت انبیا کی معرفت انسانوں تک پہنچی ہے۔ ’’انبیا‘‘ کا تصور مذاہب میں مختلف علیہ ہے، لیکن ہر مذہب خدا اور عام انسانوں کے درمیان ایک حوالے کو قبول کرتا ہے جو دراصل منشاء پروردگار کو جاننے کا ماخذ ہے۔ یہ زندگی کی ایک مابعدالطبیعیاتی تعبیر ہے۔ اس کے برخلاف لبرل ازم، فی الجملہ طبیعیات ہی پر یقین رکھتا ہے۔ یوں خالق، الہ،مذہب، بنی، الہام، روح جیسی اصطلاحیں اس کے لیے اجنبی ہیں۔جب اس کے نزدیک ان کا وجود ہی ثابت نہیں تو پھر کیسی عبادت اور کیسا تقدس؟ یوں زندگی کا الہامی تصور ان کے لیے غوروفکر اور استہزا کامحل ہے۔ اس کے مظاہر ہم دیکھتے ہیں جب خاکے بنتے اور ٹیری جونز جیسے فسادی الہامی کتابوں اور شخصیات سے کھلواڑ کرتے ہیں۔
ٹیری جونز کو مسیحی روایت نے مسترد کردیا ہے۔اس نے پہلی بار جب یہ حرکت کی تو اس کے بلاوے پر صرف چالیس افراد جمع ہوسکے۔ پاکستان کے مسیحیوں نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر اس کے خلاف احتجاج کیا۔ مذاہب کا اختلاف تو ہے اور رہے گا، لیکن مذہبی روایت میں انسانوں کا احترام بنیادی اصول ہے۔ اس روایت میں بھی بعض اوقات غیر ذمہ داری کا مظاہرہ ہوتا ہے جیسے کیتھولک کلیسا کے سابق پیشوا نے چند صدیاں پہلے کی ایک کتاب کا حوالہ دے کر ایک بحث اٹھادی تھی۔ تاہم اس وقت بھی اسے پذیرائی نہیں ملی۔ اب ویٹی کان کے علاقے میں مسجد قائم ہے اور مسلمانوں کا یہ حق تسلیم کیا گیا ہے کہ وہ اپنی دینی روایت کے مطابق عبادت کرسکتے ہیں۔
میرے نزدیک آج مذہبی روایت کو فی نفسہ دوچیلنج درپیش ہیں۔ ایک لبرل ازم کا اور دوسرا انتہاپسندی کا۔ انتہاپسندی ہی دراصل لبرل ازم کے لیے راہ ہموار کرتی ہے جب انتہاپسند مذہب کا تعارف بن جاتے ہیں۔ آج ضرورت ہے کہ مذہبی روایت کو ماننے والے ان دو تصورات کے خلاف جمع ہوں۔ وہ چونکہ ایک نظامِ اقدار کو مانتے ہیں جس میں الہام کو بنیاد کی حیثیت حاصل ہے، اس لیے وہ اپنے مشترکات کی بنیاد پر ایسا ضابطۂ اخلاق تشکیل دے سکتے ہیں جس میں ٹیری جونز جیسے لوگوں کے لیے کوئی جگہ نہ ہو۔ دنیا کا امن آج ابراہیمی ادیان کے ماننے والوں سے وابستہ ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ آج کے عالمی تنازعات میں، کشمیر کے استثناء کے ساتھ اسی روایت کے پیروکار نبردآزما ہیں۔ علی وجہ البصیرت، میری رائے یہی ہے کہ ان تنازعات کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ امریکا کو اسلام سے کچھ لینا دینا نہیں، الا یہ کہ اس عنوان سے کوئی تعبیر اس کے سامراجی عزائم میں حائل ہو۔ امریکا سامراج ہے اور سامراج کسی مزاحمت کو گوارا نہیں کرتا۔ کل اس کا ہدف سوویت یونین تھا، حالانکہ اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ آنے والے کل اس کا ہدف چین ہوگا اور ظاہر ہے کہ اس کا بھی اسلام سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ طاقت کا کھیل ہے جسے کبھی ختم نہیں ہونا۔ اہلِ مذہب کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی روایت کو اس کھیل سے الگ کرلیں۔
میرا احساس ہے کہ یہ معاملہ محض قرآن مجید یا رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع کا نہیں ہے۔ لبرل ازم کے نزدیک سیدنا مسیحؑ یا سیدنا ابراہیمؑ بھی کسی تقدس کے مستحق نہیں۔ اس تصور میں تو ان شخصیات کی تاریخی حیثیت ہی مشتبہ ہے۔ اس لیے آج پھر ایک آوازبلند کرنے کی ضرورت ہے کہ ’’اے اہلِ کتاب! آؤ اس کلمہ کی طرف جو تمہارے اور ہمارے درمیان مشترک ہے‘‘۔ اگر مذہب کی نمائندہ شخصیات پر مشتمل ایک عالمی فورم وجود میں آجائے جسے حکومتوں کی تائید بھی میسر ہو تو ٹیری جونز جیسے اہلِ فساد کا راستہ روکا جاسکتا ہے۔ یہ اگرچہ مشکل کام ہے کہ یورپ اور امریکا میں اس وقت غالب نقطہ نظر لبرل ازم ہے جو اپنے نظامِ اقدار کے تحت فرد کی بے قید آزادی کا قائل ہے۔ وہ آزادئ رائے کے نام پر ٹیری جونز جیسے لوگوں کو گوارا کرتا ہے۔ تاہم اب وقت آگیا ہے کہ آزادئ رائے اور دشنام طرازی میں فرق کو نمایاں کیا جائے۔ دنیا کو یہ باور کرایا جائے کہ تنقید اور گالی میں فرق ہے اور دنیا کا ہر مہذب آدمی چاہے کتنا ہی لبرل کیوں نہ ہو، اس فرق کو ملحوظ رکھتا ہے۔
سعودی عرب کے بادشاہ نے اس سمت میں ایک قدم اٹھایا ہے، انہوں نے اسپین میں اسی کام کے لیے بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ ریاض میں اس مقصد کے لیے ایک ادارہ قائم کردیا گیا ہے۔ اس آغاز کو معنی خیز بنایا جاسکتا ہے۔ مسیحیوں کو یہ آسانی ہے کہ ان کا سواد اعظم ایک مذہبی مرکز کیتھولک چرچ کو قبول کرتا ہے۔ تاہم ان کے بہت سے فرقے اسے نہیں مانتے۔ مسلمان تو پیغمبر کے بعد کسی ایسی مرکزیت کے قائل نہیں البتہ ان کے مسالک کی نمائندہ شخصیات کو جمع کیا جاسکتا ہے۔
اپنا سفیر گنوانے کے بعد مجھے معلوم نہیں امریکیوں کا ردِ عمل کیا ہے، لیکن میرا احساس ہے کہ وہ اس پر سنجیدگی سے غور کریں گے کہ آزادئ رائے، کیا بے مہار آزادی کا نام ہونا چاہیے؟ کوئی مہذب آدمی تشدد کی حمایت نہیں کرتا۔ اس کو کسی صورت روا نہیں رکھا جانا چاہیے۔ پھر یہ بات بھی کسی اخلاقی نظام کے لیے قابل قبول نہیں کہ ایک مجرم کی سزا کسی دوسرے کو دی جائے۔ اسی طرح یہ بھی مذہب اور اخلاق کے خلاف ہے کہ ہر کوئی سرراہ عدالت لگائے۔ خود مدعی ہو، خود منصب اور خود ہی تنفیذ کا اختیار رکھتا ہو۔ پاکستان میں خالد جدون کا قصہ سامنے آیا تو قانون متحرک ہوگیا۔ امریکا میں ایسا قانون نہیں لیکن کیا ٹیری جونز جیسوں کو فساد فی الارض کا مجرم نہیں ٹھہرایا جاسکتا؟
جب تک امریکی میرا کالم نہیں پڑھتے، مجھے اپنے اہلِ وطن ہی سے ہم کلام ہونا ہے۔ مجھے بتانا ہے کہ فساد کا جواب فساد نہیں ہوتا۔ اس حادثے کو ہم اپنی دعوت کا عنوان بنا سکتے ہیں۔ پرامن احتجاج سے اور ایک ایسی تہذیب کے علمبردار کے طور پر جو انسانوں کا احترام کرتی ہے اور فساد کی مذمت کرتی ہے۔ ہم اپنے ہم وطن مسیحیوں کو یہ پیغام دے سکتے ہیں کہ آپ کی جان ومال کا تحفظ ہمارے دین کا حصہ ہے اور یہ بات ہمیں اس عظیم المرتبت ہستی نے سکھائی جنہیں اللہ نے سارے جہانوں کے لیے رحمت بنایا، ٹیری جونز جیسے بدنصیب جن کی عظمت سے واقف نہیں۔

توہین رسالت کا مسئلہ اور ہماری حکمت عملی

مولانا وقار احمد

آج کل دنیا بھر میں ایک امریکی کی بنائی ہوئی فلم زیر بحث ہے جس میں مبینہ طور پر پیغمبر انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی شرمناک انداز میں توہین کی گئی ہے۔ مسلم دنیا کی طرف سے انتہائی غم اور غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں عوام کے ساتھ ساتھ حکومت نے بھی اس مسئلہ پر احتجاج کیا اور جمعہ ۱۲ ستمبر کو عام تعطیل کا اعلان کیا۔ 
گزشتہ دو دہائیوں سے یہ صورت حال مسلسل دیکھنے میں آ رہی ہے کہ آزادی رائے کے نام پر مسلم دنیا کے جذبات کو بعض خاص مقاصد کے لیے وقتاً فوقتاً مشتعل کیا جاتا ہے اور ان کارروائیوں کے پس منظر میں عالمی استعمار کے پیش نظرکئی اہم مقاصدہوتے ہیں۔ ان کے حصول کے لیے کبھی توہین قرآن کی جاتی ہے، کبھی پیغمبر انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا ارتکاب کیا جاتا ہے اور کبھی خود مسلم دنیا کے اندر سے مختلف مکاتب فکر کی مقدس شخصیات کی توہین کر کے ان کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ 
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قسم کے واقعات کا حل کیا ہے؟ یہ کام کرنے والے تو اپنے طے شدہ منصوبے کے مطابق اپنا کام کیے جا رہے ہیں۔ مسلم دنیا کو ان کی روک تھام اور دشمن کو بھر پور جواب دینے کے لیے کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے؟ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہمیں اس کے لیے کیا رہنمائی ملتی ہے؟ 
احتجاج کے ذریعے جذبات کا اظہار ایک اچھا اور وقتی طور پر موثر طریقہ ہے، مگر یہ دائمی حل نہیں ہے۔ ہم پاکستان کی اندرونی صورت حال کو دیکھتے ہیں کہ یہاں تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد اس قسم کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جن کو بنیاد بنا کر عالمی برادری پاکستان میں موجود قانون توہین رسالت کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس پر مذہبی حلقوں کی جانب سے احتجاج اور مزاحمت کی جاتی ہے۔ بالآخر پاکستانی حکمرانوں کی وضاحت اور یقین دہانیوں کے بعد معاملہ عارضی طور پر ٹھنڈا ہو جاتا ہے اور مذہبی حلقے فتح کے نقارے بجانے لگتے ہیں۔ کچھ ہی عرصے کے بعد پھر کوئی ایسا ہی واقعہ پیش آجاتا ہے اور دوبارہ ملک میں وہی بے چینی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ 
عالمی سطح پر بھی یہی صورت حال ہے کہ مسلمانوں کے جذبات کو سامراج اپنے مقاصد کے لیے مختلف حیلوں بہانوں سے استعمال کرتا ہے۔ کبھی گوانتاناموبے میں قرآن حکیم کی توہین کے واقعے کو خود امریکی میڈیا پھیلاتا ہے اور پھر دیگر مقاصد حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ عراقی فدائیوں کا رخ بدل دیا جاتا ہے اور ان کو ان کے ٹھکانوں سے باہر نکالا جاتا ہے۔ کبھی شیعہ سنی اختلافات کی آڑ لے کر ان کی مقدس شخصیات کی توہین کا ارتکاب کروایا جاتا ہے اور اس طرح سے مسلم مزاحمتی قوت کو آپس میں ٹکرا دیا جاتا ہے۔ 
ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم رہنما اور ماہرین قانون و سیرت مل بیٹھ کر عالمی قانون کے تناظر میں اس مسئلہ کا کوئی حل نکالیں۔ ہمارے خیال میں اگر اس نوعیت کی جدوجہد کی جائے تو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی منشور کی روشنی میں اس مسئلہ کا مستقل حل نکل سکتا ہے اور آزادی رائے کی حدود مقرر کی جا سکتی ہیں۔ انسانی حقوق کے عالمی منشور میں جہاں آزادی رائے اور ابلاغ کا حق دیا گیا ہے، وہاں دفعہ نمبر ۳۰  میں اس کی حدود بھی مقرر کر دی گئی ہیں۔ ’’اس اعلان کی کسی چیز سے کوئی ایسی بات مراد نہیں لی جا سکتی جس سے ملک، گروہ یا شخص کو کسی ایسی سرگرمی میں مصروف ہونے یا کسی ایسے کام کو انجام دینے کا حق پیدا ہو جس کا منشا ان حقوق اورآزادیوں کی تخریب ہوجو یہاں پیش کی گئی ہیں۔‘‘ یہ شق واضح طور پر ایسی ہر سرگرمی کی ممانعت کرتی ہے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا سبب بن سکے یا جس سے کسی کی دل آزاری ہو۔ 
سی طرح کسی بھی شہری کی دل آزاری کی ممانعت خود اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی منشور میں بیان کر دی گئی ہے۔ بہت سے مغربی ممالک میں توہین مسیح علیہ السلام پر سزا کا قانون موجود ہے۔ نبی انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین محض آزادی رائے کا مسئلہ نہیں بلکہ اس سے دنیا کے سوا ارب سے زائد انسانوں کی دل آزاری ہوتی ہے۔ یہ دنیا میں فساد اور بد امنی کے فروغ کا سبب ہے۔ یہ قبیح فعل تہذیبوں میں تصادم کی راہ کو ہموار کر رہا ہے۔ مزید یہ کہ انسانی حقوق کے عالمی منشور کی دفعہ نمبر ۲۱ میں ہر انسان کی عزت نفس کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے تو کیا کروڑوں انسانوں کے رہنما کی عزت نفس کی کوئی ضمانت نہیں ہے؟
یہ محض چند اشارات ہیں۔ دنیا بھر کے قوانین میں اس قسم کی دفعات موجود ہیں جن کو بنیاد بنا کر اس مسئلہ پرعالمی سطح پر قانونی جنگ جیتی جا سکتی ہے۔ اس کے بغیر محض فتووں اور جذبات کے اظہار سے مسئلہ کا کوئی حل نکلنے والا نہیں، سوائے اس کے کہ مذہبی رہنماؤں کو کچھ دن کی مصروفیت ہاتھ آ جائے گی۔ 
ہمارے سامنے سلمان رشدی کی مثال موجود ہے جس نے توہین رسالت کا ارتکاب کیا اور انتہائی زہریلی کتاب لکھی۔ اس کے خلاف جب برطانیہ کی مسلم کمیونٹی نے قانونی جنگ شروع کی تو برطانیہ کی عام کمیونٹی اور سنجیدہ طبقہ مسلم کمیونٹی کے ساتھ تھا۔ پارلیمنٹ میں اس حوالے سے قرارداد پیش کرنے کی تیاریاں ہو رہی تھی کہ اس کتاب پر پابندی عائد کی جائے، کیونکہ اس میں برطانیہ کے ہزاروں شہریوں کی دل آزاری کی گئی ہے۔ برطانیہ کے بہت سے ممبران پارلیمنٹ اور سیاستدان بھی مسلم کمیونٹی کا ساتھ دے رہے تھے۔ اچانک خمینی صاحب اور مسلم دنیا کے بعض دوسرے رہنماؤں کی طرف سے سلمان رشدی کے واجب القتل ہونے کا فتویٰ آگیا۔ اس فتوے کا نتیجہ یہ ہوا کہ فتوے سے پہلے اسی مسئلہ پر مسلم کمیونٹی کے احتجاجی پروگراموں میں چند سو افراد بمشکل شرکت کرتے تھے، اب ان کی تعداد ہزاروں میں ہو گئی۔ فتوے سے پہلے مسلم کمیونٹی کو برطانوی معاشرے اور ممبران پارلیمنٹ کی حمایت حاصل تھی جبکہ سلمان رشدی کو کوئی تحفظ حاصل نہیں تھا۔ اب حمایت کا رخ بدل ہو گیا اور برطانوی گورنمنٹ نے اپنے ایک شہری کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے رشدی کو اپنی حفاظت میں لے لیا اور برطانوی معاشرے نے بھی اس فیصلہ کی حمایت کر دی۔ (تفصیل کے لیے اس جدوجہد اور اس کے انجام کی روداد مولانا عتیق الرحمن سنبھلی کی کتاب میں پڑھیے جو ایک عرصہ سے برطانیہ میں مقیم ہیں اور خود اس جدوجہد میں عملاً شریک تھے۔)
اس ضمن میں علما اور سنجیدہ مسلم قیادت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے ایسی پالیسی اپنائیں جس سے مسئلہ کا مستقل اور پائیدار حل نکل سکے۔ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور تاریخ اسلامی میں ہمیں اس کی متعدد مثالیں ملتی ہیں کہ ناموافق حالات میں زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے مسائل کا حل نکالا گیا۔ سیرت نبوی پر نظر رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ یہود مدینہ ہجرت نبوی سے پہلے بھی اسلام اور پیغمبر اسلام کے بارے میں کس نوعیت کے جذبات رکھتے تھے اور کس کس طرح مشرکین مکہ کو سوالات سکھاتے تھے تاکہ کسی طرح سے نبی انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کو زچ کیا جائے، مگر ہجرت کے بعد یہ تمام چیزیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر ہوتے ہوئے بھی آپ نے ان کے معاملے میں حکیمانہ طرز عمل اختیار کیا اور معاہدات کے ذریعے سے ان کو اخلاقی اور قانونی شکست دی۔ 
ہمیں اس مسئلہ میں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ہر مسئلے کو خالص مذہبی بنیادوں پر حل کرنے کی حکمت عملی کہاں تک کارگر ہوگی۔ یہاں عظیم انقلابی رہنما مولانا عبید اللہ سندھی کا ایک مقولہ نقل کرنا بے محل نہ ہوگا۔ خواجہ خان محمد صاحب سے منقول ہے کہ مولانا سندھی فرماتے تھے کہ 
’’پاکستان بنا رہے ہو تو وہاں اسلام کا نام نہ لینا، ورنہ رکاوٹوں کے پہاڑ سامنے کھڑے ہو جائیں گے۔ جس طرح ہندو بظاہر سیکولر حکومت بنا رہے ہیں، مگر درحقیقت وہ ہندومت کے لیے کام کرتے ہیں، تم بھی پاکستان میں سیکولر حکومت بنا کر اسلام کی خدمت کرو گے تو کامیاب ہو گے۔‘‘ [بحوالہ ’’مولانا فضل الرحمن زعمائے امت کی نظر میں‘‘، ص ۶۰۱]

عصری تعلیم کے اسکولوں پر توجہ کی ضرورت

صادق رضا مصباحی

اگر میں یہ کہوں کہ اس وقت مدارس سے زیادہ مکاتب پر توجہ کی ضرورت ہے تو اس میں کسی کو کوئی حیرت نہیں ہو نی چاہیے۔کسی بھی بلندفکراورزمانہ شناس شخص سے یہ حقیقت مخفی نہیں ہے کہ زمانے کی رفتار کے آگے مدارس و مکاتب اپنی کوتاہ رفتاری کا شکوہ کر رہے ہیں۔ ہم نے بالعموم بلند بانگ دعوے تو بہت کیے مگر اس کے مطابق کا م پانچ فی صد بھی نہیں کیا۔ اس ضمن میں سیاسی لیڈران اور مذہبی قائدین دونوں ہی ذمے دار ہیں ۔ یہ بات یوں ہی نہیں کہی جا رہی ہے بلکہ اس کی پشت پر وہ تاریخی شہادتیں ہیں جن کا انکار سورج کو جھٹلا نے کے مترادف ہو گا۔
سائنس اور ٹکنا لوجی کے معاصررجحانات نے لوگوں کی سوچ اور فکر کا دھارا کچھ اس طرح موڑا ہے کہ اب وہ مادیت کے پجاری بن کررہ گئے ہیں۔اب ان کی فکر کا محور بس یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمایا جائے ،اعلیٰ سے اعلیٰ ملازمت(Job) حاصل کیا جائے، بھاری بھرکم تنخواہوں پر کام کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ سماجی عزت دونوں ہاتھوں سے بٹوری جائے۔ اس رحجان کانتیجہ یہ نکلا کہ وہ شعوری یاغیرشعوری طورپرمذہب بیزاروں کی صف میں کھڑے ہوگئے۔ ان کی دنیاتوانہیں تھوڑی سی مل گئی مگروہ دین سے اوردین ان سے دورہوتاگیا۔ہماری قوم کے بیشترافراداپنے بچوں کواعلیٰ سے اعلیٰ عصری تعلیم دلانے کے لیے انگلش میڈیم اسکو لو ں کا رخ کر رہے ہیں جہاں ان کی جیب بھی خالی ہو رہی ہے اور ان کے دین کا سودا بھی ہو رہا ہے۔ یہاں رک کرذراغورکریں کہ آخران لوگوں میں مذہب بیزاری کیوں پیدا ہوئی؟ دراصل اس دین بیزار ی کاماخذانھی دنیاپرست مذہبی قائدین کافکروعمل ہے۔ 
اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی ہمیں فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اکثرمسلمان چاہتے ہیں کہ ان کے بچے اسلامی تعلیم وتربیت حاصل کریں، ان کے اندر اسلامی مزاج پیدا ہو اور ان کا اسلامی شعور پختہ ہو مگر اس شدید خواہش کے باوجود وہ اپنے بچوں کو اسلامی مکاتب اورمدارس میں نہیں بھیجتے۔ سبب یہی بے سمتی کے شکارمدارس ومکاتب اوران کے اکثرمنتظمین ہیں جو اسلام کا نعرہ توخوب بلندکرتے ہیں مگران کے افعال وکردارسے اس کی تصدیق ہوتی نظرنہیں آتی۔ تقریباًسبھی مدارس و مکاتب انھیں لکیروں پر چل رہے ہیں جو برسو ں سے بنی ہو ئی ہیں۔ اس سے ایک انچ اِدھر یا اُدھر خود کو ہٹانا بہت بڑا جرم تصور کرتے ہیں اور انتہا تو یہ ہے کہ اس کو مذہب اور دین کے نام سے جوڑا جاتا ہے۔گویا اس لکیر سے اِدھر اُدھر ہٹنے میں دین کا کوئی اہم ستون منہدم ہو اجا رہا ہو۔ زما نے کے تقاضے کچھ اورکہتے ہیں مگریہ مدارس (الاماشاء اللہ) ان مطالبات پرپورے نہیں اتر رہے ہیں۔ اس کے جونقصانات ہوئے اورہورہے ہیں، ان کااندازہ لگاناکوئی مشکل نہیں ہے۔
بر صغیر ہندو پاک میں مدارس کی اتنی کثرت ہے کہ ان کا شمار مشکل ترین امر ہے اور ان میں چند کو چھوڑ کر باقی کوئی بھی مدرسہ ایسانہیں ہے جوموجودہ چیلنجوں کے جواب اوردین کادفاع کرنے والے ماہر افرادتیارکررہاہو۔ اس لیے ان کے اکثر فار غین نہ دین کے مفاد میں ہیں اور نہ سماج کے۔صرف مساجد و مدارس تک ہی محدود رہنا اسلام کا نقطۂ نظر کبھی نہیں رہا ۔ ان کے سوا عشق کے امتحان اور بھی تو ہیں مگر یہ دین کی خدمت کا مرکزصرف مسجدوں اور مدرسوں کو سمجھتے ہیں ۔ اس کے آگے نہ ان کی نظریں دیکھ پاتی ہیں اور نہ ان کی فکرکا پرندہ وہاں تک پہنچتا ہے۔ ظاہر ہے جب پڑھانے والوں کی فکریں زر خیزنہیں ہوں گی تو پڑھنے والوں کی فکروں کو بال و پر کیسے عطا ہو ں گے۔ اگر مدارس اسی طرح چلتے رہے تو اسلام کے مطلوب افراد قوم کو کبھی میسر نہیں آسکیں گے۔ 
ایک اہم اورکھلی ہوئی حقیقت یہ بھی ہے کہ مدارس کے فارغین دس سالہ طویل کورس کرنے اور عمر کا ایک بڑا حصہ مدرسوں میں گزارلینے کے باوصف بالعموم روح دین سے غافل ہی رہتے ہیں۔ ظاہر ہے جب وہ دین کی گہرائیوں سے واقف نہیں ہو ں گے تو اسلام کاپیغام صحیح طورسے کیسے پہنچاسکیں گے۔مدارس بلاشبہہ دین کے قلعے ہیں مگرآج اسلام اورمسلمانو ں کے تعلق سے جواضطراب پیداہوچکاہے، اس کی واحدوجہ بھی یہی مدارس اوراس کے فارغین ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے سماج کا امیر اورمتوسط طبقہ مدارس کوچندہ تودے دیتاہے مگروہ اپنے بچوں کامستقبل ان مدرسوں کے سپرد نہیں کرتا۔
آنکڑے یہ بتاتے ہیں کہ دنیوی تعلیم یافتہ لوگ بڑے بڑے منصبوں پر فائز ہیں اور دینی تعلیم یافتہ ان کے دست نگر بننے پر مجبور۔ ہمارے یہاں لاکھوں تقریریں ہوتی ہیں اورکروڑوں تحریریں لکھی جاتی ہیں کہ اسلام کامل واکمل دین ہے۔ وہ ہرزمانے ،ہر فکر، ہر فلسفے اور ہر طرح کے لو گوں کے لیے ہے مگر کیا تقریر کرنے والوں اور تحریر لکھنے والوں نے اسے عملی طور پر ثابت کر کے دکھایا؟ عوام توعوام، خواص کی ایک بڑی اکثریت کے عمل نے نادانستہ طورپراسلام کو مسجد و مدرسے کے اندر محدود کر دیا ہے۔ مدارس کے اساتذہ اورمساجدکے ائمہ کے اندر معلوم نہیں اس تصورنے کیسے جڑپکڑلیا کہ مقتدیوں کو نماز پڑھانے اوردرسی کتابیں پڑھادینے سے ان کی ذمے داری پوری ہوگئی۔ ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ دین کاتصوربہت وسیع اورجامع ہے۔ ایک مذہبی قائدکی یہ دینی ذمے داری ہے کہ وہ امت مسلمہ کے ہرطرح کے مسائل کاحل پیش کرے اور دین ودنیاہرمعاملے میں ان کامقتدابنے مگر ہمار ے اکثرمدارس کے نصاب ونظام نے ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتو ں پر سوالیہ نشان لگادیاہے۔ حالانکہ اب ضرورت اس بات کی زیادہ ہے کہ مدارس میں طلبہ کودینی وتبلیغی تربیت دی جائے اورانہیں موجودہ چیلنجوں کے جواب کے لیے تیار کیا جائے۔
آئیے گہرائی میں اترکرغورکریں کہ مدارس سے زیادہ مکاتب پر توجہ کی ضرورت کیوں ہے؟اگرہم دیگراقوام وملل سے اپنا موازنہ کریں توہمیں معلوم ہوگاکہ ہمارے پاس اعلیٰ درجے کے مکاتب ہیں ہی نہیں۔استثنائی مثالوں کی بات الگ ہے۔ جب کہ دیگر قوموں کے اپنے اپنے نہایت اعلیٰ درجے کے ادارے ہیں۔ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ پوری دنیامیں سکھوں کی ایک الگ شناخت ہے ۔ابتدامیں ا ن کے پا س بھی اچھے تعلیمی ادارے نہیں تھے ۔ان کے بچے ہندوؤں اورعیسائیوں کے اداروں میں پڑھتے تھے مگرجب انہوں نے محسوس کیاکہ ان انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھ کر ان کے بچے اپنی شناخت اورمذہبی روایات سے دورہوتے جا رہے ہیں اوران کے دماغوں میں ایک الگ قسم کا کلچر پنپ رہاہے توانہوں نے خوداپنے ادارے قائم کرناشروع کیے جہاں ان کامذہب بھی محفوظ ہے اوروہ تعلیمی میدان بھی میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔آج عالم یہ ہے کہ پورے ملک میں ان کے پاس انتہائی معیاری درس گاہیں ہیں۔ کیا مسلمان ان سے سبق حاصل نہیں کرسکتے ؟ہمارے بچے غیروں کے اسکولوں میں جاکراپنے مذہب سے متنفرہورہے ہیں، اپنی مذہبی اور موروثی روایات کاگلاخودگھونٹ رہے ہیں اوراپنے اسلاف کی نشانیو ں کوہی منہدم کرنے کے درپے ہیں۔ ان انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھنے والے کتنے مسلم بچے ہیں جنہیں صحیح کلمہ بھی یادہے اورجودین کی بنیادی اورضروری باتو ں سے ہلکی سی بھی آشنائی رکھتے ہیں؟ ایسی صورت میں صرف ایک صورت باقی رہ جاتی ہے اور وہ ہے دین وعصر دونوں کے تقاضوں سے لیس اور دونوں کی ضرور تو ں پر مشتمل اداروں یا مکاتب کے قیام کی تیاری ۔ہماری نسل جس تیزی سے اپنے مذہب سے عملاً بیزار ہو تی جارہی ہے اور الحادیت سے اپنے دل ودماغ دونوں آلودہ کر رہی ہے، اس کا تقاضاہے کہ جلد از جلد اس طرف توجہ دی جائے ورنہ شاید بچی کھچی نسلوں کے ذہن و دماغ کی ڈور بھی ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ اس کے لیے ہمیں خود کو تیار کرنا ہوگااورانفرادی یااجتماعی طور پر کمر ہمت کسنی ہوگی کیوں کہ جن لوگوں کے ہاتھوں میں مکاتب کا نظام ہے، عموماً ان کے دماغ کے سوتے با لکل خشک ہیں اور ان کی فکروں کا قبلہ درست نہیں۔ اس لیے ان سے کوئی اچھی امید نہیں کی جاسکتی ۔اگرانھی پرتکیہ کیے بیٹھے رہے توکسی بڑی تبدیلی کاخواب شایدہی کبھی شرمندۂ تعبیرہو۔
ذراغور کریں کہ مدارس یا مکاتب میں ہماری قو م کے کتنے فی صد بچے پڑھنے آتے ہیں اور عصری علوم کی طرف کتنے فی صد بچے بھاگتے ہیں۔ یہ کوئی حیرت و تعجب کی بات نہیں کہ دونوں میں کئی گنا کا فرق ہے ۔مثال کے طور پر ہم اپنے ضلع پیلی بھیت کو ہی لے لیں۔ یہا ں دینی علوم کی طرف مائل ہو نے والوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ دو ہزار ہو گی اور عصری علوم کی طرف مائل ہو نے والوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچے گی۔ ہمارے ذمے دار ان مدا رس ، چندہ کرنے والے مولوی صاحبان اور چندہ کروانے والے کمیٹی کے افراد ان دو ہزار کے لیے ہر سال لاکھوں کروڑوں کا چندہ کرتے ہیں اور ان دو ہزار کو خدمت دین کے لیے تیارکرنے میں پورا زور صرف کر دیتے ہیں (یہ الگ با ت ہے کہ یہ مقصدصحیح طورپرپوراہوتاہے یا نہیں) مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ لاکھوں طلبہ جو کالجوں اور یو نیور سٹیوں میں زیرتعلیم ہیں اوراپنے دین کی قیمتی پونجی فروخت کر رہے ہیں،ان کاا یمان کیسے بچایاجائے اورانہیں دین کی طرف کیسے مائل کیاجائے ؟ کیاہمارے پاس ان لاکھوں طلبہ کودین سے قریب کرنے کے لیے کوئی جامع منصوبہ ہے ؟ہماری نظرمیں کیا یہ دین کا کام نہیں؟ کیا ہی اچھا ہو تا کہ ہم ان عصری تعلیم یافتگا ن کی زبان سے بھی دین کی باتیں سنتے۔
یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ دینی تعلیم یافتہ فردکی بہ نسبت عصری تعلیم یافتہ کی باتیں ہماراسماج خاص طور امیر (Upper Class) اور متوسط (Middle Class) طبقہ بہت غورسے سنتاہے کیوں کہ عموماً یہ عصری تعلیم یافتگان بڑے بڑے عہدوں پرفائزہوتے ہیں۔ اس لیے ان کی باتیں زیادہ اثراندازہوتی ہیں اورہمارے دینی تعلیم یافتہ حضرات مسجدو مدرسے آگے نہیں بڑھ پاتے اور معاشی طورپرکمزوربھی ہوتے ہیں، اس لیے ان کی باتیں بڑے حلقے تک نہیں پہنچ پاتیں۔ اس کے لیے صرف وہی کا م کرنا ہے جو اوپر تحریر کیا گیا یعنی انتہائی اعلیٰ معیارکے انگلش میڈیم اسکولوں کاقیام جہاں دین کی تعلیم بھی ٹھوس اور مضبوط بنیادوں پر ہو۔ داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر یہ قابل رشک ہوں اورمعیاری ہوں۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو آپ یقین جانیے کہ زیادہ نہیں، صرف بیس پچیس سال کے عرصے میں ملک کا تعلیمی اور معاشی منظر نامہ با لکل تبدیل ہو جائے گا۔ یہاں سے فارغ ہو کر ہمارے طلبہ اعلیٰ سطحی ملازمتوں اور حکومتی محکموں میں جائیں گے تو وہ صرف ایک آفیسر نہیں بلکہ ایک اچھے مسلمان اور ملک کے اچھے شہری بھی ہوں گے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان کا عقیدہ و ایمان مضبوط ہوگا ۔انھیں گمراہ گر گمراہ نہ کر سکیں گے۔
ذراسوچیں کہ ہمارے مدارس و مکاتب کی طرف کون سا طبقۂ فکر متوجہ ہوتا ہے؟ تلخی کے یہ گھونٹ اپنے گلے کے نیچے اتارلیں کہ ہمارے یہاں۸۰؍فی صدغریب بچے پڑھنے آتے ہیں ۔اگر ان کے پاس عصری علوم حاصل کرنے کے لیے سرمایہ ہو تا تو یقین جانیے وہ کسی انگلش میڈیم اسکول اور یوینورسٹی کا ہی رخ کرتے۔
افسوس اس کا ہوتا ہے کہ مکاتب جن کی ازحدضرورت ہے، قائم نہیں ہو رہے ہیں بلکہ مدارس پہ مدارس قائم ہوتے جا رہے ہیں۔ حد یہ ہے کہ کمپٹیشن میں ایک ایک شہرمیں کئی کئی ادارے اورمدرسے کھل رہے ہیں۔ہونا تو یہ چاہیے کہ اگر کمپٹیشن میں مدرسہ قائم ہوا تو وہاں بہتر تعلیم ہو تی، مگر ان کابھی حال نہایت ابتر ہے۔ میرے سامنے ایسی ایک نہیں، درجنوں مثالیں ہیں کہ کسی مدرس کا صدر المدرسین صاحب یا مہتمم صاحب سے کسی بات پرتنازع ہوا تو انھوں نے فوراً دوسرا مدرسہ قائم کر لیا اور چندے کا دھندہ شروع کر دیا۔اگر دین کی خدمت ہی کرنی ہے تو اچھے اور معیاری مکاتب کیوں نہیں قائم کیے جاتے؟آج کل مدرسہ قائم کرنا بہت آسان اور عام ہو گیا ہے ۔ کم پڑھے لکھے اور کم نظرمدرس کو پڑھانے کے لیے جدو جہد بھی نہیں کرنا پڑتی۔ کم پڑھے لکھے عوام انھیں مقتدا سمجھ کر انھیں حضرت حضرت کہہ کر پکارتے ہیں اور طلبہ دست بوسی کرتے ہیں۔ یہ حضرت اسی میں خوش ہو لیتے ہیں اور اسی کو مقصد زندگی اور کل دین سمجھ لیتے ہیں۔ جب اتنی عزت انھیں مفت میں مل رہی ہے تو وہ کیوں محنت کرنے لگیں؟ 
مدرسوں کی ریل پیل سے ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ حقدار لوگوں کو زکوٰۃ ،فطرے ،امداد کی رقم نہیں مل پاتی۔المیہ یہ ہے کہ مدارس اور مکاتب کا نظام عام طور پرایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو روح دین سے یکسر نابلد ہیں۔ دو چار موٹی موٹی باتیں جان لینے سے کوئی دین کاشناسانہیں بن جاتا۔ آج تعلیم گاہیں دولت کا انبار لگانے کاذریعہ بنتی جارہی ہیں۔ ذمے داران حکومت کی اسکیموں سے خوب خوب فیضیاب ہورہے ہیں مگراس حساب سے بچوں کو فیضیاب نہیں کررہے ہیں۔ پیسہ کماناکوئی بری بات نہیں، مگربری بات تب ہے جب مقصدصرف اورصرف پیسہ کماناہواوروہ بھی ناجائز طریقے سے اوردھوکہ دہی کے ساتھ جیسا کہ آج کل ایڈڈ مدارس میں ہو رہا ہے۔ مشاہدے کی مددسے یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اکثر مدارس یامکاتب کے ذمے داروں کوطلبہ کے مستقبل سے عملاًکوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔کیاوہ نہیں جانتے کہ ایک بچے سے کئی نسلوں کامستقبل وابستہ ہوتاہے؟ اگراس کامستقبل بربادہوگیا تواس کی نسلوں کے روشن مستقبل کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ یہ بچے دین کے مستقبل ہیں ،سماج کے مستقبل ہیں اورہمارے ملک کے مستقبل ہیں۔ اگران کی زندگیو ں سے کھلواڑ کیا گیا تو یہ سب سے بڑاجرم ہوگا ۔ایسے لوگوں کوخداکی بارگاہ میں جواب دہی کے لیے تیاررہناچاہیے ۔
کبھی غورکیاکہ آخر عصری اداروں کے طلبہ سے لے کر بڑے بڑے اہل مناصب وعہدے داران تک اکثر مسلمان آج صرف قومیت اورنام کے مسلمانوں کیوں ہیں؟ مشرقی روایات سے بدک کرمغربی روایات کی طرف کیوں بھاگتے ہیں؟ اس کے پیچھے مغرب زدہ اورالحاد آمیز تعلیمی نصاب ونظام کلیدی رول ادا کررہا ہے۔ مسلمانوں کی نئی نسل زیادہ تر غیروں کے مکاتب میں تعلیم حاصل کرتی ہے۔ ان کی تعلیم وتربیت مغربی نظریات وروایات کے سایے میں ہوتی ہے۔ ان اداروں کے اساتذہ اسلام کے حوالے سے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ذہن وفکر میں منفی نظریات منتقل کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ اسلامی تعلیمات سے دوردوررہنے لگتے ہیں۔ یہ ادارے چونکہ ہر جہت سے اعلیٰ اور معیاری ہوتے ہیں، طلبہ کے بیٹھنے کااچھا انتظام،اچھے اساتذہ کے علاوہ یہاں ہروہ چیز میسرہوتی ہے جودورجدیدکی تعلیم گاہوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں کے سارے لوگ اصول وضوابط کی زنجیرو ں میں جکڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ تعلیمی معیار نہایت بلند ہوتا ہے۔ یہاں کے طلبہ کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ہاں واقعی یہ کسی اسکول میں پڑھتے ہیں۔ ظاہرہے کہ کوئی مسلم بچہ ان عصری اداروں سے نکل کرعمل کے میدان میں قدم رکھے گاتووہ ملحد،مغرب زدہ،فیشن پرست اوراسلامی احکام سے ناآشنا بلکہ ان سے متنفرہوہی جائے گا۔ دوسری طرف ہمارے مکاتب نہایت خستہ حالت میں ہیں۔ نہ کوئی اچھاانتظام ہے اور نہ کوئی اچھی سہولت۔ نصابی کتابیں نہایت غیر معیاری ہوتی ہیں اور اساتذہ میں جذبۂ دینی کا فقدان نظرآتا ہے۔ یہاں عموماً ایسی کتابیں داخل نصاب ہیں جو مغرب زدہ مصنفین کی تحریرکردہ ہیں۔ گویا ہمارے مکاتب کے درودیوار سے بھی مغربی نظریات اور غیر اسلامی روایات کی صداے باز گشت سنائی دیتی ہے۔ یہاں صرف براے نام تعلیم ہے اور براے نام تربیت۔یہ حقیقت بھی ہرکسی کے مشاہدے میں ہے کہ ہمارے مکاتب کے طلبہ عموماًپراگندہ حالی، تہذیب وتمدن سے خالی اور علم وادب سے عاری ہونے کی تصویرپیش کرتے ہیں۔ ذمہ داران ان اسلامی مدارس میں بچوں کواسلام کے نام پرجمع کرتے ہیں مگراکثربچے بے چارے اسلام کی تعلیمات ہی سے ناآشنارہتے ہیں۔
یہ کتنابڑا المیہ ہے کہ ہماری نئی نسل ہمارے بزرگوں کے کارنامو ں سے قطعاً ناواقف ہوتی جارہی ہے۔ ان کو مغربی مفکرین اور فلمی اداکاروں وادا کاراؤں کے نام تو خوب معلوم ہوتے ہیں لیکن اپنے اسلاف کی حیات اوران کے کارنامے توبہت دورکی بات ہے ، چندبڑے بزرگوں کے ناموں کے علاوہ انہیں نہ اپنے اسلاف کے نام معلوم ہیں اور نہ دین کی اصلیت کی کچھ خبرہے اوراگرکچھ معلوم بھی ہے تووہ بھی بہت سطحی اورناقص ہے جوکسی ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان کی بھی شایان شان نہیں ۔مثال کے طورپرہمارے اسلاف نے ہندوستان میں بے شمارکارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔بے شمار اولیاے کرام اور مجاہدین عظام ہیں جنہوں اسلام کاپیغام گھرگھرپہنچانے ،ملک کی تعمیر وترقی کرنے ، اسے امن وانصاف کا گہوارہ بنانے اور آزادی دلانے میں اپنی جانوں کی بازی لگائی ہے، لیکن آپ انصاف سے بتائیے کہ کیا نئی نسل ان کے کارناموں سے واقف ہے؟ نصاب میں ہمارے ہی مذہب اورہماری ہی روایات کوتنقیدکانشانہ بنایاجاتاہے ،ایسے ایسے لوگوں کو بڑھا بڑھا کر پیش کیا جارہا ہے جنہوں نے آزادیِ ہند کے حوالے سے کوئی بھی قابل قدر کام نہیں کیا ، جنہوں نے انگلی کٹا کر شہیدوں میں نام لکھوایا اور جن کی اسلام دشمنی اور وطن غداری بالکل مسلم ہے مگرچوں کہ یہ ساری باتیں ان کے نصاب میں شامل ہیں ا س لیے نئی نسل کاان کی قصیدہ خوانی کرنافطری ہے۔ مسلم مجاہدین کے کارناموں کو آج حرف غلط کی طرح مٹایا جاچکا ہے اور مزید کوششیں اب بھی جاری ہیں۔ 
اس تناظر میں یہ کہنا بالکل حق بجانب اور صد فی صد درست ہے کہ اس وقت مدارس سے زیادہ مکاتب پر توجہ کی ضرورت ہے ۔ مدارس توکچھ معیاری ہیں بھی مگر ایک بھی مکتب ہماری نظر سے اب تک ایسا نہیں گزرا جو طلبہ کو صحیح تعلیم وتربیت دے رہا ہو ۔زمانے کا اقتضا یہی ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہو، اس طرف توجہ دی جائے ورنہ ہمارا قافلہ ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ خداراجلدی کیجیے۔اپنے بچوں کواپنے اسلاف سے دورمت ہونے دیجیے اوریہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ اگروہ ہماری روایات اوراسلاف کی حیات سے دور ہو گئے توآپ اپنی زندگی کی سب سے بڑی بازی ہارگئے۔ بدلیے اپنے آپ کو ورنہ زمانہ آپ کو بدل دے گا۔ 
ضرورت ہے کہ انٹرمیڈیٹ تک ایسا نصاب تشکیل دیا جائے جو ہماری تاریخی صداقتوں اوراسلامی احکام و روایات کی عظمتوں کو محیط ہو۔ ان نصابی کتابوں کو پڑھنے کے بعد طلبہ جب اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوں تو ان کے ذہن وفکر میں اسلام وسنیت کا شاداب گلشن آباد ہو اور یہ باطل نظریے کے کبھی بھی اسیر نہ بن سکیں بلکہ جب بھی کبھی اسلامی نظریات پر حملہ ہو تو اس کا دفاع اپنے عصری اور اسلامی علوم کے مطا لعے کی روشنی میں کرسکیں اور اپنے ماتحت ملازمین ، دیگر لوگوں ، حلقۂ احباب اور اہل خاندان کے سامنے اسلام کی صحیح ترجمانی پر قادر ہوں۔ عہد حاضر میں جب کہ بیشتر مسلمان اپنے بچوں کو دینی مدارس کی طرف نہیں بھیج رہے ہیں، وہ صرف عصری اداروں ہی کا رخ کررہے ہیں جہاں سے ان کا معاشی مستقبل بھی وابستہ ہوتا ہے ۔ایسے حالات میں اپنی اپنی بساط بھر اعلیٰ اورمعیاری مکاتب کا قیام وقت کا جبری تقاضاہے کہ جہاں یہ لوگ غیروں کے ادارے چھوڑکراپنے بچوں کو داخل کرانے پرمجبورہوجائیں اوریہاں پڑھ کران کے ذہن وفکر میں اسلامیات کا رنگ اتنا پختہ اور گہرا ہوجائے کہ پھر مرتے دم تک کوئی اس رنگ کودھندلا نہ کرسکے۔ بالخصوص عقائد اتنے پختہ ہوں کہ کوئی فکری طوفان اس میں خراش نہ پیدا کرسکے۔

احکام شریعت بطور نعمت الٰہی / احتجاج وانتقام اور اسلامی اخلاقیات

محمد عمار خان ناصر

احکام شریعت بطور نعمت الٰہی

(کچھ عرصہ قبل ایک دینی مجلس میں شریعت کے ایک نعمت الٰہی ہونے کے عنوان سے گفتگو کی گئی تھی جسے ترتیب وتدوین کے بعد پیش کیا جا رہا ہے۔)
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی خاتم المرسلین محمد و آلہ وصحبہ اجمعین۔ اما بعد!
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر اپنی شریعت کے احکام بیان کرتے ہوئے اس بات کا ذکر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ جو ہدایات احکام کی صورت میں، شرائع کی صورت میں مسلمانوں کو دی جا رہی ہیں، یہ درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہیں اور جیسے جیسے شرائع اور احکام کا یہ سلسلہ نازل ہوتا جا رہا ہے اور مسلمانوں کی شریعت پایہ تکمیل کو پہنچ رہی ہے، ویسے ویسے خدا کی نعمت بھی ان پر مکمل ہوتی جا رہی ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ یہ سارے احکام یک بارگی نازل نہیں ہوئے، بلکہ مدینہ منورہ آنے کے بعد جیسے جیسے مسلمانوں کا معاشرہ ایک خاص شکل اختیار کرتا چلا گیا، اسی کے لحاظ سے وقفے وقفے سے اللہ تعالیٰ اپنے احکام بھی ان کو عنایت فرماتے گئے۔ اپنے ان احکام کو اور قوانین کو اللہ نے اپنی نعمت سے تعبیر کیا ہے۔ چنانچہ سورۂ بقرہ میں قبلے کے احکام کے بیان میں فرمایا ہے کہ وَلأُتِمَّ نِعْمَتِیْ عَلَیْْکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَہْتَدُونَ (البقرہ ۲:۱۵۰)۔ سورۂ مائدہ میں جہاں وضو اور تیمم کے احکام بیان فرماتے ہیں، وہاں بھی یہ تعبیر اختیار فرمائی ہے: وَلِیُتِمَّ نِعْمَتَہُ عَلَیْْکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ (المائدہ ۶:۶) اور وہ آیت جس کے بارے میں بعض روایات میں بیان ہوا ہے کہ وہ نزول کے لحاظ سے قرآن مجید کی آخری آیت ہے، اس میں بھی یہی بات بیان ہوئی ہے: الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلاَمَ دِیْناً۔
بنی اسرائیل کے ذکر میں جہاں اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے احسانات جتلائے ہیں، وہاں اُذْکُرُوا نِعْمَتِیَ الَّتِیْ أَنْعَمْتُ عَلَیْْکُمْ (البقرہ ۲: ۴۰) فرمایا ہے۔ مجھے خیال ہوتا ہے کہ یہاں دوسری بہت سی نعمتیں بھی اس میں یقیناًشامل ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کا اشارہ خاص طور پر اس بات کی طرف دکھائی دیتا ہے کہ دنیا کی دوسری قوموں کو چھوڑ کر میں نے تمھیں اس کے لیے منتخب کیا کہ تمھیں اپنے احکام اور اپنی پسند وناپسند کی تفصیل بیان کرنے والی شریعت عطا فرمائی جو تمھاری پوری زندگی کو، زندگی کے ہر ہر شعبے کو ان اعلیٰ اخلاقیات پر اور ان اعلیٰ اصولوں پر استوار کر دیتی ہے جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی نظر میں عدل کے لحاظ سے، انصاف کے لحاظ سے، روحانیت کے لحاظ سے زندگی کے پسندیدہ اصول اور ضابطے ہیں۔
شریعت کے نعمت الٰہی ہونے کا سب سے بنیادی اور اہم پہلو تو یہ ہے کہ یہ انسانی زندگی کے معاملات کو اللہ کی منشا اور اس کی مرضی کے مطابق منظم کرتی ہے۔ اللہ کی نظر میں انسانیت کا شرف کیا ہے؟ انسانیت کا اصل معیار کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو جو اخلاقی شعور دیا ہے اور اس کی فطرت میں اس کے بنیادی تصورات کو پیوست کر دیا ہے، انسان ان کے مطابق عمل کرے۔ فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَا (الشمس ۹۱:۸)۔ نیکی اور بدی کا، اچھائی اور برائی کا بنیادی شعور انسان کی فطرت میں ودیعت کر دیا گیا ہے، البتہ اس اخلاقی احساس کا عملی ظہور کس شکل میں ہونا چاہیے؟ اس کا فیصلہ کرنے کی صلاحیت انسان میں کامل نہیں ہے۔ شریعت اصل میں بنیادی اخلاقی شعور کے عملی تقاضوں کو معین کرنے میں اللہ کی طرف سے انسان کی مدد اور اس کی راہ نمائی ہے۔ ہر انسان یہ مانتا ہے، اپنے دل میں اس کا احساس رکھتا ہے کہ ظلم نہیں ہونا چاہیے، کسی کی حق تلفی نہیں ہونی چاہیے، لیکن کون سا کام ہے جو حق تلفی پر مبنی ہے اور کون سا نہیں ہے؟ اس میں بعض دفعہ انسان صحیح فیصلہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا۔ انسان پر خواہشات کا بھی غلبہ ہے، اس پر تعصبات کا بھی غلبہ ہے اور یہ چیزیں مل کر انسان کی عقل کو متاثر کر لیتی ہیں۔ بڑے بڑے فلسفیوں کو اس کا قائل کر لیتی ہیں کہ فلاں چیز ظلم نہیں ہے، حالانکہ حقیقت میں، اللہ کی نظر میں وہ ظلم ہوتی ہے۔ تو اخلاقیات کا بنیادی شعور انسان کو حاصل ہے، لیکن ان اخلاقی تصورات کو عملاً کیسے روبعمل کرنا ہے؟ اس کے تقاضے جب عمل کی صورت میں ڈھلیں گے تو کیا شکل اختیار کریں گے؟ اس کو معین کرنے میں انسان کی عقل بہت سے مقامات پر اس کی راہ نمائی نہیں کرتی اور وہ افراط وتفریط کا شکار ہو جاتا ہے۔
خدا اپنی شریعت اسی لیے نازل کرتا ہے کہ زندگی کے جو بنیادی اور بڑے بڑے معاملات ہیں، کم سے کم ان میں انسان ٹھوکر نہ کھائے اور کسی اخلاقی اصول کا یا کسی اخلاقی تصور کا انسان کے عمل میں اور اس کے معاملات میں جو بالکل صحیح نتیجہ نکلنا چاہیے، وہ اس کے سامنے رکھ دیا جائے۔ باقی جو ضمنی چیزیں اور فروعی تفصیلات ہیں، وہ چھوڑ دی جاتی ہیں۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے کہ شریعت کے تمام احکام اس پہلو سے انسان کی غیر معمولی مدد کرتے ہیں کہ وہ اخلاقی اصولوں کو عمل کی اور عملی ضابطوں کی شکل جب دے تو صحیح نتیجے پر پہنچے اور ان پر عمل کر کے وہ اپنی زندگی کے ظاہری معاملات کو بھی پاکیزہ بنائے اور جو اس کی اخلاقی اور روحانی شخصیت ہے، اس کا بھی تزکیہ کرے اور اس طرح اللہ کا قرب حاصل کر لے۔ ساری شریعت اصل میں عمل صالح کی تفصیل ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنی خاص نعمت اور ایک خاص عنایت انسانیت پر کی گئی ہے۔
عمل صالح میں یہ جو روز مرہ زندگی کے معاملات ہیں، ان کا دائرہ بہت بڑا ہے۔ شریعت کے جو قوانین ہیں، ان کا دائرہ زندگی کے کم وبیش تمام معاملات تک پھیلا ہوا ہے۔ ان میں سے خاص طو رپر مرنے والے کے مال کی تقسیم سے متعلق جو احکامات ہیں، آج کی نشست میں ہم ان پر اس پہلو سے غور کرنے کی کوشش کریں گے کہ اللہ نے یہ جو ہدایات ہمیں دی ہیں، ان میں نعمت کے کون کون سے نمایاں پہلو موجود ہیں۔
آپ کو معلوم ہے کہ قرآن مجید جب نازل ہوا تو عرب معاشرے میں وراثت کی تقسیم کے معاملے میں جو عام قاعدہ چل رہا تھا اور جس کو عملاً مان بھی لیا گیا تھا، وہ یہ تھاکہ آدمی کے مرنے کے بعد اس کا مال اس کے اعزہ واقربا میں عام طو رپر تقسیم نہیں ہوتا تھا، بلکہ اس کے پس ماندگان میں اور اس کے خاندان میں جو آدمی بھی زیادہ با اثر ہوتا تھا، مختلف وجوہ سے جس کی بات زیادہ چلتی تھی، وہ مال سمیٹ کر بیٹھ جاتا تھا۔ جب طاقت ور لوگ اور با اثر لوگ ایک چیز کو سوسائٹی میں رواج دے دیتے ہیں تو وہ چاہے نا انصافی پر مبنی ہو، ظلم پر مبنی ہو، عملاً اس کو مان ہی لیا جاتا ہے اور ایک خاص طرح کا تحفظ اور جواز اس کو مل ہی جاتا ہے۔ تو جاہلی معاشرے کا جو عام منظر تھا، وہ یہی تھا۔ اسی لیے آپ دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زمانہ جاہلیت کے معاشرے کے اور مشرکین کی جو چوٹی کی قیادت ہے، اس کے جو اخلاقی جرائم قرآن میں بیان کیے ہیں اور خاص طور پر سورۂ فجر سے آگے جو تیسویں پارے کا نصف آخر ہے، اس میں یہ چیز نمایاں ہے۔ وراثت کے مال کو سمیٹ کر ہڑپ کر جانا اور مرنے والے کے چاہے یتیم بچے ہیں یا بچیاں ہوں جو اس مال کے زیادہ ضرورت مند ہیں اور اس مال پر زیادہ حق رکھتے ہیں، ان کو محروم کر دینا اور بجائے اس کے کہ یتیموں کے سر پر دست شفقت رکھا جائے، الٹا ان کے مال کو سمیٹ کر ہضم کر جانا یہ عرب معاشرے کا عام منظر تھا اور اس میں ان کی اعلیٰ ترین قیادت بھی شامل تھی جو صرف سیاسی قیادت نہیں تھی، بلکہ مذہب کے بھی وہ ٹھیکے دار تھے۔ قریش کوئی سیکولر مذہبی گروہ نہیں تھا۔ وہ خدا کے گھر کے پروہت تھے اور ان کے بڑے بڑے سردار خانہ کعبہ کے متولیوں میں شمار ہوتے تھے۔ قرآن نے ان کی سیرت کا اور ان کے کردار کا یہ پہلو خاص طو رپر نمایاں کیا ہے۔
گویا منظر یہ تھا کہ جو خاندان میں صاحب اثر ہے، صاحب رسوخ ہے، سارا مال وہ سمیٹ کر بیٹھ جاتا تھا اور مال کی تقسیم حق داروں میں نہیں ہوتی تھی، اعزہ واقربا میں نہیں ہوتی تھی۔ بالخصوص خواتین کے بارے میں تو عرب معاشرے میں جو تصورات رائج تھے، وہ آپ جانتے ہیں۔ قرآن مجید نے بھی ان کا ذکر کیا ہے۔ نہ صرف عرب معاشرہ بلکہ دنیا میں جتنے بھی ایسے معاشرے ہوئے ہیں جن کو خدا کی شریعت کی روشنی نہیں ملی اور جن کو خدا کی طرف سے احکام وہدایات کی نعمت نہیں ملی، ان سب کا یہی معاملہ رہا ہے۔ آپ دنیا بھر کی تاریخ کا مطالعہ کر لیں۔ قدیم ترین تہذیبیں جو اپنے وقت کی بڑی متمدن اور ترقی یافتہ تہذیبیں سمجھی جاتی ہیں، ان میں بھی یہ بات بطور ایک قانون اور بطور ایک مسلمہ کے مانی جاتی تھی کہ یہ جو معاشرتی حقوق ہیں، معاشرے میں رہتے ہوئے کسی فرد کو مال پر اختیار کے لحاظ سے، مال پر تصرف کے لحاظ سے اور ملکیت کے لحاظ سے جو حقوق حاصل ہونے چاہییں، عورتیں اس کی اہلیت نہیں رکھتیں۔ ان کے بارے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی ایک کمزور، ضعیف، محتاج اور کمتر مخلوق ہے جس کی زندگی سر تا سر مردوں کی احتیاج پر مبنی ہے۔ یہ ان کی دست نگر ہے اور خود بیچاری کچھ بھی نہیں کر سکتی۔
انسان میں جو طاقت کا ایک شعور ہے، ظاہر ہے کہ وہ ایک خاص نفسیاتی احساس پیدا کرتا ہے۔ جب آدم علیہ السلام کو دنیا میں بھیجا گیا، اس وقت سے لے کر آج تک انسانی زندگی میں، انسانی معاشر ے کے قیام میں، معاشرے کی تشکیل میں اور معاشرے کو ترقی اور ارتقا کے ایک خاص نہج پر ڈھالنے میں اللہ نے جو مرد کو ایک جسمانی طاقت دی ہے، اس کا غیر معمولی کردار ہے۔ اگر خطروں سے نبرد آزما ہونے کی یہ طاقت جو اللہ نے مرد کو دی ہے اور یہ حوصلہ اور جرات نہ ہوتی تو معلوم نہیں یہ مخلوق اس زمین پر آباد بھی رہ سکتی یا نہیں۔ انسانی تمدن کے محققین بتاتے ہیں کہ ابتدا میں تو ساری زمین جنگلات سے بھری ہوئی تھی۔ یہاں شیر، چیتے اور درندے گھومتے پھرتے تھے۔ اس ماحول میں انسان نے اپنی اور اپنی نسل کی بقا اور تحفظ کے لیے جو جدوجہد کی، اس میں ظاہر ہے کہ مرد کی جسمانی طاقت کا بنیادی کردار ہے۔ قرآن مجید نے بھی یہ بات بیان کی ہے کہ مرد کو اللہ نے بعض پہلوؤں سے عورت پر فضیلت دی ہے جس میں نمایاں چیز یہ ہے کہ مرد کو جسمانی طاقت دی ہے، حوصلہ دیا ہے اور وہ تمام بنیادی ذمہ داریاں جن سے انسانی معاشرہ بنتا ہے،کم وبیش ان سب کا انحصار مرد کی طاقت اور جسمانی قوت پر ہے۔
اب عورت کی یہ جو خلقی کمزوری ہے، وہ ہر شخص کو دکھائی دیتی ہے۔ اس خلقی کمزوری کی بنا پر آپ دنیا کی تاریخ کا، دنیا کی تہذیبوں میں عورت کے مقام کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ بڑے بڑے فلسفی، افلاطون اور ارسطو جیسے فلسفی باقاعدہ اس کو ایک فلسفے کے طو رپر بیان کرتے ہیں کہ عورت، مرد سے کم تر مخلوق ہے۔ وہ اس کو مرد کے ساتھ انسان ہونے میں تو شریک مانتے ہیں، لیکن کہتے ہیں کہ اپنی صلاحیتوں کے لحاظ سے اور اپنے مقام کے لحاظ سے اس کا مرد کے ساتھ کیا تقابل ہے اور اس کا یہ حق کیونکر بنتا ہے کہ وہ مرد کے ساتھ سماجی اور معاشرتی اور معاشی حقوق میں شریک ہونے کی بات کرے۔ یہ بات فلسفیانہ اور نظریاتی سطح پر دنیا میں کم وبیش ہر جگہ مانی جاتی تھی۔ قرآن جس عرب معاشرے میں نازل ہوا، اس میں بھی عورت کے لیے مال کاوارث بننے کا امکان تو دور کی بات ہے، وہ خود بطور وراثت کے آگے مرنے والے کے وارث کو منتقل ہو جاتی تھی۔ چنانچہ ایک آدمی نے اگر شادی کی ہوئی ہے اور وہ مر گیا ہے تو اس کے بعد اس کا بیٹا جو اس کی کسی دوسری بیوی سے پیدا ہوا ہے، وہ اپنے باپ کی منکوحہ کو باپ کی وراثت کے طور پر اپنے نکاح میں لے لیتا تھا۔ اس ماحول میں اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت نازل کی۔ مکی دور میں تو ظاہر ہے کہ اخلاقی تذکیر پر توجہ مرکوز رکھی گئی، قریش کو تنبیہ کی گئی اور ان کو توجہ دلائی گئی۔ عورتوں کے بارے میں جو ان کے تصورات تھے، ان کی اصلاح کی گئی اور پھر جب مسلمان مدینہ میں منظم ہونے لگے تو ان کا اپنا ایک خاندانی نظم وجود میں آنا شروع ہوا۔ ابتدا میں مہاجرین وانصار کی مواخات بھی ہوئی۔ بہت سے افراد کا آپس میں موالات کا تعلق بھی تھا۔ عرب معاشرے میں اس کے علاوہ بھی بعض تعلق ایسے تھے جن کی بنیاد پر وراثت ایک دوسرے کو دی جا سکتی تھی۔ یہ ایک عرصہ تک قائم رہے، پھر قرآن نے رفتہ رفتہ ان قوانین میں ترمیم کرتے ہوئے اور بتدریج ان کی اصلاح کرتے ہوئے سورۂ نساء میں وراثت سے متعلق اپنے قوانین کو وہ آخری شکل دی جو آج ہم قرآن مجید کی آیات میں اور احادیث اور فقہ کی کتابوں میں پڑھتے ہیں۔
اب دیکھیں یہ اللہ کی نعمت ہے، اس لحاظ سے کہ یہ بات لوگوں سے منوانا کہ مرنے والے کے بعد اس کے مال میں اس کے سبھی اعزہ واقربا کا حق ہے جو اس کے ساتھ قریبی تعلق رکھتے ہیں، میرا خیال ہے کہ اگر اس کو انسانوں پر چھوڑ دیا جاتا تو یہ تسلیم کروانا کم وبیش ناممکن بات ہوتی۔ انسانوں میں ظلم اور استحصال کا جو مادہ ہے، وہ اپنے جواز کے لیے کئی طرح کے استدلالات گھڑ لیتا ہے۔ یہ بات سمجھانا کہ مرنے والے کے مال میں حق صرف طاقت ور او ربا رسوخ اور سربرآوردہ شخص کا نہیں، بلکہ دوسرے لوگ بھی اس میں شریک ہیں، آسان کام نہیں تھا۔ اس لیے کہ اس کے حق میں بڑے پریکٹیکل قسم کے استدلالات موجود تھے۔ دنیا میں عام طو رپر یہ سمجھا جاتا تھا کہ مرنے کے بعد مال پر حق اصلاً مرنے والے کی اولاد کا ہے۔ ماں باپ بوڑھے ہو چکے ہیں، ان کو خاص ضرورت نہیں۔ خواتین ویسے ہی معاشی ذمہ داری میں شریک نہیں۔ ان کی کفالت مردوں نے ہی کرنی ہے۔ بہن بھائیوں کا اپنا الگ خاندان ہے، گھر بار ہے۔ تو ان سب کا مال سے کیا واسطہ؟ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ باپ کے بعد گھر کی ذمہ داریاں اور معاملات بڑا بیٹا سنبھالتا ہے۔ چھوٹے بھائی بھی عام طور پر بڑے بھائی کے زیر سایہ ہی پرورش پاتے ہیں۔ یہ چیز بڑے بیٹے کو ایک خاص جگہ دے دیتی ہے اور دنیا کے معاشروں میں عملاً وراثت کا حق دار بڑا بیٹا ہی قرار پاتاہے۔ قرون وسطیٰ میں بہت سے مغربی ملکوں میں جب جاگیرداری کا نظام رائج تھا تو زمین کو تقسیم در تقسیم سے بچانے کے لیے اور بڑی بڑی جاگیروں کو محفوظ رکھنے کے لیے قانوناً وراثت کا حق صرف سب سے بڑی اولاد کے لیے تسلیم کیا جاتا تھا۔ انگریزی میں اس کے لیے Primogeniture کی قانونی اصطلاح استعمال ہوتی تھی کہ جو پہلی اولاد ہے، وراثت اسی کا حق ہے۔
اب یہ بات شریعت نے لوگوں کو بتائی اور سمجھائی اور صرف بتائی اور سمجھائی نہیں، صر ف مشورہ نہیں دیا، بلکہ اس کو ایک واجب الاتباع حکم قرار دے کر، فریضۃ من اللہ قرار دے کر ابدی طور پر قانون کا حصہ بنا دیا کہ مرنے والے کے مال میں اس کے ان تمام اعزہ واقربا کا حق ہے جن کے ساتھ اس کا قریبی نسبی یا صہری رشتہ ہے، اس میں ماں باپ بھی شریک ہیں، اس میں میاں بیوی بھی ایک دوسرے کے وارث ہیں، اس میں حالات کے لحاظ سے بہن بھائی بھی شریک ہیں اور اولاد میں صرف بیٹے نہیں، بلکہ بیٹیاں بھی وارث ہوں گی۔ اس تصریح سے قرآن نے سورۂ نساء کی آیت ۷ میں اس کو بیان کیا کہ لِّلرِّجَالِ نَصیِبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ، کہ ترکے میں مردوں کا بھی حق ہے۔ وَلِلنِّسَاءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ، اور عورتوں کا بھی حق ہے اور اس میں اس کا بھی کوئی اعتبار نہیں کہ چھوڑا ہوا مال زیادہ ہے یاکم ہے۔ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ أَوْ کَثُرَ۔ چار روپے ہیں، تب تقسیم ہوں گے اور چار کروڑ ہیں، تب تقسیم ہوں گے۔ اب دیکھیں، قرآن کے اس اصول میں اور جو عام طور پر دنیا میں رواج چلتا رہا ہے، اس میں اخلاقی لحاظ سے اور رشتہ داروں کے باہمی تعلقات کی بنیاد پرجو حقوق بنتے ہیں، ان کے لحاظ سے، روحانیت کے لحاظ سے کتنا فرق ہے۔ قرآن کا یہ قانون اعلیٰ اخلاقیات پر مبنی ہے، صلہ رحمی اور رشتہ داری کے جو حقوق ہیں، ان کی پاس داری پر مبنی ہے اور اس کا لحاظ نہ رکھنے سے رشتہ داروں میں جو منافرت اور حسد اور بغض کے جذبات پیدا ہوتے ہیں، ان کا اس میں کس طرح مداوا ہے۔ اب شاید دنیا میں لوگ اس کی اہمیت محسوس نہیں کرتے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ قرآن نے جو بات کہی تھی، اس کے پھر دنیا کی تہذیبوں پر اثرات مرتب ہوئے اور حقوق کے حوالے سے انسانی تصورات میں دور رس تبدیلیاں پیدا ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت کی صورت میں دنیا کے سامنے جو یہ تصور رکھا، اس کے غیر معمولی اثرات ہیں اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اخلاقی لحاظ سے بھی اور عملی لحاظ ے بھی یہ خدا کی ایک نعمت ہے جو اس نے اپنی شریعت کی صورت میں انسانوں کو دی ہے۔
پھر ایک دوسرا پہلو ہے۔ مرنے والے کے مال میں یہ سارے رشتہ دار حق رکھتے ہیں، یہ بات تو واضح ہو گئی، سمجھ میں آ گئی، بتا دی گئی۔ اب اس سے آگے اس سے بھی اہم مسئلہ ہے۔ پہلی صورت میں ایک بد اخلاقی تو تھی، لیکن کم سے کم عملاً اس میں نزاع نہیں ہوتا تھا۔ یہ بات مانی ہوئی تھی کہ چلیں، جو بڑا بیٹا ہے یا جو خاندان کا بڑا ہے، وہی مال لے۔ جس کی لاٹھی ہے، اسی کی بھینس ہے۔ ٹھیک ہے، نزاع نہیں ہوتا تھا، جھگڑا نہیں ہوتا تھا۔ عام طور پر ایسے ہی ہوتا ہے کہ جو مظلوم طبقہ ہوتا ہے، وہ کچھ عرصے کے بعد ویسے ہی اپنی اس حیثیت کو قبول کر لیتا ہے۔ وہ تسلیم کر لیتا ہے کہ یہ ہمارا حق ہے ہی نہیں۔ اس کے ذہن سے اپنے حق کا تصور ہی محو ہو جاتا ہے۔
مجھے میرے ایک استاذ نے یہ واقعہ سنایا۔ یہ ایک مثال ہے، ورنہ آپ کو ہر جگہ ایسے واقعات مل جائیں گے۔ آپ کو معلوم ہے کہ گاؤں میں کچھ عرصہ پہلے تک رذیل اور شریف کا بہت شدید فرق ہوتا تھا۔ اب شاید کچھ فرق پڑ گیا ہو، لیکن بالکل ختم نہیں ہوا۔ میل ملاپ میں، اٹھنے بیٹھنے میں ہر اعتبار سے فرق کیا جاتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ہمارے گاؤں میں اس کا کوئی تصور نہیں تھا کہ کوئی ’’کمی‘‘ چارپائی پر میرے یا آپ کے ساتھ برابر بیٹھ سکے۔ میں ایک مرتبہ گاؤں گیا تو چارپائی پر بیٹھا ہوا تھا۔ گاؤں کا ایک کمی آیا، اس نے سلام کیا اور نیچے بیٹھ گیا۔ میں نے اسے پکڑ کر زبردستی کہا کہ میرے ساتھ اوپر چارپائی پر بیٹھو۔ وہ منع کرتا رہا، لیکن میں نے کہا کہ نہیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ اٹھو اور میرے ساتھ بیٹھو۔ وہ بے چارہ بیٹھ گیا۔ شاید اس نے بھی الامر فوق الادب  سنا ہوگا۔ بعد میں اس نے تبصرہ کیا کہ دیکھو، یہ شہر سے پڑھ لکھ کر آ گیا ہے، اب میں اس کو کیا کہتا! تو جب آپ کسی آدمی کو، کسی طبقے کو عزت اور اکرام کے تصور سے محروم کر دیتے ہیں تو رفتہ رفتہ یہ چیز ان کے لاشعور میں داخل ہو جاتی ہے کہ ہاں، یہ ایسے ہی ہے اور ایسے ہی معاملات چلتے رہیں گے۔
خیر، میں عرض یہ کر رہا تھا کہ پہلے وراثت کے معاملے میں تنازع نہیں ہوتا تھا، لیکن جب قرآن نے یہ سمجھا دیا، بتا دیا کہ دوسرے رشتہ داروں کا بھی حق ہے تو اب اس کے بعد تو جھگڑا پڑے گا۔ اب جھگڑا یہ پڑے گاکہ کس کا کتنا حق ہے؟ یہ خدا کا بڑا فضل ہے کہ اس نے جھگڑے کا یہ راستہ کھولنے کے بعد اس کا حل بھی بتایا ہے اور قرآن میں اس نے خود اس سارے معاملے کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اس نے اصول بھی واضح کیا ہے کہ مرنے والے کے مال میں سب کو حصہ کیوں ملنا چاہیے اور پھر تناسب بھی بتا دیا ہے کس رشتہ دار کو کس صورت میں کتنا ملنا چاہیے۔ اصول یہ بتایا کہ کسی کے مرنے کے بعد رشتہ داروں کو اس کا مال ملنے کی جو اخلاقی اساس ہے یا یہ سمجھیں کہ اس کی جو قانونی بنیاد ہے، وہ یہ ہے کہ انسان کو دنیا میں رہتے ہوئے اپنے مختلف قریبی رشتہ داروں سے فائدہ ملتا ہے۔ رشتہ داری کی ایک خاص منفعت ہوتی ہے جس کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ وہ مالی فائدہ ہی ہو۔ ماں باپ یا اولاد یا میاں بیوی یا بہن بھائی، یہ سب آپس میں رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں اور معاشرے میں رہتے ہوئے، زندگی میں ایک دوسرے کے کام آتے ہیں، ان کو ایک دوسرے سے نفع حاصل ہوتا ہے۔ قرآن یہ کہتا ہے کہ یہ جو رشتہ داروں کے مابین منفعت کا تعلق ہے، یہ اس کی بنیاد ہے کہ مرنے کے بعد اس کے مال میں ان سب کو حصہ ملے۔ اب کس رشتہ دار سے کتنی منفعت انسان کو ملتی ہے، اس کا فیصلہ کرنا انسان کے لیے ممکن نہیں اوریہ بات اگر اجتہاد پر چھوڑ دی جاتی تو مستقل طور پرنزاعات کا ایک باب کھلا رہتا۔ قرآن نے یہ فیصلہ کر دیا کہ لاَ تَدْرُونَ أَیُّہُمْ أَقْرَبُ لَکُمْ نَفْعاً (النساء ۴:۱۱)۔ تم یہ طے نہیں کر سکتے کہ کون سا رشتہ دار دوسروں کے مقابلے میں زیادہ منفعت کا باعث ہے اور اس کو تمھارا مال زیادہ ملنا چاہیے۔ اللہ نے تمھاری اس کم علمی کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور جھگڑوں کاباب بند کرنے کے لیے یہ حصے بھی طے کر دیے ہیں۔ اب اس باب میں کوئی نزاع ممکن نہیں۔ بعض چھوٹی موٹی اجتہادی شکلوں میں اس نے اختلاف کی گنجائش چھوڑ دی ہے، لیکن جو نہایت قریبی رشتہ دار ہیں اور ان کے وراثت میں شریک ہونے کی جو بنیادی صورتیں ہیں جو دنیا میں عام طو رپر پیش آتی ہیں، وہ ایسی ہیں کہ ان میں قرآن کی بیان کردہ تقسیم کافی ہوتی ہے۔
اب آپ دیکھیں کہ اللہ نے شریعت کی صورت میں اپنی جو نعمت عطا کی ہے، اس کے متعلق ہمارا رویہ کیا ہے۔ ہم سے پہلے اللہ کی اس نعمت کی ناشکری یہود نے بھی کی تھی اور بدقسمتی سے آج ہم مسلمان بھی کر رہے ہیں۔ یہود نے بھی یہی رویہ اختیار کیا تھا کہ خداکی نعمت کے موجود ہوتے ہوئے، اللہ کی کتاب کے اپنے پاس موجود ہوتے ہوئے وہ فیصلے اپنی خواہشات اور سطحی مفادات کے تحت کرتے تھے۔ سورۂ مائدہ میں دیکھیں ،اللہ تعالیٰ نے شریعت موسوی کی شان کیسے بیان فرمائی ہے۔ فرمایا کہ ہم نے جو تورات نازل کی تھی، اس میں نور بھی تھا، اس میں ہدایت بھی تھی اور اللہ کے انبیاء اس کے مطابق فیصلہ کرتے رہے، بنی اسرائیل کے نیک لوگ اور علماء اس کے مطابق فیصلہ کرتے رہے، لیکن ان یہودی احبار ورہبان نے کیا وتیرہ اپنا رکھا ہے؟ یہ اپنے مفادات، دنیوی خواہشات اور سفلی اغراض کے تحت شریعت کے ہوتے ہوئے اس کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے، اس سے گریز کرتے ہیں۔ 
آج بدقسمتی سے ہم مسلمان بھی اس معاملے میں انھی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ آج ہمارے ہاں خدا کی شریعت کے معاملے میں عجیب وغریب رویے پیدا ہو گئے ہیں۔ کچھ ایسے طبقات پیدا ہو گئے ہیں جو شریعت سے صاف منحرف اور باغی ہیں اور وہ کھلم کھلا اس کو چیلنج کرتے ہیں کہ یہ تو ایک دقیانوسی دور کی تقسیم ہے جب عورتوں کو کمزور سمجھا جاتا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ وراثت میں عورتوں کے حصے کم کیوں ہیں؟ ان کو بھی پورا حصہ ملنا چاہیے۔ یہ ایک باغیانہ رویہ ہمارے بعض طبقات کے ہاں شریعت کے حوالے سے پیدا ہو چکا ہے۔ اس محدود طبقے کو ایک طرف رکھ کر دیکھیں تو ہمارے ہاں بیشتر لوگ، خاص طو رپر جو عام مسلمان ہیں، وہ شریعت کا انکار تو نہیں کرتے، اس کے مقابلے میں کھڑے ہو کر چیلنج تو نہیں کرتے، لیکن آپ دیکھ لیں کہ شریعت کے قوانین پر عمل کے معاملے میں صورت حال کیا ہے۔ وراثت کے معاملے میں ہی دیکھ لیں۔ اس معاملے میں تو میرا خیال ہے کہ دین داروں اور غیر داروں میں بھی کوئی خاص فرق ڈھونڈنا مشکل ہے۔ خواتین کے معاملے میں عملاً یہ مان لیا گیا ہے اور بہت سے جذباتی ہتھکنڈے اور دباؤ استعمال کر کے خواتین کو بھی اس پر قائل کر لیا گیا ہے کہ وہ باپ یا ماں کے مرنے کے بعد وراثت میں اپنے حصے کا مطالبہ نہ کریں۔ کوئی بہن اگر حصہ مانگ لے تو یہ ناقابل معافی جرم ہے کہ وہ بھائیوں سے حصہ مانگتی ہے۔ دین دار لوگ ہیں تو انھوں نے بھی اس کے جواز کے لیے یہ راستہ نکالا ہوا ہے کہ بہنوں سے معاف کروا لیتے ہیں۔ بہت سے دین دار ہیں جو ایسا کروا لیتے ہیں تاکہ یہ کہہ سکیں کہ ہم نے بہنوں کی حق تلفی نہیں کی۔ بھئی، اگر بہن کو یہ منظر نظر آ رہا ہو کہ آج میں لاکھ ڈیڑھ لاکھ روپے لے لوں گی اور اس کے بعد باقی ساری زندگی کے لیے میرے ساتھ تعلق ختم ہوجائے گا اور اگر رہے گا بھی تو بس برائے نام رہے گا تو اس نے تو معاف کرنا ہی ہے۔ 
ہمارے استاذ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ فرمایا کرتے تھے کہ ایسی زبانی کلامی معافی کا کوئی اعتبار نہیں، چاہے بہن دس دفعہ منہ سے کہہ دے یا لکھ کر دے دے کہ میں نے اپنا حق معاف کیا، کوئی اعتبار نہیں، کیونکہ یہ حقیقت میں طیب خاطر سے معاف نہیں کیا گیا۔ وہ کہتے تھے کہ معافی وہ معتبر ہے کہ آپ بہن کو اس کا جو حصہ بنتا ہے، وہ الگ کر کے اس کے سپرد کریں۔ وہ بالفعل اس کی مالک بن جائے، اس کو اس میں تصرف کا حق حاصل ہو جائے اور پھر اس کے بعد وہ اپنی مرضی سے، کسی دباؤ کے بغیر اور کسی طعن وتشنیع یا قطع تعلق کے خوف کے بغیر یہ کہے کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں، میں اپنے بھائی کو دیتی ہوں تو وہ ایک الگ مسئلہ ہے۔ لیکن جہاں کسی قسم کا کوئی دباؤ، کوئی خوف یا قطع تعلق کا کوئی اندیشہ شامل ہوگا تو اس معافی کا شریعت میں کوئی اعتبار نہیں، بلکہ بعض اکابر صحابہ وتابعین کے ایسے فیصلے موجود ہیں کہ اگر عورت شادی ہونے اور بچے کو جنم دینے سے پہلے اس طرح کا کوئی فیصلہ کرے تو وہ اسے قانوناً نافذ ہی نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ جلیل القدر تابعی عامر شعبی کہتے ہیں کہ قریش کی ایک لڑکی سے اس کے بھائی نے کہا کہ تم اپنے شوہر کے پاس جانے سے پہلے اپنی وہ میراث جو تمھیں اپنے والد کی طرف سے ملی ہے، مجھے ہبہ کر دو۔ لڑکی نے اس کی بات مان لی، لیکن پھر شادی ہو جانے کے بعد اس نے اپنی میراث دوبارہ مانگی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے وہ اسے واپس دلوا دی اور قاضی شریح کو تاکید کی کہ جب تک عورت اپنے شوہر کے گھر میں جا کر ایک سال نہ گزار لے یا ایک بچے کو جنم نہ دے دے، اس وقت تک اس کی طرف سے ہبہ کے فیصلے کو نافذ نہ مانا جائے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، ۲۱۹۱۴، ۲۱۹۱۶) اس فیصلے کے پیچھے بھی یہی حکمت دکھائی دیتی ہے کہ شادی سے پہلے لڑکی اپنے مال کے متعلق بہتر فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتی اور مال کی اہمیت کا احساس اسے دراصل شوہر اور بچوں والی زندگی سے واسطہ پیش آنے کے بعد ہی ہوتا ہے، اس لیے وراثت میں اپنا حق معاف کرنے یا نہ کرنے کے ضمن میں اس کا فیصلہ بھی وہی معتبر ہوگا جو وہ اس صورت حال سے سابقہ پیش آنے کے بعد کرے گی۔
بہرحال ہمارے معاشرے میں عملاً یہی ہو رہا ہے اور خواتین کو ان کا حق نہیں ملتا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں اپنی اس نعمت کی قدر کرنے، اس کے جو فوائد اور حکمتیں ہیں، ان کو سمجھنے کی اور ان پر عمل کرنے کی توفیق اور ان سے جو اخلاقی، روحانی، معاشرتی فوائد وبرکات حاصل ہو سکتے ہیں، ان سے بہرہ ور ہونے کی سعادت ہمیں نصیب فرمائے۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

احتجاج وانتقام اور اسلامی اخلاقیات

غصہ، نفرت اور انتقام کے جذبات دوسرے تمام جذبات کی طرح انسانی فطرت میں پیوست ہیں اور ان کا اظہار انسانی زندگی کا ایک ناگزیر حصہ ہے۔ خدا کے پیغمبر جب انسان کو اپنے پیغام کا مخاطب بناتے اور انسانی شخصیت کی تعمیر وتہذیب کی بات کرتے ہیں تو ان فطری جذبات کی نفی نہیں کرتے اور نہ انھیں غیر فطری طو رپر دبا دینے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اس کے بجائے وہ انسان کو یہ بتاتے ہیں کہ ان جذبات کے اظہار کے جائز اور مشروع مواقع کون سے ہیں اور ان کا اظہار کرتے ہوئے انسان کو کون سے اخلاقی حدود کا پابند رہنا چاہیے۔ 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جزیرۂ عرب میں مبعوث کیا گیا تو عرب معاشرہ غصے اور انتقام کے جذبات کے اظہار کے حوالے سے سنگین قسم کی ناہمواریوں اور بے اعتدالیوں کا شکار تھا۔ مثال کے طو رپر حریف قبائل کے مابین لڑائی او رکشمکش کی فضا میں یہ بات عام تھی کہ اگر ایک قبیلے کے آدمی نے دوسرے قبیلے کے کسی آدمی کو قتل کر دیا ہو تو مقتول کے ورثا کا یہ حق سمجھا جاتا تھا کہ وہ براہ راست قاتل تک رسائی حاصل نہ کر سکے تو وہ اس کے کسی قریبی عزیز اور یا پھر اس کے قبیلے سے تعلق رکھنے والے کسی بھی شخص کو جہاں موقع ملے، قتل کر دے۔ یہ قصاص اور بدلے کا ایک مسلمہ قاعدہ تھا جس پر پورے عرب معاشرے میں عمل جاری تھا۔ یہ طریقہ نفسیاتی طو رپر اگرچہ باعث تسکین تھا اور اس سے مقتول کے ورثا کے جذبات بھی بڑی حد تک ٹھنڈے ہو جاتے تھے، لیکن ظاہر ہے کہ اخلاقی لحاظ سے اس کا کوئی جواز نہیں تھا۔ چنانچہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا گیا تو انتقام اور بدلے کے اس جاہلانہ ضابطے کو قطعی طور پر حرام قرار دیا گیا اور حجۃ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب معاشرت کی اصلاح کے حوالے سے جہاں دوسرے بہت سے امور کا ذکر کیا، وہاں یہ بات بھی ارشاد فرمائی کہ :
لا یؤخذ الرجل بجریرۃ أخیہ ولا بجریرۃ أبیہ (طبرانی، المعجم الاوسط، ۴۱۶۶) 
’’کسی شخص کو اس کے بھائی یا باپ کے جرم میں نہ پکڑا جائے۔‘‘
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے یہ بھی واضح فرمایا کہ عدل وانصاف اور معاشرتی اخلاقیات کی پاس داری صرف مسلمانوں کے باہمی معاملات میں نہیں، بلکہ غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات میں بھی ضروری ہے، یہاں تک کہ اگر کسی گروہ کا اجتماعی رویہ واضح طو رپر اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ عناد، دشمنی اور مخاصمت کا مظہر ہو، تب بھی مسلمانوں کی طرف سے ان کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے ہمیشہ شریعت کے بیان کردہ اخلاقی اصولوں کی پابندی کی جائے گی۔ سورۂ مائدہ کی آیت ۲ میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالْقِسْطِ وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ہُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ (المائدہ۵: ۸) 
’’ ایمان والو، اللہ کی خاطر عدل وانصاف کے گواہ بن کر کھڑے ہو جاؤ، اور ایسا نہ ہو کہ کسی قوم کے ساتھ دشمنی تمھیں برانگیختہ کر کے ناانصافی پر آمادہ کردے۔ عدل پر قائم رہو، یہی تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ تمھارے اعمال کی پوری پوری خبر رکھنے والا ہے۔‘‘
سیرت نبوی اور سیرت صحابہ میں ہمیں اس اخلاقی ہدایت کی پاس داری کی نہایت روشن مثالیں ملتی ہیں۔ چنانچہ دیکھیے، عہد نبوی کے یہودیوں کے متعلق قرآن مجید نے یہ تصریح کی ہے کہ وہ ۔اہل ایمان کے ساتھ سب سے بڑھ کر دشمنی رکھنے والا گروہ ہیں۔ (سورۂ مائدہ، آیت ۸۲) اس کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی طرف سے ان کے ساتھ جس اعلیٰ درجے کا اخلاقی معاملہ کیا گیا، اس کا اندازہ درج ذیل دو واقعات سے لگایا جا سکتا ہے:
فتح خیبر کے بعد ایک موقع پر دو انصاری صحابی عبد اللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود خیبر کی طرف گئے اور اپنے اپنے کام کے سلسلے میں ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔ کچھ دیر کے بعد محیصہ نے عبد اللہ بن سہل کو اس حالت میں پایا کہ انھیں قتل کر دیا گیا تھا اور وہ خون میں لت پت ایک جگہ پڑے ہوئے تھے۔ چنانچہ عبد اللہ بن سہل کے ورثا اپنا مقدمہ لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گئے اور یہود سے قصاص لینے کا مطالبہ کیا۔ آپ نے ان سے کہا کہ تم میں سے پچاس آدمی قسم اٹھالیں (کہ یہ قتل فلاں یہودی نے کیاہے) تو میں ملزم کو تمھارے حوالے کر دو ں گا۔ انصار نے کہا کہ ہمیں یہ بات پسند نہیں کہ قاتل کو دیکھے بغیر قسم اٹھالیں۔ آپ نے فرمایا کہ پھر یہودیوں سے کہتے ہیں کہ وہ تمھیں قسمیں دے دیں کہ وہ اس جرم سے لا تعلق ہیں، لیکن مقتول کے ورثا نے کہا کہ ہم ان کی قسموں پر کیونکر اعتبار کر سکتے ہیں؟ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مقدمے کو نمٹانے کے لیے اس انصاری کی دیت بیت المال سے ادا کردی تاکہ اس کا خون رائیگاں نہ جائے۔ (بخاری، رقم ۳۰۰۲)
خیبر کا یہ سارا علاقہ یہودیوں کا تھا اور بدیہی طو رپر یہ کام انھی میں سے کسی کا تھا، بلکہ بعض روایات کے مطابق یہودیوں نے اس قضیے میں اس بات کی قسمیں دینے سے بھی انکار کر دیا تھا کہ ہمارا اس قتل سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہم قاتل کو جانتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو ان قرائن اور یہود کے سابقہ کردار کی روشنی میں اس کی ذمہ داری ان پر ڈال سکتے تھے، لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا اور وہی طریقہ اختیار فرمایا جس کی شریعت اور قانون اجازت دیتے تھے۔
خیبر کی فتح کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کے یہودیوں کے ساتھ یہ معاہدہ کیا تھا کہ زمین مسلمانوں کے بیت المال کی ملکیت ہوگی، لیکن عملاً یہود کے تصرف میں رہے گی اور وہ اس کی فصل یہودیوں اور مسلمانوں کے کے مابین تقسیم ہوگی۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن رواحہ کو وہاں بھیجا جنھوں نے وہاں کی فصل کا جائزہ لے کر مقدار کا اندازہ کیا اور پھر یہود سے کہا کہ:
’’اے قوم یہود، تم اللہ کی مخلوق میں مجھے سب سے زیادہ مبغوض ہو۔ تم نے اللہ کے نبیوں کو قتل کیا اور اللہ کے خلاف جھوٹ کی نسبت کی۔ لیکن تمہارے ساتھ یہ نفرت مجھے اس پر آمادہ نہیں کرتی کہ میں تم پر کوئی زیادتی کروں۔ میں نے کھجوروں کا اندازہ بیس ہزار وسق لگایا ہے۔ اگر تمھیں منظور ہو تو ٹھیک ورنہ یہ محض میرا اندازہ ہے۔ یہود نے کہا: اسی انصاف کے سہارے تو زمین وآسمان قائم ہیں۔‘‘ (مسند احمد، رقم ۱۴۴۲۵)
یہی طرز عمل مسلمانوں نے مشرکین کے ساتھ بھی اختیار کیا۔ امام بخاری نے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی خبیب انصاری اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ بعض مشرک کے قبائل کے ہاتھوں گرفتار ہو کر قریش مکہ کی قید میں پہنچ گئے جنھوں نے انھیں غزوۂ بدر میں حار ث بن عامر کو قتل کرنے کے بدلے میں قتل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ جب مقررہ دن خبیب کو قتل کرنے کے لیے لوگ جمع ہوئے اور خبیب کو بھی اس کی اطلاع دے دی گئی تو انھوں نے شہادت پانے سے پہلے اپنے جسم کی صفائی کے لیے ان سے استرا مانگا۔ حارث بن عامر کی بیٹی بتاتی ہیں کہ میری بے دھیانی میں میرا ایک بچہ کھیلتا کھیلتا خبیب کے پاس جا پہنچا اور جب میری نظر پڑی تو استرا خبیب کے ہاتھ میں تھا اور میرا بچہ ان کی گود میں بیٹھا ہوا تھا۔ میں یہ منظر دیکھ کر گھبرا گئی جسے خبیب نے بھی بھانپ لیا اور مجھ سے کہا کہ کیا تم ڈر رہی ہو کہ میں اس بچے کو قتل کر دوں گا؟ نہیں، میں ایسا نہیں کر سکتا۔ (بخاری، رقم ۲۸۸۰)
یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ زمانہ مسلمانوں اور قریش کے مابین تعلقات کے تناؤ کے عروج کا زمانہ تھا اور جنگ بدر ابھی حال ہی میں رونما ہوئی تھی۔ مشرکین عرب، جیسا کہ معلوم ہے، اخلاقیات کی پاس داری کرنے والا کوئی گروہ نہیں تھے۔ وہ اسلام دشمنی میں توہین رسالت، بے گناہ لوگوں کی قتل وغارت اور خواتین کی بے حرمتی سمیت ان تمام شنیع جرائم کا بالفعل مرتکب تھے جو کوئی بھی گروہ کسی گروہ کے خلاف کر سکتا ہے۔ اس کے باوجود خبیب کی اخلاقیات نے اس کی اجازت نہیں دی کہ وہ ان کے ان جرائم اور خاص طو رپر اپنے قتل کا انتقام ایک معصوم بچے سے لیں اور اپنے جذبہ انتقام کو اس گھٹیا اور سفلی طریقے سے تسکین پہنچانے کا سامان کریں۔
اس کے ساتھ ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی قوم کا نمائندہ بن کر آنے والے سفیروں کے بارے میں اس مسلمہ عالمی عرف کی بھی تائید وتصدیق فرمائی کہ انھیں جان کا تحفظ حاصل ہوتا ہے اور وہ جس قوم کی نمائندگی کر رہے ہیں، اس کے ساتھ کیسا ہی تنازع اور اختلاف کیوں نہ ہو، اس کے بھیجے ہوئے سفیروں پر کوئی دست درازی نہیں کی جا سکتی۔ چنانچہ مسیلمہ کے بھیجے ہوئے سفیروں نے جب مسیلمہ کے نبی ہونے پر اپنے ایمان کا اظہار کیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر یہ ضابطہ نہ ہوتا کہ سفیروں کو قتل نہیں کیا جاتا تو میں تم دونوں کو قتل کر دیتا۔ (ابو داود، ۲۷۶۱)
اس ضمن میں کسریٰ کے بھیجے ہوئے قاصدوں کا واقعہ زیادہ قابل توجہ اور سبق آموز ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے بعد جزیرۂ عرب کے گرد ونواح میں مختلف سلطنتوں کے سربراہوں کو اسلام قبول کرنے یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سر اطاعت خم کر دینے کے پیغام پر مشتمل خطوط لکھے تو فارس کے بادشاہ یزدگرد نے آپ کے لیے سخت توہین آمیز کلمات استعمال کرتے ہوئے نہایت تحقیر کے ساتھ آپ کے خط کو پھاڑ دیا اور یمن میں اپنے گورنر باذان کو حکم بھیجا کہ حجاز میں جو مدعی نبوت پیدا ہوا ہے، اس کو گرفتار رکر کے میرے پاس بھیج دو۔ باذان نے کسریٰ کا یہ حکم تحریری طور پر اپنے دو قاصدوں کے ذریعے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیج دیا۔ یہ قاصد کسریٰ کا حکم نامہ لے کر رسول اللہ کے پا س آئے تو آپ نے ان کے خلاف کوئی دار وگیر نہیں فرمائی اور صرف یہ کہہ کر ان کو واپس بھیج دیا کہ جا کر باذان کو بتا دو کہ گزشتہ رات اللہ نے کسریٰ کو قتل کر وا دیا ہے۔ (ابن کثیر، البدایہ والنہایہ ۲/۱۸۰)
آج ہمارا حال یہ ہے کہ ہم مغربی حکومتوں کی مسلم کش سیاسی پالیسیوں کا انتقام لینے کے لیے ان کے عام اور بے گناہ شہریوں کو اپنے حملوں کا نشانہ بنا رہے ہیں اور اس پر یہ شرعی جواز بھی گھڑ رہے ہیں کہ چونکہ ان ممالک کے عوام اپنی حکومتوں کو ٹیکس ادا کرتے ہیں، اس لیے وہاں کے تمام شہری ’’مقاتلین‘‘ میں شمار ہوتے ہیں اور ان کو قتل کرنا جائز ہے۔یہی معاملہ امریکہ میں بننے والی کسی فلم کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے مختلف مسلم ممالک میں امریکی سفارت خانوں کو جلانے اور سفارتی عملے کو قتل کرنے کے حالیہ واقعات کا ہے اور فقہ وشریعت کے کسی بھی طالب علم کے لیے یہ بات بالکل ناقابل فہم ہے کہ بے لگام غصے اور اشتعال کی کیفیت میں اس طرح کے اقدامات کا کیا شرعی یا اخلاقی جواز پیش کیا جا سکتا ہے؟ کیا ہماری قیادت میں کوئی ایسا نہیں ہے جو غصے اور نفرت کے اس اظہار کو، جو حدود سے قطعی طور پر متجاوز ہے، غیرت کا خوب صورت عنوان دے کر اپنی عوامی مقبولیت میں اضافہ کرنے کے بجائے اس نازک موقع پر حق کی گواہی دیتے ہوئے مسلمانوں کو شرعی اخلاقیات کی یاد دہانی کرائے اور سیرت نبوی وسیرت صحابہ کی روشن مثالوں کا حوالہ دے کر ان کے دلوں میں اس احساس کو بیدار کرنے کی کوشش کرے کہ:
تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے؟

غامدی صاحب کے ایک سوال کا جواب

حافظ زبیر علی زئی

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کی تجویز کس نے پیش کی تھی، اس کے بارے میں جاوید احمد غامدی صاحب نے لکھا ہے:
’’روایات بالکل واضح ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدہ کے نکاح کی تجویز ایک صحابیہ حضرت خولہ بنت حکیم نے پیش کی۔ اُنھی نے آپ کو توجہ دلائی کہ سیدہ خدیجہ کی رفاقت سے محرومی کے بعد آپ کی ضرورت ہے کہ آپ شادی کر لیں، یا رسول اللّٰہ، کانی اراک قد دخلتک خلۃ لفقد خدیجۃ... افلا اخطب علیک؟، (الطبقات الکبریٰ ، ابن سعد ۸/۵۷)
آپ کے پوچھنے پر اُنھی نے آپ کو بتایا کہ آپ چاہیں تو کنواری بھی ہے اور شوہر دیدہ بھی ۔ آپ نے پوچھا کہ کنواری کون ہے، تو اُنھی نے وضاحت کی کہ کنواری سے اُن کی مراد عائشہ بنت ابی بکر ہیں۔ (احمد بن حنبل ، رقم ۲۵۲۴۱)
بیوی کی ضرورت زن و شو کے تعلق کے لیے ہو سکتی ہے، دوستی اور رفاقت کے لیے ہو سکتی ہے، بچوں کی نگہداشت اور گھر بار کے معاملات کو دیکھنے کے لیے ہو سکتی ہے۔
یہ تجویز اگر بقائمی ہوش و حواس پیش کی گئی تھی تو سوال یہ ہے کہ چھ سال کی ایک بچی ان میں سے کون سی ضرورت پوری کر سکتی تھی، کیا گھر بار کے معاملات سنبھال سکتی تھی؟ سیدہ کی عمر کے متعلق روایتوں کے بارے میں فیصلے کے لیے یہ قرائن میں سے ایک قرینہ نہیں، بلکہ ایک بنیادی سوال ہے۔ ‘‘ (ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ،جولائی ۲۰۱۲ء ص ۲۶)
عرض ہے کہ سب سے پہلے یہ واضح ہونا چاہئے کہ یہ ’’روایات‘‘ نہیں بلکہ صرف ایک حسن غریب روایت ہے جسے ابن سعد اور امام احمد بن حنبل (ج۶ص ۲۱۰۔۲۱۱، موسوعہ حدیثیہ ج۴۲ ص ۵۰۱۔ ۵۰۴ ح ۲۵۷۶۹) وغیرہما نے محمد بن عمرو (بن علقمہ اللیثی ) عن ابی سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف و یحییٰ بن عبد الرحمن بن حاطب کی سند سے بیان کیا ہے۔
محمد بن عمرو بن علقمہ اللیثی رحمہ اللہ مختلف فیہ راوی، لیکن جمہور کی توثیق کی وجہ سے صدوق حسن الحدیث ہیں۔
روایت کے متصل یا مرسل ہونے کے بارے میں بھی اختلاف ہے ، حافظ ہیثمی نے اس روایت کے اکثر حصے کو مرسل قرار دیا ہے، جبکہ حافظ ابن حجر العسقلانی کے نزدیک اس کی سندحسن (یعنی متصل) ہے۔ 
(دیکھئے مجمع الزوائد ج۹ص ۲۲۵۔ ۲۲۶، فتح الباری ج۷ص ۲۲۵ تحت ح ۳۸۹۶)
ہمارے نزدیک حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی یہاں تحقیق راجح ہے اور یہ سند ’’حسن لذاتہ غریب ‘‘ہے۔
طبقات ابن سعد اور مسند احمد دونوں کتابوں میں اسی روایت کے متن میں صاف صاف لکھا ہوا ہے کہ ’’وعائشہ یومئذ بنت ست سنین‘‘ (اور اس دن عائشہ چھ سال کی بچی تھیں)۔
اس صریح عبارت کو چھپا کر غامدی صاحب نے خیانت کی ہے، لہٰذا ان پر یہ فرض ہے کہ وہ اس خیانت سے توبہ کا اعلان کریں اور ان کا اشارتاًیہ لکھ دینا کافی نہیں کہ ’’روایت کا یہ داخلی تضاد کس طرح دور کیا جائے گا؟ ‘‘ !
اگر یہ روایت متضاد ہے تو ضعیف کی اؓیک قسم ہوئی اور اس سے استدلال حجت نہ رہا، لہٰذا صحیح بخاری اور صحیح مسلم وغیرہما کی حدیث کے مقابلے میں اسے پیش کرنا فضول ہے اور اگر یہ روایت حسن ہے تو صریح عبارت کے مقابلے میں غامدی صاحب کے خود تراشیدہ مفہوم کی کیا حیثیت ہے؟!
اصل بات یہ ہے کہ جب سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا فوت ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیحد پریشان رہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے تحت سیدہ خولہؓ نے آپ کو دو شادیاں کرنے کا مشورہ دیا، جسے آپ نے قبول فرما لیا۔
۱۔ سودہ رضی اللہ عنہا
۲۔ عائشہ رضی اللہ عنہا
بچیوں کی دیکھ بھال، رفاقت اور دوسرے اُمور کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت مدینہ سے تین سال یا کچھ زیادہ عرصے پہلے ہی شادی کر لی اور اس کے کچھ عرصہ بعد سیدہ عائشہؓ سے نسبت طے پا گئی، یا نکاح ہو گیا اور ۲ ہجری میں رخصتی ہوئی۔ (نیز دیکھئے سیر اعلام النبلاء ۲/ ۲۶۵، ۱۳۵)
یہاں ایسی کسی بات کا نام نشان تک نہیں کہ سیدہ خولہ k نے سیدہ سودہ یا سیدہ عائشہؓ (یعنی دو میں سے کسی ایک ) سے نکاح کا مشورہ دیا تھا ، بلکہ انھوں نے دونوں سے شادی کا مشورہ دیا تھا۔
۱۔ ایک (سودہ رضی اللہ عنہا)سے فوراً تاکہ آپ کو رفاقت حاصل ہو جائے۔
۲۔ دوسری(عائشہ رضی اللہ عنہا) سے بعد میں تاکہ وہ آپ کی گھریلو زندگی اور علم کا بہت بڑا ذخیرہ یاد کر لیں اور دو ہزار سے زیادہ حدیثوں کا گلدستہ اُمت کے سامنے پیش کر دیں۔
یاد رہے کہ روایت میں ’’إن شئت بکرًا و إن شئت ثیبًا‘‘ کے الفا ظ ہیں، یعنی اگر آپ چاہیں تو ایک بکر (لڑکی) اور اگر آپ چاہیں تو ایک ثیب (شوہر دیدہ) اور یہ الفاظ ہر گز نہیں کہ ’’إن شئت بکرًا، أو إن شئت ثیبًا‘‘ یعنی اگر آپ چاہیں تو ایک لڑکی، یا اگر آپ چاہیں تو ایک شوہر دیدہ عورت ہے۔
یہاں او (یا) اختیاری نہیں بلکہ واؤ ہے، نیز اس روایت میں دونوں سے فوراً (اسی وقت) نکاح کی صراحت بھی ہر گز موجود نہیں۔
عربی میں بکر (الجاریۃ) اس لڑکی کو کہا جاتا ہے جس سے جماع نہ کیا گیا ہو۔ (دیکھیے: لسان العرب ج۴ص ۷۸ ب مادہ : بکر)
آخر میں عرض ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے خود بتایا ہے کہ ان کا نکاح چھ یا سات سال کی عمر میں اور رخصتی نو سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ یہ گواہی درج ذیل شاگردوں نے ان سے نقل فرمائی ہے:
۱۔ عروۃ بن الزبیر رحمہ اللہ ، جو سیدہ عائشہ کے بھانجے تھے۔ (صحیح بخاری: ۳۸۹۶، صحیح مسلم :۱۴۲۲)
۲۔ اسود بن یزید رحمہ اللہ (صحیح مسلم :۱۴۲۲)
۳۔ عبد اللہ بن صفوان رحمہ اللہ ( المستدرک للحاکم ۴/ ۱۰ ح ۶۷۳۰ وسندہ صحیح و صححہ الحاکم ووافقہ الذہبی)
۴۔ ابو سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف رحمہ اللہ ( سنن النسائی ۶/ ۱۳۱ ح ۳۳۸۱ وسندہ حسن)
۵۔  یحییٰ بن عبد الرحمن بن حاطب رحمہ اللہ ( مسند ابی یعلیٰ : ۴۶۷۳ وسندہ حسن)
درج ذیل تابعین کرام سے بھی اس مفہوم کے صریح اقوال ثابت ہیں:
۱۔ عروۃ بن الزبیر رحمہ اللہ ( صحیح بخاری : ۳۸۹۶، طبقات ابن سعد ۸/ ۶۰ وسندہ صحیح)
۲۔ ابو سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف رحمہ اللہ ( مسند احمد ۶/ ۲۱۱ ح ۲۵۷۶۹ وسندہ حسن)
۳۔ یحییٰ بن عبد الرحمن بن حاطب رحمہ اللہ (ایضاً وسندہ حسن)
۴۔ ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ (المعجم الکبیر للطبرانی ۲۳/۲۶ح ۶۲ وسندہ حسن)
۵۔ زہری رحمہ اللہ (طبقات ابن سعد ۸/۶۰ وھو حسن)
بلکہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس بارے میں لکھا ہے:
’’ما لا خلاف فیہ بین الناس‘‘ اور لوگوں میں اس بات میں کوئی اختلاف نہیں۔ (البدایہ والنہایہ ۳/ ۱۲۹، دوسرا نسخہ: ۳/۳۷۵)
کیا غامدی صاحب اور ان کے تمام حواری کسی صحیح یا حسن لذاتہ حدیث، صحیح و ثابت قولِ صحابی، صحیح و ثابت قولِ تابعی یا خیر القرون کے کسی ثقہ امام سے صراحتاً یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے وقت اُن کی عمر چھ سال یا سات سال نہیں تھی اور ان کی رخصتی کے وقت نو سال عمر نہیں تھی؟
صرف ایک صحیح و صریح حوالہ پیش کریں اور اگر نہ کر سکیں تو توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ 
قارئین کرام کی خدمت میں بطورِ فائدہ عرض ہے کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی ایک حدیث (خ ۳۸۹۵، م ۲۴۳۸) سے یہ ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس نکاح کو اللہ کی طرف سے سمجھتے تھے۔ 
(۲۹/ رمضان ۱۴۳۳ھ بمطابق ۱۸/ اگست ۲۰۱۲ء)

آئیے تاریخ پڑھیں!

طلحہ احمد ثاقب

پاکستان کو قائم ہوئے پینسٹھ برس بیت گئے، مگر کیا مجال کہ فضا میں ہلکی سی تبدیلی بھی ہوئی ہو۔ وہی نعرے، وہی انداز استدلال، وہی جذباتیت، وہی مخالفین کے لیے سب وشتم وغیرہ۔ مسلم لیگی کارکنوں نے تو ۱۹۴۷ء میں نعرے بلند کیے، مضمون لکھے اور اپنے جذبوں کو زبان دی۔ پاکستان بن گیا تو وہ لوگ حکومتیں کرنے لگے، مخالف منہ چھپاتے پھرتے تھے۔ انھوں نے کبھی کسی مسلم لیگی پر تنقید کی یا حکومتی غلطیوں کی نشان دہی کی، وہیں اسے غدار، ملک دشمن، ہندو کا ایجنٹ وغیرہ کے خطاب عنایت کر دیے گئے۔ تحریک پاکستان کے کارکن تو اللہ کوپیارے ہو گئے، ان کی یادگار کارکنان تحریک پاکستان ٹرسٹ رہ گیا یا نظریہ پاکستان فاؤنڈیشن۔ ایک دو بزرگ ابھی زندہ ہیں، مجید نظامی اور ڈاکٹر رفیق۔ اللہ تعالیٰ انھیں زندہ سلامت رکھے۔ ان کے دم سے ہماری تاریخ زندہ ہے۔ 
پاکستان بن گیا۔ اب نعرے بازی ختم کر کے سنجیدہ تجزیہ نگاری کی طرف متوجہ ہونا چاہیے، مگر ابھی نعرے بازی کا سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ مسلم لیگی تو خیر ملک چلانے میں مصروف ہیں یا سیاست کرنے میں۔ تحریک پاکستان کی نعرے بازی ان دنوں جماعت اسلامی نے سنبھال رکھی ہے۔ ممکن ہے وہ ۱۹۴۷ء میں پاکستان کی مخالفت کا ازالہ کرنا چاہتے ہوں اور پاکستان کی حمایت میں نومسلموں والا جوش دکھا رہے ہوں۔ وجہ کچھ بھی ہو، ان لوگوں کا جوش وخروش دیدنی ہے۔ ان کی نعرہ بازی کے سامنے کارکنان تحریک پاکستان کے نعرے مدھم پڑتے محسوس ہوتے ہیں۔
پاکستان کے قیام کی مخالفت مولانا ابو الکلام آزاد نے کی تھی اور بلند آہنگی سے کی تھی۔ مولانا ابو الاعلیٰ مودودی نے بھی پاکستان کی مخالفت کی تھی اور بساط بھر مخالفت کی تھی، مگر مولانا ابو الکلام نے قیام پاکستان کے بعد اپنے آپ کو ہندوستان میں بچ جانے والے مسلمانوں کی فلاح کے لیے وقف کر لیا تھا۔ انھوں نے تقسیم کے معاملے کو ماضی کا معاملہ قرار دے دیا، مگر مولانا ابو الاعلیٰ مودودی نے قیام پاکستان کے بعد ’’ترجمان القرآن‘‘ کے اداریے میں پاکستان کے قیام اور اس کی قیادت پر بھرپور تنقید کی۔ اب کچھ سالوں سے جماعت اسلامی کے لوگ قیام پاکستان اور بانی پاکستان کی حمایت میں بہت پرجوش ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے جذبوں کو سلامت رکھے اور سلامتی کا راستہ دکھائے، مگر انھیں چاہیے کہ جذبات کے اظہار کے ساتھ ساتھ تاریخ کو نہ بھولیں اور یاد رکھیں کہ قیام پاکستان کو مولانا ابو الکلام آزاد نے نہیں، ان کے اپنے فکری راہنما جناب قبلہ مولانا ابو الاعلیٰ مودودی نے درندے کی پیدائش سے تعبیر کیا تھا۔
یہ ساری باتیں اس لیے یاد آئیں کہ جماعت اسلامی کے اخبار ’’جسارت‘‘ کے فرائیڈے اسپیشل میں جناب شاہنواز فاروقی کا مضمون بعنوان ’’قیام پاکستان: قائد اعظم کیوں صحیح تھے؟ مولانا ابو الکلام آزاد کیوں غلط تھے؟‘‘ شائع ہوا۔ جماعت اسلامی کے رسالے میں یہ مضمون شائع ہوا ہے، اس لیے ان سے مودبانہ گزارش ہے کہ براہ کرم یہ بھی لکھ دیں کہ مولانا ابو الاعلیٰ مودودی صحیح تھے یا غلط؟ جناب فاروقی صرف مولانا ابو الکلام آزاد پر سنگ زنی کر رہے ہیں، مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کا ذکر بہت خوب صورتی سے گول کر گئے ہیں۔ جواباً فاروقی صاحب مولانا ابو الاعلیٰ کی ۱۹۳۸ء سے پہلے کی تحریریں پیش کریں گے۔ ہماری گزارش ہے کہ وہ ۱۹۳۸ء سے ۱۹۴۷ء تک کی مولانا ابو الاعلیٰ کی تحریریں دیکھیں اور پھر خوشی سے پیش کریں۔ ہم بسر وچشم قبول کریں گے۔
جناب فاروقی نے مضمون میں جو نقطہ نظر پیش کیا ہے، ہم اس حوالے سے کسی بحث میں الجھنا نہیں چاہتے۔ ہم صرف چند تاریخی غلطیوں کی نشان دہی کرنا چاہتے ہیں۔
جناب فاروقی نے فرمایا ہے:
’’اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کا سب سے بڑا تاریخی جرم یہ تھا کہ انھوں نے ہزاروں سال سے کروڑوں شودروں اور دلتوں کو حیوانوں سے بدتر زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو ہندو دھرم کے دائرے میں تھے۔‘‘
راقم الحروف کو جناب فاروقی کی اس بات سے کامل اتفاق ہے کہ اعلیٰ ذات کے ہندووں نے دلتوں کو حیوانوں سے بدتر زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا تھا، مگر اس بات سے اتفاق نہیں ہے کہ وہ ہندو دھرم کے دائرے میں تھے۔ اچھوت ہمیشہ سے ہندو دھرم کے دائرے سے باہر سمجھے گئے اور وہ دھرم کے بغیر زندگی بسر کرتے رہے۔ ہندوؤں نے انھیں اچھوت سمجھا اور ذات باہر ٹھہرایا۔ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں نے ان پر ظلم کیا اور اچھوت سمجھ کر کیا۔ اب جناب محترم یہ بھی بتا دیں کہ مسلمانوں نے اچھوتوں کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ مسلم معاشرے نے اچھوتوں کو مسلمان ہو جانے کے بعد بھی صرف مسجد میں قبول کیا، معاشرے میں قبول نہیں کیا۔ یہ بے چارے بالمیک کا بت پوجتے تھے یا بغیر مذہب کے جیون گزارتے تھے۔ ہندو انھیں مندر سے دور رکھتے تھے ، مسلمان بھی انھیں مسجد میں لانے کا کم ہی سوچتے تھے۔ اگر سوچا ہوتا تو ہندوستان میں اکثریت مسلمانوں کی ہوتی۔ راقم الحروف جناب فاروقی پر یہ بات واضح کرنا چاہتا ہے کہ شودر ہندو مت کا حصہ ہے، مگر دلت ادیواسی وغیرہ ہندو مت کا حصہ نہیں۔ دلت وہی ہیں جو پاکستان میں بھی چوڑھے چمار کہلاتے ہیں، حالانکہ وہ بیچارے اسلام قبول کر چکے ہیں، مگر اعلیٰ ذات کے مسلمان انھیں پست سطح سے اوپر اٹھنے نہیں دیتے۔ انھیں جناب فاروقی کے بڑے، اجلاف اور چھوٹی امت کے لوگ کہتے تھے۔ یہ الفاظ ظاہر ہے، اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی اختراع نہیں تھے۔
جناب شاہ نواز فاروقی فرماتے ہیں:
’’برصغیر کی ملت اسلامیہ شعوری سطح پر اس حقیقت سے آگاہ تھی کہ مستقبل کے ہندو حکمران اعلیٰ ذات کے ہندوؤں سے آئیں گے۔‘‘
یہ حقیقت بہرحال ادھوری حقیقت ہے۔ ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں ایک ادنیٰ ذات کی اچھوت خاتون وزیر اعلیٰ ہے۔ بہار میں یادیو مسلمانوں کے تعاون سے حکمران ہے۔ بنگال میں کمیونسٹ، مسلمانوں کے تعاون سے حکومت کر رہے ہیں۔ گجرات میں فرقہ پرست نریندر مودی حکمران ہے، وہ بھی اتفاق سے تیلی ہے، اعلیٰ ذات کا ہندو نہیں۔ یہ باتیں صرف ریکارڈ کی درستی کے لیے عرض کی جا رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں اعلیٰ ذات کے ہندو اکثریت میں نہ کبھی تھے، نہ اب ہیں، نہ ہوں گے۔
جنا ب فاروقی نے ایک پیرا گراف میں ایسی باتیں ارشاد کی ہیں جنھیں پڑھ کر کسی بھی معتدل فکر شخص کا احساس زخمی ہو جاتا ہے۔۔ موصوف فرماتے ہیں:
’’سرحد میں سرحدی گاندھی چھائے ہوئے تھے اور ان کا کسی مسلم کافر سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ پنجاب ۱۹۴۶ء تک یونینسٹوں کے نرغے میں تھا اور ان کا بھی اسلام اور مسلمانوں کے کسی مفاد سے کوئی تعلق نہ تھا۔ بلوچستان پر سرداروں کی حکومت تھی اور انھیں اسلام اور مسلمانوں کے معاملات سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔‘‘
جناب شاہنواز فاروقی نے ایسی دو دھاری تلوار سے وار کیے ہیں کہ سب چھدے پڑے ہیں۔ یہ خالصتاً وہ ذہنیت ہے جو پاکستان میں بسنے والے لوگوں کی تذلیل سے بات شروع کرتی اور اردو بولنے والوں کی برتری ثابت کرتی ہے۔ جناب موصوف یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان کے تین صوبوں پر ان لوگوں کی حکومت تھی اور وہ لوگ یہاں کے عوام کے منتخب لیڈر تھے جن کا اسلام اور مسلمانوں سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ گویا مسلمان اس جغرافیے سے باہر کسی اور صوبے میں آباد تھے۔ انھی سے مسلمان اور اسلام دوستی کا سرٹیفکیٹ لیے بغیر کوئی شخص کیونکر مسلمان بن سکتا ہے؟
جناب موصوف نے سرحدی گاندھی خان عبد الغفار خان کی توہین اس ڈھٹائی سے کی ہے کہ شرم آتی ہے۔ وہ قیام پاکستان کے مخالف تھے، وہ تقسیم کو نادرست مانتے تھے، وہ ابو الکلام آزاد کی طرح سمجھتے تھے کہ تقسیم کے بعد ہندوستانی مسلمان دوسرے بلکہ تیسرے درجے کے شہری ہو جائیں گے۔ مزید برآں وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ قیام پاکستان سے پاکستان میں بسنے والے مسلمان بھی سکھی نہ رہ سکیں گے۔ یہ ان کا نقطہ نظر تھا۔ کیا اس نقطہ نظر کے حامل مسلمان کو آپ مسلمانوں سے لاتعلق ثابت کر سکتے ہیں، جبکہ وہ ۱۹۴۶ء کے الیکشن میں بھی مسلم سیٹوں پر مسلمانوں کے ووٹوں سے منتخب ہوئے تھے؟ اس پر آپ کا ارشاد ہے کہ ’’ان کا کسی مسلم کافر سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔‘‘ آپ تاریخ پڑھیں اور پھر الزام لگائیں۔ ان کے سبھی ووٹر مسلم تھے اور ان کی پارٹی مسلم سیٹوں پر کامیاب ہوئی تھی۔
آنجناب نے یہ کہہ کر پنجاب کے مسلمانوں کا معاملہ صاف کر دیا ہے کہ ۱۹۴۶ء تک پنجاب پر یونینسٹوں کی حکومت تھی۔ یہ درست ہے، مگر اس وقت یونینسٹ پنجابی مسلمان اور اسلام کے مفاد کے لیے کام کر رہے تھے۔ اگر آپ تاریخ کا مطالعہ فرمائیں تو آپ کو معلوم ہو سکے گا کہ علامہ اقبال ۱۹۲۶ء میں پنجاب کونسل کے رکن منتخب ہو کر یونینیسٹ پارٹی میں شامل ہو گئے تھے اور بہت بعد تک ان لوگوں سے قریب رہے جن کا تعلق یونینسٹ پارٹی سے تھا۔ آپ ۱۹۳۶ء میں مسٹر محمد علی جناح کے ساتھ شامل ہوئے، مگر ۱۹۳۸ء میں سر سکندر حیات مسلم لیگ میں شامل ہو گئے اور یوں یونینسٹ اور مسلم لیگ دونوں پارٹیاں یکجا ہو گئیں۔ ۱۹۴۵ء میں سر خضر حیات کو مسلم لیگ سے نکالا گیا۔ جناب فاروقی کے جملے سے صرف یونینسٹ پارٹی ہی ڈس کریڈٹ نہیں ہوتی، مسلم لیگ بھی ہو جاتی ہے۔ ۴۶۔۱۹۴۵ء کے الیکشن میں جو لوگ پنجاب میں مسلم لیگ کے امیدوار تھے، ان کی اکثریت یونینسٹوں سے آئی تھی۔ سردار شوکت حیات، ممتاز دولتانہ، فیروز خان نون یونینسٹ رہے اور پھر مسلم لیگی ہوئے۔ جناب فاروقی تنقید کرتے ہوئے ذرا تاریخ کے اوراق الٹ لیتے تو بہتر تھا۔
سر سکندر حیات کے دور میں Land Alienation ایکٹ پاس ہوا۔ پنجاب کے زمینداروں کے لیے یہ ایکٹ رحمت تھا۔ پنجاب کے چھوٹے بڑے زمیندار اب بھی سر سکندر حیات کی اس خدمت کو فراموش نہیں کر پائے۔ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ انھیں اسلام اور مسلمانوں کے مفاد سے کوئی تعلق نہیں تھا؟ آپ تاریخ کے اوراق الٹیے، آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ سر سکندر حیات نے شاہی مسجد کی مرامت کرائی اور اسے قابل دید بنا کر قابل داد کارنامہ سرانجام دیا۔ اس سے پہلے اس کا فرش اکھڑا ہوا تھا۔ اس کے در ودیوار سکھ عہد کے ظلم کی داستان سنا رہے تھے۔ یہ مسجد رنجیت سنگھ کی مڑھی کے پاس ایک کھنڈر تھا۔ سر سکندر حیات نے اس کی عظمت کو بحال کرنے میں قابل فخر کارنامہ سرانجام دیا۔ اس پر یہ ارشاد کہ اسے اسلام اور مسلمانوں کے مفاد سے کوئی تعلق نہیں تھا! یونینسٹ پارٹی نے مسلمانوں کو ملازمتوں میں حصہ دلوایا اور ان کی تعلیم کے لیے بھی بری بھلی کوششیں ضرور کیں۔
اب رہا بلوچستان کے سرداروں کا معاملہ۔ سرداروں کو اسلام اور مسلمانوں سے کچھ لینا دینا نہیں تھا، یہ ارشاد ہے جناب شاہ نواز فاروقی کا۔ بلوچستان میں سرداروں کے سردار خان آف قلات تھے۔ ان کی ریاست قلات کا اسلام سے یہ لینا دینا تھا کہ وہاں ہمیشہ شریعت اسلامیہ کا قانون نافذ رہا۔ اس ریاست میں گواہ کے لیے بھی یہ شرط تھی کہ وہ مسلمان ہو۔ وہاں وزیر امور شرعیہ حضرت مولانا شمس الحق افغانی تھے۔ اس ریاست میں اس وقت تک شرعی قانون نافذ رہا جب تک کہ وہ خان آف قلات کے ’’زیر تسلط‘‘ رہی جنھیں اسلام اور مسلمانوں سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ یہ قوانین اس وقت ختم ہوئے جب یہ ریاست، پاکستان کا حصہ بن گئی۔ مزید برآں قلات کی اسمبلی میں علماء کے لیے بھی نشستیں مختص تھیں۔ مولانا عرض محمد رحمہ اللہ اس اسمبلی کے رکن تھے۔
راقم الحروف نے صرف تاریخ کا ریکارڈ درست رکھنے کے لیے یہ چند گزارشات پیش کی ہیں۔ جناب فاروقی سے گزارش ہے کہ وہ ایسے جاروبی بیان (Sweeping statements) دینے سے گریز کریں تو بہتر ہے اور تاریخ پر بات کرتے ہوئے تاریخ کے اوراق الٹ لیا کریں تو اس سے بہتوں کا بھلا ہوگا۔ جناب فاروقی کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ انھوں نے سرحدی گاندھی خان عبد الغفار خان، یونینسٹ پارٹی اور بلوچ سرداروں کو اسلام اور مسلمانوں سے لاتعلق کہہ کر مسلم لیگ کی تاریخ پر خط تنسیخ کھینچ دیا ہے، کیونکہ پاکستان میں باستثنائے چند یہی لوگ تھے جو مسلم لیگ کے جھنڈے تلے پاکستان پر حکمران رہے ۔ خان عبد الغفار خان کے بھائی ڈاکٹر عبد الجبار خان کو مسلم لیگ نے اعتماد کا ووٹ دیا۔ یونینسٹ پارٹی تو ساری کی ساری مسلم لیگ کا حصہ بن گئی۔ ایک خضر حیات ٹوانہ بچے تھے، ان کی پوتی نے مسلم لیگ میں آ کر یہ استثنا بھی ختم کر دیا۔ تاریخ ہماری خواہشوں کی غلام نہیں ہو سکتی۔ فاروقی صاحب! آئیے تاریخ پڑھیں۔

جماعت اسلامی کا داخلی نظم سید وصی مظہر ندویؒ کی نظر میں (۱)

چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ

مولانا سید وصی مظہر ندویؒ کے منتخب مقالات ومکتوبات کا ایک مجموعہ ’’صریر خامہ‘‘ کے عنوان سے جناب محمد ارشد نے مرتب کر کے گزشتہ سال شائع کیا ہے۔ (صفحات:۶۳۷۔ ناشر: فکر و نظر پبلشنگ، ۴۳ ہائی بری سی آر، کچنر او این این ۲این ۳ پی ۶، کینیڈا۔ سب آفس حیدرآباد پاکستان)
مولانا سید وصی مظہر ندوی ۲۶ ستمبر ۱۹۲۴ء کو لکھنؤ میں پیدا اور ۲ جنوری ۲۰۰۶ء کو کینیڈا میں فوت ہوئے۔ زیر تبصرہ کتاب کے آخر پر مولانا سید وصی مظہر کا ایک خط تحریک انصاف کے چیئرمین جناب عمران خان کے نام شامل ہے۔ اس خط میں انہوں نے اپنے بارے میں درج ذیل تعارفی سطور لکھیں:
’’میں تقریباً ۲۲ سال کی عمر میں جماعت اسلامی سے وابستہ ہو گیا تھا اور لکھنؤ کی شاخ میں جماعت کے خزانچی کے عہدے سے لے کر حیدر آباد شہر، ضلع اور ڈویژن کا امیر، صوبہ سندھ کا قیم (سیکریٹری) رہنے کے علاوہ تقریباً بیس سال تک مرکزی مجلس شوریٰ اور تقریباً تین سال مرکزی مجلس عاملہ کا رکن رہا۔ تیس سال جماعت اسلامی سے وابستہ رہنے کے بعد ۱۹۷۶ء میں جماعت اسلامی سے علحدگی کا حادثہ پیش آ گیا لیکن اس حادثے کی پرورش برسوں سے جاری تھی۔
۱۹۷۹ء تا ۱۹۸۳ء حیدرآباد میونسپل کار پوریشن کا منتخب مئیر رہا۔
۱۹۸۵ تا ۱۹۸۸ء قومی اسمبلی کا رکن رہا۔
مئی ۱۹۸۸ تا نومبر ۱۹۸۸ء وفاقی کابینہ میں وزیر رہا۔ 
مشرق اوسط کے اکثر ممالک کا بار بار سفر کیا۔ جناب محمد خان جونیجو کے ساتھ امریکہ، ترکی، جرمنی اور فرانس کے سفر کا موقع ملا۔ 
دینی، سیاسی اور دستوری موضوعات پر کئی کتابچے لکھ چکا ہوں۔
جنگ، نوائے وقت، خبریں، پاکستان، امت، جسارت، زندگی، فاران، ندائے خلافت وغیرہ میں مضامین شائع ہوتے رہے۔‘‘
کتاب پڑھ کر مولانا کے مزاج کا ناقدانہ پہلو سب سے نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے۔ اس میں وہ بالکل بے لاگ اور صاف ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ وہ اپنے زیر مطالعہ آنے والے اخبارات و رسائل پر مورچہ لگائے رکھتے تھے۔ جہاں کہیں، جس کسی نے بھی ملی اقدار سے کچھ بھی ہٹ کر لکھا تو انہوں نے گرفت کرنا اپنا فرض سمجھا۔ اس میں انہوں نے کبھی کسی کے منصب اور یا کسی سے اپنے ذاتی تعلق کا لحاظ نہیں کیا۔ البتہ تحریر میں شائستگی اور احترام کا پورا لحاظ رکھا۔ اس وجہ سے ان کی تحریروں میں چبھن کم ہی محسوس ہوتی ہے۔ البتہ تنقید میں کوئی لاگ لپیٹ یا رو رعایت کہیں نظر نہیں آتی۔ ان کی عملی زندگی کا غالب حصہ (۱۹۴۶ تا ۱۹۷۶ء)جماعت سے وابستگی میں گزرا۔ ان کا کمالِ وابستگی یہ رہا کہ جماعتی سرگرمیوں میں پورے فعال رہنے کے باوجود انہوں نے اپنے ذہن و دماغ کو آزاد رکھا۔ جہاں کہیں اور جس پہلو سے بھی عدم اطمینان محسوس کیا، اس کا بر ملا اظہار کیا۔ اس بارے میں متعلقین کو سنجیدگی کے ساتھ اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔ ہم اوپر کہہ چکے ہیں کہ ان کی تحریروں میں ناقدانہ پہلو غالب ہے اور ان کی بھر پور زندگی کا غالب حصہ جماعت کے ساتھ گزرا ہے۔ اس طرح ان کی محفوظ تحریروں کا سب سے زیادہ قابل قدر حصہ جماعت پر ان کے تحفظات پر مشتمل ہے۔ زیر تبصرہ کتاب کے مرتب مولانا وصی مظہر کے ایک شاگرد رشید محمد ارشد ہیں۔ کتاب کے پیش لفظ کے صفحہ ’’ف‘‘ پر لکھتے ہیں:
’’اس منتخب مجموعہ میں خاکسار نے مولانا ندوی کے متعدد ایسے مضامین کو جن میں انہوں نے تحریک اسلامی سے اپنے اختلافات کے اسباب و وجوہات کی تفصیل بیان کی ہے، شامل نہیں کیا ہے۔ مولانا نے جماعت سے اپنی وابستگی اور پھر اس سے اختلاف و علیحدگی کی کہانی قلم بند کر رکھی تھی جسے وہ شائع بھی کرانا چاہتے تھے۔ البتہ مولانا کو ان کے بعض قدیم تحریکی رفقا خصوصاً ڈاکٹر اسرار احمد نے ایسا نہ کرنے کا مشورہ دیاتھا۔ چنانچہ مولانا نے اس کہانی کو اپنی زندگی میں شائع نہیں کروایا۔ مرتب نے بھی ایسی تحریروں کی اشاعت کو مناسب خیال نہیں کیا۔‘‘
ہمارے نزدیک مرتب نے جماعت سے متعلقہ تحریروں کو زیر تبصرہ مجموعے میں شامل نہ کر کے مولانا مرحوم اور ان کی تحریروں کے ساتھ سب سے بڑا ظلم کیا ہے۔ مرتب خود لکھتے ہیں کہ مولانا اپنی ان تحریروں کو شائع کرانا چاہتے تھے۔ کچھ دوستوں کے روکنے کے باعث وہ ان کو اپنی زندگی میں شائع نہ کر اسکے۔ ان دوستوں میں ڈاکٹر اسرار احمد کا رویہ بڑا عجیب و غریب ہے۔ خود انہوں نے اپنے حافظے کو کرید کرید کر جماعت سے اختلاف پر مشتمل اپنی تحریروں کو مرتب کر کے پورے اہتمام سے بار بار شائع کیا مگر وصی مظہر صاحب کو ان کی اشاعت سے روکتے رہے۔ شاید وہ میدانِ نقد میں بھی اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتے تھے۔ مرتب نے کہیں یہ نہیں لکھا کہ مولانا ندوی نے ان تحریروں کی اشاعت کا ارادہ ترک کیا ہو۔ حقیقت میں ان کی یہ تحریریں ان کا اصل اثاثہ ہیں۔ اس میں انہوں نے اپنے براہ راست مشاہدات اور تجربات کو جگہ دی۔ اپنے قلب و ضمیر کا کھل کر اظہار کیا۔ یہ تیس سال کی عملی زندگی کے مشاہدات اور ان کا حاصل ہی نہیں بلکہ پورے ایک دور کا تذکرہ ہے۔ اپنی تاریخ کا سامنا کرنے کے بجائے اس سے پہلو بچانے کا رجحان زندہ قوموں کے شایان شان نہیں ہوتا۔ زندہ قومیں اپنی تاریخ کے ہر پہلو اور ہر نقطہ نظر کو محفوظ رکھتی ہیں۔ ان پر بحث و نظر جاری رہتی ہے۔ وہ اس کی روشنی میں اپنی غلطیوں تک پہنچتی ہیں۔اس طرح غلطیوں کی درستی کا اہتمام ہوتا ہے۔ اس میں اختلافی نقطہ نظر کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ غلطیوں کا اندازہ اختلافی نقطہ نظر کے مطالعے ہی سے ہوتا ہے۔ کبھی قصائد سے غلطیوں کی تلاش نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے سید صاحب نے آزادی اظہار کو بطور حق تسلیم کرانے کے لیے اپنی تحریروں میں خاص طور پر زور دیا۔ انہوں نے جماعت کی ناکامی کا ایک اہم سبب اختلاف پر پابندی کو قرار دیا ہے۔ کتاب کے مرتب کے نام اپنے خط میں وہ لکھتے ہیں،
’’اسلامی تحریکوں کی ناکامی کے بہت سے اسباب میں سے ایک اہم سبب پالیسی اور پروگرام کی تشکیل میں آزادانہ بحث و گفتگو اور اظہار اختلاف پر پابندی ہے جس کی وجہ سے ہر تحریک one man show بن کر رہ جاتی ہے اور مسلمانوں کے مختلف افکار رکھنے والے مگر اسلام کے لیے مخلص لوگوں کو ساتھ لے کر نہیں چل سکتی۔‘‘ (صریر خامہ صفحہ ۶۱۲)
اس کے علاوہ، قاضی صاحب کے دور امارت میں جماعت سے علیحدہ ہو نے والے بزرگوں نے تحریک اسلامی قائم کی۔ تحریک کے قیم محمد جلیل خان کے نام اپنے خط مورخہ یکم دسمبر ۱۹۹۶ میں جناب ندوی نے لکھا،
’’کیا ہی اچھا ہو کہ آپ حضرات اپنی تنظیم میں حریت فکر و نظر اور اظہار رائے کی اس آزادی کا بھی اہتمام کر لیں جس کی ضمانت کتاب و سنت میں دی گئی ہے، بلکہ ہر شخص کا فرض قرار دیا گیا ہے کہ وہ تواصی بالحق کرتا رہے اور اولی الامر سے نزاع کی نوبت آجائے تو اس کا فیصلہ کتاب و سنت کی روشنی میں کر دیا جائے۔ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اگر کوئی ایسا واقعہ سیرت نبوی یا سیرت خلفائے راشدین میں ملا ہو جس میں کسی شخص کے اظہارِ اختلاف کی بنا پر اس کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی ہو تو براہ کرم اس سے مجھے مطلع فرمائیں: 
کیا ہوازن و ثقیف سے حاصل شدہ مالِ غنیمت کی تقسیم پر اعتراض کرنے والے انصاریوں کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی؟
کیا صلح حدیبیہ کی بعض شرائط پر اعتراض کرنے والوں کے خلاف کوئی تادیبی اقدام کیا گیا؟
کیا مسجد نبوی کے اندر بھرے مجمع میں فتنہ افک کی حمایت کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی؟
کیا حضرت خالد بن ولید کی اسلامی افواج کی سرہراہی سے معزولی پر بھرے مجمع میں تنقید کرنے والے، جس نے حضرت عمر کو خطاب کر کے کہا تھا کہ امیر المومنین آپ نے اللہ تعالی کی تلواروں میں سے ایک تلوار کو نیام میں ڈال دیا ہے‘‘کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی؟
جس حق کے لیے زندگی پر جناب وصی مظہر لڑتے رہے، مرتب نے ان کی تحریروں کو مرتب کرتے ہوئے ان کی ایسی تحریروں کو کتاب میں شامل نہ کرکے تاریخ کے ایک دور کے بیان میں انصاف نہیں کیا۔ ظاہر ہے کہ جناب ندوی کا پورا دور تاریخ کا حصہ ہو گیا ہے۔ تاریخ کی یہ امانت آئندہ نسئلوں کا حق ہے۔ یہ امانت ان کے سپرد کرنا ندوی صاحب جیسے زعما کے معنوی یا حقیقی ورثا کی ذمہ داری ہے۔
اس میں یہ پہلو بطور خاص ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ ناقدانہ ذوق، صلاحیت، ہمت اور جرات رکھنے والا آپ کو ہزار میں ایک بھی نہیں ملے گا۔پھر کتنا ظلم ہے اس طرح کی شے نایاب کے نوادرات کو بھی غائب کر دیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ ان تحریروں کو شائع کیوں نہ کیا جائے۔ کیا جناب ندوی نے یہ تحریریں غبار خاطر کے طور پر لکھیں تھیں۔ نہیں ہر گز نہیں، غبار خاطر کا لحجہ تو ان کی کسی تحریر میں تلاش کرنے سے بھی نہیں ملتا۔ ان کا شائستہ، نرم اور پیار بھرا اسلوب، دردمندی سے بھر پور ہے۔ انہوں نے تو اپنے دکھ کا اظہار کیا ہے۔دکھ دینے والے اس طرح کے اظہار کی کبھی اجازت دینے کو تیار نہیں تھے۔ مرحوم کی زندگی کے بعد بھی ان کے اظہار پر پابندی نافذ رہے،نعیم صدیقی کی زبان شعر میں،
جبر کے یہ نت نئے کرشمے، عقل کھڑی حیران دیکھتی ہے
جناب سید وصی مظہر صاحب کے ورثا کو اس جبر سے دستکش ہو جانا چاہیے۔ یہ جبر و غصب، جناب ندوی صاحب کے ساتھ، ان کے تحریکی ساتھیوں نے روا رکھا، ان کے ورثا کو مرحوم کے رفقا والا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ جناب ندوی صاحب کے بعد اس رویے سے حقیقی متاثرہ فریق آئندہ نسل ہے۔ میں نہیں جانتا کہ جناب ندوی صاحب کے ورثا میں سے جماعت اور تحریک کے ساتھ وابستگی کی کیا کیفیت ہے، اگر کوئی وابستہ ہے تو اس کا طرز عمل ناقدانہ ہے بھی یا نہیں۔ حلقے سے باہر رہ کر نقد و جائزہ میرے نقطہ نظر سے کچھ زیادہ اہم نہیں۔ اس میں زیادہ تر انداز تفریح کی نوعیت کا ہوتا ہے۔ البتہ جو شخص اندر رہ کر فعال و سرگرم رہا ہو اور اس نے نقد و نظر کا فرض بھی انجام دیا ہو تو اس کی موجود تحریریں بڑی اہم ہوں گی۔ وابستگی کی شرط پورا کرتے ہوئے نقد و جائزہ، وابستگی کے درجے کو بلند کر دیتی ہے۔
اگرچہ مولانا ندوی کی جماعتی موضوع پر اصل تحریروں کو زیر تبصرہ مجموعہ میں شامل نہیں کیا گیا مگر اس کے باوجود اس میں بہت سی تحریریں ایسی ہیں جن میں جماعت کے بارے میں، بھر پور ناقدانہ نقطہ نظر موجود ہے۔ ہم ان کی ایسی تحریروں کا جائزہ لیں گے۔ یہاں ہم ایک بار پھر اعادہ کریں گے کہ اس موضوع پر ان کی اصل تحریروں سے محروم کیے جانے کے بعد ہم مولانا کی تحریروں کے حوالے سے جو کچھ بھی لکھیں گے وہُ چھپائی ہوئی تحریروں کے سامنے آنے کے بعد قابل نظر ثانی ہوگا۔ 
اس مجموعہ میں ناقدانہ تحریروں میں، بعض مقامات پر عملی نقطہ نظر کے بجائے قیاسی اور تصوراتی نقطہ نظر پایا جاتا ہے۔ ان سے بظاہر معلوم یہ ہوتا ہے کہ جناب ندوی علمی سطح کے لحاظ سے کافی بلندی سے بات کر رہے ہیں۔ مثلاً جماعتی نظام اور دستور پر گفتگو کے دوران ان سے ریاستی دستور کے اصول اخذ کرنے کا معاملہ، بہت دور از کار معلوم ہوتا ہے۔ اس میں بظاہر معقولیت نظر آتی ہے مگر عملی پہلو سے یہ دور کی کوڑی لانے جیسی کوشش ہے۔ جناب وصی مظہر کتاب کے صفحہ نمبر ۱۵۴ ۔ ۱۵۵ پر دستور کی دفعہ ۳۰ کی ذیلی شق(د)اور شوری ٰکی کارروائی کا ضابطہ ۵۲ کی شق (۵) درج کرتے ہیں:
’’جماعت کے اندر مستقل پارٹیاں اور بلاک بنانے سے محترز رہیں اور اگر مجلس شوریٰ یا جماعت میں کوئی شخص اس کی کوشش کرتا نظر آئے تو اس کی ہمت افزائی کرنے یا اس سے تغافل برتنے کے بجائے اس کی اصلاح کی کوشش کریں‘‘۔ 
شوریٰ کی کارروائی کے ضابطے ۲۵ کی شق ۵ کو حوالہ دیتے ہوئے جناب ندوی فرماتے ہیں:
’’پہلے سے نجویٰ کر کے مجلس شوریٰ کے اجلاسوں میں شریک ہونا اور ایسا طرز عمل اختیار کرنا جس سے جماعت میں دھڑے بندیاں پیدا ہونے کا اندیشہ ہو‘‘
اس کے بعد جناب ندوی لکھتے ہیں:
’’ظاہر ہے کہ جماعت اسلامی نے اپنی تنظیم کی مضبوطی کے لیے شوریٰ کے اندر مستقل پارٹیاں اور بلاک بنانے پر جو پابندی عائد کی ہے وہ پابندی مسلم امت کی وحدت و اتحاد اور اسلامی ریاست کے استحکام کے لیے لازم تصور کی جانی چاہیے کیونکہ جماعت کی وحدت اور استحکام سے زیادہ امت اور اسلامی ریاست کی وحدت اور استحکام ضروری ہے۔ چنانچہ جماعت اسلامی اگر اپنے دستور پر عمل کرتے ہوئے فی الواقع اسلامی ریاست بنانے میں کامیاب ہو جاتی تو وہ اسلامی ریاست کی شوریٰ میں بھی مستقل پارٹیوں اور بلاک قائم کرنے کی اجازت نہ دیتی اور اب گر جماعت اسلامی نے ملک کے دستور میں ایک سے زائد پارٹیوں کے نظام کو شامل رکھنے کو تسلیم کر لیا تو یہ خود اپنے موقف سے انحراف یا مصالحت و مداہنت کے سوا کچھ نہیں۔‘‘
اس کے بعد وہ سیاسی پارٹیوں کے بارے میں مختلف مکاتب فکر کے علماء کی پوری فہرست درج کر کے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ علماء نے جب بھی سنجیدہ غور و تحقیق کی ہے تو ہمیشہ ایک سے زائد سیاسی جماعتوں کی تشکیل کے تصور کے خلاف متفقہ فیصلہ دیا ہے۔ 
در اصل یہاں جماعت کے دستوری اور کارروائی شوریٰ کی شق پر تنقید کی ضرورت تھی۔ اس کے بر عکس جناب ندوی صاحب اس سے استدلال کرکے قومی اور امت کی سطح پر مختلف سیاسی جماعتوں کے عملی وجود پر معترض ہو رہے ہیں۔ یہ استدلال عملی طور پر قابل غور نہیں۔ حقیقت میں جماعت کے اندر رائے کی تشکیل اور ذہنی سرگرمی کو جس طرح کرب کیا گیا ہے یہ شقیں اس کے اہتمام کا بہت بڑا ثبوت ہیں۔ جماعت کا پورا تنظیمی ڈھانچہ اسی طرح تعمیر کیا گیا ہے کہ ذہنی سرگرمی مفلوج رہے۔ نظم کی جانب سے اختیار کی گئی پالیسیوں اور فیصلوں کو شوریٰ ہی نہیں ہر سطح پر قبولیت کے سوا کوئی دوسرا امکان مکمل طور پر مسدود کر دیا جائے۔ اس طرح کے ڈھانچے کو مستحکم اور منظم تنظیم سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جناب ندوی حریت فکر اور اختلاف کے اظہار پر جماعت کے اندر موجود پابندیوں کی شکایت کرتے ہیں۔ جماعت کا انتخابی نظام بھی اسی طرح کا ہے کہ جہاں موجودہ صورت حال کو جاری رکھنے کا پورا اہتمام موجود ہے۔ جناب ندوی مرکزی شوریٰ کے حوالے سے یہ تو ضرور کہتے ہیں کہ اس میں زیادہ تر نفری امرائے اضلاع کی ہے۔ یہ کم و بیش نامزد لوگ ہوتے ہیں۔ یہ شوریٰ میں سنجیدہ مباحث کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں۔ لہذا شوریٰ میں تمام تر وقت معمول کی کارروائیوں میں صرف ہو جاتا ہے۔ اس میں حقیقی مباحث کو کبھی زیادہ اہمیت نہیں ملتی۔ نامزد لوگ اپنے مزاج کے طور پر اطاعت امر اور اطاعت نظم میں سوچ اور فکر کی آزادی کو کیسے برت سکتے ہیں۔ وہ تو ہاتھ کھڑے کرنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ خاص طور پر دستور میں جب اختلاف کے اظہار پر یکطرفہ پابندیاں لاگو ہوں اور اخراج کی تلوار ارکان کے سر پر لٹک رہی ہو۔ جناب ندوی کتاب کے صفحہ ۱۵۸ اور ۱۵۹ پر تحریر فرماتے ہیں:
’’جماعت اسلامی نے اپنی صفوں میں پیدا ہوجانے والے انتشار کو دور کرنے کے لیے اپنے دستور میں امیر جماعت اور مرکزی پالیسی سے اختلاف کرنے والوں کو جماعت میں رہنے کی اجازت با دل نخواستہ دے تو دی مگر ان اپر اظہار اختلاف کے تمام دروازے بند کر دیے۔ دستور کی متعلقہ دفعہ کے الفاظ یہ ہیں،
دفعہ نمبر ۹۳ (۱) انہیں ارکان جماعت کے اجتماعات میں اختلافِ خیال کے اظہار کا پورا حق حاصل ہو گا مگر اس غرض کے لیے پریس اور پبلک پلیٹ فارم کو ذریعہ بنانے کا حق نہ ہو گا اور یہ حق بھی نہ ہو گا کہ وہ فردااً فرداً ارکانِ جماعت میں نجویٰ کرتے پھریں۔‘‘
اس پابندی کے نتائج کے حوالے سے مولانا ارشاد فرماتے ہیں:
’’ان دونوں شقوں میں ارکان جماعت کو اختلاف رکھنے کی آزادی تو دی گئی ہے مگر اس اختلاف کو ختم کرنے یا اس سے بہتر نتائج حاصل کرنے کے بیشتر دروازے بند کر دئیے گئے اور جو دروازے کھلے ہیں ان کو بھی جماعت اسلامی کے اہل کاروں نے دستور کی غلط تعبیر و تشریح کرکے بند کر دیا ۔ ظاہر ہے ایک شخص کا اختلاف اسی وقت ختم ہو سکتا ہے جب وہ برابری کی سطح پر اپنے اختلاف کو دلائل کے ساتھ بیان کردے اور لوگ اسے پھر بھی نہ مانیں تو ایسا شخص یا تو اپنی رائے بدل لیتا ہے یا اکثریتی فیصلے کو صبر کے ساتھ قبول کر لیتا ہے۔ علاوہ ازیں اظہارِ اختلاف کی آزادی کا ایک بڑا فائدہ اور بھی ہوتا ہے کہ کسر و انکسار اور دو مختلف تجاویز پر غور کرنے کے نتیجے میں کوئی بہتر درمیانی راہ نکل آتی ہے۔ لیکن جب اظہار رائے کی برائے نام آزادی تو ہو مگر دوسرے لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانے کی تمام راہیں بند کر دی گئی ہوں تو اختلاف شدید ہونے کی صورت میں ایسے شخص کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ تنظیم ہی سے علیحدہ ہو جائے چنانچہ جماعت اسلامی سے جو اصحاب فکر و نظر وقتاً فوقتاً علیحدہ ہوتے رہے ہیں ان کی علیحدگی کی وجہ یہی ہے کہ ان کو اس بات کی کوئی توقع نہ تھی کہ وہ کبھی بھی دوسروں کو اپنا ہم نوا بنا سکیں گے لیکن اگر اظہار رائے کی کھلی آزادی ہوتی تو یہ اصحاب جماعت سے کبھی الگ نہ ہوتے، زیادہ سے زیادہ وہ کچھ لوگوں کو اپنا ہم خیال بنا لیتے اور ہو سکتا ہے کہ کسی مرحلے میں اکثریت ان کی ہمنوا ہو جاتی، اس سے جماعت کے نصب العین کو کوئی نقصان نہ پہنچتا بلکہ عام ارکان کی صلاحیت کو مہمیز ملتی اور دونوں قسم کی رائے رکھنے والے اپنی سرگرمیوں کو بڑھانے پر مجبور ہوتے۔ اس طرح جماعت اسلامی کی صفوں میں غیر فعال ارکان کی جو تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے اس کا بڑھنا یکسر بند ہو جاتا۔‘‘
’’کسی اختلاف رکھنے والے کو پریس یا پبلک پلیٹ فارم استعمال کرنے کی اجازت نہیں جب کہ اکثریت کی پالیسی جماعت اور غیر جماعتی اخبار و رسائل، جلسوں اور اجتماعات میں مدلل انداز میں پیش کی جاتی رہے گی اور اختلاف رکھنے والا اس بارے میں لب کشائی کا مجاز نہ ہو گا۔‘‘
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ کمیونسٹ پارٹی کے دستور کے مطابق، پارٹی مسائل پر، پارٹی جرائد میں لکھنے کی اجازت ہوتی ہے۔ بہر حال اس پابندی کا غیر فطری ہونا اس وقت واضح ہو گیا جب مولانا مودودی خود اس پابندی کو توڑنے پر مجبور ہوئے۔ میاں طفیل محمد امیر جماعت تھے اور پروفیسر غفور احمد نائب امیر۔ ایک زمانے میں انہوں نے جماعت کو دیگر جماعتوں میں مدغم کرنے کے عزم کا پریس میں اظہار کیا۔ اس پر مولانا مودودی کو مجبوراً پریس ہی کے ذریعے واضح کرنا پڑا کہ کسی عہدے دار بلکہ مجلس شوریٰ کوبھی یہ اختیار نہیں کہ وہ جماعت کو کسی دیگر جماعت میں مدغم کر سکے۔ اسی طرح قاضی حسین احمد کے زمانہ امارت میں جناب نعیم صدیقی نے بنام ’’دلبر‘‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھی اور اسے پریس میں چھپوایا۔ اس نظم کو جماعت کا نوحہ کہا جاسکتا ہے، ایک مصرعے میں وہ اس حد تک چلے گئے،
تدبر کے تخت طاؤس پر مسلط اک غبی ہے
حالات کے جبر کے سامنے، اس طرح کی پابندیاں بے اثر ہو جاتی ہیں۔ بہر حال مولانا ندوی دیگر پابندیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یہ پابندی بھی ہے کہ اختلاف کا اظہار صرف اجتماعات ارکان میں کیا جائے فرداًفرداً لوگوں کو ہم خیال بنانے کی بھی اجازت نہیں۔‘‘
’’مرکزی شوری جو پالیسی ساز ادارہ ہے اس کے ارکان کو ہم خیال بنانے کی کوشس پر بھی پابندی ہے۔ حتیٰ کہ کوئی رکن شوری بھی دوسرے ارکان سے اختلافی موضوع پر گفتگو نہیں کر سکتا۔‘‘
’’اس پر مزید ستم یہ ہوا کہ جماعت کے مقامی، ضلعی اور صوبائی اہلکاروں نے دستوری اصطلاحات کو بغیر سمجھے ان کا ایک مفہوم خود متعین کر لیا اور اس مفہوم کی بنا پر انہوں نے اختلاف کرنے والوں کی گردنیں ناپنی شروع کریں۔‘‘
اس طرح اطاعت نظم میں غلو کی بسم اللہ ایسی ہوئی کہ اختلاف اور ذمہ داران کے احتساب کے تصورات محض زینتِ دستور بن کر رہ گئے۔ در اصل جماعتی نظم اور نظام کی تشکیل میں پائے جانے والے بنیادی تضادات نے نظام جماعت کو ایک تدریجی عمل کے تحت برباد کیا ہے جس کے بعض پہلو جناب ندوی صاحب نے محسوس کیے ہیں۔ ایک تضاد کا تو جناب ندوی صاحب کے حوالے سے ہم اوپر ذکر کر آئے ہیں۔ یہ تضاد جماعت کے اندر گروہ بندی کی مکمل ممانعت اور پھر میدان سیاست میں ایک سے زائد سیاسی پارٹیوں میں عملی شرکت کے سلسلے میں بیان کیا گیا ہے۔ جماعتی نظام میں تشکیل کے وقت ہی سے بعض ایسے بنیادی تضادات رکھ دئیے گئے تھے جن کے نتائج سامنے آنے تک جماعتی نظام کا ڈھانچہ مکمل تباہی کا شکار ہو چکا تھا۔ البتہ اس تباہی کا احساس اور شعور کبھی پیدا نہ ہو سکا۔ اس کی وجہ ڈھانچے میں جمود کا رسوخ تھا جو دن بدن طاقتور سے طاقت ور ہوتا گیا۔ جماعت کا پورا لٹریچر پڑھ جائے، مولانا موودودی کی تحریریں دیکھ لیں، قیام جماعت کے بعد اطاعت نظم پر بے انتہا زور دیا گیا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں تنقید اور محاسبے پر زور بہت کم ہے اور عملی طور پر اس کا کوئی اہتمام نہیں تھا۔ دستور میں احتساب کا کوئی باقاعدہ ادارہ قائم نہیں کیا گیا۔ جب تک مولانا کی برابری کی سطح کے لوگ جماعت کے اندر موجود رہے تو احتساب ذمہ داران کا کچھ نہ کچھ کردار وہ لوگ ادا کرتے رہے مگر ان کے بعد احتساب و تنقید کے امکانات یکسر نا پید ہوتے گئے۔ اس کا اظہار جناب ندوی صاحب نے کھل کر کیا ہے۔ حقیقت میں مولانا امین احسن اصلاحی کے بعد جماعت کے اندر تنقید اور احتساب کا باب بند ہو گیا تھا۔ قاضی حسین احمد کے زمانے میں، احتساب امیر جماعت کے لیے جماعت میں سنجیدہ بزرگوں نے کوشش کی مگر قاضی صاحب نے احتساب کا سامنا کرنے کے بجائے استعفیٰ دے کر قائمقام امیر کے انتظام میں نئے انتخاب کا اہتمام کروایا اور خود دوبارہ منتخب ہو گئے۔ نتیجہ کیا ہوا قاضی صاحب پر دستور اور مرکزی شوری کے فیصلوں کی خلاف ورزی جیسے سنگین الزامات کی انکوائری کے لیے قائم کمیٹی دھری کی دھری رہ گئی۔ اس طرح احتساب کے لیے جتنا گردا اٹھایا گیا تھا وہ سب بیٹھ گیا۔ یہ روایت جماعت کی تاریخ میں پہلے سے موجود تھی۔ ۱۹۵۳ کے انتخابات میں ناکامی پر انکوائری کرنے والی کمیٹی کی رپورٹ آنے کے بعد، مولانا مودودی نے جماعت کی امارت سے استعفیٰ دیا۔ پریس کے ذریعے اس کی وسیع تشہیر کی گئی۔ مولانا نے بار بار یہ واضح کیا کہ ان کا مستعفی ہونے کا فیصلہ قطعی ہے۔ وہ اسے واپس نہیں لیں گے۔ اس طرح سنسنی خیز ماحول پیدا کرکے ماچھی گوٹ میں اجتماع ارکان طلب کیا گیا۔ ان کے استعفیٰ کے متن کو دیکھا جائے تو اس سے پیدا ہونے والی سنسنی کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ مولانا نے لکھا:
’’اور یہ بات واضح کیے دیتا ہوں کہ یہ استعفیٰ واپس لینے کے لیے پیش نہیں کیا جا رہا۔ میں فیصلہ کر چکا ہوں کہ اب جماعت میں کوئی منصب بھی حتیٰ کہ مجلس شوریٰ کی رکنیت بھی قبول نہیں کروں گا۔‘‘ (طفیل نامہ صفحہ نمبر ۳۱۴)
اس اجتماع میں جو کچھ ہوا وہ تاریخ جماعت کا ایسا باب ہے جس پر پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ اس ستر پوشی کے لیے ۱۹۵۷ سے ۱۹۸۰ تک جماعت کی تاریخ کو ہی غائب کر دیا گیا۔ جماعت کی تاریخ، روداد جماعت اسلامی کے ناموں سے قیام جماعت سے تواتر سے جو سلسلہ جاری تھا اس میں تعطل پیدا کر دیا گیا۔
اب دیکھئیے کہ یہ کتنا بڑا تضاد ہے کہ جماعت کے اندر نظم کی اطاعت میں غلو کر کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو مکمل طور پر منجمد کر دیا جائے۔ اس کے بر عکس میدان سیاست میں درپیش جبر و آمریت کے خلاف آپ کو کم و بیش ہمیشہ بغاوت جیسی صورت حال اختیار کرنا پڑتی ہے۔ ۱۹۶۰ء سے لے کر جولائی ۱۹۷۷ء تک جماعت نے، ہر قائم حکومت کے خلاف کھل کر اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔ ضیاء الحق کے دور تک آپوزیشن کا رول ادا کرتے کرتے جماعت اس قدر تھک چکی تھی کہ مزید اپوزیشن کا رول ادا کرنے کے بجائے جماعت اپنے تمام اصولوں کو ترک کر کے مارشل لا کی وردی اور چھڑی تلے مرکزی کابینہ میں شامل ہوئی اور اقتدار سے لذت اندوز ہونے کا رجحان جماعت میں اتنا طاقتور ہوا کہ آخر کار بلا واسطہ یا بالواسطہ جماعت کا کردار حکمران جماعت کے حاشیہ نشینوں میں ہی رہا۔ قربت اقتدار کے اس دور میں کیا کچھ ہوااس کی پوری ایک تاریخ ہے مگر اس پر بہت دیر تک پردہ پڑا رہے گا۔ ایم ایم اے کے دور میں فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ تو بہر حال تاریخ کے صفحات پر ایسا نقش ہوا ہے کہ اسے کوئی صاف نہیں کر سکتا۔
اطاعت شعار لوگوں میں اپوزیشن کی ہمت اور صلاحیت آخر کب تک باقی رہ سکتی ہے۔ اس کا جواب جماعت کی جد و جہد کا سرسری مطالعہ بڑے واضح انداز میں دے سکتا ہے۔
جماعت کے اندر اطاعت شعاری یا ذمہ داران کے احتساب، دونوں میں سے ایک ہی کا اہتمام ہو سکتا ہے اس میں توازن کا خواب یا وعظ تو ممکن ہے مگر اہتمام کسی طرح ممکن ہے اور نہ ہی ایسا کبھی ہوا۔ احتسابِ ذمہ داران کے خلاف سب سے بڑا تحفظ جماعت سے ارکان کے اخراج کا ضابطہ ہے۔ اگر اصولی طور پر دیکھا جائے تو ارکان کے اخراج کا یہ ضابطہ ہی شریعت کے خلاف معلوم ہوتا ہے۔ ایک طرف جماعت اسلامی کی رکنیت کو شرعی ضرورت کا درجہ دیا جاتا ہے، بقول جناب خرام مراد:
’’جماعتی زندگی ایک شرعی ضرورت ہے۔ مولانا مودودی کے نزدیک دعوت دین کا خلاصہ یہ ہے کہ نماز، روزہ، زکوات، جس طرح فرض ہے اسی طرح اقامت دین کی جد و جہد بھی اہل ایمان کے لیے ایک ضروری ذمہ داری ہے۔ یہ جد و جہد جماعتی زندگی کے بغیر نہیں ہو سکتی۔‘‘ (لمحات صفحہ نمبر ۱۸۷)
’’دستور اور روایت میں تادیبی کارروائی کی گنجائش کے باوجود، میں بنیادی طور پرکسی ساتھی کے خلاف انتہائی کارروائی کرنے کے خلاف ہوں، میں سمجھتا ہوں کہ رکنیت کا جو تصور ہمارے ہاں ہے، وہ ہمیں ایسی کارروائی کی اجازت نہیں دیتا۔۔ ۔ آخر ایک اسلامی ریاست میں ہمیں معاشرے کی خرابیوں کو برداشت کرنا ہی پڑے گا اور انہیں ٹھیک رکھنے کے لیے تعلیم، تربیت اور تادیب کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ اس مقصد کے لیے بہرحال ناپسندیدہ افراد کو ملک سے باہر تو نہیں نکالا جاسکتا۔ ریاست کے لیے ضروری ہو گا کہ جس طرح بھی ممکن ہو ان کی اصلاح کرے۔۔ ۔ میں نے اپنی تحریکی زندگی میں جمعیت یا جماعت سے کسی فرد کا بھی اخراج نہیں کیا۔ میں لوگوں کو کھو دینے کا قائل نہیں۔‘‘ (لمحات صفحہ نمبر ۳۹۹۔ ۳۰۰)
کوئی شخص جماعت کا رکن بن جائے تو جماعت کا نظام اس کو سیدھا کرنے میں موثر اہتمام کرتا ہے۔ ایسا ماحول پیدا کیا جاسکتا ہے کہ وہ خود جماعت سے باہر ہو جائے۔ جیسا کہ مولانا مودودی کے دور میں مولانا اصلاحی کے استعفیٰ سے پہلے پیدا کیا گیا۔ اسی طرح کا ماحول قاضی حسین احمد نے نعیم صدیقی اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے ان کے احتساب کی کوشش پر بھی پیدا کیا تھا۔ اگرچہ اس طرح کا ماحول پیدا کرنے کا بھی کوئی جواز نہیں ہو سکتامگر ذمہ داران جماعت کے ہاتھوں میں ارکان کے اخراج کا اختیار دے کر ارکان جماعت کے سروں پر ایسی تلوار لٹکا دی گئی ہے کہ اس کی موجودگی میں احتساب ذمہ داران کا کوئی امکان باقی نہیں رہ سکتا۔مولانا ندوی نے اختلاف کی بنیاد پر تادیبی کارروائی کی کھل کر مخالفت کی ہے۔ اس بارے میں ہم ان کا طویل اقتباس اوپر درج کر چکے ہیں۔ ویسے بھی جماعت اسلامی کے ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت کا سٹیٹس حاصل کر لینے کے بعد، جماعت کی رکنیت تو ۱۹۷۳ء کے دستور کی آرٹیکل ۱۷ (۲) کے تحت بنیادی انسانی حق بن جاتا ہے۔ اس حق کی دستور مملکت نے تحفظ کی ضمانت دی ہے۔ اس طرح دستور جماعت میں درج اخراج کا ضابطہ مملکت کے دستور کے منافی محسوس ہوتا ہے۔ دستور کے متعلقہ آرٹیکل کے الفاظ یہ ہیں:
Every citizen, not being in the service of Pakistan shall have the right to form or be a member of a political party
’’ہر شہری جو پاکستان سرکار کی ملازمت میں نہ ہو، سیاسی جماعت کا رکن بننے کاحقدار ہے‘‘ 
دستور کے اس آرٹیکل کے پیش نظر جماعت میں رکن بنانے اور خارج کرنے کے ضابطے کو دستور پاکستان کے مطابق بنانا پڑے گا۔ 
(جاری)

مکاتیب

ادارہ

محترم المقام حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب، رئیس التحریر ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ
السلام علیکم ورحمۃ السلام وبرکاتہ۔ 
مزاج گرامی بخیریت ہوں گے۔ آپ کے رسالہ الشریعہ کا دوسری دفعہ مطالعہ کا موقع ملا، بہت خوشی ہوئی۔ پہلے آپ کا نام جمعیۃ علماء اسلام کے رہنماؤں میں شمار ہوتا تھا، پھر معلوم نہیں کیا وجہ بنی اور آپ کی دوری ہوگئی اور آپ نے کوئی نئی پارٹی بنائی ہے؟ اور کوئی اکیڈمی بھی بنائی ہے اور یہ شمارہ بھی نکال رہے ہیں۔ میں ایک چھوٹا سا طالب علم ہوں، حقائق و واقعات کو جاننے کا شوق ہے۔ اسلام کے نظام کا غلبہ باقی ادیان پر اور نظام اسلام کے نفاذ کے سلسلہ کا ایک ادنیٰ سا سپاہی ہوں۔ اس سلسلہ میں اگر میری جان بھی نذر ہو جائے تو میں تیار ہوں۔ میرے بیوی بچے گھر بار مال و دولت سب اس پر قربان کرنے کو تیار ہوں۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ آمین
میں نے شمارہ ماہ ستمبر ۲۰۱۲ ء کے مطالعہ کے دوران میں مندرجہ ذیل اعتراضات محسوس کیے ہیں اور آپ کی تحریر کے مطابق: ’’اختلاف رائے کے موقع پر اختلاف کا اظہار کرنے کے باوجود عملاً وحدت اور اجتماعیت کو قائم رکھا جائے۔‘‘ (ٹائٹل الشریعہ ستمبر ۲۰۱۲ء)
(۱) کلمہ حق میں آپ نے انسانی حقوق کے زمرے میں کوئی واضح نظریہ پیش نہیں کیا، صرف اقوام متحدہ کی قرارداد اور اس کی آمریت و جابریت پر روشنی ڈالی ہے جبکہ آپ کو انسانی حقوق کے چارٹر کے حوالے سے انسانی حقوق واضح کرنے چاہیں تھے یا پھر عنوان ’’یو این او کی ریشہ دوانیاں‘‘ تحریر کرنا چاہیے تھا۔ عالم اسلام سے مسلمانوں کی حکومتیں مراد ہیں یا کسی ایک نظریہ پر قائم عالم اسلام؟ وہ عالم اسلام جو اکثریت میں امریکہ کا حامی اور اس کی تمام ظالمانہ کارروائیوں میں حصہ دار ہے جو وہ تمام عالم میں کرتا ہے؟ اسی کے کاسہ لیس ہیں اور ان کا آزادانہ کوئی کردار نہ انسانیت کے حوالے سے ہے اور نہ اسلام کے حوالے سے؟ آپ کون سے عالم اسلام کی بات کرتے ہیں؟ جو ظلم سہتے ہیں اور اف تک نہیں کرتے اور اپنے ہی مسلمان بھائیوں کا خون بہانے میں برابر کے شریک ہیں؟ انسانیت ان سے پناہ مانگتی ہے۔ 
(۲) دوسرا مضمون ہے: ’’شام لہو لہان اور عالم اسلام پر بے حسی طاری‘‘ از ڈاکٹر غطریف شہباز ندوی۔ مضمون نگار نے یہ مضمون شام اور لیبیا کے حالات پر تحریر کیا ہے، جبکہ لیبیا پر باغیوں کا حملہ اور پھر کرنل قذافی کی شہادت اور اس کے پس منظر میں ساری امریکی کارروائی کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ باغیوں کی حمایت میں مضمون نگار لکھتا ہے کہ لیبیا میں انقلاب اس طرح نمودار ہوا، عوام نے اقتدار وقت کے خلاف ہتھیار اٹھائے اور محض چند مہینوں میں قذافی کا خاتمہ کر دیا۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مضمون نگار امریکی مفادات اور باغیوں کی زبان بول رہے ہیں۔ اسی طرح بشار الاسد کے خلاف تحریر کیا ہے کہ باغی بشار الاسد کا ساتھ چھوڑ کر انقلابیوں سے مل گئے ہیں۔ میں یہ سوچنے سے قاصر ہوں کہ عوامی حکومتوں کے خلاف بغاوت کرنے اور نظریاتی بنیادوں پر قائم عوامی حکومتوں کی مخالفت کرنے والے باغیوں کو، جن کی حمایت یورپ کر رہا ہے، مضمون نگار کس بنیاد پر انقلابی شمار کر رہے ہیں۔ ان کا نظریہ کیا ہے؟ کیا وہ شام اور لیبیا کے نظریاتی مخالف ہیں یا امریکی ایجنٹی کر رہے ہیں؟ 
یہ اس لیے تحریر کر رہا ہوں کہ کیا آپ کا نظریہ وہی ہے جو مضمون نگار نے اپنے مضمون میں تحریر کیا ہے یا اس کے برعکس جمعیۃ العلماء ہند کے واضح کردہ فلسفہ کے مطابق ہے؟ 
(۳) ’’منفی اقدار کے فروغ میں میڈیا کا کردار‘‘ از محمد رشید اور ’’خاطرات‘‘ از محمد عمار خان ناصر، دونوں اچھے مضامین ہیں۔ اس میں صرف تھوڑی سی وضاحت کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر فرقہ واریت اور علماء کے کردار پر زیادہ روشنی ڈالنی چاہیے تا کہ ملک سے فرقہ واریت کا خاتمہ ہو سکے اور زیادہ زور اقلیت کے حقوق پر دینا چاہیے۔ ایک ملک میں دونوں کو ایک درجہ کی شہریت حاصل ہونی چاہیے۔ یہی نظریہ جمعیۃ الہند کے اکابرین کا تھا، اس پر عمل کریں اور اس نظریہ کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جائے اور میڈیا کے منفی کردار کو زیادہ وضاحت سے تحریر کرنے کی ضرورت ہے۔ معاشرہ میں جو بد امنی پھیلی ہوئی ہے، اس میں خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ حق کو حق کہو اور باطل کو باطل، سچ کو سچ تحریر کرو اور جھوٹ کو جھوٹ، ان کو ایک دوسرے کے ساتھ خلط ملط نہ کرو۔ یہی جہاد ہے، اس پر عمل کریں گے تو کامیابی ہوگی۔ 
(۴) ’’سرمایہ دارانہ انفرادیت کا حال اور مقام‘‘ از جاوید اکبر انصاری / زاہد صدیق مغل۔ انسان کی ترقی کا دارومدار اس کے نظام سے وابستہ ہے۔ مولانا عبید اللہ انورؒ فرماتے تھے کہ ہمارا نظام عبادت بھی نظام حکومت سے وابستہ ہے، اس کی تبدیلی کے بغیر نظام عبادت بھی قائم نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا پہلے اس کی تبدیلی کی کوششیں کی جائیں۔ (مجلس شیرانوالہ گیٹ لاہور) 
مضمون نگار نے غیر جانبدار (لبرل) کی تردید کی ہے کہ انسانی یا مسلمان ہو سکتا ہے یا کافر، غیر جانبدار کیا ہوتا ہے؟ کیا مسلمان انسان نہیں ہے؟ مسلمان کی غیر فرقہ واریت پر مبنی سوچ اور نظریہ کو لبرل، غیر جانبدار کہا جاتا ہے۔ 
مسلمان کی ذاتی اصلاح کی بجائے نظام حکومت کی تبدیلی ضروری ہے۔ مسلمان کی کامیابی بھی جماعت سے وابستہ ہے۔ اہل حق کی جماعت نبی کریمؐ اور صحابہ کرامؓ کے نقش قدم پر چلتی ہے۔ لہٰذا اکابرین دیوبند نے فرد کی بجائے صالح نظام کے قیام پر زور دیا، کیونکہ ذاتی اصلاح سے تبدیلی نہیں آسکتی۔ ہاں، اگر نظام صالح نافذ ہے تو پھر انفرادی اصلاح پر توجہ اور کوششیں کی جائیں گی۔ اس مضمون کے ضمن میں سرمایہ دارانہ نظام کی برائیوں اور فرد پر اس کے اثرات پر بحث کرنی چاہیے تھی۔ 
(۵) مباحثہ و مکالمہ میں میاں انعام الرحمن کی تحریر ’’پاکستان میں نفاذ اسلام کی جدوجہد‘‘ شائع ہوئی ہے۔ اس مضمون کے ضمن میں فاضل مضمون نگار نے بڑی محنت کی ہے۔ دس اوراق پر طویل مضمون اپنی جگہ تعریف کے لائق ہے۔ اس مضمون میں فاضل مضمون نگار نے بڑی اچھی بحث کی ہے۔ پاکستان میں نفاذ اسلام کی کوئی مخلصانہ جدوجہد نہیں کی گئی۔ مختلف عنوانات کے تحت تحریکیں ضرور چلائی گئیں جن کے پیچھے کوئی نہ کوئی ایجنسی ملوث رہی ہے۔ قومی اتحاد، متحدہ محاذ، ایم آر ڈی اور دیگر عوامی و جمہوری تحریکات، اور یہ بھی ثابت ہو گیا کہ سیاست دانوں کو مختلف حیلے بہانوں سے رقوم دی جاتی رہیں۔ سپریم کورٹ میں یہ رٹ چل رہی ہے اور منظر عام پر بہت سی ڈھکی چھپی باتیں ظاہر بھی ہوگئیں۔ 
اس مضمون میں زیادہ زور اسلام کی نئی تعریف، اجتہاد، دیانت داری، حیاء، علماء کرام کے طرز عمل، قانون اسلام، قرآن مجید کی ترتیب نزولی اور ترتیب نزولی کا فہم پر صرف کیا گیا ہے اور بے حیائی، بے ایمانی اور بد دیانتی کو مطمح نظر قرار دے کر مضمون کو ختم کیا گیا ہے۔ آخری فقرہ یہ ہے کہ:
’’اپنی صلاحیتوں کے دیانت دارانہ اظہار سے انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔‘‘
اگر آپ خود اس مضمون کا مطالعہ فرمائیں تو حقیقت کھل کر آپ کے سامنے آجائے گی کہ اس میں صرف چند ان باتوں پر زور دیا گیا ہے جن کا تبدیلی اور انقلاب سے کوئی تعلق نہیں۔ تبدیلی اور انقلاب کے لیے ایک نظریہ (ایمان) کی ضرورت ہے اور اس کے مطابق جماعت تیار کی جائے، اس کی تربیت اس نظریہ پر رکھی جائے اور پھر وہ جماعت لائحہ عمل تیار کرے گی کہ انقلاب کیسے برپا کیا جا سکتا ہے۔ یہ نظریہ امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے بیان کیا ہے جس کے نام پر آپ نے ایک ادارہ بھی قائم کیا ہوا ہے۔ انہوں نے ایک پورا فلسفہ اور پروگرام دیا ہے جو علماء کرام دیوبند طبقہ فکر خوب اچھی طرح جانتے ہیں۔ آپ کو اس کے متعلق بتلانا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہوگا۔ 
ان سطور کے تحریر کرنے کا مقصد صرف تنقید نہیں بلکہ اصلاح احوال اور نظر ثانی مطلوب ہے کہ آپ جیسے جید عالم دین جن کی شہرت آسمان کی بلندیوں کو چھوتی ہے اور جو پاکستان نہیں، بلکہ بیرون پاکستان بھی مشہور و معروف ہیں، آپ کے جریدہ میں جو مضامین شائع ہوں، وہ اس نظریہ و فلسفہ کے مطابق ہوں جس سے واقعی معاشرہ میں تبدیلی پیدا ہو سکتی ہے اور واقعی اس سے دشمن اسلام قوتیں خائف اور پریشان ہوں اور سامراج اس سے خوف کھائے، امریکہ اور اس کے اتحادی اس کے مخالف ہوں اور اس کو ختم کرنے کے درپے ہوں۔ حضرت شیخ الہندؒ جو آپ کے بھی امام ہیں اور تمام اولیاء اللہ برصغیر پاک و ہند کے امام ہیں، ان کے نام سے سامراج کانپتا تھا۔ حضرت مدنی جن کے نام سے اب بھی انگریز ڈرتا ہے۔ حضرت مفتی کفایت اللہ دہلویؒ ، حضرت امام عبید اللہ سندھیؒ ۔ تفصیل کی ضرورت نہیں ہے۔ نبی اکرمؐ نے اخلاق اور مذہب کی تبدیلی کی وجہ غربت اور معاشی استحصال کو فرمایا۔ حضرت حفظ الرحمن سیوہارویؒ اخلاق کی بربادی کا سبب برے اقتصادی حالات کو بتلاتے ہیں۔ حضرت شاہ اسحاق دہلویؒ اخلاق اور جسم کی بربادی کا باعث معاشیات اور اقتصادیات کو قرار دیتے ہیں اور فاضل مضمون نگار، حیا کو زندہ کرنے سے انقلاب سے تعبیر کرتے ہیں۔ آپ خود اس پر غور فرمائیں، ان شاء اللہ امید ہے کہ آپ ان کے نقطہ نظر سے متفق نہ ہوں گے کیونکہ ذاتی اخلاقیات میں سدھار معاشرہ میں انقلاب کا سبب نہیں بن سکتا کیونکہ ان کے بگڑنے اور سدھرنے کا تعلق معاشیات کے ساتھ ہے اور آپ علم معاشیات کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ 
میری اس طویل تحریر کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ اگر آپ کا نظریہ و فلسفہ اکابرین دیوبند کے مطابق ہے تو پھر اسی قسم کے مضامین اپنے رسالہ میں شائع کریں جن سے ان کے افکار و نظریات کی توسیع ہو اور ان کو فروغ حاصل ہو۔ اس قسم کے مضامین جن میں ان کے فلسفہ اور فکر کے برعکس تحریر کیا جا رہا ہو اور اس سے عوام الناس کو کوئی فائدہ نہ ہو اور ان کی کوئی ذہن سازی نہ ہو بلکہ اس سے برعکس ہو تو وہ ہمارے اکابرین کے پروگرام کے خلاف ہوگا۔ آپ اور ہمارے اکابرین ہمیشہ انگریز سامراج کے خلاف جنگیں کرتے رہے، پھانسی کی سزائیں ہوئیں، جلا وطن ہوئے، دربدر کیے گئے، قید کی سزائیں برداشت کی گئیں، جائیدادیں ختم کر دی گئیں، ان کا نام و نشان دنیا سے مٹانے کی ناکام اور ذلیل کوششیں کی گئیں، آپ کے اکابرین کی داڑھیوں پر شرابیں پھینکی گئیں، لیکن انہوں نے سامراج کی مخالفت نہ چھوڑی۔ آج ہم بڑے بڑے علماء کرام بن گئے، بڑی شان و شوکت مل گئی، نام، شہرت، دولت سب مل گیا لیکن افسوس بڑوں کا نام بیچ دیا، اس کو فروخت کر کے ادارے، یونیورسٹیاں اور مدارس ومساجد بنا لیں۔ ان کا نام زندہ نہیں رکھا، ان کے بتلائے ہوئے دشمن کو دوست اور دوست کو دشمن بنا لیا، ان کے پروگرام کو چھوڑ کر اپنا فلسفہ وفکر ایجاد کر لیا۔ آج ہم مودودی اور ڈاکٹر اسرار کی تعریفیں کر رہے ہیں اور ہماری زبان پر اور ہماری تحریر میں کبھی حضرت مدنیؒ ، حضرت شیخ الہندؒ ، حضرت سندھیؒ کا نام نہیں آیا۔ شیخ الہند کانفرنس، اسلام زندہ باد کانفرنس، دیوبندی زندہ باد کانفرنسیں بلاتے ہیں، ان کے نام پر پیسے کماتے ہیں اور ان کا پروگرام پیش نہیں کرتے۔ 
اگر آپ سچے ہیں، حق پرست ہیں اور علم دوست ہیں تو میرا یہ خط اپنے رسالہ میں من و عن شائع کریں اور اس کا جواب بھی ہو سکے تو مجھ جیسے ادنیٰ تاریخ و سیاست کے طالب علم کے نام تحریر کریں، خواہ وہ اپنے جریدہ ہی میں شائع کر دیں اور رسالہ کی کاپی اعزازی میرے پتہ پر ارسال فرما دیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ہمت و توفیق دے، حق پر چلنے اور اس پر استقامت فرمائے۔ آمین ثم آمین۔ 
احقر شکیل احمد ساجد
مکان 2001 / 2002 
کریمی سٹریٹ، بہاولنگر 62300

تین افسانے

محمد بلال

(۱)
گندے نالے میں اپنی پندرہ سالہ بیٹی ثمینہ کی نیم برہنہ لاش دیکھی تو چوکیدار شیر محمد کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ دو دنوں سے لاپتا بیٹی اس حالت میں ملے گی،اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ وہ دوسرے ہی لمحے بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑا۔
جب شیر محمد کو ہوش آیا تو اس کی بیٹی کا پوسٹ مارٹم ہو چکا تھا۔ رپورٹ کے مطابق ثمینہ کے ساتھ ایک سے زائد افراد نے زیادتی کی اور پھر ہاتھ پاؤں باندھ کر، منہ میں کپڑا ٹھونس کر اس کی شہ رگ کاٹ دی تھی۔
شیر محمد کو جب رپورٹ کی تفصیل معلوم ہوئی تو اس کی آنکھوں میں آنسو نہیںآئے بلکہ خون اتر آیا۔ شیر محمد کا جی چاہ رہا تھا کہ وہ مجرموں کو کسی مشین میں ڈال کر ان کا خون نچوڑ دے، لیکن شیر محمد خود کیا کر سکتا تھا۔ وہ مجرموں کو پکڑنے کے لیے پولیس کے سامنے چلایا ۔ کھلی کچہری میں جا کر رویا لیکن کئی مہینے گزر گئے، مجرموں کا کوئی سراغ نہ ملا۔ شیر محمد کا خون کھول کھول کر ٹھنڈا پڑ گیا۔ اس کی بیوی کے آنسو بہہ بہہ کر ختم ہو گئے۔
ایک رات شیر محمد لائبریری کے گیٹ کے پاس کھڑا اپنی ڈیوٹی انجام دے رہا تھا۔ لائبریری کے ہال میں سیمینار ہو رہا تھا۔ موضوع ’’سزائے موت‘‘ تھا۔ رات کی خاموشی کی وجہ سے تقریروں کی آواز شیر محمد کو بھی سنائی دے رہی تھی۔ تقریروں میں باربار مجرموں کا ذکر ہو رہا تھا۔ شیر محمد کا دھیان بار بار ثمینہ کے مجرموں کی طرف جا رہا تھا۔
ایک مقرر بول رہا تھا:
’’موت کی سزا ایک غیر انسانی سزا ہے۔ اس کو فوراً ختم کر دینا چاہیے۔ بہت سے ترقی یافتہ ممالک یہ کام کر چکے ہیں۔ دراصل سزائے موت جمہوری ثقافت کے منافی ہے۔ سزائے موت انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ سب سے بڑی ناانصافی عدالتوں میں ہو رہی ہے۔ مجرم جب کوئی جرم کرتا ہے تو وہ اپنے ہوش و حواس میں نہیں ہوتا، لیکن ایک عدالت اپنے پورے ہوش و حواس میں اسے قتل کراتی ہے۔ یہ بات یاد ر کھنی چاہیے کہ موت زندگی کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہے۔ لیکن ہم لوگوں میں احساسِ زیاں ہے ہی نہیں۔‘‘
شیر محمد کے ذہن میں قصاص کا لفظ آیا۔۔۔ اس کے ساتھ ہی ثمینہ کا خیال ابھرا۔۔۔ اس کے اندر آتش فشاں کا لاوا پکنے لگا۔۔۔ اس کے سر کی نسیں پھٹنے لگیں۔
اُدھر وہ مقرر مسلسل بول رہا تھا:
’’مجرموں سے نفرت نہ کریں۔ ان کے مسائل سمجھیں۔ ان کی اصلاح کریں۔ مجرم بے چارہ کسی ذہنی اذیت یا کرب کا شکار ہوکر جرم کرتا ہے۔ اس لیے مجرم کی نفسیاتی حالت کوسمجھنے کی کوشش کریں۔۔۔‘‘
اِدھر شیر محمد کی آنکھوں کے سامنے کبھی اپنی ثمینہ کی نیم برہنہ لاش آ رہی تھی اور کبھی اس کے مجرموں کے بھیانک سیاہ ہیولے رقص کرتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ شیر محمد کو ایسے محسوس ہوا جیسے وہ مقرر اس کی بیٹی کی لاش کی جانب پشت کر کے اس کے مجرموں کو گلے لگا رہا ہے۔ انھیں پیار کر رہا ہے ۔۔۔ شیر محمد کے جذبات اس کے قابو سے باہر ہو رہے تھے۔
اُدھر مقرر مسلسل مجرموں کی حمایت میں بول رہا تھا۔ اِدھر شیر محمد کے اندر پکتا ہوا لاوا پھٹ پڑا۔ وہ یکایک دانت پیستا ہوا ہال کے اندر داخل ہوا۔ اسٹیج پر چڑھا، اُس مقرر کو اس کی ٹائی سے پکڑ کر فرش پر گرایا اور اس کے پیٹ پر بیٹھ کر اسے بری طرح مارنے لگا۔ لوگوں نے شیر محمد کو پکڑ کر مقرر سے الگ کیا اور اسٹیج سے اتار دیا۔ مقرر جب فرش سے اپنے پھٹے ہوئے کپڑوں کے ساتھ اٹھا تو اس نے شیر محمد کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا اور’’درندے‘‘ کہتا ہوا مارنے کے لیے اس کی طرف بڑھا ،مگر لوگوں نے اسے پکڑ کر بے بس کر دیا۔ اس کے باوجود وہ آگ بگولہ ہو کر اچھل اچھل کر مسلسل چلا رہا تھا:
’’میں اس جانور کو زندہ نہیں چھوڑوں گا۔۔۔ زندہ نہیں چھوڑوں گا۔۔۔ اس کو اتنی جرأت کیسے ہوئی۔۔۔ ایک گارڈ.....ایک شہری کمی کمین.....اورمیں.....چھوڑ دو مجھے۔۔۔ زندہ نہیں چھوڑوں گا اسے۔۔۔۔‘‘

(۲)
’’ان ملکوں کی سرکشی کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے جہاد ۔مسلمانو! اٹھو اور سمندروں میں، فضاؤں میں، زمین کے ہر خطے میں ان پر ٹوٹ پڑو۔ ظلم اس سطح تک پہنچ چکاہے کہ جہاد اب فرض ہو گیا۔ ان کے جدید اسلحے کی قوت سے نہ ڈرو، یہ یاد رکھو کہ:
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی‘‘
شیرعلی کی اس تقریر کے بعد جلسے کی فضا نعر وں سے گونج اٹھی۔لوگوں نے اس کو کندھوں پر اٹھا لیا۔بہت دیر تک زور دار تالیا ں بجنے کا سلسلہ جاری رہا۔
______________
وہ ایک بھیانک چیخ تھی جس نے شیرعلی کو آدھی رات کے وقت بیدار کر دیا۔ وہ ہڑ بڑا کراٹھا۔ سامنے پانچ مسلح ڈاکو کھڑے تھے۔ اس کی اہلیہ مسلسل چیخیں مار رہی تھی۔ تنگ آکر ایک ڈاکو نے اسے بالوں سے پکڑ کرایک طرف گرایا اور پستول اس کی کنپٹی پر رکھ دیا۔ اس کا جوان بیٹا یہ براداشت نہ کر سکا۔ وہ آگے بڑھ کر اس ڈاکو سے الجھنے لگا۔ شیرعلی نے اس کا بازو پکڑ لیا او ر ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے آہستگی سے کہا: ’’پپ پاگل مت بنو۔ ان سے لڑنا خخ خود کشی کرنا ہے۔‘‘
پھر وہ اپنی اہلیہ کی طرف متوجہ ہوا :’’بب بیگم! خاموش ہو جاؤ۔‘‘
اس کے بعد اس نے ڈاکو کی طرف رخ کیا:’’ اسے چھو ڑ دو ۔ تم جو چچ چاہتے ہو، وہ تمھیں مم مل جا ئے گا۔‘‘
ڈاکو نے اس کی اہلیہ کی کنپٹی سے پستول ہٹا لیا۔ شیر علی نے اپنی بیگم اور بیٹے کو سکون سے رہنے کا اشارہ کیا او ر کانپتے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ الماری سے نقدی اور زیورات نکال کر ڈاکوؤں کے حوالے کر دیے۔

(۳)
شادی کے چند دنوں کے بعد جمیلہ میکے آئی تو اس کی بہنوں اور سہیلیوں نے پوچھا: ’’دولہا بھائی کیسے آدمی ہیں ؟‘‘
جمیلہ کے چہرے پر شرم کی لالی ابھری ۔وہ اپنی مسکراہٹ روکتے ہوئے بولی: ’’اچھے ہیں۔‘‘
پھر اس کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ اس کے چہرے کی لالی میں ہلکی سی سیاہی کی آمیزش ہوئی۔ اس نے برا سا منہ بنا کر کہا:
’’لیکن ہر وقت اپنی ماں کے مرید ہی بنے رہتے ہیں۔ ہر کام اس سے پوچھ کر کرتے ہیں۔میں نے کہا: گھر میں گیزر لگوا لیں تو بولے: ماں جی سے بات کروں گا۔ میں نے کہا: کسی پارک میں سیر کرنے چلیں تو بولے: ماں جی سے بات کرتے ہیں، اجازت ملی تو ضرور چلیں گے۔۔۔‘‘
ایک سہیلی بولی: ’’معلوم ہوتا ہے وہ اپنی ماں سے شدید محبت کرتے ہیں۔‘‘
جمیلہ نے اس سہیلی کو ترچھی نظر وں سے دیکھا۔ پھر اس کی ناک سے تیزی سے ’ہوں‘کی آواز نکلی اور اس نے اپنا سر جھٹک کر دوسری طرف کر لیا۔
دو سال کے بعد جمیلہ کے گھر لڑکا پیدا ہوا۔ لڑکا جوان ہو گیا۔ ادھر وقت نے جمیلہ کے خاوند پر کوئی اثر نہ کیا۔ اس کا اپنی ماں کے ساتھ تعلق اسی طرح قائم رہا۔ جمیلہ بھی ویسی کی ویسی ہی رہی۔ جب بھی وہ میکے جاتی یا اس کی کوئی سہیلی اسے ملنے آتی تو وہ اپنے شوہر کے اس کی ماں کے ساتھ تعلق پر ضرور شکایت کرتی۔ اسے سب سے زیادہ اس بات پر شکوہ رہتا تھا کہ وہ اپنی ساری تنخواہ اپنی ماں کے ہاتھ پر کیوں رکھ دیتے ہیں۔
وقت کا پہیا چلتا رہا۔ ایک دن جمیلہ کے لڑکے کی شادی ہو گئی۔ وہ لڑکا بچپن سے اپنی ماں کی شکایت سن رہا تھا۔ وہ بیوی کے حقوق کے معاملے میں بہت حساس ہو چکا تھا۔ چنانچہ وہ اپنی بیوی کا بہت خیال رکھتا تھا۔ وہ اسے بالکل اسی طرح چاہتا تھا جس طرح جمیلہ بیوی کی حیثیت سے چاہتی تھی کہ اسے چاہا جائے۔ ایک دفعہ اس کی بیوی نے اپنے کمرے میں اے سی لگوانے کی بات کی، اس نے اسی وقت ہامی بھر لی۔ وہ کبھی باہر کھانا کھانے کی خواہش ظاہر کرتی تو وہ ہنسی خوشی مان جاتا اور ماں سے اجازت لینے کی ضرورت محسوس نہ کرتا ....... حتی ٰکہ چند ماہ بعد اس نے تنخواہ بھی بیوی کو دینا شروع کر دی۔
وقت کا دریا اسی طرح بہتا رہا۔ ایک دن جمیلہ اپنے گھر کے صحن میں چہرہ لٹکا کر بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کا لڑکا اپنی بیوی کے ساتھ باہر کھانا کھانے گیا ہوا تھا۔ دروازے پر دستک ہوئی۔ معلوم ہوا جمیلہ کی ایک پرانی سہیلی اسے ملنے آئی ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے بڑی گرم جوشی سے ملیں۔ پھرگپ شپ شروع ہوئی۔ باتوں باتوں میں جمیلہ کے لڑکے کا ذکر آگیا۔ جمیلہ غمگین ہو گئی۔ اس کے ماتھے پر بہت سی شکنیں ابھر آئیں۔ وہ برا سا منہ بنا کر بولی:
’’وہ تو ہر وقت اپنی بیوی کا مرید ہی بنا رہتا ہے۔ اس کی ہر خواہش پوری کرتا ہے۔ تنخواہ بھی ساری اس کے ہاتھ پررکھ دیتا ہے۔‘‘
سہیلی نے کہا: ’’معلوم ہوتا ہے وہ اپنی بیوی سے بڑی محبت کرتا ہے۔‘‘
جمیلہ نے سہیلی کو ترچھی نظروں سے دیکھا۔ پھر اس کی ناک سے تیزی سے ’ہوں‘کی آواز نکلی اور اس نے اپنا سر جھٹک کر دوسری طرف کر لیا۔

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے تعلیمی وتربیتی پروگرام (۲۰۱۲ء)

ادارہ

الشریعہ اکادمی ہاشمی کالونی کنگنی والا گوجرانوالہ میں قرآن کریم حفظ و ناظرہ اور درس نظامی اولیٰ اور ثانیہ (مع میٹرک) کے مستقل تعلیمی سلسلوں کے علاوہ سال رواں کے لیے مندرجہ ذیل پروگرام طے کیا گیا ہے:

  • مولانا زاہد الراشدی کاہفتہ وار درس ہر اتوار کو نماز مغرب کے بعد ہوگا۔
  • ماہانہ فکری نشست ہر انگریزی ماہ کی آخری اتوار کو عصر تا مغرب ہوگی۔ اس سال کے لیے فکری نشستوں کا موضوع ’’علماء دیوبند کی دینی و سیاسی خدمات‘‘ طے کیا گیا ہے۔ 
  • شہر کے دینی مدارس کے طلبہ کے لیے ’’انگلش بول چال کورس‘‘ ۱۰ نومبر تا ۱۳ ؍دسمبر ۲۰۱۲ء مرکزی جامع مسجد (شیرانوالہ باغ) میں منعقد کیا جائے گا، جبکہ عربی بول چال کا کورس کا انعقاد دینی مدارس کے سہ ماہی و شش ماہی امتحان کے درمیان کیا جائے گا۔ 
  • ربیع الاول کے دوران میں دینی مدارس کے طلبہ کے درمیان سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر تحریری اور تقریری مقابلوں کا اہتمام کیا جائے گا۔ 
  • اس سال کے دوران میں تین سیمینار منعقد ہوں گے۔ پہلا سیمینار ۱۵؍ اکتوبر بروز پیر بعد نماز مغرب ’’حفظ قرآن کریم کے طلبہ کی تربیت اور ذہن سازی‘‘ کے موضوع پر ہوگا جس میں ممتاز علماء کرام اور حفظ و تجوید کے ماہر اساتذہ اظہار خیال کریں گے۔ دوسرا سیمینار آئندہ ربیع الاول میں تحریری و تقریری مقابلہ کے موقع پر منعقد ہوگا جبکہ تیسرے سیمینار کا انعقاد شعبان المعظم میں سالانہ تقریب کے طور پر کیا جائے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
  • اس کے علاوہ وقتاً فوقتاً علمی و فکری شخصیات کو مختلف حوالوں سے اظہار خیال کی دعوت دی جائے گی جس کا اعلان موقع پر کر دیا جائے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

نومبر ۲۰۱۲ء

عمل تدریس میں استاد کا کردارمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
اے عاشقانِ رسول، تم پر سلام !مولانا عتیق الرحمن سنبھلی
احترام انسانیت اور امت مسلمہ کے لیے راہ عملغلام حیدر
سیدہ عائشہؓ سے نکاح کے لیے خولہ بنت حکیمؓ کی تجویزمحمد عمار خان ناصر
جماعت اسلامی کا داخلی نظم سید وصی مظہر ندویؒ کی نظر میں (۲)چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ
اسلام کی نئی تعریف؟محمد دین جوہر
مولانا سعید احمد رائے پوریؒ / مولانا مفتی محمد اویسؒمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
برطانیہ میں طب اسلامی کا تذکرہحکیم محمد عمران مغل
ملالہ یوسف زئی پر حملہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی

عمل تدریس میں استاد کا کردار

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد ایک آزاد، غیر سیاسی، علمی و تحقیقی ادارہ ہے جو ملکی، بین الاقوامی اور اسلامی دنیا سے متعلق پالیسیوں پر تحقیق اور مکالمے کا اہتمام کرتا ہے۔ ۲۸ ستمبر ۲۰۱۱ء کو آئی پی ایس میں ’’عمل تدریس میں استاد کا کردار‘‘ کے موضوع پر ایک علمی مجلس کا انعقاد کیا گیا جس میں مولانا مفتی غلام الرحمن، مولانا زاہدالراشدی اور مولانا مفتی محمد زاہد نے اس موضوع پر گفتگو کی۔ مولانا راشدی کی گفتگو کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ادارہ)

سب سے پہلے تو آئی پی ایس کا شکریہ ادا کروں گا کہ آج کی اس تقریب میں حاضری کا اور کچھ سننے سنانے کا موقع فراہم کیا۔ اللہ تعالیٰ ہماری حاضری قبول فرمائے، مقصد کی باتیں کہنے اور سننے کی توفیق عطا فرمائے، دین اور حق کی جو بات سمجھ میں آئے اللہ تعالیٰ اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔ اس کے بعد آئی پی ایس کو دو باتوں پر مبارک باد پیش کرنا چاہوں گا۔ ایک تو کام کے تسلسل پر جو ہمارے ہاں عام طور پر نہیں ہوتا، بالخصوص فکری کاموں میں۔ ہمارا جو دائرہ ہے، اس میں فکر سازی اور ذہن سازی کے کام کی حیثیت ثانوی بھی نہیں بلکہ ثالثی درجے میں کہیں ہوتی ہے۔ حالانکہ جو کام فکری ادارے یا تھنک ٹینکس کرتے ہیں، یہ بنیادی کام ہے اور اسی پر قوموں کے مستقبل کے پروگرام استوار ہوتے ہیں۔ یہ تسلسل قابل مبارک باد ہے۔ یہ ایک عرصہ سے لگے ہوئے ہیں اور آگے بڑھ رہے ہیں اور مجھے بھی ایک عرصہ سے ان کے ہاں حاضری کا موقع ملتا رہتا ہے۔ دوسرا اِس نئی جگہ پر آنے کی مبارک باد دینا چاہوں گا، اللہ تعالیٰ نے ایک اچھی اور کشادہ جگہ عطا فرمائی ہے جہاں کام زیادہ وسعت اور زیادہ تنوع کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ 
مجھ سے کہا یہ گیا ہے کہ اپنے تدریسی تجربات، مشاہدات اور تاثرات پیش کروں۔ پہلے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ مجھے بھی ایک چھوٹا سا مدرس ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور میرا تدریسی تجربہ تقریباً ۴۵ سال پر محیط ہے، الحمد للہ۔ چوں کہ میں نے ایک تدریسی گھرانے میں ہوش سنبھالا تھا، اس لیے معلمی میرے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی۔ تحدیث نعمت کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ میں نے جس گھرانے میں ہو ش سنبھالا، میری والدہ صاحبہ خود استانی اور معلمہ تھیں۔ قرآن کریم پڑھاتی تھیں، ترجمہ، حفظ، تفسیر اور اس زمانے میں بہشتی زیور بھی پڑھاتی تھیں اور یہ بھی تحدیث نعمت کے طور پر عرض کروں گا کہ سابق صدر جناب رفیق تارڑ صاحب میری والدہ اور والد محترمؒ کے شاگرد ہیں۔ تدریسی ماحول مجھے گھر سے، ماں کی گود سے ملا ہے۔ والد محترم حضرت مولانا سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہی کیا! وہ تو برصغیر کی سطح کے بڑے مدرسین میں سے ہیں۔ ان کا اپنا تدریسی دورانیہ کوئی ساٹھ سال سے زائد رہا ہے، انھوں نے ساٹھ سال دینی علوم کی تدریس کی ہے۔ میرے لیے مشکل بات اس لیے نہیں تھی کہ ماحول ہی وہ تھا، تربیت ہی وہ تھی، ذوق ہی وہ تھا، ہر وقت اردگرد پڑھنے پڑھانے والوں کا ہجوم رہتا تھا۔ 
میں نے تدریسی زندگی کا آغاز طالب علمی کے زمانے ہی میں کر دیا تھا، شاید موقوف علیہ سے بھی پہلے۔ اس زمانے میں درجات کی تقسیم یہ ثالثہ، رابعہ وغیرہ کے عنوان سے نہیں ہوتی تھی۔ موقوف علیہ ہوتا تھا، کافیہ کا سال ہوتا تھا، جامی کا سال ہوتا تھا، اس حوالے سے ہم متعارف ہوتے تھے۔ شاید موقوف علیہ سے بھی پہلے کا سال تھا کہ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے دو تین طلبہ نے مجھ سے کہا کہ آپ ہمیں ’’مالا بدمنہ‘‘ پڑھائیں۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے، پڑھا دوں گا۔ تو سب سے پہلی کتاب جو میں نے پڑھائی، وہ ہے ’’مالا بد منہ‘‘۔ تین طلبہ تھے اور اسے ہم نے باقاعدہ کلاس کی صورت میں چلایا۔ یہ میری تدریسی زندگی کا آغاز تھا۔ میری تدریسی زندگی ۱۹۷۰ء میں باقاعدہ شروع ہوئی ہے۔ ۱۹۷۰ء سے ۱۹۹۰ء تک بیس سال میں نے مدرسہ انوار العلوم گوجرانوالہ میں پڑھایا جو کہ مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کے ساتھ گوجرانوالہ کا سب سے قدیمی مدرسہ ہے۔ یہ ۱۹۲۶ء میں قائم ہوا تھا اور میرے والد محترم اور چچا محترم حضرت صوفی صاحب دونوں نے بنیادی تعلیم وہیں حاصل کی۔ یہاں بیس سال مجھے تدریس کا موقع ملا، لیکن وہ تدریس ایسی تھی کہ میں ایک طرف تو جمعیۃ علماء اسلام کے سرگرم ترین حضرات میں سے تھا، میری صبح کہیں ہوتی تھی، دوپہر کہیں، شام کہیں اور رات کہیں ہوتی تھی۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ سب سے زیادہ متحرک تھا، لیکن متحرک ترین لوگوں میں سے تھا، الحمد للہ۔ ملک کے بیشتر حصوں میں میرا آنا جانا ہوتا تھا۔ جماعتی سرگرمیاں، سیاسی، تنظیمی سرگرمیاں، معرکہ آرائی، تحریکیں، گرفتاریاں سب کچھ ساتھ ساتھ چلتا تھا۔ تحریکی اور سیاسی سرگرمیوں کے لحاظ سے یہ میرا کلائمیکس کا دور تھا، یعنی ۱۹۷۰ء سے ۱۹۹۰ء تک۔ 
اس حوالے سے میں دو تین باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؓ میرے والد بھی تھے، شیخ بھی تھے، استاد بھی تھے، مربی بھی تھے، سب کچھ وہی تھے۔ ان کے ساتھ حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ میرے چچا تھے، استاد تھے، مربی تھے۔ اس دور میں اتنی متنوع اور وسیع سیاسی سرگرمیاں ہوتی تھیں۔ میرا ذوق شروع ہی سے یہ ہے کہ میں تقریباً تمام مکاتب فکر سے رابطہ رکھتا تھا اور رابطہ رکھتا ہوں، اس درجے کا کہ اگر کبھی ضرورت پڑے تو ہم اکٹھے چل سکیں۔ یہ رابطہ میرا طالب علمی کے زمانے میں تھا کہ کسی دینی تحریک میں ہمیں اکٹھا چلنا پڑے تو حجاب نہ ہو کہ وہ کون ہے ، میں کون ہوں۔ اسے آپ میرا ذوق کہہ لیجیے، چالیس پینتالیس سال سے یہ میرا معمول ہے۔ 

نوجوانوں کی سرپرستی اور رہنمائی

مجھے یہ خدشہ ہوتا تھا کہ میرے والد محترم جس ماحول کے بزرگ ہیں، شاید میری یہ وسیع سرگرمیاں ان کے لیے قابل قبول نہ ہوں۔ لیکن انہوں نے جماعتی، اتحادی، تحریکی یا سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے کبھی کچھ نہیں کہا۔ ہاں، البتہ دو باتوں کی مجھ پر ہمیشہ پابندی رکھی اور ان باتوں پر وہ ڈانٹتے بھی تھے۔ ایک انہیں اس بات کی فکر ہوتی تھی کہ اس نے قرآن کریم حفظ کیا ہوا ہے، رمضان میں سنا رہا ہے یا نہیں سنا رہا؟ ماہ رجب میں ہی مجھ سے پوچھنا شروع کر دیتے تھے کہ کہاں سنا رہے ہو، کیا تیاری کر رہے ہو، کتنی منزل پڑھتے ہو؟ رمضان میں بلا کر پوچھتے تھے کہ کتنے پارے ہوگئے، کتنی غلطیاں روز آتی ہیں، سناتے کس کو ہو، دور کس سے کرتے ہو؟ دوسرا ان کا اصرار ہوتا تھا کہ تم جو مرضی کرو، لیکن دو چار کتابیں لازمی پڑھانی ہیں۔ سچی بات ہے کہ پہلے دس سال میں نے مجبوری سے پڑھایا۔ ڈر ہوتا تھا کہ والد صاحب ڈانٹیں گے، پوچھیں گے ۔رمضان کے بعد شوال میں ہی بلا لیا کرتے تھے اور پوچھتے تھے کیا پڑھا رہے ہو، کتنے سبق ہیں، کیا مطالعہ کرتے ہو؟ وہ تو پرانے مدرس تھے، اس لیے سبق کے بارے میں پوچھتے تھے کہ فلاں جگہ کیسے حل کی تھی، فلاں موقع طلبہ کو کیسے سمجھایا تھا؟ الحمد للہ مجھے یہ نگرانی حاصل رہی ہے۔ 

ذوق پیدا کرنا

پہلے دس سال تک میں تقریباً یہ سمجھتا رہا کہ میں مجبوراً پڑھا رہا ہوں، لیکن آہستہ آہستہ ذوق بنتا گیا اور الحمد للہ آج یہ ذوق ہے کہ اگر دو چار سبق نہ پڑھاؤں تو دن گزرتا نہیں ہے۔ یہ ان کی مہربانی تھی۔ پہلے پہلے غصہ آتا تھا کہ میں سیاسی لیڈر ہوں، اخبارات میں میرے مضامین چھپتے ہیں اور میرے بیانات آتے ہیں، جبکہ والد صاحب مجھ پر سختی کرتے ہیں کہ تم نے اصول الشاشی ضرور پڑھانی ہے، نور الانوار ضرور پڑھانی ہے اور ہدایہ ضرور پڑھانی ہے۔ میں اپنے مدرس دوستوں سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ والد صاحب کا جبر کہہ لیجیے یا کچھ اور کہ آہستہ آہستہ اپنا ذوق بن گیا کہ میں نے ایک عرصہ اس طرح گزارا کہ دوسری سرگرمیوں کے باوجود تدریس ضرور کی۔ البتہ میں نے ایک سہولت یہ لے رکھی تھی کہ سبق اپنی مرضی کے لیتا تھا، تین یا چار، اور اپنی مرضی کے وقت پر پڑھاتا تھا۔ اپنی سرگرمیوں کے ساتھ مجھے اسباق کو ایڈجسٹ کرنا ہوتا تھا۔ بیس سال تک میرا یہ معمول رہا ہے کہ جامع مسجد میں فجر کی نماز پڑھاتا تھا (اب بھی پڑھاتا ہوں، درس دیتا ہوں) اور پھر مصلے پر تین چار سبق پڑھاتا تھا اور نماز کے ڈیڑھ گھنٹے دو گھنٹے کے بعد فارغ ہو جاتا تھا۔ پھر میں آزاد ہوتا تھا کہ کبھی مردان جا رہا ہوں تو کبھی پشاور۔ کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ ساری رات سفر کر کے سحری کے وقت واپس آتا تھا، نماز سے ایک گھنٹہ پہلے مطالعہ کرتا تھا، نماز کے بعد پڑھاتا تھا۔ پھر اگر سونا ہے تو سو گیا، ورنہ بس پر جا کر سوار ہوگیا اور وہیں سو گیا۔ یہ میرا تقریباً بیس سال تک معمول رہا، اس زمانے میں میری نیند اکثر بس میں ہی پوری ہوتی تھی۔
یہاں ایک لطیفے کی بات یاد آگئی۔ ایک دن حضرت والد صاحب پوچھتے ہیں کہ خدا کے بندے! تم سوتے کہاں ہو؟ آج اخبار میں پڑھتے ہیں کہ کوئٹہ بیٹھا ہوا ہے، کل پڑھتے ہیں کراچی میں ہے، پرسوں پشاور میں ہے، ترسوں میر پور میں ہے، اور سبق بھی پڑھاتے ہو، آخر سوتے کدھر ہو؟ میں نے کہا جی بس سو جاتا ہوں۔ اس زمانے میں میری حالت یہ تھی کہ تین چار گھنٹے بس میں سونا میرے لیے کوئی مشکل بات نہیں تھی، اب بس میں نیند نہیں آتی۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ والد صاحب کے ساتھ گوجرانوالہ سے ایک بارات پر جانا پڑ گیا۔ والد صاحب کے بہت قریبی تعلق والے دوست تھے اور انہوں نے مجبور کیا کہ آپ بیٹے کی بارات پر چلیں۔ چنیوٹ سے آگے لالیاں جانا تھا۔ بڑی ویگن تھی۔ ویگن میں باپ بیٹا دونوں کو ایک ساتھ سیٹ مل گئی۔ میں جب گوجرانوالہ سے نکلا تو مجھے اتنا یاد ہے کہ قلعہ دیدار سنگھ شاید گزرا تھا، اس کے بعد مجھے کچھ یاد نہیں کہاں کہاں سے گزرے۔ تقریباً تین گھنٹے کے بعد جب چنیوٹ پہنچے تو ظہر کی نماز کا وقت تھا۔ والد صاحب نے مجھے کندھے سے پکڑ کر کہا کہ ’’اٹھو! نماز پڑھو۔ مجھے پتہ چل گیا ہے کہ کہاں سوتے ہو۔‘‘ تو بیس سال میرا یہ معمول تھا اور میرا اختیار ہوتا تھا کہ میں اپنی مرضی کے اسباق لوں گا اور دوسرا یہ کہ وقت میری مرضی کا ہوگا کہ کچھ بھی ہو، صبح کی نماز کے بعد ڈیڑھ دو گھنٹے میں، میں نے سبق پڑھا کر فارغ ہو جانا ہے، اور الحمد للہ میں نے اس کو نبھایا ہے۔ 
میرا زیادہ تر تدریسی ذوق تھا فقہ، اصول فقہ ، صرف اور ادب کا۔ میرے زیادہ تر اسباق جن کتابوں میں سے ہوتے تھے، ان میں نور الانوار، اصول الشاشی، حسامی، ہدایہ ، کنز اور صرف کی کتابیں شامل تھیں اور (عربی ادب کی کتاب) حماسہ تو میری پکی کتاب تھی۔ الحمد للہ آج بھی میرا ذوق یہ ہے کہ والد صاحب کی تربیت اور سختی کی وجہ سے میری دیگر سرگرمیوں کے باوجود پچھلے پورے سال میں میری صرف تین چھٹیاں تھیں، حالانکہ اٹھارہ چھٹیوں کی مدرسے کی طرف سے اجازت ہے۔ مدرسے کے قواعد و ضوابط میں ہے کہ اٹھارہ اتفاقی چھٹیاں استاد کا بنیادی حق ہے۔ پچھلے سال میں نے صرف تین استعمال کیں اور اس سال اللہ کرے وہ بھی نہ ہوں۔ تو والد صاحب کا سبق یہ ہوتا تھا کہ بھئی، ناغہ نہیں کرنا۔ وہ تو چھٹی کو گناہِ کبیرہ سے بھی آگے کی کوئی شے سمجھتے تھے۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ والد صاحب کی چھٹی ہو۔ سوائے سخت بیماری کے کوئی چھٹی نہیں ہوتی تھی۔ ایک تو میں نے مشاہدات اور تجربات میں حضرت والد صاحب سے سیکھا اور پھر اپنا ذوق بن گیا ہے کہ چھٹی نہ ہو، تن آسانی نہ ہو۔ یہ میری کوشش ہوتی ہے اور میں الحمد للہ کامیاب بھی ہوتا ہوں اس کوشش میں۔ میرا خیال ہے کہ کوشش اور ارادہ ہو تو ہر کام ہو جاتا ہے، جب ارادہ ڈھیلا پڑ جائے تو پھر کچھ بھی نہیں ہوتا۔ 
یہ تھا میرا تدریسی زندگی کا بیس سال کا معمول۔ پھر اس کے بعد کچھ مسائل اس نوعیت کے پیدا ہوگئے کہ تدریسی عمل میں ۱۹۹۰ء سے ۱۹۹۸ء تک آٹھ سال کا ناغہ پڑ گیا۔ پھر ۱۹۹۸ء میں حضرت صوفی صاحبؒ (چچا محترم) نے فرمایا کہ مدرسہ نصرۃ العلوم میں ایک دو سبق پڑھا دیا کرو تو میں نے وہاں موطا امام مالک اور سنن نسائی پڑھانا شروع کی۔ اس طرح ۱۴ سال مجھے نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں دورۂ حدیث کے اسباق پڑھاتے ہوئے ہوگئے ہیں۔ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی معذوری کے بعد سے ترجمہ قرآن کریم، بخاری شریف، طحاوی شریف اور حجۃ اللہ البالغہ کے اسباق میرے پاس ہوتے تھے۔ 

سبق کے لیے خصوصی تیاری

اس دوران جو باتیں میں نے محسوس کی ہیں، وہ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ والد محترم کو میں نے دیکھا کہ انہوں نے بخاری شریف میرے خیال سے چالیس بار سے زیادہ مرتبہ پڑھائی ہوگی، لیکن اس کے باوجود آخری دور میں بھی ان کو دیکھا ہے کہ رات کو مطالعہ ضرور کرتے تھے۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم دو چار مرتبہ پڑھا کر ایک کتاب سے مطمئن ہو جاتے ہیں کہ یار پڑھائی ہوئی ہے، کوئی مسئلہ نہیں، پڑھا لیں گے۔ صبح دیکھی جائے گی، کیا ہوتا ہے۔ لیکن والد محترم مطالعہ لازمی کیا کرتے تھے۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ قرآن کریم کا ترجمہ اور بخاری شریف کا حاشیہ دیکھ رہے ہیں ۔میں نے کہا کہ آپ کو مطالعے کی کیا ضرورت ہے؟ کہنے لگے کہ میں اپنا تجربہ بتاتا ہوں کہ جتنی دفعہ دیکھا ہے، کوئی نیا نکتہ سامنے آیا ہے، کوئی نہ کوئی نئی بات ذہن میں آئی ہے۔ الحمد للہ میرا ذوق بھی یہی ہے کہ حتی الوسع ان روایات کو نبھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں عرض کر رہا تھا کہ ایک تو وہ سبق کے ناغے کو گناہ سمجھتے تھے، دوسری بات مطالعے کے بغیر سبق پڑھانے کو بھی وہ تقریباً گناہ ہی سمجھتے تھے۔ اس معاملہ میں جتنا اہتمام میں نے ان کا دیکھا ہے، حیران کن ہے۔ 
تیسری بات جو ہم نے ان میں دیکھی، وہ ہے وقت کی پابندی۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ چھ بجے کے بجائے چھ بج کر ایک منٹ پر آئیں۔ پانچ بج کر انسٹھ منٹ ہو سکتے ہیں لیکن، چھ بج کر ایک منٹ نہیں ہو سکتا۔ بارہا میں نے تجربہ کیا ہے۔ ہمارے علاقے میں دو آدمیوں کے بارے میں یہ محاورہ مشہور تھا کہ ان کو دیکھ کر لوگ گھڑیاں درست کرتے ہیں۔ ایک مولانا ظفر علی خانؒ جو کہ وزیر آباد کے تھے، ان کی وقت کی پابندی ضرب المثل تھی۔ لوگ کہتے تھے کہ مولانا ظفر علی خان کی سرگرمیاں دیکھ کر ہم گھڑی درست کرتے ہیں اور کہتے تھے کہ گھڑی غلط ہو سکتی ہے لیکن ظفر علی خان غلط نہیں ہو سکتے۔ اور دوسرے ہیں والد مرحوم۔ جو وقت کہا ہے، اسی وقت پر پہنچنا ہے۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ خود وقت سے آگے پیچھے ہو جائیں یا کسی اور کو ہونے دیں۔ 

امانت اور دیانت کی مثال

میں ان کے تجربات اور اپنے مشاہدات و تاثرات عرض کر رہا ہوں۔ والد صاحب کا ایک معمول اور بھی تھا جو میں اپنے اساتذہ بھائیوں سے ذکر کرنا چاہوں گا۔ پرانے بزرگوں کی جو بات ہم نے دیکھی کہ کبھی ایسا نہیں ہوتا تھا کہ مدرسے کی کوئی چیز مدرسے کے کام کے علاوہ کہیں اور استعمال ہو سکے۔ تقریباً ربع صدی تک ان کا معمول رہا ہے کہ گکھڑ سے گوجرانوالہ ٹرین یا بس پر آتے تھے۔ ایک میل چلنا، پھر گاڑی میں بیٹھنا، پھر گاڑی سے اتر کر آگے ایک میل پیدل چلنا، تقریباً تیس سال یہ معمول رہا۔ آخری عمر میں مدرسہ والوں نے فیصلہ کیا کہ گاڑی لے لیتے ہیں جو گھر سے لے آیا کرے اور شام کو گھر چھوڑ آیا کرے۔ گکھڑ سے گوجرانوالہ جاتے وقت گاڑی میں جگہ ہوتی تو ہم بھی ساتھ بیٹھ جاتے تھے۔ گاڑی جی ٹی روڈ پر گوندلانوالہ چوک سے گھنٹہ گھر کی طرف مڑ جاتی تھی، جبکہ میرا جی ٹی روڈ پر اس سے اگلا سٹاپ شیرانوالہ باغ ہوتا تھا، چنانچہ وہ مجھے چوک پر ہی اتار دیتے کہ یہاں اتر جاؤ۔ یہ آپ کے ابا کی نہیں، مدرسے کی گاڑی ہے۔ اہلیہ اور بچے ساتھ ہوتے، تب بھی اتار دیتے تھے کہ یہاں سے رکشے میں بیٹھ کر جائیں۔ 

تدریس میں سادگی اور ترتیب

ایک بات اور میں نے دیکھی والد صاحب کے طریق تدریس میں۔ والد صاحب سے زیادہ فقہی مباحث کون کرتا ہوگا، اعتقادی مباحث، فقہی مباحث اور شوافع، مالکیہ، حنابلہ اور حنفیہ کی اختلافی بحثیں ان سے زیادہ کون کرتا ہوگا، لیکن ایسا وہ صرف ایک کتاب میں کرتے تھے۔ ساری بحثیں صرف ترمذی میں کرتے اور بخاری شریف اتنی سادہ پڑھاتے تھے کہ آپ اس سے زیادہ سادگی کا تصور نہیں کر سکتے۔ ترجمۃ الباب، ایک آدھ مسئلہ اور اگر کوئی متعلقہ بات ہو تو کہہ دیتے تھے، ورنہ آگے بڑھ جاتے اور کہتے تھے کہ حدیث کو حدیث کے طور پر پڑھو، بطور خاص بخاری شریف کو، مباحث کسی اور کتاب میں کر لیں۔ 
ان کا ایک دورانیہ طے ہوتا تھا، پورے سال کا ایک توازن ہوتا تھا، ایک ترتیب اور متعین مقدار کے حساب سے چلتے تھے۔ اور الحمد للہ میرا ذوق بھی کچھ تھوڑا بہت یہی ہے۔ میں تو ویسے بھی جھگڑے والا (یعنی فقہی اختلافی مسائل میں پڑنے والا) آدمی نہیں ہوں، تطبیق و توفیق کی دنیا کا آدمی ہوں، لیکن پھر بھی اختلافی بحثیں ضرورت کے مطابق کرتا ہوں۔ چونکہ بخاری شریف اور طحاوی دونوں میرے پاس ہوتی ہیں، اس لیے جب سال کے شروع میں اسباق کا آغاز ہوتا ہے تو میں طلبہ سے ایک بات کہہ دیا کرتا ہوں کہ جھگڑے سارے طحاوی میں کریں گے اور تسلی سے کریں گے۔ بخاری میں میری جانب سے آپ کو صرف تین باتیں ملیں گی: نفس حدیث، ترجمۃ الباب سے تعلق اور آج کا کوئی مسئلہ اس سے متعلق ہے تو وہ۔ بس اس سے زیادہ آپ کو بخاری میں کچھ نہیں ملے گا۔ یہ بات میں پہلے دن سے ہی بتا دیتا ہوں کہ میری کوشش یہ ہوگی کہ آپ نفس حدیث سمجھ جائیں اور حالات حاضرہ پر اس کی تطبیق سمجھ لیں۔ 

وقت کی منصوبہ بندی

ہمارے ہاں ہوتا یہ ہے کہ ابتدا میں تو سارا وقت لگ جاتا ہے چند ابواب پر، پھر باقی کتاب سے ایسے گزرتے ہیں جیسے گزر ہی گئے ہیں۔ طلبہ کو اکثر ابواب کا نفس مضمون بھی سمجھ میں نہیں آتا اور اب اکثر جگہوں پر یہ عادت سی بن گئی ہے۔ ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ پہلی سہ ماہی تک استاد بھی سمجھتا ہے اور شاگرد بھی، دوسری سہ ماہی میں استاد سمجھتا ہے لیکن شاگرد نہیں سمجھتا، اور ششماہی کے بعد نہ استاد سمجھتا ہے اور نہ شاگرد۔ یعنی نہ استاد کو پتہ ہوتا کہ میں کیا پڑھا رہا ہوں اور نہ شاگرد کو پتہ ہوتا ہے کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں۔ والد صاحب اس پر ناراض ہوتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ غیر ضروری بحث میں نہ پڑیں، نصاب کی کتاب پوری پڑھائیں اور اچھے طریقے سے پڑھائیں۔ بحثیں دوسری کتابوں میں کر لیں، یہاں نفس حدیث پڑھا دیں اور اگر کوئی متعلقہ بات ہے تو وہ کر دیں۔ 

دین کا جامع تصور

ایک طالب علمانہ بات میں کہنا چاہوں گا کہ بخاری شریف کا جو مکمل نام ہے یعنی ’’الجامع الصحیح المسند المختصر من امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و سننہ وایامہ‘‘ اس نام کے پہلے لفظ یعنی ’’الجامع‘‘ کا ترجمہ جو ہمارے متقدمین کرتے آئے ہیں، وہ درست ہے کہ یہ تمام علوم کی جامع کتاب ہے۔ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے یہی لکھا ہے، لیکن ایک طالب علمانہ ترجمہ میں بھی کیا کرتا ہوں۔ الجامع کا ترجمہ آج کے حوالے سے یہ ہے کہ ہمارا دعویٰ ہے کہ اسلام جامع مذہب ہے، مکمل نظام حیات اور دستوری زندگی ہے، زندگی کے تمام انفرادی و اجتماعی شعبوں میں رہنمائی کرتا ہے۔ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ ان کو آنکھوں سے دیکھنا ہو تو بخاری شریف کی فہرست پڑھ لیں۔ ایک نظر ڈالنے سے اسلام کی جامعیت آپ کے سامنے آجائے گی۔ ایک دفعہ نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ زندگی کا کون سا مسئلہ ایسا ہے جسے ٹچ نہیں کیا گیا، جس کے بارے میں حدیث یا قرآنی آیت نہ دی ہو۔ معاشرے کی عملی زندگی سے تعلق رکھنے والا کون سا مسئلہ ہے جو اس میں نہیں ہے۔ میں اس ’’الجامع‘‘ کا یہ ترجمہ کیا کرتا ہوں کہ اسلام کی جامعیت کا اظہار بخاری شریف میں ہے۔ طلبہ کو بخاری اس انداز سے پڑھانی چاہیے کہ طلبہ کے سامنے کم از کم اسلام کے اجتماعی نظام کا ایک تصور اور خاکہ آجائے اور انہیں معلوم ہو جائے کہ اسلام میں کیا کچھ ہے۔ معاملات اور زندگی کے متعلقہ شعبوں کے ابواب تو ہمارے سامنے سے ایسے ہی گزر جاتے ہیں، حالانکہ میری طالب علمانہ رائے کے مطابق آج کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ہم قرآن کریم اور احادیث نبویہؐ کو آج کے عالمی تناظر اور عالمی ماحول میں ایک سسٹم اور نظام زندگی کے طور پر طلبہ کو پڑھائیں تا کہ آنے والا دور جو کہ فکری لحاظ سے پریشان کن ہے، اس دور میں ہمارے طلبہ اسلام کی صحیح نمائندگی کر سکیں۔ 

لوگوں کی ذہنی سطح کے مطابق گفتگو

ایک اور تجربہ آپ کے سامنے لانا چاہتا ہوں جس کے لیے ایک واقعہ عرض کروں گا جس میں سوچنے کا پہلو ہے۔ ہمارے زمانے میں تحریری امتحان نہیں ہوا کرتا تھا، زبانی امتحان ہوتا تھا۔ ۱۹۷۰ء میں ہمارا بخاری شریف کا امتحان ہو رہا تھا۔ ہمارے ایک بزرگ ہوتے تھے حضرت مولانا بشیر احمد پسروریؒ ، بڑے عالم دین تھے، وہ امتحان لینے آئے۔ چودہ طلبہ کی کلاس تھی۔ ان کی ایک بات بہت پسند آئی۔ ہمیں بٹھایا اور کہا کہ فلاں صفحہ کھولیں اور یہ عبارت پڑھیں۔ بلوچستان کے مولانا شمس الدین شہید آپ کے ذہن میں ہوں گے ، وہ میرے دورے کے ساتھی تھے۔ انہوں نے ایک حدیث کی عبارت پڑھی۔ پھر مولانا پسروریؒ نے مجھ سے کہا کہ میں تم سے اس کے مباحث نہیں پوچھوں گا کہ اس میں مسئلہ کیا بیان ہوا ہے اور یہ کہ شوافع و حنابلہ اس مسئلہ پر کیا رائے رکھتے ہیں، اس لیے کہ یہ سب تم نے رٹا ہوا ہے۔ میرا سوال تم سے یہ ہے کہ یہ حدیث آپ کو پنجاب کے دور دراز گاؤں میں اَن پڑھ لوگوں کے سامنے بیان کرنی ہے، کیسے کرو گے، ان کو یہ حدیث کیسے سمجھاؤ گے؟ طلبہ میں مجھ سے سینئر لوگ موجود تھے، لیکن وہاں میرا داؤ لگ گیا۔ میں نے کہا، حضرت میں یہ کروں گا۔ پھر میں نے ٹھیٹھ پنجابی میں اس حدیث پر سات منٹ تقریر کی اور اعلیٰ نمبروں کا مستحق ٹھہرا، حالانکہ کلاس میں مجھ سے زیادہ لائق حضرات موجود تھے۔ 
یعنی یہ بھی ضروریات میں سے ہے کہ دیہاتی اور اَن پڑھ لوگوں کے سامنے ان کے لہجے اور ضرورت کے مطابق قرآن و حدیث پہنچانے کا فن آتا ہو، کیونکہ درس گاہ میں کیے جانے والے مباحث میں اور عوام کے سامنے قرآن و حدیث پیش کرنے میں بہت فرق ہے۔ اس پر بھی مجھے ایک لطیفہ کی بات یاد آگئی۔ میرے بزرگ پھوپھی زاد بھائی تھے،فوت ہوگئے ہیں، اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے، آمین۔ میں چھوٹا طالب علم تھا، وہ ذرا سینئر تھے۔ وہ کہیں جمعہ پڑھایا کرتے تھے۔ ایک دن وہ مجھے ساتھ لے گئے اور جمعہ پڑھانے کے بعد مجھ سے کہتے ہیں کہ میں نے کیسی تقریر کی ہے؟ میں نے کہا، بیڑا غرق کر دیا ہے۔ کہتے ہیں میں ساری رات تقریر رٹتا رہا ہوں اور تم یہ کہہ رہے ہو؟ میں نے کہا کہ آپ نے یہ کیا ہے کہ کل مولانا قاضی محمد اسلمؒ سے ملّا حسن کا جو سبق پڑھا تھا، وہ آج جمعہ کے خطبہ میں دہرا دیا ہے کہ یہ لا بشرط شئی ہے اور یہ بشرط شئی ہے، بشرط لا شئی ہے۔ یہ قضیہ شرطیہ ہے، اور یہ قضیہ سالبہ ہے۔ ان غریبوں کو کیا پتہ کہ قضیہ شرطیہ کیا ہوتا ہے اور بشرط شئی کیا ہوتا ہے؟ 
ہماری ذمہ داری ہے کہ طلبہ میں یہ ذوق پیدا کریں کہ وہ عام لوگوں سے بھی بات کر سکیں۔ اس کو فریکوینسی سیٹ کرنا کہتے ہیں۔ ہماری آپس کی فریکوینسی تو سیٹ ہوتی ہے، لیکن پبلک کے ساتھ ہماری فریکونسی سیٹ نہیں ہوتی۔ میں اپنا چالیس پینتالیس سال کا تجربہ آپ سے ذکر کرتا ہوں کہ ہم عام لوگوں کے ذہن کے مطابق بات نہیں کرتے جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ یعنی نمازیوں کے ساتھ، متعلقین کے ساتھ جو مسائل پیدا ہوتے ہیں، ان میں سے پچانوے فیصد ایسے ہیں جو فریکوینسی سیٹ نہ ہونے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ ہم کسی اور لہجے میں بات کر رہے ہوتے ہیں اور وہ کسی اور لہجے میں کر رہا ہوتا ہے، جبکہ بات دونوں ٹھیک کر رہے ہوتے ہیں، لیکن ہم باہمی اتفاق نہیں کر پاتے۔ میں عرض کرتا ہوں کہ یہ بھی استاد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شاگردوں اور تلامذہ میں اس بات کا ذوق پیدا کریں کہ وہ عام آدمی سے ان کے لہجے میں بات کر سکیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے الفوز الکبیر میں یہ بحث کی ہے کہ عام انسان سے بات کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے عام انداز استعمال کیا ہے اور عام آدمی کی نفسیات کے مطابق بات کی ہے۔ مکھیوں، مچھروں اور مکڑی کی مثالوں سے بات کی ہے، یعنی عام آدمی کی ذہنی سطح کا لحاظ کر کے بات کی ہے۔ ہمیں بھی عام آدمی کے لیول پر آنا سیکھنا چاہیے اور اپنے شاگردوں کو سکھانا چاہیے۔ آج کے حالات میں یہ بہت زیادہ ضروری ہے، آج کی صورتحال کیا ہے، میں بطور ایک امام اور مدرس کے بات کر رہا ہوں کہ اس بات کی تبدیلی ہمیں محسوس کرنی چاہیے جو ہم نہیں کر رہے۔ 

حالات زمانہ سے آگاہی

آج سے پچاس سال پہلے لوگوں کے لیے دین کی معلومات کا ذریعہ صرف ہم ہوتے تھے۔ جو معلومات ہم نے دے دیں اور جو فیصلہ ہم نے کر دیا، وہی اس فرد کی معلومات اور فیصلہ ہے۔ اب عام آدمی کے پاس ہمارے علاوہ بھی معلومات حاصل کرنے کے ذرائع موجود ہیں۔ غلط ہیں یا صحیح، میں اس بحث میں نہیں پڑتا۔ جو نوجوان رات کو انٹرنیٹ پر بیٹھتا ہے، وہ صرف ہم پر انحصار نہیں کرتا کہ مولوی صاحب نے کیا بتایا ہے، بلکہ وہ تلاش کرتا ہے کہ متعلقہ آیتیں اور حدیثیں کون کون سی ہیں۔ آج اور آج سے چالیس پچاس سال پہلے کے عام آدمی میں جو فرق ہے، اسے نظر انداز نہ کیجیے۔ پہلے عام آدمی کے پاس دین کی معلومات کے لیے واحد ذریعہ ہم تھے، اب صورت حال یہ ہے کہ اس کے پاس ہمارے علاوہ بھی معلومات حاصل کرنے کے ذرائع موجود ہیں، اخبارات ہیں، میگزین ہیں، ٹی وی چینل ہیں، انٹرنیٹ ہے۔ تو جب وہ ہم سے بات کرتا ہے تو وہ صرف ہماری معلومات پر بنیاد رکھ کر بات نہیں کرتا بلکہ وسیع معلومات کی بنیاد پر سوال کرتا ہے، اس لیے جب ہم اسے محدود دائرے میں رہ کر جواب دیتے ہیں تو اسے وہ جواب مطمئن نہیں کر پاتا۔ 
یہ تبدیلی ہمیں محسوس کرنی چاہیے۔ رات کو اس نے چینل دیکھا، پروگرام میں کسی دانش ور نے کوئی بات کر دی تو اس نے آکر مجھ سے پوچھنا ہے کہ مولوی صاحب، فلاں نے یہ بات کہی تھی۔ اس پر میرا رویہ یہ ہوتا ہے کہ یا تو میں ڈانٹ دیتا ہوں کہ فضول پروگرام مت دیکھا کرو۔ اب وہ میرے کہنے سے تو باز نہیں آئے گا، دوسری رات وہ دو پروگرام مزید دیکھے گا اور پھر مجھ سے کوئی مسئلہ پوچھنے آجائے گا۔ اب جبکہ میرے پاس اس حوالے سے معلومات مکمل نہیں تو میں یہ کہنا توہین سمجھتا ہوں کہ بیٹا، کل میں تیاری کر کے بتاؤں گا۔ میں اسے ادھورا سا جواب دوں گا اور ساتھ ڈانٹ دوں گا، بہر صورت وہ کنفیوژ ہوگا۔ اس کا نتیجہ جو نکلے گا، وہ میرے نزدیک آج کے دور کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور وہ یہ کہ مولوی کا علمی مقام اور اس کی دینی ثقاہت سوسائٹی میں مجروح ہوگی اور ہو رہی ہے ۔ لوگ یہ کہتے ہیں کہ مولوی صاحب کو تو دین کا کچھ پتہ نہیں ہے اور یہی حال عام معلومات کا ہے۔ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بطور خطیب یا مدرس ہمیں اپنا جنرل نالج اور عمومی مطالعہ اس قدر بڑھانا ہوگا کہ ہم تمام متعلقہ معلومات کا احاطہ کر کے بات کو صحیح تناظر میں پہچان سکیں۔ ہمیں اس قابل ہونا چاہیے کہ کلاس میں طلبہ کو بتا سکیں کہ یہ صورت حال آج یوں ہے، کل یوں تھی، حالات میں یا مسئلہ میں یہ تبدیلی واقع ہوئی ہے تاکہ انہیں یہ معلوم کرنے کے لیے کسی اور کے پاس نہ جانا پڑے۔ طالب علم کو وہ بتائیں جو اس کی ضرورت ہے، لیکن خود اپنے مطالعے میں وسعت اور تنوع پیدا کرنا ہماری ذمہ داری ہے، ورنہ ہم نہ طالب علم کو مطمئن کر پائیں گے اور نہ بطور خطیب اپنے سننے والے کو۔ اور اگر ہم مطمئن نہ کر پائے تو ہماری ثقاہت مجروح ہوگی اور اگر یہ مجروح ہوگی تو دین کو نقصان ہوگا۔ 

نئی نسل کی تیاری

اور آخر میں ایک بات کہہ کر اپنی بات ختم کروں گا۔ میں جب اپنی برادری (اساتذہ) سے بات کرتا ہوں تو دیوان حماسہ کا ایک شعر ضرور سنایا کرتا ہوں۔ دیوان حماسہ میں ایک شاعر کا ذکر ہے کہ وہ جوان ہوا، قبیلے والوں نے کھلایا پلایا، لیکن لڑنا نہیں سکھایا۔ دشمن داری تھی، لڑائی ہوئی تو مار کھائی ۔ اس پر اب وہ قبیلے والوں کو کوس رہا ہے۔ کہتا ہے ؂
فھلا أعدونی لمثلی تفاقدوا
إذ الخصم أبزی مائل الرأس أنکب
وھلا أعدونی لمثلی تفاقدوا
وفی الأرض مبثوث شجاع وعقرب
اپنے قبیلے کو کوس رہا ہے کہ جب ان کو پتہ تھا کہ میری دشمن داری بڑے متکبر آدمی سے ہے تو انہوں نے مجھے تربیت کیوں نہیں دی؟ جب انہیں پتہ تھا کہ زمین پر بچھو اور سانپ بکھرے پڑے ہیں تو مجھے بتایا کیوں نہیں، ان سے بچنے کا طریقہ کیوں نہیں سکھایا؟ اس میں اساتذہ کے لیے پیغام ہے کہ آج دنیا میں نظریاتی، ثقافتی، علمی اور فکری لحاظ سے شکوک و شبہات کا جو جنگل آباد ہے اور فکری انتشار، تہذیبی خلفشار اور ثقافتی یلغار کا جو دائرہ پھیل رہا ہے، اس سے اپنے طالب علم کو آگاہ کرنا، اس کو مستقبل کے خطرات سے نمٹنے کے لیے تیار کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اگر میں بحیثیت استاد آج کے علمی ماحول اور اس کے خطرات کو محسوس نہیں کروں گا اور اپنے طلبہ کو مدرسہ سے باہر جانے کے بعد جو صورت حال پیش آئے گی، اس سے آگاہ نہیں کروں گا تو وہ پھر میرے بارے میں یہی شعر دہرائے گا اور اسی لہجے میں مجھے کوسے گا۔ 
بس یہی میرا پیغام ہے اپنے لیے بھی، آپ کے لیے بھی۔ دنیا کے حالات کو محسوس کریں، علمی، فکری، ایمانی اور تہذیبی دنیا میں مستقبل کے خطرات کو محسوس کریں اور اپنے طلبہ کو اپنے نصاب کے دائرے میں ان سے آگاہ کریں۔ استاد سب کچھ کر لیتا ہے، استاد کے لیے کتاب نہیں بلکہ اس کا ذوق اہم ہے۔ کوئی بھی کتاب ہو، استاد کا فہم اصل اہمیت رکھتا ہے۔ اس بات کو سامنے رکھیں کہ آج ہماری ذمہ داری کیا ہے اور ہمارے زیر تعلیم جو پود ہے، اس کو مستقبل میں کیا صورت حال پیش آنے والی ہے، اس کے لیے میں نے انہیں کیسے تیار کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذمہ داریاں صحیح طور پر ادا کرنے کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔

اے عاشقانِ رسول، تم پر سلام !

مولانا عتیق الرحمن سنبھلی

لیکن یہ عشق اپنے خاص آداب رکھتا ہے ؂
عشق ہے پیارے کھیل نہیں ہے
عشق ہے کارِ شیشہ وآہن
مؤمن آزاد نہیں ،کہ جو جی میں سمائے اس پر عمل پیرا ہو جائے۔ اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر معاملہ میں اُسوۂ و طرزِ عمل چھوڑا ہے۔ اہانت کے معاملے بھی پے بہ پے آپ کی زندگی آئے۔ مکی زندگی ہی میں نہیں ،مدنی زندگی میں بھی، اور آپ ؐکے اور آپ کے اصحابؓ کے لیے بنیادی طور پر یہ ہدایتِ ربانی رہنما رہی:
’’تم بالضرور آزمائے جاؤگے اپنے مالوں اور اپنی جانوں میں، اور کتنی ہی دل آزار باتیں بھی تمہیں سننی پڑیں گی اہلِ کتاب اور مشرکین سے ، اور اس کے مقابلہ میں اگر تم نے صبر اور تقوے کی روش سے کام لیا تو یہ یقیناًعزم و ہمت کی بات ہے۔‘‘ (سورہ اٰلِ عمران ۳؍۱۸۶) 
امکان ہو تو بدلہ لینے اور سزا دینے کا جواز اس آیت سے بھی نکل رہا ہے۔ لیکن ترجیح اسی کو مل رہی ہے کہ نظر اندازکیا جائے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوۂ مبارکہ اسی کے مطابق رہا۔ اور یہ اس لیے کہ آپ کے لائے ہوئے دین کی مصلحت وہاںیہی تھی۔اوراس مصلحت سے بڑھ کر کو کوئی چیز ظاہر ہے کہ آپ کو عزیز نہیں ہو سکتی تھی۔اس معاملہ میں مصلحت بینی کی حد یہ ہے کہ سردارِ منافقین عبداللہ بن اُبیّ جس کی شرارتوں اور سازشوں سے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو شاید ہی مدنی زندگی کے کسی دن میں چین رہا ہو ،مگر اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت آپ اس کے ساتھ حسنِ سلوک میں دیکھتے تھے تو اپنی ذاتِ پاک کے احساس سے بلند و بالاتر ہونے کا حال یہ رہا کہ اس کی موت پر آپ نے قمیصِ مبارک اس کے کفن کے لیے دی، اس کے منہ میں اپنا لعابِ دہن برائے برکت ٹپکایا اور نمازِ جنازہ ،جو دعائے مغفرت کے ہم معنیٰ ہے ، اس کے باوجود پڑھائی کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا ارشاد نازل ہو چکا تھا کہ ’’ ان منافقین کے لیے تم اے نبی مغفرت مانگو یا نہ مانگو، اگر تم ستر(۷۰)بار بھی ان کے لیے مغفرت مانگو بھی تب اللہ انھیں ہرگز نہ بخشے گا ۔‘‘(التّوبہ ۹؍۸۰) حضرت عمرؓ نے، جو شدت کے مزاج میں معروف تھے، قرآن کی آیت آپؐ کو یاد بھی دلائی، تو فرمادیا کہ مجھے اللہ نے منع نہیں کیا ہے مجھ پر چھوڑ دیا ہے کہ کروں یا نہ کروں۔ اوراگر مجھے یقین ہوتا کہ ستر دفعہ سے زیادہ میں مغفرت ہو جائے گی تب میں زیادہ بھی کرتا۔ (گویا جانتے تھے کہ مغفرت نہیں ہونی )یہ ہے اس ذاتِ گرامی کا اسوۂ مبارکہ جس کے عشق کی بات یہاں گفتگو میں ہے۔اس شخص نے کئی بار واجب القتل ہونے کے کام کیے، بعض مرتبہ تو لوگوں کو یقین ہوگیا کہ قتل کا حکم صادر ہوگا۔لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام اور امتِ مسلمہ کی مصلحت اسی میں دیکھی کہ درگذر سے کام لیا جائے۔کیا شان اس پیغمبرِ اعظم کی رفعت و عظمت کی ہے۔ اللّٰھُم صلِّ و سلِّمْ علیٰ عبدکِ و نبِیِّکَ صلوٰۃً وّسلامًا دائمینِ متلازمَینِ الیٰ یومِ الدین۔
پس جب رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اسوۂ حسنہ ہمارے سامنے ہے تو دشمنانِ انسانیت کی طرف سے جب بھی آپ کی اہانت کی کوئی صورت رونما ہو، جیسا کہ ادھر چند سال سے فرزندانِ مغرب نے اس ملعون عمل کا بیڑا اُٹھا رکھا ہے، تو ہمارا غم و غصہ تو ایمان کی علامت ہے ۔لیکن ردِ عمل میں ہمیں اسلام اور ملتِ اسلام کی مصلحت دیکھنی ہے اگر ہم مؤمن اور واقعی ’’عاشقِ رسول‘‘ ہیں۔نہیں تو ہم صرف اپنے نفس کو تسکین دینے والے ہوں گے، اورنامِ عشق کو رسوا کرنے والے۔ 
ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے ایک نوجوان نے ڈنمارک میں حبِّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے اپنی جان کو کھلے خطرہ میں ڈال کر وہاں کے ایک ملعون فلم ڈائریکٹر ؐکا کام تمام کردیا۔ لیکن اس کا بھی کوئی اثر شیطان کے لشکر پر نہیں ہوا ہے، چہ جائیکہ ہمارے محض مظاہرے اور نعرے۔ آئے دن کسی مغربی ملک میں ایک ملعون اُٹھ رہا ہے اور اپنے سے پہلے والے سے بڑھ کر خباثت کی داد اپنے ہم وطنوں سے چاہ رہا ہے۔تو کیا اپنے ردِ عمل کی یہ بے اثری دیکھتے ہوئے بھی یہ بجا ہوگا کہ اپنے غم و غصہ کے اظہار کے لیے یہ بے اثر طریقے مسلسل آزما تے رہنے کو ہم تقاضائے عشقِ رسول سمجھتے رہیں؟یہ تو ملتِ اسلام کی بے بسی کا اظہار اور شیاطین کی ہمت افزائی ہے کہ وہ کچھ بھی کریں یہ چاردانگِ عالم میں پھیلی ہوئی امت اپنا سینہ پیٹ کر رہ جانے سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتی۔
آخر ہمیں کیوں کر اپنی اس شرمناک کمزوری کا رہ رہ کر اظہار کرناپسند ہے؟ کہیں ہم اپنے اس احتجاجی عمل کو اس کے مؤثر ہونے نہ ہونے سے قطعِ نظر بجائے خود ایک کارِثواب تو نہیں سمجھ رہے ہیں ؟ خدا نخواستہ اگرایسا ہے، تو پھرہم نے نہ حضور سید الرُسل کے مرتبہ و منزلت کو سمجھا اور نہ آپ کی غلامی میں پوشیدہ عزت کو جانا۔ ہم آپ کے نام پربے بسی کا اظہار کرتے مظاہروں اور جلوسوں کو کارِ ثواب سمجھ رہے ہیں! تفو برتو اے چرخِ گرداں تفو! 
تو پھر ہم کیا کریں؟ یہ ایک مشکل سوال ہے،راقم اپنی سمجھ کے مطابق جواب عرض کرتا ہے جو ایک تجربہ کا نتیجہ ہے ،دوسرے حضرات بھی غور کریں۔ بر طانیہ میں کم لوگ ہوں گے جنھیں رشدی کی کتاب کے خلاف ’’اسلامک ڈیفنس کونسل‘‘ کی سرگرم جد و جہد یاد نہ ہو ۔ راقم نے بھی اس کونسل کے کنوینر کی حیثیت سے اس سلسلہ میں اپنی پوری استطاعت بھر حصہ لینے کو عزت و سعادت سمجھا۔ کونسل نے اپنی جدو جہد کے سلسہ میں کتاب کے پبلیشر پینگوئن کے آفس کو نشانہ بنا کر ایک عوامی مارچ بھی طے کیا تھا ۔۲۸؍جنوری ۱۹۸۹ءء کایہ مارچ، جس میں پورے ملک سے ۲۰۔۲۵ہزار فرزندانِ اسلام نے آپ سے آپ شرکت کی، اس کی شکل اپنے روایتی احتجاج کی بے ثمری کو یاد کرتے ہوئے نیز مغرب کی ایک نئی دنیا کاخیال کرکے اپنے برّصغیر کے روایتی مظاہروں سے بالکل مختلف تجویز کی گئی تھی ۔ اس میں نعرہ زنی اور اظہارِ غیظ و غضب کے بجائے پلے کارڈز کے ذریعہ اپنی جذباتی تکلیف کا اظہار کر کے گویا برطانوی پبلک سے ہمنوائی کی اخلاقی اپیل تھی۔خیال تھا کہ شاید کچھ شریف روحیں ہماری ہم نوائی کو سامنے آئیں اور کتاب کے ناشر اور حکومت پر کچھ دباؤ پڑ سکے۔
ہمارے اس طرزِ احتجاج کی تحسین تو بیشک ہوئی ،(خاص کر اس لیے کہ دوہفتے پہلے انگلینڈ کے ایک شہر میں اس کے بالکل برعکس کتاب سوزی کی صورت میں احتجاج کا آتشیں واقعہ ہو چکا تھا) لیکن جو مقصود تھا وہ حاصل نہیں ہوا۔ بات وہیں کی وہیں رہی۔اور پھر دوہفتہ بعد آیت اللہ خمینی صاحب نے جو مصنف اور ناشرین کے قتل کا فتویٰ صادر کیا تو وہی حکومت جو انسانیت اور تہذیب و اخلاق کے ناتے ہماری اخلاقی اپیل سے کوئی اثر لینے کو تیار نہ ہوئی وہ رشدی کے تحفظ میں ایسی سرگرم ہوئی جیسے اس ملعون تصنیف میں وہ اس کا ایجنٹ ہو۔ا س تجربہ کے بعد سے ذہن بن گیا کہ یہ مغربی دنیا بالکل الگ ذہن و مزاج کی حامل ہے۔ اسے تو ہم بس کبھی طاقت نصیب ہو تب ہی اپنے احساسات کا احساس کراسکتے ہیں۔چنانچہ اس ایک واقعہ کے بعد اب امریکہ ،اسامہ اور طالبان کے قضئے سے تواس شرارت کی لائن ہی لگ گئی ہے۔ اور ہر شرارت پہلی والی کو پیچھے چھوڑ ے جارہی ہے۔ چنانچہ یہ تازہ فلم والی خباثت ،جیسا کہ لوگ بتاتے ہیں ،خباثت کی ساری ہی حدوں کو پار کرگئی ہے۔اور کہیں کی بھی حکومت ہماری شکایت اور آہ و فغاں پر نوٹس لینے کو تیار نہیں ہے ۔مسلم حکومتوں کے اتحاد(او۔آئی۔سی) کی جانب سے۱۹۹۹ء سے اقوامِ متحدہ میں کوشش ہورہی ہے کہ ’’آزادئ اظہار‘‘ کے اس ننگِ انسانیت مغربی کلچر کو کچھ حدود و قیود کا پابند کیا جائے۔لیکن مغربی حکومتیں کسی طرح اس کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دے رہیں(اس المیہ کا بڑا تفصیلی بیان ۲۵؍ ستمبر کے ’’دی نیوز‘‘ میں سابق پاکستانی سفیر محترمہ ملیحہ لودھی کے قلم سے نکلا ہوا موجود ہے)۔
یہ بالکل ایک صاف پاگل پن کیا مغرب میں حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے لائے ہوئے دین سے نفرت پیدا کرنے کے لائحۂ عمل کے طور پر اختیار کیاگیاہے؟ جی نہیں۔ اس کام کے لیے پاگل پن کی ضرورت نہیں تھی نہ وہ مفیدہے۔ یہ ’’پاگل پن‘‘ اگر کوئی مقصد رکھتا ہے ۔اور یقینًا رکھتا ہے۔تو وہ عالمِ اسلام میں نشأۃِ ثانیہ کے اٹھتے ہوئے آثار سے خوف زدہ ہوکر اس کا راستہ روکنا ہے۔اس کا آغاز امریکہ نے 9/11 کے حوالہ سے ’’دہشت پسندی کے خلاف جنگ‘‘ (War on Terrerism) کا نام دے کر کیا ، جسے بارہواں سال چل رہا ہے،اور جس کے ذریعہ وہ تمام قوتیں جنگی اسلحہ سے تباہ کردینے کی مہم جاری ہے جنھیں امریکہ اس نشأتی لہر کا بازوئے شمشیر زن سمجھ رہاہے۔پھر اس آغاز کے چند سال بعد یہ اشتعال انگیز فلموں اور کارٹونوں کا سلسلہ اسی مہم کا دوسرا پارٹ ہے جس نے مسلم دنیا میں اشتعال انگیزی کا ایک مستقل سلسلہ قائم کردیا ہے ۔ ایک حرکت پر بات ٹھنڈی پڑتی ہے تو دووسری برآمد ۔ جس کے نتیجہ میں ہمارے یہاں وہ تک ہو رہا ہے جو جمعۃ المبارک ۲۰ ؍ستمبر کو پاکستان کے شہروں میں بصد رنج و قلق دیکھا گیا۔یعنی ایک طرف اپنے ہاتھوں سے ملک کو ملینوں بلینوں کا نقصان ، دوسری طرف اپنی پولیس کے ہاتھوں اپنی ہی بیسیوں لاشیں گرنا۔اورپھر حکومت اور عوام کے درمیان جو دوری و بے اعتمادی ہمارے یہاں یونہی عام ہے، اس میں مزید تناؤ کا اضافہ ۔ ایسے حالات میں نشأۃِ ثانیہ کا کہاں گذر؟ مزید ایک نتیجہ اس اشتعال انگیزی کا یہ ہے کہ نوجوانوں میں مغرب ،بالخصوص امریکہ ،کے خلاف جو کچھ بھی ممکن ہو کر گزرنے کا جذبہ بالکل قدرتی طور سے پیدا ہو تا ہے۔ اور امریکہ کی نظر میں گویا نئے ’’دہشت گرد‘‘ پیدا ہوتے ہیں جن کا تعاقب اس کی ذمہ داری۔
کیا اس صورتِ حال کا تقاضہ یہ نہیں کہ ہم شدید جذباتی اذیّت کے باوجود مغرب کی ان اشتعال انگیزیوں کانوٹس لینا اسی طرح بند کردیں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمومی اُسوۂ مبارکہ میں ہم دیکھتے ہیں؟جب ہم ان شیاطین کا کچھ کر نہ سکیں توکیا اسلام اور ملت کے نقطۂ نظر سے یہ بات زیادہ آبرومندانہ نہیں ہے کہ سورۂ اٰلِ عمران کی اوپر گزری آیت( ’’اور بالضرور تمہاری آزمائش اپنے مالوں اور جانوں میں ہونی ہے اور ضرور ایسا ہو گا کہ تم کو اہلِ کتاب اور مشرکین سے بڑی اذیَّتیں پہنچیں۔اور اس کا مقابلہ تم نے ا گر صبر اور تقوے کی روش سے کیا تو یقیناًیہ عزم و ہمت کی بات ہوگی۔‘‘ ) پر عمل کیا جائے؟ اورغور کیجیے تویہ قرآنی ہدایت دراصل ایسے ہی حالات کے لیے ہے جن سے ہم گزر رہے ہیں۔ یہی واحد صور ت ان حالات میں ہے کہ اس شیطانی سلسلہ کا تار ٹوٹے۔مغربی حکومتوں سے اس با ت کی توقع کہ وہ آپ کے درد کو سمجھیں، بدقماشوں کو لگام دینے کے لیے کسی عالمی قانون کی منظوری پر راضی ہوں، جس کے لیے او۔آئی ۔سی کی طرف سے کوششیں ہیں،اس توقع کی کیا گنجائش اس صورتِ حال میں ہے کہ یہ حکومتیں تو پاکستان کے قانونِ تحفظِ حرمتِ رسولؐ کے پیچھے پڑی ہوئی ہیں۔ جو لوگ آپ کے اپنے ملکوں میں بھی آپ کے حُرُمات و مقدّسات کی بے حرمتی کی آزادی کے لیے بضد ہیں، کیا ان سے یہ توقع بجا ہے کہ وہ اپنے یہاں تحفظ نافذکریں گے؟
اس دن کے لیے انتظار اس دن کا کیجیے جب ہم آپ اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسولِ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضیات پر ڈھال کر اسلام کا گزراہوا دور واپس دیکھنے کے لائق ہو جائیں ۔اور وہ دور عشقِ رسول کے جھنڈے اُٹھانے اور حتجاج کرنے سے نہیں ،اللہ و رسول ؐ کی مرضیات کے آگے بصد شوق سر جھکانے سے آئے گا۔ جو بلاشبہ اس وقت ہمارا حال نہیں ہے۔اِلّا یہ کہ ہم جانتے نہ ہوں یا اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہوں۔۔۔اور اگر اس بات کی شرح درکار ہو توایک پیرِ دانا کی حکایت سن لیجیے:
گذشتہ صدی کے ہمارے نا مور علماء میں سے مولانا سید مناظر احسن گیلانی (م۔۱۹۷۵ء) جن کو علم کے ساتھ اللہ نے عشقِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کی دولت سے بھی خوب خوب نوازا تھا، دارالعلوم دیوبند میں اپنی طالبعلمی کے احوال لکھتے ہوئے اپنے استاذ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ (م ۱۹۲۰ء) کے درس کا ایک واقعہ سناتے ہیں:
’’بخار ی شر یف کا سبق ہو رہا تھا۔ مشہور حدیث گذری کہ تم میں سے کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک اس کے مال، بال بچے اور سارے انسانوں سے زیادہ میں اس کے لیے محبوب نہ ہو جاؤں۔ فقیر نے عرض کیا کہ’’ بحمد اللہ عام مسلمان بھی سرکارِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق محبت کی اس دولت سے سرفراز ہیں، جس کی دلیل یہ ہے کہ ماں باپ کی توہین کوتو ایک حد تک مسلمان برداشت کر لیتا ہے۔۔۔۔۔لیکن رسالتمأب صلی اللہ علیہ وسلم کی ہلکی سی سبکی بھی مسلمانوں کو اس حد تک مشتعل کردیتی ہے کہ ہوش حواس کھو بیٹھتے ہیں آئے دن کا مشاہدہ ہے کہ جان پر لوگ کھیل گئے ہیں۔‘‘ یہ سن کر حضرت نے فرمایا:ہوتا بے شک یہی ہے جو تم نے کہا۔ لیکن کیوں ہوتا ہے؟ تہ تک تمھاری نظر نہیں پہونچی، محبت کا اقتضا ء یہ ہے کہ محبوب کی مرضی کے آگے ہر چیز قربان کی جائے ،لیکن عام مسلمانوں کا جو برتاؤ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضئ مبارک کے ساتھ ہے وہ بھی ہمارے تمھارے سامنے ہے۔پیغمبرؐ نے ہم سے کیا چاہا تھا اور ہم کیا کر رہے ہیں، اس سے کون ناواقف ہے،پھر سبکی آپ کی جو مسلمانوں کے لیے ناقابلِ برداشت بن جاتی ہے اس کی وجہ محبت تو نہیں ہو سکتی۔ ‘‘ 
خاکسار نے عرض کیا کہ تو آپ ہی فرمائیں، اس کی صحیح وجہ کیا ہے؟نفسیاتِ انسانی کے اس مبصرِ حاذق نے فرمایاکہ’’ سوچوگے تو درحقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سبکی میں اپنی سبکی کا غیر شعوری احساس پوشیدہ ہو تا ہے۔ مسلمانوں کی خودی اور انا مجروح ہوتی ہے۔ہم جسے اپنا پیغمبر اور رسول مانتے ہیں تم اس کی اہانت نہیں کر سکتے۔چوٹ درحقیقت اپنی اسی ’’انانیت‘‘ پر پڑتی ہے لیکن مغالطہ ہو تا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نے ان کو انتقام پر آمادہ کیا ہے۔ نفس کا یہ دھوکہ ہے۔۔۔۔۔۔محبوب کی مرضی کی جسے پرواہ نہ ہو،اذان ہورہی ہے اور لایعنی اور لاحاصل گپوں سے بھی جو اپنے آپ کو جدا کرکے مؤذن کی پکار پر نہیں دوڑتا،اسے انصاف سے کام لینا چاہئے کہ محبت کا دعویٰ اس کے منہ پہ کس حد تک پھبتا ہے۔ ‘‘ (احاطۂ دارالعلوم میں بیتے ہوئے دن ، صفحہ۱۵۳۔۱۵۴)
اللٰھُمّ اِھْدِنَا الصِّراطَ المستقیم صراطَ الَّذینَ اَنْعَمتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضّالین۔ اٰمین۔

احترام انسانیت اور امت مسلمہ کے لیے راہ عمل

غلام حیدر

اس کرہ ارض پر بسنے والے سات ارب سے زائد انسانوں(۱)میں مسلمانوں کی تعداد دو ارب سے متجاوز ہے۔ (۲) اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود مسلمان معتوب ہیں۔ اور دنیا کی امامت و قیادت سے بیدخل کردئیے گئے ہیں۔ اس کی وجوہات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کو اللہ رب العزت نے یہ منصب عطا کیا ہے کہ وہ پوری انسانیت کی رہنمائی کریں اور لوگوں کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر روشنی دکھائیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: 
کُنتُمْ خَیْْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّٰہِ (۳)
"تم ایک بہترین امت ہو تمہیں لوگوں کے لیے نکالا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو"
آج صورتحال یہ ہے کہ مسلمان خود جہالت کے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں اور روشنی ہے کہ دور دور تک نظر نہیں آرہی ۔ 
سب سے پہلے اسلام کی اصل تعلیمات کو سمجھ کر ان پر عمل کرنا ہوگا اور پھر انسانیت کو ان تعلیمات کی برکات سے آگاہ کرنا ہوگا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
"انما مثلي و مثل امتي کمثل رجل استو قد نارا فجعلت الدواب والفراش یقعن فیھا وانا آخذ بحجزکم وانتم تقحمون فیھا" (۴)
’’میری اور میری امت کی حالت اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ جلائی ہو اور مختلف جانور اور پروانے اس میں گرنے کے لیے دوڑتے چلے آرہے ہوں۔ میں تمہیں تمہاری کمروں سے پکڑ رہا ہوں اور تم اس میں گرنے پر اصرار کررہے ہو۔‘‘
جو لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی اس تمثیل کو ذہن میں رکھتے ہوں اور یہ جانتے ہوں کہ وہ آگ بھڑک رہی ہے جس میں دنیا کی قومیں سر کے بل گر رہی ہیں کہ جن کو کمر سے پکڑ پکڑ کر بچانا ہماری ذمہ داری ہے، وہ آخر اس جذبے سے کیسے خالی ہو سکتے ہیں کہ جہاں تک ممکن ہو ہمیں لوگوں کو اس آگ میں گرنے سے بچانا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس امت کو اخرجت للناس کہا ہے یعنی اسے لوگوں کے لیے نکالا گیا ہے۔ 
آج کی دنیا اسلام اور مسلمانو ں کے بارے میں غلط فہمیوں اور شکوک و شبھات کا شکار ہے۔ یہ غلط فہمیاں اور شکوک و شبہات ختم کرنے یا کم کرنے میں مسلمان ناکام ہو ئے ہیں جس کی وجہ سے سات ارب سے زائد انسان دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں۔ احترام انسانیت دور حاضر کا نہ صرف ایک اہم مسئلہ ہے بلکہ ایک چیلنج بن گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تکریم انسانیت کے بارے میں اسلام کی تعلیمات کو سمجھا جائے تاکہ دنیا امن و سکون کا گہوارہ بن سکے۔ 
اسلام امن و سلامتی کا دین ہے اور دوسروں کو بھی امن و عافیت کے ساتھ رہنے کی تلقین کرتا ہے ۔ اسلام کے دین امن و سلامتی ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بھیجے ہوئے دین کے لیے نام ہی "اسلام"پسند کیا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلاَمَ دِیْناً (۵) 
’’اور تمہارے لیے اسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظام حیات کی حیثیت سے) پسند کرلیا۔‘‘
لفظ اسلام سَلَمَ یا سَلِمَ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی امن و سلامتی اور خیر و عافیت کے ہیں ۔ اسلام اپنے لغوی معنی کے اعتبار سے سراسر امن ہے۔ گویا امن و سلامتی کا معنی لفظ اسلام کے اندر ہی موجود ہے ۔ لہذا اپنے معنی کے اعتبار سے ہی اسلام ایک ایسا دین ہے جو خود بھی سراپا سلامتی ہے اور دوسروں کو بھی امن و سلامتی ، محبت و رواداری، اعتدال و توازن اور صبرو تحمل کی تعلیم دیتا ہے۔ 
قرآن و حدیث میں اگر مسلم اور مومن کی تعریف تلاش کی جائے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے نزدیک مسلمان صرف وہ شخص ہے جو تمام انسانیت کے لیے پیکر امن و سلامتی ہو اور مومن بھی وہی شخص ہے جو امن و آشتی ، تحمل و برداشت ، بقاء باہمی اور احترام آدمیت جیسے اوصاف سے متصف ہو۔ یعنی اجتماعی سطح سے لے کر انفرادی سطح تک ہر کوئی اس سے محفوظ و مامون ہو۔
اسلام انسانوں کے احترام کا درس دیتا ہے اور ان کی عزت، جان اور مال کو محترم سمجھتا ہے۔ 
اللہ تعالیٰ نے سورۃ المائدۃ میں ارشاد فرمایا:
مَن قَتَلَ نَفْساً بِغَیْْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِیْ الأَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعاً وَمَنْ أَحْیَاہَا فَکَأَنَّمَا أَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعاً (۶) 
’’جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے کی سزا) کے (بغیر، ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کرڈالااور جس نے کسی کی جان بچائی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔‘‘
مندرجہ بالا آیت میں مسلم اور غیر مسلم کی تخصیص کے بغیر انسانی جان کی قدرو قیمت بیان کی گئی ہے۔ 
سید ابو الا علیٰ مودودی (م:۱۹۷۹ء)اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ 
’’دنیا میں نوع انسانی کی زندگی کا بقا منحصر ہے اس پر کہ ہر انسان کے دل میں دوسرے انسانوں کی جان کا احترام موجود ہو اور ہر ایک دوسرے کی زندگی کے بقا و تحفظ میں مدد گار بننے کا جذبہ رکھتا ہو۔ جو شخص ناحق کسی کی جان لیتا ہے و ہ صرف ایک ہی فرد پر ظلم نہیں کرتا بلکہ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ اس کا دل حیات انسانی کے احترام سے اور ہمدردی نوع کے جذبہ سے خالی ہے ،لہٰذا وہ پوری انسانیت کا دشمن ہے، کیونکہ اس کے اندر وہ صفت پائی جاتی ہے جو اگر تمام افراد انسانی میں پائی جائے تو پوری نوع کا خاتمہ ہو جائے ۔اس کے برعکس جو شخص انسان کی زندگی کے قیام میں مدد کرتا ہے وہ در حقیقت انسانیت کا حامی ہے۔ کیونکہ اس میں وہ صفت پائی جاتی ہے جس پر انسانیت کے بقا کا انحصار ہے۔‘‘ (۷)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر پوری نسل انسانی کو عزت ، جان او رمال کا تحفظ فراہم کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: 
"فان دماء کم واموالکم واعراضکم علیکم حرام، کحرمۃ یومکم ھذا،فی بلد کم ھذا، فی شھرکم ھذا" (۸) 
’’بے شک تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم پر اسی طرح حرام ہیں جیسے تمہارے اس دن کی حرمت تمہارے اس شہر میں اور تمہارے اس مہینے میں (مقرر کی گئی) ہے۔‘‘
لہٰذا کسی بھی انسان کو ناحق قتل کرنا ، اس کا مال لوٹنا اور اس کی عزت پر حملہ کرنا یا اس کی تذلیل کرنا دوسروں پر حرام ہے۔ 
اسلام قومی اور بین الاقوامی معاملات میں امن ورواداری کا درس دیتا ہے۔ 
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کئی مواقع پر غیر مسلموں کے نمائندے آئے، لیکن آپ نے ہمیشہ ان سے خود بھی حسن سلوک فرمایا اور صحابہ کرام کو بھی یہی تعلیم دی، حتیٰ کہ نبوت کے جھوٹے دعویدار مسیلمہ کذاب کے نمائندے آئے جنہوں نے صریحاً اعتراف ارتداد کیا تھا لیکن آپ ان کے سفارتکار ہونے کے باعث ان سے حسن سلوک سے پیش آئے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں:
انی کنت عند رسول اللہ ﷺ جالسا اذا دخل ھذا (عبداللہ بن نواحۃ) ورجل وافد ین من عند مسیلمۃ ۔ فقال لھما رسول اللہ ﷺ : اتشھدان انی رسول اللہ ؟ فقالا لہ: نشھد ان مسیلمۃ رسول اللہ ، فقال: امنت باللہ ورسلہ ، لوکنت قاتلا وفداً لقتلتکما (۹) 
’’میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا جب یہ شخص (عبداللہ بن نواحہ) اور ایک اور آدمی مسیلمہ (کذاب) کی طرف سے سفارت کاربن کرآئے تو انہیں حضور اکرم نے فرمایا: کیا تم دونوں اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ انہوں نے( اپنے کفر و ارتداد پر اصرار کرتے ہوئے ) کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ مسیلمہ (معاذ اللہ) اللہ کا رسول ہے ۔ حضورا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (کمال برداشت اور تحمل کی مثال قائم فرماتے ہوئے ارشاد)فرمایا: میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتا ہوں۔ اگر میں سفارت کاروں کو قتل کرنے والا ہوتا تو تم دونوں کو قتل کردیتا ۔‘‘
غور کیجئے کہ بار گاہ رسالت مآب میں مسیلمہ کذاب کے پیرو کاروں کے اعلانیہ کفر و ارتداد کے باوجود تحمل سے کام لیا گیا، کسی قسم کی سزا نہیں دی گئی، نہ ہی انہیں قید کیا گیا اور نہ ہی انہیں قتل کرنے کا حکم فرمایا گیا۔ صرف اس لیے کہ وہ سفارت کار تھے۔ 
اسلام میں غیر مسلموں کے مذہبی رہنماؤں کے قتل کی بھی ممانعت کی گئی ہے۔ 
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ایک روایت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ بہت اہم ہیں جو کہ آپ لشکر روانہ کرتے وقت فرماتے تھے: 
"لا تغد روا ولا تغلوا، ولا تمثلوا ، ولا تقتلواالوالدان، ولا اصحاب الصوامع (۱۰) 
"غداری نہ کرنا، دھوکہ نہ دینا، نعشوں کی بے حرمتی نہ کرنا اور بچوں اورپادریوں کو قتل نہ کرنا"
اسلام نے دوسروں کا مال لوٹنا حرام قرار دیا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: 
وَلاَ تَأْکُلُواْ أَمْوَالَکُم بَیْْنَکُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُواْ بِہَا إِلَی الْحُکَّامِ لِتَأْکُلُواْ فَرِیْقاً مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ (۱۱) 
"اور تم ایک دوسرے کے مال آپس میں ناحق نہ کھایا کرو اور نہ مال کو (بطور رشوت) حاکموں تک پہنچایا کرو کہ یوں لوگوں کے مال کا کچھ حصّہ تم (بھی) ناجائز طریقے سے کھاسکو حالانکہ تمہارے علم میں ہو (کہ یہ گناہ ہے) "
حضور اکرم ﷺ نے بھی دوسروں کے مال کولوٹنا حرام قرار دیا ہے۔ 
فان دماء کم واموالکم علیکم حرام (۱۲) 
’’بے شک تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر حرام ہیں۔‘‘
غیر مسلم شہریوں کی جانوں کی طرح ان کے اموال کی حفاظت بھی اسلامی ریاست پر لازم ہے۔ امام ابو یوسف(م:۱۸۲ھ) نے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ حضور اکرم ﷺ کے معاہدے کی یہ شق نقل کی ہے: 
ولنجران و حاشیتھا جواراللہ و ذمۃ محمد النبی رسول اللہﷺ، علی اموالھم وانفسھم وارضھم و ملتھم، و غائبھم و شاھد ھم، وعشیر تھم و بیعھم، وکل ماتحت ایدیھم من قلیل او کثیر (۱۳)
"اللہ اور اللہ کے رسول محمد ﷺ اہل نجران اور ان کے حلیفوں کے لیے ان کے مالوں، ان کی جانوں ، ان کی زمینوں، ان کے دین، ان کے غیر موجود و موجود افراد، ان کے خاندان کے افراد ، ان کی عبادت گاہوں اور جو کچھ بھی ان کے ہاتھوں میں ہے، تھوڑا یا زیادہ، ہر شے کی حفاظت کے ضامن اور ذمہ دار ہیں"
اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کا اس قدر اہتمام کیا گیا ہے کہ ان کے اموال کی حفاظت اتنی ہی ضروری ہے جتنی مسلمانوں کے اموال کی حتیٰ کہ اگر کوئی مسلمان ان کی شراب یا خنزیر کو تلف کردے تو اس پر جرمانہ لازم آئے گا۔ فقہ حنفی کی مشہور کتاب 'ردالمحتار'میں علامہ ابن عابدین شامی (م: ۱۲۵۲ھ) لکھتے ہیں :
فان اراقہ رجل اوقتل خنزیرہ ضمن (۱۴) 
پھر اگر کوئی شخص اس (زمی) کی شراب بہادے یا اس کا خنزیر قتل کردے تو وہ ضمان دے گا۔ 
امام ابن قدامہ حنبلی (م: ۶۲۰ھ) نے کہا ہے کہ غیر مسلم شہری کا مال چوری کرنے والے پر اسی طرح حد عائد ہوگی جس طرح مسلمان کا مال چوری کرنے والے پر ہوتی ہے ۔ان کے الفاظ اس طرح ہیں۔ 
ویقطع المسلم بسرقۃ مال المسلم والذمی (۱۵)
علامہ ابن حزم (م:۴۵۶ھ) بیان کرتے ہیں: 
ولم یات نھی قط عن قطع یدمن سرق مال کافر ذمی (۱۶)
"جس شخص نے کسی کافر ذمی کا مال چوری کیا اس کا ہاتھ کاٹنے کی نفی کہیں وارد نہیں ہوئی"
اسلام میں جیسے مسلمان کی عزت وآبرو کی تذلیل حرام ہے ویسے ہی غیر مسلم شہری کی عزت کو پامال کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ 
ایک دفعہ گورنر مصر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے بیٹے نے ایک غیر مسلم کو ناحق سزادی ۔ خلیفہ وقت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس جب اس کی شکایت کی گئی تو انہوں نے سر عام گورنر مصر کے بیٹے کو اس غیر مسلم مصری سے سزا دلوائی اور یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا: 
مذ کم تعبدتم الناس وقد ولد تھم امھاتھم احرار؟ (۱۷) 
"تم نے کب سے لوگوں کو اپنا غلام سمجھ لیا ہے حالانکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا؟ "
آیات قرآنی، احادیث مبارکہ، صحابہ کرام اور فقہائے امت کے اقوال کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ کسی مسلمان کو یہ حق حاصل نہیں کہ کسی غیر مسلم شہری کو محض اس کے غیر مسلم ہونے کی بنا پر قتل کردے یا اس کا مال لوٹے یا اس کی عزت پا مال کرے یا اس کی عبادت گاہ کو نقصان پہنچائے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرمادیا کہ:
من قتل معاہداً فی غیر کنھہ حرم اللہ علیہ الجنۃ (۱۸)
’’جس نے معاہد کو بلاوجہ قتل کیا اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کردی۔‘‘
اسلام نے جہاں غیر مسلموں کی تکریم کا درس دیا ہے وہیں ایک مسلمان کی عزت، جان اور مال کا احترام کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مومن کی حرمت کو کعبے کی حرمت سے زیادہ محترم قرار دیا ہے۔ امام ابن ماجہ(م:۲۷۳ھ) سے مروی حدیث مبارکہ ملاحظہ ہو: 
حدثنا عبداللہ بن عمرو قال: رأیت رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم یطوف بالکعبۃ و یقول: مااطیبک واطیب ریحک، ما اعظمک واعظم حرمتک، والذی نفس محمد بیدہ، لحرمۃ المومن اعظم عنداللہ حرمۃ منک، مالہ ودمہ وان نظن بہ الا خیراً (۱۹)
’’حضرت عبداللہ بن عمرو نے ہم سے بیان کیاکہ انہوں نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا: (اے کعبہ) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے تو کتنا عظیم المرتبت ہے او رتیری حرمت کتنی زیادہ ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ! مومن کے جان و مال کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے۔ ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہیے۔‘‘
مندرجہ بالا حدیث مبارکہ ایک مومن کے جان و مال کی قدرو قیمت کوواضح کررہی ہے۔ آتشیں اسلحہ سے لوگوں کو قتل کرنا تو بہت بڑا اقدام ہے ۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل اسلام کو اپنے مسلمان بھائی کی طرف اسلحہ سے محض اشارہ کرنے والے کو بھی ملعون و مردود قرار دیا ہے۔ آپ نے فرمایا: 
من اشار الی اخیہ بحدیدۃ فان الملا لکۃ تلعنہ حتی یدعہ، وان کان اخاہ لابیہ وامہ (۲۰)
"جو شخص اپنے بھائی کی طر ف ہتھیار سے اشارہ کرتا ہے فرشتے اس پر اس وقت تک لعنت کرتے ہیں جب تک وہ اس اشارہ کو ترک نہیں کرتا خواہ وہ اس کا حقیقی بھائی ( ہی کیوں نہ ) ہو"
زبان سے دوسرے مسلمانوں کو اذیت پہنچانے سے منع کیا گیا ہے۔ 
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: 
وَلَا یَغْتَب بَّعْضُکُم بَعْضاً (۲۱)
’’اور تم میں سے ایک دوسرے کی غیبت نہ کرے۔‘‘
آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ (۲۲)
’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘
اگر مسلمانوں اور غیر مسلموں کی جنگ ہو رہی ہو اور دوران جنگ ایک غیر مسلم کلمہ پڑھ لے تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔ مسلمانوں کو یہ بدگمانی کرنے کی اجازت نہیں ہے کہ اس کافر نے جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھا ہے۔ 
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مبارکہ ملاحظہ کریں جس میں حضرت اسامۃ بن زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
بعثنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الی الحرقۃ ، فصبحنا القوم فھزمنا ھم والحقت انا ورجل من الا نصار رجلا منھم، فلما غشینا ہ قال : لا الہ الا اللّٰہ، فکف الانصاری، فطعنتہ برمحی حتی قتلتہ، فلما قدمنا بلغ النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال : یا اسامۃ، اقتلتہ بعد ما قال: لا الہ الا اللّٰہ؟ قلت: کان متعوذاً، فما زال یکررھاحتی تمنیت انی لم اکن اسلمت قبل ذالک الیوم (۲۳) 
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جہاد کے لیے مقام حرقہ کی طرف روانہ کیا۔ ہم صبح وہا ں پہنچے اور( شدیدلڑائی کے بعد) انہیں شکست دے دی ۔میں نے اور ایک انصاری صحابی نے مل کراس قبیلہ کے ایک شخص کو گھیر لیا ،جب ہم اس پر غالب آگئے تو اس نے کہا: لاالہ الا اللّٰہ۔ انصاری تو( اس کی زبان سے کلمہ سن )کر الگ ہو گیا لیکن میں نے نیزہ ما رکر اسے ہلا ک کر ڈالا ۔جب ہم واپس آئے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس واقعہ کی خبر ہو چکی تھی۔ آپ نے فر مایا : اے اسامہ: تم نے اسے کلمہ پڑ ھنے کے با و جو د قتل کیا ؟میں نے عر ض کیا :اس نے جا ن بچانے کے لیے کلمہ پڑ ھا تھا ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم با ر بار یہ کلمات دہرا رہے تھے اور میں افسو س کر رہا تھا کہ کا ش آج سے پہلے میں اسلام نہ لایا ہو تا۔‘‘
پر امن شہر یو ں اور بے گناہ مسلما نو ں کا قتل عام کرنے والے مسلمانوں کو اس فرمان ر سول پر ضرور غورکر نا چاہیے کہ جب حالت جنگ میں مو ت کے ڈر سے کلمہ پڑھے والے دشمن کو بھی اما ن حاصل ہے تو کلمہ گو بے گناہ مسلما نو ں کو قتل کر نا کتنا بڑا جرم ہو گا؟ 
جو لو گ مسلمانوں کے قتل میں کسی بھی قسم کی معاونت کر تے ہیں، ان کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا :
من اعان علی قتل مو من بشطر کلمۃ ، لقی اللہ عزوجل ، مکتو ب بین عینیہ:آیس من رحمۃ اللہ (۲۴)
’’جس شخص نے چند کلما ت کے ذریعے بھی کسی مو من کے قتل میں کسی کی مدد کی تو وہ اللہ تعالی سے اس حال میں ملے گا کہ اس کی آنکھو ں کے در میان پیشانی پر لکھاہو گا:آیس من رحمۃ اللہ (اللہ تعالی کی رحمت سے ما یو س شخص)۔‘‘
محولہ بالاحقائق اس حقیقت کو واضح کر رہے ہیں کہ اسلام میں انسانی جا ن ،مال اور عزت کو بے حد احترام دیا گیا ہے۔ خواہ یہ جان ، مال اور عزت مسلما نوں کی ہو خواہ غیر مسلم کی ۔یہ بد قسمتی ہے کہ امت مسلمہ اسلام کی اصل تعلیما ت سے دور ہو تی جا رہی ہے ۔دہشت گر دی ، قتل و غار ت اور عدم بر داشت کے جذبات پر وان چڑ ھ رہے ہیں ۔جن کی وجہ سے عالمی دنیا میں مسلمانو ں کاوقاررو ز بروز گر تا جا رہا ہے ۔اگر امت مسلمہ اپنا کھویا ہوا مقام پھر سے حاصل کر نا چاہتی ہے تو اسے انسانی جا ن ، مال اور عزت کا احترام کر نا ہو گا۔نیزدرج ذیل امور کی طرف توجہ دینا ہوگی۔ 
۱۔ اسلام ہماری شناخت اور تشخص ہے۔ ہمیں یہ بات دنیا کو بتاتے ہوئے گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ دنیا کودو ٹوک انداز میں بتانا ہوگا کہ ہم اول و آخر اپنے رب کے مطیع ہیں۔ احساس کمتری کوختم کرنا ہوگا۔ 
۲۔ تعلیم اور تحقیق کے میدا ن میں امت مسلمہ زوال کا شکار ہے۔روزنامہ جنگ ، لاہور کی ۲۴اپریل ۲۰۱۲ء کی درج ذیل رپورٹ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے: 
’’برطانیہ و امریکہ کی درسگاہیں 10بہترین جامعات قرار پائیں جبکہ ان میں کوئی مسلم ملک شامل نہیں۔ کیمبرج معمولی فرق سے پہلی معیاری یونیورسٹی قرار پائی۔ ہارورڈ کا دوسرا نمبر ہے۔ ۴۰۰ بہترین جامعات میں پاکستان کا کوئی ادارہ شامل نہیں۔ اسلامی ملکوں میں ۵۸۰ اور صرف بھارت میں ۵۸۳ یونیورسٹیاں ہیں۔ ایشیا میں چین ، کوریا، بھارت جامعات پر سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ امریکی جریدے ’’یوایس نیوز اینڈ ورلڈ رپورٹ‘‘ نے یہ درجہ بندی تعلیم اور کیرئیر پر تحقیق کرنے والے بین الاقوامی ادارے کوئیک کیورلی سیمونٹنگ سے کرائی ہے۔‘‘ (۲۵) 
حصول ترقی کے لیے ضروری ہے کہ مسلمانوں میں رائج نظام تعلیم میں مثبت تبدیلیاں لائی جائیں تاکہ اسلامی معاشرے میں اعلیٰ جدید تعلیم یافتہ ماہرین تیار ہوں جو نئی ایجادات کی قدرت رکھتے ہوں۔ 
۳۔ اسلامی دنیا وسائل سے مالا مال ہے۔ یہ خزانے امت کے میدانوں اور پہاڑوں میں، اس کی وادیوں اور صحراؤں میں، اس کے سمندروں اور دریاؤں میں بکھرے پڑے ہیں۔ ہماری جغرافیائی اہمیت بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال میں لایا جائے۔ 
۴۔ ترقی کے حصول کے لیے معاشرتی ظلم و زیادتیوں کو ختم کرنا ہوگا۔ 
۵۔ خواتین کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے انہیں صحیح مقام و مرتبہ دیا جائے۔ خواتین کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ خواتین معاشرے کا عدد ی لحاظ سے نصف حصہ ہیں۔ گھر اور معاشرے پر ان کے براہ راست مثبت یا منفی ہر دو طرح سے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مسلمان مردوں کے لیے ضروری ہے کہ خواتین کے ساتھ ان کے اولین فریضے کی ادائیگی میں معاونت کریں جو گھر کی نگہداشت ، خاوند کا خیال او رنسل انسانی کی تربیت کرنے کے اعلیٰ اعمال پر مشتمل ہے۔ اس میں دو رائے نہیں (جنہوں نے تجربات کرنے تھے ، کرلیے پھر بھی یہی نتیجہ نکلا) کہ خواتین سے یہ مقام کوئی اور نہیں لے سکتا اور نہ ہی اسے درست انداز سے ادا ہی کرسکتا ہے۔ لہٰذا خواتین کے ساتھ بھر پور تعاون کیا جانا چاہیے تاکہ وہ اچھی بیوی، بہترین ماں اور مفید شہری ثابت ہو سکیں۔ 
ہمیں ضرورت و مجبوری میں ان کے کام کرنے کے حق کو بھی تسلیم کرنا چاہیے ۔ اگر خود انہیں یا ان کے افراد خاندان کو ان کی معاونت کی ضرورت ہو تو وہ باہر جا کر کام کرسکتی ہیں جیسے کہ حضرت شعیب علیہ اسلام کے واقعے سے راہنمائی ملتی ہے جب کہ وہ بوڑھے تھے اور ان کی بیٹیاں بکریوں کو پانی پلانے کے لیے لے جاتی تھیں۔ علاوہ ازیں اگر معاشرے کو ان کے کام کی ضرورت ہوجیسے کہ عورتوں کا بچیوں کو تعلیم دینا ، عورتوں کا عورتوں کے علاج کے لیے تربیت لینا وغیرہ جیسے امور تو ان میں خواتین کو کام کرنے کا موقع ملنا چاہیے ۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اگر خواتین کو درست مقام حاصل ہوگا تو خاندان خوش وخرم رہے گا اور زندگی پر سکون بسر ہوگی۔ 
۶۔ اتفاق و اتحاد کو فروغ دینا ہوگا۔کٹی پھٹی اور بکھری امت کا کوئی مستقبل نہیں۔ کبھی یہ ایک تھی ، اب مختلف اقوام کا مجموعہ بن چکی ہے جو الگ الگ گروہوں کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ یہ گروہ محض متفرق مجموعہ ہی نہیں ہیں بلکہ بار بار عملاً ایک دوسرے سے دست و گریبان ہو جاتے ہیں اور اس طرح خود ہی ایک دوسرے کے غیظ و غضب کاشکار ہوتے رہتے ہیں۔جبکہ موجودہ دور میں مختلف الخیال اقوام پرانے اختلافات ، نسلی امتیازات، مذہبی لڑائیاں اور علاقائی جھگڑے کم سے کم کرنے پر کمربستہ ہیں۔ ہم اس وقت تک عالمی سازشوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے جب تک اتفاق اور اتحاد کو فروغ نہ دیں۔ 
مندرجہ بالا نکات کو پیش نظر رکھ کر ہم بحیثیت امت ترقی کرسکتے ہیں ہم مادی، روحانی، تہذیبی، بشری ہر نوع کے خزانوں سے مالا مال ہیں۔ عین ممکن ہے کہ اکیسویں صدی میں ہم اپنی عظمت رفتہ کو پا کر پھر شوکت و رفعت کو بحال کرسکیں۔ دنیا کو اسلام کی طرف راغب کرنے کا سب سے بہتر راستہ یہ ہے کہ ہم اسلام پر عمل کرنے والے بن جائیں۔ جہاں تک غیروں کی سازشوں کا تعلق ہے تو ہمارے لیے قرآن رہنمائی کررہا ہے:
ادْعُ إِلِی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُم بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ (۲۶)
’’پکارو اپنے رب کے راستے کی طر ف حکمت کے ساتھ اور موعظہ حسنہ کے ساتھ اور ان (کج بحثوں) سے مجادلہ کرو اس طور پر جو بہت عمدہ ہو۔‘‘
اسلامی ملکوں کے سربراہان اور عوام کے لیے ضروری ہے کہ قول و فعل کے تضاد سے اپنے آپ کو بچائیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کو دھوکہ نہیں دیا۔ آپ نے زیر زمین کار روائیوں سے ہمیشہ اجتناب کیا اور وعدوں کو ایفا کرنے کا درس دیا۔ دنیا کی قیادت انہی کو ملتی ہے جو کردار اور علم و تحقیق میں نمونہ بنتے ہیں۔ ہمیں سورۃ الا حزاب کی اس آیت پر عمل کرنا چاہیے:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (۲۷)
"یقیناًتمہارے لیے رسول اللہ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔‘‘

حوالہ جات 

1- www.worldometers.info/world-population
2- Muslimpopulation.com/world
۳۔ اٰل عمران ،۳/۱۱۰
۴۔ الترمذی ، ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ (م: ۲۷۹ھ)، جامع الترمذی، ابواب الامثال عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،باب ماجا ء (فی)مثل ابن آدم واجلہ وأملہ، حدیث نمبر۲۸۷۴،ص:۶۴۶، دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض ، ۱۴۲۰ھ
۵۔ المائدۃ ،۵/۳
۶۔ المائدۃ ، ۵/۳۲
۷۔ مودودی، سیدابو الا علی (م:۱۹۷۹ء)، تفہیم القرآن، ج:۱، ص: ۴۶۴،ادارہ ترجمان القرآن، لاہور، ۱۹۹۱ ء
۸۔ بخاری ، محمد بن اسماعیل (م:۲۵۶ھ)، الجامع الصحیح ، کتاب الحج ، باب الخطبۃ ایام منیٰ، حدیث نمبر۱۷۳۹، ص:۲۸۰،دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض،۱۴۱۹ھ
۹۔ الدارمی،ابو محمد عبداللہ بن عبدالرحمن(م:۲۵۵ھ)،سنن الدارمی ، باب فنی النھی عن قتل الرسل، ج:۲،حدیث نمبر ۲۵۰۳،ص:۳۰۷، دارالکتاب العربی ، بیر وت ، ۱۴۱۷ھ
۱۰۔ احمدبن حنبل(م:۲۴۱ھ)،المسند،ج:۱،حدیث نمبر ۲۷۳۱،ص:۳۹۱،نشرالسنۃ،ملتان،۱۴۲۱ھ
۱۱۔ البقرۃ ،۲/۱۸۸
۱۲۔ بخاری ، محمد بن اسماعیل (م:۲۵۶ھ)، الجامع الصحیح ،کتاب الحج،باب الخطبۃ ایام منیٰ ، حدیث نمبر ۱۷۴۱،ص:۲۸۱،داراالسلام للنشر والتوز یع،الریا ض ،۱۴۱۹ھ
۱۳۔ ابو یو سف ،یعقوب بن ابراہیم (م:۱۸۲)، کتاب الخراج،ص:۷۲،دارالمعرفۃ للبطاعۃ والنشر ، بیروت، لبنان ،سن ندارد
۱۴۔ ابن عابدین شامی،محمد بن امین(م:۱۲۵۲ھ)،ردالمحتار علی الدرالمختار شر ح تنویرالابصار،کتاب الغصب، المجلدالتاسع،ص:۳۰۴،دارالکتب العلمیہ، بیروت ،لبنان،۱۴۲۴ھ
۱۵۔ ابن قدامۃ ،ابو محمد عبداللہ بن احمد بن محمد (م:۶۲۰ھ)،المغنی،کتاب الحدود، باب القطع فی السر قۃ ، الجز ء الثانی عشر، ص : ۳۱۵، دارالحدیث ، القاھرۃ،۱۴۲۵ھ
۱۶۔ ابن حزم ، ابو محمد علی بن احمد بن سعید (م : ۴۵۶ھ)،المحلّٰی شر ح المجلّٰی ، ج:۱۳،ص:۱۷۷،داراحیا التراث العربی،بیروت،لبنان،۱۴۱۸ھ۔
۱۷۔ الہندی،علاء الدین علی المتقی بن حسام الدین (م:۹۷۵ھ)،کتاب الفضائل/فضائل الصحابہ،الجز الثانی عشر، حدیث نمبر۳۶۰۰۵، ص:۲۹۴،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،لبنان،۱۴۲۴ھ
۱۸۔ الدارمی،ابو محمد عبداللہ بن عبدالرحمن(م:۲۵۵ھ)،سنن الدارمی ،باب فی النھی عن قتل المعاھد ،ج:۲، حدیث نمبر۲۴۰۹، ص:۶۸۵، دارالقلم ، دمشق، ۱۴۱۷ھ
۱۹۔ ابن ماجہ، ابو عبداللہ محمد بن یذید (م:۲۷۳ھ)،السنن، ابواب الفتن، باب حرمۃ دم المو من ومالہ ، حدیث نمبر۳۹۳۲،ص،۵۶۴، دارالسلام للنشر و التوزیع ، الریاض ، ۱۴۲۰ھ
۲۰۔ مسلم بن حجاج (م:۲۶۱ھ)، جامع الصحیح، کتاب البروالصلۃ والآداب ، باب النھی عن اشارۃ بالسلاح الی مسلم ، حدیث نمبر۶۶۶۶، ص:۱۱۴۲ ، دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، ۱۴۱۹ھ 
۲۱۔ الحجرات، ۴۹/۱۲
۲۲۔ بخاری ، محمد بن اسماعیل (م:۲۵۶ھ)، الجامع الصحیح ، کتاب الایمان ، باب المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ، حدیث نمبر۱۰ ، ص: ۵،دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض ، ۱۴۱۹ھ 
۲۳۔ ایضاً، کتاب المغازی، باب بعث النبی صلی اللہ علیہ وسلم اسامۃ بن زید الی الحرقات من جھینۃ، حدیث نمبر۴۲۶۹، ص: ۷۲۲، دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض ، ۱۴۱۹ھ 
۲۴۔ ابن ماجہ، ابو عبداللہ محمد بن یذید (م:۲۷۳ھ)،السنن، ابواب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلماً ، حدیث نمبر۲۶۲۰، ص: ۳۷۶ ، دارالسلام للنشر و التوزیع، الریاض، ۱۴۲۰ھ
۲۵۔ روزنامہ جنگ ،لاہور ، ۲۴ اپریل، ۲۰۱۲ء، ص:۱۲
۲۶۔ ا لنحل ، ۱۶/ ۱۲۵
۲۷۔ الاحزاب ، ۳۳/۲۱

سیدہ عائشہؓ سے نکاح کے لیے خولہ بنت حکیمؓ کی تجویز

محمد عمار خان ناصر

نکاح کے وقت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بالغ ہونے کے حق میں بعض اہل علم نے جو مختلف قرائن پیش کیے ہیں، ان میں سے زیادہ تر پر ہم اپنے اصل مضمون (الشریعہ، اپریل ۲۰۱۲ء) میں تبصرہ کر چکے ہیں۔ اسی نوعیت کا ایک اور قرینہ یہ پیش کیا گیا ہے کہ روایات کے مطابق سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تنہائی کے پیش نظر آپ کو نیا نکاح کرنے کی تجویز خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا نے دی تھی اور انھی نے اس ضمن میں سیدہ سودہ بنت زمعہ اور سیدہ عائشہ کے نام آپ کے سامنے پیش کیے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ام المومنین اس وقت عمر کے اس حصے میں تھیں کہ فوری طور پر ان کا نکاح کر کے رخصتی کی جا سکتی تھی، ورنہ خولہ بنت حکیم کا ذہن ان کی طرف کیوں متوجہ ہوتا!
یہ استدلال اس مفروضے پر مبنی ہے کہ خولہ بنت حکیم نے سیدہ عائشہ سے نکاح کی تجویز علی الفور رخصتی کے ارادے سے دی تھی اور بظاہر اس مفروضے کو اس بات سے تقویت ملتی ہے کہ روایت کے مطابق اس تجویز کا محرک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سیدہ خدیجہ کی رفاقت سے محروم ہوجانا بنا تھا۔ تاہم روایت کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ مفروضہ زیادہ وزنی دکھائی نہیں دیتا۔ اگر تو یہ مانا جائے کہ خولہ بنت حکیم نے سیدہ عائشہ سے نکاح کی تجویز سودہ بنت زمعہ کے متبادل کے طور پر دی تھی اور ان کا منشا یہ تھا کہ آپ ان میں سے کسی ایک سے نکاح کر لیں تو پھر زیر بحث استدلال میں ایک وزن پیدا ہو جاتا ہے، لیکن اگر اس کے برعکس یہ امکان مانا جائے کہ خولہ نے درحقیقت بیک وقت دو نکاحوں کی تجویز دی تھی تو پھر اس استدلال کا وزن ختم ہو جاتا ہے، کیونکہ اس صورت میں یہ کہنا بالکل قرین قیاس ہے کہ خولہ کے ذہن میں یہ تجویز دیتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فوری خانگی ضروریات بھی تھیں اور اس کے ساتھ ساتھ آپ کی آئندہ کی خانگی زندگی کے مصالح کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا صدیق اکبر کے باہمی تعلقات کو ایک نئے رشتے کی شکل دینا بھی ان کے پیش نظر تھا، چنانچہ انھوں نے پہلے مقصد کے تحت سیدہ سودہ کے ساتھ جبکہ دوسرے مقصد کے تحت سیدہ عائشہ کے ساتھ نکاح کا مشورہ آپ کے سامنے پیش کیا۔ روایت میں بیان ہو ا ہے کہ خولہ بنت حکیم نے سیدہ عائشہ کا ذکر کرتے ہوئے ’بنت احب خلق اللہ الیک‘ یعنی ’’لوگوں میں سے آپ کو سب سے زیادہ محبوب شخص کی بیٹی‘‘ کے الفاظ استعمال کیے جس سے صاف واضح ہے کہ خولہ کی اس تجویز کے محرکات میں دونوں حضرات کے باہمی تعلقات میں مزید مضبوطی پیدا کرنا بھی تھا اور وہ اسی تعلق کا حوالہ دیتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس تجویز کو قبول کرنے کی اپیل کر رہی تھیں۔
اگرچہ روایت میں خولہ بنت حکیم کی تجویز کا ذکر ان الفاظ میں ہوا ہے کہ ’ان شئت بکرا وان شئت ثیبا‘ (مسند احمد، رقم ۲۵۸۱۰) یعنی آپ چاہیں تو کنواری سے نکاح کر لیں اور چاہیں تو شوہر دیدہ سے، لیکن دو واقعاتی قرینے یہ بتاتے ہیں کہ یہ تجویز دراصل بیک وقت دونوں سے نکاح کرنے کی تھی، جبکہ فوری رخصتی صرف سیدہ سودہ کی مطلوب تھی۔ پہلا قرینہ تو یہ ہے کہ اسی روایت کے مطابق خولہ بنت حکیم کی تجویز سننے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سودہ یا عائشہ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کے بجائے خولہ سے کہا کہ جاؤ اور ان دونوں کے ساتھ میرے رشتے کی بات کرو: فاذہبی فاذکریہما علی (مسند احمد، ۲۵۹۱۰)۔ چنانچہ خولہ گئیں اور ان دونوں گھرانوں سے بات کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام دیا جس کے نتیجے میں دونوں امہات المومنین کے ساتھ آپ کا نکاح ہو گیا۔ دوسرا قرینہ یہ ہے کہ دونوں خواتین سے نکاح کے بعد سیدہ سودہ تو فوری طور پر رخصت ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر آ گئیں، جبکہ سیدہ عائشہ کی رخصتی کو موخر کر دیا گیا اور ان کی رخصتی ہجرت مدینہ کے بعد عمل میں آئی۔ 
اس تفصیل کی روشنی میں اگر اس نکاح سے متعلق جملہ روایات کو پیش نظر رکھا جائے تو واقعات کی ترتیب یوں بنتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدہ عائشہ کے ساتھ نکاح کی اطلاع اور اس کے منشاے الٰہی ہونے کا اشارہ ایک خواب کی صورت میں پہلے سے کر دیا گیا تھا۔ سیدہ خدیجہ کی وفات کے بعد خولہ بنت حکیم نے آپ کے مستقبل کے خانگی مصالح اور سیدنا ابوبکر کے ساتھ آپ کے نہایت قریبی تعلقات کے پیش نظر آپ کو یہ مشورہ دیا کہ وہ سودہ بنت زمعہ کے ساتھ ساتھ سیدہ عائشہ سے بھی نکاح کر لیں۔ سابقہ خوابی اشارے اور تجویز میں مضمر متنوع مصالح کو دیکھتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تجویز کو قبول فرما لیا۔ سیدنا ابوبکر کے ذہن میں اس وقت تک یہ خیال نہیں آیا تھا جس کی وجہ ایک تو یہ ہے کہ وہ سیدہ عائشہ کا رشتہ جبیر بن مطعم کے ساتھ طے کر چکے تھے اور دوسری یہ کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے رشتہ اخوت کو حقیقی اور نسبی اخوت کا درجہ دیتے تھے اور ان کے خیال میں ان کی بیٹی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح نہیں ہو سکتا تھا۔ تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس خیال کی اصلاح فرما دی اور کہا کہ ہمارا رشتہ اسلام میں اخوت کا رشتہ ہے جو تمھاری بیٹی کے میرے نکاح میں آنے سے مانع نہیں۔ یوں یہ نکاح منشائے الٰہی کی تکمیل کے علاوہ عرب معاشرت کی سماجی روایات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خانگی ودینی مصالح کے لحاظ سے بھی پوری طرح قابل فہم ہے۔

جماعت اسلامی کا داخلی نظم سید وصی مظہر ندویؒ کی نظر میں (۲)

چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ

کوئی بھی جماعتی نظام حرکت و جمود دونوں کو سمو نہیں سکتا۔ یہ دونوں باہم متضاد ہیں۔ نظام حرکت کو فروغ دینے والا ہو گا تو اس میں جمود کی کوئی جگہ باقی نہیں رہے گی۔ اگر نظام کی بنیادوں میں جمود پیدا کرنے والے محرکات کو شامل کیا گیا تو پھر حرکت کے تمام امکانات ختم اور جمود روز بروز مستحکم ہو گا۔ جناب ندوی صاحب نے بہت سے پہلوؤں سے جماعت کے اندر جمود کے محرکات کا جائزہ لیا ہے مگر ان کی نظر جمود کے زیادہ گہرے اسباب تک نہیں پہنچی۔ انہوں نے جماعت کے اندر قیادت سازی کے نظام کو جماعتی استحکام کا سبب قرار دیا ہے۔ حالانکہ یہی نظام مکمل جمود تک پہنچا دینے کا باعث ہوا ہے۔ جدید دور میں جس طرح جمہوریت کثیر جماعتی نظام کے بغیر چلائی نہیں جاسکتی، جس طرح نظام عدل وکالت کے ادارے کے بغیر قائم نہیں ہو سکتا اسی طرح امیدواری کے بغیر انتخابی نظام کا کوئی تصور ممکن نہیں۔ مزید براں قیادت کا بار بار منتخب ہونے پر پابندی لازمی ہے۔ ان دو پہلوؤں سے ہٹ کر جو نظام جماعت میں قائم کیا گیا اس کا نتیجہ جمود کے سوا کچھ ہوا ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ امید واری کی نفی کے حق میں جو استدلال کیا گیا ہے اس کی کوئی شرعی بنیاد نہیں۔ قرآن میں حضرت یوسف علیہ السلام کی طرف سے مصر کا وزیر خزانہ بنائے جانے کی خواہش اور درخواست کا ذکر موجود ہے۔ علاوہ ازیں انسانی شخصیت کا یہ نفسیاتی پہلو ہے کہ اس میں دولت، جنس اور اقتدار کے حصول کا جذبہ قدرت نے ودیعت کیا ہے، اسے ضابطوں میں مقید کر کے بے قید ہونے سے تو روکا جاسکتا ہے مگر اس کی یکسر نفی نہیں کی جاسکتی۔ منصب کی خواہش کرنا کسی طرح ناجائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ مناصب پر فائز لوگ اپنی حیثیت اور کارکردگی کے لحاظ سے انتخاب یا استصواب کے موقعہ پر باقی تمام لوگوں پر فائق اور نمایاں ہوتے ہیں۔ رائے دہندہ کے سامنے لا محالہ صاحب منصب کو چھوڑکو ووٹ دینے کی بہت ٹھوس وجوہ ہونا چاہیے۔ پھر اہل مناصب کے لیے بلا واسطہ یا بالواسطہ کنویسنگ کیلیے اشارے اور کنائے بھی کافی ہوں گے۔ جب احتساب کمزور ہو جائے تو کسی بھی بے قاعدگی کو روکنے کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔ یہاں تک کہ قاضی حسین احمد نے اپنے خلاف جماعت کے بزرگوں کی جانب سے الزامات کی بوچھاڑ کے بعد استعفیٰ دے کر نئے انتخاب کا اہتما م کرایا تو ان کا تحریری استعفیٰ دراصل نئے سرے سے اعتماد کا ووٹ دینے کی اپیل تھی۔ طفیل نامہ میں میاں طفیل محمد نے قاضی حسین احمد کے استعفے کا متن درج کیا ہے۔ اس میں قاضی صاحب کے یہ الفاظ موجود ہیں،
’’میرے خلاف مسلسل محاذ آرائی اور یکطرفہ الزام تراشی نے یہ بات ناگزیر بنا دی ہے کہ میں اب خود ارکان جماعت سے براہ راست رجوع کروں تاکہ یہ معلوم کر سکوں کہ مجھے اب بھی پہلے کی طرح ان کا اعتماد حاصل ہے یا یہ کہ وہ اماارت میں تبدیلی کے خواہش مند ہیں۔‘‘
اس لیے میں نے طویل غور و فکر کے بعد اب یہ فیصلہ کیا ہے کہ میں امارت کی ذمہ داری سے مستعفی ہوکر ارکان جماعت کو یہ موقع دوں کہ وہ اس بارے میں اپنی رائے کا اظہار کر سکیں۔ (طفیل نامہ صفحہ ۳۱۱)
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے میاں طفیل محمد صاحب نے امیر جماعت کے اس انتخاب کو ڈھونگ قرار دیا، وہ فرماتے ہیں: 
’’حقیقت یہ ہے کہ امیر جماعت کا یہ انتخاب انتخاب نہیں ڈھونگ تھا۔ اگر یہ استعفیٰ تھا تو اس پر یہ رقم کرنے کا کیا جواز تھا کہ ارکان جماعت فیصلہ کریں کہ مجھے اب بھی ان کا اعتماد حاصل ہے کہ نہیں۔ یہ تو صریح طور پر منصب امارت کے لیے اپنی امیدواری کا اعلان تھا۔۔ ۔ قاضی صاحب نے تو ارکان سے اپنے حق میں ووٹ دینے کی اپیل کر دی ۔ یہ دستور کی رو سے انہیں امارت کے لیے نا اہل بنا دیتی ہیں۔‘‘ (ایضاً صفحہ نمبر ۳۱۲)
مجموعی طور پر جماعتی تصورات سے آزاد ہو کراس نظام انتخاب کو دیکھا جائے تو یہ واضح ہے کہ انتخابات سے پہلے اہل مناصب کی کاردگی کے باقاعدہ اور موثر جائزے کا بھی کوئی اہتمام نہ ہو، کسی دوسرے کو ان کے خلاف مہم چلانے کی بھی اجازت نہ ہو، کوئی امید وار بھی نہ بن سکے تو نتیجہ صرف اور صرف ایک ہی ہو گا کہ مناصب پر فائز لوگ تواتر کے ساتھ منتخب ہوتے جائیں گے۔ انتخاب یا استصواب کے موقعہ پر ارکان جماعت میں ذہنی تن آسانی استوار ہو جائے گی۔ وہ رائے استعمال کرنے سے پہلے اپنے ذہن کو استعمال کرنے کے بجائے منصب پر فائز لوگوں کے حق میں رائے دینے کو ترجیح دیں گے۔ شوریٰ کے انتخاب کے موقعہ پر ایسا اکثر ہوتا ہے کہ ارکان پوچھتے ہیں کہ پہلے کون لوگ شوریٰ میں موجود ہیں۔ ان کے نام معلوم کر کے وہ فوری طور پر انہی کو ووٹ دے دیتے ہیں۔ ہمارے نقطہ نظر سے جماعتی نظام انتخاب کسی طرح انتخابی نظام نہیں۔ 
اس مرحلہ پر ہم جماعت اسلامی کے سابق نائب امیر جناب خرم مراد کے مشاہدات کا حوالہ انتہائی بر موقع خیال کرتے ہیں:
’’انتخاب سے ایک روز پہلے میں دفترگیا، وہاں پر لاہور کے مضافات سے ایک نا خواندہ رکن آئے پرچہ رائے دہندگی لیتے ہوئے بلا تکلف ناظم دفتر سے پوچھا کہ آج کل کون امیر ہے؟۔ ناظم دفترنے کہا شاہ صاحب (اسعدگیلانی) ہیں۔ کہنے لگے بس ان کے نام کے آگے نشان لگا دیں۔ انہوں نے وہاں نشان لگا دیا۔‘‘(لمحات ۴۲۸۔۴۲۹)
جناب خرم صاحب مرکزی ناظم مالیات شیخ فقیر حسین صاحب کے حوالے سے لمحات کے صفحہ ۴۲۷ پر لکھتے ہیں، 
’’اصل میں تو جماعت کے اندر سنگل کینی ڈیچر سسٹم (یک امیدواری نظام) ہے۔ ان کی بات سن کر میں ایک دم چونکا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟۔ کہنے لگے دیکھئے جو آدمی پہلے سے امیر ہے وہ فرد تو ایک امید وار ہے ہی اور باقی کوئی امیدوار اخلاقی اور دستوری طور پر اس کے مقابلے میں کھڑا نہیں ہو سکتا۔ اسے لیے الا ما شا ء اللہ کوئی دوسرا منتخب بھی نہیں ہوتا۔ ‘‘
ہم کمیونسٹ ممالک اور پارٹیوں میں یک امیدواری نظام پر ہمیشہ اعتراض کرتے رہے۔ ان کے الیکشنز کو ہم ایک ایسی دوڑ سے تعبیر کرتے رہے جس میں ایک ہی گھوڑا حصہ لیتا ہے، اس کے باوجود اپنے ہاں ہمارا اہتمام قابل غور ہے۔
لمحات کے صفحہ نمبر ۴۲۸ پرجناب خرم مراد نے لکھا:
’’امریکہ جیسے جمہوری ملک میں جہاں (باقاعدہ امیدوار الیکشن لڑتا ہے) پڑھے لکھے رائے دہندگان موجود ہیں، وہاں بھی اگر پہلے سے منتخب صدر دوسری مرتبہ امیدواربن جائے تو ان میں سے شاید ہی کوئی ہارا ہو۔ دو سال میں دوسری ٹرم کے لیے ہارنے والے صدر شاید پانچ چھ ہیں۔ 
جب وہاں یہ حال تھا تو ظاہر ہے کہ ہمارے ہاں اس کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، جہاں پر لوگ مروت، احترام اور وضع داری کے باعث کچھ بہت زیادہ غور و فکر بھی نہیں کرتے۔‘‘
جناب خرم لمحات کے صفحہ نمبر ۲۸۱ پر تحریر کرتے ہیں:
’’مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ گذشتہ دس برس کے دوران میں نے پاکستان میں یہ دیکھا ہے کہ لوگ عام طور پر ذمہ داری سے نہ از خود سبک دوش ہوتے ہیں نہ دوسروں کے لیے جگہ چھوڑنے پر تیار ہوتے ہیں، اگرچہ اپنی صحت، اہلیت، قوت کار اور صلاحیت کی کمی وجہ سے بھی جماعت کو نہ چلا سکتے ہوں۔ یہ رویہ اس وقت بھی بر قرار رہتا ہے، جب ان کے علم میں بات آ جاتی ہے کہ بالائی نظم ان کے کام سے مطمئن نہیں ہے، یا پھر ان سے بہتر کسی آدمی کو لانا چاہتا ہے۔ ایسی صورت میں وضع داری، صحیح اسپرٹ اور اسلامی روایات کا تقاضا ہے کہ ایسے لوگ خود ان افراد کے لیے جگہ خالی کرنے کی پیش کش کردیں، افسوس کہ ایسا نہیں ہوتا۔‘‘
اس سب کچھ کے باوجود اگر اسے انتخابی نظام مان بھی لیا جائے تو صوبائی امرا سے لے کر مقامی امرا تک کا تقرر کیا جاتا ہے۔ 
جناب خرم مراد لمحات کے صفحہ ۲۸۱ پر مزید لکھتے ہیں:
’’جماعت اسلامی میں باہم مشورے سے وحدانی نظام اختیار کیا گیا ہے، جس میں بیشتر مناصب، امیر جماعت کے اعتماد کی بنیاد پر لوگوں کے سپرد کیے جاتے ہیں۔‘‘
دستور میں تقرر میں ارکان کی رائے کو قبول کرنے کی ہدایت کی گئی ہے مگر اس میں استثنائی اختیار دے کر خالص نامزدگی کا دروازہ کھول دیا گیا۔ یہ دروازہ اب ایسا چوپٹ ہو گیا ہے کہ ان سطحوں پر عملاً نامزدگی کو رواج مل چکا ہے۔ اس کے لیے اگر کسی مقام پر تبدیلی کی نظمِ بالا ضرورت محسوس کرے تو انتخاب سے مہینہ دو پہلے اصل ذمہ دار کو ہٹا کر قائم مقام کا تقرر کر دیا جاتا ہے، یہ تقرر، قائم مقام کے انتخاب کے لیے راہ ہموار کر دیتا ہے۔ اس نظامِِ انتخاب کے جامد ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ امرائے اضلاع کے مناصب پر، قریب قریب ہر امیر ضلع کم و بیش متواتر تیس تیس سال تک فائز رہا۔ مرکزی شوریٰ کے سامنے بار بار کے انتخاب پر پابندی کی دستوری ترمیم بائیس سال زیر التوا رہی۔ اس کے بعد اسے منظور کیا گیا۔ اتنی دیر میں جامد انتخابی نظام اپنا کام کر چکا تھا۔
مرکزی سطح کو ہی لے لیجیے، جماعت ۱۹۴۱ء کو قائم ہوئی۔ قیام کے ساتھ ہی سید مودودی رحمہ اللہ امیر جماعت منتخب ہوئے۔ وہ ۱۹۷۲ء تک امیر جماعت رہے۔ پھر باقاعدہ انتخاب کے موقعہ پر انہوں نے اپنی کمزوری صحت کی بنا پر معذرت کی تو میاں طفیل محمد امیر جماعت منتخب ہوئے۔ اگر مولانا معذرت نہ کرتے تو وہ زندگی کی آخری سانس تک منتخب ہوتے رہتے۔ ان کا پہلا انتخاب بھی اپنی روح کے اعتبار سے انتخاب نہیں تھا۔ وہ داعی کی حیثیت سے میز بان تھے۔ مولانا مودودی کی تجویز پر نظام جماعت ایسا مان لیا گیا جس کی رو سے کوئی امیدوار نہیں ہو سکتا تھا۔ تین چار روز کے تاسیسی اجتماع میں مولانا چھائے رہے۔ دستور کا مسودہ ان کا مرتب کردہ تھا۔ انہوں نے خود ہی اسے پیش کیا۔ یہ مسودہ منظور کر لیا گیا۔ اس ماحول میں انتخاب امیر کے لیے ان ہی پر ہر ایک کی نظر تھی۔ متبادل امیدوار ہو نہیں سکتا تھا۔ اس طرح مولانا امیر منتخب ہو گئے۔
انتخابی نظام کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ ایک متعینہ مدت کے بعد مختلف صلاحیتوں کے لوگوں میں سے کسی نہ کسی کو قیادت کا موقع مل جاتا ہے۔ اس طرح مختلف صلاحیت کے لوگوں کو اپنی صلاحیتوں کو آزمانے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ چنانچہ ہر کوئی جماعت میں اپنی دلچسپی بر قرار رکھ سکتا ہے۔ لوگ باہر نکلنے کے راستے کی جانب نہیں دیکھتے۔ لیکن یہاں جماعت کا نظام ایسا متشکل ہوا کہ سید علیہ الرحمہ کے برابری کے کسی شخص کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا کوئی امکان نہ تھا۔ اس وجہ سے سید کے ہم مرتبہ لوگ جماعت کی تشکیل کے ایک دو سال بعد ہی جماعت سے دور ہو گئے۔ جماعت کی تشکیل کے موقعہ پر جتنا زبردست ٹیلنٹ جمع ہوا تھا، وہ چھٹ گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ۱۹۷۲ء میں جب سید علیہ الرحمہ کی توانائیاں جواب دے گئیں اور وہ جماعت کی امارت ترک کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ۱۹۷۰ء کے انتخابی معرکے میں سب سے پہلا انتخابی جلسہ لاہور کے موچی دروازے کے باہر ہوا۔ مولانا مودودی نے بمشکل چالیس منٹ خطاب کیا اور پھر انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ جھٹک کر بے بسی کے عالم میں کہا کہ ان کی طاقتیں جواب دے گئی ہیں۔ وہ اپنی تقریر جاری نہیں رکھ سکتے۔ اس طرح انہوں نے اپنی تقریر ادھوری چھوڑ دی۔ یہ ان کی زندگی کا پہلا واقعہ تھا۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے تقریر کو مکمل کیا۔ کبھی ادھوری تقریر نہیں کی۔ ۱۹۶۴ء کے صدارتی معرکے میں ایوب خان اور مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح امیدوار تھے۔ جماعت مادر ملت کی حمایت کر رہی تھی۔ موچی دروازے سے باہر انہوں نے اڑھائی گھنٹے خطاب کیا۔ ان کی یہ طویل تقریر، ایوب خان کے دور حکومت کا مکمل اور جامع جائزہ تھا۔
تسلسل اور تواتر کو فروغ دینے والے نظام جماعت میں قیادت کا خلا لازماً پیدا ہوتا ہے۔ ۱۹۷۲ء میں جب مولانا نے معذوری ظاہر کی تو اس منصب کو سنبھالنے والا کوئی صاحبِ صلاحیت شخص، جماعت کے اندر موجود ہی نہیں تھا۔ چارو نا چار جناب میاں طفیل محمد کو یہ بار گراں اٹھانا پڑا۔ محترم میاں صاحب کی سید مرحوم کے قیم کے طور پر خدمات درجہ کمال کی ہیں، مگر امارت جماعت کے منصب پر ان کا فائز ہونا بہر حال خانہ پری سے زیادہ نہیں تھا۔ اس انتخاب کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ میاں صاحب تیس سال قیم رہ کر حقیقت میں ایگزاسٹ ہو چکے تھے۔ ایک ایگزاسٹ شخص سے کسی بڑی کارکردگی کی توقع مشکل ہوتی ہے۔ بہر حال میاں طفیل صاحب ۱۹۸۷ء تک کام کرتے رہے۔ پھر انہوں نے بھی خرابی صحت کی بنا پر باقاعدہ انتخاب کے موقع پر ارکان سے معذرت کرتے ہوئے ان کو منتخب نہ کرنے کی اپیل کی۔ اس کے نتیجہ میں قاضی حسین احمد منتخب ہوئے۔ وہ بھی پچھلے انتخابات کے موقع تک کام کرتے رہے۔ اس موقع پر انہوں نے بھی خرابی صحت کی بنا پر معذرت کی تو سید منور حسن منتخب ہوئے۔ اگر میاں طفیل محمد اور قاضی حسین احمد معذرت نہ کرتے تو وہ تواتر سے منتخب ہوتے رہے۔ قاضی حسین احمد نے اس وقت معذرت کی جب وہ تین بائی پاس آپریشنوں سے گزر چکے تھے۔
انتخابی عمل قیادت میں تبدیلی کا ضامن ہوتا ہے۔ ہم نے اوپر کی مثالیں دے کر واضح کر دیا ہے کہ جماعت کا نظام تبدیلی کی نفی کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حقیقت میں یہاں انتخابی نظام کی نفی کی گئی ہے۔ ایسا نظام اختیار کیا گیا جو بظاہر انتخابی نظام نظر آتا ہے مگر حقیقت میں وہ تسلسل برقرار رکھنے کا بڑا گہرا نظام ہے۔
جماعتی نظامِ انتخاب کی جناب وصی مظہر بڑی تعریف کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ جماعتی تنظیم کے استحکام کا باعث ہوا۔ جسے استحکام کہا گیا ہے، وہ جمود ہے۔ نظام جماعت کو، جمود اپنی ایک انتہا کے بعد دوسری انتہا تک لے گیا، مگر کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ یہاں متبادل قیادت کا مکمل فقدان رہا۔ ایگزاسٹ ہونے سے پہلے کسی صاحب منصب نے منصب نہ چھوڑا۔ برابر کی حیثیت رکھنے والے اپنی صلاحیتوں کے مطابق کام کرنے کے امکانات نہ پاکر جماعت سے الگ ہو گئے۔
اس جامد نظام کے کئی منفی نتائج نکلے۔ اگر جماعت میں ہر سطح پر باقاعدہ انتخابی نظام اختیار کیاجاتا تو ذمہ داران کا احتساب زیادہ موثر ہوتا، کارکنوں کی سیاسی تربیت ہوتی، جماعت اپنی راہ و منزل سے کبھی نہ ہٹ سکتی۔ جماعت ان فوائد سے اپنے نظام کی وجہ سے محروم رہی۔ انتخاب کے مرحلے میں ارباب مناصب کی کار کردگی زیر بحث آتی۔ اتنا ہی نہیں بلکہ دیگر امید وار انتخاب جیتنے کی صورت میں کارکردگی میں بہتری کی صورتیں تجویز کرتے۔ ارکان ان پر غور کرتی۔ سوچ اور فکر کو راہ ملتی۔ عمل میں سرگرمی پیدا ہوتی۔ تبدیلی کی صورت میں نئے آنے والے ذہنی طور پر تیار ہو کر مناصب سنبھالتے۔ اگر تبدیلی نہ آتی تو بھی پہلے سے کام کرنے والے اپنی کار کردگی میں بہتری لانے کی کوشش کرتے۔ محدود مدت تک منصب پر رہنے کے نتیجہ میں اصحاب منصب اپنی صلاحیتوں کو زیادہ اچھے اور فعال تر انداز میں استعمال کرتے۔
جماعتی نظام انتخابی ہوتا تو امید وار بننے، رائے دہندگان کا اعتماد حاصل کرنے کی عملی تربیت ملتی۔ وہ کارکن جسے جماعت کے اندر امیدوار بننے کی اجازت نہ ہو، انتخابی مہم دور کی بات، ذمہ داران کی کارکردگی پر اظہار کرنے کی اجازت نہ ہو، ایسے کارکنوں سے کیسے توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ سیاسی اور انتخابی میدان میں موثر ہو سکیں گے۔وہ امیدوار بننے اور ووٹ مانگنے سے شرمائیں گے۔ ان کو لوگوں کی ذہنی اور مزاجی سطح تک اترنا اور سمجھناکتنا مشکل ہو گا۔
جماعت کے اپنی راہ و منزل سے ہٹنے کا حادثہ کبھی پیش نہ آتا۔ وجہ یہ ہے کہ انتخابی نظام احتساب کے عمل کو زیادہ طاقت ور بنا دیتا۔ یہ امر ماننا ہی پڑے گاکہ جماعت پٹڑی سے اتری۔ نعیم صدیقی اور میاں طفیل محمد صاحب نے واضح طور پر قاضی صاحب کے دورِ امارت میں یہ قرار دیا۔ زندہ اور توانا تنظیم کبھی مقاصد سے ہٹ جانے کا راستہ نہیں دے سکتی۔ جامد نظام کے نتیجہ میں امرا ئے جماعت کے قویٰ ہی مضمحل نہ ہوئے بلکہ پورا جماعتی نظام مضمحل ہو گیا۔ چنانچہ لوگ جماعت کو پٹری سے اتار کر دوسری لائن پر لے گئے مگر کوئی روکنے اور ٹوکنے والا نہ تھا۔
جماعتی نظام میں دوسری خرابی یہ ہوئی کہ مالی لحاظ سے جماعت کی امانت و دیانت اور حسابات کے اپڈیٹ ہونے کی ساکھ مکمل طور پر بر باد ہوگئی۔ نتیجہ کے طور پر جماعت کی قیادت کاروباری لوگوں کے ہاتھوں میں آگئی اور جماعت میں مشنری رجحانات کمزور ہو گئے اور کاروباری داعیے توانا ہوتے گئے۔ منصورہ شریف اب مشن سے زیادہ بین الاقوامی سطح کا ٹریڈ سنٹر بن گیا۔ یہاں ارباب جماعت کے حوالے سے ملک اور دیگر ممالک میں اقتصادی مواقع کا بنیادی نیٹ ورک قائم ہو گیا۔ اقتصادی دوڑ میں ہر کوئی آگے جانے کے لیے پر تول رہا ہے۔ تحریک کدھر جا رہی ہے، پٹڑی سے اتر رہی ہے،اس کا سفر رک گیا ، اس کی کسی کو کوئی پروا نہ رہی۔ اس صورت حال کی جناب وصی مظہر نے دبی زبان میں نشان دہی کی ہے۔ انہوں نے کتاب کے صفحہ نمبر ۱۹۲۔۱۹۳۔۱۹۴ پر بیت المال اور خفیہ ذرائع آمدنی کے تحت لکھا ہے:
’’جماعت اسلامی اس دور میں عام اعانت یا جماعت کے باہر کے لوگوں سے چندہ مانگنے کو نا پسند کرتی تھی۔ وہ صرف ایسے لوگوں سے مالی اعانت قبول کرتی تھی جن کے ذرائع آمدن مشتنبہ نہ ہوں اور جماعت کے نصب العین اور مقاصد سے بھی اتفاق رکھتے ہوں، لیکن قیام پاکستان کے بعد جب جماعت اسلامی کو جلد از جلد سیاسی خلا پر کرنے کے لیے، وسیع رابطہ عوام کے لیے بڑے پیمانے پر چندہ وصول کرنا شروع کر دیا گیا۔ اس کی وجہ سے چار بڑے نقصانات ہوئے:
حلال ذرائع سے آنے والی آمدنی کی برکت ختم ہو گئی۔ جماعت کے ارکان اور رہنما بیت المال کے خرچ میں کفایت شعار اور محتاط نہ رہے۔ بے ایمانی اب بھی خدا کے فضل سے در نہ آئی تھی، مگر تھرڈ کلاس میں سفر کے بجائے اعلیٰ درجوں میں یا ہوائی جہاز سے سفر ہونے لگا، اجتماعات میں کھانے اور رہائش کا معیار بلند ہوتا گیا وغیرہ وغیرہ۔
دوسرا نقصان یہ ہوا کہ ان سرمایہ داروں اور زمینداروں کے لیے نرم گوشہ پیدا ہو گیا جن سے اعانت لی جاتی تھی۔ چنانچہ ان کے ناجائز ذرائع آمدنی کے سلسلہ میں بھی مداہنت سے کام لیا جانے لگا اور جماعت کی پالیسیوں پر ان لوگوں کے اثر انداز ہونے کا دروازہ کھل گیا۔
خفیہ ذرائع: ان ذرائع سے جماعت کے امیر یا اہم افراد کو معقول آمدنی ہونے لگی، لیکن عام ارکان جماعت کو یہ معلوم نہ ہوتا تھا کہ یہ آمدنی کہاں سے آرہی ہے، کتنی آرہی ہے اور کہاں خرچ ہو رہی ہے۔ اس آمدنی میں مولانا کی کتابوں کے ترجموں کی رائلٹی اور عرب حکمرانوں کی جانب سے ان کی وسیع پیمانے پر مفت تقسیم کے لیے خرید اور عرب شیوخ کی بھاری اعانتیں بھی شامل ہو گئیں۔ اسلامی فرنٹ کی پروپیگنڈا مہم پر اٹھنے والے اخراجات اور آمدنی کے ذرائع کے بارے میں عام ارکان تو درکنار، ارکان شوریٰ کو بھی ٹھیک ٹھیک معلوم نہ ہوگا۔ 
میں اس پورے معاملے میں کسی کو بد دیانت نہیں ٹھہرانا چاہتا، لیکن اس طرح بد دیانتی نہ سہی، بد گمانی کے دروازے کھلنے لگے اور ایمانداری کو زیادہ آزمائش میں ڈالنے کا نتیجہ اکثر خطرناک نکلتا ہے۔
پھر یہ بھی ہوا کہ جماعت کے بااثر لوگوں نے اپنی اولاد اور اہل خاندان کو عرب ممالک سے ملنے والے تعلیمی وظائف پر بھیج کر ان کی تعلیم اور روزگار کا اہتمام بھی کر ڈالااور عام ارکان کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوئی، حالانکہ اس قسم کے وظائف سے استفادے کے لیے جماعت کے اندر جوانوں کا عام مقابلہ کرانا چاہیے تھا۔ 
میں اپنی ان سطور سے نہ کسی پر الزام لگانا چاہتا ہوں نہ کسی کو مطعون کرنا چاہتا ہوں۔ بس دل درد مند کے ساتھ چند گزارشات پیش کر دی گئی ہیں۔‘‘
یہاں جناب سید مولانا وصی مظہر ندوی سب کچھ کہنے کے بعد بھی مداہنت کی تصویر بنے نظر آتے ہیں۔ در اصل جماعت کے نظام تربیت اور سخت ڈسپلن سے ترتیب پانے والا مزاج، اظہار میں پوری طرح آزادنہیں ہو سکتا ۔ جامد نظام سے سخت بر گشتہ شخص بھی حسنِ ظن کی اس بیماری سے جان نہ چھڑا سکا جو اس نظام کے اندر باقاعدہ شرعی حوالوں سے پالی گئی ہے۔ یہاں ہم سوال اٹھائیں گے کہ مولانا وصی مظہر صاحب نے جن حقائق کو سپاٹ طریقے سے پیش کر دیا ہے، کیا اس کے بعد ان پر حسن ظن کے ردے چڑھانا لازم تھا؟ کیا جماعت سے علیحدگی کے بعد بھی وہ اس مداہنت کے پابند تھے؟ یہ حال تو جناب ندوی صاحب جیسے صاحب نظر کا ہے اور جن کی بینائی ہی اس جامد نظام نے چھین لی ہو، وہ کیا کرسکتے ہیں؟
انتخابی شکست کے اسباب کی نشاندہی میں بھی جناب ندوی صاحب نے کافی تفصیلی بحث کی ہے، مگر لگتا ہے کہ اس میں بھی وہ جماعتی ماحول سے آزاد ہو کر صورت حال پر غور نہیں کر سکے۔ انہوں نے ان اسباب کے ذکر میں عجلت پسندی کو پہلا سبب قرار دیا۔ دوسرا سبب انہوں نے خود بیان کرتے ہوئے آزادانہ مشاورت کے فقدان کو قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ مشاورت کے دوران میں رائے بعض بزرگوں کی عقیدت میں بلا سوچے سمجھے دے دی جاتی ہے۔
انہوں نے ۱۹۵۳ء کے انتخابات کی جائزہ رپورٹ اور فروری ۱۹۷۲ء کی مرکزی مجلس شوریٰ کی قرار داد کے حوالے سے تفصیلات مہیا کی ہیں۔ جائزہ رپورٹ کے مندرجات کے بارے میں تو جناب ندوی صاحب نے تفصیل سے گریز کیا ہے۔ یہ گریز ہماری سمجھ سے بالا تر ہے۔ لگتا ہے کہ جماعت سے غیر مطمئن ہو کر باہر آکر بھی ان کے پاؤں میں جامد نظام کی پہنائی ہوئی بیڑیاں اپنا کام دکھاتی رہیں۔ در اصل اس نظام نے جو ذہن مرتب کیے وہ مکمل آزادی کے ساتھ سوچنے کی صلاحیت سے محروم نظر آتے ہیں۔ اس پہلو سے ہم یہ نہیں سمجھ سکے کہ جنابِ ندوی اس بنیادی حقیقت تک کیوں نہیں پہنچ سکے کہ جماعت کی جملہ سرگرمیوں کا محور استحصالی دوڑ میں شرکت کرکے اپنی بساط کی حد تک حصہ رسدی وصول کرنے کے سوا کچھ نہیں رہا۔ استحصال سے لوگوں کو چھٹکارا دلانے کا جماعت کے پاس کوئی لائحہ عمل ہی نہیں۔ بعض قومی اور عقیدے کے روایتی مسائل کے علاوہ لوگوں کی حقیقی پریشانیوں میں کوئی کردار ادا کیے بغیر آپ سیاسی میدان میں کس طرح پیش رفت کر سکتے ہیں۔ ہم نے تو وہ بد قسمت مناظر بھی دیکھے ہیں کہ لوگ آٹے اور چینی کے لیے، روزہ رکھ کر قطاروں میں کھڑے جانیں دے رہے تھے اور جماعت کے ذمہ داران پورے ملک میں بڑے بڑے ہوٹلوں اور شادی ہالوں میں افطار پارٹیاں منعقد کر رہے تھے۔ شاید ایسی ہی صورت کے بیان کے لیے جناب خرم مراد نے یہ لکھا ہے کہ ہماری دنیا لوگوں سے الگ ہے۔ ہم اپنی دنیا میں مست ہیں اور لوگ اپنی بے بسیوں کا شکار ہیں۔
جماعت نے لوگوں کو درپیش مسائل میں کبھی کوئی ترجیحات مرتب کی ہیں اور نہ ہی ان پر عملی جد و جہد کا سنجیدہ پروگرام بنایا ہے۔ جب بھی یہ بات کہی جائے تو جماعت کے لوگ یہی کہتے ہیں کہ اس طرح کی ترجیحات تو بر سر اقتدار آنے والی جماعتوں نے بھی مرتب نہیں کیں۔ مگر جماعتی حلقے یہ نہیں سوچتے کہ غالب جماعتوں کی کامیابی کے ذرائع جماعت سے بہت مختلف ہیں۔ جماعت کو یہ ذرائع تو حاصل ہی نہیں ہوسکتے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر نذیراحمد شہید کی مثال ایک استثنا ہے۔ انہوں نے مقامی سطح پر سول انتظامیہ پر زبردست گرفت قائم کر کے مظلوم عوام کو جو حوصلہ اور تحفظ دیا، وہ اپنے برگ و بار دے کر رہا۔ ۱۹۷۰ء کے انتخابی معرکے میں، پیپلز پارٹی پنجاب اور سندھ میں سیلاب کی طرح پھیل گئی۔ ضلع ڈیرہ غازی خان میں ڈاکٹر نذیر کا کمال تھا کہ پیپلز پارٹی پورے ضلع میں ناکام رہی۔ وہ قومی یا صوبائی اسمبلی کی کوئی نشست بھی حاصل نہ کر سکی۔ قومی اسمبلی کا رکن بننے کے بعد، ڈاکٹر نذیر شہید نے اپنے اندازِ جد و جہد کو پورے ملک میں پھیلانے کے لیے عوام کی سطح پر آکر کام شروع گیا تو جماعت کی قیادت پریشان ہو گئی۔ ڈاکٹر نذیر احمد کو جماعت نے پابند کرنا چاہا مگر ایسا عملاً ممکن نہ تھا۔ ’’وہ جماعت کو ایک ایسی راہ پر لے کر چل پڑے جس پر جماعت چلنا نہیں چاہتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو جلد سنبھال لیا وگرنہ جماعت کسی بڑی آزمائش میں مبتلا ہو جاتی۔‘‘ (یہ امیر جماعت اسلامی ملتان شیخ عبدالمالک کی گفتگو کے الفاظ ہیں)۔ ڈاکٹر نذیر شہید کر دیے گئے۔ کتاب زیر تبصرہ میں مولانا وصی مظہر نے اس پہلو کی جانب کوئی توجہ نہیں دی۔ جماعت کی انتخابی شکست کے جائزے میں ڈاکٹر نذیر کی جد و جہد کا ذکرنہ آئے عجیب و غریب بات ہے۔ جماعت تو شکست کے اسباب معلوم کرنا چاہتی ہے اور نہ ان کو دور کرنے کی ضرورت محسوس کرتی ہے۔ حیرت یہ ہے کہ جناب وصی مظہر کی موجودہ کتاب بھی ڈاکٹر صاحب کے ذکر سے خالی ہے۔ در اصل جناب ندوی انتخابی نتائج سے مایوس ہو کر دیگر ذرائع کی جانب مائل ہو گئے تھے۔ اس بارے میں انہوں نے مولانا مودودی کے بعض تائیدی حوالے دیے۔ ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے بعد جب لوگوں نے لکھ لکھ کر مرکز میں انبار لگا دیے تو جماعت نے ان تحریروں کے جائزے کے لیے ایک کمیٹی بنائی۔ کمیٹی نے فروری ۱۹۷۲ء کو رپورٹ دی جس پر ایک قرار داد مرتب کر کے مرکزی مجلس شوریٰ میں پیش ہوئی۔ جناب ندوی کی روایت کے مطابق شوریٰ میں قرار داد مولانا مودودی نے خود پیش کی۔ اس موقع پر مولانا مودودی علیہ الرحمہ نے جو تقریر کی، اس کی روایت جناب ندوی کے الفاظ میں اس طرح ہے، مگر یہ واضح رہے کہ جماعت نے جماعتی حلقے مولانا مودودی کے انتخاب کے علاوہ کسی دیگر طریقہ کار کی جانب مائل ہونے سے انکار کرتے ہیں۔ اس بارے میں جناب ندوی کے حوالوں کی بنیاد پر کوئی نتیجہ اخذ کرنا تو اتنا آسان نہیں مگر ان کے حوالے بہر حال اہمیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے ایک مولانا مودودی کے مرکزی مجلس شوریٰ سے خطاب مورخہ ۲۸ نومبر ۱۹۷۵ء کا حوالہ دیا ہے۔ صریر خامہ کے صفحہ نمبر ۱۶۹ پر ایک خط پر ان الفاظ میں درج ہے:
’’تباہی کا اصل سبب بالغ رائے دہی ہے۔ میں خود بالغ رائے دہی کے لیے دلائل دیتا رہا ہوں، لیکن تجربے سے معلوم ہوا کہ یہ سب غلط ہے۔ یہ ملت کی قسمت کو جاہلوں کے حوالے کرنا ہے۔ رائے دہی کے لیے تعلیم وغیرہ کی کوئی کم سے کم شرط عائد کی جاسکتی ہے۔ قوم کے دو طبقے ہیں: ایک تعلیم یافتہ طبقہ اور یہی طبقہ در اصل کرم فرما طبقہ ہے، یہی ملک کو چلاتا ہے۔ تعلیم یافتہ طبقہ دو حصوں میں منقسم ہے: ایک دنیا دار اور ایک دین دار۔ ان میں سے دین دار طبقے کی اکثریت اگرچہ ہمارے ساتھ نہیں، لیکن سنجیدہ لوگ ہمارے ساتھ ہیں۔ دنیا دار طبقے کی بڑی اکثریت ہمارے ساتھ ہے اور یہ طبقہ آہستہ آہستہ ہمارے بارے میں یکسو ہوتا جا رہا ہے۔ عوام الناس کی اکثریت کے باوجود ملک کی زمام کار اسی طبقے کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ ان کے مقابلے میں عوام الناس کا یہ حال ہے کہ وہ بہت جلد دھوکہ میں آ جاتے ہیں اور دھوکہ دینے والے لوگ بہت موجود ہیں، لہٰذا انتخابات کے ذریعے کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں، کیونکہ اولاً بھٹو صاحب آمریت کے لیے ہر داؤ استعمال کر رہے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ عام لوگ ان سے نفرت کرتے ہیں، اس لیے وہ ایسے انتظامات کر رہے ہیں کہ اگر صد فیصد رائے بھی ان کے خلاف ہو تو بھی نتیجہ صد فیصد ان کے حق میں نکلے۔ (مارچ ۱۹۷۷ء کے انتخابات میں مولانا مودودی کی یہ پیشین گوئی سچ ثابت ہوئی)۔ عوام صرف اپوزیشن کے لیے اسمبلی میں ارکان بھیجنے کی ضرورت نہیں سمجھتے، وہ صرف اس کو ووٹ دینے کی ہمت کریں گے جس کے متعلق ان کو یقین ہو کہ وہ بھٹو کو Replace کر سکتا ہے، لیکن بھٹو صاحب عوام کو یقین دلا دیں گے کہ تم مجھ کو ہٹا نہیں سکتے۔ اس حالت میں عوام صرف طاقتور کے ساتھ ہوتے ہیں۔ کام کرنے کا صحیح طریقہ صرف یہ ہے کہ ہم ذہین طبقے کے اندر اپنا کام تیزی سے کرتے چلے جائیں تا آنکہ آمر پلپلا ہو جائے اور کرفرما طبقے میں سے کوئی نمبر ۲ اس کی جگہ لے سکے۔ اس وقت ذہین طبقے میں ہماری دعوت پوری طرح گھرکر چکی ہوگی۔‘‘
جناب ندوی کے مطابق قرار داد میں دیگر کئی امور کے علاوہ یہ کہا گیا کہ :
’’جماعت اسلامی سیاسی مہمات میں شرکت نہ کرے اور ہر مسئلہ پر صرف قرار دادوں کی صورت میں اپنی رائے ظاہر کرے۔‘‘ 
’’حکومت سے براہ راست تصادم سے بچتے ہوئے دعوتی اور تنظیمی کاموں پر توجہ دے۔‘‘ (صریر خامہ صفحہ نمبر ۱۷۲)
قرار داد بلا کسی بحث کے منظور ہوئی، لیکن اس کا جو حشر ہوا، اس کا ذکر کرتے ہوئے جناب ندوی لکھتے ہیں:
’’شوریٰ میں بحث نہ ہونے کی وجہ سے ارکان شوریٰ پر نئی پالیسی اور قرار داد کے مضمرات واضح نہ ہو سکے۔ بالخصوص محترم میاں طفیل محمد پر جو قائم مقام امیر کی حیثیت سے اس وقت تک کام کر رہے تھے اور کسی وجہ سے مجلس عاملہ کی بحثوں میں شریک نہ تھے، انہوں نے نہ پالیسی کو سمجھا نہ اس قرار داد کو، حتیٰ کہ دوسرے ہی دن کے اجلاس میں انہوں نے شوریٰ کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ ملک کا نیا دستور بن رہا ہے، اس لیے شوریٰ وہ کم از کم نکات طے کر دے جن کو ہم دستو رمیں شامل کرانا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ جماعت ان نکات کے لیے مہم شروع کردے۔ چنانچہ مولانا مودودی اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ ہم نے کل یہی تو طے کیا ہے کہ ہم کسی قسم کی مہم نہ چلائیں گے۔ دستور ساز اسمبلی میں اسٹیئرنگ کمیٹی کے ذریعہ جو اسلامی دفعات شامل کی جاسکتی ہوں، ان کو شامل کرنے کی کوشش کی جائے، سر دست کسی عوامی مہم کی ضرورت نہیں۔ لیکن جماعت اسلامی پر قابو یافتہ افراد کو یہ قرارداد ایک آنکھ نہ بھائی، چنانچہ انہوں نے اولاً تو اس قرارداد کو تین ماہ تک چھپنے ہی نہ دیا اور اس عرصے میں بتدریج حکومت سے محاذ آرائی شروع کر دی۔‘‘ (صریر خامہ صفحہ ۱۷۲)
بہر صورت جناب ندوی صاحب کی صریر خامہ میں شامل تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسی قرار داد پر عمل درآمد کا مسئلہ ان کو جماعت سے باہر لے گیا۔ قرارداد کا منشا، سیاسی جد و جہد کو low profile کی سطح پر لے جانا تھا مگر جماعت کی قیادت اس کے لیے تیار نہ تھی۔ وہ مولانا مودودی اور شوریٰ کو بائی پاس کرنے پر شعوری یا غیر شعوری طور پر تلی ہوئی تھی۔ جناب سید وصی مظہر اس صورت حال میں احتجاج کرتے رہے۔ انہوں نے مورخہ ۳؍اپریل ۱۹۷۲ء، ۹ ؍جون ۱۹۷۲ء کو میاں طفیل محمد صاحب کے نام خطوط لکھے۔ ان خطوط کے بعض حصے صریر خامہ میں شامل ہیں۔ ۹ جون ۱۹۷۲ء کے خط میں مولانا مودودی کی شوریٰ سے خطاب کے کچھ مزید جملے درج کیے ہیں:
’’موجودہ حالات میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف تحریک چلانے میں پیش پیش رہنے کا نتیجہ وہی ہو گا جو ایوب خان کے خلاف جد و جہد میں پیش پیش رہنے کا نکل چکاہے یعنی دکھ سہیں بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں۔ مذکورہ بالا حالت میں صحیح طریقہ وہی تھا جو مرکزی مجلس شوریٰ نے طے کیا تھا کہ سیاسی حریف کی حیثیت کو حتی الوسع ہلکا کیا جائے اور داعیانہ رنگ اختیار کر کے ملک کے باثر طبقات، طلبہ، اساتذہ، وکلا، مزدور، کسان، کارخانے دار، زمیندار وغیرہ میں منظم دعوتی کام کے ذریعہ یا کسی دوسرے مناسب حال وسیلے سے اسلامی نظام برپا کیا جائے۔‘‘
جناب وصی مظہر صاحب کے احتجاج کو کسی نے نوٹ نہ کیایہاں تک کہ خطوط کے جواب تک نہ دیے گئے۔ انہوں نے ارکان کے اجتماع میں بات کرنا چاہی تو رکن شوریٰ ہونے کی وجہ سے اجازت نہ دی گئی۔ انہوں نے شوریٰ سے استعفا دے دیا تو اسے قبول نہ کیا گیا اور شوری ٰمیں موقع ملا تو کہا گیا کہ اجتماع ارکان میں یہی طے ہوا ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود عملی طور پر پرنالہ وہیں رہا۔ میاں (طفیل) صاحب سے ملاقات کی درخواست کی گئی مگر اس کا کوئی موقع نہ دیا گیا۔ اس کے بعد، جناب ندوی جماعت کے اندر رہنے کی کوئی صورت نہ دیکھتے ہوئے باہر کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔
بہر حال انتخابی شکست کے اسباب کے بارے میں یہ امر اپنی جگہ قطعی ہے کہ جماعت عوامی سطح تک کبھی پہنچی ہی نہیں۔ قومی سطح پر جماعت کچھ نہ کچھ امیج بنانے میں کامیاب ہوئی، مگر مقامی سطح پر تو میدان ہمیشہ کی طرح خالی رہا۔ حالانکہ تبدیلی کا موثر عمل تو مقامی سطح ہی سے شروع ہوتا ہے۔ در اصل جماعت ایشوز پر سیاست کا کوئی لائحہ عمل مرتب ہی نہیں کر سکی۔ جماعت دوسروں کی ترجیحات کا پیچھا کرتی رہی ہے۔ اس بارے میں جس سیاسی اور اجتہادی بصیرت کی ضرورت ہے، جماعت کی قیادت میں اس کا ہمیشہ سے مکمل فقدان رہا ہے۔ جماعت کی پوری سیاسی جد و جہد کا بغور جائزہ لیا جائے تو واقعات سے یہی ثابت ہوتا ہے۔ آمریت کے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی کے مقاصد کے لیے اتحادی سیاست میں شرکت جماعتی تشخص کی تباہی کا باعث ہوا۔ ان اعلیٰ مقاصد کے لیے اتحاد کیے بغیر بھی دیگر سیاسی جماعتوں سے تعاون کی راہیں تلاش کرنا ممکن تھیں، مگر ہمارے لیے یہی بہت غنیمت تھا کہ جماعت کی قیادت کو دیگر جماعتیں ساتھ شریک کر لیں۔ یہ در اصل جماعت کی مضبوط تنظیم کا کم از کم معاوضہ تھا۔ اس کے لیے نفع و نقصان کی بیلینس شیٹ تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس پہلو کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تو اس کی وجوہات موجود ہیں، مگر انتخابی اتحاد کی راہ پر چلنا سیاسی خو دکشی سے کسی طرح کم نہیں ۔
اس طویل بحث کا خلاصہ یہ ہوا کہ ’’صریرخامہ‘‘ میں جس قدر تحریریں جماعت پر نقد سے متعلق شامل کی گئی ہیں، وہ قابل توجہ ہیں۔ جناب سید وصی مظہر ندوی نے ان میں جو نتائج مرتب کیے ہیں، ان سے اتفاق و اختلاف کی گنجائش ہے، لیکن ان کی پیش کردہ معلومات ان کے اپنے مشاہدات اور تجربات ہیں۔ یہ کافی مواد کی حامل ہیں۔ اس کی بنیاد پر تحقیق کرنے والوں کو کافی مدد مل سکتی ہے۔ اس پر ۱۹۷۶ء تک کے حالات کے حوالے موجود ہیں۔ اس طرح کی ان کی دیگر تحریروں کو اگر شائع کر دیا جائے تو امید بندھتی ہے کہ یہ بڑی مفید ہوں گی۔ جماعت میں اوپر کی سطح کا کوئی دوسرا شخص ایسا نہیں جس نے کھل کر اور براہ راست انداز میں کلام کیا ہو۔ بہر صورت اس کتاب کو مواد اور موضوع کے لحاظ سے اہمیت دی جانی چاہیے۔

اسلام کی نئی تعریف؟

محمد دین جوہر

میاں انعام الرحمن صاحب نے الشریعہ کے ستمبر ۲۱۰۲ء کے شمارے میں ’’پاکستان میں نفاذ اسلام کی جدو جہد‘‘ کے عنوان سے ایک طویل مضمون تحریر کیا ہے۔ ذیل کی گزارشات اسی ضمن میں پیش کی جار ہی ہیں۔ ہم میاں صاحب کے اس مضمون کا ایک تجزیہ قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہیں گے، لیکن تمہید ہی میں یہ عرض کر دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمیں ا س مضمون کے مشمولات سے نہایت بنیادی نوعیت کااختلاف ہے، کیونکہ قلب ہدایت تک نظریے کی جارحانہ رسائی کو ہم کوئی مستحسن اقدام نہیں سمجھتے۔ اگر خود نظریہ اپنے اظہار کا کوئی علمی اسلوب رکھتا ہو تو اس سے گفتگو میں آسانی ہو جاتی ہے، یہاں تو کیا تکوین اور کیا تاریخ، اور کیا صورت حال اور کیا وحی، سب ایک دوسرے سے اس طرح الجھے ہوئے ہیں کہ تفہیم سربگریباں ہے۔ ان گزارشات کی ضرورت کو بھی میں ابتدا ہی میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اس مضمون میں نظری اور نظریاتی کاوش کے سوتے جہاں سے پھوٹ کر تعبیر بن رہے ہیں ، وہ سوتے یا تو بالکل ہی .. unarticulated .. ہیں، یا ان کی ..articulation.. بہت ہی خفیف ہے۔ ہم اپنی کوشش کو زیادہ تر ان کی ..articulation.. پر مرکوز رکھیں گے۔ اس تجزیے کے آخر میں استعمار آفریدہ جدید شعور کے علمی پیچ و تاب کی طرف کچھ اشارات کرنے کی ضرور جسارت کریں گے تاکہ عصر حاضر میں اس کے اسلوب فعلیت کو متعین کرنے کی طرف پیش رفت کو ممکن بنایا جا سکے۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ مضمون کا عنوان ’’نفاذ اسلام‘‘ کو اجاگر کرتا ہے، لیکن نفس مضمون میں ’’نفاذ‘‘ ضمنی حیثیت اختیار کر جاتا ہے اور صاحب مضمون ’’اسلام کی نئی تعریف‘‘ کی طرف بہت دور نکل جاتے ہیں، اس قدر دور کہ لوٹ کے ہی نہیں آتے، بس ایک استدراک چھوڑ جاتے ہیں۔ میں تو استدراک ہی پر معتکف ہوں اور ابھی تک یہ عقدہ نہیں کھلا کہ یہ کسی متداول اخبار کا تراشہ ہے یا کسی علمی مضمون کا تتمہ؟ اس ادھیڑ بن میں یہ بھی پتہ نہیں چل رہا کہ ’’اسلام کی نئی تعریف ‘‘ پر دین کی عمارت کہاں استوار ہوئی یا پرانے دین کے ملبے پر نئی تعریف کا علم کہاں بلند ہوا؟ 
اس مضمون کے عنوان میں ’’نفاذ‘‘ کا لفظ برتا گیا ہے۔ یہ لفظ استعمار آفریدہ تعلیم اور اس کے تحت فروغ پانے والے مستریانہ علم کی فضا میں جنم لینے اور پرورش پانے والے شعور کی گھٹی میں پڑا ہے اور اس کا اسم اعظم ہے۔ بعد ازاں، استشراق نے اس شعور کی گود گیر ی مکمل کر کے بہت محنت اور لگن سے اس کی رضاعت کی ذمہ داریوں کو نبھایا ہے۔ پھر نفاذ کا تصور استعماری صدیوں میں پیدا ہونے والے ہمارے زیادہ تر جعلی اور جدید مذہبی علم کا محور بھی ہے۔ نفاذ کی ہر گفتگو ایک ایسے اغماض سے شروع ہوتی ہے جس پر کسی بھی سطح کی علمی دیانت صاد کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ نفاذ کا مسئلہ براہ راست جس چیز سے جڑا ہوا ہے، وہ طاقت یعنی سیاسی طاقت ہے، نظر (theory) یا نظریہ (ideology) یا مذہب نہیں ہے۔ نفاذ کا نظریے یا مذہب سے تعلق براہِ سیاسی طاقت ہے براہ راست نہیں ہے۔ نفاذ کی بحث ثانوی، ضمنی، ذیلی اور تحتانی ہے۔ بنیادی بحث یہ ہے کہ قائم شدہ عصری سیاسی طاقت کا.. structure ..کیا ہے؟ اس سیاسی طاقت کا مقامی، علاقائی اور بین الاقوامی ..structure.. کس نے تشکیل دیا ہے؟ جدید عصری سیاسی طاقت کا اسٹرکچر کن اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لیے بنایا گیا ہے؟ پھر سیاسی طاقت کی عصری تشکیل عالمگیر سطح پر کیا منہاج رکھتی ہے اور اس کی ساخت روایتی سیاسی طاقت کی ساخت سے کس طرح مختلف ہے؟ سیاسی طاقت کس تاریخ کی کوکھ سے برآمد ہورہی ہے او راس تاریخ کی حرکیات کی تفہیم کے لیے کون سے نظری علوم اور علمی طریقہ ہائے کار فراہم ہیں؟ نفاذ کی بحث کو سیاسی طاقت کے ..structure.. سے الگ کر کے، اور سیاسی نظام میں طاقت روائی کی منہج سے آنکھیں چرا کر نظریے سے جوڑنے کی چابک دستانہ کوشش کرنا ایک گہرا علمی اغماض ہے جو اب ہمارے ہاں کتمان کے درجے کو پہنچا ہوا ہے۔ اگر قانون اور نفاذ کی بحث ہمیں فوری طور پرمتداول سیاسی طاقت کے تجزیے کی طر ف نہیں لے جاتی تو ہمیں اپنی فکر کرنے کی ضرورت ہے ، کسی نا زائیدہ فکر کے امکانات کی پڑتال بعد میں بھی ہو سکتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ہمیں یہ بات ہر گز نہیں بھولنی چاہیے کہ جدید سیاسی طاقت اپنی تشکیل ..(constitution) ..اور ترسیل.. (deployment).. میں ما فوق الفطرت اثر انگیزی، اثر اندازی اور سفاکی حاصل کر چکی ہے۔ ایسی صورت حال میں جدید سیاسی طاقت نظریے کی سترپوشی کے بغیر فرمانروائی کا تصور بھی نہیں کر سکتی اور نظریہ ..(ideology).. ہی جدید سیاسی طاقت کی جوازکاری.. (legitmization) .. کا سب سے بنیادی، مؤثر اور طاقتورٹول ہے۔ لہٰذا علمی دیانت ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ ہم سب سے پہلے اپنے ہاں اور عالمگیر سطح پر قائم سیاسی طاقت کے ..structure.. کا مطالعہ متداول علوم میں رہ کر کریں ، اور اس کے منتہائی نتائج پر غور کر نے کے بعد سیاسی طاقت اور نفاذ کے باہمی مسئلے کو حل کریں۔ یہاں ہمیں اس خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ طاقت کی بحث نظریے کے خلا میں آگے بڑھائی جا سکتی ہے۔ پھر نظریے اور مذہب پر جو بحوث چل رہی ہیں ان میں شریک ہو کر ہمیں نظریے اور مذہب کا تعلق طے کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی طاقت اور نظریے سے اغماض برت کو نفاذ کی بحث چلانے کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہم اسلام کے نفاذاور اشیائے خوردنی کے نرخوں کے نفاذ کو ایک ۔ہی سطح پر رکھ کر دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور جب جدید علم اور جدید طاقت کا تجزیہ موجود نہ ہو، تو جدید اور بے سروپا نظریا ت کے محاصرے میں مذہبی متون ایک ٹول بن جاتے ہیں۔ 
ایک بات جس کا معلوم ہونا ضروری ہے کہ فاضل مضمون نگار کی یہ تحریر کس نوع علم سے تعلق رکھتی ہے؟ یہ ایک بدیہی اور متفقہ بات ہے کہ انسان کا عقلی شعور ہر تہذیب اور ہر عہد میں علم کے ..standard disciplines and discourses.. میں اپنی فعلیت کے حاصلات کی تشکیل کرتا ہے۔ اس کے بغیر علم کا کسی بھی طرح کا کوئی تصور سرے سے موجود یا ممکن ہی نہیں ہے۔ ورنہ ہر طرح کی بک بک جھک جھک علم ہی قرار پائے گی اور علم کا استدلالی اور جدلیاتی عمل ممکن نہیں رہے گا۔ ہمار ے ہاں تو غدر مچا ہوا ہے اور موج لگی ہوئی ہے۔ لیکن اگر ہم اپنے ماضی کی طرف دیکھیں یا موجودہ مغرب کو دیکھیں تو وہاں بھی علم کا بنیادی اسلوب ..standard.disciplines.and discourses ..میں ہی چلنے کا ہے۔ اسلامی تہذیب میں ظاہر ہونے والی علمی روایت سے آدمی کا اختلاف بھلے جو بھی ہو وہ اپنی جگہ، لیکن یہ روایت استناد اور استدلال کے جواز کے فرق کے ساتھ منقولی اور معقولی کی واضح تقسیم رکھتی تھی۔ یہ مضمون اصول تفسیر، تفسیر القرآن، اصول فقہ، اصول حدیث ، علم بلاغت ، علم بیان وغیرہ کے زمرے سے نہیں ہے، نہ ہی یہ کوئی کلامی اور عرفانی کاوش ہے۔ دوسری طرف اس مضمون کا متداول اور عصری علوم میں شجرہ نسب تلاش کرنا بھی ممکن نہیں ہے، مثلاً فلسفہ، مابعد الطبیعات ، عمرانیات، معاشیات، تاریخ ، آثاریات یا بشریات وغیرہ۔ ہمیں یہ معلوم کرنے میں بہت دلچسپی ہے کہ قرآن پر جس ..hermeneutics..کو آزمایا جا رہا ہے وہ کدھر سے آئی ہے؟ اور وہ ہے کیا؟ اور جن خیالات کو قرآن کے نظریۂ تاریخ کے طور پر آگے بڑھایا جا رہا ہے، ان کی واضح تفصیل کیا ہے؟ اور ان کی قرآن کریم، نظریہ سازی کے طریقۂ کار کی شرائط، تاریخ نگاری اور اصول تاریخ سے کیا نسبت اور کیا تعلق ہے؟
قیام علم کے تاریخی طور پر دو طریقے موجود رہے ہیں: ایک مذہبی استناد اور دوسرے عقلی استدلال۔ استعمار کے آغاز کے ساتھ ہی ایک نیا استناد اور جواز سامنے آیا جس کا تعلق عہدے سے ہے، یعنی سیاسی طاقت سے۔ اب غالب طور پر یہی استناد باقی رہ گیا ہے، یعنی علم کی قلم رو میں مذہبی استناد اور عقلی استدلال کمزور پڑ گیا ہے اور علم طاقت کی ترجیحات کے مطابق تشکیل پا رہا ہے۔ ہم یہ جاننا چاہیں گے کہ اس مضمون میں علم کے کس استدلال کو کام میں لایا گیا ہے؟اگر تو یہ کوئی ذہنی سفرنامہ ہے تو پھر اس کا جواز یقیناًموجود ہ ہے کیونکہ سیر عقائد و افکار میں اپنے مشاہدات، تجربات اور پسند ناپسند کے اظہار کی گنجائش موجود رہتی ہے۔ ایسی صورت میں اس کو نئی تعریف یا تعبیر کا نام دینا مناسب نہیں ہے۔ اور اگر یہ واقعی کوئی نئی تعریف یا تعبیر ہے تو اس کی علمی منہج کو ..articulate.. کرنا ازبس ضروری ہے۔ 
ہم جیسے عام مسلمانوں کے نزدیک حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات پاک اور قرآن مجیدکو نہ تو ..question.. کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ..redefine.. کیا جا سکتا ہے۔ صحابۂ کرامؓ، ائمہ اربعہ اور ان کے بعد امت میں ظاہر ہونے والے علما کی طویل درخشندہ لڑی بہت محترم ہے۔ ہم اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلمکے علاوہ کسی کو معصوم عن الخطا نہیں سمجھتے، لیکن ہم بزرگوں کی عیب چینی کو دین اور ایمان دونوں کے لیے سنگین خطرہ سمجھتے ہیں۔ ہم علمائے سوء کے وجود سے انکار نہیں کرتے، لیکن اس کی آڑ میں علمائے حق کی نام نہاد ’فکری ‘مخالفت کو بڑی محرومی اور بدنصیبی خیال کرتے ہیں۔ ہمارے لیے یہ بات سمجھنا از حد دشوار ہے کہ اسلام کی نئی تعریف متعین کرتے وقت ہمارے روایتی علما کی شامت کیوں آ جاتی ہے؟ آخر انہوں نے ایسی کیا خطا کر دی ہے کہ اسلام کی نئی تعریف پر نکلنے والا ہر مہم جو روایتی علما پر تیر اندازی اپنا اولین فرض سمجھتا ہے؟ جدیدیت پسند دانشوروں اور نام نہادمتجددین نے دین اور اس امت مرحومہ پر جو احسانات فرمائے ہیں، ہم ان کی گوشہ وار تفصیل سے بھی باخبر ہیں۔ یہ بات تو کہی جا سکتی ہے کہ ہمارے روایتی علما جدید تہذیب کی تفہیم اور تردید کے لیے کوئی علمی اور فکری اسلوب پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اس کی وجہ سے یقیناًبہت سے سنگین مسائل پیدا ہوئے ہیں، اور اس معاملے میں ہمیں بھی ان سے سخت شکایات ہیں۔ لیکن ہمارے علما دین کے روایتی موقف کو باقی رکھے ہوئے ہیں اور اسی کا پرچار کرتے ہیں اور یہی اصل چیز ہے۔ ہمارے خیال میں روایتی علما اپنی تمام تر فروگزاشتوں اور تسامحات کے باوجود سرآنکھوں پر بٹھائے جانے کے قابل ہیں کہ وہ دین کے روایتی موقف اور تعلیم سے ارادتاً دستبردار ہونے کے لیے ہر گز تیار نہیں۔ اپنی معاشی اور ثقافتی ابتری اور سیاسی نکبت کے باوجود ہمارے علما ایک گہری شکست میں ہوتے ہوئے بھی دین میں کسی بنیادی رد و بدل پر تیار نہیں۔ یہ ان کا اس امت پر احسان ہے جس کی ہمیں قدر کرنی چاہیے۔ 
اسلام کی نئی تعریف کے منصوبہ ساز دانشور حضرات کا ایک نہایت اہم مسئلہ ہے کہ انہیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عام مسلمانوں کے تعلق کا روایتی اسلوب پسند نہیں، بلکہ یہ انہیں بڑا ..outdated.. لگتا ہے، قرآن سے عام مسلمانوں کا تعلق صرف فہم تک محدود اورصرف ذہنی نہیں بلکہ وجودی ہے،اور یہ بھی دین کی نئی تعبیر والوں کو بہت دقیانوسی معلوم ہوتا ہے۔ پھر فقہی احکامات کی تفصیلات بھی غیر ضروری معلوم ہوتی ہیں، اور حدیث کا بیان بھی نامکمل محسوس ہوتا ہے۔ ایسی صورت حال میں وہ بڑی احتیاط سے دین سے جڑی ہوئی چیزوں کو منقطع کرنا شروع کرتے ہیں ۔ دینی روایت سے رستگاری کے بعد آخر میں قرآن اپنی ظاہری ہیئت میں باقی رہ جاتاہے اور اس کے معانی پر تعبیراتی طبع آزمائی بہت آسان ہو جاتی ہے۔ نتیجے کے طور پر ہم جیسے روایت پسند اور عام مسلمانوں سے مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ وہ فقہ، حدیث اور دیگر روایتی علوم کو چھوڑ کر ان کے مہیا کردہ چیتھڑوں پر قناعت کر لیں۔ یہ مطالبہ عام مسلمان کے لیے بہت ہی بڑا اور ناقابل تصور ہے۔
اب تین اقتباس ایک تسلسل میں ملاحظہ فرمائیے:
’’ (۱)..اس مطالعے کے دوران میں ایک اساسی نکتہ دھیان میں رکھنا بہت ضروری ہے کہ کتاب اور صاحب کتاب کی اس نوع کی تفصیلات ، قرآنی نظریۂ تاریخ کی روشنی میں کھنگال لینی چاہئیں۔ یعنی ان تفصیلات میں ترجیحی طور پر ان امور کوزیر بحث لانا چاہیے جو کسی بھی عمومی عمرانی صورت حال سے مطابقت رکھے ہوئے ہوں۔ ایک لحاظ سے یہ وہی کام ہے جو شارع نے خود نزول قرآن کے وقت ، ما قبل تاریخ کی چھانٹی اور نچوڑ کی صورت میں کیا تھا، اب اس کام کی ذمہ داری امت مسلمہ کے کندھوں پر ڈال دی گئی ہے۔ ۔۔۔
(۲).. اب مخصوص عمرانی صورت حال کی حامل تاریخ میں نچوڑی عمل کے ذریعے سے حاصل شدہ تاریخ ..(....gist of history) .. جو کسی بھی عمرانی صورت حال کے موافق ہو سکے، اصولاً (قرآن کے داخل میں) محفوظ کر لی جانی چاہیے تھی ، اور اسے محفوظ کر بھی لیا جاتا ہے۔۔۔۔
(۳).. قرآن مجید کی پہلی حیثیت اس اعتبار سے اس امر کی علامت بن جاتی ہے کہ شارع نے تاریخ کی چھانٹی کا عمل قرآن کے داخل میں کر دکھایا ہے۔‘‘ 
یہاں صرف ایک بات رہ گئی ہے کہ شارع کو شاباش نہیں دی کہ اس نے اپنا ..homework.. مکمل کر کے بہت اچھی ..assignment.. تیار کی ہے۔ اور پھر ’’عمومی عمرانی صورت حال‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ اور قرآن کی چھانٹی اس لیے کی جائے کہ وہ اس چیستاں سے مطابقت لیے ہو ئے ہو؟ اور باقی قرآن؟ مصنف لفظی ہیر پھیر سے وہی بات کر رہے ہیں جو مغرب کے جدید دانشور کھل کر کرتے ہیں کہ قرآن کی از سر نو ..editing.. ہونی چاہیے۔ یہاں عمرانی صورت حال، چھانٹی شدہ تاریخ، قرآن میں موجود نچوڑی تاریخ، صورت کی کلی تفہیم، ترتیب نزولی اور ترتیب حتمی کی الل ٹپ بحث، وغیرہ وغیرہ کے نقاب پوش نظریاتی مہرے بھی قرآن مجید کی تدوین جدید کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ جس طرح شارع نے چھانٹی شدہ تاریخ کو قرآن بنا دیا اس طرح امت مسلمہ چھانٹی شدہ قرآن کو ایک بار پھر تاریخ بنا دے۔ 
اسلام کی نئی تعریف اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اسلام بطور دین کے ہر پہلو کو از سر نو متعین نہ کر لیا جائے۔ اس کا مقصد کسی دینی غایت تک پہنچنا نہیں ہے بلکہ عصری طاقت اور علم کے سامنے معافی تلافی کرکے جان بخشی کرانا ہے۔ اس مہم جوئی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت و مقام کو نہایت غیر محسوس طریقے سے تبدیل کرنا بھی شامل ہے۔ اسوہ کا نیا مفہوم ملاحظہ ہو:
’’مذکورہ بحث کے بین السطور یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکت کے ’’اسوہ کامل‘‘ ہونے کا ایک درخشندہ پہلو، اپنے دور کی سماجی صورت حال اور اس سے منسلک مطالبوں کے مکمل ادراک پر محیط ہے۔‘‘ 
ذرا دیکھیے کہ مصنف نے ’’درخشندگی‘‘ کہاں ارزانی فرمائی ہے! اور پھر ’’اسوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم واور قرآن مجید کی ترتیب نزولی کے باہمی تعلق کی حیثیت ’’تاریخ‘‘ کی ہو جاتی ہے۔‘‘ اگر دین کی نئی تعبیر کے بین السطوری ایجنڈے کی مکمل ..articulation.. ہو جائے تو اصل صورت حال واضح ہو جائے گی، لیکن اہل نظر اس سے خوب واقف ہیں کہ دین کا کوئی پہلو اس بین السطوری شب خون سے بچ نہیں سکتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک کا تاریخ، تقدیر اور تکوین سے کیا تعلق ہے؟ ہم اس بحث میں پڑے بغیر یہ عرض کریں گے کہ جہاں ’’اسوہ کامل‘‘ نعوذ باللہ تاریخ کی گرد بن کے بھی زیب داستان کے لیے ’’کامل‘‘ ہی رہا، وہاں بیچارے قرآن پر کرم گستری بھی ملاحظہ ہو: 
’’لیکن قرآن اپنی اس حیثیت میں ، کہ یہ نچوڑی ہوئی چھانٹی شدہ تاریخ ہے، اپنے جواز کے لیے کسی عمرانی صورت حال سے مطابقت کا مطالبہ کرتا ہے۔‘‘ 
خدا خیر کرے۔ نچوڑی ہوئی یا غیر نچوڑی ہوئی ، چھانٹی شدہ یا غیر چھانٹی شدہ تاریخ ہمیشہ اپنے جواز کے لیے ’’کسی عمرانی صورت حال‘‘ سے ’’مطابقت‘‘ کی بھیک ہی مانگتی ہے، ورنہ وہ تاریخ ہونے کے شرف سے سرفراز نہیں ہو سکتی۔ اللہ قرآن کو اس انجام سے محفوظ رکھے۔ قرآن مجید تاریخی اور عمرانی صورت حال پیدا کرتا ہے، اس سے مطابقت تلاش نہیں کرتا۔ اگر مصنف اس مطابقت کی کچھ علمی تفصیلات بھی ارشاد فرما دیتے کہ متن قرآن اور صورت حال میں یہ کیسے اور کن شرائط پر قائم ہوتی ہے تو ان کا نظریہ واضح ہو جاتا۔
اس مضمون میں فاضل مصنف نے جدیدریاست کے جو معنی فراہم کیے ہیں:[کہیں وہ (اکثریتی قانونی مسلمان)اس غلط فہمی میں تو مبتلا نہیں کہ ریاست ، افراد سے بالکل الگ تھلگ ..(isolated)..کوئی مافوق الفطرت ہستی ہے؟ حالانکہ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ریاست تو افراد کے مجموعہ کا نام ہے اور یہ افراد کے ایسے مجموعی منشا..(collective will).. کی نمائندگی کرتی ہے جو افراد معاشرہ میں فرد فرد بکھری ہوئی ہوتی ہے۔]، اس کے بعد ہم بہت سے ایسے خیالات پر گفتگو کو مفید خیال نہیں کرتے جہاں انہوں نے جدید اصطلاحات کو ..deploy.. کیا ہے، کیونکہ جو کام وہ دینی اصطلاحات کے ساتھ کررہے ہیں، وہی حشر یہاں جدید علمی اصطلاحات کا بھی ہورہا ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کے بارے میں نیا عقیدہ ملاحظہ فرمائیں: 
’’یعنی بنیادی طور پر صفاتِ امانت اور دیانت کی بدولت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کا حق دار ٹھہرایا گیااور قرآن کو پردۂ غیب سے ظہور میں لایا گیا۔‘‘ 
نبی کی بعثت کے اس نئے تاریخی معیار کے مضمرات سے مصنف خود ہی ڈر جاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ’’عام انسانوں کے لیے امانت و دیانت کی اس سطح تک پہنچنا بہت محال ہے۔‘‘ یہ بھی فرما دیتے کہ ان کے نئے تاریخی نظریے کے مطابق کیوں محال ہے؟ ’’اس لیے عام انسان اپنی دیانت کے بل بوتے پر پردۂ غیب سے تو قرآن ظہور میں نہیں لا سکتے۔‘‘ یہ نہیں بتایا کہ کیوں نہیں لا سکتے؟ ان کے ’’قرآنی نظریۂ تاریخ‘‘ کی روشنی میں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے تھا، کیونکہ جدید انسان تو اب خلاؤں اور سیاروں سے پتہ نہیں کیا کیا سنگ و خشت اٹھا کے لا رہا ہے، تاریخ اور عمرانیات کے ساتھ ساتھ جدید سائنس کو ..enlist.. کرنے سے شاید کوئی نیاقرآن بھی ہاتھ لگ جاتا۔ ’’تاریخ‘‘ اور ’’عمرانیات‘‘ کے سرکس میں تو بہت کچھ چلتا ہے اور مصنف کو بھی چاہیے تھا کہ اپنے نئے تاریخی اور عمرانی معیار کی پاسداری میں کچھ لوگوں کو اس کا موقع ضرور دیتے۔ ہو سکتا ہے کسی نئے قرآن کی سبیل ممکن ہو جاتی اور سارا ٹنٹاہی نکل جاتا اور جدید ذہن نے قرآن کو جس طرح تختہ مشق بنایا ہوا ہے، اس مشقت ہی سے جان چھوٹ جاتی! اس نئی تعریف کی کوشش میں اکابرین امت اور علمائے کرام کی عزت بھی جاتی رہی جن پر طعن اس پورے مضمون میں جا بجا بکھرے ہوئے ہیں۔ 
جدید ذہن اپنی تعبیراتی مہمات میں فقہ کو کسی بھی صورت میں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں: 
’’اب جب کہ روایتی فقہ اپنی داخلی روح اور حقیقی جوہر سے محروم ہو چکی ہے، اس کے ظاہری ڈھانچے سے پیچھا چھڑائے بغیر نفاذ اسلام سے حاصل ہونے والے حقیقی مقاصد تک رسائی ممکن نہیں ہے۔‘‘ 
فرد جرم اور فیصلہ دونوں قابل داد ہیں، جرح غائب ہے۔ بالکل یہی فرد جرم اور فیصلہ خود اسلام پر بھی اب بہت عام ہے ، اس کا کوئی حل بھی مصنف تجویز فرمائیں۔ مسئلہ روح و جوہر وغیرہ کا نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ فقہ کے ڈھانچے سے کیسے جان چھڑائی جائے۔ اگر روح ہی کا مسئلہ ہے تو یہ دین سے فقہ میں پھر سے ..reintroduce.. کی جا سکتی ہے۔ لیکن شکر ہے کہ تاریخ نے داخلی روح اور حقیقی جوہر کو ختم کر دیا ، اب ہماری ذمہ داری ڈھانچے کی تدفین ہے، کیونکہ یہی ہماری نئی تاریخی ذمہ داری ہے جسے پورا کرنا دینی ذمہ داری سے زیادہ ضروری ہے۔ فاضل مصنف بھول گئے کہ قانون کی کوئی روح وغیرہ نہیں ہوتی اور اس کی حرکت طاقت سے اخذ ہوتی ہے۔ پھر حدیث کا بھی کوئی بندوبست ہونا چاہیے کیونکہ 
’’واقعہ یہ ہے کہ محدثین کرام رحمۃ اللہ علیہم نے کتاب اور صاحب کتاب کی تفصیلات جمع کرنے میں اگرچہ تساہل نہیں برتا، لیکن ابھی تک ان تفصیلات کی چھانٹی قرآنی نظریہ تاریخ کی روشنی میں قابل اطمینان حد تک نہیں ہونے پائی۔‘‘ 
یہ تاریخی ’’اگرچہ‘‘ ائمہ محدثین پر سب سے بڑے احسان کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، لیکن جدید محدثین کو اس قرآنی نظریہ تاریخ کی خدمت گزاری میں بھرتی ہو کر اطمینان رسائی کے لیے مستعد ہونے کی فوری ضرورت ہے۔ یہاں غور طلب یہ بات ہے کہ اگر قرآن چھانٹی [جس کے لیے جدید لفظ ..editing.. ہے۔ نہ جانے مصنف اس سے کیوں احتراز کررہے ہیں۔] سے نہیں بچ سکتا تو حدیث کی کیا مجال ہے ؟ 
فاضل مصنف نے مضمون میں ’’قرآنی نظریۂ تاریخ‘‘ کا اطلاق پورے دین پر کرنے کی کوشش کی ہے۔ پاکستانی معاشرے میں نفاذ اسلام کا مسئلہ اسلام پر ایک نظریے کے نفاذکی کاروائی میں تبدیل ہو جاتاہے۔ نفاذ، اطلاق، تطبیق وغیرہ کی دلدادگی بری نہیں، لیکن قرآن کو خلاصۂ تاریخ کہہ کر اس کو عمرانی نظریہ قرار دینا بہت سنگین طور پر محل نظر ہے۔ یہاں یہ امر واضح ہونا چاہیے کہ یہاں تاریخ سے کیا مراد ہے؟ کیا انسان کی معلومہ تاریخ ہے جس کا شارع نے خلاصہ بنایا ہے؟ مستشرقین اور جدید مغرب کے اسکالر تو یہ الزام رکھتے ہیں کہ قرآن توریت اور بائبل کا خلاصہ ہے۔ چلو، اس الزام سے رستگاری کی کوئی سبیل نظر آئی اور اب یہ تاریخ کا خلاصہ ہو گیا۔ لیکن قرآن کے لیے یہ نیا اعزاز تو پرانے الزام سے بھی بدتر ہے۔
’’ اس لیے ترتیب نزولی کا حامل قرآن تاریخ کے نچوڑ کے جلو میں عصری مطالبات کی تکمیل کرتا دکھائی دیتا ہے۔یعنی ایک لحاظ سے نزول قرآن کا یہ خاص پہلو صراحت کرتا ہے کہ کہ تاریخ نہیں بلکہ چھانٹی شدہ تاریخ ..(selected history ).. سے ایک حد تک مدد لے کر عصری مسائل سے نمٹا جا سکتاہے۔‘‘ 
اس اپروچ کے بعد قرآن کی ضرورت ویسے ہی ختم ہو جاتی ہے، کیونکہ فاعل کے لیے قرآن اور عصری مسائل اب ایک ہی سطح کی چیز ہیں۔ عصری مسائل تو خود تاریخ کی پیداوار ہیں، اور تاریخی تجربے سے انسان ان کے حل میں لگا رہتا ہے۔ اسے اس کے حال پر چھوڑنے میں کیا مضائقہ ہے؟ اگرحق اور تاریخی تجربہ ایک ہی سطح کی چیزیں ہیں تو ہمیں اپنے دین کی خیر منانی چاہیے۔ مصنف کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے اصل نظریات کی ..articulation.. کے بغیر ان کا اطلاق کیا ہے۔ ابھی تاریخ کا مسئلہ حل نہیں ہوا تھا کہ چھانٹی شدہ تاریخ کا نیا مسئلہ نمودار ہو گیا۔ اور انہوں نے تاریخ کا نچوڑ تیار کرنے کے نسخے کا اظہار اپنے تجاہل عارفانہ میں قابل اعتنا نہیں سمجھا۔ شاید مریض کی حالت ابتر ہے، اس لیے نچوڑ پلانے کی جلدی ہے۔ اب ہمارے جدید دینی مطب سے یہی کچھ ہاتھ آتا ہے ، اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ 
فاضل مصنف کا عمرانی مطالعہ اب ایک نئی تفہیمی منزل پر پڑاؤ ڈالتا ہے۔ ہم گفتگو کی خاطر پورا اقتباس درج کرنا چاہیں گے: 
’’ اب ذرا توقف کرکے غور کیجیے کہ اصلاً کوئی نہ کوئی ’’صورت حال ‘‘ ہی آیات کے نزول کا سبب بنتی رہی۔اس سارے عمل میں سے صورت حال کو خارج کر دیا جائے تو نزول آیات کا جواز..(rationale).. ختم ہو جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ صورت حال موجود نہ ہوتی تو قرآن مجید کابھی نزول نہ ہوتا۔ اگر بات کو غلط رنگ نہ دیا جائے تو ہمیں کہنے دیجیے کہ اس تناظر میں متن قرآن ..(text. .of Quran)..سے کہیں بڑھ کر صورت حال.. (the given situation).. اہم ہو جاتی ہے۔ متن قرآن تو لوح محفوظ میں پہلے سے موجود تھا۔ اس کے بتدریج نزول کی اہمیت یہی ہے کہ اسے اس صورت حال کی مطابقت میں نازل کیا گیا۔ صورت حال نے اس مجرد شکل میں اپنے سر نہیں لیا۔ یہاں نکتے کی بات یہ ہے کہ متن قرآن اور صورت حال میں مطابقت کی بنیادی شرط اس صورت حال کی صداقت پر مبنی غیر جانبدارانہ بالائے تعصب کلی تفہیم تھی۔ اس لیے متن قرآن نہیں بلکہ حقیقت میں صورت حال کی اس مبنی بر صداقت تفہیم نے اس سماج کو قرآن پاک کی وہ معنویت عطا کی جس نے بعد ازاں اس صورت حال کو اپنے قابو میں کر لیا اور اسے بدل کر رکھ دیا۔‘‘ 
محولہ بالا پیراگراف نہایت اہم ہے اور مصنف کے مافی الضمیر کو بہت بہتر انداز میں منعکس کرتا ہے۔ دین میں کارفرما جدید شعور کا ایک اہم مسئلہ روایتی معاشرے میں اس کے اپنے تاریخی تجربے سے پیدا ہونے والا خوف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مذہب کی بابت اپنے اساسی تعبیری قضایا کا بہت واضح اظہار نہیں کرتا۔ لیکن اب تو عصری تاریخ کا ہر قدم ان کے رخ اور حمایت میں ہے، اس لیے انہیں ذرا جرأت سے کام لینا چاہیے اور اپنی اساسی فکر کا کھل کر اظہار کرنا چاہیے۔ گزارش یہ ہے کہ مغرب میں ظاہر ہونے والا جدید شعور استعمار آفریدہ جدید شعور کا پدری شعور ہے۔ ’پتا پہ گھوڑا‘ کے مصداق یہ دیسی جدیدشعور اس کے کچھ ثقافتی خواص کا حامل ضرور ہے لیکن اس کا وارث شعور نہیں ہے۔یہ شعور کسی ایسے مسئلے سے نبردآزما ہی نہیں ہوا جس کا سامنا تہذیب مغرب میں ظاہر ہونے والے جدید شعور کو ہوا۔ مختصراً یہ کہ مذہب کے حتمی انکار کے بعد مغربی شعور کو ایک بہت بڑا مسئلہ درپیش ہوا جس کا تعلق ..origin..سے ہے، کائنات، حیات اور شعور کے ..origin.. کا۔ انیسویں صدی میں یہ مسئلہ گھمسان کا سماں رکھتا ہے۔ یہ سوال علمی یا عقلی نہیں ہے۔ اس کی اہمیت یہ ہے کہ انسانی شعور اپنی اس طلب کو پورا کیے بغیر ..functional.. نہیں ہو سکتا۔ یہ ..reason.. کے دائرہ کار سے متعلق نہیں ہے، یہ اعلیٰ شعور یعنی ..intellect.. کی فطری طلب ہے اور ..reason..اس وقت تک اپنے کام کا آغاز نہیں کر سکتی جب تک انسانی شعور کی یہ طلب پوری نہ ہو جائے۔ یہ طلب وہ خدا سے پوری کرے یا کسی بت سے، اس کے بغیر وہ اپنے کام کا آغاز کر ہی نہیں سکتا۔ جدید مغربی شعور نے اس کا حل یہ نکالا کہ ہر چیز کا ..origin..تاریخ ..(history)..، ثقافت یعنی کلچر، ..آثاریات.. (archaeology).. اور استخوانی زمانیات ..(palaentology).. میں تلاش کیا جائے، اور ماورا کے سوال اور امکان ہی کو ختم کر دیا جائے کیونکہ عقل اسے ماننے کے لیے تیار ہی نہیں، کیونکہ جدید شعور ماورا کے سوال ہی کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ بعد میں یہ تصور مذہب کے تاریخی اور ثقافتی منشا ..(origin).. کی صورت میں مذہبی مطالعات میں سامنے آیا اور آج تک قائم ہے۔ 
اس تناظر کا دعویٰ یہ ہے کہ مذہب بھی تاریخ اور ثقافتی حالات یعنی صورت حال ہی کی پیداوار ہے ، ماورا وغیرہ سب لغویات اور توہمات ہیں۔ دیسی اور کم جرأت آزما جدید شعور کے نزدیک ’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ [تاریخی] صورت حال موجود نہ ہوتی تو قرآن مجید کا نزول نہ ہوتا۔‘‘(بریکٹ میں لفظ راقم کا اضافہ ہے۔) نعوذباللہ، اگر اللہ بھی اس تاریخ کے سامنے مجبور ہے تو ہماری کیا مجال کہ ہم نچوڑی تاریخ سے رہنمائی حاصل نہ کریں؟ ہم بات کو غلط رنگ نہیں دیتے، لیکن اب تو صاف ظاہر ہے کہ ’’متن قرآن سے کہیں بڑھ کر صورت حال اہم ہو جاتی ہے۔‘‘ یعنی تاریخ کی اہمیت اول ہے ، وحی کی حیثیت ثانوی ہے۔ پھر وہ فرماتے ہیں کہ ’’متن قرآن نہیں، بلکہ حقیقت میں صورت حال کی اس مبنی پر صداقت تفہیم نے‘‘ سماجی صورت حال کو تبدیل کر دیا۔ یہاں متن قرآن کی تفہیم غیر اہم ہو گئی۔ اہم تر یہ ہے کہ قرآن بھی اپنی معنویت ’’صورت حال کی مبنی بر صداقت تفہیم‘‘ سے اخذ کرتا ہے جو اس وقت کا شعور اپنی صلاحیت سے تاریخ سے نچوڑتا ہے۔ اب تو بات صاف ہو گئی۔ لیکن صدر اول میں یہ کارہائے نمایاں کس کس نے کب سرانجام دیے ، اگر مصنف ان کا نام بھی ارزانی فرما دیتے تو آج تاریخ کے محاصرے میں آئے ہوئے مسلمانوں کا بہت بھلا ہو جاتا۔ اب تو تاریخ کی تفہیم بھی وہیں سے آ رہی ہے جن کے قبضے میں تاریخ ہے۔ قرآن تو گیا نہ جانے اب ہماری تاریخی صورت حال کی تفہیم کا کیا ہوگا؟ دراصل ’’صورت حال‘‘ شان نزول کا جدید ترجمہ ہے۔ شان نزول کی اہمیت تو ہمارے علما ہی بہتر بتا سکتے ہیں، لیکن صورت حال بنتے ہی اسے تاریخ ہڑپ کر لیتی ہے۔ 
’’صورت حال‘‘ کی بابت مصنف کی مزعومہ ’’کلی تفہیم‘‘ بھی محل نظر ہے۔ حیرت ہے کہ کوئی تفہیم کلی بھی ہو سکتی ہے۔ صورت حال کی تفہیم لابدی نظری ہو گی، لہٰذایہ اعتباری اور کسری ہی ہو گی۔ علم تصور سازی کے اصول اور ادراک کے اصول کو متعین کیے بغیر قائم نہیں ہو سکتا۔ قیام علم کی شرط اول امتیاز اور حصر ہے۔ صورت حال سے میرا خیال ہے کہ مصنف ..human situation.. .مراد لے رہے ہیں، اور کہیں بھی..human condition.. مراد نہیں لے رہے، کیونکہ ان دونوں کے معنوی احتمالات مختلف ہیں۔ انگریزی کا ایک مشہور ناول نگارجان فاؤلز ..situation.. ہی کو خدا قرار دیتا ہے، کیونکہ یہ بقول اس کے انسان پر اسی طرح غالب اورقادر ہے جس طرح کوئی مفروضہ خدا ہو سکتاہے۔ تاریخی صورت حال لحظہ لحظہ انسانی ارادے اور تقدیر کی نمود ہے۔ صورت حال انسان کا مسئلہ ہے، وحی کا مسئلہ نہیں ہے۔ جس طرح صورت حال انسان کو روند ڈالتی ہے، اسی طرح وحی اللہ کے رسول میں مجسم ہو کر تاریخی صورت حال کو ادھیڑ دیتی ہے اور نتیجتاً پیدا ہونے والی صورت حال ہر گز ہر گزمکرر ہر گز تاریخی نہیں ہوتی کیونکہ اس کی پیدائش کے اسباب تاریخی نہیں ہوتے، ماورائی ہوتے ہیں۔ اگر وحی متن بن رہی ہے تو ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک میں مجسم قرآن بن کر ارضی نمود میں ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جہاں تاریخ اپنی صورت حال کا کشکول لے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حاضر ہے۔ آپ ہی نے اس صورت حال کو معنویت عطا کرنی ہے ، آپ نے اس سے کوئی تفہیم تھوڑی اخذ کرنی ہے۔ اسی بارگاہ سے جب تاریخ کو تقدس اور استناد حاصل ہوتا ہے تو یہ روایت بن جاتی ہے۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ حضور حق میں علم گستاخی اور مرضی بغاوت بن جاتی ہے۔اس لیے کہ علم اور مرضی تاریخ ہی کے مظاہر ہیں۔ اس کا علاج عمل صالح ہے جو تاریخ کی نفی ہے اور حضور حق رہتے ہوئے میں علم اور ارادے کی ..synthesis.. ہے۔ حضور حق میں کسی کے ذہن کی کیا مجال کہ وہ صورت حال کی کلی تفہیم حاصل کرتا پھرے، تاریخ کی گرد کو چھانا کرے، اور ارادے کی کیا مجال کہ تفہیم کو رہنما بنا کر صورت حال کو قابو میں کرتا پھرے۔ 
یہاں ہم ’’صورت حال‘‘ کی جدید نظری بحث سے دانستہ احتراز کرتے ہوئے یہ گزارشات پیش کر رہے ہیں، لیکن محولہ بالا پیراگراف میں دو فقرے تو درجۂ کمال کو پہنچے ہوئے ہیں۔ ان کا اعادہ تجزیے کے لیے ضروری ہے۔پہلا فقرہ یہ ہے: ’’یہاں نکتے کی بات یہ ہے کہ متن قرآن اور صورت حال میں مطابقت کی بنیادی شرط اس صورت حال کی صداقت پر مبنی غیر جانبدارانہ بالائے تعصب کلی تفہیم تھی۔‘‘ اب اس میں تین چیزوں کا ذکر ہے جو اصل مقصد کے لیے درکار ہے:
۱: متن قرآن
۲: صورت حال
۳: کلی تفہیم
یہ کلی تفہیم(۱) صداقت پر مبنی ہونی چاہیے،(۲) غیر جانبدارانہ ہونی چاہیے،(۳)بالائے تعصب ہونی چاہیے، اور (۴) کلی ہونی چاہیے۔ اگر یہ مضمون علمی ہوتا تو مصنف اخلاقی شرائط گنوانے کے بجائے اس تفہیم کی علمی شرائط بیان فرماتے۔ پھران شرائط کے ساتھ ہونے والی تفہیم تو انسانی نہیں ہو سکتی ، (نعوذ باللہ) یہ تو اللہ ہی کر سکتا ہے۔اور اگر یہ اللہ ہی نے کرنی ہے تو اسے تو کسی تفہیم کی ضرورت نہیں ہے، اگر ہے تو پھر وہ اللہ نہیں ہو سکتا۔ اگر نعوذ باللہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کرنی ہے تو چلیے تفہیم تو ہو گئی، اب قرآن لوح محفوظ سے نکلوانے کا مسئلہ درپیش ہو گا، اس کا کیا حل ہے؟ اگر نعوذ باللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صورت حال کی کلی تفہیم تو کر لی تو اب جبرئیل علیہ السلام کی ذمہ داری دوہری ہو گئی کہ ادھر سے ’’کلی تفہیم‘‘ لے کے جا رہے ہیں اور ادھر سے ’’لوح محفوظ سے قرآن‘‘ نکلوا کے لا رہے ہیں۔صورت حال علت اور نزول قرآن معلول ہو گیا۔ ہم تو تاریخ کے قرآن پر غلبے پر نوحہ کناں تھے ، یہاں تو تاریخ ملائے اعلیٰ تک کارفرما دکھائی دیتی ہے۔ نعوذ باللہ ایسے میں یہ جاننا بہت دلچسپ ہو گا کہ اللہ کی مصروفیت کیا رہی ہو گی؟ یہ معاملہ بھی اس نئی الٰہیات میں مذکور ہونا چاہیے تھا۔ فاضل مصنف کے مضمون سے متبادر ہوتا ہے کہ یہ سارا معاملہ ’’خودکار‘‘ رہا ہوگا۔ ہم سے تو ابھی اس کلی تفہیم کا مسئلہ ہی حل نہیں ہو پا رہا، مطابقت کی کیا مدح سرائی کریں گے۔ ہم نے اس ذہن کا ذکر یہاں احتیاطاً نہیں چھیڑا جو اس ہفت خواں کو طے کرے گا، کیونکہ فاضل مصنف نے اس تفہیم کے ابھی صرف اخلاقی اصول متعین فرمائے ہیں، اس تفہیم کی تصوراتی اور ادراکی شرائط کا ذکر نہیں کیا۔ اگر وہ بھی ہو جاتا تو شاید بات کسی سرے لگ جاتی۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ صورت حال، عقل ، تفہیم اور متن کا آپسی تعلق کیا ہوتا ہے؟ اور اس تعلق کو طے کیے بغیر یہاں اس کی تطبیق کا کیااخلاقی یا علمی جواز ہے؟ دوسر ے فقرے میں صرف دو لفظی تصرف سے بات مزید صاف ہو جاتی ہے: ’’اس لیے متن قرآن نہیں بلکہ حقیقت میں صورت حال کی اس مبنی بر صداقت تفہیم نے اس سماج کو قرآن پاک کی وہ معنویت عطا کی جس نے بعد ازاں اس صورت حال کو اپنے قابو میں کر لیا اور اسے بدل کر رکھ دیا۔‘‘ یہ اصل فقرہ ہے۔ اب دو لفظ تبدیل کرنے سے اصل بات سامنے آ جاتی ہے: ’’اس لیے متن قرآن نہیں بلکہ حقیقت میں صورت حال کی اس مبنی بر صداقت تفہیم نے اس سماج کو[اور] قرآن پاک [کو] وہ معنویت عطا کی جس نے بعد ازاں اس صورت حال کو اپنے قابو میں کر لیا اور اسے بدل کر رکھ دیا۔‘‘ مسئلہ صرف یہ ہے کہ تاریخ کو وحی پر اور ذہن کو متن قرآن پر غالب رکھا جائے۔ یہ ایک ہی مسئلے کے دو رخ ہیں۔ سب لفظی کھینچ اور معنوی تان صرف اسی لیے ہے۔ 
اس مضمون میں سامنے آنے والی نظرسازی..(theorization).. میں ہمارے لیے یہ مسئلہ تو اپنی جگہ ہے کہ جناب مصنف نے دینی اصطلاحات کی داخلی معنویت کو بدلنے کی کوشش کی ہے ، وہاں اس سے بھی سنگین ترمسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے جدید اصطلاحات کو نیا پیرہن دے کر حریم ہدایت میں ان کے فاتحانہ داخلے کی راہ ہموار کی ہے۔ 
اب ہم آخر میں کچھ گزارشات جدید شعوراور اس کے علمی پیچ و تاب[یہ امام رازیؒ کے پیچ وتاب کی قبیل سے نہیں ہے۔] کے بارے میں پیش کرنا چاہیں گے۔ اس جدید شعور سے وہ ذہن مراد نہیں ہے جو مغرب میں ظاہر ہوا، بلکہ وہ شعور مراد ہے جس کی تولید اور تنویم اسلامی جغرافیہ میں استعمار اور استشراق نے کی ہے۔ یہ استعمار زائیدہ اور استشراق پروردہ شعور ہے۔ اس کے حاصلات قطعی غیر اہم ہیں، اورگزشتہ دوصدیوں میں اس کے حاصلات کے سامنے کوڑی ایک خزانہ ہے۔ اہم تر اس کی ساخت یعنی اس کے احوال ہیں۔ مذکورہ مضمون میں اسلام کی نئی تعریف متعین کرنے کی کوشش اس شعور کی کلاسیک مثال ہے۔ لیکن نئی تعریف کی منزل روایت اور اس کے تمام تر محتویات کو بلڈوز کیے بغیر حاصل ہونے والی نہیں۔ جیسا کہ ہم اس مضمون میں دیکھتے ہیں کہ فاضل مصنف نئی تعریف کے خدوخال بھی واضح نہیں کر پائے اور تھوڑی سی نئی ..space.. پیدا کرنے کی خاطر انہیں دین کی ہیئت اور پوری معنوی کائنات پر تیشہ چلانا پڑا۔ انہوں نے تہذیب لفظ کے سارے آداب ، حرمت معنی کی ہر رہ گزر اور منقولہ اور جدید علوم کے سارے سنگ میل بدل دیے، پھربھی نئی تعریف کی منزل التوا میں ہے۔ اس سارے کھلواڑ کی ضرورت آخر کیوں پڑتی ہے؟ غایت یہ ہے کہ مثلاً دیانت ، امانت اور حیا جیسی اصطلاحات کی دینی معنویت کو ..anesthetize.. اس لیے کیا گیا تاکہ اصل مقصد حاصل ہو سکے جو یہ ہے کہ:
’’سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حیا کے مذکور معنی میں وہ لوگ [یعنی اہل مغرب] باحیا نہیں ہیں؟ اور نتیجتاً دیانت دار نہیں ہیں؟‘‘
یہاں’ حیا‘ کی جگہ دین کی کوئی اصطلاح یا کوئی تعلیم رکھ کر ’مذکور معنی‘ کا کلبوت چڑھا دیں تو اصل بات سامنے آ جاتی ہے۔ محولہ فقرے کا مطلب یہ ہے کہ ’مذکور معنی‘ میں یہی لوگ باحیااور دیانت دار ہیں، کیونکہ مذکور معنی کی تلاش اسی مقصد ہی کے لیے تھی۔ اور’مذکور معنی‘ میں بیچارے مسلمان تو ہیں ہی بے حیا، بدیانت اور بے غیرت کیونکہ ابھی اپنی بیٹیوں، بہنوں اور ماؤں کیساتھ بدکاری کرنا ان کا شعار نہیں ہے۔ اگرمسلمان حیا اور دیانت کے مغربی معیار پر فائز ہو جائیں گے تو پھر شاید یہ بھی مہذب کہلا سکیں۔ ہمارے خیال میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ جدید شعور جب دین کے روبرو درپے تعبیر آتا ہے تو اس کا مقصد محض اور محض مغربی طاقت، مغربی علم اور جدید انسان کی نفسی ترجیحات کو ..accommodate .. کرنا ہوتا ہے، کیونکہ جدید شعور کے لیے مغرب بیک وقت ایک ..ideal .. بھی ہے اور ..norm.. بھی، اور استعمار کے زیر اثر یہ اس شعور کے تشکیلی عناصر ہیں۔ دین کی الوہی جہت کو ایک فکری ..ideal.. بنانا اور دین کے ہر شعار کو مغربی..norm.. کے تابع کرنا جدید شعور کی سب سے بڑی آرزو ہے۔جدید شعور کا ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ خود اس کی تولید و تنویم جس اساس اور مبادی پر ہوئی ہے، وہ ان کا فکری تجزیہ کرنے اور ان کی ..articulation.. کے لیے تیار نہیں ہے۔ اور جب اس کے پیدا کردہ جعلی ..discourses.. کے مضمرات کو ..articulate.. کیا جاتا ہے تو نوبت خراب ہو جاتی ہے۔ 
ہمارے خیال میں تہذیب جدید اپنے استعماری ورژن میں جب ہم پر غالب آئی تو اس سے ایک نہایت سنگین تاریخی صورت حال پیدا ہو گئی۔ اس سنگین صورت حال کا اظہار ہماری تاریخ کے ہر سنگ میل پر مل جاتاہے۔اگر اکبر الہ آبادی اور اقبال کو بیک نظر دیکھیں تو ان کے ہاں اس کا ..fullest.expression.. موجود ہے۔ مغرب کے روبرو ہماری مزاحمت کا اسلوب یا تو سیاسی رہا ہے یا جمالیاتی۔ ہمارا سیاسی ارادہ اور جمالیاتی شعور ہماری مذہبی روایت میں تشکیل پانے والے اخلاقی شعور کا پروردہ ہے۔ ہمارے اخلاقی شعور کے کمزور ہوتے ہی دونوں طرح کی مزاحمت بھی کمزور پڑ گئی۔ اس میں سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے ہاں نظری علوم پیدا ہی نہیں ہو سکے جن کی طرف اقبال نے اپنی ’تشکیل جدید‘ میں پیشرفت کی ناکام کوشش کی تھی۔ دنیا ، تاریخ اور معاشرے کو سمجھنے کے لیے ، یعنی آفاق کی تفہیم کے لیے نظری علوم از بس ضروری ہیں۔ وحی کی ہدایت کا فوکس اور مخاطب غالب طور پر انفس انسانی ہے۔ نظری علوم ہر تہذیب کے بنیادی اور اساسی تصور حیات کے ملازم ہوتے ہیں۔ ہماری خوش فہمی یہ ہے کہ مغربی تہذیب کے اساسی بیان سے نمود لانے اور نمو لینے والے نظری اور مستریانہ علوم اسلامی تہذیب کی بڑی خدمت بجا لائیں گے۔ یہ ہمارے انہدام شعور کی آخری منزل ہے، کیونکہ نظری علوم کی عدم موجودگی میں ہم اپنے تاریخی تجربے اور روز کے مشاہدے کی درست تعبیر پر بھی قادر نہیں رہے۔ اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ اسلام مغرب سے تہذیبی عینیت اور وجودی مفاہمت پید اکر چکا ہے اور ہم اپنی مزاحمت کو اپنے انفس میں بھی جاری رکھنے کے وسائل سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس منظرنامے میں ضروری ہے کہ دین کا نئے علوم کی روسے معائنہ کرنے سے پہلے دین کی رو سے نئے علوم کا محاکمہ کیا جائے۔ اب دین ہمارے سرکا تاج نہیں رہا، ہمارے پاؤں کی زنجیر بن گئی ہے۔جدید شعور کے سارے ہتھکنڈے اس زنجیر سے پیچھا چھڑانے کے لیے ہیں۔ ہم نے نئے نظری علوم کے گھوڑے جس طرح دین پر تعبیراتی مہم جوئی کے لیے روانہ کیے ہوئے ہیں ، اس سے زیادہ شدو مد سے ہم دینی متون پڑھ کر اس بات کا ادعا کرتے ہیں کہ مغرب کی ترقی کا ہر ٹیکنالوجیائی اور ادارہ جاتی ثمر دین کے عین مطابق ہے، کیونکہ انہوں نے یہ سارا کچھ اسلام ہی سے لیا ہے۔ ہمیں فکر اس بات کی ہوتی ہے کہ مغرب کی کوئی چیز، سوائے چند ایک اخلاقی افعال کے، دین کی رو سے غلط ثابت نہ ہوجائے۔ہمارے ہاں نئی تعلیم اور کلچر کا پروردہ شعور نفس دین پر نئی تعبیرات کی پیشقدمی جاری رکھے ہوئے ہے اور روایتی تعلیم میں پروردہ شعور مغرب کے تقریباً ہر پہلو کو دین کی سند جواز دینے کے لیے تڑپتا رہتا ہے۔ جدید آدمی یہ کام معاشرے میں روشن خیال اور دانشور بننے کے لیے کرتا ہے، اور کچھ مولوی حضرات کو بھی روشن خیالی کے ہم قدم رہنے کی فکر ہوتی ہے۔ اللہ ہمیں اس ملی بھگت سے محفوظ رکھے۔
آخر میں ہم میاں صاحب سے گزارش کریں گے کہ ’نفاذاسلام‘ وغیرہ کا بورڈ لگائے بغیر وہ ہمیں یہ بتائیں کہ قرآن کا نظریۂ تاریخ کیا ہے؟ اس میں ہمارا التماس ان سے یہ ہے کہ ان کی بحث متداول ..discourses.. کی شرائط پر ہوئی چاہیے۔ ہم یہ مطالبہ ہر گز نہیں کر رہے کہ وہ ان ..discourses.. کے نتائج کو قبول کرنے کے پابند ہیں، ہم صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ جس استدلال سے نظری علوم قائم ہوتے ہیں، اسی سے منہدم بھی ہوتے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ وہ مذہب کو ایک طرف رکھ کر ہمیں یہی بتا دیں کہ نظریۂ تاریخ ہوتا کیا ہے؟ اور اس کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟ تاریخ سے کیا مراد ہے؟ کیا کوئی نظریہ علمی بھی ہوتا ہے یا محضwill to truth کا اظہار ہوتا ہے؟ وہ تھیوری اور آئیڈیالوجی میں فرق کس طرح سے قائم کرتے ہیں؟ کیا وحی اور تاریخ کے باہمی تعلق کو زیر بحث لائے بغیرقرآن کو نچوڑی تاریخ کہنا اور پھر اسی کو قرآن کا نظریۂ تاریخ قرار دینا جائز ہے؟ پھر انہیں یہ بھی واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ علم کی جدید بحث میں وحی کی کیا گنجائش نکلتی ہے؟ ہمارا خیال ہے، اللہ نے انہیں جتنے علمی وسائل عطا کیے ہیں وہ یہ کام کر سکتے ہیں۔اس سے ہمیں رائے تبدیل کرنے اور درست موقف اختیار کرنے میں آسانی ہوگی۔

مولانا سعید احمد رائے پوریؒ / مولانا مفتی محمد اویسؒ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مولانا سعید احمد رائے پوریؒ کے ساتھ میرا رابطہ سب سے پہلے ۱۹۶۷ء میں ہوا جب دینی مدارس اور کالجوں کے طلبہ پر مشتمل ایک مشترکہ طالب علم تنظیم ’’جمعیت طلباء اسلام پاکستان‘‘ کے نام سے وجود میں آئی۔ سرگودھا اور لاہور کے ساتھ ساتھ گوجرانوالہ بھی اس تنظیم کی سرگرمیوں کے ابتدائی مراکز میں سے تھا۔ گوجرانوالہ میں ہمارے ایک استاذ محترم مولانا عزیز الرحمنؒ ، میاں محمد عارف اور راقم الحروف اس کے لیے متحرک تھے جبکہ مولانا سعید احمد رائے پوریؒ جمعیۃ طلباء اسلام کی تنظیم و توسیع کے لیے مسلسل سرگرم عمل تھے۔ حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ اور حضرت سید نفیس شاہ صاحبؒ کے ساتھ وہ بھی جے ٹی آئی کے سرپرست کے طور پر متعارف تھے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جے ٹی آئی کو شہر شہر اور قصبہ قصبہ منظم کرنے اور طلبہ کی ذہن سازی میں ان کا کردار سب سے زیادہ نمایاں رہا۔ ہمارا یہ رابطہ اور اشتراک کار جمعیۃ طلباء اسلام کے بعد جمعیۃ علماء اسلام میں بھی سالہا سال تک جاری رہا اور ہم نے متعدد دینی تحریکات میں اکٹھے کام کرنے کی سعادت حاصل کی۔ اس طرح کم و بیش ایک عشرہ تک فکری، سیاسی اور تحریکی رفاقت کے بعد جب جمعیۃ طلباء اسلام دو حصوں میں بٹ گئی تو ہم دو الگ الگ کیمپوں میں شمار ہونے لگے، لیکن باہمی ملاقاتوں اور تبادلۂ خیالات کا سلسلہ چلتا رہا۔ بعض مسائل پر اختلاف رائے کے باوجود ہماری دوستی اور باہمی احترام و مودّت میں کوئی فرق نہ آیا۔ حتیٰ کہ گزشتہ سال کے دوران وہ گوجرانوالہ میں اپنے عقیدت مندوں کے پاس ایک دو روز کے لیے تشریف لائے تو میں نے ان سے ملاقات کی اور تھوڑی دیر کے لیے الشریعہ اکادمی تشریف لانے کی درخواست کی۔ جمعیۃ اہل سنت ضلع گوجرانوالہ کے ضلعی صدر حاجی عثمان عمر ہاشمی بھی اس ملاقات میں میرے ساتھ تھے، حضرت مولانا رائے پوریؒ ، مولانا مفتی عبد الخالق آزاد اور دیگر احباب کے ہمراہ اکادمی میں تشریف لائے، ایک مختصر سی نشست ہوئی جس میں مولانا مفتی عبد الخالق آزاد نے گفتگو کی اور پھر دعا پر مجلس اختتام پذیر ہوگئی۔ مولانا رائے پوریؒ کے ساتھ یہ ملاقات آخری ثابت ہوئی اور پھر ان کی زندگی میں ان سے ملاقات کا کوئی موقع نہ بن سکا۔ 
جماعتی ، تنظیمی اور تحریکی تعارف سے ہٹ کر ان کا اصل تعارف رائے پوری کی خانقاہ رحیمیہ کے حوالہ سے تھا کہ وہ خانقاہ رائے پور شریف کے مسند نشین حضرت مولانا عبد العزیز رحمہ اللہ تعالیٰ کے فرزند اور رفیق کار تھے۔ رائے پوری کی خانقاہ برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش میں روحانی اور فکری اثر و رسوخ رکھنے والی خانقاہوں میں ایک نمایاں مرکز کی حیثیت رکھتی ہے اور تحریک آزادی میں اس کا مستقل کردار ہے۔ حضرت شاہ عبد الرحیم رائے پوریؒ ، شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے شاگرد اور ان کے رفقائق کار میں سے تھے، حضرت شیخ الہندؒ نے تحریک آزادی کے لیے جو تانا بانا بنا تھا، حضرت شاہ عبد الرحیم رائے پوریؒ اس نظم کے اہم رکن تھے اور مالٹا کی اسارت سے رہائی کے بعد حضرت شیخ الہندؒ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں ضعف و علالت کے باوجود تحریک آزادی کو نیا رنگ دینے کی جو طرح ڈالی تھی، رائے پور کی خانقاہ کا اس میں بھی حصہ ہے، حضرت شیخ الہندؒ نے تشدد اور عسکریت کی پالیسی کو خیرباد کہہ کر عدم تشدد کو اپنی نئی جدوجہد کی اساس بنایا اور سیاسی و فکری تربیت سازی کو برصغیر میں علماء حق کی جدوجہد کے نئے دور کا سب سے بڑا ہتھیار قرار دیا۔ حضرت شیخ الہندؒ نے قرآنی تعلیمات کے عام سطح پر فروغ، مختلف طبقات اور علمی حلقوں کے درمیان اختلاف کو کم کرنے اور دینی مدارس اور یونیورسٹیوں کے فضلا و طلبہ کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کو اپنی جدوجہد کے اہم اہداف بتایا اور پھرا س رُخ پر جب کام شروع ہوا تو مفکر انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ اور شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ نے دہلی میں نظارت قرآنیہ کے عنوان سے فکری تربیتی مرکز کی بنیاد رکھی جو حالات زمانہ کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی متعدد فکری مراکز کی شکل اختیار کر گئی۔ اس پروگرام کے مطابق علماء اور کالجوں کے فضلاء کی ذہن سازی میں جہاں بہت سے دیگر اکابر علماء کرام کی محنت تاریخ کا حصہ ہے، وہاں رائے پور کی خانقاہ رحیمیہ کے مسند نشین حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ کی شخصیت بھی ایک نمایاں حصہ رکھتی ہے۔ یہ اللہ والے بظاہر متحرک نظر نہیں آتے اور سٹیج پر خطابت کے جوہر نہیں دکھاتے، لیکن ان کی خاموشی، مجالس، قلب و ذہن کی کیفیات کو اپنے سانچے میں ڈھالنے کے لیے اکسیر کا کام دیتی ہیں، ماضی قریب میں حضرت مولانا خواجہ خان محمد رحمہ اللہ تعالیٰ آف کندیاں شریف کے بارے میں بعض لوگ کہتے تھے کہ وہ بولتے نہیں ہیں اور کسی عمومی مجلس میں خطاب نہیں کرتے لیکن تحریک ختم نبوت کے سب سے بڑے قائد شمار ہوتے ہیں۔ میں ان سے عرض کیا کرتا تھا کہ حضرت مولانا خواجہ خان محمدؒ کی خاموشی بڑے بڑے خطباء کی خطابت پر بھاری ہے اور ان کی خاموش مجالس بڑی بڑی کانفرنسوں سے زیادہ اثر رکھتی ہیں۔ حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ کی زیارت کا شرف مجھے حاصل نہیں ہوا اور نہ ہی ان کی کسی مجلس سے فیض یاب ہو سکا ہوں لیکن مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ ان کی مجالس کا رنگ کیسا ہوتا ہوگا اور ان کی توجہات اور چھوٹے چھوٹے جملے کس طرح ذہن و قلب کی دنیا کو بدل دیتے ہوں گے۔
حضرت شاہ عبد القادر ائے پوریؒ کے ملفوظات اور مجالس کا تذکرہ پڑھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ زمانے کی نبض پر ان کا ہاتھ تھا اور وہ اخلاقی اور روحانی بیماریوں کا علاج کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے عقیدت مندوں کی سیاسی اور فکری صحت کا بھی لحاظ رکھتے تھے، وہ اپنے دور کے سیاسی اتار چڑھاؤ پر مسلسل نظر رکھتے تھے اور امت کی خاموش مگر موثر راہ نمائی سے کسی وقت بھی غافل نہیں رہے۔ حضرت شاہ عبد الرحیم رائے پوریؒ اور حضرت شاہ عبد القادر رائے پوریؒ کا تذکرہ میں نے کتابوں میں پڑھا ہے اور کچھ انہیں دیکھنے والوں سے سنا ہے لیکن حضرت مولانا عبد العزیز رائے پوریؒ کی زیارت و مجلس سے کئی بار فیض یاب ہوا ہوں اور ان کے روحانی فیض سے حظ اٹھایا ہے، ان کی خدمت میں جب حاضری ہوتی تو ان کے فرزند و جانشین مولانا سعید احمد رائے پوریؒ سے بھی ملاقات ہوتی تھی، مختلف مسائل پر تبادلہ خیال ہوتا تھا اور اختلاف رائے کے باوجود تبادلۂ خیالات کا یہ سلسلہ جاری رہتا تھا۔ 
مجھ سے متعدد دوستوں نے ان کی زندگی میں ہمارے باہمی اختلاف رائے کے بارے میں پوچھا تو میں نے عرض کیا کہ اس اختلاف کا عقیدت و مسلک سے تعلق نہیں تھا بلکہ بعض سیاسی، معاشی اور تحریکی مسائل کی تعبیرات و تشریحات میں ہمارا زاویۂ نگاہ مختلف تھا جو اب بھی مختلف ہے لیکن یہ نظری اور فکری اختلاف ہے، مسلکی اختلافات اور نظری و فکری اختلافات کے الگ الگ دائروں کا فرق اب زیادہ تر ملحوظ نہیں رہا اور جس طرح ہم نے فقہی معاملات میں حق، باطل، خطاء و صواب اور اولیٰ و غیر اولیٰ کے دائروں کو گڈ مڈ کر رکھا ہے اسی طرح فکری اور اعتقادی دائروں کا فرق بھی ہماری نظروں سے اوجھل ہوتا جا رہا ہے۔
بہرحال حضرت مولانا سعید احمد رائے پوریؒ ہجری لحاظ سے کم و بیش نوے برس اس جہان رنگ و بو میں گزار کر خالق حقیقی کے حضور پیش ہو چکے ہیں اور ان کے رفقاء کار خصوصاً ان کے جانشین مولانا مفتی عبد الخالق آزاد ان کے قائم کردہ روحانی و فکری مرکز جامعہ رحیمیہ میں ان کی جدوجہد اور مشن کی مرکزیت کو قائم رکھنے کی سعی میں مصروف ہیں۔ ہم دعا گو ہیں کہ اللہ رب العزت حضرت مولانا سعید احمد رائے پوریؒ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں اور ان کے پسماندگان، رفقاء اور متوسلین کو حوصلہ و استقامت کے ساتھ ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔

مولانا مفتی محمد اویسؒ 

گزشتہ روز گوجرانوالہ کے ایک بزرگ عالم دین اور دار العلوم گوجرانوالہ کے بانی و مہتمم مولانا مفتی محمد اویس انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ کافی دنوں سے علیل اور صاحب فراش تھے، دو چار روز سے گفتگو بھی نہیں کر پا رہے تھے، منگل کو صبح نماز کے بعد موبائیل فون کے میسج چیک کیے تو ان میں غم کی یہ خبر بھی تھی کہ مولانا مفتی محمد اویس صاحب رات دو بجے انتقال کر گئے ہیں۔ مفتی محمد اویس کا خاندان تقسیم ہند کے موقع پر کرنال سے ہجرت کر کے سندھ کے ضلع سانگھڑ میں کوٹ بسّی کے مقام پر آبسا تھا۔ مفتی محمد اویس صاحب کی ولادت منشی خان مرحوم کے گھر میں ۱۹۵۵ء کے دوران ہوئی۔ انہوں نے درس نظامی کی زیادہ تر تعلیم جامعہ حسینیہ شہداد پور میں حاصل کی، دورۂ حدیث جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی میں حضرت مولانا مفتی محمد ولی حسن قدس اللہ سرہ العزیز کے دور میں کیا۔ پھر جامعہ حسینیہ شہداد پور میں کچھ عرصہ تک تدریسی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ تبلیغی جماعت کے ساتھ زیادہ تعلق تھا اور دعوت و تبلیغ کی سرگرمیوں میں اکثر شریک رہتے تھے بلکہ تعلیم و تدریس اور دعوت و اصلاح کا ذوق بھی کم و بیش وہی رکھتے تھے، انہوں نے تجوید میں سبعہ عشرہ تک تعلیم ساہیوال میں حضرت مولانا قاری محمد عبد اللہ رحمہ اللہ تعالیٰ سے حاصل کی اور زندگی بھر مختلف قراء ات میں قرآن کریم کی تلاوت، سماع اور طلبہ میں اس کی ترغیب کا ذوق انہوں نے تازہ رکھا۔ ان کے خاندان کا کچھ حصہ ضلع شیخوپورہ میں کوٹ پنڈی داس میں بھی آباد ہے اور وہاں دینی خدمات سر انجام دینے والے ہمارے ساتھی مولانا مفتی زین العابدین مفتی محمد اویس صاحب کے بھتیجے ہیں۔ 
میرا اُن سے تعارف اس دور میں ہوا جب وہ گوجرانوالہ کے تبلیغی مرکز میں قائم ہونے والے دینی مدرسہ میں استاذ کی حیثیت سے تشریف لائے اور پھر یہ تعارف رفتہ رفتہ باہمی محبت و اعتماد کی شکل اختیار کرتا چلا گیا۔ گوجرانوالہ کے تبلیغی مرکز کا یہ دینی مدرسہ اس کے بعد ایمن آباد شہر کے ساتھ واہنڈو روڈ پر منتقل ہوا تو مفتی صاحب صدر مدرس کے طور پر وہاں منتقل ہوگئے اور کافی عرصہ تک تدریسی خدمات سر انجام دیتے رہے، اس مدرسہ کا نظام ہمارے محترم اور بزرگ دوست شیخ ممتاز احمد صاحب اور ان کے لائق فرزند مولانا شیخ امتیاز احمد (فاضل بنوری ٹاؤن) چلا رہے ہیں، کچھ عرصہ کے بعد مفتی محمد اویس صاحب نے گوجرانوالہ میں جی ٹی روڈ پر جلیل ٹاؤن کے عقب میں ایک وسیع رقبہ میں دار العلوم گوجرانوالہ کے نام سے ایک دینی درس گاہ کا آغاز کیا جس میں بہت سے مخلص اور مخیر دوست ان کے معاون اور دست بازو بنے۔ مجھے ایمن آباد کے دار العلوم مکیہ اور جلیل ٹاؤن کے دار العلوم میں متعدد بار حاضری کا موقع ملا ہے اور مولانا مفتی محمد اویسؒ اور ان کے رفقاء کا تدریسی، تربیتی اور انتظامی ذوق ہمیشہ خوشی اور حوصلہ کا باعث بنا ہے۔ طلبہ کی تعلیمی، اخلاقی، تبلیغی اور اصلاحی تربیت کے ساتھ حسن انتظام ان کا خصوصی امتیاز تھا۔ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ خصوصی عقیدت و محبت رکھتے تھے اور اسی نسبت سے انہوں نے مجھے دار العلوم گوجرانوالہ کے سرپرست کی حیثیت دے رکھی تھی، مختلف مواقع پر کسی نہ کسی بہانے یاد کرتے اور مجھے بھی حاضر ہو کر خوشی ہوتی۔ چند روز قبل حاجی عثمان عمر ہاشمی صاحب کے ہمراہ بیمار پرسی کے لیے حاضری ہوئی تو تھوڑی بہت بات کر لیتے تھے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ گفتگو کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے، میں ایک آدھ روز میں دوبارہ بیمار پرسی کے لیے حاضری کا سوچ رہا تھا کہ ان کی وفات کی خبر آگئی۔ 
وہ بہت اچھے مدرس تھے، دار العلوم میں دورۂ حدیث تک تعلیم ہوتی اور بخاری شریف ان کے زیر درس رہتی تھی۔ قراء ات کا خاص ذوق رکھتے تھے اور جب بھی کوئی پروگرام ہوتا، اپنے طلبہ سے مختلف قرأتوں میں قرآن کریم کے مختلف حصوں کی تلاوت کراتے اور سامعین کے ساتھ ہم بھی محظوظ ہوتے۔ وہ واپڈا ٹاؤن کی مرکزی جامع مسجد کے خطیب بھی تھے اور ہزاروں لوگ ان کے وعظ و نصیحت سے فیض یاب ہوتے تھے۔
ان کے جنازے میں حاضری ہوئی تو ہمارے محترم بزرگ حضرت مولانا نعیم اللہ صاحب مہتمم مدرسہ اشرف العلوم نے ارشاد فرمایا کہ مفتی صاحبؒ کے خاندان والوں اور دار العلوم کے اساتذہ کی خواہش ہے کہ جنازہ آپ پڑھائیں اور ان کے فرزند مولانا محمد ادریس کی جانشینی کا اعلان کر کے دستار بندی بھی کرا دیں۔ چنانچہ یہ دونوں سعادتیں میں نے حاصل کیں جبکہ دستار بندی میں مولانا نعیم اللہ، مولانا عبد الغفار خان اور دوسرے متعدد بزرگ بھی میرے ساتھ شریک تھے۔
نماز جنازہ کے بعد انہیں دار العلوم گوجرانوالہ کے قریب ہی ایک عام قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا، نماز جنازہ سے قبل میں نے اپنی مختصر گفتگو میں یہ عرض کیا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد بیسیوں بار پڑھا اور پڑھایا ہے لیکن کچھ عرصہ سے ہم اس کا عملی منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ارشاد نبویؐ یہ ہے کہ قیامت سے قبل اللہ تعالیٰ علم کو دنیا سے اس طرح اٹھا لیں گے کہ اہل علم دنیا سے اٹھتے چلے جائیں گے اور ان کے ساتھ ان کا علم بھی اٹھتا جائے گا، گوجرانوالہ میں چند برسوں سے ہم یہی منظر دیکھ رہے ہیں، ہمارے شیخین کریمین حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ تو رخصت ہوئے ہی تھے، ان کے ساتھ تھوڑے تھوڑے وقفہ سے مولانا اللہ یار خانؒ ، مولانا سید عبد المالک شاہؒ ، مولانا قاضی عصمت اللہؒ ، مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ اور اب مولانا مفتی محمد اویسؒ بھی ہم سے جدا ہوگئے ہیں اور ہم رفع علم کا یہ کربناک منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اب سب بزرگوں کی مغفرت فرمائیں اور ہم سب کو ان بزرگوں کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔ 

چند دینی کارکنان

اس کے ساتھ دو تین اور تعزیتیں بھی ضروری سمجھتا ہوں، ہمارا عام طور پر مزاج بن گیا ہے کہ وفات پانے والے بڑے بزرگوں کو تو کسی نہ کسی طرح یاد کر لیتے ہیں لیکن کارکنوں کا تذکرہ نہیں ہوتا۔ تحریک آزادی اور تحریک ختم نبوت کے بزرگ تحریکی شاعر سائیں محمد حیات پسروری رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک پنجابی نظم میں اس صورت حال کو اس طرح تعبیر کیا تھا کہ مکان کی خوبصورتی اور مضبوطی میں دیواروں اور چھت کو تو ہر شخص دیکھتا ہے لیکن جو اینٹیں روڑے بن کر بنیادوں میں کوٹ دی جاتی ہیں ان کا کوئی نام تک نہیں لیتا، حالانکہ عمارت کی اصل مضبوطی انہی سے ہوتی ہے، یہی حالت ہمارے عام کارکنوں کی ہوتی ہے اور میں خود بھی اس دائرے سے باہر نہیں ہوں۔ گزشتہ دنوں گوجرانوالہ کے تین پرانے جماعتی اور تحریکی کارکن وفات پا گئے ہیں اور میری محرومی یہ ہے کہ اپنی مصروفیات کی وجہ سے ان کے جنازوں میں بھی شریک نہیں ہو سکا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ 
مولانا عبد السمیع نگینویؒ ہمارے بہت پرانے ساتھی تھے، رسول پورہ کی مسجد صدیقیہ میں اس دور میں امامت کے فرائض سر انجام دیتے تھے جب وہ جمعیۃ علماء اسلام اور مجلس تحفظ ختم نبوت کی تحریکی سرگرمیوں کا ایک اہم مرکز شمار ہوتی تھی، انہوں نے متعدد تحریکات میں ہمارے ساتھ شب و روز کام کیا، بعد میں تبلیغی جماعت میں زیادہ قت دینے لگے اور کچھ عرصہ رائے ونڈ مرکز میں بھی رہے۔ 
محمد اشرف صاحب جو بابا محمد اشرف کے نام سے معروف تھے اور ہم انہیں اشرف ہمدانی کے نام سے یاد کرتے تھے، جمعیۃ علماء اسلام نے جب گوجرانوالہ میں ’’انصار الاسلام‘‘ کے نام سے رضا کار تحریک منظم کی تو وہ حضرت مولانا مفتی عبد الواحد رحمہ اللہ تعالیٰ کی سرپرستی اور سالار قاسم خان مرحوم کی شبانہ روز محنت کا ثمرہ تھا۔ اس دور میں گوجرانوالہ کے شہریوں نے متعدد بار انصار الاسلام کے رضا کاروں کو سڑکوں پر منظم مارچ کرتے دیکھا ہے۔ محمد اشرف خان مرحوم بھی اس کے سرگرم سالاروں میں سے تھے۔ اکتوبر ۱۹۷۵ء کے دوران جامع مسجد نور مدرسہ نصرۃ العلوم میں منعقد ہونے والے کل پاکستان نظام شریعت کنونشن کا وہ منظر بہت سے شہریوں کو یاد ہوگا جب قاسم خان مرحوم کی قیادت میں سینکڑوں باوردی رضا کاروں نے شہر کی سڑکوں کا مارچ کیا تھا اور کنونشن کے سٹیج پر حضرت درخواستیؒ ، حضرت مولانا مفتی محمودؒ اور دیگر اکابر کو سلامی پیش کی تھی۔
محمد اشرف صاحب بھی ہمارے پرانے ساتھی تھے، انہیں ہم سیٹھ اشرف کے نام سے پکارتے تھے، تحریکی کارکن تھے، ختم نبوت کا دفتر ان کا اکثر بسیرا رہتا تھا، تحریک احیاء سنت کے عنوان سے مختلف تقریبات کا اہتمام کرتے رہتے تھے اور دینی تحریکات میں سرگرمی کے ساتھ شریک ہوتے تھے، ان کا فرزند قاری محمد ابوبکر مدنی ایک اچھا نعت خواں اور مداح رسولؐ اور مختلف دینی محافل کی زینت ہوتا ہے۔ یہ تینوں ساتھی گزشتہ تھوڑے سے عرصہ میں وقفہ وقفہ سے وفات پا گئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ ان کی دینی خدمات کو قبولیت سے نوازیں اور ان کے پس ماندگان کو ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق دیں۔ آمین یا رب العالمین۔

برطانیہ میں طب اسلامی کا تذکرہ

حکیم محمد عمران مغل

ایک پاکستانی نژاد مذہبی گھرانہ کافی عرصے سے لندن میں دائمی حقوق کے ساتھ آرام وسکون کی زندگی گزار رہا ہے۔ یہ گھرانہ جس کے سربراہ ظفر احمد انصاری صاحب ہیں، میرپور آزاد کشمیر سے اٹھ کر برطانیہ کے پر رونق شہر برمنگھم میں جا بسا ہے۔ ایک دن رات کے سناٹے میں میرے موبائل پر ان کافون آیا۔ فرمانے لگے کہ ماہنامہ الشریعہ دیکھا ہے اور برطانیہ سے آپ سے مخاطب ہوں۔ آپ کے ’‘امراض وعلاج‘‘ کے کالم سے یہاں کے لوگ خوب خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ میرے خاندان میں بھی امراض معدہ اور خونی امراض کی کثرت ہے۔ میں نے کہا کہ اپنے کسی ایسے رشتہ دار کو میرے پاس بھیجیں جو آپ کے خاندان کا مکمل تجزیہ کر سکے۔ کہنے لگے کہ میرا چھوٹا بھائی چھٹیاں گزارنے کے لیے پاکستان آیا ہوا ہے، وہ آپ کے پاس آ جائے گا۔
کچھ دنوں کے بعد ان کے بھائی آئے اور میں نے ان سے معلومات لیں اور چھان پھٹک کر تسلی کر لی۔ ان کے ہاتھ ظفر احمد صاحب کے ایک ماہ کی دوا برطانیہ بھیج دی گئی۔ میں نے ان سے کہہ دیا تھا کہ اس کے علاوہ کسی علاج کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ غالباً اڑھائی تین ماہ کے بعد رات کے سناٹے میں انھوں نے دوبارہ موبائل پر رابطہ کیا اور اطلاع دی کہ اللہ تعالیٰ نے بہت کم عرصے میں مجھے شفا سے ہم کنار کر دیا ہے۔ ساتھ ہی حیرانی سے استفسار کرنے لگے کہ مجھے بیماری کچھ اور تھی، لیکن آپ نے دوا کچھ اور بھیج دی۔ میں نے جواباً کہا کہ اسی لیے تو چند دنوں میں کئی سال کی تکالیف ختم ہو گئی ہیں۔ الحمد للہ میں نے ٹامک ٹوئیاں مارنے اور ٹوٹکے سیکھنے کے بجائے طب کا فن سیکھنے میں عمر گزاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میری بھیجی ہوئی دوا سے نہ صرف معدہ اور خون کے امراض ختم ہو گئے، بلکہ موٹاپا، چربی کی زیادتی، چھپاکی، خارش، بواسیر، بد ہضمی کو بھی بیخ وبن سے اکھاڑ دیا گیا۔
اصل میں معدہ کے امراض کا علاج کرتے ہوئے کئی دوسرے عوامل کو بھی دیکھنا پڑتا ہے۔ میں نے انھیں رسوت، ریٹھے اور کٹھ غولیائی دھرکونے، عشبہ وغیرہ کا نسخہ بنا کر دیا تھا جو اندھیرے میں بھی تیر بہدف ثابت ہوا۔ ظفر احمد صاحب کے علاج سے مجھے خوشی ہے کہ بحر الکاہل میں کسی کو بحر ہند کے پانی کی ضرورت پیش آئی۔

ملالہ یوسف زئی پر حملہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملہ کی مذمت اور اس کے لیے دعائے صحت کی اپیل میں پوری قوم کے ساتھ میں بھی شریک ہوں۔ مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں نماز جمعہ کے اجتماع کے موقع پر ہم نے اس وحشیانہ حملہ کی مذمت کی اور ملالہ کے لیے اجتماعی طور پر دعائے صحت بھی کی، البتہ ذرائع ابلاغ میں اس واقعے پر اس قدر اچانک اور شدت کے ساتھ دھول اڑا دی گئی کہ کسی کو وقتی طور پر کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہوا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے۔ اس دوران بعض دوستوں نے مجھ سے پوچھا تو میں نے یہی عرض کیا کہ کچھ غبار بیٹھ جانے دو، پھر اندازہ ہو جائے گا کہ اس المناک واقعہ کا پس منظر، تہہ منظر اور پیش منظر کیا ہے۔ 
فسوف تری اذا انکشف الغبار
أفرس تحت رجلک أم حمار
ترجمہ: عنقریب جب غبار چھٹ جائے گا تو تم خود دیکھ لو گے کہ جس جانور پر تم سوار ہو وہ گھوڑا ہے یا گدھا ہے۔ 
ہمارا ماتھا اسی وقت ٹھنک گیا تھا جب ہم نے دیکھا کہ ملالہ جس حملے میں زخمی ہوئی ہیں، اسی حملے میں ان کے ساتھ اسی سکول کی دو اور طالبات شازیہ اور کائنات بھی زخمی ہوئی ہیں، لیکن کوریج اور پروٹوکول دونوں حوالوں سے شازیہ اور کائنات اس سلوک کی مستحق قرار نہیں پائیں جو ان کی ایک زخمی ساتھی کو ملا۔ حالانکہ وہ دونوں بھی سوات کی رہنے والی تھیں، اسی سکول کی طالبات تھیں، قوم کی بچیاں تھیں، ایک ہی حملہ میں ملالہ کے ساتھ زخمی ہوئی تھیں اور ان کے جسم سے خارج ہونے والا خون بھی سرخ رنگ کا ہی تھا۔ ڈرون حملوں میں شہید اور زخمی ہونے والے معصوم پاکستانیوں کو ایک طرف رہنے دیں تو بھی یہ بات سمجھ میں آنے والی نہیں ہے کہ ملالہ، کائنات اور شازیہ میں آخر کیا فرق ہے جس نے ان کے درمیان زمین و آسمان جیسا بعد پیدا کر دیا ہے۔ 
میں اس بات سے پوری طرح متفق ہوں کہ ملالہ کے طرز عمل سے اختلاف رکھنے والوں کو خواہ وہ کوئی بھی ہوں، اس کی جان لینے کا حق نہیں ہے اور نہ ہی وہ اپنے اختلافات یا نفرت کے اظہار کے لیے قانون کو ہاتھ میں لینے کا کوئی جواز رکھتے ہیں۔ اس لیے ان کی یہ حرکت انتہائی قابل مذمت ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ شازیہ اور کائنات کے ساتھ تو انہیں بظاہر کوئی اختلاف بھی نہیں تھا اور نہ ہی ان کی کوئی ایسی سرگرمیاں نظر آرہی تھیں جو حملہ آوروں کے لیے اس درجہ قابل اعتراض ہوں، وہ ان کی جان کے کیوں درپے ہوگئے؟ اس لیے میرے نزدیک ملالہ پر قاتلانہ حملہ شدید جرم ہے، لیکن شازیہ اور کائنات کی جان لینے کی کوشش اس سے بھی کہیں زیادہ سنگین جرم بنتی ہے اور بین الاقوامی لابیوں، میڈیا اور حکمران حلقوں کی طرف سے ان دو مظلوم بچیوں کو نظر انداز کر دینا اور کئی روز تک مسلسل نظر انداز کیے رکھنا جن شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے، وہ غبار چھٹنے اور دھول بیٹھ جانے کے ساتھ اب ایک ایک کر کے سامنے آرہے ہیں اور مزید کچھ دنوں تک مطلع مزید صاف ہو جائے گا۔ 
آج علماء کرام سے تقاضا کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستانی طالبان کی صرف مذمت نہ کریں بلکہ عملی طور پر آگے بڑھ کر انہیں اس قسم کی کارروائیوں سے روکنے کا کردار ادا کریں، میں بھی اسی لہجے میں کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے حکمران ڈرون حملوں کی صرف مذمت نہ کریں بلکہ انہیں روکنے اور اپنے شہریوں کی جان بچانے کے لیے عملی اقدام کریں، لیکن اس مرحلہ میں ایک اور بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی رولنگ کلاس اگر اس بات کی یقین دہانی کرا دے کہ وہ نفاذ اسلام کے لیے پارلیمنٹ کی طرف سے کیے گئے جمہوری فیصلوں پر عمل در آمد میں رکاوٹ نہیں بنیں گے اور اس سلسلے میں اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کریں گے تو پاکستانی طالبان کو راہ راست پر لانے کے لیے تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء کو ایک فورم پر جمع کرنے کی ذمہ داری میں قبول کرتا ہوں، اس لیے کہ تالی ہمیشہ دو ہاتھوں سے بجتی ہے اور ایک ہاتھ سے بجنے والا صرف تھپڑ ہی کہلاتا ہے۔

دسمبر ۲۰۱۲ء

نفاذ اسلام کے سلسلے میں فکری کنفیوژن اور اعتدال کی راہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مذہبی تعلیم سے وابستہ چند فکری پہلومحمد عمار خان ناصر
قائد اعظم یا طالبان، کس کا پاکستان؟ / قاضی صاحب پر حملہ / ریاست کے اندر ریاستخورشید احمد ندیم
عالم اسلام کے معروضی حالات میں اصل مسئلہڈاکٹر قاری محمد طاہر
نابالغی کا نکاح اور سیدہ عائشہؓ کی عمر ۔ چند نئے زاویے (۱)مولانا محمد عبد اللہ شارق
.... اور کافری کیا ہے؟پروفیسر میاں انعام الرحمن
’’مقالاتِ جاوید‘‘ پر ایک نظرڈاکٹر محمد شہباز منج
ٹی بی ۔ ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھحکیم محمد عمران مغل
ڈیلیٹڈ ۱ادارہ
ڈیلیٹڈ ۲ادارہ

نفاذ اسلام کے سلسلے میں فکری کنفیوژن اور اعتدال کی راہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

روزنامہ ایکسپریس گوجرانوالہ میں ۱۲؍ نومبر ۲۰۱۲ء کو شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق:
’’القاعدہ کے سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری کے چھوٹے بھائی محمد الظواہری نے کہا ہے کہ سینا میں اسلامی حکومت قائم کرنے کی خبریں گمراہ کن ہیں۔ ہماری جماعت دوسروں کو کافر قرار نہیں دیتی، اس لیے ہم پر تکفیری فرقے کے الزامات بے سروپا ہیں۔ ان اطلاعات میں بھی کوئی صداقت نہیں کہ ’’اسلامی جہاد‘‘ قاہرہ میں دہشت گرد بم حملوں کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ ایسی خبریں اسلامی جہاد کے خلاف میڈیا میں ہونے والے منفی پراپیگنڈے کا حصہ ہیں۔ مصری میڈیا اور سیکورٹی اداروں کو سابق حکومت کی باقیات سے پاک کیا جائے۔ ’’اسلامی جہاد‘‘ اسلحے کے بجائے وعظ، کانفرنسوں اور کتابوں کے ذریعے اسلامی فہم پھیلانے میں مصروف ہے۔ اپنے ایک انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ ہماری جماعت سیاست میں حصہ لینے کی متمنی نہیں، کیونکہ ہم جمہوریت کے نظریے پر یقین نہیں رکھتے۔ ہم اس جمہوریت کے قائل ہیں جو انصاف، انسانی عظمت اور مساوات قائم کرنے میں معاون ہو۔ صرف ایسی جمہوریت ہی اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ ہے۔‘‘
ڈاکٹر محمد الظواہری نے ایک ہی سانس میں اتنی باتیں کہہ دی ہیں کہ ان سب کو ایک دوسرے سے الگ کرنا اور ہر ایک پر تبصرہ کرنا مشکل سا ہو گیا ہے، لیکن اس سے اتنی بات ضرور واضح ہو جاتی ہے کہ نفاذ اسلام، جہاد اور جمہوریت کے حوالے سے اس طرح کی کنفیوژن کم وبیش پورے عالم اسلام میں یکساں طور پر پائی جاتی ہے او رنفاذ اسلام کے خواہاں دینی حلقے ہر مسلم ملک میں اسی قسم کی ذہنی وفکری کشمکش سے دوچار ہیں جو ڈاکٹر محمد الظواہری کے مذکورہ بالا بیان کے بین السطور جھلک رہی ہے۔
نفاذ اسلام تو دنیا بھر کے اکثر مسلمانوں کی دلی خواہش ہے اور اس کے لیے بیسیوں ممالک میں کسی نہ کسی درجے میں محنت بھی ہو رہی ہے، لیکن بعض بنیادی امور پر ذہن واضح نہ ہونے کی وجہ سے اکثر مقامات پر یہ محنت اور جدوجہد وہ ثمرات نہیں دے رہی جن کی ان سے توقع کی جاتی ہے۔ ہمارے خیال میں اسلامی ریاست اور شرعی حکومت کے حوالے سے کام کرنے والے حلقوں کو چند مختلف دائروں میں تقسیم کر کے اس صورت حال کا زیادہ بہتر طو رپر تجزیہ کیا جا سکتا ہے:
  • مسلم ممالک کی قومی سیاست میں ایک طبقہ جو اس وقت سب سے زیادہ موثر، فعال اور با وسائل ہے، ان لوگوں پرمشتمل ہے جو مسلمان ہونے کے ناتے سے اسلام کا نام ضرور لیتے ہیں، لیکن ان کے ذہن میں اسلام کے ایک نظام ہونے کا کوئی تصور موجود نہیں ہے، بلکہ نفاذ اسلام یا کسی اسلامی قانون کی ترویج کے مطالبہ پر انھیں تعجب ہوتا ہے اور وہ اسے ’’بے وقت کی راگنی‘‘ سمجھتے ہیں۔ مسلم دنیا کے حکمران طبقات زیادہ تر ایسے ہی افراد پر مشتمل ہیں اور ایک اسلامی ریاست کی تشکیل یا کسی مسلمان ملک میں قرآن وسنت کے قوانین کے عملی نفاذ کی راہ میں وہ ایک مضبوط رکاوٹ ہیں۔
  • ایک طبقہ وہ ہے جو نفاذ اسلام کے عنوان سے گھبراتا تو نہیں، لیکن اس کے نزدیک اسلام صرف چند اسلامی عبادات وشعائر کا نام ہے اور وہ عبادات واخلاق کے دائرے سے ہٹ کر نفاذ کے درجے میں اسلامی قانون اور شریعت کے کسی ضابطے کو رو بہ عمل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ مسلم ممالک کی قومی سیاست میں ایسے افراد بھی بکثرت موجود ہیں اور بد قسمتی سے سیکولر حلقوں کے مقابلے میں ایسے لوگوں کو ہی اسلامی حلقے تصور کر کے عام مسلمان ان سے اس قسم کی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں جو پوری نہ ہونے پر مایوسی پھیلتی ہے۔
  • ایک طبقہ وہ ہے جو فی الواقع نفاذ اسلام کا خواہاں ہے اور یہ لوگ ملک کے دستور وقانون میں قرآن وسنت کی بالادستی اور اس پر عمل درآمد پر یقین رکھتے ہیں، لیکن اس کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرنے، رولنگ کلاس کی ذہن سازی، نفاذ اسلام کے لیے ضروری رجال کار کی تیاری اور نفاذ اسلام کے سلسلے میں جدید ذہن کے اشکالات واعتراضات کا منطقی طور پر جواب دے کر اس کی تشفی کی ضرورت محسوس نہیں کرتے جس کی وجہ سے انھیں کسی جگہ بھی کامیابی حاصل نہیں ہو رہی۔
  • ایک طبقہ ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو رائے عامہ، ووٹ اور سیاسی عمل کے ذریعے نفاذ اسلام کی جدوجہد کو ’’کارِ بے کاراں‘‘ سمجھتے ہیں۔ ان کی ایک بڑی تعداد اس سارے کام سے کنارہ کش ہو کر خود کو عبادت وریاضت میں مشغول رکھے ہوئے ہے اور نفاذ اسلام کے سارے کام کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت امام مہدیؓ کے ظہور کے ساتھ متعلق سمجھ کر ان کے انتظار میں شب وروز مصروف ہے، جبکہ ان لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں جو ان ساری رکاوٹوں اور کوتاہیوں کے رد عمل میں جذباتیت کا شکار ہو کر ہتھیار بکف ہیں اور ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کے مصداق شہادتوں اور قربانیوں کو اس جدوجہد کا واحد راستہ سمجھے ہوئے ہیں۔
  • اسلامی نظام کی تعبیر وتشریح کے حوالے سے بھی اسی طرح کی کنفیوژن پائی جاتی ہے۔ بہت سے لوگ وہ ہیں جو جدید سیاسی اور معاشرتی نظریات وافکار کو بالکل مسترد کرتے ہوئے نفاذ اسلام کے عمل کو اب سے صدیوں قبل کے ڈھانچے اور اسٹرکچر کے ساتھ دوبارہ مسلم معاشرے میں لانا ضروری سمجھتے ہیں، حتیٰ کہ وہ اس ناگزیر فرق کو سمجھنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں کہ آج کے دور میں نہ تو محض طاقت کو حق حکمرانی کا جواز قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی خاندانی تقدس ووجاہت کسی کے حق حکمرانی کی وجہ بن سکتا ہے، جبکہ آج کا دور حق حکمرانی کے حوالے سے خلافت راشدہ کے نکتہ آغاز کی طرف واپس جا چکا ہے کہ حق حکمرانی صرف اس کو حاصل ہوگا جسے عوام کے اعتماد وقبول کی سند حاصل ہوگی۔
  • نفاذ اسلام کے لیے ہتھیار اٹھانے والوں کی ایک اچھی خاصی تعداد ایسی ہے جو ان لوگوں کی تکفیر کو ضروری سمجھتی ہے جو ان کے تجویز کردہ نقشے اور طریق کار سے اتفاق نہ رکھنے کی وجہ سے ان کے خیال میں نفاذ اسلام کی راہ میں رکاوٹ ہیں، ان کی جدوجہد میں کسی سطح پر مزاحم ہوتے ہیں یا ان کا اس طرح ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے جس طرح وہ چاہتے ہیں اور بات صرف تکفیر تک نہیں رکتی، بلکہ تکفیر کے بعد انھیں راستے سے ہٹا دینا بھی جہاد کا لازمی حصہ قرار پاتا ہے۔
  • مغربی فکر وفلسفہ کو بالکل مسترد کر دینے یا کلیتاً قبول کر لینے کی دو انتہاؤں کے درمیان ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو ’خذ ما صفا ودع ما کدر‘ کا قائل ہے، لیکن جدید سیاسی نظریات اور اسلام کے سیاسی نظام کے درمیان مطابقت وموافقت اور مخالفت وتفاوت کو واضح کرنے کے لیے جس علمی محنت اور جگر کاوی کی ضرورت ہے، وہ بالکل مفقود دکھائی دیتی ہے۔ 
اس تناظر اور پس منظر میں اپنے ان بزرگوں کی بصیرت وتدبر کی داد دینا پڑتی ہے جنھوں نے اسلام کے نام پر قائم ہونے والے نئے ملک پاکستان کے قیام کے فوراً بعد ان سارے مسائل کا جائزہ لے کر اجتماعی اجتہاد کے ذریعے ایک متوازن راستہ اختیار کیا اور نفاذ اسلام کے لیے ’’قرارداد مقاصد‘‘ اور تمام مکاتب فکر کے ۳۱؍ سرکردہ علماء کرام کے مرتب کردہ بائیس متفقہ دستوری نکات کی صورت میں جامع، قابل عمل اور صحیح رخ طے کر دیا جس کی بنیاد ان نکات پر تھی کہ:
  • حق حکمرانی عوام کے اعتماد کی صورت میں حاصل ہوگا اور وہی حکومت کر سکیں گے جنھیں عوام اس مقصد کے لیے منتخب کریں گے۔
  • ریاست وحکومت اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ اور قرآن وسنت کی بالادستی کے تابع ہوگی۔
  • نفاذ اسلام کے لیے پرامن سیاسی جدوجہد کا راستہ اختیار کیا جائے گا اور اس مقصد کے لیے عسکریت کا راستہ اختیار کرنے سے مکمل گریز کیا جائے گا۔
  • نفاذ اسلام کے لیے قرآن وسنت اور امت کا اجماعی تعامل ہی بنیاد ہوگی جبکہ جدید ضروریات اور تقاضوں کو نظام کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کے لیے اجتہاد کے شرعی اصولوں سے کام لیا جائے گا۔
ہمارا خیال ہے کہ پاکستان کی دینی جماعتیں اور علمی مراکز اگر اپنے ان اجتماعی اصولوں کا صحیح پہرہ دیتے اور اجتماعی اجتہاد کے تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے دنیائے اسلام کی راہ نمائی کو اپنی ذمہ داری سمجھ لیتے تو شاید اس کنفیوژن کی نوبت نہ آتی جس کی جھلکیاں ڈاکٹر محمد الظواہری کے مذکورہ بالا بیان کے بین السطور نظر آرہی ہیں۔ ہمارے نزدیک اس کا صحیح راستہ آج بھی یہی ہے۔ خدا کرے کہ پاکستان کے دینی حلقے اور علمی مراکز اپنی اس ذمہ داری کا اب بھی سنجیدگی کے ساتھ احساس کر سکیں۔ آمین یا رب العالمین۔

مذہبی تعلیم سے وابستہ چند فکری پہلو

محمد عمار خان ناصر

پاکستان میں مختلف سطحوں پر مذہبی تعلیم کے موجودہ انتظام کے مثبت اور منفی پہلووں اوراس نظام میں بہتری کے امکانات کے حوالے سے متنوع زاویوں سے گفتگو کی جا سکتی ہے۔ اس تجزیے کا ایک اہم اور بنیادی پہلو ملک وقوم کی علمی وتعلیمی ضروریات اور مطلوبہ معیار کے تناظر میں موجودہ تعلیمی نظام کی کارکردگی کا جائزہ لینا ہے، تاہم اس پہلو کو کسی دوسرے موقع کے لیے موخر کرتے ہوئے اس نشست میں ہم انتہا پسندی اور دہشت گردی کی موجودہ لہر کے تناظر میں، جس نے قوم کو درپیش ایک گہرے اور سنجیدہ بحران کو فکر ودانش کی سطح پر نمایاں کر دیا ہے، مذہبی تعلیم کے کردار کے حوالے سے چند گزارشات پیش کرنا چاہیں گے۔
ہمارے ہاں مذہبی تعلیم کا اہتمام عصری تعلیم کے سرکاری وغیر سرکاری اداروں میں بھی کیا جا رہا ہے اور دینی مدارس کے ایک مستقل اور خود مختار تعلیمی نظام کی صورت میں بھی۔ اس ضمن میں بنیادی اور موثر کردار بدیہی طور پر مدارس ادا کر رہے ہیں۔ جہاں تک ریاستی تعلیمی نظام اور اداروں کا تعلق ہے تو قومی پالیسی میں اگرچہ ایک تسلسل کے ساتھ اسلام اور اسلامی تعلیمات کو تعلیمی پالیسی کا مرکزی اور محوری نکتہ بتایا گیا ہے اور اس مقصد کے لیے ناظرہ قرآن، ترجمہ قرآن اور اسلامیات کو مختلف سطحوں پر نصاب کے لازمی اجزا بھی قرار دیا گیا ہے، لیکن یہ طرز تعلیم بحیثیت مجموعی مذہب، ریاست، معاشرہ اور تہذیب کے باہمی تعلق کے ضمن میں نہایت بنیادی اور اہم سوالات کا کوئی واضح اور متعین جواب نہیں دیتا ، جبکہ فکر وشعور کی سطح پر ان سوالات کو موضوع بحث بنائے بغیر افراد اور معاشرے کو اسلامی رنگ میں ڈھالنے کا سوال عملی طور پر معلق رہ جاتا ہے۔ چنانچہ عصری نظام کے دائرے میں عملاً جو کچھ ہو رہا ہے، وہ یہ ہے کہ ناظرہ قرآن اور اسلامیات کی تعلیم کی صورت میں اسلام کے ساتھ وابستگی کا جذبہ طلبہ میں پیدا کر کے اسے شعوری فکر اور عملی رویوں میں ڈھالنے کا کام معاشرے میں موجود اور سرگرم مختلف مذہبی عناصر کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح عصری تعلیمی نظام بذات خود کوئی واضح تصور دینے کے بجائے محض ان مختلف، متنوع اور متضاد فکری رجحانات کے لیے خام مواد فراہم کرنے کی خدمت انجام دے رہا ہے۔ 
دوسری طرف دینی مدارس جس تعلیمی نظام کے تحت کام کر رہے ہیں، ا س کے ذریعے سے قرآن وسنت اور ان سے متعلقہ دینی علوم کی تعلیم کا کام اگر چہ ایک حد تک انجام پا رہا ہے، لیکن انگریزی زبان اور عصری علوم سے لاتعلقی، غلط تعلیمی ترجیحات اور قدامت پسند مذہبی سوچ سے بے لچک وابستگی کی بنا پر ان کا دائرۂ اثر نہایت محدود ہے اور یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ عصر حاضر کے علمی وعملی تقاضوں سے بالکل بے خبر اپنی ہی دنیا میں مگن اور اپنے محدود دائرۂ ترجیحات میں اپنی توانائیاں صرف کر رہے ہیں۔ 
دینی مدارس میں تعلیم کے نظام کے ساتھ جو بڑے بڑے مسائل وابستہ ہیں، اختصار کے ساتھ انھیں چند نکات کی صورت میں گنوایا جا سکتا ہے۔ مثلاً:
۱۔ مذہب جن روحانی واخلاقی اقدار کی تعلیم دیتا ہے، موجودہ مذہبی نظام تعلیم عمومی طو رپر ان سے بالکل برعکس قدروں کے فروغ کا ذریعہ بن رہا ہے جن میں سب سے نمایاں چیز مذہبی فرقہ واریت ہے۔ مزید برآں تربیت کا سارا زور دین کے مظاہر پر صرف کیا جاتا ہے، جبکہ روحانی بالیدگی اور اخلاق وکردار کی بلندی پیدا کرنے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی۔
۲۔ مذہبی تعلیم ایک ایسے ماحول میں فراہم کی جاتی ہے جو اپنے فیض یافتگان کو معاشرے کے زندہ مسائل کے ساتھ حرکی طو ر پر متعلق کرنے کے بجائے ان کے اور معاشرے کے مابین اجنبیت کی ایک خلیج حائل کر دیتا ہے اور طلبہ جب عملی کردار ادا کرنے کے لیے معاشرے سے متعلق ہوتے ہیں تو ان کے فکر اور حکمت عملی میں اصلاح کے ہمدردانہ اور داعیانہ جذبے کے بجائے شکوہ شکایت اور تنافر کا عنصر بالعموم زیادہ غالب ہوتا ہے۔
۳۔ مذہبی تعلیم کے نتیجے میں مطالعہ اور علم وتحقیق کا معیار مجموعی طو رپر ناقابل رشک ہے اور اس سے بھی زیادہ قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس ماحول میں مطالعہ اور تحقیق کے موضوعات کا دائرہ نہایت محدود ہے اور امت مسلمہ کی وسیع تر کلاسیکی علمی روایت اور دور جدید کے علمی وفکری مباحث سے ایک عمومی آگاہی بھی اس نظام تعلیم کے اہداف میں شامل نہیں۔
۴۔ مذہبی تعلیم کے موجودہ نظام نے ریاستی نظام اور بین الاقوامی قانون کے ضمن میں دور جدید کی جوہری تبدیلیوں سے متعلق اجتہادی زاویہ نگاہ کو اپنے اہداف کا حصہ نہیں بنایا، چنانچہ اس حوالے سے کلاسیکی دور کے فقہی ذخیرے کو غیرتنقیدی انداز میں پڑھانا ان فکری ونظری ابہامات کی جڑ کی حیثیت رکھتا ہے جن سے اس وقت ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد کا شرعی ونظریاتی جواز اخذ کیا جا رہا ہے۔
یہ آخری نکتہ ذرا توضیح کا طالب ہے۔ یہ بات درست ہے کہ دینی مدارس دہشت گردی کی تربیت نہیں دیتے اور نہ اس کے لیے فضا ہموار کرتے ہیں، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ مدارس کا نظام تعلیم ایک خاص ماحول میں طلبہ کی ذہنی تربیت کر کے ان کے اور معاشرے کے دوسرے طبقات کے مابین اجنبیت کی دیوار کھڑی کر دیتا ہے، جدید معاشرت اور تمدن کے عملی تقاضوں سے روشناس کرانے کے بجائے قدیم فقہی سانچے کو ان کے سامنے معیار اور آئیڈیل کے طور پر پیش کرتا ہے اور حالات کے معروضی تناظر میں نفاذ اسلام کی حکمت عملی اور اس کے تقاضوں کا شعور دینے کے بجائے محض ایک جذباتی نعرہ ان کے ہاتھ میں تھما کر انھیں میدان عمل میں اتار دیتا ہے۔ یہ اسی ذہنی رجحان کا نتیجہ ہے کہ ۸۰ء کی دہائی میں افغان جنگ کے دور میں حالات وواقعات کی عملی پیچیدگیوں اور اس کشمکش میں عالمی ومقامی سیاست کے اہداف اور ترجیحات سے کلی طو رپر اغماض برتتے ہوئے مذہبی عناصر میں یہ خام امید پروان چڑھاتے ہوئے اس جنگ میں شریک ہونے کی حوصلہ افزائی کی گئی کہ اس سے ’’جہاد‘‘ کا عمل زندہ ہو رہا ہے جو امت کی عظمت رفتہ کی بازیابی پر منتج ہوگا۔ گویا دینی مدارس ریاستی نظام کے خلاف انتہا پسندی کی براہ راست سوچ پیدا نہ کرنے کے باوجود اپنے فراہم کردہ ذہنی ماحول اور اپنے تحفظات، رجحانات اور پالیسیوں کے ذریعے سے لاشعوری طور پر وہ تمام فکری اور نفسیاتی لوازمات فراہم کر رہے تھے جس کے بعد اسے شدت پسندی اور دہشت گردی کا روپ دینے کے لیے بس کسی خارجی محرک، کسی استعمال کرنے والے ہاتھ اور ایک جرات رندانہ کی ضرورت تھی اور جب نسخے کے یہ سارے اجزا مکمل ہو گئے تو اس آئیڈیالوجی سے متاثر ذہنوں کا جہادی ’’کشتہ‘‘ تیار کرنے کی طرف متوجہ ہونا ایک ناگزیر نتیجہ تھا۔
اس ساری صورت حال کا گہرائی کے ساتھ تجزیہ کیجیے تو خرابی کی جڑ ایک ہی نکلے گی، یعنی ریاست کا مذہبی تعلیم اور فکری تربیت کا کوئی ایسا نظام وجود میں لانے کی ذمہ داری سے پہلو تہی برتنا جو قومی اور ملی ضروریات اور جدید سیاسی وسماجی ڈھانچے کے مطالبات ومقتضیات سے ہم آہنگ ہو۔ ریاستی نظام کی طرف سے معاشرے کو ایک متوازن مذہبی تعلیم فراہم کرنے کی ذمہ داری سے دست کش ہو جانے کے نتیجے میں مدارس کی صورت میں دینی تعلیم کے جداگانہ اور مرکزی تعلیمی دھارے سے الگ نظام کو ایک عملی ضر ورت کے طور پر ہمارے ہاں بالفعل قبول کر لیا گیا ہے جبکہ قومی سطح پر اس کے نقصانات اور مضمرات کا شاید اب بھی حقیقی معنوں میں اندازہ نہیں کیا جا رہا۔ اصولی طور پر ایک جامع قومی نظام تعلیم وضع کرنے کی ضرورت کا احساس خود دینی مدارس کے بعض نمایاں بزرگ دلا چکے ہیں، لیکن ایک مستقل سماجی طبقے کے طور پر مدارس اپنا تحفظ اسی میں محسوس کرتے ہیں کہ دینی اور دنیاوی تعلیم کی دوئی قائم رہے۔ مختلف حکومتیں بھی مضبوط قوت ارادی، ذہنی یکسوئی اور فکری وضوح کے فقدان کی وجہ سے اسی میں عافیت محسوس کرتی چلی آ رہی ہیں کہ یہ ذمہ داری اور بوجھ اپنے سر نہ لیا جائے۔ تاہم امر واقعہ یہ ہے کہ مذہبی انتہا پسندی اور ’طالبانائزیشن‘ کی صورت میں پوری قوم کو جس چیلنج کا سامنا ہے، اس کے پیش نظر اس طرز فکر پر نظر ثانی کی ضرورت جتنی اس وقت ہے، شاید پہلے کبھی نہیں تھی۔ 
مذہبی تعلیم کے نظام کی بہتری اور اصلاح کے ضمن میں ریاست کے کردار کے حوالے سے لبرل حلقوں کا ذہنی رجحان بھی غیر حقیقت پسندانہ اور اس ضمن کی رکاوٹوں میں سے ایک اہم رکاوٹ ہے۔ لبرل حلقوں کا عمومی زاویہ نگاہ یہ دکھائی دیتا ہے کہ قومی نظام تعلیم میں مذہب کے عنصر کو کم سے کم جگہ دی جانی چاہیے تاکہ مذہبی سوچ کو تعلیم کے راستے سے نئی نسل کے ذہن اور فکر ورجحان پر زیادہ اثر انداز ہونے کا موقع نہ ملے۔ تاہم اب تک کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ یہ طرز فکر غیرمطلوب نتائج پیدا کرنے کا ذریعہ بنا ہے۔ اگر قوم کی علمی، تعلیمی اور روحانی ضروریات سے متعلق ایک بے حد اہم شعبہ بالکل صحیح خطوط پر استوار کرنے کے بعد کسی ایک مخصوص طبقے کے سپرد کر دیا جائے اور معاشرہ اور ریاست اس سے اپنے آپ کو بالکل لاتعلق کر لیں تو اس سے احتساب اور جواب دہی کا احساس ختم ہونا شروع ہو جاتا ہے اور کچھ عرصے کے بعد جب وہ طبقہ اپنی سیاسی طاقت بھی پید اکر لے تو پھر اس کی اصلاح کے لیے کوئی موثر کردار ادا کرنا ریاست اور معاشرے کے لیے بے حد مشکل ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں دینی تعلیم کے نظام کے باب میں یہی ہوا ہے جو اس لحاظ سے زیادہ بگاڑ کا موجب بنا ہے کہ دینی تعلیم کا نظام سرے سے درست خطوط پر استوار ہی نہیں تھا اور نوآبادیاتی دور سے چلا آنے والا نظام نہایت بنیادی پہلووں سے اصلاح بلکہ تشکیل نو کا محتاج تھا۔ بدقسمتی سے اس اصلاح کے لیے مذہبی تعلیم کے نظام میں داخلی طو رپر کوئی خاص داعیہ موجود نہیں تھا۔ اس پر جب ریاست اور معاشرے نے بھی اس ضمن میں کوئی مثبت کردار ادا کرنے سے دست کشی اختیار کر لی تو ان خرابیوں نے اپنی جڑیں مزید مضبوط کر لیں اور اب پینسٹھ سال کے بعد کیفیت یہ ہے کہ مذہبی تعلیم کے نظام کی اصلاح کا عزم تو دور کی بات ہے، ریاست اور معاشرہ ابھی تک اس کا کوئی واضح نقشہ بھی ذہن میں نہیں رکھتے۔
آج سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی، مذہبی، فکری، معاشرتی اور تہذیبی الجھنوں کے تناظر میں مذہبی تعلیم کے بنیادی رخ کا ازسرنو تعین کیا جائے اور ایک بالکل نئے تعلیمی نظام کی داغ بیل ڈالی جائے۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے سیاسی ومذہبی قیادت اور اہل دانش میں جس فکری یکسوئی اور ہمت وحوصلے کی ضرورت ہے، وہ اس وقت مفقود ہے اور قومی سطح پر سخت نظریاتی اور سیاسی تضادات کی وجہ سے مستقبل قریب میں بھی ایسے کسی جاندار اور موثر نظام تعلیم کا وضع کیا جانا ممکن دکھائی نہیں دیتا، لیکن پالیسی سازوں پر یہ بات بہرحال واضح رہنی چاہیے کہ قوم اور معاشرے کے نظریاتی تشخص اور اس کے وجود وبقا کا تحفظ اس کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لیے کم سے کم یہ اہتمام تو ضرور کیا جانا چاہیے کہ نظری سطح پر نظام تعلیم کے خلا اور مطلوبہ اصلاحات کو زیر بحث لاتے وقت حقیقی مسائل کی نشان دہی کی جاتی رہے تاکہ اصل مسئلہ نظروں کے سامنے رہے اور قومی دانش اس پر توجہ مرکوز کر کے ایک تدریج کے ساتھ اسے حل کرنے کی پوزیشن میں آ سکے۔
ہماری نظر میں اس سارے قضیے میں ریاست اور سول سوسائٹی میں سب سے بنیادی چیز جو پیدا کرنے کی ضرورت ہے، وہ فکری وضوح، احساس ذمہ داری اور اصلاح کا مخلصانہ عزم ہے۔ چنانچہ معاشرے کی تشکیل میں مذہب اور مذہبی تعلیم کی اہمیت کو پوری طرح تسلیم کرنے کے بعد پوری نیک نیتی، خلوص اور کھلے ذہن کے ساتھ ایک تدریج کے ساتھ حسب ذیل اقدامات کرنے کی ضرورت ہے:
۱۔ مذہبی تعلیم کی ضروریات، معیارات اور اہداف کا ایک واضح نقشہ تیار کیا جائے جو ان روحانی، علمی وفکری اور معاشرتی ضروریات کی تکمیل کا ضامن ہو جو مذہب او رمذہبی تعلیم سے وابستہ ہیں۔
۲۔ ریاست اور سول سوسائٹی اس نقشے کے مطابق مذہبی تعلیم کے انتظام کو اپنی توجہ کا مرکز بنائیں۔ اس کے لیے سرکاری نظام تعلیم سے جو کام لیا جا سکتا ہے، اس کا بھی گہرائی سے جائزہ لے کر اقدامات تجویز کیے جائیں اور سول سوسائٹی جو کردار ادا کر سکتی ہے، اس پر بھی گہرا غور وخوض کیا جائے۔
۳۔ حکومت اور سول سوسائٹی کی طرف سے مذہبی تعلیم کے موجودہ نظام کے کار پردازان کو ایک مثبت اور تعمیری مکالمے میں شریک کیا جائے اور انھیں اپنے نظام میں مطلوب اصلاحات کرنے پر آمادہ کیا جائے۔ 
مذہبی تعلیم کے موجودہ نظام کی اصلاح میں ریاست اور سول سوسائٹی اگر کوئی کردار ادا کرنا چاہتی ہے تو اس حقیقت کو بنیادی نکتے کے طور پر تسلیم کرنا ہوگا کہ پاکستانی قوم اپنی روحانی واخلاقی اقدار، خاندانی ومعاشرتی زندگی کے اصول وضوابط اور اپنی اجتماعی زندگی کی تشکیل میں مذہب یعنی اسلام کو راہ نمائی کا بنیادی سرچشمہ اور ماخذ تصور کرتی ہے اور اسلام کی تعلیمات سے ہٹ کر کوئی دوسری چیز یہاں حیات اجتماعی کی تشکیل میں بنیادی حوالہ نہیں بن سکتی۔ ا س لحاظ سے مذہبی تعلیم کے مسئلے کو کسی ایک مخصوص طبقے کا نہیں، بلکہ ریاست اور معاشرے کی تعمیر وتشکیل سے دلچسپی رکھنے والے تمام سنجیدہ وفہمیدہ طبقات کے غور وفکر کا موضوع ہونا چاہیے اور تمام طبقات کو ایک مثبت اور تعمیری جذبے کے ساتھ مذہبی تعلیم کے نظام کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ یہ بنیادی ذہنی رویہ پیدا ہونے سے ہی وہ سنجیدگی، بصیرت اور عزم وحوصلہ پیدا ہوگا جو اس مقصد کے لیے درکار ہے۔ بصورت دیگر یہ معاملہ ایک طرف مذہبی طبقات اور دوسری طرف مذہبی نظام تعلیم کی اصلاح کی خواہش رکھنے والوں کے مابین ایک بے حاصل کشمکش کا عنوان بنا رہے گا جس میں واضح سوچ، خلوص اور عزم وحوصلہ مفقود ہونے کی وجہ سے ریاست اور سول سوسائٹی دن بدن اپنے مطالبات کا جواز کھوتے چلے جائیں گے اور مذہبی طبقات رفتہ رفتہ سماجی اور اخلاقی دباؤ سے آزاد ہوتے چلے جائیں گے۔

قائد اعظم یا طالبان، کس کا پاکستان؟ / قاضی صاحب پر حملہ / ریاست کے اندر ریاست

خورشید احمد ندیم

قائد اعظم کا تصورِ ریاست ایسا پامال موضوع ہے کہ اب اس پر قلم اُٹھانے کے لیے خود کو آمادہ کرنا پڑتا ہے۔ خیال ہوتا ہے جیسے آدمی پھر سے پہیہ ایجاد کر نے کی کوشش میں ہے۔ لوگ اس باب میں براہین وشواہد کے ساتھ کلام کرچکے۔ اس کے باوصف یہ تاثر ختم نہیں ہو رہا کہ قائد اعظم کے پیشِ نظر ایک سیکولر ریاست کاقیام تھا۔ ایم کیو ایم جب اسے ایک ریفرنڈم کا عنوان بنا رہی ہے تو اس کا مقدمہ بھی یہی ہے۔ اس نا قابل تردید شہادت کے باوجود کہ قائد نے تمام عمر سیکولرزم کالفظ استعمال نہیں کیا اور بارہا اپنے ارشادات میں واضح کیا کہ وہ اسلام کے اصولوں کو ریاست کی بنیاد بنانا چاہتے ہیں، آخر یہ تاثر ختم کیوں نہیں ہوتا؟ حسنِ ظن کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے جب میں نے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی تو میں کچھ نتائج تک پہنچا ۔ آج ان نتائجِ فکرمیں آپ کو شریک کرنا چاہتا ہوں۔
یہ نقطہ نظر دراصل اہلِ مذہب کے تصورِ ریاست کا ردِ عمل ہے، جنہوں نے بعض تاریخی اسباب سے قائدِ اعظم کے تصورِ اسلام کو خود ساختہ معانی پہنا دیے ہیں۔ لوگ اس مفہوم اور معانی پر معترض ہیں۔ وہ جب قائداعظم کے تصورِ ریاست اور مذہبی طبقے کے پیش کردہ اسلامی ریاست کے تصورِ میں فرق نہیں کر پاتے تو قائد اعظم کو سیکولر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چونکہ یہ مقدمہ اصلاً کمزور ہے، اس لیے ان کو اس میں پناہ نہیں ملتی۔ یوں وہ خود ذہنی پراگندگی کا شکار ہوتے ہیں اور ساتھ معاشرے کو بھی الجھاتے ہیں۔ میں اس اجمال کی قدرے تفصیل کرتا ہوں۔
جہاں تاریخی اعتبار سے یہ ثابت ہے کہ قائد اعظم اور مسلم لیگ کے دوسرے راہنما اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک ریاست تشکیل دینا چاہتے تھے ، وہاں یہ بھی ثابت ہے کہ اس کاکو ئی واضح تصوران کے پاس نہیں تھا۔ان کویہ اعتماد تھاکہ اسلام اس معاملے میں ان کی رہنمائی کرے گا لیکن کیسے، اس کا کوئی شافی جواب ان کو ابھی تلاش کرنا تھا ۔ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی جیسے صاحبِ دانش نے بھی یہ لکھا ہے کہ ’’ اسلامی دستور کیا ہوتا ہے، اس سوال کو کوئی متعین جواب موجود نہیں تھا‘‘۔یہ بات مسلم لیگ کے ذمہ دارلوگوں پر پوری طرح واضح تھی ۔ ۱۹۳۹ء میں یو پی مسلم لیگ نے نواب محمد اسماعیل خان کی صدارت میں یہ تحریک منظور کی کہ علما کی ایک مجلس سے مفصل نظامِ حکومت مرتب کرایا جائے۔ اس کے نتیجے میں سر احمد سعیدخان چھتاری کی صدارت میں ایک کمیٹی بنی۔ اس کے سیکریٹری سید سلیمان ندوی تھے۔ انہوں نے بہت سے علما کو خطوط لکھے اور تجاویز مانگیں۔ صرف چار افراد نے دستوری خاکے تجویز کیے۔ مولانا عبدالماجد دریابادی، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، ڈاکٹر ذاکر حسین اور مولانا آزاد سبحانی۔ انہیں مولانا محمداسحاق سندیلوی نے مرتب کیا اور بعد میں اسے ’’ اسلام کا سیاسی نظام‘‘ کے عنوان سے شائع کیا گیا۔ مسلم لیگ نے اپنے تیسویں سالانہ اجلاس (۱۹۴۳ء) میں بھی ’’ مجلسِ تعمیرِ ملی‘‘ کی تجویز پیش کی گئی جو اسلامی ریاست کا خاکہ بنائے۔ یہ مجلس قائم ہی نہ ہو سکی۔ قیامِ پاکستان کے بعد نواب افتخار حسین ممدوٹ مغربی پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ بنے تو انہوں نے الہیاتِ اسلامی کی تشکیلِ جدید کے لیے ایک شعبہ قائم کیا۔ محمد اسداس کے ناظم بنائے گئے جن کے نواب صاحب سے دیرینہ مراسم تھے۔ انہوں نے شب و روز کی محنت سے اسلامی دستور کا ایک خاکہ مرتب کیا جو مارچ ۱۹۴۸ء میں شائع ہوا۔یہ داستان بتاتی ہے کہ قائد اعظم اور مسلم لیگ کے قائدین اس باب میں سنجیدہ تھے کہ مسلمانوں کے لیے جو ریاست بنے، اس کے خدو خال کا تعین اسلامی تعلیمات کی روشنی ہو لیکن اس کی عملی صورت کے بارے میں وہ ابہام کا شکار تھے۔ یہ ابہام ۱۹۴۸ء تک مو جود تھا۔
ایسا کیوں نہیں ہو سکا ؟ اس کے بے شمار اسباب ہیں۔ محمد اسد مرحوم نے ان کا ذکر کیا ہے۔ یہاں اس تفصیل کا موقع نہیں، محض ایک وجہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو خود محمد اسد نے بیا ن کی ہے۔ان کے مطابق، اُس وقت قوانینِ شریعت کا کوئی ایسا جامع ضابطہ(code) موجود ہی نہیں تھاجو قابلِ نفاذ ہو۔ ان پر یہ بھی واضح تھا کہ یہ کام روایتی علما کے بس کا نہیں ہے۔ یہی سبب تھا کہ انہوں نے اپنے ادارے کے ساتھ جن علما کو وابستہ کیا، وہ اس عہد میں اپنی روشن خیالی کے سبب ممتاز تھے، جیسے مولانا محمد حنیف ندوی، مولانا جعفر شاہ پھلواری اور مظہرالدین صدیقی۔
مسلم لیگ کے متوازی مسلمانو ں کی ایک اور تحریک بھی منظم ہو رہی تھی۔ یہ جماعت اسلامی تھی۔ مسلم لیگ کے برخلاف اس کی قیادت ایک جید عالم کے ہاتھ میں تھی اوروہ اسلامی ریاست کے معا ملے میں کسی ابہام کا شکارنہیں تھے۔ مولانا مودودی نے جدید ریاست کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے دین کی تعبیر کی اور اس کے ساتھ اسلامی ریاست کی وضاحت کی۔ ان کے خیال میں اسلام ایک دین ہے اور اگر عصری لغت میں ’’ دین‘‘ کے قریب تر مفہوم رکھنے والا کوئی لفظ موجود تھا تو وہ ’’سٹیٹ‘‘ تھا۔ مسلم لیگ کے ابہام کے مقابلے میں جماعت اسلامی اس باب میں واضح تھی۔ وہ اسلامی ریاست کا مفہوم بتا رہی تھی۔ اس کو برپا کرنے کی حکمت عملی کو دو اور دو چار کی طرح بیان کر رہی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ جدید ریاستی اداروں کی اسلامی تشکیل کے باب میں بھی ایک نقطہ نظر رکھتی تھی۔
قیامِ پاکستان کے بعد مسلم لیگ کو جب ایک جدیدریاست کے قیام کا چیلنج درپیش ہوا تو اس کی اسلامی تشکیل کے لیے اس کے پاس کوئی متعین راستہ موجود نہیں تھا۔ یہ بات بھی اپنی جگہ اس پر اخلاقی دباؤ کا باعث تھی کہ وہ برصغیر کے مسلمانوں سے یہ وعدہ کر چکی تھی۔ قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی جماعت اسلامی اسلامی دستور کے نفاذ کا مطالبہ لے کر کھڑی ہوگئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ’’جرم‘‘ میں ’’اسلامی ریاست‘‘ میں انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ جماعت اسلامی نے ایک حد تک دوسرے علما کو بھی اپنا ہم نوا بنا لیا اور اس کے نتیجے میں علما کے بائیس نکات سامنے آ گئے۔ اسی دباؤ کے نتیجے میں ۱۹۴۹ء میں قراردادِ مقاصد بھی منظور ہو گئی۔ یوں مسلم لیگ دھیرے دھیرے اپنی کمزوری کے سبب پیچھے ہٹتی گئی اور جماعت اسلامی کے تصور اسلامی ریاست نے اس خلا کو بھر دیا جو مسلم لیگ کی فکری نا اہلی کے سبب موجود تھا۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ علامہ اقبال کی فکر پسِ منظرمیں چلی گئی اور اسلامی ریاست کا وہ تصور غالب آ گیا جو مولانا مودودی کی فکر سے پھوٹی تھا۔ جماعت اسلامی نے اپنی ابلاغی صلاحیت سے یہ مقدمہ بھی قائم کر دیا کہ علامہ اقبا ل او قائد اعظم دراصل وہی اسلامی ریاست چاہتے تھے جس کا تصور جماعت اسلامی دے رہی ہے اور یوں تحریکِ پاکستان کے فکری وارث وہی ہے۔ مولانا طفیل محمد مرحوم نے اس ’’ یکسانیت‘‘ کو یوں بیان کیا کہ جماعت اسلامی اس کے سوا کیا ہے کہ مسلم لیگ کا اردو ترجمہ ہے۔
اب جو لوگ جماعت اسلامی یا اس کے خیالات کے مخالف ہیں، وہ اس تاریخی مغالطے کو شاید صحیح تناظر میں سمجھ نہیں پائے۔ وہ اس کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے کہ علامہ اقبال یا قائد اعظم کے تصور اسلامی ریاست کو واضح کرتے ہوئے، اسے جماعت اسلامی کے تصورِ ریاست سے مختلف ثابت کرتے۔ اپنے فکری افلاس کے سبب انہوں نے رد عمل میں قائد اعظم کو سیکولر ثابت کرنا چاہاکیونکہ وہ خود پاکستان کو اسی طرح دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ بات چونکہ خلافِ واقعہ تھی، اس لیے انہیں یہاں کوئی سایہ ء دیوارنہ مل سکا اور انہیں حقائق کی دھوپ کا سامنا کرنا پڑا۔
میرا تاثر یہ ہے کہ اگر اس تاریخی مغالطے کو دور کرتے ہوئے، یہ سمجھنے کی شعوری کوشش کی جائے کہ علامہ اقبال اور قائداعظم کے پیش نظراسلامی ریاست کا تصور کیا تھا تو شاید قائد اعظم کو سیکولر ثابت کرنے کی ضرورت باقی نہ رہے۔ تاہم جو پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا چاہتے ہیں، ان کے سامنے ایک راستہ ہے کہ وہ اپنے مطالبے کو قائد اعظم کی فکر سے آزاد کرتے ہوئے پیش کریں۔ اس پسِ منظر میں طالبان اور قائد اعظم کاتقابل بے معنی ہوگا۔ انہیں اس پر ریفرنڈم کرانا چاہیے کہ پاکستانی ریاست کے نظری خدو خال کا تعین اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہوگا یا سیکولر تصورات کی روشنی میں۔ تاریخ کا معاملہ یہ ہے کہ وہ واقعات سے عبارت ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف نظریات کی بحث دلیل و استدلال کی بنیاد پر آگے بڑھتی ہے۔ سیکولرزم کے علمبر دار اگر پاکستان کی نظری تشکیل کے سوال کو قائد اعظم سے آزاد کرتے ہوئے زیرِبحث لائیں گے تو انہیں آسانی ہوگی۔ پھر بحث عقلی اور فکری دائرے میں ہوگی، تاریخ کے دائرے میں نہیں۔ 

قاضی صاحب پر حملہ

قاضی حسین احمدصاحب کو اللہ نے محفوظ رکھا۔اطمینان کے گہرے احساس کے ساتھ میں نے یہ خبر سنی۔لیکن اس حادثے پرجب محترم قاضی صاحب کا پہلا ردِ عمل سامنے آیاتو مایوسی کی ایک لہر نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔کیا پیش پا افتادہ حقائق پر ان کی نظر نہیں پڑی؟کیا ابھی وقت نہیںآیا کہ وہ اپنا سینہ لوگوں کے سامنے کھول دیں؟

یہ سوالات ذہن میں اس وقت بھی پیدا ہوئے تھے جب جی ایچ کیو پر حملہ ہوا۔جب کراچی اور کامرہ میں نیوی اور ایئر فورس ہدف بنی۔میں کسی ایسے صاحبِ بصیرت ،بلکہ صاحبِ بصارت کی توقع کر رہا تھا جو یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد پکار اُٹھے:
میں اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روزِ سیاہ
خود دکھایا ہے مرے گھر کے چراغاں نے مجھے
افسوس کہ یہ خواہش کل پوری ہوئی نہ آج۔قاضی صاحب نے فرمایا: حملہ امریکا نے کرایا ہے۔وہ طالبان اور دینی جماعتوں میں فاصلے پیدا کرنا چاہتا ہے۔
امریکا کے خلاف ہمارا مضبوط مقدمہ ہے۔ ہمارا ہی نہیں‘ یہ عالم انسانیت کا مقدمہ ہے۔اس زمین پر بکھری ظلم کی ان گنت داستانیں خود ناطق اور امریکا کے خلاف گواہ ہیں۔ پھر پاکستان میں لوگ امریکا کے خلاف جو جذبات رکھتے ہیں‘ ہمیں ان کی خبر ہے۔امریکا کو سازش اور برائی کی ایک علامت ثابت کرنے کے لیے کسی مزید دلیل کی حاجت نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس حادثے کا بھی کیا امریکا سے براہ راست کوئی تعلق ہے؟
میرے نزدیک یہ مسلمان معاشروں کا ایک داخلی مسئلہ ہے۔سیاسی و تہذیبی مغلوبیت کے سبب ان میں اضطراب اور بے چینی ہے۔ وہ اس سے نکلنا چاہتے ہیں۔ ایک گروہ کے نزدیک اس کے تمام تر اسباب خارج میں ہیں۔ مسائل کی بنیاد امریکا ہے۔ وہ ہمیں زیر تسلط رکھنا چاہتا ہے۔ اس نے سازشوں کا جال بنااور پھر ہمیں اپنی اقتصادی و تہذیبی گرفت میں لے لیا ہے۔ مسلمان ممالک پر اس کے ایجنٹ مسلط ہیں اور ان سے نجات کے سوابہتری کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس نجات کے لیے جمہوریت اور انتخابات وغیرہ بھی دراصل امریکا اور مغرب کے تجاویز کردہ حل ہیں جن کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔ اس لیے جو لوگ ان راہوں پر چل کر تبدیلی کا خواب دیکھتے ہیں‘ ان کی رائے قابل بھروسہ ہے نہ دیانت۔ نجات کا واحد راستہ یہ ہے کہ دین کے ماننے والوں کے مسلح جتھے بنائے جائیں اور وہ طاقت کے زور پر مسلمان ریاستوں کا انتظام سنبھال لیں۔ اتمامِ حجت کے لیے یہ گروہ حکمرانوں سے کہتاہے کہ وہ شریعت کے سامنے سرتسلیم خم کردیں۔ یہاں شریعت سے مراد وہی شریعت ہے جسے یہ گروہ شریعت کہتے ہیں۔ اگر حکمران یہ شرط قبول نہ کریں تو پھر ریاست کے خلاف ان کا اعلانِ جہاد ہے۔ اس معرکے میں جو ریاستی ادارہ‘ عام شہری‘ صحافی‘ عالم ،سیاست دان موجود نظام کا ساتھ دیتا ہے، غیر جانب دار رہتا ہے‘ وہ دراصل طاغوت کو مضبوط کرتا ہے‘ لہذا واجب القتل ہے۔ اس مقدمے میں عوام کہیں زیر بحث ہیں نہ ان کی رائے کی کوئی اہمیت ہے۔
دوسرے نقطہ نظر کے مطابق امریکی ومغربی تسلط کایہ بنیادی مقدمہ درست ہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ مسلمانوں کو اس غلبے سے نجات حاصل کرنی چاہیے۔ تاہم اس کا راستہ مسلح جدوجہد نہیں ہے۔ درست طریقہ یہ ہے کہ عوام کو ہم نوا بنایا جائے اور پھر ان کی تائید سے اقتدار تک پہنچا جائے۔ چونکہ انتخابات ہی ایک ایسا راستہ ہے جو عوامی رائے جاننے کا مستند ذریعہ ہے۔ اس لیے ہمیں اسی راستے سے تبدیلی کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ یہ نقطہ نظر اگرچہ مسلمان حکمرانوں کو طاغوت ہی کا ایجنٹ سمجھتا ہے لیکن ان کی بالفعل (defecto)حکومت کو تسلیم کرتا ہے۔ جماعت اسلامی‘ جمعیت علمائے اسلام وغیرہ اسی نقطہ نظر کی علمبردار ہیں۔ القاعدہ‘ تحریک طالبان پاکستان کا تعلق پہلے گروہ سے ہے۔
بنیادی مقدمہ ایک ہونے کے سبب دوسرا گروہ پہلے کی مخالفت نہیں کرتا۔ وہ اس حکمت عملی کو غلط کہتا ہے لیکن جب پہلا گروہ کسی کے ساتھ تصادم کی کیفیت میں ہوتا ہے تو جمہوریت پر یقین رکھنے والا گروہ اپنا سارا وزن پہلے گروہ کے پلڑے میں ڈال دیتا ہے۔پہلا گروہ اپنے نظریات میں زیادہ واضح اور حکمت عملی کے باب میں دواور دو چار کی طرح عمل کرنے کا قائل ہے۔ چونکہ وہ جمہوریت کو مغربی تہذیب ہی کا ایک مظہر سمجھتا ہے‘ اس لیے اس کے نزدیک اس کے علمبردار دراصل اسلام کے راستے کی رکاوٹ ہیں‘ قطع نظر اس کے کہ وہ کلمہ گو ہیں یا اسلام پسند۔ اس گروہ کے ہاں اس معاملے میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ میں اپنے ایک کالم میں اس کا ذکر کرچکا کہ ایمن الظواہری صاحب نے اس حوالے سے کس طرح پاکستانی آئین اور ریاست کو غیر اسلامی قرار دیا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال حکیم اللہ محسود صاحب کی تازہ ترین وڈیو ہے جس میں انہوں نے قاضی حسین احمد صاحب کو جہاد فروش قرار دیا ہے اور جمہوریت کی حمایت پر ان کا کا رشتہ یہودی لابی سے جوڑا ہے۔
قاضی صاحب اور اس سے پہلے مولانا فضل الرحمن پر حملوں کے پس منظر میںیہی کش مکش کارفرما ہے۔ پہلا گروہ چونکہ مسلح جدوجہد کو بطور حکمت عملی اختیار کیے ہوئے ہیں‘ جس کا وہ شرعی اور اخلاقی جواز پیش کرتا ہے‘ اس لیے اس کے نزدیک افراد کا قتل کوئی معیوب بات ہے نہ انہونی۔خود قاضی حسین احمد صاحب اپنے ایک حالیہ مضمون میں اعتراف کرچکے کہ ان طالبان کے ہاتھوں جو لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوئے ان کا تعلق جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام سے ہیں۔ میں نہیں جان سکا کہ اس واضح اعتراف کے باوجود انہوں نے یہ کیسے مناسب خیال کیا کہ اس خود کش حملے کو امریکا کے نامہ اعمال میں درج کرایا جائے۔
یہ موقع تھا کہ وہ اس قوم کے سامنے اپنا سینہ کھول دیتے۔ وہ قوم کی راہنمائی فرماتے کہ مسلمان سماج آج جس داخلی کشمکش سے گزررہے ہیں،ان پر حملہ دراصل اس کا شاخسانہ ہے۔ یہ تصادم صرف پاکستان میں نہیں ہے۔ جہاں جہاں دوسرا نقطہ نظر موجود ہے وہاں جمہوریت پر یقین رکھنے والے اسلام پسند بھی اس کے لیے ناقابل قبول ہیں۔ مصر‘ شام‘ تیونیسیا اور انڈونیشیا میں اس تصادم کے بے شمار شواہد موجود ہیں۔ تیونیسیا میں موجودہ حکومت کے خلاف پہلے گروہ نے اعلان جہاد کردیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہاں راشد الغنوشی کی فکری قیادت میں تبدیلی آئی ہے جو اسلام پسند ہونے کے باوصف جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔ مصرمیں آنے والے چند دنوں میں ہم یہی منظر دیکھنے والے ہیں۔ پاکستان میں اس کا آغاز ہوگیا ہے اور آئندہ عام انتخابات میں خدشہ یہ ہے کہ اس کے اور مظاہر بھی سامنے آئیں گے۔
کیا جمہوریت پر یقین رکھنے والی مذہبی جماعتوں پر یہ سب واضح نہیں ہے؟ میرا خیال ہے کہ مولانا فضل الرحمن کا ذہن اس حوالے سے بالکل صاف ہے۔ جماعت اسلامی ابہام کا شکار ہے۔ اس کا اظہار خود کش حملے پر قاضی صاحب کے ردعمل سے ہورہا ہے۔ اس سے پہلے ملالہ پر حملے کو انہوں نے جس طرح متنازعہ بنایا اور اپنا وزن طالبان کے پلڑے میں ڈالا‘ اس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے۔سید منور حسن سے جب قاضی صاحب کے بارے میں حکیم اللہ محسود کے تبصرے پر سوال ہوا تو فرمایا:’’یہ حکیم اللہ محسود کون ہے؟‘‘ میرا احساس ہے کہ ان جماعتوں کے پاس یہ آخری موقع ہے کہ شہادتِ حق کا فریضہ سرانجام دیں۔ وہ قوم پر واضح کریں کہ اسلام کے نفاذ کے دوراستے ہیں۔ ایک جمہوری اور ایک مسلح جدوجہد کے ذریعے۔ مسلمان سماج کو دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے۔بدقسمتی سے دفاعی اداروں کی طرح ایک ابہام مذہبی جماعتوں کے پاؤں کی زنجیر بنا ہوا ہے۔ دفاعی اداروں اور سیاسی مذہبی جماعتوں کو شاید پھر موقع نہ مل سکے۔ اب بھی انہوں نے اگر قوم کو سچ نہیں بتایا اور اس معاملے میں اپنی غلطیوں کا اعتراف نہ کیا تو اس کے بعد خاکم بدہن‘ شاید امید کا کوئی چراغ باقی نہ رہے۔

ریاست کے اندر ریاست

ریاست کے اندر ریاست قبول نہیں۔ مجھے وفاق المدارس کے مؤقف سے پورا اتفاق ہے۔ کسی سیاسی جماعت کو یہ حق نہیں کہ وہ مدارس کو نوٹس بھیجے اور ان سے کوائف طلب کرے۔ یہ اپنے دائرہ کار سے تجاوز ہے۔ تاہم ریاست کو یہ حق ہے کہ وہ معاشرتی اداروں کی تنظیم کرے۔ ظاہر ہے کہ اس میں مدارس و مساجد کی تنظیم بھی شامل ہے۔ اس ملک میں مذہب کے نام پر جس طرح انسانوں کی جان لینے کا رحجان پیدا ہوا ہے اور اس کی اعلانیہ وکالت ہو رہی ہے، سماجی امن کے لیے ناگزیر ہے کہ ریاست مذہبی اداروں کی تنظیم میں اپنا کردار ادا کرے۔

پاکستان کا استثنا ہے ورنہ ہر مسلمان ملک میں مذہبی سرگرمیوں کی تنظیم ریاست کرتی ہے۔ سعودی عرب، ایران، ترکی۔ ہر ملک میں مدرسہ اور مسجد کی تعمیر کے لیے ریاست کی اجازت ضروری ہے۔ ائمہ مساجد کا انتخاب بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ سعودی عرب میں جمہوریت نہیں لیکن ترکی میں تو ہے۔ وہاں وزارت مذہبی امور کے اہتمام میں ’’دیانت‘‘ کا محکمہ قائم ہے۔ امام مسجد کے لیے ایک متعین معیار ہے۔ ایک سند یافتہ عالم ہی یہ استحقاق رکھتا ہے کہ وہ امامت کے منصب پر فائز ہو۔ مسجد میں اس کا قیام اہل محلہ کی صواب دید پر ہے۔ اگر لوگ شکایت کریں تو حکومت یہ حق رکھتی ہے کہ اسے معزول کر دے۔
تعلیمی ادارے کا قیام، مسجد کی تعمیر، فتویٰ کا اختیار، خلافت راشدہ میں بھی حکومت کے انصرام میں تھا۔ مسلمانوں کی روایت میں نماز جمعہ ہمیشہ مسلمانوں کا سیاسی اجتماع تھا۔ سربراہ حکومت دارالخلافہ میں اور اس کے مقرر کردہ عُمال دوسرے شہروں میں خطبہ دیا کرتے تھے۔ جب مسلمان اپنے سیاسی اقتدار سے محروم ہوئے اور ہمارے علما نے اپنی روایت کو زندہ رکھنے کا فیصلہ کیا تو محض نبابت کے تحت، جمعہ اور مسجد کا ادارہ ان کے پاس چلا گیا۔ ہندوستان میں انگریزوں کی آمد کے بعد اس پر علما کے مابین جو مباحث ہوئے، وہ کتابوں میں محفوظ ہیں۔ کہاں جمعہ کا اجتماع ہو سکتا ہے اور کہاں نہیں، فقہ کی ایک معروف بحث ہے۔ تین عشرہ پہلے تک یہاں یہ صورت حال رہی کہ دس بارہ گاؤں میں ایک آدھ ایسا تھا جہاں جمعہ کا اجتماع ہوتا تھا۔اپنے بچپن کی یہ یاد میرے حافظے سے محو نہیں ہوئی کہ ہمارے گاؤں میں جمعے کا اجتماع ہوتا تھا اور ارد گرد کے کم از کم چار گاؤں ایسے تھے جہاں سے لوگ نماز جمعہ کے لیے یہاں آیا کرتے تھے۔ گلی گلی جمعہ کے اجتماعات اصلاً مذہبی طبقے کی معاشی اور مسلکی ضروریات کی ضرورت ہے۔ ہماری روایت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
انگریزوں کے دور میں اس فیصلے کی حکمت واضح تھی۔ علما کا یہ فیصلہ اس عہد کے چیلنج کے پیش نظر درست تھا کہ روایت کو محفوظ بنایا جائے۔ مساجد اور دینی مدارس کا قیام اسی لیے تھا۔ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی ریاست پاکستان میں اس کا جواز ختم باقی نہیں رہا۔ لازم تھا کہ ریاست یہ ذمہ داری سنبھالتی اور معاشرے کی مذہبی ضروریات کا لحاظ رکھتے ہوئے کوئی انتظام کرتی۔ دو اسباب سے یہ ممکن نہیں ہو سکا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہمارا حکمران طبقہ دین سے دور ہوتا گیا اور وہ اس صلاحیت سے محروم ہو گیا کہ مذہبی پیش وابن سکے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ اگر جناب زرداری یا ان کی نیابت میں عبدالرحمان ملک صاحب دارالحکومت میں نماز جمعہ کی امامت فرمائیں تو کیا کیفیت ہوتی۔ یا شہباز شریف صاحب اور قائم علی شاہ صاحب لاہور اور کراچی میں اور رئیسانی صاحب کوئٹہ میں یہ فریضہ سر انجام دیں تو کیسے کیسے لطائف جنم لیں گے۔ دوسرا سبب یہ ہوا کہ مذہبی طبقے نے دین و دنیا کی ہم آہنگی سے یہ مراد لیا کہ سیاسی امامت بھی اہل مذہب کا کام ہے۔ یوں انہوں نے اپنی سیاسی ضروریات کے لیے مدرسے اور مسجد کے پلیٹ فارم کو استعمال کرنے کی ٹھانی۔ گویا اہل اقتدار کی بے توفیقی کے سبب دینی تعلیم اور مساجد کے انصرام کے لیے ایک غیر ریاستی نظام وجود میں آیا۔ علما کا طبقہ معاشرتی ضرورت تو تھا، اس طبقے نے اپنے دائرے کو بڑھا لیا اور مدرسہ و مسجد کا کردار صرف مذہب تک محدود نہ رہ سکا۔ مسجد کو سیاسی تحریکوں اور کاموں کے لیے محاذ بنا دیا گیا۔
ایک المیہ یہ بھی ہوا کہ ریاست نے اپنے مقاصد کے لیے مدرسے اور محراب و ممبر کو استعمال کیا۔ اس کا نقطۂ آغاز اور نقطہ عروج ضیاء الحق صاحب کے دور تھا۔ یہ روایت بعد میں آنے والوں نے بھی قائم رکھی۔ محترم قاضی حسین احمد کی روایت کردہ جناب گل بدین حکمت یار کی اصطلاح مستعار لی جائے تو جب ’بی بی سی‘ کا اتحاد بنا تو انہی مدارس کے لوگ افغانستان میں ریاستی مقاصد کے لیے استعمال کیے گئے۔ آج اگر کوئی حکومت اس صورت حال کو بدلنا چاہتی ہے تو اسے مداخلت فی الدین کہا جاتا ہے اور ایسی ’’غیر اسلامی‘‘ حکومت کے خلاف تحریکیں اٹھا دی جاتی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ جنرل مشرف جیسا لبرل حکمران دی بھی یہ جرات نہیں کرتا کہ مذہب کی تنظیم کو ریاست کے دائرے میں لے آئے۔
یہ حق یقیناًکسی سیاست جماعت کو نہیں کہ وہ مدارس کے کوائف جمع کرے لیکن ریاست کو ہے کہ وہ ان کی تنظیم کرے۔ ان کے قیام کو اگر نجی دائرے میں رہنا ہے تو اسے حکومتی ضوابط کے تحت لائے جس طرح عمومی تعلیم کے ادارے حکومت کے قوانین کے تحت قائم ہوتے ہیں۔ میرے علم کی حد تک دینی مدارس کے منتظمین کو بھی اس سے اختلاف نہیں۔ وزیر داخلہ کے ساتھ تنظیمات المدارس کا اتفاق ہو چکا لیکن حسب روایت اس پر بھی عمل نہیں ہو سکا۔ ایم کیو ایم کو بجائے خود کوئی اقدام کرنے کے، یہ مطالبہ کرنا چاہے کہ اس معاہدے کی پاس داری کی جا ئے اور اس باب میں ریاست اپنی ذمہ داری ادا کرے۔
دینی تعلیم اور مسجد ہماری سماجی ضرورت ہیں۔ یہ ریاست کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ اکثریت کی دینی ضروریات کو پیش نظر رکھے۔ اس حوالے سے ریاست کی غفلت ضرب المثل ہے۔ میں اسلام آباد میں آج بھی دیکھتا ہوں کہ گرین بیلٹ پر مساجد تعمیر ہو رہی ہے۔ میری نظروں کے سامنے محض کچھ مہینوں میں چند اینٹیں ایک مکمل عمارت میں تبدیل ہو گئیں۔ اسلام آباد کی مرکزی سٹرک پر ایک ایک مدرسے کی عبارت میں دگنی توسیع ہو گئی۔ ریاست جب بروقت مداخلت نہیں کرتی تو بعد از خرابی بسیار جو قدم اٹھتا ہے، وہ تباہ کن ہوتا ہے۔ سوات میں فضل اللہ صاحب کی تحریک اور اسلام آباد میں لال مسجد کا سانحہ ریاست کی ایسی ناقابل تلافی غلطیوں کے مظاہر ہیں۔ سوات میں جب فضل اللہ صاحب نے ریڈیو پر اپنے خیالات کی ترویج کا آغاز کیا اور اپنے مرکز کی تعمیر شروع کی تو کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ ۲۰۰۷ء میں، میں جب سوات گیا تو مجھے دوستوں نے بتایا کہ وہ بارہ گھڑ سواروں کے ساتھ تلوار لٹکائے نماز جمعہ کی امامت کے لیے آتے ہیں اور کم و بیش پچاس ہزار کا اجتماع ہوتا ہے، ایسی غفلت کے مرتکب لوگوں کو ملالہ پر رونے کا کوئی حق نہیں۔
ریاست کے اندر ریاست نہیں ہونی چاہیے۔ یہ بات مدارس، سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں سمیت سب کے لیے قابل توجہ ہے۔

عالم اسلام کے معروضی حالات میں اصل مسئلہ

ڈاکٹر قاری محمد طاہر

مولانا زاہد الرشدی صاحب علم بھی ہیں اور صاحب فکر بھی اور اس کے ساتھ ساتھ صاحب قلم بھی ہیں اور صاحب لسان بھی۔ فکری راست روی کے حامل ہیں۔ ان تمام صفات کے ساتھ ساتھ ان میں فعالیت اور تحرک بھی موجود ہے۔ مولانا پچھلی دو دہائیوں سے ایک علمی و فکری ماہنامہ پابندی سے شائع کر رہے ہیں جس میں ’’کلمہ حق‘‘ کے عنوان سے کسی اچھوتے اور دلوں پر چھاتے ہوئے موضوع پر اظہار خیال کیا جاتا ہے جو قاری کو فکر کی نئی جہتیں عطا کرتا ہے اور صاحب علم کو کچھ کر گزرنے کی تحریک دے جاتا ہے۔ اسی ذیل میں اگست ۲۰۱۲ء کے الشریعہ میں انہوں نے ’’سنجیدہ اور ہوش مندانہ حکمت عملی کی ضرورت‘‘ کے عنوان سے اداریہ تحریر کیا ہے جو انتہائی فکر انگیز ہے۔ مذکورہ عنوان سے انہوں نے تین بنیادی باتوں کا تذکرہ کیا ہے:
۱۔ علمی و فکری موضوعات کے حوالے سے علماء کو دعوتِ فکر۔
۲۔ خلافت راشدہ کے بارے میں ردعمل۔
۳۔ مشرق وسطیٰ میں شیعہ سنی کشاکش کے ظاہری امکانات۔
یہ اداریہ انہوں نے مولانا زاہد حسین رشیدی کے ساتھ نجی گفتگو کے حوالے سے تحریر کیا ہے جس میں زیادہ تر بات چیت اہل تشیع اور اہل السنۃ کے مابین مسئلہ خلافت اور مسئلہ امامت کے بارے تک محدود تھی۔ زاہد الراشدی صاحب وسیع النظر اور وسیع المشرب ہیں۔ حالات کو عالمی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ ان کی تحریر سے ہمیں تحریک ملی اور اصلی مسائل کی طرف توجہ دلانے کا حوصلہ ہوا۔ مولانا لکھتے ہیں کہ:
’’میری کوشش علماء، طلباء، مدرسین اور اصحاب فکر کو ان مسائل کی طرف توجہ دلانے کی ہوتی ہے جو امت مسلمہ کو کسی نہ کسی سطح پر درپیش ہوں، مگر ہماری عدم توجہ کی وجہ سے دوسرے علمی حلقوں میں وہ پہلے زیر بحث آجاتے ہیں جن کے نتائج فکر سے ہمیں اختلاف ہوتا ہے‘‘۔ 
مولانا نے اس حوالے سے عالم اسلام کے معروضی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے بعض مسائل کا ذکر کیا ہے۔
علمی و فکری موضوعات پر اہل علم کو دعوت فکر دینے اور اپنی رائے کا اظہار کرنے سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا۔ اختلافات انسانی معاشرہ کا حصہ ہیں۔ ان کا حل تلاش کرنا بھی انسانی ضرورت ہے۔ مسائل کو ماضی کے تناظر میں اور محدود دائرہ میں رکھنا مناسب نہیں بلکہ عالم اسلام کے معروضی حالات کے وسیع تناظر میں دیکھنا ضروری ہے تاکہ مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے صحیح سمت متعین کی جاسکے۔ نئی ایجادات، نئے ماحول نے مسائل میں بھی تنوع پیدا کر دیا ہے جس کی وجہ سے اس کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے۔
اس حوالے سے ہماری رائے میں اس وقت پاکستان بلکہ عالم اسلام کا اہم ترین مسئلہ راست فکر اور راست عمل قیادت کی تلاش ہے۔ اس ضمن میں اہل علم، اہل فکر، صاحب الرائے اور صائب الرائے علماء کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ دنیا میں پھیلے ستاون اسلامی ممالک میں اسی چیز کا فقدان ہے اور مذکورہ قیادت کی تلاش کا واضح طریق کار بھی ہمارے ہاں موجود نہیں۔ اس مسئلے کی طرف گہری اور فوری توجہ نہ دی گئی تو عام مسلمان ہی نہیں بلکہ خواص بھی تشکیک و تذبذب کا شکار ہو سکتے ہیں اور اسلام کی جامعیت اور کاملیت سے ان کا اعتماد اٹھ سکتا ہے جس کی وجہ سے دین بیزار طبقے کو یہ کہنے کا موقع بھی مل سکتا ہے کہ اسلام دورِ حاضر کے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا یا اسلام کے پاس اپنا کوئی سیاسی نظام موجود نہیں ہے۔ اگر جلد ہی اس گزارش پر توجہ نہ دی گئی اور علماء ، اہل فکر و دانش نے اسلام میں قیادت کی تلاش کا طریقہ وضع نہ کیا ’’تو طعنہ دیں گے بت کہ مسلم کا خدا کوئی نہیں‘‘ کی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے۔ ہندوستان کی آن جہانی وزیراعظم اندرا گاندھی کے یہ الفاظ تاریخ کا حصہ ہیں ۔ انہوں نے پاکستان کی مقدس سرزمین ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں یہ بات علی اعلان کہی تھی کہ ’’پاکستان جس نظریہ کی بنیاد پر علیحدہ ہوا تھا، ہم نے وہ نظریہ بحر ہند میں غرق کر دیا ہے‘‘۔
دوسرا عنوان خلافتِ راشدہ کے بارے میں ردِعمل ہے۔ اس ضمن میں آپ کی رائے آپ ہی کے الفاظ میں یہ ہے:
’’خلافت راشدہ کے بارے میں میرا مشاہدہ اور تاثر یہ ہے کہ ہمارے ہاں اس کے صرف اعتقادی پہلو پر کسی حد تک بات کی جاتی ہے اور وہ اس جزوی دائرہ تک محدود رہتی ہے جس کا تعلق اہل تشیع کے ساتھ اختلاف و تنازع کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس سے ہٹ کر ہم خلافت اور خلافتِ راشدہ کے موضوع پر سرے سے بات ہی نہیں کرتے، حالانکہ ہماری عمومی دینی ضرورت یہ ہے جو آج کے عالمی سیاسی و تہذیبی تناظر میں اور زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہے کہ خلافتِ راشدہ کے نظام کی سیاسی بنیادوں، خلافتِ راشدہ کے معاشرتی ماحول، خلافتِ راشدہ کے معاشی اصولوں اور طریق کار، بیت المال، رفاہی ریاست، خلافتِ راشدہ کے دور میں معاشرہ کے مختلف طبقات کو حاصل ہونے والے مذہبی ، سیاسی، معاشرتی ا ور معاشی حقوق، خلفائے راشدینؓ کے طرزِ حکومت اور ان کے طرزِ زندگی اور آج کے عالمی سیاسی، معاشرتی اور معاشی نظاموں کے ساتھ خلافتِ راشدہ کے نظام کے تقابل و تجزیہ پر کھل کر بات کی جائے‘‘۔ 
مولانا کا تجزیہ اپنی جگہ وقعت رکھتا ہے، لیکن ہمارے نزدیک یہ مسئلہ بھی صالح قیادت اور اس کی تلاش کے واضح طریق کے فقدان ہی کا نتیجہ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ زمانہ رسالت اور کتاب و سنت کو بنیاد بنا کر ایسی تحقیق کی ضرورت ہے جس کے ذریعے ہم صالح اور باصلاحیت قیادت کی تلاش کی بنیادیں معلوم کریں۔ اس وقت پورا عالم اسلام سیاسی لحاظ سے جمہوریت ہی کو اپنا امام تصور کیے ہوئے ہے جبکہ جمہوریت قطعاً اسلامی طرز حکومت نہیں ہے، لیکن پوری دنیا میں جمہوریت کا پراپیگنڈا اس انداز سے کیا گیا ہے کہ ہمارے بڑے بڑے زعماء نے بھی جمہوریت ہی کو اسلامی طرزِ سیاست خیال کر لیا ہے اور بعض دینی جماعتوں نے تو اس کو اسلامی جمہوریت کا نام دے کر اس یہودی طرزِ سیاست کو مشرف باسلام کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس کی وجہ سے ہم اجتماعی طور پر اصل نظام حیات کو سرے سے بھلا بیٹھے ہیں اور پچھلے پینسٹھ برس سے مختلف اندھیروں میں بھٹکتے پھر رہے ہیں۔ مفکر اسلام جناب علامہ اقبال کے افکار کا جائزہ لیجیے جو اس نظام کی مذمت میں ہمارے فکری امام ہیں۔ آپ کا فرمان ہے:
گریز از طرز جمہوری غلام پختہ کارے شو
کہ از مغز دو صد خر فکر انسانے نمی آید
’’جمہوری طرز حکومت اور طرز سیاست سے دور بھاگو اور کسی پختہ کار یعنی نیک، متقی اور صالح قائد کو تلاش کرو اور اس کے غلام بن جاؤ کیونکہ دو سو گدھوں کی سوچ ایک انسان کی فکر کے برابر نہیں ہو سکتی۔ ‘‘
ایک جگہ آپ نے جمہوری نظام کو جبر و استبداد کا نظام قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں:
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے آزادی کی ہے نیلم پری
تیسرے نکتہ ’’مستقبل قریب میں مشرق وسطیٰ کے اندر شیعہ سنی کشاکش کے ظاہری امکانات‘‘ کے ضمن میں مولانا کا کہنا ہے کہ:
’’مجھے (خاکم بدہن)مستقبل قریب میں مشرق وسطیٰ کے بہت سے علاقوں میں یہ کشمکش پھر سے شروع ہوتی دکھائی دے رہی ہے جبکہ خلافت عثمانیہ اور سلطان سلیمؒ کا دور دور تک نشان نظر نہیں آتا‘‘۔ 
اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ تینوں نکات دراصل نظام سیاست ہی سے تعلق رکھتے ہیں، چونکہ اس وقت پورے عالم اسلام نے جمہوریت ہی کو اپنا سیاسی قبلہ تصور کر لیا ہے اور ہمارے ہاں یہی ایک بہت بڑا خلا ہے جس نے یہ سارے مسائل پیدا کر رکھے ہیں۔ جب ہم اسلام کو مکمل نظام حیات مانتے ہیں تو پھر ہمارے ہاں تلاش قیادت کا واضح تصور کیوں نہیں ہے؟ اگر کہا جائے کہ واضح تصور تقویٰ اور بسطۃ فی العلم و الجسم کے حوالے سے قرآن دیتا ہے تو پھر اسی صفات کے حامل افراد کو تلاش کیسے کیا جائے؟ اس کا طریق کار ہمارے ہاں واضح نہیں اور یہی خلا ہمارے تمام مسائل کی جڑ ہے۔ اس معاملے میں ہماری کیفیت اس بھٹکے ہوئے مسافر کی سی ہے جو راستہ طے تو کر رہا ہے، تھک بھی رہا ہے، لیکن سمت منزل سے بے خبر ہے۔ قومِ بنی اسرائیل کی طرح سارا دن چلتے رہنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ ہم تو اسی جگہ کھڑے ہیں جہاں سے سفر شروع کیا تھا۔ علامہ نے فرمایا:
منزل ہے کہاں تیری اے لالۂ صحرائی
بھٹکا ہوا راہی تو بھٹکا ہوا راہی میں
ہم گذشتہ چودہ سو برس سے اس لفظی بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ اسلام کا سیاسی نظام خلافت ہے یا امامت۔ یہ ایک لفظی بحث ہے، وگرنہ مقصد دونوں میں نیک صالح اور متقی اور صاحب کردار قیادت کو تلاش کرنا ہی ہے۔ اس میں کسی کو بھی اختلاف نہیں ہوسکتا۔ اس لیے لفظی مباحثہ کو چھوڑ کر اصل کی طرف رجوع کرنا، اصل اصول ہے۔ اہل تشیع یا اہل السنۃ دونوں کا مشترک ہدف بھی یہی ہے جس میں اختلاف کی گنجائش نہیں۔ جہاں تک لفظی بحث کا تعلق ہے تو علامہ اقبال کا فرمان ہے:
الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا
غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے
ہمیں اصل مسئلہ کو سمجھنا اور اس کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں ہمیں ان ادوار سے مدد مل سکتی ہے جب خلافت و راثت میں تبدیل نہیں ہوئی تھی اور تقویٰ، تدین، طہارت، عزت نفس، صدق و امانت ہی کو معیار قیادت خیال کیا جاتا تھا۔ اگر اس خلا کو پر کرنے میں ہم کامیاب ہو جائیں اور اجتہاد کے ذریعے تلاش قیادت کا واضح نظام مرتب کریں تو یہ عمل اس خلیج کو پاٹنے میں ممد و معاون ہوگا جو مختلف مکاتبِ فکر میں موجود ہے۔ ہمارے نزدیک سارے مسائل اسی خلا کے برگ و بار ہیں جو امت اسلامیہ میں اس وقت موجود ہیں۔ 

نابالغی کا نکاح اور سیدہ عائشہؓ کی عمر ۔ چند نئے زاویے (۱)

مولانا محمد عبد اللہ شارق

معاصر مفکرین ومحققین کے نزدیک حضرت عائشہؓ کی عمر کا مسئلہ کچھ زیادہ ہی اہمیت اختیارکرتا چلا جارہا ہے۔ ہماری نظر میں ام المؤمنین سیدہ عائشہؓ کی عمر کو موضوعِ بحث بنانے کے تین مقاصد ہوسکتے ہیں:
1۔ کم سنی اور نابالغی کے نکاح کی شرعی حیثیت متعین کرنا۔
2۔ حضرت عائشہؓ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح کو غیر اخلاقی ثابت کرکے آپ کی شخصیت کو داغ دار کرنا اور آپ کی حیثیت کو چیلنج کرنا۔
3۔ اس نکاح کو اخلاقی ثابت کرکے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرنا۔

نابالغی کے نکاح کا شرعی تصور/ (پہلا مقصد):

جہاں تک کم سنی اور نابالغی کے نکاح کی شرعی حیثیت کا تعلق ہے تو اس سلسلہ میں دینی تعلیمات دیگر ذرائع ووقائع اور آثار واخبار سے بھی معلوم کی جاسکتی ہیں۔ نیز امت کی اجماعی روایات اور دین کی مطلق اخلاقی وروحانی تعلیمات سے بھی اس سلسلہ میں مدد لی جاسکتی ہے جبکہ مختلف معاشرتی وسماجی عوامل او رخارجی احوال کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کم عمری اور نابالغی کے نکاح کا شرعی حکم مقاصدِ شریعت کی روشنی میں مختلف مواقع او رعلاقوں کے لیے مختلف بھی ہوسکتا ہے۔ نابالغی کے نکاح کی شرعی حیثیت متعین کرنے کے لیے حضرت عائشہؓ کی عمر کا معاملہ ہمارے لیے راہ نمائی کا واحد ریعہ نہیں ہے کہ اسے ہی آراء وابحاث کی معرکہ اندازی کا میدان بنایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں امام بخاریؒ نے صحیح البخار ی میں نکاحِ عائشہ کی روایت کا ذکر کرکے اس سے استدلال کیا ہے کہ نابالغی کا نکاح درست ہے اور یہ کہ نابالغہ کا نکاح بالغ سے ہوسکتا ہے تو شارحینِ بخاری نے اس پر یہ تعریض کی کہ اس استدلال میں کوئی خاص فائدہ نہیں کیونکہ یہ مسئلہ اجماعی اور اتفاقی ہے۔ (فتح الباری جلد نمبر ۹‘ صفحہ نمبر ۱۵۴) فقہاء کا اجماع اس سلسلہ میں کوئی بھی رائے قائم کرنے کے لیے ہماری مدد کرتاہے۔
نیز نکاحِ عائشہ کے علاوہ کم از کم ایسے دو اور واقعات ہماری نظر سے گزرے ہیں جن میں واضح طور پر قرنِ اول کے اندر ہونے والے نابالغی کے نکاح کا ذکر ہے ۔ دیکھیے:
1۔ حضرت قدامہ بن مظعون صحابی نے حضرت زبیر کی نومولود لڑکی سے اسی دن نکاح پڑھایا جس دن وہ پیداہوئیں۔ (مرقاۃ ‘ ملا علی قاری‘ جلد ۳ ‘ صفحہ ۴۱۷)
2۔ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ام سلمہؓ کے کم سن لڑکے سلمہؓ کانکاح حضرت حمزہؓ کی نابالغ لڑکی سے کیا۔ (احکام القرآن‘ امامِ جصاص‘ جلد ۲‘ صفحہ ۵۵)
(بحوالہ:سیرتِ عائشہ معہ ضمیمہ’’ تحقیقِ عمرِ عائشہ‘‘ سید سلیمان ندویؒ ‘ صفحہ۳۰۱ )
یہی وجہ ہے کہ امام شافعی لکھتے ہیں:
’’وزوج غیرواحد من أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابنتہ صغیرۃ‘‘ [کتاب الأم‘ باب النکاح‘ جلد۸‘ صفحہ ۳۶۵]
یعنی ’’متعدد صحابہ کرام سے اپنی اولاد کا نابالغی میں نکاح کرنا ثابت ہے۔‘‘ 
کئی مفسرین نے تو اس سے بھی بڑھ کر یہ دعوی کیا کہ نابالغی کے نکاح کا اصولی جواز صرف روایات یا اجماعِ امت سے ہی نہیں ‘ بلکہ قرآنِ مجید سے ثابت ہے۔امام ابوبکراحمد الرازی الجصاص بہت شدومد سے اس کے قائل ہیں۔ ان کا استدلال سورۃ النساء کی آیت نمبر۱۲۷ سے ہے جو یہ ہے: ’’وان خفتم الا تقسطوا فی الیتامی فانکحوا ما طاب لکم من النساء مثنی۔۔۔‘‘اپنے استدلال کی بنیاد انہوں نے حضرت عائشہؓ اور حضرت ابنِ عباسؓ کے تفسیری اقوال پررکھی ہے اور اپنی تفسیر میں باقاعدہ اس کے لیے ’’باب تزویج الصغار‘‘ یعنی’’ نابالغوں کے نکاح‘‘ کا عنوان قائم کیا ہے۔ چار صفحوں پر محیط یہ تفصیلی گفتگوان کی تفسیر ’’احکام القرآن‘‘جلد۲ میں صفحہ ۷۵ سے ۸۰تک ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
مقصود یہ عرض کرنا ہے کہ نابالغی کے نکاح کی شرعی حیثیت متعین کرنے کے لیے ہمارے پاس نکاحِ سیدہ کا معاملہ راہ نمائی کا کوئی واحد ذریعہ نہیں ‘بلکہ اس سلسلہ میں دیگر کئی ذرائع بھی ہماری مدد اور راہ نمائی کے لیے موجود ہیں اور اس سلسلہ میں کسی ایک متعین فیصلہ تک پہنچنے کے لیے نکاحِ سیدہ کے علاوہ مسئلہ کے ان دیگر تمام متعلقات کو بھی سامنے رکھنا ہوگا۔چنانچہ اگر بالفرض نکاح کے وقت حضرت عائشہؓ کی بلوغت ثابت ہوجائے تو اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ کم عمری میں کیا گیا نکاح بالکل درست نہیں‘ اور اگر نکاح کے وقت ان کی کم سنی والی روایات ہی درست ہوں تو ضروری نہیں کہ دنیا کے ہر معاشرے اور سماج کے لیے کم سنی کے نکاح کا علی الاطلاق شرعی جواز اس سے ثابت ہوجائے۔
نابالغی کے نکاح کے بارہ میں فقہاء کی آراء کا خلاصہ یہ ہے کہ سلف وخلف اور بلادِ اسلامیہ کے جمیع فقہاء کے نزدیک یہ فی الجملہ جائز ہے(احکام القرآن‘ جصاص‘ جلد۲‘ صفحہ ۸۰۔۔فتح الباری جلد نمبر ۹‘ صفحہ نمبر ۱۵۴)مگر واضح رہے کہ یہ اجماع اجمالی حکم کی حدتک ہے اور فقہاء کا اجماع اکثروبیشتر بس اسی حدتک ہی ہوتا ہے‘ ذیلی جزئیات وتفصیلات سے اس کا تعلق نہیں ہوتا۔مثلاً نماز کو لیجئے‘ یہ بلاشبہ فرض ہے اور اس پر امت کا اجماع ہے‘ مگر کون سی نماز ‘ کب اور کس ہیئت و کیفیت کے ساتھ کس معنی میں فرض ہے۔ اس میں فقہاء کے ہاں آراء کا جو تنوع او رتوسع پایا جاتا ہے‘ وہ کسی سے مخفی نہیں۔ اسی طرح تصویر کے معاملہ کو لیجئے! اس میں شک نہیں کہ یہ حرام ہے اور اس میں بھی کسی فقیہ کا اختلاف نہیں‘ مگر کیا ہر قسم کی تصویر ہر موقع پر حرام ہے؟ظاہر ہے کہ نہیں! تقریباً ہر مجتہد اور فقیہ کے ہاں اس میں کچھ مستثنیات پائی جاتی ہیں جو تصویر ہونے کے باوجود جائز ہیں۔’’ الشریعہ‘‘ کے لیے لکھے گئے اپنے ایک مضمون’’دھڑکَٹی تصویراور فقہِ حنفی‘‘(شمارہ جون 2011ء ) میں بھی ہم اس پہلو پر بات کر چکے ہیں۔اب نابالغی کے نکاح کی شرعی حیثیت کا معاملہ بھی ایسے ہی ہے۔ اگر چہ سب فقہاء کے ہاں یہ اصولی طور پر جائز ہے ‘ مگر ایسا نہیں کہ ہر سماج ‘ ہر خاندان‘ ہر فرد‘ ہرزمانہ اور ہر علاقہ کے لیے ہر فقیہ کے نزدیک کم سنی کے نکاح کا یہی حکم ہو۔ تقریباً ہر فقیہ نے کم سنی میں کیے جانے والے نکاح کو کئی طرح کی شرائط او رجکڑبندیوں کا پابند بنایا ہے اور اس کے علی الاطلاق شرعی جواز پر اجماع تو کجا ‘ شاید کوئی ایک فقیہ بھی اس کا قائل نہیں ہے۔ ان شرائط اور قیودات کا ایک نمونہ ذیل میں ملاحظہ کیجئے: 
1۔ امام مالکؒ اور احمد بن جنبلؒ کے نزدیک نابالغ کا نکاح سوائے باپ کے کسی کے لیے کرانا جائز نہیں۔ کوئی اور کرادے تو وہ کالعدم تصور ہوگا۔
2۔ امام شافعی ؒ کے نزدیک اگرچہ دادا کو بھی اس کا اختیار حاصل ہے‘ لیکن اگر نابالغ کا چچا ‘ بڑا بھائی یا کوئی اور ایسا کرنا چاہے تو اسے اس کی اجازت نہیں ہوگی۔
3۔ احناف کے نزدیک نابالغی کے کسی بھی نکاح میں دیکھا جائے گا کہ آیا ہر لحا ظ اور ہر پہلو سے نابالغ کے مصالح اور مفادات کو تحفظ دیا گیا ہے یا نہیں؟نکاح کرانے والا سرپرست اگر اپنی حماقت ‘ بدتدبیری ‘ کسی خارجی دباؤ‘ ذاتی مفاد یا کسی اور وجہ سے نابالغ کے مصالح اور مفادات کا تحفظ کرنے میں کوتاہی برت رہا ہے تو یہ نکاح شرعاً غیر نافذ ہوگا‘ خواہ وہ سرپرست باپ یا دادا ہی کیوں نہ ہو۔ان کے ہاں بنیادی ضابطہ یہ ہے : الولایۃ مقیدۃ بشرط النظر والشفقۃ۔
4۔ اگر نابالغ کے مصالح کا لحاظ کیا گیا‘ مگر نابالغ خود اس نکاح سے غیر مطمئن اور ناخوش ہے تو بالغ ہونے پر اسے حق حاصل ہے کہ اس نکاح کو فسخ کردے‘ اسے ’’خیارِ بلوغ‘‘ کہتے ہیں۔
5۔ نیز احناف کے نزدیک اگر سرپرست خوفِ خدا نہ رکھتا ہو‘ آخرت سے غافل ہواور معاصی کا ارتکاب بے باکی سے کرتا ہوتو ایسے سرپرست کو بھی نابالغ کے نکاح کرانے کا حق نہیں۔
6۔لڑکی کے ساتھ مباشرت اس وقت تک نہ کی جائے جب تک کہ اس میں مباشرت کی قابلیت پیدا نہ ہوجائے۔ یہ قابلیت ہر علاقہ کے موسم‘ اخلاق واقدار ‘ گفتار اور طرزِ بودوباش کے اعتبار سے مختلف اوقات میں پیدا ہوتی ہے۔ حضرت عائشہؓ کے ایک ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑکی نو سال کی عمر میں اس قابل ہوجاتی ہے۔ (ترمذی۔۱۱۰۹)ان کا یہ فرمان غالباً اپنے زمانہ ‘ علاقہ اوراہلِ علاقہ کے تجربات کی بنیاد پر ہوگا۔(مذکورہ تمام شرائط متعلقہ فقہی کتابوں میں بآسانی تلاش کی جاسکتی ہیں)
7۔ اگر سرپرست غیر مسلم ہو تو خواہ وہ باپ ہی کیوں نہ ہو‘ فقہاء کا اتفاق ہے کہ اسے نابالغ اولاد کے نکاح کا حق نہیں۔ (احکام القرآن‘ جصاص‘ جلد۲‘ صفحہ ۷۸)
فقہاء کی طرف سے نابالغی کے نکاح پر عائد کی گئی مختلف اجتہادی شرائط کا یہ ایک ہلکا سانمونہ ہے۔ یہ چند شرائط اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ کم سنی کا نکاح فقہاء کے نزدیک علی الاطلاق جائز کبھی نہیں رہا ۔
فقہِ حنفی کی مایہ ناز کتاب ’’الہدایہ‘‘ میں ان اختلافی امور اور شرائط پر جتنی گفتگو کی گئی ہے ‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ احناف کے ساتھ ساتھ غیر حنفی فقہاء کا مطمحِ نظر بھی یہی ہے کہ بچے کے حقوق اور مستقبل کا تحفظ کسی طرح یقینی بنایا جائے۔انہوں نے واضح طور پر لکھا ہے کہ نابالغی کے نکاح کا فی الجملہ شرعی جواز بھی دراصل بچہ کے ساتھ شریعت کی شفقت کی وجہ سے ہے۔اس کی تفصیل انہوں نے یوں بیان کی ہے کہ نکاح کے بہت سے مصالح عمدہ اور اچھے رشتہ کے ساتھ مربوط ہوتے ہیں‘ جبکہ یہ رشتہ ہر وقت دستیاب نہیں ہوتا۔ سرپرست کو نابالغ کے نکاح کا اختیار اس لیے دیا گیا ہے کہ اگر نابالغی میں کوئی اچھا اور جوڑ کار شتہ مل رہا ہے تو اسے حاصل کرکے نابالغ کے مصالح کا بروقت تحفظ کیا جائے۔ ’الہدایہ ‘‘ کی اصل عبارت یہ ہے جس کا ایک ایک لفظ غور سے پڑھنے کے قابل ہے: ’’ہو موافق للقیاس‘ لان النکاح یتضمن المصالح‘ ولا تتوفر الا بین المتکافئین عادۃ‘ ولایتفق الکفؤ فی کل زمان‘ فاثبتنا الولایۃ فی حالۃ الصغر احراز اللکفؤ‘‘ (الہدایہ‘ جلد۳‘ صفحہ ۳۳)’’یعنی سرپرست کو نابالغ کے نکاح کا اختیار دینا عقل اور مصلحت کے عین مطابق ہے‘کیونکہ نکاح اپنے اندر کئی مصالح اور مقاصد رکھتا ہے۔ ان مصالح کی کماحقہ دستیابی اسی صورت میں ممکن ہوسکتی ہے کہ عقدِنکاح دو جوڑکے رشتوں میں ہو‘ مگر یہ جوڑ کا رشتہ ہر وقت ملتا نہیں۔سرپرست کو مذکورہ اختیار اس لیے دیا گیا کہ اگر نابالغ کے بچپن میں ایسا کوئی جوڑ کا رشتہ مل رہا ہے تو اسے محفوظ کر لیا جائے ۔ ‘‘
سرپرست کو نابالغ کے نکاح کا اختیار دینے میں یہی حکمت ‘ مصلحت اور ’’علۃ‘ ‘ مضمر ہے جس کی وجہ سے احناف نے اس ’’اختیار‘‘ اور ’’ولایت‘‘ کو ان بہت سی شرائط کا پابند بنایا ہے جن میں سے اکثر کا گذشتہ سطور میں ذکر ہوا ہے۔ ان شرائط کا سوائے اس کے کوئی فائدہ نہیں کہ نابالغ کے ساتھ شفقت کے تمام تقاضے پورے ہوں۔ کیونکہ سرپرست کو نابالغ کے نکاح کرانے کا اختیار محض اس لیے دیا گیا ہے کہ نابالغ کے مصالحِ شفقت کو یقینی بنایا جائے۔ اب اگر یہی اختیار کسی خاص ماحول‘ معاشرہ یا صورتِ حال میں اس کی حق تلفی کا ذریعہ بن جائے تو سرے سے اس اختیار کی وجہِ جواز ہی ختم ہوجاتی ہے۔ نابالغی کے نکاح کی یہ مذکورہ توجیہ تسلیم کر لی جائے تو نابالغی کے نکاح کا شرعی جواز دراصل اہلِ قرابت اور رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک کرنے کے قرآنی حکم کا حصہ قرار پائے گا اور اس میں نابالغ کی حق تلفی کا کوئی شیبہ بھی باقی نہیں رہے گا۔ جصاصؒ نے امام ابنِ شبرمہؒ (تابعی) اور حاتم اصمؒ (حنفی فقیہ‘ صوفی بزرگ) سے نقل کیا ہے کہ وہ فقہاء کے تمام تر اجماع کے باوجود باپ اور دادا کو بھی نابالغ کے نکاح کرانے کا اختیار نہیں دیتے ‘ شایدان کی یہ رائے ان کے ایسے ہی کسی مشاہدہ یا تجربہ کی بنیاد پر ہوگی کہ ان کے زما نہ وعلاقہ کے لوگ اس طرز کے نکاح میں نابالغ کے مصالح کی رعایت نہیں کرتے اور قرابت داروں کے ساتھ احسان کرنے کے قرآنی حکم کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں‘ ورنہ ان دو جلیل القدر بزرگوں کی طرف سے اس اجماعی معاملہ کی مخالفت کی کوئی وجہِ جواز نظر نہیں آتی۔ واللہ اعلم! 
اگر روایات کے برخلاف حضرت عائشہؓ کی عمر بڑھانے پر اس لیے قوتیں صرف کی جارہی ہیں کہ نابالغی کے نکاح کو ناجائز ثابت کیا جائے یا ان کی عمر گھٹانے پر اس لیے اصرار کیا جارہا ہے کہ یوں نابالغی کے نکاح کا جواز ثابت کیا جائے تو ہماری نظر میں یہ کوئی بہت مفید کوشش نہیں۔ اس کا اصولی جواز تو امت کے اجماع‘ عملی روایت اور دیگر آثار وروایات سے ہی ثابت ہے‘جبکہ ہمارے حنفی فقہاء نے نابالغوں کے نکاح سے متعلق امت کی اجماعی روایت کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے جواز کو جن متوازن اور متناسب شرائط کا پابند بنایا ہے ‘ ان کے بعد نہ تو نابالغوں کی حق تلفی کا کوئی خدشہ باقی رہتا ہے اور نہ ہی اس مسئلہ پر زیروپوائنٹ سے غور وفکر شروع کرنے کی ضرورت باقی رہتی ہے۔ ہم ثابت یہ کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ کم سنی اورنابالغی کے نکاح کی شرعی حیثیت متعین کرنے کے لیے حضرت عائشہؓ کے نکاح کا معاملہ ہماری راہ نمائی کے لیے کوئی حتمی ‘ قطعی اور واحد ویکتا ذریعہ نہیں ہے‘ بلکہ اس کے لیے شریعت کے دیگر مآخذ‘ بنیادی اصول وضوابط‘ امت کی اجماعی روایت ‘ جملہ آثاروروایات اور مقاصدِ شریعت کے ساتھ ساتھ ہر علاقہ ‘زمانہ اور معاشرہ کے مخصوص عرف ‘ تعامل ‘ تمدن اور نفسیات سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں اور دشواریوں کو بھی سامنے رکھنا ہوگااور فقہاءِ کرام کی اجتہادی مساعی سے بھی اس سلسلہ میں استفادہ کرنا ہوگا۔ تب ہی روحِ شریعت کے مطابق اس کے جواز یا عدمِ جواز کا کوئی درست نتیجہ اخذ کیا جاسکے گا۔

دوسرا مقصد:

یہ مقصد کسی غیر مسلم مستشرق کا ہوسکتا ہے جو نکاح ورخصتی کے وقت حضرت عائشہؓ کی کم عمری کو موضوع بنا کر اسے ایک غیر مہذب اورغیر اخلاقی فعل ثابت کرنا چاہتا ہے اور یوں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو داغ دار کرکے آپ کی نبوت ورسالت پر سوالیہ نشان کھڑے کرنا چاہتا ہے۔تاہم یہ مذموم مقصد کسی بھی مسلمان صاحبِ علم کا نہیں ہوسکتا۔

سیدہ عائشہؓ کے نکاح کی اخلاقی حیثیت(تیسرا مقصد):

جن مسلمان اور معاصر اہلِ علم کی نظر میں یہ مسئلہ اہمیت رکھتا ہے اور وہ اس پردادِ تحقیق دے رہے ہیں تو بالعموم ان کا مقصد شاید یہی رہا ہے کہ مستشرقین کے اعتراضات کے جوابات دے کر حضرت عائشہؓ کے نکاح ورخصتی کے معاملہ کو ہر لحاظ اور ہر پہلو سے ایک مہذب اور اخلاقی معاملہ ثابت کیا جائے۔ تاہم اس سلسلہ میں ان مسلمان اہلِ علم نے اپنی اپنی افتادِ طبع اور فکری رجحان کے تحت دو مختلف راستے اختیار کیے ہیں۔
بعض حضرات نے غیرمسلم مفکرین اور معترضین کے اس بنیادی مقدمہ کو تسلیم کیا ہے کہ چھ سال کی عمر میں نکاح اور نو سال کی عمر میں رخصتی واقعی ایک غیر اخلاقی فعل ہے ‘ مگر پھر انہوں نے دعوی کیا ہے کہ حضرت عائشہؓ کی عمر نہ تو نکاح کے وقت چھ سال تھی اور نہ ہی رخصتی کے وقت نوسال‘ بلکہ بعض تاریخی روایات کی کڑیاں جوڑ کر انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ نکاح کے وقت ان کی عمر تقریباً پندرہ اور رخصتی کے وقت تقریباً اٹھارہ سال تھی۔اس سلسلہ میں انہوں نے بعض دورازکار قسم کی تاویلات کا سہارا لے کر حدیث وسیرت کے ذخیرہ میں پائی جانے والی ان تمام روایات کو مسترد کردیا ہے جن میں حضرت عائشہؓ کی کم عمری اور نابالغی کا ذکر ہے۔ اس اندازِ فکر میں مغربی مستشرقین کے اعتراضات سے غیر شعوری مرعوبیت کی ایک جھلک سی نظر آتی ہے۔
دوسری طرف بعض حضرات نے سرے سے معترضین کے اس مقدمہ کو ہی تسلیم نہیں کیا کہ چھ اور نوسال کی عمر میں نکاح ورخصتی کوئی معیوب بات ہے۔ اس لیے ان کے نزدیک ان صریح روایات میں تاویل کی کوئی گنجائش نہیں جن میں بوقتِ نکاح حضرت عائشہؓ کی نابالغی کا ذکر ہے۔ ہمارا نکتۂ نظر بھی یہی ہے۔اس نکتۂ نظر کے قائل مختلف حضرات نے اپنے اپنے انداز میں اس کو ثابت کیا ہے۔ معمولی اختلاف کے ساتھ اس سلسلہ میں ہمارے استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کوئی چیز ہمیں بری لگتی ہے تو ضروری نہیں کہ فی الواقع بھی اس میں کوئی معیوب بات ہو۔ بنیادی اخلاقیات کہ جھوٹ نہیں بولنا چاہئے‘ ظلم نہیں کرنا چاہئے‘ گندگی نہیں پھیلانی چاہئے‘ دھوکہ نہیں دینا چاہئے‘ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ان میں تو کسی کا اختلاف نہیں‘لیکن بعض اوقات سماجی اور معاشرتی رویوں میں معمولی نوعیت کا ایسا اختلاف واقع ہوجاتا ہے کہ مثلا آپ اپنے ماحول کے زیرِ اثر کسی خاص رویے کو اپنے زاویہ سے دیکھتے او راسے ’’بے تکلفی ‘‘ کا نام دیتے ہیں جبکہ دوسرا آدمی اپنے ماحول کے زیرِ اثراسے ایک اور زاویہ سے دیکھتا ہے اور اسے ’’بے مروتی‘‘ کا نام دیتا ہے۔آپ ایسی کئی مثالیں خود اپنے اردگرد کے ماحول میں تلاش کرسکتے ہیں۔یہ نہیں کہا جا رہا کہ تمام سماجی رویوں کی یہی نوعیت ہوتی ہے ‘ بلکہ یہ کہ بعض خاص رویے اس طرز کے ہوتے ہیں۔اس نوعیت کے رویوں میں دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرانے سے پہلے خود اس کے زاویۂ نگاہ اور نیت وارادہ کے بارہ میں بھی معلومات کرلینی چاہئیں۔ ایسا نہ ہو کہ ہم ناحق کسی پہ وہ الزامات عائد کرتے پھریں جو اس کے خواب وخیال میں بھی نہیں۔اگر ہم غور کریں تو مخصوص ماحول اور تمدن میں پرورش پانے والی یہ ہماری نفسیات اور ذہنی افتاد ہی ہوتی ہے جو کسی بات کو اچھا محسوس کرتی ہے تو ہم اسے اخلاقیات میں شامل کرلیتے ہیں اور اگر کوئی بات اسے بری محسوس ہوتی ہے تو ہم اسے اخلاقیات کے دائرہ سے خارج کردیتے ہیں۔چنانچہ کسی ایک ماحول اور معاشرہ کی ’’اخلاقیات‘‘ کو کسی دوسرے معاشرہ کے سر نہیں تھوپا جاسکتا۔ وجہ وہی کہ ایک سماج اور علاقہ کے لوگ جس معاملہ کو ایک زاویہ سے دیکھ رہے ہیں ‘ عین ممکن ہے کہ دوسرے لوگ بعینہ اسی معاملہ کو ایک متضاد زاویہ سے دیکھ رہے ہوں۔ مثلایہی نابالغی کا نکاح لیجئے! جن حضرات کو اس پر اعتراض ہے ‘ ان کے اعتراض کی بنیاد یقیناً یہی ہے کہ اس میں نابالغ کے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے اور اس کی مرضی کے بغیر اس پہ ایک فیصلہ مسلط کیا جارہا ہے‘ جبکہ دوسری طرف ہمارے فقہاء بعینہ اسی معاملہ کو یکسر متضاد زاویہ سے دیکھ رہے ہیں کہ نابالغی کے نکاح سے مقصود خود نابالغ کے مستقبل کوتعمیر کرنا اور تحفظ دینا ہے۔ اس کی تفصیل ’’الہدایہ‘‘ کے حوالہ سے گزر چکی ہے۔ اب اگر کسی علاقہ یا زمانہ کے لوگ اپنے سماجی رویوں کے تناظر میں سمجھتے ہیں کہ ان کے ہاں نابالغی کا نکاح نابالغ کی حق تلفی او ر’’ذوی القربی‘‘(رشتہ داروں) کے ساتھ نیک سلوک کرنے کے قرآنی حکم کی خلاف ورزی کا ذریعہ بنے گا توٹھیک ہے‘ وہ اس سے اجتناب کریں‘ سطورِ بالا میں مذکور اس نکاح کی فقہی شرائط (خصوصاً حنفی شرائط) اور روحِ شریعت کا منشاء بھی یہی ہے۔ لیکن اس کی بنیاد پر انہیں اسلام میں اس نکاح کے اصولی جواز یا سیدہ عائشہؓ کے نکاح پر اعتراض کا کوئی حق نہیں کیونکہ یہ عین ممکن ہے کہ وہاں نابالغ کی حق تلفی کا کوئی شیبہ تک نہ ہو‘ جیساکہ حقائق سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے۔ 
اگر حضرت عائشہؓ کا نکاح چودہ سو برس قبل عرب کے قبائلی سماج میں ہوا تھا تو اس معاملہ کو اس زمانہ اورعلاقہ کے تناظر میں ہی رکھ کر دیکھنا چاہئے نہ کہ آج کی دنیا کے سماجی رویوں کے تناظرمیں۔عرب کی قدیم معاشرت کے بارہ میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس طرز کا نکاح نہ تو اس میں نامانوس تھا اور نہ ہی اسے کوئی غیر اخلاقی فعل سمجھا جاتا تھا۔ اس کا ایک بڑا ثبوت خود نکاحِ سیدہؓ کا معاملہ ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن خود ان کی حیاتِ طیبہ میں ہی کم نہیں تھے۔ مشرکین، یہود ونصاری اور منافقین کی آپ کے ایک ایک عمل پر نظر رہتی تھی اور وہ آپ پر اعتراض کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ آپ کی ذات پر کیچڑ اچھالنے کے لیے انہوں نے باقاعدہ شعراء ’’پال‘‘ کے رکھے ہوئے تھے۔یہ ممکن نہیں کہ عرب معاشرت کی رو سے یا کسی بھی اور اعتبار سے وہ حضرت عائشہؓ کے نکاح کے معاملہ میں کوئی ادنی سا کم زور یا قابلِ گرفت پہلو پاتے اور اس پر خاموش رہتے۔ بلکہ تاریخ میں اس معاملہ پر مسلمانوں میں اور اہلِ کفر میں ہونے والا کوئی مکالمہ ضرور محفوظ ہوتا۔کتابوں میں یہ واقعات ملتے ہیں کہ طہارت سے متعلق باتیں سکھانے پر انہوں نے آپ کے خلاف زبان درازی کی۔(جامع الترمذی‘ حدیث ۱۶) منافقین نے غنیمت تقسیم کرنے کے معاملہ میںآپ پر ناانصافی کا الزام عائد کیا۔ (صحیح مسلم‘ حدیث ۱۰۶۳)خود ازواجِ مطہرات کے معاملہ میں خانۂ نبوت کو دو دفعہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک اس وقت کہ جب حضرت عائشہؓ پر تہمت باندھی گئی‘ یہ موقع ’’واقعۂ افک‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ دوسرا اس وقت کہ جب آپ نے عرب روایات کے برعکس اپنے منہ بولے بیٹے حضرت زید بن حارثہؓ کی مطلقہ بیوی سے نکاح فرمایا۔ ان دونوں موقعوں کی طرف قرآنِ مجید میں اشارہ کیا گیا ہے۔(سورۃ النور ‘ آیت ۱۱۔۔سورۃ الاحزاب ‘آیت ۳۷)سوال یہ ہے کہ بات بے بات منہ لگنے والوں نے حضرت عائشہ سے نکاح کے معاملہ پر انگشت نمائی کیوں نہ کی؟ ظاہر ہے کہ اس کا جواب اس کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا کہ عرب معاشرے میں کم عمری کے نکاح کو سرے سے کوئی معیوب کام ہی نہیں سمجھا جاتا تھا اور اس معاشرے میں پروان چڑھنے والی نفسیات اس واقعہ میں کوئی قابلِ گرفت پہلو تلاش نہیں کرپائی تھی۔ 
نیز کسی معاملہ کو مبنی بر انصاف یا خلافِ انصاف قرار دینے کے لیے اس معاملہ کے اصل اور داخلی فریقوں کی رائے سب سے زیادہ اہم ہوتی ہے۔ جب ہم اس زاویہ سے دیکھتے ہیں تو بھی ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ صاحبانِ معاملہ (حضرت ابوبکرؓ ۔حضرت عائشہؓ) کو نہ صرف اس پہ کوئی اعتراض نہیں تھا‘ بلکہ وہ اس پر بے حد مسرور اور اس کو اپنے لیے باعثِ اعزاز سمجھتے تھے۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ کی رخصتی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمائش پر نہیں ‘ بلکہ خود حضرت ابوبکرؓ کی خواہش پر ہوئی جبکہ حضرت عائشہؓ کی نبی اکرم کے ساتھ گرویدگی کی حد تک جو محبت تھی‘ اسے کوئی ماں کا لال چیلنج نہیں کرسکتا۔ باقی رہی یہ بات کہ جب آنحضور نے حضرت ابوبکرؓ کو پیغامِ نکاح بھیجا تو انہیں اس پر تعجب کیوں ہوا اور انہوں نے یہ کیوں کہا کہ عائشہ تو آپ کی بھتیجی کے برابر ہیں؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کا تعجب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عائشہؓ کے عمر کے تفاوت کی وجہ سے نہیں تھا، بلکہ اس اسلامی اخوت اور برادرانہ رشتہ کی وجہ سے تھا جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کے درمیان تھااور جس کی رو سے حضرت عائشہؓ آنحضور کے لیے بھتیجی یعنی بھائی کی بیٹی لگتی تھیں کیونکہ عربوں میں سگے بھائی کے ساتھ ساتھ منہ بولے بھائی کی بیٹی سے بھی شادی کو ناجائز سمجھاجاتا تھا۔چنانچہ اس پرآنحضور نے یہی وضاحت فرمائی کہ ابوبکر میرے دینی بھائی ہیں‘حقیقی نہیں۔ صحیح البخاری کی روایت ہے: ’’عن عروۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم خطب عائشۃ الی ابی بکر ‘ فقال لہ ابوبکر: انما انا اخوک ‘ فقال لہ : انت اخی فی دین اللہ وکتابہ‘ وہی لی حلال‘‘ [حدیث نمبر۵۰۸۱] یعنی ’جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکرؓ کے پاس عائشہؓ کے لیے پیغامِ نکاح بھیجا تو ابوبکرؓ کہنے لگے کہ میں تو آپ کا بھائی ہوں جس پر آنحضور نے ارشاد فرمایا کہ تم اللہ کے دین اورقرآن کی نسبت سے میرے بھائی ہو‘ اس لیے عائشہ میرے لیے حلال ہے۔‘‘

تہذیبی روایات کے اخلاقی جوازکی بحث:

مؤخر الذکر حضرات کا موقف بہت جان دار ہے‘ روایات سے بھی مطابقت رکھتا ہے اور امت کی اجماعی روایت کی بھی اس سے نفی نہیں ہوتی۔مگر اس میں صرف ایک دشواری یہ باقی رہ جاتی ہے کہ مسلمانوں کے دعوی کے مطابق آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں عدل وانصاف کا بول بالا کرنے‘ مظلوموں کی داد رسی ‘ غریبوں کی اشک شوئی ‘ کم زوروں کے حقوق کو تحفظ دینے ‘ باطل اور بے سروپارسومات وتوہمات کی بیخ کنی اورخلقِ عظیم کا عملی نمونہ پیش کرنے کے لیے تشریف لائے ہیں۔ آپ کی بعثت کا مقصد یہ نہیں کہ مختلف علاقوں اور معاشروں کی تہذیبی روایات کو اس لیے تحفظ دیا جائے کہ ان خاص علاقوں اور معاشروں میں یہ روایات معیوب نہیں سمجھی جاتیں یا اہل معاملہ کوان پر کوئی اعتراض نہیں۔ بلکہ آپ ڈنکے کی چوٹ پر حق کی آواز بلند کرنے اور کسی بھی علاقے میں رائج ناانصافی پر مبنی نظام اور رسومات وروایات پر خطِ تنسیخ پھیرنے کے لیے تشریف لائے ہیں۔ کئی رسومات ناانصافی یا توہم پرستی پر مبنی ہوتی ہیں ‘ مگر اہلِ علاقہ اور صاحبانِ معاملہ کو ان پر اعتراض نہیں ہوتا او ران کے کچھ اخلاقی جواز بھی انہوں نے گڑھ رکھے ہوتے ہیں ۔ اسلام ایسی رسومات وروایات کو قبول نہیں کرتا‘ بلکہ ان کے خلاف جہاد کرتا ہے۔ مثلااگرکسی علاقہ کے لوگ نہروں کو جاری رکھنے کے لیے ہر سال قرعہ انداز ی کے ساتھ کسی لڑکی کی بھینٹ دیتے ہوں یا کوئی توہم پرست اپنے پیر کے کہنے پر بیٹے کوبیٹے کی ہی اجازت اور رضامندی سے ذبح کردے تو کیا اسلام اسے اس وجہ سے قبول کرلے گا کہ اہل علاقہ اور صاحبانِ معاملہ کو اس پر اعتراض نہیں۔ خود عرب معاشرہ کی چند مثالیں ملاحظہ کیجئے: منہ بولے بیٹے کی بیوہ سے شادی کرنا معیوب بات سمجھا جاتا تھا‘ باپ کے وفات پانے کے بعد بیٹا اپنی سوتیلی ماں سے نکاح کرلیتا تھا‘ نومولود اور کم عمر کے ساتھ ساتھ ’’نامولود‘‘ یعنی پیٹ میں موجود حمل کے ساتھ نکاح کا رواج پایا جاتا تھا(سنن ابو داود‘حدیث۲۱۰۳)‘مرد کو نکاح وطلاق کا لامحدود اختیار حاصل ہوتا تھا‘ میراث میں عورت کو حصہ نہیں دیا جاتا تھا‘ قبائلی عصبیت عروج پر تھی‘ سرمایہ کی طرح پیسہ پر بھی نفع لینے کو وہ جائز سمجھتے تھے جسے ہم ربا اور سود کہتے ہیں‘ بیرونِ حرم سے آنے و الے حاجی کے لیے بیرونِ حرم سے لائی ہوئی چیز کھانا ناجائز سمجھتے تھے وغیرہ وغیرہ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اورعرب معاشرہ میں رائج اس طرح کی دیگر کئی رسومات وروایات کی برملا نفی کی اور انہیں محض اس لیے اپنے حال پر نہیں رہنے دیا کہ ہر علاقہ اورمعاشرہ کی اپنی اپنی روایات اور اخلاقیات ہوتی ہیں۔ ورنہ فی نفسہ اہلِ علاقہ اور صاحبانِ معاملہ کے پاس ان رسومات ورایات کے دلائل اوراخلاقی جواز بھی موجود تھے۔مثلاً:
  • لے پالک کی بیوی سے شادی کرنا گویا اپنی بیٹی کے ساتھ بیاہ رچانے کے ہم معنی تھا‘ اس لیے اسے معیوب سمجھتے تھے۔
  • سوتیلی ماں کے ساتھ بیاہ کرنے کو بڑی آسانی سے صلہ رحمی کانام دیا جاسکتا ہے اور سگی ماں نہ ہونے کی جہ سے اسے بیوی بنانے میں حرج محسوس نہیں کیا جاتا تھا۔ 
  • جیسے نابالغ کے ساتھ نکاح کرنے سے مقصود کسی گھرانے کے ساتھ گھریلو تعلقات قائم کرنا ہوتا تھا ‘ویسے حمل کے ساتھ نکاح کرنے کا بھی یہی مقصد ہوسکتا ہے۔
  • نکاح وطلاق کا لامحدود اختیار مرد کی سربراہی اور ذمہ داریوں کے پیشِ نظر تھا۔ اسلام نے بھی اگر چہ اس اختیار میں کمی ضرور کی مگر مساواتِ مردوزن کی بجائے مرد کو عورت کے مقابلہ میں چار بیویاں رکھنے (بشرطِ عدل) اور تین طلاقوں کا اختیار دیے رکھا۔
  • چونکہ گھریلو مالی کفالت کی تمام تر ذمہ داری مرد پر تھی اور عورت اس حوالہ سے برئ الذمہ ہوتی تھی ‘اس لیے میراث کا واحد حصہ دار بھی مرد ہوتا تھا۔چنانچہ اسلام بھی عورت کے مقابلہ میں مرد کو دوگنا دینے کی تعلیم دیتا ہے۔ 
  • قبائلی عصبیت کو ’’صلہ رحمی‘‘ کا نام دیا جاتا تھا۔ قبائلی عصبیت اور صلہ رحمی کا یہی تصور تھا جس نے عہدِ مکی میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور بہت سے صحابہ کرام ؓ کو خود کفار کی کئی دست درازیوں سے بچانے میں مدد دی‘ کیونکہ ان کے غیرمسلم رشتہ دار اپنی قبائلی عصبیت اور جذبۂ صلہ رحمی کے تحت ان کی حفاظت کے لیے آڑے آجاتے تھے۔ صرف ابوطالب کی مثال لیجئے! یہ غیرمسلم ہونے کے باوجود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حفاظتی دیوار بنے رہے۔ یہ صرف قبائلی عصبیت کی اسی روایت کی وجہ سے تھا۔
  • سود کا جواز جو غیر مسلم پیش کرتے تھے‘ وہ قرآن میں مذکور ہے: ’’ انما البیع مثل الربو‘‘ [سورۃ البقرۃ‘ آیت ۲۷۵] یعنی اگر سرمایہ کو زائد رقم کے ساتھ فروخت کر کے نفع کمانا جائز ہے تو پیسہ کو کچھ عرصہ کے لیے قرض میں دے کر اس پر نفع وصول کرنا کیوں منع ہے؟
  • بیرونِ حرم کیِ چیز کھانے سے اس لیے منع کرتے تھے کہ ان کے نزدیک اس میں حرم کی بے ادبی ہے کہ حدودِ حرم میں آکر بیرونِ حرم کی غذا استعمال کی جائے۔
سو ان رسومات اور بظاہر بے ضرر روایات کو اسلام نے محض اس لیے قبول نہیں کرلیا کہ ان کے اخلاقی جواز اہلِ علاقہ کے پاس موجود ہیں اور ہر علاقہ و معاشرہ کی اپنی اخلاقیات ہوتی ہیں‘ بلکہ ان کے باطن میں چھپی ناانصافی ‘ زر پرستی اور توہم پسندی کو بے نقاب کیا اور ان کے خلاف جہاد کیا۔
اس ساری گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ (بمطابق روایات) کم عمری میں کیے جانے والے حضرت عائشہؓ کے نکاح ورخصتی کے عمل کو محض اس لیے اخلاقی جواز نہیں بخشا جاسکتا کہ یہ عمل چودہ سو سال قبل عرب کی قدیم معاشرت میں ہوا اور ان کے معاشرے میں اس نوعیت کے نکاح کو معیوب نہیں سمجھا جاتا تھایا یہ کہ صاحبانِ معاملہ کو اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا‘ بلکہ اس کے نفع وضرر اور مثبت ومنفی تمام پہلوؤں پر غور ہونا چاہئے۔ اگر اس غور وفکر کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نابالغی کے نکاح میں نابالغ کی حق تلفی ہے تو نہ تو اسے شرعاً جائز کہا جائے او رنہ ہی نبی کی طرف اس ناانصافی کی نسبت کی جائے ‘ بلکہ ان روایات میں توجیہ کرنی چاہئے جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس عمل کی نسبت کی گئی ہے۔ ایسے میں یہ طریقہ درست نہیں کہ قدیم عرب معاشرت کی اپنی اخلاقیات کا حوالہ دے کر اسے جائز ٹھہرایا جائے۔
مؤخر الذکر حضرات کے موقف میں پائی جانے والی دشواری کی تفصیل آپ نے پڑھ لی ‘ اس دشواری کا ایک اصولی جواب یہ ہے کہ بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم محسنِ انسانیت اور مصلحِ اعظم ہیں‘ مگر آپ کی اصل حیثیت مصلح سے بڑھ کر ایک نبی کی ہے۔ آپ کی تمام تر جدوجہد عقل نہیں ‘ امرِ الہی کے تابع تھی۔ اگرلے پالک کی بیوہ سے نکاح نہ کرنے اور پیٹ میں موجود حمل سے نکاح کرنے کی رسم اور روایت خدا کو محبوب نہیں تھی تو خدا ہی کے حکم سے آپ نے ان روایات کی بیخ کنی کی اوردوسری طرف نابالغہ سے نکاح کرنے کی روایت اگراللہ کو ناپسند نہیں تھی تو آپ نے بھی اسے حسبِ سابق جائز ہی رہنے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن وسنت میں بھی جہاں ان رسومات وروایات کو موضوع بنایا گیا ہے ‘ وہاں ذیلی نکتہ آفرینیوں کی بجائے اس بنیادی نکتہ پراصل زور دیا گیا ہے کہ اس فیصلہ کا اختیار اللہ جل مجدہ کے پاس ہے کہ وہ کسے حلال ٹھہراتا ہے اور کسے حرام ‘ کس معاملہ کو پسند کرتا ہے اور کسے ناپسند ‘ اس کا فیصلہ آجانے کے بعد مؤمنوں کو روانہیں کہ بحث آرائیوں میں اپنا وقت ضائع کریں۔ مثال کے طور پر سود اور بیع کویکساں سمجھنے کے معاملہ پر اللہ رب العزۃ نے جو تبصرہ کیا ہے‘ وہ کچھ یوں ہے: ’’احل اللہ البیع وحرم الربوا‘‘[سورۃ البقرۃ‘آیت ۲۷۵] یعنی ’وہ کہتے ہیں کہ بیع اور سود ایک ہی طرح ہیں حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام ٹھہرا رکھا ہے۔‘‘
باقی اس میں شک نہیں کہ ’’عدل وانصاف کا قیام‘‘ مقاصدِ شریعت میں سے ایک عظیم الشان مقصد ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ جس دین نے انصاف کرنے والوں کو اللہ کا محبوب قرار دیا ہے‘ اس کی شریعت کسی ایسی رسم کو من وعن قبول کرلے جو ناانصافی پر مبنی ہو۔ کم عمری کے نکاح کامعاملہ ایسے ہی ہے۔ اس میں جو حکمت اور مصلحت مضمر ہے‘ وہ سراسر نابالغ کے حق میں جاتی ہے اور ذوی القربی(رشتہ داروں) کے ساتھ احسان کرنے کی قرآنی تعلیم کے مطابق نظر آتی ہے۔
(جاری)

.... اور کافری کیا ہے؟

پروفیسر میاں انعام الرحمن

الشریعہ ستمبر ۲۰۱۲ء میں ہمارے شائع شدہ مضمون ’’پاکستان میں نفاذ اسلام کی جدوجہد: قرآنی نظریہ تاریخ کی روشنی میں ایک عمرانی مطالعہ‘‘ کی بابت محمد دین صاحب جوہر نے ( نومبر ۲۰۱۲ء کے شمارے میں) نہایت درد مندی سے اپنی فاضلانہ رائے کا اظہار کیا ہے۔ جوہر صاحب کی تنقیدی دفتری کافی موٹی ہے۔ آئندہ سطور میں نوع بہ نوع اس دفتری کا جائزہ لیا گیا ہے۔ 
۱۔ محترم جوہر صاحب کا پہلا اعتراض:
’’..... میں تو استدراک پر ہی معتکف ہوں اور ابھی تک یہ عقدہ نہیں کھلا کہ یہ کسی متداول اخبار کا تراشہ ہے یا کسی علمی مضمون کا تتمہ؟ ......... اس مضمون کے عنوان میں ’نفاذ‘ کا لفظ برتا گیا ہے۔ یہ لفظ استعمار آفریدہ تعلیم اور اس کے تحت فروغ پانے والے مستریانہ علم کی فضا میں جنم لینے اور پرورش پانے والے شعور کی گھٹی میں پڑا ہے اور اس کا اسم اعظم ہے۔‘‘ (الشریعہ نومبر ۲۰۱۲: ص۳۹)
جوہر صاحب غالباً cultural imperialism کی بات کر رہے ہیں۔ ہمیں اعتراف ہے کہ استعماریت کی یہ شاخ، متنوع جہات اور کثیر مقاصد کی حامل ہے۔ ایڈورڈ سید (۱۹۳۵ء ۔۔۲۰۰۳ء) وغیرہ نے استعماریت کے اس پہلو پر بہت وقیع مباحث اٹھائے ہیں۔ لیکن فی الحال ہم اس بحث میں الجھنے کی پوزیشن میں نہیں کہ لفظ ’’نفاذ‘‘ استعمار آفریدہ تعلیم کا دیا ہوا ہے یا نہیں، اور ہم جیسے استعمار زائیدہ شعور کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے یا نہیں، لیکن ایک بات نہایت عاجزی سے عرض کریں گے کہ ہمارے مضمون (الشریعہ ستمبر ۲۰۱۲) کا منشا اور مجموعی رجحان، نفاذ پر تنقید کے گرد ہی گھومتا ہے۔ لفظ’’ نفاذ‘‘ کی درگت بنانے سے پہلے اگرہمارے مضمون کے فقط اس جملے:
’’مسئلے کی اخلاقی و فکری اور جمالیاتی نوعیت، نفاذ (implementation) کی نہیں بلکہ نفوذ (penetration)کا تقاضا کرتی ہے۔‘‘ (الشریعہ ستمبر ۲۰۱۲: ص۵۳)
پر غور فرما لیا جاتا تو فاضل نقاد لفظ ’’نفاذ‘‘ کو بہ تکلف اسم اعظم بنانے کی زحمت سے یقیناً بچ جاتے۔ یہ جھمیلا انھیں ’’استدراک پر معتکف‘‘ ہونے کے سبب جھیلنا پڑا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ’’نفاذ‘‘ کے حوالے سے ہم نے اپنے مضمون میں جو نکات (الشریعہ ستمبر ۲۰۱۲: ص ۳۸، ۳۹، ۴۰) بین السطور بیان کیے تھے، انھی کی بعض پرتیں جوہر صاحب نے استعماری کیل کانٹوں سے کھولنے کی کوشش کی ہے، ملاحظہ کیجیے: 
’’نفاذ کی ہر گفتگو ایک ایسے اغماض سے شروع ہوتی ہے جس پر کسی بھی سطح کی علمی دیانت صاد کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ نفاذ کا مسئلہ براہ راست جس چیز سے جڑا ہوا ہے ، وہ طاقت یعنی سیاسی طاقت ہے۔ ....... نفاذ کی بحث کو سیاسی طاقت کے structure سے الگ کر کے اور سیاسی نظام میں طاقت روائی کی منہج سے آنکھیں چرا کر نظریے سے جوڑنے کی چابک دستانہ کوشش کرنا ایک گہرا علمی اغماض ہے جو اب ہمارے ہاں کتمان کے درجے کو پہنچا ہوا ہے ....... سیاسی طاقت اور نظریے سے اغماض برت کر نفاذ کی بحث چلانے کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہم اسلام کے نفاذ اور اشیائے خوردنی کے نرخوں کے نفاذ کو ایک ہی سطح پر رکھ کر دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ‘‘ (الشریعہ نومبر ۲۰۱۲: ص۴۰)
یہاں ہمیں حفظِ ماتقدم کے طور پریہ اعتراف کر لینا چاہیے کہ اقتباس نقل کرنے میں ’’کتمانِ حق‘‘ سے کام لیا گیا ہے کہ صاحبِ مضمون کے استعماری کیل کانٹے مستور کر دیے ہیں۔ بہرحال! کتمان کا بہتان اپنی جگہ، لیکن جوہر صاحب کی کاوش کی داد نہ دینا بخیلی کے زمرے میں آئے گا،کہ انھوں نے سیاسی طاقت اور اس کے لوازمات وغیرہ پر خوب قلم اٹھایا ہے۔
۲۔ ہمارے ممدوح نقاد کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ:
’’...... مضمون نگار کی یہ یہ تحریر کس نوع علم سے تعلق رکھتی ہے؟ یہ ایک بدیہی اور متفقہ بات ہے کہ انسان کا عقلی شعور ہر تہذیب اور ہر عہد میں علم کے standard disciplines and discourses میں اپنی فعلیت کے حاصلات کی تشکیل کرتا ہے۔ اس کے بغیر علم کا کسی بھی طرح کا کوئی تصور سرے سے موجود یا ممکن ہی نہیں ہے۔ ورنہ ہر طرح کی بک بک جھک جھک علم ہی قرار پائے گیاور علم کا استدلالی اور جدلیاتی عمل ممکن نہیں رہے گا۔‘‘ (الشریعہ نومبر۲۰۱۲: ص۴۰،۴۱)
جوہر صاحب نے اس اقتباس میں ایک ہی سانس میں دو متضاد باتیں ارشاد فرمائی ہیں۔ ایک طرف وہ standard disciplines and discourses کے موید و حامی ہیں اور دوسری طرف علم کے ’’استدلالی اور جدلیاتی عمل‘‘ کی وکالت بھی فرما رہے ہیں۔ ہماری ناقص رائے میں dialectic چبائے ہوئے نوالے سے استدلال کرنے کا نام نہیں، کہ اس کی سرشت میں settled paradigm کو چیلنج کرنا رکھا گیا ہے۔ فاضل نقاد نے standard disciplines and discourses جس مقام پر متمکن کر دیے ہیں، اگر وہ واقعی اس مقام کے حق دار قرار پائیں تو انسان کے عقلی شعور پر بمشکل علم کی دھول ہی باقی بچے گی۔
جوہر صاحب علم و حکمت کے موتی بکھیرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :
’’اگر ہم اپنے ماضی کی طرف دیکھیں یا موجودہ مغرب کو دیکھیں تو وہاں بھی علم کا بنیادی اسلوب standard disciplines and discourses میں ہی چلنے کا ہے۔ اسلامی تہذیب میں ظاہر ہونے والی علمی روایت سے آدمی کا ختلاف بھلے جو بھی ہو وہ اپنی جگہ، لیکن یہ روایت استناد اور استدلال کے جواز کے فرق کے ساتھ منقولی اور معقولی کی واضح تقسیم رکھتی تھی۔ یہ مضمون اصولِ تفسیر، تفسیرالقرآن، اصولِ فقہ، اصولِ حدیث، علمِ بلاغت، علمِ بیان وغیرہ کے زمرے سے نہیں ہے، نہ ہی یہ کوئی کلامی اور عرفانی کاوش ہے۔ دوسری طرف اس مضمون کا متداول اور عصری علوم میں شجرہ نسب تلاش کرنا بھی ممکن نہیں ہے، مثلاً فلسفہ، ما بعدالطبیعات، عمرانیات، معاشیات، تاریخ، آثاریات یا بشریات وغیرہ۔ ہمیں یہ معلوم کرنے میں دل چسپی ہے کہ قرآن پر جس hermeneutics کو آزمایا جا رہا ہے، وہ کدھر سے آئی ہے؟‘‘ (الشریعہ نومبر۲۰۱۲: ص۴۱) 
ہم نہایت ادب سے گزارش کریں گے کہ علم و فن کا بحرِ بے کنار ہمیشہ سے taken for granted کسی مخصوص discourse یا discipline کا حامل نہیں ہوتا۔ جوہر صاحب اس نکتے پر ضرور غور فرمائیں کہ کوئی unarticulated intellectual discourse کیسے اور کب articulated ہو جاتا ہے؟ ان کی تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہر تہذیب اور ہر عہد میں بنا بنایا گھڑا گھڑایا standard سامنے آ جاتا ہے۔ حالاں کہ ایسا ہونا محال ہے۔ جیسے کپاس خود بخود نہیں اگتی، اور اس سے کپڑا بھی خودبخود نہیں بنتا، اسی طرح standard disciplines and discourses خود بخود تشکیل نہیں پاتے۔ اپنی تشکیل سے پہلے، یاsettled paradigm میں ڈھلنے سے پہلے وہ لازماً کسیunsettled حالت میں ہوتے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ جیسے ان کی unsettled حالت مستقل نہیں ہوتی، اسی طرح settled یا standard حالت بھی ہمیشگی کی حامل نہیں ہوتی، کہ علم کا جدلیاتی عمل، یعنی dialectic اسے چیلنج کرنے آن موجود ہوتا ہے۔ یہ dialectic اپنے آغاز میں عام طور پر unarticulated form میں ہوتا ہے۔
جوہر صاحب اسی نقطے کے ضمن میں یہ نکتہ اٹھاتے ہیں کہ:
’’قیامِ علم کے تاریخی طور پر دو طریقے موجود رہے ہیں: ایک مذہبی استناد دوسرا عقلی استدلال۔ استعمار کے آغاز کے ساتھ ہی ایک نیا استناد اور جواز سامنے آیا جس کا تعلق عہدے سے ہے، یعنی سیاسی طاقت سے۔ اب غالب طور پر یہی استناد باقی رہ گیا ہے، یعنی علم کی قلم رو میں مذہبی استناد اور عقلی استدلال کم زور پڑ گیا ہے اور علم، طاقت کی ترجیحات کے مطابق تشکیل پا رہا ہے۔ ہم یہ جاننا چاہیں گے کہ اس مضمون میں علم کے کس استدلال کو کام میں لایا گیاہے؟ اگرتو یہ کوئی ذہنی سفر نامہ ہے تو پھر اس کا جواز یقیناً موجود ہے، کیونکہ سیرِ عقائد و افکار میں اپنے مشاہدات تجربات اور پسند ناپسند کے اظہار کی گنجائش موجود رہتی ہے۔ ایسی صورت میں اس کو نئی تعریف یا تعبیر کا نام دینا مناسب نہیں ہے۔ اور اگر یہ واقعی کوئی نئی تعریف یا تعبیر ہے تو اس کے علمی منہج کو articulate کرنا از بس ضروری ہے۔‘‘ (الشریعہ نومبر۲۰۱۲: ص۴۱)
قابلِ غور بات ہے کہ جوہر صاحب نے قیامِ علم کے استعماری نوعیت کے ( تیسرے طریقے کو) نہ صرف قابلِ بیان سمجھا ہے، بلکہ اس کے غلبے کو بھی تسلیم کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ تاریخی اور روایتی قسم کے standard disciplines and discourses کی موجودگی میں (تاریخی لحاظ سے ایک غیر موجود) استعماری استناد و جواز کیسے اور کیوں کر جگہ پا گیا؟ اگر یہ جگہ پا گیا ہے اور فی الواقعی پا گیا ہے تو کوئی تیسرا چوتھا ...... استناد و جواز کیسے راہ نہیں پا سکتا؟ 
ہم گزارش کریں گے کہ ہمارے مضمون میں برتا گیا طریقہ علم، مذہبی استناد اور عقلی استدلال کا امتزاج قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایسا صرف بات کو قابلِ فہم بنانے کے لیے کہا جا رہا ہے ورنہ دانستہ ، کسی خاص طریقہ علم کو نہیں برتا گیا۔ اس لیے جوہر صاحب کی یہ بات بظاہر درست معلوم ہوتی ہے کہ یہ زیادہ سے زیادہ ایک ذہنی سفر نامہ ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی ذہنی سفر نامہ کسی newly articulated علمی منہج کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے؟ جواب یہ ہے کہ اس کا پورا پورا امکان موجود ہے کیونکہ حقیقت میں یہ ذہنی سفر نامہ ہی ہوتا ہے جو settled paradigm سے باہر تانک جھانک کرتا ہے۔ لیکن settled paradigm سے باہر جھانکنے کی یہی صلاحیت اسے ان سہولتوں سے بھی محروم کر دیتی ہے جو settled paradigm کا خاصا شمار ہوتی ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ذہنی اسفار کے standard disciplines and discourses یا settled paradigm میں ڈھلنے کا عمل چند برسوں یا عشروں پر محیط نہیں ہوتا بلکہ اس میں صدیاں صرف ہوتی ہیں اور کئی نسلوں کو خونِ جگر دے کر اسے سینچنا پڑتا ہے۔ جوہر صاحب اس سلسلے میں جس اشکال کا شکار ہوئے ہیں ہم بزبانِ غالبؔ بس یہ عرض کیے دیتے ہیں : ؂
بقدرِ شوق نہیں ظرفِ تنگ نائے غزل کچھ اور چاہیے وسعت میرے بیاں کے لیے
باقی رہی یہ بات کہ اگر ہمارا مضمون ذہنی سفر نامہ ہے تو ایسی صورت میں اس کو نئی تعریف یا تعبیر کا نام دینا مناسب نہیں ہے، تو ہم نہایت ادب سے عرض کریں گے کہ نہ تو مضمون کے عنوان میں اور نہ ہی مندرجات میں کوئی ایسی بات کہی گئی ہے، البتہ جوہر صاحب نے (نئی تعریف کی تلاش کو نئی تعریف گردانتے ہوئے) ہمارے سر منڈھ ضرور دیا ہے۔ اوپر مذکور اقتباس سے متصل سطروں میں، اَن کہی کو کہی بناتے ہوئے فاضل نقاد فرماتے ہیں کہ:
’’ہم جیسے عام مسلمانوں کے نزدیک حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات پاک اور قرآن مجید کو نہ تو question کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی redefine کیا جا سکتا ہے۔‘‘ (الشریعہ نومبر۲۰۱۲:ص۴۱)
ہمارے ممدوح نقاد کو علم ہونا چاہیے کہ نہ صرف اُن جیسے عام مسلمانوں بلکہ ہم جیسے خاص مسلمانوں کا بھی یہی عقیدہ ہے۔ (یہ عام اور خاص کی تقسیم بھی خوب رہی، ...... خیر! جو مزاجِ یار میں آئے)۔ جوہر صاحب اگر مسلمانی کے دائرے میں ہی رہنے کی اجازت مرحمت فرمائیں تو گزارش کریں گے کہ question کرنے، redefine کرنے، اور ....... discover کرنے، re-understand کرنے میں بال برابر نہیں بلکہ زمین آسمان کا فرق ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ فاضل نقاد کی باریک بین نگاہوں سے یہ موٹا سا فرق پوشیدہ رہ گیا ہے۔ اب علم و ادب کی درس گاہوں اور صاحبانِ فکر کو اپنی خیر منانی چاہیے کہ قرآن و سنت کی discovery اور re-understanding کا مطلب ’’عام مسلمانوں کے نزدیک‘‘ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی پر question کرنا اور قرآن مجید کو redefine کرنا ہو گیا ہے۔
ہمارے مضمون کے مندرجات (اور الفاظ) سے جوہر صاحب کی طرح اور بھی کئی صاحبان کو یہ مغالطہ ہو سکتا ہے کہ ہم قرآن و سنت کو question کر رہے ہیں ، یا redefine کرنے کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ اس سلسلے میں گزارش ہے کہ ہم نے نہایت کھلے لفظوں میں اسلام کے قانونی ایڈیشن(یعنی ایک خاص دور کی پروردہ تعبیر) کو ضرور question کیا ہے کہ یہ ہم عصر ماحول یا موجودہ صورتِ حال کو address نہیں کر پا رہی، فتح یاب ہونا تو دور کی بات ہے۔ اس قانونی ایڈیشن کی ہم عصر صورتِ حال سے یہی لاتعلقی، قرآن و سنت کو ہم عصر صورتِ حال میں دیکھنے کا پوراپورا جوازفراہم کر رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جیسے اسلام کا قانونی ایڈیشن، قرآن و سنت سے ماخوذ ہے، ایسے ہی قرآن و سنت سے ماخوذ ایک ایسے نئے ایڈیشن کی ازحد ضرورت ہے جو ہم عصر صورتِ حال کو address کر سکے اور اس پر فتح پا سکے۔ 
۳۔ جناب محمد دین جوہر کا تیسرا اعتراض ملاحظہ کیجیے:
’’صحابہ کرامؓ، ائمہ اربعہ اور ان کے بعد امت میں ظاہر ہونے والے علما کی طویل درخشندہ لڑی بہت محترم ہے۔ ہم اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کو معصوم عن الخطا نہیں سمجھتے، لیکن ہم بزرگوں کی عیب چینی کو دین اور ایمان دونوں کے لیے سنگین خطرہ سمجھتے ہیں۔ ہم علمائے سوء کے وجود سے انکار نہیں کرتے، لیکن اس کی آڑ میں علمائے حق کی نام نہاد ’فکری‘ مخالفت کو بڑی محرومی اور بد نصیبی خیال کرتے ہیں۔‘‘ (الشریعہ نومبر۲۰۱۲: ص۴۱)
جوہر صاحب کے یہ الفاظ اگر ان کی کسی طبع زاد تحریر کا حصہ ہوتے تو اس سے اتفاق ممکن تھا۔ لیکن ان کے یہ الفاظ ایک خاص تناظر کے حامل ہیں اور وہ تناظر ہمارا مضمون ہے۔ موصوف کی خدمت میں عرض ہے کہ ہم نے ہمیشہ کھلے بندوں بات کی ہے، کسی آڑ کی آڑ کبھی نہیں لی، اس لیے انھیں اپنے آپ کو ’’محروم اور بدنصیب‘‘ خیال کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ البتہ بزرگوں کی عیب چینی کو دین و ایمان کے لیے خطرہ ...... بلکہ سنگین خطرہ سمجھنے والی بات کافی دل چسپ ہے۔ سوال یہ ہے کہ بزرگوں کے تشکیل کردہ standard disciplines and discourses کو question کرنا اگر عیب چینی ہے اور پھر ایسی عیب چینی ہے جس سے دین و ایمان سنگین خطرے سے دوچار ہو جاتے ہیں تو پھر ............ کافری کیا ہے؟ معلوم ہوتا ہے کہ فاضل نقاد چون و چرا کی آڑ میں ما فی الضمیر (بتوں سے امیدیں)دابے بیٹھے ہیں۔
اسلام کی قانونی تعریف سے چمٹے ہوئے علما پر کسی قسم کی تنقید جوہر صاحب کو ایک آنکھ نہیں بھاتی:
’’ہمارے لیے یہ بات سمجھنا ازحد دشوار ہے کہ اسلام کی نئی تعریف متعین کرتے وقت ہمارے روایتی علما کی شامت کیوں آ جاتی ہے؟ آخر انھوں نے ایسی کیا خطا کر دی ہے کہ اسلام کی نئی تعریف پر نکلنے والا ہر مہم جو روایتی علما پر تیر اندازی اپنا اولین فرض سمجھتا ہے؟‘‘ (الشریعہ نومبر۲۰۱۲:ص۴۱)
لطف کی بات یہ ہے کہ موصوف کے لیے جس بات کو سمجھنا از حد دشوار ہے، معجزانہ طور پر متصل سطروں میں ہی اسے سمجھ جاتے ہیں: 
’’یہ بات تو کہی جا سکتی ہے کہ ہمارے روایتی علما جدید تہذیب کی تفہیم اور تردید کے لیے کوئی علمی اور فکری اسلوب پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اس کی وجہ سے یقیناً بہت سے سنگین مسائل پیدا ہوئے ہیں، اور اس معاملے میں ہمیں بھی ان سے سخت شکایات ہیں۔‘‘ (الشریعہ نومبر۲۰۱۲:ص۴۱،۴۲)
روایتی علما سے ان سخت شکایات کو اپنے تئیں ’’عیب چینی‘‘ کے الزام سے بری سمجھتے ہوئے فوراً سے پہلے پینترہ بدلتے ہیں اور فرماتے ہیں :
’’لیکن ہمارے علما، دین کے روایتی موقف کو باقی رکھے ہوئے ہیں اور اسی کا پرچار کرتے ہیں اور یہی اصل چیز ہے۔ ہمارے خیال میں روایتی علما اپنی تمام تر فروگزاشتوں اور تسامحات کے باوجود سر آنکھوں پر بٹھائے جانے کا قابل ہیں کہ وہ دین کے روایتی موقف اور تعلیم سے ارادتاً دست بردار ہونے کے لیے ہرگز تیار نہیں۔ اپنی معاشی اور ثقافتی ابتری اور سیاسی نکبت کے باوجود ہمارے علما ایک گہری شکست میں ہوتے ہوئے بھی دین میں کسی بنیادی رد و بدل پر تیار نہیں۔ یہ ان کا اس امت پر احسان ہے جس کی ہمیں قدر کرنی چاہیے۔‘‘ (الشریعہ نومبر۲۰۱۲:ص۴۲)
یہاں پھر وہی بات ہے کہ اگر اس تحریر کا تناظر ہمارا مضمون نہ ہوتا تو جوہر صاحب کے نقطہ نظر سے اختلاف بہت مشکل ہو جاتا ۔ لیکن تحریر کا تناظر، وضاحت طلب کر رہا ہے کہ دین کے جس روایتی موقف کو اصل چیز قرار دیا جا رہا ہے، وہ کیا ہے؟ دین میں بنیادی رد و بدل پر تیار نہ ہونے سے کیا مراد ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ فاضل نقاد کی تحریر کا تناظر، جوابات بھی فراہم کر رہا ہے۔ دین کا وہ روایتی موقف جسے اصل چیز قرار دیا جا رہا ہے، وہ اسلام کا (خاص دور کا پروردہ) قانونی ایڈیشن ہے۔ اور دین میں بنیادی رد و بدل پر تیار نہ ہونے سے مراد بھی اسی قانونی ایڈیشن (فقہی تعبیرات) میں رد و بدل سے یکسر انکاری ہونا ہے۔ جوہر صاحب نے جس ’’گہری شکست‘‘ کا کنایہ استعمال کیا ہے، انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس کا خمیر اسی روایتی موقف سے اٹھا ہے۔ رہی بات معاشی اور ثقافتی ابتری اور سیاسی نکبت کی؟ تو وہ تو اس گہری شکست کے نتائج ہیں، اسباب نہیں۔ 
۴۔ فاضل نقاد کا چوتھا اعتراض دیکھیے:
’’اسلام کی نئی تعریف کے منصوبہ ساز دانش ور حضرات کا ایک نہایت اہم مسئلہ ہے کہ انھیں حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام سے عام مسلمانوں کے تعلق کا روایتی اسلوب پسند نہیں، بلکہ یہ انھیں بڑا outdated لگتا ہے۔ قرآن سے عام مسلمانوں کا تعلق صرف فہم تک محدود اور صرف ذہنی نہیں بلکہ وجودی ہے، اور یہ بھی دین کی نئی تعبیر والوں کو بہت دقیانوسی معلوم ہوتا ہے۔‘‘ (الشریعہ نومبر ۲۰۱۲: ص۴۲) 
جوہر صاحب کی روایتی اسلوب سے مراد اگر ’’دما دم مست قلندر‘‘ جیسے اسالیب ہیں جو ظاہر و باطن میں تضادات کے حامل اور بے عملی و منافقت کے شاہکار ہیں تو ان کی بات یقیناً درست ہے کہ ایسے اسالیب ہمیں outdated لگتے ہیں۔ جہاں تک عام مسلمانوں کے قرآن مجید کے ساتھ تعلق کا تعلق ہے تو جہاں یہ بات درست ہے کہ یہ تعلق صرف ذہنی نہیں بلکہ وجودی ہے، وہاں یہ بات بھی غلط نہیں ہے کہ یہ تعلق صرف وجودی نہیں بلکہ ذہنی بھی ہے۔ ہماری ناقص رائے میں ابتداً وجودی تعلق سے ذہنی تعلق کی رسم و راہ ہم وار ہوتی ہے اور پھر ذہنی تعلق کی استواری اور پختگی کے بعد نہایت اعلیٰ سطح کے وجودی تعلق کی تشکیل ہو جاتی ہے۔ اور انتہاً مومن ’’قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن‘‘ کا عملی نمونہ بن جاتاہے۔ 
۵۔ جوہر صاحب کا پانچواں اعتراض ملاحظہ کیجیے کہ کسی معجزے کی امید پر ایک ہارا ہوا مقدمہ پیش کر رہے ہیں: 
’’ دینی روایت (فقہی احکامات کی تفصیلات اور حدیث) سے رستگاری کے بعد آخر میں قرآن اپنی ظاہری ہیت میں باقی رہ جاتا ہے اور اس کے معانی پر تعبیراتی طبع آزمائی بہت آسان ہو جاتی ہے۔ نتیجے کے طور پر ہم جیسے روایت پسند اور عام مسلمانوں سے مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ وہ فقہ، حدیث اور دیگر روایتی علوم کو چھوڑ کر ان کے مہیا کردہ چیتھڑوں پر قناعت کر لیں۔ یہ مطالبہ عام مسلمان کے لیے بہت ہی بڑا اور نا قابلِ تصور ہے۔ 
....... جدید ذہن اپنی تعبیراتی مہمات میں فقہ کو کسی بھی صورت میں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں:
’’اب جب کہ روایتی فقہ اپنی داخلی روح اور حقیقی جوہر سے محروم ہو چکی ہے، اس کے ظاہری ڈھانچے سے پیچھا چھڑائے بغیر نفاذِ اسلام سے حاصل ہونے والے حقیقی مقاصد تک رسائی ممکن نہیں ہے۔‘‘

فرد جرم اور فیصلہ دونوں قابلِ داد ہیں، جرح غائب ہے۔ بالکل یہی فرد جرم اور فیصلہ خود اسلام پر بھی اب بہت عام ہے، اس کا کوئی حل بھی مصنف تجویز فرمائیں۔ مسئلہ روح و جوہر وغیرہ کا نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ فقہ کے ڈھانچے سے کیسے جان چھڑائی جائے۔ اگر روح ہی کا مسئلہ ہے تو یہ دین سے فقہ میں پھر سے reintroduce کی جا سکتی ہے۔ لیکن شکر ہے کہ تاریخ نے داخلی روح اور حقیقی جوہر کو ختم کر دیا، اب ہماری ذمہ داری ڈھانچے کی تدفین ہے، کیونکہ یہی ہماری نئی تاریخی ذمہ داری ہے جسے پورا کرنا دینی ذمہ داری سے زیادہ ضروری ہے۔ فاضل مصنف بھول گئے کہ قانون کی کوئی روح وغیرہ نہیں ہوتی اور اس کی حرکت طاقت سے اخذ ہوتی ہے۔‘‘ (الشریعہ نومبر ۲۰۱۲: ص۴۲،۴۴) 

جوہر صاحب کے اعتراض کی ساری تان ’’روایتی فقہ کے دفاع‘‘ پر آ کر ٹوٹتی ہے۔ ان کے خیال میں ’’عام مسلمان‘‘ اس علمی روایت کو چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس تصور نہ کر سکنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ عام مسلمانوں کے اذہان میں فقہ کو بطور فقہ نہیں بلکہ اسلام کے طور پر نقش کر دیا گیا ہے۔خود جوہر صاحب یہ فرما کر ’’فرد جرم اور فیصلہ دونوں قابلِ داد ہیں، جرح غائب ہے۔ بالکل یہی فرد جرم اور فیصلہ خود اسلام پر بھی اب بہت عام ہے، اس کا کوئی حل بھی مصنف تجویز فرمائیں‘‘ اسی مخصوص ذہن کی عکاسی اور نمائندگی کر رہے ہیں۔ ہماری رائے میں امت کے حساس اور بنیادی مسائل میں سے، روایتی فقہ کو ہی اسلام سمجھنے کا مسئلہ انتہائی سنگین نوعیت کا ہے۔
محمد دین صاحب جوہرجب یہ فرماتے ہیں کہ ’’ اگر روح ہی کا مسئلہ ہے تو یہ دین سے فقہ میں پھر سے reintroduce کی جا سکتی ہے‘‘ تو اگرچہ دین اور فقہ میں فرق باور کروا دیتے ہیں، لیکن ان کی اسی بات میں اعلیٰ درجے کی سادگی بھی جھلکتی ہے کیونکہ وہ ذہناً ، روایتی فقہ کو دین کے متوازی اہمیت دے رہے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر فقہ میں دینی روح reintroduce کی جا سکتی ہے تو دین کی بنیاد پر از سرِ نو (روایتی فقہ کے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے) نئی فقہ کیوں تخلیق نہیں کی جا سکتی؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ فاضل نقاد اور بقول ان کے عام مسلمان روایتی فقہ کو ہی دین سمجھے بیٹھے ہیں۔ اس سلسلے میں جوہر صاحب کا یہ جملہ ’’ مسئلہ روح و جوہر وغیرہ کا نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ فقہ کے ڈھانچے سے کیسے جان چھڑائی جائے‘‘ ان کے ما فی الضمیر کی چغلی کھا رہا ہے۔ فاضل نقاد کے اس طنزیہ قول ’’لیکن شکر ہے کہ تاریخ نے داخلی روح اور حقیقی جوہر کو ختم کر دیا، اب ہماری ذمہ داری ڈھانچے کی تدفین ہے، کیونکہ یہی ہماری نئی تاریخی ذمہ داری ہے جسے پورا کرنا دینی ذمہ داری سے زیادہ ضروری ہے۔‘‘ کی ہم تصحیح کیے دیتے ہیں کہ انھیں یہ تاریخی ذمہ داری پوری کرنے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ظاہری ڈھانچے کی تدفین تو عرصہ ہوا ہو چکی ہے۔ ظاہری ڈھانچے سے پیچھا چھڑانے سے ہماری مراد ، درحقیقت اس مجاوری سے گلو خلاصی ہے جو اس ظاہری ڈھانچے کی تدفین کے بعد ہنوز جاری ہے۔
۶۔ جوہر صاحب اپنے چھٹے اعتراض میں، مستشرقین کی آڑ لیتے ہوئے تحریفِ قرآن کی کوشش منسوب کررہے ہیں۔ ذرا دیکھیے تو: 
’’...... اور پھر ’’عمومی عمرانی صورتِ حال‘‘ کا کیا مطلب ہے؟اور قرآن کی چھانٹی اس لیے کی جائے کہ وہ اس چیستاں سے مطابقت لیے ہوئے ہو؟ اور باقی قرآن؟ مصنف لفظی ہیر پھیر سے وہی بات کر رہے ہیں جو مغرب کے جدید دانش ور کھل کر کرتے ہیں کہ قرآن کی از سر نو editing ہونی چاہیے۔ ........ نقاب پوش نظریاتی مہرے بھی قرآن مجید کی تدوین جدید کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ جس طرح شارع نے چھانٹی شدہ تاریخ کو قرآن بنا دیا اس طرح امت مسلمہ چھانٹی شدہ قرآن کو ایک بار پھر تاریخ بنا دے۔......... یہاں غور طلب یہ بات ہے کہ اگر قرآن چھانٹی[جس کے لیے جدید لفظ editing ہے۔ نہ جانے مصنف اس سے کیوں احتراز کر رہے ہیں] سے نہیں بچ سکتا تو حدیث کی کیا مجال ہے؟‘‘ (الشریعہ نومبر ۲۰۱۲: ص۴۳، ۴۵)
جوہر صاحب غالباً تجاہلِ عارفانہ سے کام نہیں لے رہے، اس لیے یقیناً انھیں مغالطہ ہوا ہے۔ ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ نزولی ترتیب کے لحاظ سے دنیا میں قرآن پاک کا ایک بھی مستند نسخہ موجود نہیں ہے اور کبھی موجود نہیں رہا۔ اس لیے اس وقت ہمارے پاس موجود قرآن مجید نزولی ترتیب کے مطابق نہیں ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اگر اللہ رب العزت کو حتمی ترتیب(موجودہ ترتیب) ہی مقصود تھی تو قرآن اسی ترتیب کے مطابق نازل کیوں نہیں کیا گیا؟ یا پھر نزولی ترتیب ہی کو باقی کیوں نہیں رکھا گیا؟کیا یہ سوال اٹھانا جرم ہو گیا؟ اور اس کا مطلب یہ ہو گیا کہ ہم قرآن مجید کی editing کے خواہاں ہیں؟ بھائی میرے! ! ترتیب بدلنے کو اگر آپ editing کا نام دے رہے ہیں تو یہ ہم نے تو نہیں کی، البتہ اس میں مضمر حکمت تلاش کرنے کی طالب علمانہ کوشش ضرور کی ہے، جو آپ جیسوں کے نزدیک جسارت ٹھہر گئی ہے۔ اس جسارت پر پھر سے ایک نظر ڈالیے اور ہمارے مضمون کے باقی ماندہ مندرجات ذہن میں رکھتے ہوئے ہماری راہنمائی فرمائیے کہ ہم کہاں editing کے مرتکب ہوئے ہیں: 
’’اس بحث کا ایک قابلِ اعتنا پہلو یہ ہے کہ قرآن مجید کی ترتیبِ نزولی کے بدل دیے جانے پر صورتِ حال بدل جاتی ہے۔ اسوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کی ترتیبِ نزولی کے باہمی تعلق کی حیثیت ’’تاریخ‘‘ کی ہو جاتی ہے۔ اب اس مخصوص عمرانی صورتِ حال کی حامل تاریخ میں سے نچوڑی عمل کے ذریعے سے حاصل شدہ تاریخ (gist of history)، جو کسی بھی عمرانی صورتِ حال کے موافق ہو سکے، اصولاً (قرآن کے داخل میں) محفوظ کر لی جانی چاہیے تھی۔ اور اسے محفوظ کر بھی لیا جاتا ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ جب تاریخی چھانٹی کا اطلاق کیا جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں قرآن مجید کی نزولی ترتیب (مخصوص تاریخی تفصیلات اور علائق و قرائن سے اوپر اٹھ کر) بجائے خود چھانٹی شدہ تاریخ کی صورت اختیار کر جاتی ہے۔ جس سے قرآن کی دو حیثیتیں سامنے آتی ہیں:
۱۔ قرآن مجید کی حتمی ترتیب اس کے چھانٹی شدہ تاریخ ہونے پر دلالت کرتی ہے۔
۲۔ یہی حتمی ترتیب کا حامل قرآن لوحِ محفوظ کی زینت ہے۔
قرآن مجید کی پہلی حیثیت ایک اعتبارسے اس امر کی علامت بن جاتی ہے کہ شارع نے تاریخ کی چھانٹی کا عمل قرآن کے داخل میں کر دکھایا ہے، اس لیے قرآن سے باہر خارج (روایات و احادیث وغیرہ) میں بھی تاریخی چھانٹی کا اطلاق، خود انسانوں کو کرنا چاہیے۔‘‘ (الشریعہ ستمبر۲۰۱۲:ص۴۹) 
جوہر صاحب کے درج ذیل اعتراض سے ان کا منشا سامنے آ جاتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
’’اسلام کی نئی تعریف اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اسلام بطور دین کے ہر پہلو کو ازسر نو متعین نہ کر لیا جائے۔ اس کامقصد کسی دینی غایت تک پہنچنا نہیں ہے بلکہ عصری طاقت اور علم کے سامنے معافی تلافی کر کے جان بخشی کرانا ہے۔‘‘ (الشریعہ نومبر ۲۰۱۲: ص۴۳)
ہم گزارش کریں گے کہ اسلام کی نئی تعریف کے لیے اسلام بطور دین کے ہر پہلو کا از سرِ نو تعین بالکل ضروری نہیں ہے، لیکن ان پہلوؤں کا ازسرِ نو تعین انتہائی ناگزیر ہے جو قرآن و سنت کے علاوہ ہیں۔ مسئلہ وہی ہے کہ ہمارے فاضل نقاد قرآن و سنت کے علاوہ باقی ماندہ دینی روایت کو بھی اسی طرح حالتِ استقلال میں دیکھنے کے آرزو مند ہیں جو استقلال قرآن و سنت کو حاصل ہے۔ اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ جب قرآن مجید ایمان والوں سے ایمان لانے کو کہتا ہے اور ایمان میں زیادتی (اضافے) کی بات کرتا ہے تو قرآن و سنت پر ایمان کی ایک موجود حالت کو از سرِ نو دیکھے بغیر کسی نئی اور اعلیٰ حالت تک کیسے پہنچا جا سکتا ہے؟ ہمارے فاضل نقاد کیوں کہ standard disciplines and discourses کے حصار میں ہیں اس لیے انھیں ایمان میں اضافے کا یہ عمل قرآن و سنت کا از سرِ نو تعین دکھائی دیتا ہے۔ اگر موصوف کسی طور اس حصار کو توڑنے میں کام یاب ہو جائیں تو انھیں وہ دینی غایت بھی نظر آ جائے گی جس کا سوال جناب نے مذکور جملے میں اٹھایا ہے اور عصری طاقت و علم کے سامنے معافی تلافی کی نوبت بالکل نہیں آئے گی۔ 
۷۔ ساتویں اعتراض میں، اسلام کی نئی تعریف (کی تلاش کی کوشش) کو مہم جوئی گردانتے ہوئے جوہر صاحب ایک اوچھا وار کرتے ہیں:
’’(اسلام کی نئی تعریف کی)اس مہم جوئی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت و مقام کو نہایت غیر محسوس طریقے سے تبدیل کرنا بھی شامل ہے۔ اسوہ کا نیا مفہوم ملاحظہ ہو:
’’مذکورہ بحث کے بین السطور یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکت کے ’’اسوہ کامل‘‘ ہونے کا ایک درخشندہ پہلو، اپنے دور کی سماجی صورتِ حال اور اس سے منسلک مطالبوں کے مکمل ادارک پر محیط ہے۔‘‘
ذرا دیکھیے کہ مصنف نے ’’درخشندگی‘‘ کہاں ارزانی فرمائی ہے! اور پھر اسوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کی ترتیب نزولی کے باہمی تعلق کی حیثیت ’’تاریخ‘‘ کی ہو جاتی ہے۔‘‘ (الشریعہ نومبر ۲۰۱۲: ص۴۳)
ہمارے ممدوح نے درخشندگی ، ارزانی فرمانے کا طنز تو کر دیا ہے، چلیے طنز کے بعد سہی!! لیکن ایک بار پھر اسے پڑھنے کی زحمت کر لیتے تو انھیں بخوبی علم ہو جاتا کہ ’’ایک درخشندہ پہلو‘‘ کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ درخشندگی کی جس ارزانی کی طرف جناب نے توجہ دلائی ہے وہ بہت عجیب و غریب ہے اور کم از کم ہماری سمجھ سے بالا تر ہے۔ کیا موصوف یہ باور کرانا چاہ رہے ہیں کہ وہ عظیم ہستی (صلی اللہ علیہ وسلم) جو ہر دور کے انسانوں کے لیے اسوہ کامل کی حیثیت رکھتی ہے، اس عظیم ہستی (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اپنے دور کے سماج اور سماجی متقضیات سے کوئی دلچسپی نہیں تھی؟ جوہر صاحب کا ’’اور پھر‘‘ علمی مباحث کی تاریخ میں یاد رکھے جانے کے قابل ہے۔ اس ’’اور پھر‘‘ کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ نہ تو نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کا تعلق زمان و مکان سے تھا اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید کا نزول کسی زمان و مکان میں ہوا۔ موصوف کی منطق مان لی جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کا مکی و مدنی دور، غزوات، معاہدات، وغیرہ وغیرہ تاریخ میں نہ ہونے کے سبب (نعوذ باللہ) مفروضہ قرار پاتے ہیں، جن کی کوئی حقیقت نہیں۔ جوہر صاحب سے ہاتھ جوڑ کر مودبانہ گزارش ہے کہ اسلام اور پیغمبرِ اسلام کو دیو مالائی داستان نہ بنائیں، ...... کہ اسلام اور پیغمبرِ اسلام تاریخی حقیقت ہیں، انھیں تاریخی حقیقت ہی رہنے دیں۔ جہاں تک ہمارے جملے ’’اسوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کی ترتیب نزولی کے باہمی تعلق کی حیثیت ’تاریخ‘ کی ہو جاتی ہے‘‘ کی معنویت کا تعلق ہے، جوہر صاحب مفروضات کے جوہڑ سے باہر نکل آئیں تو وہ ان پر خود بخود عیاں ہو جائے گی۔ 
۸۔ درج ذیل آٹھویں اعتراض میں محمد دین صاحب جوہر ایک لفظ ’’مطابقت‘‘ کی بابت اشکال کا شکار ہوئے ہیں: 
’’خدا خیر کرے۔ نچوڑی ہوئی یا غیر نچوڑی ہوئی، چھانٹی شدہ یا غیر چھانٹی شدہ تاریخ ہمیشہ اپنے جواز کے لیے ’’کسی عمرانی صورتِ حال‘‘ سے ’’مطابقت‘‘ کی بھیک ہی مانگتی ہے، ورنہ وہ تاریخ ہونے کے شرف سے سرفراز نہیں ہو سکتی۔ اللہ قرآن کو اس انجام سے محفوظ رکھے۔ قرآن مجید تاریخی اور عمرانی صورتِ حال پیدا کرتاہے، اس سے مطابقت تلاش نہیں کرتا۔ اگر مصنف اس مطابقت کی کچھ علمی تفصیلات بھی ارشاد فرما دیتے کہ متن قرآن اور صورتِ حال میں یہ کیسے اور کن شرائط پر قائم ہوتی ہے تو ان کا نظریہ واضح ہو جاتا۔‘‘ (الشریعہ نومبر ۲۰۱۲: ص۴۳)
محترم سے گزارش ہے کہ اگر قرآن تاریخی اور عمرانی صورتِ حال پیدا کرتا ہے تو پھر لازمی طور پر مسلمانوں کی موجودہ زبوں حالی کا ذمہ دار قرآن مجید ہی کو قرار دیا جانا چاہیے، ....... کہ وہی اس تاریخی و عمرانی صورتِ حال کو پیدا کر رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ قرآن مجید پر ایک بہتان ہے۔ اس لیے جب ہم قرآن مجید کی عمرانی فعلیت یا عمرانی صورتِ حال سے مطابقت کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد درحقیقت یہ ہے کہ عمرانی صورتِ حال کو کما حقہ سمجھا جائے، اس کے بعد مسائل کے موافق محکم قرآنی آیات سے استدلال کیاجائے، جس کے نتیجے میں وہ تاریخی و عمرانی صورتِ حال پیدا ہو گی جس کی طرف فاضل نقاد نے اشارہ کیا ہے۔ خیال رہے کہ عمرانی صورتِ حال تغٖیر پذیر رہتی ہے، اس لیے اس پر ہر وقت نظر رکھے جانے کی ضرورت ہوتی ہے اور قابلِ فہم بنانے کی بھی۔ اس کے بر عکس قرآن مجید ایک نا قابلِ تغیر حقیقت ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ آج ہماری کچھ کچھ (ذہنی نہیں، وجودی) نظر قرآن مجید پر تو ہے لیکن عصری عمرانی صورتِ حال ہماری گرفت سے کوسوں دور ہے۔ اسی لیے قرآن مجید تاریخی و عمرانی صورتِ حال پیدا نہیں کر رہا(بلکہ اس کا شکار ہو رہا ہے)۔ 
۹۔ محمد دین صاحب جوہر، معاشرے میں رائج فہمِ اسلام کے دفاع میں بہت سنجیدگی سے مورچہ زن ہیں۔ موصوف اپنے نویں اعتراض میں فرماتے ہیں: 
’’انبیا علیہم السلام کی بعثت کے بارے میں نیا عقیدہ ملاحظہ فرمائیں:
’’یعنی بنیادی طور پر صفاتِ امانت و دیانت کی بدولت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کا حق دار ٹھہرایا گیا اور قرآن کو پردہ غیب سے ظہور میں لایا گیا۔‘‘
نبی کی بعث کے اس نئے تاریخی معیار کے مضمرات سے مصنف خود ہی ڈر جاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ’’عام انسانوں کے لیے امانت و دیانت کی اس سطح تک پہنچنا محال ہے۔‘‘ یہ بھی فرما دیتے کہ ان کے تاریخی نظریے کے مطابق کیوں محال ہے؟ ’’ اس لیے عام انسان اپنی دیانت کے بل بوتے پر پردہ غیب سے تو قرآن ظہور میں نہیں لا سکتے۔‘‘ یہ نہیں بتایا کہ کیوں نہیں لا سکتے؟........ ہو سکتا ہے کسی نئے قرآن کی سبیل ممکن ہو جاتی اور سارا ٹنٹا ہی نکل جاتا،...... اس نئی تعریف کی کوشش میں اکابرینِ امت اور علمائے کرام کی عزت بھی جاتی رہی جن پر طعن اس پورے مضمون میں جا بجا بکھرے ہوئے ہیں۔‘‘ (الشریعہ نومبر ۲۰۱۲: ص۴۴)
ہم قطعی طور پر کسی ڈر الجھاؤ کا شکار نہیں ہیں لیکن خود فاضل نقاد اپنی تحریر کے بین السطور کہیں بشریت انبیا سے انکاری معلوم ہوتے ہیں کہ ان (انبیا ؑ )کی انسانوں میں تاریخی موجودگی پر بے معنی حیل و حجت کرتے ہیں اور کہیں عام انسانوں کو مقامِ نبوت پر کمندیں ڈالتے دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔ حالاں کہ بہت صاف اور واضح بات ہے کہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم صرف نور نہیں بلکہ بشر بھی ہیں۔ جب کہ عام انسان بشر ہونے کے سبب، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کے توسط سے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقامِ نور کا عرفان حاصل کرتے ہیں، خود نور نہیں ہو سکتے۔ واقعہ یہ ہے کہ فاضل نقاد کو اصل دکھ، اکابرینِ امت اور علمائے کرام کی عزت کی پامالی کا ہے جو بقول ان کے ہمارے مضمون میں جا بجا بکھری ہوئی ہے۔ ہم عرض کریں گے موصوف اپنے مضمون کے بین السطور، اکابرینِ امت کو جس مقام پر سرفراز کرنا چاہ رہے ہیں وہ ہمارے نزدیک اس لیے قابلِ گرفت ہے کہ قرآن مجید نے تاریخی واقعات کے بیان کے ضمن میں کئی انبیا کرام علیہم السلام کے نام تک نہیں لیے۔ جس کے پیچھے (ہمارے نزدیک) حکمت یہ پوشیدہ ہے کہ تاریخ کی تمام تر تفصیلات کا جاننا اور ان سے استفادہ کرنا ہر دور کے انسانوں کے لیے ضروری نہیں ہے۔ اسی حکمت کی اتباع میں ہم نے گزارش کی تھی کہ ہمیں بھی اپنی تاریخ کے اکابرین (اور مقابرین) کی چھانٹی کر لینی چاہیے۔ اس چھانٹی سے ان کی عزت و عصمت پر کوئی حرف نہیں آئے گا کہ قرآن مجید میں جن انبیا کے نام بھی نہیں آئے ان کی رسالت، وقار، احترام اور تکریم میں ذراہ برابر فرق نہیں آیا۔ پھر جس طرح اکابر (اور مقابر) پرستی کے جنون میں مبتلا ہو کر ہم خوامخواہ کی تاریخی جزئیات میں الجھ گئے ہیں، اس سلسلے میں بھی قصص القرآن کے اسالیب ہماری راہنمائی کرتے ہیں ....... کہ انبیا کرام علیھم السلام کے مذکور قصوں میں ان کی زندگیوں کی تمام تر تفصیلات کا احاطہ نہیں کیا گیا۔ اب اگر ہم نے یہ کہہ دیا کہ اس قرآنی اسلوب سے سیکھا جاناچاہیے تو کیا یہ کہنا جرم ہو گیا؟
۱۰۔ جوہر صاحب دسویں اعتراض میں فرماتے ہیں:
’’نفاذ، اطلاق، تطبیق وغیرہ کی دل دادگی بری نہیں، لیکن قرآن کو خلاصہ تاریخ کہہ کر اس کو عمرانی نظریہ قرار دینا بہت سنگین طور پر محل نظر ہے۔ یہاں یہ امر واضح ہونا چاہیے کہ یہاں تاریخ سے کیا مراد ہے؟ کیا انسان کی معلومہ تاریخ ہے جس کا شارع نے خلاصہ بنایا ہے؟ مستشرقین اور جدید مغرب کے اسکالر تو یہ الزام رکھتے ہیں کہ قرآن توریت اور بائبل کا خلاصہ ہے۔ چلو، اس الزام سے رست گاری کی کوئی سبیل نظر آئی اور اب یہ تاریخ کا خلاصہ ہو گیا۔ لیکن قرآن کے لیے یہ نیا اعزاز تو پرانے الزام سے بھی بدتر ہے۔
’’اس لیے ترتیب نزولی کا حامل قرآن تاریخ کے نچوڑ کے جلو میں عصری مطالبات کی تکمیل کرتا دکھائی دیتا ہے۔ یعنی ایک لحاظ سے نزول قرآن کا یہ خاص پہلو صراحت کرتا ہے کہ تاریخ نہیں بلکہ چھانٹی شدہ تاریخ selected history سے ایک حد تک مدد لے کر عصری مسائل سے نمٹا جا سکتا ہے۔‘‘
اس اپروچ کے بعد قرآن کی ضرورت ویسے ہی ختم ہو جاتی ہے، کیونکہ فاعل کے لیے قرآن اور عصری مسائل اب ایک ہی سطح کی چیز ہیں۔ عصری مسائل تو خود تاریخ کی پیداوار ہیں، اور تاریخی تجربے سے انسان ان کے حل میں لگا رہتا ہے۔ اسے اس کے حال پر چھوڑنے میں کیا مضائقہ ہے؟ اگر حق اور تاریخی تجربہ ایک ہی سطح کی چیزیں ہیں تو ہمیں اپنے دین کی خیر منانی چاہیے۔‘‘(الشریعہ نومبر ۲۰۱۲: ص۴۵)
فاضل نقاد کبھی قرآن کی editing کا الزام عائد کرتے ہیں اور کبھی قرآن کو خلاصہ تاریخ قراردینے کی بات ہمارے سر منڈھ دیتے ہیں۔ محترم کے اس نوع کے اعتراضات سے، فیضؔ یاد آ گئے:
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا 
وہ بات ان کو بہت نا گوار گزری ہے
محترم!! قرآن کو خلاصہ تاریخ کہاں کہا گیا ہے؟ کیا محترم کے نزدیک ’’تاریخ کے نچوڑ کے جلو میں‘‘ اور ’’خلاصہ قرآن‘‘ کہنے میں کوئی فرق نہیں ہے؟ جوہر صاحب کی نیک نیتی پر کوئی شک کیے بغیر عرض کیے دیتے ہیں کہ غالباً وہ ’’چھانٹی شدہ تاریخ(selected history)‘‘ کے الفاظ سے اشکال کا شکار ہوئے ہیں۔ ذرا ہمارے مضمون کے الفاظ دیکھیے ’’ترتیبِ نزولی کا حامل قرآن تاریخ کے نچوڑ کے جلو میں عصری مطالبات کی تکمیل کرتا دکھائی دیتا ہے‘‘ اور اب بتایے کہ جب قرآن مجید نازل ہو رہا تھا تو کیا ما قبل تاریخ میں سے چنیدہ واقعات پیش نہیں کر رہا تھا؟ آخر قصص القرآن کس زمرے میں آتے ہیں؟ چلیے، تفہیم و ابلاغ کی خاطر یوں کہے دیتے ہیں کہ’’ترتیب نزولی کا حامل قرآن قصص القرآن کے جلو میں عصری مطالبات کی تکمیل کرتا دکھائی دیتا ہے۔‘‘ اگر فاضل نقاد قصص القرآن کی ایسی معنویت سے انکاری ہیں تو ان کے نزدیک یہ بچوں کو سنانے کے لیے محض قصے کہانیاں ہیں۔ پھر ہم نے کہا تھا کہ ’’یعنی ایک لحاظ سے نزول قرآن کا یہ خاص پہلو صراحت کرتا ہے کہ تاریخ نہیں بلکہ چھانٹی شدہ تاریخ selected history سے ایک حد تک مدد لے کر عصری مسائل سے نمٹا جا سکتا ہے۔‘‘ ان الفاظ پر بھی غور کرنے کی زحمت کر لی جائے تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ تاریخ کی بات نہیں ہو رہی بلکہ چھانٹی شدہ تاریخ(بقول محترم نقاد، خلاصہ تاریخ) کی بات ہو رہی ہے جو کہ ما قبل تاریخ کا جوہر ہے، اور پھر اس سے بھی ’’ایک حد تک‘‘ مدد لے عصری مسائل سے نمٹنے کی بات ہو رہی ہے۔ کیا جوہر صاحب یہ خیال کرتے ہیں کہ قرآن کے قصص نے نزولِ قرآن کے دوران میں، مکی مدنی مسائل و معاملات کے حل میں ’’ایک حد تک‘‘ بھی مدد نہیں دی؟ کیا ان کے نزدیک اس اپروچ کے بعد واقعی قرآن کی ضرورت ویسے ہی ختم ہو جاتی ہے؟
جوہر صاحب نے یہ بھی خوب فرمایا ہے کہ ’’ عصری مسائل تو خود تاریخ کی پیداوار ہیں، اور تاریخی تجربے سے انسان ان کے حل میں لگا رہتا ہے۔ اسے اس کے حال پر چھوڑنے میں کیا مضائقہ ہے؟‘‘۔ بھلے آدمی! مضائقہ ہے۔ کیوں کہ نہ تو عصری مسائل، صریحاً تاریخ کی پیداوار ہیں اور نہ ہی ہر تجربہ ’’تاریخی تجربہ‘‘ بن پاتا ہے۔ قرآن مجید نے قصص القرآن وغیرہ کے ضمن میں، کسی تجربے کے تاریخی تجربے میں ڈھلنے کی شرائط و خصوصیات بیان کر دی ہیں۔ اس لیے جوہر صاحب کو اپنے دین کی خیر منانے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے کہ تاریخی تجربے کی قرآنی معنویت سے حق اور تاریخی تجربہ تقریباً ایک ہی سطح کی چیزیں ہو جاتی ہیں۔ 
۱۱۔ محمد دین صاحب جوہر کا گیارہواں اعتراض ملاحظہ کیجیے:
’’مغرب میں ظاہر ہونے والا جدید شعور استعمار آفریدہ جدید شعور کا پدری شعور ہے۔ ’پتا پہ گھوڑا‘ کے مصداق یہ دیسی جدید شعور اس کے کچھ ثقافتی خواص کا حامل ضرور ہے لیکن اس کا وارث شعور نہیں ہے۔ یہ شعور کسی ایسے مسئلے سے نبرد آزما ہی نہیں ہوا جس کا سامنا تہذیب مغرب میں ظاہر ہونے والے جدید شعور کو ہوا۔ ....... reason اس وقت تک اپنے کام کا آغاز نہیں کر سکتی جب تک انسانی شعور کی یہ طلب (intellect) پوری نہ ہو جائے۔ یہ طلب وہ خدا سے پوری کرے یا کسی بت سے، اس کے بغیر وہ اپنے کام کا آغاز کر ہی نہیں سکتا۔ ..... جدید شعور ماورا کے سوال ہی کو ختم کرنا چاہتا ہے۔‘‘(الشریعہ نومبر۲۰۱۲: ص۴۶)
جوہر صاحب ایک ہی سانس میں کئی متضاد باتیں ارشاد فرما رہے ہیں۔ ایک طرف ’’استعمار آفریدہ جدید شعور‘‘ کو مغرب میں ظاہر ہونے والے جدید شعور کے کچھ ثقافتی خواص کا حامل قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف ’پتا پہ گھوڑا‘ کے مصداق اصرار کرتے ہیں کہ استعمار آفریدہ جدید دیسی شعور کو کسی بھی ایسے مسئلے سے نبرد آما نہیں ہونا پڑا، جس کا سامنا تہذیب مغرب میں ظاہر ہونے والے جدید شعور کو ہوا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دیسی شعور میں جدید مغربی شعور کے کچھ ثقافتی خواص کیسے در آئے؟ ظاہر ہے ’’کچھ ثقافتی خواص‘‘ لازمی طور پر اپنے پیچھے ’’کچھ مماثل مسائل‘‘ بھی رکھتے ہوں گے؟ کیا خیال ہے؟ اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ عالم گیریت کی موجودہ فضا میں ’’کچھ ثقافتی خواص‘‘ اب زیادہ دیر تک ’’کچھ‘‘ نہیں رہیں گے اس لیے مماثل مسائل بھی ’’کچھ‘‘ کی تنگ نائے عبور کر لیں گے۔ رہی یہ بات کہ مغربی شعور intellect کی فطری طلب، بتوں سے پوری کر رہا ہے تو خیر سے ’’قدیم دیسی شعور‘‘ بھی تو بتوں سے ہی امیدیں لگائے بیٹھا ہے۔ قدیم دیسی شعور کے پروردہ معاشرے میں بد دیانتی اور بے حیائی کا جو طوفانِ بد تمیزی برپا ہے کیا یہ ثابت کرنے کو کافی نہیں کہ اس کے ہاں ’’ماورا‘‘ کا سوال عملی طور پر گول ہو چکا ہے؟ 
۱۲۔ جوہر صاحب کا بارہواں اعتراض:
’’اس تناظر کا دعوی ہے کہ مذہب بھی تاریخ اور ثقافتی حالات یعنی صورتِ حال ہی کی پیداوار ہے، ماورا وغیرہ سب لغویات اور توہمات ہیں۔ دیسی اور کم جرات آزما جدید شعور کے نزدیک ’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ [تاریخی] صورتِ حال موجود نہ ہوتی تو قرآن مجید کا نزول نہ ہوتا۔‘‘ (بریکٹ میں لفظ راقم کا اضافہ ہے) نعوذ باللہ، اگر اللہ بھی اس تاریخ کے سامنے مجبور ہے تو ہماری کیا مجال کہ ہم نچوڑی تاریخ سے رہنمائی حاصل نہ کریں؟‘‘(الشریعہ نومبر۲۰۱۲:ص۴۶) 
جوہر صاحب کی بریکٹی اضافت سے ان کا منشا واضح ہوا ہے۔ ان کے خیال کے مطابق تاریخی صورتِ حال، کوئی بہت اہم صورتِ حال ہے جس کی عدم موجودگی میں (بقول ہمارے) قرآن نازل ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ لیکن ہماری مراد مخصوص صورتِ حال نہیں تھی (جسے جوہر صاحب تاریخی قرار دے رہے ہیں)، بلکہ اس سے ہماری غرض انسانوں کے باہمی میل ملاپ سے تشکیل پائی (کوئی بھی) معاشرتی صورت حال تھی۔ کیونکہ انسانوں کی غیر موجودگی (معاشرتی صورت حال کی عدم موجودگی) میں نزول قرآن کا جواز نہیں رہتا۔ کیا قرآن خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کی تصدیق نہیں کرتا؟ کیا قرآن نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم پر، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک معاشرے (انسانوں) میں موجودگی کے دوران میں نازل نہیں ہوا؟ ....... تو کیا قرآن (شان نزول کے بغیر) مجرد حالت میں نازل ہوا ؟ واقعہ یہ ہے کہ قرآن مجید کے بتدریج نزول کے پیچھے بھی یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ یہ ایک زندہ (تغیر پذیر) معاشرتی صورت حال کو address کرتے ہوئے ۲۳ برسوں کے دوران میں نازل ہوا۔ اس لیے جوہر صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ تاریخ کے سامنے مجبور نہیں ہے لیکن اس کی حکمتِ بالغہ، انسانی صورتِ حال کاپورا لحاظ رکھتی ہے،....... کہ قرآن، بنیادی طور پر انسانوں کی ہدایت کے لیے ہی نازل کیا گیا ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کو تاریخ کے سامنے طاقت ور دکھلانے کے لیے۔ اگر اللہ تعالیٰ کو تاریخ کے مقابل طاقت ور دکھانا ہی مقصد ہوتا تو نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے ہجرت نہ کرنی پڑتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اصحاب کی جماعت کھڑی نہ کرتے، بدر و خیبر کے معرکے برپا نہ کرتے۔ مسلمانوں کو غزوہ احد میں عارضی شکست نہ ہوتی، ان کا اتنا جانی نقصان نہ ہوتا، جنگ جمل نہ ہوتی، جنگ صفین سے بچاؤ کی کوئی صورت نکل آتی، اور واقعہ کربلا ہر گز رونما نہ ہوتا۔ 
اسی نکتے کے ضمن میں فاضل نقاد کا کہنا ہے :
’’ہم بات کو غلط رنگ نہیں دیتے، لیکن اب تو صاف ظاہر ہے کہ ’’متن قرآن سے کہیں بڑھ کر صورت حال اہم ہو جاتی ہے۔‘‘ یعنی تاریخ کی اہمیت اول ہے، وحی کی حیثیت ثانوی ہے۔‘‘(الشریعہ نومبر۲۰۱۲: ص۴۶) 
جوہر صاحب کا فرمایا ہوا چونکہ مستند ہے اس لیے وہ بات کو غلط رنگ تو بالکل نہیں دے رہے، البتہ اول و ثانی کے الفاظ سے سنسنی ضرور پیدا کر رہے ہیں۔ محترم کی خدمت میں عرض ہے کہ قرآن جب یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی حالت کبھی نہیں بدلی جو آپ اپنی حالت نہیں بدلتے، اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا آپ اپنی حالت نہ بدلنا، ایک صورت حال ظاہر نہیں کرتا؟ تو کیا یہاں [نعوذ باللہ] اللہ تعالیٰ مجبور و بے بس ہے؟ 
جوہر صاحب رقم طراز ہیں:
’’پھر وہ فرماتے ہیں کہ ’’متن قرآن نہیں، بلکہ حقیقت میں صورت حال کی اس مبنی بر صداقت تفہیم نے‘‘ سماجی صورت حال کو تبدیل کر دیا۔یہاں متن قرآن کی تفہیم غیر اہم ہو گئی۔ اہم تر یہ ہے کہ قرآن بھی اپنی معنویت ’’صورتِ حال کی مبنی بر صداقت تفہیم‘‘ سے اخذ کرتا ہے جو اس وقت کا شعور اپنی صلاحیت سے تاریخ سے نچوڑتا ہے۔‘‘(الشریعہ نومبر۲۰۱۲: ص۴۶)
فاضل نقاد سے گزارش ہے کہ اگر متن سے سماجی صورتِ حال میں بدلاؤ سبھاؤ آ جاتا ہے تو فی زمانہ متن تو موجود ہے، آخر تبدیلی کیوں رونما نہیں ہو رہی؟ کیا گڑبڑ (نعوذ باللہ) متن میں ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ آج بھی متن کا فی نفسہٖ فہم کسی نہ کسی درجے میں موجود ہے لیکن صورتِ حال سے میل نہ کھانے کے باعث یہ فہم، مطلوب سماجی صورتِ حال پیدا نہیں کر رہا۔ اس لیے ’’صورتِ حال کی واقعیت‘‘ پر بہت گہری نظر ناگزیر ہو جاتی ہے تاکہ متن کا فہم نہ صرف بجائے خود نئی معنویت سمیت جلوہ گر ہو بلکہ نئی عمرانی صورتِ حال کی راہ بھی ہم وار کر سکے۔ 
اس نکتے کے ذیل میں جوہر صاحب نے عارفانہ طرزِ تکلم اختیار کیا ہے، ملاحظہ کیجیے:
’’........ صورتِ حال انسان کا مسئلہ ہے، وحی کامسئلہ نہیں ہے۔ جس طرح صورتِ حال انسان کو روند ڈالتی ہے، اسی طرح وحی اللہ کے رسول میں مجسم ہو کر تاریخی صورتِ حال کو ادھیڑ دیتی ہے اور نتیجتاً پیدا ہونے والی صورتِ حال ہرگز ہرگز مکرر ہرگز تاریخی نہیں ہوتی کیونکہ اس کی پیدائش کے اسباب تاریخی نہیں ہوتے، ماورائی ہوتے ہیں۔ اگر وحی متن بن رہی ہے تو ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک میں مجسم قرآن بن کر ارضی نمود میں ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جہاں تاریخ اپنی صورتِ حال کا کشکول لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حاضر ہے۔ ........۔ (الشریعہ نومبر۲۰۱۲: ص۴۷)
جوہر صاحب اس تضاد بیانی کی وضاحت فرما دیں کہ اگر صورتِ حال وحی کامسئلہ نہیں ہے تو پھر وحی اللہ کے رسول میں مجسم ہو کر تاریخی صورتِ حال کو ’’کیوں‘‘ ادھیڑ دیتی ہے؟ کوئی اور کام کیوں نہیں کرتی؟ رہی بات نتیجتاً پیدا ہونے والی تاریخی صور تِ حال کی؟؟ تو ان معنوں میں ہم نے کہیں بھی اسے تاریخی نہیں کہا، جو معانی جوہر صاحب اسے پہنا رہے ہیں۔ البتہ ہم نے یہ ضرور عرض کیا تھا کہ قرآن مجید کی نزولی ترتیب کے بدل دیے جانے کے بعد، اسوہ بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کی ترتیب نزولی کے باہمی تعلق کی حیثیت ’’تاریخ‘‘ کی ہو جاتی ہے۔ 
جوہر صاحب اس داخلی تضاد کی بھی وضاحت فرما دیں کہ وحی متن بن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک میں مجسم قرآن بن کر ارضی نمود میں ہے تو ایک ہی بار میں مکمل صورت میں نازل کیوں نہیں کر دی گئی؟ (اگر اس کا تعلق صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک میں مجسم ہو کر ارضی نمود میں ڈھلنے سے ہے)۔ آخر اس میں کیا مضائقہ تھا کہ وحی ایک ہی بار میں مکمل صورت میں نازل کر دی جاتی اور اس کے بعد، تاریخ وقتاً فوقتاً صورتِ حال کے مطابق کشکول لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حاضر ہوتی رہتی؟ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کیونکہ صورتِ حال وحی کا بھی مسئلہ ہے، اس لیے متن کی تنزیل لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتِ حال کو بھی پیشِ نظر رکھ کر کی گئی۔ تاریخ، صورتِ حال کا کشکول لے کر ایک لمحہ نہیں بلکہ ۲۳ برس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حاضر رہی۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذاتی اور بشری حیثیت میں صورتِ حال کا جواب نہیں دیتے رہے بلکہ جو جواب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچایا گیا وہی جواب آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے پہنچاتے رہے۔ 
۱۳۔ جوہر صاحب تیرہویں اعتراض میں فرماتے ہیں:
’’یہ کلی تفہیم (۱) صداقت پر مبنی ہونی چاہیے، (۲)غیر جانب دار ہونی چاہیے، (۳)بالائے تعصب ہونی چاہیے، اور(۴)کلی ہونی چاہیے۔ اگر یہ مضمون علمی ہوتا تو مصنف اخلاقی شرائط گنوانے کے بجائے اس تفہیم کی علمی شرائط بیان فرماتے۔‘‘(الشریعہ نومبر۲۰۱۲: ص۴۸)
جناب کی خدمت میں عرض ہے کہ علم، اخلاق کے بغیر علمِ محض ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں علمِ محض کے بجائے علمِ نافع کے حصول کی ترغیب دی گئی ہے اور علم، اخلاقی دلالتوں کے بغیر نافع کی سرحدوں میں داخل نہیں ہوتا۔ 
اسی نکتے کے ذیل میں موصوف لکھتے ہیں:
’’پھر ان شرائط کے ساتھ ہونے والی تفہیم تو انسانی نہیں ہو سکتی، (نعوذ باللہ) یہ تو اللہ ہی کر سکتا ہے۔ اور اگر یہ اللہ ہی نے کرنی ہے تو اسے تو کسی تفہیم کی ضرورت نہیں ہے، اگر ہے تو پھر وہ اللہ نہیں ہو سکتا۔‘‘ (الشریعہ نومبر۲۰۱۲:ص۴۸) 
جوہر صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ نزول کے وقت (اول درجے میں) یہ خدائی تفہیم ہی تھی۔ انھیں یہ اشکال، وجودی باری تعالیٰ کے صرف تنزیہی پہلو کو پیشِ نظر رکھنے سے ہوا ہے۔ تنزیہی پہلو اپنی انتہا میں (ذاتِ باری تعالیٰ کے ماسوا) جملہ حیات کے ساتھ خدائی تعلق کی نفی کرتا ہے، جس کی وجہ سے انسانی معاملات سے ’’ایک لاتعلق خدا‘‘ کا تصور پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے ذاتِ باری تعالیٰ کی ایسی پہچان، جو انسان اور خدا میں قرب و تعلق پیدا کر سکے، تشبیہی پہلو کی طرف لے جاتی ہے۔ اگر جوہر صاحب تنزیہ و تشبیہ کے امتزاج سے زیرِ بحث نکتے پر غور فرمائیں تو ان کا اشکال دور ہو جائے گا۔
فاضل نقاد نے اپنے تئیں بات کو قابلِ فہم بنانے کی غرض سے فرمایا ہے:
’’...... دوسرے فقرے میں صرف دو لفظی تصرف سے بات مزید صاف ہو جاتی ہے:’’اس لیے متن قرآن نہیں بلکہ حقیقت میں صورتِ حال کی اس مبنی بر صداقت تفہیم نے اس سماج کو قرآن پاک کی وہ معنویت عطا کی جس نے بعد ازاں اس صورتِ حال کو اپنے قابو میں کر لیا اور اسے بدل کر رکھ دیا۔‘‘ یہ اصل فقرہ ہے۔ اب دو لفظ تبدیل کرنے سے اصل بات سامنے آ جاتی ہے:’’اس لیے متن قرآن نہیں بلکہ حقیقت میں صورتِ حال کی اس مبنی بر صداقت تفہیم نے اس سماج کو [اور] قرآن پاک [کو]وہ معنویت عطا کی جس نے بعد ازاں اس صورتِ حال کو اپنے قابو میں کر لیا اور اسے بدل کر رکھ دیا۔‘‘ مسئلہ صرف یہ ہے کہ تاریخ کو وحی پر اور ذہن کو متن قرآن پر غالب رکھا جائے۔ یہ ایک ہی مسئلے کے دو رخ ہیں۔ سب لفظی کھینچ اور معنوی تان صرف اسی لیے ہے۔‘‘(الشریعہ نومبر۲۰۱۲: ص۴۸)
اس دو لفظی تصرف پر ہم بس یہی عرض کریں گے کہ جوہر صاحب نے ’’اور،کو‘‘ سے وہ کام لیا ہے جو کسی صاحب نے ایک نقطے سے لیا تھا اور محرم کو مجرم بنا ڈالا تھا۔ 
۱۴۔ محمد دین جوہر چودہویں اعتراض میں کہتے ہیں:
’’..... اس سارے کھلواڑ کی ضرورت آخر کیوں پڑتی ہے؟ غایت یہ ہے کہ مثلاً دیانت، امانت اور حیا جیسی اصطلاحات کی دینی معنویت کو anestheize اس لیے کیا گیا تاکہ اصل مقصد حاصل ہو سکے جو یہ ہے کہ:
’’سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حیا کے مذکور معنی میں وہ لوگ[یعنی اہلِ مغرب] با حیا نہیں ہیں؟ اور نتیجتاً دیانت دار نہیں ہیں؟‘‘
....... مطلب یہ ہے کہ ’مذکور معنی‘ میں یہی لوگ باحیا اور دیانت دار ہیں، کیونکہ مذکور معنی کی تلاش اسی مقصد ہی کے لیے تھی۔ اور ’مذکورمعنی‘ میں بیچارے مسلمان تو ہیں ہی بے حیا، بد دیانت اور ......۔‘‘(الشریعہ نومبر۲۰۱۲:ص۴۹)
جوہر صاحب کی آدھی بات درست ہے۔ جی ہاں! مذکور معنی میں مسلمان بے حیا اور بد دیانت ہیں۔ اس سلسلے میں ہم نے مضمون میں ایک دو مثالیں بھی پیش کی تھیں، لیکن جوہر صاحب پھر بھی ’مذکور معنی‘ کے بجائے ’اپنے معنی‘ پہناتے ہوئے بات کو غلط رخ پر لے گئے ہیں۔ جہاں تک دینی اصطلاحات کے استعمال کے پیچھے چھپے ’’اصل مقصد‘‘ کا تعلق ہے، تو موصوف اس لیے الزام لگانے سے نہیں بچ سکے کہ standard disciplines and discourses میں ہی ہر بات کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 
فاضل نقاد نہایت درد مندی سے رقم طراز ہیں:
’’وحی کی ہدایت کا فوکس اور مخاطب غالب طور پر انفس انسانی ہے۔ نظری علوم ہر تہذیب کے بنیادی اور اساسی تصور حیات کے ملازم ہوتے ہیں۔ ...... نظری علوم کی عدم موجودگی میں ہم اپنے تاریخی تجربے اور روز کے مشاہدے کی درست تعبیر پر بھی قادر نہیں رہے۔ اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ اسلام مغرب سے تہذیبی عینیت اور وجودی مفاہمت پیدا کر چکا ہے اور ہم اپنی مزاحمت کو اپنے انفس میں بھی جاری رکھنے کے وسائل سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس منظر نامے میں ضروری ہے کہ دین کا نئے علوم کی رو سے معائنہ کرنے سے پہلے دین کی رو سے نئے علوم کا محاکمہ کیا جائے۔‘‘(الشریعہ نومبر۲۰۱۲:ص۵۰)
جوہر صاحب ذرا غور فرما لیں کہ جہاں وحی کو چوم چاٹ کے بہت احترام سے الگ رکھ دینے کا رواج جڑ پکڑ لے، کیا وہاں کوئی ایسی دینی روح موجود ہو سکتی ہے جس کے توسط سے نئے علوم کا محاکمہ کیا جا سکے؟ جناب کے فرمان:’’ اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ اسلام مغرب سے تہذیبی عینیت اور وجودی مفاہمت پیدا کر چکا ہے اور ہم اپنی مزاحمت کو اپنے انفس میں بھی جاری رکھنے کے وسائل سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔‘‘ کا کیا مطلب برآمد ہوتا ہے؟ اگر وحی کی ہدایت کا فوکس غالب طور پر انفس انسانی ہے ،...... تو پھر وحی تو موجود ہے، اس کی موجودگی میں کن وسائل سے محروم ہوا جا رہا ہے؟ کیا جناب کا یہ نکتہ سابقہ نکات کی نفی نہیں کر رہا؟
اپنے تنقیدی مضمون کے آخری پیراگراف میں جوہر صاحب نے بعض مباحث کی جانب توجہ دلائی ہے۔ ان مباحث کے سرسری جائزے کے لیے بھی کئی صفحات درکار ہیں۔ ان کی اہمیت کے باوجود ہمارے لیے ممکن نہیں ہے کہ سرِ دست ان کا تفصیلی تجزیہ پیش کر سکیں۔ آخر میں ہم جوہر صاحب کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ انھوں نے ہمارے مضمون پر بے لاگ تنقیدی رائے کا اظہار فرمایا۔ ان کے اظہاریے میں دانستہ و نادانستہ کہیں کثافت در بھی آئی ہے تو پھر بھی لطافت لیے ہوئے ہے۔ امید ہے کثافت سے بھر پور اس جوابی اظہاریے کو وہ بھی لطافت پر محمول کریں گے۔

’’مقالاتِ جاوید‘‘ پر ایک نظر

ڈاکٹر محمد شہباز منج

فرزند اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال ملک کے معروف دانشور اور علمی وادبی حلقوں میں جانا پہچانا اور نمایاں نام ہیں۔ مختلف موضوعات پر آپ کی متعدد کتب اور مقالات شائع ہو چکے ہیں۔ آپ کا عشق ہے کہ پاکستان ایسا دکھائی دے جیسا اقبال اور قائد اعظم کا خواب تھا، اسلام کی نشأۃ ثانیہ ہو ،ملتِ اسلامیہ کی عظمتِ رفتہ بحال ہو،فکر اقبال سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے اہل اسلام جدید مغرب کے پیش کردہ سیاسی و معاشی افکار سے مرعوب ہونے کی بجائے قرآنی سیاسی و معاشی تصورات کو اپنائیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ قدامت پرستی اور تقلید سے نجات حاصل کریں۔ جدید مغربی تہذیب کی علمی و سائنسی ترقی اسلامی تہذیب کی علمی و سائنسی ترقی کا تسلسل ہے۔ لہٰذا اس کے اچھے پہلو اپنانے میں نہ صرف یہ کہ کو ئی حرج نہیں بلکہ اپنی عظمتِ رفتہ کی بحالی کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے۔ اجتہاد اور فکر و فقہِ اسلامی کی تشکیلِ نو وقت کا ایسا تقاضا ہے جس سے صرفِ نظر اسلام اور اہل اسلام کی خودی کی موت ہے۔ ڈاکٹر صاحب اپنے بعض افکار کی بناپر روایت پسند طبقے اور بعض افکار کی بناپر ترقی پسند طبقے کا ہدفِ تنقید بھی بنے ہیں۔ ہر صاحبِ علم کو آپ کے افکار سے اختلاف کا حق ہے، لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ آپ اسلام، اہل اسلام،پاکستان اور اہل پاکستان کا گہرا درد رکھنے والے اور ان کے سچے بہی خواہ ہیں۔
یہاں ہمیں جاوید اقبا ل کی جس تحریر پر ایک نگاہ ڈالنا ہے، وہ محمد سہیل عمر اور طاہر حمید تنولی کی مرتب کردہ کتاب ’’مقالاتِ جاوید‘‘ہے۔ اقبال اکادمی لاہور کی طرف سے شائع کردہ ۴۳۲ صفحات پر مشتمل یہ کتاب ڈاکٹر جاوید اقبال کے مختلف اوقات میں مختلف موضوعات پر تحریر کردہ مقالات کا مجموعہ ہے۔یہ چار حصوں میں منقسم ۳۹ مقالات کی حامل ہے۔ پہلا حصہ’’ اسلام کی سیاسی فکر ‘‘کے عنوان سے ہے اور سات مقالات پر مشتمل ہے۔ پہلے مقالے میں مصنف نے ریاست کے اسلامی تصور کو واضح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اسلام میں مقتدرِ اعلیٰ اللہ تعالی کی ذات ہے۔ خلیفہ یا سربراہِِ ریاست امورِ ریاست کو احکام خداوندی کے مطابق مسلمانوں کی مشاورت سے چلانے کا پابند ہے۔ اسلام میں بادشاہت و ملوکیت کی کوئی گنجائش نہیں، بعض لوگوں کا بعض قرآنی آیات سے اس کے حق میں استدلال لایعنی ہے۔ خلیفہ یا سربراہِ ریاست کے انتخاب کا کوئی خاص طریقہ اسلام نے نہیں بتایا، لہٰذا حالات و ضروریات کے مطابق کوئی بھی طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں مصنف سنت نبوی اور طریقۂ خلفائے راشدین سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضورؐ نے اپنے کسی صحابی کو پنا جانشین نامزد نہیں کیااور نہ ہی اس کے تقرر و عزل کا کوئی طریقہ تجویز کیا، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ خلفائے راشدین میں سے ہر ایک کی تقرری مختلف طریق سے عمل میں آئی جس میں حالات کے اختلاف اور سیاسی و سماجی نوعیت کی تبدیلیوں کا دخل حاصل تھا۔ ایک چیز البتہ ناقابلِ انکار ہے کہ خلیفہ کا تقررعوام کی مرضی و حمایت سے ہوتا تھا۔ قوم کو رائے دینے سے محروم نہیں رکھا گیا تھا اورا یک فقیہ کے مطابق کو تو عورت بھی جانشینی کی اہل تھی۔ انتخابِ سربراہ کے کسی خاص طریقے کے نہ ہونے کا ایک واضح ثبوت فقہا کے وہ استدلا لات بھی ہیں جو انہوں نے خلفائے راشدین کے بعد کے ادوار میں ان مختلف تبدیلیوں کوشرعی جواز فراہم کرنے کے لیے پیش کیے جو خلفائے راشدین کے طریق سے ہٹ کر عمل میں آئی تھیں۔ یہاں تک کہ غلبہ واستیلا کے ذریعے حکومت بھی اسلامی نقطہ نظر سے جا ئز تسلیم کر لی گئی، جیسا کہ غزالی ،الماوردی اور شاہ ولی اللہ وغیرہ کے افکار سے واضح ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد خلیفہ کے اختیارات کے منتخب اسمبلی کو منتقل کرنے کا استدلال پیش ہوا اور بالآخر ایساکر دیا گیا۔ بعد ازاں دیگر مسلم ریاستوں میں مجالسِ قانون ساز تشکیل پائیں اور انہیں اسلامی قوانین کے خلاف تصور نہ کیا گیا۔ سربراہ کے اکثریت کی حمایت سے منتخب ہونے اور سیاسی جماعتوں کا تصور بھی اسلام میں موجود ہے۔ بنا بریں اسلام جمہوریت کا مخالف نہیں۔ جمہوریت میں بہت سے نقائص ہو سکتے ہیں، لیکن فی زمانہ کوئی اور طریقِ حکومت اسلامی نقطۂ نظر کے اس سے زیادہ قریب نہیں۔
راقم الحروف یہاں اس استدلال سے اتفاق کرتے ہوئے یہ کہنا چاہے گا کہ جب ہر طرح کی حکومت کو شرعی جواز فراہم ہو سکتا ہے تو جدید جمہوریت کی مخالفت کیسے کی جا سکتی ہے! فقہا کے استدلالات کے طرز پرتوکتاب و سنت اور طریقِ خلفائے راشدین سے جدید مغربی جمہوریت تک بدرجہ اولیٰ جائز ثابت کی جا سکتی ہے کہ مرضئ عوام بہر حا ل غلبہ واستیلا کی نسبت اسلامی نقطہ نظر سے قریب تر ہے،چہ جائیکہ جمہوریت کے اس تصور پرشرعی تناطر میں چیں بہ جبیں ہواجائے جس میں مغربی جمہوریت کے نقائص سے بچنے پر زور دیا جاتا ہے۔
دوسرے مقالے میں’’ اسلامی ریاست علامہ اقبال کی نگاہ میں‘‘ کے عنوان کے تحت گفتگو ہے۔مصنف واضح کرتے ہیں کہ اقبال کے نزدیک مغربی تہذیب کی ترقی میں مسلمانوں کا حصہ بدیہی ہے۔ لہٰذا اگر مسلمان مغربی تہذیب سے کچھ لیتے ہیں تو یہ اپنے تمدنی ارتقاکو جاری رکھنے کے لیے اپنے ہی علوم سے استفادہ متصور ہو گا۔ تاہم اس سلسلے میں اہل اسلام کو مقلدانہ نہیں بلکہ تنقیدی نگاہ کا حامل ہونا چاہیے۔ اقبال کے نزدیک اسلامی ریاست مغرب کی طرح دین و سیاست کی دوئی پر قائم نہیں ہو سکتی۔ مغرب میں لا دین ریاست کا تصور مادہ و روح کی بنیادی دوئی کے تصور پر استوار ہوا۔ اسلام زندگی کے روحانی ودنیوی دونوں پہلوؤں پر یکساں حاوی ہے، لہٰذا کوئی مسلم ریاست ’’لادین ریاست‘‘ نہیں ہو سکتی۔ تاہم کسی مسلم ریاست میں امورِ دینیہ کے الگ شعبہ کا قیام یورپ میں کلیسا اور ریاست کی ایک دوسرے سے علیحدگی کے مترادف نہیں ۔ 
مذکورہ استدلال عجیب محسوس ہوتا ہے۔ اگر دین وریاست الگ الگ نہیں تو امورِ دینیہ کا الگ شعبہ چہ معنی دارد! اس سے لامحالہ یہ تاثر ابھرتا ہے کہ ریاست کے باقی امور، امورِ دینیہ نہیں ۔ہاں، یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ کوئی شعبہ امورِ حج سے متعلق ہو، کوئی امربالمعروف ونہی عن المنکر سے متعلق، کوئی عدل و قضا سے متعلق ،کوئی مالیات اور کوئی نظم و نسق سے متعلق، و علیٰ ہذاالقیاس۔ یہ ایک انتظامی تقسیم ہوگی اور یہ سارے شعبے ’’دینی شعبے‘‘ ہی ہوں گے۔
اقبال کے خیال میں جمہوریت اسلام کی فطری سادگی کے قریب تر ہے۔ اسے قبول کیا جا چکا ہے اور اس کے تحت بننے والا سربراہِ ریاست خلیفہ و امام کا آئینی بدل ہے۔ انگریز نے۱۸۶۴ء میں منصبِ قضا کا خاتمہ کرکے اسلام کو مسلم عوام کی زندگیوں میں داخل رکھنے کی سبیل ختم کر دی۔ اب ملا کا دخل شروع ہوا جس نے مسلم عوام کو ان نظریات کی لپیٹ میں لے لیا جو اس کی خود ساختہ اسلامی تشریح پر مبنی تھے۔ اقبال کے نزدیک مسلمانوں کے زوال کی تین بڑی وجوہ تھیں : زوال پذیر بادشاہت ،ملائیت اور تصوف۔اقبال نے جدید تجربات کی روشنی میں اجتہاد پر زور دیااور قدیم فقہ پر نظرثانی کی اہمیت اجاگر کی۔ وہ علما میں کچھ ایسے افرادکی موجودگی کے خواہشمند تھے جو میانہ روی (Moderation) شعار کریں اور ’’دوام فی التغیر‘‘ کا فلسفہ ملحوظ خاطر رکھیں ۔لیکن ہوا یہ کہ علما نے انہیں مغرب زدہ سمجھا اور مغرب پرستوں نے رجعت پسند۔ ہمارے ہاں آج تک وہ میانہ روی پیدا نہ ہوسکی جس کے اقبال خواہشمند تھے۔
راقم کے خیال میں مغرب زدوں کے اقبال کورجعت پسند اور روایت پسندوں کے مغرب پرست سمجھنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کی تحریروں میں دونوں طبقاتِ فکر کے لیے مسالہ موجود ہے ۔مجھے اکثر یہ خیال ہوتا ہے کہ اقبال اپنی شاعری میں بالعموم روایت پسند اور راسخ العقیدہ ہیں اور نثری تحریروں میں عموماً جدت پسند۔کبھی کبھی اس موضوع پر کچھ لکھنے کو جی چاہتا ہے، مگر ہنوز ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔
تیسرا مقالہ ’’اقبال اورعصر جدید میں اسلامی ریاست کا تصور‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اس میں مصنف نے اقبال کے خطباتِ مدراس بعنوان: Reconstruction of Religious Thought in Islam کی روشنی میں عصر جدید میں اسلامی ریاست کے تصور پر گفتگوکی ہے ۔اس میں سب سے پہلے ان خطبات کی اہمیت اجاگر کی گئی ہے اور ان پر علما کی تنقید کا ذکر کیا گیا ہے ۔مصنف لکھتے ہیں کہ سید سلیمان ندوی اور مولانا ابوالحسن علی ندوی ایسے علما کا کہنا ہے کہ یہ خطبات شائع نہ ہوتے تو اچھا تھا۔لیکن یہ کہنا بے جا ہے ،حق یہ ہے کہ ان خطبات کی اہمیت غیر معمولی ہے۔یہ اہل اسلام کو زندگی میں ہونے والے تغیر کو ملحوظ رکھتے ہوئے ترقی و عروج کے حصول پر آمادہ کرنے والے ہیں۔فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید اصلاحِ اسلام نہیں،اصلاحِ فکرِ اسلام ہے۔اقبال مسلمانوں کے زوال کی ذمہ دار ملائیت،تصوف اور ملوکیت کو سمجھتے ہیں،چنانچہ مسلمان سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں :اے کشتہ سلطانی و ملائی و پیری،لہٰذا وہ ان تینوں کی اصلاح پر زور دیتے ہیں۔مسلم معاشرے سے متعلق اقبال کے تین تصورات نہایت واضح ہیں۔ایک یہ کہ مسلم معاشرہ رنگ، نسل یا علاقے کے اشتراک کی بجائے اشتراکِ ایمان پر قائم ہو۔دوسرے یہ کہ اسلام کا تصور شوکت کے بغیر ممکن نہیں،یعنی اسلام غلبہ چاہتا ہے، مغلوبیت نہیں ۔تیسرے اس شوکت اور غلبے کا مظہر ،اور وہ ریاست ہے ۔اقبال مسلم معاشرے میں ہمہ پہلو تبدیلی کے آرزو مند تھے ۔خاص طور پر فقہِ اسلامی میں اصلاح کے۔پھر واضح کیا ہے کہ اسلامی ریاست کا اصول انتخاب ہے۔اقبال نے اپنے چھٹے خطبے میں اسلامی ریاست کے اصولوں پر بحث کی ہے ۔وہ جدیدیت کے ضمن میں Innovation کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں اور حضرت عمر کو مسلمانوں میں پہلا Innovator قرار دیتے ہیں جنہوں اسلامی قانون کو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا۔اقبال بدعتِ حسنہ کے نہ صرف قائل تھے بلکہ اسے ضروری سمجھتے تھے اور مسلمانوں پر زور دیتے تھے کہ وہ اس ضمن میں حضرت عمر کی سی ذہنیت پیدا کریں۔ اقبال اتحادِ اسلامی ہی نہیں، اتحادِ انسانی کا تقاضا کرتے ہیں ۔ان کے یہاں رواداری یا روحانی جمہوریت کا تصور ہے ۔ ان کے نزدیک مسلم ریاست میں مسلمان اشتراکِ ایمانی اور غیر مسلم اشتراکِ وطنی کی بنا پر باہم مربوط ہوں گے۔ گویا اشتراکِ ایمانی اور اشتراکِ وطنی اتحا دِانسانیت کی بنیادیں ہیں۔
اقبال کا نظریہ ہے کہ ضرورت پڑنے پر قرآنی احکام کی توسیع یا تحدید کی جا سکتی ہے، جیسا کہ تاریخ میں ہو ا،اور یہ کام اجماع کی شکل میں مسلمانوں کے منتخب نمائندوں کو کرنا چاہیے۔ آگے چل کر واضح کیا ہے کہ سیکولر ریاست دراصل اسلامی ریاست ہے، باقی سب سیکولر ہونے کی جھوٹی دعویدار ہیں۔ سیکولر کا ترجمہ ’’لا دین‘‘ کرنا غلط ہے ۔سیکولر ریاست وہ ہے جس میں لوگوں کو مذہبی آزادی حاصل ہو، مذہب اور نگ ونسل وغیرہ کاکوئی امتیاز نہ ہو ،اور یہ چیزیں صرف اسلامی حکومت یقینی بناتی ہے۔ باقی کسی بھی جگہ دیکھ لیں، کوئی نہ کوئی امتیاز نظر آئے گا۔بنا بریں اگر صحیح معانی میں کوئی آئیڈیل سیکولر ریاست یا روحانی جمہوریت ہو سکتی ہے تو وہ اقبال کی تجویز کردہ جدید اسلامی ریاست ہے۔ معیشت سے متعلق اقبال کا تصور یہ ہے کہ یہ قرآن پر مبنی ہو ،نہ اشتراکی اور نہ سرمایہ دارانہ۔سیاسی گروہ بندیاں حضور کے فوراً بعد وجود میں آگئی تھیں: انصار، مہاجرین،بنوہاشم وغیرہ۔بہر حال اقبال نے جو تصور رِیاست دیا، ہم اس سے کوسوں دور اور دوسری تیسری صدی کے تقاضوں کے اسیر بنے ہوئے ہیں۔ہم نے سیاسی آزادی حاصل کر لی، لیکن ہمارے ذہن آزاد نہیں ہوئے، حالانکہ اقبال اپنے چھٹے خطبے کے آخر میں کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو اپنے آپ کو روحانی طور پر تمام دنیا سے زیادہ آزاد سمجھنا چاہیے کہ آئندہ کوئی وحی نازل نہیں ہونی۔
چوتھا مقالہ’’ اسلامی فلسفۂ سیاست اور اقبال ‘‘کے عنوان سے ہے جس میں مصنف نے واضح کیا ہے کہ حضرت علی کے دور سے شروع ہو کر ایک ہزار سال میں اسلامی فلسفہ سیاست پر جو کچھ لکھاگیا ہے، اس سے چار رجحانات سامنے آئے۔ ایک کے نمائندہ الماوردی ہیں جو وقتی سیاسی صورت حال کے پیش نظر اسلامی نظریۂ سیاست کی وضاحت کرتے اور سیاسی سلطنت اور زبردستی امیر بن جانے والوں کو اسلامی احکام کے نفاذ کی شرط پر شرعی جواز فراہم کرتے ہیں۔ دوسرے رجحان کے نمائندہ الفارابی ہیں جو تخیلی ریاست کا نقشہ پیش کرتے ہیں ۔تیسرے کے ابن باجہ ہیں جو وقتی سیاسی حقیقت سے مایوس وناامید اور متنفر ہو کر اور معاشرے سے قطع تعلق کر کے اسلام کے طریقِ حیات کے مطابق زندگی گزارنے کی تلقین کرتے ہیں۔ چوتھے رجحان کے نمائندہ ابن تیمیہ ہیں جو وقتی سیاسی حقیقت کو حکومت شرعیہ میں منتقل کرنے کی خاطر مسلسل جدو جہد کی ضرورت واہمیت پر زور دیتے ہیں۔اقبال میں یہ چاروں رجحانات پائے جاتے ہیں ۔
پانچواں مقالہ ’’مسلم قومیت کا اصول‘‘ ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ اقبال احیائے اسلام کے شاعراور مفکر ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری کو احیائے اسلام کے لیے وقف کردیا تھا۔وہ مسلم ہند میں پہلے شخص ہیں جنہوں نے قومیتِ اسلام کا عقیدہ قبول کیا۔ ان کے نزدیک ہیومنزم(جذبۂ انسانیت )کی مغربی تحریک اسلامی اثرات کا نتیجہ تھی۔ان کا کہنا تھا کہ ہیومنزم سائنسی ترقی کا ثمر ہے اور سائنسی ترقی اسلامی تمدن کی وسعت پذیری ہے۔ ان کے مطابق آج کے مسلمانوں کی جہالت کی حد یہ ہے کہ جو کچھ بڑی حد تک ان کے تمدن سے برآمد ہوا ہے، وہ اسے بالکل اجنبی سمجھتے ہیں۔ مثلاً اگر کسی مسلم دانشور کو معلوم ہو کہ آئن سٹائن کے نظریے سے ملتے جلتے خیالات پر سائنٹفک اسلامی حلقوں میں سنجیدگی سے بحث ہوتی تھی تو ان کو اس کا موجودہ نظریہ بالکل اجنبی معلوم نہ ہو۔اقبال کو معلوم تھا کہ احیا سے متعلق ان کے افکار کی علما مخالفت کریں گے،لیکن ان کے نزدیک ان کا اظہار ضروری تھا۔
چھٹا مقالہ’’ اسلامی اتحاد کی اہمیت‘‘ ہے۔ اس میں مصنف نے لکھا ہے کہ اقبال نے مسلم مملکتوں کے سیاسی اشتراک پر زور دیا،اگر ان کے یہاں یکساں روحانی فضا قائم ہو تو۔حکومتی ڈھانچہ کی بنیاد جمہوری ہونی چاہیے اور سربراہِ ریاست کے اقتدار کی حدود مسلمانوں کی جماعت کی رضا مندی کے تابع ہونی چاہییں۔جمہوری روح برقرار رہے تو کوئی بھی نظام اختیار کیا جا سکتا ہے ،نظامِ خلافت وغیرہ کا قیام ضروری نہیں۔ معتزلہ کا یہی موقف تھا اوریہی درست ہے۔
ساتویں مقالے میں مصنف نے احیاے و تجدیدِ اسلام کے سلسلے میں برپا ہونے والی اٹھارویں صدی اور اس کے بعد کی تحریکوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بہت سے لوگ پید ہوئے جنہوں نے مختلف فلسفوں کے تحت احیاے اسلام کے لیے کام کیا۔ ان میں برصغیر کے سر سید ،روس کے مفتی عالم جان،ترکی کے نگہت پاشااور مصر کے مفتی عبدہ نے مغرب کے اچھے نظریات کو اسلام میں ضم کرنے پر زور دیا۔ جمال الدین افغانی نے مغربی قوت کے راز کو سمجھنے پر زور دیتے ہوئے اس کے مثبت عناصر کو اپنانے کی تلقین کی۔اسلام کا تصور طاقت کے بغیر نہیں اور آج کل طاقت سائنس و ٹیکنالوجی ہے، لہٰذا اس کا حصول ناگزیر ہے۔
کتاب کے دوسرے حصے ’’اقبالیات‘‘ کے دو حصے ہیں۔ ایک ’’شخصیات‘‘ اور دوسرا ’’ علمی مباحث‘‘ کے عنوان سے۔ شخصیات میں تین مقالے شامل ہیں۔ پہلے مقالے میں ’’اقبال ایک باپ کی حیثیت سے ‘‘کے عنوان سے گفتگو ہے۔ اس میں مختلف باتیں ہیں۔ جیسے اولاد کے لیے اقبال کی محبت میں ایک منفرد نوعیت کا ضبط تھا۔آپ بیٹے کی پیدائش کی دعا کے لیے حضرت مجدد کی درگا پر گئے تھے ۔جب شعر کی آمد ہوتی تو بعض اوقات رات کو سوئے ہوئے اٹھ جاتے اور علی بخش کو بلوا کر شعر لکھواتے ۔سست طبیعت تھے،میلے کپڑے کو دھلوانے کا بھی خیال نہ آتا ۔انگریزی لباس سے نفرت تھی۔مجھے شلوار قمیض اور اچکن پہننے کو کہتے۔ منیرہ اگر بالوں کو دوحصوں میں گوندھتی تو برا مانتے اور کہتے کہ یہ یہودیوں کاطریقہ ہے۔ دوسرے مقالے میں مصنف نے علامہ اقبال کے ایک نہایت ہی مخلص رفیق اور بہی خواہ چودھری محمد حسین ایم۔ اے کا تذکرہ کیا ہے۔ آپ وہ عظیم شخصیت ہیں جن سے اقبال کے مراسم اور اقبال فہمی کی گہرائی کا بیان ناممکن ہے۔علامہ کا کوئی شعر ایسا نہیں جو آپ کے ہاتھوں سے نہ گذرا ہو ، ان سے بہتر اقبال شناس شاید ہی کوئی پیدا ہو۔ علامہ نے مرض الوفات میں آپ ہی کو جاوید اور منیرہ کا گارڈین مقرر کیا۔ علامہ کے بعد آپ کا ان کی اولاد سے انتہائی مخلصانہ رویہ رہا۔ترقی پسند ادیبوں سے لگا نہ کھاتے۔ ہوم ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت کے دوران فحاشی و عریانیت کی بنا پر کئی ترقی پسند رسالے ضبط کروائے۔منٹو آپ سے سخت نالاں تھا۔ اس نے اپنے فحش افسانوں کے مجموعے کا انتساب آپ کے نام کر دیا تھا۔ مجھے نصب العین کا تعین کرکے لکھنے کی تلقین کرتے۔ غالب کو ناقابل معافی سمجھتے تھے کہ اس نے اسلام کی سر بلندی کے لیے انگشت تک نہ ہلائی۔ آخر میں مصنف نے اقبال کے سونپے ہوئے فرائض کی ادائیگی کے بعد چودھری صاحب کی اس دنیا سے رخصتی کا اور اقبال سے جا ملنے ،جس کا انہیں یقینِ کامل تھا،نہایت الم انگیز تذکرہ کیا ہے۔ اس تحریر سے چودھری صاحب اقبال کے واحد سچے عاشق لگتے ہیں۔تیسرے مقالے میں شورش کاشمیری کی اقبال شناسی کا تذکرہ ہے۔
دوسرے حصے ’’علمی مباحث ‘‘میں پہلا مقالہ ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور کی تصنیف ’’شاد اقبال‘‘ کے حوالے سے ہے جو اقبال اورمہاراجہ سر کشن پرشاد کے تعلقات اوران کے مابین ہونے والی خط وکتابت کی تفصیل پر مشتمل ہے۔ دوسرا مقالہ’’ حکیم الامت کے نام دوسراخط‘‘ کے عنوان سے ہے جس میں جاوید اقبال نے اپنے پدرِ محترم سے ان کے انتقال کے بعدپیداشدہ حالات کے تناظر میں اپنے قومی تشخص اور اسلامی ریاست کے بارے میں رہنمائی کی غرض سے ایک تمثیلی گفتگو کی ہے اورافکارِ اقبال کے حوالے سے بعض سوالات اٹھائے ہیں۔مثلاً انہوں نے لکھا ہے کہ اے پدر محترم! آپ کافلسفہ تھا کہ ر یاستیں اشتراکِ ایمانی کی بنا پر وجود میں آتی ہیں نہ کہ اشتراک علاقہ و وطن کی بنیاد پر۔ اس کے برعکس مولانا حسین احمد مدنی کاموقف تھا کہ قومیں اوطان ہی سے بنتی ہیں۔لہٰذابرصغیر کے مسلمانوں کی قومیت ہندی ہے، لیکن ملت کے اعتبار سے وہ مسلم ہیں۔ آپ کا کہنا تھا کہ قوم وملت کے ایک ہی معنی ہیں، لیکن دوسری طرف آپ متفرق مسلم قومی ریاستوں کے وجود کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ ایچ اے آرگب اس پر حیرت کا اظہار کرتا ہے کہ آپ علاقائی قومیت کے مخالف ہوتے ہوئے بھی برصغیر میں مسلمانوں کے علیحدہ وطن کی تحریک میں پیش پیش تھے۔ پھر قیامِ پاکستان کے بعدکی صورتِ حال میں بیشتر مواقع پر ہم نے عملاً ثابت کر دیا کہ ہم مسلم قوم کی بجائے پاکستانی قوم ہیں ۔مثلاً افغانستان کے مقابلے میں غیر مسلم ممالک سے اتحاد کر کے۔ جہاں تک اسلامی ریاست کا تعلق ہے ،اس کی کوئی حتمی شکل تاریخ میں نظر نہیں آتی۔ کیا یہ ایک ’’آئیڈیل ‘‘ہے؟کیا مسلم ممالک میں اسمبلیوں کا وجود اسلام کی اصل پاکیزگی کی طرف رجوع ہے؟ روحانی جمہوریت سے آپ کی کیا مراد ہے؟دین کی کون سی تشریح خیر اور کون سی شر ہے؟ علما ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرتے، قانون سازی میں رہنمائی کیسے کریں گے؟اگر پاکستانی اسمبلیاں اسلامی قانون سازی کرتی ہیں تو فقہ کا ایک نیا نیشنل مدرسہ وجود میں نہیں آجائے گا؟
اقبال کے نام دوسرے خط میں جاوید اقبال نے جو سوالات اٹھائے ہیں، وہ واقعی بڑے اہم ہیں اور ہر سنجیدہ فکر آدمی کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ راقم کومعاف کیا جائے تو وہ اس نوعیت کے اور سوالات بھی کرنا چاہے گا۔ مثلاً یہ کہ اقبال ایک طرف مغربی تہذیب اور جدت پسندی پر سخت تنقید کرتے ہیں اور دوسری طرف روایت پسندی کے بھی سخت ناقد ہیں۔ایک طرف تصوف اور صوفیا سے والہانہ عقیدت کا اظہار ہے اور دوسری طرف یہ خیال بھی ہے کہ تصوف مسلمانوں کے زوال ایک بنیادی وجہ ہے۔ کینٹویل اسمتھIslam in Modern History میں کہتا ہے کہ اقبال متضاد افکار کے حامل ہیں ۔وہ ایسے لبرل ہیں جو لبرلزم کو نشانہ تنقیئ بناتے ہیں اور ایسے صوفی ہیں جو صوفی ازم پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ یہ پڑھ کر ہمارے جیسے عقیدت مند یہ توجیہ کر کے اپنے آپ کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ دراصل اقبال اس راسخ الاعتقادی کے شاکی ہیں جو جمود کا شکا ر ہو اور ایسے تصوف کو خلافِ اسلام سمجھتے ہیں جو حرکت و عمل کا دشمن ہے۔ مگر یہ موضوع اتنا سادہ نہیں اور گہرے غور وفکر اور سنجیدہ تحقیق کا متقاضی ہے۔ لہٰذاچھا ہوتا اگر جاوید اقبال، اقبال کے جواب شکوہ کی طرح اس نوعیت کے سوالات کے جوابات بھی اقبال کی طرف سے دے دیتے کہ یہ کام کرنے کی اہلیت انہی جیسے چنیدہ لوگوں میں ہے۔ لیکن زیر نظر کتاب اس اہتمام سے یکسر خالی ہے۔
تیسرا مقالہ ’’اقبال کا تصورِ اجتماعیت‘‘ کے عنوان سے ہے۔ چوتھا مقالہ ’’اقبال کے مابعدالطبیعیاتی تصور میں اخلاقیات کا مقام‘‘ ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ جب قومیں جسمانی و روحانی انحطاط کا شکار ہو جاتی ہیں توان کے اخلاقی نظریے تنگ ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ملا برائیوں کے نام زیادہ جانتے ہیں اور اچھائیوں کے کم۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا ملا منفی عینیت اور منکریت میں پھنساہوا ہے۔ ایک طاقتور جسم میں ایک مضبوط عزم ہی اسلام کا اخلاقی نصب العین ہے۔ اسلامی کا سیاسی نصب العین جمہوریت کا قیام ہے۔ چوتھا مقالہ’’ اقبال کا تصورِ اجتھاد‘‘ اور پانچواں ’’اقبال کا نظرےۂ اجتہاد‘‘ ہے۔ ان میں واضح کیا گیا ہے کہ اقبال اجتہاد مطلق پر زور دیتے ہیں اور اجتہاد کا اختیار اسمبلی کود یتے ہیں۔ وہ ترکوں کے پارلیمنٹ کے قیام کے اجتہاد کو درست اور حقیقی سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک اسلام کی نمود ایک استقرائی فراست کی نمود تھی۔وہ سورہ رحمن کے الفاظ کل یوم ھو فی شان سے اپنی ساری حرکیات اخذ کرتے اور اسے قرآن کی روح قرار دیتے ہیں۔
چھٹا مقالہ ’’اقبال کے معاشی تصورات‘‘ پر ہے ۔ اس میں لکھاہے کہ اقبال نے بیسویں صدی میں مغرب سے درآمد شدہ نظریات کو ایسے ہی رد کیاجیسے بارہویں صدی میں غزالی نے یونانی تصورات کو رد کیاتھا۔ بعض لوگوں نے اقبال کو اشتراکیت کا حامی قرار دیا، حالانکہ اقبال سرمایہ داری اور اشتراکیت دونوں کو افراط و تفریط پر مبنی قرار دیتے تھے۔ ان کے نزدیک :طریق کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی۔ وہ قرانی تصورِ معیشت کو اپنانے پر زور دیتے ہیں ۔ساتواں مقالہ ’’اقبا ل اور سیکولزم‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اس میں فکرِ اقبا ل کی روشنی میں سیکولرزم کو لادینیت پر محمول کرنے کوغلط رویہ قرار دیا ا ور واضح کیا گیا ہے کہ اس سے مذہبی معاملات میں غیر جانبداری مراد لینا چاہیے۔آٹھواں مقالہ’’ خطباتِ اقبال کی عصری معنویت‘‘ ہے جس میں جدید دنیا میں ترقی و کامیابی کے لیے اصولِ حرکت وتغیر کے تناظر میں خطباتِ اقبال کو نئی نسل کے لیے غیر معمولی اہمیت کا حامل بتایا گیاہے ۔نویں مقالے میں اقبا ل کے ادبی مقام پر گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ اقبال خود کو اسلامی شاعر کہتے تھے اور شاعری کوحیات بخش دیکھنا چاہتے تھے،ورنہ اسے موت خیال کرتے تھے۔دسواں مقالہ’’ نظریاتِ اقبال کی عملی اہمیت‘‘ پر ہے جس کی اہم بات یہ ہے کی اقبال نے اپنی تصنیف علم الاقتصاد میں غربت کے مسئلے کا ایک حل آبادی کو کنٹرول کرنا بتایا ہے۔
تیسرا حصہ ’’پاکستانیات ‘‘کے عنوان سے ہے ۔ اس کا پہلا مقالہ’’ میراثِ قائدِ اعظم اور نظریۂ پاکستان ‘‘ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان ان معانی میں اسلامی ہے کہ اس کی بنیاد اسلامی اصولوں پر استوار کی گئی ہے جو عالمگیر ہیں اور تمام انسانیت پر ان کا اطلاق ہوتا ہے، ورنہ یہ سیکولر ریاست ہے۔ پاکستانی قومیت کی اساس اسلام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمان پہلے اسلام کی بنیادپر ایک قوم بنے، پھر پاکستان بنا۔ لہٰذا پاکستان نے کسی قوم کو جنم نہیں دیا، مسلم قوم نے پاکستان کو جنم دیا۔
قو میت کے قضیے میں راقم کی رائے میں اب اس بات پر اصرار درست نہیں کہ عملاً چونکہ آج کل اقوام علاقہ کی بنیاد پر مانی جاتی ہیں، لہٰذ مسلم قومیت کی بنیاد پر پاکستان کا مطالبہ یا قیام غلط تھا۔ بالفاظِ دیگر قومیت کے مذہبی یا وطنی تصور کو پاکستان حوالے سے منفرد تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ تاریخِ مسلمانانِ عالم میں اسلام کے نام پر الگ قوم بن کر الگ وطن تخلیق کرنے کی صرف دو ہی مثالیں ہیں:مدینہ کی اسلامی ریاست اور پاکستان۔
دوسرا مقالہ’’ نظریۂ پاکستان اور زمینی حقائق ‘‘ہے ۔ اس میں اس نوعیت کی باتیں ہیں: تحریکِ جہاد اور تحریکِ خلافت کی ناکامی کی وجہ وقت کے تقاضوں سے انحراف تھا،جبکہ تحریک پاکستان اس غلطی سے محفوظ رہنے کی بنا پر کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ قائد اعظم نے کہا کہ ان کی مسلم لیگ نے مسلمانوں کو تین منفی قوتوں؛ انگریز، ہندو اور مولوی سے نجات دلائی۔ اقبال قدیم وجدید کی بحث کو غیر ضروری سمجھتے تھے کہ قدیم کی تعمیر نو کر لی جائے تو وہ جدید ہو جاتا ہے۔اقبال کا تصورِ جدید قدیم سے ملحق ہے، لیکن انقلابی تصورِ جدید قدیم کو منہدم کرنا ہے۔ قائد اعظم پارلیمانی نظام کو اسلامی اصولوں کے منافی نہیں سمجھتے تھے۔ ضیاء الحق نے ایسا اسلام نافذ کیا جو بانیانِ پاکستان کے تصور کے خلاف تھا۔ 
تیسرامقالہ’’ نصب العین کا مسئلہ ‘‘ہے۔اس میں تعمیری ادب کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے ترقی پسندی کے نام پر تخریبی اور پاکستان مخالف لٹریچر کی تخلیق و اشاعت کے ذمہ داروں کو ہدفِ تنقید بنایا گیا ہے۔ پاکستان میں کس قسم کا ادب مطلوب ہے ؟اس کی مثال کے لیے مصنف نے مشہور فرانسیسی ادیب موپساں کے ایک افسانے کا حوالہ دیا ہے جس میں ایک طوائف کے بھی اپنی قوم کے لیے بلند عزم کا اظہار ہوتا ہے۔احمد ندیم قاسمی سے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ پاکستان سے بھی محبت کرتے ہیں اور فحش نگارترقی پسندوں سے بھی۔ مصنف نے زور دیا ہے کہ اسلامی فلاسفہ اور فقہا اوراہل مغرب کی سائنسی کتب کا اردو ترجمہ کیا جائے اور پاکستانی ادیب ان کا مطالعہ کریں اور اپنے لیے نصب العین کا تعین کریں۔
یہاں یہ عرض کرنا خالی از فائدہ نہ ہو گا کہ ترقی پسند یاادب برائے ادب اور بامقصد و تعمیری ادب اہل ادب کے یہاں ایک کافی ما بہ النزاع معاملہ ہے۔اسی بنا پر شاعروں اور ادیبوں کی عظمت کے معاملے میں آرا مختلف ہوتی ہیں۔ مثلاًترقی پسندوں کے نزدیک غالب اور فیض بڑے شاعر ہیں، لیکن تعمیری اور مقصدی ادب والوں کے نزدیک اقبال۔ تعمیری ادب بلا شبہ مطلوب ہے،اس کے لیے خشکی اور عدمِ عالمگیریت کا طعنہ قطعاً غیر مناسب اور سطحیت کا شاخسانہ ہے۔ رومانس کی ضرروری مقدار اس میں بھی شامل ہو سکتی ہے، یہ اول الذکر سے زیادہ آفاقی ہو سکتا ہے۔ لہٰذانسانیت نوازی کے نام پر اپنی قوم و ملت کی بد خواہی اوررومانس اور تسکینِ احساساتِ جمالیات و لطائف کے لیے فحش نگاری انسانی عظمت کے منافی کہی جانی چاہیے۔ 
تیسرا مقالہ’’ پاکستان۔منزل یا حصولِ منزل کا ذریعہ‘‘ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ فکرِ اقبال کی روشنی میں پاکستان منزل نہیں بلکہ حصول منزل کا ذریعہ ٹھہرتا ہے۔ چوتھے مقالے میں ’’حصول پاکستان کے مقاصد میں ناکامی کی ذمہ داری‘‘ پر بات کرتے ہوئے بیان کیا گیا ہے کہ روٹی کے مسئلے کو اولیت ملنی چاہیے تھی، لیکن حالات نے دفاع کے مسئلے کو پہلی اہمیت دے دی۔ پانچویں مقالے’’ جوشِ عمل اور استحکام میں حیات ہے‘‘ میں تعلیمی اداروں میں رواداری، دوستی اور ہمدردی کو ان کی اصل پہچان باور کراتے ہوئے ،یہاں سے عنقا ہوجانے پر اظہار افسوس کیا گیا ہے۔چھٹے مقالے ’’پاکستان میں منصبِ قضا کااحیا‘‘میں اسلام کی عظمتِ رفتہ کی بحالی کے لیے منصبِ قضا کی بحالی کی اہمیت واضح کی گئی ہے۔ ساتویں مقالے میں’’ پریس کی ذمہ داری‘‘ کے زیر عنوان اس حقیقت کو موکد کیا گیا ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا۔ آٹھویں مقالے میں اسلامی ریاست کی پانچ شکلیں قرار دیتے ہوئے اسے سیکولر ریاست ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
حصہ چہارم ’’ادب‘‘ کے عنوان سے ہے جس میں چھ مقالات ہیں ۔پہلے مقالے میں اسلامی تہذیب کے فروغ میں اردو ادب کے حصے کا نمایاں ہونا ثابت کیا گیا ہے۔ دوسرے مقالے ’’ادب ،کلچر اور خرد افروزی‘‘ میں واضح کیا گیا ہے کہ حیات و کائنات کا اصل سرچشمہ روحانی ہے۔جدید سائنس نے دہریوں کے خیالات کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ تیسرے مقالے میں ’’بدلتی ہوئی دنیا میں ادب کا کردار‘‘ کے زیر عنوان آرٹ برائے آرٹ کے نعرے کو محض دھوکا قرار دیا گیا ہے۔ چوتھے مقالے ’’ادیب ۔قوم پرستی اور لا دینیت‘‘ میں ادیب کا فرض بتایا گیا ہے کہ وہ اپنی ملت سے وفاداری کا دم بھرے۔ پانچویں مقالے میں ’’اپنا گریباں چاک ‘‘پر شریف کنجاہی کے نکیرانہ تبصرے کو ہدف تنقید بناتے ہوئے ان کی پیش کردہ متعدد باتوں کو افسانہ قرار دیا گیا ہے۔چھٹے مقالے’’ تاریخ مجھ سے بات کر‘‘ میں تاریخ کی روشنی میں فلاحی ریاست کے اسلامی تصور کو سامنے لاتے ہوئے فکرِ اقبال کے مطابق پاکستانی ریاست کی استواری پر زور دیا اور کہا گیا ہے کہ پاکستان میں اقبال کے تصور کے مطابق جدید جمہوری ،فلاحی ریاست قائم نہیں ہوئی۔
’’مقالات جاوید‘‘ بحیثیت مجموعی بلاشبہ نہایت وقیع اور فکر انگیز کتاب ہے جس کی اشاعت پر اقبال اکادمی مبارکباد کی مستحق ہے۔ اس سے نئے حالات کے تناظر میں اسلامی فکر و فلسفہ اورتصور رِیاست ومعیشت اور فکرِ اقبال کو سمجھنے کے کئی دریچے وا ہوئے ہیں۔تاہم اس میں متعدد نقائص بھی ہیں جن کو دور کرناناگزیر ہے۔ کتاب کی پروف خوانی میں سخت تساہل سے کا م لیا گیا ہے۔ کمپوزنگ کی غلطیاں جگہ جگہ دکھائی دیتی ہیں۔ مزید برآں کتاب میں اقبال اور جاوید اقبال کے خیالات مختلف مقالات میں بے طرح منتشرحالت میں ملتے ہیں۔ ان کی مناسب ترتیب و تہذیب کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہر مقالے میں یہ خیالات عنوان کی ضروریات اور تقاضوں کو ملحوظ رکھے بغیر پیش کر دیے گئے ہیں۔ مختلف اوقات میں لکھے جانے والے مقالات میں تکرار تو ایک عام اور ناقابلِ گرفت بات ہے،لیکن عنوا ن کوئی ہو اور اس میں اکثر مواد کسی اور موضوع سے متعلق پیش کر دیا جائے، بہرحال خوش کن امر نہیں، خصوصاً ایک بڑے آدمی کے مقالات پر مشتمل اور ایک بڑے ادارے کی طرف سے شائع شدہ کتاب میں۔ 

ٹی بی ۔ ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ

حکیم محمد عمران مغل

ایک دس سالہ بچے کی روٹی تقریباً دس ماہ سے بالکل بند کر کے اسے دودھ یا اس قسم کی دیگر نرم اغذیہ پر لگا دیا گیا تھا۔ دریافت کرنے پر بتایا گیا کہ شہر کے ایک مستند معالج کا حکم ہے کہ بچہ بالکل نحیف ہو چکا ہے، معدہ اور انٹریوں کے نازک امراض نے بچے کو ٹھوس غذا کھانے کا متحمل نہیں چھوڑا، اس لیے اسے ڈبل روٹی، دودھ، دلیا، ساگو دانہ وغیرہ دیا جائے۔ بچے کی والدہ نے بتایا کہ ہم پریشان ہیں۔ معالج نے کہا ہے کہ روٹی یا ایسی کوئی ٹھوس غذا کھلائی گئی تو بچے کی زندگی کا چراغ گل ہو سکتا ہے، لیکن بچہ چھپ چھپا کر روٹی کھا لیتا ہے۔ دس ماہ سے مسلسل نرم غذا کے ساتھ ادویہ بھی دی جا رہی ہیں، لیکن افاقہ کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔ 
تحقیق کی گئی تو بچے کے خاندان میں ٹی بی کے اثرات پائے گئے۔ بچے کی ہڈیوں کی ساخت ٹی بی کی وجہ سے بدوضع ہو چکی تھی۔ اس کے والدین کو یقین نہ آیا، نہ کسی نے آگاہ کیا تھا۔ میرے ذہن میں حکیم سعید شہید کی بات گونجنے لگی کہ حکومت کہتی ہے کہ تعلیم تیس فی صد سے اوپر جا رہی ہے، جبکہ معاشرے میں بمشکل چھ فیصدی بھی تعلیم کا بڑھاوا نہیں ہے۔ ٹی بی کے متعلق بھی یہی مفروضہ پھیلایا گیا ہے کہ اس پر قابو پا لیا گیا ہے اور ٹی بی قابل علاج ہے۔ جو حضرات اس مرض میں مبتلا ہونے کے بعد صحت سے ہم کنار ہوئے، وہ بے شک موٹے تازہ نظر آ رہے ہیں، لیکن زندگی کا لطف انھیں حاصل نہیں۔ وہ دائمی تھکاوٹ اور نزلہ زکام کی گرفت میں ہیں۔
بہرحال میں نے کیلشیم، فولاد اور دیگر نمکیات کی کمی کو مد نظر رکھتے ہوئے خمیرہ ابریشم حکیم ارشد والا، شربت فولاد، جوارش جالینوس، حب کبد نوشادری کا انتخاب کر کے بچے کی والدہ کو سمجھا دیا کہ ان ادویہ کو کب اور کیسے استعمال کرنا ہے۔ بچے کی انتڑیاں، معدہ اور جگر بالکل ریشم بنی ہوئی تھیں۔ میں نے کہا کہ میری موجودگی میں بچے کوپیٹ بھر کر روٹی کھلائیں۔ بچے نے پیٹ بھر کر روٹی کھائی۔ بعد میں بتائی گئی ترکیب سے ادویہ دی گئیں۔ رات کا کچھ حصہ بچے نے درد او ربے چینی سے گزارا۔ صبح میں نے دریافت کیا اور بتایا کہ دو چار دن یہی تکلیف رہے گی، لیکن پریشانی کی بات نہیں۔ چوتھے دن بچے نے بالکل نارمل زندگی گزارنا شروع کردی۔ ایک ہفتے کے بعد کچھ مزید ادویہ دی گئیں، خصوصاً اجمل دواخانہ کی تیار کردہ حب سرطان (کیکڑا)نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا۔ یہ دو سال پرانا واقعہ ہے۔ اب یہ بچہ موٹا تازہ ہے اور تعلیم حاصل کرنے میں خوب مگن ہے۔

ڈیلیٹڈ ۱

ادارہ


ڈیلیٹڈ ۲

ادارہ