2011

جنوری و فروری ۲۰۱۱ء

حرفے چندمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ حیات و خدمات کا ایک مختصر خاکہادارہ
شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الرحمٰن المینویؒ (ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کے استاذ حدیث)مولانا حیدر علی مینوی
میری علمی اور مطالعاتی زندگی ۔ (ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کا ایک غیر مطبوعہ انٹرویو)عرفان احمد
بھائی جانڈاکٹر محمد الغزالی
بھائی محمودمولانا نور الحسن راشد کاندھلوی
ہمارے باباماریہ غازی
ایک معتمد فکری راہ نمامولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ایک عظیم اسکالر اور رہنمامولانا محمد عیسٰی منصوری
ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوممحمد موسی بھٹو
ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ : ایک اسم با مسمٰیجسٹس سید افضل حیدر
ایک باکمال شخصیتپروفیسر ڈاکٹر علی اصغر چشتی
ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ - نشانِ عظمتِ ماضیڈاکٹر قاری محمد طاہر
مولانا ڈاکٹر محمود احمد غازی ۔ کچھ یادیں، کچھ تأثراتمولانا مفتی محمد زاہد
ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ چند خوشگوار یادیںمحمد مشتاق احمد
معدوم قطبی تاراڈاکٹر شہزاد اقبال شام
میرے غازی صاحبڈاکٹر حیران خٹک
علم و تقویٰ کا پیکرقاری خورشید احمد
میری آخری ملاقاتڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر
مرد خوش خصال و خوش خومولانا سید حمید الرحمن شاہ
ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ کچھ یادیں، کچھ باتیںڈاکٹر محمد امین
ایک بامقصد زندگی کا اختتامخورشید احمد ندیم
اک دیا اور بجھا!مولانا محمد ازہر
ایک معتدل شخصیتمولانا محمد اسلم شیخوپوری
ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ، ایک مشفق استادشاہ معین الدین ہاشمی
روئے گل سیر نہ دیدم و بہار آخر شدڈاکٹر حافظ سید عزیز الرحمن
یاد خزانہڈاکٹر عامر طاسین
ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ چند تاثراتمحمد عمار خان ناصر
ڈاکٹر محمود احمد غازی علیہ الرحمۃڈاکٹر حافظ صفوان محمد چوہان
ڈاکٹر غازیؒ ۔ چند یادداشتیںمحمد الیاس ڈار
ایک ہمہ جہت شخصیتضمیر اختر خان
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیامحمد رشید
آفتاب علم و عملمولانا ڈاکٹر صالح الدین حقانی
شمع روشن بجھ گئیمولانا سید متین احمد شاہ
علم کا آفتاب عالم تابڈاکٹر حسین احمد پراچہ
دگر داناے راز آید کہ نایدحافظ ظہیر احمد ظہیر
ایک نابغہ روزگار شخصیتسبوح سید
تواریخ وفات ڈاکٹر محمود احمد غازیؒمولانا ڈاکٹر خلیل احمد تھانوی
ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ تعزیتی پیغامات و تاثراتادارہ
ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ فکر و نظر کے چند نمایاں پہلوڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی
ڈاکٹر غازی مرحوم ۔ فکر و نظر کے چند گوشےڈاکٹر محمد شہباز منج
کاسموپولیٹن فقہ اور ڈاکٹر غازیؒ کے افکارمحمد سلیمان اسدی
آتشِ رفتہ کا سراغپروفیسر محمد اسلم اعوان
اسلام کے سیاسی اور تہذیبی تصورات ۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی کے افکار کی روشنی میںمحمد رشید
سلسلہ محاضرات: مختصر تعارفڈاکٹر علی اصغر شاہد
’’محاضراتِ قرآنی‘‘ پر ایک نظرحافظ برہان الدین ربانی
ڈاکٹر غازیؒ اور ان کے محاضرات قرآنسید علی محی الدین
’’محاضرات فقہ‘‘ ۔ ایک مطالعہچوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ
محاضراتِ معیشت و تجارت کا ایک تنقیدی مطالعہپروفیسر میاں انعام الرحمن
تحریک سید احمد شہید رحمہ اللہ کا ایک جائزہڈاکٹر محمود احمد غازی
اسلام میں تفریح کا تصورڈاکٹر محمود احمد غازی
اسلام اور جدید تجارت و معیشتڈاکٹر محمود احمد غازی
ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ سے ایک انٹرویومفتی شکیل احمد
ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ منتخب پیش لفظ اور تقریظاتادارہ
مختلف اہل علم کے نام ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کے چند منتخب خطوطڈاکٹر محمود احمد غازی
مکاتیب ڈاکٹر محمد حمیدؒ اللہ بنام ڈاکٹر محمود احمد غازیؒادارہ
ڈاکٹر غازیؒ کے انتقال پر معاصر اہل علم کے تاثراتادارہ
ریجنل دعوۃ سنٹر کراچی کے زیر اہتمام تعزیتی ریفرنسآغا عبد الصمد
ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی یاد میں رابطۃ الادب الاسلامی کے سیمینار کی رودادادارہ
ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ ورلڈ اسلامک فورم کے زیر اہتمام تعزیتی نشستادارہ
ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ رسائل و جرائد کے تعزیتی شذرےادارہ
ایک نابغہ روزگار کی یاد میںپروفیسر ڈاکٹر دوست محمد خان

حرفے چند

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ قرآن کریم کے اعجاز کا یہ پہلو کہ فصاحت و بلاغت میں اس جیسا کلام لانا انسانی دائرۂ اختیار میں نہیں ہے، اس پر نہ صرف ہر دور کے علما کرام نے دلائل و براہین کے ساتھ بات کی ہے بلکہ قرآن کریم کے وحی الٰہی ہونے سے انکار کرنے والے کسی بھی دور کے فصحاء و بلغاء اس چیلنج کا سامنا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ جبکہ اسی اعجاز کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی سوسائٹی کی فلاح و بہبود اور ترقی و کامیابی کے لیے جو اصول و قوانین اور احکام و ضوابط بیان فرمائے ہیں، انسانی سوسائٹی اپنی تمام تر کاوشوں کے باوجود ان جیسا کوئی اصول یا حکم پیش کرنے سے قاصر ہے۔ حضرت شاہ صاحبؒ کا ارشاد ہے کہ ان کے بعد آنے والا دور قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعجاز کے اس پہلو کے اظہار کا دور ہے اور وہ اپنی کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ سے اسی علمی و فکری دور کا آغاز کر رہے ہیں۔ 
اسی بات کو فیلسوف مشرق علامہ محمد اقبالؒ نے ایک اور انداز میں بیان کیا ہے کہ آج کے دور کا مجدد وہ ہوگا جو اسلامی قوانین و احکام کا دنیا کے مروجہ قوانین و احکام اور معاشرتی اصول و ضوابط کے ساتھ موازنہ و تقابل کر کے اسلامی قوانین کی برتری اور افادیت و ضرورت کو ثابت کرے گا۔ 
اب سے دو صدیاں قبل ’’انقلاب فرانس‘‘ سے خالصتاً انسانی فکر کی بنیاد پر معاشرہ و تمدن کی تشکیل کے جس دور کا آغاز ہوا تھا وہ اپنے نقطۂ عروج پر پہنچ کر اب واپسی کے راستے تلاش کر رہا ہے اور آسمانی تعلیمات کی ضرورت و اہمیت اور وحی الٰہی کی افادیت و تاثیر ایک بار پھر نسل انسانی کو اپنی طرف متوجہ کرتی نظر آنے لگی ہے۔ 
اس تناظر میں جن مسلم علماء نے اسلام کے معاشرتی کردار، اسلامی نظام و قانون کی ضرورت و افادیت، وحی الٰہی کی اہمیت و برتری اور عصر حاضر میں اسلام کے نفاذ و ترویج کی عملی صورتوں کو اجاگر کرنے کے لیے علمی و فکری محاذ پر کام کیا ہے اور حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی علمی و فکری تحریک میں عملی طور پر شریک ہوئے ہیں، ان میں ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کا نام اپنے معاصرین میں بہت ممتاز نظر آتا ہے اور ان کی علمی کاوشیں اس محاذ پر نئی نسل کے لیے یقیناً سنگ میل اور مشعل راہ ثابت ہوں گی۔ 
حضرت ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ اس شاہراہ پر ہمارے رفیق سفر تھے، مشفق راہنما تھے اور ہمدرد و معاون بھی تھے۔ ان کی جدائی نے تنہائی کے احساس کو اور زیادہ گہرا کر دیا ہے اور رکاوٹوں کی سنگینی فزوں تر دکھائی دینے لگی ہے۔ مگر سفر تو جاری ہے جو ان شاء اللہ تعالیٰ جاری رہے گا اور اس میں قدم قدم پر ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی یاد دل کو ستاتی رہے گی۔ اللہ تعالیٰ ان کی حسنات کو قبولیت سے نوازیں اور سیئات سے درگزر کرتے ہوئے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔ 
آئے عشاق گئے وعدۂ فردا لے کر
اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ حیات و خدمات کا ایک مختصر خاکہ

ادارہ

نام: محمود احمد غازی (فاروقی)
والد: حافظ محمد احمد فاروقی ؒ 
ولادت: ۱۸؍ ستمبر ۱۹۵۰ء

تعلیم

۱۔ حفظ قرآن (۱۹۵۸ء)
۲۔ آنرز عربی لینگویج (۱۹۶۶ء)
۳۔ درس نظامی (۱۹۶۶ء)
۴۔ آنرز فارسی زبان، پہلی پوزیشن گولڈ میڈلسٹ (۱۹۶۸ء)
۵۔ ایم اے عربی، پنجاب یونیورسٹی لاہور (۱۹۷۲ء)
۶۔ سر ٹیفکیٹ فرنچ زبان، فرنچ کلچرل سنٹر، اسلام آباد
۷۔ پی ایچ ڈی، (اسلامک اسٹڈیز)، فیکلٹی آف اورئنٹل لرننگ، پنجاب یونیورسٹی، لاہور (۱۹۸۸ء)

منصبی ذمہ داریاں

۱) صدر،بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد (۲۰۰۴ء تا ۲۰۰۶ء)
۲) نائب صدر،بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد (نومبر ۱۹۹۴ء تا ۲۰۰۴ء)
۳) وفاقی وزیربرائے مذہبی امورحکومت پاکستان (اگست ۲۰۰۰ء تا اگست ۲۰۰۲ء)
۴) ممبر، قومی سلامتی کونسل، حکومت پاکستان (۱۹۹۹ء تا ۲۰۰۰ء)
۵) جج (عارضی)، شریعہ اپیلیٹ بنچ، سپریم کورٹ آف پاکستان (۱۹۸۸ء تا ۱۹۹۹ء)
۶) ممبر،اسلامی نظریاتی کونسل (۱۹۹۰ء تا ۱۹۹۳ء، ۱۹۹۷ء تا ۲۰۰۰ء)
۷) ڈائریکٹر جنرل ،شریعہ اکیڈمی ،بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد (۱۹۹۱ء تا ۲۰۰۰ء)
۸) ڈائریکٹر جنرل،دعوۃ اکیڈمی ،بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد (۱۹۸۸ء تا ۱۹۹۴ء)
۹) خطیب فیصل مسجد/ڈائریکٹر اسلامک سنٹر، فیصل مسجد، اسلام آباد (۱۹۸۷ء تا ۱۹۹۴ء)
ٍ۱۰) مدیر ’’الدارسات الاسلامیۃ‘‘ (سہ ماہی اردو مجلہ) ادارۂ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد 
(۱۹۸۱ء تا ۱۹۸۷ء، ۱۹۹۱ء تا ۱۹۹۳ء)
۱۱) مدیر ’’فکر ونظر‘‘ (اردو سہ ماہی مجلہ)ادارۂ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد (۱۹۸۴ء تا ۱۹۸۷ء)
۱۲) پروفیسر ،ایسوسی ایٹ ڈین، کلیہ معار ف اسلامیہ، قطرفاؤنڈیشن، دوحہ۔
۱۳) چیئرمین شریعہ بورڈ ،اسٹیٹ بینک آف پاکستان ۔
۱۴) چیئرمین شریعہ ایڈوائزری سیل، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد
۱۵) چیئرمین شریعہ ایڈوائزری کمیٹی، تکافل پاکستان، کراچی (۲۰۰۵ء تا ۲۰۰۸ء)

علمی اداروں کی رکنیت

* ممبر، ورکنگ کمیٹی التجمع العالمی للعلوم المسلمین مکہ،سعودی عربیہ
* ممبر،الاتحاد العالمی للعلماء المسلمین (سرپرست شیخ یوسف القرضاوی) قاہرہ ،مصر
* ممبر، عرب اکیڈمی ،دمشق ، شام
* ممبر،سنڈیکیٹ، الرائد ایگری کلچرل یونیورسٹی ،راولپنڈی ،پاکستان (۲۰۰۶ء تا ۲۰۰۸ء)
* ممبر، ایگزیکٹو کونسل، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد (۲۰۰۴ء تا ۲۰۰۷ء)
* ممبر، بورڈ آف ایڈوانس اسٹڈیز اینڈ ریسرچ، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد (۱۹۹۱ء تا ۱۹۹۴ء)

انگریزی تصانیف

i. The Hijrah: Its Philosophy and Message for the Modern Man, 1980, 1988, 1999.
ii. An Analytical Study of the Sannsiyyah Movement of North Africa, Islamabad, 2001 (Based on Ph.D. Thesis).
iii. Renaissance and Revivalism in Muslim India: 1707-1867, Islamabad, 1998.
iv. The Shorter book on Muslim International Law (Edited and translated), Islamabad, 1998.
v. State and Legislation in Islam, Islamabad, 2006
vi. Prophet of Islam: His Life and Works (translated from French).
vii. Qadianism: Lahore, 1992

اردو کتب

ادب القاضی، اسلام آباد، ۱۹۸۳ء
مسودہ قانون قصاص ودیت، اسلام آباد، ۱۹۸۶
احکام بلوغت، اسلام آباد ۱۹۸۷ء
اسلام کا قانون بین الممالک، بہاولپور ۱۹۹۷، اسلام آباد ۲۰۰۷
محاضرات قرآن، الفیصل۔ لاہور ۲۰۰۴
محاضرات حدیث، الفیصل۔لاہور ۲۰۰۴
محاضرات فقہ، الفیصل۔لاہور ۲۰۰۵
محاضرات سیرۃ، الفیصل۔لاہور ۲۰۰۷
محاضرات شریعت وتجارت، الفیصل۔لاہور ۲۰۰۹
اسلامی شریعت اور عصر حاضر، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد، ۲۰۰۹
قرآن ایک تعارف، اسلام آباد ۲۰۰۳
محکمات عالم قرآنی، اسلام آباد ۲۰۰۲
امربالمعروف ونہی عن المنکر، اسلام آباد ۱۹۹۲
اصول الفقہ (ایک تعارف، حصہ اول ودوم)، اسلام آباد، ۲۰۰۴
قواعدفقہیہ (ایک تاریخی جائزہ، حصہ اول و دوم)، اسلام آباد ۲۰۰۴
تقنین الشریعہ، اسلام آباد ۲۰۰۵
اسلام اور مغرب تعلقات، زوار اکیڈمی پبلی کیشنز،کراچی۔۲۰۰۹
مسلمانوں کا دینی و عصری نظام تعلیم، الشریعہ اکادمی، گوجرانوالہ۔۲۰۰۹
اسلامی بنکاری، ایک تعارف، زوار اکیڈمی پبلی کیشنز،کراچی۔۲۰۱۰
فریضہ دعوت و تبلیغ، دعوۃ اکیڈمی، اسلام آباد۔۲۰۰۴ (اشاعتِ سوم)
اسلام اور مغرب، زوار اکیڈمی پبلی کیشنز،کراچی۔۲۰۰۷

عربی تصانیف

تحقیق وتعلیق السیرہ الصغیرہ، امام محمد ابن حسن الشیبانی، اسلام آباد ۱۹۹۸ء
القرآن الکریم، المعجزۃ العالیۃ الکبریٰ، اسلام آباد ۱۹۹۴ء
یا امم الشرق (ترجمہ کلام اقبال)، دسمبر ۱۹۸۶ء
تاریخ الحرکۃ المجددیہ، بیروت ۲۰۰۹ء
العولمۃ،قاہرہ ۲۰۰۸ء

شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الرحمٰن المینویؒ (ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کے استاذ حدیث)

مولانا حیدر علی مینوی

شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالرحمن المینویؒ ؒ نے ضلع صوابی ( صوبہ پختونخواہ) کے ایک دور افتادہ خوبصورت گاؤں ’’مینی‘‘ میں آنکھیں کھولیں جہاں کوہ مہا بن کا پرشکوہ نظارہ دکھائی دیتا ہے۔ یخ بستہ ہوائیں کوہ مہابن کی فلک بوس وبرف پوش چوٹیوں سے پھسل کر اس گاؤں میں اترتی ہیں۔ یہاں ٹھنڈے پانی کے بل کھاتے چشمے، مالٹے اور خوبانی کے باغات کو سیراب کرتے ہوئے گزرتے ہیں۔ اس چھوٹے سے قصبے کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ سید احمد شہید ؒ اور ان کے ساتھیوں کے قافلے یہاں آکر رکے اور اس کی زمین شہیدوں کے لہو سے لالہ زار بنی۔ 
حضرت موصوف کا شمار دارالعلوم دیوبند کے ان فضلا میں ہوتا ہے جن کی حیات مستعار کا ایک ایک لمحہ علم حدیث کے لیے وقف تھا۔ فراغت کے بعد آپ نے ایک مشہور ادارے دارالعلوم میرٹھ سے تدریس کی ابتدا کی اور پہلے ہی سال سے آپ کو حدیث پڑھانے کا شرف حاصل ہوا جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ اس کے بعد تادم واپسیں آپ کے لیل ونہار اسی میں گزرے۔ ہندوستان سے واپسی پر آپ نے ملک کے بڑے بڑے اداروں میں حدیث کی خدمت کی۔ دارالعلوم چارسدہ، خیرا لمدارس مردان، جامعہ اسلامیہ اکوڑہ خٹک میں پڑھاتے رہے، پھر مولانا غلام اللہ خانؒ کے شدید اصرار پر تعلیم القرآن راولپنڈی چلے آئے اور زندگی کے آخری دس سال یہیں گزارے۔ اس دوران میں اس چشمہ فیض سے ہزاروں طلبہ سیراب ہوئے اور اپنی اپنی بساط کے مطابق اکتساب علم کر کے اپنے علاقوں کو لوٹ گئے۔ درس کی عظمت اور وقار کا یہ عالم ہوتا تھا کہ اگر درس کبھی زیادہ طویل ہو جاتا تو بھی طلبہ انتہائی مشقت کے باوجود ایک ہی انداز میں بیٹھے رہتے۔ عموماً دائیں ہاتھ کی ہتھیلی سے زمین پر ٹیک لگانے کی عادت تھی۔
احناف کے دلائل ذکر کرتے وقت قرون سابقہ کا منظر ہوتا۔ حیرت انگیز حافظے کے مالک تھے۔ آپ کے شاگرد ڈاکٹر مولانا محمود احمد غازیؒ فرماتے ہیں: ’’ حضرت پڑھاتے وقت جب کسی جگہ استشہاد کے لیے حافظ ابن حجر ؒ یا علامہ عینی کی لمبی لمبی عبارات پڑھتے تو اس وقت خیال ہوتا کہ روایت بالمعنی کے طور پر پڑھتے ہوں گے، لیکن فراغت کے بعد جب عبارات کا اصل مراجع سے تطابق کیا تو تعجب کی انتہا نہ رہی، عبارات میں من وعن الفاظ ہیں۔‘‘
حضرت شیخ کے لیل ونہار عمومی طور پر درس وتدریس میں گزرے او ر اس میدان میں آپ نے شاگردوں کی ایک پوری جماعت تیار کی، تاہم تصنیف وتالیف کے میدان میں بھی آپ کے کچھ نقوش موجود ہیں جن سے آپ کی یاد تازہ رہے گی۔
۱۔ اصول حدیث پرنہایت وقیع کتاب ’’جواہر الاصول‘‘ آپ کی گراں قدر تصنیف ہے۔ یہ کتاب پہلی بار راولپنڈی سے آپ کی زندگی ہی میں شائع ہوئی تھی۔ کتاب کے متعلق علامہ شمس الحق افغانیؒ فرماتے ہیں: ’’فقد طالعت الرسالۃ المسماۃ بجواہرالاصول لمولفہا العلام الجامع المعقول والمنقول والحاوی للفروع والاصول الشیخ المحدث عبدالرحمن المینوی‘‘۔
علامہ عبدالرحمن کیمل پوری ؒ فرماتے ہیں: حضرت مولانا عبدالرحمن مینوی ،شیخ الحدیث دارالعلوم چارسدہ کو بعض بعض مقامات سے دیکھا۔ حضرت موصوف علمی طبقہ میں خاص شہرت کے مالک ہیں۔ آپ نے نہایت عرق ریزی سے اس باب میں سعی فرما کر بکھرے ہوئے موتیوں کو یکجا جمع کردیا ہے اور اہل علم پر عظیم احسان فرمادیا ہے۔‘‘ 
مفتی اعظم مفتی محمد شفیع فرماتے ہیں: ’’وبعد فانی رایت الرسالۃ الغراء جواہر الاصول من مواضع عدیدۃ فوجدتھا بحمداللہ حافلۃ لما لا بد منہ‘‘۔
۲۔ بخاری شریف کے ابتدائی تین ابواب پر ’’الکوثر الجاری علیٰ ریاض البخاری‘‘ کے نام سے دو جلدوں میں آپ کی شرح ہے۔ اس شرح کی خصوصیت یہ ہے کہ احناف کے مذہب کو نہایت عمیق اور منطقی استدلال سے حل فرماتے ہیں۔ منطقی علوم میں حضرت کو امامت کا درجہ حاصل تھا۔ 
۳۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی میراث والی روایت پر ایک مستقل رسالہ ’’فیضان الباری فی حدیث ابن الحواری‘‘ لکھا ہے۔ قاضی شمس الدین ؒ نے الہام الباری میں اس حدیث کی تشریح میں جو تقسیم ذکر کی ہے، اس تقسیم پر حضرت شیخ کے کچھ تحفظات تھے جس کی وجہ سے آپ نے یہ رسالہ لکھا۔ ( چند سال پہلے راقم نے اس مسودہ کو شائع کیاتھا۔) 
۴۔ شدالرحال اور زیارات قبور پر بھی ایک اہم کتاب حضرت نے لکھی تھی۔ افسوس یہ ہے کہ اس کا اصل مسودہ دریافت نہ ہو سکا۔ حضرت کی ذاتی لائبریری میں مجھے اس کتاب کا ایک کتابت شدہ نسخہ مل گیا، لیکن عرصہ دراز گزرنے کی وجہ سے اس کی لکھائی بہت مدھم ہو گئی ہے جس کی وجہ سے اسے پڑھنا دشوار ہے۔ 
۵۔ آپ کے ترمذی شریف کے افادات پرعلاقہ دیر کے جناب مولانا اعزاز علی، پی ایچ ڈی کے لیے ’’سنن ترمذی پر مولانا عبدالرحمن المینوی کے علمی کام کا تحقیقی جائزہ‘‘ کے عنوان سے پشاور یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کے تحت اپنا مقالہ لکھ رہے ہیں۔ یہ تقریر تقریباً ساڑھے سات سو صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ صحاح ستہ پر آپ کے انتہائی جاندار اور محدثانہ افادات بھی آپ کے شاگردوں کے پا س محفوظ ہیں۔ حضرت شیخ کے ایک شاگرد مولانا اویس (سابق چیئر مین اسلامی ثقافت ڈنمارک) نے ان افادات پرکام کیا تھا جس کے لیے حضرت سے مسلسل رابطہ بھی رہا ۔ نہ معلوم کن وجوہات کی بنا پر یہ کام ادھورا رہ گیا۔ 
مولانا کا اسلوب تدریس انوکھی شان کاہوتا تھا۔ مشکل سے مشکل مقام کو آپ اتنی خوبی سے سمجھاتے کہ طالب علم کے سامنے سبق کا خلاصہ اور مغز تو آ ہی جاتا، متعلقہ بحث میں گہری بصیرت بھی حاصل ہو جاتی تھی۔ طریقہ یہ ہوتا کہ کسی بات کو شروع کرتے تو فرماتے: 
اس باب میں دس عنوانات ہیں: عنوان اول: امام بخاری نے یہاں تین ابواب قائم کیے ہیں ۔ ۲۔ ان تین ابواب سے امام بخاریؒ کی غرض۔ ۳: دوسرے باب پر وارد اشکال کاحل۔ ۴: سند کا بیان۔ ۵: چند اہم سوالات کا جواب ۔ ۶: ان تعبداللہ کانک تراہ میں درجات شرک کا بیان۔ ۷: احسان کا لغوی اور اصطلاحی معنی۔ ۸: ملائکہ پر ایمان کا مطلب ۔ ۹: قیامت کی لغوی اور اصطلاحی تعریف۔ ۱۰: آیت پر وارد اشکال کا حل۔ 
ہرکتاب میں عنوانات کا یہ سلسلہ رہتا۔ اس اسلوب پر لکھنا شاید آسان ہو، لیکن دوران درس میں اجمال وتفصیل کے عنوانات کو لف نشرمرتب کے ساتھ بیان کرنا غیر معمولی حافظے کاپتہ دیتاہے۔ 
حضرت مولانا کے اساتذہ میں سب سے پہلا نام تو شیخ العرب والعجم مولانا حسین احمدمدنیؒ کاہے۔ آپ کے دوسرے اساتذہ میں شیخ الادب مولانا اعزاز علیؒ ، مولانا ابراہیم بلیاویؒ ، مفتی ریاض الدین بجنوریؒ وغیرہم ہیں۔ 
۱۹۷۰ء میں کینسر کے مرض میں مبتلا ہو کر حضرت شیخ اس دار فانی سے رخصت ہو گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ 
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم 
تو نے وہ گنج ہاے گراں مایہ کیا کیے

میری علمی اور مطالعاتی زندگی ۔ (ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کا ایک غیر مطبوعہ انٹرویو)

عرفان احمد

(علم کی پختگی کے لیے باقاعدہ مطالعہ کرنے کی اہمیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔ خاکسار بھی مختلف علوم اور مختلف موضوعات پر اکثر مطالعہ کرتا رہتا ہے۔ آج سے دس برس پہلے پرانی کتابوں کی ایک دکان سے مجلس نشریات اسلام کی شائع کردہ کتاب ’’میری محسن کتابیں‘‘ اچانک دست یاب ہوئی۔ اس کتاب میں بیسویں صدی کے بعض بلند پایہ مشاہیر علم کے مطالعاتی تاثرات بیان کیے گئے تھے۔ مطالعہ کا ذوق رکھنے والے لوگوں کے لیے یہ کتاب ایک کلید اور محرک کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں شامل لوگوں کے طریق مطالعہ سے اپنے لیے مطالعے کے اصول اور طریقے اخذ کیے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے مجھ میں یہ داعیہ پیدا ہوا کہ آج کے موجودہ دور کے ارباب علم کے بھی مطالعہ کے حوالے سے انٹرویوز کیے جائیں۔ اسی مقصد کے پیش نظر میں نے آج سے تقریباً چار سال پہلے عصر حاضر کے اہل علم کے انٹرویوز کرنے شروع کیے جن میں زندگی کے مختلف شعبہ جات کے لوگ شامل ہیں۔ انہی ارباب علم میں ایک شخصیت جو اب ہم میں نہیں رہی، ڈاکٹر محمود احمد غازی کی تھی۔ مطالعے اور کتاب سے دلچسپی رکھنے والے سنجیدہ اہل علم اور شائقین کے لیے ان کے مطالعاتی ذوق کی داستان پر مشتمل یہ انٹرویو پیش خدمت ہے۔ عرفان احمد)

میری ابتدائی تعلیم روایتی انداز میں ہوئی جیسے میرے خاندان میں دوسرے لوگوں کی ہوئی تھی۔ پہلے میں نے قرآن پاک حفظ کیا، اس کے بعد میں نے اپنے والد سے تھوڑی فارسی پڑھی۔ فارسی پڑھنے کے بعد پھر سکول میں داخل ہو گیا۔ تین چار سال سکول میں پڑھا، پھر اسکول کی کچھ تعلیم اطمینان بخش نہیں لگی تو میرے والد صاحب نے مجھے کراچی میں ایک دینی مدرسے میں داخل کروا دیا جہاں میں نے کوئی پانچ سال پڑھا۔ عربی وغیرہ اچھی سیکھ لی۔ میرے والد گورنمنٹ سروس میں تھے تو وہ پھر ۱۹۶۴ء میں اسلام آباد آگئے تو میں بھی ان کے ساتھ اسلام آباد آگیا۔ یہاں کوئی دینی تعلیم کا قابل اعتماد انتظام نہیں تھا، اس لیے تھوڑی تھوڑی وہ بھی چلتی رہی، لیکن اس کے ساتھ میں نے میٹرک کا امتحان بھی دے دیا۔ میٹرک کر نے کے بعد پھر میں نے انٹر میڈیٹ کرلیا۔ اسی دوران انٹر میڈیٹ کے امتحان کے بعد جب میں بی اے کے امتحان کی پرائیویٹ تیاری کر رہا تھا کہ میرے والد صاحب نے مجھے کہا کہ کچھ اور بھی کرنا چاہیے تو پنڈی میں ایک سکول تھا، مدرسہ ملیہ اسلامیہ۔ مولانا عبد الجبار غازی مرحوم نے بنایا تھا۔ جماعت اسلامی کے قائم مقام امیر بھی رہ چکے تھے جب مولانا مودودیؒ گرفتار رہے۔ کچھ عرصہ ان کے ہاں میں نے پڑھایا، لیکن میرا تاثر تھا کہ یہ ایسا ادارہ ہے نہیں جیسا کہ مولانا بنانا چاہتے تھے۔ اسی اسلامیہ مدرسہ میں، میں پڑھاتا تھا۔ 
مجھے مطالعہ کا شوق تھا، اس لیے میں چھٹی کے دن ادارہ تحقیقات اسلامی کی لائبریری میں چلا جایا کرتا تھا۔ سب لوگوں سے تعارف تھا۔ کسی اور دوست کے نام سے کتاب جاری کروالیا کرتا تھا۔ اسلام آباد میں ایک نیشنل سٹینڈرڈ لائبریری تھی اور وہ پاکستان کونسل برائے قومی یکجہتی لائبریری کہلاتی تھی۔ اس لائبریری میں بھی جایا کرتا تھا اور بہت سی کتابیں لاتا، لیکن وہاں عربی اور فارسی کی بجائے اردو، انگریزی کی کتابیں ملتی تھیں۔ میں فارسی جانتا بھی تھا اور بولتا بھی تھا۔ کتابیں پڑھنے کا بھی شوق تھا اور کتابیں مجھے ادارہ تحقیقات اسلامی سے مل جایا کرتی تھیں توچھٹی کے دن میں پورا دن وہاں گزارتا تھا۔ ایک مرتبہ میں وہاں گیا ہوا تھا۔ یہ بات تقریباً ۱۶؍ اکتوبر ۱۹۶۸ء کی ہے۔ مدرسہ عربیہ اسلامیہ میں چھٹی تھی۔ ۱۶؍ اکتوبر کو (شہادت لیاقت علی خان کی وجہ سے) میں صبح ہی ادارہ تحقیقات اسلامی کی لائبریری میں، جہاں Reading Hall تھا، وہاں چلا گیا۔ وہاں وہ ایک سرخ وسفید داڑھی والے صاحب بیٹھے ہوئے تھے جونفیس لباس اورخوبصورت عمامہ پہنے ہوئے تھے۔ بڑے خوبصورت اور وجیہ آدمی تھے۔ میں نے سلام کیا۔ قریب جا کر اندازہ ہوا کہ وہ نابینا تھے۔ عربی میں بات کرنے کا مجھے شوق تھا بچپن ہی سے جیسے کہ بچوں کو ہوتا ہے۔ قابلیت کے اظہار کا شوق بچپن میں زیادہ ہوتا ہے۔ سلام ودعا کے بعد عربی میں بات شروع کر دی۔ انھوں نے پوچھا تم کون ہو اور ایک آدھ سوال کیا تو میرے لہجے سے خوش ہوئے۔ پوچھا فارسی بھی جانتے ہو؟ تو میں نے کہا جی۔۔۔ میں فارسی بھی جانتا ہوں۔ کتنی پڑھی ہے؟ میں نے کہا کہ فارسی میں نے کافی پڑھی ہے۔ پوچھا کلا م اقبال پڑھا ہے؟ تو میں نے کہا کہ بہت پڑھا ہے۔ میں تقریباً اس دور میں اقبال کا حافظ تھا فارسی اور اردو میں۔ تو انہوں نے کہا کہ کوئی شعر سناؤ تو میں نے فارسی کے دو تین اشعار سنا دیے۔ ان کے سامنے ’’ارمغان حجاز‘‘ رکھی تھی۔ انھوں نے کہا کہ آخر میں جو رباعی ہے، اسے پڑھو۔ پہلی رباعی تھی ’’حرم از دیر دیگر رنگ وبو‘‘۔ کہا اس کا ترجمہ کرو۔ میں نے ترجمہ کردیا۔ بڑے خوش ہوئے۔ ترجمہ ٹھیک تھا، ان کو اچھا لگا۔ 
انھوں نے بتایا کہ میرا نام شیخ صاوی علی شعلان ہے۔ میں مصر کا مشہور شاعر ہوں اور مجھے حکومت پاکستان نے بلایا ہے کہ میں کلام اقبال کا عربی منظوم ترجمہ کروں گا توکیا تم میرے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہو ؟میں نے کہا جی ہاں تو کہنے لگے کب سے؟ میں نے کہا کہ ابھی سے تو کہنے لگے کیا کرتے ہو؟ میں نے کہا کہ اسکول میں پڑھاتا ہوں۔ پوچھا تو اسکول کا کیا کرو گے؟ تو میں نے کہا، چھوڑدوں گا۔ اس پر بڑے خوش ہوئے۔ ان کو حیرت یہ بھی ہوئی اور شک بھی کہ کیسا آدمی ہے۔ ایک دو آدمیوں سے پوچھا تو انھوں نے یقین دلایا کہ یہ آپ کے ساتھ استعفا دے کر کام کرلے گا۔ تو میں نے وہاں جانا شروع کردیا اور اسکول میں استعفا دے دیا۔ مولانا غازی بہت ناراض ہوئے۔ انھوں نے بہت mindکیا لیکن میں نے ان کو اس کام کے بارے میں بتایا تو انھوں نے پوچھا کہ کیا تنخواہ ملے گی تو میں نے کہا کہ نہیں، تنخواہ کی فکر نہیں۔ اس طرح میں مدرسہ چھوڑ کر شیخ شعلان کے ساتھ لگ گیا۔ ان کے ساتھ کام کرنے میں کافی فائدے ہوئے۔ ایک تومیری عربی درست ہو گئی۔ پھر میں نے ان کے ساتھ کلام اقبالؒ ایک نئی ترتیب کے ساتھ پڑھا اور ہر مشق اور شعر کا عربی ترجمہ کر کے ان کو بتایا خاص طور پر اردو شعر کا۔ اور بھی بہت سی کتابیں پڑھیں اور اس طرح منتخب کلام کا ترجمہ ہوا، خاص طور پر علامہ اقبال کی فارسی مثنوی جو ہے، اس کا مکمل عربی ترجمہ ہوا، اس میں مدد کی۔ میں ترجمہDictateکردیا کرتا تھا، وہ اپنی برل مشین پر لکھ لیا کرتے تھے اور رات کو کہیں نظم کرتے تھے۔ برل مشین پر وہ نظم اگلے دن صبح Dictateکرواتے، میں اس دوران پھر تیار ترجمہ ان کو نثر میں لکھواتا تھا۔ اس طرح سے کوئی تقریباً ایک سال میں نے ان کے ساتھ کام کیا۔ اس ایک سال میں تقریباً جولائی، اگست ۶۹ء تک کافی کام ہو گیا، ترجمہ بھی ہو گیا۔ اس دوران اور بھی کتب جو وہ فرمائش کرتے، پڑھ کر سنایا کرتا تھا۔ جو چیزیں انھوں نے نہیں پڑھی تھیں، وہ میں نے پڑھ کر سنائیں۔ ایسے شاعروں، ادیبوں کے نام جو میں نے نہیں سنے تھے، جب ان کی کتابیں ان کو پڑھ پڑھ کر سنائیں تو اس سے میرا مطالعہ مزیدوسیع ہوگیا۔ اس سے یہ فائدہ ہوا کہ میری عربی زبان مضبوط ہو گئی۔ مجھے آج بھی عربی میں لکھنے، بولنے، پڑھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی۔ 
جب وہ چلے گئے یہاں سے اپنا کام مکمل کر کے تو ظاہر کہ میرا تعارف یہاں پر سب لوگوں سے ہو گیا تھا۔ پہلے کم تھا، پھر زیادہ ہو گیا کہ یہ عربی، فارسی اچھی جانتے ہیں ۔اس سے لوگوں کا میرے بارے میں تاثر زیادہ اچھا ہو گیا، کیوں کہ عربی جاننے والے اکثر لکھ پڑھ نہیں سکتے۔ جو یہ کر سکتے ہیں، وہ بول نہیں سکتے، لیکن الحمد للہ میرے اندر یہ تمام صلاحیتیں پیدا ہو گئیں۔ اس دوران انسٹی ٹیوٹ میں ملازمت کی آفر ہو گئی۔ انھوں نے مجھے وہاں آفر کی، ہلکا سا انٹر ویو ہوا، مجھے لگا کہ فارمیلٹی ہے۔ کوئی محمدممتاز حسن مرحوم تھے، نیشنل بنک کے ریٹائرڈ صدر تھے اس وقت، ایک دواور حضرات تھے۔ اس طرح ۱۹۶۹ء کی گرمیوں میں، میں نے انسٹی ٹیوٹ جوائن کرلیا۔ اس کے بعد میں انسٹی ٹیوٹ ہی میں رہا۔ اس دوران میں نے پرائیویٹ ایم اے بھی کر لیا تھا اور PhD بھی۔ 
انیسویں صدی میں مسلمانوں میں جو احیائے اسلام کا کام شروع ہوا، تجدید واحیائے دین کی تحریکیں چلتی رہی ہیں، ان کا بہت معروضی انداز میں مطالعہ کیا جائے تو مختلف لوگوں نے مختلف تحریکات کامطالعہ شروع کیا۔ سنو سی تحریک جو لیبیا میں چلی تھی، یہ آزادی کی تحریک تھی جس کے نتیجہ میں حکومت بھی بنی اور عمرو مختار اسی تحریک کے قائد تھے۔ شاید اس لیے کہ ماخذ کی کمی تھی، جو کام کرنے والے تھے شاید عربی میں اتنے رواں نہ تھے، بہر حال جو بھی وجہ تھی تو میں نے اس پر کام شروع کردیا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میں نے سنوسی تحریک کا نام پہلی بار سنا تھا۔ مجھے اس کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا۔ لیبیا کے نام سے بھی زیادہ واقف نہیں تھا کہ لیبیا بھی کوئی ملک ہے۔ بہرحال انھوں نے کہا کہ سنوسی تحریک پر کام کریں۔ میں نے تلاش شروع کی اور مواد ملنا شروع ہوا اور میں نے مطالعہ شروع کیا اور ایک کتاب تیار کردی۔ بعد میں کچھ لوگوں کے مشورہ پر اس کتاب یا تحریک کو Reviseکر کے PhD کے مطالعہ کے لیے پیش کردیا۔ اسے یونیورسٹی نے قبول کرلیا اور اس طرح میں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ پاکستان میں غالباً ابھی تک وہ واحد کتاب ہے جو کہ سنوسی تحریک کے بارے میں چھپی ہے۔ 
میری ابتدائی تعلیم کراچی میں ہوئی۔ میرے والد کا تعلق دہلی کی ایک قریبی جگہ سے تھا، لیکن تعلیم کے بعد کا بیشتر حصہ علی گڑھ یا دہلی میں گزارا ۔علی گڑھ رہے۔ میرے خاندان کا علی گڑھ سے پرانا تعلق تھا۔ میرے دادا علی گڑھ سے پڑھ چکے تھے۔ علی گڑھ کی فٹ بال کی ٹیم کے کپتان تھے۔ میری دادی بتاتی ہیں کہ شادی کے بعد بھی جب وہاں جاتے تو ہاتھی ان کو لینے کے لیے آیا کرتا تھا۔ گاڑی تو ہوتی نہیں تھی اور ہاتھی کسی کو لینے کے لیے آئے تو یہ ایک دیہاتی کے لیے نئی بات ہوتی تھی۔ میری دادی کے ماموں جو تھے، بدر الحسن ان کا نام تھا، وہ سرسید کے ساتھ علی گڑھ کالج کے ٹرسٹی تھے۔ بدر باغ ان کے نام سے تھا۔ علی گڑھ اور دیوبند دونوں سے میر اخاندانی تعلق تھا۔ خاندان کے کچھ لوگ دیوبند سے پڑھے تھے، کچھ علی گڑھ سے پڑھے تھے۔ دونوں طرف رجحان تھا۔ یہ بھی ہوا کہ ایک بھائی کی تعلیم علی گڑھ، دوسرے کی دیوبند میں ہوئی، باپ کی دیوبند یا بیٹے کی علی گڑھ میں۔ یہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے رہے یعنی دینی اور دنیاوی تعلیم۔ میرے والدصاحب کی تعلیم پہلے مدرسہ میں ہوئی، بعد میں علی گڑھ چلے گئے ۔علی گڑھ سے پڑھنے کے بعد دہلی آگئے اور پرائیویٹ تعلیمی ادارہ قائم کیا جس میں درس وتدریس ہوتی تھی۔ ساتھ ہی ایک فتح پوری کالج تھا جو اب بھی ہے ،اس میں پڑھایا کرتے تھے۔فتح پوری کالج شایدکامیاب طور پر چلا نہیں، اس لیے والد صاحب نے بعد میں وہ ادارہ چھوڑ کر گورنمنٹ سروس اختیار کرلی۔ سروس میں دہلی میں رہتے رہے۔
جب پاکستان قائم ہوا تو بڑے پر جوش مسلم لیگی تھے، انھوں نے پاکستان کو Opt کیا۔ سرکاری ملازم ہوئے، بہت کام کیا۔ آرڈر ملا کہ۱۷؍اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستانی ہائی کمیشن دہلی میں رپورٹ کریں اور ان کی پوسٹنگ دہلی میں ہوئی۔ ۱۷؍اگست ۱۹۴۷ء کو دہلی میں کرفیو تھا۔ بہت قتل عام ہوا تھا۔ والد صاحب بتاتے ہیں کہ مجھے ساری رات نیند نہیں آئی کہ صبح پاکستان کی سروس جوائن کرنی ہے۔ یہ بتاتے ہوئے رویا کرتے تھے کہ میں صبح آٹھ بجے کپڑے بدل کر روانہ ہو گیا، اب وہاں لوگوں کی لاشیں پھلانگتا ہوا جا رہا تھا۔ بڑی مشکل اور تلاش کے بعد عمارت ملی جس میں ہائی کمیشن قائم ہوا تھا۔ کافی دیر تک دستک دیتے رہے، کسی نے نہیں کھولا۔ اندر سے کسی نے جھانکا اور پوچھا کہ کیا معاملہ ہے؟ انھوں نے کہا کہ میرے پاس لیٹر ہے اورمیں نے جوائن کرنا ہے تو انھوں نے کہا کہ اس حالت میں کیا پاگل ہو؟ واپس جاؤ، دوبارہ آنا۔ پھر ۱۵ کو گئے۔ ۱۷؍ اگست کو امن ہوا تو انھوں نے جوائن کیا اور دہلی میں گئے۔ 
میری پیدائش دہلی میں ہوئی۔ میں ۴، ۵ سال کا تھا جب دہلی سے پاکستان آیا۔ بچپن میں پرانے مسلمانوں کے قصے کہانیاں پڑھا کرتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میری دادی بڑی عالمہ فاضلہ خاتون تھیں۔ ان کی تعلیم تو کوئی زیادہ نہیں تھی، لیکن بڑی وسیع المطالعہ خاتون تھیں۔ اردو، فارسی ان کو اچھی آتی تھی۔ اردو کی کتابیں ان کے پاس بہت تھیں۔ وہ اپنے ساتھ کچھ اور تو نہیں لاسکی تھیں، لیکن اپنے مطالعہ کی کتابیں دوصندوقوں میں بھر کر لائی تھیں۔ وہ کتابیں میں پڑھا کرتا تھا۔ ایک کتاب ان کو زبانی یاد تھی جس کا نام تھا’’ صمصام الاسلام‘‘۔ اس کے لغوی معنی ہیں ’’اسلام کی تلوار‘‘ لیکن یہ ایک منظوم ترجمہ تھا ایک پرانی کتاب کا جو اس نام سے مشہور ہے۔ اس میں شام کے علاقہ میں جو مسلمانوں کی فتوحات کے واقعات تھے ،خالد بن ولیدؓ کی بہادری کے قصے تھے، ابوعبیدہؓ کی بہادری کے واقعات تھے، یہ کسی نے نظم کیے ہوئے تھے۔ یہ میری دادی کو زبانی یاد تھی۔ اس کی بہت سی نظمیں اور شعرمجھے سنایا کرتی تھیں۔ اس سے مجھے یہ واقعات یاد ہو گئے۔ تو ایسی کتابیں جن میں اس طرح کے واقعات ہوں، وہ مجھے اب بھی اچھی لگتی ہیں۔ 
میں کراچی میں قرآن پاک حفظ کرچکا تھا۔ یہ غالباً ۱۹۵۷ء کی بات ہے، میرے والد کے ایک قریبی دوست تھے۔ میرے والد سے ان کابڑا وسیع تعلق تھا۔ کافی لمبی عمر کے بزرگ تھے اور مولانا اشرف علی تھانوی کے بھتیجے تھے۔ کراچی میں مولانا اشرف علی تھانوی کی کتابوں کی طباعت کا کام انھوں نے شروع کررکھا تھا ادارہ تالیفات اشرفیہ کے نام سے۔ مولانا کے ملفوظات کی چھ، آٹھ جلدیں انھوں نے شائع کیں جو پروف ریڈنگ کرنے کے لیے میرے پاس آئی تھیں۔ میں ان کے ساتھ بیٹھ کر پروف پڑھا کرتا تھا۔ وہ مسودے کو پڑھتے اور میں اصل کو پڑھتا تھا اور جو غلطی ہوتی، میں ٹھیک کردیتا اور جہاں جہاں قرآن پاک کے حوالے ہوتے تھے، میں حافظ ہونے کی وجہ سے حوالہ نکال دیا کرتا تھا۔ اس کا ترجمہ اور ریفرنس مکمل طور پر وہ دے دیا کرتے تھے۔ اس طرح سے بچپن میں، جب کہ اردو نئی پڑھنی سیکھی تھی تو مولانا اشرف علی تھانوی کی کتابیں میں نے پڑھ ڈالیں جب کہ وہ ابھی انھیں چھپوا رہے تھے۔ ویسے تو ملفوظات میں تصوف کے مباحث بہت ہیں۔ اکثر جو فنی چیزیں ہیں، وہ تو میری سمجھ میں بہت کم آتی تھیں، لیکن اس میں جو حکایتیں اورشعروشاعری ہوتی، دلچسپی کی ہوتی تھیں، ان سے مجھے دلچسپی ہو گئی تو اس طرح حضرت تھانوی کی کتابیں بہت بچپن میں پڑھ ڈالی تھیں۔ ان کے پڑھنے سے بہت سارے دین کے اہم حقائق اور اہم چیزیں جو تھیں، وہ ذہن نشین ہو گئیں اور اس طرح بہت ساری ایسی مشکلات سے بچا رہا جس کا بہت سے لوگ شکار ہوتے ہیں کیونکہ اکثر لوگوں کو ان کا Back Ground معلوم نہیں ہوتا۔
اس دوران کراچی ہی میں تھا کہ اتفاق سے مجھے مولانا مودودی کی کتابیں پڑھنے کا موقع ملا۔ ایک بزرگ تھے مفتی محمد اکمل جن کے پاس مولانا مودودی ؒ کی کتابیں تھیں تو میں فارغ وقت میں ان کے کتب خانہ میں جایا کرتا تھا اور کتابیں پڑھتا اور دیکھتا رہتا۔ میرا کتابوں کا ذوق انھوں نے دیکھا تو ایک دن کہنے لگے کہ کونے میں جو کتابوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے، اس میں جو تمھارے کام کی کتابیں ہوں، وہ لے جاؤ تو میں بڑا خوش ہوا اور ایک تخت کے نیچے گھس کر مٹی میں ۲، ۴ دن کتابوں کو چھانٹتا رہا۔ ساری کتابیں باہر نکالیں اور ۵۰، ۱۰۰ کتابوں کا ایک بنڈل باندھا کہ لے جاؤں؟ توانھوں نے کہا کہ ہاں ٹھیک ہے، لے جاؤ تو وہ ساری کتابیں میں گھر لے آیا۔ اس طرح میری پہلی Personal لائبریری ان ردی کی عطیہ شدہ کتابوں سے بنی۔ کچھ کام کی نہیں تھیں، لیکن کچھ بہت مفید نکلیں۔ جو اچھی کتابیں تھیں، ان میں دو کتابچے تھے۔ ایک مولانا مودودیؒ کا تھا: ’’پاکستان میں اسلامی نظام اور نفاذ کی عملی تدابیر‘‘۔ یہ لیکچر یا تقریر تھی۔ میں بہت متاثر ہوا کہ یہ بڑے کام کی تقریر ہے۔ مولانا کی کتابیں پڑھنے کا ذوق بھی اس طرح ہوا۔ مولانا کی کتابیں میں نے اس وقت پڑھنی شروع کیں۔ دوسری چیز جو مجھے ان کتابوں میں ملی، وہ ایک قرارداد تھی جو مسلمانوں کے مختلف مسائل کے بارے میں تھی۔ اب یاد نہیں کہ کس ادارے کی تھی، شاید کراچی میں انٹرنیشنل کانفرنس ہوئی تھی جو مسئلہ فلسطین اور الجزائر اور دیگر آزادی کی ان تحریکوں کے بارے میں تھی جسے پڑھ کر مجھے بہت دکھ ہوا کہ اچھا مسلمانوں کے ساتھ یہ ہو رہا ہے اور یہ صرف قراردادیں پاس کررہے ہیں، اس سے کیا ہوگا؟ اور میرے دل میں یہ آیا کہ حکومت پاکستان وہاں پر فوجیں بھیجتی۔ اس طرح کے جذبات میرے دل میں آتے تھے۔ یہ مجھے اندازہ نہ تھا کہ ایک وقت آئے گا کہ جب ریزولیشن پاس کرنے کی ہمت بھی نہ ہوگی۔ لیکن بہر حال اس سے مجھ میں دنیائے اسلام کے معاملات میں دلچسپی لینے کا ذوق پیدا ہوگیا۔ اس دن سے مجھے عالم اسلام کے مسائل سے دلچسپی پید اہو گئی اور اب کافی مسائل سے واقفیت ہے۔ 
شاعری سے مجھے زیادہ دلچسپی شروع سے نہیں تھی اور شعروشاعری میری طبیعت کے خلاف تھی۔ وجہ کیا ہے؟ مجھے معلوم نہیں، لیکن میرا دل شعر و شاعری میں لگتا نہیں تھا۔ شاید اس وجہ سے کہ میری والدہ مجھے فارسی شاعری پڑھانا چاہتی تھیں جو کہ شاید اس وقت میرے ذوق اور سطح سے بلند ہو گی اور شاید اس وجہ سے شاعری سے میرا دل کھٹا ہو گیا۔ بہر حال جو بھی وجہ ہوگی، لیکن اردو ناول اور افسانے میں میرا دل لگنے لگا۔ اس زمانے میں نسیم حجازی کے میں نے کافی ناول پڑھے۔ ایک خاتون ہوتی تھیں، غالباً اے آر خاتون، بہت اچھا لکھتی تھیں۔ ان کے ناول بھی پڑھے۔ یہ دو نام مجھے یاد ہیں۔ ممکن ہے کہ میری اردو پر اس افسانوی ادب کے پڑھنے کا اثر ہوا ہو۔ اردو میں نے باقاعدہ نہیں پڑھی یا باقاعدہ اردو تعلیم کسی ادارے میں نہیں پائی۔ اردو میں لکھ لیتا ہوں، تحریریں موجود ہیں۔ 
جب میری دینی تعلیم مکمل ہو گئی تو زیادہ تر عربی مطالعہ کا موقع ملا۔ انگریزی کتابوں کا مطالعہ بھی کیا۔ انگریزی میں جن چیزوں کے ساتھ دلچسپی رہی، یا تو قانون کے متعلق موضوعات تھے کیونکہ میں فقہ کا طالب علم تھا اور وہ اس لیے کہ اس کے ذریعے قانون کو سمجھنے میں مدد ملتی تھی۔ قانون کی خاص کتابیں پڑھیں اور پھر کچھ قانون کا باقاعدہ طالب علم بھی رہا۔ FEL بھی کیا اور ایل ایل بی کا امتحان بھی پاس کیا۔ اس میں دو پرچوں میں شرکت نہ کرسکا اور پرچوں میں شرکت نہ کرنے کی وجہ سے فیل ہو گیا۔ میں نے کوشش کی دوبارہ کرنے کی، لیکن نہیں کر سکا وقت نہ ملنے کی وجہ سے۔ شاید یہی اللہ تعالیٰ کی مرضی تھی کہ میں وکالت نہ کروں، استادبنوں۔ ۷۳ء، ۷۴ء، ۷۵ء میں قانون پڑھنے کا موقع ملا۔ انگریزی پڑھنے کا ذوق تو موجود تھا۔ میرے دادا علی گڑھ میں پڑھتے تھے ، میرے والدنے دینی تعلیم بھی حاصل کی تھی اور انگریزی بھی جانتے تھے اور میرے خاندان میں کافی لوگ دینی ودنیوی تعلیم کے حامل موجود تھے۔ بچپن کراچی میں ہی گزارا اور پھر اسلام آباد کا ماحول انگریزی کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے کافی تھا۔ انگریزی پڑھنے کی کوشش کی، میری کوشش تھی کہ ایسی کتابیں پڑھوں جو مغربی تصورات کو سمجھنے میں مدد دیں۔ اس کا احساس علامہ اقبال کی شاعری کے مطالعے سے ہوا۔ 
علامہ اقبال کے کلام کے مطالعہ کا ذوق کب پیدا ہوا؟ یہ کہنا مشکل ہے لیکن ۱۹۶۵، ۶۶ء کے لگ بھگ ہوا۔ اس سے پہلے اقبال کی کوئی خاص چیز نہیں پڑھی تھی اور پھر اتنا ہوا کہ دو تین سال ایسے گزرے کہ میں نے علامہ اقبال کے علاوہ کچھ پڑھا ہی نہیں اور اس زمانے میں مجھے کلام اقبال تقریباً سارا یاد تھا اور اب چالیس بیالیس سال ہو گئے ہیں، اب بھی آپ کوئی شعر مجھ سے پوچھ لیں تو تقریباً ۹۰ فیصد شعر کے بارے میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ یہ فلاں غزل میں فلاں کتاب کا حصہ ہے۔ ۹۰ فیصد شعر تو اب بھی مجھے یاد ہیں۔ مجھے کلام اقبال کو بیان کرنے میں کبھی دقت نہیں ہوئی۔ اسی عرصے میں شیخ شعلان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ تو کلامِ اقبال کے مطالعے سے یہ ذوق پیدا ہوا کہ مغرب کا تنقیدی مطالعہ ضروری ہے اور مغربی افکار سے واقفیت کے بغیر اور اس کے بارے میں ایک موقف اختیار کیے بغیر دور جدید میں مسلمانوں کا احیاناممکن ہے۔ اس کا جب احساس ہوا تو میں نے مغربی افکار کا مطالعہ شروع کیا۔ میری دلچسپی کے جو میدان تھے، وہ قانون، دستور اور کسی حد تک معیشت تھے، اگرچہ یہ میرا اتنا پسندیدہ موضوع نہیں رہا، لیکن سیاست کو سمجھنے کے لیے معیشت کو پڑھنا بھی ضروری ہے اور تھوڑا سا مغربی افکار کی تاریخ اور مغربی تہذیب کا پس منظر، مذہب اور ریاستی کشمکش، یہ چیزیں میری دلچسپی کا موضوع رہی ہیں۔ اس پر میں نے کچھ کتابیں پڑھیں، لیکن جس کتاب سے میں بہت زیادہ متاثر ہوا، وہ ول ڈیورنٹ کی کتاب The Story of Civilization ہے جو آٹھ جلدوں میں ہے۔ یہ کتاب میں نے کئی مرتبہ پڑھی ہے اورنہایت باریک بینی اورگہرائی سے پڑھی ہے۔ ایک تو اس سے انگریزی بہتر ہو جاتی ہے اور ویسے بھی ان چیزوں کے متعلق جن کے بارے میں ذہن میں سوالات پیدا ہوتے تھے، ان کا جواب اس کتاب میں تھا۔Will Durant کی اس کتاب کے علاوہ مغربی افکار اور مغربی تہذیب کو جاننے کے لیے میں نے جو کتابیں دیکھیں، ان میں ٹرینڈ رسل کی کتابیں بہت اہم ہیں جو کہ میں نے پڑھی ہیں۔ اس کی کتابوں میںHistory of Western Philosophyجیسی کتاب کو میں نے تین چار مرتبہ پڑھا ہے۔ اس سے مغربی افکار کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ کس دور میں کیا تھا اور مغرب میں کس دور میں کیا خیالات پیدا ہوئے، اس کا پس منظر کیا تھا۔ ان کتابوں کو پڑھنے سے مغربی افکار اور تہذیب کو سمجھنے میں مدد ملی۔ مغرب کو جاننے میں ایک اور کتاب جس سے بڑی مدد ملی ہے، میں نے اسے پاکستان کونسل کی لائبریری سے لے کر پڑھا۔ گبن کی کتاب The Fall of Roman Empire اگرچہ پرانی ہے، Outdated ہے، لیکن کتاب بہت اچھی ہے۔ اس سے مغربی رومن امپائر اورر ومن چرچ اور ان چیزوں کو سمجھنے میں بڑی مدد ملی۔ یہ چیزیں جب تھوڑی سی پڑھ لیں تو اقبال کی شاعری میں مجھے بہت گہرائی ملی۔ علامہ اقبال کا کہنا یہ ہے کہ جتنا آدمی گہرائی سے مطالعہ کرتا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ وہ ابھی سطح پر ہے۔ 
اسلامی قانون پر تو بہت سی کتابیں ہیں جن میں سے چند کا ذکر کروں گا۔ مغربی قانون کے بارے میں دو کتابیں مجھے بڑی پسندآئیں جنھیں میں کثرت سے پڑھتا ہوں۔ اے کے بروہی صاحب کی کتاب ہےThe Fundamental Law of Paksitan۔ اصل میں تو یہ ۱۹۵۶ء کے Constitution کی شرح ہے، لیکن انھوں نے مغربی قوانین کے تصورات، شہری اور تمام وہ بنیادی عقائد جس پر مغربی قوانین کی اساس ہے، ان پر بحث کی ہے۔ اتنی عالمانہ بحث بہت کم لوگ کر پاتے ہیں۔ یہ کتاب مجھے بہت پسندآئی اور اسے میں نے کئی مرتبہ پڑھا اور اب بھی ہمیشہ اسے وقتاً فوقتاًدیکھتا رہتا ہوں اور میرے خیال میں کسی اور مسلمان کی اس موضوع پراتنی جامع کتاب نہیں ہے۔ اس کے علاوہ Jurisdictionپر ایک اور کتاب پڑھی جو نئے انداز سے لکھی گئی ہے۔ اس کے مصنف نے ایسا التزام کیا ہے کہ اس میں تمام بنیادی تصورات دینے والے ماہرین قانون ہیں۔ مغربی دنیا کے اہل علم کے تصورات کے اقتباسات پیش کر کے اور بنیادی قانونی تصورات پر بحث کی ہے۔ یہ بھی مجھے بڑی پسندآئی۔ سترہویں اٹھارویں صدی میں جب سے اس پر غور شروع ہوا ہے کہ کس نے کیا لکھا ہے، Montersنے کیا لکھا تھا اور Kalsenنے کیا لکھا تھا، Rousseau نے کیا لکھا تھا تو گویا قانون تصورات کی تاریخ بھی آگئی۔ Rousseau کی اپنی زبان میں اس کا بیان بھی آگیا کہ انہوں نے Social Contractکے بارے میں کیا لکھا تھا، اس میں قانون دانوں کے اپنے دلچسپی کے موضوعات بھی ہیں۔ 
مجموعی طور پراسلامیات سے متعلق چیزیں ہی میری دلچسپی سے متعلق ہیں۔ اسلامی تاریخ و تمدن، تصوف اور اس طرح کی ہر چیز جیسے سید علی ہجویریؒ ]کی تحریریں[، مجدد الف ثانی کے مکتوبات۔ مجدد الف ثانی کے جو مکتوبات ہیں، وہ تصوف کی بنیاد ہیں اور تصوف میں اس سے زیادہ ٹھوس اور جامع تحریر کسی کی بھی نہیں ہے۔ پورے ۱۴۰۰ برس میں کسی بھی مسلمان صوفی کی اتنی جامع اور ٹھوس تحریریں نہیں ہیں جتنی کہ مجدد الف ثانی کی تحریریں ہیں۔ علامہ اقبال نے ان کے بارے میں کہا تھا کہGreatest Muslim Genius of India، یہ میں نے سارے پڑھے ہیں۔ اس میں سے ۱۱۰۰ کے قریب منتخب مکتوبات کا عربی ترجمہ بھی کیا ۔شاہ ولی اللہ کی کتب پڑھیں۔ امام غزالیؒ کی’’ احیاء العلوم‘‘ تو ہمیشہ میرے سرہانے رہتی ہے جس کو وقتاً فوقتاً پڑھتا رہتا ہوں۔ مولانا تھانوی کی کتب بچپن میں ہی پڑھ لی تھیں۔ بنیادی چیزیں پڑھیں۔ عصر جدید کے تمام لوگوں کو پڑھا، لیکن بنیادی جو کتابیں ہیں، وہ قوت القلوب ہے ابوطالب مکی کی، کتاب اللمعہ، رسالہ قشیر یہ ہے۔ یہ سب الحمدللہ میرے پاس ہیں۔ دورِحاضر کے مصنفین میں تصوف پرٹھوس اصل کام کسی نے بھی نہیں کیا ہے، یعنی ایسا تو ہے کہ کچھ لوگوں نے تصوف کو نئے انداز میں سمجھانے کی کوشش کی۔ ان میں دو تین کتابیں بہت اچھی ہیں۔ ایک تو مولانا زوارحسین صاحب جو کہ کراچی کے ایک بزرگ ہیں، ان کی کتاب ہے ’’عمدۃ السلوک‘‘۔ ایک مولانا اللہ یار خان تھے یہاں چکوال کے قریب، ان کی کتاب ہے ’’دلائل السلوک‘‘۔ یہ دونوں اچھی کتابیں ہیں، لیکن میرے ذہن میں اس سے مختلف نقشہ ہے۔ ایک بزرگ میرے دوست ہیں، صاحبزادہ محمد حسن الٰہی، یہاں قریب ایک جگہ ہے، وہاں کے رہنے والے ہیں۔ وہ بڑے صوفی بزرگ ہیں۔ عالم فاضل ہیں، استاد بھی ہیں، ان کی تحریریں بھی تصوف پر اچھی تحریریں ہیں۔ میں نے کئی مرتبہ ان سے گزارش کی ہے کہ ان سب کو مرتب کر کے تصوف پر ایک جامع کتاب تیار کریں جس میں ان اعتراضات کا جواب بھی موجود ہو جو کہ عموماً تصوف پر کیے جاتے ہیں۔ بڑے وزنی اعتراضات ہیں، ہلکے اعتراضات نہیں ہیں اور جو تصوف کے علم برداران کہتے رہے ہیں، وہ بھی بڑا وزنی ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ کے اہم اور عظیم ترین لوگ تصوف کے ساتھ وابستہ رہے ہیں، اس لیے آپ اسے آسانی سے نظرانداز نہیں کر سکتے کہ بیک جنبش قلم کہہ دیں کہ تصوف فضول ہے۔ یہ کہنے سے کام نہیں چلے گا، اس کے لیے ٹھوس مطالعہ کی ضرورت ہے۔ 
اسی طرح عصر حاضر میں مولانا مودودیؒ کی اکثر معروف کتب پڑھی ہیں۔ میں مولانا کی دو کتابوں سے بہت متاثر ہوا تھا۔ اب بھی دوبارہ پڑھتا ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ پہلا تاثر بالکل صحیح تھا۔ جو کتابیں مولانا کی بہت مقبول ہیں اور جس سے لوگ بہت متاثر ہوتے ہیں، میں ان سے متاثر نہیں ہوا۔یہ دو کتابیں ’’تنقیحات‘‘ اور ’’اسلام اور جدید معاشی نظریات‘‘ ہیں۔ یہ کتابیں مجھے بہت غیر معمولی فاضلانہ اور Creativeمحسوس ہوئیں۔ مولانا کی جن کتابوں سے لوگ بہت متاثر ہوتے ہیں، ’’خلافت وملوکیت‘‘ اور ’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘‘، ’’تجدید واحیائے دین‘‘ ہیں۔ ان کتابوں نے مجھے بہت کم متاثر کیا۔ مولانا کا احترام مانع ہے، ورنہ اس بات کو اور پھیلا سکتا ہوں۔ یہ مجھے مولانا کے معیار کی کتابیں معلوم نہیں ہوئیں، جو مولانا کا علمی معیار ہے۔ ’’خلافت و ملوکیت‘‘ کے بارے میں ایک اچھی کتاب حافظ صلاح الدین یوسف کی ہے جوبڑی معتدل اور اچھی کتاب ہے۔ 
اصل میں، میں مولانا پر وہ اعتراضات نہیں کرتا جس طرح کے اعتراضات یہ لوگ کرتے ہیں اور میں اُس طرح کے خیالات کے اظہار میں مولانا کو معذور اور کسی حد تک حق بجانب سمجھتا ہوں۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ ہر بڑا فاضل مفکر اپنے ماحول سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ ظاہر ہے کہ اگرماحول کا نوٹس (Notice) نہ لے تو وہ بڑا مفکر نہیں بن سکتا۔ وہ کیا مفکر ہے کہ جو ماحول کا جواب نہ دے اور نہ ہی بالکل ماحول کا اسیر ہو جائے۔ تو ہر مفکر کے لیے یہ بڑا چیلنج ہوتا ہے کہ اُس میں اتنی عالمگیریت ہو کہ ماحول سے بہت آگے جا کر بات کرے، لیکن اُس کے ساتھ ماحول کا نوٹس لے کر اُس کا جواب بھی دے۔ تو مولانا جس ماحول میں لکھ رہے تھے، وہ مسلمانوں کی انتہائی پستی کا دور تھا۔ کوئی ایسی قابل ذکر قوت نہ تھی جو مسلمانوں کے مقاصد کو لے کر چل سکے، جو مسلمانوں کی مصلحت اور Cause کا تحفظ کر سکے۔ اُس کے مقابلے میں Communism کی ایک بڑی قوت قائم ہو گئی تھی جو Communism کو ایک پوری دنیا میں فروغ دے رہی تھی، وسائل استعمال کر رہی تھی۔ برطانیہ کی بڑی قوت تھی جو پوری دنیا میں اپنے وسائل سے انگریزی زبان، انگریزی کلچر اور انگریزی اقدار کو فروغ دے رہی تھی۔ بڑے بڑے تعلیمی ادارے انگریزی اقدار کو فروغ دینے کے لیے قائم کیے جا رہے تھے۔ تو اگر مولانا مودودی کے ذہن میں یہ آیا کہ مسلمانوں کی بھی ایک ریاست اُسی طرح کی ہونی چاہیے تویہ ان کی ذات میں موجود اخلاص کی بات ہے۔ اِس درد مندی اور اخلاص سے انہوں نے مسلمانوں کی زندگی کا جائزہ لیا ہو گا تو اُن کو لگا ہو گا کہ بڑی بڑی حکومتیں اپنے تصورات کو پھیلا رہی ہیں جو اسلام کے نقطہ نظر سے غلط ہے تو اگر اسلام کی بھی اس طرح کی ایک سلطنت ہو جو اُس Cause کو لے کر چلے تو اسلام کے حق میں بہتر ہوگا۔ تو اِس لیے مولانا نے اُس کے لیے قوم کو آمادہ کرنا شروع کیا۔ اِس کا نتیجہ لازمی طور پر یہ نکل سکتا تھا کہ مولانا کے اندازِ تخاطب اور طرزِ تحریرمیں سیاسیات کا پہلو بہت نمایاں ہو گیا۔ سیاسیات کے پہلو کا نمایاں ہونا اس لیے نہیں کہ مولانا اسلام میں بھی سیاست کو وہ مقام دیتے ہیں جو اُن کی تحریروں سے نظر آتا ہے۔ اُن کی تحریروں میں سیاسیات کی نمایاں حیثیت اِس لیے نظر آئی کہ مولانا جس دور میں لکھ رہے تھے یا جس طبقے سے مخاطب تھے، اُس طبقے کا بڑا مسئلہ یہ تھا۔ اب یہ سمجھنا کہ مولانا اسلام کے عمومی نظام میں سیاست کو بھی وہ درجہ دیتے ہیں تو یہ مناسب نہیں ہے۔ یہ مولانا کے ساتھ انصاف نہیں ہے، لیکن اُن کی تحریروں سے یہ رنگ پیدا ہوتا ہے۔ خواہی نخواہی، دانستہ یا نا دانستہ اُس سے قارئین کا ذہن یہ بنا تو پھر اس پر مولانا ابو الحسن علی ندوی کو قلم اٹھانا پڑا۔ 
مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کی کتاب ’’پرانے چراغ‘‘ بہت معیاری کتاب ہے۔ میری شخصیت پر اس کے بہت اثرات مرتب ہوئے ہیں، البتہ ان کی شہرت کی وجہ جو کتاب ہے، وہ مجھے پسند نہیں آئی۔ ’’انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر‘‘ میں نے پہلے عربی میں پڑھی تھی۔ اس کی زبان بہت اچھی ہے، عربی میں وہ کتاب میں نے enjoy کی، لیکن اس کے مند رجات نے مجھے متاثر نہیں کیا۔ مولانا کی جس کتاب سے بہت متاثر ہوا اور بار بار پڑھی ہیں، وہ ’’پرانے چراغ‘‘ اور ’’سیرت سید احمد شہیدؒ ‘‘ ہیں۔ 
میں ایک زمانے میں کمیونزم سے بڑا متاثر ہوا۔ ۱۹۶۵ء کی جنگ میں پاکستان کی چین نے بڑی مدد کی تھی اور بڑا چرچا تھا اس کا۔ اس زمانے میں چینی سفارت خانہ کمیونزم پر بڑی کثرت سے لٹریچر تقسیم کیاکرتا تھا۔ تو وہ لٹریچر دیکھ کر مجھے لگتا تھا کہ واقعی اگر دنیا میں کوئی مظلوموں کا ساتھی ہے تو وہ کمیونسٹ ہیں۔ انگریزی میری اتنی رواں نہیں تھی کہ میں انگریزی کی کتابیں پڑھ سکوں۔ عربی میں بھی کوئی چیزیں نہیں ملتی تھیں، لیکن جو کچھ ملتا تھا، میں نے پڑھنے کی کوشش کی اور کوئی سال سوا سال ایسا گزرا کہ کمیونزم کے بارے میں میری بڑی اچھی رائے رہی اور جو چیزیں اس بارے میں ملیں، میں نے پڑھیں۔ پھر ۱۹۶۶ء کی بات ہے جب انڈونیشیا میں انقلاب آیا۔ وہاں کمیونسٹوں کا قتل عام شروع ہوا تو مجھے بڑا دکھ ہوا کہ یہ تو بے گناہ لوگوں میں عدل وانصاف کی بات کرتے ہیں، انسان کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔ اس کے بعد جب باقی چیزیں پڑھیں اور کچھ سنجیدہ مطالعہ ہوا تو پھرکمیونزم کے بارے میں یہ تاثر ختم ہو گیا اور بعد میں تو بالکل مختلف تاثر بن گیا۔ Communismبالکل فضول ہے اور مذہب بیزار زندگی، غیراخلاقی زندگی۔ ان کے سارے دعوے باطل اور غلط ہیں۔ نہ اس میں مزدور کی فلاح وبہبود ہوتی ہے اور نہ ہو سکتی ہے۔ اس نظام نے مزدروں کو مزید غلام بنایا۔ کمیونسٹ حکومتوں نے ان پر مزید مظالم کیے۔ اس بارے میں ایک کتاب جس سے میں بہت زیادہ متاثر ہوا، وہ پروفیسر مظہر الدین صدیقی کی کتاب تھی۔ ’’اشتراکیت اور نظام اسلام‘‘ اس زمانے میں لکھی گئی تھی جب کمیونزم پر زیادہ لٹریچر اسلامی نقطہ نظر کے حوالے سے نہیں ملتا تھا۔ غالباً ۱۹۴۰ء کے زمانے کی بات ہے، بلکہ اس سے بھی پہلے ایک اور کتاب تھی’’ اسلام اور مارکسزم‘‘۔
کتابیں لینے اور دینے کے بارے میں تھوڑی سخاوت بڑا نقصان پہنچاتی ہے۔ میری بہت سی کتابیں واپس نہیں آئیں۔ سینکڑوں جو بہت سے احباب لے گئے پڑھنے کے لیے۔ میرے پاس کوئی ریکارڈ نہیں تھا اور نہ ہی رجسٹر تھا کہ میں درج کرتا جاتا کہ اس کا اندراج ہو۔ پاکستان کی ایک بڑی نامور شخصیت نے مجھ سے کتاب لی اور پھر صاف مکر گئے اور میں بھی احتراماً خاموش رہا۔ 
میں دورانِ سفر بھی مطالعہ کرتا ہوں۔ کتابیں سفر میں ساتھ رکھتا ہوں، خاص طور پر ادب کی اور شاعری کی۔ شاعری میں زیادہ فارسی اور عربی شاعری پڑھتا ہوں۔ انگریزی شاعری پڑھنے کی کوشش کی، لیکن مجھے پسند نہیںآئی۔ میں نے بہت چاہا کہ انگریزی شاعری بھی پڑھوں۔ فارسی شاعری میں قدیم شاعری سے متاثر ہوا ہوں، جبکہ جدید شاعری نے کبھی متاثر نہیں کیا۔ قدیم شاعری میں حافظ، غالب، سعدی اور سنائی۔ 
اخبار صبح پڑھتا ہوں صرف ناشتے کے دوران۔ جنگ، ڈان اور Pakistan Observer پڑھتا ہوں۔ زاہد ملک صاحب مفت صبح صبح اخبار دیتے ہیں۔ باقی رسائل میں ریگولر نہیں پڑھتا۔ بہت سے حضرات بھیجتے ہیں۔ بس ایک نظر میں دیکھ لیتا ہوں۔ باقاعدہ ضرور نوائے وقت اور جنگ کے کالم پڑھتا ہوں، کیوں کہ بھائی کے گھر میں نوائے وقت آتا ہے۔ 
عموماً رات کو سونے سے پہلے پڑھتا ہوں۔ کرتا یہ ہوں کہ سال کا ایک پلان کرتا ہوں کہ سال میں یہ پڑھنا ہے تو کتاب پہلے ہی طے کر تا ہوں۔ کتابیں تو دنیا میں لاکھوں ہیں۔ زیادہ سے زیادہ آپ بیس یا پچیس ہزار کتابیں پڑھ سکتے ہیں زندگی میں یا دس بارہ ہزار پڑھ سکتے ہیں۔ اِن لاکھوں کتابوں میں آپ دس ہزار کتابیں منتخب کرتے ہیں تو میں ایسا کرتا ہوں۔ 
کچھ ایسی کتابیں ہوتی ہیں جن پر ایک نظر ڈال لینا کافی ہوتا ہے۔ آپ دس، پندرہ منٹ کے لیے نظر ڈال لیں، اندازہ ہو جاتا ہے کہ کیسی کتاب ہے، اِن میں کوئی نئی بات نہیں ہوتی۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بک سیلرکے پاس ہی جا کر دیکھتا ہوں۔ اسلام آباد کے کئی بک سیلر مجھے جانتے ہیں اور دوست ہیں۔ میں شیلف پر کھڑا ہو کر پندرہ منٹ نظر ڈال کرکتاب کا ]حاصل[ اخذ کر کے کتاب فارغ کر دیتا ہوں۔ اُس کے بعدان کو دیکھنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں کہ اُن کو مجھے دو گھنٹے دیکھنا پڑتا ہے۔ وہ اُسی کی مستحق ہوتی ہیں کہ آپ دو تین گھنٹے اُس پر لگائیں۔ کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں جو ایک بار پڑھنے کی ہوتی ہیں، کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں جو ساری زندگی ساتھ رہتی ہیں۔ تو جو ایسی کتابیں ہوتی ہیں، وہ میں خریدلیتا ہوں۔ جو ایسی نہیں جن کو وقتاً فوقتاً دیکھنا ہوتا ہے، اُن کو بھی خریدنا پڑتا ہے۔ جو کتابیں گھنٹے اور دو گھنٹے میں فارغ ہوتی ہیں، وہ میں نہیں خریدتا۔ میری ذاتی لائبریری میں کتابیں میں نے کبھی گنی نہیں، مگر میرا اندازہ ہے کہ بیس بائیس ہزار کتابیں ضرورہوں گی۔ 
بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ جن کو پڑھنے کے بعد ملنے کا اشتیاق ہوا۔ ایسا تو نہیں ہوا کہ کسی سے ملنے کی خواہش کی ہو اور ملنے کے بعد مایوسی ہوئی ہو۔ یاد نہیں کہ کبھی ایسا ہوا ہو، لیکن کچھ مصنفین جن سے ملنے کی خواہش پیدا ہوتی رہی لیکن مل نہ سکا، اِن میں سے ایک تھے پروفیسر یوسف سلیم چشتی۔ جب کلام اقبال اوڑھنا بچھونا تھا تو اُن کی شرحیں میں نے ساری پڑھی ہیں۔ نثر میں لکھیں۔ سب پڑھیں تو اُن سے ملنے کا بڑا اِشتیاق رہا۔ تین چار بار لاہور اُن سے ملنے گیا، لیکن اتفاق سے ملاقات نہیں ہو سکی۔ بس ایک مرتبہ اُن کو زندگی میں دیکھا۔ لاہور میں ایک جلسہ تھا۔ یہ غالباً ۱۹۷۶ء کی بات ہے۔ اُس میں ایک میری تقریر تھی۔ اسٹیج پر چار، پانچ آدمی بیٹھے ہوئے تھے۔ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب صدارت کر رہے تھے۔ مولانا کے ایک طرف میں بیٹھا ہوا تھا، مولانا کے دائیں جانب ایک بوڑھے سے بزرگ بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھے پتہ نہیں تھا کہ یہ کون ہیں۔ جب اعلان ہوا کہ پروفیسر یوسف سلیم چشتی تقریر کریں گے تو میں ایک دم چونکا۔ اُن بزرگ نے اٹھ کر تقریر کی۔ میں نے کہا کہ آج میں مل کر ہی جاؤں گا۔ میری بدنصیبی کہ وہ تقریر کر کے کہنے لگے کہ مجھے کام ہے اور وہ چلے گئے۔ اِس کے علاوہ نہ کبھی اُن کو دیکھا نہ اُن سے ملاقات ہوئی۔ 
باقی جن حضرات سے ملنے کا اشتیاق ہوا اور اُن سے ملاقات ہوئی تو بعض سے بہت استفادہ بھی کیا۔ دو بزرگوں سے تو میں کوشش اور اہتمام سے ملا جن کی کتابیں میں نے پڑھی تھیں اور بعد میں اُن سے بہت نیاز مندی رہی۔ ایک تو کراچی میں رہتے تھے اور جب بھی میں کراچی جایا کرتا تھا، اُن کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا۔ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، اُن کی تمام کتابیں پڑھی ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں تاریخ نویسی کے فن کی وہ معراج ہیں۔ اُن سے بڑا مورخ برصغیر میں شاید بیسویں صدی میں پیدا ہی نہیں ہوا۔ اگر مجھ سے کہا جائے کہ برصغیر میں بیسویں صدی میں تاریخ نویسی کا سب سے بڑا نام کون ہے تو میں کہوں گا کہ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی۔ میں اُن سے ملنے کے لیے گیا۔ میرا خیال تھا کہ اتنے بڑے آدمی ہیں، وزیر ہیں، اُن سے ملنا مشکل ہو گا۔ اُ ن کے ایک شاگردکی معرفت میں اُن سے ملنے گیا تو وہ ایسے ملے جیسے کوئی باپ یا استاد ملتا ہے تو بڑی حیرت ہوئی۔ اس طرح ملنے کے بعدپہلے جو احترام اور رعب تھا، اب اُس میں محبت بھی شامل ہو گئی تومیں جب بھی جایا کرتا تھا تو ملتا تھا، بہت ہی شفقت سے ملتے، ایسے جیسے ساری عمر سے جانتے ہیں۔
مجھے اشتیاق تھا مصطفی الزرقا سے ملنے کا۔ استاد مصطفی الزرقا شام کے تھے اور جو بات میں نے اشتیاق حسین قریشی کے بارے میں کہی ہے، مصطفی الزرقا کے بارے میں بھی کہتا ہوں کہ بیسویں صدی میں اُن سے بڑا فقیہ کوئی نہیں تھا۔ فقہ اسلامی میں گرفت اور گہرائی کے ساتھ کسی کی نظر نہیں تھی جتنی پوری دین اسلام کے بارے میں استاد الزرقاکی تھی، بلکہ مجھے اجازت دی جائے تو میں یہ بھی کہوں گا کہ علامہ اقبال نے ۱۹۲۵ء میں لکھا تھا کہ جو شخص زمانہ حال کے تمام احکام قرآنیہ کی ابدیت ثابت کرے گا، وہ اسلام کا سب سے بڑا مفسر ہو گا۔ یہ کام جن لوگوں نے کیا ہے بیسویں صدی میں، اُن میں مصطفی الزرقا کا نام سب سے پہلے آتا ہے۔ اُنہوں نے بہت غیر معمولی انداز میں کام کیا ۔وہ شام میں رہے اور کچھ عرصہ سعودی عرب میں رہے۔ میری اِن سے پہلی ملاقات ۱۹۷۹ء میں ہوئی۔ اکتوبر ۷۹ء میں اسلام آباد میں ایک سیمینار ہوا نفاذ اسلام کے بارے میں تو اُس میں وہ بھی آئے ہوئے تھے۔ اخبار میں آرہا تھا کہ مصطفی الزرقا بھی آئے ہوئے ہیں تو مجھے بڑا اشتیاق تھا۔ اس کی افتتاحی تقریب تھی تو میں اُس میں شرکت کے لیے گیا تو میں ہر ایک کو دیکھتا رہا کہ یہ مصطفی الزرقا ہوں گے، یہ ہوں گے۔ تو ایک صاحب پر نظر پڑی جن کا چہرہ مجھے معصوم سا لگا تو مجھے لگا کہ یہی ہیں مصطفی الزرقا تو میں نے پوچھا کہ آپ مصطفی الزرقا ہیں؟ تو کہنے لگے، ہاں تو اُن سے مل کر طبیعت بڑی خوش ہوئی۔ وہ مجھ پربڑے مہربان ہوئے۔ اتنے مہربان ہو گئے کہ میری حیثیت سے بڑھ کر میرے بارے میں رائے قائم کرنے لگے۔ خط وکتابت اِن سے ہوتی تھی۔ کئی بار ایسا ہوا کہ اُن کا خط میرے نام آیا تو میں نے شرم سے چھپا لیا کہ کوئی اور نہ دیکھ لے اور دیکھے گا کہ تو کیا کہے گا یعنی لوگ سمجھیں گے کہ میں نے کوئی جعلی عکس ڈال رکھا ہے، اُن پر غلط بیانی کر رکھی ہے اپنے بارے میں، اس لیے وہ ایسی بات لکھتے ہیں۔ 
ایک اور بزرگ جن سے بڑا ملنے کا اشتیاق رہا، اُن سے ملاقات بھی رہی اور بہت مہربان بھی رہے، وہ تھے مولانا صباح الدین عبد الرحمن۔ یہ ہندوستان کے رہنے والے تھے۔ اِن کی برصغیر کی تاریخ پر کئی زبردست کتابیں ہیں اور اردو زبان بڑی ہی نفیس لکھتے اور بولتے تھے۔ بہت ہی سادہ اور نفیس انسان تھے۔ اگر کسی نفیس انسان کی نفسیات کے ۱۰۰ نمبر ہوں تو ۹۹ نمبر اُن کو دوں گا۔ یہ دارالمصنفین کے ناظم تھے۔ کتابیں میں نے اُن کی پڑھی ہوئی تھیں۔ تو ایک دفعہ انسٹی ٹیوٹ میں، میں صبح صبح پہنچا تو گرمی کا زمانہ تھا۔ یہ ۱۹۷۵ کی بات ہے۔ میں دفتر میں پہنچا تو ایک صاحب نے کہا کہ آئیے، آپ کو ایک بزرگ سے ملاتے ہیں۔ تو انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور ڈائریکٹر کے کمرے میں لے گئے۔ وہاں ایک صاحب شیروانی اورپاجامہ پہنے ہوئے، جیسے ہندوستان کے لوگ پہنتے ہیں، بیٹھے ہوئے تھے۔ اُن سے تعارف ہوا تو معلوم ہوا کہ صباح الدین عبد الرحمن ہیں۔ میرے ذہن میں اُن کا جو نقشہ تھا، وہ بالکل اُس سے مختلف نکلے۔ اُس کے بعد مجھ پر اتنے مہربان ہوئے کہ پھر اُن کی زندگی کے آخری ایام تک اُن سے بڑا تعلق رہا۔ میں اُن سے ملنے کے لیے ہندوستان بھی گیا۔ وہ جب بھی آتے تو میرے پاس تشریف لاتے تھے۔ ان کی کتابوں میں بزم صوفیہ، بزم تیموریہ اور’’ ہندوستان میں مسلمانوں کے جلوے‘‘ اور ہندوستان میں مسلمانوں کا عسکری نظام، تمدنی نظام،’’ ]شامل ہیں[۔ ’’بزم صوفیہ‘‘ میں ہندوستان کے بڑے صوفیہ کا تذکرہ ہے، داتا گنج بخش سے لے کر خواجہ بہاء الدین نقشبند وغیرہ تک بلکہ خواجہ نظام الدین اولیا تک۔ ’’بزم تیمور یہ‘‘ مغل سلطنت کے زمانے کے تمدنی اور تہذیبی اور ثقافتی معاملات پر ہے۔ ’’بزم مملوکیہ‘‘ مغل دور سے پہلے کے تمدنی دور پر ہے۔

بھائی جان

ڈاکٹر محمد الغزالی

(۱۹ دسمبر ۲۰۱۱ء کو رابطۃ الادب الاسلامی پاکستان کے زیر اہتمام جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد میں ڈاکٹر محمود احمد غازی کی یاد میں منعقدہ سیمینار میں خطاب۔)

الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی رسولہ الکریم وعلیٰ آلہ واصحابہ اجمعین۔
واقعہ یہ ہے کہ آپ سب حضرات بھائی جان کو مجھ سے شاید زیادہ ہی جانتے ہوں گے۔ میں بطور بھائی کے یقیناًنسبی رشتہ رکھتا ہوں، لیکن مجھے آپ حضرات کی گفتگو سن کر بہت رشک آیا۔ اس سے اندازہ ہوا کہ بھائی صاحب کی کوششیں جو وہ بہت خاموشی سے کرتے رہتے تھے اور پتہ بھی نہیں چلتا تھا، الحمد للہ اس قدر اس کی بازگشت ہے، اہل علم کے ہاں اعتراف ہے اور طلبہ اور تشنگان علم کے ہاں اس کی پوری قدر ہے۔ ابھی میرے چچا مولانا اسعد تھانوی صاحب نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ والد مرحوم نے بہت عزیمت کے ساتھ فیصلہ کیا تھا کہ اپنے بچوں کو قرآن حفظ کرائیں گے اور دینی تعلیم سے ان کوبہرہ مند کریں گے۔ اس پر ایک واقعہ یاد آتا ہے جس سے اس بات کی مزید توضیح اور تاکید ہوتی ہے جو میرے چچا صاحب نے بیان فرمائی۔ 
بچپن کا واقعہ ہے ۔ بھائی صاحب کو بہت ابتدائی عمر میں کوئی بخار ہوا تھا جس کی کوئی بہت سخت دوا کسی ڈاکٹر نے دی تھی تو ان کی زبان میں لکنت ہو گئی تھی ۔ جب وہ قرآن حفظ کرنے کے لیے بیٹھے تو اس وقت ان کی زبان میں اچھی خاصی لکنت تھی۔ رفتہ رفتہ وہ لکنت کم ہو گئی، شاید بہت سے لوگوں کو علم نہ ہو کہ تھوڑی بہت اخیر تک رہی۔ آخر میں انھوں نے بڑی حد تک اس پر قابو پا لیا تھا۔ آپ کو پتہ ہے کہ مکتبوں میں پڑھانے والے جو ہوتے ہیں، وہ کس قماش کے لوگ ہوتے ہیں۔ کراچی میں جس کے پاس ان کو بٹھایا، اس نے یہ سوچے بغیر کہ ایک بچے پر نفسیاتی طور پر کتنا برا اثر ہوتا ہے، کہہ دیا کہ یہ نہیں پڑھ سکتا، اس کو اٹھا لیجیے۔ والد صاحب گئے، اس سے ملے اور پوچھا کہ کیا بات ہے، یہ کیوں حفظ نہیں کر سکتا؟ انھوں نے کہا کہ یہ اٹکتا ہے، اس کی زبان سے لفظ نکلتا ہی نہیں۔ اس کی زبان میں لکنت ہے، یہ نہیں حفظ کر سکتا۔ والد صاحب مرحوم نے کہا کہ اچھا بیس برس میں تو کر لے گا نا؟ اب وہ کیا کہتا کہ بیس برس میں بھی نہیں کرے گا! خاموش ہوگیا۔ والد صاحب نے کہا کہ مجھے منظور ہے۔ یہ کچھ نہ کرے، قرآن حفظ کر لے، مجھے منظور ہے۔ اتنا یقین تھا ان کا اور یہ یقین ایک ایسے شخص کا تھا جو دن رات ایسے لوگوں میں اٹھتا بیٹھتا تھا جو نہ صر ف یہ کہ ایک دوسرے رنگ کے تھے بلکہ ہمارے والد اور والدہ کو طعن وتشنیع کرنے والے بھی بہت ملتے تھے۔ ایسے کلمات بھی سننے کو ملتے تھے کہ اگر آپ کے پاس اسکول کی فیس نہیں ہے تو ہم دینے کو تیار ہیں، آپ کیوں ان کی زندگی برباد کرتے ہیں۔ مگر ہمارے والدین نے کبھی کوئی جواب ہی نہیں دیا۔ نہ دفاع کیا، نہ وضاحت کی، نہ کسی سے لڑائی جھگڑا کیا۔
دوسری بات یہ ہے کہ بھائی صاحب کے اندر کچھ خدادا دا ملکہ اور صلاحیت عجیب وغریب تھی اور بہت ذوق وشوق تھا پڑھنے کا۔ مجھے یاد نہیں ہے اور اس میں ذرہ برابر بھی مبالغہ نہیں کہ کبھی بچپن میں بھی انھوں نے کھیل کھلونے میں کوئی دلچسپی لی ہو۔ ہمارے والد کہیں سفر پر جاتے تھے تو وہ ان سے کتاب ہی کی فرمائش کرتے تھے۔ کبھی نہیں ہوا کہ انھوں نے کبھی کوئی کھلونا یا بچپن یا لڑکپن میں جن چیزوں سے دلچسپی ہوتی ہے، اس کا کبھی مطالبہ کیا ہو۔ ویسے وہ مطالبہ ہی بہت کم کرتے تھے۔ یہ بھی ان کی ایک عجیب وغریب بات تھی کہ بہت بے نیاز تھے۔ کبھی کسی سے کچھ نہیں کہتے تھے، حتیٰ کہ والدین سے بھی اپنی کوئی ذاتی خواہش یا فرمائش کرتے میں نے نہیں دیکھا۔ آپ حضرات جو واقف ہیں، وہ بھی اس کی گواہی دیں گے۔ اگر کبھی والد صاحب نے اصرار کیا کہ ہاں بتاؤ، تمھارے لیے کیا لاؤں تو کوئی کتاب بتا دی۔ کتاب سے بہت زیادہ دلچسپی اور علم کا حصول ان کی اولین priority تھی۔ کوئی ambition نہیں تھی، دنیا کی کوئی خواہش نہیں تھی۔ 
کراچی میں ہم جیکب لائن سے بنوری ٹاؤن پڑھنے جاتے تھے۔ فاصلہ غالباً چار پانچ کلومیٹر ہوگا تو وہ اکثر مجھے ورغلا کر لے جاتے تھے کہ ہم پیدل چلیں گے۔ راستے میں قائد اعظم کا مزار آئے گا اور پھر وہاں سے مدرسے چلیں گے ۔ وہ اس میں کچھ تفریح کا رنگ پیدا کرتے اور میں ان کی باتوں میں آ جاتا تھا۔ پتہ یہ چلا کہ وہ پیسے بچا کر کتابیں خریدتے ہیں۔ اس طرح ’’سازشیں‘‘ کر کے انھوں نے بچپن سے کتابیں جمع کیں اور کیا کسی عورت کو زیور سے دلچسپی ہوگی اور کسی اور شخص کو اپنی پسندیدہ چیز سے جو انھیں کتاب سے تھی۔ اخیر عمر تک کتابیں سنبھال سنبھال کر رکھتے رہے، یہاں تک کہ گھر میں جگہ تنگ پڑ گئی۔ بیڈ روم میں کتابیں، لاؤنج میں کتابیں، ڈرائنگ روم میں کتابیں، ڈائننگ روم میں کتابیں ہی کتابیں۔ تو جب کوئی شخص علم کی طلب ایسی رکھتا ہو تو پھر اللہ تعالیٰ کے یہاں سے بھی اس پر فضل ہوتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ دعویٰ تو ہم لوگ کرتے ہیں کہ ہم علم دوست ہیں، کتاب دوست ہیں، لیکن حقیقت میں ہماری دل کی خواہش جس کو کہتے ہیں: ہوی الاحبۃ منہ فی سوداءہ، وہ نہیں ہوتی۔ جب وہ ہو جائے تو پھر عطا ہوتی ہے۔ کلا نمد ہولاء وہولاء، اللہ تعالی کا اصول ہے۔ جو چیز جو طلب کرتا ہے، ضرور ملتی ہے۔جتنی طلب کرتا ہے، اتنی ملتی ہے۔ 
دیتے ہیں بادہ ظرف قدح خوار دیکھ کر
تو بھائی صاحب میں غیر معمولی صلاحیتیں پیدا ہوئیں، حالانکہ ظاہری اسباب کو دیکھا جائے تو چار سال انھوں نے بنوری ٹاؤن میں پڑھا، اس کے بعد دار الحکومت منتقل ہوا تو ہم لوگ اسلام آباد آ گئے۔ ایک چھوٹا سا مدرسہ تھا قاری محمد امین صاحب کا۔ وہ ہمارے والد صاحب کے دوست تھے او رمسجد فتح پوری دہلی میں جومشہور مدرسہ ہے، وہاں کے پڑھے ہوئے تھے۔ مولانا یوسف بنوری صاحب مرحوم نے ایک ذاتی خط لکھا تھا کہ یہ دو بچے ہیں، ان کا خیال رکھیے گا اور ان کو اپنے مدرسے میں داخل کر لیجیے گا تو وہاں ہم کچھ دن رہے۔ وہاں قاری امین صاحب ہی ایک کام کے آدمی تھے، باقی وہ مدرسہ ایسا ہی تھا۔ پھر ہم مولانا غلام اللہ خان کے مدرسے میں داخل ہوئے۔ ان کے نام مولانا احتشام الحق تھانوی نے خط لکھ دیا تھا کہ ان کا خیال رکھیے گا اور انھوں نے واقعی بہت خیال رکھا۔ان کے ہاں دورۂ حدیث پشتو میں ہوتا تھا۔ اس زمانے میں بہت مشہور حدیث کے عالم تھے، مولانا عبد الرحمن۔ان کے بھائی تھے، مولانا عبد الحنان۔ دونوں سوات کے کسی دیہات کے رہنے والے تھے۔ غیر معروف تھے، لیکن فنا فی الحدیث اور بہت عالم فاضل شخصیت تھے۔ بہت سے لوگ افغانستان میں ان کے معتقد تھے۔ اکثریت چونکہ پشتون لوگوں کی تھی تو دورۂ حدیث پشتو میں ہوتا تھا۔ بھائی صاحب کا جب نمبر آیا تو ان کو ایک اور ملکہ یہ تھا کہ مسئلہ یوں چٹکیوں میں حل کرتے تھے۔ جو مسئلہ بہت مشکل لگتا، اس کو وہ بہت آسانی سے حل کر لیتے تھے۔ استاد نے کہا کہ تمھارا کیا ہوگا، یہاں تو دورہ پشتو میں ہوتا ہے۔ بھائی صاحب نے کہا کہ آپ عربی میں دورہ کرایا کریں۔ اب استاد کے لیے یہ کہنا مشکل ہوا کہ بھئی عربی میں نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ جب آدمی اس درجے کو پہنچ گیا کہ بخاری، مسلم، ترمذی پڑھے تو وہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ میں عربی نہیں سمجھ سکتا۔ چنانچہ اس کے بعد عربی میں دورہ شروع ہو گیا۔ مجھے بھی فائدہ ہو گیا۔ جب میری باری آئی تو دورۂ عربی میں ہی ہوتا تھا۔ کہیں کہیں وہ وضاحت کے لیے کچھ بات پشتو میں بھی بتا دیتے تھے۔ استاد کو عربی میں پڑھانے میں کوئی دقت نہیں تھی، طلبہ کچھ تھوڑے بہت چیں بجبیں ہوئے، لیکن کوئی کچھ کہہ نہیں سکا۔ بہت متبحر، بہت ہی اعلیٰ پایے کے استاذ تھے۔ ان کی اصول حدیث پر عربی میں ایک دو کتابیں بھی ہیں۔ 
اسی طرح کا ایک واقعہ ہے کہ میرا نام والد نے صرف ’’محمدؒ ؒ ‘‘ رکھا تھا۔ عربوں میں تو اس کا بہت رواج ہے کہ مفرد نام ہوتا ہے، جیسے محمد، علی، احمد۔ ہمارے ہاں اکثر مرکب ناموں کا رواج ہے اور خاص طور پر اگر کسی کا نام اکیلا محمد ہو تو اسے بے ادبی سمجھتے ہیں۔ جب بھائی جان مجھے بنوری ٹاؤن میں داخل کروانے لے گئے تو جو صاحب رجسٹر پر نام لکھ رہے تھے، انھوں نے کہا کہ یہ اکیلا محمد کیا نام ہوا؟ مرکب نام ہونا چاہیے۔ بھائی صاحب نے ایک سیکنڈ کے توقف کے بغیر کہا کہ محمد الغزالی لکھ دیں۔ پہلے یہ مسئلہ زیر غور نہیں آیا، نہ انھوں نے اس پرسوچا۔ بس چھٹتے ہی کہہ دیا۔ تب سے میرا یہ نام پڑ گیا۔ اسی طرح ہمارے والد کے ایک دوست تھے مولانا ابوالخیر مسلم علوی، اسلامی کاموں میں بہت پیش پیش رہتے تھے۔ انھوں نے ایک دفعہ ان سے کہا کہ تمہار انام محمود احمد ہے۔ کوئی لقب بھی ہونا چاہیے ، لقب کے بغیر نام اچھا نہیں لگتا۔ بھائی جان نے اسی وقت کہا کہ: محمود احمد غازی۔ 
اسی طرح ایک لطیفہ بھی عرض کر دوں۔ مرحوم ضیاء الحق کی شہادت ہوئی تو غلام اسحاق خان مرحوم نے بھائی صاحب کوبلا کر کہا کہ نماز جنازہ آپ پڑھائیے گا۔ انھوں نے پڑھا دی۔ اس کے چند ماہ بعد بے نظیر کی حکومت آگئی اور ایک دوسرارنگ پیدا ہو گیا تو ہمارے بچوں میں سے کسی نے کہا کہ دیکھیے، آپ کی بڑی شہرت ہوئی ہے کہ آپ نے ضیاء الحق کی نماز جنازہ پڑھائی ہے۔ بے نظیر اس کی بہت مخالف ہے۔ اگراس نے آپ سے پوچھا کہ آپ نے کیوں نماز جنازہ پڑھائی ہے تو آپ کیا جواب دیں گے؟ کہنے لگے کہ میں کہوں گا کہ میں تمھاری بھی پڑھانے کو تیار ہوں۔ تو کتنا ہی گمبھیر مسئلہ ہو، الحمد للہ ان میں اس کو فوراً حل کر دینے کی خاص صلاحیت تھی۔
آپ حضرات نے علم میں ان کے توسع کا ذکر کیا۔ خالص درسی جو دائرہ ہے، اس سے باہر دینی علوم اور عصری علوم پر جو کچھ اس زمانے میں عربی اور اردو میں لکھا گیا، اس سے بہت پہلے سے انھوں نے ابتدائی زندگی سے ہی بہت استفادہ کرنا شروع کر دیا تھا۔ ایک دو اساتذہ انھیں بہت اچھے ملے۔ ان میں ایک تھے استاد محمد یوسف عطیہ۔ وہ ان چند اولین لوگوں میں سے تھے جو مصر سے تشریف لائے تھے۔ مولانا بنوری مرحوم کے مدرسے میں انھوں نے عربی زبان پڑھائی تو بھائی صاحب نے بہت استفادہ کیا۔ ان کے گھر بھی جاتے تھے۔ جب وہ یہاں سے چلے گئے تو خط وکتابت بھی کرتے تھے۔ پھرایک بڑی عظیم شخصیت ہمارے ملک میں ہوئے ہیں مولانا عبد القدوس ہاشمی مرحوم۔ غالباً مولانا مجاہد الحسینی صاحب کو بھی ان سے تعارف حاصل ہوگا۔ ان سے بہت کسب فیض کیا۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ صرف کتاب سے ہی علم حاصل نہیں ہوتا۔ اس سے بہت زیادہ علم حاصل ہو جاتا ہے اگر کسی چلتی پھرتی کتاب سے آپ صحبت کریں اور اکتساب فیض کریں۔ اس کی ان کوبڑی لگن تھی۔ جہاں کسی صاحب علم کو دیکھا، وہ بس اس کے ہو کر رہ جاتے تھے۔ آپ نے سنا کہ صاوی شعلان صاحب آئے ہوئے تھے۔ ایوب خان مرحوم نے ان کو بلایا تھا اور ان کے ذمے اقبال کے کلام کا ترجمہ تھا۔ وہ ہمارے ادارۂ تحقیقات اسلامی کی لائبریری میں بیٹھے تھے۔ ان سے تعارف ہوا او ر ان کے پاس گھنٹوں بیٹھے رہے۔ انھوں نے سوچا کہ یہی میرے کام کا آدمی نکلے گا۔ اس وقت بھائی جان اتنے کم عمر تھے کہ ڈاڑھی بھی پوری طرح نہیں نکلی تھی۔ انھوں نے ایک سال صاوی شعلان کے پایے کے ادیب اور شاعر کے ساتھ کام کیا جو بہت ہی غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل آدمی تھے اور جناب ڈاکٹر ابراہیم صاحب نے بجا کہا کہ کلام اقبال کے عربی ترجمے درجنوں ہیں، لیکن جو درجہ صاوی صاحب کے منظوم ترجمے کوحاصل ہوا ہے، کسی کو نہیں ملا۔ کہیں کہیں تو لگتا ہے کہ ترجمہ اصل سے بھی آگے بڑھ گیا ہے۔ 
ختم نبوت کے مسئلے سے انھیں کوئی خاص اعتنا نہیں تھا۔ جیسے ہر مسلمان اس سے واقف ہوتا ہے، وہ بھی واقف تھے، لیکن ایک موقع پر ساؤتھ افریقہ کی سپریم کورٹ میں یہ مسئلہ زیر بحث آیا تو سوال ہوا کہ کون وہاں پیش ہو کر اسلام کا موقف بیان کرے۔ سب علماء کرام نے جو اس سلسلے میں سرگرم تھے، ان کو کہا کہ آپ یہ کام کریں تو وہ اس پرتیار ہو گئے۔ ایک دفعہ وہ چیلنج قبول کر لیتے توپھر اپنی صلاحیتوں کے ساتھ اس میں ہمہ تن لگ جاتے تھے۔ پانچ ہفتے تک ان کا سپریم کورٹ میں بیان ہوا۔ یہ آسان کام نہیں تھا، اس لیے کہ دوسری طرف سے پوری دنیا کی قادیانی جماعت، اس کے نمائندے اور ان کے وکیل پوری تیاری کے ساتھ اعتراض کرنے کے لیے، جرح کرنے کے لیے کھڑے ہوتے تھے۔ اس طرف سے مسلمان علما اور دوسرے لوگوں کی جماعت تھی جو ان کی مدد کرتی تھی، لیکن جتنی بھی مدد ہو، بہرحال سپریم کورٹ میں پیش ہونا تھا جہاں ہر بات کے لیے دلیل طلب کی جاتی ہے۔ الحمد للہ پانچ ہفتے تک روزانہ صبح نو بجے سے ایک بجے تک ان کا بیان ہوا۔ وہ جب لکھا گیا تو تقریباً ساڑھے پانچ ہزار صفحوں پر محیط تھا۔ اب اس میں اس طرح کی بحثیں آئیں کہ ختم نبوت اسلام کا ایسا عقیدہ ہے کہ جو اس کامنکر ہو، وہ کافر ہے۔ انھوں نے چیلنج کیا کہ جناب، دلیل دیجیے۔ ختم نبوت کو define کیجیے، نبوت کو ڈیفائن کیجیے، وحی کو کیجیے، الہام کو کیجیے۔ مرزا صاحب کہتے تھے الہام آتا ہے، میں بروزی نبی ہوں، ظلی نبی ہوں تو نبوت کیا ہے، اس کی حقیقت کیا ہے اور آپ کے پاس دلیل کیا ہے؟ یہ بات جب آپ کہتے ہیں کہ جو ختم نبوت کا منکر ہے، وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے تو اس میں بہت سارے مقدمات ہیں۔ ہر مقدمے کے لیے دلیل چاہیے۔ پھر آپ کہتے ہیں کہ اس پر اجماع ہے تو بتائیے، اجماع کیا چیز ہے۔ اجماع پر بحث شروع ہو گئی۔ علیٰ ہذا القیاس مرزا صاحب صوفیہ کی بعض تحریروں کا سہارا لیا کرتے تھے تو تصوف پر بحث شروع ہو گئی کہ کشف کیا ہے؟ الہام کیا ہے؟ صوفیانہ انداز کا جو اکتساب علم ہوتا ہے، وہ کیا ہے؟ وحی کیا ہے جس کی بنا پر ایمان وکفر کا مسئلہ طے ہوتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔
اسی طرح ایک زمانہ آیا جب کچھ اسلامی قوانین کا نفاذ ہو رہا تھا۔ اسلامی نظریاتی کونسل میں اور شریعت کورٹ میں مسائل زیر بحث تھے۔ مرحوم ضیاء الحق صاحب اس میں کچھ پیش پیش تھے۔ بھائی صاحب کو اس میں کچھ حصہ لینے کا موقع ملا تو بعض مواقع پر ایسا لگتا تھا کہ شاید انھوں نے یہی کام ساری عمر کیا ہے۔ میں ایک واقعے کی طرف اشارہ کروں گا۔ ضیاء الحق صاحب نے جب جونیجو حکومت کو برخواست کیا تو وہ یہ چاہتے تھے کہ ایک شریعت آرڈیننس نافذ کریں جس کا مقصد فیڈرل شریعت کورٹ کے اختیار سماعت میں توسیع کرنا تھا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ۸۱ء میں فیڈرل شریعت کورٹ بنی تھی تو اس کے اختیارات دو قسم کے تھے۔ ایک تو یہ کہ سیشن کورٹ میں جو حدود اور قصاص وغیرہ کے مقدمات کے فیصلے ہوتے ہیں، اس کے خلاف اپیل شریعت کورٹ سنے گی اور اس کے بعد اپیل ہوگی سپریم کورٹ کی شریعت اپیلٹ بنچ میں۔ اس کا دوسرا اختیار جس کو original jurisdiction کہتے ہیں، یہ تھا کہ کوئی بھی شہری شریعت پٹیشن دائر کر سکتا ہے جس میں وہ پاکستان کے کسی بھی قانون کو یا قانون کے جز کو چیلنج کر سکتا ہے کہ یہ قرآن وسنت سے متعارض ہے، لہٰذا اس کو کالعدم کیا جائے یابدلا جائے۔ شروع میں وفاقی شرعی عدالت کے اختیار سماعت سے مالی قوانین، دستور اور پروسیجر کو مستثنیٰ رکھا گیا تھا۔ بہت سے استثناء ات تھے جن میں کچھ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہو گئے ہیں، کیونکہ وہ خاص وقت تک کے لیے تھے۔ ضیاء الحق صاحب چاہتے تھے کہ ایک شریعت آرڈیننس آئے جس میں یہ استثناء ات ختم کر دیے جائیں۔ ان کی لیگل ٹیم میں اس وقت جسٹس ارشاد حسن خان تھے جو بعد میں چیف جسٹس ہوئے۔ اس وقت وہ لاء سیکرٹری تھے۔ ان کے علاوہ عزیز منشی صاحب اٹارنی جنرل تھے اور شریف الدین پیرزادہ بھی تھے۔ ان تینوں حضرات نے ضیاء الحق صاحب سے کہا کہ آپ کچھ نہیں کر سکتے، اس لیے کہ اگر آپ آرڈیننس لائیں گے تو یہ دستور میں ترمیم ہے اور دستور میں ترمیم پارلیمنٹ کے بغیر نہیں ہو سکتی جسے آپ نے ڈس مس کر دیا ہے۔ آرڈیننس تو قانون ہوتا ہے جو چھ مہینے کے لیے ہوتا ہے، تا آنکہ پارلیمنٹ اس کو منظور کرے یامسترد کرے۔ آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی تو ہو سکتی ہے، دستور سازی نہیں ہو سکتی نہ دستور میں ترمیم ہو سکتی ہے، لہٰذا یہ کام نہیں ہو سکتا۔ 
ضیاء الحق صاحب اس پر بہت frustrated ہوئے۔ ان دنوں ان پر اس خیال کا بہت غلبہ تھا کہ میں نے اب تک جو کیا ہے، وہ کافی نہیں ہے۔ شاید بعض اہل ایمان وتقویٰ کو احساس بھی ہو جاتا ہے کہ اب وہ جانے والے ہیں تو ان کو بہت لگن تھی کہ کچھ ہو جائے۔ ہمارے بھائی صاحب کی موجودگی میں ان تینوں آدمیوں نے ضیاء الحق صاحب سے کہا کہ جی، یہ نہیں ہو سکتا۔ آپ جو چاہیں اس آرڈیننس میں لکھ دیں، لیکن وہ جو استثنا ہے کہ شریعت کورٹ مالیات سے متعلق معاملات کو نہیں سن سکتی، پروسیجر کو نہیں سن سکتی، کانسٹی ٹیوشن کے خلاف نہیں کچھ سن سکتی، اسی طرح ایک دو اور چیزیں ہیں، یہ استثنا ختم نہیں ہو سکتا۔ یہ میٹنگ رات کے بارہ بجے تک چلتی رہی۔ ضیاء الحق صاحب بھی بہت دیر تک کام کرنے کے عادی تھے۔ میٹنگ کے بعد بھائی صاحب تھکے ہارے گھر آئے اور آ کر کہا کہ مجھے کچھ چائے یا کافی پلا دو، مجھے کام کرنا ہے اور کمرے میں بند ہو گئے۔ صبح کی نماز تک وہ دستور، دستورکی شرحیں اور اس سے متعلق کچھ اہم فیصلوں کا پلندہ جو وہ کہیں سے لے آئے تھے، پڑھتے رہے۔ ساری رات اس میں لگے رہے اور صبح کے قریب وہ اچھل پڑے اور انھوں نے مجھے بھی بتایا۔ انھیں بڑی خوشی ہوئی کہ کہیں ایک جگہ یہ لکھا ہوا مل گیا کہ کسی کورٹ کی جورس ڈکشن وہ ہوگی جو اس دستور میں طے کر دی گئی ہے اور جس کی وضاحت فلاں فلاں جگہ کی گئی ہے اور آخر میں ایک چھوٹا سا جملہ یہ لکھا ہوا تھاکہ: by law۔ تو انھوں نے کہا کہ جب قانون کے ذریعے کسی عدالت کی جورس ڈکشن طے ہو سکتی ہے تو آرڈیننس جو ہوتا ہے، وہ قانون کا متبادل ہوتا ہے، اس لیے آرڈی ننس سے بھی ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے آرڈی ننس لایا جا سکتا ہے کہ شریعت کورٹ کے اختیارات پر قدغن کم کیے جائیں یا ختم کیے جائیں۔ 
اگلے دن وہ لیس ہو کر ان کے سامنے پہنچ گئے۔ اب میٹنگ شروع ہوئی تو ضیاء الحق صاحب نے ان سے شاید کہا تھا کہ آپ تیاری کر کے آئیے گا۔ انھوں نے ضیاء الحق صاحب کے سامنے بہت مدلل انداز میں یہ ساری بات رکھ دی تو ضیاء الحق صاحب اپنی لیگل ٹیم پر بہت ناراض ہوئے۔ وہ عام طور ناراض نہیں ہوتے تھے،لیکن ہوتے تھے تو بہت زیادہ ہوتے تھے۔ وہ جو عربی میں کہتے ہیں کہ اتقوا غضب الحلیم تو غضب الحلیم تھا ان میں۔ انھوں نے ان حضرات یعنی شریف الدین پیرزادہ، جسٹس ارشاد حسن خان اور عزیز منشی سے کہا کہ میں نے تمھیں یہاں گھاس چرنے کے لیے بلایا تھا؟ تم اتنے دن سے مجھے دھوکہ دے رہے ہو، جھوٹ بول رہے ہو؟ جو کچھ کہہ سکتے تھے، انھوں نے کہا۔ بھائی صاحب کہہ رہے تھے کہ جب انھیں ڈانٹ پڑ رہی تھی تو مجھے تھوڑا تھوڑا ڈر بھی لگا کہ باہر نکل کر یہ میرا کیا حشر کریں گے۔ بہرحال وہ بات مانی گئی اور آرڈیننس بن گیا۔ ضیاء الحق صاحب نے نافذ بھی کر دیا، لیکن اس کے بعد دن بے نظیر کی حکومت آئی، چھ مہینے گزر گئے اور پارلیمنٹ نے اس کو منظور نہیں کیا۔ 
یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے ان کی لگن، commitment اور دلی شوق کی۔ دنیا کی تہذیب اور تمدن میں جوبھی کارنامے ہوئے ہیں، وہ شوق کے بغیر نہیں ہو سکتے تھے۔ تاریخ انسانی میں جو کچھ دنیاے انسانیت نے حاصل کیا ہے، وہ شوق اور عشق کا کرشمہ ہے۔ بڑے بڑے کارنامے اسی سے انجام پاتے ہیں۔ تو ان کو ایک شوق تھا، ایک عشق تھا اور میں نے ان کو پچاس سال دیکھا ہے۔ پچاس سال کے دوران وہ جس بات پرخوش ہوتے تھے، وہ یہی تھی کہ کوئی علمی کام ہو گیا، کوئی علمی نکتہ مل گیا، کوئی کتاب مل گئی، کوئی بات سمجھ میں آ گئی، کسی نے کوئی بات سمجھ لی، کوئی اچھا طالب علم ان کے پاس آکر اچھا کام کر گیا۔ کنفیوشس چینی فلسفی ہے۔ اس کا مشہو رجملہ ہے کہ ایک آدمی کو دیکھو، اس کی خوشی کے لمحات کودیکھو، اس کے غم کے لمحات کو دیکھو، اس کے حیرت کے لمحات کو دیکھو، اس کے دوست کو دیکھو، دشمن کو دیکھو، آدمی اپنے آپ کو کیسے چھپا سکتا ہے؟ تو حقیقت یہ ہے کہ علم دین کا حصول ، اس کا فروغ، اسی کے لیے وہ جیے، اور کسی چیز میں دلچسپی نہیں لی، حتیٰ کہ اپنی صحت کی طرف سے بے انتہا لاپروائی برتی۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ انھوں نے زندگی میں کبھی کسی ڈاکٹر سے رجوع نہیں کیا۔ کبھی بیمار نہیں ہوئے، ایک دن کے لیے صاحب فراش نہیں ہوئے۔ ظاہر ہے کہ بیماریاں تو لگی رہتی ہیں انسان کے ساتھ، لیکن چھوٹی موٹی تکلیف کو کبھی خاطرمیں نہیں لاتے تھے۔ آخری دن چند گھنٹے وہ ہسپتال میں لیٹے۔ اس دوران وہ قرآن پڑھتے رہے اور زیادہ بات نہیں کی۔ پھر فجر کا وقت ہوا تو اسی بستر میں بیٹھے بیٹھے وضو کر لیا، ڈاکٹر سے پوچھا ہی نہیں۔ عموماً آئی سی یو، سی سی یو میں اتنی حرکت کی اجازت نہیں ہوتی۔ ہمارا بیٹا تھا۔ انھوں نے اس سے کہا جلدی میں کہ وضو کرواؤ، اس نے وہیں وضو کروا دیا۔ بستر میں نماز پڑھی اور پھر یہ جا وہ جا۔ و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

بھائی محمود

مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی

ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ، پاکستان کے مدیر مکرم، مولانا عمار خان ناصر صاحب کا ارشاد ہے کہ راقم سطور، مجلہ الشریعہ کے پروفیسر محمود احمد غازی نمبر کے لیے کچھ لکھ کر پیش کرے۔ میں اس محترم فرمائش کی تکمیل کرنا چاہتاہوں مگر حیران ہوں کہ کیا لکھوں: 
چگونہ حرف زنم دل کجا، دماغ کجا
مگر بہر صورت کچھ نہ کچھ حاضر کرنا ہے، اس لیے چل مرے خامے بسم اللہ!
محمود غازی صاحب برصغیر ہند کے نامور وممتاز فاضل، عالم، دانشور، مصنف ومترجم، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے وائس چانسلر [شیخ الجامعہ]، پاکستان کی عدالت عالیہ کی شریعت بنچ کے سینئر جج، مذہبی امور اورحج کے لیے حکومت پاکستان کے وفاقی مرکزی وزیر، پاکستان کے متعدد سربراہان حکومت کے مشیر ومعتمد، پچاسوں قومی اوربین الاقوامی کانفرنسوں اور سیمیناروں میں ممتاز مبصر ومقالہ نگار، پینتس چھتیس کتابوں کے مصنف اور مختلف کتابوں کے عربی، اردو، انگریزی مترجم، یعنی اکثر علمی کمالات سے پوری طرح بہرہ ور اور دنیاوی مناصب واعزازات میں بلند سے بلند مرتبہ پر فائز! مگر ہم اہل خاندان خصوصاً کاندھلہ میں مقیم رشتہ داروں کو نہ ان میں سے اکثر عہدوں اور مناصب کا علم اورنہ ان کا ان سے وابستہ معاملات، منافع ومباحث سے کچھ واسطہ۔ ہم سب کے لیے محمودغازی صاحب نہ جسٹس صاحب تھے، نہ شیخ الجامعہ ،نہ وزیرباتدبیر اورصدرپاکستان کے مشیرومعتمد۔ ہم سب خصوصاً راقم سطور اورقریبی عزیزوں کی زبانوں پر وہ صرف بھائی محمود تھے۔ ہمیشہ اسی نام سے پکارے گئے اور بھائی محمود بھی ہم سب اہل خاندان سے صرف اور صرف اسی رشتے سے ملے۔ نہ ان پر کسی مقام ومرتبہ اورعہدہ ومنصب کا احساس واثر نظر آیا، نہ اس کا تذکرہ ہوا۔ جب ملتے خوب ملتے، بے تکلفی سے، بلاکسی خیال کے۔ سب طرح کی اچھی بری باتیں ہوتیں، عزیزوں رشتہ داروں کے احوال وکوائف کی بات ہوتی، واقعات جہاں کادفتر کھلتا، تازہ علمی مباحث اور کتابوں کی خبر ملتی اور ہراک عنوان پر کچھ نہ کچھ تبادلہ خیال ہوتا۔ اس کی وجہ بھائی محمود کے مزاج کی سادگی، کاندھلہ کے مشہورعلمی دینی صدیقی خاندان سے ان کی ننھیالی نسبت اور زندگی کے ابتدائی چندسال کاندھلہ میں گزارنے کا اثر تھا جس کابھائی محمودنے ہمیشہ بے حدخیال رکھا اوراس رشتہ وتعلق کوپورے اہتمام سے، پورے احترام سے اور تواتر کے ساتھ ہمیشہ نبھایا۔
کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ بھائی محمود کا اگرچہ اصلی وطن اور خاندانی سلسلہ تھانہ بھون کے ممتاز فاروقی خاندان سے ہے، مگر ان کے بچپن کا اکثر حصہ کاندھلہ میں گزرا۔ بھائی محمود کی والدۂ محترمہ مدظلہا کاندھلہ کے معروف صدیقی خاندان کی مؤقر خاتون ہیں۔ بھائی محمود کے نانا حکیم قمرالحسن صاحب، راقم سطور کے والد ماجد مدظلہ العالی کے بڑے بھائی [میرے تایا] تھے۔ اس پہلو کی بعض تفصیلات کے بغیر یہ گفتگو مجمل وناتمام رہے گی، اس لیے اس کے بعض گوشوں کاتذکرہ ضروری ہے۔
کاندھلہ کے اس خاندان کے ایک بابرکت فرد، مولوی رؤف الحسن صاحب کاندھلوی تھے جو [شیخ الحدیث حضرت مولانا محمدزکریا کاندھلوی کے والد ماجد] حضرت مولانا محمدیحییٰ اور مروج تبلیغ، حضرت مولانا محمدالیاس صاحب کاندھلوی کے حقیقی ماموں بھی تھے۔ ان کا سلسلۂ نسب یہ ہے:
مولوی رؤف الحسن [وفات:۱۳۶۴ھ۔۱۹۴۵ء] بن مولاناضیاء الحسن صادق[م۱۳۱۵ھ۔ ۱۸۹۸ء] بن مولانا نورالحسن [۱۲۸۵ھ۔۱۸۶۸ء] بن مولانا ابوالحسن [م۱۲۶۱ھ۔۱۸۵۳ء] بن حضرت مفتی الٰہی بخش کاندھلوی [م۱۲۴۵ھ۔۱۸۲۹ء] رحمہم اللہ‘‘
مولوی رؤف الحسن صاحب کے پانچ فرزند ہوئے:
(۱) مولانا حکیم نجم الحسن صاحب [م:۱۳۳۶ھ/۱۹۱۸ء]
(۲) مولانا احتشام الحسن صاحب، معروف مصنف اور حضرت مولانا محمدالیاس صاحب کے رفیق [م: ۱۳۹۲ھ۔۱۹۷۱ء]
(۳) مولوی حکیم قمر الحسن صاحب فاضل، جامعہ طبیہ دہلی[م:۸/شوال۱۳۶۲ھ۔۸ستمبر۱۹۴۳ء]
(۴) مولانا اظہارالحسن صاحب ،جو مولانا انعام الحسن صاحب کے دور میں اوراس کے بعد مرکزتبلیغ نظام الدین، دہلی کے عملاً سربراہ اور تبلیغ کے موجودہ ذمہ دار مولوی محمد سعد صاحب کے ناناتھے۔ [م:۱۴۱۷ھ/۱۹۹۶ء]
(۵) حضرت مولانا افتخارالحسن صاحب مدظلہ [جو راقم سطور کے والد ماجدہیں] ولادت:۱۱جمادیٰ الاولیٰ ۱۳۴۰ھ/۱۰جنوری۱۹۲۲ء 
اورتین دختر:
الف: جویریہ خاتون، زوجہ حضرت مولانا محمدالیاس صاحب کاندھلوی ۔
ب: امت الدیان، زوجہ مولوی ظہیرالحسن صاحب کاندھلوی۔
ج: امت المتین، زوجہ اولیٰ شیخ الحدیث مولانا محمدزکریا کاندھلوی۔
فرزندوں میں سے تیسرے، حکیم قمرالحسن صاحب کے کوئی پسری اولاد نہیں تھی، دوبیٹیاں تھیں۔ بڑی کی شادی تھانہ بھون کے فاروقی خاندان میں مولانا محمداحمدصاحب تھانوی سے ہوئی۔ یہی بھائی محمود کی والدہ محترمہ ہیں۔ دوسری بہن کا نکاح کاندھلہ کے ایک فاضل، مولوی حکیم خلیق الرحمن صاحب سے ہوا۔ وہ بھی ۱۹۴۷ء کے بعد پاکستان چلے گئے تھے۔ سنجھورہ، سندھ میں رہے۔ آخر میں سکھر آگئے تھے، ان کے اہل خانہ وہیں ہیں۔ 
مولانا محمداحمد کے دوبیٹے ہوئے: محموداحمد[ولادت:۱۹۵۰ء] اور محمد [ولادت:۱۹۵۳ء]۔ بھائی محمودنے زمانہ طالب علمی سے اپنے نام کے ساتھ غازی کا اضافہ کر لیا تھا اور چھوٹے بھائی کے نام کے ساتھ الغزالی کا لاحقہ استعمال ہوتاہے، پروفیسر ڈاکٹر محمدالغزالی [مدیر مجلہ الدراسات الاسلامیۃ اسلام آباد] حفظہ اللّٰہ۔
بھائی محمود کے والد محترم، دہلی میں پاکستان ہائی کمیشن میں ملازم تھے، اس لیے ان کی والدہ اکثراپنے میکہ کاندھلہ رہتی تھیں۔ یہیں بھائی محمود کی نشوونما ہوئی اوریہیں قرآن کریم کی تعلیم کی ابتدا بھی ہوئی۔ بھائی محمودکی نانی صاحبہ کے مکان سے چند قدم کے فاصلہ پر،کاندھلہ کی جامع مسجد ہے۔ اس مسجدمیں ایک پرانامدرسہ تھا جس کو ۱۳۰۰ھ ؁ میں حضرت مولانا رشیداحمدگنگوہی کی سرپرستی میں حضرت مولانا کے ایک شاگرد،مولانا حکیم صدیق احمدصاحب کاندھلوی نے قائم کیا تھا۔ یہ مدرسہ اس وقت تک خوب کامیاب اور متحرک ورواں دواں تھا۔ اس میں حفظ کے درجات بھی تھے،ناظرہ کے بھی اور متوسطات تک عربی فارسی کی بھی عمدہ تعلیم ہوتی تھی۔ اسی مدرسہ کے ایک معلم قرآن، حافظ عبدالعزیز صاحب تھے جو کاندھلہ سے ملحق گاؤں کھندراؤلی کے باشندے تھے مگر کاندھلہ آگئے تھے۔ درجہ حفظ وناظرہ کے استاد تھے۔ بھائی محمود نے تعلیم کی ابتدا ان سے کی اوربہت کم عمری میں ایک پارہ ختم کر لیا تھا۔
سنہ۱۹۵۴ء میں بھائی محمود کے والد محترم نے اور بہت سے عزیزواقربا کے ساتھ پاکستان جانے کا ارادہ کرلیا اوراپنے وطن کوخیر باد کہتے ہوئے نئے وطن، نئی سرزمین کے لیے روانہ ہوگئے۔ پاکستان پہنچ کر کراچی میں قیام ہوا۔ کیونکہ دہلی میں مولوی محمداحمدصاحب پاکستان ہائی کمیشن میں ملازم تھے، اس لیے کراچی میں سرکاری دفتر میں تقرر ہوگیا۔ کراچی میں قیام اور ملازمت کا انتظام ہوتے ہی بھائی محمودکی تعلیم کی طرف توجہ کی۔ گھر کے قریب ایک مدرسہ تھا جس میں قاری وقاء اللہ صاحب پانی پتی سے [جو ہندوستان کی ایک معروف شخصیت مولانا لقاء اللہ پانی پتی کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے] کاندھلہ کے سلسلۂ تعلیم کی تجدید ہوئی۔ ان سے اور اسی مکتب کے ایک اوراستاد، حافظ نذیر احمدصاحب سے قرآن مجید حفظ مکمل کیا۔ حفظ نوعمری میں صرف نوسال کی عمر میں مکمل ہوگیاتھا۔
حفظ کے بعد دورکیا اور اس کے ساتھ ہی حضرت مولانا محمدیوسف بنوری کے مدرسہ میں عربی تعلیم کے لیے داخل کر دیے گئے۔ مدرسۂ مولانا بنوری میں چارسال تک پڑھا جس میں خودمولانا بنوری سے بھی تلمذ کی سعادت میسر آئی۔ اس کی صورت یہ ہوئی کہ بھائی محمودکے وہ استاذ جو اصول الشاشی پڑھارہے تھے، کسی ملازمت پر تقرر کی وجہ سے درمیان سال میں سعودی عرب چلے گئے تھے۔ اس وقت ان کے سبق مولانابنوری نے پڑھائے تھے۔ اسی مدرسہ میں مولانا عبدالرشید نعمانی سے بھی تلمذ ہوا اور مولانا عبدالقدوس ہاشمی سے بھی رابطہ رہا۔ مولانا ہاشمی سے اگرچہ باضابطہ تلمذوتعلیم تو نہیں ہوئی، لیکن کثیر استفادہ کاموقع ملا جو بعد میں بھی جاری رہا۔ بھائی محمودکوکچھ وقت مدرسہ ٹنڈو اللہ یار میں بھی گزارنے کا موقع ملا۔ یہاں حضرت مولانا ظفراحمدعثمانی اور حضرت مولانا بدر عالم میرٹھی کے درس میں بیٹھنے کا موقع ملا۔ یہ سلسلہ چل ہی رہا تھا کہ پاکستان کامرکزی دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل ہونا شروع ہو گیا۔ سرکاری ملازمین بھی آہستہ آہستہ کراچی سے اسلام آباد پہنچتے رہے۔ انہی میں محمودصاحب کے والد محترم مولانا محمداحمد صاحب تھانوی بھی تھے۔ اس وقت سے اس گھرانہ کا قیام اسلام آباد میں ہوا جو آج تک اسی طرح ہے۔ 
بھائی محمود کی تعلیم کا سلسلہ ناتمام تھا، اس لیے ان کا راول پنڈی میں شیخ القرآن ، مولانا غلام اللہ خاں صاحب کے مدرسہ میں داخلہ کرایاگیا۔ اس مدرسہ میں درس نظامی کی آخری کتابیں مکمل کیں اور دورۂ ۂحدیث پڑھا۔ مولانا غلام اللہ صاحب کے مدرسہ کے ایک بڑے استاذ حدیث، مولانا عبدالشکور کامل پوری [وفات:رجب ۱۳۹۰ھ/ستمبر۱۹۷۰] (۱) سے سنن ابی داود اور موطاامام مالک پڑھیں۔ مولانا عبدالشکور صاحب ،حضرت مولانا خلیل احمد انبیٹھوی، حضرت علامہ انور شاہ کشمیری، حضرت مولانا محمدیحییٰ کاندھلوی اورحضرت مولانا عبدالرحمن کامل پوری رحمہم اللہ کے شاگردتھے۔ بہت عمدہ درس دیتے تھے۔ اگرچہ حنفی تھے، مگر درس محدثانہ شان کا محققانہ ہوتاتھا جس کی وجہ سے بعض حضرات کو یہ غلط فہمی ہوجاتی تھی کہ مولانا غیر مقلد یا اہل حدیث ہیں۔ مولانا حنفی تھے، لیکن محدثانہ تحقیقات صاف بیان فرماتے تھے جس سے مولانا کے اہل حدیث ہونے کا شبہ گزرتاتھا۔ چونکہ اس مدرسہ کے اکثر طالب علم پٹھان یا صوبہ سرحد [موجودہ نام، پختونخواہ] وغیرہ کے تھے، اس لیے مولانا کامل پوری، پشتو میں درس دیتے تھے۔ چند دنوں کے بعد بھائی محمود نے گزارش کی کہ میں پشتو نہیں جانتا، اگر درس عربی میں ہو تو میرے لیے استفادہ کا زیادہ موقع ہے۔ مولانا عبدالشکور صاحب نے عزیز شاگرد کی رعایت فرماتے ہوئے عربی میں درس دینا شروع کر دیا۔ اس سے اگرچہ کئی طلبہ ناراض ہوئے اورکچھ بات چلی، مگر پھر سب مطمئن ہوگئے تھے، درس عربی میں ہوتارہا۔ مولاناعبدالشکور کامل پوری ،۱۹۴۷ء سے پہلے مدرسہ مظاہرعلوم میں مدرس تھے، حضرت مولانا خلیل احمدانبیٹھوی کے بھی شاگر دتھے اوران سے بھائی محمود کے والد صاحب اور نانا دونوں نے پڑھاتھا۔ بھائی محمودکو بھی ان سے پڑھنے کی سعادت ملی۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بھائی محمودنوعمری میں، اس وقت کے ایک بڑے مربی اور عارف حضرت شاہ عبدالقادر صاحب رائے پوری سے بیعت ہوگئے تھے۔ مولانا کے والد، شیخ الحدیث مولانا محمدزکریا کی قیام گاہ (کچے گھر) سہارنپور میں، حضرت شاہ عبدالقادر صاحب سے بیعت ہورہے تھے۔ حضرت شیخ نے بھائی محمود کومخاطب کر کے فرمایا: تو بھی بیعت ہوجا! تو بھائی محمود بھی حضرت رائے پوری سے باقاعدہ بیعت ہوگئے تھے۔ میں نے سناہے کہ بھائی محمود کو، جو :’’بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی‘‘ کی حیثیت بھی رکھتے تھے، پاکستان اور بیرون پاکستان کے ایک سے زائدمشائخ طریقت سے اجازت وخلافت بھی حاصل تھی، مگر اس کی تفصیل معلوم نہیں۔
جب اس کارخانۂ ہستی میں ہماری آنکھیں کھلیں اور کچھ شعور پیدا ہوا، وہ عجیب اپنائیت ومحبت کادور تھا۔ میل ملاقات، ایک دوسرے سے رابطہ تعلق رکھنے، رشتے، عزیزداری نباہنے کادورتھا۔ گھر اگرچہ ماشاء اللہ سب کے علیحدہ علیحدہ اور خوب بڑے بڑے تھے، ہرطرح کی ہر چیز کی فراوانی تھی اورافراد بھی ماشاء اللہ کم نہیں تھے، مگر اپنی الگ حیثیت، علیحدہ گھروں اور ذرائع معاش کے باوصف، سب عزیزایک دوسرے سے گویا جسم وجان سے پیوست تھے۔ ہرایک دوسرے پر جان چھڑکتاتھا، ہروقت ایک دوسرے کے یہاں آناجانا، ملاقات اور خیروخبرجاری رہتی تھی جس کی وجہ سے سب ایک دوسرے کے لیے افراد خانہ کی حیثیت رکھتے تھے اورخاندان کے سب لوگ مل کر، ایک گھرانہ کی طرح رہتے تھے۔ اس وقت کی محبتوں اورمخلصانہ روابطوں اور تعلقات کاآج کل کے ناپرسان احوال دور میں، اندازہ بھی نہیں کیاجاسکتا۔ گویا:
خواب تھاجو کچھ کہ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا
انہی روابط وقرابت کی وجہ سے بھائی محمود کی والدہ صاحبہ ۱۹۶۵ء تک [جب ہندوپاکستان کے تعلقات زیادہ خراب نہیں ہوئے تھے اور آنے جانے کی ایسی پریشانی نہیں تھی] تقریباً ہرسال اپنی والدہ صاحبہ سے ملاقات کے لیے ہندوستان آتی تھیں، ہندوستان میں عموماً دوتین مہینہ قیام رہتا تھا۔ اس وقت بھائی محمود اپنی خاندانی مادرعلمی، مدرسہ جامع مسجدکاندھلہ کے طالب علم بن جاتے تھے۔ قرآن شریف کی تعلیم ودور کی بات ہو یا فارسی عربی درسیات کی، دونوں کے سبق کاندھلہ کے مدرسہ میں جاری رہتے تھے۔ اچھے پڑھانے والے بھی موجود تھے، اس لیے پڑھنے کابھی ایک مزا تھا۔ اس دور میں اول استاد، حافظ عبدالعزیز صاحب مرحوم کے علاوہ، مدرسہ کے عربی کے استادوں، مولانا عبدالجلیل صاحب بستوی اور مولانا زین الدین صاحب بستوی سے بھی تعلیم کا کچھ نہ کچھ سلسلہ جاری رہتاتھا اور پاکستان میں زیردرس کتابوں کے اسباق کی تکمیل ہوتی رہتی تھی۔ بھائی محمود، مولانا عبدالجلیل صاحب کی علمی صلاحیت اورطریقۂ تعلیم ودرس کے مداح تھے۔
اس وقت سے بھائی محمود سے جو واقفیت اور رابطہ بنا تھا، وہ بحمداللہ، ملک بلکہ ملکوں کے فاصلوں، مناصب ومصروفیات، عہدۂ وترقیات کے باوجود ہمیشہ اسی طرح رہا۔ مجھے اس اعتراف میں ذرا بھی تکلف وتأمل نہیں کہ اگرچہ رشتہ میرا بڑا تھا، مگر بھائی محمود عمر کے علاوہ، علم وکمال اورتحریروقلم سے رہنمائی اور علم آفرینی کے اس درجہ پر تھے کہ ہمارے جیسوں کاوہاں گزر بھی نہیں، مگراس کے باوجود ہرطرح کی گفتگوہوتی۔ علمی مباحث بھی چھڑتے، ارباب سیاست کابھی ذکر آتا، ان پر کھٹے میٹھے تبصرے بھی ہوتے، خصوصاً پاکستان کے اہل سیاست واقتدار پر ان کی رائے سننے کی ہوتی تھی۔ کئی مرتبہ کئی شخصیات ومعاملات میں ان کی رائے متعارف رائے اورنظریہ سے خاصی مختلف مگر سوچی سمجھی اورجچی تلی ہوتی تھی۔ وہ اس اعتماد سے بات کرتے تھے اوراس کے ایسے گوشے سامنے لاتے تھے کہ دوسرا پہلو ثابت کرنا مشکل ہوجاتاتھا اور ہم ایسے افراد جو ان معاملات سے براہ راست وابستہ نہیں، بھائی محمودصاحب کو صاحب البیت یاد انائے راز سمجھ کر خاموش رہ جاتے تھے۔
بھائی محمودصاحب جب کبھی ہندوستان آتے، کسی سیمینار میں، پروگرام میں، سرکاری مصروفیت سے، کاندھلہ کے لیے ضروروقت نکالتے تھے۔ بعض مرتبہ توموقع نہ ہونے کی وجہ سے آناجانا ہی ہوتا تھا، بمشکل گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ قیام اور ملاقات رہتی، مگر آتے تھے اوراس کا اہتمام کرتے تھے۔ مجھے بھائی محمودکے کمالات وصفات میں یہ بات بہت پسند تھی کہ وہ اپنی بڑائی کے باوجود ہمیشہ خورد بن کر ملتے تھے۔ پوری زندگی انہوں نے اپنی کسی بات سے، طرزعمل سے بلکہ اشارہ سے بھی اس کااحساس نہیں ہونے دیا کہ وہ کس حیثیت ومقام کے شخص ہیں اور ان کی کیسی منزلت ہے۔ یہی انداز خط وکتابت میں بھی تھا۔ میرا ہمیشہ تو نہیں، لیکن کبھی کبھی فون پر رابطہ اور خط وکتابت رہتی تھی۔ پاکستان باربار فون کرنا اورلمبی بات چیت تو خلاف احتیاط تھی، مگر جب وہ پاکستان سے باہر ہوتے تو کئی مرتبہ فون پر رابطہ ہو جاتا تھا، خصوصاً آخر میں جب قطر میں تھے، کئی مرتبہ گفتگو رہی اور کبھی کبھی تبادلہ خطوط بھی ہوتاتھا جس میں سے غالباً اٹھارہ بیس خط محفوظ بھی ہیں۔ ان میں سے آخری دوخط یہاں پیش کیے جا رہے ہیں۔
میں نے مولانا ئے روم [شیخ جلال الدین رومیؒ ] کے سات سو سالہ جشن کے موقع پر مولانا روم پر ایک خاص شمارہ نکالنے کا ارادہ کیا تھا۔ اس کا اپنے مجلہ احوال وآثار میں اعلان بھی کر دیا تھا اور اس میں تعاون ومضامین کے لیے ہند وپاکستان کے بیسوں اہل علم کی خدمات میں عریضہ اور سوال نامہ بھی بھیج دیاتھا، مگر چھے سات کے علاوہ کسی نے خط کی بھی رسید نہیں دی، مضامین ورہنمائی کا تو کیا ذکر ہے، اس لیے وہ ارادہ عمل میں نہ آسکا۔ جن لوگوں نے حوصلہ افزا جوابات دیے اور بھرپور تعاون کا وعدہ کیا، ان میں سب سے پہلا نام بھائی محمود کا ہی ہے۔ بھائی محمود نے میرے خط کے جواب میں دوخط لکھے تھے۔ ان سے غازی صاحب کی وسعت نظر، قوت اخذواستنباط اور سیلانئ ذہن کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ خطوط ملاحظہ ہوں:

مکتوب اول:

خال مکرم ومحترم جناب مولانا نورالحسن راشد صاحب کاندھلوی دامت برکاتہم العالیہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
گرامی نامہ مؤرخہ ۶؍صفر المظفر۱۴۳۰ھ چند روز قبل اسلام آباد پر ملا۔ شاید آں محترم کے علم میں ہو کہ میں آج کل قطر میں مقیم ہوں۔ موسم گرما کی تعطیلات کے سلسلہ میں اگست کے وسط تک یہاں اسلام آباد میں رہوں گا۔
اس اطلاع سے ازحد خوشی ہوئی کہ مفتی الٰہی بخش اکیڈمی مولانا روم کی آٹھ سو سالہ پیدائش کی یادگار تقریبات کے موقع پر مثنوی پر ایک خصوصی شمارہ شائع کرنے کا پروگرام بنارہی ہے۔ ایں کار از تو آید ومرداں چنیں کنند! میری طرف سے دلی مبارک قبول فرمائیے۔
میری ناچیز رائے میں مجوزہ مقالات وعنوانات کی فہرست میں، مندرجات مثنوی اور پیغام مثنوی پر مزید اضافہ کی ضرورت ہے۔ یہ اضافے درج ذیل خطوط پر ہو سکتے ہیں:
(۱) مولانا روم اور تجدید فکراسلامی
(۲) مثنوی کا علم کلام
(۳) اشعری اور ماتریدی کلام، مثنوی کی روشنی میں
(۴) وحی ورسالت مثنوی کی روشنی میں
(۵) پیررومی اورمرید ہندی، ایک تقابلی مطالعہ
(۶) احادیث مثنوی پر ایک نظر (اصول حدیث کی روشنی میں)
(۷) مثنوی اور مکتوبات امام ربانی: تجدید واصلاح تصوف کے دواہم مآخذ
(۸) مثنوی اور حدیقۃ الحقیقہ: ایک تقابلی مطالعہ
(۹) مولانا شیخ محمد اور مفتی الٰہی بخش کے تکملہ جات مثنوی
(۱۰) کلید مثنوی پر حاجی صاحب کی شرح مثنوی کے اثرات
(۱۱) مثنوی اورحکمت شریعت
(۱۲) مثنوی اور مسئلہ وحدۃ الوجود
(۱۳) مثنوی اور تصور ارتقاء
(۱۴) مثنوی کاتصور تعلیم وتربیت
(۱۵) حکایات مثنوی کے مآخذ
(۱۶) مثنوی میں تفسیر قرآن کا اسلوب
سردست یہ چند ممکنہ عنوانات ذہن میں آرہے ہیں۔ مثنوی سامنے ہو تو اور بہت سے عنوانات تجویز کیے جا سکتے ہیں۔ اگر آپ پسند فرمائیں تومیں عنوان ۱، ۲یا ۱۱ میں کسی ایک پر خامہ فرسائی کر سکتا ہوں۔
حضرت جدمکرم ومحترم مدظلہ العالی کی خدمت میں سلام نیاز اور دیگر اعزہ کو سلام ودعا۔
والسلام 
نیازمندمحموداحمدغازی 
۷؍جولائی۲۰۰۹ء 

مکتوب دوم:

خال مخدوم ومعظم جناب مولانا نورالحسن راشد صاحب کاندھلوی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امیدہے کہ مزاج گرامی بخیر ہوں گے!
کل پرسوں ایک عریضہ ارسال خدمت کیاتھا، ملاحظہ سے گذرا ہوگا۔ رات مثنوی پر ایک سرسری نظر ڈالی تو بعض نئے موضوعات ذہن میں آئے جو خدمت عالی میں پیش ہیں:
(۱) مولانا کا فلسفۂ اخلاق
(۲) مکارم اخلاق : مثنوی کی روشنی میں
(۳) رذائل اخلاق: مثنوی کی روشنی میں
(۴) مولانا کی تنقید مسیحیت
(۵) مولانا کی تنقیدیہودیت
(۶) مثنوی کاتصور جہاد
(۷)معجزہ اور معجزات بندی مثنوی کی روشنی میں
(۸) نبوت وانبیاء [واِن شئت قلت] منصب نبوت اوراس کے حاملین، مثنوی کی روشنی میں
(۹)مقام نبوت اور مقام ولایت مولانا کی نظرمیں 
(۱۰) مولانا کا اسلوب نعت گوئی
(۱۱)مولانا کا اسلوب تفسیر
(۱۲) مثنوی اور فلسفۂ یونان پر نقد
(۱۳) کشاکش عقل ودل، مثنوی کی روشنی میں
(۱۴) مولانا کاتصور مدت وحیات
(۱۵) مسئلہ جبر وقدر اور مثنوی
(۱۶) نفس انسانی اور اس کے مدارج
(۱۷) مثنوی کے مذہبی استعارے اور ان کی معنویت
(۱۸) آتش وخلیل کا استعارہ، رومی اور اقبال کے کلام میں
(۱۹) مثنوی کی باطنی تفسیریں: ایک تنقیدی مطالعہ
(۲۰)’’ ہست قرآں درزبان پہلوی‘‘
والسلام
نیازمند: محمودغازی 
۹؍جولائی۲۰۰۹ء 
کوئی موقع ہوگا توان شاء اللہ بعض چیزیں اور پیش کی جائیں گی۔

ہمارے بابا

ماریہ غازی

دنیا کے لیے بلاشبہ وہ ڈاکٹر محمود احمد غازی تھے، مگر ہمارے لیے وہ صرف ’بابا‘ تھے۔انھوں نے کبھی گھر میں یہ ظاہر نہیں کہا کہ وہ کتنے بڑے آدمی تھے۔ ان کے علم وتقویٰ کے بارے میں تو خاندان والوں کو بخوبی علم تھا، مگر دنیا ان سے کتنی محبت رکھتی ہے، اس کا اندازہ ان کے انتقال کے بعد ہوا۔ جس طرح لوگ دیوانہ وار ان کے جنازے میں شریک ہوئے اور جوق در جوق تعزیت کے لیے آئے، اس سے صحیح معنوں میں ان کی مقبولیت کا اندازہ ہوا اور بے پناہ رشک آیا۔ لوگوں کی محبت اور عقیدت کو دیکھتے ہوئے وہ حدیث یاد آتی ہے جس کامفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس شخص سے محبت رکھتا ہے، دنیا والوں کے دلوں میں بھی اس کی محبت ڈال دیتا ہے۔
باوجود اتنی مقبولیت کے، گھر میں وہ بالکل عام آدمی کی طرح رہا کرتے تھے۔ بہت ہی مہربان رویہ، نرم خو لہجہ۔ کبھی کسی کو ڈانٹنا تو کجا، اونچی آواز میں بات بھی نہیں کی۔ گھرمیں ہمیشہ مسکراتے ہوئے داخل ہوتے تھے۔ روزانہ کا معمول تھا کہ رات کو سب گھر والوں، خصوصاً دادی صاحبہ کے پاس بیٹھا کرتے اور ہلکی پھلکی پرمزاح گفتگو کیا کرتے تھے۔ بیرون ملک سفر کے دوران میں پیش آنے والے دلچسپ واقعات سنایا کرتے تھے۔باتوں باتوں میں نصیحت بھی کر دیا کرتے تھے، لیکن انداز اتنا اچھا ہوتا تھا کہ کبھی کسی کو ناگوار نہیں گزرا۔ سنت کے مطابق اکثر پہیلی کی شکل میں سوال پوچھتے اور اکثر وبیشتر اس پر انعام بھی رکھا کرتے تھے کہ جو اس سوال کا جواب دے گا، اس کو سو روپے انعام دوں گا۔ کبھی کبھی انعامی رقم ایک ہزار روپے بھی ہوتی تھی۔ انعام کی رقم سے ہمیں اندازہ ہو جاتا تھا کہ سوال کس نوعیت کا ہے۔ اگر ہزار روپے ہوتے تو بغیر سوچے کہہ دیا کرتے تھے کہ ہمیں نہیں معلوم! اس طرح ہلکے پھلکے انداز میں بڑے بڑے مسائل سمجھا دیا کرتے تھے اور کسی کو یہ محسوس بھی نہیں ہوتا تھا کہ کوئی باقاعدہ تعلیم ہو رہی ہے۔ اقبال کی شاعری سے خاص شغف تھا۔ کبھی کسی شعر کا ایک مصرعہ بتا کر اگلا مصرعہ پوچھتے، کبھی کسی شعر کا مطلب دریافت کرتے اور کبھی یہ پوچھتے تھے کہ بتاؤ، یہ شعر کس شاعر کا ہے۔
اپنے مقام ومرتبہ کا اظہار گھر والوں کے سامنے تو کیا، رشتہ داروں کے سامنے بھی نہیں کرتے تھے۔ گھر میں مہمان داری بہت زیادہ تھی اور ہر کسی کی خوب خاطر تواضع کیا کرتے تھے۔ بچوں بڑوں، سب کو مناسب وقت دیتے تھے۔ مہمانوں کی تواضع کے لیے کئی طرح کے کھانے پکواتے اور سیر وتفریح کا بھی انتظام کیا کرتے تھے۔ گھر میں جو بھی بچے آتے، ان کو اپنے بچوں ہی کی طرح سمجھتے تھے۔ جب ہمیں جیب خرچ دیتے تو جو بچے مہمان آئے ہوتے، ان کو بھی اتنی ہی خوشی اور پیار سے پیسے دیتے تھے۔ دوسروں کو تحفے تحائف دینے اور کھانے پلانے سے بے حد خوش ہوتے تھے۔ مہمانوں کے لیے ہمیشہ بہت اہتمام سے تحائف منگایا کرتے تھے اور خود بھی جب بیرون ملک جاتے تو سب کے لیے الگ الگ تحائف لے کر آتے تھے۔ عید کے موقع پر ہمیشہ ہمیں چاند رات کو چوڑیاں خریدنے کے لیے ساتھ لے کر جاتے تھے۔ اتنی عزت اور مقام ومرتبہ کے باوجود دل میں تواضع اور انکسار کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ کسی کے گھر جاتے تو خواہ کتنی ہی بے آرامی محسوس ہوتی، کبھی اظہار نہیں کرتے تھے۔ ہمیشہ یہی ظاہر کرتے کہ بہت آرام اور راحت سے ہیں۔
دل میں تقویٰ بہت زیادہ تھا۔ سرکاری چیزوں کے بارے میں بہت احتیاط سے کام لیتے تھے۔جو اپنا جائز حق ہوتا، اکثر وہ بھی چھوڑدیا کرتے تھے۔ اگر کوئی نشان دہی کرتا بھی تو فرماتے کہ اگر سب کچھ یہیں لے لیں گے تو پھر وہاں کیا لیں گے! بہت شروع سے سرکاری گاڑی ملی ہوئی تھی، مگر کسی کو اجازت نہیں تھی کہ اس کو چلائے۔ یا تو سرکاری ڈرائیور چلاتا تھا یا خود چلاتے تھے۔ کہتے تھے کہ یہ قانون کے خلاف ہے کہ میرے یا ڈرائیور کے علاوہ کوئی اور اس کو چلائے۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ گھر میں گاڑی ہونے کے باوجود چچا (ڈاکٹر محمد الغزالی) ٹیکسی یا بس سے دفتر گئے۔ گھر کے کام کے لیے جب بھی گاڑی استعمال ہوتی تو اس کا الگ سے حساب کر کے پیسے جمع کرایا کرتے تھے۔ کبھی کسی معاملے میں سختی نہیں کی، لیکن اس معاملے میں بالکل کمپرومائز نہیں کیا اور بہت سختی سے سب سے اس پر عمل کروایا کرتے تھے، حتیٰ کہ دفتر کی طرف سے جو اخبار بھی گھر میں آتے، وہ بھی اکٹھے کر کے واپس جمع کروایا کرتے تھے۔
بچپن سے کتابیں جمع کرنے کا شوق تھا۔ طالب علمی کے زمانے کی کتابیں بھی ابھی تک حفاظت سے رکھی ہوئی ہیں۔ اندرون ملک، بیرون ملک جہاں کہیں بھی جاتے، کتابیں ضرور خرید کر لاتے اور بہت احتیاط سے رکھتے تھے۔ اکثر کہا کرتے تھے کہ جو کتاب کا ادب نہیں کرتا، اسے کبھی علم حاصل نہیں ہوتا۔کتاب پر لکھنے کے سخت خلاف تھے۔ اپنی کتابوں کو ہمیشہ مضمون کے لحاظ سے ترتیب وار رکھا کرتے تھے۔ تفسیر، حدیث، علوم الحدیث، فقہ، اصول الفقہ، سیرۃ، رجال، عقیدہ، علم الکلام، مقارنۃ الادیان، قانون، فلسفہ، معاشیات ، اردو، انگریزی، فارسی ادب حتیٰ کہ طب یونانی کے بارے میں بھی کتابیں ان کے ذخیرے میں موجود ہیں۔ انھوں نے زندگی میں ہزاروں کتابیں جمع کیں اور ہر کتاب کے بارے میں انھیں زبانی یاد ہوتا تھا کہ کون سی الماری میں کس جگہ رکھی ہوئی ہے۔
ہمارے لیے بھی شروع سے ہی سبق آموز کہانیوں کی کتابیں لایا کرتے تھے۔ایک مرتبہ ہمیں نسیم حجازی کے ناول بھی لا کر دیے۔ علم اور تعلیم سے ان کو بے پناہ دلچسپی تھی۔ روزانہ جب میں یونیورسٹی سے واپس آتی تو پوچھتے تھے کہ آج کس کس مضمون کی کلاس ہوئی اور کیا پڑھا؟ اسکول کی ابتدائی جماعتوں سے ان کا یہی معمول تھا۔ یونیورسٹی میں جب مجھے کوئی اسائنمنٹ ملتی تو میں اس پر ان کے ساتھ اچھی طرح ڈسکس کرتی تھی۔ اس کے بعد وہ اس موضوع سے متعلق کتابوں کی نشان دہی کرتے تھے اور جب اسائنمنٹ تیار ہو جاتی تو بہت دلچسپی سے اس کو پڑھا کرتے تھے اور غلطیوں کی اصلاح کیا کرتے تھے۔ اکثر وبیشتر انعام بھی دیا کرتے تھے۔ اسی طرح ہم بہنوں کا جب بھی امتحانات میں اچھا رزلٹ آتا تو نہایت خوشی کا اظہار کرتے، دعوت کا اہتمام کرتے اور تحائف دیا کرتے تھے۔
کھیلوں میں بھی انھیں وہی کھیل پسند تھے جن میں کوئی تعلیمی پہلو ہو۔ بہت بچپن سے ہمارے ساتھ تعلیمی تاش کھیلتے کہ اس سے اردو اچھی ہوتی ہے۔ اسی طرح اکثر جب سب لوگ اکٹھے ہوتے تو بیت بازی کیا کرتے تھے اور آخر میں والد صاحب اور دادی صاحبہ رہ جاتے تھے، باقی سب ہار جاتے تھے۔ مختلف علمی شخصیات سے متعلق سوالات پر مبنی ذہنی آزمائش کا کھیل ’کسوٹی‘ بھی بہت شوق سے کھیلتے تھے۔ ہم جب ان سے کہانی سننے کی فرمائش کرتے تو اسلامی تاریخ سے قصے سنایا کرتے تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ بہت پسند تھا۔ وہ بہت زیادہ سناتے تھے۔
والد صاحب بہت خوش لباس بھی تھے۔ اپنے کپڑے بہت شوق سے سلواتے تھے۔ اگر کبھی ہم کہتے کہ آپ کے پاس اتنے زیادہ کپڑے ہیں تو امام مالک بن انسؒ کا واقعہ سناتے کہ وہ روزانہ صبح کو نئے کپڑے پہنتے تھے اور جب کوئی ان سے اس کے بارے میں کہتا تو فرماتے تھے: ’نفعل ونستغفر‘ کہ ہم ایسا کرتے ہیں اور استغفار کرتے ہیں۔
اپنا وقت کبھی ضائع نہیں کرتے تھے۔ اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ انھوں نے کارآمد بنایا۔ شام کو جب چائے پیتے تھے تو ساتھ ساتھ کوئی کتاب پڑھتے رہتے تھے۔ شام کو بلاناغہ اپنے اسٹڈی روم میں بیٹھ کر کام کرتے تھے۔ چاہے کتنے بھی تھکے ہوئے ہوں، ناغہ نہیں ہوتا تھا۔ کھانے سے پہلے چہل قدمی کے لیے جاتے تھے۔ رات کا کھانا کھا کر گھر والوں کے ساتھ محفل سجایا کرتے تھے اور پھر رات کو بارہ ایک بجے تک اپنا کام کرتے تھے۔ آخری دن تک ان کا یہی معمول رہا۔
اپنا کام ہمیشہ خود کرتے تھے۔ کبھی کسی دوسرے کو زحمت نہیں دی۔ صبح دفتر جاتے ہوئے اپنا بریف کیس ہمیشہ خود گاڑی میں رکھتے تھے، کبھی ڈرائیور کو نہیں دیا۔ آخری عمر میں بازو میں تکلیف رہنے لگی تھی اور بھاری چیز اٹھانے میں دقت ہوتی تھی، پھر بھی کبھی کبھار خود ہی اٹھا لیتے تھے۔ گاڑی میں سفر کے دوران میں ہمیشہ قرآن شریف کی تلاوت کرتے تھے اور اگر سفر لمبا ہوتا تو کوئی کتاب ساتھ رکھ لیتے تھے۔
طبیعت میں قناعت پسندی بہت زیادہ تھی۔ دنیاوی عیش وآرام سے بے نیاز رہتے تھے۔ اپنے بچپن کا قصہ سناتے تھے کہ ایک دفعہ میں پڑوسیوں کی گاڑی دیکھ کر بہت افسردہ ہوا کہ ان کے ٹھاٹھ باٹھ ہیں اور ہمارے نہیں ہیں۔ گھر آکر کہا کہ میں کل سے مدرسے نہیں جاؤں گا، مجھے بھی پڑوسیوں کے بچوں کی طرح اسکول جانا ہے۔ ان کے پاس تو گاڑی بھی ہے۔ خوب روئے اور سو گئے۔ سو کر اٹھے تو دادی جان نے کہا کہ ذرا میرے ساتھ چلو۔ وہ گھر کے قریب ہی مہاجروں کی جھونپڑیوں میں لے گئیں۔ کئی جھونپڑوں کے اندر لے کر گئیں اور پھر گھر آ کر خوب ڈانٹا کہ پڑوسیوں کے عیش وآرام تو تمھیں خوب نظر آئے، یہ لوگ نظر نہیں آتے کہ کس طرح زندگی گزارتے ہیں! فرماتے تھے کہ انھوں نے ایسا سبق دیا تھا کہ میں دنیا کے بڑے سے بڑے محل میں گیا، خوب سے خوب تر ہوٹلوں میں ٹھہرا، مگر کبھی دل میں یہ خیال نہیں آیا کہ کس کے پاس کیا ہے اور میرے پاس کیا ہے۔ یہی بے نیازی اور تقویٰ تھا جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اتنی عزت دی۔ ان کے ایک دوست نے کیا خوب کہا ہے کہ ایسا علم تو شاید دوبارہ پیدا ہو جائے، لیکن ایسا تقویٰ دوبارہ پیدا ہونا مشکل ہے۔
واقعات تو اور بھی بہت سے ہیں، لیکن نہ الفاظ ساتھ دیتے ہیں اور نہ جذبات اجازت دیتے ہیں۔ بس اللہ رب العزت سے یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق اور ان کے ادھورے رہ جانے والوں کاموں کو مکمل کرنے کی ہمت اور استطاعت عطا کرے اور ان کے لیے صدقہ جاریہ بنا دے۔ آمین

ایک معتمد فکری راہ نما

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات کی اچانک خبر ملک بھر کے علمی وفکری حلقوں کی طرح میرے لیے بھی بہت بڑا دھچکا ثابت ہوئی۔ میں اس روز ڈیرہ اسماعیل خان میں تھا۔ ایک روز قبل مولانا عبد الرؤف فاروقی اور مولانا قاری جمیل الرحمن اختر کے ہمراہ کلاچی گیا تھا۔ جمعیۃ علماء اسلام کے بزرگ راہ نما مولانا قاضی عبد اللطیف کی وفات کے بعد وہاں نہیں جا سکا تھا۔ ان کے برادر بزرگ حضرت مولانا قاضی عبد الکریم صاحب مدظلہ اور دیگر اہل خاندان سے تعزیت کی اور رات کو ہم ڈیرہ اسماعیل خان آ گئے۔ ڈیرہ میں موبائل فون کی سروس سکیورٹی کے عنوان سے ایک عرصے سے بند ہے۔ اپنے پروگراموں سے فارغ ہو کر دوپہر کے وقت ہم ڈیرہ اسماعیل خان سے روانہ ہوئے تو شہر سے باہر نکلتے ہی موبائل فون کی گھنٹی بجی اور ہمارے گوجرانوالہ کے ساتھی حافظ محمد یحییٰ میر نے اطلاع دی کہ آپ کے اسلام آباد والے دوست ڈاکٹر محمود احمد غازی انتقال کر گئے ہیں۔ دل دھک سے رہ گیا۔ ان سے خبر کا ذریعہ پوچھا تو بتایا کہ ٹیلی وژن کے ایک چینل پر پٹی چل رہی ہے۔ اسلام آباد کے ایک دو دوستوں کو فون کیا تو انھوں نے تصدیق کر دی کہ ڈاکٹر صاحب کا صبح نماز فجر کے وقت انتقال ہو گیا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ جنازے کے بارے میں بتایا گیا کہ دو بجے اسلام آباد میں ہے۔ اس وقت ایک بجے دن کا وقت تھا۔ جنازے میں شریک نہ ہو سکنے کا صدمہ بھی ڈاکٹر غازی مرحوم کی اچانک جدائی کے غم کا ساتھی بن گیا۔
ڈاکٹر صاحب موصوف نے ۳؍ اکتوبر کو ہمارے ہاں گوجرانوالہ تشریف آوری کا پروگرام طے کر رکھا تھا۔ الشریعہ اکادمی میں ’’دینی مدارس میں تدریس قرآن کریم کی اہمیت اور تقاضے‘‘ کے موضوع پر ایک سیمینار کا پروگرام طے تھا جس کے مہمان خصوصی ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ تھے اور تاریخ انھی کے مشورے سے طے ہوئی تھی۔ ہم ا س سیمینار کی تیاری کر رہے تھے اور ڈاکٹر صاحب کی تشریف آوری سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے کچھ مزید چھوٹے چھوٹے پروگرام بھی ترتیب دے رہے تھے کہ اچانک انھیں مالک حقیقی کی طرف سے بلاوا آ گیا اور وہ سارے پروگرام چھوڑ کر داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
ڈاکٹر صاحب کا تعلق حضرت مولانا مفتی جمیل احمد تھانوی اور حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی کے خاندان سے تھا۔ انھوں نے ابتدائی دینی تعلیم جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی میں حاصل کی اور دورۂ حدیث دار العلوم تعلیم القرآن راجہ بازار راول پنڈی میں کیا۔ ان کے حدیث کے استاذ صوبہ خیبر پختون خواہ کے معروف محدث حضرت مولانا عبد الرحمن المینوی رحمہ اللہ تعالیٰ اور قرآن کریم کے ترجمہ وتفسیر کے استاذ شیخ القرآن حضرت مولانا غلام اللہ خان رحمہ اللہ تعالیٰ تھے۔ وہ اپنے استاذ محترم کی طرز پر مختلف یونیورسٹیوں میں چند روز کے اندر دورۂ تفسیر بھی کراتے تھے۔ ایک دفعہ ان سے نوٹنگھم (برطانیہ) کے جامعہ الہدیٰ میں ملاقات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ وہ لیسٹر کے ادارۂ اسلامک فاؤنڈیشن میں دس روزہ دورۂ تفسیر قرآن کریم کرانے کے لیے آئے ہیں۔ میں نے تعجب کا اظہار کیا تو انھوں نے بتایا کہ وہ مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اس طرز کے دورۂ تفسیر قرآن کریم کراتے رہتے ہیں۔ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری علوم میں پیش رفت کرتے ہوئے اس مقام تک پہنچے کہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے صدر کے منصب پر فائز ہوئے، مگر ان کا اصل تعارف ان کی ڈگریوں کے حوالے سے نہیں، بلکہ ان کے علمی مقام اور دینی وعلمی خدمات کے حوالے سے جس نے انھیں دینی وعصری علوم کے ماہرین میں ایک متفق علیہ شخصیت اور معتمد راہ نما کے مقام پر فائز کر دیا۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ پہلی ملاقات یاد نہیں، مگر بیسیوں ملاقاتوں کے مناظر ذہن کی اسکرین پر جھلملا رہے ہیں۔ شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کے ابتدائی دور میں ڈاکٹر غازی مرحوم ہماری دعوت پر گوجرانوالہ تشریف لائے۔ یونیورسٹی میں ایک تقریب سے خطاب کیا اور تعلیمی نظام میں بہت سے مفید مشوروں سے نوازا۔ اس موقع پر انھوں نے جامع مسجد نور، مدرسہ نصرۃ العلوم میں جمعۃ المبارک کے اجتماع سے بھی خطاب کیا۔
ڈاکٹر صاحب مرحوم میرے علمی وفکری معاملات میں سب سے بڑے مشیر تھے اور ہمارے درمیان امت مسلمہ کے علمی وفکری مسائل پر تبادلہ خیالات او رمشاورت کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا تھا۔ لندن میں مولانا محمد عیسیٰ منصوری اور مولانا مفتی برکت اللہ کے ساتھ مل کر ہم نے ’’ورلڈ اسلامک فورم‘‘ قائم کیا جو گزشتہ دو عشروں سے علمی وفکری محاذ پر سرگرم عمل ہے۔ فورم کا مقصد ملت اسلامیہ کو درپیش علمی وفکری مسائل کی نشان دہی اور ان کے حل کی تلاش میں کاوشوں کو منظم کرنا ہے۔ اس فورم کی تشکیل اور سرگرمیوں میں ہمیں جن نمایاں علمی شخصیتوں کا تعاون حاصل رہا ہے، ان میں مولانا عتیق الرحمن سنبھلی، مولانا مجاہد الاسلام قاسمی، ڈاکٹر محمود احمد غازی، ڈاکٹر سید سلمان ندوی، مولانا سید سلمان الحسینی اور مولانا محمد عبد اللہ پٹیل کاپودروی بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم نے ایک بار ہماری دعوت پر برطانیہ کا دورہ بھی کیا اور فورم کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے علاوہ مختلف شہروں میں علمی اور فکری اجتماعات سے خطاب کیا۔
ورلڈ اسلامک فورم کی طرف سے ہم نے مغربی ممالک کے لیے اسلامی تعلیمات کے خط وکتابت کا سلسلہ شروع کرنا چاہا تو ہمیں دعوہ اکیڈمی ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کا کورس پسند آیا۔ اس وقت ڈاکٹر صاحب مرحوم دعوہ اکیڈیمی کے سربراہ تھے۔ انھوں نے نہ صرف بھرپور تعاون کیا، بلکہ باقاعدہ معاہدے کی صورت میں اردو اور انگلش نصابات کی کاپیاں فراہم کیں اور سالہا سال تک اس پروگرام کی سرپرستی کرتے رہے۔ یہ کورس جامعۃ الہدیٰ نوٹنگھم کے ذریعے کئی سال تک چلتا رہا ہے اور مختلف مغربی ممالک کے ہزاروں لوگوں نے اس سے استفادہ کیا ہے اور اب یہ ’’اسلامک ہوم اسٹڈی کورس‘‘ کے عنوان سے انٹر نیٹ پر موجود ہے اور سیکڑوں افراد اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔ اللہ کی قدرت کہ جن دنوں اس کورس کے سلسلے میں بات چیت چل رہی تھی، ڈاکٹر صاحب کی جگہ دعوہ اکیڈمی کے نئے ڈائریکٹر جنرل کا تقرر ہو گیا۔ ہمیں بہت پریشانی لاحق ہوئی کہ ڈاکٹر صاحب سے ہمارے مذاکرت چل رہے ہیں اور نئے آنے والے ڈائریکٹر جنرل کے مزاج سے ہم واقف نہیں ہیں، پتہ نہیں کہ وہ ہماری ضروریات کے مطابق تعاون کرتے ہیں یا نہیں کرتے۔ میری برطانیہ کے سفر سے واپسی ہوئی تو میں نے ڈاکٹر صاحب سے فون پر رابطہ کیا اور نئے آنے والے ڈائریکٹر جنرل کے حوالے اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آپ اسلام آباد تشریف لائیں۔ میں اسلام آباد گیا اور ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی ۔ انہوں نے مجھے ایک ڈرافٹ دیا اور کہا کہ اس پر دستخط کریں۔ ان دنوں میں ورلڈ اسلامک فورم کا چیئرمین تھا اور میرے وہاں دستخط ہونے تھے ۔ میں نے دستخط کر دیے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ دعوہ اکیڈمی کا منصب چھوڑنے سے پہلے میں نے آپ کے ساتھ کیے ہوئے معاہدے پر دستخط کر دیے تھے اور مجھے یاد تھا کہ میں نے ان سے معاہدہ کیا ہوا ہے۔ یہ ہمارا ڈاکٹر صاحب کے ساتھ کام کرنے کا ایک خوشگوار تجربہ تھا۔ 
ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم نے جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں وزارت مذہبی امور کا منصب سنبھالا تو مجھے بھی تعجب ہوا تھا کہ ڈاکٹر صاحب اس میدان اور ذوق کے آدمی نہیں تھے، مگر رفتہ رفتہ ان کی حکمت عملی سمجھ میں آنے لگی تو میں ان کی ذہانت اور صلاحیتوں کا پہلے سے زیادہ معترف ہوتا گیا اور جب وہ وزارت سے الگ ہوئے تو میں اسلام آباد کے چند علماء کرام کے ساتھ ان سے ملاقات کے لیے ان کے گھر گیا۔ باتوں باتوں میں، میں نے انھیں مبارک باد پیش کی اور شکریہ ادا کیا تو وہ چونکے اورمیرے ساتھ جانے والے علماء کرام بھی متعجب ہوئے کہ میں شکریہ اور مبارک باد کس حوالے سے پیش کر رہا ہوں! میں نے عرض کیا کہ دینی مدارس کو سرکاری تحویل میں لینے کے لیے جنرل پرویز مشرف کا پروگرام طے پا چکا تھا اور اس پر عمل درآمد کی تیاریاں ہو رہی تھیں کہ ڈاکٹر غازی مرحوم نے فائل ورک، پیپر ورک اور بیرونی دوروں کا جال بچھا دیا۔ مختلف مسلم ممالک کے تعلیمی نظاموں کا جائزہ لینے کے لیے وفود جانا شروع ہوئے اور ملک کے اندر مختلف حوالوں سے کمیٹیوں اور مذاکرات کا سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ اتنے میں دینی مدارس کے مختلف وفاقوں کو اپنی صف بندی اور موقف وپالیسی میں یکسانیت پیدا کرنے کا موقع مل گیا اور وہ متحد ہو کر رائے عامہ کی قوت کے ساتھ سامنے آ گئے جس سے دینی مدارس کو سرکاری تحویل میں لینے کا پروگرام آگے نہ بڑھ سکا۔ میں نے کہا کہ میں ڈاکٹر صاحب کو اس کامیاب حکمت عملی پر مبارک باد دے رہا ہوں اور ان کا شکریہ ادا کر رہا ہوں۔ یہ سن کر ڈاکٹر غازیؒ میری طرف دیکھ کر مسکرائے اور کہا کہ صرف آپ میری اس حکمت عملی کو سمجھ سکے ہیں، ورنہ اسلام آباد کے علماء کرام تو مجھے ابھی تک برا بھلا ہی کہہ رہے ہیں۔
وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے کچھ عرصہ قبل بڑے دینی مدارس میں تخصصات کے نصابات کا جائزہ لینے کے لیے کمیٹی بنائی اور مجھے اس کا مسؤل بنایا تو میں نے اس سلسلے میں ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب سے مشورہ ضروری سمجھا۔ انھوں نے نہ صرف متعدد مفید مشوروں سے نوازا، بلکہ ایک باقاعدہ رپورٹ دینی مدارس کے تخصصات کے بارے میں تحریر کی جو ماہنامہ ’الشریعہ‘ میں شائع ہو چکی ہے، مگر بدقسمتی سے یہ اہم کام جو بتدریج آگے بڑھ رہا تھا، وفاق المدارس کی بیورو کریسی کی داخلی مصلحتوں اور ترجیحات کی نذر ہو کر معطل پڑا ہے۔
آخری ملاقات چند ماہ قبل اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ پر ہوئی جب میں گوجرانوالہ میں شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کے پراجیکٹ کے حوالے سے ان سے مشورے کے لیے گیا۔ ربع صدی قبل شروع کیا جانے والا ہمارا یہ پراجیکٹ مختلف وجوہ کی بنا پر کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔ زمین کا ایک بڑا رقبہ اور تین چار بلڈنگیں موجود تھیں۔ ہم دس پندرہ سال کے تعلیمی پروگرام میں اتار چڑھاؤ کے بعد یہ طے کر چکے تھے کہ اب مزید اس کام کو آگے بڑھانا ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔ اس کے لیے جن حضرات سے مشاورت ہوئی، ان میں ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ سرفہرست تھے۔ ہم ان کے پاس یہ تجویز لے کر گئے تھے کہ اگر یہ جگہ اور بلڈنگیں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے کسی منصوبے میں کام آ سکتی ہوں تو وہ اس کے لیے ہماری مدد کریں۔ انھوں نے اس سے اتفاق کیا مگر کہا کہ پہلے کراچی کے کسی بڑے دینی ادارے سے بات کر کے دیکھ لیں، وہ زیادہ بہتر رہیں گے۔ اگر وہاں بات نہ بن سکی تو پھر میں آپ حضرات کی تجویز پر پیش رفت کر سکتا ہوں۔ نام بھی انھوں نے انھوں نے تجویز کیا کہ اگر دار العلوم کراچی تیار ہو تو زیادہ بہتر ہوگا، مگر وہ شاید ایسا نہ کریں، اس لیے جامعۃ الرشید سے بات کر لیں۔ وہ سنبھال بھی لیں گے اور بہتر انداز میں کوئی تعلیمی پروگرام بھی منظم کر لیں گے۔ یہ بات ایک آپشن کے طور پر ہمارے ذہن میں بھی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کی تائید سے پختہ ہو گئی۔ ہم نے جامعۃ الرشید سے بات کی اور انھوں نے جگہ اور بلڈنگیں سنبھال کر ’’جامعہ شاہ ولی اللہ‘‘ کے نام سے تعلیمی پروگرام کا آغاز گزشتہ سال شوال سے کر دیا ہے۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کام بھی ڈاکٹر صاحب مرحوم کے صدقات جاریہ میں سے ہے اور اس تعلیمی پروگرام کے اجر وثواب میں وہ مسلسل شریک رہیں گے۔
اسی دوران ڈاکٹر صاحب مرحوم سے میری ایک ملاقات دار العلوم اسلامیہ کامران بلاک، علامہ اقبال ٹاؤن لاہور میں دینی مدارس کے اساتذہ کے تربیتی پروگرام میں ہوئی جس میں مختلف امور پر باہمی تبادلہ خیالات ہوا۔ میرا بیان ظہر سے قبل ہو چکا تھا، مگر میں ڈاکٹر صاحب سے ملاقات اور ان کا خطاب سننے کے لیے مغرب تک رکا۔ اب یہ میرے ذہن میں نہیں ہے کہ ان دونوں ملاقاتوں میں سے پہلے کون سی ہوئی اور دوسری کون سی، مگر یہ ہماری آخری دو ملاقاتیں ہیں جن کی یاد ہمیشہ ذہن میں تازہ رہے گی۔
ایک دفعہ خبر ملی کہ ڈاکٹر صاحب کے گھر میں ڈاکہ پڑ گیا ہے اور رات کے وقت ڈاکوؤں نے غازی صاحب کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر غزالی پر تشدد بھی کیا ہے۔ مجھے پریشانی ہوئی کہ ڈاکٹر صاحب کے گھر ڈاکو کیا لینے آئے تھے۔ مجھے تو معلوم تھا کہ ڈاکٹر صاحب کے گھر میں کیا ہو گا۔ جب میں ڈاکٹر صاحب سے ملا تو ان سے معاملہ دریافت کیا اور کہا کہ ڈاکٹر صاحب ! ان کو کس طرح حوصلہ ملا کہ آپ کے گھر میں کوئی چیز مل سکتی ہے؟ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ اصل میں ان ڈاکوؤں کو مغالطہ لگ گیا ۔ وہ اس طرح کہ جب بھی مجھے کسی دوسرے ملک میں کسی پروگرام میں جانا ہوتا ہے تو وہاں سے کوئی نہ کوئی تحفہ یا اعزاز ملتا ہے اور وہ جن ڈبوں میں بند ہوتے ہیں، وہ زیورات کے ڈبوں کی طرح سجے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ میرے گھر میں ڈھیروں پڑے ہوئے ہیں اور تین چار الماریاں بھری پڑی ہیں۔ کسی آنے جانے والے کو مغالطہ ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کے گھر اتنا زیور ہے۔ وہ مغالطہ ڈاکووں کو یہاں لے آیا اور بے چارے غزالی پر تشدد کر کے چلے گئے۔ 
ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم کو عام طور پر یونیورسٹی کی دنیا کا آدمی سمجھا جاتا رہا ہے، حالانکہ وہ اصلاً دینی مدارس کے ماحول کے آدمی تھے اور جدید تعلیم کی دنیا میں روایتی دینی حلقوں کی بھرپور اور کامیاب نمائندگی کر رہے تھے۔ جدید ماحول میں آج کے اسلوب اور اصطلاحات میں دین اسلام اور امت مسلمہ کے روایتی اور اجماعی موقف کے جس کامیابی اور اعتماد کے ساتھ وہ نمائندگی کرتے تھے، مجھے اس معاملے میں اس حوالے سے بلا مبالغہ ان کا کوئی ثانی دکھائی نہیں دے رہا۔ علمی محاذ پر بہت سی شخصیات ان پر تفوق رکھتی ہیں، لیکن علم کے صحیح اور بروقت استعمال اور علم وفکر میں توازن کے حوالے سے وہ اپنے معاصرین میں سب سے نمایاں تھے۔ ڈاکٹر صاحب دینی اور عصری علوم پر یکساں دسترس رکھتے تھے۔ عربی اور انگلش سمیت نصف درجن کے لگ بھگ زبانوں میں قادر الکلام تھے اور تحریر وتقریر پر ان کی مکمل دسترس تھی۔ بے پناہ مطالعہ اور تجزیہ وتنقیح کی اعلیٰ صلاحیت سے بہرہ ور تھے۔ مشکل سے مشکل مسئلہ کی گہرائی تک اترتے اور اس کا قابل عمل حل نکالتے تھے۔ نامساعد حالات میں بھی اعتماد اور خوش اسلوبی کے ساتھ کام کرنے اور اپنا کام کر گزرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے۔ بین الاقوامی کانفرنسوں میں اسلام کی نمائندگی اور جمہور اہل علم کے موقف کی ترجمانی کے لیے پوری دنیاے اسلام میں گنتی کے جن چند حضرات کا نام لیا جا سکتا تھا، ان میں ایک نمایاں نام ڈاکٹر محمود احمد غازی کا بھی تھا۔ کسی سطح کی کانفرنس ہو اور کوئی بھی موضوع ہو، وہ پورے اعتماد، حوصلے اور جرات کے ساتھ اسلام کی ترجمانی کرتے تھے اور مطالعہ اور گفتگو کے عصری اسلوب پر ان کی گرفت اس قدر مضبوط تھی کہ فکر ودانش کی کوئی بھی سطح اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتی تھی۔
ڈاکٹر غازی مرحوم کے علمی تبحر، مطالعہ کی وسعت اور دینی وعصری تقاضوں کے مکمل ادراک کے ساتھ ساتھ مجھے ان کی جس بات نے سب سے زیادہ متاثر کیا، وہ موقع ومحل کے مطابق محفل کی ذہنی سطح کا لحاظ کرتے ہوئے موثر اور ثمر آور گفتگو کی صلاحیت تھی اور اس کے علاوہ ان کی سادگی، انکساری اور درویش مزاجی تھی جو ان کے حلقہ احباب میں ان کی مقبولیت کا باعث تھی۔ میرا احساس ہے کہ وہ اپنی علمی سطح اور منصبی مقام کو سامنے رکھتے ہوئے پروٹوکول کے تکلف میں پڑے رہتے تو شاید اتنے زیادہ لوگ ان سے علمی استفادہ نہ کر پاتے۔ میرے خیال میں پروٹوکول کا تکلف علمی دنیا میں استفادہ اور افادہ دونوں کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے اور میں اس سلسلے میں امام ابویوسفؒ کے اس قول کا اکثر حوالہ دیا کرتا ہوں کہ ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ ایک غریب اور معمولی خاندان کا فرد ہوتے ہوئے علم وفضل کے اس قدر بلند مقام تک کیسے پہنچے ہیں تو فرمایا کہ:
ما استنکرت من الاستفادۃ وما بخلت بالافادۃ
میں اس کا اپنی زبان میں ترجمہ یوں کیا کرتا ہوں کہ :
’’علم کے حصول اور فروغ میں میرا کبھی کوئی پروٹوکول نہیں رہا۔‘‘
میں نے ڈاکٹر غازی مرحوم کو حضرت امام ابو یوسفؒ کے اس ارشاد کا عملی مصداق پایا ہے اور کم وبیش دو عشروں تک اس کامشاہدہ کرتا رہا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم کے ساتھ میرا تعلق مخلص بھائیوں اور بے تکلف دوستوں والا تھا۔ انھوں نے ہمیشہ مجھے بڑے بھائی کا احترام دیا اور میرے لیے ہمیشہ وہ سب سے زیادہ معتمد اور مخلص مشیر ثابت ہوئے۔ وہ اپنی زندگی پوری وضع داری کے ساتھ گزار کر چل دیے ہیں اور بارگاہ ایزدی میں ان کی قبولیت کی علامت یہ ہے کہ رات کو ان کو دل کا دورہ پڑا، وہ فجر تک ہسپتال میں رہے، فجر کے وقت ہوش میں آئے تو نماز کا وقت پوچھا اور یہ معلوم کر کے کہ فجر کا وقت ہو گیا ہے، نماز فجر ادا کی اور اس کے چند لمحوں بعد جان جاں آفرین کے سپرد کر دی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ یہ رسم ومحاورہ کی بات نہیں، بلکہ امر واقعہ ہے کہ ہم اپنے دور کی ایک بڑی علمی شخصیت اور معتمد فکری راہ نما سے محروم ہو گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی حسنات قبول فرمائیں، سیئات سے درگزر کریں، آخرت کی منزلیں آسان فرمائیں اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔

ایک عظیم اسکالر اور رہنما

مولانا محمد عیسٰی منصوری

ڈاکٹر محمود احمد غازی کی ہستی برصغیر کے ا ہل علم میں ایک ایسی شخصیت تھی جو بین الاقوامی مجالس وکانفرنسوں اور اعلیٰ سے اعلیٰ سطح پر اسلام اور جمہور اہل علم کی ترجمانی کرتی تھی۔ بقول مولانا زاہدالراشدی کے ’’مکالمے اور گفتگو کے عصری اسلوب پر ان کی گرفت اس قدر مضبوط تھی کہ اعلیٰ سے اعلیٰ فکر ودانش کی کوئی بھی سطح اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتی تھی۔‘‘ انہوں نے خاموشی سے جنرل ضیاء الحق کے دور سے لے کر پرویز مشرف کے دور تک بعض ظاہر بین لوگوں کی ملامت کی پروا کیے بغیر حکومتی سطح پر وہ کام کر دکھایا جو صرف آپ ہی کے کرنے کا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے جنرل ضیاء الحق کے عربی کے ترجمان اور دینی معاملات میں مشیر بن کر بہت قریب تھے۔ آپ نے خاموشی سے جنرل ضیاء الحق سے حکومتی سطح پر متعدد دینی وعلمی کام کروائے، خواہ وہ اسلامی نظریاتی کونسل کا خاکہ ہو، خواہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی دعوۃ اکیڈمی وشریعہ اکیڈمی کے ذریعے بے شمار دینی وعلمی کتب کی طباعت اور دنیا بھر میں ایسے ممالک میں اسلامی اسکالرز تیار کرنا جہاں مسلمان اقلیت میں اور غیر اسلامی تمدن وکلچر کے دباؤ میں ہیں۔ اسی طرح یونیورسٹی کی طرف سے متعدد دینی واسلامی کورسز کا اجرا جس کے ذریعے ہزار ہا طلبہ نے مطالعہ اسلام، مطالعہ قرآن اور متعدد کورس کیے۔ خود برطانیہ میں ڈاکٹر صاحب کے عطا کردہ مطالعہ اسلام کا دو سالہ کورس (ہوم اسٹڈی کورس) ورلڈ اسلامک فورم کے توسط سے تقریباً دس ہزار طلبہ وطالبات نے کیا۔ آپ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے صدر ونائب صدر رہے اور حقیقت یہ ہے کہ یونیورسٹی کی دعوۃ اکیڈمی وشریعہ اکیڈمی کی خاکہ گری کرنے والوں میں سب سے نمایاں اور عرصہ تک ان دونوں اکیڈیمیز کی روح رواں آپ ہی کی شخصیت تھی۔ 
اسی طرح سود کے خلاف سپریم کورٹ کے مشہور اور تاریخ ساز فیصلہ میں ڈاکٹر صاحب کا بحیثیت اپیلٹ بینچ سپریم کورٹ آف پاکستان سب سے نمایاں کردار رہا ہے۔ اس مشہور فیصلے کا بڑا حصہ ڈاکٹر صاحب ہی کا تحریر کردہ ہے، اگرچہ پاکستان کے متعدد علماء کرام اورجج صاحبان اس میں شامل تھے۔ ڈاکٹر حمیداللہ (پیرس) کے بعد برصغیر میں آئینی وقانونی معاملات میں آپ اسلامی دفعات کے سب سے بڑے ماہر تھے۔ ڈاکٹر حمیداللہؒ کے مشہور خطبات بہاولپور کی دوسری جلد جو قانون بین الممالک کی موضوع پرہی ہے، وہ ڈاکٹر غازی صاحب ہی کے محاضرات ہیں۔ اس کامطالعہ بتاتا ہے کہ آپ کی نظر قانون بین الممالک یا انٹرنیشنل لا پر اپنے پیش رو سے کہیں بڑھ کر تھی۔ اسی طرح بہت کم لوگوں اس حقیقت کا علم ہے کہ برصغیر میں آپ اسلامی بینکنگ کے بانیوں میں تھے۔ اسلامی بینکنگ کے لیے تکافل کا ابتدائی خاکہ آپ ہی کا تشکیل کر دہ ہے۔ اس پر پاکستان سے بہت پہلے بعض عرب ممالک اور ملائیشیا میں عمل ہوا۔ اسلامی معاشیات پر آپ کا علمی وفکری اور تجدیدی کام بہت وقیع اور ناقابل فراموش ہے اور آخر تک اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے شریعہ ایڈوائزی بورڈ کے چیئرمین کامنصب آپ ہی کے پاس تھا۔ 
اسی طرح قادیانیوں کے خلاف امت مسلمہ کے متفقہ موقف کی ترویج واشاعت اور اس سلسلے میں ہونے والی قانون سازی میں ڈاکٹر صاحب کی تگ ودو اور ماہرانہ رائے کا بڑا دخل رہا ہے۔ ۸۰ء کی دہائی میں ساؤتھ افریقہ میں قاد یانیوں کے متعلق مقدمہ میں صدر جنرل ضیاء الحق مرحوم نے پاکستان کے جید علماء کرام اور ماہرین قانون کا ایک موقر اور اعلیٰ سطحی وفد روانہ کیا تھا۔ وہاں عدالت عالیہ کے سامنے امت مسلمہ کا موقف پیش کرنے کی سعادت ڈاکٹر صاحب ہی کے حصے میں آئی۔ بالآخر اسی تاریخی مقدمے میں ملت اسلامیہ کے موقف کو غیر مسلم عدالت کے سامنے سرخروئی حاصل ہوئی۔ آج یہ فیصلہ دنیا بھر کے غیر مسلم ممالک کی عدالتوں کے لیے ایک نظیرہے۔ ایک بار بندہ نے ابراہیم کالج لندن میں برطانیہ کی مختلف ختم نبوت تنظیموں کے سربراہوں اور علماء کو بلا کر ڈاکٹر صاحب سے میٹنگ کروائی۔ ان علماء کرام کے روبرو ڈاکٹر صاحب نے جو بصیرت افروز تقریر فرمائی، بندہ نے اس مسئلہ پر ایسی ٹھوس اور مدلل تقریر کبھی نہیں سنی تھی۔ آج بھی آپ قادیانیوں کی ویب سائٹ کھولیں تو اندازہ ہوگا کہ قادیانیوں کو سب سے زیادہ تکلیف ڈاکٹر صاحب ہی سے تھی۔ 
ڈاکٹر محمود احمد غازی پرویز مشرف کی تشکیل کردہ نیشنل سیکورٹی کونسل کا حصہ بنے تو بعض بزرگوں نے آپ کو لعنت ملامت کا نشانہ بنایا۔ بندہ نے اپنے کانوں سے پاکستان کے ایک ممتاز ترین عالم دین سے ڈاکٹر صاحب کے متعلق سخت ترین الفاظ سنے۔ ان بزرگ نے مجھے بتایا کہ میں نے بھرے مجمع میں ڈاکٹر صاحب کو کھری کھری سنائیں۔ بندہ نے دل میں کہا کہ یہ آپ کا کمال نہیں بلکہ ڈاکٹر صاحب کا حوصلہ، شرافت اورکمال ہے کہ آپ کے منصب کا لحاظ کر کے خاموش رہے، لیکن اہل نظر خوب جانتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب نے مشرف جیسے شخص کے ساتھ رہ کر بھی جو کام انجام دیا، وہ صرف انھی کے کرنے کا تھا۔ چنانچہ رفیق محترم مولانا زاہدالراشدی صاحب لکھتے ہیں: 
’’میں ان کی صلاحیتوں اور افتاد طبع سے آگاہ تھا، اس لیے کوئی تشویش نہیں تھی اور میں خاموشی سے ان کے ’’اپنا کام کر گزرنے‘‘ کی صلاحیت کا مشاہدہ کرتا رہا، چنانچہ جب مشرف نے آپ کو وزارت سے فارغ کر دیا تو میں اسلام آباد کے بعض علماء کرام کے ہمراہ ان سے ملنے گیا اور مبارک باد دینے کے ساتھ ان کا شکریہ بھی ادا کیاتو دوستوں کو تعجب ہوا کہ میں شکریہ کس بات کا ادا کر رہا ہوں۔ میں نے عرض کیا کہ دینی مدارس کے خلاف پرویز مشرف کی پرجوش پالیسی کی شدت کو جس حکمت عملی کے ساتھ ڈاکٹر صاحب نے کم کیا ہے اور اس پالیسی کو ٹالنے کے لیے داؤ پیچ ڈاکٹر صاحب نے کھیلے ہیں، یہ انھی کا کام تھا۔ ان خطرناک حالات میں امریکہ نے پرویز مشرف کے ذریعے دینی مدارس کو ملیا میٹ کرنے کے لیے ہلہ بول دیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی حکمت عملی یہ تھی کہ پیپر ورک، فائل ورک اور مسلمان ملکوں کے تعلیمی نظاموں کا جائزہ لینے کے حوالوں سے سرکاری وفود کا سلسلہ دراز کیا جائے۔ چنانچہ یہ سب کچھ ہوتا رہا۔ اسی دوران دینی مدارس کے وفاقوں کو باہمی رابطوں اور رائے عامہ کو ہموار کرنے کاموقع مل گیا اور انہوں نے مشترکہ موقف طے کر کے حکومتی پالیسی کی مضبوط مزاحمت کا راستہ اختیار کر کے حکومت کی پالیسی کو ناکام بنا دیا۔‘‘
برصغیر میں ڈاکٹر حمیداللہ (پیرس) کے بعد ڈاکٹر محمود احمد غازی ایسے شخص تھے جو اردو، عربی، فارسی، انگریزی، فرنچ سمیت چھ سات زبانوں کے ماہر اور ان زبانوں میں اعلیٰ تحقیق وتصنیف وخطابت کا ملکہ رکھتے تھے۔ ڈاکٹر حمیداللہ ؒ کی فرانسیسی زبان میں دو جلدوں پر مشتمل سیرت کی شہرہ آفاق کتاب کا ڈاکٹر صاحب نے براہ راست فرنچ سے انگریزی میں ترجمہ کیا جو بہت مقبول ہوا۔ اسی طرح آپ کی آخری تصنیف ’’الحرکۃ المجددیہ‘‘ جو عربی میں چار سو سے زیادہ صفحات پر مشتمل ہے، برصغیر کی عبقری شخصیت حضرت مجدد الف ثانیؒ کے احوال و آثار اور خدمات وتصنیفات کے علمی جائزے پر ہے۔ یہ کتاب آپ کی فارسی وعربی دانی کے ساتھ علمی تبحر اور تصوف کے دقائق سے گہری واقفیت کا ثبوت ہے۔ اسی طرح قرآن، حدیث، سیرت، فقہ، شریعت اور معیشت وتجارت پر آپ کے محاضرات علوم اسلامیہ کا بیش بہا خزانہ ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ پورے اسلامی کتب خانہ میں ان محاضرات کی کوئی نظیر نہیں ہے۔ ان محاضرات کو پڑھنے والا ڈاکٹر صاحب کی وسعت علمی، وفور معلومات، ذہانت وقوت یادداشت اور قرآن وسنت اور تاریخ پر گہری بصیرت پر عش عش کر اٹھتا ہے۔ بندہ ورلڈ اسلامک فورم کی طرف سے اعلان کرتے ہوئے مسرت محسوس کرتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے محاضرات کی ان چھ جلدوں کو ورلڈ اسلامک فورم کی طرف سے لیسٹر کے دارارقم کے تعاون سے انگریزی میں چھاپا جائے گا۔ الحمد للہ اس پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔ 
اسی طرح ڈاکٹر صاحب نے گوجرانوالہ (پاکستان) کی الشریعہ اکادمی کی ایک فکری نشست میں مسلمانوں کے نظام ونصاب تعلیم پر جو مبسوط خطاب فرمایا تھا، وہ اس موضوع پر ’’ما قل ودل‘‘ کی بہترین مثال ہے۔ اس میں آپ نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ مولانا ر اشدی صاحب نے ڈاکٹر صاحب کی فکری نشستوں کو مرتب کر کے چھاپ دیا ہے جو علماء کرام کے لیے نادر تحفہ ہے۔ بقول ڈاکٹر سید عزیز الرحمن چند برس پہلے جامعۃ الرشید کراچی میں قضاء وتحکیم کے موضوع پر اپنے خطاب میں ڈاکٹر صاحب نے مسلمانوں کے قضا کی پوری روایت اور اس کا محاکمہ ایسے انوکھے اسلوب میں پیش فرمایا کہ ملک بھر کے مفتیان کرام حیرت زدہ رہ گئے اور سب نے متفقہ طور پر اس خطاب کو پورے کورس کا حاصل قرار دے دیا۔ بندہ کے نزدیک ڈاکٹر صاحب طبقہ علماء میں برصغیر کی منفرد شخصیت تھے جو مشکل سے مشکل موضوع پر برجستہ اور مدلل خطاب کی صلاحیت سے بہرہ ور تھے۔ ایک بار لندن کے مشہور کانوے ہال واقع ہالبرن میں بندہ نے اسلامائزیشن کے موضوع پر خطاب کی دعوت دی۔ ڈاکٹر صاحب نے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے عالم اسلام میں اس موضوع پر ہونے والی کوششوں کی مکمل تاریخ پیش فرما دی۔ 
نومبر ۱۹۹۲ء میں رفیق محترم مولانا زاہدالراشدی اور بندہ نے یہاں برطانیہ میں مغربی فکر وفلسفہ کا جائزہ لینے اور اس کے موثر جواب کے لیے ورلڈ اسلامک فورم تشکیل دیا۔ اس وقت ہم نے ایک اعلیٰ سطحی مشاورتی حلقہ بنایا جس میں ڈاکٹر سلمان ندوی (ساؤتھ افریقہ)، مولانا سید سلمان الحسینی (لکھنو)، مولانا مجاہدالاسلام قاسمی (بھارت)، مولانامحی الدین خان (ڈھاکہ) اور پاکستان سے ڈاکٹر محمود احمد غازی ہمارے شریک فکر اور شریک کار تھے۔ یوں تو ڈاکٹر صاحب کی برطانیہ متعدد بار تشریف آوری ہوئی۔ فورم کی دعوت پر ۱۹۹۴ء میں ڈاکٹر صاحب اور ڈاکٹر سلمان ندوی (ساؤتھ افریقہ) اورجناب صلاح الدین شہید مدیر تکبیر نے ہمارے ساتھ برطانیہ کے مختلف شہروں کا دورہ فرمایا۔ مختلف شہروں کی علمی تقریبات اور سیمیناروں میں شرکت فرمائی جن کی یادیں آج بھی یہاں کے علما اور دینی کارکنوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں۔ اسی طرح فورم نے برطا نیہ میں ’’اسلامک ہوم اسٹڈی کورس‘‘ کے عنوان سے بذریعہ خط وکتابت اسلامی کورس شروع کیا تھا جس کے انچارج مولانا رضاء الحق آف نوٹنگھم تھے اور اس میں مولانا مشفق الدین بھی عملی طو ر پر شریک رہے۔ اس کورس سے برطانیہ میں ہزارہا طلبہ اور طالبات نے فائدہ اٹھایا ۔ اس کورس کی عملی رہنمائی ڈاکٹر صاحب نے فرمائی تھی۔ اس وقت آپ بین الاقوامی یونیورسٹی اسلام آباد کی دعوۃ اکیڈمی کے ڈائریکٹر تھے۔ ہم نے دعوۃ اکیڈمی کا یہ کورس ڈاکٹر صاحب کی اجازت سے ان کے ساتھ باقاعدہ معاہدہ کی صورت میں شروع کیا تھا اور ڈاکٹر صاحب مسلسل اس کی رہنمائی اور سرپرستی فرماتے رہے۔ 
جہاں تک یاد پڑتا ہے، ڈاکٹر صاحب سے بندہ کی پہلی ملاقات غالباً ۱۹۸۴ء میں پاکستان کے پہلے سفر کے موقع پر ہوئی۔ اس وقت ڈاکٹر صاحب اسلامی یونیورسٹی کی دعوۃ اکیڈمی کے ڈائریکٹر تھے۔ آپ نے ایک اجنبی زائر کے لیے اپنی قیمتی مصروفیات سے کئی گھنٹے فارغ کر کے ملاقات فرمائی۔ اس وقت بندہ کا احساس تھا کہ ایک ایسی شخصیت مل گئی جو فورم کے مقاصد میں بین الاقوامی سطح پر ہماری سرپرستی ورہنمائی کرسکتی ہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب سے تعلق گہرا ہوتا گیا۔ جب بھی پاکستان کا سفر ہوتا، سب سے زیادہ اشتیاق ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کا ہوتا کیونکہ پاکستان کے اہل علم میں آپ کی شخصیت ایسی ہستی تھی جن کی عالمی حالات پر گہری نظر تھی۔ خاص طور پر مغربی دجالی طاقتوں کے طریقہ واردات، پالیسیوں اور اقدامات میں آپ کو گہری بصیرت حاصل تھی۔ آپ سے مل کر کئی ذہنی وفکری گتھیاں سلجھ جاتیں۔ ڈاکٹر صاحب کی رہائش گاہ پر بھی نشستیں ہوتیں اور ہم آپ کی رفاقت سے مستفید ہوتے۔ پاکستان کے آخری سفر میں برطانیہ کے چھ علماء ہمراہ تھے جن میں مولانا مشفق الدین، مولانا شمس الضحیٰ اور مولانا فاروق ملا بھی تھے۔ ڈاکٹر صاحب سے طویل ملاقات اور مشورے رہے۔ 
بین الاقوامی فورم پر اسلام اور مسلمانوں کی نمائندگی کا جو سلیقہ ڈاکٹر صاحب کو تھا، اس کی مثال کم ہی ملے گی۔ آپ علم وفضل، دینی حمیت وتصلب کے ساتھ ساتھ حسن تکلم وحکمت کی دولت سے آراستہ تھے۔ ڈاکٹر صاحب حکومت کے اعلیٰ سے اعلیٰ منصب پر فائز رہے۔ آپ وفاقی وزیر بر ائے مذہبی امور، ممبر پاکستان سیکورٹی کونسل، جج وفاقی شرعی عدالت، چیئرمین شریعہ ایڈوائزری بورڈ برائے اسٹیٹ بینک آپ پاکستان، اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن، انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی کے صدر، نائب صدر، ڈائریکٹر دعوۃ اکیڈمی وغیرہ وغیرہ رہے، مگر کبھی سرکاری مراعات سے ذاتی فائدہ نہیں اٹھایا۔ آپ کا علمی مقام یہ تھا کہ بیسیویں صدی کی عبقری شخصیت ڈاکٹر حمیداللہ آف پیرس نے ایک بار ڈاکٹر صاحب کو خط میں تحریر فرمایا کہ آپ کو میری کتب اور تحریروں میں حک واضافہ کا اختیار ہے۔ آپ کو تصوف واحسان میں برصغیر کے تین چار اہم ترین اکابر کی طرف سے اجازت بھی حاصل تھی، مگر آپ نے اس طرح اخفا سے کام لیا کہ گنتی کے چند افراد ہی واقف ہو ں گے۔ آپ سماع حدیث کی متعدد اعلیٰ ترین سندیں رکھتے تھے ۔ ایک سند ایسی تھی جو صرف چار واسطوں سے شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ تک پہنچ جاتی ہے۔ 
آپ کی گفتگو بڑی پر حکمت اور دانائی کی ہوتی۔ ایک بار ملائیشیا میں بین الاقوامی یونیورسٹی کی ورک شاپ کے موقع پر فرمایا کہ آج کے دور میں کوئی اگر خلیفہ ، وزیر، ا میر یا کسی منصب پر پہنچ جاتا ہے تو یہ بھول جاتا ہے کہ میں عبداللہ بھی ہوں۔ ایک بار ہم آکسفورڈ میں اسلامی سنٹر کے ڈائریکٹر فرحان نظامی سے ملنے گئے تو وہاں عرب شہزادوں کی داد ودہش کا تذکرہ تھا جو مغربی ممالک میں نام ونمود کی جگہوں پر علم اور اسلام کے نام پر خرچ کرتے ہیں اور بڑے فراخ دل واقع ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ عربوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اسلام کے سرپرست رہنا چاہتے ہیں، خادم نہیں۔ آپ ہمیشہ خود کو ایک دنیا دار شخص ظاہر کرتے، مگر بندہ نے ہمیشہ آپ کو کسی علمی مشغولیت (مطالعہ وتصنیف) میں دیکھا یا ذکر وتلاوت میں۔ ایک بار برطانیہ کے شہر لیسٹر میں مولانا فاروق ملا کے سنٹر دارارقم میں ایک ہفتہ تک ڈاکٹر صاحب کے محاضرات رہے۔ فقہ الاقلیات جیسے نادر موضوع پر ڈاکٹر صاحب کی قدرت کلام اور حسن خطابت دیکھ کر بار بار دل تڑپتا کہ کاش! برطانیہ کے مولوی صاحبان جبہ ودستار اورالقاب کے پھندوں سے نکل کر اس گوہر نایاب کی قدر کر کے فائدہ اٹھاتے۔ ڈاکٹر صاحب کی خداداد صلاحیتوں سے تقریباً دو سال ملائیشیا کی انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی اور تقریباً اتنی ہی مدت عربوں میں قائم ہونے والی سب سے اعلیٰ معیار کی بین الاقوامی یونیورسٹی آف قطر نے استفادہ کیا۔ بندہ نے گزشتہ سال اپنے مخلص دوست مولانا رفیق ندوی کی، جو قطر میں مقیم ہیں، ڈیوٹی لگائی تھی کہ ہر ہفتہ کسی خاص موضوع پر ڈاکٹر صاحب کا لیکچر رکھیں اور ان کی ڈی وی ڈی تیار کر کے ہمیں فراہم کریں۔ ورلڈ اسلامک فورم کی طرف سے ایک معیاری دعوتی چینل قائم کرنے کے لیے کام جاری ہے۔ اسے تین سال پہلے دی میسیج کے نام سے رجسٹرڈ کروا لیا گیا تھا۔ جناب کامران رعد صاحب اس کے انچارج ہیں جو تن دہی سے اپنے کام میں جتے ہوئے ہیں۔ ویسے تو یہاں برطانیہ میں گزشتہ چند سالوں میں درجن بھر شیعہ، سنی، بریلوی، سلفی، دیوبندی چینل کھل گئے ہیں، مگر ان میں نہ انسانیت کے لیے کوئی پیغام ودعوت ہے نہ مسلمانوں کے لیے مقصد حیات اور امت پنے کا پیغام، نہ آج کے تہذیبی، فکری ونظریاتی چیلنجز کا جواب۔ یہ سات چینل محض اپنے اپنے مسلک کی اشاعت اور اپنے اکابر کی ثنا وتوصیف اور کہانیوں کے لیے وقف ہیں۔ خدا کرے ہم جلد اس قابل ہو سکیں کہ ڈاکٹر صاحب کے خطابات اپنے چینل سے نشر کر سکیں۔ 
ڈاکٹر صاحب کے اخلاص اوراپنی ذات کے اخفا کا یہ عالم تھا کہ فورم کی طرف سے ۱۶؍ اکتوبر ۲۰۱۰ء کو ڈاکٹر صاحب کے لیے تعزیتی اجلاس کے موقع پر جب صدارتی خطبہ کی تیاری کا مرحلہ آیا تو خیال آیا گھر میں ڈاکٹر صاحب کی درجن بھر تصانیف ہیں۔ آپ کی شخصیت واحوال پر مضمون تیار کرنے میں ان سے مدد مل جائے گی۔ جب کتب اٹھا کر دیکھیں تو ان میں ایک لفظ ڈاکٹر صاحب کی ذات سے متعلق نہیں ملا۔ اس دور میں لوگ چھوٹی چھوٹی کتب مرتب کر کے اکابر کی تقریظ ومقدمہ کے نام سے اپنا پورے حالات زندگی بڑھا چڑھا کر لکھوا لیتے ہیں۔ بندہ نے ڈاکٹر صاحب کی طرح سفر وحضر میں تلاوت قرآن اور اذکار ومعمولات کی پابندی کرنے والے بہت کم دیکھے۔ آپ عام طور پر باوضو رہتے، فارغ اوقات میں اور دوران سفر اکثرآپ کے لبوں پر تلاوت قرآن جاری رہتی۔ آپ حافظ قرآن تھے، رمضان المبارک میں اپنی رہائش گاہ پر تراویح میں قرآن سنانے کا معمول تھا۔ آپ سادگی، تواضع اور انکسار کی تصویر تھے۔ جو کھانا سامنے رکھ دیا جاتا، انتہائی رغبت سے تناول فرماتے۔ ایک بار بندہ نے کہا کہ علماء کے مجمع میں خطاب کرنا ہے۔ برطانیہ کے مولوی صاحبان کی ظاہرپرستی حد سے بڑھی ہوئی ہے۔ آپ شلوار قمیص پہن کر چلیں تو اچھا ہے۔ فرمایا یہ مجھ سے نہیں ہوگا، میں جو ہوں وہ ہوں۔ حالانکہ اکثر اوقات شلوار قمیص ہی میں رہتے۔ ایک بار مولوی فاروق ملا تقریباً ڈیڑھ دو سو میل کا سفر کر کے ڈاکٹر صاحب، ڈاکٹر عابد اور غازی آف شکاگو اور بندہ کو برطانیہ کے ایک قابل دید تفریحی مقام پر لے گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ مجھے سیر وتفریح یا تاریخی مقامات دیکھنے سے کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ کہنے لگے کہ سارے پہاڑ، سمندر، دریا ایک ہی جیسے تو ہوتے ہیں۔ غرض آپ سادگی اور خوبیوں کا مجموعہ تھے۔ 
۲۶؍ ستمبر ۲۰۱۰ء کو صبح کی نماز کے بعد تقریباً سات بجے اچانک فون کی گھنٹی بجی۔ اسلام آباد سے غالباً ڈاکٹر صاحب کے بھائی ڈاکٹر غزالی یا کوئی عزیز خبر دے رہے تھے کہ اچانک حرکت قلب بند ہونے سے ڈاکٹر صاحب انتقال کر گئے، اناللہ وانا الیہ راجعون۔ بند ہ سن کر سکتے میں رہ گیا۔ ایسا محسوس ہو اکہ سب کچھ تباہ ہو گیا ۔ نظریاتی وفکری کام کرنے والوں کے لیے کتنا عظیم سانحہ ہے۔ اکتوبر ۲۰۱۰ء کے آخری عشرہ میں ہم لوگوں نے مولانا سلمان الحسینی صاحب کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کا برطانیہ کا دورہ طے کیا۔ خیال تھا کہ طویل عرصہ کے بعدڈاکٹر صاحب سے دل کھول کر باتیں ہوں گی، مغرب اور ملت اسلامیہ کے احوال اور درپیش مسائل پر غور وخوض کر کے مستقبل کے لیے لائحہ عمل طے کریں گے مگر 
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ 
واقعہ یہ ہے کہ ہم اپنے دور کی ایک بڑی علمی شخصیت اور فکری رہنما سے محروم ہو گئے ہیں۔ عرصہ سے ہم دیوبندیوں کا ایک المیہ یہ ہے کہ ہم ظاہرپرستی کا شکار ہیں، ظاہری ہیئت، جبہ ودستار اور بڑے بڑے رسمی القاب میں الجھ کر بہت سے قابل قدر لوگوں کی قدر نہیں کر پاتے۔ جب ڈاکٹر حمیداللہ کا انتقال ہوا اور بندہ نے ڈیلی جنگ میں آپ پر تفصیلی مضمون لکھا تو ایک مولوی صاحب نے فون پر پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب کس کے خلیفہ تھے؟ میرا جواب تھا کہ اللہ اور اس کے رسول کے خلیفہ تھے۔ بہت سے مولوی صاحبان کے فون آئے کہ آپ نے پہلے نہیں بتایا ورنہ ہم فرانس جا کر استفادہ کرتے۔ میں نے کہا، آپ کبھی استفادہ نہیں کر سکتے تھے کہ آپ ظاہر پرستی کے مرض کا شکار ہیں۔ وہ ایک سادہ سے مسلمان تھے، کوئی پیر یا مولوی نہیں تھے۔ اسی طرح ہمارا طبقہ ڈاکٹر غازی سے فائدہ نہیں اٹھا سکا۔ ہم نے کتنی عظیم شخصیت کھو دی۔ ڈاکٹر صاحب کا وجود عالم اسلام کے لیے غنیمت تھا۔ آپ کو دیکھ کر ملت کی بے مایگی وبے بضاعتی کا احساس کم ہوتا تھا۔ 
اللہ تعالیٰ آپ کی بال بال مغفرت فرمائے اور ملت اسلامیہ کو ڈاکٹر صاحب کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آمین۔ 

ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم

محمد موسی بھٹو

(۱) 
ملک کے ممتاز فاضل، دانشور اور محقق ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب ساٹھ سال کی عمر میں ۲۶ ستمبر کو اسلام آباد میں انتقال کر گئے۔ ’’اناﷲ وانا الیہ راجعون‘‘۔ ہمارے حلقہ سے وابستہ علمی دوستوں وساتھیوں کی، ایک ایک کرکے جدائی جہاں دلی صدمہ کا باعث ہے، وہاں موت کی تیاری کے لیے انتباہ کی حیثیت کی حامل بھی ہے۔ 
ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب عالم دین تھے، حافظ قرآن تھے، جدید نوعیت کے فقہی مسائل میں ماہرانہ صلاحیتوں کے حامل تھے، کئی زبانوں میں لکھنے پڑھنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان کی بڑی حیثیت یہ تھی کہ وہ دردمند داعی تھے اور خدمت اسلام کا بے پناہ جذبہ رکھتے تھے۔ عالم اسلام کے حالات ومسائل اور جدید معاشروں کی معاشی ومعاشرتی پیچیدگیوں کو سمجھنے اور اسلامی نقطہ نظر سے ان کے حل کے سلسلہ میں وہ وسیع معلومات رکھنے کے ساتھ ساتھ حد درجہ خود اعتمادی کے حامل بھی تھے۔ 
محترم ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب بنیادی طور پر دینی مدرسہ کے فارغ تھے۔ ان کا آبائی وطن مولانا اشرف علی تھانوی کا قصبہ تھانہ بھون ہے۔ موصوف کے والد صاحب قرآن کے حافظ اور عالم دین تھے۔ وہ مولانا اشرف علی تھانوی ؒ سے بیعت تھے۔ انہیں چشتی سلسلہ میں حضرت مولانا فقیر محمد صاحب اور شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا ؒ سے خلافت حاصل تھی۔ محترم غازی صاحب خود مولانا عبدالقادر رائے پوری سے بیعت تھے۔ یہ ساری تفصیل موصوف کے اس عاجز کے نام ان خطوط میں موجود ہے جو مضمون کے آخر میں شامل ہیں۔ 
ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب اہم عہدوں پر فائز رہے۔ دعوہ اکیڈمی کے سربراہ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں شریعت فیکلٹی کے سربراہ، وفاقی شرعی عدالت کے جج اور وفاقی حکومت کے وزیر وغیرہ۔ یہ سارے عہدے ان کے مزاج کی انکساری کو متاثر نہ کر سکے، یہ بڑی سعادت کی بات ہے جو پختہ باطنی تربیت کا ثمرہ ہے۔ موصوف نے اپنے نام کے ساتھ کبھی ڈاکٹر کا لاحقہ نہیں لگایا۔ ان کی کسی کتاب میں ان کے نام کے ساتھ ڈاکٹر موجود نہیں ہے، حالانکہ ڈاکٹر بن جانے کے بعد افراد کی عام طور پر یہی آرزو رہتی ہے کہ ان کی طرف ڈاکٹر کی صفت منسوب کی جائے، اس طرح اسے خوبصورت اعزاز سے نوازا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب اندر بدل جاتا ہے تو اس طرح کی آرزوئیں کالعدم ہوجاتی ہیں اور فرد فقیرانہ صفات کا حامل ہوجاتا ہے اور اپنے آپ کو حقیر سمجھتے ہوئے وہ خوشی ولذت محسوس کرنے لگتا ہے۔ 
ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے اس صفت سے بھی نوازا تھا کہ وہ بڑے سے بڑے دشوار موضوع پر نوٹس لیے بغیر تقریر کرتے تھے اور تقریر میں واقعات کی صحت اور حقیقت کی صحیح عکاسی دیکھ کر ان کے غیرمعمولی حافظہ پر حیرت ہوتی تھی۔ ان کی بیشتر کتابیں ان کی تقاریر کے مجموعہ پر مشتمل ہیں۔ خالص فنی، واقعاتی اور تاریخی معلومات پر مشتمل تقاریر میں اس طرح کی صحت بیانی فیضان خاص ہے جس کا کچھ حصہ محترم غازی صاحب کو دیا گیا تھا۔ غازی صاحب نے اس خداداد صلاحیت سے استفادہ کرتے ہوئے تقاریر کے ذریعہ خدمت اسلام کا بڑا فریضہ سرانجام دیا۔ اگرچہ ان کی تقاریر بہت سارے موضوعات کا احاطہ کرتی تھیں، لیکن تدوین، حدیث، تدوین فقہ، دور جدید میں نفاذ اسلام کی شکل، اسلام کا قانونی نظام، اسلام کا بین الاقوامی نظام، جدید پیچیدہ مسائل کے سلسلہ میں صحیح اسلامی تعلیمات کی توضیح، مسلم معاشروں کو طاقتور مادہ پرست معاشروں کی طرف سے چیلنج وخطرات اور ان کی گہری سازشوں کی نشاندہی اور ان سے عہدہ برآہونے کی صورت جیسے موضوعات ان کی تقاریر کا خصوصی اہداف تھے۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ پاکستان کے اعلیٰ علمی اداروں میں اسلام کی بہتر اور مؤثر طور پر ترجمانی کرنے میں ڈاکٹر صاحب کو خصوصی امتیاز حاصل تھا۔ ان کے انتقال سے اس میدان میں جو خلا پیدا ہو ہے، بظاہر اس کے پر ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ 
ڈاکٹر صاحب کی خوبیوں، صفات وکمالات کو اگر مختصر الفاظ میں پیش کرنے کے لیے کہا جائے توکچھ اس طرح نقشہ کھینچا جا سکتا ہے:
زمانہ کو قرآن وسنت کی بنیاد پر پرکھنا اور دوسروں کو پرکھنے کے لیے استدلال کی عمارت فراہم کرنا، جدید تعلیم کے سحر میں مبتلا افراد کا اسلامی علوم پر اعتماد بحال کرنا، قرآن وسنت اور اس سے ماخوذ علوم پر اعتراضات کا شافی وکافی جواب دینا، اسلامی علوم کی، دنیا کے دیگر علوم پر برتری ثابت کرنے کے لیے علوم کے تقابلی مطالعہ کے حوالے سے گفتگو کرنا، اپنے شاگردوں میں اسلامی روح منتقل کرنا، اسلاف کے قرآن وسنت سے ماخوذ علوم پر تبحر علمی کا حامل ہونا، جدید وقدیم اسلامی مفکروں کے فکر کی نوعیت کو سمجھنا، ان کے مثبت اور کمزور پہلوؤں پر گہری نگاہ رکھنا، قرآن وسنت، سیرت اور فقہ کے موضوعات پر بلند پایہ کتابیں سامنے لانا، اجتہادی صلاحیتوں سے کام لے کر جدید دور کے جدید مسائل میں امت کی بہتر رہنمائی کرنا، اپنے دور کے ہر طرح کے فتنوں سے آشنا ہونا اور دوسروں کو بھی ان فتنوں سے بچانے کے لیے کوشاں ہونا، قرآن، سیرت، فقہ، تصوف اور تاریخ وغیرہ کے موضوعات پر عربی، انگریزی اور اردو زبانوں میں مارکیٹ میں شائع ہونے والی کتابوں پر نگاہ رکھنا اور ان کتابوں کو زیر مطالعہ لانا، امت میں ابتدائی صدیوں میں اسلامی علوم کی تدوین پر محدثوں، مفسروں، فقیہوں اور مورخوں کے کام کا وسیع مطالعہ ومشاہدہ ہونا، جدید دور کی تمدنی اور معاشرتی خرابیوں کی اصلاحِ احوال کے لیے بہتر اور مؤثر لائحہ عمل کی نشاندہی کرنا، مغربی نظام تعلیم کی پیدا کردہ خرابیوں کا پوری طرح ادراک حاصل ہونا، جدیدیت کے مثبت پہلوؤں کو اختیار کرنے اور منفی پہلوؤں کو مسترد کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہونا، مسلم معاشروں کے بالائی طبقات کی ذ ہنی الجھنوں کو سمجھنا اور ان کی ذ ہنی سطح کے مطابق ان سے بات کرنے کی استعداد کا حامل ہونا، امت کے چوٹی کے چند بڑے اسکالروں میں ہونے کے باوجود عاجزی اور انکساری کی راہ اختیار کرنا اور امت کو اپنی نئی فکر اور نئی جماعتیں ودائراتی خول سے داغدار اور منتشر نہ ہونے دینا، ساری زندگی خاموشی سے صحیح اسلامی فکر کی ترویج میں صرف کرنا، تشہیر، شہرت، امیج، اخبارات میں اپنی تصاویر وتقاریر کی اشاعت سے بے نیاز ہونا اور بڑے علمی کاموں اور بڑی دینی خدمات کے باوجود اپنے آپ کو حقیر وفقیر سمجھنا وغیرہ۔ 
یہ ہے، وہ تعارفی خاکہ ہے جو ہمارے مرحوم دوست ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب کا ہے۔ اس خاکہ میں مزید صفات بھی شامل ہو سکتی ہیں۔ غازی صاحب کو قریب سے جاننے والے افراد ہمارے اس تعارفی خاکہ سے یقیناًاتفاق کریں گے۔ اس خاکہ میں شامل بہت ساری باتیں تو وہ ہیں، جن کا مشاہدہ ان کی کتابوں کے مطالعہ سے ہو سکتا ہے۔ بالخصوص درجہ ذیل کتابوں کے مطالعہ سے:
(۱) محاضرات قرآن (۲) محاضرات حدیث (۳) محاضرات فقہ (۴) محاضرات سیرت (۵) معاضرات معیشت وتجارت (۶) قرآن مجید۔ ایک تعارف (۷) مسلمانوں کا دینی وعصری نظام تعلیم۔ (۸) اسلامی بنکاری۔ ایک تعارف (۹) اسلام اور مغرب تعلقات (۱۰) خطبات بہاولپور حصہ دوم۔ 
موصوف کی اردو، انگریزی اور عربی میں کافی کتابیں موجود ہیں، لیکن مذکورہ کتابوں کے مطالعہ سے ان کے تبحر علمی کا بآسانی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ 
محترم غازی صاحب سے ہمارے تعلقات کا آغاز ان کے دعوۃ اکیڈمی کے سربراہ بننے کے وقت سے ہوا۔ یہ غالباً ۱۹۹۰ء کی بات ہے۔ اس وقت تک اردو میں ہماری متعدد کتابیں سامنے آچکی تھی۔ ملک کے دوسرے فضلا کی طرح غازی صاحب کی خدمت میں بھی ہماری کتابیں جاتی رہیں۔ غازی صاحب نے ہماری کتابوں کو اپنی دل کی آواز سمجھا اور متعد بار اس کا اظہار کیا۔ دعوۃ اکیڈمی کا سربراہ بننے کے ساتھ ہی انہوں نے سندھی زبان میں دعوتی اور علمی کتابوں کی اشاعت کا منصوبہ بنایا۔ چونکہ وہ فکر کی وسیع دنیا کا مطالعہ کر چکے تھے، اس لیے سندھ کی نظریاتی کشمکش کی صورتحال میں جدیدیت سے فکری مرعوبیت میں کمی اور علمی طور پر اسلام کی صداقت کے لیے جس قسم کے لٹریچر کی ضرورت تھی، انہوں نے ہماری مشاورت سے وہ لٹریچر سندھی زبان میں منتقل کرکے، ترجمہ کروا کر شائع کرنے کی کاوش کی۔ اس سلسلہ میں مولانا امیر الدین مہر صاحب جو دعوۃ اکیڈمی کے سندھی شعبہ کے سربراہ تھے، ان کو جملہ سہولتیں فراہم کیں، چنانچہ چند سالوں کے اندر اندر دعوۃ اکیڈمی کی طرف سے اسلام کے ہر موضوع پر ضخیم اور مؤثر کتابیں شائع ہوکر سندھ کے علمی حلقوں میں اعزازی طورپر تقسیم ہوئیں۔ غازی صاحب نے اس سلسلہ میں جس دردمندی، فکرمندی اور کاوش کا مظاہرہ کیا اور اس کام میں درپیش انتظامی رکاوٹوں کو دور کیا، وہ ان کی دعوتی کاموں سے بے پناہ لگن کا ثبوت ہے۔ 
اگرچہ علمی اعتبار سے اس وقت بھی غازی صاحب کا مطالعہ کافی تھا، دینی مدرسہ کے فضلا سے بہرہ وری کی وجہ سے قرآن وسنت اور فقہی مسائل میں وہ اس وقت بھی غیرمعمولی صلاحیت رکھتے تھے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مطالعہ اور فکر میں وسعت ہوتی چلی گئی اور اس مطالعہ میں ہر پہلو سے اضافہ ہونے لگا۔ دعوۃ اکیڈمی کے سربراہ کی حیثیت سے انہیں دنیا بھر کے علمی اداروں اور یونیورسٹیوں کی طرف سے مجالس مذاکرات اور سیمیناروں میں شرکت کے مواقع ملتے رہے۔ عربی اور انگریزی میں لکھنے پڑھنے کی صلاحیت اور مطالعہ کے شغف نے ان کی فکری صلاحیتوں کو غیرمعمولی نشوونما دی۔ ان کی تقاریر جو اسلام کے ہر اہم موضوع پر ہوتیں، ان تقاریر میں وہ سامعین کو اتنی معلومات فراہم کرتے تھے کہ وہ حیرت زدہ رہ جاتے تھے۔ معلومات کے ساتھ ساتھ وہ ان کے اندر حرارت وگرمی بھی منتقل کردیتے تھے۔ تقاریر پر مشتمل ان کی بہت ساری کتابیں چھپ چکی ہیں۔ ان کے مطالعہ سے ان کی اس غیرمعمولی صلاحیت کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔ 
غازی صاحب نے آج سے غالباً اٹھارہ سال پہلے اس عاجز کو جدید اسلامی مفکروں کے فکر کے تجزیاتی مطالعہ پر لکھنے کے لیے کہا تھا۔ (ان کے کسی خط میں بھی اس کا ذکر موجود ہے) الحمدﷲ ان کے اکسانے پر راقم السطور نے اس موضوع پر تین چار کتابیں لکھیں، اگرچہ یہ کتابیں دعوۃ اکیڈمی کی طرف سے شائع نہ ہوئیں، ہمارے ہی ادارہ کی طرف سے شائع ہوئی ہیں۔ 
غازی صاحب سے اس عاجز کی آخری ملاقات ستمبر۲۰۰۶ میں (جب وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے) ہوئی۔ راقم دعوۃ اکیڈمی ہی کے اجلاس میں شرکت کے لیے اسلام آباد گیا تھا۔ برسوں کے بعد ان سے ملاقات ہوئی تھی، ان کی صحت دیکھ کر مجھے سخت تشویش ہوئی۔ راقم نے انہیں اس طرف توجہ دلائی۔ کہنے لگے، شوگر کی تکلیف ہوگئی ہے اور کچھ یونیورسٹی کے مسائل کا دباؤ بھی ہے۔ مزید کہنے لگے کہ دکھ اس بات کا ہے کہ گہرا اسلامی ذہن رکھنے والے افراد، جن سے ہمیں تعاون کی زیادہ توقعات رہی ہے، سب سے زیادہ مسائل وہی پیدا کر رہے ہیں۔ ہم نے دعوۃ اکیڈمی کی سربراہی کے دوران اور اب صدارت کے دوران انہی افراد کا تقرر کیا ہے، لیکن چھوٹے چھوٹے مسائل کی وجہ سے بحران پیدا کرنے اور تلخیوں کے ماحول کو فروغ دینے میں یہی افراد سب سے زیادہ پیش پیش ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے یہ بھی بتایا کہ میں نے دعوۃ اکیڈمی کی سربراہی کے دور میں سوویت یونین سے آزاد مسلم ریاستوں کے لیے ایک سو سے زائد کتابوں کے تراجم شائع کرکے وہاں پھیلائے تھے۔ اب جب دوبارہ ان کتابوں کی اشاعت کا فیصلہ ہوا تو ان ساری کتابوں کے بٹر غائب تھے۔ ایک گروہ چاہتا ہے کہ بس ان کی فکر ہی کی اشاعت ہوتی رہے۔ ان کے مکتبہ فکر سے باہر کے علما وفضلا کے فکر کی ضرورت ہی نہیں۔ یہ افسوسناک صورتحال ہے جو پیدا ہو گئی ہے۔
اسلام آباد کے اسی دورہ کے دوران راولپنڈی کی ایک فاضل شخصیت جو علمی اعتبار سے ممتاز حیثیت کی حامل ہے، اس نے راقم الحروف سے کہا کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب اور ان کے بھائی محمد غزالی صاحب نے حکومت وقت سے تعاون کرنے میں اہم کردار ادا کرکے، علماے حق کی حکومت وحکمرانوں سے بے نیازی والی روایت کو سخت زک پہنچائی ہے۔ راقم نے اپنے خط میں ڈاکٹر صاحب سے اس کا ذکر کیا۔ اس کا جواب ڈاکٹر صاحب نے دیا جو خطوط میں شامل ہے ۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب کا یہ نقطہ نگاہ کافی وزنی ہے کہ انہوں نے حکومت وحکمرانوں سے مالی فائدہ یا مراعات حاصل نہیں کی،بلکہ اپنی بساط کے مطابق اصلاح احوال اور بہتری کی کوشش کی، البتہ مشرف حکومت میں وفاقی وزیر کی حیثیت سے ان کی شرکت کا فیصلہ ایسا تھا جس پر ان کے ساتھ محبت کرنے والوں کو بھی دکھ ہوا۔ غازی صاحب کو توقع تھی کہ حکومت سے وابستگی سے وہ زیادہ بہتر طور پر خدمت سرانجام دے سکیں گے، لیکن ایسا نہ ہو سکا، چنانچہ جوں ہی انہیں اس کا احساس ہوا کہ حکومت وقت انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کررہی ہے تو انہوں نے بغیر تامل کے استعفیٰ دے دیا۔ 
غازی صاحب اپنی ذات میں انجمن تھے۔ اپنی تقاریر، گفتگو، اور کتابوں کے ذریعہ اُس طبقہ تک اسلام کی دعوت پہنچاتے تھے جس طبقہ تک علما کی رسائی دشوار تھی۔ فرد چلے جاتے ہیں۔ ان کی باتیں اور ان کا کام باقی رہ جاتا ہے، باتوں اور کام کو بھی اخلاص اور سوزِ دروں ہی بقا اور استحکام بخشتا ہے۔ غازی صاحب میں اخلاص اور سوز دروں کے اجزا غالب صورت میں موجود تھے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی لغزش معاف فرمائے، جنت الفردوس نصیب فرمائے اور ہمیں ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔ (آمین) 
ہم نے اپنی کتاب ’’عصر حاضر کی شخصیات میری نظر میں‘‘ میں غازی صاحب کا تعارفی خاکہ لکھا ہے۔ اس کتاب میں ان کے خطوط بھی شامل ہیں۔ یہ کتاب ان کی زندگی میں ہی چھپی ہے اور ان کی نظر سے گزر چکی تھی۔ یہ تعارفی خاکہ اور خطوط یہاں پیش کیے جا رہے ہیں۔ 

(۲) 
ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب ملک وملت کا بڑا سرمایہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں جن صلاحیتوں، خوبیوں اور کمالات سے نوازا ہے، انہیں دیکھ کر ملک وقوم کے بارے میں یہ حوصلہ بڑھتا ہے کہ جس قوم وملک میں اس طرح کی شخصیتیں موجود ہوں، ان شاء اﷲ وہ قوم سرسبز وآباد ہوگی اور اسے نقصان پہنچانے کی کوششیں ناکام ہوں گی۔ وہ انگریزی، عربی اور اردو زبان میں یکساں صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہیں ان زبانوں میں تحریر وتقریر کا یکساں ملکہ حاصل ہے۔ فرانسیسی زبان بھی جانتے ہیں۔ دینی مدرسے میں فارسی بھی پڑھ چکے ہیں۔ قرآن کے حافظ بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں غیرمعمولی ذہانت سے نوازا ہے۔ پاکستان میں عالم اسلام کے جدید وقدیم اسلامی مفکروں اور فاضلوں کے لٹریچر پر جتنی عمیق نظر ان کی ہے، اتنی گہری نظر بمشکل چند افراد کی ہوگی۔ ملت اسلامیہ کو دور جدید میں درپیش چیلنج، علمی، نظری اور عملی طور پر اس چیلنج کی نوعیت اور اس سے عہدہ بر آہونے کے لیے نظریاتی وعملی خاکہ اور اس کے لیے فکر مندی اور اضطراب، ان سارے معاملات میں ملک میں ڈاکٹر موصوف جیسی شخصیتیں خال ہی نظر آتی ہیں۔ 
مختلف موضوعات پر ان کی تقاریر سننے اور مضامین پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف نے متعلقہ موضوع پر پڑھنے والے کے سامنے مواد کے اتنے سارے پہلو رکھ دیے ہیں کہ ان کے لیے متعلقہ موضوع کی گہرائی کو سمجھنا آسان ہوگیا ہے۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے دعوہ اکیڈمی کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے دعوتی نقطہ نگاہ سے اردو، سندھی اور مختلف زبانوں میں جو لٹریچر منتخب کرکے شائع کرنے کا انتظام کیا، اسے دیکھ کر دل بے ساختہ ان کے حسن انتخاب پر داد دینے لگتا ہے۔ دعوہ اکیڈمی کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے اسلامی دعوت کے فروغ کے لیے اسلامی دنیا اور غیر اسلامی دنیا کے طویل دورے کیے، ہر جگہ اہل علم اور اہل فکر سے نشستیں کیں، ان سے حالات سنے اور ان کے سامنے اپناحال دل پیش کیا۔ ان طویل دعوتی دوروں میں جہاں انہوں نے مختلف ممالک میں دعوتی کام کے پھیلاؤ کے لیے تدابیر کیں اور عملی راہیں نکالیں، وہاں ان دوروں سے عالم اسلام کے حالات کے سلسلے میں انہیں بے پناہ تجربہ ومشاہدہ بھی ہوا۔ ہماری سندھی زبان، جو جدید اسلوب میں دعوتی لٹریچر سے خالی تھی، اس میں انہوں نے بعض ایسی اہم بنیادی کتابیں شائع کرکے پھیلا دیں جن کتابوں کی اشاعت سندھ نیشنل اکیڈمی جیسے کمزور اداروں کے لیے مشکل تھی۔ اس طرح انہوں نے سندھی نوجوانوں اور سندھ کے علم وادب پر احسان فرمایا۔ 
ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے قلب سلیم بھی عطا فرمایا ہے، وہ علم وفضل کے حامل خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد صاحب ممتاز عالم دین تھے۔ جن کے برصغیر ہند کے ممتاز علما وصلحا سے گہرے تعلقات تھے۔ ان کے گھر پر علما وصلحا کی آمد ورفت رہتی تھی۔ وہ کتابوں کے ماحول میں پلے اور بڑھے۔ ان کی ابتدائی تربیت نہایت پختہ تھی۔ انہیں شروع سے فکری طور پر صحیح فکری خطوط اور لائن حاصل ہوگئی، چنانچہ ذہانت، صحیح تربیت، فطرت سلیمہ کی بڑی حد تک حفاظت اور صحیح اساتذہ کی رہنمائی اور مسلسل مطالعے ومشاہدے نے ان کو علم وعمل کی ایک مثالی اور پاکیزہ شخصیت بنا دیا۔ ڈاکٹر موصوف کو اللہ تعالیٰ نے پاکیزہ دل بھی عطا فرمایا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے دین کی خدمت کی راہیں کھول دی ہیں۔ تقریر سے بھی، تو تحریر سے بھی اور حکومتی اداروں کے ذریعہ سے بھی۔ اب سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ کے جج کی حیثیت سے اس خدمت کی توفیق دی ہے۔ 
ان کی ان ساری سعادتوں میں جہاں ان کے گہرے مطالعے ومشاہدے اور طویل تجربات کو عمل دخل حاصل ہے، وہاں اس میں ان کی ایک خاص صفت کو بھی بنیادی عمل دخل ہے۔ وہ صفت ان کی بڑے پن سے دستبرداری، چھوٹے پن کا مظاہرہ اور عاجزی وخاکساری کا رویہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے باصلاحیت افراد پر ساری نوازشیں ان کی اس خاص ادا کی وجہ سے ہی ہوتی ہیں جس کا اندازہ ظاہر بین افراد کے لیے مشکل ہے۔ اس عاجز کے ساتھ ان کی محبت محض ان کے حسن ظن کی بنا پر ہے۔ دل سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے اپنے دین کی خدمت کا وسیع ترکام لے اور اخلاص عظمیٰ کی دولت عطا فرمائے۔ (آمین)
(بشکریہ ماہنامہ بیداری، حیدر آباد)

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ : ایک اسم با مسمٰی

جسٹس سید افضل حیدر

(۲۷ ستمبر ۲۰۱۰ء کو وفاقی شرعی عدالت میں ایک تعزیتی ریفرنس میں گفتگو۔)

عزت مآب جسٹس آغا رفیق احمد خان، (چیف جسٹس، وفاقی شرعی عدالت)
عزت مآب جسٹس شہزادو شیخ، (جج، وفاقی شرعی عدالت)
عزت مآب جسٹس (ر) فدا محمد خان، (عالم رکن شریعت اپیلٹ بنچ سپریم کورٹ)
عزت مآب جسٹس محمد الغزالی، (عالم رکن، شریعت اپیلٹ بنچ سپریم کورٹ)

السلام وعلیکم رحمۃ اللہ وبرکاتہ
جسٹس ڈاکٹر محمود احمد غازی کل صبح اپنے خالق حقیقی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے راہئ ملک عدم ہوئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ آج اِس مجلس ترحیم میں ہم مرحوم کے ذکر خیر اور دعائے مغفرت کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔
۱۸؍ ستمبر ۱۹۵۰ء کو حافظ محمد احمد فاروقی کے ہاں دہلی میں جسٹس ڈاکٹر محمود احمد غازی پیدا ہوئے۔ آپ نے آٹھ سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کرلیا تھا۔ آپ نے لسانیات میں خاصا عبور حاصل کیا اور پنجاب یونیورسٹی سے ۱۹۷۲ء میں ایم اے عربی کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۸۸ء میں آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے اسلامک سٹڈیز میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ آپ نے ملکی و بین الاقوامی سطح پر متعدد جامعات کی تشکیل میں بھرپور حصہ لیا۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے صدر بھی رہے۔ دو بار اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن مقرر ہوئے۔ وزارت مذہبی امور کا قلمدان بھی آپ کے سپرد رہا۔ فیصل مسجد اسلام آباد کے خطیب بھی رہے۔ عربی جریدہ ’’الدراسات الاسلامیہ‘‘ کے ایڈیٹر اور معروف علمی رسالہ فکرونظر (اردو) کے ایڈیٹر کی حیثیت سے کئی برس کام کیا۔ آپ متعدد اداروں کے مشیر تھے اور تقریباً ۳۰ کتب کے مصنف تھے جن میں سے ۷ کتب انگریزی زبان میں، ۵ کتب عربی زبان میں اور ۱۸ کتب اردو زبان میں لکھی گئیں۔
مرحوم جسٹس غازی محمود احمد بڑے باحیا انسان تھے۔ آپ خلوص کا پیکر تھے۔ خلوص کے رشتے عمر بھر قائم رہتے ہیں۔ غازی صاحب سے میرا پہلا تعارف دو دہائیاں قبل ۱۹۹۰ء میں ہوا جب ہم دونوں اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن منتخب ہوئے۔ جسٹس محمد حلیم سابق چیف جسٹس پاکستان ہمارے چیئرمین تھے۔ بہت اچھی ٹیم تھی۔ میرے ایما پر کونسل نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے قرآن و سنت کی کسوٹی پر رائج الوقت قوانین کو جانچنے کا فریضہ ایک کمیٹی کے سپرد کیا اور چیئرمین نے ہم دونوں کو اس کمیٹی میں شامل کیا۔ ہم نے مل کر کام شروع کیا۔ یہ فکری و علمی رفاقت دوستی کا روپ دھار گئی۔ بفضلہ تعالیٰ رفاقت کا سفر جاری رہا اور پھر ۲۶؍ مارچ ۲۰۱۰ء سے ہم اس عدالت میں ایک دوسرے کے ساتھی بن گئے۔
جناب آغا صاحب!
ہم دونوں نے دو بار اکٹھے حج بھی کیا اور اس طرح مجھے غازی صاحب کی ایمانی کیفیات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ مرحوم ایک متقی، پرہیزگار اور مخلص انسان تھے۔ اسلامی احکام کی بجاآوری آپ کا طرۂ امتیاز تھا۔ میں اس موقع پر آپ کو بتلاتا چلوں کہ غازی صاحب نے ایک بار علامہ محمد اقبالؒ اور دوسری بار قائداعظم محمد علی جناحؒ کے نام پر حجِ بدل بھی کیے تھے۔ آپ کو ان دونوں شخصیتوں سے اور ان کے فیض سے حاصل ہونے والے اس مملکت خداداد پاکستان سے بہت پیار تھا۔
غازی صاحب کی شخصیت کو ایک نشست میں بیان کرنا میرے لیے ممکن نہیں، کیونکہ ان کے مشاغل اور ان کی کامرانیوں کی فہرست خاصی طویل ہے جس کا ہر ہر جزو بذاتِ خود ایک دفتر ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں بہت کم ایسی ہستیاں دیکھی ہیں جنہیں اللہ تبارک تعالیٰ نے دل و دماغ، علم و عمل اور عمیق بصیرت جیسی صلاحیتوں سے سرفراز کیا ہو۔ آپ کی نگاہ بلند تھی اور آنے والے حالات کا جائزہ لینے اور اس کے لیے تیار رہنے کی صلاحیت بھی غازی صاحب میں موجود تھی۔ بلاشبہ آپ اسم بامسمیٰ تھے۔ تحقیق ان کا وظیفہ تھا۔ مطالعہ اتنا وسیع تھا کہ اِن سے ہم کلام ہونے والا یہ سمجھتا کہ وہ ایک متحرک لائبریری اور زندہ کمپیوٹر سے فیض یاب ہو رہا ہے۔ جو بات کہتے، اس کے پیچھے دلیل ہوتی اور حوالہ بھی فوری طور پر دے دیتے۔ ان کی ذاتی لائبریری اس امر کی شہادت دیتی ہے کہ موصوف تحقیق‘ کھوج اور دریافت میں کتنے کوشاں رہتے۔
غازی صاحب قومی زبان کے علاوہ عربی، فارسی، فرانسیسی اور انگریزی زبانوں میں اپنا مافی الضمیر بیان کرنے پر قادر تھے۔ اردو کے علاوہ کبھی کبھی فارسی میں اشعار بھی کہہ لیتے۔ قرآنی علوم، سنت مطہرہ، سیرت، فقہ اور قانون کے علاوہ ادب سے بھی گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ آپ کی بنیادی دلچسپی اسلام اور دین کے مختلف شعبے تھے۔ خطبات بہاولپور (۲) کے عنوان سے اسلام کے بین الاقوامی تعلقات پر آپ کے بارہ خطبات ایک قابل قدر کارنامہ تھا۔ آپ کے متعدد خطبات اسلامی فقہ میں ایک ممتاز مقام حاصل کرچکے ہیں۔
جناب آغا صاحب!
ڈاکٹر صاحب بنیادی طور پر ایک معلم تھے۔ آپ نے اس میدان میں بھی سنت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کرتے ہوئے اہم کردار ادا کیا۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر آپ نے کئی جامعات کی تشکیل میں بھرپور حصہ لیا۔ عملی زندگی کا ایک طویل حصہ آپ نے درس و تدریس میں گزارا۔ سینکڑوں طالب علموں نے آپ سے رہنمائی حاصل کی۔
غازی صاحب نہ خود زندگی میں کبھی مایوس ہوئے، نہ کسی کو انہوں نے مایوس کیا۔ غازی صاحب سے مشورہ طلب کرنے والا یا مدد مانگنے والا کبھی خالی ہاتھ نہ لوٹا۔ آپ نے طالب علموں کے ساتھ مشفقانہ رویہ روا رکھا۔ میری نظر میں جسٹس غازی ایک درویش فقیہ اور عالم باعمل تھے۔
غازی صاحب نے اصولوں پر کبھی مفاہمت نہ کی۔ آپ نے ہمیشہ اعلیٰ اسلامی اقدار کی پاسداری کی اور نتائج کی پروا کیے بغیر صحیح بات سے انحراف نہ کیا۔ توکل اور قناعت آپ کا اثاثہ تھا، لہٰذا آپ کے پاؤں کبھی نہ ڈگمگائے۔
غازی صاحب کی زندگی کو دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ اسلامی اخلاق کی پابندی اور احکام اسلام کی مخلصانہ پیروی اس تیزرفتار زمانے میں بھی ممکن ہے۔ بقول اقبالؔ آپ شجر سے پیوستہ رہتے ہوئے بہار کی امید کے داعی تھے۔
غازی صاحب اپنی مجالس و محافل کو اللہ تبارک تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر سے مزین کرتے تھے۔ آپ نہایت منکسر المزاج اور حلیم الطبع شخصیت کے مالک تھے۔ انہیں زندگی میں اعلیٰ مقامات حاصل ہوئے، لیکن آپ نے کبھی بھی اپنی کامرانیوں کا ڈھنڈورا نہ پیٹا اور اپنے علم سے کبھی ناجائز فائدہ اٹھانے کی سوچ بھی ان کے پاس سے نہیں گزری۔ آپ اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر پاک سن کر آب دیدہ ہو جاتے۔ چھوٹوں کے ساتھ شفقت اور بزرگوں کا احترام آپ کا وطیرہ تھا۔
غازی صاحب مرحوم کو وطن عزیز کے ساتھ بہت پیار تھا۔ پاکستان کے استحکام کے لیے اکثر دعائیں کرتے۔ آپ کی انہی صفات کے پیش نظر ہمارے محترم چیف جسٹس آغا رفیق احمد خان نے وفاقی شرعی عدالت کے لیے غازی صاحب کا نام خصوصی طور پر تجویز کیا تھا۔ کسے معلوم تھا کہ علم کے اس منبع سے ہم محروم ہو جائیں گے۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔ ہم سمجھ رہے ہیں کہ سورج ڈوب گیا ہے، لیکن کسے معلوم کہ دوسری جانب یہی سورج اپنی آب و تاب سے طلوع ہوچکا ہے۔
بلھےؔ شاہ اساں مرناں ناہیں
گوراں وچ پئے ہور

ایک باکمال شخصیت

پروفیسر ڈاکٹر علی اصغر چشتی

ڈاکٹر محمود احمد غازی کے ساتھ میری پہلی ملاقات مئی ۱۹۸۳ ء میں ہوئی۔ ان دنوں کراچی جاتے ہوئے تین چار دن کے لیے اسلام آباد میں قیام کا موقع ملا۔ میری خواہش تھی کہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی جا کر ایل ایل ایم (شریعہ) کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کی جائیں۔ اس پروگرام کے بارے میں دینی جامعات کے طلبہ کے ہاں تذکرہ رہتا تھا اور مجھے ذاتی طور پر کئی اساتذہ نے اس میں داخلہ لینے کی ترغیب دی تھی۔ میں اپنے ایک عزیز کے ہمراہ جب فیصل مسجد پہنچا تو مین گیٹ کے سامنے استقبالیہ پر ایک ایسے صاحب سے ملاقات ہوئی جس کا تعلق اسلام آباد میں واقع ایک دینی مدرسے سے تھا۔ وہ دن کے وقت ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی میں ملازمت کرتا تھا اور چھٹی کے بعد دینی مدرسہ کی خدمت کرتا تھا۔ اُس نے پوری توجہ کے ساتھ میری بات سنی اور کہنے لگا:
’’میں آپ کی ملاقات ایسے اساتذہ سے کرا دیتا ہوں جو ایل ایل ایم (شریعہ) کے طلبہ کو پڑھاتے ہیں اور اس پروگرام کے بارے میں خوب جانتے ہیں، آپ اُن سے مشورہ کر لیں۔‘‘ 
یہ کہہ کر وہ مجھے ڈاکٹر احمد حسن کے پاس لے گئے۔ ڈاکٹر احمد حسن صاحب کی ٹیبل کتابوں سے بھری ہوئی تھی۔ میں اُن کے سامنے بیٹھ گیا ، اپنا تعارف کرایا اور جب انہیں یہ بتایا کہ میں مجلس تحفظ ختم نبوت کا مبلغ ہوں تو ڈاکٹر صاحب نے بڑی پذیرائی فرمائی۔ ڈاکٹر صاحب سے اجازت لینے کے بعد ہم باہر نکلے اور بائیں طرف آگے بڑھے تو ایک کمرے کے باہر ’’محمود احمد غازی‘‘ کے نام کی تختی لٹک رہی تھی۔ میرے ساتھی نے کہا، یہ صاحب آپ کو بہت اچھا مشورہ دیں گے، آپ ان سے تفصیل کے ساتھ بات کریں۔ ہم نے دروازہ کھٹکھٹایا اور اندر داخل ہو گئے۔ غازی صاحب کی ٹیبل پر مسودات کے ڈھیرتھے۔ پوچھنے لگے : آپ کیسے آئے، کہاں سے آئے؟ میں نے اپنا مدعا بتایا۔ میں نے کہا کہ: 
’’ میرا تعلق نیو ٹاؤن سے ہے اور میں ہفت روزہ ’’ختم نبوت‘‘ کا منیجنگ ایڈیٹر ہوں‘‘۔
کہنے لگے :
’’ میں بہت اہتمام کے ساتھ ہفت روزہ ’’ختم نبوت‘‘ پڑھتا ہوں۔ آپ کے اداریے، مضامین اور نظمیں بھی پڑھتا ہوں۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ آپ سے براہِ راست ملاقات ہوئی‘‘۔
میں نے عرض کیا:
’’ایل ایل ایم (شریعہ) میں داخلہ کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟‘‘
کہنے لگے :
’’آپ کے لیے کوئی مشکل نہیں۔ اشتہار آئے تو درخواست دے دیں۔ داخلہ ہو جائے گا۔‘‘
۱۹۸۳ء کے اواخر میں مجھے کراچی سے شفٹ ہو کر اسلام آباد آنا ہوا۔ اُس سال وفاق المدارس نے سولہ سالہ نصاب مرتب کر کے دینی جامعات کے مہتمم حضرات کو ہدایت کی تھی کہ اس کے مطابق اپنے اپنے مدارس میں پڑھائی کا انتظام کریں۔ اس نصاب پر تفصیلی گفتگو کرنے کے لیے مولانا عبد الحکیم رحمہ اللہ نے جامعہ فرقانیہ راولپنڈی میں اجلاس طلب کیا۔ اس اجلاس میں اسلام آباد اور راولپنڈی کے دینی مدارس کے تمام مہمتمین اور سینئر اساتذہ نے شرکت کی جن میں حاجی اختر حسن (مرحوم) بانئ و مہتمم جامعہ فریدیہ اسلام آباد بہت نمایاں تھے۔ مولانا عبد الحکیم رحمہ اللہ اور قاری سعید الرحمن انہیں بہت پروٹوکول دے رہے تھے۔ میں نے حاجی صاحب سے ملاقات کی تو مولانا عبد الحکیم نے ازراہِ شفقت حاجی صاحب کے سامنے میری تعریف کی اور فرمایا کہ چشتی صاحب فاضل وفاق بھی ہیں اور لاء گریجویٹ بھی ہیں۔ حسنِ اتفاق سے حاجی صاحب کو جامعہ فریدیہ میں صدر مدرس کی پوزیشن کے لیے ایک ایسے استاذ کی تلاش تھی جس کا تعلق علوم دینیہ کے ساتھ ساتھ علوم عصریہ سے بھی ہو۔ اس ضمن میں میرا تذکرہ مولانا ظہور احمد علوی صاحب بھی حاجی صاحب سے کر چکے تھے۔ حاجی صاحب نے اس بارے میں سیٹھ ہارون جعفر صاحب (مرحوم) سرپرست جامعہ فریدیہ سے کہا۔ سیٹھ صاحب مجھے پیر طفیل احمد فاروقی رحمہ اللہ کی وجہ سے جانتے تھے۔ اللہ جل شانہ نے ایسے اسباب پیدا فرمائے کہ مئی ۱۹۸۴ء میں، میں نے جامعہ فریدیہ میں اپنے فرائض سنبھالے۔ 
جامعہ فریدیہ چونکہ فیصل مسجد کے قریب واقع ہے، اس لیے فیصل مسجد آنے جانے کے مواقع بڑی سہولت کے ساتھ میسر آئے۔ جامعہ فریدیہ میں قیام کے دوران میں جب بھی ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی کی لائبریری میں جاتا تھا تو اکثر و بیشتر غازی صاحب سے ملاقات ہو جاتی تھی۔ ایک سال جامعہ فریدیہ کے ساتھ منسلک رہنے کے بعد جون ۱۹۸۵ء میں مجھے دعوۃ اکیڈمی میں بطور لیکچرر کام کرنے کا موقع ملا۔ دعوۃ اکیڈمی جس کا اساسی نام اکیڈمی برائے تربیت ائمہ (Academy for training of Imams) تھا اور بنیادی طور پر ائمہ مساجد اور خطبا و اساتذہ کی تربیت کے لیے اس کا قیام عمل میں آیا تھا، اس میں تربیت ائمہ کا پہلا پروگرام ۱۹۸۵ء کے اواخر میں شروع ہوا۔ اس پروگرام کی تخطیط میں غازی صاحب نے بھرپور حصہ لیا اور جب ہم نے کورسز کی تقسیم کی تو غازی صاحب نے اسلام کے سیاسی نظام کے موضوع پر لیکچرز دینے کی ذمہ داری قبول کر لی۔ شروع شروع میں غازی صاحب ہفتہ میں صرف ایک لیکچر کے لیے تشریف لاتے تھے، لیکن پھر ان کی دلچسپی بڑھی اور انہوں نے ہفتہ میں دو لیکچرز لے لیے۔ یہ وہ دَور ہے جس میں غازی صاحب کے ساتھ ہماری بہت frankness پیدا ہو گئی۔ میں ان دنوں صبح کے وقت لال کڑتی چوک سے بہت سپیشل پان بنوا کر لاتا تھا۔ غازی صاحب لیکچر سے فارغ ہو کر آتے تھے تو ہم چائے پیتے تھے، پان کھاتے تھے اور بہت کھل کر گفتگو ہوتی تھی۔ دعوۃ اکیڈمی کے رفقا سب جمع ہوتے تھے اور بلا تکلف بات چیت ہوتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ بعض مرتبہ موسم سرما میں پرنس بیکرز کراچی کمپنی کے سامنے کرسیاں لگا کر ہم بیٹھتے تھے اور بہت light mood میں غازی صاحب کے ساتھ سلسلۂ کلام چلتا رہتا تھا۔ غازی صاحب جب تک ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی میں رہے ، آپ کا مزاج خالص علمی رہا۔ علمی گفتگو کرتے ہوئے آپ کو وقت کی فکر نہیں رہتی تھی۔ گھنٹہ کے بجائے ڈیڑھ اور کبھی دو گھنٹے شرکاے کورس کے ساتھ سوال و جواب میں گذار دیتے تھے۔ 
۱۹۸۸ ء کے وسط میں دعوۃ اکیڈمی کے انتظامی معاملات نشیب و فراز کا شکار ہوئے اور بعض ایسے ناخوشگوار واقعات رونما ہوئے جن کی وجہ سے اکیڈمی کے تقریباً تمام رفقا بری طرح متأثر ہوئے ۔ ان حالات کے نتیجہ میں یونیورسٹی کی اعلیٰ انتظامیہ نے محمود احمد غازی کو دعوۃ اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل کے منصب کے لیے منتخب کر لیا۔ وہ منظر اب تک میری نظروں کے سامنے ہے جب غازی صاحب اپنا منصب سنبھالنے کے لیے کراچی کمپنی میں واقع دعوۃ اکیڈمی کے دفتر میں تشریف لائے۔ ہم نے مین گیٹ سے باہر آ کر آپ کا استقبال کیا۔ پھر آڈیٹوریم ان کے ساتھ گئے۔ اس موقع پر آپ نے دعوۃ اکیڈمی کے رفقا کے سامنے بہت مختصر سا خطاب کیا ۔ پھر ہمیں اپنے ساتھ مدیر عام کے دفتر میں لے آئے اور اکیڈمی کے مختلف شعبوں کے بارے میں تبادلۂ خیال کیا۔
ڈاکٹر غازی صاحب کی قیادت میں دعوۃ اکیڈمی نے بہت تیزی کے ساتھ ترقی کی۔ قسم قسم کے تربیتی پروگرام شروع ہوئے۔ آرمی آفیسرز کے لیے تربیتی پروگرام ترتیب دیا گیا۔ اساتذہ اور اُدبا کے لیے ورکشاپ کا سلسلہ شروع ہوا۔ بچوں کے ادب کا شعبہ قائم ہوا۔ خط و کتابت کورسز کے ضمن میں مطالعہ تفسیر، مطالعہ حدیث اور مطالعہ اسلام کے عنوان سے پروگراموں کا آغاز ہوا۔ ان کورسز کی سالانہ enrollment پینتالیس پچاس ہزار کے لگ بھگ ہوتی تھی۔ ان بہت سارے پروگراموں کے علاوہ دوپروگرام ایسے شروع ہوئے جو میری براہِ راست دلچسپی کے تھے جن کی تحریک میں نے پیش کی اور غازی صاحب نے انہیں سراہتے ہوئے مجھے ان کی تخطیط کی ہدایت کی۔ ایک بین الاقوامی تربیت ائمہ کورس جس میں زیادہ تر وسط ایشیا کی ریاستوں کے ائمہ مساجد اور خطبا شریک ہوتے رہے۔ بعد میں اس کا دائرہ پھیلا اور کئی ممالک مثلاً سری لنکا، فجی، نیپال، تھائی لینڈ، سنکیانگ اور برما کے ائمہ بھی اس پروگرام سے مستفید ہوتے رہے۔ یہ دعوۃ اکیڈمی کا ایک منفرد پروگرام تھا جس میں غازی صاحب بہت دلچسپی لیتے تھے۔ ڈاکٹر حسین حامد حسان، ڈاکٹر احمد العسّال (مرحوم) اور ڈاکٹر طیب زین العابدین جیسے اساتذہ اس کورس کے شرکا کو لیکچر دینے کے لیے آتے تھے اور بہت خوشی محسوس کرتے تھے۔ دوسرا کورس مطالعۂ قادیانیت کے عنوان سے ان ائمہ اور خطبا کے لیے ترتیب دیا گیا جنہوں نے دعوۃ اکیڈمی سے تربیت ائمہ کا عمومی کورس کر لیا ہو۔ قادیانیت کے موضوع پر چونکہ غازی صاحب نے بھرپور مطالعہ کیا ہوا تھا اور آپ اس موضوع کی اہمیت سے واقف تھے، اس لیے آپ نے اس پروگرام میں بھی بہت دلچسپی لی۔ غازی صاحب نے مجھے ایک بار نہیں، کئی بار اس بات کی ترغیب دی کہ ’’ قادیانیت کا علمی محاسبہ‘‘ کی تعریب کا اہتمام کیا جائے۔ آپ کہا کرتے تھے کہ :
’’ جوشخص اس کتاب کو عربی زبان کے قالب میں ڈھال لے گا، میں اُس کو جنت کی ضمانت دینے کے لیے تیار ہوں۔ مقصد یہ کہ ایسے شخص کے جنتی ہونے میں کم از کم مجھے کوئی شک نہیں ہے۔‘‘
مطالعۂ قادیانیت کے اس کورس کو بڑی پذیرائی ملی اور یہ تسلسل کے ساتھ چلتا رہا، لیکن ۱۹۹۹ء میں جب میں نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی جائن کی تو یہ پروگرام بند ہو گیا۔ بین الاقوامی تربیت ائمہ کا کورس بھی بعد میں بحران کا شکار ہو گیا۔ دعوۃ اکیڈمی میں ڈاکٹر غازی صاحب بطور ڈائریکٹر جنرل ۱۹۸۸ء میں آئے تھے اور ۱۹۹۴ء تک اس منصب پر فائز رہے۔ اس سات سال کے عرصہ میں ہمیں براہِ راست ان کی قیادت میں کام کرنے کا موقع ملا اور ان سے بھرپور استفادہ کے مواقع میسر آتے رہے۔ عام طور سے جامعات کے اساتذہ کا اختصاص کسی ایک مجال (field) میں ہوتا ہے اور وہ اُسی مجال میں گفتگو کرتے ہیں، لیکن غاز ی صاحب کا معاملہ اس اعتبار سے بالکل مختلف تھا۔ آپ تفسیر، حدیث، سیرت، فقہ، کلام، ادب اور تاریخ کے ادق موضوعات پر فی البدیہ گفتگو کرتے تھے اور یوں لگتا تھا جیسے آپ نے اس موضوع پر بولنے کے لیے بہت تفصیل کے ساتھ تیاری کی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اتنا قوی حافظہ دیا تھا کہ اس کا تصور معاصر علما میں نہیں کیا جا سکتا۔
نومبر ۲۰۰۵ء کی بات ہے، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبۂ اقبالیات اور کلیہ علوم اسلامیہ نے علامہ اقبال کے یوم ولادت کی مناسبت سے ایک سیمینار منعقد کیا۔ اس سیمینار میں مختلف جامعات کے معروف و مشہور اقبال شناس جمع تھے۔ ڈاکٹر غازی صاحب نے علامہ اقبال اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر گفتگو شروع کی۔ مسلسل دو گھنٹے آپ بولتے رہے۔ رقت اور جذبات کی ایسی فضا قائم ہوئی کہ حاضرین کے رخساروں پر بلااختیار آنسو بہتے رہے۔ ڈاکٹر الطاف حسین (وائس چانسلر ) جو سیمینار کی صدارت کر رہے تھے، جب صدارتی خطبہ کے لیے اُٹھے تو صدارتی کلمات کہنے کے لیے آمادہ نہ ہو سکے۔ اُس دن غازی صاحب خود بھی اپنے قابو میں نہیں تھے۔ آپ کا ایک ایک لفظ آپ کے دل کی گہرائیوں سے نکل رہا تھا اور سامعین کے دل و دماغ کو گرما رہا تھا۔
عام طور پر ہمارے ہاں جو اساتذہ تقریر کے ماہر ہوتے ہیں، ان کی تحریر اچھی نہیں ہوتی اور جن کی تحریر اچھی ہوتی ہے، وہ تقریر میں کمزور ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر غازی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بہ یک وقت جہاں تحریر کا بہت قوی ملکہ عطا فرمایا تھا، وہاں تقریر کی بہت عمدہ صلاحیت عطا فرمائی تھی۔ آپ اُردو، عربی اور انگریزی تینوں زبانوں میں پوری مہارت کے ساتھ بول بھی سکتے تھے اور لکھ بھی سکتے تھے۔ ایک ہی نشست میں جب عربی بولتے تھے تو یوں لگتا تھا کہ آپ عربی زبان کے ماہر ہیں اور جب انگریزی بولتے تھے تو یوں لگتا تھا کہ آپ انگریزی کے استاد ہیں۔ اُردو تو خیر آپ کی مادری زبان تھی۔ فارسی بہت شستہ بولتے تھے اور فرنچ کے ساتھ بھی بہت حد تک مناسبت رکھتے تھے۔
۲۰۰۱ء میں جب غازی صاحب وفاقی وزیر مذہبی اُمور کے منصب پر فائز تھے تو تعلیم الاسلام کالج کراچی کی انتظامیہ نے اپنی پچاس سالہ تقریبات کا اہتمام کیا۔ تعلیم الاسلام کے موجودہ ریذیڈنٹ ڈائریکٹر جناب عبد الباقی فاروقی صاحب میرے پاس آئے اور ڈاکٹر غازی صاحب کوافتتاحی تقریب میں مہمانِ خصوصی کے طور پر دعوت دینے کا عندیہ ظاہر کیا۔ وہ فکر مند تھے کہ غازی صاحب اپنی مصروفیات سے وقت نکال سکیں گے یا نہیں اور کراچی جانے پر آمادہ ہوں گے یا نہیں۔ بہرحال ہم دونوں غازی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہیں تعلیم الاسلام کالج کی خدمات پر بریفنگ دی اور تقریبات میں شرکت کی دعوت دی۔ غازی صاحب کہنے لگے :
’’ میں تعلیم الاسلام کے بانی پیر طفیل احمد فاروقی رحمہ اللہ کے بارے میں جانتا ہوں۔ وہ اس دَور کے کبار اصحاب بصیرت میں سے تھے۔ میں ان شاء اللہ ضرور حاضر ہوں گا۔‘‘
پھر اپنی مصروفیات کو دیکھتے ہوئے ہمیں تاریخ دے دی۔ افتتاحی تقریب کے موقع پر ڈاکٹر غازی صاحب نے انتہائی مؤثر انداز میں خطاب کیا۔ کراچی کے تمام دینی جامعات کے مہتممین اور اساتذہ کا جم غفیر تھا۔ غازی صاحب نے فرداً فرداً سب سے ملاقات کی۔ اس موقع پر آپ نے اس منصوبہ کا اظہار بھی کیا جو دینی مدارس اور جامعات کے ضمن میں آپ کے ذہن میں تھا۔
کلیہ عربی و علوم اسلامیہ، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کو آغاز سے ڈاکٹر غازی صاحب کی سرپرستی حاصل رہی۔ یہی وجہ ہے کہ جب کلیہ عربی و علوم اسلامیہ کے نوتعمیر کردہ بلاک (شاہ ولی اللہ بلاک) کے افتتاح کا مرحلہ آیا تو آپ کو بلایا گیا۔ غازی صاحب نے بلاک کا افتتاح کیا اور تقریب سے خطاب کیا۔ ۲۰۰۰ء سے لے کر اب تک مجھے یاد نہیں کہ ہم نے آپ کو اپنے کسی پروگرام، ورکشاپ، سیمینار، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے زبانی امتحان کے لیے بلایا ہواور آپ نے انکار کیا ہو۔ کلیہ عربی و علوم اسلامیہ کے بہت سے اسکالرز نے آپ کی نگرانی میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالات مرتب کیے۔ طلبہ کے ساتھ آپ کا رویہ غیر معمولی، نرم اور ہمدردانہ ہوتا تھا اور ہمیں بعض مرتبہ اس بات پر حیرت ہوتی تھی کہ غازی صاحب اس حد تک نرم رویہ کیوں رکھتے ہیں۔ آپ فرماتے تھے کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے سے کوئی عالم یا علامہ نہیں بنتا، بس اتنا ہو جاتا ہے کہ پڑھنے لکھنے سے مناسبت پیدا ہو جاتی ہے، اس لیے اس سطح کے طلبہ کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ پڑھنے اور لکھنے کی طرف آئیں تا کہ ان میں قلم کے استعمال کا ملکہ پیدا ہو۔
اپریل ۲۰۱۰ء میں ہمارے ہاں پی ایچ ڈی کے اسکالرز کی ورکشاپ ہو رہی تھی۔ اس ورکشاپ کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ طلبہ اپنے اپنے موضوع کا تعین کریں اور خاکہ ہاے تحقیق تیار کر لیں تا کہ انہیں بورڈ آف ایڈوانسڈ اسٹڈیز اینڈ ریسرچ کے سامنے پیش کیا جا سکے۔ ڈاکٹر غازی صاحب کو اس ورکشاپ میں لیکچرز دینے کے لیے دعوت دی گئی۔ آپ کا لیکچر چار بجے رکھا گیا تھا، لیکن آپ اڑھائی بجے تشریف لے آئے۔ میرے آفس میں بیٹھ گئے اور خوب گپ شپ لگاتے رہے۔ دوسرے دن آپ کا لیکچر مغرب کے بعد تھا، لیکن آپ عصر کے وقت تشریف لے آئے اور عشا تک ہمارے ساتھ رہے۔ غازی صاحب کے رویے میں اب غیر معمولی وسعت پیدا ہو گئی تھی۔ آپ کی خواہش ہوتی تھی کہ طلبہ آپ سے سوال کریں اور آپ پوری تفصیل کے ساتھ اس کا جواب دیں۔ جواب دینے میں اب آپ کے ہاں بخل کا شائبہ تک نظر نہیں آتا تھا۔
ڈاکٹر غازی صاحب کے ساتھ میری ملاقات سینکڑوں نہیں، ہزاروں مرتبہ ہوئی ۔ ہم نے اُن سے بہت کچھ سیکھا۔ میرے ایم فل کے مقالہ پر آپ نے رپورٹ لکھی اور بہت خوبصورت رپورٹ لکھی۔ جس دن میرے ایم فل کا زبانی امتحان تھا، اُس دن اتفاق سے آپ کو غلام اسحاق خان (مرحوم) نے ایوانِ صدر بلا لیا۔ مجھے بہت پریشانی لاحق ہوئی، لیکن ڈاکٹر صاحب نے ایوانِ صدر سے ڈاکٹر صدیق خان شبلی (سابق ڈین کلیہ سماجی علوم ) کو فون کیااور انہیں بتایا کہ چشتی صاحب کو ڈگری ایوارڈ کر دیں، میں ان کے مقالہ سے مطمئن ہوں۔ فائل پر دستخط کر دوں گا۔
غازی صاحب کو اللہ جل شانہ نے بہت سی خصوصیات سے نوازا تھا، لیکن میں نے ان کی تین خصوصیات ایسی دیکھیں جن میں میرے تجزیہ کے مطابق ان کی کامیابی کا راز مضمر تھا :
آپ کی پہلی خصوصیت یہ تھی کہ آپ اپنی والدہ کے بہت زیادہ فرماں بردار تھے۔ والدہ کی دُعا ئیں آپ کے ساتھ رہیں اور آپ نے ہمیشہ اپنی والدہ کو راضی رکھا۔
دوسری خصوصیت یہ تھی کہ آپ قرآن مجید کا بہت اہتمام کے ساتھ تلاوت کرتے تھے۔ آپ کو جونہی موقع ملتا تھا، آپ اُسے قرآن کی تلاوت میں صرف کرتے تھے، یہاں تک کہ گاڑی میں سفر کے دوران بھی آپ تلاوت کرتے رہتے تھے۔
تیسری خصوصیت یہ تھی کہ آپ مالی معاملات میں حد درجہ محتاط اور دیانت دار تھے۔
ڈاکٹر غازی کی رحلت سے جو خلا پیدا ہوا ہے، وہ معمولی خلا نہیں۔ اس قحط الرجال کے دَور میں آپ کے وجود کی پہلی سے کہیں زیادہ ضرورت تھی، لیکن اللہ جل شانہ کا اپنا نظام ہے۔ اللہ جل شانہ کی مشیت کے سامنے کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ آپ کا انتقال آناً فاناً ہوا۔ ۲۶؍ ستمبر ۲۰۱۰ء کی صبح کو آپ نے عالم دُنیا کو خیر باد کہا ۔ نمازِ ظہر کے بعد نمازِ جنازہ ہوئی۔ نمازِ جنازہ میں اسلام آباد کے تقریباً تمام اہل علم شریک ہوئے۔ ہر شخص سوگوار تھا اور ہر آنکھ اشکبار تھی۔ تاحد نگاہ فضا پکار پکار کر کہہ رہی تھی کہ :
موت العالِم موت العالَم

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ - نشانِ عظمتِ ماضی

ڈاکٹر قاری محمد طاہر

لیجیے، ڈاکٹر محمود احمد غازی بھی عالم بقا کو سدھارے۔ ۲۶ ستمبر ان کا یوم موعود تھا جو آن پہنچا۔ اس یوم موعود کی پہلے نہ ڈاکٹر صاحب کو خبر تھی نہ کسی اور کو۔ صرف داعئ اجل ہی کو علم تھا۔ یہ بھید اسی وقت کھلا جب داعئ اجل نے دستک دے دی۔ ڈاکٹر صاحب اٹھے اورچل دیے۔ کسی کو بتانا بھی گوارا نہ کیا۔ کاش پہلے پتہ چل جاتا، لیکن اگر پہلے پتہ چل بھی جاتا تو بھی دنیا والے کیا کر لیتے۔ اس جہان میں ہر انسان تو بس بے بس ہی ہے۔ 
دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کو اپنے بچوں کی فکر تھی نہ دوست احباب کی۔ دم واپسیں بس اتنا کہا: ’’کیا نماز کا وقت ہو گیا؟‘‘ ظاہر بین لوگوں نے کہا ، نہیں ابھی نماز میں بہت وقت باقی ہے۔ دیدۂ بینا بولی، ڈاکٹر صاحب کی نماز کا وقت ہو گیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب رخصت ہوتے ہوئے پیغام دے گئے۔ 
فرصت کار فقط چار گھڑی ہے یارو
یہ نہ سمجھو کہ ابھی عمر پڑی ہے یارو
اس دنیا میں کسی کو دوام نہیں، اول فنا آخر فنا۔ جانا تو ہر ایک کو ہی ہے لیکن موت موت میں فرق ہے۔ موت اگر کسی کے آنگن میں آئے تو ایک ہی مرتا ہے لیکن فرشتۂ اجل اگر کسی نابغہ روزگار شخصیت کے دروازے پر دستک دے دے تو ایک نہیں پوری قوم کا جنازہ اٹھتا ہے۔ کوئی سمجھے نہ سمجھے، اس حقیقت کا ادراک صاحبان بصیرت ضرور ہی رکھتے ہیں۔ 
ڈاکٹر صاحب حال کی آبرو اور ماضی کی عظمت کا نشان تھے۔ ان کو قدیم و جدید پر یکساں عبور تھا ۔ اردو انگریزی عربی بولتے تو محسوس ہوتا وہ زبان کے بندے نہیں بلکہ زبان ان کی باندی ہے اور الفاظ ان کے غلام جو صف بستہ ہاتھ باندھے حکم کے منتظر کھڑے ہیں۔ زبان کھولتے ہی علم کے موتی رولتے۔ سننے والے مبہوت ہو جاتے اور گفتگو سے گوہر چنتے تھے۔ 
یہ غالباً ۱۹۹۱ء کی بات ہے، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی سب سے پہلی ایم فل کی ورکشاپ تھی۔ اس ورکشاپ میں صوبہ سرحد اور پنجاب کے بیشتر حضرات شامل تھے۔ شاید ایک آدھ صاحب سندھ یا بلوچستان کے بھی ہوں ۔ یہ سب حضرات کالجوں کے لیکچرر یا اسسٹنٹ پروفیسر تھے۔ گویا سب کے سب کسی نہ کسی صورت میں پڑھے لکھے کہلاتے تھے۔ ورکشاپ کا اہتمام یونیورسٹی کی سابقہ عمارت میں کیا گیا تھا۔ اعلان ہوا کہ کل کا لیکچر ڈاکٹر محمود احمد غازی دیں گے۔ ہم اس وقت تک ڈاکٹر صاحب کے نام سے شناسا نہ تھے۔ ہم نے ڈاکٹر صاحب کا نام پہلی مرتبہ ہی سنا تھا۔ بیشتر شرکا کی زبانوں پر ان کی عظمت کے تذکرے تھے۔ لہٰذا سبھی وقت مقررہ پر ہال میں اکٹھے ہو گئے۔ ڈاکٹر صاحب تشریف لائے۔ دراز قد، فیروزی رنگ کا تھری پیس سوٹ، انتہائی سرخ ٹائی، سر پر قراقلی ٹوپی، لباس کی نفاست، آپ کی شخصیت میں خوب نکھار پیدا کر رہی تھی۔ چہرے پر لگی لگی داڑھی۔ مقدارِ داڑھی کو معیارِ اسلام سمجھنے والے حضرات کی جبین پر ’’؟‘‘ کا نشان واضح تھا، لیکن ڈاکٹر صاحب کی عالمانہ فاضلانہ گفتگو نے سکہ جمالیا ۔ بعد میں نجی محفلیں جمیں تو بحث، موضوع بحث اور اندازِ تکلم پر ہی تھی۔ بعض حضرات نے ڈاکٹر صاحب کی داڑھی کے طول و عرض، یک مشت و چہار انگشت کو موضوع بنانا چاہا لیکن ان کی کسی نے نہ سنی، نہ بات کو بڑھایا۔ جہاں علم کا بحربے کنار ہو جائے، وہاں یہ بحثیں سطحی ہوتی ہیں۔ علم و عمل میں فاصلے نہ ہوں تو ظاہری تراش خراش کی حد بندیاں باقی نہیں رہتیں۔ 
یہ ہماری ڈاکٹر صاحب سے پہلی شناسائی تھی۔ جس نے ہمارے دل کو مٹھی بند کر لیا۔ گرفت اتنی پختہ کہ ان کی موت کے بعد اب تک ڈھیلی نہ ہوئی۔ اس کے بعد بیسیوں مرتبہ ملاقات کی مجلسیں جمیں ۔ ہمیشہ یہی لگا، وہ میرے اور ہم ان کے ہیں۔ میری گزارش پر کئی مرتبہ فیصل آباد تشریف لائے۔ ان کی طبیعت میں نہ تکلف تھا، نہ ہی وہ زیادہ رکھ رکھاؤ کے عادی تھے۔ ہمیشہ کھلے دل سے اس طرح ملتے جیسے بچپن کے شناسا ہیں۔ اپنائیت اتنی کہ لگتا گلی گلیان میں اکٹھے کھیلتے کودتے بڑے ہوئے ہیں۔ کبھی اپنے علم کا رعب نہ جمایا، نہ بڑھ کر اپنی ہی کہی ، بلکہ دوسرے کی پورے دھیان اور توجہ سے سنی، پھر اپنی کہی اور دلائل سے زیر کیا۔ اہل علم کی یہی پہچان ہوتی ہے، اسی چیز نے ان کو بڑا بنایا۔ 
آپ کے نام کے ساتھ غازی کا لاحقہ کیوں اور کیسے ہے؟ اس کا علم تو ہمیں نہیں ، ہم اتنا ضرور جاتے ہیں کہ آپ علم کے غازی ضرور تھے۔ کسی موضوع پر بحث میں آپ بڑے بڑے علماء پر غالب آتے تھے۔ یہ تغلب آواز کی بلندی سے نہیں علم کی گہرائی اور گیرائی سے پیدا ہوتا۔ آپ کی رائے مستحکم ہوتی جس پر نصوص کی تائید پیش کرتے تھے اور سامع کو قائل ہوتے ہی بنتی تھی۔ 
ایک مجلس میں اس عاجز نے زکوٰۃ کے حوالے سے بات چھیڑی تاکہ ساز پر مضراب کی ضرب سے دھنیں جنم لیں اور موتیوں کی بارش ہو۔ میں نے مسئلہ تملیک کے بارے میں استفسار کیا۔ فرمانے لگے، تملیک صرف چار مدات میں ہے، دیگر میں نہیں۔ مجھے تعجب ہوا کہ علمائے احناف تو تملیک کو زکوٰۃ کا لزوم قرار دیتے ہیں ۔ فرمانے لگے، قرآن میں آٹھ مدات زکوٰۃ کا ذکر ہے جن میں سے پہلی چار میں تملیک ہے ، مؤخر الذکر چار میں تملیک نہیں ہے۔ میں نے دلیل پوچھی۔ فرمانے لگے ، پہلی چار میں لام تملیک ہے، آخری چار میں نہیں ہے۔ 
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاء وَالْمَسَاکِیْنِ وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوبُہُمْ (۹:۶۰)
ان چاروں مدات میں لام تملیک ہے، لہٰذا ان میں تملیک لازم ہے، لیکن وَفِیْ الرِّقَابِ غلام کو آزاد کرایا جائے گا تو اس کی قیمت کی تملیک غلام کی نہیں بلکہ اس کے مالک کے لیے ہوگی۔ اسی طرح وَالْغَارِمِیْنَ میں تملیک مقروض کے لیے نہیں، قارض کی ہوگی۔ یہی کیفیت وَفِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ میں ہے۔ 
آپ کا علمی قد کاٹھ بہت نہیں بلکہ بہت ہی بلند تھا جہاں پر پہنچنا ہر کہ ومہ کے بس کی بات نہیں۔ یہ بات مسلم ہے کہ علم و عمل ہی انسان کو عزت بخشتا ہے۔ علم روشنی ہے، عمل راستہ۔ آپ کی گرفت دونوں پر یکساں تھی۔ عمل کے بغیر محض علم کبر لاتا ہے اور علم بغیر عمل راستہ کھوٹا کر سکتا ہے۔ آپ کے پاس علم کی قندیل بھی تھی اور راستے کی معرفت بھی۔ اسی سبب آپ کی عزت و توقیر علمی حلقوں میں مسلم تھی، لیکن اس کے باوجود آپ تواضع و انکسار کا مرقع تھے۔ کبھی خود کو بڑا خیال نہ کیا۔ ایک مرتبہ میں نے فون کیا کہ ڈاکٹر صاحب! اگرچہ آپ کی شان سے تو کہیں فروتر ہے، لیکن آپ کی محبت کے پیش نظر جسارت کر رہا ہوں ۔ فیصل آباد میں دارِارقم نام کا چھوٹا سا سکول ہے ۔ اس کی سالانہ تقریب میں آپ کو مہمانِ خصوصی کی کرسی پر بٹھا کر اپنی اور سکول کی عزت کو بڑھانا چاہتا ہوں۔ فون سنتے ہی میرے جملوں پر مسکراتے ہوئے فرمانے لگے: یہ اسکول کی نہیں، آپ میری عزت افزائی فرما رہے ہیں، میں ضرور آؤں گا۔ تاریخ کا تعین ہوگیا، میں نے عرض کی، اسلام آباد و فیصل آباد کے مابین ہوائی سروس نہیں ہے۔ آپ کو زحمت ہوگی، کار پر سفر کرنا ہوگا۔ فرمانے لگے، زحمت نہیں میرے لیے رحمت ہے۔ میں کار پر ہی آؤں گا۔ یوں بھی ہوائی سروس ہوتی تو بھی وقت تو یکساں ہی لگتا۔ ہوائی جہاز میں سفر کریں تو کم از کم ڈیڑھ گھنٹہ پہلے پہنچنا ہوتا ہے۔ ڈیڑھ گھنٹہ پہلے پہنچنے کے لیے گھر سے مزید ایک گھنٹہ قبل روانہ ہونا ضروری ہے۔ پھر فیصل آباد کے ہوائی اڈے سے کلیرنس اور اصل مقام تک پہنچنے میں گھنٹہ ڈیڑھ تو لگتا ہی ہوگا۔ اس طرح کم از کم پانچ گھنٹے تو صرف ہوں گے جبکہ موٹر وے سے ساڑھے تین گھنٹے لگیں گے۔ یہ سب تفصیل آپ کی فطری تواضع کا ثبوت تھی ، وگرنہ سکول کی تقریب میں نہ آنے کے لیے ہوائی سروس کی عدم موجودگی او رمصروفیت کا ذکر بڑے معقول بہانے بن سکتے تھے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کے ہاں یہ تکلفات عنقا تھے۔ یہی ان کی عظمت تھی۔ 
تقریب سے ایک روز قبل میں نے یاد دہانی کے لیے فون کیا۔ میرے کچھ عرض کرنے سے پہلے ہی بولے، مجھے کل کی تقریب بالکل یاد ہے، میں فجر کی نماز کے ایک گھنٹہ بعد چلوں گا۔ میری ذہنی پستی، میں نے عرض کیا کہ دیر ہو جائے گی، آپ کے انتظار میں سامعین کو روکنا، بٹھانا ہمارے لیے مشکل پیدا کر دے گا۔ اگر آپ فجر کی نماز ادا کرنے کے فوری بعد سفر شروع کر یں تو ہمارے لیے سہولت رہے گی۔ آپ نے ایک منٹ توقف فرمایا اور بولے، اچھا ایسا ہی کروں گا۔ اگلے روز ہم موٹر وے پر آپ کے استقبال کے لیے پہنچنے بھی نہ پائے تھے کہ فون آیا: میں موٹر وے فیصل آباد انٹرچینج پر آپ کا منتظر ہوں۔ فون سنتے ہی بڑی خفت ہوئی۔ فوراً موٹر وے کی طرف بھاگے، گاڑی تیز دوڑائی، پھر بھی آدھ گھنٹہ صرف ہوگیا۔ ڈاکٹر صاحب کی گاڑی سڑک کے کنارے کھڑی تھی اور ڈاکٹر صاحب اگلی سیٹ پر بیٹھے تلاوت کلام اللہ میں مصروف تھے۔ ہم نے معذرت کی۔ آپ آگے بڑھے ، منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور فرمایا، معذرت کی ضرورت نہیں، مجھے فائدہ ہوگیا۔ منزل رہتی تھی، پوری کر لی۔ 
تقریب کے اختتام پر فرمانے لگے ، فیصل آباد میں بڑی عظیم شخصیات رہتی ہیں، میں ان سے ملنا چاہوں گا۔ میں نے نام پوچھا۔ بولے، مولانا مجاہد الحسینی اسلاف میں سے ہیں، ان سے مل لیں۔ ہم ڈاکٹر صاحب کو لے کر مولانا مجاہد الحسینی کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ وہ محبت سے اور ڈاکٹر صاحب عزت سے ملے۔ وہاں سے جامعہ امدادیہ چلے گئے، راستہ بھر مولانا کی خدمات کا تذکرہ کرتے رہے۔ 
خط کا جواب لکھنے کے معاملے میں ڈاکٹر صاحب سخی نہیں بلکہ خط کے جواب کو لزوم کا درجہ دیتے۔ خط کا راقم چھوٹا ہو یا بڑا،اس سے غرض نہیں۔ اس نے سلام کے ذریعہ مخاطب کیا ہے، قرآن حکیم کے مطابق سلام کا جواب بھی لازم اور پوچھی گئی بات کا جواب بھی لازم ہے۔ قرآن حکیم میں ہے:
وَإِذَا حُیِّیْْتُم بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّواْ بِأَحْسَنَ مِنْہَا أَوْ رُدُّوہَا (۴:۸۶)
’’جب کوئی تمہیں سلام کرے تو جواب زیادہ احسن طریق سے دو یا اسی کو لوٹا دو۔ ‘‘
ڈاکٹر صاحب کے نزدیک خط کا جواب دینا بھی لازم تھا کہ اس میں لکھنے والا سلام ہی کرتاہے۔ دوسرا حکم بھی فرمانِ الٰہی ہے: فَاسْأَلُواْ أَہْلَ الذِّکْرِ إِن کُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ (۱۶:۴۳)۔
ڈاکٹر صاحب سے شناسا حضرات انہیں خط لکھتے، آپ ہر ایک کا جواب دیتے۔ ہماری دانست میں کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ ڈاکٹر صاحب نے قصداً میرے خط کا جواب نہیں دیا۔ یہ ان کا بڑا وصف تھا۔ اکابر کا معمول بھی یہی رہا۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے حالات و معمولات میں بھی اس بات کی پابندی ملتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب عموماً جواب ہاتھ سے لکھتے۔ کبھی کمپوزنگ یا ٹائپ سے بھی کام لیتے، لیکن عموماً ہاتھ سے جواب لکھنے کی عادت تھی۔ مجھ سے کوتاہ علم اور کوتاہ عمل کے ساتھ بھی اس معاملے میں ان کا معمول سخیانہ تھا۔ میں نے جب بھی لکھا، جواب سرعت سے آیا۔ بالکل اسی طرح جس طرح مطلوب کی معمولی طلب پر طالب لپکتا ہے۔ یہ بات ان کے اخلاق کریمانہ میں سے ایک تھی۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی کی طرف سے لکھے گئے خطوط تحقیق کا مستقل علمی عنوان ہے جس سے بہت سے علمی گوشے منکشف ہو سکتے ہیں۔ شاید کوئی غواص اس علمی سمندر میں اترے اور علمی موتی چنے۔ 
ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ علمی میدان کے شناور تھے۔ پڑھنا لکھنا، زبان کے ذریعے علم کے موتی بکھیرنا ہی ان کا مشغلہ تھا۔ یہ پرویز مشرف کا زمانۂ اقتدار تھا کہ اچانک خبر ملی کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی کو وفاقی حکومت میں وزارت کا قلمدان پیش کیا گیا ہے اور ڈاکٹر صاحب نے اس قلم دان کو سنبھال لیا ہے اور اس پر کام بھی شروع کر دیا ہے۔ پہلی خبر تک تو کسی کو حیرت نہ ہوئی کیونکہ ڈاکٹر صاحب کی صلاحیتیں اس بات کا تقاضا کرتی تھیں کہ ان سے حکومتی سطح پر کوئی اہم خدمت لی جائے۔ چنانچہ حکومت کی طرف سے کرسی وزارت کی پیشکش باعث حیرت نہ تھی، لیکن دو سری خبر کہ ’’آپ نے وزارت کی ذمہ داریاں قبول کر لی ہیں اور بطور وزیر وفاق حلف اٹھا کر کام بھی شروع کر دیا‘‘، اس پر علمی حلقوں میں اضطراب پیدا ہوا، کیونکہ ہر شخص یہ خیال کرتا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کی افتاد طبع اس عہدہ سے مطابقت نہیں رکھتی۔ لیکن یہ امر واقع تھا۔ ڈاکٹر صاحب اپنے اس عہدہ سے فارغ ہوئے تو عقدہ کھلا اور وہ مصلحت سامنے آئی جس کے لیے آپ نے اپنی طبیعت کے برعکس سیاست جیسی پرخار وادی میں قدم رکھنا گوارا کر لیا۔ 
یہ وہ دور تھا کہ جب مدارس کو ختم کرنے یا ان کو حکومتی احکامات کا تابع بنانے کی بھرپور مہم چل رہی تھی اور پرویزی حکومت کے بارے میں یہ حقیقت سامنے آچکی تھی کہ وہ کتوں سے محبت رکھتی ہے اور مصطفےٰ کمال پاشا مشرف کے آئیڈیل ہیں، اسی آئیڈیلزم کے اشتراک کے سبب مشرف حکومت بھی دین سے ہمدردی رکھنے والوں کو نظر بد سے دیکھتی ہے۔ ان معروضی حالات میں ڈاکٹر محمود احمد غازی نے اپنی طبیعت پر جبر کیا اور مدارس کو حکومتی چیرہ دستی سے بچانے کے لیے وزیر مذہبی امور بنے اور مدارس کے دفاع میں کامیاب رہے۔ جب یہ کام ہو چکا تو آپ قلیل عرصہ ہی میں بغیر وجہ بتائے یا بغیر کسی ظاہری سبب کے اس منصب سے علیحدہ ہو گئے۔ 
وزارت سے علیحدگی کے بعد میری ملاقات ڈاکٹر صاحب سے ہوئی۔ میں نے اصل مقصد کو سمجھنے کے باوجود ڈاکٹر صاحب سے چٹکی لی۔ عرض کی، ڈاکٹر صاحب! آپ تو سیاسی ہو گئے۔ میرا سوال نما تبصرہ سن کر بولے، ہرگز نہیں ، میں تو بازارِ سیاست سے بس گزرا ہوں۔ حالات نے ثابت کر دیا کہ اگر ڈاکٹر صاحب مرحوم اس وقت اس پرخار وادی میں قدم نہ رکھتے تو مدارس اور دینی تعلیم کا حلیہ بگڑ چکا ہوتا اور مدارس کے مہتمم حضرات اہتمام سے فارغ بیٹھے ہوتے۔ جبہ بچتا نہ دستار، نہ ہی کھالیں ملتیں بلکہ کھالیں نوچ لی جاتیں۔ ڈاکٹر صاحب پر زبان طعن دراز کرنے والوں کی زبانیں کھنچ چکی ہوتیں۔ 
یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ مشرف دور میں دینی مدارس کے خلاف اٹھنے والے طوفان کو روکنے کی صلاحیت رکھنے والی شخصیت صرف اور صرف ڈاکٹر محمود احمد غازی ہی کی تھی جو قدیم و جدید تمام علوم کی جامع تھی۔ ڈاکٹر محمود غازی واحد شخصیت تھے جو منہ ٹیڑھا کرکے انگریزی بولنے والوں کو مسکت جواب دینے کی اہلیت کے حامل بھی تھے اور ساتھ ہی دینی علوم کی اتھاہ گہرائیوں پر پوری نظر رکھتے تھے اور اس معاملے میں کسی سمجھوتے کے قائل نہ تھے۔ آپ نے اسی زمانے میں مدارس میں رائج نصاب میں معروضی حالات کے تقاضوں کے مطابق قدیم و جدید کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی اور اپنے قلیل دورِ وزارت میں مدارس کے لیے نہایت اہم نصاب مرتب کیا، لیکن افسوس بعض دینی حلقوں نے ڈاکٹر صاحب کے اس دانش مندانہ فعل کو بھی اپنی ذہنی اپج اور مخالفت برائے مخالفت کے جذبے ہی سے لیا، لیکن ڈاکٹر صاحب نے ایسے حضرات کا کوئی نوٹس نہ لیا اور اپنا مشن جاری رکھا۔ جب ڈاکٹر صاحب کی طرف سے اس نصاب کا اعلان ہوا تو راقم نے انہیں ایک خط لکھا جس میں مشورہ دیا کہ آپ بہت اہم کام سر انجام دے رہے ہیں، لیکن براہ کرم کوئی ایسی سبیل بھی تلاش کیجیے کہ علما کا روایتی طبقہ آپ کے خلاف صف آرا نہ ہو اور ایسا نہ ہو کہ آپ کی مثبت مساعی علما کے منفی رویے کا شکار ہو جائیں۔ اس خط کا آپ نے جواب دیا۔ ڈاکٹر صاحب کی طرف سے مجھے جتنے خطوط موصول ہوئے، ان میں صرف یہی ایک خط ہے جو کمپوز شدہ ہے۔ یہ خط انہوں نے اپنی وزاایک رت کے دوران اپنے پرنسپل سیکرٹری سید قمر مصطفےٰ کی طرف سے لکھوایا، وگرنہ باقی دیگر تمام خطوط ان کے اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے لکھا:
’’ڈاکٹر غازی صاحب نے آپ کے مراسلے اور ماہنامہ التجوید کے شمارے کا شکریہ ادا فرمایا ہے۔ انہوں نے مجھے یہ ہدایت فرمائی ہے کہ میں آپ کو مطلع کروں کہ ماڈل دینی مدارس کا نصاب مختلف علماء کرام اور وفاق کے نمائندوں کی مشاورت سے ہی مرتب کیا جا رہاہے۔ ہمیں امید ہے کہ اس نصاب سے مطلوبہ اہداف کا حصول ممکن ہو سکے گا‘‘۔
ڈاکٹر صاحب کو اپنے علم پر کبھی ناز ہوا ہی نہیں۔ کبھی کسی علمی موضوع پر بحث و تمحیص میں اپنی علمیت کو فخر کے انداز میں بیان نہ کرتے بلکہ اپنے سے کم علم آدمی کی بات کو بھی اس طرح سنتے جیسے اس معاملے میں بالکل بے خبر ہیں۔ یہ آپ کی عالی ظرفی کی علامت تھی۔ اسی طرح وزارت کے منصب پر فائز ہوئے تو عاجزی و انکساری میں مزید اضافہ ہو گیا۔ ان کی وزارت ہی کے ایام کا واقعہ ہے کہ راقم کو آپ کی طرف سے کتابوں کا بنڈل بذریعہ ڈاک موصول ہوا۔ باہر وزارت حج و اوقاف کی مہر موجود تھی۔ میں نے بنڈل کھولا ، اس میں کچھ اہم علمی کتب تھیں۔ ساتھ ہی آپ کا خط تھا ۔ لکھا تھا کہ حج کے دوران مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ جانا ہوا۔ مہتمم مولانا حشیم صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے آپ کو یہ کتب بھیجنا تھیں۔ وہ متردد تھے کیسے بھیجوں۔ میں نے کہا مجھے دے دیں ، میں پاکستان جاکر پہنچا دوں گا۔ مجھے کتابیں وصول کرکے خوشی ہوئی اور اس سے زیادہ خوشی اس خط کو پڑھ کر ہوئی کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی کس قدر متواضع اور منکسرالمزاج ہیں جو اہل علم کاخاصہ ہے۔ میں نے شکریے کے طور پر فون کیا تو فرمانے لگے، شکریے کی کیا بات ہے ۔ میں آ ہی رہا تھا اور میں نے کتابیں خود تھوڑے اٹھانا تھیں۔ سامان میں آگئیں، ڈاک سے آپ کو پہنچ گئیں۔ پھر کہنے لگے ، ان کتابوں کے مطالعے سے آپ کو جو فائدہ ہوگا تو اس ثواب کا کچھ حصہ میرے نامہ اعمال میں بھی لکھا جائے گا۔ اب وہ دنیا میں نہیں لیکن ان کے ان جملوں کی حلاوت میرے کانوں میں رس گھول رہی ہے۔ میرا شعور اور لاشعور دونوں بین کرتے ہیں۔ کاش جیتا کوئی دن اور، کاش موت کا فرشتہ ڈاکٹر صاحب کا گھر بھول جاتا اور اسلام آباد کے پہاڑی سلسلہ میں گم ہو کر خائب و خاسر ہی لوٹ جاتا۔ لیکن ایسا ممکن نہیں ، فرشتۂ اجل بھی ویفعلون مایؤمرون (۶۶:۶) کا پابند ہے۔ 
۲۰۰۱ء میں آپ وزیر مذہبی امور تھے۔ سرکاری منصب کے حوالے سے حج وفد کی سربراہی آپ کے سپرد تھی۔ حج کے لیے تشریف لے گئے۔ ہمارے ایک دوست مصباح الحق صدیقی صاحب ، جو نیشنل بنک میں آفسر ہیں، بھی اس سرکاری وفد میں شامل تھے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک روز وضو اور حوائج ضروریہ کی تکمیل کے لیے سب لوگ قطار بنائے باری کا انتظار کر رہے تھے۔ میں نے ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب کو بھی قطار میں لگے انتظار کرتے دیکھا۔ میں ان سے آگے تھا، ڈاکٹر صاحب تین چار افراد کے پیچھے کھڑے تھے۔ میں نے احتراماً عرض کی ، آپ مجھ سے آگے تشریف لے آئیں۔ ڈاکٹر صاحب نے شکریہ ادا کیا اور اپنی جگہ پر ہی کھڑے رہے، آگے نہ بڑھے۔ میں ان کی یہ تواضع و انکساری اور اصول کی پابندی دیکھ کر بہت متاثر ہوا۔ جب آپ وضو سے فارغ ہوئے تو میں نے آگے بڑھ کر سلام کیا اور عرض کی کہ ڈاکٹر قاری محمد طاہر مدیر التجوید میرے دوست ہیں۔ ان کے حوالے سے آپ سے ملنا چاہتا ہوں ، وقت دے دیجیے۔ خندہ پیشانی سے بولے، میرے خیمہ کا نمبر یہ ہے۔ آپ جس وقت چاہیں تشریف لائیں، مجھے بہت خوشی ہوگی۔ مغرب کی نماز سے فارغ ہو کر ان کے خیمہ کی طرف چل دیا۔ آپ تلاوت کلام اللہ میں مشغول تھے۔ میں پیچھے بیٹھ گیا۔ جب آپ فارغ ہوئے تو مجھے دیکھا ، بہت ہی خوشی سے میرا استقبال کیا۔ میرے ہاتھ میں آپ کا کتابچہ بعنوان آسان حج پکڑا ہوا تھا۔ آپ نے وہ کتابچہ لیا ، کچھ ورق گردانی کی۔ فرمایا بہت مختصر اور مفیدہے۔ انہوں نے از خود تعریفی کلمات اس کتابچہ پر تحریر کر دیے۔ واپسی پر مصباح الحق صدیقی صاحب نے وہ کتابچہ مجھے لا کر دیا اور سارا واقعہ بھی سنایا۔ میرے دل میں ڈاکٹر صاحب کی عظمت مزید ہوئی۔ آپ کس قدر تعلق خاطر کو نبھانے والے ہیں۔ آپ کی وہ دو سطریں راقم کے پاس محفوظ ہیں اور میرے لیے سرمایہ حیات کا درجہ رکھتی ہیں۔ 
کوئی شخص فقیر ہو یا امیر، عالم ہو یا صوفی، بادشاہ ہو یا گدا، سب کا حاصل حیات گور کے علاوہ کچھ نہیں ۔ جو آیا جانے ہی کے لیے، رہنے کے لیے تو کوئی آتا ہی نہیں۔ علامہ اقبال نے زندگی کی اسی حقیقت سے پردہ سرکایا ہے۔ 
بادشاہوں کی بھی کشت عمر کا حاصل ہے گور 
جادۂ عظمت کی گویا آخری منزل ہے گور
بادشاہ و امراء دنیا میں زر و زمین چھوڑ جاتے ہیں جن پر بعد والے لڑتے جھگڑتے ہیں۔ قتل و غارت اور خون ریزی سے بھی گریز نہیں کرتے لیکن علماء کا ورثہ علم ہوتا ہے۔ فرمان رسول ہے: العلماء ورثۃ الانبیاء۔ علما، انبیا کے وارث ہیں۔ انبیا کی وراثت درہم و دینار نہیں ہوتے، ان کا ترکہ علم ہوتا ہے۔ زندہ رہیں تو علم کی میراث تقسیم کرتے ہیں۔ دنیا سے رخصت ہوں تو ترکہ میں بھی علمی وراثت ہی ہوتی ہے جس سے ایک زمانہ صدیوں کسب فیض کرتا ہے۔ امام غزالی ایران کے شہر طوس میں محو استراحت ہیں۔ آپ کو رخصت ہوئے صدیاں بیتیں لیکن ان کی کیمیائے سعادت روشنی بکھیر رہی ہے۔ بہت سے غیر مسلم کیمیائے سعادت کو پڑھ کر مسلمان ہوئے۔ سعید ارواح اس سے علمی کیمیا گری کے اصول حاصل کر رہی ہیں۔ امام الہند شاہ ولی اللہ مہندیاں دہلی میں آسودہ خاک ہیں لیکن حجۃ اللہ البالغہ سے پوری دنیا میں اہل علم من کی دنیا کو اجال رہے ہیں اور تاقیامت اجالتے رہیں گے۔ 
اسی طرح ڈاکٹر محمود احمد غازی کی پاکیزہ روح بھی جلد ہی عالم ارواح کو سدھار گئی۔ اسلام آباد کی مٹی نے ان کے جسم کو پناہ دے دی۔ وہ یقیناًمٹی تلے آسودۂ رحمت ہیں لیکن وہ اپنے قلم سے اتنا کام ورثہ کے طور پر چھوڑ گئے ہیں کہ ان کے قلم سے نکلی تحریریں بہت سے کم علموں کو علم کی مالاؤں سے آراستہ کرتی رہیں گی۔ ان کی ایک ایک کتاب ہی پی ایچ ڈی کے لیے مستقل عنوان ہے۔ دورِ حاضر میں ذہن بنجر ہو گئے ہیں۔ تحقیق کے لیے عنوانات تلاش کرنا بھی کارے دارد، لیکن ڈاکٹر غازی کی کتابیں اور تحریریں غواص حضرات کو مزید راہیں عطا کرتی ہیں اور کرتی رہیں گی۔ 
ڈاکٹر محمود احمد غازی کی قلمی میراث میں محاضرات قرآنی، محاضراتِ حدیث، محاضراتِ فقہ، قانون بین الممالک، اسلام اور مغرب تعلقات، مسلمانوں کا دینی و عصری نظام تعلیم، اسلامی بنکاری: ایک تعارف، قرآن مجید:ایک تعارف انتہائی اہم ہیں۔ ان میں سے ہر تحریر مستقل موضوع ہے، جس کو بنیاد بنا کر علم و تحقیق کے شناور مزید گوہر تابدار تلاش کر سکتے ہیں۔ ان کتب کے علاوہ ملکی و غیر ملکی جرائد میں طبع ہونے والے مضامین تحقیق کے لیے مستقل موضوع ہیں جن سے طلبہ اپنی پیشانیوں پر پی ایچ ڈی کے تمغے سجا سکتے ہیں جس سے ان کا دسترخوان بھی بابرکت ہو سکتا ہے۔ 
ڈاکٹر صاحب کو اللہ نے جہاں تحریر کا ملکہ دیا، وہاں تقریر کا ملکہ بھی وافر عطا کر رکھا تھا۔ ان کی ہر تقریر کئی کتب پر بھاری ہوتی۔ بولتے تو محسوس ہوتا کہ علم کا بحرِ بے کراں ہے، سننے والوں کا دامن موتی سمیٹنے سے کوتاہ نظر آتا۔ دورانِ تقریر امہات الکتب سے ایسے ایسے حوالے پیش کرتے جیسے موسوعہ کھل جائے۔ 
ڈاکٹر صاحب دھیما مزاج رکھتے تھے۔ ہمیشہ خوش رہتے ، خوش رکھتے، لیکن اس کے باوجود میں نے انہیں ایک مرتبہ غصہ میں بھی دیکھا لیکن عام لوگوں کی طرح وہ غصہ میں غضبناک نہ ہوتے۔ ۲۰۰۷ء کی بات ہے، مشرف صدر تھے۔ انہوں نے بین المذاہب ہم آہنگی کا ڈول ڈالا۔ ان کا خیال تھا کہ مختلف مذاہب کو اکٹھا کر دیا جائے تاکہ مختلف مذہب رکھنے والے لوگوں خصوصاً عیسائیت کے ساتھ اسلام کا اور عیسائیوں کے ساتھ مسلمانوں کا رشتہ مستحکم ہو اور ہم پوری دنیا خصوصاً امریکہ کو باور کرا سکیں کہ ہم میں اور عیسائیت میں ہم مشربی ہے۔ 
اس مقصد کے لیے صدر صاحب نے اسلام آباد میں عیسائیوں اور مسلمانوں کا مشترکہ اجلاس بلایا جس میں پاکستان بھر سے تقریباً دو ڈھائی سو کے قریب علماء کو اکٹھا کیا گیا۔ پاکستان کے چوٹی کے عیسائی بشپ اور فادر وغیرہ بھی بلائے گئے۔ ایک آدھ ہندو اور سکھ پیشوا بھی شریک ہوئے۔ کراچی سے مولانا تقی عثمانی ، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، اسی مقام کے شیعہ حضرات بھی شریک ہوئے۔ راقم بھی مدعوین میں سے تھا۔ صدر مشرف نے صدارت فرمائی۔ مولانا فضل الرحیم جامعہ اشرفیہ نے مولانا احتشام الحق تھانوی مرحوم کی لے میں تلاوت کی اور تعالوا الی کلمۃ سواء بینا و بینکم (۳:۶۴) کی آیات پڑھیں۔ علماء کرام اور عیسائی پیشواؤں نے اسلام اور عیسائیت کے فضائل بیان کیے۔ علماء کرام نے اسلام کو عیسائیت کے قریب اور عیسائیوں نے عیسائیت کو اسلام کی اصل ثابت کرنے کی کوشش کی۔ حسب معمول انتہائی پر تکلف چائے پر اجلاس ختم ہو گیا۔ یہاں سے فارغ ہو کر ہم ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب سے ملنے کی غرض سے ان کے دفتر گئے۔ جو فیصل مسجد سے متصل تھا۔ ڈاکٹر صاحب حسب عادت و حسب معمول انتہائی تپاک ، محبت اور خوش روئی سے ملے۔ اسلام آباد آنے کی غرض پوچھی۔ میں نے بین المذاہب ہم آہنگی اجلاس کی روداد سنائی۔ ڈاکٹر صاحب کا چہرہ پر ملال ہوا۔ بولے عقیدہ توحید و تثلیث میں مماثلت کس طرح ممکن ہے؟ میرے دورِ وزارت میں بھی ایسی کوشش ہوئی تھی، میں آڑے ہی آیا جس پر حاملین تثلیث ناراض ہوئے۔ ہمیں اللہ کی رضا جوئی مقصود ہونی چاہیے۔ حالات کیا رخ اختیار کریں ، اس سے غرض درست نہیں۔ ڈاکٹرصاحب کا لہجہ سخت تھا۔ مجھے احساس ہوا ایں گناہ ہست کہ من ہم کردم ۔ کئی روز دل کچوکے لگاتا رہا۔ 
عالمی رابطہ ادب اسلامی، ادبا کی ایک تنظیم ہے جس کی بنیاد عالم اسلام کے نامور عالم، مؤرخ ، ادیب، متصوف بزرگ سید ابو الحسن علی ندوی نے رکھی تھی۔ آپ عالمی رابطہ ادبِ اسلامی پاکستان کے رکن تھے۔ آپ کے مرتبہ و مقام کے اعتبار سے اس کا رکن ہونا آپ کے لیے کوئی بڑے اعزاز کی بات نہ تھی بلکہ آپ کی رکنیت عالمی رابطہ ادب اسلامی کے لیے باعث عزت و افتخار تھی۔ لیکن جب بھی آپ سے ا س حوالے سے ملاقات ہوئی، ہمیشہ یہی فرمایا کہ اس تنظیم کا رکن ہونا میرے لیے اعزاز و فخر کی بات ہے۔ راقم اس تنظیم کا جنرل سیکرٹری تھا۔ اس حوالے سے مجھے ہمیشہ بہت عزت عطا فرمائی۔ میری ادارت میں ’’اخبارِ رابطہ‘‘ کا اجرا ہوا۔ اس کا پہلا شمارہ شائع ہوا تو میری حوصلہ افزائی کی اور بہت ہی خوشی کا اظہار کیا۔ فرمانے لگے ، اگر آپ کی یہ کوشش مسلسل جاری رہی تو رابطہ ان شاء اللہ بہت ترقی کرے گا۔ اہل علم سے رابطہ کرنے میں سہولت بھی ہوگی اور رابطہ کی سرگرمیوں کے بارے میں آگاہی رابطہ میں تحریک کا سبب بنے گی۔ 
رابطہ کے بعض عہدیداران کو وہم ہوا کہ ڈاکٹر صاحب رابطہ کے صدر بننے کی خواہش رکھتے ہیں حالانکہ امر واقعہ یہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب کے لیے رابطہ کا صدر ہونا قطعاً خواہش کی بات نہ تھی۔ وہ اس عہدہ سے کہیں بڑے تھے۔ آپ کو اس کی خبر ملی تو مسکرائے اور اتنا فرمایا کہ میں تو صرف اس لیے اس کا رکن ہوں کہ مولانا ابوالحسن علی ندویؒ نے مجھے از خود اس کا رکن نامزد کر دیا تھا۔ یہی میرے لیے اعزاز کی بات ہے ۔ وگرنہ میں نے ان کے جملے سنے اور محسوس کیا کہ زبان سے نہیں بلکہ حال سے فرما رہے ہیں۔ 
سو پشت سے ہے پیشہ آبا سپہ گری
کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے 
سچی بات ہے کہ ڈاکٹر محمود غازی کا وجود رابطہ ادب اسلامی کے لیے عزت و افتخار کا سبب تھا، وگرنہ ڈاکٹر صاحب موصوف اس قسم کے اعزازات سے ارفع و اعلیٰ تھے۔ یہ غالباً ۲۰۰۴ء کی بات ہے۔ میں اس وقت عالمی رابطہ ادب اسلامی پاکستان کا جنرل سیکرٹری تھا۔ مولانا فضل الرحیم اس کے صدر تھے۔ مجلس شوریٰ میں یہ بات طے ہوئی کہ مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کے حوالے سے بین الصوبائی سطح پر سیمینار منعقد کیا جائے جو اسلام آباد میں ہو۔ اس سیمینار کے ابتدائی انتظامات کے حوالے سے میرے ذمہ یہ خدمت لگائی گئی کہ میں اسلام آباد جاکر ڈاکٹر صاحب سے رابطہ کروں اور سیمینار کے لیے جگہ اور تاریخوں کا تعین کروں۔ میں اسلام آباد گیا، ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی۔ میں نے مدعا عرض کیا، خوش ہوئے۔ فرمانے لگے، اس نیک کام کے لیے اسلامی یونیورسٹی کے ہال کو رابطہ والے اگر قبول کریں تو اعزاز ہوگا۔ اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں۔ میں خوشی سے دل ہی دل میں اچھل پڑا، لیکن میں نے اپنی خوشی چھپائے رکھی، ظاہر نہ ہونے دیا اور عرض کیا کہ آپ کی پیش کش اپنی جگہ، میں اکیلا فیصلہ نہیں کر سکتا۔ لاہور جاکر دوستوں سے عرض کروں گا۔ جو فیصلہ ہوگا، آپ تک پہنچا دوں گا۔ یہ ڈاکٹر صاحب کی عظمت تھی۔ فرمانے لگے، مولانا فضل الرحیم صاحب کے سامنے میری پیشکش رکھیں، وہ ان شاء اللہ مان جائیں گے۔ مجھے حوصلہ ملا تو میں نے دست طمع دراز کیا۔ عرض کی ، ڈاکٹر صاحب اگر آپ کی اس پیشکش کو قبولیت ملے تو آپ رابطہ کے ساتھ مالی معاونت کیا فرمائیں گے؟ ڈاکٹر صاحب میری اندرونی کیفیت کو بھانپ گئے۔ میری طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا ، زیرلب مسکرائے۔ اب مجھ سے ضبط نہ ہوا، میرے حسن طلب کے جذبات چہرے اور آنکھوں سے ہویدا ہو گئے تو ڈاکٹر صاحب بھی کھل کر ہنس دیے۔ فرمانے لگے، ہال کا خرچ، بجلی پانی کا خرچ اور تقریب کے بعد کھانا سب اسلامی یونیورسٹی برداشت کرے گی اور سامعین کی کمی بھی پوری کر دے گی۔ ساتھ ہی فرمانے لگے ، اب تو شوریٰ سے منظوری کی ضرورت نہ ہوگی! میں نے چٹکی لی، عرض کیا: آپ عالمی رابطہ ادب اسلامی کے بڑے قدر آور رکن ہیں۔ آپ سے مشورے کے بعد کسی اور کے مشورے اور منظوری کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ ہم دونوں اس مکالمے کا حظ کافی دیر تک لیتے رہے۔ 
اس جگہ ایک انتہائی اہم واقعہ کا تذکرہ بہت ضروری ہے جو غازی مرحوم کے حوالے سے قوم کی امانت ہے۔ مقررہ تاریخوں پر مذکورہ سیمینار اسلامی یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں منعقد ہوا۔ ایک اجلاس کی صدارت ڈاکٹر صاحب مرحوم نے فرمائی۔ اپنے خطبہ صدارت میں آپ نے مولانا ابوالحسن علی ندوی کے حوالے سے انتہائی اہم بات ارشاد فرمائی۔ میری دانست میں یہ بات پوری پاکستانی قوم کی امانت ہے جس کا ذکر اس جگہ بہت ضروری ہے۔ شاید اس بات سے ہمارے سیاست کار اپنا قبلہ درست کر سکیں اور حق و باطل میں امتیاز کی لکیر کھینچنے کا حوصلہ حاصل کریں۔ 
ڈاکٹر صاحب فرما رہے تھے کہ مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کو خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی۔ آپ فرما رہے تھے کہ مدینہ منورہ میں صورت حال مخدوش ہے۔ اس کا تدارک ضروری ہے۔ مولانا ندوی اس خواب کی تعبیر و توضیح پر سوچ بچار کرتے رہے۔ ان کے ذہن میں اللہ نے بات ڈالی کہ خواب اہم ہے اور انتظامی معاملہ ہے۔ اس کی اطلاع پاکستان کے صدر جنرل محمد ضیاء الحق کو کرنا ضروری ہے۔ یہ سوچ کر آپ فوراً کراچی پاکستان تشریف لائے اور اس وقت کے وزیر قانون اے کے بروہی سے رابطہ کیا اور کہا کہ میری ملاقات فوراً جنرل محمد ضیاء الحق سے کرانے کا بندوبست کریں۔ بروہی صاحب نے ضیاء الحق سے رابطہ کیا اور مولانا ندوی کا پیغام پہنچایا۔ ضیاء الحق مرحوم نے کہا کہ مولانا عالم اسلام کے بڑے مفکر ہیں، انہیں اسلام آباد آنے کی زحمت نہ دیں۔ میں فوراً ان کی خدمت میں کراچی حاضر ہو رہا ہوں۔ جنرل مرحوم اسی وقت عازم کراچی ہو گئے۔ مولانا سے ملاقات ہوئی۔ ندویؒ نے اپنا خواب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام ضیاء الحق کو بتلایا۔ غازی صاحب کے بقول خواب بیان کر چکنے کے بعد مولانا ندویؒ اپنی نشست سے اٹھے اور ضیاء الحق کی قمیص کا کالر پکڑا اور فرمایا کہ میں نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام آپ تک پہنچا دیا ہے۔ میں بری الذمہ ہوں۔ اس موقع پر ڈاکٹر غازی صاحب کی آواز بھرا گئی۔ کہنے لگے ، یہ خواب سن کر ضیاء الحق مرحوم رونے لگے اور مولانا سے قدرے توقف سے بولے، مولانا! اب اگر ایسی صورت پیش آئے تو میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیجیے گا کہ پاکستان کی فوج کا ہر جوان مدینہ منورہ کی حفاظت کے لیے کٹ مرے گا۔ مدینہ منورہ پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔ ان شاء اللہ کوئی آنچ نہیں آئے گی۔ ڈاکٹر غازی صاحب کی زبان سے یہ ساری بات سن کر پورے مجمع پر رقت طاری ہو گئی۔ اس کے بعد جنرل مرحوم نے جو اقدامات کیے، وہ اس وقت کے اخبارات کا حصہ ہیں۔ 
ڈاکٹر صاحب عالمی شہرت رکھتے تھے۔ پورا عالم اسلام ان کا قدر شناس تھا۔ ان کی آواز میں وزن تھا۔ عالمی رابطہ ادب اسلامی کے بزرجمہر اگر چاہتے تو ڈاکٹر صاحب کے مرتبہ و مقام سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتے تھے لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ اپنی ذات کے ہالے میں گم رہنے والے حضرات کی کوتاہ فکری نے فکر ندوی کو محدود رکھنے میں عافیت تلاش کی اور ’انا ولا غیری‘ کے جذبے کے تحت ادیبوں کو اس تنظیم سے اور اس تنظیم کو ادیبوں سے دور رکھنے کی شعوری کوشش میں کامیاب رہے، اسی لیے اہل بصیرت عالمی رابطہ ادب اسلامی کو عارفی رابطہ ادب اسلامی کہہ کر حظ لیتے ہیں۔ 
ڈاکٹر محمود احمد غازی زاہد تھے، لیکن خشک ہرگز نہ تھے۔ آپ کی طبیعت شگفتہ تھی۔ علمی لطائف سے دوران گفتگو رنگ بھرتے تھے۔ سننے والا محظوظ ہوتا۔ میرے ہمراہ مولانا مجاہد الحسینی سے ملنے گئے تو بات تبلیغی جماعت کے حوالے سے چلی۔ فرمانے لگے، مولانا الیاسؒ کا کارنامہ ہے کہ انہوں نے میواتیوں کو مسلمان کیا جبکہ آج کل تبلیغی جماعت والے مسلمانوں کو میواتی بنا رہے ہیں۔
ان کے ہمراہ ایک مرتبہ واش بیسن پر وضو کرنا مجبوری بن گیا۔ میں نے عرض کی اس معاملے میں اہل حدیث حضرات کے مزے ہیں۔ جرابوں پر مسح کرکے فارغ ہو جاتے ہیں۔ یہ پاؤں اٹھانا، سنک میں رکھنا ، اس مشکل سے جان چھوٹ جاتی ہے۔ فرمانے لگے ، یہ بات درست ہے۔ مجھے اس کا تجربہ اور اس کی اہمیت کا اندازہ ایک غیر ملکی سفر میں ہوا جب میں نے ایک ہوائی اڈے پر وضو کے لیے واش بیسن کا رخ کیا۔ جب حسب عادت منہ اور بازو دھونے کے بعد پاؤں دھونے کی غرض سے ٹانگ پکڑی اور پاؤں واش بیسن میں رکھا تو ایک غیر ملکی نے میری اس حرکت کو بنظر حقارت دیکھا۔ اس وقت مجھے جرابوں پر مسح کر لینے کی رخصت کی اہمیت کا پتہ چلا۔ میں نے ازراہ استفسار پوچھا کہ پاؤں پر مسح کرنے کے لیے موزے کی شرائط کیا ہیں؟ فرمانے لگے، چار شرائط ہیں۔ میں نے چونک کر پوچھا، ہم نے تو تین پڑھی ہیں، چوتھی شرط کون سی؟ فرمانے لگے، پہلی شرط یہ کہ تین چار میل چلے تو پھٹے نہیں۔ دوسرے یہ کہ موسمی اثرات سے محفوظ رکھے۔ تیسرے یہ کہ پاؤں پانی میں ڈالیں تو پانی جلد تک سرایت نہ کرے۔ مسکرا کر فرمانے لگے: اور چوتھی یہ کہ اس وقت کوئی حنفی مولوی صاحب پاس نہ ہوں۔ 
ایک مرتبہ ہم نے عالمی رابطہ ادب اسلامی کے تحت فیصل آباد میں سیمینار منعقد کرایا۔ ڈاکٹر صاحب کو دعوت دی، آپ تشریف لائے۔ بڑی علمی گفتگو فرمائی۔ واپسی پر میں نے کچھ رقم سفر خرچ کے طور پر مصافحہ کرتے ہوئے پیش کرنا چاہی تو انکاری انداز میں بولے، بھئی یہ کیا سلسلہ ہے؟ میں نے عرض کی، بس قبول کر لیجیے تو زور سے بولے، آخر کس سلسلے میں؟ کوئی سلسلہ تو بتاؤ۔ میں نے فوراً عرض کی ، جناب یہ سلسلہ چشتیہ قادریہ نہیں بلکہ سلسلہ مالیہ ہے۔ میرے اس جواب پر ڈاکٹر صاحب بڑے محظوظ ہوئے اور خوب مسکرائے۔ 
ڈاکٹر صاحب عموماً موبائل فون نہیں رکھتے تھے۔ کئی مواقع ایسے آئے کہ ڈاکٹر صاحب سے بات کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی، لیکن ہمارے پاس ان کا موبائل نمبر ہی نہ تھا۔ خیال ہوتا کہ اب ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوگی تو موبائل نمبر لے کر لکھ لوں گا، لیکن ہر ملاقات پر ایسا کرنا بھول جاتا تھا۔ ایک روز یاد آہی گیا، ہم نے مطالبہ کیا، ڈاکٹر صاحب اگر پسند فرمائیں تو موبائل نمبر دے دیں۔ آپ نے فرمایا، میں تو موبائل فون رکھتا ہی نہیں۔ ہم نے فوراً تعجب سے پوچھا، ڈاکٹر صاحب ہمیں ما اور لمَ کا حق تو نہیں، یہ آپ کا ذاتی معاملہ ہے۔ لیکن اجازت دیں تو پوچھ لوں کہ آپ نئی ایجادات سے کیوں بدکتے ہیں؟ آپ نے موبائیل فون کیوں نہیں رکھا؟ ڈاکٹر صاحب نے بات سنی اور بغیر کسی توقف کے فرمانے لگے: إِثْمُہُمَا أَکْبَرُ مِن نَّفْعِہِمَا (۲:۲۱۹)۔
گویا ڈاکٹر صاحب نے ہمیں ہنسایا اور چپ بھی کرا دیا۔ میں نے جواب سنا تو خوب لذت لی۔ جب بھی ان کا جواب ذہن میں آتا ہے، بڑا حظ ملتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے اس جملے نے ذہن کی تاروں کو چھیڑا تو ہم نے موبائل کے عنوان سے کالم لکھا۔ جس کے مندرجات یہ تھے:
’’ڈاکٹر محمود احمد غازی ہمارے ملک کے نامور معروف دانشور ہیں۔ ان کا شمار ان اہل علم میں ہوتا ہے جو قدیم وجدید علوم کا ادراک رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے اہل علم ہمارے ملک میں خال خال ہی ہیں۔ وہ مرکزی حکومت کے سابق وزیر مذہبی امور بھی رہ چکے ہیں۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے چیف بھی رہے۔ وہ پہلے پاکستانی ہیں جن کو یہ عہدہ تفویض ہوا۔ علمی اعتبار سے ان کی پذیرائی نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون پاکستان دیگر ممالک میں بھی ہوتی ہے۔ دنیا کے بڑے تعلیمی اداروں کی اعلیٰ سطحی علمی کانفرنسوں میں ان کو مدعو کیا جاتا ہے اور ان سے علمی موضوعات پر مقالات لکھنے اور پڑھنے کی فرمائش کی جاتی ہے۔ اردو کے علاوہ عربی اور انگریزی زبان میں تحریر و تقریر کا یکساں ملکہ رکھتے ہیں۔ اس وقت تک بہت سی کتب ان کے قلم سے نکلیں اور اہل علم کے لیے مزید علم کا ذریعہ بنیں۔ تواضع اور انکسار کا پیکر ہیں۔ لباس کے اعتبار سے بھی قدیم و جدید کا سنگم ہیں۔ تھری پیس سوٹ ، ہم رنگ نک ٹائی کے ساتھ ساتھ مشرقی لباس سے بھی جسم کو مزین کرتے ہیں۔ شلوار قمیص اور جیکٹ بھی زیب تن کرتے ہیں۔ اس طرح وہ صرف علم ہی کے اعتبار سے نہیں بلکہ لباس کے اعتبار سے بھی قدیم و جدید کا سنگم ہیں۔ لیکن عجیب بات ہے کہ دورِ جدید کی اہم ترین ایجاد موبائل فون کو کبھی استعمال نہیں کرتے اور نہ ہی موبائل اپنے پاس رکھتے ہیں۔ میں نے ایک مرتبہ پوچھ ہی لیا ’’ڈاکٹر صاحب! آپ کا موبائل نمبر کیا ہے‘‘؟ فرمانے لگے ’’میں موبائل رکھتا ہی نہیں‘‘۔ میں نے حیرت سے دوسرا سوال کیا ’’کیوں‘‘؟ تو ان کا جواب استعاراتی تھا جس سے وہی لوگ لذت لے سکتے ہیں جو اس آیت کے مطلب، مفہوم اور تناظر سے واقف ہیں۔ فرمانے لگے: ’’إِثْمُہُمَا أَکْبَرُ مِن نَّفْعِہِمَا‘‘۔ ترجمہ : ان دونوں کا گناہ ان دونوں کے فائدہ سے زیادہ ہے۔ ‘‘
اس کالم کے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے ہمیں خط لکھا جس کے مندرجات اس طرح ہیں:
’’برادرِ مکرم و محترم جناب ڈاکٹر قاری محمد طاہر صاحب 
یقین جانیے کہ آپ کا ممدوح اتنی تعریفوں کا مستحق نہیں ہے جتنی آپ کے مضمون میں بیان ہوئی ہیں۔ یہ محض کسر نفسی یا تواضع نہیں ، اظہارِ حقیقت ہے۔ آپ کا رسالہ ملتا رہتا ہے۔ استفادہ کرتا ہوں اور دعاگو رہتا ہوں۔ تجوید کے فنی مباحث تو میرے معیار تلاوت سے بلند ہوتے ہیں، ان سے استفادہ کا تو میں اہل نہیں ہوں، البتہ قراء حضرات کا تذکرہ دلچسپی سے پڑھتا ہوں۔ فن قراء ت کے حوالہ سے بطور لطیفہ کے عرض ہے کہ ۱۹۶۲ء میں حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ کے حکم سے مجھے تجوید میں سو میں سے ایک سو پانچ نمبر ملے تھے، لیکن اس حرکت کے ذمہ دار مولانا نہ تھے، کچھ حاسدین تھے۔ 
(قدرے دخل در معقولات: مصر کے مفتی اعظم کا نام علی جمعہ ہے اور ان کا خطاب جامعۃ الاسکندریہ میں ہوا تھا) 
والسلام 
نیاز مند
محمود احمد غازی‘‘
یہ خط ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے جو راقم کے پاس محفوظ ہے۔ اس خط سے ڈاکٹر صاحب مرحوم کی بہت سی خوبیوں کا پتہ چلتا ہے۔ آپ کی طبیعت میں زہد کی خشکی نہ تھی بلکہ آپ شگفتہ طبیعت کے مالک تھے اور خط کا جواب لکھنا اسی طرح ضروری خیال کرتے جس طرح سلام کا جواب دینا ضروری ہے۔ تیسری بات یہ کہ آپ کے اندر تواضع و انکساری بھی انتہا کی تھی۔ حافظ قرآن تھے، تجوید کے قواعد و ضوابط سے پوری طرح بہرہ ور ہونے کے باوجود فرماتے ہیں کہ ’’تجوید کے فنی مباحث تو میرے معیار تلاوت سے بلند ہوتے ہیں۔ ان سے استفادہ کا تو میں اہل ہی نہیں ہوں‘‘۔ یہ جملہ انتہائے انکسار کا غماز ہے۔ کیونکہ قراء حضرات کے تذکروں کا دلچسپی سے پڑھنا اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ علم تجوید و قراء ت کے خوب خوب شناور تھے اور محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ کا آپ کو سو میں سے ایک سو پانچ نمبر دینا ہمارے دعوے کی دلیل کے لیے بذات خود بڑی دلیل ہی نہیں بلکہ بڑی تائید ہے۔ 
ڈاکٹر صاحب فقہی معاملات میں فروعی اختلافات کی خلیج کو پاٹنا چاہتے تھے، اسی لیے آپ نے اپنے دور میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں بڑے مفید اور اہم سیمینارز منعقد کرائے۔ بہت سے مضامین اور کتابچے بھی لکھے۔ اس حوالے سے آپ نے کاسموپولیٹن فقہ کا نیا نظریہ دیا۔ ان کی رائے یہ تھی کہ دنیا کے بدلتے حالات کے تناظر میں ایک نئی فقہ مدون کی جائے جو دنیا میں بسنے والے تمام مسلمانوں کی میراث ہو، جس پر پوری دنیا میں عمل بھی ممکن ہو۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ جدید حالات میں پوری دنیا سمٹ کر ایک ملک کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ پوری دنیا میں بسنے والے لوگوں کا باہم رابطہ انتہائی آسان بھی ہے اور انتہائی سریع بھی ہو چکا ہے۔ فاصلہ اور وقت سب کے سب سمٹ چکے ہیں۔ لہٰذا اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر علاقے کے بسنے والے مسلمان معروضی حالات کے تحت اپنے مسائل کا جائزہ لیں اور بین الاقوامی سطح پر ان کے نتائج پر غور کریں اور اس غور کے نتیجے میں درپیش مسائل کا حل تلاش کریں اور چاروں مکاتب فکر کی بنیادوں کو قائم رکھتے ہوئے ایک نئی فقہ مدون کی جائے جس پر سب کا اتفاق و اتحاد ہو۔ اس کے لیے انہوں نے عملی خاکہ بھی دیا تھا کہ ہر ملک کے علماء کا ایک بورڈ قائم کیا جائے جو اپنے ملک کے معروضی حالات کی روشنی میں پیدا ہونے والے جدید مسائل کا حل کتاب و سنت اور کتب فقہ کی مدد سے تلاش کریں اور کتاب و سنت کی روشنی میں تجاویز مرتب کریں۔ اس طرح مسلمانوں کے ستاون اسلامی ممالک کے چوٹی کے اہل علم حضرات کا مرکزی بورڈ عالمی اسلامی سطح پر قائم کیا جائے۔ تمام ممالک سے موصولہ نتائج و تجاویز اس بورڈ کے سامنے پیش کی جائیں اور ان کے فیصلوں کو قبول کر لیا جائے۔ اس طرح جدید مسائل کا حل جدید حالات کے تناظر میں تلاش کیا جاسکے گا اور دنیا کے سامنے اسلام کا رخ روشن واضح کرنے میں مدد ملے گی۔ فقہی حوالے سے ڈاکٹر صاحب کے مضامین نہایت اہم ہیں جن سے مدد لے کر جدید مسائل کو متفقہ طور پر حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ کاش اہل دانش و بینش اور علماء حضرات اس اہمیت سے واقف ہوں اور فکر کی نئی راہیں تلاش کر سکیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب کی کتاب ’’محاضرات فقہ‘‘ سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے۔ 
سیاست کاروں کی سوچ مفادات کی اسیر ہوتی ہے ۔ مفادات بھی قومی نہیں، ذاتی۔ سیاست کار جم غفیر کا رخ دیکھ کر قبلہ متعین کرتے ہیں اور اس پیمانے کے مدنظر رخ تبدیل کرنے میں قطعاً دیر نہیں لگاتے۔ یہی پاکستان کا المیہ ہے اور اسی رویے کو عام اصطلاح میں لوٹا کریسی بھی کہا جاتا ہے۔ سیاست کار کچھ بھی کہیں ، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اسلامی نظام کو عملاً نافذ کرنے کے لیے جو مساعی پاکستان کے فوجی حکمران جنرل محمد ضیاء الحق رحمۃ اللہ علیہ نے سرانجام دیں، وہ کسی اور کا حصہ نہ بن سکیں۔ انہوں نے پاکستان میں غیر سودی معیشت کو رائج کرنے میں مثالی کام کیا۔ اس حوالے سے انہوں نے انتہائی چیدہ اور چنیدہ اہل علم سے معاونت حاصل کی، ان میں ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم کا کردار انتہائی اہم ہے۔ ممکن ہے کوئی صاحب ہماری اس بات کو عقیدت پر محمول کریں ، اس لیے ہم ان کے قریبی رفیق کار ڈاکٹر انیس احمد کی گواہی ڈلوانا چاہتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’پاکستان میں سودی بنکاری سے نجات کے لیے جن لوگوں نے کام کیا اور خصوصاً جب معاملہ سپریم کورٹ کے اپیلٹ بنچ میں گیا اور پھر سپریم کورٹ کے فل بنچ نے اس مسئلے کا جائزہ لیا تو اس میں غازی صاحب نے نمایاں کردار ادا کیا۔ فیڈرل شریعہ کورٹ میں جس طرح ڈاکٹر فدا محمد خان صاحب نے فیصلے کی تحریر میں کردار ادا کیا، ایسے ہی سپریم کورٹ کے فیصلے میں جسٹس خلیل الرحمن صاحب اور ڈاکٹر غازی کا اہم کردار رہا۔ ۸۰ کے عشرے میں جنوبی افریقہ میں قادیانیوں کے حوالے سے عدالتی کاروائی میں پاکستان کے جن اصحابِ علم نے عدالتِ عالیہ کو اس مسئلے پر رہنمائی فراہم کی، ان میں مولانا ظفر احمد انصاری، پروفیسر خورشید احمد صاحب ، جسٹس افضل چیمہ صاحب مرحوم اور ڈاکٹر غازی کے نام قابلِ ذکر ہیں‘‘۔ 
ڈاکٹر صاحب کو فرنچ زبان پر بھی دسترس حاصل تھی۔ اس کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ ڈاکٹر حمید اللہ مرحومؒ نے سیرت الرسول کے موضوع پر ایک کتاب فرانسیسی زبان میں لکھی تھی جس کا انگریزی ترجمہ ایک ترک سکالر نے The Life and Time of Muhammad کے نام سے کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے ترجمہ دیکھا تو انہیں اس میں کچھ اسقام نظر آئے۔ چنانچہ آپ نے ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کی اصل کتاب جو فرانسیسی زبان میں تھی اور انگریزی ترجمہ کا باہم موازنہ کرکے ان اسقام کو دور کیا۔ ڈاکٹر صاحب کے بقول انگریزی ترجمہ میں بہت سے مقامات ترجمہ سے رہ بھی گئے تھے۔ آپ نے ان حصوں کو پورا کیا۔ 
ڈاکٹر محمود احمد غازی کو یہ سعادت بھی حاصل ہوئی کہ انہوں نے بطل امت، محسن پاکستان شہید اسلام جنرل محمد ضیاء الحق کا جنازہ پڑھایا۔ ہمارے نزدیک شہید ضیاء الحق کا جنازہ پڑھانا جہاں ان کے لیے سعادت تھا، وہاں ضیاء الحق کے لیے نجات کا اور بخشش کا ذریعہ بھی ثابت ہوگا، کیونکہ دونوں شخصیات تقویٰ و طہارت میں اپنا منفرد مقام رکھتی تھیں۔ 
آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا 
شاید اس شعر کے شاعر کو مرحوم ڈاکٹر غازی سے واسطہ نہیں پڑا۔ اگر اسے ڈاکٹر صاحب سے کبھی واسطہ پڑتا تو شاید وہ یہ شعر ہرگز نہ کہتا، کیونکہ ڈاکٹر غازی مرحوم حیات دنیوی کے راستوں سے محفوظ و مامون تشریف لے گئے۔ وہ اپنی متاع حیات لٹا کر نہیں، رداے حیات کو حسنات سے مالا مال کرکے دنیا سے رخصت ہوئے۔ 
ڈاکٹر محمود احمد غازی کا تعلق ایک ایسے علمی گھرانے سے تھا جس میں بڑے قد آور علما پیدا ہوئے جو علم کے ساتھ ساتھ تصوف و سلوک کے شناور بھی تھے، جن کے نزدیک محض علم کافی نہیں، تطہیر باطن اصلاً مقصد علم تھا۔ ڈاکٹر صاحب خود بھی تصوف و سلوک کے مویدین میں سے تھے، لیکن اس کے لیے جہری سری اذکار کی بحث میں نہ پڑے بلکہ سبحوا بکرۃً وعشیَّا(۱۹:۱۱) پر عمل کرتے ۔ وہ اس بات پر بھی شاید یقین نہیں رکھتے تھے کہ یاد الٰہی کے لیے مالا و دانے دار تسبیح کا سہارا ہی لیا جائے اور اس مقصد کے لیے کسی کونے کھدرے یا زاویہ ہی کو تلاش کیا جائے، بلکہ اس کے برعکس وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ زندگی اپنی ذات میں تصوف و سلوک کا نام ہے اور زندگی اگر ہے تو اس کا ایک ایک لمحہ عبادت الٰہی و ریاضت الٰہی کے لیے صرف ہونا چاہیے۔ وہ اسی پر عمل کرتے تھے۔ ان کی سوچ ان کی فکر ان کا قلم ان کی مساعی اور دنیوی دفتری مناصب کی مصروفیات سب اسی مقصد کے حصول کے لیے تھیں۔ بقول جگر 
محو تسبیح تو سب ہیں مگر ادراک کہاں
زندگی خود ہی عبادت ہے مگر ہوش نہیں 
ڈاکٹر صاحب نے شاید زندگی کے ساٹھ بہاریں بھی پوری نہ کیں لیکن اس متاع قلیل اور حیاتِ مستعار کو ہمیشہ عبادت سمجھا اور ایک ایک لمحہ بے ہوش نہیں باہوش گزارا۔ قلم کاری کو بھی عبادت خیال کیا۔ وہ عالم باعمل تھے۔ ان کے نزدیک علم محض جانکاری کا نہیں بلکہ عملی استواری کا نام تھا۔ تطہیر باطن کے بغیر علم محض ایک خبر ہے۔ آج کسے خبر نہیں کہ جھوٹ بولنا بری بات ہے۔ بچہ بھی جانتا ہے۔ اس جاننے کے باوجود لوگ جھوٹ بولتے ہیں اور بعض تو بانگ دہل یہ بھی کہتے ہیں کہ جھوٹ کے بغیر گزارہ نہیں۔ یہ سب عدم تطہیر باطن کا سبب ہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں:
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
محض کتابی علم تطہیر باطن نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے کسی صاحب بصیرت کی ضرور ت ہوتی ہے۔ ایک زمانہ تھا کوئی شخص مسند تدریس پر نہیں بیٹھ سکتا تھا ، خواہ اس کا علمی مرتبہ و مقام کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو ۔ محض علمی بلندی مسند تدریس کے لیے کافی نہ ہوتی تھی۔ علمی مقام و مرتبہ عموماً خود پسندی کا مرض پیدا کرتا ہے جو زوال شخصیت کا باعث ہوتا ہے۔ تطہیر باطن کے لیے کسی صاحب نظر شخصیت کی طرف میلان طبعی ضروری ہوتا ہے۔ ہمیں اس بات کا تو علم نہیں کہ تطہیر باطن کے لیے ڈاکٹر صاحب کی نسبت کہاں تھی، البتہ ہم نے دیکھا اور بارہا دیکھا کہ سفر وحضر میں ذکر اذکار سے آپ کی زبان تر رہتی اور قلبی اعتبار سے آپ خاشعین ﷲ کی تصور تھے۔ جو تطہیر باطن کا ثبوت ہے۔ تقریباً نصف صدی قبل ہم نے اپنی نسبت سلوک کے اعتبار سے مولانا عبدالقادر رائے پوری سے قائم کی، لیکن یہ زمانہ ذہنی بلوغت کا نہ تھا ۔ ہم حضرت رائے پوری کی مرجعیت سے متاثر ہوئے اور لوگوں کو لمبی چادر پکڑے بیعت ہوتے دیکھا۔ ہم بھی بیٹھ لیے اور بہت سے صحبتیں اٹھائیں۔ ان کے جنازہ میں شرکت کی سعادت بھی ملی ۔ ان کے بعد اپنا رشتہ سلوک مولانا محمد زکریاؒ سے استوار کیا۔ ان کے انتقال کے بعد ہم کٹی ہوئی ڈور تھے لیکن، خواہش پیوستگی موجود تھی۔ دل ڈاکٹر محمود احمد غازی کی طرف مائل تھا۔ میں نے جتنی مرتبہ ڈاکٹر صاحب کو قریب سے دیکھا، میرا طبعی میلان حصول تطہیر باطن کے لیے ان کی طرف راغب ہوا۔ ایک مرتبہ میں نے لیطمئن قلبی کی غرض سے عرض کی: ڈاکٹر صاحب! سلوک و تصوف پر بھی آپ کے قلم سے کچھ تحریریں معرض وجود میں آئیں؟ گویا ہوئے، میرے ذہن میں اس کا خاکہ ہے، مختلف پہلوؤں سے اس پر لکھنے کا ارادہ ہے، لیکن ارادہ کی تکمیل سے قبل مدعی اجل نے دستک دی اور ڈاکٹر صاحب لبیک کہہ گئے۔ 
ڈاکٹر صاحب اس دنیا سے دور بہت دور چلے گئے، اتنا دور کہ کوئی بھی وہاں جانے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔ البتہ موت اس مکانی فاصلے کو سمیٹ دیتی ہے۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے ، اس سے مفر نہیں ۔ اس کے لیے فرشتۂ اجل کو بھی الزام نہیں دیا جاسکتا۔ وہ مالک الملک کی طرف سے اسی کام پر متعین ہے۔ وہ اپنا فریضہ اصول و ضوابط کے مطابق سرانجام دے رہا ہے۔ شکوہ میڈیا پر قابض لوگوں سے ہے جنہیں خبر ہی نہ ہو سکی کہ دنیا سے کون رخصت ہوا۔ کتنا بڑا خلا چھوڑ گیا۔ اس کی وجہ سے علمی دنیا پر کیا قیامت ٹوٹی۔ محسوس ہوتا ہے کہ میڈیا پر قابض لوگ صمٌ بکمٌ عمیٌ کی زندہ تصویریں ہیں جو پاتال سے خبریں ڈھونڈ لاتے ہیں ، جو کسی بھی مغنیہ یا مغنی کی آوازوں کے سر تال تو سنتے ہیں، ان کی باریکیوں پر پروگرام ترتیب دیتے ہیں، انہیں ڈھول کی تھاپ پر پاؤں کی جھنکار کا تو علم ہوتا ہے، لیکن ڈاکٹر محمود کی عظمتوں و رفعتوں کو ان کی آنکھ دیکھ نہیں پاتی۔ نہ ہی ان کے قلم سے لکھی تحریریں ان کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ نہ ہی انہیں اس علمی میراث کا پتہ چلتا ہے جو وہ قوم کے لوگوں کے لیے چھوڑ کر جاتے ہیں۔ انہیں وہ تاریخ بھی یاد نہیں رہتی جس تاریخ کو ان کی موت کا عظیم سانحہ بیت جاتا ہے۔ 
لَہُمْ أَعْیُنٌ لاَّ یُبْصِرُونَ بِہَا وَلَہُمْ آذَانٌ لاَّ یَسْمَعُونَ بِہَا أُوْلَءِکَ کَالأَنْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَلُّ (۷:۱۷۹)
کان بہرے نہیں ہوتے، آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ یہ دل ہیں جو اندھے اور بہرے ہو جاتے ہیں۔ جب قومی سطح پر یہ مرض شدت اختیار کر جائے تو پھر ایسی قوموں کو فکری انتشار، کج علمی اور کج عملی سے کوئی مسیحا نجات نہیں دلا سکتا۔ میڈیا والوں کے اس رویہ پر ہم پروفیسر عنایت علی کے الفاظ میں یہی کہہ سکتے ہیں کہ 
سانحے سے بڑا حادثہ یہ ہوا
کوئی ٹھہرا نہیں حادثہ دیکھ کر

مولانا ڈاکٹر محمود احمد غازی ۔ کچھ یادیں، کچھ تأثرات

مولانا مفتی محمد زاہد

(۳ اکتوبر ۲۰۱۰ء کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں منعقدہ تعزیتی نشست سے خطاب جسے مصنف کی نظر ثانی اور اضافوں کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔)

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم، اما بعد! 
جیسا کہ برادرم عمار صاحب بتلا رہے تھے، طے شدہ پروگرام کے مطابق اس وقت ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ سے ہم سب نے مستفید ہونا تھا اور انتظار میں تھے کہ کب وہ وقت آئے گا کہ ہم ڈاکٹر صاحب ؒ کی گفتگو کے سحر میں مبتلا ہوں گے۔ تقریباً دو ہفتے پہلے جب مجھ سے عمار صاحب نے رابطہ کیا اور پوچھا کہ اتوار کی صبح کو آئیں گے یا ہفتہ کی شام کو توشاید پہلے میری ترجیح یہ ہوتی کہ صبح کو وہاں سے نکلوں گا، لیکن جب انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب شام کو آجائیں گے تو میں نے بھی تقریباًذہن بنا لیا تھا کہ ہفتہ شام کو آ جاؤں گا اور ڈاکٹر صاحب سے مستفید ہونے کا موقع مل جائے گا اور اگلے دن بھی ڈاکٹر صاحب کا پورا بیان اول سے آخر تک سنیں گے ۔ انتظار میں لمحے گزر رہے تھے۔ آج اتوار کا د ن ہے۔ پچھلے اتوارکی صبح ساڑھے سات کے قریب ایک صاحب کا فون آیا کہ ڈاکٹر صاحب اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں۔ وہ جو انتظار کے لمحے چل رہے تھے، اب وہ انتظار یک دم ایک حسرت بن کر رہ گئی۔ ایسی ناگہانی خبر تھی کہ اس پر یقین کرنا مشکل تھا۔ دو تین حضرات نے فون پر اطلاع دی، پھر بھی اطمینان نہیں ہورہا تھا۔ خیال ہوا کہ ان کے بھائی ڈاکٹر غزالی صاحب سے رابطہ کر لوں، لیکن ایسی خبر تھی کہ ان سے رابطہ کرنے میں بھی ڈر لگ رہا تھا۔ خدانخواستہ اگر خبر غلط ہوئی تو! لیکن دل کڑا کر کے ان سے پوچھا۔ انہوں نے سلام کا جواب دیتے ہی کہا: ’’مولانا! دعا فرمائیے، بھائی صاحب دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں۔‘‘ 
جیسا کہ عمار صاحب ابھی ڈاکٹر صاحب کے بارے میں فرما رہے تھے کہ ڈاکٹر صاحب ہمہ جہت شخصیت تھے، سب کا مشترکہ اثاثہ تھے اور ہر پہلو سے، صرف علم ہی نہیں، علم و عمل اور کردار ہر پہلو سے ایک جامع شخصیت تھے۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار اور متنوع کمالات سے نوازا تھا۔ وہ اپنے وقت کے بہت بڑے عالمِ دین، جدید وقدیم کے جامع اسلامی اسکالر، بہت اچھے مقرر، مصنف ومحقق، ماہر تعلیم، منتظم اور نہ جانے کیا کچھ تھے۔ رسمی طور پر تو عام طور پر کہہ ہی دیا جاتا ہے کہ فلاں صاحب کے جانے سے بہت بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے، لیکن غازی صاحب کی رحلت سے جوخلا پیداہوا، علمی اور دینی حلقوں کو جو نقصان پہنچا، دینی تعلیم وتحقیق کے مستقبل کے بارے میں سوچنے والوں کو جو دھچکا لگا، اسے اس طرح کے رسمی جملوں سے تعبیر کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔ کہنے والے صحیح کہاہے :
وماکان قیس ھُلکہ ھلک واحد
ولکنہ بنیان قوم قد تہدّما
(قیس کا مرنا ایک آدمی کا مرنا نہیں۔ ایک پوری قوم کی عمارت منہدم ہو گئی ہے۔)
ہمارے درمیان جناب ڈاکٹر شہزاد اقبال شام صاحب موجود ہیں۔ ان کو ڈاکٹرصاحب کی رفاقت کا شرف حاصل رہا ہے۔ وہ ان کی زندگی کے پرت ہمارے سامنے کھولیں گے اور ڈاکٹر صاحب کے علم و عمل کے اعتبار سے کئی خوبیاں جو اب تک راز ہیں، وہ کھل کر سامنے آئیں گی۔ اسی طرح ہمارے محترم مخدوم و بزرگ جناب مولانا زاہدالراشدی صاحب موجود ہیں۔ کہتے ہیں کہ ’’ولی را ولی می شناسد‘‘، ولی کو ولی ہی پہچانتا ہے ۔ اسی طرح کہتے ہیں کہ ’’جوہر کو جوہری ہی جانتا ہے‘‘۔ مولانا راشدی جیسے جوہری اور ولی ہمیں بتلائیں گے کہ ڈاکٹر صاحب کتنا قیمتی اثاثہ تھے۔ میں تو ایک طالب علم ہوں، اپنے چند تأثرات پیش کرنے پر اکتفا کروں گا۔ 
اس موقع پر مجھے ایک بات یاد آ رہی ہے۔ ہمارے چھوٹے بھائی مفتی محمد مجاہد شہید ؒ ،وہ بھی اسی طرح دہشت گردی کا نشانہ بنے تھے جیسا کہ آج یہاں آکر معلوم ہوا کہ ڈاکٹر فاروق خان بھی دہشت گردی کانشانہ بن گئے اور انہیں شہید کردیا گیا ہے، إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ مفتی محمد مجاہد ؒ کی شہادت کے کچھ عرصہ بعد حضرت مولانا مفتی زین العابدین ؒ [معروف مبلغ تبلیغی جماعت و بانی دارالعلوم،فیصل آباد] تعزیت کے لیے تشریف لائے۔ جن دنوں ان کی شہادت ہوئی، اس وقت وہ بیرون ملک سفر پر تھے۔ جب سفر سے واپس آئے تو گھر جانے کی بجائے سیدھا ایئرپورٹ سے جامعہ امدادیہ میں تشریف لائے اور طلبہ اوراساتذہ سے خطاب فرمایا۔ جن حضرات نے حضرت مفتی صاحبؒ کی گفتگو سنی ہے، ان کو یاد ہو گا کہ حضرت مفتی صاحب کے بیان کی تمہید بہت دلچسپ اور شاندار ہوتی تھی۔ اس میں تبلیغی رنگ بھی ہوتا تھا اور مفکرانہ بھی۔ مجھے ان کے الفاظ تو اچھی طرح یاد نہیں ہیں، لیکن انہوں نے بات اس طرح شروع کی۔فرمایا: 
’’اللہ جل جلالہ کو انسان سے بہت محبت ہے اور اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ انسان کی قدر کی جائے۔ پھر جس میں جتنے کمالات ہوں، اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ اتنی ہی اس کی قدر کی جائے۔ جب کسی بندے کی اس طرح قدر نہیں کی جاتی جس طرح قدر کی جانی چاہیے تھی تو بعض اوقات اس نعمت کو اللہ تعالیٰ جلد واپس لے لیتے ہیں۔‘‘ 
میں یہ تو نہیں کہتا کہ ڈاکٹرصاحب کی قدر نہیں کی گئی۔ الحمد للہ ایک حد تک ان کی قدر کی گئی اور ان سے استفادہ کیا گیاہے، لیکن غالباً یہ کہنا صحیح ہو گا کہ ہم لوگوں نے انہیں صحیح طور پر بر وقت پہچانا نہیں تھا۔ ان کی خوبیوں کی طرف جو آج ہماری توجہ ہوئی، کہیں پہلے ہونی چاہیے تھی اور یہ شاید ہمارا عمومی المیہ ہے کہ صحیح وقت پر ہمیں بندے کی قدر نہیں ہوتی۔ آج بھی اللہ کے فضل وکرم سے بہت سے قابل قدر لوگ موجود ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کی قدر اور ان سے استفادے کی توفیق عطا فرمائے۔ چند دن پہلے جب مولانا زاہد الراشدی صاحب فیصل آباد تشریف لائے تو میں نے ان سے عرض کیا کہ ایک تو عمر کے اس حصے میں آپ کو سفر زیادہ آرام دہ کرنا چاہیے، دوسرے ایک رفیقِ سفر بھی ساتھ ہونا چاہیے، بلکہ اگر ایسا ذی استعداد نوجوان عالم جو کمپیوٹر کا استعمال بھی جانتا ہو، بالخصوص اچھی رفتار سے ٹائپ کرسکتا ہو، آپ کے ساتھ رہے۔ دورانِ سفر جب موقع ملے، آپ اسے املا کراتے رہیں اور وہ لیپ ٹاپ پر لکھتا جائے۔ 
مولانا چند سال پہلے بطور لطیفہ کے بتارہے تھے کہ ان کے ایک پوتے کے سامنے کچھ مہمانوں نے ذکر کیا کہ آپ کے دادا بہت بڑے اسکالر ہیں۔ اس پر اس نے (جو کہ اس وقت بہت چھوٹا ہوگا) کہا کہ بنے پھرتے ہیں بڑے صحافی، کمپیوٹر تو استعمال کرنا آتا نہیں! اب پوتا صاحب کی تازہ ترین رائے معلوم نہیں کہ کیا واقعی مولانا اسکالری کے امتحان میں پاس ہوگئے یا نہیں! پاس ہوبھی گئے ہوں تو اس عمر میں اعصاب کمپیوٹر پر کام کے کہاں متحمل ہوتے ہیں۔ بہر حال میں نے مولانا سے عرض کیا کہ اس طرح سے بہت سے لکھنے پڑھنے کے کام جو محض اسفار کی وجہ سے نہیں ہوپاتے، وہ ہوجائیں گے اور آپ کے بہت سے افادات جلد لوگوں تک پہنچنے کے قابل ہوجائیں گے۔ اگرچہ اس پر مولانا کا جواب تھا کہ بہت سے دعوت دینے والے مدارس خود مالی اعتبار سے کمزور ہوتے ہیں، ان کی دعوت پر انکار بھی نہیں کر سکتا اور ان پر زیادہ بوجھ بھی نہیں ڈال سکتا۔ خیر یہ تو ضمناً بات آگئی، اصل بات یہ عرض کررہا تھا کہ کسی کی خوبیوں سے صحیح وقت پر استفادے کی ہمارے ہاں روایت ہونی چاہیے۔ 
میری غازی صاحب سے پہلی شناسائی اس زمانے میں ہوئی جب میں ۱۹۸۵ء میں بین الأقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں زیر تعلیم تھا۔ اس زمانے میں ڈاکٹر صاحب یونیورسٹی ہی کے ذیلی ادارے دعوہ اکیڈمی میں غالباً ڈائریکٹر تھے اور فیصل مسجد میں عموماً جمعہ بھی وہی پڑھاتے تھے۔ اس زمانے میں ڈاکٹر صاحب کے علمی مقام کا بھی خاص اندازہ نہیں تھا، نہ ہی ان سے کسی طرح کے استفادے کا موقع ملا تھا۔ اسی زمانے میں حضرت مولانا نجم الحسن تھانویؒ بھی دعوہ اکیڈمی میں ہوتے تھے جس کا ایک دفتر اس زمانے میں کراچی کمپنی (مرکز جی نائن) میں ہوتا تھا۔ جامعہ امدادیہ نیا نیا قائم ہوا تھا، اس کے کسی معاملے میں مشورہ کرنے کا کام ہمارے والد ماجد ؒ نے میرے ذمہ لگایا۔ انہوں نے غازی صاحب مرحوم کو بھی بلالیا۔ کیا صورت اور تقریب ہوئی، یہ تو یادنہیں، البتہ اتنا یاد ہے کہ غازی صاحب سے بات حضرت مولانا نجم الحسن صاحب ؒ ہی کے کمرے میں ہوئی، حالانکہ غازی منصب کے لحاظ سے مولانا سے اوپر تھے ۔ اس کا تقاضا یہ تھا کہ مولانا مجھے ساتھ لے کر خود ڈاکٹر صاحب کے پاس جاتے۔ اس وقت تو نوعمری کی وجہ سے اس طرف اتنا دھیان نہیں گیا۔ ڈاکٹر صاحب کی ظاہری اعتبار سے اپنے ایک ماتحت کے ہاں حاضری اس بات کی غماز تھی کہ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت بزرگوں کے احترام جیسی مشرقی اور اسلامی روایات میں گندھی ہوئی تھی۔ زیر مشورہ معاملے میں ڈاکٹر صاحب نے جس انداز سے اپنی رائے دی، اس کی اصابت کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کے مرتب اور منقح اندازِ گفتگو نے مجھے خاصا متأثر کیا۔
کسی علمی موضوع پر ڈاکٹر صاحب کی مفصل گفتگو سننے کا پہلی مرتبہ اتفاق مولانا نصیب علی شاہ صاحب ؒ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی بنوں فقہی کانفرنس میں ہوا۔ ایک تو اس طرح کی دور افتادہ جگہ پر جانے کے لیے ڈاکٹر صاحب کا تیار ہوجانا یقیناًان کے حسن خلق کی دلیل تھا۔ اس کے علاوہ فقہ اسلامی کے موضوع پر انہوں نے جو مفصل گفتگو فرمائی، اس میں معلومات کی وسعت اور ندرت، گفتگو میں ایک خاص قسم کا بہاؤ اور تسلسل، زبان میں قدرے لکنت کے باوجود سامعین کو اپنے کنٹرول میں لے لینے والا مخصوص اندازِ گفتگو جیسی صفات متاثر کن تھیں جنہیں کوئی بھی شخص محسوس کیے بغیر نہیں رہتا تھا۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب سے مختلف سیمینارز، کانفرنسز اور میٹنگز میں زیارت اور استفادے کا موقع ملتا رہا اور وسعت مطالعہ، قابل رشک حافظہ اور یادداشت، مضبوط طرزِ استدلال، ایک موضوع پر جماؤ اور استطرادات سے گریز، موضوع کا احاطہ، گفتگو میں ربط اور انضباط اور مسحور کن طرزِ بیان جیسی بے شمار خوبیوں کا نقش ذہن پر مستحکم ہوتا رہا۔ اسے میری کمزوری سمجھ لیا جائے یا افتادِ طبع کہ ہمیشہ معروف اور بڑی شخصیات سے رابطہ کرنے میں حجاب سا محسوس ہوتا رہتاہے۔ اس کے باوجود جہاں کہیں ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوتی، ان کی شفقتوں سے مستفید ہونے کا موقع ضرور ملتا۔
ایک مجلس میں ڈاکٹر صاحب سے کسی نے پوچھا کہ آپ کی بہتر یاد داشت کا راز کیا ہے؟ کیا کوئی نسخہ یا وظیفہ ایسا ہے جو اس چیز کے حصول میں معین ہو؟ تو اس پر، جہاں تک مجھے یاد پڑتاہے، فرمایا کہ مجھے کسی بزرگ نے یہ دعا بتائی تھی: أللہم إنّی أسألک علما لا یُنسی۔ غالباً ایک مرتبہ یہ بھی فرمایا کہ آدمی کو چاہیے کہ جب ایک کتاب کو شروع کرے تو اسے پورا پڑھنے کی کوشش کرے۔ اصل بات یہ ہے کہ جس چیز کو آدمی اپنی فکر اور توانائیوں کا محور بنالیتا ہے، وہ چیز اسے بآسانی یاد رہنے لگ جاتی ہے۔ ایک تاجر کو مختلف اشیا کے نرخ اور ان میں اتار چڑھاؤ اس طرح یاد ہوتا ہے کہ دوسرے آدمی کو حیرت ہوتی ہے کہ اتنی باریک تفصیلات اسے کیسے یاد رہ جاتی ہیں۔ قوت حافظہ اور یاد داشت کے یقیناًبہت سے اسباب بھی ہیں۔ ان میں طبی اسباب بھی ہوں گے، ہموم و افکار کی کمی بھی اس کا ایک ذریعہ بنتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ ایک پیدائشی اور قدرتی ملکہ بھی ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنے حکیمانہ نظام کے تحت تقسیم فرماتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ جب آدمی علم ہی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیتا ہے تو اسے علم سے متعلق باتیں زیادہ یاد رہنے لگ جاتی ہیں۔ جس شخصیت میں یاد داشت کا یہ غیر معمولی وصف ہو، اس سے یہ سوال ضرور ہوتاہے کہ یاد داشت مضبوط کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ امام بخاری سے بھی یہ سوال کیا گیا کہ کیا حافظے کی کوئی دوائی ہے؟ پہلے تو امام بخاری نے جواب دیا کہ مجھے معلوم نہیں، اس لیے کہ اس طرح کی ظاہری دوائی واقعی انہیں معلوم نہیں ہوگی اور نہ ہی امام بخاری کا بے مثال حافظہ ایسے کسی ’نسخہ‘ کا مرہونِ منت تھا۔ پھر تھوڑے توقف کے بعد امام بخاری نے فرمایا : لا أعلم شیئا أنفع للحفظ من نہمۃ الرجل ومدوامۃ النظر، یعنی یاد داشت کے لیے دو کاموں سے زیادہ کوئی چیز میرے علم کے مطابق مفید نہیں ہے۔ ایک آدمی کی علم کے لیے بھوک اور اس کا شوق ولگن اور دوسرے کثرتِ مطالعہ۔ ( لامع الدراری از شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی ۱/۳۹)۔ 
ڈاکٹر صاحب پر متعدد اوقات میں جس طرح کی انتظامی ذمہ داریاں رہیں، ان کے ہوتے ہوئے عموماً آدمی مطالعہ وغیرہ سے کٹ جاتاہے، لیکن ڈاکٹر صاحب کے بارے میں معلوم ہوتاہے کہ ان میں نہمۃ الرجل اور مداومۃ النظر والی بات آخروقت تک موجود رہی۔ اس بات کی گواہی ان کے خطابات اور گفتگو کے علاوہ انہیں قریب سے دیکھنے والے بھی دیتے تھے اور کبھی کبھار شرفِ رفاقت حاصل کرنے والے بھی ۔ 
مولانا قاری محمد حنیف جالندھری بتارہے تھے کہ ایک دفعہ مراکش کے سفر میں وہ ان کے ساتھ تھے۔ ڈاکٹر صاحب روزانہ کتب خانوں کا چکر لگانے نکل جاتے اور شام کو کئی کتابیں خرید کر لاتے اور فرماتے تھے کہ سفرمیں میری شاپنگ یہی ہوتی ہے۔ اس سفر سے واپسی پر بھی کتابوں کے دو بڑے صندوق ان کے ساتھ تھے۔ پھر کتابیں خریدتے ہی قیام گاہ پر آکر انہیں پڑھنا بھی شروع کردیتے تھے۔ ایک اور بات جو ڈاکٹر صاحب کی زندگی میں بھی ان کے ساتھ سفر کرنے والے ایک دوست سے سنی، لیکن اس وقت اسے وقتی چیز خیال کیا، ان کے انتقال کے بعد کئی لوگوں کے ذریعے یہ بات معلوم ہوئی کہ ڈاکٹر صاحب کثیر التلاوۃ تھے۔ بعض احباب سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ روزانہ قرآن کریم کی ایک منزل کی تلاوت کرلیں۔علمی مصروفیات رکھنے والوں میں کثرتِ تلاوت کا ذوق خال خال ہی نظر آتا ہے۔ حکیم الامت حضرت مولانا تھانوی ؒ کے بارے میں یہ بات معروف ہے کہ وہ صبح سیر کے دوران روزانہ سات منزلوں میں سے ایک منزل کی تلاوت فرمالیا کرتے تھے، بلکہ اس دوران پنسل اور کاغذ بھی جیب میں رکھتے تھے۔ ہوسکتا ہے ڈاکٹر صاحب کے ہاں یہ اسی ’’تھانوی‘‘ روایت کا تسلسل ہو۔ بہرحال ڈاکٹر صاحب کے علم میں آمد اور برکت کی ایک وجہ یہ کثرتِ تلاوت بھی ہوسکتی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کو ذوقِ مطالعہ کے علاوہ اپنے وقت کے کئی مشاہیر سے ملاقاتوں، ان کے ساتھ وقت گزارنے اور ان سے مختلف طریقوں سے استفادے کا وسیع موقع ملا تھا جس کا اظہار ان کی گفتگو سے بے ساختہ ہوجاتا تھا ۔ میرے لیے واقفیت کی کمی کی وجہ سے یہ کہنا تو مشکل ہے کہ وہ کس شخصیت سے سب سے زیادہ مستفید اور متاثر ہوئے، لیکن اندازہ یہ ہے کہ ایسی فہرست میں ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم کا نام کافی اوپر ہوگا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ایسا لگتا تھا کہ سیرت طیبہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والتسلیم اور اسلام کا قانون بین الممالک ڈاکٹر صاحب کے پسندیدہ موضوعات تھے ۔ ڈاکٹر حمید اللہ ؒ کے علاوہ بھی متعدد شخصیات سے انہیں قرب کے مواقع حاصل ہوئے۔ ان میں مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کا نام بھی خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ شام کے معروف عالم ڈاکٹر معروف الدوالیبی کے ساتھ انہیں وقت گزارنے کا موقع ملا۔ اس کے علاوہ اور کئی متعدد شخصیات کا تذکرہ دورانِ گفتگو نوکِ زبان پر آجاتاتھا۔ 
ماضی قریب میں علمی نوعیت کے بہت سے واقعات کے وہ یا تو چشم دید گواہ اور ان میں شریک تھے یا ایک آدھ روای کے واسطے کے ساتھ اسے روایت کرتے تھے۔ مثال کے طور پر یہ بات تو مشہور ومعروف ہے کہ علامہ اقبال کی یہ بہت بڑی خواہش تھی کہ فقہ اسلامی کی تدوینِ نو کا ایک خاص نہج پر کام ہو جو یقیناًاجتہادی نوعیت کا کام ہوتا اور یہ بات بھی معروف ہے کہ ان کی نظر علامہ سید انور شاہ صاحب کشمیری ؒ پر تھی اور انہوں نے اس سلسلے میں انہیں لاہور تشریف آوری کی دعوت بھی دی تھی جسے شاہ صاحب قبول نہیں فرماسکے تھے۔ اسلام آباد میں منعقدہ ایک سیمینار میں امریکا سے تشریف لائے ہوئے ایک اسکالر نے یہی بات کچھ اس انداز سے بیان کی جس سے یہ تاثر ملتا تھا کہ شاہ صاحب ؒ کے انکار کی وجہ یہ تھی کہ علماے دیوبند فقہ اسلامی پر کسی نئے انداز کے کام میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے تھے۔ ان کے خطاب کے بعد ڈاکٹر صاحب نے اپنے صدارتی خطاب میں اس معاملے کی وضاحت فرمائی اور ایک ایسے عالم کا حوالہ دیا جو شاہ صاحب ؒ اور علامہ اقبالؒ کے درمیان ہونے والی اس ملاقات میں بنفس نفیس شاہ صاحب کے ساتھ موجود تھے اور ڈاکٹر صاحب نے اس ملا قات کی سر گزشت ان سے براہِ راست سنی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے صرف ایک واسطے کی سند متصل کے ساتھ بیان فرمایا کہ شاہ صاحبؒ کے انکار میں ایسی کوئی بات نہیں تھی جس سے یہ تاثر ابھرے کہ وہ اس طرح کے کسی منصوبے کو پسند نہیں فرماتے تھے، بلکہ انہوں نے اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ وہ علامہ اقبالؒ کی لاہور کے لیے دعوت موصول ہونے سے پہلے ڈابھیل والوں سے وعدہ کر چکے تھے۔ اب وعدے کی خلاف ورزی مناسب نہیں تھی، اگر یہ دعوت پہلے موصول ہوجاتی تو وہ اس پر ضرور غور کرتے۔
ڈاکٹر صاحب کی یہ عجیب خصوصیت تھی کہ جو بات ان سے متعدد مرتبہ سننے کا اتفاق ہوا، ہر دفعہ تقریباً الفاظ ایک ہی جیسے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے انہوں نے باقاعدہ یہ تعبیر بناکر اسے کہیں بیٹھ کر رَٹ لیا ہو۔ یقیناًحقیقت میں ایسا نہیں ہوگا، لیکن یاد داشت کی خاص نوعیت کی پختگی کا یہ اثر تھا۔ ایک دفعہ ایک نجی مجلس میں تبلیغی جماعت کے کام کے ابتدائی دور کے بارے میں حضرت مولانا محمد الیاس صاحب اور حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کا ایک مکالمہ انہوں نے سنایا جو ڈاکٹر صاحب کی دادی صاحبہ کے گھر میں تھانہ بھون میں پیش آیا۔ ڈاکٹر صاحب اپنے والد مرحوم کے حوالے سے یہ واقعہ نقل کرتے تھے جو اس واقعے کے عینی گواہ تھے۔ بات چونکہ بہت اہم، تاریخی اور کام کی تھی اور تھی بھی سند متصل کے ساتھ، اس لیے کئی سال بعد جب فیصل آباد جامعہ امدادیہ میں ان کی تشریف آوری ہوئی تو ناشتے کے موقع پر وہی واقعہ دوبارہ سنانے کی فرمائش کی گئی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پہلی مرتبہ اور اس مرتبہ کے الفاظ بھی تقریباً ایک ہی تھے۔ راقم الحروف تو دو مرتبہ سننے کے بعد بھی ہو بہو اسے نقل کرنے کی ذمہ داری قبول نہیں کرسکتا، لیکن ڈاکٹر صاحب کو ہر مرتبہ ایک ہی تعبیر کے ساتھ یعنی روایت باللفظ کرتے ہوئے سنا جو آج کے دور میں یقیناًعجیب بات ہے۔بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ڈاکٹر صاحب ایک مرتبہ جو بات ایک تعبیر میں کہہ دیتے تھے، وہ الفاظ ان کے ذہن پر نقش ہو جاتے تھے اور جب بھی وہ بات دوبارہ کہنا ہوتی تو تقریباً انہی لفظوں میں ادا کرتے تھے۔
اوپر مولانا محمد الیاسؒ اور مولانا تھانوی ؒ کے جس مکالمے کا ذکر ہوا، وہ بات چونکہ عام فائدے کی ہے، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جتنی بات یاد ہے، اس قدر قارئین کے سامنے عرض کردی جائے۔ اگر روایت میں مجھ سے کمی کوتاہی ہوجائے تو کوئی صاحب اس کی تصحیح فرما دیں۔ 
جس زمانے میں حضرت مولانا محمد الیاس صاحب ؒ نے ایک خاص منہج سے دعوت وتبلیغ کا کام شروع کیا تو چونکہ یہ حضرات خود پسندی اور اعجاب برأیہ جیسی چیزوں سے بالکل دور ہوتے ہیں، اس لیے اپنی کار کردگی کو نمایاں کرنے، اسے ہر قیمت پر درست ثابت کرنے یا کسی بھی قسم کے اعتراض پر برافروختہ ہونے کی بجائے خود اس بارے میں متفکر رہتے ہیں کہ نہ معلوم میرا کام صحیح نہج پر ہوبھی رہاہے یا نہیں۔ اللہ کے مقبولین کے کاموں میں یہ بات قدرِ مشترک ہوتی ہے۔ بانی تبلیغی جماعت کے متعدد واقعات اور ملفوظات اس بات پر گواہ ہیں کہ وہ بھی اس جذبے سے سرشار تھے۔ اسی جذبے کے تحت مولانا محمد الیاس ؒ نے اپنے وقت کے اکابر سے رابطہ رکھا۔ اسی موضوع پر تبادلہ خیال کرنے اور راہ نمائی حاصل کرنے کے لیے مولانا تھانوی ؒ کے ہاں بھی حاضری دی اور کچھ دن تھانہ بھون میں قیام فرمایا۔ غالباً قیام کے آخری دن میں ڈاکٹر محمود احمد غازی ؒ کی دادی مرحومہ نے، جن کی دونوں حضرات کے ساتھ رشتہ داری تھی، دونوں (مولانا محمد الیاس ؒ اور مولانا تھانویؒ ) کی دعوت کی۔ اس موقع پران حضرات کے درمیان جو گفتگو ہوئی، وہ ڈاکٹر صاحب نقل فرمایا کرتے تھے۔ حضرت مولانا محمد الیاس ؒ نے عرض کیا کہ میں نے یہاں رہ کر کافی غور وتدبر بھی کیا ہے اور استخارہ بھی، مجھے تو اس کام پر شرح صدر ہے۔ اس کی وجوہات بھی انہوں نے تفصیل سے بیان فرمائیں۔ زیادہ گفتگو انہوں نے ہی فرمائی۔ مولانا تھانویؒ زیادہ تر خاموش ہی رہے، البتہ آخر میں حضرت مولانا تھانویؒ نے فرمایا کہ اگر آپ کو اس کام پر شرح صدر ہے تو اللہ کا نام لے کر اسے شروع کردیجیے، لیکن اس میں تین باتوں کا خاص خیال رکھا جائے۔ ایک تو یہ کہ شریعت میں جو چیزیں بھی مطلوب اور مستحسن ہیں، ان کے درجات ہیں۔ کوئی فرض ہے، کوئی واجب ہے، کوئی مستحب ہے وغیرہ وغیرہ ( بلکہ ایک ہی کام کے مختلف حالات کے اعتبار سے مختلف احکام ہوتے ہیں)۔ اس کام کے دوران شریعت کی اس درجہ بندی کو بطور خاص ملحوظ رکھا جائے کہ اس میں رد وبدل نہ ہو۔ دوسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ جو لوگ دین کے دوسرے کاموں میں لگے ہوئے ہیں یا ان میں دوسرے کام انجام دینے کی زیادہ صلاحیت ہے، انہیں اگر دعوت کے اس خاص انداز کے کام میں لگنے پر شرح صدر نہ ہو تو انہیں شامل کرنے کے لیے اصرار نہ کیا جائے۔ یہ میری ’یاد داشت ‘ کا کمال ہے کہ تیسری بات مجھے اچھی طرح یاد نہیں رہی۔ غالباً کچھ اس طرح کی تھی کہ جس طرح کا خطابِ عام کرنا صرف اہل علم کا کام ہے، وہ غیر اہل علم سے نہ کروایا جائے۔ 
یہ واقعہ ایک طرف تو حضرت مولانا محمد الیاس ؒ کے اخلاص اور للہیت پر دلالت کرتا ہے کہ مولانا تھانوی ؒ کے اس مشورے کو انہوں نے اپنے کام کی مخالفت کا نام دینے کی بجائے طلب کے انداز میں اسے سنا، دوسری طرف اس سے مولانا تھانوی ؒ کی دور اندیشی اور فہم وفراست کا بھی اندازہ ہوتاہے ۔ چنانچہ مولانا محمد الیاس ؒ نے اپنے اس شرح صدر کی بنیاد پر جو کام شروع کیا، آج وہ ایک عالمی تحریک کی شکل اختیار کر چکا ہے اور اس کے مبارک فوائد اور ثمراتِ حسنہ کا انکار صرف وہی شخص کرسکتاہے جس نے آنکھیں بند کرنے کا ہی فیصلہ کر رکھا ہو۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مولانا تھانوی ؒ نے کام کے آغاز میں جو مشورے دیے تھے، آج پون صدی گذرنے کے بعد بھی وہ مشورے زندہ، تازہ اور حالات سے متعلقہ معلوم ہوتے ہیں۔ 
میں نے ڈاکٹر صاحب سے یہ عرض کیا کہ یہ واقعہ اور مکالمہ خود انہی کی طرف سے لکھ کر شائع ہوجائے تو اچھا ہے، تاکہ یہ بات ریکارڈ کا بھی حصہ بن جائے۔ کسی حد تک اس ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ کہہ کر ہچکچاہٹ کا اظہار فرمایا کہ اس میں چونکہ بڑوں کی طرف اپنی نسبت کا اظہار بھی ہے، اس لیے اچھا نہیں لگتا۔
ڈاکٹر صاحب کی ایک اہم خوبی یہ تھی کہ جس کام میں افادیت کا کوئی پہلو ہوتا تو محض چھوٹے شخص کے ہاتھوں ہونے یا بظاہر معمولی نظر آنے کے باوجود اس کی حوصلہ افزائی اور راہ نمائی سے گریز نہیں فرماتے تھے۔جامعہ امدادیہ کے ایک فاضل نے، جو ایک دینی مدرسے میں استاذ ہیں، ڈاکٹر حمید اللہ ؒ کے سیرت پر کسی پرانے مضمون کو ایڈٹ کر کے کتابچے کی شکل شائع کرنے کا ارادہ کیا۔ انہوں نے مسودہ مجھے بھی دکھایا۔ اس سے اندازہ ہوا کہ ایک بظاہر چھوٹے شخص کے کام کو بھی انہوں نے کس دقیقہ رسی سے ملاحظہ کیا تھا۔ 
ڈاکٹر صاحب کی رحلت سارے ہی دینی اور علمی حلقوں کا بہت بڑا نقصان ہے، لیکن ان کی شخصیت کا ایک پہلو ایساہے جس کی بنیاد یہ کہا جاسکتاہے کہ سب سے زیادہ نقصان دینی مدارس کا ہواہے، اس لیے کہ ڈاکٹر صاحب کی جدید فکری اور تعلیمی رجحانات پر نظر تو معروف ہے ہی، اس حوالے سے وہ صرف صاحب مطالعہ ہی نہیں، صاحب تجربہ بھی تھے۔ انہیں زندگی میں مختلف رجحانات رکھنے والی شخصیات سے قرب اور ان سے استفادے کے مواقع نصیب ہوئے۔ انہیں بے شمار ایسے اسفار کا موقع ملا جن میں کئی مسلم اور غیر مسلم مفکرین اور قائدین سے تبادلۂ خیال اور مکالمے کا موقع ملا۔ وہ متعدد ایسے اہم مناصب پر بھی فائز رہے جو نہ صرف اختیارات کے اعتبار سے اہم ہوتے ہیں بلکہ ان کی یہ اہمیت بھی ہوتی ہے کہ ان کی بدولت بہت سی ایسی معلومات تک آدمی کی کسی رسائی ہوجاتی ہے جس کی عام حالات میں توقع کم ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے انہیں جہاں دیدہ شخص کہا جاسکتاتھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ دینی مدارس کے نظام اور مزاج سے نہ صرف واقف تھے بلکہ باقاعدہ اس نظام کے اندر سے گذرے ہوئے تھے اور ان کی شخصیت کی ابتدائی ساخت پرداخت میں اس نظام کا بڑا حصہ تھا۔ حقیقت میں انہیں جو نسبتیں حاصل تھیں اور ذاتی طور وہ جن اوصاف کے مالک تھے، ان کے مطابق یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ان کے اندر ایک صوفی اور ملا چھپا ہوا تھا یا انہوں نے چھپایا ہوا تھا، اس لیے انہیں مسٹر وملا کی خصوصیات کے امتزاج کا ایک اچھا نمونہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ 
خاندانی طور پر ایک طرف وہ کاندھلہ کے اس معروف علمی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے جس نے حضرت مولانا محمد الیاس رحمہ اللہ جیسی عظیم شخصیت کو جنم دیا اور دوسری طرف سے وہ تھانہ بھون کے فاروقی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ان کی ابتدائی تعلیم وتربیت بھی دینی ماحول میں ہوئی۔ وہ بنیادی طور پر دینی مدارس کے پڑھے ہوئے تھے، محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری ؒ جیسی شخصیات ان کے اساتذہ میں شامل تھیں۔ اس وجہ سے جب سوال آتا تھا کہ دینی مدارس کے اصل اہداف اور مزاج کو برقرار رکھتے ہوئے عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق ان کے نصاب و نظام میں کیا تبدیلی لائی جاسکتی ہے تو اس سلسلے میں کردار ادا کرسکنے والی جن گنی چنی شخصیات پر نظر جاتی تھی، ان میں ڈاکٹر صاحب سرِ فہرست تھے ۔ 
دینی مدارس پر خاصا وقت ایسا گزرا کہ جو شخص عصری جامعات کی لائن اختیار کرلے، اس سے گریز کی راہ اختیار کی جاتی تھی اور ایسے شخص کی کسی بات پر دھیان نہیں دیا جاتا تھا، خواہ وہ ان کے اندر سے ہی نکل کر کیوں نہ گیا ہو ، تاہم پچھلے کچھ عرصے میں اس رجحان میں خاصی تبدیلی آئی ہے اور خود ڈاکٹر صاحبؒ سے بھی بعض اہل مدارس استفادے کے لیے رجوع کرنے لگے تھے۔خصوصاً ملک کے ایک اہم اور معروف ادارے جامعۃ الرشید نے، جس کے فکری پس منظر اور ’’مسٹر گریزی‘‘ کی روایت کو دیکھتے ہوئے اس پر تجدد پسندی کا الزام لگانا اتنا آسان نہیں ہے، کچھ عرصہ سے بہت اہتمام سے ڈاکٹر صاحب ؒ کو اپنے ہاں مدعو کرنے کا سلسلہ شروع کردیا تھا جو نہ صرف بذاتِ خود خوش آئند بات تھی بلکہ اس کے فوائد کے متعدی ہونے کے امکانات واضح ہورہے تھے اور یہ توقع بندھنے لگی تھی کہ دینی مدارس ڈاکٹر صاحب ؒ جیسی شخصیات، جو دونوں جہتوں کو گہرائی کے ساتھ سمجھتی ہیں، کی فکر اور تجربے سے استفادہ کرنے لگیں گے اور ڈاکٹر صاحب دو ایسے طبقوں کے درمیان پل کا کام دیں گے جن کے درمیان قدرِ مشترک اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کا جذبہ اور اسلامی تعلیمات کو زندگی کے ہر شعبے میں جیتے جاگتے انداز میں دیکھنے کی تڑپ ہے۔ بہرحال کہنے کا مقصد یہ ہے کہ لگتا تھا کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ ڈاکٹر صاحب ؒ نے دنیا میں گھوم پھر کر اور مختلف اداروں میں اور مختلف شخصیات کے ساتھ کام کرکے جو تجربہ حاصل کیا ہے، اسے دینی مدارس کے اہداف کے مطابق بنا کر اس سے استفادے کا ایک سلسلہ چل نکلے گا، اس لیے میں نے اوپر عرض کیا کہ غالباً یہ کہنا درست ہوگا کہ ڈاکٹر صاحب کی رحلت سے سب سے زیادہ نقصان دینی مدارس کو ہوا ہے۔
چند دن پہلے ایک صاحب کہنے لگے کہ ڈاکٹر صاحبؒ مدرسہ کی لائن کے آدمی تھے، دوسری طرف کیوں نکل گئے؟ میں نے کہا: دوسری طرف نکل گئے تو اچھا ہوا۔ ادھر سے جو کچھ لے کر آئے، اس کو ہم لے لیتے اور مدرسوں میں منتقل کر دیتے۔ ان کے علم سے استفادہ کرتے۔ اگر بچوں کا والد کہیں باہر سفر پر جائے تو بچوں کو امید ہوتی ہے کہ ہمارا والد ہمارے لیے کوئی تحفہ لے کر آئے گا۔ ڈاکٹر صاحبؒ اگر دوسری طرف نکلے ہیں تو ہمیں انتظار ہونی چاہیے تھی کہ ہمارے لیے ڈاکٹر صاحبؒ کیا تحفہ لے کر آئیں گے۔ یقیناًدینی مدارس کو دینے کے لیے ان کے پاس بہت کچھ تھا۔
دو سال پہلے جب راقم الحروف کی طالب علمانہ کاوش ’’ تکملۃ معارف السنن‘‘ کی پہلی جلد چھپ کر منظر عام آئی تو کئی احباب کا اصرار تھا کہ اس حوالے سے ایک تقریب منعقد ہوجائے۔ جامعہ امدادیہ میں دورۂ حدیث شریف کے طلبہ سال کے اختتام پر ایک الوداعی تقریب منعقد کرتے ہیں، ان کی بھی خواہش تھی کہ یہ تقریب اس حوالے سے ہو۔ اس مقصد کے لیے پہلے مولانا زاہد الراشدی اور بعض دیگر اہل علم سے رابطہ ہوا ، لیکن ان سے وقت کے حصول کی کوئی صورت نہ بن سکی۔ پتہ چلا کہ ڈاکٹرصاحب قطر سے پاکستان تشریف لائے ہوئے ہیں۔ موقع غنیمت جانتے ہوئے برادرِ مکرم مفتی محمد طیب صاحب مدظلہم کے کہنے پر ان سے گذارش کی۔ انہوں نے کمالِ شفقت فرماتے ہوئے بلا ترد د وقت عنایت فرمایا۔ احقر نے کتاب کا ایک نسخہ ملاحظہ کے لیے روانہ کیا۔ تشریف آوری کی تاریخ سے چند دن پہلے جب راقم الحروف نے فون پر حتمی انتظامات اور ترتیب کے لیے رابطہ کیا تو یہ ان کی بڑائی اور خورد نوازی تھی کہ فرمایا کہ آپ کی کتاب میں نے دیکھ لی ہے، اس نے مجھے مسخر کرلیا ہے۔ اب آپ جیسے کہیں گے، ویسے ہی ہوگا۔ ڈاکٹر صاحب کے قیام کے لیے اچھے ہوٹل میں انتظام کا ارادہ کیا گیا، لیکن ڈاکٹر صاحبؒ کو معلوم ہوا تو انہوں نے سختی سے منع کردیا اور فرمایا کہ میں مدرسے میں ہی ٹھہرنا پسند کروں گا۔ ڈاکٹر صاحب ؒ نے علما اور طلبہ سے ان کی ذمہ داریوں کے موضوع پر بھی خطاب فرمایا اور تکملہ معارف السنن کے حوالے سے ہونے والی تقریب میں تدوین حدیث اور صحاحِ ستہ کے موضوع پر بہت ہی مؤثر اور انکشافات سے پر بیان فرمایا ( جو قلم بند ہوچکاہے اور ڈاکٹر صاحب اس پر نظر ثانی اور نظر ثالث بھی فرما چکے ہیں، ان شاء اللہ جلد شائع کرنے کا ارادہ ہے۔) حقیقت یہ ہے کہ متعدد حضرات کو حدیث شریف کے حوالے سے منعقد ہونے والی ایک مجلس میں یونیورسٹی کے کسی پروفیسر کو مدعو کرنا ہوسکتا ہے کہ عجیب سا معلوم ہوا ہو، لیکن ڈاکٹر صاحب ؒ کا خطاب خود ہی ایسے اشکالات کا جواب تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ حدیث کے استناد پر جو یقین اب حاصل ہوا ہے، پہلے نہیں تھا، فجزاہ اللہ عنا خیر الجزاء وأحسنہ۔
ڈاکٹر صاحب کے خاندان اور ابتدائی تعلیمی پس منظر کو دیکھا جائے تو ایک خاص حلقۂ فکر سے ان کا تعلق نظر آتاہے جو بر صغیر میں اپنی گہری جڑیں رکھتاہے۔ ایک حد تک یہ فطری سی بات ہے کہ آدمی کے لیے اپنی جڑوں سے الگ ہونا انتہائی مشکل ہوتاہے۔ ڈاکٹر صاحب کے فکر و عمل پر یقیناًیہ پس منظری اثرات ضرور ہوں گے، لیکن نہ صرف یہ کہ انہوں نے خود کو ہر قسم کے تعصبات سے پاک رکھا، بلکہ غالباً یہ کہنا درست ہوگا کہ انہوں نے خود کو کسی خاص حلقۂ فکر کی طرف منسوب کرنے یا اس کا ترجمان باور کرانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ان کی شناخت دینی علوم کے ایک ایسے شناور کی تھی جسے مسلمانوں کے تمام طبقات اپنا اثاثہ سمجھتے تھے۔ ان کا اگر کوئی ’’ تعصب‘‘ تھا تو صرف امت مسلمہ کا درد اور اس کا عمومی مفاد تھا، اس حوالے سے وہ مغرب شناس ضرور تھے، اس سے مرعوب یا اس کے بارے میں کسی خوش فہمی کا شکار ہرگز نہیں تھے۔
میں نے ڈاکٹر صاحب ؒ کا گھر سب سے پہلے اس وقت دیکھا جب جنازے کے لیے حاضری ہوئی۔ جب ہم وہاں پہنچے تو جنازے کو اٹھا کر باہر لایا جا رہا تھا۔ ڈاکٹر صاحب جیسی معروف شخصیت جو اہم مناصب پر فائز رہی ہو، ایک ایسے حاکم کے زمانے میں وزیر اور نیشنل سیکورٹی کونسل کے رکن رہے جس کی طاقت کا سورج اس وقت سوا نیزے پر تھا۔ میرا اندازہ تھا کہ ان کا خاصا بڑا مکان ہوگا، لیکن سرسری طور پر باہر ہی سے ان کا مکان دیکھنے کا اتفاق ہوا جو میرے لیے ان کے مقام کے لحاظ سے حیرت کا باعث بھی تھا اور ان کی درویشی کی دلیل بھی۔ 
بہر حال موت سے کسی کو مفر نہیں۔ جو اس دنیا میں آیا ہے، اسے یہاں سے جانا بھی ہے۔ اللہ کے ہاں ان کی حکمت بالغہ کے تحت ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے، لیکن مفارقت اور جدائی کا غم فطری امر ہے۔ اس حادثے پر نہ معلوم کتنے لوگ خود کو تعزیت کا مستحق سمجھتے ہوں گے۔ سب کی خدمت میں تعزیت پیش ہے، خاص طور پر ڈاکٹر صاحب ؒ کے اہل خانہ، ان کی والدہ ماجدہ، ان کے برادر مکرم جناب ڈاکٹر احمد الغزالی، ان کی اولاد اور ان کے برادرِ نسبتی جناب ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی صاحب کی خدمت میں تعزیت پیش ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی کامل مغفرت فرمائے، ان کی لغزشوں کو معاف فرمائے اور ان کی حسنات کو قبول فرمائے۔ ان کے درجات کو بلند فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ اللہم لا تحرمنا اجرہ ولا تفتنا بعدہ۔

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ چند خوشگوار یادیں

محمد مشتاق احمد

(رمضان کے بعد سے میں مسلسل بیمار رہا ہوں ۔ پہلے بخار ، پھر ملیریا ، پھر ٹائیفائیڈ اور پھر بیماریوں کے aftershocks ۔ تاہم برادرد محترم جناب عمار خان ناصر نے جب ذکر کیا کہ وہ استاد محترم ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب رحمہ اللہ کی یاد میں ’’الشریعہ ‘‘کی خصوصی اشاعت کا اہتمام کررہے ہیں تو دل سے بے اختیار ان کے لیے دعا نکلی ۔ میرا ارادہ تو اصل میں یہ تھا کہ غازی صاحب کی بعض تحریرات اور ان کے پیش کردہ بعض تصورات پر تفصیلی مقالہ لکھوں لیکن کچھ تو بیماری کی وجہ سے اور کچھ مصروفیات کی وجہ سے وہ مقالہ ابھی ادھورا ہی ہے ۔ تاہم غازی صاحب کے ساتھ گزارے ہوئے چند لمحات کا تذکرہ ’’الشریعہ‘‘ کے لیے پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔)

۲۶ ستمبر ۲۰۱۰ء کی صبح ڈاکٹر محمد منیر صاحب، سربراہ شعبۂ قانون، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد نے اطلاع دی کہ استاد محترم جناب ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب حرکت قلب بند ہوجانے کی وجہ سے انتقال کرگئے ہیں۔ کافی دیر تک صدمے کی کیفیت میں مبتلا رہا۔ آنسوؤں اور دعاؤں کا ایک عجیب امتزاج تھا جو والدہ مرحومہ کی وفات کے بعد پہلی دفعہ اتنی شدت سے محسوس کیا۔ بے بسی کے احساس نے صدمے میں اور بھی اضافہ کیا کیونکہ بیماری کی وجہ سے ڈاکٹرنے مجھے سفر سے منع کیا تھا۔ البتہ ایک بات نے بہت حوصلہ دیا کہ غازی صاحب کے شاگردوں نے ان کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار نہایت شدت سے کیاْ۔ بے شمار لوگوں نے فون یا ایس ایم ایس کیے یا ای میل کیے۔ غازی صاحب کے شاگرد ایک دوسرے کے ساتھ تعزیت کرتے رہے اور ایک دوسرے کو دلاسا دیتے رہے ، اور پھر ایک دوسرے سے چھپ کر تنہائی میں روتے رہے۔ ان گفتگوؤں میں ہم نے غازی صاحب کے ساتھ گزرے لمحات ایک دوسرے کے ساتھ شیئر بھی کیے۔ آج ایسے ہی چند لمحات ’’ الشریعہ‘‘ کے قارئین کے ساتھ شیئر کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں ۔ 

ابتدائی دور 

راقم الحروف نے ۱۹۹۴ء میں ایف ایس سی کے بعد بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ یہ وہ دور تھا جب ابھی یونیورسٹی کی ’’بین الاقوامی‘‘ اور ’’اسلامی‘‘ دونوں خصوصیات بہت نمایاں تھیں۔ طلبا میں اکثریت غیر ملکیوں کی تھی۔ ساٹھ فی صد نشستیں غیر ملکی طلبا کے لیے اور چالیس فی صد نشستیں پاکستانی طلبا کے لیے مخصوص ہوتی تھیں، چنانچہ پچاس سے زائد ممالک سے تعلق رکھنے والے طلبا اسلامی یونیورسٹی میں پڑھتے تھے۔ فیصل مسجد کے قریب واقع کویت ہاسٹل تو امت مسلمہ کی کثرت میں وحدت کی زبردست مثال تھا۔ یونیورسٹی کی عمومی فضا پر اسلامیت کے ساتھ ساتھ عربیت کا پہلو بھی غالب تھا۔ کلیہ عربی، کلیہ اصول الدین اور کلیہ شریعہ کے طلبا کے لیے تو ویسے بھی عربی میں مہارت ضروری تھی، لیکن نہایت خوش آئند بات یہ تھی کہ اکنامکس اور کمپیوٹر کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے طلبا بھی عربی سے مناسبت رکھتے تھے۔ 
یونیورسٹی میں ہر ہفتے مختلف شعبوں کی جانب سے متنوع موضوعات پر سیمینار ہوتے تھے۔ میرا ذاتی تاثر یہ ہے کہ دو گھنٹے کے اس طرح کے سیمینار زمیں بیٹھ کر جو کچھ میں نے سیکھا، وہ شاید چھ گھنٹے کی کلاسز میں نہیں سیکھ پاتا۔ علمی اور ادبی پہلو سے تویہ سمینارز نہایت مفید ہوتے ہی تھے، لیکن دیگر کئی پہلوؤں سے بھی ان سیمینارز کا بڑا فائدہ ہوتا تھا۔ ایک دفعہ اسی طرح کے ایک سیمینار میں ہمارے ایک کلاس فیلو اسٹیج سیکریٹری کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ انھوں نے صدر جامعہ کو خطاب کے لیے بلایا تو پورا نام لینے کے بجائے محض ’’ڈاکٹر شافعی‘‘ کہہ کر انھیں خطاب کی دعوت دی۔ میں نے محسوس کیا کہ اسٹیج پر بیٹھے ڈاکٹر غازی صاحب کو یہ بات پسند نہیں آئی۔ پھر جب غازی صاحب خطاب کے لیے اٹھے تو انھوں نے اسٹیج سیکریٹری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی محفل کے کچھ آداب ہوتے ہیں جنھیں ملحوظ نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ چونکہ آپ سیکھنے کے مرحلے میں ہیں، اس لیے یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کریں کہ کسی بھی مقرر کو دعوت دینے سے پہلے ان کا پورا نام لیا کریں اور ادارے کے ساتھ ان کا تعلق مناسب الفاظ میں بیان کیا کریں۔ چنانچہ غازی صاحب کی تجویز یہ تھی کہ ’’ڈاکٹر شافعی‘‘ کہنے کے بجائے آپ کو یوں کہنا چاہیے تھا: ’’جناب ڈاکٹر حسن محمود عبد اللطیف الشافعی، صدر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد‘‘۔ غازی صاحب کی یہ بات ہم سب نے یاد رکھی اور آج بھی جب میں اپنے طلبا میں کسی کو پہلی دفعہ اسٹیج سیکریٹری کے فرائض انجام دینے کے لیے کہتا ہوں تو دیگر نصیحتوں کے ساتھ یہ نصیحت بھی لازماً کرتا ہوں۔ 
اس طرح کے سیمینارز میں بعض اوقات ایسا ہوتا تھا کہ کسی مقرر نے انگریزی میں تقریر کی اور مہمانوں میں بعض ایسے تھے جو انگریزی نہیں سمجھتے تھے یا اس کے برعکس ہوا کہ تقریر عربی میں کی گئی لیکن بعض مہمان عربی نہیں سمجھتے تھے تو اس وقت کے صدر جامعہ جناب ڈاکٹر حسین حامد حسان فوراً ڈاکٹر غازی صاحب سے درخواست کرتے کہ وہ اس تقریر کا خلاصہ انگریزی یا عربی میں پیش کریں اور میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ غازی صاحب نے ہچکچاہٹ محسوس کی ہو۔ وہ اٹھتے اور جب خلاصہ ہیش کرتے تو سامعین نہ صرف ان کی زبان دانی کی وجہ سے، بلکہ ان کی قوت حافظہ کی بنا پر بھی انگشت بدنداں رہ جاتے۔ ایک دفعہ ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی صاحب ایک نہایت اہم موضوع پر اپنے فاضلانہ خیالات کا اظہار کررہے تھے کہ اچانک ہی (out of the blue) صدر جامعہ نے غازی صاحب سے کہا کہ وہ ساتھ ساتھ اس کا عربی ترجمہ بھی کرتے جائیں۔ ہم میں سے کئی طلبا کی رائے یہ تھی کہ غازی صاحب جیسے بڑے عالم کے ساتھ یہ زیادتی ہے اور ان کی قدر ناشناسی ہے کہ ان کو اس طرح کے کام کا کہا جاتا ہے اور وہ بھی یوں اچانک، لیکن غازی صاحب اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ اٹھے اور انگریزی سے عربی میں فی البدیہہ ترجمہ شروع کردیا۔ گیلانی صاحب دو دو تین تین جملے بولتے اور غازی صاحب فی البدیہہ ان کا نہایت فصیح و بلیغ ترجمہ کرتے جاتے۔ 
انگریزی اور عربی کے علاوہ کئی دیگر زبانوں، بالخصوص فارسی اور فرانسیسی میں بھی ان کی مہارت کا یہی عالم تھا۔ اقبال کا سارا کلام اور بالخصوص فارسی کلام ان کو ازبر تھا۔ انھوں نے ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرانسیسی زبان سے انگریزی میں ترجمہ کی جس کی پہلی جلد ادارۂ تحقیقات اسلامی نے شائع کی۔ ہمارے بعض دوست کہا کرتے ہیں کہ مختلف زبانوں میں مہارت غازی صاحب کا خاندانی ورثہ ہے، کیونکہ ان کے بھائی محترم جناب ڈاکٹر محمد الغزالی بھی اس معاملے میں اگر ان سے آگے نہیں تو پیچھے بھی نہیں ہیں۔ 
ایک دفعہ غازی صاحب نے مجھے پشتو زبان کی بعض ایسی خصوصیات کی طرف توجہ دلائی جس کی طرف میرا کبھی دھیان نہیں گیا تھا، باوجود اس کے کہ پشتو میری مادری زبان ہے اور پشتو شعر و ادب سے مجھے تھوڑا بہت شغف بھی ہے۔ غیر ملکی وفود کے ساتھ ملاقات سے پہلے غازی صاحب کی خواہش یہ ہوتی تھی کہ ان کی زبان کے چند مناسب کلمات اور جملے، بالخصوص خیر مقدمی کلمات سیکھ لیں اور صحیح تلفظ کے ساتھ ادا بھی کریں۔ چنانچہ بعض اوقات وہ اس ملک کے کسی طالب علم کو بلا کر اس سے مدد بھی لیتے تھے۔ پھر جب وہ غیر ملکی مہمانوں کے ساتھ پہلی ملاقات میں انہی کی زبان اور انہی کے لہجے میں خیر مقدمی کلمات کہتے تو وہ بہت زیادہ متاثر ہوتے تھے۔ 

اقبال اور قائد اعظم کے ساتھ محبت 

اقبال کے ساتھ غازی صاحب کو والہانہ محبت تھی اور مختلف مواقع پر وہ اس محبت کا اظہار بھی نہایت پر اثر انداز میں کرتے تھے۔ کلام اقبال کا جس طرح بر محل استعمال وہ کرتے تھے، وہ بھی بس انہی کا خاصہ تھا۔ اقبال کے ساتھ محبت کی وجہ سے غازی صاحب کو ان سے بھی محبت تھی جن سے اقبال کو محبت تھی۔ چنانچہ جب غازی صاحب کو معلوم ہوا کہ میرے والد صاحب نے ایم فل اقبالیات کے مقالے میں ’’اقبال اور افغانستان‘‘ کے موضوع پر تحقیق کی ہے اور وہ تحقیق کتابی شکل میں شائع بھی ہوئی ہے تو وہ بہت خوش ہوئے اور کہا کہ مجھے تو اقبال سے بھی محبت ہے اور افغانستان سے بھی، اس لیے پہلی فرصت میں یہ کتاب لے آئیے گا۔ اس کے بعد جب بھی غازی صاحب سے ملاقات ہوئی وہ والد صاحب کا نہایت محبت سے ذکر کرتے تھے اور ان کی صحت کے متعلق پوچھا کرتے تھے۔ 
اقبال کے ساتھ غازی صاحب کی والہانہ محبت کا اندازہ مجھے اپنے زمانۂ طالب علمی میں ان علمی و ادبی مجالس میں ہوا جن کا انعقاد کلیہ عربی کے پروفیسر حبیب الرحمان عاصم صاحب نومبر کے مہینے میں کرتے تھے۔ ان مجالس میں اہل علم، بالعموم عربی زبان میں، اقبال اور کلام اقبال پر علمی مقالات پیش کرتے۔ ان مجالس میں ایک خاصے کی چیز یہ ہوتی تھی کہ مجلس کے آخر میں کلیہ عربی کے عمید جناب ڈاکٹر رجاء جبر اقبال کے فارسی کلام میں کسی حصے کا انتخاب کرکے اس پر اپنے مخصوص شگفتہ انداز میں تفصیلی درس دیتے۔ غازی صاحب ان مجالس کے روح رواں ہوتے تھے۔ وہ نہ صرف خود فکر اقبال کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالتے بلکہ دوسرے اہل علم کے مقالات پر بعض اوقات تعلیقات بھی پیش فرماتے۔ ایک دفعہ اس طرح کی ایک مجلس میں ایک عرب مقرر نے شگفتہ اردو زبان میں اقبال کے انقلابی فکر پر ایک دلچسپ مقالہ پیش کیا۔ اس مقالے میں کسی وجہ سے زیادہ تر اقبال کے ان اشعار کا انتخاب کیا گیا تھا جن میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ تھا یا ’’رسم شبیری‘‘ ادا کرنے کی ترغیب تھی ۔ اس سے بظاہر یہ تاثر ملتا تھا کہ اقبال شاید تشیع کی طرف مائل تھے۔ مقالے کے اختتام پر غازی صاحب اسٹیج پر تشریف لائے اور ’’تعلیق ‘‘ کی صورت میں اس تاثر کی نفی کی اور ایک متوازن رائے قائم کرنے کے لیے اقبال کے دیگر اشعار اور اقوال کا حوالہ دیا۔ 
اقبال کی طرح غازی صاحب کو قائد اعظم محمد علی جناح سے بھی عقیدت اور محبت تھی اور اپنی تقاریر میں وہ قائد اعظم کے اقوال کے بر محل حوالے بھی دیا کرتے تھے۔ ۲۰۰۳ء کی بات ہے کہ اسلام آباد میں مولانا نصیب علی شاہ ہاشمی ؒ کی کاوشوں سے ایک عظیم الشان فقہی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس کانفرنس سے جناب غازی صاحب نے بھی خصوصی خطاب کیا اور اس وقت مجھے خوشگوار حیرت بھی ہوئی اور غازی صاحب کی جرأت رندانہ پر رشک بھی آیا جب انھوں نے علمائے کرام کی اس مجلس میں اسلامی معاشی نظام پر گفتگو کا آغاز کلام اقبال اور اقوال قائد سے کیا۔ انھوں نے اقبال کے خطبۂ الٰہ آباد کا حوالہ دیا جس میں اقبال مسلمانوں کے الگ قومی تشخص کی بات کرنے کے علاوہ مسلمانوں کے معاشی مسائل کی طرف بھی توجہ دلاتے ہیں۔ اس کے بعد انھوں نے قائد اعظم کے ساتھ اقبال کی خط و کتابت کا ذکر کیا جس میں اقبال نے قائد اعظم کو مسلمانانِ برصغیر کی قیادت کی ذمہ داری سنبھالنے کے لیے قائل کیا۔ مجھے غازی صاحب کی یہ بات اچھی طرح یاد ہے کہ اقبال نے نہ صرف مسلمانوں کے لیے منزل کا تعین کیا بلکہ اس منزل تک پہنچانے کے لیے رہبر کا بھی انتخاب کیا۔ غازی صاحب نے اس خط و کتابت کے حوالے سے مزید کہا کہ اقبال نے اس اہم بات کی طرف بھی قائد اعظم کی توجہ دلائی کہ ہندو ساہوکار مسلمانوں کا معاشی استحصال کررہے ہیں اور یہ کہ مسلمانوں کی آزادی کا خواب تبھی شرمندۂ تعبیر ہوسکے گا جب ان کی معیشت ان ساہوکاروں کے قبضے سے آزاد کرائی جائے۔ اس کے بعد غازی صاحب نے قائد اعظم کی اس تقریر کا حوالہ دیا جو انھوں نے اپنی وفات سے صرف دو ماہ اقبل سٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر کی اور جس میں آپ نے فرمایا کہ مغربی معاشی نظام نہ صرف یہ کہ انسانوں کے مسائل کے حل میں ناکام رہا ہے بلکہ اس کی وجہ سے دو بڑی جنگیں بھی لڑی گئیں اور اب اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسا نظام تشکیل دے جو اسلامی اصولوں سے ہم آہنگ ہو کیونکہ صرف اسلامی نظام ہی معاشی عدل کو یقینی بنا سکتا ہے اور انسانوں کو ہلاکت سے بچا سکتا ہے ۔ 

قانون کی پابندی 

غازی صاحب کی سیرت کا ایک اہم پہلو یہ تھا کہ وہ اپنے قول و فعل سے قانون کی پابندی اور احترام کا درس دیتے تھے۔ میں یہاں دو ایسے واقعات کا حوالہ دوں گا جن کا میں خود شاہد ہوں۔ 
یہ دسمبر ۱۹۹۸ء کی بات ہے کہ میں اپنے تعلیمی کیرئیر کے ایک نہایت اہم موڑ پر پہنچ کر اچانک ہی ایک مسئلے کا شکار ہوگیا۔ اسلامی یونیورسٹی میں بی اے ۔ ایل ایل بی ( آنرز ) شریعہ و قانون کے پروگرام کا دورانیہ دس سمسٹرز (پانچ سال ) پر مبنی تھا۔ اس لحاظ سے میرے کورس کا اختتام جون ۱۹۹۹ء میں ہونا تھا، لیکن میں نے تین سال گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران میں اضافی کورسز پڑھے اور یوں یہ امکان پیدا ہوا کہ میرا کورس وقت سے پہلے دسمبر ۱۹۹۸ء میں ہی پورا ہوجائے۔ نیز اس وقت تک میں مسلسل آٹھ سمسٹرز میں اپنی کلاس میں پہلی پوزیشن لیتا رہا تھا۔ گویا اس نویں سمسٹر میں اگر میں یہی پوزیشن برقرار رکھتا تو بی اے اور ایل ایل بی دونوں میں گولڈ میڈل بھی حاصل کرلیتا، مگر میری والدہ مرحومہ، جو کینسر کی مریضہ تھیں، کی بیماری کی وجہ سے میں کئی کلاسز نہیں لے سکا۔ قانون یہ تھا کہ طالب علم کو امتحان میں بیٹھنے کی اجازت تبھی دی جاتی جب وہ کم از کم ۸۰ فی صد تک کلاسز میں حاضرہوا ہو۔ متعلقہ کورس کے استاد کو حق تھا کہ وہ مناسب عذر کی بنا پر طالب علم کو ۵ فی صد تک رخصت دے اور کلیہ کے عمید کو مزید ۵ فی صد تک تخفیف کا اختیار تھا۔ چھ کورسز میں میری حاضری پوری تھی، لیکن دو کورسز میں میری حاضری ۷۰ فی صد سے کم تھی، چنانچہ مجھے دو کورسز کے امتحان میں بیٹھنے سے روکا گیا ۔ 
غازی صاحب اس وقت وائس پریزیڈنٹ (اکیڈمکس) تھے۔ چنانچہ میں نے ان کو درخواست لکھی کہ وہ میرے سابقہ تعلیمی ریکارڈ اور میری موجودہ مجبوری کو مدنظر رکھتے ہوئے مجھے امتحان میں بیٹھنے کی اجازت دیں۔ جس وقت میں ان کے آفس میں داخل ہورہا تھا، وہ (غالباً سپریم کورٹ میں کسی مقدمے کی سماعت کے لیے) نکل رہے تھے۔ انھوں نے کھڑے کھڑے میری بات سنی۔ پھر کہا کہ قانون کے تحت تو اس کی گنجائش نہیں ہے۔ میں نے انھیں تفصیل سے اپنے سابقہ ریکارڈ سے آگاہ کیا، لیکن ان پر کچھ اثر ہی نہیں ہوا۔ انھوں نے کہا سابقہ ریکارڈ کی وجہ سے قانون سے انحراف کی گنجائش تو نہیں نکلتی۔ نوجوانی کا دور تھا اور خون بھی گرم تھا۔ میں نے انتہائی تیز لہجے میں کہا کہ ساڑھے چار سال تک میں نے جو محنت کی ہے، کیا آپ اسے ایک ہی ٹھوکر میں ھباء منثورا کردینا چاہتے ہیں؟ یہ سن کر غازی صاحب کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور انھوں نے میرے شانے پر تھپکی دے کر کہا کہ میں دو گھنٹے بعد آفس آؤں گا اور دیکھوں گا کہ تمھارے لیے کوئی گنجائش نکل سکتی ہے یا نہیں۔ بعد میں جب وہ آئے اور میرے ایک نہایت ہی محترم استاد نے ان سے اس سلسلے میں بات کی تو غازی صاحب نے انھیں بتایا کہ اس نوجوان سے ہمدردی کے باوجود میں اس کے لیے کچھ نہیں کرسکتا، کیونکہ پورے کیس کا جائزہ لینے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ قانون کے تحت تخفیف کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ گولڈ میڈل سے محرومی کے باوجود غازی صاحب سے میری محبت میں کمی نہیں آئی، بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوا ۔ان کی وہ مسکراہٹ اور تسلی دینے کا ان کا وہ انداز مجھے ابھی تک اچھی طرح یاد ہے اور اب بھی میں اسے اپنے لیے ان کی جانب سے ایک انعام سمجھتا ہوں۔ 
ایک اور واقعہ یاد آرہا ہے۔ ۲۰۰۶ء میں جب وہ یونیورسٹی کے پریزیڈنٹ کے عہدے سے فارغ ہوئے تو انھوں نے پھر کلیہ شریعہ میں پروفیسر شریعہ کے طور پر پڑھانا شروع کیا۔ ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی صاحب اس وقت کلیہ کے عمید تھے۔ انھوں نے مختلف موضوعات پر اساتذہ کی جانب سے پیش کیے جانے والے تحقیقی خاکوں کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تاکہ یونیورسٹی کے ریسرچ فنڈ سے اساتذہ کی مدد کی جائے۔ فاروقی صاحب نے غازی صاحب کو اس کمیٹی کا چیئر مین بنایا اور دیگر سینئر اساتذہ کے ساتھ وہ خود اس کے ممبر بنے، جبکہ مجھے انھوں نے اس کمیٹی کا سیکریٹری بنا دیا ۔ جب میں اس کمیٹی کی میٹنگ کے حوالے سے غازی صاحب سے ملا تو انھوں نے کہا کہ قانون کے تحت اس طرح کی کسی بھی کمیٹی کا سربراہ عمید کلیہ ہی ہوتا ہے۔ میں نے یہ بات فاروقی صاحب کو بتائی تو انھوں نے کہا کہ غازی صاحب کی موجودگی میں کوئی اور کیسے اس کمیٹی کا سربراہ ہوسکتا ہے؟ اب جب میں نے غازی صاحب کو یہ بات بتائی تو میں نے صاف محسوس کیا کہ یہ بات انھیں ناگوار گزری ہے۔ انھوں نے فوراً یونیورسٹی کے قواعد و ضوابط کا مجموعہ اٹھا کر اس میں متعلقہ ضابطہ مجھے دکھادیا اور پھر پوچھا کہ اس ضابطے کی موجودگی میں عمید کے سوا کوئی اور اس کمیٹی کا سربراہ نہیں ہوسکتا۔ پھر انھوں نے یہی بات متعلقہ ضابطے کے حوالے سمیت لکھ کر مجھے دے دی کہ یہ نوٹ فاروقی صاحب کو دکھائیں۔ یوں غازی صاحب کے احترام کے باوجود فاروقی صاحب مجبوراً کمیٹی کے سربراہ بنے۔ 

کلیۃ الشریعۃ و القانون کے ساتھ خصوصی محبت 

غازی صاحب نے اسلامی یونیورسٹی میں کئی کلیدی عہدوں پر کام کیا۔ وہ دعوہ اکیڈمی اور شریعہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل بھی رہے اور یونیورسٹی کے نائب صدر برائے اکیڈمکس (تعلیمی امور) کے طور پر بھی انھوں نے کافی عرصہ کام کیا۔ ۲۰۰۴ء سے ۲۰۰۶ء تک یونیورسٹی کے صدر کے طور پر انھوں نے خدمات انجام دیں اور ۱۹۸۵ء کے بعد سے جب یونیورسٹی ’’بین الاقوامی ‘‘ بنی تھی، وہ پہلے پاکستانی تھے جو صدر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اس تمام عرصے میں غازی صاحب نے کلیۃ الشریعۃ و القانون کے ساتھ اپنا خصوصی تعلق برقرار رکھا۔ چنانچہ وہ صدر کے طور پر کام کرنے کے دوران میں اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود اس کلیہ میں کلاسز پڑھاتے رہے۔ انھوں نے یونیورسٹی کے ریکٹر جناب جسٹس (ریٹائرڈ ) خلیل الرحمن خاں کو قائل کیا کہ وہ قانون کے طلبا کو پاکستان کے دستوری قوانین پر خصوصی لیکچر دیں۔ صدارت کی مدت پوری ہونے کے بعد غازی صاحب نے کلیۃ الشریعۃ و القانون میں پروفیسر شریعہ کے طور پر ذمہ داریاں سنبھال لیں اور خواتین اور مردوں کے دونوں کیمپسز میں پی ایچ ڈی اور ایل ایل ایم کے علاوہ ایل ایل کی جونیئر کلاسز کے ساتھ بھی کورسز لیے۔ 
۲۰۰۴ء سے ۲۰۰۶ء تک کا دور، جبکہ غازی صاحب صدرجامعہ تھے، کلیۃ الشریعۃ کے لیے بڑا مفید رہا ۔ صدر جامعہ کے طور پر غازی صاحب تھے اور ریکٹر کے طور پر جسٹس خلیل الرحمان تھے جو ویسے بھی شعبۂ قانون سے متعلق تھے اور پروفیسر محمد منیر صاحب کلیۃ الشریعۃ کے نائب عمید تھے جو نہایت ہی سرگرمی سے کلیۃ الشریعۃ کی ترقی اور بہتری کے لیے کوشاں تھے۔ چنانچہ اسی دور میں ایک طرف کلیۃ الشریعۃ کے طلبا کے لیے خصوصی کمپیوٹر لائبریری بنائی گئی تو دوسری طرف شعبۂ قانون نے ایل ایل ایم میں تین تخصصات، انٹرنیشنل لا، انٹرنیشنل ٹریڈ لا اور کارپوریٹ لا میں ڈگری پروگرام شروع کیے۔ غازی صاحب اکثر کہا کرتے تھے کہ کلیۃ الشریعۃ و القانون نہ صرف اسلامی یونیورسٹی کی مادر کلیہ ہے (کیونکہ یونیورسٹی کا آغاز ہی کلیۃ الشریعۃ سے ہوا تھا) بلکہ یونیورسٹی کے اغراض و مقاصد کے حصول میں اب بھی یہ کلیہ بنیادی کردار ادا کرتی ہے ۔ 

دیانت 

جناب غازی صاحب کی شخصیت اور کردار کا ایک اہم پہلو یہ تھا کہ وہ بالخصوص مالی امور میں حد درجے کی دیانت داری کے حامل تھے۔ استاد محترم جناب ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری بیان فرماتے ہیں کہ اگرچہ غازی صاحب کو یونیورسٹی کے قواعد کے تحت یہ اجازت تھی کہ وہ گھر پر سرکاری ٹیلی فون کی سہولت لیں، لیکن انھوں نے کبھی بھی اس سہولت سے فائدہ نہیں اٹھایا، کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی کہ اس ٹیلی فون کا استعمال صرف سرکاری کاموں ہی کے لیے ہوگا۔ ڈاکٹر انصاری سے ہی سنا کہ جب غازی صاحب کا بطور صدر جامعہ دفتر میں آخری دن تھا اور دفتر سے اپنی کتابیں وغیرہ جمع کرنے میں انھیں بہت دیر ہوئی تو انھوں نے اپنے بھائی جناب غزالی صاحب کو رات گئے تک روکے رکھا کہ فارغ ہونے کے بعد وہ ان کے ساتھ ان کی گاڑی میں گھر جائیں گے، کیونکہ عہدے سے فراغت کے بعد وہ یہ جائز نہیں سمجھتے تھے کہ سرکاری گاڑی میں گھر جائیں۔ 
اس دیانت داری کا ایک مظہر یہ تھا کہ وہ انتہائی حد تک وقت کی پابندی کرتے تھے۔ ہم اکثر حیران رہتے تھے کہ جس طرح کی مصروفیات ان کی ہیں ان میں وہ اتنے بڑے علمی و تحقیقی کاموں کے لیے وقت کیسے نکال پاتے ہیں، لیکن ایک دفعہ ان کی زبانی ڈاکٹر محمد حمید اللہ کا ایک واقعہ سنا تو یہ حیرت کافی حد تک دور ہوگئی۔ غازی صاحب نے بتایا کہ ایک دفعہ کسی یورپی ملک میں ایک سیمینار میں وہ ڈاکٹر حمید اللہ کے ساتھ شریک تھے تو سارا دن کافی مصروف رہا اور شام کو غازی صاحب کو موقع ملا کہ وہ اپنی ایک زیر تصنیف کتاب کا مسودہ ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کو دکھا سکیں۔ ڈاکٹر حمید اللہ نے وعدہ کیا کہ وہ اس پر ایک نظر ڈال کر غازی صاحب کو اپنی رائے سے آگاہ کریں گے۔ غازی صاحب کہتے ہیں کہ اگلی صبح ڈاکٹر حمید اللہ نے انھیں وہ مسودہ دے دیا تو ان کا پہلا تاثر یہ تھا کہ دن بھر کی مصروفیت کے بعد رات انھیں دیکھنے کا موقع نہیں ملا ہوگا، لیکن یہ دیکھ کر حیرت کی انتہا نہ رہی کہ کئی سو صفحات کے اس مسودے پر تقریباً ہر دوسرے تیسرے صفحے پر ڈاکٹر حمید اللہ نے کوئی تبصرہ، کوئی نوٹ، کوئی مشورہ لکھا تھا۔ غازی صاحب کہتے ہیں کہ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ دن بھر کی مصروفیت کے بعد کوئی اتنا کام کیسے کرسکتا ہے جبکہ اگلے دن پھر اسے سیمینار میں بیٹھنا ہوگا اور اس سے زیادہ حیرت اس پر تھی ڈاکٹر حمید اللہ بہت ہشاش بشاش بھی دکھائی دے رہے تھے، گویا انھوں نے پوری نیند بھی لی ہو! غازی صاحب نے کہا کہ تب مجھے معلوم ہوا کہ ’’برکت‘‘ سے مراد کیا ہے اور کسی کے وقت میں اور صلاحیت میں برکت ہوتی ہے تو اس کا اثر کیا ہوتا ہے! انھوں نے کہا ہمارے لیے تو وقت کے چھ گھنٹے بس چھ گھنٹے ہی ہوتے ہیں، لیکن جن کے وقت میں برکت ہوتی ہے تو ان چھ گھنٹوں کی لمبائی کے علاوہ ان کی چوڑائی اور گہرائی بھی بڑھ جاتی ہے اور وہ چھ گھنٹوں میں وہ وہ کچھ کرپاتے ہیں جو ہم کئی کئی دنوں میں نہیں کرپاتے۔ 
میرا ناقص مشاہدہ تو یہی کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے غازی صاحب کے اوقات میں بھی بڑی برکت رکھی تھی۔ اس برکت کا ایک مظہر یا شاید سبب یہ تھا کہ بہت ساری مصروفیات کے بیچ میں جیسے ہی انھیں موقع ملتا، وہ قرآن کریم کی تلاوت میں لگ جاتے۔ کئی کئی بار ہم نے دیکھا کہ غازی صاحب دفتر سے نکلے ہیں تو اپنی عادت کے مطابق انتہائی تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے گاڑی کی طرف جارہے ہیں اور جیسے ہی گاڑی میں بیٹھتے ہیں، مصحف نکال کر تلاوت شروع کر دیتے ہیں۔ 
چونکہ غازی صاحب کو بہت زیادہ سفر بھی کرنے پڑتے تھے، اس لیے انھوں نے وقت کا ایک نہایت مفید مصرف یہ نکالاتھا کہ ایئر پورٹ پر فلائیٹ کے انتظار کا وقت وہ مطالعے میں گزارتے تھے۔ کئی کئی ضخیم کتابوں کا مطالعہ انھوں نے اس طرح کیا۔ ایک دفعہ میری موجودگی میں ڈاکٹر انصاری صاحب نے انھیں استاد محترم جناب پروفیسر عمران احسن خان نیازی صاحب کی کتاب Theories of Islamic Law کے نئے ایڈیشن کی ایک کاپی تحفتاً پیش کی تو غازی صاحب نے نیازی صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی اس کتاب کا مطالعہ میں نے کراچی کے ایئر پورٹ پر کیا ہے۔ 
غازی صاحب وقت ضائع کرنے کے قائل نہیں تھے اور ہمہ وقت اس کوشش میں مصروف رہتے تھے کہ وقت کا بہتر سے بہتر استعمال کیا جائے۔ ڈاکٹر انصاری صاحب نے ایک واقعہ سنایا کہ کسی غیر ملکی سفر کے دوران میں جب وہ ایک ہوٹل میں ٹھہرے اور اتفاقاً ان کے پاس پڑھنے کے لیے کتاب نہیں تھی تو انھوں نے ہوٹل کی جانب سے کمرے میں رکھے گئے پمفلٹ اور مینو وغیرہ پڑھنے شروع کر دیے۔ انصاری صاحب کہتے ہیں کہ ان کے استفسار پر غازی صاحب نے جواب دیا کہ پڑھنے کے لیے اور کچھ نہیں ہے تو یہی سہی، کچھ نہ پڑھنے سے اس کا پڑھنا بہتر ہوگا! 

وسعت مطالعہ 

کتابوں کی اور مطالعے کی بات چلی ہے تو غازی صاحب کی وسعت مطالعہ کے متعلق بھی کچھ گفتگو کی جائے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ غازی صاحب کی دلچسپی کا میدان بہت وسیع تھا۔ علوم القرآن، حدیث، فقہ، قانون، سیرت، تاریخ، مقارنۃ الادیان، فلسفہ، زبان و ادب، معاشیات و اقتصادیات اور دیگر بہت سارے علوم پر وہ نہایت گہری نظر رکھتے تھے۔ کئی دفعہ غازی صاحب ہمیں بتایا کہ مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کے بڑے بھائی مولانا ابوالخیر مودودی نے انھیں یہ نصیحت کی تھی کہ کسی کتاب سے کما حقہ فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ کہیں کہیں سے اقتباسات پڑھنے کے بجائے اسے بائے بسملہ سے تائے تمت تک پورا پڑھا جائے۔ ڈاکٹر انصاری صاحب سے سنا کہ غازی صاحب نے خود انھیں بتایا کہ انھوں نے امام شافعی کی کتاب الأم تین دفعہ ابتدا سے انتہا تک پڑھی ہے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ کتاب الأم کا علمی معیار کتنا بلند ہے اور ضخامت کے علاوہ زبان کے لحاظ سے بھی اور موضوع و مواد کے لحاظ سے بھی یہ کتنی مشکل کتاب ہے، لیکن غازی صاحب کو اس کتاب سے کچھ اور طرح کی ہی محبت تھی ( بالکل اسی طرح جیسے استاد محترم نیازی صاحب کو امام سرخسی کی کتاب المبسوط سے ہے)۔ آگے میں ذکر کروں گا کہ غازی صاحب کا ارادہ یہ تھا کہ کتاب الأم کے مختلف ابواب سے جہاد کے متعلق مباحث اکٹھا کر کے انھیں ’’سیر الامام الشافعی‘‘ کے نام سے مرتب کریں۔ معلوم نہیں کس حد تک وہ اس منصوبے پر عمل کرپائے۔ 
تراث کی کتابوں پر غازی صاحب کو بلاشبہ عبور تھا اور ہمارے کئی دوست جب کسی عبارت کے فہم میں کہیں مشکل محسوس کرتے تو غازی صاحب ہی کی طرف رجوع کرتے تھے۔ میرے عزیز دوست پروفیسر ضیاء اللہ رحمانی صاحب کہتے ہیں کہ ادارۂ تحقیقات اسلامی کے لیے اصول السرخسی کا اردو میں ترجمہ کرتے ہوئے انھیں جب بھی کسی عبارت میں کہیں مشکل محسوس ہوئی تو وہ فوراً غازی صاحب کی طرف رجوع کرتے اور غازی صاحب وہیں اس مشکل کا نہایت آسان اور مناسب حل پیش کردیتے۔ 

جہاد و سیر کے موضوعات سے دلچسپی 

جیسا کہ ذکر کیا گیا، غازی صاحب کی دلچسپی کے موضوعات تو بہت سے تھے، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ انھیں فقہ و قانون اور بالخصوص جہاد وسیر کے احکام کے ساتھ انتہائی دلچسپی تھی۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ غازی صاحب کو ڈاکٹر حمید اللہ کے ساتھ نہایت عقیدت و محبت تھی اور جہاد و سیر ڈاکٹر حمید اللہ کا پسندیدہ موضوع تھا۔ چنانچہ جب جامعہ اسلامیہ بہاولپور نے انھیں ایک سلسلۂ محاضرات کے لیے آمادہ کیا تو انھوں نے جہاد و سیر ہی کے موضوعات چنے۔ بارہ خطبات کا یہ مجموعہ پہلے ’’خطبات بہاولپور۔ ۲‘‘ کے نام سے شائع کیا گیا، کیونکہ خطبات بہاولپور کے عنوان سے ڈاکٹر حمید اللہ نے جامعہ اسلامیہ بہاولپور ہی میں بارہ خطبات دیے تھے ۔ تاہم ڈاکٹر حمید اللہ کے بارہ خطبات میں ایک خطبہ ہی جہاد وہ سیر سے متعلق تھا جبکہ غازی صاحب کے بارہ خطبات تمام کے تمام جہاد وسیر سے متعلق تھے۔ کچھ عرصہ قبل شریعہ اکیڈمی ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ، اسلام آباد ، نے ان خطبات کو ’’ اسلام کا قانون بین الممالک‘‘ کے عنوان سے دوبارہ شائع کیا ہے ۔ 
غازی صاحب کا ایک نہایت وقیع علمی کارنامہ امام ابو حنیفہ کے شاگرد رشید اور اسلامی بین الاقوامی قانون کے بانی امام محمد بن الحسن الشیبانی کی شہرۂ آفاق کتاب ’’ السیر الصغیر‘‘ کے متن کی تدوین اور اس کا انگریزی میں ترجمہ ہے۔ علمی دنیا میں السیر الصغیرکی اہمیت مسلم ہے کیونکہ اس کتاب میں امام شیبانی نے جہاد و سیر کے موضوع کے تمام بنیادی اور اصولی مسائل پر فقہ حنفی کی راجح اور مفتی بہ آرا ذکر کی ہیں۔ مجید خدوری نے، جو عراقی مسیحی تھے، امام شیبانی کی کتاب الأصل سے سیر، خراج اور عشر کے ابواب کا متن مدون کرکے ان کا انگریزی ترجمہ کیا تھا اور انھیں The Islamic Law of Nations: Shaybani's Siyar کا نام دیا ۔ عام طور پر ان ابواب کو ہی امام شیبانی کی السیر الصغیر سمجھا گیا، تاہم استاد محترم غازی صاحب نے ثابت کیا کہ یہ ایک بہت بڑا علمی مغالطہ ہے۔ چنانچہ انھوں نے السیر الصغیر کے متن کی تدوین اور ترجمے کا کام اپنے ذمے لے لیا۔ اس مقصد کے لیے ان کے سامنے دو مآخذ تھے : ایک امام الحاکم الشہید المروزی کی کتاب ’’الکافی فی فروع الحنفیۃ‘‘ جس میں امام شیبانی کی چھ کتابوں (ظاہر الروایۃ) کی تلخیص کی ہے اور دوسری شمس الائمۃ سرخسی کی کتاب ’’المبسوط‘‘ جو ’’الکافی‘‘ کی شرح ہے ۔ غازی صاحب نے واضح کیا کہ امام حاکم نے جب ’’الکافی‘‘ میں ظاہر الروایۃ کی تلخیص کا کام کیا تو چار کتابوں کو تو انھوں نے ملخص کیا، مگر سیر کے ابواب میں السیر الکبیر، السیر الصغیر اور دیگر کتب کے مواد کو ملخص کرنے کے بجائے انھوں نے السیر الصغیر کے متن کو جوں کا توں نقل کیا۔ گویا امام سرخسی کی المبسوط کی دسویں جلد میں کتاب السیر دراصل امام شیبانی کی السیر الصغیر کی شرح ہے۔ غازی صاحب نے الکافی کے مخطوطات اور المبسوط کے مطبوعہ نسخوں کا تقابل کر کے السیر الصغیر کا ایک مستند متن تیار کیا اور پھر اس کا انگریزی میں ترجمہ کیا، نیز انگریزی میں ایک مبسوط مقدمہ بھی لکھا جس میں انھوں نے سیر اور بین الاقوامی قانون کے تقابل پر بھی بحث کی، سیر کی تدوین اور ارتقا کا بھی جائزہ پیش کیا اور امام شیبانی کی فقہی خدمات پر بھی روشنی ڈالی۔ ادارۂ تحقیقات اسلامی اسلام آباد نے غازی صاحب کی اس کاوش کو Shorter Book on Muslim International Law کے عنوان سے شائع کیا۔ 
۲۰۰۸ء میں غازی صاحب قطر جارہے تھے تو انھوں نے مجھے بتایا کہ سیر پر وہ دو کتابیں لکھنا چاہتے ہیں : ایک انگریزی زبان میں اور دوسری عربی زبان میں۔ انھوں نے کہا کہ انگریزی کتاب کے مخاطبین قانون کے ماہرین ہوں گے، اس لیے اس میں بین الاقوامی قانون کے مباحث زیادہ ہوں گے جبکہ عربی کتاب کے مخاطبین علمائے کرام ہوں گے، اس لیے اس کا زیادہ حصہ فقہی مباحث پر مشتمل ہوگا ۔ مجھے معلوم نہیں کہ وفات سے قبل وہ یہ کام تکمیل تک پہنچاپائے یا نہیں ۔ 
پچھلے سال ستمبر ۲۰۰۹ء میں ڈاکٹر انصاری صاحب نے سیر پر کام کے لیے ادارۂ تحقیقات اسلامی کے تحت ایک خصوصی گروپ تشکیل دیا جس میں انھوں نے غازی صاحب کے علاوہ پروفیسر عمران نیازی صاحب، ڈاکٹر محمد طاہر منصوری صاحب ( سابق عمید، کلیہ شریعہ و قانون، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد )، ڈاکٹر محمد منیر صاحب ( سربراہ شعبۂ قانون، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد)، ڈاکٹر عصمت اللہ صاحب (سربراہ شعبہ فقہ، ادارۂ تحقیقات اسلامی) اور راقم الحروف کو شامل کیا ۔ سیر کا یہ پراجیکٹ دو طرح کے کاموں کے لیے وجود میں لایا گیا: ایک یہ کہ فقہ اسلامی کی اساسی کتب میں سیر سے متعلق مواد پر تحقیق کرکے ان کی تدوین کی جائے اور ان کا انگریزی اور اردو میں ترجمہ کیا جائے اور دوسرا یہ کہ سیر اور جہاد کے موضوعاتی مطالعے کے لیے مناسب موضوعات کا انتخاب کرکے ان موضوعات پر اس فن کے متخصصین سے تحقیق کرائی جائے۔ اس سلسلے میں غازی صاحب نے اپنی اس خواہش کا ذکر کیا کہ کسی طرح کتاب الأم کے مختلف ابواب سے سیر کے متعلق مواد اکٹھا کرکے ان کی اچھی ایڈیٹنگ کی جائے اور اس طرح ’’سیر الامام الشافعی‘‘ مرتب کی جائے ۔ انھوں نے یہ بھی ذکر کیا کہ وہ پہلے ہی اس سلسلے میں کافی کام کرچکے ہیں۔ انصاری صاحب کی خواہش پر غازی صاحب نے اسی کام کی تکمیل کا ارادہ کرلیا۔ راقم کی ہمشیرہ محترمہ سعدیہ تبسم صاحبہ نے (ریسرچ ایسوسی ایٹ، ادارۂ تحقیقات اسلامی )، جو اس گروپ کی سیکریٹری ہیں، بعد میں غازی صاحب سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ اپنی گوناگوں مصروفیت کے باوجود غازی صاحب اس پراجیکٹ پر کام کررہے ہیں۔ تاہم ان کی اچانک وفات کی وجہ سے شاید یہ کام ادھورا ہی رہ گیا ہے ۔ 

’’کاسموپولیٹن فقہ‘‘ یا ’’ فقہ عولمی‘‘ کا تصور 

اگست ۲۰۰۹ء میں ادارۂ تحقیقات اسلامی میں ’’بر صغیر میں اسلامی قانونی فکر اور ادارے‘‘ کے عنوان سے ایک تین روزہ بین الاقوامی سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں غازی صاحب نے توسیعی خطبہ بعنوان ’’برصغیر میں مطالعہ فقہ: ماضی، حال اور مستقبل‘‘ پیش کیا۔ اس خطبے میں نہایت اہم نکات زیر بحث آگئے تھے جن میں ایک ’’کاسموپولیٹن فقہ‘‘ کا تصور تھا۔ غازی صاحب نے اس خطبے میں کہا کہ عالمگیریت (globalization)کے اثرات دیگر شعبہ ہائے زندگی کے علاوہ فقہ و قانون پر بھی مرتب ہورہے ہیں اور ایک ایسی cosmopolitan fiqh یا ’’الفقہ العولمی ‘‘ وجود میں آرہی ہے جو نہ کلیتاً حنفی ہے، نہ شافعی، نہ حنبلی، نہ مالکی، نہ ظاہری۔ اس موضوع پر اس سے پہلے بھی غازی صاحب اپنے بعض محاضرات میں اظہار خیال کرچکے تھے ۔ فقہ عولمی کا یہ تصور دور رس نتائج کا حامل ہے، اس لیے بعض شرکاے سیمینار نے اس رائے کا اظہار کیا کہ غازی صاحب سے درخواست کی جائے کہ وہ ایک الگ نشست میں فقہ عولمی کے تصور کے خد و خال کی وضاحت کریں۔ راقم کا تاثر یہ تھا کہ فقہ عولمی کے تصور کی بنا اس امر پر ہے کہ کسی موضوع کی جزئیات کے متعلق مختلف فقہی مذاہب سے آرا اکٹھی کرکے ایک ایسی صورت بنائی جائے جو متعین فقہی مذاہب کے دائروں سے بالاتر ہو۔ اس امر کو اگرچہ بعض لوگ روشن خیالی اور معروضیت کا تقاضا، نیز بدلتے ہوئے عالمی حالات کے تناظر میں ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہیں، لیکن میری ناقص رائے میں یہ تصور اس بنا پر نہایت خطرناک ہے کہ ’’تلفیق‘‘ کے اس طریق کار کی وجہ سے قانون اصولی تضادات کا شکار ہوجاتا ہے۔ استاد محترم پروفیسر عمران احسن خان نیازی کی بھی یہی رائے ہے۔ چنانچہ یہ طے پایا کہ اس موضوع پر جب ڈاکٹر غازی صاحب اپنی آرا کا اظہار کریں گے تو اس کے بعد پروفیسر نیازی ان پر اپنا تبصرہ پیش کریں گے۔ اس کے بعد مذاکرے میں شریک دیگر افراد اس موضوع پر کھلی بحث کریں گے۔ یہ بھی طے پایا کہ ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری اس مذاکرے کی صدارت کریں گے اور آخر میں وہی پوری بحث کو سمیٹیں گے۔ چنانچہ ۱۵ ؍اگست ۲۰۰۹ء کو ادارۂ تحقیقات اسلامی کے سیمینار روم میں اس خصوصی مذاکرے کا اہتمام کیا گیا جس میں کثیر تعداد میں اصحاب علم نے شرکت کی۔ 
ڈاکٹر غازی صاحب نے فقہ عولمی کے تصور کی وضاحت کرتے ہوئے اسے عالمگیریت کا ایک لازمی نتیجہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ عالمگیریت کی وجہ سے دنیا کے ایک خطے میں مسلمانوں کو پیش آنے والے مسائل سے دوسرے خطوں کے مسلمان بے نیاز نہیں رہ سکتے۔ ذرائع مواصلات میں بے پناہ ترقی کی وجہ سے دنیا کے کسی بھی کونے میں رونما ہونے والے واقعات کے اثرات پوری دنیا میں محسوس کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر کسی صاحب علم نے کسی مسئلے پر کوئی رائے ظاہر کی تو بہت جلد وہ دوسرے اصحاب علم تک پہنچ جاتی ہے اور وہ اس پر اظہار خیال شروع کر دیتے ہیں۔ اس طرح کچھ ہی عرصے میں بحث مباحثے کے بعد بڑی حد تک ایک متفقہ رائے وجود میں آجاتی ہے۔ انہوں نے عالمگیریت سے پیدا ہونے والے مسائل اور خطرات کی بھی نشاندہی کی۔ نیز غیر مسلم ممالک میں مقیم مسلمانوں کے مسائل کی طرف بھی توجہ دلائی۔ انہوں نے کہا کہ معاصر دنیا کے ان مخصوص حالات کی وجہ سے مختلف میدانوں میں جو فقہ مرتب ہورہی ہے، وہ کسی خاص فقہی مذہب کی بندشوں کی پابندی سے بہت حد تک آزاد ہے، بلکہ بسا اوقات ایک ہی مسئلے کے مختلف جزئیات میں مختلف مذاہب کی آرا کو جوڑ دیا جاتا ہے اور اس طرح ایک نئی فقہ وجود میں آجاتی ہے۔ انہوں نے اس کو ’’Fiqhi Engineering‘‘ کا نام دیا اور اس سلسلے میں بالخصوص اسلامی بینکاری کی مختلف پراڈکٹس کی مثالیں دیں۔ 
پروفیسر نیازی نے اس تصور پر تبصرہ کرتے ہوئے اس رائے کا اظہار کیا کہ جسے فقہ عولمی کہا جارہا ہے، پہلے اس کے اصول متعین کرنے چاہئیں کیونکہ فقہ کی بنیاد اصول فقہ پر ہے، اس لیے فقہ عولمی کی تشکیل سے پہلے فقہ عولمی کے اصولوں پر بحث ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اصول میں بہت کچھ مشترک ہے اور ان مشترک اصولوں کی بنیاد پر عصر حاضر میں فقہ کے ایک بڑے حصے کی مشترکہ تشکیل کی جاسکتی ہے، لیکن اصولوں کی بحث میں پڑے بغیر اگر صرف سہولت اور آسانی کی خاطر یا دنیوی اغراض کے حصول کے لیے مختلف فقہی مذاہب سے ’’Pick and choose‘‘ کیا جائے گا تو اس ’’تلفیق‘‘ کے اثرات بہت خطرناک نکلیں گے، کیونکہ اس طرح جو چیز وجود میں آئے گی، وہ اصولی تضادات کی وجہ سے عملی دنیا میں پنپ نہیں سکے گی۔ انہوں نے کہا جسے غازی صاحب نے ’’Fiqhi Engineering‘‘ کہا، وہ دراصل ’’Reverse Engineering‘‘ ہے کیونکہ اسلامی بینکاری والے کرتے یہ ہیں کہ غیر اسلامی بینکوں کے ایک پراڈکٹ کو سامنے رکھ کر اس کو سند جواز عطاکرنے کے لیے اس پراڈکٹ کی مختلف جزئیات کے جواز کے متعلق مختلف فقہی مذاہب کی آرا اکٹھی کردیتے ہیں اور نتیجے کے طور پر قرار دیتے ہیں کہ یہ پراڈکٹ شرعی لحاظ سے بالکل جائز ہے۔ پروفیسر نیازی نے مزید کہا کہ ایک فقہی مذہب دراصل ایک مستحکم قانونی نظام ہوتا ہے جو بعض مخصوص اصولوں پر قائم ہوتا ہے۔ اس لیے اگر ایک جزئیے میں حنفی رائے لی گئی اور دوسری میں شافعی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ایک جگہ آپ ’’عام‘‘ کو قطعی کہہ رہے ہیں اور دوسری جگہ ظنی، ایک جگہ آپ قول صحابی کو حجت مان رہے ہیں اور دوسری جگہ اس سے انکار کررہے ہیں۔ یہی وہ اصولی تضادات ہیں جن کی وجہ سے تلفیق اور فقہ عولمی کا تصور ناقابل قبول اور ناقابل عمل بن جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک فقہی مذہب میں بھی بعض اوقات ایک سے زائد آرا پائی جاتی ہیں، لیکن ’’فتویٰ‘‘ کے لیے ان میں سے ایک کو منتخب کیا جاتا ہے۔ اس عمل کو ’’تخییر‘‘ کہتے ہیں اور اس کے اپنے اصول ہیں۔ تخییر محض ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر نہیں کی جاسکتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ تقلید کو خواہ مخواہ تنقید کا نشانہ بنایاجاتا ہے، حالانکہ کسی بھی مستحکم قانونی نظام کے لیے ضروری ہے کہ اس میں تقلید کے اصول کو مانا جائے۔ انہوں نے ماتحت عدالتوں پر اعلیٰ عدالتوں کے نظائر کی پابندی کو تقلید کی بہترین مثال قرار دیا۔ اس موقع پر غازی صاحب نے کہا کہ وہ فقہ عولمی کے تصور کے نہ داعی ہیں اور نہ وکیل، بلکہ وہ صرف ایک مبصر اور شاہد کے طور پر وہ کچھ بیان کررہے ہیں جس کا وہ مشاہدہ کر رہے ہیں۔ 

بطور معلم 

غازی صاحب کی شخصیت کے یوں تو کئی پہلو تھے، لیکن درحقیقت وہ اولاً و آخراً ایک معلم تھے۔ کسی بھی موضوع پر گفتگو سے پہلے وہ کوشش کرتے تھے کہ مخاطبین کی نفسیات اور علمی استعداد کا اچھی طرح جائزہ لیں، پھر اپنے طلبا کی ذہنی سطح تک آکر انھیں بتدریج اپنے ساتھ علمی رفعتوں تک لے جاتے۔ قدرت نے انھیں مشکل سے مشکل موضوع کو آسان اور سلیس زبان میں بیان کرنے کا عجیب ملکہ عطا کیا تھا۔ یونیورسٹی میں میرے ابتدائی دور سے ہی مختلف سیمینارز میں انھیں بارہا سننے کا موقع ملا اور جب بھی انھیں سنا کوئی نئی بات سیکھی یا پرانی بات یاد آئی یا اس پر از سرنو غور کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ ان کی کتابوں کا علمی مقام تو ہے ہی ارفع، لیکن طلبا کے لیے خاصے کی چیز ان کا سلسلۂ محاضرات ہے جس میں ان کے محاضرات کو تحریری قالب میں ڈھال کے شائع کیا گیا ہے۔ محاضرات قرآنی، محاضرات حدیث، محاضرات سیرت، محاضرات شریعت، محاضرات فقہ اور محاضرات معیشت و تجارت میں غازی صاحب ایک مثالی معلم کے طور پر نظر آتے ہیں۔ ان محاضرات میں دیگر خصوصیات کے علاوہ ایک نہایت قابل رشک خصوصیت یہ ہے کہ ہر ہر محاضرہ میں کمال درجے کا ربط و نظم پایا جاتا ہے جس سے متعلقہ موضوعات کے اطراف و جوانب پر غازی صاحب کی گہری نظر کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ بات صرف محاضرات کی حد تک ہی صحیح نہیں ہے جن کے لیے وہ بہر حال کچھ تیاری کرکے آتے تھے (اگرچہ اس تیاری کا ماحصل صرف چند نکات میں کاغذ کے چھوٹے سے ٹکڑے پر غازی صاحب اپنی وضع کردہ مختصر نویسی کے ذریعے محفوظ کرلیتے تھے)، بلکہ اگر انھیں اچانک ہی کسی موضوع پر بولنے کے لیے کہا جاتا تو لمحہ بھر کے توقف کے بعد وہ اچانک یوں منظم و مرتب طریقے سے اس موضوع پر بولنا شروع کردیتے کہ گویا انھوں نے اپنے ذہن کے کمپیوٹر میں اسی موضوع پر پہلے سے کوئی مخصوص فائل محفوظ کی ہوئی ہو جسے اب انھوں نے کھول کر پڑھنا شروع کردیا ہو۔ 
یوں تو ۱۹۹۴ء سے ہی، جب میں نے اسلامی یونیورسٹی میں داخلہ لیا، وقتاً فوقتاً غازی صاحب سے بہت استفادہ کیا لیکن ۲۰۰۷ ء میں جب میں نے فقہ میں تخصص کے لیے پی ایچ ڈی میں داخلہ لیا تو ان کے سامنے باقاعدہ زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ ایک سمسٹر میں ان سے دو کورسز پڑھے اور، الحمد للہ، بہت کچھ سیکھنے کی کوشش کی ۔ پی ایچ ڈی کی اس کلاس میں ہم صرف تین طلبا تھے۔ ہم غازی صاحب کے دفتر میں ہی کلاس لیتے تھے جو لیکچر کے بجائے علمی مباحثے کی صورت میں ہوتی تھی۔ غازی صاحب کی مہمان نوازی سے بھی لطف اندوز ہوتے تھے کیونکہ وہ ہمیں کافی بھی پلایا کرتے تھے اور مباحثہ بھی جاری رہتا تھا۔ بعض اوقات تو ہم اس مخمصے میں پڑ جاتے کہ کافی کی وجہ سے مباحثے نے زیادہ لطف دیا یا مباحثے کی وجہ سے کافی بہت اچھی لگی ! 
ایک مثالی معلم ہونے کی وجہ سے غازی صاحب کو اپنے طلبا کے ساتھ نہایت محبت تھی۔ ۲۰۰۶ ء میں جب صدر جامعہ کے طور پر ان کے عہدے کی مدت پوری ہوئی تو انھوں نے کلیہ شریعہ میں باقاعدہ کورسز پڑھانے شروع کردیے تھے اور اس سلسلے میں انھوں نے ایسی کوئی قید بھی نہیں رکھی کہ وہ صرف پی ایچ ڈی کے طلبا کو پڑھائیں گے، حالانکہ اگر وہ ایسا کرتے تو قانون کے تحت یہ ان کا حق تھا، بلکہ انھوں نے ایل ایل ایم کو بھی کورسز پڑھائے اور ایل ایل بی کو بھی۔ بالخصوص ایل ایل بی کے طلبا و طالبات جن کو اپنے کیریئر کے ابتدائی دور میں ہی غازی صاحب جیسا معلم نصیب ہوا، وہ اپنی خوش قسمتی پر نازاں تھے۔ میری ہمشیرہ محترمہ سعدیہ تبسم صاحبہ نے اسی دور میں غازی صاحب سے فقہ العلاقات الدولیۃ کا کورس پڑھا۔ وہ ذکر کرتی ہیں کہ کلاس میں غازی صاحب نے صرف یہی نہیں کیا کہ متعلقہ موضوع پر لیکچر دے کے چلے جاتے، بلکہ انھوں نے مختلف طریقوں سے طالبات کی علمی استعداد بڑھانے کی طرف توجہ دی اور بالخصوص کوشش کی کہ ہر ہر طالبہ عربی صحیح بولے اور لکھے۔ 
میں اسے اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل سمجھتا ہوں کہ شاگردوں کے ساتھ غازی صاحب کی اس خصوصی محبت کا مجھے وافر حصہ ملا۔ جولائی ۲۰۰۶ء میں جبکہ وہ صدر جامعہ تھے اور اس وجہ سے ان کی مصروفیات میں گوناگوں اضافہ ہوا تھا۔ ایک دن انھوں نے مجھے فون کیا اور کہا کہ حدود کے متعلق جناب ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی صاحب کی کتاب پر میرا تبصرہ ان کی نظر سے گزرا اور وہ انھیں بہت پسند آیا ہے۔ پھر انھوں نے مجھے ترغیب دی کہ جو نکات اس تبصرے میں اٹھائے گئے ہیں، ان کی وضاحت کے لیے باقاعدہ ایک کتاب لکھوں۔ اس ترغیب کے نتیجے میں ہی حدود پر میں نے کتاب لکھی جو اگست ۲۰۰۶ء میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب جب غازی صاحب کی خدمت میں پیش کی تو انھوں نے بے حد خوشی کا اظہار کیا۔ کچھ دنوں بعد جب پارلیمنٹ نے تحفظ نسواں ایکٹ منظور کیا تو کلیہ شریعہ کے طلبا و اساتذہ نے اس ایکٹ پر بحث کے لیے ایک سیمینار کا انعقاد کیا۔ راقم کو اس قانون کے شق وار تجزیے کی ذمہ داری دی گئی۔ میرے مقالے سے پہلے غازی صاحب نے حدود قوانین کا ایک عمومی جائزہ پیش کیا اور اس کے بعد انھوں نے اس ناچیز کا ذکر جس محبت کے ساتھ کیا، وہ میرے لیے ایک سرمایۂ افتخار ہے۔ 
۲۰۰۸ء کے اوائل کی بات ہے۔ ایک دن میں سٹاف روم میں داخل ہوا تو معلوم ہوا کہ وہاں شعبۂ فقہ کے اساتذہ کی میٹنگ ہورہی ہے۔ میں معذرت کرکے واپس ہوا لیکن غازی صاحب نے مجھے آواز دے کربلایا اور اپنے قریب بٹھا کر کہا کہ آپ کی آمد اس وقت ہمارے لیے نعمت غیر مترقبہ ہے۔ پھر دیگر اساتذہ کی طرف رخ کرکے کہا کہ ابھی ہم یہ سوچ رہے تھے کہ یہ کام کس کو سونپا جائے، لیکن دیکھیے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت زیادہ سوچ بچار سے بچالیا ۔ پھر میرے شانے پر تھپکی دیتے ہوئے کہا : یتولاہ القوی الأمین۔ 
کچھ عرصہ قبل جب غازی صاحب کو وفاقی شرعی عدالت کے جج کی ذمہ داری سونپی گئی تو انھوں نے فوراً ہی اسلامی قانون کی روشنی میں مجموعۂ تعزیرات پاکستان کی بعض دفعات کا جائزہ لینے کا ارادہ کیا۔ اس سلسلے میں مجھے بھی انھوں نے عدالت کے معاون کے طور پر طلب کیا۔ یونیورسٹی میں مصروفیت کی وجہ سے میں عدالت تاخیر سے پہنچا اور پہلے دن کی سماعت پوری ہوچکی تھی۔ میں واپس ہوا تو ظہر کی نماز کے بعد غازی صاحب کا فون آیا اور انھوں نے کہا کہ ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد اکتوبر کے مہینے میں ہر ہفتے چار دن اس کیس کی سماعت کریں گے اور تعزیرات پاکستان کی بعض دفعات نہیں بلکہ پورے مجموعۂ تعزیرات کا جائزہ لیں گے۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ کلیۂ شریعہ کے بعض ہونہار طلبا و طالبات میں اس کام کو تقسیم کرکے عدالت کا کام آسان کیا جائے۔ غازی صاحب کی وفات کے ایک دو دن بعد مجھے عدالت کی جانب سے خط موصول ہوا جس میں لکھا گیا تھا کہ اکتوبر سے اس کیس کی سماعت شروع ہونے والی ہے اور میں اس سوچ میں پڑگیا کہ غازی صاحب ہوتے تو یہ کام کیسے ہوتا اور اب جبکہ وہ نہیں رہے تو ان کے بعد یہ کام کیسے ہوپائے گا ؟ اچانک حدیث مبارک یاد آگئی : 
ان اللہ لا ینتزع العلم من الناس انتزاعاً، ولکن یقبض العلماء فیرفع العلم معھم و یبقی فی الناس رءوساً جھالاً یفتونھم بغیر علم فیضلون و یضلون (صحیح مسلم ، باب رفع العلم و قبضہ و ظہور الجہل و الفتن، حدیث رقم ۴۸۲۹)
کیا بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، بالخصوص کلیۃ الشریعۃ و القانون غازی صاحب کی علمی خدمات کے اعتراف میں ’’غازی چیئر‘‘، ’’غازی ایوارڈ‘‘ اور ’’غازی لیکچرز‘‘ کا اہتمام کرسکے گی؟

معدوم قطبی تارا

ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

(۳ اکتوبر ۲۰۱۰ء کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں کی جانے والی گفتگو جسے مصنف کی نظر ثانی کے بعد شائع کیا جا رہا ہے۔)

محترم جناب مولانا ابوعمار زاہد الراشدی صاحب، 
برادرم مولانا مفتی محمد زاہد صاحب اور معزز خواتین و حضرات! 
ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ زندگی بھر میرے لیے آسانیاں پیدا کرتے رہے، لیکن کبھی کبھی میرے لیے مشکلات بھی کھڑی کر دیتے تھے۔ ان میں سے دو ایک کا ذکر تو آگے چل کر کروں گا۔ فوری طور پر تو یہ کہ ان کے اس دنیائے فانی سے اچانک رخصت ہوجانے کے بعد آج ان کی نسبت سے میرے لیے سب سے زیادہ مشکل کام یہ ہے کہ مجھے ایسے شخص کے بارے میں گفتگو کرنے کی دعوت دی گئی ہے جو خود فصاحت وبلاغت کا مرقع تھا۔ اور جو شخص فصاحت و بلاغت میں اپنی مثال آپ ہو، اس کی شخصیت پر گفتگو کرتے وقت انصاف کا دامن تھامنا دیہاتی پس منظر کے حامل میرے جیسے شخص کے لیے خاصا مشکل کام ہے۔ ان کی قدرت کلام اور میری بے ربط باتوں میں آپ کو وہی فرق دیکھنے کو ملے گا جو امریکہ اور ویت نام کی ٹیکنالوجی کے درمیان ہے۔ ڈاکٹر غازی مرحوم کی وفات نے میرے لیے یہ ایک مشکل کھڑی کر دی ہے۔ اس کے باوجود جس کسی نے بھی محترم عمار ناصر کو میرے بارے میں بتایا کہ وہ مجھے یہاں خطاب کا شرف بخشیں، میں اس کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب موصوف کے ساتھ میرے نیاز مندانہ تعلق کے حوالے سے اس شخص کا انتخاب غلط نہیں ہے۔
جب مجھے مولانا موصوف کے حوالے سے فون آیاتو مجھے تعجب ہوا اور پریشانی بھی ہوئی کہ اس کڑے امتحان سے کیسے نکلوں گا۔ ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ اور میرے درمیان کچھ نہ کچھ مشترک چیزیں رہی ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ میڈیا بیزار آدمی تھے اور میں بھی ہجوم اور مجمع سے دور رہنے کا عادی ہوں۔ شاید ہی کوئی کہہ سکے کہ میں نے اس طرح کے مجمع عام میں کبھی تقریر یا خطاب کیا ہو، اگرچہ پیشہ کے لحاظ سے استاد ہوں۔ لیکن مجھے یہاں آپ کے سامنے کھڑا ہونے کی توقع پردو وجوہ کے باعث تسلی ہوئی کہ ایک تو یہ کہ ایک امید موجود ہے۔ روزِ محشر جب میں اللہ کے سامنے پیش ہوں ،کہ وہ ستارالعیوب ہے اور دعا ہے کہ روزِمحشر کو وہ ہماری خامیوں پر پردہ ڈالے اور یہ بھی دعاہے کہ قیامت کے دن ہماری خوبیوں کو ظاہر کرے۔ میں دل کی گہرائیوں سے کہہ رہا ہوں کہ میں اس توقع کے ساتھ یہاں حاضر ہوا ہوں کہ یہ جو اتنے سارے انفس متبرکہ بیٹھے ہیں کہ میں انہیں یہاں گواہ بنا کر اور گواہی دے کر دنیا سے رخصت ہو جاؤں کہ ڈاکٹر صاحب کردار کی کس بلندی پر تھے۔ 
۲۶ ستمبر کی صبح کو ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی صاحب نے غالباً مجھے سب سے پہلے فون پر ان کی رحلت کی اطلاع دی تو میں گھر کے باہر بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا۔ ڈاکٹرفاروقی صاحب شریعہ اکادمی اسلام آباد کے ڈائریکٹر ہیں اور بہت ہی نیک سیرت، سچے اور امانت دار شخص ہیں۔ میں نے جب ان کی بات سنی تو چیخ کر کہا کہ ڈاکٹر صاحب! آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ اللہ معاف فرمائے، میں یہی سمجھا کہ وہ غلط بیانی کر رہے ہیں۔ اتنے میں انہوں نے فون بند کر دیا۔ اپنے اطمینان کے لیے میں نے ڈاکٹر غازی صاحب کے گھر فون کیا تو معصوم بچی کی معصوم سسکیوں نے خبر کی تصدیق کر دی۔ اس کے بعد میں نے چند دوستوں کو اطلاع دی اور ڈاکٹر صاحب ؒ کے گھر جانے کی تیاری کی چونکہ ان کے ساتھ ہمارے دیرینہ خاندانی مراسم تھے، اس لیے جب ہم وہاں پہنچے تو میں نے ڈاکٹر غزالی صاحب کو گلے لگا یا اور دھاڑیں مار نے کو دل چاہا تو پتہ چلا کہ غزالی صاحب صبرو استقامت کا پہاڑ بنے ہوئے ہیں۔ جب میری اہلیہ ڈاکٹرصاحبؒ کے گھر کے اندر گئیں تو واپسی پر انہوں نے بتایا کہ اتنا بڑا صدمہ سہنے کے باوجود ڈاکٹر صاحبؒ کی والدہ محترمہ تعزیت کو آنے والوں کو صبر کی تلقین کر رہی ہیں۔ 
ڈاکٹر صاحب ؒ موصوف سے میری پہلی ملاقات ۳۰؍ ستمبر ۱۹۸۱ء کو تب ہوئی جب میں اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں داخلہ کے لیے گیا۔ وہ اس کمیٹی میں تھے جو امیدواروں کا انٹر ویو کررہی تھی۔ اس کمیٹی کے تین ارکان تھے اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تینوں کے نام محمود تھے۔ ان میں ایک محمود شرف الدین، مصری استاد تھے اور اب بھی یونیورسٹی میں موجود ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کو طویل زندگی دے۔ دوسرے رکن پروفیسر سید احمد محمود ، علی گڑھ سے پڑھے ہوئے استاد تھے۔ اللہ ان کی قبر نور سے بھر دے ۔ اور تیسرے ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ تھے۔ اللہ سے التجا ہے کہ وہ انہیں اپنے قریب جگہ دے۔
جب ان لوگوں نے انٹرویو کر لیا تو من جملہ دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر غازی صاحبؒ مجھ سے پوچھنے لگے کہ اگر آپ کو شریعہ کی بجائے اصولِ دین میں داخلہ دے دیا جائے تو کیا خیال ہے؟ میں نے کہا کہ ’’اصول دین میں میرا میلان نہیں ہے‘‘۔ پوچھا: ’’فقہ پر کوئی کتاب پڑھی ہے‘؟‘ ان دنوں میں سرعبدالرحیم کی کتاب ’’اصول فقہ اسلام‘‘ پڑھ رہا تھا۔ میں نے کہا: ’’سرعبدالرحیم کی کتاب ’’اصول فقہ اسلام‘‘ پڑھ رہا ہوں‘‘۔ یوں داخلہ ہو گیااور میں چار سال تک اسلامی یونیورسٹی میں پڑھتا رہا۔ اسی دوران ڈاکٹر صاحبؒ کی علمی پختگی نے ہم سب کو خرید لیا۔ 
چار سال بعد ایل ایل ایم میں داخلے کے لیے انٹرویو ہوا۔ حسب دستور پھر ایک کمیٹی کے سامنے پیش ہوا۔ اس کمیٹی میں بھی ڈاکٹر غازی صاحبؒ موجود تھے۔ اس میں ڈاکٹر حسین احمد حسان جو بعد میں اسلامی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی بنے، موجود تھے۔ انہوں نے سوال کیا کہ ایل ایل ایم میں داخلہ لینے آئے ہو (بات عربی میں ہورہی تھی) تو شرکات کی قسمیں بتائیں۔ میں نے شرکۃ الصنائع سے شروع کیا، حالانکہ ترتیب تو کچھ اور تھی۔ شرکۃ الابدان تک پہنچاتو تیسری قسم یاد نہ آئی۔ تھوڑا ادھر ادھر دیکھا، گلے میں اٹکا تھوک نگلا تو شرکۃ الوجوہ یاد آگئی۔ اب چوتھی قسم یاد نہ آئے۔ پھر ادھر ادھر دیکھا۔ معلوم ہوا، ڈاکٹر غازی صاحب منہ میں کچھ بدبدا رہے ہیں۔ ہونٹوں کی جنبش اوپر نیچے دکھائی دی تو معلوم ہوا ’’میم‘‘ کی طرف اشارہ ہے۔ اس طرح میرے ذہن میں مفاوضہ کا لفظ ابھرا جو میں نے ادا کیا اور یوں میرا داخلہ ہو گیا۔ فی الحقیقت ڈاکٹر صاحب ہر کسی کو ہمیشہ کچھ نہ کچھ دینے کے لیے کوشاں رہتے تھے، اسی لیے اس انٹرویو میں بھی مجھے کچھ نہ کچھ دینے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ بات ایک اور مثال سے زیادہ واضح ہو گی۔
ابھی چھ ماہ پہلے ڈاکٹر صاحبؒ نے مجھے کہا کہ ملک سے باہر کچھ وقت لگا آؤ، تاکہ نیا کلچر اور نیا رنگ دیکھنے کو مل جائے۔ میں نے ایک برطانوی یونیورسٹی کی ایک خالی اسامی کے لیے درخواست دی۔ آپ کو پتہ ہے بیرون ملک اس قسم کے کاموں کے لیے کسی حوالے کی ضرورت پڑتی ہے۔ چنانچہ میں نے ان سے گزارش کی کہ یہ کام بالعموم استاد کے ذمے ہوتا ہے، لہٰذا ایک رائے تو آپ دیں۔ انہوں نے فوراً قطر سے اس یونیورسٹی کو خط لکھ دیا۔ میں نے پوچھا : ’’دوسرا خط کس سے لوں؟‘‘ بولے ’’سید سلمان ندوی صاحب سے لے لیں‘‘۔ میں نے کہا : ’’سید سلمان ندوی صاحب سے میرے کوئی زیادہ علمی مراسم نہیں رہے، اس لیے آپ انہیں کہہ دیں‘‘۔ کہنے لگے : ’’وہ میرے کہے بغیر خط دے دیں گے‘‘۔ پوچھا: ’’یہ کیسے ممکن ہے‘‘؟ بولے ’’بس ویسے ہی دیں گے بغیر علمی مراسم کے‘‘۔ پھر اس کی تشریح کرتے ہوئے کہنے لگے : ’’دیکھو یہ بات ذہن میں رکھو، جو ’’سید ‘‘ہوتا ہے، وہ ہمیشہ نفع دیتا ہے اور اگر مجھے بھی شامل کرنا چاہو تو بیان یوں ہو گا کہ جوشخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا پیروکار ہو، سچی محبت کرنے والا ہو، وہ ہمیشہ نفع دے گا۔‘‘ ندوی صاحب نے واقعی خط دیا۔ 
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں ہی ان کے زیادہ قریب تھا، اس لیے یہ سب کچھ ہوا۔ موصوف کی مثال ایسے ہی ہے جیسے آپ سورج کو باہرکھڑے ہو کر دیکھیں تو ہر آدمی یہ تصور کرے گا کہ یہ سورج سب سے زیادہ اسی کے قریب ہے۔ دلی میں بیٹھا ہوا شخص بھی یہی خیال کرتا ہے اور کابل میں بیٹھا ہوا بھی یہی خیال کرتا ہے کہ سورج بس میرے لیے ہے۔ ڈاکٹر صاحبؒ کی صورت حال بھی کچھ ایسی تھی کہ ان سے جو بھی ملتا تھا، وہ یہی سمجھتا تھا کہ وہ میرے سے زیادہ کسی کا اکرام نہیں کرتے ہیں۔ حالانکہ معاملہ سبھی کے ساتھ برابر ہوتا تھا۔ 
یہاں میں سامعین کو ایک دفعہ پھر یاد دلا دوں کہ یہ گفتگو منتشر یادداشتوں کے مجموعے میں سے کچھ یادوں کی ضوفشانی ہے۔ میں بس واقعات بیان کرتا جاؤں گا، نتائج آپ خود نکالیں۔
ایک دفعہ انہوں نے مجھے کہا کہ میرا پولیس اکیڈمی میں لیکچر ہے اور میں نے کہیں ضروری اجلاس میں جانا ہے، آپ میری جگہ پر جاکر لیکچر دے دینا۔ پندرہ سال قبل کا واقعہ ہے۔ تب میں قدرے نوآموز تھا، اس لیے پریشان ہوا کہ وہاں پر پولیس آفیسر آتے ہیں، سینئر لوگ ہوتے ہیں، شاید انصاف نہ کر سکوں۔ خیر چلا گیا اور آج پندرہ سال سے وہاں ان کی نیابت کر رہا ہوں۔ بعد میں اندازہ ہوا کہ یہ ان کا وہ مخصوص انداز تھا جس کے تحت وہ اپنے ساتھیوں کو بغیر چونکائے، بغیر احساس دلائے آگے بڑھاتے تھے۔ اس طرح کے کئی واقعات ہیں جس میں سے ایک واقعہ مزید سن لیجیے۔
جنوری ۲۰۰۰ء میں جنوبی افریقہ میں وہاں کے مسلمان قانون دان اور اکاؤنٹنٹس کی ایسوسی ایشن معروف بہ ایسوسی ایشن آف مسلم اکاؤنٹنٹس اینڈ لائیر، ڈربن نے جو وہاں کی ایک مشہور تنظیم ہے، ایک سیمینار کیا۔یہ سیمینار اسلامی یونیورسٹی کے تعاون سے تھا۔ موصوف نے مجھے اس کا آرگنائزر مقرر کیا اور بیشتر امور میرے سپرد کر دیے۔ لیکچرار حضرات کا انتخاب بڑی حد تک میرے ذمہ تھا، اگرچہ ان سے مشاورت ایک بدیہی امر تھا۔ تنظیم نے ہمیں فقہ اور شریعت پر لیکچر دینے کے لیے کہا تو مجھے ڈاکٹر صاحب نے حکم دیا کہ دو چار ساتھی تیار کر لیں اور میں خود بھی تیار ہوں۔ ڈاکٹر صاحبؒ جمہوری نظر یہ کے آدمی تھے۔ ایک آدمی کے بارے میں مجھے کہا کہ ان کو بھی ساتھ لے جاؤ۔ میں نے کہا ۔ ’’ڈاکٹر صاحب، اسے چھوڑیں‘‘۔ انہوں نے ایک دفعہ کہا، دو دفعہ کہا۔ تیسری دفعہ فائل لے کر گیا تو میں نے کہا : ’’ڈاکٹر صاحب میں اسے نہیں لے جاؤں گا، اسے چھوڑیں‘‘۔ میں غلطی پر نہیں تھا اور اب بھی نہیں ہوں۔ ڈاکٹر صاحب خاموش ہو گئے اورلگتا تھا کہ طبیعت پر جبر کر کے میری بات مان لی، حالانکہ مذکورہ شخص منصب کے لحاظ سے ان کے برابر کا تھا اور میرا دفتری قد کاٹھ اتنا نہیں تھا کہ میں اتنی بڑی جسارت پاکستانی دفتری نظام میں کر سکتا، لیکن حقیقت یہی ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں کو مکمل آزادی رائے، آزادی اظہار اور آزادی عمل دیا کرتے تھے۔ 
آگے سنیے! عین وہ دن جب افتتاحی تقریب تھی ۲۰۰۰ء میں عیدالاضحی کے ایک دن بعدتو عیدالاضحی سے ایک دن پہلے یونیورسٹی تو بندتھی، لیکن دفاتر کھلے تھے۔ ہمیں اپنے ایک دوست ڈاکٹر انواراللہ صاحب حال مقیم برونائی دارالسلام کے ویزا کی مشکلات تھیں، ان کا ویزا نہیں لگ رہا تھا۔ ڈاکٹر غازی صاحب اس وقت نیشنل سیکورٹی کونسل کے رکن تھے اور اپنے دفتر میں بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ ذہن میں رکھیں کہ یہ کونسل وفاقی کابینہ سے بھی اوپر ایک ادارہ تھا۔ گویا اس کے ارکان وفاقی وزرا سے بھی بلند منصب کے حامل تھے۔ مختلف امور کی انجام دہی کے لیے میں نے ڈاکٹر صاحب کو تقریباً تیس بار ۔۔۔جی ہاں تیس بار ۔۔۔ٹیلی فون کیا اور نیشنل سیکورٹی کونسل کے دفتر میں بیٹھے ہونے کے باوجود انہوں نے ہر بار میری بات کو سنا اور پوری رہنمائی فرمائی۔ حالانکہ ہم میں سے ہر ایک کا مزاج ایسا ہے کہ اگر ایک دفعہ ، دو دفعہ، تین دفعہ سے زیادہ چوتھی دفعہ فون سننا پڑ جائے تو اکتا جائیں گے، لیکن ڈاکٹر صاحبؒ نے دفتر میں بیٹھے ہونے کے باوجود ہر دفعہ پوری طرح بات کو سنا اور رہنمائی کی۔ مجال ہے کہ ان کے لب ولہجہ میں کوئی اتار چڑھاؤ آیا ہو۔ مجال کہ یہ کہا ہو ، بھائی خود جاؤ، خود کرو، تنگ کر رہے ہو، بلکہ پوری رہنمائی کرتے رہے کہ فلاں کو فون کرو، فلاں سے پوچھو، اب فلاں شخص کے پاس جاؤ، اس کے بعد فلاں کے پاس جاؤ۔ یہ ان کی تحمل مزاجی کی صرف ایک مثال ہے۔
جب سارا کام مکمل ہو گیا اور عید گزر گئی تو مجھے کہنے لگے: ’’میری سیٹ ادھر ادھر کر دو، میں عیدالاضحی کے تین دن بعد آؤں گا‘‘۔ اب میرے چھکے چھوٹ گئے۔ میں نے کہا: ’’افتتاحی تقریب میں جنوبی افریقہ کا چیف جسٹس ہوگا، آپ نہیں جائیں گے تو میں کیا کروں گا‘‘۔ ڈاکٹر صاحبؒ ایسے مواقع پر زیادہ بولتے نہیں تھے۔ کہنے لگے: ’’چونکہ آپ کو اس سے پہلے فلپائن وغیرہ میں جانے سے کام کا تجربہ ہو چکا ہے، اس لیے آپ چلے جائیں، میں تین دن بعد آ جاؤں گا‘‘۔ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق اکیلے ہی چلا گیا اور جنوبی افریقہ میں وہاں کے چیف جسٹس کے زیرصدارت منعقدہ تقریب میں میں نے ڈاکٹر غازی صاحب کی نیابت کی۔ بعد میں معلوم ہو اکہ اصل میں ڈاکٹر صاحب کا آدمی کو آگے بڑھانے میں ایک مخصوص اسٹائل تھا۔ 
ان کے کردار کی پاکیزگی کا ایک واقعہ سناتا ہوں۔ میں وہاں ڈربن میں اس ہوٹل کے استقبالیہ کے پاس لاؤنج میں بیٹھا ہوا تھا جہاں ہم سب ٹھہرے ہوئے تھے۔ یہاں اپنے ملک میں تو ہر ہوٹل پر فائیو اسٹار لکھ دیتے ہیں۔ لوگوں کو پتہ نہیں ہوتا کہ فائیو سٹار ہوتا کیا ہے، لیکن وہ کوئی ایکڑوں پر محیط تھری سٹار ہوٹل تھا جس میں لوگ میلوں کے حساب سے چہل قدمی کرتے تھے ۔ ایک دن ایسے ہوا کہ اتفاق سے یہ جگہ جہاں ہم بیٹھے ہوئے ہیں [ الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے تہہ خانہ میں] اس ہوٹل کے لاؤنج جیسی ہے ۔یہی سمجھ لیں مجھے بات سمجھانے میں آسانی ہو گی۔ یوں ان سیڑھیوں کے سامنے ایک آئینہ لگا ہوا تھا اور استقبالیہ پر ایک سفید فام افریقی نژاد لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔ اگرچہ جنوبی افریقہ میں اکثریت سیاہ فام آبادی کی ہے، تاہم اقلیت میں تقریباً ۳، ۴ فی صد گورے افریقی بھی ہیں۔ بہرحال وہاں ایک نہایت خوبصورت لڑکی جس کی عمر تقریباً ۳۰،۳۲ سال ہوگی، کھڑی تھی۔ آج سے پیچھے جنوری ۲۰۰۰ء میں چلے جائیں تو ڈاکٹر صاحبؒ کی عمر اس وقت تقریباً ۴۹ سال کی تھی۔ یہ کوئی ایسی عمر نہیں ہے، جس کو بڑھاپے پر محمول کیا جائے اور ویسے بھی ڈاکٹر صاحب کی صحت تادمِ رحلت بہت اچھی تھی۔ اب ہوا ایسے کہ جوں ہی ڈاکٹر صاحب کی نظر اس خاتون پر پڑی تو انہوں نے فوراً آنکھیں نیچی کر لیں۔ میں سب کچھ آئینے میں دیکھ رہا تھا۔ یہ بات میں نے اپنی طرف سے آئینہ میں نوٹ کی۔ دنیا کا کوئی دوسرا جاننے والا شخص وہاں پر دیکھنے والا نہیں تھا اور ڈاکٹر صاحب کو وہاں میری موجودگی کا نہ تو علم تھا اور نہ میں ایسی جگہ بیٹھا تھا کہ انہیں علم ہو سکتا۔ وہ جو حدیث میں آتا ہے کہ اگر غیرمحرم پر پہلی نظر غیر ارادی اور غیر شعوری طور پر پڑ جائے تو معاف ہے، دوسری کا مواخذہ ہو گا۔ اس موقع پر میں نے دیکھا کہ اس سارے عمل میں ڈاکٹر صاحب میں کوئی تصنع نہیں تھا، کوئی بناوٹ نہیں تھی، کوئی ریاکاری نہیں تھی۔ پھر وہ فطری طریقے پر رواروی میں ہمیں تلاش کرتے کرتے میز پر آ کر میرے ساتھ بیٹھ گئے۔ 
آپ خواتین و حضرات کو گواہ بنا کر میں اللہ کی عدالت میں ان کے حق میں گواہی دیتا ہوں کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی پاکیزہ کردار کے مالک تھے۔ 
ڈاکٹر صاحب مالی معاملات میں بھی بڑے دیانت دار تھے۔ 
۱۹۹۹ء میں یکم اگست سے ا۳؍ اگست تک ایک عدالتی پروگرام چلانے کے لیے فلپائن میں جانے کا ہوا۔ فلپائن کے اس سفر کی مثال ، میں اس طرح دینا چاہوں گا کہ آپ پاکستان میں گویا کراچی ائیرپورٹ پر اترے۔ اگلی فلائٹ سے پشاور میں پہنچے، پھر بس یا کار میں پشاور سے کالام پہنچے۔ اس طرح فلپائن میںآپ گویا منیلا میں بذریعہ ہوائی جہاں اترے، پھر پشاور جیسے ایک چھوٹے شہر زیمبوانگا میں بذریعہ ہوائی جہاز اترے اور وہاں سے بذریعہ بحری جہاز ایک اور چھوٹے بلکہ بہت ہی چھوٹے شہر میں جاپہنچے۔ وہ جگہ آخری جزیرہ ہے جس کے بعد ایک جزیرہ چھوڑ کر ملائشیا شروع ہو جاتا ہے۔ جہاں ہم نے جانا تھا، وہاں جنگلات تھے اور دن میں آٹھ گھنٹے بجلی بند رہتی تھی۔ ٹی وی نشریات کوئی نہیں تھیں بلکہ وہ کیبل پر چلتا تھا۔ ٹیلی فون لینڈ لائن کوئی نہیں تھی، صرف موبائل فون تھے۔ اخبار تین دن بعد پہنچتا تھا۔ یوں سمجھیے جو درمیانی شہر ہے جس کی مثال میں نے پشاور دی ہے، وہاں تک تو ہم بذریعہ ہوائی جہاز پہنچے۔ 
ڈاکٹر غازی صاحب نے خود ہفتہ دس دن بعد آنا تھا۔ اس درمیانی شہر سے اصل جگہ تک جانے کے لیے اٹھارہ گھنٹے تک ہماری سوزوکی نمابحری جہاز میں سفر ہوتا تھا۔ جہاز میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اس میں تقریباً پانچ چھ سو لوگ سفر کرتے تھے۔ اس منظر کشی کے بغیر شاید میں بات واضح نہ کر سکوں۔ اس میں جتنے بھی مسافرہوتے تھے ، ان کی لباس کی ہیئت کچھ اس طرح تھی کہ دیسی زبان میں ہم اسے نکر یا ’’کاچھا‘‘کہہ سکتے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ ان لوگوں نے اس طرح کا مختصر لباس پہنا ہوا تھا۔ لوگ عام نچلے طبقے کے ماجھے گامے تھے۔ تہذیب سے دور، کوئی سوشل لائف نظر نہیں آتی تھی۔ آپ خود ان لوگوں کے بارے میں اندازہ کر لیں کہ کس طرح کے لوگ ہوئے ہوں گے۔ عام سوسائٹی کے لوگوں میں غالب اکثریت عیسائی تھی۔ درمیانی شہر سے سوزوکی نماجہاز مغرب کے بعد وہاں سے چلا اور اگلے دن ظہر اور عصر کے درمیان اپنی منزل کو پہنچا۔ اس درمیانی شہر سے ۱۳؍ نشستوں والا ایک ہوائی جہاز بھی ہماری منزل تک چلتا تھاجوصرف چار دن چلتا تھا :غالباً پیر، منگل ، جمعرات اور جمعہ۔ 
یہ بات ذہن میں رہے کہ ڈاکٹر صاحب اس وقت سپریم کورٹ کے جج تھے۔ وہاں پر سیٹوں کا کچھ مسئلہ پیدا ہوا۔ میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا:’’آپ نے مجھ پر جو بندشیں لگائی ہوئی ہیں، ذرا سی تو کم کریں۔ سیٹیں مل نہیں رہیں اور لوگوں کی فلائٹ تبدیل کرنی ہے۔ آپ سپریم کورٹ کے جج ہیں، مجھے ایک ٹیلی فون کی اجازت دیں تو میں منیلا میں پاکستانی سفارت خانے سے کہہ دوں‘‘۔ کہنے لگے :’’نہیں ، نہیں، عام پاکستانی کی طرح رہا کریں اور عام پاکستانی کی طرح زندگی گزارا کریں، سفارت خانے وغیرہ کے چکر میں نہ پڑا کریں‘‘۔ میں چپ ہو گیا۔ ہاں تو وہ جو میں کہہ رہا تھا کہ واپسی پر ان کے شیڈول کے مطابق ہوائی جہاز موجود تھا، اس جگہ آتے ہوئے تو وہاں کی انتظامیہ اور لوگوں نے ٹکٹ دیا تھا۔ واپسی کا ٹکٹ شریعہ اکیڈمی کے ذمہ تھاجس کا ذمہ دار میں تھا ۔ میں نے کہا : ’’ڈاکٹر صاحب مجھے اپنا پاسپورٹ دیں‘‘۔ پوچھا: ’’کیا کرنا ہے‘‘۔ میں نے کہا : ’’ آپ کے لیے ہوائی جہاز کا ٹکٹ لینا ہے‘‘۔ بولے: ’’ارے نہیں! میں بحری جہاز پر واپس پر جاؤں گا‘‘۔
اس جہاز کی سونے والی نشست کا منظر کچھ یوں تھاکہ اس کی چوڑائی بہت ہی کم تھی اور پھر ایک نشست کے اوپر تلے کل تین آدمی سوتے تھے۔ ضرورت پڑنے پر کروٹ لینا ہوتی تو آدمی پہلے اٹھ بیٹھتا اور پھر اپنی کروٹ بدلتا تھا۔ میں نے کہا : ’’ڈاکٹر صاحب !اتنی مشقت اٹھانے کی کیا ضرورت ہے ۔ آپ ہوائی جہاز پر آرام سے جائیں‘‘۔ بولے: ’’میں جہاز پر جا کر کیا کروں گا‘‘ ۔ مجھے پتہ تھا کہ اس جہاز پر سفر کرنا نہایت مشکل ہے۔ میرے ضد کرنے پر بولے :’’آپ چھوڑیں، مجھے یہ سب معلوم ہے اور میں گزشتہ سال دعوہ اکیڈمی کے ایک پروگرام میں اس بحری جہاز پر سفر کر چکا ہوں‘‘۔ پھر مجھ سے پوچھا کہ ہوائی جہاز میں کتنے پیسے لگتے ہیں؟ میں نے بتایا کہ تقریباً۲۵۰۰روپے پاکستانی، جب کہ بحری جہاز میں۷۰۰/۸۰۰روپے لگتے ہیں، یعنی اسی طرح دونوں کے کرایے میں کوئی اٹھارہ سو پاکستانی روپے کا فرق تھا۔ جب انہوں نے یہ سنا تو بغیر تقریر کیے مسکرا کر خاموش ہو گئے۔ نہ یہ کہا کہ قوم کا پیسہ ہے، خون پسینہ کی کمائی ہے، کوئی حدیث نہیں سنائی، کوئی لیکچر نہیں دیا۔ میں ڈاکٹر صاحب کی اس مسکراہٹ کے بارے میں انہیں کہا کرتا تھا: ’’ اسے ’’تبسم سقم شناس‘‘ کہنا مناسب ہے‘‘ؒ ۔وہ انسان کی غلطی محسوس کرنے کے بعد ہلکا سا مسکراتے تھے، پھر بات کا رخ دوسری طرف بدل دیتے تھے ۔ پھر مزید وضاحت کرتے ہوئے بولے :’’ بھائی ! بحری جہاز میں دو چار کتابیں پڑھ لوں گا، کیا ضرور ہی سونا ہے؟‘‘ مجھے یہ بھی معلوم تھا، انہیں بھی پتہ تھا کہ وہاں اس بحری جہاز میں تو ۱۵، ۲۰ واٹ کا بلب لگا ہوا تھا، وہاں تو نہیں پڑھ سکتے تھے۔ میں حیران تھا کہ آپ پہلے بھی سفر کر چکے تھے اور یہ جانتے بھی تھے۔ سپریم کورٹ کے جج تھے، اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل تھے، یونیورسٹی کے وائس پریذیڈنٹ تھے۔ ذرا دوسری طرف ملک کے عدالتی نظام کے سب سے نچلے پرزے، سول جج کے بارے میں آپ خود تصور کر سکتے ہیں کہ ایک شہر سے دوسرے شہر میں اعلیٰ حضرت کی تشریف آوری پر کیا کیا ہاہا کار مچتی ہے۔ استحقاق کے سوال جنم لیتے ہیں۔ ٹی اے ڈی اے کی جمع تفریق ہوتی ہے۔ اے اللہ !میں گواہی دیتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب نے اس جہاز پر پاکستان کے کسی بالکل عام شخص کی طرح سفر کیا ،حالانکہ وہ اس وقت سپریم کورٹ کے جج تھے۔ 
جب وطن واپس پہنچے تو ہمارے ٹی اے ڈی اے کا حساب ہوا۔ انسان خطا کا پتلا ہے۔ پوری دیانت داری سے اپنا اور ان کا بل ڈائریکٹر فائنانس کے پاس بھیجاجو ان کے ماتحت تھے۔ اس نے کوئی دس ہزار روپے کم کر دیے اور غلط کم کیے۔ میں فائل اٹھا کر ان کے پاس چلا گیا اور کہا : ’’آپ ڈائریکٹر فنانس کو سمجھا نہیں سکتے ، اس نے دس ہزار کی کٹوتی کی ہے‘‘۔ بولے : ’’چھوڑو، اب اس نے لکھ لیا ہے، میں اس کو کیا کہوں‘‘۔ پہلے تو میرے دل میں ملال ہوا کہ دس ہزار روپے کم ہورہے ہیں، لیکن پھر میرے ذہن میں آیا کہ میرے تو صرف دس ہزار روپے کم ہو رہے ہیں، ان کے تو تقریباًبیس ہزار کے لگ بھگ کم ہورہے ہیں، لہٰذا چپ ہو گیا۔
ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی یادیں توبہت ہیں، لیکن ترتیب سے بیان کرنا میرے لیے مشکل ہے ۔ ممکن ہے کہ آپ اس بات کو پسندنہ کریں کہ میری گفتگو بے ربط ہے اور اس میں ترتیب نہیں ہے، لیکن آپ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ میں جو کچھ آپ کے سامنے بیان کر رہا ہوں، دل کی گہرائیوں سے بیان کر رہا ہوں۔ جو کچھ میں نے بیان کیا اللہ کو گواہ بنا کر بیان کیا ہے۔ 
یہاں ایک ضروری بات بیان کرنا اہم ہے۔ پھر میں اپنے بیان کو ختم کرنا چاہوں گا۔ 
آپ دیکھیں گے کہ تاریخ اسلام میں رجال کی کتابوں میں بہت سی جگہوں پرخاص طورپر تراجم کے اثاثہ میں، کہا جا سکتا ہے کہ اس میں خاصی افراط وتفریط ملتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ میرے جیسے کسی نادان طالب علم کو استاد یا شیخ کے ساتھ اتنی محبت اور تعلق ہو گیا ہوتا ہے کہ اسے ان کی غلطی نظر ہی نہیں آتی۔ پس یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے معاملے میں میرے ساتھ ایسے نہیں ہے، اس کی بھی میں آپ کے سامنے وضاحت کر دوں۔ 
ویسے تو میں نے ان سے کئی بار اختلاف کیا، لیکن دو تین واقعات آپ کے سامنے ذکر کرنا چاہوں گا۔ امریکی دستورمیں ایک عبارت Chosen Representatives of Congress کا ترجمہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی ایک تحریر میں ’’کانگریس کے چنیدہ ارکان‘‘ کیا۔ مجھے ایک تحریر لکھنے کا موقع ملا تو میں نے اس اپنی تحریر میں لکھا کہ ’’سپریم کورٹ کے ایک جج نے اس کا ترجمہ یہ کیا ہے جو آگے اس کی تشریح کرتے ہوئے یوں لکھتے ہیں‘‘۔ 
دراصل جمہوریت کے بارے میں ان کا اپنا ایک نقطۂ نظر تھا جو یہ تھا کہ جمہوریت ومہوریت ایسے ہی ہے۔ سوسائٹی پر رول کرنے کے لیے، اسے چلانے کے لیے سوجھ بوجھ رکھنے والے اور پڑھے لکھے افراد استحقاق رکھتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اس عبارت کا ترجمہ بھی تقریباً یہی کیا ہے کہ امریکی دستوریہی کہہ رہا ہے کہ منتخب ارکان نہیں، بلکہ چنیدہ ارکان ہوں گے اور چنیدہ میں کسی اور طریقے سے چنے گئے دوسرے لوگ بھی شامل ہیں۔ یہ ان کی تشریح ہو ا کرتی تھی۔ میں نے جب تحریر لکھی تو اس پر گرفت کی اور لکھا کہ سپریم کورٹ کے ایک سابق جج یہ تشریح کرتے ہیں حالانکہ امریکی دستوری تاریخ کے سوا دوسو سال میں کسی امریکی جج یا کانگریس کے کسی رکن نے آج تک یہ تشریح نہیں کی ہے جس طریقے سے ڈاکٹر غازی صاحب تشریح کر رہے ہیں۔ کوئی شخص بھی اس فلٹر سے گزر کر کانگریس تک نہیں پہنچا، اس لیے ڈاکٹر غازی صاحب کی تحریر محل نظر ہے۔ میں نے یہ تحریر اسی طرح اپنے ایم فل کے مقالے میں بھی لکھی۔ جب میں یہ تحریر ان کے پاس لے کر گیا اور انہوں نے کہاکہ آپ کا مقالہ ٹھیک ہے۔ میں نے مذکورہ نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ، ’’ذرا اس بات کو غور سے پڑھیں‘‘۔ بولے : ’’ہاں، یہ بھی ٹھیک لکھا ہے‘‘۔ 
دوسرا واقعہ سن لیجیے اور ضمناً میں اس بات کی وضاحت کر دوں کہ اگر میں کہوں کہ وہ خطاؤں سے خالی تھے تو یہ ایمانیات سے متصادم گفتگو ہو گی۔ لیکن اس کے ساتھ میں آپ کو بتا دوں کہ میں نے اپنی زندگی میں دو شخص ایسے دیکھے ہیں جو بشری کمزوریوں کے باوجود بہت سی ناروا چیزوں سے خالی تھے۔ میں نے کئی مرتبہ ڈاکٹر صاحب کی کمزوریوں پر گرفت کی۔ اکثر اوقات تو اس کی وضاحت کر دیتے جس سے آدمی مطمئن ہو جاتا تھا۔ مثلاً یونیورسٹی میں ایک شخص کی تقرری ہوئی جو میرے نزدیک نہیں ہونی چاہیے تھی، بلکہ تقریباً تمام افراد کی رائے یہی تھی کہ وہ شخص سسٹم سے باہر کا ہے تو اس کو اس سسٹم میں کیوں لایا جا رہا ہے۔ ایک دفعہ میں ان کے پاس چلا گیا تو معلوم ہوا کہ حقیقت میں مسئلہ کیا ہے۔ 
ذرا غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ امور سلطنت چلانا کتنا مشکل کام ہوتا ہے۔ ہم اخباروں میں کیا کچھ لکھ دیتے ہیں، منبر رسولؐ پرمائیک مل جائے تو کیا کچھ باتیں کہہ دیتے ہیں۔ اس واقعے میں دراصل ایک صاحب تھے جو باربار میرے پاس بار بار آ رہے تھے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ مجھے اپنے پاس غیر ملکی طلبا والے سنٹرمیں استاد رکھ لو۔ میں اس وقت دعوۃ اکیڈمی کی طر ف سے اس سینٹر کاپرنسپل تھا۔ میں نے کہا کہ اب وقت گزر چکا ہے،کہاں رکھ لوں۔ اب ٹائم ٹیبل بھی بن چکا ہے۔ وہ صاحب ایک بڑے آدمی کی سفارش لکھوا کر لے آئے ، انکار کر دیا۔ پھر دوسرے کی لائے، پھر انکار کیا۔ پھر تیسرے کی ، میں نے پھر انکار کر دیا۔ حتی کہ ڈاکٹر غازی صاحبؒ کی لائے جو ہمارے ڈائریکٹر جنرل یعنی افسر اعلیٰ تھے۔ پھر بھی میں نے انکار کردیا۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھے بلایا اور بولے : ’’میں بہت سی جگہوں پر جواب دہ ہوں، حتیٰ کہ صدر کوبھی ، وزیراعظم کو بھی وغیرہ۔ خیر یہ آدمی تو مولانا وصی مظہر ندوی کا ہے، اگر مولانا مجھے شام کو مل گئے تو میں انہیں کیا جواب دوں گا۔ اس کا بندوبست کر دو تو بہتر ہے‘‘۔ یہ سنتے ہی میں نے اس شخص کا الٹا سیدھا بندوبست کر دیا۔ 
حقیقت یہ ہے کہ اب اسلامی یونیورسٹی وہ نہیں رہی جو آج سے دس پندرہ سال پہلے تھی۔ اس میں تدریج کے ساتھ علمی اور اس کی روایات کے لحاظ سے ہر آنے والے لمحہ میں ضعف آتا گیا اور آچکا ہے۔ ایسا ہی ضعف ان کے دور میں بھی آتا گیا۔ ایک دن ڈاکٹر غازی صاحب نے Islamic Jurisprudenceیعنی اصول فقہ اور اسلامیات سے متعلقہ اساتذہ کو بلایا۔ ہال بھرا ہوا تھا اور اکثراساتذہ موجود ہیں۔ ڈاکٹر غازی صاحب کے ایک طرف ڈاکٹر فضل الٰہی (احسان الٰہی ظہیر کے بھائی جو سعودی عرب سے پڑھے ہوئے ہیں ) اور دوسری طرف پروفیسر یوسف کاظم صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔ من جملہ دیگر باتوں کے ڈاکٹر غازی صاحب کی منظر کشی اور طلاقت لسانی کسی حد تک زبان زدعام ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ان دونوں اساتذہ کے ہاتھ پکڑ کر کہا :’’یہ دونوں حضرات حرمین شریفین میں رہ چکے ہیں۔ یہ میری بات کی تصدیق کریں گے‘‘۔ اس کے بعد اپنی گفتگو کی جس کا لب لباب یہ تھا کہ عربی زبان پڑھنے کی افادیت اپنی جگہ تو مسلم ہے، لیکن انگریزی زبان بھی سیکھنا ہمارے لیے فرض کفایہ ہے ۔ اور کہا کہ تمام اساتذہ یہ دونوں کورس انگریزی ز بان میں پڑھائیں۔ اگر نہیں پڑھا سکتے تو اپنی انگریزی کو پالش کریں اور کورس انگریزی ہی میں پڑھائیں۔ 
ڈاکٹر صاحب کافی دیر تک انگریزی زبان میں کورس پڑھانے کے بارے میں بات کرتے رہے ۔ میرا ذاتی نظریہ یہ تھا کہ ہم لوگ علوم اسلامیہ کے پڑھنے پڑھانے والے ہیں جو عربی ز بان میں ہیں جس کی کمیت میں ہر آنے والے لمحے میں یعنی تقریباً پچھلے پانچ سال سے اس میں کمی واقع ہوتی جا رہی تھی۔ ادھر ڈاکٹر صاحب انگریزی زبان کے بارے میں رطب اللسان تھے اور مجھے پوری حقیقت کا علم نہیں تھا کہ پیچھے تاریں کون ہلا رہا ہے اور معاملہ کیا ہے۔ حقیقت تو بہت بعد میں جسٹس خلیل الرحمن صاحب نے بتائی کہ گزشتہ دنوں اس وقت کے انتہائی بدبخت صدر مملکت کی ہدایت پر یہ سب کچھ احتیاط سے کیا جا رہا تھا۔ اسی دوران میں، میں سوال کے لیے کھڑا ہو گیا۔ انہوں نے ایک دفعہ بٹھایا تو تھوڑی دیر بعدمیں دوبارہ کھڑا ہو گیا اور کہا کہ بات یہ ہے کہ آپ کی باتیں سن کر میرا ایمان بڑھ گیا ہے اور تازہ ہوا ہے۔ آج کے بعد مجھے جتنی انگریزی آتی ہے، اس کو مزید پالش کروں گا۔ تاہم آخر میں ، میں نے کہا :’’ڈاکٹر صاحب ! ایک گزارش کروں گا ۔ آپ ہی سے پڑھا ، سنا ہے کہ امام شافعیؒ نے کتاب الام میں لکھا ہے کہ عربی زبان کا سیکھنا ہر مسلمان پر فرض عین ہے اور اب آپ بتائیں کہ اگر فرض عین اور فرض کفایہ میں تعارض ہو تو کس کو ترجیح حاصل ہو گی‘‘۔ میں نے مزید کہا : ’’آپ کے یہاں ہر آنے والے لمحے میں عربی میں ضعف آ رہا ہے‘‘ ۔ ڈاکٹر صاحب کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ لاجواب ہو گئے۔ ادھر نماز ظہر کا وقت ہو چکا تھا اور یوں اجلاس ختم ہوگیا۔
میری اس بات کا مقصد یہ نہیں کہ میں ان سے گفتگو میں جیت گیا ، بلکہ یہ واقعہ سنانے کامقصد یہ ہے کہ آپ لوگ میری باتوں کومحض عقیدت نہ سمجھ لیں۔ میں ان سے کھل کر اختلاف بھی کیا کرتا تھا۔یہ جتنی باتیں میں نے آپ کو سنائی ہیں، یہ ان کے کردار کی بلندی اور عظمت کے گوشے ہیں، ان کا مقصد یہ ہے کہ قیامت کے دن آپ لوگ میری گواہی پر گواہی دے سکیں۔ 
اسی طرح ان کی علمی بلندی کی ایک بات سن لیجیے۔ میرے اور ان کے درمیان علمی لحاظ سے کوئی نسبت نہیں ہے۔ میں پچھلے کافی عرصے سے اسلام آباد میں مقیم ہوں ، لا گریجویٹ ہوں ، لائسنس لینے کے لیے کچھ عرصہ پریکٹس بھی کی ہے ۔ اس نسبت سے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے تقریباً ڈیڑھ درجن کے قریب جج حضرات سے قریبی مراسم ہیں۔ ان سے قانونی گفتگو ہوتی رہی ہے، قانون پڑھاتا ہوں، لیکن پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ ان سارے جج حضرات کے علم کو ایک طرف رکھ دیں اور ڈاکٹر صاحب کا انگریزی قانون سے متعلق جو علم تھا، اس کو دوسری طرف رکھ دیں تو ان جج حضرات کا علم ڈاکٹر صاحب کے علم کے مقابلہ میں پرکاہ جیسا بھی نہیں ہے ۔
میں نے ۱۹۹۳ء میں ایک ادارے میں ایک قانون پڑھانا شروع کیا اور اس قانون کا نام صنعتی قانون تھا۔یہ قانون عام لا کالجوں میں پڑھائے جانے والے قوانین سے ذرا ہٹ کر ہوتا ہے۔ اس میں اہم صنعتی قوانین شامل تھے۔ ملک میں بہت سے آرڈیننس نافذ ہیں جو سارے کے سارے نہیں پڑھائے جاتے بلکہ تعلیمی زندگی میں صرف یہ بتایا جاتا ہے کہ قانون کہاں سے تلاش کریں۔ کچھ بنیادی اصول بتائے جاتے ہیں، لیکن سارے قوانین نہیں پڑھائے جا سکتے۔ اس ادارے میں ایسے ہی دس بارہ قانون تھے جو میں نے کبھی سنے بھی نہیں تھے۔ مثال کے طور پر ایک قانون Payment of Wages Act یعنی اجرتوں کی ادائیگی کا قانون ہے۔ یہ قانون فیکٹری اور کاروباری اداروں میں کام کرنے والوں کے بارے میں ہے۔ ایک اور قانون میں دیگر باتوں کے ساتھ ایک ترکیب illegitimate son and daughter یعنی ناجائز بیٹا اور بیٹی ہے جن کا قانون کے تحت صنعتی کارکن کی وراثت میں حصہ تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ایک اسلامی ریاست میں کس طرح ممکن ہے کہ ناجائز بیٹے اور ناجائز بیٹی کو وراثت میں حصہ ملے۔ میں نے اپنے سے بہتر اہل علم اور جج حضرات سے دریافت کیا، تاہم کسی نے تشفی نہیں کرائی اور کسی کو کچھ پتہ بھی نہیں تھا۔ ادھر ڈاکٹر غازی صاحب بنیادی طور پر عربی زبان میں ڈاکٹریٹ تھے۔ انہوں نے مجھے اجازت دے رکھی تھی کہ اگر کوئی مشکل پیش آ جائے تو آپ دو بجے رات تک فون کر سکتے ہیں، لیکن میں نے ساری زندگی اس رعایت سے فائدہ نہیں اٹھایا تھا، مگر اس دن میں تنگ آگیا تھا کہ صبح کو لیکچر ہے اور میں ان طلبہ کو کیا پڑھاؤں گا۔ یہ بھی سوچ رہا تھا کہ لفظ illegitimate کا ترجمہ بتا دوں گا۔ پاکستانی طلبہ خاموشی سے سن لیتے ہیں اور اگر کوئی بات کرے بھی تو استاد ڈانٹ ڈپٹ کر لیتا ہے ، میں بھی اسی طرح کروں گا۔ لیکن پھر سوچا کہ ڈاکٹر غازی صاحب سے پوچھ لوں جو آخری اوزار تھے۔ یقین کیجیے، انہوں نے مجھے دو تین منٹ میں یوں چٹکی میں سارا مسئلہ سمجھا دیا۔ اب آپ کے ذہن میں تجسس پیدا ہو رہا ہوگا کہ مسئلہ کیا ہے، آپ بھی سن لیں۔ 
یہ قانون انگریزوں کا وضع کردہ قانون تھا۔ ملک میں جس طرح انگریزوں کے دیگر قانون چل رہے ہیں، یہ قانون بھی چل رہا تھا۔ اب اس کا مرتبہ کیا ہے ؟ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ یہ قانون اور ایک دوسرا قانون سپریم کورٹ میں چیلنج ہوا تھا جہاں اسے غیراسلامی قرار دے دیا گیا تھا۔ اصل میں جب فوجی لوگ گاؤں اور دیہاتوں میں جا کر مشقیں کرتے ہیں تو اس دوران میں فصلوں وغیرہ کا نقصان ہوتا ہے تو ان کا اسٹیشن ہیڈکوارٹر لوگوں کی تلافی کرتا ہے۔ ایک دفعہ جب ایسی ایک ادائیگی کا موقع آیا تو اس دوسرے قانون میں بھی ناجائز اولاد کا بطور وارث ذکر موجود تھا۔ ڈاکٹر صاحب موصوف نے بتایا کہ کچھ دوسرے لوگ جو ناجائز اولاد تھے، وہ ورثا کے طور پر کھڑے ہو گئے اور قانون سامنے رکھ دیا۔ یہ قانون شرعی عدالت سے ہوتے ہوتے سپریم کورٹ گیاتوفیصلہ یہ ہوا ہے کہ قانون تو یقیناًموجود ہے مگر یہ غیر شرعی قانون ہے۔ چنانچہ یہ قانون تو اب تک موجود ہے، کیونکہ پارلیمنٹ نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی، لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت یہ ختم ہو گیا ہے۔ اب اس پر عمل درآمد نہیں ہوگا، لکھا ضرور ہے ۔ گویا اس مسئلے کی حالت ناسخ و منسوخ کی سی سمجھ لیں۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ سارا تجزیہ ۱۹۹۳ء میں کیا جب وہ یونیورسٹی میں محض ایسوسی ایٹ پروفیسر عربی تھے۔جج وہ ۱۹۹۹ء میں بنے تھے۔ اس وقت وہ ایک عام سے استاد تھے۔ عربی زبان پڑھاتے تھے۔ فقہ پڑھاتے تھے۔ بات دراصل یہ تھی کہ قانونی نظائر کے رسائل کا وہ تسلسل کے ساتھ مطالعہ کرتے تھے۔ 
ڈاکٹر غازی صاحب کس قدر نیک سیرت تھے ، کیا بتاؤں۔ میری معلومات کے مطابق قرآن کی سات منازل جو غالباً حضرت عثمانؓ کی طرف سے مقرر کر دہ ہیں، موصوف روزانہ ایک منزل پڑھتے تھے او ر یہ بھی مجھے معلوم ہے کہ دن بھر وہ باوضو رہنے کا اہتمام کرتے تھے۔ اگرچہ دفتر میں بیٹھے ہوتے تھے۔ 
سامعین کرام! کہنے کو تو بہت کچھ ہے۔ میرے لیے بہت صدمہ ہے۔ یقین نہیں آ رہا کہ وہ رخصت ہو گئے ہیں اور اگر ہوئے ہیں تو میری سمجھ سے بالا ہے کہ کیوں اتنی جلدی ان کی شام زندگی ہمیں دیکھنے کو ملی؟ لیکن سامعین کرام! ان کی وفات میں ایک مثبت پہلو بھی ہے جو شاید میں آپ سب لوگوں کو نہ سمجھا سکوں، لیکن سرکاری لوگ آسانی سے سمجھ جائیں گے۔ اسلام آباد میں لوگ ساٹھ سال عمر پوری کر کے ریٹائر ہو تے ہیں، لیکن باوسیلہ خواتین و حضرات کا ایک پورا غول پیر تسمہ پاکی طرح ہرطرف مسلط ہے۔ ان میں سے بیشتر کی عمر آج ۸۰، ۸۵ سال تک ہے ۔ مخلوق خدا ان کو کوستی رہتی ہے کہ مرتے کیوں نہیں اور کہتی ہے کہ یہ لوگ ہٹتے کیوں نہیں ہیں۔ کئی اصحاب تو منہ میں دانت نہ پیٹ میںآنت کے مصداق نماز کے دوران میں جس کرسی پر رکوع و سجود کرتے ہیں، میں نے اس کرسی کو بھی چرچرا کر غالباً کوستے سنا، لیکن حضرات ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ ایک ریٹائرڈ آدمی ایسا بھی ہے کہ وہ جو پنجابی میں کہتے ہیں ’’ عمرہوئی تیری سو، ہنڑتاں مغروں لوہ‘‘ یعنی تمہاری عمر سو سال ہو گئی ہے، اب تو پیچھا چھوڑو۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے بیشتر کے لیے میں نے لوگوں کو ہاتھ الٹے کر کے کوسنے دیتے سنا۔
سامعین کرام! ذرا توجہ فرمائیں، غور کریں۔ غازی صاحب بھرا میلہ چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوئے ہیں اورمیرے یہ دوسرے ممدوح ؟ ومن نعمرہ ننکسہ فی الخلق، افلا یعقلون۔ 
۱۸؍ ستمبر کو ڈاکٹر صاحب کی ساٹھویں سال گرہ تھی۔ سرکاری اعتبار سے Joining time ہفتہ دس دن ہوتا ہے۔ وہ جائننگ ٹائم انہوں نے وفاقی شرعی عدالت میں گزارا۔ ساٹھ سال پورے ہوئے تو اللہ کی جواررحمت کو جائن کر لیا۔ اللہ نے ان کو اپنے پاس بلا لیا۔ مجھے طمانیت ہوتی ہے کہ اللہ کے مقرب بندے تھے، مخلوق خدا کی بددعاؤں سے بچ گئے۔ ڈاکٹر صاحب بہت خود دار آدمی تھے۔کبھی خود کو کسی منصب کے لیے انہوں نے پیش نہیں کیا۔
میں اسی بیان پر اپنی بات ختم کرتا ہوں حالانکہ کہنے کو تو بہت کچھ ہے۔ بہت شکریہ آپ سب کا۔ 

میرے غازی صاحب

ڈاکٹر حیران خٹک

’’کل نفس ذائقۃ الموت‘‘ اس میں شک ہی کیا ہے۔
ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے 
جو کوئی بھی اس دارفانی میں آتا ہے ،اسے ایک دن دارِ بقا کی طرف کوچ کرنا پڑتاہے۔ ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی روح بھی قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ یقین نہیں آتا کہ وہ اتنی جلدی ہم سے بچھڑ جائیں گے، لیکن لگتا ہے انہیں خود جانے کی جلدی تھی، اس لیے بہت کم وقت میں دینی اور دنیاوی لحاظ سے طویل سفر طے کیا۔ آٹھ سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کیا۔ مزید تعلیم جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور مدرسہ تعلیم القرآن راولپنڈی سے حاصل کی۔ کسی اسکول یا کالج میں ایک دن گئے بغیر ایم اے اور پی ایچ ڈی کے مراحل طے کیے۔ ادارہ تحقیقات اسلامی میں ریڈر کی حیثیت سے شامل ہوئے اور پھر دعوۃ اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل، بین ا لاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے نائب صدر ، صدر اور اسی طرح سپریم کورٹ کے اپیلٹ بنچ کے جج اور آخر میں شریعت کورٹ کے جج کے منصب تک پہنچے۔ اسلامی بینکاری اور اسلامی نظام معیشت میں دنیا بھر میں اتھارٹی کی حیثیت رکھتے تھے۔ سپریم کورٹ کے اپیلٹ بنچ میں جب ربا کیس سنا جارہا تھا تو ڈاکٹر غازیؒ اس بنچ کے رکن تھے اوراس بنچ نے جو تاریخ ساز فیصلہ سنایا، وہ بقول جسٹس خلیل الرحمن خان اگر ان کو ڈاکٹر غازی کی معاونت حاصل نہ ہوتی تو وہ یہ فیصلہ کبھی نہ لکھ پاتے۔
جانے والے کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی خوبیوں سے نوازا تھا۔ بلاشبہ ڈاکٹر محمود احمدغازیؒ کی رحلت اُمت مسلمہ اور بالخصوص پاکستان کے لیے ایک بڑا سانحہ ہے، لیکن میرے لیے ذاتی طور پر بہت بڑا نقصان ہے، میں ایک ہمدرد اور غمگسار بزرگ سے محروم ہوگیاہوں۔ 
مجھے دعوۃاکیڈمی میں لانے والے وہی تھے۔ انہی کی دعوت پر میں نے پشاور کوخیرباد کہا۔ انہوں نے دعوۃ اکیڈمی میں قیام کے د وران اور اس کے بعد مجھے بہت عزت دی۔ جب دعوۃ اکیڈمی سے ان کاتبادلہ بحیثیت نائب صدر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ہوگیا تو انہوں نے میرے تبادلے کی تجویز بھی بھیجی، لیکن اُس وقت کے ڈائریکٹر جنرل محترم ڈاکٹرانیس احمد صاحب نے اس تجویزسے اتفاق نہیں کیا۔ کچھ عرصہ بعد انہوں نے پھر میرا تبادلہ شعبہ امتحانات میں کردیا۔ اب کی بار میری مرضی بھی اس میں شامل تھی چنانچہ محترم ڈاکٹر انیس احمد صاحب نے بھی جانے کی اجازت دے دی۔ 
ڈاکٹر غازیؒ درویش صفت انسان تھے۔ اگرچہ وہ ملنے ملانے میں زیادہ گرم جوشی کا اظہار نہیں کرتے تھے، لیکن میں اپنی عادت کے مطابق ان کے ساتھ بے تکلفی برتتا۔ کبھی کبھی یہ بے تکلفی بے ادبی کی حدود کو بھی چھو لیتی تھی، لیکن ڈاکٹر صاحب میرے مزاج سے بخوبی واقف تھے، اس لیے میر ی باتیں خندہ پیشانی سے برداشت کرلیتے۔
ڈاکٹر غازیؒ مجھ پر بہت اعتماد کرتے تھے اور الحمدللہ میں نے کبھی ان کے ا عتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائی۔ ایک دفعہ وہ کہیں بیرونِ ملک تشریف لے جارہے تھے اور میرا تربیت اساتذہ کا پروگرام شروع ہونے والا تھا۔ چنانچہ میں نے شرکا کی تعداد کے مطابق خالی اسناد ان کے سامنے دستخط کرنے کے لیے رکھ دیں ۔ انہوں نے خالی اسناد کو دیکھا اور کہا کہ ’’خالی اسناد پر دستخط کرنے پڑیں گے‘‘؟ میں نے کہا مجبوری ہے، چنانچہ ہماری مجبوری کا لحاظ رکھتے ہوئے انہوں نے خالی اسناد پر دستخط ثبت کیے۔ جب میرا تبادلہ شعبہ امتحانات میں ہواتو میں ایک دفعہ پھر براہِ راست غازی صاحبؒ کے ماتحت ہوگیا۔ وہ ان دنوں یونیورسٹی کے نائب صدر (اکیڈمکس) تھے۔ شعبہ امتحانات میں چونکہ آئے روز نت نئے مسائل کا سامنا ہوتا تھا، اس لیے غازی صاحبؒ کے ساتھ مشاورت کے لیے میں جب بھی جاتا تو وہ نہایت مصروف ہوتے اور بات نہ ہوپاتی۔ ایک دن میں نے ان سے کہا کہ آپ مجھے دس منٹ دے دیں تاکہ میں اپنے مسائل آپ کے گوش گزار کروں۔ اس دوران پہلے سے گفتگو کا سلسلہ جاری تھا۔ غازی صاحب فائلیں نکالنے میں مصروف تھے۔ میری باتوں پر بھی وہ’’ بہت اچھا‘‘، ’’ٹھیک ہے‘‘ کہتے رہے۔ باتوں باتوں میں انہوں نے ایک دفعہ سر اٹھا کر کہا کہ دس منٹ میں سے پانچ منٹ تو آپ بول چکے۔ میں نے کہا میں توبول چکا ہوں، لیکن کیا آپ سن چکے ہیں؟ اس پر وہ مسکراکر پھر اپنے کام میں مصروف ہوگئے۔ 
اسی طرح ایک دن میں ان سے ملنے کے لیے ان کے پی ایس کے کمرے میں کچھ اور لوگوں کے ساتھ انتظار کررہا تھا کہ اتنے میں غازی صاحبؒ اپنے دفتر سے برآمد ہوئے اور اپنے پی ایس سے جاتے جاتے کہا کہ اچھا میں جا رہا ہوں، کوئی کام تو نہیں ہے؟ اور یہ کہتے ہوئے نکل گئے۔ مجھ سمیت وہاں موجود دوسرے احباب نے یہ بات بہت محسوس کی اور ہر ایک ناگواری کا اظہارکرنے لگا۔ مجھے غازی صاحبؒ سے یہ توقع نہیں تھی، چنانچہ اگلے دن میں ان سے ملنے دوبارہ گیا۔ اس دن ان کے پاس کوئی موجود نہیں تھا۔ جاتے ہی میں نے سلام کے بعد کہا کہ ڈاکٹر صاحب، آپ نے کل کیاکیا؟ آپ کے اس رویے کی وجہ سے کئی احباب کی دل شکنی ہوئی، فریادیوں میں، میں بھی شامل تھا ۔چونکہ میں نے بات تھوڑی سی سخت کی تھی، اس لیے ڈاکٹرصاحبؒ کے چہرے پرکچھ ناگواری کے آثار نظر آئے۔ چنانچہ ان کے تاثر کو ٹھیک کرنے کے لیے میں نے اپنے مخصوص انداز میں کہا کہ ’’پیروں کو مناسب نہیں کہ مریدوں کے دلوں کو دکھائیں‘‘۔ اس پر وہ نارمل ہوگئے اور مسکرا کر کہا کہ آئندہ میں خیال ر کھوں گا اور مجھے ڈھیر ساری دعائیں دیں۔ 
جن دنوں غازی صاحب نیشنل سیکورٹی کونسل کے ممبر بن رہے تھے تو میرے پاس ایک’’ فرشتہ‘‘ آیا اور غازی صاحب کے متعلق مختلف قسم کے استفسارات کرنے لگا۔ میں سمجھ گیا کہ ان کو کوئی اہم ذمہ داری سونپی جا رہی ہے۔ اگلے دن ان سے ملاقات میں عرض کیا کہ میرے پاس ایک فرشتہ آیاتھا جو آپ کے متعلق مجھ سے استفسارات کر رہا تھا۔ ا نہوں نے مسکرا کر کہاکہ اچھا آپ کے پاس بھی پہنچ گیا تھا اور پھر کہا کہ کئی دوستوں کے پاس یہ فرشتے پہنچ گئے ہیں۔ پتہ نہیں کیا چاہتے ہیں۔ جس دن ان کے سیکورٹی کونسل کے ممبر کی حیثیت سے حلف اٹھانے کی خبر شائع ہوئی تو میں مبارکباد دینے کے لیے ان کے آفس گیا۔ جب میں نے مبارکباد دی تو انہوں نے مسکراکر وصول کی اور زبان سے کچھ نہیں بولے۔ پھر کہنے لگے کہ مجھے پیشکش تواس دن ہوئی تھی جس دن آپ کے پاس فرشتہ آیا تھا، لیکن میں نے احباب کے ساتھ مشورے کی مہلت مانگی تھی، چنانچہ کئی دوستوں سے مشورے کے بعد آج حلف اٹھارہا ہوں۔ کہنے لگے اللہ شاید کوئی خیر کا کام مجھ سے کروائے۔ میں نے ان سے کہا کہ کیا بیگم عطیہ عنایت اللہ اور صاحبزادہ امتیاز کے درمیان بیٹھ کر آپ اپنے خیر کے تصور کے مطابق کوئی کام کرسکیں گے؟ کہنے لگے نہ کرسکا تو چھوڑ کر آجاؤں گا۔ اب میں نے چبھتا ہوا جملہ کہا۔ میں نے کہا کہ’’ لوگ کہتے ہیں جب حکومت تبدیل ہوتی ہے تو ڈاکٹر صاحب اپنی شیروانی ڈرائی کلین کرا لیتے ہیں‘‘۔ اس پر ان کی آنکھیں سرخ ہو گئیں اور کہا کہ ’’میں قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ میں نے آج تک نہ کسی عہدے کی خواہش ظاہر کی اور نہ ہی کسی عہدے کے لیے کسی کو درخواست کی ہے۔ میرا ایمان ہے کہ عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے، اس کے لیے ایک انسان کو دوسرے انسان کا محتاج نہیں ہونا چاہیے‘‘ اور پھر اپنے بریف کیس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ’’ اگر میں اس میں پڑی ہوئی تحریر یں دکھا دوں تو آپ پریشان ہو جائیں گے کہ آخر یہ شخص سکون کی نیند کیسے سوتا ہے، لیکن الحمدللہ مجھے ان چیزوں کی پروا نہیں کیونکہ میرا ایمان ہے کہ عزت اور ذلت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے‘‘۔ 
وفاقی وزیر کی حیثیت سے ڈاکٹر صاحبؒ نے اصلاح احوال کی بڑی کوشش کی، لیکن ان کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوئی۔ مدارس کی اصلاح کے پروگرا م میں حکومتی پروگرام سے اختلاف کرتے ہوئے اس وقت کے وزیر داخلہ کے ساتھ کابینہ کے اجلاس میں تلخ کلامی بھی ہوئی۔ اسی طرح ڈاکٹر صاحب کی شدید خواہش تھی کہ سپریم کورٹ کے اپیلٹ بنچ کے ربا کے متعلق فیصلے کی روشنی میں پاکستان میں غیر سودی نظام معیشت رائج کیا جائے۔ اس سلسلے میں انہوں نے حتمی تاریخ کا اعلان بھی کیا تھا، لیکن بیوروکریسی اور سیکولر عناصر نے ان کی ایک نہ چلنے دی اور حکومت نے اس فیصلے کوبالائے طاق رکھ دیا۔ جب انہیں احساس ہوا کہ وہ کوئی مثبت کردار ادانہیں کرسکتے تو استعفا دینے میں ہی عافیت سمجھی۔
میں ان سے اکثر ذاتی اور دفتری معاملات اور مشکلات کا ذکر کرتا تھا ۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ’’ اپنے ایمان کو مضبوط کرو۔ جب آپ کا ایمان مضبوط ہوگا تو آپ ان تمام چیزوں کو من اللہ سمجھیں گے اور پھر کسی سے شکایت کی بجائے مشیت اللہ پر صابر و شاکر ہوں گے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’’آپ یہ بات اپنے دل میں راسخ کرلیں کہ دنیا کی کوئی طاقت نہ آپ کو ذرہ برابر شر پہنچاسکتی ہے اور نہ ہی خیر‘‘۔
ڈاکٹر محمود احمدغازیؒ ایک انسان تھے اور انسان معصوم عن الخطاء نہیں ہوسکتا، لیکن امانت و دیانت کے لحاظ سے غازی صاحبؒ جن بلندیوں پر فائز تھے، ان کا اس دور میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ غازی صاحبؒ اس لحاظ سے گفتار کے نہیں کردار کے غازی تھے اور انہوں نے عملی طور پر یہ بات سمجھائی کہ امانت اور دیانت کسے کہتے ہیں۔ میں ایسے کئی واقعات کا عینی شاہد ہوں۔
ایک دفعہ میں ڈاکٹر صاحبؒ کے پاس ان کے دفتر میں بیٹھا تھا کہ وہ گھر جانے کی تیاری کرنے لگے۔ بریف کیس کھول کر اس میں اپنی چیزیں رکھنے لگے۔ سامنے سے ایک پنسل اور ربر اٹھائی اور بریف کیس میں رکھ لی۔ میں یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا ۔ کہنے لگے یہ میں اپنے ذاتی کام کے لیے گھر سے لایاہوں۔
اسی طرح ایک دن کی بات ہے۔ غازی صاحب کو کہیں باہر دورے پر جانا تھا۔ میرے سامنے اپنے ڈرائیور کو بلایا اور ہدایت کی کہ کل دفتر کی گاڑی گیراج کر لیں اور اگر گھریلو ضرورت کے لیے گاڑی درکار ہو تو غزالی صاحب کی گاڑی استعمال کر لیں۔
غازی صاحبؒ یونیورسٹی کے نائب صدر بنے تو بھی میرا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ ایک دن میں ان سے ملنے گیا، اندر پہلے سے کچھ لوگ موجود تھے، چنانچہ میں ان کے سیکرٹری طاہر فرقان کے پاس بیٹھ گیا۔ اتنے میں اندرسے کچھ کاغذات فوٹو کاپی کے لیے آئے جن پر غازی صاحبؒ نے تحریر کیا تھا: ’’ذاتی‘‘۔
دعوۃ اکیڈمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر جناب حافظ بشیر احمد صاحب کا کہنا ہے کہ جب وہ دعوۃ اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل بن کر آئے تو کئی مہینے ان کے گھر کے فون کا بل نہیں آیا۔ ایک دن میں نے پوچھ ہی لیا کہ سر! آپ کے گھر کے فون کا بل نہیں آرہاتو انہوں نے کہا کہ’’ میرے گھر پر کوئی سرکاری فون نہیں ہے۔ میں نے ذاتی لگوایا ہوا ہے، وہی استعمال کرتا ہوں، میرے بچے بھی وہی استعمال کرتے ہیں تو اس سے کیا فرق پڑتاہے کہ ایک آدھ فون دفتری مقاصد کے لیے بھی ہو جائے‘‘۔ ڈاکٹر صاحبؒ گھر کی سیلنگ بھی نہیں لیتے تھے حالانکہ قانوناً ایسا کرنے میں کوئی قباحت نہیں تھی، لیکن وہ اخلاقی طور پر اس کو مناسب خیال نہیں کرتے تھے۔ وہ تو تفریح الاؤنس بھی نہیں لیتے تھے بلکہ مہمانوں کی خاطر داری اپنی جیب سے کرتے تھے۔ نیشنل سیکورٹی کونسل اور وفاقی وزیر کی حیثیت سے ان کو کافی مراعات حاصل تھیں، لیکن انہوں نے ان مراعات سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ اسلامی یونیورسٹی میں صدر کے منصب سے ان کو جس دن فارغ کیا گیا، اُس دن وہ اپنے بھائی ڈاکٹر غزالی صاحب کی گاڑی میں گھر گئے اور یونیورسٹی کی گاڑی استعمال نہیں کی۔ 
یہ ۱۹۹۴ء کی بات ہے۔ غازی صاحبؒ اور ہمارے دو اور ساتھی کسی بین الاقوامی پروگرام میں شرکت کے لیے بیرونِ ملک جارہے تھے۔ میرا بھی تربیت اساتذہ کا پروگرام شروع ہونے والا تھا، اس لیے میں رہنمائی کے لیے غازی صاحب کے دفتر کی طرف چل پڑا۔ راستے میں معاً میرے دل میں بیرونِ ملک جانے کی خواہش نے سر اٹھایا۔ جب میں غازی صاحبؒ کے دفتر میں داخل ہوا تو اُن کے ہاتھ میں ایک خط تھا۔ انہوں نے دیکھتے ہی وہ خط مجھے پکڑا دیا اور کہا، بھئی میں باہر جارہا ہوں۔ یہ فجی میں ایک پروگرام ہے، اس پروگرام کے رابطہ کار آپ ہوں گے‘‘۔ اس سلسلے میں مزید تفصیلات طے کرنے کے لیے متعلقہ تنظیم سے رابطہ کرلیں۔ مجھے ملنے سے پہلے ہی وہ مذکورہ خط مجھے مارک کرچکے تھے۔ میں اب بھی سوچتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں میری وہ خواہش کتنی جلد مقبول ہوئی کہ ادھر دل میں خواہش پیدا ہوئی، اُدھر اللہ نے غازی صاحبؒ کے دل میں اس کام کے لیے میرا نام ڈا ل دیا۔ یہ ایک مہینے کا پروگرام تھا اور غازی صاحبؒ کے لیے اتنا عرصہ ملک سے باہر رہنا ممکن نہیں تھا، اس لیے وہ دس دن کی تاخیر سے ہمارے ساتھ شامل ہوئے۔غازی صاحبؒ کے آنے سے پروگرام کا لطف دوبالا ہوگیا۔ غازی صاحبؒ کے روزانہ ایک یا دو لیکچرز ہوتے تھے، باقی اوقات میں خوب گپ شپ رہتی۔ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ میں پہلے بھی بے تکلف تھا، اب بے تکلفی اور بڑھ گئی۔ 
فارغ اوقات میں مختلف قسم کے سوالات جھاڑتا اور غازی صاحبؒ مسکرا مسکرا کر ہرسوال کا جواب دیتے۔ اس دوران غازی صاحبؒ کے ساتھ مختلف ضیافتوں اور فجی کے مختلف علاقوں کے دوروں کے مواقع بھی میسر رہے۔ ایک دن فجی مسلم لیگ کے یوتھ ونگ نے فجی کے دارالحکومت سووا کے قریب ایک جزیرے پر پکنک کا پروگرام بنایا۔ ہم پروگرام کے شرکا کے ہمراہ کشتی کے ذریعے روانہ ہوگئے۔ چونکہ کشتی نے بحرالکاہل کے سینے کو چیرنا تھا، اس لیے ہمیں لائف بوٹس دی گئیں۔ میں نے لائف جیکٹ مضبوطی کے ساتھ پہن لی۔ ڈاکٹر صاحب ؒ نے مسکرا کر کہا کہ یہ جیکٹ آپ کا بوجھ نہیں سہار سکے گی۔ میں نے استفسار کیا کہ بحرالکاہل کی گہرائی کتنی ہوگی؟ کہنے لگے کہ اوسطاً ایک سو دس میل۔ خوف سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ گھبرانے کی بات نہیں۔ جب ہم جزیرے پر پہنچے تو پروگرام کے شرکا بار بی کیو کی تیاری میں مصروف ہوگئے اور ہم ادھر ادھر جزیرے میں چہل قدمی کرنے لگے۔ اتنے میں کھانا تیار ہوگیا، ہم نے ڈٹ کر کھاناکھایا ۔ کھانا کھاتے ہی ڈاکٹر صاحبؒ کی طبیعت بوجھل ہوگئی۔ میں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب خیریت ہے؟ کہنے لگے قیلولے کے بغیر بات نہیں بنے گی اور پھر وہیں گھاس پر کہنی سے سرہانہ بنا کر سو گئے۔ وہاں کے لوگوں کے کھانے کا ٹیسٹ بڑا مختلف تھا۔ وہ اپنے ذوق کے مطابق کھانا دیتے جس میں اکثر اوقات ابلے ہوئے چاول اور مچھلی کا شوربہ ہوا کرتا تھا جو مجھے سخت ناپسند تھا۔ ڈاکٹر صاحب کو جب اس ناپسندیدگی کا پتہ چلا تو انہوں نے اس پر ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ ہم جو بھی پروگرام کریں گے، متعلقہ تنظیم کو بتادیں گے کہ وہ ہمارے رابطہ کار کی پسند کا خیال رکھے۔ کھانا ڈاکٹر صاحبؒ کو بھی پسند نہیں تھا لیکن خوش دلی سے اپنی ضرورت کے مطابق کھالیتے تھے۔
ایک دن ہم کھانے کے لیے بیٹھے۔ غازی صاحبؒ بھی موجود تھے۔ میں نہایت نیم دلی اور قدرے توقف سے ابلے ہوئے چاول چمچ میں اٹھا لیتا۔ ان کی نظر مجھ پر پڑی، انہوں نے مجھے کہا کہ مچھلی لے لیں! میں نے انکار میں سر ہلایا تو انہوں نے مچھلی کی ایک بوٹی اٹھائی اور کہا کہ میری خاطر ایک بوٹی لے لیں۔ چنانچہ ان کا دل رکھنے کے لیے میں نے وہ بوٹی کھالی ۔ 
فجی کے پروگرام سے و ہ بہت خوش تھے۔ اس پروگرام میں قریبی جزائر کے دعوتی کارکن بھی شامل تھے جن کی کل تعداد ۶۰ سے زیادہ تھی۔ڈاکٹر صاحبؒ نے مجھے بتایا کہ یہ بڑا اچھا موقع ہے انگریزی میں لیکچر دینے کے لیے۔ میں نے کہا کہ مجھ میں انگریزی بولنے کی استعداد نہیں ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ آپ اللہ کا نام لے کر لیکچر دیں، آپ کی استعداد خود بخود بڑھ جائے گی، لیکن میں اپنے آپ میں جرأت پیدا نہیں کرسکا۔ پروگرام کی اختتامی تقریب کے لیے میں نے رپورٹ تیار کی تھی۔ وہ میں نے ڈاکٹر صاحبؒ کو دکھائی، ڈاکٹر صاحبؒ نے حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا، بہت اچھا لیکن مزہ تب آئے گا جب آپ زبانی تقریر کریں۔ میں ان کی یہ خواہش پوری نہ کرسکا۔
ایک موقع پر انہوں نے عربی میں اپنی پہلی تقریر کاقصہ بھی بیان کیا۔ کہنے لگے کہ ایک دفعہ میں ڈاکٹر معروف دوالیبی کی دعوت پر شام گیا۔ نماز جمعہ کے موقع پر انہوں نے مجھے خطبہ دینے کا حکم صادر کیا۔ میں نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے عربی میں تقریر نہیں کی، اس لیے مشکل ہے۔ اس پر ڈاکٹر دوالیبی نے کہا کہ آپ کے لیے کیا مشکل ہے؟ آپ حافظ قرآن ہیں، بسم اللہ کرکے خطبہ شروع کردیں اور ایک دو فقروں کے بعد قرآن کی متعلقہ آیت کا حوالہ دیں۔میں نے اس فارمولے پر عمل کیا اور یوں میں نے عربی میں تقریر شروع کی۔
فجی میں قیام کے دوران ڈاکٹر غازی صاحبؒ کے ساتھ خوب گپ شپ ہوتی اور تقریباً ہر موضوع پر بات چیت ہوئی۔ ایک دفعہ باتوں باتوں میں، میں نے پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب! آپ غازی کیسے بنے، یہ آپ کا تخلص ہے یا کنیت؟ مسکرا کر کہنے لگے کہ یہ بچپن کی ایک یادگار ہے۔ میں نے کہا وہ کیسے؟ تو کہنے لگے کہ بچوں کو عام طور پر اپنے نام کے ساتھ لاحقہ یا سابقہ لگانے کا شوق ہوتاہے۔ دوسرے بچوں کے طرح میرے دل میں بھی یہ شوق چرایا اور اپنا نام ابوالعلاء محمود احمد غازی لکھنے لگا۔ یہ نام میں ہر کتاب اور کاپی پر لکھتا تھا۔ ایک استاد نے ابوالعلاء کے لفظ کو میرے لیے چھیڑ بنایا۔ وہ جب بھی مجھے پکارتے تو’’ ابوالعلا ‘‘یا ’’ابوالعلاکے بچے‘‘ کہہ کر پکارتے ۔ میں بھی اس سے چڑتا چنانچہ ابوالعلاء لکھنا تو چھوڑ دیا، البتہ غازی میرے نام کا حصہ بن گیا جو اب تک چلاآرہا ہے۔
جب میں نے ایم فل اقبالیات میں داخلہ لیا، تب بھی ڈاکٹر صاحبؒ سے ملاقات ہوتی تھی۔ ان کا پہلا سوال یہی ہوا کرتا تھا کہ ہاں بھئی، کیا بنا آپ کے مقالے کا؟ اور میرے پاس اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہ ہوتا ۔ میرے لیے بار بار اس سوال کا سامنا کرنا مشکل تھا، اس لیے ایک طویل عرصے تک میں ان کے پاس نہیں گیا اور پھر تب گیا جب میں نے مکمل کرلیا۔ 
ڈاکٹر صاحبؒ کو جب میں نے مقالہ مکمل کرنے کی نوید سنائی توانہوں نے نہایت خوشی کااظہار کیا اور کہا کہ پی ایچ ڈی کی تیاری پکڑو، چنانچہ میں نے پی ایچ ڈی میں رجسٹریشن کروائی۔ غازی صاحب ہی میرے نگران تھے، ان کو میں نے مجوزہ مقالے کا خاکہ دکھایا۔ معمولی رد و بدل کے ساتھ انہوں نے مقالہ واپس دیتے ہوئے کہا کہ کہ جلدی جلدی پہلا باب لکھو تاکہ میں اسے دیکھ سکوں، لیکن اس وقت میرے ساتھ جوسانحہ رونما ہوا وہ یہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب کی خواہش پر میرا تبادلہ دعوۃ اکیڈمی سے یونیورسٹی کے شعبہ امتحانات میں کردیاگیا۔ میں نے کہا کہ شعبہ امتحانات کی ذمہ داریوں کے ساتھ میں یہ ٹیڑھی کھیر کیسے کھاؤں گا؟ کہنے لگے میں نے بھی تو ان تمام مصروفیات کے باوجود پی ایچ ڈی کی تھی، لیکن غازی تو کوئی کوئی ہوتاہے،’’ حیرانوں‘‘ سے ’’غازی‘‘بننے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ اب ان کی مصروفیات بھی کافی بڑھ گئی تھیں، اس لیے ان کی طرف سے ایم فل کے مرحلے جیسا تقاضا نہیں ہوتا تھا چنانچہ میں سست پڑ گیا، البتہ ان کی طرف سے جب بھی کوئی نوٹ آتا تو اس میں وہ مجھے ڈاکٹر حیران خٹک لکھتے اور یوں مجھے آگے بڑھنے کی ترغیب دیتے۔ 
ڈاکٹر غازی صاحبؒ کے ساتھ میری بہت سی یادیں وابستہ ہیں جو اب میرے لیے متاع حیات بن گئی ہیں۔ وہ ایک باکمال شخص تھے۔ ایک طرف اگر علم کی بلندیوں پر فائز تھے تو دوسری طرف اعلیٰ انسانی اخلا ق کا مرقع بھی تھے۔ انہوں نے حیاتِ مستعار کے ایک ایک لمحے کا حساب رکھا اور ایسی بھرپور ،متحرک ،بامقصد اور مصروف زندگی گزاری جس کی مثال ملنا محال ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مساعی جمیلہ کو شرف قبولیت بخشے اور ان کی ابدی قیام گاہ دائمی نور سے منور فرمائے۔

علم و تقویٰ کا پیکر

قاری خورشید احمد

ڈاکٹر محمود احمد غازی علم ومعرفت کی دنیا میں ہمہ جہت شخصیت تھے۔ اصحاب علم ودانش آپ کو ایک جید عالم دین، مفسر، سیرت نگار، مایہ ناز معلم، مصنف عربی، فارسی اور انگریزی زبان کے ماہر کی حیثیت سے جانتے ہیں اور یہ مبالغہ آرائی نہیں، حقیقت ہے کہ ڈاکٹر صاحب علم ومعرفت کے آسمان پر بدر منیر بن کے چمکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو گوناگوں علمی وعملی صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ ان کی ان صلاحیتوں کے پس منظر میں ایک قوت کار فرماتھی جس کو قرآن کی زبان میں تقویٰ کہا جاتا ہے اور جس میں جس قدر تقویٰ کا جوہر نمایاں ہوگا، اتنا ہی اللہ تعالیٰ اسے علم ومعرفت کی دولت سے سرفراز فرمائیں گے۔ فرمان الٰہی ہے: وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَیُعَلِّمُکُمُ اللّٰہُ (۲:۲۸۲) ’’یعنی اللہ سے ڈرو، اللہ تمہیں علم عطا فرمائے گا۔‘‘
درج ذیل سطور میں ڈاکٹر صاحب کے تقویٰ کے چند واقعات سپرد قلم کیے جاتے ہیں۔

نماز کی پابندی:

قرآن عزیز میں متقین کی ایک صفت یہ بھی بتائی گئی ہے کہ یُقِیْمُونَ الصَّلٰوۃَ (۲:۳) یعنی وہ نماز قائم کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نماز باجماعت کا بہت اہتمام کرتے تھے۔ ۱۹۸۵ء میں وزارت مذہبی امور، اسلام آباد کے زیر اہتمام کمیونٹی سنٹر اسلام آباد میں ایک نمائش ’’بسلسلہ کتب سیرت‘‘ کا انعقاد ہوا اور وطن عزیز کی بڑی بڑی لائبریریوں سے کتب سیرت کو نمائش میں رکھا گیا۔ یونیورسٹی کی جانب سے جو لوگ خدمت پر مامور تھے، ان میں چند حضرات کے علاوہ میں (راقم الحروف) اور ڈاکٹر غازی بھی شریک تھے۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگ ایسے مواقع پر بروقت نماز ادا کرنے کی پابندی نہیں کرتے، لیکن ڈاکٹر صاحب کو میں نے دیکھا کہ کسی بھی نماز میں اپنی مصروفیات کے باوجود تاخیر نہیں کرتے تھے اور جب نماز ادا کرتے تو اس میں خشوع وخضوع کا خاص خیال رکھتے اور جونہی اذان ہوتی تو آپ کی توجہ مسجد اور نماز کی جانب مبذول ہو جاتی۔ یہ بہت بڑی سعادت اور کامیابی کی دلیل ہے۔ 
جس شب آپ کو دِل کا دورہ پڑا، اس رات کو بھی آپ نے نماز عشا باجماعت ادا کی۔ رات ڈیڑھ بجے جب سینے میں درد محسوس ہونے لگا تو آپ کے بھائی ڈاکٹر محمد الغزالی آپ کو ہسپتال لے گئے اور صبح تک علاج معالجہ کی غرض سے ہسپتال میں رہے۔ جب صبح کی اذان ہوئی تو اپنے بھیجتے حمزہ غزالی سے کہا کہ مجھے وضو کرنا ہے۔ آپ کے فرمانبردار بھتیجے نے آپ کو چارپائی پر ہی وضو کروایا۔ اسی دوران اپنی اہلیہ سے کہا کہ: پاؤں کی ایڑھیاں صحیح طریقے سے دھوئیں۔ آپ نے چارپائی پر ہی صبح کی نماز ادا کی جو کہ آپ کی زندگی کی آخری نماز تھی۔ نماز کے بعد جب درد دل بڑھنے لگا تو آپ کے بھائی نے کہا: مولانا تھانویؒ نے دِل کے درد کے لیے جو دعا لکھی ہے، آپ کو یاد ہے؟ فرمایا: وہی دعا پڑھ رہا ہوں۔ وہ دعا یہ ہے:
وَأَلَّفَ بَیْْنَ قُلُوبِہِمْ، لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِیْ الأَرْضِ جَمِیْعاً مَّا أَلَّفَتْ بَیْْنَ قُلُوبِہِمْ، وَلَکِنَّ اللٰہَ أَلَّفَ بَیْْنَہُمْ، إِنَّہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ (۸: ۶۳)
ڈاکٹر صاحب اس آیت کریمہ کا ورد کرتے ہوئے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ نے چونکہ ساری عمر نماز اور وظائف کی ادائیگی میں بسر کی، موت بھی آئی تو نماز کے بعد اور آیت کریمہ کی تلاوت کرتے ہوئے۔ سچ فرمایا اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جس طرح زندگی گزاروگے، اسی طرح موت آئے گی اور جس طرح موت آئے گی، قیامت کو اسی حال میں اٹھائے جاؤ گے۔
ڈاکٹر صاحب کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ عرصہ پانچ سال تک فیصل مسجد کے خطیب رہے اور جنرل ضیاء الحق کی نماز جنازہ بھی آپ ہی نے پڑھائی اور مختلف اسلامی ممالک سے آنے والے نمائندوں اور ہزاروں پاکستانیوں نے آپ کی امامت میں نماز ادا کی۔

قرآن مجید کی تلاوت:

آپ قرآن کی تلاوت کا بہت اہتمام کرتے تھے یہاں تک کہ دوران سفر جب جہاز یا گاڑی میں بیٹھتے تو قرآن کی تلاوت شروع کر دیتے۔ آپ کے بیگ میں ہمیشہ قرآن مجید کا نسخہ موجود ہوتا تھا۔ آپ کی قرآن سے وابستگی کے بارے میں آپ کی مایہ ناز کتاب ’’محاضرات قرآنی‘‘ واضح ثبوت ہے۔

محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:

متقین کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ وہ اللہ کی محبت کے بعد سب سے زیادہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں اور رسول کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت اور رسول کی محبت کو اللہ کی محبت تصور کرتے ہیں۔ ڈاکٹر غازی اپنے اقوال، اعمال اور اخلاق میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا وآخرت کی کامیابی کا ذریعہ قرار دیتے تھے جس کا واضح ثبوت آپ کی دو کتابیں’’ محاضرات سیرت‘‘ اور ’’محاضرات حدیث‘‘ ہیں۔ ان کتابوں کے مطالعہ سے ڈاکٹر صاحب کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت اور محبت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ آپ کی دوسری تصانیف ’’محاضرات قرآن‘‘ اور ’’محاضرات فقہ‘‘ کی طرح یہ دو کتابیں بھی اہل علم سے خراج تحسین حاصل کر چکی ہیں اور بار بار طبع ہو رہی ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بار گاہ اقدس میں بصورت نعت بھی نذرانہ عقیدت پیش کیا جس کی تفصیل اور نعتیہ کلام فارسی زبان میں ماہنامہ ’’تعمیر افکار‘‘ کراچی کے شماروں میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ 
ڈاکٹر صاحب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام اہل کمال کا منبع اور ان کی نسبت کو ہی سب سے بڑا اعزاز اور کمال سمجھتے تھے۔ اس ضمن میں ان کی ایک فارسی نعت کا شعر ملاحظہ ہو:
کمال کاملاں یک قطرۂ بحر کمالش است
شود از نسبت نامش کمال کاملاں پیدا
]کاملین کا کمال، ان کے بحر کمال کا بس ایک قطرہ ہے۔ ان کے نام کی نسبت سے ہی کمال پیدا ہو جاتا ہے۔[
آپ کی حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور بین ثبوت یہ ہے کہ فتنہ قادیانیت کے سلسلہ میں جنوبی افریقہ کے دارالحکومت، ڈربن کی عدالت میں قادیانیوں پر ایک مقدمہ چل رہاتھا۔ آپ نے بہت کم وقت میں اپنے حافظے کی بنیاد پر ایسے ٹھوس علمی دلائل پیش کیے کہ وہاں کی عدالت قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج ماننے پر مجبور ہوگئی۔

حج کی ادائیگی:

ڈاکٹر صاحب مرحوم کو حرمین شریفین سے بے پناہ محبت تھی ۔ آپ نے متعدد عمرے اور نو حج ادا کیے۔ قارئین کرام یہ پڑھ کر حیران ہوں گے کہ ڈاکٹر صاحب کو بانی پاکستان اور مصور پاکستان سے اس قدر محبت تھی کہ آپ نے ایک حج قائداعظم محمد علی جناحؒ کی طرف سے اور ایک حج علامہ محمد اقبالؒ کی طرف سے ادا کیا اور میرے علم کے مطابق یہ شرف صرف اور صرف ڈاکٹر صاحب ہی کو حاصل ہے۔

پابندئ اوقات:

۱۹۸۵ء کا واقعہ ہے کہ اسلام آباد کے ایک کالج میں مقابلہ حسن قرأت منعقد ہوا۔ مجھے اور ڈاکٹر صاحب کو جج مقرر کیا گیا۔ (یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب قرآن کے حافظ اور جید قاری بھی تھے۔) ہمارے ساتھ دو حضرات اور بھی تھے جن کے نام یاد نہیں آرہے۔ بہر حال تقریباً بارہ بجے ہم لوگ اپنے کام سے فارغ ہوگئے۔ مجھے اور غازی صاحب کو واپس دفتر آنا تھا، کیوں کہ ہم دفتر ہی کی طرف سے دفتر کے ٹائم میں گئے تھے۔ ہمارے دوسرے ساتھی دفتر آنے کی بجائے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔ ان کے اس عمل کو ڈاکٹر صاحب حیرت زدہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ گویا زبان حال سے یہ تاثر دے رہے تھے کہ ان کا یہ عمل تقویٰ کے منافی ہے اور ایک دو بار دوران تقریر انہوں نے اس بات کا اظہار کیا بھی کہ ہمیں دفتری اوقات کی پابندی کرنی چاہیے۔ قیامت کے دن اس کے بارے میں باز پرس ہوگی۔ فرمان الٰہی ہے: أَوْفُواْ بِالْعَہْدِ (۱۷:۳۴) اور وَیْْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ، الَّذِیْنَ إِذَا اکْتَالُوا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُونَ (۸۳:۱، ۲)۔ ان آیات کی روشنی میں ہمیں وعدہ کی پاسداری اور دفتری اوقات کی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔ بہرحال ڈاکٹر صاحب اپنے گھر نہیں گئے، حالانکہ ان کا گھرکالج کے قریب تھا۔ آپ سیدھے دفتر آئے اور کام میں مشغول ہوگئے اور یوں آپ نے تقویٰ وپرہیز گاری کا ثبوت دیا۔ 

احترام رمضان:

ڈاکٹر صاحب مرحوم رمضان المبارک کا بہت احترام اور روزے کا پابندی سے اہتمام فرماتے اور ماہ رمضان میں گھر پر قرآن شریف سناتے تھے۔ ایک دفعہ ماہ رمضان میں، میں نے پوچھا ڈاکٹر صاحب! روزے کیسے جارہے ہیں؟ کہنے لگے، اللہ کا کرم ہے، بہت اچھے جارہے ہیں۔ میں نے دوبارہ سوال کیا کہ منزل سنا رہے ہیں؟ تو کہنے لگے: ’’مجھ جیسے نالائقوں کا کیا سنانا ہے‘‘ (یہ کہہ کر کچھ آب بدیدہ سے ہوگئے جو کہ ان کی رقت قلبی اور جذبہ ایمانی کی دلیل ہے۔) بس گزارہ ہو جاتا ہے، منزل تراویح میں سنا دیتا ہوں۔‘‘ اس واقعہ سے رمضان کے احترام، خشیت الٰہی اور رات کے قیام کا آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔

سرکاری املاک کی حفاظت:

ڈاکٹر صاحب دو سال یونیورسٹی کے صدر رہے۔ اس دوران آپ نے قابل تقلید کردار ادا کیا۔ آپ نے ایک مرتبہ یونیورسٹی کے تمام ملازمین کو خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’ہمیں سرکاری املاک کی حفاظت کرنی چاہیے۔ گاڑیاں ہوں یا فرنیچر، بجلی کا استعمال ہو یا ہیٹر، اسٹیشنری ہو یا ٹیلیفون، یہ سب ہمارے پاس امانت ہے۔‘‘ اس ضمن میں آپ نے اپنی زندگی کا ایک واقعہ سنایا جو سرکاری وغیرسرکاری دفاتر وغیرہ میں کام کرنے والوں کے لیے مشعل راہ ہے۔آپ نے کہا:
جب میں ادارہ تحقیقات اسلامی میں ملازم ہوا تو انھی دنوں ایک دوست نے مجھے اپنے دفتر میں دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا۔ جب ہم کھانے سے فارغ ہوئے تو میزبان نے ٹیبل کی دراز سے ٹائپنگ پیپر نکال کر ہاتھ صاف کیے اور دوسرے صاحب کو بھی دیے۔ میں نے پیپر سے ہاتھ صاف کرنے سے انکار کر دیا اور دل میں اللہ سے عہد کیا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے زندگی میں مجھے کوئی اہم منصب عطا کیا تو میں سرکاری املاک کو کبھی بھی ضائع نہیں ہونے دوں گا۔ ڈاکٹر صاحب جب جامعہ کے صدر بنے تو آپ نے اس عہد کو حرف بحرف پورا کر دکھایا۔ ایک مرتبہ آپ نے اپنے خطاب میں کہا کہ دفتری کام میں جو کاغذ استعمال ہوتے ہیں، عموماً ان کی دوسری جانب خالی ہوتی ہے۔ میں ان کاغذات کو ضائع کرنے کی بجائے ان کی دوسری جانب کو کام میں لاتا ہوں۔ انہی پر ڈکٹیشن دیتا ہوں، املا لکھواتا ہوں اور علمی مضامین بھی لکھتا ہوں۔ 
جامعہ کی صدارت کے دوران آپ شریعت کورٹ کے جج بھی تھے۔ اپنے فیصلے جن کاغذات پر لکھتے، ان کو دونوں جانب سے کام میں لاتے اور اسٹینوگرافر کے حوالے کرتے۔ علاوہ ازیں جامعہ اور شریعت کورٹ کی جانب سے موصول آرڈر، مکتوبات وغیرہ کا باقاعدہ ایک بنڈل بنایا ہواتھا جس کی دوسری جانب مضامین وغیرہ لکھتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ ایک دن مجھے یہ خیال آیا کہ شاید میرا یہ عمل درست نہ ہو۔ اسی سوچ بچار میں تھا کہ ایک شب امام شافعیؒ کے حالات زندگی پڑھنے لگا تو معلوم ہوا کہ امام شافعیؒ بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ سرکاری کاغذات کو ضائع کرنے کی بجائے ان کو کام میں لاتے تھے۔ بس مجھے اطمینان ہوگیا اور کاغذات کو ضائع ہونے سے بچالیا۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے کبھی بھی دفتر سے اسٹیشنری ایشو نہیں کروائی۔ دفتری کام کے لیے عام طور پر آپ ذاتی اسٹیشنری استعمال میں لاتے تھے۔

گیس ضائع نہ کریں:

ڈاکٹر صاحب کے ایک شاگرد جو کہ اب خود بھی ماشاء اللہ ڈاکٹرہیں یعنی ڈاکٹر شیخ تنویر احمد (اسسٹنٹ پروفیسر، اسلامک یونیورسٹی) ایک دن ڈاکٹر صاحب کے تقویٰ کا ایک واقعہ سناتے ہوئے کہنے لگے کہ:
’’ڈاکٹر غازی کے تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ آپ نے کلاس روم میں سوئی گیس کے ہیٹر کا پائلٹ جلتا ہوا دیکھا تو کہنے لگے، اگر ضرورت نہیں ہے تو پائلٹ بند کر دیا جائے۔ یہ قومی ملکیت ہے اور گیس ضائع ہو رہی ہے۔ آپ خود اٹھے اور پائلٹ بند کر دیا۔‘‘

غصہ کی حالت میں وضو:

ڈاکٹر صاحب کے پی اے عابد علی (جو دفتری معاملات میں آپ کی معاونت کرتے) کا کہنا ہے کہ اگر کسی معاملے میں ڈاکٹر صاحب کو غصہ آجاتا تو جوابی کارروائی کرنے کی بجائے آپ فوراً وضو کرنے لگتے اور تھوڑی ہی دیر بعد طبیعت میں بشاشت پلٹ آتی۔ علاوہ ازیں آپ دفتری اوقات میں بھی ہمیشہ باوضو رہتے اور اگر کوئی آپ کے سامنے آپ کی تعریف کرتا تو انتہائی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے۔

مکان کی ریکوزیشن اور ٹیلیفون کا استعمال:

قارئین کرام! آپ حیران ہوگے کہ جس دور میں یونیورسٹی کے ملازمین اپنے اپنے مکانوں کی ریکوزیشن کرواتے تھے، ڈاکٹر صاحب نے اپنے مکان کی ریکوزیشن نہیں کروائی حالانکہ ان کے گریڈ کے اعتبار سے خطیر رقم بنتی تھی۔ مگر ڈاکٹر صاحب نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ مکان ایک ہے اور اس میں، میں اور میرا بھائی دونوں رہ رہے ہیں، اس لیے میں مناسب نہیں سمجھتا۔ اسی طرح گھر میں جو سرکاری ٹیلیفون تھا، اس کا بل اپنی جیب سے ادا کرتے اور دفتری ٹیلیفون کو صرف اور صرف سرکاری مقاصد کے لیے استعمال میں لاتے۔
یونیورسٹی کے صدر کی حیثیت سے آپ کو سرکاری طور پر یہ اجازت تھی کہ یونیورسٹی میں آنے والے سرکاری وفود اورمہمانوں کی چائے اور ریفریشمنٹ وغیرہ سے تواضع کریں، لیکن آپ ہمیشہ اس سے دور رہے اوریوں آپ نے مہمانوں کے بہانے یونیورسٹی کے مال کو ضائع ہونے سے بچائے رکھا۔ اگر کوئی غیر سرکاری مہمان یادوست آتا تو اپنی جیب سے اس کی خاطر تواضع کرتے۔
ان واقعات میں ہمارے لیے تقلید کا سامان ہے، خصوصاً اس دور میں جب کہ چہار جانب بددیانتی اور کرپشن کی مسموم ہوائیں چل رہی ہیں۔ اے کاش! اگر ہر ذمہ دار پاکستانی اور سرکاری عہدوں پر فائز لوگ اسی طرح تقویٰ اور دیانتداری کا ثبوت دیں جس طرح ڈاکٹر غازی مرحوم نے دیا ہے تو وطن عزیز سکون واطمینان کا گہوارہ بن جائے۔

عفوودرگذر:

تحمل وبردباری کو قرآن مجید نے نیک لوگوں کی صفت شمار کیا ہے، چنانچہ انہی لوگوں کے بارے میں ارشاد الٰہی ہے: وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ (۳:۱۳۴)۔ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت کے علما کی سوانح عمریاں عفو ودرگذر کے واقعات سے بھری پڑی ہیں۔ قسام ازلی نے ڈاکٹر محمود احمد غازی کو بھی عفو ودرگذر کی دولت سے مالا مال فرمایا تھا۔ اس ضمن میں ڈاکٹر صاحب کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر محمد الغزالی کی زبانی چند واقعات سپرد قلم کیے جاتے ہیں۔
۱۔ڈاکٹر محمد الغزالی بیان کرتے ہیں کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی جن دنوں دعوۃ اکیڈمی کے ڈائریکٹر تھے، ایک دن میں کسی کام سے ان کے دفتر گیا۔ اسی دوران دعوۃ اکیڈمی کا ایک ملازم اپنی پروموشن کا کیس لے کر ڈاکٹر صاحب کے پاس آیا۔ آپ نے اس کی فائل ملاحظہ کرنے کے بعد کہا: اس میں چند قانونی رکاوٹیں ہیں جن کو دور کرنے کی میں کوشش کروں گا۔ فی الحال آپ کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ ڈاکٹر صاحب کا جواب سن کر ملازم سیخ پا ہوگیا اور ڈاکٹر صاحب سے کہنے لگا: ایک گھنٹہ سے میں دماغ کھپا رہا ہوں۔ جب آپ مر جائیں گے تو پھر میری پروموشن ہوگی۔ اس طرح کے اور بھی کئی ترش وتلخ جملے مسلسل بولتا رہا اور ڈاکٹر صاحب سنجیدگی سے اس کی باتیں سنتے رہے۔ آپ نے نہ تو اس کو ڈانٹا اور نہ ہی اس کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کی۔
۲۔ایک دفعہ یونیورسٹی کے طلبہ نے ہڑتال کردی اور طلبہ کی دو گاڑیاں بھر کر ڈاکٹر صاحب کے گھر کے سامنے اکھٹے ہوگئے۔ تقریریں کرتے رہے اور مختلف انداز میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے رہے۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ ڈاکٹر صاحب کا دور ایک مثالی دور تھا، مگر طلبہ بسا اوقات کچھ ایسے مطالبات بھی کر بیٹھتے ہیں کہ اصول وضوابط کی روشنی میں ان کا پورا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ آپ نے نہ تو پولیس کو مطلع کیا اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی کارروائی کی۔ ڈاکٹر صاحب کے صبروتحمل کا طلبہ پریہ اثر ہوا کہ طلبہ خود ہی ندامت کے ساتھ واپس چلے گئے۔
۳۔اسی طرح ایک مرتبہ طلبہ نے آپ کے دفتر کے سامنے نعرہ بازی شروع کر دی اور مطالبات منوانے کے لیے تقریریں کرتے رہے۔ ڈاکٹر صاحب سارا دن اطمینان سے کام کرتے رہے اورطلبہ کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی۔ آپ کو متعدد بار ایسے مراحل اور مسائل کا سامنا کرنا پڑا، مگر آپ نے ہمیشہ عفو و درگزر سے کام لے کر مخالفین کو اپنا ہم نوا اور تابع فرماں بنا دیا اور کسی کے ستم کو ستم اور جفا کو جفا نہیں سمجھا اور یوں کہتے ہوئے ٹال گئے:
ستم کو ہم کرم سمجھے جفا کو ہم وفا سمجھے
جو اس پر بھی نہ وہ سمجھے تو اس بت کو خدا سمجھے

اہل وعیال سے شفقت:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ تم میں سب سے اچھا اور نیک وہ ہے جو اپنے گھروالوں کے معاملے میں بہتر ہو۔ ڈاکٹر غازی صاحب نے اس فرمان نبوی کو ہمیشہ پیش نظر رکھا۔ ڈاکٹر محمد الغزالی نے آپ کی گھریلو زندگی کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب اپنے اہل خانہ سے نہایت خندہ پیشانی سے پیش آتے اور کبھی بھی کسی معاملہ میں ناراضی یا غصہ کا اظہار نہیں کیا۔ یہاں تک کہ بچوں سے بھی بہت پیار کرتے اور ادب واحترام سے کلام کرتے اور بے پناہ پیاروشفقت کا اظہار کرتے۔ آپ کی اس شفقت اور محبت نے آپ کے گھر کو امن وسکون کا گہوارہ بنادیا تھا۔

والدین کی خدمت:

خوش نصیب اور بلند بخت ہیں وہ لوگ جنہوں نے والد کی رضا میں اللہ کی رضا کو اور والدہ کے قدموں تلے جنت کو تلاش کیا۔ ڈاکٹر غازی صاحب بھی یہ سعادت پا گئے اور والدین کی قدم بوسی کر کے خدمت کے اصول بتاگئے اور اللہ کو اپنا بنا گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے تازیست والدین کی خدمت کی اور خوب دعائیں لیتے رہے۔ چند سال قبل آپ کے والد مرحوم جب اس دنیا سے رخصت ہوگئے تو اس کے بعد آپ نے اپنی والدہ کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آپ ہر روز دفتر آنے سے پہلے والدہ کی خدمت میں حاضری دیتے اور شام کو سب سے پہلے والدہ کی خدمت میں حاضر ہو کر حال احوال دریافت کرتے اور جھولیاں بھر بھر کر دعائیں سمیٹتے۔ اگر کہیں سفر میں ہوتے تو والدہ کے حالات سے باقاعدہ باخبر رہتے۔ آپ کی والدہ کی دعائیں ہمیشہ آپ کے شامل حال رہیں اور زندگی کے کئی پر خطر مراحل خوش اسلوبی سے طے کر گئے۔آپ کی والدہ محترمہ تاحال بقید حیات ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ انہوں نے اپنی وفات سے دو ماہ قبل اپنی والدہ کو وہیل چیئر پر بٹھا کر عمرہ کرایا۔ جن لوگوں نے حرمین شریفین کی زیارت کی ہے، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ کسی عمرہ رسیدہ کو وہیل چیئر پر بیٹھا کر حج کے مناسک یا عمرہ کے اعمال بجالانا کس قدر مشکل مرحلہ ہے، مگر ڈاکٹر صاحب نے خندہ پیشانی کے ساتھ یہ سعادت حاصل کر لی۔

استقامت:

ڈاکٹر صاحب کی خداداد صلاحیتوں کو بھانپ کر بہت سے لوگوں نے آپ کو خریدنا چاہا، مگر آپ نے ہر پیش کش کو ٹھکرادیا اور إِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا (۴۱:۳۰) کا دامن اس مضبوطی سے تھام لیا کہ بادِ مخالف کے تندو تیز جھونکے آپ کے پائے استقامت کو متزلزل نہ کر سکے اور ’’قل اٰمنت باللّٰہ ثم استقم‘‘ کا عملی نمونہ پیش کیا۔ اس ضمن میں ڈاکٹر کی ایک علمی تقریر سے جس کا عنوان ’’اسلام اور مغرب۔۔۔موجودہ صورتحال‘‘ ہے، ان کی استقامت کا ایک قابل تقلید واقعہ پیش کیا جاتا ہے۔ آپ نے دوران تقریر میں کہا:
’’اکتوبر ۱۹۷۴ء میں ایک پروفیسر صاحب امریکہ سے تشریف لائے۔ وہ ایک مشہور امریکن یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔ انہوں نے پاکستان کے مختلف اداروں کا دورہ کیا۔ وہ ادارہ تحقیقات اسلامی میں بھی آئے۔ میں اس زمانے میں ادارہ تحقیقات اسلامی میں کام کرتا تھا۔ نوجوان تھا، مدرسے کی تعلیم سے فارغ ہو چکاتھا۔ عربی اچھی جانتا تھا، انگریزی سے بھی شدبد ہوگئی تھی۔ تھوڑی بہت فرنچ بھی میں نے سیکھ لی تھی۔ وہ پروفیسر صاحب بہت سے لوگوں سے ملے، مجھ سے بھی ملے۔ مجھ سے ملنے کے بعد انہوں نے کہا کہ میں الگ سے گفتگو کرنا چاہتا ہوں، تم مجھ سے ملنے کے لیے آؤ۔ میں ان سے ملنے چلا گیا۔ دوران ملاقات انہوں نے کہا، میں تمہیں اسکالر شپ دینا چاہتا ہوں امریکہ میں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے۔ تم امریکہ کی جس یونیورسٹی میں چاہو، میں تمہیں اسکالر شپ دے سکتا ہوں۔ میں نے سنا ہوا تھا کہ ہارورڈ صف اوّل کی یونیورسٹی ہے اور ایم آئی ٹی ہے اور پرسٹن ہے، تین یونیورسٹیوں کا بڑا چرچا تھا، اس لیے میں نے ان کا نام سنا ہوا تھا۔ میں نے کہا کہ آپ مجھے ہارورڈ میں داخلہ دلوادیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے: میں تمہیں ہارورڈ میں داخلہ دلوادوں گا۔ کام یہ ہوگا کہ تم ایک سال کے لیے امریکہ آؤ، ہارورڈ یونیورسٹی میں کورس ورک کرو، پھر میرے پاس آؤ۔ تین مہینے میرے پاس کورس ورک کرو، پھر واپس پاکستان آجاؤ۔ انہوں نے جو نقد وظیفہ بتایا، وہ اتنا تھا جتنا اس وقت حکومت پاکستان کے سیکرٹری کو بھی تنخواہ نہیں ملتی تھی، کسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو بھی نہیں ملتی۔ پاکستان میں رہ کر یہ وظیفہ ملنا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ کام یہ ہوگا کہ پاکستان میں رہ کر یہ معلومات جمع کرو کہ پاکستان میں دینی مدارس کیا کام کرتے ہیں، کتنے دینی مدارس ہیں؟ کون کون علماے کرام ان کو چلارہے ہیں، وہ کیا کیا پڑھاتے ہیں، کیا ذہن بناتے ہیں؟ اور جو لوگ ان سے تیار ہوتے ہیں، وہ بعد میں کیا کام کرتے ہیں اور ان کا رویہ مغرب کے بارے میں کیسا ہوتا ہے؟ یہ ساری معلومات جمع کر کے آؤ، پھر میرے ساتھ بیٹھ کر اس کو مرتب کرو، اس کی بنیاد پر تمہیں ہارورڈ یونیورسٹی پی ایچ ڈی کی ڈگری دے دے گی۔
سچی بات ہے، میں اللہ تعالیٰ کی تحدیث نعمت کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ مجھے اس وقت یہ لگا کہ یہ تو صاف صاف جاسوسی کا کام ہے۔ دوران گفتگو پروفیسر صاحب نے یہ بھی کہا کہ اس طرح کا ایک پروجیکٹ مصر کے لیے ہے، ایک بنگلہ دیش اور انڈونیشیا کے لیے ہے۔ اب یہ چار بڑے ملک جو آبادی کے لحاظ سے صف اوّل کے ممالک تھے، جہاں دینی تعلیم کا پرائیویٹ نظام بڑا غیر معمولی تھا، وہاں کے لیے یہ کیوں تحقیق ہورہی تھی؟ اس پر لاکھوں روپے کے یہ مصارف کیوں کرائے جارہے تھے؟ میں نے کوئی ذاتی عذر بیان کر کے معذرت کر لی کہ میں سردست امریکا نہیں جا سکتا، لیکن اِس وقت میں جب بھی اس نوعیت کے مختلف معاملات کو دیکھتا رہتا ہوں تو مجھے یہ لگتا ہے کہ مغربی دنیا کم ازکم ۱۹۷۴ء سے اس نکتے پر سوچ رہی تھی کہ دنیائے اسلام میں دینی تعلیم کا مستقبل کیا ہے، ماضی کیا تھا اور حال کیا ہے؟ اب پچھلے آٹھ دس سال سے اس میں زیادہ شدت آگئی ہے۔‘‘  (تعمیر افکار، ج ۸، شمارہ ۱۰، اکتوبر ۲۰۰۷ء)
قارئین کرام! ڈاکٹر صاحب تو ایک علمی شخصیت تھے۔ یہ کام تو ایک طالب علم بھی کر سکتا تھا، مگر آپ نے فوراً اس پیشکش کو ٹھکرادیا جس کے لیے لوگ پاپٹر بیلتے اور ترستے ہیں۔
یہ اس دور کی بات ہے جب دینی مدارس کو ختم کرنے کی خفیہ پلاننگ ہورہی تھی اور غیروں نے مکین ومکان کو اجاڑنے کا مصمم ارادہ کر لیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب اپنی ایمانی فراست اور دینی غیرت کی قوت سے اس آزمائش سے دامن بچا گئے۔ استقامت کی سعادت پاگئے اور قیامت کے دن علماء ربانی کے گروہ میں یہ کہنے کے مجاز ہوں گے کہ:
بار الٰہ: جب اپنوں نے غیروں سے آشنائی کرلی تھی، روح اور جسم دونوں مرہون ہو چکے تھے، جب غیروں نے مکان ومکین پر منظم حملہ کیا تھا، دل ودماغ دونوں مجروح ہو چکے تھے اور بادسموم کے جھونکے شمع نبوت کو بجھانے کے درپے تھے تو ایسے نازک وقت میں اگرہم سے اور کچھ نہ ہو سکا تو غیروں کی مخالفت مول لے کر ملبہ کی حفاظت کی اور سامنے سے کسی کو مینا وساغر اٹھانے نہیں دیا۔
علماء وصوفیاء کے علم وہنر کا امتحان کم ہوا مگر کردار کا امتحان ہر زمانے میں ہوتا رہا، لیکن اہل استقامت اس امتحان میں کامیابی سے ہم کنار ہوئے۔ ڈاکٹر غازی بھی انہی کامیاب اور صاحب استقامت لوگوں میں سے ایک ہیں جو اغیار کی پیشکش ٹھکراگئے، وفا کے اصول بتا گئے اور ’پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ‘ کا درس دیتے ہوئے یہ فرما گئے:
چمن کا رنگ گو تو نے سراسر اے خزاں بدلا
نہ ہم نے شاخ گل چھوڑی نہ ہم نے آشیاں بدلا

سفر آخرت کے اشارے:

ڈاکٹر صاحب کی وفات سے تقریباً ایک ماہ قبل میں (راقم الحروف) نے خواب دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب ایک براؤن رنگ کی خوبصورت قالین پر بیٹھے ہیں اور آپ کے سامنے ایک رحل رکھی ہے جس پر قرآن مجید کھلا ہوا ہے اور اس کا ایک ایک ورق تقریباً چار چار فٹ چوڑا اور آٹھ آٹھ فٹ لمبا ہے۔ چہار جانب نور کا ہالہ بنا ہوا ہے اور ڈاکٹر صاحب بہت مسرور ہو ر ہے ہیں۔ جب راقم الحروف نے ڈاکٹر صاحب سے یہ خواب بیان کیا تو چند لمحے سکوت کے بعد کہنے لگے: ’’بس آپ میرے لیے دعا کیا کریں‘‘۔ غالباً ڈاکٹر صاحب کی خاموشی اس بات کی جانب اشارہ تھا کہ آپ کی مساعی جمیلہ کو اللہ نے قبول فرما لیا ہے اور سفر آخرت بہت قریب ہے۔
اسی طرح آپ کی وفات سے تقریباً چند دن قبل دارالعلوم اسلامیہ، لاہور میں ’’تربیت مدرسین‘‘ کے عنوان سے ایک سیمینار منعقد ہوا۔ ڈاکٹر صاحب بھی اس میں شریک تھے۔ سیمینار کے اختتام پر آپ نے مولانا مشرف علی تھانوی (جنہوں نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی) سے کہا کہ ’’مولانا! میری نماز جنازہ آپ نے پڑھانی ہے‘‘۔ آپ کی یہ تمنا پوری ہوئی اور علم وتقویٰ کا یہ پیکر اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔

نمازی اور نماز گاہ:

گزشتہ صفحات میں آپ نے ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کو ایک متقی کی حیثیت سے ملاحظہ فرمایا۔ جہاں تک آپ کی علمی صلاحیتوں اور خدمات کا تعلق ہے، اہل علم سے یہ حقیقت مخفی نہیں کہ آپ کی ساری زندگی علوم اسلامیہ کے حصول، تدریس اور اشاعت میں گزری اور بقول علامہ اقبال مرحوم کے:
اسی کشمکش میں گزریں میری زندگی کی راتیں
کبھی سوز و ساز رومی کبھی پیچ و تاب رازی
ڈاکٹر غازی کے لیل ونہار بھی اسی قیل وقال میں گزر گئے اور اچھے حال میں گزر گئے۔ آپ کی مساعی جمیلہ کو اللہ نے وہ شرف بخشا کہ عالمِ برزخ میں بھی اسی محبوب عمل میں مشغول کر دیا جو کہ آپ کے تابناک مستقبل کی دلیل ہے۔
اس ضمن میں ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی صاحب (جو کہ علمی حلقوں میں جانی پہچانی شخصیت ہیں) کا ایک خواب نقل کیا جاتا ہے جو انہوں نے ڈاکٹر غازی کی وفات کے چند دن بعد دیکھا۔ اس خواب میں غازیؒ کے تلامذہ، احباب اور دیگر اہل علم کے لیے اطمینان وتسلی کا سامان ہے۔
ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک رات غازی صاحب کو خواب میں دیکھا اور آپ تیز تیز چل رہے ہیں۔ میں نے کہا! غازی صاحب! آپ تو فوت ہوگئے ہیں۔ بتائیے آپ کے ساتھ کیا معاملہ ہوا تو جلدی جلدی آپ نے جواب دیا کہ اللہ نے کرم والا معاملہ فرمایا ہے اور وہاں ایک نماز گاہ میں میرا محاضرۃ (لیکچر) ہوتا ہے۔ میں جلدی جلدی اس لیے جارہا ہوں کہ دیر نہ ہو جائے۔ (راقم الحروف سے یہ خواب ڈاکٹر عصمت اللہ صاحب، ریسرچ سکالر، IRIنے بیان کیا)۔
آخر میں ڈاکٹر صاحب کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔
علم والے علم کا دریا بہا کر چل دیے
واعظان قوم سوتوں کو جگا کر چل دیے
کچھ سخن ور تھے کہ سحر اپنا دکھا کر چل دیے
کچھ مسیحا تھے کہ مردوں کو جلا کر چل دیے

میری آخری ملاقات

ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر

رات ساڑھے دس بجے کے قریب اچانک فشارِ خون کی وجہ سے بایاں بازو سُن ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ میں نے اس کا تذکرہ گھر والوں سے کیا تو انہوں نے فوری طور پر پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (PIMS) جانے کا مشورہ دیا۔ میں نے جواب میں کہا کہ فشار خون کم کرنے والی دوا لے لیتا ہوں۔اُمید ہے جلدہی طبیعت ٹھیک ہو جائے گی۔ لیکن گھر والوں کا اصرار تھا کہ احتیاط کا تقاضا ہے کہ اسپتال جاکر ایمر جنسی وارڈ میں چیک اَپ کروالیا جائے۔
رات ساڑھے گیارہ بجے PIMS کے ایمر جنسی وارڈ کے کمرہ نمبر۳ میں ابتدائی چیک اَپ کے لیے داخل ہوا تو وہاں ڈاکٹر محمد الغزالی نظر آئے۔ میں نے ڈاکٹر غزالی صاحب سے حیرت بھرے لہجے میں پوچھا کہ آپ اس وقت ایمرجنسی وارڈ میں موجود ہیں، خیریت تو ہے؟ ڈاکٹر غزالی صاحب نے یہ سن کر میری توجہ ایمرجنسی ڈاکٹر کی میز کے عقب میں موجود کرسی کی جانب دلائی، میں نے اس جانب دیکھا تو وہاں محترم ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب موجود تھے۔ میں نے آگے بڑھ کر ڈاکٹر غازی صاحب کو سلام کیا اور تشویش بھرے لہجے میں پوچھا: غازی صاحب خیریت توہے؟ غازی صاحب نے تکلیف بھرے انداز میں اپنے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے جواب دیا کہ یہاں سینے میں درد ہے۔ میں سمجھ گیا کہ یہ دل کی تکلیف کی کیفیت ہے۔ ڈاکٹر غزالی صاحب ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر کو بار بار کہہ رہے تھے کہ جلدی کریں، غازی صاحب کی طبیعت مزید خراب ہوتی جارہی ہے۔ لیکن ڈاکٹر روایتی انداز میں دوسرے مریضوں میں الجھا ہو ا تھا۔ ڈاکٹر غزالی صاحب کے مسلسل اصرار پر بالآخر ڈاکٹر غازی صاحب کی جانب متوجہ ہوا۔
اتنی دیر میں کمرے میں موجود دوسرے ڈاکٹر نے مجھے مشورہ دیا کہ پہلے ای سی جی کرواکے لاؤں۔ اس کے بعد مزید کاروائی ہو گی۔ میں ای سی جی کرواکے امراض قلب کے شعبہ انتہائی نگہداشت میں پہنچا تو وہاں کاؤنٹر کے قریب ڈاکٹر غزالی صاحب مضطرب حالت میں موجود تھے۔
ڈاکٹر غازی صاحب شعبہ انتہائی نگہداشت کے ایک کمرے میں منتقل ہو چکے تھے اور ڈاکٹر طبی امداد کے حوالے سے مصروف تھے۔ میں نے کاؤنٹر کے قریب موجود ایک ڈاکٹر کو اپنی ای سی جی رپورٹ دکھائی تو اس نے اطمینان کا اظہار کیا کہ تشویش کی کوئی بات نہیں۔ یہ سن کر میرے ساتھ ڈاکٹر غزالی صاحب نے بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ دل کے حوالے سے تشویش کی بات نہیں۔
ڈاکٹر غازی صاحب کے کمرے میں ان کی اہلیہ محترمہ بھی موجود تھیں، اس لیے وہاں جانا ممکن نہیں تھا، اس لیے ڈاکٹر غزالی صاحب کو تسلی دی کہ ان شاء اللہ غازی صاحب بہت جلد صحت یا ب ہو جائیں گے۔ ان دعائیہ کلمات کے بعد میں نے ڈاکٹر غزالی صاحب سے اجازت لی اور رات دوبجے واپس گھرپہنچا۔ نماز فجر کے بعد اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ غازی صاحب جلد صحت یاب ہو جائیں۔ نماز ظہر سے پہلے موبائل پر مجھے ایک ایس ایم ایس وصول ہوا۔ ایس ایم ایس پڑھا تو ناقابل یقین اطلاع تھی کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب کا انتقال ہو گیا ہے اور ان کی نماز جنازہ دوپہر دو بجے قبرستان ایچ ٹن میں ادا کی جائے گی۔ وہ عظیم ہستی جس سے میر ی چند گھنٹے پہلے PIMS کے شعبہ انتہائی نگہداشت میں ملاقات ہوئی تھی، وہ اس طرح اچانک ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو جائے گی، یہ سوچا بھی نہیں تھا۔ مجھے اس موقع پر بے اختیار حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے خادم کا واقعہ یاد آگیا جس میں حضرت خضرؐ کے ساتھ ملاقات سے قبل حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھوک نے ستایا تو خادم سے مچھلی طلب کی تو اس نے کہا کہ راستے میں جہاں ہم نے پڑاؤ کیا تھا، وہاں اچانک اس کے ہاتھ سے پھسل کر مچھلی دریا میں چلی گئی تھی۔ مجھے بھی ایسے لگا کہ غازی صاحب بھی میرے سامنے اچانک ہمیشہ کی دنیا میں چلے گئے۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی، طویل عرصہ دعوۃ اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل رہے۔ اس دوران ان کے بہت قریب رہنے، ان سے سیکھنے اور کام کرنے کا موقع ملا۔ ممکن ہے وہ اکیڈمی کے دوسرے رفقائے کار کے لیے ڈائریکٹر جنرل ہوں، مگر میں نے انہیں ہمیشہ شفیق و مشفق بڑے بھائی کی طرح محسوس کیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ڈاکٹر غازی صاحب نے دعوۃ اکیڈمی کے تحت ماہنامہ ’’ دعوۃ‘‘ کے اجرا کا پروگرام بنایا تو انہوں نے مجھ ناچیز کے ذمے لگایا کہ’’ دعوۃ‘‘کے اجرا سے پہلے وطن عزیز کی معروف دینی، علمی وادبی شخصیات سے رابطہ کرکے اُن سے رہنمائی حاصل کی جائے۔ اسی مقصد کے لیے راقم الحروف نے ایک خط کا مسودہ تیار کیا اور ممتاز علمی وادبی شخصیات کی فہرست مرتب کرکے غازی صاحب کی خدمت میں پیش کی۔ غازی صاحب نے خط کے مسودہ کو مناسب قرار دیا اور دینی علمی وادبی شخصیات والی فہرست پر بھی پسندیدگی کا اظہار کیا۔
دو روز بعد ، ڈاکٹر غازی صاحب، دعوۃ اکیڈمی کے تحت ہونے والے ایک ماہ کے بین الاقوامی تربیتی پروگرام میں شرکت کے لیے بیرون ملک روانہ ہوگئے۔اَب ایک صورت یہ تھی کہ سرکاری اور روایتی انداز میں غازی صاحب کی واپسی کا انتظار کیا جائے کہ وہ ایک ماہ بعد واپس وطن تشریف لائیں گے تو خط کمپوز کرواکے اس پر ان کے دستخط کروانے کے بعد ممتاز علمی وادبی شخصیات کو خط بھجوایا جائے۔ دوسری صورت یہ تھی کہ اس کام کو سرکاری کی بجائے دعوتی و ذاتی سمجھتے ہوئے اور غازی صاحب کو ڈی جی کی بجائے مشفق ومہربان بھائی سمجھتے ہوئے، خط کو کمپوز کروانے کے بعد کسی فائل میں موجود نوٹ پر اُن کے موجود ہ دستخطوں کی فوٹو سٹیٹ کرواکے ان کے خط کے نیچے لگا کر تمام خطوط کی فوٹو کاپی کروالی جائے۔ یہ خیال آتے ہی میں نے اگلے ہی روز خط کمپوز کرواکے خط کے نیچے ان کے فوٹو کاپی شدہ دستخط لگا کر پچاس ساٹھ خطوط تیار کرکے ممتاز علمی ادبی شخصیات کو روانہ کردیے۔دو تین ہفتے کے دوران ممتاز علمی وادبی شخصیات کی بہت بڑی تعداد نے مجوزہ ’’دعوۃ ‘‘ کے اجرا کے حوالے سے پسندیدگی کا اظہار کیا اور اپنے گراں قدرمشوروں اور تجاویز سے نوازا۔ میں نے ان تمام خطوط کو ایک فائل میں محفوظ کر لیا۔
ایک ماہ کے بین الاقوامی تربیتی پروگرام کے بعد جب ڈاکٹر غازی صاحب واپس وطن تشریف لائے تو میں نے ملاقات کے موقع پر ان کی خدمت میں مجوزہ پرچے ’’دعوۃ‘‘ کے حوالے سے ممتاز علمی وادبی شخصیات کے خطوط والی فائل پیش کی تو انہوں نے حیرت سے پوچھا کہ میری جانب سے باضابطہ طور پر تو خط ان شخصیات کو روانہ ہی نہیں کیے گئے تھے تو یہ کس طرح ممکن ہوا ہے؟ اس پر میں نے بتایا کہ کس طرح ان کے دستخطوں کی فوٹو کاپی کرکے خط ممتاز علمی وادبی شخصیات کو بھجوایا گیا جس کے نتیجے میں اتنے سارے خطوط وصول ہوئے۔ یہ سن کر ڈاکٹر غازی صاحب زیرلب مسکراکر رہ گئے۔ کیا کسی سرکاری ادارے میں معمولی درجے کا ملازم یہ تصور کرسکتا ہے کہ وہ ادارے کے سربراہ کے نام کا خط، اس کے علم میں لائے بغیر بھجوادے اور اس پر اس کا مواخذہ نہ کیا جائے؟ یقیناًڈاکٹر غازی صاحب کی اعلیٰ ظرفی تھی کہ انہوں نے میری اس حرکت کو درگزر کردیا۔
دعوۃ اکیڈمی اسلام آباد آنے سے پہلے مجھے رمضان المبارک کے آخری عشرے میں جامع مسجد پنجاب یو نیورسٹی لاہور اور چند دیگر مساجد میں اعتکاف کا موقع ملاتھا۔ اسلام آباد میں جب پہلی بار فیصل مسجد میں اعتکاف کا سلسلہ شروع ہوا تو راقم الحروف نے مسلسل تین سال فیصل مسجد میں اعتکاف کی سعادت حاصل کی۔ پہلے سال صرف ۶۵ لوگوں نے اعتکاف کیا، دوسرے سال ۱۱۵ لوگ معتکف ہوئے جبکہ تیسرے برس شبینہ کا سلسلہ فیصل مسجد میں شروع ہونے کی وجہ سے لوگوں کی بہت بڑی تعداد نے اعتکاف کیا۔ میں نے محسوس کیا کہ عوام الناس میں بالعموم اور نوجوانوں میں بالخصوص معتکف ہونے کا سلسلہ ہر سال بڑھتا جارہا ہے لیکن اعتکاف کے مسائل سے عدم واقفیت کی وجہ سے کچھ لوگوں نے اس کوچھوئی موئی بنا لیا ہے اور کچھ نے اس کو پکنک کا درجہ دے دیا ہے۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ افراط وتفریط سے بچتے ہوئے معتکف ہونے والوں کو قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی مہیا کی جائے۔ 
اس مقصد کے لیے راقم الحروف نے تمام مکاتب فکر کی قدیم وجدید کتب اور دینی رسائل و جرائد میں شائع ہونے والے مضامین کا جائزہ لے کر اعتکاف کے مسائل پر مختصر کتاب کا مسودہ تیار کرکے ڈاکٹر غازی صاحب کی خدمت میں پیش کیا تاکہ وہ اس کو دیکھ لیں کہ یہ قابل اشاعت بھی ہے یا نہیں؟ محترم غازی صاحب نے مجھ ناچیز پر بے پناہ اعتماد کرتے ہوئے مسودے کے صفحہ اول پر اکیڈمی کے شعبہ مطبوعات کے انچارج کو لکھا کہ اس کی کتابت و طباعت کا اہتمام کیا جائے۔ میں نے اس موقع پر فوراً غازی صاحب سے گزارش کی کہ راقم الحروف کو علم فقہ پر دسترس حاصل نہیں، اس لیے مسودے کو کتابت وطباعت سے پہلے علم فقہ کے کسی ماہر سے نظرثانی کروالی جائے۔ میری تجویز پر یہ مسودہ اکیڈمی کے ممتاز اسکالر اور فقہی ماہر مولانا فضل ربی کو بھجوادیا گیا۔ انہوں نے کمال شفقت سے مسودے پر نظرثانی کردی تو اس کے بعد اسے شعبہ مطبوعات کے حوالے کیا گیا۔ الحمد للہ اب تک ’’ اعتکاف، فضائل ومسائل‘‘ کے پانچ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب کو جب حکومت پاکستان کی جانب سے وفاقی وزارت مذہبی امور پر فائز کیا گیا تو اُن دنوں وہ بین الاقوامی اسلامی یو نیورسٹی اسلام آباد کے نائب صدر (علمی) کی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے۔ انہی دنوں کسی کام کے حوالے سے ڈاکٹر غازی صاحب سے ملاقات کے لیے نائب صدر جامعہ کے کمرے میں جانے کا موقع ملا۔ اسی دوران انہوں نے یو نیورسٹی کے ایڈیشنل ڈائریکٹر فنانس خورشید عالم صاحب کو بلوایا۔ خورشید عالم صاحب تشریف لائے تو ڈاکٹر غازی صاحب نے انہیں مخاطب کرکے کہا کہ انسان بنیادی طور پر لالچی واقع ہوا ہے۔ اب جبکہ میں وفاقی وزیر مذہبی امور بن چکا ہوں تو وفاقی وزیر کی تنخواہ، یو نیورسٹی کے نائب صدر (علمی) سے زیادہ ہے، اس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ جب تک میں وفاقی وزیر کی ذمہ داری پر فائز رہوں گا، روزانہ بعد دوپہر یونیورسٹی آکر نائب صدر جامعہ(علمی) کے طور پر اپنی تمام ذمہ داریاں ادا کروں گا، لیکن اس دوران یو نیورسٹی سے نہ تو تنخواہ وصول کروں گا اور نہ دیگر مراعات سے استفادہ حاصل کروں گا۔ یقیناًیہ کام کوئی اعلیٰ درجے کا صاحب تقویٰ ہی کرسکتا ہے۔
برصغیر ہی نہیں، عالم اسلام کی ممتاز علمی وادبی شخصیت مولانا ابوالحسن علی ندوی نے جب عالم اسلام کے اہل قلم کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لیے رابطہ ادب الاسلامی العالمیہ قائم کی تو عالم اسلام کے مختلف ممالک کے ساتھ پاکستان چیپٹر کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔ پاکستان چیپٹرکے صدر پنجاب یونیورسٹی لاہور کے شعبہ علوم اسلامیہ کے سربراہ ڈاکٹر ظہور احمد اظہر مقرر کیے گئے جبکہ اسلام آبادچیپٹر کے لیے ڈاکٹرمحمود احمد غازی کو ذمہ دار بنایا گیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر غازی صاحب کی ایف سکس والی رہائش گاہ میں اسلام آباد اور راولپنڈی کی ممتاز علمی وادبی شخصیات کو جمع کیا گیا تاکہ کام کا نقشہ تیار کیا جاسکے۔ ممتاز علمی وادبی شخصیات کی موجود گی میں ڈاکٹر غازی صاحب نے مجھ ناچیزکو رابطہ ادب الاسلامی العالمیہ ، اسلام آباد شاخ کا سیکرٹری مقرر کیا۔ میرے مسلسل انکار کے باوجود انہوں نے یہ ذمہ داری میرے سپرد کردی۔ اس کے بعد رابطہ کی اسلام آباد شاخ کے تحت مختلف دینی اور علمی موضوعات پر لیکچرز کی سیریز کا پرگرام بنایا گیا۔ لیکن اسی دوران رابطہ ادب الاسلامی العالمیہ پاکستان چیپٹرکے ذمہ داروں کی روایتی سستی کی وجہ سے لاہور کے علاوہ فیصل آباد اور اسلام آباد میں بھی کام کا سلسلہ آگے نہ بڑھ سکا۔
بچوں کے لیے راقم الحروف کی اب تک تین درجن سے زیادہ کتب شائع ہو چکی ہیں۔ اپنی شائع شدہ کتب وقتاً فوقتاً محترم غازی صاحب کی خدمت میں پیش کرتا رہتا تھا۔جب میری کتاب ’’اقبال کہانی‘‘ چھپ کر آئی تو میں نے ان سے گزارش کی کہ آپ نے اب تک میری کسی کتاب کے متعلق اپنی تحریری رائے سے آگاہ نہیں کیا ۔ اس لیے اقبال کہانی پر اپنی رائے سے ضرور نوازیں۔ اس پر انہوں نے حسب ذیل تاثرات سے نوازا۔
’’ڈاکٹر افتخار کھو کھر اور بچوں کا اسلامی، دینی اور ملّی ادب اب لازم وملزوم بنتے جارہے ہیں۔ کھو کھر صاحب نے گزشتہ دو عشروں کے دوران بچوں کے ادب پر اتنا کام کیا ہے کہ اب اُردو کی ’’ تاریخ ادبیات اطفال‘‘ میں ان کا ایک مقام بن چکا ہے۔ ہمارے ملک میں اور بہت سے شعبوں کے علاوہ یہ اہم شعبہ بھی ایک عرصہ تک بے توجہی کا شکار رہا۔ پورے ملک میں صرف سعیدِ ملت حکیم محمد سعید ، میرزا ادیب اور اشتیاق احمد کے علاوہ ہمدرد نونہال اور تعلیم وتربیت کے لکھنے والوں نے چالیس سال یہ اہم ذمہ داری نبھائی اور حق یہ ہے کہ حق ادا کردیا۔
افتخار کھو کھر اسی روایت کے امین ہیں۔ اُن کے ہاں حکیم محمد سعید جیسی مقصدیت، میرزا ادیب جیسا فنی اسلوب اور اشتیاق احمد جیسی آسان اور رواں زبان یکجا ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچوں میں کھو کھر صاحب کی تحریریں دن بدن مقبول ہورہی ہیں۔ ان کی درجنوں تحریروں میں بہت سی انعام یافتہ کتب بھی شامل ہیں۔ بعض کتابوں کے ایک ایک درجن ایڈیشن نکل چکے ہیں جن سے ان کتابوں کی مقبولیت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔
زیر نظر کتاب ’’ اقبال کہانی‘‘ ان شاہین صفت بچوں کے لیے لکھی گئی ہے جو اقبال کے پیغام کو دنیا بھر میں پھیلانے کا عزم اور جذبہ رکھتے ہیں ۔کتاب کا انداز بیان بہت آسان اور اسلوب بچوں کی سطح کے مطابق ہے۔ مصنف نے علامہ اقبال کی زندگی کے تمام اہم واقعات کو مکالمہ کے دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔
مجھے امید ہے کہ یہ کتاب اقبالیات اطفال میں ایک اہم اور مفید اضافہ شمار ہو گی۔ میں جناب ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر کو اُن کی اِس مفید کاوش پر دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں اور دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کو کم سن قارئین میں مقبولیت عطا فرمائے۔‘‘
محترم ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب جیسی بین الاقوامی سطح کی علمی وادبی شخصیت کی جانب سے مجھ ناچیز کے متعلق یہ تاثرات میرے لیے متاع زندگی ہیں۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ محترم غازی صاحب کو جنت الفردوس کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز فرمائیں اور ہمیں دنیا کی طرح آخرت میں بھی نعمت بھری جنتوں میں ان کی رفاقت نصیب ہو۔ آمین

مرد خوش خصال و خوش خو

مولانا سید حمید الرحمن شاہ

مرگ وزیست اس عالم کون وفساد کا خاصہ ہے۔ یہاں جو ذی روح آتا ہے، وہ موت کا ذائقہ ضرور چکھتا ہے۔ خواہ کوئی کتنا ہی بڑا مرتبہ پا لے، کتنی رفعتوں اور بلندیوں کو چھولے، نجوم وکواکب پر کمندیں ڈال لے، آفتاب وماہتاب کو پامال کر لے، بروبحر کی پہنائیوں میں اتر جائے، خلاؤں وفضاؤں کی تنگنائیوں کو روند ڈالے، تاروں بھری راتوں میں کہکشاؤں کے نقرئی راستے اپنے تصرف میں لے لے اور ارض وسما کے طول وعرض کی حقیقتوں کو پا لے، مگر موت سے مفر ناممکن ہے۔ خالق ارض وفاطر سماء نے کائنات ارضی وسماوی کی تخلیق سے پہلے ہی انھیں فناکرنے کا فیصلہ اور وقت مقرر کر رکھا ہے۔ موت وحیات کا نظام اپنے قبضہ قدرت میں رکھا اور آنے جانے کو بالخصوص سنت بنی آدم کا حکم تکوینی قرار دیا۔ بابا چلاسی فرماتے ہیں:
بو علی سینا وافلاطوں کجا غائب شدند
انبیا را ہم ز دنیا انتقالے دیدہ ایم 
مالدارانش چرا بر مال خود فخر ے کنند
مالدارانش چو ما اندر سوالے دیدہ ایم 
مگر اشرف المخلوقات کی صفت سے متصف بعض انسان ایسے بھی ہوئے ہیں جو اپنی اجلی سیرت، بلند کردار اور عمل صالح کے باعث یہاں سے جانے کے بعد بھی باقی رہتے ہیں، کیوں کہ وہ صرف آنے کے لیے ہی آتے ہیں۔ ایسے ہی آنے والوں میں ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ بھی تھے جو اگرچہ اب جسم کی مادی متحرک اور متکلم صورت میں ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں، لیکن ان کی شوخیت ایک رنگ تک محدود نہ تھی، بلکہ کئی قزحی رنگوں کے حسین امتزاج نے انہیں ایک کہکشاں کی صورت دے دی تھی۔ وہ درس نظامی کے فارغ التحصل فاضل تھے۔ فقہ وقانون کے زبردست ماہر تھے۔ عصری علوم کے بلندپایہ عالم تھے۔ عمیق النظر دانشور تھے۔ مسلم الثبوت ماہر تعلیم تھے۔ محقق ومدقق اور فلسفی ومتکلم تھے۔ بالغ نظر منتظم اور صاحب بصیرت مفکر تھے۔ اعلیٰ پایے کے خطیب ومقرر تھے۔ عظیم المرتبت مصنف ومولف اور قادرالکلام مترجم تھے۔ درویش ومنکسرالمزاج اور تواضع پسند فقیر طبع تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک عظیم انسان تھے۔ سراپائے انس والفت،پیکرپریم وپیار اور مجسمہ محبت ومودت۔ 
ان کے انگ انگ سے اخلاص وچاہت کے سوتے پھوٹتے تھے اور ہر بال وبن سے شفقت ورافت کے چشمے ابلتے تھے۔ اس ماہر ہفت زبان کی ذات میں کتنے دھنک رنگ جمع ہو گئے تھے اور ان سب رنگوں میں اعلیٰ وبرتر رنگ صبغۃ اللہ یعنی اللہ کا رنگ تھا۔ ومن احسن من اللہ صبغۃ۔ آپ کا وجود باجود سرتاپا صبغۃ اللہ میں رنگا ہو اتھا۔ دنیا میں کسی بھی حوالے سے یاد کیے گئے ، کسی بھی عہدہ ومنصب پر فائز ہوئے ، کسی بھی مرتبہ ومقام تک رسائی حاصل کی، کسی بھی لقب وخطاب سے مخاطب کیے گئے، کسی بھی شرف وکمال سے پکارے گئے اور کسی بھی اعزاز وتمغہ سے نوازے گئے، کبھی بھی اپنی جون نہیں بدلی، کپڑوں سے باہر نہیں آئے، ہمیشہ صبغۃ اللہ کا چولا زیب تن رکھا اور اللہ کے رنگ کے دائرے میں ہی رہے۔ اسی کو وجہ پہچان بنایا، اسی کو زندگی کا مقصد وحید ٹھہرایا اور اسی پر نازاں رہے۔ 
شاید ایسی ہی طرح د ار شخصیات کے لیے ہشت پہلو کا لفظ وضع کیا گیا ہے اور ہشت پہلو اشخاص وافراد اپنے علم وفہم، بصیرت ونظر، جدوجہد، حسن کردار واعمال اور اعلیٰ اخلاق واخلاص کی وجہ سے مر کر بھی نسیاً منسیاً نہیں ہوتے بلکہ امر ہو کر تاریخ میں زندۂ جاوید رہتے ہیں۔ ایسے انسان ہی ابنائے آدم کی بھیڑ میں عند اللہ اشرف المخلوقات کہلائے اور کرہ ارض پر خلیفۃ اللہ کے لقب سے ملقب کیے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب علوم قدیم وفنون جدید کے قران السعدین تھے اور ہنر کہن وعصری کے مجمع البحرین۔ ان کی ذات ستودہ صفات آثار ماضی وحال کے مابین ’’اعراف‘‘ کا درجہ رکھتی تھی۔ جب علما کے درمیان براجمان ہوتے تو عصر حاضر کے بہت بڑے دانشور واسکالر دکھائی دیتے تھے اور جب جدید تعلیم یافتہ طبقے کے مابین رونق افروز ہوتے تو طلبہ وعلما کے ترجمان اور مدارس ومکاتب کے پرزور حمایتی لگتے تھے۔ 
ان کی ظاہری وضع قطع یقیناًمسٹروں والی تھی اور بودوباش پروفیسروں والی، چال ڈھال ڈاکٹروں کی طرح تھی اور رہن سہن بیورو کریسیوں جیسا جو اکثر علمی تصلب سے تہی دامن ہوتے ہیں اور علم کی گہرائی وگیرائی سے یکسر خالی۔ محض کاغذی ڈگریوں کے بل بوتے پر پھوں پھاں کرتے ہیں اور پنجابی لہجے میں انگریزی کا تڑکہ لگا کر اردو بیچاری کا خانہ خراب کرتے ہیں۔ انہیں اپنی جہالت نما علمیت جتانے کا ہیضہ ہوتا ہے اور بات بات پر مغرب کی ترقی کے حوالے دینے کا ٹھرک۔ ان جہل مرکبوں کو مشرق کی کوئی چیز بھلی نہیں لگتی اور وطن عزیز کی کوئی خوبی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ یہ کورچشم اتنے احسان فراموش ونمک حرام ہوتے ہیں کہ ہمیشہ مشرق کا کھاتے ہیں، مگر زندگی بھر گن مغرب کے گاتے ہیں۔ ان کی آنکھ میں سور کا صرف ایک بال ہی نہیں، سارا سورا سمایا ہوتا ہے۔ اس لیے وہ مدارس ومکاتب دینیہ کی اجلی ومزکی فضا کے پروردہ طالبان وعلما کو اسی سور مائی نگاہ سے دیکھتے اور انہیں حقیر ورذیل گردانتے ہیں، مگرہمارے فاضل ممدوح اپنے تبحر علمی، وسعت مطالعہ، ذکاوت وذہانت، استحضار وقوت حافظہ، بصیرت وفراست، قدامت وجدیدیت کے امتزاج، مافی الضمیر کے فی البدیہ اظہار کی قدرت، اسلام دشمن قوتوں اور تحریکوں سے آگاہی، دین میں نت نئے پیدا ہونے والے فتنوں اور فتنہ پردازوں پر کڑی نظر، تعلیم وتدریس اور تحریر وتقریر میں یکساں مہارت اور حاضر جوابی کے لاجواب ملکہ جیسی صفات عالیہ کے باعث پروفیسر ہو کر بھی مادر پدر آزاد پروفیسروں سے لگا نہیں کھاتے تھے اور نہ ہی روشن خیال ڈاکٹروں کے قبیلے کے لگتے تھے۔ 
قادر وکریم قدرت نے ان کے وجود مسعود میں جو اوصاف وکمالات کوٹ کوٹ کر بھر دیے تھے، ان کے حامل اس عہد قحط الرجال میں شاید ہی دکھائی دیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ بہت کم لوگ اس بات سے آگاہ ہوں گے کہ ڈاکٹر صاحب جید وپختہ کار حافظ اور بہترین مجود ومقری تھے ۔ تکلف وتصنع سے گریزاں ، غنا وسرتال سے محترز اور سادہ وفطرتی انداز ولہجے میں تلاوت وقراء ت کرتے تھے۔ ماہ مقدس میں باقاعدگی سے اپنی قیام گاہ پر ہی بصورت تراویح قرآن کریم سنانے کا اہتمام کرتے اور رمضان المبارک کے علاوہ بھی فارغ اوقات میں اس کی تلاوت سے اپنی زبان کو تر رکھتے تھے۔ بالخصوص حالت سفر میں لہو ولعب اور لایعنیات میں مشغول ہونے کے بجائے احسن الکتاب کتاب اللہ کی تلاوت میں ہی مصروف رہتے تھے۔ نیز ان کی ان گنت صفات عالیہ وکمالات عمدہ میں سے ایک اعلیٰ صفت وخوبی یہ بھی تھی کہ ہمیشہ باوضو رہتے اور کبھی اس سے سرد مہری وغفلت نہیں برتتے تھے۔ 
آں ممدوح اپنے تبحر علمی وتفوق عملی اور عمق وتنوع کے باوجود طبعاً متواضع ومنکسرا لمزاج تھے۔ تصنع وتکلف سے مبرا اور بناوٹ وظاہر داری سے سراسر پاک تھے۔ دسیوں اعلیٰ عہدوں پر متمکن رہے اور بیسیوں اہم مناصب پر رونق افروز کیے گئے، مگر وضع داری، رکھ رکھاؤ اور مروت کا دامن کسی حال میں نہیں چھوڑا اور نہ ہی متانت ووقار کے دائرے سے کبھی باہر آئے۔ پرویزی دور میں وزارت مذہبی امور کا قلم دان انہیں سونپا گیا اور سچ یہ ہے کہ ملک عزیز کی تاریخ میں پہلی بار، اور شاید آخری بھی، حق بحقدار رسید کا مظاہرہ کیا گیا، ورنہ عموماً چنوں کے کھیت کی رکھوالی گدھوں، خربوزوں کے فصل کی نگرانی گیدڑوں او ر شکار کیے گئے جانوروں کی حفاظت گدھوں کو ہی سونپی گئی ہے اور نااہل لوگ ہی وزارت کی کرسی پر بطور آرائش وزیبائش سجائے گئے ہیں۔ الغرض، اسی اثنا میں آں مکرم کے والد محترم جناب حافظ محمد احمد فاروقی کا پشاور میں انتقال ہو گیا اورآپ ان کی تجہیز وتکفین اور جنازہ وتدفین میں شرکت کے لیے پشاور تشریف لے گئے تواپنی گاڑی وعملہ کے افراد کو گھر سے دور چھوڑ گئے او ر ہر قسم کے پروٹوکول سے بے نیاز ومستغنی پیدل چل کر اکیلے گھر پہنچے ۔
زعشق ناتمام ما جمال یار مستغنی
بہ آب ورنگ وخال وخط چہ حاجت روئے زیبا را
پھر جب جنازہ وتدفین ہو چکی اور لوگ دوپہر کو آرام وقیلولہ کرنے لگے تو یہ زاہد مرتاض وشب زندہ دار بھی مکان کے کسی کونے کھدرے میں سمٹ سمٹا کر زمین پر ہی دراز ہو گئے۔ چونکہ مکان تنگ وچھوٹا تھا، مہمانوں کی آمد وآورد تھی اور مرگ وموت کا محل وموقع بھی تھا، ایسے میں سکھ چین کہاں، تسکین وطمانیت کیسی اور آرام وراحت کیونکر! چند گھڑیاں ہی لیٹ پائے تھے کہ آواز آئی، حضرات! ایک ضرورت شدیدہ کے باعث کمرہ ہذا خالی کر دیجیے۔ اس صدائے رحیل پر لبیک کہتے ہوئے دیگر اشخاص وافراد کے ساتھ وزیر موصوف بھی اٹھ کھڑے ہوئے، دائیں بائیں نظر ڈالی مگر نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔ جب کہیں سر سمانے کی جگہ دکھائی نہیں دی تو کسی کو بتائے بغیر چپکے سے نکلے او ر گھر کے قریب ہی ایک خرابہ نما اور خام وناپختہ مسجد، جس کے درودیوار مٹی گارے سے بنائے گئے تھے اور جو خس وخاشاک سے مسقف کی گئی تھی، اس میں محو استراحت وخواب ہوگئے۔ تھوڑی دیر بعد کہیں سے ان کے نام ٹیلی فون آیا اور افراد خانہ اس طرف متوجہ ہوئے، لیکن تلاش بسیار کے باوجود کہیں دستیاب نہیں ہوئے۔ اس پر فکرو تشویش ہوئی اور ہر پیر وجواں ومرد وزناں فکرمند وسرگرداں ہوئے کہ آخر ڈاکٹر صاحب گئے تو کہاں گئے۔ جب سب تھک ہار چکے تو کسی نے یونہی سوچا کہ لگے ہاتھوں مسجد میں بھی جھانک لیں۔ جیسے ہی اس میں جھانکا تو حیرانی کی انتہا نہ رہی کہ آں موصوف کچی مسجد کے کچے صحن میں کچی دیوار کے زیر سایہ اپنے جوتے سر کے نیچے رکھے غم جاں سے بے پروا، غم جاناں سے بے نیاز اور غم جہاں سے بے فکر، بڑے پرسکون انداز میں سو رہے ہیں۔
چوآہنگ رفتن کند جان پاک
چہ بر تخت خفتن چہ بر روئے خاک
یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب موسم گرما کا جو بن تھا اور سایہ دیوار ہنوز مثل اول تک نہیں پہنچا تھا۔ پشاورشہر کی حدت وتمازت ویسے بھی بہت مشہور ہے۔ کوئی پنکھا تک موجود نہیں اور سایہ دیوار بھی ناکافی ہے، مگر اللہ تعالیٰ کے اس قناعت شعار بندے نے اسی پر اکتفا وقناعت کر لی اور جب جگایا گیا تو بڑے اطمینان کے ساتھ الحمدللہ الذی احیانا بعد ما اماتنا والیہ النشور  پڑھتے ہوئے اٹھے، گردسے اٹے کپڑے جھاڑے اور گھر آ گئے۔
ڈاکٹر صاحب کی سیرت کے سارے رنگ حسین، سارے پہلو خوبصورت اور سارے اطوار من موہ لینے والے تھے اور بالخصو ص آپ کے حسن کردار کایہ تابناک انداز ہم جیسے ناہنجاروں کے لیے یقیناًدرس موعظہ اور لائق تقلید وعمل ہے کہ موصوف اپنے والدین کے از حد تابع دار وفانبردار اور مبالغہ کی حد تک ان کے مطیع وخدمت گزار تھے۔ ان کے والدمکرم کے مزاج میں جلالیت اور طبیعت میں تندی وتیزی کا عنصر کچھ زیادہ ہی در آیاتھا کہ بات بات میں آتش جیولہ بن جاتے اورکسی رو رعایت کے بغیر کھری کھری سنایا کرتے تھے اور بسا اوقات تو دو نکتی سنائے بغیر بھی نہیں رہتے تھے، مگر حیف ہے ان کی برخورداری پر، آفرین ہے ان کے تحمل وبردباری پر اور شاباش ہے ان کی اطاعت شعاری پر کہ سب کچھ خندہ روئی ورخشندہ جبینی سے سنتے اور اف تک نہیں کرتے تھے۔
غالباً ان کی وزارت کے زمانہ میں آں محترم فیصل مسجد کے اندر معتکف ہوئے اور وزیر موصوف بنفس نفیس سحر وافطار کا سامان لے کر مسجد میںآتے، انہیں سحری کراتے اور لوگوں کے سامنے ان کی جلی کٹی سن کر مسکراتے رہتے تھے۔ اگر کوئی انہیں سمجھانا چاہتا تو ناراضگی کا اظہار کرتے اور فرماتے، یہ میرااور میرے بابا کا معاملہ ہے اور آپ اس معاملہ میں مداخلت کرنے والے کون ہوتے ہیں۔ گویا 
میان عاشق ومعشوق رمزیست
کراماً کاتبیں را ہم خبر نیست 
لاریب ، ڈاکٹر صاحب انتہا درجہ کے پار سا اور پرہیز گار انسان تھے اور دوسروں کے لیے تتبع وتقلید کی علامت ونشان۔ زندگی کی آخری سانس تک اعلیٰ عہدوں ومناصب پر فائز رہے، مگر زندگی بھر دفتری وسرکاری ذمہ داریوں کے دوران کبھی حکومتی مراعات سے ذاتی فائدہ نہیں اٹھایا اور سرکاری خزانہ کو ایک حبہ تک کا نقصان نہیں پہنچایا۔ صرف مقررہ مشاہرہ پر ہی گزارا کرتے تھے اور ہمیشہ صابر وشاکر رہے۔ 
ڈاکٹر صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ ذہانت فطانت عطا فرمائی تھی، بے حساب استحضار اور قوت حفظ کاجوہر بخشا تھا اورلامتناہی حاضر جوابی کی صلاحیت سے ہم کنار کیاتھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی اور جس کسی نے ان سے ادق سے ادق موضوع پر گفتگو کی یا کسی عقدۂ لاینحل اور مسئلہ مشکل کے متعلق استفسار کیا، آپ نے فی البدیہ مسکت اور تسلی آمیز جواب سے اسے شاد کام کیااور سننے والوں نے یہی جانا کہ موصوف اسی موضوع کے ماہر اورمتخصص ہیں۔
آپ چونکہ معتدل مزاج اور معتدل شخصیت کے حامل اور مثبت سوچ وفکر رکھنے والے عالم تھے،اس لیے ہر طبقہ فکرکو مطمئن کرنے کا فن خوب جانتے تھے اور اپنی شیریں مقالی، حسن عمل اور اعلیٰ اخلاق وکردار نیز انداز تکلم، طرز استدلال وحسن بیان اور حاضر جوابی کا باعث جلد دوسروں کا من موہ لیتے تھے۔ ہمارے مزاج میں عموماً افراط وتفریط کا غلبہ ہے اور بے اعتدالی وغلوپسندی کی فراوانی اور ہم ہرمعاملے میں مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں اورہر پہلو سے حدود کے دائرہ سے تجاو ز کرنے میں دریغ نہیں کرتے۔ دعوت وتبلیغ ہو یا جہاد وقتال ، سیاست وسیادت ہو یا شریعت وطریقت، مدح ومنقبت ہویاتردید وتنقید، ذکر وتذکیر ہو یا ریاضت وعبادت، اقتصاد ومعاش ہو یا مذاکرہ ومکالمہ، بحث ومناظرہ ہو یا رویت ہلال کا مسئلہ، ذرائع ابلاغ وسائنس کے جدید وسائل سے استفادہ کا معاملہ ہو یا فقہ وفتاویٰ کی طرف مراجعت کی نوعیت، ہر جگہ ومقام اور ہر شعبہ وطریق میں اونچ نیچ کے عفریت نے اپنے خونخوار پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ کوئی تو اس حد تک تنگ نظر ہے کہ اپنی سوچ وفکر کی تنگنائیوں میں چند رسومات جاہلانہ کو ہی شریعت سمجھتا اور مسائل فرقہ وارانہ کو دین حق یقین کرتا ہے، ظاہری شکل وصورت کو متشرع بنانے کے مرض میں مبتلا ہو کر متشددانہ رویہ اپناتا ہے اور بزعم خویش اسے افضل الجہاد کا نام دیتا ہے اور کوئی مذہب کے معاملے میں اتنا وسیع الظرف ہے کہ ایمان وکفر، توحید وشرک اور اصل اور بدعت کا فرق بیان کرنے کو بھی فرقہ واریت کے اسم سے موسوم کرتا اور ادائیگی فرائض کو کار عبث خیال کرتا ہے۔ کوئی اس قدر انتہا پسند ہے کہ اپنے مخالفین کو ابوجہل وابولہب کے القاب سے نوازتا اور ابن ابی اور ابن سبا سے بھی بدترسمجھتا ہے۔ اس کے برعکس اپنے ہم مسلک وہم مشرب مشائخ کو بغدادی وجیلانی کا ہم پلہ یقین کرتا اور رازی وغزالی سے برتر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، مگر ہم نے آں ممدوح کے دامن کو اس طرح کی کج فکری کے داغوں سے یکسر پاک ومنزہ ہی دیکھا ہے۔ تحریر ہو یا تقریر، خطبہ ہو یا خطاب، وعظ ہو یا مقالہ، ہمیشہ ’’خیر الامور اوسطہا‘‘ کے دامن کو تھامے رکھا اور کبھی سرمو اعتدال کی راہ سے نہیں ہٹے اور نہ زندگی کے کسی موت پر جادۂ حق سے صرف نظر کیا۔
آں موصوف نے مختلف موضوعات پر اردو، عربی اور انگلش وغیرہ مختلف زبانوں میں متعدد وقیع وعلمی اور تحقیقی کتابیں تالیف کیں اور ملکی وبین الاقوامی کا نفرنسوں میں ان گنت محققانہ مقالے پیش کیے جنہیں علم کی دنیا میں پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا، دانشوروں کی طرف سے سراہا گیا اور حکما ومحققین کی جانب سے زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا۔ ان مقالات میں سے سلسلہ ہاے محاضرات کو بالخصوص اپنی علمیت وجامعیت، تحقیق وتفحص اور وسعت معلومات کے اعتبار سے علمی حلقوں میں بڑی پذیرائی ملی اور علم دوست علما وذی علم فضلا نے قدرو وقعت کی نظر سے دیکھا ۔ یہ محاضرات جو مختلف عنوانات وموضوعات کے حوالے سے مستورات کے مختلف اجتماعات میں مختصر اشاراتی نوٹس کی مدد سے پڑھے جاتے رہے ہیں، بعد میں زیور طبع سے آراستہ ہو کر سات ضخیم جلدوں میں اشاعت پذیر ہوئے اور ہر جلد میں ایسے بارہ مقالے جمع کیے گئے جو متعلقہ موضوعات پر نادروعجیب معلومات کا بے بہا ومنفرد مجموعہ ہیں۔ 
محاضرات کے اولین مجموعہ کو محاضرات قرآن، ثانی کو محاضرات حدیث، ثالث کو محاضرات سیرت، رابع کو محاضرات فقہ، خامس کو محاضرات شریعت، سادس کو محاضرات معیشت اور سابع کو محاضرات سیر بین الاقوام کے خوبصورت ناموں سے موسوم کیا گیا ہے۔ اسی طرح ان کی ایک اور مایہ ناز تخلیق ’’تعلیمات قرآن علامہ اقبال کی نظر میں‘‘ ہے جو ڈاکٹر صاحب نے اپنی صاحبزادیوں کو محض حافظہ ویادداشت کی بنیاد پر زبانی املا کروائی تھی۔ گوظاہر میں یہ مختصر لگتی ہے، لیکن اپنے موضوع کے اعتبار سے انتہائی جامع وعلمی کتاب ہے جس کے مطالعہ سے ڈاکٹرصاحب کی وسعت معلومات اور فکر ونظر کی ہمہ گیری کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال کے فکر وفلسفہ سے بھی کماحقہ آگاہی ہوتی ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ صرف یک در یا در کوزہ ہی نہیں، جمیع ابحار ویموم کو کوزہ میں جمع کیا گیا ہے۔ 
ان کی آخری تصنیف غالباً ’’تاریخ الحرکۃ المجددیہ‘‘ہے جسے قطر میں قیام کے دوران عربی زبان میں احاطہ تحریر میں لایا گیا ہے اور کتاب کامحور ومرکز حضرت مجدد الف ثانیؒ کی شخصیت کو ٹھہرایا گیاہے۔ ان کے آثار واحوال اور تصنیفات وخدمات کا علمی جائزہ لیا گیا ہے اور ساتھ ہی ان کے پچاس سے زائد منتخب مکتوبات کا فارسی سے عربی میں ترجمہ بھی دیا گیا ہے۔ کتاب کے مطالعہ سے جہاں ان کی فکری گہرائی ونظری گیرائی کی غمازی ہوتی ہے، وہاں عربی زبان کی اصالت وقادرالکلامی اور فارسی زبان کی گرفت وبندش کا پتا بھی چلتا ہے۔ عربی کی فصاحت وبلاغت دیکھ کر معلوم ہوتا ہے عجمی نہیں، کوئی عربی نژاد وعربی النسل ادیب وسخن ور عربی زبان کے شہ پارے پیش کر رہا ہے اور فارسی کی عربی میں ترجمانی سے لگتا ہے ، کوئی فردوسی کا ہمزاد موشگافیاں کر رہا ہے۔ 
ڈاکٹر صاحب جہاں میدان تحریر وکتابت کے شہسوار تھے، وہاں تقریر وتبیان کی دنیا میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ دیگر خطبا ومقررین کے برعکس ان کے خطاب وتقریر کا انداز ہمیشہ منفرد ہوتا تھا۔ سرتال وغنائیت سے کلیتاً اجتناب کرتے تھے اور تمہید طولانی سے سراسر گریزاں ہوتے تھے۔ سادہ وصحیح لہجے میں مختصر حمد وثنا کے الفاظ دہراتے ،سنجیدگی ومتانت سے قرآن کریم کی چند آیات تلاوت کرتے اور اس کے بعد متعلقہ موضوع پر بولنا شروع کر دیتے اور پورے تسلسل و روانی سے بولتے ہی چلے جاتے تھے۔ ان کے بیان سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دریا بپھرا ہو اہے اور اس کی موجیں اپنی طغیانی پر اٹھکیلیاں کر رہی ہیں۔ 
ڈاکٹر صاحب گو بنیاد ی طور پر ایک فقیہ ومقنن اور حدود شرعیہ کے فاضل وقوانین اسلامی کے ماہر تھے، لیکن دیگر موضوعات میں بھی ان کے فکرکی رفعتیں اور شعور وآگہی کی وسعتیں کچھ کم نہ تھیں۔ علوم اسلامی کے جتنے شعبے اور فنون وہنر کے جتنے عنوان ہیں، اگر غو ر کیا جائے تو وہ سب ایک مسلک وحدت سے منسلک اور باہم ایک دوسرے مربوط ومنضبط کیے گئے ہیں اور یہ وحدت ویکجائی اور ارتباط وانضباط ہی انھیں دیگر علوم وفنون سے ممیز ونمایاں کرتے ہیں۔ چنانچہ کلام اللہ کو سنن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علیحدہ وجدا کر کے دیکھنا ناممکن ہے، فقہ کو قرآن وسنت سے الگ کرکے سمجھنا ’’ کوہ کن وکوہ درپیش‘‘ کے مترادف ہے اور تاریخ وسیرت باہم لازم وملزوم ہونے کے ساتھ ساتھ قرآن وسنت سے بھی جڑے ہوئے ہیں ۔یہی حال دیگر جملہ علوم وفنون کا ہے اور محترم ڈاکٹر صاحب کی ذات ستودہ صفات اس وحدت علوم اسلامی کی عملی وبین مثال ونظیر تھی۔ آپ تمام علوم اسلامیہ سے بہرہ ور تھے اور تمام فنون عصریہ سے واقف، آثار قدیمہ سے باخبر تھے اور روایات کہنہ سے آشنا، طریق جدید کی جدت کاریوں کے شناور تھے اور نئے فنون وہنر کی فتنہ سامانیوں وشرانگیزیوں سے ہوشیار۔ بعض علوم وفنون تلمیذاً حاصل کیے اور سبقاً پڑھے تھے اور بعض کثرت مطالعہ کی مرہون منت تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریر وتقریر سے قدامت وجدیدیت کے سب رنگ دھنکی رنگوں کی طرح ہم آہنگ اور غیر محسوس انداز میں جڑ ے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ 
ڈاکٹر صاحب ۱۹۵۰ء کو حافظ محمد احمد فاروقی کے ہاں پیدا ہوئے جن کا علماء کاندھلہ کے اس مشہور علمی خاندان سے تعلق تھا جن میں مولانا محمد ادریس کاندھلوی، مولانا محمد علی کاندھلوی اور مولانا عبدالمالک کاندھلوی وغیرہ جیسے عظیم المرتبت ونابغہ روزگار رجال اعاظم گزرے ہیں۔ اس خاندان کی ارادت وبیعت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ سے تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے تعلیم کی ابتدا قرآن کریم سے کی اور اسے آٹھ برس کی عمر میں ازبر حفظ کر لیا ۔ اس کے بعد درس نظامی کی طرف متوجہ ہوئے اورابتدائی کتابیں کراچی کی مشہور دینی درسگاہ جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن میں پڑھیں۔ متوسط کتب جامعہ اشرفیہ لاہور اور منتہی تعلیم القرآن راولپنڈی میں مکمل کیں۔ درس نظامی کی تکمیل کے بعد عصری علوم کی تحصیل کا شوق چرایا اور پنجاب یونیورسٹی لاہور سے پہلے عربی میں ماسٹرز کیا اور پھر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ آں ممدوح عالم اسلام کے ان معدودے خوش نصیب فضلا میں سے تھے جنھوں نے صرف سترہ برس کی عمر میں مسندتدریس کو رونق بخشی اور اسلامی علوم وفنون اور متداول وفنی کتب کی تدریس ان کا لازمہ حیات اور زندگی کا جزو لا ینفک رہی۔
راقم اثیم کی ڈاکٹر صاحب سے یاد اللہ اس وقت قائم ہوئی جب موصوف دعوہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل اور شاہ فیصل مسجد اسلام آباد کے خطیب لبیب تھے اور یہ تعلق وقت کے ساتھ ساتھ اکرام واحترام سے گزر کر تقدیس وعقیدت کے قالب میں ڈھل گیا ۔ اس شناسائی وآشنائی کی صورت وسبیل یہ بنی تھی کہ پروفیسر محمد امیرالدین مہر سربراہ تربیت ائمہ کورس، شعبہ دعوۃ اکیڈمی اسلام آباد ۱۹۸۸ء میں میرے سفر مقدس کے رفیق وساتھی رہے تھے۔ موصوف انتہا درجہ کے صاحب بر وتقویٰ، بلند پایہ عالم وفاضل اور بلا کی ذکی وذہین شخصیت تھے۔ فکر مودودی کے دلدادہ وشیدا تھے اور سید مودودی مرحوم کی تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ کو سندھی زبان میں انہوں نے منتقل کیا تھا اور دیگر کتب کثیرہ بھی سندھی میں تالیف وتصنیف کی تھیں۔ پرانی وضع کے بزرگ تھے اور انتہا درجہ کے وضع دار وبامروت انسان تھے۔ یاروں کے یار اور ہمہ یاراں دوزخ وہمہ یاراں بہشت کا نظریہ رکھتے تھے۔ انتہائی خلیق وملنسار اور انتہائی مہمان نواز آدمی تھے۔ اکیڈمی میں جب بھی کوئی تقریب منعقد ہوتی ،موصوف مجھے ضرور یاد فرماتے اور ان کی وساطت سے حضرت ڈاکٹر صاحب کی زیارت ولقا کی سعادت بھی حاصل ہو جاتی تھی۔ میں جب بھی اکیڈمی میں حاضر ہوتا، ڈاکٹر صاحب اعلیٰ ظرفی وبڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیشہ کھڑے ہو کر استقبال کرتے، گلے لگا کر جی آیاں نوں کہتے اور مصافحہ فرما کر احوال وخیریت دریافت کرتے تھے۔ جب بھی ملتے، یہ ضرور فرماتے کہ میں از اول تا آخر آپ کی نگری کا فرد، آپ کی برادری کا رکن اور آپ کے قبیلے کا ہی ممبر ہوں، اگرچہ حالات نے مجھے کہاں سے اٹھا کر کہاں پہنچا دیا ہے، تاہم میں کسی صورت بھی نہ تو کبھی اپنے قبیلے کو بھولا ہوں اور نہ ہی بھول سکوں گا، خواہ تحت الثریٰ میں رہوں یا بام ثریا پربسوں۔ بہرحال میں تمہارا ہوں اور تمہارا ہی رہوں گا۔ 
مجھے ہمیشہ ان کے مشاغل ومصروفیات اور سرکاری ذمہ داریوں کا احساس رہتا جس کے پیش نظر میں جلد اجازت لینے کی کوشش کرتا، لیکن ڈاکٹر صاحب اپنی بے پایاں محبت وشفقت، بے حساب اخلاص مروت اور بے انتہا حقیر پروری وخوردنوازی کے تحت ’’ابھی آئے اور ابھی جانے کا ارادہ ہے‘‘ کہہ کر میری زبان بند کر دیتے تھے۔ پر تکلف خورونوش کا دور چلتا اور کتنی دیر تک بے تکلفانہ محفل جمی رہتی۔ علمی لطائف وحکایات کے تبادلے ہوتے،شائستہ وشستہ پھلجھڑیاں چھوڑی جاتیں اور مہذب وباوقار قہقہوں کا تبادلہ کیاجاتا تھا اور اس کے ساتھ مختلف مسائل وموضوعات بھی زیر بحث رہتے اور کئی لا ینحل عصری عقدے بھی موضوع سخن بنتے تھے۔ سچ یہ ہے کہ ہر محفل میں میر محفل وشمع محفل بلکہ جان محفل ومان محفل آپ ہی ہوتے تھے۔ جب محفل برخواست ہوتی تو آں روح محفل، اکیڈمی کی مطبوعہ کتب ہدیۃً عنایت کرتے اور اپنی نئی چھپنے والی تالیف یا تصنیف بھی عطا فرماتے تھے۔ 
جب ڈاکٹر صاحب پرویزی دور حکمرانی میں وفاقی وزیر مذہبی امور بنائے گئے تو کچھ عرصہ کے لیے میل ملاپ وسلسلہ جنبانی میں تعطل در آیا۔ دریں اثنا ان کا دو تین بار تحیہ وسلام بھی آیا اور یہ پیام بھی کہ آپ اسلام آباد میں آباد ہیں، مگر افسوس اتنا عرصہ بیت جانے کے باوجود ہمیں یاد نہیں کیا ،کسی طرح کا کوئی رابطہ نہیں فرمایا۔ میں نے جواباً عرض کیا: شاہوں کے مقبروں سے الگ دفن کیجیو، مجھے گور غریباں پسند ہے۔ مخدومی! آپ ایک ایسے خبیث الفطرت وغلیظ النفس شخص کی کابینہ کے رکن رکین ہیں جس کے نام سے ہی مجھے طبعاً نفرت اور اس ذات کے تصور سے گھن آتی ہے۔ ساحر لدھیانوی مرحوم نے کہا تھا:
تاج تیرے لیے اک مظہر الفت ہی سہی
تجھ کو اس وادئ رنگیں سے عقیدت ہی سہی
میرے محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے 
بزم شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی
ڈاکٹر صاحب کو معلوم تھا کہ میرا حضرت ڈاکٹر محمد حسین للٰہی مرحوم سے خصوصی تعلق ہے۔ بنا بریں انھوں نے حضرت للٰہی مرحوم ومغفور سے رابطہ فرما کر میری روش اور طرز فکر کے متعلق شکوہ کیا اور کہا کہ حضرت! حمید الرحمن سے فرما دیجیے، جس شخص کے نام اور کردار سے آپ کو نفرت ہے، مجھے بھی اسی طرح بلکہ اس سے کئی گنا زیادہ کراہت ہے۔ میں محض یہ سوچ کر اس بد بخت کی کابینہ میں شامل ہوا تھا کہ شاید کوئی اصلاح وصلاح اور ہدایت وراستی کا پہلو نکل آئے، مگر یہ میری بھول اور میری زندگی کی بھیانک خطا تھی۔ میں نے جب قریب ہو کر دیکھا تو اسے سراپا رجس ونجس بلکہ غلاظت وگندگی اور مجسمہ رذالت وضلالت پایا۔ اب میں نے اس خسیس سے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ عملاً تو کب کا فارغ ہو چکا ہوں، صرف رسمی وکاغذی کارروائی باقی ہے۔ آپ جلد ذرائع ابلاغ سے میرے مستعفی ہونے کی خبر سن لیں گے اور یہ بھی کہ میں حکومت قطر کی دعوت پر قطر چلا جاؤں گا۔ 
حضرت للٰہی ؒ نے مجھے اس ساری صورت حال سے آگاہ کیا اور فرمایا: اب ان کی طرف سے دل میں کسی قسم کا کوئی تکدر اور میل نہیں ہونا چاہیے۔ میں نے عرض کیا، حضرت میری سوچ وفکر کا مرکز ومحور صرف الحب للہ والبغض للہ ہے۔ اگر انھیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے تو میرا دل بھی صاف ہے۔ حضرت للٰہی نے انھیں اس بات سے مطلع کیا اور ساتھ میرا رابطہ نمبر بھی دے دیا۔ چند دن بعد یہ خبر خوش کن سامعہ نواز ہوئی کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی نے وزارت مذہبی امور سے استعفا دے دیا ہے اور اس کے ساتھ ہی ہاتف کی یہ غیبی آواز بھی کانوں میں گونجی: میں محمود احمد غازی بول رہا ہوں، آپ سے ملنے کی خواہش ہے۔ کیا یہ خواہش یونہی ناتمام رہے گی؟ میں نے عرض کیا: حمید سر کے بل حاضر ہوا چاہتا ہے۔ اب میرے من کی خلش بھی ویسی ہی ہوگئی ہے جیسی آپ کے جی کی بے قراری ظاہر کرتی ہے۔ 
الفت کا جب مزا ہے کہ ہوں وہ بھی بیقرار
دونوں طرف ہو آگ برابر لگی ہوئی
ڈاکٹر صاحب کی صحت آخر وقت تک لائق رشک تھی اور تندرستی قابل حسرت۔ انہیں جس نے بھی دیکھا اور جب بھی دیکھا، یہی جانا کہ آں موصوف سدابہار جوان رعنا ہیں۔ نہ کسی روگ ظاہری کے اسیر تھے اور نہ ہی کسی مرض باطنی میں مبتلا، مگر موت کا وقت مقرر ہے۔ جب جس کی اجل مسمی آ جاتی ہے اور وقت مقرر پورا ہوجاتا ہے تو وہ کسی کے ٹالنے سے نہیں ٹلتا۔ جو ہونا ہوتا ہے، وہ ہر صورت میں ہو کر رہتا ہے۔ مجال نہیں کہ اس میں ایک لمحے کی تقدیم یا تاخیر ہو جائے۔ اللہ کے فیصلے میں بلاوے کا وقت آ گیا اور وہ خراماں خراماں اپنے بلاوے پر لبیک وسعدیک کہتے ہوئے سوئے اعلیٰ علیین چلے گئے۔ اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے، جوار میں جگہ نصیب ہو، درجات بلند ہوں اور سیئات سے عفو ودرگزر کا معاملہ فرمایاجائے، آمین۔ 
ایک اک کر کے ستاروں کی طرح ڈوب گئے
ہائے کیا لوگ میرے حلقہ احباب میں تھے
اب جب کہ ان کا چاندی جیسا اجلا روپ اور سونے جیسا سنہری سروپ ہمیشہ کے لیے نگاہوں سے اوجھل ہو گیا ہے، صرف حسرت بھری یادیں او ر فکر بھری باتیں سوہانِ روح بن کر باقی رہ گئی ہیں، ایسے میں ان کے روپ وسروپ اور چہرے مہرے کے ان مٹ نقوش جو لوح خاطر پر ثبت وکندہ ہیں، انہیں برنگ پیرہن کاغذی، احرف والفاظ کے قالب میں ڈھال کر تصویری خاکہ کی صورت میں طشت ازبام وہویدا کر رہا ہوں، کیوں کہ 
آج نظر کے سامنے حسن ہوا جو بے نقاب
دیکھ لیا قریب سے رنگ طلوع آفتاب
رخصت دوست کا سماں یوں نظر میں ہے کہ جوں
پھیل رہی ہو تیرگی ڈوب رہا ہو آفتاب
معتدل ومائل بہ طوالت قامہ، گٹھا ہوا وگداز جسم، نہایت متناسب اعضا وجوارح، گندمی ومائل بہ ملاحت رنگت، تیکھے ودلکش متین نقش، فراخ وچوڑا ماتھا، اس پر قسام ازل کی حسن قسمت کا چند رکھا، جھیل جیسی گہرائی وگیرائی کی غماز آنکھیں، بھرے ہوئے خم دار وکشادہ ابرو، پرکشش وپر گوشت ماکھڑا، رس بھرے رسیلے شفتین، ستواں و شہابی ناک، صدف فم وغنچہ دہن، مسٹرانہ وغیر مسنون داڑھی، کبھی شلوار وقمیص اور قراقلی ٹوپی زیب تن اور کبھی انگریزی سوٹ بوٹ سے آراستہ بدن۔ افسوس جن کی زندگی ماہتاب سے تابندہ وتابناک تھی، وہ اپنی زندگی کی ساٹھ بہاریں دیکھ کر اس دنیاے دوں سے رخصت ہو گئے۔
کھوئیں گے ہمیں لوگ تو پھر پانہ سکیں گے 
یوں جائیں گے دنیا سے کبھی آ نہ سکیں گے

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ کچھ یادیں، کچھ باتیں

ڈاکٹر محمد امین

ڈاکٹر محمود احمد غازی بھی راہئ ملک عدم ہوئے اور اتنے اچانک کہ ابھی تک یقین نہیں آتا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ یہ غالباً ۱۹۹۳ء کی بات ہے، جب ہم مرحوم ڈاکٹر غلام مرتضیٰ ملک صاحب کے ساتھ ایک نیم سرکاری تعلیمی فاؤنڈیشن میں ڈائریکٹرنصابیات کے طور پر کام کرتے تھے۔ہم نے اڑھائی تین سال کی محنت سے پہلی سے بارہویں تک کے نصاب کو از سر نو اسلامی تناظر میں مدون کیا۔ اب اس نصاب کے مطابق نصابی کتب مدون کرنے کا مرحلہ درپیش تھا، لیکن ٹرسٹیوں اور ملک صاحب میں اختلافات کے پیش نظر کام ٹھپ ہو کر رہ گیا۔ ہم نے چند ماہ انتظار کیا، لیکن جب دیکھاکہ اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھتا تو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ’’ادارہ تحقیقات اسلامی‘‘ کے سربراہ اور اپنے مہربان ڈاکٹر ظفر اسحق انصاری صاحب سے اس کا ذکر کیا کہ کسی دوسری مصروفیت کا متلاشی ہوں۔ 
چند دن بعد ان کا فون آگیا کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب سے آکر ملو۔ وہ ان دنوں ڈائریکٹر جنرل دعوۃ اکیڈیمی تھے۔ میں جا کر ان سے ملا۔ سانولا رنگ، لمبا قد اور لباس میں قدیم و جدید کا امتزاج یعنی سوٹ کے ساتھ نکٹائی لیکن سر پہ جناح کیپ اور چھوٹی داڑھی۔ خندہ پیشانی سے پیش آئے اور پوچھنے لگے کہ آپ کی زیادہ تردلچسپی اسلامیات کے کن شعبوں سے ہے؟ میں نے کہا: ’’مزاجاً دعوت سے، لیکن تعلیمی اسناد کے لحاظ سے اسلامی قانون سے‘‘۔ کہنے لگے خیر، ان شاء اللہ دونوں اپنے بس میں ہیں۔ (وہ ان دنوں شریعہ اکیڈیمی کے انچارج بھی تھے)۔ چنانچہ انہوں نے میری تعیناتی شریعہ اکیڈیمی میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر کرا دی۔ وہاں سول اور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ ججوں کی اسلامی قانون میں تربیت کے علاوہ شریعہ میں تالیف و تدوین کا شعبہ بھی میرے سپرد تھا۔ وہ ان شعبوں میں میری تجاویز اور رپورٹوں پر عموماً من و عن صاد کر دیتے۔ ایسے ہی ایک موقع پر میں نے نوٹ لکھا کہ مجھے ان کاموں کا کوئی تجربہ نہیں اور یہاں کوئی ایسے ساتھی بھی نہیں جن سے مشاورت کی جاسکے اور یہ بڑے بڑے علمی منصوبے ہیں اور آپ بلابحث و ادنیٰ تغیر ان پر صادکردیتے ہیں۔ جواب میں ’’من تواضع للہ رفعہ‘‘ کا مختصر جواب لکھ کر یہ باب بند کردیا۔ مطلب یہ کہ وہ اپنے ساتھیوں پر اعتماد کرتے تھے، ان کی حوصلہ افزائی کرتے تھے اور ان کی علمی ترقی پر خوش ہوتے تھے۔
ان دنوں میری فیملی لاہور میں تھی، لہٰذا میرے پاس کافی وقت بچ جاتا اور میں نے نوائے وقت میں ہفتہ وار کالم ’’فکر و نظر‘‘ لکھنا شروع کردیا۔ ایک دفعہ میں مساجد میں اسلامی تعلیم کے موضوع پر کالم لکھنا چاہتا تھاتو میں نے بعض معلومات کے لیے ایک جاننے والے صاحب کو وفاقی وزارت تعلیم میں فون کیا تو انہوں نے بتایا کہ جنرل ضیاء الحق صاحب نے ایک سروے کرایا تھا جس سے پتہ چلا کہ ہماری مساجد میں سے صرف ۲۵ فیصدایسی ہیں جہاں باقاعدہ سند یافتہ امام ہیں جو عوام کو قرآن و حدیث کا درس دے سکتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار چونکا دینے والے تھے۔ اتفاق سے اسی شام کسی وجہ سے مجھے ڈاکٹر غازی صاحب کے گھر جانا پڑا۔میں نے انہیں بتایا کہ مجھے اپنے کالم کے سلسلے میں یہ اعداد و شمار ملے ہیں۔کہنے لگے، اس بات کو ہرگز اپنے کالم میں نہ لکھنا کیونکہ اس سے علما کی ہوا خیزی ہوگی اور علما چونکہ ہمارے معاشرے میں دین کے نمائندے ہیں، لہٰذا اس سے دین کی بھی ہوا خیزی ہوگی۔
اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ایک سالہ قیام کے دوران ہی مجھے یہ آئیڈیا سوجھا کہ اسلامی مشاورتی کونسل چونکہ غیر فعال ہے، لہٰذاکیوں نہ پرائیویٹ سطح پر مختلف مسالک کے علماے کرام اور اسلامی سکالرز پر مشتمل ایک علمی مجلس ایسی بنائی جائے جو معاشرے کو درپیش مسائل میں اسلامی حوالے سے غور کرکے اپنی سفارشات عوام اور حکومت کے سامنے لائے تاکہ اگر وہ چاہیں تو اس سے استفادہ کرلیں۔ میں یونیورسٹی میں نیا اور ناتجربہ کار تھا اورغازی صاحب کا جونیئرتھا، لیکن اس کے باوجود انہوں نے اس معاملے میں میری بھرپور حوصلہ افزائی کی اوراس منصوبے کو آگے بڑھانے میں میرے ساتھ مل کر کام کیا۔ مجوزہ ادارے کی تشکیل کے لیے بلائے گئے ہر اجلاس میں پرجوش طریقے سے شریک ہوتے بلکہ بہاول پور یونیورسٹی سے آئے ہوئے اپنے برادر نسبتی ڈاکٹر یوسف فاروقی صاحب کو بھی اپنے ساتھ لاتے۔(اس معاملے میں معروف اہل حدیث عالم مولانا عبدالغفار حسن مرحوم نے بھی ہمارا بھرپور ساتھ دیا) لیکن برا ہو ’’معاصرت‘‘ کا کہ یونیورسٹی کی ایک سینئر اسلامی شخصیت نے اس کام میں اس طرح مداخلت کی کہ اسے کامیاب نہ ہونے دیا۔ اللہ ان کو بھی معاف فرمائے اور ہمیں بھی۔ (ہماری اس دیرینہ خواہش کی مظہر ’’مجلس فکر و نظر‘‘ تھی جو ہم نے جامعہ پنجاب کے دوران قیام تشکیل دی اور اب ’ملی مجلس شرعی‘ہے جوسارے دینی مکاتب فکر کے علماے کرام کا متحدہ پلیٹ فارم ہے)۔
غازی صاحب مرحوم کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ دینی فکر و عمل میں معتدل مزاج تھے۔ نہ تجمدکے قائل تھے اور نہ تجدد کے۔ یوں ہمارے معاشرے میں جو اصحاب و طبقات تجمدکی طرف میلان رکھتے ہیں، وہ ان کے ناقد تھے اور جو اصحاب تجدد کی طرف میلان رکھتے ہیں، وہ بھی انہیں ناپسند کرتے تھے لیکن ہمارے نزدیک ان کا معتدل رویہ قابل تعریف تھابلکہ وہ جدید و قدیم کے امتزاج کا بہترین نمونہ تھے۔ کراچی یونیورسٹی میں ہمارے دوست خالد جامعی صاحب جو جدیدیت کے خلاف تیغ براں ہیں، وہ غازی صاحب کا شمار بھی تجدد زدہ لوگوں میں کرتے ہیں۔ جب انہوں نے اس کا اظہار اپنے جریدے ’’ساحل‘‘ میں کیااور غازی صاحب کے خلاف لکھنے کا ارادہ ظاہر کیاتو ہم نے دوستانہ اختلاف کرتے ہوئے انہیں مشورہ دیا کہ وہ ایسانہ کریں کیونکہ ہماری رائے میں غازی صاحب اس عتاب کے مستحق نہ تھے، چنانچہ انہوں نے وقتی طور پر ہماری درخواست قبول فرما لی۔ (گوجامعی صاحب اپنے نظریات میں بہت پختہ ہیں اور اپنی رائے پر اب بھی قائم ہیں)۔
ہمارے نزدیک فکری رویوں کے بڑے بڑے دائرے ہیں اور ہر دائرے کا ایک سنٹر ہوتا ہے اور جو لوگ اس سنٹر سے تھوڑا دائیں یا بائیں ہوتے ہیں، ان کا شماربھی اسی دائرے میں ہونا چاہیے، خواہ وہ اس دائرے کی مین اسٹریم سے تھوڑے دور اورمختلف ہی کیوں نہ ہوں۔ مثلاً متجد دین کے دائرے میں برصغیر کی دینی روایت کے لحاظ سے سرسید، چکڑالوی، امرتسری، غلام احمد پرویز،جاوید احمد غامدی صاحب وغیرہ ہیں لیکن اقبالؒ ، مولانا مودودیؒ اورڈاکٹرغازی صاحب کو اس دائرے میں شامل کرنا ہمارے نزدیک زیادتی ہے۔ ہماری غازی صاحب سے اس موضوع پر کئی دفعہ بات ہوئی، لیکن انہوں نے کبھی اس طبقہ متجددین کے حق میں کلمۂ خیر نہیں کہا۔ مغرب کے حوالے سے جو ان کی اپروچ تھی، ضروری نہیں ہے اس سے خالد جامعی صاحب جیسے اصحاب بھی مطمئن ہوں، لیکن اس کے باوجود انہیں مغرب زدہ نہیں کہا جاسکتا۔ اسی طرح بلاشبہ وہ حلقہ دیوبند کے قریب تھے (بلکہ مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کے خاندان میں سے تھے) لیکن ہمارے علم اور مشاہدے کی حد تک وہ اس میں بھی معتدل مزاج تھے اور ہرگز متشدد نہ تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ بریلوی بھائیوں کو ان کا یہ اعتدال نہ بھاتا ہواور وہ انہیں حکومت میں ایک دیوبندی وزیر سمجھ کر ان کی مخالفت کرتے ہوں۔
وزارت سے یاد آیا کہ بعض لوگ ان پر اعتراض کرتے ہیں کہ انہوں نے جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں وزیر مذہبی امور کی ذمہ داری کیوں قبول کی؟ جس زمانے میں یہ واقعہ پیش آیا، ہم لاہور میں تھے۔ ایک دفعہ کسی مظلوم کی مدد کے سلسلے میں ان کے ہاں حاضر ہوا تو انہوں نے بھرپور معاونت کی، لیکن ان کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ وہ حکومت میں خاصے غیر مطمئن تھے اور اپنے آپ کو misfit محسوس کرتے تھے اور اسے چھوڑنے کا ارادہ رکھتے تھے، لیکن اب انہیں کمبل نہیں چھوڑتا تھا۔ ناچار انہوں نے پبلک بیان دے دیا کہ وہ فلاں مہینے وزارت چھوڑ دیں گے اور پھر چھوڑ بھی دی۔ یار لوگ کہیں گے کہ قبول ہی کیوں کی تھی؟ ہم سمجھتے ہیں کہ غازی صاحب اپنی اہلیت کے بل پر بڑے سے بڑے منصب کے اہل تھے، لیکن ہمارے معاشرے کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ ہر اس شخص کو جو داڑھی رکھتا، ٹوپی پہنتااور عربی اسلامیات میں مہارت رکھتا ہو، اسے مولوی سمجھتا اور بطور مولوی ٹریٹ کرتا ہے (خواہ وہ روایتی ’مولویت‘ سے دور ہی کیوں نہ ہو)۔ اس طرح باصلاحیت لوگوں کو ان کی صلاحیتوں کے اظہار و استعمال کے موزوں مواقع میسر نہیں آتے اور ان میں ردعمل کی ایک نفسیات پیدا ہوجاتی ہے اور پھر جب انہیں کوئی موقع ملے تو وہ اسے قبول کرلیتے ہیں، خواہ اس کی ’’موزونیت‘‘ کچھ مشکوک ہی کیوں نہ ہو۔ ویسے بھی معتدل مزاج ہونے کی وجہ سے غازی صاحب اپنی افتاد طبع میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ آدمی نہ تھے۔ پھر ملت کا درد رکھنے اور معاشرے کے دینی مستقبل کے حوالے سے سوچنے والے شخص کی حیثیت سے ان کے ذہن میں کئی منصوبے تھے۔ ان کا خیال ہوگا کہ وہ اقتدار میں آکر ان منصوبوں میں سے بعض پر عمل کرسکیں گے، لیکن غالباً حکومت میں جانے کے بعد جلد ہی انہیں اندازہ ہوگیا کہ ہمارا سیاسی نظام اور بیوروکریسی کا نظام نمک کی وہ کان ہے جس میں جانے والا خود نمک ہوجاتاہے اور اس کا اپنا میٹھا پانی بھی کھاری ہونے لگتا ہے، چہ جائیکہ وہ وہاں کے پانی کو میٹھا کرنے کے کسی منصوبے پر عمل کرے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ وزارت میں زیادہ دیر نہ ٹک سکے اور باہر آگئے۔ غازی صاحب کے وزارت قبول کرنے کے حوالے سے ہم نے جو کچھ ابھی کہا، وہ ہمارا ذاتی تجزیہ ہے جس سے اختلاف کا حق ہر صاحب فکر و نظر کو ہے۔
پھر ہم نے اخبارات میں پڑھا کہ وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے صدر ہوگئے ہیں۔ یہ ان کی محبت اور بڑا پن تھا کہ انہوں نے خود فون کرکے مجھے کہا کہ میرے پاس اسلام آباد آجاؤ، یہاں کام کے بڑے مواقع ہیں اور ترقی کے بھی۔ ایک یونیورسٹی کے زیرک سربراہ کی حیثیت سے انہیں خوب اندازہ تھا کہ یونیورسٹی بڑی بڑی بلڈنگوں کانام نہیں ہوتی بلکہ جتنے بڑے اہل علم اس سے وابستہ ہوں، یہ اتنی ہی بڑی ہوتی ہے اور جب اس میں کام کرنے والے بونے ہوں تو یونیورسٹی کی عظیم الشان بلڈنگیں اسے عظمت نہیں بخش سکتیں۔ چنانچہ جب وہ یونیورسٹی کے صدر نہ رہے اور ان کا واسطہ بونوں سے پڑا تو وہ خاموشی سے یونیورسٹی چھوڑ گئے اور جامعہ قطر چلے گئے کیونکہ وہ لڑنے والے آدمی تھے ہی نہیں۔ ہاں! تو ہم عرض کر رہے تھے کہ غازی صاحب نے ہمیں اسلام آباد یونیورسٹی آنے کی دعوت دی، لیکن ہم وہ راجپوت ہیں جن کا راج نہیں رہا، لیکن بھوت باقی رہ گیا ہے چنانچہ ہم نے تحریک اصلاح تعلیم اور نئے رول ماڈل تعلیمی اداروں کے قیام کے محاذ سے نہ ہٹنے کی ضد میں ان سے معذرت کرلی۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم کوئی قلعہ فتح نہیں کرسکے، لیکن ہمارے نزدیک وفاداری بشرط استواری ہی اصل ایماں ہے۔ چنانچہ ہم اپنی ہٹ پہ قائم ہیں کہ غازی نہ بن سکے، شہید تو ہوں گے اور شہید بھی نہ ہوئے تو شہادت کی تمنا تو ہے۔ ہم معرکۂ کارزار میں تو ہیں، ہاتھ پاؤں تو چلا رہے ہیں __ اورممکن ہے ہمارے رب کو ہماری یہی ادا پسند آجائے۔
جب ہم نے پنجاب یونیورسٹی جوائن کی تو سرکاری ضرورت کے تحت ایک سال ہم نے جوغازی صاحب کے ساتھ اسلامی یونیورسٹی میں کام کیا تھا، اس کاتجربے کا سرٹیفکیٹ بھجوانے کی ان سے درخواست کی۔ انہوں نے سرکاری خط بھجوانے کے ساتھ جو ذاتی خط مجھے لکھا، وہ پڑھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور میں نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ میں مرجاؤں تو یہ خط میری قبر میں رکھ دینا کہ یہ ایک مسلمان کی دوسرے کے بارے میں بے ریا شہادت ہے۔ شاید اللہ اسے قبول فرمالے۔ اللھم اغفرلہ وادخلہ مدخلاً کریما وارزقہ جنۃ الفردوس۔ (بشکریہ ’البرہان‘ لاہور)

ایک بامقصد زندگی کا اختتام

خورشید احمد ندیم

ڈاکٹر محمود احمد غازی رخصت ہوئے۔ ایک با مقصد اور با معنی زندگی اپنے اختتام کو پہنچی۔ میری برسوں پر پھیلی یادیں اگر ایک جملے میں سمیٹ دی جا ئیں تو اس کا حاصل یہی جملہ ہے، لیکن غازی صاحب کے بارے میں ایک جملہ ایسا ہے کہ میں اس پر رشک کرتا ہوں۔ بہت سال ہو ئے جب غازی صاحب کے ایک دیرینہ رفیق نے ان کے بارے میں مجھ سے کہا: ’’میں نے علم اور تقویٰ کا ایسا امتزاج کم دیکھا ہے۔‘‘یہ بات کہنے والی شخصیت بھی ایسی ہے کہ میں ان کے علم اور تقویٰ دونوں پر بھروسہ کر تا ہوں۔ یہ گواہی وہ ہے جو یقیناًفرشتوں نے محفوظ کی ہوگی اوراللہ کے حضور میں ان شاء اللہ ان کی بلندئ درجات کا باعث بنے گی۔
غازی صاحب کے بارے میں ،میں یہ اطمینان کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے معاشرے میں اب شاید ہی کوئی ایسا ہو جو ان کی جگہ لے سکے۔ غازی صاحب ان لوگوں میں سے تھے جوقدیم اور جدید کا ایک امتزاج تھے، تاہم ان کا جھکاؤقدیم کی طرف رہتا تھا۔ یہ ان کی احتیاط کا اظہار تھا۔ دینی تفہیم و تعبیر کے معا ملے میں وہ با لعموم اسلاف کی رائے کے قریب رہنے کو تر جیح دیتے تھے۔ یہ محتاط روش یقیناًخیر کا باعث ہو تی ہے۔ اس میں آپ کسی غلط رائے کا بار اپنے سر لینے سے محفوظ رہتے ہیں۔ تاہم ایسا بھی نہیں تھا کہ وہ کسی مو قف کو غلط سمجھتے ہو ئے اُسے محض اس وجہ سے قبول کرلیں کہ وہ اسلاف کی رائے ہے۔ مثا ل کے طورپر وہ اکثر فقہا کی طرح عورت کی گواہی کو آدھی مانتے تھے، لیکن حدود کے مقدمات میں عورت کی گواہی کو قبول کر نے کے حق میں تھے۔ اس باب میں جمہور علما کی رائے یہ ہے کہ وہ حدود میں عورت کی گوا ہی مطلقاً قبول نہیں کر تے۔ 
غازی صاحب ایک کثیر المطا لعہ اورہمہ جہتی علم کے حامل تھے۔ دین کے حوالے سے وہ متعدد علوم میں ایک استاد کی دسترس رکھتے تھے۔ میں نے انہیں بارہا سنا اور پڑھا۔ سیرتِ صحابہ پر وہ گفتگو کرتے تومعلوم ہو تا کہ انہوں نے حرفِ آخر کہہ دیا ہے۔ اقبال کی عالمانہ تخلیق ’’جاوید نامہ‘‘ کی انہوں نے تسہیل کی۔ یہ کتاب اقبال کے علم اور شاعری کا ایک معجزہ ہے۔ اس میں اقبال نے اپنے پیر رومی کی معیت میں ایک روحانی سفر کیا ہے جس میں وہ متعدد افلاک پر جا تے ہیں اوران شخصیات سے ہم کلام ہو تے ہیں جو دنیا سے رخصت ہو چکیں۔ یہ مختلف ادیان اور افکار کے نمائندہ لوگ ہیں۔ اب اقبال ان سے جو مکالمہ کرتے ہیں اور ان کی زبان سے جو کہلواتے ہیں، اس کی تفہیم ممکن نہیں اگر پڑھنے والا ان کے فکر اورفلسفے سے واقف نہیں۔ مثال کے طور پر وہ روس کے بڑے ادیب ٹالسٹائی کا انتخاب کرتے ہیں تو سوچنا پڑتا ہے کہ اس انتخاب کی وجہ کیا ہے۔ اسی طرح وہ ابو جہل سے ایک نو حہ کہلواتے ہیں اور اس سے معلوم ہو تا ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے وہ کیا واقعہ پیش آیا جس نے ابو جہل کی دنیا اور آخرت برباد کر دی۔ غازی صاحب نے ’’جا وید نامہ‘‘ کے مضامین کو ایک عام آدمی کے لیے سہل بنا دیا۔ اس کے مطا لعہ سے ایک عام پڑھا لکھا آدمی بھی فکرِ اقبال کی رنگا رنگی سے واقف ہو جا تا ہے۔ اسی طرح انہوں نے بین الاقوامی قانون پر لکھا اور بہت عالما نہ انداز میں اس مو ضوع کو دیکھا۔ جنوبی ایشیا کی مسلم فکر پر بھی انہوں نے قلم اٹھایا۔ ان کی آخری تصنیف عربی زبان میں شیخ احمد سرہندی پر تھی جو بیروت سے شائع ہو ئی۔ غالباً بر صغیر کی ایک بڑی شخصیت کا عربی زبان میں یہ پہلا مفصل تعارف ہے۔
فقہ سے انہیں فطری منا سبت تھی۔ یہ وہ مو ضوع ہے جس پر وہی کچھ کہنے کا مجاز ہے جو ایک طرف روایت سے اچھی طرح آگاہ ہو اور دوسری طرف اپنے عہد کے مسا ئل سے بھی واقف ہو۔ یہ ان کا منفرد اعزازہے کہ دین کے حوالے سے پا کستان میں جو اہم دستاویزات سامنے آئیں، ان میں کسی نہ کسی طرح غازی صاحب کا حصہ رہا۔ مثال کے طور پر قادیانیوں کے حوالے سے جو آئینی ترمیم کی گئی، اس کی تیاری میں وہ مو لا نا ظفر احمد انصاری کے معاون تھے۔ ضیاء الحق صاحب کے دور میں جو حدود قوانین ملک میں رائج ہو ئے، وہ بڑی حد تک ان ہی کے تحریر کردہ تھے۔ وفات سے پہلے وہ وفاقی شرعی عدالت کے جج تھے۔ اس سے پہلے وہ سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ میں تھے۔ یہ ملکی قانون اور فقہ میں ان کی دسترس کا اظہار ہے۔ تدریس کے باب میں بھی ان کی خدمات بے پناہ ہیں۔ انہوں نے بہت سے شاگرد چھو ڑے ہیں جن کی حیثیت صدقہ جاریہ کی ہے۔ ان کی تعداد بہت ہے اور وہ ساری دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ اس سال کے آ غاز تک وہ قطر کی ایک یو نیورسٹی میں پڑھا تے رہے ہیں۔ 
اپنی طا لب علما نہ سر گر میوں میں، میں نے با رہا ان سے رجوع کیا اور ان کے علم سے فائدہ اٹھایا۔میری کتاب ’’علم کی اسلامی تشکیل‘‘ کا مسودہ انہوں نے دیکھا اور اس کو بہتر بنا نے کے لیے مشورے دیے۔یہ ان کی شفقت کا ایک انداز تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ محض میری ذات تک محدود نہیں۔ نہیں معلوم کتنے لوگوں نے ان کے علم سے فائدہ اٹھا یا اور آج ان کے ہاتھ اپنے پر وردگار کے حضور میں ان کی مغفرت کے لیے اٹھے ہیں۔
سچ یہ ہے کہ وہ ایک کامیاب آدمی کی طرح اس دنیا سے رخصت ہو ئے جسے قرآن مجید نفس مطمئنہ کہتا ہے۔ رات گیارہ بجے کے قریب انہیں دل کا دورہ پڑا۔ ہسپتال لے جا یا گیا ۔ چند گھنٹے بعد انہیں ہوش آیا۔اپنے بھائی محمد غزالی صاحب سے کہا کہ وہ گھر جا ئیں، میں بھی صبح تک لوٹ آؤں گا۔ فجر کی نماز کے لیے وضو کیا،بستر ہی پر نماز پڑھی اور تھوڑی دیر بعد اپنے آخری سفر پر روانہ ہو گئے۔ ہم تفہیمِ مدعا کے لیے اسے موت کہتے ہیں، لیکن یہ ایک دنیا سے دوسری دنیا میں قدم ر کھنا ہے۔ وہ اپنے جسمانی وجود کے ساتھ اب یہاں نہیں ہیں، لیکن اپنی کتابوں ، شاگردوں اور یادوں کے ساتھ یہیں ہیں، یہیں کہیں ہیں۔
لحد میں بھی یہی غیب و حضور رہتا ہے
اگر ہو زندہ تو دل نا صبور رہتا ہے
مہ و ستارہ مثالِ شرارہ یک دو نفس 
مئے خودی کاابد تک سرور رہتا ہے
فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا
ترے وجود کے مر کز سے دور رہتا ہے! 
(بشکریہ روزنامہ اوصاف، اسلام آباد)

اک دیا اور بجھا!

مولانا محمد ازہر

قحط الرجال کے موجودہ افسوس ناک دور میں جب کوئی ایسی ہستی جدا ہوتی ہے جس کا وجود مسائل و افکار سے پریشان اور رہنمائی کی متلاشی امت کے لیے مینارۂ نور کی حیثیت رکھتا ہے تو صدمہ اور غم دو چند ہو جاتا ہے۔اس لیے کہ اب دور دور تک ایسی شخصیات نظر نہیں آتیں جن کا اوڑھنا بچھونا علم ہو اور جن کا تعارف قرآن ،حدیث،فقہ اور علوم و فنونِ شرعیہ پر گہری دسترس ہو۔ معروف محقق و دانش ور،مصنف و ادیب،صاحب علم وفضل ڈاکٹر محمود احمد غازی کا شمار بھی ان اہل علم میں ہوتا تھا جن کی اہلیت و قابلیت اور دینی ثقاہت پر قدیم و جدید علما کا اتفاق تھااور عصری درس گاہوں سے وابستگی کے باوجود دینی مدارس کے اساتذہ و علما بھی ان کی تالیفات و تصنیفات سے استفادہ کرتے نظر آتے تھے۔افسوس کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی بھی۱۶ شوال المکرم ۱۴۳۱ھ (۲۶ ستمبر۲۰۱۰ء) کو علمی و تدریسی حلقوں کو سوگوار چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملے،انا للہ و انا الیہ راجعون!
ڈاکٹر صاحب کا تعلق ٹھیٹھ مذہبی گھرانے سے تھا۔داعی کبیر حضرت مولانا محمد الیاسؒ اور شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ ڈاکٹر صاحب کی والدہ کے سگے پھوپھا تھے۔آپ کے والد ماجد محمد احمدؒ مرحوم متدین و متبع سنت بزرگ تھے جنہوں نے ڈاکٹر صاحب کی دینی تعلیم و تربیت کا خاص اہتمام کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے درسِ نظامی کی ابتدائی تعلیم جامعہ اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی سے حاصل کی،جب کہ دینی علوم کی تکمیل شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خانؒ کے مدرسہ تعلیم القرآن راجہ بازار راولپنڈی میں کی اور مولانا ہی سے تفسیر قرآن کریم پڑھی۔ قرآن کریم کے پختہ حافظ تھے اور ہر سال رمضان المبارک میں قرآن کریم سنانے کا معمول تھا۔
ڈاکٹر محمود غازیؒ نے سترہ سال کی عمر میں تدریس کا آغاز کیا اور تا دم آخر اس فریضے کو نبھاتے رہے۔اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے تعلیمی سفر کو جاری رکھا اور پوسٹ گریجویٹ اور ڈاکٹریٹ کی ڈگریوں کی تحصیل کے بعد تصنیف و تالیف اور تحقیق و تدقیق کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔قدیم و جدید علوم پر دسترس اور خداداد غیر معمولی صفات و کمالات کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب مرحوم اپنی زندگی میں بہت سی اہم ذمہ داریوں پر فائز رہے۔ استاذ سے لے کر وزارت تک بہت سے مناصب پر آپ کی صلاحیتیں نمایاں ہوئیں۔حق تعالیٰ شانہ نے آپ کو تحریر و تقریر کا خاص ملکہ عطا فرمایا تھا۔ عربی ،فارسی،انگریزی،فرانسیسی اور اردو زبان کے بہترین خطیب و ادیب تھے۔ ہفت زبان ہونے کا محاورہ ڈاکٹر صاحب کے لیے مجازاً نہیں، حقیقتاً استعمال ہوتا تھا۔سرکاری مناصب پر فائز رہنے کے باوجودڈاکٹر صاحب قومی،ملی اور دینی تحریکوں کے پشت پناہ رہے۔قادیانی تحریک کے خلاف مسلمانوں کے متفقہ موقف کی ترویج و اشاعت کے لیے آپ نے گراں قدر خدمات انجام دیں اور جنوبی افریقہ کی ایک عدالت میں قادیانیوں کے مقابلے میں امت مسلمہ کا متفقہ موقف پیش کرنے کی ڈاکٹر صاحب کو سعادت عطا کی گئی۔
جامعہ خیر المدارس ملتان نے جب عصری تقاضوں کے پیش نظر ’’خیر المعارف‘‘کے نام سے ایک جدید درس گاہ قائم کی تو اس کے رسمی افتتاح کے لیے جامعہ کے مہتمم مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے ڈاکٹر صاحب کو دعوت دی۔ ڈاکٹر صاحب ان دنوں(۲۰۰۰ء)مذہبی امور کے وزیر تھے۔افتتاح کے موقع پر انہوں نے دینی علوم کی عظمت و اہمیت پر فاضلانہ خطاب فرمایا۔ اس کے ساتھ ایسے اہل علم کی ضرورت پر زور دیا جو دور جدید کے رجحانات پر ناقدانہ نظر رکھتے ہوں۔ ’’کتاب الآرا‘‘ میں اپنے تأثرات رقم کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے لکھا: 
’’ادارہ خیر المعارف پاکستان میں دینی تعلیم کے میدان میں ایک منفرد اور انقلابی تجربہ ہے۔اس ادارے کا مقصد ایسے علمائے دین تیار کرنا ہے جو ایک طرف سلف صالحین کے تقویٰ و للہیت کی صفت کے مظہر ہوں اور دوسری طرف جدید دور کے تقاضوں اور فکری رجحانات سے براہِ راست اور ناقدانہ واقفیت رکھتے ہوں۔مجھے امید ہے کہ ادارہ خیر المعارف اپنے پاک نفس اور پاک باز مدرسین کی اعلیٰ دینی روایات کو بلند سے بلند تر کرنے کے ساتھ ساتھ اس دور میں دینی قیادت فراہم کر سکنے اور دورِجدید کے رجحانات پر ناقدانہ نظررکھنے والے اہل علم پیدا کرے گا۔‘‘ 
حقیقت ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا شمار امت کے ان چیدہ چیدہ افراد میں ہوتا ہے جو ان کے بقول دور جدید کے رجحانات پر ناقدانہ نظر رکھتے تھے اور امت کو دینی قیادت فراہم کر سکتے تھے۔ راقم السطور کو دو چار مرتبہ حضرت ڈاکٹر صاحب کی مجلس میں بیٹھنے اور کسی حد تک استفادہ کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔ غیر معمولی علمی مقام کے باوجود ان کے عجز وانکسار،سادگی،نرم مزاجی اور دھیمے پن نے احقر کو بہت متأثر کیا۔ڈاکٹر صاحب کی گفتگو سلاست، بلاغت، متانت اور فقاہت کا مرقع ہوتی تھی۔ ایک مرتبہ جامعۃ الرشید احسن آباد کراچی میں ایک مجلس میں موضوع گفتگو مسلمانوں کی علمی،عملی اور معاشی زبوں حالی اور صورت حال کی تبدیلی،امکانات اور تجاویز تھا۔ اس مجلس میں بھی ڈاکٹر صاحب کی گفتگو نہایت پر مغز،معلومات افزا اور فاضلانہ تھی۔مسلمانوں میں پائی جانے والی ایک غلط فہمی کی اصلاح کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ ہمارے ہاں بہت سے حضرات سادہ لوحی سے مغرب کا مطالعہ کرتے ہیں اور مغرب کے ظاہری دعووں سے متأثر ہو جاتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مغرب نے مذہب کو گھر سے نکال دیا ہے اور اب مغرب مذہبی تعصب سے آزاد ہو گیا ہے جب کہ حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے اور مغرب کی ہر چیز عیسائی تہذیب و تمدن ،عیسائی روایات اور عیسائی تعصبات پر مبنی ہے۔یہ بات خود مغربی مصنفین نے بھی کہی ہے،لہٰذاعیسائیت کو مغرب سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔یہ سمجھنا کہ مغربی دنیا سیکولر ہے، اس لیے اسے مذہبی مفادات سے دلچسپی نہیں اور وہ مذہبی عصبیت سے بالاتر ہے، سادہ لوحی بلکہ بے وقوفی ہے۔
اپنی بات مدلل کرنے کے لیے ڈاکٹر صاحب نے اپنا ایک ذاتی تجربہ بیان کیا جس سے مسلمانوں کے بارے میں اہل مغرب کی عصبیت کا اندازہ ہوتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ جرمنی میں ایک اعلیٰ سطحی کانفرنس ہوئی جس میں دنیا بھر کے دانش وروں کو مدعو کیا گیا تھا۔اس میں عیسائی مندوبین کی تعداد ۶۰۰ تھی جب کہ پورے عالم اسلام کی نمائندگی کرنے والے مسلمان صرف تین تھے۔ سامعین جرمنی کے صف اول کے لوگ تھے۔ اس کانفرنس میں مجھے جس موضوع پر خطاب کا موقع ملا،وہ تھا:’’یورپ کی ٹیکنالوجی سے مسلمانوں کا رویہ کیسا ہونا چاہیے‘؟‘ اس پر میں نے عرض کیا کہ جب انگریز برصغیر میں آئے تو ان کی تہذیب و معاشرت،کلچر ،روایات اور ٹیکنالوجی کے بارے میں تین قسم کے نظریات اور رویے سامنے آئے۔بعض لوگ وہ تھے جنہوں نے مغرب کی ہر چیز کو ایک خطرہ سمجھا اور تہذیب و معاشرت سے لے کر ٹیکنالوجی تک مغرب سے درآمد شدہ ہر چیز کا مکمل مقاطعہ یا بائیکاٹ کر دیا۔ ایسے افرادکی تعداد بہت کم تھی اور یہ نظریہ بعدازاں ختم ہو گیا۔اب اس نظریہ کے لوگ نہیں پائے جاتے۔دوسرا نقطۂ نظر ان لوگوں کا تھا جنہوں نے بلا استثنا انگریزوں کی ہر چیز کو قبول کر نے کا نظریہ پیش کیا۔یہ نظریہ ابھی تک چل رہا ہے لیکن سو سال میں اس کا نتیجہ مسلمانوں کی ملی و تہذیبی تباہی کے سوا کچھ نہیں نکلا ۔ تیسرا رویہ اور نقطہ نظر یہ تھا کہ مغرب سے خیر کی چیزیں لے لی جائیں اور شر کی چیزیں چھوڑ دی جائیں جسے عربی میں ’’خذ ما صفا ودع ما کدر‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ایک معقول و معتدل نظریہ ہے اور مسلمانوں کو اسے اختیار کرنا چاہیے مگر میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میرے خطاب کے بعد جرمنی کے ایک سامع نے کہا کہ یہ آپ کا خیال خام ہے کہ آپ مغرب کی اچھی چیزوں سے استفادہ کریں اور جو آپ کی نظر میں اچھی نہ ہوں، انہیں چھوڑ دیں۔مغرب سے استفادہ کے لیے آپ کو مغرب کی تمام شرائط ماننا ہوں گی۔مثال کے طور پر اگر آپ مغرب کی ایجادات سے فائدہ اٹھاتے ہیں تو آپ کو سیکولر ڈیموکریسی اور مساواتِ مرد و زن کا فلسفہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا۔مجھے خیال ہوا کہ شاید یہ اس شخص کے ذاتی خیالات ہوں اور یہ شخص مسلمانوں کے بارے میں متشددانہ نظریہ رکھتا ہو،لیکن جب مجھے دوسرے مقامات پر جانے،لوگوں سے ملنے ،ان کے نظریات معلوم کرنے اور ان کی کتابیں پڑھنے کا اتفاق ہوا تو معلوم ہوا کہ اس مسئلے میں پورا مغرب یک زبان ہے اور وہ مسلمانوں کو ان کے عقیدے ،دین اور خیر کے مطابق زندگی گزارنے کا حق دینے کے لیے تیار نہیں۔
اس گفتگو سے شرکاے محفل کو اندازہ ہوا کہ ڈاکٹر صاحب مغربی افکار و نظریات پرنقد و محاکمے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے ہیں۔اس موضوع پر آپ کی کتاب’’اسلام اور مغرب کے تعلقات‘‘ اردو خواں حضرات کے لیے لائق مطالعہ ہے۔ حضرت ڈاکٹر صاحبؒ آج ہم میں نہیں رہے،اسکولوں اور کالجوں کے طلبہ تو کجا شاید دینی مدارس کے طلبہ کو بھی اس نقصان اور خلا کا اندازہ نہ ہو سکے جو ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی وفات سے ہوا ہے۔
جواب اس بات کا یارانِ محفل سوچنا ہوگا
ہمارے بعد ہم جیسے کہاں سے لوگ لاؤ گے
حق تعالیٰ شانہ ڈاکٹر صاحب مرحوم و مغفور کی کروٹ کروٹ مغفرت فرمائیں، آمین

ایک معتدل شخصیت

مولانا محمد اسلم شیخوپوری

بیس بائیس سال پہلے یہ ناچیز ماہنامہ ’’الاشرف‘‘ کا مدیر تھا۔ یہ ادارت اسے اتفاق سے مل گئی تھی، ورنہ وہ اس کا ہرگز اہل نہ تھا۔ الاشرف کے انتظامی معاملات کی دیکھ بھال مولانا محمد شاہد تھانوی رحمہ اللہ کیا کرتے تھے۔ اچانک عارضہ دل میں مبتلا ہوگئے اور پھر اسی مرض میں ان کا انتقال ہوگیا۔ تعزیت کے لیے ان کے گھر حاضر ہوا تو وہاں مہمانوں کا جمگھٹا لگا ہوا تھا۔ ان مہمانوں میں سے ایک کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ شاہ فیصل مسجد اسلام آباد کے خطیب ہیں۔ کاندھلہ کے مشہور علمی خانوادے سے ان کا تعلق ہے۔ انٹرنیشنل لیکچرار اور مبلغ ہیں۔ سات بین الاقوامی زبانوں پر انہیں عبور حاصل ہے۔ درسِ نظامی کے ساتھ پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹر اور پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کررکھی ہے۔ مدارس کی مخصوص فضا میں نشوونما پانے والے اس ’’ملا‘‘ نے جب اس خطیب اور مبلغ کے سراپا پر نظر ڈالی تو اسے کوئی ایسی نمایاں چیز دکھائی نہ دی جس کی وجہ سے وہ علامہ فہامہ جیسے القاب کے حقدار ٹھہرتے ہوں۔ دل ہی دل میں وسوسہ آیا: ’’خاندانی نسبت بھی کیا چیز ہے جو صاحبزادوں کے سرپر عزت اور شہرت کا تاج رکھ دیتی ہے، اگرچہ وہ مطلوبہ صلاحیت سے محروم ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘
پروفیسروں، مسٹروں اور ڈاکٹروں کے بارے میں دل میں یہ خیال جاگزیں تھا کہ یہ علمی تصلب اور علمی پختگی سے خالی ہوتے ہیں اور عوام پر اپنا رعب ودبدبہ محض ڈگریوں اور جدید اسلوبِ گفتگو میں مہارت کی وجہ سے قائم رکھتے ہیں۔ جن شخصیت کا تعزیتی اجتماع میں تعارف کرایا گیا تھا، انہیں بجائے شیخ الحدیث، شیخ التفسیر اور ماہر علوم عقلیہ ونقلیہ کے ڈاکٹر محمود احمد غازی کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ میں نے سوچا یہ بھی ویسے ہی ڈاکٹر اور پروفیسر ہوں گے جیسے اس قبیلے کے دوسرے افراد ہوتے ہیں۔ بات بات پر مغرب کی ترقی کے حوالے دینے والے، قدیم علما کو حقارت کی نظر سے دیکھنے اور اپنی علمیت کے بارے میں دھوکا کھا جانے والے، لیکن جب انہیں براہِ راست سننے اور ان کی کتابیں دیکھنے کا موقع ملا تو اپنی عاجلانہ سوچ اور وساوس پر سخت افسوس ہوا۔
حقیقت یہ ہے کہ وسعت مطالعہ، ذکاوت اور حافظہ قدیم وجدید کے اجتماع، اظہار مافی الضمیر کی قدرت، اسلام دشمن تحریکوں اور فتنوں سے آگاہی، تدریس، تقریر اور تحریر میں یکساں مہارت جیسی صفات جو باری تعالیٰ نے ڈاکٹر صاحب میں جمع کردی تھیں، ان صفات کے حامل موجودہ دور میں دوچار ہی دکھائی دیتے ہیں۔ ویسے تو پچیس کے قریب تصنیفات میں سے ان کی ہر تصنیف ہی ان کی متانت وثقاہت اور علمیت اور وسعتِ نظر کا شاہکار ہے، مگر چھ جلدوں میں ان کے جو محاضرات شائع ہوئے ہیں، کم ازکم اس عاجز کے علم میں ایسی ایسی کتابوں کے حوالے ہیں جن کا مطالعہ ہمارے ہاں متروک ہوچکا ہے اور ایسی ایسی معلومات ہیں کہ ذوقِ مطالعہ رکھنے والا انسان وجد میں آجاتا ہے۔ اس قسم کے متعدد محاضرات اور خطبات عربی اور اُردو میں شائع ہوچکے ہیں، مگر ان میں سے اکثر حقیقت میں وہ مقالات ہیں جنہیں پہلے حرف بہ حرف لکھا گیا اور پھر کسی علمی اجتماع میں یہ مقالات پڑھ کر سنادیے گئے مگر جناب غازی صاحب کے جو محاضرات طبع ہوئے ہیں، وہ ان کے ایسے لیکچر ہیں جو انہوں نے خواتین وحضرات کے منتخب اجتماع میں مختصر یادداشتوں کی بنا پر زبانی ارشاد فرمائے اور پھر صوتی تسجیل سے انہیں صفحہ قرطاس پر منتقل کیا گیا۔ یہ محاضرات چھ ضخیم جلدوں میں شائع ہوئے ہیں۔ ہر جلد ۱۲ خطبات پر مشتمل ہے۔ ان چھ جلدوں میں قرآن، حدیث، سیرت، فقہ، تصوف اور معیشت وتجارت کے مختلف پہلو زیربحث لائے گئے ہیں۔ 
ان محاضرات سے جہاں غازی رحمہ اللہ کے بے مثال حافظہ، وسعتِ فکرونظر اور علمی گہرائی کا اندازہ ہوتا ہے وہیں ان کی صفتِ اعتدال بھی نکھر کر سامنے آتی ہے اور اعتدال ایسی صفت ہے جو اہمیت کے باجود مفقود ہوتی جارہی ہے۔ ہمارے ہاں ہر معاملے میں افراط وتفریط پائی جاتی ہے۔ تبلیغ ودعوت ہو یا جہاد وقتال، سیاست وقیادت ہو یا طریقت وشریعت، مدح اور منقبت ہو یا تردید اور تنفید، ذکروعبادت میں انہماک ہو یا کسبِ معاش میں مشغولیت، ابلاغ کے جدید وسائل سے استفادے کا معاملہ ہو یا اختلافی مسائل میں بحث ومناظرہ کا، ہر جگہ اور ہر شعبہ میں افراط وتفریط آگئی ہے۔ کوئی اتنا تنگ نظر ہے کہ اس کے نزدیک دین نام ہے چند فرقہ ورانہ مسائل میں تشدد کرنے اور ظاہری شکل وصورت کو ’’باشرع‘‘ بنانے کا۔ کوئی ایسا وسیع الظرف ہے کہ وہ کفروایمان کا فرق بیان کرنے کو بھی فرقہ واریت سمجھتا ہے اور ظاہری اعمال کی اس کے نزدیک کچھ بھی اہمیت نہیں۔ تعریف اور تنقید کو دیکھیں تو بعض حضرات جب تک اپنے مخالفوں کو ابن اُبی اور ابولہب سے بدتر اور اپنے گروہ کے مشائخ کو ابن تیمیہ اور ابن قیم سے برتر ثابت نہ کردیں، انہیں چین ہی نہیں آتا، جبکہ ڈاکٹر صاحب فکرونظر اور کردار وعمل کے اعتبار سے انتہائی معتدل شخصیت تھے۔ اپنے دعوے کی تائید میں صرف دو مثالیں ذکر کرنے پر اکتفا کرتا ہوں۔
جب ڈاکٹر صاحب نے سیرت پر محاضرات پیش کرتے ہوئے ’’مطالعہ سیرت۔ پاک وہند‘‘ کے عنوان سے خطاب کیا تو اس میں انہوں نے یوپی کے لیفٹیننٹ گورنر سر ولیم میور کی کتاب ’’Life of Muhammad‘‘ اور اس کے جواب میں سرسید احمد خاں نے جو کتاب لکھی تھی، اس کا انہوں نے ذکر کیا۔ اس جواب کے لکھنے میں سرسید احمد خاں نے جو قربانیاں دی تھیں، ان قربانیوں کا بھی انہوں نے تفصیل سے ذکر کیا۔ انصاف کا تقاضا بھی یہی تھا کہ یہ سب کچھ بلاکم وکاست بیان کردیا جاتا، لیکن یہ سب کچھ بیان کرنے کے بعد انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا: ’’بطورِ سیرت کے ایک ادنیٰ طالب علم کے مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ سرسید کے بہت سے بیانات سے اتفاق کرنا مشکل ہے۔ کئی جگہ انہوں نے ایسی باتیں کہہ دی ہیں جو اسلامی نقطہ نظر کے مطابق نہیں ہیں۔‘‘ اس خطاب کے اختتام پر ان سے سوال کیا گیا: ’’کیا سرسید احمد خاں منکر حدیث تھے؟‘‘ انہوں نے جواب دیا: ’’یہ تو مجھے معلوم نہیں کہ وہ منکر حدیث تھے یا نہیں، لیکن ان کے بہت سے مذہبی خیالات سے اہلِ علم کو اتفاق نہیں تھا۔ یہ خیالات کمزور دلائل اور مغرب سے مرعوبیت کے نتیجے میں اختیار کیے گئے تھے۔ خود مجھے بھی ان خیالات سے اتفاق نہیں۔‘‘
اسی طرح ایک موقع پرا ن سے سوال کیا گیا تھا: ’’جن معاملات میں فقہا کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے، ان میں کس کی بات کو صحیح مانیں اور کس بنیاد پر؟‘‘ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا: ’’بنیادی بات تو یہ ہے جس بات کو آپ دلیل کی بنیاد پر زیادہ صحیح سمجھیں، اس کی پیروی کریں۔ جو چیز قرآن وسنت کے زیادہ قریب ہو، اس پر عمل کریں اور جو چیز قرآن وسنت کے حکم سے ہم آہنگ نہ ہو، اس پر عمل نہ کریں، لیکن اس کام کے لیے بڑے گہرے علم کی ضرورت ہے۔ یا تو وہ گہرا اور عمیق علم ہمارے پاس ہو اور اگر ہمارے پاس اس درجے کا علم نہ ہو تو جس کے علم پر ہمیں اعتماد ہو، اس سے پوچھ کر عمل کریں۔‘‘
(ہفت روزہ ضرب مومن کراچی)

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ، ایک مشفق استاد

شاہ معین الدین ہاشمی

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ سے میری پہلی باقاعدہ ملاقات علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے زیر انتظام ۱۹۹۳ء میں ایم فل علوم اسلامیہ کی ورکشاپ کے دوران ہوئی۔ وہ ریسورس پرسن کی حیثیت سے ورکشاپ میں تشریف لائے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس ورکشاپ میں علوم اسلامیہ کے بنیادی مصادر پر تعارفی گفتگو فرمائی۔ یہ گفتگو اتنی علمی اور موضوع پر اتنی مربوط تھی کہ اس سے قبل نہ تو کہیں پڑھی اور نہ سنی تھی۔ اس گفتگو میں ڈاکٹر صاحب نے علوم اسلامیہ کے مصادر سے متعلق تفصیل سے بات کی۔ علوم القرآن، علوم الحدیث، فقہ، تصوف کے تمام بنیادی مصادر پر تعارفی گفتگو فرمائی۔ ڈاکٹر صاحب کے اس لیکچر نے مجھے بہت متاثر کیا۔ اس سے ایک طرف مجھے یہ شوق پیدا ہوا کہ ہمیں اپنی تراث کا گہرائی سے مطالعہ کرنا چاہیے، دوسری طرف غازی صاحب سے قلبی تعلق بڑھتا چلا گیا۔
اس کے بعد دوسری ملاقات اس وقت ہوئی جب ہم ایم فل علوم اسلامیہ کے تھیسس کے لیے عنوان کی تلاش کے مرحلے میں تھے۔ یہ ۱۹۹۴ء کی بات ہے کہ شعبہ علوم اسلامیہ نے میری ریسرچ کے لیے عنوان منظور کرلیا اورمجھے ’’عہد نبوی میں اسلامی ریاست کے داخلی نظم و نسق‘‘ پر خطہ بنانے کو کہا۔ ڈاکٹر صاحب نے اس موضوع کو عرب قبائل کی شیرازہ بندی کے ساتھ مخصوص کر دیا اور میری خوش قسمتی کہ میرا اشراف بھی قبول فرما لیا۔ اپنے موضوع پر کام کرنے کے لیے ہدایات لینے کی غرض سے میں ان کے پاس حاضر ہوا۔ اس وقت آپ دعوۃ اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ اگرچہ ملاقات طے شدہ نہ تھی اور آپ کی دیگر مصروفیات بہت تھیں، تاہم آپ نے مجھے اندر بلا لیا ۔ ساتھ ساتھ دفتری لوگوں سے ملتے رہے اور مجھے موضوع سے متعلق بنیادی باتیں بتاتے رہے۔ یہ ملاقات تقریباً پچاس منٹ تک رہی جس میں مجھے بیس پچیس منٹ ملے۔ آپ نے موضوع پر مجھے ابتدائی اور اہم نکات بتائے۔ اس پہلی ملاقات میں ڈاکٹرصاحب نے میرے ذہن کو سیرت کے ان اطراف کی طرف منتقل کر دیا جن پر پہلے میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ میرا یقین یہ ہے کہ مجھے سیرت پر پڑھنے پڑھانے یا کچھ لکھنے لکھانے کاجو موقع ملا ہے، وہ اسی پہلی ملاقات کا ثمر ہے اور یہ ملاقات شاید ساری زندگی مجھے سیرت پر کام کرنے میں مدد دیتی رہے گی۔
ڈاکٹرغازیؒ گزشتہ دو دہائیوں سے اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز رہے جس کی وجہ سے آپ کی مصروفیات زیادہ ہو گئیں۔ اس کے باوجود آپ نے اپنا استاد ہونے کے تشخص کو نمایاں رکھا اور طلبہ سے تعلق میں کمی نہ آنے دی۔ میرے سمیت آپ کے اکثرشاگرد ہمیشہ وقت لیے بغیر ہی ملاقات کی غرض سے جاتے رہے۔ آپ طلبہ کے معاملے میں نہایت تحمل سے کام لیتے تھے اور نہایت شفقت سے پیش آتے تھے۔ میں نے دیکھا کہ آپ اپنے طلبہ کو زیادہ دیر تک انتظار میں نہیں بٹھاتے تھے اور نہ ہی مصروفیت کی وجہ سے واپس بھیجتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب مرحوم خود بھی کثیر المطالعہ تھے۔ اسی طرح وہ اپنے طلبہ میں بھی مطالعہ کا شوق پیدا کرتے رہتے تھے اور ان کی مناسبت سے مختلف کتب کی طرف نشان دہی بھی فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ فرمایا کہ ڈاکٹر فواد سیزگین کی کتاب Geschischte der Arabischen Schriftum  (تاریخ التراث العربی)اس قابل ہے کہ اس کے براہ راست مطالعہ کے لیے جرمن زبان سیکھ لی جائے۔ پھر فرمانے لگے کہ میں نے چار چھ مہینے لگا کر جرمن زبان کو اتنا سیکھ لیا ہے کہ اب میں آسانی سے اس زبان میں لکھے گئے مصادر سے استفادہ کر سکتا ہوں۔ ایک مرتبہ مجھے کہا کہ آپ نے قبائل عرب کے حوالے سے کام کیا ہے، لہٰذا آپ ابوالفرج اصبہانی کی کتاب الاغانی کا، جو کہ بائیس یا چوبیس جلدوں پر مشتمل ہے، شروع سے آخر تک مطالعہ کریں کیونکہ اس میں سیرت کے مختلف پہلوؤں سے متعلق خاصا مواد موجود ہے۔ پھر فرمانے لگے کہ میں نے یہ کتاب شروع سے آخر تک مکمل پڑھ لی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے امام شافعی کی کتا ب ’’الام‘‘ کا سات مرتبہ شروع سے آخر تک بالاستیعاب مطالعہ کیا۔ درجنوں مصادر علوم اسلامیہ ایسے تھے جنہیں آپ نے شروع سے آخر تک پڑھا۔
ایم فل علوم اسلامیہ کی تکمیل کے بعد مجھے یہ خیال ہوا کہ مجھے جلدپی ایچ ڈی کے لیے رجسٹریشن کروا نی چاہیے۔ میں نے جلدی میں معاہدات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ایک خاکہ تیار کیا اور ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اپنے ارادہ اور خواہش کا اظہار کیا اور اپنا خاکہ آپ کے سامنے رکھ دیا کہ اس پر رائے دیں۔ خاکہ دیکھنے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے علامہ اقبال ؒ کا یہ شعر سنایا:
نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی
اور اس موضوع پر مختلف کتب کی طرف نشان دہی فرمائی اور مزید مطالعہ کاکہا ۔ پھر چار برس تک مختلف اوقات میں مختلف کتب کے مطالعہ کا حکم دیتے رہے۔ بالآخر ۲۰۰۰ء میں جب میں نے اپنا خاکہ دوبارہ پیش کیا تو آپ نے نہ صرف اس سے اتفاق فرمایا بلکہ اس کا اشراف بھی قبول فرمایا۔ کلیہ عربی و علوم اسلامیہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد میں گزشتہ پندرہ برسوں کے تجربہ میں،میں نے یہ دیکھا کہ طلبہ کی رہنمائی کے حوالے سے آپ کو جب بھی کلیہ میں آنے کی دعوت دی گئی، آپ نے ایک مرتبہ بھی دعوت رد نہیں کی بلکہ نہایت خوشی خوشی کلیہ میں تشریف لاتے تھے اور اپنی دیگر مصروفیات کو ترک یا مؤخر کردیتے۔ اس کے لیے آپ عام طور پر مغرب کے بعد کا وقت پسند فرماتے تھے تاکہ وقت تنگ نہ ہو اورطلبہ زیادہ سے زیادہ استفادہ کر سکیں۔
ڈاکٹر صاحب کے فکر کی بہت سی اہم جہات ہیں جن پر بات کرنے کے لیے خاصا وقت درکار ہوگا، لیکن اس بات پرآپ کا ارتکاز رہا اور آپ اپنے طلبہ کے سامنے مختلف اوقات میں اس بات کو پرزور طریقے سے بیان کرتے رہے کہ اسلامی تحقیق کا سب سے بڑا کام تعمیر فکر کا ہے۔اس سے ان کی مراد اسلامی نقطہ نظر سے تمام علوم و فنون کی ترتیب نو اور تشکیل جدید ہے۔ اس میں جدید علوم کی تشکیل بھی شامل ہے اور قدیم اسلامی علوم کی تعمیر نو بھی، لیکن ڈاکٹر صاحب کے خیال میں تطہیر فکر کا عمل اس سے قبل ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ رائج الوقت علوم و فنون کا اسلامی نقطہ نظر سے تنقیدی جائزہ لے کر کھرے اور کھوٹے کو الگ کر دیا جائے۔ لیکن ان کے نزدیک علوم وفنون کی تدوین نوکے اس عمل کے انتظار میں ہم دوسرے شعبوں میں اسلامی نقطہ نظر سے اصلاحات کے عمل کو نہ تو ملتوی کر سکتے ہیں اور نہ مؤخر کر سکتے ہیں۔ ان کی رائے میں یہ دونوں کام ایک ساتھ ہی ہونے چاہئیں بلکہ اگر یہ دونوں کام ایک ساتھ شروع کیے جائیں تو دونوں ایک دوسرے کے ممد ومعاون اور تکمیل کنندہ ثابت ہوں گے اور ایک کی راہ میں حائل دشواریوں کو دور کرنے کی ہر کوشش دوسرے کی راہ میں حائل دشواریوں کو ختم کرنے میں بھی مدد دے گی۔ ڈاکٹر صاحب تعمیر و تطہیر فکر کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے تھے اور اپنے طلبہ اور دیگر اہل علم کو اس جانب توجہ دلاتے رہتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کے خیال میں علوم کی تنقید و تنقیح کے لیے امت مسلمہ کے پاس اب زیادہ وقت نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر مستقبل قریب میں امت مسلمہ یہ کام کرنے میں کامیاب ہوگئی تو خیر، ورنہ اسلامی اقدار و تہذیب کا احیا شاید ممکن نہ ہوسکے گا۔
علامہ اقبالؒ نے آج سے ساٹھ برس قبل جو بات اسلامی فقہ کے بارے میں کہی تھی، ڈاکٹر صاحب مرحوم کے خیال میں وہ آج سارے علوم و فنون پر صادق آرہی ہے اوراس وقت اس کی جتنی اہمیت تھی، آج اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ علامہ نے فرمایا تھا:
’’میرا عقیدہ یہ ہے کہ جو شخص زمانہ حال کے جورس پروڈنس (اصول قانون) پر ایک تنقیدی نگاہ ڈال کر احکام قرآنیہ کی ابدیت کوثابت کرے گا، وہی اسلام کا مجدد ہوگا اور بنی نوع انسان کا سب سے بڑا خادم بھی وہی شخص ہوگا۔ قریباً تمام ممالک اسلامیہ میں مسلمان یا تو اپنی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں یا قوانین اسلامیہ پر غور کررہے ہیں۔ غرض یہ وقت عملی کام کا ہے کیونکہ میری رائے میں مذہب اسلام گویا زمانہ کی کسوٹی پر کسا جارہا ہے اور شاید تاریخ اسلام میں ایسا وقت اس سے پہلے کبھی نہیں آیا۔‘‘ 
ڈاکٹر غازیؒ نے اپنی ساری زندگی ایسے ادارے اور رجال کار کی تیاری کے لیے وقف کر دی جو علامہ اقبال کے اس تصور کی تکمیل کر سکیں۔ 
ڈاکٹر صاحب کی فکر کا ایک اہم پہلو برصغیرپاک وہند کے دینی مدارس،ان کا نصاب اور ان کے فاضلین سے متعلق ہے۔ ڈاکٹر صاحب مدارس علوم دینیہ کے بارے میں نہایت متفکر رہتے تھے۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ اس نظام میں پڑھنے والے طلبہ بالخصوص ملک پاکستان میں اور بالعموم پوری دنیا میں خاص کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اس کے لیے کسی بڑے پیمانے کی نہیں بلکہ تھوڑی لیکن مناسب تبدیلیوں کی ضرورت ہے جن میں ایک ضروری چیز زبان ہے۔ مدارس کے طلبہ کو عربی اور انگریزی زبانوں کو بالخصوص اور دیگر اہم زبانوں کو بالعموم سیکھنے کی ضرورت ہے۔ آپ کا خیال تھا کہ زبانوں کو سیکھنے سے معاشر ے میں علما کی افادیت کہیں زیادہ بڑھ جائے گی۔ درس نظامی کے نصاب کے مقصد سے متعلق ایک مرتبہ فرمایا: سوال یہ ہے کہ درس نظامی کا یہ نصاب ملا نظام الدین سہالوی ؒ مرحوم و مغفور نے کیوں اور کس مقصد کے تحت مرتب کیا تھا؟ اس پر اگر ذہن صاف ہو اور تاریخی حقائق سامنے ہوں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ بر صغیر میں سلطنت مغلیہ کے آخری دور میں (جس کو آپ بر صغیر کی اسلامی تاریخ کا دور زوال اور دور انحطاط بھی کہہ سکتے ہیں) ریاستی نظام چلانے ،اسلامی عدالتوں کو قاضی ،مفتی اور مقنن فراہم کرنے کی خاطر یہ نصاب تیار کیا گیا تھا۔ یہ زمانہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا ابتدائی دور تھا۔جب اٹھارویں صدی میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے شاہ عالم سے دیوانی خرید لی تو کمپنی کے زیر انتظام صوبوں کے بارے میں یہ شرط رکھی گئی کہ وہاں کا نظام بدستور فقہ حنفی کے مطابق چلتا رہے گا۔اس نظام کے لیے کمپنی کے کار پردازوں نے بھی اپنے اہتمام میں درس نظامی کے کئی ادارے قائم کیے۔ یہ سلسلہ ۱۸۵۷ء میں سلطنت مغلیہ کے مکمل اور حتمی سقوط تک جاری رہا۔ بہر حال اس کے بعدچونکہ یہی نصاب موجود تھا اور اسی نصاب کے تیار کردہ علما دستیاب تھے،اس لیے جب دار العلوم دیو بند اور دوسرے مدارس قائم ہوئے تو انہوں نے اسی نصاب کو قابل عمل پایا اور اس کو اختیار کر لیا۔ لیکن دار العلوم دیوبند کے قیام کے بعد خود اس نصاب کو ’’حقیقی درس نظامی‘‘ نہیں رہنے دیا۔ آج کا رائج الوقت درس نظامی اصل درس نظامی سے بہت مختلف چیز بن چکا ہے، لیکن تاریخی تسلسل میں اگر اس کو درس نظامی کہا جائے تو اس میں کوئی قباحت معلوم نہیں ہوتی۔
ایک گفتگو کے دوران دینی مدارس کے مقصد سے متعلق فرمایا کہ ان اداروں کا بنیادی مقصد دینی علوم کے محققین، محدثین، مفسرین، فقہا، مبلغین اور عربی دان پیدا کرنا ہے۔ ان اداروں کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ ان میں محدثین، مفسرین، متکلمین اور فقہاے اسلام کے بجائے کمپیوٹر کے ماہرین پیدا ہوں۔ یہ دینی تخصص کے ادارے ہیں اور انہی رجال کار کی تیاری کے ادارے رہیں گے،لیکن ہم سب لوگ فرداً فرداً یہ بات محسوس کرتے ہیں کہ دینی مدارس کے متخصصین علما، فقہا، محدثین، مفسرین کو عصر حاضر میں اپنے تخصص کو عام لوگوں تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ اس تخصص کے مطابق، ملکی نظام کو ڈھالنے اور اس کے مطابق ملک کے مختلف اداروں کی تشکیل نو کے لیے بعض ایسی جزوی، معنوی تبدیلیوں یا جامع علوم اور مہارتوں کی ضرورت ہے جس کے بغیر دور جدید میں دینی تعلیم کے تقاضوں پر کما حقہ عمل درآمد نہیں کیا جا سکتا ۔
درس نظامی اور موجودہ حکومتی نظام کی دو الگ جدولوں کے نقصان کے بارے میں وہ فرماتے ہیں کہ ’’دو متوازی جدولوں کا وجود ہمارے ملک میں خاص طور پر اور دنیاے اسلام میں عام طور پر دین ودنیا میں تفریق کے نظریہ کو فروغ دے رہا ہے اور یوں سیکولر ازم کے غیر اسلامی تشخص کو پروان چڑھا رہا ہے۔ سیکولر ازم کا مقصد یہ ہے کہ دینی تعلیم اور مذہبی ہدایت ورہنمائی کو زندگی کے عملی میدان سے نکال دیا جائے جیسا کہ مغرب میں ہوا ہے اور دوسرے کئی ممالک میں ہو رہا ہے۔ ہمارے ملک میں تعلیم کے ان دو متوازی نظاموں کی وجہ سے اس کومزید مہمیز مل رہی ہے۔ تعلیم کے ایک نظام کا دائرہ صرف مسجد تک محدود رہے اور دوسرا نظام، زندگی کے بقیہ سب پہلوؤں کو چلاتا رہے تو اسی کو سیکولر ازم کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے عملاً سیکولر ازم ہمارے ملک میں آچکا ہے اور اگر گستاخی نہ ہو تو میں یہ بھی عرض کرنے کے لیے تیار ہوں کہ علما کے اس رویے سے سیکولر ازم کو فروغ ملا ہے۔‘‘ 
سیکولر ازم کی نظریاتی بنیاد کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ ’’وہ بنیاد موجودہ بائبل میں مندرج ہے (کس نے اور کب اس جملے کا اندراج کیا، اللہ ہی بہتر جانتا ہے) کہ ’’جو قیصرکا ہے، وہ قیصر کو دے دو اور جو اللہ کا ہے، وہ اللہ کو دے دو۔‘‘ اگر یہ سیکولر ازم کی بنیاد ہے تو پھر یہ بھی سیکولر ازم ہے کہ جو مذہبی تعلیم ہے، وہ مسجد میں ہو اور جو غیر مذہبی تعلیم ہے، وہ مسجد سے باہر ہو۔مسجد سے باہر دی جانے والی تعلیم معاشی، معاشرتی اور سرکاری نظام چلا رہی ہواور مسجد کی تعلیم کا دنیا کے ان مشاغل سے کوئی تعلق نہ ہو۔ یہی سیکولر ازم ہے۔‘‘
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے زیر اہتمام دینی مدارس میں تعلیم کے حوالے سے ایک سیمینار میں جس میں راقم بھی شامل تھا ،ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ ’’پچھلے چند مہینوں میں مجھے خاص طور پرملک کے انتہائی جید اہل علم سے اور بالخصوص بعض جید محترم علمائے کرام سے تبادلہ خیال اور استفادے کا موقع ملا ہے۔ علمائے کرام کی قابل لحاظ تعداد اس ضرورت کو محسوس کرتی ہے کہ’’دینی مدارس کے نظام اور نصاب میں مثبت تبدیلی لائی جانی چاہیے‘‘ لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ ملک کی دینی قیادت میں بعض انتہائی قابل احترام بزرگ ابھی تک ایک مختلف تصور پر سختی کے ساتھ قائم ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ مجھے ان میں سے بعض کی خدمت میں نیاز حاصل کرنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی ہے جنہوں نے ہر ایسے موضوع پر کسی قسم کی گفتگو کرنے، گفتگو میں حصہ لینے یا گفتگو میں شریک ہونے سے صاف صاف انکار فرمایا جس کا مقصد یہ ہو کہ دینی مدارس کی پیداوار یا دینی مدارس کے طلبہ کا معاشرے میں مسجد کی خدمت کے علاوہ بھی کوئی اور رول یا کردار ہو سکتا ہے۔ ایک بزرگ نے واضح اور دوٹوک الفاظ میں ارشاد فرمایا کہ :ہم تو مسجد کے ٹکڑوں پر پلنے والے کٹھ ملا ہی تیار کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارا اور کوئی مقصد نہیں اور دینی مدارس اس وقت تک ہی قائم رہ سکتے ہیں جب تک ان کو صرف مسیتیے پیدا کرنے ہوں۔ یہ الفا ظ خود انہوں نے اپنی زبان مبارک سے ادا فرمائے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب کے خیال میں اسلامی تعلیمات کی کما حقہ تفہیم دینی مدارس کا امتیاز ہے۔ آپ دینی مدارس کے کردار کو وسیع اور مفید بنانا چاہتے تھے۔ پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے زیر اہتمام ایک اجلاس میں آپ نے فرمایا: ’’کم و بیش گزشتہ ۳۵، ۴۰ سال سے میرے ذہن میں یہ خیال نہایت مستحکم ہے کہ ملک میں دینی اور اسلامی تعلیم کا ایک نیا جامع اور متوازن نظام وضع کیا جائے۔ اس نئے نظام کا بنیادی ہدف یہ ہونا چاہیے کہ پاکستان میں ایسے اہل علم اور ایسے علما تیار کیے جائیں جو ایک طرف اسلام کی تعلیمات کو کما حقہ گہرائی اور تعمق کے ساتھ سمجھتے ہوں، اخلاق و کردار میں ائمہ سلف کی تعلیم اور اسوہ حسنہ کا نمونہ ہوں اور دوسری طرف وہ دور جدید اور نئی تعلیم کی تحدیات (Challanges) کو ایک ناقدانہ انداز میں سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ دینی مدارس کے طلبہ کے لیے عہد جدید کے امور و حالات کو اچھے طریقے سے سمجھنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے اور یہ اسلامی شریعت کے نفاذ کے لیے نہایت ضروری ہے۔‘‘
ایک مرتبہ آپ نے فرمایاکہ ہمیں جس دور میں، جن حالات اور جس ماحول میں کام کرنا ہے، جن مسائل کا حل پیش کرنا ہے اور جن رکاوٹوں کو دور کرکے مملکت میں اسلامی شریعت کے نفاذ کے لیے کوشاں رہنا ہے، ان سب سے گہری اور ناقدانہ واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس کے لیے انہوں نے حضرت عمرؓ کی ایک مثال ذکر کی کہ آپؓ نے ایک مرتبہ کسی کو ایک خاص ذمہ داری پر فائز کرنے کے لیے اپنے ساتھیوں سے مشورہ مانگا۔ ایک صاحب کے بارے میں انہیں کہا گیا کہ وہ بہت متقی، پرہیزگار ہیں اور اتنے نیک ہیں کہ ’’کانہ لا یعرف الشر‘‘ (گویا کہ وہ شر کو جانتے ہی نہیں)۔ حضرت عمرؓ نے فوراً جواب دیا کہ مجھے ایسا آدمی نہیں چاہیے جو شر کو نہیں جانتا، اس لیے کہ ’’من لم یعرف الشر یوشک ان یقع فیہ‘‘ لہٰذا معلوم ہوا کہ شر سے بچنے کے لیے شر کو جاننا ضروری ہے۔اس بات کی مزید تفہیم کے لیے آپ نے ایک اور مثال بھی ذکر فرمائی۔ وہ یہ کہ اگر امام محمد کی کتابیں نہ ہوتیں تو امام ابو حنیفہ کے اجتہادات کا نوے فی صد حصہ ہم تک نہ پہنچ سکتا۔امام محمد بن حسن الشیبانی جب اپنی کتابیں مرتب فرما رہے تھے تو انہوں نے یہ اہتمام کیا تھا کہ اپنے وقت کا کچھ حصہ بازار میں گزاریں اور مختلف تجا رتی وبازاری سرگر میوں کا بذات خود جائزہ لیتے رہا کریں تاکہ ان کو یہ پتہ چلے کہ کاروبار کس طرح ہوتا ہے اور کس طرح کے مسائل ومشکلات کا کاروباری طبقے کو واسطہ پڑتا ہے تاکہ اسلامی فقہ کی تدوین میں ان مسائل ومشکلات کا خیال رکھا جا سکے۔بعد کے فقہاء کرام نے بھی اس رائے کا اظہار کیا ہے۔کہ ’’من لم یعرف اھل زمانہ فھو جاہل‘‘ یا ’’لیس بفقیہ‘‘ یعنی جو اپنے زمانے کے حالات نہیں جانتا، اس کو فقیہ بننے کا حق نہیں۔دوسرے لفظوں میں جو فقیہ بننا چاہتا ہے،جہاں وہ اسلامی علوم میں گہری بصیرت رکھتا ہو، وہاں اس کو زمانے کے حالات میں بھی گہری بصیرت رکھنی چاہیے۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی ؒ قدیم وجدید اسلامی افکار کے جامع تھے۔ ایک طرف آپ قدیم دینی افکار کے امین تھے اور دوسری طرف تیزی سے تغیر پذیر جدید معاشرے پر بھی نظر رکھے ہوئے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کا مقصد زندگی صرف اور صرف اسلام کا احیا اور اعلاء کلمۃ اللہ تھاجس کے لیے آپ نے اپنی حیات کے لمحات کو صرف کر دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کی مساعی جمیلہ کو شرف قبولیت عطا فرمائے اور آپ کے درجات کو بلند فرمائے، آمین۔

مصادر ومراجع 

ڈاکٹر محموداحمد غازی صاحب کے مندرجہ بالا فرمودات مختلف مقامات پر منعقد ہونے والی تقاریر کا حصہ ہیں جنہیں راقم نے خود سنا ہے، البتہ یہ مختلف کتب میں موجود ہیں۔ کتب کی تفصیل حسب ذیل ہے:
۱۔پہلی سالانہ رپورٹ،پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ،اسلا م آبا د ،طبع ،اکتوبر۲۰۰۲،ص:۱۳۳۔۱۴۰
۲۔دینی مدارس میں تعلیم،مرتبہ سلیم منصور خالد،طبع، iiit،اسلا م آبا د،ص:۶۱۔۷۸

روئے گل سیر نہ دیدم و بہار آخر شد

ڈاکٹر حافظ سید عزیز الرحمن

یہ ستمبر ۱۹۹۸ء کی ایک سرد مگر اجلی صبح کا ذکر ہے۔ میں بنوں میں ہوں اور ایک آواز کانوں میں پڑتی ہے: آئیے، فاروقی صاحب! بیٹھیے۔ میں سامنے دیکھتا ہوں تو ایک وجیہ، معتدل القامہ اور روشن شخصیت چھوٹی سی کار میں پچھلی نشست پر بیٹھ کر دروازہ بند کررہی ہے۔ میرا قیاس یہی ہوا کہ یہ ڈاکٹر محمود احمد غازی ہیں۔ برابر میں کھڑے ایک صاحب سے پوچھا تو تصدیق ہوگئی۔ ان کے ساتھ ان کے بہنوئی ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی تھے جو اس وقت اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے رئیس کلیہ علوم اسلامی تھے اور حال ہی ڈائریکٹر شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے منصب سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ اسے پہلی ملاقات تو نہیں کہا جاسکتا، پہلی اچٹتی ہوئی، ہلکی سی زیارت ضرور کہا جاسکتا ہے۔ یہ بنوں میں مولانا نصیب علی شاہ رحمہ اللہ کے زیر اہتمام ان کے ادارے المرکز الاسلامی میں دوسری فقہی کانفرنس کا ذکر ہے جس میں راقم بھی مدعو تھا۔ اب تو مولانا نصیب علی شاہ بھی مرحوم ہوچکے۔
ان دنوں ہم اپنے ادارے سے سیرتِ طیبہ پر ایک شش ماہی مجلے کے اجرا کے سلسلے میں سرگرم تھے۔ مشاورت جاری تھی۔ اہل علم سے رابطے ہورہے تھے۔ مجلے کے پہلے شمارے کی تیاریاں عروج پر تھیں۔ راقم نے دوسرے اہل علم کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں بھی خط ارسال کیا۔ خلافِ توقع جن چند حضرات نے فوراً جواب دینے کی زحمت کی، ان میں ڈاکٹر صاحب نمایاں تھے اور سب سے مفصل خط آپ ہی کا تھا۔ یہ ۱۹۹۹ء کے اوائل کی بات ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بلاتکلف ہمارے خیال اور ارادے کی ستائش کے بعد اس راہ میں آنے والی رکاوٹوں کا ذکر کیا اور پوری تیاری کے بعد حالات کا جائزہ لے کر ہی اس میدان میں آنے کی تاکید کی۔ السیرۃ کا پہلا شمارہ جون ۱۹۹۹ء/ ربیع الاوّل میں شائع ہوا۔ ۱۲؍ ربیع الاوّل کو سیرت کانفرنس، اسلام آباد میں شرکت کا اتفاق ہوا تو ’’السیرۃ‘‘ کا نیا شمارہ ساتھ تھا۔ ارادہ یہ تھا کہ کانفرنس سے فراغت کے بعد اسلامی یونیورسٹی میں ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کی کوشش کروں گا۔ ڈاکٹر صاحب اس وقت بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد کے نائب صدر (اکیڈمکس) تھے۔ اتفاق یہ ہوا کہ کانفرنس میں شرکت کے لیے اجتماع گاہ میں پہنچا تو ڈاکٹر صاحب وہاں موجود تھے۔ علم ہوا کہ آج دوسری نشست میں کلیدی خطبہ ڈاکٹر صاحب ہی کا ہے۔ افتتاحی نشست ختم ہوئی تو میں ابتدائی نشستوں پر چلاگیا جہاں ڈاکٹر صاحب قیام فرما تھا۔ چائے کا وقفہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب وہیں تشریف فرما رہے۔ میں سلام کرکے بیٹھ گیا اور ’’السیرۃ‘‘ کا پہلا شمارہ پیش کردیا۔ شمارہ خود راقم کا تعارف تھا۔ شمارہ دیکھ کر فوراً بولے کہ میں نے آپ کو بہت ڈرایا تھا۔ آپ نے ہمت کی، اللہ مبارک کرے۔ اب مسلسل نکالتے رہیے۔ اس وقت تک دادا جان حضرت مولانا سید زوار حسین رحمہ اللہ سے راقم کے تعلق کا ڈاکٹر صاحب کو علم نہ تھا۔ میں نے بتایا تو ڈاکٹر صاحب کے رویے میں اور انسیت آگئی۔ پھر جب تک دوسری نشست کا آغاز نہیں ہوامجھے، وہیں بٹھائے رکھا۔ نہ خود چائے کے لیے گئے، نہ مجھے اس قیمتی نشست کو چھوڑ کر جانا مناسب معلوم ہوا۔ یہ ڈاکٹر صاحب سے پہلی ملاقات تھی اور اس روز ڈاکٹر صاحب کا کلیدی خطبہ جو عدم برداشت کے قومی و بین الاقوامی رجحانات پر تھا، میرے لیے ڈاکٹر صاحب کو براہِ راست سننے کا پہلا اتفاق تھا۔ ڈاکٹر صاحب سے متعلق اس نشست میں قائم ہونے والا نقش اس قدر پختہ ہوا کہ پھر ڈاکٹر صاحب کی تقریروں اور تحریروں کا انتظار رہنے لگا اور ایک جستجو سی قائم ہوگئی کہ ان کی چیزیں اہتمام سے پڑھی جائیں اور بالالتزام جمع کی جائیں۔
ڈاکٹر صاحب ان خوش نصیب فضلا میں شامل ہیں جنہوں نے سترہ برس کی عمر میں تدریس کا منصب سنبھال لیا تھا اور اسلامی علوم و فنون کی نمائندہ و چنیدہ کتب کی تدریس ان کی زندگی کا حصہ رہی ۔یوں اکنافِ عالم میں ان سے استفادہ کرنے والے تلامذہ کی تعداد ہزاروں سے کم نہیں ۔ ڈاکٹر صاحب حافظ قرآن تھے اور رمضان المبارک میں اپنی رہائش گا ہ پر تراویح میں قرآنِ کریم سنانے کا اہتمام فرماتے تھے۔رمضان کے علاوہ بھی ڈاکٹر صاحب عام طور پر با وضو رہتے اور فارغ اوقات میں خصوصاً دورانِ سفر آپ کے لبوں پر تلاوتِ قرآن جاری رہتی۔
ڈاکٹر صاحب نہایت جفاکش ،محنتی،کمٹڈ اور دل درد مند رکھنے والے محقق، عالم ،مفکر ،داعی اور فقیہ تھے۔ آپ پاکستان میں اسلامی بینکنگ کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں ۔ تکافل کا ابتدائی خاکہ آپ ہی کا تشکیل کردہ ہے جس پر پاکستان سے پہلے بعض عرب ممالک میں عمل ہوا۔ ڈاکٹر صاحب پاکستان میں آئینی اور قانونی معاملات میں اسلامی دفعات کے بھی ماہر سمجھے جاتے تھے۔ جنرل ضیا الحق مرحوم سے لے کرجنرل مشرف تک ہر دور میں حکمران آپ سے اس سلسلے میں مستفید ہوتے رہے،یہ الگ بات ہے کہ حکومتی مزاج ڈاکٹر صاحب کی باتوں کو کس قدر ہضم کر پایا۔ ڈاکٹر صاحب ہمیشہ نتائج سے بے پروا ہو کر درد مندی اور خیر خواہی کے جذبے سے ہر حاکم وقت کو صحیح مشوروں سے نوازتے رہے۔ وفات سے کچھ عرصہ قبل ایک گفتگو میں انہوں نے فرمایا کہ مجھے اس نیک مقصد کے لیے کوئی آئندہ بھی بلائے گا تو میں جانے کو تیار ہوں۔
سود کے خلاف سپریم کورٹ کے مشہور اور تاریخ ساز فیصلے میں بھی ڈاکٹر صاحب بہ حیثیت جج شریعت اپیلٹ بنچ شریک رہے اور اس فیصلے کا بڑا حصہ ڈاکٹر صاحب ہی کا تحریر کردہ تھا۔اس بنچ میں مولانا مفتی محمد تقی عثمانی بھی شامل تھے۔ قادیانی تحریک کے خلاف مسلمانوں کے متفقہ مؤقف کی ترویج و اشاعت اور اس سلسلے میں ہونے والی قانون سازی میں بھی ڈاکٹر صاحب کی ماہرانہ رائے اور تگ و دو شامل رہی۔۸۰ کی دہائی میں جب اس سلسلے کا ایک مقدمہ ساؤتھ افریقہ میں قائم ہوا تو پاکستان کے علما اور قانونی ماہرین کا ایک وفد وہاں کے اہل علم کی دعوت پر معاونت کے لیے گیا،اس وفد میں ڈاکٹر صاحب بھی شامل تھے اور وہاں عدالت کے روبرو امت مسلمہ کا موقف پیش کرنے کی سعادت ڈاکٹر صاحب کے حصے میں آئی۔ اور بالآخر اس مقدمے میں عالم اسلام کے مؤقف کو غیر مسلم عدالت کے سامنے سرخ روئی حاصل ہوئی۔
ڈاکٹر صاحب انتہائی متدین اور حد درجہ متقی شخص تھے۔ بر س ہا برس کا مشاہدہ ہے کہ سرکاری ودفتری ذمے داریوں میں سرکاری مراعات سے کبھی ذاتی فائدہ نہیں اٹھایا۔ ڈاکٹر صاحب کا وجود عالم اسلام کے لیے بسا غنیمت تھا۔ بین الاقوامی فورم پر اسلام اور پاکستان کی نمائندگی کا جو سلیقہ ڈاکٹر صاحب کو حاصل تھا، اس کی مثال کم ملے گی۔ پھر علم وفضل اور دینی حمیت وتصلب کے ساتھ ساتھ حسن تکلم وحکمت کی دولت سے آراستہ تھے جس سے وہ ایسے مواقع پر بھرپور فائدہ اٹھاتے تھے۔
اس وقت ڈاکٹر صاحب کا جامعۃ الرشید میں ہونے والا خطاب میری آنکھوں کے سامنے گھوم رہا ہے جو چند برس پیش تر دورۂ قضا و تحکیم کے اختتامی روز فرمایا تھا۔ اس میں آپ نے مسلمانوں کی قضا کی پوری روایت اور اس کا محاکمہ اپنے اسلوب میں پیش کیا تھا۔ یہ خطاب لگ بھگ دو گھنٹے جاری رہا۔ اس کے اختتام پر ملک بھر سے آئے ہوئے مفتیانِ کرام نے متفقہ طور پر اس خطاب کو پورے کورس کا حاصل قرار دیا۔
علومِ اسلامیہ میں ایک عجب وحدت پائی جاتی ہے جو اسے دیگر علوم و فنون سے نمایاں و ممتاز کرتی ہے۔ قرآن کو سنت سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ فقہ کو حدیث سے جدا نہیں کرسکتے۔ سیرت اور تاریخ باہم پیوست ہونے کے ساتھ ساتھ قرآن و سنت سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔ یہی حال دیگر تمام علوم و فنون کا ہے۔ ہمارے ڈاکٹر غازی صاحب اس وحدت علوم اسلامی کی نمایاں زندہ، عملی اور نمایندہ مثال تھے۔ آپ سب ہی علوم و فنون سے آشنا تھے، سب سے واقف تھے، سب کے شناور تھے۔ تحریر و تقریر میں ان علوم و فنون کے باہمی تعلق کو ایسے غیرمحسوس انداز میں بیان کرتے تھے کہ حیرت ہوتی تھی۔ طرز استدلال اور قوت مشاہدہ، دونوں اس قدر قوی تھیں کہ ایسے نکات آپ تلاش کرلیتے تھے جس کی جانب دوسروں کی نگاہ نہیں جاتی۔ ڈاکٹر صاحب کا اسلوب استدلال ملاحظہ کریں تو معلوم ہوتا ہے، سیرت پر گفتگو کرتے ہوئے اصول فقہ سے استدلال کرتے ہیں جو ان کا خاص اور پسندیدہ موضوع ہے، تعلیم پر بات کرتے ہوئے تاریخ سے مدد لیتے ہیں اور قانونی امور پر بات کرتے ہوئے نفسیات کے نکات استشہاد میں پیش کردیتے ہیں۔ اس قوت استدلال واستشہاد کی معراج خصوصیت کے ساتھ محاضراتِ سیرت اور اس کے بھی دو خطبوں، کلامیاتِ سیرت اور فقہیات سیرت میں نظر آتی ہے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ پچاس پچاس صفحات کے یہ خطبے ہزار ہزار صفحات کی کتابوں پر بھاری ہیں۔
علم وفضل کے اس تنوع، تعمق اور تبحر کے باوجود مزاج میں ایسا اعتدال اور تواضع تھا کہ باید وشاید۔ دسیوں اہم ترین مناصب پر فائز رہنے کے باوجود، جن میں سے ایک ایک کی تمنا میں ہم جیسے پوری عمر بتا دیتے ہیں، ڈاکٹر صاحب کی نشست وبرخاست، تحریر وگفتار، رہن سہن اور ملنے جلنے میں نمودونمائش نام کو بھی نہیں تھی۔ تکلف سے کوسوں دور اور تصنع سے یکسر پاک تھے۔ ڈاکٹر صاحب کے قریبی عزیز انجینئر سید احتشام حسین راوی ہیں کہ وزارت کے زمانے میں ان کے والد کا پشاور میں انتقال ہوا۔ ڈاکٹر صاحب جنازے میں شرکت کے لیے آئے تو اپنی گاڑی اور عملے کو گھر سے فاصلے پر چھوڑدیا۔ فراغت کے بعد دوپہر میں سب آرام کرنے لگے۔ ڈاکٹر صاحب بھی ایک کمرے میں جگہ بناکر کونے میں لیٹ گئے۔ اب مہمانوں کی کثرت تھی، چھوٹا سا گھر اور جنازے کا موقع۔ کسی ضرورت سے وہ کمرہ خالی کرانا پڑا۔ کسی نے آواز لگائی تو ڈاکٹر صاحب بھی اٹھ گئے اور خاموشی سے دوسری جگہ تلاش کرنے لگے۔ جگہ نظر نہ آئی تو چپ چاپ گھر کے قریب ایک ناپختہ مختصر سی مسجد میں چلے گئے۔ کچھ دیر بعد ڈاکٹر صاحب کے لیے فون آیا تو ان کی تلاش شروع ہوئی۔ نہ ملنے پر کسی نے سوچا کہ قریبی مسجد میں جھانک لیں۔ دیکھا تو مختصر سی مسجد کے کچے صحن میں گرمی کے عالم میں دیوار کے سائے تلے اپنے جوتے سر کے نیچے رکھے مطمئن انداز میں آرام فرما ہیں۔ دیوار کا وہ سایہ نصف آدمی کے لیے ناکافی تھا۔ مسجد کا ہال جو صرف دو صفوں پر مشتمل تھا، بند تھا۔ اس لیے اس کے کچے صحن میں ہی جگہ مل سکی اور اسی پر قناعت کرلی۔
ڈاکٹر صاحب کا دل درد مند تھا جو خصوصاً اُمت مسلمہ کے حالات پر بہت کڑھتا تھا۔ مسلمانوں کی روایتی سستی وکاہلی، کام چوری، کج فہمی اور بدانتظامی پر پریشان رہتے۔ دو ڈھائی برس قبل جب قطر چلے گئے تو خصوصاً عالم عرب کو مزید قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اپنے مشاہدات وتجربات عندالملاقات گفتگو میں بیان کرتے رہتے تھے۔ ایک بار کہنے لگے، جب میں اسلام آباد میں یونیورسٹی میں تھا تو اپنے عملے کی سستی سے نالاں رہتا تھا، مگر جب سے یہاں آیا ہوں تو علم ہوا ہے کہ سستی کیا ہوتی ہے۔ اب تو مجھے اسلام آباد والے نہایت چست اور انتہائی متحرک محسوس ہونے لگے ہیں۔ عربوں کے روایتی طرزِ زندگی پر اس سے بہتر طنز شاید نہ ہوسکے۔ 
۲۰۰۸ء میں جون کے آخر میں مکہ مکرمہ میں بین الاقوامی کانفرنس برائے مکالمہ بین المذاہب منعقد ہورہی تھی۔ میں بھی مکہ مکرمہ میں تھا۔ ڈاکٹر صاحب کانفرنس میں شرکت کے لیے قطر سے وہاں تشریف لائے۔ حرم میں ملاقات ہوئی تو بتانے لگے آج مغرب میں جب حرم آنے لگے تو اہلیہ بھی ساتھ تھیں۔ انہیں صحن کعبہ میں خواتین کے لیے مخصوص حصے میں چھوڑنے جارہا تھا کہ ایک مطوعے نے روک لیا۔ کہنے لگا: حرام حرام، ممنوع ممنوع۔ میں نے کچھ پوچھنے کی کوشش کی تو اس نے مزید سخت لہجہ اختیا کرلیا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ میں خود اس امر کے حق میں ہوں کہ یہاں خواتین کا مردوں سے اختلاط نہ ہو اور ان کی جگہ مخصوص ہو، مگر اس کے لیے لوگوں کو مطلع تو کرنا چاہیے۔ راتوں رات نت نئے قوانین آجاتے ہیں اور دور دراز سے آئے ہوئے مسلمان زائرین پریشان ہوتے رہتے ہیں۔ بتانے لگے کہ کئی بار اعلیٰ ترین حکام کو اس جانب توجہ دلانے کی کوشش کی کہ زائرین کے لیے مختصر ہدایات چند بین الاقوامی زبانوں میں تیار کرکے انہیں یہاں آتے ہی فراہم کردی جائیں تو یہ بدنظمی نہ ہو۔ ملاقات میں تو وہ مان جاتے ہیں، بعد میں عملدرآمد نہیں ہوتا۔
راقم نے جب کبھی زحمت دی تو فوراً حامی بھر لی ۔چاہے کسی نوع کا کام ہو،میں نے کبھی ڈاکٹر صاحب سے کسی کام میں ’’نا‘‘ نہیں سنا۔ ہاں کوئی تجویز ہوئی تو صرف یہ کہا کہ اسے یوں کر لیں۔البتہ ایک بار کسی ٹی وی چینل سے مجھے پیغام ملا کہ ڈاکٹر صاحب کو ہمارے ہاں پروگراموں میں شرکت کے لیے رضامند کریں۔ میں نے بات کی تو صراحتاً تو منع نہیں کیا، البتہ اس قدر کہا کہ مجھے اس کام سے دور رکھو تو بہتر ہے۔ میں خود اس معاملے میں متردد تھا، سو اصرار نہیں کیااور بات آئی گئی ہو گئی۔
ڈاکٹر صاحب سے آخری ملاقات ان کی وفات سے چند روز قبل کراچی میں ہوئی جب وہ اسٹیٹ بینک کے شریعہ ایڈوائزری بورڈ کی میٹنگ میں شرکت کے لیے آئے تھے۔راقم کو ایک کام کے سلسلے میںیاد فرمایا۔ میں حاضر ہو گیا۔ جب پہنچا تو میٹنگ ختم ہو چکی تھی اور ڈاکٹر صاحب اےئر پورٹ روانہ ہو رہے تھے۔ مجھے اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھا لیا اور اےئر پورٹ تک ان کی معیت حاصل رہی۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ واپس پہنچ کر ڈاکٹر صاحب نے راقم کو خط لکھا جو راقم کے نام ڈاکٹر صاحب کا آخری خط ثابت ہوا۔ اس میں انہوں نے نہایت انکساری کے ساتھ معذرت کی کہ میری وجہ سے آپ نے زحمت کی،اللہ اکبر!
ڈاکٹر صاحب مومن کامل اور پکے پاکستانی تھے۔ جب بات نکلتی، پاکستان کی بات آتی، تحریک پاکستان کا ذکر ہوتا، قیام پاکستان کی مشکلات اور تعمیر پاکستان کے پہلے مرحلے کی بات ہوتی تو نہایت تیقن اور بھرپور جذبے کے ساتھ گفتگو فرماتے۔ ان کے خیالات سے ڈھارس بندھ جاتی، قوت ملتی، تحریک ہوتی اور انسان کو قوتِ عمل اور نیا ولولہ ملتا۔ ڈاکٹر صاحب کی گفتگو سن کر ہی یہ ارادہ ہوا تھا کہ خاص تحریک پاکستان اور قیام پاکستان پر ان کی تفصیلی گفتگو رکھی جائے اور ان سے استفادہ کیا جائے۔ زبانی اجازت بھی لے لی تھی۔ کسی مناسب موقع کا انتظار تھا کہ ڈاکٹر صاحب کا اپنا انتظار ختم ہوا اور وہ عجلت میں اپنے کام سمیٹتے ہوئے اپنے رب کے حضور حاضر ہوگئے۔ نہایت شاداں وفرحاں، کامیاب وکامراں، مطمئن وآسودہ۔
ہم جیسے دنیا دار یہی لکھیں گے کہ ڈاکٹر صاحب کی وفات بے وقت تھی۔ ہماری کوتاہ نظر مشیت الٰہی تک کہاں پہنچے اور کیوں کر پہنچے، مگر ڈاکٹر صاحب کا معمول یہ تھا کہ ہم ایسے ناکارہ لوگوں کی دعوت بھی کبھی رد نہیں فرمائی۔ جب کبھی زحمت دی، قبول کی۔ کسی نیک کام کا اعلان ہوا، انہیں ہمیشہ تیار پایا۔ ایسا شخص اپنے رب کے بلاوے پر کیسے تاخیر کرتا؟ نمازِ فجر ادا کی، برکت کے وقت برکتیں سمیٹیں اور اپنے رب کے حضور حاضر ہوگئے۔
بقا صرف ذاتِ حی وقیوم کے لیے ہے۔ ہاں! ڈاکٹر صاحب کی یاد عرصے تک لو دیتی رہے گی، بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا کو اندازہ ہوگا کہ ڈاکٹر صاحب کیا شخصیت تھے! یہ نقصان کسی ایک کا نہیں، پورے عالم کا نقصان ہے۔ نہ ایسی شخصیات روز روز پیدا ہوتی ہیں، نہ ایسے نقصانات کی تلافی کی صورت ہی نظر آتی ہے۔ اس دنیا میں ایک بار آجانے کے بعد جانے سے کسی کو مفر ہے؟ مگر انسانی فکر چوں کہ محدود ہے، اس لیے ایسے نقصانات میں جو پورے عالم کا نقصان ہو، ہمیں یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ حادثہ بے وقت تھا۔اگر یوں کہا جائے کہ ڈاکٹر صاحب جیسی صاحبِ علم و بصیرت ،صاحبِ تفقہ،متوازن و متواضع اور جدید و قدیم کی جامع شخصیت عالم اسلام میں کم ہو گی تو یہ بیان نہ مبالغے پر مشتمل ہوگا نہ محض عقیدت پر، بلکہ صرف حقیقت پر مبنی ہوگا۔
ڈاکٹر صاحب کی خدمات کا تنوع ایک تحریر نہیں، مسلسل تحریروں کا تقاضا کرتا ہے۔ یقیناًاہل علم اس جانب توجہ فرمائیں گے۔ خصوصاً ڈاکٹر صاحب کی علمی خدمات پر گفتگو اہل علم کو ہی زیبا ہے، مگر ڈاکٹر صاحب کی اچانک ناگہانی وفات نے ایک سکتہ سا پیدا کردیا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو اب تک یقین ہی نہیں دلاسکے کہ یہ حادثہ واقعی پیش آچکا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی صحت، غیرمعمولی محنت، مضبوط اعصاب، اپنے مشن کے ساتھ نہایت غیرمعمولی وابستگی اور سب سے بڑھ کر عمر، یہ سب عوامل مل کر ہمیں مطمئن کیے ہوئے تھے کہ ابھی تو ڈاکٹر صاحب سے استفادہ جاری رہے گا۔ ابھی تو تادیر ہم ان سے مستفید ہوتے رہیں گے۔ افسوس :
روئے گل سیر نہ دیدم وبہار آخر شد
بلکہ پورا شعر ہی حسب حال محسوس ہوتا ہے:
حیف در چشم زدن صحبت یار آخر شد
روئے گل سیر نہ دیدم وبہار آخر شد
ڈاکٹر صاحب سے وابستہ یاد یں بہت سی ہیں۔ ان کی ناگہانی اور الم ناک وفات نے یادوں کے دریچے کھول دیے ہیں، مگر انھی سطور پر ختم کرتا ہوں۔ یہ یادیں امانت ہیں۔حواس کچھ بحال ہوئے تو قدرے ترتیب سے یہ امانت لوٹانے کی کوشش کروں گا۔

یاد خزانہ

ڈاکٹر عامر طاسین

باشعور انسان اپنی زندگی میں ایک عجیب سا تأثر اُس وقت لیتا ہے جب اُس کی ملاقات کسی ایسی علمی شخصیت سے ہو جو کہ اپنی ذاتی زندگی میں ذکر و عبادت کی پابند ی کے ساتھ اس منزل پر پہنچ چکی ہو جہاں فہم وبصیرت کے تقاضے موجود ہوں، جہاں دینی حمیت و بیدارگی کی فکر ظاہر ہو، جہاں خداداد قوت فیصلہ کی صلاحیت اجاگرہو، جہاں تنقیدی سوچ وفکر کے بجائے اصلاحی مزاج جگہ لے لے، جہاں خود نمائی و خودغرضی کے بجائے عاجزی اور انکساری ہو، جہاں علوم وفنون کا بہتا سمندر ہو، جہاں روشن ستارے آپس میں ہر ایک کو اپنی کرنوں سے بلا تمیز رنگ و نسل و مسالک کو منور کرنے کو شش میں سرگرداں ہوں، جہاں کسی کے تند و تیز اورسخت لہجہ پر سکوت اور خاموشی ہو، جہاں چھوٹوں پر شفقت اور محبت کے پھول نچھاور ہوں، جہاں احترام واکرام موجود ہو، جہاں عصری تقاضوں سے ہم آہنگ فکر نے جمود کے سکوت کوتوڑا ہو، جہاں فکری روش روایت پرستی، روایت پسندی میں پنہا ہو، جہاں فکر وشعور کی ہر منزل پختہ ہو۔ اپنی بے نیازی میں دنیاوی منصب کی منفعت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے تدبیر انسانی کو ممیز و معقول کر کے تقدیر الٰہی پر صبر و شکر کرنے والے چند ہی لوگ نظر آتے ہیں اور ان میں ڈاکٹر محمود احمد غازی ؒ کا بھی نام سر فہرست نظر آئے گا۔ آج ایسا انسان دنیا سے چلا گیا جو عصری فقاہت و ذکاوت کا بادشاہ تھا، جس نے وہ فکر دی جس نے عصری تقاضوں پر مبنی مسائل کو ماضی کے فکری جمود سے آزاد کرانے میں دن رات سعی کی اور پھر ایسے مختلف موضوعات پر مبنی محاضرات پیش کیے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اُن کی زندگی کا بیش قیمت خزانہ تھے اور وہ اپنا سارا علمی خزانہ سرمایے کی طرح لوگوں میں نچھاور کرکے تا ابد اپنی تحریروں میں زندۂ جاوید ہوگیا۔
والد محترمؒ علامہ محمد طاسین کے انتقال کے کچھ دن بعد مجھے ڈاکٹر صاحب نے اسلام آباد سے ٹیلی فون کیا اور نہایت دردمندانہ لہجے میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے تعزیت کی اور یہ کہا کہ بظاہر یہ تو رسمی تعزیت ہے مگر سچ تو ہے کہ میں اپنے ایک استاد سے محروم ہو چکا ہوں۔ میں نے ایسے علما جن میں اجتہادی صلاحیتیں موجودہوں، کم ہی دیکھے ہیں۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ علامہ طاسین کی اجتہادی مسائل پر فکر آمیز تحریریں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ مولانا کے درجات کی بلندی کے ساتھ گھر والوں کے لیے بھی صبر جمیل کی دعاکی۔
والد صاحب ؒ کے انتقال کے کچھ عرصہ بعد ہی ڈاکٹر صاحب سے کراچی میں رابطہ ہوا اور اس وقت آپ سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ کے جج کے منصب پر فائز تھے اور ایک اجلاس میں کراچی تشریف لائے ہوئے تھے۔اس وقت شریعت اپیلیٹ بنچ میں سود کے مسئلے پر بحث وگفتگو جاری تھی۔ مجھے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صاحب بھی اسی بنچ میں موجود ہیں۔ ملاقات کی تمنا دل میں تھی کہ دوسرے دن ڈاکٹر صاحب کا گھر پرٹیلی فون آیا، انتہائی خوشگوار انداز میں اپنا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ محمود غازی بات کر رہا ہوں۔ مجھے ان کی آواز سن نہایت ہی مسرت ہوئی۔ حال احوال کے بعد والد گرامی ؒ کے وہ مضامین جو کہ اقتصادی موضوعات پر تحریر شدہ تھے، دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ 
میں دوسرے دن مقررہ وقت پر سیشن ختم ہونے پر ڈاکٹر صاحب کے چیمبر میں گیا۔ وہاں موجود ایک سپاہی کو آنے کی غرض بتائی۔ اُس نے اندر جاکر ڈاکٹر صاحب کو آگاہ کیا ۔ میں حیرت زدہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب خود دروازے پر آگئے۔ مصافحہ اورمعانقہ کرنے کے بعد بہت محبت سے ہاتھ پکڑ کر اندر کی جانب لے گئے۔ مجھے صوفے پربیٹھنے کو کہا اور خود برابر میں تشریف فرماہو گئے۔ حال احوال دریافت کرنے کے بعد میں نے وہ مضامین آگے کر دیے۔ ڈاکٹر صاحب بہت توجہ سے ہر مضمون کو دیکھتے ہوئے فرماتے کہ اگر مجھے ان مضامین کی نقول دستیاب ہو جائیں تو ممنون رہوں گا۔ میں نے اثبات میں جواب دیا اور وہی اصل مضامین ان کی خدمت پیش کردیے اور آپ نے فوری طور پر ان کی فوٹواسٹیٹ کے لیے ایک صاحب کی ذمہ داری لگائی۔ تب تک چائے آچکی تھی اور ڈاکٹر صاحب مجھے اس بات کی ترغیب فرمارہے تھے کہ مولانا کے بقیہ جتنے بھی مضامین رہ گئے ہیں، انہیں کتابی شکل میں لائیے ۔
ڈاکٹر صاحب اپنے ایک مضمون میں مولانا طاسین کی فکری خوبی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ 
’’اُنہوں نے ایک طرف اپنے خیالات میں خاصی پختگی پیدا کی تھی لیکن اُس کے باوجود اختلاف رائے کو نہ صرف برداشت کرتے تھے بلکہ اُس کا خیر مقدم بھی کیا کرتے تھے۔ وہ ان تمام لوگوں سے گفتگو کے لیے تیار رہتے تھے جو اُن سے مختلف رائے رکھتے تھے۔ اس سے اُن کے مزاج میں ایک ایسی وسعت اور فکر میں ایسی گہرئی پیدا ہو گئی تھی جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔‘‘ (تعمیر افکار، اشاعت خاص بیاد علامہ محمد طاسین، اگست ۲۰۰۶ء، ’’چند یادیں چند تأثرات‘‘، ص ۷۸)
میں سمجھتا ہوں کہ مرحوم ڈاکٹر صاحب کی مولانا طاسین ؒ کی فکر کے حوالے سے جوخیالات مجتمع تھے، وہ یقیناًسند کی حیثیت رکھتے ہیں اور میرے لیے بھی رہنمائی کا باعث ۔ لہٰذا والد صاحب کے انتقال کے بعد ایسی علمی شخصیات کے ساتھ میرا کسی قدرتعلق خود میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہ تھا۔ ان مضامین کی نقول آنے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے معلوم کیا کہ پڑھائی کہاں تک چل رہی ہے۔ میں نے بتایا کہ ایم اے اسلامیات کر لیا ہے اور پہلی پو زیشن حاصل کی ہے اور اب پی ایچ ڈی میں بھی داخلہ لے لیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب یہ جان کر بہت خوش ہوئے اور چند نصیحتوں کے بعد دعائیں دیتے ہوئے کہا کہ اجلاس کے ختم ہونے کے بعد وقت ہوا تو مجلس علمی(نئی منتقل شدہ جگہ) پر ضرورحاضر ہوں گا۔ میں اجازت لے کر روانہ ہوگیا ۔مجھے اُس وقت سب سے زیادہ خوشی اِس بات کی تھی کہ والد صاحب کے وہ مضامین ڈاکٹر صاحب کے لیے مددگار اور ملکی فیصلے میں کسی درجہ معان ثابت ہوں گے۔ 
اس کے کچھ عرصے بعد ڈاکٹر صاحب کا اسٹیٹ بنک کے شریعہ بورڈ کے اجلاس میں آنا ہوا۔ ڈاکٹر سید عزیز الرحمن کی وساطت سے پھر ملاقات ہوئی اور انہیں مجلس علمی آنے دعوت دی جسے وقت مقررہ پر قبول کیا۔ جب ڈاکٹر صاحب تشریف لائے اور لائبریری کو نئے سرے سے دیکھا تو بہت خوشی کا اظہار کیا اور کتاب تأثرات میں اپنے تاثرات قلم بند کیے۔ ڈاکٹر صاحب ؒ نے لکھا:
’’الحمد للہ آج کم وبیش بیس سال بعد پھر مجلس علمی میں حاضری کا اتفاق ہوا۔ اس ادارہ سے میری وا بستگی کم از کم چالیس پینتالیس سال پرانی ہے۔ اس ادارہ کے پاکستانی مؤسس مولانا محمد طاسین مرحوم سے میری ذاتی نیاز مندی ۱۹۷۲ کے لگ بھگ سے تھی جو اُن کی وفات تک جاری رہی۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ برادر عزیز محترم عامر طاسین کو توفیق، ہمت اور وسائل عطا فرمائے کہ وہ اِس ادارہ کو وطن عزیز کا ایک بہت معتبر علمی ادارہ بنا سکیں‘‘۔ (رجسٹر تأثرات، مجلس علمی کراچی ،۱،۶،۲۰۰۶)
میں والد صاحب کی حالات زندگی پراہل علم احباب کے علمی تأثرات جمع کر نے کی کوشش میں لگا ہوا تھا اور اس حوالے سے سب سے پہلے میں نے سابق چیف جسٹس شرعی عدالت محترم جسٹس تنزیل الرحمن صاحب کے گھر جا کر تأثرات حاصل کیے۔اُس کے بعد میں دیگر اور بھی کئی لوگوں سے رابطہ کیا۔ اُن میں اسلامی یونیورسٹی کے ڈاکٹر شیر زمان، ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری، ڈاکٹر صاحبزادہ ساجد الرحمن، ڈاکٹر سفیر اختراور ڈاکٹر محمود غازی بھی شامل تھے۔ مضامین اور تأثرات حاصل کرنے کے حوا لے سے میرا اسلام آباد جانا ہوا اور ان حضرات سے ملاقات کی۔ڈاکٹر صاحب کے پاس اس وقت غالباً اسلامی یونیورسٹی کے صدر کی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ وفاقی وزارت مذہبی امور کی ذمہ داری بھی تھی اور یقیناًڈاکٹر صاحب کی مصروفیات حد درجہ بڑھ چکی تھیں۔ میں نے کراچی سے نکلنے سے قبل کئی حضرات سے رابطہ کیا کہ میں اِس غرض سے آنا چاہ رہا ہوں۔ سب نے مجھے ملاقات کا وقت دے دیامگرڈاکٹر صاحب سے رابطہ نہ ہو سکا تھا۔ مختصر یہ کہ میں جب اسلام آباد پہنچا تو دیگر حضرات سے بھی ملاقات ہوتی رہی اور کچھ تأثرات تحریری جمع کر لیے تھے۔ اب وقت تھا کہ ڈاکٹر صاحب سے بھی ملاقات کی جائے۔ ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور وقت لینے کی خواہش ظاہر کی۔ اُنہوں نے مجھے دوسرے ہی دن اپنے دفتر وزارت مذہبی اُمور آنے کا کہہ دیا۔ میں دوسرے دن مقرر وقت پر ڈاکٹر صاحب کے پاس پہنچا۔ بہت عزت و تکریم وشفقت کے ساتھ باتیں کیں۔ میں نے والد صاحب سے متعلق ان کے علمی تأثرات لکھنے کے بجائے ریکارڈ کر لینے کو ترجیح دی اور پھر ڈاکٹر صاحب نے طویل گفتگو میں اپنے خیالات ریکارڈ کرائے۔ اس کے بعد میں نے ایک تصویر ساتھ کھنچوانے کی خواہش ظاہرکی، اِس کی بھی تکمیل ہوگئی اور پھرچائے و دیگر لوازمات کے بعد شکریہ کے ساتھ اجازت چاہی۔
میرا یہی ارادہ تھا کہ میں سفر میں ہی ریکارڈ شدہ گفتگو کو قلم بند کر لوں گا۔ جب کراچی واپسی کا ارادہ کیا تو عجیب معاملہ ہوچکا تھا۔ ٹیپ پر وہ گفتگو ریکارڈ تو ضرور ہوئی مگر کسی ٹیکنیکل خرابی کے باعث الفاظ اور جملے سمجھ میں نہیں آتے تھے۔ مجھے بہت دکھ اور افسوس ہوا کہ یہ کیا ماجرا ہوگیا۔ میں نے تو بہت مشکل سے ڈاکٹر صاحب کا وقت حاصل کیا تھا اور اب مجھے انہیں آگاہ کرنے میں تأمل رہا کہ کس طرح انہیں بتاؤں۔ ظاہر ہے میری کوتاہی کے نتیجے میں یہ سب کچھ ہوا تھا۔ خیرجب کراچی پہنچا توکچھ دن بعدبہت ہی شرمندگی کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کو ٹیلی فون کیا اور انہیں ماجرا سنا دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے بہت اطمینان کے ساتھ یہ جواب دیا کہ کوئی بات نہیں، مجھے اگرمولانا طاسین جیسی عظیم علمی شخصیت کے لیے دس مرتبہ بھی کچھ کہنا یا لکھناپڑے تو میرے لیے اعزاز ہوگا ۔ وہ میرے استاد تھے اور میں انہیں اپنا روحانی مربی بھی سمجھتا ہوں۔ آپ گھبرائیے نہیں، میں ان شاء اللہ خود آپ کو ایک مضمون لکھ کر روانہ کر دوں گا۔ مجھے مزید تسلی دیتے ہوئے کہا کہ اب آپ بے فکر رہیں، یہ میری ذمہ داری ہے اور پھر مجھے چند دنوں بعد ڈاکٹر صاحب کا مضمون ٹی سی ایس کے ذریعے موصول ہو گیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کا وہ مضمون ہم نے ماہنامہ ’’ تعمیر افکار‘‘ کے خاص نمبر (بیاد علامہ طاسین)میں شائع کر دیا۔
اسلام آباد سے واپسی کے بعد غالباً ایک ماہ بعد یہ خبر ملی کہ ڈاکٹر صاحب نے وزارت سے استعفا دے دیا ہے۔ میں نے ٹیلی فون کیا اور حال احوال دریافت کرنے کے بعد اس خبر کی تصدیق چاہی تو انہوں نے بتایا کہ یہ بات درست ہے۔ کچھ عرصے بعد پھر کسی وجہ سے اسلام آباد جانا ہوا اور ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ اُنہوں نے شام کے وقت گھر پر ہی بلا لیا تھا۔ اس وقت میرے بہنوئی اور بھانجے بھی ساتھ تھے۔ کافی دیر باتیں ہوتی رہیں، یہاں تک کہ ڈاکٹر صاحب خود ہی چائے و دیگر لوازمات کے ساتھ تواضع کرتے رہے۔ کوئی نوکر نظر نہیں آیا، خود گھر کے اندر سے لاتے اور پیش کرتے رہے۔ کچھ حالات کے پیش نظر گفتگو رہی اور پھر وزارت سے استعفا دینے کے متعلق بھی باتیں ہوتی رہیں۔ یہ بات تو طے شدہ تھی کہ ڈاکٹر صاحب ایسی علمی شخصیت تھیں کہ وہ جاہ و منصب کے لالچ سے بے بہرہ اور پاک تھے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے ان پر از خود کوئی ذمہ داری عائد کردی تو احسن طریقے سے نبھاتے بھی رہے، مگر جب کسی کادباؤ آتا تو معذرت کر لیتے اور ہر گز قبول نہیں کرتے۔ سفارش اور غیر قانونی کام کو ہمیشہ اپنے مزاج مطابق رّد کر دینے میں عافیت سمجھتے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ ہمیشہ کسی دباؤ میں آئے بغیر اس منصب ہی کو خیر باد کہہ دیا ۔ 
اس کے بعد ڈاکٹر صاحب ایک دن دعوہ اکیڈمی کراچی ریجنل سینٹر تشریف لائے، وہاں لیکچر کے بعد ایک دو جگہوں پر جانا تھا۔ مجھے ڈاکٹر سید عزیز الرحمن نے مجھے بلا لیا تھا اور اس طرح پھر ڈاکٹر صاحب سے نہ صرف ملاقات ہو گئی بلکہ ان کو ایک دو جگہوں پر لانے اور لے جانے کا بھی شرف حاصل رہا۔ اسی دوران پھر مجلس علمی بھی تشریف لائے اور کچھ مزید نئی تبدیلی پر خوش ہوئے۔ اسی اثنا میں مجلس علمی کے چیف ایگزیکٹو جناب رضا عبد العزیز صاحب بھی موجود تھے اور ان سے ملاقات پر ڈاکٹر صاحب بہت خوش ہوئے۔ کچھ تھوڑاسا تواضع کا بھی اہتمام تھا۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب کو دعوہ اکیڈمی جانا تھا۔ میں اپنی کار ڈرائیو کر رہا تھا اور ساتھ ہی ڈاکٹر سید عزیز الرحمن بھی موجود تھے۔ ہم جب وہاں پہنچے تو عصر کی نماز پڑھنے کے بعد فوراًبعد ائیر پورٹ روانگی تھی۔ وقت بہت کم ہی تھا۔ مجھے ڈاکٹر سید عزیز الرحمن نے کہا کہ کتنی جلدی ہو سکے پہنچنا ہے، کہیں فلائٹ مس نہ ہوجائے۔میں نے کہا بس دیکھیے، ان شاء اللہ فلائٹ مل جائے گی۔ بس پھر کیا تھا، ڈاکٹر غازی صاحب اور ڈاکٹر سید عزیز الرحمن کو لے ائیر پورٹ کی جانب تیزڈرائیو کرتے ہوئے پہنچ گئے۔ جہاز روانگی میں بیس منٹ رہ گئے تھے ۔ڈاکٹر صاحب کو الوداع کیا۔ جاتے وقت مجھے کہہ گئے کہ مجھے آپ کی تیز ڈرائیو یاد رہے گی اور شکریہ، جزاک اللہ اور سلام کے بعد ائیر پورٹ کے اندرکی جانب روانہ ہو گئے۔
اس کے بعد بھی جب کبھی ڈاکٹر صاحب کا کراچی آنا ہوتا، بالخصوص ڈاکٹر سید عزیز الرحمن صاحب اپنے ادارے میں لیکچرز کے لیے مدعو کرتے تو میں ضرور جاتا۔ اس بہانے نہ صرف ملاقات ہوجاتی بلکہ ان کے سیر حاصل علمی بیان سے فائدہ بھی بہت ہوتا۔ اگر کبھی کسی وجہ سے نہ جا سکتا تو دوسرے دن ٹیلی فون آجاتا یا پھر ڈاکٹر سید عزیز الرحمن کے توسط سے اُن کا سلام پہنچ جاتا۔ آخری ملاقات ڈاکٹر صاحب سے اُس وقت ہوئی جب آپ جامعۃ الرشید کے سالانہ کونووکیشن ۲۰۱۰ء میں مدعو تھے۔ آپ کے آخری علمی خطاب سے ہر ایک نے خوب استفادہ کیا۔ مجھے بھی ملاقات کا رسمی موقع ملا۔ ڈاکٹر صاحب کی چونکہ روانگی پہلے سے مقرر تھی، اس لیے صبح اسلام آباد روانہ ہو گئے۔
۲۶ ستمبر کو یہ خبر ملی کہ پیکر علم و عمل، نگاہ جود و سخا، محبت و شفقت کا امین، احترام و اکرام کا منبع اور وسیع علم سے سیراب کرنے والا اور ٹھاٹھیں مارتا ہوعلم کا یہ سمندر دنیا والوں کے لیے اپنے انمول علمی خزانے لٹا کر داعی اجل کو لبیک کہہ گیا۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ کل تک جس نے میرے والد پر مضمون لکھا، آج یہ وقت بھی آئے گا کہ میں اس عظیم علمی شخصیت پر اپنے رسمی تاثرات لکھنے کی کوشش کروں گا۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کے درجات بلند کرے اور ان کے علم کے چشمہ سے ہر ایک کو فیض حاصل کرنے کی تو فیق عطا کرے۔

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ چند تاثرات

محمد عمار خان ناصر

(۳ اکتوبر ۲۰۱۰ء کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں اور ۱۹؍ دسمبر ۲۰۱۰ء کو جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد میں ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم کی یاد میں منعقد کی جانے والی تعزیتی نشستوں میں جو گفتگو کی گئی، انھیں یکجا کر کے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ مدیر)

بسم اللہ الرحمان الرحیم۔ نحمدہ ونصلی ونسلم علی رسولہ الکریم اما بعد!
آج کی نشست، جیسا کہ آپ حضرات کو معلوم ہے، دینی علوم کے ماہر، محقق، اسکالر اور دانشور ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی یادمیں منعقد کی جا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اپنی حکمتوں کے مطابق اپنے فیصلے ہوتے ہیں۔ یہ نشست ہمارے پروگرام کے مطابق ڈاکٹر محمود احمد غازی کے افکار اور نتائج فکر سے مستفید ہونے کے لیے منعقد کی جانی تھی۔ اس سے پہلے جنوری ۲۰۰۵ء میں ڈاکٹر صاحب یہاں تشریف لائے تھے اور اہل علم کی ایک نشست میں نہایت ہی پرمغز گفتگو فرمائی تھی۔ اس کے بعد پھر کوئی ایسا موقع نہ بن سکا کہ وہ تشریف لاتے۔ رمضان المبارک میں ہم نے ڈاکٹر صاحب ؒ سے گزارش کی کہ وہ ’’دینی مدارس میں قرآن مجید کی تدریس کے تقاضے ‘‘ کے حوالے سے مجوزہ سیمینار میں اپنے نتائج فکر سے حاضرین کو مستفید کرنے کے لیے تشریف لائیں تو کمال عنایت سے انہوں نے یہ دعوت قبول کر لی اور اپنی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے اتوار کا دن مقرر کیا، لیکن اللہ تعالیٰ کے اپنے قضا وقدر کے فیصلے ہوتے ہیں۔ آج کی نشست میں ان سے مستفید ہونا مقدر میں نہیں تھا۔ چنانچہ ہم نے اس نشست کو ڈاکٹر صاحب ؒ کی یاد میں ایک تعزیتی نشست میں تبدیل کر دیا۔ اس سلسلہ میں جناب مولانا مفتی محمد زاہد صاحب نے پہلے ہی تشریف لانا تھا۔ ان کے ساتھ ڈاکٹر شہزاد اقبال شام صاحب سے گزارش کی گئی جن کی ڈاکٹر صاحب کے ساتھ کافی عرصہ سے رفاقت رہی ہے۔ وہ بھی تشریف لائے ہیں۔ میں ان کا اور اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے تشریف لانے والے دوسرے مہمانوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ 
ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی شخصیت، تعلیم وتحقیق میں ان کے مقام و مرتبہ اور ان کی خدمات کے تنوع اور وسعت پر تفصیل کے ساتھ ہمارے مہمانان گرامی گفتگو کریں گے۔ ویسے بھی مجھے ذاتی طورپر ڈاکٹر صاحب کو زیادہ قریب سے دیکھنے یا ان سے استفادہ کرنے کا موقع نہیں ملا، البتہ چند تاثرات کا اظہار میں ضرور کرنا چاہوں گا۔ 
چند سال قبل دعوہ اکیڈمی اسلام آباد میں ڈاکٹر صاحب کی سادگی اور تواضع کا ایک نمونہ دیکھنے کو ملا۔ دعوہ اکیڈمی نے ’’دینی صحافت‘‘ کے حوالے سے ایک ورک شاپ میں مختلف دانشوروں اور علماء کرام کو بلایا۔ والد صاحب کے ہمراہ میں بھی گیا ہوا تھا۔ پروگرام کے بعد کھانے کی میز پر والد گرامی کھانا کھا رہے تھے کہ اس دوران میں انھیں پانی کی ضرورت محسوس ہوئی لیکن پانی میز پر نہیں تھا۔ ڈاکٹر صاحبؒ نے محسوس کر لیا کہ وہ پانی پینا چاہتے ہیں مگر میز پر پانی نہیں ہے۔ اسی وقت فوراً لپک کر گئے اور پانی کا گلاس بھر کر مودبانہ طریقہ سے ان کے سامنے رکھ دیا۔ 
علمی حوالے سے آپ دیکھیں تو اگر ان کے مقالات، محاضرات اور مضامین کو جمع کیا جائے تو وہ سیکڑوں کی تعداد میں ہیں۔ ان کی کتابوں کی اشاعت کرنے والے حضرات بتاتے ہیں کہ کبھی بھی ڈاکٹر صاحبؒ نے اپنی لکھی ہوئی تحریروں کو جمع کر کے چھاپنے اور منظر عام پر لانے کی کوشش نہیں کی، بلکہ غالباً وہ اپنی تحریریں اپنے پاس محفوظ رکھنے کا بھی کوئی خاص اہتمام نہیں کرتے تھے۔ جب وفاقی شرعی عدالت میں حدود کے مقدمات میں خواتین کی گواہی کا مسئلہ زیر بحث تھا تو ڈاکٹرصاحب ؒ نے بھی اپنا نقطہ نظر لکھ کر عدالت میں پیش کیا کہ حدود کے مقدمات میں خواتین کی گواہی قبول کی جا سکتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے، میں نے ڈاکٹر صاحبؒ سے رابطہ کیا اور گزارش کی کہ مجھے آپ کا لکھا ہوا نقطہ نظر چاہیے، کیونکہ میں ایک بحث میں اس کا حوالہ دینا چاہتا تھا، لیکن وہ تحریر مجھے ڈاکٹر صاحب سے نہیں ملی۔ انھوں نے ’’فکر ونظر‘‘ کے دفتر میں کسی کے ذمے لگایا اور انھوں نے متعلقہ شمارہ تلاش کر کے مجھے بھجوایا۔ اس سے ڈاکٹر صاحبؒ کی علمی تواضع واضح ہوتی ہے۔ 
اگرچہ ڈاکٹر صاحب ؒ کی دینی تعلیم دیوبندی پس منظر ہوئی اور پھر وہ یونیورسٹی میں چلے گئے، لیکن میرے خیال میں جتنے بھی دینی کام کرنے والے ادارے اور حلقے ہیں، سب ڈاکٹر صاحبؒ کو اپنا اثاثہ سمجھتے تھے۔ ان کی دلچسپی اور مشاغل سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہر حلقے کے ساتھ وابستگی رکھتے تھے۔ اپنی تحقیق و تنقید میں کسی خاص مکتبہ فکر کی طرف جھکے ہوئے نہیں تھے اور آزادی سے مسائل پر غور وفکر کر کے رائے قائم کرتے تھے۔ مجھے ڈاکٹر صاحبؒ کے جنازہ پر جانے کا موقع نہیں مل سکا۔ اسلامی یونیورسٹی کے ایک پروفیسر صاحب نے، جو جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے ہیں، بتایا کہ ڈاکٹر صاحب ؒ کے جنازہ پر مجھے ایک بات پر بہت دکھ ہوا۔ جو بزرگ جنازہ پڑھانے کے لیے تشریف لائے تھے، غالباً مولانا مشرف علی تھانوی صاحب تھے، وہ بار بار یہ کہہ رہے تھے کہ ڈاکٹر صاحب ؒ کی وفات سے علماء دیوبند کا بہت نقصان ہوا ہے۔ ہمیں بہت دکھ ہو رہا تھا کہ یہ ڈاکٹر صاحب ؒ کو محدود کیوں کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ؒ صرف مسلک علماء دیوبند کا اثاثہ نہیں تھے بلکہ دوسرے مکاتب فکر کے حضرات بھی انھیں اپنا ہی سمجھتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب کے خیال میں جو ادارے اور شخصیات کسی بھی نوعیت کی دینی وعلمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کام کر رہے تھے، وہ ان کی حوصلہ افزائی فرماتے رہتے تھے۔ یہی معاملہ ہمارے ساتھ بھی تھا۔ چنانچہ جنوری ۲۰۰۵ء کی بات ہے۔ وہ ہمارے ہاں تشریف لائے اور گفتگو فرمائی تو مجھے اس وقت بھی ان کے ایک جملے پر حیرت ہوئی اور اب بھی حیرت ہوتی ہے۔ کہنے لگے کہ الشریعہ اکادمی جس نوعیت کا کام کر نا چاہ رہی ہے، وہ میرے خیال میں دارالعلوم دیوبند سے بھی زیادہ اہم ہے۔ انہوں نے کس ذہنی تناظر میں یہ بات کہی، یہ الگ بات ہے۔ میرے خیال میں یہ بات انہوں نے حوصلہ افزائی کے لیے کی کہ اس کام کو معمولی سمجھ کر چھوڑ نہ دیں۔ ظاہر ہے کہ اس کام کو معیار اور مقدار کے حوالے سے دارالعلوم دیوبند سے کوئی نسبت نہیں ہے۔ یہ صرف حوصلہ افزائی تھی۔ 
ڈاکٹر صاحب ؒ بڑی پابندی، اہتمام اور دلچسپی کے ساتھ الشریعہ اکادمی اور اس کی سرگرمیوں کے بارے میں آگاہ رہتے تھے اور گاہے گاہے پیغامات اور خطوط کے ذریعے سے ہماری حوصلہ افزائی بھی فرماتے رہتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب ؒ کے مضامین بھی ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ میں چھپتے رہے ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے ایک دوست نے ان کے ایک خط کی فوٹو کاپی بھیجی ہے۔ انہوں نے سیرت کے موضوع پر ڈاکٹر صاحب کے محاضرات کی تلخیص اور تخریج کا پروگرام بنایا اور نمونے کے طور پر ایک محاضرے کی تلخیص ڈاکٹر صاحب کو بھیجی تو ڈاکٹر صاحب نے انہیں مشورہ دیا کہ اس کو کتابی شکل میں شائع کرنے سے پہلے کسی مجلہ میں شائع کرا دیں اور خود ہی ماہنامہ الشریعہ کا نام بھی تجویز فرمایا کہ اس مقصد کے لیے وہ بہتر رہے گا۔
ایک طالب علم کی حیثیت سے مجھے ڈاکٹر صاحب کے علمی افادات اور خاص طورپر ان کے سلسلہ محاضرات کا مطالعہ دلچسپی سے کرنے کا موقع ملا ہے۔ اس سلسلہ محاضرات میں ڈاکٹر صاحب نے جن موضوعات کے حوالے سے امت کی راہ نمائی کی ذمہ داری انجام دی ہے، واقعہ یہ ہے کہ اس خاص دائرے میں اس کی اہلیت رکھنے والے حضرات کو انگلیوں پر شمار کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب قدیم وجدید علوم پر گہری نظر رکھتے تھے، دور جدید کے فکری وتہذیبی مزاج اور نفسیات سے پوری طرح باخبر تھے اور آج کے دور میں اسلام اور مسلمانوں کو فکر وفلسفہ، تہذیب ومعاشرت، علم وتحقیق اور نظام وقانون کے دائروں میں جن مسائل کا سامنا ہے، وہ وسعت نظر، گہرائی اور بصیرت کے ساتھ ان کا تجزیہ کر سکتے تھے۔ آخری سالوں میں اللہ تعالیٰ نے انھیں مختلف موضوعات پر جس مقبول عام سلسلہ محاضرات کی توفیق ارزانی فرمائی، وہ ان کے غیر معمولی فہم وادراک اور علم وبصیرت کا ایک مظہر ہے۔ 
اس سلسلہ محاضرات کی پہلی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ ان سے ایک جامع اور فکری اعتبار سے مربوط ورلڈ ویو سامنے آتا ہے۔ صاحب محاضرات کو اسلام کی فکری ونظریاتی اساسات، اس کے تاریخی کردار اور دنیا کی دوسری نظریاتی اور سیاسی طاقتوں کے ساتھ اسلام کی آویزش کے مختلف مراحل سے بخوبی واقفیت ہے اور وہ اس تاریخی ونظریاتی تناظر میں موجودہ دور میں امت مسلمہ کی صورت حال، اس کو درپیش مسائل ومشکلات اور اقوام عالم کے درمیان اس کے کردار کے مختلف پہلووں پر گہری نظر رکھتا ہے۔ اپنی منصبی ذمہ داری کے لحاظ سے امت مسلمہ پر فکر وفلسفہ، معاشرت، سیاست اور تہذیب وتمدن کی داخلی تشکیل کے حوالے سے کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور اقوام عالم کے ساتھ تعامل اور تفاعل کے زاویے سے معروضی صورت حال کے تقاضے اس سے کیا ہیں، یہ سب پہلو اس ورلڈ ویو میں ملحوظ ہیں اور اس بحث کے اہم گوشوں پر تفصیلی بحث کے ساتھ ساتھ بہت سے جزوی امور پر بھی ایسے اشارات ملتے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ صاحب محاضرات نے جن موضوعات پر گفتگو کی ہے، وہ اس کے ذہن میں موجود ایک مربوط فکری اسکیم کا حصہ ہیں۔ 
دوسری اہم خصوصیت یہ ہے کہ ان محاضرات میں گفتگو کا تناظر کتابی نہیں بلکہ واقعی ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ معاصر فکری تناظر سے کٹا ہوا نہیں، بلکہ اس سے جڑا ہوا ہے۔ قرآن، حدیث، شریعت، سیرت اور فقہ جیسے خالص علمی اور اکیڈمک نوعیت کے موضوعات میں بھی کلاسیکی اور روایتی علمی بحثیں گفتگو کے پس منظر میں تو دکھائی دیتی ہیں، لیکن مسائل وموضوعات اور نکات بحث کا انتخاب خالصتاً معاصر علمی وفکری اور واقعاتی تناظرمیں ہوا ہے اور صاحب محاضرات نے جدید ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات اور اشکالات کے اہم گوشوں پر اپنا تجزیہ تفصیلاً پیش کرنے کے علاوہ بہت سے ذیلی اور جزوی امور پر ایسے اشارا ت بھی بیان کیے ہیں جنھیں بوقت ضرورت اجمال سے تفصیل میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔ محاضرات کی یہ خصوصیت اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ صاحب محاضرات کا مطمح نظر درحقیقت نظری علمی بحثوں کے حوالے سے اپنی ترجیحات کا بیان یا نبوغ علمی کا اظہار نہیں، بلکہ اس ہمہ گیر فکری کنفیوژن سے نکلنے میں مدد دینا ہے جس سے اس وقت امت دوچار ہے۔ 
تیسری اہم خصوصیت مطالعہ اور معلومات کی وہ وسعت ہے جس سے کوئی بھی قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور جو خاص طورپر اس پہلو سے زیادہ قابل رشک اور موجب حیرت ہے کہ یہ خطبات مختصر نوٹس کی مدد سے زیادہ تر حافظے اور یادداشت کی بنیاد پر دیے گئے۔ علمی مآخذ کے حوالہ جات بہت زیادہ نہ ہونے کے باوجود بحثوں کی نوعیت اور تجزیے کے دروبست سے صاف دکھائی دیتا ہے کہ صاحب محاضرات نے اس موضوع پر قدیم وجدید لٹریچر کا وسیع مطالعہ کیا ہے اور مختلف علمی دائروں میں نشو ونما پانے والی بظاہر الگ الگ بحثوں کا باہمی ربط متعین کرنے کے ضمن میں اس کے ہاں ایک طویل ذہنی عمل ہوا ہے۔ محاضرات سے کلاسیکی علمی ورثے سے عالمانہ واقفیت اور معاصر اہل علم کی ذہنی وفکری کاوشوں اور علمی رجحانات پر گہری نظر، دونوں کی غمازی ہوتی ہے اور اسلامی علوم کے طلبہ اگر مطالعہ اسلام کی وسیع الاطراف علمی روایت کا ایک عمومی تعارف حاصل کرنا چاہیں تو یہ سلسلہ محاضرات اس کے لیے ایک راہ نما ثابت ہو سکتا ہے۔ 
چوتھی اہم خصوصیت یہ ہے کہ ان محاضرات میں مغربی فکر، اس کی اساسات اور اس کے تہذیبی مزاج پر بھی ایک بھرپور تبصرہ آ گیا ہے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ فکر اسلامی کے مختلف شعبوں کا مطالعہ دراصل مغربی زاویہ فکر کے ساتھ تقابل کے انداز میں ہو ا ہے اور دونوں فکری نظاموں کی اساسات، امتیازی خصائص اور باہمی تناقضات کی تعیین وتنقیح کا رنگ اس پورے سلسلہ محاضرات پر غالب ہے۔ اس تجزیے میں اعتدال اور توازن پایا جاتا ہے، چنانچہ نہ تو مغرب کے تہذیبی استیلا پر فرسٹریشن اور جھنجھلاہٹ کا اظہار کرتے ہوئے اہل مغرب کی ہر بات کی نفی کا رویہ اپنایا گیا ہے اور نہ اس کی تہذیبی چکاچوند اور اقتصادی ترقی سے مرعوب ہو کر اسلام اور امت مسلمہ کے تہذیبی ومزاجی خصوصیات سے دست برداری کا سبق دیا گیا ہے۔ اس گفتگو میں سیاسی اور صحافتی انداز کے سطحی تجزیے اور تبصرے بھی نہیں کیے گئے اور عمرانی علوم، قوموں کی اجتماعی نفسیات اور تہذیبی مطالعے کے معروضی اصولوں کی روشنی میں صورت حال کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔
یہاں ضمناً ایک نقطہ نظر پر تبصرہ بھی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں ایک خاص حلقہ فکر کی طرف سے یہ بات بڑے زور وشور سے اٹھائی گئی ہے کہ عالم اسلام کے طول وعرض میں اور خاص طور پر برصغیر میں جن اصحاب علم ودانش نے اسلام اور جدید مغربی فکر وتہذیب کے باہمی تعلق کے حوالے سے اپنے خیالات پیش کیے، وہ مغربی فکر سے مناسب واقفیت نہیں رکھتے اور اگرچہ اسلام اور اسلامی شریعت وفقہ پر انھیں عبور حاصل ہے، لیکن مغربی فکر وفلسفہ سے کماحقہ واقف نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے معاشرتی، معاشی اور سیاسی اجتہادات میں گمراہی کا شکار ہو گئے ہیں۔ 
میری طالب علمانہ رائے میں اس زاویہ نظر میں دو چیزوں کو گڈ مڈ کر دیا گیا ہے۔ ایک چیز ہے وہ خاص ذہنی رو اور وہ مخصوص احساس اور رجحان جو ایک اخلاقی قدر کی صورت اختیار کر کے کسی تہذیب کے رگ وپے میں سرایت کر جاتا، ا س کے ظاہر وباطن کا عنوان بن جاتا اور اس کے پورے وجود کا احاطہ کر لیتا ہے، جبکہ دوسری چیز ہے اس رجحان اور احساس کی تعبیر وتشریح اور اس کو فکر وفلسفہ کی صورت دینے کے لیے کی جانے والی ذہنی کاوشیں۔ یہ دوسری چیز ظاہر ہے کہ پہلی چیز کے تابع اور اس کی خادم ہے، کیونکہ فلسفیانہ اور نظری بحثیں زیادہ تر یا تو اس مخصوص تہذیبی مزاج کو، جو اس کے مخدوم کا درجہ رکھتا ہے، نفسیاتی سہارا اور مابعد الطبیعیاتی واخلاقی جواز فراہم کرنے کے لیے ہوتی ہیں یا اس کی کچھ فکری الجھنوں کو سلجھانے کے لیے اور یا اس تہذیب کی فکری بلند نظری اور تفوق کا تاثر قائم رکھنے کے لیے۔ ان بحثوں کا گہرائی اور باریک بینی سے مطالعہ کرنا یقیناًاس تہذیبی مزاج کے گہرے علمی تجزیے میں بہت مدد دیتا ہے، لیکن جہاں تک اس تہذیب کے بنیادی ذہنی رویے، پیغام اور عملی ترجیحات کا تعلق ہے تو اسے سمجھنے کے لیے اکیڈمک معنوں میں کوئی فلسفی ہونا ضروری نہیں۔ یہ خاص ذہنی رو اپنے سارے مظاہر اورمضمرات کے ساتھ مغرب کی پوری تہذیب کی صورت میں ہمارے سامنے جلوہ گر ہے اور انفرادی اخلاقیات سے لے کر سیاست، معیشت، قانون، تہذیب وتمدن اور بین الاقوامی تعلقات تک ہر دائرے میں اس کی ترجیحات سے ہر صاحب نظر واقف ہے۔ گزشتہ دو صدیوں میں مغرب میں فلسفیانہ فکری نظام چاہے کتنے ہی سامنے آئے ہوں، مغربی تہذیب کا جو رخ اور مزاج متعین ہوا ہے، وہ ایک ہی ہے اور اس کے اور اسلام کے مابین پائے جانے والے کسی تضاد کو سمجھنے کی وجدانی صلاحیت اقبال جیسے فلسفی اور کسی دور افتادہ گاؤں میں رہنے والے ایک سادہ صاحب ایمان کو یکساں حاصل ہے۔ 
پھر یہ بات کہ علماے اسلام کی اجتہادی گمراہیوں کی وجہ اسلام سے ناواقف ہونا نہیں بلکہ مغربی فکر سے ناواقف ہونا ہے، اپنے اندر ایک داخلی تضاد رکھتی ہے۔ متضاد چیزوں کی پہچان کا اصول یہ ہے کہ آدمی ایک چیز سے جتنی گہری واقفیت رکھتا ہوگا، اس کی ضد کو پہچاننے کی صلاحیت بھی اسے اتنی ہی حاصل ہوگی۔ اگر ایک صاحب علم اسلام سے اور اس کی فکری عملی ترجیحات سے فی الواقع کماحقہ واقف ہے تو اس کی مخالف سمت میں جانے والے کسی رجحان سے دھوکہ نہیں کھا سکتا، اس لیے علماے اسلام نے اگر دور جدید کی کچھ غیر اسلامی چیزوں کو سند جواز دیا ہے تو ان کا جرم دراصل مغربی فکر سے ناواقفیت نہیں بلکہ خود اسلام اور اس کے مزاج سے ناواقفیت قرار پانا چاہیے اور صاف لفظوں میں یہ کہنا چاہیے کہ انھوں نے مغرب کے فکری اثرات کے تحت خود اسلام کی ترجیحات کو بدل دینے کی جسارت کی ہے۔
بہرحال ڈاکٹر محمود احمد غازی کے محاضرات دور حاضر میں اسلامی دانش کا ایک بلند پایہ اظہار ہیں اور انھیں اردو زبان کے اعلیٰ اسلامی لٹریچر میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی زندگی نے وفا نہیں کی، ورنہ خواہش ہوتی ہے کہ محاضرات کا یہ سلسلہ اسی نوعیت کے بعض دوسرے اہم موضوعات تک بھی وسیع ہوتا۔ تعلیم سے متعلق ایک مستقل سلسلہ محاضرات کا وہ ارادہ رکھتے تھے اور شاید تزکیہ نفس اور اخلاقی تربیت کا موضوع بھی ان کے ذہن میں ہو۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کے علم وبصیرت سے استفادہ کے دائرے کو وسیع سے وسیع تر کر دے اور اسے ان کے درجات میں بلندی کا ذریعہ بنا دے۔ آمین

ڈاکٹر محمود احمد غازی علیہ الرحمۃ

ڈاکٹر حافظ صفوان محمد چوہان

میرے والد پروفیسر عابد صدیق صاحب کا انتقال ۷؍ دسمبر ۲۰۰۰ء کو ہوا۔ وفات سے کچھ دن پہلے اُنھوں نے مجھے ایک خط لکھا جس میں دعوت و تبلیغ کی مرکزی شخصیت حضرت مولانا محمد احمد انصاری صاحب مدظلہ العالی سے متعلق معلومات فراہم کیں۔ میں اُن دنوں مولانا محمد الیاس رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات کے انگریزی ترجمے (Words & Reflections of Maulana Ilyas) کے آخری حصے پر کام کر رہا تھا جس میں تبلیغ سے متعلق شخصیات کے بارے میں ضروری شخصی معلومات دی گئی ہیں۔ اِس خط کا ایک جملہ تھا: ’’مولانا محمد احمد صاحب مدظلہ ۔۔۔ جامعہ عباسیہ [بہاول پور] میں ۔۔۔ ۱۹۴۲ء میں دورۂ حدیث مکمل کرنے کے بعد نسبت قدیم قائم رکھنے کے لیے دوبارہ دورۂ حدیث کے لیے دارالعلوم دیوبند چلے گئے۔۔۔۔‘‘ ’’نسبت قدیم‘‘ تو بڑی چیز ہے، اِس کے ذروں اور خوشبو کی تلاش میں، میں بھی پھرتا رہا ہوں اور پھرا کرتا ہوں۔ ایسے کئی اسفار میں بھائی سید ذوالکفل مرحوم کی معیت بھی نصیب رہی۔ چنانچہ ہم لوگ ایک بار وقت نکال کر محمد سہیل عمر صاحب اور مرحوم ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب کے ہاں بھی گئے۔ غازی صاحب سے یہ نسبت میرے اور میرے خاندان کے لیے بڑی سعادت ہے۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ ’’نسبت قدیم‘‘ اردو کے اُن حسین مرکبات میں سے ہے جس کا مناسب انگریزی ترجمہ کم سے کم مجھ سے نہیں ہوسکا۔ 
محمود غازی صاحب سے اِس نابکار آید کا رابطہ اُن کے ایک خط سے شروع ہونا یاد پڑتا ہے جو اُنھوں نے اِس صدی کے ابتدائی دو تین سالوں میں سہ ماہی ’الزبیر‘ میں چھپنے والے میرے مضمون ’’اردو شاعری میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کو پڑھ کر مجھے لکھا تھا۔ میں تو اُنھیں جانتا تک نہ تھا۔ اُن جیسے مصروف آدمی کا یہ عنایت نامہ اُن کی ذرہ نوازی تھی۔ میں نے جواب بھی دیا اور فون بھی کیا۔ بس یہیں سے اللہ نے تعلق بنا دیا جو بحمداللہ اُن کے دمِ واپسیں تک ٹیلی فون، خط، کتابوں اور رسائل کے تبادلے کی صورت میں قائم رہا۔ وہ اب یاد آتے ہیں تو دل میں ایک کھوہ سی پڑنے لگتی ہے۔ اللہ اُن کے درجات کو بلند فرمائے۔ 
اِس پہلے خط کے جوابی ٹیلی فون میں (یا شاید کچھ بعد میں) اُنھوں نے مجھ سے میرے والد صاحب کا کلام اور مضامین کا مجموعہ طلب فرمایا۔ میں نے کتب ارسال کیں تو چند روز بعد اُنھوں نے فون پر میرے والد صاحب کے مضمون ’’محسن کاکوروی کی نعتیہ شاعری‘‘ کے بارے میں فرمایا کہ یہ میری خاص دلچسپی کا موضوع ہے۔ اِس مضمون کو کہیں الگ سے چھپوا دیجیے کہ شاید محسن کی شاعری پر بات چیت شروع ہو جائے۔ میں نے اُنھیں بتایا کہ میرے والد صاحب افسوس کے ساتھ فرمایا کرتے تھے کہ محسن کی شاعری کو ہر تذکرے سے بھلا دیا گیا ہے حالانکہ وہ صاحب طرز شعرا میں سے ہیں۔ غازی صاحب نے محسن کاکوروی کی نعت گوئی پر اور برعظیم کے اُس وقت کے کلچر پر کئی باتیں بتائیں اور خصوصاً اُن کے ڈکشن پر میرے والد صاحب کے نکات کو سراہا۔ میں نے یہ مضمون ’الزبیر‘ کی کسی قریبی اشاعت میں چھپوایا۔ ڈاکٹر صاحب نے مدیر ’الزبیر‘ ڈاکٹر شاہد حسن رضوی کو اِس کی بابت خط بھی لکھا جو شائع ہوا۔ یہ اُن کا مزاج تھا کہ بس ذرا چھیڑ دیجیے، وہ تاریخ اور ثقافت کی کوئی نہ کوئی اہم بات ضرور ذکر کر دیا کرتے تھے۔
یہ مضمون تعزیتی نوعیت کا ہے، لیکن مناسب ہے کہ اِسی موقع پر غازی صاحب سے اپنی واحد ملاقات کا ذکر کردیا جائے۔ فون پر تو سالہاسال باتیں ہوئیں اور کئی خط بھی آئے اور گئے، لیکن ملاقات کا موقع صرف ایک بار بنا۔ بھائی ذوالکفل اور میں غالباً ۲۰۰۶ء کے اوائل میں کسی وقت اُن کے ہاں گئے تھے۔ رسمی تعارف تو پہلے بھی تھا، لیکن بھائی ذوالکفل کے سعودیہ میں عرب زمین زادوں کو انگریزی پڑھانے کے موضوع سے بات چیت شروع ہوئی اور ذرا ہی دیر میں یہ مجلس کشت زعفران بن گئی۔ غازی صاحب نے بچوں کو بنیادی تعلیم انگریزی میں دینے کے مضمرات کو ذکر کیا اور وہ پرانا لطیفہ سنایا کہ ایک بچے کو My Friend کا مضمون یاد تھا، لیکن امتحان میں My Father پر مضمون لکھنے کو کہا گیا۔ اب اُس نے جو لکھا، وہ یوں تھا: I have many fathers but Aslam is my best father. He is my class-fellow...۔ اب جو قہقہہ چھوٹا تو بھائی ذوالکفل نے فرمایا کہ دوسری زبان میں تعلیم دینے کی تو الگ رہی، بنیادی بات معیارِ تعلیم کی ہے۔ وہ لطیفہ بھی تو آپ نے سنا ہوگا کہ ایک طالب علم نے مضمون فٹ بال میچ کا آنکھوں دیکھا حال رٹ لیا۔ امتحان میں ریل کا سفر پوچھ لیا گیا۔ اب اُس نے ریل گاڑی میں بیٹھنے سے متعلق دو جملے لکھے اور انجن کو خراب کرکے ریل گاڑی کو ایک ویرانے میں لا کھڑا کیا جہاں کھلے میدان میں لڑکے فٹ بال کھیل رہے تھے۔ آگے فٹ بال میچ شروع ہوگیا۔ ابھی ہمیں غازی صاحب کے ساتھ بیٹھے پانچ منٹ بھی نہیں ہوئے ہوں گے کہ قہقہے تھے کہ کمرے سے باہر بھی سنائی دینے لگے ہوں گے۔ 
مجھے فون پر ہونے والی گفتگوؤں سے اندازہ تھا کہ وہ اونچی آواز میں ہنسنے والے آدمی نہیں ہیں لیکن یہ ملاقات اِس خیال کی نفی کرگئی۔ دو عالی نسبت، بڑے خاندانی لوگوں کی اِس کھلی ڈلی گفتگو سے میرا جھاکا بھی اتر گیا تھا۔ انگریزی کو نظامِ تعلیم میں بالجبر ٹھونس دینے سے پیدا ہونے والی آدھی تیتیریت آدھی بٹیریت کا ذکر کرتے ہوئے میں نے عرض کیا کہ ابھی چند دن پہلے میری چھوٹی بیٹی بریرہ کو سکول میں ایک انگریزی مضمون My School حفظ کرایا گیا جس میں دس جملے تھے۔ تیسرا جملہ تھا: There are many teachers in my school.۔ میں نے اُس جملے میں teachers سے پہلے ایک شرارتی سا اسم صفت لگا کر یاد کرا دیا۔ اُس نے یہ مضمون کلاس میں سنایا تو پورے سکول میں حال حال پڑگئی۔ شکایت ہوئی جو بہت دور تک گئی۔ 
القصہ غازی صاحب کے مزاج کی یہ جہت ہم پر پہلی ملاقات میں اور پہلی بار کھلی۔ یہاں سے ہماری باتوں کا رخ تخلیقی تحریر اور رٹالائزیشن (Creative Writing & Rote Learning) کی طرف مڑ گیا۔ یہ ذکر ہوا کیا کہ ہمارے موجودہ نظامِ تعلیم سے ایسے پیڑ اُگ رہے ہیں جن کی شاخیں بالکل لنڈ منڈ ہوکر رہ گئی ہیں۔ غازی صاحب نے بصیرت افروز باتیں کیں اور خاص طور سے زور دیا کہ ہم اساتذہ کو پڑھاتے ہوئے جہاں موقع ملے، اپنے مذہبی کلچر اور تاریخ سے مثالیں لانے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ یہ بھی فرمایا کہ ہم پڑھے لکھے لوگوں کو مذہب اور مسلک میں فرق رکھنا چاہیے۔ مذہب غیرتِ دینی کا سبق دیتا ہے اور مسلک رواداری کا۔ 
اِس ملاقات میں اُن کے ایک مضمون پر جو ’الشریعہ‘ میں اُنہی دنوں چھپا تھا، بہت دیر تک گفتگو رہی۔ اِس مضمون کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ مغرب بڑی گہری حکمت عملی کے ساتھ دنیا بھر کے مسلمانوں کو (علی الخصوص نان ایشوز میں) مصروف (Engage) رکھتا ہے اور کیا ہماری حکومتیں، زعما، اہل ثروت اور علمی اشرافیہ اور کیا ہمارے عوام151 ہم سب کے سب لوگ مغرب کے فراہم کردہ اور طے کردہ ایجنڈے پر کام کرنے کے لیے ایک طرح سے مجبورِ محض ہیں۔ میں نے یہ مضمون بھائی عمار ناصر صاحب سے منگواکر کئی دوستوں کو اِی میل اور ڈاک سے بھیجا۔ غازی صاحب کے اِس جملے کی بات اب بھی چلتی رہتی ہے۔ کراچی کے بھائی سلمان سعد خاں نے پچھلے دنوں میڈیا پر سیلاب کی خبریں چلنے پر کہا تھا کہ یہ اُسی وقت تک چلیں گی جب تک مائی باپ کی طرف سے کوئی نیا ایجنڈا میڈیا فلیش کے لیے مہیا نہیں ہوتا۔ بھٹہ مزدور آسیہ کے توہین رسالت کیس کے سامنے آتے ہی مجھے احساس ہوا تھا کہ آئندہ چند ہفتوں کے لیے دھماچوکڑی کا بندوبست ہوگیا ہے اور جیسے پچھلے سال ایک لڑکی کو کوڑے مارنے والی ویڈیو سے کچھ فوری مقاصد حاصل کیے گئے تھے، اُسی طرح اِس کیس سے وسیع تر اہداف حاصل کیے جائیں گے۔ 
مغرب والوں کی سپاہِ دانش ہمیں مصروف رکھنے کے لیے ایسے موضوعات سوچتی ہے اور ہمارے لیے پیدا کی جانے والی یہ مصروفیت وقتی یا فوری نہیں ہوتی بلکہ شیطان کی آنت کی طرح کبھی نہ ختم ہونے والی ازلی و ابدی لم یلد ولم یولد قسم کی ہوتی ہے۔ مثلاً کچھ عرصے سے حجاب اور برقع عالمی میڈیا میں زیر بحث لایا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے تھے کہ اِس کے نتائج بہت برے نکلیں گے۔ آج وہ ہوتے تو دیکھتے کہ یورپ کی بہت سی پارلیمانوں نے حجاب کو خلافِ قانون قرار دے دیا ہے۔ اور ابھی تو یہ آغاز ہے، آگے آگے دیکھیے کیا ہوتا ہے۔ وقتی لہروں میں بہہ جانے اور انتہائی غیر مستقل کاموں میں کود کر لگ جانے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں ہے۔ بحیثیت مجموعی مسلمانوں کی حالت سوکھے پتے کی ہے کہ ہوا جہاں چاہے اُڑالے جائے، اِلا ماشاء اللہ۔ اسلام کے لیے ایسے ایسے حسن بن صباح پیدا ہوچکے ہیں کہ خدا ہی خیر کرے۔ میرے منہ میں خاک کہ آسیہ والے کیس کے چڑھتے دریا میں بہہ کر انجامِ کار کہیں توہین رسالت کا قانون سمندر میں نہ اتر جائے۔ 
اوپر ذکر کی گئی ویڈیو کو دیکھ کر میں نے بھائی ذوالکفل سے کہا تھا کہ یہ لڑکی کوڑے کھاکر جس سہولت سے اٹھی ہے اور کوڑے مارنے والے نے جس سہج سے کوڑے مارے ہیں، اُسے دیکھ کر مجھے فیضؔ کا شعر یاد آتا ہے:
کس قدر پیار سے اے جانِ جہاں رکھا ہے
دل کے رخسار پہ اِس وقت تیری یاد نے ہاتھ
یہ کوڑے ویسے لگے ہیں جیسے دل کے رخسار پہ یاد نے ہاتھ رکھا ہو۔ اِسی بات کو میں نے غازی صاحب سے بھی ذکر کیا اور داد پائی۔ یہ ویڈیو میں نے سب سے پہلے جنابِ افتخار عارف کے ساتھ دیکھی تھی اور دیکھتے ہی کہا تھا کہ اِس میں تین مقامات ایسے ہیں جن کی وجہ سے یہ ویڈیو جعلی ہے۔ اِس سلسلے کی تازہ ترین خبر یہ ہے کہ اب تک تین لڑکیاں یا عورتیں وہ لڑکی ہونے کا دعویٰ کرچکی ہیں جسے کوڑے لگے تھے۔ اِس ویڈیو پر اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون نے ایکشن لیا تھا۔ اُنھیں چاہیے کہ اب پھر ایکشن لیں۔
دعوت و تبلیغ کے تیسرے امیر حضرت جی مولانا محمد انعام الحسن رحمۃ اللہ علیہ ڈاکٹر محمود احمد غازی کی والدہ کے ماموں زاد بھائی تھے۔ اُن کے اِس رشتے کا ذکر مجھ سے تبلیغ کی مرکزی شوریٰ کے رکن، لارڈ ردرفورڈ کی زیر نگرانی پی ایچ ڈی کرنے والے واحد مسلمان سائنسدان، پاکستان کے پہلے چیف سائنٹسٹ اور ستارۂ امتیاز ڈاکٹر مظہر محمود قریشی نے کیا تھا۔ میں نے غازی صاحب سے ذکر کیا کہ مجھے حضرت جی مولانا محمد انعام الحسن رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت کی سعادت حاصل ہے اور میں نے اُن سے مجمع میں نہیں بلکہ الگ سے بیعت کی تھی۔ گفتگو کا رخ غازی صاحب کے دودمانِ عالی شان کی طرف ہوگیا۔ اُنھوں نے اپنے خاندان سے متعلق کئی باتیں بتائیں۔ بھائی سید ذوالکفل نے اپنے نانا امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی مولانا محمد الیاس رحمۃ اللہ علیہ سے اُن کی زندگی کے آخری دنوں میں ہونے والی ملاقات (اپریل ۱۹۴۴ء) کے حوالے سے کچھ باتیں کیں۔ میرے والد صاحب کا ذکر بھی آیا۔ غازی صاحب نے فرمایا کہ مجھے عابد صاحب کے کچھ مضامین سے مولانا جعفر شاہ پھلواری کی ’’اسلام اور موسیقی‘‘ یاد آتی ہے۔ جب ہم واپس ہونے لگے تو مصافحہ کرتے وقت اُنھوں نے اِس بیعت کی نسبت سے میرا ہاتھ چوم لیا۔ میں اِس کیفیت کو کبھی نہیں بھول سکتا۔ آج غازی صاحب کے بھائی محمد الغزالی صاحب سے بھی فون پر بات ہوئی۔ اللہ اُنھیں سلامت رکھے۔ 
ایک بات اور یاد آئی۔ کچھ سال سے مغرب نے ہمیں ’’بین المذاہب مکالمہ‘‘ نام کی مصروفیت دے رکھی ہے۔ جب اِس منصوبے کا آغاز ہوا تو شہزادہ چارلس پاکستان آیا۔ اُس کے فیصل مسجد کے دورے کے موقع پر بغیر لاؤڈ اسپیکر کے اذان دی گئی۔ اِس پر بڑی لے دے ہوئی۔ اخبارات اور انٹرنیٹ پر خبروں سے جب معاملہ خوب پخ گیا تو میں نے براہِ راست معلومات حاصل کرنے کے لیے غازی صاحب کو فون کیا۔ فرمایا کہ بات اِتنی نہ تھی جتنی کہ بڑھائی گئی۔ چارلس کو تکلیف نہ تھی کہ اذان لاؤڈ اسپیکر سے ہوتی۔ یہ تو ہمارے چند بے حمیت لوگوں کا Guilty conscious تھا جو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہوتے ہیں۔ یہ ایک نان ایشو تھا جسے خوامخواہ کھڑا کیا گیا۔ (عرض ہے کہ چارلس کے بارے میں بات کرتے ہوئے میں نے اُسے ’’لیڈی ڈیانا کا نصف بدتر‘‘ کہا تھا۔ غازی صاحب بہت محظوظ ہوئے۔ اِس مضمون کی فضا ذرا مختلف ہے، لیکن چونکہ بات متعلق ہے اِس لیے ذکر کی۔) 
غازی صاحب میڈیا پر آنے کے سخت خلاف تھے۔ میڈیا اُن کے نزدیک ریڈیو یا اخبار کے انٹرویو کی حد تک تو بکراہت جائز تھا، بشرطیکہ اِس میں تصویریں نہ اتاری جائیں۔ تصویر سے اُنھیں انقباض ہوتا تھا۔ فرماتے تھے کہ اِس سے روحانیت کا بیڑہ غرق ہوجاتا ہے۔ میڈیا کی نحوستوں کا بتاتے ہوئے اُنھوں نے ایک بار یہ جملہ دوہرایا تو میں نے امِ حبیبہ نام کی خاتون کا ذکر کیا جو ایک مدرسہ پڑھانے والے اللہ والے کی بیٹی ہے اور جسے میڈیا نعتوں کے راستے سے ریڈیو اور پھر ٹی وی پر لایا۔ اب وہ بے پرد نظر آتی ہے۔ لوگوں کو یاد ہوگا کہ پرانے زمانے میں ٹی وی پر امِ حبیبہ کی نعت آتی تھی تو سکرین پر ایک پھول دکھایا جاتا تھا۔ اب تو نعتوں کے سلسلے میں بھی بڑی ترقی ہوگئی ہے۔ ہمیں یہ دن بھی دیکھنا تھے۔ انگریزی محاورے کے الفاظ میں تیز روشنی میں رہنے والے لوگوں کے لیے میڈیا سے جان بچانا بہت مشکل ہوا کرتا ہے۔ غازی صاحب مرحوم اپنے عمل سے یہ کرکے دکھا گئے ہیں۔ 
جن دنوں یورپ میں ساحل پر نہانے کا تین کپڑوں پر مشتمل باپردہ لباس ’’برقنی‘‘ متعارف ہوا، ایک بار فون پر غازی صاحب سے باتوں باتوں میں پردے کا ذکر آیا ۔ میں نے عرض کیا کہ پردے کے بارے میں میرے والد صاحب فرماتے تھے کہ اللہ نے مردوں اور عورتوں کو الگ الگ آیات میں نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا ہے اور ہر دو کو الگ الگ ہدایات دی ہیں اور اللہ نے مردوں کو حکم نہیں دیا کہ وہ عورتوں سے پردہ کرائیں۔ جو عورت پردہ نہیں کرتی، وہ اللہ کی گناہگار ہے نہ کہ اپنے مرد کی۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ یہ بات بالکل ٹھیک ہے۔ مرد کے ذمے یہ ضرور ہے کہ وہ ایسا ماحول بنائے رکھے جس میں پردہ کرنا اور شریعت پر چلنا آسان ہو اور اللہ کے حکم سے روگردان ہونا مشکل ہو، کیونکہ اُسے عورتوں پر فوقیت اور افضلیت دی گئی ہے۔ جو عورت پردہ توڑتی ہے، وہ اللہ کا حکم توڑتی ہے اور اِس حکم عدولی پر وہ اللہ کو براہِ راست جوابدہ ہے۔ پھر مجھے اپنا ایک مضمون ’’اسلام میں ادارۂ خاندان اور اُس کی اہمیت‘‘ پڑھنے کو فرمایا۔ یہ مضمون اُن کے محاضرات کے کسی مجموعے میں ہے۔ یہ مضمون بھی میں نے بہت سے دوستوں کو پڑھوایا ہے۔ وہ لوگ جو مذہب کے نام پر خاندانی اور علاقائی روایات کا پرتشدد پرچار کرتے ہیں، اُنھیں چاہیے کہ کھلے ذہن کے ساتھ اللہ کے احکامات اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے صحابہ علیہم الرضوان کا اِن احکامات پر عمل ملاحظہ فرمائیں۔ صرف یہی ایک نہیں بلکہ محاضرات میں بہت سے مضامین ایسے ہیں جنھیں بار بار پڑھنا چاہیے۔ 
پچھلے سال بھائی سید ذوالکفل کا انتقال ہوا تو غازی صاحب نے حج کے کچھ روز کے بعد فون کرکے مجھ سے تعزیت کی اور اُن کے حادثے کی تفصیل معلوم کی۔ اُن سے ملاقات کا اور اُن کی خوبیوں کا بہت دیر تک ذکر کرتے رہے۔ فرماتے رہے کہ اُن کے حسن خاتمہ پر رشک آتا ہے۔ 
۲۴؍ اکتوبر ۲۰۱۰ء کو غازی صاحب اللہ کے حضور حاضر ہوئے تو میں نے سب سے پہلے ششماہی ’’السیرہ‘‘ والے بھائی ڈاکٹر سید عزیزالرحمن سے اور پھر بھائی عمار ناصر سے تعزیت کی۔ مجھے بھائی عزیزالرحمن کے غم کا کچھ اندازہ تھا۔ ۱۷؍ جولائی ۲۰۱۰ء کو یونی کیرئنز انٹرنیشنل نے جامعہ کراچی میں اردو لغت بورڈ کی ’’اردو لغت (تاریخی اصول پر)‘‘ کی تکمیل پر تقریب سپاس منعقد کی تھی جس میں مجھے بھی بلایا گیا۔ اگلے روز دعوۃ ریجنل اکادمی کراچی میں غازی صاحب کا لیکچر تھا جس کے لیے بھائی عزیزالرحمن نے مجھے دعوت دی۔ اُن کا فون آیا تو میں اُس وقت ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب کے یہاں سے ہوائی اڈے کی طرف نکل رہا تھا، اِس لیے حاضر نہ ہوسکا اور اِس موقع سے فائدہ نہ اٹھا سکا۔ اِس کا ہمیشہ افسوس رہے گا۔ بھائی عزیزالرحمن نے غازی صاحب پر لکھے اپنے مضمون بھی مجھے ارسال فرمائے۔ 
فون پر باتوں میں، میں نے غازی صاحب سے کسی کی غیبت نہیں سنی اور نہ اُنھیں کسی پر تبصرہ کرتے پایا۔ کسی کے بارے میں بات کرتے تو ہمیشہ بھلائیوں کا تذکرہ کرتے۔ نماز کے نہایت سختی سے پابند تھے۔ دنیا کی چیزوں کے بارے میں للچاہٹ اُن میں نہ تھی۔ بے حد نرم دل تھے۔ ۸؍ اکتوبر ۲۰۰۵ء کو زلزلہ آیا تو میں ہری پور سے ایبٹ آباد، گڑھی حبیب اللہ، بالاکوٹ اور مظفر آباد گیا۔ مجھ سے وہاں کے حالات سنے تو باقاعدہ روتے رہے اور دعا کرتے رہے۔ علم کے ساتھ تقویٰ اور فروتنی، بڑے عہدے کے ساتھ انکسار، تونگری کے ساتھ سادگی، تصنع سے کوسوں دوری151 یہ سب صفاتِ حمیدہ اُن کی ذات میں بڑے احسن طریقے سے جمع ہوگئی تھیں۔ 
غازی صاحب سے فون پر استفسارات اور معلومات کے تبادلے کی اجازت مجھے حاصل تھی۔ ہر سوال کا جواب ہمیشہ بہت تفصیل سے اور نواحی معلومات کے ساتھ ملتا۔ بعض اوقات حوالہ دیکھ کر بتاتے۔ اِنٹرنیٹ کی ایک سائٹ پر کسی نے قرآنِ پاک کے موجودہ متن کو ناقابل اعتبار بتانے کے لیے نسخہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے کچھ صفحات کے عکس رکھے اور اِی میلوں کے سیلاب کے ذریعے لوگوں کو اِس بحث میں الجھایا کہ تقابلی مطالعہ کرکے دیکھ لیں کہ آج جو قرآن پڑھا جارہا ہے، وہ متذکرہ نسخے سے مختلف ہے۔ میں نے ایک ایسی اِی میل اور کچھ صفحات کا پرنٹ آؤٹ غازی صاحب اور عبدالجبار شاکر صاحب کو بھیجا۔ غازی صاحب نے اِس پر بہت افسوس کا اظہار کیا کہ یہ خالص علمی بحث ہے، اِسے عوام میں چلانے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ پھر اِس سائٹ کے کرتا دھرتا سے بات کرنے، سمجھانے بجھانے اور اِسے بند کرانے تک کی ساری کارروائی میں اُنھوں نے فعال کردار ادا کیا۔ یہ نیکی بھی اُن کے توشے میں ہے۔ لیکن فون پر کیے گئے استفسارات میں سے دو باتیں تشنہ رہ گئیں۔ ایک بار میں نے قرآنِ پاک میں موجود وقوف کی صورتوں کے بارے میں دریافت کیا کہ مثلاً وقف لازم، وقف منزل، وقف النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور وقف جبریل کی تو سمجھ آتی ہے، یہ وقفِ غفران کیا ہے؟ اِسی طرح قرآنِ پاک کو تیس سپاروں میں کس نے تقسیم کیا؟ فرمایا کہ ابھی ذہن میں نہیں ہے اور نہ ہی یہ یاد پڑتا ہے کہ اِن باتوں کا کبھی نظر سے گزر ہوا ہو۔ کسی وقت میں دیکھ کر بتاؤں گا۔ یہاں اِن دونوں باتوں کو اِس لیے ذکر کیا ہے کہ اگر کوئی صاحب جانتے ہوں تو مجھے ضرور بتا دیں۔ 
غازی صاحب سے رابطہ ہوتے ہی الشریعہ کا حوالہ ازخود درمیان میں آگیا۔ راقم کے نزدیک الشریعہ کی مثال ایک طرح کے اسلامی ہائیڈ پارک کی ہے۔ میں نے بڑی مدت سے ایسے مولوی صاحبان نہیں دیکھے تھے جو مسلمان کے مسلمان سے اختلاف کو اسلام کا اختلاف نہ سمجھتے ہوں۔ اللہ کے ایسے بندے مجھے تبلیغ والوں میں نظر آئے، پھر عطاء المحسن شاہ صاحب اور سید محمد ذوالکفل بخاری، اور اب مولانا زاہدالراشدی اور اُن کا الشریعہ۔ الشریعہ ایک تحریک ہے جس نے مختلف الخیال مسلمانوں کو اپنا اپنا نقطۂ نظر برقرار رکھتے ہوئے باہم گفتگو کا موقع، سلیقہ اور حوصلہ دیا ہے۔ الشریعہ کے بارے میں یہی بات غازی صاحب بھی کیا کرتے تھے۔ اس حوالے سے اُن کے ایک خط کے آخری جملے پر یہ تحریر ختم کرتا ہوں۔ 
’’الشریعہ‘‘ کے بارہ میں میرے تاثرات بھی وہی ہیں جو آپ کے ہیں۔ اس کا سارا کریڈٹ مولانا زاہدالراشدی صاحب کو جاتا ہے۔‘‘
یہ مضمون صرف حافظے سے لکھا ہے۔ ممکن ہے کہ ذکر کی گئی کوئی بات اپنے محل سے ذرا آگے یا پیچھے ہوگئی ہو، لیکن اِس سے مطالب پر اِن شاء اللہ کوئی زد نہیں آتی۔)
اتوار: ۱۹/ دسمبر ۲۰۱۰ء
مطابق: ۱۲/ محرم الحرام ۱۴۳۲ھ

ڈاکٹر غازیؒ ۔ چند یادداشتیں

محمد الیاس ڈار

صبح سویرے میرے موبائل کی گھنٹی بجی۔ ہمارے ایک دوست سید قمر مصطفی شاہ کی غم میں ڈوبی ہوئی آواز نے خبر دی کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی ہمیں چھوڑ گئے۔ میں لاہور میں تھا۔ جنازہ میں شریک نہ ہو سکنے کا افسوس ہوا۔ کئی دن تک یقین نہ آیاکہ وہ ہمارے درمیان نہیں رہے، بلکہ اب تک یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہمارے پاس ہی ہیں۔ کئی ایسے دوست جو زندگی میں کبھی ان سے نہیں ملے، مجھ سے افسوس کا اظہار کرتے رہے جیسے میرا کوئی عزیز رخصت ہو گیا ہے۔ میں اپنے پروگراموں کے لیے جہاں جہاں بھی گیا، ان کے لیے خصوصی دعا کا اہتمام کرتا رہا۔ 
وزارت صنعت وپیداوار سے وزارت مذہبی امور میں بطور جائنٹ سیکرٹری میرے تبادلے سے کچھ دیر پہلے ڈاکٹر صاحب وزارت کو خیر باد کہہ چکے تھے، مگران کی خوشگوار یادیں وزارت کے ماحول میں رچی بسی تھیں۔ سید قمر مصطفی شاہ ان کے سیکرٹری رہے، مگر ان سے وہ نہایت قریبی دوست اور گھر کے ایک فرد کی حیثیت سے ملتے تھے۔ اتفاق کی بات ہے کہ شاہ صاحب غازی صاحبؒ کے جانے کے بعد وزارت خارجہ میں واپس جانے کی بجائے وزارت مذہبی امورمیں رہ گئے اور زکوٰۃ ونگ میں میرے ساتھ ڈپٹی سیکرٹری رہے۔ جس محبت سے وہ ڈاکٹر صاحب ؒ کی باتیں بتاتے، اس سے انداز ہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں سے کس قدر اپنائیت اور برابری کا سلوک کرتے تھے۔
وزارت کے چھوٹے ملازم بھی ان کا ذکر نہایت محبت اور احترام سے کرتے۔ دفتر میں داخل ہوتے ہی ہر چھوٹے بڑے ملازم کو بڑے احترام سے ملتے اور سلام کرنے میں پہل کرتے۔ ہمیشہ ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھتے۔ چونکہ حافظ قرآن تھے، اس لیے پورا راستہ قرآن کی تلاوت کرتے رہتے۔ ان کے اور ان کے بھائی ڈاکٹر محمد الغزالی کے اکثر بچے حافظ قرآن ہیں۔ دونوں بھائی ایک ہی گھر میں الگ الگ حصوں میں رہتے تھے۔ انہوں نے بچوں کی تربیت اس طرح کی تھی کہ ہرمہمان خواہ وہ دفتر کا ڈرائیور یا نائب قاصد ہی کیوں نہ ہو، بچے اس سے احترام سے پیش آتے۔ اگرچہ اکثر سوٹ کا استعمال بھی کرتے تھے، لیکن سادہ لباس کو پسند کرتے تھے۔ کھانا بہت سادہ تناول کرتے اور مرغن کھانے پسند نہیں کرتے تھے۔ جن لوگوں نے انہیں قریب سے دیکھا، وہ بتاتے ہیں کہ ان کی عادات بے حد درویشانہ تھیں۔ وہ دین کو صرف بیان نہیں کرتے تھے بلکہ عالم باعمل بھی تھے۔ کسر نفسی کا یہ عالم تھا کہ اکثر مہمانوں کے جوتے سیدھے کر دیتے تھے۔ بعض اوقات تو یونیورسٹی یا وزارت کا کوئی معمولی ملازم اگر ملنے جاتا وہ شرمندہ ہوتا کہ ڈاکٹر صاحب ؒ اس کے جوتے اٹھا کر سامنے رکھ رہے ہوتے۔ کسی صاحب نے بتایا کہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے صدر ہونے کے زمانے میں اپنی ہی یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کو کہتے کہ ڈاکٹر صاحب! مجھے آپ سے بہت محبت ہے۔ ان کا یہ طریقہ تھاکہ اچھے لوگوں سے صرف محبت ہی نہیں کرتے تھے بلکہ کھل کر اس کا اظہار بھی کرتے تھے۔ 
ڈاکٹر صاحب ؒ نے وزارت اس وقت چھوڑی جب ایک متکبر آمر اپنی تمام رعونتوں کے ساتھ موجود تھا اور اس کے جانے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں تھا۔ ہمارے ملک میں لوگ ہر ذلت سہتے ہیں، لیکن استعفا دینے کا نام نہیں لیتے۔ قمر مصطفی شاہ صاحب بتاتے ہیں کہ وہ یہ بات ذہن میں لے کر آئے تھے کہ دین اورملک کی کوئی خدمت کر سکیں، لیکن جب ان کو محسوس ہوا کہ سارے کا سارا ٹولہ کسی اور سانچے میں ڈھلا ہوا ہے تو انہوں نے وزارت سے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا۔ مگر جب تک وزارت میں رہے، شب وروز اپنے فرائض کی بجاآوری میں لگے رہے اور سیاسی وزرا جو کام کئی سالوں میں نہیں کرتے، وہ چند ماہ میں کر گئے۔ زکوٰۃ کی بہتری کے لیے کئی کنونشن کیے، نئی زکوۃ کمیٹیاں بنوائیں، نئی زکوٰۃ اسکیمیں شروع کیں۔ حج وفد میں گئے تو اکیلے گلیوں اور محلوں میں گھوم پھر کر حاجیوں کی مشکلات حل کرنے کا سوچتے رہے۔ سعودی حج منسٹر سے تفصیلی ملاقات کی، کئی ملکوں کے حج وفود سے ملاقاتیں کیں۔ مدارس کے متعلق دین بیزار جرنیلوں سے اعتراف کروایا کہ ہمارے مدارس دنیا کی سب سے بڑی تعلیمی این جی او ز ہیں اور نہایت مفید خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ چونکہ خود دینی مدرسہ کے فارغ التحصیل تھے، اس لیے مدارس کی خدمات کو نمایاں کرنے میں ہر وقت کوشاں رہے۔ علما اور وفاق المدارس ؍ تنظیمات المدارس کے ذمہ داروں سے ملنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ مختلف مسالک کے علما کے پاس حاضر ہو کر ان کا نقطہ نظر معلوم کرتے اور بہتری کی تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کی بھرپور کوشش کرتے۔ مختلف دینی معاملات میں آخر وقت تک کابینہ اور حکومت کی رہنمائی کرتے رہے۔ 
ان کی دیانت کا یہ عالم تھا کہ آخری دن روانہ ہوتے وقت انہوں نے دفتر کی گاڑی بھی استعمال نہیں کی بلکہ گھر سے اپنی گاڑی منگوائی۔ دفتر کی اسٹیشنری انتہائی کفایت سے استعمال کرتے تھے۔ مثلاً استعمال شدہ کاغذوں کے پچھلے حصے کا رف کاغذ کے طور پر استعمال کرتے۔ فون کا بل ایک سیکشن افسر کے بل سے بھی کم ہوتا۔ وزارت کی مراعات ہر گز استعمال نہیں کرتے تھے۔ وزیروں کے لیے مختص رہائش گاہ کی بجائے اپنے اور اپنے بھائی کے زیر استعمال چھوٹے سے گھر میں رہتے رہے۔
وزارت کی فائلوں میں ان کا ایک تفصیلی خط پڑھنے کو ملا جو انہوں نے صوبائی گورنروں کو عشر نافذ کرنے کے لیے لکھا تھا۔ مجھے بتایا گیاکہ یہ خط لکھنے کے بعد وہ خود بھی گورنروں سے ملنے گئے، لیکن جو فضول دلائل زرعی ٹیکس سے بچنے کے لیے دیے جاتے ہیں، ویسے ہی عشر کے سلسلہ میں دیے گئے۔ ملک میں بے شمار دوسرے قوانین کی طرح زکوٰۃ وعشر کا قانون موجود ہے، مگر قانون نافذ کرنے والوں کی بدنیتی اس ملک کا سب سے بڑا روگ ہے۔ اس سلسلے میں ایک ضمنی بات یہ ہے کہ شریعت کے نفاذ کی بات ہو تو مغربیت کے پاکستانی اسیروں سے لے کر پورے مغرب اور امریکہ میں ایک اضطراب کی لہر دوڑ جاتی ہے، لیکن ہماری دینی سیاسی جماعتوں کو اس بات کا اندازہ نہیں کہ پاکستان کے آئین اور قوانین میں اتنا زیادہ اسلامی مواد پہلے سے ہی موجود ہے کہ اس کا نفاذ شریعت ہی کا نفاذ ہوگا او ر اس کے نافذ کرنے کے مطالبہ پر رگیں پھڑکنے کا مظاہرہ بھی کم ہوگا، کیونکہ اس طرح ہم آئین اور قانون کے نفاذ کے مطالبے سے بے دین طبقے کی بدنیتی نمایاں کر رہے ہوں گے اور وہ بھی ان کے اپنے میدان فکر میں۔
وزارت میں مجھے زکوٰۃ سے حج ونگ کا انچارج بنا دیا گیا تواسی دوران دعوت ونگ کے جائنٹ سیکرٹری رخصت پر چلے گئے۔ ان کاکام بھی اضافی طور پر میرے سپرد ہوا۔ اسی ونگ میں رویت ہلال کے سلسلہ میں ایک میٹنگ ہوئی جس میں مرکزی اور صوبائی رویت ہلال کمیٹیوں کے سرکردہ افراد، متعلقہ محکموں کے سرکاری افسران اور خصوصی دعوت پر ڈاکٹر صاحب شریک ہوئے۔ وزیر مذہبی امور صدارت کر رہے تھے کہ انہیں اور سیکرٹری مذہبی امور کو وزیر اعظم ہاؤس سے فوری حاضر ہونے کا بلاوا آ گیا۔انہوں نے میٹنگ جاری رکھنے کا کہا۔ کافی حضرات کے دلائل سننے کے بعد ڈاکٹر صاحب ؒ نے کہا کہ انہیں کسی اور جگہ جانا ہے، اس لیے اگر انہیں بات کرنے کی اجازت دے دی جائے تو ان کے لیے آسانی رہے گی۔ ان کی سادگی، دوسروں کے لیے احترام اور موثر خطاب آج بھی میرے احساسات میں موجود ہے۔ انہوں نے تمام معاملے کے دینی اور تکنیکی پہلوؤں کو جس انداز سے بیان کیا، اگر ہمارے بھائیوں میں وسعت قلبی ہوتی تو رویت ہلال کے اختلافات ختم کر چکے ہوتے۔ 
اسلامی یونیورسٹی کے فاضل پروفیسر ڈاکٹر طفیل صاحب نے ایک دفعہ مجھے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب ؒ کو ان کی زندگی کے آخری سالوں میں اعلیٰ انتظامی عہدوں کی پیش کش ہوئیں مگر انہوں نے صرف پی ایچ ڈی کے طلبہ کو پڑھانے اورعلمی کام کرنے کو ترجیح دی۔ فیڈرل شریعت کورٹ میں شمولیت سے پہلے میری اطلاع کے مطابق آپ قطر اور ملائشیا کی یونیورسٹیوں کے نصاب مرتب کرنے میں مصروف رہے۔ آخر اس درجہ کے اسکالر ہم کہاں سے لائیں گے جو قومی اور بین الاقوامی سطح پر یکساں مقبول ہوں۔ اس کے باوجود انکساری کا یہ عالم تھا کہ چھوٹے بڑے سب کے سامنے عاجزی کا اظہار کرتے تھے۔ ان کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر محمد الغزالی، جو خود اعلیٰ پائے کے اسکالر اور سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ کے جج ہیں، ڈاکٹر انیس احمد کے بقول نجی محفلوں میں ڈاکٹر غازی سے بھی چھیڑ چھاڑ سے پرہیز نہ کرتے، لیکن ڈاکٹر غازی صاحبؒ کبھی اپنے بڑے ہونے کا حق استعمال نہ کرتے بلکہ ان کی خوش مزاجی سے محظوظ ہوتے۔ ڈاکٹر صاحب! اب آپ کس کو لطیفے سنائیں گے اور اس پایے کا بھائی کہاں سے تلاش کریں گے؟ ہمارے جیسے لوگ جو ڈاکٹر غازی سے بہت کم ملے، اپنے دل میں ان کی جدائی کا غم آج تک محسوس کرتے ہیں مگر دونوں بھائی تو ایک ہی مکان کے دو حصوں میں اکٹھے رہتے تھے۔ آخروہ اوران کے بچے کس حال میں ہوں گے؟ ہم کمزور بندوں کی دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔ 
وزارت مذہبی امور میں ان کاایک اہم کام تین ماڈل دینی مدارس کاقیام تھا۔ ان مدارس کے سلسلہ میں ڈاکٹر غازی صاحب کا ذہن پڑھنے کے لیے انہی کی تحریر کا ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے۔ الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام ایک لیکچر میں دینی مدارس کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا: 
’’نہ وسائل دستیاب تھے، نہ حکومتی سرپرستی دستیاب تھی اور نہ وہاں کے فارغ شدہ حضرات کے لیے قیادت کے مناصب موجود تھے۔ معاشرہ ان کی قیادت کو ماننے اور ان سے رہنمائی لینے کے لیے تیار نہیں تھا۔ ان کی رہنمائی مسجد اور مدرسہ کے خاص دائرے تک محدود تھی، اس لیے انہو ں نے جو کچھ کیا، اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے گا اور جتنا دین موجود ہے، انہی کی کاوش سے موجود ہے۔ لیکن اب ضرورت اس بات کی ہے کہ جو دین موجود ہے اس کو زندگی کے روزمرہ معاملات سے relate کیا جائے اور اس کو معاشرے میں فعال قائدانہ کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں لایا جائے۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ اہل دین کے پاس دینی علوم کا تخصص بھی موجود ہو اور جس دنیا اور جس معاشرے میں انہیں قیادت فراہم کرنی ہے، اس کے بارے میں بھی قائدانہ اور ناقدانہ واقفیت انہیں حاصل ہو۔‘‘ (دینی مدارس اور عصر حاضر: مرتب شبیر احمد میواتی، ص ۱۴۷)
انہوں نے ڈاکٹر ایس ایم زمان کے ساتھ مل کر ایک سیٹ اپ قائم کیا اور ماڈل دینی مدارس کے لیے جدوجہداور قدیم علوم پر مشتمل ایک نہایت عمدہ نصاب مرتب کیا۔ میرے پاس حج ونگ کی ذمہ داری تھی اور مدارس سے متعلقہ جائنٹ سیکرٹری جو پولیس کے ڈی آئی جی ہونے کے باوجود بیوروکریسی کے غلط رویوں سے بچے ہوئے تھے اور اپنی مرضی سے اس وزارت میںآئے تھے ، انہوں نے تجویز کیا کہ مجھے ماڈل دینی مدرسہ، اسلام آباد کے پرنسپل کا اضافی چارج دے دیا جائے۔ چند ہفتوں کے بعد وزیر مذہبی امور ایک یورپی وفد کے ساتھ اس مدرسہ کے دورے پر آئے۔ انہوں نے اس کی بدلی ہوئی حالت دیکھی اور کہا کہ کراچی اور سکھر والے مدارس بھی میرے زیر نگرانی دے دیے جائیں۔ اس طرح مجھے تینوں ماڈل دینی مدارس کا مہتمم بنا دیا گیا۔ ایک سال کے اندر اندر ان مدارس کے سٹاف کو متحرک کرکے ہم نے ان کی حالت اس طرح بدل دی کہ ہر طرف سے ’’ بند کرو‘‘ کی آوازیں آنا بند ہو گئیں ۔ طلبہ وطالبات کی تعداد دوسو سے بڑھ کر ایک ہزار ہو گئی۔ غریب طلبہ کے لیے زکوٰۃ فنڈ سے وظائف مقرر کیے گئے۔ امتحانات کا ایک نظام وضع کیا گیا اور ان کو امتحانات کے لیے اسلامی یونیورسٹی سے منسلک کر دیا گیا، وغیرہ وغیرہ۔ یہ خبریں ڈاکٹر صاحب ؒ تک بھی پہنچتی رہیں اور خوش ہوتے رہے۔ 
ایک دن صاحبزادہ ڈاکٹر ساجدالرحمن (موجودہ ڈائریکٹر جنرل دعوہ اکیڈمی) کا فون آیا کہ وہ سیرت پر ڈاکٹر غازی صاحب کے محاضرات کروا رہے ہیں اورمجھے اس میں شامل ہوناچاہیے۔ باوجود حج کی انتظامی ذمہ داریوں کے ، میں نے بارہ میں سے آٹھ نو محاضرات میں شرکت کی۔ اس دوران چائے کی میز پر صاحبزادہ صاحب نے میرا تعارف کروایا توبہت خوش ہوئے ۔ مدارس کے حوالے سے وہ میرے کام سے واقف تھے۔ انہوں نے کہا: ڈار صاحب ! کم از کم تین ماڈل دینی مدارس اور قائم کر دیں۔ آپ اس وزارت سے چلے گئے تو یہ کام رہ جائے گا۔ آپ کا خدشہ درست ثابت ہوا۔ تقریباً دو سال ماڈل دینی مدارس کی خدمت کرنے کے بعد میرا تبادلہ ہوگیا اور مجھے ایک تربیتی ادارے کا ڈائریکٹر جنرل بنادیا گیا۔ 
ڈاکٹر صاحبؒ کے قرآن، حدیث، سیرت، فقہ، شریعت اور معیشت وتجارت پر چھ محاضرات شائع ہو چکے ہیں۔ ان کے تفصیلی تعارف کے لیے تو ایک الگ مضمون کی ضرورت ہے، لیکن ایک بات جس کا تذکرہ ضروری ہے اور ہمارے علما اور سکالرز کی رہنمائی کے لیے بہت اہم ہے، وہ ان محاضرات کی ہر مکتبہ فکر میں مقبولیت ہے۔ مختلف مسالک کے علما کے پاس ان کی کوئی نہ کوئی جلد میں نے خود دیکھی ہے جواس بات کا ثبوت ہے کہ ڈاکٹر صاحب ؒ کے نزدیک قرآن وسنت اور دین کی سربلندی بنیادی اہمیت کی حامل تھی اور مسلکی اور فروعی باتوں کی حیثیت ثانوی تھی۔ ان کے ذہن میں عقیدہ وایمانیات او ر تزکیہ واحسان سمیت کچھ اور موضوعات پر بھی محاضرات کا نقشہ تھا، لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اگر صرف ان محاضرات کے مواد ہی کو دیکھا جائے تو ان کے علم وفکر کی وسعتیں نظر آتی ہیں، لیکن انہوں نے تمام عمر علم کی خدمت کی اورایک عظیم علمی ذخیرہ اہل ذوق کی تسکین کے لیے چھوڑا ہے۔ ان کی تقریر وتحریر یکساں پر تاثیر تھیں۔ علم دین کے لیے ان کی یکسوئی اور قدیم وجدید مسائل سے ان کی آگاہی ان کی کثیرالجہات شخصیت کی آئینہ دار ہیں۔
ہم نے دعوت فاؤنڈیشن پاکستان کا بیڑہ اٹھایا تو ہمارے ذہن میں کام کا یہ نقشہ تھا کہ مختلف مسالک اور دینی جماعتوں کی نمایاں شخصیات کو اس کے تعلیمی بورڈ میں شامل کیا جائے تاکہ اس کے پروگراموں سے استفادہ کرنے والوں کے ذہن میں کوئی جھجک نہ رہے۔ اس کے تعلیمی پروگراموں کا نصاب قدیم وجدید مصنفین کی کاوشوں پرمشتمل ہو، کم فرصت والے خواتین وحضرات کے لیے ایک باسہولت پروگرام ہو اور گھر بیٹھے علم دین سیکھنے کا بندوبست ہو۔ کام کے آغاز کے وقت ڈاکٹر صاحب ؒ کا نام ہمارے ذہن میں تھا لیکن جب بھی رابطہ کیا تو وہ بیرون ملک ہوتے تھے۔ جب وہ شریعت کورٹ کے جج بن گئے تو ہم نے سوچا کہ اب ان کے لیے ہمارے ساتھ شامل ہونا مشکل ہوگا۔ گذشتہ شعبان میں گوجرانوالہ میں علامہ زاہد الراشدی کی خدمت میں حاضر ہوا کہ وہ دعوت فاؤنڈیشن کے تعلیمی بورڈ کی رکنیت قبول فرمالیں۔ انہوں نے میری گزارش کو شرف قبولیت بخشا جس کے لیے ہم ان کے ممنون ہیں۔ اس حاضری کے دوران انہوں نے فرمایا کہ ڈاکٹر غازی کو بھی اس میں ضرور شامل کریں۔ گذشتہ رمضان میں سیدقمر مصطفی شاہ کے ساتھ ان کے گھر پر حاضر ہو ا تو وہ نہایت خندہ پیشانی سے ملے۔ ہمارے پروگرام کا طویل ڈرافٹ اور ۷۵ کتب پر مشتمل دو ضمیمہ جات انہوں نے ہمارے سامنے نہایت توجہ سے پڑھے۔ اس کے بعد انہوں نے پروگرام کی اتنی تعریف کی اور اتنی دعائیں دیں کہ ہمارے وہم و گمان میں نہیں تھا ۔ بعدازاں انہوں نے ہرقسم کے تعاون کا یقین دلایا اور بے شمار نیک تمناؤں کے ساتھ ہمیں رخصت کیا۔ میں نے ضمناً عرض کیا کہ اگلے محاضرات دعوت فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم پر ہونے چاہئیں تو فرمانے لگے کہ ایک دفعہ نہیں، اپنی تمام مصروفیات کے باوجود ،جتنی دفعہ بھی آپ کہیں گے اور جہاں بھی کہیں گے، میں حاضر ہو جاؤں گا۔ان کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے ایک مشترکہ جاننے والے بزرگ عیدا لفطر کے موقعہ پر عید گاہ میں ان سے ملے اور دعوۃ فاؤنڈیشن سے تعاون کے لیے کہا توانہوں نے فرمایا کہ میری طرف سے ڈار صاحب کو کہیں کہ وہ ایک میٹنگ بلائیں تاکہ ہم سب بتا سکیں کہ اپنی استطاعت کے مطابق ہم دعوۃ فاؤنڈیشن کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔ ان کے سامنے بھی انہوں نے کہا کہ یہ ایک بہت بڑا کام ہے اور پھر ڈھیر ساری دعائیں دیں۔ ڈاکٹر صاحب !اس سب کچھ کے لیے ہم آپ کو کہاں تلاش کریں؟ ہم آپ کی دعاؤں اور تمناؤں کی آغوش میں ہیں۔ 
ہمیں یقین ہے کہ وہ اپنی اس شاندار زندگی سے ایک ایسی زندگی میں داخل ہو گئے ہیں جہاں فرشتے ان کواہلاً وسہلاً مرحبا کہہ رہے ہیں، رب کے انوار ان کااحاطہ کیے ہوئے ہیں اور ان کے شایان شان ان کا اکرام ہو رہا ہوگا۔ ان کی یہ مختصر زندگی ، ایک طویل اور پرمسرت زندگی کا نقطہ آغاز تھی۔وہ ایک ایسی زندگی میں داخل ہو گئے ہیں جو خالدین فیہا کی تصویر ہے۔ بقول علامہ اقبال ؒ 
تو اسے پیمانہ امروز وفردا سے نہ ناپ
جاوداں، پیہم رواں، ہردم جواں ہے زندگی

ایک ہمہ جہت شخصیت

ضمیر اختر خان

اللہ تعالیٰ نے بشمول انسان کے تمام مخلوقات کے لیے موت کے حوالے سے اپنا ضابطہ قرآن مجید میں یوں بیان فرمایا ہے: کل من علیھا فان (سورۃالرحمن:۲۶) کل نفس ذائقۃ الموت (سورۃ آل عمران: ۱۸۵، سورۃ العنکبوت:۵۷)۔ جو یہاں آیا ہے، اسے بالآخر جانا ہے۔ ہمارے محترم اور نہایت ہی شفیق بزرگ جناب ڈاکٹر محمود احمد غاز ی رحمہ اللہ اسی الٰہی ضابطے کے تحت اپنی آخری منزل کی طرف چل دیے۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔ 
ڈاکٹر غازی ؒ ایک ہمہ جہت شخصیت کے حامل انسان تھے۔ وہ بیک وقت ایک عالم دین، فقیہ، متکلم وخطیب، قانون دان، ماہر تعلیم، دانشور، مصلح اور اعلیٰ درجے کے منتظم تھے۔ اگرچہ انہوں نے عملی سیاست میں حصہ نہیں لیا، مگربہت اچھی سیاسی بصیرت رکھتے تھے۔ ان سے میر ا پہلا تعارف جولائی ۱۹۹۰ء میں ایک سیمینار کے دوران ہوا جس میں انہوں نے ’’ فرقہ بند ی اور معاشرے پر اس کے اثرات ‘‘ کے موضوع پر نہایت مدلل اور پرجوش خطاب فرمایا تھا۔ میں نے تقریر کے اختتام پر منتظمین سے درخواست کی کہ اس خطاب کا کیسٹ مجھے مہیا کیا جائے۔ انہوں نے کمال مہربانی سے وہ کیسٹ مجھے عطا کیا جو آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ میں نے متعدد بار اسے سنا اور اس کا عنوان اپنے طور پر بدل کر ’’ مسلمانوں میں فرقہ بندی کا افسانہ‘‘ رکھ لیا ا ور بہت سے لوگوں کو استفادے کے لیے دیتا رہا۔ بعد ازاں اسی موضوع پر مولانا مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ کی کتاب بھی مجھے مل گئی جو اپنی جگہ جامع ہے، مگر جو انداز، دلائل اور جوش و جذبہ ڈاکٹر غازی ؒ کے اس خطبے میں ہے، اس کی تاثیر بہت زیادہ ہے اور ابھی تک برقرار ہے۔ 
دسمبر ۲۰۰۳ء میں ہم نے ایک سیمینار منعقد کیا اور اس میں ایک بار پھر ڈاکٹر محموداحمد غازیؒ کو مدعو کیا۔ اب کی بار ان کا موضوع: Religious Motivation and Geostrategic Compulsions of Pakistan تھا۔ عنوان انگریزی میں ہونے کے باوجودا ور خود انگریزی پرعبور رکھنے کے باوجود انہوں نے خطاب اردو میں کیا اور ایسا پر جوش خطاب کیا جس کی تازگی او رتحرک (Vibration ) ابھی تک برقرار ہے۔ پرویزی حکومت میں وزیر مذہبی امور ہونے کے باوجود انہوں نے جس بے باکی سے عالم اسلام کے اتحاد اور پاکستان کے مسلم دنیا کے حوالے سے کردار پر جذباتی انداز میں بات کی، اس نے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کے تصور کی دھجیاں اڑادیں اور نہ صرف پرویزی فکرکے تار و پود بکھیر دیے بلکہ مجھ سمیت بہت سو ں کو رُلا دیا۔ ان کے خطاب کا انداز بھی ہمیشہ منفرد ہوتا تھا۔ میں نے کبھی انہیں طویل تمہیدیں باندھتے نہیں سنا۔ حمد و ثنا کے فوراً بعدہی موضوع پر جوشیلے انداز سے بولنا شروع کر دیتے تھے۔ ان کا ایک اورخطاب بعنوان ’’ اسلام میں تفریح کا تصور‘‘ تقریباً تین گھنٹوں پر مشتمل میرے پاس ہے۔ اس میں جیسے ہی تعارفی کلمات کے بعد انہیں مدعوکیا گیا، انہوں نے فوراً موضوع پر بولنا شروع کر دیا اور مسلسل بولتے رہے اور ایک ہی رفتار و آواز سے بولتے گئے۔ انتہائی سنجیدہ گفتگو کرتے ہوئے کوئی ایسا ذو معنی جملہ بولتے کہ ہمہ تن گوش سامعین عین سنجیدگی کے عالم میں بے اختیار ہنس پڑتے۔ 
ڈاکٹر غازی ؒ کی ایک اور انفرادیت یہ تھی کہ وہ علما کے درمیان جدید دانشور لگتے تھے اور جدید تعلیم یافتہ طبقے کے مابین علما کے ترجمان و حمایتی محسوس ہوتے تھے۔ وہ ہر طبقۂ فکر سے تعلق رکھنے والوں کو مطمئن کرنے کا ہنر جانتے تھے۔ کسی بھی موضوع پر انہیں اظہار خیال کی دعوت دی جائے، لگتا تھا جیسے اسی کے متخصص (Specialist) ہیں۔ تاریخ پر ان کی گہری نظر تھی۔ خاص طور پر مسلمانوں کے عروج وزوال کے اسباب سے بخوبی آگاہ تھے۔ ان کی ایک تقریر اس موضوع پر میرے پاس موجود ہے۔ اس میں انہوں نے بڑے خوب صورت انداز میں اہل ایمان کو متوجہ کیا ہے کہ وہ اپنی تابناک تاریخ سے روشنی حاصل کر کے اپنے حال کو سنواریں اور مستقبل کی منصوبہ بندی کریں۔ ان کی مسلسل کوشش تھی کہ مسلمانوں کو زوال کے اسباب سے آگاہ کیا جائے تاکہ ان کا سد باب کیا جا سکے۔ اندلس (Spain) کی تاریخ کا خاص طور پر حوالہ دیتے تھے جہاں مسلمانوں نے آٹھ سو سال تک شاندار طریقے سے حکومت کی اورعظیم الشان تہذیب وتمدن کی بنیادیں رکھیں۔پھر وہاں سے ان کا صفایا کردیا گیا۔غازی ؒ صاحب کے نزدیک حکمرانوں کو سب سے زیادہ تاریخ سے واقف ہونا چاہیے۔وہ کہتے ہیں کہ تاریخ قوموں کا حافظہ ہوتی ہے،فرد اگر اپنا حافظہ بھول جائے تواس کا مقام پاگل خانہ ہوتا ہے،اگرقوم اپنا حافظہ کھو بیٹھے تو اس کا کیا مقام ہونا چاہیے۔ قیادت پر فائز لوگوں کوتاریخ کا گہرا شعور ہونا چاہیے تاکہ قوم کی رہنمائی کا حق ادا کر سکیں۔ (تعمیر افکار، اکتوبر ۲۰۰۷ء ص ۲۵)
ڈاکٹر صاحب قلم کے بھی شہسوارتھے اور متعددتحقیقی کتب کے مؤلف ومصنف تھے۔آپ نے سو سے زیادہ علمی وتحقیقی مقالے مختلف کانفرنسوں میں پیش فرمائے جن میں سے اکثر ملکی وبین الاقوامی جرائد میں طبع ہوچکے ہیں۔ وقیع علمی وتحقیقی کتب کے علاوہ ان کی بعض کتب تو ان کے خطابات سے ہی مرتب کی گئی ہیں۔ان میں سرفہرست محاضرات قرآنی،محاضرات حدیث اور محاضرات فقہ ہیں۔یہ خطابات مستورات کے اجتماعات میں مختصر نوٹس کی مدد سے دیے گئے تھے مگر ان کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے غازی صاحبؒ کو علم سے وافر حصہ عطا فرمایا تھا۔ ڈاکٹر صاحب بنیادی طور پر فقہ اسلامی کے ماہر تھے لیکن ان کی بعض دوسری تحریریں ان کے فکر کی بلندیوں اور وسعتوں کی گواہی دیتی ہیں۔میرے سامنے اس وقت ان کی ایک ایسی ہی تالیف ہے جس سے ان کے فکرکی ہمہ گیری کا پتہ چلتا ہے۔اس کاعنوان ہے: ’’محکمات عالم قرآنی، علامہ اقبال کی نظر میں، قرآنی دنیا کی امتیازی خصوصیات اور اس کی بنیادیں (جاوید نامہ کی روشنی میں)‘‘۔ یہ کتاب ڈاکٹر صاحب نے اپنی صاحبزادیوں کو املا کروائی تھی اوریہ معلوم ہے کہ املا کرانا اورالگ سے بیٹھ کرغوروخوض کر کے کسی موضوع پر لکھنے میں زمین وآسمان کا فرق ہوتا ہے۔ان کی یہ مختصر مگر جامع تالیف ان کی وسعت مطالعہ کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال کے فکروفلسفے سے کماحقہ آگاہی کی بھی آئینہ دار ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹرغازیؒ صاحب کو بے پناہ ذہانت وفطانت سے نوازا تھا۔ میں نے جب بھی ان سے کوئی استفسار کیا یا کسی موضوع پر گفتگو کی، وہ فوراًاس کی تہہ تک پہنچ جاتے تھے۔ یہ کوئی تین چار سال پہلے کی بات ہے۔ وہ اسلامی یونیورسٹی ،فیصل مسجد میں اپنے دفتر میں تشریف فرما تھے۔ میں ملاقات کے لیے حاضر ہوا ۔اثنائے گفتگو میں مغرب کا عالم اسلام کے ساتھ رویہ زیر بحث آیا تو فوراً مجھے اپنا ایک مضمون دراز سے نکال کر دیا جو’’تعمیر افکار‘‘ کی اشاعت بابت ماہ اکتوبر۲۰۰۷ء میں بھی چھپ چکا ہے۔ مضمون کا عنوان ہے’’اسلام ا ورمغرب۔ موجودہ صورت حال، امکانات، تجاویز‘‘۔ یہ بھی آپ کی فی البدیہ تقریر تھی جس کوصفحۂ قرطاس پر منتقل کر کے آپ کی نظر ثانی کے بعد شائع کیا گیا تھا۔ یہ مضمون مغربی دنیا کے حوالے سے آپ کی فکر کا نچوڑ ہے ۔اس کے ذریعے آپ نے بڑے جامع اندازسے مغرب کے مسلمانوں کے ساتھ رویے کا تجزیہ کیا ہے اور مسلمانوں کو مغربی طاقتوں کے عزائم سے خبردارکیا ہے۔ مغرب اوراسلام کی موجودہ کشمکش کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’امت مسلمہ کے عالم گیر کردار میں یہ بات بنیادی طور پر شامل ہے کہ ان کا ایک طویل عرصے تک یہودیوں اور عیسائیوں سے واسطہ رہے گا، مقابلے کی نوعیت پیش آتی رہے گی،تصادم ہوتا رہے گا،اوراس تصادم کے لیے مسلمانوں کویہ دو سورتیں (سورۃ البقرۃ، سورۃ آل عمران) تیار کر رہی ہیں‘‘۔ (تعمیر افکار، اکتوبر ۲۰۰۷ء ص ۲۰)
موجودہ مغرب جس کا سرغنہ امریکہ ہے اورکبھی اس کا کرتا دھرتا برطانیہ تھا، ہر ایک کی رگ جاں پنجۂ یہود میں ہے۔ اس کے ڈانڈے بھی یہود ونصاریٰ کے آغاز اسلام کے طرزعمل سے ملتے ہیں۔ ڈاکٹر غازی ؒ کے الفاظ میں : ’’جس کو ہم مغرب کہتے ہیں، اس سے مسلمانوں کا مقابلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک سے شروع ہوگیا تھا۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرقل کو نامۂ مبارک بھیجا۔ ہرقل مشرقی سلطنت روم کا فرماں روا تھا‘‘۔ (تعمیر افکار، اکتوبر ۲۰۰۷ء ص ۲۰) گویا اس مخالفت کا اصل سبب دعوت اسلام بنی اورجب خلافت راشدہ کی صورت میں اسلام کا عادلانہ نظام اپنی بہاریں دکھانے لگا تو اس مخالفت میں اضافہ ہوگیا، کیونکہ قیصر کی خدائی خطر ے میں پڑگئی تھی۔اب کبریائی وخدائی صرف اللہ کا حق تھا۔ سارے انسان اللہ کی نیابت(خلافت)کے تو حقدارہو سکتے ہیں، لیکن خدائی منصب کسی کونہیں مل سکتا۔ اس کی عملی شکل خلافت راشدہ کے زمانے میں سامنے آئی توبندوں پر خدائی کا دعویٰ رکھنے والے خم ٹھونک کر میدان میں آگئے۔ مسلمانوں نے ان کا مقابلہ میدان جنگ میں کیا۔غازیؒ صاحب لکھتے ہیں: 
’’اس کے (یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے) بعداصل تصادم اورمقابلہ خلفائے راشدین کے زمانے میں ہوا۔ صلیبی جنگوں کے بعد ایک طویل عرصے تک اسپین میں یہ مقابلہ جاری رہا، جنوبی یورپ کے ذریعے یہ سابقہ پیش آتا رہا۔ پھر استعمار اور ایسٹ انڈیا کمپنیوں کے ذریعے ہوا۔ اس کے بعد گزشتہ سوسال سے جوکچھ ہو رہا ہے، وہ بھی ہمارے سامنے ہے‘‘۔ (تعمیر افکار، اکتوبر ۲۰۰۷ء ص۲۰)
ڈاکٹر صاحب مرحوم کو شدیداحساس تھا کہ مغربی دنیا اوراقوام متحدہ جیسے نام نہاد عالمی ادارے مسلمان ملکوں کو بالعموم اورپاکستان کو بالخصوص اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں:
’’جب گورے کی ہدایت آتی ہے کہ قیام امن کے لیے فلاں جگہ فوج بھیجواورمسلمانوں کی بندوقوں کے ذریعے مسلمانوں کو زیرکرکے ہمارے مفادات کے لیے راہ ہموار کرو ،تو تیمور میں بھی فوج چلی جاتی ہے،صومالیہ میں بھی چلی جاتی ہے اورایری ٹیریا میں بھی چلی جاتی ہے۔دنیائے اسلام کے سپاہیوں کے ذریعے ،دنیائے اسلام کی بندوقوں کے ذریعے،دنیائے اسلام کے مسلمانوں کی تلواروں کے ذریعے مسلمانوں کی گردنیں کاٹی جائیں،اور ان کو کاٹ کاٹ کرعیسائی اورمسیحی ریاستیں قائم کی جائیں۔‘‘ (تعمیر افکار، اکتوبر ۲۰۰۷ء ص ۲۴) 
انگریزوں کے گن گانے والوں کو آئینہ دکھاتے ہوئے کہ ان کے ممدوح کتنے مہذب اور انسان دوست تھے، لکھتے ہیں: 
’’انیسویں صدی کے آغاز میں مسلمانوں میں پنجاب میں سوفیصد تعلیم تھی اور بحیثیت مجموعی ۸۴فیصد تھی اورجب انگریز ۱۹۴۷ء میں ہندوستان سے گیا تو پنجا ب میں مسلمانوں میں تعلیم کا تناسب ۴فیصد تھا۔ انگریز سوکو چار پر لے آئے اورپوری قوم کو جاہل چھوڑکرچلے گئے۔یہ ہے اس دعوے کی حقیقت جو کہا جاتا ہے کہ مغربی ممالک کا ایک سویلائزنگ رول تھا۔آج بھی ہمارے ہاں بہت سے سادہ لوح اور مشرق بے زار لوگ کہتے ہیں کہ انگریز نے ہمیں سویلائز کردیا۔ یہ سویلائز کیاکہ سو فیصد تعلیم کوسو فیصد جہالت میں بدل دیا‘‘۔ (تعمیر افکار، اکتوبر ۲۰۰۷ء ص ۲۶)
ڈاکٹر صاحب مرحوم نے اپنا ایک سبق آموز واقعہ بیان کیا ہے جس سے مغربیوں کے سازشی کردار کی عکاسی ہوتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: 
’’اکتوبر ۱۹۷۴ء میں ایک پروفیسر صاحب امریکہ سے تشریف لائے۔ وہ ایک مشہور امریکن یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔ ...وہ پروفیسر صاحب بہت سے لوگوں سے ملے،مجھ سے بھی ملے۔ مجھ سے ملنے کے بعد انہوں نے کہا کہ میں الگ سے گفتگو کرنا چاہتا ہوں، تم مجھ سے ملنے کے لیے آؤ۔ میں ان سے ملنے چلا گیا۔ دوران ملاقات انہوں نے کہا، امریکہ میں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے تم جس یونیورسٹی میں چاہو، میں تمہیں اسکالرشپ دے سکتا ہوں۔.... میں نے کہا، مجھے ہارورڈ میں داخلہ دلوا دیں۔ انہوں نے کہاٹھیک ہے۔ ....تم ایک سال کے لیے امریکہ آؤ، ہارورڈ یونیورسٹی میں کورس ورک کرو۔ ....پھرواپس پاکستان آجاؤ۔ انہوں نے جو نقد وظیفہ بتایا، وہ اتنا تھا جتنا اس وقت حکومت پاکستان کے سیکرٹری کو بھی تنخواہ نہیں ملتی تھی۔ ...انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں رہ کر یہ معلومات جمع کرو کہ پاکستان میں دینی مدارس کیا کام کرتے ہیں، کتنے دینی مدارس ہیں، کون کون علماے کرام ان کو چلا رہے ہیں، وہ کیا کیا پڑھاتے ہیں، کیا ذہن بناتے ہیں اورجو لوگ ان سے تیار ہوتے ہیں، وہ بعد میں کیا کام کرتے ہیں، ان کا رویہ مغرب کے بارے میں کیسا ہوتا ہے؟ یہ ساری معلومات جمع کر کے آؤ، پھر میرے ساتھ بیٹھ کر اس کو مرتب کرو، اس کی بنیادپر تمہیں ہارورڈ یونیورسٹی پی ایچ ڈی کی ڈگری دے دے گی‘‘۔ (تعمیر افکار، اکتوبر ۲۰۰۷ء ص ۳۳) 
غازی صاحب ؒ نے جس خوبصورتی سے مغرب کی مسلمانوں کوگمراہ کرنے کی تدابیر کا ذکرکیا ہے، وہ انھی کے ذہن رساسے ہی ممکن تھا۔اللہ تعالیٰ انہیں اجر عظیم سے نوازے۔ آمین۔
غازیؒ صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں مسلمانوں کو بھی جھنجھوڑا ہے کہ وہ کھوکھلے نعروں سے اسلام کوبدنام کرتے ہیں۔ اس حوالے سے اپنے دورۂ ازبکستان کا ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: 
’’۱۹۹۰ء میں مجھے ازبکستان جانے کا موقع ملا۔ ...میں نے صدر ازبکستان سے کہاکہ ...آپ ازبک نوجوانوں کو ہمارے تعلیمی اداروں میں آنے کی اجازت دیں۔ صدر صاحب مسکرائے اورانہوں نے کسی سے اپنی زبان میں کچھ کہا اوراس نے ایک موٹی سی فائل لاکر صدر کے سامنے میز پر رکھ دی۔ صدرصاحب نے وہ فائل میری طرف لڑھکا دی۔ میں نے فائل کوکھولا تو اس میں اخبارات کے تراشے تھے اورہمارے پاکستان کے بہت سے مذہبی، دینی سیاسی قائدین کے بیانات تھے کہ ہم فلاں جگہ جھنڈا لہرا دیں گے اور سمرقند وبخارا کو آزاد کرا دیں گے ... جب میں اس فائل کی ورق گردانی کر چکا تو صدر ازبکستان کہنے لگے کہ تم یہ سب کرنے کے لیے طلبہ کو لے جانا چاہتے ہو؟ سچی بات یہ ہے کہ ... میرے پاس سوال کاجواب نہیں تھا‘‘۔ (تعمیر افکار، اکتوبر ۲۰۰۷ء ص ۳۴) 
متذکرہ بالا اقتباسات سے عیاں ہے کہ غازی ؒ صاحب محدود معنی میں معلم و مدرس ہی نہیں تھے بلکہ عالمی حالات کا گہرا شعور بھی رکھتے تھے۔ طوالت سے بچتے ہو ئے مغرب کے چند جرائم کا ذکر کرنا ضروری ہے جن کو وہ عالم انسانیت کے لیے انتہائی خطرناک سمجھتے تھے۔ مثلاً عالمگیریت (Globalization) کو وہ مسلمانوں کے وسائل پر قبضے اوران کے تشخص کو مٹانے کا ایک منصوبہ خیال کرتے تھے۔ مزید برآں وہ عالمگیریت کو انسانوں کے درمیان تفریق وتقسیم کا آلۂ کار گردانتے تھے۔ ان کی یہ پختہ رائے تھی کہ اہل مغرب کو اسلام کے حوالے سے کوئی غلط فہمی یا مغالطہ نہیں ہے، بلکہ یہ ان کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے کہ اسلام ومسلمانوں کی مخالفت کر کے وہ دنیا کی توجہ اسلام سے ہٹانا چاہتے ہیں کیونکہ و ہ دیکھ رہے ہیں کہ مستقبل اسلام کا ہے۔ مغرب کے متعصبانہ رویے کے باوجود اسلام وہاں تیزی سے پھیل رہا ہے۔خاص طور پر طبقۂ خواتین اسلام کی طرف زیادہ رجوع کررہاہے۔
غازی ؒ صاحب کی زندگی کا ایک اور پہلو بھی قابل توجہ ہے ۔آپ اپنی تعلیمی وتدریسی مصروفیات کے باوجود جس طرح تصنیف وتالیف کاکام بھی جاری رکھتے تھے، یہ آپ ہی کا خاصہ تھا۔ان ہمہ جہتی مشاغل کے باوجود طبیعت میں ہمیشہ بشاشت ہوتی تھی۔دگر گوں حالات میں بھی پرامید (Optimistic) ہوتے تھے۔عالم اسلام کے حوالے سے کسی اندیشے میں مبتلا ہونے کی بجائے وہ ہمیشہ روشن مستقبل کی بات کرتے تھے۔
آپ سماجی ومعاشرتی تعلقات کا کتنا خیال رکھتے تھے، اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسلامی یونیورسٹی میں اعلیٰ منصب پر فائز ہونے کے باوجود اپنی بیٹی کی دل جوئی کے لیے اس کی سہیلی کی مہندی کی رسم میں ایک دفعہ شرکت کے لیے چلے گئے۔ یہ اور با ت ہے کہ وہاں پر جو ہندوانہ خرافات ورسومات دیکھیں تو ان پر بعد میں اپنی تقریر کے دوران تأسف کا اظہار بھی کیا اور کھل کر اس ہندوانہ ثقافت کی مخالفت کی اور بر ملا اعتراف بھی کیا کہ اس سے پہلے وہ اس قسم کی رسوم کو محض سماجی Gatherings سمجھتے تھے، لیکن متذکرہ محفل میں انہوں نے دیکھا کہ نوجوان لڑکے لڑکیاں پیلے کپڑے پہنے، ہاتھوں میں گیندے کے پھول اٹھائے ہوئے اور عجیب وغریب انداز سے الٹی سیدھی حرکتیں کرتے ہوئے محفل میں نمودارہوئے تووہ سخت پریشان ہوئے اور آئندہ کے لیے ایسی محافل میں شرکت نہ کرنے کا عزم کیا۔ ان کی مخالفت اور تنقید کا انداز بھی بہت پیارا ہوتا تھا۔ مثلاً انسانی حقوق کے حوالے سے مغرب کے دہرے معیار پرتبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ Dignity of man کی باتیں کرنے والوں کواسلام کے قانون قصاص پر بڑا اعتراض ہے کہ اس میں ایک جان ضائع ہو جاتی ہے۔ خود کسی سے انتقام لینا ہو تو بستیوں کی بستیاں تاراج کر لیں گے، لیکن قصاص میں ایک انگلی کے کٹنے پر یہ شور برپا کر دیتے ہیں۔ (روایت بالمعنی)
ڈاکٹر صاحب ؒ علم وعمل کے ساتھ ساتھ ایک اعلیٰ پایے کے منتظم بھی تھے۔ آپ نے اپنی انتظامی صلاحیتوں کا بہترین استعمال کیا۔ یوں تو دعوۃ اکیڈمی،شریعہ اکیڈمی اوردیگر اداروں کے انتظام وانصرام باحسن طریق انجام دیے، مگر اسلامی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی حیثیت سے آ پ نے جس نظم و نسق کا طلبہ واساتذہ کو پابند بنایا اور ایک مثالی تعلیمی ماحول قائم کیا، وہ قابل ستائش ہی نہیں قابل تقلید بھی تھا۔ عام طور پرڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ کو صر ف ایک دینی سکالر اور ماہر تعلیم سمجھا جاتا ہے لیکن فی لواقع وہ اس سے کہیں زیادہ تھے۔وہ ایک مجتہد وفقہی ہونے کے علاوہ ایک مصلح کی سی شان کے حا مل بھی تھے۔ان کی بہت ہی پختہ رائے تھی کہ اسلام کے عادلانہ نظام کے اندر انسانیت کے تمام دکھوں کا مداوا موجود ہے اور آج اگر اس نظام عدل وقسط کودنیامیں قائم کر کے دکھا دیا جائے تو دنیا اسلام کی طرف لپک پڑے گی اور باطل نظاموں کے مظالم میں گھری ہو ئی انسانیت سکھ کا سانس لے سکے گی۔ وہ لکھتے ہیں:
’’عالم قرآنی یا قرآنی دنیا سے مراد انسانی زندگی کا وہ ڈھنگ ہے جو قرآن مجید کی تعلیم وہدایات پر استوار ہو۔ گذشتہ تین صدیوں سے اسلامی ادبیات اور اسلامی فلسفہ سیاست وقانون کا سب سے اہم موضوع یہی رہا ہے کہ اس مثالی دنیا کو از سر نو دریافت کیا جائے جو ہر مسلمان کے دل کی آواز ہے، جو مشرق و مغرب کے اہل ایمان کے لیے ایک ایسے آئیڈیل کی حیثیت رکھتی ہے جس کے حصول کی خاطر نہ معلوم کتنی نسلیں قربانیاں دیتی چلی آرہی ہیں۔ نہ معلوم کتنی سعید روحیں اس ہدف کے حصول میں جانوں کا نذرانہ پیش کر چکی ہیں۔ نہ معلوم کتنے اہل علم و دانش کے شب و روز اس عالم منتظر کی تفصیلات پر غور و خوض کرنے میں صرف ہوئے ہیں۔ یہ عالم قرآنی دنیائے اسلام کی وہ منزل و مقصود ہے جس تک پہنچنے کے لیے لاکھوں نہیں کروڑوں انسانوں نے جان و مال کی بازیاں لگائی ہیں۔ مسلم سیاسی مفکرین نے حکومت الہیہ، خلافت ربانی، اسلامی حکومت اور اسلامی ریاست کے عنوانات کے تحت اسی جہان مطلوب کے چہرے سے نقاب اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ فقہائے اسلام نے نفاذ شریعت اور فقہ اسلامی کی تدوین نو کے موضوعات پر جو کچھ لکھا ہے وہ اسی ہدف کو پیش نظر رکھ کر لکھا ہے۔ احیائے اسلام اور ملت اسلامی کی نشأۃ ثانیہ کے لیے گزشتہ چند صدیوں میں جو کاوشیں ہوئی ہیں ان کی منزل مقصود بھی ایک ایسی دنیا کی تشکیل تھی جہاں قرآن مجید اور اسوہ رسول ؐ کو سامنے رکھ کر انفرادی اور اجتماعی زندگی کے اسلامی ڈھنگ اپنائے جاسکیں‘‘۔ (محکمات عالم قرآنی صفحہ۴، ۵)
ڈاکٹرصاحبؒ نے علامہ اقبال کے حوالے سے عالم قرآنی کے چار محکمات کا ذکر کیاہے یعنی ’’خلافت آدم، حکومت الٰہی، زمین ملک خدا ہے اور حکمت خیرکثیر ہے‘‘۔ (محکمات عالم قرآنی صفحہ۲۱) اسلام کے عادلانہ نظام، جس کو وہ عالم قرآنی کہتے ہیں، کے قیام کاخواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا جب تک علم الادیان اور علم الابدان کی دوئی کو ختم نہیں کیا جاتا۔ اس ضمن میں ان کا موقف یہ تھا کہ دینی ومذہبی علوم، علم وحکمت کی اساس ہیں، لیکن ان کے ساتھ ساتھ علم وحکمت کے دائرے میں علم اسماء وعلم تجربی (Modern Scientific Knowlege) بھی شامل ہیں۔ علوم وفنون کی یہ وحدت اسلام کے تصور علم کی بنیادہے۔ تعلیم میں دوئی سے فکرو نظر میں دوئی پیداہوتی ہے اور فکرو نظر میں دوئی سے اس وحدت فکروعمل پر زد پڑتی ہے جو عقیدۂ توحید کے لازمی نتیجے کے طور پر امت مسلمہ میں قائم رہنی چاہیے۔
ڈاکٹرغازیؒ کی فکری پختگی کامظہران کی مغرب کے بارے میں منفردرائے ہے۔ وہ مغربی تہذیب کو Secular کی بجائے مسیحی کہتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: 
’’ہمارے ہاں بہت سے حضرات سادہ لوحی سے مغرب کا مطالعہ کرتے ہیں اور مغرب کے ظاہری دعووں سے متأثر ہو جاتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مغرب نے مذہب کوگھر سے نکال دیا ہے اور اب مغرب ہر مذہبی تعصب سے آزاد ہے۔ وہ حضرات یہ بھول جاتے ہیں کہ مغرب نے مذہب کوایک خاص علاقے سے نکالا ہے، گھر سے نہیں نکالا۔ مغرب کی ہر چیزعیسائی تہذیب وتمدن، عیسائی روایات اور عیسائی تعصبات پر مبنی ہے‘‘۔ (تعمیرافکار، اکتوبر ۲۰۰ء، ص ۲۱) 
ڈاکٹر محموداحمدغازی رحمہ اللہ کی زندگی کے یہ وہ پہلوہیں جن کا کسی درجے میں راقم الحروف کوعلم تھا۔ آئندہ کوئی صاحب عزم وہمت ان کی زندگی پر تحقیق کرکے ان کی شخصیت کے مزیدپہلوؤں کو اجاگرکرسکتا ہے۔ ایسی نابغۂ روزگار شخصیات کے بارے میں آگاہی آنے والی نسلوں کے لیے رہنمائی کا کام دے گی۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی دینی خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے اور ہم سب کوان کا سا جذبہ اوراخلاص عطا فرمائے۔ جس لگن ومحنت سے انہوں نے دین وملت کی خدمت کا فریضہ بحسن وخوبی انجام دیا، اللہ ہمیں اس میں سے کچھ حصہ نصیب فرمائے۔ اللھم اغفرلہ وارحمہ وحاسبہ حسابا یسیرا۔ آمین یا رب العٰلمین۔

اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

محمد رشید

۲۶ ستمبر ۲۰۱۰ء کو میرے موبائل پر میسج ابھرا کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی وفات پاگئے ہیں۔ میسج کیا ابھرا کہ مجھے اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا۔ دُکھ اور محرومی کا ایک گہرا احساس روح میں اترتا ہوا محسوس ہوا۔ مملکت پاکستان جس پر آج کل چہار اطراف سے آفات حملہ آور ہیں،ان حالات میں وہ کتنے بڑے نقصان سے دوچار ہوگئی ہے، یہ سوچ کر ہی دل میں درد کی ٹیسیں اٹھتی ہیں۔
جن علمی و دینی شخصیات کی علمی کاوشوں سے ہم استفادہ کرتے رہے ہیں، ان میں سے سال ۲۰۱۰ء میں یہ دوسری علمی و دینی شخصیت ہے جن کی وفات ذاتی نقصان کی طرح دکھی و پریشان کرگئی۔اگرچہ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم و مغفور کی وفات پر بھی دل پر ایک چوٹ پڑی، روح کی گہرائیوں میں چھناکے سے ہوتے ہوئے محسوس ہوئے لیکن ڈاکٹر محمود احمد غازی کی وفات نے تو محض دکھی ہی نہیں کیا، دل سخت بے چینی وکرب سے بھی دوچار ہوگیا۔ یہ بات واقعتا ہمارے لیے بھی خاصی حیران کن تھی کہ جس شخص سے ہم زندگی میں ایک بار بھی نہیں ملے ، اس کی وفات پر دُکھ کا ایسا احساس تھا کہ آنسو اندر ہی اندر گلے سے اتر کر دل کے پار ہوتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔
ڈاکٹر غازی صاحب سے ہماری پہلی غائبانہ ملاقات ان کی کتاب ’’محاضراتِ قرآن‘‘ میں ہوئی۔ ان کی یہ کتاب پڑھ کر ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ ایک مخلص، ذہین، علوم پر گہری دسترس رکھنے والے، ابلاغ کی قوت سے مالا مال، بات کو عام فہم اور سلیس انداز سے سامع تک پہنچانے والے، علم و تحقیق سے شغف رکھنے والے ، جدید پڑھے لکھے انسان کے سامنے دین کو پیش کرنے کی صلاحیتوں سے مالا مال ایک سادہ اور حلیم طبیعت کے مالک انسان ہیں۔
ڈاکٹر غازی صاحب سے ہماری دوسری غائبانہ ملاقات قدرے مختلف تاثرات کی حامل ثابت ہوئی۔ ہوا یوں کہ ہمیں ’’علم حدیث‘‘ پر جدید محققین کے کام اور آرا کا مطالعہ کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو ہم نے ڈرتے ڈرتے اور کسی قدر خوف و امید کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ ڈاکٹر غازی صاحب کی کتاب ’’محاضرات حدیث‘‘ کا مطالعہ شروع کیا۔ ہمیں ڈریہ تھا کہ ڈاکٹر غازی صاحب کے بارے میں ہمارا جو تاثر بن چکا تھا، وہ کہیں اس کتاب کے مطالعہ سے ٹوٹ نہ جائے۔ غازی صاحب جیسا فطین اور عبقری شخص حدیث پر بحث کرتے ہوئے کہیں راہ اعتدال سے ہٹ نہ جائے جیسا کہ آج کل کے ذہین لوگوں کا المیہ ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ اچھے بھلے دین پر چلتے چلتے ’’منکرین حدیث‘‘ کے ’’پرویزی حیلوں‘‘ میں ایسے پھنستے ہیں کہ ان کے دماغ کو لاکھ اس گورکھ دھندے اور دلدل سے نکالنے کی کوشش کرو، ’’ذہانت اور فطانت‘‘ کا فتنہ انہیں اس جال سے نکلنے ہی نہیں دیتا۔خیر! ہم جوں جوں اس کتاب کے مطالعے میں آگے بڑھتے گئے، قدرے مختلف گہرے تاثرات میں پھنستے چلے گئے۔ کتاب پڑھنے کے بعد ہم اس خوشگوار تاثر سے ہم کنار ہوئے کہ عصر ی مغربی علوم پر گہری نظر رکھنے والا، جدید دنیا میں رہنے والا، جدید دنیا کے پڑھے لکھے انسانوں سے میل جول رکھنے والا ایک ذہین اور فطین انسان حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہیں بھی معذرت خواہی یا کجی کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ 
ہم پر ایک اور انکشاف ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کو اللہ تعالیٰ نے ایسی زبردست صلاحیتوں سے نوازا ہے کہ وہ امت مسلمہ کی چودہ سوسالہ تاریخ کی علمی و تحقیقی کاوشوں کو موثر اور سلیس انداز میں پیش کرنے کاایسا ملکہ رکھتے ہیں کہ جدید دور کا انسان متاثر اور مبہوت ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ڈاکٹر صاحب کی یہ وہ خوبی ہے جو انہیں موجودہ دور کے قدیم و جدید علوم کے تمام علما سے بہت بلند، منفرداور نمایاں مقام عطا کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹرغازی صاحب کو پڑھ کو ہمیں پہلی دفعہ ’’علمی اور عقلی‘‘ سطح پر اپنے اسلاف پر فخر محسوس ہوا، ورنہ عام طور پر مذہبی علوم کے علما اسلاف کے علمی ورثے کو جس ’’انداز‘‘ سے پیش کرتے ہیں، اس سے جدید تعلیم یافتہ انسان متاثر تو کیا ہو، اسے ایک قسم کا توحش اور اجنبیت سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ ڈاکٹرغازی صاحب کی اس دوسری کتاب کو پڑھ کر ہمیں یہ بھی محسوس ہوا کہ وہ ’’عقائداوربنیادی فکر‘‘ کے معاملہ میں مولویوں سے زیادہ پختگی، اعتدال اور توازن پر کاربند ہیں۔
ڈاکٹر غازی صاحب کی تحریریں پڑھ کر کچھ اورخوبیوں کا تاثر دل پر پڑا، لیکن خدشہ ہوا کہ اگر ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی تو شاید یہ تاثر ٹوٹ نہ جائے۔ اس لیے شدید خواہش کے باوجود ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کی ہمت ہی نہیں ہوئی۔ ان کی اچانک وفات کے بعد مورخہ ۲۰۱۰ء/۹/۲۸ کو روزنامہ اسلام میں ڈاکٹر سید عزیز الرحمن نے ان الفاظ میں ان کی شخصیت کا نقشہ کھینچا: ’’ڈاکٹر صاحب حد درجہ متقی شخص تھے۔ برس ہا برس کا مشاہدہ ہے کہ سرکاری و دفتری ذمے داریوں میں سرکاری مراعات سے کبھی ذاتی فائدہ نہیں اٹھایا۔ ڈاکٹر صاحب کا وجود عالم اسلام کے لیے بساغنیمت تھا۔ بین الاقوامی فورم پر اسلام اور پاکستان کی نمائندگی کا جو سلیقہ ڈاکٹر صاحب کو حاصل تھا، اس کی مثال کم ملے گی۔ پھر علم و فضل اور دینی حمیت و تصلب کے ساتھ ساتھ حسن تکلم و حکمت کی دولت سے آراستہ تھے۔‘‘
اسی طرح مورخہ ۳۰؍ ستمبر کے روزنامہ اسلام میں مولانا ازہر نے ان الفاظ میں ان کی شخصیت کا نقشہ کھینچا: ’’راقم السطور کو دوچار مرتبہ حضرت ڈاکٹر صاحب کی مجلس میں بیٹھنے اور کسی حد تک استفادہ کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔ غیر معمولی علمی مقام کے باوجود ان کے عجز و انکسار، سادگی، نرم مزاجی اور دھیمے پن نے احقر کو بہت متاثر کیا۔ ڈاکٹر صاحب کی گفتگو سلاست، بلاغت، متانت اور فقاہت کا مرقع ہوتی تھی۔‘‘ 
یہ گواہیاں پڑھ کر جہاں ڈاکٹر غازی صاحب کے بارے دل جو گواہی دے رہا تھا، اس کی تصدیق ہوگئی، وہاں ان سے ملاقات سے محرومی کا احساس بھی سوا ہو گیا۔
روزنامہ اسلام میں پڑھ کر سخت حیرت ہوئی کہ ڈاکٹر غازی صاحب کا خاندانی و تعلیمی پس منظر خالصتاً مولویانہ اور مذہبی ہے۔حیرت ہے، سخت حیرت پر حیرت ہے کہ ۲۰۱۰ء کے اس سخت زوال و تباہی کے دور میں بھی مدرسہ و خانقاہ کا پس منظر رکھنے والی ایک شخصیت علم و کردار کی ان بلندیوں پرپہنچ جاتی ہے کہ قدیم و جدید علوم کے بڑے سے بڑے ماہرین بھی اس کے سامنے ہیچ نظر آتے ہیں۔اے کاش ! ہمارے مدرسہ و خانقاہ کے نظام میں ایسی کوئی اصلاح ہو جائے کہ وہ ڈاکٹر غازی صاحب جیسی ہستیاں پیدا کرنے لگ جائے تونوع انسانی میں ایک بہت بڑے تعمیری انقلاب اور مثبت تبدیلی کی بنیاد ڈالی جاسکتی ہے۔ ہمارے سیاسی و مذہبی ہردوراہنماؤں کویہ بات پلے باندھ لینا چاہیے کہ دینی حمیت و تصلب کے ساتھ ساتھ حسن تکلم و حکمت ،عجز و انکسار، سادگی، نرم مزاجی،سلاست، بلاغت اور متانت کردار کی وہ بنیادی خوبیاں ہیں جس کے بغیر رہنمائی اور قیادت ایک خواب اور سراب ہے اور جس کے بغیر تعمیری انقلاب اور مثبت تبدیلی کی خواہش کبھی حقیقت کا روپ نہیں دھار سکتی۔
دل کی گہرائیوں سے یہ ندانکل رہی ہے کہ اے کاش! اس امت میں بہت سے ’’ڈاکٹر محمود غازی‘‘ پیدا ہونا شروع ہو جائیں۔ ہمارے بے چین اور مضطردل کی یہ دعاہے۔ مضطر اور بے چین کی پکار بھلا کون سنتا ہے۔۔۔ صرف اللہ۔

آفتاب علم و عمل

مولانا ڈاکٹر صالح الدین حقانی

فنا ایک اٹل حقیقت اور عالمگیر صداقت ہے جس سے آج تک کوئی انکار نہیں کرسکااور موت سے کسی کو رستگاری نہیں۔ دوام اور بقا صرف خدائے برتر کے لیے ہے۔ دنیاایک ایساعالم ہے جس کی کسی بھی چیز کو دوام حاصل نہیں ہے۔ ہر چیز عدم کی طرف رواں دواں ہے۔ حرکت جمود کی طرف گامزن ہے اور زندگی موت کے بے رحم پہرے میں سفر کرتی ہے۔ ہر چیز بزبان حال یہ اعلان کرتی نظر آتی ہے کہ ہر شے کو کسی نہ کسی دن فنا ہونا ہے۔ کسی کو مہلت کم ملتی ہے تو کسی کو زیادہ۔ کامیاب وہ انسان ہے جو موت کو اپنے لیے خوشگوار مرحلہ بنالے کہ فنا بھی اس کو فنا نہ کرسکے اور اس دنیا سے جانے کے بعد بھی وہ کسی نہ کسی صورت میں موجود رہے، خواہ اپنے افکار کی صورت میں یا اپنے قلم کے ذریعے یا ایسی خدمات کے ذریعے جس سے پوری قوم مستفید ہو۔ اس بقا کی بہترین صورت ’’ علم ‘‘ ہے جس سے اہل علم کی ایسی جماعت تیار ہو جو استاد کو لازوال بنا دے۔ ایسی ہی لازوال ہستیوں میں استاذ محترم ڈاکٹر محمود احمد غازی ؒ بھی تھے جو ۲۶ ستمبر۲۰۱۰ء کو بعد از نماز فجر دل کے دورے سے انتقال فرماگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ گزشتہ کچھ عرصے سے مسلسل یہ کیفیت ہے کہ منطوق الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مصداق عین الیقین کے درجہ میں سامنے آ رہا ہے۔ (آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس دنیا کو تنگ فرما دے گا۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا کہ تنگی سے کیا مراد ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ’’بقبض العلماء‘‘، وہ علمائے ربانیین کو اٹھا لے گا۔) 
مئی سے ستمبر ۲۰۱۰ء کے دوران میں تھوڑے تھوڑے وقفے سے پانچ بڑے بزرگ اور جید علماے کرام دارفانی سے داربقا کی طرف رخصت ہوگئے۔ ان میں سے خواجہ خان محمد صاحب (۵؍ مئی ۲۰۱۰ء)، راولاکوٹ (آزاد کشمیر) کے خان اشرف صاحب (۱۸؍اگست۲۰۱۰ء)، ان کے بعد تھوڑے ہی عرصے میں پلندری (آزاد کشمیر) کے بزرگ مولانا محمد یوسف خان صاحب، پھر قاضی عبداللطیف صاحب آف کلاچی ، پھر وانا کی ایک بزرگ شخصیت حضرت مولانا نور محمد صاحب شامل ہیں۔ ان مذکورہ جبال العلم کے فراق سے بندہ کے دل کے زخم ابھی مندمل نہیں ہو ئے تھے کہ ا یک اور جگر خراش اور جانکاہ اطلاع ملی کہ استاذ محترم ڈاکٹر محمود احمدغازی نے داعی اجل کو لبیک کہہ دیا ہے۔
یہ ۲۰۰۳ء کی بات ہے۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحبؒ کو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی سے بحیثیت مہمان خصوصی ایم فل علوم اسلامیہ کے اسکالرز سے خطاب کرنے کے لیے زحمت دی گئی تھی۔ آپ کے لیکچر کا عنوان تھا: ’’مشرقی اور مغربی علوم کا تقا بلی اور تنقیدی جائزہ‘‘۔آپ کے لیکچر سے پہلے استاذ محترم ڈاکٹر محمد ضیاء الحق نے فرمایا کہ کیا آپ ڈاکٹر صاحب کو جانتے ہیں؟ بس ہماری بڑی خوش قسمتی ہے کہ آج ڈاکٹر صاحب جیسی شخصیت ہمارے درمیان میں موجود ہے جن کا ہر بیان ایک تحقیقی مقالے سے کم نہیں ہوا کرتا۔ آپ توجہ اور دھیان سے ان کا لیکچر سنیں گے اور مجھے امید واثق ہے کہ ان کا یہ لیکچر آپ کے لیے تحقیقی مراحل میں تازیانہ اور مہمیز کا کام دے گا۔ دو گھنٹوں پر مشتمل ڈاکٹر صاحب کے لیکچر نے آپ کو ہزار گنا زیادہ ارفع ثابت کر دیا۔ 
اس ورکشاپ کے ایک مہینہ بعد یونیورسٹی نے ڈاکٹر محمد حمید اللہ کانفرنس منعقد کی جس میں بطور مہمان خصوصی آپ کو بلایا گیا۔ آپ نے اپنے استاذ محترم ڈاکٹر محمد حمیداللہ کی آرا وافکار اور خدمات کو جس انداز سے پیش کیا، وہ اپنی مثال آپ تھا۔ چائے کے وقفہ میں استاذ محترم ڈاکٹر محمد ضیاء الحق صاحب میرا ہاتھ پکڑ کر ڈاکٹر صاحب سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ ’’یہ حقانی صاحب ہیں، ایک ممتاز عالم دین مولانا محمد کامل شاہ صاحب کے فرزند ارجمند اور ان کے علمی ورثے کے امین ہیں۔ ہمارے ساتھ ایم فل (علوم اسلامیہ) کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ’’بسطۃ فی العلم والجسم‘‘ کے صحیح مصداق ہیں۔ ان کو دیکھ کر مجھے بڑی خوشی ہوتی ہے‘‘۔ اس پر ڈاکٹر صاحب فرمانے لگے: ’’ہمیں تو ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے اور یہی ہمارا اصل سرمایہ اور امت کی راہنمائی کی اہلیت رکھنے والے چند گنے چنے افراد ہیں‘‘۔ پھر فرمایا: حقانی صاحب! کبھی یونیورسٹی تشریف لائیں تاکہ تفصیلی نشست کی جائے۔ آپ کی اعلیٰ ظرفی دیکھ کر دل بے اختیار کہنے لگا:
کہاں میں اور کہاں نکہت گل
نسیم صبح، تیری مہربانی
ایک ہفتہ کے بعد میں یونیورسٹی حاضر ہوا۔ سلام کے بعد آپ فرمانے لگے، حقانی صاحب! بڑی خوشی ہوئی کہ آپ سے ملاقات ہو ئی، کیسے تشریف لائے؟ میں نے کہا کہ ایک نشست کے لیے وقت چاہیے۔ فرمانے لگے: Most Welcome۔ کل تو میں بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان جارہاہوں، لہٰذا پرسوں مغرب کے بعد تشریف لے آئیں۔ حسب ارشاد میں پندرہ منٹ پہلے پہنچ گیا۔ آپ انتظار فرمارہے تھے۔ بڑے مشفقانہ انداز سے گلے ملے اور ایسا پیار دیا جیسے ایک مشفق باپ دیتا ہے۔ ہماری ون ٹوون پروقار مجلس شروع ہو ئی۔ عصر حاضر کے چیلنجز سے نمٹنے کی بابت جب میں نے ایک سوال کیا تو اس پر ڈاکٹر صاحب نے ایک تفصیلی خطبہ ارشاد فرمانے کے بعد مزید فرمایا:
’’ حقانی صاحب! سچی بات یہ ہے کہ دور جدید ایک پیچیدہ دور ہے۔ اس دور کے ارادے، تصورات اور اس دور کے معاملات اتنے پیچیدہ ہیں کہ اس کے لیے بڑی خصوصی مہارتیں درکار ہیں۔ اس وقت پاکستان میں مثلاً ’’بلاسود بینکاری‘‘ کا ایک بڑا چیلنج درپیش ہے، لیکن پاکستان میں کتنے لوگ ہیں جو شریعت کا بھی عمیق علم رکھتے ہوں اور جدید بینکاری کے تقاضوں کو مکمل طور پر سمجھتے ہوں، اس طرح کہ دنیا بھر کی سطح پر بینکاروں سے مقابلہ کرسکیں؟ تو کیا یہ ہم پر فرض کفایہ نہیں ہے کہ ہم شریعت کے ایسے مایہ ناز اور اصحاب بصیرت ماہرین پیدا کریں جو دینی ماحول، دینی تربیت اور دینی ذوق ومزاج کے ساتھ ساتھ دور جدید کے معیار کی فنی مہارت رکھتے ہوں؟‘‘
استدلال کے طور پر آپ نے دو واقعات سنائے۔ فرمایا: حقانی صاحب! امام احمد بن حنبل ؒ جیسا متبع سنت اور فقیہ ان کے دور میں کوئی نہیں گزرا ۔ ان سے کسی نے مشورہ کیا کہ فلاں جگہ جہاد کا معاملہ درپیش ہے۔ مختلف علاقوں سے افواج، رضاکاروں اور مجاہدین کے دستے جارہے ہیں۔ ایک فوجی کمانڈر کی سربراہی میں ایک بڑا دستہ تیار ہو رہا ہے۔ وہ کمانڈر بڑا متقی اور پرہیزگار ہے، بڑا نمازی اور شب زندہ دار ہے، لیکن سیاسی وعسکری معاملات میں خاص ماہر نہیں ہے۔ البتہ ایک دوسرا شخص ہے جو زیادہ دیندار اور نیک تو نہیں ہے، لیکن اس کی عسکری مہارت بڑی مسلم ہے تو فرمائیے کہ ہمیں کس کے ساتھ جانا چاہیے؟ امام احمد بن حنبل ؒ نے فرمایا: جو شخص نیک ومتقی ہے، لیکن عسکری مہارت میں کم درجہ رکھتا ہے، اس کی نیکی وتقویٰ کا فائدہ اس کی ذات کو ہوگا اور اس کی عسکری عدم مہارت کا نقصان پوری قوم اور اسلامی فوج کو ہوگا۔ جو شخص زیادہ نیک نہیں ہے، اس کی نیکی کی کمی کا جو نقصان ہے، وہ تو صرف اس کی ذات کو ہوگا، لیکن اس کی عسکری ’’مہارت‘‘ کا فائدہ پوری مسلم امہ کو ہوگا‘‘۔ 
مزید فرمایا: بڑی خوشی ہوئی کہ آپ درس نظامی، حفظ قرآن مجید کے ساتھ ساتھ سائنس گریجویٹ بھی ہیں، کیونکہ آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں ایسے اہل علم جو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیوی تعلیم بھی رکھتے ہوں، ان کی بات کا غیر معمولی اثر ہوتا ہے اور جو دورجدید کے محاورے میں اپنی بات کو بیان نہیں کر پاتے، ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس صورت حال پر یہ کہنا کہ ’’ہمیں کوئی ضرورت نہیں کسی کو سمجھانے کی، جس کو سمجھنا ہو خود ہمارے پاس آئے اور ہمارا محاورہ اور اسلوب سیکھ کر آئے‘‘ مجھے اس بات سے ہرگز اتفاق نہیں۔ اسلام پر کسی فرد یا مخصوص طبقے کی اجارہ داری نہیں ہے۔ یہ تمام نسلوں، زمانوں اور قوموں کے لیے ہے، اس لیے اس کے پھیلاؤ کی راہ میں جو بھی جس انداز سے رکاوٹ بنے گا، اسے اپنا انجام یوم آخرت کو پیش نظر رکھ کر سوچ لینا چاہیے۔ 
اپنے ایم فل کے مقالے کے سلسلے میں موضوع کی بابت رہنمائی چاہی تو بڑی قیمتی آرا سے مستفید فرمایا، خصوصاً اپنے استاذ محترم کے نام سے موسوم ڈاکٹر محمد حمید اللہ لائبریری (فیصل مسجد، اسلام آباد) سے استفادے کی ترغیب دی۔ آپ کے ساتھ اس تفصیلی نشست نے میرے لیے مہمیز کا کام دیا اور میں نے بجائے ایک سال کے صرف دس مہینے میں عربی زبان میں ۳۰۸ صفحات پر مشتمل اپنا ایم فل کا مقالہ بعنوان ’’الامام زفر وآراؤہ الفقہیۃ: دراسۃ و نقدا‘‘ پیش کرکے ایم فل کی ڈگری حاصل کرلی۔ استاذ محترم کے ساتھ یہ میری پہلی اور آخری نشست تھی۔ اس کے بعد سیمینارز اور کانفرنسوں میں ملاقات اور اسی طرح بذریعہ فون سلام دعا ہوتی رہتی تھی۔ 
امسال عیدالفطر کے موقع پر میں نے گزارش کی کہ حضرت! آپ نے ہماری خانقاہ کو رونق بخشنے کا کافی عرصے سے جووعدہ فرما رکھا ہے، کیا میں اس کا خیال ذہن سے نکال دو ں؟ آپ نے فرمایا کہ صالح الدین! اگر زندگی نے وفا کی اور داعئ اجل نے تھوڑی مزید مہلت دی تو میرا ایک پروگرام اکتوبر کے پہلے ہفتے میں الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں اپنے بھائی (مولانا زاہد الرشدی) کے ساتھ طے ہوا ہے۔ ان شاء اللہ سیمینار سے فراغت کے بعد یا اس سے پہلے آؤں گا، لیکن بفحوائے ’’تدبیر کند بندہ ، تقدیر زند خندہ‘‘ ۲۶ ؍ستمبر ۲۰۱۰ء کو بعد از نماز فجر جان، جان آفریں کے سپرد کر دی اور عمر بھر کا تھکا مسافر جو شاید ہی کبھی اطمینان کی نیند سویا ہو، منزل پر پہنچ کر میٹھی نیند سوگیا، لیکن ان کی یادیں، ان کی علمی خدمات اور ان کے شذرات قلم سے مستفیدین کا ایک نہ ختم ہو نے والا سلسلہ انھیں صدیوں زندہ رکھے گا۔ 
وقت ایک ایسی دولت ہے جو شاہ وگدا، امیر وغریب، چھوٹے اور بڑے، طاقتور اور کمزور سب کو یکساں ملتی ہے۔ اس کے صحیح استعمال سے ایک وحشی مہذب جبکہ ایک مہذب انسان فرشتہ سیرت بن سکتا ہے۔ اس کی بدولت ایک جاہل، عالم اور ایک نادان، دانا بن سکتا ہے، اس لیے مشہور ہے کہ جو شخص وقت کی قدرکرتا ہے، وہ زمانے میں قیادت وسیادت سنبھال سکتا ہے۔ استاذ محترم کو وقت کی قدر دانی کا عظیم وصف ورثہ میں ملا تھا۔ آپ نے اپنی زندگی کا ایسا نظام الاوقات بنایا ہوا تھا کہ جس میں وقت کا ایک ایک لمحہ تلاش علم، اسلام کی نشرواشاعت، دعوت وتبلیغ، تقریر وتحریراور عمیق ودقیق مسائل کے حل میں گزرتا تھا، یہاں تک کہ دوران سفر بھی تصنیف وتالیف کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔
ایں سعادت بزورِ بازو نیست	
تا نہ بخشد خداے بخشندہ
استاذ محترم کی علمی اور دینی خدمات کا دائرہ بہت وسیع وعریض تھا۔ دورِ جدید کے فکری وتہذیبی مزاج اور نفسیات سے آپ پوری طرح آگاہ تھے اور بالخصوص آج کے دور میں اسلام اور مسلمانوں کو فکر وفلسفہ، تہذیب ومعاشرت ، علم وتحقیق اور نظام وقانون کے دائروں میں جن مسائل کا سامنا ہے ، آپ انتہائی وسعت نظر، گہرائی اور بصیرت کے ساتھ ان کا تجزیہ کرسکتے تھے۔ اسی طرح آپ کی عملی خدمات کا دائرہ بھی مختلف شعبوں میں پھیلا ہوا تھا اور آپ نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، ادارۂ تحقیقات اسلامی اور اسلامی نظریاتی کونسل جیسے اداروں کے ساتھ ساتھ بیرون ملک کی اعلیٰ جامعات کو بھی اپنے علم وفضل سے سیراب کیا، جبکہ وفات کے وقت آپ وفاقی شرعی عدالت کے جج کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ اس قدر اسفار ، کثرت مشاغل اور مختلف اداروں کی ذمہ داریوں کے باوجود آپ نے مختلف موضوعات پر بڑی مفید کتابیں بھی تصنیف فرمائیں۔ 
محاضرات کے عنوان سے آپ نے قرآن، حدیث، فقہ اور سیرت پر مفصل خطبات دیے۔ یہ خطبات مختصر نوٹس کی مدد سے زبانی دیے گئے تھے جن کو بعد میں محترمہ عذرا نسیم فاروقی نے صوتی مسجل (Tape recorder) سے صفحہ قرطاس پر منتقل کیا۔ ان خطبات کے انداز بیان میں اگرچہ بنیادی طور پر علما اورمحققین کو سامنے نہیں رکھا گیا، لیکن پھر بھی علما اور محققین کے ہاں ان محاضرات کو بے حد پذیرائی ملی ہے۔ بے اختیار یہ کہنا پڑتا ہے کہ استاذ محترم قدیم وجدید دینی اور دنیوی علوم کے ایسے سنگم بن گئے تھے جس میں مختلف علوم وفنون کی حسین لہریں جمع تھیں ۔ 
حقیقت یہ ہے کہ ایسی باکمال وبے مثال، باوقار وبامراد شخصیت کے حالات زندگی کو چند صفحات میں بیان کرنا جوے شیر لانے کے مترادف ہے اور پھر مجھ جیسا طفل مکتب آپ کے اخلاق وآداب، کمالات وامتیازات کو کیسے بیان کر سکتا ہے جس کی نہ عقل کی اتنی پرواز کہ استاذ محترم کی بلندیوں کو چھوسکے، نہ قلب میں اتنی سکت کہ وہ آپ کی اداؤں کا ادراک کرسکے، نہ فکر میں اتنی بلندی کہ وہ آپ کے مزاج ومزاق کو پہچان سکے، نہ طبیعت میں وہ جولانی کہ وہ آپ کے مقام کو جانچ سکے اور نہ قلم میں اتنی روانی کہ وہ آپ کی اداؤں کو بیان کرسکے۔ 
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ استاذ محترم کے پس ماندگان اور ان کے جانشینوں کو ان کے قدم پر چلائے اور ان کو اپنی شایان شان اعلیٰ مقام نصیب فرمائے ۔ آمین

شمع روشن بجھ گئی

مولانا سید متین احمد شاہ

۲۶ ستمبر ۲۰۱۰ء کی سہانی صبح تھی۔ مہر درخشاں، ملکۂ عالم کی رسمِ تاجپوشی کے لیے مشرقی افق سے کافی بلندی پہ آچکا تھا۔ فطرت کا حسین منظر، عنادل کا شور، صبح بنارس کی مانند باد نسیم کی اٹھکیلیاں۔ اس جمالِ دل فروز کے جلو میں میں اسلام آباد کی ایک شارع عام پر محوِ سفر تھا کہ ایک پیغام موصول ہوا: ’’ڈاکٹر محمود احمد غازی کا انتقال ہوگیا۔‘‘ مولانا عمار خان ناصر صاحب کو فون کیا تو خبر کی تصدیق ہوگئی۔ دل غمگین ہوا، نینوں سے اشک چھلکے اور صبر وشکیب کا خرمن پل دو پل میں خاکستر ہوگیا۔ اس سوال کا جواب بھی مل گیا کہ عروس فطرت آج کس کے استقبال میں اپنی سج دھج دکھا رہی ہے اور ۲۴؍جنوری ۲۰۱۰ء کو کردار کے ’’غازی‘‘ سے ہونے والی پہلی اور آخری ملاقات کی جھلکیاں سامنے آنے لگیں اور میں خود کلامی کے خاموش پربت کے دامن میں فروکش ہوگیا۔
کیا ڈاکٹر غازی کا انتقال ہوگیا؟
سورۂ رحمن پکار کر کہنے لگی: کُلُّ مَنْ عَلَیْھا فَانٍ۔
خیال آیا: کیا آج اورنگ فکر کا سلیمان اپنے دربار کو سونا کر گیا؟
سورۂ انبیاء نے جواب دیا: کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ۔
تخیل نے پوچھا: کیا آج ہم ایک ایسی محرومی سے دوچار ہو چکے ہیں جس کی تلافی اب نہ ہوسکے گی؟
قطری بن فجأۃ نے آکر تسلی دی:
فصبراً فی مجال الموت صبراً
فما نیل الخلود بمستطاع
اک ہوک سی اٹھی: ہائے! کیا واقعی؟
روح اقبالؒ نے خطاب کیا:
موت ہے ہنگامہ آرام قلزمِ خاموش میں
ڈوب جاتے ہیں سفینے موج کی آغوش میں
اتنے جوابات مل جانے کے بعد بھی یقین کا سرمایہ کہاں سے لاتا؟
مری بے تاب نظریں ڈھونڈتی پھرتی ہیں گلشن میں
صبا تو نے کہاں لے جا کے خاک آشیاں کھو دی
ڈاکٹر محمود احمد غازی (اللہ ان کو جنت الفردوس کی ابدی بہاروں کا مکین بنائے) کے نام سے شناسائی مجھے بچوں کے ایک جریدے ماہنامہ ’’مجاہد‘‘ کے ذریعہ گیارہ برس کی عمر میں حاصل ہوئی جبکہ وہ دعوۃ اکیڈمی اسلام آباد کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ میٹرک کے امتحان کے بعد علامہ عبداللہ یوسف علی کا انگریزی ترجمہ قرآن لیا۔ اس پر ڈاکٹر غازی کے لکھے گئے جامع دیباچہ سے ان کے علمی مقام کا نقش اوّلین دل پہ مرتسم ہوگیا۔ مختلف جرائد کی وساطت سے ان کے البیلے مضامین کی ایک ایک سطر علم وآگہی میں اضافہ کا موجب تو بنتی ہی تھی مگر باضابطہ طور پر ان کے فکری و علمی آفاق کی وسعت و عظمت کا ادراک ان کے عظیم سلسلہ محاضرات کے ذریعہ ہوا۔ علوم، موضوعات اور مضامین کے اس تنوع کی مثال یکجا طور پر شاید عربی زبان میں بھی مشکل سے ملے۔ اپنی خوابگاہ کی الماری میں میں نے ان خطبات کو قرینے سے رکھا ہے اور ڈاکٹر غازیؒ کی وفات کے بعد آج تک کتنی بار ایسا ہوا کہ ان پر نظر پڑی تو دل پہ رقت طاری ہوگئی، آنکھوں سے آنسو چلنے لگے اوربے اختیار ہاتھ دعائے مغفرت کے لیے اٹھ گئے۔
۲۴؍جنوری ۲۰۱۰ء کو ایک ساتھی نے ڈاکٹر غازیؒ سے ملاقات کا پروگرام بنایا اور مجھے بھی ساتھ چلنے کو کہا۔ میں نے موقع کو غنیمت جانا کیونکہ اپنے ایم فل کے مقالے کے لیے ’’نظم قرآن‘‘ کے تصور پر ڈاکٹر غازیؒ کے علم سے استفادہ بھی مقصود تھا۔ یہ ملاقات ان سے زندگی کی پہلی اور آخری ملاقات تھی اور اس نے ان کی تواضع، محبت اور وقار ومتانت کا ایک گہرا تاثر دل پر چھوڑا۔ ڈاکٹر محمد میاں صدیقی صاحب بھی ڈاکٹر غازیؒ سے ملاقات کے لیے آئے ہوئے تھے۔ ہم نے ملاحظہ کیا کہ ان کی عمر کے احترام کے پیش نظر ڈاکٹر صاحب نے بہت کم گفتگو فرمائی اور صرف اسی سوال کا جواب خود ارشاد فرمایا جو انھی سے تعلق رکھتا تھا۔ سلسلہ گفتگو میں امام شاطبی ؒ کی کتاب ’’الموافقات‘‘ کا کسی حوالہ سے میں نے ذکر کیا اور اپنی لاعلمی سے اس کو ’بکسر الفاء‘ ادا کیا۔ انہوں نے فوراً اصلاح فرمائی کہ یہ لفظ ’بفتح الفاء‘ ہے اور یوں مجھے ایک لفظ میں ڈاکٹر غازیؒ کے تلمذ کا اعزاز مل گیا اور یہی کیا کم ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ جس نے مجھے ایک لفظ بھی سیکھایا میں اس کا غلام ہوں چاہے مجھے آزاد کر دے یا بیچ دے۔
سلسلہ مراسلت قائم کرنے کے لیے میں نے ای میل مانگا تو انہوں نے لکھوایا: 
mahmoodghazi23@yahoo.com
فرمایا کہ یہاں ۲۳ کا عدد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات نبوت کی مدت کی طرف اشارہ ہے۔ اتنے معمولی امور میں بھی اس بات کا خیال ان کی ذاتِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستگی ومحبت کی روشن دلیل ہے۔ اس مختصر ملاقات میں بھی ڈاکٹر غازیؒ کے خوانِ علم سے مجھ جیسا کم سواد طالب بہت کچھ لے کر اٹھا۔
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد کے اولڈ کیمپس (فیصل مسجد) میں ڈاکٹر غازیؒ پر ایک تعزیتی ریفرنس میں ڈاکٹر شیر محمد زمان صاحب نے فرمایا کہ ہماری رفاقت طویل عرصہ پر محیط ہے اور اس کی روشنی میں بلاخوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ اپنی زندگی میں ڈاکٹر غازی جن مناصب پر رہے اور ان میں چھوٹے چھوٹے امور میں بھی انہوں نے جس دیانت،تقویٰ اور ورع کا مظاہرہ کیا، اس کی اب کوئی دوسری مثال میں پیش کرنے سے قاصر ہوں۔
ڈاکٹر غازیؒ کے علمی ذوق اور ولولہ کے حوالہ سے ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری صاحب نے فرمایا کہ ایک بار غازی صاحب نے مجھ سے ذکر کیا کہ میں نے امام شافعیؒ کی کتاب ’’الأم‘‘ کا سات مرتبہ از اوّل تا آخر مطالعہ کیا ہے۔ باریک ٹائپ سے لکھے گئے سات جلدوں کے اتنے بڑے علمی موسوعہ کو سات مرتبہ بالاستیعاب پڑھنے کی نظیر اس دور میں شاید مشکل ہی سے ملے گی جہاں اب تن آسانی، تضییع اوقات اور سطحیت ایک عمومی مزاج بن چکا ہے۔جامعۃ الرشید کی ایک مجلس میں ڈاکٹر صاحب نے علماے کرام سے فرمایا کہ میں اس کو عالم نہیں مانتا جس نے ہدایہ کم ازکم پانچ بار بالا ستیعاب نہ پڑھی ہو۔ میں تین بار پڑھ چکا ہوں، چوتھی بار شروع کر رکھی ہے، آپ بھی وعدہ کریں۔ نیز فرمایا کہ موطا امام مالک حفظ کر رہا ہوں، آپ تکمیل کی دعا کریں۔ ڈاکٹر غازی کا یہ علمی مزاج بجا طور پر علماے سلف کی یاد دلاتا ہے۔ اب ایسے عشاق علم، رُخِ زیبا کا چراغ جلا کر ڈھونڈے سے بھی نہ ملیں گے۔
جو سختی منزل کو سامانِ سفر سمجھے
اے واے تن آسانی ناپید ہے وہ راہی
عربی زبان وادب پر ڈاکٹر صاحب کی قدرت کے حوالے سے ڈاکٹر انصاری صاحب ہی نے بتایا کہ جب وہ عربوں کے سامنے گفتگو فرماتے تو وہ ان کی قدرتِ بیان، فصاحت وبلاغت اور استخصار علمی پہ انگشت بدنداں رہ جاتے تھے۔ کچھ عرصہ قبل درالکتب العلمیہ، بیروت سے حضرت مجدد کے احوال وافکار پر شائع ہونے والی ڈاکٹر غازی ؒ کی کتاب ’’الحرکۃ المجددیہ‘‘ میں ان کے باغ وبہار قلم کے کمال کو ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
آج جب کہ قحط الرجال کا دور ہے، پرانے بادہ کش اٹھتے جاتے ہیں، ایک چراغ بجھتا ہے تو ظلمتوں کے بسیرے مزید طویل ہو جاتے ہیں، ہر میدان میں موثر افراد ی تیاری بند ہو رہی ہے اور ’’تبقی حثالۃ کحثالۃ الشعیر اوالتمر‘‘ کی نبوی پیشین گوئی مکمل طور پر پوری ہوتی دکھائی دے رہی ہے، ایسے میں ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کا وجود ایک ابرنیساں، ایک آتش عالم افروز، ایک قلزم بے پایاں تھا۔ وہ فکرارجمند والا ایک بلند دماغ اور زبانِ ہوشمند ودلِ درد مندوالا ایک بے چین داعی تھا جو زندگی کے مختلف میدانوں میں امت کی زبوں حالی پہ وفورِ جذبات میں پکار اٹھتا تھا۔ ؂
نواے من ازاں پر سوز و بے باک و غم انگیز است
بخاشاکم شرار افتاد وبادِ صبح دم تیز است
حضرت سعید بن جبیرؓ (جو حجاج بن یوسف کے ظلم کا نشانہ بنے ) کی موت کے بارے میں میمون بن مہرانؒ اور امام احمد بن حنبلؒ جیسی شخصیات نے کہا تھا: قتل سعید بن جبیر و ما علی وجہ الارض الا ھو محتاج الی علمہ  (سعید بن جبیر کی شہادت ایک ایسے وقت میں ہوئی کہ روئے زمین پہ ہر فرد ان کے علم کا محتاج تھا۔) ڈاکٹر غازیؒ دنیا سے اٹھے ہیں تو اس جملے کا اطلاق ان کی وفات پر کرنا شاید مبالغہ نہ ہو۔ معیشت و تجارت کے مسائل آپ کی بصیرت کے ضرورت مند تھے، قضاو تعلیم کا شعبہ آپ کی دقیقہ رسی کا طالب تھا، دینی مدارس کے نصاب ونظام پر گفتگو کی بات ہوتی تو نظریں ڈاکٹر غازیؒ کی طرف اٹھتی تھیں۔ وہ دنیا سے کیا گئے، علوم دینی ودنیوی کا ایک مفکر داغ مفارقت دے گیا، تفقہ وتدبر کا ایک دبستان بند ہوگیا، وسعت فکر ونظر کا ایک بہتا دریا سوکھ گیا، اپنی ہی ذات میں ایک انجمن اجڑ گئی۔ اے دریغا! کہ بساطِ علم ماتم گسار ہے، فکر ونظر کے افق پہ شامِ غم کی تاریکیاں بکھر گئی ہیں، انسانیت واخلاق کا ایک نمونہ نظروں سے روپوش ہوگیا ہے۔ جی ہاں!یہ مبالغہ نہیں۔ ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری صاحب نے فرمایا کہ کوئی علمی مسئلہ درپیش ہوتا تھا تو ہماری نظریں غازی صاحب کی طرف اٹھتی تھیں اور اطمینان رہتا تھا کہ ان سے مشاورت کر لیں گے، لیکن اب 
شمع روشن بجھ گئی 
بزمِ سخن ماتم میں ہے
ان کے مشہور محاضرات کا سلسلہ قرآن سے شروع ہوا اور دینی مدارس میں قرآن ہی کی تدریس کے حوالہ سے الشریعہ اکادمی میں ان کا محاضرہ ہونا تھا کہ وقت موعود آن پہنچا۔ آغاز و انجام میں حسن مطابقت محض اتفاق ہی نہیں خداوند قدوس کی کسی مشیت کی جانب اشارہ بھی ہے۔
ڈاکٹر غازیؒ کے علمی وفکری کمالات پر اہل علم وفکر ہی گفتگو کریں گے اور وہ اس کے اہل بھی ہیں۔مجھے تو ایک ادنی طالب علم کی حیثیت سے ملک و ملت اسلامیہ کے اس گوہر یک دانہ کے فقدان پہ ان جذبات غم کا اظہار کرنا تھا جو دل کی خاموشیوں میں تموج پید اکرتے ہیں۔
من نیز حاضر می 
شوم تذکار غازی برقلم
میں عالم تصور میں ڈاکٹر غازیؒ کی مرقد پہ کھڑا ہوں اور کسی شاعر کا شعر تصرف کے ساتھ گنگنارہا ہوں۔
ایا قبر غازی! کیف واریت علمہ
و قد کان منہ البر والبحر مترعا

علم کا آفتاب عالم تاب

ڈاکٹر حسین احمد پراچہ

ایک عالم آدمی ساری عمر علم کے سمندر میں غوطہ زن رہتا ہے اور شام زندگی کے قریب جب وہ سطح آب پر نمودار ہوتا ہے تو اس کے دامن میں چند سیپیاں، چند گھونگھے اور کبھی کبھار کوئی ایک آدھ موتی ہوتا ہے۔ مگر اس دنیا میں چند ایسے خوش قسمت بھی ہوتے ہیں جو فنا فی العلم ہو کر خود علم کا بحرِبیکراں بن جاتے ہیں۔ اس بحرِناپیداکنار کی تہہ میں اترنے والے غواص بیش قیمت موتیوں سے اپنے دامن کو بھر کر ایک دنیا کو مرعوب و متاثر کرتے ہیں۔ ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ متنوع اور متفرق علوم و عجائب کا ایک ایسا سمندر تھے کہ جن میں غوطہ زن ہو کر ہزاروں لاکھوں لوگ جن میں ان کے شاگرد، ان کے قارئین، ان کے سامعین اور ناظرین شامل ہیں، کسب فیض کرتے رہے۔ 
میں روایتی تعلیم سے فارغ التحصیل ہو کر سعودی عرب چلا گیا تھا۔ وہاں کی وزارت تعلیم میں دو اڑھائی دہائیوں تک تدریسی فرائض انجام دیتا رہا۔ اس دوران میں ڈاکٹر محمود احمد غازی کی شخصیت، ان کی بعض کتب اور دین میں راہ اعتدال اختیار کرنے جیسے ان کے کارناموں سے آگاہ ہو چکا تھا مگر سابق جسٹس خلیل الرحمان خان اور غازی صاحب کی دعوت پر پاکستان آ کر نیشنل اسلامی یونیورسٹی میں خدمت کا موقع ملا۔ اس دوران غازی صاحب کی چشم التفات مجھ پر کھلتی گئی اور ان کے ساتھ میرے تعلقِ خاطر میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور جوں جوں قربت بڑھتی گئی، تو ں توں ان کی عظمت کا نقش میرے دل پر مزید گہرا ہوتا چلا گیا۔ ان کی بیکراں شخصیت اور ان کے عظیم علمی و دینی کارناموں پر غور کرتا ہوں تو سمجھ میں نہیںآتا کہ بات کہاں سے شروع کروں۔ 
ڈاکٹر محمود احمد غازی کی تعلیم و تربیت میں ان کے والد حافظ احمد فاروقی کی توجہ، ان کی والدہ کے حسن تربیت اور ان کے اساتذہ کے فیضان نظر کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ ان کی والدہ آج بھی حیات ہیں اور ان کے برادر اصغر پروفیسر ڈاکٹرمحمدالغزالی کے بقول: بھائی صاحب اپنی وزارت، یونیورسٹی کی صدارت، اپنی خطابت و کتابت اور اپنی گوناں گوں مصروفیات کے باوجود والدہ صاحبہ کے سامنے آخر دم تک اقبال کے طفل سادہ کی تصویر بنے رہے۔ بقول علامہ اقبال ؂
علم کی سنجیدہ گفتاری، بڑھاپے کا شعور
دنیوی اعزاز کی شوکت، جوانی کا غرور
زندگی کی اوج گاہوں سے اتر آتے ہیں ہم 
صحبت مادر میں طفل سادہ رہ جاتے ہیں ہم 
مجھے یہ اندازہ نہ تھا کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی حافظِ قرآن بھی ہیں۔ ان کے ڈرائیور مولوی محمد یوسف نے مجھے بتایا کہ وہ جب بھی میرے ساتھ شہر کے اندر یا شہر سے باہر سفر کرتے، زیادہ ترقرآن پاک کی تلاوت کرتے رہتے۔ بعد میں جب میں نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ انہوں نے تھانہ بھون کے خاندان فاروقیہ کی روایات کے مطابق صرف آٹھ برس کی عمر میں قرآن پاک حفظ کر لیا تھا۔ حفظ قرآن کے بعد انہوں نے عربی زبان و ادب میں کئی امتحانات امتیاز کے ساتھ پاس کیے اور ایک دینی مدرسے سے درس نظامی مکمل کیا۔ بعد ازاں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے عربی اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ عربی کے علاوہ انہیں فارسی، انگریزی اور اردو زبان پر بھی مکمل عبور تھا۔ اردو تو ان کی مادری زبان تھی۔ ایک بار میں نے غازی صاحب سے پوچھا کہ آپ کاتعلیمی پس منظر تو عربی مدارس کا ہے، مگر آپ عام علماء کرام کے برعکس عربی بلکہ انگریزی بھی بڑی روانی سے بولتے ہیں۔ اس کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ کراچی کے جس دینی مدرسے میں انہوں نے درس نظامی مکمل کیا، وہاں مصری اساتذہ تھے جو بیک وقت محبت اور شوق سے ہمارے ساتھ رات دن عربی میں گفتگو کرتے، اس لیے میری عربی بول چال بہت رواں ہے۔ کہنے لگے کہ ابتدا میں مجھے انگریزی سے زیادہ دلچسپی نہ تھی مگر ایک رات زمانہ طالب علمی کے دوران میں نے سوچا کہ انگریزی سیکھے بغیر چارہ نہیں۔ اگلے روز میں نے فٹ پاتھ سے انگریزی گرائمر کی ایک پرانی کتاب خریدی اور پھر چل سوچل۔ میں نے انگریزی پڑھنا، بولنا اور لکھنا شروع کردی اور چند مہینوں میں میری استعداد اور میرا اعتماد اتنا بڑھ گیا کہ میں انگریزی میں تقریریں کرنے لگا۔ 
غازی صاحب نے تدریس کا آغاز پہلے راولپنڈی کے مدرسہ فرقانیہ میں عربی پڑھانے سے کیا۔ پھر وہ مدرسہ ملیہ میں درس وتدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ ڈاکٹر غازی صاحب نے خود ایک بار مجھے بتایا تھا کہ میرے والد گرامی کو مولانا گلزاراحمد مظاہری ؒ نے لاہور آنے اور علماء اکیڈمی کا ڈائریکٹر بن جانے کی پیش کش کی تھی۔ غازی صاحب نے بتایا کہ وہ مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام کے درمیان افہام و تفہیم کے لحاظ سے اس آئیڈیل کو بہت سراہتے تھے مگر وہ بوجوہ اس پیشکش کو قبول نہ کر سکے اور پھر اسلام آباد ہی ان کی علمی و دینی سرگرمیوں کی جولان گاہ بن گیا۔ ندوۃ العلماء لکھنو اور جامعہ ملیہ دہلی سے لے کر انٹر نیشنل یونیورسٹی اسلام آباد تک تقریباً ڈیڑھ صدی سے دنیاوی علوم یکجا کرنے کے لیے روشن خیال علماء کرام نے بہت کاوشیں کیں اور اس کے لیے کئی پروگرام وضع کیے۔ اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد اس دینی و دنیاوی یکجائی کی ایک بہترین مثال اور ماڈل ہے۔ ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کا بہت سا خونِ جگر اس گلشن کی آبیاری میں صرف ہوا ہے۔ وہ اس یونیورسٹی میں پہلے تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ پھر وہ ڈائریکٹر دعوۃ اکیڈمی کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اس کے بعد وہ نائب صدر جامعہ اور بعد ازاں صدر جامعہ کی حیثیت سے یونیورسٹی کی خدمات انجام دیتے رہے۔ اسی دوران وہ تین برس تک وزیر مذہبی امور بن گئے۔ وزارت اور اسلامی یونیورسٹی کی صدارت کے بعد وہ یونیورسٹی میں ایک بار پھر عام پروفیسر کی حیثیت سے درس وتدریس میں مشغول ہو گئے۔
اگرچہ ہماری ملکی روایات کے مطابق ایک بار کوئی شخص اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز رہ چکا ہو تو پھر وہ عام افسر یا استاد کی حیثیت سے فرائض انجام نہیں دیتا۔ یونیورسٹی کی نائب صدارت، پھر صدارت اور اس کے بعد وزارت کے بعد نہ ان کے پاس کوئی پلاٹ تھا، نہ کوئی بنگلہ اور نہ ہی ذاتی کار تھی۔ ان کے پاس ایک مشترکہ خاندانی گھر تھا جس میں دوسرے افراد خانہ کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ صدارت کے بعد سرکاری گاڑی واپس کرنے کے بعد انہوں نے المیزان اسلامی بنک کے ذریعے قسطوں پر گاڑی خریدی جسے وہ خود چلاتے تھے۔ جب کہیں دور جانا ہوتا یا گھر والوں کو ضرورت ہوتی تو وہ اپنے پرانے ڈرائیور کو جو اس وقت میرے ساتھ کام کر ر ہے تھے، فارغ اوقات میں بلاتے اور خدمت کا اسے معاوضہ ادا کرتے۔ کل وقتی ڈرائیور افورڈ کرنا ان کے لیے ممکن نہ تھا۔ دیانت وامانت کے اعتبا ر سے غازی صاحب کا کردار مثالی تھا۔ یونیورسٹی صدارت سے فارغ ہو کر تقریباً آٹھ نو ماہ تک وہ شریعہ کے شعبے میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے اور پھر قطر یونیورسٹی چلے گئے۔ وہاں پر ہی انہیں حکومت پاکستان کی طرف سے شریعت کورٹ میں جسٹس کی ذمہ داری کی پیش کش ہوئی جسے انہوں نے قبول کر لیا۔ 
ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب نے قرآنیات، اقبالیات، اسلامی سیاسیات ومعاشیات ، سیرت وحدیث پاک وغیرہ پر درجنوں کتابیں اردو اور انگریزی میں لکھیں، تاہم عربی زبان اور فقہ اسلامی ان کے خاص موضوعات تھے جن میں انہیں سند کا درجہ حاصل تھا۔ میرے استاذ گرامی ڈاکٹر خورشید احمد رضوی ، غازی صاحب کے بے تکلف دوست تھے۔ انہوں نے بتایا کہ غازی صاحب پاکستان میں عربی زبان کے دو چار عالموں میں سے سرفہرست تھے۔ 
ایک زمانے میں غازی صاحب فتنہ قادیانیت کے رد میں جنوبی افریقہ کی عدالت میں مسلمانوں کے وکیل کی حیثیت سے پیش ہوتے رہے۔ انہوں نے وہاں دو اڑھائی ماہ قیام کیا تھا اور قادیانیت کی حقیقت کو آشکارا کیا۔ مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ اور اتحاد بین المسلمین غازی صاحب کی زندگی کا مشن تھا۔ وہ جس بین الاقوامی یا اسلامی کانفرنس میں جاتے، وہاں اس بات کا تذکرہ ضرور کرتے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ ان کی نیکیوں کو قبول کرے، ان کی کوتاہیوں سے درگزر کرے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے۔ آمین۔ 
(بشکریہ نوائے وقت لاہور، یکم اکتوبر ، ۲۰۱۰ء)

دگر داناے راز آید کہ ناید

حافظ ظہیر احمد ظہیر

مخدومی، استاذ ذی وقار حضرت مولانا ڈاکٹر قاری احمد میاں تھانوی مدظلہ العالی نے علالت کے باعث اپنے قابلِ فخر بھتیجے مفکر اسلام، عظیم مذہبی اسکالر، جناب ڈاکٹر محمود احمد غازی کے حوالے سے کچھ لکھنے کا حکم فرمایا۔ تعمیل ارشاد میں اس اعتراف کے ساتھ کہ آپ کا ادراکِ نسبت یا ادراکِ کمالات میرے جیسوں کا منصب ہرگز نہیں ہے، راقم اثیم چند سطریں قارئین ’’الشریعہ‘‘ کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کررہا ہے۔ 
موت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے کسی کومفر نہیں، لیکن جو لوگ کسی نظریے اور مشن کے لیے تادمِ آخر ان تھک محنت اور لگن سے کام کرتے رہیں، وہ کتنی ہی طویل عمر کیوں نہ پائیں، ان کی جدائی قبل از وقت ہی محسوس ہوتی ہے۔
ڈاکٹرصاحب ایک علمی خانوادے کے چشم و چراغ تھے۔ آبائی وطن علم و حکمت کی دانش گاہ ’’تھانہ بھون ‘‘ ٹھہرا۔ آپ کے والد گرامی حافظ محمد احمد فاروقیؒ صاحب کی بیعت وارادت حکیم الامت حضرت مولانا شاہ محمد اشرف علی تھانوی سے قائم تھی اور ان کو حضرت تھانوی کے خلیفہ اجل حضرت مولانا فقیر محمد پشاوریؒ اور شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاؒ مہاجر مدنی سے اجازت بیعت اور خلافت بھی عنایت ہوئی۔ ڈاکٹرصاحب نے حصول تعلیم کے لیے شیخ المحدثین علامہ ظفرؒ احمد عثمانی کی خدمت میں زانوئے تلمذ تہہ کیے۔ عین ممکن ہے کہ بعض حضرات کا خیال شاید یہ بھی ہو کہ ڈاکٹر صاحب کی اٹھان میں ان کے اپنے ذاتی کردار، انفرادی کوشش، اپنے مشن کے ساتھ والہانہ لگاؤ اور اس کے حصول کے لیے ان تھک جدوجہد کا بڑا عمل دخل ہے۔ اس سے انکار نہیں، لیکن بنیادی طور پر آپ کی تعمیر و ترقی میں عظیم نسبتوں، اکابر و اسلاف کے اعتماد اور اساتذہ و شیوخ کی دعاؤں کو روح کی حیثیت حاصل ہے۔
موصوف قدیم و جدید علوم کے متبحر عالم دین، اسلامی یونیورسٹی کے سابق صدر، فیصل مسجد کے سابق خطیب اور شرعی عدالت کے جج تھے۔ رب العزت نے ان مناصبِ جلیلہ کے ساتھ ساتھ آپ کو ظاہری اور باطنی نسبت وکمالات سے بھی نوازرکھا تھا۔ آپ متنوع صفات اور مجموعہ کمالات شخصیت کے مالک تھے ۔آپ ہمارے دور کی ان چند ممتاز ویگانہ شخصیات میں سے ایک تھے جن کے دل میں دین فطرت کو عالم گیر مذہب کے طور پردیکھنے کی تڑپ ہوتی ہے اور وہ لوگ اس تڑپ کو سکون دینے کے لیے اپنی خداداد صلاحیتوں اور گوناگوں اوصاف و کمالات کے ساتھ جہدِ مسلسل اور سعی پیہم سے بھرپور کام لیتے ہیں۔ موصوف ڈاکٹر صاحبؒ کی تمام صفات کوحیطہ تحریر میں لانا ایک طویل وقت اور خاصی محنت کا متقاضی ہے، لہٰذا میں ان کی چند ایک خدمات کا اجمالی سا تذکرہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ۔
قارئین گرامی !اگر آپ ڈاکٹر محمود احمد غازی کو آج کے دور میں نہیں، مسلمانوں کے مثالی دورِ عروج کے تناظر میں دیکھنا چاہتے ہیں تو مولانا ابوالکلام آزادؒ کے ایک خط جو انہوں نے اپنے کسی عزیز کو لکھا تھا کا اقتباس ضرور پڑھیں ۔ فرماتے ہیں:
’’آپ کے لیے بہترین زندگی علمی زندگی ہے، اس شکل و طرز کی جس کانمونہ سلف صالح کے حالات سے ملتا ہے۔ علماء اسلام کے حالات پڑھیے۔ درس و تدریس، وعظ و ارشاد اور تصنیف و تالیف تینوں چیزوں کو بیک وقت کرتے تھے اور اس طرح ایک زندگی میں تین عظیم الشان خدمات انجام دیتے تھے۔ عوام کی اصلاح وعظ وتذکیرسے، مستقبل کے لیے تیاری دروس تدریس اور علم و مذہب کی خدمت دائمی تصنیف و تالیف سے ۔ ابن جوزیؒ مصنف ہیں، مستنصریہ کے صدر مدرس ہیں اور جامعہ رصّافہ کے واعظ۔ غزالیؒ مدرسہ طوس کے معلم، سو کتابوں کے مصنف اور جامعہ طوس کے واعظ۔ علماء اسلام کی زندگی کے لیے تو یہ طبیعت ثانیہ ہوگئی تھی۔ ایک شخص آپ کو نہیں ملے گئے جو اپنی زندگی میں یہ تینوں مشغلے نہ رکھتا ہو۔ جب سے یہ طبقات الگ ہوئے، سلسلہ ہدایت اور علم مفقود ہوکے رہ گیا۔‘‘
اس تحریر کی روشنی میں ہمارے حضرت ڈاکٹر صاحب نے قرونِ اولیٰ کی یاد تازہ فرمادی تھی ۔ ہم مختصراً ڈاکٹر صاحب کو ایک مقرر،مصنف اور مدرس کی حیثیت سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ 

بحیثیت مقرر

حضرت ڈاکٹر صاحبؒ پلند پایہ داعی اور مقرر تھے۔ آپ اردو، عربی، انگریزی تینوں زبانوں میں لکھنے پڑھنے پر خوب قادر تھے اور اس کے علاوہ فرانسیسی زبان بھی جانتے تھے۔ ان کی تقاریر جہاں قوتِ استدلال،نکتہ شناسی و نکتہ آفرینی کا بہترین مرقع ہوتیں، وہاں ایسی قیمتی معلومات کے خزینے بھی ہاتھ آتے جن کو تلاشِ بسیار اور کئی کتابوں کی ورق گردانی کے بعد بھی شاید حاصل نہ کیا جاسکے۔ آپ نے دین فطرت کی دعوت میں جو زبان استعمال کی ہے، وہ ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ اور موعظہ حسنہ کی بہترین عملی تفسیر ہے ۔ 
قرآن کریم، حدیث مبارکہ، سیرت پاک، فقہ اسلامی، شریعت اور معیشت و تجارت کے موضوعات پر ان کے خطابات محاضراتِ قرآنی، محاضراتِ حدیث، محاضراتِ سیرت،محاضراتِ فقہ کے نام سے کتابی شکل میں طبع ہوچکے ہیں۔ یہ مجموعہ جات آپ کے علوم و معارف کا نچوڑ ہیں۔ بقول ڈاکٹر صاحب ’’ان کے خطابات کی زبان تحریری نہیں، تقریری ہے۔ اندازِ بیان عالمانہ اور محققانہ نہیں، داعیانہ اور خطیبانہ ہے ۔‘‘
آپ نے ۸۰ء کی دہائی میں جنوبی افریقہ کی عدالت میں عقیدۂ ختم نبوت کے حوالے سے مرزائیوں کے مقابلے میں گفتگو کے لیے پاکستان کے دیگر چوٹی کے اہل علم کے ساتھ ایک تاریخی سفر فرمایا۔ اس وفد میں مفکر اسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ، علامہ ڈاکٹر خالد محمودمدظلہ ، ڈاکٹر اسحاق ظفر انصاری مدظلہ اور دیگر جید علماء اسلام شامل تھے۔ اس سفر کا ذکر حضرت مفتی تقی عثمانی نے اپنے سفر نامہ ’’جہانِ دیدہ‘‘ میں تفصیل سے فرمایا ہے ۔ استاذ محترم علامہ ڈاکٹر خالد محمود مدظلہ العالی نے راقم کو بتایا کہ ڈاکٹر غازی صاحب نے میدانِ مناظرہ کا آدمی نہ ہونے کے باوجود اس مقدمہ میں اس طرح بھرپور منطقی استدلالات کے ساتھ اور زوردار انداز میں ختم نبوت پر گفتگو فرمائی کہ بس انھی کا خاصہ تھا۔ 
حضرت کے خطبات میں قابل ذکر چیز آپ کی آفاقی نظر تھی۔ آپ نے دنیا بھر کے دورے کیے بلکہ عمر کا ایک طویل حصہ اسی دعوت کے کام میں گزرا۔ اس کثرت اسفار نے ایسا ذوق پیدا کررکھا تھا کہ آپ جب بھی کسی مسئلہ پر بولتے، اگر چہ آپ کے سامنے اردو دان طبقہ ہوتا مگر محسوس یوں ہوتا تھا کہ آپ صرف موجود سامعین کو نہیں بلکہ تمام اقوام عالم کو دین فطرت کی دعوت دے رہے ہیں ۔ 

بحیثیت مدرس

اسلامی علوم کی دنیا کے دیگر علوم پربرتری ثابت کرنے کے لیے علوم کے تقابلی مطالعے اور جدید تعلیم کے سحر میں گرفتار افراد کا اسلامی علوم پر اعتماد بحال کرنے اور قرآن وسنت، فقہ اسلامی پر اعتراضات کے کافی و شافی جوابات دینے میں آپ کو خاص ملکہ حاصل تھا۔ اور انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کی تدریس کے دوران یہ آپ کا ایک نمایاں وصف تھاکہ آپ نے جدید دور کی تمدنی اور معاشرتی خرابیوں کی اصلاحِ احوال کے لیے بہتر اور مؤثر لائحہ عمل کی نشاندہی کی۔ آپ نے مغربی نظام تعلیم کی پیدا کردہ خرابیوں کا پوری طرح ادراک کر کے اپنے شاگردوں میں اسلامی روح منتقل کرنے کی ہر ممکن کوشش فرمائی۔ آپ کا حلقہ درس و تدریس عوام الناس یا مذہبی طبقے کی بجائے چونکہ زیادہ تر عصری تعلیم کے حامل افراد پر مشتمل تھا، لہٰذا آپ نے مسلم معاشرے کے بالائی طبقہ کی ذہنی الجھنوں کو بڑی گہرائی سے سمجھا اور پھر ان کی ذہنی سطح کے مطابق ان سے بات کرنے کی خوب استعداد اور مہارت پیدا کی۔ دوران تدریس آپ کے لیکچرز وسیع و عمیق مطالعہ اور علم و تحقیق کا محور ہوتے تھے۔ 

بحیثیت مصنف 

اہل علم بخوبی جانتے ہیں کہ تقریر اور درس و تدریس کی مستقل ذمہ داریوں کے ساتھ تصنیف کے مستقل شعبہ سے وابستگی کس قدر مشکل امرہے اور پھر صرف روایتی تصنیف و تالیف نہیں بلکہ فکری ، نظریاتی اور تخلیقی تحریر کا میدان کسی اور مصروفیت کے لیے کہاں چھوڑتا ہے۔ لیکن رب العزت نے جن ہستیوں سے کام لینا ہو، ان کے وقت کے لمحات بھی بابرکت بن جاتے ہیں۔ وقت ان کے ساتھ سمجھوتہ کرکے گزرتا ہے۔ تصنیف کے حوالے سے آپ کے غیر معمولی شاہکار منصہ شہود پر آکر اہل علم و فن سے داد حاصل کرچکے ہیں جن میں ادب القاضی ،قانون بین الممالک، اسلامی بینکاری: ایک تعارف،اسلام اور مغرب تعلقات، مسلمانوں کا دینی و عصری نظام تعلیم، اصول فقہ و علم اصول فقہ، (اصول فقہ) تقنین، (اصول فقہ ) پاکستان میں قوانین کی اسلامائزیشن، (اصول فقہ) قواعد کلیہ، قواعد کلیہ اور ان کا آغاز و ارتقا، ان کی علمی ثقاہت کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔
ڈاکٹر صاحب کا قلم فکر انگیز تحریر لکھنے کے سوا کچھ اور لکھنے کا عادی ہی نہ تھا۔ آپ کی تحریروں کا مطمح نظر امت میں ابتدائی صدیوں میں اسلامی علوم کی تدوین پر حضرات صحابہ کرام، حضرات تابعین، محدثین، مفسرین، فقہا اور مؤرخین کی خدمات کا وسیع مطالعہ تھا۔ قدیم و جدید مفکرین کے فکر کی نوعیت کو سمجھ کر ان کے مثبت اور کمزور پہلوؤں پر گہری نگاہ رکھ کر مسلمانوں کے مستقبل کو ماضی سے جوڑتے ہوئے امت کو اپنی نئی فکر اور نئی جماعت و دائراتی خول سے داغدار اور منتشر نہ ہونے دینا آپ کی تصنیفی زندگی کا نصب العین تھا۔ 

چند دیگر صفات 

یہ تو ایک خاکہ تھا جس میں آپ کی سیرت کے چند نمایاں گوشے اجمال کے ساتھ ذکر ضرور کیے ہیں، لیکن پھر بھی بہت کچھ باقی ہے اور باقی رہے گا ۔ وہ بہت بڑے قد کے آدمی تھے۔ خدا نے ان کو فقر، درویشی جیسی اعلیٰ صفات سے بھی نوازا تھا۔ ڈاکٹر صاحب بڑے بڑے علمی کارناموں اور بے مثال دینی خدمات سرانجام دینے کے باوجود اپنے آپ کو فقیر سمجھتے تھے، کیونکہ آپ باضابطہ عالم دین اور صوفی تھے۔ عالمِ ربانی کے الفاظ ان پر صادق آتے تھے۔ علمی تبحر، وسعت مطالعہ اور غیر معمولی ذہانت و ذکاوت، عالمی دنیا میں ایک نامی گرامی شہرت کے باوجود آپ ہمیشہ مجسمہ انکسار و عاجزی رہے اور من تواضع للّٰہ رفعہ اللّٰہ کے سانچے میں ڈھلے حقیقی پیکر انسانی تھے۔ بقول شیخ سعدی ؒ 
تواضع ز گردن فروزاں نکوست گداگر تواضع کند خوئے اوست
’’بلند مرتبہ لوگوں سے تواضع بھلی معلوم ہوتی ہے کیونکہ اگر فقیر اور گداگر تواضع کرتا ہے یہ اس کی مجبوری ہے ۔‘‘
عاجزی اور انکساری ان کا نمایاں وصف تھا۔ تھانوی مکتبِ فکر کی تربیت، اصول پسندی اور سلیقہ مندی ان کے چہرہ بشرہ سے عیاں تھی ۔
ڈاکٹر صاحب کی راہِ زندگی میں کچھ مشکل گھڑیاں اور کٹھن مراحل بھی آئے جو ہر بڑے آدمی کی راہ میں اسپیڈ بریکر بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ حسد و عناد کے بھی کچھ نشتر چلانے کی کوشش کی گئی تو درویش صفت ڈاکٹر محمود غازی یہ کہہ کر سب کچھ نظر انداز کرگئے۔ بقول شخصے :
کسی شاخِ سرنگوں پہ رکھ لوں گا چار تنکے 
نہ بلند شاخ ہوگی نہ گرے گا آشیانہ 
پاکستان میں سودی بینکاری سے نجات کے لیے جن لوگوں نے کا م کیا ہے، خصوصاً جب معاملہ سپریم کورٹ کے اپیلٹ بینچ میں گیا اور پھر سپریم کورٹ کے فل بینچ نے اس مسئلے کا بخوبی جائزہ لیا، اس سارے مقدمے کا ایک بنیادی کردار ڈاکٹر صاحب بھی ہیں۔ آپ نے اس موقع پر شیخ الاسلام جسٹس (ریٹائرڈ) مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ العالی کا دست وبازو بن کر اپنے جوہر دکھائے ۔

دینی و مذہبی حلقوں کا ناقابل تلافی نقصان 

ڈاکٹر صاحب کی رحلت سے دینی و علمی حلقوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ آپ زمانہ جدید کی تمام تر اصطلاحات اور اسلوب سے نہ صر ف واقف تھے، بلکہ اس معاملے میں ایک خاص تجربہ رکھتے تھے اور اپنے پیغام کو مغرب زدہ طبقے کے ذہنوں میں بڑی خوبصورتی اور عمدگی کے ساتھ اتارنے کا ڈھنگ بھی جانتے تھے ۔ اگر یہ کہا جائے تو بجاہوگا کہ اہل مدارس اور تجدد پسندی کے دلدادہ لوگوں کے درمیان ڈاکٹر صاحب ایک پل کا کردار ادا کرسکتے تھے، کیونکہ دونوں طرزِ تعلیم کے حصول کے ساتھ ساتھ مدارس اور کالجز، یونیورسٹیز کے مزاج و ماحول سے آپ گزر چکے تھے۔ جدید تعلیم یافتہ فرد جو مولوی اور مدرسہ سے نہ معلوم کیوں خوفزدہ رہتا ہے، آپ اس طبقے کے لوگوں کو دین اور دینداروں کے ساتھ جوڑنے میں کوشاں رہتے تھے۔ اہل مدارس نے اس سلسلے میں اب ان سے رہنمائی لینا شروع کر دی تھی، لیکن قضا کو کچھ اور ہی منظور تھا اور آپ داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون)۔ 
ہماری معلومات کے مطابق اس سلسلے میں سب سے مؤثر قدم اٹھانے میں پہل دینی و عصری علوم کے حسین امتزاج کے حامل جامعہ دارالعلوم الاسلامیہ کامران بلاک علامہ اقبال ٹاؤن لاہور نے اپنے تدریب المعلمین کے پروگرام منعقدہ ۱۳، ۱۴ فروری ۲۰۱۰ء کے ذریعے کی۔ (یہ پروگرام اس قدر کامیاب رہا کہ اس کے بعد دو مرتبہ علماء و طلبہ کے بھر پور اجتماع کی شکل میں منعقد ہوچکا ہے ، فالحمد للہ علیٰ ذالک)۔ اس میں ملک کے نامور علماء اور اسکالرز، پروفیسر حضرات کے بھرپور علمی و تربیتی بیانات ہوئے جوکہ مجموعہ مقالات کے نام سے دو جلدوں میں شائع ہوچکے ہیں۔ اصحابِ ذوق کے لیے یہ ایک نادر اور گراں قدر علمی سوغات ہے۔ ان تمام بیانات میں ڈاکٹر صاحبؒ کا خطاب انتہائی ایمان افروز ، فکر انگیز اور کلیدی اہمیت کا حامل ہے ۔ حضرات اکابر جامعہ، شیخ الحدیث مولانا مشرف علی تھانوی مدظلہ العالی اور حضرت ڈاکٹر قاری احمد میاں تھانوی نے، جوکہ موصوف غازی صاحب کے رشتے میں چچا بنتے ہیں، آپ کے لیے ’’دینی و عصری تعلیم کا امتزاج‘‘ کا عنوان تجویز کیا۔ ویسے تو آپ کا سارا خطاب ہی پڑھنے اور سننے کے قابل ہے، لیکن اختصار کے پیش نظر اس خطاب کا مرکزی خیال اور روحِ بیان ڈاکٹر صاحبؒ کی اپنی زبان سے ہی بیان کردہ ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: 
’’بعض حضر ات بعض علماء کر ام جب اس پر تامل کا اظہارکرتے ہیں تو ان کاتامل بالکل بجاہوتاہے۔ ان کاتامل اس لیے ہوتاہے کہ بعض لوگ اسلامی علوم کو خادم اور عصری علوم کو مخدوم بناکے ایک جگہ جمع کرنا چاہتے ہیں۔ یہ اسلامی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔ اسلامی تاریخ میں کسی بھی عصری علم یاعصری فن سے جب استفادہ کیا گیا تو اسلامی علوم اور اسلامی ثقافت اور تہذیب کے خادم کے طور پر اس سے کام لیا گیا اور اس خادم نے اسلامی علوم کو مخدوم بناکر ان کی خدمت کی ۔ یہ آپ کو علم طب میں بھی نظر آئے گا، تفسیر میں بھی ،حدیث میں بھی، فقہ میں بھی، اصول فقہ میں بھی ،کلام میں بھی، حتی کہ تصوف میں بھی۔ تصوف جیسے فن کی کتابیں جو خالص روحانیات کامیدان ہے، اس کو بھی اتنے مضبوط عقلی استد لال سے بیان کیاگیاہے۔ یہیں اس کتب خانے میں ہوں گی، آپ دیکھ لیں۔ ’’تربیۃ السالک‘‘ دو بڑی ضخیم جلدیں ہیں اوربہت ساری کتابیں ہیں جن کے میں نام لوں گا تو گفتگو طویل ہو جائے گی ۔ وہ سب کی سب عقلی استدلال کی بنیاد پرہیں، اس لیے یہ بات کہ عصری علوم سے استفادہ کوئی نئی چیزہے جس کی آج بعض لو گ دعوت دے رہے ہیں، یہ درست نہیں ہے۔ عصری علوم سے استفادہ ہر دور میں مسلمان اہل علم کرتے آئے ہیں۔ اس شرط کے ساتھ کہ عصری علوم پر ناقدانہ نظررکھتے ہو ں، مقلدانہ نہیں۔ مقلدانہ نظر توخطر ناک ہوتی ہے۔ ناقدانہ نظر عصری علوم پر رکھتے ہوں اور اسلامی علوم سے مجتہدانہ طور پر واقف ہوں تاکہ عصری علوم کو، جو بھی جس زمانے کے علوم ہیں، ان کو اسلام کی خدمت کے لیے اور اسلامی علوم وفنون کو نئے انداز سے مرتب اور مدون کرنے کے لیے بیان کریں۔ 
آج کے سیاق وسباق میں عصری علوم سے کیامراد ہے؟ بعض حضرات یہ سمجھتے ہیں،ایک بہت بڑے بزرگ ہمارے ملک کے ہیں ،ان سے میں نے ایک مرتبہ بات کی،جب میں انتظامی طور پر بعض معاملات سے وابستہ تھا تو میں نے یہ بات کی عصری علوم کی تو انہوں نے بہت غصے سے مجھ سے پوچھا کہ کیا انجینئر نگ کالج میں مولوی تیار ہوتے ہیں تو پھر مدرسوں میں انجینئر کیوں تیا ر ہوں؟ یہ بالکل خلط مبحث ہے۔ عصری علوم وفنون سے استفادہ کرنے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ایک محدث کو حدیث کی درسگاہ سے اٹھاکر انجینئر بنا دیا جائے، ایک فقیہ کو دار الافتاء سے اٹھا کر کہا جائے کہ تم میڈیکل ڈاکٹر ہوجاؤ۔ اگر کوئی یہ سمجھتاہے تو غلط سمجھتاہے۔ محدث کو محدث ہی رہنا چاہیے، لیکن محدث ایسا ہو جو علم حدیث پر ماہرانہ،مجتہدانہ بصیرت رکھتاہو ، اپنے وقت کا انور شاہ کشمیری ہو، اس طرح کا محدث ہو، لیکن علم حدیث پرجو آج اعتراضات کیے جارہے ہیں، آج کا تعلیم یافتہ آدمی جن اسباب سے علم حدیث کے بعض پہلوؤں پر شبہات رکھتاہے،ان شبہات کو سمجھنے کے لیے بعض چیزوں کا جاننا ضروری ہے۔ اگر وہ شبہات نہیں جانتا، اگر وہ ان اعتراضات کے منشا سے واقف نہیں ہے کہ وہ اعتراضات کیوں پیدا ہوئے ہیں تو پھر وہ ان کا جواب نہیں دے سکتا۔
یہ بات میں بہت ادب سے، لیکن جرأت سے کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے بہت سے علماء کرام یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا کام فتویٰ دیناہے ۔ فتوے سے کسی کا ذہن نہیں بنتا۔فتویٰ اس کے لیے ہوتا ہے جو دین پر عمل کرناچاہے اور آپ سے آکر پوچھے۔ جو گمراہ ہے، شہر میں گمراہی پھیلارہاہے، آپ اس سکے خلاف فتویٰ دے کر کیا کرلیں گے ؟ آپ کے فتوے سے وہ گمراہی سے باز آجائے گا ؟میں مثالیں دوں گا تو گفتگو لمبی ہو جائے گی۔ ہزاروں گمراہیاں جن کے خلاف فتوے آئے اور یہ سمجھا علماء کرام نے کہ ہم نے فتویٰ دے دیا، ہمار اکام ختم ہوگیا، لیکن وہ کام ختم نہیں ہوا۔ اگر گمراہی اس وقت ایک گملے میں تھی تو آج جنگل بن گئی ہے، کانٹے دار درخت اس نے پیدا کر دیے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ یہ سمجھیں کہ وہ گمراہی کیوں پیدا ہوئی اور کہاں سے پیدا ہوئی ؟اور وہ سوالات جو پیدا ہورہے ہیں، کیوں پیدا ہو رہے ہیں؟
میں پوری دنیا میں جاتا رہتا ہوں۔ مختلف ملکوں میں جانے کا پچھلے ۳۰ سال میں موقع ملتا رہا ہے۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ انتہائے مشرق میں جہاں سورج طلوع ہوتا ہے دن میں پہلی مرتبہ، ’’جزائر فجی‘‘ وہاں کا ایک عام تعلیم یافتہ شخص اور امریکہ کی انتہائی مغربی ریاست ’’سان فرانسسکو‘‘ کا ایک عام تعلیم یافتہ شخص ایک ہی طرح کے اعتراضات کرتاہے اسلام پر۔ پیرس میں جائیں، کسی سے بات کریں، وہ بھی وہی اعتراض کرے گا۔ ساؤتھ افریقہ میں جائیں تووہ بھی وہی اعتراض کرے گا۔ پاکستان میں کسی بڑے جدید تعلیمی ادارے میں جائیں ،لمز میں جائیں تو وہاں بھی اس طرح کے سوالات کیے جائیں گے ۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ یہ ایک ہی طرح کے سوالات اور ایک ہی طرح کے اعتراضات اور ایک طرح کے شبہات پوری دنیا میں کیوں پیدا ہو رہے ہیں؟ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ تہذیب اور وہ فکری استیلا جو مغرب سے آیا ہے، اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اس استیلا کی وجہ سے وہ شبہات پیدا ہو رہے ہیں جو ہر انسان کے دل میں پیدا ہو رہے ہیں۔ اب آپ یہاں بیٹھ کے فتویٰ جاری کر دیں کہ فلاں چیز گمراہی ہے تو جو لوگ پہلے سے گمراہی سمجھتے ہیں، وہ مزید یقین سے گمراہی سمجھنے لگیں گے، لیکن جو اسے گمراہی نہیں سمجھتے، وہ آپ کے فتوے سے اسے گمراہی نہیں سمجھنے لگیں گے۔ وہ اس پہ بدستور قائم رہیں گے، جیسا کہ میں سینکڑوں مثالیں دے سکتاہوں کہ لوگ قائم رہے اور آج بھی قائم ہیں، اس لیے میری گزارش یہ ہے کہ اس دور کے محاورے کو سمجھنے کے لیے اور امام ابویوسف کا یہ جملہ میں کئی مرتبہ دہر اچکا ہوں : ’’من لم یعرف اھل زمانہٖ فھو جاہل‘‘، جو اپنے زمانے کے لوگوں کو نہیں جانتا، وہ جاہل ہے ، یعنی اس کا علم قابل اعتبار نہیں ۔ لہٰذا جس زمانے کے ماحول میں آپ دین کی تعلیم دے رہے ہیں، ’’وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ‘‘، لسان قوم میں صرف اردو یاپنجابی یاانگریزی شامل نہیں ہے۔ لسان میں وہ پورا تہذیبی پس منظر بھی شامل ہے جو ا س زبان میں شامل ہوتاہے۔ زبان محض کوئی vehicle نہیں ہے، محض کوئی وسیلہ نہیں ہے خیالات کے انتقال کا یابیان کرنے کا۔ ہرلفظ کے پیچھے پوری تاریخ اور پوری تہذیب اور پورا فکر ہوتا ہے۔ وہ فکر اور تہذیب خود بخود اس لفظ کے ساتھ آتی ہے۔‘‘
یہ تھی ایک جھلک ڈاکٹر صاحب کے ذہنی اور فکری نقطہ نظر کی۔ 
قارئین گرامی ! اپنے بزرگوں کا تذکرہ اس غرض سے ہم اصاغر تو کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے کہ انہیں کردار و عمل کی کسوٹی پر جانچا اور کشف و کرامات کے ترازو میں تو لا جائے۔ ہرگز نہیں! بلکہ ان کے باعظمت کردار کے آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر خود سے سوال کرنا مقصود ہے کہ میں اس شفاف آئینے میں کیسا لگتا ہوں ؟ اور یقین کی حدتک یہ امید تو ہے ہی کہ:
احب الصالحین ولست منھم
لعل اللہ یرزقنی الصلاحا
آپ کی رحلت سے پیدا ہونے والا خلا تادیر اہل علم کے زخموں کو تازہ کرتا رہے گا اور اس درد کی کسک امت مسلمہ عرصہ دراز تک محسوس کرتی رہے گی ۔ دعا ہے کہ رب العالمین اپنے خزانہ قدرت سے ہمیں آپ کا نعم البدل عطا فرمائیں۔ آمین بجاہ النبی الکریم۔

ایک نابغہ روزگار شخصیت

سبوح سید

۲۶ ستمبر کو دنیا بھر میں عارضہ قلب کا عالمی دن منایا جا رہا تھا۔ ملک بھرمیں اس بیماری کے علاج اور تدارک کے لیے عوام میں شعور بیدا ر کرنے کی مہم جاری تھی اور ٹیلی ویژن کے چینلز پر رپورٹرز بیماری سے متاثرہ افراد کی زندگیوں پر اور ڈاکٹرز کی ہدایات پر رپورٹس پیش کر رہے تھے۔ میں بھی جیو نیوز پر عارضہ قلب کے حوالے سے ایک رپورٹ دیکھنے میں مصروف تھا کہ اچانک موبائل فون کی گھنٹی بجی۔ ایک میسج پڑھا توپاؤں کے نیچے سے زمین ہی نکل گئی۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے سابق صدر اور معروف مذہبی اسکالر ڈاکٹر محمود احمد غازی حرکت قلب بندہونے کی وجہ سے انتقال کر گئے ہیں۔ ان کی نماز جنازہ دو پہر دو بجے ایچ الیون قبرستان میں ادا کی جائے گی۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ میں نے اس خبر کی تصدیق کے لیے دعوۃ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ڈائریکٹر اور فیصل مسجد اسلام آباد کے خطیب پروفیسر ڈاکٹر صاحبزادہ ساجد الرحمن صاحب کو فون کیا تو انہوں نے انتہائی دکھی انداز میں اس خبر کی تصدیق کی۔ میں نے کئی لوگوں کو اس افسوسناک خبر کے پیغامات بھیجے۔ شیخ زایداسلامک سنٹر جامعہ پشاور کے ڈائریکٹر اور میر ے استاد محترم پروفیسر ڈاکٹر دوست محمد خان صاحب نے فون پر کیا خوب بات کہی کہ ان کی سمجھ میں آ گیا ہے کہ عالم کی موت پورے جہاں کی موت کیسے ہوتی ہے! ان کا کہنا تھا کہ ان کی گزشتہ ہفتہ ڈاکٹر غازی صاحب سے فون پر بات ہوئی جس میں انہیں شیخ زاید اسلامک سنٹر میں ’’خطبات خیبر‘‘ کے نام سے دس روزہ لیکچر دینے کی دعوت دی گئی جو انہوں نے قبول کرلی تھی۔ 
ان کی گفتگو مجمع کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی تھی۔ ان کی فکر قرآن کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی اور ان کی سیرت میں اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جھلکتا تھا۔ کتب احادیث ، تاریخ اور فقہ کے حوالے انہیں ازبر تھے۔ جن لوگوں نے انہیں سنا ہے، وہ جانتے ہیں کہ وہ گفتگو کے اسلوب وہنر اور زبان وبیان کی خوبیوں سے بدرجہ کمال آشنا تھے۔ 
پروفیسر ڈاکٹر محمود احمد غازی ۱۸؍ستمبر ۱۹۵۰ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والدین کا تعلق حضرت اشرف علی تھانویؒ کے گاؤں تھانہ بھون ہندوستان سے تھا۔ آپ کے والد محمد احمد دفتر خارجہ میں ملازمت کرتے تھے۔ تقسیم کے بعد کراچی آئے، تاہم ملازمت کے سلسلے میں انہیں اسلام آباد منتقل ہونا پڑا۔ کراچی میں ڈاکٹر محموداحمد غازی مدرسہ عربیہ بنوری ٹاؤن کراچی میں درجہ خامسہ تک مولانا یوسف بنوریؒ کے شاگرد رہے، تاہم والد کے اسلام آباد منتقل ہوجانے کے بعد وہ راولپنڈی میں شیخ القرآن حضرت مولانا غلام اللہ خان کے قائم کردہ ادارے تعلیم القرآن راجہ بازار راولپنڈی میں داخل ہو گئے اور یہیں سے دورہ حدیث کیا۔ دینی علوم کے بعد آپ نے عصری تعلیم کا رخ کیا۔ انہوں نے باقاعدہ اسکول نہیں پڑھا۔ میٹرک، ایف اے، بی اے، ایم اے کے امتحانات پرائیویٹ دیے۔ ڈاکٹر غازی بچپن سے ہی کتابیں پڑھنے اور تعلیم کے حصول میں مگن رہے۔ آپ کے بھائی ڈاکٹر محمد الغزالی نے بتایا کہ انہیں کھیل کود سے کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی اور عمر بھر پڑھنے لکھنے کی دھن میں مگن رہے۔ آپ نے شاہ ولی اللہ کی معاشی تعلیمات اور فلسفے کی نشاۃ ثا نیہ پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا۔ آپ عربی، فارسی، انگریزی، فرانسیسی، جرمن اور اردو پر عبور رکھتے تھے۔ 
آپ کی عربی زبان میں مہارت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ ’’مجمع اللغۃ العربیۃ‘‘ کے تاحیات رکن رہے۔ اس سے قبل یہ اعزاز بھارتی عالم اورندوۃ العلماء کے سابق مہتمم سید ابوالحسن ندویؒ کے پاس رہا۔ امام کعبہ ۱۹۷۵ء میں پاکستان تشریف لائے تو ۲۵ سالہ ڈاکٹر غازی ان کے مترجم تھے ۔ امام کعبہ نے کہا کہ میری بات کو جتنی بہتر انداز میں محمود غازی بیان کر رہے ہیں، اتنا میں خود بھی نہیں کر پاتا۔ آپ نے اسی سال لیبیا میں ہونے والی عالمی سربراہی کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کی۔
ڈاکٹر غازی نے علامہ اقبالؒ کی شاعری کا عربی میں ترجمہ کیا اور ’’ پس چہ باید کرد،اے اقوام شرق‘‘ کے نام سے کتابیں لکھ کر فکر اقبالؒ کو عام فہم بنایا۔ آپ نے ۲۵ سے زائد کتابیں لکھیں۔ محاضرات قرآن، محاضرات حدیث، محاضرات سیرت، محاضرات فقہ، محاضرات معیشت وتجارت سمیت کئی موضوعات پر خصوصی لیکچر دیے جو کتابی صورت میں شائع ہو چکے ہیں۔ آخری ایام میں وہ شیخ زاید اسلامک سنٹر جامعہ پشاو رکی دعوت پر ’’خطبات خیبر‘‘ کے نام سے لیکچرز دینے کی تیاری کر رہے تھے۔ میں نے انہیں عالمگیریت ، اسلامی معیشت وتجارت سمیت کئی موضوعات پر سنا۔ وہ گھنٹوں گفتگو کرتے اور سننے والے سنتے رہتے۔ اسلام آباد میں قائم مسلم تھنکرز فورم کے وہ مستقل خطیب اور سرپرست تھے اور ہمیشہ کلیدی خطاب انہی کا ہوتا تھا۔ وہ مختصر وقت میں گفتگو کا حق ادا کر دیتے تھے۔ ڈاکٹر صاحبزادہ ساجدالرحمن کے مطابق پاکستان میں عہد حاضر کی وہ غیر متنازعہ شخصیت تھی جوتمام مسالک و مکاتب فکر میں یکساں مقبول اور قابل احترام سمجھی جاتی تھی۔ ان کی وفات سے پاکستان کا نہیں، عالم اسلام کا نقصان ہوا ہے۔ انہوں نے زندگی بھر کبھی تعصب کا مظاہرہ نہیں کیا۔ صاحبزادہ ساجدالرحمن صاحب کہتے ہیں کہ وہ بگھار شریف کہوٹہ کئی مرتبہ آئے اور عرس کی تقریب سے خطاب بھی کیا۔ وہ مکتب دیوبند سے وابستہ تھے، لیکن تمام مکاتب فکر کا احترام کرتے اور اپنے تلامذہ کو بھی ادب واحترام کا درس دیتے۔ بھیرہ شریف کے جسٹس پیر کرم شاہ الازہریؒ کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات تھے۔ پیر صاحب جب اسلام آباد آتے ، غازی صاحب سے ضرور ملتے۔ کئی مرتبہ غازی صاحب بھیرہ شریف گئے اور عرس کی تقریب سے خطاب بھی کیا۔ وہ اعتدال پسند انسان تھے ،ان میں جدت بھی تھی اور روایت پسندی بھی ۔ چہرے پر چھوٹی چھوٹی داڑھی، خوبصورت چشمہ، پینٹ کوٹ اورشرٹ سے ملتے رنگ کی نکٹائی، وہ وجیہ بھی تھے اور نفیس بھی۔ وہ صدی کے انسان تھے جنہیں صدیوں یاد رکھا جائے گا۔
ڈاکٹر غازی صاحب فیصل مسجد اسلام آباد کے خطیب رہے ، ادارہ تحقیقات اسلامی میں پروفیسر اور دعوہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر بھی رہے۔ اس کے علاوہ اپنے ادبی ذوق کی بنا پر کئی مجلوں کے ایڈیٹر بھی رہے۔ دنیا بھر میں کئی تحقیقی مجلات میں ان کے مضامین کو نمایاں طور پر شائع کیا جاتا ۔ اخبارات اورعلمی جرائد اس بات پر فخر کرتے تھے کہ ڈاکٹر غازی نے ان کے لیے خصوصی طور پر کوئی مضمون لکھا ہے۔ وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے صدر رہے، سپریم کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت کے جج رہے۔ جب صدر مشرف کی پہلی کابینہ میں انہیں اصرار کے ساتھ وفاقی وزارت مذہبی امور کا منصب سونپا گیا توان کے بھائی کا کہنا تھا کہ قوم آج ایک اچھے استاد سے محروم ہو گئی۔ صدر مشرف نے جب پاکستان میں ہوائی اڈے امریکی فوج کو دینے کی کوشش کی تو آپ نے اس فیصلے کی بھرپور مخالفت کی اور کہا کہ یہ غلط فیصلہ ہوگا جس کے نتائج خطرناک ہوں گے۔ وہ آمرانہ مزاج سے ہم آہنگ نہ ہو سکے اور مشرف کی کابینہ سے مستعفی ہوگئے۔ وہ دینی مدارس کے نصاب میں تبدیلی کے خواہاں تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ نصاب وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں، اس لیے وہ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے قیام کے لیے متحرک ہو گئے تاہم ان کی وزارت سے علیحدگی کے بعد ان کا یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ وہ اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر اور بعد میں چیئرمین بھی رہے۔ عہدے ان کے پیچھے دوڑتے رہے اور وہ علم وعمل کے پیچھے دوڑتے رہے۔ وہ کئی بینکوں کے شرعی بینکاری بورڈ کے ڈائریکٹر اور ایڈوائزر بھی رہے۔ 
۲۶؍ ستمبر کی شب ۱۱ بجے انہیں دل کی تکلیف ہوئی تو انہیں پمز ہسپتال لے جایا گیا۔ نماز فجر کے وقت جب ان کی طبیعت سنبھلی تو انہوں نے وضو کیا اور نماز فجر ادا کی۔ زندگی کا آخری سجدہ ادا کرنے کے بعد انہوں نے اپنے ہاتھ خدا کے حضور دارز کیے۔ آٹھ بج رہے تھے کہ انہوں نے پاکیزہ لبوں پر کلمہ شہادت سجایا، نم آنکھوں کے ساتھ خدا کے حضور جبین جھکائی اور ایک بھرپور زندگی گزارنے کے بعد اپنی جان، جان کے خالق کے ہاتھ میں دے دی۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ انہوں نے اپنے پسماندگان میں ۵ بیٹیاں اور ایک بیوہ چھوڑی۔ اللہ ان کے خاندان پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل کرے اور انہیں صبر جمیل عطا فرمائے۔آمین۔ 
صدر آصف علی زرداری ، وزیر اعظم سید یوسف گیلانی ، اسپیکر ، ڈپٹی اسپیکر، آرمی چیف سب نے ان کے انتقال پر گہرے رنج وغم کا اظہار کیا اور ان کی خدمات کو شاندار الفاظ میں سراہا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ، اور وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس آغا رفیق نے ڈاکٹر غازی کی وفات کوعلمی، ادبی، فکری اور تحقیقی حلقوں کے لیے بہت بڑا نقصان قرار دیتے ہوئے ان کی روح اور درجات کی بلندی کے لیے ان کے گھر آکر دعا کی۔
ڈاکٹر غازی کی نماز جنازہ میں ملک بھر سے مختلف مسالک کے جید علماء کرام، صاحبان علم ودانش، صوفیا، علما، طلبہ وطالبات ، پارلیمان کے اراکین ،سرکاری عمال الغرض سبھی شریک تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے راجہ ظفر الحق ، سینیٹر پروفیسر خورشید احمد، سینیٹر محمدخان شیرانی سمیت سابق اراکین پارلیمنٹ ، سپریم کورٹ ، ہائی کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت کے ججوں ،اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبران، کئی ممالک کے طلبہ اور علما، مصر اور سعودی سفارت خانے کے اہل کاروں کے علاوہ دینی رہنماؤں اور کئی جامعات کے وائس چانسلرز نے بھی ان کے جنازہ ، تدفین اور دعا میں شرکت کی۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے صدر، ڈاکٹرانوار حسین صدیقی نے شدید علالت کے باوجود جنازے اور تدفین کے عمل میں شرکت کی۔ ڈاکٹر ذاکر اے نائیک، مفتی محمد تقی عثمانی، مفتی رفیع عثمانی، سید عدنان کاکاخیل، مولانا محمد زاہد، مفتی محمد نعیم، مولانا فضل الرحمان، مولانا سمیع الحق، مولانا محمد احمد لدھیانوی، ڈاکٹر خادم حسین ڈھلوں، ڈاکٹر ایس ایم زمان، سجاد افضل چیمہ، میاں نواز شریف، احسن اقبال، جسٹس فدا محمد، صدیق الفاروق سمیت دنیا بھر کے کئی اہم شخصیات نے ان کی وفات پر گہرے رنج وغم کا اظہار کیا اورانہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ مسلم ہینڈز پاکستان کے کنٹری ڈائریکٹر سید ضیاء النور شاہ کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر غازی کے وجود سے انسانیت کی خوشبو آتی تھی۔ ہر طرف سے نفرت وتعصب کی آوازیں بلند ہوتی تھی، لیکن ڈاکٹر غازی نے سب کو جوڑ کر رکھا ہوا تھا۔ پیر سید امین الحسنات شاہ صاحب نے کہاکہ ان کی و جہ سے لوگ جڑے ہوئے تھے اور نفرتوں کی دیواریں بلند نہیں ہوپاتی تھی۔ ڈاکٹر غازی کے انتقال سے عالم اسلام ایک جلیل القدر علمی اور تحقیقی شخصیت سے محروم ہو گیا ہے۔ ان کے علمی کمال کی خوشبو انسانوں کے ذہنوں اور دماغوں کو معطر ومنور رکھے گی۔ ان کی قبر پر کھڑے اچانک میں نے سامنے دیکھا تو مجھے فیصل مسجد نظر آئی اور دائیں طرف دیکھا تو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی عمارت تھی۔ یہ وہ مقامات ہیں جنہیں ڈاکٹر غازی نے اپنے خون پسینے کی محنت سے سینچا تھا اور آج یہ گلشن مہک رہے ہیں۔ 
(بشکریہ ’’قیام‘‘ اسلام آباد، نومبر / دسمبر)

تواریخ وفات ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ

مولانا ڈاکٹر خلیل احمد تھانوی

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ میرے پھوپھی زاد بھائی مولانا محمداحمد صاحب کے بڑے صاحبزادے تھے۔ علوم دینیہ اور علوم دنیویہ دونوں کے ماہر تھے۔ نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام کی ایک معروف شخصیت تھے۔ انہوں نے پاکستان میں اسلامی قوانین کی ترتیب وتدوین میں بڑی گراں قدر خدمات انجام دیں۔ اسلام آباد یونیورسٹی میں عرصہ دراز تک اپنے علوم سے طلبہ کو مستفید فرماتے رہے۔ میں نے محترم ڈاکٹر صاحب کی تواریخ وفات کچھ مفید جملوں اور کچھ آیات قرآنی سے مرتب کی ہیں جو ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کا آئینہ دار ہونے کے ساتھ ان کے سن وفات کو بھی ظاہر کرتی ہیں۔ 
قرآنی آیات سے نکالی گئی تواریخ کو اگر ترتیب سے پڑھا جائے تو ڈاکٹر صاحب کے لیے نیک فال بھی ہیں۔ پہلی آیت میں ان کے لیے بشارت ہے کہ اس دارفانی سے اپنے رب کی طرف چلو اس حال میں کہ تم اس سے راضی، وہ تم سے راضی ۔ دوسری آیت میں ان کے پس ماندگان کے لیے صبر کی تلقین ہے کہ ان کی جدائی سے پریشان نہ ہوں، اللہ تعالیٰ نے ان کو ان لوگوں کی معیت عطا فرمائی ہے جن پر اللہ کاانعام ہوا ہے۔ تیسری آیت میں بشارت ہے کہ ان کے صبر کا بدلہ جنت اور اس کی نعمتیں ہیں اور چوتھی آیت میں یہ خوشخبری ہے کہ اے متعلقین، تم صبر کر واور خوش ہو جاؤ کہ وہ بہت ہی پرعیش زندگی میں ہیں۔ 
اللہ تعالیٰ میری اس کوشش کو قبول فرمائے، ہم سب پس ماندگان کو صبر جمیل عطافرمائے اور ڈاکٹر صاحب کے علوم سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ تعزیتی پیغامات و تاثرات

ادارہ

( ۱ )
محترم جناب مدیر صاحب ، ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
میرا مرحوم ڈاکٹر محمود احمد غازی سے طویل محبت کا تعلق رہا ہے۔ ہم اسلامی نظریاتی کونسل میں ا کٹھے کام کرتے رہے ہیں۔ اور بھی بہت سے قومی، ملی، مقامی اور عالمی کاموں میں مشاورت رہی۔ حال ہی میں ان کی اچانک وفات سے تقریباً ڈیڑھ ماہ قبل یعنی شعبان ۱۴۳۱ھ کے آخری عشرے میں مکہ مکرمہ میں رابطۃ العالم الاسلامی کی جو تین روزہ کانفرنس ہوئی، اس میں بھی ان کے ساتھ مفید اور پرلطف رفاقت رہی۔ میرا ان سے قلبی تعلق تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ دل چاہتا ہے کہ ان کے متعلق کچھ ضرور لکھوں، لیکن عوارض اور ہجوم مشاغل کے باعث اس سعادت میں شریک نہ ہو سکوں گا۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ’’ الشریعہ ‘‘ کے نمبر کو جوآپ مرحوم ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب کے بارے میں شائع کرنے کا ارادہ کر رہے ہیں، مکمل کامیابی سے نوازے۔ 
محمد رفیع عثمانی عفا اللہ عنہ
رئیس الجامعہ دارالعلوم کراچی 
( ۲ )
جناب ڈاکٹر محمود احمد غازی ؒ جن کا انتقال چندماہ قبل ہوا، پاکستان کی ایک مایہ ناز شخصیت اور ملت اسلامیہ کا نہایت بیش قیمت سرمایہ تھے۔ ان کی وفات صر ف اہل پاکستان ہی کے لیے نہیں، پوری ملت اسلامیہ کے لیے ایک بڑا المیہ اور بظاہر ناقابل تلافی نقصان ہے۔ 
ڈاکٹر صاحب موصوف اپنی خصوصیات وامتیازات کی وجہ سے ایک منفرد شخصیت کے حامل تھے۔ دینی و دنیوی تعلیم کا حسین امتزاج اور قدیم و جدید علوم و نظریات میں ماہرانہ شناسائی میں ممتاز تھے۔ وہ ایسے دینی وعلمی خانوادے کے چشم وچراغ تھے جو دیوبند سے قرب مکانی کا شرف بھی رکھتا تھا اور نظریاتی اعتبار سے بھی مسلک دیوبند ہی پر کاربند تھا، لیکن مرحوم کا امتیاز یہ رہا کہ وہ نہ صرف خود فقہی جمود اور مسلکی تعصب سے بہت حد تک دور رہے بلکہ اس جمود اور تعصب کو کم کرنے میں عمر بھر کوشاں رہے۔ 
اسلام آباد میں منعقدہ علمی سیمیناروں اور کانفرنسوں میں جب بھی ان کو موقع ملتا، اور اکثرا ن کو ایسے مواقع ملتے رہتے تھے، وہ مسلکی ونظریاتی وابستگی سے بالا ہو کر ملت کی وحدت ویگانگت کے نقطہ نظر سے فقہی جمود کے خلاف آواز ضرور بلند کرتے۔ وہ بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے، حتیٰ کہ مشرف دور میں وزیر مذہبی امور بھی رہے، لیکن انکسار اور عاجزی ان کے مزاج کا جزو لاینفک رہی۔ بلند پایہ اہل علم وقلم ہونے کے باوجود دوسرے اہل علم وقلم کا احترام اوران کی علمی خدمات کی تعریف کرتے۔ راقم کی کتاب ’’خلافت وملوکیت کی تاریخی وشرعی حیثیت‘‘ جو مولانا مودودی مرحوم کی ’’خلافت وملوکیت‘‘ کے جواب میں لکھی گئی تھی، ڈاکٹر صاحب کو بہت پسند تھی اور راقم سے جب بھی ملاقات ہوتی تو وہ یہ فرمائش ضرور کرتے کہ اس کی تلخیص کر دیں تاکہ اس کادائرۂ افادیت مزید وسیع ہو جائے۔
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ذیلی ادارہ دعوہ اکیڈمی کے وہ ڈائریکٹر اورروح رواں تھے او را س کے زیر اہتمام انہوں نے اسلامی موضوعات پر حالات حاضرہ کی روشنی میں نہایت مفید لٹریچر تیار بھی کروایا اور شائع بھی کیا۔ یہ مطبوعات وقت کی نہایت اہم ضرورت ہیں جویقیناًان کے لیے صدقہ جاریہ ثابت ہوں گے، ان شاء اللہ۔ خود ان کی تالیفات بھی جوزیادہ تر تقاریر اور محاضرات پر م مبنی ہیں، بغایت مفید اور متجددین کے شکوک وشبہات کے ازالے کے لیے نہایت موثر اور مسکت ہیں۔ یہ بھی ان کا صدقہ جاریہ ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ مذکورہ خوبیوں اور کمالات کی وجہ سے وہ ہر حلقے میں ہر دلعزیزبھی تھے اور اسلام کا ایک بہترین نمائندہ بھی۔ان کا خلا ایک مدت تک نہایت شدت سے محسوس کیا جائے گا۔اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور اپنی رحمت کی برکات سے ان کو سیراب فرمائے۔ غفراللہ ورحمہ وجعل الجنۃ مثواہ۔
حافظ صلاح الدین یوسف 
(مدیر شعبہ تحقیق وتالیف دارالسلام ،لاہور)
( ۳ )
مکرمی مولانا ناصر صاحب حفظہ اللہ
سلام مسنون
آپ کا دوسرا مکتوب گرامی ملا۔شکریہ! آپ کا پہلا نواز ش ]نامہ[ نہیں ملا۔ ادھر تقریباً دو سال سے خاکسار کا ادارۂ ثقافت اسلامیہ سے تعلق نہیں رہا۔شاید اس لیے وہ مجھے نہیں ملا۔ آپ کا رسالہ ’الشریعہ‘ ایک مدت تک میری نظر سے گزرتا رہا۔ مسائل حاضرہ کو ان کے صحیح تناظر میں دیکھنے پر آپ کو مبارک باد دیتا ہوں۔ ہم نے ’الشریعہ‘ کا ایک مقالہ ’المعارف‘ میں بھی نقل کیا تھا۔
آپ مرحوم ڈاکٹر غازی پر ’الشریعہ‘ کا خاص نمبر نکال رہے ہیں۔ اس پر میں مبارک باد دیتا ہوں۔ جب میں ادارۂ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد گیا، اس وقت جواں سال غازی مرحوم ادارہ میں تھے۔ ان سے جب کبھی ملنا ہوا، انھیں ایک سنجیدہ نوجوان پایا۔ ادارہ سے نکلا اور متعدد مقامات میں رہا۔ جب کبھی اسلام آباد جانا ہوا، ان سے ملتا رہا، ہرچند ان کا تعلق ایک سیاسی مذہبی جماعت سے تھا جو متعدد اسلامی دانش مندوں کو جو اپنے موضوع پر عبور رکھتے ہیں، سیکولر اور غیر سیکولر کے پیمانوں سے ناپتی تھی اور ان کے سامنے ضیاء الحق اور ان جیسے جابر حاکموں سے مل کر زہر کا پیالہ پیش کرتی تھی۔ خود اس خاکسار کو ضیاء الحق کے ہاتھوں اس پیالے کو دو دفعہ پینا پڑا۔ ان دنوں میں اتفاق سے مرحوم ڈاکٹر غازی سے ملنا ہوا تو انھیں افسردہ پایا۔ وہ اختلاف رائے کی بنا پر دوسروں کے منہ سے نوالہ چھیننے کے قائل نہیں تھے۔ 
غرضیکہ اس قسم کے واقعات کی بنا پر یہ کہنا صحیح ہوگا کہ وہ ایک شریف انسان تھے جو اختلاف رائے کی بنا پر اپنے ہم عصر اہل علم کے درپے آزار ہونے (suppression) کے قائل نہیں تھے۔ اس لیے میری رائے تھی کہ انھیں ایک ’’مذہبی سیاسی‘‘ جماعت کی طرف منسوب کرنا صحیح نہ ہوگا۔ البتہ میری اخلاص سے یہ رائے ہے کہ اگر وہ ظفر احمد انصاری اور افضل چیمہ سے دور رہتے تو وہ علمی میدان میں ٹھوس اور مثبت روایت قائم کر سکتے تھے۔ البتہ مرحوم ابوالحسن سید علی ندوی ایک نیک، مخلص اہل علم تھے۔ ان سے ڈاکٹر غازی کی عقیدت اور ملاقاتیں ان کے لیے یقیناًسود مند رہیں، کیونکہ مرحوم غازی صاحب بنیادی طور پر علمی اور اخلاقی آدمی تھے۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ انھیں اپنی رحمت سے نوازے۔ آپ کا ممنون ہوں کہ آپ نے مرحوم ڈاکٹر غازی کا تذکرہ چھیڑا اور مجھے ’’یاد ماضی عذاب ہے ساقی‘‘ کے حوالہ کر دیا۔
کبھی لاہور آنا ہو تو آپ سے مل کر مسرت ہوگی۔
(ڈاکٹر) رشید احمد (جالندھری)
( ۴ )
کل من علیہا فان، و یبقٰی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام (الرحمن ۵۵: ۲۶۔ ۲۷) ہر چیز جو اس زمین پر ہے، فنا ہوجانے والی ہے اور صرف تیرے رب کی جلیل وکریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے۔ 
قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ میں جو صداقت بیان کی گئی ہے، بار بار مطالعہ کے باوجود ہم اسے اکثر بھول جاتے ہیں لیکن بعض حادثات ہمیں جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں اور اس وقت اس آیت کا مفہوم ذہن میں تازہ ہو تا ہے کہ ہر چیز جو اس دنیا میں ہے ،فنا ہو جانے والی ہے اور صرف اللہ ذوالجلال والاکرام کی ذات باقی رہنے والی ہے۔ 
کل تک یہ بات وہم وگمان میں بھی نہ تھی کہ آج ڈاکٹر محمود احمد غازی ہمارے ساتھ نہ ہوں گے۔ میں کراچی میں تھا جب ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کے انتقال کی خبر ملی ۔ یہ خبر میرے لیے ناقابل یقین تھی۔ ابھی چند ہفتے قبل ہم نے رابطۃ العالم الاسلامی کے پچاسویں یوم تاسیس کی تقریب میں مکہ مکرمہ میں شرکت کی، ایک ساتھ جہاز میں سفر کیا اور حرم شریف میں نمازوں میں شرکت کی تھی۔ مکہ مکرمہ جاتے وقت میں اور میری اہلیہ جہاز میں بیٹھے تھے کہ غازی صاحب جہاز میں داخل ہوئے اورمجھے دیکھ کر انتہائی گرم جوشی کے ساتھ جھک کر میری پیشانی پر بوسہ دیااور پھریہ کہا: میں قطر میں تھا تو ڈاکٹر منذر قحف صاحب نے بااصرار کہا تھا کہ جب آپ ڈاکٹر انیس سے ملیں تومیری طرف سے ان کی پیشانی پر بوسہ دیں۔ اللہ اکبر! کل کی بات ہے اور آج ہم ایک ایسے صاحب علم سے محروم ہو گئے جونہ صرف اپنے علم وتقویٰ بلکہ برادرانہ تعلق کی بنا پر ہمارے گھر کا ایک فرد تھا۔ 
۱۹۸۰ء میں جب بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد نے تصور سے نکل کر ایک قابل محسوس شکل اختیارکی تو ادارہ تحقیقات اسلامی کو، جو اس سے قبل مختلف سرپرستیوں میں رہا تھا، یونی ورسٹی کا حصہ بنا دیاگیا اور مرحوم ڈاکٹر عبدالواحد ہالے پوتاصاحب، جو ادارے کے سربراہ تھے اور ڈاکٹر محمود احمد غازی جو ادارے میں ریڈر تھے، مع دیگر محققین کے یونی ورسٹی سے وابستہ ہو گئے۔ اس زمانے میں شاید ہی کوئی دن ایساہو جب ان سے ملاقات نہ ہوئی ہو۔ اکثر حسین حامد حسان صاحب جو اس وقت کلیہ شریعہ کے ڈین تھے اور بعدمیں یونیورسٹی کے صدربنے، سرشام ہی مجھے، ڈاکٹر حسن محمود الشافعی اور اکثر ڈاکٹرمحمود احمدغازی کو ا پنے گھربلا لیتے اور رات گئے یونی ورسٹی کے بہت سے مسائل پر ہم سب مصروف مشور ہ رہتے۔ دعوہ اکیڈمی کاقیام ۱۹۸۳ء میں عمل میںآیا اور مجھے اس کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جن افرادنے ہر مرحلہ میں میرے ساتھ تعاون کیا، ان میں ڈاکٹر حسن شافعی اور محمود غازی پیش پیش تھے۔ بعض وجوہ کی بنا پر میں دعوہ اکیڈمی سے الگ ہوا تو ڈاکٹر غازی نے یہ ذمہ داری سنبھالی اور جب میں دوبارہ اکیڈمی کا ڈائریکٹر جنرل بنا تو وہ اکثر یہ کہتے کہ میں آپ کاخلیفہ ہوں اور آپ میرے خلیفہ ہیں۔
ڈاکٹر غازی کی یاد داشت غضب کی تھی اور برس ہا برس گزرنے کے بعد بھی واقعات کی ترتیب وتفصیل بیان کرنے میں انہیں یدطولیٰ حاصل تھا۔ ڈاکٹر صاحب اثر انگیز خطیب اور پر فکر تحریر کی بنا پر اس دور کے چند معروف اصحاب قلم میں سے تھے۔ ان کے قرآن کریم، حدیث، سیرت پاک، فقہ، شریعت، اور معیشت وتجارت کے موضوع پر خطابات کتابی شکل میں طبع ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی دیگر کتب میں قانون بین المالک، اسلام اور مغرب تعلقات، مسلمانوں کا دینی وعصری نظام تعلیم، اسلامی بنک کاری: ایک تعارف ، ادب القاضی، اور قرآن مجید: ایک تعارف شامل ہیں۔ وہ ایک دردمند دل رکھنے والے محقق، عالم ،مفکر اور فقیہ تھے۔ 
پاکستان میں سودی بنکاری سے نجات کے لیے جن لوگوں نے کام کیا اور خصوصاً جب معاملہ سپریم کورٹ کے اپیلٹ بنچ میں گیا اور پھر سپریم کورٹ کے فل بنچ نے اس مسئلے کا جائزہ لیا تو اس میں غازی صاحب نے نمایاں کردار ادا کیا۔ فیڈرل شریعہ کورٹ میں جس طرح ڈاکٹر فداء الرحمن صاحب نے فیصلے کی تحریر میں کردار دا کیا، ایسے ہی سپریم کورٹ کے فیصلے میں جسٹس خلیل الرحمن صاحب اور ڈاکٹر غازی کا اہم کردار رہا۔ ۸۰ء کے عشرے میں جنوبی افریقہ میں قادیانیوں کے حوالے سے عدالتی کارروائی میں پاکستان کے جن اصحاب علم نے عدالت عالیہ کو اس مسئلے پر رہنمائی فراہم کی، ان میں مولانا ظفر احمد انصاری، پروفیسر خورشید احمد صاحب، جسٹس افضل چیمہ صاحب مرحوم اور ڈاکٹر غازی کے نام قابل ذکر ہیں۔ دعوہ اکیڈمی کے ساتھ میرے طویل تعلق میں شاید ہی کوئی پروگرام ایسا ہو جن میں ملک کے اندر یا ملک سے باہر کوئی تربیتی کورس ہو ا اور اس میں ڈاکٹر غازی نے شرکت نہ کی ہو۔ 
ڈاکٹر غازی کو اردو، عربی، انگریزی میں خطاب کرنے میں عبور حاصل تھا۔ وہ فرانسیسی زبان بھی جانتے تھے۔ ڈاکٹر غازی نے صدر جنرل پرویز مشرف کی کابینہ میں مذہبی امور کے وزیر کے فرائض بھی انجام دیے اور بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی کے صدر اور نائب صدر کے علاوہ یونیورسٹی کی شریعہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ ان کی علمی خدمات کی بناپر انہیں ملک میں اور ملک سے باہر ایک معروف اسکالر کی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا۔
ڈاکٹر غازی ایک حلیم الطبع انسان تھے۔ اکثر اپنے چھوٹے بھائی ڈاکٹر محمدا لغزالی کی چھیڑ چھاڑ سے خود بھی محظوظ ہوتے اور کبھی اپنے بڑے ہونے کے حق کواستعمال نہ کرتے۔ نجی محفلوں میں ان کی حاضر جوابی اور ذہانت ہمیشہ انہیں دیگر حاضرین سے ممتاز کرتی۔ مہمانوں کی تواضع میں ہمیشہ پیش پیش رہتے۔ ان کی وفات نے جو خلا پاکستان بلکہ عالم اسلامی کی علمی صفوں میں پیدا کیا ہے، وہ عرصے تک ان کی یاد کو تازہ رکھے گا۔ اللہ تعالیٰ ان کے قرآن کریم سے تعلق اور دین کی اشاعت کے لیے خدمات کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین۔
ڈاکٹر انیس احمد 
(ماہنامہ ترجمان القرآن، نومبر ۲۰۱۰ء)
( ۵ )
راقم الحروف دوران تعلیم شدید بیمار ہو گیا اور تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا۔صحت یابی کے بعد جب ۱۹۶۸ء میں دار العلوم تعلیم القرآن، راجہ بازار، راول پنڈی میں دورۂ حدیث شریف میں داخلہ لیا تو محمود غازی نام کا ۱۴، ۱۵ سالہ نوخیز لڑکا بھی ہمارے ساتھ شریک دورہ تھا جو دیگر طلبہ سے بہت کم عمر تھا۔ زبان میں قدرے لکنت تھی، مگر ذہانت اور حافظہ کے اعتبار سے تمام طلبہ پر فوقیت حاصل تھی۔ عبارت پڑھنے میں کہنہ مشق استاذ کی طرح ماہر تھا۔ ترجمہ اور تشریح میں بھی خاصی دسترس حاصل تھی۔ سالانہ امتحان میں نمایاں کامیابی سے ہم کنار ہوا۔
محمود غازی قابل رشک فہم وذکا اور عدیم النظیر قابلیت کے پیش نظر اساتذہ کے منظور نظر اور طلبہ کے ہر دل عزیز ساتھی تھے۔ شرافت ومتانت ان کی ہر ادا سے ہویدا تھی۔ عموماً لائق طلبہ بہت شریر ہوتے ہیں۔ اگر اور کچھ نہ بن پڑے تو اساتذہ کو لایعنی سوالات میں الجھائے رکھتے ہیں، لیکن غازی سے اساتذہ نہ صرف خوش تھے بلکہ ان کی تعریف وتوصیف کے خوگر بھی تھے۔
محمود احمد غازی کے لیے، جو ۱۷، ۱۸ سال کی عمر میں تحصیل علوم سے فارغ ہو گئے، یہ بات یقیناًطرۂ امتیاز ہے کہ انھوں نے صغر سنی میں علوم عقلیہ ونقلیہ سے فراغت حاصل کر کے بعض اکابر کی یاد تازہ کر دی۔ بعد ازاں متعدد یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیمی اسناد اور ڈگریاں حاصل کیں۔ ڈاکٹر غازی کی زندگی کا بیشتر حصہ ایسے ماحول میں بسر ہوا جہاں دینی شعائر کا تحفظ اور تقدس ثانوی حیثیت رکھتا ہے، مگر ڈاکٹر غازی نے اسلامی علوم کی لاج رکھی اور علما ومشائخ سے اپنا تعلق مضبوط اور قائم رکھا جس کا شاہکار ثبوت ان کی نادرۂ روزگار تصانیف ہیں جن میں اسلامی روح اور اسپرٹ نمایاں ہے اور اکابر محققین وعلما نے ان تصانیف کو توصیف وتحسین سے نوازا ہے۔
اللہ رب العزت نے ڈاکٹر غازی کو حکومت کے اعلیٰ مناصب پر بھی فائز اور متمکن فرمایا، لیکن ان کی طبیعت اور مزاج میں سرمو فرق نہیں آیا۔ ان کے دل میں دین دار طبقہ اور دینی شعائر کی عظمت موج زن رہی۔جناب ڈاکٹر صاحب کو تبلیغی جماعت سے قلبی وابستگی تھی۔ اسلام آباد کے سالانہ اجتماعات میں عام سامعین کے ساتھ شریک ہونا اور بغیر کسی کروفر کے فرش خاکی پر جلوہ افروز ہونا معمول تھا۔ احقر نے بچشم خود ڈاکٹر غازی کو گھاس پر بڑی طمانیت اور وقار سے بیٹھ کر اکابر کے بیانات سنتے دیکھا ہے۔ علماء کرام اور مشائخ عظام کی قدر ومنزلت اور عزت وتکریم ان کا شیوہ تھا۔ علماء کرام کی دعوت وطلب پر مدارس کے اجتماعات میں شریک ہونا اپنے لیے سعادت تصور کرتے تھے۔ بلاوجہ عذر ومعذرت سے کبھی کام نہیں لیا اور بڑے ذوق سے اکابر کی دعوت کو شرف قبولیت سے نوازتے تھے۔
اللہ رب العزت نے انھیں وفاقی وزیر مذہبی امور کے منصب سے نوازا تو بحمد اللہ حج کے انتظامات نہایت احسن طریقے سے انجام دیتے رہے۔ حجاج کرام کو ہر ممکن سہولیات اور طمانیت اور دل جمعی کے ساتھ مناسک حج ادا کرنے کے مواقع فراہم کیے۔ وزارت کے پورے عرصے میں مدینۃ الحجاج اسلام آباد میں حجاج کرام کی تربیت کا خصوصی انتظام ڈاکٹر غازی صاحب کی سربراہی میں قائم رہا۔ حجاج کرام کو مسائل حج سے پوری طرح روشناس اور آگاہ کرنے کا بہترین نظم تھا اور خود بھی حجاج کرام کی راہنمائی کے لیے خطاب کیا کرتے تھے۔
جن دنوں ڈاکٹر محمود غازی وزیر مذہبی امور تھے، وزارت حج کے دفتر سے راقم الحروف کو فون آیا کہ آپ اپنا پاسپورٹ فوری طو رپر دفتر میں جمع کرائیں، پرسوں حج کے لیے آپ کی فلائٹ ہے۔ میری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ میری درخواست کے بغیر حج کی منظوری کیسے ہو گئی! آخر غازی صاحب کے متعلق خیال ہوا کہ انھوں نے اپنی پرانی دوستی کا حق ادا کیا ہے اور نظر عنایت فرمائی ہے۔ جو کام خلوص وللہیت سے، محض رب کی رضا کے لیے ہو، اس کے اظہار وافشا سے اللہ کے نیک بندے گریز ہی کیا کرتے ہیں۔ بہرحال جہاز کا دو طرفہ ٹکٹ احقر نے خرید لیا، رہائش اور ٹرانسپورٹ وزارت مذہبی امور نے فراہم کر دی۔ مکہ مکرمہ میں جناب غازی صاحب سے ملاقات ہوئی اور میں نے شکریہ ادا کیا، لیکن انھوں نے قطعاً نہ تو احسان جتلایا اور نہ ہی فخر وتکبر کی کوئی بات کی، بلکہ بالکل خاموش رہے۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی کی معرکۃ الآرا تصنیف ’’ادب القاضی‘‘ جب منصہ شہود پر آئی تو انھوں نے اس کے لیے عالی شان تقریب کا اہتمام کیا۔ ادارۂ تحقیقات اسلامی اسلام آباد کے ایک وسیع وعریض ہال میں نقاب کشائی کا پروگرام رکھا جس میں سرکاری سطح کے افسران مدعو تھے۔ غازی صاحب نے احقر کو بھی دعوت شمولیت دی اور کتاب لاجواب کا ہدیہ بھی مرحمت فرمایا۔ موصوف کی جملہ تصانیف انتہائی قابل قدر اورلائق صد تحسین ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی محنت کو قبول فرمائے، اجر عظیم عطا فرمائے اور اخری منازل آسان فرمائے۔ 
(مولانا) محمد عبد المعبود
باغ سرداراں، راول پنڈی
( ۶ )
مخدومی ومحترمی حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب دامت برکاتہم
السلام علیکم۔ مزاج گرامی!
جنوبی افریقہ کیس کے لیے مختلف وفود گئے۔ پہلا وفد ستمبر ۱۹۸۲ میں گیا۔ اس میں جناب مولانا محمد تقی عثمانی، مولانا مفتی زین العابدین، جناب غیاث محمد، جناب گیلانی، مولانا عبد الرحیم اشعر ودیگر حضرات شامل تھے۔ ان میں حضرت ڈاکٹر محمود احمد غازی شامل نہ تھے۔ دوسرا وفد نومبر ۱۹۸۴ء میں گیا۔ اس میں حضرت غازی صاحب شریک تھے۔ جن حضرات کا عدالت میں بیان ہونا طے ہوا، ان میں محترم حضرت غازی صاحب کا نام بھی تھا۔ بیان ہوا؟ کب؟ کیا؟ تلاش سے مل سکے تو انعام الٰہی ہوگا، ورنہ اس تنخواہ پر گزارہ کیے بغیر چارہ نہیں۔
ایک بار سرکاری سطح پر ’’قادیانیت: اسلام کے خلاف سنگین خطرہ‘‘ کے نام سے حکومت پاکستان نے ایک وقیع مقالہ شائع کیا۔ جن دنوں وفاقی شرعی عدالت میں جنرل محمد ضیاء الحق کا جاری کردہ امتناع قادیانیت آرڈیننس زیر سماعت تھا، ایک مجلس میں فقیر نے ایک حوالے کے سلسلے میں متذکرہ رسالہ کا نام لیا۔ اس پر غازی صاحب نے تعجب کے ساتھ فقیر کی طرف دیکھا۔ فقیر نے بعد میں تعجب کے ساتھ نظر کرم کے متعلق سوال کیا تو فرمایا کہ وہ رسالہ میرا مرتب کردہ ہے۔ (غالباً ان دنوں وزارت مذہبی کے آپ سربراہ تھے)۔ وہ رسالہ مل گیا، اس کا فوٹو بھی ارسال خدمت ہے۔ یہ رسالہ غازی صاحب کا مرتب کردہ ہے۔
جن دو قسطوں میں مولانا منظور احمد الحسینیؒ نے جنوبی افریقہ کیس کے حوالے سے محترم غازی صاحب کا ذکر خیر فرمایا ہے، ان کا فوٹو لف ہے۔ معافی چاہتا ہوں کہ تعمیل ارشا د میں تاخیر ہوئی۔ اس کا باعث یہ تھا کہ فقیر دفتر سے غیر حاضر تھا۔
(مولانا) اللہ وسایا 
مجلس تحفظ ختم نبوت، ملتان
( ۷ )
ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب کاتذکرہ کرتے ہوئے مجھے ڈاکٹر شیر محمد زمان صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جنھوں نے غائبانہ تعارف کروایا۔غازی صاحب اس وقت دعوہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل تھے ۔ڈاکٹر زمان صاحب زید مجدہم کے تعارف سمیت ان سے ملا قات ہوئی۔تجویز یہ تھی کہ میں ان کی اکیڈمی سے وابستہ ہو جاؤں۔ راقم کے لیے یہ بہت اہم بات تھی، اس لیے کہ وہ بے روزگاری کا زمانہ تھا۔ راقم کے مضمون کی مناسبت سے غازی صاحب نے کہا کہ ہم اردو کا ایک رسالہ نکالیں گے جس کی ادارت آپ کے سپرد کی جائے گی، چنانچہ انھوں نے اس رسالے کی تجویز بنا کر بھیجی جو منزلوں پر منزلیں مارتی رہی۔ یونی ورسٹی کے صدر صاحب مصر میں تھے اور تجویز پاکستان میں۔ اگرچہ وہ پاکستان آتے رہتے تھے، لیکن کئی برس کے تعاقب کے بعد تجویز ان تک پہنچی، مگر اس لیے نامراد لوٹ آئی کہ یہ عربی میں تیار نہیں کی گئی تھی۔ اردو رسالے کے لیے انگریزی میں تیار کی گئی تجویز نے عربی لباس پہنا اور بالآخر منظور ہوگئی، لیکن اس وقت تک راقم کی زندگی کئی منزلیں طے کرچکی تھی۔ بے روزگاری کا زمانہ قصہ ماضی بن چکا تھا۔ رسالے کے اجرا سے پہلے غازی صاحب کا پیغام آیا کہ آپ کے لیے جو تجویز بھیجی گئی تھی، وہ منظور ہوگئی ہے، لیکن راقم ا پنی موجود منزل سے غیر مطمئن نہیں تھا، اس لیے معذرت ہی کو مناسب سمجھا گیا چنانچہ رسالہ تو نکل آیا، لیکن اس کی ادارت کی ذمہ داری کسی اور نے اٹھائی۔ اقبال:
پرید ن از سر بامے بہ بامے 
نہ بخشد جرہ بازاں را مقامے
اس کے کئی برس بعد غالباً ۲۰۰۳ء میں انھوں نے ایک پر محبت خط لکھ کر ایک بار پھریہ خواہش کی کہ میں ان کی یونی ورسٹی سے وابستہ ہو جاؤں۔ اس وقت مجھے اپنی مادر علمی پنجاب یونی ورسٹی سے وابستہ ہوئے ایک زمانہ گزر چکا تھا، چنانچہ اب بھی ان کی خواہش پوری نہ کرسکا، تاہم ان کے ساتھ باہمی احترام اور اخلاص کا تعلق رہا۔ ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں۔ پہلی بار انھیں تین مختلف ٹیلی فونوں پر باری باری عربی، انگریزی اور اردو میں یکساں مہارت کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے دیکھ کر جو خوش گوار حیرت ہوئی تھی، وہ قائم رہی اور ان کی علمیت کا نقش گہرا ہوتا چلا گیا۔ ان کے ساتھ شخصی ملاقاتیں بھی ہوئیں اور ان کے علم و فضل اور اعتماد سے بھرپورلیکچر سننے کا بھی موقع ملا۔ لیکچر کے دوران ان کا یہ طریقہ دیکھا کہ وہ چھوٹے سائز کے بہت سے کارڈوں پر لکچر کے نکات لکھ کر لاتے تھے اوردوران لکچر یہ کارڈ ان کے ہاتھ میں رہتے۔ جو جو نکتہ بیان ہوتا رہتا، اس سے متعلق کارڈ، کارڈوں کی تہہ کے نیچے جاتا رہتا۔ کسی ایک کاغذ پر نکات لکھ کر لانے کے مقابلے میں یہ طریقہ زیادہ جدید لگا۔
راقم جب پنجاب یونی ورسٹی کی سیرت کمیٹی کا سیکریٹری تھا تو اس کے ایک اجلاس سے خطاب کے لیے غازی صاحب کو بھی دعوت دی گئی۔ اس زمانے میں وہ مذہبی امور کے وفاقی وزیر تھے۔ جس سادگی اور بے غرضی کے ساتھ وہ اس اجلاس کے لیے اسلام آباد سے تشریف لائے، اس نے میرے دل میں ان کی وقعت میں اضافہ کیا۔ وزارت کے بعد بھی ان سے ملاقات ہوئی۔ یہ ملاقات بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کے نیو کمپس میں ان کے دفتر میں ہوئی تھی۔ وزارت کا کوئی رنگ باقی نہ تھا۔ ان کا کمرہ ایک پروفیسر کاکمرہ تھا۔ یہاں سے ہم اکٹھے فیصل مسجد گئے۔ راستے میں ہماری ایک مشترک محترم، صاحب علم شخصیت کے حوالے سے گفتگو ہوتی رہی۔ غازی صاحب کہہ رہے تھے، اہل علم کوچاہیے کہ وہ اپنے آپ کو حکومتوں سے وابستہ نہ کریں۔ شاید یہ رائے انھوں نے اپنے تجربے کے بعد قائم کی تھی۔ 
یہاں مصر میں جس محفل میں بھی ان کا ذکر ہوا، اہل مصر کو ان کی صلاحیتوں کا مداح اور معترف پایا۔ دنیا کی دوسری بڑی جامعات کی طرح جامعہ الازہر میں بھی پی ایچ ڈی کے مقالات کو جانچ کے لیے بیرونی ممالک کے ممتحنین کے پاس بھیجنے کا طریقہ رائج ہے۔ اساتذہ کی ترقی کے لیے بھی ان کے کام کو رائے کے لیے بیرونی دنیا میں بھیجا جاتا ہے۔ پی ایچ ڈی جس مضمون میں بھی ہو، عام طور سے مقالہ عربی میں لکھا جاتا ہے۔ یہی صورت اردو میں پی ایچ ڈی کی بھی ہے، چنانچہ ایسے غیر ملکی ممتحنین کی ضرورت رہتی ہے جو متعلقہ مضمون کے ساتھ عربی پر بھی اچھی دسترس رکھتے ہوں۔ اب اردو میں تو ایسے لوگ بہت ہی کم ہیں جو عربی زبان میں کی گئی اردوتحقیق کو جانچنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ ایک ایسی ہی میٹنگ میں غازی صاحب کا نام تجویز کیاگیا۔ راقم نے بتایا کہ وہ آج کل پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت کے جج ہیں۔ اس پران کی قابلیت کا اعتراف کرتے ہوئے ہماری فیکلٹی کے ڈین صاحب نے کہا کہ وہ تو اس سے بھی بڑے منصب کے اہل ہیں۔ ایک صاحب علم کا کہنا تھا کہ ان کی عربی کے سامنے تو ہم خود کو شرمندہ شرمندہ محسوس کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل جاپان کی دوشیشہ یونی ورسٹی نے اسلامیات کے موضوع پر مشارکت کے لیے پاکستانی اہل علم کی بابت دریافت کیا تو راقم نے غازی صاحب کا نام تجویز کیا۔ اس پر معلوم ہوا کہ وہاں بھی ان کے مداح موجود ہیں، لیکن قبل اس سے کہ وہ دوشیشہ یونی ورسٹی کی دعوت پر جاپان جاتے، ابدالآباد سے ان کا بلاوا آگیا۔ مولانا روم:
پس عدم گردد عدم چون ارغنون	
گو ید م کانّا الیہ راجعون
ڈاکٹر زاہد منیرعامر 
(وزیٹنگ پروفیسر مسند اردو ومطالعہ پاکستان، 
جامعہ الازہر قاہرہ۔مصر) 
( ۸ )
فکری تنگ دستی، نظریاتی بے گانگی بلکہ نظریاتی انحراف کے اس عہد میں ایسے دانشور، محقق اور افراد نایاب ہیں جو نہ صرف کسی نظریے یا فکر کے پیرو کار یا علمبردار ہوں بلکہ خود اس کا ایک مثالی نمونہ بھی ہوں۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم ایک ایسے ہی استاد و محقق تھے جن کی ذات ان کے نظریات کی آئینہ دار تھی۔ بلا شبہ وہ عصر حاضر میں ملت اسلامیہ کے ایک ایسے قابل فخر فرزند تھے جنہوں نے اسلامی تعلیمات کو ان کی حقیقی روح کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا ۔ وہ فکری انتہا پسندی کے حامی نہ تھے۔ نام نہاد روشن خیالوں یا راسخ العقیدگی کے دعوے داروں نے باہمی آویزش سے دنیا میں جو اندھیرا مسلط کر رکھا ہے، اس میں ڈاکٹر محمود احمد غازی ان معدودے چند افراد میں نمایاں تھے جنہوں نے توازن فکر کا چراغ روشن کیا، جو مسلمانان عالم کے اتحاد کے داعی تھے۔ 
ڈاکٹر محمود احمد غازی اردو، انگریزی اور عربی کے علاوہ فرانسیسی زبان پر بھی مہارت رکھتے تھے۔ انہوں نے سیرۃ النبی پر ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی کتاب کا فرانسیسی سے انگریزی میں ترجمہ کیا۔ عالمی زبانوں میں مہارت کی بدولت ہی انہوں نے دنیا کے کئی ممالک کے دورے کیے اور وہاں اسلامی قوانین اور فقہ کے مختلف پہلوؤں پر فکر انگیز لیکچر دیے۔ ڈاکٹر محمود احمد دنیا کی مختلف جامعات سے بطور ممتحن بھی وابستہ رہے۔ وہ ایک بلند پایہ عالم دین، مستند فقیہ اور بالغ نظر دانشور کے طور پر ساری دنیا میں خاص شناخت کے حامل اور قابل احترام شخص تھے۔ ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ اور اتحاد بین المسلمین آپ کی زندگی کا مشن تھا۔ انہوں نے جدید تناظر میں مسلمانوں کے دینی و عصری چیلنجوں پر مدافعانہ، معذرت خواہانہ اور محض بیانیہ انداز اختیار کرنے کی بجائے ہمیشہ خالص معروضی و تجزیاتی اور منطقی و دانشورانہ انداز تحریر و بیان کو شیوہ بنائے رکھا۔ وہ عالم و دانشور جو صداقتوں کے متلاشی اور مبلغ ہوتے ہیں، وہ اپنی فکر و نظر کو وقتی مصلحتوں سے آلودہ نہیں ہونے دیتے ۔ یہی کام ڈاکٹر صاحب نے بھی کیا۔ انہوں نے توازن فکر اور فہم تاریخ و فقہ کی بنا پر ہمیشہ حقیقت پسندانہ موقف اختیار کیا۔ اپنی فکری و نظری سچائی اور قوت عمل کی بدولت انہیں زندگی میں بہت سی آزمائشوں سے بھی گزرنا پڑا اور کیوں نہ گزرنا پڑتا کہؔ 
سوداؔ جو بے خبر ہے کوئی وہ کرے ہے عیش
مشکل بہت ہے ان کو جو رکھتے ہیں آگہی 
فکرو آگہی کے حامل دانشور کے طور پر وہ مسلمانوں کے عصری مسائل بالخصوص فرقہ واریت، انتہا پسندی اور فروعی مسائل پر جھگڑوں کے کبھی حامی نہیں رہے۔ وہ اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر تفرقوں سے بالا ہو کر امت مسلمہ کے اتحاد کے پیامبر و مبلغ تھے اور یہی اُن کی زندگی کا مشن اور نصب العین تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عالمی و قومی سطح پر جس کانفرنس، سیمینار یا سمپوزیم میں جاتے، وہاں اتحاد بین المسلمین کے جذبے کا برملا اظہار کرتے اور فرقہ واریت کو زہر قاتل سمجھتے تھے۔ انہوں نے مختلف فقہی مسالک کو قریب لانے کے لیے ’’کاسمو پولیٹن فقہ‘‘ کا نظریہ پیش کیا تھا جس کو عام کرنے میں ذاتی حیثیت میں انہوں نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی۔ بلا شبہ ملت اسلامیہ کو اپنی صحت شعور کے لیے آج جس بات کی اشد ضرورت ہے، وہ اسلام اور اپنے ماضی کے متعلق رومانیت و جذباتیت سے نکل کر خود تنقیدی کی نظر پیدا کرنا ہے تاکہ دھندلکوں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کی بجائے مستقبل کے لیے کوئی راستہ روشن ہو سکے۔ محض رومانیت و جذباتیت جہل کی وہ خطرناک قسم ہے جس سے ہر قسم کا ظلم پیدا ہوتا ہے۔ اقوام عالم کی تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ عیاں ہوتا ہے کہ یہ درحقیقت ملی خود کشی کا راستہ ہے ۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی جیسے صاحبان نظر اپنے بیان و تحریر میں ملت اسلامیہ کو یہ انتباہ کرتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی زبان و قلم سے دنیا کو حیات افروز اسلام سے متعارف کروانے کی مخلصانہ کوشش کی جو مایوسی نہیں امید ہے، تباہی نہیں تعمیر ہے، جو فرقہ واریت نہیں اتحاد ہے اور جو ناکامی نہیں کامیابی ہے ۔ 
ڈاکٹر محمود احمد غازی نے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں ایک طرف آگاہ قلب اور روشن دماغ نمائندوں کو روشناس کرایا تو دوسری طرف قرآن و سنت، سیرت و حدیث، اسلامی سیاسیات و معاشیا،ت فقہ اور اقبالیات کے متنوع موضوعات پر عربی، انگریزی اور اردو میں درجنوں کتابیں رقم کیں۔ اس کے علاوہ ان کے لیکچرز ، خطبات اور محاضرات کے مجموعے بھی مرتب ہوئے جن میں سے ’’مسلمانوں کا دینی و عصری نظام تعلیم‘‘ مرتبہ ڈاکٹر سید عزیز الرحمن کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ نے اہتمام خاص سے شائع کیا۔ اس میں ڈاکٹر محمود احمد غازی کے درج ذیل چھ خطبے شامل ہیں: (۱)دینی مدارس: مفروضے، حقائق، لائحہ عمل، (۲) قدیم و جدید تعلیم میں ہم آہنگی، (۳) مسلمانوں کی تعلیمی روایت اور عصر حاضر، (۴) اکیسویں صدی میں پاکستان کے تعلیمی تقاضے، (۵) مغرب کا فکری اور تہذیبی چیلنج اور علماء کی ذمہ داریاں، (۶) دینی مدارس میں تخصص اور اعلیٰ تعلیم و تحقیق۔ ان کے علاوہ دو فکر انگیز ضمیمے ’’مسلکی اختلاف اور اس کی حدود‘‘ اور ’’عصر حاضر میں علماء کی ذمہ داریاں‘‘ شامل ہیں۔ مرتب کے الفاظ میں ’’ ان میں سے ہر محاضرہ یا خطبہ اپنی جگہ ایک مستقل کتاب کی اہمیت رکھتا ہے۔..... انہوں نے اسلاف کی خطا شماری کو مقصود بنائے بغیر ماضی کا بے لاگ تجزیہ کیا ہے اور مستقبل کے لیے ہماری راہیں متعین کی ہیں‘‘۔ 
بلا شبہ ڈاکٹر محمود احمد غازی کی تحریروں اور محاضرات کا جائزہ لیں تو ان کی تحریریں محتاط تجزیے کے باوجود بے لاگ تبصرے اور دل میں اتر جانے والے حکیمانہ اسلوب کی حامل ہیں۔ وہ تنقید برائے تنقید کی بجائے تعمیری تنقید کے علمبردار ہیں۔ دلیل اور نیک نیتی سے لیس تحریریں اور درد مند دل کا بیان خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کی دستک نظر آتا ہے۔ تمام محاسن و خوبیوں سے بڑھ کر جو چیز ڈاکٹر صاحب کی علمی قامت کو مزید بلند او ران کے محققانہ و مدرسانہ کارناموں کو مزید وقیع اور معتبر بنا دیتی ہے، وہ ، وہ حالات ہیں جن میں انہوں نے توازنِ فکر و عمل کا علم بلند کیا اور تصنیف و تالیف اور تحقیق و تنقید کا کام جاری رکھا ۔ ان کے حوصلے اور جرات کی داد دینا ہو گی کہ انہوں نے کبھی خود پر اس یتیمانہ بے بسی کو طاری نہیں ہونے دیا جس سے اکثر ہمارے مذہبی دانشور دوچار رہتے ہیں۔ 
علم و تحقیق کو اوڑھنا بچھونا بنائے رکھنے والا یہ فکرمند اور درد مند دل ملت اسلامیہ کی حالتِ زار کی تاب نہ لا سکا۔ ۲۶ ؍ستمبر ۲۰۱۰ء کی شب ڈاکٹر محمود احمد غازی کو دل کی تکلیف ہوئی۔ انہیں اسلام آباد کے PIMS ہسپتال لے جایا گیا مگر وہ جانبر نہ ہو سکے۔ عصر حاضر میں عالم اسلام کے اس قابل فخر فرزند کی نماز جنازہ اسی روز سہ پہر کو مولانا مشرف علی تھانوی نے پڑھائی او رانہیں اسلام آباد کے ایچ الیون قبرستان کے پلاٹ نمبر ۱۳ کی قبر نمبر ۱۳۶ میں سپرد خاک کر دیا گیا ۔ قبر پر تا حال کتبہ بھی نصب نہیں۔ آپ کے سوگواران میں بھائی ڈاکٹر محمد الغزالی، بیوہ اور پانچ بیٹیاں شامل ہیں۔
آدم خاکی کو بالآخر آسودۂ خاک ہونا ہی ہوتا ہے، لیکن دنیا سے رخصت ہونے والی ہستی اگر کوئی ایسی ہستی ہو جس نے اپنی زندگی کو تدریس و تحقیق اور دین و دنیا کی فلاح کے لیے وقف کیے رکھا ہو تو اس کا دنیا سے اٹھ جانا صرف ایک گھرانے یا خاندان کا نہیں، سب درد مند دل رکھنے والوں کا ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے ۔
اک گل کے مرجھانے پر کیا گلشن میں کہرام مچا 
اک چہرہ کملا جانے سے کتنے دل ناشاد ہوئے 
شیخ عبدالرشید 
(ایڈیشنل رجسٹرار، یونیورسٹی آف گجرات )
( ۹ )
علامہ پروفیسر حافظ ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم نابغہ روزگار شخصیت تھے۔ ہفت زبان عالم دین، محقق، اسلامی علوم کے ماہر تھے۔ وفاقی وزارت سے لے کر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی صدارت تک وہ کون سا عہدہ ہو گا جو انہیں نصیب نہیں ہوا۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی کے چھوٹے بھائی ممتاز عالم دین، اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر محمد الغزالی نے اپنے بڑے بھائی کے حوالے سے ایک انٹرویو میں ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر اظہار کرتے ہوئے کہا: 
وہ ہمہ جہت شخصیت تھے۔ انہوں نے سرزمین پاکستان پر ۱۸؍ ستمبر ۱۹۵۰ء کو پاکستان کے ہائی کمیشن نئی دہلی میں آنکھ کھو لی۔ ہمارا خاندانی سلسلہ حضرت عمر فاروقؓ سے ملتا ہے۔ ہماری خاندانی روایات کے مطابق ہمارے خاندان کے مرد حضرات پر قرآن پاک حفظ کرنا لازم سمجھا جاتا ہے، یعنی حضرت عمرؓ سے ہمارے بیٹے حنظلہ غزالی تک سب مرد حضرات الحمدللہ حفظ قرآن شریف کا شرف حاصل کر چکے ہیں۔ ہمارے چچا، تایا، کزن سب حافظ قرآن ہیں۔ اس روایت کے تسلسل کے طورپر ہم نئی دہلی سے کراچی آگئے تو برادر اکبر ڈاکٹر محمود احمد غازی نے بھی ۱۹۵۴ء میں حضرت مولانا احتشام الحق تھانویؒ کے مدرسہ سے قرآن پاک حفظ کیا۔ 
بھائی صاحب نے اے کے بروہی کے سامنے تجویز پیش کی کہ اسلامی قوانین کے حوالے سے ایک ادارہ ہوناچاہیے، چنانچہ شریعہ فیکلٹی کا قیام قائد اعظم یونیورسٹی میں عمل میںآیا، لیکن قائد اعظم یونیورسٹی کے ماحول میں یہ ادارہ ایڈجسٹ نہ ہوسکا۔ مطلوبہ نتائج سامنے نہیں آ رہے تھے جس پر مرحوم اے کے بروہی بھی پریشان تھے۔ انہوں نے بھائی صاحب سے پوچھا کہ اس کا کیا حل نکالا جائے؟ ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم نے تجویز پیش کی کہ پاکستان چونکہ ایک اسلامی ملک ہے، اس لیے یہاں بین الاقوامی سطح کی یونیورسٹی ہونی چاہیے۔ انہوں نے عالمی اسلامی یونیورسٹی کی بنیادی تجویز مان لی۔ فیصل مسجد میں عالمی اسلامی یونیورسٹی کا منصوبہ کس طرح قابل قبول ہوا؟ ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کا موقف تھا کہ جس طرح عالم اسلام کی سب سے بڑی یونیورسٹی الازہر کا قیام بھی مسجد میں ہوا، اسی طرح یہ یونیورسٹی بھی فیصل مسجد میں قائم کی جائے۔ فیصل مسجد کا قیام کیسے ہوا؟ عالم اسلام کی اس منفرد عظیم الشان مسجد کی تعمیر ایک الگ داستان ہے۔ اس کا شرف شاہ فیصل شہید اورمملکت سعودیہ عربیہ کو جاتا ہے کہ یہ عظیم شاہکار اسلام آباد میں سامنے آیا۔ 
ایک اور بات جس پر بھائی صاحب سمیت ہم سب کو فخر حاصل ہے کہ عربی زبان، اسلامی علوم اور فقہ پرکامل دسترس رکھنے کے باعث اللہ تعالیٰ نے بھائی صاحب کو یہ اعزاز بخشا کہ وہ فیصل مسجد کے پہلے خطیب مقرر ہوئے۔ ان کی امامت میں ۲۲؍جون ۱۹۸۸ء کو پہلے جمعہ کے روز اس عالمی جامع کا افتتاح ہوا۔ مرحوم نے وہاں خطبہ دیا۔ بھائی صاحب نے دنیا کے قریباً تمام ممالک میں بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کی۔ اپنے علم وفضل سے پاکستان کا نام روشن کیا۔ آپ نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب مرحوم کے جدید اسلامی، اصلاحی اور فلاحی نظریات سے تمام دنیا واقف تھی۔ جنرل پرویز مشرف بھی ان کے خیالات سے واقف تھے۔ وہ ان کے عہد میں ۲۰۰۴ سے ۲۰۰۶ء تک وفاقی وزیر مذہبی امور رہے۔ قطر کی بین الاقوامی یونیورسٹی کی طر ف سے جب پروفیسری کی پیش کش ہوئی تو اسے انہوں نے قبول کر لیا۔ 
غزالی صاحب کہنے لگے: میرے بھائی درویش صفت انسان تھے۔ وہ عالم باعمل تھے۔ وہ بہترین قاری اور حافظ قرآن تھے، چنانچہ انہوں نے کئی بار تراویح میں قرآن کریم سنایا۔ یہ بہت بڑی سعادت تھی جو انہیں حاصل ہوئی۔ ان کی دلچسپی کا میدان اسلامی قانون، اسلامی معیشت وغیرہ تھے، لیکن تمام اسلامی علوم پر ان کی نظر بڑی وسیع او ر گہری تھی۔ اس کا ثبوت ان کا سلسلہ محاضرات ہے جس میں انہوں نے ۷ جلدوں میں مختلف اسلامی علوم کا مفصل تعارف کرا دیا ہے۔ یہ سلسلہ قرآن، حدیث، سیرت، شریعت، معیشت وتجارت اور اسلام کے بین الاقوامی قانون اور عصر حاضر کے مسائل پر مشتمل ہے۔ اس سلسلے کو قارئین نے بے حد پسند کیا اور اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے۔ اسی طرح ایک موقع پر ۱۹۸۵، ۱۹۸۷ء میں کئی سال کی محنت کے بعد وہ جنوبی ایشیا کی سپریم کورٹ میں پانچ ہفتے تک پیش ہو کر قادیانی مسئلہ پر اسلامی نقطہ نظر پیش کرتے رہے۔ اس موقع پر علما کی ایک ٹیم نے ان کی مدد کی۔ کورٹ میں ان کا بیان پانچ ہفتے تک جاری رہا اور پانچ ہزار صفحات لکھے گئے۔ اس میں عدالت اور وکیلوں کے تمام سوالات اور اعتراضات کا مدلل جواب دیا اور ختم نبوت کے بنیادی م