2012

جنوری ۲۰۱۲ء

رائے کی اہلیت اور بحث و مباحثہ کی آزادیمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا معین الدین لکھویؒ اور دیگر اہل حدیث اکابرمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
میرزا عبدالرحیمؒ کے نام مجدد الف ثانیؒ کے خطوطپروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم ورک
’’حیات سدید‘‘ کے چند ناسدید پہلو (۳)چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ
جامع مسجد نور کی تاسیس کا پس منظرالحاج ظفر علی ڈار
علمی و اجتہادی مسائل میں رائے کا اختیارحافظ زاہد حسین رشیدی
مکاتیبادارہ
شش ماہی ’’معارف اسلامی‘‘ (خصوصی اشاعت بیاد ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ)ڈاکٹر قاری محمد طاہر
’’اطراف‘‘مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
سیمینار: ’’ریاست و حکومت: علامہ اقبال اور عصری مسائل‘‘ادارہ
اخبار و آثارادارہ

رائے کی اہلیت اور بحث و مباحثہ کی آزادی

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مولانا حافظ زاہد حسین رشیدی ہمارے فاضل دوست ہیں اور مخدومنا المکرم حضرت مولانا قاضی مظہر حسین صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاندانی تعلق کے باعث وہ ہمارے لیے قابل احترام بھی ہیں۔ ہمارے ایک اور فاضل دوست مولانا حافظ عبد الوحید اشرفی کی زیر ادارت شائع ہونے والے جریدہ ماہنامہ ’’فقاہت‘‘ لاہور کے دسمبر ۲۰۱۱ء کے شمارے میں، جو احناف کی ترجمانی کرنے والا ایک سنجیدہ فکری وعلمی جریدہ ہے، مولانا حافظ زاہد حسین رشیدی نے اپنے ایک مضمون میں ’’الشریعہ‘‘ کی کھلے علمی مباحثہ کی پالیسی کوموضوع بنایا ہے اور اس سلسلے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے جس پر ہم ان کے بے حد شکر گزار ہیں اور ان کا مضمون ’’فقاہت‘‘ کے شکریہ کے ساتھ ’’الشریعہ‘‘ کے زیر نظر شمارے میں شائع کر رہے ہیں۔
انھوں نے جن تحفظات کا اظہار کیا ہے، ہمیں ان سب سے اختلاف نہیں ہے اور ان میں سے بعض خدشات وتحفظات ہمارے بھی پیش نظر ہیں جن کا انھوں نے درد دل کے ساتھ ذکر کیا ہے، لیکن ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہم صرف تحفظات کے دائرے میں محصور رہنے کو درست نہیں سمجھتے، بلکہ ان ضروریات پر بھی ہماری نظر ہے جو آج کے معروضی حالات میں اہل علم سے سنجیدہ توجہ کا تقاضا کر رہی ہیں۔ تحفظات اور ضروریات کے دائرے ہر دور میں الگ الگ رہے ہیں اور دونوں کے تقاضوں کو سامنے رکھنے والوں کا ذوق اور طرز عمل بھی ہمیشہ ایک دوسرے سے مختلف رہا ہے۔ اگر ماضی کی علمی ودینی تاریخ کو اس پہلو سے دیکھا جائے تو کوئی دور بھی اس کشمکش سے خالی نظر نہیں آتا۔ 
مثال کے طور پر کوئی واقعہ پیش آئے بغیر محض مسئلہ کی کوئی صورت فرض کر کے اس پر حکم لگانا، جسے ’’فقہ فرضی‘‘ کہا جاتا ہے، صحابہ کرام اور تابعین کبار کے دور میں پسندیدہ بات نہیں سمجھی جاتی تھی، حتیٰ کہ ایک بار حضرت امام ابوحنیفہؒ نے حضرت قتادہ سے کوئی مسئلہ پوچھا تو انھوں نے دریافت کیا کہ کیا ایسی کوئی صورت پیش آئی ہے؟ جواب میں امام ابوحنیفہ نے کہا کہ ایسی صورت پیش تو نہیں آئی تو حضرت قتادہ نے فرمایا کہ:
’’مجھ سے ایسی باتیں نہ پوچھا کرو جو ابھی واقع ہی نہیں ہوئیں۔‘‘ (بحوالہ امام ابوحنیفہ کی سیاسی زندگی ص ۲۳۵، از مولانا مناظر احسن گیلانی)
جبکہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ نے اس ’’فقہ فرضی‘‘ کے لیے باقاعدہ علمی مجلس قائم کر کے محض مفروضہ صورتوں پر ۸۰ہزار سے زائد احکام ومسائل مرتب کیے جو آج تک فقہ حنفی کی علمی اساس ہیں۔
اسی طرح صحابہ کرام اور کبار تابعین کے دور میں عقائد کے باب میں عقلی بحثوں کو ناپسند کیا جاتا تھا اور اسے عقائد خراب کرنے اور عقائد میں شکوک پیدا کرنے کی کوشش تصور کیا جاتا تھا، حتیٰ کہ میں نے کسی جگہ حضرت امام ابو یوسف کا یہ فتویٰ پڑھا ہے جس کا حوالہ اس وقت میرے ذہن میں نہیں ہے کہ عقائد میں عقلی بحثیں کرنے والے متکلم کے پیچھے نماز جائز نہیں ہے، لیکن بعد میں وقت کی ضروریات نے یہ ماحول پیدا کر دیا کہ عقائد کی بحثیں ہی معقولات کے حوالے سے ہونے لگیں، اس کو باقاعدہ علم کلام کا نام دیا گیا اور اسی عنوان سے یہ ہمارے ہاں مستقل پڑھایا جاتا ہے۔
ہم ’’تحفظات‘‘ اور ’’ضروریات‘‘ کے دونوں دائروں کو ضروری سمجھتے ہیں۔ ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ دونوں کا متوازن اظہار ہوتے رہنے سے ہی اعتدال کا راستہ ملے گا، اسی لیے ہم علمی مباحثہ کو ضروری خیال کرتے ہیں اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے ذہن میں علمی مباحثہ کا تصور وہی ہے جس کے تحت حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ نے انفرادی اجتہاد کی بجائے اجتماعی اور مشاورتی اجتہاد کا راستہ اختیار کیا تھا اور اس کے لیے کھلے علمی مباحثہ کو ضروری خیال کیا تھا۔ اس کا خاکہ مولانا مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ:
’’اجتماعی مساعی اسی وقت باور آور ہوتی ہیں جب ضبط ونظم کے تحت ان کو انجام دیا جائے۔ امامؒ پر جہاں یہ راز واضح ہو چکا تھا، اسی کے ساتھ وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ مجلس کے تمام اراکین کو جب تک کامل آزادی اپنے خیالات کے اظہار میں نہیں دی جائے گی، اجتماع کا جومقصد ہے وہ پورا نہیں ہو سکتا۔ آزادی کے اس دائرے کو امامؒ نے کتنی وسعت دے رکھی تھی ؟ اس کا اندازہ اسی واقعے سے ہو سکتا ہے جس کو امامؒ کے مختلف سوانح نگاروں نے نقل کیا ہے۔ الجرجانی کہتے ہیں کہ میں امام کی مجلس میں حاضر تھا کہ ایک نوجوان جو اسی حلقہ میں بیٹھا ہوا تھا، امام سے اس نے کوئی سوال کیا جس کا امامؒ نے جواب دیا، لیکن جوان کو میں نے دیکھا کہ جواب سننے کے ساتھ ہی بے تحاشہ اور امام کو مخاطب کر کے ’اخطات‘ (آپ نے غلطی کی ہے) کہہ رہا ہے۔ جرجانی کہتے ہیں کہ جوان کے اس طرز گفتگو کو دیکھ کر میں تو حیران ہو گیا اور حلقہ والوں کی طرف خطاب کر کے میں نے کہا کہ
’’بڑے تعجب کی بات ہے کہ استاذ (شیخ) کے احترام کا تم لوگ بالکل لحاظ نہیں کرتے۔‘‘
جرجانی ابھی اپنی نصیحت کو پوری بھی نہیں کر پائے تھے کہ وہ سن رہے تھے کہ خود امام ابوحنیفہؒ فرما رہے ہیں کہ
دعہم فانی قد عودتہم ذلک من نفسی
’’تم ان لوگوں کوچھوڑ دو، میں نے خود ہی اس طرز کلام کا ان کو عادی بنایا ہے۔‘‘
جس سے معلوم ہوا کہ اس آزادی کا قصداً وارادتاً امام نے اپنی مجلس کے اراکین کو کہیے یا تلامذہ کو، عادی بنا رکھا تھا اور یہ جان کر بنا رکھا تھا کہ جومقصد ہے، اس آزادی کے بغیر وہ حاصل نہیں ہو سکتا۔‘‘ (امام ابوحنیفہ کی سیاسی زندگی، ص ۲۳۸)
اس کے ساتھ ہی برادرم مولانا حافظ زاہد حسین رشیدی صاحب کے ارشادات کے تناظر میں یہ بات عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں رائے، اجتہاد اور فتویٰ کے دائروں کوخلط ملط کر دیا گیا ہے اور ہم ان سب کے بارے میں یکساں لہجے میں بات کرنے کے عادی ہو گئے ہیں، حالانکہ ان تینوں کے الگ الگ دائرے اور الگ الگ احکام ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر رائے کو اجتہاد تصور کیا جائے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر اجتہادی قول کو مفتیٰ بہ قرار دے دیا جائے۔ کوئی مجتہد اپنے کسی غور طلب مسئلہ کے کسی ایک پہلو کے بارے میں کسی متعلقہ شخص سے رائے لیتا ہے جو صاحب علم نہیں ہے اور اس کی رائے کو اپنے اجتہاد کی بنیاد بھی بنا لیتا ہے۔ اب اس شخص کی رائے اجتہاد کا درجہ نہیں رکھتی، مگر اجتہادی عمل کا حصہ بن گئی ہے۔ اسی طرح ہمارے ہاں فقہاء کرام کے مفتیٰ بہ اقوال اور غیر مفتیٰ بہ اقوال کا واضح فرق موجود ہے، لیکن ان میں سے کسی کے اجتہاد ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے ان تینوں میں فرق قائم رکھنا ضروری ہے اور اس بنیاد پر ان تینوں کے معیارات بھی الگ الگ ہی ہوں گے۔ 
ہم نے ’’عمومی مباحثہ‘‘ میں ہر شخص کے لیے رائے کے حق کی بات ضرور کی ہے، لیکن جہاں علمی مباحثہ کی بات ہوئی ہے، وہاں ہم نے ان نوجوان اہل علم کا حوالہ دیا ہے جو اصحاب علم ہیں او رمطالعہ کی وسعت رکھتے ہیں۔ ہم نے ان کے لیے نہ اجتہاد کا حق مانگا ہے اور نہ ہی انھیں فتویٰ کی اتھارٹی دینے کی بات کی ہے۔ صرف اتنی درخواست کی ہے کہ اگر وہ نوجوان اہل علم جو علمی استعداد رکھتے ہیں اور دینی لٹریچر کے ساتھ ساتھ آج کے حالات وضروریات پر بھی نظر رکھتے ہیں، انھیں رائے کے حق سے محروم نہ کیجیے۔جو وہ محسوس کرتے ہیں، اس کے اظہار کا انھیں حق دیجیے اور پھر انھیں فتووں اور طعن وتشنیع کا نشانہ بنانے کی بجائے دلیل کے ساتھ اور محبت کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کیجیے کہ دین کے ساتھ ساتھ اخلاقیات اور معروضی حالات کا بھی یہی تقاضا ہے۔
مولانا حافظ زاہد حسین رشیدی کے مضمون کا تفصیلی تجزیہ کرنے کی بجائے سردست چند اصولی باتوں پر اکتفا کر رہا ہوں۔ اگر ا س کے بعد ضرورت باقی رہی تو یہ خدمت بھی کسی مناسب موقع پر انجام دی جا سکتی ہے۔

مولانا معین الدین لکھویؒ اور دیگر اہل حدیث اکابر

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

حضرت مولانا معین الدین لکھویؒ کی وفات صرف اہل حدیث حضرات کے لیے باعث رنج وصدمہ نہیں، بلکہ پاکستان کے اسلامی تشخص کے تحفظ اور ملک میں نفاذ شریعت کی جدوجہد سے تعلق رکھنے والا ہر مسلمان اور ہر پاکستان ان کی جدائی سے غم زدہ ہے۔ جن بزرگ اہل حدیث علماے کرام کے ساتھ میرا عقیدت اور نیاز مندی کا تعلق رہا ہے، ان میں حضرت مولانا معین الدین لکھویؒ بھی شامل ہیں۔ میں نے جب اردو لکھنا پڑھنا شروع کی تو بالکل ابتدا میں جو چند کتابیں میرے مطالعہ میں آئیں، ان میں آغا شورش کاشمیری مرحوم کی ’’خطبات احرار‘‘ بھی تھی۔ میرے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ احرار کے باقاعدہ کارکن رہے ہیں، اس لیے گھر اور ارد گرد کے ماحول میں احرار اور احرار راہنماؤں کا تذکرہ عام رہتا تھا۔ اسی پس منظر میں ’’خطبات احرار‘‘ کے مطالعہ کا موقع ملا۔ اس میں مولانا سید محمد داؤد غزنوی کا نام پہلی بار پڑھا اور عقیدت کا رشتہ جڑ گیا۔ مولانا غزنویؒ کی زیارت مجھے یاد نہیں، لیکن ان کے ساتھ عقیدت ومحبت کا رشتہ تب سے استوار ہے۔
ان کے بعد مولانا محمد اسماعیل سلفیؒ کی شخصیت نے بطور اہل حدیث اور بزرگ عالم دین میرے دل میں جگہ بنائی۔ صدر ایوب خان مرحوم نے ۱۹۶۲ء میں مارشل لا اٹھایا تو گوجرانوالہ میں پہلا سیاسی جلسہ میاں افتخار الدین مرحوم کی یاد میں ہوا جس کی صدارت مولانا محمد اسماعیل سلفی نے کی اور اس سے دیگر مقررین کے علاوہ آغا شورش کاشمیری اور شیخ حسام الدین نے بھی خطاب کیا۔ یہ میری زندگی کا پہلا سیاسی جلسہ تھا جس میں بطور سامع شرکت کی اور مولانا محمد اسماعیل سلفی کی زیارت سب سے پہلے اس جلسے میں کی۔ اس کے بعد مختلف جلسوں میں انھیں سنا۔ ایک بار ارادہ کر کے ان کے پیچھے جمعہ پڑھا۔ مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں، جہاں میں زیر تعلیم تھا، ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ پابندی سے آتا تھا اور میں اس کا اس وقت سے باقاعدہ قاری ہوں۔ اس میں مولانا محمد اسماعیل سلفی کے ارشادات اور سرگرمیاں پڑھنے کو ملتیں۔ ایک بار اپنے بزرگ مولانا مفتی عبد الواحد صاحبؒ کا کوئی پیغام لے کر میں ان کے پاس گیا۔ مولانا محمد اسماعیل سلفی کا معمول تھا کہ عصر کی نماز کے بعد اردو بازار میں اسکول بک ڈپو پر تھوڑی دیر کے لیے بیٹھتے تھے۔ وہاں کرسی پر بیٹھے ہوئے مولانا محمد اسماعیل سلفیؒ کا سراپا ابھی تک ذہن کی اسکرین پر موجود ہے۔
اسکول بک ڈپو بھی ایک اہل حدیث عالم دین مولانا حافظ محمد یوسف گکھڑوی مرحوم کا تھا جو گکھڑ کی مسجد توحید گنج کے خطیب وامام تھے اور اردو بازار گوجرانوالہ میں اسکول بک ڈپو کے نام سے کتابوں اور اسٹیشنری کی دکان کرتے تھے۔ میرا تعلق بھی گکھڑ سے ہے۔ بچپن میں ان کے گھر میں بھی ہمارا آنا جانا رہتا تھا اور ان کے بچے بھی ہمارے گھر میں آیا کرتے تھے۔ جماعت مجاہدین کے ساتھ ان کا تعلق تھا۔ وہ کشمیر اور قبائل کے مجاہدین کی وقتاً فوقتاً مدد کرتے تھے اور آتے جاتے بھی رہتے تھے۔ کافی عرصے کے بعد سردار محمد عبد القیوم خان نے ایک ملاقات میں ان کا تذکرہ کیا تو مجھے بھی بہت سی باتیں یاد آ گئیں اور ہم کافی دیر تک حافظ محمد یوسف گکھڑوی اور ان کی جہادی سرگرمیوں کی باتیں کرتے رہے۔ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور چچا محترم حضرت مولانا صوفی عبدالحمید سواتیؒ کے ہمراہ حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفیؒ کے جنازے میں بھی شرکت کی سعادت حاصل ہوئی جو مولانا حافظ محمد یوسف گکھڑوی نے پڑھائی تھی۔
مولانا محمد اسماعیل سلفی کے بعد اس فہرست میں تیسرے بزرگ اہل حدیث عالم دین مولانا عبد الغفار حسن تھے۔ ان کے ساتھ میری پہلی ملاقات فیصل آباد میں مولانا حکیم عبد الرحیم اشرف کے گھر میں ہوئی جہاں میں کبھی کبھی جایا کرتا تھا اور وہ بھی بہت شفقت فرمایا کرتے تھے۔ میں نے تین بزرگوں کا اپنی زندگی میں معمول دیکھا ہے کہ وہ رات کو سویا نہیں کرتے تھے۔ ان کی محفلیں رات گئے آباد ہوتی تھیں اور صبح اشراق سے فارغ ہو کر دوپہر تک ان کا سونے کا معمول تھا۔ ان میں حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ اور حضرت مولانا سید حامد میاںؒ کے علاوہ مولانا حکیم عبد الرحیم اشرفؒ بھی تھے۔ بعض دفعہ ایسا ہوا کہ میں فیصل آباد میں کسی جلسے سے خطاب کرنے کے لیے گیا اور نصف شب کے لگ بھگ خطاب سے فارغ ہو۔ اسٹیج سے اترا تو دیکھا کہ حکیم عبد الرحیم اشرف صاحب کی گاڑی کھڑی ہے۔ ان کو کہیں سے میری آمد کا پتہ چل جاتا تھا اور وہ گاڑی بھیج دیتے تھے کہ میں ان کے ہاں سے ہو کر واپس جاؤں۔ وہاں حاضری ہوتی تو محفل خوب گرم ہوتی اور صبح سحری کے وقت ہی وہاں سے واپسی کی گنجائش نکلتی۔ 
مولانا عبد الغفار حسن نے مجھے بتایا کہ وہ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت کے دوران جیل میں والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدر کے ساتھی رہے ہیں تو تعلق ومحبت میں اور اضافہ ہو گیا۔ وہ مجھے ہمیشہ شفقت سے نوازتے اور مجھے ان کی خدمت میں حاضر ہو کر سکون ملتا تھا۔ ۱۹۸۷ء میں شریعت بل کی تحریک کے لیے پیش پیش حضرات میں میرا نام بھی ہے۔ اس دوران بعض دوستوں کی غلط فہمی سے فقہ حنفی اور اہل حدیث کشمکش کے حوالے سے بحث چھڑ گئی اور ایک معروف اہل حدیث جریدے میں شریعت بل کے پس منظر میں فقہ حنفی کے خلاف تند وتیز مضمون شائع ہوا۔ مولانا عبدالغفار حسن کو خدشہ ہوا کہ میں اس کا جواب دوں گا تو بحث بڑھ جائے گی اور خواہ مخواہ تلخی میں اضافہ ہوگا۔ اس خدشے کے پیش نظر انھوں نے مجھے بطور خاص پیغام بھجوایا کہ اس کے جواب میں آپ کچھ بھی نہ لکھیں، میں خود اس کی وضاحت کروں گا۔ میں نے ان کے حکم کی تعمیل میں خاموشی اختیار کر لی اور مولانا عبد الغفار حسنؒ نے اسی جریدے کے اگلے شمارے میں ایک مضمون کے ذریعے لوگوں کو سمجھا دیا کہ یہ حنفی اہل حدیث مسئلہ نہیں، بلکہ قرآن وسنت کا نفاذ اور شریعت کی بالادستی امت کا اجتماعی مسئلہ ہے جسے فرقہ وارانہ تناظر میں دیکھنا درست نہیں ہے۔
ایک اور اہل حدیث عالم دین مولانا حکیم عبد الرحمن آزادؒ کے ساتھ مجھے کم وبیش دو عشروں تک تحریک ختم نبوت کے لیے اکٹھے کام کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ وہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت گوجرانوالہ ڈویژن کے امیر تھے۔ تحریک ختم نبوت کے لیے اس دوران میں جب بھی کوئی مشترکہ فورم تشکیل پایا، میں حکیم صاحب کی ٹیم کا حصہ رہا۔ اکٹھے تحریکی جدوجہد کا کئی بار حظ اٹھایا اور مل جل کر دینی جدوجہد میں شرکت کی سعادت حاصل کی۔
حضرت مولانا معین الدین لکھوی بھی اسی صف کے بزرگ تھے۔ ۱۹۸۷ء کی تحریک شریعت بل اور نفاذ شریعت کی جدوجہد میں ان کے ساتھ متحدہ شریعت محاذ کے سرگرم کارکن کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا۔ وہ حالات سے باخبر اور وقت کے تقاضوں سے آشنا بزرگ تھے۔ جچی تلی گفتگو کرتے تھے اور اجتماعی معاملات میں دینی موقف کی بھرپور ترجمانی کرتے تھے۔ ان کی خدمت میں بھی کئی بار حاضری کا موقع ملا اور ہر بار شفقت اور دعاؤں سے فیض یاب ہوا۔ جامعہ محمدیہ اوکاڑہ میں بھی ایک بار ان سے ملاقات کے لیے حاضر ہوا تو بہت خوش ہوئے اور بہت سے معاملات میں مشاورت ہوئی۔ ان کا ایک جملہ بہت یاد آتا ہے جو خود انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ ایک جگہ کسی جذباتی دوست نے ان سے سرمحفل سوال کر دیا کہ شریعت بل کے نام سے فقہ حنفی تو نافذ نہیں ہوجائے گی؟ انھوں نے اس کا جواب دیا کہ اگر ہو بھی گئی تو کیا؟ ’’فقہ فرنگی‘‘ سے بہتر ہوگی۔
حضرت مولانا عبد القادر روپڑیؒ اہل حدیث علماے کرام میں بڑے مناظر تھے اور حنفیوں کے ساتھ مناظروں میں ان کا نام سرفہرست ہوتا تھا، مگر میرے ساتھ ان کا معاملہ بھی ہمیشہ شفقت کا رہا۔ ۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفی میں ان کے ساتھ رفاقت رہی۔ ایک بار ان سے ملاقات کے لیے دال گراں چوک کے اہل حدیث مرکز میں حاضر ہوا تو بڑی محبت سے ملے اور فرمایاکہ ’’تم اچھی باتیں کیا کرتے ہو، کبھی کبھی آ جایا کرو۔‘‘
حضرت مولانا معین الدین لکھویؒ کی وفات کی خبر پڑھ کر بزرگ اہل حدیث علماے کرام کے ساتھ اپنے تعلقات کی بہت سی باتیں ذہن میں تازہ ہو گئی ہیں جن میں سے چند ایک کا میں نے تذکرہ کر دیا ہے، لیکن اپنے دو بے تکلف دوستوں اور ساتھیوں علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدؒ اور مولانا سید حبیب الرحمن شاہ بخاریؒ کا نام میں نے عمداً اس فہرست میں شامل نہیں کیا اور کسی دوسرے مناسب موقع کے لیے چھوڑ دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ مولانا معین الدین لکھویؒ سمیت ان سب بزرگوں کی مغفرت فرمائے اور ان کی حسنات کو قبول کرتے ہوئے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے۔ آمین

میرزا عبدالرحیمؒ کے نام مجدد الف ثانیؒ کے خطوط

پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم ورک

شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانیؒ (۹۷۱۔۱۰۳۴ھ / 1624-1563ء) نے ’’اَلنَّاسُ عَلٰی دِیْنِ مُلُوْکِھِمْ‘‘ کے اصول کے مطابق جن سیاسی شخصیات کو خاص طور پر خطوط صادر فرمائے اور ان کی اصلاح کی راہ سے بادشاہ، امرا اوردیگر عمائدین حکومت کی اصلاح کا قصد فرمایا ،ان میں ایک بڑا نام میرزا عبدالرحیم خانِ خاناں کا ہے ۔ حضرت مجددؒ کے طرزِ عمل سے ہمیں یہ راہنمائی ملتی ہے کہ داعی کا ایک اہم ہدف یہ ہونا چاہیے کہ وہ معاشرے میں صاحبانِ اقتدار میں سے سلیم الفطرت انسانوں کی کھوج میں خصوصی محنت کرے ،کیونکہ ایسے لوگوں کو تھوڑی سی محنت سے جادۂ مستقیم پر گامزن کیا جاسکتا ہے ،اور پھر ان کی وساطت سے دیگر لوگوں کی اصلاح کچھ مشکل نہیں رہتی ۔
حضرت مجدد الف ثانی ؒ قدس سرہ العزیز نے میرزا عبدالرحیم خانخاناں ؒ کے نام تیرہ مکتوب ارسال فرمائے جن کی تفصیل یہ ہے: دفتراوّل میں مکتوب نمبر: ۲۳ - ۶۷ - ۶۸ - ۶۹ - ۷۰ - ۱۹۱ - ۱۹۸ - ۲۱۴ - ۲۳۲ - ۲۶۸ اور دفتر دوم میں مکتوب نمبر: ۸ - ۶۲ - ۶۶۔ زیر نظر سطور میں حضرت مجددؒ کے ان خطوط کے دعوت، معاشرتی اور سیاسی پہلووں پر قدرے روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔
موضوع پر براہِ راست گفتگو سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مکتوب الیہ کا مختصر تعارف قارئین کی خدمت میں پیش کردیا جائے ۔
میرزا عبدالرحیم خا نِ خاناں ؒ کے والد کا نام میرزا بیرم خاں تھا جوشہنشاہ ہمایوں کا سپہ سالارِ اعظم ،سلطنت مغلیہ کا زبر دست وفادار اور بازوئے شمشیر زن تھا ۔میرزا عبدالرحیم خا نِ خاناں ؒ بیرم خان کے ہاں ۱۴ صفر المظفر ۹۶۴ھ بمطابق ۱۵۵۶ء بروز جمعرات لاہور میں امیر جمال خاں میواتی کی صاحبزادی کے بطن سے متولّد ہوئے ۔ ابھی چار برس کی عمر تھی کہ آپ کے والد کو گجرات کے قریب پٹن شہر میں ۹۶۸ھ میں قتل کردیا گیا۔ وارثوں نے آپ کو آگرہ منتقل کر دیا جہاں آپ شاہی ماحول میں پرورش پاتے رہے۔ ذرا ہوش سنبھالی تو تعلیمی سلسلے کا آغاز کیا ۔ اپنے وقت کے نامور علما و فضلا، خاص کر علامہ فتح اللہ شیرازی، قاضی نظام الدّین بدخشی، مولانا محمد امین اندجانی، حکیم علی گیلانی رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے علوم ظاہری و باطنی و فوائد کثیرہ حاصل کیے۔ گجرات کے معروف بزرگ شیخ وجیہ الدین ؒ بن شیخ نصر اللہ علوی ؒ سے روحانی طریقہ اخذ کیا۔ 
امیر کبیر محمد شمس الدین غزنویؒ کی صاحبزادی سے نکاح کیا۔ مغل بادشاہ اکبر کے دورِ حکومت میں اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز رہے۔ گجرات، سندھ اور دکن کے بعض علاقے آپ کے ہاتھوں فتح ہوئے۔ اکبر نے آپ کو خا نِ خاناں (امیر الامرا) کا لقب دیا ۔اکبر نے اپنے بیٹے جہانگیر کی تعلیم و تربیت کے لیے آپ کو ۹۷۲ھ میں اپنے پاس رکھ لیا ۔ ایک متبحراور قابلِ اعتماد عالم ہونے کے ساتھ ساتھ آپ عربی، فارسی، ترکی، ہندی اور سندھی لغات کے بھی زبردست ماہر تھے۔ انھوں نے ۹۹۷ھ میں’’ تزک بابری ‘‘ کا ترکی سے فارسی میں ترجمہ کیا۔ اپنے دور میں صاحب القلم والسّیف کے لقب سے مشہور ہوئے۔ اپنے دور میں آپ جیسا متنوّع الصّفات اور جامع الفضائل شخص شاید ہی کوئی ہو۔ ۱۰۲۶ھ میں دہلی میں انتقال فرمایا اور مقبرہ ہمایوں کے برابر مدفون ہوئے۔(مآ ثر الاُ مراء، نزہۃالخواطر، ۵؍۳۰۴)

خطوط کی دعوتی اہمیت

دورِ حاضر میں جب اسلامی تحریکات کے مقاصد اور پس منظر پر بات کی جاتی ہے تو جوسوالات خاص طور پر اربابِ علم و دانش کے ہاں زیر بحث آتے ہیں، ان میں سے ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا اسلامی تحریکات کا اصل ہدف معاشرتی اصلاح ہے یا اسلامی ریاست کا قیام؟حضرت مجدد ؒ کی دعوتی اور تحریکی زندگی کے مطالعے سے جو چیز نکھر کر ہمارے سامنے آتی ہے، وہ یہ ہے کہ ایک داعی کا اصل ہدف اصلاحِ معاشرہ ہے۔ حصولِ اقتدار اورنظمِ اجتماعی اس کے دعوتی مشن کا ہدف نہیں بلکہ نتیجہ ہے ۔میرزا عبدالرحیم خا نِ خاناں ؒ کے نام حضرت مجدد ؒ کے خطوط کو ان کے اسی وژن کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ ذیل کی سطور میں ہم اپنے قارئین کی توجہ چند ایسے ہی نکات کی طرف مبذول کروائیں گے۔ 
سماجی تبدیلی کے لیے دعوت کا مرکزی ہدف طبقۂ عوام ہے یا اشرافیہ؟ یعنی تبدیلی اوپر سے نیچے کی طرف سفر کرتی ہے یا نیچے سے اوپر کی طرف ؟ یہ سوال جس قدر اہم ہے، اسی قدر سنجیدہ تجزیے کا متقاضی بھی ہے ۔ دورِ حاضر میں بہت سی اسلامی تحریکوں کی تگ و دو اور طرزِ عمل کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے اوراسی پس منظر میں ان کے اثرات و نتائج کی وسعت کا اندازہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ حضرت مجددؒ کی تحریکِ دعوت کو اس پہلو سے دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ آپؒ نے ایک طرف تو طبقۂ عوام کی تعلیم و تربیت اور اصلاحِ احوال کی طرف بھر پور توجہ فرمائی اور دوسری طرف کرسئ اقتدار کی بجائے امرا اور اشرافیہ کو اپنی دعوت کا ہدف بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپؒ کی کوششوں کے نتیجے میں معاشرے کے سرکردہ لوگوں نے اپنی دینی دلچسپیوں کا اظہار کیا تو عوام نے اپنے دینی مزاج کی وجہ سے ان کے طرزِ عمل کو نہ صرف قبول کیا بلکہ اس پر اپنی مسرت اور شادمانی کا اظہار بھی کیا۔
دعوتِ دین میں مدعو کے لیے خیر خواہی اور دل سوزی شرطِ اوّل ہے۔داعی کا سب سے پہلا کام یہ ہے کہ وہ مدعو کے دل پر دستک دے اور نہ صرف اس کی عزت نفس کا پوری طرح لحاظ رکھے، بلکہ اس کے ہر اچھے عمل پر اس کی حوصلہ افزائی بھی کرے، اور پھر جہاں ضرورت ہو اس کی اخلاقی تربیت سے بھی صرفِ نظر نہ کرے۔
اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز اربابِ بست وکشاد خاص قسم کے پروٹوکول (Protocol) کے عادی ہوتے ہیں اور یہ پروٹوکول ان کی نفسیات میں رچ بس کر ان کی عادت سے بڑھ کر فطرت کا حصہ بن جاتا ہے۔ ایک داعی کی کامیابی اسی میں ہے کہ وہ اپنے مدعو اور مخاطَب کی نفسیات اور پس منظر (Back Ground)کا پوری طرح لحاظ رکھے۔ حضرت مجددؒ کے خطوط میں ہمیں اس اسلوب کی جھلکیاں جگہ جگہ ملتی ہیں۔ مثلاً آ پؒ اپنے خطوط کا آغاز کسی نہ کسی دعائیہ جملہ سے فرماتے ہیں۔ ایک خط میں خانِ خاناںؒ کواپنی دعاوؤں سے نوازنے کے ساتھ ساتھ ان کے کمالات کا اعتراف ان الفاظ میں فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ ہمیں اور تمہیں ایسی قیل و قال سے نجات دے جو حال سے خالی ہے اور اس علم سے نجات عطا فرمائے جو عمل سے محروم ہے۔ .......اے ظہورِ کمالات کے لائق برادرِ عزیز !اللہ تعالیٰ تمہیں قوت سے فعل کی طرف لائے، تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے ، تو اس شخص پر افسوس جس نے اس میں کچھ نہ بویا اور زمین استعداد کو خالی رکھا اور تخمِ اعمال کو ضائع کردیا۔‘‘ (مکتوبات: دفتر اول ،حصہ اوّل ،مکتوب نمبر:۲۳)
ایک مکتوب میں حضرت مجددؒ ،خانِ خاناں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایسی کتب کے مطالعہ سے احتراز کرنا چاہیے جو صوفیا کے مکشوفات و الہامات پر مبنی ہوں، کیونکہ ہر قاری کے کیے اصل حقائق تک آسانی سے رسائی ممکن نہیں ۔اس کیے اربابِ اختیار کو فتوحاتِ مکیہ (ابن عربیؒ ) کی بجائے فتوحاتِ مدنیہ ( احادیثِ نبویہ) کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ آپ مکتوب الیہ کو دعا دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’فتوحاتِ مکیہ مفتاح فتوحاتِ مدنیہ باد‘‘۔( فتوحاتِ مکیہ، فتوحاتِ مدینہ کی کلید ہو۔)(مکتوبات: دفتر اول ،حصہ سوم ،مکتوب نمبر:۱۹۸)
سلاطین، امرا اور حکوتی عہدہ داروں کا احتساب اور ان کو نصیحت کرنا جان جوکھوں کا کام ہے ، لیکن یہ کام جس قدر مشکل ہے، اسی قدر ضروری بھی ہے، اس لیے کہ عوام الناس معاشرے کے سرکردہ افراداور ان کے طرزِ عمل سے نہ صرف براہِ راست متأثر ہوتے ہیں بلکہ ان کو نمونۂ عمل (Role Modle)بھی بنا لیتے ہیں ۔اس لیے ایک داعی کوہر طرح کے تحفظات سے بلند ہو کر بڑی حکمت کے ساتھ یہ فریضہ انجام دینا چاہیے،کیونکہ اعلیٰ منصب پر فائزکسی ایک انسان کی اصلاح کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے بہت سارے انسانوں کی اصلاح کا سامان کرلیا ہے۔ حضرت مجدد ؒ نے دعوت کے اس اسلوب کو جس حکمت کے ساتھ برتا ہے، وہ داعیانِ اسلام کے لیے خاص طور پر قابلِ توجہ ہے۔ میرزا عبدالرحیم خا نِ خاناں ؒ صاحبِ ثروت اور سلطنت مغلیہ کے رکنِ رکین ہونے کے باوصف اہل اللہ اور درویشوں کے خدمت گاروں میں تھے، مگر ان کے اندازِ تحریر سے تحکم اور تکبر کی بو آتی تھی ۔ حضرت مجدد ؒ ایک مکتوب میں ان کو تواضع اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’یہ ٹھیک ہے کہ آپ نے فقرا کی بہت خدمت کی ہے ،لیکن اس کے ساتھ ہی فقرا کے آداب کا لحاظ بھی بہت ضروری ہے،تاکہ اس پر ثمرہ اور نتیجہ برآمد ہو۔اور اس کے بغیر تو خار دار درخت پر ہاتھ پھیرنے والی بات ہے ، یعنی کچھ فائدہ نہیں ہے۔ ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے متقی لوگ تکلف سے بری ہیں اور متکبروں کے ساتھ تکبر کرنا بھی ایک قسم کا صدقہ اور نیکی ہے ۔حضرت خواجہ نقشبند ؒ کو ایک شخص نے متکبر کہا تو انھوں نے فرمایا: میرا تکبر خدا کہ لیے ہے۔
اس گروہِ فقرا کو ذلیل خیال نہ کریں، کیونکہ حدیث نبوی ہے: ’’رُبَّ اَشْعَثَ مَدْفُوْعِِ بِالْاَبْوَابِ لَوْ اَقْسَمَ عَلَی اللّٰہِ لَآبَرَّہٗ‘‘ (بہت سے پراگندہ بال،گردآ لود،دروازوں سے دھکیلے جانے والے (باطن میں ایسا بلند مقام رکھتے ہیں )کہ اگر اللہ کی قسم کھا لیں تو اللہ تعالیٰ ضرور ان کی قسم پوری کرتا ہے ۔)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگرچہ یہ باتیں تلخی نما ہیں، لیکن آپ کی خوشامد اور چاپلوسی کرنے والے بہت ہیں ،آپ اسی پر اکتفا کریں ۔فقرا سے آشنائی اور ملاقات سے مقصود یہ ہے کہ انسان اپنے پوشیدہ عیوب اور مخفی کمینی حرکات سے واقف اور مطلع ہو ۔یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اس طرح کی باتوں سے آزار اور تکلیف دینا مقصود نہیں ، بلکہ یہ باتیں خیر خواہی اور دلسوزی کے طور پر ہیں ۔‘‘ (مکتوبات، دفتر اول ،حصہ دوم ،مکتوب نمبر:۶۸) 
تکبر در اصل ایک روحانی اور اخلاقی مرض ہے جس کا علاج تواضع اور انکسار ہی سے ممکن ہے ۔ تواضع، غربا کا اظہارِ حال اور امرا کے لیے باعثِ کمال ہے ۔شیخ سعدی فرماتے ہیں:
تواضع زگردن فرازاں نکو ست
 گداگر تواضع کند خوئے اوست
حضرت مجددؒ کی پر سوز نصیحت کے جو اثرات مکتوب الیہ پر مرتب ہوئے، اس کی نشان دہی حضرت مجددؒ کے ایک دوسرے مکتوب سے ہوتی ہے۔ جب خانِ خاناں ؒ نے اس پرخلوص نصیحت کے نتیجے میں تواضع اختیار کرتے ہوئے اپنے رویے کو بالکل تبدیل کر لیا تو حضرت مجدد ؒ نے اپنے ایک خط میں ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے تحریر فرمایا:
’’چونکہ آپ نے فقرا کے آداب کا لحاظ رکھا ہے اور باتوں میں تواضع اختیار کی ہے،۔اس کے مطابق: مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰہِ رَفَعَہٗ اللّٰہُ، (جو اللہ کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے ۔اللہ اسے بلندی اور رفعت اختیار کرتا ہے ۔) امید ہے آپ کا یہ عجز و تواضع آپ کی دینی و دنیوی رفعت کا سبب بنے۔‘‘ (مکتوبات: دفتر اول ،حصہ دوم ،مکتوب نمبر:۶۹) 
شیطان کے بڑے جالوں میں سے ایک جال یہ ہے کہ وہ امورِ شرعیہ کے بارے میں انسان کے دل میں طرح طرح کے وسوسے ڈال کر اسے گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کبھی تو یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ اسلامی احکام خلافِ عقل ہیں، عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں اور ان پر عمل کرنا ہر انسان کے بس کی با ت نہیں ہے ۔حضرت مجدد ؒ نے خانِ خاناں ؒ کے نام ایک تفصیلی خط اس مضمون کا صادر فرمایا کہ امور شرعیہ میں پوری آسانی اور سہولت کا لحاظ رکھا گیا ہے اور مقیم و مسافر ،مریض و تندرست اورمردو زن دونوں کے دائرہ کار اور نفسیات کے مطابق تعلیمات دی گئی ہیں ۔اب اس اہتمام کے بعد بھی جو شخص عمل نہ کرے وہ حقیقتِ ایمان سے محروم ہے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: مکتوبات، دفتر اول ، حصہ سوم،مکتوب نمبر:۱۹۱)
اس میں کیا شک ہے کہ اسلام دینِ فطرت ہونے کے ساتھ ساتھ دین عقل بھی ہے، لیکن کون سی عقل معیارِ حق ہوگی؟ یہ ایک اہم سوال ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ عقل ایک ایساکمزور اور بے بس راہنما ہے جس کو انسانی خواہشات اور جذبات نے ہمیشہ اپنا تابع مہمل بنا کر رکھا ہے اور عقل نے ہمیشہ انسانی جذبات و خواہشات کے حق میں دلائل تراشے ہیں اور خواہشاتِ نفس اور جذباتی رویوں کو عقلی رویے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ عقل جج نہیں، وکیل ہے ۔ جیسا مقدمہ اسے دیا جائے گا، اسی کے مطابق وہ وکالت کرے گی ۔ یہ ایک ایسی دو دھاری تلوارہے جو دونوں طرف چلتی ہے۔ اس سے جس طرح دینی حقائق کو ثابت کیا جاسکتا ہے، اسی طرح باطل بھی کیا جاسکتاہے۔ یہ وکیل کی وکالت و ذہانت پر موقوف ہے کہ وہ مقدمہ کے کس پہلو کی تائید یاتردید کرنا چاہتاہے۔ اس لیے ہرشخص کو اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اپنی عقل کا ترازو لے کر آگے بڑھے اور احکامِ شرعیہ کے حق و باطل ہونے کا فیصلہ کرنے بیٹھ جائے۔معیارِ حق عقل نہیں بلکہ وحی ہے۔ اس لیے ایک مکتوب میں حضرت مجددؒ ، خانِ خاناں کے نام تحریر فرماتے ہیں: 
’’ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ تمام احکامِ شرعیہ کو عقلی پیمانے پر ناپے اور دلائلِ عقلیہ کے مطابق کردے ، وہ شانِ نبوت کا منکر ہے اور اس کے ساتھ کلام کرنا کم عقلی و بے وقوفی ہے۔‘‘ (مکتوبات، دفتر اول ، حصہ سوم ،مکتوب نمبر:۱۱۴) 
عقل پرستی کا مرض ہر دور میں رہا ہے۔ مغربی فکر و فلسفے کے زیر اثر یہ دورِ حاضر کا بڑا فتنہ ہے۔ اسلام عقل کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے اور تفکر فی الخلق پر زور دیتاہے۔ اسلام کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ اگر کسی حکم کی حکمت وقتی طور پر انسان کی سمجھ میں نہ بھی آئے، تب بھی وہ اس پر پختہ ایمان اور یقین رکھے ۔ورنہ ایسے شخص کا ایمان اپنی عقل پر ہو گا نہ کہ نبوت و رسالت پر ۔ اسی پس منظر میں شیخ مجددؒ نے اسلامی حدود و تعزیرات اوراسلامی احکام کو عقل کے ترازو میں تولنے والے شخص کو شانِ نبوت کا منکر قرار دیاہے۔ گویا دین یہ ہے کہ:
عقل قربان کن پیشِ مصطفی 

خطوط کی معاشرتی اہمیت

دورِ حاضر میں داعیانِ اسلام کی دعوت کے غیر مؤثر ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کا افرادِ معاشرہ کے ساتھ براہِ راست تعلق نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہمارے ہاں طبقۂ عوام کے مسائل سے آگاہی حاصل کرنا اور پھر ان کے حل کی عملی کوشش، دعوتِ دین کے دائرہ سے قطعی باہر سمجھی جارہی ہے۔ یہ طرزِ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہاجِ دعوت سے بہت بڑا انحراف ہے۔سیرت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مخلوقِ خدا سے محبت اور خدمتِ خلق دعوتِ دین کے سب سے کار گر ہتھیار ہیں۔ پہلی وحی کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لائے تو آپ ؐ کے اضطراب کو دیکھتے ہوئے حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کو ان الفاظ میں تسلی دی:
’’کَلَّا وَاللّٰہِ لَا یُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبَداً اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتُحْمِلُ الْکَلَّ وَتُکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَتُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ‘‘ (بخاری، باب بدء الوحی) 
’’ہرگز نہیں! اللہ کی قسم، اللہ آپؐ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا ۔آپؐ صلہ رحمی کرتے ہیں، لوگوں کا بوجھ اُٹھاتے ہیں،ناداروں کی خبر گیری کرتے ہیں اور مصائب میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں ۔‘‘ 
حضرت خدیجہؓ کے یہ الفاظ قبل از اعلانِ نبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا بڑا خوبصورت اور جامع بیان ہیں جس سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ خدمتِ خلق پہلے ہے اور دعوتِ دین بعد میں ۔اس وقت عیسائی مبلغین اور مشنریز پوری دنیا میں خدمتِ خلق کے نام پر اپنے باطل نظریات کے پرچار میں مصروف ہیں ۔غور کیا جائے تو بر صغیر میں صوفیاء کرام ؒ نے بلا امتیازِ رنگ و نسل و مذہب لوگوں کی خدمت کو اپنا شعار بنایا اور لوگوں کو اسلام کی طرف مائل کرنے میں کامیاب ٹھہرے ۔خانقاہی نظام میں لنگر کا تصور اس اسلوبِ دعوت کی خوبصورت مثال ہے ۔
حضرت مجدد ؒ کے دعوتی منہج میں بھی اس اسلوب کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے ۔نہ صرف ذاتی حیثیت میں آپ نے مخلوقِ خدا کی خدمت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا بلکہ اصحابِ ثروت کو بھی اس طرف توجہ دلائی ۔ہم ان سطور میں صرف چند مثالیں پیش کرنے پر ہی اکتفا کریں گے جن سے واضح ہوتا ہے کہ ایک طرف اگر شیخِ مجددؒ کی اپنے ارادت مندوں کی روحانی ترقی پر گہری نظرتھی تو دوسری طرف وہ ان کے روز مرہ زندگی کے مسائل سے بھی پوری آگہی رکھتے تھے ۔ حضرت مجددؒ ،خا نِ خاناں ؒ کے نام اپنے ایک مکتوب میں ایک ضرورت مند کی سفارش کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’سیادت مآب سید ابراہیم آپ کے بلند آستانہ سے قدیمی تعلق و نسبت رکھتا ہے اور آپ کے دعاگووں میں شامل ہے۔ آپ کے ذمہ کرم پر لازم ہے کہ اس کی دستگیری فرمائیں تاکہ اس فقر اور بڑھاپے کے وقت اپنے اہل و عیال میں فراغت اور سکون سے اپنا وقت گزاریں اور آپ کے دونوں جہان کی سلامتی کی دعامیں مشغول رہیں۔ (مکتوبات، دفتر اول ،حصہ دوم ،مکتوب نمبر:۶۹)
حضرت مجددؒ ایک دوسرے مکتوب میں رقمطراز ہیں:
’’میاں شیخ عبد المومن بزرگ زادہ ہیں اور تحصیل علم سے فارغ ہو کر طریقۂ صوفیا کا سلوک فرماتے ہیں اور سلوک کے ضمن میں عجیب و غریب احوال مشاہدہ کرتے ہیں ۔ضرورتِ انسانی از قسم اہل و عیال ان کو حیران وبے اختیار ناچار کردیتی ہے ۔اس فقیر نے ناچار گی اور پریشا نی کو دور کرنے کے لئے آپ کی جناب کی طرف ان کی رہنمائی کی ہے۔ ’’مَنْ دَقّ بَابَ الْکَرِیْمِ انْفَتَحَ‘‘ جس نے کریم کا دروازہ کھٹکھٹایا وہ کشادہ حال ہو گیا ۔ (مکتوبات، دفتر اول،حصہ چہارم ،مکتوب نمبر:۲۳۲) 
حضرت مجددؒ ایک اور مکتوب میں خانِ خاناں کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کرنے کے بعد ایک حاجت مند کی سفارش بایں الفاظ فرماتے ہیں:
’’دو ضروری اور اہم کام بے اختیار آپ کو تکلیف دینے کا باعث بنے ہیں ۔ایک رنج و آزار کاگمان رفع کرنے کا اظہار،بلکہ آپ سے اور اخلاص کا ہونا ۔اور دوسرا ایک محتاج آدمی کی طرف اشارہ جو فضیلت اور نیکی سے آراستہ ہے اورمعرفت اور شہود سے مزین ہے ،جو نسب کے لحاظ سے کریم اور حسب کے اعتبار سے شریف ہے ۔‘‘(مکتوبات، دفتر اول ،حصہ دوم ،مکتوب نمبر:۶۷) 

خطوط کی سیاسی اہمیت

میرزا عبدالرحیم خا نِ خاناں ؒ سیاسی اعتبار سے معمولی آدمی نہ تھے۔ نہ صرف اپنی خاندانی خدمات کی وجہ سے بادشاہ پر ان کے گہرے اثرات تھے، بلکہ اپنی فطری بہادری، بلند فکری، علما و صوفیا سے محبت اور فقرا و مساکین کی دادرسی کی وجہ سے ہرطبقہ میں مقبولیت کی اس سطح پر تھے جس سے زیادہ کا سوچا بھی نہیں جاسکتا، لیکن اس کے باوجود حضرت مجدد ؒ نے ان کی طرف جو خطوط صادر فرمائے، ان میں اس بات کا ادنیٰ سا شائبہ بھی نہیں ہے جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہو کہ آپ ؒ خانِ خاناں کی اس حیثیت سے اقتدار یا ذاتی منفعت کے خواہاں ہوں۔حضرت مجددؒ نے جس انداز میں اپنے ذاتی طرزِ عمل سے اقتدار سے لاتعلقی کا اظہار فرمایا، اس نے حکمران طبقے، امرا اور اشرافیہ میں آپ کی دعوت کے نفوذمیں اہم کردار ادا کیا۔ غور کیا جائے تو شیخ مجدد ؒ کے خطوط کا مرکزی نقطہ مکتوب الیہ کی اصلاح اورپھر ان کی وساطت سے دربار ی امرا اور دیگرمتعلقین کی اصلاح ہی تھی ۔آپؒ نے اس مقصد کے لیے ایسا اسلوب اختیار فرمایا کہ مکتوب الیہ کی نظر میں دنیا کا حقیر ہو نا پوری طرح واضح ہو جائے اور اس کی وساطت سے دوسرے امرا کی اصلاح اور ان کے دلوں میں اسلامی احکام کی حرمت و عزت کے تصور کو پختہ کیا جائے ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مجددؒ کی اخلاص و للہیت پر مبنی ان کوششوں کے نتیجے میں ایک موقع پر میرزا عبدالرحیم خا نِ خاناں ؒ گورنری کا عہدہ چھوڑنے پر تیار ہوگئے۔ خانِ خاناں ؒ کی شخصی وجاہت، مقام ومرتبہ اور عہدہ و اقتدار کے باوجود حضرت مجددؒ نے احقاقِ حق میں کبھی مداہنت، چشم پوشی یا مصلحت کوشی کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ ایک موقع پر خانِ خاناں ؒ کو واضح اور دو ٹوک انداز میں تحریر فرمایا: 
’’نجات کا راستہ اہل سنت وجماعت کی متابعت ہے۔ (اللہ تعالیٰ اس گروہ کو اور زیادہ کرے ) اقوال میں بھی،افعال میں بھی اور احوال و فروع میں بھی،کیونکہ نجات پانے والا فرقہ صرف یہی ہے ۔باقی تمام فرقے زوال اور ہلاکت کے کنارے کھڑے ہیں ۔آج کسی کے علم میں یہ بات آئے یا نہ آئے، لیکن کل (قیامت ) کو ہر ایک جان لے گا،مگر اس وقت جاننا بے سود ہوگا۔‘‘ (مکتوبات، دفتر اول ، حصہ دوم ،مکتوب نمبر:۶۹) 
حضرت مجدد ؒ نے ہمیشہ یہ کوشش فرمائی کہ خانِ خاناں کی شخصی حیثیت سے فائدہ اُٹھا کر دربارِ شاہی سے وابستہ دیگر لوگوں کی اصلاح کی کوشش کی جائے ۔حضرت مجددؒ نے اپنے ایک مکتوب میں میرزا عبدالرحیم خا نِ خاناں ؒ کو اس طرف توجہ دلائی کہ آپ کے ایک فاضل شاعر دوست کے بارے معلوم ہوا ہے کہ انھوں اپنا لقب ’’کفری‘‘ اختیار کر رکھا ہے جو کہ کسی مسلمان کے شایانِ شان نہیں ۔ پھر آپ ؒ نے خا نِ خاناں ؒ کو تحریر فرمایا کہ اس شاعر کو میری طرف سے پیغام پہنچادیں کہ اس طرح کا کافرانہ تخلص بدل کر کوئی ایسا اسلامی لقب اختیار کریں جو جامع برکات ہو ۔ (ملاحظہ ہو: مکتوبات، دفتر اول ، حصہ دوم ،مکتوب نمبر:۲۳) 
خلاصۂ کلام یہ کہ خانِ خاناں کے نام حضرت مجددؒ کے مکتوبات سے جو نکات نکھر کر سامنے آتے ہیں، وہ یہ ہیں کہ ایک داعی اپنے مشن میں اسی وقت کامیاب ہو سکتا ہے جب اس کی کوششیں اخلاص پر مبنی ہوں اوریہ کہ دنیوی فوائد سے بے رغبتی داعی کے پیغام کو طبقۂ امرا میں مقبول بنادیتی ہے ۔نیز حضرت مجددؒ کے زیر مطالعہ خطوط سے یہ چیز بھی سامنے آتی ہے کہ ایک داعی کا صرف یہی کام نہیں کہ وہ لوگوں کی روحانی ترقی پر نظر رکھے بلکہ اسے لوگوں کے دکھ درد میں بھی شریک ہونا چاہیے اور ان کے ساتھ اس طرح گھل مل کر رہنا چاہیے کہ ان کے سماجی مسائل اس کی نظروں سے پوشیدہ نہ رہ سکیں۔ اگر وہ لوگوں کی براہِ راست مدد کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو تو اصحابِ خیرکو ان کے مسائل کی طرف متوجہ کرے۔ اس انداز سے وہ لوگوں کے دل میں جگہ بنا سکتا ہے اور آسانی کے ساتھ دلوں کی زمین کو دعوت کے بیج کی تخم ریزی کے لیے ہموار کر سکتا ہے ۔ 

’’حیات سدید‘‘ کے چند ناسدید پہلو (۳)

چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ

یہ کہنا کہ ’’علامہ کا مطمح نظر دارالاسلام میں فقہ اسلامی کی تدوین نو تھا، جب کہ حضرت مولانا فقیہ نہیں تھے۔ ویسے بھی انہیں اس کام میں دلچسپی نہ تھی۔ بعد کے واقعات نے ثابت کیا۔‘‘ (حیات سدید صفحہ نمبر ۱۷۳) مولانا مودودی اور اقبال دونوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ اقبال نے بہر حال مولانا کو اس کام کی ابتدائی تیاری کے لیے دارالاسلام منتقل ہونے کے لیے کہا تھا۔ وہ اس انتخاب کے لیے موزوں نہیں تھے تو مطلب یہ ہوا کہ اقبال کا انتخاب غلط تھا۔ مولانا مودودی اپنے خط نمبر ۹ مورخہ ۲۶۔مارچ ۱۹۳۷ء بنام چوہدری نیاز علی میں حیات سدید کے صفحہ نمبر ۴۹۹، ۵۰۰ پر لکھتے ہیں:
’’ہم خالص قرآن کی بنیاد پراسلام کی نشاتِ جدیدہ (Renaissance) چاہتے ہیں۔ قرآن کی اسپرٹ اور اسلام کے اصول ہمارے نزدیک غیر متبدل ہیں۔ مگر افکار اور معلومات کی ترتیب اور عملی زندگی کے احوال پر اس روح اور ان اصولوں کا انطباق ہمیشہ احوال کے تغیر اور علم کی ترقی کے ساتھ ساتھ بدلنا ضروری ہے۔ متقدمین اسلام اس چیز کو سمجھتے تھے۔ انہوں نے اپنے زمانے میں عملاً اس کو برتا، مگر متاخرین یہ سمجھے کہ اصول اور اسپرٹ کی طرح ان کا انطباق بھی غیر متبدل ہے۔ اس چیز نے وہ جمود پیدا کیا جو سات سو برس سے ہمارے علوم اور ہمارے قوانین حیات پر طاری ہے، موجودہ دور میں مسلمانوں کے ایک گروہ نے اس جمود کو توڑنا چاہا مگر انہوں نے نشات جدیدہ پیدا کرنی چاہی، وہ اسلام کی نشات جدیدہ نہیں ہے۔ اس لیے کہ وہ روح قرآنی اور اصول اسلامی سے بے بہرہ ہیں۔ ان کی فکر و نظر اسلامی نہیں ہے۔ اس لیے وہ نہ مسلمان کی حیثیت سے سوچ سکتے ہیں اور نہ اسلامی طریق پر معلومات کو مرتب کر سکتے ہیں، نہ زندگی کے معاملات کو مسلمان کی نظر سے دیکھ سکتے ہیں۔
ہمارا راستہ متاخرین اور متقدمین دونوں سے الگ ہے۔ ہمیں ایک طرف روح قرآنی کو ٹھیک ٹھیک اپنے اندر جذب کرنا اور اپنی قوت فکر و نظر کو اصول اسلامی سے پوری طرح متحد کرنا ہے۔
دوسری طرف علم کی ان ترقیات اور احوال کے ان تغیرات کا پورا پورا جائزہ لینا ہے جو گذشتہ سات آٹھ سو برس کی مدت میں ہوئی اور تیسری طرف صحیح اسلامی طریق پر افکار و معلومات کو مرتب اور قوانینِ حیات کو مدون کرنا ہے تاکہ اسلام پھر سے بالفعل ایک Dynamic force بن جائے اور دنیا میں مقتدی اور امام بن کر رہے۔
یہ ایک Herceulean task ہے۔ اول تو ہم اس کو اس طرح شروع کر رہے ہیں کہ ہم سے پہلے کوئی اس کے نشاناتِ راہ چھوڑ کر نہیں گیا۔ ہمیں خود ہی اپنی منزل مقصود کو پیش نظر رکھ کر راستہ بنانا اور اس پر چلنا ہے۔ دوسرے یہ اتنا بڑا کام ہے کہ میری اور آپ جیسے سینکڑوں آدمیوں کی پوری پوری زندگیاں بھی اس کے لیے کافی نہیں ہیں۔ اگر ہم یہ امید کریں کہ ہماری زندگی ہی میں اس کے پورے نتائج سامنے آ جائیں گے تو یہ غلط امید ہو گی۔یہ کھجور کا درخت لگانا ہے۔ جو اس کو بوتا ہے، وہ اس کے پھل نہیں توڑ سکتا۔ ہم اس درخت کو لگائیں گے اور اپنے خون جگر سے اس کو سینچ کر چلے جائیں گے۔ ہمارے بعد وہ دوسری نسل آئے گی اور شاید وہ بھی اس کے پھلوں سے پوری طرح لذت آشنا نہ ہو سکے گی۔ کم از کم دو تین پشتیں اس کے پورے نتائج ظاہر ہونے کے لیے درکار ہیں۔ لہٰذا ہمیں نتائج کے لیے بے صبر نہ ہونا چاہیے۔
ہمارا کام یہ ہے کہ عمارت کا نقشہ ٹھیک ٹھیک (جیسا ٹھیک کہ ہم بنا سکتے ہیں)بنا دیں اور اس کی بنیادیں اٹھا کر نئی آنے والی نسل کو تعمیر کا کام جاری رکھنے کے لیے تیار کر دیں۔ اس سے زیادہ غالباً ہم کچھ نہ کر سکیں گے۔‘‘
مولانا مودودی کا خط بنام سید نذیر نیازی تحریر ہذا کے آخر پر ضمیمہ کے طور پر شامل کیا جا رہا ہے۔ یہ خط مورخہ مورخہ ۲۶ جولائی ۱۹۳۷ء کو لکھا گیا۔ اس کی آخری سطور درج ذیل ہیں:
’’علامہ کے ساتھ عمرانیات اسلامی کی تشکیل جدید میں حصہ لینا میرے لیے موجب سعادت ہے۔ میں ہر ممکن خدمت کے لیے حاضر ہوں۔ مگر اس سلسلے میں کسی مالی معاوضہ کی مجھے ضرورت نہیں۔‘‘
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مولانا کو اس کام سے دلچسپی نہیں تھی، مولانا کے بعد کے کام سے مصنف کی بات کی تصدیق نہیں، تردید ہوتی ہے۔ خاص طورپر رسائل و مسائل کو دیکھ کر ماننا پڑے گا کہ مولانا فقہی اپچ رکھتے تھے۔ پھر ان کی کتاب حقوق الزوجین، عائلی قوانین پر تدوین جدید کی جانب بڑی اہم چیز ہے۔ البتہ یہ بات میں تسلیم کرتا ہوں کہ فقہ کی تدوین جدید کا کام مولانا کی اپنی ترجیحات میں اولیت نہیں رکھتا تھا، لیکن اس بات سے بھی انکار کسی کے لیے بھی ممکن نہیں کہ مولانا جس کام کا بیڑہ اٹھا لیں، اسے پورا کر کے دم لیتے تھے۔ ان میں ہر کام کی صلاحیت موجود تھی۔ فقہ کی تدوین کے لیے اقبال کی رہنمائی اور شرکت سے اگر یہ کام شروع ہو جاتا تو لازمی طور پر تکمیل کو پہنچتا۔ علامہ اقبال کی وفات کی وجہ سے کام کی ابتدا ہی نہ ہو سکی تو پھر اس کا الزام مولانا پر تو نہیں آ سکتا۔
یہ کہنا کہ مولانا اقبال کی بیمار پرسی کے لیے آئے اور نہ ہی شریکِ جنازہ ہوئے، یہاں تک لکھا گیا کہ انہوں نے تعزیت کرنا تک گوارا نہ کیا، بیمار پرسی اور جنازے میں شرکت سے گریز کی بات کرنے والوں کو احساس نہیں کہ مولانا حیدرآباد سے اجڑ کر ایک نئی جگہ پر اقبال کے دیے ہوئے تیاری کے مرحلے میں پھنسے ہوئے تھے جس سے فارغ ہو کر علامہ کے حضور حاضری کا مکمل پروگرام رکھتے تھے۔ جسے کبھی نقل مکانی کا تجربہ ہو، وہ ایسی بات نہیں کہہ سکتا۔ باقی رہی تعزیت نہ کرنے کی بات تو اس کے لیے مولانا کا سید نذیر نیازی کے نام مفصل خط کئی جگہوں پر چھپ چکا ہے۔ ہم اسے اس مضمون کے آخر پر بطور ضمیمہ شامل کر رہے ہیں۔
مجید نظامی نے مولانا پر قیام پاکستان کی مخالفت کی پرانی فرد جرم کاحوالہ دے کر سیاستِ وطن کو ان کے بس سے نکالنے کی بات فرمائی ہے۔ مجید نظامی کا مشورہ ایسا ہی ہے جیسا کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ جناب افتخار حسین ممڈوٹ کا تھا۔ اگست ۱۹۴۷ء کے آخر پر مولانا مودودی دارالاسلام پٹھانکوٹ سے ہجرت کر کے لاہور پہنچے تھے۔ گرداسپور کی صورت حال کو قریب سے دیکھ کر آئے تھے۔ سخت ہیجان کا شکار تھے۔ ایک دو روز بعد ممڈوٹ صاحب سے ملے۔ ان سے کہا کہ :
’’صرف ایک بٹالین فوج کو حرکت دے کر مشرقی پنجاب سے کشمیر جانے والا راستہ بند کیا جا سکتا ہے۔‘‘
اقتدار کے نشے سے سرشار وزیر اعلیٰ کا جواب تھا:
’’مولوی صاحب، آپ اپنا کام کیجیے اور ہمیں اپنا کام کرنے دیجیے۔‘‘ (ترجمان القرآن اشاعت خاص مئی ۲۰۰۴ء ، مضمون ہارون الرشید صفحہ نمبر ۱۳۰)
اسی قسم کا مشورہ مولانا مودودی کو ایوب خان نے بھی دیا۔ مصیبت یہ ہے کہ ہر بوالہوس، حسن پرستی شعار کر لیتا ہے اور ہر دوسرے کو اس سے باز رکھنے پر اصرار کرتا ہے۔ بہر حال مجید نظامی صاحب کی جانب سے قیام پاکستان کی مخالفت کی پرانی فرد پر تو ہم فی الحال تفصیل سے کچھ کہنے کے بجائے صرف مولانا کی اس زمانے کی تحریروں سے ایک دو اقتباس درج کریں گے:
’’مسلمان ہونے کی حیثیت سے میری نگاہ میں اس سوال کی کوئی اہمیت نہیں کہ ہندوستان ایک ملک رہے یا دس ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے۔ تمام روئے زمین (فی الحقیقت) ایک ملک ہے۔ انسان نے اس کو ہزاروں حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ یہ اب تک کی تقسیم اگر جائز تھی تو آئندہ مزید تقسیم ہو جائے گی تو کیا بگڑ جائے گا۔ اس بت کے ٹوٹنے پرتڑپے وہ جو اسے معبود سمجھتا ہے۔ مجھے اگر یہاں ایک مربع میل رقبہ بھی ایسا مل جائے جس میں انسان پر انسان کے سوا کسی کی حاکمیت نہ ہو تو میں اس کے ایک ذرہِ خاک کو تمام ہندوستان سے زیادہ قیمتی سمجھوں گا۔‘‘ (ترجمان القرآن جنوری ۱۹۴۰ء)
اس کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ تقسیم ہند کے لیے مسلم لیگ کی قرار داد، لاہور میں ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کو منظور ہوئی۔ اس سے بھی دو سال پہلے مولانا مودودی نے تقسیم کے لیے جو فارمولا پیش کیا ، اس کی پوری تفصیل یہاں درج کرنے کی ضرورت نہیں۔ بہت سے غیر متعصب مسلم لیگی مصنفین نے اپنی تحریروں میں اس کا حوالہ دیا ہے۔ یہاں ان تجاویز کا کچھ حصہ درج کیا جاتا ہے۔
’’جن جن علاقوں میں جس قوم کی اکثریت ہے، وہاں ان کی آزاد ریاستیں قائم کر دی جائیں اور یہ آزاد ریاستیں مل کر ایک کینفیڈریشن بنا لیں۔ اگر یہ تجویز بھی قابل قبول نہ سمجھی جائے تو ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کر لیا جائے جو مسلم انڈیا اور ہندو انڈیا پر مشتمل ہو اور باہم اتفاق کے ساتھ ایک مدت مقرر میں امن اور صلح صفائی کے ساتھ ہندو مسلم انڈیا سے ہندو انڈیا منتقل ہو جائیں اور ہندو انڈیا سے مسلمان مسلم انڈیا میں منتقل ہو جائیں اور دونوں طرف انہیں اپنی جائیدادیں بیچنے اور تبادلہ کرنے کے پورے مواقع بہم پہنچائے جائیں۔‘‘ (ترجمان القرآن اکتوبر تا دسمبر ۱۹۳۸ء)
مسئلہ قومیت پر مولا نا مودودی کی تحریریں اتنی جان دار اور موثر تھیں کہ پختہ کانگرسی ذہن بھی ہل جاتے تھے۔ ایک مثال محض حوالے کے لیے درج کی جاتی ہے، اس کی بے شمار مثالیں ہیں۔ مولانا محمد چراغ اپنے انٹرویو میں اس کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’ایک بار جواہر لال نہرو گوجرانوالہ بڑے ریلوے اسٹیشن پر تقریر کے لیے آئے۔ میں اور میرے دوست مولانا محمد اسماعیل سلفی (ہم دونوں اس وقت کانگریسی تھے) تقریر سننے جا رہے تھے۔ مولانا مودودی کی تحریروں کے تذکرے پر مولانا اسماعیل صاحب فرمانے لگے ’’مودودی نے کانگریس سے ہمارا وضو تو توڑ دیا۔‘‘ (ترجمان القرآن اشاعت خاص مئی ۲۰۰۴ء صفحہ نمبر ۷۱)
دو قومی نظریہ پر مولانا مودودی کی تحریروں سے متاثرین میں خان آف قلات کے علاوہ کئی دیگر بلوچ رہنما بھی شامل تھے۔ نوابزادہ جہانگیر شاہ جوگیزئی نے اپنے مضمون ’’حضرت مولانا مودودی‘‘ میں لکھا:
’’پاکستان کی تحریک شروع ہوئی تو دو قومی نظریہ ایک نعرہ بن گیا، مگر اس کی علمی و عقلی توجیہات کسی کے پیش نظر نہ تھیں۔ مسلم لیگی قیادت بھی محض جذباتی نعروں میں بہے چلے جا رہی تھی۔ میرے والد محترم نواب محمد خان جوگیزئی مرحوم بلوچستان سے پہلی دستوریہ ہند کے واحدرکن تھے، جن کے ووٹ سے بلوچستان، پاکستان میں شامل ہوا۔ میں نے پاکستان کے حق میں انہیں جس قدر ہموار کیا اور جن جن دلائل سے کام لیا، علم و عقل کاسارا سلحہ مولانا مودودی کی کتب سیاسی کش مکش سے لایا تھا۔ اسی طرح مولانا کی کتاب مسئلہ قومیت نے بھی وہ کام کیا جو ایک تحریک کر سکتی تھی۔ ‘‘ (ترجمان القرآن اشاعت خاص اکتوبر ۲۰۰۳ء صفحہ نمبر ۲۴۲ بحوالہ ہفت روزہ چٹان لاہور ۱۳۔اکتوبر ۱۹۸۰ء صفحہ ۳۲)
اس کے علاوہ حیاتِ سدید میں مسئلہ قومیت اور مولانا مودودی کے دیگر مضامین کی دارالاسلام اور دیگر مسلم لیگی حلقوں کی جانب سے وسیع اشاعت اور تقسیم، ان مضامین کے موثر ہونے کا ثبوت ہے۔ اس کا کریڈٹ مولانا مودودی کو مجید نظامی کے مشورے کی صورت ہی میں ملنا تھا تو مولانا نے مشورہ پر کوئی تیوری نہیں چڑھائی۔ وجہ یہ ہے کہ مولانا اس طرح کا مزاج ہی نہیں رکھتے تھے، لیکن بات جب مشورہ سے بڑھ کر ایک کتاب کے پیش لفظ کی صورت میں آ جائے تو اس کا نوٹس لینا ضروری ہو جاتا ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود اگر جناب مجید نظامی یہی کہیں کہ مولانا نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی تو اس پرانی بحث پر مزید صفحے سیاہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ جناب نظامی کے نقطہ نظر کو مان لیا جائے تو قیام پاکستان سے اختلاف کرنے والوں پر پاکستانی سیاست میں داخلہ، شروع سے ہی ممنوع قرار دے دینا چاہیے تھا۔ ایسے لوگوں کو مملکت میں دوسرے درجے کے شہری بن کر رکھا جانا لازم تھا۔ مسلم لیگ کے بس میں ہوتا تو قرارداد مقاصد اور دستور پاکستان میں ایسے لوگوں کے لیے سیاست پاکستان شجر ممنوعہ قرار دے دی جاتی۔ سیاستِ پاکستان فوجی اور سول بیوروکریسی اور مسلم لیگ کے کھوٹے سکوں کے لیے چوپٹ رہتی۔ 
مسلم لیگ کیا ہے، قائد کا فرمان تو واضح ہے مگر مسلم لیگ کی تو پوری تاریخ ناقابل فہم ہے۔ ایک واضح منزل رکھنے کے بعد بھی اس کا گروپوں کی شکل پر اصرار، جمہوریت کی خوبی کے طور پر تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ اسے جمہوری ادا تو اس صورت میں کہہ سکتے ہیں جب یہ ایک پلیٹ فارم پر رہے۔ مسلم لیگ کے نام کو اتنا تقدس حاصل رہا کہ ہر ایک نے اسے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ دوسرے انداز میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگ ایسی ماں ہے جس کی کثیر العیالی کی انتہا یہ ہے کہ سرخ پوشوں، کمیونسٹوں، خدائی خدمت گزاروں، احرار، جماعت اسلامی اور کانگریس کے سوا پاکستان کی تمام جماعتوں نے مسلم لیگ کی کوکھ سے ہی سے جنم لیا۔ مسلم لیگ کا کمال ولادت یہ ہے کہ قرارِ حمل کے بعد بعض اوقات، ولادت فوراً ہی ہو جاتی ہے۔ ایسے بھی ہوا کہ جو کل تک قائد کو گالیاں دیتے تھے، وہ مسلم لیگ کی نظر عنایت سے مزار قائد پر فاتحہ پڑھنے پہنچ گئے۔ ذکر کو بار محسوس نہ کیا جائے تو جناب رفیق تاڑر کی بات اس لیے کروں گا کہ وہ ہماری بار کے ممبر رہے، سارا دن بار میں بیٹھ کر قائد علیہ الرحمہ کو گالیاں دینے کے سوا ان کا کوئی شغل نہیں تھا، لیکن ان کی عمر بھر کے دشنام جب لیگیائے گئے تو وہ مسلم لیگ کے کھاتے سے صدر مملکت ہو گئے۔ 
ہمارے ضلع کے مسلم لیگ کے سب سے بڑے مامے، ایوب خان کی مسلم لیگ میں تھے۔ مادر ملت نے ایوب کے مقابلے پر صدارتی الیکشن ہارا تو جلوس کی قیادت کر رہے تھے۔ اس جلوس میں کتیا کے گلے میں مادر ملت کی تصویر لٹکا کر اسے جوتے مارتے ہوئے پوچھا جاتا تھا کہ ’’پھر الیکشن لڑو گی؟‘‘ پاکستانی سیاست تو ایسے ہی لوگوں کے بس کی ہے۔ 
ہم اوپر ذکر کر آئے ہیں کہ سید شریف الدین پیرزادہ مادر ملت کی موت کو غیر طبعی اور قتل قرار دیتے ہیں، مگر ہمیشہ مقتدر حلقوں کے مشیر کی اعلیٰ ترین منصب پررہنے کے باوجود رپورٹ ابتدائی (ایف آئی آر) بھی درج کرانے کی جرات نہیں کر سکے۔ ایوب خان اور سید مشرف کی رفاقت بلکہ چاکری کرنے والے مسلم لیگی قرار پائیں تو پھر کوئی بھی غیر مسلم لیگی نہیں ہو سکتا۔ ملک غلام محمد، ایوب اور اسکندر مرزا کی سازشوں سے ادھر ایک کابینہ ٹوٹ کر نئی بنتی تو پرانی کابینہ کے اکثر وزرا نئی کابینہ میں بدستور موجود رہے۔ ایسا بھی ہوا کہ اسمبلی گھر بھیج دی گئی مگر وزیر اعظم اسی طرح اپنے منصب پر قائم رہے۔ سادہ دل لوگوں کو گمراہ کرنے کی انتہا یہ ہے کہ مولوی تمیزالدین کیس میں ایک ایسا شخص بھی مسؤل علیہ تھا جو ۱۹۵۶ء کے دستورکے خالق اور ایوب خان کے خلاف تحریکِ جمہوریت میں سرخیل لیڈر رہا۔ ۱۹۶۵ء کی جنگ کے بعد، اعلان تاشقند کے نتیجہ میں ہونے والے رد عمل پر نیشنل کانفرنس اسی لیڈر کے گھر پر منعقد ہوئی۔ 
بعد ازاں کے مسلم لیگیوں نے کیا کچھ کیا؟ ملکی خزانہ خالی کر دیا اور اپنی تجوریاں بھریں۔ ملک غریب اور رؤسا امیر سے امیر ہوتے گئے۔سید المشرفین کے دور میں تو ’’پاکستان فار سیل‘‘ کے اشتہار عام ہوئے۔ شہریوں کے جسم و جاں، ماؤں بہنوں اور بیٹیوں تک کو بیچ ڈالا گیا۔ کہاں تک بیان کیا جائے! اگر سیاستِ پاکستان کو بس میں لانے کے لیے اس طرح کے لچھن اختیار کرنے لازم ہیں تو واقعتا مولانا مودودی کے لیے مجید نظامی کا مشورہ صحیح تھا۔ یہی مشورہ مولانا مودودی کو فیلڈ مارشل ایوب خان نے بھی لاہور کے گورنر ہاؤس میں ملاقات کے وقت دیاتھا۔ ایوب خان کے الفاظ یہ تھے کہ:
’’مولانا گندی سیاست میں حصہ لینے سے آپ کے اجلے دامن پر داغ لگ جاتے ہیں۔ آپ دین کی خدمت کریں، ہم ہر طرح تعاون کریں گے۔ گندی سیاست سے اپنے آپ کو بچائیں‘‘۔ 
مولانا نے بر جستہ جواب دیا تھا کہ :
’’سیاست کی گندگی کو صاف کرتے کرتے اگر میرا دامن گل بھی جائے تو یہ مہنگا سودا نہیں۔ تطہیر و صفائی کا یہ کام، بہرصورت جاری رکھوں گا۔‘‘

قرب اقبال کے ’’قصے‘‘ اور تحریک پاکستان کی ’’مخالفت‘‘

معذرت کے ساتھ ہم ایک بار پھر پیش لفظ کی جانب لوٹتے ہیں۔ اس میں مجید نظامی نے کہا کہ اقبال اور مولانامودودی کے قرب کے قصے گھڑے گئے۔ مولانا مودودی نے کبھی اقبال سے قرب کا دعویٰ نہیں کیا۔ وہ اقبال کے مداح تھے۔ انہوں نے اقبال سے صرف دو ملاقاتوں کی بات کی ہے۔ ان ملاقاتوں کو انہوں نے ابتدائی نوعیت کی بتایا ہے۔ لاہور آمد کے لیے جنابِ نیاز علی خان نے اصرار کیا تو وہ ان کے ہمراہ اقبال سے ملے۔ اس سے ان کو اندازہ ہوا کہ اقبال ان کی تحریروں سے واقف ہیں۔ یقینی طور پر اس دور کے مولانا کے تجزیے معروف و عام تھے۔ خاص طور پر مسئلہ قومیت پر مولانا کی تحریریں مسلم لیگی حلقوں کا فکری اور علمی اسلحہ ثابت ہوا۔ یہاں ہم نوائے وقت ہی کے دیرینہ اور مستقل کالم نویس جناب میم شین ( محمدشفیع ) کے الفاظ حیات سدید ہی سے نقل کریں گے۔ کتاب کے صفحہ نمبر ۱۸۰ پر ان کے حوالے سے تحریر ہے کہ:
’’حقیقت یہ ہے کہ پورے ہندوستان میں نظریہ وطنی قومیت کے خلاف قلمی جہاد کرنے میں مولانا مودودی سے زیادہ کسی اور شخص نے علامہ اقبال کا ساتھ نہیں دیا۔‘‘
اب رہا یہ سوال کہ مولانا اور اقبال کے قرب کے قصے گڑھے گئے، اس بارے میں مولانا نے جو تفصیلات بیان کی ہیں، وہ اس قدر ہیں۔ ۳۰۔ مارچ ۱۹۵۱ء کو ایک خط میں انہوں نے تحریر کیا:
’’ ڈاکٹر اقبال مرحوم سے میرے تعلقات کوئی بہت وسیع تو نہ تھے، البتہ قلبی حیثیت سے گہرے ضرور تھے۔ میں جب حیدرآباد سے رسالہ ترجمان القرآن نکالا کرتا تھا، اس زمانے میں مجھے خبر تک نہ تھی کہ ڈاکٹر صاحب مجھ سے واقف ہیں، مگر بعد میں معلوم ہو کہ وہ برابر اس رسالہ کو منگوا کر میرے مضامین دلچسپی کے ساتھ پڑھوا کر سنتے رہتے تھے۔ مجھے پہلی مرتبہ ان کی دلچسپی کا علم اس وقت ہو جب ۱۹۳۷ء کے آغاز میں ان کا عنایت نامہ مجھے ملا جس میں انہوں نے اس خواہش کا اظہار فرمایا تھا کہ میں حیدرآباد چھوڑ کر پنجاب چلا آؤں اور لاہور میں رہ کر فقہ اسلامی کی تدوین جدید میں ان کے ساتھ تعاون کروں۔ اس کے بعد کچھ مراسلت شروع ہوئی اور ۳۷ء کے آخر میں لاہور آکر دو تین مرتبہ ان سے ملا۔ ان ملاقاتوں میں ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میری اور ان کی بہت پرانی واقفیت ہے اور ہم ایک دوسرے کے دل سے بہت قریب ہیں۔ یہاں میرے اور ان کے درمیان یہ بات طے ہو گئی کہ میں پنجاب منتقل ہو جاؤں اور پٹھان کوٹ کے قریب اس وقف کی عمارات میں جس کا نام ہم نے بالاتفاق ’’دارالاسلام ‘‘تجویز کیا تھا، ایک ادارہ قائم کروں جہاں دینی تحقیقات اور تربیت کا کام کیا جائے۔ انہوں نے مجھ سے وعدہ فرمایا کہ میرے وہاں منتقل ہو جانے کے بعد وہ بھی ہر سال چند مہینے وہاں آکر قیام فرمایا کریں گے۔ چنانچہ اس قرار داد کے مطابق میں نے حیدرآباد جا کر ہجرت کی تیاریاں شروع کر دیں اور مارچ ۳۸ء میں نقل مقام کر کے دارالاسلام پہنچ گیا مگر افسوس کہ مرحوم کی زندگی کے وہ آخری ایام تھے۔ دوسرے ہی مہینے ان کا انتقال ہو گیا اور میں اس کام کے لئے تنہا رہ گیا جسے ان کے ساتھ مل کر کرنا چاہتا تھا۔
یہ میرے اور ان کے تعلقات کی مختصر داستان ہے۔ رحمۃ اللہ علیہ۔‘‘ (اقبال اور مودودی صفحہ۷۵، ۷۶ مرتبہ ابو راشد فاروقی مطبوعہ مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور سال اشاعت ۱۹۸۰ء )
اقبال اور مولانا مودودی کے تعلق کی جملہ حدود مولانا مودودی نے بیان کر دی ہیں۔ ان پر کچھ کہا جائے تو جناب مجید نظامی حق بجانب ہوں گے، مگر غیر متعین انداز میں وہ یہ کہہ دیں کہ اقبال اور مودودی کے قرب کے قصے گڑھے گئے، اور کس نے گڑھے، کیسے اور کہاں کہاں اور کیوں؟ اس کی وہ کوئی وضاحت نہ کریں اور تان اس بات پر ٹوٹے کہ وہ میدان سیاست میں کیوں بر سر عمل ہوئے، یہ طرز عمل عجیب ہے۔ 
اپنی بات میں زور پیدا کرنے کے لیے جناب مجید نظامی ارشاد فرماتے ہیں کہ مولا نا مودودی، قیام پاکستان کے حق میں نہ تھے۔ ان کا پیش لفظ میں یہ بھی کہنا کے اس کے نا قابل تردید ثبوت موجود ہیں۔ کچھ اس کتاب میں شامل کیے گئے ہیں۔ پوری کتاب میں زبانی روایات کے سوا کوئی بات اس پہلو سے شامل نہیں، جب کہ مولانا کی تحریریں بڑی واضح ہیں۔ ہم اوپر ان کا حوالہ دے چکے ہیں۔ ہم نے ابتدائی رسائل کا حوالہ دیا ہے۔ حیات سدید کے مصنف اور پیش لفاظ حوالوں کی تصدیق کر سکتے ہیں، بلکہ مجھے یقین ہے وہ ان حوالوں سے کسی طور بے خبر نہیں ہو سکتے۔ تقریب رونمائی میں مجید نظامی نے خود یہ فرمایا کہ:
’’جب میں طالب علم تھا تو ترجمان القرآن کا باقاعدہ قاری تھا‘‘۔ 
یہی وجہ ہے کہ کتاب کی تقریب رونمائی میں جناب مجید نظامی نے جو تقریر فرمائی، اس میں انہوں نے اپنے پیش لفظی جملوں کی ’’تعبیر‘‘ کرتے ہوئے ذرا مختلف صورت اختیار کی۔ ان کی تقریر کی نوائے وقتی رپورٹ کے مطابق انہوں نے یہ ارشاد فرمایا:
’’الیکشن میں جماعت اسلامی کی غیر جانبد داری قیام پاکستان کی مخالفت تھی۔ ان انتخابات میں جماعت اسلامی کا یہ کہناتھا کہ ہم ان انتخابات میں غیر جانبد دار رہیں گے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ غیر جانب داری، قیام پاکستان کی مخالفت تھی، کیونکہ آپ کے اگر چند ووٹ بھی فیصلہ کن ہوتے اوروہ پاکستان کے خلاف ہوتے تو پاکستان ہرگز نہ بنتا۔‘‘ (نوائے وقت، ۱۴؍اکتوبر ۲۰۱۰ء)
غیر جانب داری کو مخالفت سمجھنا جناب مجید نظامی کی صواب دید ہے، لیکن جماعت کی غیر جانب داری ثابت تو کی جائے۔ جماعت نے اس بارے میں کوئی قرار داد منظور کی؟ کوئی بیان جاری کیا؟ مولانا مودودی کی تحریروں نے تو واضح طور پر تقسیم ہند کی حمایت کی۔ سلہٹ اور صوبہ سرحد میں ریفرنڈم کے موقع پر جماعت کے ارکان کو پاکستان کے حق میں ووٹ دینے کی واضح ہدایت جاری کی گئی۔ ۱۹۴۶ء کے انتخابات میں جماعت نے بائیکاٹ کا اعلان تو نہیں کیا۔ جماعت کے ارکان نے، انفرادی طورپر، اپنی صوابدید پر مسلم لیگی امیدواروں کی حمایت کی۔ اس امر پر دو آرا نہیں ہو سکتیں کہ قیام پاکستان سے پہلے تک جماعت، عملی سیاست میں داخل نہیں ہوئی تھی۔ جماعت کے قائد علمی اور فکری کام کرتے رہے۔ جماعت کا حجم بے حد مختصر تھا۔ عملی سیاست میں شرکت اس وقت تک اس کے بس میں نہیں تھی۔ فکری کام بھی جماعت کی سطح پر نہیں تھا۔ یہ تو محض مولانا کی صحافیانہ حیثیت سے تھا۔ اس پہلو کو سامنے رکھا جائے تو پھر کسی بحث کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس موضوع پر بار بار بحث ہوتی رہی ہے۔ یہ بحث بھی اب تو تاریخ کا حصہ ہو گئی ہے۔البتہ صحافیانہ حیثیت سے مولانا نے جو کچھ لکھا، وہ کسی مینڈیٹ کے تحت نہیں تھا۔ ان کا ذہن اور قلم آزاد تھا۔ انہوں نے کانگریس اور جمعیت علمائے ہند پر بھر پور تنقید کی۔ اس تنقید کو آج بھی کم از کم دیوبند سے وابستہ لوگ معاف نہیں کر سکتے۔ اسی طرح مولانا نے اس وقت کی مسلم لیگ پر بھی تنقید میں کوئی رو رعایت نہیں کی تھی۔ اس تنقید کو دیکھا جائے تو یہ مولانا کے انفرادی خدشات تھے۔ ان کو جماعت کے کھاتے ہیں نہیں ڈالا جاسکتا۔ جماعت کی کوئی قرارداد یا بیان ان کی تائید میں نہیں آیا۔ اس تنقید کو قلم اور فکر کی آزادی کے طور تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ اس کا جائزہ لینا مقصود ہو توحالات کے تناظر ملحوظ رکھنا پڑے گا۔ 
متحدہ وطنی قومیت کے خلاف مولانا کے فکری کام کا حوالہ دیے بغیر کوئی بات کرنا ممکن نہیں۔ بد قسمتی یہ ہوئی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے مختلف مسلم لیگی اڈیشنز حکمران چلے آرہے ہیں۔ ان سب کا ایک ایک لمحہ، قیام پاکستان سے قبل، مولا نا نے جن خدشات کا اظہار کیا تھا ان کی اپنے عملی سے متواتر تصدیق کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ان حکمرانوں کو اپنے طرز عمل کی اصلاح پر کوئی آمادہ نہیں کر سکتا۔ مولانا کی دور اندیشی کی داد دینے کے بجائے ان کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ بہر حال یہ ہر ایک کا ظرف ہے۔ کسی پر اظہار میں کوئی قدغن نہیں ۔ ہم نے بھی جو کچھ عرض کیا ہے، یہ قلم اور سوچ کی آزادی کے تحت ہی کیا ہے۔ اس آزادی کے لیے پاکستان میں جتنی طویل اور کٹھن جد و جہد کی گئی ہے، مجید نظامی اور حمید نظامی سے زیادہ کون واقف ہو گا۔ علامہ اقبال اور قائد اعظم کے وارثوں نے اس آزادی کو سلب کرنے کے لیے کیا کچھ نہ کیا، مگر کوئی ہم سے ہماری آزادی چھیننے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ ہم مجید نظامی سے بجا طور پر توقع رکھتے ہیں کہ وہ حالات کے پورے تناطر میں جو کچھ بھی کہیں گے، وہ مناسب طور پر لیا جائے گا۔ اس ملک میں مسلم لیگ کی لاٹھی لے کر چلنے والے اندھوں کے علاوہ دیدہ و بینا لوگ بھی رہتے ہیں۔ ان کے ہاں نوائے وقت کی ہمیشہ سے قدر موجود ہے اور موجود رہے گی۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ یہ ادارہ قائد اور علامہ کی متعین کردہ راہ پر گامزن چلا آرہا ہے۔ اس کے سربراہ کسی بڑے سے بڑے فرعون کو بھی خاطر میں نہیں لائے۔ کسی سے کوئی غرض نہیں رکھی۔ اقتدار کی غلام گردشوں میں نوائے وقت کے چیف کا کبھی گزر نہیں رہا مگر ان کو مسلم لیگ سے پہلی محبت اب بھی ہے۔ اس محبت پر کسی کو اعتراض نہیں ہو گا، شرط یہ ہے کہ وہ خواہ مخواہ کسی کو اپنا رقیب نہ بنائیں۔
جناب مجید نظامی کو گلہ ہے کہ ’’جماعت اسلامی آج اگر مولانا (مودودی )کو تحریک پاکستان کا رہنما اور پاکستان بنانے والوں میں تیسری شخصیت قرار دے تو یہ حقائق کو مسخ کرنے کی دانستہ کوشش ہے جس سے جماعتیوں کے سینے میں تو کچھ ٹھنڈ پڑ جاتی ہو لیکن یہ قوم کو گمراہ کرنے کی ایک لا یعنی کوشش ہے۔‘‘ گلہ کرتے ہوئے جذباتی ہو جانا کسی درجے میں جائز ہو گا مگر جناب مجید نظامی واضح تو کریں کہ جماعت اسلامی نے کب مولانا مودودی کو تحریک پاکستان کا رہنما قرار دیا ہے؟ کسی شخص نے انفرادی طور پر ایسی کوئی بات کہی ہو تو اسے جماعت کے کھاتے میں ڈالنا زیادتی ہو گی۔البتہ یہ بات واضح ہے کہ تحریک پاکستان اور پاکستان میں پہلے اور دوسرے کی درجہ بندی میں اختلاف کی گنجائش تو رکھی جاسکتی ہے۔ کوئی اگر لیاقت علی خان کو تیسری شخصیت کہے تو دولتانہ اور عبدالمنعم خان کو بھی چوتھے اور پانچوے درجے میں لکھا جائے گا، لیکن اگر کوئی مولوی تمیزالدین اور سید حسین شہید سہر وردی کو دوسرے اور تیسرے درجے میں رکھے تو اس پر اعتراض کی کتنی گنجائش ہو گی، اس کی صراحت، تحریک کارکنان پاکستان کے کار پرداز کے طور پر جناب مجید نظامی کے ذمے ہے۔
اوپر ہم نے حیات سدید میں غیر سوانحی مواد شامل کرنے پر شدید اعتراض کیا ہے۔ البتہ ہم یہ اعتراف کریں گے کہ کتاب میں دارالاسلام کے ابتدائی پروجیکٹ اور اس کی مختلف مجوزہ صورتیں روایت کی گئی ہیں، ان پر خطوط میں بڑی مفید بحث کی گئی ہے۔ الشریعہ اور اس کے قارئین کے دینی مدارس کی اصلاح کے پہلو سے ذوق وجہ سے دلچسپی کا باعث ہے۔ یہ پروجیکٹ بروئے کار تو نہ آسکے مگر یہ مباحث آج بھی دینی مدارس کی اصلاح کے حوالے سے چشم کشا ہیں۔ خاص طور پر جھنگ کی اسلامی یونیورسٹی کی اسکیم، مولانا عبدالباری، امیر الدین قدوائی کے خطوط بڑے اہم ہیں۔کتاب کا یہ حصہ اثاثی حیثیت رکھتا ہے۔

ضمیمہ اول: خط نمبر ۱، مولانا مودودیؒ بنام سید نذیر نیازیؒ 

’’۱۷۔جمادی الاول ۵۶ھ، (۲۶ جولائی ۱۹۳۷ء)
محترمی و مکرمی، السلام علیکم ورحمۃ اللہ
عنایت نامہ ملا۔ میں بہت شکر گذار ہوں کہ آپ نے بہت صفائی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار فرمایا۔ میں بھی چند باتیں اسی بے تکلفی کے ساتھ عرض کیے دیتا ہوں۔
میں نے اپنی زندگی کے لیے چند اصول، ایک خاص نصب العین کے ساتھ مقرر کر لیے ہیں اور خد اکے فضل سے میرے اندر اتنی استقامت موجود ہے کہ میں سخت سے سخت مشکلات میں بھی اپنے نصب العین سے ہٹنا اور اپنے اصولوں میں ترمیم کرنا گوارانہیں کرتا۔ اس وقت میں جن مشکلات میں مبتلا ہوں، وہ تمام تر میری اپنی عاید کی ہوئی پابندیوں کی وجہ سے ہیں، ورنہ یہ طوفانِ مصائب آج دور ہو سکتا ہے۔ میں نے اپنے اوپر جو پابندیاں عاید کی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ میں کسی سے اپنی ذات کے لیے کوئی مالی مدد نہ لوں گا۔ دوسری یہ ہے کہ قومی و مذہبی خدمت کے سلسلہ میں کوئی معاوضہ لینے کا خیال بھی نہ کروں گا اور تیسری یہ ہے کہ ایسی منفعت کے لالچ میں اپنے آپ کو گرفتار نہ ہونے دوں گا جو مجھ کو دین و ملت کے مفاد کے لیے اپنی صواب دید کے مطابق آزادانہ کام کرنے سے روکتی ہو۔ (چند پابندیاں اور بھی ہیں مگر وہ زیر بحث معاملات سے غیر متعلق ہیں)۔ اب آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ جو صورتیں آپ نے بیان فرمائی ہیں، انہیں قبول کرنا میرے لیے کس قدر مشکل ہے۔ میں اپنی ذات کے لیے سو روپے کیا معنی، ایک پیسے کی بھی مدد نہیں چاہتا۔ اپنے ذاتی مصارف کے لیے میں نے ایک تجارتی کام شروع کر رکھا ہے۔ اسی کو میں لاہور میں بھی کر سکتا ہوں۔ شاہی مسجد کی امامت میرے لیے ایک نعمت غیر مترقبہ ہے۔ اس سے بہتر موقع کام کرنے کا اور کیا ہو سکتا ہے، مگر معاوضہ لے کر امامت کرنا، میرے نزدیک ناجائز نہیں تو سخت مکروہ ضرور ہے۔ مسلمانوں میں چار سو برس تک یہ مسئلہ متفق علیہ رہا کہ نماز کی امامت اور قرآن کی تعلیم کا معاوضہ لینا جائز نہیں۔ بعد میں حالات کی خرابی نے اس کو جائز کرا دیا اور اس وقت سے یہ دونوں منصب ذلیل اور بے روح ہو گئے ہیں۔ اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتا ہوں۔ اس لیے معاوضہ لے کر امامت کرنے کا تو خیال بھی نہیں کر سکتا۔ ہاں اگر بلا معاوضہ یہ خدمت میرے سپرد کی جائے تو دل و جان سے اس کے لیے حاضر ہوں۔ رہی سیاست سے کنارہ کشی تو اس کے لیے میں قطعاً تیار نہیں ہوں۔ میں نے کسی فوری جذبے کے تحت سیاسیات کی طرف قدم نہیں بڑھایا بلکہ خوب سوچ سمجھ کر اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اب مجھے گوشہ عزلت سے نکل کر کچھ کرنا چاہیے۔ مسلمان اس وقت سخت خطرے میں مبتلا ہیں۔ جن سے صحیح رہنمائی کی امید نہ تھی، انہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ جن سے تمام تر امیدیں وابستہ تھیں، آج وہ بھی غلط رہنمائی کر رہے ہیں۔ کانگریس تحریک کے فروغ نے مسلمانوں کے کیمپ میں عام بھگدڑ بر پا کردی ہے۔ روزانہ desertion کی خبریں دھڑا دھڑ چلی آ رہی ہیں۔ جواہر لال کی امت عوام میں تیزی کے ساتھ اپنا اثر پھیلا رہی ہے۔ جھانسی کے انتخاب نے ظاہر کر دیا کہ مسلمانوں کی رائے عام کس حد تک متاثر ہو چکی ہے اور اب کانگریس اور غیر کانگریس کے درمیان کتنا تھوڑا margin رہ گیا ہے۔ مسلمان لیڈروں کے بیانات اور اسلامی جرائد کے مضامین پڑھنے سے اندازہ ہو رہا ہے کہ کس قدر کم آدمی ہیں جو اسلامی ہند کی صحیح پوزیشن کو سمجھتے ہیں اور جن کے سامنے راہ راست بالکل واضح ہے۔ ایسی حالت میں آپ غور کیجیے کہ جو چند گنے چنے آدمی ایسے باقی رہ گئے ہیں، ان میں سے بھی ایک شخص کا اپنے اوپر ملازمت کی پابندی عائد کرلینا اور وہ بھی ڈیڑھ دو سوروپے کی آمدنی کے لئے کیونکر جائز ہو سکتا ہے۔ اگر میں اس کو جائز سمجھ لوں تو مجھے لاہور جانے کی کیا ضرورت ہے! جامعہ عثمانیہ میں چار سوروپے کی جگہ مجھے اس وقت مل رہی ہے، اس کو کیوں نہ قبول کر لوں؟ میں جس غرض کے لیے لاہور کا رخ کرنا چاہتا ہوں، وہ صرف یہ ہے کہ میرے نزدیک اسلامی ہند کا فیصلہ (جو اب قریب ہی آ گیا ہے) شمال کے تینوں صوبوں کی طاقت پر منحصر ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس ’’دارالاسلام‘‘ کے قلب میں جا کر بیٹھوں اور دیکھوں کہ وہاں اسلام کی قوت کو بڑھانے اور اس سے کام لینے کی کون سے مواقع حاصل ہو سکتے ہیں۔ یہاں سے میں کوئی اندازہ نہیں کر سکتا۔ وہاں پہنچ کر مواقع تلاش کروں گا اور جو موقع بھی مجھ کو ملے گا، اس سے فائدہ اٹھاؤں گا۔ میں اس قسم کے استفادہ کے لیے اپنے دل و دماغ اور دست و پا کو بالکل آزاد رکھنا چاہتا ہوں اور کسی قیمت پر بھی ایسی کوئی پابندی قبول نہیں کر سکتا جو دین و ملت کی خدمت کے کسی موقع سے فائدہ اٹھانے میں مانع ہو۔
امید ہے کہ آپ میرے نقطہ نظر کو اچھی طرح سمجھ گئے ہوں گے۔ میں نے جن مشکلات کا اپنے پچھلے خط میں ذکر کیا تھا، ان کی تفصیل یہ ہے کہ ترجمان القرآن کا ماہوار خرچ تقریبا تین سو روپے ہے۔ پبلک میں اتنے خریدار نہیں کہ رسالہ کے مصارف ان کے چندہ سے چلائے جاسکیں۔ نظام گورنمنٹ ۲۷۵ پرچے خریدتی ہے۔ اسی کی بدولت یہ چل رہا ہے۔ اگر میں لاہور منتقل ہو جاؤں تو اغلب ہے کہ نظام گورنمنٹ کی خریداری بند ہو جائے گی۔ اس صورت میں مجھ پر اپنے ذاتی مصارف کے ساتھ پرچے کے مالی نقصان کا بار بھی پڑ جائے گا اور اس کو سنبھالنا میرے لیے تقریباً محال ہو گا۔ اس مشکل کا حل صرف یہ ہو سکتا ہے کہ پنجاب میںآپ حضرات اپنے ذرائع سے کام لے کر ترجمان القرآن کی توسیع اشاعت کے لیے کوشش فرمائیں۔ اگر مجھے یہ توقع ہو کہ پانچ سو تک خریدار ہو سکتے ہیں تو میں رسالے کی طرف سے مطمئن ہو جاؤں گا۔ میں رسالہ سے کچھ لینا نہیں چاہتا، مگر مجھ میں اتنی استطاعت بھی نہیں کہ اس کو کچھ دے سکوں۔
علامہ اقبال کے ساتھ ’’عمرانیاتِ اسلامی کی تشکیل جدید‘‘ میں حصہ لینا میرے لیے موجب سعادت ہے۔ میں ہر ممکن خدمت کے لیے حاضر ہوں۔ مگر اس سلسلے میں کسی مالی معاوضہ کی مجھے ضرورت نہیں۔
خاکسار ۔ ابوالاعلی‘‘ 
خط کی اصل کاپی سید نذیر نیازی کے کاغذات میں ہے۔

ضمیمہ نمبر ۲ : خط نمبر ۲، مولانا مودودیؒ بنام سید نذیر نیازیؒ 

’’مورخہ ۲ جمادی الاخری ۵۶ھ
محترمی و مکرمی السلام علیکم ورحمۃ اللہ
عنایت نامہ مورخہ ۲۔اگست وصول ہوا۔ جیسا کہ آپ نے تحریر فرمایا ہے، میں عزیمت اور توکل ہی سے کام لے کر ہجرت کروں گا۔ لاہور کو اپنا آئندہ مستقر بنانے کا فیصلہ کر چکا ہوں۔ محض چند عملی مشکلات ہیں جن کو حل کرنے کی تدبیر میں کچھ مدت صرف ہو گی۔ یہاں سے اپنا سامان منتقل کرنے اور اپنے مالی واجبات ادا کرنے کے لیے مجھے کافی روپے کی ضرورت ہے۔ ایک ہزار سے زیادہ کا قرض ترجمان القران پر ہے۔ اس کو ادا کرنا ہے۔ پھر اپنا سامان منتقل کرنے اور اپنے تجارتی کاروبار کو یہاں ختم کر کے لاہور میں از سر نو جاری کرنے کے لیے بھی تقریباً ایک ہزار روپے کی ضرورت ہے۔ اس غرض کے لیے میں اپنی زمین اور اپنا ناقابل انتقال اناث البیت فروخت کرنا چاہتا ہوں۔ امید ہے کہ تین چار مہینہ میں یہ سب مراحل طے ہو جائیں گے۔ اس دوران میں ایک مرتبہ لاہور حاضر ہو کر دیکھ لوں گا کہ مجھے وہاں قیام کرنے کے لیے کیا بند و بست کرنا ہے۔ آئندہ رجب کے آخر میں سفر کا ارادہ ہے۔ چار پانچ روز دھلی ٹھہر کر غالباً ختم رجب یا آخر شعبان میں لاہور پہنچوں گا۔ اس موقع پر ان شاء اللہ یہ بھی طے ہو جائے گا کہ قادیانیت کے متعلق مجھے کیا لکھنا چاہیے۔ میں نے اب تک در حقیقت اس موضوع پر زیادہ مطالعہ بھی نہیں کیا ہے۔ جو کچھ معلومات حاصل ہوئی ہیں، ان کا ماخذ محض برنی صاحب کی کتاب ہے مگر کوئی تحقیقی چیز لکھنے کے لیے وہ کافی نہیں ہے۔ لاہور میں جو حضرات قادیانیت پر وسیع معلومات رکھتے ہوں، ان سے مشورہ کر کے مواد فراہم کر لوں گا۔
خاکسار۔ ابوالاعلیٰ‘‘

ضمیمہ نمبر ۳: خط سید نذیر نیازیؒ بنام مولانا مودودیؒ 

’’۱۸۔اپریل ۳۸ء
مکرمی۔ السلام علیکم۔
امید ہے آپ بفضلہ تعالی خیر و عافیت سے ہوں گے۔ کچھ دن ہوئے سید محمد شاہ صاحب سے معلوم ہوا تھا کہ آپ جمال پور تشریف لے آئے ہیں اور عنقریب لاہور بھی آئیں گے۔ اس وقت سے برابر آپ کا انتظار ہے۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ اگر آپ کا ارادہ فی الواقعہ لاہور آنے کا ہے تو جلدی تشریف لائیے تاکہ ملاقات ہو جائے۔ اپنی طرف سے یہ گزارش ہے کہ ڈاکٹر صاحب قبلہ کی حالت نہایت اندیش ناک ہے۔ ایک لمحے کا بھی بھروسہ نہیں مگر اس بات کو صرف اپنی ذات تک محدود رکھیے گا۔ کسی سے ذکر نہ کیجیے گا۔ لہٰذا بہتر یہی ہو گا کہ آپ جس قدر ہو سکے، جلدی تشریف لے آئیں۔ ڈاکٹر صاحب کی صحت کے لیے دعا فرمائیے۔ 
آپ کا مخلص۔ نیازی‘‘

ضمیمہ نمبر ۴: پروجیکٹ دارالاسلام، شائع کردہ غلام احمد پرویز

بورڈ آف ٹرسٹیز
(۱) میاں نظام الدین صاحب رئیس اعظم لاہور
(۲) خاں صاحب شیخ محمد نصیب ، بیرسٹر گوداسپور
(۳) خاں صاحب چوہدری نیاز علی خاں جمال پور
(۴) خاں صاحب چوہدری رحمت علی صاحب ڈپٹی کلکٹر انہار
(۵) خاں بہادر مولوی فتح الدین صاحب ایم بی ای، ڈپٹی ڈائریکٹر زراعت
(۶) مولانا محمد اسد صاحب (لیو پولڈ۔ نومسلم)
(۷) مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، مدیر ترجمان القرآن
ٹرسٹ کے خارجی انتظامات میں عمارات، باغ، مزروعہ اراضی موجود ہے۔ سکونتی مکانات میں کئی متاہل حضرات کی رہائش کی جگہ ہے۔ یہ کوارٹرز نہایت عمدہ تیار ہوئے ہیں۔ دارالاقامہ میں کم و بیش پچیس طلبہ کی رہائش کا سامان موجود ہے۔ دارالمطالعہ ایک وسیع ہال کی شکل میں ہے۔ لائبریری بھی ابتدائی ضرورت کے لیے کافی ہے۔ تجویز یہ ہے کہ ایک یا دو ایسے ’’مرد مسلمان‘‘ یہاں مستقل طور پر قیام پذیر ہوں جو قلب و دماغ اور علم و عمل کے اعتبار سے صحیح معنوں میں مسلمان ہوں۔ ایک طرف مشرقی اور مغربی علوم میں ماہر ہوں اور دوسری طرف ان کی عملی زندگی ایک مرد مجاہد کی زندگی ہو۔ وہ دارالاسلام ان کی ضروریات کا کفیل ہو گا۔
(۱) اس کے بعد ایسے طلبہ کو یہاں رہنے کے کیے منتخب کیا جائے جو یا توانگریزی تعلیم میں بہرہ وافر رکھتے ہوں (مثلاً گریجوایٹ ہوں) اور یا دینی مدارس مثل دیو بند وغیرہ کے فارغ التحصیل ہوں۔ ان طلبہ کو جانچ لیا جائے کہ وہ ذکاوت و ذہانت سنجیدگی و متانت اور حسن اخلاق کے اعتبار سے اس قابل ہیں کہ انہیں دارالاسلام میں رکھا جائے۔ عربی دان طلبہ علوم مغرب کا سبق پڑھیں۔ انگریزی خواں طلبہ مشرقی علوم کی تحصیل کریں اور اس کے ساتھ دونوں گروہ ،ایک یا ایک سے زیادہ معلم سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک کے خالص دینِ فطرت کا درس لیں اور دورِ حاضر کے انقلابات سے روشناس ہوں۔ اندازہ ہے کہ اس میں کم و بیش دو تین برس کا عرصہ صرف ہو گا۔ اس دوران طلبا کے خورد و نوش کی کفالت بھی دارالاسلام کے ذمہ ہو گی۔
(۲) دینی علوم کے ساتھ ساتھ دارالاسلام میں دیال باغ آگرہ کے نمونہ پر ایک صنعتی ادارہ کھول دیا جائے جس میں مختلف دستکاریوں کی تعلیم کا انتظام ہو تاکہ جب یہ طالب علم دارالاسلام سے مبلغ بن کر نکلیں تو دنیا میں آزادی سے رزقِ حلال کما سکیں۔ ان کا مقصد زندگی تبلیغ ہو گا۔ ایسی تبلیغ نہیں جو آج کل کے پیشہ ور مبلغین کے ذریعے ننگ اسلام بن رہی ہے بلکہ اس قسم کی تبلیغ جس کی درخشندہ مثالیں ہمیں عہد صحابہ میں ملتی ہیں۔ دارالاسلام سے نکل کر یہ طالب علم مختلف مقامات پر اسلامی مراکز قائم کریں گے اور قوم میں صحیح اسلامی اجتماعیت اور مرکزیت کی روح پھونکیں۔ شروع شروع میں جامع مسجد اور بعد میں عام مساجد کے ائمہ بھی اسی زمرہ سے مقرر کیے جائیں گے۔ یہ طالب علم جہاں بھی رہیں، اپنا تعلق مستقل طور پر مرکز دارالاسلام سے وابستہ رکھیں گے۔
(۳) موسم گرما میں کالجوں میں تعطیلات ہوتی ہیں۔ اس زمانہ میں طالب علم بالعموم پر سکون مقامات کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ دارالاسلام دامن کوہسار (سلسلہ ہمالیہ) میں ایک بہت بڑی نہر کے کنارے واقع ہے۔ شور و شغب سے دور پر فضا ماحول اور اس کے ساتھ ہی عہد حاضرہ کی سہولتوں مثلاً ریل، موٹر، بجلی اور ڈاکخانہ سے بہرہ یاب، بشرطیکہ وہ احکام شریعت کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیے تیار ہوں۔ اس دوران میں یہ بھی انتظام کیا جائے کہ دارالاسلام میں مختلف اکابر ملت کے لیکچروں کاسلسلہ شروع ہو اور یوں دو تین ماہ کے عرصہ میں متعدد لیکیچر مختلف اسلامی موضوعات پر ہو جایا کریں۔ ان خطبات کے لیے ہندوستان اوربیرون ہند سے ممتاز زعمائے امت کو دعوت دی جائے۔
(۴) جو طلبہ مستقل دارالاسلام میں قیام پذیر ہوں انہیں تحریر و تقریر کی بھی مشق کرائی جائے۔ دوران طالب علمی میں ان سے مختلف مضامین لکھائے جائیں اور مختلف تقاریب پر اجتماعات منعقد کر کے ان سے تقاریر کرائی جائیں۔
یہ مختصراً دارالاسلام کے مقاصد کا خاکہاگر اس میں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے کامیابی ہو جائے تو پھر یہ چیز بھی پیش نظر ہے کہ اس میں پانچ سال کے بچوں کو داخل کیا جائے اور اخیر تک ان کی تعلیم و تربیت اسی اسلامی ماحول میں ہو۔ اس خاکہ کو عملی نظام بنانے کے لیے ہم ہندوستان کے تمام دردمند مسلمانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ حسب ذیل طریقوں سے ہماری معاونت فرمائیں۔
(۱)سکیم میں جہاں جہاں ترمیم و تنسیخ کی ضرورت محسوس کریں، اس سے ہمیں مطلع فرمائیں۔
(۲) اگرآپ اس اسکیم کے اصول سے متفق ہوں تو پھر فرمائیے کہ آپ کس حد تک اس میں عملاً شریک ہو سکتے ہیں۔ کم سے کم ادارہ کی رکنیت یا معاونت قبول فرمائیں جس کا چندہ سالانہ صرف دو روپیہ اور پانچ روپیہ علی الترتیب ہوگا۔
(۳) جن صفات کے معلمین کا ذکر کیا جا چکا ہے، ان کی تلاش میں ہماری رہنمائی فرمائیے یعنی اگر آپ کی نگاہ میں ایسے حضرات موجود ہوں تو ہمیں ان سے مطلع فرمایا جائے اور انہیں اس سکیم سے متعارف کرایاجائے۔ ہم چاہتے تو یہ ہیں کہ کوئی ایک ہستی ایسی مل جائے جو ان تمام صفات کی جامع ہو (یعنی بیک وقت مشرق و مغرب کے علوم پردستگاہ رکھے اور اس کی زندگی عملی لحاظ سے صحیح اسلامی زندگی ہو) لیکن اگر دونوں علوم ایک جگہ نہ مل سکیں تو پھر مجبوراً دو حضرات کا انتخاب کر لیا جائے۔
(۴) جو طالب علم میں قیام پذیرہونا چاہیں، وہ اپنے ارادے سے ہمیں مطلع کریں۔
(۵) ابتدائی اخراجات کے لیے عطیات اور مستقل خرچ کے لیے مستقل امداد فرمائیں۔ واضح رہے کہ دارالاسلام چونکہ باقاعدہ رجسٹری شدہ ہے، اس لیے اس کاحساب کتاب باقاعدہ رکھا جاتا ہے نیز ٹرسٹیوں کی فہرست سے آپ اندازہ فرما لیا ہو گا کہ یہ حضرات ہیں جن کی دیانت بفضلہ ہر قسم کے شبہ سے بالا تر ہے۔
(۶) دارالاسلام کے صنعتی شعبے میںآپ کیا اور کس قسم کی مدد کرسکتے ہیں؟ نیز آپ کے پیش نظر اس کی بابت کیاعملی تجاویز ہیں۔
(حیات سدید صفحہ نمبر ۱۵۹، ۱۶۰ بحوالہ طلوع اسلام اگست ۱۹۳۹ء )

جامع مسجد نور کی تاسیس کا پس منظر

الحاج ظفر علی ڈار

روزنامہ اسلام کے ایک ذیلی رسالہ ’’بچوں کا اسلام‘‘ کے شمارہ نمبر ۴۹۵، مورخہ ۱۸؍ دسمبر ۲۰۱۱ء میں محمد معاذ نامی ایک صاحب کا مراسلہ بعنوان چھپڑ والی مسجد شائع ہوا ہے۔ مراسلہ نگار نے اپنی غلط اور گمراہ کن معلومات کی بنیاد پر، جو اس نے اپنے والد مسمی سیف الرحمن قاسم سے شنید کی ہیں، اس مسجد کی تاسیس کا سہرا اپنے پردادا کے سر باندھا ہے۔ چونکہ معاذ صاحب کی یہ تحریر بڑی غلط فہمیوں کو جنم دینے کا سبب بن سکتی ہے، اس لیے راقم الحروف نے اس مسجد کی تاسیس کے بارے میں درست حقائق کو معرض تحریر میں لانا ضروری سمجھا تاکہ تاریخ کا ریکارڈ درست رہے۔
اس مسجد کی تعمیر کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ اس مسجد کے جنوب میں سڑک کی دوسری جانب دو مساجد موجود تھیں جن میں سے ایک مسجد میں مولانا عبد القیوم ہزاروی صاحب امام وخطیب تھے اور دوسری، دائرے والی مسجد میں مولانا محمد یوسف ہزاروی امام تھے۔ اس زمانے میں یہ سارا علاقہ بریلوی حضرات کی اکثریت سے آباد تھا۔ یہ دونوں حضرات یعنی مولانا عبد القیوم صاحب اور مولانا محمد یوسف صاحب، مفتی عبد الواحد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آئے اور اس علاقے میں مولانا غلام اللہ خان رحمۃ اللہ علیہ کی تقریر کرانے کی اجازت مانگی۔ مفتی صاحب مرحوم نے ان دونوں حضرات کو ہدایت کی کہ یہ علاقہ ابھی مولانا غلام اللہ صاحب کی تقریر کا متحمل نہیں ہے، اس لیے ابھی وہ لوگوں کو اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کریں، چنانچہ مفتی صاحب نے ان کو انکار کر دیا۔
بدقسمتی سے دوسرے سال انھوں نے مفتی صاحب مرحوم سے رابطہ کیے بغیر ہی مولانا غلام اللہ خان صاحب کی تقریر کا پروگرام بنا لیا۔ مولانا غلام اللہ کی تقریر ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ بریلوی حضرات نے ان ہر دو علما کا سامان مسجد سے نکال کر باہر پھینک دیا۔ یہ دونوں حضرات رات ہی کو مفتی عبد الواحد صاحب مرحوم کے پاس آئے اور ساری روداد سنائی۔ مفتی صاحب نے سخت ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے ان کو بہت ملامت کی کہ انھوں نے بلاوجہ ان مساجد کو ضائع کر دیا۔ بہرحال جس جگہ پر اب مسجد نور آباد ہے، یہاں ایک بہت بڑا چھپڑ تھا جو کہ میونسپل کمیٹی کے زیر انتظام وانصرام تھا۔ مفتی صاحب مرحوم نے وہ ساری رات کرب کے ساتھ گزاری۔ صبح کی نماز کے بعد مفتی صاحب مرحوم نے راقم الحروف کو اس اندوہ ناک صورت حال سے آگاہ کیا اور فیصلہ کیا کہ اگر ہمیں میونسپل کمیٹی سے اس چھپڑ میں مٹی ڈال کر مسجد کی تعمیر کی اجازت مل جائے تو ہماری اس محرومی کا مداوا ہو جائے گا۔
مفتی صاحب نے شیخ عاشق حسین صاحب کو، جو اس وقت میونسپل کمشنر تھے، بلایا اور اپنے ارادہ کا اظہار کیا اور ان سے حکماً کہا کہ وہ کل تک میونسپل کمیٹی سے اس مسجد کی تعمیر کا اجازت نامہ لے کر دیں۔ اللہ تعالیٰ شیخ عاشق حسین صاحب مرحوم ومغفور کو اپنی شان کے مطابق جزائے خیر عطا فرمائیں کہ انھوں نے اگلے دن ۱۲ بجے کے قریب اجازت نامہ حاصل کر کے مفتی صاحب کے سپرد کر دیا۔ اس دن مفتی صاحب اپنے گاؤں پنڈی گھیب جا رہے تھے۔ وہاں سے واپسی پر انھوں نے حاجی علم دین صاحب اور دوسرے ہم نوا حضرات کو ترغیب دی کہ وہ اس چھپڑ میں ایک طرف مٹی دلوا دیں۔ چنانچہ انھوں نے مفتی صاحب کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے مٹی ڈلوانے کاکام شروع کر دیا اور تھوڑے ہی دنوں میں مسجد تعمیر کر دی۔ صوفی عبد الحمید صاحب علیہ الرحمۃ اس زمانے میں نوشہرہ روڈ پر طبابت کی دکان کرتے تھے۔ کافی بعد میں مفتی صاحب کے ایما پر ہی صوفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ یہاں تشریف لے آئے۔
اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ بجز مفتی صاحب مرحوم کے اس جگہ پر مسجد تعمیر کرنا کسی کے تصور میں بھی نہیں تھا۔ یہ امر واقعہ ہے کہ مفتی صاحب کی اس رات کی بے چینی اور کرب وغم اور بارگاہ الٰہی میں گریہ وزاری اللہ رب العزت کو پسند آ گئی اور مولانا عبد القیوم صاحب اور مولانا محمد یوسف سے لوگوں نے جو بدسلوکی کی تھی، اس کے بدلے میں اتنی عظیم الشان مسجد اور ادارہ کو اللہ نے وجود بخشا۔ یقینی طور پر یہ مفتی عبدالواحد صاحب کے اعمال صالحہ میں سے ایک بہت بڑا عمل بطور صدقہ جاریہ وجود پذیر ہوا۔ اللہ کی بارگاہ صمدیت میں التجا ہے کہ وہ اس مسجد اور ادارہ کو لحظہ بہ لحظہ ترقی عطا فرمائے۔

علمی و اجتہادی مسائل میں رائے کا اختیار

حافظ زاہد حسین رشیدی

ماہنامہ ’الشریعہ‘ نے جہاں کچھ عرصہ سے دینی جرائد میں مقبولیت حاصل کی ہے، وہیں اس کے علمی واجتہادی مسائل میں مباحثے نے بیسیوں Side Effects اثرات کے خدشات کو جنم دیا ہے جن کا اظہار بعض مقتدر شخصیات کرتی رہتی ہیں اور ’الشریعہ‘ کے صفحات پر ان کو جگہ دی جاتی ہے۔
ہماری ناقص رائے میں علمی مباحثے کی افادیت کو تسلیم کرتے ہوئے ضروری سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اہم اور نازک ترین مسائل میں اپنی رائے پیش کرنے کا اختیار کسے حاصل ہے؟ ’الشریعہ‘ کے رئیس التحریر ہمارے مخدوم بزرگ حضرت مولانا زاہد الراشدی مدظلہ رائے دینے کی اہلیت اور نااہلیت کے حوالے سے کسی اصول وضوابط اور معیاریت کو نظر انداز کرتے ہوئے ہر شخص کو یہ اختیار دیتے ہیں کہ وہ اپنی رائے قائم کرے اور اس کا اظہار کرے۔ چنانچہ لکھتے ہیں کہ:
’’جہاں تک علمی اور اجتہادی مسائل پر کھلے مباحثے کے بارے میں ہمارے طرز عمل پر آپ کے تحفظات ہیں، میں اسے آپ کا حق سمجھتا ہوں مگر عمومی مباحثے کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ ہر شخص کو رائے کا حق حاصل ہو۔ ماضی میں بھی ایسا ہوتا آیا ہے کہ کسی مسئلے پر کسی کو رائے دینے سے نہیں روکا گیا۔‘‘ (ماہنامہ الشریعہ، نومبر ۲۰۱۱ء، ص ۵۲)
علمی واجتہادی مسائل پر کھلے مباحثے میں ہر عام وخاص کو رائے پیش کرنے کا حق دینا امت میں خیر القرون سے مجتہد ومقلد کی تقسیم کو منہدم کرنے کے مترادف ہے۔ جب ہر شخص صاحب الرائے ہے تو ہر شخص صاحب علم اور اپنے اجتہاد میں آزاد ہوگا۔ کیا ہمارے مخدوم بزرگ کی یہ وسعت ظرفی غیر مقلد دوستوں کے لیے کارآمد ثابت نہ ہوگی جنھیں ہم حسب ذیل آیات سنا کر ہر وناکس کے ہاتھ میں تحقیق کی غرض سے باز رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ باور کراتے ہیں کہ اہل علم کا فریضہ راہ دکھانا اور علم وفن سے ناآشنا لوگوں کا کام ان کی پیروی کرنا ہے؟
(۱) فَاسْأَلُواْ أَہْلَ الذِّکْرِ إِن کُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ (سورۃ الانبیاء، آیت ۷)
’’سو پوچھ لو یاد رکھنے والوں سے اگر تم نہیں جانتے ہو۔‘‘ (ترجمہ حضرت شیخ الہند)
مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ نے تفسیر قرطبی کے حوالے سے لکھا ہے ’’اس آیت سے معلوم ہوا کہ جاہل آدمی جس کو احکام شریعت معلوم نہ ہوں، اس پر عالم کی تقلید واجب ہے کہ عالم سے دریافت کر کے اس کے مطابق عمل کرے۔‘‘ (معارف القرآن، جلد ۶، ص ۱۷۱)
(۲) وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِیَنفِرُواْ کَآفَّۃً فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُواْ فِیْ الدِّیْنِ وَلِیُنذِرُواْ قَوْمَہُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَیْْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُونَ (سورۃ التوبۃ، آیت ۱۲۲)
’’اور ایسے تو نہیں مسلمان کہ کوچ کریں سارے، سو کیوں نہ نکلا ہر فرقہ میں ان کا ایک حصہ تاکہ سمجھ پیدا کریں دین میں اور تاکہ خبر پہنچائیں اپنی قوم کو جب کہ لوٹ کر آئیں ان کی طرف تاکہ وہ بچتے رہیں۔‘‘ (ترجمہ حضرت شیخ الہند)
حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ آیت مذکورہ کے حوالے سے حسب ذیل نکات بیان کرتے ہیں:
’’الف) سب لوگ طلب علم کے لیے اپنے گھروں سے نہ نکل جائیں، بلکہ تھوڑے سے جایا کریں اور وہ علم حاصل کر کے قوم کو فائدہ پہنچائیں یعنی ان کو تعلیم دیں اور ان کو وعظ وتلقین کریں۔
ب) جاننا چاہیے کہ فقاہت فی الدین کا درجہ مطلق علم سے بالاتر ہے۔ علم کے معانی جاننے کے ہیں اور فقاہت کے معنی لغت میں سمجھ اور فہم کے ہیں۔ فقیہ لغت اور شریعت کے اعتبار سے اس شخص کو کہتے ہیں جو شریعت کے حقائق اور دقائق کو اور اس کے ظہر اور بطن کو سمجھتا ہے۔ محض الفاظ یاد کر لینے کا نام فقاہت نہیں۔
ث) اطاعت کا دار ومدار معانی پر ہے۔ محض الفاظ یاد کر لینے سے فریضہ اطاعت ادا نہیں ہو سکتا۔ اصل عالم وہ ہے جو شریعت کے معانی اورمقاصد کو سمجھتا ہو، کما قال تعالیٰ: وَتِلْکَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُونَ (سورۃ الحشر، آیت ۲۱)
ج) بہرحال اس آیت سے طلب علم دین اور تفقہ فی الدین کی کمال فضیلت ثابت ہوتی ہے اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ عالموں پر بے علموں کو عذاب الٰہی سے ڈرانا فرض ہے اور بے علموں پر عالموں کی تقلید فرض ہے۔ ناقص پر کامل کی تقلید عقلاً فرض ہے۔ جو شخص درجہ اجتہاد کو نہ پہنچا ہو، اس پر کسی مجتہد کامل کی تقلید فرض ہے۔‘‘ (معارف القرآن، جلد ۳، ص ۴۲۴)
مذکورہ بالا آیات او ر ان کی تشریح میں حضرات اکابر کے ارشادات پر گہری نظر ڈالیے، کیا ا س کے بعد بھی ہمارے قابل قدر اور صاحب نظر بزرگ کے اس توسع اور رائے دینے کے حوالے سے اذن عام کی گنجائش نکلتی ہے؟ ہمارے بزرگ کا یہ کہنا کہ ’’عمومی مباحثے کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ ہر شخص کو رائے کا حق حاصل ہو‘‘ کس قدر سنگین اثرات کا باعث اور سلف بیزار طبقے کے لیے کتنا سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔ کاش کہ حضرت علامہ مدظلہ اس پہلو پر بھی توجہ فرمائیں۔

اجتہادی مسائل میں رائے دینے کے لیے شرائط

ہر فن کی طرح فن اجتہاد بھی اصول وضوابط رکھتا ہے۔ ماہرین فن نے اجتہاد کے لیے متعدد شرائط بیان کی ہیں۔ چند ایک حضرت علامہ ڈاکٹر خالدمحمود صاحب مدظلہ نے بھی نقل کی ہیں۔ ملاحظہ کیجیے:
’’اجتہاد کرنے کا حق ہر کسی کو نہیں دیا جا سکتا۔ اہل اجتہاد وہی ہیں جن میں اجتہاد کی یہ شرائط موجود ہوں:
۱) عربی زبان کا پورا علم ہونا۔
۲) قرآن وحدیث کا پورا علم ہونا۔
۳) آیات احکام اور احادیث احکام پر خصوصی نظر ہونا۔
۴) پہلے جو اجتہاد (مثلاً خلفاے راشدین ودیگر فقہاء صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین) ہو چکے ہیں، ان پر نظر ہونا۔
۵) اجتہاد کے اصول وضوابط کا پورا علم ہونا۔‘‘ (آثار التشریع جلد ۲، ص ۱۲۱)
کیا ہر شخص کو ان شرائط کا حامل قرار دیا جا سکتا ہے؟ نہیں اور یقیناًنہیں تو پھر رائے کی آزادی چہ معنی دارد؟ 
پورا وثوق ہے کہ ہم زیر نظر سطور سے حضرت مخدوم مدظلہ کے علم ودانش میں رتی بھر اضافہ کر رہے ہیں نہ کسی طور انھیں اپنی رائے بدلنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ یقیناًہماری گزارشات کی دھول وہ چٹکیوں میں اڑا سکتے ہیں اور اپنے طرز عمل کی بیسیوں حکمتیں بیان کر سکتے ہیں۔ باوجود اس کے، لکھنے کا حوصلہ اور یہ قلم درازی کی خطا اس لیے سرزد ہوئی کہ وہ بھی تو بس یہی چاہتے ہیں کہ حجابات دور ہوں اور جمود ٹوٹے۔ آزادئ اظہار رائے کے حوالے سے ذہن کی سکرین پر چند ایک سوال نمودار ہو رہے ہیں۔ انھی پر طوطی کی آواز کو بند کیا جاتا ہے، اس خواہش کے ساتھ کہ نقار خانے میں اسے چندلمحوں کے لیے سنا جائے۔
۱) کیا ہر شخص صاحب الرائے ہے؟
۲) کیا رائے اور اجتہاد کے لیے کہیں کوئی معیار ، اصول وضوابط ذکر نہیں؟
۳) کیا رائے کی آزادی امت کی وحدت اور جوڑ کا باعث بنے گی یا مزید انتشار وافتراق کا؟
۴) کیا بزرگان دین پر اعتماد اور مسلک حق پر تصلب جیسی روایات اس رائے کی آزادی سے دم توڑ نہیں جائیں گی؟
۵) کیا آج کے نووارد علما اپنے اکابر کے موقف واجتہادات کے حوالے سے تذبذب کا شکار نہ ہوں گے۔
۶) مختلف آرا کے بعد فیصلہ کن رائے یعنی مفتیٰ بہ قول بھی تو ضروری ہے، کیونکہ آرا سے مقصود حق تک پہنچنا ہے نہ کہ علمی ابحاث کو ذہنی آسودگی کا باعث بنانا۔ کیا ماہنامہ ’الشریعہ‘ میں مختلف آرا کے بعد فیصلہ کن رائے بھی بیان کی جاتی ہے؟ اور اس کے لیے کسی اتھارٹی کا تعین کیا گیا ہے؟
(بشکریہ ماہنامہ ’فقاہت‘ لاہور)

مکاتیب

ادارہ

(ا)
محترمی جناب محمد عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم
آپ کا مقالہ ’’خروج‘‘ مجھے سہیل عمر صاحب ڈائریکٹر اقبال ایکاڈیمی نے بھیجا ہے جو میں نے بڑے شوق سے پڑھا۔ جب آپ نے اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار یونیورسٹی آف گجرات کے منعقدہ سیمینار پر کیا تھا تو میں موجود نہ تھا۔ اسی طرح میں نے بھی وہاں لکچر ’’وہ کام جو اقبال ادھورے چھوڑ گئے‘‘ کے موضوع پر دیا تھا جو اب ایک مقالے کی صورت میں تحریر کر دیا گیا ہے۔ شاید سہیل عمر صاحب اس کا پرنٹ آپ کو ارسال کریں۔ مناسب سمجھیں تو ماہنامہ ’الشریعہ‘ میں شائع کر سکتے ہیں۔ ’الشریعہ‘ مجھے باقاعدہ ملتا ہے۔ ’’توہین رسالت‘‘ کے موضوع پر آپ کے جرات مندانہ خیالات قابل تعریف ہی نہیں، فقہی اصول کے عین مطابق ہیں۔
خصوصی طو رپر تصنیف وتالیف کے بعض ایسے کام جو حضرت علامہ نہ کر سکے، میں سمجھتا ہوں، ان کی وفات کے بعد، کر سکنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ مثلاً وہ ’’اجتہاد کی تاریخ وارتقا‘‘ کے موضوع پر کتاب لکھنا چاہتے تھے۔ ’’فلاحی ریاست کے قرآنی تصور‘‘ کی بنیاد پر بعد میں وجود میں آنے والے پاکستان میں ’’سوشل ڈیما کریسی‘‘ قائم کرنے کا خواب دیکھتے تھے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ حضرت علامہ کے ایسے ارادوں کی تشہیر سے تخلیقی سوچ رکھنے والے اہل علم کو دعوت دی جائے کہ ان کی تکمیل کے ذریعے مسلمانوں کی تہذیبی احیاء کے عمل کو جاری رکھیں؟
خیر اندیش
(جسٹس (ر) ڈاکٹر) جاوید اقبال
(۲)
محترم مولانا زاہد الراشدی صاحب 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الشریعہ کے دسمبر 2011 کے شمار ے میں ’’ الشریعہ‘‘ کی پالیسی پر ایک دفعہ پھر آپ کی تحریر سامنے آئی ۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، اپنی اس پالیسی کو آپ نے بتکرار بیان کیا ہے ۔ چند سال قبل میری نظر آپ کے رسالے پرپڑی تو اسی پالیسی نے مجھے ’’الشریعہ‘‘ کا خریدار بنا دیا ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ مجھے باقی تمام رسائل و جرائد سے بڑھ کر ’’الشریعہ‘‘ کا انتظار رہتا ہے ۔ میں نے جماعتِ اسلامی آزاد کشمیر کے زعما کے نام یہ رسالہ جاری کروا دیا اور ہم سب کی یہ رائے ہے کہ تمام علمی رسائل میں اس کا پلڑا سب پر بھاری نظر آتا ہے۔ 
میری نظر سے ’’البرہان ‘‘ بھی گزرتا رہتا ہے ۔ مجھے یقیناًیہ حق نہیں پہنچتا کہ ’’البرہان ‘‘ کے متعلق آپ کے رسالے میں کچھ لکھوں، تاہم اتنا عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ زیر نظر بحث مضمون میں مجھے آپ کے ارشادات سے سو فیصد اتفاق ہے۔ جناب جاوید احمد غامدی صاحب ہوں یا کوئی اور صاحب، ان کے خیالات سے اتفاق بھی کیا جاسکتاہے اور اختلاف بھی، مگر ہمیں کوئی حق نہیں کہ لوگوں کے ایمان کا فیصلہ کرتے پھریں۔ 
آپ ’’الشریعہ ‘‘ کی موجودہ پالیسی کو جاری رکھیے تاہم احتیاط کے ساتھ! کلمہ حق کی آخری دو سطور میں مذکور آپ کے ارادے سے مکمل اتفاق ہے، تاہم اسلوب مختلف ہوتا تو آپ کی شخصیت اور عمومی طرزِ تخاطب کے مطابق ہوتا ۔ 
محمد انور عباسی ۔ اسلام آباد
anwarabbasi@hotmail.com
(۳)
محترم و مکرم حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب، 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘
اللہ کی ذات سے امید کرتا ہوں کہ آپ، بھائی عمار ناصر صاحب اور جملہ متعلقینِ الشریعہ بخیر و عافیت ہوں گے۔ 
بحمداللہ مجھے یہاں اپنا دینی یا دنیوی تعارف کرانے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن تحدیث بالنعمہ کے طور پر دینی تعارف کی صرف اِس جہت کو ذکر کرنا چاہوں گا کہ ایک بار ایک تبلیغی سفر میں مولانا محمد سرفراز خاں صفدر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور تین دن درسِ حدیث میں شرکت کی اور حضرت سے سندِ حدیث عطا ہوئی۔ میرے ساتھ جماعت میں نکلے ہوئے کئی علماءِ کرام کو بھی یہ نعمت ارزاں ہوئی۔ یہ میرے لیے رہتی دنیا تک سامانِ فخر اور نجاتِ اخروی کا ایک ظاہری سبب ہے۔ حضرت نے بوقت رخصت مجھے سینے سے لگاکر بھینچا تھا جس کی گرمی کا احساس آج بھی اپنے اندر پاتا ہوں اور اِس گرمی کو نجات کے باطنی اسباب میں سے ایک جانتا ہوں۔ 
بھائی عمار ناصر صاحب کی مجھ ناکارہ سے محبت کے پیچھے کچھ ایسے ہی معاملات ہیں۔ اُنھوں نے ایک بار میرے پاس لاہور تشریف لاکر مجھے عزت بخشی تھی۔ تب سے میں حیرت ناک طور پر اُن کی تربیت میں بھی موقع موقع پر ایسی باتیں دیکھتا ہوں جیسی مجھے میرے والد پروفیسر عابد صدیق صاحب رحمۃ اللہ علیہ میں اولاد کی تربیت کے حوالے سے ملی ہیں۔ میرے والد صاحب نے مجھے کبھی ڈاڑھی رکھنے تک کا نہیں کہا اور نہ کسی جماعت (مثال کے طور پر کہہ لیجیے کہ تبلیغی جماعت) کے لیے کام کرنے کو کہا۔ بس ماحول کچھ ایسا بنادیا کہ ایک طرف تو اللہ کا نام لینے والے سب لوگوں کے لیے محبت اور اکرام دل میں جاگزیں کرنے کی سعی کی اور دوسری طرف ایسے علما کی خدمت میں لے جایا کیے کہ ایک واضح دینی رخ بنتا چلا گیا۔ اللہ والوں میں اٹھنا بیٹھنا اُن کے ہاں کچھ ایسے وفور سے تھا کہ حیرت ہوتی ہے۔ مثلاً یہی کہ میں لاہور میں پیدا ہوا اور میرے کان میں اذان مولانا خان محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے دلوائی۔ زکریا یونیورسٹی میں ایم ایس سی کمپیوٹر سائنس کے زمانے میں ایک بار میں نے اباجان کے سامنے قاضی حسین احمد صاحب کے بارے میں کچھ ہلکی باتیں کیں (وجہ؟ اُن دنوں اسلامی فرنٹ اور ’’ظالمو! قاضی آرہا ہے‘‘ کا نعرہ بہت لگ رہا تھا) تو اباجان نے نہایت تحمل سے میری لترو سن کر ٹھنڈا سانس بھرا اور امی جان سے کہا کہ چائے بنائیں، مجھے صفوان سے علیحدگی میں کچھ باتیں کرنی ہیں۔ اُنھوں نے میری ایک لمبی کلاس لی جس میں یہ بات بھی فرمائی کہ اللہ کا نام لینے والے ہر ایک کی قدر کیا کرو۔ تم دیکھو گے کہ کچھ عرصے کے بعد اللہ کا محض نام لینے والے لوگ بھی عام نہیں ملیں گے۔ یہ بھی فرمایا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم غیر مسلموں کو مسلمان کیا کرتے تھے اور ہمارے اکثر لوگ مسلمانوں کو غیر مسلم بنانے کا کام کرتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ تم نے قاضی صاحب کی غیبت کی ہے۔ اُنھیں خط لکھ کر معافی مانگو، اور مجھ کھڑکتے ہوئے راجپوت سے اُنھوں نے یہ کرواکے چھوڑا۔
یہ ذکر کرتا چلوں کہ اُن کی غیرتِ دینی کا عالم یہ تھا کہ میری والدہ کے سگے ماموؤں سے، جو لاہور کے مالدار ترین اور نامی گرامی قادیانی ہیں، نہ تو ہم کبھی ملے ہیں اور نہ اُنھیں ہمارے ہاں آنے کی اجازت تھی۔ اُن سے یہ مقاطعہ اباجان کی شادی (۲۳؍ مارچ ۱۹۶۷ء) کی بنیادی شرط تھا اور آج کوئی پینتالیس برس ہونے کو آئے ہیں، یہ مقاطعہ برقرار ہے، بلکہ اباجان کی وفات (۷؍ دسمبر ۲۰۰۰ء) کے گیارہ سال بعد بھی برقرار ہے۔ الغرض، اباجان نے انتہائی بیدار مغزی سے مجھے مختلف دینی نظاموں میں اترنے اور باقاعدہ عملی کام کرنے کے مواقع فراہم کیے تاکہ کوئی حسرت یا کوئی لاعلمی نہ رہ جائے، اور پھر رفتہ رفتہ میرے گرد ایسے لوگوں کا اکٹھ کردیا (بلکہ صاف تر الفاظ میں، مجھے ایسے لوگوں کے باقاعدہ ’’سپرد‘‘ کیا) جس طرف کا میرا اپنا رجحان بنا۔ اور بحمداللہ میں پوری طمانیتِ قلب اور فکری یکسوئی سے ایک طرف کو ہولیا، اِس بنیادی بات کے کامل استحضار کے ساتھ کہ جن لوگوں میں کفر کی ننانوے وجوہ بھی جمع ہوں اور محض ایک وجہ اسلام کی ہو، وہ بھی مسلمان ہیں اور یہ کہ مسلمانوں کو خوامخواہ کافر کافر کہہ کہہ کر دُر دُر کرنے کی بجائے اُن کی وجہِ انتشارِ فکر اور گم کردہ راہی کو دور کرنے کی پیہم کوشش میں لگے رہنا چاہیے۔ یہی تربیت ہے جس کی وجہ سے میں باطل کی تعریف اپنی خواہشِ نفس سے متعین نہیں کرتا، کہ بزعمِ خود کسی کو باطل قرار دے کر لٹھ لیے اُس کے پیچھے ہولوں اور اُسے اسلام کے دائرے سے باہر نکالنے تک چین سے نہ بیٹھوں۔ واللہ میں کسی کلمہ گو کو کافر نہیں سمجھتا اور اپنی تربیت کی وجہ سے مسلمانوں میں موجود کمیوں کا ذمہ دار دل کی انتہائی گہرائی سے اپنے آپ کو جانتا ہوں کہ اے کاش کبھی لگ کر محنت کی ہوتی تو مسلمان اسلام کی خیروں سے محروم کیوں ہوتے۔ 
بھائی عمار ناصر نے مجھے (یہاں سے آگے لفظ ’’مجھے‘‘ سے میرا پورا طبقہ مراد لیا جاسکتا ہے) ہر موقع پر نہایت محبت سے ڈیل کیا ہے۔ میرے سمیت بے شمار لوگ ہیں جو اُن سے اپنے تحفظات پورے طور پر بیان کرسکتے ہیں۔ یہ بات آپ کے علم میں ہے کہ مذہبی طبقہ کے لوگوں کی ایک مختصر جمعیت تو قوسِ لمن الملک الیوم بجاتے بجاتے اپنے علم و تقویٰ میں اِتنا آگے بڑھ گئی ہے کہ ہمارا اپناؤ (ہمیں own کرنا) یا ہماری علمی و فکری رہنمائی تو الگ رہی، مجھ جیسے عوام کو محض منہ کھولنے کا حق دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔ جب ہماری سنی ہی نہ جائے گی تو ہمارا ذہن سامنے کیسے آئے گا؟ اور جب ہمیں کہنے کی اجازت نہیں ہے تو ہم پر فتویٰ کس بات کا؟ کیا فتویٰ اِسی کھڑپینچی اور لٹھ ماری کا نام ہے؟ کیا ہم پر (یا کسی پر) فتویٰ تھوپا جاسکتا ہے؟ ہم لوگوں پر امت مسلمہ کے بے انتہا وسائل خرچ ہوئے ہیں: وطن عزیز نے ہماری اعلیٰ ترین معیار کی عصری تعلیم کے لیے اپنے وسائل نچھاور کیے ہیں اور آپ جیسے علماءِ کرام اپنا سرمایۂ دعا و توجہ اور گریۂ نیم شبی ہم پر لٹاتے رہتے ہیں۔ ہم لوگ معمارانِ وطن کے اور آپ حضرات کے پروردگان ہیں۔ اور جو بندوں کے احسانات کا شکر ادا نہیں کرسکتا، وہ اللہ کا شکر بھی کیوں کر ادا کرتا ہوگا! ہم سمجھتے ہیں کہ آج کے زندہ مسائل کا حل مذہب کو بطورِ افیون یا بطورِ ڈانگ استعمال کرانا نہیں ہے بلکہ پورے نواحی مطالعے اور پوری تیاری کے ساتھ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر برابری کی بنیاد پر مکالمہ ہے۔ اور یہ مسلمانوں کا اجتماعی شعور اور جینئس ہی ہوگا جو اجماعِ امت کی راہ ہموار کرے گا۔ اب یہ بھائی عمار صاحب ہیں جن کے سامنے ہم خود کو بہت ایزی محسوس کرتے ہیں اور اِس راستے واسطے سے ہماری باتیں آپ حضرات کے سامنے آتی رہتی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ وہ ہمارا محاورہ (Idiom) سمجھتے ہیں اور ہمیں اِسی کرنسی میں جواب دیتے ہیں۔ چنانچہ مکالمہ ہوتا ہے اور پورے زور و شور سے ہوتا ہے۔ الشریعہ میں ہونے والی علمی بحثوں پر ایک نظر ڈالیے تو معلوم ہوتا ہے کہ، ایک آدھ استثنا کے ساتھ، متانت اور سنجیدہ کلامی کی مقدار زیادہ رہی ہے۔ آپ لوگوں نے مسلمان کے مسلمان سے اختلاف کو اسلام کا اختلاف نہ سمجھا، نہ بنایا اور نہ بنانے دیا۔ واللہ اختلافِ امت کا رحمت ہونا مجھ جیسے کورے لوگوں کو بھی سمجھ میں آگیا۔ یہ الشریعہ کا کریڈٹ ہے۔ 
مذہبی بحث کا نتیجہ ہمیشہ شرمناک رہا ہے۔ (مثالیں کیا دوں کہ امت مسلمہ کی مذہبی بحثوں کی پوری تاریخ علی العموم اِنہی گندے کپڑوں کی لانڈری رہی ہے)۔ الشریعہ شاید مذہبی دنیا کا واحد فورم ہے جہاں بحث کے بعد بھی دل پھٹتے نہیں ہیں۔ ہمارے دل سے دعا نکلتی ہے اُس بندۂ خدا کے لیے جس نے وقت کی نبض کا بالکل درست مطالعہ کیا اور الشریعہ کی موجودہ پالیسی کی صورت میں درست تر علاج تجویز کیا۔ محمد اظہار الحق صاحب نے بالکل درست فرمایا ہے کہ اِس سب کا کریڈٹ صرف آپ کو جاتا ہے اور یہ آپ کی عین دور اندیشی اور ایک طرح سے مولانا محمد الیاس رحمۃ اللہ علیہ کی ’’آدمی تیار کرنے‘‘ کی پالیسی پر چلنا ہے کہ آپ نے بھائی عمار صاحب کو فرنٹ مین رکھا ہے۔ اگر آپ ہمیں اِس واسطے کی بجائے بلاواسطہ بات کرنے پر لائیں گے تو صاف عرض کرتا ہوں کہ ہم بہت سے ایسے حجابات کا شکار ہوجائیں گے جن میں امت مسلمہ کا تعلیم یافتہ نوجوان اور مقتدر طبقہ عام طور سے پہلے ہی لپٹا ہوا ہے۔ ہمارے لیے آپ سے (مراد طبقۂ علما سے) بلاواسطہ ملاقات کا مطمح نظر صرف حصولِ دعا و برکت ہوتا ہے نہ کہ گفتگو، اور بحمداللہ ہم خوش نصیب ہیں کہ بھائی عمار صاحب سے بلاتکلف گپ شپ کرلیتے ہیں۔ جس اطمینان اور بے تکلفی سے میں آپ سے اپنے جی میں آئی کہہ سکتا ہوں یا جس محاورے میں میں بھائی عمار صاحب سے بات کرسکتا ہوں، عام اہل علم یا اہل دین سے نہیں کرسکتا۔ میں اپنے پورے طبقہ (جدید عصری تعلیم + جدید ترین اور عالمی انڈسٹری + بیوروکریسی) کی نمائندگی کرتے ہوئے آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ للہ ایسے کسی دباؤ میں مت آئیے اور اللہ نے ہم لوگوں کو جو یہ فورم مہیا کیا ہے، اُسے کسی بھی قسم کی Churchiness کی بھینٹ مت چڑھائیے۔ 
کسی کو الشریعہ پیش کرتے ہوئے ہم بصمیمِ قلب یہ کہہ سکتے ہیں کہ مذہبی ماہناموں میں کہیں اسلام فی نفسہٖ بھی پایا جاتا ہے، ورنہ یہ ماہنامے ایک مدرسے کے ساختہ (بلکہ پسند فرمودہ) اسلام یا ایک فرقے کی کسی شاخ کے چھوٹے سے ٹھنٹھ سے زیادہ کوئی اوقات نہیں رکھتے۔ الا ماشاء اللہ۔ یہ ذہن کہ ایک ذرا سے اختلاف کی وجہ سے آدمی ہی فارغ کردیا جائے، اُس بچگانہ سوچ کا مظہر ہے جو مثلاً مخصوص مذہبی خیالات رکھنے والے کسی سکول ماسٹر کو ٹرانسفر کرا دینے یا اُس کا ٹرانسفر رکوا دینے والوں کی ہوتی ہے۔ کیا کسی دوسری جگہ ٹرانسفر ہونے سے مذہبی لگاوٹ میں کمی آجاتی ہے؟ یا جو آدمی ایک جگہ پر ’’کافر‘‘ ہے، وہ دوسرے اسکول میں ٹرانسفر ہونے سے ’’مسلمان‘‘ ہوجایا کرتا ہے؟ نیز یہ بھی توجہ میں رہے کہ کسی مسلک کا پیرو ہونے کا مطلب اُس مسلک سے منسوب فرسودیات کو بھی اٹھائے اٹھائے پھرنا ہے، ایک احمقانہ تر خیال ہے۔ دنیا بہت آگے نکل گئی ہے۔ لوگ جواب مانگتے ہیں، ایسا جواب جس سے نری عقل کو نہ سہی، فہمِ عامہ کو تو اطمینان ہو۔ راقم کی نگاہ میں اللہ نے مسلکِ دیوبند کو قبولِ عام اِسی لیے دیا کہ اِس کے بڑوں میں وسعتِ نظری تھی، اِتنی کہ اپنے دیے ہوئے فتاویٰ سے علی الاعلان رجوع تک کرنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ حاشا مجھے کسی کی ہیٹی مطلوب نہیں، لیکن اپنے محدود مطالعے کی حد تک میں دیوبند کے اِس مسلک پر صرف الشریعہ کو پاتا ہوں (افسوس کہ اِس مسلک کو میں علما کے ایک بڑے طبقے کے موجودہ طرزِ عمل کی بنیاد پر ’’ٹھیٹھ‘‘ مسلک نہیں کہہ سکتا؛ دیوبند کا قدیم ٹھیٹھ مسلک البتہ یہی رہا ہے) اور یہ اِسی مسلک پر چلنے کی برکت ہے کہ حکومتوں کے آنے جانے سے یا سیاسی درجۂ حرارت کے اونچاؤ نِچاؤ سے الشریعہ کی پالیسی نہیں بدلتی۔ اللہ کے غیر کے اِس شدید تاثر سے شاید ہی کوئی مذہبی جریدہ بچا ہوا ہو، بلکہ مجھے کہنے دیجیے کہ کئی مذہبی پرچوں کی پالیسی کو چندہ دینے والوں کے ساتھ ساتھ بدلتا دیکھنے کا تو میں خود بھی گواہ ہوں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دورِ حکومت میں عورت کی حکمرانی کے پانی میں مدھانی چلانے والے مذہبی جریدوں کو اُن کے سر پر دوپٹہ آنے سے آرام آگیا تھا۔ اور یہ تو ابھی کل کی بات ہے کہ محترمہ کے قتل پر سبھی جریدوں نے ماتمی باجے بجاتے ہوئے اتحاد بین المسلمین چمپیئن شپ ٹرافی میں حصہ لیا تھا تاکہ آنے والے سیاسی منظر نامے میں کلین بولڈ نہ ہوجائیں۔ یہ یقینًا دور رس نتائج رکھنے والا ایک اندوہناک قومی سانحہ تھا، لیکن الشریعہ نے اُس وقت اِس وقتی حادثے پر ایک باوقار رسمی تحریر کے سوا کچھ نہ لکھا تھا۔ وجہ یہ کہ الشریعہ کے پاس ایک سوچی سمجھی پالیسی تھی (اور ہے) جب کہ اکثر جریدوں کے پاس ہمیشہ کی طرح صرف جذبہ ہی جذبہ تھا (جو روز افزوں ہے)۔ 
یہاں تک کی بات بھائی عمار صاحب کی الشریعہ سے متعلق عمومی خیریت اور موزونی کے بارے میں تھی۔ رہی بات اُن ’’اعتراضات‘‘ کی جن کا ذکر ہوا ہے، جن میں سرِ فہرست ’’غامدیت‘‘ نامی ایک ہوّے کا ہے، یہ بالکل اُس مسلمان والی بات ہے جسے خود کلمہ نہیں آتا تھا اور ایک ہندو کے سینے پر چڑھ کے اُسے کلمہ پڑھنے کو کہہ رہا تھا۔ جس طرح ہر مفکر کے کچھ تفردات ہوتے ہیں، اُسی طرح غامدی صاحب کے بھی ہیں جن سے اُن کا ’’کفر‘‘ بہرحال ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ اگر فکر کی بنیاد پر مفکر کے تفردات نہ ہوں تو وہ مفکر کہلائے ہی کیوں؟ ایسے شخص کو تو بلحاظِ تعریف محقق کہنا چاہیے۔ اور اگر تفردات رکھنا فتنہ ہے تو خاکم بدہن ایک آدھ ماہ میں ’’فتنۂ عماریت‘‘ بھی اشاعت کا دن دیکھ سکتی ہے کیوں کہ آج قلم ٹوتھ پِک سے بھی کم قیمت پر بکتا ہے۔ بھائی عمار صاحب کی براہین میں کئی جگہ پر فکرِ تازہ کے ایسے نظائر ہیں جنھیں اُن حلقوں میں یقیناًتسلیم نہیں کیا جائے گا جو علمی اعتبار سے ابھی اُس دور میں جیتے ہیں جب گلیلیو نے زمین کو پکڑ کر سورج کے گرد گھمانا شروع نہیں کیا تھا۔ مثلًا دیکھیے! DNA ٹسٹ اور الٹرا سونو گرافی کے نتائج عام ہونے سے پہلے کی تمام تفاسیر میں یعلم ما فی الارحام کی شرح میں کیے گئے دعووں کا باطل ہوجانا خدانخواستہ قرآنِ پاک کی کسی آیت کا باطل ہونا نہیں ہے بلکہ اِس سے ہمارے مفسرین قرآن کے مبلغِ علم پر علم انسانی ہونے کی مہر لگی ہے۔ اِن علما کا تقویٰ طہارت اور اپنے دور کے علوم اور اُن کے نتائج تحقیق پر مناسب دسترس سر آنکھوں پر، لیکن اللہ کے کلام کی طرح بندے کی لکھی ہوئی تفسیر بھی اگر قیامت تک کے لیے ناقابلِ تردید یا اصلاح کی ضرورت سے بے نیاز ہوتی تو بندہ بھی تو خدا ہوگیا تھا نا! لہٰذا اِس موضوع پر آج کسی بڑے سے بڑے قدیم متقی و عالم مفسر سے اختلاف نہ کیا جانا حماقت ہوگی۔ 
میں کمپیوٹر سائنس کا آدمی ہوں۔ ذرا میرے سامنے کوئی اِن پیج کے ٹائپسٹ کو ماہرِ کمپیوٹر تو کہے، میں اُسے گھر تک چھوڑ کے آؤں گا۔ یہ پیروکارانِ اسلام ہی کی سادہ خوئی و خیالی ہے کہ بالکل نان ٹیکنیکل لوگوں کے تفسیرِ قرآن کے نام پر کیے گئے تخمین و ظن کو پہلے تو متن الٰہی (Divine Writ) کے برابر کا درجہ دے دیتے ہیں اور پھر جب الٹی پڑتی ہے تو کھینچ تان کر وحیِ الٰہی کو اپنے مطلب کے معنی پہناتے پھرتے ہیں۔ یہ بھی کیامذاق ہے کہ جس شخص کو حیاتیاتی سائنس کی الف سے بے نہیں آتی، اُس کی لگائی ہوئی گپ کو اور جس کا دوربین استعمال کرنے کا تجربہ ضعف بصارت کی وجہ سے اخبار کو محدب عدسہ کی مدد سے پڑھنے تک محدود ہے، اُس کی تفسیر قرآن میں سماویات کے بارے میں کیے گئے دعووں کو شرحِ کلامِ الٰہی کا درجہ دیا جائے اور پھر جب اِن مزعومہ شارحین کی ہانکی ہوئی بودی ثابت ہو تو تاویل اینڈ سنز کمپنی لمیٹڈ کھول لی جائے۔ پانچ روپے کی پھکی سے ننانوے امراضِ خبیثہ کا شافی علاج کرنے والے ایسے ملا بقل بطوروں سے اللہ ہی امت کی حفاظت فرمائے۔ میں واضح الفاظ میں عرض کرتا ہوں کہ میرے اِن جملوں میں ہدف خدانخواستہ تقویٰ طہارت یا علماءِ سلف نہیں ہیں بلکہ اندھی تقلید اور بزرگوں کے فرامین کو وحیِ الٰہی کا درجہ دے دینے کا عمومی رویہ ہے۔ 
نئی ٹیکنالوجی کی کچھ تعلیم کی وجہ سے میں پورے استحضار کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وقت گزرے گا تو اِن شاء اللہ براہین کے بارے میں علمی رائے رکھنے والوں اور صحافیانہ رائے رکھنے والوں کا فرق گھوڑے اور گدھے کے سوار کے فرق کی طرح خود ظاہر ہوجائے گا۔ اِس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اِس میں جو بھی بات کی گئی ہے، اُس میں نتائجِ تحقیق کا اظہار تو ملتا ہے، لیکن مبلغِ علم کا اِدّعا نہیں ملتا۔ اور اگر اِس میں درج کردہ باتوں میں سے کوئی بات تحقیقِ مزید سے غلط ثابت ہوگئی تو زمانہ اُس کو اِس لیے قبول نہیں کرے گا کہ مستند ہے مصنف براہین کا فرمایا ہوا۔ مصنف براہین مزاجاً خود بھی ایسی بے سوادی سے اِن شاء اللہ مامون ہے۔ اصلاح کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے۔ ہاں! کچھ باتوں خصوصًا عصمت صحابہؓ پر بھائی عمار صاحب کے کچھ جملوں کے ذیلی مطالب پر طالب علمانہ تحفظات مجھے بھی ہیں اور یہ ہونے بھی چاہییں کیونکہ میرا زمانۂ طالب علمی ابھی ختم نہیں ہوا (اور اللہ نہ کرے کبھی ایسا ہو! اگر میری سیکھنے کی نیت صادق ہوئی تو اللہ مجھ پر طلبِ علم کا دروازہ بند نہیں کرے گا)۔ گنتی کے اِن چند جملوں کے مطالب پر کوئی دورائی نہیں، لیکن اِنھیں recast کیا جانا بہتر ہوتا۔ البتہ اِن کی وجہ سے میں بھائی عمار ناصر کو جے سالک سے نہیں ملاؤں گا، کبھی نہیں! یہ میری گھریلو تربیت ہی کے خلاف نہیں بلکہ بنیادی اسلامی حقوق، احترامِ انسانیت، میری جماعتی تربیت نیز اسلام کی کافروں تک سے رواداری کے ظاہر بظاہر اصولوں کے بھی خلاف ہے۔ اللہ ہمیں مسلمان کی بوجہِ اسلام قدر دانی کی توفیق عطا فرمائے۔ یہ نعمت مانگنے سے ملتی ہے۔
بات کو سمیٹتا ہوں۔ عرض ہے کہ میں کچھ ایسے لوگوں سے بھی رابطے میں ہوں جو الشریعہ کی کھلی گفتگو کی پالیسی پر صرف تحفظات نہیں رکھتے بلکہ اُن کا انداز کچھ ایسا ہوتا ہے گویا آپ نے اُنھیں اپنا پالیسی ڈویلپمنٹ کنسلٹنٹ یا تھنک ٹینک مقرر کیا ہوا ہے یا آپ کی اور الشریعہ کی ’’اصلاح‘‘ کے لیے وہ مامورین من اللہ ہیں۔ اُنھیں شدید دکھ ہے کہ الشریعہ اُن کی خواہشات کے مطابق نہیں چھپتا۔ سارے جہان کا درد چونکہ اُن کے جگر میں ہے، لہٰذا جہاں وہ صدام حسین، کرنل قذافی اور خادمِ حرمین جلالۃ الملک شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کو مشورے سپلائی کرتے رہتے ہیں، وہیں جب قومی مسائل کے درد کا دورہ پڑتا ہے تو فی سبیل اللہ، بلکہ فی سبیل الشریعہ، ون سونّے مشورے دیتے ہیں۔ سو باتوں کی ایک بات، اِس قسم کے خدائی خدمتگار ’’عوامی بھائیوں‘‘ کے کہے میں نہیں آنا چاہیے۔ میرے ایک عزیز دوست حضرت جی مولانا محمد یوسف علیہ الرحمہ کا ملفوظ سناتے تھے کہ میرے تبلیغ والے کچھ ساتھیوں میں اللہ نے عقل کی جگہ بھی اخلاص بھر دیا ہے۔ سو یہ ایسے ہی مخلصین ہیں۔ اِن کے اخلاص میں شبہ نہیں، لیکن اِن کے عقل سے پیدل ہونے میں بھی کوئی شک نہیں۔ 
حافظ صفوان محمد چوہان
hafiz.safwan@gmail.com
(۴)
مولانا محمد عمار خان ناصر صاحب مدظلہ
السلام و علیکم و رحمۃ اللہ۔ امید ہے خیریت سے ہوں گے۔
آپ کا گرامی نامہ ملا۔ بہت مشکور ہوں کہ آپ نے اس مسئلے کو سمجھنے میں میری رہنمائی فرمائی۔ اللہ رب العزت حضرت امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی لحد کو اپنی بے پناہ رحمتوں اور لامحدود انعامات سے بھر دے، انہوں نے اپنی بے پناہ علمی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر امت مسلمہ کی اس دور میں بھی رہنمائی فرمائی اور یقیناًیہ ان کی حقانیت کی دلیل ہے کہ آج بھی ہم جیسے لوگ ان کے نظریات و افکار کو اپنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ آج کے اس دور میں جب لوگوں میں سطحی ذہنیت عام ہو چکی ہے، بہت کم افراد مسئلے کی گہرائی میں جا کر اس کی روح کو پانے کی کوشش کرتے ہیں اور بدقسمتی سے وہ لوگ جو کسی نہ کسی دین کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں، اپنے مقصد اور اپنے موقف سے مطابقت رکھنے والی رائے عوام الناس کو بتاتے ہیں اور اس کے برعکس آرا کو چھپا کر ایک عامی آدمی کے ذہن کو اس حد تک پہنچادیتے ہیں جہاں وہ اپنی رائے کے خلاف کسی بھی رائے کو سننے و سمجھنے کو تیار بھی نہیں ہوتا۔
اسی طرح کا مسئلہ یہاں بھی موجود ہے۔ آپ کے گرامی نامہ سے میں مکمل اتفاق کرتا ہوں اور اسی طرح کا مزاج بھی رکھتا ہوں، لیکن بات وہیں آجاتی ہے کہ ابن تیمیہ کے جو نظریات و افکار ہیں، وہ یقیناًوہی ہیں جو آپ نے بیان کیے ہیں کہ ’’ ہم نے اس کی نسبت والے پہلو کو قبول کرنا ہے اور اگر اس کے کسی قول یا فعل میں شبہ وتاویل ہے تو اس کو رعایت بھی دینی ہے‘‘۔ مگر ان چیزوں کا لحاظ حضرت نے اپنے فتوے میں کیوں اختیار نہیں فرمایا جو انہوں نے روافض کے خلاف دیا؟ حالانکہ شیعہ حضرات حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی نسبت کا اظہار بھی کرتے ہیں، ان کو آخری رسول بھی مانتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو وہ اس معاملے میں متشدد بھی ہیں کہ وہ اہل بیت کے متعلق جس قسم کے عقائد رکھتے ہیں، ہم وہ نہیں رکھتے۔ مثلاً یہ کہ ائمہ معصوم ہیں اور ان کا مقام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کائنات میں سب سے بلند ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ان سب عقائد و نظریات کا سبب نسبت رسول ہی بنا کہ وہ خاندان رسول سے تعلق رکھتے ہیں اور دوسرا پہلو بھی ہے کہ وہ اپنے ہر عقیدے میں کسی نہ کسی شبہہ اور تاویل کا سہارا لیتے ہیں ۔
دوسری بات یہ کہ تاویلات کا دائرہ کس حد تک ہے؟ شیعہ حضرات تحریف قرآن کے عقیدے کو اس بات پر محمول کرتے ہیں کہ ہمارے ائمہ نے اس قرآن کی تصدیق کر دی ہے اور یہ وہی قرآن ہے جو لوح محفوظ میں موجود تھا اور منزل من اللہ ہے، مگرجو لوگ تحریف کے قائل ہیں، عقلی طور پر ایک حد تک وہ درست بھی ہیں کہ قرآن کو جس انداز میں جمع کیا گیا، اس میں تحریف کے بہت احتمال ہیں۔ مثال کے طور پر ایک شخص کو مسجد نبوی کے دروازے پر بٹھا دیا گیا اور منادی کروا دی گئی کی جس شخص کے پاس قرآن کا کوئی حصہ بھی موجود ہے، وہ دو گواہ لے کر آئے۔ اب اگر کسی کے پاس کوئی حصہ موجود ہو، پر گواہ نہ ہو تو وہ حصہ جمع ہونے سے رہ گیا۔ اس بات سے ان کا صحابہ سے بغض واضح نظر آرہا ہے۔ مزید ان کی کتابوں میں کچھ اس طرح کی تحریر بھی پائی جاتی ہے کہ حضرت علی نے بھی قرآن کو جمع فرمایا تھا اور وہ شان نزول کے عین مطابق تھا، لیکن اس قرآن اور حضرت علی کے جمع کردہ قرآن میں کوئی کمی یا زیادتی نہیں۔ تاہم ایسا عقیدہ رکھنے والے تحریف کے قائل شیعہ گروہ پر کوئی حکم نہیں لگاتے۔ ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ اس بارے میں بھی رہنمائی مل جائے کہ کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ ہمارے اماموں کا درجہ انبیا سے بلند ہے ما سوائے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے، اگر ہم اس پر کوئی حکم لگائیں تو وہ بے شمار حوالے سنی حضرات اوراہل تصوف کی کتابوں کے دیتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں آپ بھی غیر نبی کا مقام نبی کے برابر اور کہیں اس سے بلند بتاتے ہیں۔امید ہے اس معاملے میں اصلاح فرمائیں گے۔ 
ایک اہم بات مفتیان کرام کے طرز عمل سے تعلق رکھتی ہے۔ اس پہلو کو بھی عام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے علما و مفتیان عظام اس مسئلے کو حل کرسکیں۔ اگر یہ جوں کا توں رہا تو کئی مسائل پیدا کرے گا جس میں سب سے سنگین یہ ہے کہ عوام الناس کا علما پر اعتماد اٹھ جائے گا ۔یا تو ان سابقہ فتووں پر نظر ثانی کی جائے اور کوئی متفقہ طرزعمل اختیار کیا جائے تاکہ علما کے قول و فعل میں کوئی تعارض نہ رہے اور عوام الناس کو لزو می اور التزامی کا فرق بتایا جائے، جیسے قومی اسمبلی میں مرزا ناصر پر جرح کے دوران جب اس نے یہ سوال اٹھایا کہ یہ لوگ بھی ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں اور فتوے بھی موجود ہیں تو اس کے جواب میں مفکر اسلام مفتی محمود رحمہ اللہ نے کفر لزومی اور التزامی کی تشریح کرتے ہوئے واضح کیا کہ مسلمانوں کے فرقوں کا مابین جو کفر کے فتوے ہیں، وہ کفر لزومی کو بیان کرتے ہیں، جبکہ قادیانیت پر کفر کا فتویٰ کفر التزامی کے اعتبار سے ہے۔ ااسی طرح آج بھی اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ان مسائل کو کو عوام کو سامنے لا کر ان کی زہنی الجھنوں کو حل کیا جا سکے۔ اس طرح عوام الناس کے علما پر اعتماد میں اضافہ بھی ہوگااور دینی ماحول بھی صحیح سمت میں ترقی کرے گا۔ 
میری پے درپے معروضات کا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ جواب در جواب اور لاحاصل گفتگو ہوتی رہے۔ امید ہے حسب سابق رہنمائی فرماتے رہیں گے۔ شکریہ!
حافظ محمد فرقان انصاری
۲۴ نومبر ۲۰۱۱
(۵)
مکرمی حافظ محمد فرقان انصاری صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ 
آپ نے مسئلے کی تنقیح کے ضمن میں جو مزید سوالات اٹھائے ہیں، وہ بہت مفید ہیں۔ اس حوالے سے میری گزارشات حسب ذیل ہیں:
۱۔ میرے علم کے مطابق ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہیں بھی روافض کے کفر کی بات اس مفہوم میں نہیں کہی کہ وہ ان کو قانونی طور پر مسلمانوں سے الگ، کفار کا ایک گروہ سمجھتے ہیں اور ان پر کفار کے قانونی احکام جاری کرنا چاہتے ہیں۔ ہاں، روافض کے بعض نظریات کے کفر ہونے کی انھوں نے جابجا صراحت کی ہے۔ ان دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں، اس لیے کہ کسی بات کے فی نفسہ کفر ہونے اور اس کے قائل کو قانونی اعتبار سے کافر قرار دینے میں بہت فرق ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ابن تیمیہ نے بعض مقامات پر یہ لکھا ہے کہ روافض کا مذہب یہود ونصاریٰ کے مذہب سے بھی زیادہ برا ہے، لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہود ونصاریٰ کو روافض سے بہتر کہنا درست ہے تو انھوں نے جواب میں لکھا کہ: 
کل من کان مومنا بما جاء بہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فہو خیر من کل من کفر بہ وان کان فی المومن بذلک نوع من البدعۃ، سواء اکانت بدعۃ الخوارج والشیعۃ والمرجئۃ والقدریۃ او غیرہم فان الیہود والنصاری کفار کفرا معلوما بالاضطرار من دین الاسلام والمبتدع اذا کان یحسب انہ موافق للرسول صلی اللہ علیہ وسلم لا مخالف لہ لم یکن کافرا بہ ولو قدر انہ یکفر فلیس کفرہ مثل کفر من کذب الرسول صلی اللہ علیہ وسلم (مجموع الفتاویٰ ۳۵/۲۰۱)
’’ہر وہ آدمی جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین پر ایمان رکھتا ہے، وہ ہر اس شخص سے بہتر ہے جو آپ کا انکار کرتا ہے، چاہے اس ایمان رکھنے ولے میں کسی قسم کی کوئی بدعت پائی جاتی ہو اور چاہے وہ بدعت خوارج کی ہو یا شیعہ اور مرجۂ اور قدریہ کی یا کسی اور گروہ کی۔ یہود ونصاریٰ تو بالکل واضح طور پر کافر ہیں اور اسلام کے منکر ہیں، جبکہ مبتدع جب یہ سمجھتا ہے کہ اس کا عقیدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے مطابق ہے نہ کہ اس کے خلاف تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ آپ کا منکر نہیں۔ فرض کر لیا جائے کہ وہ منکر ہے تو بھی اس کا انکار بہرحال اس شخص کے انکارجیسا نہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرتا ہے۔‘‘
۲۔ اہل تشیع عمومی طور پر اپنے بعض اکابر علما کے موقف سے اتفاق نہیں رکھتے جو تحریف قرآن کے قائل ہیں، تاہم وہ ان حضرات کی تکفیر بھی نہیں کرتے۔ اس کی وجہ میرے خیال میں یہ ہے کہ اس نوعیت کے فتوے شخصیات کے مقام ومرتبہ کو نظر انداز کر کے نہیں لگائے جا سکتے۔ جو حضرات تحریف کے قائل ہیں، وہ اہل تشیع کے صف اول کے اکابر اہل علم ہیں جن کے علمی مقام ومرتبہ کے پیش نظران کی تکفیر کرنا ان کے لیے ممکن نہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے اہل سنت کے ہاں معوذتین کو قرآن مجید کا حصہ تسلیم نہ کرنے پر نہ صرف یہ کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ پر کوئی فتویٰ نہیں لگایا گیا، بلکہ فتاویٰ عالمگیری (جلد ۲، ص ۲۶۷) میں تصریح ہے کہ آج بھی اگر کوئی شخص ابن مسعود کے موقف سے استناد کرتے ہوئے معوذتین کے قرآن ہونے کا انکار کرے تو راجح قول یہی ہے کہ اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔ 
۳۔ میرے نزدیک اس معاملے میں سب سے بنیادی بات یہ دیکھنے کی ہے کہ اہل تشیع کے نظریات پر تنقید اور ان کے کفریہ ہونے کی تصریحات کے باوجود چودہ صدیوں میں آج تک کہیں بھی ان کو قانونی سطح پر مسلمانوں سے الگ کر کے ان پر کفار کے احکام جاری نہیں کیے گئے، خاص طور پر حج جیسے رکن اسلام کی ادائیگی میں وہ شروع سے اب تک شریک چلے آ رہے ہیں اور کسی نے بھی، حتیٰ کہ ان کے کفر کے فتوے دینے والے مفتیوں نے بھی، آج تک حرمین شریفین کے ارباب حل وعقد سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ اہل تشیع کے وہاں جانے پر پابندی لگائی جائے۔ عبادات او ر عام معاشرتی معاملات کی حد تک یہ کسی بھی شخص یا گروہ کا اجتہادی حق ہے کہ وہ اہل تشیع کے ساتھ صحیح العقیدہ مسلمانوں سے مختلف معاملہ کرے اور میرے فہم کے مطابق ان کی تکفیر کے فتوے بھی بنیادی طو رپر اسی دائرے کو سامنے رکھ کر دیے گئے ہیں، لیکن بحیثیت مجموعی امت کی سطح پر یا کسی بھی مسلمان ملک میں ملکی قانون کے دائرے میں انھیں کافر قرار دینے کی بات میرے نزدیک عقل وفہم اور حکمت وبصیرت سے بالکلیہ محروم ہونے کی علامت ہے اور ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم نے بالکل بجا طور پر اسے عالم اسلام میں ایک ’’ٹائم بم‘‘ رکھ دینے کے مترادف قرار دیا ہے۔ 
۴۔ جہاں تک مفتیان کرام کے فتووں کا تعلق ہے تو اصل خرابی یہ ہے کہ ہمارے ہاں دینی وعلمی مواقف بھی اب اصولی علمی ضوابط کی پابندی کرنے کے بجائے سیاسی حالات سے متاثر ہونا شروع ہوگئے ہیں اور بڑی بڑی معتبر شخصیات اور دار الافتاء بھی اب کسی مسئلے کی دینی وشرعی حیثیت کو واضح کرتے ہوئے یہ دیکھنے لگے ہیں کہ ہوا کا رخ کیا ہے اور کس قسم کی بات اس مخصوص حلقے کے عوامی جذبات سے زیادہ ہم آہنگ ہے جس کی وہ ترجمانی کرنا چاہتے ہیں۔ حالات وواقعات پر نظر رکھنے والا ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اہل تشیع کے خلاف تکفیری فتوے جس فضا میں جمع کیے گئے، اس میں ایران کے شیعہ انقلاب پر سنی دنیا کے سیاسی خدشات وتحفظات کا اظہار بنیادی محرک کی حیثیت رکھتا ہے اور ایرانی انقلاب کے متوقع سیاسی اثرات کا سامنا سیاسی تناظر میں اور سیاسی میدان میں کرنے کے بجائے اس جنگ میں کفر اور اسلام کی بحث کو ایک موثر مذہبی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ یہی صورت حال توہین رسالت کی سزا کے حوالے سے حالیہ بحث میں بھی سامنے آئی اور اس سے پہلے جہاد اور خروج وغیرہ کی بحثوں میں بھی مسلسل یہی روش دیکھنے کو مل رہی ہے۔
یہ رجحان میرے نزدیک مذہبی وعلمی شخصیات اور اداروں کی آرا کی وقعت اور اعتبار کے لیے، جو ان کی اصل قوت ہے، بے حد خطر ناک ہے۔ علمی رائے ایک امانت ہوتی ہے جسے کسی قسم کا سیاسی یا عوامی دباؤ قبول کیے اور کسی قسم کے تعصب کا شکار ہوئے بغیر بالکل بے لاگ طریقے سے بیان کرنا اہل علم کی ذمہ داری ہے۔ اس وقت اصل ضرورت مذہبی اداروں میں علمی اخلاقیات کی پابندی کا احساس پیدا کرنے کی ہے۔ اگر اہل علم اسی طرح مخصوص گروہی رجحانات یا عوامی جذبات کے یرغمال بنتے چلے گئے تو دینی راہنمائی کامنصب رفتہ رفتہ لوگوں کے جذبات ورجحانات کا تابع مہمل بن کر رہ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ضمیر کے مطابق بلا خوف لومۃ لائم حق بات سمجھنے اور حق بات کہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
محمد عمار خان ناصر
۱۶؍ دسمبر ۲۰۱۱ء
(۶)
حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الحمد للہ روزنامہ اسلام کا قاری ہوں۔ آپ کے مضامین پڑھ کر بے حد خوشی ہوتی ہے۔ اکثر آپ کے کالم ایسے ہوتے ہیں کہ کسی نہ کسی حوالے سے ہم ان باتوں پر آپس میں تبصرہ کر چکے ہوتے ہیں اور تمنا ہوتی ہے کہ کوئی اس پر بات کرے۔ آپ کے کالم کی صورت میں ہماری ترجمانی ہو جاتی ہے۔ آپ کی توجہ ایک اہم مسئلے کی طرف دلانا چاہتا ہوں۔ 
آپ بخوبی جانتے ہیں کہ کراچی ایک بین الاقوامی شہر ہے اور اس شہر نے ہر طبقے کی خدمت کی ہے۔ دینی حوالے سے علما اور قرا کی بہت بڑی جماعت نے یہاں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ جماعت تقریباً غربا کی تھی جس نے بے سروسامانی کے عالم میں قرآن وحدیث کی تعلیمات کوعام کیا، مگر اب صورت حال یہ ہوتی جا رہی ہے کہ اہل علم کا بہت بڑا طبقہ درس وتدریس کوچھوڑ کر امور تجارت، خصوصاً رکشا ٹیکسی چلانے کی طرف راغب ہو رہا ہے۔ اس وقت بعض ایسے بہترین مدرسین جو قوم کے نونہالوں کی تعلیم وتربیت کے لیے بہترین سرمایہ ہیں اور جنھوں نے کئی سال خدمت کی ہے، وہ رکشے چلا رہے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر دل خون کے آنسووں سے تر ہو جاتا ہے کہ آخر یہ کیوں ہو رہا ہے؟ جب معلومات لیتا ہوں تو ایک بڑی دل خراش داستان سننے کو ملتی ہے۔
کراچی جیسے شہر میں مدرس کی تنخواہ چار ہزار سے لے کر آٹھ ہزار تک ہے۔صبح سے شام تک کی پابندی، مکان کا کرایہ، بلوں کی ادائیگی، بیوی بچوں اور بوڑھے والدین کے اخراجات، خوشی غمی کے معاملات، یہ ساری چیزیں اس کے ساتھ ہیں۔ تھکا ہارا مدرس عصر سے رات گئے تک محلوں میں گھوم پھر کر ٹیوشن پڑھا کر اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہے۔ روزانہ چوبیس میں سے اٹھارہ گھنٹے کام کرتا ہے۔ کچھ عرصے کے بعد صحت بھی متاثر ہو جاتی ہے، مہنگائی کی وجہ سے ذہنی پریشانی اس کی عمر کو کم کر دیتی ہے۔
پھر بد نصیبی کی بات ہے کہ ایک آدمی نے بیس سال تک ایک ادارے میں خدمت انجام دی، ادارہ کے قواعد وضوابط کی معمولی خلاف ورزی یا بد گمانی یا مہتمم اور ناظم کی اولاد کی حرکات کی وجہ سے اس کو تذلیل کر کے ادارہ سے چلتا کر دیا جاتا ہے۔ اب یہ بڑھاپے میں قدم رکھنے والا کہاں جائے اور کیا کرے؟ دنیا کی ہر کمپنی یا ادارے میں کام کرنے والے کی جتنی سروس زیادہ ہوتی جاتی ہے، اتنی ہی اس کی مراعات بڑھائی جاتی ہیں۔آخر میں اس کچھ دے دلا کر بقیہ زندگی کے لیے بھکاری نہیں بنایا جاتا۔ کمی کوتاہی ہر شخص میں ہو سکتی ہے، لیکن تربیت کے فقدان کی وجہ سے اہل علم کی قدر دانی کی ہمارے ہاں بہت کمی ہے۔
آپ مدارس کے لیے ایسے نظام اور قوانین کی بات اٹھائیں اور وفاق المدارس اس کا کوئی ضابطہ تیار کرے، ورنہ خدا نخواستہ دینی اداروں میں اچھے مدرسین ناپید ہو جائیں گے اور نااہل لوگ مسلط ہو جائیں گے۔اب جتنے لوگ تدریس چھوڑ کر بغاوت کر رہے ہیں، کیا ان کے اعمال واخلاق اور کردار ڈرائیوری کر کے اچھے رہیں گے؟ کیا یہ اتنی بڑی جماعت اپنی اولاد کو حافظ قرآن بنائے گی اور آنے والی نسل کی صحیح دینی تربیت کر سکے گی؟ بہت مشکل ہے۔
آپ جب کراچی آئیں تو روڈ پر کھڑے ہو کر خود مشاہدہ کر لیں، آپ کو خوب اندازہ ہو جائے گا۔ ساتھ ہی ارباب مدارس کو بھی متوجہ کریں۔ بعض مقامات پر ادارہ کے طلبہ واساتذہ کا کھانا دیکھنے کو بھی جی نہیں چاہتا اور صاحب اہتمام کے بچے قورمے کھا رہے ہوتے ہیں۔ آپ ان معاملات کو مجھ سے بہت بہتر سمجھتے ہیں۔ یہ ایک طالب علم کی تحریر ہے جو اپنی آواز کو آپ جیسے بے لوث عالم دین تک پہنچانا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی اور تمام اکابر کی دینی کاوشوں کو قبول فرمائے۔ آمین
عبد الغفور فاروقی
ناظم الامور جامعہ مریم للبنات، کراچی
(۷)
برادرمحترم مولانا محمد عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم۔ مزاج گرامی؟
چند ماہ سے دیکھ رہا ہوں کہ الشریعہ کا معیار بلند سے بلند تر ہو رہا ہے۔اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔باقی آپ ہوں یا دیگر اہل علم، کسی کی رائے کو حرف آخر قرار دینا ممکن نہیں ہے۔ توہین رسالت کی سزا پر جاری مباحثہ کا ٹھوس انداز میں کوئی علمی فائدہ محسوس نہیں ہوتا، سوائے اس کے کہ ایک دوسرے کی آرا کا علم ہو جائے۔ شاید آپ کی نظر میں مزید فوائد بھی ہوں۔
ماضی میں بعض اوقات الشریعہ اور دیگر جرائد میں درج مباحث کو دیکھ کر یہ محسوس ہوتا رہا ہے کہ قسطنطنیہ کا اسلامی فوجوں نے محاصرہ کر رکھا ہے اور علماے نصاریٰ اس موضوع پر مناظرہ کر رہے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آخری غذا میں جو روٹی کھائی تھی، وہ خمیری تھی یا غیر خمیری؟ واللہ العظیم، احقر کوبعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ وہ دور واپس آ رہا ہے یا بالفاظ دیگر وہ رجحانات دوبارہ زندہ ہو رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ تاثر غلط ہو۔
مسائل نظری میں الجھ گیا ہے خطیب
سطحی ونظری مباحث میں الجھنا اب صرف اہل قلم واہل علم کے ساتھ خاص نہیں رہا۔ ہمارے سیاست دان اس کارواں کا ہراول دستہ ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر جس طرح سیاست دان اور ان کے حواری دیانت اور سچائی کا خون کرتے نظر آتے ہیں، کسی سے مخفی نہیں۔ اسلام اور وطن سے محبت دب کر رہ گئی ہے۔ ایک دوسرے کی مٹی پلید کرنے کا ذوق غالب ہے اور اس ذوق کی تسکین کے لیے وہ وہ کارنامے انجام دیے جاتے ہیں کہ جھوٹ اور دیانت اگر مجسم صورت اختیار کر لیں تو خوشی سے جھوم اٹھیں، بلکہ مسرت کی شدت سے بے ہوش ہو جائیں۔
برادر محترم! الشریعہ کے واسطے سے اپنے ایک درد دل میں قارئین کو شریک کرنا چاہتا ہوں۔ دور حاضر میں بے اعتدالی ہر طبقہ میں ہر اعتبار سے سرایت کر گئی ہے۔ اس کی کچھ نشان دہی محترم مولانا محمد عیسیٰ منصوری صاحب نے فرمائی ہے۔ مولانا راشدی صاحب بھی دو کالم لکھ چکے ہیں۔ احقر بھی ایک پہلو سے کوتاہیوں کی نشان دہی کرنا چاہتا ہے۔
دور حاضر کا ایک سنگین مسئلہ اپنی پسندیدہ شخصیات کے لیے القاب کا بے دھڑک استعمال ہے۔ مفکر اسلام اور خطیب پاکستان تو عام القاب ہیں، اب یہ سلسلہ بہت آگے بڑھ گیا ہے۔ مولانا چنیوٹی مرحوم کو ’’سفیر ختم نبوت‘‘ کا لقب آغا شورش کاشمیریؒ نے دیا تھا اور وہ بجا طور پر اس کے حق دار بھی تھے۔ اب تین چار اور حضرات کو یہ لقب دیا جا رہا ہے۔ اللہ اعلم، ان میں سے کون اس لقب سے زیادہ مشہور ہوتا ہے۔ محبوب العلماء والصلحاء پہلے حضرت پیر ذو الفقار احمد صاحب نقشبندی کا لقب تھا اور وہ اس کے حق دار ہیں۔ اب اس لقب کے دعوے دار اور بھی ہیں۔ شیخ القرآن، جانشین شاہ اسماعیل شہیدؒ ، جانشین امام ابن تیمیہؒ ، غزالی زماں، بوے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، شاہین اسلام، شہزادۂ اہل سنت، شہنشاہ خطابت وغیرہ القاب احقر نے خود اشتہارات میں پڑھے ہیں۔ ایک دفعہ ’’جانشین امیر شریعت‘‘ کے لقب پر قلمی جنگ چھڑ گئی تھی جو کہ بہرحال ناپسندیدہ تھی۔ شیعہ مسلک کے ذاکر حضرات کے القاب اور بھی مضحکہ خیز قسم کے ہوتے ہیں، جیسے بحر المصائب، ام المصائب، مجمع المصائب وغیرہ۔
احقر جب دیکھتا ہے کہ اعلیٰ القاب کسی چھوٹی شخصیت کو دیے جا رہے ہیں تو حیرانی اور صدمے کی شدید کیفیت سے دوچار ہو جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک بے تکلف دوست کو فون پر کہا کہ القابات تیزی سے تقسیم ہو رہے ہیں، آپ بھی اپنے لیے کوئی لقب پسند کرلیں، ورنہ محروم رہ جائیں گے۔ استاذ محترم شیخ الحدیث مولانا نذیر احمد صاحب مرحوم (بانی جامعہ اسلامیہ امدادیہ، فیصل آباد) کا فرمان بھی یاد آ رہا ہے ۔ فرمایا کہ ’’میں نے کسی اشتہار میں دیکھا کہ خطیب صاحب کے ساتھ پانچ سات لقب لکھے ہوئے ہیں۔ میں نے کہا، اتنے تکلف کی کیا ضرور ت تھی! سیدھا نبی لکھ دیتے۔‘‘ 
بعض مسالک کے حضرات القابات سے نوازنے میں بہت تیز ہیں اور دوسرے مسالک پر سبقت لے گئے ہیں۔ بارہا معتبر ذرائع سے یہ بات سنی گئی ہے کہ بعض خطیب اپنا نام چھوٹے سائز میں لکھا جانے پر ناراض ہو جاتے ہیں۔ بعض خطیب جلسہ کے منتظمین کو اپنے القاب خود لکھ کر دیتے ہیں۔ خطبا کا اپنے ساتھ پانچ سات مفت خوروں کو لے کر جانا تو اتنا عام ہو گیا ہے کہ منتظمین اسے وبائے عام سمجھ کر خاموش ہو رہتے ہیں۔ 
حضرت امام غزالیؒ نے فرمایا تھاکہ افسوس کہ طبیب ہی مریض بن گئے، عام لوگوں کا علاج کون کرے گا؟ (تبلیغ دین) کاش ہم سب اجتماعی وانفرادی طور پر میانہ روی سیکھ سکیں۔ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔
مشتاق احمد چنیوٹی
ادارہ مرکزیہ دعوت وارشاد، چنیوٹ
(۸)
محترم ومکرم جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بندہ عرصہ گیارہ سال سے الشریعہ کا ایک ادنیٰ قاری ہے۔ میرے پاس اس کے علاوہ بھی بہت سے مجلات آتے ہیں۔ بندہ دینی جرائد کا ایک خاموش قاری ہے۔ آج تک کسی رسالہ کو خط نہیں لکھا۔ آج پہلی دفعہ خط لکھ رہا ہوں۔
وجہ یہ ہے کہ بلاشبہ الشریعہ دینی حلقوں کاایک آزاد فورم ہے، لیکن ایک بات میں ذاتی طور پر محسوس کرتا ہوں کہ بعض اوقات اس رسالے میں دفاع صحابہ واہل بیت کے محاذ پر ایک نمایاں اور قابل ذکر کردار ادا کرنے والی جماعت کے موقف کا بہت سختی کے ساتھ رد کیا جاتا ہے، جیسا کہ دسمبر ۲۰۱۱ء کے شمارے میں مولانا عمار خان صاحب نے امام ابن تیمیہ کا فتویٰ نقل کیا ہے کہ بدعتی کے پیچھے نماز جائز ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کہ شیعہ صرف بدعتی ہے یا کافر بھی ہو سکتا ہے؟ آیا ایک شیعہ قرآن کا منکر ہو کر، صحابہ کا دشمن ہو کر، عائشہ صدیقہ پر تبرا کر کے، امامت کو نبوت سے بلند منصب مان کر اور اذان، کلمہ اور نماز بدل کر بھی صرف بدعتی ہوگا، جبکہ اس پر امت کے اکابرین کے، کفرکے فتاویٰ موجود ہیں؟
سپاہ صحابہ کے طریقہ کار پر تحفظات ہو سکتے ہیں اور کسی کے بھی طریقہ کار پر ہو سکتے ہیں، لیکن ان کی ہر بات کو باقاعدہ رد کرنا اور ہر بات کو غلط کہنا شاید انصاف نہ ہو اور صرف انھی کے خلاف ہر دفعہ رسالے میں لکھنا شاید مناسب نہ ہو۔ وہ تو پہلے ہی مظلوم ہیں اور اپنوں اور غیروں کے نشانوں پر ہیں۔ اس محاذ پر ان کی اتنی قربانیاں ہیں کہ شاید کوئی دوسری جماعت اس کی مثال پیش نہیں کر سکتی۔ اس جماعت کو صحابہ کے ساتھ ایمانی تعلق بھی ہے اور انھوں نے جانوں کے نذرانے پیش کر کے اس کو ثابت بھی کیا ہے۔ تحریکوں کے اندر جذباتی لوگ بھی ہوتے ہیں جو بعض اوقات جذبات میں بزرگوں کی شان میں نامناسب بات بھی کہہ جاتے ہیں جو کہ غلط ہے، لیکن یہ سبھی جماعتوں میں ہے۔ صرف سپاہ صحابہ میں نہیں۔ بعض اوقات ایسی باتیں اپنے مشن کے ساتھ محبت کی وجہ سے ہوتی ہیں۔
الشریعہ کے اسی شمارے میں آپ نے برادرم مولانا عمار ناصر صاحب کے بارے میں فرمایا ہے کہ ’’میں نے اسے اس گھنے جنگل میں تنہا اور بے سہارا بھی نہیں چھوڑ رکھا کہ جس کا جی چاہے، اس پر غرانے کی مشق شروع کر دے۔‘‘ اب اس عبارت میں ’’غرانے‘‘ کا لفظ آپ نے لکھا ہے۔ غراتا کون ہے؟ اس کی وضاحت بھی آپ ہی فرمائیں گے، کیونکہ مجھے تو اس لفظ کا استعمال برادرم عمار کے اوپر تنقید کرنے والوں کے لیے عجیب لگا ہے۔ اگر عمار صاحب بے سہارا اور تنہا نہیں ہیں تو کیا صحابہ، امہات المومنین اور قرآن ہی بے سہارا ہیں کہ جو چاہے، ان پر زبان دراز کرتا رہے اور جواب میں اس پر کفر کا فتویٰ نہ لگے اور اس کو اسلام سے خارج نہ کہا جائے اور صرف بدعتی کہہ دیا جائے؟
مختار احمد فاروقی
جامعہ حنفیہ تعلیم القرآن، شکر گڑھ

شش ماہی ’’معارف اسلامی‘‘ (خصوصی اشاعت بیاد ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ)

ڈاکٹر قاری محمد طاہر

ڈاکٹر محمود احمد غازی بڑی علمی شخصیت تھے۔ علمی حلقوں میں ان کا بڑا نام ہے۔ انہوں نے بہت زیادہ عمر نہیں پائی، لیکن ماہ و سال کی قلیل مدت میں انہوں نے بڑا نام کمایا۔ بہت اہم علمی آثار ورثہ کے طور پر چھوڑے جو اہل علم کے لیے روشنی کا سامان مہیا کرتے رہیں گے اور آپ کے خوان سے ہم علم کے موتی چنتے رہیں گے۔ آپ کا انتقال ۲۶ ستمبر ۲۰۱۰ء میں ہوا۔ آپ کا انتقال علمی دنیا کابہت بڑا نقصان ہے جس کی تلافی کا امکان مستقل قریب میں دور دور تک نظر نہیں آتا۔ 
آپ کے انتقال پر بہت سے رسائل نے اہم مضامین شائع کیے۔ ’’معارف اسلامی‘‘ اسی تسلسل کی ایک کڑی ہے جو ’’معارف اسلامی‘‘ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کلیہ علوم اسلامیہ کا علمی و تحقیقی رسالہ ہے۔ اس سے قبل آپ کی ذات کے حوالے سے گوجرانوالہ کا ماہنامہ ’الشریعہ‘ ایک وقیع نمبر پیش کر چکا ہے۔ تعلیمی اداروں میں شائع ہونے والے مجلات کی روایت کے مطابق مجلہ کے سرپرست علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں جبکہ مدیر مسؤل ڈاکٹر علی اصغر چشتی ہیں۔ مجلس مشاورت میں یونیورسٹی کے گیارہ پروفیسر حضرات کے نام موجود ہیں۔ مدیر مسؤل اور مدیر کو شامل کرکے یہ تعداد تیرہ ہو جاتی ہے۔ پھر مجلس مشاورت میں نو پروفیسر حضرات کے نام مستزاد ہیں جن کا تعلق پشاور سے لے کر قاہرہ اور امریکہ کی یونیورسٹیز کے ساتھ ہے۔ اس طرح کل ملا کر ۲۱ سے زائد پروفیسر حضرات اس مجلہ کو چلا رہے ہیں۔
کسی کتاب یا مجلہ کے مقام و مرتبہ کا اندازہ اس کے مباحث اور مواد سے لگایا جاتا ہے۔ محض ناموں کی کثرت کسی رسالہ کو بڑا نہیں بناتی۔ اگر اہل علم حضرات میں تختیاں لکھنے اور لگوانے کا شوق پروان چڑھ جائے تو قلمکار اور سیاست کار ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں اور قلم کاری اور سیاست کاری کے فاصلے سمٹ بھی جاتے ہیں۔ 
جن مقالہ نگار حضرات کی تحقیقات کو اس شمارہ میں شامل کیا گیا ان کی تعداد انیس (۱۹) ہے۔ جس میں تیرہ مقالات اردو میں ہیں، تین مقالات عربی میں اور تین انگریزی زبان میں ہیں۔ پہلے مقالے کاعنوان پروفیسر ڈاکٹر محمود احمد غازی شخصیت اور خدمات کے عنوان سے ہے جو ڈاکٹر اصغر علی چشتی کا تحریر کردہ ہے۔ آپ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں ڈین کلیہ عربی و علوم اسلامیہ ہیں۔ آپ نے مقالے کا آغاز علامہ اقبال کے ایک شعرسے کیا ہے۔ شعر اس طرح لکھا ہے:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
چمن میں تب کہیں ہوتا ہے جاکر دیدہ ور پیدا
مقالہ نگار فاضل و عالم ہیں۔ ان سے تو یہ سہو ممکن نہیں تاہم مسودہ کمپوز کرنے والے اور پھر اس کو پڑ ھنے والے کا سہو ہو سکتا ہے۔ ہمارے نزدیک کمپوز کرنے والے اور پروف خواں کا سہو قرار دینا بھی مناسب نہیں۔ کیونکہ برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر ۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے سہو کتابوں میں انہونی بات نہیں تاہم کتاب کے آغاز ہی میں اتنی بڑی غلطی کتاب کی قدروقیمت پر پہلی ہی نظر میں منفی اثرات لاتی ہے۔ بعض حضرات شعری اوزان کو اہمیت نہیں دیتے۔ ان کے نزدیک اصل مقصود بات کی تفہیم ہے۔ بات سمجھ میں آجائے تو اوزان کی پابندی شاید اہمیت کھو دیتی ہے۔
شعر می گویم بہ از آب حیات
من نہ دانم فاعلاتٌ فاعلاتٌ فاعلات
سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے۔ 
دوسرے مضمون کا عنوان ’’بیابان کی شب تاریک میں قندیل‘‘ ہے۔ یہ مضمون مرحوم غازی صاحب کی بیٹی نائلہ غازی کے قلم سے ہے۔ انہوں نے ڈاکٹر صاحب کا مطالعہ ایک والد کی حیثیت سے کیا اور ان کی زندگی کے ان گوشوں کو وا کیا جو عام لوگوں کی نظر سے اوجھل رہتے ہیں۔ یہ مضمون بڑا جاندار ہے جس سے اولاد کے ساتھ محبت اور ان کی تربیت کے انداز کا پتہ چلتا ہے۔ نیز ان کی گھریلو زندگی کے پہلوؤں کے بارے میں روشنی ملتی ہے۔ 
’’علوم القرآن کی نئی جہات ڈاکٹر محمود احمد غازی کی محاضرات قرآنی کے تناظر میں‘‘ یہ مضمون ڈاکٹر ثناء اﷲ کا لکھا ہوا ہے جو ایک ہی عنوان سے دو مرتبہ تحریر کیا گیا۔ معلومات اگرچہ بہتر ہیں، تاہم تحصیل حاصل کا پہلو غالب ہے۔
’’دینی مدارس کا نظام و نصاب ڈاکٹر محمود احمد غازی کے افکار سے استفادہ‘‘ کے عنوان سے لکھا گیا۔ یہ مضمون ڈاکٹر شاہ معین الدین ہاشمی کے قلم سے ہے۔ یہ مضمون جاندار ہے، محنت سے لکھا گیا ہے۔ اس مضمون میں ڈاکٹر صاحب کی اس پختہ رائے کا علم ہوتا ہے جو وہ دینی مدارس اور دینی مدارس میں پڑھائے جانے والے علوم کے بارے میں رکھتے تھے اور برملا اس کا اظہار بھی فرمایا کرتے تھے۔ 
اسی طرح ڈاکٹر جنید احمد ہاشمی کا مضمون ’’محکمات عالم قرآنی: اقبالیات میں ایک وقیع اضافہ‘‘ کے عنوان سے ہے۔ ’’محکمات عالم قرآنی‘‘ ڈاکٹر غازی کی کتاب ہے جس پر مضمون نگار نے اچھی بحث کی ہے۔
اگلا مقالہ ’’افکار مجدد الف ثانی ؒ کے ڈاکٹر غازی پر اثرات‘‘ کے عنوان سے ہے جس کے لکھنے والے ڈاکٹر ہمایوں عباس شمس ہیں۔ مقالہ نگار کے پی ایچ ڈی مقالے کا عنوان بھی غالباً یہی تھا۔ انہوں نے ڈاکٹر غازی کی بعض تحریروں سے یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت مجددؒ سے ڈاکٹر غازی متاثر ہی نہیں بلکہ مستنیر بھی تھے۔ 
سات مضامین ڈاکٹر صاحب کی کتب کے حوالے سے لکھے گئے ہیں جو اسلام آباد کے ڈاکٹر حضرات کی مساعی جمیلہ کا نچوڑ ہیں۔ ان مضامین سے معارف اسلامی کی اس خصوصی اشاعت کی ضخامت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ 
معارف اسلامی کی اس خصوصی اشاعت میں سب سے زیادہ جاذب نظر مضمون ڈاکٹر محمد سجاد صاحب کا ہے جس کا عنوان ’’مکاتیب ڈاکٹر محمد حمید اﷲ بنام ڈاکٹر محمود احمد غازی‘‘ ہے۔ آغاز میں انہوں نے ڈاکٹر حمید اﷲ مرحوم کے اور ڈاکٹر محمود احمد غازی کے مختصر احوال کا ذکر کیا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے ڈاکٹر حمید اﷲ صاحب کے خطوط کی عبارات درج کی ہیں۔ یہ خطوط تعداد میں ۱۳۶ ہیں۔ یہ بات مسلم ہے کہ اہل علم کے خطوط بھی علمی ہوتے ہیں، خواہ ذاتی نوعیت ہی کے کیوں نہ ہوں۔ اس حوالے سے ڈاکٹر حمید اﷲ مرحوم کے یہ خطوط انتہائی اہم ہیں۔ ہر خط علمی اعتبار سے کسی نئی جہت کا پتہ دیتا ہے۔ یہ تمام خطوط مستقل علمی تحقیق کا موضوع ہیں۔ معارف اسلامی کی مذکورہ خصوصی اشاعت میں یہ مضمون مرکزی حیثیت رکھتا ہے جس نے معارف اسلامی کے اس خاص شمارے کی قدر و منزلت میں خوب اضافہ کیا ہے۔ 
ڈاکٹر حمید اﷲ مرحوم کے مذکورہ خطوط ڈاکٹر غازیؒ نے خود ترتیب کے ساتھ مرتب فرما لیے تھے۔ ڈاکٹر محمد سجاد صاحب کے مطابق انہوں نے ڈاکٹر صاحب کے حکم پر ان خطوط کی پروف خوانی کی۔ ڈاکٹر صاحب ان خطوط پر حواشی لکھنے کا ارادہ رکھتے تھے، لیکن زندگی نے وفا نہ کی۔ یہ منصوبہ ادھورا رہ گیا۔ ممکن ہے، کوئی صاحب علم آگے بڑھے اور ادھورا منصوبہ پورا کرسکے۔ ان خطوط میں پہلا خط ۷ ربیع الاوّل ۱۳۹۴ھ کا ہے۔ آخری خط ۲۶ دسمبر ۱۹۹۴ء کا ہے، جبکہ بقیہ دس خطوط پر تاریخ کا اندارج نہیں ہے۔ ان تمام خطوط میں ہر خط اپنی جگہ اہم ہے۔ ان خطوط کے مندرجات پر مزید تحقیقی کام کی بہت زیادہ گنجائش ہے جن سے علم و آگہی کے بڑے اہم مستور گوشے وا ہوسکتے ہیں۔ 
معارف اسلامی کے حصہ عربی میں تین مضامین شامل ہیں۔ پہلے مضمون میں ڈاکٹر عصمت اﷲ صاحب نے ڈاکٹر غازی صاحب کے احوال و آثار کا تذکرہ کیا ہے۔ دوسرے مضمون میں ڈاکٹر فضل اﷲ صاحب نے غازی صاحب کی عربی تصانیف کے اسلوب پر بحث کی ہے، جبکہ تیسرا مضمون ڈاکٹر محمد علی غوری کا ہے جس کا عنوان القانون الدوولی الاسلامی ہے۔
انگریزی زبان کے مضامین تقریباً اردو زبان میں لکھے گئے مضامین ہی کا انگریزی Version ہیں۔ مذکورہ خصوصی اشاعت میں مقالہ نگار حضرات کا تعارف بھی دیا گیا ہے جو اچھی روایت ہے۔ اس تعارف میں ان کے دیگر علمی آثار کا تذکرہ بھی شامل کر دیا جائے تو مزید بہتر ہوتا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی شاید بے محل نہ ہو کہ آغاز میں معارف اسلامی میں مقالہ کی اشاعت سے متعلق قواعد کے عنوان سے کچھ اصول دیے گئے ہیں۔ ان میں ایک شرط یہ بھی لکھی گئی ہے کہ مقالہ کسی اور جگہ شائع شدہ یا کسی اور جگہ اشاعت کے لیے نہ دیا گیا ہو۔ یہ شرط افشائے علم اور تعمیم علم کے منافی ہے جبکہ علم کو محدود کرنا اہل علم کے ہاں مذموم عمل ہے۔ 
مجموعی لحاظ سے معارف اسلامی کی خصوصی اشاعت ایک اچھا اضافہ ہے جس سے اہل علم مستقل استفادہ کرتے رہیں گے۔ 

توہین رسالت کا مسئلہ ۔ چند اہم سوالات کا جائزہ

تالیف: محمد عمار خان ناصر
سن اشاعت: مارچ ۲۰۱۱ء
ناشر: مکتبہ امام اہل سنت، جامع مسجد شیرانوالہ باغ، گوجرانوالہ
توہین رسالت کا مسئلہ انتہائی اہم بھی ہے اور انتہائی نازک بھی۔ ایمان کی معمولی رمق رکھنے والا ہر مسلمان اس معاملے میں حساس ہے۔ ایمان کا تقاضا بھی یہی ہے۔ 
دردل مسلم مقام مصطفی است
آبروئے ما زنام مصطفی است
ماضی قریب میں پاکستان میں پیش آنے والے بعض واقعات نے اس مسئلہ کی اہمیت کو اور بھی اجاگر کر دیا ہے۔ اس موضوع پر اہل علم میں علمی بحثیں بھی سامنے آئیں۔ نام نہاد دانشوروں نے ٹی وی پر اپنے دل کی بھڑاس نکالی۔ اس خالص علمی اور اعتقادی مسئلہ کو جذباتی رنگ دے کر خاص طبقے کو مطعون کرنے میں بھی کسر نہ چھوڑی۔ 
زیر تبصرہ کتابچہ اسی موضوع پر ہے۔ محمد عمار ناصر نوعمر قلم کار ہیں اور علمی دسترس بھی رکھتے ہیں۔ ایک علمی ماہنامے کے ایڈیٹر ہیں۔ جدید و قدیم علوم پر ان کی گہری نظر ہے۔ انہوں نے اپنی اس تصنیف کو سات بنیادی عنوانات پر تقسیم کیا ہے۔ جو اس طرح ہیں: 
۱۔ بنیادی سوالات 
۲۔ اسلامی ریاست کی ذمہ داری
۳۔ توہین رسالت کی شرعی سزا
۴۔ امام ابن تیمیہ کے مؤقف کا جائزہ
۵۔ فقہائے احناف کا نقطۂ نظر 
۶۔ حکمت و مصلحت کے چند اہم پہلو
۷۔ سزا کے نفاذ کا اختیار 
آخر میں ضمیمہ کے طور پر بعض اہم سوالات پر مراسلت بھی شامل ہے۔ 
توہین رسالت کے حوالے سے تین بنیادی نظریات ہیں۔ ایک نظریہ سیکولر یا لبرل ذہن رکھنے والوں کا ہے۔ وہ آزادی افکار کا سہارا لیتے ہیں اور توہین رسالت کرنے والے کے بارے میں کسی سزا کے قائل نہیں۔ ان کے ہاں فکری آزادی ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ لہٰذا کوئی طاقت اس آزادی میں مداخلت کا حق نہیں رکھتی۔
دوسرا نظریہ یہ ہے کہ توہین رسالت انتہائی برا فعل ہے، لیکن اس کا ارتکاب کرنے والوں کے ساتھ فاعفوا واصفحوا سے کام لینا چاہیے۔ ان کے نزدیک رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان رحمت کا پہلو غالب ہے۔ 
تیسرا نظریہ یہ ہے کہ اس جرم کا مرتکب شخص سخت سے سخت سزا کے مستوجب ہے جس میں موت تک کی سزا بھی شامل ہے۔ 
موصوف نے ان تمام پہلوؤں پر قدیم اکابر فقہاء اور علماء کی آراء کا جائزہ لیا ہے اور ان کی تحریروں سے نتائج اخذ کیے ہیں۔ علمی لحاظ سے مذکورہ کتاب نہایت اہمیت کی حامل ہے اور اس موضوع پر جانکاری حاصل کرنے والوں کے لیے معلومات کا ذخیرہ ہے جس سے اس مسئلہ کو سمجھنے میں خاطر خواہ مدد ملتی ہے۔ 

’’اطراف‘‘

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(میاں انعام الرحمن کے مجموعہ مقالات ’’اطراف‘‘ کے پیش لفظ کے طور پر لکھا گیا۔)

پروفیسر میاں انعام الرحمن ہمارے عزیز ساتھیوں میں سے ہیں۔ ان کا تعلق ایک علمی خاندان سے ہے۔ ان کے دادا محترم حضرت مولانا ابو احمد عبد اللہ لدھیانوی قدس اللہ سرہ العزیز علماء لدھیانہ کے معروف خانوادہ کے بزرگ تھے اور رئیس الاحرار حضرت مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی نور اللہ مرقدہ کے ساتھ قریبی تعلق داری بھی رکھتے تھے۔ مولانا عبد اللہ لدھیانویؒ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے شاگرد تھے۔ قیام پاکستان کے موقع پر لدھیانہ سے ہجرت کر کے گوجرانوالہ آئے اور دار العلوم نعمانیہ کے نام سے مدرسہ قائم کر کے تدریس میں مصروف ہو گئے۔ میرا ان کے ساتھ نیازمندانہ تعلق رہا ہے۔ وہ جمعہ ہمیشہ مرکزی جامع مسجد میں پڑھتے تھے اور حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ غلطیوں پر ٹوکابھی کرتے تھے۔ ان کے فرزند حضرت مولانا عبد الواسع لدھیانویؒ آل انڈیا مجلس احرار اسلام کے سرگرم راہ نماؤں میں شمار ہوتے تھے جبکہ ان کے سب سے چھوٹے فرزند مولانا علامہ محمد احمد لدھیانویؒ کے ساتھ کئی عشروں تک میری جماعتی رفاقت رہی ہے۔ علامہ صاحب نے ایک عرصہ تک جمعیۃ علماء اسلام گوجرانوالہ کے سیکرٹری جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دیے ہیں اور وہ علماء لدھیانہ کی روایات کو تازہ رکھتے تھے۔
میاں انعام الرحمن کو میں بچپن سے جانتا ہوں اور اس دور سے انھیں دیکھ رہا ہوں جب وہ اسکول میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔ علماء لدھیانہ کی حریت پسندی، اپنی بات کا بے باک اظہار اور لگی لپٹی رکھے بغیر اپنی رائے کو پیش کرنے کا مزاج علماء کرام کے اس خاندان سے قریبی تعلق رکھنے والوں پر مخفی نہیں ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ خاندان کے اس مزاج اور روایت نے میاں انعام الرحمن کی شخصیت اور ذوق کی تشکیل میں سب سے زیادہ حصہ ڈالا ہے۔ وہ پابند صوم وصلوٰۃ ہیں، وضع قطع میں خاندانی روایات کے دائرے کو قائم رکھے ہوئے ہیں، شرعی احکام وضوابط کی پابندی کرتے ہیں، علماء کرام کا احترام کرتے ہیں اور بزرگوں کی بات مان لینے کے خوگر ہیں، البتہ اپنی سوچ اور اس کے اظہار میں قدرے آزاد ہیں۔ بات ذرا مشکل اسلوب میں کرتے ہیں جو اکثر عام قاری کے سر کے اوپر سے گزر جاتی ہے۔ وسیع تر مطالعہ اور اس کی بنیاد پر مختلف مسائل کا تیکھے انداز میں تجزیہ ان کا خصوصی ذوق ہے اور بہت سی باتیں ایسی کہہ جاتے ہیں جن سے اتفاق بظاہر مشکل ہوتا ہے۔ اس کے باوجود وہ ہمارے ساتھی ہیں، الشریعہ اکادمی کی ورکنگ ٹیم کا حصہ ہیں اور وقتاً فوقتاً مختلف مسائل پر لکھتے رہتے ہیں جو ’الشریعہ‘ میں شائع ہوتا رہتا ہے۔
میری ایک ’’کمزوری‘‘ سے سب احباب واقف ہیں کہ میں آج کے حالات کے تناظر میں قدیم وجدید لٹریچر کا مطالعہ کرنے والے اور اپنے اس متنوع اور وسیع مطالعہ کی بنیاد پر مسائل کا تجزیہ کرنے والے اصحاب قلم کو ڈانٹنے اور ٹوکنے کا قائل نہیں ہوں، بلکہ حکمت عملی کے ساتھ ان کا ذہنی رخ موڑنے کی کوشش کو ترجیح دیتا ہوں اور یہ کوشش موقع ومحل کی مناسبت سے خود بھی کرتا ہوں۔ مجھے میاں انعام الرحمن کی بہت سے باتوں سے اختلاف ہوتا ہے اور ان کے مضامین کے زیر نظر مجموعہ کی بہت سی باتوں سے بھی مجھے اختلاف ہے، لیکن بحمد اللہ تعالیٰ میرے ذہن میں اختلاف اور بغاوت کے درمیان فرق کا نکتہ ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ کوئی صاحب فکر اور صاحب علم اگر ہمارے دینی اور علمی ڈھانچے کو چیلنج نہیں کرتا اور بغاوت کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے اس کے اندر رہتے ہوئے کسی بات سے اختلاف کرتا ہے تو میں اسے خواہ مخواہ بغاوت سمجھنے یا زبردستی بغاوت کی طرف دھکیلنے کے رویے کو مناسب نہیں سمجھتا اور افہام وتفہیم (بالواسطہ یا بلا واسطہ) کے لہجے میں صحیح بات کی طرف توجہ دلانے کو زیادہ مفید طرز عمل تصور کرتا ہوں۔ میرے اس رویے سے بہت سے بزرگوں کو اختلاف ہوگا جو ان کا حق ہے، لیکن میرا طرز عمل بہرحال یہی ہے۔ اسی پر آئندہ بھی کاربند رہنے کا عزم رکھتا ہوں اور قدیم وجدید لٹریچر پرنظر رکھنے والی آج کی نسل کی راہ نمائی کے لیے اسی کو بہتر سمجھتا ہوں۔
میاں انعام الرحمن کے مضامین کا مجموعہ آپ کے سامنے ہے۔ اس کے مطالعہ کے دوران بہت سی باتوں میں آپ کو اجنبیت محسوس ہوگی، مگر میری درخواست ہے کہ اسے اس ذہن سے نہ پڑھیں کہ دین کی کوئی نئی تعبیر سامنے آ رہی ہے، بلکہ اس رخ سے دیکھیں کہ آج کے وہ اصحاب دانش جو دین کے ساتھ بنیادی وابستگی رکھتے ہیں اور روایت سے منحرف نہیں ہونا چاہتے، وہ کس انداز سے سوچتے ہیں، اس نئی سوچ کے ساتھ ہم آہنگی یا اختلاف کے مواقع کہاں کہاں ہیں اور ہم نے ایسی سوچ رکھنے والے حضرات کے ساتھ گفتگو اور مکالمہ کے لیے کون سا ایسا رخ اختیار کرنا ہے جو ان کے لیے بھی نفع بخش ہو اور ہم بھی افراط وتفریط کا شکار ہوئے بغیر اس کی افادیت کے دائرے کو وسیع کر سکیں۔
میری دعا ہے کہ اللہ رب العزت میاں انعام الرحمن کی اس کاوش کو ان مسائل پر بہتر مکالمے کا ذریعہ بنائیں اور ہم سب کو فکر ونظر کی سلامتی کے ساتھ دین اور دنیا دونوں کو بہتر سے بہتر بنانے کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔

سیمینار: ’’ریاست و حکومت: علامہ اقبال اور عصری مسائل‘‘

ادارہ

(یونیورسٹی آف گجرات اور اقبال اکادمی پاکستان کے اشتراک سے قومی سیمینار۔)

عصر حاضر کے عالمِ اسلام میں جن مفکرین کے نام سرِ فہرست آتے ہیں ان میں علامہ محمد اقبال کو مقامِ نام آوری اور مسندِ امتیاز و افتخار حاصل ہے ۔ لطافتِ خیال اور وسعت فکر میں ان کو اپنے عہد کی عظیم شخصیتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ انہوں نے جس مہم کا آغاز کیا اور جس تصور کی عملی تشکیل کی اس میں شاعرانہ حسن تخیل، فلسفیانہ ژرف نگاہی، مجاہدانہ روح اور قوت ارادی ان کے شریک کار رہی۔ ان کی نظم و نثر کا ہر پہلو ان کے جلوۂ ذہانت اور بصیرت حکیمانہ کا آئینہ دار ہے۔ حضرت اقبال کا فلسفہ اور شاعری بہت سے ارباب دانش کا موضوع فکر بنا لیکن ان کے منظرِفکر و بصیرت کے مختلف گوشوں میں سے جن میں سیاسیات، مذہبیات، اخلاقیات اور الٰہیات شامل ہیں۔ اقبال کے سیاسی نظریات کا چہرہ تاحال حجاب آفریں اور متضاد تصورات کے بے ربط امتزاج کے تاریک غبار میں پنہاں ہے جو ان کے نظام فکر سے وابستہ کر دیئے گئے ہیں۔ بلا شبہ علامہ اقبال کے سیاسی تصورات کے مفہوم و افادیت کا ابھی تک واقعیت پسندی کے ساتھ اس حد تک جائزہ نہیں لیا گیا جہاں تک اس کی اہمیت کا اقتضا ہے ۔ 
اسی تناظر میں یوم اقبال کے ضمن میں جامعہ گجرات نے فکر اقبال کے عصری تقاضوں کے حوالے سے ’’قومی دانشگاہ‘‘ کی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے اقبال اکادمی پاکستان کے اشتراک سے 15 نومبر کو فکر انگیز قومی سیمینار بعنوان ’’ریاست و حکومت: اقبال اور عصری مسائل‘‘ کا انعقاد ممکن بنایا۔ میزبانی رئیس الجامعہ گجرات ڈاکٹر محمد نظام الدین نے کی جبکہ فرزند اقبال جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال نے صدارت کی۔ ڈائریکٹر اقبال اکادمی پاکستان ڈاکٹر محمد سہیل عمر، لمزسے ڈاکٹر اعجاز اکرم، ممتاز کالم نگار، دانشور و اینکرخورشید ندیم، اقبال اکادمی کے ڈاکٹر طاہر حمید تنولی اور مدیر ماہنامہ الشریعہ، محمد عمار خان ناصر نے پر مغزمقالات پیش کیے۔ 
ڈاکٹر محمد نظام الدین نے سیمینار کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ افکار اقبال کو سمجھنے کے لیے یہ بنیادی بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ وہ تاریخ اسلام کے ایسے موڑ پر ابھر کر سامنے آئے جب امت مسلمہ بحیثیت مجموعی صدیوں کی غلامی ، محکومی اور علمی و عملی جمود و انحطاط کے بعد پھر ایک آزاد قوم بن کر ابھرنے والی تھی اور سامراجی، شہنشاہی اور نو آبادیاتی طاقتوں کے چنگل سے نکل کر ایک آزاد قوم کی طرح اپنے مستقبل کے تعمیر کی ذمہ داریاں سنبھالنے کا مشکل چیلنج اس کے سامنے تھا۔ ایسے جمود زدہ اور زوال زدہ سماج میں ایک جرات مند راہبر و مفکر کی ضرورت تھی یہ راہنما علامہ اقبال کی صورت میں ابھر کر سامنے آیا۔ اقبال نے بالخصوص خطبات میں اپنے عہد کے اہم سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی، یہ سوال کوئی نئے نہیں تھے۔ تاریخ کئی بار ان کے جواب دے چکی تھی لیکن مذہبی فلسفے کا ہر زمانے کی علمی سطح سے تعلق ہوتا ہے۔ جب وہ سطح بدل جاتی ہے تو ان کی عصری قدر و قیمت بھی ختم ہو جاتی ہے، لہٰذا یہ ضروری نہیں کہ ہم اقبال کے پیش کردہ جوابات سے مطمئن ہو کر بیٹھے رہیں۔ اقبال کو ہم اسی طریقے سے حیاتِ نو دے سکتے ہیں جس طرح انہوں نے اپنے اسلاف کے افکار و خیالات کا تنقیدی محاکمہ کیا تھا ۔ صرف پھولوں کی چادر چڑھانے سے اقبال کو زندہ نہیں رکھا جاسکتا۔شیخ الجامعہ نے مقالہ نگاروں اور حاضرین کو خوش آمدید کہتے ہوئے شرکت پر ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔ 
فرزندِ اقبال جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ یونیورسٹی آف گجرات کا عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نظام تعلیم و تدریس دیکھ کر جی خوش ہو گیا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ گجرات جیسے دور دراز علاقے میں ایسی دانش گاہ قومی اور عصری چیلنجوں کو قبول کر کے ان سے عہدہ برآہ ہونے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھے ہوئے۔ جسٹس جاوید اقبال نے اقبال اور فلاحی ریاست کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اقبال کے نامکمل کام مکمل کیے جائیں۔ اقبال فکر قرآن کے حوالے سے تحقیقی کام کے خواہشمند تھے مگر زندگی میں اس پر تحریری کام نہ کر سکے۔ اسی طرح وہ اجتہاد پر کام کے خواہشمند تھے ۔ اقبال کو رخصت ہوئے ۷۳ سال ہو گئے، ہم وہیں کھڑے ہیں ۔علامہ اقبال نے امام غزالی کے بعد ایک ہزار سال میں پہلی مرتبہ واضح کیا کہ تین منفی طاقتیں ہیں جن کے خلاف جہاد کی ضرورت ہے ۔ مطلق العنان ملوکیت، ملائیت او ر تصوف۔ ان کے خلاف جہادکے ذریعے ہی مسلم معاشرہ وجود میں لایا جاسکتا ہے ۔ 
ڈاکٹر جاوید اقبال نے مزید کہا کہ صحیح معنوں میں کوئی آئیڈیل سیکولر ریاست یا روحانی جمہوریت ہی فلاحی ریاست ہو سکتی ہے ہے جو دوسرے مذاہب کا احترام کرے تو وہ صرف اقبال کی تجویزہ کردہ جدید فلاحی اسلامی ریاست ہے ۔ اقبال سوشلزم اور کمیونزم کے بھی اتنے ہی خلاف تھے جتنے سرمایہ دارانہ نظام کے کیونکہ وہ اسلامی فلاحی ریاست کے تصور میں یقین رکھتے تھے۔ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کے اجتہاد کی تخلیق ہے۔ یہ روایتی اسلامی تحریکوں کا نتیجہ نہیں تھا۔ پاکستان کو فکر اقبال کے تناظر میں چلانے کے لیے بھی اجتہادی سوچ کی ضرورت ہے ۔ ہماری قوم نے سیاسی آزادی تو حاصل کر لی ہے، لیکن ذہنی طور پر وہ ابھی تک مغلوب ہے۔ ہم نے اپنے آپ کو ابھی تک دوسری اور تیسری صدی کے تقاضوں اور ضروریات کا غلام بنا رکھا ہے ۔ اقبال اور فلاحی ریاست وہ موضوع ہے جس پر ہمیں چودہ اگست ۱۹۴۷ء کے فوراً بعد ہی غور کرنا چاہیے تھا تاکہ ہم جدید اسلامی ریاست کو قائم کر کے اس کے سیاسی و تہذیبی ارتقاء کے لیے راہ ہموار کر سکتے۔
LUMS  کے ڈاکٹر اعجاز اکرم نے ’’فکر اقبال کا پس منظر اور مسلم سیاسی فکر ‘‘کے عنوان سے مقالے میں کہا کہ علامہ اقبال نے فکر اسلامی کو اپنے عصری تقاضوں کی روشنی میں سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ۔اقبال عصری تقاضوں کو اسلام کے ماضی سے رشتہ توڑ کر نہیں بلکہ اس رشتے کو اور بھی مضبوط کر کے پورا کرنا چاہتے تھے، اس لیے فکر اقبال کو سمجھنے کے لیے خود فکر اسلامی کے اس تاریخی ارتقا کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے جو وحی و رسالت کی ساتویں صدی سے چل کر اقبال کی بیسویں صدی تک پہنچتا ہے ۔ یہ بہت طویل اور پیچیدہ سفر ہے گذشتہ پندرہ سو سالوں میں اسلامی فکر مختلف اور متنوع ادوار سے گزری ہے۔
ڈاکٹر محمد سہیل عمر نے ’’مسلم سیاسی فکر اور اقبال کا تصور اجتہاد ‘‘ کے موضوع پر کہا کہ اسلامی تاریخ کے دور جدید میں اقبال ان بلند پایہ اہل بصیرت میں شامل ہیں جو مذہب و سیاست میں اجتہاد کی حمایت کرتے ہیں ۔اقبال کے خیال میں اسلام کا تصورِ حیات جامد نہیں بلکہ متحرک ہے ۔ مسلمانوں کے زوال و انحطاط کا اہم سبب ہی یہ ہے کہ مسلمانوں کی قوت فکر بصیرت و اجتہاد سے محروم ہو گئی ۔ تاہم اجتہاد کا دروازہ کبھی بند نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی بند کر سکتا ہے ۔ اقبال کے خیال میں اجتہاد حسن تغیر اور حرکت ارتقا کا وسیلہ ہے۔
خورشید احمد ندیم نے ’’جمہوریت اور فکر اقبال ‘‘کے موضوع پر سیر حاصل مقالے میں کہا کہ اقبال اور جمہوریت دونوں کے بارے میں ایک چیز مشترک ہے کہ دونوں کے بارے میں ہمارا علم تا حال ادھورا ہے ۔ علامہ اقبال لبرل ڈیمو کریسی کی بجائے روحانی جمہوریت کی بات کرتے ہیں ۔ اقبال پوری کائنات کی روحانی تعبیر و تشکیل کرنا چاہتے ہیں، وہ کائنات کی مابعد الطبعیاتی تعبیر کرنا چاہتے ہیں۔ مغربی جمہوریت معیشت کی مادری ضروریات کی کوکھ سے جنم لیتی ہے ، جبکہ روحانی جمہوریت کی اساس کہیں اور جاتی ہے ۔ ہمیں جمہوریت کی بھی تعبیر نو کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایسے جمہوری نظام کی ضرورت ہے جو ظاہر میں مغربی طریقہ ہی ہو مگر اس کی روح روحانی ہو۔
ڈاکٹر طاہر حمید تنولی نے ’’اقبال کا تصور ریاست و حکومت‘‘ کے موضوع پر جامع مقالہ پیش کیا اور کہاکہ اقبال حقیقت میں احیائے اسلام کے شاعر و مفکر ہیں، اس لیے ان کے ذہنی و فکری ارتقا کو تحریک احیائے اسلام کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے ۔ صرف برصغیر میں مسلم ریاست کے قیام سے ان کے خواب کی تکمیل نہیں ہوئی۔ وہ تمدن اسلامی کے احیا کے شاعر تھے ۔ بلاشبہ علامہ اقبال کا تصور ریاست و حکومت روحانی جمہوریت اور اجتہاد کے گرد گھومتا ہے ۔ 
محمد عمار خان ناصر نے ’’خروج کے کلاسیکل اور معاصر موقف، فکر اقبال کے تناظر میں ‘‘ ایک مشکل موضوع کو عام فہم بناتے ہوئے کہاکہ اقبال مسلم ریاست میں اسلامی قانون کی تعبیر و تشریح کے حق کو مذہبی علماء تک محدود رکھنے کے بجائے جدید قانون اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے ماہرین کو شریک کرنے کے قائل ہیں ۔انہوں نے تھیاکریسی کے تصور کی مکمل نفی کرتے ہوئے اجتہاد کا حق مسلمانوں کی منتخب پارلیمنٹ کو دینے اور پارلیمنٹ کی راہنمائی کے لیے مذہبی علما کو اس کا حصہ بنانے کی تجویز پیش کی جسے پاکستان میں عملی طور پر اختیار کیاگیا۔ ریاست و حکومت سے متعلق عصری مسائل پر غور کرتے ہوئے فکر اقبال کے تناظر میں خروج پر بحث فروعی اور اطلاقی ہے ۔ ایسی فروعی فقہی بحثیں فکر اقبال کا موضوع نہ رہیں تاہم گہری نظر سے دیکھا جائے تو خروج کے موضوع سے اقبال کا تعلق واضح دکھائی دیتا ہے ۔خروج کے معاملے کے تمام فریقین اگر فکر اقبال سے راہنمائی لیتے ہوئے اپنے رویوں اور طرز عمل پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس کر لیں تو پاکستان اور پاکستانی قوم کو اس بحران سے نکالا جاسکتا ہے ۔ اس کے لیے تمام گروہوں میں مثبت ڈائیلاگ کو فروغ دینا ہماری ذمہ داری ہے ۔ 
علامہ اقبال کی سیاسی فکر کے حوالے سے منعقدہ اس سیمینار میں مقالہ نگاروں نے جامع اور تنقیدی خیالات کا بھرپور اظہار کیا ۔ بلاشبہ آج پاکستان ایسے ہی متغیر دور سے گزر رہا ہے جو ترکی میں ۱۹۲۴ء میں اختتام پذیر ہوا ۔ پاکستان کے روایت پسند حلقوں نے اپنے پیش رو ترک علماء کی طرح اسلامی تعلیمات کو روایتی فقہ کے نفاد کے مترادف قرار دے رکھا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ جب تک معاشرہ صنعتی طور پر ترقی کر کے جاگیردارانہ اور استعماری تسلط سے نجات حاصل نہیں کر لیتا اور جب تک مذہبی علوم کی تدریس جدید علوم کی روشنی میں نئے سرے سے نہیں دی جاتی یہ بحث جاری رہے گی ۔ کسی بھی زندہ معاشرے میں جوابات کی اتنی اہمیت نہیں ہوتی جتنی ان سوالات کی جو عالمانہ جرات و بصیرت سے جنم لیں ۔ اس سیمینار میں سنجیدہ اور شعوری بیداری کے حامل سوالات اٹھائے گئے ۔ اقبال کی فکر کے متحرک تصور کو ابھارنے میں یونیورسٹی آف گجرات اور اس کی وژنری قیادت نے فعال کردار ادا کیا جس کو تمام مقررین ، حاضرین اور دانشوروں نے سراہا اور امید کی کہ جامعہ گجرات میں افکار تازہ کا جھونکا قومی فکر و ترقی میں بہار کی نوید ثابت ہو گا ۔
(رپورٹ: شیخ عبد الرشید)


اخبار و آثار

ادارہ

مولانا محمد عیسیٰ منصوری کی پاکستان تشریف آوری

برطانیہ کے ممتاز عالم دین، دانش ور اور اسکالر اور ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری گزشتہ ماہ رائے ونڈ کے عالمی تبلیغی اجتماع کے موقع پر پاکستان تشریف لائے اور رائے ونڈ کے علاوہ لاہور، کراچی، فیصل آباد، سرگودھا، ڈھڈیاں شریف، گوجرانوالہ اور دیگر مقامات کا دورہ کیا۔ انھوں نے عالم اسلام کے علمی وفکری مسائل پر مختلف اجتماعات سے خطاب کیا اور سرکردہ علماء کرام کے ساتھ مشاورت کی۔ مولانا منصوری ۲۷؍ نومبر کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں تشریف لائے اور ماہانہ فکری نشست میں تفصیلی اظہار خیال فرمایا۔ ان کا خطاب الشریعہ کی ویب سائٹ www.alsharia.org پر ’’تقاریر وبیانات‘‘ کے سیکشن میں دیکھا جا سکتا ہے۔
مولانا منصوری نے الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر اور ورلڈ اسلامک فورم کے سرپرست مولانا زاہد الراشدی سے فورم کی سرگرمیوں کے حوالے سے تبادلہ خیالات کیا اور الشریعہ اکادمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر حافظ محمد عمار خان ناصر اور دیگر اساتذہ کے ساتھ ملاقات کے دوران اکادمی کی سرگرمیوں پر اطمینان اور مسرت کا اظہار کرتے ہوئے انھیں مزید منظم اورمربوط بنانے پر زور دیا۔ ورلڈ اسلامک فورم پاکستان کے رابطہ سیکرٹری اور پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ عربی کے استاذ پروفیسر ڈاکٹر عبد الماجد اور حضرت سید نفیس شاہ الحسینی رحمہ اللہ تعالیٰ کے خادم خاص بھائی رضوان نفیس بھی ان کے ہمراہ تھے۔ مولانا منصوری کم وبیش دو ہفتے پاکستان میں قیام کے بعد ۵؍ دسمبر کو ممبئی روانہ ہو گئے۔

دعوۃ اکادمی اسلام آباد سے علماء کرام کی آمد

دعوہ اکادمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں زیر تربیت پچاس کے لگ بھگ علماء کرام کی ایک کلاس نے، جو مسلح افواج کے مختلف شعبوں کے خطبا پر مشتمل تھی، ۳۰؍ نومبر کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کا دورہ کیا اور الشریعہ اکادمی کی لائبریری اور دیگر شعبوں کا معائنہ کرنے کے علاوہ ایک خصوصی نشست میں بھی شرکت کی جس کا ان علماء کرام کی آمد پر بطور خاص اہتمام کیا گیا۔ الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے کلاس کے نگران ڈاکٹر طاہر صدیق کی فرمائش پر ’’عصر حاضر کی علمی وفکری ضروریات‘‘ کے موضوع پر تفصیلی خطاب کیا۔ خطباء کرام نے اکادمی کے اساتذہ سے مختلف امور پر تبادلہ خیالات کیا اور الشریعہ اکادمی کے پروگراموں کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔
کم وبیش تین گھنٹے اکادمی میں گزارنے کے بعد علماء کرام کا وفد جامعہ عربیہ گوجرانوالہ، جامعہ شاہ ولی اللہ اٹاوہ اور جامعہ اسلامی کامونکی کے دورے پر روانہ ہو گیا اور ان دو اداروں میں تھوڑی تھوڑی دیر گزارنے کے بعد انھوں نے مولانا زاہد الراشدی کے ہمراہ سادھوکی میں کیتھولک مسیحی ادارہ ’’بیت المومنین‘‘ کا بھی دورہ کیا۔

حفظ قرآن کی تکمیل کی تقریب

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے شعبہ حفظ کے طالب علم محمد طلحہ کا حفظ قرآن کریم مکمل ہونے پر اس کا آخری سبق ۱۴؍ دسمبر کو مغرب کی نماز کے بعد منعقد ہونے والی تقریب میں اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی اور دیگر اساتذہ نے سنا۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی راہ نما مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی اس تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ انھوں نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے قرآن کریم کی تلاوت اورحفظ کے فضائل بیان کیے اور فرمایا کہ قرآن کریم کا سینے میں محفوظ ہو جانا کسی بھی مسلمان کے لیے دنیا اور آخرت کی کامیابیوں اور سعادتوں کا ذریعہ ہے، لیکن حفظ کر لینے کے ساتھ ساتھ اسے محفوظ رکھنا اور مسلسل پڑھتے رہنا بھی ضروری ہے۔
مولانا زاہد الراشدی نے حافظ محمد طلحہ، اس کے اساتذہ اور اہل خاندان کومبارک باد دی اور تقریب کے اختتام پر حافظ محمد طلحہ اور اکادمی کی کامیابی وترقی کے لیے دعا کی گئی۔

مولانا زاہد الراشدی کا دورۂ امریکہ

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے عید الاضحی کی تعطیلات کے دوران ۸ سے ۱۹؍ نومبر تک دار العلوم جمیکا نیو یارک کے مہتمم مولانا محمد یامین کی دعوت پر نیو یارک کا دورہ کیا اور دار العلوم میں اساتذہ وطلبہ کی کم وبیش ایک درجن تربیتی نشستوں سے مختلف عنوانات پر خطاب کرنے کے علاوہ مکی مسجد بروک لین، بخاری مسجد اور دیگر مساجد میں عوامی دینی اجتماعات سے بھی خطاب کیا، جبکہ ۲۰؍ نومبر کو وہ پروگرام کے مطابق گوجرانوالہ واپس پہنچ گئے۔

فروری ۲۰۱۲ء

حدیث و سنت اور جدید تشکیکی ذہنمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
نفاذِ شریعت کے رہنما اصولوں کے حوالے سے ۵۵ علماء کرام کے متفقہ ۱۵ نکاتادارہ
دنیائے اسلام پر استشرقی اثرات ۔ ایک جائزہ (۲)ڈاکٹر محمد شہباز منج
’’کچھ تو سمجھے خدا کرے کوئی‘‘ (۱)مولانا محمد بدر عالم
جامع مسجد نور کی تاسیس کا پس منظرمولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی
مکاتیبادارہ
مولانا ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقیؒمولانا جمیل الرحمٰن فاروقی
مہتمم جامعہ نصرۃ العلوم کا الشریعہ اکادمی کی لائبریری کیلئے گرانقدر عطیہادارہ
سادہ خوراک اور انسانی صحتحکیم محمد عمران مغل

حدیث و سنت اور جدید تشکیکی ذہن

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(ڈاکٹر محمد اکرم ورک کی کتاب ’’متون حدیث پر جدید ذہن کے اشکالات: ایک تحقیقی جائزہ‘‘ کے پیش لفظ کے طور پر لکھا گیا۔)

نحمدہ تبارک وتعالیٰ ونصلی ونسلم علی رسولہ الکریم وعلی آلہ واصحابہ واتباعہ اجمعین۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ سلم کی اطاعت واتباع کو بھی دین کا تقاضا قرار دیا گیا ہے اور متعدد آیات قرآنی کے ذریعے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حیثیت کو واضح کیا گیا ہے کہ وہ صرف قاصد اور پیغام بر نہیں ہیں، بلکہ مطاع، اسوہ اور متبَع بھی ہیں اور جس طرح قرآن کریم کے احکامات وارشادات کی اطاعت لازم ہے، اسی طرح جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ سلم کے ارشادات واعمال اوراحکام وہدایات کی اتباع اور پیروی بھی ضروری ہے، جیسا کہ سورۂ آل عمران کی آیت ۳۲ میں فرمایا گیا ہے کہ:
قُلْ أَطِیْعُواْ اللّٰہَ وَالرَّسُولَ فإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الْکَافِرِیْنَ۔
’’آپ ان سے کہہ دیجیے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ پس اگر وہ پھر گئے تو بے شک اللہ تعالیٰ کافروں کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘
اس کے ساتھ ہی قرآن کریم کے فہم اور آیات قرآنی میں اللہ تعالیٰ کی منشا ومراد کے تعین کے لیے بھی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی معیار اور اتھارٹی قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ سورۃ النساء کی آیت ۸۰ میں ارشاد ربانی ہے کہ:
مَّنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰہَ وَمَن تَوَلَّی فَمَا أَرْسَلْنَاکَ عَلَیْْہِمْ حَفِیْظاً۔
’’جو رسول اللہ کی اطاعت کرتا ہے، پس تحقیق اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جو پھر گیا، پس ہم نے آپ کو ان پر ذمہ دار بنا کر نہیں بھیجا۔‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تین واضح حیثیتیں ہیں:
۱۔ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام وارشادات کو نسل انسانی تک پہنچانے والے ہیں۔
۲۔ اللہ تعالیٰ کے احکام وفرمودات کے شارح اور ان کی وضاحت کی اتھارٹی ہیں۔
۳۔ اور اس کے ساتھ ساتھ وہ خود بھی ایک مطاع اور اسوہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں اور ان کے وصال کے بعد بھی حضرات صحابہ کرام کا معمول یہ تھا کہ :
  • جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو وحی بیان کرتے، صحابہ کرامؓ بلا تامل اس پر ایمان لے آتے اور اسے حکم خداوندی تسلیم کرتے تھے۔
  • جس وحی کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کا حصہ قرار دیتے، وہ قرآن کریم میں شامل کر لی جاتی اور جسے قرآن کریم کا حصہ بتائے بغیر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے ارشاد یا حکم کے طور پر بیان فرماتے، وہ ’’حدیث قدسی‘‘ قرار پاتی۔
  • قرآن کریم کی کسی آیت یا جملے کے معنی ومفہوم کے بار ے میں کسی قسم کا اشکال پیدا ہوتا تو حضرات صحابہ کرامؓ اس کی وضاحت کے لیے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی رجوع کرتے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی وضاحت کے لیے جو بھی ارشاد فرما دیتے، وہی اس آیت کریمہ کی حتمی تشریح سمجھی جاتی تھی۔ اس کے بیسیوں شواہد حدیث وتاریخ کے ریکارڈ پر محفوظ وموجود ہیں۔
  • حتیٰ کہ کسی موقع پر خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی قول یا عمل قرآن کریم کی کسی آیت کے ظاہری مفہوم سے متعارض محسوس ہوتا تو اس کی وضاحت بھی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی مانگی جاتی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی وضاحت میں جو کچھ فرما دیتے، وہی قرآن کریم کی منشا سمجھی جاتی، جیسا کہ بخاری شریف کی روایت کے مطابق ام المومنین حضرت عائشہؓ نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ فرماتے ہیں کہ ’من حوسب عذب‘، جس کا حساب لیا گیا، اسے عذاب دیا جائے گا، جبکہ قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ جس کا ’’حساب یسیر‘‘ ہو، وہ خوش خوش اپنے گھر والوں کے پاس پلٹے گا۔ بظاہر یہ قرآن کریم کے ارشاد اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں تعارض بنتا ہے، لیکن اس تعارض کا سوال جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا اور جو بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں فرما دی، وہی قرآن کریم کا منشا قرار پائی۔
یہی وجہ ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرات صحابہ کرامؓ کا یہی تعامل رہا کہ وہ قرآن کریم کے ساتھ ساتھ سنت وحدیث کو بھی دین کی مستقل دلیل اور ماخذ سمجھتے تھے اور عقائد واحکام دونوں میں قرآن کریم کی طرح جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور حدیث سے بھی استدلال کرتے تھے، جیسا کہ امام بیہقی السنن الکبریٰ (ج ۱، ص ۱۱۴) میں حضرت میمون بن مہران کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ:
ان ابابکر رضی اللہ عنہ کان یقضی بکتاب اللہ، فان لم یجد قضی بسنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فان لم یجد سال المسلمین، فان اخبروہ بقضاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضی بہ، فان اعیاہ ذالک دعا رؤوس المسلمین وعلماء ہم، فان اجتمع رایہم علی الامر قضی بہ۔
’’جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین اور خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا معمول یہ تھا کہ کوئی مسئلہ پیش آتا تو قرآن کریم کے مطابق فیصلہ کرتے تھے۔ اگر قرآن کریم میں اس کا حل نہ پاتے تو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فیصلہ ان کے علم میں ہوتا تو اس کے مطابق فیصلہ کرتے اور اگر ان کے علم میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فیصلہ نہ ہوتا تو صحابہ کرامؓ سے دریافت کرتے اور وہ انھیں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فیصلہ بتا دیتے تو اس کے مطابق فیصلہ کرتے اور اگر تمام تر کوشش کے باوجود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد نہ ملتا تو علماء کرام اور بڑے لوگوں کو جمع کر کے ان سے مشاورت کرتے اور جس بات پر ان کا اتفاق ہو جاتا، اس کے مطابق فیصلہ فرما دیتے۔‘‘
اسی طرح مسلم شریف کی روایت کے مطابق حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے تقدیر کے عقیدہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ تقدیر کا عقیدہ نہ رکھنے والوں سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے اور دلیل کے طور پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی کا حوالہ دیا جس میں آپ نے ایمان کی وضاحت کرتے ہوئے ’ان تؤمن بالقدر‘ کو اس میں شامل کیا ہے۔
اس سے واضح ہے کہ حضرات صحابہ کرام کے ہاں عقائد واحکام، دونوں معاملات میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت وحدیث مستقل دلیل سمجھی جاتی تھی اور قرآن کریم کی طرح حدیث وسنت سے بھی بطور ماخذ استدلال کیا جاتا تھا۔
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پورے دور میں ان کا اجماعی تعامل یہی رہا ہے، لیکن جب خوارج ومعتزلہ جیسے گروہوں کو اپنے خود ساختہ عقائد ونظریات کے لیے قرآن کریم کی تعبیر نو کی ضرورت پیش آئی تو اس کی راہ میں ’’حدیث وسنت‘‘ کو سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہوئے اس کے انکار یا اسے کمزو اور غیر معتبر قرار دینے کے راستے تلاش کیے گئے۔ ظاہر بات ہے کہ سنت وحدیث اور تعامل صحابہ کرام کی موجودگی میں قرآن کریم کی کوئی نئی تعبیر وتشریح ممکن ہی نہیں ہے اور اسی وجہ سے خوارج ومعتزلہ بلکہ ان کے بعد اس راہ پرچلنے والے ہر گروہ کو ہر دور میں اس کی ضرررت پیش آتی رہی ہے کہ وہ حدیث وسنت اور تعامل صحابہ کرامؓکی اہمیت وضرورت سے انکار کریں اور ان کی حجیت کو مشکوک ومتنازعہ بتا کر قرآن کریم کی من مانی تعبیر وتشریح کی راہ نکالیں، جیسا کہ آج کے ’’متجددین‘‘ کا طریق واردات بھی یہی ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جب حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کو خوارج کے ساتھ گفتگو کے لیے بھیجا تو اسی خدشے کے پیش نظر ان سے فرمایا تھا کہ:
اذہب الیہم فخاصمہم، ولا تحاجہم بالقرآن فانہ ذو وجوہ ولکن خاصمہم بالسنۃ .... قال لہ: یا امیر المومنین فانا اعلم بکتاب اللہ منہم، فی بیوتنا نزل، قال: صدقت ولکن القرآن حمال ذو وجوہ، تقول ویقولون، ولکن خاصمہم بالسنن، فانہم لن یجدوا عنہا محیصا (الاتقان فی علوم القرآن، ج ۱، ص ۴۱۰)
’’ان کے پاس جاؤ اور ان سے بحث کرو، لیکن ان کے سامنے قرآن کریم سے استدلال نہ کرنا، اس لیے کہ قرآن کریم کے الفاظ میں مختلف معانی کا احتمال ہوتا ہے، بلکہ ان کے ساتھ سنت کے حوالے سے گفتگو کرنا۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے کہا کہ اے امیر المومنین، میں قرآن کریم کو ان سے زیادہ جاننے والا ہوں۔ یہ تو ہمارے گھروں میں اترا ہے (یعنی قرآن کریم کے حوالے سے گفتگو میں بھی وہ مجھ پر غالب نہیں آ سکتے)۔ حضرت علی نے فرمایا کہ تم ٹھیک کہہ رہے ہو، لیکن قرآن کریم احتمالات کا حامل ہے۔ تم ایک مطلب بیان کرو گے تو وہ دوسرا مطلب نکال لیں گے۔ تم ان کے ساتھ سنن کی بنیاد پر بحث کرنا، کیونکہ ان سے بھاگنے کی راہ انھیں نہیں ملے سکے گی۔‘‘
حضرت علیؓ کے ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ سنت رسول سے ہٹ کر اگر قرآن کریم سے براہ راست استدلال کرو گے تو الفاظ اور جملوں میں مختلف معانی کے احتمالات کی وجہ سے وہ اس سے کوئی بھی استدلال کر سکیں گے۔ اس کے برعکس سنت رسول کو بنیاد بناؤ گے تو وہ ان احتمالات سے اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکیں گے اور قرآن کریم کے ایک متعین مفہوم کا انھیں سامنا ہوگا۔
ظاہر بات ہے کہ کسی بھی کلام کے الفاظ، جملوں اور محاوروں میں مختلف معانی کا احتمال موجود ہوتا ہے اور یہ فطری بات ہے، اس لیے ان احتمالات میں سے کسی ایک معنی کی تعیین کے لیے کسی اتھارٹی کی ضرورت ہوتی ہے جو مختلف معنوں اور احتمالات میں سے ایک کا تعین کر دے۔ قرآن کریم کے حوالے سے یہ اتھارٹی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے، اس لیے حضرت علیؓ نے عبد اللہ بن عباسؓ سے فرمایا کہ تم سنت رسول کی بنیاد پر گفتگو کرنا تاکہ وہ قرآن کریم کے ظاہری احتمالات سے غلط فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ اس کی مثال موجودہ دور میں ایسے ہے جیسے ملک کے دستور کی کسی بھی دفعہ میں عام طور پر ایک سے زیادہ تعبیروں کی گنجائش ہوتی ہے اور آئینی ماہرین ان گنجائشوں کے حوالے سے دستوری دفعات کی مختلف تعبیرات پیش کرتے رہتے ہیں، لیکن اس کے لیے حتمی اتھارٹی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کو سمجھا جاتا ہے اور باقاعدہ اتھارٹی کی طرف سے کی جانے والی تعبیر ہی دستورکی حتمی تعبیر وتشریح قرار پاتی ہے۔
صحابہ کرام کے آخری دور اور اس کے بعد کے قریبی ادوار میں قرآن وسنت کی تعبیر وتشریح کے حوالے سے معتزلہ، خوارج اور ان جیسے دیگر گروہوں نے امت کے اجماعی موقف سے الگ راستے اختیار کیے جنھیں ایک حد تک ظاہر پرستی اور عقل پرستی کی دو انتہائیں قرار دیا جا سکتا ہے، جبکہ اہل سنت کا موقف ان دو انتہاؤں کے درمیان اعتدال، توازن اور حقیقت پسندی پر مبنی چلا آ رہا ہے مگر مغرب کی ’’تحریک استشراق‘‘ نے مسلمانوں کے لیے جو علمی وفکری سوالات پیدا کیے، ان کی جڑ بھی بالآخر اسی طریق واردات میں جا کر پیوست ہو گئی جو معتزلہ اور خوارج نے اختیار کیا تھا کہ قرآن کریم کو سنت رسول، تعامل صحابہ کرامؓ اور امت کے جمہوری تسلسل سے الگ کر دیا جائے تاکہ اس کی من مانی تشریح آسان ہو جائے۔
’’استشراق‘‘ کی فکری اور علمی تحریک کے دو مراحل تاریخ ہمارے سامنے پیش کرتی ہے۔ اس کا آغاز تو تیرھویں صدی عیسوی میں اس وقت ہوا جب تاتاریوں نے ۱۲۵۸ھ میں بغداد کو پامال کرنے کے صرف دو سال بعد ۱۲۶۰ھ میں عین جالوت میں سلطان المظفرؒ کی سربراہی میں کمانڈر ظاہر بیبرس کے ہاتھوں خوف ناک شکست کھا کر ہمیشہ کے لیے پسپائی اختیار کر لی اور اس کے بعد صلیبی جنگوں میں بھی صلیبی قوتوں کو پے در پے شکستوں نے بد حواس کر دیا، حتیٰ کہ وہ ۱۲۹۱ھ میں سلطان الملک الاشرفؒ کے ہاتھوں عکہ کی آخری اور فیصلہ کن شکست سے دوچار ہوئے تو صلیبیوں کی مذہبی قیادت کو دو باتوں نے سخت پریشان کر دیا۔ ایک یہ کہ اگر تاتاریوں نے مسلمانوں کا مذہب قبول کر لیا تو مسلمانوں کی قوت کئی گنا بڑھ جائے گی اور دوسرا یہ کہ پوپ اربن ثانی کی شروع کردہ صلیبی جنگوں کے عبرت ناک خاتمہ کے بعد مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اب کون سی مسیحی قوت سامنے آ سکے گی؟
چنانچہ اس دور کے معروف مسیحی مبلغ ریمنڈس للس (Reymundus Lullus) نے، جس نے تیونس اور یگر علاقوں میں نصف صدی تک مسیحی دعوت کے لیے مشنری خدمات سرانجام دیں، ان خدشات کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ:
’’اگر نسطوری عیسائیوں کو اپنی صف (کیتھولک) میں شریک کر لیا جائے اور تاتاریوں کو عیسائی بنا لیا جائے تو سارے سراسین (مسلمان) بآسانی تباہ کیے جا سکتے ہیں، لیکن خوف یہ بھی ہے کہ اگر ان تاتاریوں نے ترغیب یا تحریص کے باعث شریعت محمدیہ تسلیم کر لی تو پھر عالم عیسائیت کے لیے شدید خطرہ پیدا ہو جائے گا۔‘‘ (بحوالہ ’’اسلام، پیغمبر اسلام اور مستشرقین کا انداز فکر‘‘ از ڈاکٹر عبد القادر جیلانی، ص ۱۶۹)
یہ خوف بالآخر سامنے آ گیا اور تاتاریوں نے نہ صرف یہ کہ اسلام قبول کر لیا بلکہ وہ اسلام کا بازوئے شمشیر زن بن گئے تو عسکری میدان جنگ سے مکمل مایوس ہو کر مسلمانوں کو مسیحیت کی دعوت دینے اور ان کے ساتھ علمی وفکری مباحثوں کا راستہ اختیار کیا گیا جس کے لیے ریمنڈس للس نے کلیسا کو دعوت دی کہ
’’علوم شرقیہ کے مطالعہ کو روحانی صلیبی جنگ کے طور پر استعمال کیا جائے۔‘‘
چنانچہ ریمنڈس للس نے تیونس کو اپنی روحانی صلیبی جنگ کا میدان بنایا، علوم شرقیہ کے مطالعہ کے مدارس قائم کیے، مسلم علما کے ساتھ مناظروں کا بازار گرم کیا اور نصف صدی کی مسلسل تگ ودو کے بعد تیونس میں ہی قتل ہو کر اس مشن کے لیے اپنی جان بھی دے دی۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: Philip Schaff, "History of the Christian Church", vol. 5, p. 433-437)
اس کے ساتھ ایک اور مسیحی دانش ور بیکن کو بھی اسی فکر کا حامل قرار دیا گیا ہے۔ یہ دونوں مسیحیت کے عمومی علمی اور دینی ماحول کو تو اپنی طرف متوجہ نہ کر سکے لیکن علوم شرقیہ کے مطالعہ کی استشراقی تحریک کی بنیاد فراہم کر گئے اور ’’روحانی صلیبی جنگ‘‘ کے عنوان سے اس کا ہدف بھی انھوں نے طے کر دیا۔ البتہ سولھویں صدی عیسوی میں، جو بائبل کی تعبیر وتشریح میں پاپاے روم کی اتھارٹی بلکہ اجارہ داری کو مارٹن لوتھر کی طرف سے چیلنج کیے جانے کی صدی ہے اور پروٹسٹنٹ فرقے کا دور آغاز ہے، تحریک استشراق نے نئی کروٹ لی اور اسے یہ امکان دکھائی دینے لگا کہ اگر مسیحیت میں اصلاح علوم اور مذہبی ڈھانچے کی ری کنسٹرکشن کے ذریعے سے قدیم مذہبی روایات سے بغاوت ہو سکتی ہے تو مسلمانوں میں اس تجربے کو دہرانے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں اور یہ بغاوت اگر کامیاب ہو گئی تو مسلمانوں کو ان کے علمی ماضی سے کاٹ کر نئے سانچے میں ڈھالا جا سکتا ہے اور عسکری میدان کی شکست کو فکری میدان کی فتح میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
تاریخی ترتیب کے لحاظ سے ہمیں نظر آتا ہے کہ مارٹن لوتھر کی وفات کے بعد اگلی نصف صدی کے اندر ہندوستان کے مغل بادشاہ اکبر نے ’’دین الٰہی‘‘ کے نام سے جو نیا دینی ڈھانچہ قوت کے زور پر متعارف کرانے کی ناکام کوشش کی، وہ اسی طرح کی ری کنسٹرکشن کا نمونہ تھا جسے مارٹن لوتھر اور ا س کے قائم کردہ پروٹسٹنٹ فرقہ نے یورپ میں کامیابی کے ساتھ عملی وجود دے دیا تھا، لیکن اسلام کی مضبوط علمی روایت کے سامنے اکبر باشاہ کی قوت اور اقتدار کا زور نہ چل سکا اور اکبر بادشاہ کے منظر سے ہٹتے ہی ’’دین الٰہی‘‘ کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔
یہ ایک الگ بحث طلب نکتہ ہے کہ جس مقصد میں مارٹن لوتھر کو یورپ میں کامیابی حاصل ہو گئی، اس میں اکبر بادشاہ کو ہندوستان میں کامیابی کیوں حاصل نہ ہو سکی، جبکہ مارٹن لوتھر ایک عام مذہبی راہ نما تھا اور اکبر بادشاہ ہندوستان کا سب سے باجبروت بادشاہ متصور ہوتا تھا، لیکن اس وقت ہمارا یہ موضوع نہیں ہے، کیونکہ ہم تحریک استشراق کے اس نئے دور کی بات کر رہے ہیں جس میں یہ پالیسی اختیار کی گئی کہ مسلمانوں کو اب مناظروں اور مباحثوں میں زیر کرنے کی کوشش میں وقت ضائع کرنے کی بجائے مسلمانوں کے اندر کوئی ایسی تحریک پیدا کر دی جائے جو ایک ہزار سے چلی آنے والی مذہبی اتھارٹی کو مشکوک بنا دے اور مسیحیت کی طرح اسلام میں بھی اصلاح علوم اور دین کی تشکیل نو کا ذہن پیداکر دیا جائے جس کا ایک مشاہداتی منظر ہم نے ہندوستان پر برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی کے تسلط واقتدار کے بعد اس ملک کے نئے نظام تعلیم کی بنیاد رکھنے والے برطانوی دانش ور لارڈ میکالے کے اس تاریخی مقولے کی صورت میں دیکھا کہ میں نے ایک ایسا نظام تعلیم ترتیب دیا ہے جس سے گزر کر مسلمان اگر مسیحی نہیں ہوگا تو مسلمان بھی نہیں رہے گا۔
تحریک استشراق کا ہدف یہی تھا اور اب بھی یہی ہے۔ بلاشبہ مستشرقین نے علوم اسلامیہ کے مطالعہ وتحقیق میں گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں اور علمی حوالے سے ان خدمات کا اعتراف نہ کرنا، نا انصافی اور بخل ہوگا، لیکن مقاصد کے اعتبار سے مستشرقین کی علمی خدمات اور لارڈ میکالے کے تعلیمی منصوبے میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا، البتہ نتائج وثمرات کے معاملے میں اکبر بادشاہ کی طرح انھیں بھی مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہو پا رہے اور نہ صرف برصغیر پاک وہند بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی فیصلہ کن اکثریت اپنی قومی مذہبی روایت اور علمی تسلسل کے ساتھ اس طرح جڑی ہوئی ہے جس طرح آج سے دو صدیاں پہلے تھی اور مسلمانوں کے اعتقادی اور علمی قلعے میں شگاف ڈالنے کی مغربی کوششوں کا نتیجہ خود مغرب کو اپنا سر پھوڑنے کے سوا اب بھی کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔
البتہ اس ضمن میں مستشرقین کے اٹھائے ہوئے مختلف اعتراضات سے بعض مسلمان اہل دانش یقیناًمتاثر ہوئے ہیں اور انھوں نے اپنے خیال کے مطابق اسلام اور پیغمبر اسلام کو جدید مغربی ذہن کے اعتراضات سے بچانے کا آسان نسخہ یہ تجویز کیا ہے کہ ذخیرۂ حدیث میں ایسے اعتراضات کی بنیاد بننے والی احادیث کا ہی سرے سے انکار کر دیا جائے۔ گزشتہ دنوں بعض اصحاب قلم نے اخبارات میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے وقت ان کی عمر کی بحث چھیڑی اور کہا کہ ہمیں احادیث کی وہ تمام روایات مستردکر دینی چاہییں جو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے بارے میں آج کی دنیا، بالخصوص مغرب کے اعتراضات کا باعث بنتی ہیں اور چونکہ مغرب کم سنی کی شادی کو قابل اعتراض سمجھتا ہے، اس لیے بخاری شریف کی وہ روایت ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہونی چاہیے جس میں بتایا گیا ہے کہ نکاح کے وقت حضرت عائشہ کی عمر چھے سال اور رخصتی کے وقت نو سال تھی۔ 
جہاں تک اس جذبے کا تعلق ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر مغرب کے اعتراضات کا محققانہ جواب دینا ضروری ہے، یہ انتہائی قابل قدر ہے۔ اسی طرح نکاح اور رخصتی کے وقت ام المومنین حضرت عائشہؓ کی عمر کے بارے میں یہ بحث ایک عرصے سے جاری ہے اور بحث وتحقیق کی حد تک اس میں کوئی اشکال کی بات بھی نہیں ہے۔ ہر مورخ اور محقق کا حق ہے کہ روایات کی بنیاد پر اپنی تحقیق کے مطابق کوئی رائے قائم کرے اور اس کا اظہار بھی کرے۔ اس نوعیت کے سیکڑوں مسائل امت کے اہل علم میں مختلف فیہ چلے آ رہے ہیں اور ان پر بحث وتمحیص کا سلسلہ بھی جاری ہے جبکہ آئندہ بھی قیامت تک ان مباحث کا دروازہ کھلا ہے، البتہ بحث کا یہ پہلو کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے بارے میں مغرب کے اعتراضات اور طعن وتشنیع کا جواب دینے کے لیے ہم اپنی ہی روایات اور علمی اثاثے کی اکھاڑ پچھاڑ میں لگ جائیں، بہرحال قابل توجہ ہے اور ہمارے خیال میں ایسے مسائل میں اپنے علمی ذخیرے کے درپے ہونے سے پہلے ہمیں اس بات کا جائزہ لے لینا چاہیے کہ مغرب کے اعتراضات کی فکری اساس کیا ہے اور اس طعن وتشنیع کی اپنی علمی حیثیت کیا ہے جس کی بنیاد پر اسلام کی تعلیمات یا جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کو مورد طعن قرار دیا جا رہا ہے۔ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ مغرب کے اٹھائے ہوئے مطاعن واعتراضات کی علمی حیثیت کا تجزیہ کیا جائے اور ہر مغربی اعتراض کو درست تسلیم کرنے کی بجائے اس کی خامی کو واضح کرنے کی کوشش کی جائے، مگر ہمارا المیہ ہے کہ علامہ محمد اقبالؒ کے بعد مغربی فلسفہ وثقافت کا اس سطح پر ناقدانہ جائزہ لینے والا اور کوئی مفکر سامنے نہیں آیا اور اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ خود اقبال کا نام لینے والے اس معاملے میں اقبال کی راہ پر چلنے کی بجائے مغربی فلسفہ وثقافت کی نام نہاد علمی برتری کے سامنے سر بسجود دکھائی دے رہے ہیں۔
بہرحال مستشرقین کی ایک بڑی تعداد نے اپنی علمی وفکری جدوجہد کا ہدف مسلمانوں کے علمی ماضی بالخصوص حدیث نبوی اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کرنے کو قرار دے رکھا ہے اور اس کے لیے مسلسل علمی، تحقیقی اور مطالعاتی کام جاری ہے، لیکن مسلم علما نے مغربی یورپ کی مسیحی مذہبی قیادت کی طرح سرنڈر کر دینے کی بجائے علمی اور تحقیقی میدان میں پوری جرات کے ساتھ اس کا سامنا کیا ہے اور تحقیق واستدلال کی قوت سے اس کا راستہ روکنے میں مجموعی طور پر وہ کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ حدیث وسنت کی حجیت واہمیت کے انکار کی وجہ ہمارے نزدیک وہی ہے جس کا ہم نے سطور بالا میں تذکرہ کیا ہے اور اسی لیے مستشرقین کی طرف سے اس پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے، مگر مسلم علما کی کاوشیں انتہائی قابل قدر ہیں کہ انھوں نے مسلم امہ کی اکثریت کو حدیث وسنت کے بارے میں شکوک وشبہات کا شکار ہونے سے عالم اسباب میں بچا رکھا ہے اور چند محدود حلقوں کے علاوہ حدیث وسنت کے بارے میں امت مسلمہ اپنے قدیم موقف اور روایت پر بحمد اللہ تعالیٰ پوری دل جمعی کے ساتھ قائم ہے۔
حدیث وسنت کے بارے میں مستشرقین اور ان کے زیر اثر بعض مسلمان اہل دانش کی طرف سے اٹھائے جانے والے سوالات اور شکوک وشبہات پر ہمارے فاضل دوست ڈاکٹر محمد اکرم ورک نے بھی قلم اٹھایا ہے جو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں ایک عرصہ سے ہمارے رفیق کار ہیں اور علمی، تحقیقی اور فکری سرگرمیوں میں ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں۔ انھوں نے جس محنت، نکتہ رسی اور گہرائی کے ساتھ ان سوالات اور شکوک وشبہات کا تجزیہ کیا ہے اور ان کے جوابات دیے ہیں، اس پر وہ داد کے مستحق ہیں اور ان کی یہ علمی کاوش یقیناًبہت سے نوجوان اہل علم کے لیے راہ نمائی کا باعث بنے گا۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس خدمت کو قبولیت سے نوازیں اور دونوں جہانوں میں ثمرات وبرکات سے بہرہ ور فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔

نفاذِ شریعت کے رہنما اصولوں کے حوالے سے ۵۵ علماء کرام کے متفقہ ۱۵ نکات

ادارہ

(۲۴ ستمبر ۲۰۱۱ء کو لاہور میں ’’ملی مجلس شرعی‘‘ کے زیر اہتمام منعقدہ ’’اتحاد امت کانفرنس‘‘ کا مشترکہ اعلامیہ۔)

چونکہ اسلامی تعلیمات کا یہ تقاضا ہے کہ مسلمان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی قرآن و سنت کے مطابق گزار یں اور پاکستان اسی لیے بنایا گیا تھا کہ یہ اسلام کا قلعہ اور تجربہ گاہ بنے لہٰذا 1951ء میں سارے دینی مکاتب فکر کے معتمد علیہ 31علماء کرام نے عصر حاضر میں ریاست و حکومت کے اسلامی کردار کے حوالے سے جو 22نکات تیار کیے تھے انہوں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کو ٹھوس بنیادیں فراہم کیں اور ان کی روشنی میں پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کے حوالے سے کئی دستور ی انتظامات بھی کر دیے گئے لیکن ان میں سے اکثر زینت قرطاس بنے ہوئے ہیں اور ان پر کوئی عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ مزید برآں کچھ اور دستوری خلا بھی سامنے آئے ہیں جو پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں چنانچہ نفاذ شریعت کے حوالے سے حکومتی تساہل پسندی کا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ پاکستان کے شمال مغربی سرحدی قبائلی علاقوں کے بعض عناصر نے بزورِ قوت شریعت کی من مانی تعبیرات کو نافذ کرنے کے لیے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا۔ اس مسلح جدوجہد کے شرکاء نے ایک طرح سے حکومتی رٹ کو چیلنج کر دیا جب کہ اس صورت حال کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے دہشت گردی کے ساتھ نتھی کر کے افواج پاکستان کو اس مسلح جدوجہد کے شرکاء کے سامنے لا کھڑا کیا اور یو ں دونوں طرف سے ایک دوسرے کے ہاتھوں مسلمانوں کا ہی خون بہہ رہا ہے حالانکہ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ان سرگرمیوں کی پشت پناہی بھی خود امریکہ ، بھارت اور اسرائیل ہی کررہے ہیں۔ پاکستان کے دیگر پُر امن علاقے بھی اس جنگ کے اثرات سے محفوظ نہیں ہیں تقریباً تمام بڑے شہروں میں آئے دن دہشتگردی اور خود کش حملوں کی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں جن میں اب تک ہزاروں معصوم شہری اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔ یہ صورت حال تقاضا کرتی ہے کہ تمام مکاتب فکر کے نمائندہ علماء کرام ایک مرتبہ پھر مل بیٹھیں اور باہمی غوروفکر اور اتفاق رائے سے ان اُمور کی نشاندہی کر دیں جن کی وجہ سے پاکستان ابھی تک ایک مکمل اسلامی ریاست نہیں بن سکا اور نہ ہی یہاں نفاذ شریعت کاکام پایۂ تکمیل تک پہنچ سکا ہے۔ تمام مکاتب فکر کے نمائندہ علماء کرام کی یہ کوشش اس مرحلہ پر اس لیے ناگزیر ہے کہ ان کی اس کو شش سے ہی نہ صرف ان اسباب کی نشاندہی ہو گی جو نفاذ شریعت کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں بلکہ نفاذ شریعت کے لیے متفقہ رہنما اصولوں کے ذریعے وہ سمت اور راستہ بھی متعین ہو جائے گا جس پر چل کر یہ منزل حاصل کی جا سکتی ہے۔ دراصل نفاذ شریعت کی منزل کا حصول ہی اس بات کی ضمانت فراہم کر سکتا ہے کہ آئندہ پاکستان کے کسی علاقے سے نفاذ شریعت کے نام پر مسلح جارحیت کا ارتکاب اور حکومتی رٹ کو چیلنج نہ کیا جا سکے۔ چنانچہ اس حوالے سے تجویز کیے گئے اقدامات پیش خدمت ہیں :
۱۔ ہمارے حکمرانوں کی یہ شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ فرد کو بھی شریعت پر عمل کے قابل بنائیں اور معاشرے اور ریاست کو بھی شریعت کے مطابق چلائیں۔ دینی عناصر کا بھی فرض ہے کہ وہ دعوت و اصلاح اور تبلیغ و تذکیر کے ذریعے فرد کی بھی تربیت کریں، حکمرانوں پر بھی دباؤ ڈالیں کہ وہ اپنی دینی ذمہ داریاں پوری کریں اور جہاں تک قانون اجازت دے خود بھی نفاذِ شریعت کے لیے ضروری اقدامات کریں۔اسی طرح ہر مسلمان کی یہ ذاتی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اسلامی تعلیمات پر عمل کرے۔
۲۔ یہ کہ پاکستان میں نفاذِ شریعت کی بنیاد ۱۹۵۱ء میں سارے مکاتب فکر کے علماء کرام کی طرف سے متفقہ طور پر منظور کردہ ۲۲ نکات ہیں اور موجودہ دستاویز کے ۱۵ نکات کی حیثیت بھی ان کی تفریع اور تشریح کی ہے۔
۳۔ یہ کہ پاکستان میں شریعت کا نفاذ پر امن جدوجہد کے ذریعے ہونا چاہیے کیونکہ یہی اسلامی تعلیمات اوردستور پاکستان کا مشترکہ تقاضا ہے اور عملاً بھی اس کے امکانات موجود ہیں ۔ نیز شریعت کا نفاذ سارے دینی مکاتب فکر کی طرف سے منظورشدہ متفقہ راہنما اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے ( یہ۱۵ نکات اس قرارداد کا حصہ ہیں)اور کسی گروہ یا جماعت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی مرضی کا اسلام سارے معاشرے پرقوت سے ٹھو نس دے۔
۴۔ دستور پاکستان کے قابل نفاذ حصے میں بصراحت یہ لکھا جائے کہ قرآن و سنت مسلمانوں کا سپریم لاء ہے اوراس تصریح سے متصادم قوانین کو منسوخ کر دیا جائے۔یہ دستوری انتظام بھی کیا جائے کہ عدلیہ کی طرف سے دستور کی کوئی ایسی تعبیر معتبر نہ ہو گی جو کتاب وسنت کے خلاف ہو اور دستور کی کسی بھی شق اور مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے کسی بھی فیصلے کو کتاب وسنت کے خلاف ہونے کی صورت میں اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کیا جا سکے۔ نیز ان دستوری دفعات کو دستور میں بنیادی اور ناقابل تنسیخ دفعات قرار دیا جائے۔ آئین توڑنے سے متعلق دفعہ 6Aاور عوامی نمائندوں کی اہلیت سے متعلق دفعات 63,62کو مؤثر اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنایاجائے۔ کسی بھی ریاستی یا حکومتی عہدیدارکی قانون سے بالاتر حیثیت اور استثنا پر مبنی دستوری شقوں کا خاتمہ کیا جائے ۔
وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کے شریعت اپیلنٹ پنج کے جج صاحبان کو دیگر اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان کی طرح باقاعدہ جج کی حیثیت دی جائے اور ان کے سٹیٹس اور شرائط تقرری وملازمت کو دوسری اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان کے سٹیٹس اور شرائط تقرری و ملازمت کے برابر لایا جائے ۔بعض قوانین کو وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ اختیار سے مستثنیٰ قرار دینے کے فیصلوں پر نظر ثانی کی جائے اور وفاقی شرعی عدالت کو ملک کے کسی بھی قانون پر نظر ثانی کا اختیاردیا جائے ۔وفاقی شرعی عدالت اور شریعت اپیلنٹ بنچ کو آئینی طور پر پا بند کیا جائے کہ وہ مناسب وقت (Time frame)کے اندر شریعت پٹیشنوں اور شریعت اپیلوں کا فیصلہ کر دیں۔وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کی طرح صوبائی، ضلعی اور تحصیل سطح کی عدالتوں میں بھی علماء ججوں کا تقررکیا جائے اور آئین میں جہاں قرآن و سنت کے بالا تر قانون ہونے کا ذکر ہے وہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شارع ہونے کا ذکر بھی کیا جائے۔ حکومت اسلامی نظریاتی کونسل میں تمام مکاتب فکر کے جید علماء بطور رکن نامزد کرے۔ ہر مکتبہ فکر اپنا نمائندہ اپنے حلقوں سے مشاورت کے بعد تجویز کرے۔ نفاذِ شریعت کے حوالے سے جن نکات پر ارکان کی اکثریت کا اتفاق ہوجائے حکومت چھ ماہ کے اندر اسے قانون بنا کر پاس کرنے کی پابند ہو۔
۵۔ پاکستان کے قانونی ڈھا نچے میں پہلے سے موجود اسلامی قوانین پر مؤثر طریقے سے عمل درآمد کیا جائے اور اسلامی عقوبات کے نفاذ کے ساتھ ساتھ مؤثر اصلاحی کو ششیں بھی کی جائیں ۔
۶۔ اسلامی اصول و اقدار کے مطابق عوام کو بنیادی ضروریات وسہولیات زندگی مثلاً روٹی ، کپڑا ، مکان ، علاج معالجہ اور تعلیم فراہم کرنے، غربت و جہالت کے خاتمے اور عوامی مشکلات و مصائب دور کرنے اورپاکستانی عوام کو دنیا میں عزت اور وقار کی زندگی گزارنے کے قابل بنانے کو اولین ریاستی ترجیح بنایا جائے ۔
۷۔ موجودہ سیاسی نظام کی اسلامی تعلیمات کے مطابق اصلاح کی جائے مثلاً عوامی نمائندگی میں سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کی حوصلہ شکنی اور غریب اور متوسط طبقے کی نمائندگی کی حوصلہ افزائی کے لیے ٹھوس عملی اقدامات کیے جائیں نمائندگی کے لیے شرعی شہادت کی اہلیت کو لازمی شرط قرار دیاجائے۔ متناسب نمائندگی کا طریقہ اپنایا جائے ۔ علاقائی ، نسلی، لسانی اور مسلکی تعصبات کی بنیاد پر قائم ہونے والی سیاسی جماعتوں پر پابندی لگائی جائے اور قومی یکجہتی کے فروغ کے لیے مناسب پالیسیاں اور ادارے بنائے جائیں
۸۔ تعلیمی نظام کی اسلامی تناظر میں اصلاح کے لیے قومی تعلیمی پالیسی اور نصابات کو اسلامی اور قومی سوچ کے فروغ کے لیے تشکیل دیا جائے جس سے یکساں نظام تعلیم کی حوصلہ افزائی اور طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ ہو ، اساتذہ کی نظریاتی تربیت کی جائے اور تعلیمی اداروں کا ماحول بہتر بنایا جائے۔ مخلوط تعلیم ختم کی جائے اور مغربی لباس کی پابندی اور امور تعلیم میں مغرب کی اندھی نقالی کی روش ختم کی جائے۔تعلیم کا معیاربلند کیا جائے۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو قومی نصاب اپنانے کا پابند بنانے اور ان کی نگرانی کا مؤثر نظام وضع کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے ۔ تعمیر سیرت اور کردار سازی کو بنیادی اہمیت دی جائے۔ تعلیم سے ثنویت کا خاتمہ کیا جائے۔ دینی مدارس کے نظام کو مزید مؤثر و مفید بنانے اور اسے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ضروری قدامات کیے جائیں تا کہ بین المسالک ہم آہنگی کو فروغ ملے اور فرقہ واریت میں کمی واقع ہو دینی مدارس کی ڈگریوں کو تسلیم کیا جائے۔ تعلیم کے لیے وافر فنڈز مہیا کیے جائیں۔ملک میں کم ازکم میٹرک تک لازمی مفت تعلیم رائج کی جائے اور چائلڈ لیبر کا خاتمہ کیا جائے۔ 
۹۔ ذرائع ابلاغ کی اصلاح کی جائے۔ اسلامی تناظر میں نئی ثقافتی پالیسی وضع کی جائے جس میں فحاشی و عریانی کو فروغ دینے والے مغربی و بھارتی ملحدانہ فکرو تہذیب کے اثرات و رجحانات کو رد کر دیا جائے ۔ صحافیوں کے لیے ضابطۂ اخلاق تیار کیا جائے اور ان کی نظریاتی تربیت کی جائے۔ پرائیویٹ چینلز اور کیبل آپریٹرز کی مؤثر نگرانی کی جائے۔ اسلام اور پاکستان کے نظریاتی تشخص کے خلاف پروگراموں پر پابندی ہونی چاہیے بلکہ تعمیری انداز میں عوام کے اخلاق سدھارنے اور انہیں اسلامی تعلیمات پر عمل کی ترغیب دینے والے پروگرام پیش کیے جائیں اور صاف ستھری تفریح مہیا کی جائے۔
۱۰۔ پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے اور افلاس اور مہنگائی کے خاتمے کے لیے ٹھوس عملی اقدامات کیے جائیں جیسے جاگیر داری اور سرمایہ دارانہ رجحانات کی حوصلہ شکنی کرنا، شعبہ زراعت میں ضروری اصلاحات کو اولین حکومتی ترجیح بنانا، تقسیم دولت کے نظام کو منصفانہ بنانااور اس کا بہاؤ امیروں سے غریبوں کی طرف موڑنا۔ بیرونی قرضوں اور درآمدات کی حوصلہ شکنی کرنا اور زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کے لیے مؤثر منصوبہ بندی کرنا۔ معاشی خود کفالت کے لیے جدو جہد کرنا اور عالمی معاشی اداروں کی گرفت سے معیشت کو نکالنا۔ سود اور اسراف پر پابندی اور سادگی کو رواج دینا۔ٹیکسز اور محاصل کے نظام کو مؤثر بنایا جائے اور بینکوں کو پابند کیا جائے کہ وہ بڑے قرضوں کے اجراء کے ساتھ ساتھ مائیکروکریڈٹ کا بھی اجراء کریں تا کہ غریب اور ضرورت مند لوگ ان بلاسودقرضوں کے ذریعے اپنی معاشی حالت بہتر کر سکیں نیز قرضوں کو بطور سیاسی رشوت دینے پر قانونی پابندی عائد کی جائے۔ زکوٰۃ اور عشر کی وصولی اور تقسیم کے نظام کو بہتر بنایا جائے۔ دستور پاکستان کے آرٹیکل ۳۸ میں درج عوام کی معاشی اور معاشرتی فلاح وبہبود کے متعلقہ اُمور کی تکمیل کے لیے حکومت خود اور نجی شعبے کے اشتراک سے فوری طور پر ٹھوس قدامات کرے ۔ لوٹ مار سے حاصل کردہ اور بیرون ملک بینکوں میں جمع خطیر رقوم کی وطن واپسی کو یقینی بنایا جائے ۔
۱۱۔ عدلیہ کی بالفعل آزادی کو یقینی بنایا جائے اور اسے انتظامیہ سے الگ کیا جائے۔ اسلامی تناظر میں نظام عدل کی اصلاح کے لیے قانون کی تعلیم، ججوں ، وکیلوں، پولیس اور جیل سٹاف کے کردار کو اسلامی اصولوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں۔ انصاف سستا اور فوری ہونا چاہیے۔ 
۱۲۔ امن و امان کی بحالی اور لوگوں کے جان و مال کا تحفظ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ حکومت کو ان مقاصد کے حصول کے لیے ہر ممکن قدم اٹھانا چاہیے۔
۱۳۔ خارجہ پالیسی کو متوازن بنایا جائے۔ تمام عالمی طاقتوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھے جائیں اور اپنی قومی خود مختاری کا تحفظ کیا جائے۔ اپنے ایٹمی اثاثوں کے تحفظ پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے۔ مسلمانان عالم کے رشتہ اخوت واتحاد کو قوی تر کرنے کے لیے او آئی سی کو فعال بنانے میں پاکستان اپنا کردار ادا کرے ۔ 
۱۴۔ افواج میں روح جہاد پیدا کرنے کے لیے سپاہیوں اور افسروں کی دینی تعلیم و تربیت کا اہتمام ہونا چاہیے۔ بنیادی فوجی تربیت ہر مسلم نوجوان کے لیے لازمی ہونی چاہیے ۔ فوجی افسروں کی اس غرض سے خصوصی تربیت کی جائے کہ ان کا فرض ملک کا دفاع ہے نہ کہ حکومت چلانا۔ بیوروکریسی کی تربیت بھی اسلامی تناظر میں ہونی چاہیے تاکہ ان کے ذہنوں میں یہ راسخ ہوجائے کہ وہ عوام کے خادم ہیں حکمران نہیں۔
۱۵۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے ایک آزاد اور طاقتور ریاستی ادارہ قائم کیا جائے جو ملک میں اسلامی معروفات اور نیکیوں کے فروغ اور منکرات و برائیوں کے خاتمے کے لیے کام کرے اور معاشرے میں ایسا ماحول پیدا کرے جس میں نیکی پر عمل آسان اور برائی پر عمل مشکل ہوجائے اور شعائر اسلامی کا احیاء و اعلاء ہواوردستور کے آرٹیکل 31میں جن امور کا ذکر کیا گیا ہے ان پرمؤثر عمل در آمد ہو سکے ۔ دفاع اسلام خصوصاً اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات کے ازالے اور مسلمانوں و غیر مسلموں تک مؤثر انداز میں دین پہنچانے کے لیے بھی حکومت پاکستان کو فنڈز مختص کرنے چاہئیں اور وسیع الاطراف کوششیں بروئے کار لانی چاہئیں۔

شرکائے کانفرنس

شرکاء ’اتحاد امت کانفرنس‘  ۲۴ ستمبر ۲۰۱۱ء جنہوں نے قراردادوں کی منظوری پر دستخط کیے:
ہم ملی مجلس شرعی کے تیار کردہ نفاذِ شریعت کے ۱۵ رہنما اصولوں اور نکات کی حمایت کرتے ہیں جو علماء کرام کے ۲۲ متفقہ نکات کی روشنی میں تیار کیے گئے ہیں :
1۔ مولانامفتی محمد خان قادری (مہتمم جامعہ اسلامیہ، لاہور)
2۔ پیر عبدالخالق قادر ی (صدر مرکزی جماعت اہل سنت پاکستان )
3۔ علامہ احمد علی قصوری (امیر مرکز اہل سنت، لاہور)
4۔ صاحبزادہ علامہ محب اللہ نوری (مہتمم جامعہ حنفیہ فریدیہ بصیر پور، اوکاڑہ)
5۔ علامہ قاری محمد زوار بہادر (ناظم اعلیٰ، جمعیت علماء پاکستان، لاہور )
6۔ مولانا حافظ غلام حیدر خادمی (مہتم جامعہ رحمانیہ رضویہ، سیالکوٹ )
7۔ مولانا مفتی شیر محمد خان (صدر دارالافتاء دارالعلوم محمدیہ غوثیہ، بھیرہ [ضلع سرگودھا])
8۔ علامہ حسان الحیدری (حیدر آباد ، سندھ)
9۔ مولانا راغب حسین نعیمی (مہتمم جامعہ نعیمیہ، لاہور)
10۔ مولانا خان محمد قادری (مہتمم جامعہ محمدیہ غوثیہ، داتانگر، لاہور)
11۔ مولانا محمد خلیل الرحمن قادری (ناظم اعلیٰ جامعہ اسلامیہ ، لاہور)
12۔ علامہ محمد شہزاد مجددی (سربراہ دارالاخلا ص ۔ مرکز تحقیق، لاہور)
13۔ علامہ محمد بوستان قادری (شیخ الحدیث دارالعلوم محمدیہ غوثیہ، بھیرہ [ضلع سرگودھا])
14 ۔ سید منور حسن (امیر جماعت اسلامی پاکستان، منصورہ، لاہور)
15۔ مولانا عبدالمالک (صدر رابطہ المدارس الاسلامیہ، منصورہ لاہور)
16۔ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ (ڈپٹی سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی، منصورہ لاہور)
17۔ ڈاکٹر سید وسیم اختر (امیر جماعت اسلامی پنجاب، لاہور)
18۔ مولانا سید محمود الفاروقی (ناظم تعلیمات رابطہ المدارس الاسلامیہ، لاہور)
19۔ مولانامحمد ایوب بیگ (ناظم نشر و اشاعت تنظیم اسلامی پاکستان، لاہور)
20۔ مولاناڈاکٹر محمد امین (ڈین صفاء اسلامک سنٹر، لاہور )
21۔ مولانا محمد حنیف جالندھری (ناظم اعلیٰ، وفاق المدارس العربیہ، ملتان )
22۔ مولانا مفتی رفیق احمد (دارالافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیہ، علامہ بنوری ٹاؤن، کراچی)
23۔ مولانا حافظ فضل الرحیم (نائب مہتمم جامعہ اشرفیہ، لاہور)
24۔ مولانا زاہد الراشدی (ڈائریکٹر الشریعہ اکیڈمی، گوجرانوالہ)
25۔ مولانا عبدالرؤف فاروقی (ناظم اعلیٰ جمعیت علماء اسلام، لاہور)
26۔ مولانامحمد امجد خان (ناظم اطلاعات جمعیت علماء اسلام ۔ لاہور)
27۔ مولانامفتی محمد طاہر مسعود (مہتمم جامعہ مفتاح العلوم، سرگودھا)
28۔ مولانا مفتی محمد طیب (مہتمم جامعہ اسلامیہ امدادیہ،فیصل آباد)
29۔ مولانا ڈاکٹر قاری احمد میاں تھانوی (نائب مہتمم دارالعلوم الاسلامیہ ، لاہور)
30۔ مولانا اللہ وسایا (عالمی مجلس تحفظِ ختمِ نبوت، ملتان)
31۔ مولانا مفتی محمد گلزار احمد قاسمی (مہتمم جامعہ قاسمیہ، گوجرانوالہ)
32۔ مولاناقاری محمد طیب (مہتمم جامعہ حنفیہ بورے والا، وہاڑی)
33۔ مولانا رشید میاں (مہتمم جامعہ مدنیہ،کریم پارک، لاہور)
34۔ مولانا محمد یوسف خان (مہتمم مدرسۃ الفیصل للبنات،ماڈل ٹاؤن، لاہور)
35۔ مولانا عزیر الرحمن ثانی (مبلغ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ،لاہور)
36۔ مولانا رضوان نفیس (خانقاہ سید احمد شہید ، لاہور)
37۔ مولانا قاری جمیل الرحمن اختر (مہتمم جامعہ حنفیہ قادریہ، لاہور)
38۔ مولانا حافظ محمد نعمان (مہتمم جامعہ الخیر جوہر ٹاؤن، لاہور)
39۔ مولانا قاری ثناء اللہ (امیر جمعیت علماء اسلام لاہور)
40۔ پروفیسر مولانا ساجد میر (امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان، لاہور)
41۔ پروفیسر حافظ محمد سعید (امیر جماعت الدعوۃ پاکستان، لاہور)
42۔ مولانا حافظ عبدالغفار روپڑی (امیر جماعت اہل حدیث پاکستان، لاہور)
43۔ مولانا عبید اللہ عفیف (امیر جمعیت اہلحدیث پاکستان، لاہور)
44۔ مولانا سید ضیاء اللہ شاہ بخاری (ناظم اعلیٰ متحدہ جمعیت اہلحدیث پاکستان)
45۔ مولانا حافظ عبدالوہاب روپڑی (نائب امیر جماعت اہلحدیث پاکستان)
46۔ مولانا محمد شریف خان چنگوانی (نائب امیر مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان)
47۔ پروفیسرمحمد حماد لکھوی (خطیب جامع مسجد مبارک اہلحدیث، اسلامیہ کالج ، لاہور)
48۔ مولانا ڈاکٹر حسن مدنی (نائب مدیر جامعہ لاہور الاسلامیہ[رحمانیہ] لاہور)
49۔ مولانا امیر حمزہ (کنوینر تحریکِ حرمتِ رسول[جماعۃ الدعوۃ]۔ لاہور)
50۔ مولانا قاری شیخ محمد یعقوب (جماعۃ الدعوۃ ، لاہور)
51۔ مولانا رانا نصر اللہ (امیر مرکزی جمعیت اہلحدیث لاہور)
52۔ محمد زاہد ہاشمی الازہری (ناظم اعلیٰ جماعت غرباء اہلحدیث، پنجاب)
53۔ علامہ ڈاکٹر محمد حسین اکبر (مہتمم ادارہ منہاج الحسین ، لاہور)
54۔ علامہ حافظ کاظم رضا نقوی (تحریک اسلامی، اسلام آباد)
55۔ مولانا سید محمد مہدی (جامعہ المنتظر ، لاہور)

دنیائے اسلام پر استشرقی اثرات ۔ ایک جائزہ (۲)

ڈاکٹر محمد شہباز منج

مفسرین اور ان کے متبعین

عالم اسلام میں تفسیر قرآن کے باب میں بھی استشراقی اثرات نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔بہت سے مسلم اہل تفسیر نے اپنی تعبیراتِ قرآنی کو استشراقی نتائج فکر سے ہم آہنگ کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ان معروف اہل تفسیر کے بہت سے عقیدت مندوں اور متبعین نے بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اور وہی طرز تفسیر اپناتے ہوئے استشراقی تصورات سے تطابق کی سعی کی ہے۔ اس سلسلہ میں دنیائے اسلام کے دو نمایاں ترین افراد یعنی مفتی محمد عبدہ اور سر سید احمد خاں اور ان کے متبعین اور حلقہ فکر کے لوگوں کے تفسیری نکات کا مختصر تذکرہ ضروری آگہی کے لیے کفایت کرے گا۔
عالم عرب میں تجددکا علم بلند کرنے والوں میں سب سے نمایاں نام مفتی محمد عبدہ کا ہے اوریہ کہنا بجا ہے کہ وہاں تجدد پسند مکتب خیال کا وجود ہی ان کا مرہون منت ہے۔ ۶۶؂ انہوں نے جدید تصورات سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے قرآنی آیات میں تاویلی امکانات کو نہایت وسیع کر دیا۔ ان کے نزدیک جنات سے جراثیم یا مائیکروب۶۷؂اور آدم سے ہر نسل کا الگ مورث اعلیٰ ۶۸؂مراد لینے میں کچھ مذائقہ نہیں۔ وہ سورہ العصر کی آیت ۳ کی تفسیر میں’صالحات‘ کے تصور کو آفاقیت کا رنگ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ صرف حاملانِ شریعت تک ہی محدود نہیں بلکہ ان اقوام تک بھی ممتد ہے جن میں پیغمبر نہیںآئے اور یہی وہ چیز ہے جسے قرآن ’معروف‘سے تعبیر کرتا ہے۔ ۶۹؂گویا صالح ہونے کے لیے مسلمان ہونا ضروری نہیں۔ مفتی صاحب نے سورہ الفیل میں لشکر ابرہہ کی تباہی کے خارق عادت واقعہ کو عقلیت پسندوں کے لیے قابل قبول بنانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ہے کہ عین ممکن ہے کہ جن سنگریزوں سے لشکر ابرہہ کی تباہی ہوئی وہ زہریلی خشک مٹی کے ہوں اور ہوا کے ذریعہ یہ مٹی اڑ کر پرندوں کے پاؤں سے چمٹ گئی ہواور پھر جب یہ مٹی لشکر کے افراد پر گری ہو تو ان کے مساموں داخل ہو کر آبلے ڈال دیے ہوں اور یوں اعضائے جسمانی سے گوشت جھڑنے لگا ہو۔۷۰؂ مفتی محمد عبدہ کے نظریات بقول Malcolm H. Kerrآئندہ آنے والے اعتذاری مکتبہ خیال کے افراد کے لیے بنیاد کاکام دینے لگے۔۷۱؂ مصنف مذکور نے حاشیہ میں تصریح کی ہے کہ مفتی کے عقائد وتصورات کو بعد ازاں ان کے شاگردمکمل لادینیت اور سیکولرازم کی طرف لے گئے ۔ ۷۲؂ 
مفتی صاحب کے ایک نامور شاگرد محمد رشید رضاہیں۔ان کا کہنا ہے کہ قرآن بنیادی طور پرایک روحانی کتاب ہے جس میں دنیوی امور سے متعلق بہت کم احکام ملتے ہیں۔ زیادہ تر اختیارات’اولی الامر‘ کے سپرد کر دیے گئے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام بہبودعامہ کو پیش نظر رکھ کر فیصلے کیا کرتے تھے۔ گو بعض اوقات ان کے فیصلے سنت کے خلاف بھی ہوتے۔گویا ان کا عقیدہ یہ تھا کہ شرعی تفصیلات کی بجا آوری ضروری نہیں اور بنیادی مصلحت فلاح عامہ کی رعایت ہے۔۷۳؂ رشید رضا کے نزدیک احادیث بھی بحیثیت مجموعی قابل اعتنا نہیں بلکہ صرف وہی احادیث قابل قبول ہیں جو عملی نوعیت کی ہیں اور جن پرامت مسلمہ میں مسلسل عمل کا ثبوت ملتا ہے۔۷۴؂ معجزات سے متعلق رشید رضا کی رائے تھی کہ اب معجزات کا زمانہ گزر گیا۔یہ اس وقت کا قصہ ہیں جب انسانیت ابھی عہد طفولیت میں تھی۔ اسلام کی آمد کے ساتھ ہی انسان ذہنی بلوغ کے زمانے میں داخل ہو گیا اور معجزات کا زمانہ جاتا رہا۔ ان کے معجزات و خوارق کو عقلی رنگ دینے کی ایک مثال یہ ہے کہ وہ سورہ یوسف کی آیت ۹۴کی تفسیر میں خوشبوئے یوسف کے معجزانہ تصور کو قابل التفات نہ سمجھتے ہوئے موقف اختیار کرتے ہیں کہ صاف اور سیدھی سی بات ہے کہ یہ کوئی جنت کی خوشبو نہ تھی بلکہ قمیض کی یہ بو یوسف کے جسم کی بو تھی جیسی کہ بالعموم ہوتی ہے۔۷۵؂ 
مفتی محمد عبدہ کے ایک اور شاگرد قاسم امین نے آزادئ نسواں کا علم بلند کرتے ہوئے حجاب کے خاتمے اور یورپی اخلاقیات کو اپنانے کی دعوت دی ۔ ان کے مطابق مغرب کی اخلاقیات کو اپنائے بغیر وہاں کی سائنس کو اپنانے کا کچھ فائدہ نہیں۔۷۶؂قاسم امین نے دعوی کیا کہ بے پردگی کی دعوت میں دین اسلام سے کوئی مخالفت نہیں پائی جاتی ۔ان کا کہنا تھا کہ شریعت کے وہ احکام جو مروجہ عادات و معاملات پر مبنی ہیں ان میں حالات زمانہ کے مطابق تغیر و تبدل کیا جا سکتا ہے۔۷۷؂ وہ مغربی عورتوں کو اپنی خواتین کے لیے بطور نمونہ پیش کرتے ہوئے ان کی تقلید کی دعوت دیتے ہیں۔۷۸؂ مفتی محمد عبدہ کہ ایک اور معروف شاگرد علی عبدالرزاق ہیں۔ وہ دین و دنیا کو الگ الگ خانوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک اسلام کے تمام احکام مذہبی ضابطہ پر مشتمل ہیں جن کا تعلق تمام تر عبادت الہٰی اورنوع انسانی کی مذہبی فلاح و بہبود سے ہے ۔ جہاں تک شہری قوانین کا تعلق ہے وہ انسان کی صوابدید پر چھوڑ دیے گئے ہیں اور مذہب کو ان سے کوئی سروکار نہیں۔دنیاوی انتظام وانصرام کی خاطر خدا نے یہی کافی سمجھا کہ ہمیں ذہن و دماغ عطا کر دیے۔۷۹؂ مفتی کے دبستان فکر کے افراد میں سے محمد رفیق صدقی اور شیخ طنطاوی جوہری نے قرآن کو موجودہ سائنس سے ہم آہنگ کرنے کے لیے آیات قرآنی کی نہایت عجیب وغریب تاویلات کی ہیں ۔۸۰؂ 
قرآن کی جس طرز کی متجددانہ تعبیر کی بنیاد عالم عرب میں مفتی محمد عبدہ نے رکھی تھی ،برصغیر میں اس طرز کی متجددانہ تفسیر قرآن کے بانی سر سید احمد خاں ہیں۔اہل مغرب اور مستشرقین سے تاثر کے نقطہ نظر سے سر سید عبدہ سے بہت آگے نظر آتے ہیں۔انہوں نے قرآنی بیانات کو جدید تصورات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے متفق علیہ تفسیری اصولوں کو بالکل نظر انداز کر دیا۔ان کی’ تفسیر القرآن ‘میں،بقول سید عبداللہ، روایات سے بغاوت اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی نظر آتی ہے۔۸۱؂ انہوں نے ورک آف گاڈ اور ورڈ آف گاڈ کی مطابقت کا اصول پیش کیااور پھر قرآن میں کسی معجزہ یا خوارق کے تذکرہ کے روایتی تصور کویکسر مسترد کر دیا۔ ان کے نزدیک قرآن اور دیگر کتب سماوی میں معجزات کا جو ذکر ہے وہ تمثیلی و استعاراتی یا افسانوی رنگ لیے ہوئے ہے۔ڈاکٹر ٹرول کے مطابق سر سید کو انکار معجزات کی راہ دکھانے میں معجزاتی عناصر پر ولیم میور کی تنقید نے نمایاں حصہ لیا۔میور کی تقلید میں سر سید اس بات کے قائل ہوگئے کہ حضور کی پیدائش سے متعلق بیان کیے جانے والے معجزات سب شاعرانہ تخلیق ہیں۔ ۸۲؂ سر سید نے سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت کی تفسیر میں حضور کے معراج جسمانی سے متعلق تمام احادیث کو ناقابل اعتبار اور ان کے بیان کو خلاف قانون قدرت قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’واقعات خلاف قانون فطرت کے وقوع کا ثبوت اگر گواہان روایت بھی گواہی دیں تو محالات سے ہے‘‘ اور اس کے بعد تفصیلی بحث کرکے معراج رسول ؐ کوخواب میں پیش آنے والا رویاثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔۸۳؂یہ صرف ایک مثال ہے ورنہ وہ قرآن میں کہیں بھی معجزہ مذکور ماننے سے انکاری ہیں۔اس سلسلہ میں بنی اسرائیل کے عبور دریااور موسیؑ ٰ وعیسیؑ ٰ کے دیگر معجزات کی بھی انہوں نے عجیب وغریب اور دور از کار تاویلات کی ہیں۔۸۴؂ان کا کہنا ہے کہ حضور کے پاس کوئی معجزہ نہ تھا اور حضورؐ کے پاس کوئی معجزہ نہ ہونے سے ضمناً یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ انبیائے سابقین میں سے بھی کسی کے پاس کوئی معجزہ نہ تھا۔جن واقعات کو لوگ معروف معنوں میں معجزات کہتے ہیں وہ در حقیقت معجزات نہ تھے بلکہ قانون فطرت کے مطابق وقوع پذیر ہونے والے واقعات تھے۔۸۵؂
سرسید کے نزدیک نبوت ایک فطری چیز ہے۔خدا اور پیغمبر میں بجز اس ملکہ نبوت کے جس کو ناموس اکبر یا جبریل اعظم کہا جاتا ہے،کوئی ایلچی یاپیغام پہنچانے والا نہیں ہوتا۔جس طرح تمام ملکات انسانی کسی محرک کے پیش نظر اپنا کام کرتے ہیں اسی طرح ملکہ نبوت بھی کسی مخصوص امرکے پیش نظر فعال ہو جاتا ہے۔۸۶؂وہ جس طرح جبرئیل کو ملکہ نبوت کہہ کر جبرئیل کے خارجی وجود سے انکار کرتے ہیں ایسے ہی تمام ملائکہ ،شیطان اور جنات کا بھی خارجی وجود تسلیم نہیں کرتے۔ ۸۷؂ تخلیق و ہبوط آدم سے متعلق آیات کو ڈاروینی ارتقائیت سے ہم آہنگ کرنے کے لیے آدم کے شخصی وجود سے انکار کرتے ہوئے بڑے زور دار الفاظ میں کہا’’آدم کے لفظ سے وہ ذات خاص مراد نہیں جس کو عوام اور مسجد کا ملا باوا آدم کہتے ہیں۔ بلکہ اس سے مراد نوع انسانی ہے۔‘‘۸۸؂ سرسید حدیث، اجماع اور قیاس وغیرہ کو اصول دین میں شامل نہیں سمجھتے ۔ انہوں نے بقول مولانا حالی اپنے جدید علم کلام کا موضوع اور اسلام کا حقیقی مصداق صرف قرآن مجید کو قرار دیا اور اس کے سوا تمام مجموعہ احادیث کو اس دلیل سے کہ ان میں کوئی حدیث مثل قرآن کے قطعی الثبوت نہیں اور تمام علماء ومفسرین کے اقوال وآراء اور تمام فقہاء ومجتہدین کے قیاسات واجتہادات کواس بنا پر کہ ان کے جوابدہ خود علماء ومفسرین اور فقہاء و مجتہدین ہیں نہ کہ اسلام،اپنی بحث سے خارج کر دیا۔۸۹؂
سر سید کے چنداہم معاصرہم خیالوں اور متبعین میں مولوی چراغ علی،ممتاز علی اور سید امیر علی شامل ہیں ۔مولوی چراغ علی کا کہنا ہے قرآن کو کوئی مخصوص ضابطہ حیات یا سماجی و سیاسی قوانین عطا نہیں کرتا ۔اس کا تعلق محض فرد کی زندگی کے اخلاقی پہلو سے ہے۔آنحضورؐ نے کوئی سماجی و قانونی ضابطہ مرتب کیانہ ایسا کرنے کا حکم دیا۔اس کے برعکس مسلمانوں کو ایسے نظام قائم کرنے کی اجازت دے دی گئی جو ان کے گرد وپیش ہونے والی سیاسی اور معاشرتی تبدیلیوں سے وقت کے تقاضوں کے مطابق ہم آہنگی پیدا کر سکیں۔ کلاسیکی اسلامی قانون بنیادی طور پر شریعت نہیں بلکہ وہ رواجی قانون ہے جس کے اندر ایام جاہلیت کے عربی اداروں کے باقی ماندہ اجزا و عناصر یا وہ احادیث شامل ہیں جو اکثر جعلی ہیں اور غلط طور پر پیغمبر اسلام کی طرف منسوب کر دی گئی ہیں۔۹۰؂ فقہااسلامی قانون کے سلسلہ میں مقصود قرآنی کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔انہوں نے قرآن کی روح کو شرعی عمل سے دبا دیا اور وہ ابتدائی مشرقی روایاتی رسمیں جاری کر دیں جنہیں قرآن درحقیقت مذموم قرار دے چکا تھا۔ ۹۱؂
سرسید کے ایک اور معاصر پیرو ممتاز علی ہیں۔ممتاز علی نے عورتوں کی آزادی کے مسئلہ کو خصوصیت سے موضوع بحث بنایا۔وہ ان روایتی دلائل کو سختی سے مسترد کرتے ہیں جن کے مطابق مرد جسمانی طور پرزیادہ مضبوط،زیادہ دانش مند،نسبتاً کم جذباتی اور کم توہم پرست ہوتا ہے اور اس بنا پر وہ خدا کے خلیفہ اور نائب ہونے کا اعزاز رکھتا ہے اور کتب سماوی اس کوعورت کے برعکس متعدد شادیاں کرنے کی اجازت دیتی ہیں۔وہ مرد اور عورت کی مکمل مساوات کے قائل ہیں بلکہ وہ عورت کی مرد پر فوقیت کے حامی ہیں۔ ان کے نزدیک سورہ النساء کی آیت ۳۴میں قوامون اور فضل کے الفاظ کے تناظر میں عورت کے مقابلہ میں مرد کے تفوق کی کلاسیکی تاویلات قرآن کی صحیح ترجمان ہونے کی بجائے ان ادوار کے مروجہ قوانین کی آئینہ دار ہیں۔آیت کا مفہوم یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ عورتیں ان مردوں پر فوقیت رکھتی ہیں جو ان کے لیے کام کرتے ہیں۔ ۹۲؂ممتاز علی کے خیال میں حوا کے مقابلہ میںآدم کی تخلیقی اولیت اوراستحقاقی فوقیت یہودی اور عیسائی عقیدہ ہے نہ کہ قرآنی۔تعدد ازواج کو قرآن نے شرطِ عدل کے ذریعہ ناممکن العمل بنا کر منسوخ کر دیا ہے۔۹۳؂عورت کی آزادی سے معاشرے کے اخلاقی معیارات کے ڈھیلے ہو جانے کے خطرہ کا واویلا کیا جاتاہے حالانکہ خدا نے عورت کو آزاد اور مساوی درجہ پر پیدا کیا ہے۔بد اخلاقی کا تعلق عورت کی آزادی کی بجائے مرد کے مسخ شدہ جذبات سے ہے۔عورت اور مرد کی علیحدگی کے عادی معاشروں کو مخلوط معاشروں کے اخلاقی معیارات پر پورا اترنے کے لیے وقت چاہیے۔۹۴؂
سرسید کے ایک اورنامور معاصر ہم خیال سید امیر علی ہیں۔یہ مولانا حالی کے مطابق مغربی اہل الرائے سے اسلام کی عذر خواہیوں اورتوضیحات میں اور اسلامی معاشرتی اور مذہبی خیالات کی از سر نو تعمیر اور جدید خیالات کی ترویج میں سرسید احمد خاں کے پیرو تھے۔۹۵؂ ان کی مشہور تصنیفThe Spirit of Islam نے صرف مغرب ہی میں قبولیت عامہ حاصل نہیں کی بلکہ برصغیراورمصر کے مغربی تعلیم یافتہ مسلمانوں پر بھی گہرے اثرات ڈالے۔۹۶؂سید امیر علی نے اپنی اسلامی تعبیرات میں استشراقی اور مغربی تصورات سے ہم آہنگی کی جا بجا کوشش کی ہے ۔ فرشتوں اور شیطان کاخارجی وجود اور حشر جسمانی کوتسلیم کرنے سے بچنے کے لیے انہوں نے ان چیزوں سے متعلق قرآنی بیانات کوبلا جھجک شاعرانہ اسلوب بیان اور حضور ؐ کے دینی شعورکے درجۂ کمال سے پہلے کے اور زرتشتی و تلمودی الاصل تصورات سے تعبیر کیا ہے۔سورہ الانفال کی آیت ۹میں بیان کردہ واقعہ کو اسلوب بیان کی ساحری اور شاعرانہ بلاغت سے تعبیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’’ فرشتوں کے خدا کی طرف سے جنگ کرنے کے تصور میں جو شاعرانہ عنصر ہے اس کے نقش و نگار کو قرآن میں موئے قلم کی جن سادہ جنبشوں سے ابھارا گیا ہے وہ خوبصورتی اور بلاغت میں زبور کی بلیغ ترین عبارتوں کا مقابلہ کرتی ہے اور دونوں میں ایک ہی طرح کی شعریت ہے‘‘۔۹۷؂ملائکہ ایک داخلی تصور ہے۔جن چیزوں کو آج ہم قوانین فطرت کہتے ہیں پرانے لوگ انہی کو فرشتے یعنی آسمانی کار پرداز خیال کرتے تھے۔ شیطان سے متعلق حضورؐ کے اقوال کا تجزیہ کریں تو بھی ایک موضوعی تصور سامنے آتا ہے جسے آپؐ نے اپنے پیروکاروں کے فہم کے مطابق الفاظ کا جامہ پہنایا۔۹۸؂ بعض لوگوں کا یہ خیال کہ رسول عربی نے اپنے ماننے والوں سے حسی لذات کی جنت اور عیش وعشرت کے مختلف مدارج کو وعدہ کیا،جہالت اور تعصب کا نتیجہ ہے ۔اس میں شک نہیں کہ درمیانی دور کی سورتوں میں،جب کہ معلم اسلام نے ابھی شعور دینی کا درجۂ کمال حاصل نہیں کیا تھااور جب کہ اس بات کی ضرورت تھی کہ عقبی اور جزا وسزا کے تصورات کو ایسے الفاظ کا جامہ پہنایا جائے جو سیدھے سادھے بادیہ نشینوں کی سمجھ میں آ سکیں۔ جنت و جہنم کے واقعیت نما نقشے،جو زرتشتیوں،صابیوں اور تلمودی یہودیوں کی پادر ہوا قیاس آرائیوں پر مبنی تھے،پڑھنے والے کی توجہ ضمنی حاشیہ آرائیوں کے طور پر اپنی طرف کھینچتے ہیں۔لیکن ان کے بعد قرآن کا جوہر خالص آتا ہے یعنی کمال عجزومحبت سے خدا کی عبادت۔حوریں زرتشتی نژاد ہیں۔اسی طرح جنت بھی زرتشتی الاصل ہے البتہ جہنم عذاب الیم کے مقام کی حیثیت سے ایک تلمودی تخلیق ہے۔ان کے واقعیت نما مناظر کی بنا پر یہ سمجھنا کہ حضور ؐاور آپ کے پیروکار ان کو واقعی مبنی بر حسیت سمجھتے تھے ،محض ایک افترا ہے۔۹۹؂
تعدد ازوج کے حوالے سے سید امیر علی کی رائے ہے کہ یہ مطلق العنان بادشاہوں کے زمانے کی یاد گار ہے جسے ہمارے ترقی یافتہ دور میں بجا طور پر ایک خرابی سمجھا جاتا ہے۔قرآن نے فی نفسہ اس کی ممانعت کر دی ہے۔ترقی یافتہ مسلم جماعتوں میں رفتہ رفتہ یہ تصور پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ یہ چیز تعلیمات محمدی کے بھی اسی قدر منافی ہے جس قدر جدید تمدن و ترقی کے۔ لہٰذا یورپ کو اس سلسلہ میں قدیم مسلم فقہا کی من مانیوں اور مصلحت کوشیوں پر نہیں جانا چاہیے بلکہ جدید اسلام کا تحمل وہمدردی سے مشاہدہ کرنا چاہیے جس میں قدما پرستی کے بندھنوں سے چھٹکارا حاصل کیا جارہا ہے۔۱۰۰؂
ذراآگے چل کر سر سید کے مکتبہ خیال سے متعلق دو نمایاں نام محمد علی لاہوری اور غلام احمد پرویز ہیں۔محمد علی لاہوری نے مولانا ابوالحسن علی ندوی کے بقول سرسید کے لٹریچر اور ان کے تفسیر قرآن کے اسلوب کو پورے طور پر جذب کرلیا تھا۔۱۰۱؂وہ اپنی تفسیر میں مختلف مسائل سے متعلق اسی طرح کی تشریحات پیش کرتے ہیں جو جدید نظریات ومعلومات سے متصادم نہ ہوں۔معجزات وخوارق کا انکار کرتے ہوئے ان کی عقلی تاویلات کرتے ہیں۔مثلاً بنی اسرائیل کے عبور دریا سے متعلق سرسید کا جوار بھاٹے والاانداز استدلال اپناتے ہوئے اسے ایک عام واقعہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔۱۰۲؂ موسیؑ ٰ کو بارہ چشمے معجزانہ طور پر نہیں بلکہ ایلیم کے ایک پہاڑ سے ملے تھے۔۱۰۳؂ سورۃ البقرہ کی آیت ۷۲اور۷۳ کے حوالے سے عام مفسرین یہ خیال کرتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص نے اپنے چچا کو پوشیدہ طور پر قتل کر دیا تھا اوراس کا راز جانے کے لیے گائے ذبح کرکے اس کا ایک ٹکڑا مقتول کے جسم سے لگانے کے لیے کہا گیا تھاحالانکہ یہ معمولی واقعہ نہیں ۔اس میں حضرت عیسیؑ ٰ کے قتل کی طرف اشارہ ہے۔ بعضھا  کی ضمیر فعل قتل کی طرف جاتی ہے یعنی بعض قتل سے اس کو مار دو یا فعل قتل اس پر پورا وارد نہ ہونے دو۔۱۰۴؂ مسیح تین گھنٹے صلیب پر رہے مگر وفات نہیں پائی ۔بعد ازاں طبعی عمرپوری کر کے وفات پائی۔۱۰۵؂ مسیح کے کشمیرآنے اوربعد از وفات وہاں دفن ہونے کے شواہد موجود ہیں۔۱۰۶؂ حضرت مسیح پیدا بھی معجزانہ طور پر نہیں بلکہ مریم اور یوسف کے صنفی تعلق سے عام بچوں کی طرح ہوئے تھے۔۱۰۷؂ سورہ آل عمران کی آیت ۴۹ میں حضرت عیسیؑ ٰ کے تخلیق طیر سے استعارۃً ایسے لوگ مراد ہیں جوزمیں اور زمینی چیزوں سے اوپر اٹھ کر خدا کی طرف پرواز کر سکیں۔اور احیائے موتی سے روحانی مردوں کا احیا مراد ہے کیونکہ جسمانی طور پر مر جانے والوں کا اس دنیا میں دوبارہ آنا قرآن کی اصولی تعلیم کے خلاف ہے۔۱۰۸؂ حضرت سلیمان کے حوالے سے علمنا منطق الطیر سے پرندوں کی بولیاں جاننا نہیں بلکہ پرندوں کی نامہ بری مراد ہے۔نملہ کوئی چیونٹی نہیں بلکہ وادی نملہ کی باسی قوم تھی۔ ہدہد پرندہ نہیں بلکہ سلیمان کے محکمہ خبر رسانی کا آدمی تھا۔عفریت من الجن قوی الجثہ انسان تھا۔سلیمان کی ماتحتی میں کام کرنے والے جن ان غیر قوموں کے لوگ تھے جنہوں نے بنی اسرائیل کی ماتحتی کا جوا اٹھایا ہوا تھا۔۱۰۹؂
غلام احمدپرویزمغربی فکرسے تاثر اور سر سید کے زاویہ فکر کو اختیار کرکے مخصوص تناظر میں اسے مزید وسعت دینے میں خاصے نمایاں ہیں۔پروفیسر عزیز احمد نے انہیں سرسید سے لے کر لمحہ موجود تک کے تمام جدید پسندوں میں مغربی نقطہ نظر کے سب سے زیادہ قریب قرار دیا ہے۔۱۱۰؂ حدیث کی حجیت وثقاہت کے حوالے سے انہوں جس طرح استشراقی فکر سے ہم آہنگی اختیار کی اس کا مختصر ذکر اوپر گزر چکا ہے ۔لیکن یہ صرف ایک پہلوتھا۔ انہوں نے نہایت وسیع پیمانے پر مغربی نتائج فکر سے تطابق کی کوشش کی ہے ۔اس سلسلہ میں ان کے یہ الفاظ قابل ملاحظہ ہیں کہ’’میں نے انسانی فکر کی اڑھائی ہزار سالہ کدو کاوش کا مطالعہ قرآن کی روشنی میں کیا(یا قرآن کا مطالعہ اس فکر کی روشنی میں کیا )تو قرآن کا ایک ایک دعوی زندہ حقیت بن کر میرے سامنے آگیا۔‘‘۱۱۱؂ مذکورہ تناظر میں پرویز نے متعددموضوعات پر کلام کیا ہے۔ جدیدمغرب میں چونکہ کائنات کے عام مشاہد قوانین میں کسی بھی طرح کی ماورائی مداخلت (جس سے خدا کا قادرمطلق ہونا ثابت ہوتا ہے) کوجہالت ووہم پرستی قرار گیا تھا۱۱۲؂ چنانچہ پرویز صاحب بھی ایسے تصور کو غلط سمجھتے ہیں جس میں خدا کو اختیار مطلق حاصل ہواور وہ کسی قاعدے اور ضابطے کا پابند نہ ہو۔قرآنی الفاظ: کَتَبَ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃ۱۱۳؂کی تشریح میں پابندی و اختیار کے حوالے سے خدااور بندے کی مختلف حیثیت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بندے پر جو پابندی لگائی گئی ہے وہ اس کے خلاف کر سکتا ہے جب کہ خدا نے اپنے اوپر جو پابندی لگائی ہے وہ اس کے برعکس نہیں کرتا۔’’اس اعتبارسے دیکھئے توانسان صاحبِ اختیار رہتا ہے اورخدا’’مجبور‘‘۔‘‘۱۱۴؂ 
رسول اللہؐ کوپرویزصاحب نے اپنی تعبیراتِ قرآنی میں نظام حکومت اور مرکزی اتھارٹی کا ہم معنی قرار دیا ہے۔ ایک جگہ لکھا ہے’’حالانکہ نظام سے وابستگی اور اطاعت کا تقاضا ہے کہ ایسی باتوں کو رسول (مرکزی اتھارٹی)یا اپنے افسران تک پہنچایا جائے۔‘‘۱۱۵؂ ملائکہ ان کے نزدیک فطرت کی قوتیں ہیں۔ قصہ آدم میں ملائکہ کا آدم کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا جو ذکر ہے، اس سے مراد در حقیقت فطرت کی قوتوں کابنی نوع انسان کے لیے مسخر کیا جانا ہے۔۱۱۶؂ شیطان کوئی موجود فی الخارج ہستی یا شخصیت نہیں بلکہ انسان کے اپنے فیصلوں،ارادوں اور جذبات سے عبارت ہے۔۱۱۷؂جنات سے قرآن کی مرادجنگلی، صحرائی اور خانہ بدوش انسان ہیں۔۱۱۸؂ جہنم قرآن کی رو سے کسی گڑھے یا ایسے مقام کا نام نہیں جس میں آگ کے شعلے بھڑک رہے ہوں اور مجرموں کو اس میں جھونک دیا جائے ۔بلکہ دراصل یہ انسا ن ہی کے قلب سوزاں کی کیفیت اور اعمال بد کے نتیجے میں اس کے اندر پیدا ہو جانے والے اضطرابِ پیہم اور کربِ مسلسل کا نام ہے۔۱۱۹؂ جنت ایسی مثالوں سے عبارت ہے جو قرآن کے اولیں مخاطب عربوں کے لیے متاثر کن تھیں۔گھنے باغات جن میں صاف شفاف چشمے ہوں اور ان کا ٹھنڈا پانی چاروں طرف بہہ رہا ہو،درخت پھلوں سے لدے،دودھ اور شہد کی ایسی افراط کہ گویا ان کی نہریں بہہ رہی ہوں،اعلی درجے کے قالین اور صوفے بچھے ہوئے محلات، جن میں حریر واطلس کے پردے آویزاں،بلوریں آفتابے،چاندی سونے کے ظروف،لطیف گوشت، خوش ذائقہ مشروبات،ہم مزاج ،ہم رنگ،یک آہنگ احباب کی محفلیں۔تپتے ہوئے صحرا ؤں کے باسی عربوں کی زندگی ظاہر ہے اسی طرح کی مثالوں سے سجائی جا سکتی تھی۔۱۲۰؂ انسان اشرف المخلوقات نہیں۔۱۲۱؂ آدم سے کوئی خاص انسان یا بشر مراد نہیں۔ قصہ آدم خودنوع انسانی کی سر گذشت ہے۔۱۲۲؂ معجزہ قانون فطرت کے خلاف ہے اور قرآن کی رو سے کوئی واقعہ خلاف قانون فطرت رونما نہیں ہو سکتا۔ بنا بریں معجزات کا وجود بروئے قرآن غلط ہے۔۱۲۳؂ 
چوری کی سزاہاتھ کاٹناایک انتہائی سزا ہے جس کے عملی اطلاق کاموقع قریب قریب نا ممکن ہے اور قطع ید سے در حقیقت مرادایسا طریق اختیار کرنا ہے کہ چور چوری سے باز آ جائیں۔۱۲۴؂ تعدد ازواج ایسی شرائط سے مشروط ہے کہ یہ قریباً ناممکن العمل ہو کر رہ جاتا ہے۔۱۲۵؂ قرآن نے دراصل ایک وقت میں ایک ہی بیوی کا اصول مقرر کیا ہے۔ اگر کسی وقت بیوی سے نباہ کی صورت نہ رہے توقرآن کی رو سے اس کی موجودگی میں دوسری بیوی کی اجازت نہیں ہاں البتہ اس کی جگہ دوسری بیوی لائی جا سکتی ہے۔ وَاِنْ اَرَدْتُّمُْ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّکَانَ زَوْجٍ ۱۲۶؂ کا مفہوم یہ ہے کہ ’’اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لانا چا ہو تو اس کے لیے پہلی بیوی سے معاہدۂ نکاح فسخ کرو . ‘‘ ۱۲۷؂معیشت کے مسئلے کا حل مارکسی فکر میں پنہاں ہے۔۱۲۸؂ رزق کا معاملہ خدا نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا۔ یہ مذہبی پیشوائیت کی فریب کاری ہے جو عوام کو اس غلط عقیدہ کی افیون دے کر نظامِ سرمایہ داری کی جڑ یں مضبوط کرتی رہتی ہے ۔ صاحبِ اقتدار گروہ وسائلِ پیداوار اپنی ملکیت میں لے لیتا ہے اور پھر دوسرے انسانوں کو روٹی کا محتاج بنا کر ان سے اپنا ہر حکم منواتا ہے ۔ جب بھو کے انسان اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں تو مذہبی پیشوائیت انہیں یہ کہہ کر سلا دیتی ہے کہ رزق کی تقسیم خدا نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے وہ جسے چا ہتا ہے امیر بنا دیتا جسے چاہتا ہے غریب رکھتا ہے جسے چاہتا رزقِ فراواں عطا کر دیتا ہے جسے چاہتا ہے بھو کا رکھتا ہے کوئی انسان اس فرق کو مٹانہیں سکتا ۔۱۲۹؂
مرزا غلام احمد قادیانی سے متعلق بھی یہ کہنا بے جا نہیں کہ انہوں نے سر سید احمد خاں اور ان کے مدرسہ فکر سے شہ حاصل کی۔شیخ محمد اکرام کے مطابق مولوی چراغ علی سے مرزا کی خط و کتابت تھی اور جہاد سے متعلق وہ مولوی صاحب کے ہم خیال تھے۔اسی طرح حضرت عیسیؑ ٰ کے متعلق انہوں نے سر سید کے خیالات کی پیروی کی۔۱۳۰؂ نئی نبوت کی گنجائش بھی اہل تجدد نے فراہم کر دی تھی ۔بنا بریں یہ بات ناقابل فہم نہیں کہ مرزاقادیانی نے اس سلسلہ میں انہی کے خیالات سے استفادہ کیا۔تاہم قادیانیت کے ظہور میں نوآبادیاتی نظام اورانگریزوں کا کردار غیر معمولی ہے۔مرزا کا عقیدہ تھا کہ اسلام کے دو حصے ہیں۔ ایک کا تعلق خدا سے ہے اوردوسرے کا امن امان قائم کرنے والی حکومت سے۔امن امان قائم کرنے والی حکومت چونکہ اس وقت حکومت برطانیہ ہے لہذا اس سے سر کشی اسلام سے سرکشی کے مترادف ہے۔ان میں انگریز پرستی کا جذبہ اس قدر شدید تھا کہ وہ اس معاملے میں اپنے مخالفین کو احمق ونادان بلکہ حرامی اور بد کارقرار دیتے تھے۔۱۳۱؂ 

نتیجہ بحث

اوپر کی بحث سے یہ حقیقت واضح ہو رہی ہے کہ مستشرقین نے اہل اسلام کواپنے دین سے متعلق شکوک شبہات میں مبتلا کرنے ، تجدد و مغربیت اختیار کرنے اورعہد نو کے تقاضوں کی دہائی دے کر اسلام کوجدید مغربی نقطہ نظر سے ہم آہنگ کرنے پر مائل کرنے کی بساط بھر کوشش کی ہے۔ ان کی یہ کوشش بے نتیجہ نہیں رہی ۔ ان کی فکر نے عالم اسلام میں بہت سے لوگوں کے عقل وشعور اور روح وبدن میں نفوذ حاصل کر لیا۔مسلمانوں میں ایسے بہت سے افراد سامنے آنے لگے جنہوں نے اپنی قوموں کو لفظ و معنی اور حقیقت وشکل ہر اعتبار سے مغربی سانچے میں ڈھلنے کی دعوت دی۔اسلامی ا حکامات وتعلیمات سے بیزاری پیدا ہونے لگی یا ان کی ایسی تعبیرات پیش کی جانے لگیں جو مغربی معیارات سے زیادہ سے زیادہ مطابقت رکھتی ہوں۔یہ لوگ اسلامی عقائد واحکام میں سے ہر اس عقیدہ و حکم کو تاویل کی سان پر چڑھانے یابدل ڈالنے میں مصروف ہوگئے جواپنی اصلی شکل میں جدید مغربی یامغرب سے متاثرذہن کے لیے قابل قبول دکھائی نہ دیا۔یوں بقول کینٹول سمتھ یہ معذرت خواہ نہ صرف اپنے بلکہ بہت سے دیگر مسلمانوں کے ایمان و یقین میں انتشار وتزلزل کا سبب بنے۔۱۳۲؂ ڈاکٹر رفیع الدین نے تجدد پسندوں کی خواہشِ اجتہادکی حقیقت واضح کرتے ہوئے صحیح کہا ہے کہ ان کی یہ خواہش بالعموم ان کی اسلام سے محبت کا نتیجہ ہونے کی بجائے الٹا اس سے بیزاری اوردیگر افکار و نظریات سے محبت کا ثمر ہے۔ اجتہاد کی اس خواہش کا مقصد اسلام کی بنیادی وحقیقی باتوں کی دریافت ووضاحت نہیں بلکہ اسے دیگر نظریات کے قریب تر لانا ہے تا کہ ان نظریات کے حامل اور دلدادگان کو مطمئن کیا جا سکے۔یہ شریعت کے اندر سے فطری ارتقاء کے نتیجہ میں سامنے آنے والا اصلی اجتہاد نہیں بلکہ امکانی حد تک اسلام میں اپنے پسندیدہ دیگر افکار وخیالات کے دخول اور شریعت کے تکملہ کی سعی ہے۔ ۱۳۳؂ 

حوالہ جات وحواشی

۶۶۔ چارلس سی آدم،حوالہ مذکور،ص۳۹۸۔
۶۷۔ ایضاً،ص۱۹۹۔۲۰۰۔
۶۸۔ ایضاً،ص۲۰۱۔۲۰۲۔
۶۹۔ مفتی محمد عبدہ،تفسیر سورہ العصر،قاہرہ،۱۹۲۶،ص۱۹۔
۷۰۔ وہی مصنف، تفسیر جز عم،مطبع مصر،۱۳۴۱ھ،ص۱۵۸۔
71. Kerr, Malcolm H, Islamic Reforms: The Political and Legal theories of Muhammad Abduh and Rashid Rida, Cambridge, University press, 1961, p.105. 
72. Ibid. p. 106. 
۷۳۔ رشید رضا،تفسیر المنار،جلد ششیم،قاہرہ،۱۳۷۵ھ،ص۵۶۲۔
۷۴۔ وہی مصنف،تفسیر المنار،جلد دوم،۱۳۶۷ھ،ص۳۰۔
۷۵۔ وہی مصنف ،تفسیر سورہ یوسف، قاہرہ، ۱۹۳۶ھ،ص۱۲۰،تفسیر المنار،جلد اول، قاہرہ،۱۳۷۳ھ،ص۳۱۵۔
76. Hourani, Albert, Arabic Thought in the Liberal age, Oxford University press, 1962, pp. 168-169. 
۷۷۔ قاسم امین ،تحریر المرأۃ ،قاہرہ،۱۸۹۹ء،ص۱۶۹۔
۷۸۔ وہی مصنف ، المرأۃ الجدیدہ،قاہرہ،۱۹۰۰ء،ص۱۸۵۔۱۸۶۔ 
۷۹۔ علی عبد الرزاق،الاسلام واصول الحکم ،قاہرہ ، ۱۹۲۵ء،ص۸۴۔۸۵۔
۸۰۔ مثال کے طور پر دیکھیے:طنطاوی جوہری، الجواہر فی تفسیر القرآن،جلد اول،بیروت،۱۹۹۱ء،ص۱۶۱۔۲۳۴، چارلس سی آدم، حوالہ مذکور ، ص ۳۴۸،۳۴۹،۳۵۵۔
۸۱۔ سید عبداللہ،سرسید احمد خاں اور ان کے ناموررفقا کی اردونثر کا فنی و فکری جائزہ،اسلام آباد ،مقتدرہ قومی زبان، ۱۹۹۴ء ،ص۳۰۔۳۲۔
۸۲۔ ٹرول،ڈاکٹرسی ڈبلیو،سر سید احمد خاں:فکراسلامی کی تعبیر نو(مترجمین ،ڈاکٹر قاضی افضل حسین اور محمداکرام چغتائی)،لاہور ، القمر انٹر پرائزز،۱۹۹۸ء، ۲۰۶۔۲۰۷۔
۸۳۔ تفسیر القرآن مع اصول تفسیر،لاہور،دوست ایسوسی ایٹس،۱۹۹۵ء،ص۱۰۷۵۔۱۱۹۷۔
۸۴۔ ایضاً،ص۱۴۷۔۱۶۲،۳۹۹،۴۱۳،۴۲۶۔۴۲۷۔
۸۵۔ ایضاً،ص۵۸۰۔
۸۶۔ ایضاً،ص۹۰۔۹۶،۵۶۵۔۵۷۸۔
۸۷۔ ایضاً،ص۱۰۶۔۱۰۸،۱۱۷،۶۱۳۔۶۲۵۔
۸۸۔ ایضاً،ص۱۲۴۔
۸۹۔ حالی،مولانا الطاف حسین،حیات جاوید،لاہور،ھجرہ انٹر نیشنل،۱۹۸۴ء،حصہ اول،ص۲۳۱۔
90. Chriragh Ali, The proposed political, legal and social reforms in the Ottoman Empire and other Muhammdan States, Bombay, 1883, pp.10-12. 
91. Ibid.pp.112-113. 
۹۲۔ ممتاز علی ،حقوق نسواں،لاہور،۱۸۹۸ء،ص۵۔۷۔
۹۳۔ ایضاً،ص۷۔۳۷۔
۹۴۔ ایضاً،ص۴۴۔۹۴۔
۹۵۔ حالی، مولانا الطاف حسین،حیات جاوید،حوالہ مذکور،ص۱۶۳۔
۹۶۔ احمد امین،زعماء الاصلاح فی العصر الحدیث، قاہرہ، ۱۹۴۸ء،ص۱۳۹۔۱۴۵۔
۹۷۔ امیر علی،سید ،روح اسلام(مترجم،محمد ہادی حسین)،لاہور ،ادارہ ثقافت اسلامیہ،۱۹۹۲ء،ص۱۵۲۔
۹۸۔ ایضاً،ص۱۵۳۔۱۵۴۔
۹۹۔ ایضاً،ص۳۲۶۔
۱۰۰۔ ایضاً،ص۳۵۸،۳۶۸،۳۷۰،۳۷۱۔
۱۰۱۔ ابوالحسن علی ندوی،مولانا،قادیانیت:مطالعہ و جائزہ،کراچی،مجلس نشریات اسلام،۱۹۸۱ء،ص۱۸۰۔
۱۰۲۔ محمد علی لاہوری،بیان القرآن،لاہور،احمدیہ انجمن اشاعت اسلام،جلداول۱۳۷۷ھ،ص۶۲،جلددوم،ص۱۲۴۴، جلد سوم،۱۳۴۲ھ،ص۱۳۹۱۔۱۳۹۲۔
۱۰۳۔ ایضاً،جلداول،ص۶۹۔۷۰۔
۱۰۴۔ ایضاً،ص۷۸۔۷۹۔
۱۰۵۔ ایضاً،ص۳۳۱۔۳۳۲،۳۳۴،۳۹۹،۵۷۵۔۵۷۶،جلددوم،ص۷۳۸،۱۲۶۲۔
۱۰۶۔ ایضاً،جلداول،ص۳۱۰،جلددوم،ص۱۳۲۳۔ 
۱۰۷۔ ایضاً،جلداول،ص۳۱۴۔۳۱۵۔
۱۰۸۔ ایضاً،ص۳۲۰۔۳۲۶۔
۱۰۹۔ ایضاً،جلدسوم،۱۴۰۸۔۱۵۳۶۔جلددوم،ص۱۲۷۸۔ 
۱۱۰۔ عزیز احمد،پروفیسر،برصغیر میں اسلامی جدیدیت(مترجم ،ڈاکٹر جمیل جالبی)،لاہور،ادارہ ثقافت اسلامیہ، ۱۹۸۹ء،ص۳۲۲۔۳۲۳۔
۱۱۱۔ پرویز، غلام احمد،انسان نے کیا سوچا،لاہور،طلوع اسلام ٹرسٹ،۱۹۹۱ء،ص۱۵۔
112. Longman,Green & co;Pub.by,Supernatural Relegion, London, 1874,Vol.II.p.480. 
۱۱۳۔ الانعام۶:۱۲۔
۱۱۴۔ پرویز ،غلام احمد ، مطالب الفرقان ،لاہور ،طلوع اسلام ٹرسٹ ،جلد پنجم ،ص۱۲۔
۱۱۵۔ ایضاً ، جلد چہارم ،ص۳۸۴۔
۱۱۶۔ ایضاً ،جلد دوم،ص۶۷۔۷۰۔
۱۱۷۔ ایضاً،ص۵۰۔۵۲۔ 
۱۱۸۔ ایضاً،ص۴۱۔۴۲۔
۱۱۹۔ ایضاً،جلد اول،ص۳۲۷۔۳۲۸۔ 
۱۲۰۔ ایضاً،ص۳۳۳۔۳۳۴۔
۱۲۱۔ ایضاً،جلددوم،ص۴۱۔
۱۲۲۔ ایضاً،ص۶۲۔
۱۲۳۔ ایضاً،جلد چہارم،ص۹۳۔
۱۲۴۔ ایضاً ،ص۵۰۳۔۵۱۰۔
۱۲۵۔ ایضاً ،جلد سوم ، ص۳۴۸۔
۱۲۶۔ النساء۴:۲۰۔
۱۲۷۔ پرویز ،غلام احمد ،مطالب الفرقان ،جلد سوم ، ص۳۴۶۔
۱۲۸۔ ایضاً ،جلد اول ،ص۱۱۵۔۱۱۶۔۱۳۲۔
۱۲۹۔ ایضاً، ص۱۰۷۔
۱۳۰۔ محمد اکرام ،شیخ،موجِ کوثر،لاہور،ادارہ ثقافت اسلامیہ،۱۹۹۲ء،ص۱۷۸۔
۱۳۱۔ قاضی جاوید، سرسید سے اقبال تک،لاہور ،تخلیقات،۱۹۹۸ء،ص۹۳۔
132. Smith, Wilfred Cantwell, Op.Cit.p.122. 
133. Rafi-ud-din,Dr,"The task of Islamic Research",The Pakistan times, Lahore,August 2, 1963. 

’’کچھ تو سمجھے خدا کرے کوئی‘‘ (۱)

مولانا محمد بدر عالم

(افتراق وتفریق کا فکری، نفسیاتی اور سماجی تجزیہ۔)

امت مسلمہ اس وقت گوناگوں مسائل کا شکار ہے۔ عالمی کفر نے ہر طرف سے اس کو شکنجے میں کس لیاہے۔ ہم معاشی طور پر خدایانِ مغرب کے محتاج اور عسکری طور پر ان کفار کے دست نگر ہیں۔ ہم ان کے سیاسی قیدی اور تہذیبی غلام ہیں۔ جمہوری نظام ہماری آنکھوں کا تارا اور بے دین معاشرت ہمارے سروں کا تاج ہے۔ حالات دِل فگار ہیں۔ ملت کا اجتماعی ڈھانچہ بالکل ٹوٹ چکاہے۔ معدودے چند افراد کے سوا جو امت کی ڈوبتی ناؤ بچانے کی کوشش کررہے ہیں، بہت بڑی اکثریت صرف اپنے مفادات کی سوداگر ہے۔ مفکروں کی دانش بانجھ اور فکر مردہ ہوچکی ہے۔ حکمران اگر کاسہ لیس اور عیارہیں تو سیاستدان ٹوڈی اور مکار ہیں۔ عدالتیں انصاف بیچتی ہیں اور صحافی حرمتِ قلم کا بیوپار کرتے ہیں۔ شعرا اگر کلام کے جادوگر ہیں تو خطبا لفظوں کے بازی گرہیں۔ غریب کادامن زرسے اور امیر کا دل ضمیر سے خالی ہے۔ مزدور کی محنت زربن کر کار خانہ دار کی تجوری میں اترجاتی ہے اور حالات کے جبر سے نکلنے والی اس کی کراہیں دھواں بن کر کارخانے کی چمنیوں سے نکلتی جاتی ہیں۔ کافروں کے ٹکڑوں پر پلنے والے چند بے ضمیروں نے پوری امت کو ان کے پاس گروی رکھ دیا ہے۔ حالات بد سے بدتر اور زوال مزید سے مزید تر ہوجارہاہے۔ 
امت حالات کے ایسے گرداب میں پھنسی ہوئی ہے جس سے نکلنے کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا۔ حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ اللہ کی اس زمین پر خونِ مسلم سے ارزاں اور کوئی چیز نہیں۔ تڑپتے جسم، بھڑکتے وجود، بے گوروکفن لاشیں، لٹے سہاگ،پٹی عصمتیں، اجڑے دیار، ویران بستیاں، مظلوموں کی فریادیں، بندوقوں کے قہقہے، گولیوں کی مسکراہٹیں، بارود کی بارش، اِس سمت سے اْس سمت تک مسلمان کا لہو۔ کیایہی ملت کا مقدر اوراس کا نصیب ہے؟ یہ دلدوز حالات دیکھ کر آنکھیں خون آلود ہو جاتی ہیں او رسوچ سوچ کر کنپٹیاں سلگتی ہیں۔ دماغ پھٹتا ہے اور ہر درد مند دل پریشان اور غمگین ہو جاتا ہے۔
جس طبقے سے ناخدائی کی امید کی جاسکتی تھی، وہ باہم دست وگریباں ہے۔اس کی صلاحیتیں کسی اور کام پرصرف ہو رہی ہیں۔ بہت سے دوسرے افراد کی طرح راقم بھی اس پر سوچتا رہتا ہے کہ امت کے اس زوال وادبار کا سبب کیاہے؟ ہم دوبارہ عروج کس طرح حاصل کرسکتے ہیں؟قیادت کا فخراور سیادت کا شرف جو ہمارااثاثہ تھا، کس طرح واپس لیاجاسکتاہے؟ یہ مسئلہ امت کے لیے رستا ہوا ناسور اور سلگتا ہوا انگارہ ہے۔ ہر دردمند مسلمان کا دل اس کی ٹیس سے تڑپتا اوراس کی تپش سے جلتاہے۔ اس مسئلے پر بات کرنا گھاؤ پر نشتر لگانا اور سانپ کے ڈسے ہوئے کو اَک کا دودھ پلانا ہے۔ گمان تو اچھا رکھناچاہیے، مگر پھر بھی اس مضمون سے ہو سکتاہے کسی قباکے بخیے ادھڑجائیں، کسی عمامے کے پیچ کھل جائیں، کوئی گریباں چاک ہوجائے، اس لیے تیوریوں کا چڑھنا، پیشانیوں کا شکن آلود ہوجانااورزبانوں کا میرے حق میں بے لگام ہوجاناممکن ہے، لیکن ستائش کی تمنااورصلے کی پروا کیے بغیر اس بات کااظہار کرناخود پر فرض اورامت کا قرض سمجھتا ہوں جو میرے نزدیک حق ودرست ہے۔
اس وقت امت کو جن مسائل کا سامناہے، ان میں ’’فرقہ واریت‘‘ کا مسئلہ اہم ترین ہے۔بہت سے لوگ اسے امت کے زوال کا سبب سمجھتے ہیں۔ اس سے کلی طورپر تو میں اتفاق نہیں کرتا، البتہ یہ یقین ضرور رکھتاہوں کہ عروجِ امت کے راستے میں یہ ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ فرقہ واریت کے علاوہ اور ایک چیز بھی ہے جو نتائج کے لحاظ سے اگرچہ اس سے کم مہلک نہیں، مگراس کی طرف بہت کم لوگوں کی نظر اٹھتی ہے۔ جو اس کی طرف توجہ کرتے ہیں، وہ بھی اس کی سنگینی کو مکمل طور پر محسوس نہیں کرپاتے۔ نوعیت کے لحاظ سے یہ فرقہ واریت ہی کی فرع اور شاخ ہے۔ اس کانام ہم ’’تفریق‘‘ رکھتے ہیں۔ 
زوال کے اس دور میں عروج سے ہمکنار ہونے کے لیے مختلف النوع کوششیں ہورہی ہیں، لیکن کوئی کوشش بارآور اور کوئی سعی مشکور ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ اس کی وجہ کیاہے؟اکثریت نتائج میں اس ناکامی کو امریکہ اوراس کی سازشوں کے کھاتے میں ڈال کر یا دوسرے مخالفین کے سر منڈھ کر خودبری الذمہ ہوجاتی ہے۔اخلاق اس حد تک بگڑ گئے ہیں کہ ہر شخص خود کو ’’مصلح‘‘ اور مخالف کو ’’مفسد‘‘ سمجھتا ہے۔ بہت کم لوگ ہیں جو دوسروں کو الزام دینے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسے لوگ یقیناًآٹے میں نمک کے برابر ہوں گے جو حالات کا صحیح اور حقیقت پسندانہ تجزیہ کرتے ہوں، جو یہ سمجھتے ہوں کہ نتائج میں ناکامی کی ایک اہم ترین داخلی وجہ ایک طبقے، فرقے اور مسلک میں جماعت بندی، گروپ بندی اور پارٹی بازی یا ’’تفریق‘‘ ہے۔ کوئی فرقہ امت کے مجموعی دھارے سے الگ ہوتاہے اور کچھ ہی عرصے بعد کئی ٹکڑیوں میں بٹ جاتا ہے۔
یہ چھوٹی چھوٹی ٹکڑیاں اور جماعتیں نکبت اور ادبار سے نکلنے کی بساط بھر کوشش کرتی ہیں، مگر’’تفریق‘‘ ان کی کوششوں پر مٹی ڈال دیتی ہے، کیونکہ ہرایک جماعت دوسری جماعت کی کوششوں کو سبوتاژ کر دیتی ہے۔ ہر ایک کی سمت علیحدہ اور فکر جدا ہوتی ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ جس نے بھی ڈیڑھ اینٹ کی اپنی الگ مسجد بنارکھی ہے، خود کو ملت کا خیر خواہ سمجھتاہے اور دوسرے فریق کو ملت کا بدخواہ گردانتا ہے۔ زبان سے گونہ کہے، مگر اس کا عمل یہ چغلی کھاتاہے کہ جو کام وہ کر رہا ہے، وہی کام ملت کے لیے سب سے اہم اورسب سے زیادہ ضروری ہے۔ اس لیے اصل کام بس اسی کا ہے۔ اڑھائی ٹٹو لے کر ایک شخص اپنی جماعت بنا لیتاہے اور خو د کو’’الجماعہ‘‘ کا مصداق، امت کا سواد اعظم اور ما انا علیہ و اصحابی کا سچا پیروکار سمجھے لگتاہے۔ ہر میدان میں تفریق نے ملت کی قوتوں کو منتشر اور تتر بتر کردیاہے۔ میری نظر میں تفریق، فرقہ واریت سے بھی بڑھ کر ملت کے لیے سم قاتل ہے۔ اس سے وہی نقصان ہورہاہے جو سیاسی میدان میں مرکزیت یعنی خلافت کے خاتمے کی وجہ سے ہوا۔ 
جمہوریت کے بجائے خلافت کا تصور دے کر اسلام نے تمام دنیا کے مسلمانوں کو ایک لڑی اورایک وحدت میں پرو دیا۔ پوری دنیا کے مسلمان ایک قوم قرار پائے۔ خلافت کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی تاکیدی احکام ارشاد فرمائے۔ یہاں تک بھی فرمایا کہ ایک کی موجودگی میں دوسرا داعئ خلافت ہوتو اسے قتل کردو۔ آپ کے اس مبارک ارشاد کے علی الرغم امت کو جلد ہی دو خلیفوں کی اطاعت کا طوق اپنے گلے میں ڈالنا پڑا۔ وجوہات کچھ بھی ہوں، بہرحال جس چیز کا سدباب حضورؐ نے اس ارشاد میں کیا تھا یعنی مرکزیت ختم نہ ہو، امت اس پر عمل پیرانہ ہو سکی۔ شاید اسی ارشاد کی خلاف ورزی کا نتیجہ تھا کہ خلافت تو خلافت، اندلس سے مسلمانوں ہی کا بیج ختم ہوگیا۔
خلافت مسلمانوں کاایک مرکز تھی،دینی بھی سیاسی بھی۔اس سے وابستگی عبادت تھی۔ رفتہ رفتہ ایک خاص وجہ سے یہ مرکز کمزور ہونا شروع ہوا۔ یہ وجہ وہی تھی جو ہمارے زوال وادبار کی اصل اور جڑ ہے۔ مرکزی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر کئی علاقوں میں مختلف چھوٹی بڑی خود مختار امارتیں اور بادشاہتیں قائم ہوگئیں۔ اپنی تمام ترخود مختاری کے باوجود یہ امرا اس لحاظ سے دربارِ خلافت کے ماتحت ہی تھے کہ اپنی حکومت کو قانونی بنانے کے لیے دربارِ خلافت سے ان کا سند جواز حاصل کرنا ضروری تھا۔ گو اس وقت بھی مسلمان مختلف خطوں اور ملکوں میں تقسیم تھے، لیکن ملکی وطنی عصبیت نہیں تھی۔ملک تھے، سرحدیں تھیں، اس حوالے سے شناخت بھی تھی، مگر قانون تقریباً یکساں تھا۔ نیشنلٹی اور شہریت کسی خاص ملک اور علاقے تک محدود نہیں تھی۔ ہر مسلمان ہر خطے میں یکساں شہری حقوق کاحقدار سمجھا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ عہدوں اور مناصب کی تجویز میں بھی یہ جغرافیائی اختلاف حائل نہ تھا۔ کوئی شخص خواہ کسی علاقے سے تعلق رکھتا ہوں، کسی بھی حکومت کے زیر سایہ ذمہ داری حاصل کر سکتا تھا، بشرطیکہ اس کا اہل ہوتا۔ یہودنصاریٰ نے سازشیں کرکے اور کچھ ناعاقبت اندیش مسلمانوں نے اس مقصد میں ان کا آلۂ کاربن کراس مرکزیت کو ختم کردیا۔ یہ لڑی ٹوٹتے ہی مسلمانوں کی وہ سیاسی وحدت ختم ہوگئی جس نے انھیں ایک قوم بنا رکھا تھا۔
’’تمام دنیا کے مسلمان ایک قو م ہیں‘‘، مذہبی حمیت کے جذبات سے لبریز یہ ایک کھوکھلی بات ہے جو کبھی کبھی محراب ومنبر سے سنائی دیاکرتی ہے یا ایک سیاسی نعرہ ہے جس کے ذریعے عوام کے دینی جذبات سے کھیلا جاتاہے جو ابھی تک یہ سمجھتے ہیں کہ قوم ملک ووطن سے نہیں بلکہ دین ومذہب سے بنتی ہے، جبکہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ جدید قومیت کی تشکیل میں دین ومذہب کا بنیادی عنصر عملاً ختم کر دیا گیا ہے اوراس کی جگہ ملک ووطن نے لے لی ہے۔ مولانا حسین احمدمدنی کے ایک بیان کی غلط رپورٹنگ پر طوفان اٹھا دینے والے مصور پاکستان حضرت علامہ اقبالؒ کوشاید علم نہیں تھا کہ جدید نظریۂ قومیت کو بتمام وکمال قبول کرنے والی کھیپ میں وہ لوگ بھی شامل ہوں گے جو ان کے خوشہ چین اوران کے خواب میں تعبیر کا رنگ بھرنے والے ہیں اور ستم بالائے ستم یہ ہوگا کہ خودان ہی کے کلام سے استشہاد کرتے ہوئے اسے صحیح ودرست قرار دیاجائے گا اور شاید وہ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ ۱۹۳۰ء میں انہوں نے جوخواب دیکھاہے، اس کی تعبیر عنقریب اسی نظریے کو بنیادی فراہم کرنے والی ہے جس کی تردید کرتے ہوئے انہوں نے فرمایاتھا:
سرود بر سر منبر کہ ملت از وطن است 
چہ بے خبر زمقام محمد عربی است
اور یہ کہ :
اِن تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
ملت کا جو پیراہن ہے وہ اس کا کفن ہے
اپنی کئی داخلی کمزوریوں کے باوجود خلافت نے اس طرح تمام دنیا کے مسلمانوں کو اپنے سایے میں لے رکھاتھا جیسے مرغی اپنے بچوں کو پروں کے نیچے چھپا لیتی ہے۔ اب مسلمان تسبیح کے بکھرے ہوئے دانے ہیں۔ سیاسی میدان میں ان کی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیاں اور جماعتیں ہیں۔ یہ ٹکڑیاں اور جماعتیں ملک کہلاتی ہیں۔ ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ مسلمانوں کے ستاون ٹکڑے جو آزادی اور خودمختاری کے کھلونے سے کھیل رہے ہیں۔ حالات سازگار اور ہواموافق ہو تو ہر ٹکڑا اسی طرح مزید کئی ٹکڑوں میں بٹنے کے لیے تیار ہے جیسے ملت فرقوں میں بٹتی ہے اور فرقے مزید کئی ٹکڑیوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ فرقہ وارانہ تقسیم نے مسلمانوں کو وہ نقصان نہیں پہنچایا جو سیاسی اختلافات اور تفریق سے ہوا اور ہو رہا ہے۔ مسلمانوں کی طاقت تقسیم ہوچکی ہے۔ اپنا ملک، اپنا وطن ان کی شناخت اور پہچان بن گیاہے۔ ملکی عصبیت دلوں میں راسخ ہو چکی ہے۔ ملکی مفاد، ملی مفاد سے مقدم ہوچکاہے۔ ہر ملک اپنے جغرافیائی اور مقامی حالات کے مطابق اپنی پالیسیاں بناتاہے تاکہ اسے تحفظ وترقی حاصل ہو، چاہے ان کے نتیجے میں دوسرے مسلمان ملکوں کا شیرازہ بکھر جائے۔ ہندوستان اور وہاں کے مسلمانوں کی پالیسی پاکستان کے لیے نقصان دہ ہے تو پاکستان کی ہندوستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے لیے۔ یہی ملکی اوروطن عصبیت تھی جس کے پیش نظر خونخوار ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگا کر افغانستان کے مسلمانوں کی پشت میں خنجر گھونپا۔ یہ عصبیت طبیعتوں میں اتنی زیادہ رچ بس چکی ہے کہ مولانا صاحب بھی یوں دعا فرماتے ہیں ’’اے اللہ! عالم اسلام کی عموماً اور ملک پاکستان کی خصوصاً حفاظت فرما‘‘۔
مرکزیت کے خاتمے اور ملکوں کی بندربانٹ نے مسلمانوں کا شیرازہ بکھیر دیا۔ مثال کے طور پر برصغیر پاک وہند میں ستر کروڑ ہندو ایک جگہ جمع ہوگئے اور لگ بھگ اتنے ہی مسلمان چارحصوں میں تقسیم ہوگئے۔ہر حصے کے تقاضے اور مفادات دوسرے سے جدا اور الگ۔ اگر اتنا ہوتا، تب بھی بہت غنیمت تھا کہ حالات کے جبر نے گو بھائیوں کو جدا کر دیا ہے، مگر ان کے دل ایک دوسرے کے لیے دھڑکتے اور ملاپ ووصال کے لیے تڑپتے ہیں۔ بات اس سے کہیں آگے بڑھ گئی۔ تقسیم کے ساتھ ہی ملکی اور لسانی عصبیتوں نے سراٹھانا شروع کردیا۔ پاکستانی، ایرانی، ترکی، مصری، عربی اور عجمی عصبیتوں کے ساتھ ہی پنجابی، سندھی، بلوچی، مہاجر، مقامی، پختون، فارسی بان وغیرہ عصبیتوں نے بھی جنم لینا شروع کیا۔ ایک شناخت ’’مسلمان‘‘ چھوڑ کر جب جغرافیائی، مقامی اور لسانی شناخت پر اصرار کیا گیا تو پے در پے عصبیتوں کا دروازہ کھل گیا۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ خلافت ختم کرنے کے لیے انگریزوں نے پہلے عرب نیشنل ازم کی پری تخلیق کی جس کے لازمی نتیجے میں تُرک عصبیت نے جنم لیا۔ عرب دشمنی اسلام دشمنی میں ڈھل گئی اور ترکی سے خلافت کے ساتھ ساتھ شعائر دین یہاں تک کہ عربی رسم الخط کو بھی دیس نکالا مل گیا۔ آج ملکی وطنی اور لسانی عصبیتوں میں گھرے ہوئے مسلمان ممالک اوران میں بسنے والے مسلمان ترقی اور عروج کے لیے اس شخص کی مانند غوطے لگارہے ہیں جسے چار اندام سے جکڑ کر سمندر میں ڈال دیاگیاہو۔ غلبے اور عروج کے راستے ان پر کھل بھی کیسے سکتے ہیں جبکہ ان کی فکر منتشر اور سوچ متفرق ہے۔ ان کے رستے جدا اور سمتیں علیحدہ ہیں۔ وطنی عصبیتیں اور ملکی مفادات سب سے پہلے کاجادو سر چڑ ھ کر بول رہاہے۔ قرآن یہودیوں کی بابت بیان کرتاہے: تَحْسَبُہُمْ جَمِیْعاً وَقُلُوبُہُمْ شَتَّی ذَلِکَ بِأَنَّہُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْقِلُونَ (الحشر ۵۹: ۱۴)ور مسلمانوں کے صرف دِل ہی متفرق نہیں، ظاہر بھی بکھرا ہواہے۔
مذہبی فرقہ واریت یقیناًایک المیہ اور ہمارا کمزور پہلوہے، لیکن اسلامی سطوت وشوکت توڑنے میں سیاسی فرقہ واریت یا تفریق کاکردار سب سے اہم ہے۔ مذہبی فرقہ واریت کی بنیاد پر سر پھٹول ہوجاتی ہے، لوگ باہم دست وگریباں ہوجاتے ہیں، مگر سیاسی مقاصد میں اختلاف سے ایسی جنگوں کی نوبت آتی ہے کہ ہزاروں لاکھوں آدمی اس کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ ان اختلافات نے سلطنتوں کی سلطنتیں مٹادیں۔ اپنی تاریخ اٹھا کر دیکھو، فرقہ واریت کی بنیاد پر جنگ کے اکادکا واقعے ملیں گے، لیکن سیاسی فرقہ واریت پر مبنی جنگ وجدل کاایک طویل سلسلہ نظر آئے گا۔
بات سمجھنے کے لیے مندرجہ ذیل باتوں کا مختصر طور پر جاننا ہمارے لیے ضروری ہے:
(1)فرقہ کسے کہتے ہیں؟
(2)فرقہ بندی اوراس کے اسباب کیا ہیں؟
(3)فرقہ واریت اوراس کے اسباب کیا ہیں ؟
(4)تفریق اوراس کی وجوہ علل کیا ہیں؟
(5)افتراق وتفریق کے نقصانات ومضمرات کیاہیں؟
(6)اصل کام کیاہے اور کیسے کرنا ہے؟
فرقے کی بنیاد سے واقفیت کے بعد ہی ہم فرقہ واریت سے آگاہ ہوسکیں گے۔ اتنا ہی نہیں، اسی کے ساتھ وہ غلط فہمی بھی زائل ہوجائے گی جو بہت سے لوگوں کے ذہن میں پائی جاتی ہے اور جس کی وجہ سے وہ امت کے ان طبقات کو بھی فرقہ شمار کرتے ہیں جو کہ اصلاً فرقہ نہیں یعنی حنفی مالکی شافعی وغیرہ۔
فرقہ بندی، اصل اور بنیاد سے فی الجملہ علیحدگی ہے۔ بنیاد بالکل ہی علیحدہ ہو جائے تو فرقہ، فرقہ نہیں رہتا، کفر بن جاتا ہے۔ فرقہ نام ہے ایسی جماعت کا جو گمراہ ہو، مگر کافر نہ ہو۔ ایک ہی بنیاد یااس بنیاد کے احاطے میں جوعمارات بھی تعمیر ہوں گی، وہ ایک ہی عمارت ،کوٹھی، مکان یا قلعہ شمار کی جائیں گی۔ ہر اس عمارت کو الگ اور مستقل شمار کیاجاتا ہے جس کی بنیاد الگ ہو۔ اصول وعقائد ہماری دینی بنیادہیں۔ جوگروہ اصول وعقائد میں اختلاف کرکے اپنے اعتقادات کی نئی عمارت بنائے گا، وہ ایک فرقہ شمار کیاجائے گا۔ اس کے مقابلے میں جو اصل اور بنیاد سے جدانہیں ہوا، وہ تقابل وتمایز کی بناپر فرقہ کہاجاتا ہے، ورنہ وہ فرقہ نہیں۔
اس سے واضح ہواکہ فرقہ اصول وعقائدمیں اختلاف کرنے سے بنتاہے نہ کہ اختلاف اعمال سے۔ ہاںیہ ضرور ہے کہ فروعی اعمال میں اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنالینا قابل مذمت ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کا نام میں نے تفریق رکھا ہے، اسی نے ہماری قومی وملی یک جہتی کو پارہ پارہ کر دیا ہے۔ یاد رکھیں کہ جوفرقہ اصل سے جتنا زیادہ اختلاف کرے گا، وہ اتنا ہی اس سے دور ہوگا۔ مثلاً معتزلہ، قدریہ،جبریہ وغیرہ اصل سے اختلاف کر کے ایک مستقل فرقے کی صورت میں اہل حق کے سامنے آئے، مگران کا اختلاف ایسا نہ تھا کہ انہیں کافر قرار دے دیا جاتا، اس لیے بہرحال وہ مسلمان ہیں گو کہ ان کے گمراہ ہونے میں کوئی شک نہیں۔ ان کے مقابلے میں مرزا غلام احمد قادیانی اورمحمد علی باب وغیرہ نے اصل سے ایسا اختلاف کیا کہ دائرہ اسلام سے ہی باہر ہوگئے، لہٰذا انہیں ایک مسلمان فرقہ کہنا درست نہیں، گو کہ اپنا مرکز اطاعت جداکرلینے کے بعد بھی وہ خود کو مسلمانوں میں داخل رکھنے کے لیے بے تاب ہیں۔
جس طرح اسلام کے کچھ ایسے اصو ل ہیں جن سے اختلاف دائرۂ اسلام ہی سے نکال باہر کرتاہے اور کچھ ایسے جن سے اختلاف گمراہی کا سبب توہوتاہے، مگر کفر کا باعث نہیں، اسی طرح ہر فرقے کے کچھ ایسے اصول ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر اس کا قیام ہوتاہے اوران میں اختلاف کرنا فرد کو اس فرقے کی حد سے ہی خارج کر دیتا ہے، اور کچھ نظریات ایسے ہوتے ہیں جو اس کے الگ تشخص کو پروان چڑھاتے ہیں جن میں اختلاف سے تفریق تو ہو جاتی ہے، مگر اختلاف کرنے والا اس فرقے کی حد سے خارج نہیں ہوتا۔ جو جماعت اصول وفروع میں آج تک جادۂ حق سے منحرف نہیں ہوئی اور پہلے کی طرح برابر چلی آ رہی ہے، وہ ہے اہل سنت والجماعت۔ 
ہبوط آدم کے بعد کئی قرن تک لوگ اسی راہ پر چلتے رہے جو آدم علیہ السلام کی وساطت سے انہیں ملی تھی۔ جب اختلاف پیدا ہوا تو نوح علیہ السلام کونئے احکام دیے گئے، وہ دین نوح کہلایا۔اسی طرح سلسلہ چلتارہا۔احکام آتے رہے اور نبی کے نام سے دین موسوم ہوتارہا۔اسی کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا کہ ’’ہم گروہ انبیاء علاتی بھائی ہیں، ہمارادین واحد اور شرائع مختلف ہیں۔‘‘ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک مدت تک معاملہ راستی پر چلتا رہا۔ درمیا ن میں اختلاف ہوئے، مگران میں سے کوئی بھی ایسا نہ تھا جو کہ بنیاد سے علیحدگی پر مبنی ہو اور نہ ان کی بنیاد پر صحابہ نے تفریق ہی پیدا ہونے دی۔ حضرات صحابہ کرام کے اختلافات معروف ہیں۔ یہاں تک کہ امت میں وہ پہلااختلاف رونماہوا جو کہ بنیاد سے فی الجملہ علیحدگی پر مبنی تھا۔ اس کے بعد اسی طرح کے اختلافات بڑھتے گئے۔ جو گروہ اصل سے نہ کٹا اور بنیاد سے جڑا رہا، وہ ان اختلاف کرنے والوں کے مقابلے میں اہل سنت والجماعت کہلایا۔ اس سے کٹنے والے مختلف ناموں سے موسوم ہوئے، مثلاً شیعہ، خوارج، قدریہ، جبریہ، مرجۂ اور معتزلہ وغیرہ۔ اہل سنت والجماعت کی تعبیر چند احادیث سے لی گئی جن میں سے ایک ما اناعلیہ و اصحابی بھی ہے۔ 
یہاں سے عقائد میں دو تقسیمیں پیدا ہوئیں۔ ایک، وہ عقائد جن کا ثبوت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعی یقینی اور متواتر ہے، انہیں ضروریات دین کا نام دیا گیا۔ ان میں سے کسی ایک کا انکار بھی کفر ہے۔ دوم، وہ عقائد جن کا ثبوت اس درجہ قطعی نہیں، لہٰذا ان کا انکار گو کفر نہ ہو، ضلالت اورگمراہی بہر حا ل ہے۔ انہیں ضروریات اہل سنت کا نام دیا گیا۔ رہا یہ سوال کہ انہیں ضروریات اہل سنت کیوں کہتے ہیں؟ تواس کا جواب یہ ہے کہ ان عقائد میں اہل سنت چونکہ راستی پر رہے اور ان کے مقابل گروہوں نے ان عقائد میں حق سے انحراف کیا، اس لیے ان کی اوراہل سنت کی نسبت سے یہ ضروریات اہل سنت سے موسوم ہوگئے۔
چودہ سو سال کی اس طویل مسافت میں کئی فرقے پیدا ہوئے اور جلد یا بدیر یادگاروں میں تبدیل ہوگئے۔آج کے ماحول میں بھی فرقے موجود ہیں اور بظاہر بہت زیادہ نظر آتے ہیں، مگر انہیں ان کی اصلوں کے تحت داخل کیا جائے تو معدودے چند رہ جاتے ہیں۔ مثلاً اہل تشیع کے فرقے، یہ حضرات پہلے اپنی اصل سے جداہوئے، پھرگروہ درگروہ کئی شاخوں میں بٹ گئے۔ شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ اورشاہ عبدالعزیزؒ نے ان کی شاخیں ۲۷ تک شمارکی ہے۔اگرچہ یہ شمار میں کافی ہیں، مگریہ سب اپنی ایک ہی اصل شیعہ کے تحت جمع ہوجاتے ہیں۔ ان سب کااصل الاصول تفضیل علی کرم اللہ وجہہ کا عقیدہ ہے۔ ان میں سے کچھ وہ ہیں جنہوں نے آپ کو حضرت عثمانؓ پر فضیلت دی،کچھ وہ ہیں جنہوں نے شیخین کریمین پر،کچھ نے اس کے ساتھ خلافت بلافصل کا قول بھی کیا، بعض نے معاذاللہ چار کے سوا تما م صحابہ کے مرتد ہو جانے کا عقیدہ رکھا، کچھ نے اسی کے ساتھ تحریف قرآن کا عقیدہ اپنایا۔ حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی اور ظاہری اہل سنت ہی کی شاخیں ہیں، فرقے نہیں ہیں۔حیاتی مماتی، دونوں کی ایک اصل ہے، دیوبندی ہونا۔ دیوبندی اور بریلوی، دونوں کی ایک اصل ہے، حنفی ہونا۔اہل حدیث کی تمام جماعتیں ایک اصل، ترک تقلید پر اکٹھی ہیں۔ اسی اصل میں نیچری ، مودودی اور غامدی بھی شامل ہیں۔ ترک تقلید اہل ظاہر کا مسلک ہے اور اہل ظاہر، اہل سنت میں داخل ہیں۔ مگر یادرہے کہ بعض گروہ کسی اعتبار سے اہل سنت میں داخل ہوتے ہیں توکسی دوسرے پہلوکی بناپر اہل سنت سے خارج بھی ہو جاتے ہیں یا کر دیے جاتے ہیں۔ مثلاً بریلوی، دیوبندیوں کے نزدیک حنفی ہونے کے لحاظ سے اہل سنت میں داخل ہوتے ہیں تو اس کے کئی مسلمات کا انکار کرنے کی وجہ سے خارج بھی ہیں اوردیوبندی، بریلویوں کے ہاں اسلام سے ہی خارج ہیں۔ اہل حدیث ان دونوں کو سنی ماننے کے لیے تیارنہیں۔ بعض فرقے وہ ہیں جنہیں تغلیباً اسلامی فرقوں میں شامل کیا جاتاہے، درحقیقت وہ اس سے خارج ہیں۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ فرقہ سے مراد وہ جماعت ہے جو ضروریات اہل سنت میں اختلاف کرے۔ اسی کو دوسرے معنوں میں کہا جاتاہے کہ جو اہل سنت والجماعت سے کٹتاہے، وہ اگرچہ مسلمان ہے، مگر گمراہ ہے۔
فرقہ کے بعد دوسری اہم چیز جس کا ہمارے دور میں بہت چرچاہے، فرقہ واریت ہے۔ یہ لفظ کافی بدنام ہوچکاہے اور اس کی حقیقت جانے بغیربالخصوص علما کو بدنام کرنے کے لیے بہت سے لوگ یہ لفظ بے محل استعمال کرتے ہیں، یہاں تک کہ اپنے موقف کی صحت اور مخالف کی تغلیط پر کوئی مدلل علمی گفتگو کرے تو ایسی گفتگوکوبھی فرقہ واریت اورقابل مذمت سمجھتے ہیں۔ حالانکہ اپنے موقف کو ثابت کرنا اور دلائل سے دوسرے کی غلطی واضح کرنا، ہر ایک کا حق ہے۔ یہ فرقہ واریت نہیں، وہ تو اس سے جدا ایک اور ہی شے ہے۔
فرقہ واریت اگر آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اظہارِحق یا ابطال باطل کانام نہیں بلکہ مخالف فرقے کے حق میں عدل وانصاف اور حدود و تہذیب کے دائرے سے باہر نکل جانے کا نام ہے۔ باہمی جدل ومنازعت اور دوسرے کو زک پہنچانے کی کوشش فرقہ واریت ہے۔ دامنِ عدل و انصاف چھوڑ دینے کامطلب ہے مخالف سے تعصب برتنا، اس کے کلام کو غلط معنی پر محمول کرنا، وہ عقائد اس کے سرمنڈھنا جو اس کے نہیں، اس پر الزامات عائد کرنا۔ حدود سے باہر نکلنے کا مطلب ہے اختلاف میں غلو سے کام لینا، اسے اپنے مقام پر نہ رکھنااور معمولی اختلاف کو بھی کفر اسلام کااختلاف بنادینا۔ حلقہ تہذیب سے باہر نکلنے کا مطلب ہے مخالف کو گالیاں دینا، طعن وتشنیع اور تضحیک واستہزا سے کام لینا،نام بگاڑنا، غیر سنجیدہ اور غیر علمی انداز اختیار کرنا، بڑھکیں لگانا، لوگوں کے جذبات ابھارنا کہ وہ نہ صرف اس سے نفرت ہی کریں بلکہ مرنے مارنے پر آمادہ ہوجائیں۔ علمی اختلاف کو بازاری اختلاف بنادینا، اس کے اکابر اور بزرگوں پر سب وشتم کرنا۔ فرقہ واریت کی آگ نفسیاتی پیچیدگی اور اخلاقی کمزوری سے بھڑکتی ہے۔ اس کی جڑ سیاست کاپانی اور سازش کی کھاد ملنے سے خوب برگ وبار لاتی ہے۔
تیسری اہم چیز تفریق ہے جو کہ اپنے نتائج کے لحاظ سے بہت سنگین ہے، مگر لوگ اسے درخور اعتنا نہیں جانتے۔فرقہ بندی اورفرقہ واریت کے بارے میں ایک جان کاری کے بعد تفریق کو سمجھنا کوئی مشکل نہیں رہا۔ فکر، مذہب، عقیدہ، نظریہ اور مسلک کی یکسانی کے باوجود الگ الگ گروہوں، گروپوں، جماعتوں اور دھڑوں میں اس طرح تقسیم ہو جانا کہ ایک گروہ کا انتخاب دوسرے کی لغویت، حقارت اور تنفر ونقصان پر مبنی ہو، تفریق کہلاتاہے۔یاد رہے کہ تفریق صرف مذہبی نہیں ہوتی بلکہ فی زمانہ ہمارے ہرشعبے میں، وہ دینی ہو خواہ دنیاوی،تفریق درتفریق کا ایک سلسلہ موجودہے۔ایک ہی شعبے کے لوگ چھوٹے چھوٹے گروہوں اور جماعتوں میں منقسم ہیں جو دلوں میں ایک دوسرے کے لیے شدید کدورت اورنفرت رکھتے ہیں اور اسی کے ساتھ حق وراستی کو اپنی ذات میں منحصر کرتے ہیں۔ تاریخ اٹھا کر دیکھیے کہ کیسے سنی یا شیعہ آپس میں ایک دوسرے کو مرتے مارتے رہے،حنبلیوں اورشافعیوں نے کیسے ایک دوسرے کے گلے کاٹے۔
پھرجیسے مذہبی فرقہ بندی سے زیادہ سیاسی فرقہ بندی نے امت کو نقصان دیا، اسی طرح مذہبی تفریق سے زیادہ سیاسی تفریق نے امت کانقصان کیا اور کر رہی ہے۔ جونسبت مذہبی افتراق وتفریق میں ہے، وہی نسبت سیاسی افتراق وتفریق میں بھی ہے اور نقصان اس کا زیادہ ہے۔ سیاسی افتراق کا مطلب ہے دوایسے بالمقابل گروہ بن جاناجن کا نسب علیحدہ ہے، مثلاً بنوامیہ اور بنوعباس۔ یا نظریہ علیحدہ ہے، مثلاً مختاربن عبیدثقفی اورابن زیاد۔ یا قوم علیحدہ ہے، مثلاً سلجوقی وعباسی اور ہندوستان میں خلجی، تغلق، غلاماں اور مغل۔ یا مذہب علیحدہ ہے، مثلاً مصرکے فاطمیین اورزنگی وایوبی یا آل بویہ وبنوعباس یا قاچاری وصفوری اورمغل۔ یاصرف حصول حکومت کا جذبہ ہے، مثلاً تیمور وبایزیدیا بابر وخاندان غلاماں یا عرب وترک یا ترک خلافت پسند اورترک جدت پسند۔ تفریق کا مطلب ہے ہم نسب،ہم قوم،ہم مذہب یا ہم فکر ہونے کے باوجود باہم مخالفت کرنا، مثلاً علویوں وعباسیوں کی چپقلش یا عباسیوںیا خاندان غزنوی کی باہم سرپھٹول یا آخری دور میں شاہان مغلیہ کی باہمی لڑائیاں یا جمعیت علماء ہند کی تفریق یا مسلم لیگ کی تفریق در تفریق یا جے یوآئی کی تفریق وغیرہ۔ 
اس تفصیل کی روشنی میں اگرہم غورکریں گے تو تفریق، فرقوں سے زیادہ نظر آئے گی۔
پاکستان کی حدتک اگرجائزہ لیا جائے تو تفریق در تفریق کا ایک لمبا سلسلہ نظر آتا ہے۔ ہر ہر مسلک کی کئی کئی دینی جماعتیں، پھر ہر جماعت کے کئی کئی حصے اور ہر حصہ دوسرے سے الگ مستقل جماعت۔ کئی سیاسی جماعتیں، خواہ مذہبی ہوں خواہ غیرمذہبی اور اکثر جماعتوں کے کئی کئی جائز وناجائز بچے ایک دوسرے کے راستے میں روڑے اٹکاتے، دوسرے کو ملک دشمن اور غدار قرار دیتے اور اپنے لیے فری ہینڈ کے طالب نظرآتے ہیں۔ یہاںیہ بات ایک دفعہ پھر دہرا دوں کہ تفریق کا مطلب محض اختلاف رائے نہیں ہوتا، بلکہ اس کی بنیاد پر اس طرح جماعت بندی، جتھ بندی، گروہ بندی اور پارٹی بازی کرنا کہ کچھ لوگ اکٹھ کرکے اپنا الگ تشخص بنائیں، لوگوں کو دوسروں سے کاٹیں اوراپنی طرف بلائیں، تفریق کہلاتا ہے۔ اس طرح ہر جماعت دوسرے کی ٹانگ کھینچتی اور اسے نیچا دکھا کر خود جگہ بنانے کی فکر میں ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان کسی ایک نکتے یا فکر پر اکٹھے نہیں ہوتے۔
ایک دوسرے رخ سے اس کا مطالعہ کریں تو بھی صورت حال خاصی مایوس کن اور دگر گوں نظر آتی ہے۔ وہ یہ کہ جو لوگ باہمی اتحاد کے لیے کوشاں ہیں، وہ خود کئی ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ کسی ایک مسلک کے لوگ جو اس کی تفریق پاٹنے کے لیے کوشش کرتے ہیں، ان میں سے بھی ہر ایک کی سمت فکر ونظر عام طور پر جدا جدا ہوتی ہے۔ ویسے کہنے کو تو ہر ایک یہی کہتاہے کہ اتحاد ہونا چاہیے۔ ان مد عیان اتحاد واتفاق کی کوششیں باہم مربوط نہیں۔ صحیح یہ ہے کہ ابھی تک وہ یہی طے نہیں کرسکے کہ اتحاد کا لائحہ عمل کیا ہواوراس کے نکات کیا ہوں۔
سیاسی جماعتوں کی اکثریت پہلے نمبر پر ذاتی مفاد کی سیاست کرتی ہے اور ثانوی طور پر ملکی وقومی مفاد کو پیش نظر رکھا جاتاہے وبس۔ بین الاقوامی طور پر مسلمانوں کو ایک لڑی میں پرونا ان کا مطمح نظرہی نہیں۔ چندایک افراد یا معمولی طائفے ہیں جو اس طرح کی سوچ رکھتے اور اس کے لیے کوشش بھی کرتے ہیں، مگرافسوس کہ وہ مسلک سے بالاتر ہو کر نہیں سوچ سکتے، کیونکہ مسلکی تشخص کو نمایاں کرنا بھی ایک نفسیاتی مجبوری ہوتی ہے، یہاں تک کہ اتحاد امت یا اشاعت وحفاظت اسلام وغیرہ کے لیے ان کی یا ان کے ہم مسلک افراد وجماعتوں کی جو کوششیں ہوتی ہیں، وہ بھی بالآخر مسلکی فخر کا روپ دھار لیتی ہیں اور جو بے چارہ اس تشخص سے بالاتر ہو کر کام کرے، وہ اپنے اورپرائے دونوں کی نظروں میں مطعون ہو جاتا ہے۔ پھر یہود ونصاریٰ کی سازشوں کے تحت جنم لینے والی ملکی تقسیم بھی ان کے کام کومحدود کر دیتی ہے۔ وہ ملکی سیاست کے بھنور اور ملکی حالات کے گرداب میں مبتلا رہتے ہیں اور ان مصنوعی سرحدوں کے احاطے سے باہر نہیں نکل سکتے۔ وجہ یہی ہے کہ ملکی مفاد مقدم رکھنا ضروری ہو جاتا ہے۔ یہ توایک بالکل فطری بات ہے کہ جب بھی آپ ایک سے دوسری جماعت یا فورم تشکیل کریں گے جن کی جنس ایک ہی ہو تو کسی بھی وقت ان دونوں کے مفاد میں ٹکراؤ پیدا ہو جائے گا۔ یعنی ہوسکتاہے کہ ایسے کسی فورم کی تشکیل کے بعد ایسا کوئی معاملہ سامنے آجائے جس پر عمل درآمد اگرچہ عالمی طور پر مسلمانوں کے لیے فائد ہ مند ہو، مگر کسی ایک ملک کے نقصان کا سبب ہوتو کون اس کوقبول کرے گا؟ ملکی قوانین اور مفادات سے بالاترہوکر کام کرنا چاہیں تو ریاست سے ٹکر لینا پڑتی ہے۔ ان پرکئی طرح کی پابندیاں عائد ہو جاتی ہیں اور گاہے ریاست کے باغی بھی قرار دے دیے جاتے ہیں۔ ہزاراختلافات کے باوجود اسامہ کا اصل جرم یہی تھاکہ اس نے عرب ممالک سے امریکی اڈے اٹھانے کی بات کی تھی۔ مآل کار اس کی شہریت ہی منسوخ کر دی گئی۔ پوری مسلم دنیا میں ریاستوں اور ملکوں کا انتظام جن لوگوں کے ہاتھوں میں ہے، نرم سے نرم الفاظ میں یہی کہا جاسکتاہے کہ وہ عیسائیوں اور یہودیوں کے سامنے ڈٹ کرکھڑے ہونے کی طاقت نہیں رکھتے۔
فرقہ، فرقہ واریت اور تفریق کے بارے میں جان کاری کے بعد ان کے اسباب کا جاننا بھی ضروری ہے تاکہ بقدر استطاعت ان کا تدارک کیا جا سکے۔ اسلام نے ہمیں اعتصام بحبل اللہ کا حکم دیا۔ حبل کی ایک تفسیرالطاعۃ والجماعۃ سے بھی کی گئی ہے۔ الطاعۃ یعنی خروج اور بغاوت نہ کرنا اور الجماعۃ یعنی جماعت میں رہنا، تفرقہ نہ کرنا۔خلاف اطاعت سے سیاسی تفریق وانتشارنے جنم لیااور خلاف جماعت سے مذہبی فرقہ بندی پیدا ہوئی۔ فرقہ بندی، فرقہ واریت اور تفریق، ان تینوں کے اسباب تقریباً ایک جیسے ہیں جو کہ خلاف اطاعت وجماعت میں اجمالاً مذکور ہیں، مگر ان کے تفصیلی عوامل کو جمع کرنا خاصا دشوار اور محنت طلب کام ہے۔ یہ مختصر تحریر ان تفصیلات کی متحمل بھی نہیں ہوسکتی۔ سرسری تلاش وفکر سے جو باتیں برقِ بیتاب کی طرح ذہن کی فضا میں مچل رہی ہیں، انھی کو بیان کرنے پر اکتفا کرتاہوں۔اکثر تو اسباب یکساں ہی ہیں، مگر کہیں کوئی منفرد ہے تو اس کا ذکر بھی اسی ذیل میں کیا جائے گا۔

۱۔ عقل پر بے حد اعتماد

یہ فرقہ بندی کی ایک اہم وجہ ہے۔ مسلمان کاکام یہ ہے کہ شریعت کے سامنے منقار عقل کو زیر پر رکھے۔ پیش شریعت عقل کا سپر انداز ہوکر رہنا اس کی خوبی ہے، مگر کئی فرقے ایسے ہیں جن کے بانیوں نے عقل پر بے جا اعتماد کیا۔ نصوصِ قرآن وسنت کے سامنے صحابہ واسلاف کی مانند سر تسلیم خم کرنے کی بجائے عقلی گھوڑے دوڑائے اور عقل نارسا نے جس طرف ان کی راہ نمائی کی، جمہور امت کا راستہ چھوڑ کر اسی طرف چل دیے۔ یوں ایک نیا فرقہ وجود میں آگیا۔ گویا قرآن وسنت کے بجائے انہوں نے عقل کو معیار بنایا اور اس کے ذریعے سے صحیح وسقیم کو جانچتے اور حسن وقبح کو پرکھتے رہے۔خود کو عقل کل سمجھنے سے ہی تفریق بھی پیداہوتی ہے۔

۲۔ خودرائی 

یہ بھی عقل پر اعتماد ہی کی ایک خاص صورت ہے۔ خودرائی میں گرفتار لوگوں نے باب عقائد میں اسلاف کے فہم دین کو معتبر نہ سمجھا یا اس کا اعتبار کرتے ہوئے مزید تحقیق وجستجو سے کام لیا تو نتیجہ فہم سلف یا ظاہر قرآن وسنت کے خلاف نکلا۔ بجائے اس کے کہ وہ نتائج پر نظر ثانی کرتے، انہوں نے اپنی رائے کو معتبرسمجھ کر اسلاف کی تحقیق ونتیجے کو رد کر دیا۔ یہی خودرائی پھر کسی نئے فرقے کے قیام کا سبب بن گئی۔ اس مرض کا شکار افراد تفریق کا ذریعہ بھی بنتے ہیں، اگر ان کی رائے نہیں مانی جاتی تو اجتماعی یاجماعتی رائے کے سامنے سرجھکانے کے بجائے اپنی مسجد الگ بنا لیتے ہیں۔ خودرائی کا مریض اپنی ہی رائے کودرست اورحق بجانب سمجھتا ہے جس کاتقاضا مخالف رائے کی بے وقعتی اور تردید ہے۔ اب دونوں طرف سے ایک دوسرے کی تردید کا سلسلہ جاری ہو جاتا ہے۔ ان میں سے ایک یقیناًحق پر ہوتاہے، کیونکہ بابِ عقائدمیں حق ایک ہی ہوتاہے۔ ایک اپنی رائے کی ہٹ کرتاہے اور دوسرا احقاق حق کا فریضہ ادا کرتاہے۔ یہ بات بھی فرقہ واریت کا سبب بن جاتی ہے۔

۳۔ علمی غرور

کوئی مسئلہ، کوئی عقیدہ سمجھنے میں کسی سے خطا ہوئی مگر حق واضح ہوجانے کے باوجود علمی غرور کی وجہ سے خطا پر اڑا رہا اور اسی خطا کو برحق ثابت کرنے کے لیے پورا زور صرف کر دیا۔ یہ خطا اس کے پیروکاروں کے لیے عقیدہ بن گئی اور ایک نیا فرقہ سامنے آگیا۔ علمی پندار میں مبتلا افراد اپنے سوا کسی کی بات کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے اور تفریق اور فرقہ واریت کا سبب بنتے ہیں۔

۴۔ حب مال و جاہ

کچھ ایسے لوگ بھی پیدا ہوئے جنہوں نے مال وجاہ کی طلب میں عمداً راہِ حق سے انحراف کیا۔ عموماً یہ لوگ امرا کے حاشیہ نشین اور سلاطین کے خوشہ چین ہوتے۔ مال ومنصب کے حصول وبقا کے لیے انہوں نے کبھی ان کی غلط باتوں کو شریعت کی سند بخشی اور کبھی از خود فتوے دیے۔ بعدازاں جادۂ حق سے یہ انحراف کسی فرقے کا پیش خیمہ یا تفریق کا سبب بن گیا۔ محب مال اورجاہ پسند آدمی ہمیشہ فرقہ واریت کی بھٹی دہکانے میں لگا رہتا ہے، کیونکہ یہ آگ جتنی زیادہ بھڑکتی ہے، اس کے مال وجاہ میں اتنا ہی اضافہ ہوتاجاتاہے۔ ایسا آدمی اس بات کوبرادشت نہیں کرتاکہ کسی معاملے میں اس کو پیچھے رکھا جائے۔ جب تک اس کی نمبرایک حیثیت برقرار رہتی ہے، وہ ساتھ چلتارہتاہے اور جہاں کہیں اس میں فر ق آتاہے، وہیں وہ اپنا راستہ الگ کر لیتا ہے۔ محب مال وجاہ ان دونوں کی محبت میں حق کو ٹھکراتا اور باطل کو بڑھاتا ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اگر میں نے حق قبول کیایا مخالف کو نہ روکاتو یہ چیزیں مجھ سے چھن جائیں گی۔ پیٹ اور دماغ کی خاطر وہ حق اور اہل حق کی مخالفت شروع کرتاہے اور اس میں آخری حد تک جانے سے بھی گریز نہیں کرتا تاکہ اس کے دائر ۂ اختیار وحکومت سے ان کا بیج تک نکل جائے۔ ضد اور استقامت کاتصادم فرقہ واریت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

۵۔ سوء فہم

کچھ لوگ ایسے تھے جن کے ظرف تنگ اور عقل گینڈے کی کھال جیسی موٹی تھی۔ ان کا فہم تبخیر سے مغلوب اور خیال پر جنون کا اثر تھا۔ فہم کی خرابی کی وجہ سے بڑے خلوص کے ساتھ انہوں نے کبھی غلط کو صحیح سمجھ لیااور کبھی صحیح کو غلط استعمال کیا۔ ان کے فکروفہم میں خرابی کی روش نے کسی نئے فرقے کو جنم دیا۔ انہوں نے ہمیشہ پوست کو مغز سمجھا۔ کبھی تو انہوں نے مرغے کی ایک ٹانگ پکڑ کر ایک نص کی آڑ میں تمام نصوص کو رد کردیا، کبھی ظاہر وباطن کی تفریق پیداکی اور کبھی قید شریعت کو لغو قرار دے دیا۔ یہ کم فہمی عقائد میں ہوئی تو فرقہ پیداہوا اوردیگر معاملات میں ہوئی تو تفریق پیدا ہوئی۔ جن کے فہم میں کمزوری ہو، وہ مخالف کے کلام کا غلط مطلب لے لیتے ہیں۔ اس کی مراد کچھ ہوتی ہے اوریہ الگ مراد تخلیق کر لیتے ہیں۔ ایسے آدمی کو جب مناسب جگہ مل جائے جہاں سے وہ اپنی بات دوسروں کو پہنچا سکتاہے، خواہ تقریر ہو خواہ تحریر تو پھر اس کا اثر ظاہر ہوتا ہے۔ تحریر وتقریرسے یہ دوسروں کے لیے دلوں میں نفرت انڈیلتا اور فرقہ واریت میں اضافہ کرتا رہتا ہے۔ فہم کی یہ خرابی ایک اورپہلو سے بھی اپنا اثر دکھاتی ہے۔ لوگ عموماً ایک کی بات دوسرے کو جا لگاتے ہیں۔ سیا ق وسباق سے کاٹ کر یا غلط مفہوم کا چولا پہنا کر ایک کی بات دوسرے تک پہنچائی جاتی ہے۔ کچھ شریر طبع لوگ شر پھیلانے کے لیے اور بعض خرابی فہم کی بنا پر خطاً ایسا کرتے ہیں۔ طرفہ یہ کہ یہ اپنے مسلکی رؤسا کے مقرب اور ان کے نزدیک ثقہ ہوتے ہیں، اس لیے بلاتامل ان کی بات تسلیم کرلی جاتی ہے، حالانکہ ثقاہت وعلو فہم میں تلازم نہیں۔ کانوں کے کچے زعما تحقیق کیے بغیر ان غلط اطلاعات کو لے اڑتے اور فرقہ واریت کی بھٹی دہکانا شروع کر دیتے ہیں۔

۶۔ متشابہات کی پیروی

قرآ ن وسنت میں اکثر تومحکمات ہیں، مگر کچھ متشابہات بھی ہیں۔ متشابہات سے وہ چیزیں مراد ہیں جن کی مراد عقلِ نارساکی گرفت میں نہیں آسکتی، اس لیے ان پراسی طرح ایمان لانے کاتقاضا کیاگیا ہے جیسی کہ وہ ہیں۔ ان کی مراد کے درپے ہونا زیغ قلب اور فتنہ پروری کے سو اکچھ نہیں۔ بعض فتنہ پسند طبائع نے آخری حد تک ان کی حقیقت پانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں وہ جادۂ حق سے بھٹک گئے اور حقیقت کھوجتے ہوئے خود بھول بھلیاں میں کھوگئے۔

۷۔ تحقیق پسندی

خوگر تحقیق ہونا کوئی عیب کی بات نہیں، مگر نشتر تحقیق سے جب اسلام کا جگر چاک کرکے 
خودرائی کی پیوندکاری کی جائے تو تضییع اوقات کے علاوہ افتراق کا عفریت جنم لیتاہے۔ امت کا ایک متوارث فہم دین ہے جو اسلاف سے اس نے نسل در نسل حاصل کیاہے۔ تحقیق پسند طبیعتوں کو یہ بات کھلتی ہے کہ اسے من وعن قبول کر لیا جائے اور بالخصوص کوئی بات ان کے عقلی فریم میں ٹھیک نہ بیٹھ سکے تو بس قیامت ہے۔ اپنے قصور فہم اور نقص تحقیق کا اعتراف کرنے کے بجائے اس کے درپے ہوجاتے ہیں کہ اسلاف سے جو کچھ ہمیں ملاہے، اس میں کیڑے نکالے جائیں۔ ہر کیڑا ایک نیافرقہ ہوتاہے۔ ہمارے اس دور میں تحقیق وجستجو کی یہ ہوا بہت زیادہ چل رہی ہے۔ اسلاف اور ان کے علوم وتحقیق کے لیے متاثر کن اور قابل احترام الفاظ استعمال کرکے بڑے سائنٹفک انداز میں مسلمات امت کو رد کرتے ہوئے نئی ناقص تحقیق مارکیٹ میں لائی جاتی ہے اور غیر محسوس طریقے سے صراط مستقیم سے لوگوں کو بھٹکایا جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ ایک الگ فرقہ بن جاتاہے۔

۸۔ سازش

کئی فرقے سازشوں کی کوکھ سے نکلے۔ پہلے یہودی سازشوں نے سراٹھایا، پھر مجوسیت وزردشتیت نے برگ وبار نکالے۔ ازاں بعد نصرانیت بھی ان کے قدم سے قدم ملا کر چلنے لگی۔ تاریخ اسلام میں پہلے تفرقے کی بنیاد ہی سازش پر رکھی گئی تھی۔ قدیم ایرانی سرزمین میں فتنوں کی خوب گرم بازاری رہی۔ ان میں سے کچھ تو ایسے تھے جنہوں نے کھلم کھلا زندقہ والحاد کی راہ اپنائی، کچھ نیمے دروں نیمے بروں کا مصداق رہے۔ بعض اہل حق کے قریب نظر آئے اورکچھ کفر کے قریب جا پہنچے۔ مسلمانوں کی وحدت توڑنے کے لیے ان اقوام نے جامع منصوبہ بندی کے ساتھ اپنے مہرے آگے بڑھائے جنہوں نے بابِ عقائد میں بالخصوص من مانے تصرفات کرکے لوگوں کاراستہ جمہور امت سے کاٹ دیا۔ یہ سازشی عناصر آج تک کام کررہے ہیں۔ 
فرقہ واریت پیداکرنے کے لیے بھی سازشوں کو کام میں لایاجاتاہے۔ اسلامی تاریخ میں فرقہ بندی وفرقہ واریت ہر دو کے لیے سازشوں کا سراغ ملتاہے۔ ہمارے زمانے میں ہشت پہلو سازشیں نہایت کثرت سے کی جاتی ہیں۔ ان کا تانا بانااس طرح بناجاتاہے کہ اس کا شکارہونے والایہ محسوس ہی نہیں کرسکتاکہ وہ کسی سازش کا شکار ہوا ہے۔اپنی جگہ وہ اپنے عمل کودین کی بڑی خدمت سمجھتا ہے۔ سازشیں فرقہ بندی اور فرقہ واریت کا اہم عنصر ہیں۔ سازشی عناصر نے صرف فرقے ہی کھڑے نہیں کیے، بلکہ امت کو فرقہ واریت اور اس سے بھی زیادہ تفریق میں مبتلا رکھا۔ باطل پسند قوتوں نے اپنے اہم مذموم مقاصد اکثر وبیشتر سازشوں ہی کے ذریعے حاصل کیے۔ پھر فہم وفراست کی کمی، جذباتی پن، تعصب اورایک پہلو کو سامنے رکھ کر باقی پہلوؤ ں سے غفلت کی نفسیات نے سازشوں کو پنپنے کے زیادہ مواقع فراہم کیے۔
عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ کسی سازش کا شکار ہوکر اس الاؤ میں مزید ایندھن ڈالنے والے سادہ لوح کسی سازش کے وجود سے بے خبر ہوتے ہیں۔ ان کے سامنے صرف یہ پہلوہوتاہے کہ بالمقابل باطل کھڑاہے جسے مٹانا اس وقت ہر فرض سے اہم فرض ہے۔ کبھی سازش کا ادراک کرنے کے باوجود بوجوہ پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ کبھی اس کا تانا بانا انتہائی چابک دستی سے بن کر ایسے حالات پیدا کردیے جاتے ہیں کہ ان حالات میں رد عمل کا اظہار کرو، تب بھی اور نہ کرو، تب بھی نقصان ہوتاہے۔ یہی وہ مقام ہوتاہے جہاں تفریق پیداہوتی ہے۔ ایک فریق ردعمل کا مظاہرہ ضروری سمجھتاہے اور دوسرا چاہتاہے کہ مطلق پروا نہ کی جائے۔ایک انہی حالات کو اصل سمجھ کر اس کے مطابق اس پر توجہ دیتاہے اور دوسرا انہیں کسی دوسرے بڑے مسئلے کی فرع گردانتے ہوئے اس کے مطابق کارروائی کرتاہے۔یہاں دوفریقوں کے راستے الگ ہو جاتے ہیں۔ ہر آنے والے نکتے پر ان کا آپس میں فاصلہ بڑھتارہتاہے۔اس خاص مسئلے میں ایک کے اندر سختی ہوتی ہے اوردوسرے کے اندر نرمی۔ایک پرتشدد یا لاقانونیت کا راستہ اختیارکرتاہے، دوسراعدم تشدد یا قانونی چارہ جوئی کا۔
خیر، حالات کے اعتبار سے دیکھا جا سکتا ہے کہ ان حالات میں کون ساموزوں اور بحیثیت مجموعی مفید ہے، البتہ ہمارے یہاں یہ ذہن بن چکاہے کہ اسلام اور اظہار حق کا نام لے کر جو شخص جتنا زیادہ لاقانونیت کا مظاہرہ کرے، غلو اور تشدد کو اختیار کرے، وہ اتنا بڑا مجاہد اور اسلام کا بطل جلیل ہے، چاہے اس کے نتیجے میں اپنی طاقت کو گنوا دیا جائے، لاشوں کے تحفے ملیں، فتنہ وفساد بڑھ جائے، دشمن چوکنا ہو جائے اور بدامنی پھیل جائے۔ اس کے برعکس جو شخص پرامن رہے، قانون کی حد میں رہ کر کام کرے، حد اعتدال سے باہر نہ نکلے، وہ بزدل اور گنہ گار ہے۔ یہ بالکل غلط ہے۔ اس تصور نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے۔ میرے خیال میں فی نفسہ لاقانونیت باعث ثواب ہے نہ قانون کی پاسداری، بلکہ یہ دونوں شریعت کے تابع ہیں اوراس کی کئی صورتیں ہیں۔ مثلاً غیرمسلم مسلمانوں کے ملک پر قبضہ کرنے کی کوشش میں مصروف ہے تو اس کے خلاف عسکری جدو جہد کرنا فرض ہے، طاقت کم ہے یا زیادہ۔اگر اس کے ملک پر حملہ کرنا ہے تو پھر طاقت کی فراہمی ضروری ہے۔ اگر وہ قبضہ مکمل کرچکا ہے تودو صورتیں ہیں۔ اگر طاقت ہے تو اس کے آئین وحکومت سے بغاوت جائز ہے۔ اگر طاقت نہیں اوروہ دین اسلام پر عمل کرنے کی اجازت دیتاہے تو وہاں رہنا جائز ہے۔ اگر ایسا بھی نہیں تو ہجرت فرض ہے۔ اگر غیر مسلم ملک میں اس کی اجازت سے مقیم ہیں تو یہ ایک معاہدہ ہے جس کے تحت اس کا قانون توڑنا درست نہیں۔ مسلمان ملک کا قانون غیر اسلامی ہے اور اس میں تبدیلی کا آئینی راستہ موجود ہے تو اس کے مطابق اس کو بدلنے کی کو شش کرنا فرض ہے۔ اگر ایسا کوئی راستہ نہیں تو تبدیلی کی کوشش حصول قوت کے بعد لازم ہے اور عوام کو دین پر عمل کی اجازت ہے تو وہاں رہنا جائز ہے۔ مسلم ملک کا قانون اسلامی ہے تواس کی پابندی کرنا ضروری ہے۔ ہاں، اگر کوئی شق غیر اسلامی ہو تو اس صورت میں یہ طے کرنا ہوگاکہ قانون شکنی کرنی ہے یا اس کی پاسداری۔ مگر افسوس کہ ایسے مراحل میں ان تما م باتوں کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ اس کے بجائے جذبات کو کام میں لایا جاتاہے اور خفتہ جذبات کے اظہارکو احقاق حق کا خوبصورت نام دے دیا جاتا ہے۔
ہندوستان میں تقسیم سے پہلے انگریز حکمران تھے جن کا مشہور زمانہ اصول تھا ’’لڑاؤ اور حکومت کرو۔‘‘اس اصول کو کام میں لاتے ہوئے انہوں نے سیاسی طور پر ہندؤوں، مرہٹوں اور سکھوں کو مسلمانوں سے، پھر مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے سے لڑایا جس کے نتیجے میں ہندو، مرہٹے ، سکھ اور مسلمان چار الگ الگ قوتوں میں تقسیم ہوگئے۔ اس تفریق کا اثر یہ ہواکہ مسلمانوں کو چومکھی لڑائی لڑنی پڑی۔ ہندؤوں سے، مرہٹوں سے،انگریزوں سے اوراپنے مسلمان بھائیوں سے۔ پھر جو مسلمان ان کے بالمقابل تھے، سازشیں کرکے ان کے اندر سے بندے توڑے جیسا کہ سراج الدولہ، ٹیپو سلطان اور بہادر شاہ ظفر کے ساتھ ہوا۔ یہ توسیاسی تفریق تھی جو انگریزوں نے پیداکی۔ خالص مذہبی میدان میں بھی انہوں نے مسلمانوں کو کئی حصوں میں بانٹا۔ سیداحمد شہید اوران کے رفقا تو ۱۷۳۱ء میں شہیدہو گئے، مگران کی تحریک جاری رہی۔ ان لوگوں نے انگریزوں کے خلاف کارروائیاں شروع کر دیں۔ عام مسلمانوں سے ان کا رشتہ کاٹنے کے لیے انگریزوں نے بعض علماء سو ء کو ساتھ ملایا اوران کی وساطت سے انہیں وہابی مشہورکرادیا۔اسی طبقے نے آگے چل کرعلماے دیوبند کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کی اور ۵۰ سال محنت کرکے امت کو دیوبندی بریلوی فرقوں میں بانٹ دیا۔ اسی دورمیں غیر مقلدین نے برگ وبار نکالے جو کہ انگریزوں کے پشتی بان رہے۔ قادیانیت کا پودا انگریزوں نے کاشت کیا۔
علماء دیوبندکی نمائند ہ تنظیم جمعیت علما ء ہند بھرپور طریقے سے انگریزوں کے خلاف غیر مسلح جدوجہد کر رہی تھی۔ شومئی قسمت کہ جب اتحاد کی سخت ضرورت تھی، اسی وقت یہ قوت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ معلوم نہیں اس کے پس پردہ سازش کارفرما تھی یا حالات کی روشنی میں محض اختلاف رائے تھا جس نے علماء کی قوت تقسیم کرکے دوالگ الگ سمتوں میں لگا دی۔ ایک وقت تھا جب پنجاب میں بالخصوص احراریوں کا طوطی بول رہاتھا، یہاں تک کہ ۱۹۳۵ء میں مسجد شہید گنج کا قضیہ تازہ ہوا۔ اس موقع پر بعض ناعاقبت اندیش یا سازشیوں کے آلہ کار زعمائے ملت آگے آئے اورانہوں نے حالات کی تاروں سے احراریوں کے لیے ایساپھندا تیار کیا کہ اگراحراری اس میں گھستے، تب تو مارے ہی جاتے، نہ گھستے، تب بھی بساط سیاست پر انہیں شہ مات ہوگئی۔
۱۹۷۹ء میں خمینی صاحب کا انقلاب، ایران میں نمودارہوا۔ اس کے اثرات پاکستان پر بھی پڑے۔ ،خمینی صاحب سے مذہبی رشتہ رکھنے والوں کے دلوں کا زہر زبانوں سے ٹپکنے لگا۔ یہاں بھی ایسے ہی انقلاب کی تیاریاں ہونے لگیں۔ اسی کی پشت پناہی سے شیعہ سنی نصاب کی علیحدگی عمل میں آئی۔ شیعہ سنی منافرت پہلے سے موجود تھی اور علماء اس پر کام بھی کر رہے تھے، مگر انقلاب کی آمد نے اس منافرت میں شدت پیدا کر د ی۔ اب دوہی راستے تھے۔ ایک یہ کہ کچھ پروا نہ کی جائے اورجو جس کام میں لگا ہے، لگا رہے۔ بظاہر تو یہ رویہ اس فتنے کو بڑھانے والی بات تھی، مگراس کے نتائج اہل سنت کے حق میں دور رس ہوتے۔ دوسرا راستہ یہ تھاکہ اس پر ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے اس کا راستہ روکنے کی کوشش کی جائے۔ اس کی بھی دو صورتیں تھیں۔ ایک جارحانہ، دوسری مدافعانہ۔ جارحانہ راستہ قانون شکنی کا راستہ تھا اور وہ تمام باتیں اس کے لیے لازم تھیں جو قانون شکنی کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ جن حضرات نے اس کا بیڑا اٹھایا، انہوں نے جارحانہ رویہ اختیار کیا۔ ایک تو یہ کہ وہ خود گرم مزاج تھے اور سیاسی سست روی سے ان کی شناسائی نہیں تھی۔ دوم، حالات بھی ایسے بن رہے تھے جو فوری شدید ردعمل کا تقاضا کرتے تھے۔ تیسرایہ کہ انھی کے علاقوں میں صحابہ کرام کے خلاف دریدہ دہنی عروج پر تھی۔ چنانچہ یہ تحریک شروع ہوئی اوربہت کم وقت میں نہ صرف یہ کہ مقبول ہوئی بلکہ تمام حدیں بھی عبور کر گئی۔ ایسی تحریکیں ہمیشہ ساون کی گھٹا، سیلاب کا ریلااورآندھی کا جھکڑ ہوتی ہیں۔ دھواں دھار برستی اور ختم ہو جاتی ہیں۔ جتنی تیزی سے یہ تحریک ابھری، اتنی ہی تیزی سے سمٹ بھی گئی۔ جذبات کا مد بہت جلد سیاست کے جزر کا شکار ہو گیا۔ کثیر تعداد میں جید علماء کرام اور سرفروش کارکنوں کے شہید لاشے اٹھانے کے بعد اس نے اپنا سلوگن ہی تبدیل کر دیا۔ یہ تحریک گو کہ چند موڑ کاٹ کر وہیں آکر رک گئی جہاں دور اندیش نظریں پہلے ہی اسے دیکھ رہی تھیں، مگر کم از کم دیوبندیوں کی قوت اس سے کئی حصوں میں ضرور تقسیم ہوگئی، کیوں کہ ایک بڑاگروہ کسی صورت اس طرح کے اقدامات کے حق میں نہ تھا۔ ایک ہی جیسے حالات میں دو گروہوں نے ایک دوسرے کے الٹ رائے قائم کی اوریہ اختلاف رائے بالآخر تفریق پر منتج ہوا۔ رہے دشمنان صحابہ تو وہ آج پہلے سے زیادہ مضبوط ہیں۔
۲۰۰۷ء میں لال مسجد اورجامعہ حفصہ کے حوالے سے سازش کی گئی اورایسے حالات پیداکردیے گیے کہ اگر علماء اس تحریک کا حصہ بن جاتے، تب بھی نقصان اٹھاتے اورنہ دیتے، تب بھی مطعون ہوتے۔چنانچہ ایساہی ہوا۔ جن علما ء نے یہ تحریک اٹھائی، انہوں نے بھی سیکڑوں بچیوں اور جوانوں کے ساتھ جام شہادت نوش کیا اور جنہوں نے مصالحت اور سدھار کی کوشش کی، وہ بھی مطعون ہوئے اورجن علما نے محتاط ردعمل کا مظاہرہ کیا، وہ بھی مجرم قرار پائے بلکہ وفاق المدارس کے ٹوٹنے یا بٹنے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ اس کا جو کچھ نتیجہ ہوتا، وہ ظاہر ہے۔

۹۔ تطرف

فرقہ بندی کی یہ بھی ایک اہم وجہ ہے۔ ایک بات لوگوں کی نظر سے گزرتی ہے، وہ اسے پڑھتے بولتے اور سنتے رہتے ہیں، مگر ان کے لیے اس میں ایسا کوئی سوال نہیں ہوتا جو عقدۂ لاینحل بن جائے۔ مگر اچانک کسی کے دماغ میں شیطان سرنگ بنا لیتاہے۔ شک کے کانٹے اگنے لگتے ہیں۔ ایک چیز جو ہزاروں کے لیے بد یہی تھی، اس کے لیے نظری بن جاتی ہے۔ جو دوسروں کے لیے حقیقت تھی، اس کے لیے مجاز ہوجاتی ہے۔ وہ ایک سوال جو اس کے دماغ میں جنم لیتاہے، اس کے لیے سب کچھ بن جاتا ہے۔ تفویض کا راستہ وہ اختیار نہیں کرتااور جوابات اسے مطمئن نہیں کرتے۔ بالآخر اسے ایک حل سوجھ جاتاہے جو اسے مطمئن کر دیتا ہے۔ وہ زوروشور سے اس کی تشہیر وتبلیغ کرتاہے۔ اگرچہ وہ مزعومہ حل ایک جواب دے کر ہزاروں سوال کھڑے کردے، مگر اسے اس بات سے کوئی سروکار نہیں رہتا۔ بجائے اس کے کہ وہ اس حل پر نظر ثانی کرے، خود اسی کو اصل قرار دے کر باقی تمام مسائل کو اس کے تابع مہمل بنا دیتا ہے۔ ہر مسئلے اور ہر سوال کو وہ اسی کی عینک لگا کر دیکھتا ہے۔ آہستہ آہستہ ایک نیا عقیدہ، نئی تفسیر وجود میں آنے لگتی ہے جو قرآن وسنت کے مجموعی مزاج سے بہت حد تک علیحدہ ہوتی ہے۔ ایک نیا فرقہ پیداہوجاتاہے جو دراصل اس کے بانی مبانی کے تطرف اور انتہا پسند طبیعت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ اگر انتہا پر ہوتا ہے تواس کے مقابلے میں آنے والے متطرفین دوسری انتہا پر پہنچ کر ایک نیا فرقہ، نئی جماعت اور نئی پارٹی تشکیل دے دیتے ہیں۔

۱۰۔ کم علمی

علم میں کمی بھی سبب بن جاتی ہے نئے فرقے کا، خصوصاً اس وقت جب کم علمی چھپانے کے لیے اس بات کا اظہار کیا جائے کہ وہ بہت زیادہ جانتا ہے۔ جب کم علمی کے ساتھ ساتھ انسان احساس برتری کے مرض کا شکار ہو، اس حالت میں وہ اپنی ہی کہے گااوراپنی ہی سنائے گا۔ چنانچہ تاریخ سے بعض ایسے لوگوں کے بارے میں یہ شہادت ملتی ہے کہ اپنی کم علمی بلکہ لاعلمی کے باوجود انہوں نے کسی مسئلے پر اپنی رائے کو حرف آخر سمجھتے ہوئے اس کااظہار کیااوارانجام کار ایک فرقے کے بانی ہونے کا تمغہ لے کر رخصت ہوئے۔ 
(جاری)

جامع مسجد نور کی تاسیس کا پس منظر

مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

تمہید

۱۹۵۲ء میں جامع مسجد نور المعروف چھپڑ والی مسجد کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ اس کی ابتدائی تعمیر میں بہت سے لوگوں نے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق حصہ لیا۔ ہر طبقہ اور ہر برادری کے لوگ شریک تھے۔ ہم ان سب کے لیے دعاگو ہیں کہ اللہ رب العزت انھیں اپنے شایان شان اجر عطا فرمائے، آمین یا الٰہ العالمین۔ لیکن اس کے ساتھ ہر ذی شعور اور حالات سے باخبر آدمی یہ بھی جانتا ہے کہ جامع مسجد نور کی تاسیس کا مرکزی کردار ولی کامل، مفسر قرآن،محدث کبیر حضرت مولانا صوفی عبدالحمید خان سواتی نور اللہ مرقدہ فاضل دیوبند تھے۔ گزشتہ ماہ پاکستان کے دو معروف اخبار وجرائد میں کچھ مضامین ایسے طبع ہوئے جن میں اس بات کی نفی کی گئی۔ ان مضامین کی بہت سی بے سروپا باتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے بنیادی طو رپر صرف دو باتوں کی طرف قارئین کرام کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ ان مضمون نگار حضرات کے مضامین کا خلاصہ یہ تھا کہ:
(۱) مفسر قرآن حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتی ؒ جامع مسجد نور کے بانی نہیں تھے۔
(۲) وہ تو اس جگہ کافی دیر کے بعد تشریف لائے تھے۔
اس موضوع پر گو تاریخی دستاویزات کے حوالے سے تفصیلی کلام بھی کیا جا سکتا ہے، تاہم سردست میں اپنی طرف سے کچھ لکھنے کی بجائے صاحب معاملہ، مفسر قرآنؒ کے بیانات وتحریرات کے چند اقتباسات نقل کر رہا ہوں۔ ان اقتباسات میں کچھ سابقے اور لاحقے بھی ساتھ ہی شامل رہنے دیے ہیں تاکہ ان کے ضمن میں مفسر قرآنؒ کی یاد بھی تازہ ہو جائے۔
احب الصالحین ولست منہم
لعل اللہ یرزقنی صلاحا

جامع مسجد نور کا پس منظر

پاکستان کے معروف صحافی عبد السلام ملک نے ۱۹۷۶ء میں مفسر قرآن حضرت مولانا صوفی عبدالحمید خان سواتی سے ایک طویل انٹرویو لیا تھا جو ہفت روزہ چٹان لاہور میں بعنوان ’’حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی مدظلہ سے عبدالسلام ملک کا انٹرویو‘‘ کے عنوان سے طبع ہوا تھا۔ اس میں جامع مسجد نور کی تاسیس وتعمیر کے بارے میں انھوں نے مفسر قرآنؒ سے کچھ یوں پوچھا:
’’میں نے بات کاٹنے کی گستاخی کرتے ہوئے عرض کیا کہ یہ تفصیل تو بعد میں بھی معلوم ہو جائے گی۔ دراصل میں آپ کی مسجد اور مدرسہ کی تعمیری وسعت دیکھ کر بڑا متاثر ہوا ہوں کہ اس دور پرآشوب میں بھی ایسا ممکن ہے! لہٰذا ازراہ نوازش مسجد او رمدرسہ کی تعمیر کی ابتدا سے بات شروع کریں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ میرے اس خلجان کے اظہار پر وہ کچھ زیرلب مسکرائے اور فرمایا:
’’مسلک دیوبند سے تعلق رکھنے والے حضرات نے محسوس کیا (اور غالباً یہ ۱۹۵۰ء کی بات ہے) [یہ ملک صاحب کا تجزیہ ہے۔ اصل تاریخ ۱۹۵۲ء ہے۔ فیاض] کہ اس علاقہ میں چونکہ ان کی کوئی مسجد نہیں، لہٰذا اردگرد کی ہم مسلک آبادی کے لیے ایک مسجد اگر تعمیر ہو جائے تو ان کے لیے یاد اللہ اور ادائیگی فرض نماز وجمعہ میں آسانیاں پیدا ہو جائیں گی۔ اس مقصد کے لیے چند صاحب دل اور صاحب ایمان لوگوں نے باہم مل کر اس کا بیڑا اٹھایا۔ سب سے پہلا مسئلہ زمین کے حصول کا تھا۔ شہروں میںآبادی کے سیلاب کے پیش نظر یہ ایک پہلی لیکن بہت بڑی دقت تھی۔ چپہ چپہ زمین استعمال میں آ چکی تھی۔ جس جگہ اب موجودہ مسجد دیکھ رہے ہیں، یہاں گئے وقتوں کا ایک پرانا جوہڑ تھا جس کا متعفن پانی مچھروں او رمکھیوں کی ایک مستقل پرورش گاہ تھا۔ ہم نے اسی کے حصول کے لیے متعلقہ ڈی سی گوجرانوالہ سے رابطہ قائم کیا۔ وہ ایک نیک دل انسان تھے۔ انھوں نے فوراً اجازت دے دی۔ اب اس جوہڑ کی بھرتی کا مسئلہ تھا۔ یقین کریں اسے عام شہر کی سطح زمین تک بھرنے میں ایک لاکھ روپیہ صرف ہوا۔ جب یہ بھر چکا تو محکمہ آباد کاری بھی آن موجود ہوا، چنانچہ اس کی پیمائش کے بعد محکمہ نے جو قیمت مقرر کی، اس کی ادائیگی کا اہتمام بھی اللہ پاک نے ہی کر دیا۔ پھر مسجد کی بتدریج تعمیر شروع ہوئی جو کسی خاص یا قابل ذکر دقت کے بغیر پایہ تکمیل کو پہنچ گئی۔‘‘ (ہفت روزہ چٹان، ۱۲؍ جولائی ۱۹۷۶ء)

جامع مسجد نور کی بنیاد اور اپیل

۱۹۷۵ء میں جامع مسجد نور میں ہزاروں لوگوں کے مجمع سے جمعہ کا خطاب فرماتے ہوئے مفسر قرآنؒ نے فرمایا:
’’تاہم مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اس مسجد کی بنیاد اللہ کے فضل سے میں نے اپنے ہاتھوں سے رکھی۔ میں ان تین چار آدمیوں میں سے ایک ہوں جنھوں نے اللہ کا نام لے کر اس کام کابیڑا اٹھایا۔ اس کے بعد میں نے ہر موقع پر لوگوں سے درخواست کی ہے کہ اس مسجد کی تعمیر میں اپنی حلال اور طیب کمائی لگاؤ، حرام اور سودی مال سے اس خانہ خدا کی تعمیر نہ کرنا۔ کیوں بھائی! میں کہتا رہا ہوں یا نہیں؟ (بالکل کہتے رہے ہیں)۔‘‘ (خطبات سواتی ج ۳ ص ۳۰۸، تحریک جامع مسجد نور ص ۴۷)

جامع مسجد نور میں درس قرآن وحدیث کا آغاز

مفسر قرآن ۱۹۹۳ء میں اپنے قلم سے تحریر فرماتے ہیں:
’’احقر نے ۱۹۵۲ء ماہ جولائی میں جامع مسجد نور میں بعد نماز صبح درس قرآن کریم شروع کیا۔ کچھ عرصہ بعد طریق یہ طے کیا کہ ہفتہ، اتوار، سوموار، منگل، ہفتہ میں چار دن قرآن کریم کا درس اور بدھ، جمعرات دو دن حدیث شریف کا درس شروع کیا۔‘‘ (پیش لفظ ’’دروس الحدیث‘‘ ج ۱ ص ۹)

جامع مسجد نور میں خطابت کا آغاز

مفسر قرآن ۱۹۹۴ء میں تحریر فرماتے ہیں:
’’حضرت مولانا عبد اللہ درخواستی ؒ حافظ القرآن والحدیث، شیخ التفسیر وشیخ الحدیث۔ مولانا کا نام پہلے طلباء سے سنتے رہتے تھے۔ پہلی دفعہ ۱۹۶۰ء میں اتفاق سے صدر ایوب مرحوم کا زمانہ تھا۔ احقر چونکہ ۱۹۵۲ء سے جامع مسجد نور میں اس کی ابتدا سے خطابت کے فرائض انجام دے رہا تھا اور ساتھ ہی مدرسہ نصرۃ العلوم کے اہتمام کی ذمہ داری بھی احقر ہی کے سپرد تھی، ایسا اتفاق ہوا کہ احقر کے جمعے کی تقریر پر تین مہینے کی زبان بندی کے احکامات جاری ہوئے گوجرانوالہ کی انتظامیہ کی طرف سے۔ احباب کے مشورے کے بعد یہ طے پایا کہ اس دوران احقر اگر یہاں ہی گوجرانوالہ میں رہا تو ممکن ہے کہ تقریر وغیرہ کے سلسلہ میں احباب کے لیے مزید پریشانی کا باعث نہ ہو۔ تو مناسب سمجھا کہ احقر یہ تین مہینے گوجرانوالہ سے باہر ہی کہیں گزار دے۔ پھر یہ خیال ہوا کہ خانپور کٹورہ، ضلع رحیم یار خان بہاول پور چلا جائے، چونکہ شعبان اور رمضان کے دو مہینوں میں مولانا درخواستی کے پاس تفسیر وترجمہ میں شرکت کر لی جائے۔‘‘ (الاکابر، ص ۳۲۶)

مدرسہ نصرۃ العلوم کا بالکل ابتدائی تعارفی پمفلٹ

مفسر قرآن نے مدرسہ کا بالکل ابتدائی تعارف پمفلٹ ۱۹۵۲ء میں تحریر فرمایا جس کا عنوان تھا ’’ہمارا تعلیمی وتبلیغی لائحہ عمل‘‘۔ یہ پمفلٹ سارے شہر بلکہ ملک کے طول وعرض میں تقسیم ہوا تھا۔ اس کے صفحہ ۱۹ پر تحریر فرماتے ہیں:
’’تعلیمی وتبلیغی کوششیں اس وقت جتنی بھی ہو رہی ہیں، وہ وقت کے لحاظ سے بہت محدود ہیں۔ ان تمام خامیوں اور کوتاہیوں کو دور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس سلسلہ کی بالکل ابتدائی کوشش یہ ہے کہ ہم نے محض اللہ تعالیٰ کے توکل واعتماد پر ایک مدرسہ (مدرسہ نصرۃ العلوم) کی بنیاد شہر گوجرانوالہ محلہ فاروق گنج (گورونانک پورہ) جامع مسجد نور متصل گھنٹہ گھر کے ساتھ رکھی ہے۔ تعلیم وتعلم سے اتصال رکھنے والے حضرات اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ کام کافی مشکل ہے۔ اس دشوار کام کو چلانے کے لیے بڑی محنت وسعی کی ضرورت ہے۔ مدرسہ کی عمارت، درس گاہیں، طلباء کی رہائش کے لیے کمروں کا انتظام، کتب خانہ اور دارالمطالعہ اور اساتذہ کا بندوبست، یہ تمام سلسلہ ایک شخص کے بس کا کام نہیں۔ تمام مسلمانوں کے تعاون کی ضرورت ہے۔ ہم ہر اس مسلمان سے توقع رکھتے ہیں جو تعلیم وتبلیغ کی اہمیت اور علم کی نشر واشاعت کی ضرورت سے باخبر ہے کہ اس کار خیر میں حصہ لے کر اجر وثواب حاصل کرے اور آئندہ نسلوں سے دعاے خیر کی توقع رکھے اور اپنی اخروی نجات کا سامان پیدا کرے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا، انسانیت کی فلاح، مسلم قوم کا بقا اسی میں ہے۔‘‘ (مقالات سواتی، ص ۴۳۴)

جامع مسجد نور کے ابتدائی دور کے چند واقعات

(۱) ’’مدرسہ نصرۃ العلوم اور جامع مسجد نور کی تعبیر کے ابتدائی دور ۱۹۵۲ء میں ایک دفعہ احقر لاہور حضرت [امام الاولیاء شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ]  کی خدمت میں حاضر ہوا۔ دہلی دروازہ سے شیرانوالہ گیٹ کی طرف جا رہا تھا کہ راستہ میں مرحوم مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادی بھی آ گئے۔ میں نے کہا کہ کہاں جا رہے ہیں؟ انھوں نے کہا کہ حضرت لاہوریؒ کی خدمت میں جانا ہے۔ میں نے کہا، یہ تو بہت اچھا ہوا۔ میں نے حضرت کو گوجرانوالہ جانے کی دعوت دینی ہے۔ آپ بھی تائید کریں گے تو بہت اچھا ہوگا۔ جب حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مدعا عرض کیا تو حضرت نے فرمایا کہ اس وقت نہیں جاؤں گا اور میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ حضرت سے قاضی صاحب مرحوم جب الگ ہوئے تو مجھ سے فرمایا کہ آپ نے کوئی جماعت بنانی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ حضرت، دین کی خدمت اور علماء دیوبند کے مسلک کی تائید مطلوب ہے۔ [ان دنوں میں گوجرانوالہ میں ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک ایسی جماعت کے بارے میں سوچ رہے تھے جس میں جدید تعلیم یافتہ اور قدیم تعلیم یافتہ حضرات، دونوں برابر تعداد میں شریک ہوں۔] بہرحال اس وقت حضرت نے گوجرانوالہ آنے سے انکار کر دیا، لیکن کچھ عرصہ بعد حضرت گوجرانوالہ تشریف لائے اور خود بخود مدرسہ نصرۃ العلوم اور جامع مسجد نور تشریف لائے۔ ظہر کی نماز کے بعد درس دیا۔ اس وقت حضرت نے سلوک وتصوف اور اصلاح نفس پر وعظ فرمایا اور اپنی ہستی کو مٹانے کے لیے یہ مصرعہ بار بار دہرا رہے تھے:
ساقی مجھے خاکِ بے جان کر دے
پھر جامع مسجد نور کے محراب والے حصے میں بڑی دیر تک دعا فرماتے رہے۔ انھی دنوں کی بات ہے جب کہ حضرت بقید حیات تھے، ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت لاہوریؒ جامع مسجد نور میں تشریف لائے اور مسجد کے شمالی حصہ میں مدرسہ کے باورچی خانہ کے مقام پر [ابھی تک باورچی خانہ کی عمارت نہ بنی تھی] نیچے ریت بچھی ہوئی ہے۔ آپ کے ہاتھ میں عصا مبارک ہے اور کھدر کا لباس زیب تن ہے۔ میں نے لکڑی کے بنے ہوئے کھڑاؤں آپ کے پاؤں مبارک کے نیچے رکھ دیے۔ آپ نے انھیں پہن لیا اور باورچی خانہ کے حصہ میں پہنچ کر پھر واپس تشریف لے گئے۔‘‘ (الاکابر، ص ۲۷۹)
(۲) ’’نصرۃ العلوم کا ابتدائی دور تھا۔ میں نے دو دفعہ خواب میں حضرت حاجی امداد اللہ (مہاجر مکیؒ ) کو دیکھا۔ ایک دفعہ اس طرح کہ آپ گھوڑے پر سوار ہیں اور آپ کے ہاتھ میں نیزا پکڑا ہوا ہے۔ سر مبارک پر پگڑی باندھی ہوئی ہے۔ گلے پر، سر پر لمبے لمبے بال ہیں جو تقریباً کان سے نیچے اتر رہے ہیں اور سر کے بال بھی سفید ہیں، لیکن آپ کی داڑھی مبارک بالکل نہیں۔ آپ کوسج (کھودے) معلوم ہوتے ہیں۔ (واللہ اعلم)‘‘
(۳) ’’دوسری دفعہ حضرت حاجی امداد اللہؒ کو اس طرح خواب میں دیکھا کہ آپ اسی طرح کمیت گھوڑے پر سوار ہیں اور ہاتھ میں نیزا پکڑا ہوا ہے۔ سر مبارک پر دھاری دار لنگی، کلے پر باندھی ہوئی ہے۔ سر کے بال اسی طرح لمبے لمبے ہیں، البتہ داڑھی مبارک چار انگل سے زیادہ ہے، لیکن داڑھی مہندی سے رنگی ہوئی ہے۔ (واللہ اعلم)‘‘ (ماہنامہ نصرۃ العلوم کی خصوصی اشاعت بیاد مفسر قرآن، ص ۱۷۹)

شیخ الاسلام حضرت مدنی ؒ کے نام خط

اپنے استاد، پیر ومرشد شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کے نام اپنے ایک دستی بھیجے گئے خط میں مدرسہ کی تاسیس کی تاریخ بیان فرماتے ہیں:
’’بخدمت اقدس سیدی ومرشدی حضرت (مولانا سید حسین احمد) مدنی
اطال اللہ حیاتکم وافاض علینا من برکاتکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حضرت والا، امید ہے کہ بخیر وعافیت ہوں گے۔ چند گزارشات عرض کرنے کی گستاخی کر رہا ہوں۔ اگرچہ آپ کے قیمتی وقت کا خیال کرتے ہوئے یہ مناسب نہ تھا، لیکن مجبوری۔ عرض ہے کہ حضور والا نے بوقت بیعت تسبیحات ستہ اور پاس انفاس کی تلقین فرمائی تھی۔ تسبیحات ستہ تو اکثر ادا کرتا رہتا ہوں، لیکن پاس انفاس کا سلسلہ پابندی سے نہیں جاری رکھ سکا۔ دیگر عرض ہے کہ دماغ میں اکثر خیالات فاسدہ کا ہجوم رہتا ہے، ان کے رفع کرنے کے لیے کچھ ارشاد فرمائیں۔ طبیعت کی بے چینی اور پریشانی اور کچھ قرض ہو گیا ہے، اس سے نجات پانے کے لیے دعا فرمائیں۔
نیز گزارش ہے کہ یہاں گوجرانوالہ میں عرصہ پانچ سال سے [۱۳۷۲ھ بمطابق ۱۹۵۲ء۔ فیاض] ہم لوگوں نے ایک مدرسہ بنام ’’مدرسہ نصرۃ العلوم‘‘ جاری کیا ہے جس میں حضرت مولانا قاضی شمس الدین صاحب اور مولانا سرفراز خان صاحب اور تین اور مدرس تعلیم دیتے ہیں اور ۴۰ کے قریب بیرونی طلباء ہیں اور سوا سو کے قریب مقامی بچے جو ناظرہ قرآن کریم اور حفظ وتجوید قرآن کریم میں مصروف ہیں جن کے لیے ایک حافظ وقاری اور ایک ناظرہ پڑھانے والے ہیں۔ ۸ طالب علم اس وقت دورۂ حدیث شریف پڑھ رہے ہیں۔
حضرت والا سے عرض ہے کہ مدرسہ کی کامیابی کے لیے خصوصی دعا فرمائیں۔ میر غلام حسین صاحب حالات سے اچھی طرح واقف ہیں۔ امید ہے کہ اس گستاخی پر معاف فرمائیں گے۔
والسلام
یوم عاشوراء، ۱۰ محرم الحرام ۱۳۷۶ھ
احقر عبد الحمید سواتی ہزاروی
خادم مدرسہ نصرۃ العلوم وخطیب مسجد نور
متصل گھنٹہ گھر شہر، گوجرانوالہ (مغربی پاکستان)‘‘
اس خط کا جواب حضرت مدنی نے دیا تھا۔ ان کے خط کا اصل عکس ماہنامہ نصرۃ العلوم کی خصوصی اشاعت ’’مفسر قرآن نمبر‘‘ کے صفحہ ۸۴۴ پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ اللہم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ۔ آمین

مکاتیب

ادارہ

(۱)
جناب برادرم مولانا محمد عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے کہ آپ بخیریت ہوں گے۔
ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ کا ایک شمارہ ایک ساتھی کے پاس سے لے کر دیکھا۔ اس میں ایک ساتھی کے نام مکتوب میں آپ نے اپنا نظریہ بیان کیا۔ خلاصہ یہ معلوم ہوا کہ ابھی تک اثنا عشریہ شیعہ کے کفر پر اجماع امت نہیں ہوا، اس سلسلے میں تحقیق جاری ہے۔ بندہ نے مناسب سمجھا کہ اس تحقیقی عدالت میں وہ دلائل بھی پیش کر دوں جو گزشتہ صدی میں حضرت مولانا قاضی مظہر حسین صاحبؒ نے ایک تحقیقی دستاویز تیار کر کے حضر ت مولانا ایوب جان بنوریؒ کی خدمت میں بجھوائی تھی۔
حضرت مولانا محمد ایوب جان بنوریؒ نے حضرت مولانا قاضی مظہر حسین صاحبؒ کی خدمت میں ستمبر ۱۹۹۴ء میں ایک مکتوب بھیجا کہ اثنا عشریہ شیعہ کے کفریہ اور گمراہ کن عقائد کی دستاویز تیار کر کے بھیجیں تاکہ بڑے پڑھے لکھے طبقہ کو ان کے عقائد سے خبردار کر کے عوام اہل سنت کو اس فتنہ کی لپیٹ میں آنے سے بچایا جا سکے۔ ممکن ہے، وہ دستاویز آپ کی نظر سے نہ گزری ہو، اس لیے اس کی ایک کاپی ارسال خدمت ہے۔ امید ہے کہ آپ بغور مطالعہ کے بعد اپنی رائے سے مطلع فرمائیں گے۔
(مولانا) عبد الوحید حنفی
مدنی جامع مسجد۔ چکوال
(۲)
مکرمی مولانا عبد الوحید حنفی صاحب زید مجدکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ 
امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
آنجناب کا عنایت نامہ اورمرسلہ کتب موصول ہوئیں۔ بے حد شکریہ!
اہل تشیع کے بارے میں میرے موقف کی آپ نے جو تعبیر کی ہے، وہ درست نہیں۔ میں نے یہ نہیں کہا کہ چونکہ ابھی ان کے عقائد کی تحقیق ہو رہی ہے اور ابھی اجماع نہیں ہوا، اس لیے ان کی تکفیر نہیں کرنی چاہیے۔ اہل تشیع کے مخصوص عقائد ہمیشہ سے معلوم ومعروف ہیں۔ اس کے باوجود ان کی تکفیر پر نہ کبھی اجماع ہوا ہے، نہ ایسا کوئی اجماع ممکن ہے اور نہ یہ تکفیر فقہ وشریعت کے اصولوں اور امت مسلمہ کے اجتماعی مصالح کے لحاظ سے کوئی مطلوب یا مناسب رویہ ہے۔ ہاں، ان کے مخصوص نظریات کی شناعت اور قباحت کو ضرور واضح کرتے رہنا چاہیے اور صحیح العقیدہ عوام الناس کو ان کے اعتقادی شر سے محفوظ رکھنے کے لیے جن معاملات میں باہمی اختلاط سے روکنا ممکن اور قرین مصلحت ہو، وہاں اس کی تلقین بھی کرنی چاہیے۔ البتہ بحیثیت مجموعی وہ ہمیشہ امت مسلمہ کا حصہ سمجھے جاتے رہے ہیں اور سمجھے جاتے رہیں گے۔ نسبت اسلام کا احترام اور امت کے عملی مصالح، دونوں کا تقاضا یہ ہے کہ اس تفریق کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی جائے۔ جو حضرات آنکھیں بند کر کے ایک مخصوص ذہنی رَو میں انھیں امت سے کاٹ دینے کا تصور رکھتے ہیں، وہ فساد اور انتشار پھیلانے اور امت کی مشکلات میں اضافہ کرنے کے سوا کوئی خدمت انجام نہیں دے رہے۔
آپ نے حضرت مولانا قاضی مظہر حسین صاحب علیہ الرحمۃ کا مرتب کردہ جو رسالہ ازراہ عنایت بھیجا ، وہ میں نے دیکھ لیا ہے اور اس سے پہلے بھی اس موضوع پر ان کی بعض تحریریں نظر سے گزر چکی ہیں۔ اہل تشیع کے حوالے سے یہی موقف ہمارے بزرگ، شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کا بھی تھا، تاہم میرے علم کی حد تک یہ دونوں بزرگ اہل تشیع کی تکفیر کی بات اصولی اورنظری طور پر اور عوام کو ان کے فتنے سے محفوظ رکھنے کی حد تک کرنے پر عمل پیرا تھے۔ اس کی بنیاد پر کوئی تکفیری مہم چلانے یا اہل تشیع کو قادیانیوں کی طرح ہر سطح پر امت مسلمہ سے الگ کر دینے کے موقف یا تحریک کی، میرے علم کی حد تک، انھوں نے تائید نہیں کی۔ میں ذاتی طور پر اس مسئلے میں امام ابن تیمیہؒ وغیرہ کی رائے کو درست سمجھتا ہوں جو نظری واصولی تکفیر کے بھی قائل نہیں۔ تاہم جو حضرات نظری تکفیر کے قائل ہیں، ان کے لیے متوازن اور بہتر اسوہ وہی ہے جو اس معاملے میں حضرت قاضی صاحبؒ اور حضرت شیخ الحدیثؒ نے اختیار فرمایا۔
ہذا ما عندی والعلم عند اللہ۔
محمد عمار خان ناصر
۲۴؍ جنوری ۲۰۱۲ء
(۳)
محترم ومکرم جناب مختار احمد فاروقی صاحب
السلام و علیکم و رحمۃاللہ
امید ہے خیریت سے ہوں گے۔
آپ نے اپنے خط بنام مولانا زاہد الراشدی صاحب مدظلہ میں کچھ ایسی باتیں کی ہیں جو میری اس تحریر کی محرک بنی ہیں۔ امید ہے، آپ میری معروضات پر سنجیدگی سے غور فرمائیں گے۔
۱۔ ہر عام و خاص کو بخوبی علم ہے کہ ’الشریعہ‘ ایک ایسا فورم ہے جہاں ہر شخص کھلے دل کے ساتھ اپنے علم و استعداد کے مطابق مہذب انداز اختیار کرتے ہوئے اپنا موقف پیش کرسکتا ہے۔ جہاں تک آپ کی اس بات کا تعلق ہے کہ اس مجلہ میں خاص طور پر آپ کی جماعت یعنی سپاہ صحابہ کی ہر بات کو رد کیا جاتا ہے تو یہ بات درست نہیں۔ اس فورم پر ہر اس ایشو پر گفتگو ہوتی ہے جس کے متعلق ہمارے معاشرے میں کوئی اشکال پایا جاتا ہو۔ جہاں تک آپ کی جماعت سپاہ صحابہ کا تعلق ہے تو اس کی پالیسی ا ور طرز عمل بھی کافی نزاعی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الشریعہ کے صفحات میں آپ کی جماعت اکثر موضوع سخن رہی ہے۔ 
۲۔ آپ کی جماعت کی اکثریت سطحی فکر و عمل کے افرد پر مشتمل ہے۔ اس بات کا اندازہ آپ کے خط سے بھی ہوا کہ فتویٰ امام ابن تیمیہ نے دیا اور آنجناب کی گرفت میں بے چارے عمار خان ناصرآگئے۔ یہ سوال تو ابن تیمیہ سے ہونا چاہیے تھا کہ آیا رافضی صرف بدعتی ہیں یا تحریف قرآن اور صحابہ کرام و امہات المومنین کی شان میں تبرا جیسے جرم کے ارتکاب کی وجہ سے کافر بھی ہیں! امام ابن تیمیہ شیعوں کے تمام عقائد سے بخوبی آگاہ تھے اور اسی بنا پر انہوں نے مختلف مواقع پر اس قسم کے فتوے بھی دیے۔ اگر آپ احقر اور مولانا عمار خان ناصر صاحب مد ظلہ کی گفتگو جو دسمبر اور جنوری میں شائع ہوئی، منصفانہ مزاج اختیار کرتے ہوئے تسلی سے پڑھیں تو آپ کے لیے بات سمجھنا آسان ہوگا ۔
۳۔ کچھ لوگوں کاخیال ہے کہ آپ حضرات کاصرف طریقہ درست نہیں اور شیعیت کے خلاف آپ کا جو موقف ہے، وہ درست ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ کے طرز عمل کے ساتھ ساتھ آپ کا موقف بھی درست نہیں۔ یقیناًآپ جواباً فتووں کی بات کریں گے کہ کافی مفتیان کرام کے ان کے خلاف فتوے موجود ہیں ۔یہ بات درست ہے کہ علماء نے اپنے فرض منصبی کو بجا لاتے ہوئے ہر دور میں باطل فرقوں کا مقابلہ مختلف زاویوں سے اس کے نتائج کو سامنے رکھ کر کیا۔ شیعیت پر جو کفر کے فتوے ہیں، وہ بھی شیعیت کو روکنے کا ایک زاویہ ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ وہ موثر رہا یا نہیں؟ اور ہر دور میں اختلاف بھی رہا۔ کچھ تکفیر کے قائل تھے تو کچھ عدم تکفیر کے، لیکن کسی بھی موقع پر شیعیت کو روکنے کے لیے نہ تو ان کو اجتماعی معاملات سے الگ رکھا گیا اور نہ ہی کوئی منظم صورت اختیار کر کے ایک تحریکی انداز میں ان کے خلاف صف آرائی کی گئی۔
آپ سے بہتر کون جانتا ہوگا کہ حضرت حسین احمد مدنی رحمہ اللہ نے بھی شیعہ اثنا عشری کے خلاف فتوے جمع کیے، لیکن انہوں نہ تو ان فتووں کی بنیاد پر کوئی تنظیم بنائی اور نہ ہی ان فتووں کو گلی بازاروں میں لہرا کر ایک عام آدمی کو فتوے کی زبان فراہم کی، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ عام آدمی کو فتوے کی حیثیت اور صورت کا اندازہ نہیں اور اس کو کیا خبر کہ تحدیدی فتویٰ کس کو کہتے ہیں اور قانونی اور اجتماعی اعتبار سے فتویٰ کی کیا حیثیت ہے۔ ہمارے دور میں بھی خمینی انقلاب کے بعد ایک تکفیری مہم شروع ہوئی۔ علما نے اس کا راستہ روکنے کے لیے اسی صورت کا انتخاب کیا اور ایک حد تک کامیاب بھی ہوئے، لیکن آپ حضرات نے ان فتووں کو بنیاد بنا کر ایک جماعتی صورت اختیار کر لی۔ ہرذی علم جانتا ہے کہ آپ کی جماعت کی بنیاد میں کسی بھی مفتی یا اکابر کی تائید شامل نہیں جس نے فتویٰ دیاہو اور نہ بعد میں آپ کو کسی مفتی نے اس بات کی اجازت دی کہ یہ ہمارے فتوے ہیں، آپ ان کو گلی بازاروں اور چوک چوراہوں میں پیش کریں اور نہ ہی کسی مفتی نے یہ کہا کہ آپ میدان میں اتریں اور نعرہ لگائیں ’’کافر کافر‘‘، میں آپ کے ساتھ ہوں۔ یہ حقائق اس بات پر دال ہیں کہ علما نے جو فتوے دیے، ان کا دائرہ اور حیثیت کچھ اور تھی۔
۴۔ جہاں تک عظمت صحابہ کے دفاع اور شان صحابہؓ بیان کرنے کا تعلق ہے، یقیناًیہ ایک مبارک عمل ہے اورفرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم: فمن احبہم فبحبی احبہم ومن ابغضہم فببغضی ابغضہم  کے عین مطابق ہے، لیکن جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے محبت کا درس دیا، وہیں ان کی اہانت و گستاخی کرنے والے کے لیے وعید بھی سنائی اور امت کو اس کے ساتھ برتاؤ کا طریقہ بھی سمجھایا۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اذا رایتم الذین یسبون اصحابی فقولوا لعنۃ اللہ علیٰ شرکم‘‘ یعنی جب دیکھو ان لوگوں کو جو براکہتے ہوں ہمارے اصحاب کو تو کہو کہ اللہ کی لعنت ہے تمہارے شر پر۔ (ازنقل روایت مع ترجمہ فتویٰ عزیز ی کامل، ص۳۵۶) 
اس فرمان سے بالکل واضح ہے کہ صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کا مرتکب لعنت کا مستحق ہے اور یہ گناہ کبیرہ ہے تو کیوں نہ آپ کا موقف بھی عین فرمودات حضرت محمد کا پرتو ہوتا! پر ایسا نہ ہوا، حداعتدال سے تجاوز کیا گیاجس کے یقیناًاثرات مثبت سامنے نہیں آنے تھے۔ مزید یہ کہ فقہاء کرام اور جمہورعلماء کا بھی مفتیٰ بہ قول یہی ہی کہ سبِّ صحابہ کفر نہیں، فسق ہے۔میں حضرت مفتی عبد الحئی لکھنوی رحمہ اللہ کا صرف ایک حوالہ پیش کرنا چاہوں گا۔ وہ فرماتے ہیں کہ بعض روافض کی بعض باتیں بدعت ہیں، کفر نہیں ہیں جیسے ان کا یہ کہنا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ حضرات شیخینؓ سے افضل ہیں اور بعض حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مخالف (جیسے حضرت عائشہ صدیقہؓ اور حضرت امیر معاویہؓ )پر لعنت کو واجب لکھتے ہیں تو یہ اور ان کے مشابہ تمام امور بدعت ہیں، کفر نہیں کیونکہ یہ تاویل کے بعد کیے جاتے ہیں۔ بحرالعلوم مولانا عبدالعلی ؒ شرح مسلم الثبوت میں لکھتے ہیں: 
الصحیح عند الحنفیہ ان الروافض لیسوا بکفار والوجہ فیہ ان تدینہم او دفعہم فی ما دفعوا زعما منہم انہم علی الدین المحمدی وان کا ن زعمہم ہٰذا باطلاً وما کذبوا محمدا صلی اللہ علیہ وسلم فہم غیر ملتزمین للکفر والتزام الکفر کفر دون لزومہ۔
یعنی حنفیہ ؒ کے نزدیک صحیح یہ ہے کہ روافض کافر نہیں ہیں، کیونکہ وہ جو دین رکھتے ہیں اور جو کچھ کرتے ہیں، یہ سمجھ کر کرتے ہیں کہ یہی دین محمدی ہے۔ اگر چہ ان کا یہ خیال غلط ہو، لیکن وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو (اپنے نزدیک) نہیں جھٹلاتے، پس کفرکو اپنے سر نہیں لیتے اور کفر کو لازم لے لینا کفر ہے نہ کہ اس کا لازم آنا۔ ( مجموعۃ الفتاویٰ، جلددوئم ص ۲۳۵، کتاب الحظر والاباحۃ)
اس طرح کے اقوال اس موضوع پر اور بھی کافی علما کے موجود ہیں اور ایسے اقوال و آرا کی موجودگی میں آپ حضرات کو کس نے اتنی شدت پسندی اختیار کرنے پر مجبور کیا کہ معاملہ قتل و قتال پر منتج ہوا اور ابھی تک جاری ہے ۔ جب شریعت میں دونوں چیزیں یعنی حب صحابہ اور گستاخی صحابہ نتائج اور انجام کے اعتبار سے بالکل واضح ہیں تو کیوں نہ اس معاملے میں جذبات کے تقاضوں کے بجائے شریعت کے تقاضوں پر عمل کیا گیا!
آخر میں میری آپ سے درخواست ہے کہ ابھی بھی وقت ہے اور تمام دینی جماعتیں بھی آپ سے یہی تقاضا کرتی چلی آرہی ہیں کہ براہ کرم اپنے فکر و عمل کی تبدیلی پر غور کریں اور حقیقت پسندی سے ماضی کی پالیسیوں کا بھی تجزیہ کریں۔ یہ بات واضح ہے کہ اس راستے میں آپ کو کافی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایک درجن سے زائد قائدین کی شہادت کے علاوہ بے شمار افراد اس کشمکش میں داعی اجل کو لبیک کہہ چکے ہیں۔ یقیناًان کے اخلاص کے بارے میں حسن ظن رکھنا چاہیے اور بغیر کسی شبہ کے وہ قابل تحسین ہیں، لیکن کیا اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی گستاخی صحابہ میں کمی آئی ہے یا اس میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا آرہا ہے؟ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ آپ کے گڑھ جھنگ میں حضرت عثمانؓ کی شان میں بے ادبی جیسا دلخراش واقعہ بھی رونما ہوا۔
ایک طرف آپ ہیں جو حب صحابہ کا دعویٰ کیے اس راستے میں جانیں قربان کرتے چلے آرہے ہیں تو دوسری طرف شیعہ ہیں جو حب آل رسول کے دعوے میں اپنی جانیں قربان کیے چلے آرہے ہیں۔ یہ کب تک چلے گا ؟ براہ کرم آپ گستاخی صحابہ جیسی مذموم حرکت کو روکنے میں سنجیدگی کا راستہ اختیار کریں اور یہ کفریہ نعروں کو ترک کریں اور شیعوں کو قانونی اور اجتماعی معاملات میں امت کا حصہ سمجھیں۔ انفرادی معاملات میں آپ کو کلی اختیار ہے کہ آپ اس کے برعکس معاملہ رکھیں۔ یقیناًاس طرح کے اقدامات ایک دوسرے کو قریب لانے میں مدد گار ثابت ہوں گے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ شیعوں میں کچھ سنجیدہ طبقہ ہے جو سب و شتم کو صحیح نہیں سمجھتااور اس حوالے سے ماضی میں آپ کی اور ان کی باہمی کی کوششوں کی مثالیں بھی ملی یکجہتی کونسل، متحدہ علماء بورڈ وغیرہ کی صورت میں موجود ہیں۔ ایسے فورمز کو دوبارہ فعال کرنے کا مطالبہ بھی شیعوں کی طرف سے ہوتا رہتا ہے۔ ایسے ہی انداز کو اختیار کرتے ہوئے کوئی ایسی حکمت عملی ترتیب دیں جو اہانت اصحاب رسول کو مستقل طور پر روکنے میں کار گر ثابت ہو اور ہم سب من حیث القوم اصحاب رسول کی بے ادبی جیسے واقعات کو روکنے میں یک آواز ہوں۔ 
مجھے حیرت ہوتی ہے جب کوئی آپ سے اس طرح کا مطالبہ کرتا ہے تو آپ یہ کہتے ہیں کہ اس طرح کرنے سے ہمارے قائدین جنہوں نے شہادتوں کا نذرانہ اس راہ میں پیش کیا، وہ غلط قرار پائیں گے۔ یقیناًان حضرات کے اخلاص میں کسی کو شک نہیں، پر ایک تجربہ ہمارے سامنے موجود ہے کہ اس فکر و عمل سے امت کو فائدہ نہیں ہو رہا اور وہ انسان تھے، معصوم نہیں تھے جن سے غلطی کا صادر ہونا محال ہو۔ حسن ظن اختیار کرتے ہوئے ان کی اس خطا کو اجتہادی خطا بھی قرار دیا جا سکتا ہے جو یقیناًان کے شرف میں عدم خلل کا باعث ہو گا۔امید ہے، غور فرمائیں گے۔
اک طرز تغافل ہے سو وہ تم کو مبارک
اک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے 
حافظ محمد فرقان انصاری
ٹنڈو آدم
(۴)
بخدمت گرامی قدر مولانا زاہد الراشدی صاحب
خیریت موجود، عافیت مطلوب۔
جنوری کا شمارہ ملا اور ایک ہی نشست میں پڑھنے کی من جانب اللہ توفیق مل گئی۔ الحمد للہ علیٰ ذالک۔
محترم مولانا زاہد حسین رشیدی کے مضمون کی توضیح آنجناب کے قلم سے پسند آئی، تاہم مزید تسلی درکار ہے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں رائے، اجتہاد اور فتویٰ کو خلط ملط کر دیا گیا ہے، جبکہ تینوں کے دائرۂ کار الگ الگ ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ اس عنوان کو ذرا وسعت دے دی جائے، کیونکہ محسوس ہوتا ہے کہ آپ پوری قوم کو بغیر کسی معیار کے ’’اصحاب الرائے‘‘ کا درجہ دینا چاہتے ہیں۔
جب ہر شخص مجتہد اور مفتی نہیں بن سکتا تو پھر ہر شخص صاحب الرائے کیسے بن سکتا ہے؟ راقم کا خیال ہے کہ ’’اظہار‘‘ اور ’’رائے‘‘ کے لطیف فرق کو بھی واضح کر دینا چاہیے۔ اظہار مافی الضمیر کا حق تو سب کو ہے، مگر رائے دینے کے لیے حدود وقیود ضروری نہیں۔ یہاں تو کہنے والے کو خود پتہ نہیں ہوتا کہ میں رائے دے رہا ہوں، فتویٰ دے رہا ہوں یا اپنا اجتہاد پیش کر رہا ہوں۔ قرآن وسنت کے قطعی اور اعتقادی مسائل میں کسی کی رائے کی رائی کے برابر بھی کوئی وقعت نہیں ہے، البتہ وہ فروعی مسائل اجتہادیہ جن میں کتب وسنت کی نصوص ساکت یا مبہم ہیں، ان کے متعلق رائے ضرور ہونی چاہیے، مگر رائے کا انداز ایسا نہ ہو کہ کسی فرد یا طبقے کی دل شکنی ہو۔ معذرت کے ساتھ جسارت کروں گا کہ ’’الشریعہ‘‘ میں بعض حضرات رائے کی آڑ میں نفرتوں کے بیج بو رہے ہیں۔ معاشرے کی کسی بھی خامی اور کوتاہی کو وہ اہل مذہب کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں اور پھر ’’مولویت‘‘ کی پگڑیوں کے بل کھول کھول کر اپنا ستر ڈھانپنے کی لاحاصل مشق شروع کر دیتے ہیں۔ اس لیے ازراہ کرم بدگمانی اور بد زبانی کو بھی رائے کا نام نہ دیا جائے۔
راقم کے نزدیک عصر حاضر کا ایک بڑا المیہ ’’مفتی ازم‘‘ ہے۔ فی زمانہ ہر عنوان پر کام کرنے والے فتوے کی زبان استعمال کرتے ہیں۔ تحقیقی یا دعوتی مزاج اپنا بوریا بستر گول کر گیا ہے۔ راقم نے حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کی ’’تحفہ اثنا عشریہ‘‘ بالاستیعاب اور ایک سے زائد مرتبہ پڑھی، مگر صفحہ اول سے لے کر صفحہ آخر تک کہیں فتوے کی زبان نہیں ہے۔ اردو لٹریچر میں علماء اہل سنت کی بے شمار ایسی مثالیں موجود ہیں۔ قائد اہل سنت مولانا قاضی مظہر حسینؒ نے ساری زندگی رد پر کام کیا ہے، مگر راقم کا دعویٰ ہے کہ کہیں بھی ان کا تقویٰ، فتوے کی زد میں نہیں آیا۔ مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے معتدل اور متوازن مزاج کو آنجناب سے بڑھ کر بھلا کون جانتا ہوگا؟ اس لیے مخدوم من! آپ ’’فتوے‘‘ کا تو ذکر ہی چھوڑ دیں، ’’اجتہاد‘‘، ’’اظہار‘‘ اور ’’رائے‘‘ کو ذرا کھول کر پیش فرما دیں کہ اظہاریہ میں اسلوب کیا ہونا چاہیے؟ رائے دینے یا کسی کی رائے سننے کے لیے ضابطہ اخلاق کیا ہے؟ اور مجتہد کے اوصاف یا اجتہاد کی شرائط کیا ہیں؟ اسی طرح رائے دے کر جو فارغ ہو جائے، وہ تو صاحب رائے ہوگا، لیکن جو رائے کو مسلط کرنے کی کوشش کرے، اسے کون سا نام دیا جائے گا؟ براہ کرم اس پر سیر حاصل بحث ہو جائے تو بھلا ہوگا۔
جامع مسجد نور کے تاریخی پس منظر پر لکھے گئے مضمون نے بہت متاثر کیا۔ حیات سدید کے ’’ناسدید‘‘ پہلو بھی قیمتی سودا ہے۔ حافظ صفوان صاحب کا مکتوب پڑھ کر بڑا متحیر ہوا کہ کیڑوں کی خوراک بننے والا انسان بھی تعلی وکبر کا اتنا مریض ہو سکتا ہے؟ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
حافظ عبد الجبار سلفی
ملتان روڈ، لاہور

مولانا ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقیؒ

مولانا جمیل الرحمٰن فاروقی

علم وعمل کے پیکر، خلوص ووفا کے مجسم، محقق ومحدث، مصنف وادیب، داعی ومبلغ، دینی اور عصری علوم کے شناور مولانا ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی کا ندھلویؒ ۳۰ دسمبر ۲۰۰۱ء بروز جمعہ اپنے متعلقین کو حیرت زدہ چھوڑ کردار فانی سے دارالبقا کی طرف کوچ کرگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ جانا تو سب کو ہے،اس سفر پر مسافر روز جاتے ہیں مگر ڈاکٹر صاحب اتنا اچانک چلے گئے کہ یقین نہیں آرہا۔ 
ڈاکٹر صاحب کو بظاہر کوئی بیماری اور عارضہ لاحق نہ تھا۔ ۶۹ سال کی عمر میں بھی تندرست وتوانا اور قابل رشک صحت تھی۔ اس روز سج دھج کر جمعۃ المبارک کی ادائیگی کے لیے پا بہ رکاب تھے۔ ان کے چھوٹے بیٹے کی شادی کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ مکان کی دوسری منزل کی تعمیر کا کام حال ہی میں مکمل ہوا تھا۔ گھر والوں سے کہا کہ ’’جمعۃ المبارک کے بعد سب مل کر نئے گھر میں قرآن کریم کی تلاوت کرلینا۔ میں درس قرآن سے اس کا افتتاح کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ یہ جملے حضرت کی زبان پر تھے کہ وقت موعود آپہنچا۔ ۵ دسمبر ۱۹۴۳ء سے ۳۰دسمبر ۲۰۱۱ء تک کا سفر پورا ہوااور حرکت قلب بند ہوگئی۔ پاکیزہ روح عالم بالا کو پرواز کرگئی اور ان کا معطر جسد خاکی آخرت کی پہلی منزل میں جاسکون پذیر ہوا۔
مولانا ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی مرحوم ’’صدیقی‘‘ نسبتوں کے امین اور خاندان کاندھلہ کے روشن ستارے تھے جن کی علمی، تحقیقی اور تبلیغی خدمات کا زمانہ معترف ہے۔ ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی، مفتی اشفاق الرحمن کاندھلویؒ کے صاحبزادے اور ’’سیرت المصطفیٰ‘‘ کے مصنف مولانا ادریس کاندھلویؒ کے بھانجے تھے۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم کے تین بھائی مولانا حبیب الرحمن صدیقی کاندھلوی، مولانا حامد الرحمن صدیقی کاندھلوی اور مولانا عبدالرحمن صدیقی کاندھلوی بھی جید عالم اور محقق ومدرس تھے۔ اس عظیم خاندان کے متعلق بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ: ایں خانہ ہمہ آفتاب است۔
مولانا ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی کی تعلیمی، تدریسی، تصنیفی اور عملی زندگی کا جائزہ پیش کیا جائے تو وہ جہد مسلسل سے عبارت نظر آتی ہے۔ مولانا کے والد گرامی مفتی اشفاق الرحمن کاندھلوی دارالعلوم اسلامیہ ٹنڈو الٰہ یار کے ابتدائی دور کے بڑے اساتذہ میں تھے۔ ادارے کے مہتمم مولانا احتشام الحق تھانویؒ کی مستقل رہائش کراچی میں ہونے کے سبب مفتی اشفاق الرحمن کاندھلوی دارالعلوم اسلامیہ ٹنڈو الٰہ یار کے قائم مقام مہتمم کے منصب پر بھی فائز رہے۔
ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی نے درس نظامی کی تکمیل اپنے والد کے زیر سایہ ٹنڈو الٰہ یار میں کی۔درس نظامی کے بعد محدث العصر مولانا محمد یوسف بنوریؒ کے پاس جامعہ بنوری ٹاؤن میں تخصص فی الحدیث کیا۔ جامعہ بنوری ٹاؤن میں داخلے کا واقعہ سناتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے ایک مجلس میں بتایا کہ جب ٹنڈو الٰہ یار سے حضرت بنوریؒ کے پاس حاضر ہوا تو حضرت نے پوچھا کہ کس درجے میں داخلہ لینا ہے اور کیا پڑھنا ہے؟ میں نے حضرت بنوریؒ سے عرض کیا کہ حضرت! کسی درجے یا کتاب کا انتخاب تو نہیں کیا، مگر استاذ کا انتخاب کرکے آیا ہوں۔ میرے والدصاحب نے آپ کے پاس یہ کہہ کر بھیجا ہے کہ اگر کچھ بننا چاہتے ہو تو حضرت بنوریؒ کے پاس تھوڑا وقت گزار لو۔ فرمایا کہ میرے اس جواب سے حضرت بنوریؒ بہت خوش ہوئے اور خصوصی شفقت وتربیت کا شرف بخشا۔
ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی مرحوم حضرت مولانا محمد یوسف بنوری قدس سرہ سے بہت متاثر تھے۔ تخصصات کے طلبہ کو دوران لیکچر اکثر ان کے انداز تربیت کا حوالہ دیتے اور اسی نہج پر تربیت کرتے تھے۔ زباں دانی کی اہمیت کا احساس دلاتے ہوئے فرماتے کہ یہ طرز ہمارے حضرت بنوریؒ کا تھا کہ وہ تخصصات کے شرکا کو عربی سکھانے کے لیے مصر سے اساتذہ کو بلاتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک موقع پر اپنے متعلق بتایا کہ میں نے حضرت بنوریؒ کے حکم پر صرف تین ماہ میں انگلش سیکھی اور اردو میں مضمون نویسی کی مشق بھی حضرت بنوریؒ کے زیر نگرانی کی ہے۔
ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی نے سندھ یونیورسٹی جام شورو سے امتیازی نمبروں میں ایم اے کیا اور گولڈ میڈل حاصل کیا جبکہ مولانا محمد ادریس کاندھلوی کے مخطوطہ الفیۃ العراقی کی شرح منحۃ المغیث تحریر کرکے پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ (یہ کتاب حال ہی میں بیروت سے شائع ہوئی ہے)۔
ڈاکٹر صاحب نے عملی زندگی کا آغاز مرکز التحقیق دیال سنگھ لائبریری لاہور سے کیا۔ یہاں کے علمی ماحول میں تحقیقی کتابیں لکھیں اور اہم ترین عنوانات پر مقالے تحریر کیے۔ ان کے بہترین تحقیقی کاموں، عمدہ تحریروں، علمی تعمق اور فکری گہرائی وگیرائی کے سبب جنرل ضیاء الحق کے دور میں ڈاکٹر صاحب کو ۱۹۷۹ء میں وفاقی شرعی عدالت اسلام آباد کا ریسرچ ایڈوائزر بنا دیا گیا۔ وفاقی شرعی عدالتوں کا قیام ۱۹۷۸ء میں عمل میں آیا تھا۔ تحقیق وریسرچ کے کام کی شروعات تھیں اور اسلامی قوانین اور دستور کے مسودات اور متن کی تیاری جیسے حساس امور طے پارہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب اس ٹیم کے اہم فرد تھے جنہوں نے وفاقی شرعی عدالت میں تحقیق کا کام سرانجام دیا۔ دوران درس تلامذہ سے فرمایا کرتے تھے کہ وفاقی شرعی عدالت میں بہت سے قوانین کے مسودے اور آئین کی متعدد شقوں کا متن تحریر کرنے کا اعزاز اللہ تعالیٰ نے میرے قلم کو عطا فرمایا ہے۔ ۱۹۷۹ء تا ۱۹۹۵ء وفاقی شرعی عدالت میں خدمات سرانجام دیں۔ اس دوران بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں لیکچر بھی دیتے رہے اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد میں ایم فل کے شعبے کے سپروائزر بھی رہے۔
۱۹۹۵ء میں برونائی دارالسلام کی اسلامی یونیورسٹی کے اصرار پر برونائی تشریف لے گئے جہاں ۲۰۰۶ء تک یونیورسٹی کے شعبہ علوم اسلامی کے نگران کے طور پر خداداد صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔برونائی دارالسلام سے واپسی پر کراچی میں مستقل سکونت اختیار کرلی اور جامعہ دارالعلوم کراچی کے شعبہ تخصص فی الدعوۃ والارشاد کے مسؤل کے طور پر تادم رحلت تحقیقی وتدریسی کاموں میں مشغول رہے۔ دارالعلوم کراچی کے شعبہ تخصص فی الدعوۃ کا جامع نصاب ترتیب دیا اور شرکا پر خوب محنت کی۔ اس دوسالہ نصاب کو پاکستان کی بڑی جامعات میں بہت پذیرائی حاصل ہوئی۔ اب تک متعدد بڑے دینی ادارے تخصص فی الدعوۃ والارشاد کا اجرا کرکے اس نصاب کو شروع کر چکے ہیں۔مجلس صوت الاسلام کلفٹن کے تحت ’’تربیت علماء کورس‘‘ میں بھی یہی نصاب پڑھایا جارہا ہے جس کی مکمل نگرانی بھی ڈاکٹر صاحب کیا کرتے تھے اور ہفتے میں دو دن شام کے اوقات میں ’’دعوت دین اور تقابل ادیان کے اسباق بھی خود پڑھاتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب جہاں دیدہ شخصیت اور جامع المعقول والمنقول تھے۔ اصول حدیث، اصول فقہ، تاریخ، ادب، علم الکلام، فلسفہ، قانون اور ادیان پر مہارت تامہ رکھتے تھے۔ وہ تخصص کرنے والے اپنے شاگردوں کو فکر ونظر کی کشمکش کے اس دور میں افکار شاہ ولی اللہ کے عمیق مطالعے اور ان کی طرز میں کام کی ترغیب دیتے تھے۔ وہ مغربی تہذیب وفلسفے کے زبردست ناقد تھے۔ ان دنوں اس موضوع پر تحقیقی کام کررہے تھے اور ’’اسلام اور انتہا پسندی‘ مشرق کا مقدمہ مغرب کی عدالت میں‘‘ کے نام سے کتاب تحریر کررہے تھے جس پر کافی کام ہوچکا تھا۔ اس میں ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ ’’موجودہ مغربی تہذیب وفلسفہ دراصل یونانی تہذیب وفلسفے اور رومن تہذیب کا چربہ ہے جو دیگر تہذیبوں کے وجود کو تسلیم نہیں کرتا۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ کچھ افرادِ کار تیار ہوکر دلیل اور ڈائیلاگ کی قوت سے مغربی تہذیب کی یلغار کا مقابلہ کریں اور اس کے تار وپود بکھیر دیں۔ اگر دلیل کی قوت سے مغربی تہذیب کا رد شروع ہوگیا تو مغربی تہذیب چند سال میں دنیا کے نقشے سے حرف غلط کی طرح مٹ جائے گی‘‘۔
ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی مرحوم اردو، عربی اور انگلش کے باقاعدہ ادیب تھے۔ ان تینوں زبانوں میں دو درجن سے زائد علمی وتحقیقی کتابیں تحریر فرمائی ہیں۔ 
وہ مرنجاں مرنج شخصیت تھے۔ جو ان سے ایک بار ملاقات کرلیتا تو بار بار ملنے کو جی چاہتا تھا، ان سے آخری ملاقات ان کے سفر آخرت پر روانہ ہونے سے دو دن قبل 27دسمبر کو ایک تقریب میں ہوئی۔ یہ تقریب نوجوان فضلاء کرام کیلئے سہ روزہ تربیتی ورکشاپ کے طور پر منعقد تھی جس نشست میں ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی نے خطاب کیا، اس کے مہمان خصوصی مولانا ڈاکٹر سید سلمان ندوی تھے اور اس نشست کا موضوع ’’عصری تحدیات اور علماء کرام کی ذمے داریاں ‘‘ تھا۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم نے اس عنوان پر اس قدر جامع خطاب کیا کہ مہمان خصوصی سمیت سب خطبا نے کہا کہ ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی نے ہمارے کہنے کے لیے کچھ نہیں چھوڑا۔
ڈاکٹر صاحب قحط الرجال کے اس دور میں علما وطلبا اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھنے والے طبقے کے لیے فکری اثاثہ تھے۔شفیق رہبر اور ہمہ وقت دستیاب ایک انمول خزانہ تھے۔ ان کی اچانک جدائی پر ان کے صاحبزادگان نعیم الرحمن صدیقی‘ انیس الرحمن صدیقی‘ رضاء الرحمن صدیقی‘ رضی الرحمن صدیقی اور دیگر اہل خانہ ہی نہیں بلکہ ہزاروں شاگرد اور عقیدت مند سوگوار ہیں۔ ہزاروں طلبا وعلما کو اس بات پر فخر ہے کہ انہوں نے مولانا ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی جیسے عظیم استاذ کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کیے ہیں۔

مہتمم جامعہ نصرۃ العلوم کا الشریعہ اکادمی کی لائبریری کیلئے گرانقدر عطیہ

ادارہ

گزشتہ دنوں مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے مہتمم جناب مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی نے مفسر قرآن حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی رحمۃ اللہ علیہ کے ایصال ثواب کے لیے ان کے ذاتی ذخیرۂ کتب سے حضرت صوفی صاحب کے زیر مطالعہ رہنے والی عربی، اردو اور انگریزی کتب کا ایک گراں قدر عطیہ الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کی لائبریری کے لیے عنایت فرمایا جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:

  • ترجمہ ’’معجز نما حمائل شریف‘‘
  • فارسی ترجمہ قرآن شاہ ولی اللہؒ (۳ مختلف نسخے)
  • ترجمہ قرآن شاہ عبد القادرؒ 
  • ترجمہ قرآن ڈپٹی نذیر احمدؒ 
  • ترجمہ قرآن مولانا فتح محمد
  • انوار التبیان (قاضی شمس الدینؒ )
  • تفسیر جمل (۴  جلدیں)
  • مسوی/مصفی شرح موطا (۲ جلدیں)
  • تفسیر الکشاف (۴  جلدیں)
  • بیان القرآن کلاں (۴ جلدیں)
  • تفسیر حقانی کلاں (۳  جلدیں)
  • احکام القرآن للجصاص (۳ جلدیں)
  • انگریزی ترجمہ قرآن محمد اسدؒ  
  • انگریزی ترجمہ قرآن پکتھال
  • انگریزی ترجمہ قرآن عبد اللہ یوسف علیؒ 
  • انگریزی ترجمہ قرآن عبد الحمید صدیقی ؒ (۱۱؍ اجزا)
  • البیان والتبیین للجاحظ (۳ جلدیں)
  • مجمع الامثال للمیدانی (۲ جلدیں)
  • الشوقیات (۴  حصے)
  • کتاب الامالی لابی علی القالی (۳ جلدیں)
  • کتاب سیبویہ مع شرح السیرافی (۴  جلدیں)
  • ازالۃ الخفاء فی خلافۃ الخلفاء
  • ادب الکاتب لابن قتیبہ
  • مثنوی مع شرح بحر العلوم (۳ جلدیں)
  • مثنوی مولانا روم (۲  جلدیں)
  • فتح الملہم شرح صحیح مسلم (۳ جلدیں)
  • تفسیر حسینی (۲  جلدیں)
  • تفسیر ماجدی (۳ جلدیں)
  • کیمیائے سعادت 
  • بیاض کبیر
  • کتاب الادویہ
  • التبیان فی علوم القرآن للصابونی
  • مختار الصحاح 
  • المنجد فی الادب والعلوم
  • احسن الکلام (قدیم اشاعت)
  • رسالہ تراویح 
  • عمدۃ الاثاث
  • ازالۃ الریب
  • آنکھوں کی ٹھنڈک
  • مباحث کتاب الایمان صحیح مسلم
  • النجم السعد فی مباحث اما بعد
  • کلام مقدس (کیتھولک) اردو
  • ابطال التندید
  • تحقیق الحق (پیر مہر علی شاہؒ صاحب گولڑوی)
  • سیر الاولیاء
  • بہجۃ الدعوۃ والتبلیغ
  • نخبۃ اللآلی شرح بدء الامالی
  • شرح بوستان
  • فتح اللہ بخصائص اسم اللہ
  • المنتخبات من المکتوبات
  • فتاویٰ عزیزی (فارسی)
  • کشف المحجوب (فارسی)
  • سیف چشتیائی (پیر مہر علی شاہؒ صاحب گولڑوی)
  • جواہر التوحید
  • مرآۃ العاشقین
  • الطاف القدس
  • الفتح الرحمانی
  • دیوان الحماسہ
  • اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ (۴ جلدیں)
  • السراج المنیر شرح الجامع الصغیر (۳ جلدیں)
  • مثنوی معنوی مولانا روم (۶ جلدیں)
  • Dictionary of the Jewish Religion
  • The Talmudic Anthology
  • Learn Talmud
  • Holy Bible - King James Version

اکادمی کی مجلس منتظمہ اس گراں قدر عطیے پر اظہار تشکر کے ساتھ دعاگو ہے کہ ان بلند پایہ علمی کتابوں سے علما وطلبہ کا استفادہ حضرت صوفی صاحبؒ اور ان کے اہل خانہ کے لیے صدقہ جاریہ اور رفع درجات کا ذریعہ ثابت ہو۔ آمین

سادہ خوراک اور انسانی صحت

حکیم محمد عمران مغل

ہر ذی روح کی بقا کے لیے جو چیز سب سے زیادہ ضروری ہے، وہ ہے تازہ ہوا اور بے رنگ، بے بو ، بے ذائقہ پانی۔ یہ دونوں نعمتیں ہر ایک کی دسترس میں دے دی گئی ہیں۔ جب جی چاہے، بغیر مشقت اور اخراجات کے ان سے فائدہ اٹھائیے۔ دیگر اشیا تقریباً سب ضمنی ہیں جن کے تصرف میں دن رات اضافہ کیا جا رہا ہے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بھوک یہ ہے کہ پانی میں نمک گھول کر اس سے جتنی روٹی کھائی جا سکے، بس۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ جس آدمی کی آمدن جتنی زیادہ ہے، اس کا دستر خوان بھی اتنا ہی وسیع ہے جو بالآخر اسے وقت سے پہلے قبرستان پہنچا دیتا ہے۔ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مجھے اپنی امت کی غربت کا اتنا ڈر نہیں ہے جتنا اس کی امارت کا ہے۔ آج معاشرے میں پھیلی ہوئی ہر گمراہی اور برائی کے پیچھے امارت ہی ہے۔ مشروبات ہوں یا خوراک یا بود وباش،تاحد نگاہ ان کی وسعت پھیلتی جا رہی ہے اور خوب سے خوب تر کی تلاش میں نہ ختم ہونے والا سفر شروع ہو چکا ہے۔ 
کچھ عرصہ پہلے پاکستان کے بعض علاقوں کے متعلق یہ مشاہدہ کیا گیا کہ انتہائی غریب ہونے کے باوجود وہ نہایت صحت مند زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اسباب معلوم کرنے کے لیے ان علاقوں میں ماہرین بھیجے گئے جنھوں نے وہاں کے لوگوں خوراک اور بود وباش کا مشاہدہ کرنا شروع کیا۔ آخر میں رپورٹ تیار کی گئی تو اس میں بتایا گیا کہ یہ لوگ سخت سردی میں ضروری حفاظت کے باوجود ٹھٹھرتے رہتے ہیں، لیکن دہی اور باسی لسی سے کھانا کھاتے ہیں۔ دہی کے بغیر انھیں کوئی غذا مرغوب نہیں، جبکہ باہر شدت سے برف باری جاری تھی۔ محترم ولی خان مرحوم کے والد باچا خان مرحوم کی خوراک میں ساری زندگی دہی شامل رہا۔ دہی کے استعمال سے نہ صرف عمر بڑھتی ہے بلکہ آج کے دور کی بدترین اور جان لیوا بیماری بلڈ پریشر سے بھی جان چھوٹ جاتی ہے۔ جب تک معاشرہ چاٹی کی لسی استعمال کرتا رہا، یہ امراض دبے رہے۔ 
موجودہ صدی کی بین الاقوامی شخصیت حکیم محمد سعید شہید رحمۃ اللہ علیہ جب طب اسلامی کے ترجمان کے طور پر اقوام متحدہ کی کسی کانفرنس میں تشریف لے گئے تو مہمانوں کوچائے پیش کی گئی۔ حکیم صاحب نے فرمایا کہ میں تو آج تک چائے کے ذائقے سے ہی ناآشنا ہوں۔ اس کے برعکس اپنے معاشرے کا حال دیکھیں، صبح سویرے آب حیات کی طرح اس کے جام کے جام لنڈھائے جاتے ہیں۔ یہ نشے کی طرح معاشرے کو اپنی گرفت میں لے چکا ہے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ ایک خاص غذا کی جگہ آپ کو کوئی دوسری غذا دی جائے اور آپ کھانے سے انکار کر دیں تو یہ بھی نشہ ہے۔ 
الغرض اسلام سادہ مذہب ہے، ہمیں سادگی کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے ترازو میں ہمارا معاشرہ تولا جائے تو اکثریت کسی نہ کسی نشے میں گرفتار نظر آتی ہے جس سے قوت مدافعت ختم ہوتی جا رہی ہے اور معاشرہ طرح طرح کے امراض میں جکڑا جا رہا ہے۔ سادگی کے فوائد پر مزید گفتگو ان شاء اللہ آئندہ نشستوں میں پیش کروں گا۔

مارچ ۲۰۱۲ء

ابتدائیہ ’’جہاد۔کلاسیکی وعصری تناظر میں‘‘محمد عمار خان ناصر
اسلام کا تصور جہاد ۔ چند توضیحاتمولانا محمد یحیی نعمانی
جہاد ۔ ایک مطالعہمحمد عمار خان ناصر
’’پر امن طریق کار‘‘ بمقابلہ ’’پر تشدد طریق کار‘‘محمد رشید
حکمرانوں کی تکفیر اور خروج کی بحثمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
معاصر مسلم ریاستوں کے خلاف خروج کا مسئلہ (پہلی مجلس مذاکرہ)ادارہ
معاصر مسلم ریاستوں کے خلاف خروج کا مسئلہ (دوسری مجلس مذاکرہ)ادارہ
معاصر مسلم ریاستوں کے خلاف خروج کا مسئلہ (تیسری مجلس مذاکرہ)ادارہ
پاکستان ایک غیر اسلامی ریاست ہےالشیخ ایمن الظواہری
عصر حاضر میں خروج کا جواز اور شبہات کا جائزہمحمد زاہد صدیق مغل
غلط نظام میں شرکت کی بنا پر تکفیر کا مسئلہ ۔ خطے کے موجودہ حالات کے تناظر میںمولانا مفتی محمد زاہد
تکفیر اور خروج : دستورِ پاکستان کے تناظر میںمحمد مشتاق احمد
کیا دستور پاکستان ایک ’کفریہ‘ دستور ہے؟ ایمن الظواہری کے موقف کا تنقیدی جائزہمحمد عمار خان ناصر
پروفیسر مشتاق احمد کا مکتوب گرامیمحمد مشتاق احمد
خروج ۔ کلاسیکل اور معاصر موقف کا تجزیہ، فکر اقبال کے تناظر میںمحمد عمار خان ناصر
تعارف و تبصرہادارہ

ابتدائیہ ’’جہاد۔کلاسیکی وعصری تناظر میں‘‘

محمد عمار خان ناصر

’’جہاد۔کلاسیکی وعصری تناظر میں‘‘ کے زیر عنوان ’الشریعہ‘ کی اشاعت خاص قارئین کے ہاتھوں میں ہے۔ اسلام کے تصور جہاد کے مختلف نظری اور عملی پہلو اس وقت علمی حلقوں میں زیر بحث ہیں جن میں تین پہلو بہت نمایاں اور اہم ہیں:
۱۔ اسلام میں جہاد کا اصولی تصور اور اس کی وجہ جواز کیا ہے اور عہد نبوی وعہد صحابہ میں مسلمانوں نے جو جنگیں لڑیں، ان کی حقیقی نوعیت کیا تھی؟ اسی پر یہ بحث متفرع ہوتی ہے کہ بعد کے ادوار میں امت مسلمہ کے لیے دنیا کی غیر مسلم قوموں کے ساتھ باہمی تعلقات کی اساس کیا ہے؟ آیا اسلام کی نظر میں عالمگیر سیاسی غلبے کو مقصود کی حیثیت حاصل ہے یا دوسری قوموں کی سیاسی خود مختاری کو تسلیم کرتے ہوئے پرامن بقائے باہم شریعت کا اصل مطمح نظر ہے؟
۲۔ جہاد اور قتال کی عملی شرائط اور اخلاقی حدود وقیود کیا ہیں؟ مثال کے طو رپر کیا مسلمانوں کا کوئی بھی گروہ اپنے تئیں جہاد کا فیصلہ کر سکتا ہے یا یہ فیصلہ مسلم معاشرے کی اجتماعی دانش اور ارباب حل وعقد کو کرنا چاہیے؟ مظلوم مسلمانوں کی مدد اور نصرت کے تناظر میں بین الاقوامی معاہدوں کی کیا حیثیت ہے اور ان کی پاس داری کس حد تک کی جائے گی؟ کیا جنگ میں دشمن کے کیمپ سے تعلق رکھنے والے ہر شخص کو حملے کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے یا اس حوالے سے کوئی تفریق اور امتیاز قائم کیا جائے گا؟ وغیرہ۔
۳۔ موجودہ مسلم ریاستوں کی شرعی وقانونی حیثیت کیا ہے اور ان ریاستوں میں قائم نظام اطاعت کی پابندی کس حد تک ضروری ہے؟ بالخصوص یہ کہ مسلم ریاستوں کا موجودہ سیاسی نظام اگر شریعت کی بالادستی کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہو رہا ہو اور پرامن ذرائع سے اس میں خاطر خواہ تبدیلی کے امکانات بظاہر دکھائی نہ دیتے ہوں تو اس صورت حال میں مسلح جدوجہد کے ذریعے سے ریاستی نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش کا کس حد تک جواز، امکان اور ضرورت ہے؟
ان موضوعات پر ’الشریعہ‘ کے صفحات پر پہلے بھی بحث ومباحثہ ہوتا رہا ہے اور آئندہ بھی شاید کافی عرصے تک اس کو جاری رکھنے کی ضرورت محسوس کی جاتی رہے گی، تاہم زیر نظر اشاعت کی صورت میں ہم نے مذکورہ نکات میں سے پہلے اور تیسرے نکتے پر بطور خاص توجہ مرکوز کی ہے اور ایسا مواد منتخب کیا ہے جس سے بحث کے بنیادی سوالات اور اہم ترین گوشے بیک نظر قارئین کے سامنے آ سکیں گے۔ 
خصوصی اشاعت کی ترتیب کے سلسلے میں وہ تمام اہل قلم ہمارے اور قارئین کے شکریے کے مستحق ہیں جنھوں نے اس کے لیے اپنی قیمتی نگارشات فراہم کیں۔ اس ضمن میں بھارت کے ممتاز محقق جناب مولانا محمد یحییٰ نعمانی (مدیر المعہد العالی للدراسات الاسلامیہ لکھنؤ) اور پاکستان مرکز برائے مطالعات امن (PIPS) اسلام آباد کے منتظمین کا شکریہ بطور خاص واجب ہے۔ اول الذکر نے اس موضوع پر اپنی تحریر کا مسودہ اور اس کی اشاعت کی اجازت عنایت کی جو اگرچہ بھارت سے کتابی صورت میں شائع ہو چکی ہے، لیکن پاکستان میں سردست دستیاب نہیں ہے۔ زیر نظر اشاعت میں اس کے منتخب حصے شامل کیے جا رہے ہیں۔ موخر الذکر نے تکفیر اور خروج جیسے اہم موضوع پر اپنے ادارے کے زیر اہتمام منعقد کی جانے والی مجالس مذاکرہ کی روداد اور دیگر مقالات زیرنظر شمارے میں شائع کرنے کی فراخ دلی سے اجازت دی تاکہ ان مجالس میں زیربحث آنے والے نکات وسیع پیمانے پر اہل نظر کے غور وفکر کا موضوع بن سکیں۔
امید ہے کہ ’الشریعہ‘ کی یہ اشاعت خاص عصر حاضر کے ایک نہایت اہم اور حساس موضوع کے بہت سے علمی وعملی گوشوں کو واضح کرنے اور اس ضمن میں بحث ومباحثہ کے عمل کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہو گی۔ ان شاء اللہ
محمد عمار خان ناصر
۲۶ فروری ۲۰۱۲ء

اسلام کا تصور جہاد ۔ چند توضیحات

مولانا محمد یحیی نعمانی

محاربہ علت القتال ہے نہ کہ کفر یا شوکت کفر

اصولی طور پر سوال یہ ہے کہ کیا ظلم وجارحیت اور ’’فتنہ‘‘ یعنی مذہبی جبر کے خاتمہ کے علاوہ ’’کفر‘‘ علۃ القتال ہوسکتا ہے؟ یا اگر کفر نہیں تو کیا صرف غیر مسلم حکومت کے وجود کو جنگ کے لئے کافی جواز اور سبب قرار دیا جاسکتا ہے؟
ہمارے محدود مطالعے کی حد تک قدیم علمی وفقہی سرمایے میں اس طرح اصولی سوال قائم کرکے مسئلہ پر گفتگو نہیں کی گئی ہے۔لیکن اجمالی طور پر نصوص سے استنباط کرکے لوگوں نے تین رائیں قائم کی ہیں۔
۱) جنگ کا سبب علت القتال کفر ہے۔ اس کی دلیل یہ آیت ہے: ’’وقاتلوہم حتیٰ لا تکون فتنۃ ویکون الدین کلہ للّٰہ‘‘ (سورۂ انفال: ۳۹)۔ ’’ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ ’’فتنہ‘‘ نہ بچے اور دین سب کا سب اللہ کے لیے خالص ہوجائے۔‘‘ واضح رہے کہ ہماری کتب تفسیر میں فتنہ کی تفسیر شرک سے بھی کیے جانے کی روایت موجود ہے۔ اور ویکون الدین للّٰہ تو ظاہر ہے ہی۔
۲) جنگ کا سبب یعنی علت القتال کفر نہیں ہے بلکہ کفر کی حکومت ہے۔ اس رائے کے حاملین کی اصل دلیل مندرجہ بالا آیت ہی ہے، یہ حضرات اس میں دین کو اطاعت اور قانون کے معنی میں لیتے ہیں۔ لہٰذا ان حضرات کے نزدیک اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان غیر مسلموں سے اس مقصد کے تحت جنگ کریں تاکہ ان کے اوپر اللہ کا قانون نافذ ہو جائے۔
۳) علت القتا ل دفاع ہے، یہ حضرات قرآن کی آیت: وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم (اور اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جنگ کرو جو خود تم سے جنگ کر رہے ہیں) سے استدلال کرتے ہیں۔
ہمارے نزدیک یہ تینوں ہی موقف اشکالات سے خالی نہیں ہیں۔ البتہ یہ بات یقینی طور پر سامنے آتی ہے کہ سلف وخلف کے یہاں بڑی حد تک عام تصور یہی ہے کہ مسلمانوں کی حکومت غیر مسلموں سے صلح صرف مجبوری کی حالت میں (یعنی مقابلہ سے عاجزی ، یا ایسی صورت میں جب کہ مسلمانوں کی مصلحت کا تقاضا ہو تو) ہی کرسکتی ہے۔ مثلاً فقہ حنفی کی اہم کتاب ’’بدائع الصنائع‘‘ میں ہے کہ صلح کے جائز ہونے کی شرط ضرورت ہے، یعنی یہ کہ مسلمان اس لئے صلح کریں کہ جنگ کی تیاری کریں گے، اور یہ ایسی صورت میں ہی ہوسکتا ہے کہ مسلمان کمزور ہوں اور کفار کو قوت حاصل ہو، لہٰذا بغیر اضطرار کے صلح جائز نہیں ہوگی۔ اس لئے کہ صلح کا نتیجہ فریضۂ جنگ کا ترک ہے۔ اس لئے یہ اس وقت ہی جائز ہوگی جب یہ جنگ کے وسیلہ کے طور پر ہو، اس لئے کہ ایسی صورت میں صلح درحقیقت جنگ ہی مانی جائے گی کہ وہ جنگ کی تیاری کے لئے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فلا تھنوا وتدعوا إلی السلم وأنتم الأعلون واللہ معکم (یعنی کمزوری مت دکھاؤ کہ صلح کی دہائی دینے لگو، اور تم ہی برتر ہوگے اور اللہ تمہارے ساتھ ہے) ہاں مجبوری میں کوئی حرج نہیں، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے : وإن جنحوا للسلم فاجنح لھا وتوکل علی اللہ‘‘ یعنی، اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کی طرف مائل ہوجانا ، اور اللہ پر بھروسہ کرنا۔ (بدائع الصنائع:۶/۷۶، نیز ملاحظہ ہو: الأم ، باب المہادنۃ ، شرح السیر الکبیر ، باب الموادعۃ)
بعض فقہاء نے صلح کے جواز کے لئے اضطرار اور مجبوری کی سخت شرط نہ لگاتے ہوئے ذرا نرم لفظ مصلحت یا مسلمانوں کے مفاد کا خیال (النظر للمسلمین) جیسے الفاط استعمال کیے ہیں۔ (ملاحظہ ہو: الأم للشافعی، کتاب الجہاد ، باب المہادنۃ علی النظر للمسلمین، شرح السیر الکبیر للسرخسی)
صرف اتنا ہی نہیں بلکہ علماء نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ :
فإذا لم یکن في الموادعۃ مصلحۃ فلا یجوز بالإجماع (شرح فتح القدیر، کتاب السیر، باب الموادعۃ)
’’اگر صلح میں مسلمانوں کی مصلحت نہ ہو تو بالاجماع ناجائز ہے۔‘‘
تقریبا تمام ہی مسالک کی کتابوں میں اس قسم کی تصریحات ملتی ہیں۔ بلکہ یہ مزید وضاحت بھی فقہاء کرتے ہیں کہ اگر دوسرے ملک صلح کی پیشکش بھی کرے تو حاکم دیکھے گا اگر مسلمانوں کی مصلحت ہوگی تو قبول کرسکتا ہے اور اگر مسلمانوں کا فائدہ نہ ہو تو قبول نہیں کرے گا۔ (الأم: باب مہادنۃ من یقوی علی قتالہ ، المبسوط باب صلح الملوک والموادعۃ)
بہرحال اس سے یہ بات طے ہوجاتی ہے کہ عموما علماء وفقہاء کے نزدیک قتال کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ مخالف کی طرف سے جارحیت وظلم یا مذہبی جبر (جسے قرآن نے فتنہ کہا ہے) پایا جائے۔ بلکہ مقدور ہو اور کوئی نقصان یا مضرت نہ ہو تو ہر غیر مسلم حکومت سے جنگ ہی کی جائے گی۔
اب اس پر سوال یہ قائم ہوتا ہے کہ جنگ جو اصلاً خونریزی ہے اور قرآن اس کو شر ہی کہتا ہے، کہیں اس کو ’’البأساء‘‘ (خرابی) کا نام دیتا ہے اور کہیں اس کو شر مانتے ہوئے بڑے شر یعنی ظالمانہ مذہبی جبر کے لئے ایک ناگزیر اقدام بتاتا ہے، ایسی صورت میں اس جنگ کا سبب اور علت کیا ہے؟ کیا صرف کفر ہے؟ یا کفر تو نہیں بلکہ ’’شوکت کفر‘‘ یا غیر اسلامی حکومت ہے؟
اگرچہ فقہاء امت کی تصریحات کے تجزیے سے یہ بات تو غلط ہی ثابت ہوتی ہے کہ ان کے نزدیک قتال کی علت کفر ہے۔ لیکن اس کے باوجود علماء کے یہاں استثنائی طور پر اس قسم کی عبارتیں ملتی ہیں کہ قتال کی علت کفر ہے۔ مثلاً امام قرطبی سورۂ بقرہ کی آیت ۱۹۳: وقاتلوھم حتی لا تکون فتنۃ ویکون الدین للہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’یہ مطلقا قتال کا حکم ہے۔ اس میں کفار کے حملہ میں ابتدا کرنے کی شرط نہیں ہے۔ اس کی دلیل ویکون الدین للہ (یہاں تک کہ دین اللہ کے لئے خالص ہوجائے) ہے، اور یہ حدیث بھی کہ ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ ’’لا إلہ إلا اللہ‘‘پڑھ لیں‘‘۔ اس آیت اور حدیث میں اس کی دلیل ہے کہ قتال کا سبب کفر ہے۔‘‘ (الجامع لاحکام القرآن، تفسیر آیت مذکورہ)
البتہ یہ اصول جمہور علماء وفقہاء کے قول سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اس لئے کہ ان کے نزدیک اگر غیر مسلم اپنے کفر پر باقی رہتے ہوئے مسلم حکومت کے تابع ہوکر جزیہ کی ادائیگی پر صلح کرلیں تو یہ معاہدہ قبول کرنا لازم ہوگا۔ اس کا واضح مطلب یہ ہوتا ہے کہ اسلامی نقطۂ نظر سے ’’کفر‘‘ بطور ایک نظریہ ومذہب دنیا میں قابل برداشت چیز ہے، اور اس کا خاتمہ جنگ کی غایت نہیں۔ اگر قتال کی علت کفر ہوتی تو اس وقت تک جنگ جاری رہنی چاہئے جب تک تمام کفار مسلمان نہ ہوجائیں، اور یہ جائز نہ ہو تا کہ جزیہ پر صلح کر لی جائے۔ یہاں تک کہ ہتھیار ڈالنے والوں کے لئے بھی بس دو ہی راہیں ہوتیں: یا اسلام قبول کریں یا قتل کیے جائیں۔ اس طرح یہ نظریہ قرآن کے بیان کردہ بنیادی اصول لا إکراہ في الدین (دین میں کوئی زبردستی نہیں)کے صریح منافی قرار پاتاہے۔ لہٰذا اگر یہ کہا جائے کہ نفس کفر جنگ کا سبب یا علت قتال ہے تو کفر تو جنگ کے خاتمے کے بعد بھی باقی رہتا ہے، اس کا خاتمہ تو جنگ کے بعد بھی نہیں ہوتا۔
اس تجزیاتی غور وفکر کے بعد متقدمین فقہاء وعلماء کے نقطۂ نظر کے اصول کے طور پرہمارے سامنے دوسرا یہ نظریہ آتا ہے کہ قتال کی اصل علت اور سبب شوکت کفر یا غیر مسلم حکومت کا وجود ہے۔ اس نظریے کی رو سے کفر جنگ کا سبب نہیں ہے۔ غیر مسلم بطور مسلم ریاست کے شہری (ذمی) کے اپنے کفر پرباقی رہ سکتے ہیں ہاں اگر مسلمانوں کو قدرت ہوگی تو وہ جنگ کرکے غیر مسلموں کی حکومت کو بے دخل کرکے عوام پر اسلام اور مسلمانوں کی حکومت ضرور قائم کریں گے۔
(ہم آگے اس موقف کی مدلل حمایت کرکے اپنا یہ نقطۂ نظر ظاہر کریں گے کہ یہ (اپنے زمانے اور ماحول میں) ایک بالکل برحق اور منصفانہ موقف تھا)۔
مگر یہاں سوال یہ قائم ہوتا ہے کہ کسی غیر مسلم قوم کو کس جواز کی بنا پر اپنے اس حق سے محروم کیا جارہا ہے کہ وہ اپنے اوپر اپنے لوگوں کی اور اپنے پسندیدہ اصولوں اور نظریات کے مطابق حکومت قائم کرے؟ اس سوال کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ عام انسانی اخلاقی حس کے مطابق یہ موقف ایک اشکال کا باعث بنتا ہے کہ مسلم ریاست صلح صرف اپنی مصلحت اور ضرورت کے تحت ہی کر سکتی ہے قدرت وطاقت ہو تو اس کو ہر مملکت سے جنگ ہی کرنی ہے چاہے وہ کیسی ہی بے ضرر اور صلح جو ہی کیوں نہ ہو۔

مولانا مودودی کا نظریہ:

اب سے دو صدیوں پہلے جب مغرب کی فوجی یورش کے ساتھ ساتھ مسلمان اور اسلامی عقائد و احکام بھی فکری یلغار کا نشانہ بنے تو جو دلیر اسلام کے دفاع کے لیے سب سے پہلے کھل کر سامنے آئے ان میں شبلیؒ ومودودی ؒ کا نام نمایاں ہے۔ مؤخر الذکر کی کتاب الجہاد فی الاسلام اپنی شہرت اور اپنے پر اعتماد اندازکے اعتبار سے ممتاز ہے اور مصنف کی محنت اور مآخذکی کثرت کی شاہد بھی۔ مگر کتاب میں آبشار کاجوش اور فکر وخیال کی روانی تو ہے مگر فاضل مصنف کی عمر اس وقت تیس بھی نہیں تھی اور اس کو کتاب ہفتہ وار اخبار(الجمعیۃ) کی متواتر قسطوں میں پیش کر نی تھی، اس لیے اس کے پاس غور وتدبر کے لیے وقت بھی کم تھا۔ 
موصوف کے سامنے جب یہ سوال آیا کہ ایک طرف تو قرآن مذہب کے معاملے میں جبر واکراہ کی کھلی نفی کرتا ہے، تو پھر اس کی کیا توجیہ کی جائے کہ صدیوں پر مشتمل اسلامی فکر کا حاصل یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو مسلمان ریاست جنگ ہی کرے گی، صلح صرف مصلحۃً ہی کی جائے گی۔ موصوف کی عبقری ذہانت نے اس کا جو حل دریافت کیا، وہ بہت سے لوگوں کے لیے اسلامی فلسفہ بن چکا ہے۔ مولانا مرحوم کی بحث کا حاصل یہ ہے کہ اسلام انفرادی طور پر ہر فرد بشر کو مذہبی آزادی تو دیتا ہے، لیکن وہ اسلام کے مخالف عقیدہ وفکر کو حکومتی طاقت اور شوکت رکھنے کی اجازت نہیں دیتا، اس لیے کہ (ان کے بیان کے مطابق) قرآن میں جن چیزوں کو فتنہ اور فساد کہا گیا اور جن کے خاتمے کو جہاد وقتال کا مقصد اور غرض وغایت بتلایا گیا ہے وہ ’’سب کی سب ایک ناحق شناس، ناخداترس اور بد اصل نظام حکومت سے پیدا ہوتی ہیں‘‘۔ (الجہاد فی الإسلام ص: ۱۱۷)
عالم عرب میں مولانا کے ایک خاص خوشہ چیں انقلابی مفکر سید قطبؒ ہوئے، جو اپنے انقلابی فکر اور جوش تحریر میں مولانا مودویؒ سے کہیں آگے تھے۔مصر میں ناصر کے آمرانہ استبداد کے زمانے میں جب عموماً اسلام پسند حکومت کی مغرب پرستی سے سخت نالاں تھے اور دین دشمن حکومت کی مخالفت کی پاداش میں اخوان المسلمین پرسخت مظالم کا سلسلہ جاری تھا، سید قطب کا شعلہ بار قلم (جس کے جوش وزور کی کوئی نظیرمعاصر عربی ادب میں نہیں پائی جاتی) اسلامی انقلاب کی ندا لگا رہا تھا۔سید قطب نے مولانا مودودی کے دیگر تحریکی نظریات کی طرح اس فلسفے کو بھی اخذ کیا اور اپنی تفسیر میں اور (دیگر تصنیفات میں بھی) مولانا مودودی سے کہیں زیادہ قوت اور تفصیل وتکرار سے بیان کیا ۔ یہاں تک کہ یہ ایک حد تک مقبول نظریہ بن گیا۔ 
مولانا نے بھی فقہاء کی بیان کردہ تفصیلات کا خلاصہ اور حاصل یہی اخذ کیا کہ مسلمانوں کے لئے یہ بات شرعی فریضہ کا درجہ رکھتی ہے کہ اگر حالات اجازت دیں تو وہ ہر غیر مسلم قوم سے حکومت چھین لیں اور ان پر مسلمانوں کی (بلکہ مولانا کے الفاظ میں اللہ کے صالح بندوں کی) حکومت قائم کریں۔
یہ کم علم اپنی کم علمی کے احساس کے باوجود پورے یقین کے ساتھ عرض کرتا ہے کہ اس موقف کی کیسی ہی مؤثر ترجمانی کی جائے مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ (کم سے کم اس زمانے میں) یہ اشکال کا باعث ہے۔ اگر کوئی حکومت نہ اپنے عوام پر کسی سخت ظلم کی مرتکب ہے اور نہ دوسری قوموں پر کسی جارحیت کی مجرم، ساتھ ہی وہ اپنے یہاں بسنے والے مسلمانوں کو اللہ کے دین پر چلنے کی مکمل اجازت دیتی ہے، اور اللہ کے دین کی دعوت کے سامنے رکاوٹ بھی نہیں بنتی اور مسلمانوں کی حکومت کی طرف صلح وآشتی کا ہاتھ بھی بڑھاتی ہے تو کس اخلاقی جواز کے تحت اس حکومت پر جنگ تھوپی جاسکتی ہے۔ اور کیسے کسی قوم کو اس حق سے محروم رکھا جاسکتا ہے کہ اس کا سیاسی نظام اس کے اپنے لوگوں کے ہاتھ میں ہو۔ کسی قوم سے خود مختاری سلب کرلینا انسانی عرف میں یقیناً ظلم ہے۔
مولانا مودودیؒ اس اشکال کو محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکے انہوں نے وکیل کی حیثیت سے اپنے موقف کے دفاع میں یہ نظریہ پیش کیا کہ قرآن نے فتنہ کے خاتمہ کو قتال کا مقصد کہا ہے۔ اب ایک نظر ڈالی جائے کہ قرآن میں کن کن برائیوں کو ’’فتنہ‘‘ یا ’’فساد‘‘ کہا گیا ہے۔ ان برائیوں اور خرابیوں کو گنانے کے بعد مولانا فرماتے ہیں:
’’اب اگر ان تمام برائیوں پر ایک غائر نظر ڈالی جائے جن کو فتنہ وفساد سے تعبیر کیا گیا ہے تو اس سے یہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ وہ سب کی سب ایک ناحق شناس، ناخدا ترس، اور بداصل نظام حکومت سے پیدا ہوتی ہیں۔ اگر کسی برائی کی پیدائش میں ایسی حکومت کا براہ راست کوئی اثر نہیں ہوتا تو کم از کم اس کا باقی رہنا اور اصلاح کے اثر سے محفوظ ہونا تو یقیناً اسی حکومت کے باطل پرور اثرات کا رہین منت ہوتا ہے‘‘۔ (الجہاد فی الاسلام، ص۱۱۷)
اسی وجہ سے مولانا کے بقول اسلام نے بدی کے خاتمے کے لئے حکم دیا کہ ایک منظم جد وجہد (جہاد) کے ذریعہ اور اگر ضرورت پڑے اور ممکن ہو تو جنگ کر کے ایسی تمام حکومتوں کو مٹا دیا جائے۔اور اسکی جگہ وہ عادلانہ نظام حکومت قائم کیا جائے جوخداکے خوف اور اور اسی کے نازل کردہ ضابطوں پر مبنی ہو اور جو انسانوں کے مفاد کی خدمت کرے۔ (الجہاد فی الاسلام، ص۱۱۷، ۱۱۸ باختصار)

اس نظریہ کے خلاف تین طاقت ور دلائل:

اول۔ اس نظریہ کے خلاف سب سے پہلے جو چیز جاتی ہے وہ یہ کہ اسلام کی ایک بنیادی تعلیم دین کے معاملے میں آزادی اور انصاف ہے۔ کسی قوم کو اپنی حکومت سے بے سبب محروم کرنا اور اس پر دوسری قوم کی حکومت قائم کرنا فطری طور پر انصاف کے خلاف نظر آتا ہے۔ اسلامی دعوت کے لئے ضروری ہے کہ اسلام اپنے زمانے میں سب سے برتر اور متوازن اخلاقی معیار پر قائم نظر آئے۔ اگر ایسا نہیں ثابت ہوتا تو اسلام کا اکیلے محفوظ ہدایتِ ربانی اور قانونِ الٰہی ہونے کا دعوی مشتبہ ہوجائے گا۔ لہٰذا علماء اسلام کا اہم ترین فریضہ قرار پاتا ہے کہ وہ ہر زمانے میں پوری بیدار مغزی سے اپنے زمانے کے حالات کا جائزہ لیں اور بلاخوف لومۃ لائم قرآن وسنت پر مبنی اسلامی قوانین کا اظہار کریں۔ اس میں ان کو نہ باطل کی یورش کا خوف ہو نہ کسی قسم کی بدنامی کا اور نہ اپنوں یا غیروں کی ملامت کا۔
دوم۔ دوسری جو چیز اسی نظریہ کے خلاف جاتی ہے، وہ یہ آیت قرآنی ہے: وإن جنحوا للسلم فاجنح لھا وتوکل، یعنی اگر یہ خدا اور مسلمانوں کے دشمن صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی صلح پر آمادہ ہو جانا۔
یہ آیت غزوۂ بدر کے بعد نازل ہوئی۔ اس سے صلح کا کس درجہ مطلوب ہونا معلوم ہوتا ہے اس کے لیے صرف اس کا سادہ سا مطلب جان لینا کافی نہیں ہے، بلکہ اس کے سیاق وسباق پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن کس درجہ اس کو اہمیت دیتا ہے کہ فریق مخالف اگر آمادۂ صلح ہو تو صلح کر ہی لی جائے، اس آیت میں غور سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا حکم مجبور وکمزور کی دبی کچلی صلح کا نہیں ہے، نہ اس میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ صلح میں ہمارا فائدہ ہے کہ نہیں۔یہ سورت انفال کی آیت ہے۔ اس سورت میں مسلمانوں کو مکہ کے مشرکین سے جنگ کے احکام دیے گئے اور ایک طویل سلسلۂ آیات میں مسلمانوں کے اندر قتال کے لئے جوش وحمیت پیدا کی گئی ہے۔ آیات پر غور کی نگاہ ڈالیں:
إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللّٰہِ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ فَہُمْ لاَ یُؤْمِنُونَ، الَّذِیْنَ عَاہَدتَّ مِنْہُمْ ثُمَّ یَنقُضُونَ عَہْدَہُمْ فِیْ کُلِّ مَرَّۃٍ وَہُمْ لاَ یَتَّقُونَ، فَإِمَّا تَثْقَفَنَّہُمْ فِیْ الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِہِم مَّنْ خَلْفَہُمْ لَعَلَّہُمْ یَذَّکَّرُونَ، وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِن قَوْمٍ خِیَانَۃً فَانبِذْ إِلَیْْہِمْ عَلَی سَوَاء إِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الخَاءِنِیْنَ، وَلاَ یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ سَبَقُواْ إِنَّہُمْ لاَ یُعْجِزُونَ، وَأَعِدُّوا لَہُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّۃٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَیْْلِ تُرْہِبُونَ بِہِ عَدْوَّ اللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ وَآخَرِیْنَ مِن دُونِہِمْ لاَ تَعْلَمُونَہُمُ اللّٰہُ یَعْلَمُہُمْ وَمَا تُنفِقُواْ مِن شَیْْءٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یُوَفَّ إِلَیْْکُمْ وَأَنتُمْ لاَ تُظْلَمُونَ، وَإِن جَنَحُواْ لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَہَا وَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ، وَإِن یُرِیْدُوا أَن یَخْدَعُوکَ فَإِنَّ حَسْبَکَ اللّٰہُ ہُوَ الَّذِیَ أَیَّدَکَ بِنَصْرِہِ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَ، وَأَلَّفَ بَیْْنَ قُلُوبِہِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِیْ الأَرْضِ جَمِیْعاً مَّا أَلَّفَتْ بَیْْنَ قُلُوبِہِمْ وَلَکِنَّ اللّٰہَ أَلَّفَ بَیْْنَہُمْ إِنَّہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ، یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰہُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ، یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِ إِن یَکُن مِّنکُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ یَغْلِبُواْ مِءَتَیْْنِ وَإِن یَکُن مِّنکُم مِّءَۃٌ یَغْلِبُواْ أَلْفاً مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا بِأَنَّہُمْ قَوْمٌ لاَّ یَفْقَہُونَ، الآنَ خَفَّفَ اللّٰہُ عَنکُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِیْکُمْ ضَعْفاً فَإِن یَکُن مِّنکُم مِّءَۃٌ صَابِرَۃٌ یَغْلِبُواْ مِءَتَیْْنِ وَإِن یَکُن مِّنکُمْ أَلْفٌ یَغْلِبُواْ أَلْفَیْْنِ بِإِذْنِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ مَعَ الصَّابِرِیْنَ (الانفال:۵۶۔۶۶)
یہی سلسلۂ بیان جب اپنے عروج پر یہاں پر پہنچا کہ:
’’اور ان دشمنانِ خدا کے مقابلے کے لئے جو ہو سکے وہ اسلحہ تیار کرو (اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرو۔) اور گھوڑے جنگ کے لئے تیار رکھو، جس سے تمہارا رعب اللہ کے دشمن اور تمہارے دشمن کے دل میں بیٹھے۔‘‘
اور اس کے بعد اس جہاد و قتال کی تیاری میں اپنا مال خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی۔ جہاد و قتال پر آمادہ کرتے ہوئے، اور جہاد وقتال کے لیے جوش دلانے والے اسی ولولہ خیز سلسلۂ کلام میں ارشاد ہوتا ہے کہ:
’’اگر یہ (خداومسلمانوں کے دشمن ، اپنی دشمنی کے باوجود ) مصالحت کی طرف جھکتے ہیں تو تم بھی اس کی طرف جھک جانا، اور اللہ پر بھروسہ رکھو ۔بے شک وہ (سب) سننے اور جاننے والا ہے۔ اگر ان کی نیت تم کو دھوکہ دینے کی ہوگی تو اللہ تمہارے لئے کافی ہے۔‘‘
کلام کے سیاق و سباق پر غور کیجئے۔ یہ موقعہ مسلمانوں کو مشرکین مکہ کے خلاف جنگ پر آمادہ کرنے اور ان میں اس کی تیاری کے لئے جوش و حمیت پیدا کرنے کا ہے۔ مگر اس موقعے پر بھی کہا جاتا ہے کہ دشمن اگر صلح پر آمادہ ہوتا ہے تو صلح کرنے کا حکم ہے۔کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہوسکتا تھا کہ دشمن صلح کے بہانے دھوکہ نہ دے دے۔ سو اس کی پیش بندی کے طور پر پہلے تو کہا کہ صلح کرنے میں توکل علی اللہ کا مظاہرہ کرو۔ پھر مزید صراحت کی کہ اگر ان کے دھوکہ دینے کا اندیشہ ہو تو جان لو کہ اللہ پر توکل ہی تمہارا سرمایہ ہے۔ یعنی اس سلسلے میں اندیشہائے دور دراز کا زیادہ خیال نہ کرو۔
ان آیات کے اس سیاق کی بنیاد پر ہم پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ صلح کی گنجائش صرف اس وقت ہے جب مسلمانوں کی پوزیشن اتنی کمزور ہو کہ وہ جنگ کرنے کے موقف میں نہ ہوں۔ جن آیات میں صلح کی پیشکش کو قبول کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، ان کا سیاق و سباق ببانگ دہل اعلان کر رہا ہے کہ اس وقت ایسی مجبوری کی صورت حال نہیں ہے۔ ان آیات میں مسلمانوں کو جنگ کرنے کا حکم پورے زور اور تاکید کے ساتھ دیا جا رہا ہے۔ انہی آیات میں جہاد پر ابھارنے والی وہ غیر معمولی آیات بھی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ:
’’اے نبی! تمہارے لیے اللہ اور تمہارا اتباع کرنے والے اہل ایمان کافی ہیں۔ اے نبی! مسلمانوں کو جہاد پر ابھاریے۔ اگر تم میں کے بیس جمنے والے ہوں گے تو ان کے دو سو پر غالب آجائیں گے۔ اور اگر تم میں کے سو ہوں گے تو ان کے ہزارپر غالب ہوں گے۔ اس لیے کہ وہ بے بصیرت قوم ہیں۔‘‘
خلاصہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں جنگ کا حکم دینے والی نہایت تاکیدی اور جوش آور آیات کے ساتھ یہ بات کہی گئی ہے کہ دشمن اگر صلح پر آمادہ ہو تو تم بھی آمادہ ہوجانا۔ اور زیادہ پس وپیش سے کام نہ لینا۔
مزید یہ بھی صاف ہے کہ یہ غزوۂ بدر کی عظیم الشان فتح کے فوراً بعد کا وقت ہے، تو جب ایسے موقع پر اور ایسے شدید دشمن سے صلح کے امکان پر صلح کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے تو یہ بات بالکل خلاف واقعہ ہو جاتی ہے کہ یہ صرف مجبوری کے وقت کی اجازت ہے اور استطاعت اور قدرت کے موقع پر یہ اجازت نہیں رہے گی۔ یہ بالکل غیر عملی بات ہے، اس لئے کہ اس وقت مجبوری کی صورتحال خارج از بحث تھی ۔ پھر مزید یہ کہ رسول اللہؐ نے مکہ کے لوگوں کے ساتھ جو صلح۸ ھ ؁ میں فرمائی تھی، کون کہہ سکتا ہے کہ اس وقت مکہ کے مشرکین سے جنگ کرنے کی استطاعت مسلمانوں میں نہیں تھی۔ مسلمان اس سے پہلے اہل مکہ سے کئی مرتبہ دو دو ہاتھ کر چکے تھے۔ اور اسی وقت حدیبیہ میں بھی صلح سے ذرا پہلے، جب ان کو یہ افواہ خبر بن کر پہونچی تھی کہ رسول اللہؐ کے سفیر حضرت عثمان بن عفانؓ کو مکہ میں قتل کر دیا گیا ہے،تو انہوں نے مرنے مارنے کی قسم کھائی تھی اور رسول اللہؐ کے ہاتھ پر آخری دم تک جنگ کرنے کی بیعت کی تھی۔ کیا پھر بھی یہ کہنے کی گنجائش ہے کہ یہ آیت اسوقت کی ہے جب مسلمان کمزور تھے اور جنگ کی قوت نہیں رکھتے تھے۔

کیا یہ آیت منسوخ ہو چکی ہے؟

سید قطب مرحوم نے بڑے شد ومد کے ساتھ ا س رائے کی تائید کی ہے کہ صلح کرلینے کا یہ حکم منسوخ ہوچکا ہے۔ ان حضرات کو جو اس آیت کو غیر منسوخ قرار دیتے ہیں سید قطب ان کو ’’المھزومون روحیا وعقلیا‘‘ (عقلی اور روحانی اعتبار سے شکست خوردہ) قرار دیتے ہیں، سادگی اور حماقت سے موصوف کرتے ہیں اور اسلام کے مزاج ومنہاج سے بے خبر بتاتے ہیں۔
حالانکہ سچی بات یہ ہے کہ اس آیت کو منسوخ قرار دینے کی کوئی دلیل نہیں ہے، مفسرین اور فقہاء کی ایک تعداد اگرچہ یہ کہتی ہے کہ سورۂ توبہ کی یہ آیت اس کی ناسخ ہے۔
فَإِذَا انسَلَخَ الأَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُواْ الْمُشْرِکِیْنَ حَیْْثُ وَجَدتُّمُوہُمْ وَخُذُوہُمْ وَاحْصُرُوہُمْ وَاقْعُدُواْ لَہُمْ کُلَّ مَرْصَد۔
’’اور جب اشہر حرم گذرجائیں تو جہاں پاؤ ان مشرکین کو قتل کرو ان کو پکڑو ، گھیرو، اور ہرجگہ ان کے (قتل کے لئے) گھات لگا کر بیٹھو۔‘‘
یقیناً سورۂ انفال کی وہ آیت جو دشمن کے آمادہ صلح ہونے پر صلح کا حکم دے رہی ہے وہ پہلے نازل ہوئی ہے اور سورۂ توبہ کی آیت بعد میں ، مگر دونوں میں تضاد ہے کہاں جو ناسخ منسوخ کا سوال ہو۔ جنگ کا حکم دینے والی سورت توبہ کی ان آیات کے سیاق وسباق پر ذرا غور کرنے سے قطعی طور پرواضح ہوجاتا ہے کہ یہ احکام مشرکین عرب (جو قریش کی قیادت میں ایک ملت اور سیاسی اتحاد کا درجہ رکھتے تھے) کے لئے نازل ہورہے تھے۔ آپ اول سورت سے آیت نمبر ۲۸ تک پڑھ جائیے قطعی طور پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ سورت عرب کے مشرکین سے متعلق ہی گفتگو کررہی ہے۔ یہ گفتگو جن مشرکین کے متعلق کی جارہی ہے دورانِ کلام ان کے جو حالات اور صفات بیان کی گئی ہیں اس سے کسی ذی شعور کے لئے شبہہ کی گنجائش نہیں رہتی کہ اس سلسلۂ کلام میں صرف مشرکین عرب مراد ہیں۔ مثلا کہیں کہا جارہا ہے کہ ’’ جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا‘‘ آیت نمبر (۱)، پھر آگے ان کی صفت یہ بھی بتائی جارہی ہے کہ:
أَلاَ تُقَاتِلُونَ قَوْماً نَّکَثُواْ أَیْْمَانَہُمْ وَہَمُّواْ بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَہُم بَدَؤُوکُمْ أَوَّلَ مَرَّۃٍ (التوبۃ: ۱۳)
’’کیا تم ان لوگوں سے جنگ نہیں کروگے جنہوں نے عہد توڑ ڈالا ، رسول کو دربدر کرنے کا ارادہ کیا اور انہوں نے ہی تمہارے خلاف جنگ چھیڑی ہے۔‘‘
ظاہر ہے معاہدہ مشرکین عرب سے ہی ہوا تھا۔ المشرکین سے مراد مشرکین عرب ہی ہیں اسی کو مزید مؤکد کرنے والی آیات آگے اور ہیں جن میں ا ن کے مسجد حرام (کعبہ) سے رشتہ کا ذکر کرکے کہا جارہا ہے کہ اب ان سے اس کی تولیت چھینے جانے کا وقت آگیا ہے۔ (۱۷۔۲۲)
پھر آیت نمبر (۳۶) نے تو کسی شبہہ کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی۔ ارشاد ہوتا ہے:
وَقَاتِلُواْ الْمُشْرِکِیْنَ کَآفَّۃً کَمَا یُقَاتِلُونَکُمْ کَآفَّۃً
’’تمام مشرکین سے جنگ کرو جیسا کہ وہ سب کے سب تم سے جنگ کررہے ہیں‘‘
سورت انفال میں پہلے انہی مشرکین کے بارے میں حکم دیا گیا تھا کہ ’’اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی مائل ہوجانا‘‘ مگر قرآن خود بتارہا ہے کہ اب ان سے صلح کا وقت نہیں رہا۔ اس حکم کی تبدیلی کا سبب ان کی لگاتار جارحیت ، ظلم وعدوان ، اور عہد شکنی کی تاریخ ہے، جیساکہ ابھی ذکر کی گئی آیتوں میں صراحت کے ساتھ موجود ہے۔ قرآن صاف کہہ رہا ہے کہ ان کے سینوں میں عداوت کی جہنم ہے، وہ کسی رشتہ وقرابت اور معاہدے تک کا لحاظ نہیں کررہے لہذا اب بس، ان کو تہِ تیغ کرو، یہاں قرآن ان کو ظلم واعتداء کا مرتکب بھی بتارہا ہے: لایرقبون فی مؤمن إلا ولا ذمۃ وأولئک ھم المعتدون۔ لہٰذا یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان کو ہر حال میں تہِ تیغ کرنے کا حکم کا سبب ان کا یہ اعتدا تھا۔
قرآن کی کسی آیت کو اس معنی میں منسوخ قرار دینا کہ وہ معطل کردی گئی ہے اور اب اس پر عمل نہیں کیا جائے گاایک بڑی بھاری باتی ہے۔ اتنی پر خطر بات کہنے کے لئے کوئی یقینی بنیاد ہونی چاہیے جو یہاں ہرگز نہیں ہے۔ صلح کا حکم دینے والی آیت بالکل الگ قسم کے حالات اور الگ دشمن کے لئے ہے اور سورۂ توبہ کی آیات الگ صورت حال میں دشمن سے جنگ کرنے اور اس کے لئے زمین تنگ کردینے کے حکم پر مشتمل ہے۔
صلح کا حکم قرآن نے اس صورت میں دیا ہے جب دشمن صلح جو ہو۔ کہا گیا اگر وہ صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی مائل بہ صلح ہوجانا اور اس پر یہ اضافہ کیا گیا کہ دشمن سے اگر عہد شکنی کا اندیشہ ہو تب بھی اللہ کے بھروسے پر صلح کرہی لی جائے اور سورۂ توبہ کی آیت جو دشمن سے بھرپور جنگ کرنے کا حکم دے رہی ہے وہ بتارہی ہے کہ جن ’’المشرکین‘‘کے بارے میں یہ حکم ہے وہ یہی نہیں کہ صلح جو نہیں بلکہ تم سے جنگ کررہے ہیں اور ایسے عہد شکن ہیں کہ اب ان کی صلح پر آمادگی کا اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ اسی سلسلۂ آیات میں آگے کہا گیا:
وَقَاتِلُواْ الْمُشْرِکِیْنَ کَآفَّۃً کَمَا یُقَاتِلُونَکُمْ کَآفَّۃً
’’اور تمام مشرکین سے جنگ کرو جس طرح وہ سب کے سب تم سے جنگ کرتے ہیں۔‘‘
سورۂ انفال کی یہ آیت (۶۱) دوسرے فریق کے صلح پر (یقیناً با معنی اور منصفانہ صلح پر) راضی ہونے کی صورت میں اس کو نہ صرف قبول کرنے بلکہ کشادہ قلبی کے ساتھ قبول کرنے کی ترغیب دیتی ہے، اس لئے کہ جیسا کہ پہلے کہاجاچکا ہے کہ اصلا تو گفتگو مسلمانوں کو آمادۂ جنگ کرنے کی چل رہی تھی مگر پھر بھی مسلمانوں میں صلح پر آمادگی پیدا کرنے کے لئے یہاں تک ارشادہوا:
وَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔ وَإِن یُرِیْدُواْ أَن یَخْدَعُوکَ فَإِنَّ حَسْبَکَ اللّٰہُ ہُوَ الَّذِیَ أَیَّدَکَ بِنَصْرِہِ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَ
’’اور (اس سلسلہ میں) اللہ پر بھروسے سے کام لو۔ وہ سب سننے جاننے والا ہے۔ اور اگر وہ تم کو دھوکہ دینا چاہیں گے تو اللہ کافی ہے تمہارے لئے۔ اسی نے تو اپنی مدد اور مؤمنین کی جماعت کے ذریعہ تمہاری تائید کی ہے۔‘‘
اس کی تشریح میں اب کثیر کہتے ہیں کہ ’’مطلب یہ ہے کہ اگر وہ صلح کرکے دھوکہ دینا چاہیں تاکہ اسی مدت میں تیاریاں کرلیں تو جان لو کہ اللہ تمہارے لئے کافی ہے‘‘۔ 
اس پوری تفصیل نے یہ بات واضح کردی کہ سورۂ توبہ کی آیات صلح کی آیت کو منسوخ نہیں کررہی ہیں۔ نسخ کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ دونوں آیات قطعی طور پر الگ حالات اور الگ دشمنوں سے متعلق ہیں۔ کوئی اگر خود قرآن میں غور کرے اور اگر اپنے ذہن میں قائم خیالات اور کسی مخصوص نظریے کے تاثرات سے آزاد ہوکر سوچے گا وہ اسی نتیجے تک پہنچے گا ، اور کتاب اللہ کی آیات کو مصحف میں موجود ہوتے ہوئے اور تلاوت کرتے ہوئے بلاقطعی دلیل کے ہرگز یہ نہیں کہے گا کہ وہ منسوخ اور معطل ہیں۔

امام طبری نسخ کے قائل نہیں:

جیساکہ امام طبری جو سرخیل مفسرین ہونے کے ساتھ ساتھ حدیث وفقہ میں بھی امامت کے مقام پر فائز تھے اس آیت کے منسوخ ہونے کی بات بالکل بے بنیاد قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’لا دلالۃ علیہ من کتاب ولاسنۃ ولا فطرۃ ولا عقل‘‘ اس کی کتاب وسنت اور عقل وفطرت سے کوئی دلیل نہیں پیش کی جاسکتی ۔
ہاں، سورۂ محمد کی آیت ’’ولا تھنوا وتدعوا الیٰ السلم‘‘ میں کمزوری دکھاتے ہوئے دشمن سے صلح کی دہائی دینے کو منع کیا گیا ہے، لیکن یہ ایک بالکل دوسری بات ہے اور دشمن کے ساتھ باعزت صلح ایک دوسری چیز ہے۔ 
سوم۔ تیسری ایک بات اور ہے جو قطعی طور پر اس کا فیصلہ کردیتی ہے کہ خود ہمارے فقہاء کے نزدیک غیر مسلم حکومت خود اپنی ذات میں ایسی چیز نہیں ہے جس کوبرداشت ہی نہیں کیا جاسکتا اور مسلمانوں پر اس کو ختم کرنا دینی فریضہ ہے۔ فقہاء اس پر متفق ہیں کہ اگر غیر مسلم حکومت کی طرف سے کچھ مال دے کر صلح کی پیش کش کی جائے تو مسلمانوں کی حکومت کے لئے جائز ہے کہ وہ اس مال کو قبول کرکے غیر مسلم حکومت کو باقی رہنے دے اور صلح کرلے۔ فقہاء نے یہ بھی صراحت کی ہے کہ یہ ’’جزیہ‘‘ والی صورت نہیں ہوگی بلکہ غیر مسلم حکومت اپنی پوری آزادیوں اورکفر کے قوانین کے نفاذ کے ساتھ باقی رہے گی۔ (بدایۃ المجتہد: ۱/۳۱۷ بدائع الصنائع:۶/۷۶)۔
اب اگر مولانا مودودی ؒ کی بات کو تسلیم کرلیا جائے تو بات یہ ہوگی کہ یوں تو اگرچہ ایک غیر مسلم حکومت سارے فتنہ وفساد کی جڑ اور خرابیوں کا منبع ہے اس لئے اس کو اکھاڑ پھینکنا اور اس کی جگہ اہل حق کی حکومت قائم کرنا ضروری ہے، لیکن اگر مال ملے تو پھر سب قابل برداشت ہوسکتا ہے۔ ذرا غور فرمائیں !یہ تو کوئی اخلاقی پوزیشن نہیں ہوئی۔ اللہ کا دین یقیناً اس سے بری ہونا چاہئے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہمارے ائمہ اور فقہاء متقدمین کے موقف کی جو یہ توجیہ اور تشریح کی جاتی ہے کہ ’’شوکت کفر علت قتال ہے‘‘ یا یہ کہ غیر مسلم حکومت کا وجود فی نفسہ اس بات کا مکمل سبب ہے کہ اگر قدرت ہو تو اس کو ختم کرنے کے ہدف سے اس کے خلاف جنگ کی جائے اور مسلمانوں کے ذمہ فرض ہے کہ اگر ممکن ہو تو وہ غیر مسلم حکومت کا خاتمہ ضرور کریں، یہ صحیح توجیہ نہیں ہے اور اس میں متعدد اشکالات ہیں۔
فقہاء کا یہ متفقہ مسئلہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ان کے نزدیک نہ کفر قتال کا سبب ہے نہ نظام کفر نہ حکومت کفر، کیوں کہ وہ سب مال کے عوض غیر مسلم حکومت سے صلح کرنے کو جائز کہتے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ مسلمانوں کو غیر مسلم حکومت مال دینے پر اسی وقت راضی ہوگی جب مسلمانوں کی طاقت کا پلہ بھاری ہو۔ یعنی یہ بات بھی نہیں کہی جا سکتی کہ ہمارے فقہاء نے اس کی اجازت اسی صورت میں دی ہے جب مسلمان کمزور ہوں یا خود ان کی مصلحت کا تقاضہ ہوکہ جنگ سے بچا جائے۔

بعض متقدم ائمہ کی صراحتیں کہ جنگ کا سبب محاربہ ہے:

اگرچہ ہمارے قدیم فقہاء کے یہاں یہ تصور ناپید نہیں ہے کہ نفس کفر جنگ کا سبب نہیں ہوسکتا ۔ جنگ کا سبب محاربہ یعنی جارحیت اور صلح نہ کرنا ہے۔

(۱) ابن تیمیہ:

امام ابن تیمیہ کا تو اس مسئلے پر مستقل رسالہ ’’قاعدۃ مختصرۃ في قتال الکفار ومھادنتھم‘‘ بھی ہے ، جس میں انہوں نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ جنگ صرف اسی سے کی جائے گی جو خود آمادۂ پیکار ہو۱۔ (قاعدۃ مختصرۃ فی قتال الکفار، ص ۱۲۱)
بعض عرب علماء اس رسالہ کی ابن تیمیہ کی طرف نسبت مشکوک قرار دیتے ہیں۔ مگر نیل الأوطار میں ایک جگہ شوکانی کے قلم سے اس رسالہ کا تذکرہ دیکھا تو اندازہ ہوا کہ شوکانی کے پاس غالبا اس کا نسخہ تھا۔ علامہ شوکانی نے لکھا ہے کہ:
وکون قتال الکفار لکفرھم ھو مذھب طائفۃ من أھل العلم ، وذھبت طائفۃ أخری إلی أن قتالھم لدفع الضرر ... ومن القائلین بھذا شیخ الإسلام ابن تیمےۃ ولہ في ذلک رسالۃ (نیل الأوطار: ۵/۲۷۲)
’’اور کفار سے قتال کا سبب ان کا کفر ہے، یہ بعض اہل علم کی رائے ہے، اور ایک دوسری جماعت کا موقف یہ ہے کہ قتال ان کے ضرر کو دفع کرنے کے لئے ہے... اس دوسری رائے کے حاملین میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ بھی ہیں اور ان کا اس موضوع پر ایک رسالہ بھی ہے۔‘‘
اس رسالہ کا تذکرہ شوکانی سے پہلے علامہ امیر صنعانی کے یہاں بھی ملتا ہے، بلکہ انہوں نے اس کی تائید کرتے ہوئے اپنے ایک رسالہ میں اس کی تلخیص بھی کی ہے جو ذخائر علماء الیمن نامی کتا ب میں شائع ہوچکی ہے۔
ابن تیمیہ نے اپنی دوسری کتاب النبوات میں بھی اس رائے کو واضح الفاظ میں بیان کیا ہے، بلکہ اس کو جمہور علماء کا مسلک قرار دیا ہے ،کہتے ہیں: 
الکفار إنما یقاتلون بشرط الحراب ، کما ذھب إلیہ جمھور العلماء ، وکما دل علیہ الکتاب والسنۃ (النبوات ص: ۱۴۰)
کفار سے جنگ اسی شرط پر کی جائے گی کہ وہ محاربہ کریں، جیسا کہ جمہور علماء کا مسلک ہے اور اسی پر کتاب وسنت کی دلیل قائم ہے۔
ابن تیمیہ اور شوکانی کی ان عبارتوں سے یہ قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ ان دونوں حضرات کے نزیک ماضی میں بھی اہل علم کی ایک تعداداسی کی قائل رہی ہے کہ قتال صرف ظلم وجارحیت کے خلاف ہی کیا جاسکتا ہے اور اس کی اصل علت محاربہ (یافتنہ وغیرہ) ہی ہے۔
ابن تیمیہ اپنی کتاب الصارم المسلول میں آیت کریمہ : ’’اور اللہ کے راستہ میں قتال کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں، اور زیادتی مت کرنا، اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ (البقرۃ : ۱۱۹) کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں :
فأمر بقتال الذین یقاتلون ، فعلم أن شرط القتال کون المقاتَل مقاتِلا (الصارم المسلول: ۹۶)
’’اللہ نے جنگ کرنے والوں سے قتال کرنے کا حکم دیا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ قتال کے لئے یہ شرط ہے کہ جس کے خلاف جنگ چھیڑی جائے وہ جنگ کررہا ہو۔‘‘

(۲) ابن قیمؒ:

ابن قیمؒ اپنی کتاب ہدایۃ الحیاری میں کہتے ہیں:
إنما کان (صلی اللہ علیہ وسلم) یقاتل من یحاربہ ، وأما من سالمہ وھادنہ فلم یقاتلہ (ہداےۃ الحیاری: ۱۲۱)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اسی سے جنگ کرتے تھے جو خود جنگ کرتا تھا۔ جو صلح کرتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے جنگ نہیں کرتے تھے۔

(۳) ابن جریر طبری:

سورۂ انفال کی یہ آیت گذر چکی ہے: ’’وإن جنحوا للسلم فاجنح لھا وتوکل علی اللہ‘‘ یعنی اگر یہ خدا اور مسلمانوں کے دشمن صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی صلح پر آمادہ ہو جانا ۔
ابن جریر طبری نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے پہلے تو یہ لکھا ہے کہ:
وان مالوا الی مسالمتک ومتارکتک الحرب، اما بالدخول فی الاسلام واما باعطاء الجزیۃ واما بموادعۃ ونحو ذلک من اسباب السلام والصلح فاجنح لہا، یقول فمل الیہا وابذل لہم ما مالوا الیہ من ذلک وسألوک۔
’’اگر وہ (دشمن ) تمہارے ساتھ صلح اور جنگ بندی پر آمادہ ہو جائے چاہے اسلام قبول کرکے یا جزیہ دے کر یا صلح کرکے، چاہے وہ کسی قسم کی اور کسی انداز کی بھی صلح ہو تو تم بھی صلح پسندی کا ثبوت دینا، اور وہ جو چاہیں وہ کر دینا اور دے دینا۔‘‘
آگے بڑھنے سے پہلے خط کشیدہ عبارت پر ایک مرتبہ نظر ڈال لیجیے۔ اس سے صلح کا کس درجے میں مطلوب ہونا معلوم ہوتا ہے۔
امام طبری آیت کی اس اجمالی وضاحت کے بعد قتادۃؒ اور بعض دیگر حضرات کے اس قول پر کہ یہ آیت منسوخ ہے اور اس کی بعد میں اجازت نہیں رہی، وہ تبصرہ کرتے ہیں جو پیچھے گذر چکا کہ: اس کی کتاب و سنت اور عقل وفطرت سے کوئی دلیل نہیں پیش کی جا سکتی۔
امام طبری کی اس عبارت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ اس آیت کا مفہوم یہی سمجھتے ہیں کہ اگر غیر مسلم ریاست اسلام اور جزیہ(یعنی مسلم حکومت کی تابعداری ) پر راضی نہ ہو کر کسی اور شراائط پر صلح کرنا چاہے تو اس کو قبول ہی کیا جائے اور صلح کی جائے۔واقعہ یہی ہے کہ آیت اپنے الفاظ اور اپنے سیاق و سباق کے لحاظ سے اس کے علاوہ کسی اور مفہوم کی گنجائش نہیں چھوڑتی۔

دلائل پر ایک نظر:

جو حضرات اس کے قائل ہیں کہ مسلمانوں کو بشرط قدرت ساری غیر مسلم حکومتوں سے جنگ کرنے کا حکم ہے، ان سے بھی جو محاربہ یا ظلم کے مرتکب ہوں اور ان سے بھی جو کسی قسم کے محاربہ کے مرتکب نہ ہوں، ان حضرات کے اہم دلائل حسب ذیل ہیں، اب وقت آیا ہے کہ ہم ان کا جائزہ لیں۔
۱۔ وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لاَ تَکُونَ فِتْنَۃٌ وَیَکُونَ الدِّیْنُ لِلّٰہ (البقرۃ : ۱۹۳) اور ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ ’’فتنہ‘‘ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لئے خالص ہوجائے۔
اس آیت میں قتال کا جو دوسرا مقصد ’’اور دین اللہ کے لئے خالص ہوجائے‘‘ بتایا گیا ہے، اس میں بعض مفسرین نے ’’دین‘‘ کے معنی اطاعت کے بیان کیے ہیں۔ (طبری)یہیں سے یہ حضرات یہ استدلال کرتے ہیں کہ آیت مسلمانوں کو حکم دیتی ہے کہ وہ تاحد مقدور اسلام کی حکومت کے قیام کے لئے قتال کریں۔ 
مولانا مودودیؒ اس استدلال کی وضاحت یوں کرتے ہیں:
’’اس مقام پر ’’فتنے‘‘ سے مراد وہ حالت ہے جس میں دین اللہ کے بجائے کسی اور کے لئے ہو، اور لڑائی کا مقصد یہ ہے کہ یہ ’’فتنہ‘‘ ختم ہوجائے اور دین صرف اللہ کے لئے ہو۔ پھر جب ہم لفظ ’’دین‘‘ کی تحقیق کرتے ہیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ عربی زبان میں دین کے معنی ’’اطاعت‘‘ کے ہیں، اور اصطلاحا اس سے مراد وہ نظام زندگی ہے جو کسی کو بالاتر مان کر اس کے احکام وقوانین کی پیروی میں اختیار کیا جائے۔ پس دین کی اس تشریح سے یہ بات خود واضح ہوجاتی ہے کہ سوسائیٹی کی وہ حالت جس میں بندوں پر بندوں کی خدائی وفرماں روائی قائم ہو، اور جس میں اللہ کے قانون کے مطابق زندگی بسر کرنا ممکن نہ رہے، فتنے کی حالت ہے، اور اسلامی جنگ کا مطمح نظریہ ہے کہ اس فتنے کی جگہ ایسی حالت قائم ہو، جس میں بندے صرف قانون الہی کے مطیع بن کر رہیں‘‘ (تفہیم القرآن۱/۱۵۱)
غور کریں تو یہ استدلال کمزور نظر آئے گا۔ چاہے دین اپنے اصطلاحی معنوں میں ہو یا آیت کے معنی یہ ہوں کہ اطاعت خالصۃً اور کل کی کل اللہ کی جائے، اس سے یہ مرادلینا کیسے صحیح ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کی حکومت قائم ہوجائے؟ مسلمانوں کی حکومت قائم ہوجائے اور اسلامی احکام کا قانونی نفاذ ہو بھی جائے تو بھی کفار اپنے شرک وکفر اور اللہ کی نافرمانی اور غیر اللہ کی اطاعت وبندگی پر قائم رہیں گے، ان کے احبار ورہبان ان کے لیے ناحق قانون سازی کرتے رہیں گے اور اسلامی حکومت ان کے بہت سے معاصی وقبائح ومنکرات کا خاتمہ نہیں کرے گی۔ پھر اس آیت سے استدلال کے کیا معنی؟ جہاد وقتال کے نتیجے میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہوجائے اور اسلامی قانون کے نفاذ اور جزیہ کی تحصیل کے بعد بھی نہ دین اپنے معروف معنی میں اللہ کے لئے خالص ہوتا ہے اور نہ اطاعت اللہ کے لیے ہوتی ہے۔ مشرکین کا شرک اور یہود ونصاری کی اطاعت رہبان واحبار بھی باقی رہے گی اور کفار کے معاصی بھی، کوئی جہاد دنیا میں دین یا اطاعت کو اللہ کے لئے خالص نہیں کرتا، پھر کیسے کہا جاسکتا ہے کہ جنگ کی غایت ’’دین کا یا اطاعت کا اللہ کے لئے خالص ہوجانا‘‘ ہے۔ جہاد کے نتیجے میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوگی تب بھی دین اللہ کے لئے خالص نہیں ہوگا نہ اطاعت اللہ کے لئے خالص ہوگی ۔ سادہ سے لفظوں میں آپ اس کو یوں کہہ سکتے ہیں کہ جہاد کے نتیجے میں جو اسلامی حکومت قائم ہوگی وہ زمین پر کفر کو بھی باقی رہنے دے گی اور (غیر مسلموں کے ذریعے) اللہ کی نافرمانیوں اور گناہوں کو بھی ۔ لہٰذا جنگ کا ہدف دین یا اطاعت کا اللہ کے لیے خالص ہو جانا نہیں قرار دیا جاسکتا۔
بعض علماء نے اس آیت میں دین کے معنی قہر وغلبہ کے لئے ہیں، جو یقیناً غلط فہمی ہے، ہم بصد ادب وضاحت کرتے ہیں کہ دین کے معنی عربی زبان میں قانون، اطاعت بدلہ وغیرہ کے تو آسکتے ہیں، قہر وغلبہ اور حکومت کے نہیں آتے۔ پھراس کا مطلب کیا ہے کہ جنگ کرو تاکہ دین اللہ کے لیے خالص ہوجائے؟ اس مشکل کا ایک ہی حل ہے اور وہ یہ کہ اس حقیقت واقعہ کو تسلیم کرلیا جائے کہ دراصل یہ آیت صرف مشرکین عرب کے سلسلہ کا حکم بیان کررہی ہے۔ آپ ذرا اس کے سیاق پر غور کیجئے۔
وَقَاتِلُوا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُونَکُمْ وَلاَ تَعْتَدُوا إِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبِّ الْمُعْتَدِیْنَ ۔ وَاقْتُلُوہُمْ حَیْْثُ ثَقِفْتُمُوہُمْ وَأَخْرِجُوہُم مِّنْ حَیْْثُ أَخْرَجُوکُمْ وَالْفِتْنَۃُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ وَلاَ تُقَاتِلُوہُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّی یُقَاتِلُوکُمْ فِیْہِ فَإِن قَاتَلُوکُمْ فَاقْتُلُوہُمْ کَذَلِکَ جَزَاء الْکَافِرِیْنَ۔ فَإِنِ انتَہَوْا فَإِنَّ اللّٰہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ ۔وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لاَ تَکُونَ فِتْنَۃٌ وَیَکُونَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ فَإِنِ انتَہَوا فَلاَ عُدْوَانَ إِلاَّ عَلَی الظَّالِمِیْنَ (البقرۃ: ۱۹۰۔۱۹۳)
’’اور اللہ کے راستے میں ان سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کررہے ہیں۔ اور زیادتی مت کرنا اللہ زیادتی کرنے والوں کو ناپسند کرتا ہے۔ اور ان کو قتل کرو جہاں پاؤ ، اور وہاں سے ان کو نکالو جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے۔ اور ’’فتنہ‘‘ قتل سے سنگین تر ہے، اور ان سے مسجد حرام کے پاس جنگ مت کرنا جب تک وہ وہاں تم سے جنگ نہ کریں، اگر وہ مسجد حرام میں تم سے جنگ کریں تو تم ان کو قتل کرو۔ کافروں کا یہی بدلہ ہے۔ تو اگر وہ باز آجائیں (شرک سے) تو اللہ غفور ورحیم ہے۔ اور ان سے جنگ کرو اس وقت تک جب تک کہ فتنہ نہ ختم ہوجائے اور دین اللہ کے لئے خالص ہوجائے۔ اگر وہ باز آجائیں(جنگ )سے تو کوئی زیادتی نہیں کی جائے گی سوائے ظالموں کے (کسی پر)َ ۔‘‘
آیات کا سیاق قطعی طور پر ان مشرکین مکہ کے ساتھ خاص ہے جنہوں نے اسلام کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی تھی، جن کے خلاف مسلمانوں میں جوش حمیت پیدا کرنے کے لئے قرآن نے کہا تھا: وھم بدؤوکم أول مرۃ (انہوں نے ہی لڑائی کی ابتدا کی تھی)۔ ان مشرکین کے سلسلے میںیہ سلسلۂ آیات شروع ہی یہاں سے ہوا ہے کہ : ’’اللہ کے راستے میں ان لوگوں سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں‘‘۔ اس سلسلۂ بیان میں حکم دیا گیا ہے کہ ان مشرکین سے تم کو جنگ شروع کرنے کا جو حکم دیا جارہا ہے اس کی عملی غایت اور انتہا یہ ہے کہ ان کا فتنہ ختم ہوجائے اور دین اللہ کے لئے خالص ہوجائے۔ اس سیاق وپس منظر میں دین کے اللہ کے لئے اصل ہوجانے کا مطلب یہ ہے کہ یہ مشرکین جس علاقے یعنی جزیرۂ عرب کے باسی ہیں اس کے بارے میں یہ طے ہے کہ یہاں دین صرف اللہ کا ہی رہے گا۔ اسی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض وفات میں وصیت فرمائی کہ : ’’مشرکین کو جزیرۂ عرب سے نکال دیا جائے‘‘(صحیح بخاری ، کتاب الجہاد، باب جوائز الوفد) اور یہی محمل ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور ارشاد: ’’ أمرت أن أقاتل الناس حتی یشھدوا أن لا إلہ إلا اللہ۔۔۔‘‘۔ مجھے لوگوں سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک کہ وہ اسلام قبول کرلیں۔
اس معنی کو حتمی طور پر طے کرنے والی یہ بات ہے کہ متفقہ طور پر لوگوں سے زبردستی اسلام قبول کروانا جنگ کی غایت ہرگز نہیں ہے۔ اگر اس حدیث کو (مذکورہ بالا آیت کی طرح) جزیرۃ العرب کے ساتھ خاص نہ مانا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ مجھے لوگوں سے جنگ کرنے اور قتل وقتال کرنے کا حکم ہے الا یہ کہ وہ اسلام قبول کرلیں۔
تقریباً یہی الفاظ سورۂ انفال آیت ۳۹ میں بھی آئے ہیں، وہاں بھی سیاق یقینی طور پر مشرکین مکہ کو متعین کرنے والا ہے۔
(۲،۳) اس موقف کے اہم دلائل میں سورۂ توبہ کی دو آیتیں بھی ہیں:
قَاتِلُواْ الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُونَ بِاللّٰہِ وَلاَ بِالْیَوْمِ الآخِرِ وَلاَ یُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ وَلاَ یَدِیْنُونَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ أُوتُوا الْکِتَابَ حَتَّی یُعْطُواْ الْجِزْیَۃَ عَن یَدٍ وَہُمْ صَاغِرُون۔ (آیت : ۲۹)
’’جنگ کرو ان لوگوں سے جو ایمان نہیں رکھتے اللہ پر اور نہ آخرت کے دن پر اور دین حق کی اتباع نہیں کرتے، یعنی اہل کتاب سے، یہاں تک کہ وہ جزیہ دیں ہاتھ سے اور تابع بن کر رہیں۔‘‘
دوسری آیت اسی سورت کی یہ آیت ہے : 
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ قَاتِلُواْ الَّذِیْنَ یَلُونَکُم مِّنَ الْکُفَّارِ وَلْیَجِدُواْ فِیْکُمْ غِلْظَۃً (آیت : ۱۲۳)
’’اے ایمان والو! اپنے پاس کے کفار سے جنگ کرو، اور چاہئے کہ وہ تم میں سختی پائیں۔‘‘
ان دونوں آیتوں سے استدلال اس طور پر ہے کہ پہلی آیت میں قتال کے حکم کے ساتھ اس حکم کی غایت یہ بتادی گئی کہ یہ اہل کتاب کفار مسلمانوں کے تابع ہوکر جزیہ دینے پر راضی ہوجائیں، تاکہ ان کی بالادستی اور خودمختاری ختم ہوجائے، وہ زمین میں صاحب امر اور حاکم بن کر نہ رہیں، بلکہ زمین کے نظام زندگی کی باگیں اور امامت وفرماں روائی کے اختیارات دین حق کی اتباع کرنے والوں کے ہاتھوں میں آجائیں۔ دوسری آیت بھی مطلقاً کفار سے جنگ کرنے کا حکم دیتی ہے، اور اس میں کہیں اس کا اشارہ بھی نہیں ہے کہ وہ دعوت حق کا راستہ روکیں، یا اللہ کے بندوں پر ظلم کریں یا مسلم حکومت کے خلاف جارحیت کے مرتکب ہوں۔
دراصل ان آیتوں کا مدعا اور ان میں دیے گئے حکم کی اصل نوعیت سمجھنے کے لئے ان کے پس منظر اور ان حالات کو جاننا ضروری ہے جن کے درمیان وہ نازل ہوئیں۔ کسی کلام کو اگر اس کے پس منظر سے کاٹ دیا جائے یا ان حالات کو نظر انداز کردیا جائے جن میں وہ صادر ہوا ہے تو کچھ کا کچھ مطلب ہوجانا ممکن ہوجاتاہے۔
قرآن مجید قانون کی کسی کتاب کی طرح دفعات کی زبان میں نازل نہیں ہورہا تھا۔ اس کے صحیح فہم کے لئے ضروری ہے کہ ان واقعات کی کھوج کی جائے جن میں کوئی خاص مجموعۂ آیات نازل ہوا تھا اور ذہن وتصور کو اس ماحول میں پہنچانے کی پوری کوشش کی جائے۔
یہ آیات غزوۂ تبوک کے موقع پر نازل ہوئی ہیں۔ یہ بیزنطینی روم کے خلاف ایک مہم تھی جو سن نو ہجری میں انجام دی گئی، اس وقت ہرقل عظیم رومن سلطنت کے فرماں روائے اعظم قیصر کی حیثیت سے سریرآرائے سلطنت ہوچکا تھا، اور اسی لئے اسلامی مآخذ اس کو کبھی قیصر اور کبھی ہرقل کہتے ہیں۔ رومن حکومت کی کچھ عمل داریاں عرب سرزمین میں حدود شام اور شام کے اندر قائم تھیں۔ شمال عرب میں غسانیوں کی مشہور حکومت تو مستقل طور پر ان کی تابع تھی ہی، اس کے علاوہ اسی علاقہ کی کچھ دیگر قبائلی طاقتیں بھی رومیوں کی عمل داری میں تھیں اور عیسائی ہوچکی تھیں، گویا یہ پورا خطہ رومی سلطنت عظمیٰ کا حصہ تھا۔
رومی سلطنت سے کشمکش کا آغاز ۸ھ ؁ میں فتح مکہ سے پہلے ہوچکا تھا ، روم جیسی توسیع پسند جابر طاقت کو جس نے جاگیرداری کے ظالم نظام میں غریب عوام کو جکڑ رکھا تھا، اپنے بالکل پڑوس میں ایک ایسی ابھرتی ہوئی طاقت کیسے برداشت ہوسکتی تھی جس کے جلو میں دلوں کو فتح کرنے والی ایک ایسی دعوت تھی جس کا اعلان تھا: ’’اللہ کی بندگی میں داخلہ اور بندوں کی غلامی سے آزادی‘‘۔ ابتداء ایسے ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۱۵ آدمیوں کی ایک جماعت ان رومی عیسائی علاقوں میں بھیجی انہوں نے وہاں دعوت اسلام دی، مگر ان سب کو ذات اطلاح نامی مقام پر قتل کر دیا گیا۔ ان کے امیر حضرت کعب بن عمیر نہایت زخمی حالت میں بچ کر مدینہ واپس آئے اور اس سنگین واقعہ کی اطلاع دی۔ (البدایہ والنہایۃ) 
ابھی یہ زخم تازہ ہی تھا کہ رومی حکومت کی ایک اور اسلام دشمن حرکت سامنے آئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شمال کے ان عرب علاقوں میں مستقل دعوتی مہمیں بھیجی تھیں۔ ان کے نتیجہ میں فروۃ بن عمرو (یا ابن نفاثہ) نامی ایک عرب حاکم نے جو رومیوں کی جانب سے عرب قبائل پر متعین تھا اسلام قبول کرلیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیر سگالی کے طور پر کچھ ہدایا بھی بھیجے۔ رومیوں نے اس کو مرکز طلب کیا اور قتل کرکے سولی پر چڑھا دیا۔ (سیرت ابن ہشام)
اسی زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرماں روایان ممالک کو دعوت اسلام کے خطوط بھیجے تھے، ان میں ایک خط بصریٰ کے حاکم کے نام بھی تھا۔ راستے میں غسانی بادشاہ شرحبیل بن عمرو نے، جو رومی حکومت کا علاقے میں نائب تھا اور عیسائی تھا، آپ کے سفیر حضرت حارث بن عمیر کو پکڑ کر قتل کردیا۔ جیساکہ اوپر ذکر کیا جاچکا ہے یہ پورا خطہ رومی سلطنت میں داخل اور عیسائی حکومتوں کے تابع تھا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان طاقتوں کی تادیب ضروری سمجھی۔ اس کے بعد موتہ کا معرکہ ہوتاہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غالبا اندازہ تھا کہ رو م کی تابع ان عرب ریاستوں کے لئے ایک مختصر فوج (۳ ہزار) کافی ہونی چاہئے۔ مگر ادھر براہ راست قیصر (ہرقل) حرکت میں آچکا تھا۔ اسلامی لشکر علاقے میں پہنچا تو پتہ چلا کہ رومی زبردست لشکر کشی کرنے کی تیاری کرچکے ہیں، غسانی عیسائی عرب قبائل کی بڑی تعداد لے کر سامنے ہیں اور ایک بڑی کمک لے کر ہرقل کا بھائی تھیوڈور آرہا ہے۔ خود قیصر روم حمص میں پڑاؤ ڈالے ہے، بہرحال اللہ کی نصرت اورمجاہدین کی جانبازیوں کی بدولت لشکر اسلام بحفاظت واپس آگیا، اور رومیوں کو اندرون عرب لشکر کشی کی جرأت نہیں ہوئی۔
خود مدینے کے اندر سے ایک فتین شخص ابوعمرو راہب عیسائی ہوکر غسانیوں کے یہاں بھاگ گیا تھا، اور مستقل اس سازش میں مصروف تھا کہ وہاں سے ایک بڑی فوج لے کر مدینہ پر حملہ کرے، مدینہ میں منافقین مستقل اسی کے رابطے میں تھے، آخر جب یہ سازش اپنے عروج کو پہنچی تو انہوں نے عین مدینہ میں مسجد کے نام پر اپنا ایک مستقل مرکز بھی بنالیا جہاں بیرونی حملہ آور افواج کی مدد کے منصوبے تیار ہوتے تھے۔ قرآن نے اسی پوری سازش کا پردہ چاک کیا کہ یہ مرکز دراصل رومی حملہ کی سازشوں کا گڑھ ہے۔ (سورۂ توبہ: ۱۰۷)
اب سن ۹ ہجری آتا ہے۔ ان مذکورہ واقعات کے علاوہ بھی ان تین چار سالوں میں رومیوں کی طرف سے ایسی اور بھی کئی حرکتیں ہوئیں جن کا مطلب واضح طور پر یہی تھا کہ رومیوں کے ارادے خطرناک ہیں۔ رومیوں کی حرکتیں اس درجہ بڑھ گئی تھیں کہ صحابہ کرام کو ہر دم رومی حملے کا اندیشہ لاحق تھا۔ اور اس کی وجہ سے مدینہ پر ایک درجے کا خوف طاری تھا۔ ایلاء کے سلسلۂ واقعات میں آتا ہے کہ جب حضرت عمر کے ایک پڑوسی نے ان کا دروازہ کھٹکھٹایا اور نہایت بے چینی کے ساتھ کہا کہ : ارے! بڑا حادثہ ہوگیا‘‘ توحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دفعۃً پوچھا :کیا ہوا؟ کیا غسانیوں (رومیوں) نے حملہ کردیا؟ خود حضرت عمر بیان کرتے ہیں کہ اس زمانے میں یہ خبریں آرہی تھیں کہ غسانی حملے کی تیز رفتار تیاریاں کررہے ہیں۔ (صحیح بخاری: ۵۱۹۱) اب تاجروں اور مسافروں نے آآکر خبریں دیں کہ رومی اپنے تابع عیسائی عرب قبائل اور ریاستوں کے ساتھ مل کر مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے تیاریاں کررہے ہیں، فوجوں کو ایک سال کی تنخواہیں پیشگی باٹی گئی ہیں، اور کچھ دستے بلقاء تک پہنچ رہے ہیں۔ ( المواہب اللدنیہ مع شرح الزرقانی ۳/۶۳، ابن سعد ۲/۱۶۵) روایات بتاتی ہیں کہ عیسائی قبائل نے اپنے آقا قیصر روم کو خط لکھ کر یہ خبر دی کہ عرب میں اس سال شدید قحط ہے، حملہ کرنے کے لئے یہ موقع اچھا ہے تواس نے اپنی طرف سے ایک بڑی فوج بھیجی ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی : ۱۸/۲۳۱)
ان حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ تبوک کا فوری حکم دیا اور باوجود اس کے کہ موسم سخت گرم تھا اور مسلمانوں کو سخت غربت اور تنگ حالی کا سامنا تھا کوئی تاخیر اس لئے ممکن نہیں تھی کہ خطرہ نہایت سنگین تھا اور فوری تھا۔ فتح مکہ کے بعد عرب قبائل کا اسلام ایسا مضبوط نہیں ہوا تھا کہ اگر رومی اندرون عرب گھس کر حملہ کرتے تو ان سے استقامت کی امید کی جاتی۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان قبائل کی بڑی تعداد کے ارتداد اور بغاوت نے ثابت بھی کردیا کہ اگر روم جیسی طاقت کا حملہ ہوتا تو یہ قبائل یقیناً بغاوت کردیتے اور اسلامی حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجادیتے ۔ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرحد پر جاکر ہی دشمن کو روکنا اور مسلمانوں کی قوت کا رعب قائم کرنا ہرحال میں ناگزیر جانا۔ 
ان حالات میں یہ دونوں آیتیں مسلمانوں کو رومی طاقتوں سے جنگ کے لئے حکم دینے اور اس پر ابھارنے کے لئے نازل ہوئیں۔
اس دراز تفصیل کی ضرورت اس لئے ہوئی کہ یہ واضح کیا جاسکے کہ سطحی طور پر یہ سمجھنا کہ ان آیات میں آیات دراصل اہل کتاب سے جنگ کے فقہی مسئلہ کو بیان کیا گیا ہے یا ابتداءً اس کا حکم دیا گیا ہے، بالکل غلط ہے۔ یہ آیات اس مقصد کے لیے نازل نہیں ہوئیں، اہل کتاب سے اور رومی عیسائی طاقتوں سے کشمکش پہلے سے جاری تھی، اور یہ جنگ پہلے سے فرض ہوچکی تھی، یہ آیات مسلمانوں میں اس جنگ کے لئے ہمت وجوش پیدا کرنے کے لئے نازل ہوئی ہیں۔ یہی ان کا اصل مقصود و معنی ہے۔ اور رومیوں کی یہ صفات کہ وہ اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے دین حق کے منکر ہیں، اور اللہ ورسول کے محرمات کو حرام نہیں سمجھتے، فوجوں کے اندر جوش اور ان کے خلاف غیظ وغضب پیدا کرنے کے لئے بیان کی گئی ہیں۔ یہ رومیوں سے قتال کی علت نہیں ہیں۔ قتال کی علت رومیوں کا صد عن سبیل اللہ (اللہ کے راستے سے روکنا) ایک مسلمان کو اسلام قبول کرنے کی پاداش میں قتل کرنا (فتنہ) اور مسلمانوں پر حملہ کرنے کی تیاریاں (محاربہ) کرنا تھا۔
بہرحال اس سے پتہ چلتا ہے کہ شمال عرب کی ان ساری مہموں کی اصل علت ’’محاربہ‘‘ اور ’’فتنہ‘‘ تھی۔ رومیوں سے جنگ کا حکم دینے والی انہی آیات کے سلسلہ میں آگے جاکر ارشاد ہوتاہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ قَاتِلُواْ الَّذِیْنَ یَلُونَکُم مِّنَ الْکُفَّارِ وَلْیَجِدُواْ فِیْکُمْ غِلْظَۃً ۔
’’اے ایمان والو! ان کافروں سے ، جو تمہارے قریب ہیں ، جنگ کرو اور چاہے کہ وہ تمہارے اندر سختی پائیں۔‘‘
گذشتہ تفصیل کی روشنی میں آیات کا سیاق بالکل یقینی طور پر واضح کرتا ہے کہ آیت کے نزول کے وقت اصلا ’’الذین یلونکم من الکفار‘‘ سے مراد یہی رومی طاقتیں ہیں جو عرصے سے محاربہ کررہی تھیں اور جن کے خلاف جنگ پہلے سے چلی آرہی تھی۔ درمنثور میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی روایت سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا تھا کہ اس سے مراد روم والے ہیں۔ مفسرین نے اس کے اصل معنی یہی لیے ہیں۔ اس سے واضح ہے کہ یہ کوئی ایسا اصول نہیں بتایا یا جارہا تھا جس کی رو سے مسلمانوں پر اپنے قریب کی غیر مسلم حکومتوں سے جنگ کرنا ہمیشہ اور بغیر کسی سبب کے ضروری قرار پائے۔ ہاں اگر کوئی اس سے اور ان دونوں آیتوں سے قیاس کے طور پر یہ استدلال کرے کہ جس علت وسبب کی بنا پر ان روم والوں سے جنگ واجب قرار پائی تھی وہ علت جن ’’ کفار‘‘ میں بھی پائی جائے گی اور جب بھی پائی جائے گی ان سے جنگ مسلمانوں پر فرض ہوگی تو یہ قیاس بالکل صحیح ہوگا۔
پھر ان اسباب کی تحقیق میں تاریخی طور پر یہ طے ہے کہ روم کی حکومت اور اس کی تابع ریاستیں صرف محارب ہی نہیں تھیں بلکہ اسلامی ریاست کے لئے ایسا شدید خطرہ بنی ہوئی تھیں کہ اگر ان کو ذرا نظر انداز کیا جاتا تو اسلام اور اسلامی ریاست کا وجود ہی خطرے میں پڑجاتا۔
(۴) اس موقف کے حامل حضرات کثیر تعداد میں ان نصوص کو بھی پیش کرتے ہیں جن میں کفار یا مشرکین سے جنگ کرنے کا حکم آیا ہے۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ان نصوص پر سرسری نظر ڈالی جائے تو یہ تأثر یقیناً قائم ہوتا ہے کہ سارے کفار ومشرکین سے جنگ کا حکم دیا جارہا ہے۔ مگر اگر قرآن مجید کے سیاق وسباق میں غور کیاجائے اور یہ اصول مد نظر رہے کہ قرآن مجید کی آیات جنگ کے حالات میں نازل ہوا کرتی تھیں جب کہ کفار ومشرکین کے مخصوص گروہوں یعنی مشرکین مکہ ، دیگر عرب قبائل اور یہود مدینہ اور نصارائے شام وروم میں سے کسی کے خلاف جنگ قائم ہوتی تھی تو یہ سمجھ لینے میں دقت نہیں پیش آئے گی کہ ان نصوص کا مقصد لوگوں میں ان دشمنوں سے قتال کے لئے جوش وآمادگی پیدا کرنا ہوتا تھا۔ اگر یہ اصول مد نظر رہے تو صاف واضح ہو جائے گا اس طرح کی آیات اور احادیث میں دنیا کے تمام کفار ومشرکین نہیں بلکہ وہی لوگ مراد ہوتے تھے جن سے اس وقت جنگ درپیش ہوتی تھی۔ ہاں باقی دیگر غیر مسلم ریاستوں کے سلسلے میں ان آیات واحادیث اور ان میں مذکور غیر مسلم ریاستوں کے معروضی حالات پر غور کر کے قیاس کے ذریعے سے شرعی حکم جانا جا سکتا ہے۔
مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فوجوں کو روانہ کرتے تو جو ہدایا ت دیتے تو ان میں یہ بات بھی فرماتے:
اغزوا باسم اللہ قاتلوا من کفر باللہ (صحیح مسلم ، کتاب الجہاد ، باب تامیر الإمام الأمراء)
’’اللہ کے نام پر جنگ کو جاؤ ، اللہ کا انکار کرنے والوں سے جنگ کرو۔‘‘
یا جیسے قرآن میں کہا گیا :
وَقَاتِلُواْ الْمُشْرِکِیْنَ کَآفَّۃً کَمَا یُقَاتِلُونَکُمْ کَآفَّۃً (التوبۃ: ۳۶)
تمام مشرکوں سے جنگ کرو جیساکہ وہ سب کے سب تم سے جنگ کرتے ہیں۔
اس آیت میں تمام مشرکین سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا، مگر آگے اس کا سبب یہ بیان کیا گیا کہ ’’جیسا کہ وہ سب کے سب تم سے برسر پیکار وجنگ ہیں، اس لئے تم بھی ان سب سے جنگ کرو‘‘۔ اس سبب کے بیان سے خود بخود مراد طے ہوگئی کہ اس آیت سے صرف مشرکین عرب مراد ہیں۔

مولانا مودودی ؒ کا خاص استدلال:

مولانا مودودی ؒ نے اس نقطۂ نظر کو کہ مسلمانوں کو بشرط مقدور غیر مسلم حکومتوں سے ہر حال میں جنگ کرنی ہے،نہایت تفصیل سے بیان کیا ہے اور اس کے دلائل مرتب کیے ہیں۔ مولانا اس کو مصلحانہ جنگ کا نام دیتے ہیں۔ موصوف نے ایک نہایت طویل بحث کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ مسلمانوں کی اجتماعیت کا اصل مقصد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے، یہ امت اسی فریضہ کی انجام دہی کے لئے قائم کی گئی ہے۔
پھر مولانا فرماتے ہیں کہ امر بالمعروف تو طاقت کے زور سے انجام دیے جانے والا فریضہ نہیں ہے، وہ تو وعظ ونصیحت کے ذریعہ انجام دیا جائے گا۔ البتہ منکر کی مولانا نے دو قسمیں قرار دی ہیں، (۱) قلب وذہن کی گندگی اور خیال ورائے کی ناپاکی۔ اس کو دور کرنے کے لئے وعظ وتلقین کا حکم دیاگیا ہے۔ اور (۲) فعل وعمل کی برائی (منکر) کو بزور طاقت مٹانے کو مسلمانوں کا فریضہ قرار دیا گیا ہے۔ اس کے لئے مولانا نے ان احادیث کا حوالہ دیا ہے جن میں منکر سے اگر قدرت ہو تو طاقت کے زور سے روکنے کا حکم آیا ہے: ’’فلیغیرہ بیدہ‘‘۔ پھر مولانا فرماتے ہیں کہ ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ :
’’اگر مسلمانوں میں اتنی قوت ہو کہ تمام دنیا کو منکر سے روک کر اسے قانون عدل کا مطیع بنادیں تو ان کا فرض ہے کہ اس قوت کو استعمال کریں اور جب تک اس کام کو پاےۂ تکمیل تک پہنچا نہ دیں چین نہ لیں۔ ‘‘
یقیناً احادیث میں اس کا حکم آیا ہے کہ ’’تم میں سے جو کوئی برائی (منکر) دیکھے تو اس کو اگر قدرت ہو تو ہاتھ سے مٹادے، مگر باتفاق علماء یہ حکم مسلم امت کے داخلی دائرے کے اندر کا ہے۔ کسی نے اس کا مطلب یہ نہیں سمجھا ہے کہ جو غیر مسلم ان منکرات کو منکر ہی نہیں جانتا مثلا شراب خوری، کھانے پینے کے سلسلے کی حرام اشیاء، ہر مسلمان ان کو بھی بزور وطاقت مٹانے کا (بشرط قدرت) ذمہ دار ہے۔ یہیں سے مولانا کا استدلال بے محل ثابت ہوجاتاہے۔ یہ بنیادی سوال اٹھتا ہے کہ منکر کی وہ بڑی قسم جس کو مولانا قلب وذہن کی گندگی کہتے ہیں اس کا طاقت کے زور سے مٹانا کیوں منع قرار پائے؟ حدیث میں تو تمام ہی منکرات کو بزور مٹانے کی سکت ہونے پر ایسا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ بلکہ ’’منکراً‘‘ کا نکرہ ہونا تمام ہی منکرات کے اس ذیل میں آنے کو بتا تا ہے۔ پھر یہ استثنا کیوں کر ممکن ہے؟ اس کا کیا سبب ہے کہ ہم ا س سے صرف فعل وعمل کی برائی مراد لیں۔ پھر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جہاد فعل وعمل کی بہت سی برائیوں کو جن کا تعلق اجتماعی ظلم سے نہیں ہوتا باقی رہنے کی اجازت دیتا ہے۔ مثلا اسلام کی فتح کے بعد بھی غیر مسلموں کے لیے شراب پینا، بنانا، اس کی خرید وفروخت وغیرہ جائز ہی رہتے ہیں۔ پھر جہاد کا مقصد فعل وعمل کی برائی کے خاتمہ کہاں رہا؟
آگے مولانا فرماتے ہیں کہ ’’منکر کی اسی دوسری قسم کو ... اللہ تعالی نے فتنہ وفساد سے تعبیر فرمایا ہے، چنانچہ ان تمام آیات میں جن میں منکر کے خلاف جنگ کی اجازت دی گئی ہے یا جنگ کی ضرورت ظاہر فرمائی گئی ہے، یا اسے بزور شمشیر مٹانے کا حکم دیا گیا ہے، آپ کو منکر کے بجائے یہی فتنہ وفساد کے الفاظ ملیں گے‘‘ ۔
پھر مولانا نے ’’قاتلوھم حتی لا تکون فتنۃ‘‘ والی آیت کے علاوہ کچھ اور آیات بھی پیش فرمائی ہیں جن کے بارے میں مولانا کا کہنا یہ ہے کہ ان میں ’’بزور شمشیر‘‘ جہاد کرکے ’’فتنہ و فساد‘‘ کو مٹانے کا حکم دیا گیا ہے۔ مگر مجھے سخت حیرت ہے کہ اس مقام پر مولانا ایسی آیات بھی کیسے اور کیوں کر ذکر کرگئے ہیں جن کا موضوع جہاد وقتال سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔ مثلاً قرآن نے ذکر کیا ہے کہ بنی اسرائیل پر واضح کردیا گیا تھا کہ جس نے کسی جان کو قتل کیا بغیر اس کے کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں فساد مچایا ہو تو گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کردیا۔ (من قتل نفسا بغیر نفس أو فساد فی الأرض فکأنما قتل الناس جمیعا۔ المائدہ ۳۲) ایک جگہ قرآن نے منافقین کے بارے میں کہا کہ وہ پہلے بھی مسلمانوں میں افتراق وانتشار پیدا کرنا اور ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام سے روگرداں کرنا چاہتے تھے، ان کے اس عمل کو قرآن نے ’’فتنہ پروری‘‘ سے تعبیر کیا اور کہا: ’’لقد ابتغووا الفتنۃ من قبل‘‘۔ مولانا رحمہ اللہ نے یہاں یہ دونوں آتیں بھی نقل فرمائی ہیں جو بے محل ہیں، یقیناًدونوں مقامات پر جن اعمال اور کرداروں کو فساد یا فتنہ کہا گیا ہے وہ خطرناک قسم کے منکر ہیں۔ مگر قرآن نے ان کے خلاف جہاد کا حکم دیا ہے اور نہ ہی ایسے منکرات کا استیصال جہاد کے ذریعہ ممکن ہے۔
آگے چل کرمولانا مرحوم نے ایک مرتبہ پھر تفصیل سے واضح کیا ہے کہ قرآن نے کن کن جرائم کو فساد قرار دیا ہے، تفصیل کا یہ موقع نہیں ورنہ ہم مولانا کی یہ پوری بحث نقل کرتے تاکہ قارئین کو اندازہ ہوتا کہ مولانا کی اس تشریح نے ساری ہی برائیوں اور خرابیوں کو اپنے دائرہ میں لے لیا ہے یہاں تک کہ ’’الإثم‘‘ (گناہ) کو بھی مولانا نے اس فساد کا مصداق قرار دیا ہے کہ جو کسی قوم میں اگر پایا جائے تو اس کے خلاف جنگ ضروری ہو جائے گی۔ بصد ادب ہم عرض کرتے ہیں کہ فتنہ کی اس قدر تعمیم بہت ہی محل نظر ہے۔

فتنہ کی تشریح:

مولاناؒ کے اس موقف کی شاید اہم ترین بنیاد ’’فتنہ‘‘ کی وہ خاص تشریح ہے جو انہوں نے جنگ کی غایت اور انتہا بتانے والی آیت ’’وقاتلوھم حتی لا تکون فتنۃ‘‘ (ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ نہ باقی رہے) کے ذیل میں کی ہے۔ مولاناؒ نے منکر کی دو قسمیں: (قلب وذہن کی گندگی ، (۲) فعل وعمل کی برائی بیان کرنے کے بعد کہاہے:
’’ منکر کی اس دوسری قسم کو جس کے خلاف اسلام میں قوت استعمال کرنے کا حکم دیاگیا ہے پہلی قسم سے ممتاز کرنے اور اس کی نوعیت کو اور زیادہ واضح کردینے کے لئے اللہ تعالی نے فتنہ اور فساد کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے، چنانچہ ان تمام آیات میں جن میں منکر کے خلاف جنگ کی اجازت دی گئی ہے، یا جنگ کی ضرورت ظاہر فرمائی گئی ہے، یا اسے بزور شمشیر مٹانے کا حکم دیا گیاہے، آپ کو منکر کے بجائے ہی فتنہ وفساد کے الفاظ ملیں گے۔‘‘ (الجہاد فی الإسلام،ص: ۱۰۴)
ہم پورے ادب سے عرض کرتے ہیں کہ قتال وجنگ کی علت کے طور پر جن دومقامات پر قرآن نے ’’فتنہ‘‘ کا تذکرہ کیا ہے ان میں یہ ’’فعل وعمل کی برائی‘‘ کا مفہوم نہ کسی کوشش سے پیدا کیا جاسکتا ہے نہ آج تک کسی عالم نے پیدا کیا ہے۔ یہ سراسر ایک جدت ہے۔ حقیقۃً یہاں صرف ظلم وجبر اور تعذیب کے ذریعہ لوگوں کو اسلام سے روکنا ہی مراد ہے۔ اور خود مولانا بھی اسی کتاب میں ایک جگہ فتنہ کی یہی حقیقت بیان فرماتے ہیں۔
اب یہ لاینحل معمہ پھر ہمارے سامنے آجاتا ہے کہ پہلے تو مولانا نے یہ فرمایا کہ فعل وعمل کی برائی وہ منکر ہے جس کو قرآن فتنہ اور فساد کا نام دے کر اس کے خلاف جنگ کا حکم دیتا ہے۔ اور آگے صفحہ ۱۰۶ پر ’’فتنہ کی تحقیق‘‘ کے زیر عنوان رقم فرماتے ہیں کہ ’’اس مؤخر الذکر مفہوم میں فتنہ کا لفظ تقریبا انگریزی لفظ (Persecution) کے ہم معنی ہے۔‘‘ ان دونوں باتوں میں کیسے جوڑ پیدا کیا جائے۔ 
نیز مولانا نے ’’فتنہ‘‘ کے جو قرآنی استعمالات نقل کئے ہیں ان میں کہیں بھی فتنہ سے مراد فعل وعمل کی برائی والا منکر نہیں ہے جیسا کہ مولانا نے پہلے دعویٰ فرمایا تھا۔

فساد کی تشریح:

البتہ مولانا نے ’’فساد‘‘ کی جو تشریح فرمائی ہے اس سے صاف واضح ہوتاہے کہ ان کی منشا تمام مفسد اخلاق گناہوں کو قرآن میں ’’فساد‘‘ کا مصداق قرار دینا ہے، موصوف نے فساد کے علت قتال ہونے پر دو آیتیں پیش فرمائی ہیں:
(۱) ولولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لفسدت الأرض۔ اگر اللہ لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے سے دفع نہ کرتا تو زمین میں فساد پیدا ہوجاتا۔
(۲) من قتل نفساً بغیر نفس أو فساد في الأرض فکأنما قتل الناس جمیعاً۔ جس نے کسی کو قتل کیا بغیر کسی قتل یا فساد کی سزا کے توگویا اس نے ساری انسانیت کو قتل کردیا۔
یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اس میں سے دوسری آیت تو کسی طرح جہاد وقتال سے متعلق ہے ہی نہیں۔ اس کو جو کچھ تعلق ہے وہ حدود وتعزیرات سے ہے۔ مولانا جیسے ذہین شخص نے اس کو کیسے یہاں ذکر کیا اس پر حیرت ہے۔ 
جہاں تک پہلی آیت کا تعلق ہے یقیناً اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ جنگوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ دنیا کو بگاڑ سے بچاتاہے۔ تفصیل کا موقع نہیں ورنہ ہم آیات کا سیاق پورا ذکر کرتے کہ یہاں قرآن بنی اسرائیل کے ہاتھوں ایک ظالم دشمن دین طاقت کی شکست کا تذکرہ کررہاہے، اس کے بعد کہہ رہا ہے کہ اسی طرح جنگوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو ظلم سے باز رکھتا ہے ورنہ دنیا تباہ ہوجائے۔
ذرا سے غور وفکر سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہاں فساد سے مراد وقت کے کفار کی وہ ظلم وسرکشی ہے جس کا سامنا بنی اسرائیل کرتے آرہے تھے، اور جس کا تذکرہ بنی اسرائیل کے قائدین کی زبانی ان الفاظ میں کیا گیا ہے کہ ہمارے دشمنوں نے عرصے سے ہم کو اپنے وطن سے نکال دیاہے، اور ہمارے بچوں (اور عورتوں) کو قیدی بنالیاہے‘‘ (وقد اُخر جنا من دیارنا وأبنائنا) بنی اسرائیل کی تاریخ کے اس واقعہ کے بیان سے پہلے جو آیات ۲۴۳تا ۲۴۵) ہیں وہ مسلمانان مدینہ کو مکہ ظالم طاقت کے خلاف جنگ کرنے اور اس کی تیاری کے لئے مال خرچ کرنے کا حکم دینے والی آیات ہیں۔
اس سیاق میں بنی اسرائیل کی اسی حالت مظلومیت کا تذکرہ یقیناًمسلمانوں کو ان کی اپنی حالت یاد دلاتا تھا۔ اس ماحول اور سیاق کو ذہن میں رکھنے کے بعد بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ یہاں ’’فساد‘‘ سے کیا مراد ہے یقیناً’’فعل وعمل کی برائی‘‘ جس کے دائرے میں مولانا آگے جاکر وہ تمام گناہ داخل بتائے ہیں جو آدمی کے ذاتی اخلاق کو غارت کرتے ہیں، ہر گز یہاں مراد نہیں ہے۔ بلکہ قرآن نے کسی جگہ بھی ’’ فساد‘‘ کے خلاف جنگ کرنے کا حکم نہیں دیاہے۔ قرآن مجید میں مسلمانوں کو جہاد پر ابھارنے جنگ کے لئے جو ش اور حمیت پیدا کرنے والی آیات نہایت کثرت کے ساتھ ہیں لیکن کہیں بھی ان کو ’’فساد‘‘ کو مٹانے کے لئے جنگ کرنے کا حکم نہیں دیاگیا۔

فساد فی الأرض کے معنی:

ہاں! اللہ تعالیٰ نے یہ ضرور کہا ہے کہ اگر زمین اہل حق کے جہاد سے خالی ہوگی تو ’’زمین میں فساد‘‘ رونما ہوگا، ’’ولو لا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لفسدت الأرض‘‘ (البقرۃ: ۲۵۱) فساد اپنے لغوی معنی کے لحاظ سے تو بڑا عام لفظ ہے، ہر بگاڑ اور صلاح کی ضد پر اس کا اطلاق ہوسکتاہے اور مولانا مرحوم نے اس کو اسی معنی میں لیتے ہوئے قرآن کی بہت سی آیات میں ’’فساد‘‘ کے معانی ومصداقات تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہاں تک کہ ’’الاثم‘‘ یعنی بقول مولاناؒ ’’ ذاتی اخلاق بگاڑ نے والے گناہ‘‘ کو بھی فساد کا مصداق قرار دے دیاہے۔ کوئی شک نہیں کہ ہر گناہ بگاڑ ہے،مگر جب فساد کے یہ معنی اس سیاق میں بتلائے جائیں کہ ہر فساد وفتنہ کی خلاف جہاد کا حکم دیاگیا ہے اور ہر اخلاقی خرابی بگاڑ فساد ہے تو یہ تشریح بڑی محل نظر ہوجاتی ہے اور ’’لا إکراہ فی الدین‘‘ کے قرآنی اصول سے سیدھی جا ٹکراتی ہے۔
قرآن مجید میں فساد اور اس کے مشتقات (Derivatives) پچاس جگہ پر آئے ہیں، اور نہایت قلیل مواقع کے استثناء کے ساتھ عموماً ہر جگہ اس سے ناجائز خونریزی بدامنی او رظلم وقہر کے معنی ہی مراد ہیں۔ جو حضرات اس کی تفصیل جاننا چاہیں وہ ایسے مواقع کو ان کے سیاق وسباق پر غور کے ساتھ دیکھ لیں، ان شا ء اللہ اطمینان حاصل ہوجائے گا۔
مولانا مرحوم نے جو دو آیتیں اپنے خیال کے مطابق اس مقصد سے پیش کی ہیں کہ قتال کی ایک علت ’’فساد‘‘ کا خاتمہ ہے ، ان میں ’’فساد ارض‘‘ یا فساد فی الأرض کے الفاظ ہیں۔صرف فساد لغت کے اعتبار سے کسی بھی بگاڑ اور خرابی کے لئے آسکتاہے۔ اگرچہ قرآن عموماً فساد کو اور خصوصاً باب افعال کے صیغے ’’افساد‘‘ کو خونریزی، ظلم اور بدامنی کے معنی میں ہی استعمال کرتاہے۔ مگر ’’فساد فی الأرض‘‘ کے بارے میں عربیت کے ذوق اور اس تعبیر کے مواقع استعمال سے یہ بات مکمل طورپر واضح ہوجاتی ہے کہ صرف گناہ برائی یا مولانا کے الفاظ میں ذاتی اخلاق کو بگاڑ نے والے گناہ ’’الإثم‘‘ پر اس کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ فساد فی الأرض کے معنی میں لازمی طورپر ظلم وزیادتی ، خونریزی، اور طاقت کے زور پرلوگوں کو مقہور ومجبور بنانا ضرور داخل ہے۔ قرآن کے استعمالات پر گہری نظر رکھنے والے مشہور امام عربیت علامہ جار اللہ زمخشری نے اس طرف اشارہ فرماتے ہوئے لکھا ہے: ’والفساد فی الأرض ھیج الحروب والفتن‘‘، فساد فی الارض کے معنی جنگیں بھڑکانا اور فتنہ (قتل وخونریزی) پھیلانا ہے۔ (تفسیر الکشاف سورۃ بقرۃ، آیت: ۱۱) بالکل یہی الفاظ اسی آیت کے ذیل میں ہمیں صاحب مدارک التنزیل علامہ نسفی اور ابوالسعود کے یہاں بھی ملتے ہیں۔ 
مثلا ڈاکہ اور بغاوت وخوں ریزی (محاربہ) کے لیے قرآن نے قتل اورسولی کی سزا متعین کی ہے۔ اس موقعے پر کہا گیا ہے کہ ’’فساد فی الارض‘‘ کے مجرمین کی سزا یہ ہے کہ ان کو قتل کر دیا جائے یا سولی پر لٹکا دیا جائے۔
إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِیْنَ یُحَارِبُونَ اللّہَ وَرَسُولَہُ وَیَسْعَوْنَ فِیْ الأَرْضِ فَسَاداً أَن یُقَتَّلُواْ أَوْ یُصَلَّبُواْ أَوْ تُقَطَّعَ أَیْْدِیْہِمْ وَأَرْجُلُہُم مِّنْ خِلافٍ أَوْ یُنفَوْاْ مِنَ الأَرْض۔ (المائدہ: ۳۳)
یہاں اگر مولانا کے بیان کردہ معنی لیے جائیں تو اس کا تقاضہ ہو گا کہ ذاتی اخلاق کو بگاڑنے والے گناہ ’الاثم‘ کے مرتکبین کی گردنیں اڑا دی جائیں!!
مولانا کے استدلال کا یہ پہلو بڑا محل نظر ہے کہ قرآن نے اگر کسی جماعت کو ایک جگہ مفسد کہہ دیا تو اب پورے قرآن میں اس کے کردار وعمل کی جن خرابیوں کا بھی تذکرہ آیاہے مولانا کہتے ہیں کہ یہ قرآن کی اصطلاح میں فساد کا مصداق ہے۔یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی کسی کو کہے کہ وہ نہایت خائن ہے، پھر کسی دن کہے کہ وہ شراب پیتاہے، اس سے میں یہ نتیجہ اخذ کروں کہ متکلم کے نزدیک شراب پینا خیانت کا مصداق ہے۔ مذکورہ طریقۂ استدلال بعینہ اسی قسم کا ہے۔

خلاصۂ بحث:

اس پوری تفصیل کا حاصل یہ ہے کہ مولاناؒ کے نزدیک ’’مصلحانہ جنگ‘‘ کا سبب قرآن کے بیان میں ’’فتنہ اور فساد‘‘ ہیں۔ اور ان دونوں کے دائرے میں مولانا کی تشریح کے مطابق تمام ہی خلاقی خرابیاں آجاتی ہیں۔ مگر اس پر کئی طاقت ور اشکالات وارد ہوتے ہیں:
(۱) جیسا کہ ہم نے اوپر دیکھا قرآن نے جس ’’ فتنہ‘‘ کے خاتمے کے لیے جنگ کاحکم دیا ہے اس سے مراد ’فعل وعمل کی برائی‘ نہیں ہے۔ اسی طرح فساد فی الارض جس کا تذکرہ جنگ کے ذیل میں آیا ہے اس سے مراد قتل وخوں ریزی اور ظلم ہے۔ لہٰذا اس پر مبنی یہ استدلال کہ غیر مسلم حکومت چوں کہ سارے قول وعمل کی برائیوں کا ذریعہ ہوتی ہے صحیح نہیں محسوس ہوتا۔
(۲) پھر دوسری یہ بات کہ اگر ہر غیر مسلم حکومت لازماً ایسی ہی ہوگی اور بقول مولانا اس کا وجود خد فتنہ ہے اور وہ ضرور ساری برائیوں کا سرچشمہ ہے تو پھر اس کی کیا توجیہ کہ جائے کہ تمام فقہاء اس کی اجازت دیتے ہیں کہ مسلمان چاہیں تواس سے کچھ مال لے کر صلح کر لیں؟
(۳) تیسری بات یہ کہ اس نظریے کے حاملین سے اگر یہ سوال کیا جائے کہ بالفرض اگر کہیں یہ صورت حال درپیش ہو کہ کوئی قوم اسلام نہ لائے لیکن اس کی حکومت ان تمدنی اور اخلاقی خرابیوں کی سرپرست اور حمایت نہ کرے جن کو مولانا مرحوم نے سبب جنگ بتایا ہے توبھی یہ حضرات یہی کہتے ہیں کہ اس کے خلاف مسلمانوں کو قتال کرنا ہی ہوگا۔ اسکا واضح مطلب یہ ہے کہ خود یہ برائیاں جن کو مولانا ’’فتنہ‘‘ اور ’’فساد‘‘ کا مصداق قرار دے کر ، علت القتال یعنی سبب جنگ قرار دیتے ہیں، فی الواقع سبب جنگ نہیں، سبب جنگ کچھ اور ہے۔ اور وہ جو ہے اس کی مدلل تفصیل گزشتہ صفحات میں آچکی ہے۔
مولانا مودودیؒ کی کتاب اس موضوع پر ایک کارنامہ تھا ، اس کی اس تاریخی اہمیت میں کوئی دوسرا شریک نہیں کہ وہ ایسے وقت سامنے آئی جب الزامات کے شورنے کانوں کے پردے پھاڑدیے تھے۔ پورے ماحول میں ایک طرح کی سراسیمگی طاری تھی، بہت کسی سے بن پڑتا تھا تووہ نہایت نحیف آواز اور سہمے سہمے انداز میں کچھ معذرت خواہانہ صفائیاں پیش کرلیا کرتاتھا۔ اس ذہین نوجوان نے پورے اعتماد کے ساتھ جہاد کی وکالت کی اور دوسرے مذاہب اور مغرب کے مدعیان تہذیب کے کارناموں کی تصویر سامنے رکھ کر نہ صرف تصور جہاد کی عظمت ظاہرکی بلکہ بہت سوں کو شبہات کے دلدل سے نکال لیا۔ مولانا ؒ کی کتاب کی اس افادیت اور اہمیت کے پورے اعتراف کے باوجود ایک غیر جانبدار قاری مولانا کے نظرےۂ ’’مصلحانہ جنگ‘‘ سے مطمئن نہیں ہوسکتا۔غیر مسلموں کو تو چھوڑیے، خود مسلمان اہل دین اس نظریہ سے (جو اصطلاحات اور تعبیرات کے فرق کے ساتھ مشہور عام نظریہ ہے) دلوں میں خلش پاتے ہیں، ہمارے برصغیر میں چونکہ مولانا نے ہی اس نظریہ کی جدید تفہیم کی ہے اور اس کے دلائل بڑی تفصیل سے پیش کئے ہیں اس لئے ہم نے ان کا مفصل جائزہ لینا ضروری سمجھا۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگوں کی نوعیت:

قرآن ہی نہیں رسول اللہ کی سیرت وسنت اورآپ کی دس سال مدنی زندگی کی جنگوں کا حال دیکھ لیجئے آپ نے کسی صلح پر آمادہ طاقت سے جنگ نہیں کی۔ 
(۱) مکہ والوں کے بارے میں قرآن نے بارہا صراحت کی کہ وہ انہوں نے جنگ چھیڑ رکھی ہے: ’’وھم بدءوکم أول مرۃ‘‘ (انہوں نے ہی ابتداء جنگ کی ہے) یہ بھی کہاکہ وہ زیادتی اور ظلم کے مرتکب ہوئے ہیں، ’’وأولئک ھم المعتدون‘‘۔تاریخی واقعات بتاتے ہیں کہ مکہ میں مظالم اور مذہبی جبر کے اس دور کے بعد، جس کے نتیجے میں مسلمانون کو گھر بار، مال اور اولاد چھوڑ کر ہجرت کرنی پڑی، وہ مدینہ پر حملے میں بھی ابتدا کرچکے تھے۔ ان کے حملہ آور مدینہ پر شب خون اور لوٹ کی کاروائیاں کرتے رہتے تھے۔ مزید انہوں نے، سنن ابوداؤد (رقم ۳۰۰۴) کی صحیح روایت کے مطابق، مدینہ میں یہود کو اور غیر مسلم عربوں کو بھی مسلمانوں سے لڑانے اور ان کے اخراج پر آمادہ کرنے کے لئے دھمکی آمیز خطوط لکھے۔ انہوں نے عرب کی زمین مسلمانوں پر ایسی تنگ کررکھی تھی کہ غریب مہاجرین تجارت کے لئے، جس کے علاوہ ان کے پاس کوئی ذریعہ معاش نہیں تھا، مدینہ سے نکل تک نہیں سکتے تھے۔ اس طرح مسلمان ایک طرح کی جیل میں اور معاشی حصار میں زندگی گذارنے پر مجبور تھے۔(البقرۃ: ۲۷۳)۔ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خلاف جنگی کارروائیاں شروع فرمائیں۔
اس کے باوجود ان سے صلح پر آپ کی آمادگی کا یہ حال تھا کہ آپ ؐ نے ایک مرتبہ یہ تک فرمایا: ’’لا یسألونی خطۃ یعظمون فیھا حرمات اللہ إلا أعطیتھم إیاھا‘‘ یعنی قریش مجھ سے جو بھی صلح کی شرط رکھیں گے، اگر اللہ کی حرمات کا خیال رکھا جائے گا تو میں اسی کو ضرور قبول کرلوں گا ۔ (بخاری، رقم ۲۷۳۴)
(۲) مدینہ کے یہودی قبائل کو رسول اللہؐ نے اسلامی ریاست کے معزز اور باحیثیت شہریوں کی طرح رکھا۔ ریاست کا جو دستور لکھا گیا اس میں یہود کے قانونی امتیازات اور حقوق وفرائض کا پورا تذکرہ کیا گیا تھا۔ یہود نے اس کو قبول کرکے اسلامی ریاست اور اس کے حاکم اعلی کی حیثیت سے رسول اللہؐ کو قبول کیاتھا۔ مگر سب سے پہلے بنی قینقاع نے علانیہ معاہدہ توڑا، بغاوت کی اور جنگ کا اعلان کیا۔ (سیرت ابن ہشام، طبقات ابن سعد)
پھر بنو نضیر نے غداری کی انتہا یہ کی کہ رسول اللہ کو (معاذ اللہ) دھوکہ سے قتل کرنا چاہا، سازش کا انکشاف ہوگیا مگر آپ نے بھی تحمل کی انتہا کردی۔ ان کو سزا دینے کے بجائے مہلت دینے کا ارادہ فرمایا، اور ان سے کہا کہ اب تم پر اس کے بغیر اطمینان نہیں کیا جاسکتا کہ تم از سر نو معاہدہ لکھو۔ مگر وہ تو آمادۂ جنگ تھے، معاہدۂ صلح پر آمادہ نہیں ہوئے۔ جب کہ بنی قریظہ نے معاہدہ کی تجدید کی۔ پھر آپ نے بنی نضیر پر لشکر کشی فرمائی۔ (سنن ابی داؤد، باب خبربنی النضیر، بسند صحیح)
بنی قریظہ کی عہد شکنی بلکہ غزوۂ خندق کے نازک ترین موقع پر حملہ آوروں فوجوں کا مدینہ کے اندرسے ساتھ دینا اور حملہ میں شرکت معروف ہے۔ 
(۳) قرآن کی صراحت اور تاریخ کی تصدیق ہے کہ عرب کے مشرک قبائل سب مسلمانوں کے خلاف آمادۂ پیکار تھے اور قریش کے ساتھ تھے۔ قرآن نے ان کے بارے میں کہا ہے: 
’’وقاتلوا المشرکین کافّۃ کما یقاتلونکم کافّۃ‘‘
’’اور تمام مشرکین سے جنگ کرو اس لئے کہ وہ سب کے سب تم سے جنگ کررہے ہیں۔‘‘
نجد کے قبائل عکل وعرینہ اور بنو سلیم کی سنگین غداریاں اور خونچکاں حرکتیں معروف ہیں، بنو مصطلق جن پر آپ نے اچانک حملہ کیا تھا، وہ پہلے سے محارب تھے، احد میں اہل مکہ کے ساتھ مل کر مدینہ پر حملہ کیا تھا۔ پھران کے سردار کے بارے میں یہ اطلاع آئی کہ وہ مدینہ پر حملے کے لئے فوجیں جمع کررہا ہے۔ آپ نے بریدہ بن الحصیب الاسلمیؓ کو تصدیق کے لئے بھیجا، وہ خود سردار قبیلہ حارث ابن ابی ضرار سے ملے اوراسی سے تیاریوں کی تصدیق کرلی، جب تحقیق ہوگئی تو آپ نے حملہ فرمایا۔(طبقات بن سعد، ۲/۶۳، وسیرت ابن ہشام)
(۴) شمال عرب کی مہمات کی تفصیل پیچھے غزوۂ تبوک اور غزوہ موتہ کے حوالے سے گذر چکی ہے، وہاں ہم نے ان مہمات کا پورا تاریخی پس منظر ذکر کردیاہے۔ اس سے یقینی طورپر ثابت ہوتاہے کہ رسول اللہ نے ان طاقتوں کے خلاف جو جنگ کی تھی وہ ان کے محاربہ کے نتیجہ میں تھی، آپ نے کسی صلح جو اور امن پر آمادہ طاقت کے خلاف قطعاً جنگ نہیں کی۔

ابن تیمیہ اور ابن قیم کی صراحتیں: 

امام ابن تیمیہ اپنے رسالہ ’’قاعدۃ فی قتال الکفار‘‘ میں کہتے ہیں:
وکانت سیرتہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ان کل من ھادنہ من الکفار لا یقاتلہ، وھذہ کتب السیرۃ والحدیث والتفسیر والفقہ والمغازی تنطق بہذا وھو متواتر من سیرتہ۔ (صفحہ ۱۳۴)
’’یعنی آپؐ کی سیرت کی شہادت ہے کہ آپ سے جن کفار نے صلح کی آپ ان سے جنگ نہیں کرتے تھے، یہ سیرت کی کتابیں ہیں، یہ حدیث وتفسیر اور فقہ وتاریخ کی کتابیں ہیں، سب یہی بتلاتی ہیں، اور یہ چیز آپؐ کی سیرت سے متواتر اور قطعی طورپر ثابت ہے۔‘‘
علامہ ابن قیمؒ اپنی کتاب ’’ہداےۃ الحیاریٰ ‘‘ میں کہتے ہیں:
من تأمل سیرۃ النبی (صلی اللہ علیہ وسلم) تبین لہ ۔۔۔ أنہ انما قاتل من قاتلہ وأما من ھادنہ فلم یقاتلہ (ہداےۃ الحیاریٰ جلد اول ، صفحہ: ۱۱۲)
جو رسول اللہ کی سیرت میں غور کرے گا اس کو پتہ چل جائے گا کہ ۔۔۔آپ نے صرف ان لوگوں سے جنگ کی جو آپ سے جنگ کرتے تھے، رہے وہ جنہوں نے آپ سے صلح کی آپ نے ان سے جنگ نہیں کی۱؂۔ 

رسول اللہؐ نے صرف دفاعی نہیں، اقدامی جنگیں بھی کیں:

ان جنگوں کو جن بزرگوں نے ’’محض دفاعی‘‘ جنگوں کا نام دیاہے، غالباً یہ لفظ اس لئے صحیح نہیں کہ اس سے یہ خیال قائم ہوتاہے کہ آپ نے دوسروں کے حملوں کاصرف دفاع کیا، حالانکہ واقعہ یہ تھا کہ آپ محاربہ کا ارادہ اور تیاری کرنے والوں کے خلاف خود بھی اقدامات فرمایا کرتے تھے، جنگ بدر ایسے ہی ایک اقدام کے نتیجہ میں وقوع پذیر ہوئی ، موتہ اور تبوک کی یہی کہانی ہے، اور بنو مصطلق اور دیگر کئی مہموں کی یہی حقیقت ہے۔ آج کی اصطلاح میں آپ ان جنگوں کو (Preemptive wars) کہہ سکتے ہیں۔ یہ جنگیں اقدامی جنگیں ہی تھیں۔
بہر حال آپؐ نے دفاعی جنگیں بھی لڑیں ہیں اور محاربہ کرنے والوں کے خلاف اقدامی جنگیں بھی۔ مگر آپ کی ہر جنگ صرف محارِب طاقتوں کے خلاف تھی۔ اور اسی لئے قطعی طورپر منصفانہ تھی اور اس ’’اعتداء‘‘ اور زیادتی سے پاک تھی جس سے دور رہنے کا حکم قرآن نے مسلمانوں کو عین اس وقت دیاتھا جب ان پر جنگ کرنا واجب قرار دیا جارہاتھا۔ وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم ولا تعتدوا إن اللہ لا یحب المعتدین۔

قرون اولیٰ کی جنگی مہمات:

صحابہ کرام اور خلافت راشدہ کے دور میں فارس وروم کی مقبوضات فتح کی گئیں، اس دور میں ہم کو ان دونوں سلطنتوں کے خلاف ایران کی سرحدوں سے لے کر شام ومصر کی آخری حدوں تک جنگوں کا ایک طویل سلسلہ ملتاہے۔ جلد بازی اور سرسری نظر سے مطالعہ کرنے والے ان جنگوں کی علت یہ بتاتے ہیں کہ صحابہ کرام نے جب عرب کے دائیں بائیں نظر اٹھائی کفار کو حکمراں دیکھا، تو ان کو اپنے دین کایہی حکم نظر آیاکہ ان کے سروں پر تلوار لے کر پہنچ جائیں اور صاف کہہ دیںیا اسلام قبول کرو یا مسلمانوں کے لیے تخت چھوڑدو۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ جنگیں دراصل عہد نبوی کی جنگوں کا امتداد ہیں ، رسول اللہ کی جب وفات ہوئی تو شام کے حدود پر رومن امپائر کے ساتھ جنگ شروع ہو چکی تھی، اور متعدد معرکے ہوچکے تھے۔ قیصر اور اس کی ماتحت طاقتیں اپنے پڑوس میں ایک انقلابی اور نہایت جاذب ومؤثر دعوت پر قائم ریاست کو بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے لاکھوں کے لشکر جمع کر چکیں تھیں اور رسول اللہ نے ان کی پیش بندی کے لئے اقدامات بھی فرمائے تھے۔ لیکن نہ رومیوں کا زور ٹوٹا تھا نہ ان کے ارادے بدلے تھے۔ لہذا بعد میں بھی اس قسم کے اقدامات کرنے ضروری تھے جو خلافت راشدہ کے دور میں انجام پائے۔ 
سلطنت فارس دوسری بڑی طاقت تھی، جو صحابۂ کرام کے ہاتھوں زیر ہوئی، رسول اللہ نے اس کے فرماں روا کسریٰ کو دعوت اسلام کا خط لکھا، جو اس نے نہ صرف نہایت رعونت کے ساتھ پھاڑ ڈالا، بلکہ اپنے ایک گورنر کو (معاذ اللہ) رسول اللہ کو گرفتار کرکے اپنے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا ، یمن کے گورنر نے دو سپاہیوں کو اس پیغام کے ساتھ مدینہ بھیجا کہ اپنی اور عرب کی خیر چاہتے ہو تو گرفتاری قبول کرکے کسری کے دربار میں حاضر ہوجاؤ ورنہ تم کسری کی طاقت وجبروت کو جانتے ہو وہ تمہارے پورے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجادے گا۔ 
بہر حال اس پس منظر سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ تصور سراسر سطحی مطالعہ پر مبنی ہے کہ خلافت راشدہ کے دور میں جو جنگیں ان ممالک کے ساتھ ہوئیں قصہ کی ابتداء وہیں سے ہوتی ہے، نہ ان کے ساتھ کوئی کشمکش جاری تھی اور نہ یہ حکومتیں اس کے علاوہ کسی اور جرم کی مرتکب تھیں کہ وہ غیر مسلم تھیں اور صاحب شوکت تھیں۔ 
افسوس کس قدر سادگی کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ لوگ جو خلافت راشدہ کی ان جنگوں کے پورے تاریخی پس منظر کے ریکارڈ ہونے کے باوجودان ظالم وخونی حکومتوں اور ان کے دشمنِ حق حکمرانوں کے خلاف جنگ کا سبب صرف غیر مسلم حکومت کا خاتمہ قرار دے دیتے ہیں۔ کوئی شخص جو ایک طرف ان سلطنتوں کی توسیع پسندی کی ہوس اور خونی تاریخ کو جانتاہو اور دوسری طرف وہ نوخیز اسلامی ریاست اور ان طاقتوں کے ابتدائی تعلقات کے اس پس منظر پر بھی نظر رکھتا ہو جس کو ہم نے اوپر ذکر کیا، کیا وہ اس غلط فہمی کا شکار ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے بالکل پڑوس میں واقع ان عالمگیر طاقتوں سے کوئی خطرہ نہیں تھا؟ اگر شدید خطرہ تھا اور یقیناً تھا تو ان جنگوں کا سبب اس سنگین خطرے کی پیش بندی اور اسلامی ریاست کاتحفظ تھا۔
ان دونوں حکومتوں سے جنگ کو مسلمانوں پر فرض کرنے والی ایک دوسری اہم چیز یہ بھی تھی کہ ان طاقتور حکومتوں کے باقی رہتے ان کے عوام تک اسلام کی دعوت پہنچنے کا قطعاً کوئی امکان نہیں تھا۔ اوپر ہم ذکر کر آئے ہیں کہ اسلام کے اولین داعیوں کا کیا انجام رومن امپائر کی تابع ایک عرب ریاست میں ذات اطلاح کے مقام پر ہوا۔ دعوت اسلام دیتے ہی پندرہ میں سے چودہ داعیوں کو قتل کردیا گیا، صرف ایک نہایت زخمی حالت میں مدینہ پہنچ سکا۔ ان ریاستوں کے ایک معزز امیر نے اسلام قبول کرلیا تو ہرقل (بینر نطینی رومن سلطنت کے فرمانروا) نے اس کو بلا کر قتل کرکے سولی پر لٹکا دیاکہ دوسروں کے لئے عبرت کا سامان بنے۔
نامۂ نبوی پر کسری کے رعونت بھرے رد عمل نے صاف بتادیا تھا کہ فارسی علاقوں میں دعوت اسلام کا نام بھی نہیں لیا جاسکتا، ان حکمرانوں کی حکومتوں کے مذہبی جبر، اور قرآنی اصطلاح میں ’’ فتنہ‘‘ اور صدعن سبیل اللہ‘‘ نے یقیناًایسی صورت حال پیدا کردی تھی کہ اللہ کے سپاہی اٹھیں اور ان کے غرور کو، بحکم خدا، خاک میں ملادیں۔
ان حکومتوں کا یہی جرم دراصل صحابۂ کرام کی جنگوں کا اصل سبب تھا ، دراصل اس زمانہ کی صورت حال ہی ایسی تھی کہ کوئی حکومت اپنی قلم رو میں دوسرے دین کو اور خصوصاً اسلام جیسی دعوت کو ہر گز پنپنے نہیں دے سکتی تھی، یہ چیز اس زمانے کی صورت حال میں بالکل قطعی اور طے تھی، اسی لئے رسول اللہؐ نے ان حکمرانوں کو جو خطوط لکھے تھے ان میں کہا تھا کہ اگر تم اسلام نہیں لائے تو پوری قوم کے کفر کے تم ہی ذمہ دار ہوگے۔ آپؐ نے کسریٰ کو لکھا: ’’فان أبیت فعلیک إثم المجوس‘‘ (تاریخ طبری: ۲/۱۲۳) مقوقس شاہ مصر کو آپ نے لکھا: ’’فان أبیت فإن إثم القبط علیک‘‘ (زاد المعاد ۳/۶۰۰) قیصر کو آپ نے لکھا: ’فعلیک إثم الأریسین‘(صحیح بخاری، رقم ۷) یریسیین یا أرلسیین سے مراد کاشتکاروں پر مشتمل وہ کثیر تعداد کی رعایا تھی جو رومی مقبوضات (شام ومصر اور افریقہ وایشیا) کے وسیع علاقوں میں پھیلی ہوئی تھی (فتح الباری) اور جن کی حیثیت تاریخ کی واضح شہادتوں کی روشنی میں مقہود ومجبور غلاموں کی اسی تھی۔ 

ایک اور استدلال:

جو حضرات بوقت قدرت تمام غیر مسلم حکومتوں سے جنگ کے فرض ہونے کی رائے رکھتے ہیں چاہے وہ صلح کرنے پر آمادہ ہی کیوں نہ ہوں، ان میں سے بعض بزرگ اِس موقف کے اُسی استدلال کے لیے جو مولانا مودودی کے حوالے سے اورپر گذر اہے ایک نسبتاً زیادہ معقول تعبیر اختیار کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ غیر مسلم حکومت جب اپنی حربی طاقت، مادی وسائل اور اپنے نظریات کے ساتھ موجود رہے گی تو اس کی یہ شوکت خود دنیا کے عوام کے لئے اسلامی دعوت قبول کرنے سے ایک نفسیاتی رکاوٹ پیدا کرے گی، کفر کی ایسی شوکت وعزت کے ساتھ لوگ آزادانہ غور وفکر نہیں کرسکیں گے۔
واقعہ یہ ہے کہ کسی بھی قوم کی شوکت وطاقت اس کے نظریہ کے لئے ایک مددگار وسازگار ماحول پیداکرتی ہے، اور اس ماحول میں کسی دوسری اجنبی دعوت کے لئے ایک درجہ کی نفسیات رکاوٹ پیداہونا یقیناًفطری امر ہے۔ مگر مجھے یہ بتائیے کہ کیا اگر کوئی دوسری قوم یہ کہے کہ ہمارے نظریات پر مسلمان غیر جانبداری کے ساتھ اس وقت تک غور کرہی نہیں کرسکتے جب تک مسلمانوں کی حکومت وشوکت ختم نہیں کی جائے، لہٰذا ہم مسلمانوں کے ملک پر اس لیے حملہ کررہے ہیں تاکہ وہ آزادانہ ہماری دعوت پر غور کرسکیں ، تو ایسی شکل میں ہم کیا کہیں گے؟؟
اگر ہم مذہب وعقیدہ اور نظریہ کے سلسلہ میں آزادانہ انتخاب کے اصول کے قائل ہیں تو آزادی کے لئے ساری ملتوں کے حق میں ایک ہی معیار اپنانے کا پابند ہونا ضروری ہے ۔
نیز یہ بھی سوچئے کہ دنیا میں کون انصاف پسند اس قوم وملت کے بارے میں اچھی رائے رکھ سکے گا جو یہ کہے کہ چوں کہ ہم کو اپنے دین کی تمہیں دعوت دینی ہے او ر تمہاری حکومت او رطاقت ایسی نفسیاتی رکاوٹ بن رہی ہے جس کے رہتے ہوئے تمہارے لئے ہماری دعوت پر پورے طورپر غیر جانبدارہوکر غور کرنا ممکن نہیں ہے اس لئے ہم تم سے جنگ کرکے پہلے اپنی حکومت تم پر قائم کریں گے اور تمہاری طاقت ختم کریں گے ۔ ہم بصد ادب ونیاز اپنے بزرگوں سے گذارش کریں گے کہ یہ منطق اسلام کی دعوت کے سامنے کسی بھی غیر مسلم حکومت سے بڑی نفسیاتی رکاوٹ بنے گی، اور اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں یہی تاثر قائم کرے گی کہ یہ باتیں سب بہانے اور دھوکے ہیں، اور ان کی آڑ میں ہم کو غلام بنانے اور دباؤ اور لالچ کے ذر یعہ ہمارا دین بدلنے کا منصوبہ ہے۔
ہم تسلیم کرتے ہیں کہ علماء سلف کی اکثریت کی تحریروں اور تشریحات سے غالب تاثر یہ نہیں قائم ہوتاہے کہ اسلامی حکومت اور غیر مسلم حکومت کے درمیان اصل صلح ہے، اور صلح پر آمادہ قوم کے خلاف جنگ کی گنجائش نہیں ہے۔ ماضی کی طویل تاریخ پر محیط اسلامی فکر کا عمومی رحجان اسی طرف محسوس ہوتاہے کہ اگر مسلمانوں کے پاس قدرت وطاقت ہوتو وہ کسی غیر مسلم طاقت سے صلح نہیں کریں گے ، چاہے وہ کسی ’’فتنہ‘‘ یا زیادتی کی مرتکب نہ ہو، اور صلح کی پیش کش بھی کرے۔ 
پھر کیا یہ رائے غلط تھی؟ کیا علمائے سلف اور ائمہ اسلام اتنی لمبی مدت تک ایک غلط بات کہتے آئے؟ ہر گزنہیں۔ اسلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ وہ قیامت تک مکمل محفوظ رہے گا۔ اور یہ بھی کہ اس امت کے اہل علم اجتماعی طورپر کسی غلطی میں نہیں پڑیں گے، جو لوگ اپنے علم وفہم کی بنیاد پر اسلاف امت اور ائمہ کرام کے مجموعی موقف کو غلط سمجھتے ہیں وہ بے شمار گمراہیوں کے دروازے کھولتے ہیں۔ 
ہمیں پورا اطمینان ہے کہ جس دور میں اور جن حالات میں یہ رائے ظاہری کی گئی تھی وہ بالکل برحق رائے تھی، ان حالات کے لئے وہی شرعی حکم تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے کے زمانوں میں ہر ریاست واضح مذہبی شناخت رکھتی تھی۔ بادشاہتیں مذہب سے اپنی حکومت کے استحکام کاکام لیتی تھیں، بادشاہ یا تو خدا کا اوتار بنتا تھا یا مذہبی قیادت کے ساتھ اس کا یہ سمجھوتہ ہوتا تھا کہ وہ دونوں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہیں گے۔ اس لئے اس کا نہ کوئی امکان ہوتاتھا اور نہ ہی تصور کہ کوئی طاقتور حکومت اور منظم ریاست اپنے قلم رو میں اسلام کی نشر واشاعت ودعوت اور اللہ کی عبادت وبندگی کی اجازت دے سکتی ہے۔ مسلمانوں جن ریاستوں سے جنگ کی ان میں سے کسی نے کبھی اس کا جھوٹا دم بھی نہیں بھرا تھا کہ وہ اسلامی دعوت کے لئے راستہ کھولنے کو تیار ہے۔ یہاں تک کہ شکست کھاتے وقت بھی کسی غیر مسلم حکومت نے ایسی کوئی پیشکش نہیں کی۔
رسول اللہ ؐ نے سلاطین عالم کو خطوط لکھے تو ان میں صاف لکھا کہ اگر تمہاری حکومت اسلام قبول نہیں کرتی تو عوام کی گمراہی کا گناہ بھی تم پر ہی ہوگا۔ یہ اسی صورت حال کی طرف اشارہ تھا۔ ایسی صورت حال چاہے وہ ماضی میں ہویا حال میں یا مستقبل میں اس کا شرعی حکم یہی ہوگا کہ قدرت ہوتو ضرور جنگ کی جائے۔ اور اللہ کے دین کے سامنے سے رکاوٹیں ہٹادی جائیں۔ لیکن اگر دنیا کی کوئی حکومت عملاً دعوت اسلام کے سامنے رکاوٹ نہیں بن رہی ہو اور صلح پر آمادہ ہو تو یقیناًاس سے جنگ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہو گی۔
آج کے زمانے میں جب کہ ایک بندۂ خدا تک دعوت پہنچانے کے بظاہر سارے امکانات کھلے ہوئے ہیں یہ کیسے مان لیا جائے کہ محض حکومت کے سامنے ایک مرتبہ دعوت پیش کرکے پورے ملک کے انسانوں کو دعوت دینے کا فریضہ ادا ہو گیااور حجت تمام ہو گئی اب ان کے لئے جنگ کے علاوہ کوئی راستہ نہیں باقی رہ جاتاہمیں مکمل یقین ہے کہ اسلام کی ابتدئی صدیوں میں اگر عام انسانوں تک پہنچنے اور ان کو اللہ کے دین کی طرف گفتار و کردار سے دعوت دینے اور اسلامی زندگی کی حقیقی برکتوں سے ان کو رو شناس کرانے کے امکانات ہوتے اور حکومت واقتدار کی طاقتیں لوگوں کی عقلوں اور دلوں کو فتنہ میں مبتلانہ کرتیں تو کبھی ان امکانات کے باقی رہتے ہوے مسلمان کسی حکومت کو ہٹانے کے لئے جنگ نہ کرتے۔
اگر چہ میں اس تاریخی حقیقت سے ناواقف نہیں ہوں کہ دین حق کی یہ دعوت بہت جلدحکومتوں اور مقتدر طبقات کو اپنے ظالم نظام اور فاسد طریقۂ زندگی کے لئے ایک خطرہ نظر آنے لگتی ہے، اور پھر وہ اس کے راستہ میں مکر و فریب سے لے کر ظلم و جبر تک کی ساری رکاوٹیں کھڑی کرنے لگتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جس کو قرآن نے فتنہ کہا ہے۔ یقیناًایسی صورت میں ان حکومتوں کو ختم کرنا ایک مقدس اسلامی فریضہ اور انسانی خدمت کا ایک ضروری کام ہوگا۔مگر پھر بھی اگر کوئی یہ کہے کہ غیرمسلموں کی حکومت فی نفسہ ایسی چیز ہے کہ اس کو ختم کرنے کے لئے جنگ کرنی چاہئے چاہے وہ کسی ظلم و جبر اور اسلام کا راستہ روکنے کی مجرم نہ ہو ، تو یہ بات اسلام کے بارے میں غلط تاثر ضرور قائم کرے گی۔
یہ بات بالکل حقیقت پر مبنی ہے کہ ہرمعاشرہ کی قیادت اپنی تہذیب اور اپنے تصورات کو رائج کرنا چاہتی ہے۔ قوموں میں اپنے عقائد و تصورات اور تہذیب و طرز زندگی کے لئے ایسا تعصب ہوتا ہے کہ وہ ہر نئی دعوت و تحریک کی مخالفت اپنا قومی فریضہ جانتی ہیں۔خصوصاًان کی قیادت اور طاقت کے مراکز پرقابض طبقہ(قرآن کے الفاظ میں ’’الملأ‘‘ کا طبقہ) تعصب اورتہذیبی استکبار میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے. اگر وہ شروع میں کسی ایسی نئی دعوت کو ( جو زندگی کے بگاڑ کی بنیادی اصلاح کرنا چاہتی ہو) برداشت کر لیتے ہیں تو ان کو جیسے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی آواز کی طرف دل متوجہ ہو سکتے ہیں اور وہ کچھ انسانوں کو متاثر کر سکتی ہے، اسی وقت سے وہ اس کے دشمن بن جاتے ہیں اور اپنی قوم کو قائل کرنے کے لئے اس کے خلاف طاقت کے استعمال کا جواز یہ کہ کر پیش کرتے ہیں کہ:
إِنْ ہَذَانِ لَسَاحِرَانِ یُرِیْدَانِ أَن یُخْرِجَاکُم مِّنْ أَرْضِکُم بِسِحْرِہِمَا وَیَذْہَبَا بِطَرِیْقَتِکُمُ الْمُثْلَی۔ فَأَجْمِعُوا کَیْْدَکُمْ ثُمَّ اءْتُوا صَفّاً
’’یہ چاہتے ہیں کہ تم کو اپنے جادو کے زور سے اپنے ملک سے بے دخل کر دیں اور تمہارے شاندار طرز زندگی کاخاتمہ کر دیں، لہٰذا تم سب اپنی طاقت جمع کرو اور متحد ہو کران کے مقابلے کوآؤ۔‘‘
اس تاریخی اور فطری حقیقت کی مثال ہمارے سامنے ہے۔یورپ نے صدیوں انسانی حقوق کا راگ الاپا اور شخصی آزادیوں کے نعرے لگائے اور جو مذہبی آزادی کا چمپین بنا رہااس نے عالم اسلام کو طاقت کے زور سے فتح کیا اور پھر اس کی تہذیبی و فکری یورش نے مسلمانوں کی دینی بنیادیں ہلادیں۔اس دوران یورپ کے مختلف ممالک میں مسلمان جاجا کر آباد ہوئے۔ لمبے عرصے تک وہاں کی حکومتوں نے پوری مذہبی آزادی دی، لیکن اب جب اسلام کی دعوت مغرب میں عام ہونے لگی اور مغرب کا انسان اپنی تہذیب کے داخلی تضادات اور کھوکھلے پن کے احساس سے مجبور ہو کر اسلام کی طرف نگاہ اٹھانے لگا ہے تو یہی آزادیِ انسان کی علم بردار حکومتیں مسجد کے میناروں اور نقاب کے خلاف قانون بنانے لگی ہیں،اور پوری ڈھٹائی کے ساتھ اسلام کے داعیوں کا اپنے ملک میں داخلہ بند کرنے لگی ہیں۔
ہم ان حقیقتوں سے غافل نہیں ہیں،اور قرآن نے دعوت دین کے راستے میں پیش آنے والی اس فطری صورت حال کی طرف ہماری رہنمائی بھی کی ہے ،مگر ہم ایک بار پھر اپنی اس رائے کو دہراتے ہیں کہ یہ کہنا اسلام کو بدنام کرنا ہوگاکہ جنگ کرنے کے لئے محض یہ بات کافی ہے کہ دنیا میں کوئی غیر مسلم قوم اپنی خود مختار حکومت رکھتی ہے جو نہ کسی بڑے ظلم کی مرتکب ہے اور نہ اپنی عوام تک اسلام کی دعوت پہنچنے کی راہ میں مزاحم ہے۔ہاں اگر وہ اللہ کے دین کی مخالفت میں ’’فتنہ‘‘ کی مرتکب ہے تو ضرور اللہ کے بندوں پر یہ فریضہ عائدہوگا کہ وہ اس کا خاتمہ کر کے راستے کی رکاوٹوں کو دور کر دیں ۔ لہٰذا اسلامی اصول یہ قرار پایا کہ جب تک کوئی غیر مسلم حکومت دین حق کی راہ میں رکاوٹیں نہیں کھڑی کرتی، اس وقت تک مسلمانوں سے اصل مطالبہ یہی ہے کہ وہ دعوت ونصیحت پر اپنی ساری کوششوں کو مرکوز کر دیں اور انبیا علیہم السلام کے طریقہ پران پر اتمام حجت کر دیں ، جس کے بعد اللہ تعالی اہل ایمان کے لئے ضرور بالضرور یا دِلوں کو فتح کر دیتا ہے یا ملکوں کو۔اور یہ اس کی ناقابل تبدیل سنت ہے ۔
واضح رہے کہ ہماری اس بات کا تعلق محض اس مفروضے سے ہے کہ کوئی حکومت عملاً دعوت اسلام کے سامنے رکاوٹ نہیں بن رہی ہو اور صلح پر آمادہ ہو۔ واقعہ میں کون سی حکومت کس کے لیے کیسی ہے، ہم اس سلسلے میں کچھ نہیں کہہ رہے۔ ہم بس یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اسلام صلح چاہنے والی اور اسلامی دعوت کا راستہ نہ روکنے والی حکومت سے جنگ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

ایک ضروری تنبیہ:

اس کے علاوہ قرآن وسنت کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ یہ بات سنت اللہ میں طے ہے کہ مسلمان جب بھی اپنے منصب شہادت کے ساتھ ناانصافی کریں گے اور ان کا عمومی حال دین سے غفلت اور اللہ کو ناراض کرنے والا ہو گا تو ان کو اللہ کی طرف سے دنیا میں ایسی طاقت اور عزت نہیں مل سکتی کہ وہ اقدامی کارروائیوں کی پوزیشن میں ہوں۔ اس دور میں ان سے اپنے علاقوں کا اور اپنی آزادیوں کا دفاع بھی نہیں ہو پاتا، تا آنکہ وہ اللہ سے اپنا معاملہ ٹھیک کرلیں۔ یعنی شرعی ہی نہیں تکوینی طور پر بھی امت مسلمہ اللہ سے دوری اور ’نقض عہد‘ کے دور میں اس طرح کے اقدامی جہاد کے لائق نہیں رہ سکتی۔ قرآن نے اس کو صاف اور قطعی طور پر واضح کیا ہے، اور اس کی دلیل کے طور پر بنی اسرائیل کی تاریخ کو پیش کیا ہے۔ 

جاہلانہ غلو کی ایک مثال:

ہمارے یہاں اور دینی حمیت کے نام پر کس قدر جہالت آمیز غلو کے شکار ’’اہل علم وقلم‘‘ پائے جاتے ہیں اس کی ایک مثال اس وقت میرے سامنے ہے۔ سرٹی ڈبلیو، آرنلڈ سے برصغیر کے اہل دانش ناواقف نہیں۔ جب دنیا اسلام کے تلوار کے زور پر پھیلنے کے پروپیگنڈے سے گونج رہی تھی، شور تھا کہ مسلمانوں نے تلوار کی دھار پر قوموں کو زبردستی مسلمان بنایاہے۔ اور یہ سب اس لئے تھا کہ استعماری طاقتوں اور عیسائی مشنریز کے لئے دنیا کی قوموں کو اسلام سے برگشتہ کرنا آسان ہوجائے، اس وقت اس غیرمسلم حق گو کی آواز اٹھی کہ سب جھوٹ ہے۔ ایک شاندار کتاب The Preaching of Islamکے نام سے ایسی شائع کی جس کی افادیت آج بھی مسلّم ہے۔ ایسے منصف مزاج اور مسلمانوں کے حق میں مفید ثابت ہونے والے غیر مسلم دانشور کے بارے میں ایک صاحب فرماتے ہیں کہ ان جیسوں کو تہ تیغ کردینا چاہئے۔ لاحول ولاقوۃ إلا باللہ۔
ہم آپ مزید شرمندہ وحیران اور مضطرب ہوں گے جب آپ ان صاحب کو دیا گیا علمی مرتبہ جانیں گے۔ قصہ یہ ہے کہ آرنلڈ کی کتاب کا دنیا کی مختلف اسلامی زبانوں میں ترجمہ کیاگیا، عربی کے مترجم نے مصنف کے تعارف میں یہ لکھ دیا کہ ’’حق یہ ہے کہ ہم مصنف کی قدر نہیں کرسکتے‘‘۔ بس کیا تھا، ایک برخود غلط نادان ’’دکتور‘‘ نے تبصرہ فرمایا: 
اس کی قدر؟ اس کی قدریہ ہے کہ تلوار سے سر قلم کردیا جائے ، الا یہ کہ وہ اسلام کے سامنے سرجھکادے یا جزیہ دے۔
’’قلت ان قدرہ لو یعلم ہٰؤلاء ھو الضرب بالسیف حتی یبرد، او یخضع الإسلام أو یدفع الجزےۃ‘‘ (أھمےۃ الجہاد للعلیانی، صفحہ: ۲۶۲، بحوالہ فقہ الجہاد، شیخ یوسف القرضاوی: ۱/۲۵۳)
معاف کیجئے گا جو شرمندگی ہو کہ ہمارے درمیان دین وشریعت میں اسی قدر کج فہمی کے شکار بھی پائے جاتے ہیں۔ یہی نہیں، حیرانی وشرمندگی کی انتہا نہیں رہتی جب معلوم ہوتا ہے کہ موصوف اس تحریر پر جامعہ ام القری ،سعودی عرب سے ڈاکٹریٹ کی سندپاتے ہیں اور ان کو ممتاز کا گریڈ دیاجاتا ہے ۔ کیسے عرض کیاجائے کہ سعودی عرب میں علم دین کے ساتھ کیسا مذاق ہورہاہے! اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے غیر مسلموں کے لئے یہ خیالات رکھنے والے نہ قرآن کو سمجھتے ہیں نہ حدیث کو۔ کاش ان کی نظر جاتی کہ بدر کے قیدیوں کو دیکھ کر رسول اللہ ؐ کو ایک پرانا غیر مسلم محسن مطعم بن عدی یاد آتاہے، جس نے آپؐ کوطائف سے واپسی پر پناہ دی تھی، آپؐ فرماتے ہیں: اگر مطعم حیات ہوتے اور اِن کوچھوڑنے کی سفارش کرتے تو میں اُن کی خاطر اِن سب کو چھوڑ دیتا۔ (بخاری: ۴۰۲۴)
اس ذہنیت کے لوگوں کی نفسیات کا یہ محض ایک نمونہ ہے۔ اس کو ایک دو افراد کا مسئلہ سمجھنے کی غلطی نہیں کرنی چاہئے۔ مسلمانوں کی مظلومیت اور مغرب کی لگاتار اور بے حیا چیرہ دستیوں نے ایک عجیب قسم کی برخود غلط سوچ پیدا کردی ہے، جو ہمارے لئے ایک مشکل مسئلہ بن رہی ہے۔ اسلام کے یہ نادان دوست اسلاموفوبیا پھیلانے والوں اور صیہونیت اور صلیبیت کی نہایت بیش بہا خدمت انجام دے رہے ہیں۔

اسلامو فوبیا کی خدمت:

کچھ لوگ دینی حمیت وصلابت کے نہایت پسندیدہ جذبے سے ایسی تعبیرات پر اصرار کرتے ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچانے والی ہوتی ہیں۔ آپ ذرا سوچئے! یہ بات کہ اگر ہمارے پاس قدرت ہوگی تو ہم دنیا کی ہر قوم کو اس حق سے محروم کردیں گے کہ وہ اپنے اوپر اپنی پسند اور اپنی قوم کی حکومت قائم کرے۔ وہ یا تو اسلام قبول کرے ورنہ اس کو ہماری حکومت کے تحت رہنا ہوگا غیر مسلموں کے لیے کیسا خوف زدہ کرنے والا تصور ہے۔ جہاد کی یہ تعبیر مشرق ومغرب کی تمام قوموں کو اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی پر متحد کررہی ہے۔ اور مسلم دشمن لابیوں کو اس کا سامان فراہم کر رہی ہے کہ وہ دنیا کی مختلف قوموں کو یہ باور کرائیں کہ مسلمان واقعۃً ایسا خطرہ ہیں کہ ان کو ویسے ہی دبا کر رکھنا ضروری ہے جس طرح امریکہ واسرائیل کے زیر قیادت دنیا میں اِس وقت ان کو رکھا جارہا ہے۔

آخری بات:

اس خاص پہلو پر فوری غور کی اس لیے شدید ضرورت ہے کہ بظاہر دنیا میں قیادت اور پالیسی کی بڑی تبدیلیاں قریب ہیں، بلکہ ان کا آغاز ہو چکا ہے۔ خود مغرب پورے طور پر آگاہ ہے کہ ان تبدیلیوں کا آغاز اس قوت اور رفتار سے ہو چکا ہے کہ اب ان کو روکنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔قیادت اور سیاسی ثقل کا مرکز امریکہ اور مغربی یورپ سے جنوبی ایشیا منتقل ہو رہا ہے۔نئی قیادت اپنے مصالح کے مطابق یقیناًنئی پالیسیاں بنائے گی۔ امریکہ اور اسرائیل اس وقت اسلام سے خوف دلا کر اپنی پالیسیوں کی بقااور مفادات کے تحفظ کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی کوشش ہوگی کہ وہ دنیا کی نئی قیادت کو پھر سے مسلمانوں سے اسی طرح متنفر کر دیں جس طرح جانے والی قیادت کو لگاتار ایک خاص نفسیاتی کیفیت میں مبتلا رکھا گیا۔ اگر اس کروٹ بدلتی دنیا میں اور اس کے نئے سیاسی ذہن میں بھی وہی اسلام فوبیا اور اسلام دشمنی باقی رہی تو یقیناًہم اگلی نئی دنیا میں دعوت اور امن وانصاف دونوں کے امکانات کو کھو دیں گے۔

صلح

اسلام کے قانون بین الاقوام کا اصل الاصول صلح ہے۔ یعنی دنیا کی ریاستوں کے ساتھ مسلم ریاست کے تعلق کی اصل نوعیت یہ ہے کہ وہ پرامن صلح پر مبنی ہوں گے۔ قرآن نے مسلمانوں کے لیے جس وقت جنگ کرنے کی اجازت دی ہے اسی وقت جنگ کے جواز (Justification)کے سبب کے طور پر یہ بات بیان کی ہے کہ :
أُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا
’’جن لوگوں پر جنگ مسلط کی جارہی ہے ان کو (اب )اجازت دی جارہی ہے اس لیے کہ وہ مظلوم ہیں۔‘‘
یعنی مکہ کے ظالموں نے لوگوں کے لیے آزادی کے ساتھ اللہ کے دین پر قائم رہنا مشکل کر رکھا ہے، پہلے انہوں نے مکہ میں اسلام قبول کرنے والوں پر دائرۂ حیات ایسا تنگ کیا کہ انہیں اپنی متاعِ جان وایمان بچا کر بھاگنا پڑا، اور اب وہ مدینے میں بھی ان کو چین سے نہیں بیٹھنے دے رہے ہیں اور یہاں بھی ان کے خلاف مستقل جنگ چھیڑ رکھی ہے ۔ اس لیے اللہ کی طرف سے اس مذہبی جبر’’الفتنۃ‘‘ کو ختم کرنے کے لیے قتل و قتال کی اجازت دی گئی ہے۔
اسی سورت بقرہ میں اس سے پہلے جب پہلی مرتبہ قتال کا حکم مسلمانوں کو دیا جارہا تھا، کہا گیاہے کہ ان مسلمانوں کی جنگ پر کسی اعترض کی کوئی گنجائش نہیں، اس لیے کہ ان کے خلاف ان مکہ والوں نے خود جنگ چھیڑ رکھی ہے:
وَقَاتِلُوا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُونَکُمْ وَلاَ تَعْتَدُوا إِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبِّ الْمُعْتَدِیْنَ۔ وَاقْتُلُوہُمْ حَیْْثُ ثَقِفْتُمُوہُمْ وَأَخْرِجُوہُم مِّنْ حَیْْثُ أَخْرَجُوکُمْ وَالْفِتْنَۃُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ (البقرۃ: ۱۹۰۔۱۹۱)
’’اور اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جنگ کرو جو خود تم سے جنگ کر رہے ہیں، اور(خود) کوئی زیادتی مت کرنا۔ اللہ زیادتی کرنے والوں کو ناپسند کرتا ہے۔ اور ان کو جہاں پاؤ قتل کرو، اور انکو وہاں سے(یعنی مکہ سے) بے دخل کرو جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے۔ اور ’’فتنہ‘‘ قتل سے بڑی برائی ہے۔‘‘
مگر قرآن کہتا ہے کہ امکان ہو تو صلح ضرور کر لی جائے۔جہاد وقتال کے لیے جوش دلانے والے ایک ولولہ خیز سلسلۂ کلام میں ارشاد ہوتا ہے کہ:
وَإِن جَنَحُواْ لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَہَا وَتَوَکَّلْ عَلَی اللّہِ إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔ وَإِن یُرِیْدُواْ أَن یَخْدَعُوکَ فَإِنَّ حَسْبَکَ اللّہُ (الانفال:۶۱۔۶۲)
’’اگر یہ (خدا اور مسلمانوں کے دشمن ، اپنی دشمنی کے باوجود ) مصالحت کی طرف جھکتے ہیں تو تم بھی اس کی طرف جھک جانا، اور اللہ پر بھروسہ رکھو ۔بے شک وہ (سب) سننے اور جاننے والا ہے۔ اگر ان کی نیت تم کو دھوکہ دینے کی ہوگی تو اللہ تمہارے لئے کافی ہے۔‘‘
جیسا کہ ہم باب دوم کی دوسری فصل میں تفصیل سے لکھ چکے ہیں کہ ان آیات کا سیاق و سباق مسلمانوں کو مشرکین مکہ کے خلاف جنگ پر آمادہ کرنے اور اس کی تیاری کے لئے جوش و حمیت پیدا کرنے کا ہے۔ پھر بھی کہا جاتا ہے کہ دشمن اگر صلح پر آمادہ ہوتا ہے تو صلح کرنے کا حکم ہے۔کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہوسکتا تھا کہ دشمن صلح کے بہانے دھوکہ نہ دے دے۔ سو اس کی پیش بندی کے طور پر پہلے تو کہا کہ صلح کرنے میں توکل علی اللہ کا مظاہرہ کرو۔ پھر مزید صراحت کی کہ اگر ان کے دھوکہ دینے کا اندیشہ ہو تو جان لو کہ اللہ پر توکل ہی تمہارا سرمایہ ہے۔ یعنی اس سلسلے میں اندیشہائے دور دراز کا زیادہ خیال نہ کرو۔
یہ آیات (مدینہ کے یہودی قبائل کے بارے میں یا) مکہ کے ان مشرکین کے سلسلہ میں نازل ہو رہی تھیں جن سے اس دور میں اصل جنگ چل رہی تھی،جو اسلام کے سب سے بڑے دشمن تھے ، جنہوں نے اسلام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور شہر اسلام مدینہ منورہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کو اپنا قومی مقصد بنا رکھا تھا۔ اور یہودی قبائل ان کے مددگار بنے جا رہے تھے۔ ان آیات کا اصل موضوع جہاد وقتال پر آمادگی بلکہ اس کا جوش پیدا کرنا ہے،ان کا انداز واسلوب بھی ولولہ خیز اور جذبات انگیز ہے۔ اس کے باوجوداسی سیاق میں یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر وہ صلح کی جانب جھکیں تو تم بھی صلح کے لئے تیار ہونے میں حوصلے کا مظاہرہ کرنا، اور اللہ کے بھروسے پر اس کے لئے باوجود اس کے تیار ہو جانا کہ دشمن ناقابل اعتبار ہے اور اس سے عہد شکنی اور دغا کا خطرہ ہے۔
ان آیات کے اس سیاق کی بنیاد پر ہم واضح کر چکے ہیں کہ یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ صلح کی گنجائش صرف اس وقت ہے جب مسلمانوں کی پوزیشن اتنی کمزور ہو کہ وہ جنگ کرنے کے موقف میں نہ ہوں۔ جن آیات میں صلح کی پیشکش کو قبول کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، ان کا سیاق و سباق ببانگ دہل اعلان کر رہا ہے کہ اس وقت ایسی مجبوری کی صورت حال نہیں ہے، جیسا کہ باب دوم کی دوسری فصل میں لکھا جا چکا ہے۔

فقہی ذخیرے میں صلح عارضی کیوں نظر آتی ہے؟

اگرچہ قرآن کی اس آیت پر غور وتدبر کی نگاہ اس بات کو بے غبار کر دیتی ہے کہ ’’صلح کے حقیقی امکانات پائے جانے پر اسلام کے قانون میں صلح کرنا ہی ضروری ہے‘‘، مگر یہ بھی صحیح ہے کہ ہمارے فقہی ذخیرے میں صلح وجنگ کے سلسلے کی جو تفصیلات ملتی ہیں اس سے مجموعی طور پر یہ تأثر نہیں قائم ہوتا کہ ’’اسلام کے قانون بین الاقوام کا اصل الاصول صلح ہے‘‘۔ ان کے مطالعے سے واضح طور پر یہ تأثر قائم ہوتا ہے کہ صلح صرف عارضی شے ہے۔
اس کا سبب اس زمانے کا تمدن اور بین الاقوامی اور سیاسی صورت حال تھی۔ اور اس زمانے کے لیے یہی شرعی حکم تھا۔ اصل میں اُس زمانے میں دنیا میں کہیں بھی مستقل صلح کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ عملاً ہی نہیں، نظری طور پر بھی ریاستوں کے درمیان ایسی دائمی صلح سیاسی اور اخلاقی فکر کے لیے اجنبی چیز تھی۔ انسانی تمدن کی اس وقت یہی حالت تھی کہ کسی مملکت کے لیے اگر جنگ ممکن ہوتی تھی تو وہ جنگ کرکے دوسری طاقتوں کو زیر کرنا اپنا فرض سمجھتی تھی۔ 
مزید اس وقت کی بین الاقوامی صورت حال کا ایک اور پہلو ایسا تھا کہ اس کی بنا پرعلماء امت کا فریضہ بنتا تھا کہ وہ مسلم حکومتوں کو متنبہ کریں کہ صلح بس مجبوراً ہی کی جائے۔ وہ پہلو یہ تھا کہ قدیم زمانے میں ریاستیں واضح طور پر کوئی نہ کوئی مذہب رکھتی تھیں، بلکہ ہر ریاست تعصب کی حد تک مذہبی تصورات پر قائم ہوتی تھی اور اِس کا اُس دور میں تصور ہی نہیں تھاکہ کوئی غیر مسلم حکومت اپنے زیر اقتدار علاقوں میں اللہ کے بندوں کو اس کے دین کی طرف بلانے کے لیے امکانات کھلے چھوڑ دے۔ یہ بات اس وقت بالکل ناقابل تصور تھی۔ ہر حکومت کے بارے میں یہ بات طے تھی کہ وہ بزور قوت امت مسلمہ کی ایمانی و اصلاحی دعوت کی راہ میں مزاحم بنے گی اور اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان ضرور حائل ہو گی۔ لہٰذا اس وقت صلح کا لازمی نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ امت اس پورے خطے کے بارے میں صبر کرلے اور وہاں کے انسانوں کو اللہ کی عبادت کی طرف بلانے اور اس کی بندگی کے راستے پر چلانے کی جدوجہد نہ کرنے کو منظور کر لے۔ ظاہر ہے کہ امت مسلمہ کے لیے اس صورت حال کو مستقل طور پر تسلیم کرنے کی کسی طرح اجازت نہیں دی جاسکتی۔ یہ بات امت مسلمہ کے لیے اپنے فرض منصبی کے خلاف ہے۔ اس لیے علماء امت نے اس زمانے میں بجا طور پر یہ خیال ظاہر کیا کہ صلح برائے مصلحت اور عارضی طور پر ہی کی جائے ۔
لیکن اگر اس صورت حال سے الگ کرکے اصل مسئلے پر غور کریں تو قرآن کی یہ بات اپنی جگہ قائم رہتی ہے کہ جنگ ’’فتنہ‘‘ کی صورت میں اسی باطل کوش طاقت کے خلاف کی جا سکتی ہے جو بزور قوت انبیاء علیہم السلام کی ایمانی و اصلاحی دعوت کی راہ میں مزاحم بن رہی ہو، اور اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان حائل ہو رہی ہو۔ورنہ اسلام کے قانون بین الاقوام میں اصل صلح ہی ہے۔

ایک ضروری وضاحت:

اوپر ایک سے زائد جگہ پر قرآن کے یہ الفاظ ’’وقاتلوہم حتی لا تکون فتنۃ ویکون الدین للہ‘‘  گذرے ہیں، جن کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اے مسلمانو!مشرکین مکہ (جن سے جنگ کے حالات کے پس منظر میں یہ آیات اتر رہی ہیں ، اور جن سے جنگ کرنے کا اس وقت حکم دیا جا رہا تھا ان) سے اس مقصد سے جنگ کرو کہ ’’فتنہ‘‘ اور مذہبی جبر و ایذارسانیوں کا یہ سلسلہ بند ہو ،اور دین اللہ کے لئے خالص ہو جائے۔ ’’فتنہ‘‘ کا جو لفظ یہاں آیا ہے اس کی وضاحت تو اس کتاب میں ہو چکی ہے کہ عربی زبان کی روح سے اس کے معنیٰ ستانے ، اور آزمائش میں ڈال کر مجبور کرنے کے ہیں۔ جن لوگوں نے اس کو محض شرک کے معنی میں لیا ہے ان کو یہ خیال اس لئے ہوا ہے کہ مسلمانوں کو مشرکین عرب سے، ایک مرتبہ جنگوں کا سلسلہ شروع ہو جانے کے بعد، اس وقت تک جنگ جاری رکھنے کاحکم تھا جب تک اس سرزمین سے شرک کی جڑیں نہ اکھیڑ دی جائیں، یعنی عرب کے مشرکین سے اسلام کی جنگ کی غایت اور انتہا یہ قرار دی گئی تھی کہ سرزمین عرب سے شرک کا خاتمہ ہوجائے۔ اس لئے ان حضرات نے اس آیت کے بھی یہ معنی بتلائے کہ مسلمانوں کو مشرکین مکہ سے اس وقت تک جنگ کرنے کا حکم تھا جب تک کہ سرزمین عرب سے شرک ختم نہ ہو جائے۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ ’’فتنہ‘‘ کا لفظ صرف ’اکیلے شرک‘ کے معنی میں نہیں آتا۔
یہاں ایک وضاحت ضروری ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ ’’ویکون الدین للہ‘‘ جو جنگ کا مقصد بتلایا گیا ہے ، یعنی یہ کہ جنگ کرو ’’تاکہ دین اللہ کے لئے خالص ہو جائے‘‘، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ لوگوں کو زبردستی مسلمان بنانے کے لئے جنگ کا حکم دیا جا رہا ہے۔ اس کی سب سے اہم اور بنیادی دلیل یہ ہے کہ قرآن نے غیر مسلموں سے جزیہ لے کر صلح کرنے کی اجازت دی ہے۔ اور نہ اس کا یہ مطلب ہے کہ اسلامی جہاد کے تصور کی بنیاد یہ خیال ہے کہ سوائے مسلمانوں کے کسی اور قوم کو اپنی خود مختار حکومت قائم کرنے کا حق نہیں ہے۔ یہ حکم اصلاً صرف جزیرۃ العرب کے لئے ہے کہ اس میں اسلام کے علاوہ کسی اور کی حکومت کو باقی رکھنا مسلمانوں کے لئے ممکن نہیں چھوڑا گیا تھا۔ قرآن نے یہ بات بالکل صاف کی تھی کہ مکہ کی حیثیت ایک ’’ابراہیمی واسماعیلی وقف‘‘ کی ہے اور بنی اسماعیل کا یہ پورا ہی علاقہ ابراہیمی دعوت کے مرکز بننے کے لئے خاص کر لیا گیاتھا۔ لہٰذا اس جزیرہ کے اندر سلسلۂ قتال کا آخری مقصد اور اس کی غرض و غایت یہ بتائی گئی کہ جزیرۃ العرب تمام تر اللہ کے دین کے تحت آ جائے۔
اسی آیت کی گویا وضاحت تھی رسول اللہؐ کی یہ خاص وصیت کہ’’مشرکین اور یہود و نصاریٰ کو جزیرۃ العرب سے نکال دیا جائے‘‘ ۔ (صحیح بخاری ۳۰۳۵ و صحیح مسلم ۱۷۶۷) اور یہی آیت آپؐ کے اس فرمان کی بھی بنیاد تھی کہ ’’لا یبقینّ دینان فی جزیرۃ العرب‘‘ (موطا ۱۳۸۸) جزیرۃ العرب میں اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کی گنجائش نہ رہے۔ 
اس پوری تفصیل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے قرآن کا حکم ہے کہ اگر کوئی قوم شریفانہ صلح کے لئے آمادگی کا اظہار کرے تو اس کو ضرور قبول کیا جائے۔ لہٰذا اگر کوئی غیر مسلم ریاست مسلمانوں کے ساتھ صلح پر آمادہ ہو سکے اور اپنے علاقہ میں پُر امن طور پر اسلام پر عمل کرنے اور اپنی سر زمین پر اللہ کے بندوں کو اللہ کی عبادت اور بندگی کرنے دیتی ہے اور اللہ کے بندوں کو اس کے دین و شریعت کی طرف دعوت دینے اور اس کی راہ پر چلانے کی اس جد و جہد میں(جس جدوجہد کے لیے ہی امت اسلامیہ کو اصلا وجود بخشا گیا تھا) طاقت کے زور سے حائل نہیں ہوتی، یعنی ظلم اور ’’فتنہ‘‘ کی صورت نہیں پائی جاتی ، تو ایسی صورت میں مسلمانوں کے لئے دعوت و نصیحت کے راستے کے امکانات کو استعمال کرنے سے پہلے قتال وجنگ کرنا جائز نہیں ہوگا، بلکہ ان کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ پہلے اس راستے پر خوب محنت کر لیں یہاں تک کہ اللہ کی حجت تمام ہو جائے، اور اللہ اپنی سنت کے مطابق کوئی فیصلہ فرما دے جو حجت تمام ہونے کے صورت میں وہ یقیناًفرمایا کرتا ہے۔

جہاد اور امپیریلزم؟

اسلام نے مسلمانوں کو جس جہاد کی تعلیم دی ہے، اس کے جو مقاصد اور ہداف قائم کیے ہیں، اس کے جو شرائط اور قوانین طے کیے ہیں، اورسب سے بڑھ کر اس میں تقرب الی اللہ، خدا پرستی اورمتاع دنیا سے بے رغبتی کی جو روح پھونکی ہے،اس کی تفصیلات پر نظر رکھنے ولا ہر سلیم الفطرت یہ گواہی دے گا کہ اس جہاد کا قیام انسانی دنیا کی ضرورت اور اللہ کا ایک فضل ہے، جو تاریکی و ظلم اور بدی کے دھوئیں کو چھاٹنے کا ذریعہ اور نوع انسانی کو شقاوت کی کھائیوں سے نکال کر سعادت کی بلندیوں پر پہنچانے کاوسیلہ ہے۔
ہو سکتا ہے کہ کوئی کسی جماعت کی نیت میں شک کرے۔ یہ شک صحیح بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کسی زمانے میں مسلم جنگجو جماعت عملی طور پر ’’صحیح جہادی اقدار‘‘ کی حامل نہ ہو۔ مگر یہ ممکن نہیں کہ بطوراصول ونظریہ کوئی اسلام کی جہادی تعلیم کو انسانی دنیا کی سعادت کا ذریعہ ماننے کو غلط ٹھیرا دے۔ 
ہر سوچنے سمجھنے والا قرآن کی اس بات کی تصدیق کرے گا کہ اگر دنیا جہادی روح وجذبہ رکھنے والے اللہ کے مخلص بندوں سے خالی ہو جائے تو شیطانی اور ہوس کی طاقتیں خدا پرستی کا جنازہ نکال دیں گی۔ 
وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَہُم بِبَعْضٍ لَّہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیْہَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْراً (الحج: ۴۰)
قرآن مزید کہتا ہے کہ پھر زمین کے بگاڑ کو روکنے والی کوئی چیز نہیں ہوگی۔ لہذا یہ تو دنیا پر اللہ کا خاص فضل ہے کہ اس نے انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ اپنے خاص بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ پاکیز گی اختیار کریں اور دنیا کو فسادو ظلم سے بچانے کے لیے اور انسانوں کی ہدایت اور خیر خواہی کے لیے ضرورت ہو تو جہاد کے اصول پر جنگ کریں ۔
وَلَوْلاَ دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الأَرْضُ وَلَکِنَّ اللّٰہَ ذُو فَضْلٍ عَلَی الْعَالَمِیْنَ۔ 
جدید دور میں ہمیں ایک عجیب اور نسبۃً نئی قسم کی صورت حال سے واسطہ پڑتا ہے۔ مغرب کے جدید ’’دور تہذیب و ترقی‘‘ سے پہلے سلطنتیں ایک دوسرے پر جہانگیریت (Imperializm) اور وسائلِ حیات پر قبضے کے لیے حملے کرتی تھیں، اور یہی ان کی حکومتوں کے مقاصد ہوتے تھے، اور ان کی جنگوں کے بھی۔ ان کا کردار، طرز جنگ اور مفتوح قوموں اور علاقوں کے ساتھ ان کا برتاؤ انہی مقاصد کے مطابق ہوا کرتا تھا۔ ان حکومتوں نے دنیا میں آشتی کے پیامبر اور ’’ امن کی فاختہ ‘‘ ہونے کے ترانے نہیں گائے تھے۔ اور نہ جمہوریت ، حقوق انسانی اور تہذیب کی معلمی کو اپنا مشن بتایا تھا۔ اس لیے ان کا معاملہ سادہ تھا۔ مگر جدید مغربی حکومتیں اپنے جہانگیری اور توسیعی عزائم وکردار میں سکندر و دارا سے بڑھے ہونے کے باوجود، امن و آشتی کا پیر ہن پہن کر سامنے آتی ہیں۔ اور دعویٰ کرتی ہیں کہ ان کی جنگیں تہذیب وانسانیت کی ترقی کی خاطر، فلاح عام کے مقصد سے، حقوق انسانی کی نگہبانی اور جمہوریت کے فروغ کے لیے ہیں۔ ان مغربی حکومتوں نے قول و عمل میں تضا دکے نئے ریکارڈ قائم کئے۔ الفاظ کی بازی گری اور نہایت مکروہ حقائق پر حسین و دل فریب پر دے ڈالنے کا عجب کلچر قائم کیا۔ لہوپی کر تعلیم مساوات دی۔ ان کی درندگی اور خباثت کا وہ حال ہے جو ابو غریب اور گوانٹا نامو میں نظر آیا ہے،مگر اندروں چنگیز سے تاریک تر رکھ کر بھی یہ روشن خیالی کی تبلیغ کرتی ہیں۔ اس نئی صورت حال نے لوگوں کو اس شبہ میں ڈالا ہے کہ اسلام کا دعویٰ بھی کہیں ایسا نہ ہو کہ اصلاح و فلاح کے سارے وظیفے زبان تک محدود ہوں اور عملاً صرف قوت و استبدا د مقصد ہو۔
اگرچہ بنیادی طور پر یہ شبہ کرنا ہی اس لیے غلط ہے کہ کسی دعوت یا نظر یہ کو جانچنے کا یہ کوئی پیمانہ نہیں ہے کہ اس کے حاملین کے کر دار کو کسوٹی بنا لیا جائے یا ان کی نیت پر اس لیے شبہہ کیا جائے کہ دوسروں نے بھی بظاہرا چھے مقاصد کا نام لے کر بری نیتیں رکھی ہیں ۔ نظریات اور دعوتوں کو جانچنے کا ذریعہ صرف دلائل وحقائق کی آزمائش ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ اسلام ایک دینی و روحانی دعوت ہے۔ اس کا اصل مقصود کسی قوم کی حکومت یا قوت نہیں ہے، بلکہ ان اخلاقی اقدار اور روحانی حقائق کا فروغ اس کا اصل مطلوب ہے جو اس کی دعوت کی بنیاد ہیں۔ مسلمانوں کی قوت اگر ان اقدار کے فروغ میں معاون ہو تو وہ مطلوب ہے۔ اور اگر وہ ان کے احیاء و فروغ میں رکاوٹ بنے یہ قوت قابل نفرت ہے، اور قرآن کے بیان کے مطابق اللہ کی سنت میں یہ بات طے ہے کہ وہ مسلمانوں کی ایسی قوت کو توڑ کر ان کو ذلت کا مزہ ضرور چکھا ئے گا۔ اسلام نے جنگ کو ’’جہاد فی سبیل اللہ ‘‘ کی روح اور قالب عطا کیا ہے۔ وہ جہاد کرنے والے کو ہر دم یومِ جزا کی فکر میں رکھتا ہے، اور اس کو خدا وند قہار کے سامنے کھڑے ہونے کی منزل یاد دلا تا رہتا ہے۔ قرآن صاف آگاہ کرتا ہے:
تِلْکَ الدَّارُ الْآخِرَۃُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُونَ عُلُوّاً فِیْ الْأَرْضِ وَلَا فَسَاداً وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ (القصص: ۸۳) 
’’وہ آخرت کا گھر ہم انہی لوگوں کو دیں گے جو زمین میں تکبر کرنا اور بگاڑ مچانا نہیں چاہتے۔ اور آخرت کی کامیابیاں صرف پرہیز گاروں کے لیے ہیں۔‘‘
اس جہاد کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اگر اپنے بندوں کو حکومت و اقتدار کا موقع عطا فرمائے تو انہیں یہ بات جان لینی چاہیے کہ یہ ایک امانت ہے، اور اللہ کے یہاں اس کا سوال ہوگا۔ لہٰذا اگر کوئی اس حکومت و اقتدار کو امانت کے طور پر لینے کے بجائے دنیاوی عزت و قوت اور لذّت و فر حت کے بیش بہا موقع کے طو ر پر لے گا تو وہ آخرت کے دن شدید عذاب سے دو چار کیا جائے گا۔ اللہ تعا لے نے جب حضرت داؤد ؑ کو حکم رانی کے منصب پر فائز فر مایا تو ان کو تاکیدفرمائی:
یَا دَاوُدُ إِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیْفَۃً فِیْ الْأَرْضِ فَاحْکُم بَیْْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْہَوَی فَیُضِلَّکَ عَن سَبِیْلِ اللّٰہِ إِنَّ الَّذِیْنَ یَضِلُّونَ عَن سَبِیْلِ اللّٰہِ لَہُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ بِمَا نَسُوا یَوْمَ الْحِسَاب (ص: ۲۶)
’’اے داؤد ! ہم نے تم کو زمین پر حکم راں اور اپنا نائب بنایا ہے۔ لہذا تم لوگوں کے درمیان راستی اور عدل کے ساتھ حکومت کرو۔ اور (خبر دار) نفسانی خواہشات کے پیچھے مت پڑجانا و رنہ وہ تم کو اللہ کے راستہ سے بھٹکادیں گی۔ جو لوگ اپنی خواہشات نفس کے پیچھے پڑ کر اللہ کے بتائے ہوئے طریقے سے ہٹ جا تے ہیں ان کو سخت عذاب ملے گا۔ اس لیے کہ انہوں نے اس دن کو بھلا دیا جب ان کے اعمال کا حساب ہوناتھا۔‘‘
یوم جزا و حساب کی فکر ہی بس امانت کی اس روح کی حفاظت اس درجے میں کر سکتی ہے کہ وہ حکم رانی اور قوت واستیلا کے موقع پر بھی حکم رانوں کو حدود کے اندر رکھ سکے۔ قرآن و سنت نے مسلمانوں کو اسلامی تربیت وتقوی کی جو راہ دکھائی ہے وہ یقیناًاس روح کی حفاظت کی پوری کفیل وضامن ہے۔ یہاں حدیث کے ذخیر ے سے اس تعلیم کی بس ایک مثال ذکر کی جاتی ہے۔ ایک صحابی کو حکومت و اقتدار کے سلسلے میں نصیحت کرتے ہوئے اور اس بھاری امانت کی نزاکت سے آگاہ کرتے ہوئے رسول اللہ ؐ نے فرمایا:
یاأباذر! انہا أمانۃ وانہا یوم القیامۃ خزيٌ وندامۃ الّا من أخذھا بحقہا وأدّیٰ الذی علیہ فیہا (صحیح مسلم، رقم ۱۸۲۶)
’’ابوذر! یہ امانت ہے۔ اور قیامت کے دن یہ رسوا کن اور باعث ندامت ہوگی۔ سوائے اس شخص کے لیے جو اس کو حق کے ساتھ لے، اور اپنی ذمہ داریاں ادا کرے۔ ‘‘
جہاد فی سبیل اللہ کو اپنی پاکیزہ روح اور اپنی اخلاقی وروحانی خصوصیات کے ساتھ باقی رکھنے کے لئے اسلام نے جو انتظامات کیے ہیں، پچھلی سطروں میں ان کی صرف ایک جھلک دکھائی گئی ہے۔ اس اہتمام وانتظام کی کوئی جھلک بھی دنیا کے کسی پولیٹکل سائنس اور قومی تربیتی نظام میں نہیں مل سکتی۔ جہاں تک جہاد کے کا مل معیاری عملی نمونے کا تعلق ہے وہ اول درجے میں رسول اللہ ؐ کے زمانے کا جہاد ہے۔ اور دسرے درجے میں یہ معیاری نمونہ خلفائے راشدین کے اس دور میں ہم کو ملتا ہے جب مسلمانوں کے اجتماعی معاملات ناتربیت یا فتہ عناصر کے ہاتھ میں نہیں آئے تھے۔ 
مستشرقین نے عہد رسول کے جہاد کو عربوں کی کمزور اقتصادی پوزیشن اور خصوصاً بد و عربوں کے قلیل وسائل معیشت کے نقطۂ نظر سے دیکھا ہے۔ انہوں نے اور ان کے مشرقی شاگردوں نے ان کا اتباع کرتے ہوئے جہاد کا اصل مقصد مالی خوشحالی کا حصول قرار دیا ہے۔اگر ناواقفیت نہیں تو ان کی اس روش کو کم سے کم جو نام دیا جا سکتا ہے وہ شپّرہ چشمی ہے۔ یہ کیسی مالی مقاصد کے لیے بپا کر دہ تحریک ہے جس کے صف اول کے قائدین جان کی بازی لگانے میں سب سے آگے ہیں ،مگر پھر بھی غریب و فقیر مرتے ہیں۔ آں حضرت ؐ کا جب و صال ہوتا ہے تو یہ مکہ کے کس مپرسی کے دن نہیں ہیں، پورا عرب فتح ہو چکا ہے، اور جاں نثاروں کی بھیڑ مال درکنار، گردن ہتھیلی پر رکھے حاضر ہے۔ مدینہ میں مال آ تا ہے اور غریبوں میں تقسیم ہوتا ہے، مگر خانۂ نبوی میں صرف ایک وقت ہی کھانا پکتا ہے (صحیح مسلم، ۲۹۷۴) اور وفات کے وقت وہ بھی ایک یہودی سے قرض لے کرہی ممکن ہو سکا۔ (صحیح بخاری، ۲۹۱۶)
عہد نبوی میں سب سے زیادہ ما ل غنیمت جنگ ہوا زن میں حاصل ہوا تھا۔ ہوازن کے لوگ جو ش دشمنی میں اپنا سارا مال ومتاع لے کر میدان میں آئے تھے۔ ان کاخیال تھا کہ جب سارا مال ومتاع داؤ پر لگا ہوگا تو کوئی بھاگنے کو نہیں سوچ سکے گا ۔ شکست ہوئی تو یہ عظیم ذخیرہ غنیمت کی صورت میں مسلمانوں کے قبضے میں تھا۔ اگر ان جنگوں میں دنیا طلبی کا کوئی محرک ہو تا تو ضرور یہ دولت مدینہ میں روشنی کرتی اور مسلمانوں کے گھروں میں عیش کا سامان بنتی۔ مگر یہاں تو نظارہ ہی کچھ اور ہے۔ آپؐ سارا مال قریش اور بعض دیگر قبائل کے سرداروں میں بانٹ ڈالتے ہیں۔ جنہوں نے آپؐ سے جنگ کی، ان میں ہی مال بانٹ ڈالا!!۔ یہ سب جو کل تک دشمن محاذ کے سردار ہیں بڑے بڑے حصے پاتے ہیں۔ مدینہ کے مخلص و جاں نثار مسلمانوں کو کچھ نہیں مل رہا ہے۔ یہ دیکھ کر انصار کے کچھ نو جوان صبر نہیں کرپاتے، چہ می گوئیاں شروع ہوتی ہیں۔ یہ خبر پاکر رسول اللہ ؐنے انصار کو ایک خیمہ میں جمع کرنے کا حکم دیا ۔ اور جو گفتگو فرمائی وہ جہاد کی اصل روح، مقاصد اور حقیقت کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔ آپ نے انصار سے فرمایا :
’’مجھے کیا خبریں پہنچ رہی ہیں؟ میں نے یہ مال نئے اسلام لانے والوں کو دیا ہے، تاکہ ان کے دل نرم پڑ جائیں۔ انصار کے لوگو! تم گمراہ تھے کیا اللہ نے تم کو میرے ذریعہ ہدایت نہیں دی؟ تمہارا شیرازہ منتشر تھا، کیا میرے ذریعہ اللہ نے تم کو جمع نہیں کیا؟ تم فقیر تھے، اللہ نے میرے ذریعہ تم کو غنی نہیں بنایا؟ (انصار ہر سوال کے جواب میں سراپا نیاز وادب کی تصویر بنے کہتے جاتے: اللہ اور اس کے رسول کے بڑے احسانات ہیں‘‘)۔ 
پھر آپ ؐ نے فرمایا: اگر تم اس کے جواب میں مجھ سے یہ کہو تو سچ ہوگا کہ: تم کو تمہاری قوم نے جھٹلا یا، ستایا اور نکال دیا، تو ہم ہی تھے جنہوں نے تم کو پناہ دی ۔ کسی نے تمہاری مدد نہیں کی، تو ہم ہی نے تمہاری مدد کی اور اپنے گھر رکھا۔ تم ضرورت مند تھے۔ ہم ہی نے تمہارے ساتھ ہمدردی کا سلوک کیا۔اے انصار! اگر تم ایسا کہو تو حق ہوگا اور میں بھی تمہاری تصدیق کروں گا۔
مگر سنو! میں نے دنیا کا یہ حقیر مال کچھ لوگوں کے دل رکھنے کے لیے دے دیا تو تم کو خلش ہے؟ مگر تم سوچو! کیا یہ اچھا نہیں ہے کہ یہ سارے لوگ اونٹ بکریاں لے کر جائیں اور تم اللہ کے رسول کو اپنے گھرلے کر جاؤ۔ ‘‘ (صحیح بخاری ۴۳۳۰، ومسند احمد ۱۱۷۳۰)
آں حضرت ؐ کے بعد جو اس کارواں کے صف اوّل کے رہنما تھے ابو بکرؓ و عمرؓ، وہ بھی تادم وفات فقیرانہ بودو باش اختیار کیے رہے۔ 
یہ بھی ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اسلام کی فتوحات کے زمانے میں عرب کے اندرونی حصوں کے مقابلے میں مفتوحہ علاقے کہیں زیادہ خوش حال تھے۔ اور ہمیشہ یہی حال رہا ۔ بغداد، دمشق، اسکندریہ، کوفہ اور بصرہ سب اندرون عرب سے کہیں زیادہ خوش حال شہر تھے۔
شام ایک زرخیز خطہ تھا، حضرت عمر کے عہد میں وہ فتح ہوتا ہے پہلے مسلمان عراق وغیرہ فتح کر چکے تھے، اور ان فتوحات کے دوران مسلمانوں نے مفتوح قوم کے ساتھ ایسا منصفانہ ہمدردانہ اور انسانیت نواز معاملہ کیا تھا کہ شام کے باشندے مسلم فوجوں کا استقبال کرتے ہیں۔ مسلمانوں کو شام میں صرف ان شہروں میں کسی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جہاں باقاعدہ رومن فوجوں کی قلعہ بند چھاؤنیاں تھیں۔ عوام بیز نطی حکومت کے ہم مذہب عیسائی تھے، اس کے باوجود وہ مسلم فوجوں کا استقبال کرتے نظر آتے ہیں ۔ کبھی دنیانے ایسا نظارہ نہیں دیکھا ہوگا کہ مفتوح قومیں فاتح طاقت سے اصرار کریں کہ وہ واپس نہ جائے۔ مسلمانوں کو جنگی حکمت عملی کے تحت حمص، دمشق، اور بعلبک کے شہر خالی کرنا پڑے۔ اس وقت ان شہروں کے عیسائی باشندے آکر کھڑے ہوگئے کہ ہم تم کو واپس نہیں جانے دیں گے۔ رومیوں کے ظلم کے لیے ہم کو نہ چھوڑو۔ مسلمانوں نے اپنی مجبوری بتائی، تو انہوں نے مسلمانوں کو ان دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا کہ خدا تم کو دوبارہ لائے۔ اور یہ وعدہ کیا کہ اگر رومن فوجیں یہاں آئیں تو ہم ان سے تمہاری فوج کے ساتھ مل کر لڑیں گے۔ یہودی بھی کھڑے ہوئے اور کہا: ہمارے جیتے جیہ ہرقل کا حاکم حمص میں داخل نہیں ہو سکتا۔ (فتوح البلدان، ۲۵۸)
مختصر یہ کہ جہاد کی بنیاد دنیا سے بے رغبتی آخرت طلبی اور مخلوق خدا سے ہمدردی اور انصاف کے جن اصولوں پر رکھی گئی ہے، اور پھر اسلام کے آئیڈیل قرار دیے گئے دور (قرون اولیٰ) میں اس کا جو نمونہ ہمارے سامنے آتا ہے وہ اس کی واضح دلیل ہے کہ جہاد دراصل امپیر یلزم اور جہانگیریت کو مٹانے کا ہی نام ہے۔ اور اس نے ابتدائی عہد میں دنیا کو دو بڑی امپیریل ظالم طاقتوں کے ظلم واستبداد سے نجات دلانے کا کارنامہ انجام دیا تھا۔ اور اسی کے نتیجہ میں یہ عظیم خطے فساد وتاریکی اور جاہلیت کے دور سے نکل کر خدا پرستی اور پاکیزہ اخلاقیات کی تہذیب میں داخل ہوئے تھے۔

جزیہ

مسلمان جب رومیوں سے جنگ کررہے تھے، تو جیساکہ گذر چکاہے ، قرآن کی وہ آیت نازل ہوئی کہ: اب ان سے اس وقت تک جنگ جاری رکھنا جب تک وہ ’’ جزیہ‘‘ دینا قبول نہ کرلیں۔
قَاتِلُواْ الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُونَ بِاللّہِ وَلاَ بِالْیَوْمِ الآخِرِ وَلاَ یُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللّہُ وَرَسُولُہُ وَلاَ یَدِیْنُونَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ حَتَّی یُعْطُواْ الْجِزْیَۃَ عَن یَدٍ وَہُمْ صَاغِرُون۔ (سورۂ توبہ آیت : ۲۹)
جزیہ کی حقیقت یہ ہے کہ اس زمانے کی منظم حکومتیں مفتوح قوموں اور رعایا پر جو ٹیکس (زمین کے لگان کے علاوہ) ہر ہر آدمی پر لگاتی تھیں اس کو ’’جزیہ‘‘ کہتے تھے، علامہ شبلیؒ نے جزیہ پر اپنے مشہور رسالے میں ثابت کیا ہے کہ اس لفظ کی اصل فارسی ’’کزیت‘ ہے۔ طبری نے اپنی تاریخ میں خسرو نوشیرواں، جو عہد نبوی سے پہلے کا ایرانی بادشاہ تھا، کے بارے میں لکھا ہے کہ اس نے لوگوں کے اوپر جزیہ کا نظام نافذ کیا، اور اس کے اصول وقواعد اور مقدار طے کی۔ علامہ شبلی نے طبری اور ان سے بھی قدیم مؤرخ ابوحنیفہ دنیوری کی الاخبار الطوال (وفات ۲۸۱ھ) سے اس کے حوالے دئے ہیں۔
اہل عرب ایران سے قریبی سیاسی رابطے رکھتے تھے، بلکہ پورا مشرقی ساحل شمالی یمن کے مشرقی علاقوں تک انہی کے تابع تھے، شمالی مشرق میں حیرہ میں آل منذرؒ کی قدیم عرب سلطنت ایران کے تابع ریاست کے طورپر قائم ، اور مستقل عرب وفارس تعلقات کی نگراں تھی،یمن میں کسریٰ کی طر ف سے مستقل گورنر متعین ہوتاتھا، عہد نبوی میں اس کا نام باذان تھا۔ (تاریخ طبری) سیاسی وجغرافیائی قربتوں کے نتیجے میں ثقافتی لین دین کافطری عمل ہونا لازمی ہے۔ اسی لئے جب قرآن نے ’’جزیہ‘‘ کا لفظ بولا تو کسی کو اسی کے سمجھنے میں مشکل نہیں پیش آئی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جزیہ بین الاقوامی سطح پر معروف محاصل کانظام تھا۔

کیا جزیہ اسلام قبول نہ کرنے کی سزا ہے؟

جزیہ کے بنیادی تصور سے جو ہم نے اوپر واضح کیاہے، یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ جزیہ کسی خاص مذہب کو قبول نہ کرنے کی سزا نہیں تھا۔ اسلام سے پہلے عجم کے حکمراں اس کو اپنے ہم مذہبوں سے بھی لیتے تھے۔ طبری نے نوشیرواں کے تذکرے میں اس کے نظام کی کچھ تفصیلات لکھی ہیں۔ اس میں کوئی مذہبی تفریق نہیں تھی، بلکہ اس میں حکم راں طبقات اور جنگوں میں شرکت کرنے والوں کو مستثنیٰ کیا گیا تھا۔ خود نوشیرواں کے حوالے سے اس کی یہ حکمت منقول ہے کہ جو لوگ جنگوں میں حصہ لیتے ہیں وہ ان کی خدمت کرتے ہیں جو کھیتی او رکاروبار کرتے ہیں۔ لہٰذا عام لوگوں کو ریاست کی امداد اپنے مال سے کرنی چاہئے۔
غرض جزیہ اس وقت کا ایک عام بین الاقوامی قانون تھا۔ دنیا کا تمدنی وفوجی سپر پاور فارس اس پر عمل کرتا تھا، اسلام نے بھی یہی تصور باقی رکھا۔ بس اس فرق کے ساتھ کہ مسلمانوں پرزکاۃ کی جو عبادت فرض کی گئی، اور صدقات کی عبادت کا جو نظام رکھا گیا، اس کا ایک اہم مقصد ریاست کا تحفظ اور جہاد فی سبیل اللہ کی تقویت بھی تھا۔ لیکن زکاۃ چونکہ خالص عبادتی ومذہبی روح رکھتی ہے اس لئے غیر مسلموں کو اس کا پابند کرنا ناجائز تھا، اس لئے ان کو ریاست کی اجتماعی ضروریات کے سلسلے میں ایک بڑی معمولی چیز کا ذمہ دار بنایا گیاہے۔ اور وہ جزیہ کا ٹیکس ہے۔ 
حضرت عمر نے یہ ضابطہ جاری کیا تھا کہ جزیہ صرف ان لوگوں پر ہوگا جن کو اسلامی ریاست اپنے تحفظ میں لے گی، اور وہ جنگی خدمات انجام نہیں دیں گے۔ جن لوگوں سے جنگی خدمات کا مطالبہ کیاجائے گا وہ خودبخود جزیہ سے مستثنی قرار پائیں گے۔ عراق کے افسران حکومت کے نام آپ نے ہدایت بھیجی کہ 
لیستعینوا بمن احتاجوا إلیھم من الأساورۃ ویرفعوا عنھم الجزاء (تاریخ طبری: ۲/۴۸۲)
’’سابق حکومت کے کارندوں میں سے جن کی ضرورت ہو مدد لی جائے اور ان کا جزیہ معاف کردیا جائے۔‘‘
آذربائجان کے لوگوں کے بارے میں حکم فاروقی تھا کہ جو ایک دفعہ کسی معرکہ میں حصہ لے گا اس کا سال بھر کا جزیہ معاف ہوجائے گا۔ (تاریخ طبری ۲/۵۴۰)
آرمینہ اور جرجان کے لوگوں کو یہ وعدہ لکھ کردیا گیا کہ یہ لوگ ضرورت پڑنے پر جنگ میں حصہ لیں گے تو ان کا جزیہ معاف ہوجائے گا۔ (طبری ۲/۵۴۱)
جرجومۃ کا شہر فتح ہوا تو ان لوگوں نے شرط رکھی کہ ہم سے جزیہ نہ لیا جائے ہم مسلمانوں کی مدد کریں گے تو یہ بات مان لی گئی۔ (الفاروق بحوالہ فتوح البلدان، ص ۱۵۹)
امام عامر شعبی جن کی ولادت ۲۰ھ اور وفات پہلی صدی کے خاتمہ پر ہوئی ہے، فرماتے ہیں کہ:
ادرکت الأئمۃ الفقیہ منہم وغیر والفقیہ یغزون بأھل الذمۃ فیقسون لھم ویضعون عنھم جزیتھم‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ: ۱۷/۵۹۵)
میں نے فقیہ اور غیر فقیہ ہر قسم کے حکام کو دیکھا ہے کہ وہ غیر مسلم شہریوں کو جنگ میں شریک کرتے تھے اور ان کا حصہ غنیمت میں لگاتے تھے اور جزیہ معاف کردیتے تھے۔
اسی بنا پر اب اکثر علماء کا گویا اتفاق سا ہوگیا کہ جزیہ حفاظت کا بدلہ اور فوجی خدمات کا معاوضہ تھا۔ 
اس کم علم کو اس حقیقت سے پورا اتفاق ہے کہ حضرت عمر کے زمانے میں جزیہ فوجی خدمات کی ادائیگی پر معاف ہوجاتا تھا، اور وہ صرف جنگ میں حصہ لینے کے قابل لوگوں یعنی جو ان مردوں سے لیا جاتا تھا، عورتوں بچوں اور بوڑھوں سے نہیں لیا جاتاتھا۔ اس سے نتیجہ بآسانی نکالا جاسکتا ہے کہ جزیہ فوجی خدمت کا بدلہ تھا۔
غیر مسلم مفتوح اقوام کو جنگ میں حصہ لینے اور ریاست کے دفاع کا فرض انجام دینے کا عموماً پابند نہیں بنایا گیا تھا، اس کی وجہ اولا تو یہ تھی کہ مفتوحین کو یکا یک وفادار یاں بدلنے پر اس درجہ مجبور کرنا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ خون بہانے پر تیار ہوجائیں ایک نامناسب بات تھی۔ اس کی دوسری وجہ یہ تھی کہ ایک اسلامی ریاست مخصوص عقائد وافکار، او ر مخصوص مقاصد کے لئے قائم ایک مشنری اور دعوتی ریاست ہوتی ہے۔ اس کا کام صرف امن کا قیام ، شہریوں کی فلاح وبہبود سے آگے بڑھتے ہوئے پوری دنیا میں مخصوص ذوق ومزاج اور عبادت اللہ پر قائم نظامِ زندگی عام کرناہوتاہے۔ غیر مسلموں کو اپنی مرضی کے خلاف ایسی ریاست کے لئے خون بہانے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے، اس لئے ان سے صرف ان کے جان ومال کا تحفظ کا معاوضہ جزیہ لیاجاتاتھا۔
یہ عاجز اس حقیقت سے اتفاق کے ساتھ ساتھ اس سلسلے میں ایک ذرا مختلف موقف رکھتا ہے۔ اور وہ یہ کہ جزیہ اپنی بنیادی حیثیت میں صرف ایک سادہ سا محصول (ٹیکس) ہے۔ جیسے محصولات ہر حکومت اپنی ملکی ضرورتوں اور سماجی خدمات کی انجام دہی کے لئے لیا کرتی ہے۔ ان کے ذریعہ ہی ملک کے دفاع کی ضرورتوں کو پورا کیاجاتاہے، حکومتی عملہ کی تنخواہیں ، رفاہ عامہ، سڑکوں اور پلوں کی تعمیر، سنچائی کے انتظامات اور سارے ملکی انتظامات کا کام ان ٹیکسوں کے ذریعہ ہی ہوتا ہے۔ اورہر فردِ معاشرہ او رریاست کا باشندہ کم وبیش اس بار کا کچھ نہ کچھ حصہ اٹھاتاہے۔ 
مسلمانوں پر زکاۃ کی شکل میں جو عبادت فرض ہے اس کا عبادتی پہلو تو یہ ہے کہ بندہ گویا خدائے قدوس کی خدمت میں عقیدت ووفا کی نذر گذارتاہے۔ دوسری حیثیت یہ ہے کہ وہ جہاد فی سبیل اللہ اور رفاہ عامہ اور غریبوں کی خدمت کا ذریعہ ہے۔ اُس کی اِس عبادتی حیثیت کی وجہ سے غیر مسلموں پر جزیہ نام کا ایسا ٹیکس نافذ کیاگیا جو عبادتی ودینی رنگ سے خالی ہے تاکہ غیرمسلموں کو کسی دینی قسم کی چیز کا پابند نہ بنایاجائے۔ بہر حال ہمارے نزدیک جزیہ بنیادی طور پر دفاع اور جنگی خدمات کا بدل نہیں ہے، صرف ایک ٹیکس ہے۔ اسلام کے ابتدائی زمانوں میں مسلمانوں پر زکاۃ ہوتی تھی اور غیر مسلموں پر جزیہ۔
حضرت عمرؓ کے زمانے میں جنگی خدمات انجام دینے والوں کو جزیہ سے مستثنیٰ رکھنے کا سبب یہ نہیں تھا کہ جزیہ فوجی خدمت کا بدل ہے ، بلکہ یہ دراصل حکومت کی طرف سے ٹیکس کی معافی کا ایک اعلان تھا ۔ جیسا کہ غریب کے لئے اور عورتوں بوڑھوں او ر بچوں کے لئے یہی معافی اس لیے تھی کہ عموما یہ کمانے والے نہیں ہوتے۔
واضح رہے کہ عہد نبوی میں اور پھر خلافت راشدہ اور ابتدائی صدیوں میں جو جزیہ لیا جاتا تھا وہ مسلمانوں سے لی جانے والی زکاۃ سے کہیں کم تھا۔

جزیہ اور ذمی کے بجائے دوسری اصطلاح استعمال کی جاسکتی ہے:

حضرت عمرؓ کے زمانے میں شمالی عرب کے عیسائیوں میں ایک بڑی طاقت قبیلۂ بنوتغلب کی تھی۔ انہوں نے یہ عرض داشت رکھی کہ ہم کو ایرانیوں (عجم) سے ممتاز رکھا جائے، ہم عرب ہیں، آپ ہم سے صدقہ یا زکاۃ کے نام سے جوچاہیں لیں۔ (یاد رہے کہ جزیہ اصلا ایک ایرانی نظام تھا۔ اور بنو تغلب عیسائی اور رومی حلیف ہونے کے ناطے ایرانیوں سے قدیم عداوت رکھتے تھے)۔ حضرت عمرؓ نے صحابۂ کرام کے مشورے سے ان کی یہ درخواست قبول کرلی۔ (السنن الکبری للبیہقی، باب: نصاری العرب تضعف علیھم الصدقۃ، الأموال لابی عبید: ۱/ ۶۹) اس طرح بعد کے زمانوں کے لئے گویا یہ اصول طے فرمادیا کہ غیر مسلم شہری جزیہ ، ذمی وغیرہ اصطلاحات کے بارے میں غلط فہمیوں کی وجہ سے تردد کے شکار ہوں تو ان ناموں پر اصرار کرنا کوئی ضروری نہیں۔

اس دور کے مسلم ممالک میں جزیہ کیوں نہیں؟ 

ہمارے زمانے میں مسلم ممالک میں کہیں جزیہ کے نام سے غیر مسلم شہریوں پر کوئی ٹیکس نہیں ہے۔ بلکہ شیخ مصطفی سباعی، شیخ یوسف القرضاوی، شیخ عبدالکریم زیدان، وہبہ الزحیلی اور مصطفی الزحیلی وغیرہ علماء اس کے قائل ہیں کہ آج کی مسلم ریاستوں میں جزیہ نافذ نہیں کیا جائے گا۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ شاید اصل وجہ یہ ہے کہ مسلم ممالک میں غیر مسلم شہریوں پر مختلف قسم کے مساوی ٹیکس نافذ ہیں، جو مسلمانوں پر بھی ہیں، اور جیسا کہ اوپر گذر چکاہے ان ٹیکسوں کا جزیہ کے نام سے موسوم ہونا ضروری نہیں ہے۔ 
دوسری وجہ یہ ہے کہ صحابہ کرام کے زمانے میں اس کی صاف تصریح کی گئی ہے کہ اگر غیر مسلم شہری جنگوں میں حصہ لیں تو ان سے جزیہ نہیں لیا جائے گا۔ اور موجودہ زمانے کے مسلم ممالک میں غیر مسلم قومی دفاع کے لئے اپنی خدمات پیش کرنے پر تیار ہیں۔

غیر مسلموں کی اہانت نہیں کی جائے گی:

ایک غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ قرآن نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہریوں کو ذلیل کرکے اور دباکے رکھا جائے۔
اس سلسلے میں جس آیت کو پیش کیا جاتا ہے وہ مندرجہ ذیل ہے: 
قَاتِلُواْ الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُونَ بِاللّہِ وَلاَ بِالْیَوْمِ الآخِرِ وَلاَ یُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللّہُ وَرَسُولُہُ وَلاَ یَدِیْنُونَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ حَتَّی یُعْطُواْ الْجِزْیَۃَ عَن یَدٍ وَہُمْ صَاغِرُون ( سورۂ توبہ آیت : ۲۹)
’’اہل کتاب جو کہ نہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ قیامت کے دن پر اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جن کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اور نہ سچے دین کو قبول کرتے ہیں ان سے یہاں تک لڑو کہ وہ ماتحت ہو کر اور رعیت بن کر جزیہ دینا منظور کریں۔‘‘ (ترجمہ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ )
اس آیت میں جنگ کی انتہا کی شرط بتائی گئی ہے کہ وہ ’’وھم صاغرون‘‘ کی حیثیت قبول کریں۔ ’’صاغرون‘‘ عربی مادہ (Root) ’’ص،غ،ر‘‘ سے اخذ کیا گیاہے۔ یہ واقعہ ہے کہ اس مادہ کے بعض الفاظ میں ذلت کے معنی آتے ہیں، اور اسی بنیاد پر بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوگئی کہ اسلامی ریاست میں ذمیوں کو کمتر اور حقیر بناکر رکھا جائے گا۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اس لفظ میں تابع ہوجانے اور بڑائی اور تکبر چھوڑ دینے کے معنیٰ بھی آتے ہیں۔ مشہور امام لغت ابن منظور نے لکھا ہے کہ صغار عظمت کی ضد ہے (لسان العرب، مادہ ص غ ر) ۔ محقق علماء نے یہاں اسی معنی کو مراد لیا ہے۔
امام شافعی الأم میں فرماتے ہیں:
وإذا أخذ منھم الجزیۃ أخذ ھا بإجمال ۔۔۔ ولم یقل لھم قبیح والصغار أن یجري علیھم الحکم لا أن یؤذوا (الأم: ۴/۲۲۰ طبع دار الفکر)
’’ذمیوں سے جزیہ خوبصورتی اور نرمی سے لیا جائے۔۔۔ ان سے کوئی بری بات نہ کہی جائے۔ قرآن میں جس ’’صغار‘‘ کا تذکرہ ہے اس کا مطلب بس یہ ہے کہ ان کے اوپر ریاست کے قوانین کا نفاذ ہو، نہ کہ یہ کہ ان کو ستایا جائے۔ ‘‘
کچھ خراسانیوں نے اہل ذمہ کو ذلیل کرنے کی بات کہی تو امام نووی اور دیگر فقہاء نے اس کو باطل وبے اصل بات کہا۔ مغنی المحتاج میں ہے:
’’یہ طریقہ باطل ہے، اور اس کو مستحب یا ضروری کہنا اس سے زیادہ غلط‘‘ (مغنی المحتاج شرح المنہاج، فصل فی الامان)
ابن القیم کہتے ہیں:
الصغار ھو التزامھم لجریان احکام الملۃ علیھم، واعطاء الجزیۃ، فان التزام ذلک ھو الصغار (احکام اہل الذمۃ ۱/۴۱)
آیت کی صحیح تفسیر یہ ہے کہ ’’صغار‘‘ یہ ہے کہ وہ مسلم حکومت کی قانونی برتری تسلیم کرلیں اور جزیہ ادا کریں، بس ان کو قبول کرلینا ہی ’’ صغار‘‘ہے۔
مگر یہاں سوال اٹھتا ہے کہ اس سب کے باوجود یہ کہنا مشکل ہے کہ ’’صاغرون ‘‘ کا لفظ تحقیر وذلت کے مفہوم سے بالکل خالی ہے اور اس کے معنی صرف مسلمانوں کی حکومت کو قبول کرلینا ہیں۔ بلکہ عربی زبان کے اہل ذوق تصدیق کریں گے کہ ’’صغار‘‘ میں ذلت کا مفہوم ضرور ہے۔
لیکن اس کے باوجود صحیح بات یہ ہے کہ اسلامی ریاست کے وفادار غیر مسلم شہریوں کو ذلیل کرنا شریعت کا حکم نہیں ہے، بلکہ اس کے خلاف ہے۔ یہاں اصل بات جس کی طرف توجہ نہایت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ جب ہم آیات کے تاریخی پس منظر شان نزول نیز سیاق قرآنی کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس آیت پر غور کی نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتاہے کہ اس میں اسلامی ریاست کے اطاعت گزار اور وفادار غیر مسلم شہریوں کی تذلیل کا حکم نہیں ہے، بلکہ آیت اس وقت نازل ہو رہی ہے جب دشمن جنگ کر رہا ہے اور اس نے ابھی اطاعت قبول نہیں کی ہے۔ آیت محارب وتوسیع پسند اور متکبر رومی طاقتوں کے خلاف جنگ پر آمادہ کرنے کے لئے نازل ہوئی تھی، (جیسا کہ ہم تفصیل سے بیان کرچکے ہیں)۔ اس سیاق میں اور جاری جنگ کے ماحول میں حکم دیاگیا ہے کہ ’’ ان رومیوں سے جنگ کرو، اور اس وقت تک کرتے رہو جب تک یہ جھک کر اور ذلیل ہوکر تمہاری اطاعت وباج گذاری قبول نہ کرلیں‘‘۔ یعنی یہ محارب دشمن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اس کو ’’صغار‘‘ اور ذلت پر اتارو، نہ کے ریاست کے عام غیر مسلم شہری کے بارے میں۔ یعنی محارب طاقت جب جھک جائے، شکست تسلیم کرکے اطاعت قبول کرلے تو اب عام شہریوں کے لئے یہ صغار اور ذلت کا حکم باقی نہیں رہے گا، اسلامی ریاست کے شہری بننے سے پہلے جب جنگ جاری تھی تو کہا گیاتھا کہ اس وقت تک ان سے برسر پیکار رہو جب تک یہ ذلت کے ساتھ سر تسلیم خم نہ کردیں۔ 
لہٰذا اگر اس بنیادی نکتے کو ذہن میں رکھیں تو واضح ہو جائے گا کہ اس آیت میں محاربین کی تذلیل وتحقیر کا پہلو تو ضرور ہے اور ہر قوم اپنے دشمنوں ، خصوصاً جنگجو دشمن کے خلاف فوجوں اور عوام کے درمیان اسی قسم کے جذبات پیدا کرتی ہے۔ پھرجب یہ جنگ عام جنگ نہ ہو، راہ حق کے لئے جاں بازی اور اللہ کے دین کے دشمنوں سے کشمکش ہو، تب تو یہ بڑا اہم اور ضروری پیغام ہوتاہے کہ ’’ ان بدبختوں اور ظالموں کے تکبر کو خاک میں ملانے تک جنگ کرو‘‘۔ یہیں سے یہ واضح ہوتاہے کہ اسلامی ریاست کے بے ضرر غیرمسلم شہر ی اس ’’حکم صغار‘‘ میں مراد نہیں ہیں۔
اس تفسیر کی خالص علمی وفنی تعبیر یوں کی جائے گی کہ ’’حتی‘‘ حکم قتال کی غایت بیان کرنے کے لئے ہے۔ اور قتال کی انتہا صغار کے ساتھ جزیہ قبول کرلیناہے، نہ کہ جزیہ دینا۔ یہی وجہ ہے کہ بالاتفاق جیسے ہی محارب قوم جزیہ پر راضی ہوگی قتال رک جائے گا، وہ عملا جزیہ دینے تک نہیں چلے گا۔ ہمارے مفسرین نے یہاں اس کی صراحت کی ہے کہ قتال کی انتہا کے طور پر جو ’’جزیہ دینا‘ ‘کہا گیاہے اس سے مراد’’ جزیہ دینے پر راضی ہو جانا‘‘ ہے (تفسیر ابو السعود وروح المعانی میں ہے: ’’حتی یعطوا أی یقبلوا أن یعطوا‘‘، سورہ توبہ آیت: ۲۹)۔ لہٰذا یہ ’’وھم صاغرون‘‘ جزیہ پر راضی ہونے کے وقت کا حال ہے نہ کہ جزیہ دینے کے وقت کا، اب اس آیت کا یہ مفہوم ہوا کہ محارب اور جنگ کرنے والی حکومت سے اس وقت تک جنگ کرو جب تک وہ جھک کر ذلیل ہوکر شکست تسلیم نہ کرلے۔اس سے واضح ہوا کہ یہ آیت غیر مسلم شہریوں اور اہل ذمہ کے لئے مستقل ’’صغار‘‘ کا حکم نہیں بیان کرہی ہے۔ ان شاء اللہ اہل علم کے لئے اب کوئی اشکال باقی نہیں رہے گا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ:

ابن القیمؒ نے اس آیت کی تشریح میں پہلے تو ان لوگوں کے بعض اقوال نقل کئے جو ذمیوں کی تحقیر کو اس حکم تقاضا سمجھتے ہیں، پھران کے اس خیال کی تردید میں کہتے ہیں:
وھذا کلہ مما لا دلیل علیہ ولا ھو مقتضی الآیۃ، ولا نقل عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولا عن الصحابۃ انھم فعلوا ذلک، والصواب فی الآیۃ ان الصغار ھو التزامھم لجریان احکام الملۃ علیھم، واعطاء الجزیۃ، فان التزام ذلک ھو الصغار (أحکام أہل الذمۃ: ۱/۴۱)
’’ان سب باتوں کی کوئی دلیل نہیں ہے، نہ یہ آیت کا مطلب ہے نہ رسول اللہؐ اور صحابہ کرام نے ایسا کیا، آیت کی صحیح تفسیر یہ ہے کہ ’’صغار‘‘ یہ ہے کہ وہ مسلم حکومت کی قانونی برتری تسلیم کرلیں اور جزیہ ادا کریں، بس اس کو قبول کرلینا ہی ’’ صغار‘‘ہے۔‘‘
علامہ ابن قیم نے یہاں قرآن وحدیث کے نصوص کی تفسیر کے ایک نہایت بنیادی اصول کی طرف اشارہ کیاہے، رسول اللہؐ کی سنت اور صحابہ کرام کے عمل سے الگ کرکے قرآن کی تفسیر نہیں کی جاسکتی، حروف والفاظ کے مجموعوں اور جملوں اور فقروں کی تفسیر وتشریح میں نہ جانے کیا کیا غلط فہمیاں ہوسکتی ہیں، تعبیر وتشریح اور Interpretation کے نام پر بائبل میں کس طرح تحریف ہوئی ہے، وہ اس کی مثال ہے۔ قرآن کی حفاظت کا ایک معجزاتی پہلو یہ ہے کہ آیات واحکام قرآنی کی تشریح اور اس کے حدود معیار کو متعین کرنے کے لئے ہمارے پاس رسول اللہؐ کا اسوہ ہے۔ اور اس اصول کی بناپر ہم قطعی طورپر اور پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اس آیت کی تشریح میں یہ تصور اور اس پر مبنی ہر رائے بالکل غلط ہے کہ اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہری ذلیل بناکر رکھے جائیں گے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ اس کے بالکل خلاف ہے۔
رسول اللہؐ کے زمانے میں اسلامی ریاست میں بسنے اور اس کی اطاعت قبول کرنے والے غیر مسلموں کی ایک بڑی تعداد تھی۔ آپ ؐ نے ان کے ساتھ عملاً جو برتاؤ کیا، ان کی جو قانونی حیثیت اور سماجی مقام اپنے طرز عمل سے متعین فرمائے، وہ ہی در اصل شریعت کا قانون اور مسلم ریاستوں کے لئے رہنما پالیسی ہے۔ 
حدیث کی کتابوں اور سیرت ومغازی کی معتبر روایات کا اتفاق ہے کہ رسول اللہؐ کے ماتحت جو اولین اسلامی ریاست قائم ہوئی تھی، اور جو سدا کے لیے اسلامی ریاست کا رول ماڈل اور کامل ترین نمونہ ہے، اس میں ریاست کے عام شہریوں کی اہانت اور تذلیل کا قصد نہیں کیا گیا۔ 
مکہ فتح ہوا تو مکی سرداروں کی ایک تعداد نے اطاعت قبول کی لیکن اسلام نہیں لائے، آپ نے ان کو تحفوں سے نوازا یہاں تک کہ وہ اسلام لے آئے اور اسلام کے جاں نثار بنے۔
فتح مکہ کے بعد ہی نجران نے اطاعت قبول کی، نجران جنوب عرب میں رومی حکومت کے تابع عیسائی آبادی والا ایک منطقہ تھا۔ یہ لوگ باقاعدہ جزیہ دینے والے ذمی قرار پائے۔ ان کا وفد مدینہ منورہ آیا، ذمیوں کے اس وفد کے ساتھ رسول اللہؐ نے جو معاملہ فرمایا وہ تاریخ وسیر اور حدیث کی کتابوں میں محفوظ ہے۔ آپؐ نے ان کو اپنی مجلس میں ٹھہرایا، انہوں نے اپنی عبادت کرنی چاہی تو صحابہ نے روکنے کا ارادہ کیا، مگر آپؐ نے صحابہ کو منع کیا اور عیسائیوں نے مسجد نبوی ہی میں اپنی عبادت کی۔ (دلائل النبوۃ بیہقی: ۵/۳۹۰) 
سن سات ہجری کے بعد کا واقعہ ہے، اور ہوسکتاہے کہ ۸ ھ ؁میں مکہ فتح ہونے کے بعد کا ہو، یعنی بہر حال اسلام کے مدینہ میں قوت وقدرت حاصل کرنے کے بعد کا واقعہ ہے، کہ مدینہ کے ایک طاقتور مشرک شخص سے حضرت بلال نے کچھ قرض لیا۔ وہ قرض اسلامی ریاست کی بعض ضروریات (غرباء کی امداد) کے لئے رسول اللہؐ کی ایماء پر لیا گیا تھا، اس تاجر نے خود ہی حضرت بلال سے کہا تھا کہ اس قسم کی ضروریات کے لئے کسی اور کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے تم مجھ سے لے لیاکرو۔ اچانک ایک دن عین اذان کے وقت تاجروں کے ایک گروہ کے ساتھ آدھمکا اور حضرت بلال سے نہایت ترش روئی اور بدتمیزی سے مخاطب ہوا : ’’اوحبشی! تجھے یاد ہے؟ بس چارد ن بچے ہیں! اگر وقت پر قرض ادا نہیں ہوا تو تجھے پکڑ کر بکریاں چرانے پر لگادوں گا‘‘۔ بے چارے ڈر گئے، حضورؐ کے پاس پہنچے اور قصہ کہہ سنایا، اور چند دنوں کے لیے فرار ہونے کا ارادہ کیا۔ کچھ ہی دیر کے بعد فدک سے کچھ مال آگیا اور حضرت بلال نے قرض ادا کیا۔ (سنن ابوداؤد، ۳۰۰)
یہ واقعہ عہد نبوی میں ذمیوں کو دباکر اور ذلیل کر کے نہ رکھے جانے کا واضح ثبوت ہے۔
زید بن سعنہ ایک یہودی مذہبی عالم تھے، مالدار اور باحیثیت ومشہور۔ ان کے اسلام لانے کا بڑا مؤثر قصہ حدیث کی کتابوں میں آیاہے۔ ان سے رسول اللہؐ نے کچھ قرض کا معاملہ کیا، وہ جان کر وقت پورا ہونے سے پہلے آپہنچے اور مجمع عام جب آپؐ صحابہ کرام کے ساتھ ایک جنازہ میں تھے آپؐ کے کپڑے پکڑ کرکہا: محمد! قرض نہیں واپس کروگے؟ مجھے تمہارے پورے خاندان کا حال معلوم ہے۔حضرت عمرؓ شدت غضب سے سرخ ہو گئے، چیخ اٹھے کہ: ’’او خداکے دشمن ! میرے سامنے تیری یہ مجال؟ دیکھ! اگر خوف خدا دامن گیر نہ ہوتا تو تیرا سر دھڑ سے جدا ہوچکا ہوتا‘‘۔ آں حضرتؐ سکون وضبط کی تصویر بنے رہے، آپؐ نے حضرت عمر کی طرف نظر اٹھائی، دیکھا اور کہا: عمر! حق تو یہ تھا کہ تم مجھ سے جلد ادائیگی اور اس سے خوش معاملگی کو کہتے۔ جاؤ، قرض بھی دے دو اور الگ سے میری طرف سے کچھ ہدیہ بھی۔ عمر کی تلوار تورک گئی، مگر اخلاق نبوی کی اس تلوار نے زید بن سعنہ کو قتل کرڈالا۔ فوراً اسلام قبول کیا اور حضرت عمر سے تنہائی میں بتایا کہ میں نے یہ حرکت بس امتحان اور پرکھنے کے لئے ہی کی تھی۔ (صحیح ابن حبان، ۱/۲۸۸) حافظ ابن حجر نے الاصابہ میں اس روایت کی توثیق کی ہے۔
عہد نبوی کا ایک اور واقعہ جس سے غیر مسلم شہریوں کا مدینہ میں ہر قسم کے دباؤ سے آزادی اور حکومتی اہانت وتذلیل سے محفوظ ہونے کا پتہ چلتاہے حدیث کی متعدد کتابوں میں آیاہے۔ آپؐ کے پاس شدید گرمی گاڑھے کے دو کپڑوں کے علاوہ کچھ نہ تھا، پسینہ سے وہ کپڑے بوجھل ہوجاتے۔ ایک یہودی کپڑے کے تاجر کے یہاں شام سے بہتر کپڑا آیا ہو ا تھا، حضرت عائشہ نے کہا: ادھار منگوالیجئے، آپ نے کسی کو بھیجا، تاجر بد طینت ہی نہیں بدزبان بھی تھا۔ کہنے لگا: جانتاہوں محمد مال ہڑپ کر نا چاہتے ہیں، آپؐ نے بس اتنا فرمایا : جھوٹا ، جانتا ہے کہ میں اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا اور سب سے بڑھ کر امانت دارہوں۔ (سنن نسائی، باب البیع الی الاجل المعلوم، ومسند احمد ۲۵۱۸۴)
حدیث کے ذخیرہ میں اس سلسلے کے واقعات بہت سے ملتے ہیں، اسلامی ریاست اپنے وفادار غیر مسلم شہریوں کو کس نظر سے دیکھتی ہے اس کی سب سے تفصیلی مثال ہم کو اس تحریری دستور کی دفعات میں ملتی ہے جس کی بنیادپر مدینہ کی ریاست کا قیام عمل میں آیاتھا، تاریخ وسیر کی کتابوں سے اس دستور اساسی کی دفعات میں مدینہ کے یہود کے حقوق وذمہ داریاں متعین کی گئی ہیں، یہ دستور صاف صراحت کرتاہے کہ رسول اللہؐ کی سر براہی میں ایک ریاست کا قیام عمل میں آچکا ہے، یہود کی حیثیت اس میں محکوم شہریوں ہی کی ہے، جزیہ کا نام نہیں ہے۔ لیکن زکاۃ کا نام بھی نہ ہونا بتاتا ہے کہ نام اس وقت تک طے نہیں ہوئے تھے۔ ورنہ ریاست کے لئے یہود کی مالی ذمہ داریاں طے کی گئی ہیں، اور ان سے مشترکہ طورپر دفاع میں حصہ لینے کا بھی عہد لیاگیاہے جو جزیہ کے قائم مقام ہے۔
یہ دستور ابن اسحاق، واقدی، ابن سعد اور دیگر اصحاب سیر کے یہاں تفصیل سے ملتاہے، حدیث کی کتابوں میں اس کے متفرق اجزا آئے ہیں۔ 
بہر حال یہ دستور صاف اور واضح ہے کہ اولین اسلامی ریاست نے غیر مسلم شہریوں کی عزت نفس کو کسی طرح مجروح کرنے کی کوشش نہیں کی تھی، بلکہ دنیاوی حقوق واختیارات میں وہ مسلمانوں کے برابر نظر آتے ہیں۔ یہ دستور اور اوپر مذکور مثالیں حافظ ابن القیمؒ کے اس بیان کی تصدیق ہیں کہ ’’ذمیوں کی تذلیل کا تصور نہ آیت سے اخذ کیا جاسکتاہے اور نہ رسول اللہؐ کا اور صحابہ کرام کاایسا عمل تھا‘‘۔ 

قرآن کی عمومی تعلیمات: 

آیت جزیہ کے صحیح معنی طے کرنے کے لیے خود قرآن کی عمومی تعلیمات پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ قرآن نے ایک ایسی صورت میں جس کا اصل موضوع مسلمانوں کو دشمن کفار سے لاتعلقی اختیار کرنے پر زور دینا تھا صاف کہا کہ: 
لا یَنْہَاکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ أَن تَبَرُّوہُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَیْْہِمْ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ۔ (الممتحنہ:۸ )
’’اللہ تم کو ان لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور انصاف وبرابری کا معاملہ کرنے سے نہیں روکتا جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ نہیں کی اور تم کو اپنے گھروں سے نہیں نکالا۔ ‘‘
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ظالم اور جنگجوقسم کے لوگوں کے علاوہ تمام غیر مسلموں کے بارے میں اسلام کی وہ تعلیمات جن میں احسان ومدد اور تکریم انسانی کی عمومی ترغیب دی گئی ہے باقی رہیں گی۔ علم وفہم او ر سلیم العقلی کا تقاضہ ہے کہ نصوص کو مجموعی طور پر لیا جائے نہ کہ کسی ایک پر سرسری اور سطحی نظر رکھی جائے اور حکم کے مقصود ومدعا کو نظر انداز کرکے اور پس منظر سے آنکھیں موند کے اس کی حرفی تفسیر کی جائے اور باقی نصوص کو بھول جایاجائے۔

’’شروط عمریہ‘‘ کا مسئلہ:

حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب عراق وشام اور افریقہ کے وسیع وعریض علاقے فتح ہوئے اور بڑی تعداد میں قومیں ذمی بنیں اور تاریخ شاہد ہے کہ خوشی خوشی ذمی بنیں اور مسلمانوں کے ساتھ اپنے ہم مذہب حکمرانوں کے خلاف لڑیں۔ تاریخ کی بعض روایتوں میں آتاہے کہ اس وقت ان پر کئی ذلت آمیز احکام لاگو کئے گئے، مثلاً پرانی عبادت گاہوں کی مرمت وتجدید نہیں کی جائے گی۔ سرکا اگلا حصہ منڈائیں گے، زین کس کر گھوڑے پر نہیں بیٹھیں گے، مسلمانوں کے لئے کھڑے ہوا کریں گے۔ جس مسلمان کے ساتھ تجارت میں شرکت کریں گے فیصلہ اسی مسلمان کے ہاتھ میں ہوگا، وغیرہ ۔ یہ سب بے اصل اور موضوع قسم کی روایتیں ہیں۔
اس سلسلہ میں جو اصل اور سب سے مشہور روایت ہے، جس میں آتاہے کہ اہل شام نے خود اپنی طرف سے لکھ کر یہ شرطیں قبول کی تھیں، یہ روایت بالکل موضوع ہے۔ ابن القیمؒ نے اپنی کتاب میں اس کو تفصیل سے ذکر کیاہے، اور اس کی پوری تشریح کی ہے۔ اس کی سند میں ایسے روای بھی ہیں جن کے بارے میں محدثین نے، وضاع، کذاب، خبیث، عدو اللہ جیسے الفاظ کہے ہیں۔ ( اس سند سے یہ روایت بیہقی کی سنن (۹/۲۰۲) میں ہے شیخ البانی نے اس پر اپنی کتاب إرواء الغلیل (۵/۱۰۳) میں تفصیل سے کلام کیاہے۔ )
یہی روایت ایک اور سند سے خلال نے (جو امام احمد کے صاحب زادے عبداللہ کے شاگرد ہیں، انہی عبداللہ کے حوالے اور سند سے نقل کی ہے، ابن القیم نے احکام اہل الذمۃ میں نقل کرکے اس کو اعتبار بخش دیاہے، ان کی سند میں بعض راویوں کا نام ’من أھل العلم‘‘ کہہ کر مبہم رکھا گیاہے۔ بعض علماء نے اس کو مسند احمد کی ان روایات میں سے گمان کیا ہے جو امام احمد کے صاحب زادے عبد اللہ کے اضافوں میں سے ہیں۔ مگر مجھے یہ روایت مسند میں باوجود تلاش بسیار کے نہیں ملی۔ ابن القیم نے یہ روایت تین حوالوں سے نقل کی ہے یہ تینوں ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں ایک مستقل باب ’’ذکر ما اشترط صدر ھذہ الامۃ عند افتتاح الشام‘‘ کے عنوان سے قائم کرکے نقل کی ہیں، ابن عساکر کے یہاں اس کی ایک مزید سند ملتی ہے، ان چار میں سے دو تو وہ ہیں جن پر ہم اوپر کلام کر چکے ہیں مزید دونوں بھی نہایت کمزور ہیں، ایک میں نامعروف راویوں کے علاوہ عبد اللہ بن احمد ابن ربیعۃ ابن زبر ہیں جو نہایت مخدوش راوی ہیں۔ (لسان المیزان۳/۲۵۳) دوسری بھی نامعروف راویوں کی سند سے آئی ہے۔
یہ اس روایت کے ظاہری قسم کے عیوب ہیں۔ لیکن اہل نظر محدثین کے نقطۂ نظر سے اس کا اصل اور سب سے بڑا ایک اور عیب ہے، اور وہ یہ کہ فن حدیث کے تنقیدی نظام میں اگر کوئی واقعہ غیر معمولی قسم کاہو اور اس کی طرف توجہ ونظر کا ملتفت ہونا فطری ہو، پھر وہ نہایت نایاب قسم کی روایت میں آتا ہو، عام طورپر علماء وراویان حدیث اس کو روایت نہ کرتے ہوں تو محدثین اس کو نہایت مخدوش مانتے ہیں۔ یہ ایک بالکل فطری حقیقت ہے کہ اگر ایسی غیر معمولی شرائط پر کچھ علاقے فتح ہوتے تو ان کو کثیر تعداد میں راوی نقل کرتے۔ ایک طویل عرصے تک ان روایت کا چھپا رہنا جب کہ ان کے شہرت کے ساتھ منقول ہونے کے اسباب بہت تھے یہ خود ان کے بے اصل ہونے کی دلیل ہے۔ زیر نظر روایت کا یہی سب سے بڑا عیب ہے۔ یہ خلال سے پہلے کسی مصنف وجامع حدیث کے یہاں نہیں ملتی، بلکہ خلال کی کتاب احکام الملل جس کے حوالے سے یہ نقل کی گئی ہے پتہ نہیں اب موجود بھی ہے یا نہیں۔ حالانکہ اس کے مندرجات ایسے عجیب قسم کے اور اس قدر متوجہ کرنے والے ہیں کہ اس کو علماضرور نقل کرتے۔ وہ تمام محدثین ومؤرخین جنہوں نے ان فتوحات کی تاریخ لکھی مثلاً طبری، بلاذری اور واقدی وغیرہ اور وہ محدثین اور فقہا جنہوں نے اہل ذمہ کے مسائل پر قانونی دفعات مرتب کیں مثلاامام ابویوسف، ان میں سے کسی کے یہاں یہ روایت نہیں ملتی ۔ ہمیں اس کا تذکرہ عبدالرزاق اور ابن ابی شیبہ کے مصنف میں بھی نہیں ملتا جن میں نہایت تفصیل سے اہل ذمہ کے قانونی حقوق وذمہ داریوں پر روشنی ڈالنے والے آثار وواقعات لکھے ہیں۔ ملتا ہے تو کہاں؟ خلال کی نا معروف کتاب الجامع لاحکام الملل کے حوالے سے ابن قیم کی کتاب میں، اور خلال کے بھی زمانوں بعد تاریخ دمشق میں۔ صدیوں یہ معاہدہ اہل علم کی نظر سے اوجھل رہا۔ یہ خود اس کو آخری درجہ ضعیف ٹھیرانے والی بات ہے۔
محدثین کے یہاں کسی روایت کا یہ عیب کہ باوجود واقعے کے غیر معمولی ہونے اور نقل وروایت پر آمادہ کرنے والے اسباب کے پائے جانے کے اس کو عام طور پر نقل نہ کیا جائے اور وہ نہایت نادر یا کمزور روایتوں میں پایا جائے اور حدیث کی اہم کتابیں اس سے خالی ہوں، کسی روایت کا یہ عیب محدثین کے یہاں اس کو بے اصل اور موضوع قرار دینے کے لیے کافی ہوتا ہے۔
ہم یہاں ایک مثال کے ذریعے محدثین کے اس اصول کی وضاحت کرتے ہیں۔ حافظ ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں وہ روایت نقل کی ہے جس کا بیان ہے کہ حضرت علیؓ ایک مرتبہ سوتے رہ گئے اورعصر قضاہوگئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے سورج واپس آیا اور حضرت علیؓ نے نماز عصر ادا پڑھی۔ ابن کثیر نے متعدد روایات اس سلسلے کی نقل کیں اور ان پر تنقید کی۔ اپنی بحث میں انہوں نے دو جگہ اس روایت کا یہی مذکور عیب بتایا۔ ایک مقام پر کہتے ہیں: 
’’کوئی عقل والا کیسے سوچ سکتا ہے کہ یہ اہم واقعہ حضرت علی نقل کریں اور ان کے ۔۔۔فلاں فلاں معروف شاگردوں کو اس کی ہوا نہ لگے اور دوسرے غیر معروف اس کو روایت کریں؟ پھر ائمۂ حدیث: مالک، صحاح ستہ اور معروف سنن اور صحاح وحسان اور مسانید کے مصنفین کا اس کو نقل نہ کرنا اس کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک اس کی کوئی بنیاد نہیں۔ اس لیے کہ (راویوں کے بقول)یہ واقعہ علانیہ ہورہا ہے اور اس کے نقل اور روایت کیے جانے کے قوی اسباب کثرت سے موجود ہیں۔ اس کے باوجود یہ واقعہ صرف منکر اور ضعیف سندوں سے نقل ہو رہا ہے، یہ اس کے بے اصل ہونے کی بڑی دلیل ہے۔‘‘ (البدایہ والنہایۃ ۶/۹۲مختصراً)
اس سے پہلے بڑی وضاحت سے اس قاعدے کو بیان کرتے ہیں: 
ومثل ھٰذا الحدیث لا یقبل فیہ خبر واحدٍ اذا اتصل سندہ، لأنہ من باب ما تتوفر الدواعی علی نقلہ فلا بد من نقلہ بالتواتر والاستفاضۃ لا أقل من ذٰلک (البدایہ والنہایۃ ۶/۸۷)
’’یہ حدیث ایسی بات روایت کر رہی ہے جس کے نقل وروایت کیے جانے کے اسباب کثرت سے موجود ہیں، ایسے واقعات میں صحیح ومتصل خبر واحد بھی نہیں قبول کی جائیگی، اس طرح کے واقعات میں تو شہرت وتواتر ہی درکار ہے۔‘‘
اس روایت کے متن میں ہمیں کثرت سے ایسی داخلی شہادتیں ملتی ہیں جو کسی صاحب نظر مؤرخ کی نگاہ میں اس کے مشتبہ بنانے کے لیے کافی ہیں۔ مثلا یہ کہ یہ روایت بتاتی ہے کہ یہ سخت اور ذلت آمیز شرطیں خود مفتوح علاقوں کے عوام نے اپنے اوپر نافذ کی تھیں۔ بھلا کہیں مفتوح کی شرطوں پر معاہدے ہوا کرتے ہیں؟ شرطیں ہمیشہ فاتح کی طرف سے لکھی جاتی ہیں۔ دوسری بات یہ کہ اس سے پہلے حضرت عمر ہی کے زمانے میں دوسرے علاقوں میں اس سے کہیں زیادہ آسان اور سہل شرطوں پر لوگوں کو عہد اور اطاعت میں لیا گیا تھا، ہم ان معاہدوں کی بعض تفصیلات اوپر نقل کر چکے ہیں، تفصیل کا یہ موقع نہیں، ابن جریر اور ابن کثیر اور بلاذری کے یہاں یہ معاہدے ملتے ہیں اور شبلیؒ نے ان میں سے کئی الفاروق میں نقل کیے ہیں۔ تو یہ کیا ہوا تھا ان علاقے والوں کو کہ وہ اپنی طرف سے اپنے لیے سخت شرطوں کا مطالبہ کریں؟ پھر حضرت عمر جیسے عادل شخص سے یہی توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ دوسرے علاقوں کی طرح اہل شام سے بھی انصاف کا معاملہ ہی کریں۔ اور مزید یہ کہ تاریخ شاہد ہے کہ ذمیوں کے ساتھ مسلمانوں نے کبھی یہ معاملہ نہیں کیا۔ کس تاریخ میں آتا ہے کہ مسلمانوں نے پکڑ پکڑ کر ذمیوں کے سر کے اگلے بال کاٹے؟
اس تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ یہ شرائط ان مشہور چیزوں میں سے ہیں جو بے اصل ہونے کے باوجود مشہور ہو جاتی ہیں۔

غیر مسلم شہریوں کے لباس کا مسئلہ:

البتہ لباس کے سلسلے میں ہم کو تاریخ وسیر اور امام ابو یوسف کی کتاب الخراج وغیرہ کتب میں متعدد حوالے اس کے ملتے ہیں کہ اہل ذمہ فلاں لباس پہنیں فلاں نہ پہنیں۔ متعدد لوگوں کو یہاں سخت دھوکا ہوا ہے کہ یہ ان کو نیچا بناکر رکھنے کی پالیسی تھی۔اللہ جزائے خیر دے شبلیؒ کو، الفاروق میں اچھی طرح اس غبار کو صاف کردیا۔ متاخرین نے غلط فہمی سے عموماً مسلمانوں اور غیر مسلم ذمیوں کے درمیان لباس کے فرق کو ذلت کے اظہار کے لئے سمجھا حالانکہ ان کو بس یہ حکم تھا کہ وہ عربوں اور مسلمانوں کا سا لباس نہ پہنیں اور اپنے قومی لباس کو نہ بدلیں۔ اس میں ذلت کا کوئی پہلو نہیں تھا۔
ہم اگر مسئلہ کو اس پہلو سے دیکھیں تو دوباتوں کا علم ہوتاہے، پہلی تو یہ کہ حکم یک طرفہ نہیں تھا۔ بلکہ اس کا منصفانہ پہلو یہ تھا کہ خود عرب مسلمانوں کو بھی غیر مسلموں اور عجمیوں کی نقالی کرنا منع تھا، رسول اللہؐ نے تو پہلے ہی اس سے روکا تھا، حضرت عمر نے بھی اپنے بعض گورنروں کو ہدایت دی کہ نگرانی رکھیں مسلمان دوسروں کی نقالی نہ کریں۔
دوسری اور اہم تر بات یہ ہے کہ ذمیون کو مسلمانوں کی لباس وہےئت میں نقالی سے روکنے کی اصل حکمت نہ ان کو ذلیل کرنا تھا اور نہ (جیسا کہ بعض اہل علم نے ماضی قریب میں سمجھا ہے) ان کی قومی خصوصیات کا تحفظ اور محکوم قوم کو احساس کمتری سے بچانا تھا۔ مسلمانوں کو غیر مسلموں کی قومی خصوصیات کے تحفظ کی کیا پڑی تھی؟ بلکہ یہ ایک انتظامی اور دفاعی حکم تھا ، جس کا منشا فاتح طاقت کے اندیشے تھے۔ ایسے علاقوں میں جہاں ایک نئی قوم نے فتوحات کی ہیں اور ابھی پورے طورپر دلوں کو فتح کرنے اور ان کے درمیان اسلام پھیلنے میں فطری طورپر کچھ وقت درکار ہے، حضرت عمر نے یہ احکام جاری کئے کہ ان لوگوں کو اس سے روکا جائے کہ مسلمانوں کی سی ہےئت اختیار کریں۔ تاکہ کسی آدمی کی شناخت ہو سکے۔یہ اسی طرح کے مقاصد تھے جن کے لیے آج حکومتیں شہریوں کو شناختی کارڈ جاری کرتی ہیں۔ آج بھی حفاظتی اور امن عامہ کے مصالح کی خاطر مذہب ہی نہیں یہ تک درج کرواتی ہیں کہ اس کارڈ کے حامل شخص کے ماں باپ کی اصل قومیت ونسل اور مقام پیدائش کیا تھے۔ اس وقت ایسے شناختی کارڈ وں کا رواج نہیں تھا جن کے ذریعہ کسی شخص کی قومیت ومذہب کا علم ہوسکے لہٰذا یہ پابندی کہ اہل ذمہ ’’اپنالباس‘‘ ہی پہنیں، دراصل سلامتی اور سیکوریٹی کے ایسے ہی مقاصد کے لیے تھا جن کے لیے آج کی حکومتیں یہ تفصیلات شناختی کارڈوں میں درج کرواتی ہیں۔
اگر اس بے اصل روایت میں آئی ناقابل قبول باتوں او رنا معقول اضافوں سے الگ کرکے صرف معتبر روایتوں کو دیکھیں تو ان کا خلاصہ وہی نکلتا ہے جو حضرت امام ابویوسف نے اپنی کتاب الخراج میں ان الفاظ میں نقل کیاہے کہ حضرت عمر نے اپنے ان احکام کی علت وحکمت یہی قرار دی تھی کہ ’’حتی یعرف زیھم من زیّ المسلمین‘‘ (الخراج: ۱۲۷) یعنی: تاکہ ان کی ہےئت ولباس کا مسلمانوں سے امتیاز کیا جاسکے۔
اپنے قارئین کئے لئے ہم ایک مرتبہ پھر اس حقیقت کی یاددہانی مناسب سمجھتے ہیں کہ ان احکام کی حیثیت شرعی وقانونی ہرگز نہیں تھی، نہ یہ کتاب اللہ میں آئے ہیں، اور نہ رسول اللہؐ نے دیے ہیں۔ حالات کی نزاکتوں ، حفاظتی مصالح ( Security concerns)اور ریاست کے تحفظ کے مقصد سے حضرت عمرؓ کے زمانے میں نافذ کیے گئے ایک قسم کے سیاسی احکام تھے جو اپنے سیاق وسباق Context کے ساتھ ہی دیکھے جانے چاہئیں۔

جہاد کی کچھ اہم شرطیں اور قوانین

اطاعت امام 

جنگ فی نفسہ خونریزی ہے،یہ تیر وتفنگ اور سیف و سنان کا وہ کھیل ہے جس میں جوش وخروش اور غیظ و غضب سے ہی کام لیا جاتا ہے۔ ذرا انتشار اور بے احتیاطی اس کو جہاد فی سبیل اللہ سے نکال کر فساد بنا سکتی ہے، اس لیے رسول اللہؐ نے اس سلسلے میں واضح، بے ٹوک اور تاکیدی حکم دیا ہے کہ اگر مسلم حکومت موجود ہو توجہاد کے سارے فیصلے صرف اسی کے ہاتھ میں ہوں گے۔ اور اس کی خلاف ورزی کرنا قطعاً جائز نہیں ہو گی۔ اس سلسلے میں قرآن وحدیث میں واضح ہدایات موجود ہیں۔ اس سلسلے کی صرف ایک حدیث اس جگہ دی جا رہی ہے:
من اطاعنی فقد اطاع اللّٰہ ومن عصانی فقد عصی اللّٰہ۔ ومن یطع الأمیر فقد اطاعنی ومن یعص الأمیر فقد عصانی۔ وانما الامام جُنّۃ یقاتل من وراۂ ویتقی بہ۔ (صحیح بخاری۲۹۵۷ و صحیح مسلم ۱۸۴۱)
’’جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ جو امیرِ (جہاد) کا مطیع ہوا وہ میرا مطیع اور جو امیر کا نافرمان وہ میرا نافرمان۔ اور مسلمانوں کا حکمراں ایک سِپَر کی طرح ہے، جنگ اس کے پیچھے (تابع) رہ کرکی جائے گی اور اس کی آڑپکڑ کر کی جائے گی۔‘‘
اطاعت امیر وامام کے اس اصول کا یہ مطلب بھی ہے کہ دوران جنگ اقدامات اور کارروائیوں میں اس کی فرماں برداری اور حکم کی پابندی ضروری ہے۔ مگر اس سے بھی قبل اس کا بدیہی تقاضا یہ ہے کہ یہ بات بھی اس کے حکم اور اجازت پر منحصر ہے کہ کس سے جنگ کی جائے اور کس سے یا کب نہ کی جائے۔ سلف کا فقہی ذخیرہ آپ پڑھ جایئے، آپ کو اس کا کوئی تصور نہیں ملے گا کہ کسی جگہ کے لوگ اپنے حکم رانوں کی اجازت کے خلاف اپنے طور پر جہاد چھیڑ دیں۔ فقہ کی مشہور کتاب المغنی میں ایک مختصر سے جملے میں اس بات کو سمیٹ دیا گیا ہے: 
وأمر الجہاد موکول الیٰ الامام (المغنی ۸/۳۴۵)
’’اور جہاد کا معاملہ مسلمانوں کے حکمراں کی رائے پر منحصر ہے۔‘‘

موجودہ زمانے میں اس اصول کی رہنمائی:

اس لیے یہ بات بالکل قطعی ہے کہ جہاں مسلمانوں کی کوئی حکومت موجود ہے وہاں اس کے جھنڈے تلے ہی جہاد ہو سکتا ہے۔ جو لوگ اس حکومت کے تحت ریاست کے شہری ہیں وہ اس کی طرف سے مامور و مجاز ہوئے بغیر جنگ نہیں کر سکتے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ان کا ملک تو دوسرے ملکوں سے صلح اور معاہدے کیے ہوئے ہو اور یہ اس کے معاہدے کو توڑتے ہوئے کسی دوسرے ملک کے خلاف جنگ چھیڑیں۔ ہاں یہ اگر اپنے ملکوں کی شہریت چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں اور کسی منظم ریاست کے شہری نہ رہیں، یا اپنی الگ ریاست بنا لیں تو ان کو اپنے بارے میں فیصلے کرنے کی آزادی ہوگی۔ ایسے مسلمانوں کی ایک مثال عہد نبوی میں پائی گئی تھی۔ یہ ایک گروہ تھا جس کے قائد حضرت ابو بصیرؓ تھے، جن کا واقعہ آگے آرہا ہے۔

حکومت کے معاہدوں کی پابندی تمام شہریوں پر لازمی ہے:

لیکن جب تک وہ کسی مسلم ریاست کے شہری ہیں اوراس میں قیام پذیر ہیں ، یا اس کے شہری کی حیثیت سے ہی کسی دوسرے ملک میں داخل ہوئے ہیں وہ امن یا جنگ کے کسی فیصلے کے سلسلے میں خود مختار نہیں ۔ ان کو لازماً ہر حال میں اپنے ملکوں کی حکومتوں کے معاہدوں کی پابندی کرنی ہوگی ۔ یہ اللہ ورسول کا قطعی حکم ہے ، کسی کے اس کو نظر انداز کر دینے سے اس کی اہمیت میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ لہٰذا اگر کوئی پر جوش مسلم نوجوان یا کوئی گروہ کسی ایسے غیر مسلم ملک کے شہریوں کے جان ومال کے لئے خطرہ بنتا ہے جس سے اس کے ملک کے سفارتی تعلقات اور معاہدۂ امن ہے تو اس کا یہ فعل یقیناًغیر شرعی ہوگا، چاہے اس کو کتنی ہی اچھی نیت سے کیا گیا ہو ۔ 
ماضی قریب میں اہانت رسول کی بدبختانہ اور قابل لعنت حرکتوں کے بعدجن طالع آزما لوگوں نے کسی کے قتل کی اپیل کی، یا بعض مخلص مسلمانوں نے کسی جرأت مند مسلم نوجوان کی اس طرح کی حرکتوں کی تحسین کی، انہوں نے شرعی اصولوں کو نظر انداز کیا۔ جب تک کسی ملک سے ہماری حکومت کا معاہدۂ امن ہے اس وقت تک اس کے کسی شہری کو نقصان پہنچانا ہمارے لئے کسی طرح جائز نہیں۔ چاہے ہم کو اس ملک سے کیسی ہی شکایت ہو۔ اس کا راستہ صرف ایک ہے ، اور وہ یہ کہ حکومتی سطح پر معاہدے کے خاتمے کا اعلان کردیا جائے۔
اسی طرح جو لو گ کسی غیر مسلم ملک کے پیدائشی شہری ہیں یا وہاں کی شہریت انہوں نے لے لی ہے ، انہوں نے اپنے لئے اُس ریاست کا حصہ بننے کا معاہدہ کیا ہے۔ اسی طرح اس کے شہریوں کے ساتھ ہم وطنی اختیار کر کے ان سب کو ایک عام امان دینے اور ہر ایک کے جان و مال کے تحفظ کا اقرار و عہد کیا ہے۔ اب اگر وہ غیر مسلم ملک کسی مسلم ملک پرحملہ آور ہوتا ہے تو وہ اُس کو اِس ظلم سے باز رکھنے کی اپنے وطنی وشہری حق کی بنا پر ہر کوشش تو ضرور کریں گے ، اور یہ ان کا ایمانی فریضہ ہو گا۔ لیکن مسلح مقابلہ نہیں کر سکتے ۔ الا یہ کہ وہ اس کی شہریت ترک کردیں اور یہ معاہدہ ختم کر دینے کا اعلان کر دیں ۔ عام شہریوں کو تو جنگ کی حالت میں بھی نقصان پہنچانا اسلام نے حرام قرار دیا ہے ، ’’ہم وطنی‘‘ کے مضبوط معاہدے کے بعد تو اس کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔
نوجوان خون مسلم کے بے دردی سے بہائے جانے پر مضطرب اور مشتعل ہیں اور قربانیوں کے لئے تیار ہوکر اٹھ کھڑا ہونا چاہتے ہیں، کیا شبہ ان کا یہ جذبہ لائق صد رشک، اور اسی جذبے سے امید بندھتی ہے کہ اگر اس کو صحیح رخ دے کر شرعی اصولوں کے مطابق استعمال کیا جائے تو یہ امت کی تعمیر نو اور اس کو قعر مذلت سے نکال سکے گا، مگر اللہ نے ہم کو جس شریعت کا پابند بنایا ہے اس کا مقصد اسلام کی عزت اور دنیا میں خیر کا فروغ ہی ہے ، ہم اس کی خلاف ورزی کر کے اپنے مقصد کو نہ خود پاسکتے ہیں اور نہ اللہ کی مدد حاصل کر نے کے قابل بن سکتے ہیں۔ اور اس شریعت نے ہم پر معاہدوں کی پابندی لازم کی ہے۔

جہادی تنظیموں کا مسئلہ؟

گذشتہ دو دہائیوں سے یا اس سے بھی کچھ زیادہ عرصے کے دوران ہمارے بہت سے لوگوں سے ’’اسلامی جہاد‘‘ کی عملی تطبیق میں بڑی چوکیں ہو ئی ہیں ، اس وقت تو ماحول کے مطالبے اور سازگاری کے تحت ان غلطیوں کی طرف دھیان نہیں گیا، مگر بعد میں ان غلطیوں کے نتائج دیکھ کر اور حالات کے بعض اندرونی پہلوؤں کے آخر کار کھل جانے کے بعد اب ان پر تنبّہ ہو رہا ہے ۔ ان میں سے ہی ایک بڑی چوک تھی مسلم ملکوں کی حکومتوں کے ہوتے ہوئے آزاد جہادی تنظیموں اور گروپوں کا قیام ۔ یہ ایک طویل تاریخ پر بکھری ہوئی کہانی ہے۔ (اس موضوع پر ایک فرنچ رائٹر Gilles Kepel کی ترتیب دی ہوئی ایک بڑی ضخیم اور جامع کتاب آئی ہے،" "JIHAD کے نام سے اس کا انگریزی ترجمہ موجود ہے، کتاب اس قابل ہے کہ ہر اس شخص کی نظر سے گذرے جو موجودہ دور میں مسلمانوں کی نشأۃ ثانیہ کے لیے کچھ سوچتا ہو،کاش کوئی اردو میں ترجمہ کردیتا۔)
اس وقت جن بین الاقوامی طاقتوں کو ان جہادی تنظیموں سے مدد ملتی تھی ان کو تو اس کی کوئی فکر ہونی ہی نہیں تھی کہ کل جب افغانستان، بوسنیا ، الجزائر وغیر ہ میں مطلوبہ اہداف حاصل ہوجائیں گے، یا نہیں ہوں گے اور مہمیں ختم ہوں گی ، تو کیسے بھیانک مسائل سامنے آئیں گے۔ اس لئے کہ جو کچھ ہونا تھا اس کا سامنا ایشیا کے مسلم ملکوں یا زیادہ سے زیادہ ان کے پڑوسیوں کو کرنا تھا ۔
مگر افسوس کہ یہ فکر مسلم ممالک کی حکومتوں کو او ر ان کے اہل حَلّ وعقد کو بھی نہیں ہوئی، اور ان جہادی سرگر میوں کو مصر و شام، یمن و سعودی عرب اور پاکستان وغیرہ میں جن دینی نمائندوں کی سرپرستی اور سرگرم تعاون حاصل تھا انہوں نے بھی نہ مستقبل کی فکر فرمائی اور نہ اس کے بارے میں سوچا کہ ایک منظم مسلم ملک میں خطرناک ومفسد بین الاقوامی ایجنسیوں کے تعاون ہی نہیں، بلکہ عمل دخل سے جو آزاد اور بڑی حد تک خود مختار جہادی تنظیمیں اور تحریکیں قائم ہو رہی ہیں ، ان کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ جنگ کی کمان مختلف خود مختار ہاتھوں میں دینا عقلاً و شرعاً درست ہے؟
زیادہ تفصیل کی ضرورت نہیں،اس مسئلہ کی نزاکت ہر وہ درمند اور صاحب عقل سمجھ سکتا ہے جو اس کھلی حقیقت سے بے خبرنہ ہو کہ مسلم اور غیرمسلم ملکوں کی حکومتیں عموماً اور اکثر و بیشتر جس قسم کے عناصر کے ہاتھ میں رہتی ہیں،اور حکومتی ایجنسیاں جس قسم، ،جس قماش اور دینی وایمانی اعتبارسے جیسی سیرت و نظریات کے حامل لوگوں کے ہاتھ میں رہتی ہیں کیا ان لوگوں کی زیر نگرانی اور تعاون سے قائم تنظیمیں وہ مقاصد حاصل کر سکتی ہیں جو جہاد کے مقاصد ہیں ؟
افسوس ہماری نادانی اس حد تک پہونچی ہوئی ہے کہ ہم گرگ سے گلہ بانی کی توقع کر لیتے ہیں۔

انبیاء ؑ کی ایک اہم سنت:

مسلمانوں نے جب تک ایک باقاعدہ اور منظم حکومت قائم نہیں کر لی اس وقت تک رسول اللہؐ کو جہاد کا حکم نہیں دیا گیا۔ مدینہ پہنچنے کے بعد مسلمانوں کو جب جنگ کا حکم دیا گیا تو اس کو پورے طور پر ایک نظام امارت اور حکم راں کے تابع رکھا گیا۔ پچھلے انبیاء کی تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ انہوں نے باقاعدہ جنگ اسی وقت کی جب ایک منظم امارت قائم ہو گئی۔ حضرت موسیٰ کے زمانے میں اور اس کے بعد کی تاریخ پر غور کیجئے یہی اصول کار فرما نظر آئے گا۔ 
حضرت موسیٰ و ہارون کے زمانے میں مصر کی حکومت نے بنی اسرائیل کو کس قدر ظلم کا نشانہ بنایا، وہاں جنگ نہیں کی گئی۔ پھر انہوں نے ہجرت کی، اور اس طرح بنی اسرائیل کی ایک آزاد اجتماعیت اور امارت قائم ہوئی پھر ان کو اپنے خطے میں جہاد کا حکم ہوا۔
اس کے بعد جب بنی اسرائیل پر شدید زوال آیا، اور وہ دوسروں کے محکوم ومقہور ہوے تو ان کو اپنے علاقوں سے تتر بتر ہو کر اس طرح بھاگنا پڑا تھا کہ ان کی اجتماعیت ہی فنا ہو گئی تھی، ان کے بچے کہیں رہ گئے اور وہ کہیں اور بھاگے، قرآن بتاتا ہے کہ اس وقت قوم کے کچھ لیڈر اپنے وقت کے نبی (حضرت سموئیل ؑ ) کے پاس اپنی یہ رائے پیش کرنے کے لیے آئے کہ دشمنوں کے خلاف ہم کو باقاعدہ جنگ کرنی چاہئے۔ ا س وقت انہوں نے اپنے نبی سے یہ درخواست نہیں کی کہ لوگوں کو جمع کر کے یا فوج بنا کر بس جنگ شروع کر دی جائے آپ جہاد کے انتظامات کا حکم فرمائیں۔ اس کے بجائے انہوں نے وقت کے نبی سے جنگ کے انتظام کے لیے یہی درخواست کی تھی کہ ہمارا ایک باقاعدہ ’’حاکم‘‘ (ملِک) مقرر فرما دیں جس کے زیر حکومت ہم اللہ کے راستہ میں قتال کریں، اور اپنے شہروں کو آزاد کرائیں۔
پھر آگے قران نے قصہ نقل کیا ہے کہ وہ نبی ایسا کرنے کو ابتداءً تیار نہیں ہوئے۔ ۔۔۔کوئی حیرت کر سکتا ہے کہ اللہ کا نبی اور ایک ایسی صورتحال میں جس میں وقت کے مسلمان اپنے علاقوں سے بھگا ئے جا چکے ہیں، ان کے بچے کہیں رہ گئے اور وہ کہیں اور بھاگے، اُن مسلمانوں کے قبلے تک پر بدترین قسم کے ظالم کافروں کا قبضہ ہو چکا ہے، اور مسلمانوں کے لیڈراِس نبی کے پاس یہ در خواست لے کر آئے ہیں کہ حضور جہاد کے انتظامات فرمایئے ہم خدام تعاون کو حاضر ہیں، اور وہ (نبی علیہ الصلاۃ والسلام )کچھ تذبذب کرتا ہے؟ جی ہاں قرآن بتلاتا ہے کہ وہ نبی تذبذب کرتا ہے۔ اس لیے کہ اس کو اپنی قوم پہ اعتماد نہیں تھا کہ جب وقت آئے گا تو وہ ثابت قدم رہیں گے اور پیٹھ نہیں دکھائیں گے۔ مگر جب ان قومی زعماء نے اعتماد دلایا کہ ہم ضرور جنگ کریں گے، ہمارے گھر اجاڑے گئے، بچے کہیں، اور ہم کہیں، اب مزید کس چیز کا انتظار ہے جس کے بعد ہم جہاد کو کھڑے ہوں؟تو اللہ کے اس نبی نے جنگ کے ضروری انتظام کے طور پر ایک ’’بادشاہ‘‘ مقرر کیا اور اس بادشاہ کی حکومت کے تحت ہی جہاد کیا گیا، اور اللہ کی مدد سے فتح بھی ہوئی۔ (سورۂ بقرہ آیت ۲۴۶ تا ۲۵۳)

بغیر حکومت کے جہاد کی صورت:

اہل علم کے نزدیک اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر کسی مسلم ملک پر کوئی غیر مسلم طاقت ظلماً حملہ آور ہو اور حکومت کو بے دخل کردے تو عام مسلمان اس کے خلاف جہاد کے مجاز نہیں ہوں گے۔ آج کل کے زمانے میں اس کا نتیجہ تو یہ ہوگا کہ کوئی بڑی ہوائی طاقت بم باری کر کے مسلم ممالک کی حکومت اور اس کے اساطین کو ہلاک کر دے اور اعلانِ قبضہ کردے۔ جیسے ہی مسلمانوں کی باقاعدہ حکومت ختم ہوگی سارے لوگوں پر ہتھیار ڈال دینا ضروری ہو جائے گا۔ شریعت اسلام کی حفاظت کے لیے ہے ، اس کو ضائع کرنے کے لیے نہیں۔
علماء کہتے ہیں کہ :
فان عُدم الامام لم یوخَّر الجہاد لان مصلحتہ تفوت بتا خیرہ (المغنی ۸/۳۵۳)
’’ اگر کسی جگہ حکومت ہی نہ ہو تو مسلمان جہاد کو مؤخر نہیں کریں گے۔ اس لیے کہ دیر کرنے سے جہاد کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔‘‘
یعنی اگر کوئی ظالم طاقت مسلمانوں کے ملک پر ظالمانہ حملہ کرے ، اور مسلمانوں کی حکومت تحلیل ہو جائے تو چوں کہ کوئی مسلم حکومت نہیں ہے اسی لئے عام مسلمان اپنے جان و مال اور ملک ووطن کا دفاع کریں گے،اور کب تک وہ مزاحمت کریں گے اس کا فیصلہ حالات پر اور ان کے اہل حل و عقد پر ہوگا۔
جہاں کوئی منظم حکومت نہ ہو وہاں کے افراد فیصلہ کر نے کے لئے آزاد ہوں گے۔ اس کی ایک نظیر ہم کو عہد رسالت میں ملتی ہے۔ کچھ مجبور ومظلوم مسلمان اہل مکہ کے مظالم کی زنجیروں میں قید تھے ، نہ بھاگنے کا موقع تھا نہ عافیت کے ساتھ مکہ میں رہنے کا ۔ صلح حدیبیہ کے بعد جب مکے والوں نے رسول اللہؐ سے یہ معاہدہ لے لیا تھا کہ مکے سے کوئی مسلمان اگر مدینہ جائے گا تو واپس کرنا ضروری ہوگا۔ ابو بصیر نامی ایک مظلوم مسلمان مدینہ بھاگ کر آیا، پیچھے سے اس کو واپس لینے مکے کے دو آدمی پہنچے۔ معاملہ معاہدے کا تھا، آپؐ نے دل پر پتھر رکھ کر ان کو واپس کر دیا۔ راستے میں ابوبصیر نے ان میں سے ایک کی تلوار لے کر اس کا سرقلم کر دیا۔ دوسرے نے بھاگنے میں عافیت جانی، اب ابو بصیر اور ایسے ہی کچھ اور لوگوں نے بھاگ کر ایک غیرآباد علاقے میں (جو مدینہ کی مسلم ریاست کی قلم رو سے باہر تھا) آکر ڈیرہ ڈال لیا، حضرت ابوبصیرؓ ان کے لیڈر تھے۔ ان لوگوں نے مکے کے تجارتی قافلوں پر حملے شروع کر دئے۔ ( بخاری ۲۷۳۱) لیکن چوں کہ یہ مدینہ کی ریاست سے باہر رہتے تھے اس لئے سیاسی طور پر رسول اللہ ؐ اور مدینہ کی ریاست پر ان کی کوئی ذمہ داری نہیں مانی جاسکتی تھی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو ان کارروائیوں سے منع نہیں کیا ، حالانکہ بحیثیت حاکم نہ سہی بحیثیت نبی ورسول آپؐ کی ذمہ داری تھی کہ ہر غلط کام سے اپنے اوپر ایمان لانے والوں کو روکیں ، اور اس کے غیر شرعی ہونے کی وضاحت فرمائیں۔
بعض ان لوگوں نے جن کو افغانستان اور عراق میں امریکی حملوں کے خلاف مجاہدین کی مزاحمت کو غیر شرعی قرار دینا تھا یہ کہا ہے کہ حکومت کے بغیر قتال وجنگ قطعاً غیر اسلامی تصور ہے۔ ان میں ایک صاحب نے تو ببانگ دہل دہشت گردی کی تعریف ہی یہ فرما دی ہے کہ بنا حکومت کے ہتھیار اٹھانا دہشت گردی ہے۔ اور یہ بھی دعویٰ فرما دیا ہے کہ میں دنیا میں وہ پہلا شخص ہوں جس نے دہشت گردی کی معین تعریف کی ہے۔ ان لوگوں کے خلاف یہ واقعہ اپنی اسی حیثیت سے دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بصیرؓ کو اس سے منع نہیں کیا۔ حال آں کہ بطور حاکم نہ سہی، بطور رسول تو آپؐ ان کے عمل کی غلطی کو واضح کرنے کے ذمے دار تھے ہی۔

معاہدات کی پابندی

وفائے عہد( یعنی جو معاہدہ کیا جائے پورا کیا جائے) اسلامی اخلاقیات کی ایک نہایت بنیادی تعلیم ہے ، قرآن مجید میں اس کی بار بار تاکید کی گئی ہے ایک جگہ ارشاد ہے:
وَأَوْفُواْ بِالْعَہْدِ إِنَّ الْعَہْدَ کَانَ مَسْؤُولا (بنی اسرائیل: ۳۴)
اور پورا کرو معاہدہ کو ۔ ( اللہ کے یہاں) معاہدے کے بارے میں ضرور سوال ہوگا۔
ایک حدیث میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا :
لا ایمان لمن لا امانۃ لہ، ولا دین لمن لا عھد لہ (صحیح ابن حبان ۱/۴۲۲ مسند احمد ۱۶۷۸، صحیح ابن خزیمہ ۴/۵۱)
’’اس کا ایمان نہیں جو امانت دار نہیں، اور اس کا دین نہیں جو معاہدے توڑے۔‘‘
کتاب وسنت کی تعلیمات سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ و رسول کی نظر میں سب سے زیادہ قابل احترام عہد وہ سیاسی عہد ہوتا ہے جو دومملکتوں کے درمیان یا فرد وحکومت کے درمیان امن و جنگ اور جان و مال کی سلامتی سے متعلق ہوتا ہے ۔ اسلام کا قانون جنگ ’’جہاد فی سبیل اللہ ‘ کا قانون ہے ، اس میں وفائے عہد کی صرف تعلیم وتلقین ہی نہیں، بلکہ بد عہدی پر جہنم اور اللہ کے عذاب کی وعیدیں آئی ہیں۔ رسول اللہ ؐ نے اسی طرح کے معاہدے کا پاس نہ کرنے کے بارے میں ارشاد فرمایا :
اذا جمع اللہ الاولین والآخرین یوم القیامۃ یرفع لکل غادر لواء ، فیقال ہذہٖ غدرۃ فلان بن فلان (صحیح بخاری، ۶۱۷۷ وصحیح مسلم، ۱۷۳۵)
’’قیامت کے دن جب ساری انسانیت اللہ کے یہاں جمع ہوگی ، اس دن ہر عہد توڑنے والے کے ہاتھ میں غداری کا جھنڈا دے دیا جائے گا ،اس پے لکھا ہوگا یہ فلان بن فلاں غدار ہے۔‘‘
مسلمانوں کا مقصد صرف فتحیابی نہیں ہے، وہ جن اعلیٰ اخلاقی اصولوں کے علم بردار ہیں اگر وہی اصول جنگ کی اندھیر نگری میں کھو جائیں تو پھر مسلمانوں کے پاس بچے گا کیا؟ پھر دعوت دین کا بیج کس زمین میں بویا جائے گا؟ اور اللہ کی حجت کہاں قائم ہوگی؟ جس کی جنگ کا اصل مقصد انسانوں کی ہدایت اور اسلام کی نشرو اشاعت ہے، اور جو نہایت سوز وہمدردی کے ساتھ بنی نوع انسان کو اللہ کے ابدی عذاب سے بچانے اور دنیا وآخرت کی سعادتوں سے ان کو ہم کنار کرنے کے لیے اپنی جان اور مال کو سستا کیے ہوئے ہے، وہ کسی قیمت پر یہ برداشت نہیں کرے گا کہ اس کی دعوت داغ دار ہو یا لوگ اس کو اخلاقی اصولوں سے عاری سمجھیں۔ وہ ہر قیمت پر دنیا کے سامنے اپنی اخلاقی برتری کا ثبوت پیش کرے گا۔ ہاں جس کا مقصد قومی فتح یابیاں ہوں یا جو نخوت قومی کے لئے لڑتا ہو وہ شوق سے جو چاہے کرے، اس کو ہر کردنی ونا کردنی زیبا۔ مگر جو اللہ کے کلمہ کے لئے لڑتا ہے، اس کے دین کے لیے جھکتا اور اٹھتا ہے، اور اس کا مقصد اس کی بندگی و خود سپردگی ہے وہ اپنے آپ کو عین میدان کارزار میں بھی پابندِ حکم پاتا ہے ۔ اور یہی جہاد فی سبیل اللہ کا حسن ہے۔
اس لئے مسلمانوں کے لئے یہ طے ہے کہ بدعہدی میں چاہے فائدہ ہو اور وفائے عہد میں چاہے نقصان، ان کو معاہدے کی پابندی ہی کرنی ہے۔

دین عہد و وفا، نہ کہ غدر و دغا:

قرآن مجید میں جنگ کے حالات کے لیے جو نصیحتیں اور تعلیمات آئی ہیں ان میں ہم کو عہد کی پابندی کی تاکیدی تعلیم بار بار ملتی ہے۔ اسلام کی نظر میں معاہدے کا کیا مقام ہے اس کا اندازہ اس سے کیجیے کہ وہ مشرکینِ مکہ جن سے بڑا نہ اسلام کا کوئی مخالف ہوا ہوگا اور نہ رسول اللہؐ اور صحابۂ کرام کو کسی کے ہاتھوں اتنا نقصان پہنچا ہوگا، ان کے بارے میں بھی ہدایت ہے کہ ان کے ساتھ کیے ہوئے عہد کی بہر حال پوری پوری پابندی کی جائے۔ سورۂ توبہ جو مشرکین عرب پر اللہ کے شدید غضب کا اعلان کرتی اور مسلمانوں کے یہ حکم دیتی ہے کہ ان کو الٹی میٹم دے دیا جائے کہ ان کو بس چار مہینے کی مہلت ہے، یہ یا تو اسلام قبول کرلیں، ورنہ جزیرۃ العرب کی خاص پوزیشن یہ ہے کہ اس میں ان کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ان چار مہینوں کے بعد ان میں سے جو جہاں ملے مارا جائے، پکڑا جائے، اور ان کے شکار کے لیے جگہ جگہ گھات لگاکر بیٹھا جائے: 
فَإِذَا انسَلَخَ الأَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُواْ الْمُشْرِکِیْنَ حَیْْثُ وَجَدتُّمُوہُمْ وَخُذُوہُمْ وَاحْصُرُوہُمْ وَاقْعُدُواْ لَہُمْ کُلَّ مَرْصَد۔ (التوبہ: ۵)
یہ سورت مشرکین عرب کے سلسلے میں غضبناک اعلان جنگ ہے، اس میں یہ بھی کہا گیا کہ ان کی سابقہ سراپا ظلم وعہد شکنی کی تاریخ کے بعد تمہارے لیے کوئی گنجائش نہیں کہ ان کے ساتھ کوئی نرمی کا برتاؤ کرو، یا آئندہ ان سے معاہدے کے بارے میں سوچو۔ اب نرمی کی ساری گنجائشیں ختم، تم کو حکم ہے کہ اب تمہاری تلوار چلے اور رشتہ یا تعلق نام کی کوئی چیز اس کو روکنے والی نہ ہونی چاہیے۔ مگر اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ ہاں! معاہدہ اگر روکے تو تھم جانا۔
مشرکین کے شرک کے باوجود اور سراپا ظلم ودشمنی کی تاریخ کے باوجود معاہدے کی پابندی ضروری ہے۔ جن سے تمہارا معاہدہ ہے اگر وہ خود عہد شکنی نہ کریں تو تم ٹھیک ٹھیک معاہدے کی پابندی کرو۔ یہی عین تقویٰ ہے۔
کَیْْفَ یَکُونُ لِلْمُشْرِکِیْنَ عَہْدٌ عِندَ اللّہِ وَعِندَ رَسُولِہِ إِلاَّ الَّذِیْنَ عَاہَدتُّمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَمَا اسْتَقَامُواْ لَکُمْ فَاسْتَقِیْمُواْ لَہُمْ إِنَّ اللّہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ (التوبہ: ۷)
’’مشرکین کا اب اللہ اور رسول کے ساتھ کوئی معاہدہ کیسے ہو سکتا ہے؟ ہاں جن کے ساتھ تم نے معاہدہ کیا تھا مسجد حرام کے پاس، وہ اگر معاہدے کی پابندی کریں تو تم بھی کرو۔ اللہ تقوے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘
آیات کا اصل مضمون مشرکین کے ساتھ سختی برتنے کا حکم ہے، یہیں سے بات شروع ہوئی کہ ان کے ساتھ اب کسی معاہدے کا کیا امکان؟ ابھی یہ بات پوری نہیں ہوئی تھی۔ اس سلسلے میں آگے مزید یہ کہنا تھا کہ ان مشرکین کے ساتھ اب معاہدہ کیسے ہوسکتا ہے؟ ان کے دلوں میں دشمنی کی آگ دہک رہی ہے۔ بس چلے تو یہ تم پر بری طرح ٹوٹ پڑیں، نہ رشتہ ان کو روکے اور نہ معاہدہ۔ یہ بد دین، دنیا پرست، مکار، فاسق اور ظلم وجارحیت کے مرتکب رہے ہیں۔
کَیْْفَ وَإِن یَظْہَرُوا عَلَیْْکُمْ لاَ یَرْقُبُواْ فِیْکُمْ إِلاًّ وَلاَ ذِمَّۃً یُرْضُونَکُم بِأَفْوَاہِہِمْ وَتَأْبَی قُلُوبُہُمْ وَأَکْثَرُہُمْ فَاسِقُونَ، اشْتَرَوْاْ بِآیَاتِ اللّہِ ثَمَناً قَلِیْلاً فَصَدُّواْ عَن سَبِیْلِہِ إِنَّہُمْ سَاءَ مَا کَانُواْ یَعْمَلُونَ، لاَ یَرْقُبُونَ فِیْ مُؤْمِنٍ إِلاًّ وَلاَ ذِمَّۃً وَأُوْلَءِکَ ہُمُ الْمُعْتَدُون (آیت:۸،۹،۱۰)
ابھی آگے یہ سب کچھ کہنا تھا، اور مسلمانوں کو برافروختہ کرکے ان سے جنگ کروانی تھی، مگر ایسے موقعے پر اور ایسے دشمنوں کے بارے میں اور ایسے غضبناک کلام کے وقت بھی۔۔۔ بیچ میں ہی بات روک کر تنبیہ کی گئی کہ’’ہاں جن کے ساتھ تم نے معاہدہ کیا تھا مسجد حرام کے پاس، وہ اگر معاہدے کی پابندی کریں تو تم بھی کرو۔ اللہ تقوے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘ اس میں اشارہ ہے کہ اگر معاہدے کی پابندی میں کوتاہی ہوئی تو نہ تم تقوے والے رہوگے اور نہ اللہ کی محبت کے سزاوار۔ 
ہم گواہی دیتے ہیں کہ یہ شان دار ہدایات برحق ہیں۔ اللہ اکبر۔
ہم کو اس تعلیم کا جو عملی نمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت میں ملتا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ جنگ کے موقع پر بھی اسلام کی نظر میں معاہدے کی کیا قیمت ہے ۔ جنگ بدر میں مکہ والوں کی تعداد مسلمانوں سے تین گنا زائد تھی ، ایسے میں ایک ایک آدمی کی اہمیت بہت تھی ، حضرت حذیفہ بن الیمان اور ان کے والد حسیل مسلمانوں کے لشکر میں جا ملنے کے ارادے سے آرہے تھے کہ مشرکین کے ہتھّے چڑھ گئے ، انہوں نے ان کو یہ عہد لے کر ہی چھوڑ ا کہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں شرکت نہیں کریں گے ۔ یہ دونوں حضرات چھوٹ کر بدر کے میدان میں آں حضرت ؐ سے ملے اور پورا واقعہ سنایا، آپؐ نے فرمایا:
انصرفا، نفی لہم بعہدہم ونستعین اللہ علیہم (صحیح مسلم، ۱۷۸۷)
’’واپس جاؤ ، ہم عہد کی پابندی کریں گے اور اللہ سے مدد مانگیں گے۔‘‘
اگر مسلمانوں کی حکومت کا کسی غیر مسلم حکومت سے معاہدہ ہو، اور ایسے آثار نظر آنے لگیں کہ فریق ثانی اچانک دھوکہ دے کر حملہ کر دے گا، تب بھی مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ صرف اندیشے پر کارروائی نہ کر دیں، بلکہ حکم ہے کہ معاہدہ کے خاتمے کا اعلان اس طرح کرو کہ تم نے اس وقت تک ان کے خلاف حملے کے سلسلے میں کوئی پیش رفت نہ کی ہو۔ قرآن کی آیت ’’وامّا تخافن من قوم خیانۃ فانبذ الیہم علیٰ سواء‘‘ میں اسی کا حکم ہے۔
اس سلسلے کا ایک دلچسپ واقعہ سنیے: حضرت امیر معاویہؓ کے زمانے میں روم سے جھڑپیں چلا کرتی تھی، ایک مرتبہ ان کاحکومت روم سے ایک خاص مدت تک کا ناجنگ معاہدہ تھا، انہوں نے معاہدے کے ختم ہونے سے پہلے ہی اس حساب سے فوجوں کو لے کر سرحد کی جانب پیش قدمی شروع کر دی کہ جیسے ہی مدت ختم ہوگی اچانک حملہ کر دیں گے ،دشمن تیار بھی نہیں ہوگا۔ ابھی پیش قدمی جاری تھی، اور فوجیں تیزگامی سے منزلیں طے کر رہی تھیں، کہ ایک گھوڑ سوار غبار اڑاتا ’’اللہ اکبر، اللہ اکبر، وفاء لاغدر‘‘ (وفاداری کرو، غداری نہیں) کی آواز لگاتا چلا آ رہا ہے۔ دیکھا تو یہ صحابی رسول حضرت عمرو بن عنبسہؓ تھے۔ انہوں نے آکر حضرت معاویہ سے کہا: غضب ہے غضب ! یہ کیا ہورہا ہے؟ میں نے رسول اللہؐ سے سنا ہے کہ جس کا کسی کے ساتھ معاہدہ ہو وہ اس میں کوئی تغیر و تبدیلی نہ کرے (اور کسی قسم کا اقدام نہ کرے ’’فلا یحل عقدۃ ولا یشدھا‘‘)، یہاں تک کہ اس کی مدت گذر جائے۔ حضرت امیرؓ نے یہ حدیث سنی اور فوجوں کو واپسی کا حکم دے دیا۔۔ رضی اللہ عنہم۔ (مسند احمد، حدیث نمبر ۱۶۵۵۷۔ سنن ترمذی، حدیث نمبر، ۱۵۹۰)

دین میں بین الاقوامی معاہدات کا مقام:

اسلامی تعلیمات میں دینی اخوت اور دین کے سلسلے میں مسلمان بھائیوں کی مدد کا جو غیر معمولی مقام ہے وہ ہر اس شخص کو معلوم ہے جس نے کچھ بھی دینی تعلیم یا دینی ماحول سے استفادہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں ایک بڑی مہمیز کر نے والی آیت اس مضمون کے شروع میں گذر چکی ہے، جس میں آزادی اور جنگ کی استطاعت رکھنے والے مسلمانوں میں حمیت و غیرت پیدا کرنے کے لیے مکہ کے دبے کچلے مسلمانوں کی آہ وزاریوں اور عورتوں اور بچوں کے نالہ وشیون کا حوالہ دے کر کہا گیا کہ وہ بے چارے رات دن دعا کر رہے ہیں کہ اللہ کسی نجات دہندہ کو بھیجے جواُنہیں اِن ظالموں کے چنگل سے آزاد کرائے۔ کیا یہ دل فگار نالے بھی تم میں قتال کے لیے جوش پید انہیں کرتے؟ آؤ اب ان کی مدد کے لیے جہاد کرو۔
وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ ہَذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ أَہْلُہَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ وَلِیّاً وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ نَصِیْرا (النساء: ۷۵)
مظلوم مسلمانوں کی مدد قرآن کی نظر میں اتنی ضروری ہے۔ اس کے باوجود قرآن صاف کہتا ہے کہ اگر کسی ایسی غیر مسلم ریاست میں جس کے ساتھ تمہاری ریاست کا معاہدہ ہے کچھ مسلمان بھائیوں پر ظلم ہورہا ہے ، اور ان کا دین آزمائش میں ہے ، وہ تم کو مدد کے لئے بلاتے ہیں تو تم ان کی مدد نہیں کر سکتے ۔ تمہیں معاہدے کا پاس رکھنا ہے۔ مدد کرنی ہے تو پہلے معاہدہ ختم کرو۔
آیت مع ترجمے کے ذیل میں ہے:
وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ وَلَمْ یُہَاجِرُواْ مَا لَکُم مِّن وَلاَیَتِہِم مِّن شَیْْءٍ حَتَّی یُہَاجِرُواْ وَإِنِ اسْتَنصَرُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ فَعَلَیْْکُمُ النَّصْرُ إِلاَّ عَلَی قَوْمٍ بَیْْنَکُمْ وَبَیْْنَہُم مِّیْثَاق (الانفال: ۷۲)
’’جو لوگ ایمان لائے مگر ہجرت کر کے ( تمہاری ریاست کے شہری نہیں بنے) تو تم پر ان کی ’’ولایت ‘‘(حمایت ومدد) والے رشتے کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ الا یہ کہ وہ ہجرت کر کے تمہارے ملک آجائیں ، ہاں اگر وہ دین کے سلسلے میں (ظلم کے شکار ہوں اور ) تم کو مدد کے لئے پکاریں تو تم پر مدد کرنے کی ذمہ داری ہے۔ مگر کسی ایسی قوم کے خلاف نہیں جس کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہو۔ اور اللہ دیکھ رہا ہے جو تم کر رہے ہو۔‘‘
یہ ہے اسلامی اصولوں کے ساتھ جہاد۔
جہاد کے بارے میں ہمیں کسی قسم کا معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جہادی تعلیم اسلام کا وہ باب ہے جو اس کی حقانیت کی روشن دلیلوں میں سے ہے۔ ایک طرف انسانیت کی ایک شدید ضرورت کو پورا کرنے کے مقصد کی بلندی ہے۔ دوسری طرف اللہ کی رضا کی نیت کی پاکیزگی ہے۔ اور تیسری طرف مجاہدانہ اخلاقیات کا حسنِ جہاں آرا وجہاں زیب۔ نورٌ علی نور۔
یہ جہاد دنیا کو زیبائش وآرائش بخشنے کے لیے ہی فرض کیا گیا ہے۔ اس کو کیا نسبت اس فساد و فتنہ اور غدرو دغا سے جس پر مغربی تہذیب کے زیر سایہ موجودہ بین الاقوامی سیاست کا نظام قائم ہے۔ ایک ریاست دوسری ریاست سے معاہدوں میں ہاتھ بھی ڈالتی ہے، سفارتی تعلقات بھی قائم کرتی ہے اور پھر اپنی ایجنسیوں کے ذریعہ قتل و خونریزی کے واقعات بھی کراتی ہے۔ انسانیت کو مغربی تہذیب نے جو الم ناک ’’تحفے‘‘ دیے ہیں ان میں یہ خفیہ ایجنسیوں کا نظام بھی ہے۔ 
مگر اس وقت کچھ ناسمجھ مسلم نوجوانوں کو جہاد کے نام پر معاہدات کی پامالی کا سبق دینے لگے ہیں، یہ ان میں ایسا اشتعال پیدا کرتے ہیں کہ شریعت تو ٹوٹتی ہے ہی، اللہ کے حدود تو پامال ہوتے ہیں ہی، ساتھ ہی اسلام اور مسلمانوں کے مفاد کو بھی شدید نقصان پہنچتا ہے۔ یہ نادان اسلام کے دوست نہیں، اور ان میں سے بہت سوں کو تو اسلام دشمنوں نے خوب کام کی چیز سمجھ کر پالاپوسا اور استعمال بھی کیا ہے۔ مثال کے طور پر برطانیہ کی دو شخصیتوں ابوحمزہ المصری اور عمر البکری کا تذکرہ تو ہمارے الفرقان کے صفحات میں بار بار آچکا ہے۔ انہوں نے برطانیہ میں نوجوانوں کو اشتعال دلانے کا کام عین برطانوی ’’حمایت وحفاظت‘‘ میں خوب کیا۔ 

معاصر دنیا میں معاہدے کی بعض شکلیں:

ایسوں کی نادانیوں ہی کی وجہ سے کہنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ جو شخص کسی غیر مسلم ملک میں اس کا ویزا لے کر جاتا ہے تو وہ جس وقت ویزا اپلائی کرتا ہے اس وقت ہی وہ وہاں کی حکومت سے معاہدہ کرتا ہے کہ کسی کی جان ومال کے لیے خطرہ نہیں بنے گا، اور قانون کی پابندی کرے گا۔ پھر دوران سفر نہ جانے کتنی مرتبہ وہ تحریری طور پر یہ اطمینان دلاتا ہے۔ اب اس کے نزدیک وہ کیسی ہی اسلام دشمن اور ظالم ریاست کیوں نہ ہو اس کے لیے وہاں کے شہریوں کا مال وجان محترم ہیں۔ اس لیے کہ اس نے جانتے بوجھتے معاہدہ کر کے اپنی طرف سے اطمینان دلایا ہے۔ اس کے لیے اس کا کوئی جواز نہیں کہ وہ اسلام کے مقدس نام پر ’’غدر‘‘ اور ’’نقض عہد‘‘ کا ارتکاب کرے۔ اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے (چاہے نیک نیت سے ہی کرتا ہے) تو وہ گناہ ہی کرتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من امن رجلاً علی نفسہ فقتلہ أُعطی لواء الغدر یوم القیامہ (مسند أحمد ۲۱۴۴۱)
’’جس نے کسی کو اپنی طرف سے محفوظ ہونے کا اطمینان دلایا اور پھر قتل کر دیا، اس کو قیامت میں (ذلیل کرنے کے لیے) غداری کا جھنڈا تھمادیا جائے گا۔‘‘
صحیح ابن حبان (حدیث ۵۹۸۲) میں اسی حدیث کی ایک صحیح سند سے بیان کردہ روایت میں یہ تصریح ہے کہ چاہے وہ مقتول غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو۔ 
اسی طرح کا ایک معاہدہ Citizenship شہریت کا معاہدہ ہے۔ آج کل کی غیر مسلم ریاستوں میں جو مسلمان رہتے ہیں اور وہاں کی شہریت اختیار کیے ہوئے ہیں، انہوں نے اپنی ریاست اور اسکے عام شہریوں کے ساتھ ایک واضح معاہدہ کیا ہوا ہے۔ عام معاہدوں سے یہ معاہدہ اس اعتبار سے اہم ہوتا ہے کہ سارے معاہدوں کی کوئی نہ کوئی انتہا ہوتی ہے، مگر یہ لا محدود مدت تک کے لیے ہوتا ہے۔ انسانی تمدن کی تاریخ میں ہمیشہ ہی شہریت کو فرد اور ریاست کے درمیان ایک معاہدے کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ ریاست اور شہری، اور خود آپس میں شہریوں کی جماعت ایک دوسرے کے تئیں ذمہ دارانہ معاہدے کے حامل سمجھے جاتے رہے ہیں، جس میں وہ سب ایک دوسرے کے جان اور مال کو اپنی طرف سے امان دیتے ہیں۔ ہمیشہ سے شہریت کی بنیاد یہی واضح معاہدہ ہوتا آیا ہے کہ سارے شہری ایک دوسرے کے مال اور جان کا احترام کریں گے۔ آپ اگر آج یہ اعلان کر دیں کہ میں کسی کی بھی جان کا احترام اپنے اوپر فرض نہیں مانتا، اور میرے ملک کے انسان میرے لیے ’’مباح الدم والمال‘‘ یعنی ان کی جان یا مال لے لینا میرے لیے حلال ہے، تو آپ کو وہ ملک فوراً باغی قرار دے دے گا۔ 
لیکن اب جدید دنیا میں تو یہ شہریت ایک بڑا وسیع معاہدہ بن گیا ہے، ریاست کی ذمے داریاں بھی بڑھ گئی ہیں اور فرد کے تعہّدات (Commitments) بھی۔ اس بناپر یہ بالکل طے ہے کہ جو مسلمان کسی غیر مسلم ملک کا شہری ہے اس کو اپنے اس ملک سے مسلمانوں کے ساتھ کیسے ہی دشمنانہ رویہ کی شکایت ہو، وہ جب تک اس کی شہریت کو لیے رہتا ہے اس وقت تک اس کے لیے اس ملک کے خلاف یا اس کے کسی عام شہری کے خلاف کسی قسم کی جنگ وقتال کے قسم کی کارروائی کرنا جائز نہیں۔ اس کے اوپر ظلم ہو رہا ہو تو وہ ظالم سے بس ظلم کا بدلہ لے سکتا ہے۔ ہاں وہ اگر اس کی شہریت ترک کر دیتا ہے اور اس ملک کو چھوڑ کر کہیں چلا جاتا ہے تواس کو اختیار ہے۔
رسول اللہ ؐ اور آپ کے صحابہؓ جب تک مکہ مکرمہ میں رہے اپنے آپ کو مکی ریاست کا شہری مان کر رہے۔ اور اہل مکہ کی ساری زیادتیوں کے باوجود آپ ؐ اور مسلمانوں کا رویہ وہاں کے غیر مسلم شہریوں کے ساتھ ایسا ہی تھا کہ کوئی عام شہری اپنے کو ان کی جانب سے خطرے میں نہیں سمجھتا تھا۔ ایک آدھ واقعات جو کسی مسلمان اور غیر مسلم کے درمیان لڑائی یا زخمی کرنے کے ملتے ہیں وہ انفرادی لڑائیاں تھیں جو کسی بھی ایک ریاست کے دو شہریوں میں ہو سکتی ہیں اور ان میں مظلوم کا زیادتی کرنے والے کے خلاف اقدام غیر قانونی نہیں ہوتا ۔ ہاں جب آپ ؐ نے مکہ چھوڑ دیا تو معاہدہ ختم ہو گیا۔ اور مکہ والوں کو مہاجر مسلمانوں سے معاہدے کا تحفظ حاصل نہیں رہا۔ اور اسی طرح مہاجر مسلمانوں کو مکہ کے لوگوں سے بھی تحفظ حاصل نہیں رہا۔ 
افسوس! یہ شرعی ’’حدود‘‘ (قوانین) جو اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی صریح غیر مشکوک سنت سے ثابت ہیں ان کا ہمارے یہاں مذاکرہ نہیں ہوتا۔ اور نتیجۃً ہم عصر حاضر کی صور تِ احوال میں اس کی تطبیق نہیں کرپاتے۔ اس سلسلے میں بہت سے لوگ نہایت غیر محتاط بلکہ شرعی ضابطوں کو توڑنے والی رایوں کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ اگر یہ غلطیاں صرف وہ نوجوان کر رہے ہوتے جنہوں نے اس دور کے ظالموں کی چیرہ دستیوں سے عاجز آکر ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کا مظاہرہ کیا ہے، تو کوئی زیادہ تعجب نہ ہوتا۔ مگر جب علمی قسم کے اداروں اور رسائل ومجلات کی طرف سے یہ بے احتیاطیاں ہوتی ہیں تو حیرت ہی نہیں افسوس اور قلق بھی ہوتا ہے۔
کچھ مغربی اخبار ات نے گذشتہ سال ۲۰۰۸ء میں جب وہ مشہور زمانہ ملعون کارٹون شائع کیے تو ہمارے دینی رسالوں میں اس پر مضمون نکلے۔ اور بہت سے دینی رسالوں میں گذشتہ تاریخ کے کئی ایسے واقعات نقل کیے گئے جن میں اہانت رسول کے کسی مجرم کو کسی پر جوش مسلمان نے خود ہی قتل کر دیا تھا۔ اور اس پر تحسین وآفریں کے ساتھ مبارک باد اس انداز میں دی گئی کہ گویایہی اسوہ ہے دنیا بھر میں اہانت رسول کے مجرموں کے ساتھ معاملہ طے کرنے کا۔ اور اگر ہو سکے تو یہی کر دینا شریعت کا حکم ہے۔ 
قانون میں اہانت رسول کا مجرم قتل کی سزا کا مستحق ہو سکتا ہے، مگر نہ جانے ان لوگوں کو یہ کیوں یاد نہیں رہتا کہ یہ سزا عدالت اور حکومت دے گی، جس کسی نے خود یہ کام کیا اس نے بہرحال قتل نا حق ہی کیا۔ اس لیے کہ حدود کے نفاذ کے لیے اس کی ولایت (Authority) شرط ہے، جو کسی فرد کو اللہ کی شریعت نے نہیں دی ہے۔ ایسا ناقص علم، دین اور اہل دین کے لیے سخت نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے۔ قرون اولیٰ میں کسی مجرم کو اس طرح کی سزا (کسی بھی عالم کے فتویٰ کے تحت) حکومت اور عدالت سے ماوراء نہیں دی گئی۔
مثال کے طور پر دیکھیے اسی کارٹون چھپنے کے واقعے کے ضمن میں، میں ایک مضمون نگار نے لکھا:
’’مجھے ایک اور اسی طرح کا واقعہ یاد آ رہا ہے جو ڈنمارک میں پیش آیا تھا، ہالینڈ کے ایک آرٹسٹ نے ایک ماڈل کے برہنہ جسم پر (نعوذ باللہ) قرآنی آیات تحریر کر کے اسے آرٹ کا ایک شاہ کار نمونہ قرار دیا، مگر آفریں ہے وہاں پر رہائش پذیر مراکن مسلمان پر کہ جس نے اس آرٹسٹ کو کئی لوگوں کی موجود گی میں جہنم رسید کر دیا اور عدالت میں یہ کہا اگر کسی نے دوبارہ ایسی گھٹیا حرکت کی تو وہ دوبارہ بھی یہ قدم اٹھانے سے گریز نہیں کرے گا۔‘‘
خالص شرعی اعتبار سے اس نوجوان کا یہ عمل، افسوس کہ، بالکل غلط تھا، مگر پھر بھی کچھ لوگوں کی طرف سے غیر مشروط تحسین کا مستحق ٹھیرایا گیا۔ اس نوجوان کی اللہ مغفرت کرے ،اس کی محبتِ اسلام کی عظمت اپنی جگہ، مگر اس کے لئے شریعت نے اس کی اجازت نہیں دی تھی کہ وہ ایک ایسے ملک میں جس کے ساتھ اس کی ریاست کا معاہدۂ امن ہے، پھر اس نے بھی ویزالے کر یہ معاہدہ کیا ہے کہ اس ملک کے شہریوں کے جان و مال کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچائے گا ، اوراس کے قانون کی پابندی کرے گا، شریعت نے اس کو اس کی قطعاً اجازت نہیں دی تھی کہ وہ اس دوہرے معاہدے کو توڑے اور شریعت کی اصطلاح میں ’’غدر‘‘ اور ’’نقض عہد‘‘ کے عظیم گناہ کا مرتکب ہو۔

اشتعال بھی کیسا عقل کا دشمن!

شرعی پہلو سے قطع نظر ان لوگوں کو آنکھوں سامنے کی یہ حقیقت نظر نہیں آرہی کہ اس زمانے میں ان حرکتوں کے جواب میں مسلمانوں کا پر تشدد رد عمل خود ان کے اپنے لیے کس قدر نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے؟ ان ظالموں کا تو آج تک ہم کچھ بگاڑ نہیں پائے، یا اپنی ہی پولیس کی گولیاں اور ڈنڈے کھائے، یا پوری دنیا میں ایک مذاق بن گئے۔ ہر کچھ دنوں کے بعد کوئی ہمارا تماشہ دیکھنے کے لیے اس طرح کی حرکت کر دیتا ہے، اور بس دھماچوکڑی شروع۔ ارے! کچھ کر سکیں تو زور لگائیے، ورنہ: عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد۔ سمجھ داری کا تقاضہ تو یہ ہے کہ دشمن کی چال کو الٹ دیا جائے نہ کہ اس کے ہتھیاروں کی دھار تیز کی جائے۔ ان شیطانوں کا مقصد دنیا میں خصوصاً مغرب میں مسلمانوں سے نفرت پیدا کرتے رہنا ہے۔ پر تشدد اقدامات ان کا مقصد ہی تو پورا کرتے ہیں۔

جنگ کی ضروری تیاری

امت اسلامیہ کا وجود بڑی قیمتی شے ہے، اور جنگ یقیناً جان جوکھوں کا کھیل۔ اس لیے ایک طرف اگرچہ اس کی تعلیم دی گئی کہ اللہ کے بھروسے پر جان لڑا دی جائے، مگر دوسری طرف یہ بات بھی عقل عام کی رو سے ضروری ٹھیرائی گئی کہ پھر بھی دیکھ لیا جائے کہ اپنی حربی صلاحیت، ساز وسامان، اور ایمانی واخلاقی اور نظم وضبط کی حالت کسی بھی حد تک مقابلے کی ہے، یا بظاہر اسباب بالکل طے ہے کہ نتیجہ آخر کار یہ کہنے کی شکل میں ہی نکلنا ہے کہ:
مقابلہ تو دل نا تواں نے خوب کیا
اگر بظاہر اسباب بالکل طے ہے کہ سوائے ناکامی اور شکست وریخت کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں لگنا تو عام حالات میں جنگ سے بچنا، یعنی حالات کے سازگار ہونے کا انتظار ہی فرض ہوگا۔ ’’مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی‘‘ کے لیے ہمیں قرآن وسنت میں کوئی نمونہ نہیں ملتا، ہاں حربی پوزیشنوں میں زبردست فرق کی کوئی نظیر اگر ملتی ہے تو بس بدر کے ’یوم الفرقان‘ میں جو قرآن کی سورۂ دخان کی روشنی میں قریش مکہ کے سرداروں کے لیے اللہ کا عذاب (یوم البطشۃ الکبریٰ) تھا۔ مگر اس طرح کی مدد کے انتظار سے پہلے ’’فضائے بدر‘‘ پیدا کرنے اور امت کے عمومی حال اور اُن کے ایمان وکردار میں کسی کم از کم درجہ میں بھی نسبت اور مشابہت کا اطمینان کر لینا ضروری ہے۔
یہ تعلیم خود قرآن نے ہمیں دی ہے کہ جنگی پوزیشن کا خیال کیا جائے گا۔ پہلے جب سابقین اولین کا لشکر تھا تو کہا گیا کہ ایک کے مقابلے دس کا بھی حساب ہو تو تم ہی فاتح ہو، شرط یہ ہے کہ تم ’’صابرون‘‘ یعنی جمنے والے ہو، اسی کو آج کی اصطلاحی زبان میں (High Morale) کہتے ہیں۔ پھر جب سابقین اولین کے ساتھ دوسرے مسلمان بھی آگئے تو اس فرق میں واضح کمی کی گئی، اور کہا گیاکہ اب تمھارا ایمانی حال پہلے جیسا نہیں رہا، اس لیے اللہ تم کو آسانی دیتا ہے۔ اب اگر تمہارے مقابلے دشمن کی پوزیشن دگنی ہوگی تو تم فاتح ہو جاؤگے۔
یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِ إِن یَکُن مِّنکُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ یَغْلِبُواْ مِءَتَیْْنِ وَإِن یَکُن مِّنکُم مِّءَۃٌ یَغْلِبُواْ أَلْفاً مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ بِأَنَّہُمْ قَوْمٌ لاَّ یَفْقَہُونَ۔ الآنَ خَفَّفَ اللّٰہُ عَنکُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِیْکُمْ ضَعْفاً فَإِن یَکُن مِّنکُم مِّءَۃٌ صَابِرَۃٌ یَغْلِبُواْ مِءَتَیْْنِ وَإِن یَکُن مِّنکُمْ أَلْفٌ یَغْلِبُواْ أَلْفَیْْنِ بِإِذْنِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ مَعَ الصَّابِرِیْنَ۔ (الانفال: ۶۵۔۶۶)
ظاہرہے کہ پہلے اگر مادی طاقت صرف تعداد سے گھٹتی اور بڑھتی تھی، تو اب اس میں بہت سی دیگر ایسی چیزیں زمانے کے ساتھ ٹکنالوجی کی شکل میں پیدا ہو گئی ہیں جو طاقت کے توازن میں زبردست فرق پیدا کرتی ہیں، بلکہ وہ ایسا فرق پیدا کرتی ہیں جو تعداد کا بڑے سے بڑا فرق پیدا نہیں کر سکتا۔اور دوسری چیز یعنی ’’صبر‘‘ اخلاقی طاقت (morale) اور ایمانی حالت میں بھی اِس زمانے میں عہد صحابہ سے اچھے حال کی توقع تو کی نہیں جاسکتی۔
لہٰذا اس بنا پر یہ کہنا صحیح ہوگا کہ جہاں حربی پوزیشن اور جنگی طاقت میں ایک اور دو سے زیادہ کا فرق ہو (چاہے وہ تعداد کی شکل میں نہ ہو بلکہ اسلحہ کی کیفیت وکمیت کی شکل میں ہو) وہاں مقابلہ کرنا اور بہرحال جنگ کرنافرض کے درجے کی چیز نہیں رہے گی۔ لیکن اگر مسلمانوں کی قیادت سنجیدگی کے ساتھ اپنے علم وتجربہ کی بنیاد پر اور دشمن کی عیاشی ،بزدلی ،کمزور اخلاقی حالت اور جذبے کی سردی کا اندازہ کر کے یہ سمجھتا ہو کہ وہ ایک لمبی جنگ میں دشمن کو تھکا سکتی ہے اور اس کو پسپائی پر مجبور کر سکتی ہے، تو یہ یقیناًنہایت قابل تعریف عزیمت اور قابل رشک ایمان کا فیصلہ ہو گا۔
قرآن مجید میں اوپر ذکر کی گئی آیتوں سے پہلے یہ حکم بھی آ چکا ہے کہ تمہاری ایمان وعزیمت کی حا لت جب بہتر تھی تو دشمن کے دس گنا ہونے پر بھی تم ہی کو فاتح ہونا تھا۔قرآن نے اس کا سبب دشمن کفار کی ’’ناسمجھی‘‘ یعنی زندگی کی حقیقتوں اور مقاصد حیات سے بے خبری کو بتایاتھا۔
بہر حال قرآن کی ان آیات سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ اسلامی شریعت میں قتال سے پہلے نہایت حقیقت پسندی کے ساتھ اس کا جائزہ لے لینا ضروری ہے کہ کامیابی کے امکانات معدوم تو نہیں۔

ایک عجیب غلط فہمی:

بعض لوگ اس سلسلے میں سورۂ انفال کی مندرجہ ذیل آیت سے عجیب قسم کی غلط فہمی میں پڑ جاتے ہیں۔ 
وَأَعِدُّواْ لَہُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّۃٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَیْْلِ تُرْہِبُونَ بِہِ عَدْوَّ اللّہِ وَعَدُوَّکُمْ (الأنفال: ۶۰)
’’اور تیاری جمع کرو ان کے مقابلے کے لیے جو بھی کر سکو، ہر طرح کی طاقت کے اسباب میں سے، اور گھوڑوں سے، جس سے تم ڈراؤ اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو۔‘‘
یہ حضرات اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم جو کر سکیں، بس وہ کر لیں اور پھر ہم کو حکم ہے کہ مقابلہ کے لیے کود پڑیں۔ایک ذرا غور کی نگاہ اس بے بنیاد استدلال کی کمزوری کو عیاں کر دیتی ہے۔ آپ دیکھیے، اس میں یہ کہیں نہیں ہے کہ جو کر سکو اس کے بعد انتظار مت کرو، فوراً اللہ کی مدد کے بھروسے کود پڑو۔ اس آیت میں صرف تیاری کا حکم ہے کہ اس میں کوئی کمی نہ کی جائے، یہ تمہارا فرض ہے۔ آیت کا مقصد صرف اتنا ہی ہے، اس کو اس سے کوئی تعلق نہیں کہ کتنی تیاری پر اعتماد کیا جاسکتا ہے، اور نہ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ کب تک تیاری کی جائے گی اور طاقت میں کس درجے میں توازن کی شکل پیدا ہونے کا انتظار کیا جائے گا۔
لیکن بہرحال اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ کی مدد کا قانون معطل ہو گیا۔ اب اہل ایمان اس کی مدد سے مایوس ہو جائیں۔ ہر گز نہیں، اگر اہل ایمان عمومی سطح پر ایمان اور عبدیت کی زندگی اختیار کرلیں اور اللہ کے دین کی مدد ونصرت کو اپنا اصل مطمح نظر بنالیں، اور اس راہ کی جدوجہد میں اپنے بس بھر سب کچھ کرڈالیں تو ان سے اللہ کا پختہ وعدہ ہے کہ وہ دنیا کے حالات میں اپنی غیب کی طاقت سے ایسی تبدیلی لائے گا جس سے ان کی جدوجہد کے راستے کھلیں گے، اور ان کے ذریعے دنیا کا بگاڑ ختم ہوکر اس میں خیر وصلاح اور انصاف ظاہر ہو گا۔

جنگ میں حصہ نہ لینے والے عوام کے جان و مال کی حرمت

جہاد فی سبیل اللہ پر غور کرتے وقت یہ حقیقت ضرور پیش نظر رہنی چاہیے کہ جہاد کی فضیلت کا راز نہ کشت وخون میں ہے، اور نہ خونریزی فی نفسہ کوئی اچھی چیز ہے۔ اس کی غیر معمولی فضیلت کا راز نصرت دین کاعظیم مقصد ہے ، مجاہد کی عند اللہ محبوبیت کا سبب یہ ہے کہ وہ اللہ کی محبت اور اس کے اجر وثواب کی طمع میں ان عظیم مقاصد کی خاطر خلوص دل سے مال وجان قربان کرتا ہے۔ اسلام کی نظر میں قتل وقتال ایک شر ہے، لیکن ظلم اور ’’فتنہ‘‘ اس سے بڑے شر ہیں۔ جہاد کی جنگ دنیا کو ظلم اور ’’فتنہ‘‘ وفساد کے عظیم شر سے بچانے کے لیے ہے۔ ’’والفتنۃ اکبر من القتل‘‘۔
اس لیے اسلامی شریعت حکم دیتی ہے کہ جنگ میں صرف ان ہی کو مارنا جائز ہے جوجنگ میں حصہ لے رہے ہیں، یا اس کے لیے تیار ہیں۔ محاربین (Belligerents) میں سے جو عملاً مقاتلین (Combatants) ہوں بس ان کو ہی نشانہ بنانا جائز ہے۔ (ہاں جو کوئی جنگ میں اپنے مشوروں اور دیگر خدمات سے شریک ہوگا اس کا بھی یہی حکم ہوگا)۔ بہرحال جنگ میں عملاً حصہ نہ لینے والے عوام کو کوئی نقصان پہنچانا جائز نہیں۔
ایک مرتبہ میدان جنگ میں آپؐ کو ایک عورت کی لاش ملی، آپ کو فکر ہوئی۔ ناراضگی کے عالم میں فرمایا: (ما کانت ہذہ لتقاتل)یہ کون سا جنگ کر رہی تھی جو اس کو مار دیا؟ پھر امیر جیش حضرت خالدؓ کو حکم کہلا بھیجا: نہ کسی عورت کو قتل کیا جائے اور نہ کسی مزدور غلام کو۔ (سنن ابوداؤد ۲۶۶۹ ومسند احمد ۱۷۱۵۸ ، ۵۹۲۳، نیز صحیح بخاری ۳۰۱۵) عورتوں اور بچوں کے قتل کے ممنوع ہونے کا آپؐ نے بار بار اعلان فرمایا ہے۔ صحاح ستہ میں متعدد صحابہ سے اس سلسلے کی روایات موجود ہیں۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا:
لا تقتلوا شیخاً فانیاً ولا طفلاً صغیراً ولا امرأۃ ولا تغلوا وضموا غنائمکم وأصلحوا ان اللہ یحب المحسنین۔ (سنن أبی داود، ۲۶۱۴)
’’نہ کسی بوڑھے ضعیف کو قتل کرنا اور نہ چھوٹے بچے کواور نہ عورت کو۔ مال غنیمت میں خیانت نہ کرنا۔ نیکی اور احسان کرنا، اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘
آپؐ نے عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کی طرح عزلت گزین عبادت گزاروں کو بھی قتل کرنے سے منع فرمایا۔ مسند احمد (حدیث ۲۷۲۳) میں حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ آپ ؐ جب کہیں لشکر روانہ فرماتے تو یہ ہدایت فرمادیتے کہ عبادت گاہوں کے لوگوں (یعنی خدام اور عبادت گزاروں) کو قتل نہ کیا جائے۔ امام مالک نے موطا میں نقل کیا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت یزیدؓ ابن ابی سفیانؓ کو شام کے علاقے کی ایک مہم پر روانہ فرمایا، یہ علاقہ عیسائی تھا۔ روانگی کے وقت حضرت ابوبکرؓ ساتھ میں کچھ دور تک رخصت کرنے گئے۔ خود پیدل اور حضرت یزیدؓ سوار۔ اس پر حضرت یزید نے عرض کیا: اے خلیفۂ رسول، یا تو آپ بھی سوار ہو جائیں یا مجھے اجازت دیں میں اتر کر پیدل چلوں۔ حضرت ابوبکر نے منع فرمادیا، اور کہا: نہ میں سوار ہوں گا اور نہ تم کو اترنے کی اجازت ہے، مجھے اللہ سے ایک ایک قدم پر ثواب کی امید ہے۔ پھرکچھ احکام دیے۔ جن میں یہ بھی تھا کہ:
’’تم کو کچھ ایسے لوگ ملیں گے جو کہیں گے کہ ہم نے عبادت کی خاطر دنیا چھوڑ دی ہے، تو ان سے کچھ تعرض نہ کرنا۔ اور میں تم کو دس باتوں کی تاکید کرتا ہوں۔ نہ کسی عورت کو قتل کرنا، نہ بچے کو، نہ بوڑھے ضعیف کو، کسی پھل دار درخت کو بھی نہ کاٹنا۔ کسی آبادی کو نقصان نہ پہنچانا۔اگر فوج کو غذائی کمی نہ پیش آئے تو بکری یا اونٹ بھی نہ ذبح کرنا۔ نہ کسی باغ میں آگ لگانا نہ ڈبونا۔ عہد شکنی نہ کرنا۔ مثلہ نہ کرنا۔۔۔‘‘۔ (موطا، ۸۵۸)
امام بیہقی (۹/۹۰) نے اس طرح کے احکام پر مبنی کچھ روایات خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی نقل فرمائی ہیں اور ان کی اسناد کے کمزور ہونے کے باوجود کثرت اسانید اور آثار صحابہ کی وجہ سے ان کو قوی قرار دیا ہے۔

ایک اشکال اور اس کا صحیح جواب:

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کبھی پورے قبیلے پر حملہ کیا تھا اور کبھی ان سب کو ہی قید کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ قیدی بنانا جنگ میں حملوں کا نشانہ بنانا ہی ہے۔ اسی طرح آپ نے کہیں کہیں سارے قبیلے کے مال پر بطور غنیمت قبضہ کیا ہے؟
دراصل عہد نبوی میں جہاں کہیں دشمن کی پوری آبادی کو نشانہ بنایا گیا وہاں کے بارے میں یہ بات معلوم ہے کہ پورے کے پورے قبیلے نے جنگ کی تھی۔ قبائلی معاشرے میں پورا قبیلہ ہی جنگ کرتا ہے۔ عربوں کے یہاں بھی عموما یہی طریقہ تھا۔ اسی لیے ہمیں نظر آتا ہے کہ پورے قبیلے کے خلاف کارروائی کی گئی۔ عہد نبوی کے بیشتر غزوات کے اس پہلو کو پیش نظر رکھنے سے بہت سی مشکلات حل ہوتی ہیں۔ غزوات نبوی کے مطالعے کے لیے یہ ایک اہم رہنما اصول ہے۔ بہت سے لوگوں کی نگاہ اس مخصوص پہلوکی طرف نہ جا نے کی وجہ سے بے شمار اشکالات پیدا ہو گئے۔اگر اس خاص پہلو کو مد نظر رکھا جائے تو یہ غلط فہمی نہیں پیدا ہو سکتی کہ جنگ سے کنارہ کش بے گناہ عوام کی املاک بھی ضبط کی جاسکتی ہیں۔ 
جہاں اس کے خلاف ہوا یعنی پوری آبادی نے جنگ میں حصہ نہیں لیا وہاں ہم کو نظر آتا ہے کہ جنگ سے دور رہنے والوں کو پورا تحفظ دیا گیا۔ ملاحظہ فرمائیں: 
مکہ نسبۃً ایک شہری ریاست تھا۔ فتح مکہ میں آپؐ نے عام منادی کردی تھی کہ جو اپنے گھر میں بیٹھ رہے وہ محفوظ ہے،جو دروازہ بند کرلے وہ محفوظ، جو ہتھیار ڈال دے وہ محفوظ ۔ (صحیح مسلم ۱۷۸۰) فوجوں کو حکم دیا گیا تھا کہ زخمی کو قتل نہ کیا جائے، اور پیٹھ پھیر کر بھاگنے والے کا پیچھا نہ کیا جائے (فتوح البلدان ۱/۵۳)اور سوائے چند جنگی مجرموں کے کسی سے تعرض نہیں کیا گیا۔ یہ جنگ میں حصہ نہ لینے والے عوام کے جان ومال کے محفوظ ہونے کا اعلان ہی تو ہے۔
اسی طرح صحابۂ کرام کے زمانے میں جن قوموں کے خلاف بھی جنگ کی گئی وہاں یہی اصول برتا گیا کہ جو لوگ جنگ سے دور رہے ان کے مال اور جان محفوظ مانے گئے۔ یہ امت کے قرون اولی کا عام تعامل ہے، اور اس سے زیادہ بڑی دلیل کیا ہو سکتی ہے؟ مسلمانوں کا اپنے مفتوحین کے ساتھ معاملہ ایسا دل موہ لینے والا ہوا کرتا تھا، اور جن علاقوں میں ان کی فوجیں گئیں تھیں وہ اپنے حکمرانوں کے ظلم اور استحصال سے اس قدر عاجز تھے کہ بس منظم فوجوں نے ہی ان کی کسی قدر مزاحمت کی۔ یہ منظم فوجیں حکمراں طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی ہوتی تھیں، جن کے مادی مفادات ان کو سابقہ نظام کی حفاظت کرنے پر آمادہ کرتے تھے۔ باقی ملک کے عوام سے اسلامی فوجوں کو کہیں بھی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا ، بلکہ بہت سی جگہوں پر تومقامی لوگ اسلامی فوجوں کا استقبال کرتے نظر آئے۔ اسلامی فوجوں نے ان کے عوام کی جان کو محفوظ سمجھا۔ جزیرۃ العرب کے باہر عراق سے لے کر ایران تک، اور شام سے لے کر مشرقی یورپ تک، اور افریقہ میں مصر سے لے کر مراکش اور الجزائر تک سارے علاقوں کے عوام کا خون اور مال واسباب محترم جانے گئے۔
ان مختلف مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام اس سلسلے میںآخری حد تک رحم اور انسانیت نوازی کا قانون رکھتا ہے۔ آج کے زمانے میں جب صرف منظم فوجیں ہی عموما جنگ کرتی ہیں،اس لیے رسول اللہؐ کی ان تعلیمات اور صحابۂ کرام کے اس طرز عمل کی بنا پرطے ہے کہ اسلامی قانون کی رو سے اصولاً صرف فوج اور فوجی تنصیبات ہی جنگی کارروائیوں کا نشانہ بن سکتی ہیں۔ غیر مسلح عوام اور عملا جنگ میں حصہ نہ لینے والے پوری طرح محفوظ ہونے چاہییں۔
اس سلسلے میں بڑی پریشانی اس وقت پیش آتی ہے جب ہم قدیم اسلامی مآخذ کی اکثریت میں ، فقہ کی کتابوں میں، حدیث کی شروح میں اور دیگر کتب میں کثرت سے اس طرح کی تصریحات دیکھتے ہیں کہ دشمن کا ہر عاقل بالغ مرد جو قتال پر قدرت رکھتا ہو وہ ’’محل قتل‘‘ ہے ۔ چوں کہ اوپر ذکر کیے گئے واضح دلائل کی روشنی میں یہ بات صاف ہو چکی ہے کہ شریعت نے صرف عملاً قتال میں حصہ لینے والوں کو یا اس کی تدبیر میں دیگر خدمات کے ذریعہ شریک رہنے والوں کو ’’محل‘‘ قتال مانا ہے یعنی قتل کرنے کی اجازت دی ہے،اس لئے علماء کی ان تصریحات کواسی کی روشنی میں سمجھا جائے گا اور کہا جائے گاکہ ان کی مراد بھی یہی ہے کہ دشمن ملک کے جنگ سے عملاََ کنارہ کش رہنے والے بے شمار بے گناہ عوام کا جان مال محفوظ ہے ۔اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے ہمیشہ جنگوں میں اسی پر عمل کیا ہے اور کبھی بھی جنگ میں عملاًحصہ نہ لینے والوں کو قتل نہیں کیا ۔
جدید دور میں جب غالباََ تاریخ میں پہلی مرتبہ مسلمانوں کے علاوہ دوسری قوموں کو بھی یہ شعور نصیب ہوا کہ جنگ کو اخلاقی قوانین اور مہذب ضابطوں کاپابند بنایا جائے،تو ان میں کے بعض کوتاہ بینوں نے بڑھ بڑھ کر اسلامی جہاد پر اعتراض کرنے شروع کئے ۔اسی دور میں مولانا مودودی نے اپنی مفید کتاب الجہاد لکھی۔مگر نہایت حیرت ہے کہ مولانا جیسا واقف آدمی جو عصرحاضر کی نفسیات اوراعتراضات سے واقف تھا ،اس جگہ اسی قدیم تعبیر پر راضی ہو گیا کہ ہر جوان مرد اہل قتال میں مانا جائے گا اور اس کو قتل کرنا جائز ہوگا۔ لکھتے ہیں:
’’اہل قتال وہ ہیں جو عملاً جنگ میں حصہ لیتے ہیں، یا عقلاََ وعرفاََحصہ لینے کی قدرت رکھتے ہیں، یعنی جوان مرد‘‘ 
آگے ان لوگوں کے بارے میں مولانا لکھتے ہیں کہ اسلام نے ان کو ’’قتل کرنے کی اجازت دی ہے‘‘۔ مزید لکھتے ہی کہ ’’اسلامی قانون کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر شخص جو اہل قتال میں سے ہے ( یعنی جوان مردجیسا کہ مولانا نے پہلے تصریح کی ہے ) اس کا قتل جائز ہے‘‘۔ ( الجہاد صفحہ ۲۲۲ ۔۲۲۴)
بہر حال جن لوگوں نے یہ سمجھا ہے کہ سارے ہی وہ لوگ قتل کیے جاسکتے ہیں جو جنگ میں حصہ لینے کے قابل (Potential Combatants) ہوں، چاہے انہوں نے عملا جنگ میں حصہ نہیں لیا ہو، انہوں نے احادیث کے پورے مجموعے کو سامنے نہیں رکھا، اور صحابۂ کرام کے طرز عمل پر بھی غور نہیں کیا، اور غلط فہمی کے شکار ہوے۔ یہ بات اسلام کے عام مزاج اور انسان دوستی کے فطری اصول کے بھی خلاف ہے، اور اس کے حق میں کوئی دلیل بھی نہیں ہے۔

جنگی قیدی

جنگی قیدیوں کے متعلق رسول اللہ ؐ نے نہایت نرمی اور حسن سلوک کے احکام دیے تھے۔ قرآن نے جنت کے اعلیٰ مقامات تک پہنچنے والوں کی یہ صفات بیان کی ہیں: 
وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَی حُبِّہِ مِسْکِیْناً وَیَتِیْماً وَأَسِیْراً (الانسان: ۸)
’’ا ور یہ لوگ کھانا کھلاتے تھے، کھانے کی محبت کے باوجود، مسکین کو، اور یتیم کو اور قیدی کو۔‘‘
آنحضرتؐ سے اس سلسلے میں بڑی نصیحتیں مروی ہیں۔ غزوۂ بدر کے قیدیوں کے بارے میں آپؐ نے صحابۂ کرام کو حسن سلوک کی اس طرح تاکید کی کہ لوگوں نے قیدیوں کواپنے سے اچھا کھانا کھلایا اور خود موٹے جھوٹے پر بسر کی۔ ایک صاحب کا قیدی انسانیت کا یہ نمونہ دیکھ کر شرما گیا کہ گھر والے غربت کی وجہ سے کھجور پر گزارہ کرتے ہیں اور قیدی کو روٹی سالن کھلاتے ہیں۔ غیرت مند قیدی نے کہا بھی کہ یہ کیوں؟ میں کھجور کھالوں گا تم روٹی سالن لو۔ مگر مسلمان نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ ہمارے رسولؐ نے قیدیوں کے ساتھ اچھے سلوک کی تاکید کی ہے۔ (سیرت ابن ہشام: ۱/۶۷۵)
قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد نبوی میں مسلمانوں کے لیے اس وقت تک قیدی بنانے کی اجازت نہیں تھی جب تک اچھی طرح دشمن کو مغلوب نہ کر لیا جائے۔ غزوۂ بدر میں اگرچہ مشرکین کو میدان میں شکست ہو گئی تھی لیکن ان کا زور ٹوٹا نہیں تھا۔ وہ بھاگ ضرور گئے تھے لیکن یہ ان کی مکمل شکست نہیں تھی۔ کسی کو بھی یہ گمان نہیں تھا کہ ان کا زور بالکل ٹوٹ گیا ہے اور اب ان میں دشمنانہ کارروائیاں کرنے کی سکت نہیں رہی۔ مکہ والوں نے جب میدان چھوڑنا شروع کیا تو مسلمانوں نے اس خیال سے کہ بھرپور فدیہ ملے گا گرفتاری شروع کر دی۔ اس وقت ایسا تو کوئی انتظام تھا ہی نہیں جس کے تحت دشمن کے مقاتلین کو خاتمۂ جنگ تک قید رکھا جاسکے۔ قرآن مجید میں سخت تنبیہ آئی کہ دشمن کی طاقت کا خاتمہ کرنے سے پہلے قید ی بنا لینے کا کیا جواز ہو سکتا ہے۔ اس سے اگرچہ تم کو فدیہ کی شکل میں فی الوقت کچھ مل جائے گا مگر دشمن کی طاقت برقرار رہے گی۔ تم کو پہلے میدان جنگ میں اچھی طرح فوجوں کا صفایا کرنا چاہیے تھا، تاکہ دشمن کا زور بالکل ٹوٹ جائے۔ اس موقعے پر یہ آیت نازل ہوئی۔
مَا کَانَ لِنَبِیٍّ أَن یَکُونَ لَہُ أَسْرَی حَتَّی یُثْخِنَ فِیْ الأَرْضِ تُرِیْدُونَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَاللّٰہُ یُرِیْدُ الآخِرَۃَ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ (الانفال: ۶۷)
’’کسی نبی کے لیے (دشمن کا )اچھی طرح خون بہا لینے سے پہلے قیدی بنانا مناسب نہیں ہے۔ تم دنیا کا فائدہ چاہتے تھے، اور اللہ آخرت کا۔‘‘
قرآن میں اس سے پہلے ہی الگ سے یہ حکم دیا جا چکا تھا کہ منکرین حق سے جب جنگ ہو تو پہلے اچھی طرح خون بہا کر دشمن کو زیر کر لیا جائے، اس کے بعد قید کیا جائے۔ اور ان قیدیوں کے بارے میں یہ اصولی حکم بطور قاعدۂ عامہ دے دیا گیا تھا کہ ان کو احسان کر کے چھوڑ دیا جائے یا ان کے بدلے میں اپنے قیدی رہا کرائے جائیں یا کچھ مالی معاوضے کے عوض ان کو رہا کر دیا جائے۔
فَإِذا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّی إِذَا أَثْخَنتُمُوہُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنّاً بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً (محمد: ۴)
’’ جب ان منکرین حق سے مڈ بھیڑ ہوتو پہلے قتل کرو، یہاں تک کہ جب تم ان کو بالکل مغلوب کر لو تو قید کرو، پھر یا تو احسان کرکے چھوڑ دویافدیہ لے کر رہا کردو۔‘‘
اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ سورۂ انفال کی مذکورہ بالا آیت کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ مسلمان قیدیوں کا فدیہ نہ لیں بلکہ ان کو قتل کر دیں۔اور نہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ فدیہ لینا دنیاطلبی ہے ۔بلکہ جیسا کہ ہم آگے تفصیل سے واضح کریں گے کہ سورۂ محمد کی آیت نے واضح کیا ہے کہ جنگی قیدیوں کو ( بلا کسی دوسرے موجب قتل جرم کے) قتل کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے ۔قیدیوں کے لئے توصرف دو ہی امکانات ہیں: یا تو احسان کر کے چھوڑ دینا یافدیہ لے کر چھوڑ دینا۔ لہٰذا جب خود قرآن جنگی قیدیوں کو فدیہ لے کر آزاد کرنے کو کہہ چکا ہے تو یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ فدیہ لینا دنیا طلبی ہے۔ قرآن نے جس چیز کو دنیا طلبی کہا ہے، وہ مسلمانوں کی یہ غلطی تھی کہ انہوں نے دشمن کو اچھی طرح نقصان پہنچائے بغیر فدیہ کی طلب میں گرفتاریاں شروع کر دیں۔ اس نکتے کو ملحوظ رکھنے سے ہم جیسے طلبۂ علم کا ایک بڑا اشکال حل ہوتا ہے۔
ان دونوں آیتوں میں غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ دشمن کی قوت کے خاتمے سے پہلے قیدی بنانے کی ممانعت کا مقصد مکمل طور پراس کو زیر کر لینا ہے۔ لہٰذا اگر قیدی بنانے کا نتیجہ یہ نکلے کہ قیدی چھوٹ کر دوبارہ لڑنے کو آئیں تو یقیناًیہی حکم ہو گا اور ایسی صورت میں قیدی بنانا منع ہو گا۔ لیکن اگر کسی ملک کے لیے قیدیوں کو اس وقت تک روکے رکھنے کا انتظام ہو جب تک دشمن مکمل طور پر زیر نہ کر لیا جائے تو اس کے لیے اس کی گنجائش ہو سکتی ہے کہ وہ دشمن جنگ جوؤں کو قید بنائے اور اس وقت تک قید کر کے رکھے جب تک جنگ نہ ختم ہو جائے۔

غلامی کامسئلہ

غلامی یقیناً کسی بھی انسان کے لئے ایک المناک حقیقت ہے۔ جو عہدجدید تک انسانی دنیا کے بیشتر علاقوں میں اور کہیں کہیں اپنی بدترین ہولناک ظالمانہ شکلوں میں باقی رہی۔ اسلام کے قانون جنگ کے سلسلے میں جو سوالات سب سے زیادہ ذہنی الجھن کے سبب بنتے ہیں ان میں ایک سوال یہ بھی ہے کہ اسلام ہمدردی انسان کے اپنے عام مزاج اور نوع انسانی کی تکریم کے اعلانات کے ساتھ کیسے یہ روا رکھتا ہے کہ کسی انسان کو اس درجہ مجبور بنائے کہ وہ اپنی ذات تک کے بارے میں کسی فیصلہ کا اختیار نہ رکھتا ہو اور اس کو خریدا اور بیچا جاسکے؟

اسلام کی غلامی مغرب والی غلامی نہیں ہے:

اس سوال کا جواب جاننے سے پہلے ایک وضاحت کی ضرورت ہے۔
ہمارے زمانے کے ممتاز محقق سرآمد علماء اسلام حضرت مولانا محمد تقی عثمانی مدظلہم وطال بقاؤہم نے اپنی مایہ ناز تصنیف ’’تکملہ فتح الملہم‘‘ میں اس سلسلے میں ایک بڑے اہم نکتہ کی طرف توجہ دلائی ہے اور وہ یہ کہ مسلمانوں کے یہاں جو غلامی تھی، وہ اس غلامی سے بالکل الگ چیز تھی، جو یونانیوں، رومیوں بلکہ ماضی قریب تک مغرب میں پائی جاتی تھی۔ مشہور مستشرق گستاؤ لیبان نے اپنی کتاب تمدن عرب میں اس کی طرف توجہ دلائی ہے کہ عربوں کی غلامی کے تذکرے کے وقت یونان وروم بلکہ ماضی قریب کی یورپ میں پائے جانے والے ان غلاموں کی طرف ذہن چلا جاتا ہے جو نہ پیٹ بھر غذاپاتے تھے نہ تن ڈھاکنے کو کپڑا، ان کے ساتھ بلا مبالغہ جانوروں سے بد تر سلوک کیا جاتا تھا۔ گستاؤ لیبان کہتا ہے کہ عربوں کی غلامی کو اس پر قیاس کرنا سنگین غلط فہمی کا باعث ہے۔
واقعہ بھی یہی ہے کہ مغربی اقوام کی خونچکاں تاریخ سے جو کچھ بھی واقفیت رکھتا ہوگا، غلامی کا نام سنتے ہی اس کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے۔ ایک منظر رومیوں کے اعلیٰ طبقات کے محلات کا سامنے آتا ہے کہ دعوت میں مہمان آرہے ہیں اور ایک میدان میں چاروں طرف محفوظ کرسیوں پر بٹھائے جارہے ہیں۔ پنجرے میں کئی دن کا بھوکا شیر غضبناک ہو رہا ہے۔ اب ایک غلام لایا گیا اور میدان میں کھڑا کرکے اس پر شیر چھوڑ دیا گیا، دھاڑتے ہوئے شیر جھپٹا، زوردارتالیاں بجیں، قہقہوں کے شور میں غلام نے جان دے دی۔ 
Gladiators کا ایک کھیل ہوتا تھا، اس کھیل کے لیے باقاعدہ اسٹیڈیم ہوتے تھے۔ امراء کے غلاموں کو اس کھیل کے ذریعے تقریبات میں مہمانوں کے لیے تفریح کا اس طرح سامان کرنا ہوتا تھاکہ کوئی غلام تلوارلے کر میدان میں کودتا اور کسی درندے سے مقابلہ کرتا تھا، شیر جیتے یا غلام، مگر امراء کا طبقہ محظوظ دونوں صورتوں میں ہوتا تھا۔
پھر ابھی آخری دور میں مغرب نے استعمار کے زمانے میں غلامی کے نام پر انسانوں کے ساتھ جس درندگی کا نمونہ قائم کیا ہوا تھا، اس کی تفصیلات کے لیے تاریخ کی کتابوں کے علاوہ صرف انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کافی ہے۔ اس بربریت کی خیالی تصویریں آج بھی یورپ کے میوزیموں میں Display پر رکھی ہوئی ہیں۔ راقم کو برٹش میوزیم میں ان کو دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ سیکڑوں سیکڑوں غلاموں کو زنجیروں میں قید کر کے سمندری جہازوں میں اس طرح ٹھونس کر امریکہ اور افریقہ سے یورپ لایا جاتا تھا کہ ان میں سے بسا اوقات آدھے راستے میں مر جاتے، اور ان کے’’ انسانیت نواز‘‘ مالکوں کو کچھ فکر نہ ہوتی تھی۔ مغرب کی اسی تاریخ کا نتیجہ ہے کہ غلامی کا نام سنتے ہی نگاہوں کے سامنے کچھ دہشت ناک منظر سامنے آنے لگتے ہیں۔
دوسری طرف اسلامی معاشرے میں غلام بلا مبالغہ ایک با عزت کردار ادا کرتے تھے۔ وہ یا تو ملازموں کی حیثیت میں ہوتے تھے یا اہل حرفہ میں۔ اور آخر میں تو ان کا خاص کردار حکومت اور فوج کی باعزت اور باتنخواہ ملازمت ہو تی تھی۔ یہاں میں پھر کسی اسلامی ماخذ کے بجائے بریٹانیکا میں غلامی کے موضوع پر موجود مقالے اور آج کل کی مقبول عام انسائیکلوپیڈیا وکی پیڈیا کا حوالہ دوں گا۔
(http://en.wikipedia.org/wiki/History_of_slavery#Slavery_in_the_Arab_World)

اسلام اور غلامی:

اوپر گزر چکا ہے کہ قرآن مجید نے اسیران جنگ کے بارے میں حکم دیا ہے کہ ان کو یا تو فدیہ کے بدلے یا احسان کے طور پر یوں ہی چھوڑ دیا جائے۔ اور یہی اسلام کا اصل قانون ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہ ؐ نے اپنی بعض جنگوں میں مفتوح قبائل کے قیدی مردوں کو غلام اور قیدی عورتوں کو باندی بنایا۔ سو اس کا سبب کیا ہے؟ اور یہ کس قانون یا رخصت کے تحت؟ اس موضوع پر تفصیلی گفتگو کی ضرورت ہے۔

قرآن نے غلامی کو اسلام کے اصل قانون جنگ سے خارج کر دیا ہے:

یہاں اس حقیقت کو لازمی طور پر پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ قرآن نے غلامی کا بحیثیت ایک موجود حقیقت کے تذکرہ تو کیا ہے، لیکن اس کے قانون جنگ میں (جس کو اس نے تفصیل سے بیان کیا ہے) غلامی کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ بلکہ آپ غور کیجیے تو اس نے یہ بھی تصریح کی ہے کہ جنگی قیدیوں کے بارے میں مسلمانوں کے لیے اصلا صرف دو امکانات ہیں:
۱۔ احسان کرتے ہوئے چھوڑ دینا۔
۲۔ یافدیہ لے کر یا اپنے قیدی کے بدلے میں(جو فدیہ کی ہی ایک شکل ہے) چھوڑ دینا۔
قرآن کے الفاظ میں غور کیجیے:
فَإِذا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّی إِذَا أَثْخَنتُمُوہُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنّاً بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاء (محمد: ۴)
جب ان منکرین حق سے مڈ بھیڑ ہو تو پہلے قتل کرو، یہاں تک کہ جب خوں ریزی کے نتیجے میں وہ بالکل مغلوب ہو جائیں تو قید کرو، پھر یا تو احسان کرکے چھوڑ دو اور یا فدیہ لے کر رہا کردو۔
اس آیت میں اصل غور طلب لفظ ’’امّا‘‘ ہے جس کا اردو ترجمہ ’’یاتو‘‘ سے کیا گیاہے۔ علماء جانتے ہیں کہ عربی زبان میں جب کسی دو یا دو سے زیادہ چیزوں کے امکان کو لفظ ’’امّا‘‘ کے ذریعے بیان کیا جاتا ہے تو اس میں ان چیزوں کے علاوہ کوئی اور امکان نہیں ہوتا۔ عربی زبان کی رو سے یہ بات بالکل قطعی ہے کہ ’’امّا‘‘ تخییر یعنی دو چیزوں (Alternatives) کے درمیان اختیار دینے کے لیے اس طور پر ہی آتا ہے کہ کلام میں مذکور امور کے علاوہ کسی اور چیز پر عمل متکلم کے منشأ کے خلاف ہوتا ہے۔ مثلا ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ؐ حضرت حضرت سعد بن عبادہ کے یہاں گئے۔ واپسی میں حضرت سعد نے آپ کی سواری کے لیے گدھا حاضر کیا اوراپنے بیٹے قیس سے کہا حضرتؐ کو گھر تک پہنچا کے آؤ۔ قیس ادباً پیدل چلے، آپ ؐ نے کہا: آؤ بیٹھ جاؤ، انہوں نے جھِجک دکھائی اور اسی میں سعادت سمجھی کہ پیدل ہی پیچھے پیچھے چلیں، آپؐ نے فرمایا: اِمّا اَن ترکب واِما اَن تنصرف‘‘۔ یعنی یا تو سوار ہوجاؤ یا واپس جاؤ۔آپ غور کریں تو اس عبارت کا واضح مطلب یہ ہے کہ تمہارے لیے ان دو کے علاوہ تیسری بات کی اجازت نہیں ہے۔
ایک اور روایت کے الفاظ پر غور کیجیے: حضرت عمر بازار گئے تو دیکھا کہ حاطبؓ بازار سے کافی کم بھاؤ میں منقّہ بیچ رہے ہیں۔ حضرت عمر نے محسوس کیا کہ اس سے عام لوگوں کا نقصان ہورہا ہے، اس لیے فرمایا:
اِما أن تزید فی السعر واِما أن ترفع من سوقنا
’’یا تو قیمت بڑھاؤ، یا بازارسے سامان اٹھا لو۔‘‘
اس جملے میں غور کیجیے، کیا حضرت عمر کی مراد میں اس کی کوئی گنجائش ہے کہ حاطبؓ ان دونوں باتوں کے علاوہ کچھ اور کریں؟ عربی زبان میں ’’اِمّا‘‘ کا یہی مفہوم ہوتا ہے کہ متکلم کی بتلائی ہوئی دو یا چند باتوں میں سے ہی کوئی ایک کام کر لیا جائے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپ کسی سے یہ کہیں کہ ’’أرجوک أن تزورنی اِمّا یوم الخمیس واِما السبت‘‘ (تم یا تو میرے پاس جمعرات کو آنا یا پھر سنیچر کو‘‘۔ اس صورت میں آپ اس کو اختیار دے رہے ہیں کہ وہ چاہے جمعرات کو آئے یا سنیچر کو۔ دونوں دِنوں میں سے وہ جس دن بھی آجائے وہ آپ کی بات ماننے والا ہی قرار پائے گا۔ لیکن اگر وہ جمعہ کو آجائے تو یقیناًحکم کی خلاف ورزی ہوگی۔ اکیلی یہی مثال مسئلے کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔
بعض بزرگوں نے یہاں ’’اما‘‘ کا مفہوم ’’تخییر لا الی جمع‘‘ قرار دیا ہے یعنی سارے اختیارات Alternatives پربیک وقت عمل کرنے سے منع کرنا، لیکن یہ بات بے اصل ہے۔ ہم نے ابھی اوپر جو مثال دی ہے اس سے کوئی یہ نہیں سمجھے گا کہ آپ مخاطب سے صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تم جمعرات اور سنیچر دونوں دن نہ آنا بس ایک دن آنا۔ اب اگر وہ جمعہ کو آجائے تو کوئی حرج نہیں۔
بالکل یہی بات مذکورہ آیت سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ قیدیوں کے بارے میں صرف دو اختیارات ہیں جن میں سے کسی ایک پر عمل کو لازم ہے۔ ’’یا تو احسان کرکے چھوڑ دو، یا فدیہ لے کر چھوڑ دو۔ یہاں اس کا امکان ہی کیا ہے کہ فدیہ اور احسان میں جمع کیا جائے۔ قیدی کو یا فدیہ لے کر چھوڑا جائے گا یا مفت احسان کر کے۔ دونوں بیک وقت جمع ہو ہی کہاں سکتے ہیں؟ لہٰذا یہاں اِمّا کو ’’تخییر لاالیٰ جمع‘‘ کے معنی میں کہنا ایک بے معنی بات ہوئی۔
اس تفصیل سے یہ بات بالکل واضح اور بے غبار ہوگئی کہ قرآن کی اس آیت میں جنگی قیدیوں کے لیے صرف ان مذکورہ دونوں باتوں (یعنی بلا فدیہ یا فدیہ پر رہائی) کے علاوہ کسی کی گنجائش نہیں ہے۔

رسول اللہؐ کا عام عمل غلام بنانا نہیں تھا

اسی طرح حدیث کے ذخیرے میں میرے مطالعے کی حد تک غلام بنانے کا تذکرہ بطور قانون نہیں ہے۔ ہاں آپؐ نے کچھ لوگوں کو غلام بنایا ہے۔ لیکن آپ کے زمانے کے غلاموں کی اکثریت آپؐ یا مسلمانوں کے بنائے ہوئے غلاموں کی نہیں تھی، بلکہ اکثروہ غلام تھے جو پہلے سے چلے آرہے تھے۔ خود آں حضرتؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل سے یہ بات بالکل طے ہو جاتی ہے کہ قیدیوں کے بارے میں آپ کا اصل دستوراحسان کے طور پر رہائی یا فدیہ لے کر چھوڑ دینا ہی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جنگوں میں اصلا اسی پر عمل کرتے تھے۔ آپ نے اکثر جنگوں میں قیدیوں کو فوراً احسان کے طور پر آزاد کردیا، اور اگر روکاتو اپنے قیدیوں کو چھڑانے کے لیے۔اور کبھی مالی فدیہ لے کر ان کو آزاد کردیا۔
بدر میں کچھ کو احسان کے طور پر اور اکثر سے فدیہ لے کر آزاد کیا۔ صلح حدیبیہ سے پہلے مکے کے ۸۰ لڑاکؤوں کے دستے نے مسلمانوں پر حملہ کیا اور سب کے سب گرفتار ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلا فدیہ چھوڑ دیا۔ (صحیح مسلم۱۸۰۸) مکہ آپؐ نے جنگ کرکے فتح کیا، مگر سب چھوڑے گئے۔ عربوں کے نہ جانے کتنے قبیلے مفتوح ہوئے، اور مسلمان فوجوں نے کسی کو غلام نہیں بنایا۔ 
ہوازن کے چھ ہزار قیدی پکڑے گئے، ہوازن شدید دشمنی رکھتے تھے، بڑے جوش وخروش سے لڑے۔ پھر بھی آپؐ تقریباً دو ہفتے تک انتظار کرتے رہے کہ وہ اطاعت کا اظہار کریں اور اپنے قیدی چھڑا لیں۔ ایسے دشمن کی طرف سے اطاعت کے اظہار سے پہلے اس کے قیدی چھوڑنے کا نتیجہ سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہو سکتا تھا کہ ایک مرتبہ پھر جنگ کے لیے اس کو موقعہ دیا جائے کہ وہ مسلمانوں کے لیے خطرہ بنے۔ اسی انتظار میں کہ ان کی طرف سے اطاعت کا اظہار ہو آپ نے دو ہفتے تک مال غنیمت اور قیدی نہیں باٹے۔ آخر جب وہ نہیں آئے تو قیدی لوگوں میں باٹ دیے گئے۔ قیدیوں کو روکے رکھنے کا اور کوئی انتظام نہیں ہو سکتا تھا۔ پھر تقریباً دو ہفتے بعد ہوازن کے کچھ ذمے دار آئے اور آکر مطیعانہ رویے کا اظہار کیا، اور عفو وکرم کی درخواست کی کہ جانیں اور مال بخش دیے جائیں۔ آپؐ سب کچھ باٹ چکے تھے، اور ساتھ میں صرف قدیم تربیت یافتہ مسلمان نہیں تھے، بلکہ عیینہ بن حصن اور عباس بن مرداس جیسے غیر تربیت یافتہ بدو سردار بھی تھے، جو مال غنیمت کے حریص تھے۔ آپؐ نے ہوازن کے لوگوں سے کہا: میں نے تمہارا بڑا انتظار کیا، سچی بات کہہ دوں کہ اب میری کچھ مجبوریاں ہیں، تم کو اندازہ ہے کہ میرے ساتھ اس وقت کس قسم کے لوگ ہیں۔ تم مال یا اپنے قیدیوں میں سے کسی ایک چیز کو لے جاؤ۔ (اختاروا احدی الطائفتین امّا السبی واما المال۔ ایک چیز لے لو، یا قیدی یا مال)۔ انہوں نے اپنے قیدیوں کو چھوڑنے کی درخواست کی۔ آپؐ قیدیوں کو بطور غلام باٹ چکے تھے۔ پھر بھی آپؐ نے لوگوں سے سفارش کر کے ان کو چھڑا کر دیا۔ (صحیح بخاری: ۴۳۱۹، ۲۶۰۸)
اس کے علاوہ حدیث کے ذخیرے میں قیدیوں کی رہائی کے بہت سے واقعات موجود ہیں۔اسی طرح یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ خلفاء راشدین کے دور میں اور بعد میں بھی مسلمانوں نے لوگوں کو پکڑ کر غلام نہیں بنایا۔ نہایت کثیر تعداد میں علاقے فتح ہوئے مگر مسلمانوں نے نہایت ہی قلیل تعداد میں اور بالکل استثنائی طور پر مجبوری کے تحت ہی کسی کو غلام بنایا ہے۔ مصر، شام، عراق، افریقہ آرمینیا اور ایران کی فتوحات میں بے شمار علاقے یا گاؤں بزور شمشیر فتح ہوئے ۔ ان کے لاکھوں لوگوں کو (خصوصا فوجیوں اور حکومتی عملے کو) غلامی میں لے لینے کا امکان بھی تھا، اور زمانے کے عرف اور مسلّم بین الاقوامی قانون کے تحت جواز بھی۔ اگر مسلمان ان سب کو غلام بنا لیتے تو ان پر تنقید وملامت بھی نہ ہوتی۔ مگر مسلمانوں نے کسی کو غلام نہیں بنایا۔ آپ تاریخ کی کتابوں (مثلاً فتوح البلدان) کو دیکھتے جائیے، دسیوں مثالیں ملیں گی کہ جو علاقے فتح ہوتے تھے حضرت عمر کافرمان پہنچتا کہ لوگوں کے اوپر جزیہ لگادو اور زمین پر خراج۔
لہٰذا رسولؐ اللہ کے اس عمومی عمل اور اسلامی تاریخ اور خصوصاً صدر اول کے تعامل سے پتہ چلتا ہے کہ اصل اسلامی قانون قیدیوں کی گرفتاری کے بعد احسان کے بطور رہائی یا فدیہ لے کر چھوڑنا ہی ہے۔ غلامی ایک نہایت نادر استثناء کے علاوہ کچھ نہیں۔

غلامی ایک مجبوری کا حل تھی نہ کہ مستقل دستور:

قرآن سے پہلے دنیا کے کسی قانون میں ہم کو غلامی کی ممنوعیت یا جنگوں میں غلام بنانے کی مذمت نہیں ملتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صدر اول کے مسلمانوں نے جو کچھ غلام بنائے ہیں اس پر غور کرنے سے پہلے ایک تاریخی حقیقت کی طرف ذرا نظر کر لیجیے۔ اس زمانے میں یہ کیسے ممکن تھا کہ جب تک دشمن مطیع نہ ہو اور جنگوں کا سلسلہ جاری ہو اس وقت بھی اس کے قیدیوں کو رہا کیا جائے۔ اس سے تو دشمن کو کمک ملتی رہے گی۔ یہ ایک عملاً ناممکن بات تھی۔ دوسری طرف یہ بھی واضح رہے کہ تمدنی حالت نے اتنی ترقی نہیں کی تھی کہ قیدیوں کے لیے جیل وغیرہ کا انتظام ہو اور ان کے مالی بوجھ کو برداشت کرنا حکومت کے لیے آسان ہو۔ 
لہٰذا غلامی دراصل اس مجبوری کا ایک نظام تھی نہ کہ اسلام کے قانون جنگ کا کوئی مستقل حصہ۔ اس زمانے میں غلامی ایک تکلیف دہ لیکن واقعاتی حقیقت تھی جس سے مفر نہیں تھا۔ اسلامی شریعت نے اس کو اپنے اصل قانون سے خارج کیا، اور جنگی قیدیوں کے بارے میں اصل قانون یہی بتایا کہ ان کو احساناًیا فدیہ لے کر رہا کیا جائے یا کسی قیدی کے بدلے میں چھوڑا جائے۔لیکن یہ کیسے ممکن تھا کہ دشمن تو غلام بنانے کا دستور رکھے اور مسلمان اس کے قیدیوں کو آزاد کر دیں؟ ایسا کبھی ممکن نہیں ہو سکتا۔ مسلمانوں کے جو آدمی دوسروں کے یہاں قید ہوکر جاتے غلام بنائے جاتے۔ اب اگر مسلمان اعلان کر دیتے کہ وہ غلام بنانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے ہیں تو اس کا نتیجہ یہی نکلتا کہ ان کے لوگوں کی بڑی تعداد غلام بنا لی جاتی اور دشمن کو انکی طرف سے یہ بالکل خطرہ نہیں ہوتا کہ اس کے آدمی بھی غلام بنائے جاسکتے ہیں۔
اس لیے جو نہایت قلیل تعداد میں غلام بنائے گئے وہ حالات کی اسی مجبوری کے تحت ایک استثنائی عمل تھا، اسلام کا اصل قانون نہیں۔ 

آج کے زمانے میں غلامی کا جواز نہیں:

بہر حال اس تفصیل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ غلامی کا دستور اسلام کے قانون جنگ کا حصہ نہیں ہے۔ اسلام نے اس کا کوئی مستقل جواز نہیں رکھا ہے۔ ابتدائی زمانے میں جنگی قیدیوں کو روکے رکھنے کی اس کے علاوہ اور کوئی شکل نہیں تھی۔ اس لیے اس پر عمل کیا گیا تھا۔ یہ ایک مجبوری کا اور استثنائی عمل تھا۔ جدید دور میں جب کہ تمدنی ارتقا نے اس مجبوری کا حل نکال دیا ہے اسلام کا اصل حکم یعنی قیدیوں کو جب تک ضروری ہو قید رکھنا، اور اس کے بعد بدلہ لے کر یا یوں ہی چھوڑدیناہی اسلامی قانون ہوگا : ’’فشدوا الوثاق، فاِما منا بعد واِما فداءً‘‘۔
ہاں اگر ویسی ہی صورت حال پھر عود کر آئی جیسی قدیم زمانے میں تھی (یا کوئی اور اسی درجے کی مجبوری ہوئی) تو اسی استثنائی عمل کو پھر جواز حاصل ہوجائے گا۔

عمومی تباہ کاری کی ممانعت

اسلام کی عمومی تعلیمات کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ جنگ کے دوران قتل عام کرنا ، غیر مسلح اور جنگ سے ہاتھ کھینچنے والوں کا خون بہانا ، مال واسباب میںآگ لگانا اور عمومی تباہی و بربادی پھیلانے کو وہ کسی طرح پسند نہیں کر سکتا۔ 
آں حضرت ؐ کا ارشاد ہے کہ:
الغزو غزوان فاما من ابتغیٰ وجہ اللہ واطاع الامام وأنفق الکریمۃ ویاسر الشریک واجتنب الفساد کان نومہ ونبہہ اجراً کلہ۔ وأما من غزا ریاء و سمعۃ و عصی الامام وافسد فی الارض فانہ لا یرجع بالکفاف (سنن نسائی ۳۱۳۷۔ مسند احمد ۲۱۵۳۷)
’’جنگیں دو طرح کی ہوتی ہیں : سو جو اللہ کی رضا وخوش نودی کے لئے جنگ کرے، امیر کی اطاعت کرے، اپنا اچھا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرے۔ اپنے ساتھی کے ساتھ اچھا معاملہ کرے ، اورفساد اور بگاڑ سے بچے تو اس کا سونا جاگناسب( اللہ کے راستے میں ہے اور ) موجب ثواب ہے ، مگر جو دکھاوے کے لئے نکلے ، امیر کی نہ مانیاور زمین میں تباہی اور فساد مچائے تو یہی نہیں کہ اس کو ثواب نہیں ملے گا بلکہ الٹا گناہ لے کر آئے گا۔‘‘
یہیں سے پتہ چلتا ہے کہ عمارتوں اور کھیتیوں اور باغات کو اور دیگر شہری تنصیبات کی تباہی اسلام کے جنگی قانون میں جواز نہیں رکھتی۔ مگر جنگ کے دوران دشمن کو زک پہنچانے ، اور اس کے گرد قائم حفاظتی حصار کو توڑنے یا کسی دیگر جنگی مصلحت کے لئے اس کے باغات یا عمارتوں یا قلعوں کو تباہ کرنے کی ضرورت ہو تو اس کوایک ناپسندیدہ مگر ناگزیر کام سمجھ کر کرنا اسی طرح جائز ہوگا جس طرح قتل کرنا اصلا منع ہے ، مگر کبھی نہ کبھی دنیاکو عمومی شر و فساد سے بچانے کے لئے ایسا کرنا پڑتا ہے۔
بنی نضیر کے قبیلے نے مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ کیا، او ر پھر بد عہدی ہی نہیں کی بلکہ آں حضرت ؐ کو دھوکے سے قتل کرنا چاہا ، جس کے نتیجہ میں غزوۂ بنی نضیر ہوا۔ اس غزوہ میں مسلمانوں نے بنی نضیر کے قلعوں کے ارد گرد کے کچھ باغات میں آگ لگائی۔ (صحیح بخاری ۴۰۳۱، صحیح مسلم ۱۷۴۶) یہود کی جانب سے اس پر اعتراض کیا گیا، اور غالباً جیسا کہ خود قرآن میں غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ کچھ مسلمانوں کے دلوں میں بھی اشکال پیدا ہوا تو یہ آیت اتری:
مَا قَطَعْتُم مِّن لِّیْنَۃٍ أَوْ تَرَکْتُمُوہَا قَاءِمَۃً عَلَی أُصُولِہَا فَبِإِذْنِ اللَّہِ وَلِیُخْزِیَ الْفَاسِقِیْنَ (الحشر: ۵)
’’تم نے جو ’’لینہ‘‘(کھجور کے درخت) کاٹے، یا جو چھوڑ دیے تو یہ (سب) اللہ کے حکم اور اجازت سے کیا گیا ،ا ور تاکہ اللہ باغیوں کو ذلیل کرے۔‘‘

ایک غلط تعبیر جس کی اصلاح ضروری ہے:

یقیناًیہ کارروائی جنگی نقطۂ نظر سے ضرورت کی بنا پر کی گئی تھی ۔کچھ لوگوں کو اس سلسلے میں غلط فہمی ہوئی ہے۔ انہوں نے اس کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ شاید یہ عام اجازت ہے۔ یہ خیال یقیناغلط ہے، اور اس کی تصحیح کی ضرورت ہے۔ عقل وفطرت اس کی اجازت نہیں دیتے کہ عام بے گناہ شہریوں کی املاک کو بے سبب برباد کیا جائے۔ جو اسلام پانی تک کو ضائع کرنے سے روکتا ہے وہ کیسے کھیتیاں جلانے اور املاک کی بربادی کی اجازت دے سکتا ہے؟ اسلام کے قانون جنگ میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔
اس کے غلط ہونے کی سب سے واضح دلیل یہ ہے کہ حضرت ابو بکرؓ نے اپنے زمانے میں لشکروں کو رخصت کرتے وقت تاکیدی حکم فرمایا کہ ہر گز پھلدار درختوں اور باغات کو نذر آتش نہ کیا جائے اور نہ کاٹا جائے اور نہ آبادیوں کو اجاڑا جائے۔ (موطا، ۵۸) یہ روایت حضرت ابوبکر سے تو ثابت ہے اس کے علاوہ امام بیہقی نے تو اس طرح کے احکام پر مبنی کچھ روایات خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی نقل فرمائی ہیں اور ان کی اسناد کے کمزور ہونے کے باوجود کثرت اسانید اور آثار صحابہ کی وجہ سے ان کو قوی قرار دیا ہے۔ (سنن بیہقی:۹/۹۰) یہ احکام سارے صحابۂ کرام کے سامنے دیے جارہے تھے، اور حکومت اسلامیہ کے جنگی قوانین کا اظہار سمجھے جا رہے تھے۔ اس وقت وہ لوگ موجود تھے جنہوں نے خود بنی نضیر کی جنگ میں باغات میں آگ لگائی تھی اور پیڑ کاٹے تھے۔ اس وقت یہود کی جانب سے جب یہ اعتراض ہوا کہ: یہ تو فساد فی الارض ہے، کہیں نبی ایسا کیا کرتے ہیں؟ تو انہوں نے دیکھا تھا کہ قرآن میں صاف آیت اتری تھی کہ جو کیا گیا وہ بالکل ٹھیک کیا گیا، اور اس میں کچھ غلط نہیں۔
حضرت ابوبکر نے جس وقت یہ احکام دیے تھے اس وقت ان صحابہ میں سے کسی کا اس پر کوئی اعتراض نہ کرنا اس بات کی واضح اور غیر مشتبہ دلیل ہے کہ غزوۂ بنی نضیر میں یہ کارروائی جنگی ضرورت کے تحت کی گئی تھی۔ یعنی صورت حال یہ تھی کہ اس سے دشمن پر غلبہ آسان ہونے کی امید تھی، یا اس کے حصار کو توڑنا مقصد تھا۔ شریک غزوہ صحابۂ کرام اس کو ایسا ہی سمجھتے تھے، اور خود حضرت ابو بکرؓ ایسا ہی سمجھتے تھے، اور ان سے بڑھ کر رازداں اور حقیقت شناس کون ہو سکتا ہے؟

ائمۂ اسلام کا موقف:

لہٰذا اس سلسلے میں بنی نضیر کے باغات جالائے جانے سے غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ ہمارے ائمہ اور فقہاء نے بھی اِس کو اسی طرح سمجھا ہے کہ یہ ایک جنگی ضرورت کے تحت کی جانے والی مجبوری کی کارروائی تھی۔ ورنہ اصلا یہ ممنوع ہے۔ امام ترمذی امام اوزاعی سے نقل کرتے ہیں کہ’’ پیڑ کاٹنا اور باغات میں آگ لگانا وغیرہ ممنوع ہیں، حضرت ابوبکر نے اس سے منع فرمایا ہے اور اسی ممانعت پر مسلمانوں کا عمل چلا آرہا ہے‘‘۔ (سنن ترمذی، کتاب الجہاد، باب فی التحریق والتخریب)
یہ بڑی باوزن دلیل ہے کہ ’’اسی ممانعت پر مسلمانوں کا عمل چلا آرہا ہے‘‘۔ واقعہ یہی ہے کہ صحابہ وتابعین کے زمانے میں مسلمانوں نے بہت سی جنگیں لڑیں، مگر کہیں بلا کسی خاص جنگی ضرورت کے باغات یا کھیت جلانے یا عمارتوں اور آبادیوں کو نقصان پہنچانے کا ثبوت نہیں ملتا۔ جن ائمہ سے اس کا جواز منقول ہے محققین نے تصریح کی ہے کہ ان کی مراد بھی یہی ہے کہ یہ اسی صورت میں جائز ہے جب یہ جنگی ضرورت بن جائے۔ فقہاء احناف کے سرخیل ابن الہمام کہتے ہیں: یہ جائز ہے جب اس کے بغیر چارہ نہ ہو، اگر اس کے بغیر کام چل سکتا ہو تو یہ ممنوع ہے اس لیے کہ یہ ’’افساد‘‘ بگاڑ پیدا کرنا ہے۔ اس کا جواز بس ناگزیر جنگی ضرورت کی وجہ سے ہے۔ (فتح القدیر ۵/۱۹۷) ابن الہمام نے اس مسئلے کی جو حقیقت بتائی ہے، اس کو فقہ حنفی کی مشہور کتابوں مجمع الانہرفی شرح ملتقی الابحر، البحر الرائق، درر الاحکام اور درّ مختار میں بھی نقل کیا گیا ہے۔ اور یہ ہے ہی اتنی واضح اور معقول بات۔ ابن عابدین کہتے ہیں کہ فقہاء کی جواز کی رائے کو ابن الہمام نے اسی شکل کے ساتھ مقید کیا ہے جب ایساکرنا جنگی ضرورت کی بنا پر ناگزیر ہو، ’’البحر‘‘ اور ’’النہر‘‘ کے مصنفین نے بھی ان کی اتباع کی ہے۔ ابن عابدین اس رائے کی تحسین کرتے ہوئے کہتے ہیں: ظاہر ہے کہ یہ بڑی اچھی رائے ہے۔ (رد المحتار ۴/۳۳۶)
امام احمد بن حنبل ان لوگوں میں سے ہیں جو کھیتیاں وغیرہ برباد کرنے کے جواز کے قائل سمجھے جاتے ہیں، امام ترمذی ان کا قول نقل کرتے ہیں کہ : اس کے جواز کا سبب یہ ہے کہ کبھی کبھی جنگ میں ایسا کرنے کے علاوہ چارہ نہیں ہوتا، بہرحال بربادکرنے اور تباہی پھیلانے کے مقصد سے ایسا کرنا جائز نہیں‘‘۔ فقہ حنبلی کی مشہور کتاب کشاف القناع اور اس کے متن الاقناع میں صراحت کی گئی ہے یہ اجازت صرف جنگی ضرورت کے تحت ہی ہے، یا اس صورت میں ایسا کیا جاسکتا ہے جب دشمن ہمارے ساتھ ایسا کرتا ہو، تو اس کے باغات اور عمارتیں تباہ کی جائیں، گی تاکہ وہ اس مذموم حرکت سے باز آئے۔ (کشاف القناع، فصل فی تبییت الکفار)
امام ابن جریر طبری نے اسی بات کو اس طرح کہا ہے کہ ’’تباہ کرنا اور برباد کرنا مقصود نہیں ہے، اور عمدا ایسا کرنا ممنوع ہے۔ لیکن جب جنگ کے دوران اس کی ضرورت پڑ جائے ، جیسا کہ طائف میں منجنیق سے سنگ باری کے نتیجہ میں عمارتوں کو نقصان پہنچا تو یہ جائز ہے‘‘۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری ((۶/۱۵۵) ) میں طبری کی اس رائے کو نقل کیا ہے اور آگے جاکر کہا ہے: ’’وبہذا قال اکثر اہل العلم‘‘ یہی اکثر اہل علم کی رائے ہے۔
لہٰذا یہ بات بالکل طے ہے کہ جن فقہاء و علماء نے باغات میں آگ لگانے یا پیڑ کاٹنے کو جائز قرار دیا ہے اس سے بلا قید جواز سمجھنا حقیقت فہمی سے بعید بھی ہے اور شریعت کے مزاج سے ناواقفی بھی۔ مگر افسوس۔۔۔۔۔۔۔

جنگ کے دیگر انسانی قوانین

اسلام نے جنگ کو انسانیت اور انسانی اخلاقیات کا بہرحال پابند کیا ہے۔ اسلام کی نگاہ میں، جنگ چونکہ قتل و خونریزی سے عبارت ہے، اس لیے وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک ناجائز اور اصلاً حرام عمل ہے۔ اسلام نے انسانیت کے احترام اور انسانی جان کی حفاظت کی جو عمومی تعلیمات دیں ہیں جنگ ان سے ایک استثناء ہے۔ قرآن نے ایک اعتراض کے جواب میں دین الٰہی میں جنگ کے جائز رکھے جانے کا سبب بتاتے ہوئے یہ بات کہی ہے کہ: ’’الفتنۃ أکبر من القتل‘‘ یعنی جنگ اور قتل و خونریزی سے بھی زیادہ بڑی اور موجب فساد بات یہ ہے کہ دین حق سے لوگوں کو زور وزبر دستی سے روکا جائے، اور دین حق پر قائم رہنے والوں کومبتلائے عذاب و آزمائش کیا جائے۔ یعنی جنگ کے جواز بلکہ اس کے ضروری ہونے کا یہ سبب ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ بھی اصل میں ایک خراب اور بری چیز ہے، لیکن ’’فتنہ‘‘ اور ظلم اتنی خراب چیزیں ہیں کہ وہ جنگ کو جائز اور کبھی ضروری بنادیتی ہیں۔ اسلام کا یہی مزاج اور دین الٰہی کی یہی روح ہے کہ جنگ جیسی دہشت خیز چیز کو بھی وہ شریفانہ قوانین کا پابند اور انسانی جذبات سے آشنا بناتا ہے۔ یہ قوانین اس قابل ہیں کہ (ایک بزرگ کے الفاظ میں) یہ دنیا میں ’’جنگ کی اندھیر نگری کو جہادی تہذیب کا عطیہ‘‘ جیسے نام سے یاد کیے جائیں۔ اسلام کا مزاج تو یہ ہے کہ :
اِن اللّٰہ قد کتب الاحسان علی کل شیء، فاذا قتلتم فأحسنوا القتلۃ واذا ذبحتم فأحسنوا الذبحۃ۔ (صحیح مسلم، ۱۹۵۵)
’’اللہ تعالیٰ نے ہر چیز پر احسان کرنے کا حکم دیا ہے (یہاں تک کہ یہ بھی حکم ہے کہ) جب تم کسی کوقتل کر و تو بھلی طرح قتل کرو، اور جب تم ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو۔‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ بھی اصل میں ایک خراب اور بری چیز ہے، لیکن ’’فتنہ‘‘ اور ظلم اتنی خراب چیزیں ہیں کہ وہ جنگ کو جائز اور کبھی ضروری بنادیتی ہیں۔
جس نے اسلام اور رسول اسلام کی سیرت کا کوئی تفصیلی مطالعہ نہ کیاہو وہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ جنگ بھی اخلاق اور انسانیت کے ساتھ ہوسکتی ہے۔ جنگجو سپاہی کو عدل وانصاف کا درس اور وہ بھی عین عالم جنگ اور وقت پیکار میں، کوئی تصور نہیں کرسکتا۔ اور خدانخواستہ اگر آزادی انسان اور انسانی حقوق کے پرشور نعرے لگانے والی موجودہ حکومتوں کے جنگی نظام اور فوجی تعلیم و تربیت کے طریقوں کو کسی نے کچھ جانا پڑھا ہے، تب تو وہ یہ خیال کرنے میں کچھ شاید معذور بھی قرار پائے گا کہ جنگ میں انسانیت کا نام لینا کانفرنسوں کی خوش نما اور مکارانہ تقریروں کو زینت بخشنے والی ایک پرفریب ادا کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوسکتا۔
مگر اسلام کا معاملہ دیگر ہے۔ یہاں جنگ ملک و قوم کی خدمت اور ترقی کے لئے نہیں ہے۔ مغربی قوموں نے اعلانیہ طور پر اپنی سیاست و حکومت کا مقصد قومی مفادات کا حصول بتایا ہے، اور جنگ کی غرض مفادات کی کشمکش میں غلبہ و استیلاء قرار دینے میں کسی حیا کو مانع نہیں بننے دیا ہے۔ انہوں نے اپنی عام تعلیم گاہوں سے لے کر وزارتوں، دفاعی و سیاسی پالیسی ساز اداروں اور تھنک ٹینکس (Think Tanks) تک میں ظلم و حرص اور خود غرضی کا یہی سبق پڑھا ہے۔ پھر فوجوں کو خونخواری اور شدت پسندی کی سان پر چڑھایا جاتا ہے۔ معاصر دنیا میں قوموں کو پہلے قوم پرستی کی جاہلیت کا سبق پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے۔قومی نظام تعلیم کا مقصد اچھا انسان نہیں اچھا شہری یعنی ملک وقوم کے مفادات کا پرستار وخادم بناناٹھیرتا ہے۔ ناجائز جنگیں اور مفادات کیلئے خون بہاناقوم پرستی اور Patriotism کے اس فلسفے کی رو سے جائز ٹھہرتے ہیں۔
نتیجہ یہ ہے کہ ان ’’مہذب‘‘ ممالک کی اکثر آبادی کی فطرت ہی مسخ ہوگئی ہے اور انہوں نے بھی تسلیم کرلیا ہے کہ ہر ملک صرف اپنے مفادات کی خاطر دوسری قوموں پر حملہ کرتا ہے۔ اور فوجوں کو کہاں نرمی، اخلاق اور اصول پسندی کی تعلیم دی جاسکتی ہے؟ اس صورت حال نے اسلام کے اصولوں کی تفہیم مشکل بنادی ہے۔ ایک خالی الذہن آدمی جس نے معتبر مآخذ کے واسطے سے مسلمانوں کے اولین عہد کی تاریخ سے واقفیت نہ پیدا کی ہو یا قریب سے سچے مسلمانوں کو نہ دیکھا ہو، وہ اگر کتابوں اور تقریروں سے اسلام کے ان اصولوں اور تعلیمات سے واقف بھی ہوگا تو وہ اس کو شاعرانہ مہارت اور پر فریب لفاظی ہی خیال کرے گا۔ حال آں کہ اسلام کا معاملہ قطعاً مختلف اور برعکس ہے، یہاں قوم کے عزت وغلبہ کے لئے جنگ حرام ہے، جنگ تو خادم ہے اور اعلیٰ مقاصد یعنی سچائی، عدل و خیر اور اللہ کی عبادت جیسے اصولوں کی پاسداری اصل مطلوب ہے۔
ہمیں اس سلسلے میں قرآن و حدیث میں کافی قانونی تفصیلات ملتی ہیں۔ جن میں جنگ کے وہ سارے طریقے جو خونریزی، تباہ کاری، سنگ دلی، ظلم، اور انسانی وقار کی بے حرمتی کے ضمن میں آتے ہیں صراحت کے ساتھ منع کیے گئے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
الغزو غزوان فاما من ابتغیٰ وجہ اللہ واطاع الامام وأنفق الکریمۃ ویاسر الشریک واجتنب الفساد کان نومہ ونبہہ اجراً کلہ۔ وأما من غزا ریاء وسمعۃ وعصی الامام وافسد فی الارض فانہ لا یرجع بالکفاف (سنن نسائی، ۳۱۳۷۔ مسند احمد، ۲۱۵۳۷)
’’جنگیں دو طرح کی ہوتی ہیں : سو جو اللہ کی رضا وخوش نودی کے لئے جنگ کرے، امیر کی اطاعت کرے، اپنا اچھا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرے۔ اپنے ساتھی کے ساتھ اچھا معاملہ کرے ، اورفساد اور بگاڑ سے بچے تو اس کا سونا جاگناسب( اللہ کے راستے میں ہے اور ) موجب ثواب ہے ، مگر جو دکھاوے کے لئے نکلے ، امیر کی نہ مانے اور زمین میں تباہی اور فساد مچائے تو یہی نہیں کہ اس کو ثواب نہیں ملے گا بلکہ الٹا گناہ لے کر آئے گا۔‘‘
مقتول دشمن کی لاش کی بے حرمتی اور اس کے جسم کا مُثلہ یعنی اعضا کی قطع و برید کو ممنوع قرار دیا گیا۔ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن یزید انصاریؓ سے روایت ہے کہ:
نہی النبیؐ عن النہبیٰ والمثلۃ (بخاری، ۲۴۷۴)
نبی اکرمؐ نے جنگ میں مال لوٹنے اور مثلہ کرنے سے منع کیا ہے۔
رسول اللہؐ کا معمول تھا کہ فوجوں کو روانہ کرتے وقت ان کو جمع کر کے آپؐ ایک رخصتی خطاب فرماتے ، اس خطاب میں لازماً ان کو خوف خدا اور تقوی واحتیاط کے طرز عمل کی تاکید کرتے، اور فرماتے:
اغزوا، ولا تغدروا، ولا تغلّوا، ولا تمثّلوا (صحیح مسلم، ۱۷۳۱)
جاؤ جنگ کرو، مگر نہ کسی سے بد عہدی کرنا، نہ خیانت کرنا اور نہ مثلہ کرنا۔
اللہ کا دین اپنے ماننے والوں کے لئے ان طریقوں کا کوئی جواز نہیں بتاتا۔ وہ صاف بتلاتا ہے کہ اگر کسی نے جنگی جوش وغضب میں ایسی حرکتیں کیں تو کبھی وہ ’’مجاہد‘‘ نہیں بن سکتا ، اور اس کو جہاد کا وہ اجر وثواب نہیں مل سکتا جس کے لیے اس نے اپنے سر کی بازی لگا ئی ہے، بلکہ الٹا وہ جہنم کا خریدار ہوگا۔ اسلامی نقطۂ نظر سے مسلمانوں کی جنگوں کا مقصد نہ علاقے فتح کرنا ہوسکتا ہے اور نہ اپنے غلبے کے پھریرے اڑانا ۔ بلکہ وہ صرف اس مقصد سے جنگ کر سکتے ہیں کہ اللہ کے دین کی دعوت کے سامنے سے رکاوٹیں ختم ہو جائیں، ’’فتنہ‘‘ کا سلسلہ رک جائے اور حق پرستوں کو انسانیت کی ہدایت و خدمت کا کام کرنے کے مواقع مل جائیں ، اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ خلیفۂ رسول صدیق اکبرؓ رسول اللہؐ کی وفات کے بعد پہلالشکر روانہ کرتے وقت اس کے امیر حضرت اسامہ بن زید کو رخصت کرتے ہوئے یہ ہدایات دیتے ہیں:
’’(۱) خیانت نہ کرنا (۲) مال غنیمت مت چرانا(۳) دھوکہ مت دینااور معاہدے کی خلاف ورزی نہ کرنا(۴) لاشوں کے اعضاء مت کاٹنا(۵) بچوں عورتوں اور بوڑھوں کو مت مارنا(۶) باغوں کو نہ کاٹنا، نہ جلانا (۷) پھل دار درختوں کو نقصان نہ پہنچانا (۸) اونٹ، گائے اور بکریاں ذبح مت کرنا ، الا یہ کہ کھانے کی ضرورت پڑجائے (۹) راہبوں اور عبادت گاہوں کے خادموں کو مت مارنا۔‘‘ (تاریخ طبری ۲/۲۴۶)
امام مالک نے موطا میں نقل کیا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت یزیدؓ ابن ابی سفیانؓ کو شام کے علاقے کی ایک مہم پر روانہ فرمایا، یہ علاقہ عیسائی تھا۔ روانگی کے وقت حضرت ابوبکرؓ ساتھ میں کچھ دور تک رخصت کرنے گئے۔ خود پیدل اور حضرت یزیدؓ سوار۔ اس پر حضرت یزید نے عرض کیا: اے خلیفۂ رسول، یا تو آپ بھی سوار ہو جائیں یا مجھے اجازت دیں میں اتر کر پیدل چلوں۔ حضرت ابوبکر نے منع فرمادیا، اور کہا: نہ میں سوار ہوں گا اور نہ تم کو اترنے کی اجازت ہے، مجھے اللہ سے ایک ایک قدم پر ثواب کی امید ہے۔ پھرکچھ احکام دیے۔ جن میں یہ بھی تھا کہ:
’’تم کو کچھ ایسے لوگ ملیں گے جو کہیں گے کہ ہم نے عبادت کی خاطر دنیا چھوڑ دی ہے، تو ان سے کچھ تعرض نہ کرنا۔ اور میں تم کو دس باتوں کی تاکید کرتا ہوں۔ نہ کسی عورت کو قتل کرنا، نہ بچے کو، نہ بوڑھے ضعیف کو، کسی پھل دار درخت کو بھی نہ کاٹنا۔ کسی آبادی کو نقصان نہ پہنچانا۔اگر فوج کو غذائی کمی نہ پیش آئے تو بکری یا اونٹ بھی نہ ذبح کرنا۔ نہ کسی باغ میں آگ لگانا نہ ڈبونا۔ عہد شکنی نہ کرنا۔ مثلہ نہ کرنا۔۔۔‘‘ (موطا، ۸۵۸)
سفیر کی جان کی حفاظت ہی نہیں بلکہ اس کے اکرام کی بھی رسول اللہؐ کی تعلیم ہے۔ آپؐ کا مستقل طرز عمل یہ تھا کہ جب بھی کوئی سفارتی مشن آتا آپ اس کے تمام ارکان کو ہدایا سے سرفراز فرماتے۔ مسیلمۃ الکذاب باغی اور مدعی نبوت تھا۔ اس کے دو سفیر آئے، دونوں ارتداد اور بغاوت کے جرم کی بنا پر مستحق قتل تھے۔ مگر آپؐ نے کہا کہ ’’سفیرکو قتل کرنا جائز نہیں ورنہ میں تم کو قتل کر وا دیتا‘‘۔ صحابۂ کرام کہتے ہیں کہ پھر یہی اسلامی قانون قرار پایا ۔ (مسند احمد ۳۷۵۲، سنن ابو داؤد ۲۷۶۳)
مرض الوفات میں آپ ؐ نے نہایت اہتمام کے ساتھ اپنے بعد اسلامی حکومت کے ذمہ داروں کو جو چند وصیتیں بطور خاص کیں، ان میں یہ بات بھی تھی کہ:
وأجیزوا الوفد بنحو ماکنت أجیزہم (صحیح بخاری،۴۴۳۱)
’’سفارتی وفود کو ہدیے دیا کرنا جیسا کہ میں دیا کرتا تھا۔‘‘

غیر مسلموں کے ساتھ تعلق

غیرمسلموں سے حسن تعلق اور انسانی رشتوں کی تعلیم کے ساتھ ہی قرآن نے شدید تاکید کی ہے کہ اسلام کے وہ دشمن جو اسلام کو مٹانے کے درپے ہوں، مسلمانوں سے جنگ کررہے ہوں یا ان کے خلاف خطرناک سازشوں کے جال بن رہے ہیں ایسے دشمنوں سے سیاسی سازباز رکھنا اور ان سے پینگیں بڑھانا نہ صرف ناجائز بلکہ ایمان کے منافی ہیں۔
اگر یہ دشمن طاقت ور ہوں تو بڑا خطرہ اس بات کا ہوتا ہے کہ کمزورعزم وایمان کے مسلمان مفادات کی خاطر ان سے سازباز کرنے لگیں۔ یا رشتہ داری اور دیگر سماجی رشتوں کے زیراثر ان کی درپردہ مدد کرنے لگیں۔ یہ چیز دنیا کی کوئی جماعت برداشت نہیں کرسکتی۔ سیاسی اور سماجی نقطۂ نظر سے اپنی ہی صفوں کے اندر ایسے لوگوں کا وجود آستین کے سانپ جیسی خطرناک چیز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ خطرہ منافقین کی شکل میں بھرپور طور پر ظاہر ہوا۔ اس لئے اس سلسلے میں بڑے واضح اور تاکیدی احکام اترے کہ دشمنوں سے درپردہ سازباز یا ان کی علانیہ حمایت و مدد ایمان کے قطعاً منافی ہے۔ اس سلسلے کی سب سے صاف اور سخت لہجہ کی آیات یہ اتریں:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ أَوْلِیَاء تُلْقُونَ إِلَیْْہِم بِالْمَوَدَّۃِ وَقَدْ کَفَرُوا بِمَا جَاء کُم مِّنَ الْحَقِّ یُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِیَّاکُمْ أَن تُؤْمِنُوا بِاللَّہِ رَبِّکُمْ إِن کُنتُمْ خَرَجْتُمْ جِہَاداً فِیْ سَبِیْلِیْ وَابْتِغَاء مَرْضَاتِیْ تُسِرُّونَ إِلَیْْہِم بِالْمَوَدَّۃِ وَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا أَخْفَیْْتُمْ وَمَا أَعْلَنتُمْ وَمَن یَفْعَلْہُ مِنکُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاء السَّبِیْلِ ۔ إِن یَثْقَفُوکُمْ یَکُونُوا لَکُمْ أَعْدَاء وَیَبْسُطُوا إِلَیْْکُمْ أَیْْدِیَہُمْ وَأَلْسِنَتَہُم بِالسُّوءِ وَوَدُّوا لَوْ تَکْفُرُون (الممتحنۃ:۱۔۲)
’’اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمن کو ’’ولی‘‘ مت بناؤ، تم ان سے محبت کے رشتے قائم کرتے ہو، اور وہ اس حق کا جو تمہارے پاس آیا ہے انکار کرتے ہیں۔ نکالتے ہیں اللہ کے رسول کو اور تم کو اپنے گھروں سے صرف اس کی پاداش میں کہ تم ایک اللہ پر ایمان لاتے ہو، اگر تم نے میرے راستے میں جہاد کے لئے اور میری رضا حاصل کرنے کے لئے ہجرت کی ہے (تو ہرگز ان کو ولی وہمدم نہ بناؤ) تم چپکے چپکے ان سے محبت کے رشتے قائم کرتے ہو۔ (خبردار) میں تمہارے ڈھکے کھلے سب معاملات سے واقف ہوں۔ اور تم میں جو ایسا کرے گا وہ سیدھے راستے سے ہٹ گیا۔یہ دشمن ایسے ہیں کہ اگر وہ تم کو پاجائیں اور ان کا بس چلے تو وہ دشمن ہی ثابت ہوں گے اور تم پر حملے کرنے کے لئے ضرور زبان اور دست درازی کریں گے۔ اور ان کی تمنا یہ ہے کہ تم کو کافر بنا ڈالیں۔‘‘
یہ آیات مکہ کے ان دشمنان اسلام سے متعلق تھیں جو مکہ میں بھی اسلام اور مسلمانوں کے ظالم دشمن تھے اور مسلمانوں کے جان و ایمان بچاکے مدینہ ہجرت کر جانے کے بعد بھی ان کے سینوں کے تنور میں دشمنی کی آگ شعلہ زن تھی۔
اسی طرح کی دوسری آیات میں اُن یہود دشمنوں سے سازباز، مخفی روابط اور ان کی درپردہ مدد سے منع کیا گیا ہے جو مدینہ میں اسلام کے خلاف سازشوں میں لگے ہوئے تھے۔
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ بِطَانَۃً مِّن دُونِکُمْ لاَ یَأْلُونَکُمْ خَبَالاً وَدُّواْ مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاء مِنْ أَفْوَاہِہِمْ وَمَا تُخْفِیْ صُدُورُہُمْ أَکْبَرُ (آل عمران: ۱۱۸)
’’اے ایمان والو! اپنوں کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا قریبی رازدار نہ بناؤ، وہ تمہاری تباہی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، ان کے منھ سے دشمنی نکلی آرہی ہے۔ اور جو سینوں میں چھپا ہے وہ اس سے بھی زیادہ ہے۔‘‘
ایک دوسری جگہ ارشاد ہوا:
لا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْکَافِرِیْنَ أَوْلِیَاء مِن دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَمَن یَفْعَلْ ذَلِکَ فَلَیْْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْْءٍ (آل عمران: ۲۸)
’’ایمان والے مومنین کے خلاف کافروں کو ’’ولی‘‘ نہ بنائیں، اور تم میں سے جو ایسا کرے گا اللہ سے اس کا کوئی رشتہ نہیں۔‘‘
یہ اسلام کی سیاسی تعلیمات میں سے ایک اہم تعلیم ہے، جس نے سیاست کو مکمل طور پر ایمان کے تابع بنا دیا ہے۔ اور ہمیشہ کے لیے طے کردیا ہے کہ جس کی سیاست اس کے ایمان کے تابع نہیں اس کا ایمان کھوٹا ہے۔ افسوس کہ اس زمانہ میں اس کو صحیح طور سے سمجھنے والے اور اس پر مضبوطی سے عمل کرنے والے بہت کم ہیں۔ 
بہت سوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ وہ سیاست کے سمندر میں اسلام و کفر دونوں کے جہازوں پر بیک وقت سواری کرسکتے ہیں۔ ایک طرف وہ اسلام کا دم بھرتے ہیں، مسلمانوں کی ہمدردی بلکہ ان کی اجتماعی نمائندگی کے دعوے بھی کرتے ہیں، اور دوسری طرف اسلام کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والی طاقتوں سے پینگیں بھی بڑھاتے ہیں اور ان کے درباروں میں خلوص و وفا کی قسمیں بھی کھاتے ہیں۔ یہ لوگ اسلام کے حامی و مددگار نہیں بلکہ سماج میں اپنے سیاسی آقاؤں کے مفادات کے نگراں ہوتے ہیں۔ ان کا کام ان آقاؤں کے ڈھول پیٹنا ہوتا ہے۔ اس لئے کہ یہ انہی کے سہارے اپنے لئے عہدے، مناصب اور طاقت و ناموری حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ’’یبتغون عندہم العزۃ‘‘۔

ایک بڑی غلط فہمی:

اسلام کی ان تعلیمات کے بارے میں ایک سوال اٹھایا جاتا ہے کہ مسلمان دعویٰ تو کرتے ہیں غیرمسلموں کے ساتھ پرامن بقاء باہم، ہمدردی اور حسن سلوک کا، مگر حقیقت اس کے خلاف ہے، اس لئے کہ قرآن نے مسلمانوں کو کافروں سے بے تعلقی کا حکم دیا ہے اور ان سے دوستی کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ (’’دوستی‘‘ یہ موالات اور ولی بنانے کا غلط ترجمہ ہے۔ ہم اس کا صحیح مفہوم آگے واضح کریں گے۔) اس مغالطہ کی بنیاد دراصل دو غلط فہمیوں پر ہے:
۱۔ ولی کسے کہتے ہیں؟ اور ’’ولاء‘‘ کے جس تعلق سے منع کیا گیا ہے وہ کس قسم کا تعلق ہوتا ہے؟
۲۔ یہ کن کفار کے متعلق بات ہورہی ہے؟ اس موقع پر یہ بات نظرانداز کردی جاتی ہے کہ خود قرآن نے متعدد جگہ ایسی قیدیں لگائی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ احکام عام غیر مسلموں سے متعلق نہیں ہیں بلکہ کچھ خاص کفار سے متعلق ہیں۔ صرف قیدیں ہی نہیں بلکہ ایک اور جگہ پوری صراحت سے یہ بھی بتلادیا ہے کہ جن لوگوں کے بارے میں یہ احکام دیے گئے ہیں وہ غیرمسلموں میں سے کچھ خاص گروہ ہیں، باقی دوسرے افراد اور گروہ اس دائرۂ ’’بے تعلقی و براء ت‘‘ میں نہیں آتے ہیں۔

پہلی غلطی:

اس سلسلے میں پہلی غلطی یہ ہوتی ہے کہ قرآن نے ان آیات میں کفار کو ’’ولی‘‘ بنانے سے منع کیا ہے (اولیاء اس کی جمع ہے) اس کو ’’دوستی‘‘ یا حسن تعلق کے ہم معنی سمجھ لیا گیا ہے، واقعہ یہ ہے کہ عربی زبان کے ’’الولی‘‘ یااس کے مشتقات (Derivatives) کے لئے کوئی مفرد لفظ اردو بلکہ شاید انگریزی سمیت بہت سی زبانوں میں نہیں ملتا۔ اس لئے اس کا ترجمہ لوگ ’’دوست‘‘ اور "Friend" جیسے لفظ سے سے کردیتے ہیں۔ اور یہی چیز اعتراضات کے تیر چلانے والوں کے ترکش کو سامان فراہم کرتی ہے۔
’’ولی‘‘ کے معنی ایسے قرب وتعلق (معجم مقاییس اللغۃ اور دیگر لغوی ماخذ میں اس لفظ کا بنیادی تصور قرب وتعلق بتایا گیا ہے) کے ہیں جس کے ساتھ حمایت و مدد کرنا اور ساتھ دینا شامل ہو۔ لسان العرب میں، جو عربی کی معتبر ترین لغت ہے لکھا ہے: 
الولایۃ: النصرۃ 
’’ولایت کے معنی مدد کے ہیں۔‘‘
آگے ہے:
ہم علی ولایۃ أی مجتمعون فی النصرۃ
’’ان میں ولایت کا تعلق ہے، یعنی مل کر ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔‘‘
منظور ابن الاعرابی کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ: موالات یہ ہے کہ دو فریقوں میں اختلاف ہو، تو کوئی تیسرا ثالثی کے لئے داخل ہو اور اس کا میلان کسی ایک فریق کی طرف ہو، پھر وہ اس کی جانبداری کرے۔ (لسان العرب: ۱۵/۴۰۵) امام ابن جریر طبری جو لغت دانی میں ہمارے متقدم مفسرین میں اہم ترین مقام رکھتے ہیں، سورۂ آل عمران کی آیت ۲۸ کی تشریح میں کہتے ہیں:
ہذا نہی من اللہ عزوجل المومنین أن یتخذوا الکفار أعواناً و انصاراً و ظہوراً ۔۔۔ ومعنی ذالک: لا تتخذوا الکفار ظہراً وانصاراً توالونہم علی دینہم وتظاہرونہم علی المسلمین من دون المومنین وتدلونہم علی عوراتہم۔ 
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنین کو روکا گیا ہے کہ وہ کفار کو اپنا معین ومددگار اور پشت پناہ بنائیں ۔۔۔ یعنی کہا گیا ہے کہ کفار کو پشت پناہ و مددگار سمجھ کر ان کے دین کے معاملہ میں ان کا ساتھ مت دو کہ مسلمانوں اور مومنین کے خلاف ان کی مدد کرو اور مسلمانوں کے راز ان کو بتاؤ۔
سورہ توبہ کی آیت ۷۳ میں ’’ولایۃ‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: 
المعروف فی کلام العرب من معنی الولی انہ النصیر والمعین
’’کلام عرب میں ولی کے معروف معنی مددگار اور اعانت کرنے والے کے ہیں‘‘
اس تفصیل سے ثابت ہوتا ہے کہ ان آیات کا حاصل اس کے سوا کچھ نہیں کہ اہل ایمان کو منع کیا گیا ہے کہ وہ دشمنوں سے رازدارانہ پینگیں نہ بڑھائیں اور ان کی مخفی مدد نہ کریں۔ ان آیات کا کوئی تعلق دوستی یا اچھے سلوک سے نہیں ہے۔
اس مراد و معنی کی مزیدوضاحت اس بات سے ہوتی ہے کہ قرآن نے خود جابجا اس صورت حال کی طرف اشارہ کردیا کہ جس ’’ولاء‘‘ کے تعلق سے منع کیا جارہا ہے، وہ ’’من دون المومنین‘‘ یعنی ’’مومنین کے خلاف مدد‘‘ کا تعلق تھا ،(مثلاً سورہ آل عمران ۲۸۔ النساء ۱۳۹ اور ۱۴۴)۔ یہ’’مومنین کے خلاف‘‘ کی قید خود بتارہی ہے کہ جن حالات کی طرف اشارہ کیاجارہا ہے ان میں مسلمانوں کے خلاف ان کے دشمنوں کی مدد کی جارہی تھی۔

ان تعلیمات کا پس منظر:

ان آیات کا پس منظر (جو آیات کے اندر سے صاف جھلکتا ہے) یہ ہے کہ اسلام کے مخالفین شجرۂ اسلام کو اکھاڑ پھینکنے کی زبردست دشمنانہ مہموں میں مصروف ہیں۔ جنگوں کے سیلاب امڈ رہے ہیں۔ مشرکین کی علانیہ جنگوں کے ساتھ ساتھ مدینہ میں بسنے والے وہ یہودی قبائل جنہوں نے معاہدے کررکھے ہیں وہ بھی سازشوں میں لگے ہیں۔ جنگوں کے علاوہ داخلی بدامنی پھیلانا، مسلمانوں میں قبائلی اور جاہلی عصبیت جگا کراتحاد کو توڑنا، اسلام کو بدنام کرنااور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کردار کشی اس سازش کے خاص اہداف ہیں۔ مسلمانوں میں دونوں ہی یعنی مشرکین مکہ اور یہود مدینہ کی رشتہ داریاں اور قرابتیں ہیں، دوستیاں ہیں، تعلقات اور معاملات ہیں۔ منافقین کے گروہ کی ہمدردیاں اِن دشمنوں کے ساتھ ہیں۔ موقعہ بموقعہ وہ دشمنوں کی فساد انگیز سازشوں کے لئے بہترین ایجنٹ اور آلۂ کار ثابت ہو رہے ہیں۔
قرآن نے اس گروہ کی ان خطرناک سرگرمیوں کی پوری پردہ دری کی ہے۔ یہ سرگرمیاں کس خطرناک حد تک پہنچی ہوئی تھیں اس کا اندازہ اس واقعے سے ہو سکتا ہے کہ ۹ھ ؁ میں انہوں نے مسجد کے نام پر قبا میں اپنا ایک باقاعدہ مرکز بنالیا، قرآن نے اس مرکز کی سرگرمیوں کا پردہ چاک کیا کہ اس مرکز کا مقصد مسلم ریاست کو نقصان پہنچانا، کفر کرنا، مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنا، اور باہر سے ایک دشمن فوج کو حملہ کرنے کی دعوت دینا اور اندر کی بغاوت کے ذریعہ اس کی اسٹریٹجک مدد کرنا تھا(سورہ توبہ آیت ۱۰۷)۔
ان خالص منافقین کے علاوہ ایک تعداد ایسے کمزور ایمان والوں کی بھی تھی جو حالات کے ہر نازک موڑ پر اپنی وفاداریوں کو لے کر دونوں طرف حاضری دیتے تھے۔ منافقین کا گروہ زیادہ تر یہود کے زیراثر تھا، اور اس کی ان سے وفاداری کا یہ حال تھا کہ ان دشمنوں کے ایجنڈے پر سرگرمی کے ساتھ کام کرتا تھا، اسی سلسلے میں ’’فتری الذین فی قلوبہم مرض یسارعون فیہم‘‘ (یعنی تم دیکھتے ہو دل کے روگی منافقوں کو کہ وہ ان یہودیوں میں تیزی سے دوڑ بھاگ کرتے ہیں، المائدہ ۵۲)کہہ کر قرآن نے ان کی ان ہی سرگرمیوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ایسے احکام دیتے وقت قرآن میں جابجا یہ صورت حال صاف بیان کی گئی ہے۔ سورہ نساء میں ارشاد ہوتا ہے :
بَشِّرِ الْمُنَافِقِیْنَ بِأَنَّ لَہُمْ عَذَاباً أَلِیْماً۔ الَّذِیْنَ یَتَّخِذُونَ الْکَافِرِیْنَ أَوْلِیَاء مِن دُونِ الْمُؤْمِنِیْنَ أَیَبْتَغُونَ عِندَہُمُ الْعِزَّۃَ فَإِنَّ العِزَّۃَ لِلّہِ جَمِیْعاً۔ وقدْ نَزَّلَ عَلَیْْکُمْ فِیْ الْکِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آیَاتِ اللّہِ یُکَفَرُ بِہَا وَیُسْتَہْزَأُ بِہَا فَلاَ تَقْعُدُواْ مَعَہُمْ حَتَّی یَخُوضُواْ فِیْ حَدِیْثٍ غَیْْرِہِ إِنَّکُمْ إِذاً مِّثْلُہُمْ إِنَّ اللّہَ جَامِعُ الْمُنَافِقِیْنَ وَالْکَافِرِیْنَ فِیْ جَہَنَّمَ جَمِیْعاً۔ الَّذِیْنَ یَتَرَبَّصُونَ بِکُمْ فَإِن کَانَ لَکُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللّہِ قَالُواْ أَلَمْ نَکُن مَّعَکُمْ وَإِن کَانَ لِلْکَافِرِیْنَ نَصِیْبٌ قَالُواْ أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَیْْکُمْ وَنَمْنَعْکُم مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ فَاللّہُ یَحْکُمُ بَیْْنَکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَن یَجْعَلَ اللّہُ لِلْکَافِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلاً۔ إِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ یُخَادِعُونَ اللّہَ وَہُوَ خَادِعُہُمْ وَإِذَا قَامُواْ إِلَی الصَّلاَۃِ قَامُواْ کُسَالَی یُرَآؤُونَ النَّاسَ وَلاَ یَذْکُرُونَ اللّٰہَ إِلاَّ قَلِیْلاً۔ مُّذَبْذَبِیْنَ بَیْْنَ ذَلِکَ لاَ إِلَی ہَؤُلاء وَلاَ إِلَی ہَؤُلاء وَمَن یُضْلِلِ اللّہُ فَلَن تَجِدَ لَہُ سَبِیْلا (النساء: ۱۳۷۔۱۴۱) 
ان آیات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ان منافقوں کو آگاہ کردیں کہ انہوں نے اسلام کے دشمنوں سے جو مخفی تعلقات قائم کررکھے ہیں، ان کی سزا کے طور پر وہ جہنم میں ڈالے جانے کے لئے تیار رہیں۔ کہا گیا ہے کہ یہ منافقین مومنین کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا ’’ولی‘‘ بناتے ہیں، ان کا گمان یہ ہے کہ یہ ان کا ساتھ دے کر عزت و غلبہ حاصل کرلیں گے؟ یہ جن کافر لیڈروں کی مجلسوں میں حاضری دیتے ہیں وہاں اسلام اور رسول اسلام کا مذاق اڑایا جاتا ہے، اور یہ وہاں خوشی خوشی بیٹھے رہتے ہیں۔ ان منافقوں کا یہ حال بھی بتلایا گیا ہے کہ یہ انتظار میں رہتے ہیں ،نہ اِدھر پورے طور پر نہ اُدھر پورے طور پر، تاکہ اگر مسلمانوں کو فتح و غلبہ نصیب ہوتو آکر کہیں ہم تو آپ کے ساتھ ہیں، اور اگر کافروں کا پلہ بھاری رہے تو یہ ان کے پاس یہ کہتے ہوئے پہنچیں کہ ’’کیا ہم نے تمہاری مسلمانوں سے مدافعت کرنے میں کوئی کسر چھوڑی تھی؟‘‘
یہ ہے موالاۃ الکفار، یعنی منافقوں کا وہ طرز عمل جس کو اختیار کرنے سے اس وقت منع کیا جارہا تھا۔
جیسا کہ اوپر اشارہ گذر چکا ہے کہ منافقین کا یہ گروہ سیاسی اور سماجی طور پر بری طرح یہودیوں کے زیراثر تھا۔ اور ان کے ہر فتنہ انگیز پروپیگنڈے میں اس کا ساتھ دیتا تھا۔ یہود کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سیاسی طور پر نقصان پہنچانے کے لئے مستقل تہمتوں اور پروپیگنڈوں کے طوفان اٹھائے جاتے رہتے تھے۔ یہ منافقین اس جنگ کے ہروال دستے ثابت ہوتے تھے۔ قرآن میں جابجا (مثلاً خصوصا سورۂ احزاب اور سورۂ نور میں)اس صورت حال کی طرف اشارے ہیں۔ یہودی سردار اسلام کا مذاق اڑاتے، ان کی مجلسوں میں عوام مسلمان بھی حاضر ہوتے۔ عرب کے مشرکین بھی اس مہم میں تائید کرتے تھے۔ یہ یہود و مشرکین عام مسلمان لوگوں کو اس پر ابھارتے تھے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے باہر آجائیں اور بغاوت کردیں۔ اسی سلسلۂ بیان میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس اسلام دشمن مہم کے دوران تم دیکھوگے کہ جن لوگوں کے دل روگی ہیں (نفاق کے مرض کے) وہ دوڑ دوڑ کر ان کفار سے پینگیں بڑھارہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہمیں ڈر ہے کہ ہم کسی مصیبت میں نہ پھنس جائیں۔
یہ ہے ولاء کا وہ منافقانہ تعلق جس کے بارے میں کہا گیا کہ مسلمان اپنے ان دشمنوں کے ساتھ ایسا تعلق ہرگز قائم نہ کریں جو ان کے دین کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ایسے تعلقات ایمان کے منافی ہونے کے علاوہ اسلام اور مسلمانوں کے لئے سیاسی اور سماجی طور پر نہایت خطرناک تھے۔ اس سے روکنا بہرحال ضروری تھا اور اب بھی ہے۔

مغالطے کی دوسری بنیاد:

اس مغالطے کی دوسری بنیاد یہ ہے اس تاکیدی تعلیم کو عام غیر مسلموں سے متعلق سمجھ لیا گیا ہے۔ حالانکہ، جیسا کہ گزشتہ آیات سے واضح ہوتا ہے کہ یہ حکم اسلام اور مسلمانوں کے ان دشمنوں کے سلسلے میں ہے، جو اسلام کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کی تدبیروں میں لگے ہوئے ہیں۔ مزید ذیل کی آیت پر غور کیجیے: 
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ بِطَانَۃً مِّن دُونِکُمْ لاَ یَأْلُونَکُمْ خَبَالاً وَدُّواْ مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاء مِنْ أَفْوَاہِہِمْ وَمَا تُخْفِیْ صُدُورُہُمْ أَکْبَرُ ُ قَدْ بَیَّنَّا لَکُمُ الآیَاتِ إِن کُنتُمْ تَعْقِلُونَ۔ ہَاأَنتُمْ أُوْلاء تُحِبُّونَہُمْ وَلاَ یُحِبُّونَکُمْ وَتُؤْمِنُونَ بِالْکِتَابِ کُلِّہِ وَإِذَا لَقُوکُمْ قَالُواْ آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْاْ عَضُّواْ عَلَیْْکُمُ الأَنَامِلَ مِنَ الْغَیْْظِ قُلْ مُوتُواْ بِغَیْْظِکُمْ إِنَّ اللّہَ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ۔إِن تَمْسَسْکُمْ حَسَنَۃٌ تَسُؤْہُمْ وَإِن تُصِبْکُمْ سَیِّءَۃٌ یَفْرَحُواْ بِہَا وَإِن تَصْبِرُواْ وَتَتَّقُواْ لاَ یَضُرُّکُمْ کَیْْدُہُمْ شَیْْئاً إِنَّ اللّہَ بِمَا یَعْمَلُونَ مُحِیْط (آل عمران: ۱۱۸۔۱۱۹)
’’اے ایمان والو! اپنوں کو چھوڑ دوسروں کو خاص رازدار مت بناؤ وہ تم کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ ان کی بڑی خواہش ہے کہ تم برباد ہوجاؤ۔ ان کے منھ سے دشمنی نکلی آرہی ہے اور جو سینہ میں چھپا ہے وہ اس سے بھی زیادہ ہے۔ ہم نے تمہارے لئے اپنے احکام کھول کر بیان کر دیے ہیں اگر تم عقل سے کام لو۔ دیکھو! تم تو ان سے محبت کررہے ہو اور وہ تم سے دشمنی۔ تم تمام آسمانی کتابوں پر ایمان رکھتے ہو، وہ تم سے جب ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے۔ اور جب تنہائی میں ہوتے ہیں تو ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ مارے نفرت اور غصے کے انگلیاں چبانے لگیں۔ کہہ دو: تم اپنے غصہ میں مرجاؤ، اللہ سینوں کے بھید جانتا ہے۔ تم اچھے حال میں ہو تو ان کو برا لگتا ہے، اور نقصان پہنچے تو یہ خوش ہوتے ہیں۔ اور اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو ان کی سازشیں تم کو کچھ نقصان نہیں پہنچاسکتیں۔ جو کچھ یہ کررہے ہیں اللہ اس کو اپنے گھیرے میں لئے ہوئے ہے۔‘‘
ان آیات میں جن دشمنوں کا تذکرہ ہے ان کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ انکے سینوں میں دشمنی کی بھٹیاں ہیں۔ اور ان کی مجلسوں میں مسلمانوں کی بربادیوں کے منصوبے ہیں۔ یہاں جو ’’بطانۃ‘‘ کا لفظ بولا گیا ہے اس کے معنی ایسے خاص رازدار کے ہیں جو ہر معاملے میں دخیل ہو(لسان العرب)۔
ان احکام کی صحیح نوعیت وحقیقت اس سے واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ہجرت کی نہایت رازدارانہ، نازک اور اہم مہم میں ایک غیر مسلم عبد اللہ ابن ارقد کو شریک ورازدار ہی نہیں بنایا بلکہ اس کے اوپر مکمل اعتماد بھی کیا۔ اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ان آیات کا مطلب دشمنوں کو رازدار اور اپنے معاملات میں دخیل بنانے سے روکنا ہے۔ یقیناًنفاق واغراض پرستی کے شکار نام کے مسلمانوں سے زیادہ اعتماد کے لائق شریف اور اصول پسند غیر مسلم ہوتے ہیں۔
اس سلسلے کی سب سے تاکیدی اور مکمل تعلیم سورۂ ممتحنہ میں دی گئی ہے۔ یہ آیات گذر چکی ہیں۔ ایک مرتبہ پھر ان کے آہنگ وانداز پر غور کیجیے :
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ أَوْلِیَاءَ تُلْقُونَ إِلَیْْہِم بِالْمَوَدَّۃِ وَقَدْ کَفَرُوا بِمَا جَاءَ کُم مِّنَ الْحَقِّ یُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِیَّاکُمْ أَن تُؤْمِنُوا بِاللّٰہِ رَبِّکُمْ إِنْ کُنتُمْ خَرَجْتُمْ جِہَاداً فِیْ سَبِیْلِی وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِیْ تُسِرُّونَ إِلَیْْہِم بِالْمَوَدَّۃِ وَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا أَخْفَیْْتُمْ وَمَا أَعْلَنتُمْ وَمَنْ یَفْعَلْہُ مِنکُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِیْل، إِنْ یَثْقَفُوکُمْ یَکُونُوا لَکُمْ أَعْدَاءً وَیَبْسُطُوا إِلَیْْکُمْ أَیْْدِیَہُمْ وَأَلْسِنَتَہُم بِالسُّوءِ وَوَدُّوا لَوْ تَکْفُرُونَ (الممتحنۃ:۱۔۲)
’’اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمن کو ’’ولی‘‘ مت بناؤ، تم ان سے محبت کے رشتے قائم کرتے ہو، اور وہ اس حق کا جو تمہارے پاس آیا ہے انکار کرتے ہیں۔ نکالتے ہیں اللہ کے رسول کو اور تم کو اپنے گھروں سے صرف اس کی پاداش میں کہ تم ایک اللہ پر ایمان لاتے ہو، اگر تم نے میرے راستے میں جہاد کے لئے اور میری رضا حاصل کرنے کے لئے ہجرت کی ہے (تو ہرگز ان کو ولی وہمدم نہ بناؤ) تم چپکے چپکے ان سے محبت کے رشتے قائم کرتے ہو۔ (خبردار) میں تمہارے ڈھکے کھلے سب معاملات سے واقف ہوں۔ اور تم میں جو ایسا کرے گا وہ سیدھے راستے سے ہٹ گیا۔ یہ دشمن ایسے ہیں کہ اگر وہ تم کو پاجائیں اور ان کا بس چلے تو وہ دشمن ہی ثابت ہوں گے اور تم پر حملے کرنے کے لئے ضرور زبان اور دست درازی کریں گے۔ اور ان کی تمنا یہ ہے کہ تم کو کافر بنا ڈالیں۔‘‘
’’کفار کو اولیا بنانے‘‘ کی ممانعت کے سلسلے میں یہ قرآن کی سب سے شدید آہنگ و انداز کی آیات ہیں۔ مگر دیکھیے یہاں بھی عام غیرمسلموں کا ذکر نہیں ہے۔ بلکہ ’’عدوّی وعدوّکم‘‘ کہا گیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ یہ تمہارے ایسے دشمن ہیں جو تمہارے دین اور تمہارے خدا کے بھی دشمن ہیں۔ اور ایسے دشمن کہ صرف دینی دشمنی میں تم کو تمہارے دیس سے نکال ڈالا۔

قرآن کی صراحت کہ یہ احکام کن لوگوں کے بارے میں ہیں:

مزید غور طلب ہے کہ اس موضوع پر قرآن کی اِن سب سے سخت آیات میں،صراحت کے ساتھ یہ وضاحت کردی گئی ہے کہ ’’کفار کو اولیاء بنانے‘‘ کی ممانعت کن ’’کفار‘‘ سے متعلق ہے، اور کون سے غیرمسلم ان آیات کے اطلاق سے باہر ہیں۔ یہاں بتا دیا گیا ہے کہ یہ ممانعت ان عام غیر مسلموں کے بارے میں نہیں ہے جو تمہارے ساتھ امن باہمی اور صلح کا رویہ رکھتے ہیں۔ بلکہ یہ حکم صرف ان کے بارے میں ہے جو تمہارے دشمن ہیں دین کے سلسلے میں اور تم سے برسرپیکار ہیں۔ 
لا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ أَن تَبَرُّوہُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَیْْہِمْ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ إِنَّمَا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِیْنَ قَاتَلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَأَخْرَجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ وَظَاہَرُوا عَلَی إِخْرَاجِکُمْ أَن تَوَلَّوْہُمْ وَمَن یَتَوَلَّہُمْ فَأُوْلَءِکَ ہُمُ الظَّالِمُون۔ (الممتحنۃ ۸۔۹)
’’اللہ تم کو منع نہیں کرتا ان لوگوں سے جنہوں نے دین کی وجہ سے تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تم کو اپنے گھروں سے نہیں نکالا ہے کہ تم ان کے ساتھ حسن سلوک اور انصاف کرو۔ اللہ کو انصاف کا معاملہ کرنے والے پسند ہیں۔ اللہ تو بس ان لوگوں کو ولی بنانے سے منع کرتا ہے جنہوں نے تم سے جنگ کی ہے دین کی وجہ سے (یعنی وہ تمہارے دین کو مٹانا چاہتے ہیں) اور تم کو تمہارے گھروں سے نکال دیاہے اور تمہارے نکالے جانے میں مدد کی ہے، کہ تم ان کو ولی و مددگار بناؤ۔ جو ان کو ولی و مددگار بنائیں گے وہی ظلم کرنے والے ہیں۔‘‘
یہ آیت اس موضوع و مضمون کی ساری آیات کی قطعی وضاحت کی حیثیت رکھتی ہے کہ قرآن میں جن ’’کفار‘‘ سے موالات کے تعلق کو منع کیا گیا ہے ان سے کس قسم کے لوگ مراد ہیں اور کس قسم کے نہیں۔
اس تفصیل سے واضح ہوجاتا ہے کہ ’’ولاء‘‘ کے جس تعلق سے منع کیا گیا ہے اس سے کیا مراد ہے؟ اور یہ بھی صاف ہوجاتا ہے کہ وہ عام غیرمسلم جو مسلمانوں اور اسلام سے دشمنی نہیں رکھتے اور دشمنانہ کارروائیوں میں مصروف نہیں ہیں ان کا ان آیات میں کوئی ذکر نہیں ۔

ایک غلو آمیز بات:

اس تفصیل سے اس غلوآمیز طرز فکر کی بھی نفی ہوجاتی ہے جو مختلف اہل علم کے یہاں نظر آتا ہے، ان کے مقام کے اعتراف کے باوجود یہ کہے بنا چارہ نہیں کہ انہوں نے ان آیات پر مجموعی نظر نہیں کی۔ مثلاً مشہور داعی توحید و مصلح شیخ محمد بن عبدالوہاب فرماتے ہیں:
ان الانسان لا یستقیم لہ اسلام و لو وحد اللہ وترک الشرک إلا بعداوۃ المشرکین۔ (بحوالہ: الولاء و البراء محمد بن سعید القحطانی ۱/۸)
’’کسی انسان کا اسلام اس وقت تک صحیح نہیں ہوسکتا چاہے وہ توحید کا قائل ہو اور شرک کو چھوڑ دے جب تک کہ وہ مشرکین سے دشمنی نہ رکھے۔‘‘
ایک معاصر سعودی عالم ڈاکٹر سہل بن رفاع العتیبی (استاذ العقیدۃ الاسلامیہ والمذاہب المعاصرۃ، جامعۃ الملک سعود ریاض) اپنے نزدیک اس کو ایک معتدل موقف مانتے ہیں کہ ’’اسلام نے غیرمسلم سے محبت (مودت) کو حرام قرار دیا ہے مگر اس کے ساتھ نیکی و حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔ (دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ حضرات پہلے تو مطلقاً غیر مسلم سے محبت کو حرام لکھتے ہیں، پھر انسانی رشتے سے طبعی وفطری محبت کی اجازت بھی دیتے ہیں۔ (کتاب مذکور، ص ۸)۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ حضرات بھی اسی بات کے قائل ہیں کہ ایک غیر مسلم اپنے انسانی اور دیگر قومی یا نسلی رشتہ کی بنیاد پر فطری محبت وتکریم اور ہمدردی کا مستحق ہے، الا یہ کہ وہ اسلام دشمنی یا مسلمانوں سے لڑائی کی بنا پر بغض کا حق دار بنے۔ گویا اصل غلطی کم سے کم بڑی حد تک صرف تعبیر کی ہی ہے۔ (ملاحظہ ہو ان کی کتاب الفرق والبیان بین مودۃ الکافر والاحسان الیہ
ان حضرات کا استدلال ان دو آیتوں سے ہے:
(۱) لَا تَجِدُ قَوْماً یُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ وَلَوْ کَانُوا آبَاء ہُمْ أَوْ أَبْنَاء ہُمْ أَوْ إِخْوَانَہُمْ أَوْ عَشِیْرَتَہُمْ (المجادلۃ: ۲۲)
’’تم نہیں پاؤگے اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والوں کو کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے عناد اور دشمنی کرنے والوں سے محبت کا معاملہ کرتے ہیں، چاہے وہ ان کے باپ بیٹے یا بھائی ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘
(۲) یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ أَوْلِیَاء تُلْقُونَ إِلَیْْہِم بِالْمَوَدَّۃِ وَقَدْ کَفَرُوا بِمَا جَاء کُم مِّنَ الْحَقِّ یُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِیَّاکُمْ أَن تُؤْمِنُوا بِاللَّہِ رَبِّکُمْ (الممتحنۃ: ۱)
’’اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمن کو اپنا ’’ولی‘‘ نہ بناؤ کہ تم ان سے محبت کے رشتے رکھو اور وہ انکار و کفر کریں تمہارے پاس آنے والے حق کا، نکالتے ہیں تم کو (اپنے وطن سے) صرف اس وجہ سے کہ تم ایمان لائے اللہ اپنے رب پر۔‘‘
مگر ذرا سا غور کرنے سے اس استدلال کا بے محل ہونا واضح ہوجاتا ہے۔ دونوں جگہ عام غیرمسلموں کی بات چل ہی نہیں رہی ہے۔ عناد، ظلم، اور جارحیت کے مرتکب دشمن کی بات چل رہی ہے۔ پہلی آیت میں تصریح ہے کہ یہ ان لوگوں سے متعلق ہے جو اللہ اور رسول یعنی ان کے دین سے دشمنی اور جنگ کریں من حاد اللہ و رسولہکا یہی مطلب ہے۔ دوسری آیت میں بھی اللہ اور مسلمانوں کے دشمنوں کی اور جنگ و قتال کرنے والوں کی صراحت ہے۔ لفظی صراحت کے علاوہ سیاق کلام دونوں جگہ اس سلسلے میں اتنا صریح ہے کہ اس سے زیادہ صریح کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ ان صراحتوں سے نظر نہ پھیری جائے تو بات واضح ہے۔
خود قرآن نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کہلا دیا ہے کہ:
قل لا أسألکم علیہ أجراً إلا المودۃ فی القربیٰ۔ (الشوریٰ: ۲۳)
’’کہہ دو! میں تم سے اس (دعوت) کا کوئی بدلہ نہیں مانگتا، مانگتا ہوں تو بس رشتہ داری کی محبت۔‘‘
کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس کا مطلب یہ تھا کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ سلم ان سے یک طرفہ محبت مانگتے تھے۔ اور معاذ اللہ اس کے بدلے میں رشتہ داری کی محبت دینے کے بجائے بغض و عداوت رکھتے تھے؟ 
اور کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواپنی حفاظت کرنے والے چچا ابوطالب سے نفرت اور دشمنی تھی؟ ہرگز نہیں! ابوطالب یقیناًرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم محبوب چچاتھے۔
اس سے بالکل اتفاق ہے کہ اسلام و ایمان کا بنیادی تقاضا شرک و کفر اور ان کے طریقہ و ملت سے اختلاف اور ناپسندیدگی ہے۔ اور کسی مسلمان کے لئے اس کو برحق یا صحیح سمجھنا، یا معاذ اللہ اس سے محبت رکھنا قطعاً اسلام کے منافی ہے۔ مگر یہ بالکل دوسری بات ہے اور اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ ہر غیرمسلم سے چاہے وہ صلح جو اور امن پسند ہو قومی یا عام انسانی رشتے کی محبت رکھنا منع ہو۔بلکہ ان آیات ہی سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جو امن وصلح پسند غیرمسلم تعدی و ظلم کے مرتکب نہ ہوں ان کے ساتھ قرآن اچھے جذبات رکھنے، خیر خواہی کرنے اور بھلائی اور ہمدردی و مدد کا حکم دیتا ہے۔ اس کی ترغیب سورۂ ممتحنہ میں یہ کہہ کر دی گئی ہے کہ: ’’ان اللہ یحب المقسطین‘‘ اللہ انصاف اور عدل کا معاملہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
اوپر شیخ محمد بن عبدالوہاب کی جو عبارت ذکر کی گئی ہے اور جس میں اس ہیچ مداں کو غلو نظر آتا ہے، اس جیسی تعبیر دوسرے نہایت قابل احترام و محبت عالم وداعی شیخ عبدالعزیز ابن بازؒ کے ایک مقالے میں بھی نظر آئی ہے۔یہ مقالہ دراصل سابق شیخ الازہر شیخ جادالحق علی جاد الحق کے ایک مقاملے پر استدراک کے مقصد سے خط کے بطور لکھا گیا تھا۔ شیخ الازہر کے مقالے میں واقعۃً اسلام اور دیگر ادیان کے درمیان باہمی تعاون و اتفاق، بلکہ اشتراک تک کی بات کہی گئی تھی۔ شیخ الازہر کی عبارت پڑھیے:
فنظرۃ المسلمین اذن الی غیرہم من اتباع الیہودیۃ و النصرانیۃ ہی نظرۃ الشریک الی شرکاۂ فی الایمان باللہ والعمل بالرسالۃ الإلٰہیۃ التی لا تختلف فی اصولہا العامۃ۔
’’مسلمان یہودیت اور نصرانیت کے متبعین کو ایمان باللہ اور آسمانی دین میں شریک کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ان کے درمیان اس آسمانی پیغام کے عام اصولوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔‘‘
استغفراللہ۔ یہ یقیناً واقعہ کے خلاف بات تھی، غیرمسلموں کے ساتھ ہرخیر میں تعاون، اور ہمدردی و حسن سلوک کے باوجود دوسرے مذاہب کے ساتھ اسلام اپنے اختلاف کو چھپانے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس وقت یہود اور نصاری کا دین بنیادی طور پر کفر ہے، نہ کہ اسلام کے ساتھ بنیادی اصولوں میں مشترک پیغام۔ شیخ ابن بازؒ نے اس پر استدراک کیا، مگر اس میں ایک غلو آمیز بات (ہمارے نزدیک غلو آمیز بات) کہہ گئے۔ تحریر فرماتے ہیں:
ان اللہ سبحانہ قد اوجب علی المومنین بغض الکفار ومعاداتہم و عدم مودتہم (مجموع فتاویٰ و مقالات، ۸/۹۱)
’’یقیناً اللہ نے اہل ایمان پر کفار سے بغض و دشمنی ضروری قرار دی ہے، اور یہ کہ ان سے محبت نہ رکھی جائے۔‘‘
بہرحال مسئلہ کی یہ تعبیر اس اطلاق کے ساتھ غلط ہے۔ قرآن میں اس کی کوئی دلیل نہیں، بلکہ اس کے خلاف دلیل موجود ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان غلوآمیز تعبیرات کی اصلاح کی جائے۔

مسلمانوں کا اصل ولی صرف مخلص اہل ایمان کو ہونا چاہیے:

دراصل اسلام یہ مطالبہ کرتا ہے کہ جو اللہ کا بندہ انبیاء علیہم السلام کے دین کو برحق جان کر قبول کرے، اور یہ یقین کرے کہ وہی ایک حق کا راستہ ہے جس میں ساری انسانیت کی دنیا اور آخرت میں فلاح ہے، تو اسلام کا اس سے بنیادی مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس حق کے فروغ کے لیے اپنے تن من دھن کو لگانے کا تہیہ کر لے، اور اسی کو اپنا اصل مشن بنا لے۔ انسان جب کسی مقصد کو اپنی زندگی کا مشن بنالیتا ہے اور اس کا عشق اس پر چھاجاتا ہے تو اس کا اپنے مشن کے ساتھیوں سے ایک خاص قسم کا تعاون اور مدد گاری کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔ وہ محبت اور حسن سلوک تو سب سے کرتا ہے مگریگانگت اور دمسازی وہمسازی کا جو تعلق اپنے مشن کے مخلص اور وفادار ساتھیوں سے اس کو ہوتا ہے وہ کسی اور سے ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ مسئلہ اس کے لیے کسی تعلیم وتلقین کا محتاج نہیں ہوتا بلکہ اس کے مشن کا فطری تقاضہ اور اس کے دل کی اندر کی آواز ہوتا ہے۔
مسلمانوں سے بھی اسلام کا اصل مطالبہ یہی ہے کہ وہ ایمان اور مشنری جذبے میں ایسے ہوں کہ ان کا مخلصانہ جد وجہد میں شرکت کا تعلق ان مخلص اہل ایمان سے ہونا چاہیے جو اسلام اور ایمان کی راہ کے مرد میدان ہوں۔ 
إِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّہُ وَرَسُولُہُ وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ الَّذِیْنَ یُقِیْمُونَ الصَّلاَۃَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاۃَ وَہُمْ رَاکِعُون (المائدۃ: ۵۵)
’’تمہارے ولی تو بس اللہ، اس کا رسول اور وہ (حقیقی) ایمان والے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور جو (اللہ کے سامنے) جھکے رہتے ہیں۔‘‘
یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ قرآن کی تعلیم قومیت اور گروہ بندی سے کس قدر دور ہے! اس نے عام مسلمانوں تک کو اِس ولایت کا مستحق نہیں قرار دیا ہے بلکہ تعلیم دی ہے کہ کوشش اس بات کی ہونی چاہیے کہ ایک مسلمان کا یہ ولاء کا تعلق مخلص اور سچے اہل ایمان کے ساتھ ہی ہو۔ ایک اور جگہ اور واضح ہو کر یہ پہلو آگیا ہے اور صاف کہا گیا ہے کہ ایمان واسلام کی راہ میں جد وجہد اور ہجرت ونصرت کی قربانیوں کی راہ میں جو لوگ شریک ہیں وہی تمہارے حقیقی اولیاء ہیں، اور جو لوگ اس درجے کے نہیں وہ نہیں ہیں۔
إِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَہَاجَرُواْ وَجَاہَدُواْ بِأَمْوَالِہِمْ وَأَنفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَالَّذِیْنَ آوَواْ وَّنَصَرُواْ أُوْلَءِکَ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاء بَعْضٍ وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ وَلَمْ یُہَاجِرُواْ مَا لَکُم مِّن وَلاَیَتِہِم مِّن شَیْْءٍ (الانفال:۷۲)
’’جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اللہ کے راستے میں مال اور جان سے مجاہدے اور محنتیں کیں، اور جن لوگوں نے اِن کو (اپنے گھروں میں) بسایا اور ان کی مدد کی (یعنی انصار) یہ لوگ باہم ایک دوسرے کے ولی ہیں۔ اور جن لوگوں نے ہجرت نہیں کی تمہارا ان کے ساتھ ’’ولایت‘‘ کا کوئی تعلق نہیں۔‘‘
الحمد للہ، امید ہے کہ اس تفصیل کے ذریعے اسلام کی ایک اہم تعلیم جس پر براہ راست ایمان اور اللہ ورسول کے ساتھ خلوص ووفا کے رشتے کا دار ومدار ہے پورے طور پر سامنے آگئی ہوگی۔ اور بحمد اللہ یہ بھی امید ہے کہ اس سلسلے میں جو شبہے اور اشکالات ذہنوں میں آتے ہیں اور جنہیں اس زمانے کے مخصوص حالات نے بہت بڑھا دیا ہے، ان کی بھی پوری اطمینان بخش وضاحت ہو گئی ہوگی۔

جہاد ۔ ایک مطالعہ

محمد عمار خان ناصر

تمہید

اسلامی شریعت کی تعبیر وتشریح سے متعلق علمی مباحث میں ’جہاد‘ ایک معرکہ آرا بحث کا عنوان ہے۔ اسلام میں ’جہاد‘ کا تصور، اس کی غرض وغایت اور اس کا بنیادی فلسفہ کیا ہے؟ یہ سوال ان اہم اور نازک ترین سوالات میں سے ہے جن کا جواب بحیثیت مجموعی پورے دین کے حوالے سے ایک متعین زاویہ نگاہ کی تشکیل کرتا اور دین کے اصولی وفروعی اجزا کی تعبیر وتشریح پر نہایت گہرے طور پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اسلام اور تاریخ اسلام کی تفہیم وتعبیر میں اس سوال کے مرکزی اور بنیادی اہمیت حاصل کر لینے کی وجہ بالکل واضح ہے:
واقعاتی لحاظ سے دیکھیے تو اسلام، صفحہ تاریخ پر ’جہاد‘ کے جلو ہی میں رونما ہوا تھا۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے جہاد کے نتیجے میں اسلام کی سیاسی حاکمیت پہلے جزیرۂ عرب پر اور اس کے بعد شام، ایران اور مصر کے علاقوں پر قائم ہوئی اور پھر توسیع سلطنت کا یہی سلسلہ آگے بڑھتا ہوا اندلس، ایشیاے کوچک، وسطی ایشیا اور بعد ازاں جنوبی ایشیا کے علاقوں کو محیط ہوا۔ اسلام کو تاریخی سطح پر دنیا کا ایک بڑا مذہب بنانے میں اس واقعاتی تسلسل کا کردار غیر معمولی ہے اور یہی وجہ ہے کہ تاریخی تناظر میں اسلام کا مطالعہ کرنے والا ہر صاحب فکر جس سوال سے سب سے پہلے دوچار ہوتا ہے، وہ یہی سوال ہے۔
فکری اعتبار سے دیکھیے تو دنیا کا کوئی بھی قانونی نظام، چاہے وہ مذہبی ہو یا سیکولر، اپنے ظاہری ڈھانچے کی تشکیل کے لیے کچھ مابعد الطبیعیاتی تصورات اور پھر ان سے پھوٹنے والے چند اخلاقی اصولوں کا محتاج ہوتا ہے۔ یہ تینوں دائرے چونکہ باہم بالکل مربوط (Interconnected) ہوتے ہیں، اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اسلام کے تصور جہاد کی تعبیر وتشریح کے ساتھ خود اس کے مابعد الطبیعیاتی تصورات اور اخلاقی اصولوں کے ایک بڑے حصے کی تعبیر وتشریح کا سوال بھی وابستہ ہے۔ چنانچہ اس سوال کا کوئی بھی متعین جواب نہ صرف حیات انسانی کے حوالے سے اسلام کے عمومی مزاج اور زاویہ نگاہ کی عکاسی کرے گا، بلکہ اس کا نہایت گہرا تعلق اس بات سے بھی ہوگا کہ اسلام مابعد الطبیعیاتی سطح پر انسانی زندگی کے بارے میں خدا کی اسکیم کی کیا وضاحت کرتا اور انسانی اخلاقیات کے دائرے میں دنیا کے دوسرے گروہوں اور مذاہب کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات کی کیا نوعیت متعین کرتا ہے۔ 
یہ سوال اپنی اسی اہمیت کے باعث ویسے تو اسلامی تاریخ کے ہر دور میں مسلم اور غیر مسلم علمی حلقوں میں مختلف حوالوں سے زیر بحث رہا ہے، تاہم دنیا کے سیاسی حالات اور تہذیبی وقانونی تصورات میں رونما ہونے والے نہایت بنیادی تغیرات نے گزشتہ دو صدیوں میں اس بحث کو ایک نیا رنگ دے دیا ہے اور اسلامی شریعت اور سیرت نبوی سے لے کر اخلاقیات، قانون بین الاقوام اور تاریخ وتہذیب تک، مختلف علمی دائروں سے وابستہ اہل علم اس کی پیچیدگیوں اور الجھنوں سے مسلسل نبرد آزما ہیں۔
’جہاد‘ کے موضوع پر لکھے گئے قدیم وجدید اسلامی لٹریچر کا دقت نظر سے جائزہ لیجیے تو واضح ہوگا کہ اسلام کے تصور جہاد کی تعبیر کا سوال ہر دور میں شریعت کو اپنے مطالعہ وتحقیق کا موضو ع بنانے والے اہل علم کے سامنے رہا ہے اور چودہ صدیوں میں علمی روایت کے ارتقا نے اس ضمن میں قرآن وسنت کے نصوص کی تفہیم وتعبیر کے حوالے سے متنوع زاویہ ہاے نگاہ پیدا کر دیے ہیں:
الف۔ کلاسیکی فقہی ذخیرے میں ’جہاد‘ کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ایک فرع قرار دیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو خدا کی طرف دعوت دینے، کفر وشرک سے اجتناب کی تلقین کرنے اور ان کے تزکیہ و اصلاح کے لیے انبیا کا جو سلسلہ جاری فرمایا، کفار کے ساتھ جہاد بھی اسی کی ایک کڑی اور دعوت الی الحق ہی کی ایک صورت ہے اور امت مسلمہ پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ دنیا کی کافر قوموں کو اسلام کی دعوت دے اور اگر وہ اسے قبول نہ کریں تو ان کے خلاف جہاد کر کے انھیں اپنا محکوم بنا لے۔ 
ب۔ دور جدید میں اہل علم کی بڑی تعداد نے اس تعبیر سے اختلاف کیا ہے۔ ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ کفار کے خلاف جہاد اسلام کی توسیع واشاعت کے لیے نہیں بلکہ محض اس کے دفاع اور دشمنان اسلام کے ظلم وجبر کے خاتمہ کے لیے مشروع کیا گیا تھا۔ ان کی رائے میں قرآن مجید میں جہاد کے تمام احکام خالصتاً دفاعی تناظر میں عہد رسالت اور عہد صحابہ کے ان مخالف اسلام گروہو ں کے بارے میں وارد ہوئے ہیں جو اسلام اور مسلمانوں پر ظلم وتعدی کی ابتدا کے مرتکب ہوئے تھے اور ان کے بارے میں مستقل طور پر معاندانہ پالیسی اختیار کیے ہوئے تھے۔ عہد رسالت اور عہد صحابہ کے جنگی اقدامات کی تعبیر بھی وہ اسی دفاعی زاویہ نگاہ سے کرتے ہیں۔ 
ج۔ عصر حاضر کے ممتاز عالم اور مفکر مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے جہاد سے متعلق اسلامی شریعت کے تصور اور اس کے احکام کی تعبیر وتشریح کو ایک خاص زاویے سے موضوع بحث بنایا ہے۔ ان کا نقطہ نظر اس حوالے سے خاص اہمیت رکھتا ہے کہ انھوں نے فقہا کے روایتی موقف کے مطابق جہاد وقتال کے اس ہدف سے تو اتفاق کیا ہے کہ اس کے ذریعے سے پوری دنیا پر اسلام کی سیاسی حاکمیت قائم کر دی جائے، تاہم اس کی فکری اور فلسفیانہ اساس کے ضمن میں انھوں نے فقہا سے مختلف ایک متبادل تعبیر پیش کی ہے۔ ان کے نزدیک جہاد کے حکم کی نظریاتی اساس ایک مخصوص عقیدہ اور مذہب کی حیثیت سے اسلام کی توسیع نہیں، بلکہ یہ ہے کہ قانون اور نظام کے دائرے میں اسلام کی حاکمیت اور بالادستی پوری دنیا پر قائم کر دی جائے۔ ان کی رائے میں اسلام شخصی اعتقاد اور رسمی عبادت کے دائرے میں تو کفر وشرک کو گوارا کرتا ہے، لیکن کسی ایسے نظام حکومت کا وجود اسے قبول نہیں جس میں خدائی قانون کے علاوہ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کی عمل داری قائم ہو، چنانچہ جہاد کا مقصد یہ ہے کہ تمام فاسد نظاموں کا خا تمہ کر کے اسلام کے مقرر کردہ صالح نظام زندگی کی عمل داری پوری دنیا میں قائم کر دی جائے۔ 
د۔ عصر حاضر ہی کے ایک دوسرے ممتاز عالم اور محقق جناب جاوید احمد غامدی نے مذکورہ آرا کے بنیادی زاویہ نگاہ (Approach) سے اختلاف کرتے ہوئے متذکرہ علمی الجھنوں کو ایک نئے انداز میں حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے نقطہ نظر کا خلاصہ یہ ہے کہ شرعی نصوص میں وارد جہاد وقتال کے احکام دو مختلف نوعیتوں میں تقسیم ہیں: ایک وہ جن میں کسی گروہ کے فتنہ وفساد اور ظلم وتعدی کے خاتمہ کے لیے جہاد کی مشروعیت بیان کی گئی ہے اور دوسرے وہ جن میں اتمام حجت کے بعد منکرین حق کے خلاف قتال کا حکم دیا گیا ہے۔ ان میں سے فتنہ وفساد کے خاتمے کے لیے دیے جانے احکام کا تعلق تو دین وشریعت کے عمومی اور ابدی دائرے سے ہے جبکہ اسلام قبول نہ کرنے والے کفار کے خلاف تلوار اٹھانے کا حکم اللہ تعالیٰ کے قانون اتمام حجت پر مبنی اور انھی گروہوں تک محدود ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف صریحاً اس کی اجازت دی گئی ہو۔ اس نقطہ نظر میں عہد رسالت وعہد صحابہ کے جنگی اقدامات کو کلیتاً دفع فساد کے اصول پر مبنی قرار دینے کے بجائے ان کی توجیہ اللہ تعالیٰ کے قانون اتمام حجت کی روشنی میں کی گئی ہے۔ 
زیر بحث سوال اور اس سے متعلق مختلف توجیہات پر مبنی اس پورے علمی لٹریچر کا سنجیدہ علمی مطالعہ بجائے خود دلچسپ او ر مفید ہونے کے ساتھ ساتھ معاصر فکری تناظر میں دین کی تعبیر وتشریح کے حوالے سے بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ آئندہ صفحات میں ہم نے جہاد سے متعلق قرآن وحدیث کے نصوص اور ان کی تعبیر کے ضمن میں پیش کیے جانے والے مذکورہ نقطہ ہاے نگاہ کے تجزیاتی وتنقیدی مطالعے کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ 

عہد نبوی وعہد صحابہ میں جہاد وقتال کی نوعیت

قرآن وسنت کے نصوص سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیرو اہل ایمان کو عہد نبوی کے معروضی حالات کے تناظر میں جہاد وقتال کا حکم دو طرح کے مقاصد کے تحت دیا گیا: ایک اہل کفر کے فتنہ وفساد اور اہل ایمان پر ان کے ظلم وعدوان کا مقابلہ کرنے کے لیے اور دوسرے کفر وشرک کا خاتمہ اور باطل ادیان کے مقابلے میں اسلام کا غلبہ اور سربلندی قائم کرنے کے لیے۔ 
پہلے مقصد کے تحت قتال کی تفصیل حسب ذیل نصوص میں بیان کی گئی ہے:
أُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُوْنَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوْا وَإِنَّ اللّٰہَ عَلَی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرٌ ۔ الَّذِیْنَ أُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ بِغَیْْرِ حَقٍّ إِلَّا أَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَہُم بِبَعْضٍ لَّہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّصَلَوَاتٌ وَّمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیْہَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْراً وَّلَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہُ إِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ (الحج ۲۲: ۳۹، ۴۰)
’’جن اہل ایمان کے ساتھ جنگ کی جاتی ہے، انہیں اجازت دی جاتی ہے (کہ وہ بھی لڑائی کریں) کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا اور بے شک اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ناحق ان کے گھروں سے نکال دیا گیا، محض اس جرم میں کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب صرف اللہ ہے۔ اور اگر اللہ ایک گروہ (کے ظلم وعدوان کو) دوسرے گروہ کے ذریعے سے دفع نہ کرے تو خانقاہوں، گرجوں، کنیسوں اور مسجدوں جیسے مقامات، جن میں اللہ کو کثرت سے یاد کیا جاتا ہے، گرا دیے جاتے۔ اور جو لوگ اللہ کی مدد کریں گے، اللہ ضرور ان کی مدد کرے گا۔ بے شک اللہ بہت قوت والا نہایت غالب ہے‘‘ ۔
سورۃ النساء میں فرمایا ہے:
وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُولُوْنَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ ہٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ أَہْلُہَا وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنکَ وَلِیّاً وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْراً (النساء ۴:۷۵)
’’تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کے راستے میں اور کفار کی چیرہ دستی کا شکار ان مردوں ، عورتوں اور بچوں کو چھڑانے کے لیے قتال نہیں کرتے جو یہ دعائیں مانگتے ہیں کہ یا اللہ، ہمیں اس بستی سے نکال جس کے رہنے والے ظالم ہیں اور اپنی جناب سے ہمارے لیے کوئی مددگار اور اپنے پاس سے ہمارے لیے کوئی حامی بھیج دے۔‘‘
سورۂ انفال میں ارشاد ہوا ہے:
وَإِنِ اسْتَنْصَرُوْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ فَعَلَیْْکُمُ النَّصْرُ إِلاَّ عَلَی قَوْمٍ بَیْْنَکُمْ وَبَیْْنَہُمْ مِّیْثَاقٌ وَّاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ ۔ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاءُ بَعْضٍ إِلاَّ تَفْعَلُوْہُ تَکُنْ فِتْنَۃٌ فِی الأَرْضِ وَفَسَادٌ کَبِیْرٌ (الانفال ۸: ۷۲، ۷۳)
’’اور اگر وہ دین کے معاملے میں تم سے مدد مانگیں تو تم پر ان کی مدد کرنا لازم ہے، سوائے اس صورت کے کہ وہ کسی ایسی قوم کے خلاف مدد مانگیں جس کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اسے خوب دیکھ رہا ہے۔ اور جن لوگوں نے کفر کیا، وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ اگر تم (ان کے مقابلے میں) اہل ایمان کی مدد نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بہت بڑا فساد پھیل جائے گا۔‘‘
ان نصوص کا حاصل یہ ہے کہ کفار کے جو گروہ موں پر کسی بھی نوعیت کے ظلم وستم اور جارحیت کا ارتکاب کریں اور بالخصوص عقیدہ ومذہب کے انتخاب واختیار کے معاملے میں ان کی آزادی ان سے چھیننے کی کوشش کریں، ان کے خلاف تلوار اٹھانا نہ صرف جائز ہے بلکہ قوت واستطاعت اور حالات کی موافقت اور جنگ کے اخلاقی اصولوں کی پاسداری کی شرط کے ساتھ ایک اخلاقی فریضے کی حیثیت رکھتا ہے۔ 
جہاد کا دوسرا مقصد یعنی کفر وشرک کا خاتمہ اور اسلام کی سربلندی کا قیام درج ذیل نصوص میں بیان ہوا ہے:
وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لاَ تَکُونَ فِتْنَۃٌ وَیَکُونَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ (البقرہ ۲:۱۹۳)
’’اور ان کے ساتھ جنگ کرو یہاں تک فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ ہی کے لیے ہو جائے۔‘‘
مذکورہ آیت ہجرت مدینہ کے بعد جہاد کے حوالے سے دی جانے والی ہدایات کے بالکل ابتدائی دور سے تعلق رکھتی ہے اور اس میں کفار کے فتنہ وفساد کو خدا کے دین کی سربلندی کی راہ میں ایک رکاوٹ قرار دیتے ہوئے یہ حکم دیا گیا ہے کہ کفار کے ساتھ قتال کیا جائے تاکہ فتنہ ختم ہو سکے اور خدا کا دین سربلند ہو جائے۔ 
عہد نبوی میں جہاد وقتال کے آخری مراحل میں دین حق کو قبول نہ کرنے والے گروہوں کے حوالے سے متعین احکام سورۂ توبہ میں بیان کیے گئے ہیں۔ مشرکین عرب کے بارے میں ارشاد ہوا ہے:
فَإِذَا انسَلَخَ الأَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُواْ الْمُشْرِکِیْنَ حَیْْثُ وَجَدتُّمُوہُمْ وَخُذُوہُمْ وَاحْصُرُوہُمْ وَاقْعُدُواْ لَہُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ فَإِن تَابُوْا وَأَقَامُوا الصَّلاَۃَ وَآتَوُا الزَّکَاۃَ فَخَلُّوا سَبِیْلَہُمْ إِنَّ اللّٰہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ (التوبہ ۹: ۵)
’’پھر جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ، قتل کر ڈالو اور ان کو پکڑو اور گھیرو اور ہر جگہ ان کی تاک میں بیٹھو۔ پھر اگر یہ شرک سے تائب ہو جائیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔ بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
اہل کتاب کے حوالے سے فرمایا گیا کہ:
قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُونَ بِاللّٰہِ وَلاَ بِالْیَوْمِ الآخِرِ وَلاَ یُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ وَلاَ یَدِیْنُونَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ حَتَّی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَہُمْ صَاغِرُونَ (التوبہ ۹: ۲۹)
’’ان اہل کتاب کے ساتھ جنگ کرو جو نہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، نہ اللہ اور اس کے رسول کی حرام کردہ چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں اور نہ دین حق کی پیروی قبول کرتے ہیں۔ (ان کے ساتھ جنگ کرو) یہاں تک کہ یہ تمہارے مطیع بن کر ذلت اور پستی کی حالت میں جزیہ دینے پر آمادہ ہو جائیں۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ سلم کا ارشاد ہے:
امرت ان اقاتل الناس حتی یشہدوا ان لا الہ الا اللہ وان محمدا رسول اللہ ویقیموا الصلاۃ ویوتوا الزکاۃ فاذا فعلوا ذلک عصموا منی دماء ہم واموالہم الا بحق الاسلام وحسابہم علی اللہ (بخاری، رقم ۲۴)
’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک لوگوں سے قتال کروں جب تک کہ وہ ’لا الٰہ الا اللہ‘ اور ’محمد رسول اللہ‘ کا اقرار نہ کر لیں اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی پابندی قبول نہ کر لیں۔ پھر جب وہ ایسا کر لیں تو اسلام کے عائد کردہ کسی حق کے علاوہ وہ اپنی جانوں اور مال کو مجھ سے محفوظ کر لیں گے اور ان کا حساب اللہ کے سپرد ہوگا۔‘‘
ان نصوص کا مدعا یہ ہے کہ کفرو شرک کا ارتکاب کرنے والے گروہوں کے خلاف قتال کا فریضہ انجام دیا جائے تاکہ وہ یا تو دائرۂ اسلام میں داخل ہو جائیں اور یا ان کی سیاسی خود مختاری کا خاتمہ کر کے اہل اسلام کو اہل کفر پر بالادست اور دین حق کو باطل ادیان پر غالب کر دیا جائے۔ 
یہ نصوص اپنے ظاہر کے لحاظ سے اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جہاد وقتال کا جو حکم دیا گیا، وہ اپنے ہدف کے لحاظ سے مخالف گروہوں کے فتنہ وفساد کو فرو کرنے اور اہل ایمان کو ان کے ظلم وتعدی سے بچانے تک محدود نہیں تھا، بلکہ خالص اعتقادی تناظر میں، کفر وشرک کا خاتمہ یا اہل کفر کو مسلمانوں کا محکوم بنانا بھی اس کے اہداف ومقاصد میں شامل تھا۔ کلاسیکی علمی روایت میں مذکورہ دونوں طرح کے نصوص کو جہاد کے دو الگ الگ اور مستقل بالذات مقاصد ہی کا بیان قرار دیا گیا ہے، تاہم دور جدید میں بہت سے اہل علم نے اس رائے سے اختلاف کیا ہے۔ ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ جہاد اسلام کی توسیع واشاعت کے لیے نہیں بلکہ محض اس کے دفاع اور دشمنان اسلام کے ظلم وجبر کے خاتمہ کے لیے مشروع کیا گیا تھا اور قرآن مجید میں جہاد کے تمام احکام اسی مخصوص تناظر میں عہد رسالت اور عہد صحابہ کے اسلام دشمن گروہوں کے بارے میں وارد ہوئے ہیں۔ اس نقطہ نظر کی رو سے جن نصوص میں کفار ومشرکین کو قتل کرنے یا محکوم بنا کر ان پرجزیہ عائد کرنے کا ذکر ہوا ہے، ان کو انھی کفار سے متعلق سمجھنا چاہیے جو اسلام اور مسلمانوں پر ظلم وتعدی کی ابتدا کے مرتکب ہوئے تھے اور ان کے بارے میں مستقل طور پر معاندانہ روش اختیار کیے ہوئے تھے۔ گویا اگر یہ اہل کفر مسلمانوں کے لیے اپنے مذہب پر قائم رہنے کا حق کھلے دل سے تسلیم کر لیتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ان کے کفر وشرک سے کوئی سروکار نہ ہوتا اور آپ عقیدہ ومذہب کی بنیاد پر ان سے کسی قسم کا کوئی تعرض کیے بغیر ان کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کا راستہ اختیار کر لیتے۔ (اس نقطہ نظر کے حق میں جو استدلالات پیش کیے گئے ہیں، آگے چل کر ہم ان کا تفصیلی جائزہ لیں گے۔)
ہماری راے میں اس نقطہ نظر کوقبول کرنا اس کے بغیر ممکن نہیں کہ قرآن مجید کے نصوص میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے پس منظر، اس کے مقصد اور اس مقصد کے حصول کی حکمت عملی کے حوالے سے جو پوری اسکیم بیان ہوئی ہے، اس کو کلیتاً نظر انداز کر دیا جائے۔ قرآن مجید کی رو سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت، سیدنا ابراہیم اور سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی دعا کے مطابق، بنی اسماعیل کے تزکیہ وتطہیر اور انھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دینے کے لیے ہوئی تھی۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنی ذریت کو حجاز کے علاقے میں آباد کیا تھا اور ان سے توحید پر قائم رہنے اور شرک سے اجتناب کا عہد لے کر بیت الحرام کی تولیت اور دربانی کے فرائض ان کے سپرد فرمائے تھے۔ سورۂ بقرہ میں ہے:
وَإِذِ ابْتَلَی إِبْرَاہِیْمَ رَبُّہُ بِکَلِمَاتٍ فَأَتَمَّہُنَّ قَالَ إِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَاماً قَالَ وَمِن ذُرِّیَّتِیْ قَالَ لاَ یَنَالُ عَہْدِیْ الظَّالِمِیْنَ ۔ وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَیْْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَأَمْناً وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاہِیْمَ مُصَلًّی وَعَہِدْنَا إِلَی إِبْرَاہِیْمَ وَإِسْمَاعِیْلَ أَن طَہِّرَا بَیْْتِیَ لِلطَّاءِفِیْنَ وَالْعَاکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُودِ...... وَمَن یَرْغَبُ عَن مِّلَّۃِ إِبْرَاہِیْمَ إِلاَّ مَنْ سَفِہَ نَفْسَہُ وَلَقَدِ اصْطَفَیْْنَاہُ فِی الدُّنْیَا وَإِنَّہُ فِی الآخِرَۃِ لَمِنَ الصَّالِحِیْنَ ۔ إِذْ قَالَ لَہُ رَبُّہُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ ۔ وَوَصَّی بِہَا إِبْرَاہِیْمُ بَنِیْہِ وَیَعْقُوبُ یَا بَنِیَّ إِنَّ اللّٰہَ اصْطَفَی لَکُمُ الدِّیْنَ فَلاَ تَمُوتُنَّ إَلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ (البقرہ ۲:۱۲۴-۱۳۲)
’’اور جب ابراہیم کے رب نے چند باتوں میں اس کو آزمایا تو اس نے ان کو پورا کر دکھایا۔ اللہ نے کہا کہ میں تمھیں لوگوں کا پیشوا بناؤں گا۔ ابراہیم نے کہا کہ میری اولاد میں سے بھی (پیشوا بنانا)۔ اللہ نے کہا کہ میرے اس وعدے میں ظالم شامل نہیں ہوں گے۔ اور جب ہم نے کعبہ کو لوگوں کے لیے جمع ہونے اور امن پانے کی جگہ مقرر کیا اور (حکم دیا کہ) ابراہیم کی جائے سکونت کو نماز کی جگہ بنا لو۔ اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو تاکید کی کہ میرے گھر کو طواف اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع وسجو د کرنے والوں کے لیے (شرک سے) پاک رکھنا۔ ...... اور ابراہیم کے دین سے کون رو گردانی کر سکتا ہے سوائے اس کے جو نادان ہو۔ ہم نے اس کو دنیا میں بھی منتخب کیا اور آخرت میں بھی وہ نیک لوگوں کے زمرے میں ہوگا۔ جب اس کے پروردگار نے اس سے کہا کہ فرماں برداری اختیار کر لو تو اس نے کہا کہ میں رب العالمین کے سامنے سر اطاعت خم کرتا ہوں۔ اور ابراہیم نے بھی اپنے بیٹوں کو اسی کی وصیت کی اور یعقوب نے بھی کہ اے میرے بیٹو! اللہ نے تمھارے لیے یہی دین پسند فرمایا ہے، اس لیے مرتے دم تک اسی کے فرماں بردار رہنا۔‘‘
سورۂ ابراہیم میں ہے:
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ ہَذَا الْبَلَدَ آمِناً وَّاجْنُبْنِیْ وَبَنِیَّ أَنْ نَّعْبُدَ الأَصْنَامَ ۔ رَبِّ إِنَّہُنَّ أَضْلَلْنَ کَثِیْراً مِّنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَإِنَّہُ مِنِّیْ وَمَنْ عَصَانِیْ فَإِنَّکَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ ۔ رَّبَّنَا إِنِّیْ أَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلاَۃَ فَاجْعَلْ أَفْءِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہْوِیْ إِلَیْْہِمْ وَارْزُقْہُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّہُمْ یَشْکُرُونَ (ابراہیم ۱۴:۳۵-۳۷)
’’اور جب ابراہیم نے دعا کی کہ میرے پروردگار! اس شہر کو امن کی جگہ بنا دے اور مجھے او ر میری اولاد کو اس بات سے بچائے رکھ کہ ہم بتوں کی پرستش کرنے لگیں۔ اے پروردگار! ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ہے۔ سو جوشخص نے میری پیروی کی، وہ میرا ہے اور جس نے میری نافرمانی کی تو تو بخشنے والا مہربان ہے۔ اے ہمارے پروردگار! میں نے اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس ایک ایسی وادی میں بسایا ہے جہاں کوئی کھیتی نہیں تاکہ اے پروردگار، یہ نماز قائم کریں۔ سو تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے اور انھیں پھلوں سے روزی دے تاکہ یہ شکر ادا کریں۔ ‘‘
بنی اسماعیل اپنی تاریخ کے بیشتر حصے میں اصل ملت پر قائم رہے، تاہم رفتہ رفتہ ان میں انحراف پیدا ہوتا گیا اور شرک وبدعت ان کے مابعد الطبیعیاتی تصورات، مناسک عبادت اور معاشرتی رسم ورواج میں سرایت کرتے چلے گئے اور توحید خالص کا مرکز یعنی بیت الحرام ’شرک‘ کا گڑھ بن کر رہ گیا۔ سیدنا ابراہیم اور سیدنا اسماعیل علیہما السلام کی دعا کے مطابق چھٹی صدی عیسوی کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ مکرمہ میں مبعوث کیا تو ملت ابراہیمی کی اصل تعلیمات کے احیا اور مشرکانہ بدعات کے خاتمے کو آپ کی جدوجہد کا ہدف قرار دیا۔ قرآن نے واضح کیا کہ آپ عام معنوں میں کوئی داعی، واعظ اور مبلغ نہیں، بلکہ خدا کے رسول اور اس کے آخری پیغمبر ہیں، چنانچہ خداکے قانون کے مطابق آپ کی جدوجہد کا کامیابی سے ہم کنار ہونا اور جزیرۂ عرب میں خدا کے دین کا غلبہ قائم ہونا ایک طے شدہ فیصلہ ہے جو اہل کفر کی خواہشات، کوششوں اور سازشوں کے علی الرغم قائم ہو کر رہے گا:
ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ (التوبہ ۹:۳۳)
’’اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے تاکہ اسے سارے دینوں پر غالب کر دے، چاہے مشرکوں کو یہ بات کتنی ہی ناپسند ہو۔‘‘
دین کا یہ غلبہ، ظاہر ہے کہ منکرین حق کے خلاف قائم کیا جانا تھااور اس کی عملی صورت یہ تھی کہ بیت اللہ کو مشرکین کے قبضہ وتصرف سے آزاد کرا کے دوبارہ توحید خالص کا مرکز بنا دیا جائے اور اسلام کے علاوہ کوئی دوسرا دین سرزمین عرب میں غالب اور سربلند نہ رہے۔ اس ہدف کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ’قتال‘ کاناگزیر ہونا تاریخ وسیرت سے واقف ہر شخص پر واضح ہے اور قرآن مجید میں کفار کے خلاف جہاد وقتال کے احکام، جیسا کہ ہم ابھی واضح کریں گے، اسی تناظر میں وارد ہوئے ہیں۔ چنانچہ دیکھیے:
بیت اللہ پر اس وقت مشرکین قریش قابض ومتصرف تھے اور نہ صرف یہ کہ دعوت توحید کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، بلکہ انھوں نے توحید پر ایمان رکھنے کی پاداش میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ پر ایمان لانے والے لوگوں پر ظلم وستم اور ایذا رسانی کا سلسلہ بھی شروع کررکھا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس صورت حال میں بیت اللہ کو شرک سے پاک کر کے دوبارہ توحید کا مرکز بنا دینا اس کے بغیر ممکن نہیں تھا کہ مشرکین کے خلاف تلوار اٹھائی جائے اور ان کے غلبہ وتسلط کو طاقت کے زور پر ختم کر دیا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر سرداران قریش کو اس حقیقت پر ان الفاظ میں متنبہ کیا کہ:
اتسمعون یا معشر قریش اما والذی نفسی بیدہ لقد جئتکم بالذبح (ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ ۱/۲۷۴)
’’اے گروہ قریش! کیا تم سن رہے ہو؟ یاد رکھو، خدا کی قسم! میں تمھارے لیے ذبح کا انجام لے کر آیا ہوں۔‘‘
ایک دوسرے موقع پر ابوجہل نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پیغام کو یوں بیان کیا کہ:
ان محمدا یزعم انکم ان تابعتموہ علی امرہ کنتم ملوک العرب والعجم ....وان لم تفعلوہ کان لہ فیکم ذبح (السیرۃ النبویۃ، ۱/۴۳۶)
’’محمد کا دعویٰ ہے کہ اگر تم نے اس کے دین کی پیروی کی تو تم عرب وعجم کے حکمران بن جاؤ گے، لیکن اگر ایسا نہ کیا تو اس کے ہاتھوں تمھاری خوں ریزی ہوگی۔‘‘
تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیروکاروں کو مکہ مکرمہ میں اس کی اجازت نہیں دی گئی جس کی وجہ یہ ہے کہ کسی آزاد اور خود مختار علاقے میں ایک باقاعدہ نظم اجتماعی کے تحت اپنی سیاسی وحربی طاقت کو مجتمع کیے بغیر یہ مقصد حاصل کرنا ممکن نہیں تھا، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ہدایت کی گئی کہ حق کا غلبہ باطل پر بزور قوت قائم کر دینے کے لیے انھیں جس حکومت واقتدار کی ضرورت ہے، اس کے حصول کے لیے وہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتے رہیں:
وَقُل رَّبِّ أَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَل لِّیْ مِن لَّدُنکَ سُلْطَاناً نَّصِیْراً ۔ وَقُلْ جَاء الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَہُوقاً (بنی اسرائیل ۱۷:۸۰، ۸۱)
’’اور دعا کرو کہ اے پروردگار! مجھے عزت واکرام کے ساتھ داخل کر اور (مکہ سے) خیر وخوبی کے ساتھ نکال اور مجھے اپنے پاس سے ایسا اقتدار نصیب فرما جو مددگار ہو۔ اور کہہ دو کہ حق آ گیا اور باطل نابود ہو گیا، کیونکہ باطل کے لیے نابود ہوناہی مقدر ہے۔‘‘
اسی دعا کی روشنی میں آپ مسلمانوں کے لیے کوئی جاے پناہ اور مرکز مہیا کرنے کی غرض سے ہر سال موسم حج میں حج کے لیے آنے والے مختلف قبیلوں کے پاس جاتے، اپنے آپ کو ان پر پیش کر کے جاے پناہ فراہم کرنے کا مطالبہ کرتے اور انھیں بتاتے کہ اس دین کا غلبہ قائم ہو کر رہے گا، اس لیے وہ آگے بڑھ کر اس کے انصار بننے کی سعادت حاصل کر لیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ نے اس سلسلے میں بنو عامر سے گفتگو کی تو ان کے سردار نے کہا:
ارایت ان نحن بایعناک علی امرک ثم اظہرک اللہ علی من خالفک ایکون لنا الامر من بعدک؟ قال الامر الی اللہ یضعہ حیث یشاء قال فقال لہ افتہدف نحورنا للعرب دونک فاذا اظہرک اللہ کان الامر لغیرنا! لا حاجۃ لنا بامرک (السیرۃ النبویۃ ۱/۳۸۷)
’’یہ بتائیں کہ اگر ہم آپ کے دین کے معاملے میں آپ کی بیعت کر لیں اور پھر اللہ آپ کے مخالفوں پر آپ کو غلبہ عطا کر دے تو کیا آپ کے بعد اقتدار ہمیں ملے گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا اختیار اللہ کے پاس ہے، وہ جس کو چاہے گا اقتدار دے گا۔ اس پر بنو عامر کے سردار نے کہا کہ اچھا، آپ کے دفاع میں عربوں کے سامنے سینہ سپر تو ہم ہوں اور پھر جب اللہ آپ کو غالب کر دے تو اقتدار کسی اور کو مل جائے! ہمیں آپ کے دین کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
اللہ کے حکم سے آپ کا مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنا اسی مقصد کے لیے تھا۔ چنانچہ انصار مدینہ کے اسلام قبول کرنے پر جب آپ نے ان سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ اپنے شہر میں مسلمانوں کے لیے ایک جاے پناہ اورمرکز فراہم کریں تو انھوں نے سوال کیا کہ:
یا رسول اللہ ان بیننا وبین الرجال حبالا وانا قاطعوہا یعنی الیہود فہل عسیت ان نحن فعلنا ذلک ثم اظہرک اللہ ان ترجع الی قومک وتدعنا؟ (السیرۃ النبویۃ، ۱/۴۰۲)
’’یا رسول اللہ! ہمارے اور یہود کے مابین تعلقات ہیں جنھیں (آپ کا ساتھ دینے کے لیے) ہم توڑ دیں گے، لیکن کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ ہم یہ کر لیں اور پھر اللہ آپ کو (قریش پر) غلبہ عطا کر دے تو آپ ہمیں چھوڑ کر واپس اپنی قوم کے پاس چلے جائیں؟‘‘
مدینہ میں مسلمانوں کو ایک محفوظ جائے پناہ میسر آ گئی اور وہ ہجرت کر کے وہاں مجتمع ہونا شرو ع ہو گئے تو سورۂ حج کی آیت ۳۹ میں اللہ تعالیٰ نے انھیں مشرکین مکہ کے خلاف قتال کی باقاعدہ اجازت دے دی :
أُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللّٰہَ عَلَی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرٌ، الَّذِیْنَ أُخْرِجُوا مِن دِیَارِہِمْ بِغَیْْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن یَقُولُوا رَبُّنَا اللّٰہُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَہُم بِبَعْضٍ لَّہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیْہَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْراً وَلَیَنصُرَنَّ اللّٰہُ مَن یَنصُرُہُ إِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ، الَّذِیْنَ إِن مَّکَّنَّاہُمْ فِیْ الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَآتَوُا الزَّکَاۃَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنکَرِ وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْأُمُورِ (الحج ۲۲:۳۹، ۴۱)
’’جن اہل ایمان کے ساتھ جنگ کی جاتی ہے، انہیں اجازت دی جاتی ہے (کہ وہ بھی لڑائی کریں) کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا اور بے شک اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ناحق ان کے گھروں سے نکال دیا گیا، محض اس جرم میں کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب صرف اللہ ہے۔ اور اگر اللہ ایک گروہ (کے ظلم وعدوان کو) دوسرے گروہ کے ذریعے سے دفع نہ کرے تو خانقاہوں، گرجوں، کنیسوں اور مسجدوں جیسے مقامات، جن میں اللہ کو کثرت سے یاد کیا جاتا ہے، گرا دیے جاتے۔ اور جو لوگ اللہ کی مدد کریں گے، اللہ ضرور ان کی مدد کرے گا۔ بے شک اللہ بہت قوت والا نہایت غالب ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اگر ہم اس سرزمین میں اقتدار دیں گے تو وہ نماز قائم کرین گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم کریں گے اور برائی سے روکیں گے۔ اور معاملات کا انجام اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔‘‘
سورۂ حج میں یہ اجازت جس سلسلہ بیان میں آئی ہے، اس کا آغاز اس آیت سے ہوتا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَیَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِیْ جَعَلْنَاہُ لِلنَّاسِ سَوَآءًنِ الْعَاکِفُ فِیْہِ وَالْبَادِ وَمَنْ یُّرِدْ فِیْہِ بِاِلْحَادٍم بِظُلْمٍ نُّذِقْہُ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ (الحج ۲۲:۲۶)
’’جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکنے لگے اور اس حرمت والی مسجد سے بھی جسے ہم نے تمام لوگوں کے لیے مساوی کر دیا ہے، وہیں کے رہنے والے ہوں یا باہر کے ہوں، جو بھی ظلم کے ساتھ وہاں الحاد کا ارادہ کرے، ہم اسے دردناک عذاب چکھائیں گے۔‘‘
اس کے بعد مشرکین کے الحاد اور کفر کو واضح کرنے کے لیے آیت ۲۶ سے ۳۸ تک بیت اللہ کی ابتدائی تاریخ اور اس کی تعمیر کے اصل مقصد کو واضح کیا گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس گھر کے لیے جگہ خود متعین فرما کر حضرت ابراہیم کو اس کی تعمیر کا حکم دیا اور انھیں اس کا متولی بنا کر ہدایت کی کہ وہ اس کو خداے واحد کی عبادت کرنے والوں کے لیے کفر وشرک کی آلودگیوں سے پاک رکھیں۔ اسی ضمن میں قربانی کی رسم کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ملت ابراہیمی میں قربانی صرف اللہ کے نام پر مشروع کی گئی تھی اور اس کے پیروکاروں سے کہا گیا تھا کہ وہ خداے واحد ہی کے حضور قربانی گزرانیں اور اصنام واوثان کی نجاست سے دور رہیں۔ اس کے بعد آیت ۳۹ میں فرمایا گیا ہے کہ چونکہ مشرکین نے ملت ابراہیمی کے اصل پیروکاروں یعنی اہل ایمان کو محض اس وجہ سے مکہ مکرمہ سے نکال دیا ہے کہ وہ توحید کے قائل ہیں، اس لیے انھیں اجازت ہے کہ اس ظلم کا بدلہ لینے کے لیے مشرکین سے جہاد کریں۔ قرآن نے یہاں ’ولینصرن اللہ من ینصرہ‘ کے الفاظ سے واضح کیا ہے کہ اس قتال کا مقصد محض مسلمانوں پرہونے والے ظلم کا بدلہ لینا نہیں، بلکہ خدا کے دین کی نصرت کرنا بھی تھا جس کی عملی صورت یہ تھی کہ بیت اللہ کو مشرکین کے تسلط سے آزاد کرا کے اسے ملت ابراہیمی کی روایات کے مطابق خالص توحید کا مرکز بنانے کے لیے قتال کیا جائے۔ ابن عباس بیان کرتے ہیں:
لما اخرج النبی صلی اللہ علیہ وسلم من مکۃ قال ابوبکر اخرجوا نبیہم لیہلکن فانزل اللہ تعالیٰ اذن للذین یقاتلون بانہم ظلموا وان اللہ علی نصرہم لقدیر فقال ابوبکر لقد علمت انہ سیکون قتال (ترمذی، رقم ۳۰۹۵)
’’جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے نکلنے پرمجبور کر دیا گیا تو ابوبکر نے کہا کہ اہل مکہ نے اپنے نبی کو نکال دیا ہے، اب یہ ضرور ہلاک ہو کر رہیں گے۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ: اذن للذین یقاتلون بانہم ظلموا وان اللہ علی نصرہم لقدیر تو ابوبکر نے کہا کہ میں نے جان لیا ہے کہ (قریش کو سزا دینے کے لیے) قتال ہوگا۔‘‘
دوسرے مقام پر قرآن نے واضح کیا ہے کہ قریش سے عرب کا اقتدار چھین کر اہل ایمان کے سپرد کیے جانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ جزیرۂ عرب میں شرک کے بجاے توحید غالب ہو اور خدا کا پسندیدہ دین یہاں متمکن ہو جائے:
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا مِنکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُم فِیْ الْأَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِیْ ارْتَضَی لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُم مِّن بَعْدِ خَوْفِہِمْ أَمْناً یَعْبُدُونَنِیْ لَا یُشْرِکُونَ بِیْ شَیْْئاً وَمَن کَفَرَ بَعْدَ ذَلِکَ فَأُوْلَءِکَ ہُمُ الْفَاسِقُونَ (النور ۲۴:۵۵)
’’اللہ نے تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے، وعدہ کیا ہے کہ وہ ہرحال میں انھیں اس سرزمین میں اسی طرح اقتدار عطا کرے گا جیسے ان سے پہلے لوگوں کو عطا کیا اور ان کے لیے ان کے دین کو لازماً مستحکم کر دے گا جسے اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے اور ان کے خوف کو یقیناًامن سے بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے اور کسی کو میرے ساتھ شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور جو اس کے بعد بھی انکار کریں تو وہی بدکار ہیں۔‘‘
قتال کی اجازت ملنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار مدینہ سے عقبہ اخیرہ کی بیعت لی تو اس کا یہ مفہوم انصار اور اہل مکہ، دونوں پر بالکل واضح تھا کہ یہ درحقیقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کفار کے خلاف برسرجنگ ہونے کی تمہید ہے۔ بیعت کے موقع پر عباس بن عبادہ نے انصار سے مخاطب ہو کر کہا:
یا معشر الخزرج ہل تدرون علام تبایعون ہذا الرجل؟ قالوا نعم قال انکم تبایعونہ علی حرب الاحمر والاسود من الناس (ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۱/۴۰۵)
’’اے گروہ خزرج! کیا تم جانتے ہوکہ تم اس آدمی کے ہاتھ پر کس چیز کی بیعت کر رہے ہو؟ انھوں نے کہا ، ہاں۔ عباس نے کہا کہ تم اس کے ساتھ (عرب کے) سارے لوگوں کے ساتھ جنگ کرنے کی بیعت کر رہے ہو۔‘‘
بیعت کے بعد انصار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اسی وقت کفار کے تلوار اٹھانے کے لیے تیار ہیں:
واللہ الذی بعثک بالحق ان شئت لنمیلن علی اہل منی غدا باسیافنافقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لم نؤمر بذلک (السیرۃ النبویۃ، ۱/۴۰۷)
’’اس اللہ کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے، ہم کل ہی اپنی تلواروں کے ساتھ اہل منیٰ پر پل پڑیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ ابھی ہمیں اس کا حکم نہیں دیا گیا۔‘‘
ابن اسحاق بیعت عقبہ ثانیہ کی سیاسی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
کانت بیعۃ الحرب حین اذن اللہ لرسولہ صلی اللہ علیہ وسلم فی القتال شروطا سوی شرطہ علیہم فی العقبۃ الاولی کانت الاولی علی بیعۃ النساء وذلک ان اللہ تعالیٰ لم یکن اذن لرسولہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الحرب فلما اذن اللہ لہ فیہا وبایعہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی العقبۃ الاخیرۃ علی حرب الاحمر والاسود اخذ لنفسہ واشترط علی القوم لربہ وجعل لہم علی الوفاء بذلک الجنۃ (السیرۃ النبویۃ، ۱/۴۱۲)
’’جب اللہ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتال کی اجازت دے دی تو آپ نے (انصار سے) جنگ کی جو بیعت لی، اس میں ایسی شرائط بھی شامل کیں جو عقبہ اولیٰ کی بیعت میں نہیں تھیں۔ پہلی بیعت تو انھی باتوں پر لی گئی تھی جن کا ذکر عورتوں سے لی جانے والی بیعت میں ہوا ہے کیونکہ اس وقت اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگ کی اجازت نہیں دی تھی۔ پھر جب اللہ نے اس کی اجازت دے دی اور آپ نے عقبہ اخیرہ میں ان سے احمر واسود کے خلاف جنگ پر بیعت لی تو آپ نے اپنے لیے (پناہ اور حفاظت) کا عہد بھی لیا اور لوگوں پر اللہ کے عہد پر قائم رہنے کی شرط بھی عائد کی اور اس عہد کو پورا کرنے پر ان سے جنت کا وعدہ کیا۔‘‘
مدینہ میں مسلمانوں کے اجتماع اور پھر خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کا یہ مفہوم ومقصد قریش پر بھی بالکل واضح تھا، چنانچہ بیعت عقبہ کا واقعہ ان کے علم میں آیا تو ان کے اعیان اگلے ہی دن بنو خزرج کے پاس گئے اور ان سے کہا:
یا معشر الخزرج انہ قد بلغنا انکم قد جئتم الی صاحبنا ہذا تستخرجونہ من بین اظہرنا وتبایعونہ علی حربنا (السیرۃ النبویۃ، ۱/۴۰۷)
’’اے گروہ خزرج! ہمیں اطلاع ملی ہے کہ تم ہمارے اس آدمی کے پاس اس لیے آئے ہو کہ اسے ہمارے درمیان سے نکال کر لے جاؤ اور تم ہمارے ساتھ جنگ کرنے کے لیے اس کے ساتھ بیعت کر رہے ہو۔‘‘
ابن اسحاق لکھتے ہیں:
لما رات قریش ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قد صارت لہ شیعۃ واصحاب من غیرہم بغیر بلدہم وراوا خروج اصحابہ من المہاجرین الیہم عرفوا انہم قد نزلوا دارا واصابوا منہم منعۃ فحذروا خروج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الیہم وعرفوا انہ قد اجمع لحربہم (السیرۃ النبویۃ، ۱/۴۳۴)
’’جب قریش نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی جماعت بن گئی ہے اور اہل مکہ کے علاوہ ایک دوسرے علاقے میں کچھ اور ساتھی بھی ان کو مل گئے ہیں اور پھر انھوں نے مسلمانوں کے مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے کو بھی دیکھا تو انھوں نے سمجھ لیا کہ مسلمانوں کو قریش کے مقابل ایک محفوظ ٹھکانہ مل گیا ہے، چنانچہ انھیں فکر ہوئی کہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی نکل کر ان کے پاس چلے جائیں گے۔ قریش نے جان لیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے خلاف جنگ کا مصمم عزم کر چکے ہیں۔‘‘
یہی وہ ڈر تھا جس کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے موقع پر جب قریش آپ کے حوالے سے کوئی لائحہ عمل وضع کرنے کے لیے دار الندوہ میں جمع ہوئے تو آپ کو گرفتار کر کے محبوس کر دینے یا مکہ سے نکال دینے کی تجاویز پر اتفاق نہیں ہو سکا، کیونکہ دونوں صورتوں میں یہ خطرہ تھا کہ آپ یا آپ کے ساتھی بالآخر مکہ مکرمہ پر حملہ کر کے قریش کا اقتدار ختم کرنے کی کوشش کریں گے، چنانچہ قریش نے نعوذ باللہ آپ کو قتل کرنے کی تجویز پر اتفاق کر لیا۔ (ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۱/۴۳۶)
بہرحال مشرکین کے ناپاک منصوبوں کے علی الرغم جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے آئے اور آپ کی سربراہی میں ایک باقاعدہ اسلامی حکومت قائم ہو گئی تو سورۂ بقرہ میں مشرکین کے خلاف قتال کا باقاعدہ حکم دیا گیا اور یہ واضح کیا گیا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا اصل ہدف اللہ کے دین کو سربلند کرنا ہے اور قریش کے خلاف قتال کر کے ان کے فتنہ وفساد کو ختم کرنے کا حکم اسی مقصد کے تحت دیا جا رہا ہے:
وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلاَ تَعْتَدُوْا إِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبِّ الْمُعْتَدِیْنَ۔ وَاقْتُلُوْہُمْ حَیْْثُ ثَقِفْتُمُوہُمْ وَأَخْرِجُوہُمْ مِّنْ حَیْْثُ أَخْرَجُوکُمْ وَالْفِتْنَۃُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ وَلاَ تُقَاتِلُوہُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّی یُقَاتِلُوکُمْ فِیْہِ فَإِنْ قَاتَلُوکُمْ فَاقْتُلُوہُمْ کَذَلِکَ جَزَاءُ الْکَافِرِیْنَ ۔فَإِنِ انتَہَوْاْ فَإِنَّ اللّٰہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ۔ وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لاَ تَکُونَ فِتْنَۃٌ وَیَکُونَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ فَإِنِ انْتَہَواْ فَلاَ عُدْوَانَ إِلاَّ عَلَی الظَّالِمِیْنَ (البقرہ ۲:۱۹۰-۱۹۳)
’’اور جو لوگ تم سے لڑتے ہیں، تم بھی اللہ کی راہ میں ان سے لڑو، لیکن زیادتی نہ کرنا کیونکہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اور ان کو جہاں پاؤ، قتل کرو اور جہاں سے انھوں نے تم کو نکالا ہے، وہاں سے تم بھی ان کو نکالو۔ اور فتنہ، قتل سے کہیں بڑھ کر ہے۔ ہاں، مسجد حرام کے پاس ان سے لڑائی نہ کرو، یہاں تک کہ وہ تم سے لڑائی نہ کریں۔ پھر اگر وہ لڑیں تو ان کو قتل کرو۔ یہی ہے بدلہ کافروں کا۔ اور اگر وہ باز آ جائیں تو بے شک اللہ معاف کر دینے والا، مہربان ہے۔ اور ان سے برابر لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ ہی کا ہو جائے۔ اور اگر وہ باز آ جائیں تو ظالموں کے علاوہ کسی پر زیادتی روا نہیں۔‘‘
یہاں قتال کی غایت یہ بیان کی گئی ہے کہ ’فتنہ‘ باقی نہ رہے اور اس کا نتیجہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ کا دین غالب ہو جائے گا۔ اس سے قرآن کی مراد یہ تھی کہ قریش کی قوت کو توڑ کر مکہ مکرمہ کو فتح کر لیا جائے اور مشرکین کو بیت الحرام سے بے دخل کر کے یہاں سے شرک کے تمام آثار کو مٹا دیا جائے تاکہ عرب کے مشرکین شرک کو ذلیل اور توحید کو سربلند دیکھ کر من حیث الجماعت دائرۂ اسلام میں داخل ہو جائیں۔ سورۂ نصر میں اللہ تعالیٰ نے فتح مکہ اور مشرکین عرب کے بحیثیت قوم اسلام قبول کر لینے کا ذکر ایسے بلیغ اسلوب میں کیا گیا ہے کہ رسول اللہ کی بعثت کے یہ دونوں ہدف پوری قطعیت کے ساتھ واضح ہو جاتے ہیں۔ فرمایا:
إِذَا جَاء نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ ۔ وَرَأَیْْتَ النَّاسَ یَدْخُلُونَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ أَفْوَاجاً ۔ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ إِنَّہُ کَانَ تَوَّاباً (النصر ۱۱۰:۱-۳)
’’جب اللہ کی مدد آ جائے اور (مکہ) فتح ہو جائے اور تم لوگوں کو اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوتے ہوئے دیکھ لو تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرو اور اس سے مغفرت مانگو، بے شک وہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔‘‘
قرآن نے فتح مکہ کی اسی اہمیت کی وجہ سے یہ واضح کر دیا کہ مکہ فتح ہونے کے بعد قتال میں حصہ لینے والے کسی طرح اس سے پہلے جہاد کرنے والوں کے برابر نہیں ہو سکتے:
لَا یَسْتَوِیْ مِنکُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُوْلَءِکَ أَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیْنَ أَنفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَکُلّاً وَعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنَی وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیْرٌ (الحدید ۵۷:۱۰)
’’تم میں سے وہ لوگ جنھوں نے (مکہ کی) فتح سے پہلے مال خرچ کیا اور جہاد کیا (اور وہ جنھوں نے نہیں کیا) برابر نہیں ہو سکتے۔ ان لوگوں کا درجہ ان سے بڑا ہے جنھوں نے فتح کے بعد مال خرچ کیا اور جہاد کیا۔ اور دونوں کے ساتھ اللہ نے اچھے بدلے کا وعدہ کیا ہے اور اللہ تمہارے اعمال کی پوری خبر رکھتا ہے۔‘‘
اس ضمن میں وَمَا کَانُوآ اَوْلِیَآءَ ہُ اِنْ اَوْلِیَآؤُہُ اِلاَّ الْمُتَّقُوْنَ (الانفال ۸: ۳۳۔ ’’مشرکین مسجد حرام کے متولی نہیں۔ اس کی تولیت کے حق دار تو صرف اللہ سے ڈرنے والے ہیں‘‘) اور ’مَا کَانَ لِلْمُشْرِکِیْنَ أَن یَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللّٰہ شَاہِدِیْنَ عَلَی أَنفُسِہِمْ بِالْکُفْرِ‘ (التوبہ ۹:۱۷۔ ’’مشرکین کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے اوپر خود کفر کی گواہی دیتے ہوئے اللہ کی مساجد کو آباد کریں) جیسی آیات میں یہ بات تو دوٹوک الفاظ میں واضح کر دی گئی تھی کہ مسجد حرام کو آباد کرنے اور اس کی تولیت وانتظام کے اصل حق دار اہل ایمان ہیں، جبکہ مشرکین اس کا کوئی حق نہیں رکھتے، تاہم مکہ مکرمہ کو فتح کرنے کے لیے فوری اقدام کرنے کے بجائے یہ حکمت عملی اختیار کی گئی کہ مختلف معرکوں میں قریش کی حربی قوت اور سیاسی پوزیشن کو زک پہنچا کر ان کا دم خم نکال دیا جائے تاکہ جب مسلمان مکہ کو فتح کرنے کے لیے جائیں تو شکستہ دل قریش ان کی مزاحمت نہ کر سکیں اور حدود حرم میں زیادہ خون ریزی کی نوبت نہ آنے پائے۔ 
اس ضمن میں پہلا اور فیصلہ کن معرکہ بدر میں بپا ہوا ۔ ذخیرۂ سیرت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ غزوۂ بدر کے محرکات میں، من جملہ دیگر عوامل کے، تحریش واغرا (Provocation) کی وہ کارروائیاں بھی شامل تھیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے وقتاً فوقتاً قریش کے تجارتی قافلوں پر حملوں کی صورت میں کی گئیں۔ چنانچہ قریش اسی طرح کے ایک حملے کی اطلاع پا کر اپنے تجارتی قافلے کو بچانے کے لیے مکہ سے نکلے اور اللہ تعالیٰ کی اسکیم کے مطابق بدر کے مقام پر ان کا مسلمانوں سے آمنا سامنا ہوا۔ ابوسفیان اپنی تدبیر سے قریش کے تجارتی قافلے کو مسلمانوں سے بچا لے جانے میں کامیاب ہو گئے تو سرداران قریش میں سے بعض نے اس بات کی کوشش کی کہ ان کے اور مسلمانوں کے مابین لڑائی نہ ہو، تاہم ابو جہل نہیں مانا اور یہ معرکہ برپا ہو کر رہا۔ اس موقع پر جنگ سے گریز کا مشورہ دینے والے سرداروں کی گفتگو سے عیاں ہے کہ جزیرۂ عرب پر اسلام کا غلبہ قائم کرنے کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عزم وارادہ ان پر بالکل واضح تھا۔ چنانچہ عتبہ بن ربیعہ نے اپنے خطبے میں قریش کو مخاطب کر کے کہا:
یا معشر قریش .... ارجعوا وخلوا بین محمد وبین سائر العرب فان اصابوہ فذاک الذی اردتم وان کان غیر ذلک الفاکم ولم تعرضوا منہ ما تریدون (ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۱/۵۵۰، ۵۵۱)
’’اے گروہ قریش! .... واپس چلے چلو اور محمد اور پورے عرب کو آپس میں نمٹنے دو۔ اگر اہل عرب محمد پر غالب آ گئے تو یہی تم چاہتے ہو اور اگر اس سے مختلف معاملہ ہوا (اور تمھیں بھی محمد کے سامنے سر جھکانا پڑا) تو وہ تمھیں اس حال میں پائیں گے کہ تم نے ان کے ساتھ کوئی جنگ نہیں کی ہوگی جس کا تم اس وقت ارادہ رکھتے ہو۔‘‘
بہرحال جنگ بدر میں قریش کو عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی صف اول کی قیادت تہ تیغ ہو گئی اور ستر کے قریب قیدی مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔ قریش کی یہ عبرت ناک شکست درحقیقت فتح مکہ کی تمہید تھی، چنانچہ اس موقع پر کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے اپنے اشعار میں سرداران قریش کو یوں خبردار کیا:
فلا تعجل ابا سفیان وارقب
جیاد الخیل تطلع من کداء
بنصر اللہ روح القدس فیہا
ومیکال فیا طیب الملاء
(السیرۃ النبویۃ ۲/۲۵)
’’ابو سفیان! جلدی میں مت پڑو اور اس وقت کا انتظار کرو جب (محمد اور اصحاب محمد کے) عمدہ اور بہترین گھوڑے مقام کداء سے نمودار ہوں گے۔ ان کو اللہ کی مدد اور جبریل اور میکائیل کی رفاقت حاصل ہوگی۔ سو یہ کیسی پاکیزہ جماعت ہوگی۔‘‘
احد اور احزاب کی جنگیں بھی بدر ہی سے شروع ہونے والے سلسلے کی کڑیاں تھیں۔ ان جنگوں کے ذریعے سے قریش کی طاقت اور ان کے عزم وہمت کو شکست دینے کا مقصد پورا ہو گیا اور ۵ ہجری میں غزوۂ خندق کے موقع پر مشرکین کا لشکر جرار ناکام ونامراد واپس پلٹ گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرما دیا کہ اب مشرکین میں جنگ کا دم خم باقی نہیں رہا، اس لیے اب اقدام کرنے کی باری ان کی نہیں، بلکہ مسلمانوں کی ہے۔ آپ نے فرمایا:
الآن نغزوہم ولا یغزوننا نحن نسیر الیہم (بخاری، رقم ۳۸۰۱)
’’اب ہم ان پر حملہ آور ہوں گے اور وہ ہم پر حملہ نہیں کریں گے۔ اب ان کی طرف بڑھنے کی باری ہماری ہے۔‘‘
۶ ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ عمرے کے ارادے سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے تو مشرکین نے انھیں حدیبیہ کے مقام پر روک دیا۔ سابقہ ہدایات کی رو سے اس موقع پر مسلمانوں کو حدود حرم میں تلوار اٹھانے کا پورا پورا حق حاصل تھا، چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض اہم تر مصالح کے پیش نظر مشرکین سے صلح کا معاہدہ کر لیا تو اس کو ذہنی طور پر قبول کرنا صحابہ کے لیے ایک آزمائش بن گیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ کو قرآن مجید میں اس صلح کی حکمت اور اس کے پوشیدہ فوائد پر باقاعدہ ایک سورت نازل کرنا پڑی جس میں انھیں یہ بتایا گیا کہ اگرچہ مشرکین ان کو مسجد حرام سے روکنے کے جرم کے مرتکب ہوئے ہیں، لیکن چونکہ مکہ میں ابھی بہت سے ایسے اہل ایمان موجود ہیں جو اپنے ایمان کو مخفی رکھے ہوئے ہیں اور ان کے اور مشرکین کے مابین واضح امتیاز نہ ہونے کی وجہ سے خدشہ ہے کہ وہ بھی لڑائی میں تہ تیغ ہو جائیں گے، اس لیے اس موقع پر قتال کو موخر کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی انھیں فتح مکہ کی بشارت اس وضاحت کے ساتھ دی گئی کہ مسجد حرام کا مسلمانوں کے تصرف میں آنا چونکہ ’اظہار دین‘ یعنی جزیرۂ عرب میں غلبہ اسلام کا لازمی تقاضا ہے، اس لیے یہ وعدہ یقیناًپورا ہو کر رہے گا:
لَقَدْ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوْلَہُ الرُّؤْیَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَاآ اللّٰہُ آمِنِیْنَ مُحَلِّقِیْنَ رُءُ وْسَکُمْ وَمُقَصِّرِیْنَ لَا تَخَافُوْنَ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوْا فَجَعَلَ مِنْ دُوْنِ ذَلِکَ فَتْحًا قَرِیْبًا۔ ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُوْلَہُ بِالْہُدَیٰ وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا (الفتح ۴۸: ۲۷۔۲۸)
’’یقیناًاللہ نے اپنے رسول کو سچا خواب دکھایا کہ اللہ نے چاہا تو تم یقیناًپورے امن وامان کے ساتھ مسجد حرام میں داخل ہوگے، سر منڈواتے ہوئے اور سر کے بال کترواتے ہوئے، تمہیں کوئی خوف لاحق نہیں ہوگا۔ وہ ان باتوں کو جانتا ہے جن کو تم نہیں جانتا، پس اس نے اس کے بعد ایک قریبی فتح تمہارے لیے مقدر کر دی ہے۔ وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اسے ہر دین پر غالب کر دے۔ اور اللہ کافی ہے گواہی دینے والا۔‘‘
قریش کے ساتھ اس معاہدے کے ذریعے سے آپ ایک طرف ان لوگوں کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا چاہتے تھے جو اسلام کو قبول کرنے کے خواہش مند تھے لیکن قبائلی تعلقات کی وجہ سے قریش اور مسلمانوں کی کشمکش میں کھل کر قریش کی مخالفت مول نہیں لے سکتے تھے اور دوسری طرف آپ مسلمانوں کی قوت اور توجہ کو یکسو کر کے قریش کے علاوہ دیگر مشرک قبائل کی سرکوبی کے لیے مرکوز کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ آپ نے قریش کو معاہدۂ صلح کی پیش کش کرتے ہوئے یہ بات کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر ان پر صاف واضح کر دی کہ یہ صلح مستقل بقاے باہمی کی غرض سے نہیں، بلکہ محض فریقین کی مصلحت کے لحاظ سے عارضی طور پر کی جا رہی ہے۔ آپ نے ان سے کہا:
انا لم نات لقتال احد، انما جئنا لنطوف بہذا البیت، فمن صدنا عنہ قاتلناہ، وقریش قوم قد اضرت بہم الحرب ونہکتہم، فان شاء وا ماددتہم مدۃ یامنون فیہا ویخلون فی ما بیننا وبین الناس، والناس اکثر منہم، فان ظہر امری علی الناس کانوا بین ان یدخلوا فی ما دخل فیہ الناس او یقاتلوا وقد جمعوا، واللہ لاجہدن علی امری ہذا حتی تنفرد سالفتی او ینفذ اللہ امرہ (واقدی، المغازی، ۲/۵۹۳)
’’ہم کسی کے ساتھ لڑنے کے لیے نہیں آئے۔ ہم تو بیت اللہ کا طواف کرنے آئے ہیں۔ ہاں جو ہمیں اس سے روکے گا، اس کے ساتھ ہم جنگ کریں گے۔ جنگ پہلے ہی قریش کو بہت نقصان پہنچا چکی ہے اور اس نے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، اس لیے اگر وہ چاہیں تو میں ایک مخصوص عرصے کے لیے ان کے ساتھ صلح کرنے کو تیار ہوں جس میں انھیں بھی ہماری طرف سے امن حاصل ہو اور وہ بھی ہمارے اور باقی اہل عرب کے معاملے میں دخل انداز نہ ہوں۔ اہل عرب کی تعداد قریش سے زیادہ ہے۔ سو اگر میں ان پر غالب آ گیا تو قریش کو اختیار ہوگا کہ چاہیں تو سب لوگوں کی طرح اس دین میں داخل ہو جائیں اور چاہیں تو جنگ کریں۔ اس وقت ان کی بکھری ہوئی قوت بھی مجتمع ہوگی۔ بخدا میں اس دین کے غلبے کے لیے جدوجہد کرتا رہوں گا، یہاں تک کہ یا تو (سب لوگ میرا ساتھ چھوڑ دیں اور) میں اکیلا رہ جاؤں اور یا اللہ اپنے فیصلے کو نافذ کر دے۔‘‘
سیدنا عثمانؓ رسول اللہ کے سفیر بن کر اہل مکہ کے پاس گئے تو انھوں نے بھی انہیں یہی پیغام دیا:
قال بعثنی رسول اللہ الیکم یدعوکم الی اللہ والی الاسلام تدخلون فی الدین کافۃ فان اللہ مظہر دینہ ومعز نبیہ واخری تکفون ویلی ہذا منہ غیرکم فان ظفروا بمحمد فذلک ما اردتم وان ظفر محمد کنتم بالخیار ان تدخلوا فی ما دخل فیہ الناس او تقاتلوا وانتم وافرون جامون، ان الحرب قد نہکتکم واذہبت بالاماثل منکم (واقدی، المغازی، ۲/۶۰۰، ۶۰۱)
’’عثمان نے ان سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اللہ اور اسلام کی دعوت دے کر تمہارے پاس بھیجا ہے۔ (بہتر یہی ہے کہ) تم سب کے سب اللہ کے دین میں داخل ہو جاؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ بہرحال اپنے دین کو غالب اور اپنے نبی کو سرفراز کریں گے۔ یہ نہیں تو پھر ایک دوسری بات مان لو: تم ہمارے ساتھ جنگ کرنے سے باز آجاؤ اور اسے دوسرے اہل عرب پر چھوڑ دو۔ اگر وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر غالب آ گئے تو تمہارا مقصد پورا ہو جائے گا۔ اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم غالب آ گئے تو تمہیں اختیار ہوگا۔ چاہو تو تمام لوگوں کی طرح تم بھی اس دین کو قبول کر لینا اور چاہو تو جنگ کر لینا۔ اس وقت تم تعداد کے لحاظ سے بھی کہیں زیادہ ہو چکے ہوگے۔ دیکھو، اس جنگ نے تمہاری کمر بالکل توڑ دی ہے اور تمہارے بہترین لوگ اس کا لقمہ بن چکے ہیں۔‘‘
حدیبیہ کا یہ معاہدۂ صلح ۸ ہجری تک برقرار رہا اور قریش کی طرف سے اس کی کوئی خلاف ورزی اس دوران میں سامنے نہیں آئی۔ ۸ ہجری میں قریش نے معاہدۂ حدیبیہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بنو خزاعہ کے خلاف لڑائی میں بنو بکر کو مدد فراہم کی۔ سرداران قریش اس پر نادم ہوئے اور انھوں نے ابو سفیان کو مدینہ بھیجا تاکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معاہدۂ صلح کی تجدید کر کے آئیں۔ ابو سفیان یہ پیشکش لے کر مدینہ گئے لیکن رسول اللہ نے اس کو قبول نہیں کیا۔ بہتیرے جتن کرنے کے بعد آخر کار انھوں نے لوگوں میں کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا کہ:
الا انی قد اجرت بین الناس ولا اظن محمدا یخفرنی 
’’لوگو سن لو! میں نے سب لوگوں کے سامنے (قریش اور ان کے حلیفوں کو) امان دی اور مجھے یقین ہے کہ محمد میری دی ہوئی ا س امان کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔‘‘
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ مجھے امید ہے کہ آپ میری دی ہوئی امان کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔ آپ نے فرمایا: انت تقول ذلک یا ابا سفیان (واقدی، المغازی، ۲/۷۹۴) ’’ابو سفیان، یہ بات تم کہہ رہے ہو (مجھ پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں)‘‘۔ اس کے بعد ابو سفیان ناکام مکہ واپس لوٹ آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد صحابہ کو خفیہ طور پر تیاری کا حکم دیا اور اسی رازداری کی کیفیت میں حملہ آور ہو کر مکہ کو فتح کر لیا اور بیت اللہ کو تمام اصنام واوثان اور مشرکانہ رسوم کے تمام آثار سے پاک کر کے اس کو دین ابراہیمی کی اصل اساس یعنی توحید کے عالمی مرکز کی حیثیت سے بحال کر دیا۔ 
۹ ہجری میں حج کے موقع پر قرآن نے یہ اعلان کیا کہ مشرکین اپنی اعتقادی نجاست کی وجہ سے بیت اللہ میں عبادت تو کجا، اس کے قریب آنے کے حقدار بھی نہیں ہیں، اس لیے اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب بھی پھٹکنے نہ پائیں: 
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا إِنَّمَا الْمُشْرِکُونَ نَجَسٌ فَلاَ یَقْرَبُواْ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِہِمْ ہَذَا (التوبہ ۹:۲۸)
’’اے ایمان والو! مشرکین محض ناپاک ہیں، اس لیے اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب نہ آنے پائیں۔‘‘
چنانچہ اس سال حج کے موقع پر اس حکم کی باقاعدہ منادی کر کے حرم میں مشرکین کے داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ (بخاری، رقم ۳۶۹) ۱۰ ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے لیے مکہ مکرمہ میں تشریف لائے اور دین ابراہیمی کی روایات کے مطابق مناسک حج کی تعلیم لوگوں کو دی۔ (مسلم، رقم ۲۹۵۰) اس طرح کفر وشرک سے بیت اللہ کی تطہیر اور اس کو توحید کا عالمی مرکز بنانے کا مشن مکمل ہو گیا، چنانچہ آپ نے اس موقع پر یہ اعلان فرمایا کہ:
ان الشیطان قد ایس من ان یعبد فی بلادکم ہذہ ابدا (ترمذی، رقم ۳۰۸۵)
’’شیطان کو اب اس بات کی کوئی امید نہیں رہی کہ جزیرۃ العرب میں دوبارہ کبھی اس کی پوجا کی جائے گی۔‘‘ 
بیت اللہ میں دین توحید کی بحالی کے بعد اگلا مرحلہ شرک اور مظاہر شرک سے سرزمین عرب کی تطہیر کا تھا۔ یہ دراصل اسی ذمہ داری کا تسلسل تھا جو ذریت ابراہیم پر اپنی میراث کے علاقے کو شرک سے پاک رکھنے کے لیے ابتدا ہی سے عائد کی گئی تھی۔ چنانچہ بنی اسرائیل جب مصریوں کی غلامی سے رہا ہو کر سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی قیادت میں ایک گروہ کی حیثیت سے منظم ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم دیا کہ وہ سرزمین کنعان پر قبضہ کرنے کے لیے، جس کی ملکیت اور وراثت کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ان کی ذریت کے حق میں کیا تھا، اس شہر کے باشندوں کے خلاف قتال کریں اور شہر پر قبضہ کر لیں۔ (المائدہ ۵:۲۰، ۲۱) تورات میں ہے کہ اس وقت سرزمین کنعان میں بہت سی مشرک قومیں آباد تھیں اور بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ ان سب قوموں کو نیست ونابود کر کے ان کی عبادت گاہوں اور بتوں کو ڈھا دیں اور اس سرزمین سے کفر وشرک کا خاتمہ کر دیں۔ کتاب گنتی میں ہے:
’’جب تم اردن سے پار ہو کر ملک کنعان میں جاؤ تو اس ملک کے سب باشندوں کو اپنے سامنے سے نکال دو۔ ان کی سب تراشی ہوئی مورتوں کو اور ان کے گھڑے ہوئے بتوں کو فنا کرو اور ان کی اونچی جگہوں کو ڈھا دو اور ملک کے مالک بنو اور اس میں بسو، کیونکہ میں نے تمھیں اس کو بطور میراث کے دیا ہے۔‘‘ (۳۳: ۵۰۔۵۳)
استثنا میں ہے:
’’جب خداوند تیرا خدا تجھ کو اس ملک میں جس پر قبضہ کرنے کے لیے تو جا رہا ہے پہنچا دے اور تیرے آگے سے ان بہت سی قوموں کو یعنی حتیوں اور جرجاسیوں اور اموریوں اور کنعانیوں اور فرزیوں اور حویوں اور یبوسیوں کو جو ساتوں قومیں تجھ سے بڑی اور زور آور ہیں نکال دے اور جب خداوند تیرا خدا ان کو تیرے آگے شکست دلائے اور تو ان کو مار لے تو تو ان کو بالکل نابود کر ڈالنا۔ تو ان سے کوئی عہد نہ باندھنا اور نہ ان پر رحم کرنا۔ تو ان سے بیاہ شادی بھی نہ کرنا۔ نہ ان کے بیٹوں کو اپنی بیٹیاں دینا اور نہ اپنے بیٹوں کے لیے ان کی بیٹیاں لینا کیونکہ وہ تیرے بیٹوں کو میری پیروی سے برگشتہ کر دیں گے تاکہ وہ اور معبودوں کی عبادت کریں۔ یوں خداوند کا غضب تم پر بڑھکے گا اور وہ تجھ کو جلد ہلاک کر دیے گا۔ بلکہ تم ان سے یہ سلوک کرنا کہ ان کے مذبحوں کو ڈھا دینا۔ ان کے ستونوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینا اور ان کی یسیرتوں کو کاٹ ڈالنا اور ان کی تراشی ہوئی مورتیں آگ میں جلا دینا۔‘‘ (استثنا ۷: ۱۔۵)
تورات کے مطابق بنی اسرائیل کو اس کا پابند کیا گیا تھا کہ وہ اپنی میراث کے علاقے سے باہر بسنے والی اقوام کے ساتھ صلح کا معاہدہ کر سکتے ہیں، لیکن میراث کے حدود کے اندر وہ کسی مشرک قوم کا وجود گوارا نہ کریں:
’’جب تو کسی شہر سے جنگ کرنے کو اس کے نزدیک پہنچے تو پہلے اسے صلح کا پیغام دے اور اگر وہ تجھ کو صلح کا جواب دے اور اپنے پھاٹک تیرے لیے کھول دے تو وہاں کے سب باشندے تیرے باج گزار بن کر تیری خدمت کریں۔ ..... ان سب شہروں کا یہی حال کرنا جو تجھ سے بہت دور ہیں اور ان قوموں کے شہر نہیں ہیں۔ پر ان قوموں کے شہروں میں جن کو خداوند تیرا خدا میراث کے طور پر تجھ کو دیتا ہے، کسی ذی نفس کو جیتا نہ بچا رکھنا بلکہ تو ان کو یعنی حتی اور اموری اور کنعانی اور فرزی اور حوی اور یبوسی قوموں کو جیسا کہ خداوند تیرے خدا نے تجھ کو حکم دیا ہے، بالکل نیست کر دینا تاکہ وہ تم کو اپنے سے مکروہ کام کرنے نہ سکھائیں جو انھوں نے اپنے دیوتاؤں کے لیے کیے ہیں اور یوں تم خداوند اپنے خدا کے خلاف گناہ کرنے لگو۔‘‘ (استثنا ۲۰:۱۰-۱۸)
بنی اسرائیل ہی کے ایک عظیم پیغمبر اور فرمانروا سیدنا سلیمان علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بے نظیر حکومت وسلطنت، مادی واقتصادی قوت اور شاہانہ شان وشوکت سے نوازا تھا۔ قرآن مجید کی تصریح کے مطابق سیدنا سلیمان علیہ السلام نے اپنی اس قوت اور برتری کو اپنے قرب وجوار میں مشرکانہ مذاہب کی پیروی کرنے والی قوموں کی تادیب وتنبیہ اور ان کو سرنگوں کرنے کے لیے بھی استعمال کیا۔ چنانچہ جب انھیں معلوم ہوا کہ قوم سبا سورج پرستی میں مبتلا ہے تو انھوں نے اس کی ملکہ کو خط لکھا:
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیْمِ أَلَّا تَعْلُوا عَلَیَّ وَأْتُونِیْ مُسْلِمِیْنَ (النمل ۲۷:۳۱)
’’اللہ کے نام کے ساتھ جس کی رحمت بے پایاں اور جس کی شفقت ابدی ہے۔ میرے مقابلے میں سرکشی نہ کرو اور فرماں بردار بن کر میرے پاس حاضر ہو جاؤ۔‘‘
ملکہ سبا کی طرف سے پس وپیش کیے جانے پر انھوں نے انھیں دھمکی دی کہ:
فَلَنَأْتِیَنَّہُمْ بِجُنُودٍ لَّا قِبَلَ لَہُم بِہَا وَلَنُخْرِجَنَّہُم مِّنْہَا أَذِلَّۃً وَہُمْ صَاغِرُونَ (النمل ۲۷:۳۷)
’’پس ہم ایسے لشکروں کے ساتھ ان پر حملہ کریں گے جن کا مقابلہ کرنے کی تاب ان میں نہیں ہوگی اور ہم ان کو ذلیل اور حقیر بنا کر ان کے ملک سے نکال دیں گے۔‘‘
اسی قانون کے تحت خود بنی اسرائیل کے لیے بھی اللہ تعالیٰ نے یہ سزا مقرر کر دی تھی کہ اگر ان میں سے کوئی فرد یا گروہ ’شرک‘ یا اس کے مظاہر میں مبتلا ہو تو اسے قتل کر دیا جائے۔ چنانچہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے کوہ طور پر جانے کے بعد جب بنی اسرائیل نے بچھڑے کی پوجا شروع کر دی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ جو لوگ اس نجاست سے آلودہ نہیں ہوئے، وہ بچھڑے کی پوجا کرنے والوں کو قتل کریں:
وَإِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِہِ یَا قَوْمِ إِنَّکُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَکُمْ بِاتِّخَاذِکُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوْا إِلَی بَارِءِکُمْ فَاقْتُلُوْا أَنفُسَکُمْ ذَلِکُمْ خَیْْرٌ لَّکُمْ عِندَ بَارِءِکُمْ (البقرہ ۲:۵۴)
’’اورجب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم، تم نے بچھڑے کو معبود بنا کر اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے، اس لیے اپنے پیدا کرنے والے کی طرف توبہ کرو اور اپنے (بھائی بندوں) کو قتل کرو۔ یہ تمہارے خالق کے نزدیک تمہارے لیے بہتر ہے۔‘‘
اسی قانون کے تحت موسوی شریعت میں مشرکانہ اعمال ورسوم میں ملوث ہونے والوں کے لیے موت کی سزامقرر کی گئی تھی۔ تورات میں ہے:
’’پھر خداوند نے موسیٰ سے کہا تو بنی اسرائیل سے یہ بھی کہہ دے کہ بنی اسرائیل میں سے یا ان پردیسیوں میں سے جو اسرائیلیوں کے درمیان بود وباش کرتے ہیں، جو کوئی شخص اپنی اولاد میں سے کسی کو مولک کی نذر کرے، وہ ضرور جان سے مارا جائے۔ اہل ملک اسے سنگسار کریں۔‘‘ (احبار ۲۰: ۱، ۲)
بنی اسرائیل میں سلسلہ نبوت کے اختتام کے بعد بنی اسماعیل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت چونکہ ذریت ابراہیم ہی میں چلی آنے والی روایت کا تسلسل تھی، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اتمام حجت کے بعد جزیرۂ عرب میں ’شرک‘ کے بطور ایک مذہب اور مشرکین کے بطور ایک مذہبی گروہ کے باقی رہنے کی کوئی گنجایش نہیں ہو سکتی تھی اور مشرکین اگر اپنے کفر وشرک پر قائم رہتے تو ان پر موت کی سزاکا نافذ کیا جانا خدا کے قانون کے مطابق بعثت محمدی کا ایک لازمی تقاضا تھا۔ اس ضمن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بنیادی اقدام تو یہ کیا کہ مختلف مواقع پر باقاعدہ مہمات بھیج کر جزیرۂ عرب میں مختلف مقامات پر قائم مشرکین کے عبادت خانوں کو مسمار کروا دیا۔ اس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
اس کے ساتھ ساتھ معاہدہ حدیبیہ کے موقع پر قرآن مجید میں سورۃ الفتح نازل ہوئی تو اس میں مشرکین کے خلاف آئندہ جنگ کا ہدف صاف لفظوں میں یہ بیان کیا گیا کہ:
سَتُدْعَوْنَ إِلَی قَوْمٍ أُوْلِیْ بَأْسٍ شَدِیْدٍ تُقَاتِلُونَہُمْ أَوْ یُسْلِمُونَ (الفتح ۴۸:۱۶)
’’جلد ہی تمہیں ایک ایسی قوم کے مقابلے کے لیے بلایا جائے گا جو نہایت جنگجو اور زورآور ہوگی۔ تمہیں ان کے ساتھ لڑنا ہوگا یہاں تک کہ وہ اسلام لے آئیں۔‘‘
اس کے کچھ ہی عرصے کے بعد سورۂ براء ۃ کی وہ ابتدائی آیات نازل کر دی گئیں جن میں بدنیت اور بدعہد مشرک قبائل کے ساتھ کیے جانے والے معاہدوں کو کالعدم قرار دیا گیا اور انھیں چار ماہ کی مہلت دے کر یہ کہا گیا کہ وہ یا تو اسلام قبول کر لیں اور یا اہل ایمان کے ہاتھوں جہنم رسید ہونے کے لیے تیار ہو جائیں:
بَرَاء ۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُولِہِ إِلَی الَّذِیْنَ عَاہَدتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ ۔ فَسِیْحُوا فِی الأَرْضِ أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ وَّاعْلَمُوا أَنَّکُمْ غَیْْرُ مُعْجِزِیْ اللّٰہِ وَأَنَّ اللّٰہَ مُخْزِیْ الْکَافِرِیْنَ..... فَإِذَا انْسَلَخَ الأَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْْثُ وَجَدْتُّمُوْہُمْ وَخُذُوْہُمْ وَاحْصُرُوْہُمْ وَاقْعُدُوْا لَہُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلاَۃَ وَآتَوُا الزَّکَاۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَہُمْ إِنَّ اللّٰہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ (التوبہ ۹:۱-۵)
’’اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان مشرکوں سے براء ت کا اعلان ہے جن سے تم نے معاہدے کر رکھے ہیں۔ سو (اے مشرکو) چار ماہ تک زمین میں چل پھر لو اور جان لو کہ اللہ کے آگے تمہارا کوئی زور نہیں چل سکتا اور یہ کہ اللہ کافروں کو رسوا کر کے رہے گا۔ .... پھر جب حرام مہینے گزر جائیں (اور چار ماہ کی مدت پوری ہو جائے) تو مشرکوں کو جہاں پاؤ، قتل کرو اور انھیں پکڑو اور انھیں گھیرو اور ان کے لیے ہر جگہ گھات لگا کر بیٹھو۔ پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی پابندی قبول کر لیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔ بے شک اللہ معاف کرنے والا، مہربان ہے۔‘‘
البتہ اسی سلسلہ بیان میں آیت ۷ میں یہ ہدایت کی گئی کہ حدیبیہ کے مقام پر مشرکین کے ساتھ جو معاہدہ کیا گیا ہے، اس کی پاس داری کی جائے، تا آنکہ مشرکین خود ہی اس کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوں۔
قرآن نے اسی موقع پر یہ حکم بھی دے دیا کہ بیت اللہ کے مسلمانوں کے تصرف میں آنے کے بعد جب حج اکبر کا دن آئے تو اس موقع پر پورے جزیرۂ عرب کے مشرکین سے بھی براء ت کا اعلان کر دیا جائے:
وَأَذَانٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُولِہِ إِلَی النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الأَکْبَرِ أَنَّ اللّٰہَ بَرِیْءٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ وَرَسُولُہُ فَإِن تُبْتُمْ فَہُوَ خَیْْرٌ لَّکُمْ وَإِن تَوَلَّیْْتُمْ فَاعْلَمُواْ أَنَّکُمْ غَیْْرُ مُعْجِزِیْ اللّٰہِ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ بِعَذَابٍ أَلِیْمٍ (التوبہ ۹:۳)
’’اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حج اکبر کے دن بھی اعلان کر دیاجائے کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکوں سے بری ہیں۔ پھر (اے مشرکو) اگر تم توبہ کر لو تو یہی تمھارے لیے بہتر ہے اور اگر منہ پھیرو گے تو جان لو کہ تم اللہ کے آگے زور نہیں چلا سکتے اور کافروں کو دردناک عذاب کی خوش خبری سنا دو۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ سلم نے اسی حکم کی وضاحت میں ارشاد فرمایا کہ:
امرت ان اقاتل الناس حتی یشہدوا ان لا الہ الا اللہ وان محمدا رسول اللہ ویقیموا الصلاۃ ویوتوا الزکاۃ فاذا فعلوا ذلک عصموا منی دماء ہم واموالہم الا بحق الاسلام وحسابہم علی اللہ (بخاری، رقم ۲۴)
’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک لوگوں سے قتال کروں جب تک کہ وہ ’لا الٰہ الا اللہ‘ کا اقرار نہ کر لیں۔ پس جو لاالہ الا اللہ کا اقرار کر لے گا، اسے میری طرف سے جان اور مال کی امان حاصل ہو جائے گی اور اس کے اعمال کا حساب اللہ کے سپرد ہوگا۔‘‘
مشرکین عرب کے بہت سے گروہوں نے آپ کے اس اعلان ہی کے نتیجے میں دائرۂ اسلام میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا جس کے متعدد شواہد حدیث وسیرت کے ذخیرے میں موجود ہیں:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عجب اللہ من اقوام یجاء بہم فی السلاسل حتی یدخلوا الجنۃ (مسند احمد، رقم ۹۵۰۹)
’’اللہ کو ان لوگوں پر تعجب ہے جن کو بیڑیوں میں جکڑ کر لایا جائے تاکہ جنت میں داخل ہو جائیں۔‘‘
بنو بکر بن وائل کے نام خط میں آپ نے انھیں لکھا:
اما بعد فاسلموا تسلموا (ابن سعد، الطبقات الکبریٰ ۱/۲۸۱)
’’اما بعد! اسلام لے آو، بچ جاؤ گے۔‘‘
قبیلہ عبد القیس کا وفد اسلام قبول کرنے کے لیے آیا تو آپ نے ان کے حق میں یوں دعا فرمائی:
اللہم اغفر لعبد القیس اذ اسلموا طائعین غیر کارہین غیر خزایا ولا موتورین اذ بعض قومنا لا یسلمون حتی یخزوا ویوتروا (مسند احمد، رقم ۱۷۱۶۱)
’’اے اللہ، قبیلہ عبدالقیس کی مغفرت فرما دے کیونکہ یہ کسی زبردستی کے بغیر خود اپنی مرضی سے اسلام لے آئے ہیں۔ یہ نہ رسوا ہوئے ہیں اور نہ ان کو کوئی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ جبکہ ہماری قوم کے کچھ لوگ اس وقت تک ایمان لانے پر آمادہ نہیں ہوتے جب تک کہ انھیں رسوائی اور جانی ومالی نقصان سے سابقہ نہ پیش آ جائے۔‘‘
اس موقع پر آپ نے انصار سے کہا:
یا معشر الانصار اکرموا اخوانکم فانہم اشباہکم فی الاسلام واشبہ شئ بکم شعارا وابشارا اسلموا طائعین غیر مکرہین ولا موتورین اذ ابی قوم ان یسلموا حتی قتلوا (مسند احمد، رقم ۱۷۱۶۲)
’’اے گروہ انصار، اپنے بھائیوں کا خوب اکرام کرو، کیونکہ یہ (آگے بڑ